• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 16

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 16



نظامِ َنو


از
سیدناحضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِـیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

نظامِ َنوکی تعمیر
(فرمودہ ۲۷؍ دسمبر۱۹۴۲ء بر موقع جلسہ سالانہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
زنانہ جلسہ گاہ کے متعلق ہدایت
مجھے ابھی اِس اعلان کے کرتے ہوئے (جو ایک گُمشدہ لڑکے کے متعلق تھا) یہ خیال پیدا ہؤا کہ گو اِس
دفعہ ڈبل مائکرو فون لگا دیا گیا ہے مگر پھر بھی بچوں کے متعلق اعلان کرتے ہوئے یہ شُبہ رہتا ہے کہ اعلان کی آواز زنانہ جلسہ گاہ میں پہنچی ہے یا نہیں۔ میں اِس بارہ میںایک ترکیب بتا دیتا ہوں جس سے یہ مشکل حل ہو سکتی ہے۔ منتظمین کو چاہئے کہ آئندہ عورتوں کے جلسہ گاہ میں ایک ہلکا سا جھنڈا لگا دیا کریں تا کہ جب اِس قسم کا کوئی اعلان کیا جائے اور یہ معلوم کرنا ہو کہ اس کی آواز انہیں پہنچی ہے یا نہیں تو وہ سوال کرنے پر اپنے جھنڈے کو اونچا کر دیں اِس طرح ہمیں علم ہو جائے گا کہ آواز اُن تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ لائوڈ سپیکر میںکوئی نقص واقع ہو جاتا ہے اور آواز عورتوں تک نہیںپہنچتی اِس بارہ میں بھی منتظمین کو اُن سے بار بار پوچھتے رہنا چاہئے کہ آلہ خراب تو نہیں ہو گیا؟ اور اگر بعض دفعہ منتظمین نہ پوچھ سکیں تو ایسی صورت میں بھی وہ اپنے جھنڈے کے ذریعہ اطلاع دے سکتی ہیں۔
ایک افسوس ناک واقعہ
اس کے بعد میں ایک افسوس ناک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی کَل ہی مجھے اطلاع ملی اور جس واقعہ کا ذکر دو دِنوں
سے مختلف گروہوں میںہو رہا تھا وہ واقعہ یہ ہے کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ دارالبرکات کے ناظم صاحب نے کسی مہمان کو مارا ہے۔ رات کو مجھے اس واقعہ کی اطلاع ملی اور میں نے اُسی وقت میاں بشیر احمد صاحب کو اِس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اِس امر کی تحقیق کر کے مجھے رپورٹ کریں۔ ابھی جلسہ گاہ کو آتے وقت مجھے ان کی رپورٹ ملی ہے۔ عام طور پر یہ واقعہ اسی رنگ میںمشہور ہو رہا تھا بلکہ مجھے وثوق کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مہمان کرتو ضلع شیخوپورہ کے ہیں مگر رپورٹ سے معلوم ہؤا کہ یہ بات بالکل غلط ہے وہ جسے مارا گیا ہے قادیان کا ہی ایک لڑکا ہے۔ ابھی میں اِس واقعہ کی تفصیل بھی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ اس لڑکے کا بیان ابھی تک نہیں لیا گیا بہرحال قادیان کاایک لڑکا تھا جو کسی مہمان کے لئے کھانا لینے آیا یا اپنے گھر والوں کے لئے کھانا لینے آیا کیونکہ بعض کمزور لوگ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس رنگ میں کچھ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اُس نے دوسرے لوگوں کی صفوں کو ِچیر کر اپنے آپ کو آگے کرنا چاہا جب بعض نے اُسے روکا اور صبر کی تلقین کی کہ اپنی باری پر کھانا مل جائے گا تو اُس نے گالیاں دیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ گندی گالیاں تھیں۔ اِس پر ناظم صاحب نے اسے چند تھپڑ لگا دئیے تو وہ کہتے ہیں مجھے بحیثیت ناظم ہونے کے اور بحیثیت خدام الاحمدیہ کا زعیم ہونے کے اُس کو تھپڑ مارنے کا حق تھا اور میرے لئے ضروری تھا کہ اُس کے اخلاقی جُرم کی اسے سزا دیتا ان کے نزدیک اِس وجہ سے یہ امر نظر انداز کرنے کے قابل ہے۔ اس امر کے متعلق تو بعد میں غور کیا جائے گا کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد اِس قسم کی فوری سزا کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں لیکن اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ناظم اِس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ وہ باہر کے لوگوں کے سامنے قادیان کے لوگوں کا اچھا نمونہ پیش کرے اگر واقعہ میں اس لڑکے نے کوئی فحش گالی دی تھی تو ناظم کی حیثیت سے اُن کا قادیان کے کسی لڑکے کو معمولی سزا دینا جُرم نہیں ہو سکتا پس وہ بات جو لوگوں میں پھیل گئی تھی بالکل غلط ہے۔ بہرحال اصل واقعہ کی تحقیقات تو بعد میں ہو گی اور جو مناسب کارروائی ہو گی کی جائے گی میںاِس وقت اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایسے معاملات میں باہر کے دوستوں کو بھی احتیاط کرنی چاہئے اورا نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قادیان میں ہمارا نظام خداتعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ پختہ ہے۔ یہاںخدام الاحمدیہ جہاں تک حکومت ان کو اجازت دیتی ہے نوجوانوں کی آزادی پر تصرّف کرتے ہیں، جُرم سرزد ہونے پر انہیں سزائیںد یتے ہیں، انہیں معمولی سزا بھی دے لیتے ہیں، پہرے پر مقرر کرتے ہیں، بوجھ اُٹھواتے ہیں اور اسی طرح کی کئی اور اصلاحی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے اورجب قادیان کے کسی لڑکے کو کسی جُرم پر افسر کی طر ف سے سزا دی جاتی ہے تو وہ خیال کر لیتے ہیں کہ شاید یہ سلوک کسی مہمان سے کیا جا رہا ہے۔ جب بیرونی جماعتوں میں بھی خدام الاحمدیہ منظم ہو جائیں گے تو باہر بھی ہر حلقہ کے قائد خدام کو اخلاقی جُرم سرزد ہونے پر سزا دے لیںگے اور اُس وقت انہیں قادیان میں اِس قسم کی سزائوں کا ملنا کوئی عجیب بات نظر نہیں آئے گی۔ اِس وقت انہیں واقعہ میں یہ باتیںعجیب معلوم ہوتی ہیں شروع شروع میں تو لوگ زیادہ شور مچاتے تھے مگر میںدیکھتا ہوں اب خداتعالیٰ کے فضل سے وہ سمجھ گئے ہیںچنانچہ بچے اگر غلطی کریں تو بچوں کا نظام خود ہی اس غلطی کی اصلاح کر دیتا ہے اور ان کے ماں باپ شکایت نہیں کرتے۔
کتاب ’’مرکز احمدیت‘‘
میں تقریر شروع کرنے سے پہلے بعض کتب کے متعلق بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کتاب ’’مرکزاحمدیت‘‘
شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے لکھی ہے میں ابھی اسے پڑھ نہیں سکا۔صِرف ایک سرسری نظر میں نے اس کے مضامین پر ڈالی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس میں بہت سی مفید معلومات قادیان اور سلسلہ کے متعلق جمع کر دی گئی ہیں قیمت بھی میں نے اس کی نہیں دیکھی مگر اِس تنگی کے زمانہ میں انہوں نے اچھے موٹے کاغذ پر خوشخط کتاب چھپوائی ہے جو دوست باہر کی دنیا کو قادیان اور سلسلہ کے حالات سے روشناس کرانا چاہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہوکہ لمبے مضامین نہ ہوں بلکہ ایک مختصر کتاب میں جماعت کے کام اور مرکز کی خصوصیات کا ذکر ہو، تاکہ اسے خرید کر لوگوں کو اس کے مطالعہ کی تحریک کی جائے تو ایسے دوستوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
تحریک جدید کی شائع کردہ کتب
سلسلہ کی کتب جو تحریک جدید کی طرف سے شائع کی گئی ہیں(سوائے تفسیر کبیر کے کہ وہ ختم ہو چکی
ہے گو بعض لوگ اپنی طرف سے فروخت کر رہے ہیں) وہ بھی جن دوستوں کو توفیق ہو خریدنی چاہئیں کیونکہ اس رنگ میں بھی وہ سلسلہ اور اسلام کی مدد کر سکتے ہیں۔ تفسیرِ کبیر ِجلد سوم کو میں نے مستثنیٰ کیا ہے کیونکہ اب وہ تحریک کے پاس نہیں۔
تفسیر کبیر کی کم یابی
ہاں مجھے معلوم ہؤا ہے کہ وہی تفسیر کبیر جس کی پانچ اور چھ روپے قیمت رکھنے پر دوست جھگڑا کِیا کرتے تھے اب دس دس، چودہ چودہ،
پندرہ پندرہ روپے میں بِک رہی ہے بلکہ بعض لوگ جن کے پاس اِس کتاب کے اب صرف دو چار نسخے باقی رہ گئے ہیں کہتے ہیں کہ اب ہم آئندہ یہ کتاب پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ بلکہ سَوسَو روپیہ پر فروخت کریںگے اور لینے والے اِس قیمت پر بھی لے لیںگے۔ ابھی میرے پاس بعض دوست آئے تھے انہوں نے تفسیر کبیر کا ذکر کیا میں نے کہا میرے پاس تو نہیں لیکن فلاں شخص کے پاس ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ دس روپے میں ایک جِلد دیتا ہے کہنے لگے دس روپوں کاکیا ہے ہم دے دیںگے۔ اگر دوست وقت پر کتاب خرید لیتے تو اِس پریشانی سے بچ جاتے مگر اب روپے خرچ کرنے کے باوجود سب کو یہ کتاب نہیں مل سکتی پس آئندہ جِلد کے بارہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
خدام الاحمدیہ کی طرف سے شائع کردہ لٹریچر
خدا م الاحمدیہ نے بھی اِس دفعہ کچھ لڑیچر خدام کے لئے چھپوایا ہے اور گو
وہ خدام کے لئے ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے بھی کا م آ سکتا ہے دوستوں کو چاہئے کہ اس لٹریچر کو بھی پڑھیں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
رسالہ ’’فرقان‘‘
رسالہ ’’فرقان‘‘ پیغامیوں کے لئے جاری کیا گیا ہے اور اِس وقت تک اِس کے جتنے پرچے شائع ہوئے ہیں سوائے ایک کے جو اپنے معیار سے
کم تھا اچھے اور مفید مضامین پر مشتمل رہے ہیں اِس کی خریداری کی طرف بھی مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں مگر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اِس رنگ میںکہ رسالہ پڑھا او رپھر کسی پیغامی کو دے دیا میری تجویز یہ ہے کہ دو تین سال تک مسلسل پیغامیوں کے مقابلہ میں یہ رسالہ شائع ہوتا رہے۔ اِس کی قیمت پہلے ایک روپیہ تھی مگر اب ڈیڑھ روپیہ کر دی گئی ہے اوریہ قیمت بھی بہت کم ہے آ جکل گرانی کا زمانہ ہے جس میں اتنی قلیل قیمت پرکوئی رسالہ نہیں چل سکتا مگر چونکہ اِس کا سب کام آنریری ہوتا ہے ایڈیٹر اور منیجر وغیرہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں اس لئے جس قدر آمد ہوتی ہے وہ رسالہ پر ہی خرچ کر دی جاتی ہے اگر صاحبِ توفیق دوست اس بارہ میں رسالہ کی مدد کریں تو یقینا یہ امر ثواب کا موجب ہے اِس ذریعہ سے اگر غیر مبائع دوستوں کا کچھ طبقہ جس میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں سلسلہ کی خدمت کی ہے واپس آ جائے اور پھر بیعت میںشامل ہو جائے تو یہ امر ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہو گا۔
تقریر سننے کے متعلق ہدایت
آج جو مضمون میں شروع کرنے لگا ہوںاِس کے متعلق میرا ارادہ تو یہی ہے کہ جلدی ختم کر دوں مگر میری آواز
کسی قد ربیٹھی ہوئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ رات کو مجھے شدید زکام ہو کر نزلہ سینہ پرگِرتا رہا اور آواز بیٹھ گئی اس لئے ممکن ہے میری آواز دوستوں تک صحیح طور پر نہ پہنچ سکے گزشتہ تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ تقریر شروع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آواز صاف ہونی شروع ہو جاتی ہے اور تمام دوستوں کو پوری طرح پہنچ جاتی ہے لیکن پھر بھی چونکہ مجھے رات سے یہ تکلیف ہے اس لئے گو اللہ تعالیٰ سے میں یہی امید کرتا ہوں کہ اس کے فضل سے میں اپنے فرض کو پوری طرح ادا کر سکوں گا تا ہم اگر دوستوں کو آواز نہ پہنچے تو ممکن ہے اِس میںآلہ نشرالصوت کا قصور نہ ہو بلکہ میری آواز کا ہی قصور ہو اِس لئے دوستوں کو چاہئے جب انہیں آواز نہ پہنچے تو مجھے بتادیں میں کوشش کروں گا کہ آواز اپنی پوری طاقت سے دوستوں تک پہنچاتا رہوں۔
(الفضل ۲۰؍ جنوری ۱۹۴۳ء)
اس کے بعد حضور نے اصل مضمون ’’نظامِ َنو‘‘ پر تقریر فرمائی۔ فرمایا:-
مضمون کی اہمیت
میراآج کا مضمون وہ ہے جس کے متعلق میںایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں(جو الفضل ۱۰؍دسمبر۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے)وعدہ کرچکا
ہوں۔ میںنے کہاتھا کہ میں تحریک جدید کا ایک نیا اوراہم پہلو جماعت کے سامنے اگلے جمعہ کو رکھوںگا مگر جب اگلا جمعہ آیا تومیرا ارادہ بدل گیا اور میں نے اس مضمون کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے یہی مناسب سمجھا کہ اسے بجائے کسی خطبہ میں بیان کرنے کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جبکہ تمام دوست جمع ہوں گے بیان کردوں۔ چنانچہ میںنے اُس وقت اِس مضمون کا بیان کرنا ملتوی کردیااور اپنے اگلے خطبہ میں(جو الفضل ۱۶؍دسمبر۱۹۴۲ء میں شائع ہو چکا ہے) اعلان کردیا کہ مَیں سرِدست اس مضمون کو ملتوی کرتا ہوں اور اس کی بجائے بعض اور امور کی طرف جماعت کو توجّہ دلادیتا ہوں۔ بعد میں میری رائے اِس طرف سے بھی بدلی اورمیں نے چاہا کہ اس مضمون کو ابھی اور ملتوی کردوں اور اِس کی بجائے ’’سیرِروحانی‘‘ کے کچھ اور حصّے بیان کردوں مگر منشائے الٰہی چونکہ یہی تھا کہ اس مضمون کا جس قدر جلد ہوسکے دُنیا میں اعلان کردیا جائے اس لئے ایسا اِتفاق ہوگیا کہ میں متواتر بیمار ہوتا چلا گیا اور سیرِ روحانی والے مضمون کے واسطے حوالے نکالنے کے لئے جو وقت چاہئے تھا وہ مجھے نہ ملا۔ آخر میںنے سمجھا کہ ۲۰؍تاریخ سے اس غرض کے لئے وقت نکالنا شروع کردوں گا مگر ان دنوں بہت سا تفسیر کا کام کرنا پڑا۔ یہ امر میں بتاچکا ہوں کہ آجکل میں تفسیر لکھایا کرتاہوں۔ پس ان دنوں ایک دفعہ مَیں تفسیر لکھاتا اور دوسری دفعہ صاف شُدہ مضمون کودیکھتا اور اس طرح کافی وقت اس پر خرچ ہوجاتا۔ پھرآجکل ڈاک بھی میں نے خود ہی پڑھنی شروع کردی ہے اور یہ کام بھی بہت زیادہ ہوتاہے(ضمنی طور پر میںیہ بتا دینا چاہتاہوں کہ پہلے ڈاک میں خود نہیں پڑھاکرتا تھا بلکہ تفسیر کے کام کی وجہ سے دفتر والے خطوط کا خلا صہ میرے سامنے پیش کردیاکرتے تھے مگر پچھلے چار پانچ ماہ سے میں خود تمام ڈاک پڑھتا ہوں جن کے جواب ضروری ہوں اُن کے جواب خطوط کے حاشیہ میں نوٹ کردیاکرتاہوں اورجن خطوط کے جوابات دفتروالوں کو پہلے سے بتائے جا چکے ہیں اُن خطوط کے وہ خود ہی جواب دے دیا کرتے ہیں۔ بہر حال اَب ڈاک کا کام بھی جاری ہے اوریہ کام بھی بہت بڑا ہوتاہے) اِس وجہ سے مجھے جلسہ سالانہ کی تقریر کے لئے نوٹ لکھنے اور حوالہ جات نکالنے کی باِلکل فُرصت نہ ملی۔ جب۲۰؍تاریخ آئی تومیں نے اپنے دل میں کہاکہ اب کَل صبح سے کام شروع کروں گا۔ کچھ ڈاک بھی باقی تھی، ادھر تحریک جدید والوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ دوستوں کے وعدے نہیں پہنچے ڈاک بھجوائی جائے تاکہ ان کے وعدے نوٹ کر لئے جائیں چنانچہ میں وہ ڈاک دیکھنے لگ گیا۔ اِسی دوران میں یکدم مجھے ایسی سردی لگی کہ شدّتِ سردی کی وجہ سے مجھے کپکپی شروع ہوگئی اوردانت بجنے لگ گئے۔ اُس وقت مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی تھی اور میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ لوٹا رکھ دومگر میری طبیعت اُس وقت ایسی خراب ہوگئی کہ میں کوئی منٹ بھر یہ الفاظ تک اپنی زبان سے نہ نکال سکا۔ اس کے بعد بستر میں مَیں لیٹ گیا اور لحاف کے اندر ربڑکی دو گرم بوتلیں رکھیں مگر کسی طرح سردی کم ہونے میں نہ آئی۔ جب صبح ہوئی اور میں نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا تو درجہء حرارت ساڑھے ننانوے تھا۔ دن بھر آرام رہا مگر جب عصر کا وقت آیا تو مجھے اپنی طبیعت خراب معلوم ہوئی اُس وقت میں نے پھر تھرمامیٹر لگاکر دیکھا تومعلوم ہؤا کہ تبخیر سی ہے اور100 یا 100.5تک حرارت ہے۔ رات کو درجہء حرارت 103تک بڑھ گیا۔ اس وجہ سے میں اُن نوٹوں کو تیارنہ کرسکا جن کا تیار کرنا سیر روحانی والے مضمون کے لئے ضروری تھا۔ آخرمَیں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت یہی معلوم ہوتی ہے کہ میں اِس مضمون کو جو تحریک جدید کے متعلق ہے ابھی بیان کردوں چنانچہ میں اس مضمون کے نوٹ لکھنے کے بعد اِسی نتیجہ پر پہنچا کہ وقت آگیا تھا کہ دُنیا کے سامنے اِس عظیم الشان پیغام کو ظاہر کردیاجاتا۔
تحریک جدید کی اہمیّت اجتماعی لحاظ سے
وہ مضمون جسے میں بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ تحریک جدید کی خصوصیات
ضمنی طور پر اورمنفردانہ طور پر اَب تک لوگوں کے سامنے بارہا لائی گئی ہیں مگر تحریک جدید کی اہمیت اجتماعی طورپر جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی۔ یا یوں کہہ لو کہ اِس کی حقیقت کو میں خود بھی آہستہ آہستہ سمجھا۔ جب میں نے اِس کے متعلق پہلا خطبہ پڑھا تواُس میں تحریک جدید کے متعلق جس قدر باتیں میں نے بیان کیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطورِ القاء میرے دل میں ڈالی گئی تھیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا چلا گیا میں ان باتوں کوبیان کرتاچلا گیا۔ پس حق یہ ہے کہ تحریک جدید کی کئی اغراض کو پہلے خودمَیں بھی نہیں سمجھا اوراس کے کئی فوائد او رحکمتیںمیری نظر سے اوجھل رہیں۔ اِسی وجہ سے تحریک جدید کی اجتماعی لحاظ سے اہمیت اب تک جماعت کے سامنے نہیں رکھی گئی یا ممکن ہے خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہو کہ جب اس مضمون کی ضرورت ہو تب اِس پرسے پردہ ہٹایا جائے۔ بہر حال اس تحریک کا ایک عالمگیر اثر بھی ہے اور ضروری ہے کہ اِس کو تفصیل سے بیان کیاجائے کیونکہ اب تک اس مضمون کوبیان نہیںکیاگیا۔
خلاصۂ مضمون
میںجس مضمون کو اَب بیان کرنے لگا ہوں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تحریک جدید جس کا اِجر ا میری طرف سے ہؤا یا صحیح لفظوں میں یوں کہہ لو کہ
تحریک جدید جس کا اجرا منشائے الٰہی کے ماتحت ہؤا اس میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشّان اسلامی مقصد کو پورا کرنے اورانسانیت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا بیج رکھاگیا ہے۔ اب مَیں دوستوں کو توجّہ دلاتاہوں کہ اِس فقرہ کے بعد جو مضمون آئے گا وہ بظاہر اس سے بے تعلق ہوگا اور بظاہر یہ جملہ کہہ کر میں تحریک جدید کی طرف آتا ہؤا نظر نہیںآئوں گا لیکن میں دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ صبر سے کام لیں گے اور توجّہ سے تمام مضمون کو سُنیں گے تو تحریک جدید کا جو ذکر میں نے کیا ہے اِس پر اُنہیں یہ تمام مضمون چسپاں ہوتا دکھائی دے گا۔
تحریک جدید کا ماحول
دُنیامیں جس قدر اشیاء نظر آتی ہیں وہ سب اپنے اپنے ماحول میں اچھی لگتی ہیں۔ماحول سے اگر کسی چیز کو نکال لیا جائے تواُس
کا سارا حُسن اوراُس کی ساری خوبصورتی ضائع ہوجاتی ہے پس جب تک میںاِس تحریک کا ماحول نہ بیان کرلوں اُس وقت تک اصل حقیقت سے دوست آگاہ نہیںہوسکتے۔ اِس ماحول کا بیان کرنا خصوصاً اِس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں سے اکثر زمیندار ہیں اور وہ عموماً عِلمی باتوں سے ناواقف ہوتے ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ میں پہلے دنیا کی وہ حالت بیان کروں جس نے ہمیں اِس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور کیا اور بتائوں کہ دُنیا میں اِس وقت کیاکیا تغیرات ہورہے ہیں۔ان تغیرات کا مستقبل پر کیا اثر پڑنے والا ہے اور ہماری جماعت اور دوسری مسلمان جماعتوں پر اُن کا کیا اثر ہے اور یہ کہ اگروہ اثرات بُرے ہیں تو ہمیں اُن سے کس طرح بچنا چاہئے اور اگر اچھے ہیں تو کس حد تک ان کو قبول کرنا مناسب ہے۔
موجودہ زمانہ کے اُمر اء اور غرباء کے
آپس کے امتیازات اور ان کا نتیجہ
سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دُنیا میں ادنیٰ واعلیٰ، محروم و بانصیب اور حاجتمند اور غنی میں جو امتیاز نظر آ رہا ہے اس کی وجہ سے دو تغیرپیدا ہورہے ہیں۔ ایک تغیر تو یہ پیدا
ہو رہا ہے کہ یہ امتیاز زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا تغیر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اس تغیر کا احساس دُنیا میں بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے بھی امیر ہوتے تھے مگر پہلے امیروں اور آجکل کے امیروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلے زمانہ کے جو امراء ہوتے تھے اور جن کی اولاد کا اب بھی کچھ بقیّہ پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے اُن کی یہ حالت تھی کہ ان کے پاس کثرت سے روپیہ اور غلّہ اور دوسری جِنسیں آتی تھیں اوروہ بھی کثرت کے ساتھ ان اشیاء کو لوگوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ پنجاب کے ایک رئیس ایک د فعہ لاہورمیں بیمار ہوئے میں بھی اتفاق سے کسی کام کے لئے لاہور جا نکلا وہاں مجھے معلوم ہؤا کہ ایک ایک وقت میں بعض دفعہ ان کے علاقہ سے تین تین چارچارسَو آدمی اُن کی تیما ر داری کے لئے آتے ہیں اور آنے والوں میں سے کسی کے پاس دُنبہ ہوتاہے، کسی کے پاس چاول ہوتے ہیں، کسی کے پاس گُڑ ہوتا ہے، کسی کے پاس کوئی چیز ہوتی ہے محض اِس لئے کہ سردار صاحب بیمار ہیں خالی ہاتھ کس طرح جائیں۔ انہوں نے بھی دس پندرہ باورچی رکھے ہوتے تھے جب جانور وغیرہ آتے تو وہ ان کو ذبح کروادیتے اور دیگیں پکوا کر لوگوں کو ِکھلا دیتے۔ اس طرح ان کی بیماری کی وجہ سے اچھا خاصا مجمع دوتین مہینے تک لگا رہا اور برابر وہ ان سینکڑوںلوگوں کو کھا نا ِکھلاتے رہے۔
گزشتہ زمانہ کے مقابلہ میں
موجودہ زمانہ کے اُمراء اور
اُن کے ملازمین کی حالت
پس بے شک پہلے زمانہ میں بھی مالدار ہوتے تھے مگر اُن کا مال اِس رنگ میں تقسیم ہوتا تھا کہ لوگوں کو بُرا نہیںلگتا تھا۔ پھر اُس زمانہ میں نوکر کا مفہوم بالکل اور تھا مگر آج کچھ اور ہے۔ اُس زمانہ میں نوکر خاندان کا جُزو سمجھے جاتے
تھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قسم کے امتیازات اُس وقت بھی پائے جاتے تھے مثلاً نوکر سے شادی کرنایااُسے لڑکی دینا پسند نہیں کیا جاتا تھامگر پھر بھی وہ اِس رنگ میں پاس رہتے تھے کہ مثلاً مالک بھی فرش پر بیٹھا ہؤا ہے اور اُس کا نوکر بھی ساتھ ہی بیٹھا ہؤا ہے یا مالکہ بیٹھی ہے تو اُس کے ساتھ اُس کی لونڈی بھی بیٹھی ہے مگر اب یہ ہوتاہے کہ مالک تو کرسی پر بیٹھا ہؤا ہوتاہے اور نوکر ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ چاہے تھک جائے اُس کی مجال نہیں ہوتی کہ آقا کے سامنے بیٹھ جائے۔ اِسی طرح سواریوں کو لے لو پہلے ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہو تا تھا۔ یہ توہوجاتاتھا کہ ایک کا گھوڑا زیادہ قیمت کا ہو گیا اور دوسرے کا کم قیمت کا مگر آجکل تھرڈ کے مقابلہ میں فسٹ اور سیکنڈ کلاس کا جو فرق ہے وہ بہت زیادہ نمایا ں ہے۔ اسی طرح مکانوں کی ساخت میں اتنا فرق پیدا ہوگیا ہے کہ غرباء کے مکانوں اور اُمراء کے مکانوں میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتاہے۔ فرنیچرکی اتنی قسمیں نکل آئی ہیں کہ کوئی غریب ان کو خرید ہی نہیں سکتا۔ جب تک اُمراء قالین بچھاتے رہے غرباء اس کے مقابلہ میں کوئی سستا سا قالین یا کپڑا ہی بچھا لیتے مگر اب فرنیچر کی اتنی قسمیں ہوگئی ہیں کہ ادنیٰ سے ادنیٰ فرنیچر بھی غریب آدمی خرید نہیں سکتا۔ پہلے تو امیرلوگوں نے اگر قالین بنائے تو کشمیریوں نے گبّھا ۱ ؎ بنالیا۔ مگر اب کَوچ اور ُکرسیوں اور میزوں وغیر ہ میں اُمراء کی نقل کرنا غرباء کی طاقتِ برداشت سے بالکل باہر ہے۔ غرض بڑوں اور چھوٹو ں میں یہ امتیاز اِس قدر ترقی کرگیا ہے کہ اب یہ امتیاز آنکھوں میں ُچبھنے لگ گیا ہے۔
غربت وامارت کے متعلق پُرانے نظریہ
کے مقابلہ پر نیا نقطہء نگاہ اور اس کا نتیجہ
پھر ایک یہ بھی فرق ہے کہ اب احساسات بھی تیز ہوگئے ہیں۔ پہلے زمانہ میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سب دولت اللہ میاں کی ہے۔ اگرکوئی ُبھوکا ہے تو اس
لئے کہ اللہ تعالی نے اسے ُبھوکا رکھا اور اگرکسی کو روٹی ملتی ہے تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو روٹی دیتا ہے۔ مگر اب تعلیم اور فلسفہ کے عام ہوجانے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتاہے کہ اگر غریب ُبھوکے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ نے انہیں ُبھوکا رکھا ہؤا ہے بلکہ اس لئے کہ اُمراء نے ان کی دولت ُلوٹ لی ہے اور اگر امیر آرام میں ہیں تو اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو آرام میں رکھا ہؤا ہے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے غریبوں کو لُوٹ لیاہے۔ پس آج نقطہء نگاہ بدل گیاہے اور اس نقطہء نگاہ کے بدلنے کی وجہ سے طبائع میں احساس اور اس کے نتیجہ میں اشتعال بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلا شخص صبر سے کام لیتا تھا اور اگر اللہ تعالیٰ سے اُسے محبت ہوتی تھی تو جب اُسے فاقہ آتا تب بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتا اور جب پلائو کھاتا تب بھی سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتا کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی شخص بے ایمان ہوتا تب بھی خیال کرتا تھا کہ میں خدا تک تو نہیں پہنچ سکتا خاموش ہی رہوں مگر اب وہ ساراالزام جو پہلے خداکو دیا جاتاتھا بندوں کو دیا جاتا ہے اور کہا جاتاہے کہ امیر اور طاقتور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ غریبوں کو ماریں پیٹیں اور اُن کا گلا گھونٹیں۔ پس نقطہء نگاہ کے بدلنے سے احساس بہت زیادہ تیز ہوگئے ہیں۔
مشینری کی ایجاد سے امارت
و غربت کے امتیاز میں زیادتی
یوں تو یہ امتیاز ہمیشہ سے چلا آتا ہے اور شایداگر اس کا سلسلہ چلایا جائے تو حضرت آدم علیہ السلام کے قریب زمانہ تک پہنچ جائے مگر بظاہر یہ خیال کیاجاتا تھا کہ ۔ُجوں ُجوںتمدّن ترقی کرے گایہ امتیاز مٹتا چلاجائے
گا چنانچہ اوّل اوّل جب مشینیں نکلی تھیں تو لو گوں نے بڑی بڑی بغاوتیں کی تھیں۔ اُمراء کہتے تھے اِس طرح غرباء کی حالت سُدھر جائے گی اور زیادہ لوگوں کو کام ملنے لگ جائے گا اور غرباء کہتے تھے ایک مشین دس مزدوروں کاکام کرے گی تو مزدور بیکار ہوجائیں گے۔ اب واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ خواہ زیادہ لوگوں کو کام ملا ہویا نہ ملا ہومگر مشینری کی ایجاد نے غریب اور امیر میں امتیاز کو بہت بڑھادیا ہے۔
غرباء کی حالت کو سُدھارنے کی
کوششیں اور اُن میں ناکامی کی وجہ
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض اصلاحیں بھی ہوئیں کوئی نیک دل فلسفی اُٹھا اور اُس نے غرباء کی بہتری کے لئے کوئی تدبیر پیدا کردی، کوئی نیک بادشاہ اُٹھا، یاکوئی نیک دل تاجر کھڑا ہؤا
اور اُس نے حکومت کے کسی شعبہ میںیا کارخانوں میں اصلاح کردی مگر دُنیا کی اصلاح جس پر تمام لوگوں کے امن کا دارومدار تھا بہ حیثیتِ مجموعی نہ ہوئی اور عوام کی تکلیفیںبدستور قائم رہیں۔
چنانچہ اب بھی اکثر یہ نظارہ نظر آتاہے کہ ایک شخص کے سامنے سے کیکوں کے ٹکڑے اُٹھا کر کتّوں کے آگے ڈالے جاتے ہیں اور دوسرے شخص کے بچے سُوکھی روٹی کے لئے بِلکتے ہوئے سوجاتے ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہر روز دُنیا میں کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ ماں باپ ایسے ہیں جو اپنے ّبچوں کو ُبھوکا سُلاتے ہیں اُمراء اگر چاہیں بھی تو پھر بھی وہ اُن کی مدد نہیںکرسکتے۔ آخر ایک امیر کو کیا پتہ کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں فلاں جھونپڑی کے اندر ایک غریب عورت کا بچّہ بھوک سے تڑپ تڑپ کر مررہا ہے۔ دِلّی یالاہور کے اُمراء کوکیا عِلم کہ دُنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں میں غرباء پرکیا گذررہی ہے اور وہ کیسے کیسے مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔ اوّل تو اُن کے دلوں میں غرباء کی مدد کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی اور اگر خواہش پیدا ہو تو اُن کے پاس ایسے سامان نہیں ہیں جن سے کام لے کر وہ تمام دُنیا کے غرباء کی تکالیف کو دُور کرسکیں۔ انہیں کیا پتہ کہ غرباء کہا ں کہاں ہیں اور ان کی کیا کیا ضرورتیں ہیں۔
اُمراء کے مقابلہ پر غرباء
کی ناقابلِ برداشت حالت
امیر لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ڈاکٹر انہیں پچّاس پچّاس روپیہ کی پیٹنٹ دوائیں بتا کر چَلا جاتا ہے مگر اُن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بازار سے چھ سات شیشیاں منگاکر اُن میں سے کسی ایک کو کھولتے ہیں اور ذراسا چکھ
کر کہتے ہیں یہ دوائیں ٹھیک نہیں کوئی اور ڈاکٹر بلائو۔ چنانچہ ایک اَور ڈاکٹر آتااور وہ بھی تیس چالیس روپیہ کی کوئی اَور پیٹنٹ دوائیں لکھ کر چلا جاتا ہے۔ غرض معمولی معمولی زکاموں اور نزلوں پر وہ دودو، چار چار سَو روپیہ کی دوائیں خرچ کردیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک غریب عورت کے بچّے کو نمونیا ہو جاتا ہے اور طبیب اسے مَکو کا عرق یالسوڑیوں کا جوشاندہ بتاتا ہے اور وہ لسوڑیوں کا جوشاندہ تیار کرنے کے لئے سارے محلہ میں دھیلامانگنے کے لئے پھرتی ہے اور کوئی شخص اسے دھیلا تک نہیں دیتا۔ آخر ماںکی مامتا توایک غریب عورت کے دل میں بھی ویسی ہی ہوتی ہے جیسے امیر عورت کے دل میں مگر وہاں یہ حالت ہوتی ہے کہ بچّہ اگر چھینک بھی لے تو ڈاکٹرپر ڈاکٹر آنا شروع ہوجاتاہے، دوائیاں شروع ہوجاتی ہیں، کھلائیوں کو ڈانٹا جاتا ہے کہ تم نے بچّے کو ہَوا لگادی مگرایک ویسی ہی ماں دَرْ دَرْدھکّے کھاتی ہے اور اسے ایک دھیلا تک میسّر نہیں آتااور اُس کا بچّہ تڑپ تڑپ کر مرجاتاہے۔ تم اپنے اِردگرد کے گھروں پر نگاہ دَوڑائو، تم اپنے محلّوں میں پوچھو تمہیں ایسی سینکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی۔ یہ غربت بعض دفعہ اِس حد تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے کہ بالکل ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔
غرباء کی درد ناک حالت
اور اِس کا بھیانک منظر
میرے پاس ایک دفعہ ایک غریب عورت آئی اور اس نے اپنا مدّعا بیان کرنے سے قبل بڑی لمبی تمہید بیان کی اور بڑی لجاجت کی اورباربار کہا کہ میں آپکے پاس بڑی آس اور امید لے کر آئی ہوں۔ مَیں اُسے جتنا کہوں کہ مائی کام بیان
کرو ہوسکاتو مَیںکردوں گا اُتنی ہی وہ لجاجت اور خوشامدکرتی چلی جاتی تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی ہوگی اور اس کے لئے اُسے تیس چالیس روپوئوں کی ضرورت ہوگی مگر جب مَیں نے بہت ہی اصرار کیا اور کہا کہ آخر بتائو توسہی تمہیں ضرورت کیا ہے؟ تووہ کہنے لگی مجھے فلاں ضرورت کے لئے آٹھ آنے چاہیئں۔ مَیں آج تک اِس کا اثر نہیں ُبھولا کہ کس قدر اُس نے لمبی تمہید بیان کی تھی، کس قدر لجاجت اور خوشامد کی تھی اور پھرسوال کتنا حقیر تھا کہ مجھے آٹھ آنے دے دئیے جائیں۔یہ بات بتاتی ہے کہ اس کے نزدیک دوباتوں میں سے ایک بات بالکل یقینی تھی۔ یاتووہ یہ سمجھتی تھی کہ کوئی شخص جس کی جیب میں پیسے ہوں وہ کسی غریب کے لئے آٹھ آنے دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہو سکتا اور یا پھر کنگال ہونے کی وجہ سے وہ سمجھتی تھی کہ دُنیا میں ایسا خوش قسمت انسان کوئی شاذونادر ہی مِل سکتا ہے جس کے پاس آٹھ آنے کے پیسے ہوں۔ اِن دونوں میں سے کوئی سانظریہ لے لو کیسا خطرناک اور بھیانک ہے۔ اگراُس کے دل میں یہ احساس تھا اور یہی احساس اَور غرباء کے دل میں بھی ہو کہ ہمیں خواہ کیسی شدید ضرورتیں پیش آئیں کوئی شخص ہمارے لئے آٹھ آنے تک خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا تواُن کے دلوں میں اُمراء کا جتنا بھی کینہ اور بُغض پیدا ہو کم ہے۔ اور اگر غرباء کی حالت اِس قدرگِر چکی ہوکہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو اچھا کھانا کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہوئے پھر یہ خیال کریں کہ اب کسی کے پاس آٹھ آنے بھی نہیں ہیں اور اگرکسی کے پاس آٹھ آنے ہیں تووہ بہت بڑا خوش قسمت انسان ہے تویہ دُنیا کے تنزِّل کے متعلق کیساخطر ناک نظریہ ہے۔
غریبوں کی بہبودی کیلئے مختلف تحریکات کا آغاز
ڈیما کریسی
یہ حالت بہت دیر سے چلی آرہی ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے لوگوں نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے مگر اب تک کوئی تغیر پیدا نہیں ہؤا۔
اٹھارھویں صدی کے آخر سے اس کے متعلق عِلمی طور پر زیادہ چرچا شروع ہوگیا اور اس احساسِ بیداری نے جو شکل پہلے اختیار کی دُنیا نے اس کانام ڈیما کریسی (DEMOCRACY) رکھا۔ یعنی فیصلہ کیا کہ یہ غربت افراد نہیں مٹاسکتے بلکہ حکومت ہی مٹاسکتی ہے۔ جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ لاہور یادہلی میں بیٹھے ہوئے ایک فرد کوکیا علم ہو سکتا ہے کہ ہمالیہ پہاڑ کے دامن میں کسی غریب عورت کا بچّہ بھُوک سے مَر رہا ہے، یا شہروں میں رہنے والوں کوکیا علم ہوسکتا ہے کہ گائوں میں غرباء پرکیامشکلات آرہی ہیں لیکن حکومت اِن تمام باتوں کا بآسانی علم رکھ سکتی ہے۔ پس انہوں نے فیصلہ کیاکہ یہ کام حکومت کو اپنے ذمّہ لینا چاہئے لیکن حکومت میں بادشاہ اور وزراء کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی دخل ہونا ضروری ہے تاکہ سب کی آوازمرکز میںپہنچ سکے اورمرکز کو ان کے ذریعہ تمام حالات کا علم حاصل ہوتا رہے اس کے مطابق پہلے چھوٹے چھوٹے تغیرات کئے گئے۔ مثلاً کہا گیا کہ بادشاہ کو گھر بیٹھے کیا پتہ ہوسکتا ہے کہ شاہ پور کے زمینداروں کی کیا ضروریات ہیں ہاں شاہ پورکے زمیندار اپنی ضرورتوں کو خوب جانتے ہیں۔ یا بادشاہ کو گھر بیٹھے جھنگ کے لوگوں کی مشکلات کا علم نہیںہوسکتا مگر جھنگ کے لوگ خوب جانتے ہیں کہ انہیں کیاکیا مشکلات درپیش ہیں پس حکومت کے مرکز تک لوگوں کی آوازپہنچانے کاکوئی انتظام ہونا چاہئے۔
ڈیما کریسی کے ماتحت پہلا تغیر
پس پہلا تغیر ڈیماکریسی کے ماتحت اِس رنگ میں ہؤا کہ جمہور نے مطالبہ کیاکہ حکومت میں ہمارا بھی حق
ہے تاکہ ہم اپنے اپنے علاقوں کی ضروریات بتاسکیں اور ان کے متعلق حکومت کو مفید مشورہ دے سکیں۔ کچھ عرصہ تک یہ طریق رائج رہا اوراِس میںکوئی شُبہ نہیںکہ اس طریقِ عمل سے فائدہ ہؤا۔ آخر بادشاہ سب کے حالات معلوم نہیں کرسکتا تھا اِس طریق کے مطابق لوگوں کے نمائندے آتے، حالات بتاتے ، حکومت کو مشورہ دیتے اور مطمئن ہوکر واپس چلے جاتے۔
ڈیما کریسی کے ذریعہ حقوق کا تحفظ اور اس
کیلئے تاجروں اور پیشہ وروں کی جدّوجہد
ابتدا میں یہ نمائندے زیادہ تر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اِس لئے وہ زمینداروں کے حقوق کے متعلق ہی باتیں کیا کرتے تھے۔
بڑے بڑے زمیندار آتے اور بڑے بڑے لوگوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی قوم کو زیادہ فائدہ پہنچاتے۔ اِس پر ایک نئی تحریک شروع ہوئی جو تاجروں اور پیشہ وروں کی تھی اور اِس تحریک کے بانیوں نے اپنا کام تاجروں اور حرفہ والوں کے حقوق کی نگہداشت قرار دیا۔ چنانچہ اِس تحریک کے نتیجہ میںجو لبرل ازم (LIBERALISM)کہلاتیہے تاجروں اورپیشہ وروں کو بھی زمینداروں کی طرح حُریّت حاصل ہوگئی اور حکومت میں ایسے تغیرات پیدا کئے گئے جن کے نتیجہ میں تاجروں کی تکالیف دُور ہوگئیں اور پیشہ وروں کو ملک میں اور زیادہ آسانیاں حاصل ہوگئیں۔
سوشلزم
یہ صورتِ حالات کچھ دیر تک قائم رہنے کے بعد ایک اور طبقہ کی نگاہیں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے اُٹھیں اور اُس نے بھی اِس غرض کے لئے
جدّوجہد شروع کردی۔ یہ طبقہ مزدوروں اور ملازم پیشہ لوگوں کا تھا جو کارخانوں اور دفتروں میںکا م کرتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ زمینداروں کوبھی ان کے حق مل گئے، صنّاعوں کو بھی ان کے حق مل گئے اور تاجروں کو بھی انکے حق مِل گئے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے دُکھ کو تم محسوس نہیںکرتے اِس لئے اب ہم بھی اپنے نمائندے حکومت میں بھیجیں گے چنانچہ کسِی جگہ باقاعدہ اِنتخاب کے ذریعہ اورکسی جگہ لڑ جھگڑ کر مزدوروں کے نمائندے بھی کھڑے ہونے شروع ہوگئے۔ آجکل سوشلزم کا بڑا زور ہے اور یہ دراصل اسی تحریک کانام ہے جس میں مزدوروں کو مالداروں کے مقابلہ میں زیادہ حقوق دلائے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ عام پبلک کے حقوق کی حفاظت کے لئے گورنمنٹ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ اِس طرح مزدوروں کی حق رسی ہوجائے گی۔
اِنٹرنیشنل سوشلزم
پھر اِس سے بھی ترقی کرکے لوگوں نے کہا کہ بے شک یہ سب تحریکیں فائدہ مند ہیںمگر آخر ان کا اثر بعض خاص ممالک تک محدود ہے اور یہ کوئی
کامل خوشی کی بات نہیں ہوسکتی۔ اگر انگلستان کے لوگوں کی ہم نے اِصلاح کرلی مگر فرانس کے لوگ پھر بھی ُبھوکے مرتے رہے تو ہمارے لئے کیا خوشی ہوسکتی ہے اِس لئے مختلف ملکوں کے غرباء اور مزدوروں کو باہمی تعاون کا اقرار کرنا چاہئے۔ بظاہر تویہ کہا جاتا تھا کہ ہم اِصلاح کے دائرہ کو وسیع کرتے ہیں مگر اصل بات یہ تھی کہ جب اِس تحریک کے نتیجہ میں ایک ملک کے اُمراء کو نقصان پہنچا تو دوسرے ملک کے اُمراء اِس وجہ سے کہ یہ تحریک ہمارے ملک میں نہ آجائے روپیہ سے اِس تحریک کے مخالفوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے مقابل پر مزدوروں نے بھی فیصلہ کیا کہ مختلف ملکوں کے غرباء کو آپس میں تعاون کا اقرار کرنا چاہئے جب تک ایسا نہیں ہوگا کامیابی مشکل ہے۔ اس طرح سوشلزم کے بعد انٹر نیشنل سوشلزم کا آغاز ہؤا۔ یعنی مزدور اپنی اپنی جگہ کی ہی خبر نہ رکھیں بلکہ دوسری جگہوں کی بھی خبر رکھیں۔
غرباء کی حالت سُدھارنے کے
متعلق کارل مارکس کے تین نظریے
اس کے بعد ایک شخص کارل مارکس ۲؎ پیدا ہؤا۔ یہ جرمن یہودی النسل تھا مگر مذہباً عیسائی تھا اس نے اس مسئلہ پر غور کیا اورغور کرنے کے بعد اس نتیجہ پرپہنچا کہ یہ جو سوشلِزم کہہ
رہی ہے کہ آہستہ آہستہ اصلاح کی جائے اور امیروںپر دبائوڈال کران سے مزدوروں اور غرباء کے حق حاصل کئے جائیں اِس طرح تو پچّاس سَو بلکہ ہزار سال میں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اصل خرابی یہ ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت ہے وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے پس اس کی اصلاح کا آسان طریق یہ ہے کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی جائے۔ چنانچہ وہ کہتا ہے یہ کیا طریق ہے کہ اگر حکومت کسی جگہ نہر نہیں نکالتی تو نہر کے لئے اس سے سَو سال تک جنگ جاری رکھی جائے حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو اور نہر نکال لو۔ یا یہ کیا کہ فلاں کارخانہ میں چونکہ اصلاح نہیں اس لئے حکومت پر اس کے متعلق زور دیاجائے اور برسوں اس پر ضائع کئے جائیں سیدھی بات یہ ہے کہ حکومت ہاتھ میں لو اور تمام مفاسد کا علاج کرلو۔پس مارکس نے یہ اصول رکھا کہ سیاسیات میں پڑے بغیر ہم تمدّنی اصلاح نہیںکرسکتے۔ جب تک سیاست ہاتھ میں نہ آجائے اور جب تک حکومت کے اختیارات قبضہ میں نہ آجائیں اس وقت تک کوئی سیاسی یا تمدّنی اصلاح نہیںہوسکتی۔
مارکسزم اور اس کا پہلا اُصول
پس مارکسزم جو انٹر نیشنل سوشلزم کی ایک شاخ ہے جبر کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کرنے کی مؤیّد ہے اور
اقتصادی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے سیاسی تغیرات سے آزادی حاصل کرنے کی حامی ہے۔ پھر اسی نظریہ کے ساتھ مارکسزم یہ بات بھی پیش کرتی ہے کہ سوشلزم والے اِس لئے کامیاب نہیں ہوسکے کہ انہوں نے امیروں سے مِل کر کام کرنا شروع کردیا حالانکہ امیروں کا قبضہ اتنا پُرانا ہوچکا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے غرباء کو کوئی حق حاصل ہی نہیںہوسکتا۔
مارکس کے نزدیک ڈیما کریسی کا اصول بالکل غلط ہے اور امیروں او رغریبوں کا میل جول بھی غلط ہے۔اس کے نزدیک امیروں کو ایسا ہی سمجھنا چاہئے کہ گویا وہ انسان نہیں اورجو اختیار غرباء کو ملیں وہ انہیں اپنے قبضہ میں لے لیں۔
مارکسزم کا دوسرا اُصول
دوسرا نظریہ اس نے یہ پیش کیا کہ ہمیں اِس غرض کے لئے جبر کرنا چاہئے۔ جتھا بنائو،حملہ کرواور حکومت پر قبضہ کرلو۔ یہی کارل مارکس
کا نظریہ تھا جس سے بالشوزم پیدا ہؤا۔
مارکسز م کا تیسرااُصول
مارکس نے ایک یہ رائے بھی دی کہ مالدار زمیندار اور صنّاع اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں اور مزدور اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ موجودہ
حکومت کے توڑنے پر بھی وہ زیادہ دیر تک اپنے حقوق کی حفاظت نہیںکرسکتے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ کسی کا کوئی سائیس ۳؎ تھا جسے آٹھ دس روپے ماہوار ملا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اسے سمجھایا کہ آجکل ہر شخص کو چالیس پچّاس روپے ملتے ہیں اور تُو آٹھ دس روپوئوں پر گذارہ کررہا ہے اپنے آقا سے کہتا کیوں نہیں کہ میری تنخواہ زیادہ کرو۔ وہ کہنے لگا میںکِس طرح کہوں؟ اُس نے کہا تُو کوئی غلام ہے اگر وہ تیری تنخواہ بڑھائے تو بہتر نہیں تو کسی اَور جگہ ملازمت کرلینا۔ آخر بہت کچھ سمجھانے پر وہ تیار ہو گیا اور اس نے دل میں عہد کرلیا کہ آج جب آقا آیا تو اُسے صاف صاف کہہ دوں کہ یا تو میری تنخواہ بڑھائی جائے ورنہ میں نوکری چھوڑتا ہوں۔ اُس کا آقا اُس وقت سواری پر کہیں باہر گیا ہؤا تھاجب واپس آیا تو سائیس اُس کے سامنے جا کھڑا ہؤا اور کہنے لگا صاحب! ایک بات سُن لیجئے۔ اُس نے کہا کیا ہے؟کہنے لگا سب کو تنخواہیں زیادہ ملتی ہیں اور میری تنخواہ بہت کم ہے پس یا تومیری تنخواہ بڑھائیں ورنہ۔ جب اُس نے کہا ’’یا تومیری تنخواہ بڑھائیں ورنہ‘‘۔تو اُسکے آقانے کوڑااُٹھا کراُسے مارا اور کہا۔ ورنہ کیا؟ کہنے لگا۔ورنہ آٹھ پر ہی صبر کریں گے اَورکیا کریں گے۔گویا یکدم اُس کو ساری باتیں ُبھول گئیں۔یعنی یا تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’ورنہ میں نوکری چھوڑدوں گا‘‘۔اور یا ایک کوڑا پڑتے ہی یہ کہنے لگا ورنہ پھر آٹھ پر ہی صبر کریں گے اَور کیا کریں گے۔
لمبے عرصہ کی غلامی کا نتیجہ
تو ایک لمبے عرصہ کی غلامی کے بعد انسان کی فطرت بالکل بدل جاتی ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے چُوہڑوں اور چماروں
کو کتنا ہی اُٹھانے کی کوشش کرو اور کتنی ہی دیر اُن سے باتیں کرتے رہو آخر میں وہ ُیوں مُسکراکر کہ جیسے ہمارا دماغ پِھر گیا ہے کہیں گے کہ ربّ نے جس طرح بنایا ہے اس میں اب کیا تغیر ہو سکتاہے۔ گویا اُن کے نزدیک جس قدر مصلح اور ریفارمر ہیں سب کے دماغ خراب ہیں۔ یہی کارل مارکس نے کہا کہ ان لوگوں کی حالت بدلنے والی نہیں۔اگر عوام کو اختیار دے دیئے گئے تو وہ پھر ڈرکر ہتھیار رکھ دیں گے اِس لئے شروع میں مزدوروں کے زبردست ہمدردوں میں سے کسی کو ڈکٹیٹر شِپ دینا ضروری ہے۔ وہ جب عوام کو منظّم کرلے، مزدوروں کے اندر بیداری پیدا کردے، اُن کے مختلف طبقات کے امتیازات کو مٹادے اور اگلی نسل میں ایسی طاقت پیدا کردے کہ وہ امیروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرسکیں تواُس وقت حکومت کُلّی طور پر جمہور کے سپرد کردینی چاہئے مگر اس سے پہلے نہیں ورنہ حکومت جاتی رہے گی۔
غرباء کی بہبودی کے لئے لینن
اور اُس کے ساتھیوں کی کوشش
مارکس تو خیر مرگیا۔ اس کے بعد جب مظالم انتہاء کو پہنچے توایک پارٹی ایسی کھڑی ہو گئی جس نے مارکس کی تعلیم کے مطابق لوگوں کو منظّم کرنا شروع کر دیا۔ انہی مختلف لوگوں میںسے جو
مارکس کی تعلیم کے مطابق منظّم ہوئے ایک لینن ۴؎ہے جو روس کا پہلا عامی ڈکٹیٹر تھا۔ لینن اور اُس کے ساتھیوں نے مارکس کے خیالات کو زیادہ معیّن جامہ پہنایا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ سب مِل کر کام کرتے رہے اور غریبوں کو اُبھا رتے رہے کہ تم ننگے پھرتے ہو، ُبھوکے رہتے ہو مگر اِسی ملک کے امیر ہیں جو عیش وآرام میں اپنی زندگی کے دِن بسرکررہے ہیں۔ کبھی کہتے یہ کہاں کاانصاف ہے کہ ایک ہی کارخانہ میں ایک مزدور صُبح سے شام تک کام کرتا ہے اور شام کو اسے اتنی قلیل مزدوری ملتی ہے کہ جس سے بمشکل وہ اپنا اور اپنے بیوی بچّوں کا پیٹ بھرتاہے مگر دوسری طرف اسی کارخانہ کے مالک کے بچّے قیمتی سے قیمتی کوٹ پہنے پِھرتے ہیںاور اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھاتے ہیں۔ اِس طرح انہوں نے تمام ملک میںجوش پیدا کردیا اور اُمراء کے خلاف کئی پارٹیاں بن گئیں۔
بالشویک ومنشویک پارٹیوں کا آغاز
جب اُن کا اقتدار بڑھ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جلد ہی
ہم کو حکومت مل جائے گی تو انہوں نے ایک میٹنگ کی اور اس کی غرض یہ قرار دی کہ ہم اپنے لئے ایک معیّن راستہ قائم کرلیں کہ ہم نے حکومت ملنے پر کس طرح کام کرنا ہے۔ اس میٹنگ کے دوران میں آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا اور مارٹوو جو لینن کی طرح پارٹی میں مقتدر تھا اس کا لینن سے اختلاف ہو گیا۔ چنانچہ دو پارٹیاں بن گئیں جن میں سے ایک بالشویک کہلائی اور دوسری منشویک۔ بالشویک نام اس لئے رکھا گیا کہ بالشویک کے معنے کثرت کے ہیں چونکہ لینن کے ساتھ آدمیوں کی کثرت تھی اس لئے اس کی پارٹی بالشویک کہلائی اور منشویک کے معنے کم کے ہیں چونکہ اس کے مخالف کم تھے اس لئے مارٹوو کی پارٹی منشویک کہلائی۔
نظامِ حکومت کے متعلق لینن اور مارٹوو کے نظریوں میں اختلاف
پہلا اختلاف
لینن زیادہ تر مارکس کا متبع تھا اس نے یہ اصول مقرر کیا ہؤا تھا کہ ہمیں ہر دوسری پارٹی سے علیحدہ رہنا چاہئے اس کے بغیر ہم اپنے مقاصد کو صحیح طور
پر نہیں پا سکیں گے لیکن مارٹوو کا یہ خیال تھا کہ طاقت حاصل کرنے سے پہلے ہمیں دوسرے مقتدر عناصر سے جو کہ فعّال ہیں تعاون رکھنا چاہئے غرض لینن کی تھیوری یہ تھی کہ ہم دوسروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ہم جو کچھ لائیں گے اپنے زور سے لائیں گے کسی کے زیر احسان ہو کر نہیں لائیں گے دوسرے الفاظ میں لینن کی پالیسی یہ تھی کہ ہم دوسروں سے نہیں ملیں گے ہمارے پاس سچائی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم بالآخر جیت جائیں گے۔
دوسرا اختلاف
پھر لینن کا یہ خیال تھا کہ شروع میں ڈکٹیٹر شپ کے بغیر گذارہ نہیں چل سکتا لیکن مارٹو و کایہ خیال تھا کہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم ہونی
چاہئے۔ مارٹوو سمجھتا تھا کہ اگر لیڈر بناتو لینن ہی بنے گا میں نے نہیں بننا اس لئے وہ شروع سے ہی جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔
مارٹوو کا خیال کہ سزائے موت بالکل ہٹادی جائے
پھر مارٹوو نئی گورنمنٹ میں سوشلسٹ اصول کے ماتحت
چاہتا تھا کہ سزائے موت کو بالکل ہٹا دیا جائے لیکن لینن نے اس بات پر زور دیا کہ میں مانتا ہوں کہ پھانسی کی سزا نہیں ہونی چاہئے لیکن اس وقت اگر یہ بات قانون میں
داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گااور لینن کا خیال تھا کہ زار اگر معطّل ہو کر بھی زندہ رہے تو حکومت نہیں چل سکتی اس لئے لینن نے کہا کہ خواہ صرف زار کی جان لینے کے لئے موت کی سزا کی ضرورت ہو تب بھی یہ قائم رہنی چاہئے۔ گویا زار کی دشمنی اُس کے دل میں اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُس نے کہا اگر خالی زار کو پھانسی کے تختہ پر لٹکانے کے لئے اِس قانون کی ضرورت ہو تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ ہؤا کہ لینن کو زیادہ ووٹ ملے اور اس کے ساتھیوں کو پارٹی کی راہنمائی کا حق دیا گیا اور اپنی کثرت کی وجہ سے وہ بالشویک کہلائے اور ان کے مخالف اپنی قلت کی وجہ سے منشویک کہلائے۔ زار کے ہٹنے پر پہلے منشویک حکومت پر قابض ہوئے کیونکہ ملک کی دوسری پارٹیاں ان کی حکومت کو اپنے لئے زیادہ آرام دِہ سمجھتی تھیں پھر بالشویک نے ان کو دبا کر اپنی حکومت قائم کرلی۔
بالشوزم کے چھ اقتصادی اصول اور اُن کے نتائج
اب مَیں بتاتا ہوں کہ بالشویک کے اقتصادی اصول کیا ہیں؟ یاد رکھنا چاہئے کہ ان اقتصادی اصول کو وضع کرنے کا سب سے بڑا محرّک یہی تھا کہ کسی طرح غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے۔ جس طرح بیمار ہونے پر ایک امیر کو دوا ملتی ہے اسی طرح غریب کو دوا ملے، جس طرح امیر کو کپڑا ّمیسر آتا ہے اسی طرح غریب کو پہننے کے لئے کپڑا ّمیسر آئے، جس طرح امیر پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے اسی طرح ہر غریب پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ اسی طرح ظلم کم ہوں اور اقتصادی لحاظ سے غرباء کو جو دِقّتیں پیش آتی رہتی ہیں ان سب کا سدِّباب ہو اِس غرض کے لئے بالشوزم نے جو اقتصادی اصول مقرر کئے وہ مارکس کے اصول کے مطابق یوں ہیں:-
پہلا اصول
اول جتنی کسی کی طاقت ہو اُس سے اُتنا ہی وصول کیا جائے۔ فرض کرو ایک شخص کے پاس دس ایکڑ زمین ہے اور دوسرے کے پاس سَو ایکڑ زمین
ہے تو وہ یہ نہیں کریں گے کہ دس ایکڑ والے سے چند روپے لے لیں اور سَو ایکڑ والے سے بھی چند روپے لے لیں بلکہ وہ دیکھیں گے کہ دس ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر ہیں اور سَو ایکڑ والے کی ضروریات کس قدر اور پھر جس قدر زائد روپیہ ہو گا اُس پر حکومت قبضہ کر لے گی مثلاً وہ دیکھیں گے کہ د س ایکڑ والا اپنی بیوی کو بھی ِکھلاتا ہے، بچوں کو بھی ِکھلاتا ہے، آپ بھی کھاتا ہے، بیلوں کو بھی ِکھلاتا ہے اور پھر اتنا روپیہ اس کے پاس بچ رہتا ہے تو حکومت کہے گی کہ یہ روپیہ تمہارا نہیں بلکہ ہمارا ہے اِسی طرح سَو یا ہزار ایکڑ والے کی ضروریات دیکھی جائیں گی اور جس قدر زائد روپیہ ہو گا حکومت اسے اپنے قبضہ میں لے لے گی کیونکہ وہ کہتے ہیں ہمارا اصول یہی ہے کہ جتنا کسی کے پاس زائد ہو اُس سے لے لو۔
دوسرا اصول
دوسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اُس کو دیا جائے گویا پہلے اصول کے مطابق سَو یا ہزار ایکڑ والے سے اُس کی زائد
آمد وصول کر لی اور اِس اصول کے مطابق جتنی کسی کو ضرورت ہوئی اُتنا اُسے دے دیا۔ فرض کرو سَو ایکڑ والے سے حکومت نے پانچ ہزار روپیہ وصول کیا تھا مگر اس کے گھر کے افراد دو تین ہیں تو اسے زیادہ روپیہ نہیں دیا جائے گا بلکہ افراد کی نسبت سے دیا جائے گا کیونکہ روپیہ لیا اس اصول کے ماتحت گیا تھا کہ جتنا کسی کے پاس ہولے لو اور دیا اِس اصول کے ماتحت جائے کہ جتنی کسی کو ضرورت ہو اُتنا اُس کو دیا جائے۔ اُسے کہا جائے گا کہ تیرے پاس چونکہ زیادہ تھا اِس لئے ہم نے زیادہ لیااور تجھے چونکہ ضرورت کم ہے اِس لئے ہم تجھے کم روپیہ دیتے ہیں۔
تیسرا اصول
تیسرا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ انسانی ضرورت سے زائد پیداوار پر حکومت کا حق ہے جو ملک کی عام بہتری پر خرچ ہونی چاہئے۔ فرض کرو
دو زمیندار ہیں اور دونوں کے پاس دس دس ایکڑ زمین ہے ان میں سے ایک نے زیادہ محنت سے کام کیا اور اُس کی پیداوار تیس من فی ایکڑکے حساب سے ہو گئی مگر دوسرے کی پیداوار صرف تین من فی ایکڑہوئی گویا ایک کی پیداور ۳۰۰ من ہو گئی اور دوسرے کی صرف ۳۰ من۔ اب فرض کرو جس کی ۳۰۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے صرف چالیس من پیداوار کی ضرورت ہے تو حکومت اسے کہے گی چونکہ تمہاری پیداوار زیادہ ہوئی ہے اِس لئے تم چالیس من رکھ لو اور ۲۶۰ من ہمارے قبضہ میںدے دو اسی طرح دوسرا شخص جس کی صرف ۳۰ من پیداوار ہوئی ہے اُسے اگر اپنے لئے صرف دس من غلہ کافی ہو گا تو حکومت کہے گی دس من غلہ رکھ لو اور بیس من ہمیں دے دو پس تیسرا اصول ان کا یہ ہے کہ جو پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو جائے چاہے محنت سے ہو اور چاہے اتفاقیہ طور پر وہ لے لی جائے کیونکہ وہ حکومت کا حق ہے۔
چوتھا اصول
چوتھا اصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ حکومت انسانوںپر نہیں بلکہ چیزوں پر ہونی چاہئے وہ کہتے ہیں خالی یہ قانون کافی نہیں کہ زائدپیداوار لے لی
جائے گی کیونکہ اِس طرح حکومت صرف انسانوں پر رہتی ہے حالانکہ حکومت اشیاء پر ہونی چاہئے۔ مثلاً کسی علاقہ میں گنّا اچھا ہوتاہے تو وہ کہتے ہیں حکومت کا حق ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو حکم دے کہ اس علاقہ میں صرف گنّا بوئیں یاکسِی علاقہ میں گندم بہت اچھی ہوتی ہو تو حکومت کو اختیار ہونا چاہئے کہ وہ اُس علاقہ میں صرف گندم بونے کا حکم دے اور کوئی شخص گندم کے سِوا اَور کوئی چیز اس زمین میں نہ بوسکے۔ یا اگر حکومت حکم دینا چاہے کہ فلاں علاقہ میںکپاس بوئی جائے، فلاں علاقہ میں جوار بوئی جائے تو سب لوگ اس کی تعمیل پر مجبور ہوں اور کوئی شخص خلاف ورزی نہ کرسکے۔ پس چوتھے اصول کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ پیداوار کی تقسیم ہم کریں گے اور ہم فیصلہ کریںگے کہ فلاں فلاں علاقہ میں فلا ں فلاں چیز بوئی جائے اور لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہی چیز بوئیں۔
پانچواں اُصول
پانچواں اُصول انہوں نے یہ مقرر کیا کہ خالص دماغی قابلیّتیں بغیر ہاتھ کے کام کے کوئی قیمت نہیں رکھتیں۔ وہ کہتے ہیں یہ کہنا کہ فلاں شخص کوئی عِلمیبات
سوچ رہا ہے بالکل لغو ہے اصل چیز ہاتھ سے کام کرنا ہے دماغی کام کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ ہاتھ سے کام کریں اور اگر وہ ہاتھ سے کام نہ کریں تو بیشک بھُوکے مریں ہم اُن کی مدد نہیں کریں گے۔
چھٹا اُصول
چھٹااُصول انہوںنے یہ مقرر کیا کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ بچائو کیا جائے بلکہ
اپنے اصول کے لئے دوسروں پر حملہ کرناچاہئے۔
پہلے اصول کا نتیجہ یعنی تمام
مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ
پہلے اصول کے نتیجہ میں بالشوزم نے تمام مالداروں کی جائدادوں پر قبضہ کرلیا کیونکہ انہوں نے فیصلہ کردیا کہ جو کچھ مِلتا ہے لے لو، زمینیں لے لو، جائدادیں لے لو، اموال
لے لو اور اِس طرح جتنا کِسی کے پاس ہو جبراً اپنے قبضہ میں کرلو۔
دوسرے اصول کا نتیجہ یعنی ہاتھ سے کام کرنے
والے کو ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرنا
دوسرے اصول کے مطابق بالشوزم نے ہر ہاتھ سے کام کرنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق سامان مہیّا
کرنے کاذمّہ لیا۔ مثلاً ایک گھر کے پانچ افراد ہیں وہ فوراً فیصلہ کردیں گے کہ اِن پانچ افراد کو اِتنا کپڑا دے دیاجائے، اتنا غلّہ دے دیا جائے، اِتنا ایندھن دے دیاجائے، اِسی طرح ڈاکٹر مقرر کردیئے جائیں گے جو بیماری پر اُن کا مُفت علاج کریں گے۔ گویا اِس طریق کے مطابق ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا ، کھانے کے لئے غلّہ اور علاج کے لئے دَوا مِل جائے گی۔ حکومت کاکام ہوگا کہ وہ لسٹیں بنائے اور افراد کی جس قدر ضرورتیں ہوں پوری کردے۔ اور واقع میں اگر غورکیا جائے تو بالشوزم نے اِس مشکل کو دور کر دیا ہے اور اگراِس طریق سے کام لیا جائے توکوئی شخص بھُوکا یا ننگا نظر نہیں آسکتا سوائے اِس کے کہ کوئی مذہبی آدمی ہو جیسے پادری وغیرہ کیونکہ ان کے نزدیک ہاتھ سے کام کے بغیر خالص دماغی قابلیتیںکسی کام کی نہیں ہوتیں۔ پس وہ پادریوں اور اِسی قسم کے اَور مذہبی آدمیوں یا علماء اور فلاسفروں وغیرہ کو نکمّا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں انہیں اپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنا چاہئے ورنہ ان کے بھُوکا رہنے کی حکومت پر ذمّہ داری نہیں ہوگی۔
تیسرے اُصول کا نتیجہ یعنی حکومت کے مقرر کردہ
معیار سے زائد اشیاء پر قبضہ کر لینے کا فیصلہ
تیسرے اصول کے مطابق انہوں نے زمینداروں اور تاجروں وغیرہ سے ہر وہ چیز جو حکومت کے مقرر کردہ معیار
سے زائدہولے لینے کا فیصلہ کیا۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پچّاس من غلّہ پیدا کرتا ہے اور اس کی ضروریات کے لئے بیس من غلّہ کافی ہے تو تیس من غلّہ حکومت لے جائے گی اور کہے گی کہ یہ چیز چونکہ تمہاری ضرورت سے زائد ہے اِس لئے اس پر حکومت کا حق ہے۔ یا ایک شخص کے پاس بہت بڑی زمین ہے اور اُس کا گذارہ تھوڑی سی زمین پر بھی ہوسکتا ہے تو جتنی زمین پر اُس کا گذارہ ہو سکتا ہے وہ اُس کے پاس رہنے دی جائے گی اور باقی زمین پر حکومت قبضہ کر لے گی۔
چوتھے اصول کا نتیجہ یعنی عملی آزادی کافُقدان
چوتھے اصول کے مطابق زمیندار ، تاجر اور صنعت پیشہ لوگوں کی عملی
آزادی کو اُس نے چھین لیا اور حکومت کے منشاء کے مطابق زراعت کرنا، تجارت کرنا اور صنعت وحرفت اختیار کرنا لازمی قرار دیا۔ مثلاً کہہ دیا کہ فلاں سَومیل کا جو علاقہ ہے اس میں صرف گندم بوئی جائے، فلاں علاقہ میں صرف گنّا بویاجائے اور فلاں علاقہ میں صرف کپاس بوئی جائے۔ ہمارے ملک میں تو زمیندار عام طور پر دو مرلہ میں جواربو لیتے ہیں، دو مرلہ میں کپاس بولیتے ہیں اور دو مرلہ میں گنّا بولیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھوٹے بچّے ہیں گنّے ُچوسیں گے اور اگر چھوٹے زمیندار ایسا نہیںکرتے تو جس کے پاس دس بارہ گھمائوں زمین ہو وہ تو ضرور ایسا کرتا ہے مگر بالشویک حکومت والوں نے علاقوں کے علاقوں کے متعلق یہ فیصلہ کردیا ہے کہ یہاں گندم نہیںبونی بلکہ گنّابونا ہے۔ کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گندم بوئی جاتی ہے، کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف گنّا بویا جاتاہے اور کئی ضلعے ایسے ہیں جہاں صرف کپاس بوئی جاتی ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں یہ علاقے اسی فصل کے لئے موزوں ہیں اِس لئے ہم حکم دیتے ہیں کہ اسکے علاوہ اَور کوئی فصل اس موسم کی وہاں نہ بوئی جائے۔ اگر کوئی کہے کہ پھر مَیں کھائوں گا کہاں سے؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں روٹی کپڑا ہم دیں گے تمہیں اس کا کیا فکر ہے تمہیں فصل وہی بونی پڑے گی جس کا ہم تمہیں حکم دیتے ہیں۔ اِس طرح زمیندار کی حیثیت وہاں ایک مزدور کی سی ہو گئی ہے۔
پانچویں اُصول کا نتیجہ یعنی مذہبی نظام میں دخل
پانچویں اُصول کے مطابق انہوں نے مذہبی نظام میں دخل
دیا اور پادریوں وغیرہ کو بغیر ہاتھ کی مزدوری کے روزی کا مستحق قرارنہ دیا۔ انہوں نے کہاکہ جب پادری کوئی ہاتھ کاکام نہیں کرتے تو یہ نکمّے ہوئے اور نکمّے لوگوں کو روزی نہیں دی جا سکتی پس وہ انہیں مجبور کرکے یا تو اَور کاموں پر لگاتے ہیں اور یا پادری وغیرہ تھوڑا ساوقت عبادات میں گذار لیتے ہیں اور باقی وقت کِسی کام میں بسر کردیتے ہیں۔
دہریّت پیدا کرنے کی تدبیر
اِسی مذہبی دشمنی کے سلسلہ میں انہوں نے ایک اَور نئی تجویز نکالی اور مذہب کے متعلق انہوں نے یہ
فیصلہ کیا کہ مذہب اِنفرادی آزادی کا نتیجہ ہونا چاہئے۔ ماں باپ اور بزرگوں کو بچپن میں مذہبی تعلیم دینے کا کوئی حق نہیں تعلیم کُلّی طور پر حکومت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں دیکھو! بچّوں پر یہ کیسا ظلم کیاجاتا ہے کہ بچپن میں ہی ان کے دِلوں پر مذہب کا اثر ڈالا جاتا ہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جو مسلمان ہوتے ہیں اُن کے بچّے مسلمان بن جاتے ہیں،جو ہندو ہوتے ہیں ان کے بچّے ہندو بن جاتے ہیں اور جو پارسی ہوتے ہیں اُن کے بچّے پارسی بن جاتے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہئے بلکہ بچّوں کو ہر قسم کے مذہبی اثرات سے آزادرکھنا چاہئے۔ جب بچّہ جوان ہوجائے تو وہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے جوانی سے پہلے ہی زبردستی اس کے دل پر اپنے مذہب کا اثر ڈالنا صریح ظلم ہے چنانچہ اِس اصل کا نتیجہ مذہب کے حق میں زہر نکلا۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچّوں کو اُن کے ماں باپ سے جُدا کرلیتے ہیں اور اپنے سکولوں میں تعلیم دلاتے ہیں جہاں مذہب کانام تک بچّہ کے کانوں میں نہیںپڑتا۔ جب وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ جاتاہے اور پکّا دہریہ بن جاتا ہے تو کہتے ہیںاب یہ جوان ہوگیا ہے اور اب اس کے سمجھنے کا زمانہ آگیا ہے اب یہ جو چاہے مذہب اختیار کرلے حالانکہ اُس وقت اُس نے کیا سمجھنا ہے اُس وقت تو دہریت اُس کی رَگ رَگ میں سرایت کر چکی ہوتی ہے۔ غرض وہ کہتے ہیں ہم بچّوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ ان کی تختی صاف رکھتے ہیں تاکہ بعد میں اس پر جو نقش چاہیں ثبت کرلیںحالانکہ اِس رنگ میں دل کی تختی صاف رکھنے کے معنے سوائے دہریّت کے اَور کچھ نہیں۔ جب وہ اٹھارہ بیس سال تک اپنے مطلب کی باتیں ان کے کانوں میں ڈالتے رہتے ہیں تو جوان ہونے پر اُن کا یہ کہنا کہ ہم نے ا ن کے دل کی تختی بالکل صاف رکھی تھی صریح ُجھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اِس طرح دل کی تختی صاف نہیںرکھتے بلکہ انہیں دہریّت کے گڑھے میں گِرا دیتے ہیں پس اِس اصل نے آئندہ نسلوں کو بالکل دہریہ بنادیا ہے۔
چھٹے اُصول کا نتیجہ یعنی غیر ممالک
میں اپنے خیالات کا پروپیگنڈا
چھٹے اصول کے مطابق انہوں نے اپنے ملک سے باہر دوسرے ممالک میں جا کر اپنے خیالات پھیلانے اور ریشہ دوانیاں کرنی شروع کردیں۔ چونکہ انہوں نے فیصلہ کیا تھا
کہ ہمیشہ اپنے اصول کے لئے حملہ کا پہلو اختیار کرنا چاہئے دفاع کا نہیں اِس لئے انہوںنے اپنے ایجنٹ جرمنی اور جاپان اور اٹلی وغیرہ میں بھجوانے شروع کردیئے اور بیرونی ممالک میں ان کا نام کمیونسٹ پڑا۔ پنجاب میں بھی کمیونسٹ پائے جاتے ہیں، ہندوستان کے باقی صوبہ جات مثلاً بہار وغیرہ میں بھی ہیں۔ اس طرح مارکس(بنی اسرائیلی النسل اَلْمانوی المَوْلدْ) کے اصول کی حکومت روس پر ہوگئی اور یہ تحریک اِس رنگ میںجاری ہوگئی کہ اس کے نتیجہ میں ہر شخص کو روٹی کپڑا ملے گا، غربت دُور ہوگی اور امراء اور غرباء میں مساوات قائم ہوجائے گی چونکہ اِس تحریک کا اثر آہستہ آہستہ ساری دنیا پر پڑنے لگا اِس لئے اِس تحریک کا ایک اَور نتیجہ بھی برآمد ہؤا۔
یورپ میں بالشوزم کا ردِّعمل تین تحریکات کی صورت
میں یعنی فیسزم، ناٹسزم اور فیلنگس کا آغاز
وہ یہ کہ جب بالشوزم کے ایجنٹ سارے ملکوں میںپھیل گئے اور وہ دوسرے ممالک کو بھی اِس تحریک کے زیر اثر
لانے لگے تویورپ کے بعض دوسرے ممالک جیسے جرمنی اور اٹلی جو اس بات کی خوابیں دیکھ رہے تھے کہ موجودہ طاقتور حکومتوں کے زوال پر دُنیا کی سیاست اور اقتصادپر قابض ہوں گے انہوں نے اس میںاپنے خواب کی تخریب دیکھی۔ یہ ممالک سوچ رہے تھے کہ فرانس، انگلستان اور امریکہ بہت دیر تک دُنیا پر حکومت کر چکے ہیں اور اب ایک لمبے عرصہ کی حکومت کے بعد اِن میں تعیُّش پیدا ہوچکاہے اور یہ حکومتیں کمزور ہورہی ہیں اب دُنیا پر حکومت کرنا ہمارا حق ہے۔ پس جرمن، اٹلی اور سپین والے جو یہ خوابیں دیکھ رہے تھے کہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی حکومتیں اب بوڑھی ہوچکی ہیں اُن کی جگہ اب ہمیں موقع ملنا چاہئے تا کہ ہم بھی حکومت کا مزااُٹھائیں وہاں جب یہ تحریک پہنچی توان کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی۔ اُن کی حالت ایسی ہی تھی جیسے چیلیں اور گِدھیں جب کسی بَیل کو دَم توڑتا ہؤا دیکھتی ہیں تو بڑے مزے سے اِس انتظار میں بیٹھ رہتی ہیں کہ کب یہ بَیل مرے کہ ہم اسے نوچ نوچ کر کھاجائیں اسی طرح جرمن اور اٹلی والے دیکھ رہے تھے کہ کب انگلستان، فرانس اور امریکہ کا زور ُٹوٹے کہ ہم اُن کی حکومتوں پر قابض ہوجائیں اور جس طرح ایک لمبے عرصہ تک انہوں نے دُنیا کی دولت سے فائدہ اُٹھایا ہے اِسی طرح ہم بھی اُٹھائیں۔ ان لوگوں کو اِس تحریک سے سخت تشویش پیدا ہوئی کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں آئندہ حکومت ملے اور یہ تحریک سب حکومتوں کو تباہ کرنا چاہتی ہے نتیجہ یہ ہؤا کہ اِس تحریک کا ردِّ عمل ان ممالک میںپیدا ہؤا۔ چنانچہ اٹلی میں مسولینی کے ذریعہ فیسزم پیدا ہؤا، جرمنی میں اِس کا توڑ ہٹلر نے ناٹسزم کے ذریعہ نکالا اور سپین میںفرینکو اور فیلنگس تحریک نے سر اُٹھایا۔
بالشوزم کے مقابلہ میںنئی تحریکات کا مقصد
اِن تینوں تحریکات کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ تھا بالشوزم کا مقابلہ کرنا۔ انہوں
نے سمجھا کہ اگر یہ خیالات لوگوں میں پھیل گئے تو ہماری ترقی بالکل رُک جائے گی۔ چونکہ عوام الناس پر بالشویک تحریک کا اثر لازمی تھااِس لئے غرباء اِس تحریک کے حامی تھے کیونکہ وہ کہتے تھے اس ذریعہ سے ہمیں کپڑے ملیں گے، کھانا ملے گا، دواملے گی اور ہماری تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔ دُور کے ڈھول ہمیشہ سہانے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کئی لوگ بالشویک تحریک کے حامی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اِس حکومت میں سرکار کے آدمی ہر شخص کے پاس آتے اور اُسے سِلا سِلایا پاجامہ اور سِلی سِلائی قمیص دے دیتے ہیں، اِسی طرح کھانے کے لئے جس قدر غلّہ ضروری ہو وہ دے دیتے ہیں یا اَورجن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے حکومت فوراً مہیّا کردیتی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر یہ تحریک جاری ہوجائے تو دُنیا کاتما م موجودہ نظام توڑ کربے شک ہر شخص کوروٹی کپڑا ملے گا لیکن جو بچے گاوہ سرکارلے جائے گی مگرعام لوگ اِن باتوں کو نہیں دیکھتے وہ صرف اتنا دیکھتے ہیں کہ اِس تحریک کے نتیجہ میں ہمیں روٹی کپڑا ملے گا اور کوئی شخص ننگا یا ُبھوکا نہیں رہے گا۔
اٹلی اور جرمنی کی طرف سے بالشوزم کے خلاف اور ناٹسزم
اور فیسزم کی حمایت میں پروپیگنڈا کے مختلف ذرائع
غرض جرمنی اور اٹلی میں بھی عوام النّاس پر اس تحریک کا اثر ہونے لگا اور لوگ
یہ کہنے لگ گئے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اس سے ہر شخص کو آرام حاصل ہوجائے گا اور دُکھ دردجاتارہے گا۔
جرمنی اوراٹلی کی طرف سے بالشوزم
کے خلاف پروپیگنڈا کا پہلا ذریعہ
آخر ہٹلر اور مسولینی نے اِس کا توڑ نکالا اور لوگوں سے کہا کہ تم فکر نہ کرو ناٹسزم اور فیسزم بھی امیروں کے مالوں پر قبضہ کرے گی اور ملک کی تمام تجارتوں اور صنعت وحرفت پر قبضہ کرکے
غریبوں کو اُن کا حق دلوائے گی۔ پس آئندہ براہِ راست مزدور اور سرمایہ دار کا تعلق نہیں ہوگابلکہ حکومت کے توسّط سے ہوگا اور اِس طرح انہیں وہ تکلیف نہیں ہوگی جو تاجروں سے پہنچتی ہے یا کارخانہ داروں سے پہنچتی ہے کیونکہ ہماری حکومتیں تجارتوں اور صنعت وحرفت پر خود قبضہ رکھیں گی اور اس طرح غریبوں کا حق انہیں دلوائیںگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو مالدار بنانے کے لئے بڑے بڑے کارخانوں کی ضرورت ہے، بڑی بڑی تجارتوں کی ضرورت ہے تاکہ مالداروں سے مال لے کر تمہاری بہتری پر خرچ کیا جاسکے اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ بیرونی ممالک سے تجارت جاری رکھی جائے اور اِس طرح اُن کے مال کو لُوٹ کر اپنے ملک کے غرباء کی ترقّی کے لئے خرچ کیاجائے مثلاً انہوں نے لوگوں سے کہا کہ تم چین کو نہیں لُوٹ سکتے۔ تم امریکہ، انگلستان یا فرانس کو نہیں لُوٹ سکتے، لُوٹنے کا طریق یہی ہے کہ ہمارے پاس بڑے بڑے جہاز ہوں، بڑے بڑے کارخانے ہوں، بڑی بڑی تجارتیں ہوں اور ہمارے تاجر باہر جائیں اور ان ممالک کے اموال لُوٹ کر لے آئیں۔ پس انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو سبق دیاکہ تم اِن بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو پھر ان سے مال چھین کر ہم تمہیں دے دیں گے۔ اگر ایسا نہ ہؤا تو وہی مثال ہوجائے گی جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پاس ایک مُرغی تھی جو روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی اُسکے دِل میں حرص پیداہوئی کہ اگر میںاسے زیادہ ِکھلائوںگا تو یہ دو انڈے روزانہ دیا کرے گی چنانچہ ایک دن اُس نے اسے خوب ِکھلایا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مر گئی اورآئندہ سونے کا انڈہ ملنا بند ہوگیا۔ یہی بات جرمنی او راٹلی کی حکومتوں نے اپنی رعایا کے کانوں میں ڈالی کہ اگر اُمراء کو ایک دفعہ لُوٹ لیا اور پھر انہیں کمانے کاموقع نہ دیا تو وہ غریب ہوجائیں گے او راُن کی لُوٹ میں تم ایک دفعہ ہی حصّہ لے سکو گے لیکن اگرتم ایک دفعہ لُوٹ لو اور پھر انہیں کمانے کی اجازت دے دو اور جب کچھ عرصہ کما چُکیں تو پھر لُوٹ لو تو اِس طرح باربار اُن کے مال تمہارے قبضہ میں آتے چلے جائیں گے۔ پس انہوں نے کہا کہ اِن بڑے بڑے تاجروں کو مال کمانے دو جب یہ مال کما کرلائیں گے تووہ تمہیں دے دیئے جائیں گے۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کادوسرا ذریعہ
دوسرے انہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو یہ بتایا کہ بالشوزم
امپیریلزم کی مخالف ہے اور چاہتی ہے کہ غیر مُلکیوںکی حکومت نہ ہو مگر حالت یہ ہے کہ انگریزوں نے ایک مدّت تک ملکوں پر حکومت کرکے دُنیا کے اموال ُخوب جمع کرلئے ہیں یہی حال امریکہ اور فرانس کا ہے کہ وہ دُنیا کی سیاست اور اقتصادپر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں مگر جب ہماری باری آئی ہے تو اب یہ دلیلیں دی جاتی ہیں کہ اس کا یہ نقصان ہے وہ نقصان ہے ہم ان دلیلوں کو نہیں مانتے۔ ہم بھی انکی طرح غیرمُلکوں پر قبضہ کریں گے اور ان کے اموال لاکر اپنے ملک کے غرباء میں تقسیم کریں گے۔ غریبوں کو یہ بات طبعاً بہت اچھی لگی اور انہوں نے بھی آخر اِس تحریک کی تائید کرنی شروع کردی۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا تیسرا ذریعہ
پھرانہوں نے اپنے ملک کے لوگوں کو بتایا کہ بالشویک تحریک
خود بخود زور نہیں پکڑ رہی بلکہ دراصل امریکہ، فرانس اور انگلستان والے اِس کی مدد کر رہے ہیں تاکہ جرمنی اور اٹلی والے ان کی دولت میں حصہ دار نہ بن سکیں۔ اس سے ملک میں بالشوزم کے خلاف اَور بھی جوش پیدا ہوگیا۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چوتھا ذریعہ
پھر انہوںنے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک اور بات بتائی اور
کہا دیکھو! اگر آج ہم اپنے ملک کے امیروں کو لُوٹ لیں گے تب بھی ہمارا اِقتصادی معیار زیادہ بلند نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی غریب ہے اور اس کے پاس دولت بہت کم ہے اور تھوڑی دولت کی تقسیم ملک کے افراد کو آسُودہ حال نہیں بناسکتی۔ فرض کرو ۱۰۰ غرباء ہوں اور پچّاس روپے ہوں توہر غریب کو آٹھ آٹھ آنے ملیں گے مگر آٹھ آنے سے اس کی مالی حالت سُدھر نہیں سکتی پس انہوں نے غرباء سے کہا کہ ہمارے ملک پہلے سے غریب ہیںاگر ان میں بالشویک تحریک آبھی جائے تب بھی سارے ملک کا اقتصادی معیار اتنا بلند نہیں ہوگا جتنا کہ بغیر بالشوزم کے انگلستان، فرانس اورامریکہ میں ہے پس بالشوزم ان ممالک کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہوگی ہاں اگر فیسزم اور ناٹسزم کی جارحانہ پالیسی کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک طرف تو ان کا طاقت پکڑنے والا نظام امریکہ، انگلستان اور فرانس کو شکست دے کر ان کی دولت کو کھینچ لائے گا اور دوسری طرف دوسرے ممالک پر قبضہ کرکے اُن کی دولت سے ان ممالک کو مالا مال کیا جاسکے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دولت کی فراوانی کے بعد نیشنل سوشلسٹ حکومت کے نظام کے ماتحت غرباء کی حالت اس سے کہیں بہتر ہوگی جتنی کہ بالشویک رواج کے ماتحت ہوسکتی ہے کیونکہ تھوڑی دولت کی تقسیم آخر ملک کے ہر فرد کو آسُودہ نہیں بنا سکتی مگر زیادہ دولت کی تقسیم نیشنلسٹ انتظام کے ماتحت ملک کے تمام افراد کو زیادہ سُکھیا بنادے گی۔
اٹلی اور جرمنی ؔ میں ناٹسزم اور فیسزم کی قبولیّت
یہ سارے نظر یّے ایسے تھے کہ باوجود اِس کے کہ
اٹلی، جرمنی اور سپین میں بالشوزم کے ایجنٹ موجود تھے، لوگوں نے ناٹسزم اور فیسزم کی طرف توجّہ کرنی شروع کردی کیونکہ انہوں نے کہا ہمارا پیٹ فیسزم اور ناٹسزم سے زیادہ بھرتاہے بالشوزم سے زیادہ نہیں بھرتا۔ پس انہوں نے اپنے ملک کے لیڈروں کو طاقت دینے کا تہیّہ کرلیا تاکہ وہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کوشکست دے کر اِن ملکوں کی دولت کو کھینچ لائیں اورجرمنی، اٹلی اور سپین میں تقسیم کردیں۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا پانچواں ذریعہ یعنی
بیرونی اقتدار کے ماتحت مذاہب کو مٹانے کی کوشش
یہ جو نیشنل سوشلزم والے لوگ تھے انہوں نے ایک اور بات بھی پھیلائی اوروہ یہ کہ جس طرح
بالشویک تحریک کے ذریعہ امریکہ، انگلستان اور فرانس والے ہمیں نقصان پہنچارہے ہیں اسی طرح یہ مالدار اقوام اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا کئے رکھتی ہیں اس لئے کوئی ایسا مذہب ملک میں مقتدر نہیں ہونا چاہئے جو بیرونی اقتدار کے اثر کے نیچے ہو۔ چنانچہ اِسی بناء پر ہٹلر نے رومن کیتھولک اوریہودی مذہب کو مٹانا شروع کیا بلکہ اِس ڈرسے کہ آئندہ اسرائیلی نسل کے لوگ بالشوزم کا اثر نہ پھیلائیں کیونکہ روس میں اسرائیلیوں کو اقتدار حاصل ہے اس نے عیسائی اسرائیلیوں کوبھی تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ہٹلر یہودیوں کا اِسی لئے مخالف ہے کہ اس کا اصل یہ ہے کہ ایسے تمام مذاہب جن کے مرکز جرمنی سے باہر ہیں انہیں ملک میں طاقت پکڑنے نہیں دینا چاہئے یہی بناء اس کی رومن کیتھولک سے مخالفت کی ہے۔ باقی لوگوں کاچونکہ باہر کوئی مذہبی مرکز نہیں اس لئے وہ سمجھتا ہے ان کی نگاہ جرمنی سے باہر کسی اَور طرف نہیں اُٹھے گی۔ گویا اُن کا جومذہب ہوگا اس میںوہ مُنفرد ہوںگے خواہ اس میں کس قدر وحشیانہ احکام کیوں نہ پائے جاتے ہوں۔
بیرونی اِقتدار کے ماتحت مذاہب
کو مٹانے کی کوششوں کا نتیجہ
اس اثر کے ماتحت جرمنی میں ایسی مذہبی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں جو پُرانے اصنام پرستی کے عقائد کی طرف لوگوں کولے جاتی ہیں چنانچہ ایک تحریک جس میں جنرل لوڈن ڈروف ۵؎
اور اُن کی بیوی نے بہت سرگرمی دکھائی، یہ ہے کہ پُرانے زمانہ میں جرمن کُتّے کی ُپوجا کیاکرتے تھے اب پھر جرمنوں کو اسی طرف توجّہ کرنی چاہئے۔ یہ ہٹلر کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ ایسا طریق اختیار کروکہ کوئی قوم اپنے بیرونی مذہبی اثر سے ملک میں تفرقہ پیدا نہ کرسکے اور چاہئے کہ کوئی ایسا مذہب ملک میں نہ ہو جس کا مرکز جرمن سے باہر ہو اسی بناء پرجرمنی نے رومن کیتھولک اور یہودی مذہب کو مٹانا شروع کیاہے۔ اٹلی والوں نے ایسا نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ روم ہی رومن کیتھولک مذہب کا مرکز تھااور اس وجہ سے فاشسٹ پارٹی نے اس مذہب کی اتنی مخالفت نہیں کی مگر اس کے اقتدارکو کم کرنے کی ضرورکوشش کی تاکہ ملک کی مذہبی جماعت سیاسی جماعت کے کام میں رخنہ پیدا نہ کرے۔ بعد میں ہٹلر کے اثر کے ماتحت اسرائیلیوں کی مخالفت بھی انہوں نے شروع کردی کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ ایک طرف یہ قوم بالشویک اثر کو پھیلاتی ہے اور دوسری طرف برسرِ اقتدار حکومتوں میں خاص نفوذرکھنے کی وجہ سے اُن کے اثر کو مضبوط رکھتی ہے۔ سپین نے بالشویک اور موجود ہ برسرِ اقتدار اقوام کی مخالفت توکرنی شروع کی لیکن یہودیوں کی ابھی اتنی مخالفت شروع نہیں کی جتنی جرمنی اور اٹلی میں ہوتی ہے۔
بالشوزم کے خلاف پروپیگنڈے کا چھٹا ذریعہ یعنی
آرین نسل کے لئے استحقاقِ حکومت کے خیال کی اشاعت
پھر ایک او ر نظریہ ہٹلر اور مسولینی نے پبلک کوجوش دلانے اور اُن کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے یہ پھیلایا
کہ دُنیا میں ارتقاء کے مسئلہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ دُنیا میں سب سے بہتر چیز ہی آگے بڑھتی ہے اور اس کے بڑھنے سے ہی دُنیا کا ہر اگلا قدم ترقی کی طرف جاتا ہے۔ اسی نظریہ کے ماتحت اس نے کہا کہ چونکہ آرین نسل سب قوموں سے زیادہ قابل ہے اِس لئے جرمن نسل کو خصوصاً اور باقی آرین نسلوں کو عموماً آگے لانا چاہئے۔ اِس موقع پر مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہٹلر اِس بات میں پنڈت دیا نند کا شاگرد ہے کیونکہ سب سے پہلے پنڈت دیانند صاحب نے ہی یہ خیال پھیلایا کہ آرین نسل سب نسلوں سے اعلیٰ ہے بہرحال جرمن چونکہ آرین نسل میں سے ہیں او رآرین نسل ہٹلر کے اصول کے مطابق سب سے اچھی ہے اِس لئے ہٹلر نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیداکیا کہ جو اعلیٰ نسل ہو اُسے ہی حکومت ملنی چاہئے۔ وہ کہتا ہے دیکھو! لوگ اچھا گھوڑا پیدا کرتے ہیں، اچھی گائے پیداکرتے ہیں او رچاہتے ہیںکہ ناقص گھوڑوں اور ناقص گائیوں کی بجائے اعلیٰ عمدہ نسل کے گھوڑے او رگائیں رکھیں پھر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت میں اِس امر کو مدِّ نظر نہیں رکھا جاتا اور اِس بات کو نظر انداز کیاجاتا ہے کہ دُنیا میں زیادہ قابل لوگ ہی حکومت کے اہل ہوتے ہیں۔ چونکہ اِس وقت ہماری نسل سب سے اعلیٰ ہے اِس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم دوسروں کو غلام بنا کر رکھیں جیسے انسان گدھے کو غلام بنا کر رکھتاہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ وہ گدھے کے تابع ہوکر چلے جس طرح گدھے کو اپنے ماتحت رکھنا ظلم نہیں کہلا سکتا اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم لوگوں کو اپنے ماتحت کریں اور اُن پر حکومت کریں۔ یہ نظریہ بھی لوگوں کو بڑا پسند آیا اور اِس طرح ہٹلر اورمسولینی کے ساتھ اُن کا تمام ملک ہوگیا۔خلاصہ یہ کہ غربت کے دُکھ درد کو دُور کرنے کے لئے اِس وقت تین تحریکیں دُنیا میں زور پر ہیں۔
سوشلزم کے ذریعہ انگلستان،فرانس
اور امریکہ کے مزدوروں کو فائدہ
اوّل برسرِ اقتدار ممالک کی سوشلزم جو آہستہ آہستہ اپنے ملکوں میں غرباء کو زیادہ حقوق دلانے اورحکومت کو ملک کی دولت پر زیادہ تصرّف دلانے کی تائید میں ہے یہ تحریک انگلستان، فرانس
او رامریکہ میں جاری ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مزدور پیشہ لوگوں کو حکومت میں زیادہ تصرّف دلایاجائے، غرباء کو زیادہ حقوق دلائے جائیں اور ملک کی تجارت کو اتنا بڑھایا جائے کہ غرباء کی غربت دُور ہوجائے۔ اِن ممالک میں چونکہ یہ تحریک ایک عرصہ سے جاری ہے اِس لئے اس کا ان ممالک کے غرباء کو اِس حد تک فائدہ ضرور ہؤا ہے کہ ہمارے ملک کا امیر اور انگلستان کا غریب دونوں برابر ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کی تنخواہ تین سَوروپے ہو جائے تو وہ اپنے آپ کورئیس سمجھنے لگتا ہے۔ ہمارے ملک میںبڑا ُعہدہ ڈپٹی کاہے یا جج کا ہے اور سب جج اور ڈپٹی کو اڑھائی سَوروپے تنخواہ ملا کرتی ہے مگر یہ انگلستان میں ایک مزدور کی تنخواہ ہے۔ امریکہ میںتو اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیںوہاں بعض جگہ معمولی مزدور کی ماہوارتنخواہ ڈیڑھ ڈیڑھ سَو دو دو سَو ڈالر ہوتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ پانچ سَویا سات سَوروپیہ ماہوار مگر وہ کہلاتا مزدور ہے۔ غرض انہوں نے ایک تو معیارِ زندگی کو بڑھالیا ہے دوسرے انہوں نے یہ اصول مقرر کیا ہؤا ہے کہ ملک کی تجارت اور اقتصادی حالت کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے اِس طرح ملک کی دولت بڑھے گی اور جب ملک کی دولت بڑھے گی تو غرباء کو بھی ترقی حاصل ہوگی۔یہ انگلستان، فرانس اور امریکہ کی تحریکِ سوشلزم کے نتائج ہیں لیکن اس تحریک کی ہمدردی زیادہ تر اپنے ملک کے غرباء کے ساتھ ہے۔ وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ دوسرے ممالک کی بھی کچھ اَشک شوئی کریں مگر یہ نہیں چاہتے کہ دوسرے ممالک میں جو اُن کی اقوام کو نفوذ اور اقتدار حاصل ہے وہ مِٹ جائے۔ ہندوستان کا سوال آجائے تو وہ ضرور اَشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے مگر جب بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کو کچھ دے دیا جائے اُس وقت وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے اقتدار میں کوئی فرق آئے۔ گویا ان کا ہندوستانیوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسے ایک پالتو جانور کو اچھی غذا دی جاتی ہے۔ پالتو جانور کو اچھی غذادینے والا اچھی غذا تو دیتا ہے مگر اپنی غذا کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا اسی طرح یہ لوگ ہندوستان کو جب بھی کوئی حق دینا چاہتے ہیں ساتھ ہی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی امپیریلزم کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ آج ہمارا مزدور چارسَو روپیہ ماہوار لیتا ہے اگرکَل وہ دوسَو روپیہ تک پہنچ گیا تو ہماری حالت بھی وہی ہوجائے گی جو ہندوستان اور افغانستان کے غرباء کی ہے۔ اِس تحریک کے دوعظیم الشّان نقصانات ہیں۔
سوشلزم تحریک کے دو عظیم الشان نقصانات یعنی غیر ملکوں
سے ہمدردی کا فُقدان اور مذہب سے بے توجہّی
اوّل اِس تحریک کو ساری دنیا سے ہمدردی نہیں بلکہ اپنے اپنے ملک سے ہمدردی ہے۔
گویا یہ تحریک مخفی امپیریلزم کی شریکِ حال ہے اور انٹرنیشنلزم کا ساتھ صرف اس لئے دیتی ہے کہ دوسری اقوام آگے نہ بڑھیں۔ دوسرا نقص اِس تحریک میں یہ ہے کہ اس میں صرف دُنیوی پہلو کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے مذہبی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ گویا اگر پہلے نقص کو یہ تحریک دُور بھی کر دے اور اِس نظام کے اصول میں ساری دنیا سے ہمدردی کرنا شامل کرلیا جائے تب بھی مذہب کا خانہ خالی ہے حالانکہ جسمانی ضرورتوں سے مذہبی اور دینی ضرورتیں زیادہ اہم ہؤا کرتی ہیں۔ یہ لوگ مذہب کے دشمن نہیں مگر انہیں مذہب سے ہمدردی بھی نہیں اور جب ہمدردی نہیں تو انہوں نے مذہب کے لئے خرچ کیا کرنا ہے؟
دوسری تحریک اِس مرض کا علاج کرنے کے لئے وہ جاری کی گئی ہے جو روس میں پائی جاتی ہے اور جس کا نقطۂ مرکزی یہ ہے کہ انفرادی جدّوجہد کو بالکل مٹا دیا جائے اور جس قدر دولت ہو وہ حکومت کے ہاتھ میں آجائے جو لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں ان کے لئے تو مناسب گذارے مقرر کر دئیے جائیں مگر خالص علمی اور مذہبی کام کرنے والوں کو عضوِ بیکار قرار دے کر حکومت کی مدد سے محروم کردیا جائے اور عام گذارہ سے زیادہ بچی ہوئی تمام دولت حکومت کے ہاتھ میںہو اور کام اور مقام کا فیصلہ بھی حکومت کرے او رماں باپ کو مذہب کی تعلیم دینے کا اختیار نہ دیا جائے اور اس تحریک کوساری دنیا میں پھیلا یا جائے یہاں تک کہ دنیا کی سب اقوام اس تحریک میںشامل ہو جائیں۔ گو یہ لوگ اقتدارِ عوام کے حامی ہیں مگر شروع میں ایک لمبے عرصے تک یہ اقتدار عوام کو سونپنے کے لئے تیار نہیں۔یہ تحریک روس میں بالشوزم اور کمیونزم (COMMUNISM)اور دوسرے ممالک میںکمیونزم کہلاتی ہے۔ اِس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں:-
کمیونزم کے سات اصولی نقائص۔ پہلا نقص
یعنی انفرادی جدّوجہد کے رستہ کی بندش
اوّل۔ انفرادی جدّوجہد کا راستہ بالکل بندکردیاگیاہے یہ اس تحریک میںایک خطرناک نقص ہے جو گواِس وقت محسوس نہیں کیاجاتا مگر بعد میں کسی
وقت ضرور محسوس کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ مادہ رکھا ہے کہ جس کام سے اُس کا ذاتی فائدہ ہو یا جس کام کے نتیجہ میں اُس کے ذریعہ سے دوسروں کا فائدہ ہو اس میں تو وہ دلچسپی لیتا ہے مگر جس کام کا فائدہ اُسے یا دوسروں کوکسی دوسرے کے ہا تھ سے پہنچے اُس میں وہ زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔ جب تم کسی کے دماغ سے اِس رنگ میں کام لو گے کہ خواہ اس کام کا نتیجہ اُسے نظر آئے یانہ آئے وہ کرتا چلاجائے تویہ لازمی بات ہے کہ وہ اس کام میں دلچسپی نہیں لے گا کیونکہ دلچسپی نتیجہ نظرآنے سے ہوتی ہے۔ اب توجو شخص تعلیم حاصل کرتاہے وہ سمجھتاہے اگر میں ایم۔اے ہوگیا یا یونیورسٹی امتحان میں فرسٹ (FIRST) نکل آیا تو مجھے کوئی اعلیٰ ملازمت مِل جائے گی یا کوئی خیال کرتاہے کہ مَیں فوج میں لیفٹیننٹ ہوجائوں گا، کوئی خیال کرتاہے مَیں ای۔ اے۔ سی ہوجائوں گا، کوئی خیال کرتاہے مَیں بڑاتاجر ہوجائوں گا اوراِس طرح خودبھی روپیہ کمائوں گااور اپنے ماں باپ اور بیوی بچّوں کی بھی خدمت کروںگا۔ اِس وجہ سے وہ اپنی تعلیم میں بڑی دلچسپی لیتاہے لیکن فرض کرو یہ محرّک جاتا رہے اور حکومت فیصلہ کردے کہ جس قدر طالبِ علم پڑھ رہے ہیں سب کو پندرہ پندرہ روپے ملیں گے جو پرائمری پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو پرائمری فیل ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے، جو ایم۔اے پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے اور جو انٹرنس پاس ہو اُسے بھی پندرہ روپے ملیں گے تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ پیدا ہوگا کہ دماغ کی کاوش، محنت اور جوش سب ختم ہوجائے گا اور ایک عام انسان کہے گا مجھے محنت کی کیا ضرورت ہے۔ میرا دوست روز سینما دیکھتا ہے مَیں بھی کیوں سینمانہ دیکھاکروں اور کیوں ایم۔ اے بننے کی کوشِش کروں۔ ایف۔اے تک ہی تعلیم حاصل کرکے کیوں نہ ختم کردوں۔ جب مجھے آخر میں پندرہ روپے ہی ملنے ہیں تو زیادہ تعلیم حاصل کرنے اور زیادہ جدّوجہد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہت تھوڑی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جنہیں علم سے ذاتی شغف ہو اور جنہیں اگر مارپیٹ کر بھی تعلیم سے ہٹانا چاہیںتووہ نہ ہٹیں۔ زیادہ تر ایسے لوگ ہی نکلیں گے جو ان حالات میں تعلیم سے دلچسپی لینا ترک کر دیں گے اسی طرح ہر فن کے لوگ اپنے اپنے فن میں دلچسپی لینا ترک کردیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ انسانی دماغ گِرنا شروع ہوجائے گا اور وہ خواص جو نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں مٹ جائیں گے۔
یہ مت سمجھو کہ باپ کے خواص بیٹے میں منتقل نہیںہو سکتے کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ اچھے حساب دان ہوں اُن کی اولاد میں عام طور پر اچھے حساب دان پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص جس فن کاماہر ہووہ فن بِالعموم ورثہ کے طور پر اُس کی اولاد میں منتقل ہوجاتاہے۔ اِسی وجہ سے بعض خاندان اور بعض اقوام خاص خاص علوم اور خاص خاص فنون میںماہر سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اٹلی میں اچھے مصوّر اور اچھا باجا بجانے والے پائے جاتے ہیں، کشمیری کھانا پکانے کا فن اور خوشخطی کا فن خوب جانتے ہیں، یہی حال بعض اَور قوموں کا ہے۔ یہ چیز نسلی طور پر بھی ترقی کرتی ہے۔ چنانچہ جو شخص بہادر ہو اُس کا بیٹا بِالعموم بہادر ہی ہوتاہے پنچابی میں اِسے تُخْمِ تأثیر کہتے ہیں۔ اور سائنس سے بھی ثابت ہوتاہے کہ انسان کے اخلاق کے ذرّات خواہ وہ اچھے ہوں یا بُرے، نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ جس قسم کے اخلاق کسی انسان میں پائے جاتے ہیں اُسی قسم کے ذرّے اُس کی نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ شجاعت، صداقت، عفّت، علم سے شغف یا اسی قِسم کے اَور اَخلاق نسلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ذرّات کبھی دوسری پُشت میں، کبھی چوتھی پُشت میں اور کبھی آٹھویں یا دسویں پُشت میں ظاہر ہوجاتے ہیں حالانکہ وہ ذرّات اُس کے کسی پڑدادا بلکہ نکڑ دادا میں پائے جاتے تھے۔ پنچابیوں نے اسی سے تُخْمِ تأثیر کا اصل نکالاہے۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صحبت کا اثر بھی بہت بڑا ہوتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ نسلاًبعد نسلٍ بعض اخلاق وصفات منتقل ہوتی چلی جاتی ہیں مگر یہ چیز قدرتی طور پر اُن قوموں میں بہت کم ہوجائے گی جن پر بالشویک تحریک کا اثر ہو کیونکہ ترقی کے لئے وسعتِ خیال کے مادہ کا ہونا اور کسی محرّک کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور اس تحریک میں اس محرّک کو بہت کمزور کردیاگیاہے۔
کمیونزم کا دوسرا نقص یعنی جبرو اِکراہ اور اس کا نتیجہ
دوسرانقص اِس تحریک میں یہ ہے کہ جبر کا دروازہ کھول
کر فساد کوجاری کردیاگیا ہے۔ اگراس تحریک کے بانی یہ کرتے کہ آہستگی سے اُمراء کو عادی بناکر اُن سے دولت لے لیتے تواس میںکوئی حرج نہ تھا مگر انہوں نے یکدم اُن کی دولت کو لُوٹ لیا اور وہ جو ہر وقت نوکروں کے جمگھٹے میں رہتے تھے انہیںاس سے محروم کردیا۔ گویا دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ یہ سلوک کیاکہ انہیں محلّات سے اُٹھا کرچوہڑوں کے مکانوں میں بھیج دیا۔ اس قسم کے تغیرات کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ فساد شروع ہو جاتاہے کیونکہ ہر تغیر سے پہلے اُس کے مناسبِ حال ماحول پیدا کرنابھی ضروری ہوتاہے اچھا باغبان جب کسی درخت کو اُکھیڑ تا ہے تو مناسب ماحول میں اُکھیڑتا اورمناسب ماحول میں ہی دوسری جگہ لگاتاہے اگر اِس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ درخت کبھی پھل نہیں لا سکتا۔ اِس تحریک میں چونکہ اِس اصل کو مدِّ نظر نہیں رکھا گیا اس لئے نتیجہ یہ ہؤا کہ پُرانے اُمراء بھاگ بھاگ کردوسرے ملکوں میں چلے گئے اوروہاں کے رہنے والوں کو روس کے خلاف اُکسانے لگ گئے۔ کبھی امریکہ کو کبھی انگلستان کو اورکبھی فرانس کو تاکہ وہ اِن ملکوں کو اُکساکرروس کے خلاف کھڑا کردیں اور اس طرح اگر وہ خود تباہ ہوئے ہیں تو روس بھی تباہ ہوجائے۔
کمیونزم کا تیسرا نقص یعنی مذہب کی مخالفت اور اِس کا نتیجہ
تیسرے انہوں نے مذہب کی مخالفت
کرکے سب مذہبی دُنیا کواپنا مخالف بنالیا ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ جو لوگ مذہب سے محبت رکھنے والے ہونگے وہ اس تحریک کے کبھی حامی اور مؤیّد نہیں ہوں گے۔
کمیونزم کا چوتھا نقص یعنی مُلک میں ڈکٹیٹری کی ترویج
چوتھے انہوںنے ڈکٹیٹری کے لئے رستہ کھولا ہے۔
بے شک یہ لوگ اصولاً اقتدارِ عوام کے حامی ہیںمگر جیسا کہ مَیں ابھی بتاچکا ہوں وہ شروع میں ہی یہ اقتدار عوام النّاس کو سونپنے کے لئے تیار نہیں بلکہ کہتے ہیں ابتداء میں ڈکٹیٹر شپ ضروری چیز ہے مگر اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ لینن کے بعد سٹالن ڈکٹیٹر بن گیا، سٹالن۶؎ کے بعد مولوٹوف ۷؎ بن جائے گا پھر کسی اَور ٹوف کی باری آجائے گی۔ اِس طرح یہ تحریک عملی رنگ میں ڈکٹیٹر ی کے لئے راستہ کھولنے والی ہے۔
کمیونزم کا پانچواں نقص یعنی علم کے راستہ میں رُکاوٹ
پانچواں اِس تحریک کا ایک لازمی نتیجہ علم کے
راستہ میں رُکاوٹ کا پیدا ہونا ہے۔ اِس رنگ میں بھی کہ جب ہر شخص کو پندرہ پندرہ یابیس بیس روپے ملیں تو عِلمی ترقی کی تڑپ اُس کے دل میں نہیں رہ سکتی اوروہ سمجھ لیتا ہے کہ خواہ مَیں تھوڑا عِلم حاصل کروں یا بہت جب مجھے معاوضہ میرے گذارہ کے مطابق مِل جائے گا تو مَیں زیادہ علم کیوں حاصل کروں۔ اور اِس رنگ میں بھی کہ دماغی اور علمی ترقی کے لئے دوسرے ملکوں میںجانا اوران کے حالات کا دیکھنا ضروری ہوتاہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہی قومیں دُنیا میں ترقی کیا کرتی ہیں جن کے افراد کثرت سے غیر ملکوں میںجاتے اور وہاں سے مفید معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اگر چند مخصوص آدمی غیر ممالک کی سیر کے لئے جائیں تو وہ کبھی بھی وہ معلومات حاصل نہیں کرسکتے جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام کے لوگ غیر ممالک میں جا کر حاصل کر سکتے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دماغ میں مختلف قسم کی قابلیّتیں رکھی ہیں۔ کسی بات میں چینی دماغ اچھا کام کرتا ہے، کسی بات میں جاپانی دماغ اچھا کام کرتاہے، کسی بات میں ایرانی دماغ اچھا کام کرتاہے، کسی بات میں فرانسیسی دماغ اچھا کام کرتا ہے اور کسی بات میں ہندوستانی دماغ اچھاکام کرتا ہے۔ ڈھاکہ کی ململ بڑی مشہور تھی جو یہاں کے جولاہے تیار کیا کرتے تھے۔ انگریزوں نے بڑی بڑی مشینیںنکالیں اور اچھے سے اچھے کپڑے تیار کئے مگر ڈھاکہ کی ململ وہ اب تک نہیں بنا سکے۔ اِسی طرح مصری لوگ ممی بنانے میں بڑے مشہور تھے۔ اب بظاہر انگریز اور فرانسیسی علم میں بہت بڑھے ہوئے ہیں مگر سارا زور لگانے کے باوجود وہ اب تک ویسا مصالحہ تیار نہیںکر سکے جو مصری تیار کیا کرتے تھے۔ مَیں نے خود ممی کی ہوئی لاشیں دیکھی ہیں ایسی تازہ معلوم ہوتی ہیں گویا ابھی انہوں نے دَم توڑا ہے حالانکہ انہیں فوت ہوئے کئی کئی ہزار سال گزر چکے ہیں یہاں تک کہ اُن کے جسم کی چکنائی تک صاف نظر آتی ہے اِس کے مقابلہ میں اب جو لاشوں کی حفاظت کے لئے مصالحہ لگایا جاتا ہے وہ تھوڑے عرصہ میں ہی خراب ہوجاتاہے۔ اب دیکھو یہ مصریوں کے دماغ کی ایک ایجاد تھی جس کا اب تک لوگ پتہ نہیں لگاسکے۔ اِسی طرح دہلی میں ایک حمام تھا جس کے متعلق کہا جاتاہے کہ اُس کے نیچے ایک دِیا جلا کرتاتھا او ر اُس دِیے کی وجہ سے وہ حمام ہمیشہ گرم رہتا۔ کہتے ہیں جب دہلی میں انگریزوں کا تصرّف بڑھا تو انہوں نے کہا ہم اسے توڑ کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ حمام کس طرح ایک دِیے سے گرم ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اُسے توڑ دیا مگر پھر دوبارہ اُن سے ویسا نہیں بن سکا۔ تو مختلف دماغ مختلف کاموں سے شغف رکھتے ہیں جب وہ آپس میں ملتے ہیں توایک کے دماغ کو دوسرے سے روشنی ملتی ہے اور اِس طرح ذہنی اور علمی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ جب ہم کسی زمیندار کے پاس بیٹھتے اور اس سے باتیں کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں، بڑھئی کے پاس بیٹھتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ اس بڑھئی کی کیا کیا خصوصیات ہیں اور اُن سے مِل کر اور باتیں کرکے ہمیں کئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور ہماری رُوح میں بھی زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اِسی طرح جب ہم کشمیر یا یُو۔ پی میں چلے جاتے ہیں تو ہمیں نیا علم حاصل ہوتاہے اِسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ۸؎ یعنی اگر تمہیں توفیق ملے توتم دُنیا کی سَیر کیا کرو تاکہ تمہاری معلومات میںاضافہ ہو اور تمہاری دماغی اور علمی ترقی ہو۔ جب کوئی شخص عرب جائے گاتو ایک طرف وہ سمندر کی سَیر کا لُطف اُٹھائے گا، دوسری طرف وہ اِس سفر میں ایران اور عراق اور دوسرے کئی ملکوں کو دیکھ لے گا اور اِس طرح بہت سی مفید معلومات حاصل کرلے گا لیکن اگر سارے ملک کے لوگوں کو ایک جیسے پیسے ملیں، ایک جیسا نمک اور ایک جیسا مرچ مصالحہ ملے تو وہ غیر ملکوں کی سَیر کے لئے کس طرح جاسکتے ہیں۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ کوئی مالدار ہوتاتھا اور کوئی غریب۔ مالدارسَیر کے لئے غیر ممالک میںچلے جاتے تھے لیکن اِس تحریک کے بعد جب سب کو ایک معیار پر کھڑا کردیاجائے گا اور ان کی مالی حالت ایسی ہوگی کہ سب کو صرف گذارہ کے مطابق اخراجات ملیں گے تووہ غیر ملکوں کی سیاحت کِس طرح کریں گے او ر جب سیاحت نہیں کریں گے تو علمی ترقی کا یہ دروازہ اُن پر بند ہوجائے گا حالانکہ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ کچھ جماعتیں ایسی ہوں جو اپنا فارغ وقت اس کام میں صرف کریں کہ غیر ملکوںمیںجائیں،سَیریں کریں اور وہاں کے اچھے خیالات اپنے ملک میں پھیلائیں۔
وہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے کارندے ایسے سفر کرسکتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ حکومت کے افراد جو سیاست میں اچھے ہوں وہ سیاحت میں بھی اچھے ہوں۔ اگر عام لوگ غیر ملکوں کی سَیر کے لئے جائیں تووکیل اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئے گا، ڈاکٹر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئیگا، انجینئر اپنے دماغ کی مناسبت کے لحاظ سے کوئی َجنس لے آئے گا،مصوّر اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گا، شاعراپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گا، اِسی طرح کوئی مذہبی لیڈر جائے گا تووہ اپنے دماغ کی مناسبت سے کوئی َجنس لے آئے گالیکن قونصل خانہ کے سیاسی دماغ کیا لائیں گے؟ وہ تو اپنے ماحول میں محدود ہوں گے اور اِس وجہ سے اُن کی نظر بھی نہایت محدود ہوگی وہ تو اگر لائیں گے تو چند چیزیں ہی لائیں گے او راِس طرح ان کی وجہ سے ملک کو وہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا جو عام لوگوں کی سیاحت سے پہنچ سکتا ہے۔ اگروہ کہیںکہ حکومت خود اپنے خرچ پر عام لوگوں کو اِس غرض کے لئے بھیج سکتی ہے تو سوال یہ ہے کہ اِس طرح پھر تفرقہ پیدا ہوجائے گا او رعدمِ مساوات کا وہ اصول قائم ہوجائے گا جس کو توڑنے کے لئے یہ تحریک جاری کی گئی تھی او ر یہ سوال پیداہوگا کہ کیا زید کا دل امریکہ جانے کو چاہتاہے اور بکر کا دِل نہیں چاہتا۔ انصاف تو پھر بھی رہ جائے گا اور اِس طرح جو کچھ کیاجائیگا اِس تحریک کی اصل رُوح کے خلاف کیا جائے گا۔
کمیونزم کاچھٹا نقص یعنی قومی افتراق
چھٹے اِس تحریک کے نتیجہ میں قوم کے کئی ٹکڑے ہوجائیں گے اور امیروں کا قتل
شروع ہوجائے گا۔
کمیونزم کاساتواں نقص
ساتویں بالشویک اصول میںایک اَور بڑی غلطی یہ ہے کہ اِس کا زوال نہایت خطرناک ہوگا۔دوسری تحریکات میںتو یہ
ہوتا ہے کہ ایک بادشاہ مرتاہے تو اُس کی جگہ دوسرا بادشاہ تختِ حکومت پر بیٹھ جاتاہے، ایک پارلیمنٹ ٹوٹتی ہے تودوسری پارلیمنٹ بن جاتی ہے لیکن بالشویک تحریک میں اگر کبھی کمزوری آئی تو یہ یکدم تباہ ہوگی اور اِس کی جگہ زار ہی آئے گا کوئی دوسری حکومت نہیں آئے گی کیونکہ اس میں نیابت کی کوئی صورت نہیں جیسے دوسری تحریکات میں ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ قابلیت کو مٹا دیا گیا ہے اور جب قابلیت کو مٹا کر دماغ کو نیچا کردیاجائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ جب تنزّل ہوگا تو اُس وقت کوئی ایسا دماغ والا نہیں ہوگا جو اِس تنزّل کو دُور کرسکے۔پس جب یہ تحریک گِرے گی کُلّی طور پر گِرے گی جیسا کہ فرانس میں ہؤا کہ جب فرانس کے باغیوں میں تنزّل پید اہؤا تواُن کی جگہ نپولین جیسے کا ُمل الْاِقتدار آدمی نے لی خود جمہور میں سے جمہوریّت کا کوئی دِلدادہ یہ جگہ نہ لے سکا۔
نیشنلسٹ سوشلزم اور اس کے نقائص
تیسری تحریک نیشنلسٹ سوشلزم کی ہے۔ اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ غرباء کو کچھ حقوق تو
ضرور دئیے جائیں لیکن فردی جوہر کوبھی کُچلا نہ جائے اور چونکہ اس تحریک کے حامی فردی جوہر کو اپنی اقوام سے مخصوص سمجھتے ہیں اِس لئے ان کی پالیسی یہ ہے کہ جرمن اور رومی اور ہسپانوی غریبوں کو تو اُبھارا جائے لیکن باقی اقوام کو دباکر اُن کی دولت سے جرمن، رومی اور ہسپانوی باشندوں کو مالا مال کیاجائے۔ اب اِس آخر ی تحریک میں جاپان بھی آکر شامل ہوگیا ہے۔ اِس تحریک کے اصولی نقائص یہ ہیں۔
پہلا نقص
اوّل یہ تحریک چند اقوام کی بہتری کے حق میں ہے ساری دُنیا کی بہتری کے حق میں نہیں ہے۔
دوسرا نقص
دوم اس تحریک میں بھی رُوحانی سُکھ یعنی مذہب کے لئے کوئی راستہ نہیں رکھا گیا بلکہ یہ بھی مذہب پر کئی قِسم کی پابندیاں عائد کرتی ہے حالانکہ وہ مذہب ہی
کیا ہے جس پر انسانوں کی طرف سے پابندیاں عائد کی جاسکیں۔ مذہب تو خدا کی طرف سے نازل کیا جاتاہے اور وہی اس کی حدود مقرر کرتاہے۔
تیسرا نقص
تیسرے اِس تحریک میں انفرادیّت کو اِتنا اُبھارا گیا ہے کہ ملک کی اجتماعی آواز کو اس کے مقابلہ میں بالکل دبادیا گیاہے حالانکہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوسکتا
ہے کہ ایک آدمی کا دماغ خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو جوبات اس کے دماغ میں آئے اس سے دوسروں کی رائے خواہ اُن کے دماغ اعلیٰ نہ ہوں بہترہو اِسی لئے ہماری شریعت نے یہ قرار دیا ہے کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوجو اہم امور میں مسلمانوں سے مشورہ لے اور جہاں تک ہو سکے اُن کے مشورہ کو قبول کرے ہاں اگرکوئی اختلاف ایسا اہم ہو جس میں وہ یہ سمجھتا ہو کہ اگر مَیں نے اِس وقت عام لوگوں کی رائے کی تقلید کی تو ملک اور قوم کو نقصان پہنچے گاتو اُس وقت وہ ان کے مشورہ کے خلاف بھی فیصلہ کرسکتاہے۔ بہر حال اسلام کے طریق کے مطابق دونوں اُمورکو بیک وقت ملحوظ رکھ لیا جاتاہے۔ ایک طرف عوام کی رائے لی جاتی ہے اور دوسری طرف جو دماغ اعلیٰ ہو اُسے اختیار دیاجاتاہے کہ وہ موازنہ کرلے اور جو مشورہ قوم اور ملک کے لئے مُہلک ہو اُسے قبول نہ کرے باقی مشوروں کو قبول کرلے۔ مگر نیشنلسٹ سوشلزم کی تحریک میں انفرادیت پرحد سے زیادہ زور دیا گیا ہے حالانکہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ سارا گائوں غلطی پر ہوتاہے اور ایک بڈھا زمیندار صحیح بات کہتا ہے اور کبھی بڈھا غلطی پر ہوتاہے اور نوجوان صحیح بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔بہر حال یہ سب اِفراط اور تفریط کی طرف نکل گئے ہیں۔
موجودہ جنگ اور اِس کا نتیجہ
موجودہ جنگ اِسی باہمی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ روس والے چاہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ قائم ہوجائے اور وہ حالات جو
روس میں پیدا ہیں وہی باقی تمام ممالک میں پیدا ہوجائیں اور انگلستان، فرانس او رامریکہ والے سوشلسٹ کہتے ہیں کہ جو دَولتیں ہم کھینچ چکے ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں ہی رہیں جرمن، روم،جاپان اور ہسپانیہ والوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائیں۔ پہلی لڑائی سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کے درمیان ہوئی۔ سوشلزم والوں نے اِس لئے جنگ کی کہ ان کے موجودہ اقتدار میں فرق نہ آئے اور نیشنل سوشلزم والوں نے اِس لئے حملہ کیا کہ صاحبِ اقتدار لوگوں کی دولت کھینچ کر اپنے ملک میں لے آئیں۔ تیسری تحریک بالشوزم کی تھی۔ جرمن والوں نے ہوشیاری کرکے اِس موقع پر روس سے سمجھوتہ کرلیا اور اُسے یہ دھوکا دیا کہ اگر برسرِ اقتدار طاقتوں کو زوال آیا تو بالشویک بھی اس لُوٹ میں حصّہ دار ہوں گے۔ بالشویکس اِس دھوکا میں آگئے اور انہوں نے نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے سمجھوتہ کرلیا لیکن جب فرانس کا زور ُٹوٹ گیا اور اِدھر مشرقی ممالک کوشکستیں ہونی شروع ہوئیں تو ہٹلر نے کچھ ضروریاتِ جنگ کی وجہ سے اور کچھ اِس خیال سے کہ انگلستان پر فوری حملہ توکیا نہیں جاسکتا اگر سپاہی بیٹھے رہے تو گھبرا جائیں گے اور کچھ اِس خیال سے کہ اب مقابلہ کرنے والا توکوئی ہے نہیں، لگے ہاتھوں بالشوزم کا بھی خاتمہ کردیں اُس نے روس پر حملہ کردیا نتیجہ یہ ہؤا کہ بالشوزم برسرِ اقتدار(اتحادی) حکومتوں سے مِل گئی اور اب دوتحریکیں ایک طرف ہیں اور ایک تحریک ایک طرف۔ اگر نیشنلسٹ سوشلزم والے جیتے تو جرمن، اٹلی، ہسپانیہ اور جاپان کے غرباء کو تو ضرور فائد ہ پہنچے گا مگر باقی اقوام کے غرباء کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوجائے گی۔ گویا چارمُلکوں سے غُربت مٹے گی اور سینکڑوں ملکوں میں پہلے سے بھی زیادہ قائم ہوجائے گی۔ اور اگر دوسرا فریق جیتاتو دُنیا کا کچھ حصّہ سوشلزم کے اثر کے ماتحت نسبتی سیاسی آزادی حاصل کرلے گا، کچھ حقوق ہندوستان کو بھی مِل جائیں گے لیکن جہاں تک تجارتی اور اقتصادی آزادی کا سوال ہے اس کے لئے ان ممالک کو لمبی جدّوجہد کرنی پڑے گی کیونکہ اس آزادی میں روک نہ صرف قدامت پسند اور لِبْرل جماعتیںہوں گی بلکہ معاشرتی معیار کے گِر جانے کے ڈرسے سوشلسٹ جماعتوں سے بھی دوسرے ممالک کا مقابلہ ہوتارہے گا مگرجہاں تک نسبت کا سوال ہے ان لوگوں کے جیتنے سے دوسرے ممالک کی حالت یقینااس سے زیادہ اچھی ہوگی جو نیشنل سوشلسٹ کے غلبہ کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
موجودہ جنگ میں انگریزوں کی فتح سے ہندوستان کافائدہ
اِس بارہ میں میری جو کچھ رائے ہے اور
جسے میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کرچکاہوں وہ یہ ہے کہ اگر جرمنی جیتاتوہمارے ملک کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہوجائے گی اور اگر انگریز جیتیں توہمارے ملک کی حالت پہلے سے یقینا اچھی ہوجائے گی۔ عام طور پر ہمارے ملک میں خیال کیاجاتاہے کہ جب غلام ہی بننا ہے تو خواہ اِن کے غلام بنے یا اُن کے اِس میں فرق ہی کیا ہے مگر یہ بات درست نہیں۔ اوراس کی تائید میں ایک بہت بڑی دلیل جس کو مَیں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں یہ ہے کہ یہ (اتحادی) طاقتیں بہت مدّت تک اقتصادی اقتدار حاصل کرنے کی وجہ سے اب اس قوّتِ اقدام کو کھو بیٹھی ہیں جو لازماً نئی بڑھنے والی قوموں میں پائی جاسکتی ہے۔ پس نئی اُبھرنے والی اقوام کا سلوک دوسرے ممالک کے لوگوں سے ُبھوکے جاٹ والا ہوگا اور برسرِ اقتدار حکومتوں کا ایک بوڑھے تاجر جیسا۔ جو تاجر بہت سا روپیہ کمالیتا ہے کنجوس تووہ بھی ہوتا ہے اوروہ بھی اپنے مال میں اَور زیادتی کا طالب رہتاہے لیکن وہ اس پر بھی خوش ہوتاہے کہ موجودہ حالت ہی قائم رہے اور کبھی کبھی اُس کے دل میں یہ خیال بھی آجاتاہے کہ اَب مَیں نے بہت کمالیا ہے اب مَیں اپنے کام سے پنشن لے لُوں۔ پس یہ جو برسرِ اقتدار حکومتیں ہیں ان میں اب اتنا جوش نہیں جتنا نئی حکومتوں میں جوش ہوسکتا ہے چنانچہ دیکھ لو کہا ں انگلستان ہے اور کہاں انگریز لوگ چین کے کناروں تک حکومت کررہے ہیں۔ اِسی طرح امریکہ کا اقتصادی اقتدار تمام دُنیا پر چھایا ہؤا ہے اور اب ان کا پیٹ اِتنا بھرا ہؤا ہے کہ چلنا پِھرنا بھی ان کے لئے مشکل ہورہاہے اور جو شخص اِس قدر سیر ہو وہ ظلم نہیں کرتا یا کم کرتاہے۔ اِس کی مثال تم ایسی ہی سمجھ لو کہ جس شخص کا پیٹ بھراہؤا ہو اُس کے سامنے اگرتم پلائو بھی رکھو تووہ دوچار ُلقمے لے کر بس کر دے گا لیکن اگروہی پلائوکی تھالی کسی ُبھوکے کے سامنے رکھو تو وہ نہ صرف یہ پلائو ہی کھاجائے گا بلکہ ممکن ہے کہ تمہارا کھانا بھی کھاجائے۔ جرمن اور رومی اور ہسپانوی اِس وقت ُبھوکے ہیں اس لئے اگران کا اقتدار آیا تووہ کچھ مدّت تک خوب بڑھ بڑھ کر ہاتھ ماریں گے اور مال ودَولت کو ُلوٹتے چلے جائیں گے جیسے ہندوستان جب انگریزوں کے قبضہ میں آیا تو انہوں نے بھی ہندوستان کی اقتصادی حالت پر خوب قبضہ جمایا تھا۔ یہی خواہش جرمن اور رومی لوگوںکی ہوگی وہ بھی کہیں گے کہ اب ہم نے اِن کانوں پر قبضہ کیا ہے اب ہم بھی یہاں کے تیل اور سونے اور دوسری چیزوں سے فائد ہ اُٹھائیں اور سَو ڈیڑھ سَو سال تک وہ ایسا کرتے چلے جائیں گے مگر انگریزوں کی مثال بُوڑھے تاجر کی سی ہے جو بڈھا ہوجاتاہے، مال بڑھانے کی خواہش تو بے شک اس کی طبیعت میں موجود ہوتی ہے مگر کبھی کبھی اسے یہ بھی خیال آجاتاہے کہ دولت بہت کمالی ہے اب پنشن لے لینی چاہئے۔ اسی طرح اِن قوموں کے دلوں میں بھی کبھی زیادہ طلبی کا خیال آ جاتاہے مگر کبھی یہ خیال بھی آجاتاہے کہ ہم نے بہت کمالیا اب قناعت کرنی چاہئے۔ اسی طرح اگرانہیں کبھی ظلم کا خیال پیدا ہوتاہے تو کبھی رحم کا خیال بھی آجاتاہے اور جن لوگوں کی دماغی حالت اِس قسم کی ہو اُن سے یقینا زیادہ آرام حاصل ہوتاہے کیونکہ وہ حکومت کرکے تھک چکے ہوتے ہیں۔
دوسرے یہ اقوام مذہب میں دخل اندازی کو پسند نہیںکرتیں اور سوائے کسی اشدّ سیاسی یا اقتصادی ضرورت کے مذہب کے بارہ میں مخفی دبائو کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ اور اگر کوئی خدا ہے اور اُس کی طرف سے رسول دنیا میں آتے رہے ہیں اور اگر اُن کی تعلیمات پر عمل ہماری اُخروی زندگی کو سنوارنے کے لئے ضروری ہے تو پھر باوجود اِس کے کہ ان اقوام کا طریقِ عمل بھی پورا ُمنصفانہ نہیں بلکہ ایک حد تک خود غرضانہ ہے، ہر مذہب کا دِلدادہ شخص ان اقوام کی فتح کو نیشنلسٹ سوشلزم والوں کی فتح پر بہت زیادہ ترجیح دے گا۔
انگریزوں کی فتح کے نتیجہ میں بالشوزم کی فتح اور اس کا نتیجہ
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ حالات میں
اِن اقوام کی فتح کے ساتھ بالشوزم کی فتح بھی ضروری ہے اور بالشوزم مذہب کی نیشنلسٹ سوشلزم والوں سے بھی زیادہ دشمنی ہے۔ پس یقینا ان کی فتح سے گودُنیا کو نیشنلسٹ سوشلزم کے خطرہ سے نجات ہوگی مگر ایک نئی رسّہ کشی مذہب اور لاَمذہبیت میں شروع ہوجائے گی۔
غرباء کی حالت سُدھارنے کیلئے مختلف مذاہب کی تدابیر
مَیں نے اِس وقت تک دُنیوی تحریکات کا
ذکر کیا ہے اَب مَیں اُن تدبیروں کا ذکر کرتاہوں جو مختلف مذاہب کے پیرو دُنیا کے ایک نئے نظام کی تکمیل کے لئے پیش کررہے ہیں۔ ان مذاہب میں سے سب سے بڑے مذہب یہ ہیں۔ ہندو، مسیحی،یہودی، اور اسلام۔ اِس وقت اگر اِن تمام مذاہب کے پَیروئوں کا جائزہ لیاجائے توہر مذہب کا پیرو یہ دعویٰ کرتاسُنائی دے گا کہ وہی مذہب سب سے اعلیٰ ہے جس کا وہ پیرو ہے اور اسی کی تعلیم دُنیا کے دُکھ اور درد کو دُور کرسکتی ہے۔ ہندو کہتے ہیں ہم ایک دن میں اوم کا جھنڈا (نَعُوْذُبِاللّٰہِ) مکّہ معظّمہ پر گاڑیں گے، یہودی کہتے ہیں یہودیّت کی تعلیم ہی سب سے اعلیٰ ہے، عیسائی کہتے ہیں ہمارے یسوع مسیح نے جو کچھ کہا وہی قابلِ عمل ہے، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں میں بھی جوش ہے اوروہ یہ دعویٰ کرتے اور بجا طورپر کرتے ہیں کہ اسلام ہی تمام دُکھوں اور دردوں کا کامیاب علاج پیش کرتاہے۔ بہرحال بڑے مذاہب یہی ہیں۔ ہندو، مسیحی، یہودی اور اسلام ۔ مَیں اِس وقت نمازروزہ کی طرف نہیں جارہا بلکہ مَیں یہ مضمون بیان کررہاہوں کہ دُنیا فاقے سے مَر رہی ہے۔ دُنیا نے اسکے علاج کے لئے بعض تحریکات جاری کی ہیں اِن دُنیوی تحریکات کے مقابلہ میں مذاہب اِسکے متعلق کیا نظریہ پیش کرتے ہیں اوروہ کونسا نیا نظام ہے جو یہ مذاہب دُنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس غرض کے لئے مَیں سب سے پہلے یہودیّت کو لے لیتاہوں۔
یہودیّت میں نئے نظام کی شکل اور اِس کا نتیجہ
یہودیّت دُنیا کے لئے جو نظام پیش کرتی ہے وہ محض قومی ہے
اُس میں کوئی بات عالمگیر نہیں۔ مثلاً یہودیّت کہتی ہے کہ یعقوبؑ کی اولاد ہی خدا کو پیاری ہے باقی سب اس کی غلامی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اِس مذہب کی کسی وقت دُنیا پر حکومت ہوجائے تو یقینا اِس تعلیم کے ماتحت ظلم بڑھے گا گھٹے گانہیں۔ یا مثلاً یہودیّت کہتی ہے ۔ُتو اپنے بھائی سے سُود نہ لے اور اسے چھوڑ کر جس سے چاہے سُود لے لے۹؎۔ اب اگر سُود لینا بُرا ہے تو وجہ کیا ہے کہ ایک یہودی سے نہ لیا جائے اور غیر یہودی سے لے لیا جائے۔ اس کی وجہ بجز اِس کے اَور کچھ نہیں کہ یہودیّت ایک قومی مذہب ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اَوروں سے بے شک لے لو مگر اپنوں سے نہ لو۔ پس اس مذہب کو اگر دُنیا پر غلبہ حاصل ہوجائے تو اس کاکام یہ ہوگا کہ وہ اَور سب سے ٹیکس وصول کرے گی اور یہودیوں میں اس کو تقسیم کردے گی۔ اِسی طرح یہودیت صدقہ وخیرات کا تو حکم دیتی ہے مگر کہتی ہے صدقہ و خیرات صرف اپنے ہی ہم قوموں کے لئے ہو۔ اب اگر کوئی یہودی بادشاہ ہوتو اِس تعلیم کے ماتحت جتنے ٹیکس ہوں گے سب یہودیوں کو ملیں گے۔ اِسی طرح یہودیّت یہ نہیں کہتی کہ ُتو کسی کو غلام نہ بنا بلکہ وہ کہتی ہے اپنے بھائی کوہمیشہ کے لئے غلام نہ بنائو گو یااوّل تو اپنے بھائی کو غلام بنائو ہی نہیں اور اگر بنائو تو ہمیشہ کے لئے نہ بنائو۔ اِس کے متعلق یہودی مذہب میںیہ حکم ہے کہ ہر غلام ساتویں سال آزاد کردیاجائے۱۰؎۔ اگر کوئی شخص ساتویں سال کے معاًبعد کوئی غلام خریدے تو اس تعلیم کے ماتحت وہ چھ سال کے بعد آزاد ہوجائے گا۔ اگرایک سال گزر چکا ہوتو وہ پانچ سال کے بعد آزاد ہوجائے گا،دوسال گزر چکے ہوں تو چار سال کے بعد آزاد ہوجائے گا، تین سال گزر چکے ہوں تو تین سال کے بعد اور اگر چار سال گزر چکے ہوں تو دوسال کے بعد آزاد ہوجائے گااور اگر کوئی چھٹے سال کسی غلام کو خریدے تووہ اگلے سال خودبخود آزاد ہوجائے گا۱۱؎۔ گویا زیادہ سے زیادہ سات سال تک ایک یہودی کو غلام بنایا جاسکتاہے اِس سے زیادہ عرصہ کسی کو غلام بناکر نہیںرکھا جاسکتا۔باقی دُنیا کے لوگ خواہ ساری عمر غلام رہیں اس کی یہودیّت کوئی پرواہ نہیں کرتی۔ پھر یہودیّت کی تعلیم میں ایک اَور بات یہ پائی جاتی ہے کہ وہ غیر قوموں کے ساتھ بہت سخت سلوک کرنے کا حکم دیتی ہے۔ چنانچہ توریت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ :-
’’جب تُو کسِی شہر کے پاس اس سے لڑنے کے لئے آپہنچے توپہلے اس سے صلح کا پیغام کرتب یُوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہر میں پائی جاوے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو ُتو اُس کا محاصرہ کر۔ اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دیوے ُتو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔ اور تُو اپنے دشمنوں کی اس ُلوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تُو ان سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں، کیجیؤ۱۲؎۔‘‘
یہ تو غیر ملکوں کے متعلق حکم ہے کنعان کی سر زمین جو موعود سر زمین تھی اس کے متعلق یہ حکم نہیں بلکہ وہاں کے متعلق یہ حکم ہے کہ:-
’’اُن قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے۔ کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو بلکہ تُو اُن کو حرام کیجیؤ۔‘‘
یہ نظام ہے جو یہودیت پیش کرتی ہے۔ اگر یہودیت برسراقتدار آجائے تو ہر مرد مارا جائے گا، ہر عورت اور بچے کو غلام بنایا جائے گا اور کنعان میں بسنے والے عیسائی مرد اور عورتیں اور بچے تو کیا وہاں کے گھوڑے اور گدھے اور کُتیّ اور بِلیاں اور سانپ اور چھپکلی سب مارے جائیں گے کیونکہ حکم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو سانس لیتی ہو اُس کو جان سے مار دیا جائے۔ اس نظام کے ماتحت یہودیوں کو تھوڑا بہت آرام میسّر ہو تو ہو اور قومیں تو بالکل تباہ ہو جائیں گی۔
عیسائیت کا دنیا کے لئے پیغام
عیسائیت کا پیغام دنیا کے لئے صرف یہی ہے کہ شریعت ایک *** ہے۱۳؎ جب شریعت *** ہے تو پھر
اس کا جو بھی پیغام ہے وہ *** ہے، عیسائیت صرف محبت کی تعلیم دیتی ہے جس پر خود عمل نہیں کرتی۔ اگر اس کی محبت کی تعلیم پر کوئی عمل کرنے والا ہوتا تو آج یورپ میں لڑائیاں کیوں ہوتیں۔ شریعت کو *** قرار دے کر دنیا کے لئے کوئی معیّن پروگرام پیش کرنا مسیحیت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ جو بھی پروگرام ہوگا وہ *** ہوگا اور اس پر عمل لوگوں کی مشکلات کو بڑھائے گا کم نہیں کرے گا۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ اس کے نزدیک خدا کی شریعت خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو *** ہے لیکن بندوں کی تعزیرات خواہ کتنی بڑی ہوں رحمت ہیں۔ اس کانتیجہ یہ پیدا ہؤاہے کہ دنیا میں جو مسیحی قوم بھی غالب ہو اُس کے مقاصد کو مسیحی مقاصد کہا جاتا ہے۔ جو فلسفہ غالب آجائے وہ مسیحی فلسفہ ہوتا ہے اور جو تمدن غالب آجائے وہ مسیحی تمدن ہوتا ہے۔ اگر جرمن غالب ہؤا تو وہ کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب آگیا۔ اگر انگلستان غالب ہؤا تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہؤا، اگر یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ والے جیتے تو کہہ دیں گے کہ کرسچن سوشلزم غالب ہؤا، گویا وہ ہمیشہ کے لئے غالب کے یار بن گئے ہیں اور جو چیز بھی دنیا میں ترقی کرتی ہے اسے کرسچن سویلزیشن (CIVILISATION) کا غلبہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ طلاق نہ دینا مسیحیت کا خاصہ تھا اور اب یہ حالت ہے کہ طلاق دینا مسیحیوں کا خاصہ ہے۔ گویا ان کا مذہب کیا ہے موم کی ناک ہے جس طرح چاہو موڑ لو اِس نے ۔ُٹوٹنا تو ہے ہی نہیں۔ پس مسیحیت بطور مذہب کے دنیا کے سامنے نہ کوئی پروگرام رکھ سکی نہ رکھ سکتی ہے اور نہ رکھ سکے گی۔
ہندو مذہب کے نظریہ کے ماتحت نئے نظام کا قیام ناممکن ہے
ہندو مت نے دنیا کے سامنے تناسخ اور
ورنوں کی تعلیم پیش کرکے اپنے لئے اور دوسری اقوام کے لئے امن کا راستہ بالکل بند کر دیا ہے کیونکہ تناسخ کے ماتحت یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ایسا نیا نظام قائم ہو جس میں غریب اور امیر کا فرق جاتا رہے۔ جب تناسخ کو ماننے والے تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص کو غریب پیدا کیا ہے تو یہ اس کے پچھلے جنم کے اعمال کی سزا ہے تو اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے امیر اور غریب کے امتیاز کو کس طرح مٹایا جا سکتا ہے۔ اس عقیدہ کے ماتحت تو اگر خدا نے کسی کو زار بنایا ہے تو پچھلے جنم کے اعمال کا انعام دینے کے لئے اور اگر کسی کو غریب بنایا ہے تو اسے اس کے اعمال کی سزا دینے کے لئے اب کوئی نہیں جو اس کو بدل سکے۔ پس تناسخ کے ہوتے ہوئے ہندومت دنیا کی ترقی کے لئے کوئی نیا پروگرام پیش نہیں کر سکتا کیونکہ نیا پروگرام وہی ہو سکتا ہے جو موجودہ حالت کو بدل کر ایک نئی حالت پیدا کر دے اور جب دنیا کی موجودہ حالت پُرانے جنم کے اعمال کا اٹل نتیجہ ہے تو دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ یہی حالت دنیا کے لئے مقدر ہے اورجب یہی حالت دنیا کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے تو کس کی طاقت ہے کہ اس حالت کو بدل سکے۔
دوسرے اس مذہب میں ورنوں کا اصول ہے جس کے ماتحت برہمن کے کام شودر نہیںکر سکتا اور شودر کے کام ویش نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ویش کے کام کشتری نہیں کر سکتا گویا ہر ایک کا الگ الگ دائرہ عمل ہے اور ایک شخص دوسرے کے دائرہ عمل میں دخل نہیں دے سکتا۔ یہ اصول بھی ایسا ہے جس کے ماتحت امیر اور غریب کا امتیاز کبھی مٹ نہیں سکتا کیونکہ نیا نظام جو اِس امتیاز کو دور کر ے وہ وہی ہو سکتا ہے جس میں ایک غریب اور کنگال کا بھی خیال رکھا جائے۔ اگرکوئی چوہڑہ یا ساہنسی ہو تو اس کے حقوق کو بھی محفوظ کیا جائے اور ہر شخص کے لئے گورنمنٹ کھانے اور کپڑے کا انتظام کرے۔ اسی طرح غرباء کے لئے مال کا انتظام کرے تاکہ وہ اپنی اور ضروریات پوری کر سکیں۔ مگر منو کہتے ہیں کہ:-
’’اگر شودر دھن جمع کرے تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے چِھین لے کیونکہ شودر مالدار ہو کر برہمنوں کو دکھ دیتا ہے۔‘‘ ۱۴؎
اس قانون کے ماتحت اگر برہمن یا ویش کے پاس دس لاکھ روپیہ ہو اور شودر کو خیال آئے کہ پانچ روپیہ ماہوار مَیں بھی جمع کرلوں اگلے سال بچی کی شادی ہے اُس وقت یہ روپیہ کام آئے گا تو راجہ کا فرض ہے کہ وہ اس سے تمام روپیہ چھین لے کیونکہ وہ شودر ہے اور شودر کا حق نہیں کہ اس کے پاس روپیہ جمع ہو۔ اب بتائو اِس اصول کے ماتحت نیا نظام کس طرح قائم ہو سکتا ہے۔ اور اگر یہ نظام قائم ہو تو اِس کے ماتحت غرباء کی حالت کس طرح سُدھر سکتی ہے۔
اِسی طرح لکھا ہے کہ:-
’’اگر برہمن نے ایک نیچ سے قرض لیا لیکن وہ ادا نہیں کر سکتا تو شودر کا فرض ہے کہ وہ برہمن سے کوئی روپیہ نہ لے لیکن اگر شودر نے برہمن کا روپیہ دینا ہو اور شودر غریب ہو تو اونچی ذات والوں کی مزدوری کر کے برہمن کے قرض کو ادا کرے۔‘‘ ۱۵؎
گویا اگر برہمن قرض لینے والا ہو اورجس سے قرض لیا گیا ہو وہ نیچ قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اگر وہ قرض ادا نہیں کر سکتا تو نیچ قوم والے کا فرض ہے کہ برہمن سے اپنے روپیہ کا تقاضا نہ کرے۔ ایسی صورت میں وہ یہ نہیں کر سکتا کہ عدالت میں برہمن کے خلاف دعویٰ دائر کر دے اور اس سے اپنا روپیہ وصول کرے بلکہ اس صورت میں معاملہ کو ختم سمجھنا چاہئے اور شودر کو روپیہ کی وصولی کا خیال اپنے دل سے نکال دینا چاہئے۔ لیکن اگر شودر کسی برہمن سے قرض لے بیٹھتا ہے اورپھر ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا تو منو کے احکام کے مطابق اس کا فرض ہے کہ وہ اونچی ذات والوں کی نوکری کرے اور اس طرح قرض کو ادا کرے۔
پھر یہیں تک بس نہیں بلکہ اس تعلیم کا اثر اورآگے چلتا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کی کئی بیویاں ہوں تو ایسی حالت میں :-
’’ایک کی اولاد جو برہمنی سے ہے وہ اس کی جائداد کے تین حصہ لے اورجو کشترانی سے ہے اُس کی اولاد دو حصے لے اور جو ویشیا ہے اس کی اولاد ڈیڑھ حصہ لے اور شودرانی کی اولاد ایک حصہ لے۔‘‘۱۶؎
اس تعلیم کے ماتحت مرنے والے کی جائدا د میں سے برہمنی کی اولاد کو تین حصے، کھترانی کی اولاد کو دو حصے، ویش کی اولاد کو ڈیڑھ حصہ اور شودرانی کی اولاد کو ایک حصہ ملے گا۔ اب بتائو اس نظام کے ماتحت وہ ادنیٰ حالت سے اونچے کس طرح ہو سکتے ہیں۔
پھر لکھا ہے کہ:-
’’برہمن شودر سے دولت لے لے۔ اس میں کوئی وچار نہ کرے کیونکہ وہ دولت جو اس نے جمع کی ہے وہ اس کی نہیں بلکہ برہمن کی ہے۔‘‘۱۷؎
اس تعلیم کے ماتحت برہمنوں کو اور زیادہ آسانی حاصل ہو گئی کیونکہ انہیں اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ شودروں کے پاس جب بھی تمہیں دولت نظر آئے فوراً لُوٹ لو اور کوئی وچار یعنی فکر نہ کرو کہ اس لُوٹ سے گناہ ہوگا کیونکہ شودر کا مال اس کا نہیں بلکہ تمہارا ہے جب بھی تم کسی شودر کے پاس مال و دولت دیکھو فوراً لُوٹ لو اور اپنے قبضہ میں کر لو۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہندو مذہب پیش کرتا ہے اور چونکہ ہندو مذہب میں سوائے برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سب کو شُودر سمجھا جاتا ہے اس لئے جس قدر سید ، مغل اور پٹھان وغیرہ ہیں سب ہندوئوں کے نزدیک شودر ہیں اور ان سب کے متعلق برہمنوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ ان کی دولت کو لُوٹ لیں۔ اگر کوئی شخص روپیہ کمائے اور برہمن اس سے وہ روپیہ لُوٹ لے تو اس کا کوئی حق نہیں کہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور اگر وہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے گا تو منو کی اس تعلیم کے ماتحت اسے کہا جائے گا کہ تُو جھوٹا ہے تیرا تووہ مال تھا ہی نہیں وہ تو برہمن کا مال تھا۔ گویا اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص کہیں سے گذر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کو چارپائی پر اُٹھاکر اسے دفن کرنے کے لئے لے جارہے ہیں اور چارپائی پر جو شخص ہے وہ شور مچا رہا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے بچائو، خدا کے واسطے مجھے بچائو۔ لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا اور کہنے لگا بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا جج صاحب نے حکم دیا ہے کہ اس شخص کو دفن کر دیا جائے کیونکہ یہ مر چکا ہے۔ وہ کہنے لگا یہ تو زندہ ہے اور شور مچا رہا ہے کہ مجھے بچایا جائے۔ وہ کہنے لگے خواہ کچھ ہو جج صاحب کا یہی حکم ہے کہ یہ شخص مر چکا ہے اور اسے دفن کر دینا چاہئے ۔ سیاح نے کہا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جنازہ اُٹھانے والوں نے جواب دیا کہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے جو کچھ جج صاحب نے کہا وہی ٹھیک ہے یہ شخص یونہی جھوٹ بول رہا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں مرا نہیں ۔ آخر وہ سیاح جج صاحب کے پاس گیا اور اُسے جاکر کہا کہ میں نے آج ایک نظارہ دیکھا ہے اور میں اس پر حیرا ن ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک زندہ شخص کو آپ نے مرا ہؤا کس طرح قرار دے دیا؟ جج نے جواب دیا تم تو بیوقوف ہو تمہیں حالات کا علم نہیں اگر علم سے کام لیتے تو اسے مرا ہؤا ہی سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک سال ہؤا میرے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا کہ میرا خاوند باہر گیا ہؤا تھا اب میں نے سنا ہے کہ وہ مرگیا ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں کسی اور شخص سے شادی کر لوں۔ میں نے کہا کہ گواہیاں لائو۔ وہ دو معتبر گواہ میرے پاس لائی جنہوں نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے فلاں سرائے میں اس کے خاوند کو مرتے ہوئے دیکھا تھا اور انہوں نے خود ہی اسے دفن کیا تھا۔ چنانچہ اُس عورت کو شادی کی اجازت دے دی گئی۔ اب کچھ عرصہ کے بعد یہ شخص آیا اور کہا کہ میں اس عورت کا خاوند ہوں اور زندہ ہوں وہ عورت مجھے دلوائی جائے۔ میں نے اسے بہتیرا سمجھایا کہ ُتو اس عورت کا خاوند نہیں ہو سکتا وہ تو مر چکا ہے اور دو گواہیاں ہمارے پاس موجود ہیں مگر وہ یہی کہتا چلا گیا کہ نہیں میں تو زندہ ہوں۔ آخر میں نے کہا میں اسے مان نہیں سکتا دو معتبر گواہ موجود ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اس عورت کا خاوند ان کے سامنے مرا اور چونکہ ان گواہوں کے بیانات کے رو سے خاوند کا مرنا یقینی ہے اس لئے میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کر سکتا کہ اگر تیرا یہ دعویٰ سچاہے کہ تو اس عورت کا خاوند ہے تو سرکاری خرچ پر تجھے دفن کرادوں۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے اپنے آدمیوں کو بھجوایا ہے تاکہ وہ اسے دفن کر دیں۔ یہی حال ہندومت کا ہے کسی شخص کے پاس روپیہ جمع ہو برہمن اُس سے لُوٹ لے اور و ہ بیچارہ عدالت میں دعویٰ دائر کرے تو مجسٹریٹ کہے گا یہ بالکل جھوٹ بولتا ہے اس کے پاس روپیہ تھا کہاں وہ تو فلاں ادھیائے اور فلاں شلوک کے ماتحت برہمن کا روپیہ تھا جو اس نے لے لیا۔
مگر یاد رکھو کہ میں یہ نہیں کہتا کہ جب ان مذاہب کی بنیاد پڑی تھی تو اُس وقت وہی تعلیم ان کے نبیوں نے دی تھی جو آج پیش کی جاتی ہے بلکہ کچھ تعلیم تو ایسی ہے جو وقتی اور قومی ہونے کی وجہ سے اُس زمانہ میں ٹھیک تھی اور اب غلط ہے اور کچھ تعلیم ایسی ہے جو ان نبیوں نے دی ہی نہیں وہ یونہی ان کے ذمہ لگا دی گئی ہے۔ بہرحال ایسی تعلیم سے موجودہ زمانہ میں کوئی امن اور چین نصیب نہیں ہوسکتا۔
دوسرے مذاہب کے مقابل پر اسلام کی بے نظیر تعلیم
اور اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق نئے نظام کا نقشہ
اب مَیں اسلام کو لیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اسلام اس مصیبت کا کیا علاج تجویز کرتا ہے؟ اسلام دنیا کی اس مصیبت
اور دُکھ کا علاج جسے مَیں نے تمہید میں بیان کیا ہے یوں فرماتا ہے۔
دنیا سے غلامی کی بیخ کنی
اول غلامی جو ہزاروں سال سے چلی آرہی تھی اسے اسلام نے دور کیا اور غلامی کو کُلِّیۃً مٹا کر رکھ دیا۔ میرے نزدیک
دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے دنیا کے پردہ پر سے غلامی کو مٹایا ورنہ پہلے مذاہب میں غلامی کا رواج تھا اور اسے کسی مذہب نے منسوخ قرار نہیں دیا۔ یہودی اور ہندومذہب کے اصول کے ماتحت تو غلامی ایک مذہبی انسٹی ٹیوشن ہے اور اسے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ عیسائیت یہودیت کی شاخ ہے اس میں بھی غلامی رہی اور اگر عیسائیوں میں غلامی مٹی تو اس کے مٹانے کا موجب عیسائیت نہیں بلکہ فلسفۂ اخلاق کی ترقی تھی۔ تاریخ کلیسیا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے مٹانے کے لئے عیسائی ممالک میں کئی بار کوششیں ہوئیں مگر اس کے سب سے بڑے مخالف پادری ہی تھے اسی طرح ہندومذہب نے ورنوں کے ذریعہ غلامیت کو اتنا وسیع کر دیا کہ اس کے مقابلہ میں محدود غلامی بھی مات ہو گئی۔ بھلا زر خرید غلام کو ورن کے غلام سے کیا نسبت ؟مگر اسلام نے اس غلامی کو سرے سے مٹا دیا۔
اسلام میں جنگی قیدی بنانے کے متعلق پابندیاں
ہاں ایک چیز اسلام میں موجود ہے جسے لوگ غلامی قرار دیتے ہیں
اور وہ چیز جنگی قیدیوں کا پکڑنا ہے مگر کیا دنیا میں کہیں بھی ایسا دستور ہے کہ جب دو قوموں میں لڑائی ہو اور دن کے دَوران میں ایک دوسرے کے قیدی پکڑے جائیں اور شام کو ان سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو کل پھر ہم سے لڑائی کرنے کے لئے آجانا۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کبڈی کھیلتے ہیں تو اُس وقت بھی جن کھلاڑیوں کو پکڑتے ہیں چھوڑتے نہیں بلکہ پکڑ کر بٹھا لیتے ہیں پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ جنگ ہو اور جنگ کے بعد سب قیدیوں کو رہا کر دیا جائے۔ اگر کبڈی تک نہیں کھیلی جا سکتی بغیر اس کے کہ جب کوئی شکست کھا جائے تو اسے پکڑ کر بٹھا دیا جائے تو جنگیں اس کے بغیر کس طرح ختم کی جاسکتی ہیں۔ پس اسلام میں کوئی غلام نہیں مگر جنگی قیدی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۱۸؎
یعنی کسی نبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا جائے۔ ان الفاظ کے ذریعہ نہ صرف خداتعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ کسی انسان کو غلام بنانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جائز نہیں بلکہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت کی وجہ سے جو اعتراضات ان کے نبیوں پر عائد ہوتے تھے خداتعالیٰ نے ان تمام اعتراضات کا بھی ازالہ کر دیا کیونکہ فرمایا مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی یعنی کسی نبی کے لئے بھی یہ جائز نہیں تھا کہ وہ یونہی لوگوں کو غلام بناتا پھرتا۔ پس نہ کرشنؑ نے ایسا کیا نہ رام چندرؑ نے ایسا کیا ، نہ موسٰیؑ اور عیسٰیؑ نے ایسا کیا، جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ ان کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ ہاں فرماتا ہے کہ ایک چیز ہے جو جائز ہے وہ یہ کہ حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْض۔ اِثْخَان فِی الْاَرْض ہو تو اُس وقت قیدی بنانے جائز ہوتے ہیں یعنی جنگ ہو اور ایسی شدید ہو کہ اس میں خون کی ندیاں بہہ جائیں، قوم قوم پر اور ملک ملک پر حملہ آور ہو اور شدید خونریزی ہو ایسی حالت میں بے شک قیدی بنانے جائز ہیں مگر معمولی لڑائیوں میں بھی قیدی بنانے جائز نہیں جو مثلاً خاندانوں یا افراد میں ہوتی ہیں۔ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا اے ہر وہ شخص جو چاہتا ہے کہ بغیر لڑائی کے لوگوں کو قیدی بنائے یا ان کوغلام بنائے۔ دوسرے الفاظ میں ُتو یہ چاہتا ہے کہ تجھے دنیا مل جائے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم دنیا کے طلبگار سمجھے جائو گے خداتعالیٰ کے طلبگار نہیں رہو گے وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ حالانکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم آخرت کے طلبگار بنو۔ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ اس کے تمام احکام بڑی بڑی حکمتوں پر مشتمل ہؤا کرتے ہیں۔ اگر غلام بناتے رہو گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی غلام بن کر رہ جائو گے چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں میں غلاموں کی کثرت ہوئی وہی قومیں آخر غلام کہلائیں۔ بنوعباس کے عہد میں غلاموں کی کثرت تھی نتیجہ یہ ہؤا کہ تمام بادشاہ لونڈی زادے ہؤا کرتے تھے اور چونکہ غلام میں غلامی کے خیالات ہی ہوتے ہیں اس لئے گو وہ لفظاً آزاد تھے مگر معنًا غلام ہی تھے۔
اِثْخان کے معنے عربی میں ایسی جنگ کے ہوتے ہیں جس میں خطرناک خونریزی ہو۔ گویا معمولی جنگ میں غلام بنانا جائز نہیں بلکہ غلام ایسی حالت میں ہی بنائے جاسکتے ہیں کہ جب شدید جنگ ہو۔ معمولی لڑائیاں تو انگریزوں اور پٹھانوں کے درمیان سرحد پر ہوتی ہی رہتی ہیں مگر ان جنگوں میں قیدی نہیں بنائے جاتے۔ پرزنر آف وار(Prisoner of War) اُسی وقت جائز ہوتے ہیں جب باقاعدہ ڈیکلیئرڈ وار (Declared War)ہو معمولی شبخونوں میں ایسے قیدی بنانے جائز نہیں ہوتے۔ اگر کوئی قوم اپنے لوگوں کو غلام بنانا نہیں چاہے گی تو وہ حملہ ہی کیوں کرے گی۔ اور اگر حملہ کرے اور لڑائی اِثْخَان فِی الْاَرْض کی صورت اختیار کر لے تو پھر قیدی بنانا کسی صورت میں بھی قابلِ اعتراص نہیں سمجھا جاسکتا۔
اسلام کی تعلیم کہ کوئی جنگ جائز نہیں مگر دفاعی
پھر جنگ کے متعلق اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ کوئی جنگ جائز
نہیں مگر دفاعی۔ یعنی یہ جائز نہیں کہ خود ہی دوسروں پرحملہ کر دیا جائے اور لوگوں کو غلام بنا لیا جائے۔ چنانچہ فرماتا ہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ۔لا نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ و لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۱۹؎
فرماتا ہے جنگ کی اجازت صرف انہی کو دی گئی ہے جن پر پہلے دوسروں نے حملہ کیا اور اس وجہ سے دی گئی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْر اور اس لئے دی گئی ہے کہ مسلمانوں پر ایسا حملہ ہؤا ہے کہ اب خدا چاہتا ہے اس کی تقدیر دنیا میں جاری ہو اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے اور مظلوم کی مدد کرے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ظالم طاقتور ہو اور مظلوم کمزور ہو، ایسی صورت میں اگر کمزور آدمی لڑے گا تو بجائے غالب آنے کے وہ تباہ ہی ہوگا۔ قصہ مشہور ہے کہ کوئی پہلوان ایک جگہ سے گذر رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے ایک دُبلا پتلا شخص جا رہا تھا۔ پہلوان نے اپنے سر کو مُنڈوا کر اُس پر چِکنائی لگائی ہوئی تھی۔ اُس کمزور آدمی نے جب پہلوان کو اس حالت میں دیکھا تو اُس کی طبیعت میں مذاق کے لئے ایسا جوش پیدا ہؤا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس نے اُنگلی سے اُس کے سر پر ایک ٹھینگا مارا۔ پہلوان کو یہ دیکھ کر سخت غصہ آیا اور وہ اسے زمین پر گرا کر ٹُھڈّے مارنے لگا۔ وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا تھا کہ جتنا جی چاہے مار لو مگر جو مزامجھے ٹھینگا مارنے میں آیا ہے وہ تم کو ساری عمر مار کر بھی نہیں آئے گا۔ اب دیکھو وہ چونکہ کمزور تھا اس لئے اْس نے اسی بات کو بڑے فخر کا موجب سمجھا کہ اْس نے ایک طاقتور کے جسم کو چُھو لیا۔ پس ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ظالم ہو مگر طاقتور ہو اور مظلوم اس پر غلبہ نہ پاسکتا ہو مگر فرماتا ہے ہم نے جو اجازت دی ہے وہ اس لئے دی ہے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور اس لئے اجازت دی ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کمزوروں کو طاقتور وں پر غالب کر دیں۔ پس ہم نے انہیں خالی لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ ہمارا ان کے ساتھ وعدہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے جب تک تم ظالم کو مغلوب نہیں کر لیتے۔
پھر فرماتا ہے الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ وہ گھروں سے نکالے گئے بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی قصور کیا ہو۔ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ان کا گناہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو سچا مان لیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ وَ لَوْ لَا دَفعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا فرماتا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں جو محبت اور انسانیت کے نام پر اپیلیں کریں گے اور کہیں گے کہ لڑائی بہرحال بُری چیز ہے اور وہ کسی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ایسے لوگوں سے کہو کہ اگر اللہ کا یہ قانون نہ ہوتا کہ بعض کے مظالم بعض کے ذریعہ مٹا دیئے جائیں تو عبادت خانے اور علماء کے رہنے کی جگہیں اور بُدھوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسجدیں سب برباد ہو جاتیں اور ان میں اللہ کا نام لیا جانابند ہو جاتا کیونکہ تمہارے جنگ نہ کرنے سے ان لوگوں کے ارادے کس طرح بدل سکتے ہیں جو حکومت کا دائرہ وسیع کرکے مذہب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اپنے منشاء کے مطابق مذہب رکھنے یا نہ رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ لوگ جنگ کی قطعی ممانعت کے اعلان کوسن کر دلیر ہو جائیں گے اور نہ صرف دُنیوی امور میں دست اندازی شروع کر دیں گے بلکہ لوگوں کے دین کو مٹا دیں گے اور عبادت کی جگہوں کو گِرا دیں گے وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo فرماتا ہے جو بھی اس لئے اُٹھے گا کہ خدا کے دین کو آزاد کرے خدا اس کی مدد کرے گا اور وہ قوی اور عزیز ہے۔ جس قوم کے ساتھ اُس کی مدد ہو وہ کبھی مغلوب نہیں ہؤا کرتی۔ پھر فرماتا ہے ایسے لوگ جو مذہبی آزادی کے قیام کے لئے اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کرتے ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ اگر وہ دنیا پر قابض ہو جائیں تو طاقتور ہو کر دوسروں کو لُوٹیں گے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے، غریبوں کو مال دیں گے، خود بُرے کاموں سے بچیں گے ،نیکی کا حکم دیںگے اوربُرے کاموں سے روکیں گے۔
اب بتائو کیا اِس قسم کی لڑائی مسلمانوں کے اختیار میں ہے کہ جب ان کا جی چاہے لڑائی شروع کر دیں اور کفار کو قیدی بنانا شروع کر دیں۔ اس قسم کے جنگی قیدی تو دشمن ہی بنوا سکتا ہے اور جب اس سے بچنا اس کے اختیار میں ہے تو پھر اگر وہ ایسی جنگ کرتا ہے تو یا تو وہ پاگل ہے اور یا پھر قید رہنے کے قابل کیونکہ اسے اختیار تھا کہ وہ حملہ نہ کرتا، وہ دوسروں پر ظلم نہ کرتا، وہ دین کے لئے جنگ نہ کرتا اور اپنے آپ کو غلامی سے بچا لیتا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی
لیکن فرض کرو ایسا حملہ ہو جائے اور بعض لوگ قیدی بن جائیں تو پھر
جو لوگ قیدی بن کر آئیں ان کے لئے صاف اور واضح الفاظ میں یہ حکم موجود ہے کہ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی اِذٓا اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَاِمَّامَنًّا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا ۲۰؎
یعنی اگر ایسا حملہ ہو جائے اور تمہیں لڑائی کرنی پڑے تو خدا تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اُن میں سے کچھ قیدی پکڑ لو مگر پھر ان سے کیا سلوک کرو اس بارہ میں ہمارے دو قانون ہیں اور تمہیں ان دونوں میں سے کسی ایک قانون کو ضرور ماننا پڑے گا اور وہ قانون یہ ہیں کہ اوّل فَاِمَّامَنًّام بَعْدَ یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور کہو کہ جائو ہم نے تمہیں بخش دیا وَ اِمَّا فِدَآئً اوریا جنگ کا خرچ بحصۂ رسدی قیدیوں سے لیکر انہیں رہا کر دو۔ گویا دو صورتوں میں سے ایک صورت تمہیں ضرور اختیار کرنی پڑے گی۔ یا تو تمہیں احسان کرکے انہیں آزاد کرنا پڑے گا اور یا پھر بحصۂ رسدی ہر قیدی سے جنگ کا تاوان وصول کرکے انہیں آزاد کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کی جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص بطور احسان انہیں رہا کرنا نہیں چاہتا تو اُس وقت تک کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کریں اُن سے خدمت لے سکتا ہے۔ آجکل کی یورپین قوموں کو ہی دیکھ لو فرانس کے قیدی جو ہٹلر کے قبضہ میں ہیں ان سے وہ تاوانِ جنگ الگ وصول کرے گا اور خدمت الگ لے رہا ہے۔ چنانچہ ہر جگہ کہیں جنگی قیدیوں سے سڑکیں بنواتے ہیں، کہیں مٹی کُھدواتے ہیں اور کہیں اور کام لیتے ہیں۔ بے شک وہ ان سے اُن کے ُعہدوں کے مطابق کام لیتے ہیں مگر یہ نہیں کرتے کہ انہیں فارغ رہنے دیں۔ پس جنگی قیدیوں سے اب بھی مختلف کام لئے جاتے ہیں اور یہی اسلام کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے ہاں تاوانِ جنگ کومقدم رکھا جاتا ہے اور اسلام یہ کہتا ہے کہ ہمارا پہلا حکم یہ ہے کہ تم انہیں احسان کرکے چھوڑ دو ہاں اگر احسان نہیں کر سکتے تو پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ ان سے تاوانِ جنگ لے کر انہیں رہا کر دو۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدی سے آئندہ جنگوں
میں شامل نہ ہونے کا معاہدہ لے کر اُسے رہا کر دینا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ احسان کرکے چھوڑتے وقت یہ معاہدہ لیا جا سکتا ہے
کہ وہ پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے نہیں نکلیں گے کیونکہ ہو سکتاہے ایک شخص ایک دفعہ رہا ہو تو دوسری دفعہ پھر مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل ہو جائے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس قسم کی شرط کر لینے کی اجازت دی ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ ایسا ہے جو بتاتا ہے کہ اس قسم کے خطرات قیدیوں کو رہا کرتے وقت ہو سکتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ ایک قیدی ابوعزہ نامی کو رہا کیا یہ شخص جنگِ بدر میں پکڑا گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے یہ عہد لے کر چھوڑ دیا کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوگا مگر وہ جنگِ احد میں مسلمانوں کے خلاف پھر لڑنے کے لئے نکلا اور آخر حمراء الاسد کی جنگ میں گرفتار ہو کر مارا گیا۔ پس جنگی قیدیوں کے لئے اسلام دو ہی صورتیں تجویز فرماتا ہے (1) احسان کرکے چھوڑ دیا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو (2) تاوانِ جنگ بحصہ رسدی وصول کرکے انہیں چھوڑ دیا جائے۔
جنگی قیدی سے خدمت لینا
ہاں جب تک وہ فدیہ ادا نہ کرے اس سے خدمت لینی جائز ہے کیونکہ قیدی بنانے کی غرض یہی ہوتی ہے کہ دشمن
کی طاقت کو کمزور کیا جائے اگر قیدیوں کو اکٹھا کرکے انہیں ِکھلانا پلانا شروع کر دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ لیا جائے جس سے دشمن کے مقابلہ میں فائدہ اُٹھایا جا سکے تو اس طرح دشمن کی طاقت بڑھ جائے گی کم نہیں ہوگی لیکن اس میں بھی اسلام اور موجودہ حکومتوں کے طریق ِعمل میں بہت بڑا فرق ہے۔
جنگی قیدیوں سے کام لیتے وقت اُن کی طاقت کا خیال رکھنے
اور اُن کی خوراک وپوشاک کے متعلق اسلامی ہدایات
آجکل جنگی قیدیوں میں سے بڑے بڑے افسروں کو توکچھ نہیں کہا جاتا لیکن
عام قیدیوں سے سختی سے کام لیا جاتا ہے مگر اسلام کہتا ہے (1) تم کسی قیدی سے اس کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو(2)دوسرے جو کچھ خود کھائو وہی اُس کو ِکھلائو اور جو کچھ خود پہنو وہی اُس کو پہنائو۔ اب ذرا یورپین حکومتیں بتائیں تو سہی کہ کیا وہ بھی ایسا ہی کرتی ہیں؟ کیا انگریز، جرمن اور جاپانی قیدیوں کو وہی کچھ کھلاتے ہیں جو خود کھاتے ہیں یا جرمن انگریز قیدیوں کو وہی کچھ کھانے کے لئے دیتے ہیں جو خود کھایا کرتے ہیں وہ ایسا ہر گز نہیں کرتے۔ مگر اسلام کہتا ہے جو کھانا خود کھائو وہی ان کو ِکھلائو اور جو کپڑا خود پہنو وہی اُن کو پہنائو۔ اس بارہ میں صحابہؓ اس قدر تعہّدسے کام لیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ صحابہؓ ایک سفر پر جا رہے تھے اور ان کے ساتھ بعض غلام بھی تھے وہ غلام خود روایت کرتے ہیں کہ راستہ میں جب کھجوریں ختم ہونے کو آئیں تو صحابہؓ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود تو گٹھلیوں پر گزارہ کریں گے اور ہمیں کھجوریں ِکھلائیں گے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتے رہے اورگٹھلیاں بھی انہیں کافی نہ ملتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکتا۔ تو یہ حکم جو اسلام نے دیا ہے کہ جو کچھ خود کھائو وہی اپنے قیدیوں کو کھلائو اس کی نظیر دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی صرف صحابہ کرامؓ ہی ہیں جنہوں نے یہ نمونہ دکھایا۔
اسلامی تعلیم میں جنگی قیدیوں پر سختی
کرنے اور اُن کو مارنے پیٹنے کی ممانعت
پھر فرماتا ہے انہیں مارو پیٹو نہیں اور اگر کوئی شخص انہیں غلطی سے مار بیٹھے تو وہ غلام جسے مارا گیا ہو اُسی وقت آزاد ہو جائے گا۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور آپؐ نے دیکھا کہ ایک صحابیؓ کسی غلام کو مار رہے ہیں یہ صحابیؓ خود بیان کرتے ہیں کہ میں اسی حالت میں تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ آواز سنی کہ تم کیا کرتے ہویہ جاہلیت کا فعل ہے۔ آج کل تو لوگ اپنے نوکروں کو بھی مار لیتے ہیں اور اسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک غلام کے مارے جانے پر اس صحابیؓ کو ڈانٹا اور فرمایا تم کیا کرتے ہو جس قدر تمہیں اس غلام پرمَقْدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ خدا تعالیٰ کو تم پرمَقْدرت حاصل ہے۔ وہ صحابیؓ کہتے ہیں میں یہ آواز سن کر کانپ گیا اور میں نے کہا یَارَسُولَ اللّٰہِ! میں اسے آزاد کرتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم اسے آزاد نہ کرتے تو جہنم میں جاتے۔ ۲۱؎
اسی طرح ایک اور صحابیؓ کہتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس صرف ایک لونڈی تھی ایک دفعہ ہم میں سے سب سے چھوٹے بھائی نے کسی قصور پر اُسے تھپڑ مار دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپؐ نے فرمایا اسے تھپڑ مارنے کا جُرمانہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اسے آزاد کر دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ گویا کوئی سخت مار پیٹ نہیں ایک تھپڑ بھی کسی غلام یا لونڈی کو مارنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ناپسند تھا اور آپؐ اس کا کفارہ صرف ایک ہی چیز بتاتے تھے کہ اسے آزاد کر دیا جائے۔ آج کل تو مار مار کر جسم پر نشان ڈال دیتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ سونٹا نہیں اگر تم تھپڑ بھی مار بیٹھتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم غلام رکھنے کے قابل نہیں اور تم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تم اس بات کے اہل نہیں کہ تمہارے ماتحت کسی کو رکھا جا سکے تم اسے فوراً آزاد کر دو۔۲۲؎
شادی کے قابل جنگی قیدیوں کی شادی
کر دینے کے متعلق اسلامی ہدایت
پھر فرماتا ہے اگر وہ شادی کے قابل ہوں اور جوان ہوں تو تم ان کی شادی کر دو کیونکہ نہ معلوم وہ کب آزاد ہوں۔ چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم
میںحکم دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِن عِبَادِکُمْ وَ اِمَآئِکُمْ ۲۳؎
تمہاری لونڈیوں اور غلاموں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ان کے متعلق ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم ان کی شادی کر دیا کرو۔
اب بتائو کیا آجکل کا انٹرنیشنل قانون اس سے زیادہ حُسنِ سلوک سکھاتا ہے۔ آجکل تو ان کی پہلی بیویوں کو بھی ان کے پاس آنے نہیں دیتے کُجا یہ کہ خود ان کی شادی کر دیں۔ مگر اسلام کہتا ہے جو کچھ خود کھائو وہی ان کو کھلائو، جو کچھ خود پہنو وہی ان کو پہنائو، ان میں سے جو شادی کے قابل ہوں ان کی شادی کر دو، ان پر کبھی سختی نہ کرو اور اگر تم کسی وقت انہیں مار بیٹھو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم انہیں فوراً آزاد کر دو۔ پھر کیا آج قیدیوں کو کوئی بھی حکومت یہ اقرار لے کر کہ وہ آئندہ ان کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوں گے چھوڑنے کو تیار ہے؟ یا کیا بغیر تاوانِ جنگ کے کوئی کسی جنگ کرنے والی حکومت کو چھوڑتا ہے؟
اسلام میں فدیہ یعنی تاوانِ جنگ
کے ذریعہ جنگی قیدیوں کی رہائی
مگر اسلام نے تاوانِ جنگ کو بھی اتنا نرم کر دیا ہے کہ فرمایا یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور احسان کو مقدم رکھا اور اس کی برداشت نہ ہو تو تاوانِ جنگ لے کر چھوڑ دو اور فدیہ تاوانِ جنگ کے سِوا اور کچھ
نہیں ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ پہلے جنگ انفرادی ہوتی تھی اس لئے افراد سے تاوانِ جنگ وصول کیا جاتا تھا مگر اب قومی جنگ ہوتی ہے ا س لئے اب طریق یہ ہوگا کہ قوم تاوانِ جنگ ادا کرے۔ پہلے چونکہ باقاعدہ فوجیں نہ ہؤا کرتی تھیں اور قوم کے افراد پر جنگی اخراجات کی ذمہ داری فرداً فرداً پڑتی تھی اس لئے اُس وقت قیدی رکھنے کا بہترین طریق یہی تھا کہ اُن کو افراد میں تقسیم کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ ان سے اپنے اپنے اخراجاتِ جنگ وصول کر لیں۔ مگر جب حکومت کی باقاعدہ فوج ہو اور افراد پر جنگی اخراجات کا بار فرداً فرداً نہ پڑتا ہو تو اُس وقت جنگی قیدی تقسیم نہ ہوں گے بلکہ حکومت کی تحویل میں رہیں گے اور جب دوسری قوم تاوانِ جنگ ادا کر دے گی تو پھر ان سے کوئی خدمت نہیں لی جائے گی اور انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ اب بتائو جب قیدی کو فدیہ دے کر رہا ہونے کا اختیار ہے تو وہ کیوں فدیہ ادا کرکے اپنے آپ کو رہا نہیں کرا لیتا۔ اگر وہ خود فدیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کے رشتہ دار فدیہ دے سکتے ہیں۔ اگر وہ بھی فدیہ نہیں دے سکتے توحکومت فدیہ دے کر اسے رہا کرا سکتی ہے۔ بہرحال کوئی صورت ایسی نہیں جس میں اس کی رہائی کا دروازہ ُکھلا نہ رکھا گیا ہو۔
فدیہ نہ دے سکنے والے کی رہائی کی صورت
ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ ہو سکتا ہے ایک شخص غریب ہو اور وہ خود فدیہ ادا
کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، گورنمنٹ ظالم ہو اور اسے رہاکرانے کا کوئی احساس نہ ہو، رشتہ دار لاپرواہ یا بدمعاش ہوں اور وہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہے تاکہ وہ اس کی جائداد پر قبضہ کر لیں، دوسری طرف مالک کی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو کیونکہ بالکل ممکن ہے جو رقم اس نے جنگ میں خرچ کی تھی اس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہو تو ایسی صورت میں وہ اپنی رہائی کے لئے کیا صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب بھی قرآن کریم نے دیا ہے۔ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْ ھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیَٓ اٰتٰکُمْ ۲۴؎
یعنی وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے تمہارا غلام بنایا ہے اور تمہیں ان پر قبضہ اور تصرف حاصل ہے اگر وہ تم سے کہیں کہ صاحب ہمیں ُچھڑانے والا کوئی نہیں اور نہ ہمارے پاس دولت ہے کہ ہم فدیہ دے کر رہا ہو سکیں ہم غریب اور نادار ہیں ہم آپ سے یہ شرط کر لیتے ہیں کہ آپ کی رقم دو سال یا تین سال یا چار سال میں ادا کر دیںگے اور اس قدر ماہوار قسط آپ کو ادا کیا کریں گے آپ ہمیں آزاد کر دیں تو فَکَاتِبُوْ ھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا ۔ تم اس بات پر مجبور ہو کہ ان کو آزاد کر دو اور ان کے فدیہ کی رقم کی قِسطیں مقرر کر لو بشرطیکہ تمہیں معلوم ہو کہ وہ روپیہ کمانے کی اہلیت رکھتے ہیں بلکہ تمہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کوجو کچھ دیا ہے اس میں سے ان کی مدد کرو۔ یعنی انہیں کچھ سرمایہ بھی دے دو تاکہ اس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکیں۔ گویا جس وقت قِسطیں مقرر ہو جائیں اُسی وقت سے وہ اپنے اعمال میں ویسا ہی آزاد ہوگا جیسے کوئی دوسرا آزاد شخص اور وہ اپنے مال کا مالک سمجھا جائے گا۔
اگر ان تمام صورتوں کے باوجود کوئی شخص پھر بھی غلام رہتا ہے اور آزاد ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود غلام رہنا چاہتا ہے اور اسے غلامی میں مزا آتا ہے۔ غرض اسلامی تعلیم کے ماتحت غلام دُنیوی جنگوں میں نہیں بنائے جاتے بلکہ صرف انہی جنگوں میں بنائے جاتے ہیں جو مذہبی ہوں مگر ان غلاموں کے متعلق بھی حکم دیا کہ اول تو احسان کرکے انہیں چھوڑ دو۔ اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو فدیہ لے کر رہا کر دو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود فدیہ دے اس کے رشتہ دار بھی دے سکتے ہیں، حکومت بھی دے سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ لاپرواہ ہو، رشتہ دار ظالم ہوں اور وہ غریب ہو تو وہ کہہ سکتاہے کہ آئو میرے ساتھ طے کر لو کہ مجھ پر کیا تاوانِ جنگ عائد ہوتا ہے اور مجھے اس تاوان کی ادائیگی کے لئے اتنی مُہلت دے دو میں اس عرصہ میں اس قدر ماہوار روپیہ ادا کرکے تاوانِ جنگ دے دوں گا۔ اس معاہدہ کے معاً بعد وہ آزاد ہو جائے گا اور مالک کا کوئی حق نہیں ہوگا کہ وہ مکاتبت میں کسی قسم کی روک پیدا کرے۔مکاتبت کا روکنا صرف اسی صورت میں جائز ہے جبکہ اس میں خیر نہ ہو یعنی جنگ کا خطرہ ہو یا یہ کہ وہ پاگل یا کم عقل ہو اور خود کما نہ سکتا ہو اور خطرہ ہو کہ وہ بجائے فائدے کے نقصان اُٹھائے گا۔ مکاتبت کی صورت میں اسلام اسے سرمایہ مہیا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے خواہ وہ سرمایہ مالک دے یا حکومت۔
قیدیوں کی رہائی کے متعلق اسلام کی انتہائی کوشش
پھر ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے اگر پاگل یاکم عقل والے کی
مکاتبت کوروکنا جائز ہے تو پھر لوگ اچھے بھلے سمجھدار لوگوں کو بے عقل قرار دے کر اپنا غلام بنائے رکھیں گے آزاد تو وہ پھر بھی نہ ہؤا۔اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی صورت میں وہ گورنمنٹ کے پاس درخواست کر سکتا ہے کہ میں صاحبِ عقل ہوں، کما سکتا ہوں مگر میرا مالک مجھے جان بوجھ کر غلام بنائے ہوئے ہے ایسی صورت میں قاضی فیصلہ کرکے اسے آزادی کا حق دے دیگا۔ غرض کوئی صورت ایسی نہیں جس میں غلاموں کی آزادی کومدنظر نہ رکھا گیا ہو۔ اول مالک کو کہا کہ وہ احسان کرکے چھوڑ دے۔ دوم اگر مالک ایسا نہ کر سکے تو غلام کو اختیار دیا کہ وہ تاوانِ جنگ ادا کرکے آزادی حاصل کر لے اوراگر فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو تو مکاتبت کر لے اور کہہ دے کہ میں اتنی قسطوں میں روپیہ دے دوں گا مجھے دو یا تین سال کی مہلت دے دو۔ ایسا معاہدہ کرتے ہی وہ عملاً آزاد سمجھا جائے گا اور اگر ان ساری شرطوں کے باوجود کوئی شخص یہ کہے کہ میں آزاد ہونا نہیں چاہتا تو ماننا پڑے گا کہ اسے اپنی غلامی آزادی سے اچھی معلوم ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس جو غلام تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکام کے ماتحت وہ اس عمدگی اور آرام کے ساتھ رکھتے تھے کہ انہیں اپنی آزادی سے صحابہؓ کی غلامی بہتر معلوم ہوتی تھی۔
صحابہ کرام ؓ کا غلاموں سے حُسنِ سلوک
صحابہؓ جو کچھ کھاتے وہی انہیں ِکھلاتے جو کچھ پہنتے وہی ان کو پہناتے،انہیں بدنی
سزا نہ دیتے، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو وہ کر نہ سکتے، ان سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جس کے کرنے سے وہ خود کراہت کرتے اور اگر لیتے تو کام میں ان کے ساتھ شریک ہوتے اور اگر وہ آزادی کا مطالبہ کرتے تو انہیں فوراً آزادی دے دیتے بشرطیکہ وہ اپنا فدیہ اداکر دیں۔ ان حالات کو دیکھ کر غلاموں کا جی ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ آزاد ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں ہمیں اچھا کھاناکھانے کوملتا ہے بلکہ آقا پہلے ہمیں ِکھلاتا ہے پھر خود کھاتا ہے گھر گئے تومعمولی روٹی ہی ملے گی اس لئے وہ آزادی کا مطالبہ ہی نہیں کرتے تھے۔ پس گووہ غلام تھے مگر درحقیقت ان کے دل فتح ہو چکے تھے اور ایسے ہی تھے جیسے حضرت خدیجہؓ کے غلام زید بن حارثہ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو آزادی پر ترجیح دی۔
غلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کے ُحسنِ سلو ک کا نمونہ اور اس کا نتیجہ
جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام دولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دے دی اور زیدؓ کو بھی جو
ان کے غلام تھے آپ کے سپرد کر دیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو آزاد کر دیا۔ حضرت زیدؓ دراصل غلام نہیں تھے بلکہ ایک آزاد خاندان کے لڑکے تھے کسی لُوٹ مار میں وہ قید ہو گئے اور ہوتے ہوتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچے۔ ان کے باپ اور چچا دونوں ان کو تلاش کرتے کرتے مکہ میں آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ زیدؓ کو ہمارے ساتھ بھیجا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت زیدؓ کو آزاد کر چکے تھے آپؐ نے فرمایا میری طرف سے کوئی روک نہیں اگر یہ جانا چاہتا ہے تو بے شک چلا جائے۔ انہوں نے زیدؓ سے کہا کہ بیٹا! گھر چل تیری ماں روتی ہے اور اسے تیری جُدائی کا سخت صدمہ ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی تجھے آزادکر دیا ہے اور اجازت دے دی ہے کہ ُتو ہمارے ساتھ واپس چلا جا۔ زیدؓ نے کہا انہوں نے بے شک مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں دل سے ان کا غلام ہی ہوں اور اس غلامی سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ باپ نے بہت منّت سماجت کی اور کہا کہ دیکھ اپنی بوڑھی ماں کا خیال کر چچا نے بھی بہت کوشش کی اور کہا کہ ماں باپ سے بڑھ کر اور کون حُسنِ سلوک کر سکتا ہے ہمارے ساتھ چل ہم تجھے بڑی محبت سے رکھیں گے مگر حضرت زیدؓ نے کہا میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ میرے ساتھ جو کچھ یہ سلوک کرتے ہیں اس سے بہتر سلوک دنیا کی کوئی ماں اور دنیا کا کوئی باپ نہیں کر سکتا۔
اب بتائو کیا اس غلامی پر اعتراض ہو سکتاہے ؟یا انسان کا دل تشکّر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہو جاتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ حیران ہو جاتاہے کہ کیا دنیا میں دو انسانوں کے درمیان ایسے شریفانہ تعلقات بھی ہو سکتے ہیں۔
ابتدائے اسلام میں بعض لوگوں کے غلام رہنے کی وجہ
پس اگر ابتدائے اسلام میں بعض غلام غلام ہی رہے
تو اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مسلمان غلاموں سے ایسا حُسنِ سلوک کرتے تھے کہ وہ غلام خود چاہتے تھے ہم پر یہ حکومت کرتے چلے جائیں اور ہم ان کی غلامی میں ہی رہیں کیونکہ ان کی غلامی آزادی سے بدرجہا بہتر ہے مگر یورپ کے پادری دُور بیٹھے اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو دور نہیں کیا۔ بڑے بڑے جلسوں میں لیکچر ار اپنے وقت سے پانچ منٹ بھی زیادہ تقریر کریں تو لوگ شور مچانے لگ جاتے ہیں مگر یہ دل کی غلامی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کا نتیجہ ہی ہے کہ یہاں ہمارے جلسہ میں خواہ سردی لگے، بھوک لگے، ہاتھ پائوں شَل ہو جائیں پھر بھی لوگ بیٹھے رہتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں کہ تقریر جاری رہے۔ یہ غلامی آیا اِس قابل ہے کہ اس پر اعتراض کیا جائے یا یہ غلامی ایمانوں کو بڑھانے والی ہوتی ہے۔ یہ غلامی بندوں کی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے۔
غرض کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اب تو دنیا آگے نکل گئی ہے اس نے غلامی کو مٹا دیا ہے کیونکہ اسلام نے شروع سے ہی غلامی کو کُلّی طور پر مٹا دیا ہے۔ ہاں جنگی قیدی بنانے کی اس نے اجازت دی ہے مگر ان کے بارہ میں بھی وہ قواعد بنائے کہ اب تک بھی دنیا ان سے پیچھے ہے۔ اس وقت نہ اتحادی ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں نہ محوری ۲۵؎ ان قواعد پر عمل کرنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔
لوگوں پر ظلم روا رکھنے کے متعلق بعض فلسفیانہ نظریے
خلاصہ یہ کہ اسلام نے غلامی کو یکسر مٹا دیا ہے۔ اب
رہا وہ دُکھ جو باطنی غلامی سے پیدا ہوتا ہے یعنی غربت یا ماتحتی کی وجہ سے، اس کا علاج بھی اسلام نے کیا ہے مگر اس علاج کو سمجھنے سے پہلے یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کے امتیازی فرق بعض فلسفی نظریوں کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ نظریے یہ ہیں۔
پہلا نظریہ
اول بعض کہتے ہیں کہ دنیا میں جس کا زور چلتا ہو وہی لے جاتا ہے اس لئے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے۔ انگریزوں کا زور چلا تو انہوں نے کئی ملکوں پر
قبضہ کر لیا، اسی طرح جب اٹلی نے ایبے سینیاپر حملہ کیا تو مسولینی نے ایک تقریر کی جس میں کہا کہ ہم نے یہ حملہ محض ایبے سینیا والوں کی خدمت کرنے کے لئے کیا ہے اور اس اقدام سے ہماری وہی غرض ہے جو انگریزوں کی ہندوستان میں تھی۔ وہ کہتے ہیں ہندوستان پر ہم اس لئے حکومت کر رہے ہیں کہ وہاں کے جاہلوں کو پڑھائیں اور اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر دیں۔ پھر کیا ہم میں انسانیت نہیں پائی جاتی کہ ہم دوسروں کی خدمت نہ کریں اور ان کے ملک پر قبضہ کرکے ان کی جہالت کو دور نہ کریں۔ پس یہ بھی ایک دلیل ہے جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔
دوسرا نظریہ
دوسرے بعض کہتے ہیں کہ جو فائق ہو اسے فائق ہی رہنا چاہئے یعنی مالی طور پر جس کا غلبہ ہو اور جو اپنے زورِ بازو سے کماتا ہو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے۔
تیسرا نظریہ
اسی طرح ایک اور نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ نسلی فوقیت بھی ایک حقیقی فوقیت ہے اس کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عقیدہ ویسا ہی ہے
جو ہندو مذہب میں پایا جاتا ہے کہ شودر شودر ہی رہے گا ویش ویش ہی رہے گا کھتری کھتری ہی رہے گا اور برہمن برہمن ہی رہے گا۔ بقول ان کے یہ امتیاز جو نسلی طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے مٹ نہیں سکتا۔
چوتھا نظریہ
ایک اور قانون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف جمہور کو حکومت کرنے کا حق ہے اس لئے اقلیتوں پر جو چاہو ظلم کرو۔ اس نظریہ کے ماتحت یہ لوگ
اقلیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور تھوڑے آدمیوں کی آواز کو سنتے ہی نہیں۔
پانچواں نظریہ
اسی طرح ان کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ جو گِری پڑی چیز ملے لے لو۔ ہم بچپن میں جب آپس میں کھیلا کرتے اور ہمیں کوئی گِری پڑی چیز مل جاتی
تو ہم یہ کہتے ہوئے اُسے اُٹھا لیتے کہ ’’لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پادی‘‘ اور سمجھتے کہ یہ کوئی ایسا منتر ہے جس کو پڑھ کر گِری پڑی چیز کو اُٹھا لینا بالکل جائز ہو جاتا ہے مگر وہ چیز جو بچوں کو کھیلتے ہوئے مل جاتی ہے کوئی قابلِ ذکر نہیں ہوتی۔ کبھی انہیں مکئی یاچنے کا دانہ زمین پر پڑا ہؤا مل جاتا ہے، کبھی بٹن یا ایسی ہی کوئی چیز مل جاتی ہے اور وہ اُسے اُٹھا لیتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی ایک دفعہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ !گری پڑی چیز کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا مثلاً؟ اُس نے کہا مثلاً جنگل میں مجھے کوئی بکری مل جائے تو آیا میں اسے لے لوں یا نہ لوں؟ آپؐ نے فرمایا جنگل میں اگر تجھے کوئی بکری مل جائے تو ُتو اِدھر اُدھر آواز دے کہ یہ کس کی بکری ہے اور اگر آواز دینے کے باوجود تجھے اس کا مالک نہ ملے تو تو اُسے لے لے اور کھا جا کیونکہ اگر ُتو نہیں کھائے گا تو تیرا بھائی بھیڑیا اُسے کھا جائے گا۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر جنگل میں اُونٹ مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا تعلق ہے؟ اونٹ کا کھانا درختوں پر اور اُس کاپانی اُس کے پیٹ میں ہے ُتو اِس اونٹ کا کیالگتا ہے ُتو اُسے پھرنے دے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اگر کہیں گِری پڑی کوئی تھیلی مجھے مل جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ آپؐنے فرمایا تھیلی ملے تو اُسے اُٹھا لو اور لوگوں میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرتے رہو جب اُس کا مالک مل جائے تو اُسے دیدو۔ پس ہر گِری پڑی چیز کے لئے الگ الگ قانون ہے۔ بکری اور مرغی چونکہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں جانور کھا جاتے ہیں اس لئے اگر ان کا مالک نہ ملے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ انہیں پانے والا اپنے استعمال میں لے آئے۔ لیکن جو باقی چیزیں ہیں ان میں سے جو حفاظت سے رہ سکتی ہیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں ہاتھ مت لگائو اور جو حفاظت سے نہیں رہ سکتیں ان کے متعلق حکم دیا کہ انہیں اُٹھا تو لو مگر متواتر لوگوں میں اعلان کرتے رہو اور پھر ان کے اصل مالک تک انہیں پہنچا دو۔ تو اسلام نے گِری پڑی چیزوں کے متعلق نہایت پُر حکمت احکام دیئے ہیں مگر اب یورپین اقوام کا اصول یہ ہے کہ جو لاَوارث ، کمزور قوم ہو اس پر قبضہ کر لو۔ اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں گِرا پڑا مال مل گیا ہے۔ آسٹریلیا کتنا بڑا ملک ہے ا س کے متعلق یورپین لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہمیں لَاوارث مال مل گیا ہے، ہندوستان کی حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے، شمالی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے، جنوبی امریکہ کے متعلق کہتے ہیں یہ ہمیں َلاوارث مل گیا ہے۔ غرض پانچواں نظریہ یورپین اقوام کا یہ ہے کہ نیا دریافت کردہ ملک جو بھی دریافت کر لے یا کمزور حکومت جہاں بھی ہو وہ پہلے پہنچنے والے کی ہے۔ ان اصول کے علاوہ جن کی وجہ سے دنیا میں ظلم ہو رہا ہے کچھ عملی خامیاں بھی اس ظلم کی ذمہ دار ہیں۔
لوگوں پر ظلمرَوا رکھنے والی عملی خامیاں
پہلی عملی خامی تو یہ ہے کہ معذور و مجبور کا ذمہ دار کسی محکمہ کو قرار نہیں دیا جاتا رہا گو اَب اس
کی بعض ممالک میں تدریجاً اصلاح ہو رہی ہے اور بعض محکمے ایسے بنے ہیں جن کے ذریعہ اس کوتاہی کا ازالہ کیا جاتا ہے مگر اب بھی انہوں نے جو نئی سکیم بنائی ہے وہ اسلامی تعلیم کو نہیں پہنچتی۔
دوسرے ایسے راستے ُکھلے رکھے گئے تھے جن سے بعض افراد کے ہاتھ میں تمام دولت آجائے۔
تیسرے ایسے راستے ُکھلے تھے کہ جن کے ہاتھ میں دولت آجائے وہ پھر نکلے نہیں۔
چوتھے بے مصرف فنون پر روپیہ خرچ کیا جاتا اور اس کا نام آرٹ رکھا جاتا ہے ان میں سے بعض کسی جگہ اور بعض کسی جگہ رائج ہیں اور بعض سب جگہ رائج ہیں۔
اسلام نے ان سب خرابیوں کے دروازے بند کرکے ترقی کے نئے رستے کھولے ہیں۔ چنانچہ اسلام نے ان سب امورکا ان طریقوں پر علاج کیا ہے:-
باطنی غلامی یعنی ماتحتی کی وجہ سے پیدا
ہونے والے دُکھ کا علاج اسلام میں
اول اسلام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ خداتعالیٰ نے پیدا کیا ہے وہ ساری دنیا کے لئے ہے۔ کسی ایک کے لئے پیدا نہیں کیا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ماں باپ بعض دفعہ مٹھائی
کی تھالی اپنے کسی بچے کو پکڑاتے ہیں تو وہ اکیلا ہی اسے کھا جانا چاہتا ہے اس پر اس کے ماں باپ اسے کہتے ہیں کہ یہ حصہ صرف تمہارا نہیں بلکہ تمہارے سب بھائیوں کا اس میں حق ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۲۶؎ اس دنیا میں جوکچھ ہے وہ سب بنی نوع انسان کی مجموعی مِلک ہے جیسے ماں اپنے کسی بچہ کو مٹھائی کی تھالی دے کر کہتی ہے کہ یہ تم سب بھائیوں کا حصہ ہے۔
اس اصل کے ماتحت اسلام نے امپیریلزم، نیشنل سوشلزم اور موجودہ انٹرنیشنل سوشلزم سب کو ردّ کر دیا ہے کیونکہ یہ فلسفے طاقتور اور عالِم اور منظم قوموں کو دوسری اقوام پر تصرّف کا حق دیتے ہیں۔ آج کل بھی یہی بحث ہو رہی ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے تو کل افریقہ والے اپنی آزادی کا مطالبہ کریں گے حالانکہ وہ ننگے پِھرتے تھے اور ہم نے انہیں تہذیب سکھائی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ ننگے پِھرتے تھے تو تم ان کا ننگ نہ دیکھتے اور اپنے گھرو ں میں بیٹھ رہتے۔ تم کہتے ہو وہ درختوں کے پتے کھایا کرتے تھے مگر ہم نے انہیں یہ آدمیت سکھائی اب کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم ان پر حکومت کریں۔ ہم کہتے ہیں اگر وہ درختوں کے پتے یا پھل ہی کھایا کرتے تھے تو تمہارا کیا حق تھا کہ تم ان کے ملک پر قبضہ کرتے انہیں کیک ِکھلاتے۔ پس ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس میں ساری دنیا کا حصہ ہے یہ نہیں جیسے آج کل سائوتھ افریقہ میں قانون بنا دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی غیر شخص داخل نہ ہو، اسی طرح امریکہ والوں نے قانون بنا دیا ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی اورشخص داخل نہ ہو حالانکہ سائوتھ افریقہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے اسی طرح امریکہ کا فائدہ ساری دنیا کو حاصل ہونا چاہئے یہ نہیں کہ صرف سائوتھ افریقہ اور امریکہ والے ہی ان سے فائدہ اُٹھائیں باقی دنیا محروم رہ جائے۔
کانوں کی دریافت کے متعلق اسلام کا حکم
اسی طرح اسلام نے ان مالدار لوگوں کے ظلم کو بھی ردّ کر دیا ہے جو طبعی وسائل
سے کام لے کر دولت جمع کرتے ہیں اور ان میں باقی دنیا کا حصہ قرار دیا ہے اگر وہ طبعی وسائل سے کام نہ لیں تو کبھی اس قدر مالدار نہیں ہو سکتے مگر اب وہ دولت کے زور سے کانوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس طرح دوسروں کے حقوق کو تلف کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اسلام نے اس کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ کانوں میں سے پانچواں حصہ گورنمنٹ کا مقرر کیا ہے اورپھر جومال کانوں کے مالک جمع کریں اور اس پر سال گزر جائے اس پر زکوٰۃ الگ ہے۔ گویا اس طرح حکومت کانوں میں حصہ دار ہوجاتی ہے اور غرباء کیلئے ایک کافی رقم جمع ہو جاتی ہے جس سے ان کے حقوق ادا کئے جا سکتے ہیں اور وہ نقص پیدا نہیں ہوتا جو کانوں کی دریافت کی وجہ سے نظامِ تمدن میں واقع ہوتا ہے۔
دوسروں کے اموال کو اُن کی خبر گیری کرنے کے
بہانہ سے اپنے قبضہ میں کر لینے کا علاج اسلام میں
دوسرا علاج اسلام نے یہ کیا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دیا کہ
لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ
وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۲۷؎ فرماتا ہے تم دوسروں کے اموال اس بہانہ سے نہ لو کہ ہم ان کی خبر گیری کریں گے لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ جوکچھ ہم نے لوگوں کومال دیا ہے اس کی طرف آنکھیں اُٹھا اُٹھا کر نہ دیکھو وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ اور یہ نہ کہو کہ ہمیں ان کی حالت کو دیکھ کر بڑا غم ہوتاہے فرماتا ہے یہ غم تم اپنے لئے ہی رہنے دو۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ تمہاری اپنی رعایا موجود ہے تم اس کی تمدنی ترقی کے لئے جتنی کوششیں چاہو کرو تمہیں اس سے کوئی منع نہیں کرتا۔ ہاں اگر تم یہ کہو کہ ہمیں دوسروں کا غم بے چین کئے ہوئے ہے اور ان کی ترقی کے لئے ہم ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سے متفق نہیں۔ تم اپنے گھر بیٹھو اور انہیں اپنے گھر میں رہنے دو۔ آجکل تمام کالونیزیشن کی بنیاد اسی غلط دعویٰ پر ہے کہ ہم ان کی بھلائی کے لئے ان کے ملک پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور یہی بہانہ ہر ملک پر قبضہ جماتے وقت کیاجاتا ہے مگر اس دعویٰ کی حقیقت تھوڑے عرصہ کے بعد ہی ُکھل جاتی ہے جب اس ملک کی تمام دولت اپنے قبضہ میں لے لی جاتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ایسٹ افریقہ میں چلے جائو وہاں یورپین گورنمنٹ ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہاں انگریز تو بڑے بڑے مالدار ہیں مگر خود وہاں کے باشندے غربت کی حالت میں ہیں اور ان کے خادم بن کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ پس فرماتا ہے کہ اپنے آدمیوں کی بھلائی کی فکر کرو دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ غریب جس طرح ہوگا اپنی خبر گیری کر لیں گے۔ اگر کہا جائے کہ کیا ان کی مدد نہ کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کی خدمت مت کرو وہ جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کیلئے خبر گیری مت کرو۔ اب خدمت تو ایک مدرّس بھی کرتا ہے مگر اس کی خدمت اتنی ہی ہوتی ہے کہ علم پڑھاتا ہے اور تنخواہ وصول کر لیتا ہے مگر یہ لوگ تو جب کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہاں کی زمینیں اپنے آدمیوں میں بانٹ دیتے ہیں اور ہزاروں لوگ خانماں بربادہو جاتے ہیں۔ پس فرماتا ہے یہ طریق درست نہیں۔
اول تو دوسروں کے ملک میں سیاسی طور پر نہ جائو اور اگر جائو تو خادموں کی حیثیت سے جائو۔ پس دوسروں کے فائدہ کے لئے بغیر ملک پر قبضہ کرنے کے مدد دینا منع نہیں ۔ منع یہی ہے کہ انسان خادم کی حیثیت سے نہ جائے بلکہ ملک پر قبضہ کرنے کے لئے جائے۔ اب دیکھو بالشویک نے بھی کچھ کمی نہیں کی وہ فِن لینڈ پر چڑھ دَوڑے اور اس پر قبضہ کر لیا اور شور یہ مچا رہے تھے کہ ہم وہاں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پس اسلام کہتا ہے یہ طریق درست نہیں تمہیں اس سے اجتناب کرنا چاہئے حقیقت یہ ہے کہ تمام کالونیز کا سوال صرف اورصرف اس طرح حل ہو سکتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے ورنہ موجودہ طریقے سب غلط اور نادرست ہیں۔
اسلامی لیگ آف نیشنز اور اس کے چار بنیادی اصول
تیسرا اصل اسلام یہ بتاتا ہے کہ جب تک دنیا ایک
محور پر نہیں آجاتی امن کے قیام کے لئے سب کو ان کی حدود کے اندر رکھو۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ ساری دنیا کو اکٹھا کرکے ایک محور پر لایا جائے مگر جب تک ایسا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے وہ یہ ہدایت دیتا ہے۔ وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَا ئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنََ ۲۸؎
یعنی اگر دو حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو تم ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو اور اگر وہ صلح اور پیار سے آپس کے جھگڑے کو نہ نپٹائیں اور ایک حکومت دوسرے پر چڑھائی کر دے تو پھر ساری حکومتیں مل کر چڑھائی کرنے والے کا مقابلہ کریں۔ جب وہ اپنی ہار مان لے اور کہے بہت اچھا میں لڑائی بند کرتی ہوں تو پھر دوبارہ ان کے درمیان صلح کرائو اور تفصیلات طے کرو۔ مگر یاد رکھو جب شرائط ِصلح طے کرنے لگو تو اس غصہ کی وجہ سے کہ اس نے کیوں جنگ کی۔ عدل و انصاف کو ترک نہ کرو اور ایسا نہ کرو کہ پھر اپنا حصہ بھی مانگنے لگو بلکہ جو جھگڑا تھا اُسی تک اپنے آپ کو محدود رکھو۔
دیکھو یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اُس وقت کوئی مسلمان گروہ ایسے نہ تھے جن میں لڑائی کا خطرہ ہوتا۔ پس درحقیقت یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی۔ بغی اور قَاتِلُوْا کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ اس کا تعلق حکومت سے ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر دو حکومتیں آپس میں جھگڑ پڑیں تو تمہیں یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ ان حکومتوں کو مجبور کرو کہ وہ قوموں کی پنچایت سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں۔ اگر وہ منظور کر لیں تو بہتر اور اگر منظور نہ کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کر دے تو باقی سب کا فرض ہے کہ اس کے مقابلہ میں یکجا ہو جائیں اور اس پرحملہ کرکے اسے مغلوب کریں اور آخر میں جب مغلوب ہو کر وہ صلح پر آمادہ ہو جائے تو انصاف اور دیانت کے ساتھ شرائط طے کرو۔ انتقام کے جوش میںاس قوم کے حصے بخرے کرنے اور ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اس آیت میں جو اصول بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔
(1 )۔ اگر حکومتوں میں اختلاف ہو تو دوسری حکومتیں زور دے کر انہیں تبادلۂ خیالات کرکے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں۔
(2) ۔ اگر ان میں سے کوئی فریق نہ مانے اور جنگ کرے تو سب مل کر لڑنے والے سے جنگ کریں۔
(3)۔ جب حملہ آور مغلوب ہو جائے اور باہمی سمجھوتہ کے فیصلہ پر راضی ہو جائے تو پھر سب ساتھ مل کر صلح کا فیصلہ کرائیں (آیت میں پہلی صلح۔ صلح سے کام کرنے اور آپس میں مصالحت سے رہنے کے معنوں میںہے اور دوسری صلح شرائط صُلح سے طے کرانے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ دوبارہ شرائط کے کوئی معنے نہیں۔ عدل کا اضافہ بھی اس پر دال ہے)۔
(4)۔ لیکن جنگ کی وجہ سے غصہ سے کام نہ لیں جس کا حق ہو اُسے دیں۔ بعض دفعہ حق والا بھی غصہ سے لڑ پڑتا ہے مگر حق بہرحال اُسی کا ہوتا ہے۔
(5)۔وَاَقْسِطُوْا کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مغلوب یا غالب فریق سے دوسری دخل دینے والی اقوام کوئی فائدہ نہ اُٹھائیں۔
یہ لیگ آف نیشنز اسلام نے اُس وقت پیش کی جب اِس قسم کا کسی کو خیال تک نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے اِس نکتہ کو مجھ پر کھولا جو ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو صرف نبیوں یا خلفاء کا ہی ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص ثابت نہیں کر سکتا کہ اِس قسم کا اہم انکشاف سوائے انبیاء اور خلفاء کے کسی نے آج تک کُتبِ سماویہ میں سے کیا ہو جس کا تعلق سب دنیا سے ہو اور صدیوں کے لئے ہو۔ یورپ کی لیگ اس کی مخالفت سے فیل ہوئی اور میں نے اپنے لیکچر ’’احمدیت‘‘ میں پہلے سے اس کا اشارہ کر دیا تھا کہ اگر لیگ آف نیشنز بنائو تو اِن قرآنی اصول پربنائو مگر چونکہ لیگ کے قیام میں ان شرائط کو مدنظر نہ رکھا گیا اس لئے وہ ناکام ہو گئی۔
موجودہ لیگ آف نیشنز کی ناکامی کی وجوہات
۱۹۲۴ ء میں جب مَیں ولایت گیا تو اُس وقت نئی نئی لیگ آف نیشنز
بنی تھی اور روس وغیرہ درخواستیں دے رہے تھے کہ ہمیں بھی اس لیگ کا ممبر بنایاجائے۔ میں نے اُسی وقت لکھ دیا تھا کہ یہ لیگ ناکام رہے گی اور جن امور کا مَیں نے اِس وقت ذکر کیا ہے ان تمام امور کوتفصیلاً اپنے لیکچر میں بیان کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک ان پانچوں اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا جائے گا لیگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہی لیگ کامیاب ہو سکتی ہے جو قرآن شریف کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق قائم ہو نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مدد کی محتاج ہے اور آپ آگے آگے بھاگی پِھرتی ہے چنانچہ مَیں نے لکھا تھا:-
’’ ان پانچوں نقائص کو دور کر دیا جائے تو قرآن کریم کی بتائی ہوئی لیگ آف نیشنز بنتی ہے اور اصل میںایسی ہی لیگ کوئی فائدہ بھی دے سکتی ہے نہ وہ لیگ جو اپنی ہستی کے قیام کے لئے لوگوں کی مہربانی کی نگاہوں کی جستجو میں بیٹھی رہے‘‘۲۹؎
اسی طرح مَیں نے لکھا تھا:-
’’جب تک کہ لوگ اسلام کی تعلیم کے مطابق یہ نہیں سمجھیں گے کہ ہم سب ایک ہی جنس سے ہیں اور یہ کہ ترقی تنزّل سب قوموں سے لگا ہؤا ہے کوئی قوم شروع سے ایک ہی حالت پر نہیں چلی آئی اور نہ آئند ہ چلے گی کبھی فساد دُور نہ ہو گا۔ لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ قوموں کو زیر وزبر کرنے والے آتش فشاں مادے دنیا سے ختم نہیں ہو گئے نیچر جس طرح پہلے کام کرتی چلی آئی ہے اب بھی کر رہی ہے پس جو قوم دوسری قوم سے حقارت کا معاملہ کرتی ہے وہ ظلم کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر لاتی ہے‘‘۳۰؎
اُس وقت لوگ لیگ آف نیشنز کے قیام پر اتنے خوش تھے کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں مگر میں نے زور دیا کہ جب تک تم یہ شرط نہ رکھو گے کہ جو حکومت غلطی کرے گی اُس سے سب حکومتیں مل کر لڑیں گی اُس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکے گا مگر اس وقت یہی کہا گیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو صلح کی بجائے لڑائی کی بنیاد رکھنا ہے اور نہ صرف اس کی بلکہ ان سب اصول کی جو اسلام نے پیش کئے ہیں تمام موجودہ تحریکات جو نئے نظام کی مدعی ہیںمخالف رہی ہیں مگر اب بائیس سال د ّھکے کھا کر اسی طرف رجوع ہؤا ہے جس کی خبر اسلام نے پہلے سے دے دی تھی او رمضامین لکھے جا رہے ہیں کہ نئی لیگ کے قیام کے وقت یہ شرط رکھی جائے گی کہ اگر کوئی حکومت تصفیہ کی طرف مائل نہ ہو تو اس سے جنگ کی جائے مگر اب بھی تم دیکھو گے کہ اگر وہ اسلامی نظام کی پوری پابندی نہ کریں گے تو ناکام ہی رہیں گے۔
غرباء کی تکالیف کو دُور کرنے کے لئے اسلام میں چار احکام
یہ اصول تو اہم قومی امن کے لئے ہیںاور بغیر ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی صلح کے اندرونی صلح چنداں نفع بھی نہیں دیتی مگر چونکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی صلح کے ساتھ ہی اندرونی یعنی انفرادی اصلاح بھی ضروری ہے اس لئے اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اندرونی اصلاح کے لئے کیا ذرائع تجویز کئے ہیں۔
پہلا حکم یعنی ورثہ کی تقسیم
اس غرض کے لئے اسلام نے چار نظریے قائم کئے ہیں اور ان چاروں کی غرض یہ ہے کہ غرباء کی تکلیف دور ہو جائے
اگر غور کیا جائے تو تمدن میںخرابی واقع ہونے کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ جائدادیں تقسیم نہیں ہوتیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چند لوگوں کے قبضہ میں رہتی ہیں اور غرباء کو جائدادیں پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسلام نے اِس نقص کو دُور کرنے کے لئے ورثہ کے تقسیم کئے جانے کا حکم دیا ہے چنانچہ اسلامی احکام کے مطابق ہر مرنے والے کی جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہو جاتی ہے او رماں کو، باپ کو، بیٹوں کو، شوہر کو، بیوی کو غرض ہر ایک حقدار کو اس کا مقررہ حق مل جاتا ہے اور کسی شخص کو اختیار نہیں ہے کہ وہ اس تقسیم کو اپنی مرضی سے بدل دے بلکہ قرآن کریم یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر تم اس رنگ میںجائداد کو تقسیم نہیں کرو گے تو گنہگار ٹھہرو گے۔ اس کے مقابلہ میں جودوسرے مذاہب ہیں ان میںسے کسی میں تو صرف پہلے بیٹے کو وارث قرار دیا گیا ہے اور کسی میں کسی اورکو۔ َمنو میں لکھا ہے کہ صر ف بیٹوں کو ورثہ دیا جائے بیٹیوں کو نہ دیا جائے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک شخص یا چند اشخاص کے ہاتھ میں تمام دولت جمع ہو جاتی تھی اور غرباء ترقی سے محروم رہتے تھے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب تک تم اپنی دولت کو لوگوں میں پھیلائو گے نہیں اُس وقت تک قوم کو ترقی حاصل نہیں ہو سکے گی چنانچہ دیکھ لو اگر کسی شخص کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہو اور اُس کے دس بیٹے ہوں تو ہر ایک کو دس دس ہزار روپیہ مل جائے گا آگے اگر ان کے تین تین، چار چار بیٹے ہوں تو یہ دس ہزار کی رقم اڑھائی اڑھائی، تین تین ہزار روپیہ تک آجائے گی اور اس طرح سب کو دولت کے حصول کے لئے نئے سرے سے محنت کرنی پڑے گی یہ نہیں ہو گا کہ وہ محض اپنے باپ دادا کی جائداد کے سہارے بیٹھے رہیں اور نہ صرف خود نکمے ہو جائیں بلکہ اپنی دولت کو بند کر لیں۔ انگریزوں نے تو پنجاب کی َنو آبادیوں میں زمین کی تقسیم کے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ صرف بڑا بیٹا ان کا وارث ہو سکتا ہے مگر اب انہوں نے یہ شرط اُڑا دی ہے۔
دوسرا حکم یعنی روپیہ جمع کرنے کی ممانعت
دوسرے اسلام نے روپیہ جمع کرنے سے روکا ہے یعنی وہ یہ نہیں چاہتا کہ
روپیہ کو بند رکھا جائے بلکہ وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ یا تو روپیہ کو خرچ کریں یا اسے کسی کام پر لگائیں کیونکہ دونوں صورتوں میں روپیہ چکر کھانے لگے گا اور لوگوں کو فائدہ ہو گا لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے متعلق اسلام یہ وعید سناتا ہے کہ اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ملے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سونا اور چاندی وہ دنیا میںجمع کرے گا اسی کو آگ میں گرم کر کے قیامت کے دن اسے داغ دیا جائے گا۔ اس حکم میں حکمت یہی ہے کہ اگر لوگ سونا چاندی جمع کریںگے تو غریبوں کو کام نہیں ملے گا لیکن اگر وہ اس روپیہ کو کام پر لگادیں گے تو وہ لوگ جن سے لین دین ہو گا فائدہ اُٹھائیںگے۔ اسی طرح کچھ لوگ بطور ملازمت یامزدوری کے فائدہ اٹھا سکیں گے مثلاً وہ کوئی عمارت بنانی شروع کر دے تو گووہ عمارت اپنے لئے بنائے گا مگر روپیہ خرچ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی روزی کا سامان مہیا ہو جائے گا۔ یوں تو فضول عمارتوں پر روپیہ برباد کرنے سے اسلام منع کرتا ہے مگر بہرحال اگر وہ لغو طور پر عمارتیں نہ بنائے بلکہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے بنائے تو بھی لوہاروں اور مستریوں اور مزدوروں اور کئی اور لوگوں کو کام میسر آ جائے گا لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے بلکہ سونے چاندی کے زیور بنا کر گھر میں جمع کرنا شروع کرد ے تو اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا پس اسلام روپیہ کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے اسی طرح عورتوں کے لئے کثرت سے زیورات تیارکرنا بھی پسند نہیں کرتا یوں تھوڑا سا زیور انہیں بنوا کر دینا جائز ہے۔
تیسرا حکم یعنی سود کی ممانعت
تیسرے اسلام سود کی ممانعت کرتا ہے۔ سود بھی ایک ایسی چیز ہے جو روپیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے اس کے ذریعہ
سے وہ تاجر جو پہلے سے اپنی ساکھ بٹھا چکے ہوتے ہیں اور جن کے پاس ایک وقت میںکوئی سرمایہ نہیں ہوتا جس قدر روپیہ کی ان کو ضرورت ہو آسانی سے بنکوں سے لے لیتے ہیں یا ایک شخص معمولی سرمایہ والا ہوتا ہے مگر اُس کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ سے دوستی پیدا کر کے اُس سے لاکھ دو لاکھ روپیہ لے لیتا ہے او رتھوڑے عرصہ میں ہی دو لاکھ سے دس لاکھ بنالیتا ہے اور پھر چند سالوں کے اندر اندر وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی دنیا کو بہت بڑا نقصان پہنچتا ہے ہمارے ملک کے زمیندار خوب جانتے ہیں کہ ان کا کس قدر روپیہ بنیوں کے پاس جاتا ہے اگرسُود کے بغیر ان کے گزارہ کی کوئی صورت ہوجاتی تو ہر زمیندار خاندان کی مالی حالت آج سے بدرجہا بہتر ہوتی مگر سُود کی بدولت اگر ایک زمیندار دو ہزار روپیہ کسی بنیے سے قرض لیتا ہے تو چند سالوں میں وہ بعض دفعہ دس دس ہزار روپیہ سُود کا دے دیتا ہے مگر ابھی دو ہزار روپیہ جو اس نے قرض لیا تھا وہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ پس سُود ایک بہت بڑی *** ہے جو بنی نوع انسان کے سروں پرمسلّط ہے یہ ایک جونک ہے جو غریبوں کا خون ُچوستی ہے اگر دنیا امن کا سانس لینا چاہتی ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ دنیا سے سُود کو مٹا دیا جائے اور اس طرح دولت کو محدود ہاتھوں میںجمع نہ ہونے دیا جائے۔
چوتھا حکم یعنی زکوٰۃ اور صدقات کا دینا
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بے شک اسلام ایک طرف تو روپیہ کسی کے ہاتھ میں نہیں
رہنے دیتا بلکہ اسے تقسیم کر دیتا ہے اور دوسری طرف روپیہ جمع کرنے سے منع کر رہا ہے مگر اس سے غربت کا علاج تو نہیں ہو جاتا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے ایک چوتھا حکم غرباء کے حقوق کی ادائیگی کے لئے زکوٰۃ اور صدقہ کا دیا ہے یعنی جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے اورچاندی کے سکّوں یا اموالِ تجارت کی قِسم سے ہو اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو تو ضروری ہے کہ حکومت اُس سے اڑھائی فیصدی سالانہ ٹیکس وصول کر کے خزانہ شاہی میں داخل کرے اور اُسے ملک کے غرباء پر خرچ کیاجائے۔ یہ ٹیکس جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے صرف آمد پر نہیں بلکہ سرمایہ اور نفع سب کوملا کر اس پر لگایا جاتا ہے اور اس طرح اڑھائی فیصدی بعض دفعہ نفع کا پچاس فیصدی بن جاتا ہے اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ۔ اس حکم کے مطابق جس شخص کے گھر میں سَو روپیہ جمع ہو گا اسے سال گزرنے کے بعد اڑھائی روپیہ زکوٰۃ دینی پڑے گی جس پر لازماً اُسے فکر پیدا ہو گا کہ اگر یہ روپیہ اِسی طرح جمع رہا تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام روپیہ ٹیکس کی ادائیگی میں خرچ ہو جائے گا چنانچہ وہ فوراً روپیہ کو تجارت پر لگا دے گا تا کہ یہ کمی پوری ہو جائے اور جب وہ روپیہ کو تجارت پر لگائے گا تو روپیہ چکر کھانے لگے گا اور اس طرح علاوہ اس کے کہ اس کے روپیہ میں سے اڑھائی فیصدی غرباء کو ملے گا روپیہ کے بند رکھنے سے جونقصان ہو سکتاتھا وہ بھی ملک اور قوم کو نہیں پہنچے گا۔ آجکل خصوصیت سے لوگوں میں یہ مرض پیدا ہو رہا ہے کہ وہ سونا اور چاندی کو جمع کر کے رکھ رہے ہیں ۔ غرباء کو کئی قسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ سونا آج کل گراں ہے وہ اپنی ضرورتوں کو پور اکرنے کا یہی طریق سوچتے ہیں کہ زیور فروخت کر دیا جائے چنانچہ کوئی انگوٹھی فروخت کر دیتا ہے کوئی کان کی بالیاں فروخت کر دیتا ہے، کوئی گلوبند فروخت کر دیتا ہے، کوئی پازیب فروخت کر دیتا ہے، مگر جانتے ہو یہ سب سونااور چاندی کہاں جمع ہو رہا ہے یہ سب بَنیوںکے گھر میں جا رہا ہے۔ اور بعض لوگ تو اس ڈر کے مارے سونا چاندی جمع کر رہے ہیں کہ اگر جاپان آ گیا تو نوٹ ناکارہ ہو جائیں گے وہ یہ نہیں جانتے کہ جاپان آیا تو سب سے پہلے وہ سونے اور چاندی کو ہی ُلوٹے گا مگر وہ سمجھتے ہیں سونا تو ان کے گھروں میں ہی رہے گا اور جن کے پاس نوٹ ہوں گے ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ اسی وجہ سے سونا روز بروز مہنگا ہوتا چلا جا تا ہے۔ چالیس روپیہ سے اس نے بڑھنا شروع کیا تھا اور ستّر روپیہ تک پہنچ گیا ہے اور میں نے بَنیوں سے سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سونے کی قیمت سَو روپیہ تک لے جانی ہے۔ مگر اسلام کہتا ہے تم اوّل تو روپیہ جمع نہ کرو اور اگر جمع کرو تو اس پر اڑھائی فیصدی ہماراٹیکس دو۔ اس طرح اسلام جمع شُدہ روپیہ پھر قوم کے غرباء کی طرف واپس لاتا ہے تا کہ وہ اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور وہ مجبور کرتا ہے کہ لوگ اپنے روپیہ کو پھیلائیں اور پھیلاتے چلے جائیں۔ اگر اسلام کے احکام پر عمل ہونے لگے تو بخیل سے بخیل شخص کے روپیہ سے بھی دنیا فائدہ اُٹھانے لگ جائے اور غریبوں کو مزدوری وغیرہ مل جائے اور اڑھائی فیصدی روپیہ الگ آ جائے۔
اسلام میںشخصی ملکیّت کے حق کا تحفّظ
مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے باوجود مال کو سب کا حق قرار دینے کے شخصی ملکیت
کے حق کو ردّ نہیں کیا بلکہ اسے قائم رکھا ہے البتہ شخصی مالک بطور ایجنٹ کے رہے گا اور علاوہ اس کے اس طاقت کو جو اسے ملکیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اسلام نے مناسب تدبیروں سے کمزور کیا ہے جیسا کہ اوپر کے احکام سے ظاہر ہے۔
بالشویک نظام پر اسلامی نظام کو
ترجیح دئیے جانے کی وجوہات
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اس نظام پر بالشویک نظام کو ترجیح نہ دی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نظام کی اصل غرض امن اور انصاف اور روحِ ترقی کا قائم رکھنا
ہوتی ہے مگر بالشویک نظام حالات میں ایسا فوری تغیر پیدا کرتا ہے جو ملک کے ایک طاقتور حصہ کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچا دیتا ہے اور وہ مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ہر ایک مالدار کامکان لے لو، اُس کی جائداد اُس سے چھین لو، اس کے مال کو ضبط کر لو یہ انسان کو ایسا صدمہ پہنچاتا ہے جو اس کے لئے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن جاتا ہے۔ چنانچہ روس کی سب سے زیادہ مخالفت خود روسی کر رہے ہیں اور ہر ملک میں ایسے روسی موجود ہیں جو اس نظام کے شدید ترین مخالف ہیں۔ میں نے خود سفرِیورپ کے دَوران میں ایسے روسیوں کو دیکھا جو روسی حکومت کے جان کے دشمن ہیںاور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ آرام سے اپنے اپنے مکانوں میں بیٹھے تھے کہ یکدم حکومت کے نمائندے آئے اور انہوں نے ان کے بستروں اور پلنگوں اور سامانوں پر قبضہ کر لیا، انہیں مکانات سے نکال دیا، ان کا مال واسباب ضبط کر لیا اور انہیں ان کی جائداد سے بے دخل کر دیا۔ یہ مان لیا کہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل تھے مگر نسلاً بعد نسلٍ وہ یہ خیال رکھنے کے عادی ہو چکے تھے کہ یہ سب کچھ ہمارا ہے اس لئے طبعاً جب جبری طور پر ان کی جائدادوں اور اموال واسباب پر قبضہ کیا گیا تووہ انہیں شدید ناگوار ہؤا اِسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو ملکیتیں پُرانی ہو چکی ہیں ان کو ہم نہیں توڑیں گے یعنی اس قسم کا سلوک ان سے نہیں کریں گے کہ انہیں یہ محسوس ہو کہ ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے۔
بالشوزم کا اس امر کو نظر انداز کر
دینا کہ دماغ بھی سرمایہ ہے
دوسرے بالشویک نظام اس امر کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ جس طرح مال سرمایہ ہے دماغ بھی سرمایہ ہے اور اس سرمایہ کو وہ کس طرح تقسیم کر سکتا ہے یہ نظام دماغی قابلیت کوبالکل برباد کر دیتا ہے کیونکہ
وہ دماغی قابلیت کی اتنی قیمت نہیں سمجھتا جتنی ہاتھ سے کام کرنے کی قیمت قرار دیتا ہے اور یہ ایک طبعی اصول ہے کہ ملک میں جس چیز کی قیمت نہ رہے گی وہ گِرنی شروع ہو جائے گی۔ جن لوگوں کے نزدیک روپیہ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ان کا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے اور جن لوگوں کے نزدیک جائداد کی کوئی قیمت نہیںہوتی ان کی جائداد ضائع ہوجاتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے نزدیک دماغ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اُن کا دماغ گِرنا شروع ہو جاتا ہے۔ پس بالشویک نظام میںیہ ایک بہت بڑا نقص ہے کہ وہ مال کو تو سرمایہ قرار دیتا ہے مگردماغ کو سرمایہ قرار نہیں دیتا کیونکہ وہ مال تقسیم کر سکتا ہے مگر اسے تقسیم نہیں کر سکتا اس طرح اس کے اصول کے مطابق دماغ بے قیمت رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک دن اس کی نشوونما میں بھی فرق آجائے گا مگر اسلام ہرقدم تدریجاً اُٹھاتا ہے وہ یکدم تغیر نہیں کرتا بلکہ محبت اور پیار سے ہر قسم کا سرمایہ لوگوں پر خرچ کرنے کاحُکم دیتا ہے اور اس طرح دماغ اور مال دونوں کو تقسیم کر ا دیتا ہے۔ نیچر کی گواہی بھی بالشویک اصول کے خلاف ہے کیونکہ نیچر دماغی طاقتیں بعض کو زیادہ دیتی ہے اور بعض کو کم مگر اس کے بعد انصاف کو اس طرح قائم رکھا جاتا ہے کہ جن کو دماغ ملا ہے انہیں مذہب حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو بھی بنی نوع انسان کی خدمت میں خرچ کریں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۳۱؎ یعنی مومن اور سچے متقی وہی ہیں کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ بھی ان کو ملا ہے خواہ دماغ ہو،خواہ جسمانی طاقت ہو ،خواہ مال ہو، خواہ عقل ہواُسے دوسری مخلوقات کی خدمت میںخرچ کریں۔ اسی طرح مال کی نسبت اسلام کہتا ہے کہ وہ اسے تقسیم کرا دیتا ہے مگر بالشویک نظام کی طرح جبر اور ظلم سے نہیں بلکہ انہیں کے ہاتھوں سے جن کے پاس مال ہوتا ہے جس طرح دماغ سے انہی کے ہاتھوں فائدہ پہنچاتا ہے جن کے پاس دماغی قابلیّتیں ہوتی ہیں۔ اس طرح فائدہ بھی ہو جاتا ہے اور دشمنی کا بیج بھی قلوب میں بویا نہیںجاتا۔
بالشوزم کے تحت غیر منصفانہ سلوک
پھر مَیں کہتا ہوں کہ بالشوزم اب بھی ُ پورا انصاف نہیں کر سکی۔ اب بھی اس کے چھوٹوں اور بڑوں
میں فرق ہوتا ہے، اب بھی ان کے امیروں اور غریبوں میں فرق ہوتا ہے اور اب بھی ان کے کھانوں میںفرق ہوتا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سٹالن کی خوراک اور وہاں کے گائوں والوں کی خوراک بالکل ایک جیسی ہوتی ہے۔ اسی طرح شاہی دعوتوں میں بے انتہا خرچ کیا جاتا ہے ابھی گذشتہ دنوں مسٹر وینڈل ولکی وہاں گئے تھے تو ایک شاہی دعوت کی تفصیلات شائع ہوئی تھیں جس میں یہ ذکر تھا کہ ایک ڈنر میں ساٹھ کھانے تیار کئے گئے تھے اور وہ سٹالن اور دوسرے لوگوں نے جو اس دعوت میںشریک تھے کھائے۔ اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے اور بڑوں اور چھوٹوں میںکوئی فرق نہیں تو بالشویک اصول کے مطابق ماسکو کا ہر شہری کہہ سکتا ہے کہ مجھے ساٹھ کھانے ملنے چاہئیں اور صرف ماسکو کا ہر شہری نہیں ملک کے سترہ کروڑ باشندے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمیں بھی یہ سب کچھ ملنا چاہئے مگر کیا ایسا ہو سکتا ہے اگر کہو کہ یہ ناممکن ہے تو یہی جواب دوسری تقسیم کا سمجھنا چاہئے۔ اگر امتیازات نے رہنا ہی ہے تو امتیازات کو دور کرنے کے لئے فسادات کیوں کئے جائیں کیوں نہ کسی اچھی طرز پر اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
بالشوزم کا دماغی قابلیّتوں کو بیکار قرار دینا اور اس کا نتیجہ
پھر بالشوزم کے موجودہ نظام کا ایک اور نتیجہ یہ
پیدا ہوگا کہ چونکہ وہ دماغی قابلیتوں کو بغیر ہاتھ کے کام کے بیکار قرار دیتا ہے اس لئے گو اس کا اثر اِس وقت محسوس نہ ہو گا مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد روسی مُوجد جب یہ دیکھیں گے کہ ان کی دماغی قابلیتوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھی جاتی وہ سیر کے بہانے سے جرمنی یا امریکہ یا انگلستان یا اور ممالک میں چلے جائیں گے اور وہاں جا کر اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا دیں گے روس میں نہیں رہیں گے کیونکہ اس نظام کے ماتحت وہ روس میںان ایجادات سے نفع نہیں اُٹھا سکتے۔ پس نتیجہ یہ ہو گا کہ جس قدر اعلیٰ دماغ والے انسان ہوںگے ان کی دماغی قابلیتوں سے دوسرے ممالک تو فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس کو فائدہ نہیں ہو گا او ر وہ سب آہستہ آہستہ دوسرے ممالک میں چلے جائیںگے۔ اس وقت بالشویک نظام کی مقبولیت ایسی ہی ہے جیسے انجیل کی یہ تعلیم ہے کہ اگرکوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنادوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو جب تک یہ تعلیم محض باتوں تک رہے اُس وقت تک کانوں کو بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اُس وقت کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ قاہرہ کے ایک بازار میں ایک دفعہ ایک مسیحی پادری نے روزانہ لیکچر دینے شروع کر دئیے کہ مسیح کی تعلیم محبت سے لبریز ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اگر تم ایک گال پر تھپڑ کھائو تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو مگر باقی مذاہب میںیہ ظلم ہے اور وہ ظلم ہے۔ غرض اس طرح وہ تقریر کرتا کہ لوگوں کی آنکھوں میںآنسو آ جاتے ایک مسلمان روزانہ اس کے لیکچر کو سنتا اور دل ہی دل میں ا س بات پر کُڑھتا کہ کوئی مولوی اس پادری کو جواب نہیں دیتا آخر کچھ عرصہ کے بعد جب اس نے دیکھا کہ لوگوں پر بُرا اثر ہو رہا ہے تو ایک دن جب وہ پادری وعظ کر رہا تھا وہ ا س کے پاس گیا اور کہا کہ پادری صاحب! مَیں نے آپ سے ایک بات کہنی ہے اس نے بات سننے کے لئے اس کی طرف سر جُھکا دیا کہ کہو کیا کہتے ہو ۔ اُس نے بجائے کوئی بات کہنے کے ہاتھ اُٹھایا اور زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ مارا ۔ پہلے تو پادری رُکا مگر پھر اُس نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ ایک اَور تھپڑ لگا دے اِس پر اُس نے بھی اُسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھالیا ۔ وہ کہنے لگا صاحب !آپ یہ کیا کرتے ہیں آپ کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دینا چاہئے مَیں تو اِس انتظار میں تھا کہ آپ اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دیں گے مگر آپ تو مقابلہ پراُتر آئے ہیں۔ وہ کہنے لگا آج مَیں انجیل پر نہیں بلکہ تمہارے نبی کی تعلیم پر ہی عمل کروں گا۔
بالشوزم کے نتیجہ میں ملک میں بغاوت پَیدا ہونے کا اندیشہ
تو بعض تعلیمیں کہنے کو بڑی اچھی
ہوتی ہیں مگر عملی رنگ میں وہ نہایت ہی ناقص ہوتی ہیں۔ اِسی طرح بالشوزم کے موجودہ نظام پر نہیں جانا چاہئے وہ اِس وقت زار کے ظلموں کو یاد رکھے ہوئے ہے جس دن یہ خیال ان کے دل سے بھُولا پھر یہ طبعی احساس کہ ہماری خدمات کا ہم کو صِلہ ملنا چاہئے ان کے دلوں میںپیدا ہو جائے گا نئی َپود بغاوت کر ے گی اور اس تعلیم کی ایسی شناعت ظاہر ہو گی کہ ساری دنیا حیران رہ جائے گی لیکن اسلامی طریق میں بغاوت کا کوئی امکان نہیں،سُستی ہو تو ہو کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے۔
ملک کے اَموال پر حکومت کو اقتدار حَاصل
ہونے کی ضرورت
اب مَیں اِس اہم سوال کی طرف آتا ہوں جو درحقیقت میرے مضمون کی بُنیاد ہے مگر اس سے پہلے ایک سوال ابھی باقی ہے جس کا حل کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہم اُوپر کی تمام نئی تحریکات سے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تمام تحریکات باوجود اختلاف کے اِس امر میں متفق ہیں کہ حکومت کو ملک کے مال پر ایک بہت بڑا اِقتدار حاصل ہونا چاہئے۔ ُپرانے ٹیکس اِس سکیم کو پورا نہیں کر سکے جو اِن مختلف نظام والوں کے ذہن میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب نئے ٹیکس لگائے جائیں، نئے نئے طریق ایجاد کئے جائیں جن سے اُمراء کی دولت اُن کے ہاتھ سے نکالی جاسکے اور غرباء میںتقسیم کی جا سکے پس وہ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں تو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے موجودہ ٹیکسوں سے یہ مشکل حل نہیں ہو سکتی اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے اِس بارہ میں کیا رویہ اختیار کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تم نے زکوٰۃ کی تعلیم نکالی ہے مگر کیا تمہارے نزدیک زکوٰۃ اِس غرض کو ۔ُپورا کر سکتی ہے کہ ہر غریب کو کپڑا ملے، ہر غریب کوکھانا ملے، ہر غریب کو مکان ملے اور ہر غریب کو دَوا ملے؟ میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ نہیں ۔ یعنی میرا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ اِس زمانہ کے لحاظ سے یقینا حکومت کے ہاتھ میں اس سے زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا روپیہ پہلے اس کے ہاتھ میں زکوٰۃ وغیرہ کی صورت میں ہؤا کرتا تھا۔ پہلے گورنمنٹ پر صرف یہ ذمہ داریاں تھیں کہ وہ ٹیکس وصول کر کے سڑکیں بنائے، ہسپتال بنائے، مدرسے بنائے، فوجیں رکھے اور اسی طرح رعایا کی بہبودی کے لئے اورتدابیر عمل میںلائے مگر اب یہ ایک نئی ذمہ داری بھی گورنمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ دُنیا نے اپنے طور پر غریبوں کو کھانا ِکھلا کر دیکھ لیا کہ وہ اسے نہیں ۔ِکھلا سکی، دُنیا نے اپنے طور پرغریبوں کو کپڑے پہنا کردیکھ لیا کہ وہ ان کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکی، دُنیا نے اپنے طور پر ان کے لئے دو ا مہیّا کرنے کی کوشش کرلی مگر اس میںوہ کامیاب نہیں ہو سکی سو اَب یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ ان تمام ضروریات کو بھی گورنمنٹ پورا کرے۔، وہ ہر شخص کو پہننے کے لئے کپڑا، کھانے کے لئے غذا، رہنے کے لئے مکان او رعلاج کے لئے دوا مہیّا کرے اور اسلام بھی اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہیں۔ پس جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ یہ کام حکومت کو کرنے چاہئیں اور جب اِسلام بھی اسے تسلیم کرتا ہے تو یہ درست ہے کہ یا تو اسلام ہمیں یہ بتائے کہ زکوٰۃ کا روپیہ یہ تمام ضرورتیں پوری کر سکتا ہے اور یا زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اَور علاج جو اِسلام نے اِس مصیبت کا کیا ہو پیش کیا جائے۔
غرباء کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے زکوٰۃ
کے علاوہ دوسرے چندوں کی ضرورت
یہ ایک اہم سوال ہے جو اِس موقع پر پیدا ہوتا ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ نہ ہوتا کہ اِسلام اِن
تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمّہ دارحکومت کو قرار دیتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا مگر جب ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے یہ تعلیم دی کہ غریب اور امیر میں حقیقی مساوات قائم کرنی چاہئے اور اِن دونوں کو اِس حد تک ایک دوسرے کے قریب کر دینا چاہئے کہ یہ محسوس نہ ہو کہ وہ کوئی اَور مخلوق ہے اور یہ کوئی اَور مخلوق ہے بلکہ جس طرح اُمراء اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اسی طرح غرباء بھی اپنی ضرورتوں کو پورا کریں وہ علاج کے بغیر نہ رہیں، وہ بھُوکے نہ رہیں، وہ ننگے نہ رہیں، وہ جاہل نہ رہیں، وہ بغیر مکان کے نہ رہیں تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اس مشکل کا حل اسلامی تعلیم سے ہی کیا جائے۔ زکوٰۃ کا اِسلام نے حکم دیا تھا مگر مَیں تسلیم کر چکا ہوں کہ زکوٰۃ اِس مشکل کا پورا علاج نہیں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اِس کمی کا کیا علاج تجویز کرتا ہے۔
سوشلزم کے نظریہ کی رو سے غرباء کی ضروریات کو ُپورا
کرنے کا پہلا ذریعہ اور اس کے غلط ہونے کا ثبوت
سوشلزم اِس کا ذریعہ یہ بتاتی ہے کہ مزدوروں کا حصّہ منافع میںمقرر کیا جائے یہ نہ ہو کہ انہیں
ماہوار تنخواہ دی جائے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ بلکہ منافع پر ان کا انحصار ہونا چاہئے یعنی جب منافع حاصل ہو تو فیصلہ کیا جائے کہ اِس دفعہ ہمیں اِتنی آمد ہوئی ہے اِس میںسے مالک کو اِتنا حصّہ دیا جائے اور مزدوروں کو اتنا حصّہ دیا جائے مگر ظاہر ہے کہ یہ طریق بے اصولا ہے اِس لئے کہ کسی تجارت میںنفع کم ہو گا اور کسی میںزیادہ۔ ہمیں دُنیا میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ دو غلّہ کے تاجر ہوتے ہیں ایک تو سارا دن بیٹھامکھّیاں مارتا رہتا ہے اور دوسرا ہر روز اپنی تجوری بھر کر گھر میںلے آتا ہے، ایک شخص کپڑا بیچتا ہے تو روزانہ اس کے دو دوسَو تھان نکل جاتے ہیں اور دوسرا وہی کام کرتا ہے تو سارے دن میں اس کا ایک تھان بھی نہیں نکلتا۔ پس اِس فرق کی وجہ سے نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی تاجر کے ملازموں کو ایک جیسی محنت پر زیادہ آمد ہو گی اور کسی کے ملازموں کو کم ہو گی یعنی ہوشیار مالک کے ملازموں کو زیادہ آمد ہو رہی ہو گی اور دوسرے کے ملازموں کو کم، پس یہ تقسیم عقل کے بالکل خلاف ہو گی۔ اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ پہلے تو لیاقت پر آمد کا اِنحصار ہو تا تھا پھر صر ف جُوئے بازی اور اتفاق پرہو گا اور پھر لوگ اِس بات پرلڑیں گے کہ ہم فلاں مالک کے کارخانہ میںکام کریں گے فلاں کے کارخانہ میں کام نہیں کریں گے مگر اِس کافیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مزدور کہاں کام کرے۔ اگر کہیں سوشلزم یہ انتظام کرے گی کہ سب کارخانوں کے ملازموں کے لئے ایک اعلیٰ شرح تنخواہ مقرر کردے گی تو پھر بھی زیادہ ہوشیار تاجر سوشلزم کے مجوّزہ منافع سے زیادہ ہی لے لے گا اور دوسرا تاجر نقصان میں رہے گااوراِس طرح سوشلزم پھر بھی اپنی سکیم میں ناکام رہے گی اور جن کی تجارت اچھی نہ چلتی ہو گی اُن کے ملازم نفع کی جگہ اصل سرمایہ تک کھا جائیں گے اصل بات یہ ہے کہ گزارہ کے دو ہی معقول طریق ہیں۔ (۱)۔ لیاقت اور (۲)۔ اَ ّقل ضرورت گزارہ کی۔ مگر یہ دونوں صورتیں اوپر کے بتائے ہوئے سوشلسٹ طریق میں نہیں پائی جاتیں۔
غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کا دوسرا ذریعہ
دوسری صورت سوشلزم یہ پیش کرتی ہے کہ تمام اہم صنعتیں
حکومت کے قبضہ میں ہوں۔ مثلاً ریل، کانیںاور بجلی وغیرہ۔ اسی طرح اہم تجارتوں کی مناپلی اور ان پر قبضہ و تصرف حکومت کے اختیار میں ہو۔ مگر اس پر بھی کئی اعتراض پڑتے ہیں مثلاً
(۱) یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہو سکتی بلکہ ہر ملک میں الگ الگ ہو گی حالانکہ سوال یہ تھا کہ ساری دنیا کے بھُوکوں ، ساری دُنیا کے ننگوں، ساری دُنیا کے بیماروں، ساری دُنیا کے جاہلوں اور ساری دُنیا کے بے سروسامان لوگوں کا انتظام کیا جائے مگر اِس طرح ساری دُنیا کے حاجتمندوں کا علاج تو پھر بھی نہ ہوگا ہر حکومت صرف اپنے ملک کے غرباء کا ہی خیال رکھے گی پس یہ تدبیر عالمگیر نہیں ہے۔ دوسرے مثلاً اِس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ اِس میں بھی اِنفرادی جوہر کے اظہار کے مواقع میںکمی آ جاتی ہے اور اِس طرح جسم کا خیال تو کیا جاتا ہے مگر دماغ جو زیادہ قیمتی ہے اسے نقصان پہنچ جاتا ہے۔
غرباء کی ضرورتوں کے لئے چندے حاصل
کرنے کے متعلق ہٹلر اور گوئرنگ کی سکیم
نیشنلسٹ سوشلزم کی اِس بارہ میں مفصّل سکیم مجھے معلوم نہیں لیکن ہٹلر۳۲؎ اور گوئرنگ۳۳؎ کی اس سکیم کا مجھے علم ہے کہ سرمایہ دار جو زیادہ حصّہ قومی
خدمت میں لیں انہیں حکومت کی امداد کے زیادہ مواقع بہم پہنچائے جائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ حکومت کو زیادہ چند ے دیں گے اور قومی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیںگے ان کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گااورا نہیں ٹھیکے وغیرہ دئیے جائیں گے لیکن یہ سکیم بھی مکمل نہیں کیونکہ اِس طرح بھی پورا سرمایہ جوکافی ہو جمع نہیں ہو سکتا اور نیز اس میںیہ پہلو مذکور نہیں کہ ملک کی ضرورت کی ذمہ داری حکومت پر کس حد تک ہو گی۔
بالشوزم کے نظریہ کی رُو سے غرباء
کی تکالیف دُور کرنے کی تدابیر
بالشوزم کی تدبیر یہ ہے کہ سب اہم تجارتیں اور صنعتیں حکومت کے ہاتھ میں ہوں اور زراعت پیشہ کی سب زائد آمد حکومت جبراً لے لے۔ سب دولتمندوں کی دولت جبراً
چھین لے۔ اس پر جو اعتراض پڑتے ہیں پہلے بتا آیا ہوں خلاصتہً یہ کہ اس سے اِنفرادیت بالکل تباہ ہو جاتی ہے اور اس قسم کی حکومت میںجب ضُعف آئے گا اس میں معمولی تبدیلی پیدا نہ ہو گی بلکہ پھر زارجیسی حکومت قائم ہو جائے گی۔ فرانس کا تجربہ گواہ ہے بوربون خاندان نے فرانس میں فوزویت (عوام کی حکومت جو جمہوریت سے مختلف ہے) پیدا کی اور فوزویت نے بونا پارٹ ۳۴؎ جیسا جبّار پیدا کیا۔ اِسی طرح زار نے بالشوزم پیدا کی اور اسے کامیاب بنایا اور بالشوزم تھوڑے ہی عرصہ میںکمزور ہو کر پھر ایک نیا جبار پیدا کردے گی۔اِسی طرح بالشوزم میںیہ نقص ہے کہ ملک کے ایک حصّہ کو خواہ مخواہ دشمن بنا لیا گیا ہے اور اس سے دشمنوں کا سا سلوک شروع کر دیا گیا ہے یعنی سب پرانے خاندانوں اور علمی خدمت کرنے والے لوگوں کو دشمن بنا لیا گیا ہے۔
اِسلام کی سکیم ان سب سے مختلف ہے اسلام نے اوّل تو ان تینوں تحریکوں کے خلاف یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ آرام کے وہ معنی نہیں جو تم کہتے ہو یعنی تم تو آرام کی زندگی کے یہ معنے لیتے ہو کہ سب کے لئے یکساں تعیّش کے سامان پیدا کئے جائیں، سب کے لئے سینما میں جانے کے راستے کھلے ہوں ، سب کے لئے کھیلیں اور تماشے دیکھنے ممکن ہوں مگر اسلام نے آرام کی زندگی کا مفہوم یہ لیا ہے کہ امیروں کو بھی ان تعیّش کے سامانوں میں نہ پڑنے دیاجائے اور اس طرح بنی نوع انسان کو مساوات کی طرف لایاجائے۔ اصل غرض تو آرام ہے مگر اسلام آرام کے ساتھ ہی اخلاق اور معیارِ شرافت کو بھی بلند کرنا چاہتا ہے۔ پھر آرام کے متعلق اسلام اور ان تحریکات کے نظریوں میںیہ بھی فرق ہے کہ انہوں نے تعیّش کے سامان بڑھا کر آرام حاصل کرنا چاہا ہے اور اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہیں صرف ضروریاتِ زندگی دیں گے تعیّش کی چیزیں نہیں دیں گے گویا وہ تعیّش کے سامانوں کی بجائے سب کے لئے یکساں سادہ زندگی پیش کرتا ہے اسی لئے اسلام نے ناچ گانے اور شراب وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے۔ انگلستان میںجب غرباء شور مچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بڑی تکلیف ہے تو دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم غریبوں کو شراب کے صرف دو گلاس پینے کوملتے ہیں اور امیر آدمی د س دس گلاس شراب پی جاتا ہے اور گورنمنٹ کہتی ہے کہ تمہارا مطالبہ بالکل بجا اور درست ہے ہم تمہیں بھی دس دس گلاس شراب مہیا کرکے دیں گے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم تمہاری اس شکایت کا اس رنگ میں ازالہ کریں گے کہ تمہارے دو گلاس بھی چھین لیں گے اور امیروں کے دس گلاس بھی چھین لیں گے کیونکہ یہ چیزیں جسم اور رُوح کے لئے مُضِرّہیں۔ اسی طرح وہاں اگر غرباء شور مچائیں تو کہتے ہیں کہ یہ امیر تو روز ناچتے ہیں مگر ہم غریبوں کے ناچنے کا کوئی سامان نہیں اور حکومت کہتی ہے بہت اچھا آئندہ گورنمنٹ خود تمہارے لئے ڈانس روم بنائے گی چنانچہ وہ امیروں سے کہتی ہے امیرو! لائو روپیہ کہ ہم تمہارے غریب بھائیوں کے لئے بھی ناچ گھر بنوا دیں مگر اسلام کہتا ہے ہرگز نہیں ڈانس روم بنانے سے انسانیت تباہ ہوتی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ تمہاری انسانیت میںنقص واقع ہو اس لئے بجائے اس کے کہ ہم تمہارے لئے ڈانس روم بنائیں ہم تمہارے امیر بھائیوں کے ڈانس روم بھی گرا دیں گے تا کہ وہ بھی انسانیت کے حلقہ میں داخل ہوں اور تہذیب وشائستگی کے خلاف کسی حرکت کے مرتکب نہ ہوں۔
اسلام کا تعیّش کے سامانوں کو مٹا کر
امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنا
توجو چیزیں ضروریاتِ زندگی میں سے نہیں بلکہ تعیّش کے سامانوں میں سے ہیں اِسلام نے اُن کو مٹا کر غرباء اور امراء میں مساوات قائم کی ہے اور ظاہر ہے کہ یکساں تعیّش کے سامان
پیدا کرنے والی حکومتیں ہمسائیوں کو لُوٹنے سے بازنہیں رہ سکتیں لیکن یکساں سادگی پیدا کرنے والی حکومتیں دوسروں کو لوٹنے کی جگہ اپنے اُمراء کو سادہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کریں گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سادہ زندگی کو محدود کرنا آسان ہے لیکن تعیّش کو محدود کرنا بہت مشکل ہے۔ پس اسلامی تعلیم یقینا عقلی طور پر کامیابی کے زیاد ہ قریب ہے اور اس طرح اسلام تھوڑے سے روپیہ سے کام لے کر غرباء کی بے چینی دور کرنے میںکامیاب ہو جائے گا۔ غرض آجکل کی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ آرام کے معنے یہ ہیں کہ تعیّش کے سامان غریبوں کو دینا اور اسلام کہتا ہے کہ آرام کے معنی یہ ہیں کہ ضرورت کے سامان غریبوں کو دینا اور تعیّش کے سامان امیروں غریبوں سب سے چھیننا، پس جتنے روپیہ سے عیسائیت دنیا کو آرام پہنچا سکے گی اس سے بہت کم روپیہ سے اسلام دنیا کو آرام پہنچا سکے گا۔ چنانچہ اسلام میں مَردوں کے لئے ریشم پہننا منع ہے، اسی طرح گھروں میںاستعمال کے لئے چاندی سونے کے برتن رکھنا ناجائز ہے، بڑی بڑی عمارتیں بِلاوجہ اور بِلاضرورت بنانا منع ہے اسی طرح عورتوں کے لئے زیادہ زیور بنانے اسلام نے منع کر دئیے ہیں، شراب سے روک دیا ہے ، جوئے کو حرام قرار دیا ہے تاکہ غریبوں کے دلوں میں ان چیزوں کے حصول کی کوئی خواہش ہی پیدا نہ ہو اور اس طرح جو روپیہ بچے وہ غریبوں کو دے دیا جائے۔
اسلام میں جبری ٹیکسوں کے علاوہ طَوعی
طور پر زائد مال وصول کرنے کی صورت
دوسری تجویز اسلام نے یہ کی ہے کہ بجائے انفرادی جدّوجہد کو مٹانے کے اسے قائم رکھ کر اور جبر کی جگہ تحریک و تحریص سے کام لے کر علاوہ جبری ٹیکسوں کے اُمراء
سے ان کے زائد مال لینے کی صورت پیدا کی ہے اور ظاہر ہے کہ انفرادیت کو مٹا دینا بھی مُضِرّ ہے کیونکہ ا س سے عائلیّت کے اعلیٰ جذبات اور علمی ترقی مٹ جاتی ہے اور جبری حصول بھی مُضِرّ ہے اگر کوئی ایسی سکیم ہو کہ انفرادیت بھی قائم رہے اور زائد مال تحریک وتحریص سے لے لیا جائے تو وہی سکیم دنیا میںامن کے قیام کا دَور لانے کا، سب کے لئے آرام پیدا کرنے کا اور باہمی اُلفت ومحبت بڑھانے کا ذریعہ ہو گی چنانچہ اسلام ایسا ہی کرتا ہے۔ غیراسلامی تحریکات میںتو یہ قانون ہے کہ ہر شخص کے پاس جس قدر زائد مال ہو وہ جبر وتشدّد سے لے لو مگر اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر جبر نہ کرو جو جبری ٹیکس ہیںوہ تو جبر سے وصول کرو مگر اُمراء سے ان کے زائد مال لینے کے لئے جبر سے ہرگز کام نہ لو بلکہ ترغیب وتحریص سے کام لو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اُمراء کے دِلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور غریبوں کے دِلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہو گی۔ اگر ایک شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تو نہ اس کے دِل میں دوسروں کی محبت پیدا ہو گی اور نہ دوسروں کے دل میں اُس کی محبت پیدا ہو گی لیکن اگر کوئی اپنی مرضی سے اپنا مال لوگوں کی بھلائی کے لئے دے دے تو اس کے دل میں بھی دوسروں کی محبت پیدا ہو گی اور دوسروں کے دلوں میں بھی اس کی محبت پیدا ہو گی اس طرح انسانیت آپس میںزیادہ سے زیادہ مرتبط ہوتی چلی جائے گی۔
انفرادی جِدّوجُہد کو قائم رکھنے کافائدہ
پھر اِس کا ایک اَور فائدہ یہ ہے کہ جب اِنفرادی جدّوجہد قائم رہے گی تو ہر شخص پوری
محنت سے کام لے کر روپیہ کمانے کی کوشش کرے گا۔ڈاکٹر اپنے مطب کو چلائے گا، انجینئر اپنے فن میں کمال دکھلائے گا ، تاجر کارخانوں کو چلائیں گے اور اس طرح دماغ ترقی کرتا چلا جائے گا اور جب وہ اپنے پاس روپیہ جمع کرلیں گے تو پھر ترغیب وتحریص کے ذریعہ ان کا مال ان سے لے لیا جائے گا۔ گویا بیک وقت دونوں فائدے حاصل ہوجائیں گے دماغ کی بھی ترقی ہوجائے گی اور روپیہ بھی مل جائے گا۔ بالشویک تحریک میں یہ نقص ہے کہ اس کے نتیجہ میں دماغی قابلیّتیں بالکل مرُدہ ہو جاتی ہیں اور جو کچھ روپیہ حاصل ہوتا ہے اس کے دیتے وقت بھی امراء کے دلوں میں غرباء کی کوئی محبت پیدا نہیں ہوتی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم پر جبر اور ظلم کر کے یہ روپیہ لیا جا رہا ہے لیکن اگر ڈاکٹر کوکہا جائے کہ جائو اور خوب کمائو، وکیل کو کہا جائے کہ مقدمات لڑو اور خُوب فیس وصول کرو ، انجینئر کو کہا جائے کہ جائو اور انجینئرنگ کے فن میںکمال پیدا کرکے ہزاروں روپیہ کمائو اور پھر جب وہ روپیہ کما چکیں تو انہیںاس بات کی تحریص دلائی جائے کہ وہ اپنا روپیہ اپنے غریب بھائیوں کی ضرورتوں پر بھی خرچ کریں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ خوشی سے ہزاروں روپیہ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے ان کی اُمنگیں بھی قائم رہیں گی اور انہیں ظلم کا احساس بھی نہ ہو گا بلکہ وہ دیتے وقت خوش ہوں گے کہ ان کا روپیہ ان کے غریب بھائیوں کے کام آنے لگا ہے پس ان کا زائد مال اگر ترغیب وتحریص سے لیا جائے تو عدل و انصاف بھی قائم ہو گا اور باہمی محبت بڑھانے کا بھی یہ ایک یقینی ذریعہ ہوجائے گا۔
جبری طور پر دوسروں کے اَموال
پر جبراً قبضہ کرنے کے نقصانات
اِس کے مقابلہ میں جس شخص سے جبراً حکومت مال لے لے تم سمجھ سکتے ہو اس کے دل میںغریبوں کی محبت کہاں پیدا ہو گی۔ حکومت کے کارندے تو اس سے جبراً مال وصول کر لیں گے مگر اس کے دماغ میں
غریبوں کی دشمنی گھر کر جائے گی اور وہ ہر وقت یہی کہے گا کہ خدا اس حکومت کا بیڑا غرق کرے جو ہم پر ظلم کر رہی ہے اور خدا ان غریبوں کا بھی بیڑا غرق کرے جن کی وجہ سے ہم پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف غریبوں کے دِلوں میں بھی کوئی محبت پیدا نہیں ہوگی وہ کہیں گے امیر واقعہ میں بڑے ظالم تھے اچھا ہؤا کہ حکومت نے ان کا مال واسباب لوٹ لیا لیکن اگر تحریص وترغیب کے نتیجہ میں غرباء کی محبت کا احساس کرتے ہوئے کوئی شخص چند پیسے بھی دے تو اس کے دل میںغریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور غریب بھی کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اللہ اس کے مال میں برکت دے وہ ہم غریبوں کا خیال رکھتا ہے۔ تو چیز وہی ہو گی مگر ادھر امیروں کے دلوں میں غریبوں کی محبت پیدا ہو گی اور ادھر غریبوں کے دلوں میں امیروں کی محبت پیدا ہوگی اور دماغ کی نشوونما بھی ہوتی رہے گی چنانچہ اسلام نے یہی طریق اختیار کیا ہے۔
اسلام کا اُمراء سے جبری ٹیکسوں
کے علاوہ طَوعی ٹیکسوں کا مطالبہ
اس لئے اسلام نے زکوٰۃ اور عُشر وغیرہ جبری ٹیکس بھی لگا دئیے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا ہے کہ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۳۵؎
یعنی تم مقررہ ٹیکس بھی دومگر اس کے علاوہ ہم تم سے بعض طَوعی ٹیکس بھی مانگتے ہیں اور تمہارا فرض ہے کہ تم اِن دونوں میں حصّہ لو۔
چنانچہ ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ ہمیشہ غرباء کی امداد کے لئے روپیہ دیتے رہو۔وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ اور اپنے نفسوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ یعنی اَے مالدارو! اگر تم اپنے زائد مال خوشی سے دے دو گے تو وہ تو زائد ہی ہیں تم کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچے گا لیکن اگر ایسا نہ کرو گے تو ہلاک ہو جائو گے۔ یہ الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے رُوس کا پورا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو جو زارِ رُوس او ر رُوسی امراء یا فرانس کے امراء کا حال ہؤا وہی تمہارا ہو گاآخر عوام ایک دن تنگ آ کر لوٹ ما ر پر اتر آئیں گے اور شاہ پوری محاورہ کے مطابق دعا ئے خیر پڑھ دیں گے۔ حضرت خلیفہ اوّل اِس محاورہ کی تشریح یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے علاقہ میں کچھ مدّت پہلے زمیندار بنیے سے قرض لیتے چلے جاتے تھے اور بَنْیا بھی دیتا چلا جاتا تھا کچھ عرصہ تک تو انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا تھا مگر جب سب علاقہ اس بنیے کا مقروض ہو جاتا اور زمینداروں کی سب آمد اس کے قبضے میں چلی جاتی تو یہ دیکھ کر اس علاقہ کا کوئی بڑا زمیندار تمام چوہدریوں کو اکٹھا کرتا اور کہتا کہ بتائو اس بنیے کا قرض کتنا ہے وہ بتاتے کہ اِتنا اِتنا قرض ہے ۔ اس پر وہ دریافت کرتا کہ اچھا پھر اِس قرض کے اُترنے کا کوئی ذریعہ ہے یا نہیں وہ جواب دیتے کہ ہمیں توکوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔ اس پر وہ کہتا کہ اچھا تو پھر دعائے خیر پڑھ دو چنانچہ وہ سب دعائے خیر پڑھ دیتے اور اس کے بعد سب ہتھیار لے کربنیے کے مکان کی طرف چل پڑتے اور اُسے قتل کر دیتے اور اس کی بَہی اور کھاتے سب جَلا دیتے۔
جَبری ٹیکسوں کے علاوہ زائد اَموال خداتعالیٰ کی
راہ میں خرچ نہ کرنے کی وجہ سے قوموں کی ہلاکت
اللہ تعالیٰ اِس آیت میں ایسی ہی حالت کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اگر
تمہارے پاس زائد مال ہو تو اُسے خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کر دیا کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو یعنی بے شک کمائو تو خوشی سے مگر اس دولت کو اپنے گھر میں نہ جمع رکھا کرو ورنہ کسی دن لوگ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور تم ہلاک ہو جائو گے۔ پھر فرماتا ہے وَاَحْسِنُوْا بلکہ اس سے بڑھ کر نیکی کرو اور وہ اِس طرح کہ تم خود اپنی ضرورتوں کو کم کر کے اور مال بچا کر خداتعالیٰ کی راہ میں دے دیا کرو مگر یاد رکھو کہ یہ عمل تم لوگوں سے ڈر کر نہ کرو بلکہ خوشی سے کرو۔ اگر تم ڈرکر کرو گے تو غریبوں کی مدد تو ہو جائے گی مگر خدا خوش نہیں ہو گا لیکن اگر خوشی سے یہ قربانی کرو گے تو غریب بھی خوش ہوں گے، تم بھی ہلاکت سے بچ جائو گے اور اللہ بھی تم پر خوش ہو گا۔ پھر فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّالْمُحْسِنِیْنَ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ پھر ہماری کمائی کا صِلہ ہم کوکیا ملا ؟تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس کا صِلہ مال سے زیادہ ملے گا اور وہ تمہارے پیدا کرنے والے خدا کی محبت ہے۔ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری آخرت بھی درست ہوجائے گی اور تم دونوں جہانوں میں آرام اور سُکھ سے زندگی بسر کرو گے۔ دیکھو اس تعلیم کے ساتھ باوجود انفرادیت اور عائلیّت جیسی ضروری چیزوں کی حفاظت کا وہ مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے جسے بالشوزم ُپورا کرنا چاہتی ہے۔
ہر زمانہ میں غرباء کی ضروریات
پورا کرنے والی اسلامی تعلیم
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو ہوئی لفظی تعلیم تم کہتے تھے کہ اسلام غرباء کے کھانے کا بھی انتظام کرتا ہے، ان کے کپڑے کا بھی انتظام کرتا ہے، ان کے مکان کا بھی انتظام کرتا ہے
اور ان کے علاج اور تعلیم کا بھی انتظام کرتا ہے مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ اسلام اس میں کامیاب بھی ہؤا ہے یا نہیں؟ اگر کامیاب ہوچکا ہے تو ہمیں اس کا کوئی نمونہ دکھائو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم وہی کامیاب اور اعلیٰ ہوتی ہے جو ہر زمانہ کے مطابق سامان پیدا کرے یعنی وہ لچکدار ہو اور اپنے مقصد کو زمانہ کی ضرورت کے مطابق پورا کرے۔ جو تعلیم لچکدار نہیں ہو گی وہ کسی جگہ کام دیگی اور کسی جگہ کام نہیں دے گی۔ جیسے اگر کوئی لکڑی کا تختہ ہو تو وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکے گا اگر جگہ چھوٹی ہو گی تو لازماً وہاں لکڑی کا تختہ کام نہیں دے سکے گا کیونکہ وہ اس میں سمائے گا نہیں لیکن اگر کسی کے پاس چادر ہو تو چھوٹی جگہ پر وہ سمیٹی جا سکے گی اور بڑی جگہ پر پھیلائی جا سکے گی۔ پس تعلیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق لچک پیدا ہو سکے۔ اس قسم کی لچک نہ ہو جو آ ج کل کے َنوتعلیم یافتہ مراد لیتے ہیں کہ انہوں نے اس لچک میں سارا قرآن ہی ختم کر دیا ہو۔
ابتدائے اسلام میںغرباء کی
ضرورتیں پوری کرنے کا طریقہ
اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی ضرورت کے مطابق یہ تعلیم ُ ّکلی طور پرکامیاب رہی ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں نہ صرف سادگی پر عمل کرایا گیا بلکہ جب
حکومت کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوئی تو تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ علاوہ زکوٰۃ کے غرباء کی سب ضرورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چندوں سے پوری فرمایا کرتے تھے اور اس ضمن میںبعض دفعہ صحابہؓ بڑی بڑی قربانیاں کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک وقت اپنا سارامال دے دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک وقت قریباً سارا مال دے دیا اور یہ زکوٰۃ نہ تھی ۔ پس جس قدر ضرورت تھی اس کے مطابق اس تعلیم نے کام دے دیا اور یہ طریق اس زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے بالکل کافی تھا۔
خلفائے اسلام کے زمانہ میںمنظم طور پر غرباء
کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد
جب حکومت زیادہ پھیلی اور خلفاء کا زمانہ آیا تو اس وقت منظم رنگ میں غرباء کی ضروریات کو پورا کرنے کی جدوجہد کی جاتی تھی چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ میں ایسے رجسٹر بنائے گئے جن میں سب لوگوں کے نام ہوتے تھے اور ہر فرد کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کیا جاتا تھا اور فیصلہ کیا جاتا تھا کہ فی مرد اتنا غلہ ، اتنا گھی، اتنا کپڑا اور اتنی فلاں فلاں چیز دی جائے۔ اسی طرح ہر شخص کو چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی ضروریاتِ زندگی مہیا ہو جاتی تھیں اور یہ طریق اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل کافی تھا۔آج دنیا یہ خیال کرتی ہے کہ بالشوزم نے یہ اصول ایجاد کیا ہے کہ ہرفرد کو اس کی ضروریاتِ زندگی مہیاکی جانی چاہئیں حالانکہ یہ طریق اسلام کا پیش کردہ ہے اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس پرمنظم رنگ میں عمل بھی کیا جا چکا ہے بلکہ یہاں تک تاریخوں میںآتا ہے کہ شروع میںحضرت عمرؓ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں ان چھوٹے بچوں کا جو شیرخوار ہوںخیال نہیں رکھا گیا تھا اور اسلامی بیت المال سے اُس وقت بچے کو مددملنی شروع ہوتی تھی جب ماں بچے کا دودھ ُچھڑا دیتی تھی۔ یہ دیکھ کر ایک عورت نے اپنے بچے کا دودھ ُچھڑا دیا تاکہ بیت المال سے اس کا بھی وظیفہ مل سکے۔ ایک رات حضرت عمرؓ گشت لگا رہے تھے کہ آپ نے ایک جھونپڑی میںسے ایک بچے کے رونے کی آواز سُنی حضرت عمرؓ اندر گئے اور پوچھا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے ۔ اس عورت نے کہا عمرؓ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پینا نہ چھوڑے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا اس لئے میں نے اس بچے کا دودھ ُچھڑا دیا ہے تا کہ وظیفہ لگ جائے اور اسی وجہ سے یہ رو رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا واہ عمر معلوم نہیں ُتو نے کتنے عرب بچوں کا دودھ ُچھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے حکم دے دیا کہ پیدائش سے ہی ہر بچے کو وظیفہ ملا کرے۔ پس اُس وقت یہ انتظام تھا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ انتظام اس وقت کی ضروریات اوراس زمانہ کے لحاظ سے کافی تھا۔ہاں یہ درست ہے کہ اس زمانہ میں غربت اور امارت میں وہ بُعد نہ تھا جو اَب ہے۔ اس وقت مقررہ ٹیکس اور حکومت اور افراد کو صاحبِ دولت لوگوں کی بروقت امداد ان اغراض کو پورا کر دیتی تھی۔تجارتی مقابلہ اس وقت اس قدر نہ تھا جو اَب ہے۔ مقابل کی حکومتیں اس طرح ہمسایہ ملکوں کی دولت کو باقاعدہ نہ لُوٹتی تھیں جیسا کہ اب لُوٹتی ہیں اس لئے ہم مانتے ہیں کہ وہ انتظام آج کارگر نہیں ہو سکتا لیکن اصولی لحاظ سے وہ تعلیم آج بھی کارگر ہے۔ اس وقت بغیر اس کے کہ کوئی نیا طریق ایجاد کیا جاتا اسی آمدن سے جو مقررہ ٹیکسوں یا طوعی چندوں سے حاصل ہوتی تھی گذارہ چلایا جا سکتا تھا پس اس وقت اسے کافی سمجھا گیا مگر وہ انتظام آج کافی نہیں ہو سکتا۔
آجکل کا زمانہ منظم زمانہ ہے اس وقت دنیا کی بے چینی کو دیکھ کر حکومتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کی بیشتر دولت ان کے ہاتھ میں ہو اور اگر مذکورہ بالا تحریکیں کامیاب ہوئیں یعنی ان میںسے کوئی ایک کامیاب ہوئی تو لازماً افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور حکومتوں کے ہاتھ میںزیادہ چلا جائے گا۔ بالشوزم کامیاب ہو تب بھی اور شوشلزم کامیاب ہو تب بھی نتیجہ یہی ہو گا کہ افراد کے ہاتھ میں روپیہ کم رہ جائے گا اور ملک کی بیشتر دولت پر حکومت کا قبضہ ہو جائے گا لیکن علاوہ مذکورہ بالا نقائص کے جو اوپر بیان ہو چکے ہیںیہ نقصان بھی ہو گا کہ گو بعض ممالک زیادہ امن میںآ جائیں گے مگر بعض دوسرے ممالک زیادہ دُکھ میںپڑ جائیں گے۔
موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے پیشِ نظر غرباء کو
آرام بہم پہنچانے کے لئے ایک نئے نظام کی ضرورت
اس نظام کے مقابلہ میں اسلامی تعلیم کو معیّن صورت دینے کے لئے جو جامہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے
زمانہ کے لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا وہ آج یقینا کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ َاب حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح بعد میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ان احکام کوجو صورت دی تھی وہ آج کامیاب نہیں ہو سکتی پس ضرورت ہے کہ اس موجودہ دور میں اسلامی تعلیم کا نفاذ ایسی صورت میں کیا جائے کہ وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو اِن دُنیوی تحریکوں میں ہیں اور اس قدر روپیہ بھی اسلامی نظام کے ہاتھ میں آ جائے جو موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے مساوات کو قائم رکھنے اور سب لوگوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ خلفاء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی جیسے میں نے بتایا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میںباقاعدہ مردم شماری ہوتی تھی ہر شخص کا نام رجسٹروں میںدرج ہوتا تھا اور اسلامی بیت المال اس امرکا ذمہ دار ہوتا تھا کہ ہر شخص کی جائز ضروریات کو پورا کرے۔ پہلے جس قدر روپیہ آتا تھا وہ سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا مگر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ایک اسلامی خزانہ ہو اور دوسرے لوگوں کے بھی حقوق ہیں اس لئے اب تمام روپیہ سپاہیوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گابلکہ اس کے ایک بہت بڑے حصہ کو محفوظ رکھا جائے گا چنانچہ اس روپیہ سے ملک کے غرباء کو گذارہ دیا جاتا تھا۔
غرض خلفاء نے اپنے اپنے زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے اسلام کے احکام کی تعبیر کی مگر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی اور نظام کی ضرورت تھی اور اس نظام کے قیام کے لئے ضروری تھا کہ کوئی شخص خداتعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ ان تمام دکھوں اور دردوں کو مٹانے کے لئے ایسا نظام پیش کرے جو زمینی نہ ہو بلکہ آسمانی ہو اورایسا ڈھانچہ پیش کرے جو ان تمام ضرورتوں کو پورا کر دے جو غرباء کو لاحق ہیں اور دنیا کی بے چینی کو دور کر دے۔ اب ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی موعود کی بعثت کی خبر دی ہے، ہر شخص جو تسلیم کرتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مسیح او رمہدی کے آنے کی خوشخبری دی ہے لازماً اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس زمانہ میں جو فتنہ وفساد اور دُکھ نظر آرہا ہے اس کے دور کرنے کا کام بھی اسی مأمور کے سپرد ہونا چاہئے تا کہ وہ نقائص بھی پید ا نہ ہوں جو بالشوزم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ نتائج بھی پیدا نہ ہوںجو سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ نقائص بھی پیدا نہ ہوں جو نیشنل سوشلزم کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں دنیا کو کھانا بھی مل جائے، دنیا کو کپڑا بھی مل جائے، دنیا کو مکان بھی مل جائے، دنیا کودوا بھی مل جائے اور دنیا کو تعلیم بھی میسر آ جائے پھر دماغ بھی کمزور نہ ہو، انفرادیت اور عائلیت کے اعلیٰ جذبات بھی تباہ نہ ہوں، ظلم بھی نہ ہو، لوگوں کو لُوٹا بھی نہ جائے، امن اور محبت بھی قائم رہے لیکن روپیہ بھی مل جائے۔
موجود زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق دنیا
سے دُکھ کو دُور کرنے کی خاتم الخلفاء کی سکیم
پس موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خاتم الخلفاء کا فرض تھا کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق کوئی سکیم تیار کرتا اور دنیا سے اس مصیبت کا
خاتمہ کر دیتا۔ چنانچہ جیسا کہ میں آگے چل کر بتائوں گا اس نے خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کے سامان بہم پہنچادئیے ہیں۔
غرباء کی تکلیف دور کرنے کے لئے
اسلامی سکیم اور اس کے اہم اصول
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ اسلامی سکیم کے اہم اصول یہ ہیں:-
اول :سب انسانوں کی ضرورتوںکو پورا کیا جائے۔
دوم: مگر اس کام کو پورا کرتے وقت انفرادیت اور عائلی زندگی کے لطیف جذبات کو تباہ نہ ہونے دیا جائے۔
تیسرے: یہ کام مالداروں سے طَوعی طور پرلیا جائے اور جبر سے کا م نہ لیا جائے۔
چوتھے: یہ نظام ملکی نہ ہو بلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو۔ آج کل جس قدر تحریکات جاری ہیں وہ سب کی سب ملکی ہیں مگر اسلام نے وہ تحریک پیش کی ہے جو ملکی نہیں بلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہے۔
اسلامی تعلیم کی ساری خوبی ان چاروں اصول میںمرکوز ہے۔ اگر یہ چاروں اصول کسی تحریک میںپائے جاتے ہوں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحریک سب سے بہتر اور سب تحریکات سے زیادہ مکمل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ۱۹۰۵ء
میں دنیا سے دُکھ کو دور کرنے والے نئے نظام کی بنیاد
اب میں بتاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان چاروں مقاصد کو اس زمانہ کے مأمور، نائبِ رسول اللہؐ نے
خدا تعالیٰ کے حکم سے کس طرح پورا کیا اور کس طرح اسلامی تعلیم کے عین مطابق دنیا کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھ دی۔ یہ بالشوزم، سوشلزم اور نیشنل سوشلزم کی تحریکیں سب جنگ کے بعد کی پیدائش ہیں۔ ہٹلر جنگ کے بعد کی پیدائش ہے، مسولینی۳۶؎ جنگ کے بعد کی پیدائش ہے اور سٹالن جنگ کے بعد کی پیدائش ہے۔ غرض یہ ساری تحریکیں جو دنیا میںایک نیا نظام قائم کرنے کی دعویدار ہیں۔ ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۱ کے گرد چکر لگا رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے مأمور نے نئے نظام کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں رکھ دی تھی اور وہ ’’الوصیت‘‘ کے ذریعہ رکھی تھی۔
قرآن مجید میں مختلف ضرورتوں کے وقت
طَوعی قربانیاں کرنے کی طرف اشارہ
قرآن کریم نے اصولی طورپر فرمایاتھا اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
مگر اس تعلیم میں خدا تعالیٰ نے طوعی قربانیوں کے کوئی معیّن اصول مقرر نہ فرمائے تھے صرف یہ کہا تھا کہ اے مسلمانو! تمہیں علاوہ جبری ٹیکسوں کے بعض اور ٹیکس بھی دینے پڑیںگے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ٹیکس کتنے ہوں گے اور ان کی معیّن صورت کیا ہو گی۔ اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سَو میں سے ایک روپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفۂ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سَو میں سے ایک روپیہ دے دو اور اگر کسی زمانہ میں اسلامی حکومت کو سو میںسے دوروپیہ کی ضرورت ہوتی تھی تو خلیفہ وقت کہہ دیا کرتا تھا کہ اے بھائیو! اپنی مرضی سے سومیں سے دوروپے دے دو اسی وجہ سے ہر زمانہ میںاس کی الگ الگ تعبیر کی گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی تعبیر اس طرح کی کہ وقتاً فوقتاًزائد چند ے مانگ لئے اور خلفاء نے اپنے زمانہ کے مطابق اس کی اس طرح تعبیر کی کہ جو اموال فوجوں میںتقسیم کرنے کے لئے آیا کرتے تھے ان کے ایک بڑے حصہ کو محفوظ کر لیا اور سپاہیوں سے کہا کہ تم اپنی خوشی سے اپنا حق چھوڑ دو اور حضرت مسیح موعود نے اپنے زمانہ کے مطابق تعبیر کرلی۔ اگر اسلامی حکومت نے ساری دنیا کو کھانا ِکھلانا ہے، ساری دنیا کو کپڑے پہنانا ہے، ساری دنیا کی رہائش کے لئے مکانات کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام کرنا ہے، ساری دنیا کی جہالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم کا انتظام کرنا ہے تو یقینا حکومت کے ہاتھ میں اس سے بہت زیادہ روپیہ ہونا چاہئے جتنا پہلے زمانہ میں ہؤا کرتا تھا ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اعلان فرمایا کہ اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ انتظام فرمایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنے مال کے کم سے کم دسویں حصہ کی اور زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ کی وصیت کر دیں اور آپ فرماتے ہیں ان وصایا سے جو آمد ہو گی ’’وہ ترقیٔ اسلام اور اشاعتِ علمِ قرآن وکُتبِ دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے ‘‘ خرچ ہو گی۔(شرط نمبر۲)
اسی طرح ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور اِن اموال سے انجام پذیر ہوں گے۔(شرط نمبر۲)
یعنی اسلام کی تعلیم کو دنیا میںقائم اور راسخ کرنے کے لئے جس قدر امور ضروری ہیں اور جن کی تعبیر کرنا قبل از وقت ہے ہاں اپنے زمانہ میں کوئی اور شخص ان امور کو کھولے گا ان تمام امور کی سرانجام دہی کے لئے یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔
الوصیّت کے نئے نظام کا ذکر
یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی۔ آپ صاف فرماتے ہیں کہ ہر ایک امرجو
مصالح اشاعتِ اسلام میں داخل ہے اور جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے اس پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ اس کاصاف مطلب یہ تھا کہ ایسے امور بھی ہیں جن کو ابھی بیان نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب دنیا چِلّا چِلّا کر کہے گی کہ ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے تب چاروں طرف سے آوازیں اٹھنی شروع ہو جائیں گی کہ آئو ہم تمہارے سامنے ایک نیا نظام پیش کرتے ہیں۔ روس کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، ہندوستان کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں ، جرمنی اور اٹلی کہے گا آئو میں تم کو ایک نیا نظام دیتا ہوں ، امریکہ کہے گا آئو میں تم کو نیا نظام دیتا ہوں، اس وقت میرا قائم مقام قادیان سے کہے گا کہ نیا نظام ’’الوصیت ‘‘میں موجود ہے اگر دنیا فلاح وبہبود کے رستہ پر چلنا چاہتی ہے تو اس کا ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ’’ الوصیت‘‘ کے پیش کردہ نظام کو دنیا میںجاری کیا جائے۔
وصیت کے اَموال میںتیامیٰ ، مساکین او رکافی
وجُوہِ معاش نہ رکھنے والے َنو مُسلموں کا حق
پھر آپ فرماتے ہیں ’’ان اموال میں سے اُن یتیموں اور مسکینوں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہِ معاش نہیں رکھتے‘‘(شرط نمبر ۲)
پھر فرماتے ہیں ’’جائز ہو گا کہ انجمن باتّفاق رائے اس روپیہ کو تجارت کے ذریعہ سے ترقی دے‘‘۔(ضمیمہ شرط نمبر ۹) یعنی ا ن اموال کے ذریعہ تجارت کرنی بھی جائز ہو گی اور تمہیں اس بات کی اجازت ہو گی کہ لوگوں سے ا ن کے اموال کا دسواں یا آٹھواں یا پانچواں یا تیسرا حصہ لواور پھر تجارت کر کے اس مال کو بڑھالو۔
نئے نظام سے باہر رہنے والے کے لئے ایمان کا خطرہ
پھر فرماتے ہیں ہر مؤمن کے ایمان کی
آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس نظام میں داخل ہو اور خداتعالیٰ کے خاص فضل حاصل کرے۔ صرف منافق ہی ا س نظام سے باہر رہے گا۔ گویا کسی پر جبر نہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمادیا کہ اس میں تمہارے ایمانوں کی آزمائش ہے اگر تم جنت لینا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم یہ قربانی کرو،ہاں اگر جنت کی قدر وقیمت تمہارے دل میں نہیں تو اپنے مال اپنے پاس رکھو ہمیں تمہارے اموا ل کی ضرورت نہیں۔
بالشوزم اورالوصیۃ کے ذریعہ
لئے ہوئے اَموال میں ایک فرق
پھر دیکھو بالشوزم لوگوں سے ان کے اموال جبراً چھینتی ہے مگر آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کردو کیونکہ خدا کسی کے مال کامحتاج نہیں اور خدا کے نزدیک ایسا مال مکروہ اور ردّ
کرنے کے لائق ہے (ضمیمہ شرط نمبر ۱۲) یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے کہ دنیا جس نظامِ َنو کو پیش کرتی ہے اس میں وہ جبراً لوگوں سے ان کے اموال چھینتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس نظامِ َنو کو پیش فرماتے ہیں اس میں طَوعی قربانیوں پر زور دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کا مال اسے واپس کر دو کیونکہ ایسا مال مردود ہے اور اس قابل نہیں کہ اسے اپنے پاس رکھا جائے۔
بالشوزم کے مقابل الوصیّۃ کے ذریعہ
نہایت پُرامن طریقہ سے مقصد کا حصول
ان اصول کو مدنظر رکھ کر دیکھو کہ کس طرح وہی مقصد جسے بالشوزم نے خون میں ہاتھ رنگ کر ادھورے طور پر پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محبت او رپیار سے اس مقصد کو زیادہ مکمل طور پر پورا کر دیا ہے۔ بالشوزم آخرکیا کہتی ہے ؟ یہی کہ امیروں سے ان کی جائدادیں چھین لو تا غریبوں پر خرچ کی جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی جائدادیں اسلامی منشاء کے مطابق اور اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق محبت وپیار سے لے لیں اور فرمایا کہ تم سب اپنی اپنی جائدادوں کا کم سے کم دسواں حصہ دو جو تیامیٰ اور مساکین پر خرچ کیا جائے گا اور اشاعتِ اسلام کا کام اس سے لیا جائے گا۔اس وصیت کے قانون کے مطابق ہر وصیت کرنے والا احمدی اپنی جائداد کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ اپنی مرضی سے اپنے اُخروی فائدہ کو مدّنظر رکھتے ہوئے اسلام اور بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے۔
تمام دنیا کے احمدی ہو جانے کی
صورت میں عظیم الشان اِنقلاب
اگر ساری دنیا احمدی ہو جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساری دنیا سے یہ مطالبہ ہو گا کہ خداتعالیٰ تمہارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اگر تم سچے مؤمن ہو، اگر تم جنت کے
طلبگار ہو، اگر تم خداتعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی جائدادوں کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ اسلام اور مصالح اسلام کی اشاعت کے لئے دے دو اس طرح ساری دنیا کی جائدادیں قومی فنڈ میں آ جائیں گی اور بغیر کسی قسم کے جبر اور لڑائی کے اسلامی مرکز صرف ایک نسل میں تمام دنیا کی جائدادوں کے۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ کا مالک بن جائے گا اور اس قومی فنڈ سے تمام غرباء کی خبر گیری کی جا سکے گی۔
چند نسلوں میں ہی تمام احمدیوں کی
جائدادیں نظامِ احمدیت کے قبضہ میں
پھر یہ یاد رکھو کہ وصیت صرف پہلی نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ دوسری نسل کے لئے بھی ہے اور اس سے بھی انہی قربانیوں کا مطالبہ ہے اور چونکہ وصیت سے دنیا کے سامنے
جنت پیش کی جا رہی ہے اگلی نسل اس کولینے سے کس طرح انکار کرے گی پس دوسری نسل پھر اپنی خوشی سے بقیہ جائداد کا ۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دے گی اور پھر تیسری اور پھر چوتھی نسل بھی ایسا ہی کرے گی اور اس طرح چند نسلوں میں ہی احمدیوں کی جائدادیں نظامِ احمدیت کے قبضہ میں آ جائیں گی۔ فرض کرو سب دنیا احمدی ہو جائے تو اس کا نتیجہ جانتے ہو کیا نکلے گا یہی کہ چند نسلوں میںاپنی خوشی سے ساری دنیا اپنی جائدادیں قومی کاموں کے لئے دے دے گی اور اس کی انفرادیت بھی تباہ نہ ہو گی، عائلی نظام بھی تباہ نہ ہو گا اور پھر لوگ اپنے لئے اور اپنی اولادوں کے لئے اور دولت پیدا کریں گے اور پھر اپنی خوشی سے اس کا۱۰/۱ سے ۳/۱ حصہ قومی ضرورتوں کے لئے دے دیں گے پھر یہ سارا مال چند نسلوں میںقومی فنڈ میں منتقل ہو جائے گا اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کے پاس سو روپے ہوں اور وہ پانچویں حصہ کی وصیت کرے تو بیس روپے قومی فنڈ میں آ جائیں گے اور اسّی روپے اس کے پاس رہیں گے جواس کے لڑکے کو ملیں گے۔ پھر مثلاً اس کا لڑکا اگر اسّی روپے کے ۵/۱ حصہ کی وصیت کر دے گا تو سولہ روپے اور قومی فنڈ میں آ جائیں گے۔ گویا ۳۶ فیصدی قومی فنڈ میں آ جائے گا اور ۶۴ فیصدی اس کے پاس رہ جائے گا۔ پھر مثلاً اس کا لڑکا اس ۶۴ فیصدی کے پانچویں حصہ کی وصیت کرے گا تو اندازاً بارہ روپے اور قومی فنڈ میں آ جائیں گے گویا اڑتالیس فیصدی کی مالک حکومت ہو جائے گی اور باون فیصدی اس خاندان کے پاس رہ جائے گا اس کے بعد اس کا لڑکا مثلاً باون روپوں کے پانچویں حصہ کی وصیت کر دے گا تو دس روپے ان کے ہاتھ سے اور نکل جائیں گے اس طرح قومی فنڈ میں اٹھاون فیصدی آ جائے گا اور اس خاندان کے پاس صر ف بیالیس فیصدی رہ جائے گا۔ غرض وہی مقصد جو بالشوزم کے ماتحت تلوار اور خونریزی سے حاصل کیا جاتا ہے اگر وصیت کا نظام وسیع طور پر جاری ہو جائے تو مقصد بھی حل ہو جائے فساد اور خونریزی بھی نظر نہ آئے، آپس میں محبت اور پیار بھی رہے، دنیا میں کوئی بھوکا اور ننگا بھی دکھائی نہ دے اور چند نسلوں میں انفرادیت کی روح کو تباہ کئے بغیر قومی فنڈ میںدنیا کی تمام جائدادیں منتقل ہو جائیں۔
وصیت کا نظام ملکی نہ ہو گابلکہ ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو گا
پھر یہ نظام ملکی نہ ہو گا بلکہ بوجہ مذہبی ہونے کے ￿ بَینَ ا ￿لا َ قوامی ہو گا۔
انگلستان کے سوشلسٹ وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر انگلستان تک محدود ہو، روس کے بالشویک وہی نظام پسند کرتے ہیں جس کا اثر روس تک محدود ہو مگر احمدیت ایک مذہب ہے وہ اس نئے نظام کی طرف روس کو بھی بُلاتی ہے، وہ جرمنی کو بھی بُلاتی ہے، وہ انگلستان کو بھی بُلاتی ہے، وہ امریکہ کو بھی بُلاتی ہے، وہ ہالینڈ کو بھی بُلاتی ہے، وہ چین اور جاپان کو بھی بُلاتی ہے پس جو روپیہ احمدیت کے ذریعہ اکٹھا ہو گا وہ کسی ایک ملک پر خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا کے غریبوں کے لئے خرچ کیا جائے گا، وہ ہندوستان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ چین کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ جاپان کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ افریقہ کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ عرب کے غرباء کے بھی کام آئے گا، وہ انگلستان ،امریکہ، اٹلی، جرمنی اور روس کے غرباء کے بھی کام آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیش
کردہ عالمگیر ا ّخوت بڑھانے والا نظام
غرض وہ نظام جو دنیوی ہیں وہ قومیت کے جذبہ کو بڑھاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ نظام پیش کیا ہے جو عالمگیر ا ّخوت کو بڑھانے والا ہے۔ پھر
روس میںتو روس کا باشندہ روس کے لئے جبراً اپنی جائداد دیتا ہے لیکن وصیت کے نظام کے ماتحت ہندوستان کا باشندہ اپنی مرضی سے سب دنیا کے لئے دیتا ہے، مصر کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد سب دنیا کے لئے دیتا ہے ، شام کا باشندہ اپنی مرضی سے اپنی جائداد ساری دنیا کے لئے دیتا ہے یہ کتنا نمایاں فرق ہے اسلامی نظامِ َنو اور دُنیوی نظامِ َنو میں؟
اسلامی نظامِ َنو کے ماتحت غرباء کے لئے جائدادیں
دینے والوں کے دلوں میں انتہائی بشاشت اور سرور
پھر روسی نظام چونکہ جبر سے کام لیتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے مالدار روس سے نکل کر
اس کے خلاف جدوجہد شروع کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں غریبوں کو جائدادیں دے کر کوئی خوشی اور بشاشت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک روسی سے جس وقت اس کی جائداد چھین لی جاتی ہے وہ ہنستا نہیں بلکہ روتا ہؤا اپنے گھر جاتا ہے اور اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے کم بخت حکومت نے میری جائداد مجھ سے چھین لی لیکن اس نظامِ َنو میں ایک زمیندار جس کے پاس دس ایکڑ زمین ہوتی ہے وہ ایک یا دو یا تین ایکڑ زمین دے کر روتا نہیں بلکہ دوسرے ہی دن اپنے بھائی کے پاس جاتا ہے اور اسے کہتا ہے اے بھائی! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کی توفیق پائی اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جس کے دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ غریبوں کے لئے دو یا تین ایکڑ زمین مجھ سے چھین لی گئی ہے۔ مگر وہ روتا نہیں، وہ غم نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے بھائی جان! مجھے مبارکباد دو کہ میں نے وصیت کر دی اور کہتا ہے اللہ اب مجھے وہ دن بھی دکھائے کہ آپ بھی وصیت کر دیں اور میں آپ کو مبارکباد دینے کے قابل ہو جائوں۔ جس وقت بیوی کو وہ یہ خبر سناتا ہے بیوی یہ نہیں کہتی کہ خد ا تباہ کرے ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری جائدادلُوٹ لی بلکہ اس کے ہونٹ کا نپنے لگ جاتے ہیں اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور وہ للچائی ہوئی نگاہوں سے ان نگاہوں سے جن سے وہ اپنے خاوند کے دل کو چھینا کرتی ہے اس کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو جی! اللہ نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ نے وصیت کر دی میرے پاس اپنی جائداد نہیں میں کس طرح وصیت کروں آپ اپنی جائداد میں سے کچھ مجھے دے دیں تو میں بھی اس نعمت میں شامل ہوجائوں اور وہ اپنے نسوانی دائو پیچ اور ان تیروں سے کام لے کر جو کہ خاوند بہت کم برداشت کر سکتے ہیں آخر اسے راضی کر ہی لیتی ہے اور وہ اسے اپنی جائداد میں سے کچھ حصہ دے دیتا ہے اس پر بیوی پھر اسی جائداد کی وصیت کرتی ہے اور کہتی ہے میں اس کے ۱۰/۱ یا۸/۱ یا۶/۱ حصہ کی وصیت کرتی ہوں گویا اس بچی ہوئی جائداد پر پھر ایمان ڈاکہ مارتا اور اس کا ایک اور حصہ قومی فنڈ میںمنتقل ہو جاتا ہے اتنے میں بچہ گھر میں آتا ہے اور جب وہ سنتا ہے کہ اس کے باپ اور اس کی ماں نے وصیت کر دی ہے تو وہ دلگیر ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے باپ سے کہتا ہے ابا جی! اللہ آپ کو دیر تک ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ میرے پاس تو کچھ نہیں میں کس طرح اللہ سے یہ ارزاں سَودا کروں اگر مجھے کچھ دے دو تو میں بھی اللہ میاں سے اپنے لئے جنت کا سَودا کر لوں۔ اگر اس کے باپ کو اس سے زیادہ محبت ہوتی ہے تو وہ یہ خیال کر کے کہ آخر میری جائداد نے اسی کے پاس جانا ہے اسی وقت اپنی جائداد کا ایک حصہ اسے دے دیتا ہے اور وہ وصیت کر کے اپنے رب سے جنت کا سَودا کر لیتا ہے۔ اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ایک اور حصہ قومی فنڈ میںآ جمع ہوتا ہے اور اگر اس کا باپ نسبتاً سخت ہوتا ہے اور وہ یہ نہیں مانتا کہ اپنی زندگی میں لڑکے کو جائداد دے دے تو نیک بخت لڑکا اس جائداد کا جو ابھی اسے نہیں ملی سَودا کر دیتا ہے اور وصیت کر دیتا ہے کہ گو ابھی میرے پاس کوئی جائداد نہیں مگر میں وصیت کرتا ہوں کہ اِس وقت جو میری آمدن ہے اس کا دسواں حصہ وصیت میںادا کرتا رہوں گا اور اگر آئندہ میری کوئی جائداد ہوئی تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا کروں گا جس کے دوسرے لفظوں میںیہ معنے ہوتے ہیں کہ جب ابا جان فوت ہو جائیں گے اور ان کی جائداد میرے قبضہ میں آ جائے گی تو جو حصہ مجھے باپ کی وصیت کے بعد بچی ہوئی جائداد میں سے ملے گا اس کے دسویں حصہ کا ابھی سے وعدہ کرتا ہوں۔ اس طرح بقیہ جائداد کا پھر ۱۰/۱ قومی فنڈ میں آ جاتا ہے۔
پھر دیکھو دُنیوی نظام کے ماتحت تو جن لوگوں پر ٹیکس لگتا ہے وہ ناخوش ہوتے ہیں اور جن پر نہیں لگتا وہ خوش ہوتے ہیں۔ امیر ناراض ہوتے ہیں کہ ہم پر کیوں ٹیکس لگایا گیا اور غرباء خوش ہوتے ہیں کہ امراء کا مال ہمیں ملا لیکن وصیت کے قاعدہ کے ماتحت کیا ہوتا ہے؟ وصیت کو غورسے پڑھ کر دیکھ لو وصیت کی ابتداء جائداد پر رکھی گئی تھی مگر چونکہ مال جبراً نہیں چھینا جاتا بلکہ اس کے بدلہ میں جنت کی سی نعمت پیش کی جاتی ہے اس لئے وہ لوگ جن کے لئے مال لیا گیا تھا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ امراء جن کی جائدادیں لی گئی ہیں خوب لوٹے گئے بلکہ وہ رنجیدہ ہوئے کہ اس نیک سَودے سے ہمیں کیوں محروم کیا گیا ہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ ہمارے لئے بھی راستہ نکالا جائے اور خداتعالیٰ کی اجازت سے آپ نے انہیں اپنی آمدنیوں کی وصیت کرنے کی اجازت دے دی۔ گویا وہ طریق جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جاری کیا ہے اس کی ابتداء جائدادوں سے ہوئی مگر پھر ان لوگوں کے اصرار پر جن کی جائدادیں نہیں تھیں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے آپ نے آمدنیوں کی وصیت کی بھی اجازت دے دی اور اس طرح جائداد او رآمد دونوں کے مقررہ حصے قومی فنڈ میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔
نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میںرکھی گئی
غرض نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۱۰ء میں روس میں نہیں رکھی گئی نہ وہ آئندہ
کسی سال میں موجودہ جنگ کے بعد یورپ میںرکھی جائے گی بلکہ دنیا کو آرام دینے والے ہر فرد بشر کی زندگی کو آسودہ بنانے والے اور ساتھ ہی دین کی حفاظت کرنے والے نظامِ َنو کی بنیاد ۱۹۰۵ء میں قادیان میں رکھی جا چکی ہے اب دنیا کو کسی نظامِ َنو کی ضرورت نہیں ہے اب ۔نظامِ َنو کا شور مچانا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
جو کام ہونا تھا وہ ہو چکا اب یورپ کے مدبرّ صرف لکیریں پیٹ رہے ہیں۔ اسلام اور احمدیت کا نظامِ َنو وہ ہے جس کی بنیاد جبر پر نہیں بلکہ محبت اور پیار پر ہے۔ اس میں انسانی حریّت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے، اس میں افراد کی دماغی ترقی کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے اور اس میں انفرادیّت اور عائلیّت جیسے لطیف جذبات کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
وصیّتی اَموال کے خرچ کرنے کے مختلف مواقع
میں بتا چکا ہوں کہ وصیت کے متعلق یہ خیال کرنا غلط ہے کہ اس
کا روپیہ صرف تبلیغِ اسلام پر خرچ کیا جا سکتا ہے ’’الوصیۃ‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اس روپیہ سے اور کئی مقاصد کو بھی پورا کیا جا ئے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ہر ایک امر جو مصالح اشاعتِ اسلام میںداخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام امور اِن اموال سے انجام پذیر ہونگے یعنی آئندہ زمانہ میں اشاعتِ اسلام کی ایسی مصلحتیں ظاہر ہوں گی یعنی اسلام کو عملی جامہ پہنا کر اس کی خوبیوں کے اظہارکے مواقع ایسے نکلیں گے کہ ان پر وصیت کے روپیہ کو خرچ کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہو گا۔ پھر ’’یتیموں اور مسکینوں‘‘ کے الفاظ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعمال فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ اس روپیہ پر محتاجوں کا حق ہے ۔ پس درحقیقت ان الفاظ میںاسی نظام کی طرف اشارہ ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ہر فرد بشر کے لئے کھانا مہیا کیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے کپڑا مہیاکیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے مکان مہیا کیا جائے، ہر فرد بشر کے لئے تعلیم اور علاج کا سامان مہیا کیا جائے اور یہ کام ٹیکسوں سے نہیں ہو سکتا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ جائدادیں لی جائیں اور اس ضرورت پر خرچ کی جائیں۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ’’کیا پِدّی اور کیا پِدّی کا شوربا‘‘ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے کہ تم ایسے دعوے کرو اور اس قسم کی موہوم امیدوں کو جامۂ عمل پہنا سکو مگر یہ شُبہ بھی درست نہیں اس لئے کہ جب ہم یہ بات پیش کرتے ہیں تو اس لئے پیش کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کا دنیا کے تمام ممالک میںپھیل جانا مقدّر ہے۔ پس جبکہ ہم خداتعالیٰ کے الہامات اور اس کے وعدوں کے مطابق یہ یقین رکھتے ہیں کہ آج سے پچاس یا ساٹھ یاسو سال کے بعد بہرحال دنیا پر احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا تو ہمیں اس بات پر بھی کامل یقین ہے کہ یہ نظام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے ایک دن قائم ہو کر رہے گا۔ زمین وآسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔
یقینی طور پر وصیّت کے ذریعہ پیش کردہ نظام کا قیام
بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ معلوم کب
قائم ہو گا جماعت کی ترقی تو نہایت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے۔ اِس کاجواب یہ ہے کہ کبھی ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمائی جاتی جو عمارت بے بنیاد ہو وہ بہت جلد گِرجاتی ہے یہ جلد بنائے جانے والے نظام جلد گِر جائیں گے نظام وہی قائم ہو گا جو ہر کس وناکس کی دلی خوشنودی کے ساتھ قائم کیا جائے گا۔ گھاس آج نکلتا اور کل سوکھ جاتا ہے لیکن پھل دار درخت دیر میں تیار ہوتا اور پھر صدیوں کھڑ ا رہتا ہے ۔ پس آئندہ جوں جوں ہماری جماعت بڑھتی چلی جائے گی وصیت کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس نظام کو قائم کیا ہے وہ بھی بڑھتا چلاجائے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی اصول کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب الوصیۃ میںتحریر فرمایا ہے کہ:-
’’یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اس قادر کا ارادہ ہے جو زمین وآسمان کا بادشاہ ہے۔ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردا نہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔ سو مَیں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہو گا کہ جن کا کچھ گذارہ نہ ہو ان کو بطور مدد خرچ اس میںسے دیا جائے‘‘۳۷؎۔
وصیّت کے ذریعہ جمع ہونے والے
روپیہ کی حیرت انگیز ُبہتات
یعنی مجھے اس بات کا خیال نہیں کہ وصیت کے نتیجہ میں اتنے روپے کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں لوگ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاجائیں۔ گویا تم تو یہ کہتے ہو
کہ ساری دنیا کے غریبوں کا انتظام کس طرح کرو گے اور وہ مال کہاں سے آئے گا جس سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی مگر مجھے اس بات کا کوئی فکر نہیں کہ یہ مال کہاں سے آئے گا یہ مال آئے گا اور ضرورآئے گا مجھے تو فکر یہ ہے کہ کہیں کثرتِ مال کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی نہ رہ جائیں اور وہ لوگ جن کے سپرد یہ اموال ہوں وہ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں اور لالچ کی وجہ سے ان مدّات میں روپیہ خرچ نہ کریں جن مدّات کے لئے یہ روپیہ اکٹھا کیا جائے گا۔تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ سوال خود ہی اٹھایا ہے اور پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ اتنے خزانے کہاں سے آئیں گے۔ آئیں گے اور ضرور آئیںگے مجھے اگر ڈر ہے تو یہ کہ کہیں کثرتِ مال کو دیکھ کر لوگ دنیا سے پیار نہ کرنے لگ جائیں کیونکہ روپیہ اکٹھا ہو گا اور اتنا اربوں ارب اور اربوں ارب اکٹھا ہو گا کہ اتنا مال نہ امریکہ نے کبھی دیکھا ہو گا نہ روس نے کبھی دیکھا ہو گا، نہ انگلستان نے کبھی دیکھا ہو گا نہ جرمنی، اٹلی اور جاپان نے کبھی دیکھا ہو گا بلکہ ساری حکومتوں نے مل کر بھی اتنا روپیہ کبھی جمع نہیں کیا ہو گا جتنا روپیہ اِس ذریعہ سے اکٹھا ہو گا، پس چونکہ اِس ذریعہ سے اِس قدر دولت اکٹھی ہو گی کہ اِس قدر دولت دُنیا کی آنکھ نے اِس سے پہلے کبھی نہیںدیکھی ہو گی اِس لئے مَیں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کے دِلوں میں بدَدیانتی پیدا نہ ہو جائے ۔ پس تم اِس بات کا فکر نہ کرو کہ یہ نظام کِس طرح قائم ہو گا تم یہ فکر کرو کہ اس کو صحیح استعمال کرنے کا اپنے آپ کو اہل بنائو۔ دُنیا کی جائدادیں تمہارے ہاتھ میں ضرور آئیں گی مگر تم کو اپنے نفوس کی ایسی اِصلاح کرنی چاہئے کہ وہ جائدادیں تمہارے ہاتھ سے دنیا کے فائدہ کے لئے صحیح طور پر خرچ کی جائیں۔
خواجہ کمال الدین صاحب پر الوصیّۃ
میں بَیان کردہ نئے نظام کا اثر
مَیں اِس موقع پرایک دشمن کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس دن حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے وصیّت لکھی اور اُس کا مسودہ باہر بھیجا تو خواجہ کمال الدین صاحب
اس کو پڑھنے لگ گئے جب وہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچے تو وہ بے خود ہو گئے۔ ان کی نگاہ نے اس کے حُسن کو ایک حد تک سمجھا وہ پڑھتے جاتے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر کہتے جاتے کہ ’’واہ اوے مرزیا احمدیت دیاں جڑاں لگا دتیاں ہیں‘‘ یعنی واہ واہ مرزا تو نے احمدیت کی جڑوں کو مضبوط کر دیا ہے۔ خواجہ صاحب کی نظر نے بے شک اس کے حسن کو ایک حد تک سمجھا مگر پورا پھر بھی نہیں سمجھا درحقیقت اگر وصیّت کو غور سے پڑھا جائے تو یوں کہنا پڑتا ہے کہ واہ او مرزا تو نے اسلام کی جڑیں مضبوط کر دیں، واہ او مرزا تو نے انسانیت کی جڑیں ہمیشہ کے لئے مضبوط کر دیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
نظامِ َنو کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریکِ جدید کی صورت میں
مگرجیسا کہ مَیں بتا آیاہوں یہ کام وقت
چاہتا ہے اور اس دن کا محتاج ہے جب سب دُنیا میں احمدیت کی کثرت ہو جائے ابھی موجودہ آمد مرکز کو بھی صحیح طور پر چلانے کے قابل نہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میںتحریکِ جدید کا القاء فرمایا تا کہ اس ذریعہ سے ابھی سے ایک مرکزی فنڈ قائم کیا جائے اور ایک مرکزی جائداد پیدا کی جائے جس کے ذریعہ تبلیغِ احمدیت کو وسیع کیا جائے۔ پس تحریک جدید کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کے سامنے عقیدت کی یہ نیاز پیش کرنے کے لئے ہے کہ وصیت کے ذریعہ تو جس نظام کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس کے آنے میں ابھی دیر ہے اس لئے ہم تیرے حضور اس نظام کا ایک چھوٹا سا نقشہ تحریک جدید کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تا کہ اس وقت تک کہ وصیت کا نظام مضبوط ہو اس ذریعہ سے جو مرکزی جائداد پیدا ہو اس سے تبلیغِ احمدیت کو وسیع کیا جائے اور تبلیغ سے وصیت کو وسیع کیا جائے۔
نظامِ َنو کے قریب تر لانے کا ذریعہ
پس جوں جوں تبلیغ ہو گی اور لوگ احمدی ہوں گے وصیت کا نظام وسیع سے وسیع تر ہوتاچلا جائے گا
اور کثرت سے اموال جمع ہونے شروع ہو جائیں گے۔ قاعدہ ہے کہ شروع میں ریل آہستہ آہستہ چلتی ہے مگر پھر بہت ہی تیز ہو جاتی ہے اسی طرح اگر خود دوڑنے لگو تو شروع کی رفتار او ربعد کی رفتا رمیں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پس وصیت کے ذریعہ اس وقت جو اموال جمع ہو رہے ہیںان کی رفتار بے شک تیز نہیں مگر جب کثرت سے احمدیت پھیل گئی اور جوق در جوق لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے شرو ع ہو گئے اس وقت اموال خاص طور پرجمع ہونے شروع ہو جائیں گے اور قدرتی طور پر جائدادوں کاایک جتّھا دوسری جائدادوں کو کھینچنا شروع کر دے گا اور جوں جوں وصیت وسیع ہو گی نظامِ َنو کا دن اِنْشَائَ اللّٰہُ قریب سے قریب تر آجائے گا۔
تحریک جدید نظامِ َنو کے لئے بطور ارہاص کے ہے
غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے
لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے گویا وہ نظام اس کے مسیح کے لئے ایک ایلیاہ نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ارہاص کے ہے ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظامِ وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظامِ َنو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشا ِعت اسلام کے لئے ہے مگر یہ بات درست نہیں وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے۔ جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا اِنْشَائَ اللّٰہُ یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھر ے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہو گی، جوانوں کی باپ ہو گی، عورتوں کا سہاگ ہو گی، اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا۔
پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل ۳۸؎ بنا سکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ ۳۹؎بنا سکتے ہیں۔ یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص ، کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے ،جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی، وہ خداتعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیۃ کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میںرکھ دی گئی ہے۔
جماعت کے تمام دوستوں کو ایک نصیحت
پس تمام دوستوں کو اس کی اہمیت سمجھنی چاہئے اور ان دلائل کو اچھی طرح یاد رکھ
لینا چاہئے جو مَیں نے پیش کئے ہیں کیونکہ قریباً ہر جگہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو بالشوزم کے مدّاح ہوتے ہیں اسی لئے میں نے بالشوزم کی تحریک کی خوبیاں بھی بتا دی ہیںاور اس کی خامیاں بھی بتا دی ہیں اسی طرح دوسری تحریکات کی خوبیاں اور ان کی خامیاں بھی بتا دی ہیں پس ان پر غور کرو اور تعلیم یافتہ طبقہ سے ان کو ملحوظ رکھ کر گفتگو کرو۔ میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ دلائل ایسے ہیں جن کا کوئی جواب ان تحریکات کے مؤیّدین کے پاس نہیں دنیا میںاگر امن قائم ہو سکتا ہے تو اسی ذریعہ سے جس کو آج میں نے بیان کیا ہے۔ اسی طرح آج سے اٹھارہ سال پہلے ۱۹۲۴ء میں امنِ عامہ کے قیام کے متعلق خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے کتاب ’’احمدیت‘‘۴۰؎ میں ایک ایسا عظیم الشان انکشاف کیا کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ایسا عظیم الشان اظہار گزشتہ تیر ہ سَوسال میںپہلے ّمفسرین میں سے کسی نے نہیں کیا اور یقینا وہ ایسی تعلیم ہے کہ گو اس قسم کا دعویٰ کرنا میری عادت کے خلاف ہے مگر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اس قسم کا انکشاف سوائے نبیوں اور ان کے خلیفوں کے آج تک کبھی کسی نے نہیں کیا اگر کیا ہو تو لائو مجھے اس کی نظیر دکھائو۔
وصیّت کرنے والانظامِ َنو کی بنیاد رکھنے میں حِصّہ دار
پس اے دوستو ! جنہوں نے وصیّت کی ہوئی ہے سمجھ
لوکہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیّت کی ہے اس نے نظامِ َنو کی بنیاد رکھ دی ہے اُس نظامِ َنو کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس نے تحریکِ جدید میں حصّہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی ناداری کی وجہ سے اس میں حصّہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہے اس نے وصیّت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ پس اے دوستو! دُنیا کا نیا نظام دین کومٹا کر بنایا جا رہا ہے تم تحریک جدید اور وصیّت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرو مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے۔
جلد سے جلد وصیّتیں کرنے کی ضرورت
پس تم جلد سے جلد وصیّتیں کرو تا کہ جلد سے جلد نظامِ َنو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک
دن آ جائے جب کہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہیں وصیّت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میںشامل نہیںہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصّہ لے کر دینی ودُنیوی برکات سے مالامال ہو سکیں اوردنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اُٹھائے کہ آخر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردِہ کہا جاتا تھا، جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میںسے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیاکی تاریکیوں کو دور کر دیا جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دُور کر دیا، جس نے ساری دنیا کے دُکھوں اور دَردوں کو دُور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو، ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار او راُلفتِ باہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی۔
(مطبوعہ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
۱؎
گبّھا: ایک قسم کا روئی دار اور ملائم بچھونا
۲؎
کارل مارکس: جرمن مفکر اور کمیونزم کا بانی۔ ۱۸۱۸ء کو پیدا ہؤا۔ ۱۸۸۳ء کو وفات پائی۔ پ ٹریوز (TREVES) یہودی قانون دان کا بیٹا تھا۔ بون اور برلن میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۴۴ء میں اس نے اینجلس کے ساتھ طویل اشتراک کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ مل کر اس نے مارکسی فلسفہ کو ۱۸۴۴ء میں ایک مشترکہ کتاب بنام مقدس خاندان (The Holy Family) لکھ کر ترقی دی۔ پھر کمیونسٹ منشور مرتب کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ ۱۳۷۷ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳؎
سائیس: ملازم جو گھوڑے کی خدمت کے لئے رکھا جائے۔
۴؎
لینن ولیڈمر، الیچ:Lenin-Vladimir Ilyich (۲۲؍اپریل ۱۸۷۰ء تا۲۱؍ جنوری ۱۹۲۴ء) ۔ روسی سیاستدان۔ ۱۸۸۷ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کازان یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے داخلہ لیا لیکن جلد ہی طلباء کی انقلابی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۸۸۸ء میں رہائی ملی۔ ۱۸۹۷ء میںاسے جلاوطن کیا گیا۔ جلاوطنی کے دَوران ’’روس میں سرمایہ داری کی نشوونما‘‘ کتاب مکمل کی۔ ۱۹۱۴ء میں سوئٹزرلینڈ چلا گیا۔ ۱۹۱۷ء میں روس میں مطلق العنان حکومت کو شکست ہوئی اور ۷؍نومبر۱۹۱۷ء کو لینن کی صدارت میں روسی حکومت کے قیام کا اعلان ہؤا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲۔ صفحہ۱۳۶۲،۱۳۶۳ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۵؎
لُوڈن ڈروف ایرش Ludendroff Erich (۱۸۶۵ء ۔ ۱۹۳۷ء)۔ جرمن جرنیل۔ پہلی عالَمی جنگ میں ِہنڈن برگ (Hindenburg) کے ماتحت کماندارِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اُن فتوحات کا بڑی حد تک ذمہ دار تھا جو اس کے بالادست سے منسوب ہوئیں ۔ میونخ میں ہٹلر کے بلوہ بیئرہال (۱۹۲۳ء) میں اپنی دوسری بیوی کے اشتراک سے اس نے آریائی مَسلک کی بنیاد رکھی۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۳۳۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۶؎
سٹالن :روسی کمیونسٹ آمر۔ اس کا اصل نام زوگشوبلی تھا۔ انقلابی تحریک میں شامل ہونے کے بعد اِس نے سٹالن (مردِآہن) کا لقب اختیار کیا۔ پادری بننے کے لئے تعلیم حاصل کی مگر مارکسی ہو گیااِس لئے درس گاہ سے خارج کیا گیا۔ ۱۹۴۵ء میں مالوٹوف کو معزول کر کے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ روس پر ہٹلر کے حملہ کے بعد اس نے فوجی قیادت بھی سنبھال لی۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، جلد۱ صفحہ ۷۳۹، مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۷؎
مولوٹوف میخانووچ: Molotov Mikhailovich (۱۸۹۰ء ۔۱۹۸۶ء) روسی سیاستدان۔ ۱۹۰۶ء میں بالشویک پارٹی میں شمولیت کی۔ ۱۹۳۰ء تا ۱۹۴۱ء روسی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ۔۱۹۴۶ء تا ۱۹۴۹ء روسی وزیرخارجہ ، ۱۹۵۳ء تا۱۹۵۷ء روس کے وزیر اعظم رہے، ۱۹۵۶ء تا۱۹۵۷ء کچھ مدت کے لئے وزیرِ مملکت بھی رہے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۸؎
الانعام:۱۲
۹؎
استثناء باب ۲۳ آیت ۱۹ ،احبار باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۳۷۔
۱۰؎، ۱۱؎ استثناء باب ۱۵ آیت ۱۲
۱۲؎
استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۷ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی صفحہ۲۵۷ مطبوعہ، ۱۸۷۰ مرزاپور۔
۱۳؎
گلیتوںباب ۳ آیت ۱۰ تا۱۳
۱۴؎
۱۵؎
۱۶؎
۱۷؎
۱۸؎
الانفال:۶۸ ۱۹؎ الحج: ۴۰ تا۴۲ ۲۰؎ محمد:۵
۲۱؎
مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۲۳؎
النور:۳۳ ۲۴؎ النور: ۳۴
۲۵؎
محوری: دوسری ِجنگ عظیم میں نازی جرمنی اور فسطائی۔ اٹلی کے اتحاد کا نام (Axis Powers)
۲۶؎
البقرۃ:۳۰ ۲۷؎ الحجر:۸۹
۲۸؎
الحجرٰ ت:۱۰
۲۹؎
احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ ۲۳۱ مطبوعہ ۱۹۷۷ء
۳۰؎
احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۲۳۲،۲۳۳ مطبوعہ ۱۹۷۷ء
۳۱؎
البقرۃ:۴
۳۲؎
ہٹلر: Hitler Adolf (۱۸۸۹ء ۔۱۹۴۵ء)جرمنی کا آمر مطلق۔ نازی پارٹی کا بانی، پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں سے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۳۳ء میںاسے آمریت کے اختیارات سونپ دئیے گئے۔ ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا۔نازی پارٹی کے مخالفین کو ُکچل دیا گیا۔ اِس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالَمی جنگ پر منتج ہوئیں۔ ۱۹۴۱ء میںروس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ۱۸۴۶ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۳؎
گوئرنگ:Goering (۱۸۹۳ء ۔۱۹۴۶ء) جرمنی کا نازی لیڈر،پہلی عالَمی جنگ میں فضائی فوج کا ہیرو، شروع میں ہی نازیوں کے ساتھ مل گیا۔ ۱۹۳۳ء میں جرمنی کا وزیر محکمہ پرواز اور پروشیا (Prussia) کا وزیر اعظم۔ خفیہ پولیس کی بنیاد اِسی نے رکھی جس کا ۱۹۳۶ء تک سربراہ رہا۔ جرمنی کا معاشی نظام آمرانہ اختیارات سے چلایا۔ ہٹلر نے اسے اپنا جانشین نامزد کیا۔دوسری عالَمی جنگ میں ہمہ گیر فضائی جنگ کا ذمہ دار تھا۔ ۱۹۴۵ء میں امریکی فوج کے آگے ہتھیار ڈالے۔ جنگی جرائم میں سب سے بڑا ملزم ثابت ہونے پر سزائے موت پائی مگر پھانسی سے قبل خودکشی کر لی۔
(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد۲ صفحہ۱۲۹۴ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۴؎
بونا پارٹ: نپولین اول کا خاندانی نام ۔نپولین کے خاندان کے متعدد معروف افراد کے ناموں کے ساتھ بوناپارٹ کا لفظ لکھا ہے گویا یہ نپولین کے خاندان کا ٹائٹل ہے ۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیاجلد ۱ صفحہ۲۷۲ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۳۵؎
البقرۃ:۱۹۶
۳۶؎
مسولینی بینی ٹو: (Mussolni-Benito)(۱۸۸۳ء ۔۱۹۴۵ء) اطالوی آمر۔ یہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ ابتدائی دنوں میںاُستاد اور صحافی کا کام کیا۔ سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلی ِجنگ عظیم کے دَوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی۔وکالت کی پاداش میں۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اپنی جماعت بنائی۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہِ اٹلی اور فوج نے اسے وزیر اعظم کے عُہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لئے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا۔ اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا۔ جون ۱۹۴۰ء میں ِجنگ عظیم دوم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں نے سسلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اِس کی ساکھ ختم ہو گئی۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اِسے استعفیٰ پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیاگیا۔ ۱۵ ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز اسے رہا کر ا کر جرمنی لے گئے۔ لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہوریہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنالی۔ اپریل ۱۹۴۵ء میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ دونوں کو گولی مار دی گئی۔ اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ۱۵۶۵ مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۳۷؎ الوصیت صفحہ ۲۱ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۱۹۔
۳۸؎


۳۹؎
مسٹر چرچل: Churchill،Sir Winston-Leonard-Spencer (۳۰ نومبر ۱۸۷۴ء ۔ ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء) برطانوی سیاستدان۔ سپاہی، مصنف۔ ہندوستان، سوڈان ،جنوبی افریقہ کے معرکوں میں شریک رہا۔ ۱۹۰۰ء میں پارلیمنٹ کا رُکن بنا۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۵ء تک وزیر اعظم رہا ۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء دوبارہ وزیراعظم رہا۔ متعدد کتابیں لکھیں ۔ ۱۹۵۳ء میں ادبی نوبل پرائز حاصل کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ۵۱۴ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
روزویلٹ: Theodorer Roosevelt (۱۸۵۸ء۔۱۹۱۹ء) نیویارک کا گورنر ،۱۹۰۱ء
میں امریکہ کا نائب صدر ، ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۹ء تک صدر میکنلی کی موت پر امریکہ کا صدر بنا۔ تاریخ ،شکار، جنگلی جانوروں اور سیاسیات کے متعلق کتب لکھیں۔۱۹۰۶ء میں امن کا نوبلپرائز حاصل کیا۔(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۶۷۹ مطبوعہ ۱۹۸۷ء لاہور)
۴۰؎
’’احمدیت‘‘: اِس سے مراد حضرت مصلح موعود کی کتاب۔ ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ ہے۔ حضرت مصلح موعود نے یہ کتاب ویمبلے کانفرنس کے لئے تحریر فرمائی۔ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت مصلح موعودکی موجودگی میں اس کتاب کاخلاصہ کانفرنس میں پیش کیا۔





سیرِ روحانی (۳)





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۳)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
(۱)۔پہلے تو میں عید کے متعلق دوستوں کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ جو دوست َکل ٹھہریںگے اور ٹھہر سکیں گے اُن کو معلوم ہو کہ َکل اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی نو (۹)بجے اِس جگہ عید کی نماز ہوگی۔ عید گاہ تو دوسری جگہ ہے مگر مجھے کہا گیا ہے کہ آج کی تقریر کے بعد لاؤڈ سپیکر کا انتظام وہاں فوراً کیا جانا مشکل ہے اور چونکہ دوست زیادہ ہونگے اور خطبہ کی آواز بغیر لاؤڈ سپیکر کے اُن تک نہیں پہنچ سکے گی اس لئے یہی تجویز کی گئی ہے کہ اِسی مقام پر نمازِ عید ادا ہو اور چونکہ یہ عید معاً جلسہ کے بعد آگئی ہے اور وہ دوست جو ملاقاتیں کرکے واپس جانا چاہتے ہیں اُن کی سہولت بھی مدنظر ہے اس لئے میں نے تجویز کی ہے کہ َکل عین نو بجے نماز عید شروع ہو جائے اور پھر مختصر سے خطبہ کے ساتھ عید کو ختم کر دیا جائے تاکہ جانے والے اصحاب جنہوں نے ابھی تک ملاقات نہیں کی مل لیں اور گاڑی پر پہنچنے والے گاڑی پر پہنچ سکیں۔
عام طور پر ہم عید میں آنے والوں کی ُسستی کو دیکھ کر مقررہ وقت سے گھنٹہ سَوا گھنٹہ بڑھا دیا کرتے ہیں تاکہ جو ُسست ہیں وہ بھی آجائیں مگر َکل غالباً مہمانوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں ہوگا اس لئے دوست نو بجے کے معنے نو بجے ہی سمجھیں۔
(۲)۔اِس کے بعد پیشتر اِس کے کہ میں اپنا مضمون شروع کروں َکل کے لیکچر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے ایسا معلوم ہؤا ہے کہ میری َکل کی تقریر کی بعض باتوں سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے چنانچہ بعض دوستوں کی مجھے ِچٹھیاں آئی ہیں کہ ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق جو اعلان کیا گیا تھا اس سلسلہ میں ہم اپنا نام پیش کرتے ہیں۔ گویا میری َکل کی تقریر سے بعض دوستوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ کوئی کارروائی میرے مدنظر ہے حالانکہ میں نے وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ یہ معاملہ ابھی میرے زیرِ تحقیق ہے اور بالکل ممکن ہے کہ تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے کو بدلنا پڑے۔ گو ہمیں ُشبہات ہیں اور قوی ُشبہات ہیں مگر انسان صحیح حالات کے معلوم ہونے پر ہر وقت اپنی رائے کو بدل سکتا ہے پس ممکن ہے تحقیق کے بعد ہمیں اپنی رائے بدلنی پڑے۔ یا یہ معاملہ محبت اور پیار سے ُسلجھ جائے اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماتحت افسروں کی رپورٹیں تو درست نہ ہوں مگرحکو ِمت پنجاب شریفانہ رویہ اختیار کرے۔ پھر کسی قوم کے خلاف رائے رکھنے کی محض اس لئے اجازت نہیں ہو سکتی کہ اس قوم کے بعض افراد مخالف ہیں۔ اگر بِالفرض حکو ِمت پنجاب ہمارے خلاف فیصلہ دے دے گی تو حکو ِمت ہند کے پاس جانے کا دروازہ ہمارے لئے ُکھلا ہے ۔ پس پیشتر اس کے کہ ہم کوئی بُری رائے قائم کریں ہمارا فرض ہوگا کہ ہم حکو ِمت ہند کو توجہ دلائیں اور اگر حکو ِمت ہند بھی انصاف کی طرف توجہ نہ کرے تو ہمارا فرض ہوگا کہ انگلستان کی حکومت کے سامنے ہم اِس معاملہ کو رکھیں۔ پس اگر میرے الفاظ سے کسی دوست کو یہ غلط فہمی ہوئی ہو کہ قریب ترین عرصہ میں مَیں اِس کے متعلق کوئی قدم اُٹھانے والا ہوں تو اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اگر میرے کسی لفظ سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہو تو وہ لفظ غلط طور پر میری زبان سے نکلا ہوگا۔ میں نے جیسا کہ خطبہ میں بھی بیان کیا تھا ہم پوری طرح حکومت کو اصلاح کا موقع دیںگے کیونکہ اسلام کا یہ طریق نہیں کہ بغیر کسی پر ُ ّحجت تمام کرنے کے الزام عائد کر دیا جائے۔ درمیانی غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی اصلاح کا انسان کو ہر وقت موقع ہوتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ اس وقت ہمیں حکومت کے بعض افسروں کی جو غلطیاں نظر آتی ہیں ان کی وہ اصلاح کر لیں اس لئے ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم ابھی سے ان کے متعلق کوئی بُری رائے قائم کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ وہ ہم سے انصاف نہیں کریں گے اگر ہم ایسا خیال کریں تو یہ ہماری بے انصافی ہوگی۔ پس دوستوں کو صبر کے ساتھ اُس وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ جب میں یہ اعلان کروںکہ ہم نے حکومت کے ہر حصہ کو اصلاح کا پورا موقع دے دیا ہے مگر پھر بھی اس نے اپنی اصلاح نہیں کی اس کے بعد ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو تجویز اِس ظلم کے ازالہ کے لئے میں کروں اس میں حصہ لینے کے کون کون دوست اہل ہیں۔ ممکن ہے وہ کوئی ایسی تجویز ہو جس میں سرکاری ملازمین حصہ نہ لے سکتے ہوں۔ اسی طرح اور کئی تجاویز ہو سکتی ہیں جو میرے ذہن میں تو ہیں مگر میں اُن کو ظاہر نہیں کرتا اور ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ پس ابھی دوستوں کو نام پیش کرنے کی ضرورت نہیںنام پیش کرنے کا وہی وقت ہوگا جب میں یہ کہوں گا کہ ہم نے گورنمنٹ پر ُ ّحجت پوری کر دی ہے۔ مگر ابھی تک تو پنجاب گورنمنٹ پر بھی ُ ّحجت پوری نہیں ہوئی ۔ُکجا یہ کہ حکو ِمت ہند یا حکو ِمت انگلستان پر ُ ّحجت ہوئی ہو اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اصل کام وہ ہوتا ہے جو صبر اور شدائد کو برداشت کر نے کے بعد اپنے وقت پر کیا جائے۔ وہ کام حقیقی کام نہیں کہلا سکتا جو محض جوش کے ماتحت کیا جائے اور جس کے متعلق انسان خیال کرے کہ اگر مَیں نے اِس وقت یہ کام نہ کیا تو میرا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں دو سال صبر کروںگا تو میری غیرت نکل جائے گی وہ کبھی باغیرت مؤمن نہیں کہلا سکتا۔ باغیرت مؤمن وہی ہے جسے بیس سال بھی اگر صبر کرنا پڑے تو صبر کرتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو صحابہ کرامؓ نے تیرہ سال مکہ میں ُکفارکے مظالم پر صبر کیا اور ایک دو سال مدینہ میں بھی دشمنوں کے مقابلہ میں صبر سے کام لیتے رہے۔ گویا چودہ پندرہ سال مسلسل انہوں نے صبر کیا اور اُن کی غیرتیں دبی رہیں۔ پھر جب خدا نے اُن سے کہا کہ اب تمہاری غیرت کا امتحان لیا جائے گا تو وہ آگے آگئے لیکن اِس واقعہ پر تو ابھی تین چار مہینے ہی گزرے ہیں حالانکہ اسلام نے ہمیں چودہ پندرہ سال تک اپنی غیرت کو دبانے کا سبق سکھایا ہؤا ہے۔ پس دوست اُس وقت تک صبر کریں جب تک گورنمنٹ پر ُ ّحجت تمام نہ ہو جائے اور جب تک میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہ کروں اور یہ اعلان نہ کروں کہ کس قسم کے لوگوں کو ُبلاتا ہوں۔ ممکن ہے میں بغیر کسی شرط کے ہی دوستوں کو بُلا لوں۔
(۳)۔ایک اور بات جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ َکل مَیں نے حکومت انگریزی کی امدادکے متعلق جماعت کو تحریک کی تھی۔ اسی طرح میں نے موجودہ جنگ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی تھی اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت مُلک میں امن کے قیام کے متعلق جو تجاویز عمل میں لائے اُن تجاویز پر عمل کرکے ہماری جماعت کو قیامِ امن کی کوششوں میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے مگر ایک بات مجھ سے نظر انداز ہو گئی اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت کے علاوہ دو اَور حکومتیں بھی ہم سے ایک حد تک حُسنِ سلوک کرتی ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے ملک میں ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ انگریزوں کا بھی ہم سے یہی حُسنِ سلوک ہے ورنہ وہ اور ہمیں کیا دیتے ہیں۔ آج تک ہم نے انگریزوں سے کوئی مادی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ ہم ان کا یہی احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس ہمارا اقرارِ احسان اسلامی تبلیغ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ مگر اخبار ’’زمیندار‘‘ ٹائپ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اقرارِ احسان اُن کے اِقرارِ احسان کی طرح ہوتا ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ ہم انگریزوں کے ممنونِ احسان ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی کرم بخشی کی ہوگی حالانکہ ہم اسلام کے تابع ہیں اور اسلامی تعلیم کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ جب کوئی باپ یا اُستاد یا مُلک کا والی اپنے فرائض کو ادا کرتا ہے تو وہ دوسروں پر احسان کرتا ہے۔ پس جب ہم انگریزوں کو ُمحسن کہتے ہیں تو اِس کے معنے صرف اِتنے ہوتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ کی اجازت دی ہوئی ہے اس سے زیادہ ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی اور نہ ہم نے ان سے کسی اور حُسنِ سلوک کی کبھی تمنّا کی ہے اور نہ انہوں نے ہی کبھی ہم پر کوئی اور احسان کیا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو اَور حکومتیں بھی ہیں جن کا اِس رنگ میں ہم پر احسان ہے اِن میں سے ایک تو امریکہ کی حکومت ہے۔ وہاں ہزارہا احمدی پائے جاتے ہیں۔ گو وہاں بعض روکیں بھی ہیں اور حکومت امریکہ نے اپنے مُلک میں داخلہ پر بعض پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں مگر پھر بھی وہاں ہمارا ّمبلغ موجود ہے اور ہزارہا احمدی مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسرا مُلک ہالینڈہے جہاں سماٹرا اور جاوا میں ہزاروں احمدی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے مشرقی ممالک میں ہندوستان کے بعد ہماری سب سے بڑی جماعت جاوا اور سماٹرا میں ہی ہے بیسیوں جماعتیں ہیں جو مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان ساری جماعتوں میں تبلیغ ہو رہی ہے مگر گورنمنٹ کی طرف سے ہماری تبلیغ کے راستہ میں کسی قسم کی رُکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ پس جیسے کہ انگریزوں کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ میں آزادی دی ہوئی ہے اسی طرح یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ اور حکو ِمت ہالینڈ کا بھی ہم پر احسان ہے اور یہ دونوں حکومتیں بھی آجکل جنگ میں شامل ہیں۔ ہم ہندوستان کے رہنے والے اِن کی کسی اور طرح تو مدد نہیں کر سکتے ہاں ہم دعا سے مدد ضرور کر سکتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے تمام دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو ظلموں اور جنگ کی تلخیوں سے محفوظ رکھے۔ پھر جس وقت میرا یہ خطبہ باہر پہنچے گا ہماری جماعت کے وہ دوست جو جاوا اور سماٹرا اور بورنیو میں رہتے ہیں اسی طرح جو دوست یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ کے مختلف شہروں میں رہتے ہیں اُن کے کانوں تک بھی یہ آواز پہنچ جائے گی کہ جس حکومت نے انہیں تبلیغِ اسلام کی اجازت دے رکھی ہے اِس مصیبت کے وقت ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ساتھ ہر طرح تعاون کریں۔ جنگ کے کاموں میں اسے مدد دیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہیں تاکہ دنیا میںہمیشہ ایسے مرکز قائم رہیں جو صداقت کے پھیلنے میں روک نہ ہوں بلکہ اِس کی اشاعت میں زیادہ سے زیادہ مدد دینے والے ہوں۔
پس اِن ملکوں کے جو باشندے ہیں اُن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ہر قسم کی قربانیاں کرکے اپنی اپنی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں اور ہندوستان کے رہنے والے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اُن بھائیوں کا خیال کرکے جو جاوا اور سماٹرا اور بورنیو میں رہتے ہیں اور اپنے اُن بھائیوں کا خیال کرکے جو یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ اب اُن پر حملہ ہو رہا ہے اور جاوا اور سماٹرا اور امریکہ میں تو ہمارے ّمبلغ بھی موجود ہیں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو، انہیں مشکلات سے بچائے اور اسلام کی تبلیغ کا دروازہ ہمارے لئے ہمیشہ ُکھلا رہے۔ (الفضل ۳جنوری ۱۹۴۲ء)
اس کے بعد سیرِ روحانی کے مضمون کوجاری رکھتے ہوئے فرمایا:-
(۶) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے
چھٹی بات جومَیں نے مذکورہ بالا سفر میںدیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جوبادشاہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے، امیروں کے بھی تھے ا ور فقیروں کے بھی تھے، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتّٰی کے ُ ّکتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلو فن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیںہوتا تھا۔یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیںاور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسندیدہ نظر آتا ہے، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کامقبرہ شاہدرہ لاہور میں، سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیںتو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میںفن کو مدّنظر نہیں رکھا۔
جسمانی مقابر میںتاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فُقدان
چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ
اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیںاِن بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کانشان ان مقبروں میں کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میںکوئی باہمی توازن دکھائی دیتا ہے۔مثلاً بعض ادنیٰ درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنیٰ مقبروں میںتھے۔ اسی طرح جو دُنیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظرآیا کہ ان دُنیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشاہوں کے، اور سردار تھے وزیروں کے، ان کے مقبرے نہایت ادنیٰ ہیں۔ پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنیٰ ہیں بلکہ جس صورت میںبھی ہیں وہ اس شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزّت حاصل کی۔ چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پرفرش ہے اور بعض کے اِرد گِرد سنگِ مرمر کے کٹہرے ہیںاور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنیٰ لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنیٰ۔اور پھر روحانی لوگوں کے جومقبرے ہیں اوّل تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنیٰ ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے۔ گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنیٰ تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حُکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میںکوئی بھی جوڑا ور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پس مَیں نے اپنے دل میںکہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں۔ ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ، ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میںکوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کومضبوط کیا، جس نے ہندوستان کوفتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہؤا اُس کامقبرہ تو بہت ادنیٰ ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُ س کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے ۔پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اورنگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ پھر ان کے مقابلہ میںخواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؔ اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہؒ ، خواجہ میر درد ؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ او رمرزا مظہر جان جاناں ؒ کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہؤا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا۔
۔ ُ ّکتوں کے مقبرے
پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیامیں نظر آتے ہیں کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ واعلیٰ میںکوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ
دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے۔ پھر جب مَیں نے بعض جگہ کُتّوں کے مقبرے بھی دیکھے تو مَیںاور زیادہ حیران ہؤا کیونکہ کُتّوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبر وں سے بھی بہت اعلیٰ تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہو تا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے، اِس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیںہوتی اور بجائے اِس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میںمبتلاء کرتے ہیں۔
مقبروں کی عمارات سے صرف چار امور کا عِلم
پس مَیں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں: -
اوّل: اِس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا صر ف یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں۔
دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا بُرا، عالِم تھا یا جاہل، البتہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے یا ا س کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا۔
سوم: مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیرِمقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رُجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پس ماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کامقبرہ بناناجائز تھا یا نہیں۔
چہارم: اِن مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے لُوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے ۔چنانچہ کئی مقبرے ُلوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سنگِ مرمر بعد میں لوگ ُلوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں۔ پس چوتھی بات اِن مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزّل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں۔غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس مَیں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کاپتہ چلے اور اس کانشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا۔ ان سے تو شاہجہان، اکبر اور اورنگ زیب سے بڑا ، شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عمادالدولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ
مَیں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثارِ قدیمہ سے تاریخ مرتب
کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوںلکھیںگے کہ ہندوستان کاسب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اُتر کر اکبر بادشاہ تھا۔ اکبر بادشاہ سے اُتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا) پھر ہمایوں بادشاہ ہؤا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے۔ اس کے بعد بعض کُتّے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے، ان کے علاوہ ہندوستان کے اندربعض ادنیٰ درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب۔ پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی بِاللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، مرزا مظہر جان جاناںصاحب اور خواجہ میر درد صاحب۔ اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اوّل درجہ کی جھوٹی اور مُفتریات سے پُرکتاب ہو گی۔ وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عقلمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میںقائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ فریدالدین صاحب شکر گنج ؒ، حضرت شاہ محمد غوث صاحبؒ، حضرت سید علی ہجویری صاحب ؒ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاءؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ، حضرت خواجہ باقی بِاللہ صاحبؒ، حضرت مظہر جان جاناں صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب ؒاور حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒکے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے ا کبر، ہمایوں، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، مُغلوں اورسُوریوں کے ہوتے اور ُ ّکتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میں ہونے کے مَیلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں۔ ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر مَیں نے سُنا ہے کہ لکھنؤ میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں۔کسی نواب کابٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہناشروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اِس بٹیرے کاکیاکہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکرِ الٰہی میںمشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا، آخر اُس کا مقبرہ بنا دیا جاتا ۔
اُن لوگوں کا تصوّر جن کی قبریں اُکھیڑ دی گئیں
یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں!
پھر مَیںنے سوچا یہ تو مقبرہ والوںسے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں اُن کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر
اُن کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہوناچاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ پھر جب مَیں نے دِلّی میںپُرانی آبادیوں کو کُھدتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو مَیں نے خیا ل کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں۔ ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھو د کر وہاں سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پس مَیں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق۔ اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیںکھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا۔ پھر مَیں نے خیال کیاکہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سَو سال تو انہیں قبروں میں سونے کاموقع مل گیا، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دئیے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چِیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیںیا کُتّوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس! انہیں تو قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ پھر مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے۔ مجھے اُن لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کرمر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں۔ چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ پھر مجھے اُن لوگوںکا خیال آیا جو کھڈّوں میں گِر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں۔
دنیا میں عجیب اندھیر
پھر میری توجہ ان لوگوںکی طرف پھری جن کو جنگلوں میںشیر اور بھیڑئیے کھا جاتے ہیں اور مَیں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ:-
اوّل: مقبرے بے انصافی سے بنے۔
دوم: قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
سوم: بعض کو خود اُن کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیایا پرندوں کو ِکھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میںپہنچا دیا۔ پس مَیں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کانشان قائم رکھاجائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دار امیر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے او رباقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے۔ پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جوقبروں میںمدفون ہوئے تھے اُن کے مقبر ے اور اُن کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریںمحفوظ رہیں۔ پس مَیں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے او ر مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اُسے واقعہ میں نہایت اچھا خیال سُو جھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کرتسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کاموجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو۔
ایک اور مقبرہ
مَیں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیںپائی جاتی ہیں جو مقبرہ میںہونی چاہئیں، چنانچہ
اس میں لکھاتھا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ۱؎
فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَہٗ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشوونما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قوتیں پیدا کر دیں، اُسے دماغ دیا، دماغ کے اندر سیلز (CELLS) بنائے ا ور ہر سیل(CELL) کے اندر بات کومحفوظ رکھنے کی طاقت پیدا کی۔ اِسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے۔ کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے، کچھ جرأت اور دلیری کے لئے مخصوص کئے، پھر ہاتھوں اورپیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں۔معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے۔ ہڈیوں کو طاقت دی، قوٰی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قوٰی کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اُس کے مناسبِ حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معیّن حلقہ میں کام کرتی ہے جس معیّن حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایاجیسے پتھروغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے ۔ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قوتیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے۔آخر جب خدا نے ہر انسان میںسوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اُٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قُرب حاصل ہو سکے۔ پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دے دی ہے تو اِس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا۔ چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں۔ پھرکام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیںاور کچھ بُرے ہوتے ہیں ۔ پھر آپس کے مقابلوں میںسے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیںاور انسا ن اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری ۔
اسلام کی مطابقِ فطرت تعلیم
پس چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ
اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابقِ فطرت تعلیم دی ہے۔ ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طر ف پھیر دے۔ اب یہ تعلیم بظاہربڑی خوش ُکن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اِس پر عمل نہیںکر سکتا۔
مصر کاایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا۔ایک پُرانی طرز کا مسلمان وہا ں سے جب بھی گزرتا، دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اُس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا مگر وہ اِس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اُس کی علمی حالت ایسی نہیںتھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اِس لئے وہ اندر ہی اندر ُکڑھتا رہتا۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میںجوش پیداکردیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ دے مارا۔ پادری نے سمجھا کہ اگر مَیں نے اِس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اَور زیادہ دلیرہو جائے گا چنانچہ اُس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا۔ مصری کہنے لگا میںنے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھادو۔تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے۔ مَیں تو اِس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابلِ عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو۔ پادری اُس وقت جوش کی حالت میں تھا اُس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اِس وقت تو میںتمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے۔ تو ہماری شریعت میںکوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اُس کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اُس کے اند رنیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اُس سے انتقام بھی لے سکتے ہو۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اِس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ ا نسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے، لیکن دوسری شریعتوں کایہ حال نہیں۔ انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پرتھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اِس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ و ہ عیسائی ہیں، فرانسیسی اِس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میںسے کوئی بھی اِس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پھر ہماری غرض چونکہ اِس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اِس پر عمل کریںاور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہریں اِس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اُسے قبر میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میںمادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے۔ اِس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے، گڑھا کھودنے، میّت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میںڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہؤا ہے۔
اِس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہؤا کہ اس میںسب انسانوں سے یکساںسلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے۔ اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی، اکبر کے بچہ کی کھلائی کابھی، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے ُچوہڑے کا بھی کیونکہ انہوںنے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کامقبرہ موجود ہے ۔نیز مَیں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جَلا دیتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جن کوشیرکھا جاتے ہیں اُن کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جو سمندر میںڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے،جومکانوں میںجل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، جن کی قبروں کو لوگوں نے اُکھیڑکر پھینک دیا اُن کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اِس مقبرہ کو تو چُھو بھی نہیں سکے۔ غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا گیا ہو، چِیلوں اور کُتّوں نے اُسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میںچلا گیاہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے ُلقمہ بنا لیا ہو، کھڈّوں میں ِگر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے کھا گئے ہوں، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالِم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا۔ مَیں نے جب اِس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادثِ زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں۔
ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں
بلکہ عالَمِ برزخ کی قبر میںملتا ہے
جیساکہ مَیں نے بتایا ہے اِس آیت میں قبر کا لفظ جوآتا ہے اِس سے مراد وہ مقام ہے جس میں مرنے کے بعدا رواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی رُوح ہو یا کافر کی، سب کی روحیں اس مقام
پر رکھی جاتی ہیں ا ور درحقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے۔ وہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں ۔کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میںاُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی ُکھلی ہے یا نہیں؟ مگر جب انہوں نے قبرکو کھولا تو انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دئیے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میںثواب وعذاب ہو تو وہ پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو ِکھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جَلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں اُن کو تو قبر کاعذاب یا ثواب ملے ہی نہ۔ کیونکہ اُن کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے مگر یہ بات غلط ہے۔ اور حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے بیس بیس مُردوں کو دفن کرد یا جاتا ہے اور ہر شہر میںیہ نظارہ نظر آتا ہے ۔ایک قبر بنائی جاتی ہے مگر پندرہ بیس سال کے بعد اُس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اُس جگہ اور قبر بن جاتی ہے۔لاہور کا قبرستان پانچ سَو سال سے چلا آ رہا ہے، اِس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس بیس آدمی دفن ہو چکے ہونگے۔ ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہو گا اور کوئی ادنیٰ قسم کا دوزخی ہو گا، کوئی اعلیٰ جنتی ہو گا اور کوئی ادنیٰ جنتی ہو گا۔ اگر دوزخ اور جنت کی کھڑکی اِسی قبر میں کُھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اُس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اُس میںدفن ہو جائے۔ایسی صورت میںلازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب وعذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیا رکر لیں گے ۔ پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب یاعذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبرہی ہے۔ وہ قبر وہ ہے جس میں خداتعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کامزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْٓئٍ قَدِیْرٌوَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۲؎
فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اِس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِِ۔ اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کردیگا۔ اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اِس کے معنے یہ ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے۔ہند و جو اپنے مُردے جلادیتے ہیں، پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو ِکھلا دیتے ہیں او رعیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مرُدوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سِوا اور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میںنہیں پائی جاتی۔ اِس صورت میں مسلمان او ریہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چُھوٹ جائیں گے۔پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اُس کی بنائی ہوئی ہیں سب مرُدوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میںدفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیںاور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں۔ پس اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ ا س سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے۔ اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں ،خواہ انہیں پرندے کھا جائیں، خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبر اصل میںوہ مقام ہے جس میںاللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے، خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے۔
ایک اعتراض اور اُس کا جواب
ا ِس مقام پرکوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تواسے
درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوْذُبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِکے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ استعمال کر دئیے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقفی پر دلالت کرتا ہے۔ اِس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میںڈوبنے والا بھی کسی قبر میںجاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کوجلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ؟مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اِس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے۔پھر اِس کو بھی جانے دو کیا مکہ میںکبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا مکہ کے اِردگِرد جو کچھ فاصلہ پرجنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑئیے مشہور نہیں تھے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے یا نہیں؟ اورآپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میںدفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑئیے کھاجائیں؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جو سمندر میں ڈوب مریں ؟پھر اِس کو بھی جانے دو عرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چِیلوں یا کُتّوں کو ِکھلا دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپؐ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میںسے بعض مسلمان بھی ہوئے آپؐ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اِس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قومیں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں۔ پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع و مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے، آپ نے ان کی اچھی باتیںاپنی کتاب میںدرج کر لیں حتیٰ کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپؐ نے فلاںفلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیںکہ آپ کو یہ علم تک نہیں تھا کہ بعض لو گ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے، جو بقول معترضین کے ژند اَوستا، توراۃ، انجیل اور ویدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اِس امر سے ناواقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو ِکھلا دیتے ہیں۔
الٰہی مغفرت کا ایک ایمان افر وز واقعہ
پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا
ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کاذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلًا حَضَرَہُ الْمَوْتُ فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الْحَیٰوۃِ اَوْصٰی اَھْلَہٗ اِذَا اَنَامِتُّ فَاجْمَعُوْا لِیْ حَطَبًا کَثِیْرًا وَاَوْقِدُوْا فِیْہِ نَارًا حَتّٰی اِذَا اَکَلَتْ لَحْمِیْ وَخَلَصَتْ اِلٰی عِظَامِیْ فَامْتَحَشَتْ فَخُذُوْھَا فَاطْحَنُوْھَا ثُمَّ انْظُرُوْا َیوْمًا رَاحًا فَاذْرُوْہُ فِی الْیَمِّ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ فَقَالَ لَہٗ لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَالَ مِنْ خَشْیَتِکَ فَغَفَرَاللّٰہُ لَہٗ۳؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تو اُس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جائوں تو لکڑیاں جمع کر کے اُ ن کو آگ لگانا ا ور پھر اُس آگ میں مجھے ڈال دینایہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں َگل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں اُن کو خوب پیسنا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری اِن پِسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہادینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیااور اُس سے پوچھا کہ ُتونے ایسا کیوں کیا تھا؟ اُس نے جواب دیا کہ خدایا! میںسخت گنہگار تھا اور میںڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تُو مجھے ضرور سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا جب تُو مجھ سے اِس قدر ڈرتا تھا تو جا مَیںنے تجھے معاف کر دیا۔
اب دیکھو اِس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں، کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میںجلایاگیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیااور اُسے زندہ کر کے اُس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔پس درحقیقت وہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ میں ہی شامل تھا اور گو وہ جَلا کر ہَوا میں اُڑادیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میںاُسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے۔
غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیںہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں۔ پس باوجود لوگوں کے ڈوبنے، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مراد و ہی مقام ہے جس میں سب اَرواح رکھی جاتی ہیں نہ کہ مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں۔
غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں، وہ اُس کی ہڈیاں پِیس دیں، وہ اُسے چِیلوں اور ُ ّکتوں کے آگے ڈال دیں اور اُس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اُس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اُسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اِس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے ُ ّکتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے چِیلوں اور گِدھوں کو ِکھلا دیتے ہیں،مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی اَرواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے۔
ہر شخص کا روحانی مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایک کا
مقبرہ اُس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کامقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو؟ دنیامیں بڑے بڑے فریبی اور دغاباز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دغا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پرہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں۔
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہااور کسی کو یہ احساس تک نہ ہؤا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے۔ اسی طرح برٹنؔ ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا۔اب فرض کرو وہ شخص اُسی جگہ مر جاتا تو لوگ اُس کا مقبرہ بنادیتے اور اُ س پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہوگئے حالانکہ وہ منافق تھا۔اِسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے ہیںجو دو سرے مذہب میںشامل ہو جاتے ہیں مگر درحقیقت وہ شامل نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے اوپر سے تو ظاہر کر ے مگر دل میں اس کے کچھ اور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کرردّ کیا ہے کہ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۴؎۔ وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کانام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جاتا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپؐ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حذیفہؓ ایک صحابی تھے انہیں اِس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریںکہ ہم میں منافق کون کون ہیں؟ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دئیے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حدیفہؓ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہؓ نہیںجاتے تھے اُس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہو گا تبھی حذیفہؓ اُس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے۔
اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خداتعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنامشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں۔ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دُنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گامگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کاسردار تھا اسے تو خداتعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اِس امر سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اِس پر شاہد ہے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میںان کانام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورد ہوں۔آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایاکہ کون کون منافق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں۔ بڑے لوگوں میںسے نہیں بلکہ ادنیٰ درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیںآتے ممکن ہے کہ ان میںسے بعض منافق ہوں۔ اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ مقربانِ بارگاہِ صمدی ، مگر واقعہ یہ ہو کہ وہ راندئہ درگاہ ہوںنہ کہ خدا کے ّمقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے۔ اِس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوںمخلصوں، اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو منافق کہنے پر اعتراض ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی جماعت کو مخلص اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۵؎ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ابتدائی زمانہ اسلام میں ثُلَّۃٌ تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور نامراد قرارد یتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔ حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوتِ قدسیہ کوکامیاب وبامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اِس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں۔ وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
کاموں کی اہمیت کاصحیح اندازہ لگانے میں مشکلات
دوسری مشکل ہمیںیہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت
کے، کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیامیں نہیں لگایا جا سکتا۔بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پید اہوتے ہیں۔بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگران کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میںکئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں۔ پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق وعادات پرنہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس مَیں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہرشخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی۔
روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر
چھوٹیبڑے عملکومحفوظ رکھا جاتا ہے
جب مَیں نے اِس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے دکھائی دیاکہ قرآن کریم نے اِس مشکل کاحل ِکیا ہؤا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میںہر شخص کا
چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّافِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّآاَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَاعَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۶؎
یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ اْلِکتٰبُ اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اورجب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آ گئے ہیں تو ُتومجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیںگے اوہو! جواعمال ہم نے چُھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت! ُتو کیسی میٹھی چیز ہے، ُتو کیسی اچھی چیز ہے، ُتو آ تاکہ ہم مرجائیں اور اِس ذلّت اور رُسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں۔ پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے، خواہ دوستوں میں کیاجائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوںنے کیا ہو گا، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی۔ گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہو گی ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہو گی اوردوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پائوں سے جو ِکیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی۔ اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے ہاتھوںاور پائوں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سُوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حُجّت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنامہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی۔ـ
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوںیا بڑے، اس مقبرہ میںمحفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو۔
ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیاجائے گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا
ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیںمگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کامقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیں؟اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اِس کا یہ جواب ملتا ہے وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعـْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۷؎
کسی شخص کو بھی اُس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اُس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیگا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔
بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پرہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے اور اِس طرح وہ اِس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا ا نہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اُس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَّا ہر گز نہیں، ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے۔ لَمَّا کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہؤا۔ اِس آیت میں لَمَّا کا فعل حذف ہے جو یُوَفَّوْا اَعْمَالَھُمْ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کواگر توبہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوںگے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا۔
اسی طرح سورۃ نبأ میں فرماتا ہے کہ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا ۸؎ قیامت کے دن جو بدلہ ملے گاوہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہو گا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سَودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہو گا اور جو شخص جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اوّل کو دوم اور دوم کو اوّل کر دیا جائے گا۔
عَطَائًحِسَاباً اور یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا
بِغَیْرِ حِسَابٍمیں کوئی اختلاف نہیں
اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میںاس بارہ میںدو قسم کی آیات آتی ہیں ایک قسم کی تو وہ آیات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیںمگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میںیہ
مضمون بیان ہؤا ہے کہ مؤمنوں کو بغیرحساب رزق دیا جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِحِسَابٍ ۹؎
وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیںگے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔ اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَآئً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَّوْفُوْرًا۱۰؎
کافروں کو مَوْفُوْر یعنی کثرت والاعذاب ملے گا۔ اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیںحساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میںیہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا۔ اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گابلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مدِّنظر رکھ کر سزا دے گا مگر اِس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہو گا، مگر درحقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مَوْفُوْر کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہؤا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَآؤُکُمْ جَزَآئً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اِس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کرلیتا ہے مگرا س کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔دوسرے مَوْفُوْر کے معنے پور ے کے بھی ہوتے ہیں اِس لحاظ سے اِس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔
یہ تو مَوْفُوْر کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کوزائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے۔لیکن جب خداتعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میںبغیر حساب زیادہ ملے گا اور ان کے محدود اعمال کو مدّنظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہو گا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اوّل سے نہ بڑھ جائے اور جب ہرایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر ۲ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر۔ اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبرکے مقابل پر۔ یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اوّل والا دوم نہیں ہو گا اور دوم اوّل نہیں ہو گا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو،دوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہو اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دیدیا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقعہ نہیں ہوگا درجہ اوّل والا پھر بھی درجہ اوّل میں ہی شمار ہو گا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اورسوم درجوں میں ہی شمار ہو ں گے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاںیہ فرمایا کہ بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزائیں بہت زیادہ ہونگی۔ پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہو گا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کامقبرہ دوسرے درجہ پر، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کواور اونچا کرو تاکہ تفاوتِ مراتب قائم رہے۔
غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہو گی اور عَطَآئً حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر توڑ کرنچلے درجہ والے کو اوپر نہیں لے جایاجائے گا۔
مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے
خلاصہ یہ کہ اس انتظام میں ہر ایک کا مقبرہ
ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے ا س میں صرف نام یاشُہرتِ ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں۔
دنیامیں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلائو زردہ پکتا ہے۔ ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر ُگھسنے نہیں دیتے اوردوسرے کے پاس اپنا سرچھپانے کے لئے جھونپٹری بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے۔ اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہواُس کی عمارت زیادہ شاندار ہو، جو اُس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعما ل کیسے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ ُکھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آجائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہو ئی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں
کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام
پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کُتّے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیںہوتا۔ انگریزوں نے آثارِ قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پُرانے آثار کو کسی قدر
محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صَرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُتّے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاںہر شخص قابلِ عزت ہوتا ہے، اُس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ۱۱؎ جو نیک لوگ ہونگے انہیں جنت میںجگہ دی جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاسکے گا، کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو گِرا نہیں سکے گا۔
ناپاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کر سکیں گے
اِس کے مقابلہ میں جو کافر ہیں
ان کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآاَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارِ۱۲؎ جو کافر ہیں ان کے اموال خدتعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے۔
دنیاکے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں؟ وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے۔ ایک انسان گندہ ہوتا ہے ،فریبی اور مکّار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا باپ خبیث تھا اُس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالو ں کو لُوٹا مگر محض اس وجہ سے کہ روپیہ ان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے بِالکل غلط ہوتی ہے۔ چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دئیے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں۔ دنیا میںتو غیر مستحق لوگوں کی اولاد یا مالی وُسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میںاس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کامقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آسکتی وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ وَقُوْدُالنَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
نوح ؑکا مقبرہ
پھر مَیں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اِس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا
اندازہ لگا سکیں۔یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پرایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ مَیں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰ خِرِیْنَ- سَـلَامٌ عَلٰی نُوْحٍٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۱۳؎
فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزّت سے رکھا ہؤا ہے۔ اور چونکہ جنت کے مقبرے میںسلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرو نوح عَلَیْہِ السَّـلَامُ اور اس کے مقام کویا د رکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اُس کا نام لو اُس کے ساتھ ’’عَلَیْہِ السَّـلَامُ‘‘ کا اضافہ کر لیاکرو۔ فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی توڑ نہیں سکے گا۔ لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص توڑ نہیں سکتا چنانچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود اِن کو ُبھول چکے ہیں، عیسائی ان کو ُبھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیںعَلَیْہِ السَّـلَامُ۔
الیاس ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت الیاس ؑ کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَـلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۱۴؎
حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میںسے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اِس جہان میں بھی، تا کہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں۔ پھر فرماتا ہے سَـلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہؤا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاسعَلَیْہِ السَّـلَامُ۔اس جگہ اِلْیَاسِیْنَ کے بارے میں لوگوں کو تردّد ہؤا ہے، لیکن یہ تردّد نہیں بلکہ ایک زبردست پیشگوئی ہے اور و ہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ مقدر تھا۔ پہلا خود الیاس کے وجود میں دوسرا یحییٰ کے ذریعہ سے اور تیسرا پھرایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے۔ اِس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میںہو گا کیونکہ اگر پہلے ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو یحییٰ کے رنگ میںظاہر ہو چکاتھا پھر آسمان پرسے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا مسیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اِسی دنیا سے پیدا ہو گا تبھی اس کے لئے ایک اَور الیاس پیداکیا جائے گا تا کہ اس کے راستہ کو صاف کر ے۔ اس تیسرے الیاس کا سلام گو ابھی دنیا میںقائم نہیں ہؤا مگر خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہو گا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعما ل کیا جا سکتا ہے۔غیرنبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّـلَامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کایہی فیصلہ ہے کہ پہلے دو الیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہا جائے گا۔
مریم ؑ اور مسیحؑ کا مقبرہ
وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۱۵؎
پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایا وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھاَ مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا
اُس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قویٰ کو خدا کے لئے وقف کر دیا
ہم نے اس میں اپنی رُوح پھُونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔ یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خداتعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰعَلَیْہِ السَّـلَام ُ اور حضرت مریم صدیقہ عَلَیْہَاالسَّـلَامُ ہی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّـلَامُ کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰـہُ اَجْرَہٗ
فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۱۶؎
ابراہیم بھی ہمار ے مخصوص لوگوںمیںسے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہؤا۔ ایک اس طرح کہ جب بھی ابراہیم ؑ کانام لیا جائے گا لوگ عَلَیْہِ السَّـلَامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذرّیتِ جسمانی ہو خواہ روحانی۔ اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّـلَامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے۔
مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے
پھر فرماتا ہے وَتِلْکَ جُحَّتُنَآ اٰ تَیْنٰـھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ
اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ- وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاج وَنُوْحاً ھَدَیْناَ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوَنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطاً وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ- وَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ- ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَآ ھٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْماً لَّیْسُوْا بِھَابِکٰفِرِیْنَ - اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۱۷؎
یہا ں خداتعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دئیے ہیں جن کی یاد کو اُس نے قائم کیا ہے فرماتا ہے یہ وہ حُجّتہے جو ہم نے ابراہیم کو اُس کی قوم کے مقابلہ میںعطا کی ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیںیقینا تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دئیے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوح کو بھی ہدایت دی۔اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف او رموسیٰ اور ہارون سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزا ء دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح زکریااور یحییٰ اور الیاس سب نیک لوگوں میںسے تھے۔اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط سب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی۔ اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذرّیت اور ان کے بھائیوں میںسے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیںجن کو ہم نے کتاب دی، حکمت دی اور نبوت دی۔ اگرمشرک لو گ آجکل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیںتو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ُتو اِن کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ تو کہہ دے کہ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اِس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو موسیٰ ؑکو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسٰی ؑ کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو ابراہیم ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو داود ؑ اور سلیمان ؑ اورایوب ؑ اور یوسف ؑ اور زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ اور اسماعیل ؑ اور الیسع ؑ اور دوسرے نبیوں کو ملی(عَلَیْہِمُ السَّـلَامُ کُلِّہِمْ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اِس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا۔
سردارِ انبیاء حضرت محمد مصطفی صَلَّی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے
اب سب سے آخر سردارِ انبیاء
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کا مقبرہ کس طرح بنا۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسِْلیْمًا۱۸؎
فرماتا ہے لوگوں کے دومقبرے ہوتے ہیںایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ، مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیںایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اِس دنیا میں۔ چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ عرش پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اِس پر ہماری رحمتیںنازل کرو، ہماری رحمتیں نازل کرو، اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا۔ اے مؤمنو ! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
انبیائے سابقین کے متّبعین اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے
اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے اَتباع میں سے بھی بعض بڑے نیک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کاذکر کیا وہاں
یہ بھی فرمایا وَمِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَاِنھِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذرّیت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّناَ اغْفِرْلَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِْینَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْْعَلْ فِیْ قُلُوْبِناَ غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیُمٌ ۱۹؎
فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رُتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میںآئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے۔
پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاحِ حالات کے بھی ہوتے ہیں۲۰؎ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بناتا جا اور اسی طرح اُن لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے۔ گویا نہ صرف خداتعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میںزیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاحِ حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہو تا جاتا ہے۔
شیعوں کا صحابہؓ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے
پھر فرماتا ہے یہ بھی دعا کیاکرو کہ
ہمارے دل میںان کے متعلق کوئی ُبغض پیدا نہ ہو، اِس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہؓ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے لئے دعائیںکرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بُغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بُغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب تھوڑے دنوں تک محرّم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرّا کیا جاتا اور ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بُغض نہ ہو اور نہ صر ف بُغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سُنّی بزرگ گئے اور اُس سے امداد کے طالب ہوئے۔ وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ اُن کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیںخیال آیا کہ مَیں بادشاہ کے پاس جائوں اور اس سے کچھ مانگ لائوں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجو دتھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سُنّی۔ جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہؤا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنّی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ سنّی بزرگ وہیں کھڑے رہے۔آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کردو۔ وزیر نے کہا مَیں دے تو دُوں مگر یہ شخص شکل سے سُنّی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا تمہیں کس طرح معلوم ہؤا؟ وہ کہنے لگا بس شکل سے مَیں نے پہچان لیا ہے۔ بادشاہ نے کہااچھا تو اس کا امتحان کر لو۔چنانچہ وزیر نے حضرت علی ؓ کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی، وہ سنّی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور! حضرت علی ؓ کی شان میںکیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خداتعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی۔ آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر کہنے لگا ابھی نہیں مَیں بعض اور باتیں بھی دریافت کر لوں۔ چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے۔ بادشاہ نے کہا بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنّی نہیں بلکہ شیعہ ہے۔ وزیرکہنے لگا ابھی نہیں تبرّا دیکر دیکھیں۔ اگر یہ تبرّے میںشامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہؤا تو معلوم ہو جائے گا کہ سُنّی ہے۔چنانچہ بادشاہ نے کہا برہرسہ ***۔ یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ پر *** ۔وزیر نے بھی کہا برہرسہ ***۔ وہ بزرگ سنّی بھی بول اُٹھے کہ برہرسہ ***۔ بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر نے کہا حضور! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو؟وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں مَیں تو سنّی ہوں۔ وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ برہرسہ *** تو آپ نے بھی برہرسہ *** کہا، اس کی وجہ میری سمجھ میںنہیںآئی۔ وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا برہرسہ ***، توآپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابوبکرؓ ، عمرؓاور عثمانؓ پر *** ہو مگر جب مَیں نے برہرسہ *** کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی *** اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں۔ غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں ناپسندیدہ اورمذکورہ بالاآیتِ قرآنی کے خلاف ہے حضرت علیؓ کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ کے جو پاک بندے گزرچکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دُعائوں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میںان کے متعلق بُغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بُغض پیدا ہؤا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعائوں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا مقبرہ بنا دیا۔
روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھا رکھنے کا انتظام
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مقابر والوں نے
تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میںدفن ہوں۔ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایساانتظام ہے؟ تو مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کودفن کیا گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اُس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہؤا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ باہمی بُغض و عداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جا سکتے ہیں۔ جیسے شاہجہان کو نورجہاں سے بُغض تھا اِس وجہ سے اُس نے جہانگیر کے پاس اُسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے نے ادنیٰ مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اِس وجہ سے بھی بڑا اُس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابرؔ، ہمایوںؔ ، اکبرؔ اور جہانگیرؔ کو لا کر دفن نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں ہؤا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا۔ پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اورنگ زیب حیدرآباد میںفوت ہؤا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا۔ حیدرآباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میںدقّت تھی اِس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دفعہ بُغض وعِناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اِس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں۔ پس مَیں نے سوچا کہ کیا اِس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار اکٹھے رہیں؟ جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو۔ چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـائِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ- سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبیَ الدَّارِ۲۱؎
فرمایا وہ جو اگلے جہان کامقبرہ ہے اُس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خداتعالیٰ کا انعام پائے گا، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں۔ اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔
ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی ّعزت کرنے کا حُکم
امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تووہ
اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا ۔ایک دن وہ امراء ورئوساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا، کُرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُ س کا باپ ملنے کے لئے آگیا۔ اُس نے ایک میلی کُچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جو ای، اے، سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دے گا، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے ٹہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔ اس پر باپ کو سخت غصّہ آیا اور وہ کہنے لگا مَیں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں۔ اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں ۔ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سَـلَامٌ عَلَیْکَ نہ کہنا بلکہ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا۔
جماعت کو نصیحت
یہ وہ مقبرے ہیں جو مَیں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اِس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمودونمائش پر اپنا روپیہ برباد نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود عَلَیْہِ السَّـلَامُ کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں کی قبروںمیں سادگی مدّنظر رکھنی چاہئے اور بِلاضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد اِن قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ ممکن ہے کہ بعد میںآنے والے اِن قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کاکسی کونشان تک بھی نہ ملے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہاںجو مقبرہ بنتا ہے اُسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اپنی قبریں اُسی جگہ بنائو جہاں خداتعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمّہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دئیے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کرہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گِر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہو سکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خداتمہیں ضائع کردے گا۔ جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو گا کہ کب اس کی رُوح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لُوں ۔ا سی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہو گا کہ وہ جل کرفنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہو گا اور خدا کے فرشتے اس کی عزّت کر رہے ہو نگے۔
پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میںبنائو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح ؑ بھی ہیں، جہاں ابراہیم ؑ بھی ہیں، جہاںموسیٰ ؑ بھی ہیں، جہاںعیسیٰ ؑ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں۔پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُ س کے رسولوں کا قرب حاصل ہو۔
(۷)۔ مِینا بازار
ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متأثر ہؤا وہ مینا بازار تھے۔ چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ بازار شاہانہ کرّوفر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود اِ ن بازاروں میں آکر چیزیں خریدا کرتے تھے۔ آجکل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لاہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دُکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے۔ لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلےؔ کی نمائش ہوئی تھی۔ اِسی موقع پر ایک مذہبی کانفرنس بھی ہوئی جس میں مَیں نے مضمون پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھندلانقش میرے دماغ پررہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متأثر نہ ہؤا تھا۔ پُرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگایا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہؤا کرتی تھیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزراء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں بِکتی ہوں گی۔
مینابازار میں فروخت ہونیوالی اشیاء
پھر مَیں نے اپنے ذہن میںسوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی؟ اور اِس
سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ :-
اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہونگے۔
دوم: وہاں ُعمدہ سے ُعمدہ سواریاں بِکتی ہوں گی۔
سوم: میں نے اپنے دل میںسوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی۔ کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بیدِمشک کا شربت فروخت کرتا ہو گا، کوئی تازہ دُودھ فروخت کرتا ہوگا، کوئی شہد فروخت کرتا ہو گا، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہو گا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہو گا۔
چہارم: پھر کھانے کے لئے ُعمدہ سے ُعمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور، کیلے، انار اور رنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
پنجم: کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے۔
ششم:کہیں زینت کے سامان آئینے، کنگھیاں، رِبن او رپائوڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
ہفتم: کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہو گا۔
ہشتم: بعض ایسی دُکانیں ہوںگی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو۔
نہم: کسی دُکان پرنہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے۔
دھم: کسی دُکان پرجنگ کے سامان یعنی تلواریں اور طپنچے۲۲؎ وغیر ہ فروخت ہوتے ہونگے۔
یازدھم: کسی دُکان پر گھروں کا سامان قالین، تکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے۔
ایک اَور روحانی بازار
میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی۔ مگر
جب میں اس قلعہ پر تھا تو مَیں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں؟ تو مَیں نے دیکھا ایک اَور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں۔ مگر مَیں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میںتو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دُکاندار ہوتے ہیں۔ کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور تکیے وغیر ہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پرلباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خریدلیتا ہے۔ مگر اس بازار کا مَیں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ اِن دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دے دیتا تھا ۔مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اَور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دُکانیں ہوں تو سَو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دُکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں بِکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گاہک تھا کہ فروخت کرنیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو، چنانچہ اِس بازار کا یہ نقشہ مَیں نے قرآن کریم میں دیکھا۔ـاِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّافِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ۲۳؎
فرماتا ہے مینابازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ وپیراستہ ہو گیا تم سب آ جائو مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آجائو، بادشاہ خود خریداربن کرآیا ہے اور اُس نے تمہارے مال یعنی اموالِ مادی اور جانیں دونوں تم سے خریدلیں۔ وہ مال ادنیٰ تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر، تھوڑا تھا یا بہت، سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوںکے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی۔ گویا سارا مینا بازار اُن کوبخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالامال کر دیا۔ا تنی بڑی قیمت ہم اس لئے اد ا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں۔ پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے ُبخل نہیں برتتے، ہم بڑے مالدار ہو کرکیوں ُبخلسے کام لیں۔ پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پُرانا ہے۔ یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پس اے لوگو! آج جو سَودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جائو اور یقینا ایسا ہی سَودا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروںمیں ہؤا کرتی تھیں ا ور اس طرح ایک ہی سَودے میں سب سَودے ہو جاتے ہیں۔
دُنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق
پھر مَیں نے جب اس بازار کو دیکھا تو مَیں نے کہا ایک اَور
فرق بھی اِس مینا بازار اور دُنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے۔
اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ ایک سَو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سَو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خریدنے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت بیس ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزارروپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سَو روپیہ میں دے دی،بدردین آگیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی ، شمس الدین پہنچا تو اُسے ایک پیسے میں دے دی اور علائوالدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی۔ یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں میں نظر نہیں آتا، مگر اِس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے۔ اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائو اپنی جان اور ایک کروڑ روپیہ اور لے لو جنت۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے۔ اُ س سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائواپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت۔ اُسی وقت ایک تیسر ا شخص آجاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سَو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سَو روپیہ لائو اور جنت لے لو۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سَو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے صرف مُٹّھی َجو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے۔ اُسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سَودا منظور لائو جان اور مُٹّھی بھر دانے اور لے لو جنت ۔۲۴؎ بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشمِ حیرت کُھلی کی کُھلی رہ گئی۔ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے، آپؐ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کردو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی؟آپؐ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا ِکھلا دو۔ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہؤا ، غریبوں کو کہاں سے ِکھلائوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ لائو دو ٹوکرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جائو اور غریبوں کو ِکھلا دو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جائو اور تم ہی یہ کھجوریں کھالو،۲۵؎ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو۔ جس کے پاس کروڑروپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہو تا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اِس مال سے تم سَودا کر لو تم کوجنت مل جائے گی۔
روحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالا سلوک
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں
میںتو یہ ہوتا ہے کہ گاہک آئے، انہوں نے چیزیںخریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دُکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے۔مگر اِس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ا ور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا گویا وہی یوسفؑ والا معاملہ ہے کہ غلّہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دئیے۔ اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور اُدھر چُپ کر کے ِکھسک جاتا ہے، دُکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ ُبھول گیا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں، مگر وہ کہہ کر چلاجاتاہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتًا رکھو اور مناسب طور پر اِس میںسے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا۔ گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہو گا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے ۔ وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۲۶؎ وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں، مگر میںساری جان اور سارا مال اُ ن سے عملاً نہیں لیتا بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ اِ س میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی اپنے پاس رکھو اور اپنے کام میںلائو اور اِس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُ س میں کمی ہو گی وہ تم کوپوری ملے گی۔
جان اور مال کا مطالبہ
اب مَیں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سَودا ہے ، لیکن آخر اِس میں عجیب سَودے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے یعنی اپنے آپ
کو غلام بنا دینے کا ۔بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں ملتی ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے؟ دنیا میں کون شخص ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہو پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سَودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس مَیں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں۔
غلامی کیوں بُری سمجھی جاتی ہے ؟
جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اِس غلامی کو قبول کرنااس بازار
کے سامان کے مقابلہ میں ِگراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ:-
اوّلؔ: اِس میں انسان کی آزادی چِھن جاتی ہے۔
دومؔ: انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے۔
سومؔ: اِس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں۔
چہارمؔ: اِس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے۔بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے۔
مَیں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جائوں اور کس طرح اس دھوکا اورفریب میں آ جائوں۔
قیدوبند میںمبتلا انسان اپنی حماقت
سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے
میں اِنہی خیالات میں تھا کہ یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ( اور مَیں سے مراد اِس وقت انسان ہے نہ کہ میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، درحقیقت قید وبند میں پڑا ہؤ ا تھا۔ مَیں نے دیکھا
کہ میری گردن میں طَوق تھا، میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مگر مَیں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پائوں کی بیڑیاں مجھے چلنے دیتی تھیں، نہ گردن کا طَوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بدعادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیڑیاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں نے میر ے پائوں میںڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں۔ تب میں حیران ہؤا کہ انسان اپنے آپ کوکیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہؤا ہے۔ نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیںنہ پائوں کی بیڑیاں اُسے ہلنے دیتی ہیںاور نہ گردن کا طَوق اُسے سر اُٹھانے دیتا ہے۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اُس کی گردن میںہوتا ہے۔ مختلف گناہ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاںوہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اُس کے اِردگِرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہؤا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی۔ اِسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بدعادات کی ہوتی ہیں۔ درحقیقت بدعادت اور بدعمل میںفرق ہے۔بدعمل ایک انفرادی شَے ہے کبھی ہؤا کبھی نہ ہؤا، مگر بدعادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیںکرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطرنج یا جؤا یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو اَب باوجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطرنج یاتاش کھیلنے چلا جائیگا۔ اِسی طرحبیڑیاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پائوں میں پڑ ی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ تب مَیں حیران ہؤا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہے۔ اس کے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں َطوق ہیں۔ پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اُسے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے۔ پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اُسے کچھ نہیں دیتا تو اِس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے۔
داروغہء جنت نے تمام بیڑیاںکاٹ دیں!
تب مَیں نے اُ س داروغہ کی طرف دیکھا جس کے سپر دمجھے کیا گیا تھا اور
مَیں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیڑیاںاور زنجیریں اور طَوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بننے کو تیار ہوں، مگر مَیں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں، بیڑیاں اور طَوق ہوں اُس کے ہاتھ میںایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بننے کو تیار ہوں، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اِس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں او رپائوں میں نئی ہتھکڑیاں، نئی بیڑیاں اور نئے طَوق ڈالتا اُس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیڑیاں اور سب طَوق کاٹ دئیے اور مَیں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی مَیں اِس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ،بیڑیاں اور طَوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیڑیاں اور نئے طَوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہؤا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًاعِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓـئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۲۷؎
وہ لوگ جو اِتّباع کرتے ہیں اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور اُمّی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیںاجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مُضِرّ ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں اُن کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طَوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے۔ پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن لاتے، آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اُن کے ہاتھوں اور پائوں میں کبھی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں نہیںرہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طَوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔
مَیں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیڑیاں اور گردن میں طَوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت کا علم ہؤا تو میںاِس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میںپہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اُس نے بجائے طَوق اور بیڑیاں پہنانے کے پہلے طَوق اوربیڑیوں کوبھی کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا۔
داروغہء غلاماں کا مسرّت افزا پیغام
میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہؤا اور میںیہ سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہء غلاماں کے
ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیڑیاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں ، لیکن آخر انسان غلام تو ہؤا ۔ غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا۔ چنانچہ مَیں اب اِس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لائو اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اِس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لائو اپنی سب چیزیں میرے حوالے کرو اُ س نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میر ے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَھُوَیَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۲۸؎ اگر اچھی طرح غلامی کر وگے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پور ا کرے گا، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے۔ دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کاکام کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیںمگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اُسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اِس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں۔
ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے اور توکّل پر گزارہ کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے۔ ایک دفعہ اُنہیں ایک اَور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام بھی کرنا چاہئے اِس طرح لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے، اس لئے مَیں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں۲۹؎ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں۔ انہوں نے کہا حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ یَوْماً عِنْدَرَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّاتَعُدُّوْنَ۔۳۰؎ تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں، جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اِسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہرحال اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ ّمتکفل ہو جاتا ہے۔
تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری
پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہو گی کہ مجھے اپنی
خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے۔ اِس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۳۱؎
اے میرے بندے!چونکہ اب تُوہمار ا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہو گا وہیں غلام رہے گا ُتو جا اور ہماری جنت میں رہ ۔مگر اس جنت میں آ کر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کامال میں کس طرح استعمال کروں گا۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَامَاتَدَّعُوْنَ۳۲؎ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیداہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی اِدھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہو گی اور جو مانگو گے ملے گا۔
اَعزّہ و اقرباء کی دائمی رفاقت
پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیزواقرباء چھوڑنے پڑیں گے۔
کیونکہ جب غلام ہؤا تو اُن کے ساتھ رہنے پرمیرا کیا اختیار۔ لیکن اس بارہ میں بھی داروغۂ غلامان نے مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ
یعنی بجائے اس کے رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھاجائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنیٰ عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جُدا جُدا نہیں رکھے گا۔
روحانی مینابازار میں ملنے والی نعماء
تب مَیں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اِس غلامی کو قبول کر کے قید وبند سے نجات ہوئی،
ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میںوہ وُسعت پید ا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے۔ تب مَیں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجتماعی انعام ہؤا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی۔
بے عیب غلام
مَیں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور مَیں گو ایک لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہرحال غلام ہوںاِس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے۔
یہ کمی تو ضرور رہے گی، مگر مَیں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اِس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْراً ۳۳؎
اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوںگے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوںگے۔
میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اِس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دُنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تویہی کیا جاتا ہے کہ قیمت کتنی ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان باوجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھاکہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مر جاتا، اگر وہ نہ مرتا تو خریدنے والا مر سکتا تھا۔غرض کوئی نہ کوئی نقص کا پہلو اس میں ضرور تھا، مگر مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جونہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُوْنَ ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
پھر دُنیوی مینا بازاروں میںتو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اِس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوںگے۔ پھر دُنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے ہیں، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کی طرح ہونگے، دیکھو کیا لطیف تشبیہہ بیان کی گئی ہے۔ دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں۔ پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کا مفہوم یہ ہؤا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ، فریب، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا، مگر موتی میںایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چُرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چُھپا چُھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فرمایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں کُھلے طور پرپھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا۔ دنیامیں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چُھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہؤا ہو گا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تردّد نہیں ہو گا۔
اعلیٰ درجہ کی سواریاں
پھرمیں نے سوچا کہ اُ س مینا بازار میں بڑی ُعمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاںبھی کوئی سواری ملے گی؟ تو مَیں نے دیکھا کہ اس جگہ
بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ اْلمُفْلِحُوْنَ۳۴؎ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہوکروہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے، مَیں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو ہگنے ، مُوتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں مجھیہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی۔ مَیں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑا ملتا تو وہ لِید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اُس کا لانا میرے ذمہ ہوتا، پھر شایدکبھی مُنہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے گِرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ ہگتا ہے نہ ُموتتا ہے، نہ مُنہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گِراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔
پھر اُس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزّت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس سَو پچاس روپے ہوں، گھوڑا خرید سکتا ہے، مگر یہ گھوڑا خلعت کا گھوڑا ہو گا جو زمین وآسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا۔ پس معمولی ٹٹّو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے۔
ٹھنڈے شربت
(۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے مَیں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟
تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ توبعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہو گا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اُتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے۔ مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میںملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا۳۵؎ ا س جنت کے مینا بازار میںمؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیںگے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی، وہ کافوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی۔ یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اورسکون پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کافوری پیالے اُ ن کواِس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خداتعالیٰ کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اِس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کافوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا ۳۶؎
وہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دُور کرنے کے لئے ا ن کو کافوری پیالے پلائے۔
گرم چائے
پھر مَیں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے۔
ایسے وقت میںتو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے۔ پس اگر یہ کافوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت وہ کفایت نہ کریں گے، ایسے وقت میںتو گرم چائے کی ضرورت ہوگی۔ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینابازار میں چائے کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا ہے وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَأْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً ۳۷؎
چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندر سونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہو گی۔
تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خداتعالیٰ نے پورا کر دیا، گرمی دُور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جوکافوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دُور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کافوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کافوری پیالوں کی تو اِس لئے ضرورت ہو گی کہ مؤمن خداتعالیٰ کا خوف اپنے دل میںرکھتے تھے اور اُن کے دل ودماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے اگلے جہاں میںانہیں تسکین کے لئے کافوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہو گی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دئیے جائیںگے اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکمّا بنا کر نہیں بٹھادیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذّت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تا کہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو۔ پس یہ خیال غلط ہے جوبعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا، اگر ایسا ہی ہوتو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے۔ ـ
اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ ھٰذَ اکَانَ لَکُمْ جَزَآئً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۳۸؎ چونکہ تم نے دنیا میںبڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کاموں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی، تقویٰ اور قوتِ عمل اَور بھی بڑھے اور تاتم پہلے سے بھی زیادہ ذکرِ الٰہی کرو پس جنت نکمّوں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے۔
شیریں چشمے
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پِیا اور ختم۔ بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ
شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے، بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کاپانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَأْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۳۹؎ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے پلائے جائیں گے جو اُن چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا۔
دُودھ کی نہریں
پھرمَیں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میںدودھ بھی ِبکتا ہے کیا وہاں دُودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے ۔ تومَیں نے دیکھا کہ ان
بازاروں میںتو دُودھ بوتلوں اور پائونڈوںاور سیروں کے حساب سے ِبکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے۔مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَآ اَنْھٰـرٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۴۰؎
مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اُن کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کامزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا۔ دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دُودھ نہیںدیا جو لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ کامصداق ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا۔ پھریہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہو گی اور نہر بھی ایسی ہو گی کہ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں ہی استعمال کر لیا جائے دوپہر تک خراب ہو جائے گا، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
اِس آیت سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پرکوئی روک تو نہیں ہوگی؟ اِس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ۴۱؎
ُتو مؤمنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہریں اُن باغوں کے متعلق ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں ۔ یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اُس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اِسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی۔
مصفّٰی شہد
پھر مَیں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اُس مینا بازار میں بھی شہد ملتا ہے یا نہیں؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً میں نے یہ لکھا ہؤا
دیکھا کہ اَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی۴۲؎ وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی۔ دنیا میں عام طور پر اوّل تو خالص شہد ملتا ہی نہیں۔ لو گ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑا سا اس میں شہد ملاکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بناکر پِیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈ ّبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈ ّبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ چنبے کا شہد ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہدہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہونگی اور تمہارا اختیار ہو گا کہ جتنا شہد چاہو لے لو۔
پُر لذّت شراب
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی بِکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں،
مگر قرآن کریم یہ تومانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَناَفِعُ لِلنَّاسِ۳ ۴؎
لوگ تم سے شراب اور ُجوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں۔ پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہرحال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جوشراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میںملوّث ہو جاتا تھا، مگر بہرحال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے، اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں توکیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَاَنْھَارٌمِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۴۴؎ وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذّت کا موجب ہوں گی۔
ایک اعلیٰ درجہ کی سربمہر شراب
میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروںکی صورت میں ہوگی
اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر ا س کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میںبند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میںزیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، مَیں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے ، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی دو قسم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گویا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میںبند ہو گی چنانچہ فرماتا ہے یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰـمُہٗ مِسْکٌ۴۵؎ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اَور شراب بھی وہاں ہو گی جو بوتلوں میںبند ہو گی جس پر مُہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہو گی کہ اُس کی تلچھٹ۴۶؎ بھی مُشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہو گی، اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میںفرق ہو گا، ایک تو عا م شراب ہو گی جیسے بیئر(BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہو گی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہو گی اور اس کی دُرد۴۷؎ مُشک کی ہوگی۔
روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیّت
تب میں نے سوچا کہ دُنیوی شراب تو عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے، صحت برباد
کر دیتی ہے، انسان کو خمار ہو جاتا ہے، وہ گند َبکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا؟ اورکیا ایسا تو نہیںہو گا کہ اس شراب کوپی کر مَیںاپنی عبودیت کو ُبھول جائوں؟ اِس پرمَیں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے لَافِیْھَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ ۴۸؎
غَوْلٌکے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں۔۴۹؎ پس لَافِیْھَا غَوْلٌکے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہو گا۔ یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اُتر تا ہے تو اُس وقت بھی اُنہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میںدرد ہوتا ہے، لیکن اِس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں اِن نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا۔
اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَھَبَ عَقْلُہٗ اَوْسُکِّرَ۵۰؎ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آسکتی ہے۔ خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا، اب تو مَیں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلا س میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اُس زمانہ میں مَیں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا، مگر اتفاق ایسا ہؤا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بِھیڑ تھی مَیں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہؤا تھاکہ بظاہر اُس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال جب میں اُس کمرہ میں گُھساتو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیںشرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بنائو تا کہ یہ بیٹھیں۔ مَیں نے سمجھا کہ گومَیں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوںگے۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی۔ جب میں بیٹھ گیا تو وُہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوںگا۔ کہنے لگے نہیں پِھر بھی کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں۔ اِس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھافرمائیے کیا کھائیں گے؟ مَیںنے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھائوں گا۔ کہنے لگے اچھاتو پھر فرمائیے ناکہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہے۔ اس سے پہلے مَیں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ اتنے میں ایک سِکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اِس پر وہ پھر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے ، تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اُس کے لئے بھی جگہ نکال دی۔ جب وہ ِسکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب! کچھ کھائیںگے؟ مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہوگیا۔ اِس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ آخر مَیں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر مَیں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاںسے ِکھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیںکی۔
توشراب انسانی عقل پربالکل پردہ ڈال دیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے۔
پاکیزہ مذاق
اسی طرح فرماتا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأْسًالَّالَغْوٌ فِیْھَاوَلَاتَأْثِیْمٌ ۵۱؎ مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیارسے رہیںگے اور جس
ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز ِچھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے ِچھین ِچھین کر کھائیں گے۔ یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیںہوگا جس کی وجہ سے انہیں ِچھیننا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیارے کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے ِچھین ِچھین کر پئیں گے۔ مگر دنیا میں تو اِس ِچھیننے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو مگر فرمایا لَالَغْوٌفِیْھَا وَلَا تَأْثِیْمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کے بھائی نے اس سے پیالہ ِچھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کر ے گی اور وہ اَور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ نہ صرف وہ شراب پاک ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دُنیوی شراب کی بُرائیاں اُ س میں نہیں ہوں گی۔
تزکیۂ نفس پیدا کرنے والی شراب
مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی۔ تو اس کا
جواب مَیں نے یہ پایا کہ وَ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا۵۲؎ طَھُوْر کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طَاھِر کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک ہو پس سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی۔ معلوم ہؤا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے۔ پھر طَھُوْر کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی شَے اور پاک شَے کے ہوتے ہیں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سڑاکر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گی۔
اِسی طرح ایک اور لطیف اشارہ اِس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہووہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فرمایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہو گی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کر ے گی، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہوگی۔ وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو گی او رنہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کر ے گی۔
’’تسِنیم واٹر‘‘
پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ۵۳؎ اس شراب میں ایک پانی ملا یا جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو
اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اُس کانام ہو گا تسنیم واٹر۔ اور تسنیم کے معنے بلندی،شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہو ں گی کیونکہ یہ معمولی پانی نہیںہو گا بلکہ بلندی، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہو گا اور عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ۵۴؎ یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے۔ گویا دو گروہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیںاُس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دے دیا جائے گا، مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہو گاجنہیں معمولی مقدار میں تسنیم کا پانی نہیں دیا جائے گا بلکہ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد رُوحانی چیزیں ہیں ورنہ دُنیا میں کیا کبھی شرف، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہؤا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہؤا کرتی ہے جو سٹرے نہیں؟ اور پھر وہ شراب ہی کیاہے جس میں نشہ نہ ہو،بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اُتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اُسی قدر ہمارے شاعر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ذوقؔ کہتا ہے
؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے
مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اُس میں نہ نشہ ہو گا نہ وہ سڑی ہوئی ہو گی اور نہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی۔
اِسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کاپانی ملایاجائے گا جس کانام سَلْسَبِیْلا۵۵؎ ہو گا سَبِیْل کے معنے راستہ کے ہیں اور سَلْ٭ کے معنے اگر اس کو سَالَ یَسِیْلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر ۔ یا دَوڑ پڑ۔ یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دَوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہو گئی چل اپنے راستہ پر۔
یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ یہ شراب مادی نہیں، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دَوڑ نہیں سکتا۔
مادی شراب کے نشہ کی کیفیت
مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میںجہاں آجکل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی
ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن مَیں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہؤا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی۔ اُن میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا۔ جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیںہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھائو گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سُندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا؟ اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑپر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ آخر گھوڑے کے قدموںکی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گزر گیا مگر مَیں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہؤا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!ـ پکوڑے کھائیں گا؟ حالانکہ سُندر سنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہؤا پُھلکے کھا رہا ہو گا۔ دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اُس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کے نشہ کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہؤا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہؤا وہ سُندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا۔
تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے، قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیںگے ۔ سَلْ سَبِـیْـلًا ۔ اب تمہاری سب کمزوری رفع ہو گئی ہے تم اپنے راستہ پر دَوڑ پڑو۔
دوسرے معنے اس کے سَأَلَ یَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں، یعنی سوال کر، پوچھ، دریافت کر۔ اِس کا امر بھی سَلْ ہی بنتا ہے۔یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے ُتو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ۔ گویا اُس شراب سے ایک طرف قوتِ عملیہ بڑ ھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا! مجھے اَور روحانی علوم دئیے جائیں اور اس کے بدن میںایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خداتعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا۔
پھل اور گوشت
(۴) چوتھی بات جو دُنیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں، مَیں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان
موجو دتھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَا کِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ- وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۶؎
کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جوبھی وہ پسند کریں گے۔یہاں ہم بعض دفعہ بعض پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں۔ ہمار ا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کو ملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیںتو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے۔ رنگترے کو جی چاہے تو دُکاندر کہہ دیگا، آجکل تو رنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلاؔ موجود ہے یہ لے لیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیںہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یاکیلے کا موسم نہیں یا سردے کا موسم نہیں ، وہاںجو بھی پھل انسان چاہے گا اُسے فوراً مل جائے گا ۔ اِسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیںدیا جائے گا۔ پھر فرماتا ہے وَاَمْدَدْنٰـھُمْ بِفَا کِھَۃٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۷؎
کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیںگے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے۔ یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دُنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا۔
جنّتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات
اسی طرح فرماتا ہے ۔ وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلاَ لُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْ فُھَا تَذْلِیْلًا۵۸؎ کہ
جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جُھکے ہوئے ہوں گے ا ور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑ لیںگے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا وہاں پھل اِس قدر جُھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ وَفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ لَّامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۵۹؎ کہ انہیں وہاںکھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوںگے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے، صرف شہتوت ملیں گے۔ وَلَامَمْنُوْعَۃٍ اور نہ وہ ممنوع ہوں گے۔یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیںہو گا کہ وہ انسان کو بیما ر کر دیں۔ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کاپانی پی سکتے ہو اَور کوئی پھل نہیں کھا سکتے، مگر جنت میںجو پھل ملیںگے انہیںکوئی بُرا کہنے والا نہیں ہو گاکیونکہ وہ بیماریاں پیداکرنے والے نہیںہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوْعَۃٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بدہضمی ہو خواہ وہ کس قدر کھا لئے جائیں انسان کوکوئی تکلیف نہیںہوگی ۔ دنیا میںانسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاںایسا نہیں ہو گا۔لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میںتھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنانچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میںسے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیںکیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیںاور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں، مگر اس تمام عرصہ میںتیس چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ساری پیالیاں پی جاتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا۔ وہ پہلے سال جلسہ میںشریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیس چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں اِتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی۔ تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو اُس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میںختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میںانسان اُن کو کھا سکے گا۔ دنیا کی غذائوں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر روحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم ا ور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلاجائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیںہو گی۔ یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں۔اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جبکہ وہ رزق مادی ہو گا ہی نہیں بلکہ روحانی ہو گا۔
نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دَور
جب مَیںیہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اُف! کھانے اورپینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوںگی،
وہاں تو دن اور رات میںکھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے۔ پس میرے دل میں خوف پیدا ہؤا کہ کہیں میں اِن کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تومول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایاتھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو؟
جب میرے دل میںیہ ڈر پیدا ہؤا تو مَیں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیامعاملہ ہونے والا ہے اور مَیں نے وہاں یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّآئٍ غَیْرِاٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ وَاَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَھُمْ فِیْھَامِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ۶۰؎
اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بد ُبودار ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہو گا جو بِالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہو گی اور جب کھیتوں کوپانی دیا جائے گا تب بھی بد ُبو پیدا نہیں ہوگی۔اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا۔ اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق ُتو کھا ئو پیُو بن گیا۔چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ میرے اِس بندے کوبخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا۔ میر ے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا۔ میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا اور میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا۔ گویا ہر کھانے اور ہرپینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہو گی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی۔ تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ روحانی غذائیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے ہیں۔ دوسری طرف مَیں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود ِکھلاتا اور ِپلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میںشامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھائو اور پِیُو کہا گیا۔
سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے ایک ارشاد کی حقیقت!
اسی طرح اِس آیت سے میرے
لئے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیاکہ مَیں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیںکہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور کھا اور مَیں نہیںپیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور پی۔ا ور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ُتو ضرور پہن۔ یہاںبھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مؤمن سے کہے گا کہ کھائو مَیں تمہارے گناہ بخشوں گا،میری شراب پیو کہ مَیں تم سے ُحسنِ سلوک کروں گااور میرے پھل کھائو کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا۔یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اُس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مؤمن بندے کے ساتھ خداتعالیٰ کرے گا۔
اعلیٰ درجہ کے لباس
(۵) پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی بازاروں میںتو لباس فروخت ہؤا کرتے ہیںآیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں ؟
مَیں نے غور کیا تو اِس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ۔ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ۶۱؎
یعنی اس کے اندر مؤمنوںکو ایسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۔ اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیںاور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا ُتو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاںایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اُس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اُس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے۔اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مُڑتی بلکہ اُسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اُس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہو گا کہ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِاِدھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اُس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکڑ اکڑ کر مال روڈ پر چلتے ہیں، عورتیں اُن کو دیکھتی ہیںاور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اِس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہو گا کہ اسے پہن کر مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف دَوڑنے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی۔
پھرا س لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ۶۲؎ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میںملتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میںیہ لکھا ہؤا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰـھُمْ تَقْوٰھُم ۶۳؎
کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میںاور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقویٰ عطا کر دیتا ہے ۔مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میںترقی کی ہو گی اُسی قدر اُس کالباس زیادہ اعلیٰ ہو گا۔
زیب وزینت کے سامان
(۶) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میںزینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور رِبن اور پائوڈر وغیرہ فروخت
ہوتے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ تو پُرانے زمانے کے مینابازاروں کی بات ہے، آجکل تو انار کلی اور ڈبی بازار میں پوڈروںاو رلپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پُرانے مینا بازار اِن کے آگے ماند پڑ جاتے ہیںاور عورتوں کو ان کے بغیر چَین ہی نہیں آتا، گو آجکل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور یوڈی کلون اور پوڈر وغیرہ ِچھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیںتو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں، پھر اس پر پوڈر چِھڑکیں، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چِکنائیاں ملتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی، کچھ چِکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے۔ پس میں نے کہا آئو میں دیکھو ں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیںیا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیںوہاں نہ ہوئیں تو اوّل تو آجکل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اَڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتائو جنت میںسُرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی، پوڈر اور کریمیں وغیرہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں۔
زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اِس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر َمل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ سے زیادہ پوڈر مَلنے کو وہ حُسن کی ضمانت سمجھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر مَلا ہؤا ہوتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے۔ انگریزوں کا رنگ چونکہ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بدزیب معلوم نہیں ہوتا ، مگر ہمارے مُلک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اِس لئے اندھا دُھند انگریزوں کی اِ ّتباع میں پوڈر کے ڈبے صرف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور کئی تو بے چارے اِس غلط فہمی میںمبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹِکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب َمل َمل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے۔
سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ
ایک دفعہ ایک اینگلوانڈین اُستانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ
مَیں اُس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں۔ مَیں نے کہا غور کروں گا۔ اِس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہرنا پڑا۔وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقعہ یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے۔ میں اُن دنوں تبدیلئ آب وہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب (مرحوم جو میرے سالے تھے) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمِّ طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جا رہی تھیں۔ اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہو گی اِسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اُسے بھی ساتھ لے لیا۔وہاں پہنچ کر ہم نے دو کشتیاں لیں۔ ایک میں مَیں، اُمِّ طاہر اور میری سالی تھی اور دوسری میں وہ اُستانی،میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب او رڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں۔ اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گوراکرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اِس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتائیں جس سے میرا رنگ سفید ہوجائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُ س نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اِسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتوں سے بڑا لُطف آ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا۔ سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے بہت دوست ہؤا کرتے تھے اور بعد میں بھی میر ے اُن سے گہرے تعلقات رہے۔ انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسبِ عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے۔ میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے اِس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میںتمہیں بتاتا ہوں قرآن کریم میںلکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا۔ پس اِس دنیا میںتو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ، تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا۔زینت کے یہ سامان بھی جو مَیں بتانے لگا ہوں اِسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
سفید رنگ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ۶۴؎ دُنیا میںاگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہو سکتا، اندھا ہے تو سوجا کھا نہیں
ہو سکتا، نکٹا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص ہزار کوشش کرے، صابن کی ٹِکیوں سے اپنے مُنہ کو صبح وشام مل مل کر دھوئے اگر اُس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہو گا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی۔کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں مَلتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُ ن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئرز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خریدتے ہو۔ کہیں پام آئل(PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہو مگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا۔ آئو ہم تمہیں بتاتے ہیں یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے مُنہ سفید براق ہو جائیں گے۔ پھر دنیا میںتو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں۔بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمایا وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْ ھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۶۵؎
ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منُہ سفیدہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہو گا۔
بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوںمیں نہیںلینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میںہی آتا ہے ۔ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا۶۶؎ کہ جب کسی کو لڑکی پیداہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کامنہ کالا ہو جاتا ہے۔ اب اِس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقعہ میںکالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اُسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے۔ اِسی طرح اُن کے نزدیک یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزّت کی وجہ سے اُن کے چہروںپر ُنور برستا معلوم ہو گا اور خداتعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور اِن کا انکار نہیں ہو سکتا۔
کریمیں، پوڈر اور سُرخی
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو:-
اوّل:- وہ ایسی کریمیںمَلتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے، مسام ُکھل جائیں، مساموں سے زہر اور مَیل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے۔
دوم:- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر چُست ہو جائیں، اُن کے مسام سُکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پررونق پیدا ہو جائے۔ گویاپہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام ُکھل جائیں اور َمیل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا اِسترخاء جاتا رہے۔ اسی طرح پوڈر لگاتے ہیںتا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُرخیاں لگاتے ہیںتا کہ دوسروںکو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں۔
اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے ۔ وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاضِرَۃٌ ۶۷؎ یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے۔ نَاضِرَہ کے معنے عربی میں حُسن اور رونق کے ہیں۶۸؎ اور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ حُسن کے معنے تناسبِ اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جوچہرے اور قویٰ سے ظاہرہوتے ہیں۔ا گر ایک شخص کاناک پچکا ہؤا ہو، مگر اُس کے کلّے اور ہونٹ سُرخ ہوںاور اُس کا رنگ سفید ہو تو اُس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیںیا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یاماتھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں۔یا کلّے اِتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوںمعلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کودیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض کُتّے کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں، بعض سؤر کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔بعض بلّی اور بعض چوہے کے مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔ کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی اِن جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اِس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرایہ مضمون نہیں اِس لئے مَیں اِس نقص کو دورکرنے کے طریق نہیں بتا سکتاصرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہہ ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مَل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کرلیں یا رُوج لگا لیں، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن کریموں اور غازوں اورلِپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈرکی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش ونگار درست کر کے انہیںوہاں لے جایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کانا ہو گا تو اُس کا کانا پن جاتا رہے گا، لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا،آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کردیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دئیے جائیں گے۔آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقینا اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دُور کر کے انہیںجنت میں داخل کر یگا۔ـ
ایک لطیفہ
حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی یَارَسُوْلَاللّٰہِ!یہ باتیں چھوڑیںاور مجھے
یہ بتائیں کہ میں جنت میںجائوںگی یا نہیں؟اب اُس کایہ سوال بے وقوفی کا تھامگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دِق کیاکرتی تھی اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت مذاق سُوجھا اور آپؐ نے فرمایا، مائی! جہاں تک میرا علم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ یہ سُنتے ہی رونے ِپیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جائوںگی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَیں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جائو گی۔ اُس نے کہا کہ آپؐ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ آپؐ نے فرمایا روئو نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا، بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میںچونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اِس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے۔مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیںہوتی۔ جیسے خواب میںتمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے اِسی طرح بظاہر جنت میںجو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میںشراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہو گی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میںترقی کرے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ جو چیز دنیا میں تم درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرَہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیںیعنی رنگ نِکھرا ہؤا ہو،صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو۔ دنیامیں توکئی لوگ چہروں پرکریم ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہؤا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش ونگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پیدائشِ جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پُھوٹ پُھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہوگی۔
چمکتے ہوئے چہرے
اسی طرح فرماتا ہے۔ وُجُوْ ہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ۔ ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ ۶۹؎ اُس دن جنت میںجانے والوں کے چہر ے چمک
رہے ہوں گے۔ دنیا میںلوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے۔ کہتے ہیں فلاںفلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح چمک ہوتی ہے۔ فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جَھلک پیداہو گی جیسے موتیوں کی جَھلک ہوتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ۔ ضَاحِکَۃٌ دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میںنے بعض کتابوں میںپڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں، تا ایسا نہ ہو کہ شِکن پڑ کر پوڈر گِر جائے، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شِگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا۔مَیں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہؤا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُتر ے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہؤا ہو گا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہو گا۔
شگفتہ پیکر
اسی طرح فرماتا ہے مُسْتَبْشِرَۃ ان کی بڑی خوشیاںہوںگی۔ یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈرلگا تی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ
کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اِس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاںاِس قسم کاکوئی خطرہ نہیں ہو گا اور ہرشخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہو گا۔
نرم ونازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے
اِسی طرح فرماتا ہے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۷۰؎ دنیا میںکریمیں اس لئے
لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں مگر فرمایا وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاعِمَۃٌ ہمارے ہاں اِس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیںہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی ُکھردراپن نہیںہوگا بلکہ وہ نرم اورملائم ہوں گے۔ نَاعِمَۃ کے معنے عربی زبان میں لَیِّنُ الْمَلْمَسِ ۷۱؎ کے ہیں، یعنی اُن کے جسم نرم ہوںگے یہ نہیںہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میں ُکھردراپن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے توڈِھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا نرم، سفید حسین، پُر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر،لِپ سٹک اور رُوج کسی کی ضرورت نہیںہوگی۔یہ چیزیں آپ ہی آپ خداتعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی۔
اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں
(۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیںآیا اِس مینا بازار میں بھی خوشبوئیںہوں
گی یا نہیں؟ جب میں نے اِس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میںیہ لکھا ہؤا دیکھا کہ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۷۲؎
فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سَودا کرنے والاہمارامقرب ہو گا، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی،یہاںبھی خداتعالیٰ نے دُنیوی اور اُخروی نعماء میںایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح یہاں صر ف کریمیں ملتی ہیں، پوڈر ملتے ہیں، لِپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یاہونٹ یا دانت یا منہ مِل جائے تو نہیں مل سکتا۔ اسی طرح دنیا میں اسّی روپے تولہ کا عطرمِل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی ِ ّحس ہی نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیںدے سکتی۔اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بدبو میںاپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفہ اوّل نے جب ہمیں طِبّ پڑھائی تو آپ نے فرمایاایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی ِ ّحس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بد ُبو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایاآنکھیں بند کر کے اگر اُس کے سامنے پاخانے کا ٹِھیکرا اور اعلیٰ درجے کاکیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی، ایک دن انہوں نے اُسے کہاکہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا۔ وہ کہنے لگی بی بی! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے۔ جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہؤا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی ّحِس ہی نہیں۔ تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر سے خوبصورت معلوم ہوتاہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لُطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میںبھی لے جائو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم کیا دیتے ہیں فَرَوْحٌ ہم سب سے پہلے خوشبو سُونگھنے اور اُس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میںپیدا کرتے ہیں۔ رَوْحٌکے معنے ہیں وِجْدَانُ الرَّا ئِحَۃِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوئوں کو محسوس کرے (رَوْحٌ) میرے اپنے ناک کی ّحِس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔ اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بدبو دار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گُھٹنے لگتا ہے، مَیں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتاہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایاکرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اوّل کو اِس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی۔ میںآپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میںآپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ مَیںنے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں۔ فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیابخاری میںکوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میںہی مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طر ف چل پڑتے۔ آپ تھے تو میر ے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اِس لئے مَیں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے، ہم تو اور کاموں میں ُبھول ہی جاتے ہیں۔
مَیں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا، اگر میںخلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی ِ ّحس بھی تیز تھی اور اس امر میںبھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے۔ تو ناک کی ِ ّحس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ ِ ّحس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیںگے ا ور پھر عِطر (رَیْحَانٌ) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ ۔مثل مشہور ہے کہ’’ ناک نہ ہؤا تو نتھ کیا‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی ِ ّحس تیز کر دیںگے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں۔ اور اس کے بعد ریحان دیں گے رَیْحَانٌ کے معنے ہیں کُلُّ نَبَاتٍ طَیِّبِ الرِّیْحِ۷۳؎ یعنی ہر خوشبودار چیز اُن کو ملے گی ۔ وَجَنَّتُ نَعِیْمٍ اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی۔ یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھر ی ہوئی ہوگی۔
جسمانی طاقت کی دوائیں
(۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں۔ کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت
کے لئے ہے،کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دوائوں کو کھائو پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھائو۔ پس میںنے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں؟ اِس خیال کے آنے پرمجھے معلوم ہؤا کہ ایک رنگ میں اِس بات کا بھی انتظام ہو گا، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَاخٰلِدِیْنَ ۷۴؎
فرمایا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاںنہیں دیں گے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کی دوائیں وہاںدی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہووہاں طاقت کی دوائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اِس لئے اسے طاقت کی دوائوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریںگے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرمایا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی۔ طِبْتُمْ اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیں گی گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے۔ یا تو بیماری جَر مز(GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہو تا اور اسے بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔مثلاً معدہ میںتیزابیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کردیںگے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ہیضہ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جَرم(GERM) تمہارے جسم میںداخل نہیں ہو گا۔ پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا اِس لئے فرمایا طِبْتُمْتمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے۔ پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے اِس لئے فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھْاَ یہ حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیںہو گی۔
نفیس برتن
(۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے مَیں نے سوچا کہ کیا اِس بازار میں بھی ا س قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر
میری نظر فوراً اِس آیت پر پڑی کہ وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا ۷۵؎
کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سَودا کریں گے وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میںخداتعالیٰ کے مقررکردہ خادم چیزیں لائیں گے وَاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا اور ُکوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے۔ قَوَارِیْرَxا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میںشراب ڈالی جائے۔ پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہو گی جو شیشہ کے برتنوں میںہوتی ہے گویا ان برتنوں میںایک طرف تو اتنی صفائی ہو گی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میںپڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اِسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی۔ درحقیقت مؤمن کا جنت میںایک دوسرے سے اسی قسم کا معاملہ ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میںسے شربت نظر آ جاتا ہے۔ یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اُس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیںہو گی۔ اورایسی چیزیں جو بظاہر شفاف نہیںہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی۔
فِضَّۃٌ کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا۔ ہر شخص جانتا ہو گا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے شُبہ کا سوال ہی پیدا نہیںہو گا۔
چار پائیاں اور گائو تکیے
(۱۰) پھر میں نے مینا بازار میںگھر کے اسباب فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں
آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دَوڑائی تو وہاں لکھا تھا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۷۶؎
مَوْضُوْنَۃٍ کے معنے بُنی ہوئی چارپائی کے ہوتے ہیں ۔ پس عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بُنی ہوئی ہونگی۔ عربوں میںدوطرح کا رواج تھا۔ اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چارپائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اُس میں کوئی چارپائی نہیںتھی، بلکہ اُس میںسونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اِسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے، لوگ وہاں گدّے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ اُن پر سونے کی عادت نہیںتھی اس لئے میں نے اپنے لئے ایک ہوٹل سے چارپائی منگوائی تب جا کر سویالیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ وہاں جنت میں بُنی ہوئی چارپائیاں ہوں گی(جو لچکدار ہوتی ہیں)مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چارپائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میںسونے کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ کہیں قرآن میںیہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی ۔درحقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہو گی اِس لئے وہاںسونے کی بھی ضرورت نہیںہوگی۔ اِس سے بھی اُن لوگوں کا ردّ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاشی کا مقام کہتے ہیں۔ عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے ۔
؎
ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کُجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو۔ اسی طرح عیاشی میںلوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میںکہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چارپائیوں پر سو رہے ہوں گے بلکہ فرمایا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ اُس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پرنہیں۔ ہم کتابیں پڑھتے ہیں، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیںتو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اِس سے شُبہ پڑ سکتا تھاکہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ ایک دوسرے کی طر ف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف مُنہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا۔ ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چارپائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے مگر سونے کے لئے نہیں، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خداتعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اُس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے۔
شاہانہ اعزاز واکرام
اسی طرح فرماتا ہے فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَۃٌ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۷۷؎
پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُوُنَۃٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌمَّرْفُوَعَۃٌ ہونگے۔ سَرِیْر کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اِس کی وضاحت نہ کی جائے تو اِس کے معنے تختِ بادشاہی کے ہوتے ہیں۔ چارپائی کے معنے تب ہوتے ہیںجب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چارپائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ جیسے سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے الفاظ تھے ، لیکن اگر خالی سُرُرٌ کا لفظ آئے تو اس کے معنے تختِ شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُرُرٌ کے ساتھ تشریح کے لئے ضرورکوئی لفظ ہو گا۔ یہاں چونکہ خالی سُرُرٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تختِ شاہی ہی ہے اور پھر تختِ شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوْعَۃٌکہہ دیا، کیونکہ تختِ شاہی اونچارکھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے۔ دنیا میںتو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کرلی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو! چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اِس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا۔
خداتعالیٰ کی سچی غلامی اختیار کرنے
والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے
دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خداتعالیٰ کی غلامی اختیار کر لی تو خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا
تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیںاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اِسی خیال کے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اِس اختلاف کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلا ع ہوئی تو وہ فوراً اِس مجلس میں گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابوبکرؓ خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریرکی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آ گئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اَور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ابوبکرؓ مکہ کے رئوساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میںسے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کر لے بالکل اور بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابوبکرؓ ؟ وہ کہنے لگا وہی ابوبکر جو تمہارا بیٹا ہے۔ کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنابادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ ابوقحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سُنی تو بے اختیار کہہ اُٹھے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ محمد رسول اللہ ضرور سچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابوبکرؓ بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کرلیا۔
تو دُنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا۔
شاہِ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے
مسلمانوں نے پائے اِستحقار سے ُٹھکرادیا
ایران میں جب مسلمان گئے تو کسریٰ کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھاجائیں، ان
کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے ۔کسرٰی نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لائو، میں اُن سے خود باتیں کروں گا ۔ جب مسلمان اُس کے دربار میں پہنچے تو کسرٰی اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گوہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو۔ تمہیں یہ کیاخیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہوگئے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ ا ِس سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہمار ی کایاپلٹ دی، اب ہر قسم کی عزت خداتعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے۔ کسرٰی کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا مَیں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جائو۔ چنانچہ اُس نے تجویز کیا کہ فی افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے۔گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو تیس تیس روپے دیکر خریدا جا سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اورحقارت کے ساتھ اُسے ُٹھکرا دیا۔تب کسریٰ کو غصّہ آ گیا اور اُس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لائو۔ تھوڑی دیر میں مٹی کابورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے۔نوکر نے ایسا ہی کیا ۔ جب بورا اُس صحابی ؓ کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیںمانی تھی اِس لئے جائو اِس مٹی کے بورے کے سِوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے، وہ صحابی ؓ فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے۔ انہوں نے اِس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اُسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسرٰی نے اپنا مُلک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرایسا فضل کیا تھا کہ اُن میںسے ہر شخص بادشاہ بن گیاتھا۔
ایک مسلمان غلام کا کُفّار سے معاہدہ
یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںایک دفعہ
مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی۔رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ ُکھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے اِدھر اُدھر ِپھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے۔مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اِس صلح کا کوئی علم نہیں ۔ انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اِس صلح نامہ پر موجود ہیں۔کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھُسلا کر دستخط کروالئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے۔غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی؟ اُس نے کہا، مَیں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اِس میںکیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا تو پھر لگائو انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میںدستخط کا طریق تھا) اور اِس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا مَیں حضرت عمرؓ سے اِس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا میںکوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات ردّ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اُس کے مقرر کر دہ نمائندہ کا مصدّقہ تسلیم ہو گا۔ اب گووہ ایک غلام تھا مگر اُس وقت اُس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے۔
سامانِ جنگ
گیارہویں بات مَیں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامانِ جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں، ڈھالیںہوتی ہیں اسی طرح کا
اور سامانِ جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا آؤ میںدیکھوں آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میںملتی ہیںیا نہیں؟
روحانی ڈھال
جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اِس مینا بازار میںڈھالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے لَھُمْ دَارُالسَّـلَامِ عِنْدَرَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ
بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ۷۸؎
جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پرکوئی حملہ نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کوجنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مؤمنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں اب تم کسی مصیبت میں نہیںڈالے جائو گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیںآئے گی۔دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دِہ ہے۔
خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ
دنیا میں بھی اِس بات کی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خداتعالیٰ کی حفاظت میںرہتے ہیں
اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام ونامراد رہتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ باقی لشکر بھی اِدھر اُدھر متفرق ہوگیا۔ ا تنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میںمارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اِس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگاوہ وہاں آپہنچا۔درخت سے آپؐ کی تلوار لٹک رہی تھی اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جگا کر کہا بولو! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہؓ اُس وقت اِدھر اُدھر ِبکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا، مگرایسی حالت میں بھی آپؐ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ بلکہ آپؐ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہؤا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہؤا۔ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا۔ یہ سُننا تھا کہ اُس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپؐ بڑے شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کم بخت! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا۔ تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
ایک رؤیا
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام پرجب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو مَیں نے گھبرا کر دعاکی۔ رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں سکول سےآرہا
ہوں اور اُس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کر تاہوں۔ وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے۔ جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہؤا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا۔ ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترتی تھیں۔بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے۔ جب میںگھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہؤا ہے اورآپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہؤا ہے۔ صرف آپ کی گردن مجھے نظر آرہی ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مَیں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو مَیں نے آگے بڑھ کر آگ ُبجھانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑلیا۔ کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور مَیں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں۔ اِسی دَوران میںاچانک میری نظر اوپر اُٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ :-
’’جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُ ن کو کون جلا سکتا ہے‘‘
تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دئیے۔
امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیّت
سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی
ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ اُس کا جُرم یہ تھا کہ اُس نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب مقدمہ ہؤا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے
بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہؤا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں۔عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندومذہب کے وہ دشمن ہیں، سکّھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور مَیں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا۔ میں اِس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ پھیروچیچی گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میںوہاں چلا گیا۔پستول مَیں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کردوں گا، چنانچہ پھیروچیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا(یہ دراصل یحییٰ خاںصاحب مرحوم تھے) اور مَیں نے سمجھا کہ اِس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا۔ پھر میںدوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہوآئوں۔ جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سُن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کردیا۔ پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اَور کو قتل کرنے کا تھا۔
اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خداتعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بناتا رہا ۔پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر مَیںقادیان میںنہیںبلکہ پھیروچیچی ہوں، وہ پھیروچیچیپہنچتا ہے تو وہاں بھی مَیں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ میںاتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اِس وقت حملہ کرنا درست نہیں ۔ پھر وہ وہاںسے چلا جاتا ہے اور اِدھر اُدھر پھرکر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے۔
فتنہء احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادۂ قتل سے قادیان آنا
اسی طرح احرار کے فتنہ کے ایام
میں ایک دفعہ ایک پٹھا ن لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے۔ میاں عبدالاحدخاں صاحب افغان اُس سے باتیں کرنے لگے۔ باتیںکر تے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہِلائی اور پٹھان اس طرز پراُسی وقت اپنی ٹانگ ہِلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے ُچھرا چھپایا ہؤا ہو۔ میاں عبدالاحدخاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اِس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اِس لئے جونہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چُھری پکڑ لی۔ بعد میں اُس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا۔ اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اُس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اُس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا ورنہ اگر کوئی غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے۔
زہر آلود بالائی ِکھلانے کی کوشش
اسی طرح مَیںایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی
کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کردیا۔ رستہ میںکسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو ، چنانچہ اُس نے چکھنے کے لئے ذرا سی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آ رہی تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی۔ تو اِس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کاپتہ چلتا ہے، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے اِن سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہرحال اِس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیرمحدود اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ
پھر مَیں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں
میںحفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میسّر آ سکتے ہیں کیا اِس مینا بازار سے بھی ہمیںکوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں؟ سو اِس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میںلکھا تھا اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یٌّ عَزِیْزٌ ۷۹؎
فرماتا ہے یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میںرکھیں گے۔ اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہو گی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھا لا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگو ا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اُٹھائی ہے۔ پھر فرما تا ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو۔ یا د رکھو! اِس دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کامقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر ناواجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پریقینا قادر ہے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے، جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میںعبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں، عیسائیوں کے گِرجے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خداتعالیٰ کانام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں۔
فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ سچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اِس لئے اِس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کر تا ہے اور خدا بڑاہی قوی اور عزیز ہے ۔جس طرف خدا ہو جائے گا اُس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا۔
دشمنوں پرغالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار
یہ تو دفاعی جنگ ہے۔ مَیں نے سوچا
کہ اِس سامانِ جنگ سے تو میںدشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہؤا اِ س میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آئوں گا؟ کیا اِس مینا بازار میںکوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوارکی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَھُمْ لِیَذَّکَّرُوْا فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا- وَلَوْشِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیْرًا- فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا- وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۸۰؎
ان آیات میںپہلے پانی کا ذکر ہے جوکلامِ الٰہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیاہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتار تا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میںپھیلادیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے، مگر اکثر لوگ ۔ُکفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں مگر کلامِ الٰہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے ردّ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پرجان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا ۔ جو اس طرح ہؤا کہ کسی جوہری کے ساٹھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گِر گئے، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہوگئے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے؟ تو اُس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چند لڑکے ان ہیروں سے گولیاںکھیل رہے تھے، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ اس جوہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پُڑیہ میںتھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں، حالانکہ وہ پچاس ہزار روپے کا مال تھا۔یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جو سٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے او رجو نہ صرف اِ س زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کایاپلٹ دیتا ہے اُس کو ردّ کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے، تو فرماتا ہے اکثر لوگ ۔ُکفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجتے ۔یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حُجّتتمام کرنا چاہتے تو بجائے اِس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اُس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی،ہربستی میںایک ایک نذیر بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم کُفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیںہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمامِ حُجّتہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے۔ پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمامِ حُجّتکے بعد عذاب آجاتا ہے۔ اگر ہر بستی اور ہر گائوں میںاللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گائوں پر وہ عذاب نازل ہوتا جو اب براہ ِراست ایک حصۂ زمین کے مخالفوں پر نازل ہو تا ہے۔ پس ُتو اُن کافروں کی باتیں مت مان، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد۔ جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے (وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے۔مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو! بڑھو اور لڑو۔ اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ اے علماء! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہو اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طر ف بھاگتے ہیں) پس دنیا کے مینا بازار میںتو لوہے کی تلواریںملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ کیلئے لڑائی میںکام نہیں آ سکتی تھیں ،بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ُٹوٹ جاتی تھیں مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ُٹوٹ سکتی۔ تیرہ سَو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اِس تلوار کو توڑ دیں، اِس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اِسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اِس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ُٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ُٹوٹ سکی۔
جہاد بِالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے
یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیاکوفتح
کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اورجہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے۔ یہ وہ تلوار ہے کہ جوشخص اِس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو گا۔ اگر تیرہ سَو سال میںبھی ساری دنیامیںاسلام نہیں پھیلا تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار ُکند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا۔ آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہوسکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں، ہوش سنبھالنے سے لیکر بُڈّھے ہونے تک وہ نحو اور صَرف پڑھتے رہتے ہیںاور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اِس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیامیں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اِس کتاب میںموجود نہ ہو۔ اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پا سکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میںنہ پائی جاتی ہو۔ پھر فرماتا ہے وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دُنیا میں ملا دئیے ہیں۔ مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دنیا میںملاد ئیے ہیں ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے۔ وَھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے اور آگ کی طرح گرم۔ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا مگر باوجود اِس کے کہ دونوں سمندر ملا دئیے گئے ہیں اِس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے۔
دنیا میںقاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، مَیں ایسی چائے کو ’’منافق چائے‘‘ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بُلایا، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفا ق ایسا ہؤا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کوکیا کہتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اِس وقت پئے ہی جائیں۔ وہ دوست کچھ دلیر سے واقعہ ہوئے ہیں،مَیں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو،مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا۔
تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہرجب د و چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بد ل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہو گا کہ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔اے ملنے والو! تمہارے ملنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میںجذب ہو جائو بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو۔ دیکھ لویہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمٰن میںبھی ان الفاظ میںذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۸۱؎ کہ خدا نے دو سمندر اُس زمانہ میں بنائے ہونگے، ایک میٹھے پانی کا ہو گا اور ایک کڑوے پانی کا، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ وہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہو گی کہ میٹھا پانی کڑوے میںجذب نہیں ہو گا اور کڑوا پانی میٹھے میںجذب نہیں ہو گا۔
مغر ّبیت کی کبھی نقل نہ کرو
یہ پیشگوئی درحقیقت مغربیت اور دجّالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف
اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے ھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ۔ اور اُجَاج سے یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذْبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُوْرًا میں بتا دیا کہ تمہیں اِن قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا۔ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اَور ہو اور ہم اَور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے مَیںتحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے۔اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں، انہیں مغربیّت کی نقل نہیںکرنی چاہئے، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے۔مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ درحقیقت مِلْحٌ اُجَاجٌ ہیں، عَذُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے۔ـ
جماعت احمدیہ کے قیام میںایک بہت بڑی حکمت
ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے سوا ل کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کوکیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں؟ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھر اہؤا ہو اور اُس میں کھٹی لسّی کے تین چار قطرے بھی ڈال دئیے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے۔ تو لوگ اِس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے۔آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے۔ اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مِل جُل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے ّنقال ہوجائیں گے اور ہم بھی جہادِ قرآنی سے غافل ہو جائیں گے۔ پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغِ اسلام کا ہے ُبھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان ُبھول گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسّر آئیں وہ بھی سُست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے۔ پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ اِن دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا، کاش! دوسرے مسلمانوں میںبھی یہ ِ ّحس پیدا ہو۔
طبعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان
جب مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں
کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اِس وقت علم نہیں، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پید ا ہو جائے۔ پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے۔ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔
(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں ُبھوک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے۔ انسانی دماغ سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود ُبھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیںبلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور وفکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح بعض چیزیں انکار سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا ازالہ ہو۔ یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے ۔ گویا تقاضے دو قسم کے ہیں، ایک طبعی اور ایک عقلی۔ طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی، لیکن نیویارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیویارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیویارک دیکھوں۔ تو نیویارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے او ر روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی۔ نیویارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے تو ان دونوں تقاضوں میںفرق ہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پور ے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کرمر جائوں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اِس صورت میں بھی میر ا دماغ کمزور ہو جائے گا۔ پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہو اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو۔
قرآنی بشارت
مَیں اِسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ معاً میرے کان میں آواز آئی وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَ نْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۸۲؎
کہ جو جو چیزیںہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُ ن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں جیسے اشتہاء کہ وہ اندر سے پید ا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ ِ ّحس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے۔ گویا قرآن کریم نے اُن خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیںاور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے۔ یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریںتو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک حصہ کی خواہش انسانی قلب میںپائی جاتی ہے۔
حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش
عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی ِ ّحس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو
جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایامِ حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے۔ درحقیقت انسان کو خداتعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے اِس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہؤا ہو، یا چِکنی مٹی ہو اور سَو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں ُبھوک لگتی ہے اِس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہو تی ہے اور یہ خواہش اتنی سخت ہو تی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل ِگر جاتا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طبّ ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے یا مٹی میںکون سے ایسے اجزاء ہیںجن کا حاملہ عورتوں کو دِیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل ِگر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سردرد کا دَورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سردرد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دَورہ ہو جاتا ہے۔
تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ دنیا میںتو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا۔ عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے، مگر فرمایا وہاںجو بھی طبعی خواہش پیدا ہو گی اُس کو پورا کر دیا جائے گا۔
دماغی خواہشات کی تکمیل
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا
بھی سامان ہو۔پس مَیں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہو گی، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہو گی یا نہیں؟ اِس پر میں نے دیکھا تو اِس کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا تھا لَھُمْ فِیْھَا مَایَشَآئُ وْنَ۸۳؎ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ ّمشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، مگر اشتہاء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہو گی اور انسان کی مشیّت بھی پوری ہو گی۔ گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی اُن کی اِس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا۔
ہمارے خدا کا عجیب وغریب مینا بازار
میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو
ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی ہیں تو ضروری نہیںہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں۔ اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اُٹھا سکوں۔ مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میںبیمار ہو جاتا ہوں تو اِس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جائوں گا۔ مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اِس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اِس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینابازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لائو اپنا مال اور لائو اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کردوں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لائوں۔ اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو مَیں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو۔
غالب تھا تو شرابی مگراُس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:-
؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ
خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اُس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اُس کا ہے باوجود اِس کے کہ نہ مال اُس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اُس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سَودا کرنے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سَودا کر لو۔ مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو۔ پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو۔ اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تویکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے َطوق ، ساری زنجیریں، ساری بیڑیاں اور ساری ہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا بلکہ سارا مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہو گی تو وہ بھی پوری کی جائے گی۔اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے۔ اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلّی رکھنا، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا۔
جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الٰہی اسرار کا علم ہؤا تو مَیں اپنے اس ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا، سخت شرمندہ ہؤا۔ اور میں حیران ہوگیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا۔ جس چیز کو مَیں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطرناک غلامی تھی اور جس چیزکو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حُریّت تھی۔ میں شرمندہ ہؤا اپنے علم پر، میں حیران ہؤا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کرپائوں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عُریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بے اختیار مَیں نے کہا کہ اے میر ے آقا! یہ غلامی جو ُتو پیش کر رہا ہے، اِس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں۔ اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب عزیزوں اور دوستوں کو بھی۔بلکہ اے خدا! ُتو ساری دنیا کو ہی اپناغلام بنا لے تا کہ ہم سب اِس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں۔ پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ یٰٓـاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ- ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً - فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادیْ - وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ- اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان! آ آ اپنے رب کی طرف آ۔ ُتو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے۔ آ اور میرے بندوں میںداخل ہو جا اور آ میری جنت میں داخل ہو جا۔
اپنی جانیں اور اپنے اموال خداتعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو !
یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جو تمہارا خدا تمہیں
دینے کے لئے تیار ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔وہ اِس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو۔ وہ تم سے سَودا کرنا چاہتا ہے مگر سَودا کرنے کے لئے اُس نے خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے۔ پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا۔ مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کامطالبہ کر رہا ہے۔ تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اِس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جائو اور کہو کہ اے ہمارے آقا! آپ ہم سے اپنی ہی چیز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر نثار کر نے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لُٹانے کے لئے حاضر ہیں۔ جب تم اِس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائو گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چِھینا نہیں جاتا۔ مگر اِس ارادۂ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہار ا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس ابدی جنت میں داخل کر ے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیںاور جس کے مقابلہ میںدُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے۔ وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا، وہ تمہارے سلاسل اور آہنی َطوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا۔ تم پھر دنیا میں سربلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے، پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اُس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا، پس آئو ہم اُس کے حضور ُجھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمار ے آقا ! ُتو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے ، ُتواپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میںسُلگا ، ُتو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قُرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حُریّت وہی ہے جو تیری غلامی میںحاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تُجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس آئو اِس جُھوٹی حُریّت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کاموجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی میسّر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے۔
۱؎ عبس: ۲۰ تا ۲۲ ۲؎ الحج : ۷،۸
۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسراء یل
۴؎
البقرۃ : ۹
۵؎
التوبۃ : ۱۰۰
۶؎
الکھف : ۵۰
۷؎
ھود : ۱۱۲
۸؎
النباء : ۳۷
۹؎
المؤمن : ۴۱
۱۰؎
بنی اسراء یل : ۶۴
۱۱؎
المعارج:۳۶
۱۲؎
اٰل عمرٰن : ۱۱
۱۳؎
الصّٰفّٰت : ۷۹ تا ۸۱
۱۴؎
الصّٰفّٰت :۱۳۰تا۱۳۲
۱۵؎
الانبیاء : ۹۲
۱۶؎
العنکبوت: ۲۸
۱۷؎
الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۱۸؎
الاحزاب : ۵۷
۱۹؎
الحشر : ۱۱


۲۰؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۸۷۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ الرّعد : ۲۴ ،۲۵
۲۲؎ طپنچے: طپنچہ کی جمع۔ پستول۔ چھوٹی بندوق
۲۳؎ التوبۃ : ۱۱۱
۲۴؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ
۲۵؎ بخاری کتاب الصوم باب المجامع فی رمضان
۲۶؎
البقرۃ: ۴
۲۷؎
الاعراف: ۱۵۸
۲۸؎
الاعراف: ۱۹۷
۲۹؎ بخاری کتاب الادب باب اِکْرَام الضیف (الخ)
۳۰؎
الحج : ۴۸
۳۱؎
الفجر : ۲۸ تا ۳۱
۳۲؎
حٰمٓ السجدۃ : ۳۲
۳۳؎
الدھر : ۲۰
۳۴؎
البقرۃ : ۶
۳۵؎
الدھر : ۶
۳۶؎
الدھر : ۱۲
۳۷؎
الدھر : ۱۸
۳۸؎
الدھر : ۲۳
۳۹؎
الصّٰفّٰت : ۴۶
۴۰؎
محمّد : ۱۶
۴۱؎
البقرۃ : ۲۶
۴۲؎
محمّد : ۱۶
۴۳؎
البقرۃ : ۲۲۰
۴۴؎
محمّد : ۱۶
۴۵؎ المطفّفین : ۲۶ ، ۲۷
۴۶؎ َتلچھٹ : وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے۔
۴۷؎ دُرد : َتلچھٹ
۴۸؎ الصّٰفّٰت : ۴۸
۴۹؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۲۹۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۰؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۸۹۳۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۱؎
الطّور : ۲۴
۵۲؎
الدّھر : ۲۲
۵۳؎
المطفّفین : ۲۸
۵۴؎
المطفّفین : ۲۹
۵۵؎
الدھر : ۱۹
۵۶؎
الواقعۃ : ۲۱، ۲۲
۵۷؎
الطّور : ۲۳
۵۸
الدھر : ۱۵
۵۹؎
الواقعۃ : ۳۳ ، ۳۴
۶۰؎
محمد : ۱۶
۶۱؎
الحج : ۲۴ ، ۲۵
۶۲؎
الاعراف : ۲۷
۶۳؎
محمد : ۱۸
۶۴؎
اٰل عمران : ۱۰۷
۶۵؎
اٰل عمران : ۱۰۸
۶۶؎
النّحل : ۵۹
۶۷؎
القیامۃ : ۲۳

۶۸؎ لسان العرب المجلد الرّابع صفحہ۱۷۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء
۶۹؎ عبس : ۳۹ ، ۴۰ ۷۰؎ الغاشیۃ : ۹
۷۱؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۱۳۲۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۲؎ الواقعۃ : ۸۹ ، ۹۰
۷۳؎ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۷۴؎ الزمر : ۷۴ ۷۵؎ الدھر : ۱۶ ۷۶؎ الواقعۃ : ۱۶ ، ۱۷
۷۷؎ الغاشیۃ : ۱۴ تا ۱۷ ۷۸؎ الانعام : ۱۲۸ ۷۹؎ الحج : ۳۹ تا ۴۱
۸۰؎ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۸۱؎ الرحمٰن : ۲۰ ، ۲۱ ۸۲؎ الزخرف : ۷۲
۸۳؎ النّحل : ۳۲




جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء کے کارکنوں سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء کے کارکنوں سے خطاب
( خطاب فرمودہ۴؍جنوری۱۹۴۲ء بمقام مدرسہ احمدیہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مستورات کے جلسہ گاہ کے پہرہ کا انتظام اور زیادہ بہتر ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ اس کام کے لئے مُعَمّراصحاب مقرر کئے جائیں مگر نہ ایسے جو چلنے ِپھرنے اور خبر گیری سے معذور ہوں۔
خوراک کی پرچیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ اس دفعہ یہ انتظام بہتر صورت میں کیا گیا ہے مگر ابھی اور زیادہ بہتر بنانا چاہئے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس دفعہ کھانا کھانے والے مہمانوں کی تعداد ۲۳،۲۴ ہزار تھی اتنی ہی تعداد پرچیوں کے لحاظ سے بھی ہونی چاہئے تھی اور لنگر سے کھانا نہ کھانے والوں کی تعداد ملا کر ُکل تعداد ۳۰ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ زنانہ جلسہ گاہ اِس دفعہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ بڑھایا گیا تھا پھر بھی عورتیں بمشکل سما سکیں، مردانہ جلسہ گاہ بھی پُر تھا۔ خوراک کی پرچیوں کے متعلق احتیاط کرنے کے علاوہ مقامی جماعت نے اس بارے میں جو تعاون کیا ہے وہ بھی بہت مفید ثابت ہؤا ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ مرکزی جماعت میں کتنا اخلاص ہے۔ جب اسے نصیحت کی گئی کہ جس قدر ممکن ہو سکے کھانے میں احتیاط کی جائے اور کم سے کم خرچ ہو تو اِس پر عمل کیا گیا اور۲اور۳ہزار کے درمیان مہمانوں کا کھانابچ گیا۔ امید ہے اگلے سال اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ان اخراجات میں اور بھی کمی ہوگی۔ ہم یہ نہیں مان سکتے کہ اِس سال مہمانوں کے کم آنے کی وجہ سے خرچ کم ہؤا اور اگلے سال اس سے بھی کم آئیں گے اِس لئے اخراجات میں اور کمی ہو جائے گی۔ ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے یہی امید ہے کہ اگلے سال بھی پہلے سے زیادہ مہمان آئیں گے اور اس سال بھی باوجود کئی ایک مشکلات کے کم نہیں آئے۔ ہاں جس نسبت سے اِس دفعہ اخراجات کم ہوئے ہیں اگلے سال اِسی نسبت سے اور بھی کم ہوں گے۔ میں دوستوں کے اِس تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جو انہوں نے جلسہ کے اموال کی حفاظت میں کیا ہے اور انہیں عمدگی سے خرچ کرنے کی کوشش کی۔ میں اِجرائے پرچی کے محکمہ کے متعلق اظہارِ خوشنودی کرتا ہؤا دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ اس محکمہ میں کام کرنے والوں یا جو اَور کام کرنے والے آئیں اُن کو اِس سے بھی بہتر کام کرنے کی توفیق دے۔
سٹور کے متعلق میںایک بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کی طرف عزیز منصور احمد کے منہ سے نکلی ہوئی ایک بات کی وجہ سے توجہ ہوئی ہے اور وہ یہ کہ جلسہ کے بعدہر ایک نظامت کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ کس کس نظامت نے کتنے برتن لئے اور ان میں سے کتنے واپس کئے۔ اس طرح آئندہ اس مفید امرکے لئے راستہ ُکھل جائے گا کہ نظامتیں جلد سے جلد برتن واپس کریں گے اور ان کی حفاظت کا بہتر انتظام کیا جائے گا۔
اِس دفعہ مردوں اور عورتوں کے جلسہ گاہ کو دیکھ کر اول تو میرا خیال ہے کہ حاضرین کی تعداد میں گزشتہ سال کی نسبت کمی نہیں تھی اور اگر تھی تو بہت کم ( اِس موقع پر عرض کیا گیا کہ ریل کے ٹکٹوں کے لحاظ سے جو شمار کئے گئے اِس دفعہ کمی نہیں بلکہ کچھ زیادتی ہی تھی حضور نے فرمایا) یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ کئی وجوہ کے باوجود خداتعالیٰ نے آنے والوں کی تعداد میں کمی نہ ہونے دی۔ اِس دفعہ قحط، جنگ، رعائتی ٹکٹ نہ ہونے اور بیماریوں کی وجہ سے خیال تھا کہ شاید مہمان کم آئیں گے لیکن خداتعالیٰ کا یہ نمایاں احسان ہے کہ کمی نہیں ہوئی۔
دعا ہے کہ خدا جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو آئندہ اور بھی بڑھائے، جماعت کی قربانیوں اور خدمات میں بھی زیادتی کرے اور زیادہ اپنے قُرب میں جگہ دے تاکہ ہم وہ مقام حاصل کرلیں جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ سے راضی ہو جائیں۔ (الفضل ۶جنوری۱۹۴۲ء)




خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۱جون ۱۹۴۲ء)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میری غرض اس جلسہ میں شامل ہونے سے یہ تھی کہ میں دیکھوں خدام الاحمدیہ کو کس طرح تنظیم کا کام سکھایا گیاہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ تنظیم کے کام کی طرف سے عہدہ داران خدام الاحمدیہ کو ُ ّکلی طور پر غفلت ہے۔ حالانکہ کوئی خدمت صحیح طورپر نہیں ہوسکتی اور کامیاب طورپر نہیں ہوسکتی جب تک لوگ تنظیم کے ماتحت کام کرنے کے عادی نہ ہوں۔ خدام الاحمدیہ کی غرض یہ ہے کہ علمی طورپر بھی جماعت کے تمام افراد کو سلسلہ اور اسلام کے مسائل سے واقف کریں اور عملی طورپر بھی جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ احساس پیداکریں کہ وہ ضرورت کے موقع پر ِبلا دریغ اور ِبلا وقفہ خدمت کیلئے حاضرہوجائے۔
تنظیم کی غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک وقت کے اندر کئی آدمیوں سے اس رنگ میں کام لیاجائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھا کام کرسکیں ورنہ ہوسکتاہے کہ عدمِ تنظیم کی و جہ سے طاقت بٹ جائے اور بجائے فائدہ کے نقصان پہنچ جائے مثلاً فرض کرو کہ کسی گائوں میں اچانک دوتین جگہ آگ لگ جاتی ہے اب اگر تنظیم نہ ہو تو بالکل ممکن ہے جہاں تھوڑی آگ ہو وہاں توسَو آدمی پہنچ جائیں اور جہاں زیادہ آگ ہووہاں دوچار آدمی ہی پہنچیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تھوڑی آگ جسے گھر والے بھی ُبجھا سکتے تھے وہاں زیادہ آدمی پہنچ جائیں گے اور جہاں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوگی وہاں کم آدمی پہنچیں گے اور آگ کو ُبجھا نہیں سکیں گے اس لئے آگ اِردگِرد پھیل کر کئی گھروں بلکہ ممکن ہے کہ سارے محلہ یا سارے گائوں کو ہی بھسم کرڈالے۔تو تنظیم کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جتنی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہو اُتنی طاقت استعمال کی جائے یعنی نہ تو ضرورت سے زیادہ طاقت خرچ کی جائے اور نہ ضرورت سے کم۔ دوسری غرض تنظیم کی یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ امداد کی فوری ضرورت ہوتی ہے اوراس قسم کے موقع پر بغیر تنظیم کے آدمی جمع کرنے مشکل ہوتے ہیں جب کسی کویہ علم ہی نہ ہو کہ میں ِکس کے پاس جائوں اورکسے بلائوں اور پھر اُسے یہ بھی خیال ہوکہ میں اگرکسی کو کہوں تونہ معلوم وہ میری بات مانے یانہ مانے تو وہ کیسے لوگوں کو جمع کرسکتاہے، لیکن خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے ماتحت ایک گروپ لیڈر فوراً اپنے گروپ کے دس آدمیوں کو بُلا سکے گا اور اُسے یقین ہوگاکہ وہ میری آواز پر اپنے تمام کام چھوڑ کر چلے آئیں گے۔ اورجس جگہ جانے کے لئے انہیں کہاجائے گا وہاں پہنچ جائیں گے۔ اِسی طرح اگرکسی کام کے لئے پچاس آدمیوں کی ضرورت ہوگی تو بجائے اس کے کہ پچاس آدمیوں کے پاس ایک شخص پہنچے صرف پانچ آدمیوں کو جو گروپ لیڈر ہوں گے کہہ دیاجائے گا کہ وہ اپنے اپنے گروپ لے کر فلاں مقام پرپہنچ جائیںاِس طرح جس کام کے لئے ان کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ فوری طورپر سرانجام دیاجاسکے گا مگریہ فائدہ ہم تبھی حاصل کرسکتے ہیں جب اِس طرز پر کام کرنے کی لوگوں کو عادت ڈالی جائے مگرآج مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہؤاہے کہ گروپوں کی تنظیم تک مکمل نہیں ہے اور گروپ کے ممبر بجائے ایک جگہ اکٹھے بیٹھنے کے ادھر اُدھر پھیل کر بیٹھے ہوئے تھے یہ بات تنظیم کے بالکل خلاف ہے اور اگر دشمن کسی مقام پر اچانک حملہ کردے توایسی تنظیم کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔ فرض کرو کہیں رات کو حملہ ہوجاتاہے یاکسی جگہ آگ لگ جاتی ہے اور گروپ لیڈر کو کہاجاتاہے کہ اپنے گروپ کو وہاں لے جائو تواگرتنظیم درست ہوتووہ فوراً انہیں ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائے گا لیکن اگروہ منظم نہ ہو بلکہ کوئی کہیں اور کوئی کہیں تووہ اِسی تلاش میں رہے گا کہ میرا فلاں ممبرکہاں ہے اور فلاں کہاں؟ اور جتنی دیر میں وہ اپنے گروپ کو اکٹھا کریگا اتنی دیر میں ممکن ہے آگ اپنا کام کرجائے یا دشمن اپنے حملہ میں کامیاب ہوجائے۔ میں نے اِسی نقص کودیکھ کر کہ لوگ متفرق طورپر بیٹھے ہوئے ہیں اپنے اپنے گروپ میں نہیں، تین منٹ کا وقت دیا تھا کہ اِس عرصہ میں وہ اپنے گروپوں میں چلے جائیں حالانکہ یہ بہت زیادہ وقت تھا دراصل ایک منٹ کے اندر اندر ہر شخص کو اپنے گروپ میں چلے جانا چاہئے تھا مگر باوجود اِس کے کہ میں نے تین منٹ کا وقت دیا پھر بھی بعض لوگ اپنے گروپ میں نہیں گئے حالانکہ موجودہ زمانہ کے سامانوں کے لحاظ سے تین منٹ کے اندر اندر قادیان جیسا قصبہ آدھا یا پورا جلایاجاسکتاہے۔ پس اگر ایسی ہی تنظیم ہوتو جتنی دیر گروپ لیڈر اپنے گروپ کو اکٹھا کرتے رہے ہیں اتنی دیر میں سارا گائوں جل کر راکھ ہوسکتاہے اور جتنی دیرمیں آج گروپ اکٹھے ہوئے ہیں اِتنی دیر میں ہوشیار دشمن سارے آدمیوں کو قتل کرسکتا ہے۔ مثلاً لڑائی کا وقت ہو، دشمن حملہ کے لئے سرپر آپہنچا ہو توجتنی دیر میں آج وہ اکٹھے ہوئے ہیں اتنی دیر میں ہوشیار دشمن ساروں کو تہہِ تیغ کرسکتاہے پس ایسی تنظیم کاکیا فائدہ یہ تومحض وقت کو ضائع کرنے والی بات ہے آئندہ جب بھی کوئی جلسہ یا اجتماع ہولازماً یہ بات ہونی چاہئے کہ ہر ممبر اپنے اپنے گروپ میں بیٹھے اور گروپ لیڈر جو بات کہے اُس کی اطاعت کی جائے۔ پھرجو لوگ ڈیوٹیوں پرمقرر ہیں اُن کے متعلق بھی یہ معلوم ہؤاہے کہ وہ کسی تنظیم کے ماتحت ڈیوٹیوں پرمقرر نہیںکیے گئے اور یہ غلطی زعماء سے ہوئی ہے کہ انہوں نے بعض آدمیوں کو ڈیوٹیوں پرتومقرر کردیاہے مگر گروپ لیڈروں کونہیں بتایا اِس وجہ سے گروپ لیڈروں کو پتہ ہی نہیں کہ بعض ممبرڈیوٹیوں پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں غیر حاضر ہیں اور زعیم کہہ دیتاہے کہ وہ غیر حاضر نہیں بلکہ ڈیوٹیوں پرمقرر ہیں حالانکہ تنظیم کے معانی یہ ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو گروپ لیڈر کی وساطت سے آدمی لئے جائیں۔ اگر کسی موقع پر زعیم کوکہاجائے کہ وہ اتنے آدمی فلاں جگہ بھجوادے توایسی حالت میں اگروہ کہتاہے کہ آدمیوں کیتعیین کرنا میرے لئے ضروری ہے تو وہ گروپ لیڈروں کو کہہ سکتاہے کہ فلاں فلاں آدمی کو بھجوادیاجائے اور اگروہ سمجھتاہے کہ گروپ لیڈر خود ہی ہوشیار ہیں اوروہ موزوں اشخاص کو فوراً بھجوادیں گے تووہ صرف اِتنا کہے کہ اِس قسم کے آدمیوں کو اتنی تعداد میں بھجوادیاجائے۔ مثلاً اگرپہرے کاکام ہوتووہ کہہ سکتاہے کہ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو مضبوط ہوں یا فرض کرو پیغام رسانی کاکام ہے تو اِس کے لئے خاص مضبوط آدمی کی ضرورت نہیں ہوتی اِس کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہوگی جس کی زبان بنک کے تالے کی طرح ہو وہ مرجائے، ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے مگرکسی شخص کو راز بتانے کے لئے تیارنہ ہو پس وہ کہہ سکتاہے کہ چونکہ پیغام رسانی کاکام ہے اس لئے ایسا شخص بھیجو جواِس کام کا اہل ہو۔ اِس رنگ میں اگر کام کیا جائے تو اِس کانہ صرف یہ فائدہ ہوگاکہ تنظیم ترقی کریگی بلکہ گروپ لیڈر کو ہر شخص کے کریکٹر کے پڑھنے کا موقع ملتارہے گا۔ اورجب گروپ لیڈر کوکوئی کام بتایا جائے گا تووہ فوراً سمجھ جائے گا کہ کون آدمی کس کام کا اہل ہے اورجو آدمی جس کام سے مناسبت رکھے گا اُس کے سپرد وہ کام کردے گا اور جب ان میں سے کسی کی کوئی کمزوری ظاہر ہوگی تووہ نگرانی کرکے اُس کی کمزوری کودور کرسکے گا۔ مثلاً اگرکسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو کہ وہ راز کی حفاظت نہیں کرسکتا توآئندہ وہ اِس کی ایسی نگرانی کرے گا کہ اُسے بھی راز کو محفوظ رکھنے کی عادت پیدا ہوجائے گی یا جب کسی کا پہرہ مقرر کریگا تودیکھ لے گا کہ آیا وہ سُست تو نہیں یا پہرہ کی اہمیت سے تو غافل نہیں کہ اسے پہرہ پر مقرر کیاجائے اوروہ اپنے مقام کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔ مثلاً ہوسکتاہے کوئی آدمی ہو تو مضبوط مگروہ سُست ہویا اُسے اپنے مقام سے چلے جانے کی عادت ہو اورجب اُس سے پوچھا جائے تووہ کہدے کہ میں پانی پینے چلاگیاتھا یا پیشاب کرنے چلاگیاتھا حالانکہ پہرہ کے معانی یہ ہیں کہ اگرکسی کا پیشاب نکلتاہے تونکل جائے،پیاس لگتی ہے تو لگتی رہے مگروہ اپنے مقام سے ہِلے نہیں جب تک اُس کاکوئی قائمقام نہ آجائے بلکہ پیشاب، پاخانہ تو الگ رہااگرنماز کاوقت آجائے تب بھی پہرہ دار کو ہِلنے کی اجازت نہیں ہے۔ہم جو خدام الاحمدیہ کو ٹریننگ دے رہے ہیں یہ کسی دُنیوی بادشاہت کی حفاظت کے لئے تونہیں ہم تو خدام الاحمدیہ کو اس لئے ٹریننگ دے رہے ہیں کہ اگر اسلام اور احمدیت کوکبھی خطرہ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے میدان میں نکل آئیں پس خدام الاحمدیہ کاکام دنیا کا نہیں بلکہ دین کاہے اوریہ بھی جہاد کا ایک چھوٹا ساشعبہ ہے آج چونکہ تلوار سے جہاد کا موقع نہیں اس لئے خدام الاحمدیہ کاکام اس جہاد کے قائم مقام ہے پس جس طرح جہاد کے موقع پرایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ اداکیاجاتاہے اسی طرح خدام الاحمدیہ کی ٹریننگ میں اگرکسی شخص کی کوئی نماز فوت ہوجاتی ہے اوروہ اُس وقت ڈیوٹی پرہے تواگر وہ اُس نماز کو دوسری نماز کے ساتھ ملاکرپڑھ لیتاہے تووہ ہرگز گنہگار نہیں کہلاسکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جہاد کے موقع پرایسا ہی کیا کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ توآپ نے چار نمازیں چھوڑ دی تھیں اور پھر ان سب کو ملا کرپڑھ لیا تھا ۱؎ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نمازکے اتنے پابند تھے کہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ اُسے نماز کی پابندی کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر احساس ہے مگرباوجود اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز نہیں، دونمازیں نہیں، تین نمازیں نہیں چار نمازیں چھوڑدیں اوربعد میںان کو جمع کرکے پڑھ لیا۔ پس اگرڈیوٹی پرموجود ہوتے ہوئے کسی شخص کی کوئی نماز رہ جاتی ہے تو اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اِس کے معنی یہ نہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا بلکہ صرف اتنے معنی ہیں کہ وہ اُس وقت نماز نہیں پڑھے گا بعد میںپڑھ لے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب جنگ سے فارغ ہوئے تو آپ نے چاروں نمازیں جمع کرلیں بلکہ بعض حالات میں آپ نے دوایسی نمازیں بھی جمع کی ہیں جو عام حالات میں جمع نہیں ہو سکتیں مثلاً عصر کی نماز مغرب کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بنوقریظہ پرحملہ کیا توآپ نے فرمایا اب ہم عصر کی نماز ان کے علاقہ میں جاکر پڑھیں گے۲؎ مطلب یہ تھا کہ لوگوںکوجلدی کرنی چاہئے اِس پربعض لوگ جو سامانِ جنگ جمع کررہے تھے اُنہیں وہاں پہنچنے میں دیر ہوگئی اورراستے میں ہی عصر کا وقت آگیا جب عصر کی نماز کا وقت تنگ ہونے لگا تو بعض نے کہا ہمیں یہیں نماز پڑھ لینی چاہئے اور بعض نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عصر کی نماز ان کے علاقہ میں پڑھی جائے گی توہم وہیں جاکرنماز پڑھیں گے چنانچہ بعض نے عصر کی نماز پڑھ لی اور بعض نے نہ پڑھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کی شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا جنہوں نے راستہ میں نماز نہیں پڑھی انہوں نے اچھا کیا۳؎ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جنہوں نے راستہ میں نماز پڑھ لی انہوں نے بُرا کام کیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں نے یہاں آکر نماز پڑھی ہے وہ گنہگار نہیں ہیں حالانکہ عصر کی نماز مغرب کے وقت میں نہیں پڑھی جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ جب سورج زرد ہوجائے تواس وقت نماز نہیں پڑھنی چاہئے۴؎ مگر باوجود اس کے جہاد کے موقع پر آپ نے ان کو اجازت دی اور نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کے فعل کی تحسین کی اوراُسے اچھا قرار دیا۔ توبعض کاموں کے وقت ایسے ہوتے ہیں جب عبادت کو پیچھے ڈال دیاجاتاہے اور جس کام میں انسان مشغول ہوتاہے اُسے عبادت میں ہی شامل سمجھا جاتاہے مثلاً پیچھے بعض خطرات کے موقع پرجب احرار کے اِس قسم کے منصوبے ُسننے میں آئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیت مبارک کو جلادیں یا اِس میں بم پھینک دیں تووہاں پہرہ کا انتظام کیا۔ اب پہرہ دینے والا بیشک نماز میں شامل نہیں ہوتا لیکن وہ خدا کے حضور جماعت میںہی شامل ہوتاہے اور اگراُسے دُکھ ہوتاہے کہ نماز جارہی ہے مگرباوجود اِس دُکھ کے وہ پھر بھی اپنے فرض کو ادا کرتاہے تواُسے دُہرا ثواب حاصل ہوتاہے گویا اگرتو اُسے یہ دُکھ نہیں کہ کیوں ایسے حالات پیداہوگئے ہیں جن کی وجہ سے انسان بعض دفعہ نماز باجماعت ادانہیں کرسکتا تواسے ایک ثواب حاصل ہوتاہے مگر جن کے دلوں میں یہ درد بھی ہوتاہے کہ بدقسمتی سے ایسے حالات پیداہوگئے ہیں کہ اب ہم میں سے بعض کو نماز جماعت کے ساتھ نہیںپڑھنی ہوتی بلکہ انہیںپہرہ کیلئے کھڑا رہنا پڑتا ہے تواُنہیں دو ثواب ملیں گے ایک نماز باجماعت کا ثواب اورایک اس دُکھ اوردرد کا ثواب................
........میری غرض آج کام کے دیکھنے سے یہی تھی کہ میں معلوم کروں خدام الاحمدیہ کوکس رنگ میں ٹریننگ دی گئی ہے مگر کام دیکھنے کے بعد مَیں افسوس کے ساتھ اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ کاکام بالکل صفر ہے۔ درحقیقت تنظیم ایسی ہونی چاہئے کہ ہر شخص حُکم ملنے پر فوراًاُس کی تعمیل کے لئے کھڑاہوجائے۔ اِسی طرح جب بیٹھیں توسب کو قطاروں کی صورت میں بیٹھنا چاہئے اوررایک قطار میں دو دوآدمی ہونے چاہیئں۔ آج اس صورت میں لوگ نہیں بیٹھے مگر مَیں اُمید کرتاہوں کہ آئندہ اِس ہدایت کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اِسی طرح مرکزی عہدے داروں کوباربار ماتحت مجالس میں جاکر ان کاکام دیکھنا چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں چونکہ صدراورسیکرٹری باربار محلوں میں جاکر مجالس کے کام کو نہیں دیکھتے اس لئے یہ نقائص واقع ہوئے ہیں پھر بعض گروپ لیڈر ایسے ہیں جو چھوٹے ہونے کی وجہ سے دوسروں کوحکم نہیں دے سکتے اور وہ ان سے ڈرتے ہیں۔ بعض آدابِ مجلس کا خیال نہیں رکھتے چنانچہ میرے سامنے ایک گروپ لیڈر نے اپنے ممبروں سے کہا اچھا یارو کھڑے ہوجائو حالانکہ یہ ہمارے ملک میں شرفاء کی زبان نہیں سمجھی جاتی اگرصدر اور سیکرٹری متواتر ماتحت مجالس کے کاموں کو دیکھتے توبہت سی غلطیوں کی اصلاح ہوجاتی۔ دفتری کام سے کبھی تنظیم نہیںہوسکتی۔ تنظیم تبھی ہوتی ہے جب افسر شامل ہوں اوران کے سامنے کام کیاجائے یا انہیں پتہ لگے کہ کام میں کیاکیا نقائص ہیں اور وہ کس طرح دُور کیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح مثلاً خاموش رہنا ہے۔ لوگوں کو ایسی ٹریننگ دینی چاہئے کہ جب خاموش ہونے کاوقت ہوتواُس وقت بالکل نہ بولیں۔ مَیں نے دیکھا ہے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اچھے پڑھے لکھے آدمی جمعہ کے دن خطبہ کے وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح طور پر حکم ہے کہ کوئی شخص نہ بولے اور سب خاموشی سے خطبہ سُنیں۵ ؎ اُس وقت بھی بول پڑتے ہیں۔ مَیں نے اِسی جمعہ میںدیکھا کہ ایک گریجوایٹ جو قادیان میں۱۴،۱۵سال سے بستا ہے خطبہ کے دَوران میںایک دوسرے شخص سے زبان سے یا اشارہ سے باتیں کررہا تھا اور مَیں دُور سے دیکھ رہا تھااسی طرح جمعہ کے دن مَیں نے ایک ناظر کو دیکھا وہ باربار سَر اورہاتھ مار مار کر بعض اور لوگوں کو بُلا رہے تھے کہ آگے آجائو حالانکہ یہ بالکل ناجائز ہے اشارے سے صرف منع کرنے کی اجازت کاحدیثوں میں ذکر آتاہے۶؎ یہ کہیں نہیں آتا کہ اشارے سے دوسروں کو بُلایابھی جاسکتاہے۔ یعنی اگرکوئی شخص خطبہ کے وقت بول رہاہو تو اسے منع کرنے کے لئے بھی دوسرں کو بولنے کی اجازت نہیں اُس وقت صرف خطیب کاکام ہے کہ وہ بولے یا پھروہ شخص بولے جسے خطیب نے اجازت دی ہو دوسرے لوگ بول کر منع بھی نہیںکرسکتے۔ ہاں اتنی اجازت ہے کہ ہاتھ کے اشارہ سے دوسرے کو روک دیں مگر ہاتھ کے اشارے سے احکام دینے کی اجازت نہیں لیکن لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیاہے کہ جب اشارے سے منع کرنے کی اجازت ہے تواحکام دینے کے لئے بھی ہاتھ سے اشارہ کرنا جائز ہے حالانکہ اشارے کی نفی کا حکم ہے مثبت کا حکم اشارے سے بھی نہیں سوائے اس کے کہ خطیب خود کہے یاایسے حالات پیداہوجائیں جن میں احکام کا تعطّل ہوجاتاہے۔ مثلاً خطبہ کے دَوران میں اگر کوئی شخص بیہوش ہوجائے تو وہاں شریعت کا حکم فوراً معطّل ہوجائے گا۔ اُس وقت اگرکوئی شخص اس کی مدد کے لئے دوسروں کو آوازیں بھی دے گاتویہ جائز ہوگا کیونکہ شریعت نے بعض مواقع کے متعلق کہہ دیاہے کہ وہاں میرا حکم بندہے تم جومناسب سمجھو کرو۔ پس اُس وقت چاہے کوئی بولے یا شور مچائے سب جائز ہوگا۔ غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی بڑی غرض نوجوانوں کی صحیح رنگ میں تربیت کرنا اورانہیںاس بات کی عادت ڈالنا ہے کہ وہ اپنی تمام حرکات ایک ضبط کے ماتحت رکھیں۔ دُنیا میںکئی تاریخی مثالیں اِس قسم کی ملتی ہیں کہ بادشاہ یا جرنیل گھوڑے سے گِرگیا اوراُس کی اپنی فوج اُسے کچلتی ہوئی گزر گئی، اُس کی وجہ یہی تھی کہ اُن میں تنظیم نہیں تھی اورانہیں اس بات کی عادت نہیں ڈالی گئی تھی کہ جب کہاجائے چلو توسب چل پڑیں۔عدمِ تنظیم کی وجہ سے کوئی کہتارُکو،رُکو اور کوئی کہتا آگے چلو، آگے چلو۔ اوراُن میں سے کوئی بھی یہ نہ سوچتا کہ اپنا جرنیل گِرا پڑا ہے اُسے تو اُٹھا لیاجائے توگروپ لیڈر کا حکم ماننے کی ہر شخص کے اندر روح پیدا کرنی چاہئے۔یہ گروپ لیڈر کو چاہئے کہ وہ حکم دے، ’’دَوڑو‘‘! اور جب دَوڑ رہے ہوں تویکدم حکم دے’’ٹھہرو‘‘ اور کبھی دَوڑاتے دَوڑاتے کہہ دے ’’دائیں طرف مُڑو‘‘ کبھی کہہ دے ’’بائیں طرف مُڑو‘‘ اوروہ سب کے سب حکم ملتے ہی اس کی اطاعت کریں۔ وہ کھڑا ہونے کے لئے کہے تو سب یکدم کھڑے ہوجائیں اورایک قدم بھی آگے نہ بڑھائیں۔ دَوڑنے کو کہے تو سب دَوڑنے لگ جائیں۔ اگراِس رنگ میں نوجوانوں کو ٹریننگ دی جائے تواُن کو ایسی عادت پیدا ہوجائے گی کہ اگر دودن کا دُودھ پیتا بچہ بھی گِر جائے گا اور انہیں حکم ملے گا کہ ٹھہرجائو تو یکدم سب کے قدم رُک جائیں گے لیکن اگریہ عادت نہ ہوتو ہو سکتاہے کہ تمہارا اپنا گروپ لیڈر یا تمہارا زعیم یا تمہارا سیکرٹری یا خدام الاحمدیہ کا اِس سے بھی کوئی بڑا افسر گِرجائے اورتم اپنے پیروں سے اُسے کُچلتے ہوئے گزرجائو تواس بات کی عادت ڈالنی چاہئے مگریہ عادت بغیر تنظیم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔ ہر گروپ لیڈر جہاں کہتاہے کھڑے ہوجائو، وہاں تمہارا فرض ہے کہ کھڑے ہوجائو۔ جب تمہیں دَوڑنے کے لئے کہے تو دَوڑ پڑو۔ اورجب دَوڑتے دَوڑتے ٹھہرنے کاحکم دے تو تم اُسی وقت ٹھہرجائوچلتے ہوئے دائیں یابائیں مُڑنے کوکہے تودائیں یا بائیں مُڑجائو۔ یہ فوجی پریڈ نہیں ہے کہ اس کے متعلق تمہیں یہ خدشہ ہو کہ گورنمنٹ نے اس سے روکا ہؤاہے گورنمنٹ نے صرف فوجی قواعد سے منع کیاہواہے۔ چلنے پھرنے سے نہیں روکا اوریوں اگردس آدمیوں کا اس طرح چلنا پھرنا منع ہوتو پانچ پانچ آدمی اِس رنگ میں مشق کرسکتے ہیں۔ اگر پبلک طور پر اِس قسم کی مشق کی ممانعت ہو تو گھروں میں یہ مشق کی جاسکتی ہے۔ بہر حال گورنمنٹ کاکوئی قانون ایسا نہیں ہوسکتاجو لوگوں کو باندھ کررکھ دے۔ اگرتم عقل سے کام لوتو گورنمنٹ کوئی ایسا حکم نہیں دے سکتی جس کے ہوتے ہوئے اپنی تنظیم کو مکمل نہ کیاجاسکتا ہو اور میں چیلنج دیتاہوں کہ کوئی مجھے گورنمنٹ کا ایساقانون بتائے جس کے ہوتے ہوئے جماعت کی تنظیم نہ ہوسکتی ہو۔ مَیں خداتعالیٰ کے فضل سے اِس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کے تمام قواعد کی فرمانبرداری کرتے ہوئے ہم جماعت کی تنظیم ہر رنگ میں کرسکتے ہیں صرف عقل سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تو بعض جگہ یورپ میں بھی اس طریق کو استعمال کیاجارہاہے مگر مَیں نے سب سے پہلے اِس گُر کو کشمیر میں برتا تھا جب حکو ِمت کشمیر نے بڑی سختی سے ریاست میں تقریریں وغیرہ روک دیں تومیں اُس وقت اُس تنظیم۷؎ کا صدر تھامَیں نے اشتہار دیا کہ گھر کے تمام لوگ رات کو ایک جگہ اکٹھے ہوجایاکریں اور بیوی بچے سب مل کر دُعا کیاکریں یااللہ! فلاں فلاں ظالمانہ احکام کے متعلق ُتو حکومت کو توفیق دے کہ وہ اُن کو بدل دے اور تیرے بندے امن اور چین سے زندگی بسر کر سکیں۔ مَیں نے اِس دُعا میں اُن تمام احکام کو یکجاکر کے لکھ دیا جن کو ہم روکنا چاہتے تھے اورمَیں نے کشمیروالوں سے کہا کہ وہ روزانہ یہ دُعا کیا کریں۔ اس طرح حکومت نے تقریروں سے منع کیا ہؤا تھا تا لوگوں میںجوش پیدانہ ہو مگر جب وہ سب مل کر روزانہ یہ دُعا کرتے تھے تواِس رنگ میں اُن کی پریڈ ہوجاتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ اگر، ّحکام ظالم ہوں تو تم دُعا کیاکرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اصلاح کردے اِس میں حکمت یہی ہے کہ اس طرح غصہ نکلتا رہتاہے اور اگر کوئی حاکم واقعی ظالم ہوتاہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی اصلاح کردیتا ہے یا اُس کے شر سے اپنے بندوں کو بچالیتا ہے اور اگر ظالم نہ ہو مگراُس کے متعلق غلط فہمی ہوئی ہو تو دعا کے ذریعہ اِس کا غصہ نکل جاتا اوراِس طرح اس کے دل کو ایک رنگ میں سکون حاصل ہوجاتاہے پس ہماری شریعت نے یہ بھی ایک علاج رکھاہے کہ جب تمہیں کسی پر زیادہ غصہ آئے تو تم سجدے میںگِرجائو اور خداتعالیٰ سے دُعائیں کرو۔ اِس طرح غصہ بھی نکل جائے گااور اصلاح بھی ہوجائے گی۔
تو اصل غرض خدام الاحمدیہ کے نظام کی یہی وجہ تھی مگراِس میں بہت کچھ ناکامی ہوئی ہے آئندہ کے لئے جو مَیں نے ہدایتیں دی ہیں ان پرعمل کرنا چاہئے اور فرمانبرداری اور اطاعت کا مادہ ہر شخص کے اندر پیداکرنا چاہئے.........س نظام کی پابندی کی عادت نوجوانوں میں پیدا کرو اور اس غرض کو باقی تمام اغراض پر مقدم رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ متواتر ایک سال سے میں مرکز والوں کو لکھ رہا تھا کہ تم خدام الاحمدیہ کا کوئی اجتماع کرو جس میں مجھے بھی بلائو تامَیں دیکھ سکوں کہ انہیں کس رنگ میں منظم کیا گیاہے۔مگر مجھے یہاں آکر کئی قسم کی کوتاہیاں معلوم ہوئیں اگر صدراورسیکرٹری باربار دَورہ کرتے اورا پنے سامنے خدام کو کام کرواتے تواِس قسم کی غلطیوں کو وہ خود بھی محسوس کر لیتے اور ان کو دُور کرنے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ دفتری رنگ میں حکم بھیج کر عمدگی سے کام سرانجام دیاجاسکتاہے حالانکہ اِس طرح کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ مَیں نے اس معائنہ میں ایک اور بات بھی محسوس کی جو شریعت کے تمام اصول کے خلاف ہے۔ یوں تو جائز ہے اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا کیا ہے مگر استثنائی حالات میں، قاعدہ ُ ّکلیہ کے رنگ میں نہیں اوروہ یہ ہے کہ بِالعموم جو گروپ لیڈر ہیں وہ لڑکے ہیں اورجو ان کے ماتحت ہیںوہ زیادہ تر تعلیم یافتہ یا زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے ہیں مَیں اس حکمت کو نہیں سمجھ سکا۔ ایک محلہ کے زعیم صاحب نے بتایاکہ گروپ لیڈر اُن کو بنایا گیا ہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں۔ یہ بات میرے لئے اِس لحاظ سے خوشی کاباعث ہے کہ ہماری آئندہ نسل نماز کی زیادہ پابند ہے مگر اس کے ساتھ ہی اگریہ درست ہوتو یہ بات میری آنکھیں کھولنے والی ہوگی کہ پُرانے آدمی نمازی نہیں ہیں۔ اگراِن کی یہ بات درست ہے کہ گروپ لیڈر ان ہی کو بنایا گیاہے جو نماز کے زیادہ پابند ہیں توماننا پڑے گا کہ جواِن گروپ لیڈروں کے ماتحت ہیں وہ نماز میں نسبتاً سُست ہیں اور یہ سخت افسوس کا مقام ہوگا۔ بہرحال شریعت نے اوّل تقویٰ والے کو فضیلت دی ہے پھر علم والے کواور پھر عمر والے کو اوریہی انہیں اپنے انتخابات میں مدّنظر رکھنا چاہئے۔ مگرگروپ لیڈر بِالعموم چھوٹی عمر کے ہیں اور بڑی عمر کے نوجوان اِن کے ماتحت ہیں چنانچہ آج بھی ستّر فیصد گروپ لیڈر ایسے ہی نظر آئے ہیںاورتیس فیصد کچھ بڑی عمر کے گروپ لیڈر تھے حالانکہ خدام الاحمدیہ میں ۔ُبڈھے توہوتے ہی نہیں سب نوجوان ہوتے ہیں۔پس یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بڑی عمر والے بوجہ ۔ُضعف یاکمزوری کے گروپ لیڈر نہ بن سکتے ہوں کیونکہ وہ سب نوجوان ہیں۔ ہاںاگر کوئی بیمار ہوتوالگ بات ہے مگر مَیں نے دیکھا ہے بِالعموم گروپ لیڈر چھوٹی عمرکے ہیں اور یہ ایک نقص ہے جس کو دُور کرنا چاہئے۔ اگرتو یہ انتخاب کی غلطی کا نتیجہ ہے تواس کی اصلاح ہونی چاہئے اور اگر یہ طریقِ عمل بڑوں کی کسی غلطی کے نتیجہ میں اختیار کیاگیاہے تواُنہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے آج تو سب ُگتھم ُگتھا بیٹھے ہوئے ہیں اور گروپ لیڈر اپنے اپنے گروپ کے ساتھ نظر نہیں آتے لیکن جیسا کہ مَیں نے کہاہے کہ آئندہ ایسا اجتماع ایک وسیع میدان میں ہوگا اور ہر گروپ الگ الگ دکھائی دے گا پس اگراُس وقت بھی گروپ لیڈر لڑکے ہی ہوئے تواُن کے لئے جوجماعت میں زیادہ علم والے یا زیادہ تقویٰ والے سمجھے جاتے ہیں کتنی شرم کی بات ہوگی۔ انہوں نے دنیا کوتواپنے ظاہر کی وجہ سے دھوکا دیامگر حقیقت یہ تھی کہ وہ جماعت میں اچھے کارکن نہیں تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ قاعدہ ُ ّکلیہ ہونا چاہئے کہ ہمیشہ بڑی عمر کے نوجوان گروپ لیڈر بنیں۔ مَیں نے اپنے خطبہ میںہی مثال دی تھی کہ اسامہ بن زیدؓ کو جن کی عمر۱۶سال تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر کا سردار مقرر فرمادیا تھا جس میں حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے حالانکہ اسامہؓ نہ تقویٰ میںاُن سے زیادہ تھے اورنہ جنگی فنون میں اُن سے زیادہ ماہر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس علاقہ میںیہ لشکر جارہاتھا اُس علاقہ میں حضرت اسامہؓ کے والد مارے گئے تھے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو دوباتیں بتانے کیلئے اسامہؓ کو اِس لشکر کا سردار مقرر فرمایا۔ اوّل یہ کہ ہمارے آدمی اگرمارے جائیں توہم اُن کے پسماندگان کی عزّت کرتے ہیں۔تم نے زیدؓ کو ماراتھا ہم نے اُس کے بیٹے اسامہؓ کو لشکر کاسردار بنا دیا۔ دوسرے یہ کہ ہم تمہاری ان تکالیف سے ڈرتے نہیں۔ تم نے زیدؓ کو مارا تھا اب اُسی کا لڑکااسامہؓ پھر تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے آرہاہے۔ پس اس انتخاب کے ذریعہ ایک طرف تو آپؐ نے یہ بتایا کہ ہمارے آدمی موت سے نہیںڈرتے باپ مراہے تو بیٹا اس کی جگہ آگیاہے اور دوسری طرف آپؐ نے یہ بتایا کہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنے والوں کی عزّت کرتے اوران کے پسماندگان کااحترام کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ تک اس لشکر میں شامل تھے حالانکہ اسامہؓ تقویٰ یا علم میں ان سے بڑھے ہوئے نہیںتھے تواستثناء بھی ہوسکتے ہیں مگر قاعدہ ُ ّکلیہ میں ہے کہ جس میں تقویٰ زیادہ ہو اُسے مقدم رکھا جائے۔ تقویٰ سے فیصلہ نہ ہوسکے تو پھر علم کو مقدم رکھاجائے گااورجسے زیادہ علم ہوگا اُسے ُعہدہ دیاجائے گامگر علم سے مراد کتابی علم نہیں بلکہ کام کرنے کی اہلیت اوراس کے لئے جس علم کی ضرورت ہو اس کی موجودگی مرادہے۔اگراس طرح بھی فیصلہ نہ ہوسکے تو جس کی عمر زیادہ ہواسے عہدہ دیاجانا چاہئے۔ چنانچہ نمازمیں شریعت نے یہی حکم دیاہے کہ جو شخص زیادہ متقی ہو یا زیادہ علم والاہو یا زیادہ عمر والا اسے امام بنانا چاہئے۔ یہی لیڈروں کے انتخاب کے متعلق اسلام کے اصول ہیں گو استثنائی حالات میں ان کے خلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگرکوئی شخص ایساہے جو ظاہری طورپرکسی فن میں ماہر ہے یا لوگوں میں بڑا مقبول ہے توخواہ وہ چھوٹی عمر والا ہی ہو اگراُس کو مقرر کردیا جائے تواِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہوسکتی مگرقاعدہ ُ ّکلیہ یہی ہونا چاہئے کہ گروپ لیڈروں کے انتخابات میںاسلام کے بیان کردہ اصول کو مدّنظر رکھا جائے۔ میں اُمید کرتاہوں کہ آئندہ انتظام زیادہ بہتر رنگ میں کیاجائے گا اور بیرونی جماعتوں میں بھی اِنہی اُصول کو رائج کیاجائے گا۔مَیں نے یہ بھی دیکھاکہ بعض گروپوں میں زیادہ نوجوان شامل ہیںاورجو تعداد مقررہے اُس کو ملحوظ نہیںرکھا گیا۔اس طرح بعض جگہ مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص کہتاہے میں فلاں گروپ میں شامل ہوں اور گروپ لیڈر کہتاہے کہ یہ میرے گروپ میں نہیں اِس قسم کی غلطیاں بھی نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ اس طرح انسان غلط فہمی میں رہتاہے اوراُس کا ذہن صحیح طور پر کام نہیں کرتا۔
پس خدام الاحمدیہ کی تنظیم مکمل ہونی چاہئے اس کے بعد اگلا قدم کام لینے کاہے اگرآئندہ کوئی موقع پیدا ہؤاتومَیں اس اگلے قدم کے متعلق مناسب ہدایات دُونگا اوربتائونگا کہ کام لینے کے مواقع کس طرح پیداہوسکتے ہیں اورجب کام لینے کے مواقع پیداہوجائیں توکس طرح کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ صرف تنظیم فائدہ نہیںپہنچا سکتی جب تک کام لینے کے مواقع نہ پیدا کئے جائیں اور نوجوانوں سے صحیح رنگ میں کام لے کر ان کی قوتوں کو بیدار نہ کیاجائے۔
فیِ الحال میں اِسی پر اکتفا کرتاہوں اور دُعا کرکے واپس جاتا ہوں اگرجلسے کا کوئی اور ّحصہ ہوتو وہ اس کے بعد کیا جاسکتاہے۔
۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۳۴۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب رجع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسَلَّمَ من الاحزاب (الخ)
۳؎
۴؎ ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ما جاء فی مواقیت الصَّلٰوۃ ۔
۵؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الاِنْصاتُ یَومَ الجُمعۃ ۔
۶؎
۷؎ آل انڈیا کشمیر کمیٹی: ۲۵؍جولائی ۱۹۳۱ء کو نواب سر ذوالفقار علی خان آف مالیر کوٹلہ کی کوٹھی پر شملہ میں ایک اجلاس ہؤا۔ جس میں ہندوستان کے بہت سے مسلمان لیڈر اور حضرت مصلح موعود شامل ہوئے۔ اجلاس میں طے پایا کہ ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی بنائی جائے جو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
علامہ اقبال، خواجہ حسن نظامی اور دوسرے مسلمان لیڈروں نے حضرت مصلح موعود کو اس کمیٹی کا صدر بنایا۔ (تلخیص از تاریخ احمدیت جلد ۵ جدید ایڈیشن صفحہ ۴۱۵ تا ۴۲۱)









ہمارا آئندہ رو یہ





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
ہمارا آئندہ رو یہ
(تحریر فرمودہ اگست۱۹۴۲ء)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
اپنے تازہ خطبہ کے بعد دُعائوں اور غور کے بعد مَیں اس نتیجہ پر ُپہنچا ہوں کہ کانگرس کی طرف سے جو مُلک میں تعطّل اور فساد پَیدا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اس بارہ میں ہمارے لئے دوراستے ُکھلے ہیں اور اِن میں سے کسِی ایک کا اختیا ر کرنا حکومت کے رویہ پر منحصر ہے۔ وہ دو راستے یہ ہیں۔
اوّل۔کانگرس کی فساد انگیز جدوجہد کا مقابلہ کرنا۔
دوم۔جماعتی طورپر اندرونی فساد کا مقابلہ کرنے میں حصہ نہ لینا اور صرف جنگ کے متعلق کوششوں میں حکومت کی مَدد پر اِکتفا کرنا۔ درحقیقت امرِ اوّل ہی ایک مکمل راستہ ہے لیکن اس بارہ میں ہمارا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ:
اوّل حکومت پہلے کانگرس سے جنگ شروع کرتی ہے اور وفادار جماعتوں کو اپنی مدد کے لئے بُلاتی ہے۔ پھر جب اپنے ہمسائیوں اور بسا اوقات اپنے عزیزوں سے لڑائی شروع ہوجاتی ہے گاندھی جی روزہ رکھ لیتے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور حرکت ہوجاتی ہے جو دل کی تبدیلی پر دلالت نہیںکرتی بلکہ صرف ایک دھمکی ہوتی ہے۔حکومت اس سے ڈر کر کانگرس سے صُلح کرلیتی ہے اور:
(الف) وہ تعاون کرنے والی جماعتیں جوایک غیر ُملکی حکومت کی خاطر اپنے عزیزوںاور دوستوں سے لڑنے پر آمادہ ہوجاتی ہیں نہایت شرمندہ ہوجاتی ہیںاور مہینوں اور سالوں اُن کو دوسرے لوگوں کی طرف سے طعنے ملتے ہیں۔
(ب)کانگرس کی منظّم جماعت ان کے خلاف ریشہ دوانی شروع کردیتی ہے اور وہی حکومت جس کی تائید کی وجہ سے وہ جماعتیں بدنام ہوتی ہیں ان وفادار جماعتوں کے خلاف کانگرسی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کارروائیاں شروع کردیتی ہے۔ جماعت احمدیہ کو اِس کا تلخ تجربہ حاصل ہے۔ جماعت احمدیہ نے متواتر کانگرس کے خلاف جنگ میں حکومت کا ساتھ دیا۔ کانگرس کا وہ حصہ جو مُسلمانوںمیں کام کررہا ہے احراری جماعت ہے یہ جماعت پہلے جماعت احمدیہ سے اچھے تعلقات رکھتی تھی۔ ۱۹۲۷ء کی تحریک میں میرے اشتہارات پر انہوں نے لَبَّیْکَکہتے ہوئے مُسلمانوں کی اقتصادی تحریک کی درستی کے لئے کام کرنا شروع کیا۔ اسی سال میں چوہدری افضل حق صاحب نہایت تپاک سے مجھے شملہ میں ملتے رہے اور انہوں نے بعض سفارشیں کرنے کی بھی مجھ سے خواہش کی جس کے مطابق میں نے کام کر بھی دیا۔اس کے بعد پھر کانگرس سے ہمارا مقابلہ ہؤا۔ یہ جماعت کانگرس سے مل گئی اور ۱۹۳۴ء میں اِس نے ہمارا مقابلہ شروع کیا۔ گورنر سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک اس کی امداد کرتے رہے اور عدالتوں میں اور عدالتوں کے باہر جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہم مسٹر بٹلر سابق نائب وزیر ہند کے ممنون ہیں جنہوں نے حکو ِمت ہند کی معرفت پنجاب کی حکومت کواِس طرف توجّہ دلائی اور اُس وقت کی حکو ِمت پنجاب نے غلط بیانی کرکے اپنی جان ُچھڑوائی اور حکو ِمت برطانیہ کو جواب دیاکہ ہم جماعت احمدیہ کو وفادار سمجھتے ہیں حالانکہ حکو ِمت پنجاب حکو ِمت ہند کو جو رپورٹیں بھجواتی رہی تھی ان میں بِالوضاحت جماعت احمدیہ کی وفاداری پر شکوک کااظہار کرتی رہی تھی۔ گزشتہ سے گزشتہ سال کے جلسہ پر جب سِول اینڈملٹری گزٹ کے نامہ نگار نے ایک معاندانہ اور جھوٹا نوٹ میری تقریر کی نسبت شائع کیا جس میںیہ ظاہر کیاگیاتھا کہ گویا میں نے حکومت کو دھمکی دی ہے کہ ہم کانگرس کی طرح عدمِ تشدد کے قائل نہیں اور ہم حکومت کا ۔ ّ تشدد سے مقابلہ کریں گے جو ایک صریح ُجھوٹ تھا اور ہمارے عقائد کے خلاف تھا تو اِس پر اُس وقت کے گورنر صاحب نے حکو ِمت ہند کواِس جھوٹے نوٹ کی طرف توجہ دلائی اور جو تردید میری طرف سے ہوئی تھی اُسے اِس رنگ میں پیش کیا کہ گویا میں نے بعد میں جھوٹ بول کر اپنی تقریر کی تردید کی ہے اور یہ گورنر صاحب اپنی خط وکتابت میں اپنے آپ کو میرا Very sincere friendلکھا کرتے تھے۔ تازہ واقعہ ڈلہوزی کا واقعہ ہے اِس میں ہمیں باغی بتانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کوشش کے پیچھے بعض مخالفینِ حکومت کا ہاتھ تھا جنہوں نے بعض پولیس افسروں سے مل کر یہ شرارت ہم سے وفاداری کا بدلہ لینے کے لئے کی تھی ۔
ان تمام واقعات سے ظاہر ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون سب سے بڑا جُرم ہے۔ گورنمنٹ کے مخالف ان باتوں کو نہیں ُبھولتے وہ بعد میں بدلہ لینے کی ہر تدبیر اختیار کرتے ہیں اور حکومت کے بعض افسر اِن کی پیٹھ ٹھونکتے اور وفاداروں کو باغی بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حالات کی موجودگی میں اگر کانگرس اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنائے اورایک عام شورش مُلک میں پیدا کردے تو چونکہ یہ اس کی آخری جنگ ہوگی وہ ان جماعتوں کے خلاف یقینانفرت کے جذبات سے بھرجائے گی جو اِس وقت اس کا مقابلہ کریں۔ حکومت کے استحکام کے لئے یہ قربانی کی جاسکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومت خود ہی چند دنوں کے بعد گاندھی جی کے روزہ سے ڈر کر کانگرس کے آگے ہتھیار ڈال دے تواِن تعاون کرنے والی جماعتوں کے لئے ہندوستان میں کونسی جگہ رہ جائے گی؟ وہ ایک لمبے عرصہ کے لئے ذلیل ہوجائیں گی اور مُلک میں اپنا وقار کھو بیٹھیںگی۔ پس ان حالات میں مَیں نے یہ فیصلہ کیاہے کہ باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم حکومت کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیںاور اپنے تمام ذرائع اس کے سپرد کرنے کے لئے آمادہ ہیں بشرطیکہ وہ اِس امر کا واضح الفاظ میں اعلان کردے کہ وہ مسٹر گاندھی کے روزہ سے ڈر کر یاکسی اور ایسی ہی تدبیر سے خائف ہو کر اِس وقت مُلک میں فساد کرنے والوں کے آگے ہتھیار نہ ڈال دے گی اور ندامت کے اظہار یا اپنی غلطی کا اقرار لئے بغیر انہیں آزاد نہ کرے گی۔ اگروہ یہ اعلان کردے تو باوجود سابقہ تلخ تجربہ کے ہم اس کی جماعتی طورپر مدد کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ اگر ایسا نہ ہو توپھر یہی صورت ہمارے لئے باقی رہ جائے گی کہ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے ہم حکومت کی مدد کرتے رہیں گے لیکن اندرونی فسادات کے متعلق ہم غیر جانبدار کی حیثیت میں رہیں گے گورنمنٹ اور کانگرس آپس میں نپٹتے پھریں ہم جماعتی طور پر اِس جھگڑے میںکوئی ّحصہ نہ لیں گے۔ ہاں اگر منفردانہ طور پر جماعت احمدیہ کا کوئی آدمی گورنمنٹ کی مدد کرنا چاہے توہم اِس سے اُسے روکیں گے نہیں مگرکانگرس کی مدد کسی احمدی کو انفرادی طورپر بھی نہ کرنے دیں گے کیونکہ حکومت کا مقابلہ کرنا ہمارے مذہبی اصول کے خِلاف ہے۔
میرے مندرجہ بالا نتیجہ پر پہنچنے کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا آئندہ طریق عَمل حکومت کے فیصلہ پر منحصر ہے اگر حکومت اس امر کا اعلان کردے گی کہ توبہ کا اعلان کئے بغیر وہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی اور کانگرس سے ڈر کر اُس سے صُلح نہ کرے گی تو ہم ُپورے طَور پر اس کا ساتھ دیں گے لیکن اگروہ ایسا اعلان نہ کرے گی تو ہم اپنے قومی تعاون کو جنگی کوششوں تک محدود رکھیں گے۔
اب میں جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ چونکہ وقت تھوڑا ہے ہر جگہ کی جماعتوں کو اپنے آپ کو فوراً زیادہ سے زیادہ منظّم کرنا شروع کردینا چاہیئے تا اگر مُلک میں فساد ہو اور ہم حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں تو فوراً عملی کام شروع کیا جاسکے۔ اگراِس دفعہ ہندوستان میں فساد ہؤا تووہ پہلے فسادوں کی طرح نہ ہوگابلکہ غالباً بہت وسیع ہوگا اور باوجود کانگرس کے عدمِ تشددکے دعویٰ کے وہ خون ریزی اور قتل وغارت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا سو اس کامقابلہ کرنے سے پہلے ہمارے دوستوں کو اپنی جانوں اور مالوں کی قربانیوں کا تہیّہ کرنا پڑے گا۔ وہ لوگ ہر گز اس کام کے لئے تیار نہ ہوں جو دوسرے دن مجھے خط لکھنے لگیں کہ کانگرسی ہمیں ُیوں ستاتے ہیں اور ُیوں دُکھ دیتے ہیں مرکز ہماری مدد کرے۔ ان ُبزدل سپاہیوں کی اس جنگ میں ضرورت نہ ہو گی جو لڑائی پر جاتے ہوئے پہرہ کا مطالبہ کریں اُن کا مقام احمدیت میں نہیں ہے ان کو اپنی جانیں بچانے کے لئے ارتداد اختیار کرلینا چاہیئے کہ احمدیت کی بھٹی انہیں قبو ل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ہمیں اگر اس جنگ میں شریک ہونا پڑا تو اِس کی امید بھی نہ رکھنی ہوگی کہ حکومت ہماری مددکرے گی یامرکز ہماری مدد کرے گا بہادر اِن اُمور کی طرف نگاہ نہیں رکھتے وہ صرف ایک بات جانتے ہیں قربانی اور پھر قربانی ۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۴۲ء)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خدام الاحمدیہ سے خطاب





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْـمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰـنِ الـرَّحِیْـمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ سے خطاب
(فرمودہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۴۲ء بر موقع چوتھا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے معلوم ہؤا ہے کہ گزشتہ سال بیرونی خدام کی حاضری دوسَوپچاس کے قریب تھی اور اِس سال بیرونی خدام کی حاضری۳۸۶ ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قادیان کے اِردگِرد بہت سی نئی جماعتیں قائم ہورہی ہیں اوراِس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو روز بروز زیادہ مکمل ہوتے چلے جاناچاہئے میرے نزدیک یہ حاضری تسلّی بخش نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ ملازم پیشہ لوگوں کواِس دفعہ رُخصتیں نہیں مل سکیں مگر جہاں تک مَیں سمجھتا ہوں گزشتہ سال بھی ملازم پیشہ لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اِس لئے یہ اثر درحقیقت زمینداروں کی کمی کی وجہ سے پڑا ہے۔ ابھی مجھے بتایا گیاہے کہ ملازمت پیشہ لوگ باوجود رُخصت نہ ملنے کے زیادہ تعداد میں شریک ہوئے ہیں اِس لئے حاضری میں کمی زمینداروں کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اِس قسم کی ریلی میں یہ نہیں ہونا چاہئے کہ سارے خدام آئیں بلکہ ان کے نمائندے ہی اِس موقع پر آنے چاہئیں ہاں اگر کوئی شخص شوق سے آنا چاہے تو اُسے آنے کی اجازت ہونی چاہئے یہ پابندی نہیںہونی چاہئے کہ نمائندوں کے سِوا اور کوئی نہ آئے۔ پھر اُن نمائندوں کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ یہاں کی کارروائیوں کو نوٹ کریں او راپنی اپنی مجالس میں اِسی لائن پر خدام الاحمدیہ کا اجتماع کریں مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے جو شخص اپنی مرضی اورخواہش سے آنا چاہے اُسے روکنا نہیںچاہئے بلکہ اُسے بھی شامل ہونے کی اجازت دینی چاہئے۔(سوائے مجلس کے کہ جس میں صرف نمائندے ہونے چاہئیں ورنہ رائے شماری غلط ہوجائے گی) پھر یہ امر مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ صدر کے انتخاب کے موقع پر ہر جماعت کا ووٹ اُس جماعت کے افراد کے لحاظ سے شمار ہونا چاہئے درحقیقت اصول یہی ہوتا ہے کہ چونکہ جماعت کے تمام افراد جمع نہیں ہوسکتے اِس لئے اُن کانمائندہ جب کسی رائے کا اظہا ر کرتا ہے تو وہ رائے تمام جماعت کی سمجھی جاتی ہے اِس وجہ سے اُس کا ووٹ ایک نہیں ہوگا بلکہ جس قدر اُس جماعت کے افراد ہوں اُسی قدر اُس کے ووٹ سمجھے جانے چاہئیں۔ مثلاً فرض کرو لاہور کی جماعت والے کسی ایک شخص کو بھیج دیتے ہیں اور لاہور کی جماعت کے ممبر ڈیڑھ سَو ہیں تو جب ووٹ لیاجائے گااِس ایک شخص کا ووٹ ڈیڑھ سَو ووٹ کاقائم مقام سمجھا جائے گا۔ ایسے موقع پر پہلے سے آئندہ سال کے لئے عہدہ داروں کے نام منگوا لینے چاہئیں اور اُن ناموں کی بیرونی جماعتوں کو اطلاع دے دینی چاہئے کہ فلاں فلاں نام صدارت کے لئے تجویز کئے گئے ہیں ان کے متعلق اپنی جماعت کی رائے دریافت کرکے اپنے نمائندہ کو اطلاع دے دی جائے مگر اِس بات کا نہایت سختی سے انتظام کرنا چاہئے کہ انتخاب کے موقع پر کسی قسم کا پراپیگنڈا نہ ہو یہ اسلامی ہدایت ہے اور جو شخص اِس ہدایت کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ مجرم ہے۔ ہر شخص کی جو ذاتی رائے ہو وہی اُسے پیش کرنی چاہئے۔ جو شخص دوسرے سے یہ کہتا ہے کہ میرے حق میں ووٹ دو یا کسی دوسرے کی رائے کو کسی دوسرے کے حق میں بدلنے کی کوشش کرتاہے وہ قوم کا مجرم ہے اور ایسے شخص کو سخت سزادینی چاہئے تا کہ آئندہ جماعت کے قلوب میں یہ امر راسخ ہوجائے کہ ہم نے ایسے انتخابات میں کبھی بھی دوسرے کی رائے کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ جو ذاتی رائے ہو اُسی کو پیش کرنا ہے۔ ہاں جیسا کہ صحابہؓ کے طریق سے معلوم ہوتا ہے عین مجلس میں ایک دوسرے کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا حق حاصل ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جب خلافت کے لئے انتخاب ہؤا تو اِس پہلی خلافت کے موقع پر انصار اور مہاجرین دونوں گروہوں نے اپنے اپنے دلائل دیئے۔ مہاجرین نے اِس بات کے دلائل دئیے کہ کیوں مہاجرین میں سے خلیفہ ہونا چاہئے اور انصار نے اس بات کے دلائل دئیے کہ کیوں کم سے کم انصار میں سے بھی ایک خلیفہ ہونا چاہئے۔ انصار کہتے تھے کہ ہم اِس بات کے مخالف نہیں کہ مہاجرین میں سے کوئی خلیفہ ہو ہم صرف یہ کہتے تھے کہ ہم میں سے بھی ایک خلیفہ ہو اور مہاجرین میں سے بھی ایک خلیفہ ہو۔۱؎ غرض مجلس میں دلائل دیئے جا سکتے ہیں مگر یہ جائز نہیں کہ الگ اور مخفی طور پر دوسروں کو تحریک کی جائے کہ فلاں کے حق میں رائے دی جائے اِس قسم کاپراپیگنڈا اسلام کے بِالکل خلاف ہے۔ ہاں جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجلس میں آکر اپنے اپنے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں مثلاً فرض کروصدر کے انتخاب کے موقع پر کوئی شخص یہ چاہتاہے کہ نئے آدمیوں کوکام کرنے کا موقع دیاجائے تو وہ یہ دلیل دے سکتا ہے کہ میں پُرانے صدر کے خلاف نہیں مگر اِس بات کو بھی نظر انداز نہیںکیا جاسکتا کہ نئے آدمیوں کوکام کرنے کا موقع ملنا چاہئے تاکہ انہیں بھی تجربہ حاصل ہو اور وہ بھی اس قسم کی ذمہ واری کاکام کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص پُرانے صدر کا حامی ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب ایک شخص کو تجربہ حاصل ہو چکا ہے تواگر اسے ہٹا دیا جائے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے تجربہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتاہے۔ غرض اپنے اپنے رنگ میںدونوں فریق دلائل دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں بلکہ اس طرح علمی ترقی ہوتی ہے ہاں اُس وقت وقتی طورپر ایسا صدر ہونا چاہئے جو زبردست اور بارُعب ہو اور کسی کو مقررہ حدود سے باہر نہ نکلنے دے بلکہ جیسے پارلیمنٹ کے جلسوں میںایسے موقع پر صدر کو سپاہیوں کی ایک جمعیت دے دی جاتی ہے تاکہ اگرکوئی نافرمانی کرے تو پولیس کے ذریعہ اس کا تدارک کیاجائے اسی طرح انتخابات کے موقع پر جو وقتی طورپر صدر مقرر ہو اُس کے ساتھ بھی نوجوانوںکا ایک گروہ ہونا چاہئے تاکہ اگرکوئی شخص نافرمانی کرے تواُسے مجلس سے نکالا جا سکے یا اُسے مناسب سزا دی جائے۔ اِسی طرح دوسرے لوگ بھی صدر اُس وقت جو بھی حکم دے اُس کو دلیری سے اور بغیر کسی کے لحاظ کے پورا کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں اِس رنگ میں اگرکوئی کام کیاجائے اور باہر سے آنے والوں کی رائے اِن کی جماعت کی تعدادکو ملحوظ رکھ کر شمار کی جائے تواس طرح نہ صرف جماعتوں کو اُن کاایک حق دیاجاسکے گا بلکہ مرکز کو بھی آئندہ یہ خیال رہے گا کہ وہ ہر جماعت کی تعداد کو محفوظ رکھے۔ فرض کرو ایک شخص کہتا ہے ہماری جماعت کی تعداد دو سَو ہے ایسے موقع پر اگر مرکز کے پاس اس جماعت کی تعداد محفوظ ہوگی تووہ بتاسکے گا کہ یہ تعداد درست ہے یا نہیں یااس تعداد میں کتنی کمی بیشی ہے۔ پس اس کے نتیجہ میں ایک طرف تومرکز کو توجہ رہے گی کہ وہ تمام جماعتوں کوایک نظام کے ماتحت لانے کی کوشش کرے اور دوسری طرف جماعتوں کو یہ احساس پیداہوگا کہ ہماری جماعت کی تعداد زیادہ ہو اور ہم وقت سے پہلے پہلے اپنی تعداد کو درج رجسٹر کرالیں۔ پس ایک تو آئندہ سال سے اِس بات کا انتظام کرنا چاہئے دوسرے قادیان کے محلوں میں سے بھی ایسے موقع پر ان کے صرف نمائندے ہی آنے چاہئیں تاکہ جب انتخاب ہو تواُس وقت ہجوم نہ ہو۔ہر محلے والے اپنے اپنے آدمی بھیج دیں اوراُن کا فرض ہوکہ جب انتخاب کا وقت آئے تووہ اکثریت کی رائے کو پیش کردیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ کچھ لوگوں کی رائے ایک طرف ہو سکتی ہے اورکچھ لوگوں کی رائے دوسری طرف ہوسکتی ہے اور اس طرح ان لوگوں کوجن کی رائے عام انتخاب کے موقع پر نہ پیش کی جائے ِگلہ اور ِشکوہ پیدا ہو سکتاہے مگر بہر حال چونکہ عام طریق یہی ہے کہ اکثریت کی رائے کو پیش کیاجاتاہے اس لئے جماعت کی رائے وہی سمجھی جائے گی جو اکثریت کی رائے ہوگی۔ بے شک اکثریت کی رائے میں بھی نقص ہوسکتاہے مگر بہر حال اِس ناقص دنیا میںناقص قوانین میں سے جو زیادہ بہتر ہو اسی کو اختیار کیاجائے گا۔ پس قادیان سے بھی انتخاب کے موقع پر محدود آدمی شامل ہونے چاہئیں۔ مثلاً دارالرحمت والے ایک نمائندہ بھیج دیں‘ دارالانوار والے ایک نمائندہ بھیج دیں‘ اِسی طرح باقی محلوں والے ایک ایک نمائندہ بھیج دیں مگرعام ریلی کے سلسلہ میں قادیان والوں کو لازماًحاضر ہونا چاہئے اورجو باہر کی مجالس ہیں ان کے متعلق کوئی قانون مقرر کرلیاجائے مثلاً پچاس ممبروں پر وہ ایک نمائندہ بھیج دیں یا تیس ممبروں پر ایک نمائندہ بھیج دیں بلکہ ہوسکتا ہے آئندہ بڑھتے بڑھتے ہمیںفی ہزار ایک یا فی دس ہزار ایک نمائندہ لینا پڑے۔ مثلاً لاہور کسی وقت سارے کا سارا احمدی ہوجاتاہے اور لاہور کی آبادی پانچ لاکھ ہے تواس میں سے اگر تین لاکھ، پندرہ سے چالیس سال عمر والے سمجھ لئے جائیںاور نصف تعداد عورتوں کی نکال دی جائے تو ڈیڑھ لاکھ آدمی رہ جائیں گے اب اگر ہم سَوسَوپر ایک نمائندہ لیں تو ڈیڑھ ہزار نمائندے بن جائیں گے اور اگر دس دس ہزار پرایک نمائندہ لیںتو پندرہ نمائندے آئیں گے اسی طرح اگر کسی وقت لاہور میںخدام کی اتنی کثرت ہوجائے کہ ان کا کوئی ایک اجتماع نہ ہوسکے تووہ ایسے موقع پر محلہ وار نمائندے بھیج سکتے ہیں مگر بہر حال ان کے ووٹ اُسی قدر سمجھے جانے چاہئیں جس قدر ان کے حلقہ کی جماعت کی تعداد ہو۔ پس ایک تومیں یہ ہدایت دیتاہوں۔ دوسرے ریلی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ اِس میں قادیان کے سب لوگوں کو حاضر ہونا چاہئے مگر باہر سے صرف نمائندے بُلائے جائیں ہاں اگر کوئی شخص اپنے شوق سے آنا چاہے تواُس کے لئے شامل ہونے کا دروازہ ُکھلا رکھناچاہئے۔
اب مَیں خدام الاحمدیہ کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں میں نے کَل خدام الاحمدیہ کوکام کرتے دیکھا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہے کہ اِس دفعہ اصول کو مدنظر رکھ کر کام کیاگیا ہے چنانچہ جب مشاہدہ ومعائنہ کامقابلہ ہورہا تھا تومیں نے دریافت کیا کہ تم کس طرح اِس کے متعلق فیصلہ کرو گے؟ اِس پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے خود مشاہدہ ومعائنہ کرکے اِس کے بعض پوائنٹ مقرر کئے ہوئے ہیں جن کو دیکھ کرہم اِس بارہ میں آسانی سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح آواز کی بلندی کے مقابلہ میںایک ترتیب سے نشان لگائے گئے تھے اور اس میںتمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ آواز کی صفائی کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا اور آواز کے دُورتک پہنچنے کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا۔ گویا جو پہلو ضروری ہیں اُن کو انہوں نے ملحوظ رکھا تھا ایک کمی ہے جو دُور کی جانی چاہئے۔ آئندہ ہر بڑی جماعت کو ہرعملی مقابلہ میںاپنے نمائندے بھیجنے کے لئے مجبور کرنا چاہئے تاکہ تربیت کی طرف مجالس کو زیادہ توجہ ہو میرے نزدیک تمام مشقوں میں سے ایک نہایت ہی اہم مشق جس سے دشمن کے مقابلے میں فائدہ اُٹھایا جاسکتاہے اور جس کی طرف ہماری جماعت کے ہر فرد کو توجہ کرنی چاہئے حواسِ خمسہ کو ترقی دینے کی کوشش ہے یہ ایک نہایت ہی اہم اور ضروری چیز ہے میںنے افسوس سے یہ امرسُنا ہے کہ اِس دفعہ وقت کی کمی کی وجہ سے اِس قسم کے مقابلے کم رکھے گئے ہیں درحقیقت یہ توازن کی غلطی تھی ورنہ اِن مقابلوں کے لئے زیادہ وقت مقرر کرنا چاہئے تھا مثلاً ناک کی َ ّحس ہے یہ ایک اعلیٰ درجہ کی َ ّحس ہے اور اِس سے بڑے بڑے کام لئے جا سکتے ہیں ناک کی ۔ َ ّحس اگر تیز ہو تو اس سے صرف خوشبو اور بدبو کا ہی احساس ترقی نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتایا جاسکتا ہے۔ کہ کس کس قوم میں کس کس قسم کی ُبوپائی جاتی ہے۔ وحشی اقوام میں یہ َ ّحس اتنی تیز ہوتی ہے کہ سونگھ کر بتا دیتی ہیں کہ یہاں سے فلاں قوم کا آدمی گزراہے۔ مختلف قوموں میںخاص خاص قسم کی ُبو پائی جاتی ہے مثلاً مجھ پر یہ اثر ہے کہ میں جتنے انگریزوں سے مِلا ہوں مجھے اُن سے ایک قسم کی مچھلی کی ُبوآئی ہے۔ اب اگرمیرا یہ اثر صحیح ہو اور ہماری ناک کی َ ّحس تیز ہو تو خواہ ہماری آنکھیں بند ہوں ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریز کھڑا ہے یا اگر ہمارے قریب سے کوئی انگریز گزرے گا ہم فوراً پہچان جائیں گے کہ کوئی انگریز گزر رہا ہے۔ اِسی طرح افغانستان کے باشندوں میں مَیںنے محسوس کیا ہے کہ اُن سے اُس کھال کی سی جس پر برسات گزری ہو ُبو محسوس ہوتی ہے۔ اب اگر میرا یہ خیال صحیح ہو یا پچاس فیصدی ہی درست ہو تو کسی علاقہ میں سے گزرتے ہوئے اگر وہاں پٹھان ہوں گے ہم فوراً اپنی ناک کی َ ّحس سے پہچان لیں گے کہ یہاں پٹھان رہتے ہیں۔ فرض کرو پٹھا ن ہمارے دوست ہیں اور جنگ کے موقع پر ہمیں ان کی امداد کی ضرورت ہے تو ہم اپنی اس ناک کی َ ّحس سے کام لے کر فوراً اپنے دوستوں کو شنا خت کرلیں گے اور اُن کی مدد حاصل کرلیں گے اِس قسم کی ُبو کا احساس خصوصاً بندکمروں میںزیادہ ہوتاہے کیونکہ وہاں ُبو زیادہ دیر تک رہتی ہے بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعدبھی کسی کمرہ میں آئو اورتمہاری ناک کی َ ّحس تیز ہو تو تمہیں فوراً پتہ لگ جائے گا کہ اِس کمرہ میںکِس قسم کے لوگ ٹھہرے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے میرے کمرہ میں عِطر پڑا ہؤا ہوتاہے اور بعض دفعہ میری بیویاں وہاں آکر عطر لگاتی ہیں تو بعض دفعہ گھنٹوں بعدجب میں اُس کمرہ میں آتاہوں تو فوراً پہچان لیتاہوں کہ کسی نے یہاں فلاں عطر لگایا ہے حالانکہ وہ عطر گھنٹوں پہلے لگایا گیاہوتا ہے۔ اِسی طرح ہندوستانیوں اور انگریزوں کے عطر کی خوشبو میں فرق ہوتاہے ہندوستانی عام طور پر دیسی عطر لگاتے ہیںمگر انگریز ہمیشہ الکوہل سینٹس لگاتے ہیں بعض ہندوستانی بھی اگرچہ اب سینٹس لگانے لگ گئے ہیں مگر انگریز کبھی دیسی عطرنہیں لگاتے اب اگر کہیں سے ہمیں دیسی چنبیلی کے عطر کی خوشبو آئے یا دیسی گلاب کے عطر کی خوشبو آئے توہم فوراً فیصلہ کرسکتے ہیں کہ یہاں سے کوئی ہندوستانی گزرا ہے اسی طرح اور بہت سی معلومات خوشبوکے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیںاور بعض لوگ تواس َ ّحس کو ایسا تیز کر لیتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ ولایت میںجو خوشبو کے کارخانے ہیں اُن کا دارومدار ہی ایسے لوگوں پر ہوتاہے چنانچہ بعض کارخانوں والے ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ دے کر ایسے لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں جو خوشبو سُونگھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس میں فلاںفلاں چیزیں پڑی ہیںاور اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کسی ایک کارخانے کی خوشبو مشہور ہوجاتی ہے اب دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کی نقل کریںاور ویسی ہی خوشبو خودبھی تیار کریں اِس غرض کے لئے وہ ماہرین کو ملازم رکھتے ہیں۔ وہ لوگ ان خوشبوئوں کو سُونگھ کرجن کی نقل تیار کرنی ہو بتا دیتے ہیں کہ اِس میں فلاں فلاں چیزیں پڑی ہیں اس میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں مگر بہر حال انہیں خوشبو کی بنیادی اشیاء معلوم ہوجاتی ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اسی بنیاد پر خود بھی ویسی ہی خوشبو تیارکرلیتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کی مزے کی َ ّحس اتنی تیز ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے اور یہ َ ّحس بھی بہت حد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ کئی لوگ ایسے موجود ہیں جو دوائیاں چکھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس میںفلاں فلاں دوائیاں پڑی ہیں۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک طبیب کی کسی دوائی کا بہت شُہرہ ہوگیا مگروہ اس دوائی کا نسخہ کسی کو نہیںبتاتا تھا اُسی زمانہ میں ایک اور مشہور طبیب تھا جس کی مزے کی َ ّحس بہت تیز تھی اور وہ چکھ کر بتا سکتا تھا کہ اس میں فلاں فلاں دوائیاں پڑی ہوئی ہیں مگر اُس طبیب کو وہ دوائی ملتی نہیںتھی۔ جو مریض طبیب کے پاس آتا اُسے وہ اپنے سامنے دوائی ِکھلادیتا تھا ساتھ دوائی نہیںدیتاتھا اِس خوف سے کہ کہیں یہ دوائی دوسرے طبیب کے پاس نہ پہنچ جائے اوروہ اِس کا نسخہ نہ معلوم کرلے۔ اس طبیب نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے دوائی مل جائے مگرنہ ملی آخر وہ مریض اور اندھا بن کر اُس طبیب کے پاس گیا اور اپنی شکل میںبھی تبدیلی کرلی سر پر ایک بڑا سا کپڑا لپیٹ لیااور اندھا اور مریض بن کر اُس کے پاس پہنچا اور اپنے مرض کی علامتیں وہی بتائیں جن پر وہ دوائی استعمال کی جاتی تھی نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ دھوکے میں آگیا اور اُس نے ایک گولی اُسے دے دی اُس نے وہیں گولی اپنے منہ میںڈال لی اور منہ میں ڈالتے ہی دوائوں کے نام ِگننے شروع کردیئے یہاں تک کہ وہ ننانوے نام ِگن کر گیا جب ننانوے نام ِگن چکا تواُس کا سانس ُٹوٹ گیا۔ طبیب کہنے لگا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ انہیں سویں دواکا پتہ نہیں لگا اس نسخہ میںسَو دوائیں پڑتی تھیں ننانوے تم نے ِگن لیں سویں کا تمہیں پتہ نہیں لگ سکا اس لئے اب تم یہ نسخہ مکمل نہیںکرسکوگے۔ توایسے لوگ بھی ہیں جن کے چکھنے کی َ ّحس بہت تیز ہوتی ہے۔
ولایت میںشراب کے جو کارخانے ہیں اُن میںبعض دفعہ پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر ایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیںجو شراب کو چکھ کر یہ بتادیتے ہیں کہ یہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے اور فلاں شراب کا ذائقہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے ہمارے ملک کی شراب تو لسّی، دودھ اور شربت ہے اور ہمارے ملک نے اس میں کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ چاہے سَوسال کے ُپرانے برتن میں ہی لسّی کیوں نہ ہو وہ اُسے پی جاتے ہیں اور انہیں ذائقہ میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتامگر ولایت میں پانچ پانچ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پرایسے لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں جو شرابوں کو چکھتے رہتے ہیںاور چکھ کر بتادیتے ہیں کہ اِس شراب کامزہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے اور اِس شراب کا مزہ فلاں سن کی شراب سے ملتاہے بلکہ پانچ پانچ ہزار روپیہ تنخواہ کا بھی میں نے کم حساب لگایا ہے میں نے پانچ پانچ ہزار پونڈ سالانہ انکی تنخواہ پڑھی ہے اور اِس لحاظ سے انہیں پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ ماہوار ملتاہے۔ ان کاکام یہی ہوتاہے کہ سارا دن بیٹھے ہوئے شرابیں چکھتے رہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کا انگور فلاں سن کے انگور سے مشابہہ ہے اوریہ شراب فلاں سن کی شراب کے مطابق ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک شراب توپانچ روپے بوتل کے حساب سے فرورخت ہوتی ہے اورایک ویسی ہی شراب صرف ذائقہ کے تغیر کی وجہ سے دوسَوروپے بوتل کے حساب سے فروخت ہوتی ہے غرض چکھنے کی َ ّحس کو ترقی دے کر ایسے ایسے کام لئے جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ اِسی طرح کانوں کی َ ّحس ہے اِس کو بڑھا کر بھی حیرت انگیز کام لئے جاسکتے ہیں امریکہ کے ریڈ اِنڈینزنے اِس میں اتنی ترقی کی ہے کہ وہ زمین پرکان لگاکر یہ بتادیتے ہیں کہ اتنے سوار مثلاً دوچار میل کے فاصلے پرسے آرہے ہیں۔ اس کاراز یہ ہے کہ گھوڑوں کے چلنے کی وجہ سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے وہ حرکت دوسرے کو معلوم بھی نہیں ہوتی مگرانہوں نے کانوں کی َ ّحس بڑھا کر اِتنی مشق کی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ فوراً زمین پرکان لگاکر اس حرکت کو معلوم کرلیتے ہیں اور میلوں میل سے سواروں کے آنے کی آواز سُن لیتے ہیں زیادہ سوار ہوں توپانچ پانچ میل سے آواز سُن لیتے ہیں ایک دوہوں تو نسبتاً کم فاصلہ سے اوراگر کوئی پیدل آرہا ہو توبھی پچاس سَوگزکے فاصلے سے ہی اُس کے آنے کی آہٹ معلوم کرلیتے ہیں۔
اس کے بعد میں یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ یہ باتیں توتمہاری کھیلوں سے تعلق رکھتی ہیں اوراِن کا فائدہ تمہارے جسم کو پہنچ سکتاہے لیکن تمہارا کام صرف اِن کھیلوں کی طرف متوجہ ہونا اور اپنے جسموں کو درست کرنا ہی نہیں بلکہ تمہارا حقیقی کام اخلاقی اور علمی رنگ میں ترقی کرناہے۔ مَیں نے اپنے خطبات میں باربار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اِس وقت بھی مَیں ایک ٹریکٹ میں جو دفتر خدام الاحمدیہ نے شائع کیا ہے یہی پڑھ رہا تھاکہ خدام الاحمدیہ کو مذہبی، اخلاقی اور عملی رنگ میںکام کرنے کے لئے منظم کیا گیا ہے پس انہیں اپنے اس کام کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے انہیں چاہئے تھا کہ اِس موقع پر ان کاموں کے بھی مقابلے رکھتے جب خدام الاحمدیہ کا اصل کام یہ ہے توکوئی وجہ نہیں کہ تعلیمی اور اخلاقی اور مذہبی رنگ کے مقابلے ایسے اجتماع میں نہ رکھے جائیں میرے نزدیک آئندہ ایسے موقع پر بعض لیکچر ایسے رکھنے چاہئیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم کوبیان کردیاجائے۔ اِسی طرح بعض امتحان مقرر کرنے چاہئیںاور دیکھنا چاہئے کہ خدام الاحمدیہ کو احمدیت اور اسلام سے تعلق رکھنے والے مسائل سے کس حد تک واقفیت ہے۔ جس طرح آئی۔ سی۔ ایس میں ایک جنرل نالج کا پرچہ ہوتا ہے اِسی طرح احمدیت کے متعلق ایک جنرل نالج کا پرچہ رکھنا چاہئے اور مختلف سوالات نوجوانوں سے دریافت کرنے چاہئیں مثلاً یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتنی عمر تھی؟ یا آپ کے کسی الہام کو پیش کرکے پوچھ لیا جائے کہ اِس کا کیا مفہوم ہے؟ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کے متعلق دریافت کیاجائے کہ وہ کس موضوع پر ہے ؟یایہ دریافت کیاجائے کہ تمہارے نزدیک وفاتِ مسیح کی سب سے بڑی دلیل کیاہے؟ یا نبوت کی کیاتعریف ہے؟ یا ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد کِس قسم کی نبوت کوجائز سمجھتے ہیں اور کس قسم کی نبوت کو جائز نہیں سمجھتے؟ یہ اور اِسی قسم کے اور سوالات نوجوانوں سے دریافت کئے جائیں اور اِس طرح پتہ لگایاجائے کہ انہیں مذہبی مسائل سے کہاں تک واقفیت ہے۔ اِس طرح علمی مذاق بھی ترقی کرے گا اور جو لوگ ُسست ہونگے وہ بھی چُست ہوجائیں گے۔ اسی طرح اخلاق کے متعلق مختلف قسم کے سوالات دریافت کرنے چاہئیں۔ مثلاًیہ اگرتم کو کوئی شخص گالی دے تو تم کیاکروگے؟ یااگرتم کو کوئی شخص مارنے لگ جائے تو تم کس حد تک مار کھائو گے اور کس حد تک اس کا مقابلہ کروگے؟ اِسی طرح یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر تم دُشمن کا مقابلہ کرو تو کس حد تک اُس کا مقابلہ کرنا شریعت کے مطابق ہوگا اور کیسا مقابلہ کرنا شریعت کے خلاف ہوگا؟ یا اگر کوئی شخص گالی دے تو کس حد تک صبر کروگے اور کس حد تک خاموش رہنا بے غیرتی بن جائے گا؟ پھر یہ کہ اگر تم گالی کا جواب دو توکس حد تک شریعت تمہیں جواب دینے کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیں دیتی؟ ہمارے ملک میںعام طور پر چوہڑوں اورچماروں کی گالیاں ماںبہن کی ہوتی ہیں۔اب فرض کرو تمہارا ذہن کسی کی گالیاں سُن کر یہ فیصلہ کرتاہے کہ چُپ رہنا بے غیرتی ہے مجھے اِن گالیوںکا جواب دینا چاہئے تو ایسے موقع پر بے شک شریعت یہ کہے گی کہ اگر تم جواب دینا چاہتے ہو تو دو مگرشریعت اِس بات کو جائز قرار نہیں دیگی کہ تم بھی اُس کے جواب میں ماں بہن کی گالیاںدینے لگ جائو۔ یہ تو تم دوسرے کو کہہ سکتے ہو کہ تم بڑے کمینے اور بد اخلاق ہو تم نے بہت بڑا ظلم کیا جو ایسی گندی گالیاں دیںمگر شریعت تمہیں اِس بات کی اجازت نہیں دیگی کہ جس طرح اُس نے ماں بہن کی گالیاںدیں ہیںاِسی طرح تم بھی ماں بہن کی گالیاں دینی شروع کردو۔ پس نوجوانوں سے دریافت کرنا چاہئے کہ جب کوئی شخص تمہیں گالیاں دے تو کس حد تک شریعت تمہیں اس کے جواب کی اجازت دیتی ہے اور کس حد تک نہیںدیتی؟ اِن سوالات کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح جماعت کے نوجوانوںکے متعلق ہمیں یہ علم حاصل ہوتا رہے گا کہ وہ اسلامی مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں اور خوداِن کے دلوںمیں یہ احساس پیدا ہوگا کہ انہیںہر کام کے کرتے وقت اسلامی شریعت پر عمل کرنا چاہئے اور اسے کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیںکرنا چاہئے۔
پس یہ حصے بھی ریلی میںشامل ہونے چاہئیں اور میرے نزدیک اگران پر زور دیاجائے تو یہ حصے بھی ایسے ہی دلچسپ بن جائیں گے جیسے کھیلیںدلچسپ ہوتی ہیں۔ ایسا امتحان اگر توجہ کی جائے انسانی زندگی میں حرکت، دلچسپی اور سرور پیداکردیتاہے۔ امریکہ میںایک دفعہ حکومت نے ، ُجوئے کے خلاف قانون جاری کردیا۔ پولیس چلتی گاڑیوں میں ُگھس جاتی اور جب لوگوں کو ُجؤا کھیلتے دیکھتی تو انہیں فوراً گرفتار کر لیتی جب لوگوں نے دیکھا کہ اُن کی دلچسپی کا یہ سامان جاتا رہاہے توانہوں نے اپنی دلچسپی کے لئے ایک اور راہ نکال لی۔ چنانچہ ایک اخبار نے لکھا کہ آخر لوگوںنے اس قانون کا توڑ سوچ ہی لیا اور وہ اس طرح کہ جب انہوں نے دیکھا کہ پولیس ُجؤا وغیرہ نہیںکھیلنے دیتی توایک شخص نے ایک دن مصری کی ایک ڈلی نکال کر سامنے رکھ دی اور دوسرے کو کہا کہ وہ بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر رکھ دے او رپھر فیصلہ یہ کیا کہ جس کی ڈلی پر سب سے پہلے مکھی بیٹھے گی وہ جیت جائے گا اور اسے دوسرا شخص اتنے ڈالر انعام دے گا۔ غرض اس طرح انہوں نے کھیل کھیلنا شروع کردیا کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ ُجؤاکھیلاجارہا ہے وہ یہی دیکھتا کہ مصری کی دوڈلیاں پڑی ہوئی ہیں مگر درحقیقت ان مصری کی ڈلیوں سے ہی ُجؤاکھیلا جارہا ہوتاتھا مگرکسی کو پتہ نہیں لگتا تھا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اگر کبھی شور پیدا ہؤا توہم آرام سے مصری کی ڈلی اُٹھائیں گے اور منہ میں ڈال لیں گے ُجوئے کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا لیکن اِس معمولی سی بات نے ان میں غیر معمولی دلچسپی پیداکردی کیونکہ اب خالی مصری کی ڈلی کا سوال نہیںرہا تھا بلکہ اس کے ساتھ ُجوئے کو لگادیا گیا تھا او ر چانس اور عقل یہی دومقابلے انسانی زندگی کو دلچسپ بناتے ہیں۔ اب دیکھ لو وہی مکھی جو پہلے گزرتی تو کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اس مقابلے کے بعد کیسی دلچسپ چیز بن گئی اور کس طرح ہر شخص بے تابی اور اضطراب کے ساتھ مکھی کا انتظار کرتا ہوگا کبھی کہتاہوگا لو مکھی قریب آگئی لو اب تو بیٹھنے ہی لگی اور کبھی افسوس کے ساتھ کہتاہوگا مکھی آئی تو سہی مگرچلی گئی گویا یہ بھی ویسا ہی دلچسپ مقابلہ ہو گیا جیسے ُکشتیوں کا مقابلہ ہوتا ہے کیونکہ دلچسپی خون کے جوش سے پیدا ہوتی ہے اور جس مقابلہ میں انسانی خون کے اندر جوش پیدا ہوجائے اُسی مقابلہ میں انسان کو لذّت آنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس بے شک یہ سوالات علمی مذاق کے ہیںمگر اس علمی مذاق کوبھی دلچسپ بنایا جاسکتاہے صرف عقل اور سمجھ سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ عقل اورسمجھ سے کام لیتے ہیںوہ ہر کام میں دلچسپی پیدا کرلیتے ہیںاور جو عقل سے کام نہیں لیتے انہیںبڑے بڑے دلچسپ کاموںمیں بھی کوئی لذّت محسوس نہیںہوتی۔ دنیا میںہم دیکھتے ہیں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نماز کی ادائیگی بہت ہی گِراں گزرتی ہے اور وہ بڑی مشکل سے نماز اداکرتے ہیں لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہیں نماز میں ایسی لذّت آتی ہے کہ اس سے بڑھ کر انہیں اور کسی کام میںلذّت نہیں آتی۔ وہ نماز کو ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسے کوئی َتیر انداز نشانہ پر َتیر لگانے کی کوشش کررہا ہو جس طرح َتیرانداز کا جب کوئی ۔َتیر نشانہ پر جا لگتا ہے تووہ خوشی سے چِلّا اُٹھتا ہے کہ لو وہ َتیر نشانہ پر جا لگا۔اسی طرح نمازی اپنی ہر نماز پر خوش ہوتا اور فرطِ مسرت سے بے اختیار کہہ اُٹھتاہے میرا َتیر اپنے نشانہ پر جالگا اسی طرح سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ جو اُس کی زبان سے نکلتا ہے اِسے وہ صرف لفظوں کا مجموعہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے دل اور دماغ میں یہ خیال موجود ہوتاہے کہ یہ وہ خط ہے جومیں اپنے خدا کے پاس بھیج رہا ہوں پس ہر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ اُسے مزیدار لگتا ہے، ہر رکوع میںاسے مزہ آتاہے، ہر سجدہ میں اسے لذّت آتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے خدا کو بُلاوا بھیج رہا ہوں۔ اُس کا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہنا کیا ہوتا ہے؟ ایک خط ہوتا ہے ایک ِچٹھی ہوتی ہے جو وہ اپنے خدا کے پاس بھیجتا ہے اوراس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس کی مدد کے لئے آئے جیسے مچھلیاں پکڑنے والے دریا میں ُکنڈیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیںاور اگر ذرا بھی رسّی ِہلتی ہے تواُن کا دل دھڑکنے لگ جاتاہے کہ آگئی مچھلی۔ اسی طرح جب ایک مؤمن تسبیح کرتا ہے تو اُس کا دل دھڑکنے لگ جاتا ہے اوروہ خیال کرتاہے کہ اس کے نتیجہ میں میرا ربّ مجھ سے ملنے کے لئے آجائے گا۔ غرض انسان اگرچاہے تو اپنے ہرکام کو دلچسپ بنا سکتاہے اور درحقیقت یہ صرف خیا لات بدلنے کی بات ہوتی ہے۔ اگر ہم ضرورت اور اہمیت کو سمجھ لیں توہر چیز کو دلچسپ بنا سکتے ہیں پس ِعلمی اور اخلاقی مقابلے بھی دلچسپ بنائے جاسکتے ہیںاورمیں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ وہ ایسے اجتماع کے موقع پر اِس قسم کے مقابلے ضرور رکھا کریں۔ اسی طرح ہر سال اِس قسم کے سوالات بھی کرنے چاہئیں کہ بتائو اِس سال قرآن کریم کی سورتیں کس کس نے حفظ کی ہیںاور کتنی حفظ کی ہیں؟ پھر جو شخص سب سے زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے والا ثابت ہو اُسے انعام دیا جائے۔ اسی طرح احادیث کے متعلق سوال کیا جائے کہ اس سال کتنی احادیث حفظ کی گئی ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کے متعلق سوال کیاجائے کہ وہ کتنی پڑھی گئی ہیں؟ اس طرح نوجوانوں میںعلمی مذاق ترقی کرے گااور ہر سال ان کو یہ تحریک ہوتی چلی جائے گی کہ وہ مذہبی اور اخلاقی امور کی طرف توجہ کریں نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کا دین بھی ترقی کرے گا، تبلیغ بھی ترقی کرے گی اور اسلامی مسائل کی حقیقت بھی ان پر زیادہ واضح ہوجائے گی۔ اِسی طرح قرآن کریم کے ترجمہ کے متعلق ہر سال سوال کرنا چاہئے کہ خدام میں سے کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتاہے؟ فرض کرو اِس وقت مقامی اور بیرونی خدام آٹھ َنو سَو کے قریب ہیں توان سب سے دریافت کیاجاسکتاہے کہ اِن میں کتنے ہیں جنہیں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے بلکہ یہ سوال میں اِسی وقت کرلیتا ہوں تاکہ معلوم ہوکہ کتنے نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں (اس کے بعد حضور نے تمام خدام سے فرمایا کہ قادیان کے رہنے والوںمیں سے جو نوجوان سارے قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں اِس پر ۱۵۲نوجوان کھڑے ہوئے۔ پھر حضور نے فرمایا بیرونی خدام میںسے جن کو سارے قرآن کریم کا ترجمہ آتاہو وہ کھڑے ہوجائیں اِس پر صرف ۳۲ نوجوان کھڑے ہوئے۔ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا۔)
قادیان کے خدام میںسے ۱۵۲نوجوان ایسے ہیںجنہیںسارا قرآن شریف باترجمہ آتاہے اور بیرونی خدام میں سے صرف ۳۲۔ایسے ہیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہؤا ہے دیکھو یہ ہمارے لئے کیسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے اور کس طرح یہ افسوسناک حقیقت ہم پر روشن ہوئی ہے کہ ہم میں سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قرآن شریف اچھی طرح نہیں پڑھا۔ اب وہ نوجوان جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہؤا ہے کھڑے ہوجائیں وہ لوگ بھی دوبارہ کھڑے ہونے چاہئیں جنہوں نے سارا قرآن شریف پڑھا ہؤا ہے کیونکہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا ہؤاہے۔(اس پر قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ اور بیرونی خدام میں سے چالیس کھڑے ہوئے حضور نے فرمایا ۔)
قادیان کے خدام میں سے ۲۴۹ ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتاہے گویا سارا قرآن کریم پڑھنے والوں کے مقابلہ میں قریباً ایک سَو سے زیادہ ہیں اور بیرونی جماعتوں میں سے چالیس ایسے ہیں جنہیں پندرہ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے گویا ساراقرآن شریف پڑھے ہوئے نوجوانوں کے مقابلہ میں صرف آٹھ زیادہ ہیں۔ میںقادیان کے ان ۹۷ اور بیرونی مجالس کے آٹھ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود ہی غور کریں کس طرح دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اندر داخل ہونے سے محروم بیٹھے ہیں جب پندرہ سیپاروں سے زیادہ وہ قرآن شریف پڑھ چکے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ باقی قرآن شریف پڑھنے کی طرف بھی وہ توجہ نہ کریں۔ اب میرے پاس وقت نہیں ورنہ میں دریافت کرتاکہ دس سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کتنے نوجوانوں کو آتاہے؟ اور پھر دریافت کرتا کہ پانچ سیپاروں سے زیادہ قرآن کریم کا ترجمہ کن کن کو آتا ہے؟ تاکہ اگلی دفعہ اندازہ کیا جاتا کہ پانچ سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے بیس اور بیس سے تیس پارے کس نے پڑھ لئے ہیں بہرحال ہمیںقرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت میںکوئی ایک شخص بھی ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم نہ آتاہو۔اگر ہم کبڈی کے مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرہم دَوڑ کے مقابلہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تویہ کتنے افسوس کی بات ہوگی اگر ہم قرآن شریف کی تعلیم اور اس کے مطالب کو سمجھنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض چیزوں میں رشک جائز ہوتا ہے۲؎ اور انہی جائز باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دینی معاملات میں، نیکی اور تقویٰ کے امور میں اور اعمال صالحہ کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔۳؎ میں امید کرتا ہوں آئندہ سال نوجوان زیادہ سے زیادہ اس قسم کے مقابلوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے اور جماعتیں اس امر کو مدنظر رکھیں گی کہ اُن میں سارا قرآن شریف باترجمہ جاننے والے زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں۔ ہم لوگوں کی سہولت کے لئے یہ تجویز کرسکتے ہیں کہ قادیان کے جو محلے ہیں اُن میں بعض معلّم مقرر کردیئے جائیںجو دومہینے کے اندر اندر لوگوں کوقرآن شریف کا ترجمہ پڑھا دیں۔ میںسمجھتا ہوں اگر ترجمہ والا قرآن شریف سامنے رکھ لیا جائے تو تعلیم یافتہ انسان آسانی سے نصف پارہ کے ترجمہ کو روزانہ سمجھ سکتا ہے۔ ابتداء میںیہ خیال کرنا کہ قرآن شریف کا ایک ایک لفظ آجائے صحیح نہیں ہوتا اور جو لوگ اِس رنگ میں کوشش کرتے ہیں وہ ابتدائی پاروں میں ہی رہ جاتے ہیںکیونکہ وہ چاہتے ہیں ان پر ساری آیات پوری طرح حل ہوجائیں اور چونکہ ساری آیات اُن پر حل نہیں ہوتیں اس لئے وہ آگے نہیں پڑھ سکتے۔ میںنے بتایا ہے کہ میں اِس غرض کے لئے بعض علماء مقرر کر سکتا ہوںجو مختلف محلوں میں دوماہ کے اندراندر قرآن شریف کا ترجمہ لوگوں کو پڑھادیں۔ اسی طرح بیرونی جماعتیں اگر چاہیں تواُن کی تعلیم کے لئے بھی بعض آدمی بھجوائے جاسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی رہائش اور کھانے کا وہ انتظام کردیں۔ مگراِس قسم کے معلّم زیادہ نہیںمل سکتے دوچار ہی مل سکتے ہیں ان کے متعلق ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں دو ماہ کی تنخواہ تحریک جدید سے دلادی جائے اِس عرصہ میںوہ بیرونی جماعتوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھادیں گے اور پھر ہر سال اس تحریک کو جاری رکھاجائے گا تا کہ ہماری جماعت کے تمام افراد قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوجائیں۔
اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ خدام کی عمر ہی ایسی ہے جس میں مؤمن شکل اور مؤمن دل کا سوال پیدا ہوتاہے۔ دنیا میںکئی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں بعض تو ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی مؤمن ہوتی ہے اور دل بھی مؤمن ہوتاہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تومؤمنوں والی ہوتی ہے مگر دل کافرہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل تو کافروں والی ہوتی ہے مگر دل مؤمن ہوتاہے اور بعضوں کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے۔ گویا مؤمن دل اور کافر شکل، مؤمن شکل اور کافر دل اور مؤمن دل اور مؤمن شکل اور کافر دل اور کافر شکل یہ چار قسم کے لوگ دنیا میںپائے جاتے ہیں۔ جس کا دل بھی مؤمن ہے اور شکل بھی مؤمن ہے وہ بڑا مبارک انسان ہے کیونکہ اس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور اس کا باطن بھی اچھا ہے ایسا شخص جب خداتعالیٰ کی طرف جاتاہے تو اللہ تعالیٰ اسے پہچان لیتاہے اور کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے اور جب وہ بندوں کی طرف منہ کرتاہے تو بندے بھی کہتے ہیںیہ شخص خداتعالیٰ کے دین کا سپاہی ہے۔ اورجس کی شکل مؤمنوںوالی ہے مگر دل کافر ہے وہ جب دنیا کی طرف منہ کرتاہے تو لوگ کہتے ہیں یہ بھی اسلام کی شوکت کو بڑھانے کا موجب ہے مگر جب خداتعالیٰ کی طرف جاتاہے تو فرشتے اُس پر *** کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اسلام کا غدّار ہے اور جس کی شکل کافروںوالی ہے مگر دل مؤمن ہے اُسے جب مؤمن بندے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ اسلام کی شوکت کو کم کرنے کا موجب ہے مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتاہے تو اللہ تعالیٰ کہتاہے اِس بندے کا میرے ساتھ تعلق ہے مگروہ اس بات پر افسوس کرتاہے کہ یہ شخص اتنی دُور سے میرے ملنے کے لئے آیا لیکن دروازے پر آکر بیٹھ گیاہے ایک دو قدم اور اُٹھائے تو مجھ تک پہنچ سکتاہے مگروہ دو قدم نہیںاُٹھاتااور دروازے پر آکر بیٹھ جاتاہے۔ اِس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص ۱۷ سَو گز چل کر تو اپنے محبوب کے ملنے کے لئے چلا جائے مگر جب ساٹھ گز باقی رہ جائیں تو وہیں بیٹھ جائے ایسا شخص قریب پہنچ کر بھی خداتعالیٰ کے دیدار سے محروم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس کی حالت پر افسوس کرتا ہے کہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے تو آیا مگر چند قدم نہ اُٹھانے کی وجہ سے پیچھے بیٹھ رہنے پر مجبور ہوگیا۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل بھی کافروں والی ہوتی ہے اور دل بھی کافروں والا ہوتا ہے ایسے لوگوں سے کسی کو بھی دھوکا نہیں لگتا کیونکہ ان کا بھی ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں عیسائیت نے اگر دلوں کو کافر نہیں بنایا تو اس نے انسانی چہروں کو ضرور کافر بنادیاہے اور بہت سے نوجوان اس مرض میں مبتلاء ہیں کہ وہ مغربی تہذیب اور مغربی تمدن کے دِلدادہ ہورہے ہیں۔ وہ اپنے سروں کے بال اپنی داڑھیوں اور اپنے لباس میں مغرب کی نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان کی شکل کافروں والی بن جاتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۴؎ جو شخص اپنی ظاہری شکل کسی اورقوم کی طرح رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں یعنی جب ہم کسی کو دیکھیں گے کہ اُس کی شکل ہندئووں سے ملتی ہے یا عیسائیوں سے ملتی ہے تو ہمیں اُس پر اعتبار نہیںآئے گا اور ہم سمجھیں گے کہ یہ بھی اُنہی سے مِلا ہؤا ہے اور جب ہمیں اُس پر اعتبار نہیں آئے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی ذمّہ واری کاکام اُس کے سپرد نہیںکیاجائے گااور اِس طرح وہ نیکی کے بہت سے کاموں سے محروم ہوجائے گا۔ پس میں نوجوانوں سے کہتاہوں کہ وہ مؤمن دل اور مؤمن شکل بنائیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں۔ میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کردو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم، اسلام کے اخلاق، اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو۔بے شک تم اسلامی تمدن تبلیغ کے ذریعہ قائم کرو گے تلوار کے ذریعہ نہیں مگر تبلیغ کے لئے بھی تویہ بات ضروری ہے کہ ّمبلغ کی شکل مؤمنانہ ہو۔ پس مَیں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتاہوں کہ اُن کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہننے سے نہیں روکتا بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہر صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جائو مگر لباس میں تکلّف اختیار کرنا منع ہے۔ اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اُس پر گَرد تونہیں پڑگئی یہ ایک لغوبات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میںبعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میںیہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گَرد نہ پڑ جائے برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس قسم کی باتوں پر َصرف کردینا پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ میں نے خود کبھی کوٹ پر برش نہیں کروایا نہ میرے پاس اتنا وقت ہوتاہے اور نہ مجھے اِس بات کی کبھی پروا ہوئی ہے ممکن ہے میں نے چارکوٹ پھاڑے ہوں توان میں سے ایک کو کبھی ایک یا دودفعہ برش کیا ہو۔ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں مگر میں یہی کہا کرتاہوں کہ میرے پاس ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیںآپ کو اگر بُرا لگتاہے تو بے شک لگے۔ اِسی طرح کو ٹ کے گریبان پر گردن کے قریب بعض دفعہ میل جم جاتی ہے مگر میرے نزدیک وہ میل اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا میرا وقت قیمتی ہوتاہے ہاں اگر کوئی شخص اُس میل کو دور کردے یا کوٹ پر برش کرلیا کرے تو یہ منع نہیںہم جس چیز سے منع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان ظاہر ی باتوں کی طرف اتنی توجہ کی جائے کہ یہ خیال کرلیا جائے اگر ایسا نہ ہؤا تو ہماری ہتک ہوجائے گی۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں، فلاں قسم کی پگڑی نہیں اس کے بغیر ہم دعوت میں کس طرح شامل ہوں۔ حالانکہ انسان کے پاس جس قسم کا لباس ہو اُسی قسم کے لباس میں اُسے دوسروں سے ملنے کے لئے چلے جانا چاہئے۔ اصل چیز توننگ ڈھانکنا ہے جب ننگ ڈھانکنے کے لئے لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اِس لئے محروم ہوجاتاہے کہ کہتاہے میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلا ں قسم کا ُکرتہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے۔ اسی طرح اگرکسی کے پاس ٹوپی ہو تو اس کے لئے منا سب یہی ہے کہ وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لے لیکن اگر ٹوپی اُس کے پاس موجود نہیں تووہ ننگے سر ہی دوسرے کے ملنے کے لئے جاسکتاہے اگراس وقت وہ محض اس لئے کسی کو ملنے سے ہچکچاتا ہے کہ ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی تکلّف سے کام لینے والا سمجھا جائے گا۔ مجھ سے ایک دفعہ احمدیہ ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ صاحب نے دریافت کیا کہ بعض لڑکے ننگے سر اِدھر اُدھر چلے جاتے ہیں اور ٹوپی سر پر نہیں رکھتے اس بارہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا ٹوپی کے بغیر کہیں جانا اسلام کے خلاف نہیں لیکن یہ اسلامی تہذیب کے خلاف ضرور ہے انہیں چاہئے کہ وہ بِلاوجہ ایسا نہ کیا کریں۔ اگران کے پاس ٹوپی ہو تو سر پر ٹوپی رکھ لیا کریں ہاں اگر ٹوپی نہ ہو تو ننگے سر بھی جا سکتے ہیں بہرحال مغربی تہذیب سے متأثر ہوکر ہمیں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ مغربی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ ٹوپی کے اُتارنے میں عظمت ہے چنانچہ عیسائیوں میںجب بادشاہ کے سامنے لوگ جاتے ہیں تو ٹوپی سرسے اُتارلیتے ہیں اِسی طرح عورت کے سامنے جائیں گے تو ٹوپی اُتارلیں گے لیکن اسلامی تہذیب یہ ہے کہ ٹوپی پہننی چاہئے۔ یورپین تہذیب یہ کہتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ننگا رکھے لیکن اسلامی تہذیب یہ سکھاتی ہے کہ عورت اپنے سر کو ڈھانک کر رکھے چنانچہ فقہاء نے اِس بات پر بحثیں کی ہیں اور انہوں نے لکھا ہے کہ نماز میں عورت کے سر کے بال ننگے ہوں تو اُس کی نماز نہیں ہوتی پس میں نے انہیں کہا کہ آپ لڑکوں کو یہ بتائیںکہ اسلامی شعار ٹوپی پہننے میں ہے ٹوپی اُتارنے میں نہیں۔ہاں اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو تو وہ ننگے سر بھی مسجد میں نماز کے لئے جا سکتاہے۔ جس طرح یہ مغربیت ہو گی کہ کسی کے پاس ٹوپی ہو اور وہ پھر بھی اُسے نہ پہننے اور ہر وقت بالوں کی مانگ نکالنے، تیل ملنے اور کنگھی کرنے میں ہی مصروف رہے اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی نہ ہو اور پھر بھی وہ مسجد میں نہ جائے یا کوئی اور کام کرنے سے ہچکچائے تو یہ بھی اسلام کے خلاف حرکت ہوگی۔ جس طرح یہ اسلام کے خلاف ہے کہ کوئی شخص خاص قسم کی دھاری دارقمیص پہننا ہی ضروری سمجھے اور اگر اس رنگ کی قمیص نہ ملے توکوئی اور قمیص پہننا اپنے لئے ہتک کا موجب سمجھے اسی طرح یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا کہ کسی کے پاس قمیص توہو مگر وہ ننگے بدن ِپھرنے لگ جائے۔ اسلام جسمانی حُسن کی زیادہ نمائش پسند نہیں کرتا کیونکہ اس طرح کئی قسم کی بدیاں پیداہوجاتی ہیں لیکن اسلام یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی ننگے بدن ِپھرنے لگ جائے کیونکہ ننگے بدن ِپھرنا بھی کئی قسم کی بدیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ جس طرح اسلام یہ نہیں کہ خاص قسم کی پتلون ہو اُس میں کسی سلوٹ کا نشان نہ ہو اور اُس پر خاص قسم کا کوٹ ہو اسی طرح اسلام یہ بھی پسند نہیںکرتا کہ اگر تمہارے پاس پاجامہ نہ ہو تو تم یہ کہو کہ ہم تہہ بند باندھ کر کہیں نہیںجاسکتے۔اگر تمہارے پاس پاجامہ ہو اور تم پاجامہ کی بجائے لنگوٹی باندھ کرکہو کہ یہ سادگی ہے تو یہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا اور اگرتم خاص قسم کی پتلون اور کوٹ پر زور دو تویہ بھی اسلام کے خلاف ہوگا کیونکہ پاجامہ کے ہوتے ہوئے لنگوٹی باندھنا بھی ّتکلف ہے اور خاص قسم کے کوٹ اور پتلون پر زور دینا بھی ّتکلف ہے جس طرح یہ ّتکلف ہے کہ انسان شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گھنٹہ گھنٹہ دودو گھنٹے اپنی آرائش میں مشغول رہے اور اُسترے اور صابن سے اپنی داڑھی کے بالوں کو اس طرح صاف کرے جس طرح ماں کے پیٹ سے اس کے کلے نکلے تھے اسی طرح یہ بھی ّتکلف ہے کہ انسان ننگے بدن پر بھبوت۵؎ مل کر بیٹھ جائے وہ بھی ّتکلف کرنے والا ہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اور داڑھی ُمنڈا کر اور بالوں میںمانگ نکال کر اور نکٹائی پہن کر باہر نکلتا ہے اور وہ بھی ّتکلف سے کام لیتاہے جو باوجود مقدرت کے ننگے بدن لنگوٹی یا تہہ بند باندھ کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ پھر جس طرح وہ ّتکلف کرتاہے جو کوٹ اور پتلون پہن کر اس طرح چلتاہے کہ یہ معلوم نہیںہوتا کوئی آدمی چل رہاہے بلکہ یوں معلوم ہوتاہے کوئی مشین چل رہی ہے میں نے ہائوس آف لارڈز کے جلسوں میں انگریز نوابوں کو اس طرح چلتے دیکھا ہے مجھے تو اُن کو دیکھ کر ایسا ہی معلوم ہوتاتھا جیسے کوئی آدمی بیہوش ہو او ر اس کے ساتھ ڈنڈے باندھ کر کوئی َکل لگا دی گئی ہو بالکل معلوم ہی نہیں ہوتا تھا آدمی چل رہے ہیں ایسی آہستگی سے اور سوچ سوچ کر قدم اُٹھاتے ہیں کہ ان کا چلنا بھی ّتکلف معلوم ہوتاہے۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص بِلاوجہ دَوڑ پڑتا ہے وہ بھی ّتکلف سے کام لیتاہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دَوڑ کر نماز باجماعت میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے۶؎ کیونکہ یہ انسانی وقار کے خلاف ہے اوراس میں ّتکلف پایا جاتاہے۔ اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ ہم کسی بات میں غلوّ نہ کریں اور ہر بات میں نیچر اور فطرت کو ملحوظ رکھیں ہاںجس حد تک نیچر ہماری ترقی میں روک بنتا ہو اُس حد تک اس کو اخیتار کرنا ضروری نہیں مثلاً جسم کو ننگا رکھنا ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ جب ہر بات میں نیچرکوملحوظ رکھنا ضروری ہے تو جسم کو کپڑوں سے کیوں ڈھانکاجاتاہے ننگے بدن کیوں نہیں ِپھراجاتا سویہ بھی درست نہیں کیونکہ اِس حد تک نیچر کے پیچھے چلنا انسانی ترقی میں روک پیدا کرتا ہے۔ یہ نیچر کا فیصلہ بڑی عمر والوں کے متعلق نہیں بلکہ بچوں کے متعلق ہے۔اِسی طرح ناخن بڑھا لینا یہ بھی نیچر کا تتبّع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وحشی ثابت کرنا ہے گو آج کل مغربیت کے اثر کے ماتحت فیشن ایبل عورتوں نے بھی ناخن بڑھانے شروع کردئیے ہیں۔یورپین عورتیں تواس میں اس قدر غلوّ سے کام لیتی ہیں کہ وہ آدھ آدھ انچ تک اپنے ناخن بڑھا لیتی ہیں اور پھر سارا دن ان ناخنوں سے میل نکالنے، اُنہیں صاف کرنے اور ان پر رنگ اور روغن کرنے میں صرف کردیتی ہیں مگر وہ اتنا بڑا گڑھا ہوتاہے کہ آسانی سے تمام میل نہیں نکل سکتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ تو وہ میل نکالتی ہیں اور کچھ اس میل کو چھپانے کے لئے اُس پر روغن کرتی ہیں او ر چونکہ ناخنوں کی میل کی وجہ سے پھر بھی کچھ نہ کچھ بد ُبوآتی ہے اس لئے پھر یوڈی کلون کا استعمال کرتی ہیں گویا وہ اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصہ صرف ناخنوں کی صفائی پر ہی خرچ کردیتی ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو برباد کردیتی ہیں اس قسم کی باتوں میں دوسروں کی تقلید اختیار کرنامحض مغربیت ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں مغربیت کے اثر سے متأثر مت ہو تواس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ اپنے اوقات کو ظاہری جسم کی صفائی اور اس کے بنائو سنگھار کے لئے اِس قدر خرچ نہ کرو کہ اور کاموں میں حرج واقعہ ہونے لگ جائے اور تم دینی کاموں میں حصہ لینے سے محروم رہ جائو۔ مرد کا حُسن اس کے بنائو سنگھار میں نہیں بلکہ اس کی طاقت اور کام میں ہے چنانچہ وہ لوگ جو دنیا میں کام کرنے والے ہیں عورتیں اُن سے شادی کرنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں ان کے ساتھ شادی کرنے میں ان کی عزّت ہے وہ ایسے مردسے وابستہ ہونا کبھی پسند نہیں کرتیں جو محض ظاہری بنائو سنگھار کی طرف توجہ رکھتا ہو اور کام کوئی نہ کرتاہو۔ حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بسا اوقات پورے کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے مگر پھر انہی حدیثوں میں ہمیں یہ نظارہ بھی نظر آتاہے کہ مجلس لگی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ فرمارہے ہیں کہ اتنے میں ایک عورت آتی ہے اور کہتی ہے کہ یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ میں اپنا نفس آپ کو دیتی ہوں۷؎ غور کرو یہ کتنی بڑی قُربانی ہے میرے نزدیک اپنی زبان سے ایسی بات کہنا ایک عورت کے لئے ذبح ہوجانے کے مترادف ہے وہ آتی ہے اور اپنا نفس رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے لئے پیش کردیتی ہے حالانکہ اُسی مجلس میں اُس کا باپ موجود ہوتاہے اور اُس کا بھائی موجود ہوتاہے اور اُس کے اَور رشتہ دار موجود ہوتے ہیںآخر اِس کی کیا وجہ تھی؟ یہی وجہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ سُنتیں، آپؐ کی تقریریں سُنتیں، آپؐ کی خدمت اسلام کو دیکھتیں، آپؐ کے اُس سلوک کو دیکھتیں جو آپؐ بنی نوع انسان سے کیا کرتے تھے توان کی محبت جنون کی حد تک پہنچ جاتی اور وہ ہر چیز کو ۔ُبھول کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہہ دیتیں یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ہم آپؐ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک سے کس طرح شادی کرسکتے تھے آپؐ ان سے فرماتے کہ تم مجھے اپنے متعلق اختیار دے دو اور جب وہ اختیار دے دیتیں تو آپ ان کا کسی اور مناسب شخص سے نکاح کردیتے اس قسم کا کوئی ایک واقعہ نہیں ہؤا بلکہ ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں کہ مجلس لگی ہوئی ہوتی اور عورت آکر کہہ دیتی کہ یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ ! میں آپؐ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں قرآن نے بھی ان کی اس محبت کو بُرا نہیں سمجھا بلکہ فرمایا ہم تمہارے اِس فعل کو بُرا نہیں سمجھتے مگرایسا صرف ہمارے رسولؐ کو کہنا جائز ہے اور کسی کو تم ایسا نہیں کہہ سکتیں اور گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر ایسی عورتوں میں سے کسی ایک سے بھی شادی نہیں کی تاکہ لوگ اِس سے کوئی غلط نتیجہ نہ نکال لیں مگر قرآن نے اُن عورتوں کو بُرانہیں کہا بلکہ اِسے اُن کے روحانی عشق کا مظاہرہ قرار دیاہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جو سارا دن بنائو سنگھار کرتے رہتے ہیں اُن کو ایسی فدائی عورتیں کہا ں ملتی ہیں۔ پس درحقیقت مرد کا حُسن اُس کے کام میں ہے ظاہری بنائو سنگھار میں نہیں۔ مشہور ہے کہ عبدالرحیم خان خاناں جو ایک بہت بڑے جرنیل اور بڑے بہادر اور سخی گزرے ہیں انہیں ایک عورت نے لکھا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ عبدالرحیم خان خاناں نے لکھا کہ مجھے آپ اس بات میں معذور سمجھیں۔ وہ عورت کسی اچھے خاندان میں سے تھی اس نے پھر لکھا کہ میں تو مررہی ہوں اور چاہتی ہوں کہ آپ سے ضرور شادی کروں انہوں نے پوچھا کہ آخر مجھ سے شادی کرنے سے تمہاری غرض کیا ہے؟ وہ کہنے لگی میں نے آپ کے اخلاق، آپ کی شجاعت اور آپ کی سخاوت کو دیکھا ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ میری بھی ایسی ہی اولاد ہو۔ عبدالرحیم خان خاناں لطیفہ سنج تھے انہوں نے اُسے لکھا بیگم! یہ تو ضروری نہیں کہ اگرتم مجھ سے شادی کرو تو میری اولاد ضرور میرے جیسی ہی پیدا ہو ہاں چونکہ تم کومیرے جیسی اولاد کی خواہش ہے اسلئے میں آج سے آپ کا بیٹا ہوں اور آپ میری ماں ہیں جو خدمت مَیں اپنی ماں کی کیا کرتا ہوں آئندہ وہی خدمت میںآپ کی کیا کرونگا۔ تودیکھو یہ اخلاق کا ہی نتیجہ تھا وہ چونکہ اچھے اخلاق والا انسان تھا اس لئے اُس نے قلوب پر اثر ڈال لیا تو ظاہری بنائو سنگھار کی بجائے اچھے اخلاق دلوں پر اثر کیا کرتے ہیں اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو پھر بھی جو لوگ مضبوط جسم رکھنے والے اور اچھے کام کرنے والے ہوں اُن ہی کی زیادہ محبت قلوب میںپیدا ہوتی ہے اور محبت بڑی پاکیزہ اور ہر قسم کی گندگی سے ّمنزہ ہوتی ہے مگرجو شخص اپنا وقت چھوٹی چھوٹی باتوں میںضائع کردیتاہے وہ نیکی کے بڑے بڑے کاموں سے محروم رہ جاتاہے۔ پس مَیں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اپنے کاموں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کریں اور اپنے اعمال اسلام کی تعلیم کے مطابق بنائیں۔ چونکہ اب تین بجے کی گاڑی پر خدام نے واپس جانا ہے اسلئے میں اپنی تقریر ختم کرتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ اگلے سال خدام الاحمدیہ کو وہ اس سے بھی اچھا اور بہتر کام کرنے کی توفیق عطاکرے اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ۔
(الفضل ۸ نومبر ۱۹۴۲ء)
۱؎
بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْـلًا
۲؎
بخاری کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب الْقُرْآن
۳؎
وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ (البقرۃ:۱۴۷)
۴؎
ابو داؤد کتاب اللباس باب فی لُبْسِ الشُّھْرَۃِ
۵؎
بھبوت: وہ راکھ جو سادھو سنیاسی اپنے بدن پر ملتے ہیں۔
۶؎
بخاری کتاب الاذان باب لَایَسْعی اِلَی الصَّلٰوۃِ (الخ)
۷؎
بخاری کتاب النکاح باب تَزْویج الْمُعْسرِ








افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء
(تقریر فرمودہ ۲۵ دسمبر۱۹۴۲ء بر موقع جلسہ سالانہ)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مَیںاللہ تعالیٰ کا شکریہ ادانہیںکرسکتا اِس امر پر کہ اُس نے باوجود ہماری کوششوں کی کوتاہی اور ہماری تدابیر کی خامیوں کے جماعت احمدیہ کی روز افزوںترقی کا سلسلہ اِس سال بھی اپنے فضل وکرم سے جاری رکھا اور زندہ جماعتوں کی طرح آج جبکہ ہم پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیمہ کے مطابق ہماری جماعت کی تعداد اُس سے زیادہ ہے جتنی کہ پچھلے سال تھی۔ کئی نئی بستیاں اور نئے علاقے خداتعالیٰ نے احمدیت کے لئے فتح کئے ہیں اور جہاں پہلے احمدیت کا کوئی نام لیوا نہ تھا اب وہاں احمدیت پر ایمان رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل رہے گا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور جماعت کی روزافزوں ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ ہماری کوششیں تو محض رسمی طور پر اپنی عقیدت کا اظہار ہوتی ہیں ورنہ نتائج تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ظاہر ہورہے ہیں ہمیں صرف اِس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اُن وعدوں پر یقین کرلیں جو خداتعالیٰ نے احمدیت کے متعلق فرمائے ہیں۔ ان وعدوں پر یقین کرلینے سے ہمارے کام اور ہمارے عزم میں آپ ہی آپ ایک نمایاں فرق پیدا ہوتاچلاجائے گا۔ چین کا مصلح جسے ہم قرآن کریم کی اجمالی تعلیم کی روشنی میں نبی سمجھتے ہیں مجھے اُس کا ایک فقرہ بتغیّرِالفاظ احمدی جماعت کے لئے ایک مشعلِ راہ معلوم ہوتاہے کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ آپ سب سے زیادہ اہم مقصد اپنے سامنے کیا رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا ناموں کی طرف توجہ دلانا۔ پوچھنے والے نے کہا اِس میں اہمیت کی کونسی بات ہے؟ انہوں نے کہا ساری اہمیت اِسی میں ہے اگر دنیا میں بادشاہ اپنے نام ’’بادشاہ‘‘ کو یاد ر ّکھیں اور رعایا اپنے نام ’’رعایا‘‘ کو یادرکھے، باپ اِس بات کو یادرکھے کہ وہ باپ کہلاتاہے اور بیٹا اِس بات کو یاد رکھے کہ اُس کا نام بیٹا ہے، اُستاد اِس بات کو یاد رکھے کہ میرا نام اُستاد ہے اور شاگرد اِس بات کو یاد رکھے کہ اُس کانام شاگردہے تو یقینا دنیا کی اصلاح ہوجائے گی۔ساری خرابی اِسی وجہ سے پیداہوئی ہے کہ بادشاہ اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتا بلکہ ڈاکو خیال کرتاہے اور رعایا اپنے آپ کو رعایا نہیں سمجھتی بلکہ باغی خیال کرتی ہے، باپ اپنے آپ کو باپ نہیں سمجھتا بلکہ مستغنی سمجھتا ہے اور اولاد اپنے آپ کو اولاد نہیں سمجھتی بلکہ آزاد جماعت خیال کرتی ہے۔میرابھی یہ خیال ہے کہ ہماری جماعت کی ساری ترقی کی جڑ اِس بات سے تعلق رکھتی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو یاد رکھیں، ہمیں کسی نئے مقصد کو معلوم کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی نئے مقصد کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ سارے مقاصد جو ہمیں مدنظر رکھنے چاہئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں بیان ہوچکے ہیں اور خداتعالیٰ نے کھول کھول کربیان کردیاہے کہ ہمارا کیا مقصد ہے۔ اب اگر ہم مثلاً کوئی جلسہ کریں جس میںتبلیغ کے مسئلہ پر غو رکریں اور اس غرض کے لئے کوئی ایک میدان تجویز کرلیں تویہ بالکل فضول بات ہوگی کیونکہ خداتعالیٰ نے اِس مقصد کو ہمارے سامنے پہلے ہی رکھا ہؤا ہے اور پہلے سے اُس نے کہہ دیا ہے کہ:- ’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔‘‘ ۱؎
پس مقصد ہمارے سامنے موجود ہے کوئی خاص علاقہ یا کوئی خاص مُلک تبلیغ کے لئے تجویز کرنے کا سوال نہیں خداتعالیٰ نے ہمارا یہ مقصد قرار دیا ہے کہ ہم دنیا کے کِناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پہنچائیں۔اسی طرح اور تمام مقاصد جو اِس وقت ہمارے سامنے ہیں وہ سارے کے سارے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں اُن اعلیٰ مقامات تک بیان کردیئے گئے ہیں جن تک کسی زمانہ میں جماعت احمدیہ پہنچے گی۔ مثلاً تبلیغ کا ایک پہلو تو یہ بیان فرمایا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ اوردوسری طرف یہ بیان فرمایا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘ ۲؎
گویا پہلے الہام میں تو تبلیغ کے علاقہ کی وُسعت کا ذکر کیا اور دوسرے الہام میں ارتفاعِ مدارج کا ذکر کردیا یعنی احمدیت کی تبلیغ گِردو پیش تک ہی محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ ساری دنیا میں ہونی چاہئے نیز صرف غرباء اور عوام میں ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ نڈرہوکر بادشاہوں کو تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ اگر انہیں تبلیغ نہیں ہوگی تووہ احمدی کس طرح ہوںگے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت کس طرح ڈھونڈیں گے تو یہ سارے مقاصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں بیان کردئیے گے ہیں۔ اگر ان مقاصد پر ہمیں یقین ہو تو ہمارے اندر ایسی گرمی اور ایسا جوش پیداہوجائے جو اُن ساری غفلتوں اور سُستیوں کو دُور کردے جو جماعت کے ایک حصہ میں پائی جاتی ہیں۔دنیا میں ہمیں یہ ایک عام قاعدہ دکھائی دیتا ہے کہ جتنا بڑا کام ہو اُتنی ہی انسان اُس کے لئے جدوجہد اور محنت کرتاہے اور اگر کوئی بڑا مقصد سامنے نہ ہو تو ُچست توکام کرتے رہتے ہیں ُسست نہیں کرتے۔ پس یہ یقینی بات ہے کہ اگر بڑا مقصد سامنے ہوگا تو اِس کے لحاظ سے ہر شخص کے اندر خواہ وہ کس قدر ُسست کیوں نہ ہو کچھ نہ کچھ گرمی پیدا ہوجائے گی۔ ایک ُسست الوجود بعض دفعہ گھنٹوں چارپائی پر لیٹا رہتا ہے سو کر اُٹھتاہے تو پاخانہ پیشاب کے لئے بھی لیت ولعل کرتارہتا ہے اُس کے عزیز اور رشتہ دار باربار کہتے ہیں اُٹھو دیر ہورہی ہے ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرلو مگر وہ جلدی اُٹھنے کانام نہیں لیتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ لگا دیتا ہے لیکن جب ریل کے سٹیشن پر وہی ُسست انسان کھڑاہو تو اس وقت وہ ایسی ُسستی نہیں دکھاتا۔ بے شک یہ تو ہوجائے گا کہ ُچست آدمی سٹیشن پر پہلے پہنچ جائیں اور یہ بعد میں پہنچے مگر یہاں وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر نہیںلگائے گاکیونکہ وہ جانتاہے کہ یہاں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی دیر ُمہلک ہے منٹ دو منٹ کی ُسستی تووہ ضرور کرے گا مگرزیادہ نہیں کیونکہ اُس کے مقصد میں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ تو اگر مقاصدِ عالیہ ہماری جماعت کے سامنے ہوں تو جو لوگ ُسست ہیں اُن میں بھی نسبتی طور پر ُچستی پیدا ہوجائے گی اور جو ُچست ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ ُچست ہوجائیں گے۔
پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جب بھی کسی اجتماع میں شامل ہوں ہماری توجہ کا مرکز خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات ہوں اوروہ مقاصد ہوں جو خداتعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کئے ہیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کو ہماری جماعت اپنے سامنے رکھے توہم میں سے ہر شخص کے دل میں اندھا دُھند نہیں جیسے جاہلوں کا ایمان ہوتاہے بلکہعَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ یہ ایمان پیدا ہوجائے کہ یورپ میں اِس وقت جو جنگ ہورہی ہے وہ دنیاکے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ دنیا کا آئندہ فیصلہ اِس اجتماع پر ہوگا جو اِس میدان میں ہو رہا ہے۔ ہمارے نزدیک تووہ ایک کھیل کھیل رہے ہیں وہ جتنی تلواریں چلائیں، جتنی بندوقیں اورتوپیں چلائیں، جتنے طیارے بنائیں اور جس قدر بم پھینکیں سب ایک کھیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اِس کی مثال اِس سے زیادہ نہیں جیسے کوئی عظیم الشان عمارت یا بہت بڑا محل بننے والا ہو تو اُس کے ایک کونہ میں پاخانے کا کوئی حصہ بنایا جارہاہو اِس سے زیادہ موجودہ جنگ کی کوئی حقیقت نہیں ان کی سب کوششیں دھری کی دھری رہ جائیںگی اور یہ انقلابات اُس انقلاب کے مقابلہ میں رہیں گے ہی نہیں جو خداتعالیٰ کے مد نظر ہے۔ اگر یہ چیز ہماری جماعت کے دوستوں کے مدنظر رہے تو یقیناان میں ایسی َ ّحس پیدا ہوجائے کہ اِن کے ُسست بھی ۔ُچست ہوجائیں پس اِن مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ہمارے مقرروں کو چاہئے کہ وہ تقریریں کریں اور ان ہی مقاصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے سامعین کو چاہئے کہ ان تقریروں کو ۔ُسنیں اور یہ بات ہر وقت ذہن میں رہے کہ ہمارے سامنے وہ مقاصد نہیں جو ہم نے تجویز کرنے ہیں بلکہ ہمارے سامنے وہ مقاصد ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں خداتعالیٰ نے پہلے سے بتائے ہوئے ہیں ان مقاصد میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور اگر کوئی شخص ان مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد نہیں کرے گاتو خدا اُسے ابتلائوں اور امتحانات کے ذریعہ مجبور کرے گا کہ وہ اِن مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد کرے۔ جب آقا اپنے کسی خادم کو چھت پر چڑھانا چاہتا ہو اور خادم کسی ایک سیڑھی پر جا کر بیٹھ رہے تو اُس کا آقا اُسے مارکر کہتاہے کہ اُٹھ اور اوپر چڑھ پھر اگروہ کسی اور سیڑھی پر بیٹھ جائے تو پھر اُس کا آقا اُسے مارتاہے اور کہتاہے اُٹھ اور اوپر چڑھ اِسی طرح خداتعالیٰ ہمیں چھت پر لے جانا چاہتاہے اگرکوئی شخص راستہ میں ہی بیٹھ رہے گا تو خداتعالیٰ اُسے ٹھوکر مار کر کہے گاکہ اُٹھ اور آگے چل۔ وہ چاہے اِس کا نام ابتلاء رکھے چاہے امتحان رکھے، چاہے مصیبت اور تکلیف رکھے بہر حال یہ ابتلاء آتے چلے جائیں گے جب تک کہ وہ اوپر نہ چڑھ جائے۔
اِس نصیحت کے بعد اب میں دوستوں سے کہتاہوں کہ ہماری خواہش اور نصیحتیں سب بے کار ہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کی نصرت شاملِ حال نہ ہو پس آئو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہم چھوٹے چھوٹے ذہنی مقاصد کو ُبھول جائیں اور اُن عظیم الشان مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے ہیں اور جن کا آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے دنیامیں اعلان ہوچکا ہے۔ مقرر تو وہ روزِ ازل سے ہی تھے ابھی آدم بھی پیدا نہیں ہؤا تھا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ ایک زمانہ میں جماعت احمدیہ پیدا ہوگی او راُس کے ذمہ یہ یہ کام ہوں گے مگر اِس کا اعلان آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہؤا پس آئو ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اِن مقاصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور پھر اِن مقاصد کے مطابق عمل کرتے چلے جائیں۔ اِسی طرح دعائوں میں اُن دوستوں کو بھی مد نظر رکھیں جن کے دل جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے لئے تڑپ رہے ہیں مگر وہ جنگ کی وجہ سے کسی دُور دراز مُلک میں ہیں اور اِس وجہ سے وہ جلسہ میں شریک نہیں ہوسکے یا جنگی قیدی ہیں یا بیمار اور کمزور اور بوڑھے ہیں یا اُن کی مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ جلسہ میں آسکتے۔ یا مالی حالت اچھی تھی مگر انہیں ُچھٹیاں نہیں ملیں۔ ان تمام لوگوں کے لئے جن کے دل میں تڑپ تھی، آرزو تھی اور خواہش تھی کہ وہ قادیان پہنچیں مگرمجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنی خواہش کو پورا نہیں کرسکے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اِس صدمہ کے بدلہ میں اُنہیں بہتر سے بہتر انعام دے اور اپنی نعمتوں سے اُن کے گھروں کوبھردے تا کہ ان کے دلوں کو جو زخم پہنچا ہے اُس کے لئے تسکین کا سامان ہوجائے۔ پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کو یہاں آنے کی توفیق تو تھی مگر وہ نہیں آئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ُسستی اور غفلت کو دور کرے اور اُنہیں توفیق عطا فرمائے کہ وہ آئندہ کسی نیکی کے کام سے پیچھے نہ رہیں۔ اِسی طرح اُن لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن کے دلوں میں یہاں آنے کی خواہش ہی نہیں وہ علم رکھتے ہوئے ہم سے ُبغض رکھتے اور ہماری عداوت اور دشمنی میں حد سے بڑھے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوجائیںاور اِس حقانیت کے پھیلانے میں حصہ لیں جس حقانیت کے پھیلانے کی خداتعالیٰ ہمیں توفیق دے رہا ہے اور ہمارے ہم دوش ہوکر وہ بھی شیطان کا مقابلہ کریں۔ پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعاکریں جو قادیان میں رہنے والے ہیں اور جن پر مہمانوں کی خدمت کا بہت بڑا بوجھ ہے آجکل سردیوں اور بیماریوں کے دن ہیں مگر باوجود اِس کے بعض لوگ بیماری کی حالت میں بھی کام کررہے ہیں اور جس طرح باہر کے لوگ تکلیفیں اُٹھاتے ہیں اِسی طرح دیکھا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ کے بعد قادیان کے رہنے والوں میں سے بہت سے بیمار ہوجاتے ہیں پس دوست اِن کے لئے بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں پوری طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دے اور ہر قسم کے بداثرات سے جو اِن بیماریوں او رسردیوں کے دنوں میں ان کی صحت پر پڑ سکتے ہیں محفوظ رکھے۔ اسی طرح دوست دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایسے تغیرات رونما فرمائے کہ جن کے نتیجہ میں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار ہو اور پھر خدا اسلام کی بادشاہت کو اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شان وشوکت کے ساتھ قائم کردے جس طرح وہ آج سے ساڑھے تیرہ سَوسال پہلے قائم تھی اور وہ علوم جو پہلے زمانہ کے مناسبِ حال نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کریم میں مخفی کردئیے گئے تھے خداتعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق دے کہ ہم اُن کو ظاہر کریں اور قرآنی علوم کا وہ حصہ جو اِس زمانہ کے لئے ہے اُسے پھیلانے اور علوم کے اس خزانے سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی طاقت دے۔تاکہ وہ حصے جن کو پہلے لوگ روشن اور اُجاگر نہیں کرسکے تھے احمدیت کے ذریعہ پھر اُجاگر اور روشن ہوجائیں اور دنیا اِس بات کو تسلیم کرے کہ اس مالک وخالق خدا کے سِوا اور کوئی خدانہیں جسے اسلام نے پیش کیاہے اور اس ذاتِ بابرکات کے سِوا جو عرب میں ظاہر ہوئے اور جس کانام محمد تھا صلی اللہ علیہ وسلم دنیاکی راہنمائی کرنے والا اور کوئی رسول نہیں اور اُس کے خادم اور غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سِوا اُس کے پیغام کو پہنچانے والا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے لوگوں کو خدا سے ملانے والا اور کوئی نہیں۔ پس آئو ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ یہ سب کام اپنے فضل سے کردے اور ہماری حقیر اور ذلیل کوششوں کو وہ معزز اور برکت والا بنادے۔ اللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ (الفضل ۱۵؍جنوری۱۹۴۳ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۳۱۲۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ تذکرہ صفحہ ۱۰ ۔ ایڈیشن چہارم






مستورات سے خطاب
(۱۹۴۲ء)




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
( تقریر فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۲ء )
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میںنے ابھی موٹر پر آتے ہوئے دیکھا ہے کہ تمام سڑکیں اور بازار مردوں سے بھرے ہوئے ہیں اور جلسہ گاہ قریباً خالی پڑا ہؤا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ اِس وقت تمہاری بھی یہی حالت ہے۔ قادیان کا جلسہ ایک مذہبی فریضہ ہے یہ دین سیکھنے کی جگہ ہے کھیل ُکود کی جگہ نہیں میلہ نہیں کہ جس کی روٹیاں تم کھانے آتی ہو۔ ۳۶۵ دنوں میںسے ۳۶۲دن تم اپنے کاموں کے لئے خرچ کر دیتی ہو صرف ۳دن کے لئے تم قادیان میں آتی ہو وہ بھی اِدھر اُدھر ِپھر کر خرچ کردیتی ہو اور سمجھتی ہو کہ تم نے خداتعالیٰ کا حق پورا کردیا درحقیقت میرے قلب کی حالت اِس وقت ایسی ہے کہ میرا دل اِس وقت کوئی تقریر کرنے کو نہیں چاہتا اور جو کچھ میں اِس وقت کہوں گا اپنے نفس پر جبر کرکے کہوں گا۔
دیکھو! منہ سے باتیں کرنا کسی کام نہیں آتا دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی خواہ وہ دینی ہو یا دُنیوی جب تک اُس کا عمل اُس کے قول کے مطابق نہ ہو صحابہؓ کام زیادہ کرتے تھے اور باتیں کم قرآن کریم میں آتا ہے کہ منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق زیادہ باتیں کیاکرتے تھے، منافق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر کہا کرتے کہ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ُ تو اللہ کا رسول ہے، مؤمن تو بغیر قسمیں کھائے کہتے تھے مؤمنوں کے متعلق کہیں ذکر نہیں آتاکہ انہوں نے قسمیں کھائی ہوں لیکن منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں آتاہے کہ وہ قسمیں کھاکھاکر کہتے تھے کہ ُتو اللہ کا رسول ہے حالانکہ وہ جھوٹے ہوتے تھے۔ ۱؎
عورتوں کے لئے ایک بہت بڑے تغیر کی ضرورت ہے تمہاری حالت تو بالکل ُمردوں کی سی ہے نہ تمہارے دماغوں میں اتنی روشنی ہے کہ مفہوم کو عمدگی کے ساتھ سمجھ سکو، نہ تمہاری زبانوں میں اِتنی طاقت ہے کہ مَا فِیْ الضَّمِیْرکو ادا کرسکو۔کئی عورتیں آتی ہیںکہ جی ہم مصیبت زدہ ہیں ہماری بات سن لیجئے۔ وہ مجھے کئی ضروری کاموں سے روک لیتی ہیں۔ مرد ایسے دو سَو میں سے دس ہوتے ہیں مگرعورتیںسَو میں سے ّنوے ہوتی ہیں۔مَیں سَوکام چھوڑ کر اُس کی بات سنتا ہوں کہ احمدی جماعت میں سے ہے، مصیبت زدہ ہے۔ ہمدردی کروں لیکن وہ میرا وقت ضائع کردیتی ہے۔عورتیں بہت لمبی چوڑی باتیں شروع کردیتی ہیں۔ مثلاً میں فلاں کے گھر اُس کے جنوبی دروازہ سے اُس کے صحن میں داخل ہوئی، اُس کا صحن بس یہی کوئی تین چار چارپائیوں کا ہوگا صحن سے گزرکر مَیں برآمدہ میں داخل ہوئی پھر میں اندر گئی یہ طریقِ گفتگو بتاتاہے کہ کام ہے ہی نہیں۔ سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ تم اپنے لئے کام تجویز کرو۔ زمیندار عورتیں گھروں میںکام کرتی ہیںاُنہیں محنت کی عادت ہوتی ہے لیکن شہری عورتوں کو سِوائے باتوں کے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ امراء کی عورتیںنوکروںکو گالیاںدیتی رہتی ہیںسارا دن جھک جھک کرنے میں گزر جاتا ہے وہ پانچ منٹ نوکر کو صرف اِس لئے جھاڑتی ہے کہ ُتونے پیالی کیوں صاف نہیں کی حالانکہ اگروہ خود کرے تو ایک منٹ میںپیالی صاف ہوسکتی ہے۔ بعض لوگ قطب مینار پر صرف دو منٹ کے لئے چڑھتے ہیں لیکن اُس پر اپنا نام لکھ جاتے ہیں کہ فلاں بن فلاں اِس جگہ فلاں دن آیا تھا وہ گوارا نہیں کرتے کہ صرف دو منٹ کے لئے بھی آکر یونہی واپس چلے جائیں بلکہ اپنی نشانی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ مینارۃ المسیحؑ ایک مقدس جگہ ہے بعض نادان اِس پر چڑھ کر اپنا نام لکھ جاتے ہیں۔ تم خدا کی اِس دنیا میں پچاس ساٹھ سال رہ کر جاتی ہو لیکن اتنا بھی نشان چھوڑکرنہیں جاتی ہو کیا تم کہہ سکتی ہو کہ تمہاری ماں، تمہاری دادی، تمہاری نانی وغیرہ تمہارے لئے کوئی نشان چھوڑکر گئی ہیں؟ بائیبل میں آتا ہے کہ آدم تیرے گناہ کی یہ سزا ہے کہ تیری بیٹی تجھے نہیں بلکہ اپنے خاوند کو چاہے گی اور تیرابیٹا تجھے نہیں بلکہ اپنی بیوی کو چاہے گا۔ ایک شخص آتا ہے کہتاہے ابّاجان خط آیا ہے بچّہ بیمارہے میں جائوں؟ تو باپ اُس کے احساسات کو مدِّ نظر رکھ کر اجازت دیدیتا ہے کہ جائو حالانکہ اگر وہ احسان شناس ہوتا احساس رکھتا تو ماں کو نہ چھوڑتا، باپ کو نہ چھوڑتا بلکہ اپنے بیوی بچوںکو چھوڑ دیتا وہ کہتا کہ سارے مر جائیں میں اپنے ماں باپ کو نہ چھوڑوں گا۔ تودنیا میں جن چیزوں کو تم نشان سمجھتی ہو وہ نشان نہیں بلکہ نشان مٹانے والے ہیں ایک ہی چیز ہے جو باقی رہنے والی ہے اور وہ ہے اَلْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ۔وہ کام جو خداکے لئے کروگی باقی رہے گا۔ آج ابوہریرہؓ کی اولاد کہاں ہے، مکان کہاں ہیں؟ لیکن ہم جنہوں نے نہ اُن کی اولاد دیکھی، نہ مکان دیکھے، نہ جائداد دیکھی ہم جب اُن کا نام لیتے ہیں تو کہتے ہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔ چند دن ہوئے ایک عرب آیا اُس نے کہا کہ میں بلال ؓ کی اولاد میں سے ہوں اُس نے معلوم نہیںسچ کہا یا جھوٹ مگر میرا دل اُس وقت چاہتا تھا کہ میں اس سے چمٹ جائوں کہ یہ اُس شخص کی اولاد میں سے ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی۔ آج بلالؓ کی اولاد کہاں ہے، اسکے مکان کہاں ہیں، اس کی جائداد کہاں ہے؟ مگروہ جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اذان دی تھی وہ اب تک باقی ہے اور باقی رہے گی۔ پس سب چیزیں فنا ہوجاتی ہیں لیکن انسان کا عمل فنا نہیں ہوتا اور تم اِس طرف توجّہ نہیں دیتی ہو۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا پرندہ ہم نے اُس کی گردن پر باندھ رکھا ہے۲؎ اور وہ پرندہ کیاہے؟ اس کا عمل۔ اگروہ نیک ہوگا تواُس کا پرندہ بھی نیک ہوگا، اگر وہ بدہوگا تو وہ بھی بد۔پس عملی زندگی میں اصلاح کی کوشش کرو سینکڑوں ایسی ہوں گی جو دس سال سے آتی ہوں گی مگر انہوں نے ہر سال جلسہ پر آکر کیا فائدہ اُٹھایا؟ عمل دوقسم کے ہوتے ہیں۔ (۱) انفرادی اور (۲) اجتماعی۔ جب تک یہ دونوں قسم کے عمل مکمل نہ ہوں تمہاری زندگی سُدھر نہیں سکتی نہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ انفرادی اعمال نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، چندے دینا اور سچ بولنا اِس میںکوئی ضرورت نہیں کہ بیس پچیس اور عورتیں ہوں جو تمہارے ساتھ مل کر یہ کام کریں یہ انفرادی اعمال ہیں جو ایک آدمی سے تعلق رکھتے ہیں کسی جتھے کی ضرورت نہیں۔ یہ کام ایسے ہیں کہ ان کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ ہمارے ساتھ اَور عورتیں شامل نہ تھیں اس لئے میں نے نماز نہیں پڑھی یا اس لئے روزہ نہیں رکھا کہ اور روزہ رکھنے والے نہ تھے۔ خداتعالیٰ قیامت کے دن اُس آدمی کو نہیں چھوڑے گا جو کہے گا کہ نماز اِس لئے نہیں پڑھی کہ جماعت نہ تھی یا روزہ اس لئے نہیں رکھا کہ اور جماعت نہ تھی، زکوٰۃ اِس لئے نہیں دی کہ جماعت نہ تھی قیامت کے دن تم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ چونکہ جماعت ساتھ نہ تھی اِس لئے ہم یہ کام نہ کرسکیں اِس لئے نماز چُھٹ گئی، حج چُھٹ گیا۔ یہ انفرادی کام ہیں اِن کو ایک آدمی اپنے طور پر کر سکتاہے خواہ اُس کے ساتھ اور کوئی لوگ ہوں یا نہ ہوں۔
دوسرے اعمال اجتماعی اعمال ہیں۔ وہ ایسے کام ہیں جو مِل کرکئے جاتے ہیں جب تک جماعت ساتھ نہ ہو وہ کام مکمل نہیں ہوسکتے مثلاً باجماعت نماز مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں گوپسندیدہ ہے لیکن مرداگر باجماعت نماز نہیں پڑھے گا تو باوجود اس کے کہ وہ نمازیں پڑھتا ہوگاوہ قیامت کے دن ُمجرم ہوگا۔ اگر تم باجماعت نماز نہیں پڑھوگی تواللہ تعالیٰ یہ نہیں کہے گاکہ تم ُمجرم ہو اگر تم نماز باجماعت پڑھوگی تو مردوں سے اچھی ہوگی وہ دوسروں سے تمہیںزیادہ ثواب دے گا لیکن مرد اگر باجماعت نماز نہ پڑھے گا تو باوجود اِس کے کہ وہ وقت خرچ کرے گا دعاکرے گا خداکے حضور اُسے کہا جائے گاتمہاری نماز ناقص رہ گئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جہنّم میں جائے گا ہو سکتاہے کہ اُس کی دوسری نیکیاں اِس قدر ہوں کہ وہ اِس گناہ کو ڈھانپ لیں اللہ تعالیٰ کے ہاں تول ہوتاہے نیکیوں کا مقابلہ ہوتاہے بعض بدیاں ایسی ہیںکہ وہ اکیلی جہنّم میںلے جاتی ہیں مثلاً شرک، اللہ کاانکار، اس کے فرشتوں کا انکار، حشر نشر کاانکا ر، قیامت کا انکار، رسول پر ایمان نہ لانا، خداکی کتاب کا انکار یہ ایسی بدیاں ہیں جو اکیلی جہنّم میں لے جاتی ہیں یہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں ان کے مقابلہ میں تمہاری نیکیاں چھٹانک چھٹانک کی رہ جاتی ہیں۔
ان کے علاوہ کچھ اور بدیاں ہیں جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا، وزن کیاجائے گا، ُسستی سے نماز پڑھنا، ُچغلی، غیبت وغیر ہ، یہ ایسی بدیاں ہیں جن کا مقابلہ کیاجائے گا کسی نیکی کے زیادہ ہوجانے سے انسان ّجنت میںجاسکتاہے لیکن اگر رسول کا انکار کرے تو پھر جنت میں نہیں جا سکتا خداتعالیٰ رحیم ہے اگروہ چاہے تو سب گناہگاروں کو معاف کردے باقی قانون یہی ہے۔ تو ایک گناہ وہ ہیںجن کا پلڑا بھاری رہے گا دوسرے وہ جن کا نیکیوں سے مقابلہ کیاجائے گا اگر نیکیوں کی روح بڑھی ہوئی ہوتو خداتعالیٰ جنت میں لے جائے گا اگربدیوں کی روح بڑھی ہوئی ہو تو خداتعالیٰ جہنّم میں لے جائے گا۔باجماعت نماز مردوں کے لئے فرض ہے اگر مرد نہیں پڑھے گا تو اُس کا گناہ لکھاجائے گا اور اُس کا نمبر کٹ جائے گا لیکن اگرتم جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتیںتو گناہ نہیں ہوگا لیکن باجماعت نماز پڑھوگی تو ثواب ہوگا۔ اگرتم کہو کہ باجماعت نماز پڑھنے کو دل توبہت چاہتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں کوئی جماعت نہیں اِس لئے ہم باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتیں تواِس کا جواب یہ ہے کہ جو کام جماعت کے ساتھ ہوتے ہیںاگرتم اُن کی نیت کرلوگی تو تمہیں اُتنا ہی ثواب ملے گا کیونکہ تمہارا دل تو چاہتا ہوگا تمہاری خطا تو نہ ہوگی سامانوں کی خطا ہوگی۔ خدا کہے گا کہ اِس کی نیت نیک تھی قصور مال میسر نہ ہونے کا ہے۔
خداتعالیٰ فرماتاہے کہ میرا بندہ کسی بندے کے ساتھ جیسا سلوک کرتاہے گویا وہ میرے ساتھ کرتا ہے، اگر اُس نے میرے بندوں کو روٹی کھلائی تو گویا اُس نے مجھے کھلائی، اگر اُس کے لئے مکان بنایا ہے تو خدا کہے گا اُس نے میرے لئے مکان بنایا ہے اِس لئے اس کا ا س سے بہتر مکان جنت میں بنائو۔۳؎ اسی طرح اولاد کی تربیت ہے یہ اجتماعی کام ہے۔ تمہیں بڑا شوق ہے کہ تمہارا بچّہ سچ بولے۔ تم رات دن اسے کہتی ہو کہ بچہ سچ بول بچہ سچ بول لیکن تم اکیلے اُسے کِس طرح سِکھا سکتی ہو تمہارا بچہ باہر کھیلنے جاتا ہے تو دوسرے کو کہتاہے کہ بھائی! ابّا کو نہ بتانا کہ میں سکول نہیں گیا۔ تم گھر میں کہتی ہو کہ بچّہ سچ بول تو اِس کشمکش کے بعد کبھی تو تمہاری تعلیم اثر کرتی ہے، کبھی بھائی کی۔ اگر اُس بھائی کی ماں اُسے کہنے والی ہوتی کہ تو سچ بولاکر تووہ فوراً تمہارے بچّہ کو کہہ دیتا کہ میں جھوٹ نہیں بول سکتا میری ماں نے منع کیا ہؤا ہے تو تربیتِ اولاد کبھی اجتماع کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عورتوں کو چاہئے کہ وہ مل کر بیٹھیںاور سوچیں کہ ہمارے بچوں میں کیا کیا خرابیاں ہیں، عورتیں تدابیر کریں اور عہد کریں کہ وہ اِن کمزوریوں کو دور کریں گی اِس میںتعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ساری عورتیں اپنے بچوں کو سچ بولنے کی ترغیب دیں گی تو کوئی بچّہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہوگا۔ اگر پندرہ بچے کھیلنے والے ہوں گے اور ان میں سے ایک جھوٹ بولنے والا ہوگا تو پندرہ دوسرے کہیں گے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا ہماری اماں نے منع کیا ہؤا ہے توتمہارا بچّہ بھی سچ بولنے لگ جائے گاغرض یہ اجتماعی نیکیاں ہیں جو مل کرکرنے کے بغیر نہیں ہوسکتیں۔
اِسی طرح بہادری ہے اگر ہمارے بچے کمزور ہوں گے تو انہوں نے اپنی کیا اصلاح کرنی ہے اور جماعت کی کیا کرنی ہے، انہوں نے ملک کی کیا خدمت کرنی ہے اور قوم کی کیا کرنی ہے۔ بہادر آدمی کولوگ گیند کی طرح اُچھال اُچھال کر پھینکتے ہیں لیکن وہ اپنے کاموں سے باز نہیں آتا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے سناکہ مکہ میں ایک شخص نے دعوئ نبوت کیا ہے انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیقات کے لئے بھیجا لیکن اُس نے واپس جاکر کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا پھر وہ خود مکہ گئے لوگوں سے دریافت کیا۔ ُکفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچنے دیا یہی کہا کہ ایک شخص ہے جو اپنی سحر بیانی سے بھائی کو بھائی سے، بیوی کو خاوند سے جُداکرتا چلا جاتاہے لیکن یہ ُچپ چاپ گلیوں میں چکر لگایا کرتے۔ حضرت علی ؓ نے انہیں ایک دن دیکھا، دوسرے دن دیکھا، تیسرے دن دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے آپ چکر لگایا کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا شاید تم بھی مجھے ٹھیک ٹھیک نہ بتلا سکو میں ایک کام کے لئے آیا ہوں حالانکہ حضرت علیؓ تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے تھے۔ حضرت علیؓ نے پوچھا اور اصرار کیا تو اُنہوں نے بتلادیا وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے وہ مسلمان ہوگئے۔ دشمنِ اسلام بڑے دھڑ ّلے سے خانہ کعبہ میں گالیاں دیاکرتے تھے وہ ایک دن گالیاں دے رہے تھے تو یہ وہاں گئے اِنہوں نے کہا تم گالیاں دے رہے ہو سنو! اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ ُ ّکفارنے پکڑ کر خوب پیٹا۔ پیٹنے کے بعد پھر پوچھا تو چونکہ دل بہادر تھا پھر کہا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ تو یہ اُن کی ُجرأت اور بہادری تھی۔ اِتنے میں حضرت عباسؓ آپہنچے یہ اُس وقت مسلمان تھے اُن سے کسی نے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے ہیں؟ حضرت عباس ؓ نے جواب دیا کہ درجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں پیدا پہلے مَیں ہؤا تھا۔ تو جب یہ وہاں آئے تب حضرت ابوذرؓ کو اُن کے ہاتھوں سے ُچھڑایا۔۴؎ تو جب دل میں ایمان پیداہوجاتا ہے تو جو شخص بہادر ہوتاہے وہ ہر جگہ اُٹھ کھڑا ہوتاہے۔ دین کے لئے بہادری کی ضرورت ہے اور دُنیوی کاموں کے لئے بھی بہادری کی ضرورت ہے ُبزدلی ہر صورت میں ُبری ہے اور بہادری ہر لحاظ سے اچھی ہے۔ اگر جاپانی ُگھس آئیں توکیا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہار ابیٹا کھیت میں ُگھس جائے اور وہ گھروں کو ُلوٹ لے جائیں؟ یا تمہارا دل یہ چاہتاہے کہ تمہارا بیٹا دروازے میں کھڑاہوکر بہادری سے مقابلہ کرے اور لوگ کہیں واہ بھئی نوجوان مر تو گیا لیکن اپنی عورتوں کی جان بچا لی یا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ اس وقت تمہارا بیٹا گھر میں ُگھس جائے اور دشمن عورتوں کی چوٹیاں پکڑ کر گھسیٹتے پھریں؟ تم کو تو وہی بچہ اچھالگے گا جو گھر کی حفاظت میں اپنی جان تک دیدے گا۔ ایک کاڈر دوسرے کو بھی ڈرا دیتاہے۔ ڈر ایسی چیز ہے جو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہوجاتی ہے اگر تم نے اپنے بچے کے دل میں ڈر پیدا کیاہے تو وہ بہادری کس طرح دکھائے گا اور اگر تم صرف اُس کو بہادری کی تعلیم دیتی ہو اور وہ دوسرے بچوں کو ڈرتے دیکھتا ہو تو خود بھی ڈرنے لگتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ حنین میں گئے غزوئہ حنین میں نئے نئے مسلمان شامل تھے ذرا ِتیر پڑے تو وہ بھاگے جب وہ بھا گے تو سارا لشکرِ اسلام بھی بھاگ پڑا یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س رہ گئے۔ دوسری طرف چار ہزار آدمی ِتیر برسانے والے تھے۔ ؎ وہ اپنی ذات میں ڈرپوک نہیں تھے، ُبزدل نہیں تھے بلکہ ُبزدلوں کو دیکھ کر ُبزدل بن گئے تھے کوئی عورت اپنے بچے کا دل مضبوط نہیں کرسکتی جب تک کہ سارے گائوں کی عورتیں اپنے بچوں کے دل مضبوط نہ کریں۔
اِسی طرح تعلیم کو دیکھ لو امیر سے امیر آدمی بھی اکیلا سکول کو نہیں چلا سکتا لیکن مل کر غریب سے غریب آدمی بھی شاندار کالج تیار کرسکتے ہیں۔ یہاں سکول کا ۲۵،۲۶ہزار خرچ ہے یہ کوئی اکیلا امیر آدمی خرچ نہیں کررہا بلکہ تم میں سے ہی وہ مرد ہیں جن کی چار روپے آمد ہے اور وہ پیسہ پیسہ دے رہے ہیں۔ اکٹھے کاموں کے لئے ضرورت ہؤاکرتی ہے جماعت کی، اس کے لئے یہ قانون ہم نے بنایا ہے کہ جہاں کہیں بھی احمدی عورتیں ہیں وہاں لجنہ اماء اللہ بنالیں۔ لجنہ اماء اللہ کے معنے ہیں ’’اللہ کی نیک بندیوں کی انجمن۔‘‘ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہر جگہ انجمنیں قائم نہیں ہوئیں۔ جہاں لجنہ قائم ہووہاں کی ہر عورت ممبر ہوگی اور ہر عورت یہ اقرار کرے کہ خدا کے دین کو پھیلانے کے لئے میں مر جائوں گی، سردے دوں گی لیکن پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ ہفتہ میں ایک یا دو دن وقف کردے بجائے اِس کے ہمسایہ کی غیبت کرو دین کی باتیں کرو۔ آپس میں نیک مشورے کرو۔
میں نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے قومی کام کیسے کرسکتی ہو جب تمہارے پاس ہتھیار نہیں لجنہ اماء اللہ تمہارے لئے ہتھیار ہے اجتماعی کام تم کس طرح کرسکتی ہو جب تک تم مل کر کام نہیں کرتیں۔ کوشش تویہ کرنی چاہئے کہ پانچوں نمازوں میں سے ایک نماز باجماعت اداکرو۔ اگرتم باجماعت نماز پڑھو گی تو بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہی ثواب تمہیں جنت میں لے جانے کا موجب ہوجائے۔ اسی طرح تم اقرار کرو کہ ہم اپنے بچوں کو کہیں گی کہ تم دلیر بنو، انہیں سچ بولنا سکھائیں گی، نماز سکھائیں گی یا اِسی طرح مثلاً یہ نیکیاں کہ اُن کے متعلق فیصلہ کرو۔ تعلیم کے لئے کوئی اُستاد رکھو کہ وہ دین سکھائے یہ سارے کام ایسے ہیں جو تم مل کر کر سکتی ہو۔ اسی طرح قرآنِ کریم کا ترجمہ ہے اکٹھی ہوئیں ایک رکوع باترجمہ سنا دیا عورتوں کے فائدے کیلئے اخبار مصباح جاری ہے چندہ اکٹھا کرکے منگوائو اور جلسوں میں پڑھ کر سُنا دیاکرو اِسی طرح چندہ اکٹھا کرکے کبھی بخاری ؔ منگوا لی یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی کتاب منگوالی تاتمہاری تبلیغ وسیع ہوجائے، تمہاری تعلیم وسیع ہوجائے اور اچھی اچھی باتیں دوسروں کوسنانے کا موقع مل جائے۔ اِسی طرح اخبار الفضل ؔ منگوا لیا تا قادیان کے حالات تمہیں معلوم ہوتے رہیں خداتعالیٰ نے تمہیں جماعت دی ہے جماعت سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے پس اگلے سال تک کوئی جماعت ایسی نہ رہ جائے جہاں لجنہ کاقیام نہ ہو۔ لجنہ کے لئے کام یہ ہے۔
اوّل:- تھوڑا تھوڑا ہرایک اپنی توفیق کے مطابق چندہ دے اور چندہ جمع کرکے مصباح منگوائیں۔
دوم:- کم از کم نماز باجماعت اداکریں۔ اس کے بعد دوچار آیتوں کا ترجمہ سنادیا۔
سوم:- لجنہ رجسٹر ڈ کرالو اور مرکز سے قواعد منگوالو۔
اِس سال خصوصیت کے ساتھ یہ عملی تجاویز پیش کرتاہوں۔
(الازھار لذوات الخمار صفحہ ۳۶۲ تا ۳۶۔ ایڈیشن دوم)

۱؎
اِذَا جَائَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (المنافقون:۲)
۲؎
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰـہُ طٰٓئـِـرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ (بنی اسرائیل:۱۴)
۳؎
مسلم کتاب البر والصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
۴؎
بخاری کتاب المناقب باب قِصَّۃ اسلام ابی ذَرٍّ الغفاری رضی اللّٰہ عنہ









بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۲ء)




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

بعض اہم اور ضروری امور
(تقریر فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۲ء )
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں
کے انتظام میں اصلاح کی جائے
سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ آج نماز میں سہو ہوگیا تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ سہو کرادیاگیا تھا میں دورکعت پڑھنے کے بعد تشہد کے لئے بیٹھا کہ کسی نے کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ جس کے معنے یہ تھے کہ یہ ّتشہد کا موقع
نہیں آپ بھول گئے ہیں اور کھڑا ہونے لگا کہ پھر آواز آئی سُبْحَانَ اللّٰہِ اس پر میں بیٹھا ہی رہا تھاکہ پھر کسی نے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہا اِس پر میں کھڑا ہوگیامگر ابھی سورہ فاتحہ کی دوتین ہی آیات پڑھی تھیں کہ پھر سُبْحَانَ اللّٰہِ کی آواز آئی اِس پر میں نے سمجھ لیا کہ دراصل میں نہیں ُبھولا بلکہ خضر ہی ُبھولے ہوئے تھے۔ بہرحال غلطی شروع ہوچکی تھی اِس لئے بعد میں سجدہ سہو کیاگیا تھا اور مجھے خطرہ تھا کہ لوگوں نے پانچویں رکعت نہ شروع کردی ہو وہ دراصل سجدہ سہو تھا۔ ایک صاحب نے کہا ہے کہ یہاں تو روز ہی نماز خراب کی جاتی ہے یہ منتظمین کا نقص ہے اتنے سالوں سے یہ نقص چلا آتاہے اوروہ اِس کی اصلاح نہیں کراسکے اِس کے لئے کوئی پختہ انتظام ہونا چاہئے۔ منتظم ہمیشہ بڑے اصرار سے کہتے ہیں کہ اب کے ٹھیک انتظام کردیا گیا ہے مگر جب پھر غلطی ہوتی ہے تو اِس قسم کا جواب دے دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں سے کہا تھا کہ انتظام کرے اور اُس نے فلاں سے کہہ دیاتھا اِن کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کہتے ہیں کہ کسی امیر آدمی کے پا س کوئی فقیر آگیا او رسوال کیا اُس نے کہا اِس وقت جائو اس وقت پیسے نہیں ہیںمگر فقیر اصرار کرنے لگا کہ اس کے کام میں حرج واقع ہورہاتھا اس نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ اس کے بڑے ملازم ہیں ایک نوکر سے کہا کہ جمال الدین! جائو کمال دین سے کہو وہ صدردین کو کہے کہ فخر دین کو حکم دے کہ اِس شخص کو باہر نکال دے۔ یہ سن کر فقیر بولا کہ جبرئیل! ُتو اسرافیل سے کہہ کہ وہ میکائیل کو کہے کہ عزرائیل کو حکم دے کہ اِس شخص کی جان نکال لے۔ تو اِسی قسم کا انتظام ہمارے منتظمین کرتے ہیں۔ انتظام یہ نہیں کہ کسی سے کہہ دیاجائے کہ فلاں شخص سے کہہ دو کہ کام کرے بلکہ انتظام کرنے کے معنے یہ ہیں کہ خود کیاجائے۔ اور پھر جب دریافت کیاجائے کہ کیا انتظام ہوگیا؟ تو کہتے ہیں کہ جی ہاں ُخوب اچھی طرح انتظام کردیا گیا ہے۔ گویا انتظام کرنے کا کریڈٹ وہ خود لینا چاہتے ہیں مگر جب خرابی ہو تو پھر کہیں گے کہ جی ہم نے تو فلاں سے کہہ دیا تھا کہ وہ فلاں کو اِس کام کے لئے تاکید کردے۔ مثلاً کسی سے کہا جائے کہ فلاں شخص کو ایک میل پرپہنچانا ہے اور جب پوچھا جائے کہ پہنچادیا؟ تو کہیں گے کہ جی ہاں پہنچادیا گویا وہ خود ایک میل پر گئے اور اُسے وہاں پہنچایا مگر جب غلطی معلوم ہو اور پھر پوچھا جائے تومعلوم ہوتاہے کہ خود توکہیں بھی نہیں گئے بلکہ کمرہ میں ہی بیٹھے بیٹھے کسی سے کہہ دیا تھا کہ اسے پہنچادیا جائے۔ تو یہ انتظام کا طریق نہیں۔ انتظام کرنے کے یہ معنے ہیں کہ خود کیاجائے۔ یادرکھنا چاہئے کہ نماز عبادت کاایک اہم رُکن ہے اِس کے متعلق ضرور ایسا انتظام ہوناچاہئے کہ اِس میں غلطی کا امکان نہ ہو جلسہ کے دنوں میںیہ انتظام افسر سٹیج کے سپرد ہونا چاہئے اور افسر جلسہ گاہ کے ماتحت ہونا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ خود ایسے آدمی مقررکریں کہ جن کے سِواکوئی نہ بولے اب دیکھا گیا ہے کہ بچے یونہی بیچ میں بول پڑتے ہیں لوگوں سے کہا جائے کہ اپنے بچوں کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ وہ یونہی بیچ میں نہ بولا کریں۔
جلسہ سالانہ کے موقع
پر احباب کی ملاقات
اِس کے بعد میںایک واقعہ کا بھی ذکر کرنا چاہتاہوں جو اگرچہ پرائیویٹ ہے مگر اس لئے بیان کرتاہوں کہ دوسروں کو بھی فائدہ ہوسکے۔ آج ملاقات کے بعد مجھے پرائیویٹ سیکرٹری نے بتایا کہ ایک عزیز مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے دروازہ میں
داخل ہوناچاہا مگر پہرہ دار نے روکا انہوں نے کہا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں مگر پہرہ دار نے کہا کہ میں نہیں جانتا آپ کون ہیں۔ اُس عزیز نے کہا میں اِسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتاہوں جس کی ملاقات ہورہی ہے اِس پر پہرہ دار نے کہا کہ آپ وقت پرکیوں نہیں آئے بعد از وقت میں اجازت نہیں دے سکتا اس پر بھی اس عزیز نے ملاقات پر اصرار کیا پہرہ دار نے اجازت نہ دی تواُس نے اسے مُکّا مارا جس سے پہرہ دار کے جسم سے خون بہہ نکلا۔ اِس واقعہ میں دونوں کی غلطی ہے اُس نوجوان کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہ مخلص ہے اور اُس نے ایسے وقت میں اپنے اخلاص کو قائم رکھاجبکہ اُس کے بزرگ اس سے محروم ہوگئے تھے وہ ملاقات کرنا چاہتے تھے تواِس طرح اُن کو روکنا مناسب نہ تھا۔ چاہئے یہ تھا کہ پہرہ دار انہیں کہتے کہ تشریف لائیے آپ کا کس جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور پھر اُس جماعت کے سیکرٹری صاحب کے پاس لے جاتے کہ یہ آپ کی جماعت کے فرد ہیں اور اس طرح ان کے لئے میرے ساتھ ملاقات کا انتظام کرتے۔ پہرہ والوں کو سوچنا چاہئے تھا کہ ان کے روکنے کے بعد میرے ساتھ ملاقات کا ان کے پاس کیا ذریعہ تھا۔ اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ یہ بادشاہت نہیں بلکہ خلافت ہے خلافت کو بادشاہت کا رنگ ہر گز نہیں دینا چاہئے۔ روکنے والے کو خود غور کرنا چاہئے تھا کہ اگروہ خود باہر کا رہنے والا ہوتا سال کے بعد یہاں آتا اور پھر اُسے خلیفہ کے ساتھ ملاقات سے روکا جاتاتو اُسے کتنا دُکھ ہوتا اور اِس دُکھ کا احساس کرتے ہوئے اسے اس طرح روکنا نہ چاہئے تھا۔ ملاقات کا موجودہ انتظام تو اس لئے ہے کہ جماعتیں اکٹھی ملیں تاواقفیت ہوسکے مگر بعض دفعہ ایک جماعت کے ساتھ دوسری جماعت کا کوئی دوست بھی آجاتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر اسے آنے بھی دیا جاتاتوکیا اُس نے آتے ہی گولی چلادینی تھی؟ یہ انتظام تو صرف سہولت کے لئے ہے ورنہ لوگوں نے بہر حال ملنا ہے۔ پس جہاں تک ملاقات سے روکنے کا تعلق ہے روکنے والے کی غلطی ہے باقی رہا مُکّا مارنے کا معاملہ سو مارنے والا سپاہی ہے اور فوجی افسر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کو مُکّا بازی آگئی مگر اتنا کہتاہوں یہ شرعاً ناجائز ہے۔ اگران پر ظلم ہؤاتو چاہئے تھا کہ وہ اسے برداشت کرتے تا ہم جسے مارا گیا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ وہ معاف کردے کیونکہ اس نے اس جذبہ کے زیر اثر ماراہے کہ اسے خلیفہ سے ملنے سے روکا گیا۔ جب پہلے سال زنانہ جلسہ گاہ میں لائوڈ سپیکر لگایا گیا تو بعض لڑکیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ آنے والی عورتوں کو ُکھل کر بیٹھنے کو کہیںان میں میری لڑکی کی بھی ڈیوٹی تھی بعض زمیندار عورتیں آئیں تو میری لڑکی نے ان سے کہا کہ یہیںبیٹھ جائیں آگے جانے کی ضرورت نہیں لائوڈ سپیکر میں سے آواز پہنچتی رہے گی۔ اُن عورتوں نے اِس بات کو بہت بُرامنایا اور میری لڑکی کو نیچے گِراکر مارنے لگیں کہ تم ہمیں سننے سے روکتی ہو کیا یہاں اس بہونپو میں سے آواز آسکتی ہے۔ میری لڑکی نے میرے پاس آکر یہ بات بیان کی تو میں نے ہنس کر کہا کہ تمہیں بہت ثواب ہؤا کہ تم نے خدا کے لئے مارکھائی پس مَیںنے یہ واقعہ عَلَی الْاِعْلَان اس لئے بیان کردیا ہے کہ دوستوں پر واضح ہوجائے کہ دفتروالوں کایہ کام نہیں کہ ملاقات سے کسی کو روکیں۔ انہیں چاہئے کہ جماعت کے عہدیداروں سے پوچھیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کاہے یا نہیں اور پھر اس کے لئے ملاقات کا موقع بہم پہنچائیں اور اگر کوئی کارکن کسی کو اُس وقت روکے جبکہ اُس کی جماعت مل رہی ہو تو اسے چاہئے کہ اصرار کرے کہ وہ ضرور ملے گا اور کہ اسے روکنے کا کسی کو حق نہیں۔
اخبار نور کا ایک مضمون اور اسکی حقیقت
اب میں ایک اور بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اخبار نور کا۳؍ستمبر کا ایک مضمون میرے سامنے
ہے یہ واقعہ جس کا اِس میں ذکر کیا گیا ہے اُن دنوں کا ہے جب مَیں قادیان سے باہر تھا جب یہ واقعہ ہؤا شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر ُ نور نے مجھے اس کے متعلق خط لکھا کہ ایسا ایسا واقعہ ہؤاہے میں واپس آنے والاتھا اُن دنوں بارشیں بہت ہوئی تھیں اور اخباروں میں بھی چھپا تھا کہ بارش کی وجہ سے راستے خراب ہوچکے ہیں اِس لئے دس بارہ روز تک نہ پہنچ سکا حتیّٰ کہ ڈاک بھی ۳،۴دن نہ مل سکی تھی۔ شیخ صاحب کا یہ خط بیس اکیس اگست کو مجھے ملا اور ۲۴کو ہم قادیان روانہ ہوگئے۔ اِس اخبار پر ۲؍ستمبر کی تاریخ ہے اوریہ امرتسر میں چھپتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ اگست کے آخر میں چھپ چکا تھا گویا اِس کا مضمون وہ ۲۴،۲۵کو دے چکے ہوئے تھے او راِس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ خط انہوں نے رسماً لکھ دیا اِس کا مقصد یہ نہ تھا کہ سلسلہ کی طرف سے تحقیقات کی جائے اگریہ نیت ہوتی تو اخبار میں اس مضمون کی اشاعت کی کوئی ضرورت نہ تھی اور اگر انہیں اِس بات کا خیال ہوتا کہ انہوں نے میری بیعت کی ہوئی ہے تو مجھے خط لکھنے کے بعد اگر دو ماہ تک بھی انتظار کرنا پڑتا توکرتے۔ میںنے اخبار ’’الفضل‘‘ میںاس مضمون کے بارہ میں یہ اعلان کرایا تھا کہ اِس کے متعلق بعد میں اعلان کرایا جائے گا اس پر شیخ محمد یوسف صاحب نے مجھے لکھا کہ جب اِس معاملہ کی تحقیقات کرائی جائے تو مجھے بھی موقع دیا جائے۔ میں نے اِس کا جواب یہ دیا کہ جب آپ نے اخبار میں مضمون چھاپا تھا تو کیا مجھے یا سلسلہ کے کارکنوں کو اپنا پہلو پیش کرنے کا موقع دیا تھا اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کا بھی حق ہوتا کہ آپ کو موقع دیا جائے۔ آپ نے اخبار میں اپنی مظلومیت بیان کردی اور سلسلہ کا ظالم ہونا بیان کردیا آپ کو چاہئے تھا کہ مجھ سے پوچھ لیتے یا امور عامہ سے پوچھ لیتے کہ میں نے اس طرح َچٹھی لکھی تھی اِس کا کیا بنا ہے؟ یا اگر خود ہی مضمون شائع کرنا چاہتے تھے تو مجھے لکھ دیتے کہ اب آپ دخل نہ دیں میں خود ہی انتظام کرلونگا۔ یہ بھی تواِن کوسوچنا چاہئے تھا کہ جب انہوں نے ایک بات سن کر مجھے لکھ دی تو دوسرے کا بھی حق تھا کہ میں فیصلہ سے پہلے اِس کا بیان ُسنتا اور اِس کے لئے انہیں انتظار کرنا چاہئے تھا۔ اب میں بتاتا ہوں کہ اِس مضمون میں ایسی باتیں موجود ہیں جو خود اِس کی دوسری باتوں کی تردید کرتی ہیں مثلاً اس میں لوکل پریذیڈنٹ اور ناظر امور عامہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے ظالمانہ طورپر پولیس کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور اصرار کیا کہ ان لڑکوں کوہتھکڑیاںلگائی جائیں ان کے الفاظ یہ ہیں:-
’’یہ معاملہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ جنرل پریذیڈنٹ کے ذریعہ اور ناظر صاحب امورعامہ کے ایماء پر پولیس کے حوالہ کیا گیا اور زور دیا گیا کہ فوراً ہی ایڈیٹر ُنور کے چاروں لڑکوں کے برخلاف پرچہ چاک کرکے ہتھکڑیاں لگائی جائیں۔دودُور اندیش شخصوں نے جس میںایک ہندو جنٹلمین اور ایک مسلمان صاحب تھے جن کا میں بیحد مشکورہوں نے کہا کہ لڑکوں کا والد یہاں نہیں ہے کوئی لڑکا بی۔اے میں پڑھ رہاہے، کوئی گریجوایٹ آپ ان کی زندگی کیوں خراب کرتے ہیں کم سے کم ان کے والد کا تو انتظار کر لیجئے مگر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ نے کہا کہ انتظار کی کوئی ضرورت نہیں ہم دنیا میں مساوات قائم کرنا چاہتے ہیں کچھ پرواہ نہیں خواہ یہ ایڈیٹر ُنور کے لڑکے ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے جب مولوی عبدالرحمن صاحب یہ کہہ رہے تھے تو مارے خوشی اور جوش کے ان کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔‘‘
اِس معاملہ میںسب بڑے اور اہم گواہ وہ ہندو جنٹلمین او روہ مسلمان صاحب ہوسکتے ہیں جن کا ذکر کیاگیا ہے اور میں نے دونوںسے دریافت کیا ہے اور دونوں کی گواہی لی ہے۔ ہندو جنٹلمین نے تو کہا ہے کہ مجھ سے کسی نے یہ بات نہیں کی کہ ہم چونکہ مساوات چاہتے ہیں اس لئے ان لڑکوں کو ضرور ہتھکڑیاں لگائی جائیں بلکہ لوکل پریذیڈنٹ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ یہ شکایت پویس میں درج کرانے سے پہلے ناظر صاحب امور عامہ سے پوچھ لیاجائے اور انہوں نے میرے سامنے ناظر صاحب کو فون کیا اور ناظر صاحب امورعامہ نے جواب دیا کہ بہتر ہے کہ دونوں میں صلح کرادی جائے۔ یہ تو ہے ہندو جنٹلمین کی گواہی۔ مسلمان محسن نے یہ تحریری شہادت دی ہے کہ ناظر صاحب سے پوچھا گیا توانہوں نے کہا کہ اگر صلح ہوجائے تو بہت اچھا ہے۔ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ لوکل پریذیڈنٹ کا چہرہ مارے جوش کے ُسرخ ہورہا تھا میں نے اُس ہندوجنٹلمین سے اِس کے متعلق دریافت کیا توانہوں نے بتایا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس واقعہ کے متعلق مَیں نے ناظر صاحب امور عامہ کا بیان بھی لیا ہے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور شکایت کی کہ مجھے بعض نوجوانوں نے ماراہے مجھے اجازت دی جائے کہ میں پولیس میں جائوں اور میں نے اسے اجازت دے دی۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ میں نے کہا کہ ان لڑکوں کو ضرور پکڑوائو اور قید کرائو۔ (یہاں میں اس امر کی وضاحت بھی ضروری سمجھتاہوں کہ ہر کیس قابلِ دست اندازی پولیس نہیں ہوتا اور اس لئے یہ ُبزدلی ہے کہ یہ خیال کرکے کہ گورنمنٹ کے افسر کیا کہیں گے ہر ایسے معاملہ کو پولیس میں بھیج دیاجائے۔ میرے نزدیک اس کے لئے کوئی وجہ نہ تھی کہ ایسا معاملہ جس میں معمولی ضربات آئی تھیں پولیس کے حوالہ کردیا جاتا یہ الگ بات ہے کہ اِس معاملہ میںکسی نہ کسی وجہ سے پولیس بھی کوئی قدم نہ اُٹھا نا چاہتی تھی پھر بھی ناظر امورعامہ کو یادرکھنا چاہئے کہ جتنا حق قانون نے ہمیں دیاہے اُسے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ پہلے ہی حکومت نے بہت حد تک آزادیاں ہم سے چھین رکھی ہیںاورجوکچھ اُس نے حق ہمیں دیا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسے ہم خود چھوڑ دیں)۔ پھر شیخ صاحب نے لکھا ہے۔شیرا کے ۲۷سالہ لڑکے نے میرے لڑکے عزیز محمد ادریس پر بے تحاشا لاٹھیاں برسانی شروع کردیں ایک لاٹھی سرپر بھی پڑی اور باقی پیٹھ پر مگر میرے لڑکے نے بہت صبر سے کام لیا اور ہاتھ نہ اُٹھایا مگراِس کے بعد اُس ظالم شخص نے میرے چھوٹے لڑکے عزیز بشیر احمد جس کی عمر ۱۴،۱۵سال کی ہوگی کے سر پر زور سے لاٹھی ماری جس سے یہ چھوٹا بچہ چکر کھا کر اور بے ہوش ہوکر زمین پر گِرپڑا اگراُس پر ایک اور لاٹھی پڑجاتی تووہ یقیناچت تھا یہ نقشہ دیکھ کر بڑے بھائی سے برداشت نہ ہوسکا اور وہ اُس ظالم سے ُگتھم ُگتھا ہوگیا میرے دونوں لڑکے نہتے تھے اگر ان کی نیت فساد کی ہوتی توپھر وہ نہتے نہ ہوتے۔ جب ادریس اور شیر ے کا لڑکا ُگتھم ُگتھا ہورہے تھے توایک اور لڑکا مدد کے لئے آیا اُس لڑکے کو اتفاقِ حسنہ سے شیرا اوراس کے لڑکے نے میرا لڑکا ہی سمجھا۔ گویا ظلم دوسرے فریق کا تھا لیکن جس لڑکے کے متعلق اس میں لکھا ہے کہ وہ بچانے آیا میں نے اس واقعہ کے متعلق اُس کا بیان لیاہے۔ اُس نے کہا ہے کہ شیخ صاحب کے لڑکوں نے پہلے اُس شخص کومارا وہ مار کھا کر اندر ُگھسا۔ ان لڑکوں نے اس کا تعاقب کیا اندر سے عورتوں نے شور مچایا مضروب کا باپ آگیا اس نے ُچھڑایا اور دونوں کو نصیحت کی۔ پھر بے شک اس شخص نے بھی مارا مگر پہلے خواہ ُبزدلی کی وجہ سے اور خواہ نیکی کی وجہ سے اُس نے نہیں مارا بلکہ مارکھا کر بھاگا اور اندر داخل ہوگیا اتنے میں اُس کا باپ آگیا اور پھر اُس نے بے شک لاٹھیاں ماریں۔ شیخ صاحب نے لکھا ہے کہ میرے لڑکے پر بے تحاشالاٹھیاں برسائی گئیں اور وہ بے ہوش ہوکرگِر گیا مگراس تیسرے لڑکے کابیان ہے کہ ایساہرگز نہیں ہؤا۔ شیخ صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ لڑائی ہورہی تھی کہ ایک اور لڑکا آگیا مارنے والوں نے اسے بھی میرا ہی لڑکا سمجھا۔ شیخ صاحب کی تحریر سے ظاہر ہوتاہے کہ گویا وہ لڑکا اتفاقاً وہاں آگیا تھا مگر میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں بازار میں بیٹھا تھاکہ شیخ صاحب کے لڑکے میرے پاس آئے اور چونکہ میںان کا دوست تھااس لئے مجھے ساتھ لے کر گئے۔ یہ تیسرا لڑکا بھی ملزم تھااِس لئے اُسے مدعی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوسکتی۔ پھر اس نے بعض ایسی باتیں بھی بیان کی ہیں جو خود اسکے خلاف ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا بیان درست ہے اور اس کا یہ بیان ہے کہ پہلے مدعی کو ماراگیا وہ بھاگا، بھاگتے ہوئے دہلیز سے ٹھوکر کھا کر گِرا۔ یہ لڑکے اُس کے پیچھے اندرجا ُگھسے اور اُسے مارنے لگے عورتوں نے شورمچایا اُس کا باپ آگیااس نے ُچھڑایا اور پھر مدعی نے ان لڑکوں کو کچھ مارا مگر شیخ صاحب کے لڑکوں میں سے بے ہوش کوئی نہیںہؤا۔
شیخ صاحب نے خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب پر بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے بھی اس معاملہ میں دلچسپی لی میں نے اس کی بھی تحقیقات کی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لوگ جو مدعی ہیں وہ خانصاحب کے مزارع ہیں وہ ان کے پاس گئے اوراُن سے شکایت کی انہوں نے ان سے کہہ دیا کہ میں توبیمار ہوں تم امورعامہ میںجائوانہوں نے کہاکہ ہمیں رُقعہ لکھ دو چنانچہ خانصاحب نے رُقعہ لکھ دیا بس اِس سے زیادہ خانصاحب پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا۔ شیخ صاحب نے پھر لکھا ہے کہ نظارت اور لوکل پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ پہلے لڑکوں سے پوچھتے پھر کوئی قدم اُٹھاتے۔ اِس کے متعلق میںکہتا ہوں کہ ان کا بھی فرض تھا کہ اخبار میںلکھنے سے پہلے متعلقہ افراد سے پوچھ لیتے کہ واقعہ کیاہے؟ اِس مضمون کو پڑھ کر بعض دوستوں نے مجھے لکھا ہے کہ اِس کا کوئی انتظام ہونا چاہئے مگر میں اتنا ہی کافی سمجھتاہوں کہ تقریر میں اصل حالات کا ذکر کردوں شیخ صاحب کی عادت ہے کہ وہ گھر کے جھگڑوں کو اخبار میںلے آتے ہیں حالانکہ انہیں باربار سمجھایا گیاہے کہ یہ عادت اچھی نہیںمیں متواتر بیس سال سے سمجھا رہاہوں کہ وہ اپنی اس عادت کی اصلاح کریں مگرانہوں نے ابھی نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے َنومسلم ہونے کی وجہ سے میں ان کا لحاظ بھی کرتاہوں بعض ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے میر قاسم علی صاحب مرحوم(اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے) کا اخبار بندکردیا گیا تھا ان کی طرف سے ہونے کے باوجود میںنے کوئی نوٹس نہیں لیامگر ہر چیز کی حد ہوتی ہے ان کوبھی چاہئے کہ وہ اپنے اسلام کی قیمت نہ ڈالیںبلکہ اپنے اسلام کو مزید قربانی سے خوبصورت بنائیں۔ اب چونکہ انہوں نے مجھے مجبور کردیاہے اور دوسروں کے حقوق کا بھی سوال ہے میںنے مجبوراً اس کا ذکر کردیاورنہ یہ معمولی بات تھی بچوں کی لڑائی تھی۔ میں سمجھتاہوں جماعتی لحاظ سے یہ غلطی ہوئی کہ ان کے بچوں کو پولیس کے پاس جانے دیا گیایہ معاملہ گھر پر طے ہونا چاہئے تھا اور آئندہ ایساہی ہونا چاہئے مگرجو تکلیف انہیں بچوں کے پولیس میں جانے سے ہوئی اگروہ اس پر صبرکرتے اور معاملہ سلسلہ کے پاس ہی رہنے دیتے تو اچھا ہوتا اب جو انہوں نے مضمون لکھا توچونکہ ان کے دیکھے واقعات نہ تھے۔ اِس میں کئی غلطیاں کرگئے اور خلافِ واقعات ُسنے سنائے لکھ دئیے۔ میری اس تقریر کے بعد میں سمجھتاہوں کہ لوکل پریذیڈنٹ یا ناظر امور عامہ کی بھی تسلی ہوجانی چاہئے خصوصاً جب کہ ان کی بھی یہ غلطی ہے کہ انہوں نے ایک معمولی لڑائی کی رپورٹ پولیس میں کرنے کی اجازت دی اور ماں باپ کے لئے تشویش کی صورت پیدا کی اور ایک َنومسلم جو اپنے عزیزوں کو چھوڑ کرہم میں آیا تھا اُس کی دلداری کو مدنظر نہیں رکھا حالانکہ یہ ان کا فرض تھا۔
ایک اہم علمی مضمون
اِس کے بعد میںکل کے مضمون کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بیان کرنے کی توفیق دی تووہ ایسا مضمون ہوگا کہ جو
دوستوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ سے سننا چاہئے جو لوگ اسے سمجھ سکیں گے وہ تسلیم کریں گے کہ یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اور جو نہ بھی سمجھیں گے اُن کو مَیں یقین دلاتاہوں کہ یہ بہت اہم ہے اور جو کچھ سمجھیں گے اور کچھ نہ سمجھیں گے اُن کو مَیں بتانا چاہتاہوں کہ جو حصہ وہ آج نہ سمجھیں گے اُسے َکل سمجھ سکیں گے اور جسے وہ نہ سمجھیں گے ممکن ہے اگر نوٹ کرکے لے جائیں تو ان کا دوسرابھائی جو جلسہ پرنہیں آسکا شاید اسے سمجھ لے پس میں دوستوں کو توجہ دلاتاہوں کہ جو اِسے لکھ سکیں وہ ضرور لکھیں او راِسے باربار پڑھیں اِس کا کچھ حصہ تو تمہیدی ہوگا لیکن اصل مضمون کو جذب کرنا ہر احمدی کے لئے بہت ضروری ہے اور جولوگ جلسہ پر نہیں آسکے جوآئے ہیںان کے لئے انہیں بتانا ضروری ہے۔
خدّام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا
آج کی تقریر شروع کرنے سے قبل میں خدام الاحمدیہ کا انعامی جھنڈا جو دورانِ سال میں سب سے اچھا کام کرنے
والی مجلس کو دیاجاتا ہے مجلس دارالرحمت قادیان کے زعیم بابو غلام حسین صاحب کودیتا ہوں میں اس محلہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ کام میں اول رہی ہے اور میں امید کرتاہوں کہ اِس مجلس کے ممبر اِس جھنڈے کے احترام کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی زندگیوں کو احمدیت کے مطابق بنا کر یہ ثابت کردیں گے کہ وہ واقعی اِس انعامی جھنڈے کے مستحق تھے اور انتخاب غلط نہ تھا۔
غلہ کے بارہ میں گورنمنٹ کی غلط پالیسی
گزشتہ سال کا قحط بیس سال کے بعد نیا اور تلخ تجربہ تھا پہلے اِس کے آثار فروری میں
شروعہوئے تھے لیکن مَیں نے گزشتہ جلسہ سالانہ پر دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں غلہ وغیر ہ کا انتظام کرنا چاہئے اور میں نے اعلان کردیاتھا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خرید لیں بعض نے خرید ا مگر بعض نے ہنس کرٹال دیا اور دل میں سمجھ لیا کہ ہمارے پاس پیسے ہیںجب چاہیں گے لے لیں گے مگر جب آٹا وغیرہ ملنا بندہؤا تواُن کو معلوم ہؤا کہ وہ غلطی پر تھے۔ دراصل ایسے موقع پر زیادہ تکلیف پیسہ والوں کوہی ہوتی ہے غریب توفاقہ بھی کرسکتا ہے مگر امیر کے لئے ُبھوکا رہنا مشکل ہوتاہے۔ میں اُس وقت سندھ میں تھا مجھے وہاں گندم کے اُن دانوں کا نمونہ بھیجا گیا جو لوگوں کوکھانے کومل رہے تھے وہ بالکل سیاہ تھے اور اُن کی روٹیاں بالکل ایسی تھیں جیسے باجرہ کی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جب فصل نکلی تومیں نے پھر اعلان کیا کہ دوست غلہ جمع کرلیں اور بعض نے کیا بھی، نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری جماعت کے لوگوں کی حالت دوسروں کی نسبت بہت بہتر ہے۔ میں نے زمینداردوستوں کو بھی یہ تحریک کی تھی کہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے ّحتی الوسع جمع رکھیںاور بہت سے دوستوں نے ایساکیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ خود بھی فائدہ میں رہے اور ان کے ذریعہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قادیان میں بھی بہت سے لوگوں نے غلہ خرید لیا تھا مگر جنہوں نے نہ خریدا اور غفلت کی اُن کے لئے پھر غلہ مہیا کرنے کی کوشش کی گئی توسرگودھا کی جماعت نے مہیا کردیا گوقیمتاً ہی دیا مگر یہ بھی غنیمت ہے کہ مل گیا ان کے پاس ذخائر تھے اور کئی سَومن غلہ ہمیں مل گیا مگر میرے باربار توجہ دلانے کے باوجود بعض لوگوں نے احتیاط نہ کی قادیان میںبھی بعض لوگوں نے نہ کی اور انہیں تکلیف ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں اِس کی ایک وجہ پچھلے سال کا گورنمنٹ کا یہ اعلان تھا کہ لوگوں کو غلہ جمع نہ کرنا چاہئے کافی غلہ ہروقت مل سکے گا۔ہماری جماعت نے عام طور پرجمع کیا اور دوسرے لوگوں میں سے اُس طبقہ نے جو ہماری بات کی قدر کرتاہے اِس پر عمل کیا مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ غلہ جمع نہ کیا جائے ورنہ چھین لیاجائے گا۔ مجھ سے بعض لوگوں نے اِس بارہ میں دریافت کیا تو میں نے جواب دیا کہ کھانے کے لئے اپنے پاس رکھو۔ یہ گورنمنٹ کی سخت غلطی تھی جب گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا تو گندم کا بھائو چار روپے چھ آنیتھا اُس وقت بھائو مقررنہ کیا گیااور وہ چڑھتے چڑھتے پانچ روپے پانچ آنیتک جا پہنچا۔ پھر گورنمنٹ نے کنٹرول قائم کردیا اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہؤا کہ تاجر دلیر ہوگئے اورانہوں نے سمجھا کہ اگرہم غلہ کو روک لیں تواور زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں گے پانچ روپے پانچ آنیبھائو مقررکرنے کے معنے یہ تھے کہ گورنمنٹ نے جو قانون پاس کیا تھا وہ اُس کی تعمیل نہیں کراسکی یہ گویا شکست کا اقرار تھا کہ ہم اپنے قانون کو نافذ نہیں کراسکے۔ میں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ دوست گندم خریدلیں مگر گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ اُس نے پندرہ لاکھ من غلہ خریداہے اور کہ غلہ َسستاہوجائے گا اِس وجہ سے کئی لوگوں نے نہ بھی خریدا اوراب وہ دیکھ رہے ہیں کہ انہیں کس قدر تکلیف اُٹھانی پڑرہی ہے۔ پچھلے سال توبورے والا آٹا ملتا تھا مگر اب کے وہ بھی نہیں مل رہا اور معلوم نہیں گورنمنٹ کی خریدی ہوئی پندرہ لاکھ من گندم کہاں ہے۔ اب گورنمنٹ چھاپے مار رہی ہے اگراس کے اپنے پاس پندرہ لاکھ من ہے تولوگوں کے مکانوں پر گندم کی تلاش کے چھاپے کیوں مارے جارہے ہیں۔بات صرف یہ ہے کہ اس نے جو گندم خریدی تھی وہ ملٹری کی ضرورت کے لئے تھی اس صورت میں چاہئے تھا کہ وہ لوگوں سے کہہ دیتی کہ اپنی ضرورت کے لئے گندم خرید لو۔اسلام نے غلہ کو مہنگاکرنے کے لئے روکنے سے منع کیا ہے مگر گھر کے لئے جمع کرنے سے نہیں روکا بلکہ یہ ضروری ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متو ّکل کون ہو سکتا ہے مگر آپ بھی اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا غلہ مہیا کردیتے تھے۔ گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ لوگوں سے کہتی کہ اپنی ضرورت کے لئے غلہ جمع کرو اور تاجروں سے کہتی کہ فروخت کرو مگر اس نے جو پالیسی اختیار کی وہ غلط تھی اور ا س کے نتیجہ میں لوگوں کو سخت تکلیف پہنچی ہے مجھے بعض جگہ سے خطوط آئے ہیں کہ ہم پہلے چاول کھاتے تھے وہ ملنے بند ہوئے تو گیہوں کا آٹا شروع کیا اب آٹا بھی نہیں ملتا باجرہ کا آٹادوتین سیر روپیہ کا مل رہا ہے۔ ڈھاکہ سے آج ہی مجھے ایک خط ملا ہے کہ نہایت ادنیٰ قسم کا چاول بیس روپیہ َمن مل رہاہے حالانکہ پہلے موٹے چاول روپیہ کے دس بارہ سیر ملا کرتے تھے اور کشمیر میں تو ان کا بھائو اٹھارہ سیر فی روپیہ ہوتاتھا اب غریب لوگ کیا کھائیں۔
غرباء کے لئے غلہ کی تحریک
اور نظامِ سلسلہ کی خوبی
اِسی سلسلہ میںمیں نے تحریک کی تھی کہ غرباء کے لئے بھی دوست بطور امداد غلہ جمع کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان کے غرباء کو پندرہ سَو َمن گندم جو اِن کی پانچ ماہ کی خوراک ہے تقسیم کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ اسے آخری پانچ ماہ
کے لئے محفوظ رکھیں اور خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ قحط بھی عین اِسی وقت شروع ہؤا۔ میں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کو یہ گندم مہیا کی گئی ہے وہ اسے دسمبر میںکھانا شروع کریں اور قحط بھی دسمبر میںہی شروع ہؤا ہے یہ بھی نظام کی ایک ایسی خوبی ظاہر ہوئی ہے کہ ساری دنیا میںاس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ہر غریب کے گھر میں پانچ ماہ کا غلہ جمع کردیا گیا۔میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ دسمبر سے پہلے اس کا استعمال شروع نہ کیا جائے میرا ارادہ ہے کہ جنوری کے بعد ایسے لوگوں کے گھروں میں آدمی بھجوا کر یہ معلوم کرائونگا کہ انہوں نے وہ پہلے ہی تو نہیں کھا لیا اور جنہوں نے اِس ہدایت کی تعمیل میں بے احتیاطی کی ہوگی اُن کو اگر پھر دوبارہ خداتعالیٰ نے اِس کی توفیق دی توامداد دیتے وقت اُن لوگوں سے مؤخّر رکھا جائے گا جنہوں نے اِس ہدایت کی پابندی کی ہے یہ تو میں نہیں کہتا کہ صرف اُنہی کو دوبارہ امداددی جائے گی جنہوں نے غلہ کو مقرر ہ وقت سے پہلے نہیں چھیڑا لیکن دوبارہ امداد کے وقت ہدایت کی پابندی کرنے والوں کو مقدّم ضرور کیاجائے گا۔
موجودہ حالت یہ ہے کہ غلہ مُلک میں کافی موجود ہے مگر ملتا نہیں۔ مجھے ایک واقف کار نے بتایا کہ گورداسپور میں ہی کئی لاکھ من غلہ موجودہے مگرجب لوگ افسروںکے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ان لوگوں کا گلا گھونٹ دیں جن کے پاس غلہ ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ اگر افسروں نے گلا گھونٹنے سے ڈرنا تھا توپہلے ہی کیوں نہ اعلان کردیا کہ لوگ اپنی اپنی ضروریات کے مطابق غلہ جمع کرلیں اِس صورت میں تو حکومت کو چاہئے تھا کہ غلہ زمیندار کے پاس ہی رہنے دیتی۔ زمیندار کی مثال تو چھلنی کی ہے وہ زیادہ دیر تک غلہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا اگر اس کے پاس ہوتا تو وقت پر ضرور مل سکتا۔ مگر بنیے تو دفن کرلیتے ہیں کہ جب قحط ہوگا نکال لیں گے۔ اِس وقت اگر زمیندار کے پاس غلہ ہوتا تو وہ ضرور فروخت کردیتا مگراس کے قبضہ میں اِس وقت ہے نہیں۔ گورنمنٹ کی غلط پالیسی کی وجہ سے غلہ بَنیوں کے قبضہ میںجاچکا ہے اور وہ اب اسے نکالتے نہیںہیں گورنمنٹ نے ان لوگوں کے قبضہ سے تونکلوادیا جن سے لوگوں کومل سکتا تھا زمیندار تو غلہ فروخت کرنے پر مجبور بھی ہوتے ہیں انہوں نے سرکاری لگان اداکرنا ہوتا ہے اس کے لئے بھی غلہ ہی فروخت کرتے ہیں اور ضروریات کی دوسری چیزیں خرید نے کے لئے بھی مگر جب ان کے پاس سے نکل کر بنیوں کے پاس جا پہنچا تو پھر ملنا مشکل ہے گورنمنٹ کایہ اعلان عقل کے خلاف تھا۔ اس نے ۰؍۴؍۵فی من نرخ مقرر کردیا اور ساتھ کہہ دیا کہ اب ہم اِس سے زیادہ نہ بڑھائیںگے لیکن یہ خیال نہیںکیا کہ یہ تومنڈی کی قیمت تھی اور یہی قیمت مقرر کردینا تاجر کی حق تلفی تھی اس وجہ سے وہ مجبور ہوگئے کہ غلہ کو روک لیںیا چوری چوری گراں قیمت پر فروخت کریں اور اب یہ حالت ہے کہ گندم سات آٹھ روپے تک فی من فروخت ہو رہی ہے۔ اگرگورنمنٹ خود ہی کچھ نرخ بڑھادیتی تولوگ اسے بخوشی برداشت کرلیتے اوراِس تکلیف سے محفوظ رہ سکتے جو اِس وقت اُٹھانی پڑ رہی ہے اور ابھی خطرہ ہے کہ اِس سے بھی زیادہ خطرناک صورت نہ پیدا ہوجائے۔
زمینداروں کونصیحت
میں نے زمینداروں کو نصیحت کی تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ غلہ کاشت کریں اب توجو بونا تھا بویا جاچکا اب میںیہ نصیحت کرتاہوں کہ وقت
آنے پر کٹائی وغیرہ احتیاط سے کریں اندازہ ہے کہ اِس سال دس پندرہ فی صدی غلہ زیادہ پیدا ہوسکے گا۔ پھر میںیہ بھی نصیحت کرتاہوں کہ سوائے ا ّشدمجبوری کے غلہ فروخت نہ کیا جائے اور اپنے پاس محفوظ رکھاجائے نفع کمانے کے لئے نہیں بلکہ تکلیف سے بچنے کے لئے سوائے اس کے کہ حکومت جبراً چھین لے لیکن جب تک وہ مجبور نہ کرے محض اعلانوں سے نہ ڈریں۔ بظاہر اگلا سال اِس سے بھی بہت سخت ہوگا اگر حکومت عقلمندی سے کام لے تو بیس لاکھ من کے قریب گندم فصل نکلنے پر خرید لے۔ اِس پر اگر ایک دوکروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑے تو لوگوں کے فائدے کے پیش نظر معمولی بات ہے اگر روپیہ نہ ہو تو بنک سے ُسود پر قرض لے سکتی ہے( وہ اسلامی احکام کے تابع نہیں کہ ُسود کا ُعذر کرے) اور پھر خرید ُشدہ گندم پر منافع لگا کر پورا بھی کر سکتی ہے اس سے بنیوں کا زور ٹوٹ جائے گا مگر یہ سٹاک ملٹری ضروریات کے لئے نہ ہوبلکہ ملٹری کے لئے اس سے الگ خریدا جائے۔ اب تو خریف کا وقت گزرچکا ہے آئندہ خریف پر زیادہ سے زیادہ اشیاء خوردنی کی کاشت کرنی چاہئے۔ بعض زمیندار خیال کرتے ہیں کہ جوار اور باجرہ وغیرہ کی کاشت کی کیا ضرورت ہے مگراب توان لوگوں نے جن کے پاس جوار اور باجرہ وغیرہ تھا اتنا ہی نفع کمایا ہے جتنا گندم والوں نے۔ اگرمارکیٹ میں جوار اور باجرہ کافی مقدار میں ہو تو گندم اتنی گراں رہ ہی نہیںسکتی۔ پس میں زمینداروں کو نصیحت کرتاہوں کہ خریف کی فصل زیادہ بوئیں اور کھانے پینے کی اشیاء زیادہ کاشت کریں۔ ملازمت اور تجارت پیشہ احباب کومیں نصیحت کرتاہوں کہ وہ اپنے اخراجات میں کمی کریں اور کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتے رہیں اور جہاں تک ہو سکے اکٹھی گندم خریدلیں ورنہ بعد میں تکلیف اُٹھائیں گے۔ آج ہی ایک احمدی کا خط مجھے ملا کہ افسوس میں نے آپ کی نصیحت پر عمل نہ کیا اور اِس کے نتیجہ میں آج سخت تکلیف اُٹھا رہا ہوں۔ پہلے چاول کھانے کے عادی تھے اسے چھوڑ کر گندم استعمال کرنے لگے وہ نہ ملی تو جوار شروع کی، پھر باجرہ کیا، اب وہ بھی نہیں ملتا۔ پس ان باتوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور جب خداتعالیٰ نے عقل اور سمجھ دے رکھی ہے تو کیوں اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو تکلیف میں ڈالا جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گزشتہ جنگ کے موقع پر بھی قحط پڑا تھا مگروہ جلد ہی دُور ہوگیا تھا مگر یہ خیال صحیح نہیںیہ جنگ اس سے بہت مختلف ہے اور میرا خیال ہے اب کے قحط بہت لمباہوگا۔
کپڑا حاصل کرنے میں
دقّت اور اس کا علاج
دوسری بڑی تکلیف آج کل کپڑے کی ہے میرے سامنے کچھ عرصہ ہؤا ایک عزیز نے یہ تکلیف بیان کی کہ کپڑا بہت گِراں ہوگیاہے۔ تو میںنے انہیں جواب دیا تھا کہ کھدر پہنیں کپڑے پر تاجر بہت زیادہ نفع لگاتے ہیں۔فرض کرو ایک من روئی کی قیمت پچاس روپیہ
ہو تو ایک من کپڑے کی قیمت قریباًپانسو روپیہ ہوتی ہے لیکن اگر زمیندار پھر گھروں میں چرخوں کو رواج دیں۔ سوت کاتیںاور جو لاہوں سے کپڑا بنواکر استعمال کریں توکوئی تکلیف نہ ہوگی۔ ململ، لٹھا او ردوسرے ایسے کپڑوں کا استعمال ترک کردیں۔ میں نے تو تجویز کی ہے کہ جب میری موجودہ قمیصیں پھٹ جائیں تو کھدّر کی بنوائونگا اور اپنے گھروں میں بھی کہا ہے کہ ایک ایک چرخہ منگوائو، رُوئی خریدو اور ُسوت کات کرکھدّر بنوائو۔شہر کے لوگ عام طور پر یہ نہیں کرسکتے مگر دیہات کے بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں اوراِس طرح اپنا بہت سا روپیہ بچاسکتے ہیں۔ میں یہاں اس امر کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ کانگرس کے اصول کی اِتّباع نہیں بلکہ اپنی تکلیف دور کرنے کی وجہ سے یہ تحریک کررہا ہوں۔
کھانڈ کی بجائے ُگڑ
شکر استعمال کریں
اسی طرح اب ُگڑ شکر نکلنے والا ہے دوستوں کو چاہئے کہ حتی الوسع وہ بھی جمع کرلیں اور کھانڈ مصری کی بجائے اسے استعمال کریں۔ آخر ہمارے باپ دادا پہلے انہی چیزوں کا ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پُرانے زمانہ میں توہمارے ملک میں ُگڑایک نعمت سمجھی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کچھ لڑکے
آپس میں باتیں کررہے تھے کہ ملکہ انگلستان کیاکھاتی ہوگی کسی نے کہاپلائو کھاتی ہوگی کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ۔ ُبڈھا باپ یہ باتیں سن رہا تھا غصہ سے بولا کہ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے جو ایسی باتیں کرتے ہو ملکہ تو ُگڑکھاتی ہوگی ایک طرف بھی ُگڑرکھا رہتا ہوگا دوسری طرف بھی ُگڑ اُدھر گئی تو ُگڑکھالیا اور اِدھر آئی تو پھر ُگڑ کھا لیا۔ توہمارے ملک کا ُگڑاتنا شاندار ہوتاتھا مگر اب وہ بھی تنزل میںآچکا ہے۔ زمینداروں نے بھی کھانڈ اور مصری کا استعمال شروع کردیاہے مگر اب میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ ان چیزوں کا خیال جانے دیں اور ُگڑشکر استعمال کریں بنگال سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں چینی ایک روپیہ سیر ہوگئی ہے یہ کتنا ظلم ہے میں نے تواب نمکین چائے کا استعمال شروع کردیاہے جو لوگ دودھ استعمال کرتے ہیں وہ بھی اگر نمک ڈال کر پئیں تو دیکھیں گے کہ نمک سے بھی دودھ بہت لذیذ ہوجاتا ہے بے شک نمک بھی مہنگا ہوچکا ہے مگروہ تھوڑا سا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ چند سالوں ہی کی بات ہے اتنے عرصہ کے لئے کھانڈ اور مصری وغیرہ کا استعمال ترک کردو۔ زمینداروں کو چاہئے کہ لگان وغیرہ ادا کرنے کے لئے بھی ُگڑ شکر فروخت نہ کریں بلکہ میں کہوں گا جن کے پاس ہوں وہ زیور بیچ کرلگان ادا کریں اور ُگڑشکر جمع کریں یہ صرف سال دوسال کی بات ہے گزر جائے گی اس وقت پھر مصری اور کھانڈ وغیرہ استعمال کرلینا ِفی ال￿حال چھوڑدو۔
مٹی کے برتنوں کے استعمال کی ہدایت
آجکل برتنوں وغیرہ کی بہت تکلیف ہے برتن بہت مہنگے ہوچکے ہیں جو برتن پہلے ۴یا۵ آنہ میں قلعی
ہوجاتا تھا اب روپیہ ڈیڑھ روپیہ میں ہوتا ہے اس لئے چاہئے کہ لوگ مٹی کے برتنوں کااستعمال شروع کردیں۔ ہمارے باپ دادا قریباً سات ہزار سال تک مٹی کے برتن ہی استعمال کرتے رہے ہیں اور اگر ہم کریں تو کیا حرج ہوگا اور ہم کیوں مٹی کے برتنوں میںکھا پی نہیں سکتے۔ عورتیں بعض اوقات اعتراض کیا کرتی ہیں کہ فلاں کھانامٹی کے برتن میں نہیں پکتا مگر میں کہتا ہوں ایسا کھانا نہ پکائو۔ مٹی کے برتن بھی بہت اچھے اچھے بنتے ہیں ملتان کے علاقہ میں مٹی کی ہنڈیاں نہایت اعلیٰ تیار ہوتی ہیں چائے پینے کا چینی کا سیٹ اب ۱۲‘۱۳روپیہ میںملتاہے۔ اس کی بجائے بھی مٹی کا سیٹ استعمال کرنا چاہئے۔ میرے پاس ایک مٹی کا سیٹ ہے اس پر بہت خوبصورت روغن کیا ہؤا ہے اور پالم پور کے سفر میں مَیں وہی استعمال کرتا رہا ہوں تو دوستوں کو چاہئے کہ مٹی کے برتن استعمال کریں۔ ِچینی کے برتن تو بہت گِراں ہو چکے ہیں معمولی قسم کا سیٹ جو پہلے ڈیڑھ دو روپیہ میں آجاتا تھا اب ۱۲‘۱۳ روپیہ میں ملتا ہے۔ گویا َنو ُگنا قیمت بڑھ چکی ہے اور پھر یہ چینی کے برتن ُٹوٹ بڑی جلدی جاتے ہیں اوراِس طرح نقصان بہت ہوتاہے۔ مٹی کا برتن اگر ُٹوٹ بھی جائے تواتنا نقصان نہیںہوتا غالب نے کہا ہے کہ۔
اور بازار سے لے آئے اگر ُٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے میرا جام سفال اچھا ہے
غالب کا یہ نظریہ اس زمانہ میں خاص طور پر درست معلوم ہوتاہے مٹی کے برتن بہت اچھے ہیں پیسے کم خرچ آتے ہیں اور اگر ٹوٹ جائے تو آسانی سے اور لیاجاسکتا ہے۔
زمینیں اور مکانات ابھی نہ خریدیں
اِس کے علاوہ میں زمینداروں کو ایک اور نصیحت بھی کرنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ آجکل انہیں پیسے ُخوب مل
رہے ہیں ہر چیز گِراں فروخت ہو رہی ہے اورابھی خداتعالیٰ نے چاہا تو ا ور بھی پیسے انہیں آئیں گے اور حالت کے بہتر ہونے پر انہیں مغرور نہ ہوناچاہئے۔ قرآن کریم نے اکڑاکڑ کر چلنے سے منع فرمایا اور فرمایا ہے کہ اِس طرح انسان نہ آسمان پر پہنچ سکتاہے اورنہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے۔۱؎ پہلے ان کی حالت بہت خراب تھی حتّٰی کہ زیور گروی کرکے لگان ادا کرنا پڑتا تھا مگر یہ دن اِن کی کمائی کے ہیں ایسے دن بیس پچیس سال کے بعد آتے ہیں ہمیشہ ایسے حالات نہیں رہتے اِس لئے انہیں چاہئے کہ روپیہ کو محفوظ رکھیں۔ بعض زمیندار زمینیں خریدنے پر زور دیتے ہیں مگر یہ زمین خریدنے کا وقت نہیں اِن حالات میں جو زمین خریدے گا وہ سخت نقصان اُٹھائے گا اِس وقت روپیہ کو محفوظ کرلینا چاہئے خواہ یہاں امانت کے طور پر جمع کرادیا جائے اور خواہ اپنے اپنے ہاں کسی محفوظ مقام میں جمع کرادیاجائے۔ جنگ کے بعد جب یورپ کے لوگ غلہ خرید چُکیںگے اُس وقت قیمتیں گِریں گی اور وہ وقت زمینیں وغیرہ خریدنے کا ہوگا یہ نہیں ہے۔ پچھلی جنگ میں زمینوں کی قیمتیں اتنی چڑھ گئی تھیں کہ ۲۵،۳۰ہزار روپیہ مربّع کی قیمت ہوگئی تھی مگر پھر ایسی گِری کہ گزشتہ سالوں میں چند سَوروپیہ سالانہ پر ایک مربّع ٹھیکہ پر کوئی نہیں لیتاتھا اور قیمت چھ سات ہزار ہوگئی تھی پس یہ وقت زمینیں اورمکانات وغیرہ خریدنے کانہیںاگرکسی کے پہلو میں کسی ایسے شخص کا مکان ہو جس سے ہمیشہ جھگڑا وغیرہ رہتاہو توایسا مکان وغیرہ لے لینے میں تو کوئی حرج نہیں مگر تجارت کے طور پر اِس وقت زمین یا مکان مناسب نہیں۔ اِسی طرح اِس وقت زیور وغیرہ بنانا بھی فضول ہے۔ سونا ستّر روپیہ تولہ سے بھی بڑھ چکاہے بلکہ اگر کسی کے پاس سونا ہو تو اِس وقت بیچ دینا چاہئے جنگ کے بعد پھرجب َسستا ہوگا تولے لیں۔ یہ سونا خریدنے کانہیںبلکہ فروخت کرنے کا وقت ہے اس طرح جہاں تک ممکن ہو شادی بیاہ ملتوی کردو اور اگر کرنا ہی پڑے تو لڑکے لڑکیوں سے کہا جائے کہ نقد روپیہ لے لو۔ میری ایک عزیزہ تھی میں نے اس سے وعد ہ کیا تھا کہ اس کی شادی پراسے تحفہ دوں گا اب اس کی شادی کا موقع آیا تومیں نے کہا کہ زیور وغیرہ بنوا کرمیں روپیہ ضائع نہیں کرنا چاہتا میں تمہارے خاندان کے کسی بزرگ کے سپرد روپیہ کردیتاہوں جنگ کے بعد جو زیور چاہو بنوالینا۔
ایک اور بات یاد رکھو آج تجارت میں خاص نفع ہے ہوشیار زمیندار یا غیر زمیندار گائوں میں دُکانیں نکال لیںآجکل تجارت میں گھاٹے کا احتمال بہت کم ہے آجکل نفع ہی نفع ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے گھٹتی نہیں آج ایک چیز پانچ روپیہ میں ملتی ہے توکل اس کی قیمت چھ روپیہ ہوجاتی ہے۔ اگرکوئی اپنی بیوقوفی سے نقصان اُٹھا لے تو اور بات ہے ورنہ آجکل تجارت میں خسارہ کا احتمال بہت ہی کم ہے یہ فائدہ اُٹھانے کا وقت ہے اس لئے جہاں تک ہوسکے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
جنگ کی صورتِ حالات
اب میں جنگ کی طرف آتاہوں بظاہر جنگ کے حالات میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے اور بعض لوگ خیال کرنے لگے ہیں کہ فتح ہونے
لگی ہے مگر جنگ میں ابھی ایسی تبدیلی کوئی نہیں ہوئی کہ ظاہری سامانوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکے کہ آخری فتح ضرور اتحادیوں کی ہی ہوگی۔ ابھی تاریک دن باقی ہیں اِس لئے مطمئن ہوکر بیٹھ جانا صحیح نہیں اگرلوگ اطمینان محسوس کرلیں توپھر کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور لوگ بھی اِس جنگ میں مدد دے رہے ہیںاور کوشش کررہے ہیں کہ انگریزوں کی فتح ہو اور ہماری جماعت بھی کوشش کررہی ہے۔ دوسرے لوگ تو ذاتی لالچ اور نفع کے لئے کوشش کرتے ہیں کسی کو یہ لالچ ہے کہ میرالڑکا یا فلاں عزیز تحصیلدار ہوجائے گا،تھانیدار ہوجائے گا یااسے کوئی بڑا ُعہدہ مل جائے گا، بڑے سے بڑا آدمی بھی ذاتی نفع کے خیال سے کوشش کررہا ہے مگر ہماری جماعت جو خدمت کرتی ہے وہ اپنے اصول کے لحاظ سے کرتی ہے کسی طمع او رلالچ کی وجہ سے نہیں۔ممکن ہے بعض او رتعلیم یافتہ افراد بھی اصول کے لحاظ سے کرتے ہوں مگر جماعتی لحاظ سے ہمارے سِوااور کوئی ایسانہیں کرتا۔ اورایسے لوگ جو اصول کے لئے کوشش کرتے ہوں اور سوچ سمجھ کرکرتے ہوں وہ اگرمطمئن ہوجائیں کہ اب فتح ہونے لگی ہے تو اُن میں ضرور ُسستی آجاتی ہے کیونکہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب کام ختم ہونے کو ہے۔ اس لئے ہمارے دوستوں کو خیال رکھنا چاہئے کہ ابھی اس جنگ کے تاریک پہلو موجود ہیں۔روس کے متعلق سمجھاجاتاہے کہ وہ جرمنوں کو اب شکست دے رہا اور بڑھتا جارہا ہے۔ بے شک وہ بڑھابھی ہے مگر واقف کارلوگ جانتے ہیں کہ اب تک وہ صرف اُنہی علاقوں میں بڑھ سکا ہے جن میں جرمنی کہتاہے کہ وہ بڑھ لے۔ لیکن جہاں جرمنی نے اب قبضہ رکھنا چاہاوہاں سے روس اُسے پیچھے نہیں ہٹاسکا او رکسی ایسی جگہ کونہیں لے سکا۔ اِس سے ثابت ہوتاہے کہ ابھی روس کا پہلو اتنا زبردست نہیں جتنا عام طور پر خیال کیاجانے لگاہے اور جرمنی کا پہلو ابھی اتنا کمزور نہیں ہؤا ۔ اور اب اگر اِس سال یعنی۱۹۴۳ء میں جرمنی کی طاقت نہ ُٹوٹی تو اگلاسال روس کے لئے سخت مشکلات کا ہوگا۔پچھلے سال روسی جہاں تک جرمنوں کو دھکیل کر لے گئے تھے اگر وہاں تک لے گئے تواس کے معنے یہ ہونگے کہ جرمنی کا زور ُٹوٹ گیا ورنہ نہیں۔ اوراگر روس کی طاقت ُٹوٹ گئی تو سب سے زیادہ خطرہ ہندوستان کے لئے ہوگا کیونکہ پھرہندوستان اوردشمن کے درمیان کوئی بھی روک نہ ہوگی۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ روس کی آبادی زیادہ ہے اورگوہندوستان کی آبادی اُس سے بہت زیادہ ہے مگر اِس میں کئی کروڑ لوگ ایسے ہیں جو غیر جنگی ہیں اس کے علاوہ یہاں کا ایک معتدل طبقہ ایساہے جو جاپان سے ہمدردی رکھتاہے یہ حصہ بھی جرمنی سے لڑنے والا نہیں اِن دونوں کو اگر علیٰحدہ کردیا جائے تو ہندوستان کی ایسی آبادی جوجرمنی سے مقابلہ کرنے میں انگریزوں کا ساتھ دے سکتی ہے ۸ ، ۹کروڑ رہ جاتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میںجرمنی کی آبادی آٹھ کروڑ ہے، اٹلی کی چار کروڑسے زیادہ ہے، رومانیہ کی تین کروڑ ،ہنگری کی تیس لاکھ اور پولینڈ کی چالیس لاکھ ہے اور یہ سب مل کر سترہ اٹھارہ کروڑ آبادی بن جاتی ہے اور اس طرح جرمنی کی طاقت آبادی کی تعداد کے لحاظ سے بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر جاپان کی طاقت اس سے علاوہ ہے۔ بے شک بعض حالات انگریزوں کی تائید میں ظاہر ہوئے ہیں مثلاًشمالی افریقہ میں انہیں فتح ہوئی ہے۔ یہ پہلی لڑائی ہے جس میں جرمن میدان سے بھاگے ہیں اور لیبیا کی لڑائی بالکل اُسی طرح ہوئی ہے جس طرح مجھے رؤیا میں دکھایا گیا تھا اور جرمنوں کے اِس طرح بھاگنے سے ان کی برتری کا رُعب بھی کم ہوگیا ہے اِدھر روس نے ثابت کردیا ہے کہ جرمنی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ پہلے جو جرمن سپاہی کو ّہَوا سمجھا جاتا تھا یہ رُعب اب مٹ چکا ہے جرمنی کا ایک اور رُعب سامان کا تھا۔ ہٹلر نے کئی بار کہا تھا کہ بعض مخفی ایجادیں ان کے پاس ہیں مگر یہ رُعب بھی جاتا رہا ہے اور ظاہر ہو گیا ہے کہ مخفی ایجادوں کا پروپیگنڈابالکل غلط تھا۔ اگرکوئی ایسی ایجاد ہوتی تو اِن خطرناک حالات میں ضرور باہر آجاتی یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ جرمنوں کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں کہ جس کے مقابلہ کی کوئی چیز اتحادیوں کے پاس نہ ہو۔ اگراس نے کوئی ایجاد کی ہے توبرطانیہ نے بھی اس کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی ایجاد کرلی ہے۔ اور امریکہ نے بھی کر لی ہے کسی نے اچھی قسم کا کوئی ٹینک بنالیا،کسی نے اچھا طیارہ بنالیااو رکسی نے ڈسٹرائر تیار کرلیابہر حال اب یہ اطمینان ہوچکاہے کہ جرمنی کے پاس کوئی ایسی ایجاد نہیں کہ جس سے یکدم جنگ کا نقشہ بدل سکتاہو۔ پھر اِس کے علاوہ فرانس میں بھی جرمنی کی مخالفت کا جذبہ روزبروز زیادہ ہورہا ہے۔ اتحادیوں کو سامان تیار کرنے کاکافی موقع مل چکا ہے پہلے ان کے پاس اتنا سامان نہیں تھا جتنا اب بن چکا ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہندوستانی فوج صرف ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی مگر اب دس لاکھ سے بھی بڑھ چکی ہے۔ایک اَور بات بھی قابل ذکر ہے پہلے یہ عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اگر برما انگریزوں کے ہاتھ سے جاتارہا تو چینی ضرور جاپانیوں سے دب جائیں گے ان کے پاس سامان جنگ بالکل نہیں ہے اندر ہی اندر یہ خیال بہت پایا جاتا تھا مگر چینیوں نے بھی وہ موقع گزار لیا ہے اور اب ان کے لئے ویسا خطرہ نہیںرہا کہ وہ یکدم ہتھیار ڈال دیں گے چین برابر اپنے کام میں لگا ہؤاہے۔
جنگ میں اتحادیوں کی امداد کے طریق
اب میں یہ بتاتاہوں کہ جنگ میں مدد کس طرح کی جاسکتی ہے پہلی بات تویہ ہے کہ جہاں
تک ہوسکے بھرتی میں مدد دی جائے۔ پھر جو لوگ مالی امداد دے سکتے ہیں وہ مالی امداد دے دیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غلط افواہوں کوروکنا چاہئے میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ افواہوں کو پھیلنے سے روکنا بہت بڑی خدمت ہے دراصل دشمن کی فوج اور سامان اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا افواہیں پہنچاتی ہیں غلط افواہیں بہت پھیلتی رہتی ہیں۔ اب کلکتہ پر بمباری ہوتی ہے اور کچھ بم گِرے ہیں لیکن اس کے متعلق ہی کئی قسم کی افواہیں پھیل رہی ہیں کسی گائوں میںجائو توطرح طرح کی باتیں سننے میں آئیں گی او ر اس بمباری کی تفاصیل تک وہاں سنو گے اتنے مکانات اُڑ گئے، اتنے آدمی مارے گئے، یہ نقصان ہؤا، وہ نقصان ہؤا وغیرہ وغیرہ یہ ایسی باتیں ہیں جن سے کمزوری پیدا ہوتی ہے خصوصاً دیہات میں ایسی افواہیں بہت پھیلتی ہیں جنہیں روکنا بہت ضروری ہے زمیندار ناول تو نہیں پڑھتا مگروہ ناول بنانے میں ماہر ہوتاہے اورایسی باتیں اپنے دماغ سے ہی گھڑتا رہتاہے۔
خدام الاحمدیہ، انصار اللہ
اورلجنہ اماء اللہ کی تحریکات
اِس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کی روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اوریہ تینوں نہایت ضروری ہیں عورتوںمیں ۔َکل جو تقریر مَیں نے کی اُس میں ان کو نصیحت کی ہے کہ وہ لجنا ت
کی ممبر بنانے میں مستعدی سے کام لیں اور آج آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ اِن تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں اس زمانہ میں ایسے حالات پیداہوچکے ہیںکہ یہ بہت ضروری ہیں، پُرانے زمانہ میں اور بات تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں اُستاد پید اہوگئے تھے جو خود بخود وسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے مگراب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دو دو،تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے۔ اگرگلاب کا ایک ہی ُپھول ہو او روہ دوسرا پیدا نہ کرسکے تواس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہوجانا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کردیاہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ احمدیت کو دنیا میں پھیلادینا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بنا سکتے ہیںکہ دنیا کے لوگ بظاہر اِس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگران کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہوجائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصاراللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی اِس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اِس کا ابھی کوئی دفتر وغیرہ بھی نہیں مگر دفتر قائم کرنا کس کاکام تھا۔ بیشک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا۔ شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا؟ ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے۔ اب بھی انہیں چاہئے کہ دفتر بنائیں،کلرک وغیرہ رکھیں، خط وکتابت کریں، ساری جماعتوں میں تحریک کرکے انصاراللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں۔
ملا قات کے وقت عہدیدار آگے بیٹھاکریں
میں ہمیشہ سے یہ کہتا رہاہوں کہ ملاقات کے وقت پریذیڈنٹ اور سیکرٹری آگے بیٹھا کریں
اور بتائیں کہ یہ فلاں صاحب ہیں او ریہ فلاں تامجھے جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہو اور یہ بھی معلوم ہوسکے کہ سیکرٹری اور دوسرے عہدیدار ٹھیک طورپر کام کررہے ہیںیا نہیں۔ پہلے اس پر عمل ہوتا رہا ہے اور یہ بھی میں دیکھتا رہاہوں کہ عہدیداروں کاکام تسلی بخش رہاہے مگر اب کچھ عرصہ سے اِس میں نقص واقع ہونے لگا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ نئی َپودکو کام کے لئے تیار نہیں کیا جاسکا۔ پریذیڈنٹ کا پوچھو توکہا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے، گھر پر ہے۔ سیکرٹری کہاںہے؟ وہ بھی نہیں آیا حالانکہ چاہئے تھا کہ اگر پریذیڈنٹ بیمار ہے اور اُسے علیحدہ بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو بیشک علیحدہ نہ کرو مگر ایک نائب بنا دو۔ سیکرٹری کو بے شک نہ ہٹائو مگرایک نائب سیکرٹری بنادوتااُس کی وفات تک دوسرا آدمی تیار ہوسکے اور پُرانوںکی جگہ لینے والے نئے آدمی تیار ہوتے رہیں ورنہ کام کو سخت نقصان پہنچے گا۔ پُرانے آدمیوں کے فوت ہوجانے پر اگر کوئی کام سنبھالنے والے نہ ہوں تو سخت نقصان کی بات ہے۔ ایک جماعت کے دوست مجھ سے ملنے آئے او رمصافحہ کرنے کے بعد چیخیں مار کر رونے لگے کہ ہمارے ہاں پہلے جماعت کے تیس چالیس افراد تھے مگراب صرف تین چار رہ گئے ہیں۔
ان تحریکوں سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر جماعت میں ذمہ داری کو سنبھالنے والے تین تین، چار چار کارکن موجود رہیں۔ خدام الاحمدیہ کے سیکرٹری کو کام کی ٹریننگ علیحدہ ملتی رہے اور انصاراللہ کے سیکرٹری کو علیحدہ او رجہاں کہیں کوئی پُرانا کارکن فوت ہوجائے اُس کی جگہ لینے والا موجود ہو۔ رقابت بھی بعض اوقات بڑا کام کراتی ہے پچھلے دنوں یہاں خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہؤا تو مجھے معلوم ہؤا کہ انصار نے کہا کہ ہمیں بھی اپنا جلسہ کرنا چاہئے بے شک اگروہ بھی کرنے لگیں تویہ بہت فائدہ کی بات ہے ہم نے جو مدد خدام کی کی ہے اِن کی بھی کرسکتے ہیں۔پھر وہ خود بھی چندہ لے سکتے ہیں۔ بہرحال انہیں بھی تنظیم کے ساتھ کام کرنا چاہئے میر امقصد یہ ہے کہ جماعت کے اطفال، خدام اور انصار سب کی تربیت کا انتظام ہوسکے۔ ۱۴ سال سے کم عمر کے بچے اطفال کی مجالس میں شامل ہوں۔ ۱۴ سالسے چالیس سال تک کے خدام میں اور اِس سے اوپر عمر کے انصار اللہ میں تاکہ سب کی صحیح تربیت ہوسکے۔
خدام الاحمدیہ کے متعلق بعض
سرکاری افسروںکی بیجا بدگمانی
میں اِس جگہ افسوس کے ساتھ اس امر کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ بعض مقامی حُکّام خدام الاحمدیہ کے خلا ف بدگمانی پھیلارہے ہیں۔ یہ افسر ایسے ہی ہیں کہ جو بجائے بغاوت کو دبانے کے وفاداروںکو باغی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
خدام الا حمدیہ کی تحریک کوئی ُخفیہ تحریک نہیں۔ میں نے اسے عَلَی الْاِعْلَان قائم کیا اور جمعہ کے خطبوں میں اِس کی وضاحت کی اور اس کی اہمیت بیان کی، اِس کا آئین میں نے بنایا، اِس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو صرف جماعت کے نوجوانوں کی اصلاح کے لئے ہے اِس کے متعلق ایسی ُجستجو کرنا محض روپیہ ضائع کرنے والی بات ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا اِقدام کیا گیا تو اِسے یقیناندامت اُٹھانی پڑے گی جیسی پہلے اُٹھانی پڑی ہے۔ اس کے متعلق شبہ کرنے کی جو وجوہات میں نے ُسنی ہیں وہ بہت عجیب ہیںمثلاً یہ کہ اِس کے سالانہ جلسے کے موقع پر بعض نوجوانوں نے گتکا کھیلا اس لئے یہ مجلس بہت خطرناک ہے او ر اس معاملہ کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ میں نے سنا ہے مرکز سے بھی سی۔آئی۔ڈی کے افسر تحقیقات کے لئے آئے ہیں وہ اگر آتے ہیں تو شوق سے آئیں مگریہ بات یادرکھنی چاہئے کہ محرم وغیرہ کے جلوس پر اعلیٰ افسروں کی موجودگی میں گتکا وغیرہ کھیلا جاتا ہے اورجو چیز محرم کے موقع پر جائز ہے وہ خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے موقع پر کیونکر ناجائز ہوگئی؟ اور اگر حکومت اسے منع کرے تو اِس کو ترک کیا جاسکتاہے۔یہ اس کے پروگرام کا کوئی حصہ نہیں لیکن میں حیران ہوںکہ وہ حکومت ہی کیا ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اگر چند نوجوان گتکا سیکھ گئے تو اس کا قائم رہنا محال ہوگا جہاں اس زمانہ میں اینٹی ایر کرافٹ اور اینٹی ٹینک گنزبن چکی ہیں وہاں ایک گتکا جاننے والا کیا کرسکتاہے یہ بالکل بچوں والی بات ہے اور بالکل غلط طریق ہے۔ دوسری حکومتیں تو خود لوگوں کو بہادر بناتی ہیں مگرہماری حکومت گتکا سے ڈرتی ہے۔ اور لوگوں کاعام طریق یہ ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ پہلے لوگ کہتے تھے کہ تلوار رکھنے کی آزادی ہونی چاہئے مگرجب بیس سال کے جھگڑے کے بعد حکومت نے آزادی دے دی تو اب لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑو تلوار پرپانچ روپے کون خرچ کرے تو جتنا روکو اُتنا ہی زیادہ جوش پیدا ہوتاہے۔ حکومت نے اسلحہ پر لائسنس کی پابندی لگا رکھی ہے مگرجو لوگ جرائم کرتے ہیں وہ لائسنس لیتے ہی کہاں ہیں وہ توبغیر لائسنس کے اسلحہ رکھتے ہیں۔اعدادوشمار جمع کرکے اِس امر کی تصدیق ہوسکتی ہے کہ مثلاً بندوق سے جو لوگ مارے گئے اُن میں سے اکثر انہی لوگوں نے مارے جن کے پاس بندوق کا کوئی لائسنس نہیں لائسنس رکھنے والے دوسروں کو کہاں مارتے ہیں۔ پس حکومت کی یہ پالیسی بالکل غلط ہے اِس سے تو بہتر ہے کہ وہ حکم دے دے کہ ُچوڑیاں پہن لو اور گھروں میں بیٹھو بلکہ چاہئے کہ لوگوں کی اُنگلیاں بھی کٹوادے کہ ان سے مُکّا مارا جا سکتا ہے بعض لوگوں کے دانتوں میں ایسا زہر ہوتاہے کہ کسی کو کاٹیں تومرجاتا ہے اِس لئے بتیس کے بتیس دانت بھی نکلوادینے چاہئیں۔یہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس حکومت کے پاس توپیں، بندوقیں،ہوائی جہاز، ٹینک وغیرہ سب کچھ ہیں اُسے اِس بات پر اعتراض ہے کہ بعض نوجوان گتکا کیوں سیکھتے ہیں اسے تو چاہئے کہ خود ایسی باتوں کا انتظام کرے تالوگوں میں ُجرأت او ربہادری پیدا ہو اور جنگ میں زیادہ امداد مل سکے۔ ادھر یہ بھی شکایت کی جاتی ہے کہ فوج کے لئے رنگروٹ کم ملتے ہیں تم نے تومردوں کو عورتیں بنادیارنگروٹ کیسے ملیں۔ ہندوستان کی اتنی آبادی ہے کہ کئی کروڑ سپاہی یہاں سے مل سکتے ہیں مگر یہ تو اس صورت میں ہو کہ مرد ہوں حکومت نے تو مردوں کو عورتیں بنادیا ہے۔ خدانہ کرے کہ جاپانی کبھی اِس مُلک میں آسکیں لیکن اگرکبھی ایسا ہؤا تو وہ دیکھیں گے کہ بنگال سے پشاور تک کشمیر ی ہی کشمیری بھرے پڑے ہیں۔ ہندوستان کے اکثر لوگ ُبزدل ہوچکے ہیں۔ جرأت باقی نہیں، ہتھیار کے تونام سے ڈرتے ہیں اور اِس بارہ میں حکومت کی پالیسی ایسی خطرناک ہے کہ خود اپنے ساتھ دشمنی کرنے والی بات ہے۔ وہ ڈرتی ہے کہ لوگوں کے پاس ہتھیار ہونگے تو وہ فساد کریں گے مگریہ بات صحیح نہیں۔ اگرلوگوں کو بندوقیںدے دی جائیں تو ہرگز فساد نہ ہوگا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ گتکا چلانے سے حکومت کوکیا خطرہ ہوسکتاہے اگرلوگوں نے گتکا سیکھ لیا تو اِس سے ہٹلر کوکیا مدد مل جائے گی؟ کیا وہ گتکا سے ّمسلح ہوکر ہندوستان پر حملہ آور ہوگا کہ یہ لوگ اس سے مل جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ گتکا سیکھ کر ایک شخص کی ُبزدلی میں کچھ کمی آجائے گی باقی رہا یہ امر کہ وہ اس سے کوئی تیس مارخان بن جائے گا یہ بالکل غلط بات ہے ۔ایک گتکا جاننے والابندوق والے کے سامنے کیا کرسکتا ہے۔ اگرحکومت ایسی باتوں سے ڈرتی ہے تو اسے چاہئے کہ حسینوں کو بھی اندھا کردے کیونکہ شاعر کہاکرتے ہیں کہ حسین نگاہ سے مار دیتے ہیں پس حکومت کی یہ پالیسی غلط ہے میں خاکساروں کا سخت مخالف ہوں مگر یہ حُکم کہ کوئی بیلچہ یا پھاوڑہ نہ رکھے اِس کابھی مَیں مخالف ہوں۔
خدام الاحمدیہ کی جنگ میں قا ِبل قدرامداد
ہماری جماعت کے انہی خدام نے جنگ کے لئے جو شاندار قربانی کی ہے وہ یہ ہے کہ اب
تک سات ہزار سے زیادہ رنگروٹ دیئے جا چکے ہیں۔اب تک ٹیکنیکل بھرتی میںشمالی ہند نے ایک لاکھ آدمی دیاہے جن میں سے ڈیڑھ ہزار ہم نے دیاہے گویا ۱۱۳فیصدی۔ پھر اب تک کنگ کمیشن والے ہندوستانیوں کی تعداد ۵،۶ہزار ہوگی اور اِن میںسے قریباً ایک سَو احمدی ہوں گے مگر اِس کے باوجود بعض افسروں کو خدام الاحمدیہ کی تحریک مشتبہہنظرآتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ ایک افسر نے کہا ہے کہ یہ ہیں توبڑے وفادار لوگ مگرہیں بڑے مشکوک۔ یہ طریق اگر حکومت کی طرف سے جاری رہا تو نوجوانوں میں اِس سے سخت بددلی پیدا ہوگی۔ میںنے ہمیشہ حکومت کو ازراہِ خیر خواہی یہ مشورہ دیاہے کہ اسے ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ سرکاری افسر باغیوں کو پکڑیں وفاداروں کو باغی نہ بنایا کریں۔
واقعہ ڈلہوزی کے متعلق حکومت کا اظہار افسوس
ڈلہوزی کے واقعہ کے متعلق حکومت نے اظہارِ افسوس کردیاہے اور لکھا ہے
کہ جن افسروں نے یہ غلطی کی انہیںسزادی جائے گی اس لئے اس معاملہ کو بھی اب ختم سمجھنا چاہئے۔
تفسیر القرآن انگریزی
انگریزی تفسیر القرآن چھپنے کے متعلق مجلس شوریٰ میں فیصلہ ہؤا تھا جو لوگ اس بات کے حق میں تھے کہ جنگ کے دَوران میں ہی تفسیر
چھپ جانی چاہئے وہ یہ کہتے تھے کہ اِس وقت جنگ کی وجہ سے لوگوں کے قلوب نرم ہیںاس لئے اِس موقع پر تفسیر چھپ جانے سے تبلیغ کا راستہ ُکھل جائے گا۔ لیکن اکثر دوستوںکی رائے یہ تھی کہ جنگ کے بعد چھپوائی جائے کیونکہ اچھی چھپ سکے گی اور خرچ بھی کم ہوگا مگر میں نے ان دوستوں کے حق میں فیصلہ کیا تھا جن کی تعداد تھوڑی تھی۔ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو دوست خریدنا چاہیں وہ دس روپیہ فی ِجلد کے حساب سے بطور پیشگی جمع کرادیں باقی قیمت بعد میںلے لی جائے گی۔ آجکل کا غذ کا جونرخ ہے اس کے لحاظ سے قیمت چالیس سے پچاس روپیہ تک ہوگی مگرہم نے کاغذ پہلے خرید لیا تھا اور اس لئے اگر ضخامت ۲۵۰۰ صفحات ہو تو قیمت ۳۶سے۴۰تک ہوگی پنجاب کے سب سے بڑے مطبع کے ساتھ چھپائی کے لئے انتظام کیا جارہا ہے۔ دردصاحب نے بتایا کہ مطبع والوں کا جواب آگیا ہے مگر ابھی مجھے نہیں ملا مگر اس تأخیر کا ایک فائد ہ بھی ہوگیا اور وہ یہ کہ سارامواد بغیر ایڈیٹنگ کے یونہی پڑا تھا اب میں نے چھ آدمی اس کام پر لگائے ہیں اور بڑے زور سے کام ہورہاہے اور اب وہ سورۃ مائدہ میں ہیںمجلس شوریٰ تک ایک ِجلد کی طباعت ہوسکتی تھی مگر مشکل یہ ہے کہ پریس والے کہتے ہیں کہ عربی کا ٹائپ آجکل نہیں ملتا۔
اردو تفسیر القرآن
اردو تفسیر کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ وہ شائع نہیں ہوسکی پانچ سَو صفحات سے زیادہ کا مضمون مَیں دے چکا ہوں اور اِس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ
کام ہؤا ہے۔ میری صحت بہت خراب رہی ہے ورنہ اِس سے بھی زیادہ کام ہوسکتاتھا۔ میری صحت کی خرابی میں د انتوںکا دخل ہے بعض اوقات دانت کا ٹکڑا آپ ہی آپ ُٹوٹ کر َگرجاتا ہے اور اس وجہ سے میں کھانا وغیرہ چبا کرنہیں کھا سکتا روٹی بہت کم کھا سکتا ہوںبسااوقات چھٹانک سے بھی کم وزن کا ُپھلکا ہوتاہے جو کھاتا ہوں مگراِس کے باوجود پیٹ میں خرابی رہتی ہے۔ خون کم پیدا ہوتا ہے اور پیچش بھی ہوجاتی ہے اور اِس وجہ سے ہاتھ کی اُنگلیاں بھی پوری طرح کام نہیں کرسکتیں۔ آخر سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون کا تب کولکھوادیاکروں اورخداتعالیٰ کے فضل سے اِس میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور بڑی جلدی کام ہونے لگاہے۔ جنہوںنے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اِس طرح لکھے ہوئے اور میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے میں فرق نہیں۔ اس طرح بعض اوقات میں نے ساٹھ ساٹھ کالم مضمون لکھوادیاہے اور امید ہے کامیابی ہوگی مشکل یہ ہے کہ مضامین اِس طرح اُلجھتے ہیں کہ جیسے ایک خزانہ کے اندر دوسر ا خزانہ مخفی ہواور آٹھ رکوع میں ہی پانچ سَوصفحات ختم ہوگئے ہیںاور اتنا بھی مضامین کا گلا گھونٹ گھونٹ کر کیا گیا ہے۔ پہلے تجویز تھی کہ تین سورتیںپہلی جلد میں ختم ہوجائیں، پھر یہ خیال کیا کہ دوسورتیں پہلی جلد میں ختم کی جائیں،بعد میں خیال آیا کہ صرف سورہ بقرہ ہی پہلی جلد میںختم کی جائے مگر اب یہ بھی مشکل نظرآتا ہے میں بہت سی باتیں چھوڑتا بھی ہوںچونکہ ابتدائی مضمون ہے اس لئے یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے تفصیل آگے فائدہ دے اس لئے ہر بات بیان کرنی پڑتی ہے اور اس لئے پانچ سَو صفحات میں صرف آٹھ رکوع ختم ہوئے ہیں۔ جیساکہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کاغذ کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے اوراِس وقت گیارہ بارہ ُگنا زیادہ ہوچکی ہے مجھے خداتعالیٰ نے سمجھ دے دی اورمیں نے انور صاحب کو کہا کہ کاغذ اکٹھا خرید لیں انہوں نے خرید لیا اوراس سے بہت فائد ہ رہے گا۔ کاغذ چونکہ سلسلہ کے روپیہ سے خریدا گیا ہے اس لئے سلسلہ کو بھی فائدہ ہوگا اور مجھے بھی ثواب ملے گا۔ اگلی جلد اگر جنگ کے دَوران میں چھپوائی گئی تو ممکن ہے اس کی قیمت پندرہ روپیہ تک ہو۔ میں نے تحریک جدیدوالوں کو ہدایت کی تھی کہ جتنے فرمے چھپ چکے ہیں ان کی چارپانچ جلدیں سی کر دفتر میں رکھ دیں۔تاکہ کوئی دوست پڑھنا چاہے تو پڑھ سکے اورجن کو زیادہ شوق ہے انہیں کچھ تسلی ہوجائے۔
تبلیغِ خاص کی تحریک
اس کے بعد میں تبلیغِ خاص کے متعلق کچھ کہنا چاہتاہوں اس میں جماعت نے بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا ہے جب اس کا اعلان کیاگیا تھا اُس وقت
’’الفضل‘‘ کے خطبہ نمبر کی قیمت اڑھائی روپیہ سالانہ تھی مگر اب الفضل والے کہتے ہیں کہ ساڑھے سات روپیہ سالانہ قیمت ہوگی اور انہوں نے اِس کا حساب بھی پیش کردیاہے۔ اِس وقت مختلف جگہوں کے دوست بیٹھے ہیں اگروہ سمجھیں کہ اِس سے کم قیمت میں اخبار مہیاہونے کی کوئی صورت ہے تووہ بتادیں۔ میں نے سنا ہے بعض شہروں میںکاغذ کا سٹاک ہے اگر سستاکاغذ ملنے میںوہ کوئی مدد کرسکیں تو بتادیں بہرحال یہ پرچے جلدی جاری کرادئیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ میں نے ایک ٹریکٹ بھی لکھ لیا ہے۔ خط وکتابت کے لئے بھی دوستوں نے اپنے نام دئیے ہیں اورامید ہے جلدی کام شروع کیاجاسکے گا۔
تحریک جدید کا امانت فنڈ
اس کے بعد مَیں تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف دوستوں کومتوجہ کرنا چاہتا ہوں پہلے اِس فنڈ میں جمع ُشدہ روپیہ کی واپسی
پرجو پابندیاں تھیں وہ دُور کردی گئی ہیں اور اب جس وقت کوئی دوست چاہے اپنا روپیہ واپس لے سکتاہے آج جمع کراکے اگر کوئی چاہے تو َکل بھی واپس لے سکتا ہے۔ اگر دوست اِس فنڈ میں امانتیں جمع کراتے رہیں تو بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جس طرح وہ اور بنکوں میں روپیہ جمع کراتے ہیں اِس میں بھی کراسکتے ہیںجب چاہیں روپیہ واپس بھی مل سکتا ہے اِس سے ان کو ثواب بھی حاصل ہوگا، اس سے جو فوائد سلسلہ کو پہنچ سکتے ہیں وہ مَیں پہلے کئی بار بیان کرچکا ہوں۔
تحریک جدید کا چندہ
تحریک جدید کے چندہ میں مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ اس وقت تک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں پچھلے سال جو
تحریک جدید کے لحاظ سے کامیاب ترین سال سمجھاجاتاہے ۳۱؍ جنوری تک اتنے وعدے آئے تھے گویا اِس سال بہت سے دوستوں نے پہلے وقت میں وعدے کئے ہیں اور بعض دوستوں نے اپنے وعدوں میں معقول زیادتی بھی کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ جس طرح گزشتہ سال اکثردوستوں نے بروقت ادائیگی کی ہے اس سال بھی کریں گے وعدہ کرنے والے دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے وعدوں کو جلد اداکردیں پنجاب کی جماعتوں کے وعدوںکے لئے ۳۱؍جنوری آخری تاریخ ہے اِس وقت تک ساڑھے تین سَو جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ابھی وعدے نہیں بھجوائے اُن کو چاہئے کہ ۳۱؍جنوری تک وعدے بھجوادیں جیسا کہ مَیں کئی بار بتا چکا ہوں۔
تحریک جدید کے چندہ سے
تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ
تحریک جدید کے چندہ سے تبلیغ کے لئے مستقل فنڈ مہیا کیاجارہا ہے اور اس سے سندھ میں قریباً ساڑھے تین سَومربع اراضی خریدی گئی ہے اِس رقبہ میں سے بعض کی ُجزوی قیمت اداہوچکی ہے اور ۸۵ مربع کی پوری قیمت ادا ہو چکی ہے اور امید ہے کہ
اِس سال اور بھی رقبہ آزاد ہو سکے گادوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے سال تک ساری کی ساری زمین آزاد ہو سکے یہ اگر ہوگیا توگویا ۱۸لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ قائم ہوجائے گا بہت عرصہ ہؤا میں نے ۲۵لاکھ کے ریزرو فنڈ کی تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۸،۲۰لاکھ کا فنڈ قائم ہوجائے گا۔ جب میں نے تحریک کی تھی اُس وقت کئی لوگ خیال کرتے تھے کہ اِتنا بڑا فنڈ کس طرح قائم ہوسکے گا اور میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ اس طرح صورت پیدا کر دے گا اور ابھی میرے ذہن میں ایسی سکیم ہے کہ خداتعالیٰ چاہے تو چند سال میں ۲۵لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ کا فنڈ قائم ہوجائے گا۔ اور پھر اِس سے آگے میرے ذہن میں یہ ہے کہ اسے پچاس لاکھ کا بنانا ہے۔ یہ سکیم بڑی ہے ممکن ہے آج اِسے کوئی شیخ چلی کی سی بات سمجھے مگر پہلے بعض اس کو بھی تو ایسا ہی سمجھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پانچ ہزاری فوج والے رؤیا کو پورا کرنے والے یہی لوگ ہیں جو تحریک جدید میں باقاعدہ اور قواعد کے مطابق حصہ لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے بہت بڑاکام ہے اگر پانچ ہزار ّمبلغ بھی رکھے جائیں تو اِس کے لئے ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ سالانہ آمد کی ضرورت ہے اور اِتنی آمد پچیس کروڑ روپیہ کے ریزرو فنڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے اور اس طرح جب ہم ۲۵لاکھ کا فنڈ قائم کرسکیں گے تو گویا ایک فیصدی کام پورا کرسکیں گے اسے بڑھانے کی ابھی اور سکیمیں بھی میرے ذہن میںہیں عیسائیوں نے ۱۹ سَوسال کے عرصہ کے بعد پانچ ہزار چند سَو ّمبلغ پیدا کئے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اتنے ّمبلغ مقرر کرنے میں کامیاب کردے تویہ گویا مسیحؑ محمدی کی مسیحؑ موسوی پر بہت بڑی فضیلت ہوگی۔ بہرحال ۲۵لاکھ ریزرو فنڈ کی سکیم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پوری ہوتی نظرآتی ہے اس کے متعلق آئندہ جومیری تجاویز ہیںمیں انہیںفی الحال بیان کرنا پسند نہیںکرتا ہاں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی اس کے متعلق سوچتے رہیں اوراگر کوئی تجاویز ان کے ذہن میں آئیں تو مجھے بتائیں میں خود بھی سوچتا ہوں اور وقت آنے پر اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تومیں بیان کردوں گا۔
نماز باجماعت ادا کرنے کی تاکید
اب میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاناچاہتا ہوں کہ قادیان میں ہم نے خدام الاحمدیہ کے ذریعہ
نمازوں کے متعلق جو نظام قائم کیا ہے اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے دوسری جماعتوں کو بھی اپنے اپنے ہاں اسے رائج کرنا چاہئے یادرکھنا چاہئے کہ نماز پڑھنے اور باجماعت پڑھنے میں بڑافرق ہے اسلام اجتماعی مذہب ہے اور اس لئے اس نے باجماعت نماز پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں نماز کا جہاں بھی حکم ہے باجماعت نماز کا حکم ہے ایک جگہ بھی صرف نماز پڑھنے کانہیں سوائے ایک جگہ کے کہ جہاں خبرکے طورپر نماز نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے ورنہ ہر جگہ اَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ ہی آیا ہے اور اقا ِمت صلوٰۃ کے معنے باجماعت نمازکے ہیں۔اقامت کے معنی یہی ہیں کہ پوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء اور فجر کی نماز کے لئے مسجد میں نہیں آتے میں چاہتاہوں کہ اپنی جگہ کسی کو امام مقرر کروں اور ایسے لوگوں کے مکانوں کو مکینوں سمیت نذرِ آتش کردوں ۲؎ یہی دووقت زیادہ سردی اور نیند کے ہوتے ہیں اِس لئے جب ان نمازوں میں نہ آنے والوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا رحیم وکریم اور محبت کرنے والا شخص اِس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتاہے تو ظاہر ہے کہ باقی نمازوں میں نہ آنے والے کس قدر ُمجرم ہیں نماز باجماعت سے محرومی ہلاکت ہے۔ یہ ایک مستقل مضمون ہے اور میں وقتاًفوقتاً اسے بیان کرتابھی رہتاہوں مگر افسوس ہے کہ باوجود باجماعت نماز کے مواقع کے بہم پہنچنے کے ابھی ہماری جماعت میں اس کا رواج اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے۔ پہلے تواس کی وجہ یہ تھی کہ دوست ایک دوسرے سے دُور دُور رہتے تھے اور دوسروں کے ساتھ وہ پڑھ نہ سکتے تھے اس لئے یہ عادت پڑگئی کہ گھر وں میں نماز پڑھ لی جائے اگرچہ اِس صورت میں بھی نماز باجماعت کی یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالی جائے تو عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی اس عادت کو ترک کرکے نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب نماز کے لئے مسجدمیں نہ جاسکتے تھے گھرمیں ہی جماعت کرالیا کرتے تھے اور شاذ ہی کسی مجبوری کے ماتحت الگ نماز پڑھتے تھے۔ اکثر ہماری والدہ کو ساتھ ملا کر جماعت کرا لیتے تھے والدہ کے ساتھ دوسری مستورات بھی شامل ہوجاتی تھیں پس اول توہر جگہ دوستوںکو جماعت کے ساتھ مل کر نماز اداکرنی چاہئے اور جس کو یہ موقع نہ ہو اسے چاہئے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی مل کر نماز باجماعت کرالیا کرے ہر جگہ دوستوں کو نماز باجماعت کاانتظام کرناچاہئے۔ جہاں شہر بڑا ہو اور دوست دُور دُور رہتے ہوں وہاں محلہ وار جماعت کا انتظام کرنا چاہئے۔ جہاں مساجد نہیں ہیں وہاںمساجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں نے دیکھا ہے بعض جگہ کے دوستوں میں یہ نقص ہے کہ وہ یہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ فلاں جگہ ملے گی تو مسجد بنا ئیں گے ایسے دوستوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا خدا تعالیٰ سے ملاقات کو بیوی کی ملا قات جتنی بھی اہمیت نہیں کیا کوئی شخص یہ بھی کبھی کہتا ہے کہ جب مجھے فلاں محلہ میں زمین ملے گی تووہاں مکان بنا کر شادی کروں گا؟ پھر خدا تعالیٰ کی ملاقات کے لئے گھر کی تعمیر کو کسی خاص جگہ ملنے پر ملتوی رکھنا کیونکر درست ہوسکتاہے۔جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنا لینی چاہئے پھر اگر اپنی پسند کی جگہ حاصل ہوجائے تواس کے سامان کو وہاں لے جا کر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کے سامان سے بہتر مسجد بنانے میں کیا حرج ہے۔آخر ہر مسجد خانہ کعبہ کی حیثیت تونہیں رکھتی کہ اسے اپنی جگہ سے ِہلایا نہیں جاسکتا۔
جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنالی جائے
پس جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنا لو اور جب وہ جگہ ملے گی جہاں تم بنانا چاہتے ہو تو اُسی کے سامان سے وہاں
بنا لینا۔ امرتسر کی جماعت نے۸،۹ہزار روپیہ مسجد کے لئے جمع کیا ہؤا ہے مگر پندرہ سولہ سال سے کسی خاص جگہ کے انتظار میں مسجد نہیں بنوائی اور یہی سوچ رہے ہیں کہ اسلامیہ سکول کے سامنے اتنی جگہ ملے تو بنوائیں گے۔ کئی نئے محلے امرتسر میں بن چکے ہیں مگرانہوں نے کہیں بھی مسجد نہیں بنوائی۔ چار پانچ سال ہوئے میں نے ان سے کہا کہ فلاں جگہ بنوالینی چاہئے توانہوں نے کہا کہ جی وہ بہت دُورہے وہاں کون جائے گا۔ خداتعالیٰ کے گھر کے لئے یہ خیال کرنا کہ جگہ ایسی ہو اور عمارت، ایسی فضول بات ہے اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ اُس کا گھر سادہ ہو۔ تم اپنے مکانوں پر بیل ۔ُبوٹے بنواتے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے لئے اس کی ممانعت کی ہے وہ چاہتا ہے کہ صرف دیواریں ہوں اور چھت ہو خواہ کھجور کی شاخوں کی ہی ہو اس میں کسی ظاہری خوبصورتی کی ضرورت نہیں خدا کے ذکر کا حُسن ہونا چاہئے۔ پس میں دوستوں کو نصیحت کرتاہوں کہ جہاں جہاں ہوسکے اورجس جگہ بھی ممکن ہو مساجد بنالیں پھرجب اچھی جگہ مل جائے گی اِسی سامان سے وہاں بنالیں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ میرا گھر ایسا ہو، عمارت اس طرح کی ہو بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرے نام پر کوئی جگہ بنالو خواہ وہ کتنی سادہ کیوں نہ ہو۔ چند سال پہلے میں دہلی گیا تو وہاں ایک جگہ کی قیمت ایک روپیہ گزتھی میں نے وہاں کے دوستوں سے کہا کہ یہاں مسجد بنالو مگر انہوں نے کہا کہ یہاں کون آتا ہے۔ اب میں وہاں گیا تواُسی کی قیمت پچاس روپیہ گز تھی میں نے دوستوں سے کہا کہ میں نے اُس وقت کہا تھا اگرلے لیتے تو کتنے فائدہ میں رہتے پس اِس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ جہاں بھی ہو فوراً مساجد تعمیر کر لینی چاہئیں۔
ہر احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھے
دوسری چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتاہوں یہ ہے کہ میں نے خدام الا حمدیہ کے جلسہ میں اعلان کیا تھا
کہ اِن میں سے ہر ایک کو قرآن کریم کے ترجمہ کو پڑھنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری جماعت قرآن کریم کے ترجمہ سے واقف ہوجائے توکایا پلٹ جائے گی اِس کی طرف خاص طور پرتوجہ کرنی چاہئے۔ خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ اس تحریک کو چلائیں اور مجالس سے اِس کے متعلق رپورٹیں لیتے رہیں۔ بعض جماعتوں نے لکھاہے وہ بھی اس کے لئے تیار ہیں بعض جگہ پڑھانے والے نہیں ملتے یا پڑھانے والا ایک آدھ ہے تو پڑھنے والے زیادہ ہیں او روہاں ’’ایک انارصد بیمار‘‘ کی مثال صادق آتی ہے۔ دیہات میں بھی استادوں کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ کے لئے ایسے استاد مہیا کرنا جو ایک ایک آیت کرکے سالہا سال میں قرآن کریم کا ترجمہ ختم کرا سکیں تو مشکل ہے البتہ میری تجویز ہے کہ بعض ایسے استاد مقرر کئے جائیں جو مختلف مقامات پر دودوماہ ٹھہر کر ان لوگوں کو ترجمہ پڑھادیں جو اِس عرصہ میں پڑھ سکتے ہوں اور پھر وہ آگے اپنے اپنے ہاں کے دوسرے لوگوں کو آہستہ آہستہ پڑھاتے رہیں۔
(الفضل ۲۸؍فروری ،یکم مارچ ۱۹۴۵ء)
۱؎
لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْ ًلا
(بنی اسرائیل:۳۸)
۲؎
بخاری کتاب الاذان باب فَضْل صَلٰوۃِ العِشَاء فی الجَمَاعَۃِ







ممبران پنجاب اسمبلی کوایک مخلصانہ مشورہ





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
ممبران پنجاب اسمبلی کوایک مخلصانہ مشورہ
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
پنجاب میں امن قائم رکھنے کی اہمیت
برادران! سرسکندر کے خیالات اور پالیسی سے ہم میں سے بعض کو خواہ کس قدر ہی اِختلاف ہو
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی وفات سے پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک زبردست طوفان پیدا ہوگیاہے اور صوبہ کا امن خطرہ میں پڑگیا ہے۔ ان خطرہ کے ایام میں سب سے زیادہ ضرورت ایک مضبوط حکومت کی ہے جوایک طرف جنگ کے کام میں پوری طرح مدد کرسکے اور دوسری طرف ملک میں امن قائم رکھ سکے۔ اِس قسم کی حکومت تبھی قائم کی جاسکتی ہے جب کہ ہر ممبر اسمبلی اپنے ذاتی مفاد کو ُملکی مفاد پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔ اگر یہ نہ ہؤا تو پنجاب ان فسادات اور خرابیوں سے دوچار ہوگا جن سے ہندوستان کاکوئی اور صوبہ دوچارنہیں ہؤا۔ کیونکہ پنجاب ہندوستان کا میگزین ہے اور مختلف زبردست اقوام کامسکن ہے جن میں سے بعض نہایت منظم ہیں جن میں ایک دفعہ خود سری پیداہوئی تو پھر انہیں اکٹھا کرنا مشکل ہوگا۔
آپ لوگوں میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ میرے تعلقات پنجاب کی حکومت سے گزشتہ سالوں میں اچھے نہیں رہے نہ بالا حکومت کے نمائندوں سے اور نہ منتخب نمائندگان سے۔ اور اگر ُملکی مفاد کا خیال نہ ہوتا تو میں اِس وقت با لکل خاموش رہتا لیکن ُملکی مفاد کا سوال اِس وقت اِس قدر اہمیت پکڑ گیا ہے کہ میں خاموش نہیں رہ سکتا۔
اختلاف واِنشقاق کے خطرناک نتائج
میری ذاتی رائے یہ تھی کہ موجودہ مشکلات کے ۔ ّمدِ نظر سر فیروزخان صاحب نون کو پنجاب ُبلوایا
جاتا اور حکومت کی تشکیل کاکام اُن کے سپرد کیاجاتا لیکن ملک معظم کے نمائندہ نے مناسب سمجھا کہ میجر ملک خضر حیات خاں کے سپرد یہ کام کریں مسلمان ممبروں کو اس موقع پر ُپورا حق حاصل تھا کہ وہ بہ اِتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے حکومت سے کہہ دیتے کہ انہیں میجر خضر حیات خاں کی سرداری پر اعتماد نہیں اگر وہ ایسا کرتے تو باوجود ہمارے خاندان اور ان کے خاندان کے کئی ُپشتوں کے تعلقات کے مَیں مسلمانوں کی عام رائے کے ساتھ ہوتا کیونکہ گووزیرِ اعظم کے تقررکا اختیار گورنر صاحب کو حاصل ہے لیکن اس پر اعتماد یا عدمِ اعتماد کے اظہار کا اختیار اسمبلی کے نمائندگان کو حاصل ہے۔ مگرمَیں نے سُنا ہے کہ یونینسٹپارٹی جو اکثریت رکھتی ہے اُس نے میجر خضر حیات خاں صاحب پر اعتماد کا اظہار کردیاہے۔ اِس کے بعد اسمبلی کاایک ہی کام باقی رہ جاتاہے کہ وہ اپنے ووٹ کی عزت کرے لیکن میں نے سُنا ہے کہ بعض وزارتوں اور سیکرٹری کے ۔ُعہدوں کے بارہ میں اندر ہی اندر زبردست پروپیگنڈا ہورہاہے اور بعض لوگ اس بات پر بھی تیار ہیں کہ اگر ان کو عُہدہ نہ ملا تو وہ پارٹی میں تفرقہ پیدا کرنے سے بھی نہ رُکیں گے۔ اگر ایسا ہؤا توکیا ہوگا۔ فرانس کی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی اَن۔ ِگنت پارٹیاں بن جائیںگی جن کی بنیاد کسی سیاسی اختلاف پرنہ ہوگی بلکہ ذاتی اغراض پر ہوگی اور پنجاب کی حکومت اِس استقلال سے محروم ہوجائے گی جواِسے اب حاصل ہے کوئی حکومت چند ماہ سے زیادہ نہ چل سکے گی۔ ممبروں کا وقت اس میں خرچ نہ ہوگا کہ ُملک کے فائدے کے امور پر غور کریں بلکہ اپنے لئے ُعہدے طلب کرنے یا دوسروں کو ُعہدے پیش کرنے کے جوڑ توڑ میں سب وقت خرچ ہوگا اور پنجاب کا بھی وہی حال ہوگا جو فرانس کا ہؤا ہے مگر فرانس نے کئی سَوسال جوانی کی بہاریں دیکھی ہیں پنجاب اُن غنچوں میں ہوگا جو ِبن ِکھلے ہی مُرجھاجاتے ہیں۔
وزراء یا نائب وزراء کا تقرر
کیا کوئی عقلمند یہ خیال کرسکتاہے کہ دنیا کا کوئی وزیر اعظم مجلس آئین ساز کے ہر ممبرکو وزارت یا نائب وزارت دے
سکتاہے بلکہ نصف یا چوتھے یا دسویں یا بیسویں حصہ کو بھی وزارتیں دے سکتاہے؟ ہر گز نہیں۔ پھر پنجاب جو باوجود ُملکی وُسعت کے ابھی اِس قدر سرمایہ کامالک بھی نہیں جس کے بیلجیئم یا ناروےؔ جیسے چھوٹے ملک مالک ہیں وہ اس تعیّش کو کب برداشت کرسکتاہے؟
ان حالات میں بلکہ ہر قسم کے حالات میںایک ہی صورت ممکن ہے کہ پارٹی وزیراعظم کے انتخاب میں توبے شک دخل دے لیکن جب کوئی وزیر اعظم ُچنا جائے تو باقی ُعہدوں کے انتخاب کو ُ ّکلی طورپر اُس پر چھوڑ دے۔ اگراُس کا انتخاب کامیاب ہو تو فَبِہَا۔ اگر بعض ُعہدہ دار کامیاب ثابت نہ ہوں تو چند ماہ کے تجربہ کے بعد پارٹی میں اُس ممبر کے خلاف ریزولیوشن پیش کیاجاسکتا ہے۔ اگر اکثریت کی رائے اُس کے خلاف ہوگی تو وہ خود استعفا ء دے دے گا یا وزیراعظم اسے استعفاء دینے پر مجبور کردے گا۔ لیکن نیا انتخاب پھر بھی وزیراعظم کے ہی ہاتھ میں چھوڑنا پڑے گا کیونکہ جس پر کام کی ذمہ داری ہو اُسے اپنے مذاق کے آدمی ُچننے کا اختیار دینے ہی میںکامیابی کی کلید ہوتی ہے۔ اور جمہوری حکومتوں کے تجربہ نے اِس امر کی ضرورت اور اہمیت کو اِس حد تک ثابت کردیاہے کہ اِس کا انکار کسی صورت میں درست نہیں۔
دیانت داری کے امتحان کا وقت
آپ لوگوں کی طرف اِس وقت سارے ُملک کی نظریں ہیں لوگ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کس حد تک ُملک کی
خیر خواہی اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ذاتی دوستیوں یا لحاظ کا یہ وقت نہیںاگر کوئی شخص آپ سے یہ استدعاکرتاہے کہ ذاتی دوستی یا اپنے فائدہ کے ّمدِ نظر آپ وزیر اعظم پر زور دیں کہ وہ اسے وزیر یا نائب وزیر منتخب کریں تو سمجھ لیںکہ آپ کی دیانتداری کے امتحان کا وقت آگیا ہے۔ اس دوست سے صاف کہہ دیں کہ میری ذاتی جائداد آپ کی ہے میں اپنے مال کو آپ کے لئے قربان کرسکتاہوں مگر قوم کی امانت آپ کے سپرد نہیںکرسکتا۔ اگرآپ ایسا کریں گے تو خداتعالیٰ آپ پر راضی ہوگا اور آئندہ نسلیں آپ کے نام کو عزت سے دیکھیں گی۔ وہ دوست ممکن ہے آپ کا دشمن ہوجائے مگر خداتعالیٰ آپ کا دوست ہوجائے گا اور یہ سَودا آپ کو ہرگز مہنگا نہ پڑے گا۔
صحیح طریقِ عمل
میںنے خود اِس پر عمل کیا ہے اور بعض دوست جنہوں نے اِس بارہ میں مجھ سے مدد طلب کی ہے اُنہیں صاف کہہ دیا ہے کہ میں کسی پروپیگنڈا میں اُن کا
یا کسی کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ ہاں مَیں اِس کے لئے بالکل تیار ہوں کہ اگر وزیر اعظم صاحب کو مسلمانوں کی اکثریت قابلِ اعتماد نہیں سمجھتی اور یونینسٹ پارٹی کے اجلاس میں یا خالص مسلمانوں کے اجتماع میں ان کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پاس کردیاجائے تو مسلمانوں کی اکثریت کا ساتھ دوں ۔ مگر ان کی جگہ جوبھی دوسرا شخص ہومیری رائے یہی ہوگی کہ اسے اپنے ساتھی ُچننے کاپورا اختیار ہونا چاہئے ورنہ فسادکا دروازہ بند نہ ہوگا اور حِرص اور لالچ اورر شوت اور سفارش کی گرم بازاری رہے گی۔
مضحکہ انگیز حرکات کی مثال
اِس قسم کی حرکات کاسخت بُرا اثر پڑتاہے اور قوم بدنام ہوجاتی ہے میں ایک گزشتہ تجربہ آپ کو بتاتاہوں ایک موقع
پر پنجاب میں وزارت کا سوال تھا سرجیفرے ڈی مانٹ مورنسی۱؎ گورنر تھے میں شملہ سے آرہا تھا کہ امرتسر میں مجھے ایک وفد ملا اور اُس نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ گورنر صاحب کو فلاں شخص کے بارہ میں مشورہ دوں کہ اُسے ممبر مقرر نہ کیا جائے۔ ان صاحب نے مجھ سے الگ خواہش کی تھی کہ میں اُن کے حق میں گورنر صاحب سے کہوں( سر جیفرے کے مجھ سے بہت اچھے تعلقات تھے) مَیں پہلے اُن صاحب کی خواہش ردّ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اور یہ لکھنے کا ارادہ رکھتاتھا کہ مجھے اِن معاملات سے کیا تعلق ہے لیکن اس وفد کی ملا قات کے بعد جس میں ُملک کے سربرآوردہ لوگ شامل تھے میں نے گورنر صاحب کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور انہیں لکھا کہ زید یا بکرجو لائق ہو اُسے ممبر بنانا چاہئے لیکن کسی شخص کومحض دوسروں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے جبکہ اُسے ایک دفعہ اس کام پر مقرر کیا جاچکاہو الگ کرنا ہر گز دانائی اور انصاف نہیں۔ انہوں نے اِس خط کے جواب میں جو خط لکھا اِس سے آپ سمجھ سکتے ہیںکہ اِس قسم کا پروپیگنڈا دوسروں کے دلوں پرکیا اثر ڈالتا ہے۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ مَیں آپ کے مشورہ کا خیال رکھو نگا۔ پھر لکھا کہ اِس وقت جو کچھ لاہور میں ہورہاہے سخت مضحکہ انگیز ہے۔ مختلف پارٹیاں بنی ہوئی ہیںاوران کے نمائندے سٹیشن پر ہجوم کئے رکھتے ہیں جو ممبر باہر سے آتاہے اُسے دبوچنے او ر دوسروں سے ملنے سے پہلے اپنے امیدوار سے ملنے کے لئے شہر کے باہر ہی باہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خط ظریفانہ انداز میںتھا مگر اِسے پڑھ کر مسلمانوں کی حالت پر شرم کے مارے مَیں پسینہ پسینہ ہوگیا۔
مخلصانہ مشورہ
پس اے دوستو! آپ جو کچھ کریں گے وہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہے گااگرپارٹی بازی اورجنبہ داری کا نمونہ آپ دکھائیں گے تو غیر اقوام کے
دوست اور دشمن آپ کے کام کو حیرت اور تحقیر کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ مسلمانوں کے دشمن خوش ہوں گے کہ آج کا مسلمان بھی اسی طرح ہمارا شکار ہے جس طرح۔ َکل کا تھا۔ آپ اپنی طاقت کو کھوبیٹھیں گے۔ آپ اپنی اولادوں کی قبریں اپنے ہاتھوں سے کھودنے والے ہوںگے اَلْعَیَاذْبِاللّٰہ۔
پس میں اخلاص سے آپ کو مشورہ دیتاہوں کہ اِس وقت ذاتی دوستوں کے خیال کوبالائے طاق رکھ دیں اور اِس اصل کوپکڑ کربیٹھ جائیں کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے متعلق دیانتداری سے رائے دی جائے۔ اِس کے بعد دوسرے وزراء اور سیکرٹریوں کے انتخاب اُس پر چھوڑدیں اور جو اپنے آپ کو خود پیش کرے اُس کا ساتھ ہرگز نہ دیں کیونکہ اس کی دوستی ملک اور ملت کی دشمنی ہے۔
ممبرانِ اسمبلی کو انتباہ
میں اِس جگہ یہ بھی کہہ دینا چاہتاہوں کہ گوجماعت احمدیہ نہایت قلیل جماعت ہے پھر بھی پنجاب میں تیس کے قریب نشستیں ایسی ہیں کہ اگر
جماعت وہاںکسی امیدوارکا مقابلہ کرے تو اس کی کامیابی نہایت مشکوک ہوجائے گی او ر کم سے کم اسے ہزاروںروپیہ زائد خرچ کرنا پڑے گا۔مسلمانوںاور پنجاب کے فائدہ کے لئے میں یہ امر واضح کردینا چاہتاہوںکہ جس ممبر نے بھی اِس موقع پر ذاتی دوستی کا لحاظ کیا اور اختلاف پیداکرنے میں مدد کی ہماری جماعت اگلے انتخاب میں اس کی مخالفت کرے گی اور خواہ یونینسٹ پارٹی اُسے معاف کردے ہم اُسے معاف نہیںکریںگے کیونکہ مسلمانوںمیںمحض قومی فائدہ کے لئے خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کا ہم نے تہیہ کر لیا ہے۔جو لوگ ذاتیات کو قومی فوائد پر ترجیح دیں گے ہم یقینا اُن کا پوری طرح مقابلہ کریں گے خواہ حکو ِمت وقت اُن کی تائید میں ہی کیوں نہ ہو اور خواہ بعد میں وہ پہلو بدل کر پھر اکثریت کیساتھ کیوں نہ مل گئے ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ موقع کی اہمیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے اِس وقت اتحاد کو ہر دوسرے امر پر مقدم کریں گے۔ اِس وقت کوئی اصولی مسئلہ زیرِ بحث نہیں بلکہ صرف ذاتیات کا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوںکو سچائی کے لئے کھول دے اللہ تعالیٰ آپ کو مسلمانوں اور پنجاب کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمدامام جماعت احمدیہ قادیان
(الفضل ۱۴؍ جنوری ۱۹۴۴ء)
۱؎ مورنسی سر جیفرے ڈی مانٹ: پیدائش ۱۸۷۶ء ۔ پیمبروک کالج کیمرج میں تعلیم مکمل کی۔ ۱۸۹۹ء میں آئی سی ایس سے منسلک ہوئے۔ ۱۹۰۷ء تا ۱۹۲۰ء ڈپٹی کمشنر لائل پور رہے۔ ۱۹۲۰ء میں ڈپٹی سیکرٹری ھند۔ ۱۹۲۲ء تا ۱۹۲۶ء وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری، ۱۹۲۶ء تا ۱۹۲۸ء پنجاب ایگزیکٹو کونسل کے رکن اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر۔ ۱۹۲۸ء تا ۱۹۳۳ء پنجاب کے گورنر رہے۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۶۴۲)




سیر روحانی (۲)





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِـسْـمِ اللّٰہِ الـرَّحْـمٰـنِ الـرَّحِـیْـمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۲)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
ایک خبر پر تبصرہ اور جلسہ سالانہ
پر آنے والوں کو نصیحت
پیشتر اِس کے کہ مَیں اپنا آج کا مضمون شروع کروں مَیں ِسول اخبار کی ایک آج کی خبر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میری َکل کی تقریر کے بارہ میں اس میںشائع ہوئی ہے کسی نے کہا ہے۔
؎
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
یعنی وہ چور بھی کیسا بہادر ہے جو چوری کرنے کے لئے ہاتھ میں لیمپ لے کر آتا ہے حالانکہ لیمپ کی روشنی کی وجہ سے لوگ اُسے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُس کی چوری کے ُچھپے رہنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پہلے بھی ’’ ِسول‘‘ میں جھوٹ بولا گیا تھا جب اس کا ایک نمائندہ اُس وقت مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آیا جب میں نے اپنی وصیت کا اعلان کیا تھا وہ خود بھی سوالات کرتا گیا اور میں اُس کی باتوں کا جواب دیتا رہا جب وہ اُٹھنے لگا تو میں نے کہا کہ مجھے اخبار والوں کا بڑا تلخ تجربہ ہے اور مَیںڈرتا ہوں کہ آپ کوئی ایسی بات شائع نہ کردیں جو واقعات کے لحاظ سے غلط ہو میں چونکہ ایک ایسی جماعت کا امام ہوں جو چاروں طرف سے اعتراضات کا ہدف بنی ہوئی ہے اس لئے اگر آپ نے کوئی غلط بات درج کر دی تو لوگوں کو اورزیادہ اعتراض کرنے کا موقع مل جائے گا۔ وہ کہنے لگا آپ بالکل فکر نہ کریں ہم لوگ بہت دیانتدار ہیں او رکوئی بات خلافِ واقعہ درج نہیں کیا کرتے ۔
اس کے بعد وہ چلا گیا اور پھر اُس نے جو رپورٹ شائع کی اُس میں واقعات کو بہت کچھ بگاڑ دیا گیا تھا۔ اخبارات والوں میں چونکہ ایک دوسرے کے متعلق رقابت ہوتی ہے اس لئے ’’سٹیٹسمین‘‘ کو جب معلوم ہؤا کہ ِسول کا نمائندہ وہاں گیا تھا تو اُس نے بھی اپنے ایک نمائندہ کو بھیجا مگر باوجود اس کے کہ اُسے صرف پندرہ بیس منٹ ہی وقت دیا گیا تھا اُس نے جو رپورٹ شائع کی وہ ایسی غلط نہیں تھی جیسے ِسول اخبار کے نمائندہ کی۔ بعض غلطیاں اِس میں بھی تھیں مگر وہ قابلِ برداشت تھیں باقی تمام رپورٹ شریفانہ رنگ میں لکھی گئی تھی۔
بعض دوستوں کو یہ بھی ِشکوہ ہے کہ ِسول اخبار کا لہجہ چھچھورا ہے مگر میں سمجھتا ہوں یہ شکوہ ایسا اہم نہیں وہ ایک دُنیوی اخبار ہے کوئی مذہبی پرچہ نہیں اور جو اخبار محض دُنیوی ہو اور جس کے شائع کرنے کی غرض یہ ہو کہ ایک ایک آنہ میں اس کے پرچے بِک جائیں اس کے متعلق یہ امید رکھنا کہ اُس کی زبان چھچھوری نہ ہو صحیح نہیں۔ ایسے اخبارات شائع کرنے والوں کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ زبان ایسی ہو جس سے لوگ ّحظ اُٹھائیں اور اُن کا پرچہ فروخت ہو جائے بہرحال مجھے اِس پر اعتراض نہیں۔مجھے اعتراض یہ ہے کہ بعض باتیں واقعات کے لحاظ سے اس میں بالکل غلط لکھ دی گئی ہیں۔مثلاً وہی رئویا جو ۲۸ َسوجہازوں والا تھا اور جسے َکل میں نے تفصیلاً بیان کیا تھا اس کا ذکر میں نے ِسول کے نمائندہ کے سامنے بھی کیا تھا مگر اُس نے رپورٹ شائع کرتے وقت جہازوں کی تعداد ۲۸ َسو کی بجائے ۲۴ َسو لکھ دی جس کی سوائے اِس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ پڑھنے والوں کو جب معلوم ہو کہ خواب میں تو ۲۴ َ سوجہاز بتائے گئے تھے اور امریکہ سے ۲۸ َسو جہاز بھیجے گئے تو ان پر یہ اثر ہو کہ خواب جھوٹا نکلا ۔ پھر وہ خود ہی سوال کرتا گیا کہ آپ کے بیٹے کتنے ہیں؟ آپ نے شادیاں کتنی کیں؟ اب ان باتوں کے جواب میں یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میںسورۂ فاتحہ کی تفسیر شروع کر دیتا۔ جب وہ میری ذات کے متعلق باتیں دریافت کر رہا تھا تو میرا فرض تھا کہ میں اُنہی باتوں کا جواب دیتا مگر اُس نے اخبار میں میرے متعلق یہ لکھ دیا کہ وہ اس عرصہ میں اپنی ذات کے متعلق ہی باتیں کرتے رہے حالانکہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ سوال تو میرے متعلق کرتا اور میں جواب میں ُپرانے تاریخی واقعات بیان کرنا شروع کر دیتایا قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر شرو ع کر دیتا۔ اب َکل کی تقریر کے متعلق بھی اُس نے ایسا ہی کیا ہے اور چونکہ اُس نے ایک ایسی بات میری طرف منسوب کی ہے جو ہمارے عقیدہ کے خلاف ہے اس لئے مَیں اس کی تردید کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ِسول نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم عدمِ تشدد کے قائل نہیں اور یہ کہ ہم گورنمنٹ کو دکھادیںگے کہ ہم کیسے ہیں۔ اب ان الفاظ کاسوائے اس کے اور کیا مفہوم ہو سکتا ہے کہ ہم گورنمنٹ کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے،بم پھینکیں گے، پستول چلائیں گے اور قتل وخونریزی کا ارتکاب کریں گے حالانکہ شروع دن سے جماعت احمدیہ جس عقیدہ پر قائم ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کسی قسم کے فتنہ وفساد میں حصہ نہیں لینا چاہئے پس یہ بالکل جھوٹ ہے جو ِسول نے میری طرف منسوب کیا۔ احرار کی شورش کے زمانہ میں گورنمنٹ صراحتاً ہمارے خلاف حصہ لیتی تھی۔اُس وقت کے گورنر صاحب باوجود اس کے کہ ذاتی طور پر مجھ سے دوستی کا اظہار کیاکرتے تھے انہیں سلسلہ سے کوئی پرخاش تھی اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جماعت احمدیہ حکومت کی وفادار نہیں۔ اتفاقاً انہیںاُس وقت ڈپٹی کمشنر بھی ایسا مل گیا جس نے اپنا فائدہ اِسی میں سمجھا کہ ہمیں بدنام کرے۔ چنانچہ انہوںنے پوری کوشش کی کہ جماعت کو بدنام کیا جائے مگر ہم نے ایسے رنگ میں مقابلہ کیا کہ اپنے اصول کو بھی نہ چھوڑا اور گورنمنٹ کو بھی شکست کھانی پڑی ۔ اُس وقت جھوٹی رپورٹیں بھی کی گئیں، جھوٹے مقدمات بھی بنائے گئے اور ہر رنگ میں ہمیں دُکھ دینے اور دنیا کی نگاہ میں ہمیں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہم نے ان سب باتوں کو برداشت کیا اور شرافت کے ساتھ اسلامی طریق سے مقابلہ جاری رکھا اور آخر گورنمنٹ کو نیچا دیکھنا پڑا۔ پس جب کہ پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسر اِس فتنہ میںشامل تھے اور جب کہ ضلع کے ّحُکام دیدہ دانستہ ہمارے خلاف شرارتیں کر رہے تھے اُس وقت بھی ہم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا تو اب جب کہ لوکل افسروں کی ُبزدلی کامَیں ذکر کر رہا تھا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں دھمکی دے دیتا کہ پنجاب گورنمنٹ کی پالیسی جماعت کے خلاف ہے اور اگر اس نے اس پالیسی میںتبدیلی نہ کی تو اسے اس کے نتائج دیکھنے کے لئے تیار رہنا چاہئے پس یہ بات بالکل جھوٹ ہے اور نہ صرف عقل کے خلاف ہے بلکہ ہمارے سلسلہ کی تعلیم بھی اس کے مخالف ہے۔
پھر ایک اور عجیب بات اس نے لکھی ہے جسے پڑھ کر مجھے ہنسی آئی کہ مَیں نے اپنی تقریر میں کہا جب تک میں خداتعالیٰ کی راہ نمائی کے ماتحت کام کرر ہا ہوں اس جہاز کو حفاظت کے ساتھ چلاتا جائوں گا اور ہر قسم کے خطرات سے اسے محفوظ رکھوں گا حالانکہ نہ میں نے اس کا ذکر کیا اور نہ ہی اس قسم کا کوئی مضمون تھا۔معلوم ہوتا ہے غیر مبائعین کے متعلق مَیں نے جو یہ الہام بتایا تھا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔ غالباً اس روشن دماغ مضمون نگار نے اس الہام کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے تعجب ہے کہ ایسا ذمہ دار اخبار ایسے ُکود ن۱؎ لوگوں کو رپورٹ لینے کے لئے کیوں بھیج دیتا ہے جو بات کو پورے طور پر سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ ایسی خلافِ واقعہ رپورٹیں خود اخبار کے لئے مُضِرّ ہوتی ہیں اور چونکہ متواتر اس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اس لئے میں نے اس کی علانیہ تردید کر نی ضروری سمجھی ہے۔ چنانچہ پہلے تو میری خواب کا ذکر کرتے ہوئے اس نے جہازوں کی تعداد اٹھائیس سَو کی بجائے چوبیس سَو لکھ دی۔ اسی طرح لکھ دیا کہ وہ دَورانِ گفتگو میں اپنی ذات کے متعلق ہی باتیں کرتے رہے اور اب اس نے ہمارے اصول پر حملہ کر دیا۔خواہ یہ حملہ دیدہ دانستہ ہو اور خواہ بے وقوفی کے نتیجہ میںبہرحال افسوسناک ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ ِسول کا رویہ ہمیشہ ہمارے خلاف ہوتا ہے حالانکہ ’’سٹیٹسمین‘‘ نے کبھی ا س قسم کی شکایت کا موقع پیدا ہونے نہیں دیا۔ بہر حال یہ بات چونکہ ہمارے اصول کے خلاف تھی اس لئے میں نے اس کی تردید کرنی ضروری سمجھی ۔ ورنہ ہمیں نہ سِول کے جھوٹ کی پرواہ ہے اور نہ ہم اس کے نمائندوں کی کوئی حقیقت سمجھتے ہیں۔
اب میں اس مضمون کو شروع کرتا ہوں جس کے نوٹ اس موقع پر بیان کرنے کے لئے میں نے لکھے ہوئے ہیں۔
مجھے اِس دفعہ افسوس کے ساتھ اس شکایت کا علم ہؤا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہاں آکر مہمانوں میں عبادت اور ذکرِ الٰہی کے متعلق زیادہ ُمستعدی پیداہوتی مساجد میں ان کی حاضری بہت کم ہو گئی ہے ۔ ایک دن تو نماز کے وقت مسجد مبارک میں اتنی قلیل حاضری تھی کہ مسجد کا ایک حصہ خالی نظر آ رہا تھا حالانکہ اس سے پہلے تمام مسجد بھر جایاکرتی تھی پھر مسجد کا چھت لوگوں سے بھر جاتا تھا اور پھر گلیوں میں بھی دُور دُور تک لوگ صفیں باندھ کر نماز پڑھنے پرمجبور ہو جاتے تھے اور وہ صفیں مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔ مگر اس دن جب میں نے نماز ختم کی تو مسجد کے نچلے حصہ میں بھی ابھی ایک دو سطریں باقی تھیں۔حالانکہ مسجد کا نچلا حصہ صرف قادیان کے رہنے والوں سے ہی بھر جایا کرتا تھا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ مہمانوں نے ایک اعلیٰ درجہ کی عبادت بجالانے میں ُسستی سے کام لینا شروع کر دیا ہے حالانکہ مسجد مبارک وہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ جو کام بھی اس جگہ کیا جائے گا وہ مبارک ہو گا۔ اگر کوئی شخص قادیان آ کر بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا نہ وہ مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہوتا ہے اور نہ ہی سلسلہ کی ترقی کے لئے دعائیں کرتا ہے تو اُس کا آنا اپنے اندر کوئی معنے نہیں رکھتا۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ نیکی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی ُسستی او ر غفلت سے انہیں ضائع نہ کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تو نیکیوں کے حصول کے لئے ایسے بے تاب رہتے تھے کہ ایک دفعہ مجلس میں کسی صحابی نے ذکر کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہؤا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کے جنازہ کے ساتھ جائے اور دفن ہونے تک وہیں ٹھہرا رہے اسے دو قیراط ثواب ملے گا اور ہرقیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہو گا۔ دوسرے صحابہؓ نے جب یہ بات سنی تو وہ اس صحابی پرناراض ہوئے اور کہنے لگے نیک بخت! ُتو نے پہلے یہ بات ہمیں کیوں نہ بتائی معلوم نہیں ہم اب تک کتنے قیراط ضائع کر چکے ہیں۲؎ تودوستوں کو ان دنوںسے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور اپنے اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت، ذکرِ الٰہی اور دعائوں میں صرف کرنے چاہئیں۔ (الفضل ۱۱؍نومبر ۱۹۵۱ء)
(۴) مساجد
میں نے اس سفر میں جو چیزیں دیکھی تھیں ان میں سے کچھ مساجد بھی تھیں جو بڑی خوبصورت اور مختلف امتیازات والی تھیں۔ کسی میں کالے پتھر لگے ہوئے تھے، کسی میں سفید اور کسی میں سُرخ اور بعض میں اگر سادگی تھی تو وہ سادگی اپنی ذات میں اتنی خوبصورت تھی کہ دل کو ۔ُلبھا لیتی تھی۔ اسی طرح بعض مساجد اتنی وسیع تھیں کہ ایک ایک لاکھ آدمی ان میں بَیَکوقت عبادت کر سکتا تھا اور بعض اتنی بلند تھیں کہ انسان اگر اُن کی چھت کو دیکھنے لگے تو اُس کی ٹوپی گِر جائے غرض اپنے اپنے رنگ میں ہم میں سے ہر ایک نے اُن مساجد کو دیکھ کر ُلطف اُٹھایا اور جہاں موقع مل سکا وہاں ہم نے نفل بھی پڑھے۔
مساجد کی تعمیر میں ّنیتوں کا تفاوت
میں نے جب ان مساجد کو دیکھا تو اپنے دل میں کہا کہ ان خدا کے بندوں نے کیسی کیسی
عظیم الشان مساجد بنا کر خداتعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کو دنیا میں قائم کرنے کا اہتمام کیا تھا مگر ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ مساجد گو بڑی شاندار ہیں اور ان کے بنانے والوں نے ان کے بنانے پر بہت سا وقت اور روپیہ خرچ کیا ہے اور بہت بڑی قربانی سے کام لیا ہے تاہم نہ معلوم انہوں نے ان مسجدوں کو کس کس نیت سے بنایا۔ کسی نے ان کو اچھی نیت سے بنایا ہوگا اور کسی نے بُری نیت سے، کسی نے تو اس خیال سے مسجد تعمیر کی ہوگی کہ لوگ کہیں گے یہ مسجد فلاں بادشاہ نے بنائی تھی۔ اس رِیاکاری کی وجہ سے ممکن ہے وہ اِس وقت جہنم میں جل رہا ہو اور لوگ مسجد دیکھ کر کہہ رہے ہوں کہ واہ واہ! فلاں مسلمان نے کتنی بڑی نیکی کا کام کیا حالانکہ اُس نے چونکہ رِیاء کی وجہ سے مسجد بنائی تھی اِس لئے وہ جہنم میں اپنے اس فعل کی سزا پا رہا ہوگا۔ پھر کسی نے ایسی نیک نیتی سے مسجد تیار کی ہوگی کہ گو وہ مر گیا اور اُس کی بنائی ہوئی مسجد بھی ویران ہو گئی مگر اُس کو خداتعالیٰ کے فرشتے ہر روز جنت میں آکر سلام دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ ُ تو نے دنیا میں چونکہ خدا کا گھر بنایا تھا اس لئے اب آخرت میں ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہیں۔بیشک اُس کی مسجد میں اب لوگ نہیں آتے اور نہ وہاں آکر سلام کہتے ہیں مگر جنت میں اُسے فرشتے روزانہ اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہوں گے۔ غرض جب میں اس قلعہ کی چھت پر کھڑا تھا تو اُس وقت میرے خیالات یہ تھے کہ یہ دُنیوی چیزیں تھیں جن کو مَیں نے دیکھا اور جن سے اپنی معلومات میں اضافہ کیا، مگر ان دُنیوی چیزوں کے مقابلہ میں بعض روحانی چیزیں بھی اِسی قسم کی ہیں لیکن دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ وہ اپنی شان میں ان دُنیوی چیزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں، وہ اپنی بلندی میں ان سے کہیں اونچی ہیں اور وہ اپنی خوبیوں میں ان سے کہیں اعلیٰ ہیں، غرض وہ ایسی نادر روزگار چیزیں ہیں کہ دنیا کو اگر سینکڑوں نہیں ہزاروں صدیوں کا سفر کرکے بھی ان کی تلاش میں جانا پڑے تب بھی وہ سفر بیکار نہیں کہلا سکتا ، مگر باوجود اِس کے لوگ ان کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتے اور نہ ان کے بنانے والوں کی کوئی قدر کرتے ہیں، لیکن ان دُنیوی چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ یہ خیالات تھے جو اُس وقت میرے دل اور دماغ پر مسلّط تھے۔
عالَمِ روحانی کی شاندار مساجد
میں بتا چکا ہوں کہ میں نے اِس سفر میں بعض پُرانی اور شاندار مساجد دیکھیں، ایسی وسیع اور شاندار مساجد جن
میں ہزاروں آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تب میں نے غور کیا کہ یہ تو دُنیوی مساجد ہیں، کیا ان سے بھی بڑھ کر روحانی دنیا میں کوئی مسجدیں ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہیں تو دنیا ان سے کیا سلوک کر رہی ہے؟ جب میں نے اس امر پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ اِن مساجد سے بہت زیادہ شاندار مساجد روحانی دنیا میں موجود ہیں۔ مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی نہیں، چونے اور پتھروں سے بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ مسجدیں ایمان کی اینٹوں سے تیار ہوئی ہیں اور ان کی شان کو کوئی اور مسجد کبھی نہیں پہنچ سکتی۔
مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ دو چیزو ں میں مشابہت کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مشابہت شکل میں ہوتی ہے اور
کبھی کام میں۔ مثلاً ایک انسان کی تھوتھنی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ُ ّکتا ہے، کوئی گردن اکڑا کر رکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سؤر ہے، ایک انسان بڑا بہادر اور دلیر ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ شیر ہے۔ اب کسی کو شیر یا ُکتّا یا سؤر اِس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ اُس کے بھی شیر کی طرح پنجے ہوتے ہیں، یا وہ بھی کُتّے اور سؤر کی طرح ہوتا ہے بلکہ کبھی روحانی اور اخلاقی مشابہتوں کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام دیدیا جاتا ہے اور کبھی ظاہری مشابہت کی بناء پر ایک کو دوسرے کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ مسجد کے مشابہہ دنیا میں کونسی چیز ہے؟ میں نے اس کے لئے سب سے پہلے اس امر پر غور کیا کہ مسجد کا کام کیا ہوتا ہے اور وہ کس غرض کے لئے بنائی جاتی ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے آل عمران رکوع ۱۰ میں یہ آیت نظر آئی کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo ۳؎ یہ آیت بیت اللہ کے متعلق ہے جو درحقیقت اوّل المساجد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے پہلی مسجد اور سب سے اوّل اور مقدّم مسجد وہ ہے جو مکہ میں بنی اور جس کی نقل میں دوسری مساجد تیار ہوتی ہیں۔ یہاں بیت سے مراد درحقیقت بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہی کہلاتی ہیں، آگے بیان فرماتا ہے کہ اِس بیت اللہ کا کام کیا ہے اور اسے دوسرے مقامات پر کیا فوقیت حاصل ہے فرماتا ہے بیت اللہ کے بنانے میں ہماری تین اغراض ہیں۔
بیت اللہ کی تین اہم اغراض
اوّل وُضِعَ لِلنَّاسِ۔ یہ مسجد تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے کسی خاص فرد کے لئے نہیں۔ وہ زید
کے لئے نہیں، بکر کے لئے نہیں ، خالد کے لئے نہیں بلکہ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے۔ پھر مُبَارَکًا وہ برکت والی ہے۔ تیسرے ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ سب انسانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔ پس دنیا میں سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی اس کی تین اغراض تھیں۔
(۱) مساوات کا قیام
اوّل وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی، مطلب یہ کہ مسجد ایسا گھر ہوتا ہے کہ مساوات پیدا کرتا ہے اس میں غریب اور امیر
اور مشرقی اور مغربی کا امتیاز بالکل مِٹا دیا جاتا ہے۔ مسجد کے دروازہ کے باہر بیشک ایک بادشاہ بادشاہ ہے اور غلام غلام ، ایک شخص حاکم ہے اور دوسرا محکوم، ایک افسر ہے اور دوسرا ماتحت مگر اِدھر مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر امیر اور غریب، حاکم اور محکوم سب برابر ہو گئے۔ کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو مسجد میں ایک غلام سے بھی یہ کہہ سکے کہ یہاں مت کھڑے ہو تم وہاں جاکر کھڑے ہو بلکہ اسلام میں یہ مساوات اِس حد تک تسلیم کی جا چکی ہے کہ بنواُمیّہ کے زمانہ میں جب بادشاہوں نے ظلم کرنے شروع کر دیئے تو پہلے تو مسجد میں جب بادشاہ آتا تو تعظیم کے طور پر لوگ اُس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے مگر بعد میں وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے اور جب نوکر کہتے کہ جگہ چھوڑ دو تو وہ کہتے کہ تم ہمیں مسجد سے اُٹھانے والے کون ہو؟ مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں۔ آجکل کا زمانہ ہوتا تو بادشاہ نوکروں سے لوگوں کو پٹوانا شروع کر دیتے مگر اُس وقت اسلام کا اس قدر رُعب تھا کہ بنوامیہ نے مسجد کے باہر حُجرے بنائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دیا مگر یہ جرأت نہ ہوئی کہ مسجد میں آکر لوگوں کو اُٹھا سکیں۔ تو مسجد وُضِعَ لِلنَّاسِ ہوتی ہے اور اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے ُکھلے ہوتے ہیں۔ کالے اور گورے کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی، چھوٹے اور بڑے کا اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک کا مسجد میں مساوی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ غرض مسجد کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں مساوات پیدا کرتی ہے۔
(۲) تقدّس اور ذکرِ الٰہی کا مرکز
دوسری غرض مسجد کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مُبَارَکاً وہ مقامِ مبارک ہوتا ہے۔ مَیں مسجد
کے مقامِ مبارک ہونے کی اور مثالیں دے دیتا ہوں۔
(الف) مسجد اس لئے مقامِ مبارک ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں، باقی گھروں میں تو اور کئی قسم کے دُنیوی کام بھی کر لئے جاتے ہیں مگر وہاں دُنیوی کاموں کی اجازت نہیں ہوتی۔ یا اگر کئے بھی جائیں تو وہ اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جیسے مسجد میں اگر کوئی غریب شخص رہتا ہو تواُسے اجازت ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھا لے مگر بہرحال زیادہ تر کام مساجد میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے اور درود پڑھا جاتا ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں اور اس طر ح اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
(ب) پھر مساجد اس لحاظ سے بھی مقامِ مبارک ہوتی ہیں کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں اور یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں گند پھینکا جائے، مثلاً پاخانہ پیشاب کرنے، ُتھوکنے یا بلغم پھینکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح حکم ہے کہ گندی اور بَد ُبودار چیزیں کھا کر مسجد میں مت آئو۔ ۔ُجنبی کا مسجد میں آنا بھی منع ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ مساجد کو صاف سُتھرا رکھو اور اس میں خوشبوئیں جلاتے رہو۴؎ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِس ہدایت کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے اور ان کی مسجدیں اتنی گندی ہوتی ہیں کہ وہاں نماز پڑھنے تک کو جی نہیں چاہتا۔
(۳) بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ
تیسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ھُدًی لِّلْعٰـلَمِیْنَ یعنی مسجدیں
لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہاں دین کی تعلیم اورتبلیغ کا انتظام مثلاً خطبہ ہوتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، دینی اور اخلاقی باتیں بتائی جاتی ہیں اور لوگوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تذکیر و تحمید سے کام لیا جاتا ہے، دینی و دُنیوی اصلاحات کے متعلق مشورے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی بہتری اور ان کی ترقی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی طرح مسجدوں میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، حدیث کا درس ہوتا ہے، پھر نمازوں میں سے تین نمازیں بِالخصوص ایسی ہیں جن میں تلاوت بِالجہر کی جاتی ہے اور تلاوت بِالجہر ایک قسم کا وعظ ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے اور جب بلند آواز سے اُس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو لوگوں کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ غرض مسجدیں ھُدًی لِّلْعٰـلَمِیْنَ کا کام دیتی ہیں وہاں لوگوں کی دینی تربیت ہوتی ہے، انہیں اعلیٰ روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں پس مسجد کی یہ تین اغراض اس آیت سے مستنبط ہوتی ہیں۔
مساجد کی بعض اور اغراض
اس کے بعد میں نے او ر غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی نظر آئی جس میں مساجد کے بعض اور
مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور وہ آیت یہ ہے۔ وَاِذْجَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّـآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۵؎
فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مَثَابَہ بنایا، یعنی تمام دنیا کے لئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور مُلک اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر ایک انسان کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں مَثَابَۃً کے ُلغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ مُجْتَمَعُ النَّاسِ وَ مَاحَوْلَ الْبِئْرِ مِنَ الْحِجَارَۃِ۶؎ یعنی مَثَابَۃ کے معنے ہیں جمع ہونے کی جگہ۔ اسی طرح مَثَابَۃ اُس منڈیر کو کہتے ہیں جو کنویں کے اِردگِرد بنائی جاتی ہے اور جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر اُڑ کر اندر نہ چلا جائے، یا کوئی اور گندی چیز کنویں کے پانی کو خراب نہ کر دے۔ اسی طرح ُمنڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنویں میں نہ ِگر جائے، غرض منڈیر کا مقصد کنویں کو بُری چیزوں اور لوگوں کو ِگرنے سے بچانا ہوتا ہے۔
مساجد دینی تربیت کا مرکز، بُرائیوں سے محفوظ
رکھنے کا ذریعہ اورقیامِامن کا موجب ہوتی ہیں
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے اِس مسجد کو ایک تو اِس غرض کے لئے بنایا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس جگہ آئیں اور یہاں آکر
دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق حاصل کریں۔ دوسرے ہم نے مسجد کو اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ دنیا کے لئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی بُرائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے۔ تیسری غرض یہ بیان فرمائی کہ مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی ہم نے اس مسجد کو اس لئے بھی قائم کیا ہے تاکہ لوگ مقامِ ابراہیم پر بیٹھیں اور اسے مصلّٰی بنائیں۔ اور ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو بڑے زور سے یہ نصیحت کی تھی اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ کہ تم میرے اس گھر کو پاک رکھو (اِن الفاظ میں بعض اور اغراض بھی بیان کر دی گئی ہیں) لِلطَّآئِفِیْنَ مسافروں کے لئے وَالْعٰکِفِیْنَ اور مقیموں کے لئے وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس مسجد میں ذکرِ الٰہی کرنے کے لئے آبیٹھے ہیں۔
اِس آیت سے مسجد کی یہ مزید اغراض معلوم ہوتی ہیں۔ (۴) مساجد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۵) مساجد شر سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۶) مساجد امن کے قیام کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۷) امامت کو ان کے ذریعہ زندہ رکھا جاتا ہے۔
مسئلہ امامت کا دائمی اِحیاء
چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو مدینہ میں ہوتے تھے مگر مسلمان جہاں کہیں ہوتے ایک شخص کو امام بنا کر اُس کی
اقتداء میں نمازیں ادا کرنے لگ جاتے اور اب بھی ہر مسجد میں ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء میں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ امام درحقیقت قائمقام ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اور مقتدی قائمقام ہوتے ہیں صحابۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے۔ جس طرح صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح آج ہر مسجد میں مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ گویا سابق نیکی کے لیڈروں کو زندہ رکھا جاتا اور مساجد کے ذریعہ امامت کو ہر وقت قوم کی آنکھوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور مساجد لوگوں کو یہ مسئلہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تم میں ایک امام ہونا چاہئے اور اس امام کی اقتداء میں تمہیں ہر کام کرنا چاہئے۔
مسافر اور مقیم کے فوائدمساجد سے ہی وابستہ ہیں
(۸) مساجد مسافروں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔
مثلاً مسافر وہاں ٹھہر سکتا ہے اور چند روزہ قیام کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو جاسکتا ہے۔
(۹) الْعٰکِفِیْنَ مساجد شہر میں بسنے والوں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ مثلاً :-
(الف) گھروں میں تو شوروشغب ہوتا ہے اور انسان سکون کے ساتھ ذکرِ الٰہی نہیں کر سکتا مگر وہاں ہر قسم کے شوروشر سے محفوظ ہو کر آرام سے لوگ ذکرِ الٰہی کر سکتے ہیں۔
(ب) وہ وہاں اجتماعی عبادت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اگر مساجد نہ ہوں تو ایک نظام کے ماتحت عبادت نہ ہوسکے۔ مثلاً جب جمعہ کا دن آتا ہے تو سب مسلمان اپنے اپنے محلوں کی مساجد کی بجائے جامع مسجد میں اکٹھے ہو جاتے اور اجتماعی عبادت بجا لاتے ہیں، اس طرح مساجد انہیں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی عادت ڈالتی ہیں۔
(۱۰) وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اُن میں وہ لوگ رہتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں۔
واقفینِ زندگی اور مساجد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ اپنے آپ کوخدمتِ دین کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے وہ مسجد
میں ہی رہتے تھے اور انہیں اَصْحَابُ الصُّفَّہ کہا جاتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی باتیں سُنا کرتے اور بعد میں لوگوں تک پہنچا دیتے۔ غرض مسجدیں واقفینِ زندگی کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ گائوں والے بعض دفعہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ الگ کسی جگہ مدرسہ نہیں کھول سکتے ایسی حالت میں وہ مسجد سے مدرسہ کا کام بھی لے سکتے ہیں، کیونکہ ہمارا مدرسہ بھی مسجد ہے اور واقفینِ زندگی کی جگہ بھی مسجد میں ہے۔
مساجد کے مشابہہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں
اب میں بتاتا ہوں کہ یہ اغراض اور مقاصد آیا کسی اور
چیز کے بھی ہیں یا نہیں اور مسجد کے مشابہہ عالَمِ روحانی میں بھی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ اِس کے لئے پہلے میں علمِ تعبیر الرؤیا کو لیتا ہوں کیونکہ رؤیا میں تمثیلی زبان استعمال کی جاتی ہے اور خوابوں کی تعبیر سے انسان معلوم کر سکتا ہے کہ ظاہری چیزوں کی مشابہت ِکن روحانی چیزوں سے ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جب ہم علمِ تعبیر الرؤیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد انبیاء کی جماعت کو کہتے ہیں۔ پس مساجد کے مشابہہ عالَمِ روحانی میں اگر کوئی چیزیں ہیںتو انبیاء کی جماعتیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا انبیاء کی جماعتوں میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو مساجد کی اغراض ہیں؟ اگر پائی جاتی ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعہ میں روحانی دنیا میں بھی مساجد ہیں اور وہ ظاہری مساجد سے بہت زیادہ شاندار ہیں۔ آج تک دنیا میں خداتعالیٰ کے بہت سے انبیاء ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں۔ اِسی طرح حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہوئے ہیں اور ہرنبی نے کوئی نہ کوئی جماعت قائم کی ہے۔ پس اگر ہم غور کریں تو ہر نبی کی جماعت میں ہمیں یہ مشابہتیں نظرآجائیں گی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے پورا کرنے کے لئے مختلف روحانی مساجد بنائی گئی تھیں مگر میں تفصیلاً ان کے حالات اس جگہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ:-
(۱) ایک تو مضمون لمبا ہو جاتا ہے۔
(۲) دوسرے سب مساجد کے تفصیلی حالات محفوظ نہیں۔ اس لئے میں صرف آخری مسجد کو لے لیتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تیار ہوئی اور جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیںکہ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ ۷؎
صحابہ ؓ کے متعلق ایک اُصولی نکتہ
اب میں ایک ایک کرکے مساجد کی اغراض کی نسبت ثابت کرتا ہوں کہ وہ تمام کی تمام اس روحانی مسجد
سے پوری ہوئی ہیں۔ مگر ایک بات میں کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض واقعات اِس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق تاریخی طور پر بحث کی جائے تو وہ بہت لمبی ہو جاتی ہے اس لئے اصولی طور پر ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ ۸؎ آپ کے اخلاق و عادات اگر معلوم کرنا چاہو تو قرآن پڑھ لو جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات جس موقع پر بیان فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں بعض لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سُنائے جائیں۔ آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُمجھ سے حالات کیا پوچھتے ہو، قرآن پڑھ کر دیکھ لوجتنی نیک اور پاک باتیں اس میں لکھی ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھیں۔ مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں تاریخ یا حدیث سے مدد نہ لی جائے بلکہ صرف قرآن کریم سے استنباط کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے ( کاش! کوئی شخص اسی اصل کے مطابق ایک مدلّل کتا ب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرے)
غرض جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے یہ فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کا پتہ لگانے کے لئے تاریخی کتب کی ورق گردانی اور زید بکر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے قرآن اُٹھائو اور اسے پڑھ لو، جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں۔ اسی طرح صحابہ ؓ کے متعلق بھی ہمیں ایک اصولی نکتہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَـیْـکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ۹؎
فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جماعت! تم وہ ہو کہ تمہارے دلوں میں خدا نے ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور تمہاری حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے تم اس پر فوری طور پر عمل کرنے لگ جاتے ہو اور اس نے ایمان کو تمہاری نظروں میں اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ تمہیں اس کے بغیر چین ہی نہیں آتا جس طرح خوبصورت چیز کی طرف ۔ُجھکتے ہو اور اُسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ اور اُس نے کُفر، فسق اور نافرمانی سے تمہیں اتنا متنفر کر دیا ہے کہ تم اس کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور صحابہ ؓ دو مترادف الفاظ ہیں اگر اسلام میں کوئی حُکم پایا جاتا ہے تو صحابہ ؓ نے اس پر یقینا عمل کیا ہے اور اگر صحابہؓ نے کسی بات پر عمل کیا ہے تو اسلام میں وہ ضرور پائی جاتی ہے جس طرح حضرت عائشہ ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ اسی طرح صحابہ ؓ جس بات پر عمل کریںاُس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پائی جاتی ہے اور اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں اُن کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر صحابہ ؓ نے ضرور عمل کیا ہے۔ اس تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مسجد کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے کس طرح پوری کیں۔
صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت
اوّل ۔ غرض مسجد کی یہ ہے کہ لِلنَّاس ہوتی ہے
یعنی اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۱۰؎
یعنی اے مسلمانو! تم سب اُمتوں سے بہتر ہو۔ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کسی ایک قوم کے فائدہ کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تم کالوں کے لئے بھی ہو اور گوروں کے لئے بھی ہو، مشرقیوں کے لئے بھی ہو اور مغربیوں کے لئے بھی ہو، تمہارا دروازہ سب کے لئے ُکھلا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم سب کو آواز دو اور کہو کہ آجائو مشرق والو، آجائو مغرب والو، آجائو شمال والو، آجائو جنوب و الو، آجائو غریبو، آجائو امیرو، آجائو طاقتورو، آجائو کمزورو۔ غرض تم سب کو آواز دو کیونکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ قوم ہو جو ساری دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ جس طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر ہے جو لِلنَّاسِ بنا، اسی طرح انبیاء کی جماعتیں بھی جب کھڑی کی جاتی ہیں تو لِلنَّاسِ کھڑی کی جاتی ہیں۔ موسیٰ ؑکے زمانہ میں اُمتِ موسوی کا دروازہ گو صرف بنی اسرائیل کے لئے ُکھلا تھا مگر اپنے دائرہ میں وہاں بھی کامل مساوات تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس دائرہ کو ایسا وسیع کر دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس کے اندر شامل کر لیا گیا۔ پس فرماتا ہے اے مسلمانو! تم لوگوں کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہو۔ اس کے بعد اس کا ذکر فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے لوگوں کو فائدہ کس طرح پہنچے گا۔ فرماتا ہے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو، تمام بنی نوع انسان کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں نیک اخلاق سکھاتے ہو، کہتے ہو کہ فلاں فلاں بات پر عمل کرو تاکہ تمہیں خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہو وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور تم بدیوں سے لوگوں کو روکتے ہو، وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اور تم نڈر ہو کر یہ کام کرتے ہو۔ یہاں ایمان سے صرف مان لینا مراد نہیں، کیونکہ اَمْر بِالْمَعْرُوْفِ اور نَہِی عَنِ الْمُنْکَرِ خداتعالیٰ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتا اور جب ایمان پہلے ہی حاصل تھا تو آخر میں تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر اس ایمان سے مراد محض خدا پر ایمان لانا ہوتا تو آیت یوں ہوتی کہ تُؤْمِنُوْنَ وَ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِمگر آیت اِس کے اُلٹ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے صرف مان لینے کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔ اور وہ معنے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ ہیں کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ خدا سے ہی ڈرتے ہو اور ان کاموں میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ نڈر ہو کر کام کرتے ہو جیسے فرماتا ہے۔
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ۱۱؎
أمربِال￿معروف اور نہی عَنِ ال￿مُنکر
غرض اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح مادی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے
ہوتی ہے، اسی طرح یہ روحانی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور وہ اس پر عمل مندرجہ ذیل طریق سے کرتی ہے۔
(الف) تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ سب انسانوں کو حُسنِ سلوک کی تعلیم دیتی اور اس طرح لوگوں کے حقوق کو محفوظ کرتی ہے۔ تَاْمُرُوْنَ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان صرف وعظ ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے نیک باتیں منواتے ہیں۔ اگر صرف تَعِظُوْنَ النَّاسَ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں مگر خدا نے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں یہ بتایا ہے وہ لوگوں کو صرف وعظ و نصیحت کی بات کہہ دینا کافی نہیں سمجھتے بلکہ لوگوں سے عمل بھی کراتے ہیں۔ اگر تعلیم سے عمل ہو تو تعلیم دیتے ہیں، تربیت سے عمل ہو تو تربیت کرتے ہیں، منّت سماجت سے کوئی عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کی منّت سماجت کرتے ہیں اور اگر کوئی نگرانی کا محتاج ہو جیسے نابالغ بچے ہیں تو اسے حُکم دیتے ہیں (یعنی ان امور میں اور ان لوگوں کو جن میں اور جن کو حُکم دینے کی اجازت ہے حُکم دیتے ہیں ورنہ بالغ اور عاقل سے جبراً کوئی امر منوانا جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہو اسلام میں جائز نہیں) غرض وہ صرف اپنی زبان سے بات نکال کر خوش نہیں ہو جاتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے لوگوں سے عمل کرانے کی جِدّوجُہد کرتے ہیں اور جب تک لوگوں کی عملی حالت درست نہ ہو جائے خوش نہیں ہوتے۔
(ب) تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وہ تمام بنی نوع انسان کو ظلم اور تعدّی اور شرارت سے روکتے ہیں۔ یہاں بھی نہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وعظ کا نہیں۔
توکّل َ َعلی اللہ
(ج) وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اس جگہ تُؤْمِنُوْنَ کو آخر میں رکھنا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں عام ایمان مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کاموں میں کسی نقصان
سے نہیں ڈرتے اور نڈر ہو کر کام کرتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسجد نے اس غرض کو کس طرح پور اکیااور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اُس نے مساوات کو قائم کیا۔
مساوات کے قیام کے لئے غلامی کو مِٹا دیا گیا!
مساوات کے قیام کے لئے اس جماعت نے سب سے پہلے غلامی کو
مِٹایا اور جس طرح مسجد میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا اسی طرح مسلمان ہو کر کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا۔ غلامی کے متعلق اسلام نے ایک مفصّل تعلیم دی ہے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ نے سارا زور اِس امر پر َصرف کر دیا کہ دنیا سے غلامی کو مِٹا دیا جائے۔ چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اصل بیان کیا ہے اور میں اپنی جماعت کے لیکچراروں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اسے بیان کیا کریں۔ وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُوَ اِمَّا فِدَآئً ۱۲؎ کہ جب کوئی غلام پکڑا جائے تو اس کے متعلق شریعت میں صرف دو۲ ہی حُکم ہیںیا تو احسان کرکے چھوڑ دو یا جُرم کا جُرمانہ وصول کرکے چھوڑ دو، قید کا حُکم کہیں نہیں۔ پس دو ہی حُکم ہیں یا تو یہ کہ غلام پر احسان کرو اور اُسے آزاد کرو اور یا یہ حُکم ہے کہ کچھ ٹیکس اور جُرمانہ وصول کرو اور اُسے چھوڑدو۔ پھر اِس جُرمانہ کے متعلق بھی یہ شرط ہے کہ اگر غلام مکاتبت چاہے تو مکاتبت بھی کر سکتا ہے اور یہ مکاتبت کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے کہ فرض کرو ایک شخص کے پاس روپیہ تو نہیں مگر وہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ کرے تو کیا کرے؟ اگر نقد روپیہ دیکر غلام آزاد ہو سکتا تو جس کے پاس روپیہ نہ ہوتا وہ اعتراض کرسکتا تھا کہ میری رہائی کی کوئی صورت اسلام نے نہیں رکھی۔ مگر اسلام چونکہ کا مل مذہب ہے اس لئے اُس نے اِس روک کو بھی دُور کر دیا اور یہ اصول مقرر کردیا کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ کرے تو اُسے مکاتبت دے دینی چاہئے۔ مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کہہ دے میں آزاد ہونا چاہتا ہوں تم میرا جُرمانہ مقرر کر دو۔ میںمحنت اور مزدوری کرکے اپنی کمائی میں سے ماہوار قسط تمہیں دیتا چلا جائوں گا۔ جب کوئی غلام یہ مطالبہ کرے تو اسلامی شریعت کے ماتحت قاضی کے پاس مقدمہ جائیگا اور وہ اُس کی لیاقت اور قابلیت کو دیکھ کر اور یہ اندازہ لگا کر کہ وہ ماہوار کتنا کما سکتا ہے اُس کے ذمّہ ایک رقم مقرر کر دیگا اور پھر اس کے ماہوار گزارے کو ِمنہا کرکے مطالبہ کرے گا کہ اتنی رقم ماہوار تم تاوان کے طور پر ادا کرتے چلے جائو۔ اس طرح وہ اَقساط کے ذریعہ تاوان ادا کرتا رہے گا مگر ُجزوی آزاد وہ اسی دن سے ہو جائے گا جس دن وہ قاضی کے سامنے یہ اقرار کریگا۔ اگر ادائیگئ رقم سے پہلے وہ شخص فوت ہو جائے تو اُس کا بقیہ مال اور ترکہ آقا کو مل جائے گا۔ اور اگر وہ زندہ رہے گا تو اس فیصلہ کے ماتحت وہ اپنی رقم ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔ غرض اسلامی جنگوں کے ماتحت جب بھی غلام گرفتار ہوکر آئیں گے انہیں یا تو ہمیں خود چھوڑ دینا ہوگا یا ہمیں حُکم ہوگا کہ ہم تاو ان وصول کریں۔اگر اس کے بھائی بند اور رشتہ دار اُس وقت آزادی کی قیمت ادا کریں تو وہ اُس وقت آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر اس کے رشتہ دار غریب ہوں یا وہ فدیہ ادا کرنا پسند نہ کریں تو وہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا اور مسلمان قاضی کا فرض ہوگا کہ وہ اُس کی حیثیت کے مطابق اس پر فدیہ عائد کرے اور پھر اس کا گزارہ مقرر کرکے مناسب رقم ماہوار بطور فدیہ ٔ آزادی ادا کرنے کا اُسے حُکم دے۔ جب یہ عہدوپیمان تحریری طور پر ہو جائے گا تو اُس دن سے ہی وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے آزاد ہو جائے گا۔
اب دیکھو! اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی اپنی مرضی کے خلاف غلام رہ سکتا ہے؟ جب بھی کوئی غلام آئے گا ہم اِس بات کے پابند ہونگے کہ یا تو اُسے خود آزاد کر دیں یا وہ فدیہ ادا کرکے آزاد ہو جائے۔ اور اگر اس کی طاقت میں یہ بات نہ ہو تو اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار فدیہ ادا کر دیں اور اگر وہ بھی ادا نہ کر سکتے ہوں تو قاضی کے پاس جاکر فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرے اورقاضی ادائیگی کی جو صورت تجویز کرے اُس پر عمل کرے، اِن تمام صورتوں میں وہ آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص ان شرائط میں سے کسی شرط سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھتا ہے اور عُرفِ عام کی رُو سے آزاد ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا۔
حضرت زیدؓ کا اپنی آزادی پر محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دینا
ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر کو اپنے گھر سے بہتر قرار دے اور کسی شرط پر بھی آزاد ہونا پسند نہ کرے۔ سو اس کے
لئے میں ایک مثال دیدیتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ کوئی شخص غلامی کو اپنے گھر کی آزادی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہو جائے وہ مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قدر غلام تھے اُن تمام کو حضرت خدیجہ ؓ سے شادی ہوتے ہی آپ نے آزاد کر دیاتھا۔ اس کے بعد تاریخ سے ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے پاس کوئی غلام رکھا ہو ہاں غلام کو آزاد کرکے اسے خادم کے طور پر رکھا ہو تو یہ اور بات ہے۔ لیکن ایک غلام جن کا نام زید تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور انہوں نے آزاد ہونا پسند نہ کیا۔ یہ ایک مالدار خاندان میں سے تھے۔ کسی جنگ میں انہیں یونانی لوگ پکڑکر لے گئے تھے، پھر فروخت ہوتے ہوتے یہ مکہ پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید لیا۔ جب حضرت خدیجہ ؓ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنا تمام مال اور غلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہبہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اِس ہبہ کے بعد میں پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے سب کو آزاد کر دیا۔ ادھر حضرت زیدؓ کے باپ اور چچا، زید کو تلاش کرتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے مکہ آنکلے۔ وہاں انہیں معلوم ہؤا کہ زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔ وہ یہ ُسن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بچہ آپ کے پاس غلام ہے آپ ہم سے روپیہ لے لیں اور اسے آزاد کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اسے آزاد کر چکا ہوں۔ انہیں خیال آیا کہ شاید یہ بات انہوں نے یونہی ہمیں خوش کرنے کے لئے کہہ دی ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے بغیر روپیہ لئے اسے آزاد کر دیا ہو۔ چنانچہ وہ پھر منت سماجت کرنے لگے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آواز دی اورجب وہ آئے تو آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ اور چچا ہیں اور تمہیں لینے کے لئے آئے ہوئے ہیںـ، میرے ساتھ مسجد میں چلو تاکہ مَیں اعلان کر دوں کہ تم غلام نہیں بلکہ آزاد ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں لے گئے اور اعلان کر دیا کہ زید غلام نہیں وہ آزاد ہے اور جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تو ان کے باپ اور چچا دونوں بہت خوش ہوئے اور زید سے کہا کہ اب ہمارے ساتھ چلو، مگر حضرت زید اُسی وقت مسجد میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اے لوگو! تم اِس بات کے گواہ رہو کہ گو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزادکر دیا ہے مگر میں اُن سے آزاد نہیں ہونا چاہتا اور انہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ باپ اور چچا نے شورمچا دیا کہ تم عجیب بے وقوف ہو کہ اپنے گھر اور اپنے والدین پر اِس شخص کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہو۔ انہوں نے کہا مجھے باپ سے بھی محبت ہے اور ماں سے بھی، اسی طرح باقی سب رشتہ داروں سے مجھے اُلفت ہے مگر بخدا! یہ شخص مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس سے جُدا ہونا پسند نہیں کرسکتا۔ یہی وہ موقع ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ زید اَب میرابیٹاہے۔۱۳؎ گویا پہلے تو آپ نے زید کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اب دیکھو زید ایک غلام تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا مگر اس نے اپنے گھر کی آزادی اور دولت کو پسند نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صُحبت میں رہنا اُسے زیادہ پیارا معلوم ہؤا۔
جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکام
اسی طرح جب بھی اسلامی جنگوں کے نتیجہ
میں غلام گرفتار ہو کر آئیں اُن کے متعلق شریعت کا یہی حُکم ہے کہ مسلمان یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں یا فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں یا مکاتبت کے ذریعہ سے چھوڑ دیں اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص آزاد نہیں ہوتا تو یہ اُس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر اس کے پاس روپیہ نہیں تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا کر درخواست دے سکتا ہے کہ میرے پاس روپیہ نہیں میری حیثیت کے مطابق مجھ پر جُرمانہ لگا دیا جائے، میں روپیہ کما کر ماہوار اتنی رقم ادا کرتا چلا جائوں گا۔ لیکن اگر اِس کے باوجود وہ آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ مسلمان کا گھر اُسے ایسا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ُکفر کی آزادی کو پائے اِستحقار سے ُٹھکرانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ پس جس طرح مسجد مساوات کو قائم کرتی ہے اسی طرح اسلام نے غلامی کو مٹا کر دُنیا میں مساوات قائم کی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ یہ دکھایا کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اِسی زید
سے جوآزاد شُدہ غلام تھا بیاہ دیا، حالانکہ عرب لوگ اسے بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اسی طرح اسامہ جو زید کے بیٹے تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے لشکر کا سردار مقرر کر دیا جس میں دس ہزار مسلمان تھے اور جس میںحضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تک شامل تھے حالانکہ عربوں میں غلاموں کے بیٹے بھی غلام ہی سمجھے جاتے تھے۔ اب بتاؤ دنیا کی اور کونسی قوم ہے جس نے لوگوں کو اس قسم کی آزادی عطا کی اور مساوات کا یہ حیرت انگیز ثبوت پیش کیا ہو کہ آزاد شُدہ غلام کے بیٹے کو ایک لشکرِ جرار کا اُس نے سردار مقرر کیا اور اس لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہوں۔ پھر یہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے اسامہ کے ماتحت جنگ کرنے میں کوئی ہتک محسوس کی ہو بلکہ وہ بڑی بشاشت اور خوشی کے ساتھ ان کی ماتحتی میں جنگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے، بلکہ اس لشکر کو تو تاریخِ اسلام میں ایسی عظمت حاصل ہوئی کہ اور کسی لشکر کو ایسی عظمت حاصل ہی نہیں ہوئی اور وہ اس طرح کہ یہ لشکر ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ نہیں فرمایا تھا کہ آپؐ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے۔ آپ مجبوراً خلافت کی وجہ سے جنگ پر نہیں جا سکتے تھے، مگر آپ ازخود اس لشکر سے علیحدہ نہیں ہوئے بلکہ اسامہ کو لکھا کہ چونکہ مسلمانوں نے مجھے خلیفہ مقرر کیا ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں مدینہ میں ہی رہوں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے لکھ بھیجا کہ حضرت عمرؓ کا بعض ضروری معاملات میں مشورہ دینے کے لئے مدینہ میں رہنا ضروری ہے اس لئے اجازت دیجئے کہ عمرؓ بھی یہیں رہیں چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی مدینہ میںرہنے کی اجازت دے دی۔۱۴؎ پس حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے ایام میں ایک غلام بچہ کو اتنی عظمت دی کہ اس کی سیادت اور حکومت کا حق اپنی خلافت کے وقت میں بھی تسلیم کیا اور ایک آدمی بھی بغیر اجازت لشکر سے پیچھے نہیں رہا۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا اہم حکم
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا حکم جس پر تمام
صحابہ اور تمام مسلمان بھی شدت سے عمل کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ اسلام نے جُرم کی سزا میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رکھا۔ اسلام کے نزدیک مُجرم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا بہرحال وہ تعزیر کا مستحق ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو روا نہیں رکھا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کی اور معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، ساتھ ہی بعض لوگوں نے سفارش کر دی اور کہا کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ معمولی تنبیہہ کر دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ظاہر ہوئے اور آپؐ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ پھر آپ نے فرمایا ، دیکھو پہلی قومیں یعنی یہود اور نصاریٰ اِس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی جُرم کرتا تو اُسے سزا نہ دیتے، جب کوئی چھوٹا آدمی جُرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ مگر اسلام میں اِس قسم کا کوئی امتیاز نہیں اورہر شخص جو جُرم کرے گا اُسے سزا دی جائیگی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔۱۵؎
تمدنی معاملات میں مساوات کی اہمیت
پھر اسلام نے مساوات کو تمدنی پہلو میں اتنی عظمت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاس دودھ بطور تحفہ لایا۔ آپؐ نے کچھ دودھ پیا اور پھر خیال آیا کہ کچھ دودھ حضرت ابوبکرؓ کو دیدوں کیونکہ وہ بھی اُس وقت مجلس میں موجود تھے اور پھر آپ کے رشتہ دار بھی تھے۔ مگرآپ نے دیکھا کہ وہ دائیں طرف نہیں بیٹھے بلکہ بائیں طرف بیٹھے ہیں اور دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے۔ اسلام نے چونکہ دائیں طرف والے کا حق مقدم رکھا ہے اس لئے آپ نے اُس لڑکے سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دیدوں؟ اس لڑکے نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! یہ میرا حق ہے یا آپ یونہی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ بات یہ ہے کہ دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے اس دودھ پر تمہارا حق ہی ہے مگر میں تم سے اجازت چاہتا ہوں کہ اگر کہو تو ابوبکرؓ کو دودھ دے دُوں۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ!جب یہ میرا حق ہے تو پھر آپؐ کے تبرّک کو کوئی کس طرح چھوڑ سکتا ہے اور یہ کہہ کر اُس نے دودھ کا پیالہ آپ سے لیکر پینا شروع کر دیا۔۱۶؎
مر ُض ال￿مَو￿ت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک واقعہ بتاتاہے کہ کس طرح
اسلام میں مساوات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جب آپؐ کی وفات کا وقت قریب آیا تو صحابہؓ کو آپ نے باربار خداتعالیٰ کی وحی سے خبر دی اور بتایا کہ اب میرا زمانۂ وفات نزدیک ہے ۔ اُس وقت ان پر ایک عجیب رقّت طاری تھی اور دلوں میں سوز و گداز پیدا تھا۔ ایک دن آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے صحابہ کو نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! اسلامی قانون کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھ سے بدلہ لے لو۔ اور فرمایا کہ اِس معاملہ میں اگر دنیا میں مجھے سزا مل جائے تو میں اسے زیادہ پسند کروںگا بہ نسبت اس کے کہ اس غلطی کے بارہ میں خداتعالیٰ مجھ سے جواب طلبی کرے۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! میرا ایک حق آپ کے ذمہ ہے آپ نے فرمایا کیا؟ اُس نے کہا فلاں موقع پر جبکہ آپ لڑائی میں مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، اگلی صف میں کچھ خرابی تھی آپ صف میں راستہ بنا کر آگے گزرے تو آپ کی کُہنی مجھے لگ گئی۔ آپ نے فرمایا کہاں لگی تھی؟ اُس نے پیٹھ پر ایک جگہ دکھائی اورکہا اس جگہ لگی تھی۔ آپ اُس وقت بیٹھ گئے اور فرمایا میرے بھی اسی جگہ کُہنی مار لو۔ اس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ!اُس وقت میرے تن پر کُرتا نہیں تھا، ننگا جسم تھا اورننگے جسم پر آپ کی ُکہنی لگی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اور یہ کہہ کر آپ نے پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا اور فرمایا اب تم کُہنی مار لو۔ صحابہؓ کی حالت کا تم اُس وقت اندازہ لگا سکتے ہو، ایک طرف اُن کے دلوں میں یہ جذبات موجزن تھے کہ خدا کا رسول عنقریب ہم سے جُدا ہونے والا ہے اور اِس وجہ سے اُن کے دل سوزوگداز سے بھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس صحابی کا یہ مطالبہ ان کے سامنے تھا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ یقینا اس صحابی کی تِکّہ بوٹی کر دیتے مگر اسلامی شریعت انہیں روک رہی تھی اس لئے وہ خون کے گھونٹ پی پی کر صبر کر گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُرتا اُٹھایا اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا کہ مجھ سے اب بدلہ لینے لگے ہو اور قیامت پر اُٹھا نہیں رکھا۔ تو وہ صحابی جنھوں نے مطالبہ کیا تھا پُرنم آنکھوں کے ساتھ آپ پر جُھکے اور آپؐ کی پیٹھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ!بیشک مجھے آپ کی کُہنی لگی تھی مگر میں نے یہ سارا بہانہ اِس وقت صرف اس لئے بنایا تھا تاکہ میں اِس وقت کہ آپ اپنی جُدائی کا ذکر کر رہے ہیں آخری دفعہ آپ کے جسم کو بوسہ دے لوں۱۷؎ یہ کس قدر زبردست مساوات ہے جو اسلام نے قائم کی۔ کیا دنیا اِس مساوات کی کوئی بھی نظیر پیش کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مسجد میں امیر اور غریب کا امتیاز اُٹھ جاتاہے، بادشاہ اور رعایا کا فرق جاتا رہتاہے، اِسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد تمام مساوات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رہتی۔
حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کا ایک زرّین واقعہ
پھر یہ عمل آپؐ تک ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آپ کی وفات کے بعد
بھی برابر جاری رہا، حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجہ میں گو آپ کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلۃ ابن ایہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کئے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے چل پڑا۔ حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا،اتفاقاً کسی مسلمان کا پائوں اس کے پائوں پر پڑگیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کا پائوں اُس کے جُبّہ کے دامن پر پڑگیا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں، بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی۔ بہرحال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اُس کے پیر پر آپڑا تو اُس نے غصہ میں آکر زور سے اُسے تھپڑ مار دیا اور کہا ُتو میری ہتک کرتا ہے ُتو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں، تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہئے تھا ُتو نے گستاخانہ طور پر میرے پائوں پر اپنا پائوں رکھدیا۔ وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اورمسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں ُتو داخل ہؤا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ بِالخصوص اِس گھر میں امیر اور غریب میںکوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اُس نے کہا میں اِس کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس مسلمان نے کہا کہ عمرؓ کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے۔ جبلہ ابن ایہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلہ ابن ایہم کے منہ پر تھپڑ مارے۔ اس نے کہا کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمرؓ تو ایسے ہی ہیں یہ سنکراُس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں۔ وہ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں میرامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ پھر آپ نے کہا جبلہ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے؟ اِس پر اُس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا، میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے۔ مگر وہ اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتدہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہؤا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پرواہ نہ کی۔۱۸؎
یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے۔ جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام میں زکوٰۃ کا حُکم
پھر مساوات قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ اسلام نے
اختیار کیا اور جس پر صحابہ بڑی شدّت سے عمل کرتے تھے زکوٰۃ کا مسئلہ ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر کی ہے تاکہ لوگوں میں مساوات قائم رہے یہ نہ ہو کہ بعض لوگ بہت امیر ہو جائیں اور بعض لوگ غریب ہو جائیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں۔تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَ تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ ۱۹؎ کہ وہ امیروں سے لی جائے گی اور غریبوں کو دی جائے گی، کیونکہ ان کے اموال میں اس قدر حصہ دراصل غرباء کا ہے اوراُن کا حق ہے کہ اُن کا حصّہ ان کو واپس دیا جائے۔ یہ زکوٰۃ سرمایہ پر اڑھائی فیصدی کے حساب سے وصول کی جاتی ہے اگر سرمایہ پر چھ فیصدی نفع کا اندازہ لگایا جائے تواَڑھائی فیصدی زکوٰۃ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ منافع کا چالیس فیصدی اللہ تعالیٰ غرباء کو دینے کا ارشاد فرماتا ہے گویا شریعت نے ایک بڑا بھاری ٹیکس مسلمانوں پر لگا دیا ہے تاکہ اس روپیہ کو غرباء کی ضروریات پرخرچ کیا جائے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا کئے جائیں۔
فتوحات میں حاصل ہونے والے
اموال کی تقسیم کے متعلق قرآنی ہدایات
اسی طرح فَیء یعنی وہ اموال جو فتوحات میں حاصل ہوں ان کے متعلق شریعت کا حُکم ہے کہ انہیں علاوہ اور قومی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے غرباء میں بھی تقسیم کیا جائے تاکہ
امیر اور غریب کا فرق مِٹ جائے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ مَـآاَفَـآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ ۲۰؎
کہ وہ اموال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو بغیر کسی محنت کے مل جایا کریں ، ان کے متعلق ہماری یہ ہدایت ہے کہ وہ اموال اللہ تعالیٰ کا حق ہیں شریعت کو جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے کیا مراد ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد یہ ہے کہ وہ مال غرباء اور ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ قومی پر خرچ کیا جائے۔ ضروریاتِ دینی و ضروریاتِ قومی تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اللہ کے لفظ میں شامل ہیں، غرباء کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے لفظ میں کس طرح شامل ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَامِنْ دَا بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا ۲۱؎ یعنی ہر چلنے والی چیز جو زمین پر رینگتی یا چلتی ہے اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے کہ اسے رزق پُہنچائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہر جاندار کا رزق ہے تو جاندار ایسے ہیں کہ ان کے لئے رزق کمانے کا طریق خداتعالیٰ نے جاری کیا ہے اگر وہ رزق نہ کما سکیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ سے انہیںرزق دینا ہوگا اور سب سے مقدّم خزانہ اللہ تعالیٰ کا وہی مال ہے جسے خدا کا مال شریعت نے قرار دیا ہو۔
حدیث میں بھی اس آیت کی تشریح دوسرے الفاظ میں آتی ہے لکھا ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو فرمائے گا کہ تم جنت میں جائو کیونکہ میں ُبھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ تب مؤمن حیران ہو کر کہیں گے کہ اے خدا! ُتو ہم سے ہنسی کرتا ہے، آپ ننگے کب ہو سکتے تھے، آپ بھوکے اور پیاسے کب ہو سکتے تھے کہ ہم آپ کو کپڑے پہناتے، ہم آپ کو کھانا کھلاتے اور ہم آپ کو پانی پلاتے۔ تب خداتعالیٰ فرمائیگا کہ تم میری بات کو نہیں سمجھے، جب دُنیا میں کوئی غریب بندہ ُبھوکاہوتا تھا اور تم اسے کھانا کھلاتے تھے تو تم اسے کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ مجھے کھانا کھلاتے تھے اور جب دُنیا میں کوئی غریب آدمی پیاسا ہوتا تھا اور تم اسے پانی پلاتے تھے تو تم اسے پانی نہیں پلاتے تھے بلکہ مجھے پانی پلاتے تھے اورجب دنیا میں کوئی غریب آدمی ننگا ہوتا تھا اور تم اسے کپڑے پہناتے تھے تو تم اسے کپڑے نہیں پہناتے تھے بلکہ مجھے کپڑے پہناتے تھے۔۲۲؎
اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ غریبوں کو دینا اللہ تعالیٰ کو دینا ہے کیونکہ ان کا رزق اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریوں میں سے ہے پھر فرماتا ہے۔ وَلِلرَّسُوْلِ ان اموال میں ہمارے رسول کا بھی حصہ ہے اور رسول کے حصہ سے مراد بھی غرباء میں اموال تقسیم کرنا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ اس قسم کے اموال اپنے پاس نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خداتعالیٰ کی ہیں وہی ظلّی طور پر رسول کی ہیں اس لئے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر جو رقم خرچ ہوگی وہ رسول کو دینا ہی قرار دی جائیگی۔ پھر فرماتا ہے وَلِذِی الْقُرْبٰی۔ذِی الْقُربیٰ کابھی اس میں حق ہے شیعہ لوگ اسکے عام طور پر یہ معنے کرتے ہیں کہ اموالِ فئے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے حالانکہ اس قسم کے اموال میں ان کا کبھی بھی حصہ نہیں سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذِی الْقُرْبٰی سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ کہہ کر ایک آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی قُربِ الٰہی حاصل کرنے والے لوگ اور وہ درویش جو اپنی زندگیاں خدمتِ دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور ان کے گزارہ کی کوئی معیّن صورت نہیں ہوتی۔ گو اسی جماعت میں شامل ہو کر اہلِ بیت ان اموال کے اوّل حقدار قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے وَالْیَتٰمٰی ان اموال میں یتامیٰ کا بھی حق ہے اور یتامیٰ بھی غریب ہی ہوتے ہیں وَالْمَسَاکِیْنِ اسی طرح مسکینوں کا حق ہے وَابْنِ السَّبِیْلِ اور مسافروں کا بھی حق ہے اور مسافر بعض حالات میں عارضی طور پر ناداروں کی طرح ہو جاتا ہے۔ آگے فرماتا ہے ہم نے یہ تقسیم اس لئے کی ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ تاکہ مال امیروں کے ہاتھوں میں ہی چکر نہ لگاتا رہے بلکہ غریبوں کے پاس بھی جائے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں پس ہم حُکم دیتے ہیں کہ یہ اموال غرباء میں تقسیم کئے جائیں تاکہ امراء کے ہاتھوں میں مال چکر نہ کاٹتا رہے۔
ایک زمیندار دوست کا واقعہ
زمیندار بعض دفعہ بات کرتے ہیں توبڑے پتہ کی کرتے ہیں۔ ایک زمیندار دوست نے سنایا کہ میں
ایک دفعہ گورنر صاحب سے مِلا اور میں نے اُن سے کہا کہ حضور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ سرکار بعض دفعہ رعایا پر خوش ہوتی ہے اور سرکار ڈپٹی کمشنر کو لکھتی ہے کہ ڈیڑھ دو سَو مربع غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ کے ڈپٹی کمشنر غرباء کو تلاش کرتے ہیں تو انہیں کوئی غریب دکھائی ہی نہیں دیتا، جس گائوں کو دیکھتے ہیں اُنہیں امیر ہی امیر نظر آتے ہیں۔ آخر بڑی مشکل سے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب کو اتنے مربعے دیدیئے جائیں اور فلاں چوہدری صاحب کو اتنے مربعے دیئے جائیں کیونکہ بھوکے مر رہے ہیں۔ ملک صاحب کے پاس تو صرف تیس ہزار ایکڑ زمین ہے اور چوہدری صاحب کے پاس بیس ہزار ایکڑ ، اسی طرح کسی کے پاس۱۵ ہزار ایکڑ زمین ہے اور کسی کے پاس دس ہزار، اگر ان کو مربعے نہ دیئے گئے تو بیچارے بھوکے مر جائیںگے، چنانچہ سب زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے کے بدلے گورنمنٹ کچھ انعامات تقسیم کرنا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ اب یہ انعامات اعلیٰ خاندانوں میں تقسیم کئے جائیں، اس پر پھر ڈپٹی کمشنر صاحب جب اعلیٰ خاندانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہی لوگ جو پہلی دفعہ انہیں غریب دکھائی دیئے تھے اب انہیں امیر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور انہی میں پھر انعامات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ سرکار یہ دیکھ کر ہمیں تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ہم بڑے ہیں کہ چھوٹے ہیں۔
پس آجکل اموال کی تقسیم کا طریق یہ ہے کہ بڑے بڑے امراء اور ّمتمول لوگوں کو چُن کر اُن میں تمام اموال تقسیم کر دیئے جاتے ہیں، مگر اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ تم غرباء میں اموال تقسیم کرو۔ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ تاکہ مالدار وں کے ہاتھوں میں ہی روپیہ جمع نہ رہے بلکہ غرباء کے ہاتھوں میں بھی آتا رہے۔ اسی لئے اسلام نے کہیں وراثت کا مسئلہ رکھ کر، کہیں زکوٰۃ کی تعلیم دے کر اور کہیں سُود سے روک کر امراء کی دولت کو توڑ کر رکھدیا ہے اور اس طرح امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔
قیامِ مساوات کے لئے دنیا کے تمام
مذاہب کے متعلق ایک پُرحکمت اصول
پھر ایک مساوات یہ ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان انصاف قائم کیا جائے، اسلام اس مساوات کا بھی حکم دیتاہے، چنانچہ فرماتاہے۔ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّ مَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ۲۳؎
کہ اگر دنیا میں ہم مسلمانوں کو کھڑا نہ کرتے اور اس طرح اسلام کے ذریعہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہودیوں کی عبادت گاہیں، عیسائیوں کے گرجے، ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں امن کا ذریعہ نہ ہوتیں بلکہ فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ ہوتیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ایسا ہے جس نے اپنی مساجد میں ہر قوم کو عبادت کا حق دیا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر قوم کو عبادت کا مساوی حق حاصل ہو۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آزادی سے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی اس کی مثال کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو اس کام کے لئے کھڑا نہ کرتے اور مسلمان اپنا خون بہا کر اس حق کو قائم نہ کرتے تو دنیا میں ہمیشہ فتنہ و فساد رہتا اورکبھی بھی صحیح معنوں میں امن قائم نہ ہو سکتا۔
مساجد کی دوسری غرض کا صحابہ کرام کے ذریعہ ظہور
(۲) مسجد کی دوسری غرض ایک مقامِ مبارک کا قیام ہے
اور وہ دو طرح ہوتا ہے (الف) اس طرح کہ وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ اس جماعت کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ۲۴؎
یعنی خدا کی رحمتیں اور برکتیں اُن گھروں پر نازل ہونگی اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ جن کے متعلق خدا نے یہ حُکم دے دیا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ اور اُن میں خدا کا نام لیا جائے گویا وہ ذکرِ الٰہی کے لحاظ سے بالکل مسجدوں کی طرح ہو جائیں گے اور اس کاموجب ان گھروں میں رہنے والے ہونگے یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ صبح شام ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کو ہر قسم کی تجارت ملکی ہو یا درآمد برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو اسی طرح زمیندارہ، صنعت و حرفت کے کارخانے ذکرِ الٰہی سے غافل نہیں کرتے (اس آیت میں دو لفظ ہیں تجارت اور بیع اورکوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی۔ پس مراد یہ ہے کہ بعض کاموں میں دونوں ِجہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کماتا ہے وہ تجارت ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ کام کرنے والا خریدتا نہیں صرف فروخت کرتاہے جیسے زمیندار یا صنّاع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اس کی پیداوار ہے پس اس کا کام درحقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں اسے تجارت سے الگ بیان کرکے تجارتی کاروبار کی سب قسمیں بیان کر دی ہیں) گویا کوئی بات بھی انہیں نہ تو نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے اور نہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان کی توجہ پھراتی ہے۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ وہ فقط اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں ِپھری ہوئی ہونگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دَوڑ رہے ہونگے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور یہی مسجد کا خاص کام ہے پس وہ ایک چلتی ِپھرتی مسجد بن جاتا ہے۔
عبادت اور ذکرِ الٰہی میں ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنیکی خواہش
صحابہ ؓ ذکرِ الٰہی میں ترقی کرنے
کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی یہ جدوجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیاکہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر یَارَسُوْلَاللّٰہِ!ہم زکوٰۃ اورصدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا، میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سَو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نمازکے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیاکرو، وہ وہاں سے بڑی خوشی سے اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہؤا ہے۔ آپ نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جو بات اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ہم اب کیا کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرنیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو مَیں انہیں روک کس طرح سکتا ہوں؟ ۲۵؎ یہ وہ فضیلت تھی جس نے صحابہؓ کو جیتی جاگتی مسجد بنا دیا تھا۔
صحابہ ؓکی پاکیزگی اورطہارت پر الٰہی شہادت
(ب) دوسری صورت مقامِ مبارک کی یہ ہے کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتا
ہے اسی طرح انبیاء کی جماعت کو پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اسکے متعلق قرآن کریم میں شہادت موجود ہے کہ صحابہ ؓ پاک کئے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ۲۶؎
کہ یہ رسول صحابہؓ کے سامنے ہمارے نشانات بیان کرتا ہے وَ یُزَکِّیْھِمْ اوران کو پاک کرتا ہے وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گویا خدا خود صحابہؓ کی پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔ دوسری جگہ ان کی پاکیزگی کی شہادت ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۲۷؎ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ تیسری جگہ یہ شہادت اس طرح دی گئی ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۲۸؎ یعنی یہ خدا کے اتنے نیک بندے ہیں کہ ان میں سے بعض تو اُس عہد کو جو انہوں نے خدا سے کیا تھا پورا کرچکے ہیں اور بعض گو دل سے پوراکر چکے ہیں مگر ابھی عملی رنگ میں انہیںعہد کو پورا کرکے دکھانے کا موقع نہیںملا اور وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انہیں بھی خدا کی طرف سے یہ موقع عطا ہو، حدیثوں میں صحابہؓ کی اس قربانی کے متعلق ایک مثال بھی بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کو کس طرح پورا کیا۔
ایک صحابی ؓ کی عظیم الشان قربانی
جب جنگِ بدر کا موقع آیا تو صحابہ ؓ کو یہ احساس نہیں تھا کہ کوئی لڑائی ہونے والی ہے بلکہ خیال یہ تھا
کہ ایک قافلہ کی شرارتوں کے سدّباب کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہیں، اسی لئے کئی صحابہ مدینہ میں بیٹھے رہے تھے اور ساتھ نہیں گئے مگر جب اسی لشکر کے باہر نکلنے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ کفار کے لشکر سے بغیر امید کے جنگ ہو گئی اور کئی صحابہ نے قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا تو جو لوگ اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کے دلوں میں رشک پیدا ہؤا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت انس کے چچا تھے، جب کسی مجلس میں جنگ بدرکے کارناموں کا ذکر ہوتا اورشامل ہونے والے صحابہ کہتے کہ ہم نے یہ کِیا ہم نے وہ کِیا توپہلے تو وہ خاموشی سے سُنتے رہتے مگر آخر وہ بول ہی پڑتے اورکہتے ، تم نے کیا کِیا۔ اگر میں ہوتا تو تم کو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ صحابہؓ اِس بات کو سنتے اور ہنس پڑتے مگر آخر خداتعالیٰ نے اُن کی دعائیں سن لیں اور اُحد کا دن آگیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی غفلت سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسلامی لشکر تتّربتّر ہو گیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف گیارہ صحابی رہ گئے۔ مسلمانوں کے مقابلہ میںکفار تین ہزار تھے۔ جب دشمن نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف چند آدمی رہ گئے ہیں تو اُس نے یکدم حملہ کر دیا اور کفار کے لشکر کا ایسا ریلا آیا کہ اُن گیارہ آدمیوں کے بھی پائوں اُکھڑ گئے۔ حملہ چونکہ سخت تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے اور آپؐ کے خَود کا ایک کیل آپؐ کے سر میں ُگھس گیا اور دندانِ مبارک بھی ٹوٹ کر گر گئے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر آپؐ بیہوش ہو کر گڑھے میں ِگر گئے۔۲۹؎ اس کے بعد آپ کے جسمِ اطہر پر بعض اور صحابہ شہیدہو کر ِگر گئے اور اس طرح آپؐ کا جسم لوگوں کی نگاہ سے چُھپ گیا۔ مسلمانوں نے آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر چونکہ آپ نظر نہ آئے اس لئے یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں بعد میں جب صحابہ کی لاشیں نکالی گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی نظر آگئے آپؐ اُس وقت صرف بیہوش تھے مگر بہرحال اِس افواہ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوںکے حواس جاتے رہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہؤاکہ آپ زندہ ہیں تو اُن کی تکلیف جاتی رہی اور وہ بہت خوش ہوگئے۔اِس جنگ میںچونکہ ابتداء میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی اس لئے بعض مسلمان اطمینان سے اِدھراُدھر چلے گئے اُنہی میں حضرت انسؓ کے چچا بھی تھے۔ وہ ایک طرف آرام سے کھجوریں کھاتے پھرتے تھے کہ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اورکہا کہ عمر! کیا یہ رونے کا وقت ہے یا خوشی منانے کا وقت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رو رہے ہو۔ انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگے مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا فتح کے بعد دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ وہ انصاری کھجوریں کھا رہے تھے اور اُس وقت اُن کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی، انہوں نے اُس کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت کے درمیان اِس کھجور کے سِوا اور ہے ہی کیا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اُس کھجور کو پھینک دیا اورپھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے واہ عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور تم رو رہے ہو، ارے بھائی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گئے ہیں وہی جگہ ہماری بھی ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن پر ُٹوٹ پڑے ایک ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا اور دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو لاتوں سے انہوں نے دشمن کو مارنا شروع کر دیا اور جب لاتیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، غرض آخری سانس تک وہ دشمن سے لڑائی کرتے رہے۔ بعد میں جب ان کی تلاش کی گئی تو معلوم ہؤاکہ دشمن نے ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے کر دیئے تھے اور وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے، حدیثوں میں آتاہے کہ یہ صحابی انہی لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ یہ وہ برکت والے گھر تھے جس کی وجہ سے خدا نے ان کے متعلق یہ فرمایا کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے یہی معنے ہیں کہ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کر لی۔
صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض ایمان افزاء واقعات
پھر ان کی ظاہری برکات کے بھی کئی
نمونے موجود ہیں ایک دفعہ صحابہ ؓ کسی جگہ گئے تو وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک کو سانپ نے کاٹ لیا، پُرانے دستور کے مطابق وہ دم کرنے اور کچھ پڑھ کر پُھونک مارنے والے کو بلایا کرتے تھے انہوں نے صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا مَیں ہوں۔ وہ اُسے ساتھ لے گئے اور انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دَم کر دیا اور وہ شخص بِالکل اچھاہو گیا۔ اس خوشی میں گھر والوں نے انہیں کچھ بکریاں تحفہ کے طور پر دیں جو انہوں نے لے لیں، باقی صحابہؓ نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور جب مدینہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کا ذکر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس صحابی کے دل کو خوش کرنے کے لئے فرمایا کہ اس تحفہ میں سے میرا حصہ بھی تو لائویعنی یہ تحفہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے تھا۔ مطلب یہ کہ اِس قسم کے جنتر منتر تو اسلام میں نہیں، لیکن ان لوگوں کو ایمان دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو برکت بخشی اور ایک نشان دکھایا۔ پس جو تحفہ ملا وہ بابرکت شَے ہے اس برکت میں سے مجھے بھی حصہ دو۔ تو دیکھو صحابہؓ کو خداتعالیٰ کی طرف سے کیسی برکت ملی کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پُھونک ماری اور مارگزیدہ اچھا ہو گیا۔ بعض لوگ اِس کی نقل میں آجکل بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر دَم کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے دم میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی غیر مومن سَو دفعہ بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مارے تو کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سورۃ فاتحہ اُس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی بابرکت ہو سکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو۔
پھر ایک اور واقعہ اسی قسم کامولانا روم نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کو جب شکست ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد قیصرِ روم کو سر درد کا دورہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ آخر اسے کسی نے کہا کہ تم مسلمانوں کے خلیفہ کو لکھو وہ اپنی کوئی برکت والی چیز تمہیں بھیج دیں جس سے ممکن ہے تمہیں آرام آجائے۔ قیصرنے حضرت عمرؓ کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ مجھے اپنی کوئی برکت والی چیز بھیجیں میرے سر درد کو آرام نہیں آتا، ممکن ہے اس سے آرام آجائے۔ عرب کے لوگ اپنے بالوں میں خوب تیل لگانے کے عادی تھے، حضرت عمرؓ نے اپنی ایک پُرانی ٹوپی جسے تیل لگا ہؤا تھا اورجس پر بالشت بالشت بھرمیل جمی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ بھیج دی اور پیغام دیا کہ اسے اپنے سر پر رکھاکر و۔ قیصر جو سر پر تاج رکھنے کا عادی تھا اُس نے جو گاڑھے کی میلی کچیلی ٹوپی دیکھی تو وہ سخت گھبرایا مگر ایک روز جب اُسے درد کا شدید دورہ ہؤا تو اُس نے مجبوراً ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی اور خداتعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا، اِدھر اُس نے اپنے سر پر ٹوپی رکھی اور اُدھر اُسے آرام آگیا۔ پھر تو اُس کا دستور ہی یہی ہو گیا کہ جب وہ دربار میں بیٹھتا تو حضرت عمرؓ کی میلی کچیلی اور پھٹی پُرانی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو برکتیں دیتاہے اُن کی چیزوں میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سِل کا مادہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایکسرے کرایا تو بھی یہی نتیجہ نکلا، آخر وہ کہتے ہیں میں قادیان آگیا کہ اگر مرناہے تو قادیان چل کر مَروں اورمیں نے تمام علاج چھوڑ کر آپ سے دعا کرائی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے آرام آنا شروع ہو گیا اور آخر بِالکل صحت ہو گئی۔ میں پھر لاہور گیا اور ایکسرے کرایا تو انہیں ڈاکٹروں نے جنھوں نے پہلے میراایکسرے کیا تھا، ایک بار ایکسرے کیا پھر دوسری بار ایکسرے کیا اورجب کہیں بھی انہیں سِل کا مادہ نظر نہ آیا تو وہ کہنے لگے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہڈی ہی بدل گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو برکت دیتا ہے اُن کی باتوں میں، اُن کے کپڑوں میں، اُن کی دعائوں میں اور اُن کی تمام چیزوں میں برکت رکھ دیتا ہے۔ غرض جس طرح مسجد ایک برکت والی چیز ہے اسی طرح صحابہ کا گروہ برکت والا تھا اور دنیا نے اس گروہ کی جسمانی اور روحانی برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
صحابہ کرام تمام دنیا کے لئے ہدایت کا موجب تھے
مسجد کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ
ہوتی ہے یہ بات بھی صحابہؓ میں پائی جاتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے۔ وَ مِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ ۳۰؎
اِس رکوع میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہود کی بُرائیاں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے نالائق ہیں اس کے بعد فرماتا ہے کہ سارے ہی ایسے نالائق نہیں بلکہ اِس رسول کے ذریعہ ہم نے جن لوگوں کو کھڑاکیا تھا وہ ایسے ہیں جو سچائی کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انصاف سے کام لیتے ہیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہؓ کی ہدایت کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ۳۱؎ کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس طرح تم کسی ستارے کونشان قرار دیکر چل پڑو تو منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہو، اسی طرح تم میرے کسی صحابی کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں خدا کے دروازہ پر پہنچا دیگا۔ چنانچہ سب صحابہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ کا ایک عملی نمونہ تھے اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دینے میں سب سے آگے رہتے تھے۔ مکی زندگی کا یہی ایک واقعہ صحابہؓ کے اس طریقِ عمل پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ ایک صحابی جن کا نام عثمان بن مظعونؓ تھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے، اُن کا باپ عرب میں بہت وجاہت رکھتا تھا۔ جب یہ مسلمان ہو گئے تو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس نے جو اُن کے باپ کا دوست تھا انہیں اپنے پاس بُلایا اور کہا آجکل مسلمانوں کی سخت مخالفت ہے، میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں تمہیں کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔ انہوں نے اُس کی بات مان لی اور اُس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمانؓ میرے بھائی کا بیٹا ہے اسے کوئی شخص دُکھ نہ دے۔ عربوں میں یہ طریق تھا کہ جب ان میں سے کوئی رئیس کسی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دے تو پھر اسے کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا اگر ایسا کرتا تو اُسی رئیس اور اُس کے قبیلہ سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی۔ ایک دن حضرت عثمانؓ کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان غلام کو کفار بڑی بیدردی سے مارپیٹ رہے ہیں۔ ان کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ بہت بُری بات ہے کہ میں تو مکہ میں امن سے رہوں اور میرے بھائی تکلیف اُٹھاتے رہیں چنانچہ وہ سیدھے اُس رئیس کے پاس پہنچے اور اُسے کہا کہ آپ نے جو مجھے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا میں اس ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کرتا ہوں اور آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا۔ اس نے کہا تم جانتے نہیں کہ مکہ مسلمانوں کے لئے کیسی خطرناک جگہ ہے اگر میں نے اپنی پناہ واپس لے لی تو لوگ فوراً تم کو ایذاء دینے لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ میں تو آرام سے رہوں اور میرے بھائی تکلیفیں اُٹھاتے رہیں۔ چنانچہ ان کے اصرار پر اُس نے خانۂ کعبہ میں جاکر اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعونؓ اب میری پناہ میں نہیںرہا۔ اِس اعلان پر ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عرب کا ایک مشہور شاعر جس کا قصیدہ سبعہ معلقہ میں شامل ہے مکہ میں آگیا۔ اہلِ عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مشہور شاعر آتا تو بہت بڑی مجلس منعقد کی جاتی اور اُس کے کلام سے لوگ محظوظ ہوتے۔ اس کے آنے پر بھی ایک بہت بڑی مجلس منعقد کی گئی اور تمام مکہ والے اِس میں شامل ہوئے۔ حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کا کلام سُننے کے لئے وہاں جاپہنچے اُس نے شعر پڑھتے پڑھتے ایک مصرع یہ پڑھا کہ :-
ع
اَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَـلَا اللّٰہَ بِاطِلٌ
۳۲؎
سنو سنو! خدا کے سِوا دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے
حضرت عثمانؓ اِس مصرعہ پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ شاعر نے جس کا نام لبید تھا شور مچا دیا کہ اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کسی شریف آدمی کی قدر نہیں رہی، میں عرب کا باپ ہوں اور یہ کَل کا چھوکرا مجھے داد دے رہا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا، ٹھیک کہا۔ یہ میری عزت نہیں بلکہ ہتک ہے اور میں اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لبید کے اِس اعتراض پر لوگوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور وہ عثمانؓ کو مارنے کیلئے اُٹھے لیکن بعض نے کہا نادان بچہ ہے ایک دفعہ تو اس نے ایسی حرکت کر دی ہے اب آئندہ نہیں کریگا۔ چنانچہ لوگ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا
ع
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
۳۳؎
ہر نعمت آخر زائل اور تباہ ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ پھر بول اُٹھے کہ بالکل غلط ہے، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی۔ اب تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ جو شخص ان کی تعریف سے ناراض ہؤا تھا وہ ان کی تردید پر کس قدر جوش سے بھر گیا ہوگا۔ چنانچہ جب انہوں نے سرِمجلس کہہ دیا کہ یہ بات غلط ہے تو اُس نے نظم پڑھنی چھوڑ دی اور کہا کہ میری ہتک کی گئی ہے۔ اِس پر بعض نوجوان غصہ سے اُٹھے اور انہوں نے مارنا شروع کر دیا، ایک نے اِس زور سے آپ کی آنکھ پر گھونسہ مارا کہ انگوٹھا اندر دھنس گیا اور آنکھ کا ڈیلا پھٹ گیا۔ وہ رئیس جس نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا تھا اُس وقت وہیں موجود تھا اور چونکہ اِن کا باپ اُس کا دوست تھا اس لئے عثمانؓ کی تکلیف کو دیکھ کر اُس کے دل میں محبت کا جوش پیدا ہؤا۔ لیکن سارے مکہ کے جوش کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر کمزوروں کی طرح عثمان بن مظعونؓ پر ہی غصہ نکال کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنا چاہا، چنانچہ غصہ سے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھاکہ تم میری پناہ میں رہو، آخر تمہاری ایک آنکھ لوگوں نے نکال دی۔ حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی آنکھ کا خون پونچھتے ہوئے فرمایا، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سچ کے بدلے میری ایک آنکھ نکل گئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اِسی قسم کے سلوک کا انتظار کر رہی ہے۔۳۴؎ اب دیکھو صحابہ کس طرح ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ثابت ہوئے وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حق کے خلاف کوئی بات سُنیں اور اُس کی تردید نہ کریں۔
ایک صحابی سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آجکل بنوامیہ کی حکومت ہے تم کوئی بات نہ کرو، اگر وہ اس حکومت کے ارکان تک پہنچ گئی تو تمہیں نقصان ہوگا۔ وہ فرمانے لگے مجھے اس کی پروا نہیں، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سُنا ہؤا ہے کہ اگر کسی کو کوئی سچی بات معلوم ہو اور اُس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہو تو اُسے چاہئے کہ تلوار چلنے سے پہلے جلدی سے حق بات اپنے منہ سے نکال دے۔ تو ہدایت کے پہنچانے میں صحابہ نے ایساکمال دکھایا تھا کہ اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کا اذانیں دینا، خطبے پڑھانا سب اس کے ماتحت ہے کیونکہ ان ذرائع سے بھی حق کی بات دوسروں تک پہنچتی اور اُن کو ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
پھر صحابہؓ دوسروں کو ہدایت دینے میں جس سرگرمی اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر دین سکھانے میں لگا دی۔ اور اتنی حدیثیں جمع کر دیں کہ آج اگر ان کو جمع کیا جائے تو ُپشتاروں کے ُپشتارے۳۵؎ لگ جائیں۔
آجکل تحریر کا زمانہ ہے اور روایات بڑی آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات جمع کرنے میں وہ کوشش نہیں کی جو صحابۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے جمع کرنے میں کی تھی۔ کئی صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی واقعات معلوم ہیں مگر ابھی تک وہ ان کے سینوں میں ہی ہیں اور انہوں نے ظاہر نہیں کئے، اسی طرح کئی تابعین ہیں جنہوں نے کئی صحابہ سے روایات ُسنی ہوئی ہیں، ان کا بھی فرض تھا کہ وہ ایسی تمام روایات کو ضبطِ تحریر میں لے آتے مگر مجھے افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی حالانکہ چاہئے تھا کہ وہ رات دن ایسی باتیں سُناتے رہتے تاکہ وہ دنیا میں محفوظ رہتیں۔ صحابۂ رسو ِل اکرمؐ نے یہ کام کیا اور ایسی عمدگی سے کیا کہ آج حدیثوں کی سَو دو سَو جلدیں پائی جاتی ہیں، یہ ان کی ہدایتِ عام کی سند اور ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ہونے کا ایک ّبین ثبوت ہے۔
انصار اور مہاجرین کی باہمی مؤاخات
(۴) مساجد کا چوتھا کام یہ ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں،
یہ کام بھی انبیاء کی جماعتیں کیا کرتی ہیں۔ جس طرح مسجد کہتی ہے کہ آجائو عبادت کی طرف، یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اور وہ سب لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہیں اورکہتی ہیں کہ ہماری طرف آجائو۔ چنانچہ قرآن کریم میںصحابہؓ کے ایک حصہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَ لَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ۳۶؎
یعنی انصار اتنے وسیع الحوصلہ ہیں کہ ان کے دلوں میں دُنیوی اموال اور نعمتوں کی کوئی خواہش ہی نہیں اُن کا یہی جی چاہتا ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں خواہ خود انہیں تنگی ہو یا تکلیف، وہ دوسروں کو آرام پہنچانے کا فکر رکھتے ہیں۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کُھلے ہوتے ہیں اسی طرح انصار نے اپنی جائد ادیں بانٹ دیں اور مکان دیدیئے۔ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں، آئو میں تم دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دوں۔ چنانچہ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی بھائی بنا دیا۔ ہمارے ہاں بعض لوگ بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں مگر وہ کسی کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے، لیکن انصار کا یہ حال تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ان کا بھائی بنا دیا تو ان میں سے بعض نے اُس وقت گھر جا کر اپنی جائدادیں تقسیم کر دیں اور مہاجرین سے کہا کہ آدھی جائداد ہماری ہے اور آدھی تمہاری۔ بعض جو تاجر تھے انہوں نے مہاجرین کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا۔ مہاجرین نے بیشک انکار کر دیا اور کہا کہ تم ہمیں اُجرت دیدینا ہم تمہاری خدمت کریں گے مگر اُنہوں نے اپنی طرف سے احسان کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ بلکہ ایک صحابی نے تو اِس حد تک غُلوّ کیا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے اُن کی دو بیویاں تھیں اور پردہ کا حُکم ابھی نازل نہیں ہؤا تھا، انہوں نے اپنی دونوں بیویاں اُن کے سامنے کر دیں اور کہا کہ ان میںسے جس کو تم پسند کرو میں اُسے طلاق دیدیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو۔ یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو انصار نے کی۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے ُکھلے ہوتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لئے کھول دیئے۔ یہ اتنی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے کہ تاریخ میں اِس قسم کے وُسعتِ حوصلہ کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی۔
انتخابِ خلافت کے وقت انصارکا
عدیم النظیرایثار اور وُسعتِ حوصلہ
پھر سب سے بڑی حو صلہ کی مثال انصار نے اُس وقت قائم کی جب خلافت کے انتخاب کا وقت آیا۔ مسائلِ خلافت، نبی کے زمانہ میں ہمیشہ مخفی رہتے ہیں، اگر نبی کے زمانہ میں ہی یہ باتیں بیان
کر دی جائیں تو ماننے والوں کی جانیں نکل جائیں کیونکہ اُن کو نبی سے ایسی شدید محبت ہوتی ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے وہ تو زندہ رہیں اور نبی فوت ہو جائے اِس لئے نبی کے زمانہ میں خلافت کی طرف صرف اشارے کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کا تھا، وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے۔مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو انصار نے خلافت کے متعلق الگ مشورہ شروع کر دیا اورمہاجرین نے الگ۔ انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہر والے ہیں اور مہاجرین باہر کے رہنے والے ہیں، اس لئے باہر سے آنے والوں کا کوئی حق خلافت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمارا ہی حق ہے اور لیڈر ہم میں سے ہی ہونا چاہئے۔ مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی تو ان میں سے بھی بعض وہیں آگئے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابوعبیدہؓ ان میں شامل تھے۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اپنے ذاتی مفاد کے لئے وہاں گئے تھے بلکہ وہ اسلام میں تفرقہ پیدا ہونے کے خوف سے وہاں گئے اور انہوں نے چاہا کہ انصار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مسلمانوں کے لئے مُضِرّ ہو۔ غرض جب یہ وہاں پہنچے تو میٹنگ ہو رہی تھی۔ مہاجرین نے کہا کہ پہلے ہماری بات سُن لو اور وہ یہ ہے کہ عرب لوگ آپ کی اطاعت کے عادی نہیں، اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہؤا تو مسلمانوں کو بہت سی مشکلات پیش آنے کا ڈر ہے اس لئے مکہ کے لوگوں میں سے آپ جس کو چاہیں اپنا امیر بنا لیں مگر انصار میں سے کسی کو نہ بنائیں۔ اس پر ایک انصاری نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو پھر مِنَّااَمِیْرٌ وَ مِنْکُمْ اَمِیْرٌ چلو ایک خلیفہ ہمارا ہو جائے اور ایک آپ کا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کے نقائص بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ اگر انصار میںسے کوئی خلیفہ ہؤا تو عرب کے لوگ اسے نہیں مانیں گے۔ اس پر بعض انصار جوش میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اِس کے معنے یہ ہیں کہ انصار ہمیشہ غلامی ہی کرتے رہیں؟ وہ اس وقت بھی مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مان لیں اور بعد میں بھی مہاجرین میں خلیفہ بنتے رہیں، انصار میں سے کوئی خلیفہ نہ بنے اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے غلام اور ماتحت رہیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ ُسن کر انصار کو بہت سی نصیحتیں کیں اور فرمایا ہم آپ لوگوں کا احسان مانتے ہیں، مگر آپ کو اِس وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ کس بات میں ہے؟ یہ ُسن کر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک تقریر کی جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
انہوں نے انصار کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے لوگو! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں خدا کی رضا کے لئے بُلایا تھا یا خلافت کے حصول کے لئے؟ اور اگر تم نے اسلام میں داخل ہو کر بڑی بڑی قربانیاں کیں تو اِس لئے کی تھیں کہ خدا راضی ہو جائے یا اِس لئے کی تھیں کہ خلافت ملے؟ اگر تمام قربانیاں تم نے خداکی رضا کے حصول کے لئے کی تھیں تو خدارا! اب اپنی قربانیوں کو خلافت کی بحث میں برباد نہ کرو۔ مہاجرین جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مناسب یہی ہے کہ تم اِس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو اور اپنی تجاویز کو جانے دو۔ اُس صحابی کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ساری قوم نے شور مچا دیا، بالکل درست ہے بالکل درست ہے۔ چنانچہ مہاجرین میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اور انصار نے خوشی سے اُس کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کر لیا۔۳۷؎ یہ عجیب بات ہے کہ آج تک بھی انصار میں سے کسی کو بادشاہت نہیں ملی، گو ّتصوف والے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اب تمہیں دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا جو کچھ لینا ہے حوضِ کوثر پر آکر لے لینا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن کسی کو اجر ملنا کوئی کم برکت والی چیز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بیشک دُنیوی انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر اصل انعام وہی ہیں جو انسان کو عالَمِ آخرت میں ملیں۔ پس اگر انہیں قیامت کے دن انعامات مل گئے تو پھر تو اُنہیں سب کچھ مل گیا۔ لیکن بہرحال انصار نے دنیا میں کبھی حکومت نہیں کی اور یہ ایسی شاندار قربانی ہے جو بتاتی ہے کہ اِن لوگوں نے کس طرح اپنے دل اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھول رکھے تھے۔
صحابہ کرامؓ لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھے!
پانچویں خصوصیت مساجد کی یہ ہے کہ وہ شر اور بدی سے
روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۳۸؎ کہ نماز انسان کو بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے اِس بارہ میں بھی صحابہ نے بے نظیر مثال قائم کی ہے چنانچہ شر سے بچانے کا بہترین ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کا ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں کس طرح انصاف قائم کیا۔ جب اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دیتے دیتے شام تک چلا گیا تو ایک وقت ایسا آیا جبکہ رومی بادشاہ اپنا سارا لشکر جمع کرکے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو گیا، اُس وقت اسلامی جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر اُن علاقوں کے لوگوں سے چونکہ انہوں نے ٹیکس اور ِجزیے وصول کئے ہوئے تھے اور اس ٹیکس اور ِجزیہ کے وصول کرنے کی غرض یہ ہؤا کرتی ہے کہ اسی روپیہ کو خرچ کرکے لوگوں کی جان و اموال کی حفاظت کی جائے۔ اس لئے جبکہ وہ ان علاقوں سے واپس جا رہے تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے اِن کے ٹیکس انہیں واپس نہ کئے تو یہ ظلم ہوگا، چنانچہ انہوں نے تمام شہر والوں کو ان کا ِجزیہ واپس دیدیا اور کہا کہ اب ہم واپس جا رہے ہیں اور چونکہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہارا ٹیکس تمہیں واپس دیتے ہیں۔ اِس واقعہ کا یروشلم کے عیسائیوں پر ایسا اثر ہؤا کہ باوجود اِس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائی بادشاہ تھا اور باوجود اِس کے کہ وہ اُسے لاکھوں روپیہ بطور نذرانہ دیاکرتے تھے جس وقت صحابہؓ کا لشکر یروشلم کو چھوڑنے لگا تو عورتیں اورمردچیخیں مار مار کر روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو پھر اِس جگہ واپس لائے۔ دنیا کی کسی تاریخ میں اِس قسم کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی قوم اُس وقت جبکہ وہ کسی علاقہ کو خالی کر رہی ہو لوگوں کو اُن کے وصول شُدہ ٹیکس واپس دے دے بلکہ آجکل تو ایسی حالت میں لوگوں کو اَور زیادہ لُوٹ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شر سے روکنے کی مثالیں تو اَور بھی بہت سی ہیں مگر مَیں وہ مثالیں دینا چاہتاہوں جن کو سب دنیا مانتی ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔
شراب اور ُجوئے کی ممانعت
چنانچہ ایک مثال مَیں ُجوئے کی پیش کرتا ہوں اس سے اسلام نے روکا ہے۔ اسی طرح شراب سے اسلام نے
بڑی سختی سے روکا ہے کیونکہ شراب بھی بڑی خرابیوں کا موجب ہوتی اور اِس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے شر اور فساد کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ۳۹؎
فرمایا ہم نے شراب اور جوئے سے تمہیں روکا ہے مگر جانتے ہو ہم نے کیوں روکاہے؟ اس لئے کہ ان کے ذریعہ فساد پیدا ہوتاہے اور یہ چیزیں ذکرِ الٰہی اور عبادت کی بجاآوری میں روک بنتی ہیں اس طرح آپس میں عداوت اور ُبغض پیدا ہوتا ہے۔ آج تمام یورپ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور یوروپین مدبّر چاہتے ہیں کہ شراب نوشی روک دیں مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے شراب کے خلاف بڑا زور مارا مگر اڑھائی پرسنٹ (PERCENT ) شراب کی اس نے بھی اجازت دیدی۔ گویا اس معاملہ میں امریکہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک کشمیری کہیں بیٹھا ہؤا تھا اور اُس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی چادر لپیٹی ہوئی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بچہ بھی ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی نہیں۔ اس نے کہا نہیں سچ سچ بتائو ایک یا دو تو ہوں گے، کہنے لگا سچ کہتاہوں میرا تو ایک بچہ بھی نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کشمیری اُٹھا تو چادر کے نیچے سے چار بچے نکل آئے، یہ دیکھ کر وہی شخص اُسے کہنے لگا کہ تم تو کہتے تھے کہ میرا ایک بچہ بھی نہیں اور یہ تو چار بچے تمہارے ساتھ ہیں۔ اِس پر وہ کشمیری کہنے لگا، حضرت چار پُتّربھی کوئی پُتّرہوندی ہے یعنی چار بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں ( یہ مثال لوگوں نے اسی امر کے اظہار کے لئے بنائی کہ مَاشَائَ اللّٰہُ کشمیریوں کے اولاد بہت ہوتی ہے) اسی طرح امریکہ والوں نے کہہ دیا کہ ۲۱۲ پرسنٹ شراب کوئی شراب نہیں۔ مگر اس قدر اجازت دینے کے باوجود جب اس نے قانوناً شراب کی ممانعت کر دی تو ُملک میں خطرناک فساد برپا ہو گیا۔ ہزارہا آدمی سالانہ محض اس کی وجہ سے مارا جاتا تھا کیونکہ جنہیں شراب پینے کی عادت تھی وہ شراب کے لئے دوسروں کو روپیہ دیتے اور وہ چوری چُھپے لے آتے۔ آخر لفنگوں اور بدمعاشوں کی کمیٹیاں بن گئیں جو لوگوں سے روپیہ وصول کرتیں اور اُنہیں کسی نہ کسی طرح شراب مہیا کر دیتیں اور چونکہ اِس طرح مختلف کمیٹیوں والوں کی آپس میں رقابت ہو گئی اس لئے وہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کے آدمیوں کو مروا دیتیں۔ پھر پولیس کو مقدمات چلانے پڑتے اور درجنوں کو گورنمنٹ پھانسی کی سزا دیتی۔ غرض ہزاروں مقدمات چلے، لاکھوں آدمی مارے گئے اور لاکھوں اس طرح مرے کہ جب انہیں شراب نہ ملتی تو وہ میتھی لیٹڈ سپرٹ METHYLATED SPIRIT) (پی لیتے جو سخت زہریلی چیز ہے اور اس طرح کئی مرجاتے اور کئی اندھے ہو جاتے۔ غرض امریکہ اڑھائی فیصدی شراب کی اجازت دے کر بھی اپنے ملک کو شراب پینے سے نہ روک سکا اور لاکھوں قتل ہوئے، لاکھوں مقدمات ہوئے اور لاکھوں اندھے اور بیکار ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخر میں حکومت کو اپنا سر جُھکانا پڑا اور اس نے کہدیا کہ ہم ہارے اور شراب پینے والے جیتے چنانچہ اس نے ممانعتِ شراب کا قانون منسوخ کر دیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان
پر صحابہؓ نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے
مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو جب یہ آیت اُتری کہ شراب حرام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مدینہ کی گلیوں میں اِس کا
اعلان کرنے کے لئے مقرر کیا تو احادیث میں آتا ہے ایک جگہ شادی کی مجلس لگی ہوئی تھی اور گانا گایا جا رہا تھا اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے، لکھا ہے جس وقت یہ اعلان ہؤا اُس وقت وہ لوگ شراب کا ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے ابھی رہتے تھے۔ نشہ کی حالت ان پر طاری تھی اور وہ شراب کی ترنگ میں گا بجا رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی ہے۔ یہ سنتے ہی ایک شخص نشہ کی حالت میں بولا کہ کوئی شخص آوازیں دیتا ہے اورکہتا ہے شراب حرام ہو گئی ہے۔ دروازہ کھول کر پتہ تو لو کہ بات کیا ہے؟ اوّل تو کوئی شرابی نشہ کی حالت میں اِس قسم کے الفاظ نہیں کہہ سکتا مگر ان کا دینی جذبہ اس قدر زبردست تھا کہ انہوں نے معاً آواز پر اپنا کان دھرا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ دروازہ کھول کر دریافت کرو کہ بات کیا ہے؟ دوسراشخص جس کو اس نے مخاطب کیا تھا وہ دروازہ کے پاس بیٹھا تھا اور اُس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا پکڑا ہؤا تھا اس نے جواب دیا کہ پہلے میں ڈنڈے سے مٹکوں کو توڑوں گا اور پھر دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے؟ جب ہمارے کان میں یہ آواز آگئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے تو اب اس کے بعد ایک لمحہ کا توقّف بھی جائز نہیں اس لئے مَیں پہلے مٹکے توڑوں گا اور پھر دروازہ کھول کر اس سے دریافت کرونگا۔ چنانچہ اس نے پہلے مٹکے توڑے اور پھر ُمنادی والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اُس نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے۔ اُس نے کہا الْحَمْدُ لِلّٰہِ ہم پہلے ہی مٹکوں کو توڑ چکے ہیں۔۴۰؎ اب بتائو کہ کونسی مسجد ہے جو اس طرح بدیوں کو مٹا سکتی ہے۔
قتلِ اولاد کی ممانعت
دیکھو قتلِ اولاد ایک مانی ہوئی بدی ہے۔ ساری قومیں اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ قتلِ اولاد بہت بڑا جُرم ہے مگر کسی قوم نے اس
کے متعلق شرعی حکم نہیں دیا۔ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کو رکھا اور بتایا کہ اولاد کا مارنا حرام ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بہت بڑے شر سے بچایا۔
عورتوں کے حقوق کی حفاظت
اسی طرح عورتوں پر ظلم ہوتے تھے آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں،
عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیئے ہیں حالانکہ ان کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم اُس کے پاسنگ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت وسیع حقوق دیئے ہیں۔ عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی مائوں کو بھی تقسیم کر لیتے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا، بیوی کو خاوند کا، بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی۔ پھر فرمایا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ۴۱؎ کہ انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو، اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ کَل ہی مَیں نے عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیئے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُنہیں یکساں شریک قرار دیا ہے اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعام عورتوں کو بھی ملیں گے۔ بلکہ کَل تو مجھے ایک عجیب استدلال سُوجھا۔ میں نے کہا کہ قرآن اور حدیث نے تمہارا صرف ایک ہی مذہبی حق چِھینا ہے اور وہ یہ کہ نبی مرد ہو سکتاہے، عورت نبی نہیں ہو سکتی۔ صرف یہ ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق عورت کہہ سکتی ہے کہ مجھے کم انعام دیا گیا ہے اورمرد کو زیادہ مگر میں نے انہیں بتایا کہ نبوت صرف ایک ُعہدہ ہے اور اِس ُعہدہ کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، پس اس لئے خدا نے اسے نبی نہیں بنایا۔ مگر انعامات کے لحاظ سے جو انعام عالَمِ آخرت میں نبی کو ملے گا وہی اُس کی بیوی کو بھی ملے گا، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ وَ اَزْوَاجِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۴۲؎
کہ جو لوگ جنت میں داخل ہونگے اُن کے ساتھ اُن کے والدین، اُن کی بیویوں اور اُن کے بچوں کو بھی رکھا جائے گا۔ اگر ایک شخص خود تو جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا مگر اُس کی بیوی کسی ادنیٰ مقام پر ہوگی تو اللہ تعالیٰ بیوی کو اسی جگہ رکھے گا جہاں اس کا خاوند ہوگا اور یہ پسند نہیںکرے گا کہ میاں بیوی جُداجُدا ہوں۔ پس موسیٰ ؑکی بیوی موسیٰ ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی دائود ؑ کی بیوی دائود ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی، سلیمان ؑ کی بیوی سلیمان کے ساتھ رکھی جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی جائیں گی۔ بیشک موسیٰ ؑ کی بیوی نبی نہیںمگر نبوت کے انعام میں وہ بھی شریک ہو جائے گی۔ بیشک دائود ؑ کی بیوی نبی نہیں مگر دائود ؑ کے انعامِ نبوت میں ان کی بیوی بھی شریک ہوجائے گی۔ اِسی طرح حضرت سلیمان ؑ کی بیویاں گو نبی نہیں مگر خدا انہیں وہی انعامات دے گا جو وہ سلیمان ؑ کو دیگا۔ پھرمیں نے انہیں کہا کہ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں اور تین بیٹیاں تھیں، گویا ایک مرد کے ساتھ چودہ عورتیں انعام میں شریک ہوگئیں یہ کس قدر وسیع فیضان ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اورکس طرح اس نے اپنی رحمت میں عورتوں کو ڈھانپ لیا ہے کہ نہ اِس دنیا میں ان کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے، حالانکہ عورتوں کی قوم اتنی مظلوم تھی کہ عرب لوگ روپوں کے بدلے اپنی مائوں اور بیویوں تک کو بیچ دیا کرتے تھے۔ پس یہ مسجد کنویں کی منڈیر کا کام کرتی ہے یعنی وہ رسوم یا عادات یا اعمال جن سے لوگ تباہ ہوں اُن سے بچاتی اور گندگی کو اندر گرنے سے روکتی ہے۔
قیامِ امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
(۶) چھٹے مسجد امن کا موجب ہوتی ہے اوریہ مسجد ایسی ہے کہ جب اس کا نام
ہی اسلام ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مُسلم اور مُسلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جو دوسروں کو امن دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ یَدِہٖ وَ لِسَانِہٖ ۴۳؎
کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورجس کی زبان کے شر سے ہر وہ شخص محفوظ ہوتا ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
اب میں تفصیل بتاتا ہوں کہ امن ِکن چیزوں سے برباد ہوتا ہے سو یاد رکھنا چاہئے امن چار چیزوں سے برباد ہوتا ہے۔
۱۔ امن برباد ہوتاہے بدظنی سے۔
۲۔ امن برباد ہوتا ہے ظلم سے۔
۳۔ امن برباد ہوتا ہے غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دینے سے۔
۴۔ امن برباد ہوتاہے لالچ سے۔
غرض دنیا میں جس قدر فسادات ہوتے ہیں وہ انہی چار وجوہ سے ہوتے ہیں یعنی یا تو بدظنی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا ظلم کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا غصے کو غالب آنے دینے سے فساد ہوتا ہے یا لالچ کی وجہ سے فساد ہوتا ہے ۔
اِس کے مقا بلہ میں امن بھی چار چیزوں سے قائم ہوتا ہے۔
۱۔ امن قائم ہوتا ہے خیر خواہی سے۔
۲۔ امن قائم ہوتا ہے مغفرت سے۔ مثلاً اگر کوئی گالی دے اور دوسرا معاف کر دے تو لڑائی کس طرح ہو سکتی ہے، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے جب فریقین میں سے ایک مغفرت سے کام لے اور عفو و درگزر کا سلوک کرے تو لڑائی بڑھ ہی نہیں سکتی۔
۳۔ اسی طرح احسان سے امن قائم ہوتاہے۔
۴۔ پھر امن دین کو دُنیا پر مقدم رکھ کر بھی ہوتاہے کیونکہ جب کوئی انسان اُخروی حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اُس کو دنیا کی زندگی پر ہر لحاظ سے ترجیح دیتا ہو تو وہ امن کے قیام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کر سکتا ہے۔
اب یہ آٹھوں باتیں جو نفی اور مثبت سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں دیکھناچاہئے کہ صحابہؓ میں پائی جاتی تھیں یا نہیں؟
اسلام میں بدظنی کی ممانعت
اوّل بدظنی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یٰٓـاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا
کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا۴۴؎
کہ اے مومنو! تم اکثر گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض ظنّ ایسے ہیں جن سے گناہ پیدا ہوتاہے۔ وَلَا تَجَسَّسُوْا اور تم دوسروں کے عیوب تلاش نہ کیا کرو۔ اب اگر کوئی شخص دوسرے پر حُسنِ ظنی کرے تو وہ اس کے عیب کو تلاش ہی نہیں کر سکتا۔عیب اُسی وقت انسان تلاش کرتا ہے جب دل میں بدظنی کا مادہ موجود ہو۔ اب ہم صحابہؓ کے طریقِ عمل کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں حُسنِ ظنی کس حد تک پائی جاتی تھی۔
تار ِیخ اسلام میں جب صحابہؓ کے واقعات دیکھے جاتے ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اُن میں کس قدر خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ ان میں نیک ظنی تھی تو کمال درجہ کی اور دیانت و امانت تھی تو اِس حد تک کہ اس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی نیک ظنی کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے حضرت عمرؓ کے عہد میںایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور قضاء نے اُس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کے قتل کئے جانے کا حُکم دیدیا۔ جب اُسے قتل کرنے کے لئے لوگ لے گئے تو اُس نے کہا کہ میرے گھر میں کئی یتیموں کی امانتیں پڑی ہوئی ہیں، مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر میں جا کر وہ امانتیں اُن کو واپس دے آئوں، پھر میں اس جگہ اتنے دنوں میں حاضر ہو جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی ضامن لائو۔ اُس نے اِدھراُدھر دیکھا آخر اُس کی نظر ابوذرصحابیؓ پر جا پڑی اور اُس نے کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ خیر انہوں نے ضمانت دی اور وہ گھر چلا گیا۔ جب عین وہ دن آیا جو اُس کی حاضری کے لئے مقرر تھا تو صحابہؓ اِدھراُدھر گھبراہٹ سے پھرنے لگے کیونکہ وہ شخص ابھی تک آیا نہیں تھا جب بہت دیر ہو گئی اور وہ نہ آیا تو صحابہؓ نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا کہ کچھ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کون شخص تھا؟ انہوں نے کہا مجھے تو علم نہیں۔ صحابہ کہنے لگے اُس کا جُرم قتل تھا اور آپ نے بغیر کسی واقفیت کے اس کی ضمانت دے دی، یہ آپ نے کیا کِیا؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی۔ انہوں نے کہا، بیشک میں اُسے جانتا نہیں تھا مگر جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا نام لیا تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا اورکس طرح یہ بدظنی کر سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ حاضر ہی نہ ہو۔ اب دیکھو اُن میں حُسنِ ظنی کاکس قدر مادہ پایا جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی انہیں کچھ بھی واقفیت نہیں اُس کی اُنہوں نے ضمانت دیدی محض اس وجہ سے کہ وہ بدظنی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ جب وقت بالکل ختم ہونے لگا تو صحابہ کو دُور سے گرد اُڑتی دکھائی دی اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سوار بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتاہؤا آرہا ہے۔ سب کی نظریں اُس سوارکی طرف لگ گئیں جب وہ قریب پہنچا تو وہ وہی شخص تھا جس کی حضرت ابوذرؓ نے ضمانت دی ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے سے اُترا اورچونکہ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتا چلا آیا تھا اس لئے اُس کے اُترتے ہی گھوڑا گِر کر مر گیا۔ اُس نے پاس آکر کہا کہ مجھے معاف کرنا، یتامٰی کی امانتیں تقسیم کرتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں جلدی نہ آسکا اور اب میں گھوڑے کو دَوڑاتا ہی آرہا تھاتاکہ وقت کے اندر پہنچ جائوں سو خدا کا شکر ہے کہ میں پہنچ گیا، اب آپ اپنا کام کریں۔ اس کی اس وفاداری کا اس قدر اثر ہؤا کہ جن لوگوں کا جُرم تھا انہوں نے فوراً قاضی سے کہدیا کہ ہم نے اپنا جُرم اس شخص کو معاف کر دیا۔۴۵؎
یہ وہ نیک ظن لوگ تھے جو دوسروں پر بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر خدا بھی ان کے نیک ظنوں کو پورا کر دیتا تھا۔
اسلام میں ہر قسم کے ظلم کی ممانعت
پھر فساد ظلم سے پیدا ہوتا ہے اور ظلم کی کئی قسمیں ہیں مگر اسلام نے اُن سب کو مٹا دیا ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً۴۶؎ کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہوتا ہے اور دوسرے کی عزت پر اس سے حملہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز مال ہے جس کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ۴۷؎ کہ جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو۔
پھر جان ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا وَلَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ ۴۸؎ کہ اپنے آپ کو قتل مت کرو۔
اسی طرح تجارت میں بعض دفعہ ظلم کا ارتکاب کر لیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی روکا اور فرمایا وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ- وَ اِذَا کَالُوْ ھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ۴۹؎
کہ *** ہے اُن پر، ہلاکت ہے اُن پر جو لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور جب چیزیں لیتے ہیں تو تول میں پوری لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں گویا اسلام نے ظلم کی تمام شِقوں سے روک دیا اور اس طرح اُس نے جان کو بھی محفوظ کر دیا، عزّت کو بھی محفوظ کر دیا اور صحابہؓ نے اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ جس طرح حرم میں داخل ہو کر انسان امن میں آجاتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی ّعزتوں اور ان کے مالوں اور ان کی جانوں کے محافظ تھے اور امانتیں تو ان کے پاس اس طرح محفوظ رہتی تھیں کہ آجکل کے بنکوں میں بھی ویسی محفوظ نہیں رہتیں۔ ایک صحابی ایک دفعہ ایک گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے اور انہوں نے اس کی دو سَو دینار قیمت بتائی۔ ایک اور صحابی نے کہا کہ میں یہ گھوڑا لینا چاہتا ہوں مگر تم غلط کہتے ہو کہ اِس کی دو سَو دینار قیمت ہے اس کی تو پانچ سَو دینارقیمت ہے وہ کہنے لگے میں صدقہ خور نہیں کہ زیادہ قیمت لے لوں اِس کی اصل قیمت دو سَو دینار ہی ہے۔ اب وہ دونوں جھگڑنے لگ گئے۔ بیچنے والا کہتا تھا کہ میں دو سَو دینار لوں گا اور خریدنے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سَو دینار دونگا۔ اب بتائو جہاں اِس قسم کے لوگ ہوں وہاں امن ِکس شان کا ہوگا مگر اب تو جتنا کوئی مالدار ہو اُتنا ہی دوسروں کو ُلوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں ایک دفعہ بمبئی میں ایک دُکان پر کپڑا لینے کے لئے گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں مگر وہاں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور دُکاندار ایک اور شخص سے جھگڑنے میں مصروف رہا۔ آخر مَیں نے اُس سے کہا کہ بات کیا ہے اور اتنی دیر سے جھگڑ کیوں رہے ہو؟ اُس نے کہا کیا بتائوں آج تو میں مصیبت میں پھنس گیا تھا یہ شخص بمبئی کا سب سے بڑا مشینوں کا مالک ہے۔ اس نے مجھ سے بیس پچیس کپڑے لئے اور میں نے اِن کا بِل ایک سَو آٹھ روپیہ کا بنا کر اِس کے سامنے رکھ دیا۔ اِس پر یہ جھگڑنے لگا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میری رعایت کیا تم نہ کرو گے؟ میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری دُکان پر ایک قیمت ہوتی ہے اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد اِس کے سیکرٹری نے سَو کا نوٹ رکھ دیا اور کہا کہ اب بس کرو باقی رقم کا مطالبہ نہ کرو اور میری یہ حالت کہ میں اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا، لیکن دوسری طرف اگر قیمت کم لیتا ہوں تو میری دُکان کا اصول ٹوٹتا ہے اب یہ زور سے کم قیمت دے کر چلا گیا ہے۔
غرض مسلمان اپنے غلبہ کے وقت میں اتنا سیرچشم تھا کہ اگر کوئی غلطی سے کم قیمت مانگتا تھا تو وہ اصرار کرتا تھا کہ میں اس کی قیمت زیادہ دونگا، مگر آج کے کروڑ پتی بھی َسودے میں کچھ معاف کروانے کے لئے خواہ جائز ہو یا نہ ہو گھنٹوں صَرف کر دیتے ہیں، دوسری طرف دُکاندار اور کارخانہ دار قیمت زیادہ وصول کرنے پر مُصِرّ ہوتے ہیں۔
ّتکبر کی بُرائی
اِسی طرح دنیا میں خیالات کی خرابی کی وجہ سے بھی ظلم ہوتا ہے ایک انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح وہ تکبر میں آکر
دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو بھی توڑا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ۵۰؎
اے انسان! ُتو زمین میں متکبرانہ طور پر نہ چلا کر کیونکہ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ اْلاَرْضَ ُ تو زمین میں سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا۔ یہی تیرے غریب بھائی جو تیرے اِرد گِرد ہیں ان سے تجھے دن رات کام رہتا ہے اور ُتو نے ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ خرق کے معنے پھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سے گزرنے کے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ ُتو نے اِس زمین میںسے کہیں نکل نہیں جانا بلکہ اِس دنیا میں رہنا ہے اور دنیا میں انسان کو آرام اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مِل جُل کر نہ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو! تکبر نہ کرو کیونکہ اگر تم تکبر کروگے اور اپنے اِردگِرد کے لوگوں کو ذلیل اور حقیر سمجھو گے تو تم اکیلے پھرتے رہو گے اور لوگ تمہیں غیر جنس خیال کرنے لگ جائیں گے اور اِس وجہ سے تمہیں امن میسر نہیں آسکے گا۔ بھلا کبھی گھوڑوں اور گدھوں میں رہ کر بھی انسان کو امن حاصل ہو سکتا ہے امن تو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی جنس کے ساتھ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میاں دیکھو تم نے کسی اور جگہ نہیں جانا بلکہ تمہارے ان غریب بھائیوں نے ہی رات دن تمہارے کام آنا ہے اگر تم اپنے آپ کو کوئی غیر جنس سمجھو گے تو دُنیا میں اس طرح رہو گے جس طرح ِچڑیا گھر میں انسان رہتاہے۔ پھر فرماتاہے وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً اگر تم نے یہ طریق جاری رکھا تو یاد رکھو تم اِس صورت میں کبھی بھی قوم کے سرداروں میں شامل نہیں ہو سکو گے۔ اس لئے کہ جب تم قوم کو ذلیل سمجھو گے تو قوم تمہیں اپنا سردار کس طرح بنائے گی وہ تو تمہاری دشمن ہوگی اور تمہیں اپنی قوم کی نگاہوں میں عزّت نہیں بلکہ ذلّت حاصل ہوگی۔
قومی اخلاق کو بگاڑنے کی ممانعت
پھر قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان
کو اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّـوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۵۱؎ کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتا کہ کوئی بُری بات اونچی آواز سے کہی جائے۔ لوگ اِس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بیشک اجازت ہے کہ وہ برسرِعام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اس کی اجازت نہیں۔ مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریق سے روکتا اور فرماتا ہے کہ ُتو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ تو سمجھنا چاہئے کہ ُتو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہاہے جیسے اگر کوئی ماں بہن کی گندی گالیاں دینا شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں تو ہر شریف آدمی اسے روکتا اور کہتا ہے کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ ُتو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اسی طرح خدا فرماتا ہے ُتو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہؤا ہے مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ ُتو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے۔
بَیْنَ الْاَقْوامیمناقشات کا سدِّباب
پھر ایک اور ظلم حکومتوںپر ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی کئی ہدایات دی ہیں اس کے
متعلق تفصیلی بحث میری کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘‘ میں موجود ہے۔ میں اس جگہ مختصراً چند باتیں بیان کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَآ ئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِاللّٰہِ فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۵۲؎
اگر دو مومن حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی تمام حکومتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ان سے کہیں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اگر ان میں سے کوئی صلح کی تجویز کو مان کر باغی ہو جائے یا صلح کی تجویز کو قبول ہی نہ کرے اور لڑائی پر آمادہ رہے تو وہ حکومت جس نے بغاوت سے کام لیا ہو اس کے ساتھ سب مل کر لڑو اور مظلوم کو اکیلا نہ رہنے دو حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِاللّٰہِ یہاں تک کہ ابتداء کرنے والی حکومت یا قوم خداتعالیٰ کے فیصلے کو مان لے فَاِنْ فَائَ ت اگر وہ ظلم سے باز آجائے اور اقرار کر لے کہ ا س سے غلطی ہوئی تو پھر اس سے انتقام نہ لو اور اپنے آپ کو فریقِ مخالف قرار دے کر اس سے بیجا مطالبات نہ کرو، بلکہ ابتدائی مخاصمین کے درمیان صلح کرادو۔ وَاَقْسِطُوْا اور انصاف سے کام لو ایسا نہ ہو کہ تم غصہ سے کسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کردو جو عدل و انصاف کے منافی ہو اور کہو کہ چونکہ اس نے پہلے ہماری بات کو نہیںمانا تھا اس لئے اب اس پر سختی کرنی چاہئے۔ تمہیں جنبہ داری اور کینے کے تمام پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ میں اِس وقت تفصیلاً اِس مسئلہ کو بیان نہیں کر سکتا۔ تین چار سال ہوئے جب ایبے سینیا پر اٹلی نے حملہ کیا تھا تو اُس وقت جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اِس مضمون پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ امن کے قیام کے لئے ایسی ہی لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS)کام دے سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی اصول پر ہو۔ اگر اسلامی اصول پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد نہ رکھی جائے تو وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتی۔ اس وقت یہ دستور ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہو جاتی ہے تو اسے ہر ممکن طریق سے ذلیل اور رُسوا کرنیکی کی کوشش کی جاتی ہے جیسے گزشتہ جنگ کے اختتام پر جرمنی کو ’’معاہدہ وارسائی‘‘۵۳؎ کے ذریعہ کُچلنے کی پوری کوشش کی گئی اور انصاف کی حدود کو نظر انداز کر دیا گیا، حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کوئی قوم ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد جو بھی معاہدہ کیا جائے اُس کی بنیاد انصاف پر ہونی چاہئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اور ہار چکا ہے اس لئے اس کے خلاف سخت فیصلہ کرکے اسے ذلیل کیا جائے یا اس سے بدلہ لیا جائے۔ گویا صلح کرانے والوں کو اپنے آپ کو فریقِ مخالف نہیں بنا لینا چاہئے بلکہ جنگ کے باوجود اپنے آپ کو ثالثوں کی صف میں رکھنا چاہئے۔ دوسرے آجکل کی لیگ کے قوانین میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ اگر کسی فریق نے مقابلہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے گی بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم منوانے کی کوشش کریں گے۔ اب جسے پتہ ہو کہ میرا کام صرف منوانے کی کوشش کرنا ہے وہ لڑائی کے لئے تیاری کیوں کرے گا اور بد اندیشے رکھنے والے لوگ اِس لیگ سے ڈریں گے کیوں؟ تیسرے اسلام نے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر دو متحارب فریقوں میں سے ایک لڑائی پر آمادہ ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام ِمل کراس کے ساتھ لڑیں اور چونکہ ایک قوم سب اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اِس لئے لازماً وہ ہتھیار ڈال دے گی اور صلح پر آمادہ ہو جائے گی مگر لیگ آف نیشنز میں ایسا کوئی قانون نہیں اس لئے اس کے فیصلہ سے کوئی قوم مرعوب نہیں ہوتی اور چونکہ اِن نقائص کی وجہ سے بارہا لیگ آف نیشنز امن کے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب بڑے بڑے مدبّر بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے پیچھے کوئی فوج ہونی چاہئے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کے پاس صرف فوج ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کے علاوہ اس میں وہ باتیں بھی ہونی چاہئیں جو اسلام نے بتائی ہیں ورنہ امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت
یہ تو ہوتا ہے غیر پر ظلم مگر ایک ظلم نفس پر بھی ہوتا ہے جیسے انسان شادی کرنا چھوڑ دے۔ اب یہ تو
ممکن ہے کہ کوئی شخص شادی نہ کرے مگر جو خواہشات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پیدا کی گئی ہیں اُن کو وہ کس طرح دبا سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر بھوک کی خواہش کو نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ خدا نے پیدا کی ہے۔ اور کسی انسان کا اپنی جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا یہ بھی ایک ظلم ہے جو کسی غیر پر نہیں بلکہ اپنے نفس پر ہے اور اسلام اس ظلم سے بھی روکتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا رَھْبَانِیَۃَ فِی الْاِسْلَامِ۵۴؎ اسلام میں رہبانیت نہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رہبانیت جو بعض مذاہب نے شروع کر رکھی ہے اس کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کی اپنی ایجاد ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓـاَ یُّھَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۵۵؎
کہ اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ ہم نے بیشک تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تبلیغ کرو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تعلیم دو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم دوسروں کی تربیت کرو، لیکن اگر کبھی کوئی ایسا موقع آجائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بیشک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔
دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اُس نے ایک دفعہ صرف اِس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے۔ سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہؤا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہؤا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متأثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں۔ ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا اُس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے اُنہیں کہاکہ سردار صاحب! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کاربند نہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سَو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن ُتو میری خاطر شراب پی لے، پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سَو روپیہ کی تھیلی اُس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب! اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے، ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سے بات بھی نہیں مان سکتے۔ اِس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، صرف آج شراب پی لیں۔ اُس نے سَو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اُٹھا کر پی لیا۔ سردار دیال سنگھ صاحب پر اِس کا ایسا اثر ہؤا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی۔ یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اگر روٹی کا سوال ہو تو بیشک خود ُبھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلائو، لیکن جہاں ہدایت کا سوال آجائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دُور ہو جائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہئے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
شرک کی ممانعت
تیسرا ظلم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اسکے بارہ میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیئًا ۵۶؎ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ غرض اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے توحید کو دنیا میں قائم کیا اور اس طرح اس ظلم کا خاتمہ کر دیا جس کا خدا سے تعلق ہے اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کیا اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی اپنے نفس پر بھی ظلم نہیں کیا اور اس طرح اس نے امن کے برباد کرنے والے تمام اَسباب کا خاتمہ کر دیا۔
بے جا غضب کی ممانعت
(۳) امن کو برباد کرنے والا تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے۔ قرآن کریم
نے اس بدی کی بھی بیخ کنی کی ہے اور اصولی طور پر ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ۵۷؎ کہ ہم نے تمہیں اُمَّۃً وَّسَطًا بنایا ہے یعنی ایسی اُمت جوہر کام میں اعتدال کو مدّنظررکھتی ہے پس تمہارا فرض ہے کہ تم نہ تو غصہ میں بہہ جائو اور نہ محبت میں بہہ جائو بلکہ اگر محبت کرو تو ایک حد تک اور اگر غصہ کرو تو ایک حد تک۔ پھر فرماتا ہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۵۸؎ کہ مؤمن لوگ اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں۔
حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اُس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے، اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے۔ میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو ایک پانی لیکر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا۔
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ الشَّدِْیدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ۵۹؎ کہ بہادر اُس کو نہیں کہتے جو کُشتی میں دوسرے کو گِرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اُسے روک لے۔ پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں، بڑا بہادر ککر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اُس کو روک لے۔ اس بارہ میں حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اُسے گِرا لیا اور آپ اُس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر ُتھوک دیا۔ اِس پر حضرت علیؓ اُسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہؤا کہ انہوں نے یہ کیا کِیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا؟ چنانچہ اُس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر ُتھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کرونگا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا، خدا کے لئے نہیں ہوگا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تاکہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تاکہ اُن کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔
لالچ اور حسد کی ممانعت
(۴) امن کے برباد کرنے کا چوتھا سبب لالچ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اِس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ
عَلٰی مَا اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۶۰؎
کہ یہودی قوم بھی کوئی قوم ہے کہ خدا تو لوگوں پر فضل کرتا ہے اور یہ حسد سے مری جاتی ہے۔ دوسری جگہ فرماتاہے وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ۶۱؎
خدانے دنیا میں مختلف قوموں پر جو فضل کئے ہیں ان کی وجہ سے ان قوموں سے حسد نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔
قیامِ امن کے ذرائع

اب اسکے مقابل پر مَیں امن کے ذرائع کو لیتا ہوں۔
خیر خواہی
(۱) پہلا ذریعہ قیامِ امن کا خیر خواہی ہے ہمارے ملک میں یہ جذبہ اتنا کم ہے کہ جب بھی کوئی افسر بدلتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا افسر آتاہے تو وہ پہلے افسر کے کام
کے ضرور نقائص نکالتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر آتا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر کا نقص نکالتا ہے، کمشنر آتا ہے تو وہ پہلے کمشنر کے کام کی خرابیاں بتاتا ہے اور اگر جرنیل آتا ہے تو پہلے جرنیل کی سکیموں میں نقص نکالتاہے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے وہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۶۲؎
سچا مسلمان وہ ہوتا ہے کہ جب خدا اسے کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو پہلے لوگ جو فوت ہو چکے ہوں اُنکے متعلق یہ نہیں کہتا کہ فلاں سے یہ غلطی ہوئی اور فلاں سے وہ غلطی ہوئی بلکہ وہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اوراگربعض سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ان کے متعلق دُعائیں کرتا رہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے بھی بخش اور میرے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو مجھ سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں مؤمنوں کا کوئی کینہ نہ رہنے دیجیئو۔ اے رب! ُتو بڑا مہربان ہے ُتو ان پر بھی رأفت اور رحم کر اور ہمارے دل میں ان کے متعلق محبت کے جذبات پیدا فرما تاکہ ہم اپنے پیشروئوں کے نقص نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے عادی ہوں۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا یُؤْمِنُ اَحَدَُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ۶۳؎ کہ کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کی نسبت وہ تمام باتیں نہ چاہے جو وہ اپنی نسبت چاہتا ہے۔ غور کرو کتنی وسیع خیر خواہی ہے جس کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے۔
مغفرت
(۲) امن کے قیام کا دوسرا ذریعہ مغفرت ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے متقی وہ ہوتے ہیں وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
جو غصّے کو دباتے ہیں اور لوگوں کے گناہوں کومعاف کرتے ہیں اِسی طرح فرماتا ہے خُذِالْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ۶۴؎ کہ عفو کو اپنی عادت بنالو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم کبھی کبھار کسی کو معاف کردو بلکہ دوسروں کو معاف کرنا تمہاری عادت میں داخل ہونا چاہئے اور جو نیک اور پسندیدہ باتیں ہیں ان کا لوگوں کو حُکم دو اور اگر کوئی تمہیں غصہ دلائے تو اس کے فریب میں نہ آنا بلکہ ایسے جاہلوں سے اعراض کرنا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! انسان دن میں کتنی دفعہ مغفرت کرے؟ آپؐ نے فرمایا: ستّر مرتبہ۔ اب ّستر سے مراد ستّرہی نہیں کیونکہ انسان دن بھر میں دو یا چار قصور کرے گا، ستّر قصور نہیں کر سکتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ّستر دفعہ معاف کرو۔ دراصل اس ستّرسے مراد کثرت ہے کیونکہ ستّر یا سات کے معنے عربی زبان میں کثرت کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۶۵؎
مؤمنوں کو چاہئے وہ عفو کریں، درگزر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتعالیٰ تمہارے گناہ بخشے؟ جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مؤمنو! تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو، اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا۔
احسان
(۳) امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اسکے متعلق بھی قرآن کریم میں حُکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ـ
کہ مؤمن وہ ہیں جو غصّے کو دباتے ہیں، جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں، اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی۶۶؎
کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتائے ذِی الْقُرْبیٰ کا حکم دیتا ہے اِن تینوں کی مثال میں مَیں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوںجو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں مَیں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا۔ اتفاقاً وہ برتن اُس نے بے احتیاطی سے اُٹھایا اور وہ ُٹوٹ گیا، وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا۔ اس پر اُس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کا حُکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں۔ حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کَظَمْتُ الْغَیْظَ کہ میں نے اپنے غصہ کو دبا لیا اس پر اُس نے آیت کا اگلہ حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس کہ مؤمنوں کو صرف یہی حُکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں بلکہ یہ بھی حُکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں۔ حضرت امام حسنؓ فرمانے لگے عَفَوْتُ عَنْکَ جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا اِس پر وہ کہنے لگا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اِس سے آگے یہ بھی حُکم ہے کہ مؤمن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے اس پرحضرت امام حسنؓ نے فرمایا جائو میں نے تمہیں آزاد کر دیا۔ گویا پہلے انہوں نے اپنے غصہ کو دبایا، پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اُسے آزادکر دیا۔
دین کو دنیا پرمُقدّم رکھنا
(۴) چوتھی بات جس کا امن کے قیام کے ساتھ تعلق ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان
کو یہ یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی نہیں کر سکتا، کیونکہ کچھ قربانیاں تو ایسی ہیں جن کا دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے مگر بیسیوں قربانیاں ایسی ہیں جن کا دنیا میں کوئی بدلہ نہیں ملتا۔ پس حقیقی قربانی بغیر اُخروی زندگی پر یقین رکھنے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی قربانی کو ضائع سمجھتا ہے اور چونکہ حقیقی قربانی کے بغیر امن نہیں ہو سکتا اس لئے جب تک اُخروی زندگی پر ایمان نہ ہو اُس وقت تک حقیقی امن دنیا کو نصیب نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۶۷؎
کہ مؤمن تو دین کو دنیا پر مقدم کرتاہے مگر تم وہ ہو جو دنیا کو دین پر مقدم کر رہے ہو۔ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی۶۸؎ پہلے نبیوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو مگر ان کے اَتباع نے اس تعلیم کو ُبھلا دیا اور دنیا کا امن برباد ہو گیا غرض یہ آٹھوں باتیں جو امن کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، وہ محسن تھے، وہ مغفرت سے کام لیتے تھے، وہ خیر خواہ تھے، وہ بدظنی سے بچتے تھے، وہ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے تھے، وہ لالچ سے محفوظ رہتے تھے اور وہ غصے کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتے تھے۔
امامت کے وجود کا ظہور
(۷) ساتویں بات یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ قیامِ امامت کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ یہ سبق ُبھولے نہیں اور
امامِ حقیقی کے وقت کام آئے، دوسرے سابقون کی نیکیاں قوم میں زندہ رکھنے کا خیال رہے۔ درحقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد کو تازہ رکھتاہے۔ اب دیکھ لو اس امرکو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہؓ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا۔
پہلے حضرت ابوبکرؓ ، پھر حضرت عمرؓ ، پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ مقامِ ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا بِالکل مسجد کا نمونہ تھا جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنا لیا۔ اِس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمدیہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے۔ دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اس مولوی کو بھی جا کر سنا دی۔ وہ کہنے لگا مولوی نور الدین دین سے واقف تھا وہ چالاکی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیداہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اُس نے سمجھاکہ اب تو جماعت ضرور ٹھوکر کھا جائے گی۔ چنانچہ اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یاد رکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مُطاع تسلیم کر لینا ہے مگر معًا یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی۔ یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو۔
خلافت، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو۔ جس طرح مسجد بنائی ہی اسی لئے جاتی ہے تاکہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے ۔ پس جس طرح مسجد خانۂ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۔ ایک خانۂ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو۔
مقامِ ابراہیمی کو مصلّٰی بنانے کا مفہوم
مقامِ ابراہیم کو مصلّٰی بنانے کے یہ معنے نہیں کہ ہر شخص ان کے مصلّٰی پر جاکر کھڑا ہو یہ تو
قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقامِ ابراہیم پرنماز پڑھو تو اوّل تویہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نمازپڑھی تھی یا وہاں؟ اور اگر بِالفرض یہ پتہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوںنے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں، اگرحنفیوں کی طرح نماز میں مُرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دو منٹ َصرف ہونگے اِس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تیس اور چوبیس گھنٹے میں سات سَو بیس آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتائو کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا کریںگے؟ اور باقی مُسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی ۔ پس اگر اِس حُکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اِس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنے نہیں بلکہ جیساکہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تاکہ اس طرح سنتِ ابراہیمی پوری ہوتی رہے، درحقیقت آیت اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ- وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۶۹؎ میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر مَیں مرگیا تو کام کس طرح چلے گا؟ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے۔ ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ سنّتِ ابراہیمی کو قائم رکھیں جو لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائیں گے۔ اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے۔ پس اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے، ایک امامتِ نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامتِ خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتاہے اور جس کی طرف وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّیمیں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اِس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کے لئے کوشش کرتے رہو۔ غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامتِ نبوت نہ ہو تو امامتِ خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو اِس حُکم پر کوئی عمل نہیںکر سکتا۔
اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور
(۸) آٹھویں بات یہ ہے کہ مساجد مسافروں کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ خوبی بھی
اسلام اور مسلمانوں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی میں مسافروں کی مہمان نوازی کاشدید حُکم ہے خود قرآن کریم نے اِبْنُ السَّبِیْل کی خدمت کو خاص احکام میں شامل کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کومہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اس حُکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آکر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اِس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آگیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا اِس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟ اُس نے عرض کیا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میںکچھ کھانے کے لئے موجود ہے؟ اُس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو ِکھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آگیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو ِکھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھپکا کر مَیں سُلا دیتی ہوں۔ صحابی نے کہا یہ توہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے ۔ بیوی نے پوچھا وہ کیا؟ خاوند کہنے لگا جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھرہم کیا کریں گے؟ (اُس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہؤا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اُس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کردو۔ اورمیں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اُٹھوںگی اور چراغ کو بُجھا دونگی تاکہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دستر خوان ِبچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو۔ بیوی اُٹھی اور اُس نے چراغ کو بُجھا دیا ۔ جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سُلگائو اور چراغ روشن کرو۔ بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں، اُس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو۔ اُس نے کہا اِس وقت ہمسائے کو کون جاکر تکلیف دے بہتر ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے۔ مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اورمہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا۔ خاوند اوربیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہؤا تھا اس لئے مہمان توکھاتا رہااور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ خیر کھانا ختم ہؤا اور مہمان چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس واقعہ کی خبر دیدی۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو! کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہؤا؟ صحابہ ؓ نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ!ہمیں تو معلوم نہیں اِس پر آپؐ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ِہلا رہے تھے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اِس حرکت پر عرش پر ہنسا۔ پھر آپؐ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اِس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں نہ ہنسے۔۷۰؎ اِس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے ُکھلے رہتے تھے۔
اسی طرح ایک واقعہ ہم نے بچپن میں اپنے کورس میں پڑھا تھا بعدمیں اس کا پڑھنا کسی بڑی کتاب میں یادنہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا جو بڑا ہی خبیث الفطرت تھا۔ رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سونے کے لئے بستردیا، تو اُس نے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس بستر میں پاخانہ پھر دیا اور علی الصبح اُٹھ کر چلا گیا مگر جاتے ہوئے وہ اپنی کوئی چیز ُبھول گیا۔ جب صبح ہوئی تو کسی خادمہ نے دیکھ لیا اور وہ غصہ میں آکر اُس یہودی کو گالیاں دینے لگ گئی۔ اتفاقاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اُس کی آواز کو سن لیا اور جب دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ یہودی بستر میںپاخانہ پِھر کر چلا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی لائو میں خود دھو دیتا ہوں چنانچہ وہ پانی لائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر کو صاف کرناشروع کر دیا۔ اِسی دوران میں یہودی اپنی ُبھولی ہوئی چیز لینے کے لئے آگیا۔ جب وہ قریب آیا تو اُس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بسترکو دھو رہے ہیں اور اُس خادمہ سے کہہ رہے ہیں کہ چُپ چُپ! گالیاں مت دو۔ اگر یہ بات پھیل گئی تو وہ شخص شرمندہ ہوگا۔ اِس بات کا اُس یہودی کے دل پر اتنا اثر ہؤاکہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا۔ تو ضیافت میں مسلمانوں نے کمال کر دکھایا تھا اورمسلمانوں کے گھر مسجدیں بن گئے تھے جس طرح مسجد میں مہمان آکر ٹھہرتے ہیں اسی طرح ان کے دروازے ہر وقت مہمانوں کیلئے ُکھلے رہتے ۔ اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت فرض ہے اور اگر کسی گائوں کے رہنے والے اس فرض کو ادا نہ کریں تو اُن سے تین دن تک زبردستی دعوت لینے کی اجازت ہے۷۱؎ بلکہ اس حکم کا مسلمانوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک صوفی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کماتے نہیں تھے ایک دفعہ کسی دوسرے بزرگ نے انہیں نصیحت کی کہ یہ عادت ٹھیک نہیں۔ ساری دنیا کماتی ہے آپ کو بھی رزق کے لئے کچھ نہ کچھ جدوجہد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ مہمان اگر اپنی روٹی خود پکائے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے۔ میں خدا کا مہمان ہوں اگر خود کمانے کی کوشش کروں تو اِس سے خدا ناراض ہوگا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ خدا کے مہمان ہوں گے مگر آپ کو معلوم ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگے یہ تو مجھے بھی معلوم ہے مگر میرے خدا کا ایک دن ہزار سال کے برابرہوتاہے جس دن تین ہزار سال ختم ہوجائیں گے اُس دن میں بھی اس کی مہمانی چھوڑ دونگا۔
ذکرِالٰہی اور دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا ّجتھا
(۹) نویں بات یہ ہے کہ مساجد کا ایک فائدہ شہریوں
کے لئے ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وَالْعٰکِفِیْنَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسری جگہ قَآئِمِیْنَ کا لفظ آتا ہے اور ان ہر دو کے مفہوم میں شہری ہی داخل ہیں اورشہریوں کو مسجد سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہر قسم کے شور و شغب سے محفوظ ہو کر ذکرِالٰہی کرتے اور عبادتِ الٰہی بجالاتے ہیں اور یہی کام سب انبیاء کی جماعتیں کرتی ہیں۔ ایک ّجتھا ذکرِ الٰہی کے لئے بن جاتا ہے اور وہ عبادت کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے جو اکیلے اکیلے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں بھی یہی طریق رائج تھا بعض بعض کو پڑھاتے تھے اور بعض دوسروں کو لوگوں کے ظلموں سے بچاتے تھے جیسے حضرت ابوبکرؓ نے بہت سے غلام آزاد کئے اگر وہ لوگ متفرق ہوتے تو یہ فائدہ نہ ہو سکتا ۔
قومی ترقی کیلئے اجتماعی کاموں کی تلقین
(ب) مساجد کا شہریوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی عبادت کا کام دیتی
ہیں۔ یہ کام بھی انبیاء کی جماعت کا ہوتاہے اورمسلمانوں نے کِیا۔ مثلاً وہ چندے جمع کرکے غرباء کی خدمت کرتے، اکٹھے ہو کر جہاد کرتے، اِسی طرح قوم کی ترقی کے لئے اقتصادی اور علمی کام سر انجام دیتے۔
أمر باِلمعروف اور نہی عَنِ الْمُنکرکا فریضہ سر انجام دینے والا گروہ
(۱۰) دسواں کام مساجد کا یہ بتایا کہ
وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ یعنی مساجد میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں مسلمانوں نے یہ نمونہ بھی دکھایا چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۷۲؎
کہ تم میں ایک ایسی اُمت ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف ُبلائے، انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور انہیں بُری باتوں سے روکے، یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس حکم کے مطابق مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی تھی جن کا دن رات یہی کام تھا مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت انسؓ بن مالک وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کر دی تھیں اور ان لوگوں کا کام صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علمِ دین سیکھنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا تھا۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو گو کچھ دُنیوی کام بھی کرتے تھے مگر اکثر وقت اِسی کام میں لگے رہتے تھے۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رضوانُ اللہ علیہم شامل تھے۔ ان لوگوں نے ایسے کٹھن اور صبر آزما حالات میں یہ کام کیا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات پڑھ کر رونا آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی دین کیلئے فاقہ کشی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
کے آخری چھ سالوں میں داخلِ اسلام ہؤا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گزر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوںگا تاکہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میںفوراً ُسن لوں اور اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں۔ چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے۔ ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدتِ ُبھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں ُجوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میںاُن دنوں مِرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر ُجوتیاں ماری جائیں۔ غرض میں تو بھوک کے مارے بیہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑاتڑ ُجوتے مارتے چلے جاتے۔ کہتے ہیں اِسی طرح ایک دفعہ مَیں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں؟ مانگ مَیں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک ُلقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ آخر مَیں مسجد کے دروازہ پرکھڑاہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گزرے اورمیری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آجائے اور وہ کھانا بھجوا دے۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ چلے آرہے ہیں۔ میں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا ِکھلانے کا ذکرآتا ہے اور میں نے کہا کہ اِس کے معنے کیا ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے اُس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہاکہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اِس کی تفسیر بتانے لگے ہیں۔ خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آگئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اورکہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ انہوں نے بھی اِس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے۔ مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمرؓ مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اِس لئے معنے پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنے کرکے آگے چل دیئے۔ جب حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہؤا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابوہریرہ! کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، پھر آپ نے فرمایا، اِدھر آئو ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو، اگر کوئی اَور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اُسے بھی اپنے ساتھ لے آئو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں مَیں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ آج شامت آئی۔ دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کیلئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم تھا میں اُن کو اپنے ہمراہ لیکر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں دیدیا۔ میں نے کہا بس اب خیر نہیں، اس نے دودھ چھوڑنا نہیں اور میں بھوکا رہ جائوں گا۔ خیر اُس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو۔ جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تومیں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اِس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائیگا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دیدیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں، اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اُس کے پینے کے بعد بھی دودھ بچ رہا۔ اِس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اَور کو پیالہ دے دیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیدیا۔ اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابوہریرہ! اب تم دودھ پیؤ۔
(میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و صلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تاکہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تاکہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے) غرض حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اِس قدر پِیا اِس قدر پِیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیؤ۔ میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیؤ۔ میں نے اِس پر پھر دودھ ۔ ِپینا شروع کر دیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہؤا کہ دودھ کی تراوت میرے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے، آخر میں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہِ! اب تو بالکل نہیں پیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے پیالہ لے کر بقیہ دودھ خود پی لیا۔ ۷۳؎
غرض صحابہؓ کی قربانی کا یہ حال تھا کہ وہ بعض دفعہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے تاکہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں اور وہ اسے سننے اور لوگوں تک پہنچانے سے محروم رہ جائیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اُنہیں ہمیشہ فاقے آتے تھے کیونکہ مسلمان انہیں ِکھلاتے بھی رہتے تھے اور بعض صحابہ کے گھروں سے تو انہیں باری باری کھانا آتا تھا البتہ کبھی کبھی انہیں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ہر جمعرات یا جمعہ کو انہیں چقندر پکا کر بھیجتی تھی اسی طرح کسی دن کوئی صحابی کھانا بھجوا دیتا اور کسی دن کوئی۔ جب وہ عورت فوت ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا علم نہ ہؤا۔ چند دن کے بعد آپؐ نے دریافت فرمایا کہ فلاں عورت کئی دنوں سے دیکھی نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلَاللّٰہِ !وہ تو فوت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ وہ تو اصحابُ الصفہ کو چقندر ِکھلایا کرتی تھی اگر تم مجھے بتاتے تو مَیں خود اُس کا جنازہ پڑھاتا۔۷۴؎
غرض صحابہؓ نے وہ سب کام کرکے دکھائے جو مسجد سے مقصود ہوتے ہیں وہ عبادت کے محافظ تھے، وہ عابدوں کے جمع کرنے والے تھے، وہ شر سے بچانے والے تھے، وہ امن کو قائم کرنے والے تھے، وہ امامت کو زندہ رکھنے والے تھے وہ مسافروں کے لئے ملجاء، وہ متوطنوں کے لئے مأوٰی، وہ واقفینِ زندگی کے لئے جائے پناہ تھے۔ ان کے مقابل پر یہ شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اُس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر ِالٰہی کا نمونہ دکھایا وہ اِن مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہؤا۔ مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں، لیکن قرآن، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اُس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمدنامی تھا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جس مسجد کی بناء سرخ و سفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی۔ یہی وہ مسجد ہے جس کو دیکھ کر ہر عقلمند اور شریف انسان جس کے اندر جذباتِ شکر اور احسان مندی پائے جاتے ہوں بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(۵) مادی قلعے کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ
ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ میں نے اِس سفر میں کئی قلعے دیکھے چنانچہ گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھا، اسی طرح دہلی کے کئی قلعے دیکھے اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ:-
(۱) ان قلعوں کے ذریعہ سے کیسے کیسے حفاظت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں۔
(۲)اور پھر ساتھ ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے ہیں اور اِن کو بنانے والا اب کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، بلکہ اب تو بہت سے قلعوں میں جانور آزادانہ پھرتے ہیں اور گوبر سے ان کے صحن اَٹے ہوئے ہیں۔ بہت سے قلعوں میں گوجروں نے گھر بنا رکھے ہیں کیونکہ انہیں شہر کے باہر مکان چاہئیںاور یہ قلعے ان کے کام خوب آتے ہیں۔ کئی قلعے جو کسی حد تک محفوظ ہیں اب ان حکومتوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے وہ قلعے بنائے تھے۔ ان بادشاہوں کی اولاد کو تو ان قلعوں میں جانے کی اجازت نہیں، لیکن ان کے دشمن ان میں اکڑتے پھرتے ہیں اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں ان کی گردنیں لقّا کبوتروں کی طرح اینٹھی ہوئی ہیں۔ دلّی کاقلعہ جس میں داخل ہوتے ہوئے ہندو راجے بھی سات سات دفعہ جُھک کر سلام کرتے تھے اب بقّالوں اور بنیوں کے قبضہ میں ہے اس سے پہلے سمندر پار کے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اور اس کے بنانے والے مغل بادشاہوں کے کئی شاہزادے اس کے سامنے مشکیزوں سے پانی ِپلا کر پیسے کماتے ہیں اور بے چھنے آٹے کی روٹی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان میں اکڑ کر چلنے والے بادشاہوں کی روحیں آج اپنی اولادوں کی اس بیکسی کو دیکھ کر کس طرح بے تاب ہو رہی ہونگی۔
اِن قلعوں کو بنانے والوں نے تو یہ قلعے اِس لئے بنائے تھے کہ یہ ہماری حفاظت کریں گے مگر یہ قلعے بھی مٹ گئے اور اِن کو بنانے والے بھی کوئی نہ رہے پس میں نے سوچا کہ ان قلعوں کو ان بادشاہوں نے کیوں بنایا تھا؟ اور پھر خود ہی میرے دل نے اِس سوال کا یہ جواب دیا کہ ا س لئے کہ دشمن اُن کے ملک پر حملہ نہ کر سکے اور ان کی رعایا دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہے مگر میں نے دیکھا کہ باوجود اِن قلعوں کے دشمن غالب آتا رہا اور ان قلعوں کی دیواروں کو توڑ کر اندر داخل ہوتا رہا۔ گولکنڈہ کا قلعہ بڑی اعلیٰ جگہ پر ہے آخر اورنگ زیب نے اسے فتح کر ہی لیا۔ اسی طرح دہلی اور آگرہ کے قلعے ُمغلوں نے بنائے اور انگریزوں نے ان کو توڑ دیا اور اب وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں۔ پس میںنے سوچا کہ کیا کوئی ایسا قلعہ بھی ہے جسے عالَمِ روحانی میں قلعہ کا مقام دیا گیا ہو اور جو اِن شاندار قلعوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار ہونے کا مدعی ہو۔
قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں؟
مگر میں نے اس تلاش سے پہلے یہ غور کرنا ضروری سمجھا کہ قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں اور میں اس نتیجہ
پر پہنچاکہ تین باتوں کے لئے:-
اوّل ۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ مُلک کے لئے وہ نقطۂ مرکزی ہو جائیں اور فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اور اطمینان سے ُملکی ضرورتوں کے متعلق غور کر سکے۔
دوم۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اور جس کو روکنا چاہیں اس قلعہ کی فصیلیں روک دیں اور اندر امن رہے۔
سوم۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ اِرد ِگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھیں چنانچہ قلعوں پر توپیں لگا دی جاتی ہیں یا پُرانے زمانہ میں منجنیقیں لگا دی جاتی تھیں اور ان سے صرف قلعہ ہی کی نہیں بلکہ اِرد ِگرد کے علاقہ کی بھی حفاظت ہوتی تھی مگر یہ سب تدبیریں یا تو ناقص ثابت ہوتیں یا پھر ایک وقت تک کام دیتی تھیں۔ اس کے بعد یہ قلعے صرف اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کرکے زائرین کے لئے لاچار آنسو بہانے کا موجب ہوتے تھے۔ ان قلعوں کو دیکھ کر کہ آیا اِن عبرت پیدا کرنے والے قلعوں کے مقابلہ میں کوئی خدائی قلعہ بھی ہے جو ان اغراض کو بھی پورا کرتا ہو جن کے لئے یہ قلعے بنائے جاتے تھے اور پھر امتدادِ زمانہ سے پیدا ہونے والی بلائوں سے بھی محفوظ ہو؟ غور کرنے پر مجھے معلوم ہؤا کہ ایک روحانی قلعہ کا ذکر قرآن میں ہے جسے خداتعالیٰ نے انہی اغراض کے لئے بنایا جن کے لئے قلعے بنائے جاتے تھے۔ اور اسے ایسا مضبوط بنایا کہ کوئی غنیم اسے فتح نہیں کر سکتا اور جو سب دوسرے قلعوں پر غالب آجاتا ہے اور قیامت تک اسی طرح کھڑا رہے گا جس طرح کہ وہ ابتداء میں تھا اور کبھی بھی کسی دشمن کے ہاتھ میں اس طرح نہیں آئے گا کہ اپنے بنانے والے کی غرض کو پورانہ کر سکے۔
بیت اللہ کی اہم اغراض
قرآن کریم میں اس قلعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْناً وَ اتَّخِذُوْا
مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ oوَاِذْقَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o۷۵؎
اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو مَثَابَہ بنایا۔ مَثَابَہ کے معنے ہیںمَجْتَمَعُ النَّاسِ۷۶؎ یعنی لوگوں کے لئے جمع ہونے کا مقام۔ اسی طرح مَثَابَہ کے ایک معنی لغت میں کنویں کی منڈیر کے بھی آتے ہیں۔۷۷؎ گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا نے بیت اللہ کو لوگوںکے جمع ہونے کا مقام بنایا۔ اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ناپسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اسی طرح بیت اللہ کو خدا نے منڈیر بنایا تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دُور رہیں۔ پھر قلعہ کی تیسری غرض اِرد ِگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھنا ہوتی ہے یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اَمْنًا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اسے قیامِ امن کے لئے بنایا گیا ہے گویا بیت اللہ نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے، غیر پسندیدہ عناصر کے دُور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے۔
پھر میں نے اورغور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک یہ آیت نظر آئی کہ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ۷۸؎
کہ ہم نے کعبہ کو جو خداتعالیٰ کا بنایا ہؤا محفوظ گھر ہے قِیَامًا لِّلنَّاسِ بنایا ہے۔ قیام کے معنی نظام یا ستون کے ہوتے ہیں۷۹؎ اور ان تمام چیزوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی اصل حالت پر رہے اور قیام کے معنے خبرگیر اورنگران اور انتظام کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۸۰؎ پس قِیَامًا لِّلنَّاسِ کے معنے ہوئے کہ کعبہ انسانوںکے نظام کو درست رکھنے کے لئے اور ان کی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کی حالت کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لئے اور ان کی خبرگیری اورنگرانی کے لئے بنایا گیا ہے۔ جب میں نے یہ آیت پڑھی تومیں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو قلعہ کے مشابہہ ہے کیونکہ اس کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ:-
(۱) لوگ اس میں جمع ہوں اور تمدنِ انسانی ترقی کرے ۔
(۲) وہ بنی نوع انسان کو بیرونی ناجائز دخل اندازی سے محفوظ رکھے۔
(۳) دنیا کے امن کا ذریعہ ہو اور اس کی توپوں سے اِرد ِگرد کے علاقوں کی بھی حفاظت کی جائے۔
(۴) اس کے ذریعہ سے انسانی تمدن کی چھت کو ِگرنے سے بچایا جائے۔
(۵) اس کے ذریعہ سے انسانی صحیح نظام کو درست رکھا جائے۔
(۶) اس کے ذریعہ سے انسان کی خبرگیری کی جائے اور مصیبتوں سے اسے بچایا جائے۔
اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات
پیشتراس کے کہ میں یہ دیکھتا کہ آیا یہ کام اس قلعہ کے پورے ہوئے ہیں یا نہیں؟
میں نے کہا آئو مَیں مقابلہ کروں کہ لوگ قلعے کِن جگہوں پر بناتے ہیں اورکِن امور کو اُن کے بنانے میں مدنظر رکھتے ہیں تاکہ میں فیصلہ کر سکوں کہ آیا یہ قلعہ ان امور کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے قلعہ کی اغراض کو پورا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب میں نے سوچا اور دنیا کے مشہور قلعوں کی تاریخ پر غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اچھے قلعوں کی تعمیر میں مندرجۂ ذیل امور کا خیال رکھا جاتا ہے۔
(۱) قلعے ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کا بافراغت انتظام ہو تاکہ اگر کبھی محاصرہ ہو جائے تو لوگ پیاسے نہ مر جائیں۔
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ جہاں نہر، دریا یا سمندر ہو وہیں قلعے بنائے جاتے ہیں چنانچہ فتح پور سیکری کا قلعہ موسٰی ندی کے پاس ہے۔ اسی طرح دلّی کا قلعہ جمنا کے کنارے واقعہ ہے پس قلعے بِالعموم یا تو سمندر کے کنارے بنائے جاتے ہیں یا دریائوں اور نہروں کے پاس بنائے جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو نہانے دھونے کی ضرورت بآسانی پوری ہوسکتی ہے۔ دوسرے جانوروں کے لئے بھی بافراغت پانی میسّر آسکتاہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں محاصرہ مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشتیوں کے ذریعہ انسان باہر نکل سکتا ہے اسی طرح رسد وغیرہ قلعہ والوں کو دریا کے رستے پہنچ سکتی ہے۔ پھر اس ذریعہ سے آگ بُجھائی جاسکتی ہے۔ خندقیں پُر کی جاسکتی ہیں اور ذرائع رَسل و رسائل ۔ُکھلے رہ سکتے ہیں۔
(۳) تیسری بات میں نے یہ دیکھی کہ لوگ قلعہ بناتے وقت اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ علاقہ ایسا ہو کہ اُس میں خوراک کے ذخائر کافی ہوں اور کافی مقدار میں غلّہ پیدا ہو سکے تامحصور ہونے کی صورت میں فوج خوراک کے ذخائر جمع کر سکے۔
(۴) چوتھے قلعہ بِالعموم ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جس کے اِرد ِگرد یا جس کے پاس جنگل ہوں جہاں سے ایندھن کافی جمع ہو سکے اور دشمن پر حملہ کرنے میں سہولت ہو چنانچہ گوریلا وار یا جنگِ چپاول جنگلوں میں بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے اسی لئے عام طور پر قلعے جنگلوں کے قریب بنائے جاتے ہیں تاکہ تھوڑی فوج بھی بڑے غنیموں کو دِق کر سکے۔
(۵) پانچویں اگر پہاڑی علاقہ ہو تو قلعہ ہمیشہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے تاکہ سب طرف نگاہ پڑ سکے اور دشمن تو حملہ نہ کر سکے مگر خود آسانی سے حملہ کیا جاسکے۔
(۶) چھٹے قلعہ کی تعمیر نہایت اعلیٰ درجہ کے چونا اور پتھروں سے کی جاتی ہے تاکہ اگر دشمن اس پر گولے برسائے یا کسی اور طرح حملہ کرے تو اس کی دیواروں کو ضُعف نہ پہنچے۔
(۷) ساتویں قلعہ کی تعمیر اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ شہر کی حفاظت کر سکے اور اس کی فصیلیں شہر کے گِرد پھیلتی جائیں۔
(۸) آٹھویں اس کی طرف آنے والے راستے ایسے رکھے جاتے ہیں جن کو ضرورت پر آسانی سے بند کیا جاسکتا ہو مثلاً تنگ وادیوں میں سے راستے گزریں تاکہ چند آدمی ہی دشمن کو قلعہ سے دُور رکھ سکیں۔
(۹) نویں قلعوں میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے گِرداگِرد کو خوب مضبوط کیا جائے او ر جنگی چوکیوں کے ذریعہ سے اُس کی حفاظت کی جائے۔
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو بہادر اورجنگجو بنایا جاتا ہے تاکہ وہ دشمن سے خوب لڑ سکیں۔
(۱۱) گیارھویں اس میں حملہ کرنے ، توپوں سے بم پھینکنے یا منجنیقوں سے پتھرائو کرنے کے لئے باہر کی طرف سوراخ ہوتے ہیں اور ا س میں باہر کی طرف توپیں یا منجنیقیںرکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ وہ گیارہ خصوصیتیں ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں بڑے بڑے انجینئرمدنظر رکھا کرتے ہیں۔
یہ روحانی قلعہ ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں پانی کم یاب تھا
اب میں نے کہا آئو!یہ قلعہ جو قرآن نے پیش کیا
ہے اس پر غور کرکے دیکھیں کہ یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور میں نے ایک ایک کرکے ان امور کی اس روحانی اصول پر تیار شُدہ قلعہ کے متعلق پڑتال کی اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ :-
(۱) اس قلعہ کے لئے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا صرف ایک چشمہ اس کے قریب تھا اور وہ بھی کھاری اور پھر اس کا پانی بھی اتنا کم تھا کہ لوگوں کی ضروریات کے لئے کسی صورت میں کافی نہیں تھا۔ ملکہ زبیدہ نے بعد میں وہاں ایک نہر بنوا دی تھی جسے نہرِ زبیدہ کہتے ہیں مگر وہ نہر ایسی ہی ہے جیسے کوئی نالا ہوتا ہے۔ غرباء عام طور پر زمزم کا پانی استعمال کرتے ہیں اور باقی لوگ بارش ہوتی ہے تو تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ غرض وہاں پانی کی اتنی کمی ہے کہ دنیا کا کوئی سمجھ دار انجینئر وہاں قلعہ نہیں بنا سکتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ دریا اور سمندر سے دُور بنایا گیا
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ آیا وہ کسی نہر یا دریایا سمندر کے
کنارے واقع ہے؟ تومجھے معلوم ہؤا کہ نہ وہاں کوئی دریا ہے نہ سمندر، گویا اس بارہ میں بھی خانہ خالی تھا اور نہر یا دریا کا نام و نشان منزلوں تک نہ تھا۔ وہ جسے لوگ نہرِ زبیدہ کہتے ہیں وہ صرف نالی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ رہی بندرگاہ سو وہ سَو ڈیڑھ سَو میل دور تھی اور اب نئی بندرگاہ جدّہ بھی پچاس میل کے قریب دُور ہے گویا سمندر بھی دُور ہے اور اندر بھی کوئی نہر نہیں کہ لوگ کثرت سے فوجی ضروریات کے لئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ رکھ سکیں۔ بندرگاہ بے۔شک موجود تھی مگر اول تو وہ اتنی دور تھی کہ اس سے کوئی فائدہ اُٹھایا نہیں جاسکتا تھا دوسرے اگر ممکن بھی ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا سمندر کے نام سے دَم نکلتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ ایک بنجر علاقہ میں بنایا گیا
(۳) تیسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ علاقہ زرخیز ہو تاکہ خور و نوش کا سامان
پیدا کیا جاسکے اور بوقتِ ضرورت جمع کیا جاسکے۔ مگر میں نے دیکھا کہ اِس قلعہ کو جو بنانے والا ہے وہ خود کہتا ہے کہ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ۸۱؎ یہ وادی غَیْرِذِیْ زَرْعٍ ہے اور اس میں ایک دانہ تک پیدا نہیں ہوتا نہ گیہوں، نہ باجرا، نہ گندم، نہ َچنا۔ بلکہ ایک شخص نے وہاں باغ لگانا چاہا تو اس کے لئے وہ دوسرے ُملکوں سے مٹی منگواتا رہا اور آخر بڑی مشکل سے اس نے چند درخت لگائے اور وہی چند درخت اب باغ کہلاتے ہیں۔ میں نے خود اس قلعہ کو جاکر دیکھا ہے قریب سے قریب سبزی طائف میںہے اور طائف وہاں سے تین منزل کے فاصلہ پر ہے باقی چاروں طرف بے آب و گیاہ جنگل کے سِوا کچھ نہیں، نہ غلّہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے جمع کرنے کے کوئی سامان ہیں۔
اِس قلعہ کے اِرد ِگرد کوئی جنگل نہیںتھا
(۴) چوتھے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ گِرد وپیش جنگل ہو تاکہ ایندھن مل سکے اور دشمن
پر حملہ میں آسانی ہو مگر میں نے اس قلعہ کو دیکھا کہ ِمیلوں ِمیل تک اِس کے پاس جنگل چھوڑ درخت تک بھی کوئی نہیں۔
یہ روحانی قلعہ اونچے مقام کی بجائے نشیب مقام میںبنایا گیا
(۵) پانچویں اگر پہاڑی پاس ہو تو
قلعہ اونچی جگہ پر بنایا جاتاہے مگر یہ قلعہ ایسا ہے کہ اس کے پاس ’’حِراء‘‘ اور ’’ َثور‘‘ دو پہاڑیاں ہیں، لیکن یہ قلعہ نشیب میں بنایا گیا ہے اور اس طرح دشمن پہاڑوں پر قبضہ کرکے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس قلعہ کی تعمیرمیں معمولی گارا اور پتھر استعمال کئے گئے
(۶) چھٹے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر
عمدہ مصالحہ سے ہو مگر اس قلعہ کی تعمیر نہایت معمولی مصالحہ اور گارے وغیرہ سے ہے۔
اِس قلعہ کے اِرد ِگرد کوئی فصیل نہیں
(۷) ساتویں یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر اس طرح ہو کہ شہر کی حفاظت ہو سکے اور
فصیلیں دُور تک پھیلی ہوئی ہوں مگر یہ عجیب قلعہ ہے کہ شہر اِردگِرد ہے اور قلعہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اور فصیل کا نام و نشان نہیں جس کی وجہ سے شہر کی حفاظت میں وہ کوئی مدد نہیں دے سکتا۔
اس قلعہ کے چاروں طرف کُھلے راستے پائے جاتے ہیں
(۸) آٹھویں بات یہ مدنظر رکھی جاتی ہے کہ
اس کی طرف آنیوالے راستے ایسے ہوں کہ حسبِ ضرورت بند کئے جاسکیں مثلاً تنگ وادیوں میں سے گزریں مگر اس قلعہ کے راستے نہایت ُکھلے اور بے روک ہیں۔ قرآن کریم خود فرماتاہے عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۸۲؎
کہ اس قلعہ کی طرف لوگ دَوڑے چلے آتے ہیں اور انہیں آنے میں کسی قسم کی روک نہیں۔ ۔ُکھلے راستے اور وہ بھی ناہموار اِس کے چاروں طرف موجود ہیں۔
اس قلعہ کے گِرد کوئی جنگی چوکیاں نہیں
(۹) نویں بات یہ ہے کہ قلعہ کے گِرد ا گِرد کو جنگی چوکیوں سے محفوظ کیا جاتا ہے
تاکہ قلعہ سے دُور دشمن کے حملہ کو روکا جا سکے مگر یہ قلعہ عجیب ہے کہ اس کے گِرد کئی کئی میل کے دائرہ میں اسلحہ لیکر پھرنے سے روک دیا گیا ہے اور حُکم دیدیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کے اِردگِرد چار چار پانچ پانچ میل تک کوئی ہتھیار لے کر نہ چلے۔
اس قلعہ میں رہنے والوں کو شکار تک کی ممانعت
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو جنگجو بنایا جاتا ہے مگر اس
کے اندر رہنے والوں کو حُکم ہے کہ کوئی شکار نہ ماریں سوائے سانپ، بچھو، چیل اور چوہے کے جن کا مارنا ضرورتاً ہوتا ہے نہ کہ جنگجوئی پیدا کرنے کے لئے۔
دشمن کے حملہ کو روکنے کیلئے توپوں اورمنجنیقوںکی
بجائے نمازوں اور دعائوں سے کام لینے کا ارشاد
(۱۱) گیارھویں بات میں نے یہ بتائی تھی کہ قلعہ کے اندر حملہ کو روکنے کے لئے باہرکی طرف منہ کرکے منجنیقیں
یا توپیں رکھی ہوتی ہیں مگر اِس قلعہ میں مَثَابَہ اور امن کا ذریعہ یہ بتایا ہے کہ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی یعنی جب دشمن حملہ کرے تو مَثَابَہ اور امن کے قیام کے لئے دشمن کی طرف پیٹھ کرکے اورکعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو۔ غرض قلعوں کو مضبوط بنانے یا دیر تک محاصروں کی برداشت کرسکنے کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف یہ کہ اس میں پائے نہیں جاتے بلکہ اکثر امور میں ان کے برعکس حالات پائے جاتے ہیں جو قلعوں کو اُجاڑنے کا موجب ہوتے ہیں مثلاً بے پانی، بے غذا، نہروں سے دُور، جنگلوں سے پَرے، فصیلوں اور چوکیوں کے بغیر کوئی قلعہ قلعہ نہیں کہلا سکتا مگر یہ قلعہ ایسا تھا کہ اس میں مجھے ان سامانوں میں سے کوئی سامان بھی دکھائی نہ دیا حتّٰی کہ اس قلعہ کے اِردگِرد اسلحہ لے کر پھرنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
یہ قلعہ کب بنایا گیا؟
اب میں نے سوچا کہ یہ قلعہ ہے کب کا؟ تومجھے معلوم ہؤا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے کیونکہ خود حضرت کو
الہام ہؤا کہ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۸۳؎ اس پُرانے گھر کا لوگ آکر طواف کیا کریں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے۔ اسی طرح آتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیَاتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۸۴؎
سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ اور ان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے اِس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام جہانوں کے لوگوں کے لئے اس میں ہدایت کے سامان اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ بڑے بڑے اور روزِروشن کی طرح واضح نشان وابستہ کر دیئے گئے ہیں وہ آخری دَور میں ابراہیم کا مقام بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جو اِس میں داخل ہو اُسے امن دیا جائے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہؓ اور اسماعیلؓ کو مکہ کے مقام پر چھوڑ کر واپس لَوٹے تو حضرت ہاجرہ کو شک گزرا کہ ہمیں چھوڑ چلے ہیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس بارہ میں اُن سے سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے اور رقّت کے غلبہ کی وجہ سے اُن کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا یَااِبْرَاھِیْمُ! اَیْنَ تَذْھَبُ وَ تَتْرُکُنَا فِیْ ھٰذَا الْوَادِی الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ اَنِیْسٌ وَلَاشَــْيئٌ۔ اے ابراہیم! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہم کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ رہے ہیں جس میں نہ آدمی ہے اور نہ کھانے کی کوئی چیز؟ فَقَاَلَتْ لَہٗ ذٰلِکَ مِرَارًا وَّ جَعَلَ لَا یَلْتَفِتُ اِلَیْھَا حضرت ہاجرہ نے یہ بات بار بار دُہرائی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صدمہ کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیتے تھے۔ جب حضرت ہاجرہ نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بولتے ہی نہیں تو انہوں نے کہا اَاَللّٰہُ اَمَرَکَ بِھٰذَا؟ اچھا اتنا تو بتا دو کہ کیا خدا نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے؟ قَالَ نَعَمْ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا کہ ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب حضرت ہاجرہؓ نے سُنا تو باوجود اِس بات کے جاننے کے کہ یہاں پانی نہیں، یہاں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں اور یہاں کوئی آدمی نہیں جو ضرورت کے وقت مدد دے سکے، انہوں نے نہایت دلیری سے کہا اِذًا لَّایُضَیِّّعُنَا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ بے شک جائیے ثُمَّ رَجَعَتْ اس کے بعد حضرت ہاجرہ واپس لَوٹ آئیں فَانْطَلَقَ اِبْرَاہِیْمُ اور حضرت ابراہیم واپس چلے گئے حَتّٰی اِذَا کَانَ عِنْدَ الثَّنِیَّۃِ حَیْثُ لَا یَرَوْنَہٗ اِسْتَقْبَلَ بِوَجْہِ الْبَیْتِیہاں تک کہ جب موڑ پر پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور بچہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو اُن کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا اور ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا کی: رَبَّنَـآ اِنّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ۸۵؎ اے میرے رب! میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں کوئی کھیتی نہیں جس میں کوئی چشمہ نہیں، محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں۔ پس ُتو ہی ان کی حفاظت فرما اور ان کو شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ۔ اس سے معلوم ہؤا کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔
سرولیم میور کی شہادت
تاریخ بھی اِس کے نہایت قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے چنانچہ سرولیم میور لائف آف محمد میں لکھتے ہیں کہ مکہ کے مذہب
کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیروڈوٹس۸۶؎ نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلالات کا ذکر کرتا ہے اور یہ اِس کا ثبوت ہے کہ مکہ کا یہ بڑا بُت اس قدیم زمانہ میں بھی ُپوجا جاتا تھا۸۷؎ یہ ہیروڈوٹس ایک یونانی مؤرخ تھا جو ۴۸۴ قبل مسیح سے ۴۲۵ قبل مسیح تک ہؤا، گویا حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ سے مدتوں پہلے لاتؔ کی شُہرت وغیرہ دُور تک پھیلی ہوئی تھی پھر لکھا ہے کہ ڈایوڈورس سکولس مؤرخ جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحیرۂ احمر کے ِکنارے پر ہے اِس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں۸۸؎ پھر لکھتا ہے قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتاکہ یہ بنا کب ہے یعنی ایسے قدیم زمانہ کا ہے کہ اِس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اِس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا۔
پھرلکھتاہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اِسے دوبارہ بنایا تھا اور کچھ عرصہ تک ان کے پاس رہا اورتورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہوئے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے ہیں اور وہ اس کے بانی نہ تھے یہ گھر ان سے بھی پہلے کا ہے انہوں نے اس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اِسے دوبارہ تعمیر کیا تھا خروج باب ۱۲ آیت۸،۱۶ اور گنتی باب۲۴ آیت۲۰ سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تباہ کیا تھا۔ پس ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے کیونکہ عمالقہ نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں اڑھائی سَو سال سے چار سَو سال کا فاصلہ ہے۔ اگر عمالقہ کی سَو ڈیڑھ سَو سال کی حکومت بھی فرض کر لی جائے تو بھی اُن کا اسے دوبارہ تعمیر کرنا کئی سَو سال پہلے کے عرصہ پر دلالت کرتا ہے اور اس وقت بھی اس کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرمت ثابت ہوتی ہے۔
اب میں نے سوچا کہ اس قدر قدیم قلعہ جس کی سارا مُلکِ عرب عزت کرتا تھا اگر اس طرح تمام معلومہ اصول کے خلاف تیار ہؤا تھا تو اسے یقینا تباہ ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ تباہ نہیں ہؤا تو پھر یقینا وہ ایسی عجیب قسم کا قلعہ ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ بغیر ظاہری سامانوں کے وہ قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔
قدیم اقوام کے متواتر حملوں میںاس روحانی قلعہ کی سلامتی
تب میں نے غور کیا کہ کیا انعلاقوں
کی طرف جہاں یہ قلعہ تھا قدیم زبردست اقوام نے حملے کئے تھے؟ اور میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے نینوا والوں نے ایشیائے کوچک سے نکل کر اِدھر حملہ کیا اور شام اور فلسطین کو پامال کرتے ہوئے مصر کی طرف نکل گئے۔ وہ نینوا سے چلتے ہیں اور جنوب مغرب کی طرف آتے ہیں مگر جس وقت اس قلعہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں توآگے بڑھنے کی جرأت نہیں کرتے اُس وقت میںنے سمجھا کہ اس قلعہ کے لئے ضرور کوئی ایسے مخفی سامانِ حفاظت تھے کہ جن کی وجہ سے وہ اِدھررُخ نہ کر سکے اور وہ مرعوب ہو گئے۔
بابلیوں کی چڑھائی
تب میں نے سوچا کہ کیا اِس کے بعد بھی کوئی دشمن اُٹھا ہے یا نہیں؟ اور میں نے دیکھا کہ ان کے بعد بابلیوں نے انہی علاقوں پر چڑھائی کی۔
وہ عراق کی طرف سے بڑھے اور انہوں نے شام فتح کیا، مصر فتح کیا، مگر وہ بھی اسی راہ پر نکل گئے اور اس قلعہ کی طرف انہوں نے رُخ نہ کیا۔
کیانیوں کی فتوحات
پھر میں نے دیکھا کہ کیانیوں نے ایران سے نکل کر عراق فتح کیا ، ایشیائے کوچک فتح کیا، شام فتح کیا، فلسطین، مصر، یونان، رومانیہ
اور اوکرین کو مغرب کی طرف فتح کیا اور بلخ، بخارا، سمرقند، افغانستان، بلوچستان اور پنجاب کو مشرق میں فتح کیا، لیکن اس قلعہ کو درمیان سے وہ بھی چھوڑ گئے۔
سکندر رومی کی یلغار
پھرمَیں نے سکندر رومی کو بڑھتے ہوئے دیکھا وہ بجلی کی طرح ُکوندا اور یورپ سے نکل کر ایشیائے کوچک وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرتے
ہوئے ہندوستان تک بڑھ آیا، لیکن اس قلعہ کو وہ بھی درمیان میں چھوڑ گیا۔
رومی حکومت کا مشرق پر اقتدار
پھر میں نے رومی حکومت کو مشرق کی طرف آتے ہوئے دیکھا اُس نے مصر فتح کیا، طرابلس فتح کیا،
ایبے سینیا جو مکہ کے مقابل پر ہے اسے فتح کیا، شام اور فلسطین کو فتح کیا، شمالی عرب سے بعض علاقوں کو فتح کیا اور آخر عراق تک فتح کرتے ہوئے نکل گئے، لیکن درمیان میں اس قلعہ کی طرف انہوں نے بھی رُخ نہ کیا۔
ابرہہ کا بیت اللہ پر حملہ
جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا یہ قلعہ واقعہ میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہے کہ مشرق سے آندھی اُٹھتی ہے تو وہ اسے
چھوڑ جاتی ہے اورمغرب سے طوفان اُٹھتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی ایک سوال حل طلب ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس قلعہ کے جائے وقوع کے لحاظ سے فاتحین کو خیال بھی نہ آیا ہو کہ وہ اسے فتح کریں کیونکہ وہ اس میں کوئی فائدہ نہ دیکھتے تھے۔ اس خیال کے آنے پر میں نے تاریخ پر نگاہ ڈالی اورمیںنے دیکھا کہ چھٹی صدی مسیحی میں ایبے سینیا کی حکومت بہت طاقتور ہو گئی تھی اور اُس نے عرب کے بعض علاقوں کو فتح کر لیا تھا اُس کی طرف سے ابرہہ نامی ایک شخص یمن میں گورنر مقرر ہؤا اور اس نے عرب میں مسیحیت کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کی۔ اوریمن کے دارالحکومت صنعاء میں اس نے ایک بہت بڑا گِرجا بنایا اور خوف اور لالچ سے لوگوں کو اس گِرجا کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا، مگر جب کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد اُس نے اپنے ارادہ میں ناکامی دیکھی اور اُسے محسوس ہؤا کہ عرب اُس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو اس نے اپنے درباریوں کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا کہ کیوں میری کوششیں کامیاب نہیںہوتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ میں ایک گھر ہے، عرب کے لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ جب تک وہ گھر موجود ہے صنعاء کا گِرجا آباد نہیں ہوگا۔ پس اگر صنعاء کو آباد کرنا چاہتے ہو تو اُسے جاکر گِرا دو۔ چنانچہ ابرہہ نے ۵۶۹ء میں ایک بہت بڑی فوج اور ہاتھی ساتھ لے کر مکہ کا رُخ کیا عرب قبائل نے مقابلہ کیا مگر ایک کے بعد دوسرا شکست کھاتا چلا گیا اور وہ مکہ سے تین دن کے فاصلہ پر مشرق کی طرف طائف تک جا پہنچا اور طائف کے لوگوں سے کہا کہ مکہ تک پہنچنے میں میری مدد کرو۔ طائف والے جو مکہ پر اس لئے حسد کرتے تھے کہ ان کے بُت کی خانہ کعبہ کے آگے کچھ نہ چلتی تھی انہوں نے انعامات کے لالچ اور مکہ والوں کے بُغض کی وجہ سے ایک راہنما دیا مگر وہ رستہ میں ہی مر گیا۔ آخر ابرہہ کا لشکر مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر جا ٹھہرا اور ابرہہ نے ایک وفد بھجوایا اور مکہ والوں کو کہلا بھیجا کہ ہم عیسائی ہیں اور فطرتاً رحمدل ہیں اِس لئے میں تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا اور نہ تم سے مجھے کوئی گِلہ ہے۔ میں صرف کعبہ کے پتھرگِرا کر واپس چلا جائوں گا یا خود ہی کعبہ کو گِرا دو تو میں آگے نہیں بڑھوں گا اور واپس چلا جائونگا۔ مکہ اور حجاز کے لوگوں نے اِس سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تمہاری حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں، ہم اِس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنی آمد کا ایک ثُلث ہر سال دیتے رہیں مگر خدا کے لئے کعبہ کو نہ گِرائو لیکن وہ نہ مانا۔ آخر سفیروں نے اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابرہہ کے پاس وفد لے کر جائیں اور اُسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔ چنانچہ عبدالمطلب اور بعض دوسرے عمائدینِ مکہ ابرہہ کے پاس گئے۔ ابرہہ، عبدالمطلب کی وجاہت سے بہت متاثر ہؤا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ مجھ سے آپ جو بھی خواہش کریں میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں۔ اس سے پہلے ابرہہ کے سپاہیوں نے چھاپہ مار کر عبدالمطلب کے دو سَو اونٹ پکڑ لئے تھے۔ جب ابرہہ نے کچھ مانگنے کو کہا تو انہوں نے اپنے دو سَو اونٹ جو اُس کے سپاہیوں نے پکڑ لئے تھے طلب کئے اور کہا کہ وہ مجھے واپس کر دیئے جائیں۔ اِس پر ابرہہ نے کہا کہ میں تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ کے اس جواب نے میرے دل پر سے اُن اثرات کو بالکل دھو دیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے کس خیال سے ایسا معمولی مطالبہ کیا۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے اور آپ مجھ سے بجائے یہ خواہش کرنے کے کہ میں کعبہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دوں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے دو سَو اونٹ آپ کو واپس دِلوادوں۔ اِس سے ظاہر ہے کہ آپ کو اونٹوں کی تو فکر ہے مگر کعبہ کی کوئی فکر نہیں۔ عبدالمطلب کہنے لگے، بات یہ ہے کہ وہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے، لیکن کعبہ خدا کا گھرہے اس لئے اس کی فکر خدا کو ہوگی مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کر واپس آگئے۔ ابرہہ نے نوٹس دیدیا کہ فلاں دن حملہ ہوگا۔ انہوں نے واپس آکر مکہ والوں کو اطلاع دیدی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ فضول ہے۔ اس قدیم قلعہ کو خالی کرکے پہاڑوں پر چڑھ جائو پاس ہی جبلِ حراء اور جبلِ ثور ہے۔ انہوں نے مکہ کو خالی کر دیا اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے۔
حضرت عبدال￿مُطَّلب کی عاجزانہ دُعا
جب وہ اِس قدیم قلعہ کو چھوڑ رہے تھے تو اُس وقت عبدالمطلب نے اُس حُکم کو یاد کیا کہ جو
فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبرٰھِیْمَ مُصَلًّی میں دیا گیا ہے کہ جب کبھی مصیبت کا وقت آئے تم اِس توپ خانہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کے دروازہ پر آئے اور اُس کی زنجیر کو پکڑ کر کہا اے خدا! ہم میں طاقت نہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں یہ تیرا گھر ہے ُتو اپنے اِس گھر کی آپ حفاظت کر اور صلیب کو کعبہ پر فتح نہ پانے دے۔ یہ کہا اور سب لوگوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر پہاڑوں کو چل دیئے۔
انسانی آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے سپاہیوں کی گولہ باری
اب یہ قلعہ خالی تھا اور اس کی
بظاہر کمزور دیواریں ابرہہ کو چیلنج کر رہی تھیں کہ دیکھو! میں اب انسانوں سے خالی ہوں آ اور مقابلہ کر۔ پھر کہا کہ سُن ُتو تو یہاں آکر حملہ کرے گا اورمیں یہیں سے تُجھ پر گولہ باری کرتاہوں۔ چنانچہ کعبہ کی دیواروں سے نہ نظر آنے والے سپاہیوں نے گولہ باری شروع کر دی ابرہہ کے ہاتھی چِھد گئے، اُس کے اونٹ چِھد گئے، اُس کے گھوڑے چِھد گئے، اُس کے سپاہی ان گولیوں کی بے پناہ بوچھاڑ سے زخمی ہو کر گرنے لگ گئے، لشکر کا نظام ُٹوٹ گیا،اُس میں بھاگڑ پڑ گئی اور سر پر پائوں رکھ کر لشکر واپس َلوٹا۔ ابرہہ بھی یمن پہنچنے سے پہلے پہلے اِن گولیوں سے مارا گیا اور سب لشکر تباہ و برباد ہو گیا اورمسیحی حکومت یمن میں ایسی کمزور ہو گئی کہ اِس علاقہ پر ایرانی حکومت نے قبضہ کر لیا۔ یہ کعبہ سے چلنے والی گولیاں جب وہاں تک پہنچتی تھیں تو چیچک کی صورت میں اُس کے لشکر کو چِمٹ جاتیں جس سے دانوں کو ُکھجلا ُکھجلا کر سپاہی مر جاتے اور پرندے اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اُن کو پتھروں پر مار مار کر کھاتے۔ اور جس طرح وہ کعبہ کے پتھر توڑنے آیا تھا اسی طرح کعبہ کے ِگرد کے پتھروں نے ان کی بوٹیوں کو توڑا۔ یہ سپاہی جو گولیاں چلا رہے تھے خداتعالیٰ کے فرشتے تھے اور وہ جو اِن گولیوں کے نشانہ بنے وہ ابرہہ اور اُس کے ساتھی تھے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے وہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ- اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ- وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ -لا تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ -لا فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ ۸۹؎
فرماتا ہے دیکھو! ایک شخص تھا جو مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں کعبہ کے پتھروں کو توڑ دونگا ہم نے اُس کی سزا کے لئے پرندوں کو بھیجا اور وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے کے لئے آئے تھے انہی کی بوٹیاں اُن پتھروں پر مار مار کر توڑیں یہ بتانے کے لئے کہ کیا تم نے کعبہ کے پتھروں کو توڑ لیا؟ عربی زبان میں ب کے معنے عَلٰی کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی قلبِ نسبت بھی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں ’’پرنالہ چلتا ہے‘‘ تو تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ کے معنے یہی ہیں کہ وہ ان کی بوٹیاں پتھروں پر مار مار کر کھاتے تھے اور یہی ِچیلوں وغیرہ کا طریق ہے وہ بوٹی کو پتھر پر مارتی اورپھرکھاتی ہیں۔ تو وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے چلا تھا اس کی بوٹیاں جانوروں نے پتھرپر مار مار کر کھائیں۔
مسیحی اِس روحانی قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے
جب میں نے یہ نظارہ دیکھا تو میں نے کہا کون کہہ سکتا ہے کہ اِس قلعہ
پر حملہ نہیں ہؤا۔ حملہ ہؤا اور اس میں یہ قلعہ مضبوطی سے قائم رہا۔ اس کے بعد اور زمانہ گزرا۔ ایک دفعہ مسیحیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ باوجود اس غصہ کے کہ مسلمانوں نے اُن کے معابد پر قبضہ کیا ہے اس قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔
ہلاکو خاں بھی اِس قلعہ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا
اور ایک دفعہ ہلاکو خاں نے بغداد اور اسلامی ممالک کو تباہ کیا مگر اس قلعہ کو
وہ بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔ پھر جنگِ عظیم کا وقت آیا اور تُرک جن کے قبضہ میں یہ قلعہ تھا وہ فاتح اقوام کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ میں نے کہا اب اس قلعہ کے لئے خطرہ ہے مگر تب بھی یہ محفوظ رہا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص سامان پیداکر دیئے پھر یہ نئی جنگ شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اب کے پھر دونوں فریق اس کی حفاظت کا اعلان کر رہے تھے۔
غرض ہزاروں سال کی تاریخ میں اِس عجیب و غریب قلعہ کو دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اور ہمیشہ مجھے یہ محفوظ و مصئون ہی نظر آیا۔ یہ نہیں کہ اِس کے کبھی مغلوب ہونے کی خبر ہو۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت یہ مغلوب ہوگا اورکعبہ گِرایا جائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بات قیامت کی علامت ہوگی۔۹۰؎ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عارضی طورپر دشمن اِس پر قبضہ کرے گا مگر اِس پر قیامت آجائے گی اور وہ فتنہ اورخونریزی ہوگی کہ اَلْاَمَان اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ حقیقی قیامت کے وقت جب اس کی ضرورت نہ رہے گی، اِس قلعہ کامالک اسے گِرنے دے گا۔
اِس عظیم الشان قلعہ کی حفاظت کیلئے ایک اورچھوٹے قلعہ کی تعمیر
اب اس زمانہ میں کہ اس قلعہ
کے ِگرد یاجوج وماجوج چکر لگا رہے ہیں جیسا کہ قلعوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ جب قلعہ پر حملہ ہو تو لشکر باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بنا کر مدافعت کرتا ہے تاکہ دشمن وہیں حملہ کرتا رہے اور قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِس کی حفاظت کے لئے ایک اور قلعہ بنا دیا ہے اور اِس کے سپرد اس بڑے قلعہ کی حفاظت کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ قلعہ بھی دین کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے اس لئے اسے بھی ارضِ حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے چنانچہ اس قلعہ کی تعمیر میں جس نے حصہ لیا وہ خود کہتا ہے :-
خدا کا ہم پہ بس ُلطف و کرم ہے
وہ نعمت کونسی باقی جو کم ہے
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے
ظہورِ َعون و نصرت دمبدم ہے
حسد سے دشمنوں کی ُپشت خم ہے
سنو! اب وقت توحیدِ اتم ہے
سِتم اب مائلِ ُملکِ عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
۹۱؎
ساکنینِ ارضِ حرم کے فرائض
یہ قلعہ خدا نے خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے قائم کیا ہے ، یہ قلعہ اس لئے قائم ہؤا ہے تاکہ دشمن کے حملوں
کو وہ اپنے اوپر لے اور اُسے خانہ کعبہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھنے نہ دے اور چونکہ یہ قلعہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کر رہا ہے اِس لئے لازماً یہ بھی ارضِ حرم کا ُجزو ہے اور جو لوگ اِس قلعہ کے سپاہیوں میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں وہ یقینا ارضِ حرم کے ساکن ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی گولیاں اپنے سینوں پرکھائیں اور اسے کعبہ کی طرف بڑھنے نہ دیں۔ پس اے قادیان کے رہنے والو! اور اے دوسرے احمدی مراکز کے رہنے والو! آج خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے تم ان لوگوں میں سے ہو جو بڑے قلعوں کی حفاظت کے لئے باہر کی طرف بٹھا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ دشمن کی مدافعت کریں اور گولیوں کو اپنے اوپر لیں۔ پس تم بہادری کے ساتھ اپنے سینوں کو آگے کرو اور دشمن کے ہر حملہ کا پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کرو۔
طاعون کے طوفانی حملہ میں اِس قلعہ کی حفاظت
میں تمہیں اِس قلعہ کی حفاظت کا بھی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں۔ کچھ عرصہ ہؤا
دنیا پر ایک غنیم نے حملہ کیا وہ قلعہ پر قلعہ توڑتا چلا آیا، آبادیوں پر آبادیاں اُس نے ہلاک کر دیں اور گائوں کے بعد گائوں اُس نے ویران کر دیئے۔ اُس وقت اِس قلعہ کی تعمیر کرنے والا ابھی زندہ تھا اُس نے دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ اِس حملہ سے میرا قلعہ محفوظ رہے گا، گولہ باری سے تھوڑا صدمہ پہنچے تو پہنچے مگر اِس قلعہ کو اس حملہ آور کا حملہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ یہ حملہ آور بڑھا اور قادیان پر حملہ آور ہؤا کئی سال تک اس نے متواتر حملہ پر حملہ کیا مگر ناکام رہا یہ قلعہ محفوظ رہا اور دشمن سے دشمن نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کا اقرار کیا۔ یہ حملہ آور مرضِ طاعون تھا جس کے حملوں سے حفاظت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے سے خبر دیدی۔
احمدی نوجوانوں سے خطاب
اب مَیں احمدی نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اِس قلعۂ عظیمہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد ہؤا ہے انہیں یہ امر اچھی
طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محض ایک جماعت کے فرد نہیں بلکہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے اس کے اِردگِرد جو قلعے بنائے گئے ہیں اس کے وہ سپاہی ہیں۔ پس اے عزیزو! جس طرح قلعہ پر جب دشمن حملہ آور ہو تو فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حملوں کی مدافعت کرے اور اس کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائے اسی طرح اے احمدی نوجوانو! تم آگے بڑھو اور دجّالی سنگینوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہوئے کعبہ کے دشمنوں پر حملہ آور ہو۔ یاد رکھو! خدائے قہار تمہارا کمانڈر ہے اور شیطانی فوجیں حملہ آور ہیں۔ پس اس قدیم صداقت کے دشمن کو ُکچلتے اور اپنے پائوں تلے مَسلتے ہوئے آگے بڑھو اور اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دو تاکہ پھر کعبہ کے قلعہ کی طرف کوئی بُری نگاہ سے نہ دیکھ سکے اور یہ گڑھی جو اِس قلعہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اپنے وجود کی ضرورت کو دنیا سے منوا لے اور لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ فیِ الواقع یہ زمین ارضِ حرم کا ہی حصہ ہے کیونکہ وہ جس نے حرم کی حفاظت کی وہ حرم ہی کا حصہ ہے وہ جس کی رگوں میں ماں کا خون دَوڑ رہا ہوتا ہے وہی ماں کی حفاظت کرتا ہے اور جو ماں پر حملہ ہوتے ہوئے خاموش رہتا ہے وہ ہرگز حلال کا بچہ نہیں ہوتا اور نہ اُس کا لڑکا کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پس دنیا کے اعتراضوں کی پرواہ مت کرو، تمہارے سپرد خداتعالیٰ نے خانۂ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کیا ہے پس تم دلیری دکھائو اور جرأت سے کام لو۔ خدا تمہارے آگے چل رہا ہے اور اُس کی فوجیں تمہارے دائیں اور بائیں ہیں جس دن تم ہمت کرکے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو گے اُس دن خدا تمہارے لئے وہی نشان دکھائی گا جو اُس نے ابرہہ کے لشکر کے لئے دکھایا۔
خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزہ
لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیا ہوتا ہے؟ مگر یہ کیا معمولی معجزہ ہے؟ تاریخی شہادت موجود ہے
کہ ایسے حالات میں جبکہ اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا ایک لشکرکعبہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بڑھا مگر پیشتر اِسکے کہ وہ کعبہ تک پہنچتا خدا نے اُس کو تباہ و بربادکر دیا۔ غرض جب دُنیوی طور پر کعبہ پر حملہ ہؤا تو اُس نے چیچک بھیج دی اور جب دینی طور پر اس پر حملہ ہونے لگا تو اس کے مقابلہ کیلئے اُس نے مسیح موعود ؑکو بھیج دیا۔
پس احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض خانۂ کعبہ کی حفاظت ہے یعنی جن اغراض کے لئے خانۂ کعبہ کو قائم کیا گیا ہے وہی اغراض ہماری جماعت کے قیام کی ہیں۔ پس ہماری جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے تاکہ تمام دنیا میں امن قائم کیاجائے۔ خدائے واحد کی عبادت کو رائج کیا جائے، شرک اور بدعت کو مٹا دیا جائے، مسافر اور مقیم دونوں کی ترقی کی تدابیر سوچی جائیں اور نظام کو ایسا مکمل کیا جائے کہ لوگوں کا ایک حصہ رات دن بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے کاموں میںمصروف رہے جب تک ہم اِس کام کو نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری کو پوری طرح اداکرنے والے قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ پس صرف چندے دینا کافی نہیں، صرف جلسہ سالانہ پر مرکز میں آجانا کافی نہیں، صرف نمازیں ہی پڑھنا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اِس دجّالی فتنہ کو روکے جو خانہ کعبہ کے خلاف برپا ہے۔ اس کے لئے ایسے نوجوانوںکی ضرورت ہے جو ساری دنیا پر چھاجائیں اور اس لئے واقفینِ زندگی کی تحریک شروع کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اِس تحریک کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔
شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو
یاد رکھو! خدا نے قادیان کو بھی ایک چھوٹا قلعہ بنایا
ہے اور قلعہ اسی لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس میں سے آسانی سے حملہ کیا جا سکے۔ جو جرنیل یہ سمجھتاہے کہ اس کے لئے صرف مدافعت کرنا کافی ہے وہ کبھی فتح نہیں پاسکتا۔ یاد رکھو! تم مدافعت سے نہیں بلکہ حملہ سے جیتو گے۔ اگر تم قادیان میں بیٹھے رہے تو دشمن شکست نہیں کھائے گا بلکہ دشمن اُس وقت شکست کھائے گا جب تم جاپان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، چین میں جاکر دشمن سے لڑو گے، افریقہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے، انگلستان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، امریکہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے اور شیطان کو اُس کی غاروں سے کان سے پکڑ کر نکال دو گے اگر تم ایساکرو گے تو تم یقینا کامیاب ہو گے اور یقینا تمہارا دشمن ناکامی کی موت مرے گا۔
خلاصہ یہ کہ میں نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ایک ایساقلعہ دیکھا جو تمام قلعوں کے اصول کے خلاف تعمیر ہؤا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی اس قلعہ کو کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کی مضبوطی بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ وہ ساری دنیا کا مرجع ہو گیا اور میں نے کہا انسان، بے وقوف انسان قطب شاہیوں کے گولکنڈہ کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر تعجب کرتا ہے اور فتح پورسیکری کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر حیران ہوتا ہے اور دہلی کے ُ تغلقوں کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر واہ واہ کہتاہے حالانکہ یہ قلعے سَو دو سَو سال بھی نہ گزار سکے اور اب ان کی مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں اور لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان قلعوں کو فتح کیا مگر وہ اس حیرت انگیز قلعہ کے دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیںکرتا اور اس کی تعمیر کی داد نہیں دیتا جو انجینئرنگ کے تمام معلومہ اصول کے خلاف پایا گیا۔ فنِ حرب کے تمام اصول کے خلاف اس کے لئے مقام ُچنا گیا۔ قیادت کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، پھر بھی وہ کھڑا رہا، کھڑا ہے کھڑا رہے گا۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
۱؎ ُکودن: ُکند فہم۔ مورکھ۔ نادان
۲؎ بخاری کتاب الایمان باب اتباع الجنائز من الایمان
۳؎ اٰل عمران : ۹۷
۴؎ ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب اتخاذ المساجد فِی الدُّوَرِ
۵؎ البقرۃ : ۱۲۶
۶؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷؎ مسلم کتاب الحج باب فضل الصلٰوۃِ بمسجدی مَکَّۃَ و المدیْنَۃ
۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۹۱ مطبوعہ ۱۳۱۳ھ مطبع میمنۃ مصر
۹؎ الحجرٰت : ۸
۱۰؎ اٰل عمران : ۱۱۱
۱۱؎ المائدۃ : ۵۵
۱۲؎ محمد : ۵
۱۳؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۲ صفحہ ۲۲۵۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ
۱۴؎ تاریخ الامم و الملوک لابی جعفرمحمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحہ ۴۶
دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۱۵؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب ذکر اُسامۃ بن زید
۱۶؎ بخاری کتاب الاشربۃ باب اَلْاَیْمَنُ فِی الشُّرْبِ۔
۱۷؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۸؎ فتوح البلدان۔ بلاذری صفحہ ۱۴۲ مطبوعہ مصر۱۳۱۹ھ
۱۹؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب وجوب الزکٰوۃ۔
۲۰؎ الحشر : ۸ ۲۱؎ ھود : ۷
۲۲؎ مسلم کتاب البر والصلۃ و الادب باب فضل عیادۃ المریض
۲۳؎ الحج : ۴۱ ۲۴؎ النور : ۳۷ ، ۳۸
۲۵؎ مسلم کتاب الصلٰوۃ باب استحباب الذکر بعد الصلٰوۃ
۲۶؎ الجمعۃ : ۳
۲۷ ؎ التوبۃ : ۱۰۰
۲۸؎ الاحزاب : ۲۴
۲۹؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ۸۴ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۳۰؎ الاعراف : ۱۸۲
۳۱؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۳۲؎ ، تا ۳۴؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۳ صفحہ ۳۸۵،۳۸۶مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳۵؎ پُشْتارہ :ڈھیر، انبار
۳۶؎ الحشر : ۱۰
۳۷؎ تاریخ طبری اُردو حصہ دوم صفحہ ۳۱،۳۲ مطبوعہ کراچی۔
۳۸؎ العنکبوت : ۴۶ ۳۹؎ المائدۃ : ۹۲
۴۰؎ بخاری کتاب التفسیر ۔ تفسیر سورۃ المائدۃ باب لیس علی الذین اٰمَنُوا
و عملوا الصٰلحٰت ……
۴۱؎ البقرۃ : ۲۲۹ ۴۲؎ الرعد : ۲۴،۲۵
۴۳؎ بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہٖ۔
۴۴؎ الحجرات: ۱۳
۴۵؎ تاریخ اہل عرب مصنفہ سائمن اوکلے
۴۶؎ الحجرات : ۱۳
۴۷؎ البقرۃ : ۱۸۹
۴۸؎ النساء : ۳۰
۴۹؎ المطفّفین : ۲ تا ۴
۵۰؎ بنی اسرآء یل : ۳۸
۵۱؎ النساء : ۱۴۹
۵۲؎ الحجرات : ۱۰
۵۳؎ معاہدہ وارسا: مغربی ممالک کے حملوں کی روک تھام کے لئے ۱۴ مئی ۱۹۵۵ء کو ایک معاہدہ ہؤا۔ مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی، ھنگری، رومانیہ، پولینڈ اور روس کے درمیان اس معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ رُکن ممالک کے درمیان بیس سال کے عرصہ کے لئے باہمی مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں طے پایا تھا۔ اس کا صدر دفتر ماسکو میں ہے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۸۱ ، ۱۷۸۲ مطبوعہ لاہور۱۹۸۸ء)
۵۴؎ النھایۃ لابن الاثیر جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ مطبع الخیریہ مصر ۱۳۰۶ھ
۵۵؎ المائدۃ : ۱۰۶
۵۶؎ النساء : ۳۷
۵۷؎ البقرۃ : ۱۴۴
۵۸؎ اٰل عمران : ۱۳۵
۵۹؎ بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب
۶۰؎ النساء : ۵۵
۶۱؎ النساء : ۳۳
۶۲؎ الحشر : ۱۱
۶۳؎ بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لِنَفْسِہٖٖ
۶۴؎ الاعراف : ۲۰۰
۶۵؎ النور : ۲۳
۶۶؎ النحل: ۹۱
۶۷؎ الاعلٰی : ۱۷،۱۸
۶۸؎ الاعلٰی : ۱۹، ۲۰
۶۹؎ البقرۃ : ۱۲۵، ۱۲۶
۷۰؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّٰہ عَزَّوَ جَلَّ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ ۔۔۔
۷۱؎ بخاری کتابُ الْاَدَب باب اِکْرام الضیف وخدمتہٖ
۷۲؎ اٰل عمران : ۱۰۵
۷۳؎ بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
۷۴؎ بخاری کتاب الأطعمۃ باب السلق والشعیر (مفہوماً)
۷۵؎ البقرۃ : ۱۲۶،۱۲۷
۷۶؎ ،۷۷؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۸؎ المائدۃ : ۹۸
۷۹؎ ، ۸۰؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۰۵۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۸۱؎ ابراھیم : ۳۸ ۸۲؎ الحج : ۲۸ ۸۳؎ الحج : ۳۰
۸۴؎ اٰل عمران : ۹۷ ، ۹۸
۸۵؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّوْن ………
۸۶؎ ھیروڈوٹس (HERODOTUS) یونانی مو ء رخ اور نثرنگار۔ اس نے عالَمِ شباب میں یونان، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سفر کئے اور اس دوران مختلف اقوام کی عادات اور مذاہب کا مطالعہ کیا۔ چار سال ایتھنز میں رہنے کے بعد ۴۴۳ ق م میں جنوبی اٹلی میں تھوری(THURII)کے مقام پر رہائش اختیار کی اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی تاریخ یونانی اور اہلِ فارس کی جِدّوجُہد کی وضاحت کے لئے کافی مواد پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس نے تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ وہ تاریخ عالَم کا پہلا مو ء رخ ہے جس نے تنقیدی احساس کے ساتھ تاریخ کو قلمبند کیا ہے۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
‏۸۷؎ ، ۸۸؎ LIFE OF MAHOMET- BY SIR WILLIAM MUIR ا
LONDON 1877 PAGE XIV.
۸۹؎ الفیل : ۲ تا آخر
۹۰؎ بخاری کتاب الحج باب ھَدْم الْکَعْبَۃ
۹۱؎ درثمین اُردو صفحہ ۵۶، ۵۷




افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء
( فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
ہم آج یہاں ظاہر میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہم سب کی ظاہری شکل یہی ہے میری بھی اور آپ کی بھی یعنی آپ میں سے ہر فرد کی مگر اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہر شخص کے دل کی کیا کیفیت ہے۔ شاید ہم اس کیفیت کو خود بھی نہ سمجھتے ہوں۔ یا شاید بعض ہم میں سے اپنے دل کی قوت اور کمزوری کو ایک حد تک جانتے ہوں۔ پس ہمارے لئے نہایت ہی خوف اور ڈر کا مقام ہے کہ اگر آج ہم لوگ اس جگہ لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کہ خداتعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی خاطر جمع ہوئے ہیں اور ہمارے دل اس قسم کے جذبات سے خالی ہیں تو ہم خداتعالیٰ کو بھی دھوکا دینے والے ہیں اور اس کے بندوں کو بھی۔ اسی طرح اگر ہمارے واعظ اس لئے یہاں آئے ہیں کہ لوگوں پر اپنی لسانی کا رُعب ڈالیں اور ان پر اپنے علم کا اظہار کریں اور اگر سامعین اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ جماعت کے مخلص فرد ہیں یا اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اچھی تقریروں کے سننے کا انہیں چسکہ پڑا ہؤا ہے تو واعظ بھی یہاں سے گھاٹے میں جائے گا اور سامع بھی گھاٹے میں رہے گا لیکن میں آپ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ سے اس قسم کی غلطی ہو گئی ہے تو اب بھی اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اچھا کام بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کرنا چاہئے۔۱؎ یعنی کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو درست کرکے صرف خداتعالیٰ کے لئے ہی کر لینی چاہئے۔ پھر فرماتے ہیں اگر کوئی بھول جائے مثلاً کھانا کھانے لگا ہے اُس وقت بِسْمِ اللّٰہِ کہنا ُبھول جائے مگر کھانا کھاتے ہوئے یاد آجائے تو اس وقت نیت کرکے کہے۔بِسْمِ اللّٰہِ فِیْ اَوَّلِہٖ وَاٰخِرِہٖ۔ ۲؎ یعنی پہلے بھول گیا تھا۔ ایک بِسْمِ اللّٰہِ تو بھولنے کی کہتا ہوں اور دوسری اس کام کے متعلق جو کر رہا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا کہ دُہری بِسْمِ اللّٰہِ کہے۔ پس ہمارے رب نے ہمارے لئے نیت کی درستی اور اصلاح کا موقع رکھ دیا ہے اور جب تک انسان مر نہیں جاتا ہر مقام سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ حتٰی کہ اگر وہ شیطان کے دوش بدوش کھڑا ہو گیا ہو اور وہاں سے َلوٹنا چاہے تو بھی۔َلوٹ سکتا ہے۔
پس میں تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں خواہ وہ واعظ ہوں یا سامع، نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی نیتوں کو درست کرکے خداتعالیٰ کے آگے جُھک جائیں اور نہایت ہی درد مند دل کے ساتھ عرض کریں کہ اے ہمارے رب! ہم اس لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اگر پہلے نہیں تو اب اپنی نیت کو درست کرکے اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ تا تیرا نام دنیا میں بلند ہو، تیری عظمت اور جلال دنیا میں ظاہر ہو، تیرا دین دنیا میں پھیلے، تیری حقانیت باطل پر غالب آئے، تیرے بھیجے ہوئے سردارِ انبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا میں ظاہر ہو، آپ کی لائی ہوئی شریعت دنیا میں پھیلے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قرآن اور احادیث کی جو تشریح و تفصیل بیان فرمائی ہے لوگ اسے سمجھیں، اس پر ایمان لائیں اور اس پر عمل کریں۔ تا اے ہمارے رب! تیرے۔ ُبھولے بھٹکے بندوں کو ہم تیرے آستانہ پر لا سکیں۔ سب سے پہلے اپنے نفس کو، پھر اپنے اہل و عیال کو، پھر دوستوں کو، پھر ساری دنیا کے لوگوں کو جو صرف نام کے بندے ہیں تیرے حقیقی بندے بنا سکیں۔ جن کے دل سیاہ ہیں ان کے دل سفید کر دے تاکہ قیامت کے روز ان کے چہرے کالے نہ ہوں بلکہ بے عیب اور روشن ہوں۔ ُتو ہم سے خوش ہو جائے کہ ہم تیرے گمراہ بندوں کو تیرے آستانہ پر لائے اور ہم تجھ سے خوش ہوں کہ ُتو ہم سے راضی ہو گیا۔
پس اب بھی یہ نیت کی جا سکتی ہے ۔ اب بھی اس نیت سے اپنے تمام کاموں کو زیادہ سے زیادہ مبارک اور مفید بنا سکتے ہیں۔
مَیں اِس مختصر تمہید کے بعد دعا کرنا چاہتاہوں کیونکہ آج جمعہ کا دن ہے جلسہ کا ضروری پروگرام بھی وقت پر ختم کرنا ہے اور جمعہ بھی وقت پر ادا کرنا ہے۔ میں دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اسی طرح جس طرح میں نے ابھی کہا ہے دعا کریں بے شک اپنے لئے بھی دعا کریں مگر دین کی اشاعت اور غلبہ کے لئے ضرور دعا کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تا یہ نیا اجتماع ہمارے لئے نئے علوم، نئی اُمنگیں، نئی کامیابیاں اور نئی خداتعالیٰ کی رضائیں لانے کا موجب ہو۔ (الفضل یکم جنوری ۱۹۴۲ء)
۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۲؎ ترمذی ابواب الاطعِمَۃ باب مَاجَائَ فی التسمِیۃ عَلَی الطعامِ












مستورات سے خطاب
(۱۹۴۱ء)





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
( تقریر فرمودہ ۲۷ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کی :-
وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ط تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌo اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَــلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِo تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا ۔ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَo ۱؎
اس کے بعدفرمایا:-
پہلے تو میں اس امر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے خیال میں عورتوں کے جلسہ میں میری تقریر اب کچھ زائد سی چیز ہو گئی ہے اس لئے کہ پہلے عورتوں کا جلسہ الگ ہوتا تھا اور مردوں کا الگ مگر اب جو تقریریں میری مردوں میں ہوتی ہیں وہ لائوڈسپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سن لیتی ہیں اس لئے عورتوں میں علیحدہ تقریر کی بظاہر کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی۔ بے شک بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف عورتوں کو متوجہ کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس کے لئے ہر سال علیحدہ تقریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کبھی لجنہ اماء اللہ کو ایسی ضرورت محسوس ہو تو وہ مضمون پیش کر سکتی ہے اور کہہ سکتی ہے کہ فلاں مضمون کے متعلق عورتوں کے سامنے تقریر کر دی جائے اس صورت میں مَیں اس موضوع کے متعلق عورتوں میں تقریر کر سکتا ہوں۔ لیکن موجودہ صورت میں چونکہ مردوں میں میری تقریریں ہوتی ہیں وہ لائوڈسپیکر کے ذریعہ چار سال سے یہاں پہنچ جاتی ہیں اس لئے میرے نزدیک عورتوں کے لئے وہی کافی ہیں سوائے اس کے کہ تم یہ مطالبہ کرو کہ ان چار سالوں سے پہلے مرد دو تقریریں سنتے آرہے ہیں اور ہم ایک۔ اب ۲۱ سال تک ہم میں بھی ایک زائد تقریر ہو تا برابر ہو جائیں۔ مگر میں نے ابھی اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ اس پر غور کیا ہے۔ اگر خداتعالیٰ نے موقع دیا تو میں مزید غور کروں گا اور پھر جو فیصلہ ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
اس کے بعد مَیں ان آیات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کے متعلق بیان فرمایا ہے کہ ان سب کو جنت میں داخل کیا جائے گا ایسی جنت میں جس کے نیچے نہریں چلتی ہوں گی۔ یہاں سرگودھا، گجرات اور لائلپور کی مستورات آئی ہوئی ہوں گی۔ وہ نئی آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے جانتی ہیں کہ نہر کیا ہوتی ہے اور نہر کے کیا کام ہوتے ہیں لیکن وہ نہریں جو جنت میں چلیں گی سرگودھا اور گجرات کی نہروں سے مختلف ہوں گی۔ اِن نہروں کی تو باریاں مقرر ہوتی ہیں اور خواہ کسی کا کھیت ُسوکھے یا جلے پانی باری پر ہی ملتا ہے۔ پھر گورنمنٹ کے بعض ملازم شرارتیں کرتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ نہریں کاٹ دیتے ہیں جس سے سارا علاقہ تباہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زمیندار اگر نہر کاٹ کر پانی لیں تو سال دو سال کے لئے قید کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ تو دنیا کی نہروں کا حال ہے لیکن اُن نہروں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ ان باغوں کے ساتھ ہوں گی۔ یعنی وہ جنتیوں کے ہاتھ میں ہوں گی کوئی اور ان کا حاکم اور مالک نہیں ہوگا۔ وہ جس وقت چاہیں گے پانی ان کو مل جائے گا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا اور پھر وہ اس میں بستے چلے جائیں گے۔ وہ لوگ جنہوں نے سرگودہا اور لائلپور بسایا وہ آج کہاں ہیں؟ وہ جنہوں نے درخت لگائے بڑی بڑی مصیبتوں کے بعد زمین کی کاشت کی، ہل چلائے اور تکالیف کا مقابلہ کیا ان میں سے کوئی دو سال زندہ رہا، کوئی چار سال زندہ رہا اور آخر ایک ایک کرکے سب فوت ہو گئے۔ وہ اب یہ نہیں جانتے کہ ہماری زمینیں کہاں گئیں اور ہماری اولاد نے کیا پھل کھایا؟ کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج شرابیں پی رہی ہیں کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج جؤا کھیل رہی ہیں کئی ایسے ہیں جن کی اولادیں آج سینما میں اپناوقت ضائع کر رہی ہیں گویا ان کی محنتیں اکارت گئیں۔ مگر فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھَا جنتیوں کی محنتیں ضائع نہیں ہوں گی بلکہ جس نے جو کچھ بویا وہی کچھ کاٹے گا اور پھر کاٹتا ہی چلا جائے گا۔
پھر ایک اور فرق دنیا کی نہروں، باغوں اور زمینوں اور اگلے جہان کی زمینوں، باغوں اور نہروں میں یہ ہے کہ یہاں تو کئی لوگوں کے پاس حرام مال ہوتے ہیں۔ چنانچہ مربعوں میں سے اکثر جانگلیوں کے تھے جو گورنمنٹ نے زبردستی چھین لئے اور دوسرے لوگوں کو دے دیئے۔ جن کی زمینیں تھیں وہ ُبھوکے مر گئے اور دوسرے لوگ عیش و آرام سے رہنے لگے۔
مگر فرمایا بِاِذْنِ رَبِّھَا وہ زمینیں لوگوں کی چھینی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ جائز مال ہوگا جو خدا کی طرف سے ملے گا۔ دنیا میں تو کتنے گھر اس لئے برباد ہو گئے کہ ماں باپ نے محنت سے مال جمع کیا مگر ان کی اولادوں نے لغو باتوں میں اسے ضائع کر دیا۔ مگر وہاں جو کچھ ملے گا خدا کی طرف سے ملے گا اور اس کی برکت قائم رہے گی۔ تَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰـمٌ ہمارے ملک میں لوگ کہا کرتے ہیں کہ جتنی لڑائیاں ہوتی ہیں وہ زمین، روپیہ یا عورت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یہاں بھی چونکہ نہروں اور زمینوں کا ذکر تھا اس لئے قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیا جنت میں بھی لڑائیاں ہوں گی؟ اور کیا وہاں جاکر بھی یہی جھگڑا رہے گا کہ ایک جنّتی کہے گا میری پَیلی ہے اوردوسرا کہے گا میری؟ اس لئے فرمایا کہ نہیں ہر آدمی جو جنت میں دوسرے سے ملے گا کہے گا میری طرف سے تم اپنا دل صاف رکھو۔ میری طرف سے تم کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور دعا کرے گا کہ تم پر خدا کی طرف سے سلامتی نازل ہو۔
پھر فرماتاہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُھَا فِی السَّمَآئِo تُؤْتِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَo
ان آیات کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ جنت میں ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والے جائیں گے۔ اب کہنے کو تو سارے ہی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور جس کو پوچھو وہ کہتا ہے میں خدا کے فضل سے مسلمان ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے محض زبان سے اپنے آپ کو مؤمن کہہ لینے سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوجاتا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان بِاللہ اور اعمال صالحہ کی مثال اچھے درخت کی سی ہے جس طرح دنیا میں پھل دار درخت توجہ چاہتے ہیں اور کوئی شجرۂ طیّبہ نہیں پھلتا جب تک کہ اسے پانی نہ ملے اور جب تک اس کی نگرانی نہ کی جائے۔ سوائے جنگلی درختوں کے۔ اسی طرح صرف منہ سے ایمان اور اعمال صالحہ کا دعویٰ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ یہ کبھی نہیں ہوتا کہ جنگلی درختوں میں اعلیٰ قسم کے پھل لگے ہوں۔ اعلیٰ قسم کے پھل ہمیشہ اعلیٰ درختوں پر لگتے ہیں اور اعلیٰ درخت انسانی کوشش سے پھل لاتے ہیں۔ پس ایمان اور اعمال صالحہ کی مثال شجرۂ طیّبہ یعنی اعلیٰ قسم کے درختوں کی سے ہے جنگلی درختوں کی نہیں۔ اور یہ شجرۂ طیّبہ اعمال کے پانی کے بغیر پھل نہیں دیتا۔ جس طرح درخت بونے کے بعد اگر اسے پانی نہ دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے پانی ملتا رہے تو وہ عمدہ پھل دیتا ہے اور اس کی عمر بھی لمبی ہوتی ہے۔ اسی طرح خالی ایمان پر خوش نہ ہو جائو بلکہ سمجھ لو کہ شجرۂ طیّبہ پانی چاہتا ہے جب تک اسے اعمالِ صالحہ کا پانی نہ ملے گا وہ شجرۂ طیّبہ نہ بن سکے گا۔
پس صرف کلمہ پڑھ کر تمہیں خوش نہیں ہو جانا چاہئے۔ جب تک تم لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ کے درخت کو اعمالِ صالحہ کا پانی نہ دوگی تمہارا درخت پھل نہیں لائے گا بلکہ خشک ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح درخت کئی قسم کے ہوتے ہیں اسی طرح لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ کوئی اچھے ہوتے ہیں اور کوئی سڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ قرآن شریف میں سڑے ہوئے کلمہ کی مثال اس طرح دی گئی ہے کہ اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰـفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ واللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَo ۲؎
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے پاس منافق آتے ہیں اور کہتے ہیں نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ خدا موجود ہے اور ُتو اس کا رسول ہے مگر اس پر بجائے اس کے کہ خدا خوش ہو کہ آخر انہوں نے صداقت کا اقرار کر لیا، فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ُتو اللہ کا رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ ُتو اللہ کا رسول ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کہے اور وہ نہ کہیں تو جھوٹ ہو۔ مگر جب انہوں نے بھی کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی گواہی دیدی کہ ُتو ہمارا رسول ہے تو پھر کہنا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ بڑے سچے ہیں کہ انہوں نے وہ بات کہی جو خدا نے کہی۔ مگر فرماتا ہے یہ منافق بڑے جھوٹے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ُتو اللہ کا رسول ہے اور باوجود اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ُتو اس کا رسول ہے پھر بھی وہ جھوٹے ہیں اور ان کا کلمہ، کلمہ طیّبہ نہیں بلکہ کلمہ خبیثہ ہے۔ کیونکہ وہ دل سے نہیں کہہ رہے بلکہ منافقت سے کہہ رہے ہیں۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو گو سچے دل سے ایمان لاتے ہیں مگر ان کا ایمان ناقص ہوتا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شخص آم تو بوئے مگر اُسے پانی نہ دے اور نہ اس کی نگرانی کرے نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہوگا تو آم ہی مگر پھل ناقص دے گا، کھٹّا دے گا اور تھوڑا دے گا۔ ایسے درخت کے آموں کو گدھے بھی ُسونگھ کر پھینک دیتے ہیں اور جب بازار میں جاتے ہیں تو ردّی کی ٹوکری میں پڑے رہتے ہیں اور کوئی ان کو نہیں خریدتا۔ اس کے مقابلہ میں اعلیٰ قسم کے آموں کو کاغذ کا لباس پہنایا جاتا ہے اور اوپر لکھا جاتاہے کہ فلاں قسم کا آم۔ اور رئیسوں کے آرڈر پر آرڈر آتے ہیں اور بڑے بڑے امیر ان کو خریدتے ہیں۔ مگر ناقص آم میلی اور گندی ٹوکری میں پڑے ہوتے ہیں اور پیسے پیسے و ّٹی پیسے پیسے و ّٹی ۳؎کہہ کر دُکاندار آواز دے رہا ہوتا ہے اور پھر بھی انہیں کوئی نہیں خریدتا۔ پھر ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ پاس سے گزرنے پر سر سے لے کر پیر تک اس کی خوشبو برقی رَو کی طرح اثر کر جاتی ہے۔ اور ایک آم ایسا ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے تک کو جی نہیں چاہتا۔ یہی حال دوسرے پھلوں کا ہے۔ ایک وقت خربوزے روپے روپے و ّٹی تک ِبکتے ہیں اور دوسرے وقت ان میں کیڑے پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو فرمایا تم ہمیشہ کلمہ کلمہ پکارتے ہو تمہیں سوچنا چاہئے کہ کیا کلمہ پڑھتے ہو؟ کلمہ طیّبہ تو ابوبکرؓ بھی پڑھتا تھا، عمرؓ بھی پڑھتا تھا، عثمانؓ بھی پڑھتا تھا، علیؓ بھی پڑھتا تھا۔ اگر تم کہو کہ تم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہو جو ابوبکرؓ اور عمرؓ پڑھتے تھے تو یہ درست نہیں کیونکہ ان کا کلمہ کلمہ طیّبہ تھا۔ اور طیّبہ کے معنے عربی زبان میں خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں کے ہیں۔ طیّبہ کے اور بھی معنے ہیں لیکن یہ چاروں معنے خاص طور پر طیّب میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو چیز خوش شکل ہو خوشبودار بھی ہو۔ انسانوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جن کی شکل اچھی ہوتی ہے مگر انہیںبغل گند ہوتا ہے اور کئی لوگوں سے بد ُبو تو نہیں آتی مگر شکل دیکھ کر کراہت آتی ہے، پھر کئی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو کوئی بیماری تو نہیں ہوتی مگر وہ جاہل اور اُجڈ ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو خوبصورت بھی ہوتے ہیں، خوشبو بھی اُن میں سے آتی ہے، عالم بھی ہوتے ہیں مگر شیریں نہیں ہوتے یعنی اُن کی باتوں میں مزہ نہیں آتا۔ پس طیّب وہ ہے جس میں یہ چاروں باتیں پائی جائیں یعنی خوش شکل بھی ہو، خوشبودار بھی ہو، خوش ذائقہ بھی ہو، اورشیریں بھی ہو۔
پس کلمہ طیّبہ پر ایمان لانے والے کو سوچنا چاہئے کہ کیا اس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں۔ طیّبہ کے پہلے معنے خوش شکل کے ہیں۔ اب تم سوچو کہ کیا تمہارا ایمان خوش شکل ہے؟ تم منہ سے تو کہتی ہو کہ ہم احمدی ہیں مگر کیا ظاہر میں بھی تمہاری شکل احمدیوں والی ہے؟ کیا اگر آم کی شکل بیر جیسی ہو تو لوگ اسے پسند کریں گے؟ اسی طرح جب تک تمہاری نمازیں احمدیوں والی نہ ہوں، تمہارے روزے احمدیوں والے نہ ہوں، تمہاری زکوٰۃ احمدیوں والی نہ ہو، تمہارا حج احمدیوں والا نہ ہو تم کس طرح کہہ سکتی ہو کہ ہم نے کلمہ طیّبہ پڑھ لیا۔ کتنا ہی اچھا آم ہو لیکن اگر وہ داغدار ہو یا ِپچکا ہؤا ہو تو لوگ اسے نہیں خریدتے۔ اسی طرح اگر تم صرف اِس بات پر خوش ہو جائو کہ ہم نے کلمہ طیّبہ کہہ لیا تو ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری زکوٰۃ، ہمارا حج اور ہمارے صدقے خود بخود اچھے ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں۔ جس طرح داغدار آم کو کوئی شخص نہیں خریدتا اسی طرح تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے بھی قبول نہیں ہو سکتے۔صرف اسی صورت میں یہ عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں جب وہ انہیں شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں جن شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔
دوسری چیز کلمہ کا خوشبو دار ہونا ہے۔ جو چیز انسان خریدتا ہے اس کے متعلق یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ آیا اس کی خوشبو اچھی ہے یا نہیں۔ خربوزے ہوں تو ان کی خوشبو ُسونگھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خربوزوں سے اچھی خوشبو آئے۔ یہی حال باقی پھلوں کا ہے۔ آم جتنا اچھا ہوگا اتنی ہی اس کی خوشبو اچھی ہوگی۔ اسی طرح سیب، انار، انگور اور کیلا وغیرہ کی لوگ شکل بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی خوشبو بھی سونگھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایمان لائے ہو تو تمہارے ایمان کے اندر خوشبو بھی ہونی چاہئے۔ یعنی تمہارے اِرد ِگرد کے ہمسائے تمہیں دیکھیں تو تمہاری نیکیوں کی خوشبو اُن کو آجائے اور وہ کہہ اُٹھیں کہ واقعی یہ مذہب اچھا ہے۔ پہلے تو لوگ شکل دیکھیں گے کہ تمہاری نمازیں مسلمانوں والی ہیں یا نہیں۔ فرض کرو ایک عورت احمدی کہلاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھتی تو اس کی ہمسایہ عورت کو یقین ہو جائے گا کہ ہمارا مولوی ٹھیک کہتا تھا کہ احمدی جماعت کی عورتیں نماز نہیں پڑھتیں یا احمدی نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ غیر احمدی مولویوں نے ان کو یہی بتایا ہوتا ہے کہ احمدیوں کا نماز روزہ الگ ہے۔ پس ایک غیر احمدی عورت نماز چھوڑ کر صرف اپنے لئے دوزخ مول لیتی ہے لیکن ایک احمدی عورت نماز نہ پڑھ کر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ان دوسری پچاس عورتوں کے لئے بھی دوزخ مول لیتی ہے جو اُس کو دیکھتی ہیں۔ تو فرمایا تم شجرۂ طیّبہ بنو۔ تم وہ درخت بنو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو۔ تم جس محلہ میں جائو وہاں نمازیں پڑھو، صدقات دو، خیرات کرو اور اس قدر نیکیوں میں حصہ لو کہ سب کہیں کہ معلوم نہیں کون آگئی ہے جو اس قدر نمازیں پڑھتی اور خیرات کرتی ہے۔ پھر جب وہ تمہارے پاس آئیں گی تو تم دیکھو گی کہ وہ اپنے مولوی کو وہاں سے سینکڑوں گالیاں دیتی ہوئی اُٹھیں گی۔ کیونکہ تمہاری خوشبو اُن کو احمدیت کے چمن کی طرف کھینچ رہی ہوگی۔ پس چاہئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں، صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خود بخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں۔ جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگاکہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جائو گی۔
طیّبہ کے تیسرے معنے خوش ذائقہ کے ہیں یعنی ایسی چیز جس کا مزا اچھا ہو اور انسان کی زبان اس سے حلاوت محسوس کرے۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جس کا مؤمن میں پایا جانا ضروری ہے۔ فرض کرو ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی صبح شام غیبت میں مشغول رہتی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا تو اِس سے اُس کی نیکی کا اثر زائل ہو جائے گا۔ یہ باتیں ایسی ہی گندی ہیں جیسے بعض عورتیں مٹی کھانے لگ جاتی ہیں بے شک یہ باتیں ہیں مگر ایسی جن کی کوئی قیمت نہیں۔ نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ سنانے والے کو۔ لیکن اگر وہ اس قسم کی باتیں کرے کہ اے بہن! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ُیوں فرمایا ہے۔ اے بہن! خدا کا یہ حکم ہے، نماز کے متعلق یہ حکم ہے، روزوں کے یہ احکام ہیں تو سننے والے اس کا اثر محسوس کریں گے اور انہیں اس کی باتوں میں لذّت آئے گی۔
پس پہلی بات تو یہ ہے کہ دین پر عمل کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتنا اچھا عمل کرو کہ لوگوں میں ُشہرت ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ ایسی باتیں کرو جن سے لوگ فائدہ اُٹھائیں۔
پھر طیّبہ کے چوتھے معنے شیریں کے ہیں یعنی تمہاری باتیں ایسی ہوں جو نہ صرف لوگوں کو فائدہ بخشیں بلکہ علمی بھی ہوں اور صرف دماغ سے تعلق نہ رکھتی ہوں بلکہ ایسی شیریں باتیں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں اور جن سے حلاوتِ ایمان نصیب ہو۔ عقلی باتوں سے لذّت تو آتی ہے لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی۔ شاعر کتنے اچھے شعر کہتے ہیں لیکن وہ میٹھے نہیں ہوتے۔ پھر ایک شخص خدا کی باتیں سناتا ہے اور نہایت فصیح و بلیغ طریق پر الفاظ لاتا ہے اُس کی باتیں بھی لذیذ ہوتی ہیں لیکن شیریں نہیں ہوتیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جن میں گو لفاظی نہیں ہوتی مگر ان باتوں سے دلوں پر اثر ہوتا اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اس کی باتیں شیریں کہلائیں گی کیونکہ وہ دلوں پر اثر کرنے والی ہوں گی۔
یہ چار باتیں ہیں جن کا مؤمن کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ اگر تم ایسی بن جائو تو تم جنت کی وارث بن سکتی ہو۔ جنت کیا ہے؟ جنت کے درخت مؤمن ہیں اور جنت کی نہریں مؤمنوں کے اعمال۔ جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے۔
اس دنیا اور اگلے جہاں میں یہ فرق ہے کہ یہاں مؤمن ُچھپے ہوئے ہیں مگر اگلے جہان میں ان سب کو اکٹھا کر دیا جائے گا تب دنیا حیران رہ جائے گی کہ واہ واہ کیسے شاندار لوگ ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے ہزاروں بزرگ جو امت محمدیہ میں گزرے ہیں جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو لوگ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ دنیا میں تو الگ الگ درخت تھے لیکن وہاں میٹھے پھلوں والے باغات کی صورت میں دکھائی دیں گے اور ان کے اعمال اور ایمان کو دیکھ کر لوگ کہہ اٹھیں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جنت نہیں۔ جس گائوں میں جھوٹ بول کر لوگ فتنہ ڈلواتے ہوں، لوگوں کا مال ظُلماً چھین لیتے ہوں، بھوکے کا خیال نہ کرتے ہوں اور ڈاکے ڈالتے ہوں اُس کو کیسے جنت کہہ سکتے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں اگلے جہان کی سب سے بڑی جنت یہ ہے کہ اس میں تمام نیکوں کو اکٹھا کر دیا جائے گا اور بدوں کو الگ کر دیاجائے گا۔ نماز پڑھنے والی عورتیں اور نماز پڑھنے والے مرد، سچ بولنے والی عورتیں اور سچ بولنے والے مرد، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی عورتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مرد، قرآن کریم پر ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے مرد، پہلے نبیوں پر ایمان لانے والی عورتیں اور پہلے نبیوں پر ایمان لانے والے مرد، لوگوں کی خدمت کرنے والی عورتیں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے مرد، جھوٹ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والی عورتیں اور جھوٹ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والے مرد جس جگہ جمع ہوں گے وہاں رہنے کو کس کا دل نہ چاہے گا۔ بے شک وہاں باغ بھی ہوں گے لیکن اصل مطلب یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں تمام نیک لوگ جمع ہوں گے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیّبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے۔ لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا۔ اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ کلمہ طیّبہ سے ملتی ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مؤمن جنت کا درخت بن جاتا ہے۔ پس جب تک تم کلمہ طیّبہ نہ بنو گی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی۔ قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے۔ وہ تم کو چاند یا سورج کی طرف نہیں لے گیا، اس نے سکندر یا ارسطو کی کوئی مثال پیش نہیں کی، اُس نے الجبرے کا کوئی سوال نہیں ڈالا، اس نے تم کو کسی عمارت کے گنبدوں کی طرف نہیں لے جانا چاہا بلکہ خدا نے وہ بات کہی ہے جو تم میں سے ہر ایک نے دیکھی اور جس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ خدا نے کہا ہے کہ ہم تم کو پہاڑ اور دریا کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی تم نے درخت کو دیکھا ہے یا نہیں؟ جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو عمل کا پانی دو۔ اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کرو۔ جب تم ایسا کرو گی تو تم جنت کا درخت بن جائو گی۔ پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بنائو۔ جب تم ایسا درخت بن جائو گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی ہوگی وہاں سے اُٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے کیونکہ خداتعالیٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہو سکتا۔
لوگ اپنے باغوں کے سجانے کے لئے دُور دُور سے درخت منگواتے ہیں تاکہ ان کا باغ خوبصورت معلوم ہو اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر جگہ کے نیک لوگوں کو جنت میں لائیں گے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے باغ میں فلاں درخت نہیں۔
یہ کیا ہی اچھا َسودا ہے جو مؤمن اپنے رب سے کرتا ہے مگر افسوس کہ لوگوں کو اس َسودے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔
اب میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ تم کو توفیق دے کہ تم اپنے آپ کو جنت کا پودا بنائو۔ اپنے کلمہ کو کلمہ طیّبہ بنائو اور اس کے فضل سے شجرۂ طیّبہ کی مانند بن جائو۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰ نَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ ( مصباح فروری ۱۹۴۲ء)
۱؎ ابرٰھیم : ۲۴ تا ۲۶ ۲؎ المنافقون : ۲
۳؎ و ّٹی : دو سیر کا باٹ






تقریرجلسہ سالانہ۱۹۳۹ء





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

تقریرجلسہ سالانہ۱۹۳۹ء
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۷ ؍ دسمبر ۱۹۳۹ء)
نوٹ:اس تقریر کا خلاصہ انوارالعلوم جلد۱۵ میں شائع ہوچکاہے (الفضل۳؍جنوری۱۹۴۰ء کے حوالہ سے)غیرمطبوعہ مواد میں سے مکمل تقریرملنے پر اسے شائع کیاجارہاہے۔
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میری طبیعت بہت ہی خراب رہی۔ باربار نقرس کے دورے ہوئے۔ اسہال کی تکلیف مدتوں سے کم ہوگئی تھی مگر دس بارہ سال کے بعد اس قدر شدید دورے ہوئے کہ مہینوں اس کا سلسلہ جاری رہا۔ اپینڈیکس اور گردے کے مقام پر بھی شدید دردیں ہوئیں۔ چنانچہ نومبر اور دسمبر میں تو یہ حصّہ اتنا مائوف رہا کہ میں خیال کرتاتھا کہ مجھے اپینڈے سائیٹس کا دورہ ہوجائے گا اس وجہ سے جو مجھے امید کام کرنے سے متعلق تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔ اگر صحت اچھی رہتی تو گذشتہ سال جن کاموں کا ذکر کیاگیا تھا وہ سارے ہوجاتے مگر اب بعض ہوئے ہیں اور بعض ادھورے رہ گئے ہیں۔
میں نے گذشتہ سال مندرجہ ذیل امور کا ذکر اپنی تقریر میں کیاتھا۔
اوّل:اخبارات کی اصلا ح
اس کے متعلق میں وقتاًفوقتاً ناظروں کوبھی ہدائیتیں دیتارہتا ہوں اور اخباروں کو بھی مشورہ دیتا رہتا ہوں مگر باوجود اس کے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ الفضل کے لیے گذشتہ سال میں نے جو امور بیان کئے تھے ان پر الفضل والوں نے یا تو بالکل عمل نہیں کیا اور اگر کیاہے تو بہت کم کیاہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں عملہ کا قصور ہے کہ وہ قابل نہیں یا کوئی اور نقص ہے جس کی وجہ سے ان کے کام میں سستی ہے یا جماعت کے دوستوں کا ان کے ساتھ تعاون نہیں۔ بہرحال بحیثیت مجموعی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ الفضل نے ترقی کی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ الفضل میں کسی حد تک ترقی ضرور ہوئی ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اب اس کے اکثر پرچے ایسے ہوتے ہیں جن میں مفید مضامین ہوتے ہیں پہلے بہت سے پرچے ایسے ہوا کرتے تھے جن میں کوئی مفید مضمون نہیں ہوا کرتا تھا اور اب صرف بعض پرچے ایسے ہوتے ہیں جن میں کوئی اچھا اور مفید نہیں ہوتا۔ تنوعّ بھی پہلے سے کچھ زیادہ ہے اور مختلف مضامین کے متعلق بالا سیتصاب دلائل بیان کرنے اور مالہٗ وماعلیہ کو مدنظررکھ کر مضمون لکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے مگر پھر بھی الفضل والوں سے اس ضمن میں بہت سی کوتاہی ہوتی ہے۔ میں نے بیان کیاتھا کہ انہیں الفضل میں تاریخی، سیاسی، تعلیمی، صنعتی، اقتصادی اور مذہبی مضامین لکھنے چاہئیں۔ اس طرح غیرمذاہب اور غیرممالک کی جدوجہد کے ذکر اور علمی کتب پر ریویو کرنے کے متعلق بھی میں نے تاکید کی تھی مگر یہ ہیڈنگ جو میں نے بیان کئے ہیں وہ احباب جو الفضل باقاعدہ پڑھتے ہیں ان کو پتہ ہوگا کہ ان عنوانات پر بہت کم لکھا گیاہے اور جوالفضل کو نہیں پڑھتے ان کو تو کچھ بھی پتہ نہیں ہوگا۔ بہرحال الفضل کو پڑھنے والے شہادت دے سکتے ہیں کہ ان اقسام پر اس رنگ میں مضامین نہیں لکھے گئے جس رنگ میں مَیں نے مضامین لکھنے کی ہدایت کی تھی۔علمی کتب پرریویو کرنے سے میری مراد یہ نہیں کہ سال بھر میں کسی ایک کتاب پر ریویو کردیا۔ اسی طرح یہ مراد بھی نہیں کہ جو رطب دیا بس کتاب الفضل کو بھیج دی جائے اس پر ریویو کردیا جائے۔ اس طرح جو ریویو کیاجاتاہے وہ ریویو نہیں بلکہ لحاظ کہلاتاہے۔ اور چاہیے ریویومیں یہ لکھ دیاجائے کہ اس کتاب میں یہ یہ خامیاں رہ گئی ہیں پھر بھی وہ ریویو نہیں ہوگا بلکہ ایسا فعل زیادہ سے زیادہ دوست پروری کہلائے گا۔ ریویو کے معنے یہ ہیں کہ وہ علمی اور قابلِ قدر کتابیں جو دنیا میں وقتاًفوقتاًشائع ہوتی رہتی ہیں ان کو جمع کیاجائے اور پھر ان پر ایسے رنگ میں مضامین لکھے جائیں جن سے جماعت میں علمی تجّسس کی روح پیدا ہو۔ ایسا کوئی ریویو الفضل میںمیری نظر سے نہیں گزرا۔
اسی طرح غیرممالک اپنی ترقی کے لیے جو کچھ جدوجہد کررہے ہیں اورجس رنگ میں وہ اپنے اقتصادی یا مذہبی یا علمی یا تجارتی غلبہ کے لیے کوشاں ہیں اس کے متعلق کوئی ایک مضمون بھی الفضل میں شائع نہیں ہوا۔ پھر غیرمذاہب کی جو جدوجہد ہے اور جس جس رنگ میںوہ اپنے مذہب کی اشاعت اور اسلام کی ترقی کو مددد کرنے کے لیے سکیمیں تیار کررہے ہیں ان کے متعلق بھی ’’الفضل‘‘ میں کوئی مضمون نہیںلکھا گیا۔اقتصادی مضمون بھی میں نے الفضل میں کوئی نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کوئی ایک آدھ چھپا ہو البتہ مذہبی مضامین بہت شائع ہوئے ہیں اور وہ پہلے سے بہت اچھے لکھے گئے ہیں۔ صنعتی مضمون بھی میں نے کوئی نہیں دیکھا۔ تعلیمی مضمون بھی کوئی شائع نہی ہوا۔ سیاسی مضامین کے لکھنے کی وجہ کیاتھی۔ تاریخی مضمون ایک دو نکلے ہوں تو نکلے ہوں اور غالباً ایک دونکلے ہی ہیں مگر اس سے زیادہ شائع نہیںہوئے۔ البتہ علمی مضامین ضرور شائع ہوتے رہے ہیں۔ جیسے میرمحمداسحٰق صاحب کا درس حدیث اور اسی قسم کے بعض اور مضامین ۔ پس گویا سارا خلاصہ یہ نکلا کہ الفضل میں بعض مذہبی مضامین اچھے شائع ہوئے۔ بعض علمی مضامین بھی اچھے شائع ہوئے سیاسی بہت بڑے تھے۔ تاریخی، تعلیمی، صنعتی، اقتصادی، غیرممالک کی جدوجہد اور غیرمذاہب کی جدوجہدان کے متعلق یا تو ’’الفضل‘‘کے خانہ میںصفر تھا یا اس کے بارہ میں محض اشک شوئی کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اخبار کو عمدگی کے ساتھ چلانے کے لیے الفضل والوں کو اشتہارات کے حصول کی کوشش کرنی چاہئیے۔ مگر یہ نصیحت بالکل الٹی پڑی۔ ہمارے ملک میں ایک قصّہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی عورت تھی جو ہمیشہ اپنے خاوند کے خلاف چلتی۔ خاوند کہتا کہ چاول پکائو تووہ دال پکادیتی۔وہ دال پکانے کوکہتا تو بیوی چاول پکا دیتی۔ ایک دفعہ خاوند اور بیوی دونوں دریامیں سے گزر رہے تھے کہ اچانک پانی کا ریلا آگیا۔ گھبراہٹ میں اسے یہ یاد نہ رہا کہ میری بیوی میرا کہنا نہیں مانتی بلکہ جو کچھ میںکہتا ہوں اس کے خلاف کرتی ہے۔زور سے کہنے لگا۔ بیوی میرے دامن کو زور سے پکڑلو تاکہ پانی کی رَو میں بہہ نہ جائو۔اس نے جب سنا تو فوراً ہاتھ چھوڑ دئیے اور پانی اسے بہا کر لے گیا۔ اس قصّہ میں لطیفہ یہ ہے کہ خاوند دریا میںسے نکل کر اپنی بیوی کی لاش کو تلاش کرنے کے لیے اُس طرف چل پڑا جس طرف سے پانی آرہا تھا۔ کسی نے کہامعلوم ہوتاہے کہ تمہاری عقل میں فتور ہے۔ تم نے لاش تلاش کرنی ہے تو اس طرف کرو جس طرف پانی کا بہائو ہے اس طرف کیا تلاش کررہے ہو۔ وہ کہنے لگا۔ میری بیوی ساری عمر الٹا کام کیاکرتی تھی جس سے میں سمجھتا ہوں اس کی لاش بھی پانی کے بہائو کی طرف نہیں گئی ہوگی بلکہ اوپر کی طرف گئی ہوگی۔ الفضل والوں نے بھی اس بارہ میں وہی کام کیاجو وہ عورت کیا کرتی تھی۔میںنے کہا تھا کہ اشتہارات کے حصول کی زیادہ کوشش کی جائے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ جو کوشش پہلے جاری تھی وہ بھی ترک کردی گئی اور اشتہارات بہت ہی کم ہوگئے۔ البتہ انہوں نے اتنی بات مان لی کہ شریعیت، اخلاق اور شرم وحیا کے خلاف جو اشتہارات پہلے شائع ہوا کرتے تھے وہ اب شائع نہیں ہوتے لیکن آخری دفعہ گھبرا کر شاید جوبلی نمبر میں یا اس سے پہلے انہوںنے پھر ایک اشتہار اسی قسم کا شائع کردیا۔
دوسرا پرچہ سن رائز ہے اس میں بھی اسی تنوّع کی ضرورت ہے۔ لیکن سن رائز کے متعلق ایک معذوری ہے اور وہ یہ کہ اس کاایڈیٹر صرف ایک ہے مگر الفضل کے چار ایڈیٹر ہیں ایک کا دماغ اتنا نہیں چلتا جتنا چار کا مل کرچل سکتاہے۔ پھر بھی وہ بہت اچھاکام کرتے ہیں گو جیسا کہ میں نے کہا ہے ابھی اس میں اصلاح اور ترقی کی ضرورت ہے لیکن اس کی ذمہ داری ایڈیٹر پر نہیں۔ میرے نزدیک ہمیںجو اچھے ورکر ملے ہیں اُن میں سے ایک سن رائز کے ایڈیٹر بھی ہیں وہ مضمون کا عمدہ خلاصہ کر لیتے ہیں اور پھر نہایت خوبی کے ساتھ اس کا نمایاں کرنے والا حصّہ نمایاں کردیتے ہیں۔ قصور جماعت کے نوجوانوں کا ہے کہ وہ سن رائز کی طرف توجہ نہیں کرتے اور جو انگریزی خواں ہیںوہ سن رائز کی خریداری بڑھانے میں حصّہ نہیں لیتے۔ بہر حال اکیلا شخص جتنا کام کرسکتاہے اتناکام سن رائز کا ایڈیٹر کررہاہے اور اب اس کی مزید ترقی اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ یا تو ہم دوسرا ایڈیٹر رکھیں یا اس کی طرف ہماری جماعت کے نوجوانوں کو توجہ ہوجائے۔ پس اس بارہ میں مَیں اپنی جماعت کے انگریزی خواں طبقہ کو خصوصیت سے توجہ دلاتاہوں۔ رہا یہ امر کہ اخبارات میں تنوّع کس طرح پیدا کیاجائے۔ اس بارہ میں اگر اخبارات والے چاہیں تو مجھ سے مشورہ کرلے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے ہر قسم کے علوم میںملکہ عطافرمایا ہوا ہے۔ اور میں بغیر کسی کا فخر کئے کہہ سکتا ہوں کہ اگر دن میں سو مضامین کے متعلق بھی مجھ سے مدد طلب کی جائے تو میںہر مضمون کے متعلق مختلف قسم کے علمی نوٹ لکھوا سکتا ہوں۔ پس اگر اخبارات والے چاہیں تو وہ اس بارہ میں مجھ سے مدد لے سکتے ہیںاور میں انہیں ہر وقت مدد دینے کے لیے تیار ہوں۔ چاہے وہ یہی پوچھیں کہ ہیڈنگ کس طرح لگائے جاتے ہیں۔ کس طرح انہیںجاذبِ توجہ بنایا جاسکتاہے۔ مضامین میں تنوّع کس طرح پیدا کیاجاسکتا ہے۔ مواد کہاں سے حاصل کیاجاسکتاہے یہ تمام باتیں خداتعالیٰ کے فضل سے مَیں بتا سکتاہوں اور اگر کوئی پوچھے تو مَیں اس بارہ میں مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔
’’فاروق‘‘ نے اس سال پہلے سے بہت زیادہ ترقی کی ہے اس میں علاوہ اور مضامین کے تحریک جدید کے اُن مجاہدین کی رپورٹیں بھی چھپتی رہتی ہیں جو بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام کررہے ہیں اور میں نے دیکھا ہے ان رپورٹوں میں سے بعض بہت مفید اور دلچسپ ہوتی ہیں۔ درحقیقت ’’فاروق‘‘نے فائدہ ’’الفضل‘‘ کی جہالت سے اٹھایا ہے اور وہ اس طرح کہ تحریک جدید کے ماتحت اس وقت پندرہ سولہ ّمبلغ باہر مختلف ممالک میں کام کررہے ہیں وہ اپنی ڈائریاں اور تبلیغی حالات الفضل کو بھیجتے اور ساتھ ہی وہ تقاضا کرتے کہ الفضل ان کے نام مفت جاری کیاجائے۔ اس پر دفتر تحریک جدید والوں نے الفضل سے کہا کہ تمہیں یہ مفت کے نامہ نگار ملے ہوئے ہیں اور اخبارات والے تو ہزاروں روپیہ خرچ کرکے مختلف ممالک میں اپنے نامہ نگار مقرر کرتے اور ان سے مضامین حاصل کرتے ہیں لیکن تمہیں مفت کے پندرہ نامہ نگار مختلف ممالک میںملے ہوئے ہیں جووہاں کے مفیدحالات الفضل میں اشاعت کے لیے بھیجتے رہیں گے اور مہینہ میں ایک مضمون بھی ضرور دے دیا کریں گے اس لیے تم ان کے نام الفضل مفت جاری کردو اس پر الفضل والوں نے جواب دیا کہ مہینہ میں ایک مضمون نہیں بلکہ ہمیں تحریک جدید کے ہر ّمبلغ کی طرف سے ہر ہفتے ایک مضمون پہنچ جانا چاہئے۔ میرے پاس جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے اپنے دفتروالوں سے کہا کہ ذرا حساب تو کرو کہ اس طرح ایک اخبار کتنی قیمت پر ملتاہے۔ جب حساب کیاگیا تو معلوم ہوا کہ ہوائی ڈاک پر دس آنے فی خط خرچ آتے ہیں گویا اگر تمام سال تحریک جدید کے ّمبلغ باقاعدگی کے ساتھ مضمون بھیجتے رہیں تو ان کے بتیس تیتیس روپے خرچ ہوجاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الفضل والے اور خریداروںکو تو پندرہ روپے میں الفضل دینے کے لیے تیار تھے مگر ہمارے مبلغوں کو جو ان کے نامہ نگار بھی بن سکتے تھے بتیس تیتیس روپوں میں الفضل دیتے تھے۔ میں نے اس پر دفتر والوں سے کہاکہ الفضل کو چھوڑو اور فاروق ان کے نام جاری کروا دو تاکہ وہ اپنی رپورٹیں وغیرہ بھی فاروق کو ہی بھیجا کریں۔ تو ’’الفضل‘‘ کی جو جہالت تھی وہ فاروق کے کام آگئی۔ میں نے شائع شدہ رپورٹوں کو فاروق میں پڑھا ہے اور مجھ پر یہ اثر ہے کہ وہ رپورٹیں بہت مفید ہوتی ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ان میں ایسے اعلیٰ درجہ کے معلومات ہوتے ہیں جو جغرافیائی اور تاریخی واقفیت کو بہت بڑھانے والے ہوتے ہیں۔اسی طرح ’’فاروق‘‘ میں میرا خطبہ بھی شائع ہوتاہے مگر باوجود ان تمام باتوں کے اس کی قیمت صرف اڑھائی روپیہ سالانہ ہے اور میں سمجھتا ہوں اڑھائی روپیہ میں اس قسم کے اخبار کا لوگوں کو میّسر آجانا غنیمت ہے اور میرصاحب موجودہ زمانہ میں اتنا سستا اخبار لوگوں کو دے کر ذاتی طور پر بہت بڑی قربانی کررہے ہیں۔ بلکہ درحقیقت وہ اس قلیل چندہ پر اخبار کو مستقل طور پر جاری ہی نہیں رکھ سکتے تھے۔ اگر تحریک جدید کے فنڈ سے ان کو مدد نہ دی جاتی۔ میں نے بہت سے محززین کے نام تحریک جدید کے فنڈ سے اخبار ’’فاروق‘‘مفت جاری کروادیا اور اس طرح ان کی مدد ہوگئی لیکن بہرحال اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ دوست اس کی خریداری کو بڑھائیں یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ کسی اخبار کی خریداری تو نہ بڑھے اور توقع یہ رکھی جائے کہ وہ اخبار عمدگی اور شان کے ساتھ چل سکے۔ آخر اخبار کو چلانے والے ہوا کھا کر گزارہ نہیں کیا کرتے بلکہ ان کے گزارہ کا انحصار اخبار کی آمد پر ہوتاہے اور اخبار کی آمد خریداری کا حلقہ وسیع ہونے سے بڑھتی ہے اس کے بغیر نہیں۔ اگر فاروق کے دواڑھائی ہزار خریدار ہوجائیں تو میر صاحب کو پچاس ساٹھ روپیہ ماہوار کی بچت ہوسکتی ہے ورجہ موجودہ حالت میں ان کا کام ایک شغل کا رنگ رکھتاہے اور یہ شغل ایسا ہی ہے جیسے خارش والے کو خارش ہوتی ہے وہ کھجلانے لگ جاتاہے میر صاحب نے بھی ساری عمر چونکہ اخبار کاکام کیا ہے اس لیے اب بھی ہم ان سے اخبار کاکام لے رہے ہیں لیکن موجودہ حالت میں ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں۔ اور یہ بات انصاف کے بالکل خلاف ہے کہ ہم ایک شخص سے کام تو لیں مگر اس کے گزارہ کاکوئی انتظام نہ کریں۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوںکہ وہ اخبار ’’فاروق‘‘ کے خریدار بنیں۔ اڑھائی روپیہ سالانہ چندہ میں انہیں میرا خطبہ بھی مل جائے گا اور خطبہ کے علاوہ اور بہت سے مضامین اور رپورٹوں سے بھی وہ فائدہ اٹھا سکیں گے اور جب محض اڑھائی روپیہ سالانہ چندہ میں وہ خطبہ بھی لے سکتے ہیں اور دوسرے مضامین وغیرہ سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں تو اس قدر سستا اخبار ہوتے ہوئے میرے نزدیک اس کی خریداری سے وہی شخص غفلت برت سکتا ہے جسے علم سے کچھ بھی مَس نہ ہو کوئی دوسرا شخص اس قسم کی غفلت نہیں کرسکتا۔
اردو ریویو آف ریلیجنز نے بہت ترقی کہ ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے کام سنبھالنے کے بعد اس رسالہ میں مضامین کے لحاظ سے بھی ترقی ہوئی ہے اور خریداری میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ریویوآف ریلیجنزکے متعلق میرمحمداسحٰق صاحب اکثر تحریکات کرتے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی یہ خواہش تھی کہ ریویوکے دس ہزار خریدار ہوں۔دوستوں کو حضورؑ کی اس خواہش کے پورا کرنے میں حصّہ لینا چاہئیے اور پچھلی دفعہ تو انہوں نے اخبار میں بشارت اور خوش خبری کے رنگ میںلکھا تھا کہ اب صرف نوہزار ایک سو خریداروں کی کمی رہ گئی ہے غرض یہ رسالہ بھی قابلِ توجہ ہے۔
انگریزی ریویوآف ریلیجنزکے ایڈیٹرصوفی عبدالقدیرصاحب بی۔اے ہیں انہیں مختلف ممالک کا تجرہ حاصل ہے ان کی زبان بھی اچھی ہے بشرطیکہ وہ سادہ لکھنے کی کوشش کریں۔ علمی ذوق بھی رکھتے ہیں اور ان والدمولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے صحابیؓ تھے اور انہوںنے بچپن سے ہی انہیں دین کی خدمت کے لیے وقف کردیاتھا اور پھر انہیں علمی ترقی کے تمام سامان بھی حاصل رہے ہیں مگر باوجود اس کے انگریزی ریویوآف ریلیجنز نے ترقی نہیں کی۔ میں نے سنا ہے گذشتہ دنوں وہ ایک کتاب کی تصنیف میں مشغول رہے ہیں اور اس وجہ سے رسالہ کی طرف توجہ نہیںکرسکے ممکن ہے یہ عذر درست ہو مگر ریویو کے ایک دورسالے میں نے ایسے دیکھے ہیںکہ اگر ٹائیٹل اُڑا کر میرے سامنے رکھ جاتے تو میں یہ ہرگز نہ کہہ سکتا کہ یہ کوئی احمدی رسالہ ہے اس کے مضامین کی نوعیت بھی ایسی نہیںجو خالص احمدی ہو۔ ہم ایک عظیم الشان مقصد لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ ہم نے سارے جہاں پر غالب آناہے۔ اس مقصد کو لے کر جوبھی اُٹھے گا اس کی آواز میں آپ ہی آپ گونج پیدا ہونا شروع ہوجائے گی۔ اور تحریراور تقریر میںیہ رنگ ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ان میںقابلیت ضرور ہے بشرطیکہ وہ اسے استعمال کریںاور بشرطیکہ وہ دوسروں کی قابلیت سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ لیکن میںدوستوں سے بھی کہتاہوں کہ وہ ان کی مدد کریں اکیلا آدمی مضامین میں تنوّع پیدا نہیںکرسکتا۔پس میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتاہوں کہ وہ اوّلؔ سارے اخباروں کی خریداروں کی خریداری بڑھائیں۔ دوسرےؔ اخبارات اور رسائل میں مضامین لکھیں۔ تیسرےؔ اپنے اخباروں کو زیادہ قیمتی بنانے کی کوشش کریں۔
جماعت کی تعلیم وتربیت کے متعلق میں نے گذشتہ سال ایک سکیم کا اعلان کیاتھا اور میںنے کہا تھا کہ بہت بڑے غور کے بعد مَیں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ بڑے بڑے ّمبلغ ہر جگہ نہیں رکھے جاسکتے اور چونکہ تبلیغ ایک ایسی چیز ہے جس سے کسی کی محرومی کو بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا اس لیے مبلغین کی بجائے اگر ہر جگہ ایسے مدرس رکھے جائیں جو نوجوانوں اور چھوٹے بچوں پر اپنا اثرڈالیں اور ان کی عورتیں دوسری عورتوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں۔ تو یہ زیادہ مفید ہوسکتاہے کیونکہ اس طرح وہ مدرس اوّلؔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں پھیلائے جاسکتے ہیں۔ دوسرےؔ بچوں اور نوجوانوں پر ان کااثر ہوسکتاہے۔ تیسرےؔ ان کی عورتیں دوسرے عورتوں میں تبلیغ کرسکتی ہیں۔ چنانچہ میں نے تجویز کیاتھاکہ چونکہ تنخواہ دار مدرس ہم تمام علاقوں میںپھیلا نہیںسکتے اس لیے ہم سردست تجربتاً بعض نوجوانوں کو ایسے فنون سکھا دیں گے جن سے وہ اپنی روٹی کما سکیں گے۔ اس طرح انہیں زمیندارہ کام بھی سکھایا جائے گا اور جو جماعت انہیں رکھنا چاہے گی اس سے ہم مطالبہ کریں گے کہ وہ دس ایکڑزمین ان کے لیے وقف کردے اس میںہم کنواں بھی لگوا دیں گے اور اس طرح وہ کھیتی باڑی کاکام کریںگے ان کے پاس جو طالب علم پڑھنے کے لیے آئیں گے ان سے فیس بجائے روپیہ کی شکل میںلینے کے کام کی صورت میںلی جائے گی اور ان کی عورتیں دوسری عورتوں کو پڑھانے کے ساتھ ایسے کام بھی سکھائیںگی جن سے وہ اپنی آمدنی میںاضافہ کرسکیں گی۔
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ دورانِ سال میں اس سکیم کی طرف باقاعدہ توجہ رہی۔ گو افسوس ہے کہ کارکن زیادہ تعداد میںمہیّا نہیں ہوسکے صرف پان آدمی اس کام کے لیے مل سکے اور انہیں پندرہ جنوری سے تحریک جدید کے ماتحت مختلف کام سکھانے شروع کردیئے گئے۔
میں نے بتایا تھا کہ اول ان کو کمپونڈری کی تعلیم دلائی جائے گی سو اس کے لیے ڈاکٹرعبداللہ خاں صاحب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور انہوں نے کمپونڈری کی تعلیم دی۔ ہسپتال میںبھی کچھ عرصہ رکھ کر انہیں کام سکھایا گیا اور اس طرح انہیںکمپونڈری کی علمی اور عملی دونوں قسم کی تعلیم دی گئی۔
دوسرے انہیں وٹرنری کی تعلیم بھی دی گئی اور اس کے لیے ڈاکٹرغلام غوث صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انہوںنے حیوانات کی عام امراض اور ان کے معالجات کے متعلق انہیں کافی تعلیم دی اور چونکہ انگریزی دوائیں مہنگی ہوتی ہیں علاوہ ازیں دیہات زیادہ تر یونانی دوائوں کی ہی ضرورت رہتی ہے اس لیے انہیں یونانی طب بھی سکھائی گئی۔ اور چونکہ اس طب کے ساتھ دواسازی کا بھی گہرا تعلق ہے اس لیے انہیں شربت بنانا،عرق نکالنا اور معجونیں وغیرہ بنانا بھی سکھایا گیا۔ اس طرح زمیندارہ کام کے متعلق لائل پور کے ایک فارغ التحصیل نوجوان کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس سے زمیندارہ، باغبانی اور سبزیوں وغیرہ کے متعلق جدید تحقیقات کی روشنی میں انہیں تعلیم دی۔ پھر انہیں لائل پور کالج میں بھجوا کر گورنمنٹ فارم دکھایا گیا اور اس طرح انہیں زمانہ حاضرہ کی تحقیق کے مطابق علمی اور عملی تعلیم دی گئی۔ دینی تعلیم کے سلسلہ میں میرمحمداسحاق صاحبؓ کے مشورہ سے ایک سکیم بنا کر انہیں وہ تمام موٹی موٹی باتیں سکھا دی گئیں جن کی عام طور پر مذہبی مباحث میں انسان کو ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی بیویوں کو بھی تعلیم دی گئی اور انہیں ازار بندبنانا، نواربنانا، کاڑھنا اور سینا پرونا سیکھایا گیا۔ افسوس ہے کہ باربار اعلان کے باوجود جماعت میںسے صرف پانچ نوجوان ہمیں میّسر آسکے۔ میں نے کہا تھا کہ شروع میں ہم ان کو دس روپیہ ماہواروظیفہ دیں گے اور سامان بھی دیں گے۔ چنانچہ ہم نے س عرصہ میں انہیں ڈاکٹری، وٹرنری، یونانی، دواسازی اور زمیندارہ کام کے متعلق تعلیم دی۔ ان کی بیویوں کو بھی کشیدہ کاری اور ازاربند وغیرہ بنانا سکھایاگیا۔ اس طرح میاںبیوی دونوں اپنی روزی کما سکیں گے اور روزی کمانے کے ساتھ ہی دین کی خدمت بھی کرسکیں گے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ ہم انہیںاپنے خرچ پر سرکاری بیج مہیّا کرکے دیں گے۔ کیونکہ تجربۃًیہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ سرکاری بیجوں سے فصل بہت ہی اعلیٰ ہوتی ہے مگر ہمارا زمیندارہ صرف اس وجہ سے کہ بنئے سے اسے مفت بیج مل جاتاہے اور گورنمنٹ والے روپیہ سوا روپیہ لے لیتے ہیں۔ بنئے کے پاس چلاجاتاہے اور اسے احساس نہیںہوتا کہ بنئے سے جو بیج وہ لے رہا ہے اس میں اگر روپیہ میں سے ۱۲؍کا بیج ہے تو ۴؍کی مٹی۔ اس وجہ سے ہماری تجویز یہ ہے کہ ہم ان کو سرکاری بیج مہیّا کریںگے اور اگر یہ لوگ کوشش کریںگے تو آسانی سے قیمت وصول کرسکیںگے۔ اسی طرح آلاتِ زراعت بھی مہیّا کرکے دیں گے۔ گویا بیج اور آلات زراعت دونوں چیزیں انہیں سلسلہ خرید کردے گا۔ جس کو وہ فروخت کرکے اصل رقم سلسلہ کو واپس کریں گے اور نفع خود رکھیں گے۔
میرا ارادہ ہے کہ ۱۹۴۰ء کے شروع میں ان لوگوں کو پانچ مختلف جگہوں پرکام پرلگایا جائے یہ لوگ اپنی بیویوں سمیت مردانہ اور زنانہ مدارس کھولیں گے اور ان کے گزارہ کے لیے یہ تجویز ہوگی کہ کچھ عرصہ تک انہیں معمولی گزارہ دیاجائے گا۔ اس کے ساتھ میں کچھ زمین مدرسہ کے لیے وقف کردی جائے گی۔ یہ لوگ اس زمین میںکاشت کریںگے اور لڑکوں سے بھی کاشت کرائیں گے۔ اس کی آمد خود ان کو ملے گی۔ اس کے علاوہ طب اور عطاری سے بھی کچھ روزی کمالیں گے او ان کی بیویاں لڑکیوں کو پڑھائیں گی اور انہیں وہ کام سکھائیں گی جوانہوں نے سیکھے ہیں اور ان کاموں کے ذریعہ زائد آمد پیدا کریں گی۔ اسی طرح مرغی خانہ سے بھی وہ اپنی آمد کو وسیع کرسکیں گی۔ میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سلسلہ جماعت کی تربیت اور تبلیغ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوگا۔
سردست جیسا کہ میں نے بتایاہے ہمیں اس سکیم کے ماتحت صرف پانچ نوجوان ملے ہیں مگر یہ سکیم انہیں پانچ پر ختم نہیں ہوجائے گی بلکہ جاری رہے گی اور ان کے بعد اور نوجوانوں کو اسی رنگ میں ٹریننگ دی جائے گی اور پھر اور کو یہاں تک کہ میرا جی چاہتا ہے کوئی احمدی گائوں ایسا نہ رہے جس میں ایسا کوئی نہ کوئی مدرس موجود نہ ہو۔ پس آج میں دوستوں کو پھر تحریک کرتاہوں کہ وہ نوجوان جومڈل پاس ہوں اور زمیندارہ کام سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ اگلے سال پھر انہیں اسی رنگ میں ٹریننگ دی جائے گی اور ان کو اور ان کی بیویوں کو یہ تمام فنون سکھائے جائیں گے۔ اسی طرح جو جماعتیں فارغ التحصیل نوجوانوں کو اپنے شرائط کے مطابق رکھنا چاہتی ہوں وہ بھی اطلاع دیں۔
ایک بات گذشتہ سال میں نے یہ بیان کی تھی کہ جماعتوں کی ترقی کے لیے صحت کی درستی بھی نہایت ضروری چیز ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ ملک کی صحت کو برباد کر رہے ہیں کیا بلحاظ اس کے کہ یہ کھیلیں جسمانی صحت کے لیے مضر ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ جس چیز کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ ان میںموجود نہیں اور کیابلحاظ اس کے کہ ان کے ذریعہ امراء اور غرباء میں بہت فرق رہتاہے اور کیا بلحاظ اس کے کہ سارا ملک ان کھیلوں کو کھیل نہیں سکتا۔ اگر تمام امیراور غریب چھوٹے اور بڑے ہاکی اور فٹ بال کھیلنے لگیں تو ان کے لیے فیلڈیں ہی کہاں سے آئیں۔ ولایت میں بے شک لوگ ہاکی اور فٹ بال کھیلتے ہیں مگر وہاں بھی سارے لوگ یہ کھیلیں نہیں کھیلتے۔ بلکہ پانچ سات کالجوں کے لڑکے کھیلتے ہیں اور جنہیں شوق ہوتاہے وہ دیکھنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ مگر خواہ کھیلیں تھوڑے لوگ کھیلتے ہوں یازیادہ سوال یہ ہے ان کھیلوں کے ذریعہ امیراور غریب میں تفریق رہتی ہے۔ اور جوکھیلیں اس امتیاز کو قائم رکھیں وہ ہرگز اس قابل نہیں ہوسکتیں کہ انہیں کھیلا جائے اس کے مقابلہ میںکبڈی کو دیکھ لو۔ امیراور غریب دونوں اس میںشریک ہوجاتے ہیں اور کسی قسم کاامتیاز اُن میںنظر نہیں آتا۔ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ایک غریب صحابی جسے سخت پسینہ آیا ہوا تھا جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی اور سخت تھکاماندہ تھا۔ گھبراہٹ کی حالت میںگھر کی طرف جارہاتھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا۔ آپؐ کو اس کی حالت پر رحم آیا اور آپؐ نے اس کا حوصلہ بڑھانے اور اس کی محبت کے جذبات میں انگیخت پیدا کرنے کے لیے پیچھے کی طر ف سے جاکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔ ہمارے ملک میںبھی عام طور پر ایسا کیاجاتاہے کہ کسی دوسرے سے مذاق کرنا ہوا تو پیچھے سے جاکر اس کی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ آپؐ کاہاتھ چونکہ بہت نرم اور نازک تھا اس لیے جب اس نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کس نے میری آنکھوں پرہاتھ رکھ دئیے ہیں آپؐ کے ہاتھوں کوٹٹولا تو اسے محسوس ہوگیا کہ اتنا نرم جسم رسول کریمؐ کے سوا اور کسی کا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس نے بھی محبت کے جوش میں مٹی سے بھرے ہوئے ہاتھ آپ کے ہاتھوں سے خوب ملنے شروع کردئیے اور پھر کہاکہ یارسول ؐاللہ میں نے پہچان لیا۔ آپؐ ہی ہیں اور کون ہے۔ اب یہ بھی ایک کھیل ہے جو ازدیادمحبت کے لیے کھیلا جاتاہے اور رسول کریمؐ سے بھی ثابت ہے۔ مگر یہ ایسا کھیل ہے جس سے امیراور غریب میں کوئی فرق قائم نہیں ہوسکتا۔ جیسے کبڈی میں جب کسی کو پکڑلیاجاتاہے تو وہاں امارت اور غربت کا سب امتیاز جاتارہتاہے۔ لیکن فٹ بال اور ہاکی اور کرکٹ میں تو قدم قدم پر امارت اور غربت کا سوال آجاتاہے۔ نہ غرباء کے پاس اتنے پیسے ہوسکتے ہیں کہ وہ سٹکیں خریدیں نہ کرکٹ کے سامان کے لیے ان کی جیب میں روپیہ ہوسکتا ہے اور نہ فیلڈیں اتنی مل سکتی ہیں لیکن دیسی کھیلیں مثلاًدوڑنا ایک ایسی ورزش ہے جس پر کچھ خرچ نہیں آتا امیر اور غریب ہر جگہ دوڑ سکتے ہیں اور ورزش کرسکتے ہیں۔ اسی طرح تیرنا بھی نہایت اعلیٰ کھیل ہے۔بوجھ اٹھانا کُشتی کرنا، کودنا،چھلانگیںلگانا، سواری کرنا، پیچھاکرنا اور کانوں اور آنکھوں کے امتیازات کو ترقی دینے کے لیے بعض ورزشیں کرنا۔ کرکٹ اور ہاکی وغیرہ سے ہزار درجے بہتر ہیں۔
میں نے یہ کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس سال جماعتوں میں عام تحریک کرنے کے علاوہ مقابلے بھی کرائے ہیں۔ چنانچہ مختلف مسافت کی دوڑوں ریلے ریس، سائیکل ریس، ذہانت، بلندیٔ آواز، گتگا، پریڈ، گولہ پھینکنے، اونچی چھلانگ اور لمبی چھلانگ لگانے، نشانہ بازی اور تیراکی وغیرہ کے مقابلے ہوئے اور نوجوانوں کو ان کھیلوں کی مشقیں کرائی گئیں۔
باہر کی جماعتوں میں بھی یہ تحریک کی گئی تھی چنانچہ بعض جماعتوں نے تیرنے کی مشق کی بعض نے نشانہ بازی کی مشق کی، بعض نے ذہانت کے مقابلے کرائے۔ اس قسم کی جماعتوں کے نام یہ ہیں۔ راولپنڈی، کیرنگ، مونگھیر، دہلی، ملتان، سیالکوٹ صدر، سیالکوٹ شہر، پشاور چھائونی، حلقہ سول لائن لاہور، حیدرآباددکن، نیروبی(افریقہ) اور بھاگوبھٹی ضلع سیالکوٹ، مونگ، جہلم، دنیاپور(ملتان) عارف والا۔
مجلس مرکزیہ کے ماتحت تراکی کی مشقیں بھی کرائی گئیں ہیں۔ چنانچہ تمام خدام کو نہر پر لے جا کر تیراکی کا مقابلہ کرایا گیا اور بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس میںشمولیت کی۔
یہ کام ابھی ابتدائی حالت میں ہے جسے اور زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے اور میرا منشاء یہ ہے کہ ہماری جماعت کا کوئی فرد ایسا نہ رہے جو تیرنا، گھوڑے کی سواری اور اسی قسم کے مفید ہنر نہ جانتا ہو۔ جن سے ورزش بھی ہوتی ہے اور مشکلات کے وقت انسان فائدہ بھی اٹھا سکتاہے۔ بھلا ہاکی اورفٹ بال تیراکی کا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح گھوڑے کی سواری بڑی کارآمد چیزہے اور کئی قسم کے قومی کاموں اور لڑائی وغیرہ کے اوقات میں اس سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔ چھلانگیں لگانا اور تیراندازی بھی اگر ایک طرف انسانی صحت کو درست رکھنے میں دخل رکھتے ہیں تو دوسری طرف زندگی کے کئی شعبوں میں ان سے مفید کام لیاجاسکتاہے۔ پس یہ نہایت ہی مفید کھیلیں ہیں جن کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئیے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے مقام پران کھیلوں میں حصّہ لیںگی۔ اگر جماعتوں نے اس بارہ میں اپنے شوق کا ثبوت دیا تو میرا ارادہ ہے کہ جلسہ سالانہ سے دوتین دن پہلے یا دوتین دن بعد قادیان میںکھیلوں کا ایک عام مقابلہ کرا دیا جائے گا۔ تاکہ جماعت کے نوجوانوں میں ان کھیلوں کے متعلق جوش قائم رہے۔ اور وہ ان میں شوق سے حصہ لیتے رہیں۔ اس کے علاوہ میں نے اس سال دوگریجوایٹس کو ورزش کالج لاہور میں داخل کرادیاہے جو ہندوستان میںبہترین میّسر آنے والی تعلیم اس بارہ میںحاصل کررہے ہیں ان میں سے ایک چوہدری محمدشریف صاحب بی۔ اے ہیں اور دوسرے چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔اے۔ میرا ارادہ ہے کہ جب یہ دونوں وہاں سے کام سیکھ کر آجائیں تو ان کے ذریعہ یہ کام اپنی جماعت میں رائج کردیئے جائیں۔ ان کے علاوہ ایک گریجوائیٹ چوہدری خلیل احمدناصرصاحب کو میں نے حیدرآباد میں پرانے فنون جیسے گتگابازی یاتلوار چلانا ہے سیکھنے کے لیے کچھ عرصہ رکھ کر تعلیم دلائی ہے۔چنانچہ دومہینے کام سیکھنے کے بعد وہ واپس آگئے ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ انہیں قادیان میں نوجوانوں کو یہ کام سیکھانے پر مقرر کردوں۔ جب یہاں کے نوجوان یہ کام سیکھ جائیں گے تو پھر بیرونی جماعتوں سے بھی آدمی بلوائے جائیں گے۔ اور وہ کام سیکھ کر اپنی جماعتوں میں ان کو رائج کرسکیں گے۔ گتگا اور بنوّٹ کاکام ایسا اعلیٰ درجے کا ہوتاہے کہ جو لوگ جانتے ہیں وہ بعض دفعہ حیرت انگیز کام کرلیتے ہیں شاہ جہان پور کے ایک دوست ایک دفعہ بیمار تھے کہ احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے دشمنوں نے ان پرحملہ کردیا۔ یہ اگرچہ اکیلے تھے اور وہ بہت سے۔ مگر چونکہ بنوّٹ جانتے تھے اس لیے انہوں نے باوجود اکیلا اور بیمار ہونے کے ان میں سے بہتوں کو زخمی کردیا۔ اور بہت سے جوابی حملہ کی تاب نہ لاکر بھاگ گئے۔ اس پر انہوں نے عدالت میںدعویٰ دائر کردیا کہ انہوں نے مجھ کو مارا ہے۔ جب جج کے سامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو اس نے سنتے ہیں مقدمہ خارج کردیا اور کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ایک آدمی اتنے آدمیوں کو زخمی کرسکے۔ ضرور انہوں نے جھوٹ بولا ہے۔
تویہ کام میں نے بعض نوجوانوں کو سکھائے ہیں اور میں امید کرتاہوں کہ جب وہ ان فنون کے سکھانے کے لیے جماعتوں کے سامنے اعلان کریں گے تو جماعتیں اپنے اپنے نمائندے یہ کام سیکھنے کے لیے یہاں بھیج دیں گی تاکہ وہ اوروں کو سکھائیں اور اس طرح جماعت میں یہ کام رائج ہوجائیں۔
اس سال میری اس سکیم کے ماتحت ہیڈماسٹر صاحب تعلیم الالسلام ہائی سکول نے بھی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے انہوں نے لڑکوں کے تیرنے کے لیے ایک ٹینک بنوایا ہے۔ میں نے جب وہ تالاب دیکھا تو مجھے ایسی خوشی ہوئی گویا میں نے ایک بڑی بھاری فتح حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے بڑی ہمت سے کام لے کر یہ تالاب بنوایا ہے اور امید ہے کہ جن طالب علموں کوتیرنا نہیں آتا اس رنگ میں وہ بھی تیرنا سیکھ جائیں گے۔
خدام الاحمدیہ کاکام اس سال پہلے سے بہت بڑھ گیاہے اور انہوں نے خوب عمدگی سے کام شروع کردیاہے۔ دسمبر۱۹۳۸ء میں مجالس خدام الاحمدیہ کی کل تعداد۸۳ تھی مگر اب یہ تعداد۱۵۱ ہے گویا ۶۸انجمنوں کا اضافہ ہواہے۔ اس طرح دسمبر۱۹۳۸ء تک خدام الاحمدیہ کے ممبروں کی کل تعداد ۹۰۰ تھی مگر اس وقت ممبرز کی تعداد دوہزار ہے۔ مگر میں انہیں نصیحت کرتا ہوںکہ انہیں صرف اس بات پر خوش نہیںہوجانا چاہئیے کہ انہوں نے ۱۵۱مجالس قائم کرلی ہیں بلکہ جب تک شاخہائے صدرانجمن احمدیہ کی تعداد کے مطابق ان کی تعداد نہ ہوجائے اس وقت تک انہیں چین اور آرام نہیںلینا چاہئیے۔بلکہ کوشش کرنی چاہئیے کہ ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو احمدیہ انجمنوں کی کل تعداد اس وقت تک ساڑھے سات سوہے۔ پس انہیں کوشش کرنی چاہئیے کہ مجالس خدام الاحمدیہ ہزار پندرہ سوتک پہنچ جائیں اور جماعت کا کوئی نوجوان ایسا نہ رہے جو اس کا ممبر نہ ہو۔ خدام الاحمدیہ کے معنے احمدیت کی خدمت کرنے والوں کے ساتھ کے ہیں اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر ہمارے نوجوان احمدیت کی خدمت کے لیے کھڑے نہیں ہوئے تو اور کونسا مقصد ہے جس کے لیے وہ کھڑے ہوئے ہیں۔ پس میں امید کرتا ہوںکہ وہ اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ کریں گے اور کوشش کریں گے کے ان کی شاخیں کم سے کم شاخہائے صدرانجمن احمدیہ کے برابر ہوجائیں۔ اسی طرح انہیں صرف دوہزار ممبروں پر خوش نہیںہونا چاہئیے بلکہ بیش پچیس ہزار تک اپنے ممبروں کی تعداد بڑھانی چاہئیے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انہیں یہ کوشش کرنی چاہئیے کہ جماعت کا کوئی نوجوان اس تحریک میںشامل ہونے سے نہ رہ جائے۔ میں نے خدام الاحمدیہ کو اس سال باربار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے ممبروں کے اندر وقت کی پابندی کی عادت اور قربانی کی روح پیدا کریںاور جو ممبر اپنے کسی فرض کی ادائیگی میںکوتاہی سے کام لے اسے سزا دیں اور اگر وہ سزا برداشت نہیں کرسکتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے خدمت احمدیت کا عہد کرکے جھوٹ بولا اور عذرداری کی۔ پس ایسے لوگوں کو فوراً اپنے اندر سے نکال دینا چاہئیے۔ اور ایک منٹ کے لیے بھی کسی کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرنا چاہئیے۔ ہمارے اندر وہی رہ سکتا ہے جو ہر حکم کی اطاعت کا اقرار کرے اور کسی حالت میں بھی کسی حکم کے ماننے سے انکار نہ کرے۔ اگر کوئی شخص اس کے لیے تیار نہیں تو اس کا نکال دینا ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے اور میں اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرنی چاہئیے کہ اگر ہم ایسے لوگوںکو نکال دیں گے تو کیاہوگا۔ کیونکہ ہمارا وہی ہے جو ہمارا بن کر رہے اگر کوئی شخص ہمارا بن کر نہیں رہتا تو اس کا ہمارے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ہم ایسی باتوں سے کبھی گبھرا نہیں سکتے کہ اگر دس بیس پچاس سَو لوگ نکل گئے تو پھر کیاہوگا۔ جب ہماری جماعت دس افراد پر مشتمل تھی تب بھی اسی یقین کے ساتھ وہ دشمن کا مقابلہ کرتی تھی کہ دشمن مغلوب ہوگا اور وہ غالب۔ پھر جب جماعت کی تعداد سویا ہزار تک پہنچی تو اس وقت بھی یہی جوش اور یہی ولولہ جماعت کے ہرفرد کے اندر موجود تھا۔ آخر کوئی بتائے کہ ۱۹۱۴ء میں جب جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے کئی حصّے کم تھی اس وقت کیاہم میں سے ایک بھی شخص تھا جو دشمن کے مقابلہ میںکمزوری محسوس کرتاتھا۔ پھر ۱۹۰۸ء میں جب جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی قریباً اتنی ہی تعداد تھی جتنی تعداد میں اس وقت دوست میرے سامنے سٹیج پر بیٹھے ہوئے ہیں تو کیا اس وقت وہ لوگ اپنے اندر کسی قسم کی کمزوری محسوس کرتے تھے۔ بلکہ ۱۸۹۲ء میںجب جلسہ سالانہ پرآنے والوں کی کل تعداد پانچ سو کے قریب تھی اس وقت کیا وہ سمجھتا کرتے تھے کہ دشمنی زبردست ہے اور ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے یاکیا اعلان بیعت کے وقت جب صرف چالیس آدمیوں نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو وہ چالیس آدمی یہ خیال کرتے تھے کہ دشمن زبردست ہے۔ ان تمام اوقات میں جماعت نے کبھی دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھا بلکہ ہر شخص اس یقین پرقائم رہا کہ وہ اکیلا دشمن کا مقابلہ کرسکتاہے۔ یہی وہ روح تھی جس نے ان چالیس کو کامیاب کیا۔ یہی وہ روح تھی جس نے ان پانچ سو کو کامیاب کیا۔ یہی وہ روح ہے جس نے ان پانچ ہزار کو کامیاب کیا۔ یہی وہ روح ہے جس نے پانچ لاکھ کو کامیاب کیا۔ یہی وہ روح ہے جو پانچ کروڑ کو کامیاب کرسکتی ہے۔ اور یہی وہ روح ہے جو پانچ ارب کو کامیاب کرسکتی ہے۔ جب تک جماعت میں یہ روح رہے گی وہ کامیاب ہوتی چلی جائے گی اور جس دن یہ روح مٹ جائے گی۔ اس دن اس کی تمام ترقی بھی جاتی رہے گی۔
پس خدام الاحمدیہ کو یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئیے کہ اگر ہم سستوں اور غافلوں کو سزا دے کر الگ کردیں گے تو ہماری طاقت کمزور ہوجائے گی بلکہ انہیں ظالم سرجن کی طرح ایسے گندے اور متعفن عضو کو کاٹ کر الگ کردینا چاہئیے۔ جب تم اسے کاٹ کرالگ کردو تو تمہار فرض ہے کہ دوسرے دن پھر اس کے پاس جائو اور کہو کہ اے بھائی کیا تمہیں غیرت نہیں آتی کہ ایک انجمن جس کا نام ہی خدام الاحمدیہ ہو اس کی ممبری کو قبول کرکے تم کام وہ کرو جو احمدیت کی روح کے سراسر منافی ہو تم کیوں اپنی اصلاح نہیں کرتے اور کیوں اس نقص کو دور کرکے پھر خدام الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوجاتے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کی اصلاح ہوجائے گی اور وہ پھر تم میں آکر مل جائے گا۔ لیکن اگر وہ نہ آئے تو اسے کاٹ دو اور کبھی بھی ایسے شخص کو اپنے اندر رہنے نہ دو ایسا نہ ہو کہ وہ اور لوگوں پربھی اثرڈال کر ان کو خراب کردے اور نظامِ سلسلہ سے بغاوت کی روح ان کے اندر پیدا ہوجائے۔ اگر خدام الاحمدیہ ایسے لوگوں کی کوئی پروا نہیں کریں گے اور خداتعالیٰ کے دین کے احیاء کے لیے دیانت اور خلوص کے ساتھ کام کرتے چلے جائیں گے۔ تو جس طرح خدا اپنے ماموروں کی مدد کیاکرتاہے اسی طرح وہ ان کی مدد کرے گا۔ کیونکہ وہ مامور کی مدد بھی کام کے لحاظ سے کرتا ہے اور جب ویسا ہی کام کوئی دوسرا کرے تو اس کی مدد بھی وہ مامورین کی مدد کے ہم رنگ کرتاہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ وہ شہر سے پندرہ بیس میل دور ایک ویرانہ میں رہتے تھے اور انہیں کچھ ایسا مرض تھا کہ وہ چارپائی سے ہل نہیں سکتے تھے ہمیشہ اپنے جھونپڑے میں لیٹے رہتے اور دعائیں کرتے رہتے۔ ایک دفعہ انہوں نے کسی اور بزرگ کی تعریف سنی مگر وہ بزرگ ان سے بہت دورشہر میں رہتے تھے اور بظاہر کوئی صورت ایسی نہیں تھی کہ ان دونوں کی ملاقات ہو سکے۔ آخر انہوں نے دعا کی کہ الہٰی میں تو چلنے پھرنے سے معذور ہوں تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری اس بزرگ سے ملاقات ہوجائے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ وہ بزرگ جو شہر میں رہتے تھے انہیں ایک دن بادشاہ کا حکم پہنچا کہ تمہارے خلاف ہمارے پاس بعض شکایات پہنچی ہیںتم فوراً ہمارے دربار میں حاضر ہوجائو۔ یہ حکم دیکھتے ہ وہ چل پڑے اور جب اس جنگل میں پہنچے جس میں اس دوسرے بزرگ کا جھونپڑا تھا تو سخت بارش شروع ہوگئی وہ پناہ لینے کے لیے اسی جھونپڑے میں داخل ہوگئے انہوں نے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ جب انہوں نے نام بتایا تو وہ سمجھ گئے کہ انہیں بزرگ سے ملنے کے لیے تو میں دعائیں کررہاتھا۔پھر انہوں نے پوچھا کہ آپ اب جا کہاں رہے ہیں وہ کہنے لگے بادشاہ کا مجھے پروانہ آیا ہے کہ تمہارے خلاف بعض شکایات ہیں تم جلدی میرے پاس پہنچو وہ کہنے لگے یہ بات تو نہیں خدا آپ کو میری خاطر لایاہے کیونکہ میںعرصہ سے یہ دعا مانگ رہا تھا کہ خدا مجھے آپ کی زیارت نصیب کرے اور آپ سے ملاقات کا کوئی موقع پیدا ہوجائے مگر میری حالت ایسی تھی کہ میں چل کر آپ کے پاس نہیںجاسکتا تھااور آپ کی حالت ایسی تھی کہ آپ میری اس تڑپ سے ناواقف تھے اس لیے خدا نے ہی سامان پیدا کیا اور اس نے بادشاہ کے ذریعہ آپ کو بلوایا مگر جب آپ یہاں پہنچے تو بارش آگئی اور آپ اس بات پر مجبور ہوگئے کہ میرے جھونپڑے میں آجائیں اور اس طرح میری اور آپ کی ملاقات ہوگئی۔ پس بات اتنی ہی تھی اور کوئی وجہ معلوم نہیںہوتی۔ ابھی یہ باتیں ان کے درمیان ہوہی رہی تھیں کہ بادشاہ کا پرکارہ دوڑتا ہوا آیا اور وہ بھی بارش سے پناہ لینے کے لیے اس جھونپڑے کے اندر آگیا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کہاں جا رہے ہوتو وہ کہنے لگا کہ میں فلاں بزرگ کے پاس چلا ہوں۔ ان کے نام غلطی سے ایک حکم آگیاہے دراصل وہ کسی او ر کے نام ہے اور بادشاہ نے ان کو نہیںبلایا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بزرگ یہی بیٹھے ہیں چنانچہ اسی جگہ انہیں پہلے حکم کی منسوخی کا بھی پتہ چل گیا اور دوسرے بزرگ سے ملاقات بھی ہوگئی۔ تو اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتاہے تو ایسی ایسی راہوں سے دیتاہے کہ انسان حیران رہ جاتاہے۔ہماری زندگی میںایسے ہزاروں واقعات ہوئے اور ہم نے اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھا کہ خدا غیرمعمولی طور پر نصرت کیاکرتاہے۔ پس یہ مت خیال کرو کہ تمہاری کیاہستی ہے۔تمہاری نیتّیں اگر درست نہ لگی تو خداتعالیٰ تمہاری آپ مدد کرے گا کیونکہ وہ یہ نہیںدیکھے گا کہ تم کون ہو بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ تم کس کام کے لیے کھڑے ہو۔ پس میں امید کرتاہوں کہ استقلال اور حکم کے مطابق کام کرنے کی روح نوجوانوںمیں پیدا کی جائے گی یہ عادت قلوب میںراسخ کرنے کے لیے ایسا بھی کیاجاسکتا ہے کہ کام ہو یا نہ ہو بعض دفعہ حکم دے دیاجائے کہ رات کے بارہ بجے فلاں جگہ پہنچو یا رات کو مثلاً حکم دے دیا کہ بٹالے جائو اور فلاں کام کر آئو۔ اس قسم کی مشقیں نوجوانوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے اور ان کے نتائج بہت مفید نکلتے ہیں۔
وقف زندگی کے متعلق بھی میں نے اس سال تحریک کی تھی۔ چنانچہ بعض اور واقفین بھی ہمیں جماعت میں سے میّسر آئے ہیں۔ اس وقت جو نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کی تعداد پندرہ ہے۔ ان میں سے چھ گریجوائیٹ ہیں چھ مولوی فاضل اور تین نہ مولوی فاضل ہیں نہ گریجوائیٹ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو گریجوائیٹ ہیں وہ عربی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مولوی فاضل انگریزی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں طب بھی پڑھائی جاتی ہے۔ میں امید کرتاہوں کہ جماعت کے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے پیش کریںگے۔ بھلا پندرہ نوجوان زیادہ سے ہم کیا خوش ہوسکتے ہیں ہمیں تو سینکڑوں نوجوان چاہئیں۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ سردست سینکڑوں کوہم رکھ نہیں سکتے کیونکہ ان کی تعلیم اور دیگر اخراجات پر جس قدر روپیہ خرچ ہوسکتاہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات پندرہ نوجوانوں سے پوری نہیں ہوسکتیں۔میری سکیم یہ ہے کہ تحریک جدید کے مجاہدین کا پہلا دَور پچاس کا ہو دوسرا دَور سو کا اور پھر س سے بھی زیادہ۔ تم اسے شیخ چلی کی سی باتیں کہو لیکن میرا ارادہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا جو یہ کشف ہے کہ آپ کو پانچ ہزار سپاہی دیا جائے گا ایک تو تحریکِ جدید کے مالی مطالبہ پر لبیک کہنے والوں کے ذریعہ پورا ہواور دوسرے اس رنگ میں پورا ہوکہ ہم تحریک جدید کے ماتحت پانچ ہزار ّمبلغ تیار کردیں۔ میرے ذہن میں یہ سکیم ہے مَیں نہیںجانتا مجھے عملی جامہ پہنانے کاموقع ملے گا یا نہیں اور میری زندگی میں یہ سکیم پوری ہوگی یامیرے بعد۔مگربہرحال میری خواہش ہے کہ اس پیشگوئی کو صرف چندہ تحریک جدید دینے والوں میں محدود نہ کردیاجائے بلکہ پہلے پانچ ہزار سپاہی وہ ہوں اور دوسرے اس پیشگوئی کے ماتحت پانچ ہزار سپاہی واقفین تحریک جدید ہوں جو مختلف ممالک میں احمدیت کے جھنڈے کو بلند کررہے ہوں اور یہ پانچ ہزار ّمبلغ وہ ہوں گے جو تیرہ سوسال میں مسلمان پیش نہیں کرسکے مگر یہ پانچ ہزار ّمبلغ بھی صرف قریب ترین زمانہ کی تبلیغی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہوں گے۔ ورنہ جب ہمیں تمام دنیا میں اپنے مبلغین پھیلانے کی ضرورت ہوگی تو اس وقت پانچ ہزار کیا پانچ لاکھ ّمبلغ بھی اگر ہم رکھیں گے تو وہ کم ہوں گے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر دوسوآدمیوں پر ایک ّمبلغ یا معلم ضرور ہونا چاہئیے۔دنیا کی آبادی پونے دوارب ہے اس لحاظ سے نوّے لاکھ یا گر بچوں کو نکال دیاجائے تو چالیس لاکھ مبلغوں کی ضرورت ہوگی۔ بہرحال موجودہ دَور کے لیے جو قریب کا دَور ہے ہمیں پانچ ہزار ّمبلغ تیار کرنے پڑیں گے۔ ایک عام آدمی اسے بے شک شیخ چلی کے خیالی پلائو کہہ لے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو جوش اور جو اُمنگ میرے دل میں ہے اس کے لحاظ سے مجھے تو یوں معلوم ہوتاہے کہ شاید یہ کام جلدہی ہوجائے گااور مجھے وہ دن کچھ زیادہ دُور نظر نہیں آتا۔ پس میں جماعت کے نوجوانوں سے کہتاہوں کہ وہ اپنے آپ کو وقف کریں۔ پہلے دَور میں کم سے کم پچاس نوجوان شامل ہوںگے۔ اور اتنی تعداد کا جماعت کے نوجوانوں میں سے میّسر آجانا کوئی بڑی بات نہیں۔ پس وہ باہمت نوجوان جو انٹر پاس ہوں یامولوی فاضل ہوں یا بی۔ اے ہوں۔ اُن سب کو میں تحریک کرتاہوں کہ وہ اپنے آپ کو خدمتِ اسلام کے لیے وقف کریں۔ باپوں سے کہتاہوں کہ وہ اپنے بیٹوں کو وقف کریں۔ بیٹوں سے کہتاہوں کہ وہ اپنے باپوں سے کہیں کہ انہیں وقف کردیا جائے۔ اس طرح بھائیوں سے کہتاہوں کہ وہ اپنے بھائیوں کو تحریک کریں۔ دوستوں کو کہتا ہوں کہ وہ دوستوں کو تحریک کریں۔ یہاں تک کہ خدا اُن کے دلوں میں یہ بات ڈال دے کہ اس وقت اسلام اور احمدیت کے لیے زندگی وقف کرنا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلب فرمایا کرتے تھے کہ جب ترکی اور روس کی جنگ ہوئی تو اس وقت میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ امّاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ جوان بیٹے دئیے ہوئے ہیں آپ ان میں سے ایک بیٹاخداتعالیٰ کے لیے قربان کردیں اور مجھے اجازت دیں کہ میں اس جنگ پر چلاجائوں۔ فرماتے تھے جب میں نے یہ کہا تو میری والدہ رو پڑیں اور انہوں نے کہا بیٹا پانچ بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں اتنا ظلم مجھ پر نہ کرو اور اپنے اس ارادہ کو ترک کردو۔ آپ فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ امّاں آپ کا حکم ہے اس لیے میں جاتا تو نہیں مگر آپ نے خداتعالیٰ کے احسان کی ناشکری کی ہے۔ اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ آپ کے بیٹے آپ کی آنکھوں کے سامنے نہ مرجائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور باوجود اس کے کہ میرے سارے بھائی نہایت مضبوط اور قوی جسم رکھتے تھے۔ یکے بعد دیگرے مختلف بیماریوں سے فوت ہوگئے۔ فرماتے تھے ایک دن مَیں اپنے مکان میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا کہ میری والدہ آئیں اور مجھے دیکھتے ہی بے اختیار ان کے آنسو آگئے اور کہنے لگیں۔ اِنَّاللّٰہِ واِنَّاالَیْہ راجعون۔میں نے کہا امّاں کیاہوا کہنے لگیں پانچ بیٹے تھے جن میں سے چار فوت ہوگئے اور صرف تو رہ گیا اناللّٰہ نہ پڑھوں تو اور کیا کروں۔ فرمانے لگے میں نے اپنے دل میں کہا کہ اب پھر انہوں نے ناشکری کی ہے۔ کیونکہ خواہ ایک ہی بیٹا رہ گیا پھر بھی اس کی زندگی خدا کے فضل سے ہی ہے۔چنانچہ میں نے کہا امّاں جب ان کا انتقال ہوا تو مَیں ایک ایسی جگہ تھا کہ باوجود کوشش کے مَیں وہاں نہ پہنچ سکا۔ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی اولاد کی قربانی پیش کرنا اولاد کو کم نہیں کرتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے۔ میں نے اپنے بچوںکے متعلق تو یہ فیصلہ کردیاہے کہ جب وہ اپنا بوجھ آپ اُٹھانے کے قابل ہوجائیں گے تو ان میں سے جو بھی دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کووقف نہیں کرے گا میں اس کے گھر کی دعوت قبول نہیں کروں گا۔ ناصراحمدبچپن سے دینی مقاصد کے لیے تعلیم حاصل کررہاتھا مگر میں نے اسے بھی کہلا بھیجا کہ میرا دل نہیں چاہتا کہ کوئی میرا بیٹا ہو اور پھر وہ دین کے لیے وقف نہ ہو۔ اس لیے اگر تمہیں میری رضا منظور ہے تو اپنے آپ کو وقف کردو۔چنانچہ اس نے اپنے وقف کے متعلق مجھے لکھ کر بھیج دیا۔اسی طرح مبارک احمد اور منور احمدسے بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹوں میں سے کوئی دین کے لیے وقف نہ ہو اور مَیں اس کے گھر میں مہمان ٹھہروں۔ اسی طرح میں نے ان سے بھی کہا ہے کہ مَیں محض وقف پر خوش نہیںجب تک تم ویسا ہی ماحول پیدا نہ کرو۔ کیونکہ میرے نزدیک اگر کوئی شخص اپنے آپ کو وقف تو کردیتا ہے مگر وہ ماحول پیدا نہیں کرتا جو وقف کے لیے ضروری ہے تو وہ دین سے تمسخر کرتاہے۔ اگرچہ اس نے کتنی ہی نیک نیتی اور اخلاص سے اپنے آپ کو وقف کیاہو۔ میری ایک لڑکی امۃ القیوم جو بیاہی گئی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہارا خاوند انگریزوں کا نوکر ہے اور میری طبیعت پر یہ امر سخت گراں گزرتاہے کہ میں تمہارے ہاں سے کھانا کھائوں۔ اس پر وہ کہنے لگی کہ اس میں میرا کیا قصور ہے آپ نے ہی ان سے شادی کی ہے۔ میں نے کہا یہ صحیح ہے مگر کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ یہ سزا مجھے نہیں ملے گی۔ یقینا میرے جذبات کو جو ٹھیس پہنچے گی وہ میرے لیے کافی سزا ہوگی۔ وہ کہنے لگی پھر اس کے ازالہ کی بھی کوئی صورت ہے۔ میں نے کہا ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تم اپنی زندگی اس رنگ میں وقف کردو کہ تم اپنے دل میںیہ پختہ عہد کرلو کہ تم اپنے خاوندکے عہدہ کی وجہ سے غریبوں کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھو گی بلکہ غریب احمدی عورتوں سے مل جُل کر رہو گی اس پر اس نے کہا کہ میں نے اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف کردیاہے تب میں نے اس کے ہاں سے کھانا کھایا۔
غرض میں تو اپنے خاندان بالخصوص اپنی اولاد کے متعلق یہ کسی صورت میں برداشت نہیںکرسکتا کہ آج جبکہ اسلام کو ان کی جانوں کی ضرورت ہے وہ اسلام کی خدمت چھوڑ کر نوکریاں کرتے پھریں مجھے اس میں صاف غدّاری نظر آتی ہے کہ ایسے زمانہ میں جب کہ اسلام کو ہماری خدمات کی ضرورت ہے ہم اور کاموں میںلگ جائیں اور اسلام کے لیے اپنے آپ کو وقف نہ کریں۔
اب میں کچھ چندہ تحریک جدید کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ میںنے پچھلے چندسالوں سے جماعت کے سامنے یہ تحریک پیش کی ہے اور جماعت نے اس تحریک میں جس شان کے ساتھ حصّہ لیاہے اسے احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میںلکھا جائے گا۔ بیسیوں خوابوں اور الہامات سے یہ امرظاہر ہوتاہے کہ یہ تحریک اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت ہی مقبول ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ کا ایک کشف بھی جس میں آپؑ کو پانچ ہزار سپاہی دیئے جانے کا وعدہ کیاگیا ہے اس تحریک پر چسپاں ہوتاہے۔کیونکہ اس تحریک میں حصہ لینے والوں کی تعداد ہمیشہ پانچ ہزار کے ارد گردچکر لگاتی رہی ہے۔ حالانکہ ہوسکتاتھا کہ اس تحریک میں حصّہ لینے والے پانچ ہزار سے بڑھ جائیں اور یہ بھی ہوسکتاتھا کہ حصہ لینے والے پانچ ہزار سے کم رہیں مگر اس تحریک میں حصہ لینے والوں کا اس تعداد کے قریب قریب رہنا بتاتاہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو کشفی حالت میںجن پانچ ہزار سپاہیوں کے ملنے کی بشارت دی گئی تھی وہ یہی لوگ ہیں جوتحریک جدید میںحصہ لے رہے ہیں۔ میری نیت یہ ہے کہ اس روپیہ سے مستقل رنگ میں ایسی جائیداد پیدا کی جائے جو ہمیشہ اشاعتِ اسلام کے کام آسکے اور اس طرح اس تحریک میں حصہ لینے والوں کو صدقہ جاریہ کے رنگ میںان کی وفات کے بعد بھی ثواب ملتارہے۔لیکن اس کے علاوہ میرا یہ بھی ارادہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا کرنے والاہے کہ تحریک جدید کے اس فنڈ سے پانچ ہزار ّمبلغ تیار کئے جائیں۔گویا ہر چندہ دینے والے کے نام ہر ایک ایک مبلغ دنیا میں ہمیشہ تبلغ کرتارہے گا۔ خواہ اس نے کم چندہ دیا ہو یا زیادہ اور دنیا میںہمیشہ اس بات کا اعلان ہوتارہے گا کہ فلاں ّمبلغ فلاں چندہ دہندہ کی طرف سے اعلائے کلمۂ اسلام میں مشغول ہے۔ اس طرح دنیا میں تبلیغ اسلام بھی وسیع پیمانہ پرہوتی رہے گی اور صدقہ جاریہ کے طورپر اس تحریک میں حصہ لینے والوں کو ثواب بھی ملتا رہے گا اور ان کانام دنیا میںروشن رہے گا۔
اب میں نے چھٹے سال کی تحریک کا اعلان کیاہے۔ بارش کی کمی کی وجہ سے آج کل لوگوں کو سخت دقت ہے اور شاید اللہ تعالیٰ نے ہمارے جلسہ کی وجہ سے ہی بارش کو روکا ہوا ہو اور جلسہ گزرنے کے بعد بارش نازل ہوجائے۔ لیکن اجناس کی قیمتیں خداتعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ گئی ہیں کہ آج سے پہلے اتنی قیمتیں کبھی نہیں بڑھیں۔ پس وہ زمیندار احباب جنہوں نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا انہیں چاہئیے کہ وہ اس موقع کو غنیمت سمجھیں اور جس قدر جلد ہوسکے اس تحریک میں حصہ لیں کیونکہ نہ معلوم یہ موقع پھر انہیں نصیب ہو یا نہ ہو۔
میں اس موقع پر تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف بھی احبابِ جماعت کو توجہ دلانا چاہتاہوں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اس طرف جماعت کے دوستوں کی توجہ بہت کم ہے۔ حالانکہ میرے نزدیک یہ تمام کاموں میں سے سب سے کم قربانی چاہتا ہے اور اس میں ثواب بہت زیادہ ہے۔ اس روپیہ سے جس رنگ میں کام لیاگیاہے وہ احمدیت کے لیے بہت بڑی ترقی اور سلسلہ کی عظمت کا موجب ہوا۔ اگر آئندہ بھی ہماری جماعت کے دوست اس فنڈ میں باقاعدہ روپیہ جمع کراتے رہیں تو اس سے اور زیادہ مفید کام لیے جاسکتے ہیں۔ درحقیقت احراری تحریک کو توڑنے اور اسے ناکام رکھنے میں جن کاموں سے ہمیں مدد ملی ہے ان میں سے ایک امانت فنڈ بھی ہے مگر میں دیکھتا ہوں۔ دوستوں نے پہلے تین سال تو اس طرف توجہ رکھی مگر س کے بعد ان کی توجہ میں کمی آنی شروع ہوگئی حالانکہ کچھ نہ کچھ روپیہ پس انداز کرنا اقتصادی حالت کی درستی کے لیے نہایت ضروری ہوا کرتاہے۔ اسی طرح امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت یکمشت ایک کافی رقم انسان کو مل سکتی ہے۔ مگر بعض دوستوں نے بات کو صحیح رنگ میں نہیں سمجھا اور انہوں نے دو دو چار چار ماہ کچھ روپیہ جمع کرنے کے بعد یہ تقاضا کرنا شروع کردیاہے کہ روپیہ انہیں واپس کیا جائے۔ حالانکہ یہ امانت اس رنگ میں نہیں کہ جب بھی کوئی مانگے گااسے واپس دے دی جائے گی بلکہ یہ مؤقت ہے دوسال یا تین سال یا چار سال یا پانچ سال یا چھ سال یا سات سال کے لیے۔
پس لوگوں کی امانت انہیں اسی صورت میں واپس مل سکتی ہے جب یا تو ان کی میعاد ختم ہوجائے یا خدانخواستہ ان کی وفات ہوجائے اور ان کے بیوی بچوں کو روپیہ کی ضرورت ہو یا کوئی اور اچانک حادثہ پیش آجائے اور اس کے لیے وہ کسی اور جگہ سے قرض کا انتظام نہ کرسکیں تو درخواست کرنے پر ان کاجمع شدہ روپیہ واپس کیاجاسکتا ہے۔ لیکن ان استثنائی صورتوں سے دوست فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو تین چار ماہ کچھ رقم جمع کرنے کے بعد اس کی واپسی کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں۔
پس دوستوں کو چاہئیے کہ وہ اس کی طرف توجہ کریں اور اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھیں۔ میں اس فنڈ کی تفصیلات کو بیان نہیں کرسکتا کیونکہ اس کابیان کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔ صرف اس قدر کہنا چاہتاہوں کہ سلسلہ کے لیے یہ فنڈ بہت مفید ثابت ہوا ہے اس لیے دوستوں کو چاہئیے کہ اس میں حصہ لیں۔
ابتدائی تین سال تحریک کے نتیجہ میں جو روپیہ بطور امانت جمع ہوا تھا میں سے بہت سا روپیہ ادا ہوچکاہے اور جو ادا نہیں ہوا وہ اس وجہ سے نہیں ہوا کہ روپیہ میں نے دیا نہیں بلکہ اس لیے ادا نہیں ہوا کہ وہ روپیہ ہم سے کسی نے مانگا نہیں۔ اب جو روپیہ دوستوں کا ہمارے پاس جمع ہے وہ جائز ضرورت پر ہم سے لیا جاسکتا ہے۔ ہمارے پس اس فنڈ میں ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ جمع ہوا تھا جس میں سے صرف پندرہ بیس ہزار روپیہ ہمارے ذمہ رہ گیاہے باقی سب دوستوں کو ادا کیا جاچکاہے۔ لیکن آئندہ کے لیے دوستوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی امانتوں کو تین یاچار یا پانچ یا چھ یا سات سال کے لیے مؤقّت کریں اور اس سے پہلے روپیہ نہ مانگیں سوائے ان استثنائی صورتوں کے جن کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔
ہماری جماعت میں بیسیوں ایسے دوست ہیںجنہوں نے اس فنڈ میں روپیہ جمع کرنے کی وجہ سے قادیان میں اپنے مکان بنالیے اور وہ اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر وہ اس رنگ میں آہستہ آہستہ روپیہ جمع کرتے تو ان کے لیے مکان بنانا نا ممکن ہوتا۔ پس دوستوں کو اس فنڈ کی طرف توجہ کرنی چاہئیے اور اس بارے میںکسی قسم کے تساہل سے کام نہیںلینا چاہئیے۔ ایک تحریک میں نے یہ کی تھی کہ جماعت کی ترقی کا ایک البم تیار کیاجائے۔ سو اس کے مطابق احمدیت کی پچیس سالہ ترقی کی تصویری تاریخ کا تمام سامان جمع کرکے دردؔصاحب کے سپرد کردیا گیا تھا وہ لاہور گئے اور سول اینڈ ملٹری گزٹ والوں سے ملے انہوں نے گیارہ سو روپیہ خرچ کا اندازہ بتلایا۔ اسی دوران میں وہ ایک فرم والوں کے پاس چلے گئے اور انہوں نے ساڑھے دس سو خرچ بتلایا۔ چنانچہ وہ پچاس روپیہ کی کمی کی وجہ سے انہیں روپیہ دے کر آگئے۔ میں نے تاکید کی تھی کہ جلسہ سالانہ سے پہلے یہ البم تیار ہوجانا چاہئیے مگر اب تک تیار ہوکر لاہور سے نہیں آیا۔ یہ دردؔصاحب کی غفلت کا نتیجہ ہے ورنہ اب تک وہ ضرور آجاتا۔
میں نے ایک او ر اہم معاملہ کی طرف بھی گذشتہ سال جماعت کو توجہ دلائی تھی او ر وہ اسلامی ہجری شمسی سن کا معاملہ ہے۔ اسلامی تاریخ میںآج تک ہجری قمری سے ہی کام لیا گیاہے۔ حالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ہجری قمری اور ہجری شمسی دونوں کو خداتعالیٰ نے حساب کے لیے مقرر کیاہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے سورج بھی تمہارے فائدہ کے لیے بنایا اور چاند کو بھی تمہارے فائدہ کے لیے بنایا۔ اب اگر سورج نکلے اور کوئی شخص آنکھیں بند کرکے بیٹھ رہے تو اس کا نقصان سورج کو تو کیا ہوگا اس کی ذات کو ہوگا۔ پس یہ ایک شرعی مسئلہ تھا مگر افسوس ہے کہ آج تک نہ پہلے مسلمانوں نے اس طرف توجہ کی اور نہ ہم ہی توجہ کرسکے۔ اب اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیر دی اور میں دیکھتا ہوں کہ ہجری شمسی سن کے نہ ہونے کے بہت بڑے نقصانات ہیںاور اس وجہ سے تاریخی واقعات پورے طور پر سمجھ نہیں آسکتے۔ کیونکہ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ واقعہ سردی میں ہوا تھا یاگرمی میں۔ مثلاً احزاب کی جنگ کے واقعات کے دوران میں تاریخوں میں آتاہے کہ رسول کریم ؐ نے ایک رات صحابہؓ کو آواز دی مگر ان میں سے کوئی نہ بولا۔مَیں تو جب بھی اس واقعہ کو پڑھاکرتا تھا دل میں غصہ آجاتاہے کہ کیسی بری بات ہے رسول کریم ؐ بلائیں اور صحابہؓ آپؐ کو جواب تک نہ دیں۔ مگر جب جغرافیہ پڑھا اور مجھے معلوم ہوا کہ ان دنوں وہاں کتنی شدیدسردی پڑا کرتی ہے تو اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ صحابہؓ کا جواب نہ دینا اس وجہ سے تھا کہ شدت سردی کی وجہ سے ان کی زبان سے آواز تک نہیں نکل سکتی تھی۔ وہ خیموں میں رہتے تھے اور سردی شدید پڑرہی تھی۔ ایسی حالت میںباوجود اس کے کہ وہ بولنا چاہتے تھے ان میں ہمت نہ تھی کہ رسول کریم ؐ کی آواز کا جواب دیں۔چنانچہ ایک صحابیؓ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس وقت بولنا توچاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں جاتا تھا۔ رسول کریمؐ نے آواز دی تو صرف ایک صحابیؓ بولا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ میں حاضر ہوں آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور بولے پھر آواز دی تو اس کے سوا پھر کسی نے جوا ب نہ دیا۔ آپؐ نے پھر فرمایا کہ تم نہیں کوئی اور بولے۔ پھر تیسری بار رسول کریمؐ نے آواز دی تو وہی صحابیؓ پھر بولا اور کہنے لگا یا رسول اللہؐ میںحاضر ہوں۔ رسول کریمؐنے فرمایا اچھا تم باہر جائو اور دیکھو کہ دشمن کا لشکر ہے یا نہیں۔ وہ آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہؐ دشمن کا لشکر تو سب بھاگ گیا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے خداتعالیٰ نے الہاماً بتادیا تھا کہ دشمن بھاگ گیاہے۔ میں نے تمہیں صرف خداتعالیٰ کے اس نشان پر شاہد بنانے کے لیے بھیجا تھا۔ میرے نزدیک اس میں ایک غرض یہ بھی تھی کہ رسول کریمؐ صحابہؓ کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ خدا ہی ہے جس نے دشمن کو بھگایا ورنہ تمہارے اندر تو زبان تک ہلانے کی طاقت نہیں تھی۔ اگر شمسی ہجری سن جاری ہوتا تو جوں ہی ہم یہ واقعہ پڑھتے فوراً ہمارے سامنے یہ بات آجاتی مثلاً دسمبر کے ایّام کی یہ بات ہے جب سخت سردی پڑا کرتی ہے اور ہم سمجھ جاتے کہ صحابہؓ رسول کریمؐ کی آواز کا جواب نہ دینے میں معذور تھے۔ اسی طرح جب ہم یہ پڑھیں کہ صحابہؓ بغیرپانی اور کھانے کے منزلوں جہاد کے لیے سفر کرتے چلے گئے تو اس امر کی اہمیت ہماری نگاہوں میں اتنی نہیںہوتی جتنی اس وقت ہوتی ہے جب معلوم ہو کہ سخت گرمی کے دن تھے مئی جون کا مہینہ تھا۔ مگر صحابہؓ ایسی شدت گرمی کی حالت میں بھی بغیر پانی کے منزلوں سفر کرتے چلے گئے تو تاریخی واقعات کی عظمت کا ہجری شمسی سن سے ہی پتہ چلتا ہے ہجری قمری سے پتہ نہیں چلتا۔میں نے اس غرض کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی تھی میرمحمداسحاق صاحب، میاں ناصراحمدصاحب، مولوی محمداسماعیل صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب اس کے ممبر تھے۔ اب انہوں نے یہ کام ختم کرلیاہے اور گو سب نے ہی اس میں حصہ لیاہے مگر درحقیقت تما م کام مولوی محمداسماعیل صاحب نے کیا ہے انہوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کام کو سرانجام دیاہے مگر چونکہ وہ مولوی ہیں اس لیے ابتداء میں مجھے اعتبار نہیں آتا تھا کہ وہ حساب میںایسی قابلیت رکھتے ہیں مگر جب بھی میں تحقیق کرتا ہمیشہ مولوی صاحب کی بات درست ثابت ہوتی۔ پس دراصل انہوںنے ہی یہ تمام کام کیاہے۔ گو کسی نہ کسی قدر مدد دوسرے دوست بھی دیتے رہے۔ اس تحقیق کے نتیجہ میں معلوم ہو اہے کہ آج کل ہجری شمسی لحاظ سے ۱۳۱۸ سن ہے اگلے سال ۱۳۱۹ہجری شمسی ہوگا۔ مہینوں کے نام کے متعلق بھی میں نے دوستوں سے مشورہ لیا۔ بعض کی یہ رائے تھی کہ رسول کریمؐ کے نام پر مہینوں کے نام ہونے چاہئیں۔ مگر میں نے کہا مجھے دونوں طریق پسند نہیں میں چاہتاہوں کہ واقعات کے لحاظ سے مہینوں کے نام رکھیں جائیں۔ مثلاً جنوری کا نام میںنے صلح رکھاہے کیونکہ اس مہینہ میںکفّار کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر صلح ہوئی تھی۔ فروری کانام تبلیغ رکھا کیونکہ رسول کریمؐ نے اس مہینہ میں بادشاہوں کی طرف تبلیغی خطوط لکھے اور انہیںاسلام کی دعوت دی تھی۔ مارچ کانام میں امان رکھا ہے کیونکہ اس مہینہ میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول کریمؐ نے اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانوں مالوں اور عزت وآبرو کو ویسی ہی حُرمت بخشی ہے جیسی اس نے حج کے دن حج کے مہینہ اور حج کے مقام کو۔
اس طرح دسمبر کانام میں نے فتح رکھاہے کیونکہ رسول کریمؐ نے اس مہینہ میں لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم کہہ کر کفّار مکّہ کی عام معافی کا اعلان فرمایا تھا۔ غرض اس طرح تمام مہینوں کے نام رکھے گئے ہیں۔ یہ کیلنڈر انشاء اللہ جلدی چھپ جائے گا۔
اس کے بعد اس عہد کو لیتاہوں جو جماعت نے ایک گذشتہ جلسہ سالانہ پر کیا تھا۔ اور وہ عورتوں کو ورثہ دینے کے متعلق عہدہے۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ یہ عہد آپ نے کس شان کے ساتھ کیا تھا اور اسی مقام پر کھڑے ہوکر آپ سب نے یہ اقرار کیا تھا کہ آپ لڑکیوں اور عورتوں کو ورثہ دیا کریں گے اب اس عہد پر دوسال گزر چکے ہیں اور آپ لوگوں میں سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس نے اس عہد پر کہاںتک عمل کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض زمینداروں نے نہایت شاندار نمونہ دکھایا ہے۔ چنانچہ بعض نے اپنی جائدادیں بیچ کرلڑکیوں کو ان کے ورثے کا حق دے دیا۔اس خیال سے کہ نہ معلوم ان کی وفات کے بعد کوئی لڑکیوں کو ان کے ورثے کا حق دے یانہ دے۔ جائداد بیچ کر ورثہ دینا ایک بہت بڑی قربانی ہے۔مگر یہ تعداد اتنی قلیل ہے کہ میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ لاکھوں کی جماعت میں اتنے ہی لوگوں نے اس پر عمل کیاہو۔ پس یا توانہوں نے مجھے اطلاع نہیں دی یا اس لحاظ سے ایک خوبی کی بات ہے کہ انہوں نے ایک نیکی کا کام کرکے اس کو چھپا لیا اور یہ واپس جاکر یہ پتہ لگائیں کہ کون کون سے احمدی فوت ہوچکے ہیں اور ان کے بعد ان کی عورتوں اور لڑکیوں کوورثہ ملاہے یا نہیں۔ اگر ملا ہو تو مجھے یہ خوشخبری پہنچا دیں۔اس طرح جن دوستوں کی طرف سے باوجود موقع ملنے کے اس پر عمل نہیں ہوا ان کی لسٹ بھی مجھے بھجوا دی جائے تاکہ آئندہ سال میں اس بارہ میں کوئی یقینی علم پیش کرسکوں کہ جماعت میں اس پرعمل شروع ہوگیاہے یا نہیں۔



افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۰ء





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۰ء
( فرمودہ ۲۶ دسمبر۱۹۴۰ء بمقام قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
سب تعریف اللہ ہی کی ہے کہ جس نے آج سے ۵۲ سال پہلے دنیا کی اصلاح کے لئے قادیان میں ایک ایسے شخص کو اپنا پیغام دے کر بھیجا جس کی نسبت غیر تو الگ رہے اس کا اپنا باپ بھی یہ خیال کرتا تھا کہ یہ لڑکا نکمّا اور ناکارہ ہے اور اس کا خیال تھا کہ جہاں میرا بڑا بیٹا میرے کام کو جاری رکھے گا اور میرے خاندان کو قائم رکھنے کا باعث ہو گا وہاں یہ لڑکا اپنے خاندان کے نام کو بالکل مٹا دے گا۔ پھر ایک ایسی بستی میں جس کو ضلع کے لوگ بھی نہ جانتے تھے اور ایسے علاقہ میں جو کہ پنجاب میں سے جاہل ترین علاقوں میںشمار کیا جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے ایسے علاقہ میں سے اور ایسی بستی میںسے اور ایسے انسانوں میں سے کہ ان میں سے ہر ایک دُنیا کی نگاہ میں حقیر سمجھا جاتا تھا ایک انسان کو ُچنا اور اسے فرمایا۔ اُٹھ اوردنیا کو میرے نام سے باخبر کر، لوگ میرے نام کو بھول چکے ہیں، دُنیا میں بسنے والے اس کام کی ذمہ داری کو فراموش کر چکے ہیں جو میری طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی، لوگوں نے دین کو بالکل ُبھلا دیا ہے، مذہب کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور حق وصداقت کو پھینک دیا ہے۔ ُتو اُٹھ اور ان کو پیغام پہنچا یہ مت خیال کر کہ ُتو اکیلا اور تنہا ہے، ۔ُتو یہ مت خیال کر کہ تیرا کوئی ساتھی اور مددگار نہیں ہے ۔ فرمایاہم تمہارے ساتھ ہیں۔اور یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔۱؎ ہم ضرور ایسے آدمی مقرر کریں گے جو تیری مدد کے لئے کھڑ ے ہوں گے اور ہم ان کے دلوں پر وحی نازل کریں گے۔ خداتعالیٰ نے جب اپنا یہ پیغام نازل کیا اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے انسان دُنیا میں سے میسّر آ جائیں گے اور کون یقین کر سکتا تھا کہ وہ خدا جسے مختلف مذاہب کی کتابیں پیش کرتی ہیں وہ اب بھی انسانوں کے دلوںپر وحی نازل کر سکتا ہے اور وحی نازل کر کے لوگوں کو اسے ماننے پرمجبور کر سکتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ نے اُس وقت بتایا کہ میں ایسے آدمی کھڑے کروں گا اور پھر ایسا ہی کر کے دِکھا بھی دیا۔ کتنے ہی ہم میں سے ہیں جنہوں نے اس پیغام کو سُنا اور ان کے نفوس نے اسے تسلیم کرنے سے انکا ر کر دیا لیکن آخر اللہ تعالیٰ انہیں راہِ راست پر لے آیا اور ایک دن انہیں اقرار کرنا پڑا کہ وہ غلطی پر تھے اور قادیان میں پیدا ہونے والا مأمور سچا ہے۔ پھر کتنے ہی ہم میںسے ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے احمدی گھرانوں میں پیدا کیا اور اِس بات کی توفیق دی کہ وہ احمدیت کامطالعہ کریں اور عقل وفکر سے کام لیں اور ان پر خدا تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت کھول دی۔ اس طرح وہ اس لئے احمدی نہ ہوئے کہ ان کے ماںباپ احمدی تھے بلکہ اس لئے ہوئے کہ ان کے دل نے احمدیت کی صداقت کی گواہی دی، ان کے مشاہدات نے گواہی دی۔ پس سارے کے سارے جو احمدیت میں داخل ہوئے وہ یا تو باہر سے آئے یا پھر احمدی گھرانوں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تحقیق کر کے اور جستجو کے بعد احمدیت کو قبول کیا نہ کہ ورثہ کے طور پر۔ یہ سارے کے سارے ایسے ہی لوگ ہیں جن کے متعلق خداتعالیٰ نے فرمایا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِکہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جنہیں وحی کے ذریعہ تحریک کریںگے کہ وہ اِس نبی کی مدد کریں۔
سو آج اس بیابان میںجمع ہونے والے تمام لوگ ایسے ہی ہیں جو خداتعالیٰ کی اس وحی کی صداقت کی ایک علامت ہیں۔ لوگ کہتے ہیں مرزا صاحب کی صداقت اور سچائی کی کیا دلیل ہے؟ آج ہم انہیں ایک دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے فرمایا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ اُس وقت جب کہ آپ کا کوئی نام بھی نہ جانتا تھا خداتعالیٰ نے آپ کو بتا یا کہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جو تمہاری مدد کریں گے۔ آج یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اِس الہام کے پُورا ہونے کا ثبوت ہے جس میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا تھا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ۔ یہ کتنے نشانات ہیں صرف اِس جلسہ میں ہی بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھو، عورتوں اور مردوں کے جلسہ میں آج شامل ہونے والوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب ہو گی اور اگر صرف رِجَال کو ہی لیا جائے تو آج ان کی تعداد ۱۵،۱۶ ہزار ہو گی۔ پھر جلسہ کے آخر تک اس تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ۲۰ ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ایک بیج بویا اور اُسے اِس قدر بڑھایا ہمارا فرض ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے اِس احسان کی قدر کریں کہ اُس نے ہمارے دلوں کو مہبطِ وحی بنایا۔خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک کو وحی کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کے لئے کھڑا کریں گے۔ پس آپ لوگوں میںسے ہر ایک صاحبِ وحی ہے ۔ اگر کسی کو کبھی الہام نہ ہؤا ہو اگرچہ اکثر لوگ ایسے ہیں جن کو الہام ہوتے رہتے ہیں تو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہ الہام بتاتا ہے کہ ہر احمدی کو الہام ہؤا۔ چاہے وحیِ خفی ہو یا وحیِ جلی۔ وحیِ خفی دماغ پر نازل ہوتی ہے پس کوئی احمدی نہیں جو صاحبِ وحی نہ ہو اور جب ہر احمدی صاحبِ وحی ہے تو ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی عظمت او رشوکت دنیا پر ظاہر کرے ۔
پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہؤا مَیں جماعت کے لوگوں کو ان کی عام ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ ایام خشیتُ اللہ کے اور خداتعالیٰ کے خاص فضلوں کے ہیں پس جو لوگ اِن ایام میں یہاں آئے ہیں وہ جہاں آپس میں ملاقاتیں کریں ، دُنیوی کام سرانجام دیں، وہاں ساتھ ہی خداتعالیٰ کو زیادہ یاد کریں، زیادہ دعائیں کریں، زیادہ توجہ سے نمازیں پڑھیں۔ دیکھو! جب بارش ہوتی ہے تو زمیندار اپنے کھیتوں کی مینڈیں درست کرنا شروع کر دیتا ہے تا کہ کھیتوں میںپانی بھر لے نہ کہ گھر میں بیٹھا رہتا ہے۔ یہ ایام خداتعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے دن ہیں۔ پس خداتعالیٰ کی رحمت کے پانی سے اپنے سینوں کو بھر لو تا کہ سال بھر تمہارے کام آئے اور جب تک پھر تمہیں یہاں آنے کا موقع ملے اُس وقت تک تمہارے دلوں کی کھیتی ُسوکھے نہیں۔ پس ان ایام میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو، زیادہ سے زیادہ عبادت کرو اور زیادہ سے زیادہ اپنے قلوب میں خشیتُ اللہ پیدا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے سال تم میںسے کسی کو ایسی ضروریات اور مشکلات پیش آ جائیں جن کا علاج اُس کے پاس نہ ہو اور وہ سالانہ جلسہ میںشریک نہ ہو سکے۔ یا دوران سال میں ہی کوئی شیطان اس قسم کا وسوسہ ڈال دے جس کے ازالہ کے لئے اس جلسہ میں کوئی بات نہیں کہی گئی لیکن اگر ان ایام میں تم خصوصیت سے تہجد پڑھو گے، دعائیں کرو گے اور نمازیں ادا کرو گے تو اول تو اللہ تعالیٰ تقریریں کرنے والوں کی زبان پر ایسے الفاظ نازل کرے گا جو سارے سال تمہارے کا م آئیں گے۔ یا پھر آپ کے دل میںایسا چشمہ جاری کر دیگا جو سارا سال تمہارے ایمان کو تازہ رکھے گا اور کسی شیطان کی وسوسہ اندازی کچھ اثر نہ کرے گی۔
پھر اِن ایام کانہایت اہم کام جلسہ کی تقریروں کا سننا ہے مگر کئی دوست اُس وقت جب کہ تقریریں ہو رہی ہوتی ہیں اِدھر اُدھر پِھرتے اور وقت ضائع کرتے ہیں۔ میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں اور زیادہ سے زیادہ جلسہ سے فائدہ اُٹھائیں۔ خود بھی تقریریں سُنیں اور اپنے دوستوں کو بھی سننے کے لئے کہیں ۔
میں اِس موقع پر ّمبلغین اور علماء کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اپنی تقریروں میں اخلاص اور ہمدردی کو مدنظر رکھیں۔ کوئی ُچبھتا ہؤا یا سخت لفظ استعمال نہ کریں۔ بے شک اعتراضات کے جواب دیئے جائیںمگر جواب اپنے اندر اخلاص اور محبت رکھتا ہو۔ ایسے درد اور خیر خواہی کے ساتھ ہو کہ معترض بھی اسے محسوس کرے اور اگر کوئی سخت سے سخت دل ہو تو بھی صداقت کی گرمی سے متأثر ہو کرحق قبول کر لے۔
اِس کے بعد مَیں دعا کرتاہوں۔ آئو ہم سب مل کر دعا کر یں کہ خداتعالیٰ پہلے جلسوں سے زیادہ اس جلسہ سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے۔ پہلے اگر کچھ زنگ ہمارے دلوں پر باقی رہ گیا ہے تو اَب ہمارے قلوب کو صاف کر دے، ہمیں اپنے چنیدہ بندوں میںشامل کرے، اپنی اطاعت اور فرمانبرداری میں آگے ہی آگے بڑھنے، تیز سے تیز قدم اُٹھانے اور بڑی سے بڑی برکتیں حاصل کرنے کا مستحق بنائے، ہماری اولادوں کو سلسلہ کے وقار کو قائم رکھنے کے قابل بنائے انہیں ہر قسم کے فتنہ اور شرسے بچائے ۔ پھر نہ صرف اپنے لئے، نہ صرف اپنے خاندان کے لئے، نہ صرف جماعت احمدیہ کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے مفید بنائے وہ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ ہتھیار ثابت ہوں۔ پھر نہ صرف ہمیں اور ہماری اولاد کو بلکہ ایک لمبے سلسلہ کو ایسے پاک مظاہر بنائے کہ وہ دینِ اسلام اور احمدیت کے لئے عزت اور وقار کا موجب بنیں اور خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہوں۔آمین۔
‎(الفضل ۳۱ ؍دسمبر۱۹۴۰ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ ۵۰ ۔ایڈیشن چہارم




مستورات سے خطاب
(۱۹۴۰ء)





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
( فرمودہ ۲۷ دسمبر۱۹۴۰ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
عورتوں کے متعلق ایک مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اُسے رات دن عورتوں کے کان میںڈالا جائے او رصبح و شام اُ ن کو اور مردوں کو اس کی اہمیت بتائی جائے تو بھی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ کوشش تھوڑی ہو گی کیونکہ یہ مرض جس کی طرف مَیں اشارہ کر رہا ہوں ہزاروں سال سے دُنیا میںچلا آتا ہے اور جو مرض ہزاروں سال سے چلا آئے اُ س کا ازالہ ایک دفعہ کہنے سے نہیں ہو سکتا۔ مردوں اور عورتوں دونوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتیں مردوں سے علیحدہ چیزہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی ذمہ داریاں جو اُن پر عائد ہوتی ہیں اُن کی طرف یا تو وہ توجہ نہیں دیتیں یا اُن کو وہ اہمیت نہیں دیتیں جو دینی چاہئے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کی اہمیت کو جتنا بھی ظاہر کیا جائے اُتنا ہی ان کے لئے فائدہ مند ہے ۔ مَیں نے دیکھا ہے یہ خیال اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ مرد یہ خیال کرتے ہیں کہ عورتیں کوئی الگ چیز ہیںاور عورتیں بھی اپنے آپ کو اُن سے علیحدہ چیزخیال کرتی ہیں۔
عورتیں ہمیشہ آدمی کے معنے مرد لیتی ہیں۔ اگر کسی مجلس میں مرد بیٹھے ہوں اور عورتوں سے پوچھا جائے کہ وہاں کون ہیں؟ تو جواب دیتی ہیں کہ آدمی بیٹھے ہیں حالانکہ آدمی کا مطلب انسانوں سے ہے اور جس طرح آدم کی اولاد مرد ہیں اسی طرح عورتیں۔ پھر جب عورتیں بیٹھی ہوں تو مرد کہہ دیتے ہیں کہ کوئی آدمی اندر نہ آئے وہاں عورتیں بیٹھی ہیں اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ دونسلیں ہیں۔ ایک آدم کی دوسری شیطان کی۔ جب مرد اپنے آپ کو آدم کی اور عورتوں کو شیطان کی ذرّیت قرار دیں گے تو وہ کیسے ترقی کر سکیں گی۔ یہ خیال اِتنا غالب آ گیا ہے کہ جب بھی پڑھی لکھی عورت خواہ وہ گریجوایٹ ہو یا مولوی، مردوں کا ذکر کرے گی تو آدمی کہہ کر کرے گی حالانکہ خداتعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میںانسانیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔ یٰٓـاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۱؎ فرمایا اے مردو اور عورتو! ہم تمہیں ایک بات بتاتے ہیں اِسے یاد رکھو۔ تم پرکئی دفعہ مصیبتیں آتی ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت کا بچہ بیمار ہوتا ہے کبھی خاوند، کبھی قرضہ ہو جاتا ہے، کبھی محلے والے دشمن ہو جاتے ہیں، کبھی تجارتوں میں نقصان ہو جاتا ہے، کبھی کوئی مقدمہ ہو جاتا ہے اُس وقت تمہیں بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے تم اِدھر اُدھر پھرتے ہو کہ کوئی پناہ مل جائے۔کوئی دوست تلاش کرتا ہے، کوئی وکیل تلاش کرتا ہے، کوئی رشتہ دار کے پاس جاتا ہے فرماتا ہے اتنی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہو؟ہم تمہیں ایک آسان راستہ بتاتے ہیں وہ یہ کہ اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ ۔ تم اس تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو ڈھال کیوں نہیں بنالیتے۔ چھوٹے بچے میں سمجھ نہیں ہوتی لیکن اس پر بھی جب مصیبت آئے تو سیدھا ماں کی طرف بھاگتا ہے۔ مگر بڑے آدمیوں کو دیکھو کوئی مشرق کی طرف جائے گا کوئی مغرب کی طرف، کوئی جنوب کی طرف اور کوئی شمال کی طرف اور ان میں یہ پراگندگی پائی جائے گی۔ تو فرمایا کہ اے انسان! ُتو بچپن میں سمجھ نہیں رکھتا تھا ُتو ماں کی طرف بھاگتا تھا۔ اب تو ُتو جوان ہو گیا ہے اب اُس خدا کی طرف کیوں نہیں بھاگتا جس نے تجھ کو پیدا کیا۔بچپن میں تمہیں خدا کی سمجھ نہیں تھی اب تو تم بڑے ہو گئے ہو تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری ماں تو تمہاری حفاظت کر سکتی تھی مگر خدا نہیں کر سکتا۔
اِتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْاِن مصیبتوں کے وقت اپنے رب کو ڈھال بنا لیا کرو۔ اُس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا۔ ایک جان سے مراد مرد اور عورت کا مجموعہ ہے بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ یہاں آدم اور ّحوا مراد ہیں کیونکہ آدم کی پسلی سے ّحوا پیدا ہو گئی۔ اگر آدم کی پسلی سے ّحوا پیدا ہو گئی تھی تو عورت کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت تھی۔ ہمیشہ مرد کی پسلی سے بچہ پیدا ہو جاتا۔ تو نَفْسِ وَاحِدَہ سے مراد یہ ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی چیز ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ۔۲؎ اے موسیٰ! ہم ایک کھانے پر کفایت نہیں کر سکتے۔ حالانکہ وہ منّ اور سلوٰی دو کھانے کھاتے تھے لیکن چونکہ دونوں کو ملا کر کھاتے تھے اس لئے انہوں نے ایسا کہا۔
ماںکو بچے سے محبت ہوتی ہے مگر وہ پسلی میںسے پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر نر ومادہ میںمحبت ہوتی ہے۔سارس ایک جانور ہے اُن میں اِس قدر محبت ہوتی ہے کہ اگر نر یا مادہ مرجائے تو دوسرا بُھوکا رہ کر مر جاتا ہے تو محبت کا مادہ اللہ تعالیٰ نے فطرت میں رکھا ہے جس طرح نر اور مادہ میں اس نے محبت رکھی ہے اسی طرح مرد اور عورت میں رکھی ہے۔ پس خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت نَفْسِ وَاحِدَہ ہیں۔جس طرح ّمن وسلویٰ طعامِ واحد ہے اسی طرح مرد اور عورت نَفْسِ وَاحِدَہ ہیں۔ وَخَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَا۔ اور اِس کی جِنس میں سے ہی جوڑا بنایا۔ مرد کی َجنس عورت ہے اور عورت کی َجنس مرد مِنْھَا سے مراد مِنْ نَّـفْسِھَا ہے۔ عورت کا زوج مرد اور مرد کا زوج عورت ہے۔ مرد عورت کی قسم سے اور عورت مرد کی قسم سے ہے۔ اس آیت میںیہ بتایا کہ عورت کے زوج کا لفظ مرد کے لئے بولا جاتا ہے اور مرد کے زوج کا لفظ عورت کے لئے بولا جاتا ہے۔جیسے کہتے ہیں کہ ُجوتی کا جوڑا۔ ایک پائوں ہو توکہتے ہیں اس کا دوسرا جوڑا کہاں ہے وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا۔ پھر ہر مرد اور عورت کی آگے نسل چلائی۔ وَاتَّـقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے ذریعے تم سوال کرتے ہو اور تقویٰ اختیار کرو اُس خدا کا جس نے تمہارے اندر محبت پیدا کی اور تمہاری اولاد کا سلسلہ جاری کیا۔ بے شک تم اپنے ماں باپ کا بھی خیال رکھو مگر خدا کو کبھی نہ بھُولو کیونکہ ماں باپ نے تو تم کو عارضی زندگی دی لیکن خدا نے تم کو دائمی زندگی دی۔ اسی طرح بے شک رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو لیکن جس کا تعلق تمہارے ساتھ سب سے زیادہ ہے یعنی خدا ، اُس کا بھی خیال رکھو۔ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ جس طرح ماں بچے کی نگران ہوتی ہے اسی طرح خداتمہارا نگران ہے۔
پس یہ خیال غلط ہے کہ مرد کوئی اور چیز ہے اور عورت کوئی اور چیز ہے ۔ جیسے مرد انسان ہے ویسے ہی عورت انسان ہے۔ہاں کاموںمیںفرق ہے۔ عورت بچہ جنتی ہے، بچے کی پرورش کرتی ہے، مرد روزی کماتا ہے اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ یہ کاموں کا جو فرق ہے اس سے میرے دل میںکبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بھی کوئی ایسی چیزہے جو عورت کے درجہ کو کم کرنے والی ہے۔ کاموں کے فرق مردوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ میں خلیفہ ہوں لیکن ہر مرد تو خلیفہ نہیں اور نہ میرے خلیفہ ہونے سے باقی احمدی مرد ہونے سے خارج ہو گئے۔ کاموں کے فرق کی وجہ سے کوئی جِنس بدل جاتی ہے؟
عام طور پر خاندانوں میںکوئی بچہ کلرک، کوئی مدرّس اور کوئی پٹواری ہوتا ہے اور باپ کا کام اور ہوتا ہے بیٹے کا اور۔ اور پٹواری بھی مرد کہلاتا ہے ،ڈاکٹر بھی مرد کہلاتا ہے، تجارت کرنے والا بھی مرد کہلاتا ہے اسی طرح عورتوں میںدھوبن ، نائن ہوتی ہے۔ اب دھوبن بھی عورت ہے اور نائن بھی عورت۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ دھوبن اور نائن ہونے سے وہ عورت نہیں رہتیں۔ اسی طرح ایک نوکر ہوتا ہے ایک آقا۔ تو کاموں کے فرق کی وجہ سے جنس نہیں بدلتی۔ مردوں کے پیشوں میں بھی فرق ہے اور عورتوں کے کاموں میں بھی فرق ہے۔ وہ دونوں آدمی ہیں صرف کام الگ الگ ہیں۔
یہ مسئلہ اگر عورتیں سمجھ لیں تو وہ اپنے حقوق کی خود ہی حفاظت کرنے لگ جائیں۔ اگر ان کو یہ خیال ہو کہ ہم بھی آدمی ہیں اور مرد بھی انہیں آدمی سمجھنے لگ جائیں تو کسی کی طرف سے ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ ہوں۔ اس میںکوئی شبہ نہیں کہ کاموں کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں فرق ہے لیکن خدا تعالیٰ نے عقائد میںکوئی فرق نہیں رکھا۔ سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ اُعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَاتُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئاً۔۳؎ خدا تعالیٰ پر ایمان لائو اور اس کاکوئی شریک نہ ٹھہرائو۔ اب کیا مردوں کو یہ حکم ہے عورتوں کو نہیں؟ اسی طرح ملائکہ پر ایمان لانا ہے جس طرح مردوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لائو اسی طرح عورتوں سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں پر ایمان لائو۔ تیسری بات الہام یعنی اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا ہے۔ نبیوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اے مردو! یہ کام کرو بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ اے مردو اور اے عورتو! یہ کام کرو۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب تشریف لائے تو آپؐ نے بھی یہی فرمایا کہ اے مردو اور عورتو! یہ کام کرو۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھیں۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہلی مرتبہ الہام ہؤا تو آپؐ بہت گھبرائے اور اُمّ الْمؤمنین حضرت خدیجہؓ سے گھبراتے ہوئے کہا کہ مَیں یہ کام کس طرح کروں گا مجھے تو سخت فکر لگ گیا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے جواب دیا کَلَّا وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا۔ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ آپؐ کے سپرد اِتنا بڑا کام کرے اور پھر آپؐ کو رُسوا کر دے۔ آپ مہمان نواز ہیں،رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں وہ ضرورآپؐ کی مدد کرے گا۔۴؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ایک عورت ہی تھی۔غرض انبیاء جب کبھی کلامِ الٰہی لے کر آتے ہیںتو اُن کے مخاطب عورتیں اور مرد یکساں ہوتے ہیں۔
اسی طرح قضاء وقدر کے مسائل ہیں ان میں بھی مرد اور عورت یکساں مخاطب ہوتے ہیں۔ جزاء وسزا پرایمان لانا بھی جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے ضروری ہے۔ غرض عقیدوں کو دیکھ لو ایک عقیدہ بھی ایسا نہیں جو مردوں کے لئے ہو اور عورتوں کے لئے نہ ہو۔
اِس کے بعد ہم عمل کی طرف آتے ہیںتو ہمیں عمل میں بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ مثلاً عمل میں نماز کا حکم ہے۔ نماز کاحکم جیسا مردوں کے لئے ہے ویسا ہی عورتوں کو ہے۔ وہی رکعتیں مردوں کے لئے ہیں اور وہی عورتوں کے لئے۔ پھر زکوٰۃ کا حکم ہے ۔اِس کا حکم بھی جیسا عورتوں کو دیا ویسا ہی مردوں کو۔ ر وزوں کا حکم ہے اِس میں بھی کوئی فرق نہیں۔ حج میںبھی سب برابر ہیں۔ صدقہ وخیرات کے حکم میں بھی دونوں برابر ہیں۔ پس عقائد ایک سے ہیں اور اعمال ایک سے ہیں۔ پھر اگر کوئی یہ کہے کہ عورتیں الگ جِنس ہیں تو ہم کیسے مان سکتے ہیں۔
تعجب ہے کہ وہ اسلام جو اِس لئے آیا تھا کہ عورت کی عزت قائم کر ے آج اُسی کوماننے والی عورتیں اپنے آپ کو نالائق قرار دے کر اعلیٰ دینی خدمات سے محروم ہو رہی ہیں۔ اسی طرح مرد بھی اس اہم فرض سے غافل ہیں ۔ گویا دونوں نسلِ انسانی کو ختم کر رہے ہیں اور اپنی ذلت ورُسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ۔۵؎ یعنی عورت کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اُسے زندہ کیوں گاڑا گیا۔ اِس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ عورتوں کی تباہی کی ذمّہ داری صرف مردوں پر نہیں اور نہ صرف عورتوں پر بلکہ دونوں اس کی تباہی کے ذمّہ دار ہیں۔ آج جب قریباً ہر عورت یہ خیال کر رہی ہے کہ میرے اندر کام کرنے کی طاقت نہیں تو ہر ایک عورت اپنے آپ کو نہیں بلکہ اپنی ساری نسل کو زندہ درگور کر رہی ہے جس طرح مرد اُن کو زندہ درگور کیا کرتے تھے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جن کی آنکھیں تو کُھلی ہیں لیکن دیکھتی نہیں اور سانس تو لے رہی ہیں مگر دل مُردہ ہیں۔ اس موت کے ذمہ دار سب سے پہلے ماں باپ ہیں جنہوں نے اُن کو جنا۔ پھر اُن کی موت کے ذمہ دار بڑے بھائی بہن ہیں ۔ پھر ان کی موت کے ذمہ دار خاوند ہیں۔ پھراُن کی موت کے ذمّہ دار اُن کے بیٹے ہیں۔ ان سب نے مل کر اُن کو مار ڈالا۔
اگر تمہارے اندر بیداری پیدا ہو جائے تو سمجھ لو کہ عقائد اور کاموں کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ صرف ایک کام ہے جس میں مرد اور عورت کا فرق ہے اور وہ جہاد ہے۔ مگر اس میں بھی عورت کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ پانی پلا سکتی ہے، مرہم پٹی کر سکتی ہے اور زخمیوں کی خدمت کر سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت بلالؓ کی بہن نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جب اس بارہ میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا کام مرہم پٹی کرنا اور کھانا وغیرہ تیار کرنا ہے ۔۶؎ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مال غنیمت میں بھی عورت اور مرد کو برابر حصہ دیا ہے۔ صرف عورتوں کو لڑائی کے میدان سے الگ رکھا ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ ان کا پردہ قائم رہے۔ اگر وہ بھی لڑائی میں شامل ہوں تو نتیجہ یہ ہو کہ دشمن انہیں قید کر کے لے جائے کیونکہ جب دو ملک آپس میں لڑتے ہیں تو لڑنے والوں میںسے کئی لوگوں کو قید کر لیا جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ نے ان کو جہاد سے الگ کر دیا اور مرہم پٹی کا کام ان کے سپرد کر دیا۔ اگر عورتیں لڑائی میں حصہ لیتیں تو لازماً ان کو بھی قید کیا جاتا۔ پس ان کی عزت قائم رکھنے کے لئے انہیں لڑائی میںشامل ہونے سے روک دیا ورنہ دنیا میں ایسی ایسی عورتیں گزری ہیں جو بڑے بڑے جرنیلوں سے مقابلہ کرتی رہی ہیں۔ مثلاً چاند بی بی نے بہت سے کارنامے دکھائے ہیں۔ حضرت ضرارؓ کی بہن نے بھی کئی لڑائیوں میں حصہ لیا۔ ایک دفعہ عیسائی لشکر کا بہت زیادہ دبائو پڑا اتنا کہ مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے۔ ضرارؓ کی بہن نے ہندہ کو آواز دی کہ ہندہ نکلو یہ مرد لڑنے کے قابل نہیں ہم لڑیں گی۔ انہوں نے خیمے اُکھاڑ کر ڈنڈے ہاتھ میں لے لئے اور ان کے گھوڑوں کو مارنے لگیں۔ ابوسفیان نے اپنے بیٹے معاویہ سے کہا ’’ان عورتوں کی تلواریں عیسائیوں کی تلواروں سے زیادہ سخت ہیں۔ میں مرنا پسند کروں گا لیکن پیچھے نہیں لَوٹوں گا‘‘۷؎ چنانچہ سب کے سب میدان جنگ میں لَوٹ آئے۔ تو عورت لڑ بھی سکتی ہے مگر جو لڑے ا س کے قید ہونے کا بھی چونکہ احتمال ہوتا ہے اس لئے اسلام یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ مسلمان عورت غیر کے ہاں جائے۔
پھر جہاد کے علاوہ ایک اور بات بھی ایسی ہے جس میںیہ امتیاز پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ مرد نبی ہو سکتا ہے لیکن عورت نبی نہیں ہو سکتی۔ البتہ صدیق کا درجہ جو نبوت سے اُتر کر دوسرا مقام ہے عورت کومل سکتا ہے۔ تم نے سنا ہو گا کہ حضرت ابوبکرؓ کو ابوبکر صدیق ؓ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے مریم صدیقہ۔ عائشہ صدیقہ۔ گویا جو درجہ خداتعالیٰ نے مردوں کو دیا وہی عورتوں کو دیا۔ اسی طرح شہادت کا درجہ بھی عورت کو مل سکتا ہے۔ کوئی عورت اگر زچگی کی تکلیف سے مر جائے تو شہید ہو گی کیونکہ وہ نسلِ انسانی کے چلانے کا کام کر رہی تھی۔ اسی طرح عورت صالح بھی ہو سکتی ہے صرف نبوت کا درجہ عورت کو نہیں مل سکتا۔لیکن نبی کو جو جنت میں انعام ملے گا اس میں عورت بھی حصہ دار ہو گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںاسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِرَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ج رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَعِلْمًا فَاغْفِرْلِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّـبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِھِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ۔۸؎
فرمایا خدا کا عرش اُٹھانے والے کچھ فرشتے ہیں۔وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں۔ اور جو مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ہیں اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اے خدا! ہر بات کا تجھے علم ہے ہم تجھ سے عرض کرتے ہیں کہ وہ جو مؤمن بندے ہیں جو گناہ کر کے توبہ کر لیتے ہیں تو اُن کو دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اور اے ہمارے رب ! ُتو اِن سارے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو جنت میں داخل کر جن کا ُتو نے اُن سے وعدہ کیا ہے۔ اگر بڑا مقام پانے والی کوئی عورت ہے تو اُس کے خاوند کو بھی وہاں رکھ۔ اور اگر بڑا مقام پانے والا کوئی مرد ہے تو اس کی بیوی کو بھی وہاں رکھ۔ اسی طرح باپ کے ساتھ اولاد کو اور اولاد کے ساتھ والدین کورکھ۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ ُتو بڑا غالب اوربڑی حکمت والا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا وہ دعا قبول ہوئی یا نہیں؟ اِس کے لئے ہمیں قرآن کریم میں یہ آیات نظر آتی ہیں کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھاوَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـآئِھِمُ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰٓـئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ- سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ ۹؎
یعنی مؤمنوں کو جنت ملے گی ہمیشہ رہنے والی۔ اور جو فرشتوں نے دُعا کی تھی وہ ہم نے سُن لی۔ جو بڑ ے درجہ کے لوگ ہوں گے اُن کے ساتھ ہم چھوٹے درجہ کے مؤمنوں کو بھی جو اُن کے رشتہ دار ہوں گے رکھیں گے۔ ان کے باپ دادے اور بیویاں سب کے سب اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوں گے اور فرشتے ان خاندانوں کے پاس ہر دروازے سے آئیں گے اور کہیں گے کہ تمہارے رب نے تم کو سلام کہا ہے کیونکہ دنیا میں تم نے خدا کے لئے تکالیف اُٹھائیں اب مرنے کے بعد تم میری حفاظت میں آ گئے ہو۔
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دعا قبول ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اعلیٰ درجہ کے مؤمن کے ساتھ اُس کے باپ ، ماں، دادا، دادی، اولاد اور بیوی سب رکھے جائیں گے اور جب خداتعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے تو عورت کے سب حقوق اِس میں آ گئے۔ بے شک موسیٰ نبی تھے اُن کی بیوی نبی نہیں مگر جنت میں جو انعام موسیٰ علیہ السلام کو ملے گا وہی ان کی بیوی کو ملے گا۔ اسی طرح سب سے بڑے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے اور سب سے بڑا مقام بھی آپؐ کا ہی ہو گا مگر آپؐ کی گیارہ بیویاں بھی جنت میں آپؐ کے ساتھ ہی ہوں گی۔
غرض اعمال اور افعال کے لحاظ سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں اور جہاں کوئی فرق ہے وہاں بدلہ ان کو زیادہ دے دیا ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ایک بیوی ہوتی تو جنت میں وہ اکیلی آپؐ کے انعام میںشریک ہوتی مگر آپؐ کی گیارہ بیویاں تھیںاور تین بیٹیاں۔ اِس طرح چودہ عورتیں وہی انعامات حاصل کریں گی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوں گے۔
پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو کہ عورت کوئی کام نہیں کرسکتی۔میںآج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو! تم اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو۔ آدمی کے معنے مرد کے ہیں۔ تم بھی ویسی ہی آدمی ہو جیسے مرد۔ خدا نے جو عقیدے مردوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں اور جو انعام اور افضال مردوں کے لئے مقرر ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں۔ پھر جب خدا نے فرق نہیں کیا تو تم نے کیوں کیا؟ جب تک تم یہ خیال اپنے دل سے نہ نکال دوگی کوئی کام نہیں کر سکو گی۔ جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں مر گیا ہوں تو وہ مر جاتا ہے اور جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میںکام کر سکتا ہوں تو وہ کر لیتا ہے۔
جو ذمہ داریاں مردوں کی ہیں وہ تو انہیں پورا کر رہے ہیں۔ مردوں کی انجمنیں تو پنجاب میں ہر جگہ ہیں لیکن لجنات امائِ اللہ سارے پنجاب میں نہیں بلکہ بہت تھوڑی جگہوں پر قائم ہیں۔ پس اول اپنی ذہنیت بدلو اور سمجھ لو کہ تم کو خدا نے دین کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہر عورت کا فرض ہے کہ ہر گائوں میںلجنہ قائم کرے۔جہاں جہاں احمدی ہیں وہاں لجنہ بنا لو گی تو خدا تعالیٰ کام کرنے کی بھی توفیق دے دیگا۔ حق بات تو یہ ہے کہ جتنی عورتوں کے ذریعے تبلیغ ہو سکتی ہے مردوں کے ذریعے نہیں ہو سکتی۔ اگر عورتیں تبلیغ کرنے لگ جائیں تو ملک کی کایاپلٹ جائے مگر بہت کم عورتیں ہیں جو اس کی طرف توجہ کرتی ہیں۔ عورت کو خدانے ایسے ہتھیار دئیے ہیں کہ مرد مقابلہ نہیں کر سکتے مگر وہ غفلت کرتی ہے اور یہ خیال کرتی ہے کہ قیامت کے دن شاید میرا خاوند تو جنت میںچلا جائے اور مَیں جہنّم میں چلی جائوں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتی۔
پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو، ہر جگہ لجنہ قائم کرو، مرکز میں لکھو، اگر جواب نہ آئے تو مجھے لکھو ۔مصباح میںمضامین دو۔ تعلیم یافتہ مستورات یہ کام اپنی اپنی جگہوں پر فرداً فرداً کریں۔ اور ہر جگہ لجنہ قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ تم کو اس کام کی توفیق دے تا کہ تم بھی وہی انعامات حاصل کر سکو جو مؤمن کے لئے مقرر ہیں۔ (از مصباح جنوری ۱۹۴۱ء)
۱؎ النساء :۲ ۲؎ البقرۃ : ۶۲ ۳؎ النساء : ۳۷
۴؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بَدْئُ الْوَحی (الخ)
۵؎ التکویر : ۹
۶؎
۷؎ فتوح الشام للواقدی۔ اُردو ترجمہ صفحہ ۳۹۱،۳۹۲۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۶ء
۸؎ المؤمن: ۸،۹ ۹؎ الرعد : ۲۴ ، ۲۵








احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن
کا صحیح نمونہ پیش کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے





از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن
کا صحیح نمونہ پیش کرنے کیلئے قائم کی گئی ہے
( تقریر فرمودہ ۶؍فروری۱۹۴۱ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
میرا دل تو آج چاہتا تھا کہ میں بہت سی باتیں اِس اجتماع میںکہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت پرسوں سے میری آواز بیٹھتی چلی جا رہی ہے اور آج تو ایسی بیٹھی ہوئی ہے اور گلا ایسا مائوف ہے کہ اگر میں زیادہ دیرتک تقریر کروں تو ممکن ہے گلے کو کوئی مستقل نقصان پہنچ جائے اور مجھے اِس بات کا ذاتی تجربہ بھی ہے میری آواز پہلے بہت بلند ہؤا کرتی تھی ایسی بلند کہ بعض دوستوں نے بتایاکہ چھوٹی مسجد میںہم نے آپ کی قراء ت سن کر اور سمجھ کر مدرسہ احمدیہ میں نماز پڑھی ہے۔ یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے۔ مگر ایک دفعہ میرا اسی طرح گلا بیٹھا ہؤا تھا کہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گیا۔ اُس نے کہا کہ آپ قرآن بہت اچھا پڑھتے ہیں میں گراموفون میںریکارڈ بھروانا چاہتا ہوں آپ کسی سورۃ کی تلاوت کر دیں۔ میں نے معذرت کی کہ مجھے نزلہ وزکام ہے اور گلا بیٹھا ہؤا ہے مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ میں تو آج اِس غرض کے لئے تیار ہو کر بیٹھا ہوں۔چنانچہ میں نے سورۂ فاتحہ یا کوئی اور سورۃ (مجھے اِس وقت صحیح طور پر یاد نہیں رہا) ریکارڈ میں بھروا دی۔ اس کے بعد میری آواز جو بیٹھی ہوئی تھی وہ تو درست ہو گئی مگر آواز کی بلندی میںقریباً ۲۵ فیصد کی ہمیشہ کے لئے کمی آگئی۔ تو ایسی حالت میںزیادہ بولنا بہت دفعہ مُضِرّ ہوتا ہے۔ کھانسی کی حالت میں تو میںکافی تقریرکر لیا کرتا اور اس کی میںچنداں پرواہ نہیں کیا کرتا مگر گلے کی خراش اس سے مختلف چیز ہے۔
خدام الاحمدیہ کا یہ اجلاس اس لحاظ سے پہلا اجلاس ہے کہ اس میں باہر سے بھی دوست تشریف لائے ہیں گو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ان کے آنے کی وجہ سے پورے طور پر خوش ہوں کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے بہت کم دوست باہر سے آئے ہیں اور خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ شاید کُل تعداد کا چھٹا یا ساتواں یا آٹھواں یا نواں بلکہ دسواں حصہ آیا ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اِس مجلس میں بیٹھنے والے اکثر دوست گورداسپور کے ضلع کے ہیں اور ان میںسے بھی اکثر زمیندار ہیں جن کے لئے پیدل سفر کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ ان کا اس جگہ آنا زمینداروں کی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے بے شک ایک قابلِ قدر قربانی ہے مگر ان کے آنے کی وجہ سے اس مجلس کے افراد کی تعداد کا بڑھ جانا دوسرے شہروں کے خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی خوشکن امر نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور اُن رپورٹوں سے جو میرے پاس پہنچتی رہی ہیں اندازہ لگا سکا ہوں گورداسپور کو چھوڑ کر بیرو نجات سے دو اڑھائی سَو آدمی آیا ہے اور یہ تعداد خدام الاحمدیہ کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کم ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی قریب میںہی جلسہ سالانہ گزرا ہے لیکن نوجوانوں کی ہمت اور ان کا ولولہ اور جوش ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا۔ یہ جلسہ تو ایک مہینہ کے بعدہؤا ہے۔ میں جانتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں کئی نوجوان ایسے تھے جو لاہور سے ہر اتوار کو باقاعدہ قادیان پہنچ جایا کرتے تھے۔ مثلاً چوہدری فتح محمد صاحب اُن دنوں کالج میں پڑھتے تھے مگر ان کا آنا جانا اتنا باقاعدہ تھا کہ ایک اتوار کو وہ کسی وجہ سے نہ آ سکے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھ سے پوچھا۔ محمود! فتح محمد اِس دفعہ نہیں آیا؟ گویا ان کا آنا جانا اتنا باقاعدہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کے ایک اتوار کے دن نہ آنے پر تعجب ہؤا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں نہیں آئے؟ وہ بھی کالج کے طالب علم تھے، کالج میں پڑھتے تھے اور ان کے لئے بھی کئی قسم کے کام تھے پھر وہ فیل بھی نہیں ہوتے تھے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ وہ پڑھتے نہیں ہوں گے۔پھر وہ کوئی ایسے مالدار بھی نہیںتھے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جا سکے کہ انہیںاُڑانے کے لئے کافی روپیہ ملتا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں لاہور کے کالجوں کے جو سٹوڈنٹس یہاں آئے ہوئے ہیں یا نہیں آئے ان میں سے نوے فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کو اس سے زیادہ گزارہ ملتا ہے جتنا چوہدری فتح محمد صاحب کو ملا کرتا تھا مگر وہ باقاعدہ ہر اتوار کو قادیان آیا کرتے تھے۔ اسی طرح اور بھی کئی طالب علم تھے جو قادیان آیا کرتے تھے گو اتنی باقاعدگی سے نہیں آتے تھے مگر بہرحال کثرت سے آتے تھے۔اُس وقت لاہور میں احمدی طالب علم دس بارہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک دو کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی دس میںسے دو تین تو ایسے تھے کہ وہ ہفتہ وار یا قریباً ہفتہ وار قادیان آیا کرتے تھے اور نصف تعداد ایسے طالب علموں کی تھی جو مہینے میںایک دفعہ یادو دفعہ قادیان آتے تھے اور باقی سال میںچار پانچ دفعہ قادیان آ جاتے تھے اور بعض دفعہ کوئی ایسا بھی نکل آتا جو صرف جلسہ سالانہ پر آ جاتا تھا۔ مگر اب صرف بیس پچیس فیصدی طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو قادیان میںسال بھر میں ایک دفعہ آتے ہیں ۔ یاایک دفعہ بھی نہیں آتے۔ آخر یہ فرق اور امتیاز کیوں ہے؟ میں نے کہا ہے اگر ہماری مالی حالت ان لڑکوں سے کمزور ہوتی جو اُس وقت کالج میںپڑھتے تھے تو میں سمجھتا کہ یہ مالی حالت کا نتیجہ ہے۔ اور اگر یہ بات ہوتی کہ اب تمہیں دین کے سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی تمہارے لئے اس قدرا علیٰ درجہ کے روحانی سامان لاہور اور امرتسر اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں کہ تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں تو پھر بھی میں سمجھتا کہ یہ بات کسی حد تک معقول ہے لیکن اگر نہ تو یہ بات ہے کہ تمہاری مالی حالت ان سے خراب ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ باہر ایسے سامان موجود ہیں جن کی موجودگی میں تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں اور پھر اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ اب قادیان کا سفر بالکل آسان ہے یہ بات میری سمجھ سے بالکل بالا ہے کہ کیوں ہماری جماعت کے نوجوانوں میںاِس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے ۔ پہلے شام کی گاڑی سے ہمارے طالب علم بٹالہ میں اُترتے اور گاڑی سے اُتر کر راتوں رات پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے یا آٹھ نو بجے صبح اُترتے تو بارہ ایک بجے دوپہر کو قادیان پہنچ جاتے تھے۔ طالب علم ہونے کی وجہ سے بِالعموم ان کے پاس اتنے کرائے نہیں ہوتے تھے کہ ّیکہ یا تانگہ لے سکیں۔ ایسے بھی ہوتے تھے جو ّیکوں میں آ جایا کرتے تھے۔ مگر ایسے طالب علم بھی تھے جو پیدل آتے اور پیدل جاتے تھے مگر اب ریل کی وجہ سے بہت کچھ سہولت ہو گئی ہے۔ ریل وقت بچا لیتی ہے، ریل کوفت سے بچا لیتی ہے، اور ریل کا جو کرایہ آ جکل بٹالہ سے قادیان کا ہے وہ اس کے کرایہ کے نصف کے قریب ہے جو اُن دنوںیکہ والے وصول کیا کرتے تھے۔ اُس زمانہ میں ڈیڑھ دو روپیہ میںیکہ آیا کرتا تھا اور ایک یکہ میں تین سواریاں ہؤا کرتی تھیں گویا کم سے کم آٹھ آنے ایک آدمی کا صرف ایک طرف کا کرایہ ہوتا تھا مگر آجکل چھ سات آنے میں بٹالہ کا آنا جانا ہو جاتا ہے تو جو دقتیں مالی لحاظ سے پیش آ سکتی تھیں یا وقت کے لحاظ سے پیش آ سکتی تھیں وہ کم ہو گئی ہیں اور جو ضرورتیں قادیان آنے کے متعلق تھیں وہ ویسی ہی قائم ہیں۔
پس میںان خدام کے توجہ نہ کرنے کی وجہ سے جو اس اجتماع میں نہیں آئے افسوس اور تعجب کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی غرض ان میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ وہ احمدیت کے خادم ہیں اور خادم وہی ہوتا ہے جو آقا کے قریب رہے۔ جو خادم اپنے آقا کے قریب نہیں رہتا وقت کے لحاظ سے یا کام کے لحاظ سے وہ خادم نہیں کہلا سکتا مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے باہر سے آنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اور اگر گورداسپور کے دیہات کے افراد نہ آجاتے اور قادیان کے لوگ بھی اس جلسہ میں شامل نہ ہو جاتے تو یہ جلسہ اپنی ذات میں ایک نہایت ہی چھوٹا ساجلسہ ہوتا اور ایساہی ہوتا جیسے مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں طالب علموں کے جلسے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹا ۔ میں جماعت کے نوجوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کے سپرد ایسے کام کئے گئے ہیں جو دنیامیں عظیم الشّان روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہیں۔ موجودہ دنیا کی کایا پلٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے ۔ دنیا کی تہذیب اور دنیا کے تمدن کی وہ عمارت جو تمہیں اِس وقت دکھائی دے رہی ہے اِس کی صفائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی لپائی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کے پوچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس پر رنگ اور روغن کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کا پلستر بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی چھت پر مٹی ڈالنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کی کانسوں۱؎ کو درست کرنے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے، اس کے ُٹوٹے ہوئے فرش کو بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہیں بھیجے گئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ا س لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کر کے توڑ دو اُس تہذیب اور تمدن کی عمارت کو جواِس وقت دنیا میںاسلام کے خلاف کھڑی ہے ۔ ٹکڑے ٹکڑے کر دو اُس قلعہ کو جو شیطان نے اِس میںبنا لیا ہے، اُسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اُکھیڑ کر پھینک دو اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا ہے۔ یہ کام ہے جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریرکی ضرورت نہیں۔ ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں، دنیا کی جس گلی میں سے ہم گزریں، دنیا کے جس گائوں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹا کر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بتائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہو ہمار اکام ہے پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہارا طَور اور تمہارا طریق اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منشاء کو پور اکرنے والا ہو سکتا ہے، اُسی وقت زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے منشاء کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے جب کہ تم دنیا میں ایک خدا نما وجود بنو اور اسلام کی اشاعت کے لئے ُکفر کی ہر طاقت سے ٹکر لینے کے لئے تیار رہو۔ یہ نہیں کہ دنیا تم کو اپنا سمجھتی ہو اور تم اس کو اپنا سمجھتے ہو، بے شک انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اس کی اصلاح کے لئے تمہیں کھڑا کیاگیا ہے لیکن جہاں انسان بحیثیت انسان ہونے کے تمہارا محبوب ہونا چاہئے کیونکہ اسی کی درستی اور اصلاح کے لئے تم کھڑے کئے گئے ہو وہاں اس کے خلافِاسلام کردار سے تمہاراکوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے کیونکہ تم اس کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں اسے اپنے پیچھے چلانے کے لئے کھڑے کئے گئے ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے، اگر تم اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہو، اگر تم اس کے ناجائز افعال کی اصلاح سے غافل رہتے ہو تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے اندر منافقت کی رگ پائی جاتی ہے اور تم اپنے فرائض کی بجا آوری سے غافل ہو۔
مجھے ہمیشہ حیرت آتی ہے ان لوگوں پر جو میرے پاس شکایتیں لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں ہم کیاکریں ۔ میں انہیں کہتا ہوں تم اس بات پر کیوں غور نہیں کرتے کہ لوگ تمہاری کیوںمخالفت کرتے ہیں۔اگر وہ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ وہ تمہارے متعلق غلط فہمی کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تم اسلام کے دشمن ہو تو اس مخالفت کو دور کرنے اور ان کو اپنا دوست بنانے کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں۔ یا تو تمہیں اپنے دعویٰ احمدیت کو چھوڑنا پڑے گا اور تمہیں بھی ویسا ہی بننا پڑے گا جیسے تمہارا مخالف ہے پھر بے شک وہ تمہاری طرف محبت کاہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں او ریا پھر تمہیں کوشش کر کے اس کو بھی اپنے جیسا بنانا پڑے گا اور درست طریق یہی ہے کہ تم اسے بھی اپنے اندر شامل کرنے کی کوشش کرو۔ اس صورت میں بھی وہ تمہاری طرف اپنا ہاتھ بڑھا کر کہے گا کہ یہ میرا محسن ہے اور تمہاری آپس کی مخالفت ختم ہوجائے گی لیکن اگر تم اس طریق کو اختیار نہیں کرتے اور یہ شور مچاتے چلے جاتے ہو کہ لوگ ہمارے دشمن ہیں تو اس سے زیادہ بے وقوفی کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے۔ اگر تم نے احمدیت کو سمجھا ہے اور اگر تم نے احمدیت کے مغز کو حاصل کیا ہے تو تمہیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ سوائے اس کے کہ کوئی شخص سچائی کی تحقیق کر رہا ہو اور اُس پر ایک حد تک سچائی کُھل چکی ہو۔ یا سوائے ان کے جو مادرپِدر آزاد ہوتے ہیں وہ مسلمان کہلاتے ہیں مگر مسلمان نہیں ہوتے، عیسائی کہلاتے ہیں مگر عیسائی نہیں ہوتے، یہودی کہلاتے ہیں مگر یہودی نہیں ہوتے، ہندو کہلاتے ہیں مگر ہندو نہیں ہوتے، باقی کسی انسان سے تمہارا یہ امید کرنا کہ جس عظیم الشان کام کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اُس میں تمہاری کوئی مخالفت نہ کرے ایک بالکل احمقانہ اور مجنونانہ خیال ہے۔ یہ مخالفت اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جب تم ان کو اپنا دوست بنائو اور وہ دوست اسی صورت میں بن سکتے ہیں جب تم ان کی غلط فہمیوں کو دور کردو اور انہیں اسلام اور احمدیت کی برکات سے روشناس کرو۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرو اور اس خیال میںمت رہو۔ (خصوصاً مَیں زمینداروں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں) کہ فلاں مشکل پیدا ہو گئی ہے کسی آدمی کو قادیان بھیجا جائے جو کسی ناظر سے ملے ناظر خدا نہیں، میں خدا نہیں، جب خدا نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ جو لوگ اس کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہوں گے انہیں ابتلائوں اور امتحانوں کی بھٹی میں سے گزرنا پڑے گا تو کوئی انسان تمہاری کیا مدد کر سکتا ہے۔ اگر تم آرام کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو یا درکھو کہ آرام سے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے احمدیت میں کوئی جگہ نہیںکیونکہ احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ اپنے عقائد کو ترک کر کے اور مداہنت سے کام لے کر دنیا سے صلح کر لے، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ گائوں کے چند نمبردار اس کا اقرار کر لیں اور وہ تمہیں دُکھ نہ دیں، احمدیت اس لئے نہیں آئی کہ چند بڑے بڑے چوہدری اس کی صداقت کا اقرار کر لیں، بلکہ احمدیت اس لئے آئی ہے کہ سارے گائوں، سارے شہر، سارے صوبے، سارے مُلک اور سارے برِّاعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمو ں میں ڈال دئیے جائیں۔ پس یہ چیزیں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے جس دن یہ آگ تم میںپیدا ہو گئی تم اپنے آپ کو مضبوطی میں ایک پہاڑ محسوس کرو گے لیکن جب تک یہ آگ تم میں پیدا نہیں ہو گی تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش رہو گے جیسے بیمار مر رہا ہوتا ہے تو وہ افیون کی گولی کھا لیتا ہے۔ افیون کی گولی سے اس کا درد بے شک کم ہو جائے مگر اسے آرام نہیں آئے گا۔ اس کے مقابلہ میںعقلمند انسان افیون نہیں کھائے گا بلکہ وہ کہے گا میں درد برداشت کرلوں گا مگر صحیح رنگ میں اپنا علاج کرائونگا اس صورت میں وہ بچ بھی جائے گا پس ان چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی پروا مت کرو۔ تم کو خدا نے عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری مثال بعض دفعہ ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسے مشہور ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے ڈوگروں کی فوج کے علاوہ ایک دفعہ کشمیریوں کی بھی فوج بنائی مگر اس سے وہ کشمیری مراد نہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں اور جو ہر لڑائی میںڈنڈا لے کر آگے آ جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں کشمیری آ کر بہادر ہو جاتا ہے اور کشمیر میں پنجابی جا کر بُزدل ہو جاتا ہے بہرحال مہاراجہ نے کشمیر یوں کی بھی ایک فوج تیار کی۔ ایک دفعہ سرحد پر لڑائی ہوئی اور گورنمنٹ برطانیہ کو مختلف راجوں مہاراجوں نے اپنی اپنی ریاستوں کی طرف سے فوجی امداد دی۔ کشمیر کے مہاراجوں نے بھی اِس فوج کو سرحد پر جانے کا حکم دیا او رکہا ہم امید کرتے ہیں کہ تم اچھی طرح لڑو گے سالہاسال تو ہم سے تنخواہ لیتے رہے ہو اب ّحق نمک اد ا کرنے کا وقت آیا ہے اس لئے تم سے امید کی جاتی ہے کہ تم اس نازک موقع پر اپنے فرائض کو عمدگی سے سرانجام دو گے۔ کشمیریوں نے جواب دیا کہ سرکار!ہم نمک حرام نہیں ہم خدمت کے لئے ہروقت حاضر ہیںمگر حضور کے یہ خادم سپاہی ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ لڑائی کا موقع تھا اورمہاراجہ ان کو خوش کرنے کے لئے تیار تھا اُس نے سمجھا اگر یہ راشن بڑھانے کا مطالبہ کریں گے تو راشن بڑھا دوںگا، تنخواہ میں زیادہ کامطالبہ کرینگے تو تنخواہ زیادہ کردوں گا چنانچہ اس نے کہا بتائو کیا چاہتے ہو ؟کشمیری کہنے لگے حضور! ہم نے سنا ہے پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ہمارے ساتھ پہرہ ہونا چاہئے۔ گویا وہ جان دینے کو تیار ہیں، لڑائی پرجانے کے لئے آمادہ ہیں مگر کہتے ہیں پٹھان ذرا سخت ہوتے ہیں ساتھ پہرہ ہونا چاہئے۔ وہ لوگ جو احمدیت میںداخل ہیں مگر پھر خیال کرتے ہیں کہ فلاں نے چونکہ ہمیں مارا پیٹا ہے اس لئے دَوڑو اور قادیان چل کر شکایت کرو وہ بھی درحقیقت ایسے ہی ہیں وہ بھی کہتے ہیں ہمارے ساتھ کسی ناظر کا پہرہ ہونا چاہئے ایسا شخص سپاہی کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔سپاہی وہی کہلاسکتا ہے جو بہاد ر ہو اور ہرمصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو۔ درحقیقت احمدیت قبول کرنا اوکھلی میںسر دینے والی بات ہے ۔ کسی نے کہا ہے ’’اوکھلی میں سر دینا تو موہلوں کاکیا ڈر‘‘ یعنی جب اوکھلی میں سر دے دیا تو ا ُس ڈنڈے کا جس سے چاول ُکوٹے جاتے ہیں کیا ڈر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص احمدیت میں داخل ہو تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مجھ پرمصائب بھی آئے تو میں ان تمام مصائب کو برداشت کروں گا اور کسی موقع پر بھی اپنا قدم پیچھے نہیں ہٹائوںگا۔
پس یاد رکھو وہ کامیابیاں اور ترقیاں جوآنے والی ہیں ان کے لئے مصائب کی بھٹی میںسے گزرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ اس کے بعد کامیابیاں بھی آئیں گی خواہ وہ تمہاری زندگی میںآئیں یا تمہاری موت کے بعد۔ شریف آدمی یہ نہیں دیکھا کرتا کہ قربانی کا پھل اُسے کھانے کو ملتا ہے یا نہیں بلکہ وہ قربانی کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کا پھل چکھنے کا اسے موقع بھی نہیںملتا کہ وہ وفات پا کر اپنے رب کے حضور پہنچ جاتا ہے۔ تم اگر غور کرو تو تم میںسے اچھے کھاتے پیتے تو وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے خود نہیں کھایا اور کنگال وہی نکلیں گے جن کے باپ دادا نے جو کچھ کمایا تھا وہ کھالیا۔ آخر یہ بڑے بڑے زمیندار جو آج تمہیں نظر آ رہے ہیں کیسے بن گئے؟ یہ بڑے زمیندار اسی طرح بنے کہ ان کے باپ دادوں نے تنگی سے گزارہ کیا اور ایک ایک پیسہ بچا کر ایک کنال یہاں سے اور ایک کنال وہاں سے خریدی۔ پھر رفتہ رفتہ ایک گھمائوں زمین ہو گئی۔ اور پھر ایک سے دو اور دو سے چار اور چار سے دس اور دس سے پندرہ اور پندرہ سے بیس گھمائوں زمین کے وہ مالک بن گئے اور جب وہ مرے تو ان کی اولاد نے ان کی زمینوں سے فائدہ اُٹھایا۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اولاد ناخلف ہوتی ہے وہ باپ دادا کی جائداد کو اُڑا دیتی او رآہستہ آہستہ مقروض ہوجاتی ہے اور وہی زمین جو ان کے باپ داد انے بڑی مشکلات سے اکٹھی کی ہوتی ہے بنیوں کے قبضے میں چلی جاتی ہے اور جب آگے ان کی اولا د آتی ہے تو وہ ُبھوکوں مرنے لگتی ہے اور وہ ان بنیوں کو گالیاں دیتی ہے جو ان کی زمینوں پر قبضہ کئے ہوتے ہیں حالانکہ انہیں گالیاں اپنے ماں باپ کو دینی چاہئیں جو اپنی اولاد کا حصہ کھا گئے۔
تو باپ دادوں کی محنت ہمیشہ اولاد کے کام آتی ہے اور اگر کوئی شخص محنت نہیں کرتا تو اس کی اولاد بھی اس محنت کے فوائد سے محروم رہتی ہے۔ تم غریب سہی، تم کنگال سہی لیکن اگر تم میں سے کسی کی ایک کنال زمین بھی ہے تو جب تم اس زمین پر کھڑے ہوتے ہو تویوں سمجھتے ہو کہ یہاں سے امریکہ تک سب جگہ تمہاری ہی حکومت ہے اور تمہارا دل اتنا بہادر ہوتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں کسی کی کیا پرواہ ہے۔ اور اگرتمہاری ایک گھمائو ں زمین ہوتی ہے یا دس گھمائوں زمین ہوتی ہے یا بیس گھمائوں زمین ہوتی ہے تو پھر تو تمہاری یہ حالت ہوتی ہے کہ تم ایک طرف کھڑے ہو کرکہتے ہو کہ ہماری ایک َپیلی اِس سِرے پر ہے اور ایک َپیلی اُس سِرے پر۔ خواہ درمیان میں دس زمینداروں کی اور بھی زمینیں ہوں مگر ایسی حالت میں جب تم اپنی زمین پر تکبر کے ساتھ کھڑ ے ہوتے ہو ایک شخص پھٹے پُرانے کپڑوں میں تمہارے پا س آ جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں مسافر ہوں میری مدد کی جائے۔ تم اُس سے پوچھتے ہو تم کون ہو؟ اور وہ کہتا ہے سیّد۔ یہ سنتے ہی تم فوراً اپنی چادر اس کے لئے بچھا دیتے ہو اور اس کے ساتھ ادب سے باتیں کرنا شروع کر دیتے ہو۔ آخر اس کے ساتھ کون سی طاقت ہے جو تمہیں اِس بات پر مجبور کر دیتی ہے کہ تم اس کے ساتھ عزت سے پیش آئو اور اس سے ادب کا سلوک کرو۔ وہ یہی طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے پس اس کی طاقت اپنی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طاقت ہے جو آپؐ نے سادات میں منتقل کی اور جو آپؐ نے ہر مسلمان کے اندر منتقل کی اور ہر ایک نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس طاقت کو اپنے اند رجذب کر کے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ ابوبکرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، عمرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا ، عثمانؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا ، علیؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا، طلحہؓ اور زبیرؓ نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا اور تمہارے باپ دادوں نے اپنی طاقت کے مطابق کام کیا۔ اب تم جیسا کام کرو گے دنیا میںویسا ہی تغیر پیدا ہو گا اور جتنا زور سے گیند پھینکو گے اُتنا ہی دُور وہ چلا جائے گا ۔
پس یہ نادانی کا خیال ہے جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ان قربانیوں سے کیا فائدہ اُٹھانا ہے۔ اگر ہماری قوم، ہمارے خاندان اور ہماری نسل کے لئے عزت کا مقام حاصل ہوجائے تو درحقیقت وہ عزت ہمیں ہی حاصل ہو گی ۔ پس اِس قسم کے وسوسوں کوچھوڑ کر اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو جو تمہیں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ کر دے اور تمہیںسچا بہادر بنا دے۔
میں نے جب مجلس خدام الاحمدیہ قائم کی تھی تو درحقیقت میں نے تم سے یہ امید کی تھی کہ تم سچے بہادر بن جائو اور سچابہادر وہ ہوتا ہے جو جھوٹ سے کام نہیں لیتا، جو شخص دلیری سے کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے مگر بعد میں اپنے اس فعل پر بشرطیکہ وہ بُرا ہو نادم ہوتا ہے اور اسے چھپانے کی کوشش کرتانہیں وہ سچا بہادر ہے لیکن اگر وہ کوئی غلطی تو کرتا ہے مگر جب پکڑا جاتاہے تو کہتا ہے میں نے یہ فعل نہیں کیا تو وہ جھوٹا بہادر ہے۔ اگر وہ اس کام کو اچھا نہیں سمجھتا تھاتو اس نے وہ کام کیا کیوں؟ اور اگر غلطی سے کر لیتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا اقرار کیوں نہیں کرتا۔ اسلام جس بہادری کا تم سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تم بے شک معاف کرو مگر اُس وقت جب تم اپنے عفو سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک چشم پوشی کرو مگر اُس وقت جب تم چشم پوشی سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک غریب پروری کرومگر اُسی وقت جب تک غریب پروری سے بہادر کہلا سکو، تم بے شک مظلوم بنو مگر اُسی وقت جب تم مظلوم بن کر بہادر کہلا سکو اور اگر تمہارا دین اور تمہارا ایمان کہتا ہے کہ اب چشم پوشی کاوقت نہیں اب پیچھے ہٹنے کاوقت نہیں تو اس صورت میں تم اپنا فرض ادا کرنے کے لئے آگے بڑھو اور پھر جو کچھ درست سمجھتے ہو اس کو دلیری سے کرو۔ مجھے حیرت آتی ہے جب میںدیکھتا ہوں کہ ایک احمدی دوسرے کو گالی دیتے سُن کر جوش میں آ جاتا ہے اور خود بھی اس کے مقابلہ میںگالی دے دیتا ہے حالانکہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ تم گالی سن کر صبر کرو۔ یا اگر کوئی شخص تمہیں تھپٹر مارتا ہے اور تم بھی جواب میں اسے تھپٹرمار دیتے ہو تو یہ اسلامی بہادری نہیں۔ اسلامی بہادری یہ ہے کہ جب کوئی شخص تمہیں تھپٹر مارے تو تم اسے کہو کہ تم نے جو کچھ کیا ناواقفیت سے کیا مگر میرا مذہب مجھے یہی کہتا ہے کہ میں دوسرے کو معاف کردوں اس لئے میں تمہیں کچھ نہیں کہتا بلکہ معاف کرتا ہوں بشرطیکہ تم یہ سمجھو کہ اس کو معاف کرنے کا فائدہ ہے اور یاد رکھو کہ نوے فیصدی فائدہ ہی ہوتا ہے ۔ پس بہادری یہ ہے کہ تم نوے فیصدی لوگوں سے کہہ دو کہ بے شک ہمیں مار لو ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے بشرطیکہ تمہار ے بازو میںطاقت ہو، بشرطیکہ تمہاری آنکھوں میں حدت ہو اور بشرطیکہ تمہارا سینہ اُبھرا ہؤا ہو۔ تب بے شک تمہارے اس عفو کا دوسرے پر اثر پڑے گا لیکن اگر تم ۔ُکبڑے ہو، تمہارا ہاتھ خالی ہو، تمہارے بازو دُبلے پتلے ہوں، تمہاری آنکھوں میںچمک نہ ہو اور تم دوسرے کو یہ کہو کہ میں تمہیں معاف کرتا ہوں تو ہر شخص کہے گا ’’عصمت بی بی از بے چارگی‘‘ مقابلہ کی طاقت نہیں اور زبان سے معاف کیا جاتا ہے۔
دیکھو! اسلام تم سے صبر کا مطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے رحم کامطالبہ کرتا ہے، اسلام تم سے عفو کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اسلام تم سے بہادری کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ اگر تم دس آدمیوں کو پچھاڑ سکتے ہو لیکن جب کوئی شخص تمہیں تھپڑ مارتا ہے تو تم گردن جُھکا کر یہ کہتے ہو ئے وہاں سے چلے آتے ہو کہ میں نے تمہیں معاف کیا تو سارا گائوں تمہارے اس فعل سے متأثر ہو گا۔ لیکن اگر تم کمزور ہونے کی وجہ سے ایک شخص کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے اور پھر اسے کہتے ہو کہ میں نے تمہیںمعاف کیا تو ہر شخص تم پر ہنسے گا اور کہے گا کہ یہ معاف کرنے والا جھوٹا ہے جانتا ہے کہ اگر میں نے ہاتھ اُٹھایا تو دوسرا تھپڑ مار کر میرے سارے دانت توڑ دے گا اس لئے یونہی اس نے کہہ دیا ہے کہ میں نے معاف کیا ورنہ جانتا ہے کہ مقابلہ کرنے کی اِس میںہمت نہیں۔ میں نے اگر تمہیں ورزش کی نصیحت کی تو اسی لئے کہ اگر اسلام کے احکام کے ماتحت تم کسی وقت عفو سے کام لو تو لوگ تمہارے اِس عفو کو بُزدلی کا نتیجہ نہ سمجھیں، دھوکا اور فریب نہ سمجھیں۔ جب تمہارے بازو میںیہ طاقت ہوکہ تم ایک دفعہ کسی پر ہاتھ اُٹھائو تو اُس کے دو چار دانت نکال دو اور پھراس کے قصور پر اسے معاف کردو تو دیکھو اس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔ لو گ زبردست کی معافی سے متأثر ہوتے ہیں کمزور کی معافی سے متأثر نہیں ہوتے اور بہادری اُسی کی سمجھی جاتی ہے جس میں طاقت ہو اور پھر عفو سے کام لے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لڑائی میںشامل تھے۔ ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر سکتے تھے آپؓ کے مقابلہ پر آیا اور کئی گھنٹے تک آپؓ کی اور اس یہودی پہلوان کی لڑائی ہوتی رہی۔آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپؓ نے اس یہودی کوگِرالیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ خنجر سے اُس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپؓ کے منہ پر ُتھوک دیا۔ آپ فوراً اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے وہ یہودی سخت حیران ہؤا اور کہنے لگا یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی ُکشتی کے بعد آپ نے مجھے گِرایا اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں یہ آپ نے کیسی بے وقوفی کی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا میں نے بے وقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گِرایا اور تم نے میرے منہ پر ُتھوک دیا تو یکدم میر ے دل میں غصّہ پیدا ہؤاکہ اِس نے میرے منہ پر کیوں ُتھوکا ہے مگر ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا اگر اس کے بعد میں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصّہ کی وجہ سے ہو گا خدا کی رضا کے لئے نہیں ہوگا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اِس وقت میں تجھے چھوڑ دوں جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے میں تجھے گرا لونگا۔۲؎ تو انہیں اپنے عمل کے پاکیزہ ہونے کا اس قدر احساس تھا کہ انہوں نے اس خطرہ کو تو برداشت کر لیا کہ دشمن سے دوبارہ مقابلہ ہو جائے مگر یہ مناسب نہ سمجھا کہ ان کے اعمال میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں ان میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ ان میں بزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو، اور ان میںتقویٰ کے خلاف کسی چیز کی آمیزش نہ ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میںسے ہر شخص اتنا مضبوط، اتنا بہادر اور اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود یہ کہیں کہ تمہارا عفو خدا کیلئے ہے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں۔ ایسی قربانی دلوں کو موہ لیتی ہے اور ایسے انسان پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ حملہ کرنے والے کا دل فتح ہو جاتا ہے ۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے میں چھوٹا تھا کہ میں نے اور دوسرے بچوں نے مل کر جہلم سے ایک کشتی منگوائی۔ وہ کشتی نیلام ہوئی تھی اور ہمیں سَستی مل گئی تھی یوں تو ویسی کشتی اُن دنوں سَو ، سَوا سَو روپیہ میں تیار ہوتی تھی مگر ہمیں صرف سترہ روپیہ میں مل گئی اور چھبیس روپے کرایہ لگا۔ جب وہ یہاں آ گئی تو جو خریدنے والے تھے ان میںسے کئی باہر چلے گئے اور آخر نگران مَیں ہی مقرر ہؤا۔ ہم نے اُس کوایک زنجیر سے باندھ کر ڈھاب کے کنارے رکھا ہؤا تھا۔ بعض دفعہ جب ہم وہاں موجود نہ ہوتے تو لڑکوں نے کشتی کھول کر لے جانا اور خوب ُکودنا اور چھلانگیں لگانا اور چونکہ وہ بے احتیاطی سے استعمال کرتے تھے اس لئے کشتی کے تختے روز بروز ڈھیلے ہوتے چلے گئے ۔ میں نے اس کے انسداد کے لئے کچھ دوست مقرر کر دئیے اور انہیں کہہ دیا کہ تم نگرانی رکھو اور پھر کسی دن اگر لڑکے کشتی کو کھول کر پانی میں لے جائیں تو مجھے اطلاع دو۔ چنانچہ ایک دن قادیان کے بہت سے لڑکے اکٹھے ہو کر وہاں گئے انہوں نے کشتی کھولی اور خوب ۔ُکودنا پھاندنا شرو ع کردیا۔ اس طرح پانی میں کوئی کشتی کو اِدھر سے کھینچتا کوئی اُدھر سے، مجھے بھی اطلاع ہوئی میں غصے سے ہاتھ میں بید لئے دَوڑتا ہؤا وہاں چلا گیا اور وہاں چاروں طرف لڑکے مقرر کر دئیے کہ کسی کو بھاگنے نہیں دینا۔ جب لڑکوں نے ہمیں دیکھا تو انہوں نے اِدھر اُدھر بھاگنا چاہا مگر چاروں طرف آدمی کھڑے تھے۔ آخر وہ اُسی طرف آئے جس طرف مَیں کھڑا تھا اور کشتی کو کنارے پرلگاتے ہی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور تو نکل گئے لیکن ایک قصاب کالڑکا مَیں نے پکڑ لیا اور گو وہ مجھ سے بہت مضبوط تھا اور اُس کا جسم بھی ورزشی تھا مگر میں جانتا تھا کہ وہ میرامقابلہ نہیں کر سکے گا۔ کچھ اُس میں فطرت کی اس کمزوری کا بھی دخل تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ لوگ ہم پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ ہم یہاں کے مالک ہیں۔ غرض بچپن کی جو ناعقلی ہوتی ہے کہ انسان اپنے رُعب سے بعض دفعہ ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے اس کے مطابق میں نے زور سے ہاتھ اُٹھا کر اُسے مارنا چاہا۔ اُس نے پہلے تو اپنا منہ بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا جس پر مجھے اور زیادہ طیش آیا اور میں نے زیادہ سختی سے اُسے تھپڑ مارنا چاہا مگر ابھی تھپڑ اُسے نہیں مارا گیا تھا کہ اُس نے اپنا منہ میرے سامنے کر دیا اور کہنے لگا لو جی مارلو۔ اِس پر یکدم میرا ہاتھ نیچے گِر گیا اور مَیں شرمندہ ہؤا کہ فتح آخر اُس کی ہوئی حالانکہ جسمانی لحاظ سے وہ گو مجھ سے طاقت ور تھا مگر رُعب کے لحاظ سے وہ مجھ سے کمزور تھالیکن چونکہ اُس نے مقابلہ سے انکار کیا اور کہا کہ مار لو تو میری انسانیت نے مجھے کہا اب اگر ُتو نے اسے مارا تو ُتو انسان کہلانے کامستحق نہیں رہے گا۔ لیکن اگر وہ تندرست اور زبردست نوجوان ہونے کی بجائے ایک چھوٹا سا بچہ ہوتا، اُس کی پیٹھ میں خم ہوتا، اس کے سینہ میںگڑھا پڑا ہؤا ہوتا، اس کی گردن دُبلی پتلی ہوتی، اس کی ناک سے رال بہہ رہی ہوتی اور وہ کہتا مارلو تو مجھ پرکچھ بھی اثر نہ ہوتا کیونکہ میں جانتا کہ اِس میں مقابلہ کی طاقت ہی نہیں۔ پس میں نے اگر جسمانی ورزش کی ہدایت دی ہے تو اِس لئے کہ تمہاری قربانی دنیا کوسچی معلوم ہو یہ نہ ہو کہ تم ماریں بھی کھائو اور قربانی بھی سچی معلوم نہ ہو۔ وہ مار لوگوں کے لئے ہدایت کاموجب بنتی ہے جو طاقت رکھتے ہوئے کھائی جائے مگر جو ماربُزدلی کی وجہ سے کھائی جائے اس سے حقارت اور نفرت بڑھتی ہے۔ جب لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ایک تھپڑ ماریں تو دوسرا دو تھپڑ مار سکتا ہے، وہ اگر ایک گال پر خراش پیدا کریں تو دوسرا ان کے دانت نکال سکتا ہے، وہ اگر کھوپڑی پر چوٹ لگائیں دوسرا ان کے سر کو پھوڑ سکتا ہے تو اگر ایسی طاقت رکھنے والا انسان ایک کمزور انسان سے کہے کہ میں تم سے مار کھا لیتاہوں تو دوسرے انسان کے دل پرضرور چوٹ پڑتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کوئی ایسی طاقت ہے جس نے اسے اتنی بڑی قربانی پر آمادہ کر دیا اور وہ سچائی کو قبول کرلیتا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھو آپؐ نے مکہ میںصبرکیا اور ایسا صبر کیا جس کی نظیر دنیا میںنہیں ملتی۔ مگر لوگ کہہ سکتے تھے کہنَعُوْذُ بِاللّٰہِ بُزدل ہے اس لئے لڑائی سے کنارہ کرتا ہے۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ آپؐ کو مدینہ میں لے گیا اور وہاں فوجوں کی کمان آپؐ کو کرنی پڑی اور ایسے ایسے مواقع آئے جن میںآپؐ کو اپنی بہادری کے جوہردکھانے پڑے۔ اُحد کے موقع پر ہی ایک شخص جومکہ کا بہت بڑا جرنیل تھا آگے آیا اور اس نے کہا مَیں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میںمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گااس لئے میرے مقابلہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ہی نکالا جائے۔ صحابہؓ بڑے بہادر اور تجربہ کار تھے، وہ شمشیر زنی سے واقف تھے، وہ نیزہ بازی کو خوب جانتے تھے، وہ لڑائی کے اصول اور فن کے ماہر تھے، وہ سارے اِس نیت سے کھڑے ہوگئے کہ ہم مر جائیں گے مگر اِس شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن آپؐ نے فرمایا رستہ چھوڑ دو۔ صحابہ نے آپؐ کے حکم کے ماتحت رستہ خالی کر دیا۔ اِس پر یہ جرنیل شیر کی طرح گرجتا ہؤا آپؐ کے مقابلہ میںآیا۔ آپؐ نے اپنا نیزہ بڑھا کر اُس پر وار کیا اور اُس کی گردن پر ایک معمولی سا زخم لگادیا وہ اُسی وقت چیخ مار کر واپس لَوٹ گیا۔لوگوں نے اُس سے کہا کہ تم نے یہ کیا ِکیا؟ یا تو اس بہادری سے حملہ کرنے کے لئے گئے تھے او ریا اس بُزدلی کے ساتھ واپس بھاگ آئے اور پھر تمہارا تو زخم بھی کوئی بڑا نہیں اُ س نے کہا بے شک یہ ایک چھوٹا سا زخم ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہنم کی آگ اِس میں بھردی گئی ہے جو مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔۳؎ یہ ایک نشان تھا جو خدا تعالیٰ نے دکھایا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمانا کہ میرے لئے رستہ چھوڑ دو اس نے بتادیا کہ مکہ میں ُکفار کے مظالم آپؐ کمزوری یا ُبزدلی کی وجہ سے برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ بہادری اور طاقت کے ہوتے ہوئے برداشت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ کی قربانیوں کو دیکھ کر لوگ ہدایت پا جاتے تھے۔
قرآن آپؐ نے سنایا اور سالوں سنایا مگر حمزہؓ پر جو آپؐ کے چچا تھے کوئی اثر نہ ہؤا، توحید کے وعظ آپؐ نے کئے اور سالوں کئے مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہؤا، اصلاحی تعلیم آپؐ نے دی اور سالوں دی مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہؤا،نماز یں آپؐ نے پڑھیںاور پڑھائیں اور سالوں پڑھیں اور پڑھائیں مگر حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہؤا۔آپ ؐ نے صدقے دیئے اور دلائے اور سالوں صدقے دیئے اور دلائے مگر آپؐ کے چچا حمزہؓ پر کوئی اثر نہ ہؤا،آپؐ خانہ کعبہ سے باہر پتھر کی ایک چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوجہل آ گیا اور اُس نے پہلے تو آپؐ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھرغصہ میں اُس نے زور سے آپؐ کے منہ پرایک تھپڑ ما ر دیا ۔ حمزہؓ کی ایک لونڈی اُس وقت دروازہ میں کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی وہ اِس کو برداشت نہ کرسکی اور اندر ہی اندر سارا دن ُکڑھتی رہی۔ حمزہؓ شکار کے بہت شوقین تھے اور وہ گھوڑے پر چڑھ کر شکار کے لئے حرم سے باہر نکل جایا کرتے تھے اُس دن وہ شکار کر کے فخر سے گھر میں داخل ہونے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی لونڈی جو دیر سے ان کے گھر میں رہتی تھی اور جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بچپن کازمانہ دیکھا ہؤا تھااورجو آپؐ سے آپؐ کے دادا کومحبت تھی اُسے بھی جانتی تھی وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہے۔حمزہؓ نے پوچھا بی بی کیوں روتی ہو؟ عرب لوگ گھر کی مامائوںاورخادمائوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کسی نے اِس کی ہتک کی ہوگی اور اب میرا فرض ہے کہ میں اِس ہتک کا بدلہ لوں۔ لونڈی نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور کہا بڑے بہادر بنے پھرتے ہو۔ حمزہؓ نے کہا کیوں کیا ہؤا؟ کونسی شکایت پیدا ہو گئی ہے؟ وہ کہنے لگی تم ہتھیار لگائے پھرتے ہو اور آج آمنہ کے بیٹے کو بغیر کسی قصور کے ابوجہل نے مارا ہے۔ حمزہؓ وہیںسے پلٹے اور جہاں ابوجہل مکہ کے دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا ہؤا تھا وہاں پہنچے اور اُس کے سر پر زور سے کمان مار کر کہا محمدؐ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے صبر کیا اور تم نے اُس پر ظلم کیا۔ تم اگر اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہو اور تم میں طاقت ہے تو آئو اور مجھ سے مقابلہ کرلو۔ اس کے بعد وہ اِس جوش کی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تشریف لے گئے۔ جس شخص کے دل پر قرآن سننے کا اثر نہیں ہؤا تھا، جس شخص کے دل پر توحید کے وعظوں سے کوئی اثر نہیں ہؤا تھا، جس شخص کے دل پر اخلاق کے نمونے اور تعلیم نے کوئی اثر نہیں کیا تھا، جس شخص کے دل پر صدقہ وخیرات نے کوئی اثر نہیں کیا تھا چونکہ وہ بہادر تھا یہ چیز اُسے کاٹ کر رکھ گئی کہ ایک بہادر آدمی صبر کرتا ہے اور ظالم سے مار کھا لیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آپؐ کے کمرے میںداخل ہوتے ہی کہا اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِ لٰـہَ اِلاَّاللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ میںایمان لاتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور میں ایمان لاتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم اُس کے رسول ہیں۔۴؎ اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہادر نہ ہوتے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلیر نہ ہوتے، اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شجاع نہ ہوتے تو آپؐ کاصبر حمزہؓ کی ہدایت کا موجب کبھی نہیںہو سکتا تھاکیونکہ کمزور تو صبر کیا ہی کرتا ہے۔ بے شک کمزوروں پر ظلم بھی لوگوں کے دلوں میںرحم پیدا کرتا ہے مگروہ ظلم صرف رحم پیدا کرتا ہے ہدایت کاموجب نہیںہوتا۔ہدایت ہمیشہ طاقت ور کے ظلم کے نتیجہ میں ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ کمزور کے ظلم کو دیکھ کر لوگ رو دیتے ہیں،آہیں بھر دیتے ہیں مگرکمزور کے ظلم کو دیکھ کر مذہب تبدیل نہیں کرتے۔مذہب اُس وقت تبدیل کرتے ہیںجب وہ ایک بہادر اور جری انسان کو گالیاں سنتے اور صبر کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تب وہ کہتے ہیں کہ اِس کا صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہیںبلکہ خدائی حُکم کی وجہ سے ہے۔ پس جب مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے وقتوں میں سے کچھ وقت کھیلوں میں لگائو تو میںتمہیںیہ نہیں کہتا کہ تم اتنا وقت دنیا کے کاموں میں خرچ کرو بلکہ میں تمہیں اصلاح وہدایت کابہترین نمونہ بنانا چاہتا ہوں۔ جب تم کبڈی کھیلتے ہو یا کوئی اور کھیل کھیلتے ہو اِس نیت اور ارادہ سے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو درحقیقت تم نیکی کرتے ہوکیونکہ تمہارا سب کام لوگوںکی ہدایت اور اسلام کو پھیلانے کیلئے ہے۔ پس بہادر بنو اور سچے بہادر بنو جیسا کہ میں نے بتایا ہے سچا بہادر وہ ہے جو ظلم کے وقت صبر سے کام لیتا اور طاقت رکھتے ہوئے عفو سے کام لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جب قربانی کا وقت آتا ہے وہ عواقب سے نہیں ڈرتا۔ بعض لوگ اس کے بُرے معنے لیتے ہوئے میری طرف غلط باتیں منسوب کیا کرتے ہیں مگر میں ان کے اعتراضوں سے ڈر کر اس سچائی کو نہیں چھپا سکتا جس کے بغیر اخلاق مکمل نہیں ہو سکتے اور جس کا دوسروں کو سکھانا میرا فرض ہے۔ میںتمہیں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی موقع پر اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کی ضرورت ہے اور تمہیںاِس بات کا موقع ملتا ہے اور تمہارے ہاتھ سے کسی کو نادانستہ طو ر پر کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ نہ کہو کہ مَیں وہاں نہیں تھا بلکہ دلیری سے کہو کہ میں نے ہی یہ فعل کیا ہے۔اور سچائی کو ایک لمحہ کے لئے بھی ترک نہ کرو۔ تم اگر ظلم کے سہتے وقت یہ نمونہ دکھائو کہ تم سے کمزور تمہارے منہ پر تھپڑ مارے اور تم اپنی دوسری گال بھی اُس کی طرف یہ کہتے ہوئے پھیر دو کہ اے میرے بھائی! اگر ُتومجھے مارنے پر ہی خوش ہے تو بے شک مجھے مار لے مگر خدا کی باتیںتھوڑی دیر کے لئے سن لے تو تمہارے اِس نمونہ سے سارا گائوں متأثر ہو گا۔اور اگر کبھی تمہیں ظلم کامقابلہ کرنا پڑے اور تمہارے ہاتھوں سے دوسرے کونادانستہ طور پر کوئی نقصان پہنچ جائے اور معاملہ عدالت میں جائے تو تم عدالت میں جا کر بھی صاف طور پر کہو کہ اے حاکم! میں نے ان حالات میں یہ فعل کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچانے کی کبھی کوشش نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو تو تمہاری کامیابی اور ترقی یقینی ہے۔ لیکن اگر گالی کے مقابلہ میں تم بھی گالی دو گے، مار کے مقابلہ میں تم بھی مارو گے تو تمہارے اِس فعل کی وجہ سے احمدیت کو کوئی ترقی نہیں ہو گی۔ پس تم اِن دونوں طریقوں کو اختیار کرو ماریںکھائو اور کھاتے چلے جائو، ِپٹو اور ِپٹتے چلے جائو، سوائے اس کے کہ خدا اور رسول کا حکم کہے کہ اب تمہاری جان کا سوال نہیں، اب تمہارے آرام کا سوال نہیں، اب دین کی حفاظت کا سوال ہے، ایسی صورت میں میری نصیحت تمہیں یہی ہے کہ تم مقابلہ کرو اور اِس نیکی کے حصول سے ڈرو نہیں۔ اگر مظلوم ہوتے ہوئے اور دفاع کرتے ہوئے تمہارے ہاتھوں سے نادانستہ طور پر کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے اور درحقیقت تم ظالم نہیں ہو تو تمہارے لئے جنت کے دروازے اور زیادہ ُکھل جاتے ہیں۔
پس بہادر بنو اسی طرح کہ جب لوگ تم پر ظلم کریںتو تم عفو اور چشم پوشی اور درگزر سے کام لو مگر جب دیکھو کہ چشم پوشی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اورتمہیں دفاع اور خود حفاظتی کے لئے مقابلہ کرنا پڑتا ہے تو پھر دلیری سے اس کا مقابلہ کرو اور اگر اس دَوران میںتمہارے ہاتھوں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو پھر صاف کہہ دو کہ میں نے ایسا کیا ہے اور جھوٹ بول کر اپنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہ کرو۔
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض بہادر بننا ہے اور بہادری کا ایک حصہ سچ بھی ہے۔ بغیر سچ کے کوئی شخص بہادر نہیں ہو سکتا مگر سچ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر بات بیان کردو۔ اگر ایک ڈاکو تم سے پوچھتا ہے کہ تمہارے ماں باپ اپنا روپیہ گھر میںکہاں رکھتے ہیں یا چور پوچھتا ہے کہ تمہاری بہن یاتمہاری بیوی کا کتنا زیور ہے اور وہ کہاں رکھا ہؤا ہے تو تمہارا یہ کام نہیں کہ اسے اپنے زیورات کی فہرست بتائو اور کہوکہ ہم فلاں جگہ رکھا کرتے ہیں۔ سچ کے معنے صرف یہ ہیں کہ جو بات بیان کی جائے وہ بالکل صحیح ہو مگر جو بات تم بیان نہیں کرنا چاہتے اس کے متعلق صاف طور پر کہہ دو کہ میں بیان کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ تم ہر بات بیان کرو۔ مرد وعورت کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں مگر کوئی شخص ان تعلقات کا ذکر دوسرے کے پاس نہیں کرتا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جو عورت اپنے مرد کے تعلقات کا ذکراپنی کسی سہیلی سے بھی کرتی ہے اُس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے *** کرتے ہیں ۔۵؎ اب کیا وہ عورت سچ نہیںبولتی؟ سچ ہی بول رہی ہوتی ہے مگر ا س سچ بولنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے *** برستی ہے کیونکہ وہ بے حیائی کی باتیں ہوتی ہیں۔ پس ہر بات کو بیان کرنا سچ نہیں بعض دفعہ وہ بات بیان کرنا ظلم کا موجب ہوتا ہے، بعض دفعہ اخلاق کے خلاف ہوتی ہے اور بعض دفعہ بے حیائی کا موجب ہوتی ہے۔ لیکن بہرحال انسان کا یہ فرض ہے کہ جب وہ کسی بات کو بیان کرے تو سچ سچ بیان کر دے۔ پس تم سچ بولو اور اگر کسی بات کا چُھپانا ضروری ہو تو بے شک اُس کو چُھپا لو تمہیںکوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ تم ضرور ہر بات بیان کرو۔ بعض باتوں کے بیان کرنے سے شریعت انسان کو روکتی ہے ۔ ایسی باتوں کے متعلق ہی حکم ہے کہ انہیں مت بیان کرو کیونکہ شریعت ان کو بیان کرنے کی اجازت نہیںدیتی۔
یہ اغراض ہیں جو خدام الاحمدیہ کے قیام کی ہیں۔ پھر خدام الاحمدیہ کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ وہ احمدی اخلاق سیکھیں، نیکی کے کام بجا لائیں اور پابندیٔ نماز کی عادت ڈالیں۔ تمہارا فرض ہے کہ تم سُست لوگوں کے پاس جائو اور ان میں نماز باجماعت کی پابندی کی عادت پیدا کرو مگر جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر بھی کہا تھا ناجائز دبائو سے کام مت لو۔ اسی طرح جتنا بڑا کوئی عُہدہ دار ہو اُسے اتنا ہی چُست اور عملی کام کرنے والا ہونا چاہئے مگر آجکل مصیبت یہ ہے کہ بڑے آدمی خیال کرتے ہیں کہ ہاتھ سے کام کرنا اُن کی ہتک کا موجب ہے حالانکہ میرے نزدیک جو شخص ہاتھ سے کام نہیں کرتا وہ حرام خور ہے۔ خدا نے انسان کو ہاتھ اس لئے نہیںدئیے کہ وہ ان سے کوئی کام نہ لے بلکہ ہاتھ کام کرنے کے لئے ہی خدا نے دئیے ہیں۔ پس جس طرح خداتعالیٰ نے زبان دی ہے اور زبان کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، خداتعالیٰ نے پائوں دئیے ہیں اور پائوں کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے، اسی طرح خداتعالیٰ نے ہاتھ دئیے ہیں اور ہاتھوں کا استعمال نہ کرنا بھی گناہ ہے۔ جو شخص قیدی بن کر چارپائی پر لیٹا رہتا ہے اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیتا رہتا ہے کہ اس طرح کرو اور اُس طرح کرو وہ حرامخوری کرتا ہے۔ پس ہر شخص کو اپنے ہاتھوں سے کام کرنا چاہئے اسی لئے خدام الاحمدیہ روزانہ ہاتھوں سے مشقّت کا کام کرتے ہیں اور ایک دن خاص طور پر سب لوگوں کو اِس میںشریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اِس قسم کے اجتماعی عمل کی غرض یہی ہے کہ ہر انسان ان نعمتوں کا شکر ادا کرے جو خدا تعالیٰ نے اس کو عطا کی ہیں۔ وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ مَیں بڑا ہوں اور لوگ بے شک کام کریں مگر میںنہیںکر سکتا وہ شرم وحیا سے عاری انسان ہے۔
پس جو تمہارے ُعہدہ دار ہیں انہیں زیادہ کام کرنا چاہئے اور مرکزی ُعہدہ داروں کو کاموں میںخود حصہ لینا چاہئے۔ اب تو اس طرح ہوتا ہے کہ ُعہدہ دار معتمد کو ہدایت بھیج دیتا ہے اور معتمد آگے ہدایت بھیج دیتا ہے لیکن آئندہ کے لئے ُعہدہ داروں کو خو د محلوں میںجا جا کر خدام کا کام دیکھنا چاہئے۔ اسی طرح سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ بھی خود بار بار محلوں میںپھر کر کام کی نگرانی کریں صرف ہدایت لکھ کر بھیج دینی کافی نہیں ہے۔ میرے نزدیک تمام مرکزی عُہدہ داران کو ہفتہ میںدو تین بار ضرور عملی کام میںشریک ہونا چاہئے اور خدام میں بیٹھ کر ان سے باتیں کرنی چاہئیں۔ اِسی سلسلہ میں مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ بعض مشورہ کے قابل امور ایسے ہوتے ہیں جن میںصرف ُعہدہ دار شامل ہو سکتے ہیں۔مگر جب کسی اجتماع کے موقع پر سب لوگ اکٹھے ہوں تو پھر سب سے مشورہ لینا چاہئے اور اِس غرض کے لئے ایسے اجتماع میں مشورہ کے قابل امور کو پیش کرنا چاہئے اور ہر ایک کو رائے دینے کی آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ میرے نزدیک ایسے جلسوں سے پہلے جماعتوں کولکھ کر اُن سے دریافت کرلینا چاہئے کہ انہیں کام میںکیا کیا دقتیںپیش آ رہی ہیں؟ اور پھر ان مشکلات پر بحث کر کے آئندہ کے لئے سکیم بنانی چاہئے۔ مثلاً ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو جب کوئی ہدایت دی جاتی ہے تو وہ اسے مانتے نہیںان کاکیا علاج ہونا چاہئے؟ او ر اگر غور کیا جائے تو کئی تدابیر سامنے آ جائیںگی جو دلچسپ اور مفید ہونے کے علاوہ عقلی ترقی کا موجب ہوں گی۔ اسی طرح اگر کوئی دقّت ہو تو اسے سالانہ اجتماع کے موقع پرتمام خدام کے سامنے رکھاجائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہو گا جب خدام کی اکثریت کے فیصلہ کونافذ کیا جائے گا اس پر زیادہ کامیابی کے ساتھ عمل کیا جاسکے گا۔ ہر شخص کہے گا کہ یہ فیصلہ ہم نے خود کیا ہے اس لئے اس کی تعمیل ضروری ہے۔
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ ایسے اجلاسوں میںاہم امور کے متعلق لوگوں سے مشورے لینے چاہئیں اور ان کے مطابق اپنی سکیمیں بنانی چاہئیں۔ باقی نظام کی روح ضرور قائم رکھنی چاہئے یعنی لوگ شور نہ مچائیں اور صدر کی اجازت کے بغیر نہ بولیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو آداب کے خلاف ہو۔ اسی طرح عہدیداروں کا فرض ہے کہ وہ خدام سے ذاتی واقفیت پیدا کریں یہاں تک کہ وہ کسی کو دیکھتے ہی پہچان لیں کہ یہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔
پس ذاتی واقفیت کو جتنا بڑھا سکتے ہو بڑھائو اب تو ہماری جماعت لاکھوں کی تعداد میں ہے پھر بھی جلسہ سالانہ کے ایام میںباوجود کوفت اور تکلیف کے مَیںسب سے مصافحہ کرتا ہوں اور اس طرح ہر سال کچھ نہ کچھ نئے لوگوں سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ خدام الاحمدیہ کے لئے تو ابھی کافی موقع ہے کہ وہ اپنی واقفیت کو وسیع کریں۔ میں نے دیکھا ہے کہ اس نقص کی وجہ سے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملتے کم ہیں بعض دفعہ شہری جماعتیں بھی ایک دوسرے کو نہیں پہچان سکتیں۔ میرے نزدیک اس طرح بھی خدام الاحمدیہ کا امتحان لینا چاہئے کہ عہدیدار خود اپنے خدام کو انٹروڈیوس کرائے اور ان کے حالات بیان کرے اس طرح پتہ لگ جائے گا کہ عہدیداران سے واقف ہے یا نہیں؟ اس طرح دلوں میں بشاشت اور اُمنگ پیدا ہو جاتی ہے اور کام میں ترقی ہوتی ہے۔ پھر میرے نزدیک اِس دفعہ کے پروگرام میں یہ بھی غلطی ہے کہ کام کی ٹریننگ کے متعلق بہت کم تقریریں رکھی گئی ہیں صرف وعظ کے طور پر بعض تقریریں رکھ دی گئی ہیں۔حالانکہ انہیں بتانا یہ چاہئے تھا کہ اب تک کام میںکیا کیا دقتیں پیش آئی ہیں اور اِن دقتوں کا حل انہوں نے کیا تجویز کیا ہے۔ جو زیادہ سمجھ دار عہدیدار ہیں یا مرکز میںرہتے ہیں انہیں تفصیلاً یہ تمام باتیں بیان کرنی چاہئیں تھیں کہ خدام کی تنظیم کے کام میں ان سے کام لینے کے دَوران میںکیا کیا دقتیں پیش آئیں، انہوں نے ان کا کیا علاج تجویز کیا او رکس طرح ان دقتوں کو دُور کیا۔ ایسے مضامین پر زیادہ زور دینا چاہئے تھا تادوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھاسکتے اور وہ یہاں سے خدام الاحمدیہ کے کام کو سیکھ کر جاتے۔
کھیلوں کے متعلق بھی میں خدام کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کل کی ورزشیں ایسی ہیں جو امیر اور غریب میںفرق کرتی ہیں۔ آپ لوگ جوگائوں والے ہیں کرکٹ نہیں کھیل سکتے کیونکہ آپ کا اگر ایک لڑکا بھی سکول میں پڑھتا ہے تو آپ ہیڈ ماسٹر کی خوشامدیں کرتے پِھرتے ہیں کہ میر ے لڑکے کی فیس معاف کر دیں۔ پھر اگر وہ لڑکا پاس ہو جائے تو آپ لوگوں کا بڑا معیار یہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں نائب مدرّس ہوجائے یا پٹواری بن جائے یا کانسٹیبلوں میں بھرتی ہو جائے۔ آپ لوگوں کے پاس بھلا کہاں طاقت ہے کہ آٹھ دس روپے کا َبلاّ خریدیں اور وہ دو مہینہ کے بعد ٹوٹ جائے۔ پھر آپ لوگوں کویہ کہاں توفیق ہے کہ روپیہ ڈیڑھ روپیہ کا گیند لیں جس پر اگر چند ہِٹیں بھی لگ جائیں تو وہ ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی بجائے دوسرا گیند لایا جائے۔ آپ لوگوں کے لئے تو سب سے بڑی ورزش یہ ہے کہ جتنا دَوڑ سکتے ہوں دوڑیں کُھلے میدان آپ کے سامنے ہوتے ہیںاور جتنا دَوڑنا چاہیں دَوڑسکتے ہیںشہری جو آپ کے بھائی ہیںویسے ہی خدا کے بندے ہیںجیسے آپ ہیں۔ مگر جب وہ سفید فلالین کی پتلونیں پہن کر اور آدھی آدھی باہوں کی ٹول(TWILL)کی قمیض پہن کر نکلتے ہیں تو زمیندار سمجھتے ہیں کہ شاید وہ کسی ساہو کار کے بیٹے ہیں یا انہیں گورنمنٹ میںکوئی بڑا عُہدہ حاصل ہے ۔ جب وہ سفید پتلونیں اور پٹیاںلگا کر اور آدھی آدھی بانہوں کی قمیض پہن کر کرکٹ کھیلنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں تو زمیندار دور کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگ جاتے ہیںاور ہر ایک ہِٹ کے متعلق وہ سمجھتے ہیںکہ شاید بی اے یا ایم اے کو یہ کوئی خاص ہُنر سکھایا گیا ہے اور کالج کا طالب علم بھی جب ہِٹ مار کر اور تکبر سے گردن موڑ کر چلتا ہے تو سمجھتا ہے کہ سارے زمیندار جن میںسے کوئی اُس کا دادا ہوتا ہے اور کوئی اُس کا پڑدادا ہوتا ہے جانور ہیں۔ پھر کرکٹ کے لئے اتنی بڑی فیلڈ ہونی چاہئے جو ہماری اِس مسجد اقصیٰ سے اپنی وُسعت میںچار گُنے بلکہ سات آٹھ گُنے زیادہ ہو۔ اور اتنی بڑی فیلڈ صِرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لئے کافی ہوتی ہے تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر صرف بائیس آدمیوں کے کھیلنے کے لئے اتنی بڑی فیلڈ کی ضرورت ہو سکتی ہے تو شہروں اور گائوں کے لئے کتنی فیلڈوں کی ضرورت ہوسکتی ہے مثلاً پھیروچیچی میں چار پانچ سَو مرد ہیںاگر سب کرکٹ کھیلیں تو اس کے لئے ۲۲،۲۳ فیلڈوں کی ضرورت ہو گی بھلا اتنی زمین وہ کہاں سے لا سکتے ہیں یہ تو صرف پھیروچیچی کا حال ہے جو ایک گائوں ہے۔ لاہور کی پانچ لاکھ آبادی ہے جس میں سے اڑھائی لاکھ مرد ہیںاور گو اَب عورتیں بھی کھیل میں شامل ہوتی ہیں لیکن اگر مردوں کے لئے ہی فیلڈ یں ہوں تو ساٹھ ہزار ایکٹر زمین کی ضرورت ہو گی تب کہیں صرف لاہور والے کرکٹ کھیل سکتے ہیں ۔ بھلا یہ بھی کوئی کھیلیں ہیںاور کیا دنیا کاکوئی معقول انسان ان کھیلوں کو ہر جگہ رائج کر سکتا ہے۔ یہ تو یورپ والوں کی کھیلیں ہیں جہاں امیر اور غریب کو الگ الگ رکھا جاتا ہے ان میںایسے ایسے لوگ ہیںجو ڈیڑھ دو لاکھ سے پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد رکھتے ہیں مگر یہاں سارے ضلع گورداسپور کے بڑے بڑے زمینداروں کی آمد کو اکٹھا کیا جائے تو وہ وہاں کے ایک شخص کی آمد کے دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں بنیں گی۔ پھر وہاں جوتاجر ہیں بیس بیس، تیس تیس، چالیس چالیس بلکہ پچاس پچاس کروڑ روپیہ سرمایہ رکھتے ہیں اور جو درمیانی طبقہ کہلاتا ہے وہ بھی ایسا ہوتا ہے جس کے ہر فرد کی دو تین ہزار روپیہ آمد ہوتی ہے اور غریب مزدور بھی وہاں سَو سے تین سَور وپیہ تک کماتا ہے مگر تمہارے گائوں کے مزدور کو تو صرف تین چار روپیہ مہینہ پڑتا ہے پس یہ کھیلیں تمہارے لئے موزوں نہیں یہ تو یورپ کے مالدار لوگوں نے اپنے بچوں کے لئے بنائی تھیں تا کہ وہ دوسرے لوگوں سے ملیں نہیں کہتے ہیں اس سے کیریکٹر بنتا ہے اور امیرانہ اخلاق پیدا ہوتے ہیںلیکن ہمارے لوگوں نے بندر کی طرح اِن کی نقل کرنا شروع کر دی اور اس بات کو سمجھا ہی نہیں کہ یہ کھیلیں امیر اور غریب میںتفرقہ ڈالنے والی ہیں اور طالب علم کا دماغ بالکل خراب کر دیتی اور اسے بِالکل پاگل بنا دیتی ہیں۔ وہی طالب علم جو گائوں کا رہنے والا ہوتا ہے کالج میںتعلیم حاصل کر کے اپنے آپ کو کوئی الگ مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے اور جب اپنے گائوں میںواپس جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ لڑکے ُگلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں یا اپنے پڑدادا کے زمانے کا سُوت لے کر اُس کا کِھدُّو۶؎ انہوں نے بنایا ہؤا ہے اور درخت کی لکٹری کاٹ کر اُس کے ساتھ کھیل رہے ہیںتو وہ ناک بھوں چڑھا لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مَیں کس وحشی مُلک میں آ گیا ہوں حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو کھیلیں گائوں کے لوگ کھیلتے ہیں وہی اصلی کھیلیں ہیں اور ان سے بڑھ کر کوئی کھیل نہیں۔ ابھی میں پچھلے دنوں ایک دن سیرکے لئے دریا پر گیا تو ایک گائوں سے گزرتے ہوئے مَیں نے دیکھا کہ دو لڑکوں کے ہاتھ میں درخت کی چھڑیاں ہیں اور وہ ایک کِھدُّو کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ وہ کھیلتے کھیلتے روڑیوں پر بھی چلے جاتے تھے، کھیتوں میں بھیُگھسجاتے تھے وٹوں میںبھی دَوڑتے پھرتے تھے اور ایک اِدھر سے اس کِھدُّوکو سوٹی مارتا تھا اور ایک اُدھر سے۔ میں نے دیکھا تو کہا یہ وہ کھیل ہے جس میںسارا پھیروچیچی شامل ہو سکتا ہے، جس میں سارا لاہور شامل ہو سکتا ہے اور جس کے لئے کسی خاص فیلڈ کی ضرورت نہیںجہاں زمین نظر آئی کِھدُّوپھینکا اور کھیلنا شروع کر دیا یہ کھیلیں ہیں جو ہمارے ملک کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں او ریہی کھیلیں خدام الاحمدیہ کو کھیلنی چاہئیں۔ میں جانتا ہوں کہ ٹوپیوں والے اِس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شہروں میںرہ کر ہندوستانی نہیں رہے۔ ان کی شکلیں بے شک ہندوستانیوں کی ہیں، ان کا رنگ بے شک ہندوستانیوں کا ہے، ان کی زبان بے شک ہندوستانیوں کی ہے، ان کے ماں باپ بے شک ہندوستانی ہیں اور ان کی بیویاں بے شک ہندوستانی ہیں مگر ان کے اندر انگریزی خون کی ایسی پچکاری بھر دی گئی ہے کہ اب وہ ہندوستانیوں کی نہیں بلکہ یوروپین لوگوں کی نقل کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ وہ آج بے شک اس پر فخر کرلیں مگر کل جب قوم میںبیداری پیدا ہو گی اُس وقت انہیں نظر آئے گا کہ انہوں نے اپنی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ آخر تم کرکٹ کھیل کر کس طرح زمینداروں کی راہنمائی کر سکتے ہو۔ ہاں کِھدُّوکھیل کر تم اِن میں ضرور رہ سکتے ہو۔ پس کالج کا لڑکا جس کی تعلیم کی غرض ہی یہی ہے کہ وہ زمینداروں کوفائدہ پہنچائے وہ اپنی زندگی کو تباہ کرنے والا ہے جب تک وہ گائوں میںجا کر زمینداروں کی سی زندگی بسر کرنے کی عادت نہیں ڈالتا، جب تک وہ سرسوں کا ساگ اور جوار کی روٹی نہیں کھاتا، جب تک وہ کِھدُّوکھونڈی سے کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اپنی تعلیم سے زمینداروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔وہ یہی سمجھتے ہیں کہ پاگل خانے کا کوئی آدمی اچھے کپڑے پہن کر آ گیا ہے۔ دیکھو حدیثوں میں آتا ہے صحابہؓ کہتے ہیں اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نَتَکَلَّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ۷؎ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ہم لوگوں کی عقل کے مطابق گفتگو کیا کریں۔ پس لوگوں کی عقلوں کے مطابق اپنے آپ کو بنائو اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب تم سادہ خوراک کھائو، سادہ لباس پہنو، سادہ کھیل کھیلو مثلاً میروڈبہ کھیلو یا کِھدُّو کھونڈی کھیلو، انگریز ی کھیلیں فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ ہندوستانیوں کے لئے موزوں نہیںیہ انگریز امراء نے اپنے بچوں کے لئے بنائی تھیں اور امیرا ور غریب میںفرق کرنے والی ہیں ان کھیلوں کا یہاں کھیلنا اپنے مُلک کے ساتھ دشمنی ہے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی دشمنی ہے۔ ہماری زندگی تو ایسی سادہ ہونی چاہئے کہ گائوں والے بغیر شرم کے ہمارے پاس آسکیں اور ہم بغیر شرم کے ان کے پاس جا سکیں۔ میںامید کرتا ہوں کہ آئندہ جو کھیلیں ہونگی وہ اِس قسم کی ہونگی اور ان میں میری ہدایات کو ملحوظ رکھا جائے گا میںچاہتا ہوں کہ تم وہ کھیلیں کھیلو جو تمہاری آئندہ زندگی میںکام آئیں۔مثلاً گھوڑے کی سواری نہایت مفید چیز ہے۔ میں بچپن میں جب گھوڑے کی سواری سیکھنے لگا تو حضرت خلیفہ اول نے (آپ اُس وقت تک خلیفہ نہیںہوئے تھے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے) مجھے فرمایا میاں! یوں سواری نہیں آتی گھوڑے کی سواری سیکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ انسان پہلے گدھے پر بغیر پالان کے چڑھے جب گدھے کی سواری آ جائے تو پھر گھوڑے کی سواری خودبخود آجاتی ہے اس کے بعد فرمانے لگے ہم نے بھی اسی طرح سواری سیکھی تھی ہم گدھے پر سوار ہوتے تھے تو وہ دولتیاں مارتا تھا اور اُچھلتا ُکودتا تھا ہم بھی خوب اُچھلتے اور اُسے مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کی کوشش کرتے اس طرح لاتیں موڑ توڑ کر بیٹھنے کی عادت ہو گئی کہ گدھا لاکھ اُچھلتا ُکودتا ہم وہیں بیٹھے رہتے۔ توگھوڑے کی سواری سے پہلے گدھے کی سواری بھی آنی چاہئے اور زمینداروں کے لئے اِس میں کوئی د ّقت نہیں چھوٹے چھوٹے زمیندار لڑکے کھڑے ہوتے ہیں کہ پاس سے گدھا گزرتا ہے اِس پر فوراً ایک اِدھر سے پلاکی مار کر اُس پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا اُدھر سے پلاکی مار کر اُس پر چڑھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر سواری کرنے کے بعد ہنستے ہوئے اُتر جاتے ہیں مگر شہر والوں کو یہ نعمتیں کہاں میسر ہیں وہ تو جب تک کاٹھی نہ ہو اور سدھایا ہؤا گھوڑا نہ ہو اُس پر سوار ہی نہیں ہو سکتے۔
بہرحال گھوڑے اور گدھے کی سواری بھی نہایت مفید چیزیں ہیں اسی طرح اور دیسی کھیلیں ہیں ان سے تمہارا جسم مضبوط ہو گا۔ نوکری تمہیں آسانی سے مل سکے گی گھروں کی حفاظت کر سکو گے، کوئی ڈوب رہا ہو گا تو اُس کو نکال لو گے، آگ لگی ہوئی ہو گی تو اُس کو ُبجھا سکو گے، غرض یہ کھیل کی کھیل ہے او رکام کا کام، کہتے ہیں ’’ایک پنتھ دو کاج‘‘ اِس سے بھی دونوں فائدے حاصل ہو سکتے ہیں کھیلوں کا فائدہ بھی اور کاموں کا فائدہ بھی۔ میںامید کرتا ہوںکہ باہر سے جودوست آئے ہوئے ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ صرف کھیلیں نہیں بلکہ ان میںکئی حکمتیں ہیں پس کھیلو اور خوب کھیلو اور مت سمجھو کہ یہ دنیا ہے۔ جو باپ اپنے بچہ کو کھیلنے نہیںدیتا وہ یاد رکھے کہ جس بچے نے کھیل میں اپنے ہاتھ مضبوط نہ کئے وہ کھیتی باڑی بھی نہیں کر سکے گا وہ ہَل بھی نہیں چلا سکے گا اور وہ دنیا کے اور کاموں میںبھی حصہ نہیںلے سکے گا۔ پس تم اپنے بچوں کو کھیلنے دو بلکہ اگر تمہارا کوئی بچہ نہیں کھیلتا تو اُسے مارو کہ ُتو کھیلتا کیوں نہیں، ُکودنا پھاندنا، دَوڑیں لگانا، تیرنا،گھوڑے اور گدھے کی سواری کرنا یہ بڑے مفید کام ہیں تم ان چیزوں کو سیکھو اور سکھائو اور انہیں دنیا نہ سمجھو بلکہ دین کا حصہ سمجھو۔ (الفضل ۲،۴،۶،۷ ۔اکتوبر ۱۹۶۰ء)
۱؎ کانس : انگریزی لفظ ’’کارنس‘‘ کا بگڑا ہؤا۔ کنگی ۔ چھجا
۲؎
۳؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۸۵ ۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ (مفہوماً)
۴؎ سیرت ابن ھشام جلد ۱ صفحہ ۹۸۔۹۹ ۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵؎ ۶؎ کِھدُّو : گیند
۷؎ کنز العمال جلد ۱۰ صفحہ ۲۴۲ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء میں یہ الفاظ آئے ہیں۔ اُمِرْنَا اَنْ نُکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قدْرِ عُقُوْلِھِم



عراق کے حالات پر
آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر
( تقریرفرمودہ مؤرخہ ۲۵؍مئی ۱۹۴۱ء بوقت ۵۰:۸ صبح)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
عراق کی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بھی اور ہندوستانیوں کے لئے بھی تشویش کا موجب ہو رہی ہے۔ عراق کا دارالخلافہ بغداد اورا س کی بندرگاہ بصرہ اور اس کے تیل کے چشموں کا مرکز موصل ایسے مقامات ہیں جن کے نام سے ایک مسلمان اپنے بچپن سے ہی روشناس ہو جاتا ہے۔ بنو عباس کی حکومت علوم وفنون کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے طبعاً مسلمانوں کے لئے ایک خوشکن یادگار ہے لیکن الف لیلہ جو عربی علوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہترین دوست ہے اس نے تو بغداد اور بصرہ او رموصل کو ان سے اس طرح روشناس کر رکھا ہے کہ آنکھیں بند کرتے ہی بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی سرائیں ان کے سامنے اس طرح آ کھڑی ہوتی ہیں گویا کہ انہوں نے ساری عمر انہیں میں بسر کی ہے۔
مَیں اپنی نسبت تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد او ربصرہ مجھے لندن اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میر ے علم کی دیواروں کے اندر بند تھے اور ثانی الذکر میری قوتِ واہمہ کے ساتھ تمام عالَم میں پرواز کر تے نظر آتے تھے۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو عِلمِ حدیث نے امام احمد بن حنبل کو، فقہ نے امام ابو حنیفہ اور امام یوسف کو، تصوف نے جنید ؒ، شبلیؒ اور سید عبدالقادر جیلانی کو، تاریخ نے عبدالرحمن ابن قیم کو، ُعلم التدریس نے نظام الدین طوسی کو، ادب نے مبرد سیبویہ ،جریر اور فرزد ق کو، سیاست نے ہارون، مامون اور ملک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یادگارِ زمانہ تھے اور ہیں ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے لا کر اِس طرح کھڑا کیا کہ اب تک ان کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امیدوں سے پُر ہیں اور افکار بلند پروازیوں میں مشغول۔
ان کمالات کے مظہر اور ان دلکشیوں کے پیدا کرنے والے عراق میںفتنہ کے ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے دل دُکھے بغیر کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابر جو دُنیوی نہیں روحانی رشتہ سے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہمیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے؟
عراق سُنّی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے وہ مقام کے لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کے قلب میں واقع ہے پس اس کا امن ہر مسلمان کا مقصود ہے آج وہ امن خطرہ میںپڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اِس پرخاموش نہیں رہ سکتے اور وہ خاموش نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان اِس وقت گھبراہٹ ظاہر کر رہے ہیں اور اِن کی یہ گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ وہ جنگ جس کے تصفیہ کی افریقہ کے صحرا اور میڈیٹیر ین کے سمندر میں امید کی جاتی تھی اب وہ مسلمانوں کے گھروں میںلڑی جائے گی ۔اب ہماری مساجد کے صحن اور ہمارے بزرگوں کے مقابر کے احاطے اِس کی آماجگاہ بنیں گے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جرمنوں نے جن مُلکوں پر قبضہ جما رکھا ہے ان کی کیا حالت ہو رہی ہے اگر شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کے لئے یہ خطرہ پیدا نہ ہوتا۔
اِس فتنہ کے نتیجہ میں ترکی گِھر گیا ہے، ایران کے دروازہ پر جنگ آ گئی ہے، شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے، عراق جنگ کی آماجگاہ ہو گیا ہے، افغانستان جنگ کے دَروزاہ پر آ کھڑا ہؤا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ مقامات جو ہمیں ہمارے وطنوں، ہماری جانوں اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیز ہیںجنگ عین اُن کی سرحدوں تک آ گئی ہے۔ وہ بے فصیلوں کے مقد س مقامات، وہ ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل لٹک رہے ہیں اب بم باروں اور جھپٹانی طیاروں کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہؤا ہے کیونکہ ان کی اِس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات سے سینکڑوں میل پرے تھی۔
اِن حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اِس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام میںجرمنی اور اٹلی کی فوجیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیںہوئیں اگر خدانخواستہ بڑی تعداد میںفوجیں یہاں داخل ہو گئیں تو یہ کام آسان نہ رہے گا۔ جنگ کی آگ سُرعت کے ساتھ عرب کے صحرا میں پھیل جائے گی۔
اِس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید علی صاحب یا مفتی یروشلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا جا سکتا، انہیںغدّار کہہ کر ہم اِس آگ کو نہیں ُبجھا سکتے۔ میںشیخ رشید صاحب کو نہیں جانتا لیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر واقف ہوں میرے نزدیک وہ نیک نیت آدمی ہیں اور اُن کی مخالفت کی یہ وجہ نہیںکہ اُن کو جرمنی والوں نے خرید لیا ہے بلکہ اُن کی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم میںجو وعدے اتحادیوں نے عربوں سے کئے تھے وہ پورے نہیںکئے گئے۔ ان لوگوں کو بُرا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان کے واقف اوردوست اشتعال میںآ جائیں گے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنے تجربے کی بناء پر دیانتدار سمجھتا ہے تو جب کوئی اس دوسرے شخص پر بددیانتی کا الزام لگائے تو خواہ جس فعل کی وجہ سے بددیانتی کا الزام لگایا گیا ہو بُرا ہی کیوں نہ ہو چونکہ اس پہلے شخص کے نزدیک وہ فعل بددیانتی کے باعث سے نہیں ہوتا وہ اس الزام کی وجہ سے جسے وہ غلط خیا ل کرتا ہے ا س دوسرے مجرم شخص سے ہمدردی کر نے لگتا ہے او ر آہستہ آہستہ اس کے افعال میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جو عالَمِ اسلامی میں شیخ رشید اور مفتی یروشلم سے حُسنِ ظنی رکھتے ہیں ٹھوکر اور ابتلاء سے بچانے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقع پر اپنی طبائع کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات کہیں اِس میں صرف اصلاح کا پہلو مدنظر ہو، اظہارِ غضب مقصود نہ ہو تا کہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں۔
یادر ہے کہ اِ س فتنہ کے بارہ میں ہمارے لئے اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ شیخ رشید علی صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ فعل اسلامی مُلکوں اور اسلامی مقدس مقامات کے امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب ہؤا ہے۔ ہمیںان کی نیتوں پر حملہ کرنے کا نہ حق ہے اور نہ اِس سے کچھ فائدہ ہے اِس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اِس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے اور یہ اِسی صورت میںہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اِس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دبانے میںان کا ہاتھ بٹائیں تا کہ جنگ، مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دُور رہے اور ترکی، ایران، عراق اور شام اور فلسطین اِس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں۔ یہ وقت بحثوں کا نہیں، کام کا ہے اِس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالَمِ اسلام کو پیش آنے والا ہے تا کہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور جو قربانی بھی اِس سے ممکن ہو اُسے پیش کردے۔ جنگ کے قابل آدمی اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں، روپیہ والے لوگ روپیہ سے امداد دیں، اہلِ قلم اپنی ِعلمی قوتوں کو اِس خدمت میںلگا دیں اور جس سے اور کچھ نہیںہو سکتا وہ کم سے کم دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اِس جنگ سے اسلامی مُلکوں کومحفوظ رکھے اور ہمارے جن بھائیوں سے غلطی ہوئی ہے ان کی آنکھیں کھول دے کہ وہ خود ہی پشیمان ہو کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے میںلگ جائیں۔
میرے نزدیک عراق کا موجودہ فتنہ صرف مسلمانوں کے لئے تازیانہ تنبیہہ نہیںبلکہ ہندوستان کی تمام اقوام کے لئے تشویش اور فکر کاموجب ہے کیونکہ عراق میںجنگ کا دروازہ ُکھل جانے کی وجہ سے جنگ ہندوستان کے قریب آ گئی ہے اور ہندوستان اب ا ِس طرح محفوظ نہیں رہا جس طرح پہلے تھا۔ جو فوج عراق پر قابض ہے عرب یا ایران کی طرف سے آسانی سے ہندوستان کی طرف بڑھ سکتی ہے پس ہندوستان کی تمام اقوام کو اِس وقت آپس کے جھگڑے بُھلا کر اپنے ملک کی حفاظت کی خاطربرطانوی حکومت کی امدا د کرنی چاہئے کہ یہ اپنی ہی امداد ہے۔ شاید شیخ رشید علی جیلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میںعربوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی مگر ہؤا یہ کہ عرب جو پہلے تُرکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب چار پانچ ٹکڑوں میںتقسیم ہو گئے ہیں بیشک انگریزوں نے عراق کو ایک حد تک آزادی دی ہے مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ کی تھیں اگر اِس غلطی کے ازالہ کاعہد کر لیا جائے تو میںیقین رکھتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہو کر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے گی اور بِالواسطہ طور پر اس کا عظیم الشان فائدہ انگریزی حکومت کو بھی پہنچے گا۔ اس جنگ کے بعد پولینڈ اور زیکوسلواکیہ کی آزادی ہی کا سوال حل نہیں ہونا چاہئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا بھی سوال حل ہو جاناچاہئے جس میں سے اگر یمن ، حجاز اور نجد کو الگ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر شام ، فلسطین اور عراق کو ایک متحد اور آزاد حکومت کے طور پر ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ انصاف اِس کا تقاضا کرتا ہے اور میںیقین کرتا ہوں کہ اس انصاف کے تقاضا کوپورا کر کے برطانوی حکومت آگے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔
‎(الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۱ء)




اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیّینؐ اور امامِ وقت
نے مسیح موعود ؑ کو رسول کہا ہے




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‎اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَ النَّاصِرُ
اللہ تعالیٰ ، خاتم النبیّینؐ اور امامِ وقت
نے مسیح موعود ؑ کو رسول کہا ہے
(تحریر فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی)
مولوی محمد علی صاحب میرے خطبہ کے جواب میں
مولوی محمد علی صاحب نے میرے خطبہ مطبوعہ ’’الفضل ۱۸؍جون ۱۹۴۱ء
کے جواب میں ایک مضمون شائع کیا ہے مَیں نے اس کے ایک حصہ کا جواب اپنے ۲۴؍ جولائی کے خطبہ میں دیتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ میں مولوی صاحب کے مضمون کا بقیہ ِحصص کا جواب اِنْشَائَ اللّٰہ الگ مضمون کی صورت میںدوں گا سو اس وعدہ کا ایفا ء میںآج اس مضمون کے ذریعہ سے کرتا ہوں۔
رفاقت کہاں رہی اور فخر کس بات کا
مولوی صاحب اپنے مضمون کے شروع میں میرے خطبہ کے مطبوعہ عنوان کا ذکر کرتے ہوئے
تحریر فرماتے ہیں کہ اس خطبہ کا عنوان ہے ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے متعلق اللہ تعالیٰ آنحضرت صلعم، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ، خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت‘‘ اور ’’میںا س رفاقت پر جس قدر بھی فخر کروں بے جانہ ہوگا‘‘ اے کاش! مولوی صاحب سنجیدگی سے یہ فقرہ تحریر فرماتے تو ہمارے دل خوشی سے بھر جاتے اور پھر پُرانے زمانہ کی رفاقت تازہ ہو جاتی مگر افسوس کہ انہوں نے صرف تمسخر کے طور پر یہ فقرہ تحریر فرمایا ہے ورنہ ان کا منشاء یہ نہیں کیونکہ اِس عنوان کامطلب تو یہ ہے اللہ تعالیٰ نے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اور ایک زمانہ میں خود جناب مولوی محمد علی صاحب نے بھی مسیح موعود ؑ کو نبی ہی قرار دیا ہے۔ اگر مولوی صاحب واقعہ میںاِس رفاقت پر فخر کرتے ہیںتو اب بھی اعلان کر دیں کہ مَیں مسیح موعودؑ کو نبی سمجھتا ہوں لیکن اگر اب وہ آپ کو نبی نہیں سمجھتے تو رفاقت کہاں رہی اور فخر کس بات کا۔ وہ تو اُس شخص کو جو دعویٰ نبوت کرے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کسی غیر تشریعی کلمہ گو اسلامی شریعت کے محافظ نبی کی آمد کااقرار کرے کافر، دشمنِ اسلام اور خاتم النبیٖن کا منکر قرار دیتے ہیں۔ اور اگر اس عنوان کا مضمون درست ہے تو وہ تو (خداتعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق دے) اللہ تعالیٰ جَلَّ جَلَالہٗ، آنحضرت صلی اللہ علیہ فِدَاہُ نَفْسِیْ وَرُوْحِیْ، بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اَیَّدَہُ اللّٰہُ بِنَصْرِہٖ اور خود ۱۹۰۸ء کے پہلے کے مولوی محمدعلی صاحب کو خطرناک سے خطرناک الفاظ سے یا دکرنے والے ٹھہرتے ہیں اِن تینوں کی رفاقت تو اِن مولوی محمد علی صاحب کو حاصل ہے جو ۱۹۰۸ء سے پہلے رسالہ ریویو میںانہی کے مطابق خیال ظاہر کیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی اور رسول کہہ کر پکارا کرتے تھے مگر اِس مضمون کے مولوی محمد علی صاحب تو وہ ہیں جو اُس خدا کی معیت کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی کہتا ہے ،ا‘س خاتم النبییّن کی معیت کو جو مسیح موعود ؑ کو نبی کہتا ہے، اُس امامِ وقت کی معیت کو جو مسیح موعود کو نبی کہتا ہے بلکہ اس مولوی محمد علی صاحب کی معیت کو جو ۱۹۰۸ء سے پہلے ریویو آف ریلیجنز کا ایڈیٹر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی اور رسول لکھتا تھا ایک قابلِ نفرت اور حقارت بات تصور فرماتے ہیں حتیٰ کہ ان کے اِ س فعل کو دیکھ کر اِس مادی دنیا سے دُور اور روحانی عالَم کی فضائوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک پُرانی رفاقت کو ُٹوٹتے ہوئے دیکھ کر فرماتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب ’’آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے۔آئو ہمارے ساتھ بیٹھ جائو‘‘ ۱؎
غیر مبائعین کو پیغامی کیوں لکھا
جناب مولوی صاحب آگے چل کر شکایت فرماتے ہیں کہ میں نے غیر مبائعین کو پیغامی کیوں لکھا ہے اور اِس
کا نام ’’قادیانی خوش کلامی‘‘ رکھتے ہیںا ور فرماتے ہیں کہ ’’موزوں بھی یہی ہے کہ جس اسلام کے ہم پیرو اور ّمبلغ کہلاتے ہیں اس کی تعلیم کا کوئی نمونہ بھی دنیا کو دکھایا جائے‘‘۲؎ پھر فرماتے ہیں کہ میاں صاحب کی اولوالعزمی ہے کہ باوجودلَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کی طرف توجہ دلانے کے وہ اِس نام سے ہمیں یاد کرتے ہیں حالانکہ نہ ہم نے اپنا یہ نام رکھا، نہ دنیا میں ہم اس نام سے مشہور ہیںاور اس سے ان کی غرض اپنے مُریدوں کے دلوں میں ہمارے لئے ’’تحقیر‘‘ پیدا کرنا ہے۔۳؎
کاش! مولوی صاحب ان الفاظ کو تحریر فرمانے سے پہلے اپنے گھر پر نظر ڈال لیتے اور حقیقت حال کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرتے۔ یہ امر ظاہر ہے کہ احمدی کہلانے والے دو گروہ اِس وقت موجود ہیں اور دونوں ہی لوگوں میں معروف ہیں ان میں اختلاف بھی ہے اور ایک دوسرے کے بعض عقائد اور افعال سے وہ اپنے آپ کو بری بھی قرار دینا چاہتے ہیں اس ضرورت کے ماتحت جناب مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کو بار بار غیر احمدیوں میںیہ لٹریچر شائع کرنا پڑتا ہے کہ ’’قادیانی‘‘ لوگ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں اور ہم انجمن احمدیہ اشاعت اسلام والے ایسے عقیدہ کو ُکفر قرار دیتے ہیں اسی طرح ہم لوگوں کو بھی اس عقیدہ سے براء ت کرنی پڑتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بابِ ترقیات کو روکنے والے تھے اور قطعی وحی کا دروازہ بند کرنے والے تھے اور یہ کہ مسیح موعود ؑ اپنے درجہ اور مقام میںپہلے مسیح سے کم ہیں بلکہ سب نبیوں سے کم ہیں گویا جو کچھ ہے پہلا مسیح ہے دوسرا کچھ بھی نہیں اب ہم دونوں فریق احمدی کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کر کے پیش کرتے ہیں۔ لازماً اِس مجبوری کی وجہ سے ہمیں کوئی علامت ایسی بیان کرنی پڑتی ہے جس سے دوسرے فریق کو سمجھایا جا سکے اور بولنے والے شخص اور مشارُ، الیہ شخص میں کوئی امتیاز قائم ہو جائے اِس غرض کوپورا کرنے کے لئے کبھی تو ہم اپنے آپ کو مبائع احمدی اور مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کو غیر مبائع احمدی کہتے او رلکھتے ہیں اور کبھی ہم اپنے آپ کو قادیان سے تعلق رکھنے والے احمدی اور آپ لوگوں کو لاہور سے تعلق رکھنے والے احمدی بھی لکھتے رہے ہیں۔اس پرلاہور کی مبائع جماعت نے اعتراض کیا کہ لاہور میںنہ غیرمبائعین کا زور ہے نہ اکثریت۔ اکثریت تو ہماری ہے اس طر ح دھوکا لگتا ہے پس ان کو لاہوری یا لاہور سے تعلق رکھنے والے نہ کہا جائے تب بعض لوگوں نے بطورِ شناخت آپ لوگوں کو پیغامی لکھنا شروع کر دیا۔ اور بعض دفعہ یہ لفظ مَیںبھی استعمال کر لیتا ہوں اِس میںگالی یا سبّ وشتم یا استہزاء یا تَنَابُزبِالْاَلْقَابْ کا کیا دخل ہے۔ کیا پیغام کوئی گندہ لفظ ہے یا اس سے مخفی اشارہ کسی اور تعلق کی نفی کا نکلتا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو یہ بُرا لگتا ہے اگر ایسا ہے تو آپ اظہار فرما دیں ہم اِس سے حتی الوسع اجتناب کرینگے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے پیغام کا لفظ کسی خاص بُرے معنوںمیں استعمال نہیں ہوتا اور نہ اِس تعلق سے ضمناً یا اشارۃً کسی اور تعلق کی نفی کا مفہوم نکلتا ہے سوائے اس کے کہ یہ مضمون نکلتا ہے کہ یہ لوگ پیغام کے بِالمقابل اخبار ’’الفضل‘‘ سے تعلق نہیں رکھتے اور یہ مفہوم کوئی بُرا مفہوم نہیں کہ اس پر بُرا منایا جائے۔
خلاصہ کلام یہ کہ یہ لفظ تحقیر اور تذلیل کے لئے نہیں بلکہ ایک امتیازی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ہماری نیت اِس سے ہرگز کسی بُرے مفہوم کی طرف اشارہ کرنے کی نہیں ہوتی اور ہو بھی کیا سکتی ہے جب کہ پیغام کسی گندی یا مکروہ یا قابلِ تحقیر چیز کانام نہیں ہے۔
مولوی محمد علی صاحب اور
ان کے رفقاء کا طریقِ عمل
جناب مولوی صاحب جو اس زور شور سے مجھے لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کا مخاطب اور بُرا نمونہ دکھانے کا مُجرم قرار دیتے ہیں خود اِسی مضمون میںہم کو ’’قادیانی‘‘۴؎ لکھتے ہیںجیساکہ ان کے الفاظ ’’قادیانی خوش کلامی‘‘ سے ظاہر ہے۔
اور پھر ان کے مضمون کے حاشیہ میںبھی ہمیں قادیانی لکھا گیا ہے۔ (نہ معلوم ان کی طرف سے یا وہ پیغام کی طرف سے )
خو د مولوی صاحب کے دل میںبھی یہ خدشہ پیدا ہؤا ہے کہ جس امر کا الزام دیتا ہوں اس سے بڑے جُرم کا مَیںاور میرے دوست مُرتکب ہیں اس لئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ہم کو پیغامی کہا جاتا ہے حالانکہ نہ ہم نے کبھی اپنا وہ نام رکھا نہ دنیا میں ہم اس نام سے مشہور ہیں‘‘۵؎ اور اس طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر لوگوں میںکوئی نام مشہور ہوجائے تو اس نام سے پکارنا معیوب نہیں اور ان کامطلب یہ ہے کہ چونکہ یو،پی وغیرہ کی طرف احمدیوں کو قادیانی کہاجاتا ہے اس لئے قادیانی کہنا کوئی معیوب امر نہیں۔ مگر مولوی صاحب نے یہ خیال نہیں کیا کہ اول تو یو،پی وغیرہ میںسب احمدیوں کو قادیانی کہا جاتا ہے نہ کہ صرف ان احمدیوں کو جو ِبیعت خلافت میں شامل ہیں او رآج اِس کا استعمال شروع نہیں ہؤا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے آپ پر ایمان لانے والوںکو قادیانی کہا جاتا تھا۔ پس اِن لوگوں کے محاورہ میںقادیانی کے لفظ سے ہم ہی لوگ مراد نہیں بلکہ اس میں مولوی صاحب اور ان کے رفقاء بھی شامل ہیں ان کی مراد تو قادیانی سے مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کے مُرید ہیں ۔کیامولوی صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کامرید سمجھتے ہیں یا نہیں؟ اگر سمجھتے ہیں تو ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ہمارا امتیاز ی نام نہیں بلکہ ہر احمدی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے یو، پی میں یہی نام ہے جس طرح پنجاب میںتمام احمدیوں کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے ’’مرزائی‘‘ مشہور ہے۔کیا وہ اسے پسند کرتے ہیںکہ جماعت احمدیہ کے افراد کو خواہ مبائعین میں سے ہوں یا مولوی صاحب کے رفقاء میںسے ہوں احمدی کی جگہ قادیانی یا مرزائی کہا جائے؟ اگر نہیں تو ہماری جماعت کو اِس نام سے پکارنا کیا لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کے حکم کے ماتحت نہیں؟ اور اگر وہ اسے بُرا نہیں سمجھتے تو پھر احمدی کہلانے کی ان کو ضرورت نہیں۔ یوپی میںقادیانی اور پنجاب میں مرزائی نام عوام کی زبان پر بلکہ بہت سے خواص کی زبان پر جاری ہو چکا ہے مولوی صاحب کا لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کی آیت مجھے سنانے کی بجائے اپنے دوستوں کو سنانی چاہئے کیونکہ ہم تو اگر پیغامی یا غیر مبائع ان کو کہتے ہیں تو پھر بھی اس سے پیغامی احمدی یا غیر مبائع احمدی مراد لیتے ہیں لیکن ان کے رُفقائے کار کی حالت مندرجہ ذیل حوالہ سے ظاہر ہے۔
پیغام صلح ۱۲؍دسمبر ۱۹۱۷ء کے صفحہ۲ پر لکھا ہے’’معلوم نہیں ’’الفضل‘‘ کو یہ کس نے بتا دیا کہ ہم نے کبھی ان بھیڑوں کے قائمقام ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے جو اپنی عقل وفہم کوبالائے طاق رکھ کر اپنی نکیلایک شخص کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ اور نہ قرآن حدیث سے انہیں واسطہ ہے اور نہ حضرت مسیح موعود کی تعلیمات سے۔ ’’الفضل‘‘ کو مطمئن رہنا چاہئے کہ ہم نے کبھی ایسے لوگوں کے قائم مقام ہونے کا دعویٰ نہیںکیا اور نہ ہم ان کو احمدی کہہ کر پکارتے ہیں۔ ان کا نام محمودی ہے احمدی نہیں‘‘
میںجناب مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ یہ تو آپ کے نزدیک لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کے خلاف نہ ہوگا اور یقینا یہ کلمات آپ اور آپ کے رفقاء کی ’’اُولوالعزمی‘‘ پر دلالت کرتے ہونگے۔ اور ’’جس اسلام کے ‘‘ آپ ‘‘ پیرو اور مبلّغ کہلاتے ہیں اس کی تعلیم کا کوئی ’’اچھا سا نمونہ دنیا کو دکھانے کے لئے ‘‘ لکھے گئے ہونگے کیا یہی وہ اسلامی نمونہ ہے جو آپ پیش کرتے ہیں اور تمام احمدی جماعت جس میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں صحابہ بھی شامل تھے ان کا نام بھیڑیں رکھ کر اور پھر ان کے ناکوں میں نکیلیں دے کر کس طرح لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کے حکم پر عمل فرماتے ہیں؟آپ غصہ میں آکر اِس کا یہی جواب دیں گے کہ بعض الفاظ جو ہماری جماعت کی طرف سے جواباً لکھے گئے ہوں اُنہیں پیش کریں۔ لیکن یاد رہے کہ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۶؎ اگر ایسے الفاظ جو جوابی طور پرلکھے گئے ہوں آپ پیش بھی کر دیں تو سوال یہ باقی رہ جاتا ہے۔ کہلَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ کا طعنہ دیتے وقت آپ کواپنے اور اپنے رُفقاء کی اصلاح کا تو خیال رکھنا چاہئے تھا۔ جس چیز کو آپ گناہ قرار دیتے ہیں اُس میں آپ اور آپ کے ساتھی کیوں ملوّث ہوئے اور کیوں آپ نے اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو نصیحت نہ کی؟
آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم آپ کو پیغامی کہیں یا غیر مبائع، ساتھ ہی احمدی بھی کہتے ہیں۔ لیکن آپ کی طرف سے یہ اعلان ہے کہ ’’نہ ہم ان کو احمدی کہہ کے پُکارتے ہیں ۔ ان کانام محمودی ہے احمدی نہیں۔‘‘
پھر مولانا! آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا نام کفار میںصابی مشہور تھا۔جب کوئی مسلمان ہوتا تھا تو لوگ کہتے تھے فلاں شخص صابی ہو گیا ہے۔ کیا دشمنوں میںاِس ُشہرت کی وجہ سے مسلمان کو صابی کہنا درست ہو گا؟ کاش! آپ غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ لوگوں میںکسی نام سے کسی کا مشہور ہو جانا دوسروں کو یہ حق نہیں دے دیتا کہ وہ اسے اس نام سے پکاریں۔ اصل سوال تو یہ ہوتا ہے کہ اس نام سے پکارنے کی کوئی خاص وجہ ہے اور کیا اس نام میںکوئی سُبکی یا تحقیر کا پہلو تو نہیں اور اگر آپ غور فرماتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ پیغامی نام محض امتیازی ہے اور پیغام کا لفظ ہرگز گالی نہیں۔ لیکن محمودی کالفظ یقینا گالی ہے کیونکہ اِس سے آپ کے رُفقاء کا (جیسا کہ حوالہ اوپر آ چکا ہے) اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ احمدی نہیں ہیں ہاں اگر آپ امتیاز کے طور پر ہمارے لوگوں کو بدلہ لینے کے لئے ’’الفضلی‘‘ کہیں تو یہ صحیح جواب ہو گا اور اس کی کوشش آپ کی جماعت کر بھی چکی ہے مگر چونکہ اس میںانہیں کامیابی نہیں ہوئی اس لئے وہ اسے چھوڑنے پرمجبور ہو گئے۔
مولوی محمد علی صاحب اور ّبلی کا محاورہ
میں نے کسی جگہ لکھا تھا کہ بعض لوگ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں
کہ ہم محفوظ ہو گئے ہیںمولوی صاحب اس کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ابھی ابھی مولانا غلام حسن صاحب اور صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب (دوکبوتروں) کی گردن مروڑ چکے ہیں کیونکہ ان بزرگوں کے عقیدے اب تک وہی ہیں جو ہمارے ہیں مگر عقائد کی طرف سے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں اور قادیانیت کی بلّی کاشکار ہو گئے‘‘ ۷؎
مولوی صاحب کو اس سے خوشی تو بہت ہوئی ہو گی کہ مولوی غلام حسن صاحب اور صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب کو اگر بحث اور مباحثہ میںنقصان نہیں پہنچا سکے تو کم سے کم اپنے مضمون میںان بزرگوں کی گردن مروڑنے کافقرہ استعمال کر کے اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا لی گئی۔ اور ’’قادیانیت کی بلّی‘‘ کا لفظ استعمال کر کے بھی دل ٹھنڈا کر لیا مگر یہ امور انسانوں کی نگاہ میں تو مزے دار جواب کہلا سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میںیہ امور ناپسندیدہ ہیں مگر مولوی صاحب کو میںکیانصیحت کروںکہ اس سے بڑھ کر ان کے پاس نصیحت موجود ہے یعنی وہ قرآن کریم کے مفسّر ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پا چکے ہیں مگر باوجود اس کے کہ وہ جناب مولوی غلام حسن صاحب کو خلیفۃ المسیح تجویز کر چکے ہیں اور ان کے اخبار ’’پیغام صلح‘‘ میں انہیں ’’خلیفۃ المسیح‘‘ لکھا جاتا رہا ہے ۔ چنانچہ ’’پیغام صلح‘‘ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۷ء میںجو ان کی انجمن کے سالانہ جلسہ کا پروگرام چھپا ہے اس میںجناب مولوی غلام حسن صاحب کے مضمون کا ُیوں اعلان کیا گیا ہے۔
’’حضرت خلیفۃ المسیح مولانا مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری‘‘
آج وہ جناب مولوی صاحب کی نسبت گردن مروڑنے کی پھبتی اُڑاتے ہیں۔ ا س کا علاج تو اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔
جناب مولوی محمدعلی صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ّبلی کا محاورہ ان کا پُرانا محاورہ ہے۔آج میری ایک تمثیل پرہی انہیں یہ پھبتی نہیںسُوجھی بلکہ اس سے پہلے بھی دوسروں کو ّبلی بنانے کا شوق وہ پورا کرتے رہے ہیں۔چنانچہ ’’پیغام صلح ‘‘ ۳۰؍جولائی ۱۹۴۰ء میں میرے خطبہ سے ایک سال پہلے جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک مضمون شائع ہؤا ہے۔ جس میںآپ تحریر فرماتے ہیں کہ حکیم عبدالعزیز بار بار خلیفہ صاحب کو مباہلہ کا چیلنج دے رہے ہیں۔ ’’اور ان کے مقابلہ میں خلیفہ صاحب بھیگی ّبلیبنے بیٹھے ہیں‘‘
کیا میں اِس پرکہہ سکتا ہوں کہ اے’’اسلام کے پیرو اور ّمبلغِ اسلام‘‘ بلکہ ّمفسرِ قرآن کریم آپ کا یہ فقرہ کس طرح اسلامی اخلاق کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ دوسرے کی ایک مثال پر اِس قدر غم وغصہ کا اظہار ہے مگر خود یہ حالت ہے کہ اپنے شیر حکیم عبدالعزیز کے سامنے ّبلی نہیں بلکہ بھیگی ّبلیبنا کرمجھے بٹھا دیا ہے اور خود اس نظارہ کا ُلطف اُٹھا رہے ہیں۔
مولوی محمد علی صاحب اور
ان کے رفقاء کی گوہر افشانی
ناظرین دیکھ چکے ہیں کہ جناب مولوی محمدعلی صاحب اور ان کے رفقاء کے نزدیک جماعت احمدیہ کے تمام افراد بھیڑیں ہیں۔( جو ایک نجاست خور جانور ہے) اور بھیڑیں بھی ایسی کہ وہ عقل و ِخرد کو بالائے طاق رکھ چکی ہیں اور ان سب کے
ناکوںمیں نکیل پڑی ہوئی ہے اور ان کا امام ایک ّبلی ہے اور وہ بھی بھیگی ہوئی اور وہ بھیڑیں تو اپنے امام کے ہاتھ میں نکیلیں دے کر بے بس ہو کر بیٹھی ہوئی ہیںاور امام خود بھیگی ّبلی بن کر مولوی صاحب کے شیر حکیم عبدالعزیز کے سامنے بے کس ہو کر دبکا بیٹھا ہے گویایہ ساری کی ساری جماعت جانوروں کی شکل میںجناب مولوی صاحب کے ایک ہی بہادر جرنیل کے آگے اس طرح دبکی بیٹھی ہے کہ اسے تابِ مجال نہیں ہے۔مگر اسی پر بس نہیں مولوی صاحب بقول خود ’’اسلامی تعلیم کے ‘‘ اور بھی کئی نمونے پیش فرماتے ہیں اور خوش کلامی کی مثالیں بہم پہنچاتے ہیں۔
چنانچہ ۳۰ ؍ جولائی ۱۹۴۰ء کے پرچہ میں میری نسبت تحریر فرماتے ہیں ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ یہ کیسا ظالم انسان ہے‘‘ ۹؎
پھر اور گوہر افشانی ملاحظہ ہو ۱۷؍جنوری ۱۹۳۸ء کے پیغام میںتحریر فرماتے ہیں ۔ ’’دعائوں کو ہم کیا کریں دعائیں تو حضرت نوحؑ نے بھی اپنے بیٹے کے متعلق بہت کی تھیں‘‘۱۰؎ اس فقرہ سے اِس قدر کا بھی علم ہو جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کی مولوی صاحب کے دل میں ہے۔’’دعائوں کو ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کو ) ہم کیا کریں‘‘۔ اِس جملہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کس گہری عقیدت کا اظہار، کس ایمان کا مظاہرہ ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اِس عقیدت کے بعد مجھے تو کسی امید رکھنے کی گنجائش ہی نہیں۔ پھر مجھے کیا شکوہ کہ مولوی صاحب نے مجھے۔ ِابن نوح قرار دیا ہے اور یہ ایک دفعہ نہیںکہا گیا بلکہ مولوی صاحب کے رُفقاء دیر سے اس لفظ کا استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔
مولوی صاحب اور ان کے رفقاء کے اس خروار۱۱؎ میںسے ایک او رلطیف دانہ بھی قابلِ ملاحظہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’میاں صاحب خوب یاد رکھیںکہ انہوں نے اپنے لئے جو فرضی خلافت تجویز کی ہے اس کی مثال انہیں خلفائے راشدین میںنہیں ملے گی بلکہ اگر ملے گی تو صرف باطنیہ فرقہ میں ملے گی جنہوں نے قتل وغارت اور ہر قسم کے فسق وفجور کو جائز کرنے کے لئے یہ دروازہ کھولا تھا او رآج میاں صاحب یہ کہہ کر کہ مجھ پر سچا اعتراض کرنے والا بھی جہنم میںجائے گا حسن بن صباح کی پیروی کر رہے ہیں‘‘ ۱۲؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولوی صاحب ہماری جماعت کوباطنی فرقہ کے مشابہہ اور مجھے حسن بن صباح اور قتل وغارت اور فسق وفجور کو جائز کرنے والا قرار دیتے ہیں مگر ان کے نزدیک یہ گالی نہیں ،یہ تَنَابُزبِالْاَلْقَابْ نہیں، یہ اسلام کی پیروی اور اس کے ّ مبلغ ہونے کے خلاف نہیں، یہ اسلام کی تعلیم کا اعلیٰ نمونہ ہے اور ایک ّمفسرِ قرآن کی شان کے عین مطابق ۔
ان مبلغین اسلام کے اسلامی تعلیم کے نمونوں میںسے وہ نمونہ بھی قابلِ توجہ ہے جو مولوی محمد علی صاحب کی انجمن کے ایک ّمبلغ سید اختر حسین صاحب نے دکھایا ہے۔ انہوں نے ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’قادیانی خلیفہ محمد رسول اللہ صلعم کا بدترین دشمن ہے۔‘‘ ۱۳؎
کیا ہی اعلیٰ درجہ کا یہ اخلاقی نمونہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان کو کس قدر بڑھانے والا مضمون ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ پیدا ہوئے اور انہوں نے سخت سے سخت مخالفتیں کیں لیکن وہ بدترین دشمنی کا نمونہ پیش نہ کر سکے، ابولہب بھی اِس سے قاصر رہا اِس کے بعد ہزاروں دشمن پیدا ہوئے پادریوں میںسے فنڈر، ہندوستا ن میںآتھم، فتح مسیح اور وارث وغیرہ لوگ پیدا ہوئے۔ ہندوئوں میںسے لیکھرام اور ۔۔ ّمصنف ’’رنگیلا رسول‘‘ لوگ پیدا ہوئے مگر اسلام کو بدترین دشمن نہ ملا اِس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیدا کیا تا کہ ان کے ُنطفہ سے وہ شخص پیدا ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بدترین دشمن ثابت ہؤا اور باوجود اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ خبر بھی دے دی کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ ۱۴؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور آپ کے ادب کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔
مگر اسی پر بس نہیںمولوی صاحب کے بعض رفقاء نے مجھے ’’یزید‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا اور بعض احمدی دوستوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو مولوی صاحب نے ان کے زخمِ دل پران الفاظ میںمرہم رکھا کہ ’’باقی رہا یہ کہ کسی نے میاں صاحب کو یزید سے مشابہت دے دی تو یہ کوئی گالی نہیںیزید بھی تو اُولُوالْاَمْر میںسے تھا‘‘۱۵؎
ہر سمجھدار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ جواب کیسا معقول ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب کو اس لئے کہ وہ امیر کہلاتے ہیں اور اُولُوالْاَمْر کا دوسرا نام عربی میں امیر ہے کوئی شخص یزید کہے تو یقینا وہ اس پر خوش نہ ہوں گے اور یہ نہ فرمائیں گے کہ یزید بھی اُولُوالْاَمْر تھا اور میں بھی بوجہ امیر جماعت ہونے کے اُولُوالْاَمْر ہوں اس لئے یہ گالی نہیں بلکہ صرف میری شان کا اظہار ہے۔
یہ تمسخر مولوی صاحب نے مجھ سے نہیں کیا بلکہ ان تمام انبیاء سے جن کو خداتعالیٰ نے مأمور کیا تھا ان سے کیا ہے اور خلفائے راشدین سے بھی کیا ہے کیونکہ حضرت موسٰی بھی اُولُوالْاَمْر تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُولُوالْاَمْرتھے، حضرت ابوبکرؓ بھی اُولُوالْاَمْرتھے، حضرت عمرؓ بھی اُولُوالْاَمرتھے، حضرت عثمانؓ بھی اُولُوالْاَمْر تھے اور حضرت علیؓ بھی اُولُوالْاَمْرتھے۔ اگر کسی شخص کے اُولُوالْاَمْر ہونے کی وجہ سے یزید کا نام اس کے لئے استعمال کرنا کوئی شخص جائز سمجھتا ہے تو وہ اپنی عاقبت کو خراب کرتا ہے۔ اور ان کو گالی دیتا ہے جن کے آگے خدائے ّقہار بطور ڈھال کھڑا ہے۔
مولوی صاحب نے جن رفقائے کار کے اوپر والے اسلامی نمونہ کی تشریح فرمائی ہے مضمون نامکمل رہے گا اگر مَیں ان کی تحریروں کے بعض اقتباس بھی پیش نہ کروں۔ ان کی انجمن کے ایک معزز رُکن اور مدعی الہام مولوی محمد یامین صاحب داتوی تھے انہوں نے اس مضمون پر ’’دارالخلافہ دمشق‘‘ (یعنی قادیان موجودہ) کے عنوان کے نیچے ُیوں خامہ فرسائی فرمائی ہے۔
’’بے شک قادیان دمشق ہے اور قادیان کے پیدا ُشدہ اکثر یزیدی ہیں اور جہاں یزیدی ہوں وہاں ایک خلیفۂ یزید کا ہونا بھی ضروری ہے اور الہامات پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کہ جس طرح شامی دمشق میں دوسرا خلیفہ یزید تھا یہاں بھی اس دمشق میں دوسرا ہی خلیفہ یزید ازروئے حدیث نبوی و الہام مسیح موعود اور واقعاتِ چشم دید سے کہلایا۔ اور جس طرح پہلے یزید کا باپ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھا۔…… خلیفہ تھا ایسا ہی یزید ثانی کا باپ بھی…… خلیفہ ہی تھا۔ اور جس طرح پہلے یزید کی خلافت میں ایک خلیفہ (علیؓ) کے بیٹے کی جان ضائع ہوئی ویسے ہی اس خلافت کے ایام میں بھی ایک خلیفۂ برحق کے بیٹے کی جان ضائع ہوئی۔‘‘ ۱۶؎
اس حوالہ سے مندرجہ ذیل امور ظاہر ہیں:-
اول۔ لکھنے والے کے نزدیک اکثر باشندے قادیان کے (اور یہ احمدی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہی یہاں کی اکثریت ہیں) یزیدی ہیں۔ ہاں مضمون نگار نے اکثر کا لفظ استعمال فرما کر اپنے اعلیٰ اخلاق کو قائم رکھنے کے لئے غیر احمدیوں، ہندوئوں اور ِسکھوں کو مستثنیٰ کر لیا ہے تا ان کے حق میں بے انصافی نہ ہو جائے۔
دوم۔ احمدیوں کا خلیفۂ دوم یزید ثانی ہے۔
سوم۔ اس نے ایک خلیفۂ برحق (یعنی حضرت خلیفۂ اول) کے ایک لڑکے کو مَروا دیا۔ (یعنی عزیزم عبدالحئی مرحوم کو جو ٹائیفائڈ سے فوت ہؤا۔)
چہارم۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلے اُموی خلیفہ معاویہ کے مثیل تھے۔ اور دوسرا اُموی خلیفہ ان کا بیٹا یزید ثانی ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ کا مثیل اور خلیفہ قرار دے کر اس پر نوٹ لکھا ہے کہ :-
’’اگرچہ اب انجمن نبی سازانِ قادیان نے مرنے کے بعد ان کو نبی بنا دیا ہے۔‘‘
یعنی یزید ثانی کا باپ ہونے کے لحاظ سے ان کے معاویہ کا مثیل اور خلیفہ ہونے کا ثبوت ظاہر اور باہر ہے۔ ان کو نبی قرار دینا قادیان کے نبی ساز لوگوں کی کارستانی ہے ورنہ ِیزیداول کا باپ اگر خلیفہ تھا تو ِیزید ثانی کا باپ نبی کیونکر ہو سکتا ہے؟
اللہ! اللہ! میری دشمنی میں یہ لوگ کس قدر بڑھ گئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درجہ ابویزید اور معاویہ کا سا قرار دیتے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معاویہ کی خلافت کو ملوکیت قرار دیا ہے اور خلفائے راشدین سے خارج کیا ہے۔ ہاں اس شخص کے نزدیک حضرت مولوی نور الدین صاحب علیؓ کی طرح خلیفہ تھے گو یہ تشریح نہیں کی کہ معاویہ اور یزید کے درمیان علیؓ کس طرح آد ھمکا اور نہ یہ بتایا ہے کہ اگر حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی خلیفہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی خلیفہ تھے تو پھر یہ ِیزیدثانی دوسرا خلیفہ کیونکر ہو گیا۔ جیسے کہ لکھا ہے:-
’’یہاں بھی اس دمشق میں دوسرا ہی خلیفہ یزید اور ازروئے حدیث و الہام مسیح موعود اور واقعاتِ چشم دید سے کہلایا۔‘‘
اگر حضرت مولوی صاحب خلیفہ تھے تو پھر تو میں تیسرا خلیفہ قرار پاتا ہوں اور ساری دلیل جس پر بنیاد مضمون کی رکھی گئی ہے باطل ہو جاتی ہے۔ اِس ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معاویہ اور آپ کے خادم اور شاگرد کو جس کی ساری عزت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں تھی علی قرار دیا گیا ہے۔ اور پھر اِس کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گو حضرت معاویہ کی نسبت یہ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں وہ باغی اور طاغی تھے اور لکھا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’وَ مَنْ قَاتَلَہٗ فِیْ وَقْتِہٖ فَبَغٰی وَ طَغٰی‘‘ ۱۷؎ یعنی جو لوگ حضرت علیؓ کے زمانہ خلافت میں آپ کے مقابلہ پر لڑتے رہے وہ اس زمانہ میں ضرور باغی اور طاغی تھے پس معاویہ کی مشابہت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گویاکسی وقت باغی اور طاغی رہے تھے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔
جناب مولوی محمد علی صاحب کے اس طرح ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونکنے کا کیا نتیجہ نکلا؟ وہ مندرجہ ذیل حوالہ سے ظاہر ہے جب مولوی صاحب نے اپنے رفقاء کی اِس گالی گلوچ کی جی بھر کر داد دی اور اپنے نزدیک ان کے اس فعل کو مستحسن اور عین مطا ِبق اسلام ثابت کر دیا تو پھر ان کے اتباع کیوں نہ اِس حملہ میں اور دلیر ہو کر اپنے امیر کی داد کے طالب ہوتے۔ چنانچہ مولوی صاحب کی یزید کے لقب کی تشریح کے بعد انجمن احمدیہ اشاعت اسلام کے ایک پروفیسر اور مبلغ مولوی احمد یار صاحب نے اپنے ایک مضمون میں ذیل کے فقرات لکھے:-
’’عبارت بالا سے کم از کم دو باتیں نہایت واضح طور پر معلوم ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مرزا صاحب سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے مشابہت رکھتے ہیں۔ دوسری یہ کہ قادیان نے بوجہ دمشق کے مشابہہ ہونے کے کسی یزیدی الصفت خلیفہ کا پایۂ تخت ہونا ہے جو قِسم قِسم کے جھوٹے منصوبے باندھے گا اور ہزارہا طرح کے ظالمانہ احکام نافذ کرے گا۔‘‘
پھر لکھا ہے کہ:-
’’ ایسا ہونا ضروری تھا تاکہ حضرت مسیح موعود کی مشابہت حضرت امام حسین کے ساتھ اور قادیان کی دمشق کے ساتھ بالکل مکمل طور پر پوری ہو جائے۔ اگر قادیانی خلیفہ اور اس کے رفیق کار ایسی سازشیں اور نازیبا حرکات نہ کرتے جس سے جماعت لاہور کے پاک ممبروں کو مجبوراً قادیان چھوڑنا پڑا تو پھر قادیان دمشق کے مشابہہ اور یزید کا پایۂ تخت کیسے بنتا؟‘‘ ۱۸؎
یہ حوالہ اپنی حقیقت کا آپ مظہر ہے اس سے ظاہر ہے کہ اس۔ ّ ِمبلغ اسلام کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام مشابہہ بہ حسین تھے اور دوسرے یہ کہ قادیان دمشق ہے اور اس نے ایک یزیدی الصفت کا (جو بقول صا ِ حب مضمون اس امام حسین کابیٹا ہے) پایۂ تخت ہونا تھا۔ تیسرے یہ کہ میں ِقسم ِقسم کے جھوٹے منصوبے باندھتا ہوں اور ہزارہا ظالمانہ احکام جاری کرتا ہوں۔ چوتھے یہ کہ لاہور کے پاک ممبران کو میری اور میرے رفقاء کار کی سازشوں او ر نازیبا حرکات کی وجہ سے قادیان چھوڑنا پڑا اور پانچویں یہ کہ قادیان یزید کا پایۂ تخت ہے۔
استدلال کی خوبی تو ظاہر ہی ہے۔ پہلے ممبر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ بنا کر مجھے یزید ثابت کیا تھا۔ دوسرے ّمبلغ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امام حسین ثابت کرکے مجھے یزید ثابت کرنے کی کوشش کی ہے گویا پہلا یزید بھی حضرت امام حسین کے بعد گزرا تھا اور ان کا بیٹا تھا۔ حالانکہ اگر استدلال پر غور کیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام حسین کے مثیل ثابت نہیںہوتے بلکہ ’’ لاہور کے پاک ممبر‘‘ جس سے مراد جناب مولوی محمد علی صاحب ہیں کیونکہ وہی قادیان سے گئے ہیں مثیلِ امام حسین ثابت ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت جو اِن ّمبلغ صاحب کو ہے وہ بھی ظاہر ہے اوپر کے حوالہ میں دو دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر آیا ہے اور دو دفعہ امام حسین ؓ کا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے ساتھ ایک دفعہ بھی ’’علیہ السلام‘‘ کا لفظ نہیں لکھا۔ مگر حضرت امام حسینؓ کے نام کے ساتھ ایک دفعہ مفصّل علیہ السلام لکھا ہے اور دوسری دفعہ ان کے نام کے اوپر ’’۔ؑ‘‘ جو علیہ السلام کا نشان ہے ڈالا ہے جن لوگوں کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ادب باقی رہ گیا ہے ان سے مجھے اور دوسرے احمدیوں کو کسی نیک سلوک کی کیا امید ہو سکتی ہے نُفَوِّضُ اَمْرَنَا اِلَی اللّٰہِ ھُوَ وَلِیُّنَا وَ حَافِظُنَا وَ نَاصِرُنَا عَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ۔
میں نے اپنے خطبہ میں کہا تھا کہ بعض لوگ ہر بات کا انکار کر دیتے ہیں ان کی مثال اس تماشہ کی سی ہے کہ بازی گر بعض دفعہ کرتب دکھاتے ہیں تو ان میں سے ایک کہہ دیتا ہے۔ میں نہ مانوں۔مولوی صاحب اس پر بہت ناراض ہوئے ہیں حالانکہ یہ صرف انکار کرنے کی مثال ہے ورنہ اگر اس سے نٹوں سے مشابہت مراد ہو تو جیسا کہ خود مولوی صاحب نے تحریر فرمایا ہے بازی گر خود مَیں بنتا ہوں۔ پس جبکہ اس مثال کو اگر بازی گروں سے مشابہت مانا جائے تو خود میں اپنے آپ کو بازی گر قرار دیتا ہوں۔ تو یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس مثال سے مراد اس طبقہ سے مشابہت دینا ہے بلکہ اس سے مراد تو صرف انکار پر اصرار کی ایک مثال دینا ہے۔
سالہا سال سے ایک غلط اعتراض کا تکرار
اس کے بعد مولوی صاحب نے خطبہ کے مضمون کا جواب دینے کی طرف توجہ فرمائی
ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ میرے مضمون کو قارئینِ پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہیں بشرطیکہ مَیں ان کے مضمون کو جس کا مَیں جواب لکھ رہا ہوں۔ ’’الفضل‘‘ میں شائع کرا دوں۔ اِس تجویز کو پیش کرنے کے بعد میرے جواب کا انتظار کئے بغیر مولوی صاحب یہ فیصلہ فرما دیتے ہیں کہ گویا میں نے ان کی اس تجویز کو ردّ کر دیا ہے اور ان کے خیالات کو اخبار میں لانے سے ڈر گیا ہوں اور نہایت زور سے جماعت احمدیہ پر ُیوں اتمامِ ُ ّحجت فرماتے ہیں کہ:-
’’ اگر جناب میاں صاحب غور نہیں فرماتے تو ان کے مرید ہی غور کریں کہ اپنے دلائل کو کمزور کون شخص سمجھتا ہے۔ وہ جو دوسرے کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے آنے سے روکتا ہے یا وہ جو بار بار یہ سہل سی تجویز پیش کر چکا ہے۔‘‘۱۹؎ (یعنی مولوی صاحب کا یہ مضمون اور میرا مضمون اکٹھا شائع ہو جائے)
افسوس مولوی صاحب ّمفسرِقرآن ہیں اور قرآن کریم کی اِس تعلیم کو پڑھتے ہیں کہ عدل و انصاف سے کام لینا چاہئے لیکن ابھی ان کا مضمون چھپا تک نہیں مجھے اس کے مضمون کا علم تک نہیںہؤا اور وہ جماعتِ مبائعین کے سامنے یہ ُ ّحجت بھی پیش کرنے لگ جاتے ہیں کہ بتائو تمہارا خلیفہ سچا ہے جو میرا یہ مضمون چھاپنے کو تیار نہیں یا میں سچا ہوں جس نے اِس کا خطبہ چھاپنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ دنیا کا کونسا انسان اس تحریر کو معقول قرار دے گا۔
مَیں اِس حصہ کا جواب پہلے دے چکا ہوں اور وہ ’’الفضل ‘‘ میں شائع ہو چکا ہے۔ (الفضل ۲۶؍جولائی ۱۹۴۱ء) اور اب مختصر جواب اِس کا یہ ہے کہ مَیں ’’الفضل‘‘ ۱۴؍اگست ۱۹۴۱ء میں جناب مولوی صاحب کا مضمون شائع کرا چکا ہوں اور آج اس کا جواب شائع کر رہا ہوں۔ اب دیکھتا ہوں کہ جناب مولوی صاحب عام دستور کے مطابق میرا مضمون، اپنا جواب اور میرا جواب الجواب اپنے اخبار میں چھاپتے ہیں یا نہیں۔ میں انصاف کے تقاضے کے مطابق ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء! آپ کا امیر سچا ہے جس نے میرا مضمون اخبار ’’پیغامِ صلح‘‘ میں نہیں شائع کیا یا مَیںجس نے آپ کے امیر کا مضمون اخبار ’’الفضل‘‘ میں شائع کر دیا ہے بلکہ میں مولوی صاحب کے عمل کا انتظار کروں گا اور اُن کے عمل کو دیکھ کر اگر ضرورت ہوگی تو اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔
میں اِس موقع پر اس امر پراظہارِ افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مولوی صاحب کا یہ اعتراض کہ مَیں اپنی جماعت کو ان کا لٹریچر پڑھنے سے روکتا ہوں آج کا نہیں بلکہ بہت ُپرانا ہے اور مَیں اس کا جواب آج سے تیئیس سال پہلے بھی دے چکا ہوں اور ایسا جواب دے چکا ہوں کہ جسے ہر عقلمند صحیح تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا مگر مولوی صاحب موصوف نے اِس آسان طریقِ فیصلہ کی طرف جو اِس جواب کے آخر میں مَیں نے پیش کیا ہے کبھی بھی توجہ نہیں کی لیکن اعتراض کو وقتاً فوقتاً زبانی یا تحریری دُہراتے رہتے ہیں۔ جس جواب کی طرف مَیں نے اوپر اشارہ کیا ہے وہ میرے رسالہ حقیقت الامر میں جس پر تاریخِ تصنیف ۲۱ ؍ستمبر ۱۹۱۸ء لکھی ہوئی ہے شائع ہؤا ہے اور اس کے صفحہ۵ سے شروع ہوتا ہے۔ میں اسے لفظ بہ لفظ اس جگہ نقل کر دیتا ہوں تا مولوی صاحب کو یاد آجائے کہ وہ یہ اعتراض دیر سے کرتے چلے آتے ہیں اور مَیں اس کا تفصیلی جواب جسے ہر عقلمند ماننے پر مجبور ہے ان کو دے چکا ہوں۔ مگر افسوس کہ انہوں نے اس کے مطابق فیصلہ کی طرف کبھی توجہ نہیں کی بلکہ اعتراص دُہرانے تک اپنی کوشش کو محدود رکھا۔ وہ جواب یہ ہے:-
’’مولوی صاحب! آپ شکایت فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنے مریدوں کو منع کیا ہؤا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں اور آپ چاہتے ہیں کہ مَیں اعلان کروںبلکہ حکم دوں کہ وہ ضرور آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں مگر میرے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے۔ میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ ہر ایک عقیدہ کو سوچ سمجھ کر قبول کریں بلکہ بارہا یہ کہا ہے کہ اگر وہ کسی بات کو زید و بکر کے کہنے سے مانتے ہیں تو گو وہ حق پر بھی ہوں تب بھی ان سے سوال ہوگا کہ بِلا سوچے انہوں نے ان باتوں پر کیونکر یقین کر لیا اور میرے خطبات اس پر شاہد ہیں ہاں ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہوتا کہ مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے کیونکہ جب تک کوئی شخص اپنی ُکتب سے واقف نہیں اگر مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے گا تو خطرہ ہے کہ ابتلاء میں پڑے۔ ایک شخص اگر قرآن کریم تو نہ پڑھے اور انجیل اور وید اور ژنداَوستا اور ستیارتھ پرکاش کا مطالعہ رکھے اورکہے کہ مَیں تحقیق کر رہا ہوں تو کیا ایسا شخص حق پر ہوگا اور اس کا یہ عمل قا ِبل تحسین سمجھا جاوے گا؟ ہاں جو شخص اپنے مذہب سے اچھی طرح واقف ہو وہ دوسرے لوگوں کی باتوںکو بھی سن سکتا ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ہمارے لٹریچر سے پوری طرح واقف نہیں اور جو مسائلِ مختلفہ میں کما حقہ‘ میری کتب اور رسائل و اشتہارات اور دیگر واقف کاران جماعت کی کتب و رسائل کا مطالعہ نہیں کر چکے ہیں باقی کسی کو میں آپ کے لٹریچر کے پڑھنے سے نہیں روکتا اور نہ میں نے کبھی روکا ہے۔ ہاں مطالعہ دوسری کتب کا ہمیشہ دو ہی شخص کیا کرتے ہیں یا تو وہ جنہوں نے مخالف کے اعتراضات کا جواب دینا ہو یا وہ جن کی غرض صرف زیادتیٔ علم ہو۔ پہلے گروہ کو تو کوئی روک ہی نہیں۔ دوسرے لوگوں میں سے وہ جو پہلے اپنی کتب و رسائل اچھی طرح پڑھ چکے ہوں اور ان پر خوب ُعمدہ طور پر عبور رکھتے ہوں اور ان کا دل ایسے دلائل سے جو پھر کسی مزید تحقیقات کی ضرورت باقی نہ رکھتا ہو تسلی یافتہ ہو دوسرے ہر ایک مذہب کی کتاب کو پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو کوئی روک نہیں کیونکہ جسے باوجود اپنے مذہب کے مطالعہ کے ایسا شرح صدر عطا نہیں ہؤاکہ جس کے بعد کسی اور مزید دلیل کی ضرورت نہ رہے اور عیاناً وہ اپنے مذہب کی سچائی کو نہیں دیکھتا اس کے لئے ضروری ہے کہ پوری تحقیق کرے تاکہ قیامت کے دن اس سے باز ُپرس نہ ہو۔ اور یہ جو میں نے ایسے لوگوں کا استثناء کیا ہے جو عیاناً اپنے عقائد کی سچائی دیکھ چکے ہوں اور کسی مزید دلیل کے محتاج نہ ہوں تو اِس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ان کتب کا مطالعہ کرنا لغو اور بے ہودہ فعل ہوگاکیونکہ انہوں نے جواب تو دینا نہیں اور ان کو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ کیوں اپنے وقت کو ضائع کریں اور ممکن ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض اور لوگ جو اپنے مذہب سے آگاہ نہیں ان کیتتبّع کرکے تباہ ہوں۔ اور اگر آپ فرماویں کہ جب دوسرے مذاہب کا ان لوگوں نے مطالعہ نہیں کیا تو ان کو کیونکر معلوم ہوگا کہ وہ جس عقیدہ پر قائم ہیں وہی بجا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی مذہب کی صداقت معلوم کرنے کے لئے صرف یہی طریق نہیں کہ دوسرے خیالات سے اس کا مقابلہ کیا جائے بلکہ سچے عقیدے اپنے اندربھی ایسی خوبیاں رکھتے ہیں کہ وہ اپنی صداقت پر آپ گواہ ہوتے ہیں اور ان کی صداقت کا انسان معائنہ کر سکتا ہے۔ مثلاً اسلام اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتاہے کہ بغیر اس کے کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جاوے اس کا ایک کامل پیرو اِس کی صداقت پر تسلی پاسکتا ہے اور اس کے دلائل دے سکتا ہے ورنہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ ماننا پڑے گا کہ صحابہؓ کا ایمان کامل نہ تھا کیونکہ انہوں نے دیگر مذاہب کی تحقیق نہیں کی تھی۔ بلکہ کوئی شخص بھی اس اصل کے مطابق ایسا نہ ملے گا جسے یقین کرنے کا حق حاصل ہو کہ وہ سچے مذہب پر ہے اور مزید تحقیق کی اسے ضرورت نہیں۔ کیونکہ کوئی ایسا انسان نہیں ملے گا کہ جس نے دنیا کے سب مذاہب کا کماحقہ، مطالعہ کیا ہو بلکہ خود آپ بھی کہ جن کو اِس وقت اِس قدر خدمتِ دینی کا دعویٰ ہے اِس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ تو کیا ہم یہ کہیں کہ آپ کا حق نہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی پر مطمئن ہوں۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا مذہب بھی نکل آوے جس کے دلائل سے آپ آگاہ نہ ہوں اور وہ سچا ہو۔ کیا سچے مذہب کے اندر کوئی ایسی صداقت موجود نہیں ہوتی کہ جو اپنی ذات کے اندر اپنی دلیل رکھتی ہو۔ اگر ایسا ہے اور ضرور ہے تو پھر ایمان کے کمال کے لئے بھی ضروری نہیں کہ ہر ایک مخالف کی کتاب پہلے پڑھ لی جائے اگر آپ کو یہ ُشبہ پیدا ہو کہ اس طرح تو ہر ایک شخص یہ کہہ دے گا کہ مجھے ایسا کامل ایمان حاصل ہو چکا ہے کہ مجھے مزید غور کی ضرورت نہیں۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ خود ایک دعویٰ ہوگا جو دلیل کامحتاج ہوگا۔ اور اگر کوئی اپنے ایمان کو عینی ایمان ثابت کر دے گا تو پھر بے شک اس کا حق ہوگا کہ اس کا دعویٰ تسلیم کر لیا جاوے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ استثناء صرف میرا ہی قائم کردہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے حد ِیث صحیح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمرؓ کو بائبل پڑھتے ہوئے دیکھا اور اس پر آپ کو ڈانٹا۔ چنانچہ جابرؓ سے روایت ہے۔ اَنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَۃٍ مِنَ التَّـوْرَاۃِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذِہٖ نُسْخَۃٌ مِنَ التَّـوْرَاۃِ فَسَکَتَ فَجَعَلَ یَـقْرَأُ وَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَـغََََـیَّـرُ فَقَالَ اَبُـوْبَکْرٍ ثَکَلَتْکَََََََََََََََََََََََََََ الثََََََََََََََََََََََََََّوَاکِلُ مَاتَرٰی مَا بِوَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَظَرَ عُمَرُ اِلٰی وَجْہِ رََََََسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اَََعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ غَضَبِ اللّٰہِ وَ غَضَبِ رَسُوْلِہٖ۔ یعنی حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کے پاس ایک نسخہ تورات کا تھا۔ آپ نے عرض کیا یَا۔رَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ تورات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور حضرت عمرؓ نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہورہاتھا اِس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ رونے والیاں تم پر روئیں۔ عمر! دیکھتے نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کیا ظاہر ہؤا ہے۔ اِس پر حضرت عمرؓ نے منہ اُٹھا کر دیکھا اور کہا کہ میں خدا اور اُس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں۔
اب کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ تھا کہ حضرت عمرؓ اس حق کو دیکھ کر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اسلام سے بیزار ہو جاویں گے؟ کیا اس کی صرف یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت عمرؓ مذہبی مباحثات کرنے والے آدمی نہ تھے اور اس مرتبہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب مزید تحقیق کی ان کو ضرورت نہ تھی پس ان کا یہ فعل بے ضرورت تھا اور خطرہ تھا کہ ان کو دیکھ کر بعض اپنے مذہب کی پوری واقفیت نہ رکھنے والے بھی اس شغل میں پڑ جاویں اور ان باتوں کی تصدیق کر دیں جو باطل ہیں اور ان کی تکذیب کر دیں جو حق ہیں۔ اور کوئی تعجب نہیں کہ اِسی وجہ سے روکا ہو کہ آپ عام مجلس میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اور اس سے خطرہ ہؤا کہ ان کو دوسرے لوگ دیکھ کر ان کی اتباع نہ کریں الگ پڑھتے تو شاید آپ کو نہ روکا جاتا۔ پس کیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ُبزدلانہ فعل قرار دیں گے۔ عِیَاذاً بِاللّٰہِ مولوی صاحب! توبہ کریں کہ آپ ہمیشہ میری مخالفت میں خداتعالیٰ کے برگزیدوں کی ہتک کرتے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ کا ایک حکم بھی اس کی تائید کرتا ہے چنانچہ مباحثہ مَا. َبیْن مولوی عبداللہ چکڑالوی و مولوی محمد حسین پر ریویو لکھتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بہ دل ّمتنفر اور بیزار ہو۔ اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتّٰی الوسع نفرت رکھیں۔‘‘
اس جگہ آپ نے چکڑالویوں سے ملنے جلنے سے حتی الوسع بچنے کی اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے اور ملنا اور کتابیں پڑھنا ایک ہی جیسا ہے تو کیا آپ کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے تھے کہ چکڑالویوں کے زبردست دلائل سے کہیں ہماری جماعت مرتد نہ ہو جائے اور آپ ان کو پہلوان نہیں بنانا چاہتے تھے؟
ایک اور واقعہ بھی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی شہادت اس امر کی تصدیق میں ہے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کو ایک دفعہ الہام ہؤا تھا کہ فلاں برہموں کی کتاب نہ پڑھنا۔ اب کیا خداتعالیٰ بھی ڈرتا تھا یا مولوی صاحب کا ایمان کمزور تھا؟ نَعُوْذُ بِاللّٰہِیہ دونوں باتیں نہ تھیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتب ایسے پیرایہ میں لکھی ہوئی تھیں کہ ان سے سادہ لوحوں کو دھوکا لگنے کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو بذریعہ الہام روک دیا تا آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جو اہلیت نہیں رکھتے نہ پڑھنے لگیں اس واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان لوگوں کو بھی جو مخالفین کو جواب دیتے ہیں۔ مصلحتاً روک دیا جاتا ہے۔
مولوی صاحب! یہ تینوں واقعات اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ کا اعتراض مجھ پر نہیں بلکہ خداتعالیٰ پر ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ پر ہے اور میں ایک اور بات بھی پوچھتا ہوں کہ مہربانی فرما کر آپ مجھے اپنا بھی وہ اعلان دکھائیں جس میں آپ نے حُکماً اپنے ہم خیالوں کو لکھا ہو کہ وہ میری سب کتب اور رسالہ جات اور اشتہارات کومطالعہ کرکے حق کا فیصلہ کریں۔ اگر آپ نے بھی ایسا نہیں کیا تو مجھ پر کیا گلہ ہے۔ اگر فرما ویں کہ میں نے کب روکا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے بھی تو کبھی نہیں روکا۔ ہاں میرے نزدیک مخالف کی کتب پڑھنے کے متعلق مذکورہ بالا شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرے اکثر مرید ان کے پابند ہیں۔ اِلَّامَاشَائَ اللّٰہُ۔ چنانچہ آسانی سے اس کا علم اس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ مہربانی فرما کر اپنے ہم خیالوں میں سے ان لوگوں کی ایک فہرست شائع کر دیں کہ جنہوں نے ہماری کتب کا مطالعہ کیا ہو اور ہر ایک کے نام کے ساتھ لکھ دیں کہ اس نے فلاں فلاں کتاب یا رسالہ تمہارا پڑھا ہے اور مَیں اپنے مریدوں میں سے ایسے لوگوں کی ایک فہرست شائع کرا دوں گا جنہوں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے نام کے آگے ان کتب و رسالہ جات کی فہرست جو انہوں نے آپ کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر میں سے پڑھے ہوں درج کر دوں گا۔ اس سے خود دنیا کومعلوم ہو جائے گا کہ کون لوگ بے تعصبی سے دوسرے کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘‘ ۲۰؎
یہ جواب آج سے تیئیس سال پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اب مولوی صاحب فرمائیں انہوں نے اِس کی طرف کیا توجہ کی اور کیا کبھی اس کے مطابق فیصلہ کی کوشش کی؟ جواب کے علمی حصہ کو مولوی صاحب جانے دیں اس جواب کے آخر میں میں نے جو تین سادہ تجاویز پیش کی تھیں کیا مولوی صاحب نے ان پر عمل کرکے حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی؟
اول تجویز میری یہ تھی کہ مولوی صاحب میری وہ تحریر دکھا دیں جس میں میں نے یہ لکھا ہو کہ ہماری جماعت کا کوئی آدمی مولوی صاحب یا ان کے رفقاء کی تحریریںنہ پڑھا کرے۔ آخر مجھ پر جو یہ الزام ہے کہ مَیں مولوی صاحب کے خیالات کو پڑھنے سے لوگوں کو روکتا ہوں اس کا کوئی ثبوت چاہئے۔ میں اس سے انکار کرتا ہوں کہ میں نے جماعت کو ایسا کہا ہو۔ پس اس کا بارِثبوت تو مولوی صاحب پر ہے ان کو چاہئے کہ وہ میری وہ تحریر پیش کریں جس میں میں نے لوگوں کو ان کی تحریریں پڑھنے سے روکا ہو۔
دوسری تجویز میری یہ تھی کہ اگر مولوی صاحب میری خاموشی سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ میں جماعت کو اپنی تحریرات پڑھنے سے روکتا ہوں اور چونکہ میں نے کوئی ایسا حکم جماعت کو نہیں دیا کہ ان کی تحریریں پڑھا کرو اس لئے مولوی صاحب کا حق ہے کہ وہ یہ نتیجہ نکالیں کہ میں جماعت کو ان کی تحریریں پڑھنے سے روکتا ہوں تو پھر وہ اپنا وہ حُکم دکھا دیں جس میں انہوں نے اپنے رفقاء کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ میری تحریرات پڑھا کریں۔ اگر ایسا حکم نہ دینے سے مناھی کا حکم نکلتا ہے تو مولوی صاحب بھی جب تک ایسا حکم نہ دکھائیں گے ان پر بھی یہی الزام ثابت ہوگا۔
تیسری تجویز میری یہ تھی کہ اگر مولوی صاحب اس کے لئے بھی تیار نہیں تو ایسے غیر مبائعین کی فہرست شائع کر دیں جن کے ناموں کے آگے ان کتابوں کی فہرست دی ہوئی ہو جو انہوں نے میری تصانیف میں سے پڑھی ہوں اور میں اپنی جماعت کے ایسے لوگوں کی فہرست شائع کر دوں گا جنہوں نے مولوی صاحب کی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اس سے معلوم ہو جائے گا کہ مولوی صاحب کے رفقاء میری کتب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں یا میرے مرید ان کی کتب کا زیادہ مطالعہ کرتے ہیں؟ مگر مولوی صاحب نے ان تینوں تجویزوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا۔ نہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان تجاویز میں مَیں نے کونسی چالاکی سے کام لیا ہے اور کس طرح اپنے حق کو زیادہ محفوظ کر لیا ہے اور ان کے حق کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر افسوس سخت افسوس ہے کہ وہ ناواجب اور غیر منصفانہ طور پر ایک غلط اعتراض کو دُہراتے چلے جاتے ہیں اور فیصلہ کی طرف نہیں آتے۔
اِس اُمت میں مجدّد ہی آئیں گے
میرے مضمون میں سے مولوی صاحب نے سب سے پہلی بات قابلِ جواب یہ ُچنی ہے کہ ’’بیشک آپ نے
فرمایا ہے کہ میری اُمت میں مجددین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا ہے کہ نبی بھی ہوگا۔‘‘ اور اس کی تشریح آگے چل کر ُیوں فرماتے ہیں کہ ’’جناب میاں صاحب اپنے خلاف خود ڈگری دے رہے ہیں کسی دوسرے کو حَکم بنانے کی ضرورت نہیں۔ اعتراف اول کے رو سے میاں صاحب کا ّمسلمہ مذہب کہ اِس اُمت میں نبوت کا دروازہ ُکھلا ہے باطل ہو گیا کیونکہ آپ نے یہاں یہ تسلیم کر لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اِس اُمت میں مجدّدین ہی آئیں گے۔ ہاں ایک اور صرف ایک نبی ہوگا۔ ‘‘
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جناب مولوی صاحب کی حوالوں میں ادل بدل کرنے کی عادت ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ اِس عادت کو وہ بالکل ترک نہیں کر سکے۔ میرا فقرہ نقل فرما کر جس کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’بیشک آپ نے فرمایا کہ میری اُمت میں مجدّدین آئیں گے مگر یہ بھی تو فرمایا کہ نبی بھی ہوگا۔‘‘ آپ میری طرف یہ مضمون منسوب فرماتے ہیں۔ کہ ’’اِس اُمت میں مجدّدین ہی آئیں گے ‘‘ اور پھر یہ کہ ’’ہاں ایک اور صرف ایک نبی ہوگا۔‘‘ حالانکہ نشان کردہ موٹے حروف نہ میرے فقرہ میں ہیں اور نہ ان سے یہ مضمون نکلتا ہے۔ نہ میں نے یہ لکھا ہے کہ مجدّدین ہی آئیں گے۔ اور نہ یہ کہ ایک اور صرف ایک نبی ہوگا۔ پس یہ درست نہیں کہ میں نے اپنے خلاف خود ڈگری دیدی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اپنے خلاف خود ڈگری دیدی ہے اور اس بارہ میںمجھے کچھ اور لکھنے کی ضرورت نہیں اور اگر میں کچھ لکھوں گا تو جناب مولوی صاحب کو شکایت ہوگی کہ ہمیں ُبرا کہا جاتا ہے۔ مولوی صاحب میرے اوپر کے فقرہ سے یہ عجیب استدلال فرماتے ہیں کہ اعترافِ اول کے رو سے میاں صاحب کا ّمسلمہ مذہب کہ اِس اُمت میں نبوت کا دروازہ ُکھلا ہے باطل ہو گیا۔ ایک منٹ کے لئے فرض کر لو کہ میرے فقرہ میں مجدّدین کے بعد ’’ہی‘‘ کا بھی لفظ ہے اور نبی سے پہلے ’’ایک اور صرف ایک‘‘ کے الفاظ بھی ہیں تو بھی یہ مصنوعی فقرہ نبوت کا دروازہ بندنہیںکرتا کیونکہ بند دروازے میں سے تو ایک شخص بھی نہیں نکل سکتا دروازہ ُکھلا ہی ہوگا تو کوئی شخص اس میں سے نکلے گا۔ یہ کیا منطق ہے کہ چونکہ صرف ایک شخص اِس دروازے میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا ہے اس لئے وہ دروازہ بند ہے۔ اگر وہ دروازہ بند ہے تو وہ ایک شخص کیونکر نکلا؟ اور جس شخص کے نزدیک ایک شخص اِس دروازہ میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نکل آیا ہے تو اس شخص کے نزدیک وہ دروازہ بند کیونکر سمجھا جائے گا اور اس کے خلاف اقبالی ڈگری کیونکر سمجھی جائے گی؟
اگر مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ ’’ہی‘‘ اور ’’ایک اور صرف ایک‘‘ کے لفظ میرے فقرہ میں بڑھا دیئے جائیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اِس اُمت میں صرف ایک نبی ہوگا ایک سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ تو مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو یہ لفظ مولوی صاحب کے اپنے پیدا کردہ ہیں میرے ہیں ہی نہیں۔ لیکن اگر فرض کرو کہ یہ لفظ میرے ہی ہوں یا میرے فقرہ سے نکلتے ہوں تو بھی اس سے مولوی صاحب کو کیا فائدہ پہنچا؟ کیا مولوی صاحب کو اس عقیدہ پر اعتراض ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی نبیوں کے آنے کا دروازہ ُکھلا ہے (جیسا کہ میرا عقیدہ ہے) یا اس عقیدے پر اعتراض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک امتی نبی تو آسکتا ہے کئی امتی نبی نہیں آسکتے۔ اگر دوسرے عقیدہ پر اعتراض ہے تو میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ صرف لفظی نزاع ہوگا کیونکہ اصل اختلاف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق ہے۔
باقی رہا یہ کہ آپ کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں یا نہیں یہ ایک علمی مسئلہ ہے ہمیں اس پر جھگڑنے کی ضرورت نہیں اس کو خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اگر کوئی نبی آئندہ آیا تو وہ آپ اپنا دعویٰ منوا لے گا ہمیں ’’آب ندیدہ موزہ از پاکشیدہ ‘‘کی مثل پر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مولوی صاحب اور ان کے رفقاء اس امر کو تسلیم کر لیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کے دروازے سے ایک اور صرف ایک شخص آپ کے امتیوں میں سے نبی کا ُعہدہ پاکر آگیا ہے تو آئندہ کا معاملہ ہم یقینا خداتعالیٰ پر چھوڑ دیں گے کیونکہ اصل با ِعث نِزاع ہمارے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ہے۔ اگلے لوگ اپنا معاملہ آپ ُسلجھائیں گے ہمیں ان کی خاطر جماعت میں فتنہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن اگر مولوی صاحب ’’ایک اور صرف ایک‘‘ نبی اور وہ بھی اُمتی نبی کے آنے سے بھی بابِ نبوت کو ُکھلا سمجھتے ہیں اور ِختم نبوت کو ُٹوٹا ہؤا تو پھر مولوی صاحب انصاف سے جواب دیں کہ یہ محرف فقرہ میری طرف منسوب کرکے بھی کہ’’ ایک اور صرف ایک نبی اِس اُمت میں ہوگا‘‘ وہ یہ اقبالی ڈگری میرے خلاف کیونکر دے رہے ہیں کہ میں باب نبوت کو مسدود سمجھتا ہوں۔
ایسی کوئی حدیث نہیں جس
میں نبی کے آنے کا ذکر ہو
پھر مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’مگر ایسی کوئی حدیث پیش نہیں کی جس میں انبیاء کے آنے کا ذکر ہو۔‘‘ جیساکہ میں اوپر لکھ آیا ہوں ہم میں اور غیر مبائعین میں نِزاع کی بنیاد یہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی کوئی اور نبی آئیگاہاں
نزاع کی بنیاد یہ ہے کہ اِس وقت تک امت محمدیہ میں محدّث آتے رہے ہیں صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے۔ اگر اس کو میں غلط سمجھا ہوں اور جناب مولوی محمد علی صاحب کو ایک نبی آنے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف ایسی صورت میں بابِ نبوت کو ُکھلا اور ختمِ نبوت کو ٹوٹا ہؤا خیال کرتے ہیں کہ اگر اِس اُمت میں کئی انبیاء آئیں تو موجودہ زمانے کے لحاظ سے بحث ختم ہو جاتی ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی تسلیم کر لیں اور اعلان کر دیں کہ ایک نبی کے آنے سے بابِ نبوت کے مسدود ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا تو ہماری ان کی بحث ختم ہو جائیگی۔ لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تو ان کا اِس پر زور دینا کہ ایسی کوئی حدیث پیش نہیں کی گئی جس میں انبیاء کے آنے کا ذکر ہو کیا اثر رکھتا ہے اور اس کا ہمارے اختلافات کے طے کرنے میں کیا دخل ہو سکتاہے۔
نواس بن سمعان کی حدیث کو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
نے ضعیف قرار دیا ہے۔
آگے چل کر جناب مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میاں صاحب کو اعتراف ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کو جو نواس بن سمعان نے بیان کی ہے اور جس میں آنے والے مسیح موعود کو نبی کہا گیا ہے ضعیف قرار دیا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس حدیث کو حضرت مسیح موعود(علیہ السلام) بھی ضعیف ہی قرار دیتے ہیں اور اس کی تائید میں مولوی صاحب
ازالہ اوہام صفحہ ۲۳۸ کا یہ حوالہ پیش فرماتے ہیں کہ ’’وہ د مشقی حدیث جو امام مسلم نے پیش کی ہے خود مسلم کی دوسری حدیث سے ساقط الاعتبار ٹھہرتی ہے۔‘‘۲۱؎ نیز یہ حوالہ کہ معلوم ہوتا ہے کہ’’ امام مسلم نواس بن سمعان کی حدیث کو از ِقبیل استعارات و ِکنایات خیال کرتے تھے۔‘‘۲۲؎ اسی طرح یہ کہ ’’یقینا سمجھو کہ اس حدیث اور ایسا ہی اس کی مثال کے ظاہری معنے ہر گز مراد نہیں اور قرائن قویہ ایک شمشیرِ برہنہ لے کر اِس کوچہ کی طرف جانے سے روک رہے ہیں بلکہ یہ تمام حدیث ان مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے۔‘‘۲۳؎ اور ان حوالوں سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’بات موٹی ہے۔ حضرت مسیح موعود نے اسے ساقط الاعتبار قرار دیا ہے اور تمام کی تمام حدیث کو مع اس حصہ کے جس میں مسیح ابن مریم کے نام کیساتھ نبی اللہ کا لفظ بولا گیا ہے صرف اس صورت میں قبول کیاہے کہ اس کو استعارہ اور مجاز قرار دیا جائے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ نبی والا حصہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس حصہ کو خاص طور پر آپ نے استعارہ قرار دیا ہے اور اس کے لئے یہ حوالے درج کئے ہیں۔
’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں ّمسلم اور ایک معمولی محاورہ مکالماتِ الٰہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا‘‘۲۴؎
’’وہ نبی کرکے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے …… جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آگیا اور وحی نبوت کا سلسلہ شروع ہؤا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسا ہؤا کیا نبی کی وحی وحی نبوت کہلائے گی یا کچھ اور ……… توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو۔‘‘ ۲۵؎
مولوی صاحب ان حوالوں سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس حدیث کو ضعیف بلکہ ساقط الاعتبار قرار دیا ہے۔ اور اسی صورت میں اس کو قابلِ اعتبار قرار دیا ہے کہ اسے استعارات سے ُپر سمجھا جائے۔ پس میرا یہ کہنا کہ گو بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ قول ان کا درست نہیں گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کو رد ّکرنا ہے مگر جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اوپر کے حوالہ جات کو غور سے پڑھے گا اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولوی صاحب کا یہ بیان کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نواس بن سمعان کی حدیث کو حدیث کے لحاظ سے ساقط الاعتبار قرار دیا ہے درست نہیں۔ کیونکہ اگر آپ اس حدیث کو بحیثیت حدیث ساقط الاعتبار قرار دیتے تو خود ہی اس سے استدلال کیوں فرماتے؟ اور کیوں فرماتے کہ ’’یقینا سمجھو کہ اس حدیث اور ایسا ہی اس کی مثال کے ظاہری معنی ہرگز مراد نہیں …… بلکہ یہ تمام حدیث ان مکاشفات کی ِقسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے۔‘‘ ۲۶؎
کیا ساقط الاعتبار احادیث مکاشفات میں سے ہوتی ہیں اور کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائے گئے مکاشفات ساقط الاعتبار ہوتے ہیں؟ پس ان الفاظ سے اور ان حوالجات سے جو میں آگے نقل کروں گا صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس حدیث کو اس لحاظ سے ساقط الاعتبار نہیں قرار دیتے کہ یہ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتی۔ بلکہ اس لحاظ سے ساقط الاعتبار قرار دیتے ہیں کہ اس کے بیان کرنے میں راوی سے بعض غلطیاں ہو گئی ہیں اور اس کی تشریح کے لئے دوسری احادیث سے مدد لینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور قرآن کریم کی روشنی میں اِس کی تشریح ضروری ہے۔ چنانچہ میرے اس دعویٰ کی تصدیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک دوسرے حوالہ سے ہوتی ہے۔ جس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ :-
’’لیکن خوب غور سے سوچنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ دراصل حدیث موضوع نہیں ہے ہاں استعارات سے پُر ہے۔‘‘ ۲۷؎
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حتمی طور پر اس حدیث کی صحت کا اقرار فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ غور سے سوچنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں بلکہ استعارات سے پُر ہے تو یہ کہنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ضعیف اور ساقط الاعتبار قرار دیا ہے صرف اِس امر کا اقرار کرنا ہے کہ ایسا کہنے والے شخص نے اس حدیث کو غور سے نہیں سوچا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف وہ بات منسوب کرتا ہے جو آپ نے نہیں کہی۔
باقی رہایہ امر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے استعارات سے پُر قرار دیا ہے۔ سو اِس کا کسی کو انکار نہیں ہم بھی اسے استعارات سے پُر قرار دیتے ہیں اور اس میں استعارات کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ ہاں اِس امر کو تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں جو نبی کا لفظ استعمال ہؤا ہے اِس سے مراد کوئی ایسا استعارہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ِفی الواقعہ نبی نہ تھے اور اس عقیدہ کے وجوہ مَیں آگے چل کر بیان کرونگا۔
مولوی صاحب کو اِس امر پر اصرار ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’یہ تمام حدیث ان مکاشفات کی قسم میں سے ہے جن کا لفظ لفظ تعبیر کے لائق ہوتا ہے۔‘‘ ۲۸؎
اِس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے الفاظ کے معنی اردو میں یہی ہوتے ہیں کہ کثرت سے اس کا وجود پایا جاتا ہے ورنہ بِلا قوی قرینہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ُ ّکلی طور پر ِبلا استثناء وہ بات پائی جاتی ہے۔ یہ ہماری زبان کا ایک عام محاورہ ہے بلکہ ہر زبان کا محاورہ ہے۔ اور اس کو ایسا کُلیہ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ اس سے مستثنیٰ کوئی چیز ہو ہی نہ سکے بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ خود مولوی صاحب بھی ایسے لفظ کئی دفعہ بول جاتے ہوں گے۔ جیسے کہ مثلاً کھانے میں نمک زیادہ ہو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس میں تو نمک ہی نمک ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ نہ گوشت ہے نہ دال ہے نہ مرچ ہے نہ دوسری کوئی اور َشیہے۔ خودحدیث کے الفاظ کوبھی دیکھا جائے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض الفاظ تو اس میں ضرور بغیر استعارہ کے استعمال ہوئے ہیں۔
مولوی صاحب نے میری کسی سابق تحریر سے یہ فقرہ نقل کرکے کہ ’’ورنہ کوئی شخص کہہ دے گا کہ مسیح بھی ایک استعارہ ہے اور مہدی بھی ایک استعارہ ہے۔‘‘ میری ہنسی اُڑائی ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ میں نے حدیث کو غور سے نہیںپڑھا۔ کیونکہ حدیث میں مہدی کا لفظ نہیں آیا اور مسیح بھی نہیں آیا بلکہ مسیح ابن مریم آیا ہے۔ حالانکہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اس حدیث میں مہدی کا لفظ آیا ہے بلکہ مہدی کے لفظ کو صرف اس لئے شامل کر لیا گیا ہے کہ لَا مَھْدِی اِلَّا عِیْسٰی۲۹؎ کی حدیث کے رو سے آنے والے مسیح٭ نے مہدی بھی ہونا تھا پس اس اشتراک کی وجہ سے مسیح کے ساتھ مہدی کا لفظ بھی شامل کر لیا گیا۔ یہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی اور نہ اس خاص لفظ سے کوئی مستقل نتیجہ نکالا گیا تھا کہ مولوی صاحب کو اس پر اعتراض ہوتا۔ وہ مہدی کے لفظ کو چھوڑ دیں۔ مسیح کا لفظ ہی رہنے دیں۔ مولوی صاحب کا یہ فرمانا کہ مسیح ابن مریم کا لفظ حدیث میں ہے جو استعارہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مریم بے شک استعارہ ہے لیکن مسیح تو ایک ُعہدہ ہے وہ استعارہ کس طرح کہلا سکتا ہے۔ مسیح کا لفظ تو اپنے اصل معنوں میں ہی مستعمل ہؤا ہے۔ لیکن صرف یہی لفظ تو اِس حدیث میں نہیںجو بغیر استعارہ کے استعمال ہؤا ہے۔ اس کے سِوا اور الفاظ بھی ہیں مثلاً عِنْدَالْمَنَارَۃِ الْبَیْضَاء ۳۰؎ کے الفاظ ہیں۔ ان میں کونسا استعارہ ہے۔ منارۂ بیضاء خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوا دیا ہے اسی طرح ارض کا لفظ بھی اس حدیث میں ہے۔ طبریہ کا لفظ ہے۔ ان سے مراد زمین اور طبریہ ہی ہیں نہ کچھ اور۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی الفاظ اس حدیث میں ہیں جو ہرگز استعارہ نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ’’لفظ لفظ‘‘ سے ِبلا استثناء سب الفاظ کو مراد لینا درست نہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک آیت قرآنی بھی نقل ہے۔ یعنی مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ۔۳۱؎ ہر موجِ سمندر پر سے وہ قوم تیزی سے بڑھتی آئے گی ۔ کیا یہ بھی استعارہ ہی ہے اور کیا آپ نے اسے اپنی تفسیر میں استعارہ ہی قرار دیا ہے اور اگر استعارہ ہے تو پھر کیا یہ آیت بھی ساقط الاعتبار ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس حدیث کا کوئی ایک لفظ بھی استعارہ کے بغیر نہیں۔
اگر مولوی صاحب جواب میں کہیں کہ یہ چونکہ آیت ہے اسے آیت کی تصدیق کی وجہ سے ساقط الاعتبار نہ کہا جائے گا تو میں کہتا ہوں کہ اسی طرح نبی اللہ کے لفظ کی چونکہ دوسرے کلامِ الٰہی سے تصدیق ہوتی ہے اسے بھی ساقط الاعتبار نہ کہا جائے گا۔
اگر مولوی صاحب کو اصرار ہو کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’لفظ لفظ‘‘ لکھا ہے اس لئے میں تو لفظ لفظ کو ہی استعارہ قرار دوں گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں اس حدیث کو پورا نہیں نقل کیا بلکہ صرف ایک حصہ کو نقل کیا ہے اور دجال کے بابِ لدّ پر قتل ہونے تک کے واقعہ پر اکتفاء کی ہے۔ پس کہا جاسکتا ہے کہ جو ’’لفظ لفظ‘‘ کے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمائے ہیں وہ اسی حصہ کے متعلق ہیں نہ کہ باقی کے متعلق۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر اس امر کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ساری حدیث کے ہر لفظ کو نہیں بلکہ اس کے اکثر حصہ کو استعارہ سمجھتے تھے۔ مندرجۂ ذیل حوالہ سے نکلتا ہے اور اس کے بعد کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آپؑ انجام آتھم صفحہ۱۲۹ پر تحریر فرماتے ہیں:-
’’وَاَمَّا مَاجَائَ فِیْ حَدِیْثِ خَیْرِ الْاَنْبِیَائِ مِنْ ذِکْرِ دِمَشْقَ وَغَیْرِہٖ مِنَ الْاَنْبَائِ فَاَکْثَرُہُ اسْتِعَارَاتٌ وَ مَجَازَاتٌ مِنْ حَضْرَۃِ الْکِبْرِیَائِ‘‘ ۳۲؎
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جودمشق وغیرہ کا ذکر آتا ہے اس کا اکثر حصہ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہے۔
اِس حوالہ سے ثابت ہے کہ دمشقی حدیث کے اکثر حصہ کو آپ استعارہ اور مجاز قرار دیتے ہیں۔ نہ کہ فی الواقعہ اس کے ہر ہر لفظ کو۔
جناب مولوی محمد علی صاحب نے اس حدیث پر ایک اور اعتراض بھی کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہی حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے اور اس میں نبی اللہ کے الفاظ نہیں۔ ’’جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی اللہ کا لفظ کسی راوی کا ذاتی تصرف ہے۔‘‘ ۳۳؎
حضرت مولوی صاحب نے بات تو خوب دُور کی نکالی ہے مگر افسوس کہ جہاں وہ مجھ پر الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور احادیث کو غور سے نہ دیکھنے کا لگایا کرتے ہیں وہاں وہ خود زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیتے۔ مولوی صاحب اِس استدلال کو پیش کرنے سے پہلے یہ تو دیکھ لیتے کہ ُمسلم کی حدیث اور ترمذی کی حدیث کے راوی کون کون ہیں؟
ُمسلم میں یہ حدیث دو سلسلوں سے مروی ہے۔ ایک سلسلہ ابوخیثمہ سے شروع ہوتا ہے اور ایک محمد بن مہران سے۔ یہ دونوں آگے ولید بن مسلم سے روایت کرتے ہیں۔ گویا صرف آخری راوی الگ ہیں اوپر کے راوی ایک ہی ہیں۔ ترمذی میں یہ روایت علی بن حجر سے مروی ہے مگر وہ آگے ولید بن مسلم اور عبداللہ بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہیں گو ترمذی کے راوی بھی وہی ہیں صرف آخری راوی میں اختلاف ہے۔ اس صورت میں اگر راوی کا ذاتی تصرف ہو سکتا ہے۔ تو آخری راویوں میں سے کسی کا ہو سکتا ہے کیونکہ اوپر کے راوی مسلم کے بھی وہی ہیں اور ترمذی کے بھی وہی۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لفظوں میں فرق پڑا ہے تو کس روایت میں پڑا ہے۔ مسلم کی روایت میں یا ترمذی کی روایت میں۔ تو اول تو ترمذی نے خود لکھا ہے کہ ’’دَخَلَ حَدِ یْثَ اَحَدِھِمَا فِیْ حَدِیْثِ الْاٰخَرِ۔‘‘۳۴؎ یعنی میرے پاس روایت کرنے والے راوی کو حدیث پوری طرح محفوظ نہیں رہی بلکہ اس نے جن دو آدمیوں سے حدیث ُسنی ہے ان کی روایت کو اس نے آپس میں ملا دیا ہے۔ دوم ایک زبردست ثبوت اس امر کا کہ مسلم کی حدیث کے لفظ محفوظ ہیں اور جو غلطی ہوئی ہے ترمذی سے ہوئی یہ ہے کہ یہ حدیث علاوہ مسلم اور ترمذی کے ابن ماجہ میں بھی آئی ہے اور اس میں بھی یہ روایت مسلم اور ترمذی کی طرح عبدالرحمن بن یزید سے مروی ہے اور ان سے اوپر کے سب راوی مسلم اور ترمذی کے راویوں سے مشترک ہیں۔ ہاں عبدالرحمن بن یزید سے نیچے کے راوی یہاں بھی مختلف ہیں جس طرح مسلم اور ترمذی کے مختلف ہیں۔ اور اس روایت میں بھی عِیْسٰی نَبِیُّ اللّٰہِ کے الفاظ چار دفعہ اسی طرح بیان ہوئے ہیں جس طرح مسلم میں بیان ہوئے ہیں۔ اب جناب مولوی صاحب بتائیں کہ یہ ذاتی تصرف کس نے کیا ہے؟ اگر تو عبدالرحمن بن یزید یا اوپر کے راویوں میں سے کسی نے تو وہ سب حدیثوں میں مشترک ہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلم اور ابن ماجہ کی روایت میں وہ ذاتی تصرف کر دیتے اور ترمذی میں نہ کرتے۔ اور اگر کہو کہ نچلے راویوں میں سے کسی نے ذاتی تصرف کر دیا ہے تو یاد رہے کہ مسلم اور ابن ماجہ دونوں حدیث کی کتب نبی اللّٰہ کے لفظ پر متفق ہیں۔۳۵؎ اور پھر مسلم نے دو راویوں سے یہ روایت کی ہے پس اگر غلطی کی ہے تو ترمذی کے راوی نے کی ہے کیونکہ وہ اکیلا ہے اور مسلم اور ابن ماجہ کے تین الگ راوی ہیں جو نبی اللّٰہ کے لفظ پر متفق ہیں۔
حدیث میں مسیح موعود علیہ السلام کو نبی
کہہ کے حقیقی معنوں میں نہیں پکارا گیا
مولوی محمد علی صاحب نے آخری دلیل یہ پیش کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ نبی کا استعمال فرمایا ہے وہ ضرور استعارہ ہے اور اس کے ثبوت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ
حوالے پیش کئے ہیں:-
’’آنے والے مسیح موعود کا نام جو صحیح مسلم وغیرہ میں زبانِ مقدس حضرت نبوی سے نبی اللہ نکلا ہے وہ انہی مجازی معنوں کی رو سے ہے جو صوفیائے کرام کی کتابوں میں مسلّم اور ایک معمولی محاورہ مکالماتِ الٰہیہ کا ہے ورنہ خاتم الانبیاء کے بعد نبی کیسا‘‘
دوسرا حوالہ یہ درج کیا ہے کہ :-
’’وہ نبی کرکے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے …… جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آگیا اور وحیِ نبوت کا سلسلہ شروع ہؤا تو کہو کہ ختم نبوت کیونکر اور کیسا ہؤا۔ کیا نبی کی وحی وحیِ نبوت کہلائے گی یا کچھ اور؟ ……… توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو۔‘‘ ۳۶؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کے ایک حوالہ میں تحریف
میں اِس حوالہ کو نقل کرکے اِس پر کچھ لکھنے ہی لگا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ مولوی محمد علی صاحب پر حوالوں میں اعتبار کرناسخت خطرناک ہوتا ہے۔ خصوصاً جب وہ نقطے ڈالیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ ضرور کوئی ضروری حصہ اِس جگہ متروک ہے یا اس متروک حصہ
سے مفہوم کو کوئی دوسرا رنگ ضرور مل جاتا ہے۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی مَیں نے سراج منیر نکال کر اصل عبارت دیکھی تو وہ یوں تھی۔
’’بار بار کہتا ہوں کہ یہ الفاظ رسول اور ُمرسل اورنبی کے میرے الہام میں میری نسبت خداتعالیٰ کی طرف سے بے شک ہیں لیکن اپنے حقیقی معنوں پر محمول نہیںہیں۔ اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کرکے پکارنا جو حدیثوں میں مسیح موعود کے لئے آیا ہے وہ بھی اپنے حقیقی معنوں پر اطلاق نہیں پاتا۔ یہ وہ علم ہے جو خدا نے مجھے دیا ہے جس نے سمجھنا ہو سمجھ لے۔ میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکلّی بند ہیں۔ اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوں کے رو سے آسکتا ہے اور نہ کوئی قدیم نبی۔ مگر ہمارے ظالم مخالف ختمِ نبوت کے دروازوں کو پورے طور پر بند نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مسیح اسرائیلی نبی کے واپس آنے کے لئے ابھی ایک کھڑکی ُکھلی ہے۔ پس جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آگیا اور وحیِ نبوت کا سلسلہ شروع ہؤا تو کہو کہ ِختم نبوت کیونکر اور کیسے ہؤا۔ کیا نبی کی وحی وحیِ نبوت کہلائے گی یا کچھ اور۔ کیا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا فرضی مسیح وحی سے بکلّی بے نصیب ہو کر آئے گا۔ توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے مت بڑھو۔‘‘۳۷؎
اِس عبارت کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے اپنی عبارت سے پہلے کے فقرات چھوڑ کر یہ مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہ بتایا ہے کہ حدیث میں جو لفظ نبی کا آیا ہے وہ استعارہ ہے۔ حالانکہ اصل عبارت سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کا دیا ہؤا علم صرف یہ ہے کہ حقیقی نبوت کا دروازہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بند ہے اور اس مفہوم کو چسپاں کرکے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی نبی کے لفظ کے یہی معنی ہیں۔ اور یہ ہرگز مراد نہیں کہ خداتعالیٰ نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ حدیثوں میں اِس لفظ کا فلاں مفہوم نہیں فلاں ہے۔ چنانچہ اگلے فقرہ سے اِس کی تشریح ہوجاتی ہے۔ اور وہ فقرہ یہ ہے۔ ’’میرے پر یہی کھولا گیا ہے کہ حقیقی نبوت کے دروازے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بکلّی بند ہیں۔‘‘ اس فقرہ اور اس کے بعد کے ایک دو فقروں کو حذف کر کے نیز عبارت کے شروع کے فقروں کو حذف کرکے جناب مولوی صاحب نے یہ اثر پیدا کرنا چاہا ہے کہ گویا خاص طور پر الہام میں اس حدیث کی تشریح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتائی ہے اور فرمایا ہے کہ اِس حدیث میں لفظ نبی سے مراد نبی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہاں تک ہوشیاری کی ہے کہ فقرہ کو درمیان سے کاٹا ہے۔ اصل فقرہ تو یہ تھا کہ ’’اور جیسے یہ محمول نہیں ایسے ہی وہ نبی کرکے پکارنا‘‘ الخ مگر آپ نے نشان کردہ ُجزو فقرہ کا اُڑا دیا تا کوئی یہ خیال کرکے کہ فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی اسی سے ملتا ہؤا مضمون ہے میں اس کو بھی نکال کر دیکھ لوں ساری عبارت نہ دیکھ لے۔
اسی طرح مولوی صاحب نے عبارت میں سے ایک یہ فقرہ بھی حذف کر دیا ہے کہ ’’مگر ہمارے ظالم مخالف ختمِ نبوت کے دروازوں کو پورے طور پربند نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک مسیح اسرائیلی نبی کے واپس آنے کے لئے ابھی ایک کھڑکی ُکھلی ہے۔‘‘ پس اس فقرہ کے حذف کرنے سے ان کی غرض یہ ہے کہ انہوں نے نقطوں کے بعد جو فقرہ نقل کیا ہے یعنی ’’جب قرآن کے بعد بھی ایک حقیقی نبی آگیا اور وحیِ نبوت کا سلسلہ شروع ہؤا تو کہو کہ ِختم نبوت کیونکر اور کیسے ہؤا۔ کیا نبی کی وحی وحیِ نبوت کہلائے گی یا کچھ اور‘‘ اِس سے لوگوں کا ذہن اِس طرف نہ منتقل ہو کہ اِس جگہ ایک سابق نبی حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے جو نبوت کے حصول میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آزاد تھے اور جن کی وحی قرآن کریم کی وحی کے تابع نہ تھی۔ اِس کا مزید ثبوت کہ مولوی صاحب نے دیدہ دانستہ اِس فقرہ کو حذف کیا ہے اور ان کا منشاء یہ تھا کہ اسرائیلی مسیح کا ذکر اس جگہ پر نہ آئے اور لوگ یہی خیال کریں کہ یہاں محمدی مسیح کی نبوت کی بحث ہے۔ کسی سابق نبی کی نبوت کا ذکر نہیں یہ ہے کہ ان کے نقل کردہ فقرہ کے بعد ایک مختصر فقرہ پھر حضرت مسیح ناصری کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ انہوں نے درمیان سے اس کو بھی حذف کر دیا ہے اور وہ فقرہ یہ ہے۔ ’’کیا یہ عقیدہ ہے کہ تمہارا فرضی مسیح وحی سے بکلّی بے نصیب ہو کر آئے گا۔‘‘ ہاں اس کے بعد کا فقرہ درج کر دیا ہے کہ ’’توبہ کرو اور خدا سے ڈرو اور حد سے نہ بڑھو۔‘‘ اِس مختصر سے فقرہ کو حذف کرنے کے اس کے سِوا کوئی معنی نہ تھے کہ وہ ذہنوں کو اس طرف سے روکنا چاہتے تھے کہ اِس جگہ ایک ایسے نبی کا ذکر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اِ ّتباع کے بغیر نبی ہؤا تھا اور جس کی وحی قرآن کریم کی وحی کے تابع نہ تھی۔
نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دینے کا مطلب
اب رہا یہ سوال کہ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کے لفظ کو اس جگہ استعارہ
قرار دیا ہے اِس کا کیا مطلب ہے تو اِس کا جواب وہ ہے جو میں حقیقۃ النبوۃ میں بِالتفصیلدے چکا ہوں کہ حقیقت استعارہ اور مجاز کے الفاظ نسبتی الفاظ ہیں۔ ایک قوم کی اصطلاح کے مطابق جو معنی حقیقی ہوتے ہیںدوسری کے نزدیک وہ مجازی ہو جاتے ہیں۔ جیسے اسلام کے نزدیک صلوٰۃ کے حقیقی معنی اسلامی عبادت کے ہیں اور دوسرے لوگوں کی عبادت یا صلوٰۃ کے دوسرے ُلغوی معانی مجازی ہیں۔ اِسی طرح اسلام کی اصطلاح میں کلمہ ایک فقرہ کا نام ہے لیکن نحویوں کے نزدیک کلمہ کے معنی ایک لفظ کے ہیں۔ ُلغت کے رو سے حرف کے معنی بولے ہوئے یا ملفوظ کے ہیں اور یہ لفظ کلمہ کے معنوں میں مستعمل ہے۔ لیکن عام بول چال کے لحاظ سے اس کے معنی حروف ھجاء میں سے کسی حرف کے ہیں۔ اور نحویوں کے نزدیک اُس ایک یا زیادہ حرفوں سے بنے ہوئے لفظ کے بھی ہیں جو اپنی ذات میں کوئی مستقل معنی نہیں رکھتا۔ اب ان میں سے ہر اِک گروہ کی اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے اِن الفاظ کے حقیقی معنی وہ ہوں گے جو اِس گروہ میں رائج ہیں اور دوسرے سب معانی مجازی ہونگے۔ ہم نحویوں سے مخاطب ہونگے تو کلمہ اور حرف کے حقیقی معنی وہ ہونگے جوانکی اصطلاح میں ان الفاظ کے مقرر کئے گئے ہیں۔ اور اگر دینی کتب میں کلمہ کا لفظ استعمال کریں گے تو کلمہ کے حقیقی معنی لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے ہونگے اور دوسرے سب معنی مجازی ہونگے۔ یہی حال باقی سب اصطلاحات کا ہے۔ اِسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس جگہ فرمایا ہے کہ حدیث میں انہی مجازی معنوں کے رو سے نبی کا لفظ بولا گیا ہے جو عام صوفیائے کرام کے نزدیک ّمسلم ہیں۔ یعنی ایک ایسے نبی کی خبر دی گئی ہے جو براہِ راست نبوت حاصل کرنے والا نہیں ہے بلکہ وہ نبوت کا مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے حاصل کرے گا۔ اور وہ صاحبِ شریعتِ جدیدہ نہ ہوگا۔ یہی وہ تعبیر ہے جو حقیقی نبی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے اور اس میں ہمیں مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء سے ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے اور ہم شروع سے اِس وقت تک اِس پر قائم ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہرگز کوئی نئی شریعت نہیں لائے بلکہ قرآن کریم کی تعلیم کے قیام کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور آپ کی نبوت سابق انبیاء کی طرح براہِ راست حاصل ہونے والی نبوت نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شاگردی اور آپ کے فیضان کی وجہ سے آپ کو نبوت ملی ہے اور آپ امتی نبی ہیں۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں ہوکر آپ کو یہ مقام حاصل ہؤا ہے۔ اس کے سِوا کسی نبوت کے نہ ہم قائل ہیں اور نہ اسے جائز سمجھتے ہیں۔ نہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی شخص قرآن کریم کے نزول کے بعد کوئی ایسی وحی پاسکتا ہے جو قرآن کریم کے خلاف ہو یا اس پر کچھ زائد کرنے والی ہو۔ اور نہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کے فیضان کے بغیر نبوت حاصل کرنے والا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آسکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم مسیح یا کسی اور نبی کے دوبارہ دنیا میں آنے کے عقیدہ کے خلاف ہیں اور اسے ِختم نبوت کے منافی سمجھتے ہیں۔
حقیقی نبوت سے مراد شر ِیعت جدیدہ کی حامل نبوت ہے
اس امر کا ثبوت کہ اوپر کے حوالوں میں حقیقی نبوت سے مراد
وہی نبوت ہے جو شر ِیعت جدیدہ کی حامل ہو اور براہِ راست حاصل ہو خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے نکلتاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’وَمَنْ قَالَ بَعْدَ رَسُوْلِنَا وَ سَیِّدِنَا اِنِّیْ نَبِيٌّ اَوْ رَسُوْلٌ عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ وَالْاِفْتِرَائِ وَتَرَکَ الْقُرْاٰنَ وَ اَحْکَاَم الشَّرِیْعَۃِ الْغَرَّائِ فَھُوَ کَافِرٌ کَذَّابٌ‘‘ ۳۸؎
یعنی جو شخص ہمارے رسول اللہ اور آقا کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ وہ علیٰ وجہ الحقیقت نبی ہے اور افتراء سے کام لے اور قرآن اور احکامِ شر ِیعت عالیہ کا انکار کرے وہ کافر اور کذّاب ہے۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقی نبی کی تعریف یہ کی ہے کہ وہ صاحب شریعت جدیدہ ہونے کا مدعی ہو اور قرآن کریم کو چھوڑ دینے کی تعلیم دے۔ اور ظاہر ہے کہ اِس قسم کی نبوت کانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا ہے اور نہ ہم آپ کو ایسا نبی مانتے ہیں بلکہ ایسے مدعی کو آ پ کی اِ ّتباع میں کافر و ّکذاب سمجھتے ہیں۔ اِسی حوالہ کے آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اردو میں تحریر فرماتے ہیں:-
’’ غرض ہمارا مذہب یہی ہے کہ جو شخص حقیقی طور پر نبوت کا دعویٰ کرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دا ِمن فیوض سے اپنے تئیں الگ کرکے اور اس پاک سرچشمہ سے جُداہوکر آپ ہی براہِ راست نبی اللہ بننا چاہتاہے تو وہ مُلحدبے دین ہے۔ اور غالباً ایسا شخص اپنا کوئی نیا کلمہ بنائے گا اور عبادات میں کوئی نئی طرز پیدا کرے گا اور احکام میں کچھ تغیر و تبدل کر دے گا۔ پس ِبلا ُشبہ وہ مسیلمہ ّکذاب کا بھائی ہے۔‘‘ ۳۹؎
ان دونوں حوالوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ پر حقیقی نبی سے وہ شخص مراد لیتے ہیں کہ جو نئی شریعت لانے کا مدعی ہو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کے بغیر براہِ راست نبوت پانے کا مدعی ہو۔ اور اس تعریف کو مدنظر رکھ کر اپنے لئے احادیث یا اپنے الہاموں میں لفظِ نبی کو ایک استعارہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی اگر نبوتِ حقیقی کی یہ تشریح ہو تو آپ ایسے نبی ہر گز نہیں بلکہ اس صورت میں آپ کے لئے نبی کا لفظ بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ اور اِس مضمون کا ہم نے کبھی انکار نہیں کیا اور اسے ہمیشہ سے درست اور صحیح تسلیم کرتے چلے آئے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حقیقی نبوت کی یہ تشریح قرآن کریم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا انبیائے سابقین یا اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہے؟ یا صرف لوگوں میں مشہور ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعریف حقیقی نبوت کی وہ ہے جو اِس وقت کے مسلمانوں میں رائج ہے اور چونکہ داعی مخاطبین کے خیالات کا خیال رکھتا ہے تاکہ انہیں دھوکا نہ لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس تعریف کے ماتحت اپنے حقیقی نبی ہونے کا انکار کیا ہے کیونکہ اگر آپ بغیر اس تشریح کے اپنے آپ کو نبی کہتے تو یقینا لوگوں کو دھوکا لگتا اور وہ لوگ جو پہلے ہی اپنے علماء سے یہ سنتے چلے آرہے تھے کہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِ ّتباع سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے اور قرآن کریم کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ منسوخ کر رہا ہے اور اپنا کلمہ لوگوں سے پڑھواتا ہے وہ دھوکا کھا جاتے اور ہدایت پانا ان کے لئے مشکل ہو جاتا۔ پس آپ نے اِس طرح ان لوگوں کو دھوکا سے بچایا اور ہدایت کا پانا ان کے لئے آسان کر دیا۔ یہ خیال کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نئی شریعت قائم کی ہے علماء کی طرف سے اِس قدر پھیلایا گیا ہے کہ اب تک کہ پچاس سال سلسلہ کو قائم ہوئے ہو گئے ہیں اس کا اثر بعض لوگوں کے دلوں پر موجود ہے۔ چنانچہ دو سال کی بات ہے کہ مَیں حیدرآباد سے آتے ہوئے دہلی میں ایک دو روز کے لئے ٹھہرا۔ تو جناب خواجہ سید حسن نظامی صاحب نے میری شام کی دعوت کی۔ چونکہ اُسی دن روزے شروع ہوئے تھے انہوں نے مقامی لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افطاری کی بھی دعوت ساتھ کر دی۔ شام کے وقت افطاری کے بعد نماز کا سوال ہؤا تو جناب خواجہ صاحب نے مجھ سے کہا کہ نماز کا دو جگہ انتظام ہے ایک چھت پر اور ایک نیچے، آپ کس جگہ نماز پڑھنا پسند کریں گے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ صاحبِ خانہ ہیں جہاں آپ فرمائیں گے ہم نماز پڑھ لیں گے۔ اِس پر ایک صاحب بولے کہ کیا نماز میں بھی تفرقہ ہوگا؟ میں تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو تیار ہوں۔ اِس پر دوسرے صاحبان بھی آمادہ ہو گئے کہ نماز ایک ہی جگہ ہو اور میں نماز پڑھائوں۔ اس دعوۃ میں مغلیہ شاہی خاندان کے ایک معزز فرد بھی شامل تھے مجھے ان کا نام یاد نہیں رہا سب انہیں شہزادہ صاحب کہہ کے پُکارتے تھے اس تجویز کو سن کر شاہزادہ صاحب ایک دوسرے صاحب کی طرف جُھکے اور اُن کے کان میں کچھ کہا جس پر انہوں نے سر ِہلا کر کہا کہ ہاں ہاں نماز تو ایک ہی طرح کی ہے۔ پھر وہ ِکھل ِکھلا کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے کہ شاہزادہ صاحب مجھ سے دریافت فرماتے تھے کہ کیا یہ مغرب کی تین ہی رکعتیں پڑھیں گے اور مسلمانوں والی نماز ہی ہوگی اور میں نے انہیں تسلی دلائی ہے کہ نمازیں ایک ہی طرح کی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔
اِس واقعہ سے ظاہر ہے کہ اب تک بعض علماء کا غلط پروپیگنڈا لوگوں پر اثر انداز ہے۔ اور وہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی نمازوں سے احمدیوں کی نمازیں جُدا ہیں۔ پس اس قسم کے غلط خیالات کو رد کرنے کے لئے ضروری تھا کہ نبی کی وہ تعریف جو لوگوں میں مروّج تھی اس کے مطابق نبی ہونے سے انکار کیا جاتا اور یہ کام نہایت ضروری اور اہم تھا جسے باَحسن وجوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پورا کیا۔
غیر احمدیوں کے نزدیک نبی کی تعریف
اب میں بتاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے یہ ثابت ہے کہ غیر احمدی لوگ
نبی کی یہی تعریف سمجھتے تھے کہ وہ شر ِیعت جدیدہ لائے یا سابق شریعت میں کچھ ردّوبدل کرے یا یہ کہ دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں تحریر فرماتے ہیں کہ:-
’’بعض یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں یہ لکھا ہے کہ آنے والا عیسیٰ اِسی اُمت میں سے ہوگا لیکن صحیح ُمسلم میں صریح لفظوں میں اس کا نام نبی اللّٰہ رکھا ہے پھر کیونکر ہم مان لیں کہ وہ اِسی اُمت میں سے ہوگا۔‘‘ ۴۰؎
اس اعتراض سے ظاہر ہے کہ غیر احمدی مسلمان خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے نبی کی امت میں سے نہ ہو یا شر ِیعت جدیدہ لائے اور وہ نبی کی تعریف یہ کرتے تھے کہ جو شخص شر ِیعت جدیدہ لائے یا براہ ِراست نبوت کے مقام کو پائے وہی نبی کہلا سکتا ہے۔ (بلکہ یہ عقیدہ تو ایسا پھیلا ہؤا ہے کہ اَوروں کو جانے دو مجھے بہت سے غیر مبائعین ملے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اِ ّتباع کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس یہ عقیدہ نہ صرف غیر احمدیوں میں رائج ہے بلکہ خود غیر مبائعین میں بھی رائج ہے) ان لوگوں کا جو جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے میں وہ بھی ذیل میں درج کر دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:-
ِِ’’اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام بدقسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘ ۴۱؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا بلکہ اب تک ہے کہ نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ صاحبِ شریعت ہو یا کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ اور جو مدعی صاحبِ شریعت بھی نہ ہو اور دوسرے نبی کا متبع بھی ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ پس جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دیا ہے اس سے یہی مراد ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی تعریف نبوت کے بِالمقابل آپ اِس لفظ کو استعارہ قرار دیتے ہیں اور یہ درست ہے کہ اگر نبی کی تعریف یہ قرار دی جائے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے یا کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت نبی کا لفظ جہاں بھی آئے خواہ حدیث میں خواہ کسی اور کتاب میں اسے ایک استعارہ ہی قرار دیناپڑے گا تاکہ اس عقیدہ کے لوگوں کو دھوکا نہ لگے۔
یہ جواب اِس امر کو مدنظر رکھ کر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۹۰۱ء کے بعد بھی بعض مواقع پر اپنی نبوت کے لئے استعارہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ آپ بھی عام مسلمانوں کے عقیدہ کی بناء پر خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے شر ِیعت جدیدہ کا لانا یا دوسرے نبی کا متبع نہ ہونا ضروری ہے۔ اور اس بناء پر آپ سمجھتے تھے کہ نبی کا لفظ اگر آپ کی نسبت کہیں استعمال ہؤا ہے تو اس سے مراد غیر نبی ہے مگر بعد میں جب خداتعالیٰ کی متواتر وحی نازل ہوئی تو آپ نے اس عقیدہ میں تبدیلی فرما دی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اُس کو ُجزئ فضیلت قرار دیتا تھا (یعنی اب اسے ُجزئ فضیلت قرار نہیں دیتا بلکہ کُلّی فضیلت قرار دیتا ہوں۔ مرزا محمود احمد) مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی‘‘ (حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹۔۱۵۰)
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آپ کسی زمانہ میں اِس بناء پر کہ حضرت مسیح نبی ہیں اور آپ نبی نہیں حضرت مسیح پر اپنی فضیلت کو ُجزئ قرار دیتے رہے لیکن بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے جو بارش کی طرح ہوئی آپ کو نبی کہہ کر پکارا تو آپ نے اس ُجزئ فضیلت کے عقیدہ کو ترک کر دیا اور سمجھ لیا کہ چونکہ خداتعالیٰ مجھے نبی قرار دیتا ہے اِس لئے مسیح پر جو میری فضیلت کا ذکر الہامات میں آتا ہے وہ ُجزئ فضیلت نہیں بلکہ ہمہ نوع فضیلت ہے کیونکہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر کُلّی فضلیت ہو سکتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور حوالہ بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مخالف آپ کے نبوت کے دعویٰ سے اپنے عقیدہ کی بناء پر اس دھوکا میں پڑ جاتے تھے کہ گویا آپ اسلامی شریعت منسوخ کرتے ہیں یا براہِ راست نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں۔
’’ یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ گویا میں ایسی نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں جس سے مجھے اسلام سے کچھ تعلق باقی نہیں رہتا اورجس کے معنی ہیں کہ میں مستقل طور پر اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں رکھتا اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء اور متابعت سے باہر جاتا ہوں یہ الزام صحیح نہیں ہے۔‘‘
(مکتوب اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء)
غرض یہ امر ثابت ہے کہ عام مسلمان چونکہ اس عقیدہ پر قائم تھے کہ نبی اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لائے یا براہِ راست نبوت پائے اور آپ کے نبی ہونے کے دعویٰ کو سن کر فوراً یہ سمجھنے لگتے تھے کہ آپ نے نئی شریعت یا نئے کلمہ کا دعویٰ کیا ہے آپ اُن کو سمجھانے کے لئے ان کے عقیدہ کو مدنظر رکھ کر استعارہ کا لفظ استعمال فرماتے تھے اور یہ امر حق ہے کہ دوسرے مسلمانوں کی تعر ِیف نبوت کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال استعارہ ہی سمجھاجائے گا۔ یعنی وہ اس حقیقت سے خالی سمجھا جائے گا جو عام مسلمانوں کے نزدیک نبوت میں پائی جاتی ہے۔
اس موقع پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہؤاکہ بعد میں کسی وقت خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی کی یہ تعریف نہ سمجھتے تھے کہ اس کے لئے شر ِیعت جدیدہ کا لانا یا کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہونا ضروری ہے۔ اور پھر یہ کہ جو تعریف نبی کی وہ سمجھتے تھے اس کے مطابق اپنے آپ کو سچ مچ کا نبی یقین کرتے تھے سو اس کے جواب میں اول تو میں وہ حوالہ جات پیش کرتا ہوں۔ جن سے نبوت کی وہ تعریف معلوم ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک ّ مسلم تھی اور اس کے بعد ثابت کرونگا کہ اس تعریف کے ماتحت آپ اپنے آپ کو نبی سمجھتے تھے۔
نبی کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق
پہلا حوالہ جو اِس بارہ میں مَیں نقل کرتا ہوں
وہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبی کی کیا تعریف ہے۔
خدا تعالیٰ کی اصطلاح:
آپ فرماتے ہیں ۔
’’خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرتِ مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے۔‘‘ ۴۲؎
قرآن کریم کی بیان کردہ تعریف: پھر فرماتے ہیں:-
’’جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ مِن￿جانبِ اللہ ظاہر ہونگے بِالضرورت اس پر مطابق آیت فَلَا یُظْـھِرُ عَلٰی غَـیْـبِہٖکے، مفہوم نبی کا صادق آئے گا۔۴۳؎
اسلام کی اصطلاح میں نبی کی تعریف: پھر آپ فرماتے ہیں:-
’’ایسے شخص میں ایک طرف تو خداتعالیٰ کی ذاتی محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بنی نوع کی ہمدردی اور اصلاح کا بھی ایک عشق ہوتا ہے۔ ……… ایسے لوگوں کو اصطلاحِ اسلام میں نبی اور رسول اور محدث کہتے ہیں۔ اور وہ خدا کے پاک مکالمات و مخاطبات سے ّ مشرف ہوتے ہیں اور خوارق ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور اکثر دعائیں ان کی قبول ہوتی ہیں۔‘‘ ۴۴؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’ خداتعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل، زبردست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کو پہنچانے والا اسلامی اصطلاح کی رو سے نبی کہلاتا ہے۔‘‘ ۴۵؎
گزشتہ انبیاء کے نزدیک نبوت کی تعریف: پھر آپ فرماتے ہیں:-
’’ جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اورکمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور ُکھلے طور پر امورِ غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔‘‘ ۴۶؎
عربی اور عبرانی زبانوں کے مطابق نبی کی تعریف: پھرفرماتے ہیں:-
’’عربی اور عبرانی زبان میں نبی کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے الہام پاکر بکثرت پیشگوئی کرنیوالا۔ اور بغیر کثرت کے یہ معنے متحقق نہیں ہو سکتے۔‘‘
(مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء)
پھر فرماتے ہیں:-
’’ اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیں کہ خدا کی طرف سے اطلاع پاکر غیب کی خبر دینے والا۔‘‘ ۴۷؎
آپ کے نزدیک نبی کی تعریف: پھر فرماتے ہیں:-
’’ آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں مَیں اس کی کثرت کا نام بموجب حُکمِ الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔‘‘ ۴۸؎
اسی طرح فرماتے ہیں:-
’’ خداتعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میںپیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں۔‘‘ ۴۹؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’ نبی اُس کو کہتے ہیں جو خدا کے الہام سے بکثرت آئندہ کی خبریں دے۔‘‘ ۵۰ ؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’ میرے نزدیک نبی اُسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو۔‘‘ ۵۱؎
نبی کے لئے شریعت لانا یا صا ِحب شریعت کا متبع نہ ہونا ضروری نہیں
پھر فرماتے ہیں:-
’’ یہ تمام بدقسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی۔ نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘ ۵۲؎
پھر فرماتے ہیں:-
’’ نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ ُکھلتے ہیں۔‘‘ ۵۳؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت
سے امورِ غیبیہ پر اطلاع دی گئی
مذکورہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نبی کی تعریف خداتعالیٰ کی اصطلاح میں، قرآن کریم کی اصطلاح میں، اسلام کی اصطلاح میں، انبیائے سابقین کی اصطلاح
میں ُلغت کے اصطلاح میں اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اور وہ بھی خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت صرف یہ ہے کہ کسی کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اور جب یہ امر متحقق ہو گیا تو ماننا پڑے گا کہ حدیث میں جو لفظ نبی کا آپ کی نسبت استعمال ہؤا ہے۔ اسے اگر آپ نے کبھی بھی استعارہ قرار دیا ہے تو یہ استعارہ کا لفظ عام مسلمانوں کی تعریف نبوت کو مدنظر رکھ کر ہے ورنہ مذکورہ بالا ہستیوں کی تعریف کے مطابق نبی کا لفظ حدیث میں بطور استعارہ استعمال نہیں ہؤا بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ کیونکہ اگر مذکورہ بالا ہستیوں کی تعریف کے مطابق حدیث ُمسلم میں اس لفظ کو حقیقی نہ سمجھا جائے بلکہ استعارہ سمجھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کثرت سے امورِ غیبیہ ظاہر نہیں کئے گئے بلکہ صرف استعارۃً کہہ دیا گیا ہے کہ آپ کو امورِ غیبیہ پر کثرت سے اطلاع دی گئی ہے کیونکہ ان ہستیوں کے نزدیک نبی کی تعریف صرف یہ ہے کہ کسی کوکثرت سے امور ِغیبیہ پر اطلاع دی جائے۔ اور ایسا خیال کرنا کہ آپ کو اخبارِ غیبیہ فیِ الحقیقت کثرت سے نہیں دی گئیں بلکہ محض استعارۃً ایسا کہہ دیا گیا ہے بِالبداہت غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام متواتر اس امر کا دعویٰ فرما چکے ہیں کہ مجھ پر کثرت سے امورِ غیبیہ ظاہرکئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرما چکے ہیں کہ:-
’’خداتعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اِس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پربھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا اِس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزارہا نشان ایک جگہ جمع کر دیئے لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیںمانتے۔‘‘ ۵۴؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہے بلکہ اس کثرت سے اطلاع دی گئی ہے کہ اگر اسے ہزار نبیوں پر تقسیم کر دیا جائے تو ہزار نبی کی نبوت بھی ثابت ہو جائے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:-
’’ اور اگر کہو کہ اِس وحی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی معجزات اور پیشگوئیاں ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں۔ بلکہ بعض گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگویوں سے کچھ نسبت ہی نہیں۔‘‘ ۵۵؎
اِس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اکثر انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں سے بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں عطا ہوئیں۔ اور بعض سے تو اس قدر زیادہ یہ نعمت ملی ہے کہ ان نبیوں کی پیشگوئیوں اورمعجزات کو آپ کی پیشگوئیوں اورمعجزات سے کچھ نسبت ہی نہیں ہے۔
جب آپ کی پیشگوئیوں اور اظہار عَلَی الْغَیْب کا یہ حال ہے تو پھر آپ کی نسبت نبی کی اِس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی کے لفظ کو استعارہ قرار دینے کے صرف یہ معنی ہونگے کہ گزشتہ انبیاء میں سے اکثر بھی نبی نہ تھے بلکہ ان کے لئے استعارۃً نبی کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ اور یہ بھی بِالبداہت باطل ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علومِ غیب کا دروازہ بندکرتا ہے جیسا کہ آیت لَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّامَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَسُوْلٍ سے ظاہر ہے۔ پس مصفّٰی غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہؤا۔‘‘ ۵۶؎
خلاصۂ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو حدیث میں نبی کے لفظ کے استعمال کو استعارہ قرار دیاہے وہ خداتعالیٰ کی اصطلاح قران کریم کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح اور گزشتہ انبیاء کی اصطلاح اور اپنی اصطلاح کے مطابق نہیں قرار دیا بلکہ کسی اور اصطلاح کے مدنظر استعارہ قرار دیا ہے۔ مگر جہاں تک دین کا تعلق ہے ہم اسی اصطلاح پر اپنے عقیدہ کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو مذکورہ بالا ہستیوں کی طرف سے مقرر ہو کسی دوسرے شخص کی اصطلاح کے مطابق اگر مذکورہ بالا صفات والا شخص نبی نہ قرار پاتا ہو تو یہ اصطلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زُمرہ انبیاء سے خارج نہیں کر سکتی۔ ہاں اُس کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم یہ بھی کہتے رہیں کہ اس کی اصطلاح کے مطابق یہ لفظ استعارۃً استعمال ہؤا ہے تاکہ اسے دھوکا نہ لگے اور وہ ٹھوکر نہ کھائے۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا اس تعریف کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آپ کو نبی کہا ہے؟ تو اس کے لئے مندرجہ ذیل حوالے پیش کئے جاتے ہیں آپ فرماتے ہیں۔
’’چونکہ میرے نزدیک نبی اسی کو کہتے ہیں جس پر خدا کا کلام یقینی و قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے۔‘‘ ۵۷؎
اسی طرح فرماتے ہیں:-
’’ خداتعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اُس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں۔‘‘ ۵۸؎
خلاصہ اوپر کے مضمون کا یہ ہے کہ حدیث میں نبی کے لفظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعارہ قرار دیا ہے وہ محض اِس بناء پر ہے کہ عام مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ نبی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شر ِیعت جدیدہ لائے اور کسی دوسرے نبی کا متبع نہ ہو۔ اور آپ بھی اُس وقت تک کہ خداتعالیٰ کی متواتر وحی نے آپ کے خیال میں تبدیلی نہ کر دی عام مسلمانوں کے خیال کے مطابق ایسا سمجھتے رہے۔ پس ایک زمانہ تک تو عام مسلمانوں کے خیال اور اس کے مطابق اپنے خیال کی بناء پر آپ اسے استعارہ قرار دیتے رہے اور بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی وحی نے آپ پر حقیقت کو واضح کر دیا تو آپ صرف عوام کی تشریح کے مطابق اور ان کو دھوکا سے بچانے کے لئے اسے استعارہ قرار دیتے رہے تا وہ آپ کے دعویٰ سے یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کو صاحبِ شریعت ہونے کا دعویٰ ہے ورنہ اِس تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے جو خداتعالیٰ کی اصطلاح میں، قرآن کریم کی اصطلاح میں، اسلام کی اصطلاح میں، سابق انبیاء کی اصطلاح میں، ُلغت کی اصطلاح اور خداتعالیٰ سے علم پانے کے بعد خود آپ کی اصطلاح میں نبی کی ہے آپ نے کبھی اسے استعارہ نہیں قرار دیا۔ اور جو شخص ان اصطلاحات کی بناء پر بھی آپ کی نبوت کو محض استعارۃً نبوت قرار دیتا ہے اُسے دوباتوں میں سے ایک کو ضرور تسلیم کرنا پڑیگا۔ یا تو اسے یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کو کثرت سے امورِ غیبیہ عطاء نہیں ہوئیں یا اسے پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سابق انبیاء میں سے بھی اکثر نبی نہ تھے۔
ایک ُشبہ کا ازالہ
اِس جگہ ایک ُشبہ پیش کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی ایک تحریر میں یہ درج ہے کہ :-
’’ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکامِ شر ِیعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں یا نبیِ سابق کی اُمت نہیں کہلاتے اور براہِ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ ۵۹؎
اِس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ شر ِیعت جدیدہ لانے یا براہِ راست نبی ہونے کی شرط کو نبی کے لئے عوام مسلمانوں کا عقیدہ قرار نہیں دیتے بلکہ اسلام کی اصطلاح قرار دیتے ہیں اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسلام کی اصطلاح پہلے کچھ تھی اور بعد میں کچھ اور ہو گئی۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ جو حوالے میں اوپر لکھ آیا ہوں ان میں سے دو میں آپ نے اسلام کی اصطلاح میں نبوت کی یہ تعریف کی ہے کہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے امورِ غیبیہ پر مطلع کیا جائے وہ نبی ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک حوالہ تو الحکم کی ڈائری کا ہے اور دوسرا حوالہ آپ کی تصنیف لیکچر سیالکوٹ کا ہے۔ اب اس مخالف حوالہ کو مدنظر رکھ کر ہم دو میں سے ایک بات تسلیم کر سکتے ہیں یا تو یہ کہ ان میں سے ایک حوالہ غلط ہے یا پھر یہ کہ ان حوالوں میں اسلام کی اصطلاح کے الفاظ دو مختلف معنوں میں مستعمل ہوئے ہیں۔ اگر اس اختلاف کی یہ تأویل کی جائے کہ الحکم ۱۸۹۹ء کا حوالہ درست ہے اور دوسرے دو حوالے غلط ہیں تو یہ بِالبداہت باطل ہے۔ کیونکہ اول تو ’’الحکم‘‘ کے اِس حوالہ کے مقابل پر دو حوالے ہیں جن میں سے ایک ڈائری کا حوالہ ہے اور دوسرا خود آپ کی تصنیف کا۔ اگر آپ کی تحریر کے مقابل پر صرف ڈائری ہوتی تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ ڈائری غلط ہے مگر جب کہ ڈائری کی تائید آپ کی تصنیف کر رہی ہے اسے غلط کس طرح کہا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ تأویل کی جائے کہ ان دونوں قسم کے حوالوں میں اسلام کی اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی ہے تو میرے نزدیک ۱۸۹۹ء کے الحکم کے حوالہ میں اسلام کی اصطلاح کے معنے اہلِ اسلام کی اصطلاح کے ہیں اور یہ مراد نہیں کہ دینِ اسلام کی اصطلاح میں نبی اسے کہتے ہیں کہ جو شریعت لائے یا براہِ راست نبی ہو۔ اور اگر یہ تأویل کی جائے تو پھر اس حوالہ سے نفسِ مضمون پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا کیونکہ یہ ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے نزدیک نبوت کے یہی معنے ہیں۔
اہلِ اسلام کو لفظِ اسلام سے تعبیر کرنا محاورہ بھی ہے مثلاً مسلمانوں کے روز مرہ میں یہ بولا جاتا ہے کہ آج اسلام کی یہ حالت ہے کہ ہر جگہ وہ ذلیل ہو رہا ہے اور اس سے مذہبِ اسلام نہیں بلکہ مسلمان مراد لئے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اصرار کرے کہ نہیں الحکم ۱۸۹۹ء کا حوالہ ہی اصل ہے یا یہ کہ اس میں تو اسلام سے مراد دینِ اسلام ہے اور دوسرے دو حوالوں میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہلِ اسلام کی اصطلاح ہے تو میں کہتا ہوں کہ ایسے شخص کو دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اول تو اسے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک نبی اسے کہتے ہیں کہ جو محض مکالمہ و مخاطبہ سے ّمشرف ہو اور غیب کی اخبار پر اسے غلبہ دیا جائے اور یہ بِالبداہت غلط ہے۔ مسلمان تو اس عقیدہ کو ُ ّکلی طور پر ردّ کرتے ہیں یہ عقیدہ تو بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیش کیا جاتا رہا ہے مگر آپ کے مخالف اسے خود ساختہ تعریف قرار دے کر اِس امر پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ نبی کے لئے نیا کلمہ اور نئی شریعت لانا ضروری ہے اور وہ دوسرے نبی کا متبع نہیں ہو سکتا اگر غیر احمدیوں کے نزدیک نبوت کی صرف یہ تعریف ہوتی کہ جو مکالمہ و مخاطبہ سے ّ مشرف ہو اور امورِ غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے مقابل پر اس قدر مشکلات کا سامنا کیوں ہوتا؟ نیز اِس تاویل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ردّ فرماتے ہیں کیونکہ آپ فرماتے ہیں۔
’’یہ تمام بد قسمتی دھوکا سے پیدا ہوئی ہے کہ نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی نبی کے معنے صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ سے مشرف ہو۔ شریعت کا لانا اُس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔‘‘ ۶۰؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالف نبی کی یہ تعریف نہیں مانتے تھے کہ وہ بغیر شریعت کے بھی آسکتا ہے اور کسی دوسرے نبی کا متبع بھی ہو سکتا ہے۔دوسری مشکل یہ پیش آئے گی کہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف طور پر تحریر فرما چکے ہیں کہ نبی کی تعریف خدا تعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت خود آپ کے نزدیک یہی ہے کہ وہ مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور امورِ غیبیہ کثرت سے اس پر ظاہر کئے جائیں۔ پس اگرمیرے بیان کردہ اوپر کے حوالوں کی یہ تاویل کی گئی کہ اِن میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہلِ اسلام کی اصطلاح ہے نہ کہ مذہب اسلام کی اصطلاح تو خلاصۂ مطلب یہ نکلے گا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت خود آپ کے نزدیک یہی ہے کہ وہ مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور امورِ غیبیہ کثرت سے اُس پر ظاہر کئے جائیں۔ پس اگر میرے بیان کردہ اوپر کے حوالوں کی یہ تأویل کی گئی کہ ان میں اسلام کی اصطلاح سے مراد اہلِ اسلام کی اصطلاح ہے نہ کہ مذہبِ اسلام کی اصطلاح تو خلاصۂ مطلب یہ نکلے گا کہ خداتعالیٰ کے نزدیک، قرآن کریم کے نزدیک، سابق انبیاء کے نزدیک اور اللہ تعالیٰ کے حُکم سے مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک تو نبوت کی تعریف یہ ہے کہ جو مکالمہ و مخاطبہ سے مشرف ہو اور کثرت سے امورِ غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اس کی تعریف یہ ہے کہ جوشر ِیعت جدیدہ لائے یا براہِ راست نبوت پائے۔ یہ معنی کیسے خلافِ عقل ہونگے اور وہ مذہبِ اسلام کون سا ثابت کیا جائے گا جو خداتعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کریم کی اصطلاح اور سابق انبیاء کی اصطلاح اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام سے قائم کردہ اصطلاح کے خلاف کوئی اور اصطلاح پیش کرتا ہے۔
غرض یہ امر روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ یا تو الحکم کے حوالہ میں ’’اہل‘‘ کا لفظ ُچھوٹ گیا ہے یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الفاظ تحریر فرمائے تھے اُس وقت آپ کی مراد اسلام سے دینِ اسلام نہ تھی بلکہ اہلِ اسلام تھی (گویہ بھی ممکن ہے کہ آپ اُس وقت تک اس عام طور پر تسلیم کی ہوئی تعریف کو خود بھی صحیح تسلیم کرتے ہوں) اور جب آپ نے لیکچر سیالکوٹ میں اسلام کی اصطلاح کے الفاظ استعمال فرمائے تو اُس وقت اِس انکشاف کے ماتحت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ہو چکا تھا آپ کی مراد اسلام کی اصطلاح سے وہی اصطلاح تھی جو خداتعالیٰ اور قرآن کریم اور سابق انبیاء کی اصطلاح ہے اور یہی تأویل ہے جو ہر قسم کے اعتراضات سے آپ کی تحریرات کو بچاتی ہے۔
جناب مولوی محمد علی صاحب کے
نزدیک میرا پانچواں اعتراف
جناب مولوی محمد علی صاحب کے بیان کردہ چار اعترافوں کا جواب میں یکجائی طور پر اوپر دے آیا ہوں اب میں ان کے قول کے مطابق اپنے پانچویں اعتراف پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں۔ مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مَیں بقول
ان کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو کہ حدیث نواس بن سمعان میں نبی کا لفظ استعارہ کے طور پر استعمال ہؤا ہے اس لئے پسِ ُپشت ڈالتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کو مجدّد نہیں کہا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ’’بات تو صاف تھی کہ جب وعدہ صرف مجدّدوں کے آنے کا دیا ہے تو جو بھی آئے گا مجدّد ہی آئے گا مجدّد کہنے کی ضرورت نہ تھی۔‘‘ مگر بقول مولوی صاحب اس مشکل کو بھی میں نے خود ہی حل کر دیا ہے کیونکہ میں نے خود ہی لکھ دیا کہ ’’اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ فرما کر اس طرف توجہ دلا دی کہ وہ آنے والا مسیح تم میں سے ہوگا یعنی امتِ محمدیہ کا فرد ہوگا۔‘‘ ۶۱؎یہ فقرہ لکھ کر تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اب د ّقت کیا رہی اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ تو صراحت سے بتاتا ہے کہ وہ اس امت کا ایک مجدّد ہوگا۔‘‘۶۲؎ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا لطیف استدلال ہے دعویٰ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا اِسی کو کہتے ہیں۔ مولوی صاحب کو نہ معلوم اس موقع پر یہ امر کیوں بھول گیا کہ ہم لوگ تو نبی کی یہ تعریف کرتے ہی نہیں کہ جو اُمت میں سے نہ ہو بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہوتے ہوئے ایک شخص نبی ہو سکتا ہے پھراِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کی حدیث لکھنے سے میرا کونسا اعتراف ثابت ہؤا جس پر وہ اِس قدر خوش ہیں۔ اگر یہ اعتراف ہے تو اس کے لئے انہیں میرے خطبہ ۶؍ جون ۱۹۴۱ء کے انتظار کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ مَیں تو شروع سے ہی یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہیں۔ یہ اعتراف تو ہوش سنبھالنے کے زمانہ سے ہے جس پر کوئی چالیس سال گزر چکے ہیں کوئی نیا اعتراف نہیں۔ اگر اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے وہ ہمیں نبوت کے مسئلہ میں نئی بات پیدا کرنے والا نہیں سمجھتے تو اِس قدر شور کس امر کا ہے۔
مولوی صاحب موصوف کو یاد رہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز ہو کر نبی بنے تھے اور ان ہی معنوں میںہم آپ کو نبی اور رسول کہتے ہیں۔ اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی آپ کا نام نبی رکھا گیا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو مولوی صاحب فرمائیں کہ اسے کس نام سے پکارا جائے۔ اگر وہ یہ فرمائیں کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہیں۔ مگر نبوت کے معنے اظہارِ امرِ غیب کے ہیں۔ اور پھر میں مولوی صاحب سے کہتا ہوں کہ نبی ایک لفظ ہے جو عربی اور عبرانی میں مشترک ہے یعنی عبرانی میں اِسی لفظ کو نابی کہتے ہیں اور یہ لفظ نابا سے مشتق ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا سے خبر پاکر پیشگوئی کرنا۔ اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت رسول کا متبع نہ ہو۔ پس جب ہمارا یہ عقیدہ ہے تو اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ سے یہ اقبالی ڈگری کیونکر میرے خلاف جاری ہو گئی کہ چونکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع مانتا ہوں اس لئے میں اقبال کرتا ہوں کہ آپ مجدّد تھے نبی نہ تھے۔ مولوی صاحب کو نہ معلوم میری تحریر میں سے صرف پانچ اقبالی ڈگریاں کیوں ملیں ایسی اقبالی ڈگریاں تو میری تصانیف میں سینکڑوں موجود ہوں گی۔
مسیح موعود اپنے وقت کا مجدّدہوگا
پھر جناب مولوی صاحب ازالہ اوہام صفحہ ۵۹ کا یہ حوالہ پیش کرتے ہوئے مجھ پر لَاعِلمی کا الزام رکھتے ہیں اور
فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ابتداء سے یہی مقرر ہے کہ مسیح اپنے وقت کا مجدّد ہوگا‘‘۶۳؎ پھر میں اِس کا انکار کیوں کر رہا ہوں۔ یہ میری لَاعِلمی کی دلیل نہیں بلکہ مولوی صاحب کی لَاعِلمی کی دلیل ہے کیونکہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجدّد نہ تھے۔ ہم تو بارہامخالفوں کے سامنے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر حضرت مرزا صاحب علیہ السلام صادق نہیں تو بتائو کہ چودھویں صدی کا مجدّد کہاں ہے؟ پس یہ مولوی صاحب کی ہمارے عقیدہ سے لَاعِلمیکا ثبوت ہے کہ ان کے خیال میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجدّد نہیں سمجھتے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں، مؤمن بھی سمجھتے ہیں، صالح بھی سمجھتے ہیں، شہید بھی سمجھتے ہیں کہ آپ نے اسلام کی خدمت میں ہر لحظہ اپنی جان قربان کی، صدیق بھی سمجھتے ہیں، محدث بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کیا، مجدد بھی سمجھتے ہیں کہ آپ نے زمانہ کے فسادات کو دُور کیا اور نبی بھی سمجھتے ہیں۔ جس طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اول المؤمنین سمجھتے ہیں، صالح سمجھتے ہیں، شہید سمجھتے ہیں، صدیق سمجھتے ہیں، محدث سمجھتے ہیں، مجدّدِ اعظم سمجھتے ہیں۔۶۴؎ اور نبی اور رسول بھی سمجھتے ہیں اور سید الانبیاء بھی سمجھتے ہیں اور خاتم النبیین بھی سمجھتے ہیں۔ کیا مولوی صاحب کا یہ عقیدہ نہیں اور ان کے خیال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اِس کے کہ محدث ہوتے یعنی ان سے کلامِ الٰہی ہوتا اور بغیر اس کے کہ وہ مجدّد ہوتے یعنی مفاسدِ زمانہ کی اصلاح کرتے نبی اور رسول ہو گئے تھے۔ اگر آپ محدث نہ تھے یعنی خداتعالیٰ آپ سے کلام نہیں کرتا تھا (نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ تِلْکَ الْخُرَافَاتِ) اور اگر آپ مجدّد نہ تھے یعنی دنیا میں کوئی نیا عِلم آپ نہیں لائے تھے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) تو پھر فرمائیے کہ آپ صاحبِ شر ِیعت جلیلہ و فائقہ نبی کیونکر ہو گئے؟ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ اگر اِسی قسم کے دلائل پر اپنی تحریرات کی بنیاد رکھنے لگے تو جن نبیوں کے متعلق صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۶۵؎ یا نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ ۶۶؎ کے الفاظ قرآن کریم میں آئے ہیں ان کے متعلق بھی اقبالی ڈگریاں دینے لگ جائیں گے کہ بس جب مان لیا کہ صالح اور صدیق تھے تو پھر نبی کس طرح ہو گئے۔
جناب مولوی صاحب! ہمارا اور آپ کا یہ اختلاف نہیں کہ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام محدث یا مجدّد نہ تھے بلکہ یہ اختلاف ہے کہ آپ کے نزدیک وہ صرف محدّث اور مجدّد تھے مگر ہمارے نزدیک وہ باقی سب انبیاء کی طرح محدّث اور مجدّد ہونے کے علاوہ نبی کے مقام پر بھی فائز تھے۔ پس آپ نے میرے اعتراف کو پیش نہیں کیا بلکہ اپنی غلط فہمی کا اعتراف فرمایا ہے۔
پھر اس اعتراف کے ذکر کے دوران میں جناب مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اِس حوالہ کو بھی پیش کیا ہے کہ ’’نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خداتعالیٰ کے حُکم سے کیا گیا ہے۔‘‘ ۶۷؎ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس معاملہ میں میری لَاعلمی ہے یا جناب مولوی صاحب کی۔ مگر میں اِس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس کے کبھی بھی منکر نہیں ہوئے کہ آپ خداتعالیٰ کے حُکم سے محدث تھے ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ آپ سے خداتعالیٰ ہمکلام ہوتا تھا اس لئے آپ خداتعالیٰ کے حُکم سے محدّث تھے اور آپ نے ان خرابیوں کو اللہ تعالیٰ کے حُکم سے دور کیا جو مسلمانوں میں پڑگئی تھیں اس لئے آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مجدّد تھے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر امورِ غیبیہ کو کثرت سے ظاہر کیا آپ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے۔
باقی رہا یہ سوال کہ آپ فرماتے ہیں کہ نبوت کا دعویٰ نہیں، سو یہ بات بار بار ثابت کی جاچکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک وقت تک عام مسلمانوں کے خیال کے مطابق یہ خیال تھا کہ نبی کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ شر ِیعت جدیدہ لائے یا یہ کہ کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو اس وقت تک آپ اپنی نسبت نبی کے الفاظ کے استعمال کی تأویل فرماتے تھے اور یہ قرار دیتے تھے کہ اس کے معنے محض محدث کے ہیں جو نبی نہیں ہوتا۔ مگر بعد میں جب اللہ تعالیٰ کی متواتر اور بارش کی طرح کی وحی نے آپ کو نبی کا خطاب دیا تو آپ نے یہ عقیدہ بدل لیا۔ پس یہ حوالہ کسی طرح بھی ہمارے عقیدہ پر اثرانداز نہیں خصوصاً جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں۔
’’ اور جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف اِن معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانیوالا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے عِلم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اِس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے۔ سو اَب بھی میں اِن معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا اور میرا یہ قول ’’من نیستم رسول و نیاوردہ ام کتاب‘‘ اس کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ میں صا ِحب شریعت نہیں ہوں۔‘‘ ۶۸؎
اب جناب مولوی صاحب توجہ فرمائیں کہ نبوت کا دعویٰ نہیں کے معنے اِس حوالہ کی موجودگی میں یہی لئے جائیں گے کہ آپ صاحبِ شر ِیعت جدیدہ یا براہ ِراست نبی نہ تھے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے رسول ہوئے اور اس سے کسے انکار ہے اگر آپ کو بھی یہی اقرار ہو تو ہمارا آپ سے کوئی جھگڑا نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ ’’بلکہ محدثیت کا ہے‘‘ کے الفاظ سے اور کسی دعوے کا انکار نکلتا ہے تو اِس کا جواب مَیں پہلے دے آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:-
’’ اگر خداتعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلائو کس نام سے اس کو پکارا جائے۔ اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی ُلغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے۔‘‘ ۶۹؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت آپ پر یہ امر منکشف ہو چکا تھا کہ اظہار عَلَی الْغَیْب والے شخص کا مقام محدث کے مقام کے اوپر ہے پس اِس انکشاف کے بعد بھی اگر مولوی صاحب آپ ہم کو غافل رہنے کی تلقین کریں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایمان کا معاملہ ہے اِس میں کسی کا لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔ اِس کے علاوہ مَیں آپ کو مندرجہ ذیل حوالہ کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:-
’’خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں۔‘‘
(بدر ۵ ؍مارچ ۱۹۰۸ء)
جبکہ آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت جہاں جہاں نبی کا لفظ آتا ہے اس کے معنے محض محدث کے ہیں تو اِس حوالہ میں ذرا محدث کا لفظ رکھ کر دکھا دیجئے۔ محدث کا لفظ اس جگہ رکھنے سے عبارت ُیوں ہو جاتی ہے۔ ’’ خداتعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے محدث کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم محدث ہیں۔‘‘ اب ذرا اِس عبارت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
’’ غرض اِس حصۂ کثیر وحیِ الٰہی اور امورِ غیبیہ میں اِس اُمت میں سے مَیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اِس اُمت میں سے گزر چکے ہیں اُن کو یہ حصۂ کثیر اِس نعمت کا نہیں دیا گیا۔‘‘ ۷۰؎
اوپر کے حوالہ میںنبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھ کر اور دوسرے حوالہ سے ملا کر پڑھنے سے کیا یہ بات نہیں نکلتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے کوئی محدث اِس اُمت میں نہیں گزرا۔ کیونکہ آپ کی تشریح کے مطابق بدر ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء کی ڈائری میں اگرنبی کی جگہ محدث کے الفاظ رکھ دیئے جائیں تو اِس کے صرف یہی معنے نکلتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف اور صرف ایک محدث اِس اُمت میں گزرے ہیں چلیے ُچھٹی ہوئی۔ نبوت سے اِس اُمت کو پہلے جواب مل چکا تھا اب تیرہ سَو سال کے محدثین کو بھی جواب مل گیا ہے مگر مشکل یہ پیش آئے گی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر اِس اُمت میں محدث ہوئے تو عمرؓ ضرور ان میں ہوگا۔۷۱؎ اگر عمرؓ کو محدثیت سے جواب دیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہوتی ہے۔ اور اگر کم سے کم حضرت عمرؓ کو محدث تسلیم کر لیا جائے تو یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات کی تغلیط ہوتی ہے یا پھر حضرت عمرؓ کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ اِس اُمت سے جواب ملتا ہے۔ کیونکہ اس تعریف کے رو سے اِس اُمت میں تو اور کوئی محدث گزرا نہیں اور ان سب مشکلات پر مزید یہ مشکل پیش آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:-
’’ اگر کہو اِس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں تحدیث کے معنے کسی ُلغت کی کتاب میں اظہارِ غیب کے نہیں ہیں۔‘‘ ۷۲؎
پس اگر نبی کی جگہ محدث کے الفاظ رکھ دیں تو یہ حوالہ اس حوالہ کو کاٹتا ہے اور اس کے خلاف فتویٰ دیتا ہے۔
پھر جناب مولوی محمد علی صاحب فرماتے ہیں کہ:-
’’ مسیح موعود کو یہ بتا کر کہ آپ کا اصل مقام محدث ہے نبی نہیں اس غلطی کو دور کر دیا گیا۔ مگر جو خود اِس غلطی میں رہنا چاہیں انہیں کون نکال سکتا ہے۔‘‘
میرا جواب یہ ہے کہ یہ سوال ایسا آسان نہیںکیونکہ اگر بقول آپ کے ازالہ اوہام میں اس غلطی کا ازالہ کر دیا گیا تھا توپھر ایک غلطی کے ازالہ میں آپ نے یہ کیوں تحریر فرمایا۔
’’اور یہ بھی یاد رہے کہ نبی کے معنے لغت کے رو سے یہ ہیںکہ خدا کی طرف سے اطلاع پاکر غیب کی خبر دینے والا۔ پس جہاں یہ معنے صادق آئیں گے نبی کا لفظ بھی صادق آئے گا۔ اور نبی کا رسول ہونا شرط ہے۔ کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو۔ تو پھر غیب مصفّٰے کی خبر اس کو مل نہیں سکتی۔ اور یہ آیت روکتی ہے لَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ اْرتَضٰے مِنْ رَّسُوْلٍ۷۳؎ اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان معنوں کے رو سے نبی سے انکار کیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ امت مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے بے نصیب ہے کیونکہ جس کے ہاتھ پر اخبارِغیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے۔ بِالضرور اس پر مطابق آیت لَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ کے مفہوم نبی کا صادق آئے گا۔ ‘‘ ۷۴؎
اور آپ نے آخری خط میں جو اخبار عام میں چھپا ہے یہ کیوں فرمایا۔
’’جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکراس سے انکار کر سکتا ہوںمَیں اِس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اِس دنیا سے گزر جائوں۔‘‘ ۷۵؎
مولوی صاحب آپ نے غور فرمایا کیا آپ کے الفاظ کہ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جائوں۔ حضرت مسیح ناصری ؑ کے اس قول کی طرز پر تو کلام نہیں کیا گیا۔ جس میں وہ فرماتے ہیں وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ۷۶؎ اور کیا یہ تو اشارہ نہیں کہ میں اپنی زندگی میں تو اس دعویٰ سے پھرتا نہیں۔ میرے مرنے کے بعد اگر بعض احمدی اس سے پھر جائیں تو میں ان کا ذمہ دار نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
تحریراتمیں نبی سے مراد محدث ہے
اس کے بعد مولوی صاحب نے بعض حوالے نقل کئے ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں جہاں لفظ نبی آیا ہے اس سے مراد محدث ہے۔ مثلاً سراج منیر صفحہ ۳،۴
سے ایک حوالہ درج کیا ہے جس کے بعض الفاظ یہ ہیں۔
’’ سو خدا کی اصطلاح ہے جو اس نے ایسے لفظ استعمال کئے۔ ہم اس بات کے قائل اور معترف ہیں کہ نبوت کے حقیقی معنوں کے رو سے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ ُپرانا۔ قرآن ایسے نبیوں کے ظہور سے مانع ہے مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا مُرسل کے لفظ سے یاد کرے۔‘‘ ۷۷؎
اس حوالہ سے اگر کچھ نکلتا ہے تو صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق نبی کہاجاسکتا ہے۔ ہاں ایک حقیقی معنے ایسے بھی ہیں کہ ان کے رو سے آپ کو نبی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے رو سے آپ کی نسبت یہ لفظ مجاز ہے۔ سو ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نبی کی جو تعریف عام طور پر رائج ہے اس کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حقیقی نبی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس تعریف کے رو سے نبی کے لئے شریعت کا لانا یا براہِ راست نبوت پانا شرط ہے۔ اور یہ شرط حقیقی طور پر آپ میں نہیں پائی جاتی ہاں چونکہ آپ علوم قرآن کو لائے ہیں اور قرآن کے مطالب عالیہ جن کو مسلمانوں نے مُردہ کی طرح کر دیا تھا اُن کو پھر آپ نے زندہ کیا ہے اور آسمان سے واپس لائے ہیں اس لئے مجازی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپ شریعت لائے ہیں مگر وہی شریعت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے نہ کہ کوئی اور۔ اور وہی قرآن ِبلا کم و کاست جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہؤا تھا اور جو مطابق پیشگوئی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم وَلَایَبْقٰٰی مِنَ الْقُراٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ ۷۸؎ صرف لفظوں کا ایک چولہ رہ گیا تھا اور اس کے اندر کا مغز اور اس کی معجزانہ تأثیر جاتے رہے تھے آپ پھر دنیا میں واپس لائے۔ پس شریعت لانے کے ان مجازی معنوں کے رو سے آپ عام مسلمانوں کی تعریفِ نبوت کے مطابق مجازی نبی کہلائے کیونکہ حقیقی کتاب کوئی نہیں لائے صرف مجازی طور پر آپ کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ آپ کتاب لائے یعنی قرآن کریم جو رسم کے طور پر رہ گیا تھا اسے پھر اس کی پاک تاثیرات کیساتھ آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
نیز جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک عرصہ تک مسلمانوں کی عام تعریف کو خود بھی درست ّتصور فرماتے تھے اور اُس وقت تک اس تعریف کے مطابق اپنے آپ کو مجازی نبی ہی تصور فرماتے تھے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے جو بارش کی طرح نازل ہوئی۔ آپ کو اِس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا۔۷۹؎ تو آپ خداتعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح اور سابق نبیوں کی اصطلاح کے مطابق اپنے آپ کو فی،ا￿لحقیقت نبی سمجھنے لگے لیکن عام مسلمانوں کی اصطلاح کی رو سے پھر بھی اپنے آپ کو مجازی نبی قرار دیتے تھے۔ جیسے کہ ہم بھی اس اصطلاح کی رو سے اب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجازی نبی اور استعارۃً نبی کا نام پانے والا قرار دیتے ہیں۔ گو جہاں تک دین کا اور عقیدہ کا تعلق ہے ہمیں اسی اصطلاح سے واسطہ ہے جو خداتعالیٰ کی، قرآن کریم کی، اسلام کی اور سابق انبیاء کی ہے اور عوام مسلمانوں کی اصطلاح سے صرف اِسی قدر واسطہ ہے کہ ان کو غلط فہمی سے بچانے کے لئے ہم اس کا بھی لحاظ رکھ لیتے ہیں۔
دوسرا حوالہ مولوی صاحب نے انجام آتھم سے درج کیا ہے جس کے بعض فقرات یہ ہے۔
’’ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم ُکفر نہیں۔ مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے۔‘‘ ۸۰؎
اس حوالہ سے بھی وہی مطلب نکلتا ہے جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں۔ بلکہ اس میں تو یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کے خوف سے آپ اس لفظ کے عام استعمال کو منع فرماتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ عام مسلمانوں سے مراد احمدی نہیں بلکہ غیر احمدی ہیں اور ان کو یہ دھوکا نہیں لگ سکتا تھا کہ وہ آپ کو نبی سمجھنے لگ جاتے کیونکہ جو محدث بھی نہیں مانتا وہ نبی کب ماننے لگا۔ انہیں صرف یہ دھوکا لگ سکتا تھا کہ وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مستقل نبوت کے مدعی ہیں جو دوسرے کسی نبی کی اتباع کے بغیر حاصل ہوتی ہے اور قرآن کریم کی شریعت کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔ ان کو اس مغالطہ سے بچانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ اس حقیقت کا انکار کیا جاتا جو وہ لفظ نبی کے ساتھ مستلزم سمجھتے تھے مگر اس حقیقت کا ہمارے دین اور مذہب سے کیا تعلق؟ ہمارا عقیدہ تو خداتعالیٰ کی اصطلاح، قرآن کریم کی اصطلاح، اسلام کی اصطلاح، سابق انبیاء کی اصطلاح اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مبنی ہے اور ان کے رو سے نبی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاق پائے اور اللہ تعالیٰ کے اعلیٰ مکالمہ و مخاطبہ سے ّمشرف ہو حتی کہ اس کی وحی میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو اور اس میں شک کرنا ُکفر کا مستلزم ہو۔ ۸۱؎
کیا ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں؟
جناب مولوی محمد علی صاحب آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں کہ گویا میرا یہ عقیدہ ہے کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات دربارہ نبوت منسوخ ہیں اور پھر اس پر فرماتے ہیں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایسا کہا ہے کہ میری ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں؟
میرا جواب یہ ہے کہ نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی کہا کہ میری ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات منسوخ ہیں اور نہ میں نے کبھی کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات دربارہ نبوت منسوخ ہیں میں نے جو کچھ کہا ہے فقط یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو دَور آئے ہیں۔ ایک وہ دَور جب کہ خداتعالیٰ کی طرف سے تو آپ کو نبی اور رسول کہا جاتا تھا اور آپ بھی یہ دعویٰ فرماتے تھے کہ مجھے کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں میں یہ خیال رائج تھا کہ نبی وہ ہے جو شریعت لائے یا سابق نبی کا متبع نہ ہو آپ اپنے الہامات کی تاویل فرماتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نبی کی حقیقت میرے اندرنہیں پائی جاتی۔ اور دوسرا دَور وہ آیا کہ اللہ تعالیٰ کی متواتر وحی نے آ پ کی توجہ کو اِس طرف ِپھرا دیا کہ آپ ِفی الواقع نبی ہیں اورنبی کی حقیقی تعریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ نہیں کہ وہ شر ِیعت جدیدہ لائے یا کسی سابق نبی کا متبع نہ ہو تب آپ نے اس تعریف کے مطابق اپنے آپ کو نبی کہنا شروع کر دیا لیکن مسلمانوں میں رائج معنوں کے رو سے اپنے آپ کو پھر بھی نبی نہیں کہا بلکہ ان معنوں کی رو سے نبوت کے دعویٰ کا انکار کرتے رہے۔ اب اس پر یہ کہنا کہ میں ۱۹۰۱ء سے پہلے کی سب تحریرات دربارہ نبوت کو منسوخ قرار دیتا ہوں مجھ پر ایک افتراء ہے میں تو اِن تحریرات کو سوائے اِس کے کہ بعد میں آپ نے عوام مسلمانوں کی تعریفِ نبوت اور خداتعالیٰ کی اصطلاح میںفرق بتایا اور سوائے اس کے کہ پہلے آپ سمجھتے تھے کہ آپ حقیقی تعریفِ نبوت کے ماتحت نبی نہیں ہیں اور بعد میں یہ سمجھنے لگے کہ چونکہ وہ حقیقی تعریف نہیں ہے آپ نبی ہیں اور کسی امر کو منسوخ قرار نہیں دیتا بلکہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ اپنے دعویٰ کی جو تشریح آپ نے شروع میں بیان فرمائی وہی آخر تک بیان فرماتے رہے اور اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہؤا آپ ابتداء سے اس امر کے مدعی تھے کہ آپ پر کثرت سے امورِ غیبیہ ظاہر کئے گئے ہیں اور یہی دعویٰ آپ کا آخری بھی تھا اِس میں سرِ ُمو فرق نہ آیا۔ پس میرے اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے جسے میں نے اپنی کتاب حقیقت النبوۃ میں بھی بیان کر دیا ہے یہ کہناکہ گویا مَیں دربارہ نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تحریرات کو منسوخ قرار دیتا ہوں مجھ پر ایک اتہام ہے اور ایسااتہام لگانے والا یقینا اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔
میری مندرجہ ذیل تحریرات اس بارہ میں قابلِ غور ہیں:
’’خداتعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ ُجزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے۔‘‘ ۸۲؎
’’پس تریاق القلوب کی تحریر کے بعد آپ کے اجتہاد اور عقیدہ کو بدلا گیا نہ کہ امر واقعہ اور آپ کے درجہ کو‘‘۸۳؎ یعنی تعریفِ نبوت کے بارہ میں آپ کے اجتہاد کو بدلا گیا نہ یہ کہ جس حقیقت کا اپنے اندر پایا جانا بتاتے تھے اس میں کوئی تبدیلی ہوئی ۔
’’میں آپ کی خدمت میں عرض کر دیتا ہوں کہ نہ یہ میرا عقیدہ ہے اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسا لکھا ہے کہ آپ کو پہلے اللہ تعالیٰ نے ُجزوی نبی قرار دیا بعد میں نبی‘‘ ۸۴؎
اِسی سلسلہ میںمولوی محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’کیا جناب میاں صاحب نے یا ان کے مریدین نے کبھی یہ غور کیا کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریروں کو منسوخ کہنے کے کیا معنے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۱۸۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو یہ کہا تھا کہ آپ محدث ہیں نبی نہیں اور ۱۹۰۱ء میں کہا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں اس لئے ۱۸۹۱ ء میں جو کچھ کہا تھا وہ منسوخ ہو گیا مگر محدث ہیں نبی نہیں نبی ہیں محدث نہیں دونوں متضاد باتیں ہیں ان میں سے سچی صرف ایک ہی ہو سکتی ہے۔ ۸۵؎
اس الزام کا جواب اوپر گزر چکا ہے نہ میرا یہ عقیدہ ہے اور نہ میں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۹۱ء میں یہ کہا کہ آپ محدث ہیں نبی نہیں اور ۱۹۰۱ء میں کہا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں اور نہ یہ استدلال تعریفِ نبوت کے بدلنے کے عقیدہ سے ہو سکتا ہے۔ یہ محض مولوی صاحب کی زبردستی ہے اور چونکہ اب وہ اس عقیدہ سے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے بارہ میں وہ پہلے رکھتے تھے ِپھر گئے ہیں اس لئے اب انہیں یہ باتیں ُسوجھنے لگی ہیں۔ میں تو بارہا لکھ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو شروع میں فرمایا تھا وہی آخر میں فرمایا جس امر میں تبدیلی ہوئی ہے وہ صرف آپ کا اجتہاد دربارہ تعریفِ نبوت ہے اور بس۔ اگر الہام کے متعلق مولوی صاحب کا دعویٰ سچا ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ الہام پیش کریں جس میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ آپ محدث ہیںنبی نہیں مگر وہ کبھی ایسا الہام پیش نہیں کر سکتے۔ وہ جو کچھ پیش کرسکتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد دربارہ نبوت ہے اس سے زیادہ وہ کچھ پیش نہیں کر سکتے۔
مولوی صاحب کا یہ فقرہ تو نہایت مضحکہ خیز ہے کہ آپ نبی ہیں محدث نہیںکیونکہ ہر نبی محدث ہوتاہے اوربغیر محدث ہونے کے یعنی خداتعالیٰ سے الہام پانے کے کوئی شخص نبی ہو ہی کیونکر سکتا ہے۔ میںمولوی صاحب کے اِن استدلالات کے مقابل پر مولوی صاحب کو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
’’ سو یا د رکھنا چاہئے کہ ان معنوں کے رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں ہے۔ اسی لحاظ سے صحیح مسلم میںبھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا گیا۔ اگر خداتعالیٰ سے غیب کی خبریں پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلائو کس نام سے اُس کو پکارا جائے؟ اگر کہو اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے …… اور نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ ُکھلتے ہیں پس میں جب کہ اس مدت تک ڈیڑھ َسو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طورپر پوری ہوگئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔‘‘ ۸۶؎
یہ حوالہ خود واضح ہے اور اگر مولوی صاحب غور فرمائیں تو حقیقتِ امر کو پاسکتے ہیں خداتعالیٰ ان کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے دل سے اس غیظ کو دور فرمائے جومیری نسبت اور مبائعین کی نسبت ان کے دل میں پیدا ہو رہا ہے اور جو ان کو حقیقت پر غور کرنے سے مانع ہے۔ مولوی صاحب غور تو فرمائیں کہ اگر اِس حوالہ میں نبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھا جائے تو عبارت ُیوں ہوتی ہے۔’’ اگر کہو کہ اس کا نام محدث رکھنا چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنے کسی لغت کی کتاب میں اظہارِ غیب نہیں ہے……… اور محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ ُکھلتے ہیں ۔‘‘ اب کونسا معقول آدمی اس عبارت کو صحیح تسلیم کرے گا کہ محدث اسے نہیں کہتے ہیں کہ جس پر امورِ غیبیہ کثرت سے ُکھلتے ہیں اور پھر یہ کہ محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ ُکھلتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں محدث کے نام کے لئے امورِ غیبیہ کی کثرت کا انکار اور کثرت سے امورِغیبیہ ُکھلنے والے کی نسبت یہ کہنا کہ اس صفت کی وجہ سے وہ محدث نہیں کہلاسکتا اور دوسرے فقرہ میں اس پر اصرار کہ محدثیت ایک موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امورِ غیبیہ ُکھلتے ہیں، کیا معقول ہو سکتا ہے اور کیا آپ اس فقرہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا پسند کرتے ہیں؟
اور پھر ان الفاظ پر بھی مولوی صاحب غور فرمائیں کہ ’’نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے۔‘‘کیا اس میں نبی کی جگہ محدث کا لفظ رکھا جا سکتا ہے؟ کیونکہ یہ فقرہ اپنے دعویٰ کے متعلق ہے اور آپ کے نزدیک آپ کا دعویٰ محدثیت کا تھا۔ پس اس فقرہ کو دوسرے الفاظ میں آپ کے عقیدہ کے رو سے یوں بھی لکھاجا سکتا ہے۔ ’’محدث کے لئے شارع ہونا شرط نہیں‘‘ یعنی ضروری نہیںکہ ہر محدث شارع ہو۔ بعض محدث بغیر نبی ہونے کے شارع ہو سکتے ہیں لیکن بعض محدث ایسے بھی ہوتے ہیں جو شارع نہیں ہوتے کیا آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ بعض غیر نبی بھی شارع گزرے ہیں؟ اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں تو اس جگہ نبی کی جگہ پر محدث کا لفظ کس طرح رکھا جائے؟
پھر آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’ نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خداتعالیٰ کے حکم سے کیا گیا۔‘‘ ۸۷؎
اور پھر اس پر اعتراض کیا ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جھوٹ نہیں لکھا تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کا الزام آتا ہے مگر یہ استدلال بھی آپ کا غلط ہے کیونکہ محدثیت کے دعویٰ کی نسبت آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ جس دعویٰ کو آپ محدثیت قرار دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ہی حکم سے کیا گیا تھا اس میں جھوٹ کا کیا ذکر ہے؟ یہ تو آپ نے نہیں فرمایا کہ محدثیت کی تعریف آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی ہے۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ ہر نبی محدث بھی ہوتا ہے۔ ۸۸؎
مواہب الرحمن کا حوالہ کہ اللہ تعالیٰ اولیاء
سے کلام کرتا اور اُن کو نبیوں کا رنگ دیتاہے
اس کے بعد جناب مولوی صاحب مواہب الرحمن کا ایک حوالہ پیش فرماتے ہیں۔ اور اس سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر ۱۹۰۱ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام
کو یہ بتایا تھا کہ آپ نبی ہیں محدث نہیں تو پھر ۱۹۰۳ء میں آپ نے کیوں لکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ساتھ مکالمہ مخاطبہ کرتا ہے اور اُن کو نبیوں کا رنگ دیا جاتا ہے اور وہ درحقیقت نبی نہیں ہوتے۔ پھر بڑے زور سے اعتراض فرماتے ہیں کہ :-
’’ میاں صاحب کے سامنے یہ تحریر حضرت صاحب کی بیسیوں دفعہ پیش کی گئی مگر اِس کا جواب وہ کبھی نہیں دیتے اور دیں کس طرح، اس کا جواب کوئی ہے ہی نہیں۔ اسی لئے وہ مباحثہ کے میدان میں نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘۸۹؎
میں پہلے تو ان کے اس دعویٰ کو لیتا ہوں کہ انہوں نے بیسیوں دفعہ اس حوالہ کو پیش کیا ہے مگر میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ مجھے افسوس ہے کہ اس اعتراض میں انہوں نے تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقۃ النبوۃ میں جہاں میں نے ان کے پیش کردہ ان حوالوں پر بحث کی ہے جو ۱۹۰۱ء کے بعد کے ہیں وہاں سب سے پہلے ان کے اس حوالہ کو لیا ہے اور اس کا جواب دیا ہے۔ ۹۰؎ پس مولوی صاحب کا یہ تو حق ہے کہ کہیں کہ وہ جواب درست نہیں۔ یہ حق نہیں کہ وہ یہ کہیں کہ ان کے اس حوالہ کا میں نے کبھی جواب نہیں دیا۔ انہیں اپنا یہ قول تو ُبھلانا نہیں چاہئے کہ:-
’’ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ جو جواب ہو وہ تو ذکر کر دیا جائے پھر اس کے اوپر بے شک لکھیں کہ یہ جواب صحیح نہیں۔‘‘۹۱؎
اصل بات یہ ہے کہ جناب مولوی صاحب نے اس حوالہ کو نقل کرتے ہوئے بھی اسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ یعنی اُس حصہ کو ترک کر دیا ہے جو ان کے خلاف پڑتا تھا سارا حوالہ یہ ہے۔
’’ اِنَّا مُسْلِمُوْنَ نُؤْمِنُ بِکِتَابِ اللّٰہِ الْفُرْقَانِ وَ نُؤْمِنُ بِاَنَّ سَیِّدَنَا مُحَمَّدًا نَبِیُّہٗ وَ رَسُوْلُہٗ وَ انَّہٗ جَائَ بِخَیْرِ الْاَدْیَانِ وَ نُؤْمِنُ بِاَنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ اِلَّا الَّذِیْ رُبِّیَ مِنْ فَیْضِہٖ وَ اَظْھَرَہُ وَعْدُہٗ۔ وَ لِلّٰہِ مُکَالَمَاتُ وَ مُخَاطَبَاتُ مَعَ اَوْلِیَائِہٖ فِیْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَ اِنَّھُمْ یُعْطَوْنَ صِبْغَۃَ الْاَنْبِیَائِ وَ لَیْسُوْا نَبِیِّیْنَ فِی۔الْحَقِیْقَۃِ۔‘‘۹۲؎
اس کا ترجمہ یہ ہے۔ ’’ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول ہیں اورآپ سب سے اچھا دین لائے ہیں۔ اور ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آپ خاتم النّبیّٖن ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو آپ کے فیض سے تربیت یافتہ ہو اور آپ کے وعدہ کے مطابق ظاہر ہؤا ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ اِس اُمت کے اولیاء سے مکالمات و مخاطبات فرماتا ہے اور وہ نبیوں کا رنگ دیئے جاتے ہیں لیکن وہ ِفی الحقیقت نبی نہیں ہوتے۔‘‘
کیا اس پورے حوالے کے بعد مجھے کسی جواب کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس جگہ امت کے دو قسم کے لوگوں کا ذکر فرماتے ہیں۔ ایک تو وہ شخص ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پاکر نبوت کا مقام پاتا ہے اور جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کہہ کر خبر دی ہے۔ اور ایک وہ جماعت اولیاء ہے جو اوپر کی تعریف میں نہیں آتی۔ اور نبی والی صفت یعنی کثرت امورِ غیبیہ ان میں نہیں پائی جاتی۔ صرف مکالمات و مخاطبات سے مشرف ہوتی ہے اس میں نبیوں کا سا رنگ تو ہوتا ہے مگر وہ حقیقتاً نبی نہیںہوتی۔ اس حقیقت کا انکار کون کرتا ہے؟ ہمارا تو اس کے ایک ایک لفظ پر ایمان ہے مولوی صاحب ہی ہیں جو صرف حوالہ کے آخری حصہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نقل کرتے وقت وہی حصہ نقل کرتے ہیں پہلا چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم سارے حوالہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ اِس اُمت میں ایک وہ بھی ہے جو ایک ِجہت سے اُمتی اور ایک ِجہت سے نبی ہے۔ اور وہ لوگ بھی ہیں جو صرف محدث ہیں اور نبیوں کا سا رنگ دیئے جاتے ہیں مگر نبی نہیں ہوتے۔ یہ حوالہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں۔
’’ اِس اُمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزارہا اولیاء ہوئے ہیں۔ اور ایک وہ بھی ہؤا جو اُمتی بھی ہے اور نبی بھی۔‘‘ ۹۳؎
یا اسی طرح فرماتے ہیں :-
’’ اور خود حدیثیں پڑھتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اسرائیلی نبیوں کے مشابہہ لوگ پیدا ہونگے۔ اور ایک ایسا ہوگا کہ ایک پہلو سے نبی ہوگا اور ایک پہلو سے اُمتی، وہی مسیح موعود کہلائے گا۔ ۹۴؎
دیکھو حقیقۃالوحی کا یہ حوالہ بالکل مواہب الرحمن کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ اس میں بھی ایک اُمتی نبی کی خبر دی گئی ہے اور اس میں بھی کہا گیا ہے کہ نبی وہی ہوسکتا ہے جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہو۔ اس میں بھی بتایا ہے کہ ایک ایسے شخص کی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے جو ایک پہلو سے اُمتی اور ایک پہلو سے نبی ہوگا اور وہی مسیح موعود کہلائے گا۔ اور مواہب الرحمن میں بھی بتایا ہے کہ ایسے اولیاء بھی اِس اُمت میں ہیں کہ جو نبیوں کے رنگ میں رنگین ہیں لیکن نبی نہیں۔ اور اِس حوالہ میں بھی ہے کہ میرے سِوا اور اولیاء بھی اس اُمت میں ہیں کہ جو بنی اسرائیلی نبیوں کے مشابہہ ہیں لیکن نبی کہلانے کے مستحق نہیں۔ اس حوالہ کو پڑھ کر اور مواہب الرحمن کے حوالہ کے اس حصہ کو شامل کرکے جسے مولوی صاحب نے بغرضِ سہولت چھوڑ دیا ہے کون کہہ سکتاہے کہ اس میں نبی کے آنے کا انکار ہے اس میں تو صریح اقرار ہے۔ باقی مولوی صاحب اس حوالہ کو بیسیوں چھوڑ ہزاروں دفعہ انکار کے ثبوت میں پیش کرتے جائیں تو ان کو روکنے والا کون ہے۔ وہ اپنی اس حرکت کے خداتعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہونگے۔
مولوی صاحب کے متعلق حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کے الہام کی تشریح
اس کے بعد جناب مولوی محمد علی صاحب نے مجھے توجہ دلائی ہے کہ ان کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی مَیں غلط تشریح کر رہا ہوں۔وہ الہام یہ ہے۔ ’’آپ بھی
صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے۔ آئو ہمارے پاس بیٹھ جائو۔‘‘ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ تاویل کرکے کہ گویا میں (یعنی جناب مولوی صاحب) صالح تھا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دُور ہو گیا ہوں تاویل باطل کا ایک بے نظیر ثبوت دیا ہے۔ حالانکہ اس کے اصل معنے یہ ہیںکہ میں آپ ہی کا کام آپ کے بعد کر رہا ہوں اس لئے جب میں فوت ہو جائوںگا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھ سے فرمائیں گے کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے مگر لوگوں نے بدگمانی کی آئو ہمارے پاس بیٹھ جائو۔
پھر فرماتے ہیں۔
’’ میاں صاحب تو بال کی کھال اُتار نے میں ماہر ہیں۔‘‘ ( کیا یہ اسلامی اخلاق کی مثال ہے جس کی طرف مولوی صاحب نے مضمون کے شروع میں دعوت دی ہے)مگر الہام کے اس لفظ ’’بھی‘‘ پر کیوں غور نہیں کرتے اور کون صالح تھا اور نیک ارادہ رکھتا تھا کہ آپ کو یہ کہنا پڑا کہ آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے وہی جو اپنے پاس بٹھاتا ہے۔‘‘۹۵؎ مولوی صاحب کا یہ شکوہ درست نہیں۔ ’’بھی‘‘ کے لفظ پر خداتعالیٰ کے فضل سے ہم نے خوب غور کیا ہؤا ہے اور باوجود اس کے ہم وہ معنے نہیں سمجھ سکتے جو مولوی صاحب کرتے ہیں۔ ’’بھی‘‘ بے شک ایک سے زیادہ وجودوں پر دلالت کرتاہے لیکن اس لفظ کے معنے ایک وجود کے کرنے ضروری نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں وجود ’’بھی‘‘ کے لفظ میں آسکتے ہیں۔ پس ’’بھی‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی الہام کے یہی معنے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ آپ کے بعد کے انشقاق کو دکھائے گا تو آپ بزبانِ حال فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری جماعت میں ہزاروں صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے لوگ تھے ان میں سے آپ بھی ایک تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جبکہ ان میں سے بہت سے ہمارے پاس مقبرہ بہشتی میں آگئے ہیں آپ نے اپنی وصیت جو قادیان میں کرائی تھی منسوخ کرا دی ہے اور میرے اِس حکم سے سرتابی کی ہے کہ اس مقبرہ کو اللہ تعالیٰ نے صالحینِ جماعت کے جمع کرنے کیلئے بنایا ہے تاکہ جس طرح انہیں زندگی میں ُقرب اور معیت حاصل تھی مرنے کے بعد بھی ُقرب اور معیت حاصل رہے اور ہم سے دور چلے گئے۔ آئو ہمارے پاس بیٹھ جائو مگر افسوس کہ آپ نے اِس دعوت کو ردّ کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس نہ بیٹھے۔
اِس امر کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جماعت کے ہزاروں آدمیوں کو صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے قرار دیتے ہیں مندرجہ ذیل حوالوں سے بخوبی ملتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ ہماری تھوڑی سے جماعت میں ہزارہا ایسے آدمی موجود ہیں جو متقی اور نیک طبع اور خداتعالیٰ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں۔‘‘ ۹۶؎
نیز فرماتے ہیں:-
’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اِس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے ہزارہا بیعت کندوں میں اِس قدر تبدیلی دیکھتا ہوںکہ موسیٰ نبی کے پیرو ان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزارہا درجہ اِن کو بہتر خیال کرتا ہوں اور…… ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا ہوں۔‘‘ ۹۷؎
پس یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایک تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے شخص تھے اور دوسرے آپ ہیں اور اس کی طرف ’’بھی‘‘ کے لفظ میں اشارہ ہے گویا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور ہزاروں دوسرے ّمقربینِ جماعت جو آپ سے پہلے سلسلہ میں داخل ہوئے اور ابتدائی ایام کی تلخیاں انہوں نے دیکھیں وہ تو اِس ’’بھی‘‘ میں شامل نہیں ہیں آپ ہی اس ’’بھی‘‘ سے حصہ پانے والے ہیں۔
نیز یہ الفاظ کہ’’ صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے‘‘ ایسا معیاری مقام نہیں کہ ہم یہ خیال کریں کہ اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ بلکہ اس سے مراد آپ کی جماعت کے دوسرے افراد ہیں جوآپ کے پاس بیٹھ گئے نہ کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس نے چھوڑا؟
اس کے بعد مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کی سب تحریروں کو قبول کرتا ہوں اور آپ صرف ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۸ء تک کی تحریرات کو، اب بتائیں کہ کیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑا یا آپ نے؟ میں اس کاجواب پہلے دے چکا ہوں کہ یہ مجھ پر افتراء ہے کہ میں ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریروں کو چھوڑتا ہوں اور اس قسم کے افعال کے ارتکاب سے اس کے ِسوا اور کوئی امر ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس قسم کی غلط بات پر اصرار آپ کیوں کرتے جاتے؟ جناب مولوی صاحب! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بارہ میں بھی میں نے نہیں چھوڑا بلکہ آپ نے چھوڑا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں۔
سوال (۱)- تریاق القلوب کے صفحہ ۱۵۷ میں (جو میری کتاب ہے) لکھا ہے۔’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گزرے کہ میں نے اس تقریر میں اپنے نفس کو حضرت مسیح پر فضیلت دی ہے کیونکہ یہ ایک ُجزئی فضیلت ہے کہ جو غیر نبی کو نبی پر ہوسکتی ہے‘‘ پھر ریویو جلد اول نمبر ۶ صفحہ ۲۵۷ میںمذکور ہے۔’’ خدا نے اِس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔‘‘ پھر ریویو ۵ صفحہ ۴۷۵ میں لکھا ہے۔ ’’مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز دِکھلا نہ سکتا۔‘‘ خلاصہ اعتراض یہ کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔
الجواب:- یاد رہے کہ اس بات کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھے ان باتوں سے نہ کوئی خوشی ہے نہ کچھ غرض کہ میں مسیح موعود کہلائوں یا مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں بہتر ٹھہرائوں۔ خدا نے میرے ضمیر کی اپنی اِس پاک وحی میں آپ ہی خبر دی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے:- ’’قُلْ اُجَرِّدُ نَفْسِیْ مِنْ ضُرُوْبِ الْخِطَابِ۔‘‘ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا تو یہ حال ہے کہ میں کسی خطاب کو اپنے لئے نہیں چاہتا یعنی میرا مقصد اور میری مراد ان خیالات سے برتر ہے اور کوئی خطاب دینا یہ خدا کا فعل ہے میرا اس میں دخل نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسا کیوں لکھا گیا اور کلام میں یہ تناقض کیوں پیدا ہو گیا۔ سو اس بات کو توجہ کرکے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براھین احمدیہ میں مَیں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خداتعالیٰ نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور یہ بھی مجھے فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی۔ مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہؤا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر سے نازل ہونگے اس لئے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اپنا اعتقاد وہی رکھاجو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا۔ لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی الٰہی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنیوالا تھا ُتو ہی ہے اور ساتھ اس کے صدہا نشان ظہور میں آئے اور زمین و آسمان دونوں میری تصدیق کے لئے کھڑے ہو گئے اورخدا کے چمکتے ہوئے نشان میرے پر جبر کرکے مجھے اِس طرف لے آئے کہ آخری زمانہ میں مسیح آنیوالا مَیں ہی ہوں ورنہ میرا اعتقاد تو وہی تھا جو میں نے براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا۔ اور پھر میں نے اس پر کفایت نہ کرکے اس وحی کو قرآن شریف پر عرض کیا تو آیات قطعیۃ الدلالت سے ثابت ہؤا کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے اور آخری خلیفہ مسیح موعودکے نام پر اسی اُمت میں سے آئے گا۔ اور جیسا کہ جب دن چڑھ جاتا ہے تو کوئی تاریکی باقی نہیں رہتی اسی طرح صدہا نشانوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃالدلالت آیا ت اور نصوصِ صریحہ حدیثیہ نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود مان لوں۔ میرے لئے یہ کافی تھا کہ وہ میرے پر خوش ہو مجھے اِس بات کی ہرگز تمنا نہ تھی۔ میں پوشیدگی کے ُحجرہ میں تھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے۔ اُس نے گوشۂ تنہائی سے مجھے جبراً نکالا۔ میں نے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میں تجھے تمام دنیا میں عزت کے ساتھ ُشہرت دوںگا۔ پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا ُتو نے کیوں کیا؟ میرا اِس میں کیا قصور ہے۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اُس کو ُجزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اُس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔ مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی اور جیسا کہ میںنے نمونہ کے طور پر بعض عبارتیں خدا تعالیٰ کی وحی کی اس رسالہ میں بھی لکھی ہیں ان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح ابن مریم کے مقابل پر خداتعالیٰ میری نسبت کیا فرماتاہے۔‘‘۹۸؎
اس تحریر کے مطابق میں نے اپنا ایمان کر لیا مگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ گئے۔ میں نے تو یہ طریق رکھا کہ جدھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رُخ کیا میں نے بھی ادھر کر لیا مگر آپ اس پر مُصِرّرہے کہ جس طرف پہلے رُخ تھا میں تو اُدھر ہی رکھوں گا۔ جس طرح بعض غیر احمدی کہا کرتے ہیں کہ ہم تومرزا صاحب کے اصل متبع ہیں انہوں نے براہین احمدیہ میں مسیح کو آسمان پر بتایا تھاہم اس عقیدہ پر اب تک قائم ہیں۔ مرزا صاحب اب اس عقیدہ کو چھوڑ گئے ہیں تو ہم اب کیا کریں۔
مولوی صاحب! اگر آپ غور فرمائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے چھوڑا جو آپ کی زندگی میں تو عدالت میں قسم کھا کر کہتا تھا کہ مرزاصاحب نبی ہیں اور اب اس کا انکار کر دیا ہے۔ اُس نے چھوڑا جو آپ کی زندگی میں تو آپ کو پیغمبرِ آخرِزماں کرکے لکھتا تھا اور آپ کی صداقت کو دوسرے صلحائے اُمت کی زندگی پر پرکھنے کی دعوت دینے والوں پر اظہارِ غضب کرتا تھا مگراب آپ کو صلحاء کے زُمرہ میں شامل کرتا ہے اور آپ کو نبی کہنے والے کو کافر اور مرتد قرار دیتا ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
پھر میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس نے چھوڑا جو آپ کی نسبت لکھتا ہے کہ:-
’’خود حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں اپنے الہامات کو کتاب اللہ اور حدیث پر عرض کرتا ہوں۔ اور کسی الہام کو کتاب اللہ اور حدیث کے مخالف پائوں تو ’’اسے کھنگارکی طرح پھینک دیتا ہوں‘‘۹۹؎
یا اس نے جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ُبہتان ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے کہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وحی ’’یقینی ہے اگر میں ایک دم کے لئے بھی اِس میں شک کروں تو کافر ہو جائوں اور میری آخرت تباہ ہو جائے۔‘‘ نیز یہ کہ وہ کلام جو آپ پر نازل ہؤا۔ ’’یقینی اور قطعی ہے اورجیسا کہ آفتاب اور اُس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اُس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا تھا۔ اور یہ کہ ’’میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر۔‘‘ ۱۰۰؎
میںمولوی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ وہ حوالہ کہاں ہے جو انہوں نے لکھا ہے اور وہ الہامات کون سے ہیں جو حضور علیہ السلام کھنگار کی طرح پھینک دیتے تھے۔ ان میں سے کوئی ایک ہی الہام پیش کر دیں۔
مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر نویسی
آخر میں جناب مولوی صاحب اپنی تفسیر نویسی کو پیش کرکے فرماتے ہیں کہ چونکہ میں نے انگریزی میں
تفسیر لکھی ہے اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کام کرنیوالا اور آپ کی شاخ ہوں۔ مگر یہ یاد نہیں رہا کہ پہلی تفسیر ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد نے لکھی تھی۔ پھر وہ کیوں آپ کی شاخ نہ کہلا سکا؟ آپ کو یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں اس تفسیر کا ذکر کیا ہے اس سے پہلے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ۱۰۱؎ کی آیت میں اس زمانہ کی خبر دے رکھی تھی اور وہ شخص میں ہوں جو اس خبر کے مطابق ظاہر ہؤا ہوں۔ اور پھر فرماتے ہیں ان علوم اور برکات کو ایشیا اوریورپ کے مُلکوں میں پھیلائوں جو خداتعالیٰ کی پاک روح نے مجھے دی ہیں۔۱۰۲؎
پس جس تفسیر کا آپ نے ارادہ کیا تھا وہ تو وہ تھی جس میں ان تازہ نشانات کا بھی ذکر ہو جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر کئے تھے۔ مگر آپ نے تو اپنی تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پیشگوئیوں کو جو آپ نے اپنے بارہ میں تحریر فرمائی ہیں کہیں درج نہیں کیا اور نہ ان تازہ نشانات کو پیش کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے ظاہر فرمائے ہیں۔ پھر آپ کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر یا آپ کی شاخ کی تفسیر کس طرح کہلا سکتی ہے؟ ایسی بیسیوں آیات ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پر چسپاں فرمایا ہے لیکن آپ نے اپنی تفسیر میں انکا ذکر تک نہیں کیا۔مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذُوالقرنین کے ذکر کو ایک پیشگوئی قرار دیا ہے اور اپنے پر چسپاں فرمایا ہے کیا آپ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے؟ نیز مثلاً آیات اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْـقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا۱۰۳؎ کو حضور علیہ السلام نے اپنے متعلق ظاہر فرمایا ہے اور اَوْحٰی لَھَا میں اپنی وحی کا ذکر بیان فرمایا ہے مگر کیا آپ نے بھی اس کا ذکر فرمایا ہے؟ پھر جب آپ نے اپنی تفسیر کو کثرت سے فروخت کرنے کی خواہش کے ماتحت اِس قدر بُخل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا ہے تو آپ کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیرکس طرح کہلا سکتی ہے؟ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ آپ نے کئی جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر پر ہنسی اُڑائی ہے اور اس کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ ایک مثال ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ آیت فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰے مِنْ رَّسُوْلٍ کے معنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو یہ فرماتے ہیں کہ:
’’نبی کا رسول ہونا شرط ہے کیونکہ اگر وہ رسول نہ ہو تو پھر غیبِ مصفّٰے کی خبر اُس کو مل نہیں سکتی اور یہ آیت روکتی ہے لَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰے مِنْ رَّسُوْلٍ ‘‘
اسی طرح فرماتے ہیں۔
’’لیکن قرآن شریف بجز نبی بلکہ رسول ہونے کے دوسروں پر علومِ غیب کا دروازہ بندکرتا ہے۔ جیسا کہ آیت لَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰے مِنْ رَّسُوْلٍ سے ظاہر ہے پس مصفّٰے غیب پانے کے لئے نبی ہونا ضروری ہؤا۔‘‘
مگر آپ اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اور آگے اِلاَّ مَنِ ارْتَضٰے مِنْ رَّسُوْلٍ میں اِلَّا استثنائے منقطع ہے یعنی رسولوں کو جس قدر علم چاہتا ہے دیتا ہے سارا اُنہیں بھی نہیں دیتا لٰـکِنِ الرَّسُوْلَ ارْتَضٰی یُظْھِرُہٗ جَلَّ وَ عَلَََا عَلٰی بَعْضِ الْغُیُوْبِ الْمُتَعَلِّقَۃِ بِرِسَالَتِہٖ بلحاظ سیاق سوائے اس معنے کے اور کوئی معنے درست نہیں۔ ۱۰۴؎
دیکھا آپ نے کس صفائی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کو باطل کر دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فرماتے ہیں اِلَّا کے بعد کے حصہ کے یہ معنے ہیں کہ یہ فعل صرف رسولوں سے کرتا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ معنے درست نہیں بلکہ اِلَّا منقطع ہے اور آیت کے پہلے ٹکڑے کے یہ معنے نہیں کہ رسولوں کو غیب پر غلبہ دیتا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ کسی کو بھی اپنے غیب پر غلبہ نہیں بخشتا خواہ رسول ہو یا غیر رسول۔ اور اِلَّا کے بعد کے فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ ہاں رسولوں کو کسی قدر غیب کی خبریںدیتا ہے گو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئے ہوئے معنوں سے ۔ُکلّی طور پر اختلاف کرتے ہیں اور اس پر بس نہیں بلکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کے خلاف معنے کرنے کے بعد بھی یہ تحریر فرماتے ہیں کہ سیاق کومدنظر رکھتے ہوئے اور کوئی معنے آیت کے درست نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعد میں آپ کے دل میں کچھ خشیت پیدا ہوئی اور احمدیہ جماعت کے اعتراض کا ڈر بھی پیدا ہؤا اور آخر میں لکھ دیا کہ ’’اگر اِظْہَار عَلَی الْغَیْب سے کثرتِ انکشاف مراد لے لیا جائے تو لفظ رسول میں رسول کے کامل متبعین بھی داخل ہو سکتے ہیں جن کو باتباعِ رسول اس نعمت سے کچھ حصہ ملتا ہے مگر نہ اس قدر جیساکہ متبوع کو۔ اس صورت میں بھی یہ آیت تو صرف رسولوں کے متعلق ہوگی لیکن ضمنی طور پر اس میں رسولوں کے کامل متبعین بھی داخل ہو جائیں گے۔‘‘ ۱۰۵؎
مگر آپ یہ ُبھول گئے کہ اول تو یہ توجیہہ باطل ہے کیونکہ جو معنے درست ہی نہیں وہ آیت میں سے نکل کیونکر آئیں گے۔ دوسرے یہ کہ اِس آیت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخصوص ذکر نہیں بلکہ سب رسولوں کا ذکر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:-
’’اور خداتعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اُس کی طرف سے ہوں اِس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے۔ ……… لیکن پھر بھی جو لوگ انسانوں میں سے شیطان ہیں وہ نہیں مانتے۔‘‘
اسی طرح فرماتے ہیں:-
’’اِس جگہ اکثر گزشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان معجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں۔‘‘ ۱۰۶؎
اب مولوی صاحب فرمائیں کہ ان حوالہ جات کی موجودگی میں ہم ان کے اس گریز کی کیا حقیقت سمجھیں جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معنوں کو قطعی طور پر غلط قرار دینے کے بعد کی ہے۔ کیا اِس تفسیر کو ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شاخ کی تفسیر اور آپ کا کام کہہ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
مولوی محمد علی صاحب کی طعنہ زنی
آخر میں مولوی صاحب نے طعنہ دیا ہے کہ تحریک جدید بھی ہوئی، لاکھوں روپیہ بھی آیا، جائدادیں بھی بن
گئیں، خلافت جوبلی کا تین لاکھ روپیہ بھی ہاتھ آیا، مولوی شیر علی صاحب ترجمہ لے کر ولایت سے بھی ہو آئے مگر ترجمہ نہ چھپ سکا۔ مجھے اِس منطق پر تعجب ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ترجمہ کی نسبت خواہش کا اظہار ازالہ اوہام میں کیا ہے۔ اس کے بعد آپ اُنیس سال زندہ رہے اور آپ کے قول کے مطابق اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے لاکھوں روپیہ بھی بھجوایا پھر بھی ترجمہ شائع نہ ہؤا جو وہاں جواب ہے وہی یہاں سمجھ لیجئے۔ بات تو صاف ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح مَیں بھی انگریزی نہیں جانتا۔ یوں کہو کہ نہ ہونے کے برابر جانتا ہوں۔ آخر کسی دوسرے نے یہ کام کرنا تھا۔ مولوی شیر علی صاحب کی صحت اچھی نہیں تھی وہ زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے آہستہ آہستہ انہوں نے کام کیا۔ اب خداتعالیٰ کے فضل سے کام تیار ہے مگر بعد کا کام ہو یا پہلے کا دیکھا یہ جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں ِجن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ کس کے ترجمہ اور تفسیر میں ہیں۔ ایک بات تو ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اردو میں پہلے تفسیر ہو، پھر اس کا ترجمہ ہو یہ امر ان کے ترجمہ میںہے آپ کے ترجمہ میں نہیں۔ کیونکہ انہوں نے میرے نوٹوں سے انتخاب کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضامین سے اخذ کیا ہے اور علی ان کے نام میں بھی ہے۔ اگر علی کی تفسیر کی خواب کو مروڑ کر آپ اپنے اوپر چسپاں کریں تو وہاں بھی وہ چسپاں ہوتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ آپ کی تفسیر پر تو وہ رؤیا صادق آتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ کوئی چھین کر ہماری تفسیر لے گیا ہے کیونکہ آپ نے اس تفسیر کو جس کے لئے آپ کو تنخواہ ملتی تھی چھین کر لے گئے تھے اور پھر اسے ذاتی ملکیت قرار دیکر اس پر کمیشن لیتے رہے اور لیتے ہیں۔
باقی رہا جائدادیں بننے کا سوال ۔ سو اگر سلسلہ کی جائداد مراد ہے تو سب سے پہلے آپ نے جائداد بنائی۔ سکول بنایا، بورڈنگ بنایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان خانہ بنوایا۔ اگر آمد والی جائداد ہو تو آپ کی انجمن نے پہلے مربعہ جات حاصل کئے۔ اگر ذاتی جائداد کا طعنہ ہے تو پہلے آپ نے ڈلہوزی میں کوٹھی بنائی، پھر لاہور میں کوٹھی بنوائی۔ اب رہا یہ کہ جب آپ کی جائداد کے بعد مَیں نے بھی کچھ جائداد بنائی تو وہ آپ کی جائداد سے زیادہ ہے تو اس میں میرا قصور نہیں اگر خداتعالیٰ میرے مال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا کے مطابق کہ ’’دے اِس کو عمر و دولت‘‘ برکت دینا چاہے تو اِس پر کسی کو کیا اختیار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میری جائداد کسی ایسی کتاب کی آمد سے نہیں بنی جو سلسلہ کے روپیہ سے تیار ہوئی ہو۔ وَ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔
ہم خدا کے لئے جنگ کرتے ہیں
آخر میں مولوی صاحب فرماتے ہیں:-
’’اب آپ خدا کے ساتھ جنگ نہ کریں۔‘‘ ۱۰۷؎
میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم خدا کیساتھ جنگ نہیں کرتے بلکہ خداتعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ باقی رہا مولوی صاحب کا اپنی نسبت یہ شعر نقل کرنا کہ ؎
اے آنکہ سوئے من بدویدی بہ صد تبر
از باغباں بترس کہ من شاخِ مثمرم
سو اِس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ اشعار نقل کرتا ہوں کہ ؎
میری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اک تیری بشارت سے ہؤا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہیں
یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
سو جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانے کے مطابق اشاعتِ اسلام کی بناء ہے وہی آپ کی شاخِ مثمرہے۔ خواہ آپ لاکھ زور ماریں۔ آپ وہ شاخ مثمر بن نہیں سکتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل اِس کی شہادت دے رہا ہے۔
مولوی صاحب کی تمام باتوں کا جواب دینے کے بعد اب میں چند آسان طریق فیصلے کے پیش کرتا ہوں۔ اگر مولوی صاحب ان کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ جھگڑا بہت کچھ دور ہو جائے گا۔
فیصلہ کا پہلا طریق
پہلا طریق فیصلہ کا میرے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی غلطیوں کا ازالہ فرما دیا ہے۔ یعنی
’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘ لکھ کر ان غلطیوں کو دور فرمایا ہے جو اس بارہ میں اپنوں بیگانوں کو لگ رہی تھیں۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ دونوں فریق نبوت کے متعلق بحث مباحثہ کو بالکل بند کر دیں اور صرف یہ کیا جائے کہ میری طرف سے اور آپ کی طرف سے دو چار سطر میں یہ مضمون لکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے متعلق ہمارا مذہب وہی ہے جو اس اشتہار میں درج ہے۔ تمام لوگ اسی کو ہمارا مذہب تصور فرمائیں اور اس کے خلاف اگر ہماری کوئی تحریر ہو تو اسے غلط سمجھیں۔ اور ہم دونوں کی اس تحریر کے بعد ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ اشتہار بغیر کسی حاشیہ کے شائع کر دیا جائے اور ہر سال کم سے کم پچاس ہزار کاپی اِس اشتہار کی ملک میں تقسیم کر دی جائے۔ ۳؍۲ خرچ اِس کا ہم دیںگے اور ۳؍۱ اِس کا خرچ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دیں۔ اس کے بعد دونوں فریق کے لئے جائز نہ ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی اور مضمون اپنے اخباروں یا رسالوں یا ٹریکٹوں میں لکھیں بلکہ جو اس امر کے متعلق سوال کرے اسے اس اشتہار کی ایک کاپی دیدی جائے کیونکہ اس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلطیوں کا ازالہ کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پانچ سال تک بھی دونوں فریق اس کے کاربند رہیں تو نزاع بہت کچھ کم ہو جائے گا اور شاید اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ مزید صلح کے راستے کھول دے۔
فیصلہ کا دوسرا طریق
دوسرا طریق فیصلہ کا میںیہ تجویز کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لکھا ہے کہ خداتعالیٰ کی اصطلاح میں (چشمۂ معرفت)
قرآن کریم کی اصطلاح میں (ایک غلطی کا ازالہ)، اسلام کی اصطلاح میں (لیکچر سیالکوٹ،نیز الحکم ۶؍فروری۱۹۰۸ء)، سابق انبیاء کی اصطلاح میں (الوصیت صفحہ ۱۲) اور خدا تعالیٰ کے حکم سے میرے نزدیک (تتمہ حقیقۃالوحی صفحہ ۶۸) اور لغت کی اصطلاح میں (مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء ) نبی اسے کہتے ہیں جس پر کثرت سے امورِ غیبیہ ظاہر کئے جائیں اور اس کو شرف مکالمہ و مخالبہ حاصل ہو۔ اور یہ کہ ان معنوں کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں اور کسی معنوں میں نہیں۔ پس ایک اشتہار ہم دونوں کے دستخط سے ملک میں شائع کر دیا جائے کہ ہم دونوں فریق اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف خداتعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق، قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق، اسلام کی اصطلاح کے مطابق، سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اُس کے مطابق اور عربی اور عبرانی ُلغتوں کے مطابق نبی سمجھتے ہیں۔ اس کے ِسوا کسی اور تعریف کے مطابق نبی نہیں سمجھتے بلکہ دوسری اصطلاحوں کے مطابق ہم صرف استعارۃً آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں حقیقی طور پر نہیں۔
فیصلہ کا تیسرا طریق
اگر الحکم کے حوالہ (۲۷؍ اگست ۱۸۹۹ء) کی وجہ سے باوجود لیکچرسیالکوٹ کے حوالہ کے اور الحکم کی ڈائری (۶؍مئی ۱۹۰۸ء)
کے آپ کو ایسی تحریر پر دستخط کرنے پر اعتراض ہو تو میری تیسری تجویز یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ میں صرف خداتعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق، قران کریم کی اصطلاح کے مطابق، سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق اور اس حکم کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتا ہوں باقی اسلام کی اصطلاح کے رو سے میں آپ کو حقیقی نبی نہیں سمجھتا۔ اس اصطلاح کے رو سے آپ کو صرف مجازی نبی یقین کرتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوںکہ اگر آپ ایسا اشتہار دیں گے تو اس سے بھی دنیا کو بہت کچھ اس مسئلہ کے سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی۔
فیصلہ کا چوتھا طریق
فیصلہ کا چوتھاطریق یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ خداتعالیٰ کی اصطلاح میں قران کریم کی اصطلاح میں،
اسلام کی اصطلاح میں، سابق انبیاء کی اصطلاح میں اور نبی کے لفظ کے متعلق خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ نبی کی یہ تعریف ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ سے کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع پاتاہے وہ نبی ہے تو وہ غلطی خوردہ ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف کہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان طریقوں میں سے آپ کسی طریق کو بھی اختیار کر لیں۔ فیصلہ تک پہنچنا آسان ہوگا۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ۔
مولوی صاحب کا نیا جواب
میں یہ مضمون قریباً ختم کر چکا تھا کہ جناب مولوی محمد علی صاحب کا ایک نیا مضمون مجھے ملا۔ جو پیغام صلح ۸؍اگست ۱۹۴۱ء میں
شائع ہؤا ہے۔ اس میں مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے میری وہ تجویز جو ان کی اور میری اُن تحریرات کو جو نبوت کے متعلق زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کی ہیں اکٹھا شائع کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کے متعلق تھی قبول کر لیا ہؤا ہے اور فرماتے ہیں:-
’’ میں نے ان کی اس تجویز کو مان لیا تھا کہ میرے عقائد جو حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں تھے اور ان کے عقائد پر جو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں تھے بحث ہو جائے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حضرت مسیح موعود کے اپنے عقائد پر اس کے ساتھ ہی اسی طرح بحث ہو جائے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جناب میاں صاحب اسے نہ ماننا کیوں کہتے ہیں۔‘‘ ۱۰۸؎
اس جگہ مولوی صاحب نے اسی مغالطہ سے کام لیا ہے جس سے وہ ہمیشہ کام لیتے ہیں وہ میرے وہ الفاظ پیش کریں جن میں یہ لکھا ہو کہ مولوی صاحب کے زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کے عقائد دربارہ نبوت اور اسی زمانہ کے میرے عقائد پر بحث ہو جائے اگر وہ میری یہ تجویز پیش نہ کر سکیں اور ہرگز پیش نہ کر سکیں گے تو وہ خداتعالیٰ سے ڈریں کہ وہ جان بوجھ کر ایک غلط بات میری طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ ’’مگر اس شرط کے ساتھ‘‘ بتاتے ہیں کہ سوائے اس حصہ کے جس سے پہلے شرط کالفظ ہے میری تجویز انہوں نے بعینہٖ مان لی ہے۔مگر یہ درست نہیں۔ میں نے تو صرف اس قدر کہا تھا کہ ان کے اس زمانہ کے عقائد اور میرے عقائد اکٹھے شائع کر دیئے جائیں اور اس کے ساتھ دونوں کی طرف سے صرف یہ لکھ دیا جائے کہ ہم اب بھی ان عقائد پر قائم ہیں۔ بحث کا ذکر میری تجویز میں نہیں بحث لوگ خود کر لیںگے اور آپ ہی ان تحریرات سے نتیجہ نکال لیںگے بحث کا سلسلہ تو لامتناہی ہے پھر اس بحث کے مطالب پر دوسری اور پھر تیسری بحث کی ضرورت ہوگی۔ اگر مولوی صاحب کے وہ عقائد صحیح ہیں اور وہ ان پر اب بھی قائم ہیں تو ان کو شائع کرکے ان کی تصدیق سے وہ کیوں گھبراتے ہیں؟ آخر دونوں پر یکساں ذمہ داری ہے۔
پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے عقائد پر بحث بے سود ہے کیونکہ میرے عقائد تو خود میری جماعت پر ُ ّحجت نہیں۔ مولوی صاحب کو یہاں غلطی لگی ہے۔ ان کے عقائد بے شک غیرمبائعین پر ُ ّحجت نہیں مگر یہاں تو ان عقائد کے اظہار کا سوال ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں شائع ہوئے اور ایسے رسالہ میں شائع ہوئے جس کا مطالعہ حضور علیہ السلام فرماتے تھے اور اس میں خود مضمون لکھتے تھے پس یہ سوال نہیں کہ وہ مولوی صاحب کے عقائد تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے اکابر صحابہ کی نظر سے گزرے اور انہوں نے ان کی تردید نہیں کی اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ عقائد مولوی صاحب نے بدلے ہیں یا ہم نے بدلے ہیں۔
پھر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ کیوں میں اور میری جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ مولوی صاحب کی خوش فہمی ہے جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح سے مولوی صاحب کو انکار ہے ہمیں انکار نہیں۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھاہے کہ نبی کے لفظ کو کاٹا ہؤا تصور فرمائیں اور اس کی جگہ محدث کا لفظ لکھ دیں، اس بارہ میں بھی ایک حوالہ اوپر درج کر آیا ہوں وہاں لفظ نبی کو کاٹ کر محدث رکھ کر مولوی صاحب دکھا دیں باقی جب خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقۃالوحی میں تحریر فرما چکے ہیں کہ اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا مگر خداتعالیٰ کی وحی میں بار بار نبی کے لفظ کے استعمال نے مجھے اس پر قائم نہ رہنے دیا تو اب ہم مولوی صاحب کی تشریح کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کیونکر کہہ سکتے ہیں اس صورت میں تو غیر احمدیوں کا یہ مطالبہ بھی درست ہوگا کہ براہین احمدیہ کے مطابق مسیحؑ کو آسمان پر زندہ مانو۔
اس کے بعد مولوی صاحب نے میرے اس مطالبہ کو کہ میں ان کے مضمون کو الفضل میں شائع کر دیتا ہوں بشرطیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی حسبِ قاعدہ مروّجہ اپنے اخبارات میں شائع کر دیں یوں تسلیم کیا ہے کہ تین کی جگہ سات پرچے ہوں اور میرا آخری جواب ان کے مضمون سے ایک تہائی سے زائد نہ ہو اور اس میں کوئی نئی بات نہ آئے۔ مجھے ان کی یہ شرط تو منظور ہے کہ ان کے آخری پرچہ میں جو بات بیان ہوئی ہو اُس کے جواب کے علاوہ مَیں کوئی بات نئی نہ لکھوں یہ معقول بات ہے لیکن یہ کہ میرا آخری جواب ان کے مضمون کے ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو معقول نہیں۔میرا جواب ان کے جواب پر منحصر ہوگا اگر اس کا لمبا جواب ضروری ہوگا تو میں لمبا جواب دوںگا اگر مختصر جواب کافی ہوگا تو میں مختصر جواب دوں گا اس حد بندی کو میں قبول نہیں کر سکتا ہاں تین تین پرچوں کی شرط مجھے منظور ہے یعنی میرے خطبہ کے بعد تین تین پرچے ہوں تین پرچے ان کے اور تین پرچے میرے اور میرا آخری پرچہ ہو اور پھر یہ سب یعنی میرا خطبہ اور تین تین پرچے فریقین کے اکٹھے شائع ہو جائیں۔
میںنے جناب مولوی صاحب کے اس اعتراض پر کہ گویا مَیں جماعت کو ان کے خیالات سننے سے روکتا ہوں اپنے خطبہ میں یہ بھی کہا تھا کہ میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر مولوی صاحب قادیان آجائیں تو جماعت کے سامنے ان کے تین لیکچر کرا دوں۔ جناب مولوی صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ انہیں یہ منظور ہے مگر اس کے لئے بہترین موقع جلسہ سالانہ کا ہوگا یہ تو وہی مثل ہوئی کہ ’’اُنگلی دیتے ہی پہنچا پکڑا۔‘‘ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہماری جماعت لاکھ ڈیڑھ لاکھ کرایہ خرچ کرکے اس لئے جمع ہوتی ہے کہ وہ میرے اور دوسرے علمائے سلسلہ کے خیالات ُسنے اورہمارا اُس وقت ان کی مہمانی پر پچیس تیس ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے کیا دوسرے کے خیالات کے سننے کی اجازت دینے میںیہ اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں کہ میں اپنے جلسہ کو اور لاکھوں کے خرچ کو مولوی صاحب کی خاطر برداشت کروں؟ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر جلسہ کے موقع پر ہی مولوی صاحب کو اپنے خیالات سنانے کا شوق ہو تو جلسہ کے دو دن اَور بڑھا دوں مگر اِس شرط پر کہ اُن دنوں کی مہمان نوازی کا خرچ مولوی صاحب برداشت کریں جو اُن دنوں کے لحاظ سے اوسطاً تین ہزار روپیہ روزانہ ہوگا۔ پس مولوی صاحب چھ ہزار روپیہ اِس غرض سے ادا کر دیں تو میں جلسہ کے دنوں کے بعد دو دن ان کے لیکچروں کے لئے مقرر کر دوں گا۔ اور اعلان کر دوں گا کہ جو دوست جانے پر مجبور نہ ہوں دو دن اَور ٹھہر جائیں اور مولوی صاحب کے خیالات سنتے جائیں۔ اگر یہ نہیں تو میں یہ ہزاروں کا خرچ ان کے لئے برداشت کرنے پر تیار نہیں اور نہ جماعت جو لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچ کرکے قادیان آتی ہے اسے اس کی خواہش سے محروم کر سکتا ہوں ہاں میری دعوت جو قادیان میں لیکچر کے متعلق ہے جس میں مجھے کوئی خاص خرچ کرنا نہیں پڑتا۔ وہ موجود ہے اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو بڑی خوشی سے تشریف لے آئیں۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
‎خاکسار
‎مرزا محمود احمد
‎(الفضل ۱۴؍ اگست ۱۹۴۱ء)
مولوی محمد علی صاحب کی تازہ ِچٹھی کا جواب
اگر وہ جماعت احمدیہ قادیان کوقابلِ خطاب نہیں
سمجھتے تو میں مولوی صاحب کو قابلِ خطاب نہیں سمجھتا
مولوی محمد علی صاحب کی ایک دستخطی ِ ّچٹھی میرے پاس پہنچی ہے۔ میں مولوی صاحب کے رفقاء کی تحریروں کے بعد جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معاویہ کہا گیا اور مجھے یزید قرار دیا گیا ہے اور مولوی صاحب نے توجہ دلانے پر اپنے ساتھیوں کو نصیحت نہیں کی بلکہ اُلٹی اُن کی طرفداری کی ہے، اسی طرح بوجہ اس کے کہ مولوی صاحب نے قریب کے ایام میں ہی قادیان کی جماعت کو منافق قرار دیا ہے چونکہ ان کو مخاطب کرکے جواب دینا پسند نہیں کرتا اس لئے اخبار میں اُن کی اِس ِ ّچٹھی کا جواب دیتا ہوں۔
مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے یہ فرض کرکے اپنے خطبہ میں ان کی ُکھلی ِ ّچٹھی کا جواب دینا شروع کر دیا کہ میں (مولوی محمد علی صاحب) کہہ رہا ہوں کہ آپ کے جلسہ پر دو ہزار آدمی اپنے ساتھ لائوں گا اور آپ ان کی مہمانی کا انتظام کریں حالانکہ میں نے آج تک کبھی یہ نہیں لکھا کہ میرے ساتھ دو ہزار، یا دو َسو، یا دو آدمیوں کی مہمانی کا آپ انتظام کریں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے ہرگز یہ نہیںکہا کہ مولوی صاحب نے دو ہزار آدمی ساتھ لانے کو لکھا ہے۔ میں نے تو مثال دی تھی کہ مولوی صاحب کا یہ مطالبہ کہ جلسہ سالانہ پر جو ۲۰،۲۵ ہزار آدمی آتے ہیں اُن کی اِس غرض کو ضائع کرکے جس کے لئے وہ قادیان میں آتے ہیں مولوی صاحب کے لیکچروں کا انتظام کیا جائے اور اس طرح وہ خرچ جو جماعت اپنے کام کے لئے کرتی ہے مولوی صاحب کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کرے۔ یہ بات تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص خود ہی کارڈ چھپوا کر دو ہزار لوگوں کو بھیج دے کہ فلاں شخص کے ہاں میرا ایٹ ہوم (AT HOME) ہے تم بھی اس میں شریک ہو۔ یا کسی کے ہاں شادی ہو لوگ جمع ہوں اور مولوی صاحب بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر وہاں پہنچ جائیں اور کہیں کہ میں نے اسلام کے متعلق تقریر سنانی ہے تم اپنی تقریب کو چھوڑ دو اور میری تقریر سنو۔
اُوپر کے فقرات سے ظاہر ہے کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مولوی صاحب اپنے دو ہزار ساتھیوں کو لے آئیں گے۔ مثال بالکل واضح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی غرض کے لئے دوسرے سے خرچ کا مطالبہ کرنا درست نہیں اگر ہم اپنے سالانہ جلسہ کا وقت مولوی صاحب کی تقریروں کے لئے لگا دیں تو جتنا وقت ان کو دیں گے اُتنا وقت جلسہ کے وقت میں بڑھانا پڑے گا اور اس سے ہم پر خرچ کا بار پڑے گا اور اس قسم کے خرچ کرنے کا مطالبہ میرے نزدیک اسلامی تعلیم کے مخالف ہے مطابق نہیں ہے۔ اور جو کچھ میں نے کہا تھا اس کا موجب مولوی محمد علی صاحب کی ِ ّچٹھی کا یہ فقرہ تھا کہ قادیان میں جاکر ہم آپ کے مہمان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہوگی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی ُخلق کی بالکل ِضدّ ہے۔‘‘
اگر باوجود اِس فقرہ کے اور باوجود میری مثال کی وضاحت کے مولوی محمد علی صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور وہ اب بھی یہی خیال کرتے ہیں کہ ہمارے جلسہ سالانہ کو اپنی اغراض کے لئے استعمال کرنے کا ان کا مطالبہ بالکل جائز اور معقول ہے تو سوائے اِس کے کہ میں اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۱۰۹؎ کہوں اور کیا کہہ سکتا ہوں۔
مولوی صاحب نے اپنے خط میں اس بات پر بڑے غصہ کا اظہار کیا ہے کہ میں نے بے حیا، بے شرم اورڈھیٹ کے الفاظ سے ان کو یاد کیا ہے لیکن ان کو یہ ُبھول گیا ہے کہ پہلے انہوں نے میرے جواب کو اسلامی تعلیم کی ضِدّ کہا ہے اور اسلامی تعلیم کی ضِدّ ُکفر ہوتا ہے۔ یقینا اس کلام کے جواب میں اگر مولوی صاحب کے اس مطالبہ کی نسبت کہ ان کی خاطر جماعت احمدیہ ہزاروں کا خرچ برداشت کرے یہ کہا جائے کہ مہمان اگر میزبان سے یہ مطالبہ کرے کہ اس کے آنے پر ہزاروں کا خرچ برداشت کیا جائے تو یہ بے شرمی ہے ہرگز بے جا نہیں۔ کسی شخص سے بے شرمی کا ارتکاب اسلام کی ضِدّ فعل کے ارتکاب سے تو اچھا ہی ہوتا ہے۔ اگر مولوی صاحب کا کچھ اور خیال ہے تو یہ اپنی اپنی سمجھ ہے۔ نیز جس شخص کے ساتھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معاویہ کہیں، جماعت احمدیہ کے موجودہ امام کو یزید کہیں اور وہ ان کی تائید کرے اور جو شخص قادیان کے آٹھ ہزار احمدیوں کو ایمان فروش قرار دے اُس کے منہ سے ان الفاظ کے استعمال پر اعتراض جو اس کے لئے براہ ِراست نہیں بلکہ مثالی طور پر کئے گئے ہیں ایک ایسی بات ہے جس کا سمجھنا میری عقل سے بالا ہے۔
میں مولوی صاحب کے مطالبہ کا جواب پہلے دے چکا ہوں۔ مجھے نہ ان کے جلسہ میں جانے کی خواہش ہے اور نہ اس کی کچھ ضرورت معلوم ہوتی ہے ہمیں جہاں تک خداتعالیٰ توفیق دیتا ہے غیر مبائعین تک اپنے خیالات پہنچاتے رہتے ہیں اور جس وقت مزید ضرورت محسوس ہوگی خدا نے جو توفیق دی ہے اس کے مطابق سامان جمع کریں گے۔ ہم سے خداتعالیٰ ہرگز یہ سوال نہیں کرے گا کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب سے ان کے جلسہ میں جاکر تقریر کرنے کی خواہش کی یا نہیں۔ پس جبکہ ہم ِحسب ضرورت غیر مبائعین کو اور دوسرے لوگوں کو بھی اپنے خیالات پہنچا رہے ہیں اور جو نہ ۔ ُسنے وہ خود گنہگار ہوتا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں مولوی صاحب کے جلسہ پر جائوں۔ یہ خواہش تو ان کے دل میں پیدا ہورہی ہے کہ وہ ہماری جماعت کو اپنے خیالات سنائیں۔ میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے حالانکہ اس کا پورا کرنا شریعت مجھ پر واجب نہیں کرتی ان کو دعوت دی تھی کہ جلسہ کے ایام کے ِ سوا کسی اور موقع پر قادیان آکر تقریر کرنے کا موقع دے سکتا ہوں۔ اگر انہیں یہ دعوت منظور ہو تو وہ بخوشی تشریف لائیں اگر نہیں تو ان کی مرضی۔
غرض یہ خواہش مولوی صاحب کی ہے بار بار مطالبہ وہ کر رہے ہیں مگر دعوت وہ اب مجھے دے رہے ہیں صرف دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ گویا وہ بڑے وسیع الحوصلہ ہیں۔ حالانکہ اس میں وُسعتِ حوصلہ کا کوئی سوال نہیں ان کے جلسہ پر ہوتے ہی کتنے لوگ ہیں۔ ان کے جلسہ کی تو میرے جانے سے رونق ہی بڑھے گی پس حقیقت کو دیکھنے والا کوئی شخص اس کا نام وُسعتِ حوصلہ نہیں رکھ سکتا۔ اپنی جماعت کے جتنے آدمیوں کو وہ میری تقریر سنوانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ میں ذمہ لیتا ہوں کہ قادیان میں ان کی تقریر میں ان سے زیادہ آدمی ہوں گے وہ اپنے خیالات ان تک پہنچا کر اِس بات کی تسلی کر سکتے ہیں کہ احمدیہ جماعت تک ان کے خیالات پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اگر قادیان کی جماعت کو وہ اس لئے اپنے خیالات سنانا پسند نہیں کرتے کہ وہ ایسی ہے جیسی اپنے ایک حال کے خطبہ میں انہوں نے بیان کیا ہے تو میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پہل کرکے مؤمنوں کی جماعت پر حملہ کیا ہے۔ میں بھی انہیں ویسا ہی سمجھتا ہوں جیسا کہ انہوں نے قادیان کی جماعت کو کہا اور جس طرح وہ قادیان کی جماعت کو خطاب کے قابل نہیں سمجھتے اسی طرح مَیں بھی مولوی صاحب کو خطاب کے قابلِ نہیں سمجھتا۔ وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
(الفضل۱۸؍دسمبر ۱۹۴۱ء)
۱؎ تذکرہ ۔صفحہ ۵۱۸۔ایڈیشن چہارم
۲،۳؎ پیغام صلح ۱۲؍جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵
۴،۵؎ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵
۶؎ الصف : ۴
۷؎ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵
۸؎ پیغام صلح ۳۰؍ جولائی ۱۹۴۰ء صفحہ ۷
۹؎ پیغام صلح ۳۰؍ جولائی ۱۹۴۰ء صفحہ ۶
۱۰؎ پیغام صلح ۱۷؍ جنوری ۱۹۳۸ء
۱۱؎ خروار : ڈھیر
۱۲؎ پیغام صلح ۹؍اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۶
۱۳؎ پیغام صلح ۳؍اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۳
۱۴؎ مشکٰوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ
۱۵؎ پیغام صلح ۲۶؍اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۷
۱۶؎ پیغام صلح ۵؍دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۳،۴
۱۷؎ سرالخلافہ صفحہ ۳۸ نظارت اشاعت ربوہ
۱۸؎ پیغام صلح ۱۲؍جون ۱۹۴۰ء صفحہ ۷
۱۹؎ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵
۲۰؎ انوار العلوم جلد ۴ صفحہ ۱۴۵ تا ۱۴۹۔ ایڈیشن اول
۲۱؎ ،۲۲؎ ازالہ اوہام صفحہ ۱۲۰ ۔روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۲۰
۲۳؎ ازالہ اوہام صفحہ ۱۱۶ ۔روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۱۶
۲۴؎ انجام آتھم صفحہ ۲۸ حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۸ حاشیہ
۲۵؎ سراج منیر صفحہ ۵،۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۵،۶
۲۶؎ ازالہ اوہام صفحہ ۲۱۶ نقل کردہ مولوی محمد علی صاحب
۲۷؎ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۸۰۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۶۶
۲۸؎ ازالہ اوہام صفحہ ۲۱۶ ۔ روحانی خزائن جلد ۳
۲۹؎ ابن ماجہ ابواب الفتن باب شدۃ الزمان
۳۰؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال
۳۱؎ الانبیاء : ۹۷
۳۲؎ انجام آتھم صفحہ ۱۲۹۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۱۲۹
۳۳؎ پیغام صلح ۱۲؍جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۶
۳۴؎ ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء فی فِتْنَۃِ الدَّجال
۳۵؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال، ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عیْسٰی ابن مریم (الخ)
۳۶؎ سراج منیر صفحہ ۳ نقل کردہ مولوی محمد علی صاحب
۳۷؎ سراج منیر صفحہ ۵،۶ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۵،۶
۳۸؎ انجام آتھم صفحہ ۲۷ حاشیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۷ حاشیہ
۳۹؎ انجام آتھم حاشیہ صفحہ ۲۷،۲۸ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۷،۲۸ حاشیہ
۴۰؎ براھین احمدیہ جلد ۵ ۔ روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۳۰۵،۳۰۶
۴۱؎ براھین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶
۴۲؎ چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۳۴۱
۴۳؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸
۴۴؎ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۳۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۵
۴۵؎ ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۵۵۵۔جدید ایڈیشن
۴۶؎ الوصیت صفحہ ۱۳۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۱۱
۴۷؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸
۴۸؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵۰۳
۴۹؎ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۴۷۔ جدید ایڈیشن
۵۰؎ چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۸۹
۵۱؎ تجلّیاتِ الٰہیہ صفحہ ۲۰۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲
۵۲؎ براھین احمدیہ جلد ۵۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶
۵۳؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰
۵۴؎ چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ ۳۳۲
۵۵؎ نزول المسیح صفحہ ۸۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۶۰
۵۶؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹ حاشیہ
۵۷؎ تجلیاتِ الٰہیہ صفحہ ۲۰۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲
۵۸؎ ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۴۷
۵۹؎ الحکم ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ء صفحہ ۶
۶۰؎ ضمیمہ براھین احمدیہ جلد ۵ صفحہ ۳۰۶ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۳۰۶
۶۱؎ پیغام صلح ۱۲؍جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷ ۔ مفہوماً
۶۲؎ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷
۶۳؎ ازالہ اوہام صفحہ ۳۲۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۳۲
۶۴؎ لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۴۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۶
۶۵؎ مریم : ۵۷ ۶۶؎ الصّٰفّٰت: ۱۱۳
۶۷؎ ازالہ اوہام صفحہ ۲۲۰۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۲۰
۶۸؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۶ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۱۰،۲۱۱
۶۹؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹
۷۰؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶
۷۱؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم باب من فضائل عُمر رضی اللّٰہ عنہ
۷۲؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹
۷۳؎ الجنّ: ۲۷،۲۸
۷۴؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۸
۷۵؎ تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحہ ۱۳۳
۷۶؎ المائدہ : ۱۱۸
۷۷؎ سراج منیر صفحہ ۳ ۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۵
۷۸؎ کنز العمال جلد ۱۱ صفحہ ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۷۹؎ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۳
۸۰؎ انجامِ آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۷ حاشیہ
۸۱؎ تجلیات الٰہیہ صفحہ ۲۰۔ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲ (مفہوماً)
۸۲؎ حقیقۃ النبوۃ انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۷۷
۸۳؎ حقیقۃ النبوۃ انوار العلوم جلد ۲ صفحہ۳۷۸
۸۴؎ حقیقۃ النبوۃ انوار العلوم جلد ۲ صفحہ ۳۷۷
۸۵؎ پیغام صلح ۱۲؍جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷
۸۶؎ ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵،۶۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۰۹،۲۱۰
۸۷؎
۸۸؎ توضیح مرام صفحہ ۱۲۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰
۸۹؎ پیغام صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۸
۹۰،۹۱؎ پیغام صلح ۴؍اپریل ۱۹۴۱ء صفحہ ۶
۹۲؎ مواھب الرحمن صفحہ ۶۹۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۸۵
۹۳؎ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۳۰ حاشیہ
۹۴؎ حقیقۃ الوحی ۔روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۱۰۴حاشیہ
۹۵؎ پیغام صلح ۱۲؍جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۸
۹۶؎ الذکر الحکیم نمبر ۴ صفحہ ۹
۹۷؎ الذکر الحکیم نمبر ۴ صفحہ ۱۷
۹۸؎ حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۴
۹۹؎ شنا ِخت مامورین از مولوی محمد علی صاحب صفحہ ۲۰ مطبوعہ لاہور۔ ۱۹۱۹ء
۱۰۰؎ تجلیاتِ الٰہیہ صفحہ ۲۰ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲
۱۰۱؎ الصف : ۱۰
۱۰۲؎ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۴۱۶۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۱۶
۱۰۳؎ زلزال ۲ تا ۶
۱۰۴؎ بیان القرآن جلد ۳ صفحہ ۱۸۹۷ مطبوعہ لاہور ۱۳۴۲ھ
۱۰۵؎ بیان القرآن جلد ۳ صفحہ ۱۸۹۷۔ از مولوی محمد علی صاحب مطبوعہ لاہور ۱۳۴۲ھ
۱۰۶؎ نزول المسیح صفحہ ۸۴۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۶۰
۱۰۷؎ پیغامِ صلح ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۸
۱۰۸؎ پیغامِ صلح ۸؍اگست ۱۹۴۱ء صفحہ ۵
۱۰۹؎ البقرۃ : ۱۵۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی سولہویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۶؍دسمبر ۱۹۴۰ء سے ۱۴؍جنوری ۱۹۴۳ء تک ۱۹ مختلف تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے۔
(۱) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۰ء
یہ خطاب حضور انور نے مؤرخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۰ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر ارشاد فرمایا جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَائِکی علمی و عملی لحاظ سے تشریح و تفسیر فرمائی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
’’آج اِس بیابان میںجمع ہونے والے تمام لوگ ایسے ہی ہیں جو خداتعالیٰ کی اس وحی کی صداقت کی ایک علامت ہیں۔ لوگ کہتے ہیں مرزا صاحب کی صداقت اور سچائی کی کیا دلیل ہے؟ آج ہم انہیں ایک دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خداتعالیٰ نے فرمایا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَائِ ۔اُس وقت جب کہ آپ کا کوئی نام بھی نہ جانتا تھا خداتعالیٰ نے آپ کو بتا یا کہ ہم ایسے لوگ پیدا کریں گے جو تمہاری مدد کریں گے۔ آج ہم یہاں بیٹھے ہوئے ایک ایک آدمی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اِس الہام کے پورا ہونے کا ثبوت ہے۔‘‘
اِس الہام کی تفسیر کے بعد حضور نے احباب جماعت کو نیز سلسلہ کے مبلّغین اور علماء کو بھی اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔
(۲) مستورات سے خطاب
(۱۹۴۰ء)
یہ خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۰ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات میں ارشاد فرمایا۔ جس میں حضور انور نے اِس تصوّر اور خیال کی عقلی و نقلی دلائل سے تردید فرمائی ہے کہ عورتیں مردوں سے کوئی علیحدہ چیز ہیں۔ جس کی وجہ سے عورتیں اپنے آپ کو بعض ذمہ داریوں اور فرائض سے بری الذمہ سمجھتی ہیں۔ نیز مرد بھی عورتوں کو بعض لحاظ سے ایک الگ مخلوق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب میں ہر عمل میں مرد اور عورتیں یکساں طور پر شامل اورجواب دِہ ہیں۔ لہٰذا عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال ڈالو کہ عورت کوئی کام نہیں کر سکتی۔ میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اے احمدی عورتو! تم اپنی ذہنیت کو بدل ڈالو۔ آدمی کے معنی مرد کے ہیں۔ تم بھی ویسی ہی آدمی ہو جیسے مرد۔ خدا نے جو عقیدے مردوں کے لئے مقرر کئے ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں اور جو انعام اور افضال مردوں کے لئے مقرر ہیں وہی عورتوں کے لئے ہیں۔ پھر جب خدا نے فرق نہیں کیا تو تم نے کیوں کیا۔ جب تک تم یہ خیال اپنے دل سے نہ نکال دو گی کوئی کام نہیں کر سکو گی۔ جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں مر گیا ہوں تو وہ مر جاتا ہے اور جب کوئی شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں کام کر سکتا ہوں تو وہ کر لیتا ہے۔‘‘

(۳) سیر روحانی (۲)
یہ معرکۃ الآراء خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۰ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ یہ روح پرور تقریر ’’سیر روحانی‘‘ کا ہی تسلسل ہے۔ اِس تقریر میں حضور نے دو چیزوں کو موضوع بنایا ہے۔
پہلا موضوع مساجد ہیں۔ اِس موضوع پر حضور نے ظاہری مساجد کا ذکر کر کے عالَمِ روحانی کی شاندار مساجد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ مساجد کی غرض و غایت کیا ہوتی ہے اور فوائد کیا ہیں۔ اِس تعلق میں آپ نے مساجد کی دس خصوصیات بیان فرمائی ہیںاور صحابہ کرام کی روحانی طور پر مساجد کے ساتھ گہری نسبت ثابت فرمائی ہے۔ کیونکہ مساجد اور صحابہ کی خصوصیات میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً دعوت الی اللہ، مساوات کا قیام، تقدس اور ذکرالٰہی کا مرکز، دینی تربیت کامرکز، بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت، امن کا ذریعہ، شر اور بدی سے بچانے کے لئے، امامت کے قیام جیسے تمام امور میں مساجد اور صحابہ کے درمیان قدرِ مشترک پائی جاتی ہے۔
دوسرا مضمون قلعوں سے متعلق تھا جس میں قلعے بنانے کے اغراض و مقاصد بیان کر کے اُن کی گیارہ خصوصیات فرمائی ہیں۔ پھر اِن دُنیاوی قلعوں کا روحانی قلعوں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی قلعوں کی برتری ثابت فرمائی۔ آپ نے اپنی اس تقریر میں عقلی ونقلی دلائل سے قرآن کریم کو سب سے عظیم اور محفوظ ترین روحانی قلعہ ثابت فرمایا ہے۔
(۴) احمدیت دنیا میںاسلامی تعلیم و تمدن کا صحیح نمونہ پیش کرنے کے لئے قائم کی گئی
یہ خطاب سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۶؍ فروری ۱۹۴۱ء کو بیت الاقصیٰ قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر ارشاد فرمایا پہلی دفعہ مؤرخہ ۲، ۴،۶؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہؤا اور اب پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔
یہ خطاب تربیتی نوعیت کا ہے جو کئی قسم کی زرّیں ہدایات پر مشتمل ہے اور تمام خدام کے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس خطاب میں جن امور پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ حسبِ ذیل ہیں۔
۱۔ مرکز میں بار بار آنے کی ضرورت و اہمیت۔
۲۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت۔
۳۔ خدام کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
۴۔ مصائب و تکالیف کے دَوران خدا کی رضا کے لئے صبر و تحمل اختیار کرنا۔
۵۔ ہمیشہ اور ہر حال میں سچائی کو اختیار کرنا اور جھوٹ سے نفرت کرنا۔
۶۔ عفو اور درگزر اور چشم پوشی سے کام لینا۔
۷۔ یورپین کھیلوں کی بجائے دیسی و دیہاتی کھیلوں کو رواج دینا۔
۸۔ مرکزی عہدیداران کا خود پروگراموں میں حصہ لینا اور تمام خدام کے ساتھ ذاتی تعلق اور واقفیت پیدا کرنا۔
۹۔ اعمال میں نفسانیت کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ تمام اعمال محض خدا کی رضا کے لئے ہوں۔
چنانچہ اِس تعلق میں آپ خدام کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-
’’میں چاہتا ہوں کہ تمہارے اعمال بھی خدا کے لئے ہوں۔ اُن میں نفسانیت کا کوئی شائبہ نہ ہو۔ اُن میں ُبزدلی کا کوئی شائبہ نہ ہو اور اُن میں تقویٰ کے خلافکسی چیز کی آمیزش نہ ہو۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر شخص اتنا مضبوط، اتنا بہادر اور اتنا دلیر اور اتنا جری ہو کہ جب تم کسی کو معاف کرو تو لوگ خود بخود کہیں کہ تمہار ا عفو خدا کے لئے ہے کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں۔ ایسی قربانی دِلوں کو موہ لیتی ہے۔‘‘
(۵) عراق کے حالات پر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے تقریر
یہ خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی اُس تقریر پر مشتمل ہے جو حضور نے عراق کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن لاہور سے ۲۵ ؍ مئی ۱۹۴۱ء کو نشر ہوئی اور اسے دہلی اور لکھنؤ کے اسٹیشنوں سے بھی نشر کیا گیا۔
اِس تقریر کا محرّک دراصل دوسری جنگِ عظیم کے دَوران جرمنی اور اٹلی کا عراق پرحملہ آور ہونا تھا۔ حضور نے اِس تقریر میں پہلے تو عراق کی اسلامی تاریخ کے لحاظ سے جو اہمیت ہے نیز تمام اُ ِمت ُمسلمہ کا جو عراق کے ساتھ جذباتی تعلق وابستہ ہے اُس پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد بتایا کہ عراق پر حملہ دیگر اسلامی مُلکوں حتّٰی کہ ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لہٰذا یہ وقت آپس میں بحث و تمحیص کا نہیں بلکہ کام کا ہے۔ آپ نے اپنی اس تقریر میں اس فتنہ سے بچاؤ نیز عراق میں امن قائم کرنے سے متعلق بہت عمدہ تجاویز بیان فرمائیںاور اُمّتِ ُمسلمہ کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’ان حالات میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے۔ ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے… اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے۔ اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اِس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اِس کے دبانے میں اُن کا ہاتھ بٹائیں تاکہ جنگ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دُور رہے۔ اور تُرکی، ایران، عراق اور شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں۔ یہ وقت بحثوں کا نہیں کام کا ہے۔ اِس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اِس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالَمِ اسلام کو پیش آنے والا ہے تاکہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔‘‘
(۶) اللہ تعالیٰ، خاتم النّبیّٖن اور امامِ وقت نے مسیح موعود کو رسول کہا ہے
مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مصلح موعود کے ایک خطبہ جمعہ مطبوعہ ’’الفضل‘‘ ۱۸؍جون ۱۹۴۱ء بابت ’’دعویٰ نبوت حضرت مسیح موعودؑ‘‘ کے جواب میں ایک مضمون شائع کیا۔ جس میں مولوی صاحب نے اپنے خیالات و نظریات کے تحت حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات اور عبادات سے غلط مفہوم اخذ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے مقامِ نبوت پر فائز ہونے کی تردید کی۔ نیز حضرت مصلح موعود کی ذات پر کیچڑ اُچھالا۔حضرت مصلح موعود نے مولوی محمد علی صاحب کے اِس مضمون کی تردید میں یہ مضمون تحریر فرمایا جو ۱۴ ؍ اگست ۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہؤا۔ حضور نے اِس مضمون میں مولوی صاحب کے حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت سے متعلق غلط نظریات کی عقلی و نقلی دلائل سے تردید فرمائی ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ نبوت کو روزِ روشن کی طرح ثابت کیا ہے۔ نیز اپنی ذات پر کئے گئے اعتراضات و الزامات کا جواب دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی نبوت کے حوالے سے یہ مضمون خاص اہمیت کا حامل ہے۔
(۷) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء
یہ مختصر مضمون سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے افتتاحی خطاب بر موقع جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء قادیان پر مبنی ہے۔ اِس میں حضور نے مقررین اور سامعین کو ہر کام سے پہلے اپنی نیّت درست کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ ہر کام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے میں دراصل حکمت یہی ہے کہ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے اپنی نیت کو درست کر کے صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہی مخصوص کر لینی چاہئے۔ اِس جلسہ میں بھی شریک ہونے کے پیچھے دراصل یہی نیّت اور ارادہ کارفرما ہونا چاہئے۔
(۸) مستورات سے خطاب
(۱۹۴۱ء)
یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے اُس روح پرور خطاب پر مشتمل ہے جو حضور نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مؤرخہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۱ء کو مستورات میں ارشاد فرمایا تھا۔
حضور نے اپنے اس خطاب میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۴ تا ۲۶ کی تفسیر کرتے ہوئے پہلے دُنیوی نہروں، باغات اور زمینوں کا اُخروی نہروں ، باغوں اور زمینوں کے ساتھ فرق بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد کلمہ طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کے ساتھ طیّب کے درج ذیل چار معانی بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ خوش شکل ۲۔ خوشبودار ۳۔ لذیذ ۴۔ شیریں
طیّب کے مذکورہ معانی بیان کر کے آپ نے لجنہ اماء اللہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اِس کو طیبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے۔ لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا۔ اِسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ کلمہ طیبہ سے ملتی ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مؤمن جنت کا درخت بن جاتا ہے۔ پس جب تک تم کلمہ طیبہ نہ بنو گی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی۔ قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے… جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو عمل کا پانی دو۔ اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کرو۔ جب تم ایسا کرو گی تو تم جنت کادرخت بن جاؤ گی۔ پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اِسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بناؤ۔ جب تم ایسا درخت بن جاؤ گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی جاؤ گی وہاں سے اُٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کہے گا کہ اِن درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہو سکتا۔‘‘
(۹) بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۱ء)
یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے ایک بہت ہی اہم خطاب پر مشتمل ہے جو حضور نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۱ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے دوسرے روز ارشاد فرمایا۔ اس خطاب میں درج ذیل اہم اُمور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۔ جماعتی اخبارات و رسائل کا تعارف۔ ان کی اشاعت اور خرید بِالخصوص روزنامہ الفضل اور سیرِ روحانی کے خریداران میں اضافہ کی تحریک۔
۲۔ تفسیر القرآن کے کام کا جائزہ۔ نیز تفسیر کبیر کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی طرف توجہ، پیغامیوں بِالخصوص مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے تفسیر کبیر کی مخالفت پر تبصرہ۔
۳۔ انگریزی ترجمہ و تفسیرِ قرآن کی تکمیل کی نوید سُناتے ہوئے اس کی جلد از جلد اشاعت کی ضرورت پر زور۔
۴۔ دورانِ سال ہونے والی بیعتوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ہندوؤں میں دعوت الی اللہ کی ضرورت پر زور۔
۵۔جنگِ عظیم دوئم کے جماعتی مساعی پر منفی اثرات بیان فرمائے۔ اِس جنگ کے ہندوستان کے لئے امکانی خطرات پر روشنی ڈالی۔ اور اہل ہندوستان کو جنگ میں انگریزوں کی ممکنہ حد تک مدد کرنے کی تحریک کرتے ہوئے اس کی ضرورت و اہمیت اور مد د کے طریقِ کار پر روشنی ڈالی۔
۶۔ چندہ تحریک جدید، امانت فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے، سادہ زندگی اختیار کرنے نیز گریجوایٹس، انٹرنس پاس اور مولوی فاضل احباب کو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی۔
۷۔ کانگرس، مسلم لیگ اور حکومتِ ہند کے مابین تناؤ پر محاکمہ۔
۸۔ ذیلی تنظیموں مجلس انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے قیام کی درجِ ذیل چھ اغراض پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۔ ایمان بالغیب ۲۔ اقامتِ صلوٰۃ ۳۔ خدمتِ خلق ۴۔ ایمان بالقرآن ۵۔ بزرگانِ دین کا احترام ۶۔ جماعت میں تقویٰ اللہ پیدا کرنا۔
درحقیقت یہ خطاب بہت سارے متفرق پھولوں کا ایک گلدستہ ہے جو اپنے رنگ و ُبو کے لحاظ سے انتہائی دلکش اور دلرُبا ہے۔
(۱۰) سیر روحانی (۳)
یہ تقریر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۴۱ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر ’’سیر روحانی‘‘کے مضمون کا ہی تسلسل ہے جس میں حضور نے اپنی سیر کے دوران جو تاریخی اور معروف مقبرے اور مینا بازار دیکھے تھے اُن پر سیر حاصل تبصرہ فرمایا ہے اور ان دُنیاوی مقبروں اور مینا بازاروں کا روحانی مقبروں اورمینا بازاروں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی مقبروں اور مینا بازاروں کی افادیت اور فوقیت ثابت فرمائی ہے۔ اس ضمن میں آپ نے بعض انبیائے کرام کے مقبروں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نیز انبیائے سابقین کے متبعین اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبروں کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اِس سلسلہ میں نصیحت کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:-
’’پس دُنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بناؤ اور یا پھر اس بہشتی مقبرہ میں بناؤ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہیں۔ جہاں نوح ؑ بھی ہیں، جہاں ابراہیمؑ بھی ہیں، جہاں موسٰیؑ بھی ہیں۔ جہاں عیسٰیؑ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ اِسی طرح تمہارے آباؤ اجداد بھی وہیں ہیں۔
پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُس کے رسولوں کا قُرب حاصل ہو۔‘‘
حضور نے دُنیاوی اور جسمانی مینا بازاروں کا قرآن کریم میں مذکورہ روحانی مینا بازاروں سے موازنہ کرتے ہوئے روحانی بازاروں میںملنے والی نعماء کا مفصّل ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً دائمی خدمت کرنے والے غلام، اعلیٰ درجہ کی سواریاں، ٹھنڈے مشروب، شیریں چشمے، دودھ کی نہریں، پاکیزہ شراب، شہد کی نہریں، پھل، گوشت، لباس اور دیگر زینت کے سامان وغیرہ سے جنتی لوگ ہمیشہ متمتع ہوں گے۔
روحانی مینا بازار کی فضیلت اور فوقیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’ یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میںمجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اورکہا جاتا ہے کہ اِس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سُپرد کی جاتی ہے۔ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لاؤ اپنا مال اور لاؤ اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کروں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان، میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لاؤں۔اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو میں تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو۔
غالبؔ تھا تو شرابی مگر اُس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:-
؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا

(۱۱) جلسہ سالانہ۱۹۴۱ء کے کارکنان سے خطاب
حضرت مصلح موعود نے یہ مختصر خطاب مؤرخہ ۴؍ جنوری ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے اختتام پر جلسہ سالانہ کے کارکنان سے ارشاد فرمایا:-
اِس موقع پر مختلف شعبہ جات کے ناظمین نے جو رپورٹس کارگزاری پیش کیں ان پر تبصرہ کرتے ہوئے انتظامی لحاظ سے جو کمزوریاں اور خامیاں سامنے آئیں، کارکنان کو ان کی طرف توجہ دلائی۔ مثلاً یہ کہ مستورات کی جلسہ گاہ کے پہرہ کا انتظام مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح خوراک کی پرچیوں کی تقسیم میں احتیاط برتنے سے خوراک کو ضیاع سے بچایا جا سکتا ہے۔ آخر پر جلسہ کی حاضری پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی کہ:-
’’خدا جلسہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد کو آئندہ اور بھی بڑھائے۔ جماعت کی قربانیوں اور خدمات میں بھی زیادتی کرے اور زیادہ اپنے قرب میں جگہ دے۔‘‘
(۱۲) خدام الاحمدیہ مقامی کی ریلی سے خطاب
حضرت مصلح موعودنے یہ خطاب مؤرخہ ۲۱؍ جون ۱۹۴۲ء کو برموقع اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مقامی قادیان ارشاد فرمایا۔ اِس تقریر میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو نہایت قیمتی اور زریں نصائح اور مشوروں سے نوازا ہے جو آج بھی ہمارے نوجوانوں کے لئے اور دنیا کی تمام احمدی نوجوان تنظیموں کے لئے بے حد مفید اور کار آمد ہیں۔
اِس تقریر میں حضور نے نہایت اعلیٰ رنگ میں اسلامی تاریخ سے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی مثالیں دے کر نصائح فرمائیں کہ علمی اور عملی طور پر تنظیموں کو کس طرح کام کرنا چاہئے اور خدام کی اصلاح کس طرح اور کس رنگ میں کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(۱۳) ہمارا آئندہ رویہ
یہ مضمون حضور نے کانگرس کی طرف سے ملک میں تعطّل اور فسادپیدا کرنے کی دھمکی دینے پر تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۸؍ اگست ۱۹۴۲ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔
اِس مضمون میںحضور نے حکومت کی سابقہ روش اور پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے موجودہ صورتحال میں مشروط طور پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’ہمارا آئندہ طریقِ عمل حکومت کے فیصلہ پر منحصر ہے۔ اگر حکومت اِس امر کا اعلان کر دے گی کہ توبہ کا اعلان کئے بغیر وہ فتنہ پیدا کرنے والوں کو نہیں چھوڑے گی اور کانگرس سے ڈر کر اس سے صلح نہ کرے گی، تو ہم پورے طور پر اس کا ساتھ دیں گے۔لیکن اگر وہ ایسا اعلان نہ کرے گی تو ہم اپنے قومی تعاون کو جنگی کوششوں تک محدود رکھیں گے۔‘‘
آخر پر حضور نے احبابِ جماعت کو پیش آمدہ حالات میںذہنی طور پر تیار رہنے کے لئے بعض ہدایات سے نوازا۔
(۱۴) خدام الاحمدیہ سے خطاب
یہ مضمون حضرت مصلح موعود کے اُس روح پرور خطاب پر مشتمل ہے جو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالانہ اجتماع کے موقع پر مؤرخہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۴۲ء کو قادیان میں ارشاد فرمایا تھا۔ حضور کا یہ خطاب ۷،۸ نومبر ۱۹۴۲ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہؤا ۔
اِس خطاب میں حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کا اصل کام نوجوانوں کی اخلاقی لحاظ سے تعلیم و تربیت کرنا، اُن کو با جماعت نماز کا عادی بنانا، قرآن کریم کا ترجمہ سکھلانا، نیز نوجوانوں میں علمی ذوق پیدا کرنا، اِسی طرح خدام کو دنیا کے فیشنوں کی تقلید کرنے سے بچانا اور سادہ زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دلانا ہے۔ ان امور کے متعلق حضور نے زرّیں نصائح فرمائیں۔
خدام میں علمی ذوق پیدا کرنے کے سلسلہ میں ہدایت فرمائی کہ اجتماع کے موقع پر ایسے لیکچرز دِلوائے جائیں جن میں موٹے موٹے مسائل کے متعلق اسلام اور احمدیت کی تعلیم بیان کی جائے۔ نیز اس موقع پر مختلف علمی مقابلے کروائے جائیں۔ اِسی طرح بعض امتحان مقرر کئے جائیں تاکہ خدام کا علمی معیاربلند ہو۔
(۱۵) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۲ء
یہ تقریر حضور نے مؤرخہ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمائی۔اِس تقریر میں حضور نے احباب جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو ہمیشہ اپنے وہ مقاصد عالیہ پیش نظر رکھنے چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں بیان کئے گئے ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑا مقصد اس الہام میں بیان کیا گیا ہے کہ:-
’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘
پس اس الہام سے ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا بڑا مقصد دُنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو پہنچانا ہے۔ لہٰذا یہ مقصد ہمیں ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ مقاصدِ عالیہ کو یاد رکھنے کی حکمت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:-
’’ اگر مقاصد عالیہ ہماری جماعت کے سامنے ہوں تو جو لوگ سست ہیں اُن میں نسبتی طور پر چستی پیدا ہو جائے گی اور جو چست ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ چست ہو جائیں گے۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی اجتماع میں شامل ہوں ہماری توجہ کا مرکز خصوصیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات ہوں اور وہ مقاصد ہوں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کئے ہیں۔‘‘
(۱۶) مستورات سے خطاب (۱۹۴۲ء)
یہ تقریر حضور نے مؤرخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں عورتوں کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نہایت قیمتی نصائح سے نوازا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اُس کا قول اُس کے فِعل کی تائید نہ کرے۔ لہٰذا اپنے قول اور فِعل میں مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اِسی طرح عملی زندگی کی اصلاح کے لئے نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرنے، شِرک، چغل خوری اور غیبت سے بچنے کی طرف توجہ دلائی۔ نیز بچوں کی عمدہ تربیت کرنے اور اُن کو بہادر بنانے جیسے اہم امور کی ضرورت بیان فرمائی۔آخر پر ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
(۱۷) بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۲ء)
یہ تقریر حضور نے ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی۔ اس تقریر میں حضور نے مختلف تعلیمی، تربیتی اور انتظامی اُمور پر روشنی ڈالی۔ مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازوں کے انتظام میں بعض اصلاحات کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اِسی طرح جلسہ سالانہ کے موقع پر ملاقات کے طریقِ کار میں بعض اصلاحات کرنے کی ضرورت بیان فرمائی۔ نیز قحط سالی کے پیش نظر غلّہ محفوظ کرنے کی تحریک فرمائی۔ اِس سلسلہ میں زمینداروں کو بھی بعض ہدایات فرمائیں۔ اخبار ُنور میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر تبصرہ فرمایا۔ چینی کی جگہ گُڑ اور شکر کے استعمال کرنے نیز مٹی کے برتن استعمال کرنے کی تحریک فرمائی۔
جنگِ عظیم دوئم کے حالات پر تبصرہ فرمایا۔ جنگ کے سِلسِلہ میں اتحادیوں کی مدد کرنے کی تحریک فرمائی۔ چندہ تحریک جدید کے مختلف مقاصد اور مصارف پر روشنی ڈالی۔ نماز با جماعت کے قیام اور ہر احمدی کو قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
(۱۸) نظامِ َنو
تار ِیخ عالَم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۴۲ء کا سال دنیا کی سب اقوام کے لئے نہایت درجہ پریشانی کا سال تھا۔ جس میں ایک طرف خوفناک مادی جنگ لڑی جا رہی تھی اور دوسری طرف سرمایہ داری اور اشتمالیت و اشتراکیت کے نظام ہائے زندگی آپس میں شدید طور پر متصادم ہو رہے تھے اور دُنیا کا معاشرہ بے شمار معاشی اور اقتصادی مصائب میں گِھر چکا تھا اور ضرورت تھی کہ کوئی مردِ خدا دنیا کی راہنمائی کرے، یہ تھے وہ حالات جن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اقوامِ عالَم کی قیادت کے لئے آگے بڑھے اور آپ نے ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۲ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر’’نظامِ َنو کی تعمیر‘‘ پر یہ معرکۃ الآرا خطاب فرمایا۔ جس میں پہلے تو عہدِ حاضر کی اُن اہم سیاسی تحریکات، جمہوریت، اشتمالیت اور اشتراکیت وغیرہ پر سیر حاصل روشنی ڈالی جو عام طور پر غریبوں کے حقوق کی علمبر دار قرار دی جاتی تھیں اور خصوصاً اشتراکیت کے سات بنیادی نقائص کی نشاندہی کی۔ ازاں بعد غرباء کی حالت سُدھارنے کے لئے یہودیت، عیسائیت، ہندو اِزم کی پیش کردہ تدابیر کا جائزہ لیا اور آخر میں اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کر کے اسلامی نقطۂ نگاہ کے مطابق دُنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور مؤثر انداز میں پیش کیا کہ سُننے والے عَش عَش کر اُٹھے۔
اِس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن مجید کی عظیم الشان تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے مامور کے ہاتھوں دسمبر ۱۹۰۵ء میں نظامِ نو کی بنیاد نظامِ وصیت کے ذریعہ قادیان میں رکھی گئی ۔ جس کو مضبوط کرنے اور قریب تر لانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا القاء فرمایا گیا۔ اِس عظیم الشان لیکچر کے آخر میں حضور نے پُر شوکت الفاظ میں فرمایا کہ:-
’’جب وصیت کا نظام مکمل ہو گا تو صرف تبلیغ ہی اِس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فردِ بشر کی ضرورت کو اس سے ُپورا کیا جائے گا اور دُکھ اور تنگی کو دنیا سے ِمٹا دیا جائے گا اِنْشَائَ اللّٰہُ ۔یتیم بھیک نہ مانگے گا، بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی ، بے سامان پریشان نہ پھر ے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہو گی، جوانوں کی باپ ہو گی، عورتوں کا سہاگ ہو گی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اِس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہو گا بلکہ ہر دینے والا خدا تعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی پس اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہو گا۔‘‘
(۱۹) ممبرانِ پنجاب اسمبلی کو ایک مخلصانہ مشورہ
سرسکندر حیات صاحب کی وفات سے پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک طوفان کی کیفیت پیدا ہو گئی اور صوبہ کا اَمن خطرہ میں پڑ گیا۔ اِس صورتحال کے پیش نظر حضرت مصلح موعود نے اِس مضمون کے ذریعہ ممبرانِ اسمبلی کو بعض قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا۔ یہ مضمون ۱۴؍ جنوری ۱۹۴۳ء کے الفضل میں شائع ہؤا۔ اِس مضمون میں حضور نے ممبرانِ اسمبلی کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے، ذاتی مفادات کو مُلکی اور قومی مفاد کے لئے قربان کرنے نیز پارٹی بازی، جنبہ داری کو ترک کر کے اتحاد و اتفاق کو ہر دوسرے امر پر مقدم کرنے کی ہدایات دیں اور متنبّہہ فرمایا کہ اگر ایسا نہیںکریں گے تو اِس کے بہت خطرناک اور بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اور آپ اپنی اولادوں کی قبریں اپنے ہاتھوں سے کھودنے والے ہوں گے۔ آخر پر آپ نے ممبرانِ اسمبلی کو یہ اِنتباہ بھی فرمایا کہ اگر کسی ممبر نے اِس موقع پر ذاتی دوستی کا لحاظ کیا اور اختلاف پیدا کرنے میں مدد کی تو جماعت احمدیہ اُس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے گی۔



بعض اہم اورضروری امور
(۱۹۴۱ء)




از
سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الـرَّحْمٰنِ الـرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

بعض اہم اور ضروری امور
(تقریر فرمودہ ۲۷ دسمبر۱۹۴۱ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
ّتشہد ، ّتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
۱۔اخبارات سلسلہ
اپنے مضمون کو شروع کرنے سے قبل مَیں ِحسب سابق تمام دوستوں کو پھر ایک بار بلکہ شاید بیسیوں بار بلکہ اس سے بھی زیادہ بار توجہ دلاتا ہوں کہ
سلسلہ کے اخبارات اور رسائل کی اشاعت بڑھانا ان کا اہم فرض ہونا چاہئے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس درخت کو پانی نہ ملتا رہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور اِس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اخبار پانی کا رنگ رکھتے ہیں اور اس لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ بات مَیں کئی بار کہہ چکا ہوں مگر افسوس ہے کہ دوست توجہ نہیں کرتے بلکہ بعض تو نادانی سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اخباروں میں وہی باتیں بار بار دُہرائی جاتی ہیں حالانکہ جو بات مفید ہو اُسے دُہرانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر دُہرانا ایسا ہی ُبرا ہے تو ایسے لوگ روٹی کھانے اور پانی پینے کے فعل کو کیوں دُہراتے ہیں۔ جس طرح انسان کا جسم تحلیل ہوتا رہتا ہے اور اس لئے ضرورت ہوتی ہے کہ انسان پھر روٹی کھائے اور پانی پیئے۔اسی طرح دماغی تحلیل بھی ہوتی رہتی ہے اور اس لئے پھر ان باتوں کا دُہرانا ضروری ہوتا ہے۔ اگر ان کو دُہرایا نہ جائے تو اثر قائم نہیں رہ سکتا۔ پس دُہرانا بُری بات نہیں بلکہ ضروری ہے۔ اذان دن میں پانچ بار دُہرائی جاتی ہے۔ یہ اخبار کا ذکر تو کوئی دُہراتا ہو تو مہینہ یا سال کے بعد دُہرائے گا مگر اذان تو دن میں پانچ بار دُہرائی جانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہے۔ پھر نماز دن میں پانچ بار دُہرانے کا حکم ہے۔ وہی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وہی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ہر نماز میں پڑھی جاتی ہے، وہی سورہ فاتحہ ہر رکعت میں دُہرائی جاتی ہے، وہی ہر نماز اور ہر رکعت میں سینے پر ہاتھ رکھے جاتے ہیں، وہی سجدہ اور وہی رکوع دُہرایا جاتا ہے۔ نماز بالکل اِسی طرح دن میں پانچ بار دُہرائی جاتی ہے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لے کر اب تک چلی آتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک ہمارے باپ دادا، ان کے باپ دادا اور پھر ان کے باپ دادا بالکل اسی طرح دُہراتے چلے آئے ہیں۔ اور اگر دُہرانا عیب ہے تو اسے کیوں دُہرایا جاتا ہے۔ اور وہی نماز جو کل پڑھی تھی۔ آج دُہرائی جاتی ہے۔ وہی روٹی کھانے اور پانی پینے کا عمل ہر روز دُہرایا جاتا ہے۔ وہی دن جو کل چڑھا تھا آج پھر چڑھا ہے۔ اور وہی رات ہر روز آتی ہے۔ اور کبھی کوئی نہیں کہتا کہ دن دوبارہ نہ چڑھے اور رات دوبارہ نہ آئے۔ کیونکہ کل بھی دن تھا اور رات تھی۔ ا س لئے آج دن ہو اور نہ رات۔ ذرا غور کرو کہ اگر انسان کی نیند اُڑ جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ میرا اپنا گزشتہ شب کا تجربہ ہے کہ مجھے نیند نہ آتی تھی اور صبح تقریر کرنی تھی۔ میں نے ڈرام یا نصف ڈرام برومائیڈ پی لی۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ اتنی خوراک درست بھی ہے یا زہریلی ہو جاتی ہے۔ مگر چونکہ نیند نہ آرہی تھی میں نے پی لی۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر رات کو نیند نہ آئی تو صبح نہ کوئی کام کر سکوں گا اور نہ تقریر کر سکوں گا۔ تو کوئی شخص یہ نہیںکہتا کہ میں کل بھی سویا رہا ہوں آج نہ سوئوں۔ بلکہ شدید خواہش رکھتا ہے کہ وہی نیند جو کل آئی تھی اور جو روز آتی ہے ہر روز آتی رہے۔ پس کسی بات کا دُہرایا جانا قابلِ اعتراض بات نہیں بلکہ مفید چیزوں کا دُہرایا جانا ضروری اور مفید ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مؤمنوں کے متعلق آتا ہے کہ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ اُتُوْ بِہٖ مُتَشَابِھًا ۱؎ جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں وہی رزق دُہرائے جائیں گے۔
پس محض دُہرانا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہر روز کئی باتیں دہرائی جاتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ وہ دُہرائی جائیں۔ ان کا نہ دُہرایا جانا اسے کبھی پسند نہیں ہوتا۔ پس یہ کہنا غلطی ہے کہ یہی بات ہمیشہ دُہرائی جاتی ہے۔ جماعت کے دوستوں کو اس طرف ضرور توجہ کرنی چاہئے کہ سلسلہ کے اخبارات کو خریدیں انہیں پڑھیں اور ان سے فائدہ اُٹھائیں۔ میں تو جہاں تک ہو سکے پڑھتا ہوں اور بسا اوقات فائدہ بھی اُٹھاتا ہوں۔ میں نے تو کبھی کوئی ایسا مضمون نہیں پڑھا جو دوبارہ شائع ہؤا ہو لیکن اگر کوئی مضمون دوبارہ بھی شائع ہؤا ہو تو بہرحال اس کا اسلوب اور طرزِ بیان ُجدا ہوتاہے اوراس چیز سے بھی فائدہ ہوتا ہے بعض عام باتیں بھی بہت بڑے فائدہ کا موجب ہوتی ہیں۔ َکل ہی میرا علمی مضمون ہے اور اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو عام ہیں اور روزمرہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے میں انہیں بیان کر سکوں یا نہ۔ اور کس حد تک بیان کر سکوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو آپ لوگ دیکھیں گے کہ ایسی ہی مثال ہوگی جیسے معمولی معمولی چیزوں سے ایک عجوبہ تیار کر لیا جائے جس رنگ میں یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا ہے وہ بالکل نرالا ہے اور اگر اسے سننے کے بعد کوئی کہے کہ یہ تو وہی باتیں ہیں جو عام طور پر ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں تو گو اُس کی یہ بات صحیح تو ہوگی لیکن اگر وہ ان کی ترتیب کو دیکھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس رنگ کی ہے کہ یہ مضمون کسی کے ذہن میں پہلے نہیںآیا اور وہ محسوس کرے گا کہ یہ قرآن کریم کا بڑا کمال ہے کہ اِس کے اندر سے نئے نئے علوم نکلتے رہتے ہیں۔ میں قرآن کریم پر بہت غور کرنے والا آدمی ہوں اور اس مضمون کی ترتیب کو دیکھ کر مَیں خود حیران ہوں کہ جو آیات روزانہ ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ان میں سے بعض ایسے نئے مضامین پیدا ہوئے ہیں کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے اس لئے یہ ُعذر کہ وہی باتیں دُہرائی جاتی ہیں بالکل غلط ہے۔
پس دوستوں کو اخبارات کی اشاعت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی اس کی تحریک کرنی چاہئے۔ ہماری جماعت اتنی ہی نہیں جتنی یہاں موجود ہے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے بہت زیادہ ہے۔ کسی زمانہ میں ساری جماعت عورتیں اور بچے ملا کر بھی اتنی ہی ہوگی جتنی اب یہاں موجود ہے مگر اُس وقت سلسلہ کے اخبارات کی اشاعت ڈیڑھ دو ہزار ہوتی تھی۔مگر اب الفضل کے خریدار صرف بارہ سَو ہیں حالانکہ اگر کچھ نہیں تو پانچ چھ ہزار اِس وقت ہونے چاہئیں۔ لوگ غیر ضروری باتوں پر روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ امراء کے گھروں میں بیسیوں چیزیں ایسی رکھی رہتی ہیں جو کسی کام نہیں آتیں۔ مگر لوگ ان پر اس لئے روپے خرچ کرتے ہیں کہ کبھی کسی مہمان کے آنے پر اس کے سامنے لائی جائے تو وہ دیکھ کر کہے کہ اچھا خان صاحب آپ کے پاس یہ چیز بھی موجود ہے۔ بس اتنی سے بات سن کر ان کا دل خوش ہو جاتا ہے اور وہ پچاس روپیہ کی رقم جو اُس پر خرچ کی ہوتی ہے گویا اِس طرح وصول ہو جاتی ہے۔ تو ایسی غیر ضروری چیزوں پر تو لوگ روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کی باتوں پر نہیں کرتے۔ ان کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ وہ دُہرائی جاتی ہیں حالانکہ اخبارات نہ صرف ان کے فائدہ کی چیزہیں بلکہ ان کی اولادوں کے لئے بھی ضروری ہیں۔میں تو یہاں تک کوشش کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے ایک کتاب کی کئی کئی جلدیں مہیا کرکے رکھوں۔ میرے دل پر یہ بوجھ رہتا ہے کہ میری اولاد خداتعالیٰ کے فضل سے زیادہ ہے ایسا نہ ہو کہ سب کے لئے ُکتب مہیا نہ ہو سکیں۔ میرے پاس بعض کتابوں کے تین تین چار چار نسخے ہیں۔ میں نے چند روز ہوئے ’’ ُمسلم‘‘ جو حدیث کی کتاب ہے منگوانے کو کہا۔ مولوی نورالحق صاحب دو مختلف قسم کی کتابیں لائے کہ ان میں سے کونسی منگوائی جائے؟ میں نے کہا دونوں منگوالیں بچوں کے کام آئیں گی۔ تو کتابوں کا رکھنا اولاد کے لئے بہت مفید ہوتا ہے۔ ایک دن آئے گا کہ وہ دنیا میں نہ ہوں گے اُس وقت ان کی اولادیں ان اخبارات کو پڑھیں گی اور اپنے ایمان کو تازہ کریں گی۔ بعد میں ان کے لئے ان کا حاصل کرنا مشکل ہوگا۔
دیکھو آج پُرانے’’الفضل‘‘ اور ریویو وغیرہ کے پرچے کس قدر مشکل سے ملتے ہیں۔کئی دوستوں نے مجھ سے بھی شکایت کی ہے کہ پُرانے پرچے نہیں ملتے۔ پس آج دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان چیزوں کو خرید کر فائدہ اٹھانا چاہئے اور پھر اپنی اولادوں کے لئے ان کو محفوظ کر دینا چاہئے۔
سلسلہ کے اخبارات میں سے ’’الفضل‘‘ روزانہ ہے۔ جہاں کوئی فرد نہ خرید سکے وہاں کی جماعتیں مل کر اسے خریدیں۔ مجلس شوریٰ میں بھی اس سال یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ کہ جن جماعتوں کے افراد کی تعداد بیس یا اس سے زیادہ ہے وہ لازمی طور پر روزانہ الفضل خریدیں اور جس جماعت کے افراد کی تعداد بیس یا اس سے کم ہو۔ وہ ’’الفضل‘‘ کا خطبہ نمبریا ’’فاروق‘‘ خریدے۔ ’’فاروق‘‘ بھی پیغامیوں، آریوں اور عیسائیوں وغیرہ کے متعلق بہت مفید مضامین لکھتا رہتا ہے۔ ’’نور‘‘ سکھوں اور ہندوئوںکے لئے ہے۔ ہماری تبلیغ میں ہندوئوں کا حصہ ہے مگر’’نور‘‘ کو چاہئے کہ اپنے دائرہ کو وسیع کرے۔ اِس سے محض غلط فہمیاں دُور کرنے کا ہی کام نہیں لینا چاہئے بلکہ اسے تبلیغی اخبار بنانا چاہئے۔ بے شک تلخی نہ ہو وہ تو اسلام میں جائز ہی نہیں لیکن محبت اور پیار سے ہندوئوں اور سکھوں کو اسلام کی خوبیوں کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اسلام میں ان کا داخلہ جہاں ایک طرف سچائی کو قبول کرنے کا موجب ہوگا وہاں دوسری طرف ان کے آباء اور بزرگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح ’’ریویو‘‘ اردو اور انگریزی بھی اب بہتر ہیں میرا یہ مطلب نہیں کہ ابتدائی حالت سے بہتر ہیں۔ اُس وقت تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مضمون اِس میں ہؤا کرتے تھے بلکہ درمیانی عرصہ میں جو نیند کا زمانہ ان پر آیا تھا اُس سے بہتر ہیں۔ ’’سن رائز‘‘ بھی بہت مفید کا م کر رہا ہے۔ اور ان ممالک میں جہاں ہم اور کسی زبان میں اپنے خیالات نہیں پہنچا سکتے۔ مثلاً امریکہ ،انگلستان وغیرہ وہاں بڑا اچھا اثر پیدا کر رہا ہے۔ میرے خطبات اور سلسلہ کی دیگر تحریکات وغیرہ اسی کے ذریعہ ان ممالک کے احمدیوں تک پہنچتی ہیں اور ان سب کے خریدنے کی میں سفارش کرتا ہوں۔ دوستوں کو چاہئے کہ کثرت سے ان اخبارات اور رسائل کو خریدیں اور انہیں خریدنا اور پڑھنا ایسا ہی ضروری سمجھیں جیسا زندگی کے لئے سانس لینا ضروری ہے۔ یا جیسے وہ روٹی کھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ دیکھو ایک زمانہ تھا جب آٹا دو روپیہ من ِبکتا تھا اُس وقت بھی لوگ روٹی کھاتے تھے،پھر سولہ سیر ہؤا پھر بھی کھاتے رہے، پھر دس سیر ہؤا اُس وقت بھی کھاتے رہے، پھر آٹھ سات بلکہ ۲؍۶۱سیر تک پہنچ گیا تو اُس وقت بھی کھاتے رہے اور اب تو قیمتوں پر گورنمنٹ نے حد بندی لگا دی ہے ورنہ اگر تین چار سیر بھی بھائو ہو جاتا تو بھی ضرور کھاتے اس لئے کہ اسے زندگی کا ُجزو سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اخباروں اور رسائل کا خریدنا اوربھی ضروری سمجھا جائے۔ میں امید کرتاہوں کہ اس دفعہ ضرور احباب توجہ کریں گے اور اخبارات و رسائل کی خریداری کو ضروری سمجھیںگے۔ ’’الفضل، فاروق ، نور، سن رائز، ریویو اردو انگریزی‘‘ ان سب کی خریداری کی میں سفارش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میری اِس دفعہ کی سفارش کو دوست ضرور قبول کریں گے۔
ان کے علاوہ ایک رسالہ ’’الفرقان‘‘ نکلا ہے اس کی تمہید بھی میں نے لکھی ہے جو پیغامیوں کے زہر کے ازالہ کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ اِس کی خریداری کی طرف بھی مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں اور جن نوجوانوںنے یہ جاری کیا ہے ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے مستقل رسالہ کے طور پر اِس کے اجراء کی اجازت نہیں دی بلکہ یہ صرف ان اشتہارات کا قائم مقام سمجھنا چاہئے جو پہلے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اب گویا وہ مہینہ کے بعد ایک رسالہ کی صورت میں شائع ہوتے رہیںگے۔ مستقل رسالہ کے طور پر اسے جاری کرنے کی اجازت مَیں نے نہیں دی اور نہ اسے یہ حیثیت دینی چاہئے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں۔ اگر اسے مستقل حیثیت دی جائے تو پھر اسے خواہ مخواہ اور ضرورت کے بغیر بھی جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی میں نے دیکھا ہے جب لوگ کوئی رسالہ جاری کرتے ہیں تو پھر اس کی ضرورت رہے یا نہ رہے اسے جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اس کی ضرورت کے بعد بھی اسے گھسیٹتے چلے جائیں اور اس طرح وہ ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ میں نے اشتہاروں کے طور پر ہی اس کی اجازت دی ہے۔ مستقل رسالہ کی حیثیت سے نہیں۔
۲۔ لفظ ’’اعظم‘‘ کا غلط استعمال
ایک اور رسالہ ایک دوست نے بھیجا ہے۔ میں اس کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مگر کہتے ہوئے ڈرتا بھی
ہوں۔اور ڈرتا اس لئے ہوں کہ یہ ایک نوجوان کا کام ہے اور جیساکہ کسی نے کہا تھا کہ یہ اس بچہ کا پہلا وار ہے خالی نہ جانا چاہئے۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ اس کی دل شکنی نہ ہو اور اس کا ذکر نہ کرنا بھی دل پر گراں گزرتا ہے۔ یہ رسالہ ’’ہمارے نغمے‘‘ ہے۔اس میں شعر اچھے ہیں اور سلسلہ کے متعلق اچھے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔ میں خود بھی شعر کو پسند کرتا ہوں مگر جس حد تک وہ جذبات کو صحیح طور پر اُبھارے، خوشامدانہ قصائد کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی اور اس سے میری طبیعت اس حد تک متنفر ہے کہ مولوی عبیداللہ صاحب بسمل مرحوم جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے اور فارسی کے علم کے لحاظ سے ہندوستان بھر کی اہم ترین شخصیتوں میں ان کا شمار ہوتا تھا وہ ایک بار میرے متعلق ایک طویل قصیدہ لکھ کر لے آئے اور یہاں سٹیج پر اُسے پڑھنے لگے۔ وہ پڑھتے جائیں اور میں اپنے دل میں کہوں کہ مجھ میں تو یہ بات نہیں میں تو ایسا نہیں ہوں۔ آخر مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ جیسے بزرگ آدمی کے لئے یہ بات موزوں نہیںکہ ایسی باتوں میں وقت ضائع کریں۔ ان کو یہ بات ُبری لگی کہ میں نے داد دینے کی بجائے جھاڑ ڈال دی اور انہوں نے اُسی دن سے شعر کہنا قریباً ترک کر دیا۔
اِس وقت مَیں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بھی اِسی قسم کی ہے۔ یہ غلطی ہمارے ملک میں عام طور پر پھیلی ہوئی ہے ’’الفضل‘‘ میں بھی میں نے بعض اوقات دیکھی ہے۔ اس رسالہ میں حضرت خلیفہ اول کے متعلق بعض اشعار درج ہیں۔ ان میں حضرت خلیفۂ اوّل کی تعریف کی گئی ہے اور وہ صحیح ہے بلکہ ہم آپ کی تعریف میں اس سے زیادہ کلمات بھی کہہ سکتے ہیں مگر ان اشعار پر ہیڈنگ ’’نور الدین اعظم‘‘ لکھا ہے۔ اعظم کے معنے ہیں سب سے بڑا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ’’اعظم‘‘ کا خطاب آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا یا کسی پہلی پیشگوئی میں آپ کیلئے یہ خطاب آیا ہے یا کیا آپ نے خود کبھی اپنے آپ کو ’’اعظم‘‘ کہا؟ اتنا تو سمجھنا چاہئے کہ خطاب وہی ہو سکتا ہے جو کسی بالا ہستی کی طرف سے دیا جائے۔ ہمارے لئے بڑی اور بالا ہستی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں، آپ سے اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان سے اوپر اللہ تعالیٰ مگر ان میں سے کسی نے بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو یہ خطاب نہیں دیا۔ ان میں سے کسی کی طرف سے یہ خطاب اگر آپ کو دیا جاتا تو یہ آپ کی تعریف کہلا سکتی تھی مگر یہ تو اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے آپ کو دیا تھا جو پہلے مرتد ہو کر پیغامی ہؤا اور پھر وہاں سے بھی مرتد ہو کر غیر احمدی بنا اس لئے اول تو یہی بہت شرم کی بات ہے کہ ہم آپ کے لئے وہ خطاب استعمال کریں جس کا بانی ایک ایسا شخص ہو جو احمدیت سے مرتد ہو کر مرا۔ پھر اگر تو ’’اعظم‘‘ کے معنے یہ ہیں کہ جو اپنے گھر میں بیوی بچوں میں سے سب سے بڑا ہو تو اس طرح تو دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ’’اعظم‘‘ نہ کہلا سکے۔ لیکن ’’اعظم‘‘ کا لفظ تو ایک اصطلاح ہے جس کے معنے ایسے شخص کے ہیںجس سے بڑا چند صدیوں میں اس سے پہلے اور پیچھے کوئی نہ ہو۔ مثلاً سکندرِ اعظم کے معنے ہیں کہ چند صدیوں تک اُس کے آباء و اجداد اور اُس کی اولاد میں سے کوئی ایساپیدا نہیں ہؤا۔ اسی طرح اکبر اعظم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ چند صدیوں تک اس کے آباء و اجداد اور اولاد میں سے کوئی اس جیسا نہیں ہؤا۔
اب ان معنوں کے لحاظ سے ’’نور الدین اعظم‘‘ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ گویا آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی بڑے تھے اور آئندہ بھی چند صدیوں تک آپ جیسا بڑا کوئی نہ ہوگا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ میں تو جب حضرت خلیفہ اول کے متعلق یہ لفظ جو ایک مرتد کی طرف سے آپ کا خطاب ہے سنتا ہوں تو سخت تکلیف ہوتی ہے کہ کہنے والے کو اتنا بھی احساس نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے ایک شخص کو اعظم کہہ رہا ہے۔ یہ غلطی سب سے پہلے علامہ شبلی نے کی ہے جنہوں نے حضرت عمرؓ کے متعلق ’’فاروق اعظم‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو بالکل غلط ہے۔ فاروق، ’’اعظم‘‘ کہاں تھا وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ُجوتیوں کا غلام تھا۔ ہمارے ملک میں یہ غلط رواج ہے کوئی شخص اگر طبّ کی ایک دو کتابیں پڑھ کر کسی گائوں میں عطاری کی دُکان کھول لے تو پھر وہ ارسطوئے زمان سے اِدھر نہیں ٹھہرتا۔ وہ کسی گائوں میں نیلوفر اور بنفشہ کی دُکان کرے گا مگر قلم اُٹھا کر اپنے آپ کو ارسطوئے زمان حکیم نتھوخان لکھے گا۔اِس سے نیچے اُترنا وہ جانتا ہی نہیں۔ ذرا کسی نے دو پہلوانوں کو گرا لیا تو پھر وہ رُستمِ زمان سے کم کسی خطاب پر اِکتفاء نہ کرے گا اور یہی وجہ ہے کہ ہر اینٹ اُٹھانے سے رُستم، ارسطو اور اعظم ہمارے مُلک میں نکل آتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ بڑے آدمیوں کی تعریفوں کے لئے لوگ اِس سے زیادہ مبالغہ کی ضرورت سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جب ذلیل لوگ ارسطو اور سکندر بن گئے تو جو فیِ الواقع بڑے ہیں انہیں کچھ اور بڑھا کر دکھانا چاہئے لیکن یہ طریق غلط ہے۔ جاہل، پاگل ہوں تو ان کا یہی کام ہے عالم پاگل کیوں بنیں اور اپنے بزرگوں کو وہ خطاب دے کر جن کے وہ مستحق نہیں کیوں ان کی اور ان کے بزرگوں کی ہتک کریں۔ جن لوگوں میں حقیقی فضیلت پائی جاتی ہے انہیں جھوٹی فضیلت دینے کی ضرورت ہی کیا۔ چاندی اور پیتل کو ملمع کی ضرورت ہے، سونے کو ملمع کی ضرورت ہی کیا ہے؟
غرض یہ اس اصطلاح کا غلط استعمال ہے اور حضرت خلیفۂ اول کے لئے اس کا استعمال آپ کی ہتک ہے۔ کیا یہ آپ کی تعریف ہے یا وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آپ اس طرح میری اطاعت کرتے ہیں جس طرح نبض دل کی اطاعت کرتی ہے۔۲؎ ا ور اس سے بہتر تعریف آپ کی کیا ہو سکتی ہے۔
پس ’’اعظم‘‘ کے لفظ کے استعمال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی ہتک ہوتی ہے اور حضرت خلیفۂ اول کی بھی کیونکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ آپ اپنی تعریف کرانے کے لئے ایک مرتد کے خطاب کے محتاج تھے۔ دراصل آپ کی تعریف ’’اعظم‘‘ کہلانے میں نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خادم ہونے میں ہے۔ پس آپ کو اعظم کہنا آپ کی ہتک ہے کیونکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ جس چیز میں اپنی عزت سمجھتے تھے۔ اس سے آپ کو باہر کیا جائے اور جسے ذ ّلت سمجھتے تھے وہ آپ کی طرف منسوب کی جائے۔
۳۔ کتاب ’’سیر روحانی‘‘
اس کے بعد میں دوستوں کو کتاب ’’سیر روحانی‘‘ کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ وہ تقریر ہے جو میں نے ۱۹۳۸ء کے سالانہ جلسہ پر
کی تھی۔ یہ کتاب جلسہ کے دنوں میں نہ چھپی تھی اس لئے دوستوں نے زیادہ توجہ نہ کی یہ کتاب صِرف دو ہزار چھپوائی گئی تھی مگر ابھی سات سَو بِکی ہے حالانکہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کافی ہے۔ آج ہی یہاں ۲۳ ہزار افراد کو کھانا تقسیم ہؤا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر بچوں اور عورتوں کو نکال دیا جائے تو بھی کم سے کم بارہ تیرہ ہزار مرد ہوں گے مگر اس کتاب کے دو ہزار میں سے ابھی سات سَو نسخے بِکے ہیں حالانکہ یہ چھوٹی کتا ب ہے۔ جو لیکچر سنا جائے اس سے پوری طرح فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اسے دوبارہ پڑھا جائے۔ پھر یہ سلسلہ کا مال تھا اس واسطے بھی اسے خریدنا چاہئے تھا۔ یوں تو دوست شکایت کرتے ہیں کہ تقریریں چھپتی نہیں ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب پہلی چھپوائی ہوئی کتاب فروخت نہ ہو تو دوسری کیسے چھپوائی جا سکتی ہے۔ ان کی اشاعت پر سلسلہ کا روپیہ خرچ ہوتا ہے اور آمد بھی خزانہ میں جاتی ہے لیکن اگر روپیہ خرچ کر دیا جائے اور کتاب فروخت نہ ہو تو یہ نقصان سلسلہ کو پہنچتا ہے۔ جو کتاب چھپتی ہے اگر دوست اسے جلدی جلدی خرید لیں تو پھر اسی روپیہ سے اور بھی چھپ سکتی ہیں مگر جب پہلی ہی پڑی رہے تو اور کس طرح چھاپی جا سکتی ہے۔ یوں تو دوست شکایت کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بعض لیکچر کیوں نہیں چھپتے مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب ایک کتاب کی اشاعت پر روپیہ لگایا جائے وہی پھنس جائے اور واپس نہ آئے تو کسی ُکتب فروش کو اور چھپوانے کی خواہش کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ پس جو لوگ ان کتب کو خریدتے نہیں وہ گویا عِلم کے پھیلنے میں روک بنتے ہیں۔
۴۔ ۱۹۴۱ء میں بیعت کرنے والوںکی تعداد
اب میں اس سال کی بیعت کو لیتا ہوں۔ بیعت کی رپورٹ یہ ہے کہ
۲۹۵۸ آدمی ہندوستان میں بیعت میں شامل ہوئے اور ۹۶۷ باہر کے مُلکوں سے گویا۔ ُکل ۳۹۲۵ اشخاص بیعت کرکے اس سال داخلِ سلسلہ ہوئے۔ یہ تعداد پچھلے سال کی نسبت ۲۵،۳۰ فیصدی زیادہ ہے۔ ضلع گورداسپور میں ۱۴۷۷ اصحاب نے بیعت کی ۔ پچھلے سال بارہ سَو نے کی تھی۔ اس ضلع کی بیعت کے متعلق جتنی امید تھی اتنی تو یہ نہیں مگر پچھلے سال سے بہرحال زیادہ ہے۔ ضلع سیالکوٹ اس سال بھی ضلع گورداسپور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بڑھا رہا ہے اس ضلع میں ۲۰۲ ؍ اصحاب نے بیعت کی۔ ضلع شاہ پور سرگودھا میں ۱۴۲ نے۔ ضلع گجرات میں۱۲۶ نے امرتسر ۱۰۹، لاہور ۸۱، گوجرانوالہ ۵۴، شیخوپورہ ۴۸، لائل پور ۴۷، جالندہر ۴۶، ہوشیارپور ۳۹، جہلم۳۲، ملتان مظفر گڑھ ۲۰، منٹگمری ۱۹، فیروزپور۱۷، کیمل پور راولپنڈی۹، انبالہ۷، جھنگ۷، لدھیانہ۵، کرنال رہتک۴، میانوالی۲۔ باقی سب اضلاع بالکل خالی رہے ہیں مگر میرے خیال میں یہ رپورٹ صحیح نہیں۔ آج ہی ایک صاحب حصار کے مجھے ملے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ابھی ابھی احمدی ہوئے ہیں۔
صوبوں کے لحاظ سے تقسیم اس طرح ہے۔ بنگال ۱۱۳، یوپی ۱۰۱، بہار اُڑیسہ ۲۱، سرحد۴۶، سندھ ۲۰، بلوچستان ۳، بمبئی گجرات ۲، برما ۱۵، سیلون ۸، ریاست جنید ۸، کپورتھلہ ۶، مالیرکوٹلہ ۲، حیدرآباد ۲۸۔
بیرونی ممالکمیں سے جاوا میں ۵۲۵، گولڈ کوسٹ سیرالیون میں۳۷۱، امریکہ ۱۸، انگلستان ۲، سماٹرا۔۲۴، ماریشس۲، ملایا ۴، مصر۹ اور فلسطین۸۔ پیغامی شور مچاتے رہتے ہیں کہ تبلیغ ہم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے سالانہ جلسہ میں اتنے لوگ شریک بھی نہیں ہوتے جتنے خداتعالیٰ کے فضل سے بیرونی ممالک میں ہر سال ہماری جماعت میں نئے شامل ہو جاتے ہیں۔ جن جماعتوں میں کوئی نیا آدمی شامل نہیں ہؤا یا جن کے بیعت کرنے والوں کی تعدادکم ہے انہیں توجہ کرنی چاہئے اور تبلیغ میں بہت کوشش کرنی چاہئے یہ کیا کم عزت ہے کہ اتنے مجمع میں ان جماعتوں کے نام پڑھے جاتے ہیں جو کوشش کرکے نئے افراد کو جماعت میں داخل کرتی ہیں اور اس طرح ہزاروں لوگوں کے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر برکتیں نازل کرے۔ پس جو جماعتیں اس سال ان دعائوں سے محروم رہی ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اگلے سال ان کا نام بھی آجائے۔
۵۔ تفسیر القرآن کا کام
اس کے بعد میں تفسیر کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ یہ کام تمام سال میرے لئے شدت کی بیماری کا سال رہا ہے۔
اپریل میں مجھے پھوڑے کی تکلیف ہو گئی اور وہ اتنی زیادہ تھی کہ بعض دنوں میں تو میں رات کو سو بھی نہیں سکتا تھا۔ اور بعد میں جب وہ مزمن صورت اختیار کر گیا تو دن کے وقت بھی بیٹھ نہ سکتا تھا بلکہ لیٹنا پڑتا تھا اور وہ بھی پہلو پر۔درد کی تکلیف مزید برآں تھی۔ یہ تکلیف برابر ستمبر کے آخر تک رہی۔ ستمبر کے آخر میں آپریشن کرایا اور اس طرح ایک ماہ پھر لیٹنا پڑا۔ اس کے بعد گو درد وغیرہ تو نہ رہا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے سخت ُضعف ہو گیا حتّٰی کہ جلسہ سے ۵،۶ دن قبل تک یہ حالت تھی کہ میں اچھی طرح چل پِھر نہ سکتا تھا۔ چلتا تو قدم لڑکھڑاتے تھے جیسے اسّی پچاسی سال کے بوڑھوں کے لڑکھڑاتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی ۴،۵ سیڑھیاں ہیں اور مَیں سونٹے کے سہارے اور تکلیف کے بغیر وہ بھی نہ چڑھ سکتا تھا اس لئے نومبر تک تو کوئی کام نہ ہو سکا۔ نومبر کے بعد کام شروع کیا اور اس طرح یہ ناممکن ہو گیا کہ اس سال تفسیر کے کام کو مکمل کیا جاسکے۔ مگر پھر بھی ۲۷۵ صفحات کا مضمون ہو گیا ہے۔ جس میں سے دو سَو سے زائد صفحات چَھپ گئے ہیں۔ کچھ مضمون کاتب کے پاس ہے اور کچھ دفتر والوں کے پاس اور اب مزید کام جلسہ کے بعد ہوگا۔ یہ حصہ پہلی جلد کی نسبت زیادہ تفصیلی ہے۔ پہلی جلد کا آخری حصہ عین جلسہ کے ایام کے قریب مکمل کیا گیا تھا اس لئے بعض مضامین کو مختصر کرنا پڑا اور بعض مضامین کی طرف صرف اشارے کر دیئے گئے۔ کل ہی میں نے ایک آیت دیکھی اس کے متعلق جو مشکلات میرے ذہن میں تھیں مجھے خیال تھا کہ ان کا حل اِس میں کر دیا گیا ہے مگر جب دیکھا تو وہاں ان کا ذکر تک نہ تھا۔ یہ مضمون جو اَب لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے یہ زیادہ تفصیلی ہے اور اس وجہ سے خیال ہے کہ ضخامت بہت بڑھ جائے گی۔ اور شاید پہلے دس پاروں کی دو کی بجائے تین جلدیں کرنی پڑیں اور دوسری جِلد کو حصہ اول اور حصہ دوم میں تقسیم کرنا پڑے تاکہ تیسری جلداپنی جگہ پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ مجلس شوریٰ تک پہلی جلد مکمل ہوسکے۔
۶۔ تفسیر کبیر
تفسیر کبیر جو چھپوائی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے بلکہ اب تو ہم بیرونی مشنوں کے لئے بعض جماعتوں سے اس کے نسخے خرید رہے ہیں کچھ حیدر آباد سے خریدے
ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے معتدبہ حصہ نے اِس کی اشاعت میں حصہ نہیں لیا۔ اس کی اشاعت میں غیر احمدیوں کا بھی کافی حصہ ہے تین ہزار میںسے پانسو سے کچھ زائد غیر احمدیوں نے خریدی ہے اور باقی اڑھائی ہزار احباب جماعت نے۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی اشاعت کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔ ہمارے دو سَو سے اوپر طلباء لاہور کے کالجوں میں پڑھتے ہیں انہیں جس طرح کا خرچ ملتا ہے اور جس طرح وہ گزارہ کرتے ہیں وہ مجھے خوب معلوم ہے کیونکہ میرے لڑکے بھی کالج میں پڑھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ ان میں سے ہر ایک اس قابل تھا کہ ذرا قربانی کرکے تفسیر خرید سکتا۔ اگر لاہور کے کالجوںکے احمدی طلباء ہی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے تو دو سَو نسخے خرید سکتے تھے اور اگر پنجاب کے سارے احمدی طلباء توجہ کرتے تو صرف کالج کے طالب علموں میں ہی تین چار سَو نسخے فروخت ہونے چاہئیں تھے اور اگر سکولوں کے سینئر طلباء کو بھی شامل کر لیا جائے تو ایک ہزار نسخے طلباء میں فروخت ہونے چاہئیں تھے۔ مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ جو نوجوان انگریزی علوم اور مغربی فلسفہ پڑھتے ہیں ان کے لئے تو قرآن کریم کا سیکھنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔ مغرب کے لغو فلسفے کی کتابیں تو عقل کو مار دینے والا زہر ہے اور اس کا تریاق قرآن کریم ہے اور جو لوگ اسے پڑھتے لیکن قرآن کریم سیکھنے سے غفلت کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص زہر تو کھائے مگر تریاق کی طرف توجہ نہ کرے اور جو والدین اپنے بچوں کے لئے تریاق کا انتظام نہیں کرتے وہ بھی سخت غفلت کرتے ہیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ دُنیوی کتابوں کا سوال ہو تو وہ سَو سَو روپیہ بھی صَرف کر دیتے ہیں لیکن دین کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ چھ روپیہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ میرے لڑکے کالجوں میں پڑھتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ کالجوں کے طلباء کی کتابوں پر بعض جماعتوں میں سَو سَو روپیہ صَرف ہوتا ہے اور دُنیوی کتابوں پر اتنے روپے خرچ کرنے کے بعد جو لوگ چھ روپیہ قرآن کریم پر خرچ نہیںکرنا چاہتے تو میں کہوں گا کہ ان کا ایمان ناقص ہے۔ ہر احمدی باپ کا فرض تھاکہ اپنی اولاد کے لئے تفسیر کبیر خریدتا۔ میں نے خود اپنی ہر لڑکی اور ہر لڑکے سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے تفسیر خریدی ہے یا نہیں اور جب تک ان سب نے نہیں خریدی مجھے اطمینان نہیں ہؤا۔ میں نے تو خود سب سے پہلے اسے خریدا اور حقِ تصنیف کے طور پر اس کا ایک بھی نسخہ لینا پسند نہیں کیا کیونکہ میں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے علم خداتعالیٰ نے دیا ہے وقت بھی اُسی نے دیا ہے اور اُسی کی توفیق سے مَیں یہ کام کرنے کے قابل ہؤا پھر میرا اِس پر کیا حق ہے اور میرے لئے یہی مناسب ہے کہ خود بھی اسے اسی طرح خریدوں جس طرح دوسرے لوگ خریدتے ہیں۔ پس ہر ماں باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد سے جو اسے پڑھنے کے قابل تھی دریافت کرتا کہ اُس نے اسے خریدا ہے یا نہیں؟ اور جس نے نہ خریدا ہوتا اس پر اظہارِ ناراضگی کرتا کہ تم زہر کھاتے ہو مگر اس کے تریاق سے غافل ہو۔ پھر مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ بعض بڑے بڑے شہروں کی جماعتوں نے بھی اِس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ میں تمام جماعتوں کی خریداری کی فہرست سنا دیتا ہوںاس سے احباب اندازہ کر سکیں گے کہ۔ َکس۔ َکس نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی ہے۔
ضلع گورداسپور ۶۰۷۔ اس میں سے قادیان میں ۵۷۲ اور باقی ضلع میں ۳۵ فروخت ہوئیں اور یہ کوئی خوشی کا مقام نہیں۔ قادیان میں ایسے تعلیم یافتہ احمدی مردوں کی تعداد جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں قریباً ایک ہزار ہے اور تعلیم یافتہ عورت مرد ملا کر ۱۵۰۰ کے قریب ایسے لوگ ہیں جو اسے خرید سکتے تھے مگر انہوں نے خریدی نہیں۔ اور یہ جو تعداد ۵۷۲ ہے یہ بھی ساری قادیان کے دوستوں نے نہیں خریدی بلکہ اس میں اڑھائی تین سَو وہ تعداد ہے جو کمیشن ایجنٹوں نے خرید کر جلسہ سالانہ کے ایام میں فروخت کی۔ اور اس حساب سے قادیان میں تین سَو کے قریب ہی ِبکی ہے۔ ضلع گورداسپور میں ۳۵ جلدیں فروخت ہوئی ہیں اور اس ضلع میں تعلیم کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بعض دوسرے ضلعوں کی نسبت سے اچھی تعداد ہے۔ دہلی۵۲ یہ بہت ہی کم ہے۔ اتنے تو وہاں احمدی ہی ایسے ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوں گے جو خرید سکتے تھے۔ میرے خیال میں کم سے کم ساٹھ ستّر وہاں کے احمدیوں کو لگنی چاہئیں تھیں۔ اور کم سے کم اتنی ہی غیر احمدیوں میں۔ پس میں جماعت دہلی کے کام کو اچھا نہیں سمجھتا۔ امرتسر ۴۶ یہ جماعت عام طور پر غرباء کی جماعت ہے اور گو شہر کے لحاظ سے زیادہ چاہیے لیکن جماعت کی حالت کے لحاظ سے یہ تعداد ایسی بُری نہیں۔ لائل پور ۵۱ دہلی لائل پور کی نسبت چار پانچ ُگنابڑا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جماعت دہلی نے غفلت کی ہے۔ ملتان ۴۹ شہر اور جماعت کی حالت کے لحاظ سے کام اچھا ہے، شیخوپورہ ۲۰، ڈیرہ غازی خاں۲۷، سرگودھا ۳۵، گجرات۳۷، سیالکوٹ۲۷، سیالکوٹ کی تعداد بہت ہی کم ہے وہاں کی جماعت میں قریباً چھ سَو مرد چندہ دینے والے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ جماعت کے اندر فروخت کی کوشش کی گئی ہے اور نہ باہر۔ ہاں ایک اور آرڈر بھی سیالکوٹ کی طرف سے آیا تھا اور چونکہ وہ چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب کی معرفت آیا تھا اس لئے شاید سیالکوٹ کی طرف منسوب نہیں ہو سکا۔ اسے بھی اگر شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد کم نہیں رہتی۔ گوجرانوالہ۱۹ ، یہ بھی بہت کم ہے۔ شہر میں وہاں اچھے تعلیم یافتہ احمدی ہیں اور اِرد گِرد بھی اچھے تعلیم یافتہ زمیندار ہیں، جہلم ۸، انبالہ ۷، جالندھر۳، جھنگ ۷، میانوالی ۴، فیروزپور ۲۰، گوڑگانواں۸، رُہتک ۱، حصار ۲، ریاست کپورتھلہ ۱، مالیرکوٹلہ۲، شملہ۲، جے پور۳، جودھ پور۳، حیدر آباد سکندر آباد ۲۴۱، مگر میرا خیال ہے یہ تعداد ۳۱۰ ہے۔ معلوم نہیں دفتر نے کس طرح غلط رپورٹ کی ہے۔ صوبہ سرحد ۷۶، مدراس ۲، بہار ۲۳، بمبئی۴، یو۔پی ۱۱ ، رام پور ۴، سی۔پی۱۴، نواں نگر ۱۰۰، لنگروال ۱، بذریعہ چوہدری ظفر اللہ خانصاحب ۵۹۶ ، برما ۲۴، عراق ۲، فلسطین ۸، جاوا سماٹرا، ۴ یہ ُکل تعداد ۲۹۰۹ ہے۔ اسے دیکھ کر دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ چاہئے تھا کہ جماعت میں ہی یہ تمام بِک کر کم سے کم ۳،۴ ہزار کا مطالبہ اَور ہوتا مگر ہؤا یہ کہ قریباً ۲۴۰۰ جماعت میں فروخت ہوئی اور باقی پانچ سَو دوسروں نے لی۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ جماعت ایسی غفلت نہ کرے گی جن جماعتوں نے اب بالکل کوشش نہیں کی وہ آئندہ کوشش کریں گی اور جنہوں نے کوشش کی ہے وہ آئندہ اَور زیادہ کوشش کریں گی۔ جماعت لاہور، دہلی، سیالکوٹ، پشاور، لکھنؤ، بھاگلپور، بنارس، شاہ جہان پور، علی گڑھ، مرادآباد، سہارن پور کی جماعتوں پر بڑی ذمہ داری ہے اور اگر یہ صحیح طور پر کام کریں تو اشاعت بہت ہو سکتی ہے۔ جب اسے چھپوانے لگے تو بعض دوستوں نے کہا تھا کہ پانچ ہزار چھپوانی چاہئے مگر میں نے اس کی اجاز ت نہ دی اور کہا کہ پہلے تین ہزار چھپوائی جائے پھر دیکھا جائے گا۔ اب دوسری جِلد بھی تین ہزار ہی چھپوائی جائے گی۔ طبع ُشدہ جلد ختم ہو چکی ہے بلکہ ہم نے خود باہر سے خریدی ہیں اور بعض دُکاندار جن کے پاس موجود ہے وہ ۸،۹ بلکہ دس دس روپیہ میں اسے فروخت کر رہے ہیں۔ اگر دوست توجہ کرتے اور یہ ِجلد زیادہ چھپوائی جاسکتی تو لوگوں کی ضرورتیں آہستہ آہستہ پوری ہوتی رہتیں اور اگر اِس کی اشاعت اچھی طرح کی جاتی تو علمی طبقہ کو سلسلہ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ ہو جاتی۔ یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے۔ ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دے سکتی ہے، باپ بیٹے کو دے سکتا ہے، بھائی بہن کو دے سکتا ہے، یہ بہترین جہیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جاسکتا ہے۔ ہماری جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے اب اتنی ہے کہ قریباً دوہزار شادیاں سال میں ہوتی ہیں۔اور ہر شادی پر لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دو سَو، چار سَو، پانسو، ہزار، دوہزار روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ کپڑے اور زیور بناتے ہیں لیکن اگر تفسیر کو بھی شادی کے موقع پر دیا جاتا تو یہ سب سے بہتر تحفہ، بہتر جہیز اور بہتر بَری ہوتی۔ کپڑے پھٹ جاتے ہیں، زیور ِگھس جاتے یا ُگم ہو جاتے ہیں مگر قرآن کریم کی تفسیر ایسا تحفہ، ایساجہیز اور ایسی َبری تھی جو ہمیشہ کام آنے والی ہے اور اِس طرح قریباً تین چار ہزار ِجلدیں صرف اس طرح لگ سکتی تھیں مگر افسوس ہے کہ دوستوں نے اس طرف توجہ نہیں کی اور اس کی اشاعت کے لئے وہ کوشش نہیں کی جو چاہئے تھی اور مجھے امید ہے کہ آئندہ ایسی کوتاہی نہ کی جائی گی۔
۷۔ انگریزی ترجمہ و تفسیر قرآن
اب میں انگریزی ترجمہ و تفسیر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ترجمہ و تفسیر خداتعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکے
ہیں اور اب ان کے چھپوانے کا سوال ہے۔ ہم غور کر رہے ہیں کہ اسے ابھی چھپوائیں یا نہیں۔ کاغذ بے حد گراں ہے بلکہ اس کا ملنا مشکل ہو رہا ہے قیمت اب قریباً چار ُگنا زیادہ ہو گئی ہے۔ جو کاغذ پہلے پانچ روپے رِم ملتا تھا وہ اب بیس روپیہ میں ملتا ہے۔ اگر اب اسے چھاپا جائے اور اس کا حجم مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر سے دُگنا بھی ہو تو چونکہ ان کی تفسیر کی قیمت پچیس روپے ہؤا کرتی تھی۔ کاغذ کی گرانی کی وجہ سے اس کی قیمت پچاس ساٹھ روپیہ سے کم نہ رکھی جا سکے گی اور یہ اتنی زیادہ قیمت ہے کہ اس پر تفسیر خریدنا ُبہتوں کے لئے مشکل ہوگا۔ پھر اِس وقت انگلستان میں چھپوانے کے لئے کسی کا وہاں جانا بھی مشکل ہے اور اگر ہندوستان میں چھپوایا جائے تو یہاں کا چھپا ہؤا یورپ میں بِک نہیں سکتا۔ تجربہ کار لوگ صرف کتاب کی شکل دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ ہندوستان کی چھپی ہوئی کتاب ہے اور اسے خریدنا پسند نہیں کرتے کیونکہ ہندوستان کی چھپوائی بہت ادنیٰ ہوتی ہے۔ پس یہ کام تو مکمل ہو چکا ہے مگر اس کی طباعت کی راہ میں یہ دقتیں ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ اس سال مجلس شوریٰ کے موقع پر اس سوال کو پیش کیا جائے کہ آیا اسے ان حالات میں چھپوایا جائے یا جنگ کے اختتام تک انتظار کیا جائے۔
۸۔ تفسیر کبیر کی مخالفت
تفسیر کبیر کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا ہے اور بعض لوگ اس سے گہرے طور پر متأثر ہوئے ہیں اور سب سے بڑی چیز
تو یہ ہے کہ یہ خداتعالیٰ کے حضور مقبول ہو چکی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن نے اس کی مخالفت شر وع کر دی ہے۔ حضرت خلیفۂ اول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ نے ایک کام بڑی نیک نیتی کے ساتھ کیا اور وہ اس پر بہت خوش تھے کہ اس کی توفیق ملی مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ آپ سے ملے اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے میری نیت میں ضرور کوئی خرابی تھی کیونکہ میرا یہ کام خداتعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہؤا۔ میں نے کہا کہ آپ کی تحریک تو کامیاب ہوئی ہے بہت سے لوگ ممبر بھی ہو گئے ہیں چندہ بھی آنے لگا ہے پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ مقبول نہیں ہؤا۔ اس بزرگ نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ کے ہاں کسی نیک کام کی قبولیت کا ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس میں مدد کرنے لگیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہاں مقبول عمل وہ ہوتا ہے جس کی لوگ مخالفت کریں اور چونکہ میرے اِس کام کی مخالفت کسی نے نہیں کی اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہؤا اور اس پر وہ بہت افسردہ تھے مگر کچھ دنوں کے بعد ملے تو بہت خوش تھے چہرہ بشاش تھا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا کہ دیکھو یہ گالیوں کا خط آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کا مقابلہ شیطان ضرور کرتا ہے اور اس کے کام کے لئے جو آدمی مقرر ہوتے ہیں وہ خواہ علماء سے ہوں یا رؤساء میں سے اور خواہ عام لوگوں میں سے وہ ضرور اپنا کام کرتے ہیں چنانچہ اس تفسیر پر مولوی ثناء اللہ صاحبنے بھی اعتراض کئے ہیں اور بہت غصہ کا اظہار کیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے تفسیر بِالرائے لکھی ہے اور پھر اس کے جواب کی ضرورت اِس قدر محسوس کی ہے کہ لکھا ہے کہ میں تفسیر کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا کیونکہ ممکن ہے اُس وقت تک مر ہی جائوں اس لئے ابھی سے اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہوں۔ چنانچہ ایک رسالہ چند اعتراضات پر مبنی شائع بھی کیا ہے۔ پیغامیوں کی طرف سے بھی اِس کی مخالفت شروع ہے اور ایک پیغامی مبلغنے تو یہاں تک کہا ہے کہ میں اپنی عاقبت کی درستی کے لئے اِس تفسیر کا جواب لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ دشمن کو یہ تفسیر بہت ُچبھی ہے خصوصاً پیغامی صاحبان کے لئے تو یہ بے حد تکلیف اور اذیت کا موجب ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے تفسیر کو خاص طور پر جلبِ زر کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ جب ضرورت ہوتی تحریک شروع کر دیتے کہ فلاں جگہ اتنی جِلدوں کی ضرورت ہے، فلاں ملک میں ایک ہزار جِلد بھجوائی جانی چاہئے اور اس طرح فروخت کرکے اس میں سے اپنا حصہ حاصل کر لیتے ہیں اس لئے ان کو خاص طور پر دکھ ہؤا ہے یہ نبوت وغیرہ کے مسائل اور تقریریں کرنے کے جو سوال اُٹھائے جا رہے ہیں یہ دراصل تفسیر ہی کی جلن کا اظہارہے۔ حال ہی میں مجھے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ان کے ایک مصنف نے اپنی انجمن کو لکھا ہے کہ اب کمیشن کی آمد بہت کم ہو گئی ہے اس لئے یا تو ۲؍۴۱سو روپیہ ماہوار رقم کا انتظام کیا جائے اور یا پھر اتنی رقم مجھے قرض ہی دے دی جایا کرے گویا ان کی آمد پر اس کا اثر پڑا ہے اور اِس وجہ سے وہ چیخ اُٹھے ہیں۔ یہ مقابلہ جواَب ان کی طرف سے شروع ہؤا ہے یہ دراصل تفسیر کا ہے نبوت وغیرہ کا نہیں۔ بہرحال ان گالیوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ دراصل یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ کام خداتعالیٰ نے قبول فرمالیاہے۔ مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو شائع ہوئے بہت عرصہ ہوچکا اور ہماری جماعت کے دوست بھی ِحسب ضرورت اسے خریدتے رہے ہیں۔ کئی دفعہ بعض علاقوں کے احمدیوں نے مجھ سے پوچھا کہ کونسی انگریزی تفسیر خریدیں؟ تو میں نے ان کو کہا کہ سرِدست مولوی صاحب کی تفسیر خرید لیں۔ لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ ابھی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے اور وہ مخالفت پر کھڑے ہو گئے ہیں۔
۹۔ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مخالفت
اسی جوش میں مولوی محمد علی صاحب نے لکھا کہ میں اپنی جماعت کو ان کے
خیالات سننے سے روکتا ہوں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ میں بیس سال پہلے یہ جواب دے چکا ہوں کہ میں کسی کو ان کے یا کسی اور کے خیالات سننے سے نہیں روکتا۔ جب شیخ مصری کا فتنہ شروع ہؤا تو اُس وقت بھی میں نے ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ کسی کو ان کے اشتہارات وغیرہ پڑھنے سے روکنے کی ضرورت نہیں جو پڑھتا ہے اسے پڑھنے دو۔ ہماری جماعت کے لوگ کوئی بچے ہیں جو ہم اُنہیں اُنگلیوں سے لگائے پھریں؟ اور پھر ان کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ ہماری جماعت کے دوست ان کے خیالات سے ناواقف ہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ لاہور کا ایک اٹھارہ سالہ نوجوان ان کے ایسے اچھے جواب لکھ رہا ہے وہ پڑھتا ہی ہے تو جواب لکھتا ہے ورنہ کیسے لکھ سکتا ۔ اسی طرح اور دوست بھی پڑھتے ہیں ان کی طرف سے ایسی باتیں محض ہماری توجہ کو دوسری طرف پھیرنے کا بہانہ ہے وہ بار بار کہتے ہیں کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کی باتیں سننے سے روکتا ہوں کَلکی رپورٹ کے مطابق یہاں ۲۳ ہزار مہمان آئے ہوئے ہیں اِس وقت اس سے زیادہ ہوں گے کیونکہ بہت سے دیہات سے بھی آجاتے ہیں، عورتیں ان سے علاوہ ہیں۔ ُکل عورت مرد ملاکر تیس ہزار کے قریب مجمع ہوگا۔ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے ظاہر میں یا باطن میں ُکھلے لفظوں یا اشارہ میں اسے پیغامیوں کا لٹریچر پڑھنے سے روکا ہو؟ (ہر طرف سے آوازیں آئیں کہ ہر گز نہیں) یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو مولوی محمد علی صاحب نے بولا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کے غلط ہونے کا ہر ایک شخص کو پتہ ہے ۔ میری تقریریں اور خطبے سب شائع ہوتے ہیں کیا ان میں سے کوئی ایسا فقرہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں مَیں نے پیغامیوں کا لٹریچر نہ پڑھنے کی ہدایتکی ہو۔ میں تو اپنے بیوی بچوں تک کو بائیبل وغیرہ دوسرے مذاہب کی کتب پڑھنے کے لئے دیتا ہوں پھر میں ان کا لٹریچر پڑھنے سے کیسے روک سکتا ہوں۔ مخالف کا لٹریچر پڑھنے سے جبکہ ایسا کرنے میں کوئی لغو یا فضول بات نہ ہو تو وہی روک سکتا ہے جو دوسرے کے دلائل سے خائف ہو۔ اور جو مذہب دوسرے کے دلائل سے ڈرتا ہو وہ کیسا مذہب ہے اور وہ کس طرح سچا ہو سکتا ہے؟ ہم تو خداتعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردہیں اور کونے کا ایسا پتھر ہیں کہ جو ہم پر گِرے وہ بھی چِکنا ُچور ہو جائے گا اور جس پر ہم گریں گے وہ بھی چِکنا ُچور ہو جائے گا۔ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ طاقت دی ہے کہ جو ہمیں اپنی باتیں سنانے آئے گا وہ بھی ہمارا شکار ہو جائے گا اور جسے ہم اپنی سنائیں گے وہ بھی ہمارا شکار ہو گا۔ پس یہ الزام بالکل غلط ہے کہ پیغامیوں کا لٹریچر پڑھنے سے کسی کو روکا ہو میں نے کبھی کسی کو نہیں روکا اور اب پھر اس اعلان کو دُہراتا ہوں کہ ہر شخص آزاد ہے جو کوئی ان کا لٹریچر پڑھنا چاہے بے شک پڑھے بلکہ اگر اسے صداقت نظر آئے تو اسے قبول کرے اور اس صورت میں اس کا فرض ہے کہ قبول کرے۔ سچائی ہی ہے جو انسان کی نجات کا موجب ہو سکتی ہے۔ قیامت کے دن میں کسی کے کام نہ آسکوں گا۔ اگر دین کے معاملہ میں کوئی شخص میری خاطر صداقت کو چھوڑتاہے تو سخت غلطی کرتا ہے۔
پس میں یہ کہہ کر َبری ہوتا ہوں کہ جسے جہاں صداقت نظر آئے اسے قبول کرے اور اگر سب لوگ بھی مجھ سے الگ ہو جائیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اگر جو میں کہتا ہوں وہ سچ نہیں تو چاہے مجھ سے اختلاف کرنا پڑے سب کا فرض ہے کہ سچ کو قبول کریں اور یہ کہہ کر میں خداتعالیٰ کے حضور َبری ہوتا ہوں ۔ مجھے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفات پائی تو کسی نے کہا کہ پیشگوئی غلط نکلی۔ میرے کان میں یہ بات پڑی میری عمر اُس وقت صرف انیس برس تھی۔ میں سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے سرہانے پہنچا اور وہاں کھڑے ہو کر خداتعالیٰ سے اقرار کیا کہ اگر ساری جماعت بھی احمدیت کو چھوڑ جائے تو بھی میں اکیلا دنیا میں اس کی اشاعت کروں گا اور اس کام کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔ پس مجھے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیںجب میں خلیفہ ہؤا اور یہ لوگ قادیان کو چھوڑ کر چلے گئے اُس وقت خزانہ میں صرف اٹھارہ روپے تھے اور یہ حالت تھی کہ اشتہار تک چھاپنے کے لئے پیسے نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کرے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی انہوں نے دار الضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا ہؤا تھا، جب انہیں معلوم ہؤا کہ خزانہ خالی ہے اور اشتہارات چھاپنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں تو وہ پانسو روپیہ لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ بطور قرض لے لیں اور کام شروع کریں۔ جب خداتعالیٰ بھیجے گا تو واپس کر دیں تو یہ حالت تھی جب یہ لوگ چھوڑ کر گئے ہیں مگر آج خداتعالیٰ کے فضل سے وہی حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر میں اپنی بیان کی ہے فرمایا:-
لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیُوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ ۳؎
یعنی ایک زمانہ تھا کہ میں دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر گزارہ کرتا تھا مگر آج خداتعالیٰ خاندانوں کے خاندان میرے ذریعہ پال رہا ہے۔
یہی حالت آج خدا کے فضل سے ہماری ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے پاس اشتہار کے لئے بھی پیسے نہ تھے خزانہ میں صرف ۱۸ روپے تھے اور ہزاروں روپیہ کا قرض تھا۔ مگر آج سینکڑوں خاندانوں کی پرورش اللہ تعالیٰ کر رہا ہے۔ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ لوگ مجھے دیئے اور ایسے ایسے لوگ میری بیعت میں داخل کئے کہ اس زمانہ میں اس کی مثال اور کہیں پائی نہیں جاتی۔ پھر میں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ میری جماعت کے لوگوں کا مولوی محمد علی صاحب کی تقریر سننا میرے لئے خطرہ کا موجب ہوگا۔ مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی کے آباء اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہوں مگر میری والدہ، نانا، بڑے بھائی، ماموں سب نے میری بیعت کی ہے۔ پھر اُستادوں نے کی، میرے وہ اُستاد جن سے میں قرآن کریم، حدیث، انگریزی، عربی پڑھتا رہا ہوں وہ میری بیعت میں شامل ہوئے اور یہ کسی انسان کا کام نہیں مجھ میں یہ ہمت کہاں تھی کہ میں ان سب کو اپنامرید کر سکتا اور میں یہ کب ُجرأت کر سکتا تھا کہ دنیا کے سامنے کھڑا ہوں جب کہ نہ میری کوئی تعلیم تھی اور نہ لیاقت۔ جب میں پڑھتا تھا تو استاد اور طالب علم سب ہنسی اُڑاتے تھے کہ یہ پڑھائی میں نہایت کمزور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو میری بیعت میں شامل کر دیا۔ پھرجب میں خلیفہ ہؤا تو سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میرے سارے ہی آباء زندہ تھے۔ یعنی والدہ، نانا، نانی، ماموں، ُخسر، تائی، بڑے بھائی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے میری بیعت میں شامل کر دیا۔ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو بعض لوگ تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ جب ان کی سمجھ میں بات آگئی تو انہوں نے کہا کہ اب اور تو کوئی روک نہیں صرف شرم آتی ہے کہ چھوٹے بھائی کی بیعت کروں اور چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں ہاتھ دوں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں تو لاہور والوں کی جماعت میں ہی شامل ہو جائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہاں تو میں شامل نہیں ہوتا یہ کڑوا گھونٹ پی لوں گا۔ آخر وہ بیعت پر آمادہ ہوئے اب بتائو جس شخص پر اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل ہوں۔ وہ کسی انسان سے کب ڈر سکتا ہے۔ پیغامی کہتے ہیں کہ رُعب میں آگئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کون رُعب میں آگیا اور کس کے رُعب میں آگیا۔ ماں، نانا، نانی، ماموں ، خسر استاد سب رُعب میں آگئے۔ کیا والدہ ڈرتی تھیں کہ میرا بیٹا ہے اگر میں نے بیعت نہ کی تو پتہ نہیںکیا کرے گا؟ کیا نانا نانی اپنے نواسے سے ڈرتے تھے؟ کیا استاد رُعب میں آگئے کہ ہمارا شاگرد ہے معلوم نہیں کس کس رنگ میں ہمارے علم کی پردہ دری کرے؟ آخر سوچنا چاہئے کہ یہ سب کس طرح میرے رُعب میں آسکتے تھے اور مجھ سے ڈرنے کی وجہ کیا ہو سکتی تھی۔ اگر ان حالات میں بھی میرا کوئی رُعب تھا تو پھر وہی بات تھی جیسے موسیٰ علیہ السلام نے آگ کی چنگاری دیکھی۔ وہ بظاہر تو آگ نظر آتی تھی مگر جس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھائی اس میں خدا کا جلوہ اُسے نظر آیا اور وہ وہیں گھائل ہو گیا۔ دیکھو میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی کوشش کی۔ انہوں نے لکھاکہ میں ان کا مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع کرا دوں اور وہ میرا مضمون ’’پیغامِ صلح‘‘ میں شائع کرا دیں گے اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ وہ میرا جواب کبھی اپنے اخبار میں شائع نہ کریںگے لیکن میں نے ان کا مضمون ’’الفضل‘‘ میں شائع کرا دیا۔ پھر میں نے ان کو یہ دعوت بھی دے دی کہ جلسہ سالانہ کے سِوا عام دنوں میں وہ یہاں آکر تقریریں کر لیں۔ میں مقامی دوستوں کو جمع کر دوں گا اور باہر بھی یہ اعلان کرا دوں گا کہ جو دوست آسکیں آجائیں۔ مگر انہوں نے اصرار شروع کر دیا کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریریں کرنے دی جائیں۔ مضامین کے شائع ہونے کے متعلق اس خیال سے کہ لمبے مضامین کا اخبارات میں شائع کرنا شاید نامناسب ہو میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ میرے اور ان کے مضامین اکٹھے شائع ہو جائیں اور لکھا کہ دو حصے خرچ کے مَیں دے دوں گا اور ایک حصہ وہ دے دیں اور پھر خرچ کے مطابق کتابیں بانٹ لیں لیکن اس کو بھی انہوں نے قبول نہ کیا اور ُعذر یہ کیا کہ اخبارات میں اس قدر لمبے مضامین شائع نہیں ہو سکتے حالانکہ میری دوسری تجویزکتابی صورت میں شائع کرنے کی موجود تھی اگر سچ کا اظہار مقصود ہو تو پھر مضمون کے لمبا اور چھوٹا ہونے کا سوال ہی کیا ہے۔ جب میں نے خرچ دو حصے دینا ہے تو کیا میں پاگل ہوں کہ خواہ مخواہ طُول دوں اور بِلا ضرورت مضمون کو لمبا کروں اور اس طرح اپنا خرچ زیادہ کرائوں۔ وہ کہتے ہیں مضامین کے الفاظ کی تعداد معیّن ہونی چاہئے۔ لیکن اگر اتنے الفاظ کے استعمال سے صداقت پوری طرح ظاہر نہ ہو سکے تو پھر فائدہ کیا؟ مقصد تو صداقت کا اظہار کرنا ہے۔ وہ بھی جتنے صفحات چاہیں لکھیں خواہ پچاس ہزار لکھیں اور میں بھی جتنے ضروری سمجھوں لکھوں ان کو کیا ڈر ہے اگر میرا مضمون زیادہ لمبا ہو گا تو وقت اور روپیہ کا خرچ بھی تو میرا ہی بڑھے گا کیونکہ میں نے دو حصے دینے ہیں اور انہوں نے ایک۔ میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ان کو دعوت دی تھی کہ قادیان میں آکر لیکچر دے لیںمگر ان کا اصرار ہے کہ جلسہ کے دنوں میں ان کو موقع دیا جائے حالانکہ جلسہ کے موقع پر جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ ان کی تقریریں سننے کے لئے اتنا خرچ نہیں کرتے۔ اس سال جلسہ پر آنے میں بہت سی مجبوریاں تھیں مگر پھر بھی سوائے آخری کونوں کی تھوڑی تھوڑی جگہ کے سب جلسہ گاہ بھری ہوئی ہے۔ حالانکہ اسے ۲؍۴۱ فٹ بڑھایا گیا تھا۔ جو بلی کے موقع پر اسے بہت بڑھا دیا گیا تھا اور امید تھی کہ شاید یہ بہت دیر تک کافی ہوگی مگر اس سال پھر بڑھائی گئی اور آج آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ بھی سوائے کِناروں پر چند فٹ جگہ کے سب بھری ہوئی ہے۔ پس اتنی کثیر تعداد میں اتنا خرچ کرکے اور تکلیف اُٹھا کر جو لوگ یہاں آئے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں مولوی محمد علی صاحب کو خوش کرنے کے لئے ان سب کو ان کے مقاصد سے محروم کر دیتا۔ تاہم میں نے کہہ دیا کہ اگر وہ جلسہ پر ہی تقریر کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کی خاطر جلسے کے دو دن بڑھا دیں گے مگر یہ چونکہ ان کی خاطر بڑھائے جائیں گے۔ اس لئے ان دو دِنوں کا خرچ وہ دے دیں مگر وہ یہ بھی نہیں مانتے۔ غرض جس رنگ میں بھی ان کے ساتھ انصاف سے سلوک کیا جا سکتا تھا میں نے کر دیا اور آج پھر اس بات کو واضح کرنے کے لئے میں اسے جماعت کے سامنے پیش کرتا ہوں اگر آپ لوگ جلسہ کے موقع پر ان کی تقریریں سننا چاہتے ہیں تو بتا دیں میں َکل کا دن انہیں دے سکتا ہوں اور ابھی تار دے کر ان کو بُلا لیتا ہوں (اس پر سب احباب نے متفقہ طور پر کہا کہ ہم ان کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔)
اور اگر جماعت سننا نہیں چاہتی تو ہم نے کونسا ان کا قرض دینا ہے کہ ان کو ضرور موقع دیں۔ اور اس طرح سال میں تین دن قادیان میں گزارنے اور میری اور سلسلہ کے علماء کی تقریریں سننے کا جو موقع دوستوں کو ملتا ہے وہ انکی نذر کر دیں۔
مولوی محمد علی صاحب ہم سے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ان کو تقریریں کرنے کا موقع دیں لیکن اپنی وُسعت قلبی کا یہ حال ہے کہ جب ’’الفضل‘‘ میں میرا مضمون ان کے مضمون کے جواب میں شائع ہؤا تو میں ڈلہوذی میںتھا۔ میں نے ’’الفضل‘‘ کا وہ پرچہ دے کر عزیزم خلیل احمد صاحب ناصر بی۔اے اور ایک نوجوان کو بھیجا کہ جاکر مولوی صاحب کے لڑکے کو دے آئیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ نہیں لے گا۔ وہ لے کر گئے تو اس نے پرچہ لینے سے انکار کر دیا تو اپنے بیٹے کے اخلاق تو یہ ہیں کہ اخبار کا پرچہ تک لینے سے انکار کر دیا مگر خود شور مچا رہے ہیں کہ میں ان کے خیالات سننے سے اپنی جماعت کے لوگوں کو روکتا ہوں۔
ایک اور بداخلاقیمولوی صاحب نے یہ دکھائی ہے کہ قادیان کی جماعت کے متعلق لکھا ہے کہ میں اپنے خیالات ان کو تو سنانا نہیں چاہتا بلکہ باہر کے لوگوں کو سنانا چاہتا ہوں اور لکھا ہے:-
’’ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے۔ وہ تو ان کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں جن کی ضروریات ان سے وابستہ ہیں۔ جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے بیرونی لوگ جو جلسہ پر آتے ہیں اصلی جماعت وہ ہیں۔‘‘
یہ وہی چالاکی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے میں مہاجرین اور انصار کو باہم لڑانے کے لئیمنافقین کیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب نے سمجھا کہ یہ جماعت بیوقوف ہے۔ جب میں کہوں گا کہ قادیان کی جماعت تو اصل جماعت نہیں تو باہر والے خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ مولوی صاحب نے ہماری تو تعریف کر دی ہے لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے اِس دھوکے میں آنے والی نہیں اور ہمارے دوست انہیں خوب سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے ؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم
یعنی تم خواہ کسی قسم کا لباس پہن کر آئو میں چال سے اور قد کے اندازے سے سمجھ جاتا ہوں کہ کون ہو۔ جماعت کو دھوکا لگنے کی کوئی وجہ نہ تھی مگر دیکھو کہ مولوی صاحب کے الفاظ کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے منافقین سے ملتے ہیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کے الفاظ قرآن کریم نے نقل کئے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا۔۴؎ یعنی اے انصار! اصل جماعت تو تم ہو۔ تم ان مہاجرین پر روپیہ خرچ کرنا بند کر دو پھر دیکھو یہ کس طرح بھاگ جاتے ہیں۔ یہ تو اصل جماعت نہیں یہ تو صرف روٹیاں کھانے والے لوگ ہیں۔ تو مولوی محمد علی صاحب کے یہ الفاظ بعینہٖ اس آیت کا ترجمہ ہیں۔ مولوی صاحب کے یہ الفاظ جب شائع ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کے لئے جلسہ کرنا چاہا اور مجھ سے اس کے لئے اجازت طلب کی مگر میں نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ یہ حملہ تم پر ہؤا ہے پس یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ تم ہی اس کا جواب بھی دو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ مؤمن بھائی بھائی ہوتے ہیں جب ایک پر حملہ ہو تو دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے۔۵؎ اِس وقت باہر کی جماعتوں کے اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو جواب دیں اور تم چپ رہو۔ ہاں جب ان پر حملہ ہو تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ جواب دو۔ مجھ پر مصری پارٹی نے اعتراض کئے تھے بعض لوگوں نے مجھے کہا بھی کہ آپ ان کا تفصیلی جواب دیں مگر میں نے کہا یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ میں خود ہر امر کا جواب دوں۔ بعض اعتراضات ایسے ہیں کہ ان کا جواب ان کے ذمہ ہے جو مجھ سے عقیدت رکھتے ہیں میرا کام نہیں۔ اسی طرح اس موقع پر میں نے یہاں کے دوستوں کو خود جواب دینے سے روکا اور کہا کہ یہ باہر کی جماعتوں کا کام ہے کہ اس اعتراض کا جواب دیں۔ چنانچہ باہر کی بعض جماعتوں نے اِس کا جواب دیا اور ریزولیوشن پاس کرکے قادیان کی جماعت کی فضیلت کا اقرار کیا۔ اس سلسلہ میں انبالہ کی جماعت اول نمبر پر آئی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے فرض کو محسوس کیا اور تار دیا کہ وہ مولوی صاحب کے اس حملہ کو بُری نظر سے دیکھتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں مجوکہ کے ایک دوست کا بھی جواب ’’الفضل‘‘ میں شائع ہؤا ہے اور اس نے حقیقی مؤمنانہ جذبہ دکھایا اور نہایت معقول رنگ میں جواب دیا ہے۔ اس نے لکھا کہ:-
’’مولوی محمد علی صاحب اِس بات پر مصر ہیں کہ میں باہر کی جماعتوں کو اپنی تقریر سنانا چاہتا ہوں۔ ان کے دل میں یہ وہم ہے کہ باہر کے لوگ چونکہ عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہے قادیانی جماعت کا ساتھ چھوڑ دیں۔ مگر مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں موضع مجوکہ ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں اس علاقہ کی جماعتیں آپ کے عقیدہ سے خوب واقف ہیں۔ میں ان جماعتوں کے متعلق َقسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہونے لگے تو بھی وہ ہرگز ہرگز حضرت امیر المؤمنین کا پاک دامن چھوڑنے والی نہیں۔‘‘
یہ جواب ہے تو بہت سادہ مگر ایمان کا نہایت عمدہ مظاہرہ ہے۔
۱۰۔ جنگ کے متعلق کچھ
اِس کے بعد میں جنگ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں یہ جنگ نہایت خطرناک ہے
اور ہماری تبلیغ پر بھی اِس کا خطرناک اثر پڑنے والا ہے۔ جنگ سے پہلے ہمارے ّ مبلغ آزادانہ طور پر ہر جگہ آجا سکتے تھے۔ یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ، انگلستان، جاپان، چین، جاوا، سماٹرا، مصر، گولڈکوسٹ، سیرالیون غرضیکہ ہر ملک میں جانے کی آزادی تھی اور وہ بِلا روک ٹوک ہر ملک میں آجاسکتے تھے۔ مگر جنگ کا پہلا اثر تو یہ ہؤا کہ اب مبلغین کی آمد و رفت میں رُکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ اول تو پاسپورٹ ہی نہیں ملتا، پھر جہاز نہیں ملتے، بلکہ خطرناک حالات کی وجہ سے ہمیں بعض جگہوں سے اپنے پہلے ّ مبلغ بھی ہٹانے پڑے ہیں۔ چین کی حکومت نے تو ہمارے مبلّغ کو نکال ہی دیا تھا، جاپان سے بھی واپس بُلانا پڑا،مولوی محمد دین صاحب کو بھی واپس آنا پڑا، اٹلی کے ّمبلغ کو گو ہم تو فارغ کر چکے تھے، مگر وہ ابھی واپس نہ آیا تھا کہ اٹلی جنگ میں شریک ہو گیا اور اب وہ وہاں قید ہے۔ مولوی عبدالغفور صاحب اور محمد اسحاق صاحب کو بھی واپس آنا پڑا۔ باقی جو ممالک ہیں ان میں اپنے مبلغین کو ہم کوئی مدد نہیں بھیج سکتے اور ایک تبلیغی جماعت کے لئے یہ صورت جس قدر خطرناک ہے وہ ظاہر ہے اس لئے ہر احمدی کو پورے جوش اور درد سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کو جلد بند کرے تا ہمارے لئے تبلیغ کے رستے کُھل جائیں۔
اِس وقت جو ّمبلغ باہر موجود ہیں ان کی طرف سے خطوط بھی بہت دیر میں مل سکتے ہیں۔ چار چار ،پانچ پانچ ماہ بعد خط ملتا ہے اور ہوائی ڈاک کے خطوط بعض اوقات دو دو ماہ بعد ملتے ہیں۔ مولوی جلال الدین صاحب شمس نے ہوائی ڈاک میں خط بھیجا جودو ماہ بعد مجھے ملا۔ دوسری ڈاک کا تو ذکر ہی کیا ہے وہ تو بعض اوقات چھ چھ سات سات ماہ بعد ملتے ہیں۔ اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر خدانخواستہ ان میں سے کسی پر کوئی مصیبت آئے تو نہ ہم کو ان کی خبر مل سکتی ہے اور نہ انہیں ہماری۔ پھر یہ بھی کوئی کم نقصان نہیں کہ قرآن کریم کا ترجمہ جو مکمل ہو چکا ہے اس جنگ کی وجہ سے اب ہم اسے چھپوا نہیں سکتے۔ البتہ فائدہ کا ایک پہلو یہ مجھے نظر آتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ موقع دے اور رستہ مل جائے تو میرا ارادہ ہے کہ شمسؔ صاحب کو اس کی ایک کاپی بھیج دوں۔ اِس وقت مختلف ممالک سے بھاگے ہوئے ہزاروں لوگ لنڈن میں پناہ گزین ہیں اور ان میں بعض بڑے بڑے قابل لوگ بھی ہیں۔ شاعر ہیں، ادیب ہیں، ایڈیٹر ہیں، اور وہ تھوڑے تھوڑے گزارے لے کر بعض چھوٹے چھوٹے کام بھی بسرِ اوقات کے لئے کر رہے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ اگر ہو سکے تو ان ایام میں یورپ کی مختلف زبانوں مثلاً جرمنی، فرانسیسی، اطالوی وغیرہ میں بھی ترجمہ کرا لیا جائے تو جنگ کے اختتام پر چھپ سکتا ہے۔ اِس وقت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت میں روک پیدا ہو جانا کتنا بڑا نقصان ہے۔ جو شخص اس کام کی اہمیت کو سمجھتا ہے وہ بخوبی اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔ خود مجھ پر یہ بہت بڑا بوجھ ہے اور سخت گراں گزر رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ایک سکیم بنائی تھی اور سالہا سال کی محنت کے بعد یہ کام ختم ہؤا اور اب اگر میں (خدانخواستہ) مر جائوں تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس عمارت کی بنیاد مَیں نے رکھی اور اس کی دیواریں کھڑی کیںاسے چھت تک نہ پہنچا سکا۔
دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ یہ جنگ اب ہندوستان کے کناروں تکآگئی ہے۔ پہلے تو جرمن مشرق کی طرف بڑھ رہے تھے وہ تو روس میں رُک گئے مگر ادھر سے جاپان نے جنگ شروع کر دی ہے۔ رنگون پر بمباری ہو چکی ہے اور وہاں سے چند سو میل کے فاصلہ پر ہی ہندوستان ہے اور جاپانی اب بھی اگر چاہیں تو ہندوستان کے شہروں پر بمباری کر سکتے ہیں۔ اور آجکل کی بمباری بھی نہایت خطرناک ہے۔ ہمارے بعض دوستوں نے ملایا میں بمباری دیکھی ہے ان کا بیان ہے کہ بمباری کیا ہے گویا ایک جہنم کا دروازہ کُھل گیاہے۔امریکہ کتنی بڑی طاقت تھی مگر جاپان نے یک دم حملہ کرکے اس کے بیڑے کو سخت نقصان پہنچا دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو طاقت امریکہ جیسی بڑی بڑی حکومتوں کو اس طرح نقصان پہنچا سکتی ہے اُس کا مقابلہ ہندوستانی کیا کر سکتے ہیں۔ اب لڑائی اتنی قریب آگئی ہے کہ پانچ چھ دن میں موٹروں اور ٹینکوں کی لڑائی کلکتہ میں پہنچ سکتی ہے۔ ہندوستان کی آبادی بے شک بڑی ہے اور بعض کانگرسی یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر تمام ہندوستانی پیشاب کریں تو انگریز اس میں بہہ جائیں مگر یہ سب باتیں ہیں مقابلہ صرف وہ قوم کر سکتی ہے جو ہتھیاررکھتی اور انہیں چلانا جانتی ہے اور دلیر اور بہادر بھی ہو۔ جس قوم اور ملک کی آبادی کا کثیر حصہ ُبزدل، غیر مسلح اور بے ہُنر ہو چکا ہو وہ کیا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہندوستان میں بہت تھوڑی قومیں ہیں جو لڑ سکتی ہیں۔ پنجاب، صوبہ سرحد اور یوپی کی بعض قومیں ہیں جو لڑ سکتی ہیں۔ باقی بہار، بنگال اور یوپی کی باقی قومیں اور سی پی وغیرہ کے لوگ تو سب کشمیری ٹائپ کے ہیںاور لڑائی کے قابل نہیں ہیں۔ کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا اور قوموں میں بہادری صرف فوجی ملکہ کی وجہ سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ آج کشمیری ُبزدل سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان میں فوجی ملکہ نہیں رہا لیکن کسی وقت یہی قوم اتنی بہادر تھی کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر جتنے حملے کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دونوں وہی تھے جو کشمیر پر کئے گئے۔ گویا کسی زمانہ میں اس قوم نے وہ کام کیا جو ہندوستان بھر میں کوئی اور قوم نہ کر سکی تھی لیکن آہستہ آہستہ جب اسے جنگی کاموں سے الگ کر دیا گیا اور اس میں فوجی ملکہ نہ رہا تو یہی ُبزدل ہو گئی اور آج یہ حالت ہے کہ اگر کوئی پنجابی کوئی ُبزدلی کا کام کرے تو کہتے ہیں چل کشمیری۔ تو قوموں میں جب فوجی ملکہ نہیں رہتا تو وہ ُبزدل ہو جاتی ہیں۔
عربوں نے ایک زمانہ میں کتنا کام کیا تھا مگر اب ان میں وہ بہادری نہیں۔ اب کہتے ہیں کہ عرب بڑا لڑنے والا ہے مگر جب تک خون نہ بہے اور وہ لڑائی کونسی ہے جس میں خون نہ بہے۔ پہلے یہی عرب کس طرح تلواروں سے کھیلتے تھے مگر اب خون کا بہنا بھی نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح ہم ہندوستانی بھی بدقسمتی سے ایک ایسے نظام کے نیچے آگئے کہ ہمارے حاکموں نے اِس بات کی اہمیت کو نہ سمجھا اور ہندوستانیوں کو فوجی معاملات سے علیحدہ رکھا اور یہی چیز آج ان کے لئے وبال بن رہی ہے۔ پہلے تو ان کو خیال تھا کہ اگر ہندوستانیوں نے جنگی فنون سیکھ لئے تو بغاوت کر دیں گے مگر آج ان کے دل حسرت کے ساتھ اپنی غلطی کو محسوس کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو فوجی فنون سے واقفیت ہوتی تو ہمارے کام آسکتے۔ چین کی آبادی زیادہ ہے اور وہ جنگی فنون سے واقف ہیں اِس لئے اُس نے جاپان کے دانت کھٹے کر دیئے ہیں۔ اس کی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ دشمن ایک لاکھ مار دے گا، دو لاکھ، چار لاکھ، دس لاکھ مار دے گا آخر کتنے مارے گا اس کی آبادی چونکہ زیادہ ہے اس لئے وہ اور فوج میدان میں لے آتے ہیں۔ تو اگر انگریزوں نے ہندوستانیوں کو بھی جنگ سے واقف کیا ہوتا تو جاپان حملہ کی کبھی جرأت بھی نہ کر سکتا اور اب تو خطرہ ہے کہ جاپانی آگئے تو ہندوستان میں مقابلہ کی طاقت نہیں ہے۔ انگریزوں کی طرف سے یہ اعلان کئے جاتے ہیں کہ ہندوستان میں َنو دس لاکھ فوج بھرتی کی گئی ہے مگر اتنی فوج کے لئے سامان کہاں سے آئے گا۔ اس فوج میں بعض سپاہیوں کے پاس چالیس چالیس سال کی پُرانی بندوقیں ہیں اوربعض کے پاس تو صرف ڈنڈے ہیں بلکہ سب کے لئے وردیاں بھی نہیں اور وہ تہہ بند باندھ کر ہی پریڈ کرتے ہیں اور ان میں بعض ایسے بہادر بھی ہیں کہ ایک دوست سامنے بیٹھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھے یاد آگیا انہوں نے سنایا کہ ہماری ریاست سے فوج بھرتی ہو کر گئی ہے جس دن وہ روانہ ہوئی سٹیشن پر بڑا ہجوم تھا۔ ان کے بیوی بچے بھی آئے ہوئے تھے اور عجیب نظارہ تھا کہ ریل کی کھڑکیوں میں سے ایک طرف سپاہی سر نکال کر ڈھاڑیں مار کر رو رہے تھے تو دوسری طرف اُن کے بیوی بچوں نے چیخ و پُکار شروع کر رکھی تھی۔ ایسے لوگ جنگ میں کیا کر سکتے ہیں وہ تو وہی کچھ کر سکتے ہیں جو کہتے ہیں کشمیریوں نے کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی ایک فوج تیار کی اور اسے دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لئے بھیجا۔ ان کے افسر واپس مہاراجہ صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ ہم لڑائی پر جانے کے لئے تیار ہیں مگر ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔ مہاراجہ نے سمجھا کہ شاید کہیں گے کہ تنخواہ میں اضافہ ہونا چاہئے یا کوئی اور حق طلب کریں گے۔ اُس نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پٹھانوں سے مقابلہ ہے سنا ہے وہ بڑے سخت لوگ ہوتے ہیں ہمارے ساتھ پہرے کا انتظام ہونا ضروری ہے۔ اُسی دن سے اِس قوم کو فوج میں بھرتی کرنا بند کر دیا گیا۔ تومقابلہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ لڑنے والوں کے دل ہوں، ہاتھ ہوں، دماغ ہوں اور سامان ہو پھر قومیں لڑ سکتی ہیں۔ صرف کسی ملک کی آبادی زیادہ ہونا کافی نہیں اور صرف آبادی کے زیادہ ہونے کی وجہ سے کوئی مُلک نہیں لڑ سکتا تو حالات ایسے خطرناک ہو گئے ہیں کہ ہندوستان کو بِالعموم اور ہماری جماعت کو بِالخصوص اس طرف بہت توجہ کرنی چاہئے۔ اِس جنگ کا تعلق ہماری جماعت سے خاص معلوم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے واقعات مجھے خوابوں میں بتاتا رہتا ہے۔ اگر کوئی تعلق نہ ہوتا تو پھر ان خبروں کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے پچھلے سال بھی اپنا ایک سال کا پُرانا خواب سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظاہر چند آدمی ر ّسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں کوئی کہتا ہے اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد حالات یکدم متغیر ہوں گے اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی۔ دیکھ لو جب جنگ یونان تک پہنچی تو دنیا میں کتنے تغیرات ہوئے۔ روس کا جنگ میں شامل ہونا، کریٹ کا فتح ہونا، عراق میں بغاوت، ایران میں انقلاب، امریکہ کا زیادہ سرگرمی کے ساتھ دخل دینا، یہ سب واقعات اِس کے بعد ہوئے ہیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یکدم اعلان ہؤا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض انگریزی علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں رُکاوٹ نہیں کرتی۔ اِس خواب کا ایک پہلو تو وہ تھا کہ بعض انگریزی جزیروں میں امریکنوں نے اپنے لئے فوجی اڈے حاصل کئے تھے مگر ایک پہلو اس کا اب ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکن حکومت بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر برسرِ جنگ ہے اور اب ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ بالکل ممکن ہے کہ امریکن فوجوں کو ہندوستان میں بھی لانا پڑے اور سنگا پور جو پولیٹیکل لحاظ سے بہت اہم مقام ہے وہاں امریکن فوجوں کو لانے کا تو فیصلہ ہو چکا ہے۔
پھر مجھے رؤیا میں دکھایا گیا کہ مارشل پیٹان کی حکومت بعض ایسی حرکات کر رہی ہے جن سے انگریزوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مجھے تشویش پیدا ہوتی ہے کہ انگریز کس طرح مقابلہ کریں گے ان کی تو فرانس کے ساتھ صلح ہے اور ان کے راستہ میں یہ روک ہے کہ اگر اس سے لڑیں تو دنیا کہے گی کہ اپنے اتحادی سے لڑ رہے ہیں اتنے میں آواز آئی کہ یہ ایک سال کی بات ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ پہلے چونکہ فرانس کے ساتھ انگریزوں کی دوستی تھی اس لئے وہ ُپرانی دوستی کی وجہ سے اس پر حملہ نہ کر سکتے تھے یہ بات نہ تھی کہ فرانس کی طاقت جرمنی سے بھی زیادہ تھی اور انگریز اس سے ڈرتے تھے بلکہ وہ اس وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا کہے گی کہ اپنے پُرانے دوست پر حملہ کر دیا جب تک کہ ایسے حالات پیدا نہ ہو جاتے کہ ان کے لئے اس کا مقابلہ جائز کہلا سکتا وہ اس کے ساتھ تصادم نہ چاہتے تھے۔ آخر عین ایک سال گزرنے پر عراق کی بغاوت نے وہ حالات پیدا کر دیئے۔
احباب کو یاد ہوگا ۱۹۳۷ء میں مَیں نے ایک رؤیا سنایا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت بڑا طوفان آیا ہے اور توپوں کے گولے بھی گر رہے ہیں میرے ساتھ میری بیویاں اور بچے بھی ہیں۔ اِس طوفان نے سب چیزوں کو ڈھانپ لیا ہے آخر اِس کا زور کم ہؤا اور میں نے ایک دروازہ میں سے نور کی شعاع دیکھی اور اپنی ایک بیوی سے کہا کہ دیکھو نور نظر آ رہا ہے اور مجھے جو خداتعالیٰ نے پہلے سے بتا چھوڑا تھا اسی طرح ہؤا ہے اور طوفان دُور ہو گیا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر کی تھی کہ دنیا میں کوئی عظیم الشان تباہی غالباً جنگ کی صورت میں آنے والی ہے اور اس کے تھوڑا ہی عرصہ بعد یہ جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اِس وقت مجھے اپنا ایک ُپرانا رؤیا یاد آگیا۔جو غالباً۱۹۲۲ء میں مَیں نے دیکھا تھا۔ مَیں نے دیکھا تھا کہ مسجد مبارک کی چھت پر بہت شور ہے، لوگ چیختے اور روتے ہیں، میں دَوڑا ہؤا وہاں گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو کسی نے بتایا کہ قیامت آگئی۔ مغرب کا وقت ہے اور کوئی سورج کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ وہ دیکھو! سورج مشرق کی طرف سے واپس آرہا ہے اور یہ علامت قیامت کی ہے کہ سورج مغرب میں جانے کے بعد واپس َلوٹ آیا ہے میں بھی گھبراتا تو ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ یہ قیامت نہیں ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ بھائی عبدالرحیم صاحب ٹہل رہے ہیں اور وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قیامت آگئی مگر مجھے یکدم کچھ خیال آیا اور میں ان سے کہتا ہوں کہ سورج کا مغرب سے واپس لَوٹنا بھی بے شک قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت تو ہے مگر اس کے ساتھ بعض اور شرطیں بھی ہیں اور وہ اِس وقت ظاہر نہیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج کا مغرب سے اِس وقت کا طلوع قیامت کی علامت نہیں ہے۔ میں نے جونہی یہ کہا سورج یکدم ٹھہرا اور پھر واپس ہونا شروع ہو گیا۔ اِس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ فتنہ جو مغرب سے اُٹھا ہے اورجو قیامت کا ایک نمونہ ہے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دُور کر دے گا۔
اسی طرح ایک اور خواب مَیں نے پچھلے سال دیکھا تھا جس کا دوسرا حصہ اب پورا ہؤا ہے۔ میں شملہ میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے مکان پر تھا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک بڑا ہال ہے جس کی سیڑھیاں بھی ہیںمگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے مگر نظر ہال آتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں میں سے اٹلی کی فوج لڑتی آرہی ہے اور انگریزی فوج دبتی چلی جارہی ہے یہاں تک کہ اطالوی فوج ہال کے کنارے تک پہنچ گئی جہاں سے میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی علاقہ شروع ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ قادیان نزدیک ہی ہے اور میں بھاگ کر یہاں آیا ہوں۔ مجھے میاں بشیر احمد صاحب ملے ہیں میں ان سے اور بعض اور دوستوں سے کہتا ہوں کہ اٹلی کی فوج انگریزی فوج کو دباتی چلی آرہی ہے اگرچہ ہماری صحت اور بینائی وغیرہ ایسی تو نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں مگر بندوقیں ہمارے پاس ہیں آئو ہم لے کر چلیں دُور کھڑے ہو کر ہی فائر کریں گے۔ چنانچہ ہم جاتے ہیں اور دُور کھڑے ہو کر فائر کرتے ہیں اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی ہے اور اس نے پھر انہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا ہے جن پر سے وہ اُتری تھی۔ اُس وقت مَیں دل میں سمجھتا ہوں کہ دو تین بار اسی طرح ہؤا ہے۔ چنانچہ یہ خواب لیبیا میںپورا ہو چکا ہے۔ جہاں پہلے دشمن مصر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا مگر انگریزوں نے پھر اُسے پیچھے ہٹا دیا، پھر دشمن نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا، اور اب پھر انگریزوں نے ان کو پیچھے ہٹا دیا ہے اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال کہیں تاریخ میں نہیں ملتی کہ چار دفعہ ایسا ہؤا ہو کہ پہلے ایک قوم دوسری کو ایک سِرے سے دباتی ہوئی دوسرے سِرے تک جا پہنچی ہو اور پھر وہ اُسے دبا کر اُسی سِرے تک لے گئی ہو اور ایک مرتبہ پھر وہ اُسے دبا کر وہیں پہنچا آئی ہو اور چوتھی دفعہ پھر وہ اُسے دبا کر واپس لے گئی ہو۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں ہیں جو اس جنگ کے متعلق مجھے وقتاً فوقتاً دی جاتی ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کے ساتھ ہماری جماعت کا کوئی خاص تعلق ہے ورنہ ان کی ضرورت نہ تھی۔
اب میں جنگ کے وہ اثرات بیان کرتا ہوں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تو ہم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے لیکن جن حالات میںہم ہیں ان کی وجہ سے ضروری ہے کہ انگریزوں کی مدد کی جائے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس حکومت کے ماتحت رکھا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی فتح کے لئے دعا فرمائی ہے اور اپنی جماعت کو بھی ان کے ساتھ تعاون کا ارشاد فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
’’ہم دعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اِس گورنمنٹ کو ہر یک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذِ ّلت کے ساتھ پسپا کرے۔‘‘ ۶؎
نیز فرمایا:-
’’ہر یک سعادت مند مسلمان کو دعا کرنی چاہئے کہ اِس وقت انگریزوں کی فتح ہو کیونکہ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں۔‘‘ ۷؎
پس روحانی اور جسمانی دونوں حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور یہ مدد ِحسب ذیل طریقوں سے ہم کر سکتے ہیں:-
۱۔ ریکروٹنگ میں خاص طور پر مدد دی جائے۔
۲۔ چندوں وغیرہ کے ذریعہ سے مدد دی جائے۔
۳۔ غلط افواہوں کا مقابلہ کیا جائے۔
۴۔ مُلک میں امن قائم رکھنے کی کوشش کی جائے۔
۵۔ ہوائی حملوں سے بچائو وغیرہ کے لئے جو انتظامات حکومت کی طرف سے کئے جا رہے ہیں ان میں ان کی مدد کی جائے۔ اور
۶۔ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کی جائیں۔
اب مَیں ان میں سے ہر ایک امر کے متعلق تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔
ریکروٹنگ میں مدد صرف اس لئے ہی مفید نہیں کہ اس سے انگریزوں کی کامیابی میں مدد ملتی ہے بلکہ اس لئے بھی کہ اس سے قوم میں جنگی سِپرٹ پیدا ہوتی ہے اور جنگی فنون سے واقفیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے لئے دوسری بیرونی حکومتوں کے مقابل پر انگریزوں کی حکومت کئی لحاظ سے اچھی ہے اور اس لئے ہندوستان کا فائدہ اِسی میں ہے کہ انہیں فتح حاصل ہو۔ جو قوم کسی مُلک پر دیر سے حکومت کر رہی ہو اُس کی طاقت بہت حد تک زائل ہو چکی ہوتی ہے اور اُس کا رُعب بھی مٹ چکا ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سکولوں میں تعلیم پائی ہے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ سکول میں جو ماسٹر نیا نیا آئے اُس کا رُعب زیادہ ہوتا ہے۔ پُرانے ماسٹروں کا اتنا رُعب نہیں ہوتا۔ اسی طرح پُرانی حکومت کا رُعب کم ہو جاتا ہے اور جو حکومت نئی نئی ہو اُس کا رُعب زیادہ ہوتا ہے۔ نئی حکومت کا مقابلہ اتنی دلیری سے نہیں کیا جاسکتا جتنا پُرانی کا۔ گاندھی جی جس طرح انگریزوں سے روٹھ جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میں کھانا پینا ترک کرتا ہوں تو انگریز اُنہیں منانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح جرمنوں کے ماتحت یہ ممکن نہیں۔ انگریز گاندھی جی کو خوب سمجھتے ہیں اور گاندھی جی انگریزوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ ایک بڑے افسر سے جو بعد میں گورنر بھی ہو گئے تھے میں نے ایک دفعہ کہا کہ گورنمنٹ کی فلاں بات کا کانگرس کو علم ہو چکا ہے یہ آپ لوگوں کا کیسا انتظام ہے کہ سرکاری راز تک کانگرسیوں کو معلوم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا اسی طرح ہوتا ہے ان کے راز ہم کو ِمل جاتے ہیں اور ہمارے ان کو پتہ لگ جاتے ہیں۔ یہی گاندھی جی اور حکومت کا معاملہ ہے دونوں ایک دوسرے کے دل کو پڑھنا خوب جانتے ہیں۔ لیکن اگر انگریزوں کی بجائے یہاں کوئی اور حکومت ہو تو وہ نہ گاندھی جی کے دل کو پڑھ سکے اور نہ گاندھی جی اُس کے دل کو پڑھ سکیں۔ جس قوم نے تین سَو سال تک دنیا سے روپیہ کمایا ہے اُس میں وہ بہادری اور ُجرأت نہیں ہو سکتی جتنی اُس قوم میں ہوگی جو دنیا میں عیش و عشرت کرنے کی نئی نئی امیدیں لے کر میدان میں نکلی ہو۔ جب تک وہ بھی سَو، دو سَو سال تک دنیا سے کمائی نہ کر لے اُس کی ُجرأت میں کمی نہیں آسکتی۔ انگریز تو اب سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو لینا تھا لے لیا لیکن کوئی نئی قوم جب تک کم سے کم سَو دو سَو سال تک مزے نہ ُلوٹ لے اُسے چین نہیں آسکتا۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً وَ کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ۸؎
تو جب بھی کسی ملک میں کوئی نیا بادشاہ آئے گا تو وہ ُپرانے جیسا معاملہ اہلِ ملک کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ نئے بادشاہ جب کسی مُلک میں آتے ہیں تو بہت سے انقلابات ان کے ساتھ آتے ہیں۔ کئی امرا، غریب اور کئی غریب، امیر ہو جاتے ہیں۔ پس یہ حکمت انگریزوں کی مدد کی ہے اور یہ بہت اہم حکمتہے اس لئے انگریزوں کی مدد کرنی ضروری ہے۔ جس کا پہلا ذریعہ جیسا کہ میں نے بتایا ریکروٹنگ ہے۔ ریکروٹنگ سے ہمارے اپنے اندر بھی فوجی سِپرٹ قائم ہوتی ہے۔ جس قوم میں فوجی سِپرٹ نہ ہو وہ ُبزدل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہیکشمیری قوم جو آج اتنی ُبزدل سمجھی جاتی ہے ایک وقت اِس کی یہ حالت تھی کہ محمود نے جتنے حملے ہندوستان پر کئے ان میں سے صرف دو میں اسے شکست ہوئی اور یہ دو حملے وہی تھے جو اس نے کشمیر پر کئے۔ کسی وقت وہ اتنی بہادر قوم تھی لیکن آج یہ حالت ہے کہ مجھے یاد ہے بچپن میں مَیں ایک دفعہ کشمیر گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک پنڈت پچاس ساٹھ کشمیریوں کو گالیاں دے رہا اور ٹھڈے مار رہا تھا اور وہ آگے سے ہاتھ جوڑ رہے اور ّمنتیں کر رہے تھے۔ ایک زمانہ میں راولپنڈی تک اور صوبہ سرحد کے کئی اضلاع تک ان کی حکومت تھی، تبت میں بھی ان کی حکومت تھی مگر جب ان میں فوجی سِپرٹ نہ رہی تو وہ ُبزدل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ حاکم قوموں پر اِس لئے مصیبت لاتا ہے تامحکوم قوموں میں فوجی سِپرٹ پیدا ہو وہ ضرورت کے وقت مجبور ہو کر ان کو بھرتی کرتی ہیں۔ پس یہ ایک ترقی کا راستہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کھولا ہے اور ہمیں اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے اور فوجی ٹریننگ حاصل کرنی چاہئے۔
دوسری باتغلط افواہوں کا مقابلہ کرنا ہے یہ بہت اہم بات ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ غلط افواہیں ُبزدل بنا دیتی ہیں۔ لوگ عام طور پر خطرہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا خطرے کی آواز سے ڈرتے ہیں۔ خود ہمارے ساتھ ایک دفعہ ایک واقعہ پیش آیا۔ ہم ڈلہوزی میں سیر کرنے جا رہے تھے شام کا وقت تھا دو دو کرکے ہم چلے جا رہے تھے کہ ِپچھلوں کی آواز آئی ’’سانپ‘‘ اور اس سے بچنے کے لئے ہم سے جو آگے تھے انہوں نے چھلانگ مار دی۔ انہیں میں سے ایک کی ٹانگوں کے درمیان سے سانپ گزر رہا تھا ان کے پیچھے ہم تھے ہم نے بھی اپنے دوستوں کو خطرہ میں دیکھ کر ان کے پیچھے دَوڑنا شروع کیا۔ اگلے دوست جن کے پائوں میں سے سانپ گزرا تھا اِس طرح ۔ُکود ُکود کر دَوڑ رہے تھے کہ ہر قدم پر ایک نیا سانپ ان کے راستہ میں آجاتا تھا۔ پیچھے ہم ان کی مدد کو جارہے تھے مگر چند گز کے بعد یکدم میں نے دیکھا تو مَیں اور سیدولی اللہ شاہ جو دوسری قطار میں تھے ہم دونوں بھی اسی طرح ُکود ُکود کر دَوڑ رہے تھے جس طرح کہ پہلے لوگ۔ حالانکہ ہمارے راستہ میں کوئی سانپ نہ تھا اور ہم صرف اگلوں کی امداد کو جارہے تھے۔ یہ خیال آتے ہی مجھے ہنسی آگئی اور میں نے اگلوں کی طرف دیکھا تو ان کے پاس بھی کہیں سانپ کا نشان نہ تھا۔ میں نے شاہ صاحب کو پکڑ کر کھڑا کیا اور کہا کہ شاہ صاحب! آخر ہمارے دَوڑنے کی غرض کیا ہے؟ سانپ تو غالباً پیچھے رہ گیا ہے اور پھر آواز دے کر اگلوں کو کھڑا کیا پھر جو ُمڑ کر دیکھا تو معلوم ہؤا کہ سانپ کو میاں شریف احمد صاحب اور صوفی عبدالقدیر صاحب نے جو آخر میں تھے انہوں نے مار بھی لیا تھا۔ گویا سانپ تو مر چکا تھا مگر اُس کی آواز نے اچھے بھلے کچھ اور آدمیوں کو دَوڑا رکھا تھا۔ غرض خطرہ کی آواز خطرہ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور وہ ُبزدلی پیدا کر دیتی ہے۔ ویسے آدمی کو خطرہ نظر آجائے تو وہ اُس سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا خطرہ کی بات سے ڈرتا ہے۔
ایک دفعہ میں پاخانہ کے لئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ میری دونوں رانوں کے بیچ میں سے سانپ نے پھن نکالی مگر میں بالکل نہ گھبرایا اور میں نے سوچا کہ اگر اب میں نے حرکت کی تو ممکن ہے یہ کاٹ لے اس لئے اسی طرح بیٹھا رہا۔ اور سانپ آرام سے پاٹ میں سے نکلا اور چکّر کاٹ کر پاخانہ میں سے باہر چلا گیا۔ تو میں نے سانپ کو اِس قدر قریب سے دیکھا اور وہ میرے ننگے جسم سے قریباً ُچھوتا ہؤا گزرا مگر میرے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ لیکن ڈلہوزی میں ’’سانپ‘‘ کی آواز آئی اور ہم سب اس سے مرعوب ہو گئے۔ پس خطرہ کی افواہیں بہت بُرا اثر ڈالتی ہیں بلکہ افواہیں خود جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ کسی جگہ بموں کا پڑنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا یہ شور پڑجانا کہ بم پڑ رہے ہیں۔ غلط افواہیں قوموں میں ُبزدلی پیدا کر دیتی ہیں پس انگریزوں کے لئے نہیں بلکہ اپنی بہادری اور ُجرأت کو قائم رکھنے کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔ مجھے ایک دوست جو فوج میں لیفٹیننٹ ہیں ملنے آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کے حوصلوں کو قائم رکھیں اور اگر کریٹ۹؎ وغیرہ کو شکست کی وجہ سے سپاہیوں میں گھبراہٹ پیدا ہو توبے شک ان کا دل بڑھانے کے لئے کہہ دیا کریں کہ یہ انگریز لڑنا کیا جانیں یہ تو نازو نعم میں پلنے والے لوگ ہیں یہ دشمن کو کیا شکست دیں گے ہاں ہم اسے ضرور شکست دیں گے۔ ہم مضبوط اور جفاکش لوگ ہیں جب ہم سے مقابلہ کا وقت آیا تو ہم ضرور دشمن کو شکست دیں گے۔ تو جنگ میں غلط افواہیں بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ اور ان کا مقابلہ ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ رُستم کے گھر میں چور آگیا۔ رُستم بے شک بہت بہادر تھا مگر اس کی ُشہرت فنونِ جنگ میں تھی ضروری نہ تھا کہ کشتی کے فن میں بھی ہر ایک سے بڑھ کر ہو۔ چور ُکشتی لڑنا جانتا تھا اور اس نے رُستم کو نیچے گِرا دیا۔ جب رُستم نے دیکھا کہ اب تو میں مارا جائوں گا تو اُس نے کہا آگیا رُستم۔ چور نے جب یہ آواز سنی تو وہ فوراً اُسے چھوڑ کر بھاگا۔ غرض چور رُستم کے ساتھ تو لڑتا رہا بلکہ اُسے نیچے گِرا لیا مگر رُستم کے نام سے ڈر کر بھاگا۔ کسی آدمی کے گھر کو آگ لگی ہو تو اُس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا یہ خبر سن کر کہ اُس کے گھر کو آگ لگی ہے۔
غلط افواہوں کا ایک خطرناک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ریکروٹنگ کا کام بند ہو جاتا ہے۔ اِس وقت قریباً ہر شخص کے عزیز جنگ پر گئے ہوئے ہیں اور ہر شخص دعا کرتا ہے کہ وہ بچ کر آجائیں۔ مگر یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ وہ بچ اسی صورت میں سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے بھی بندوق والے سپاہی جائیں جو انکی مدد کریں ورنہ وہ کیسے بچ سکتے ہیں اور غلط افواہوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اور سپاہی پیچھے سے نہ جائیں گے۔ پس جو شخص غلط افواہوں کو پھیلنے دیتا ہے وہ گویا خود اپنے عزیزوں کو جومیدانِ جنگ میں ہیں مرواتا ہے۔ پس آپ لوگ غلط افواہوں کو روکیں تا ریکروٹنگ کا کام بند نہ ہو اور آپ کے بھائی بندوں کے پیچھے اور بندوقوں والے سپاہی پہنچتے رہیں جو ان کو بچا سکیں۔
جنگ میں امداد کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ مُلک میں امن قائم رکھا جائے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے وقت میں شریروں کے حوصلے بہت بڑھ جاتے ہیں اور وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ اب انگریز گئے اِس جنگ میں اب تک کوئی بھی شکست انگریزوں کو ایسی نہیں ہوئی جس کے بعد ایسے لوگوں نے یہ نہ کہنا شروع کر دیا ہو کہ بس اب انگریز گئے اور بعض نادان غیر احمدیوں کے بارہ میں مَیں نے یہاں تک سنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ انگریز جائیں تو ہم سرحدی پٹھانوں کو لا کر احمدیوں کو سزا دِلوائیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوگا لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی باتوں سے فسادات ضرور ہو جاتے ہیں اور اس لئے یہ نہایت خطرناک ہوتی ہیں۔ ہر قوم کے شریروں میں اس قسم کے جذبات ہوتے ہیں۔ ہندوئوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو نکال دیں گے اور مسلمانوں میں بھی ہیں۔ اور ایسے لوگ اپنی قوم کے ادنیٰ لوگ ہوتے ہیں شریف ہندو یا شریف مسلمان نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کو غلط افواہوں سے مدد ملتی ہے اور یہ ایسے موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں کہ مُلک میں یا کسی شہر میں بدامنی ہو تو ُلوٹ مار کریں۔ اور غلط افواہوں کا نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ بعض دفعہ بے موقع ہی حملہ کر دیتے ہیں اور اگر غلط افواہوں کو روکا نہ جائے تو ہو سکتا ہے کہ کسی حقیقی خطرہ کا موقع آنے پر پہلے ہی کوئی حملہ کر دیں۔ پس لوگوں کو تسلی دینے اور حوصلے قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے۔ اس میں انگریزوں کا نہیں بلکہ اپنا ہی فائدہ ہے۔ مُلک میں اگر بدامنی ہو تو اس کا فائدہ بدمعاشوں کو ہی ہوتا ہے شرفاء کو نہیں ہو سکتا۔ بدمعاش ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اگر کبھی دو بیوقوف ہندو اور مسلمان آپس میں لڑیں تو ُلوٹ مار شروع کر دیں۔ پس ملک کے اندر ایسی روح پیدا کر دینی چاہئے کہ ان کے لئے ایسا موقع پیدا نہ ہو اور انہیں فساد کرنے کے لئے بہانہ ہاتھ نہ آسکے۔
ایک اور بات میں نے یہ کہی ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ دعائوں کا ہتھیار بڑا کارگر ہتھیار ہے۔ اسے ہم ہی خوب سمجھتے ہیں دوسری کوئی قوم نہیں سمجھ سکتی۔ ہم نے دعائوں کے بڑے بڑے فائدے دیکھے ہیں اور یہ وہ ہتھیار ہے جو ہمارے سِوا کوئی چلانا نہیں جانتا۔ بے شک ہم تھوڑے ہیں مگر ہماری مثال ایسی ہے جیسے فوج میں توپ خانہ ہوتا ہے۔ انفنٹری اور فوج کی دوسری رجمنٹیں اگر ُسستی کریں تو اتنا حرج نہیں جتنا کہ توپ خانہ کی ُسستیسے ہو سکتا ہے۔ توپ خانہ اگر ُسستی کرے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ساری فوج ماری جائے۔ پس ہم توپ خانہ کے افسر ہیں اور اگر ہم کوتاہی کریں گے تو دنیا پر بڑی تباہی آئے گی۔ توپ کی طرح دعا بھی بہت دور تک گولہ پھینکتی ہے اور ہمارے سامنے تو قبولیتِ دعا کے ایسے ایسے نمونے ہیں کہ ہم اس کی طاقت کا انکار نہیں کر سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گورداسپور کے ایک ہندو مجسٹریٹ آتما رام نے سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کی موت کی خبر آپ کو دی۔
’’چنانچہ بیس دن میں دو لڑکے اس کے مر گئے۔‘‘ ۱۰؎
ایک لڑکا جو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا ڈوب کر مر گیا۔ بیس بائیس سال ہوئے مَیں گاڑی میں جارہا تھا کہ لدھیانہ کے سٹیشن پر وہ مجھے ملا اور کہا کہ لوگوں نے یونہی مرزا صاحب کو مجھ سے ناراض کر دیا اور مجھ سے کہا کہ آپ دعا کریں۔ اس کے دو نوجوان لڑکے مر گئے اور اس کی بیوی ہمیشہ اُسے یہی کہتی کہ یہ لڑکے ُتو نے ہی مارے ہیں۔ تو یہ توپیں ہیں جو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے دوسری توپ تو ساٹھ ستّر میل تک ہی مار کرتی ہے اور اس کے گولے خطا بھی جاتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی توپ کا گولہ بہت دور تک مار کرتا ہے اور کبھی خطا نہیں جاتا۔ دیکھو! اللہ تعالیٰ کی توپ کا گولہ گورداسپور سے لاہور پہنچا جو قریباً اسّی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں بھی اس نے گورنمنٹ کالج کی عمارت کو چُنا اور اس میں جاکر عین اسی لڑکے پر گِرا جس پر وہ پھینکا گیا تھا اور اسے ہلاک کر دیا۔ تو دعا کی توپ کا گولہ کبھی خطا نہیں جاتا اور اگر اس کے باوجود ہم ُسستی کریں تو یہ بہت افسوس کی بات ہوگی۔ دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں یقین بڑھتا ہے یہ ایک طبعی فائدہ ہے جو دعا سے حاصل ہوتا ہے۔ جب ایک انسان کہتا ہے کہ خدایا! میری مدد کر تو اُس کے دل میں ایک یقین پیدا ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ میری مدد کر سکتا ہے اور اس طرح تو ّکل بڑھتا ہے اور وہ ایسے ایسے کام کر سکتا ہے جو دوسرا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ طبعی فائدہ دعا کا ہوتا ہے۔
جنگ کا ایک اور خطرناک اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک میں قحط پڑ جاتا ہے۔ کچھ تو غلہ فوجوں کے لئے چلا جاتا ہے مگر کچھ بنیے چھپا لیتے ہیں تاگراں کرکے فروخت کر سکیں۔ فرض کرواِس وقت ایک لاکھ ٹن باہر گیا ہے تو دس لاکھ ٹن بنیوں نے گھروں میں ُچھپا لیا ہے یہ کتنا خطرناک اثر جنگ کا ہے۔ اور قحط ایک ایسی مصیبت ہے کہ چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر سب کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے اِس وقت غلہ بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ گو حکومت نے قیمت پر کنٹرول کیا ہے مگر یہ کافی نہیں میرے خیال میں گندم کا بھائو تیرہ سیر فی روپیہ کے قریب ہونا چاہئے۔ یہ ایسا بھائو ہے کہ اس سے زمینداروں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ گندم تین روپے من ہونی چاہئے لیکن یہ اس وقت نہیں ہو سکتا یہ تو فصل نکلنے کے دنوں میں ہو سکتا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ جب تو زمینداروں کے ہاں غلہ ہو اُس وقت بھائو دو، سَوا دو روپیہ من ہوتا ہے لیکن جب بنیوں کے پاس چلا جاتا ہے تو اس وقت بھائو چار پانچ روپیہ من ہو جاتا ہے۔ پس گندم کا بھائو تین روپیہ من مقرر ہونا چاہئے۔ تا ۱۲،۱۳ سیر روپیہ کا آٹا لوگوں کو مل سکے۔ اب جو حکومت ہند نے گندم کی قیمت پر کنٹرول کیا تو پنجاب اسمبلی میں بعض زمیندار ممبروں نے سوال اُٹھایا کہ اس سے زمینداروں کو نقصان ہوگا۔ یہ بات صرف بھیڑ چال کے طور پر اُٹھائی گئی ورنہ کون نہیں جانتا کہ آج کل زمینداروں کے گھروں میں غلہ کہاں ہوتا ہے؟ آج کل تو وہ بیج بھی بازار سے خرید کر ڈالتے ہیں۔ تو یہ ایک خیالی بات تھی جو انہوں نے کہہ دی اور ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں۔ کوئی گیدڑ بھاگا جا رہا تھا کسی نے پوچھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ سب اونٹ بیگار میں پکڑ لئے جائیں اس لئے بھاگا جا رہا ہوں۔ اُس نے کہا اونٹوں کے پکڑنے کا حکم ہے گیدڑوں کو پکڑنے کا تو نہیں اِس لئے تم کیوں خواہ مخواہ بھاگے جاتے ہو۔ اُس نے کہا کہ بادشاہوں کا مزاج نرالا ہوتاہے کیا پتہ کہ گیدڑوں کو بھی پکڑوالیں۔ اِن شور مچانے والوں سے کوئی پوچھے کہ اگر آج کل گندم کا بھائو واقعی گِر جائے تو یہ مصیبت تو ان کے لئے ہوگی جن کے پاس گندم کے ذخائر ہیں۔ زمینداروں کے گھروں میں تو دانہ بھی نہیں انہیں کیا نقصان پہنچ سکتا ہے وہ تو فائدہ میں رہیں گے کہ سَستے داموں غلہ لے کر کھا سکیں گے۔ پس ان کی یہ مخالفت بے جا ہے۔ حکومت نے جو قیمت مقرر کی ہے وہ تسلی بخش نہیں بھائو اس سے بھی کم چاہئے تھا اور غلہ نکلنے کے وقت تو تین روپے من مقرر ہونا چاہئے۔
قحط کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کو شش کرے کہ فصل زیادہ پیدا کی جائے اور پھر جو غلہ پیدا ہو اُس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ محفوظ رکھا جائے۔ سورۂ یوسف میں یہ نسخہ بتایا گیا ہے۔ پس ہر شخص کوشش کرے کہ فصل زیادہ سے زیادہ اور عمدہ سے عمدہ ہو۔ بیج بھی اعلیٰ درجہ کا استعمال کیا جائے اور پھر جوفصل ہو اُس میں سے کچھ نہ کچھ حصہ ضرور محفوظ کر لیا جائے تا اگر خطرہ کے دن آئیں تو ہم نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ہمسایوں کے لئے روٹی کا انتظام کر سکیں تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک احمدی عورت نے اپنا ایک خواب سنایا۔ اس نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور کہتے ہیں کہ دو ہزار کا غلہ خرید لو۔ اس میں بھی اسی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جماعت کو کچھ نہ کچھ حصہ فصل کا محفوظ کرنا چاہئے۔ میں نے دیکھا ہے مسلمان زمیندار زیادہ محنت نہیں کرتے۔ شروع میں جب مَیں سیر کے لئے جایا کرتا تھاتوکھیتوں کو دیکھ کربتا دیتا تھا کہ یہ کھیت مسلمان زمیندار کا ہے اور یہ سکھ کا۔ سکھ زمیندار زیادہ محنت کرتے ہیں اور ان کی فصل بھی اچھی ہوتی ہے مگر مسلمان اتنی محنت نہیں کرتے اور اس لئے ان کی فصل بھی اچھی نہیں ہوتی۔ فصل کوشش اور محنت سے اچھی ہو جاتی ہے اور ہمارے دوستوں کو اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اب فصل بوئی تو جا چکی ہے مگر پھر بھی اسے بروقت پانی وغیرہ دے کر اچھا کیا جاسکتا ہے۔ پھر جو فصل تیار ہو اسے اچھی طرح سنبھالنا چاہئے۔ سَستی قیمت پر یونہی فروخت نہیں کر دینا چاہئے اور کچھ نہ کچھ ذخیرہ بھی رکھنا چاہئے۔
پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ملک میں کچھ نہ کچھ فسادات ہوں ایسے موقع کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ ایسے مواقع پر اقلیتوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے اس لئے ایسے موقع پر دوستوں کو مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں اس کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ انسانی فطرت میں رکھا ہے کہ خطرہ کی حالت میں خود حفاظتی کا ذریعہ وہ خود سوچ سکتا ہے مگر اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ایسے موقع پر دوست مرکز میں جمع ہونے کی کوشش کریں۔ جو قادیان میں آسکیں یہاں آجائیں اورجو نہ آسکیں وہ ضلع کے کسی مقام پر جہاں جماعت زیادہ ہو یا جہاں احمدی مالک ہوں جمع ہو جائیں۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اپنا گھر بار کس طرح چھوڑیں۔ یہ پاگل پن کی بات ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گھر بھی جاتا ہے اور ساتھ جان بھی، اکیلا اکیلا آدمی کچھ نہیں کر سکتا۔
اس جنگ کا ایک نیک اثر بھی ہے اور وہ یہ کہ جرمنی میں تبلیغ کا رستہ ُکھل جائے گا۔ مجھے یہ رؤیا میں بتایا گیا ہے اور اس کے لئے ہمیں ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ ہم اس وقت وہاں ّمبلغ وغیرہ تو نہیں بھیج سکتے مگر اس کے لئے تیاری کر سکتے ہیں اور وہ کرنی چاہئے۔ جو لوگ کسی کام سے پہلے اس کے لئے تیاری نہیں کرتے وہ کامیاب بھی نہیں ہو سکتے۔ حضرت مسیح ناصری نے اِس کی مثال ُیوں دی ہے۔ آپ نے فرمایا:-
’’اُس وقت آسمان کی بادشاہت اُن دس کنواریوں کی مانند ہوگی جو اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں۔ ان میں پانچ بیوقوف اور پانچ عقلمند تھیں۔ جو بیوقوف تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ مگر عقلمند وں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی ُکپیوں میں تیل بھی لے لیا اور جب دولہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں۔ آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دولہا آگیا اُس کے استقبال کو نکلو۔ اُس وقت وہ سب کنواریاں اُٹھ کر اپنی اپنی مشعلیں درست کرنے لگی اور بیوقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں ُبھجی جاتی ہیں۔ عقلمندوں نے جواب میں کہا کہ شاید ہمارے تمہارے دونوں کے لئے ُپورا نہ ہو۔ بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جاکر اپنے واسطے مول لے لو۔ جب وہ مول لینے جا رہی تھیں تو دولہا آپہنچا اور جو تیار تھیں وہ اُس کے ساتھ شادی میں چلی گئیں اور دروازہ بند کیا گیا۔ پیچھے وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں۔ اے خداوند! اے خداوند! ہمارے لئے دروازہ کھول دے۔ اُس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تمہیں نہیں جانتا۔ پس جاگتے رہو کیونکہ نہ تم اُس دن کو جانتے ہو اور نہ اس گھڑی کو۔‘‘ ۱۱؎
پس یاد رکھنا چاہئے کہ پہلے سے تیاری کرنے والا ہی وقت پر کام کر سکتا ہے دوسرا نہیں۔ تحریک جدید کو جاری ہوئے سات سال ہو چکے ہیں اسکے ماتحت میں نے مستقل ّمبلغین کی تیاری کا کام شروع کر دیا تھا۔ مولوی فاضل اور گریجوایٹ اس کام کے لئے، لئے گئے تھے مگر چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ّمبلغ ابھی تک تیار نہیں ہو سکے اور جنگ کے بعد جو نئے ّمبلغ درکار ہوں گے ان کی تیاری اگر اُس وقت شروع کی گئی تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ چھ سال اور لگیں گے۔ پس اس کے لئے آج ہی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے تا جنگ کے اختتام پر پوری طرح فائدہ اُٹھایا جا سکے۔
تحریک جدید کا چندہ
اِس تیاری کے لئے (یعنی جنگ کے ختم ہونے پر وسیع پیمانہ پر تبلیغ کرنے کے لئے) پہلی ضروری بات یہ ہے کہ دوست تحریک جدید
میں چندہ دینے میں ہمت سے کام لیں۔ گزشتہ سال کی وصولی گزشتہ تین چار سالوں کی وصولی سے اچھی رہی ہے اور اس سال کے وعدے بھی زیادہ ہیں (افسوس کہ اس کے بعد وعدوں میں نمایاں کمی آگئی اور اس وقت وعدے گزشتہ سال سے بہت کم ہیں۔ اللہ تعالیٰ دوستوں کو توفیق دے کہ بقیہ دنوں میں اس کی تلافی کرسکیں) گو یہ زیادتی کوئی نمایاں نہیں لیکن اگر دوست کوشش کرکے اس زیادتی کو وصولی میں بھی قائم رکھیں تو امید ہے کہ آمد میںپچھلے سال کی نسبت دس پندرہ فیصدی کی زیادتی ہوگی اور اس طرح اگر وصولی بھی اچھی ہو جائے تو تحریک جدید کا یہ آٹھواں سال بنیاد کے مضبوط کرنے کا موجب ہو سکے گا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے میں اس روپیہ سے مستقل جائداد پیدا کر رہا ہوں۔ نہری زمین آٹھ ہزار ایکڑ خریدی جا رہی ہے تا اس سے چالیس پچاس ہزار روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکے اور سلسلہ کے مستقل اخراجات کے لئے ہمیں جماعت سے چندہ مانگنا نہ پڑے۔ دراصل کاموں میں جو روک پیدا ہوتی ہے وہ مستقل اخراجات کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اتنی آمد پیدا کرنے والی جائداد خریدی جا سکے جس سے عملہ دفاتر وغیرہ کا خرچ چل سکے اور ایسے مستقل اخراجات کے لئے جماعت سے چندہ نہ لینا پڑے اور جو وقتی چندے لئے جائیں وہ تبلیغ پر خرچ ہوں اور یہ بڑا اہم کام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دس بارہ ہزار ایکڑ زمین حاصل کی جاسکے اور جب تک جماعت عمدگی کے ساتھ اور پوری توجہ سے تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی میں کو شش نہ کرے یہ پورا نہیں ہو سکتا۔ جو زمین خریدی جا چکی ہے اس میں سے بعض رقبے تو تین چار سال کے بعد ہی آزاد ہو جائیں گے۔ یعنی ان کی قیمت ادا ہو جائے گی اور بعض کی اقساط اگر ہم چندہ کے ذریعہ زمین کو پہلے ہی آزاد نہ کروا لیں تو چودہ پندرہ سال تک ادا ہوتی رہیں گی۔ پس یہاں سے جانے کے بعد ہر جماعت کے دوست کوشش کریں کہ ہر شخص چندہ تحریک جدید میں اپنا وعدہ لکھوائے اور پھر اسے پورا بھی کرے۔ تحریک ہر ایک احمدی کو کی جائے مگر جبر نہ کیا جائے جو شخص چاہے حصہ لے اور جو نہ چاہے نہ لے۔
امانت فنڈ
دوسری صورت یہ ہے کہ امانت فنڈ کو مضبوط کیا جائے۔ اس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے۔ پہلے اس میں صرف دس بارہ ہزار روپیہ سالانہ آتا تھا پچھلے سال
میں نے تحریک کی تو اٹھارہ بیس ہزار آیا ہے مگر یہ بھی کم ہے اگر دوست توجہ کریں تو کم سے کم لاکھ دو لاکھ روپیہ سالانہ آمد ہو سکتی ہیہر شخص کو چاہئے کہ جنگ کے خطرات کے پیش نظر یا مکان بنانے کی نیت سے یا بچوں کی تعلیم اور ان کی شادیوں وغیرہ کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور پس انداز کرتا رہے اور پھر اسے امانت فنڈ میں جمع کراتا رہے تا مصیبت یا ضرورت کے وقت کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ مجھے تو بیسیوں لوگوں نے کہا کہ آپ کی اِس تحریک سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے ہمارے لئے کوئی صورت مکان بنانے کی نہ تھی اور اس طرح بنا لیا تو اس طرف دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔
سادہ زندگی
تیسری چیز سادہ زندگی ہے۔ میں دیر سے اِس کی طرف دوستوں کو توجہ دلا رہا ہوں اور اب تو خداتعالیٰ دنیا کو کھینچ کر سادہ زندگی کی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ
عام شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ کپڑا نہیں ملتا، ُجرابیں نہیں ملتیں، ُبنیانیں نہیں ملتیں اور جو چیز ملتی ہے وہ ایسی گراں ہے کہ اسے خریدنا مشکل ہے اور اگر جنگ لمبی ہو گئی تو شاید چند کروڑ پتی ہی ایسے ہوں گے جو اِن چیزوں کو خرید سکیں ورنہ باقی سب کو مجبوراً اپنی زندگی میں سادگی اختیار کرنی پڑے گی۔ آج ہزاروں لوگ ہیں جو مجبور ہو کر اسے اختیار کر رہے ہیں اور جن احمدیوں نے میرے کہنے پر اسے اختیار کیا وہ کتنے فائدہ میں رہے کہ اس سے اُنہیں ثواب بھی حاصل ہو گیا۔ میری طرف سے اس تحریک کے بعد مختلف ممالک میں حُکماً وہی باتیں جاری کی گئیں۔ مسولینی نے حُکم دیا کہ گوشت کی صرف ایک ہی پلیٹ استعمال کی جائے، جرمنی میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں اور ڈاکٹر گوئبلز نے کہا ہے کہ جب تک تمام لوگ اپنے اخراجات میں بچت نہ کریں گے کام نہ چل سکے گا۔ امریکہ میں مسٹر رینڈل ولکی نے جو انتخابِ صدر کے موقع پر مسٹر روز ویلٹ کے مدِّمقابل تھے کہا ہے کہ ہمیں اپنے کھانے پینے اور پہننے میں پوری پوری سادگی سے کام لینا چاہئے۔ انگلستان میں بھی خود بخود اپنے کھانے اور پہننے پر قیود عائد کر لی گئی ہیں پس وہی تحریک جدید جو میں نے جاری کی تھی اسے اللہ تعالیٰ نے سب ممالک کے لئے جبری قرار دیدیا ہے اور شاید ہندوستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ لوگ مجبور ہو کر اسے اختیار کریں بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایسے دن آرہے ہیں کہ روٹی روتے ہوئے گلے سے اُتر سکے گی مگر احمدی مطمئن ہوں گے کہ ہم نے اپنے خلیفہ کی بات مان لی اور اس طرح ثواب بھی حاصل کر لیا۔ جو چیز دوسرے لوگوں نے مجبور ہو کر کی وہ ہمارے لئے ثواب کا موجب ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی ہمیں خدمتِ خلق کے لئے دی ہے اور اگر کھانے پینے پہننے بیٹھنے اُٹھنے میں تکلیف ہو تو ایسے اثرات پیدا ہوں گے کہ یہ مقصد پور انہ ہو سکے گا اور امیر و غریب اکٹھے نہ ہو سکیں گے۔ ہمارے ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان ایک دیوار حائل ہے وہ ایک دوسرے سے میل جول اور کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ پِیروں نے بھی ان کو غلط راستہ پر لگا دیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے ابھی تک بعض لوگ مجھے ملنے آتے ہیں تو وہ پیروں کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو ہزار منع کرو وہ سمجھتے ہیں کہ بطور انکسار منع کرتے ہیں ورنہ ہمیں ضرور ایسا ہی کرنا چاہئے۔ اُن ِپیروں نے کس طرح انسانیت کو ذلیل کر دیا ہے میں تو کہتا ہوں اگرکوئی حکومت آئے تو سب سے پہلے ان کو پکڑے۔ ان سب کو کنسنٹریشن۱۲؎(CONCENTRATION) کیمپوں میں بھیج دینا چاہئے۔
احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے قائم کیا ہے کہ انسانیت کو بلند کیا جائے لیکن ابھی تک احمدیوں میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو ان باتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم منع کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ انکسار کرتے ہیں حالانکہ مجھے ان باتوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے میرے سامنے جب کوئی ہاتھ جوڑتا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے مار رہا ہے اور دراصل کسی کے ایسا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مار پڑ رہی ہے کہ احمدی جماعت ابھی تک قوم کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہوئی۔ پس امیر و غریب کا امتیاز نہایت خطرناک چیز ہے اور اسے جلد از جلد مٹانا ہمارا فرض ہے۔ میرا ایک عزیز تھا میرے منہ سے ’’تھا‘‘ نکلا ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہے مجھے اس سے محبت نہیں عشق تھا مگر ایک دفعہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ فلاں علاقہ کے احمدی بھی عجیب ہیں نہ موقع دیکھتے ہیں اور نہ وقت اور ملنے آجاتے ہیں۔ پس اُس دن کے بعد سے میں اپنے اور اسکے درمیان ایک دیوار حائل پاتا ہوں۔ یہ ذہنیت نہایت خطرناک ہے اور جب تک ہم اس سانپ کا سر نہیں ُکچل دیتے اُس وقت تک اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کر سکتے۔ جب تک یہ ذہنیت موجود رہے گی کہ تم اَور ہو اور میں اَور ہوں اور اگر ہم میں تو نہیں مگر ہماری اولادوں میں یہ ذہنیت موجود رہے گی تو کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی۔
مسلمان کی زندگی تکلّفات سے پاک ہونی چاہئے
میں نے َکل ہی سنایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کی وفات کے بعد ایک زمانہ میں حضرت ابوہریرہؓ کو ایک جگہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ اُنہی ایام میں ایران کی فوجوں کو شکست ہوئی اور جو اموال کسریٰ کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے ان میں وہ رومال بھی تھا جو کسریٰ اپنے تخت پر بیٹھنے کے وقت استعمال کیا کرتا تھا۔ اموال کی جب تقسیم ہوئی تو وہ رومال حضرت ابوہریرہؓ کے حصہ میں آیا۔ اب بھلا ایک سیدھے سادے مسلمان کی نگاہ میں یہ چیز کیا حقیقت رکھتی تھی اتفاقاً انہیں کھانسی ہوئی اور انہوں نے بلغم اُس رومال میں پھینک دی اور پھر کہنے لگے بَخِ بَخِ ابوہریرہ یعنی واہ بھئی ابوہریرہ۔ لوگوں نے پوچھا کہ اِس کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سننے کے شوق میں مَیں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہتا تھا اور اِس وجہ سے کئی کئی فاقے آتے تھے اور میں شدتِ ُضعف کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتا تھا۔ لوگ سمجھتے مرگی کا دورہ پڑا ہے اور چونکہ عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہو تو اُسے ُجوتیاں مارتے تھے اسلئے میرے سر پر ُجوتیاں مارتے تھے۔ ُکجا تو وہ حالت تھی اور ُکجا آج یہ حالت ہے کہ وہ رومال جو کسریٰ تخت پر بیٹھنے کے وقت استعمال کرتا تھا وہ میرے قبضہ میں ہے اور میں اس میں بلغم پھینک رہا ہوں۔ اس طرح گویا حضرت ابوہریرہؓ نے یہ بتایا کہ مؤمن کو چاہئے کہ ظاہری تکلّفات میں مبتلا نہ ہو۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں کو بھی چاہئے کہ اپنی زندگی ایسی بنائیں کہ امیر و غریب کا کوئی فرق نظر نہ آئے۔ میں نے ہمیشہ دیکھاہے جب بھی میں کسی دعوت وغیرہ میں جاتا ہوں تو وہاں ایک جگہ نمایاں طور پر گائو تکیہ وغیرہ لگا ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ منع کیا ہے مگرپھر بھی دوست ان باتوں کو چھوڑتے نہیں۔
وقف زندگی
تبلیغ کے لئے تیاری کے ضمن میں ایک اور ضروری تحریک وقف زندگی کی ہے۔ پہلے پہل جب تحریک کی گئی تو بہت سے نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے تھے
مگر اب اتنے نہیں کرتے اس لئے مَیں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ آج وہ دن ہیں کہ انسان چنوں کی طرح ُبھونے جا رہے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ وہ خود ہی اپنی جانوں کو خداتعالیٰ کے لئے دے دیں۔ آج جب ہر چیز پر وبال آرہا ہے تو کیا اسے خداتعالیٰ کی راہ میں صَرف کر دینا بہتر نہیں۔ پس گریجوایٹ یا انٹرنس پاس مولوی فاضل اپنی زندگیوں کو وقف کریں۔ جلد ازجلد ضرورت ہے کہ نوجوان اپنے نام پیش کریں۔ جو نوجوان آج اپنے آپ کو پیش کریں وہ چھ سال میں تیار ہو سکیں گے۔ شاید اِس کی وجہ یہ بھی ہو کہ اِس وقت جو اُستاد ہمیں ملے ہیں وہ بوڑھے ہیں۔ ممکن ہے جب موجودہ نوجوان تیار ہو جائیں تو یہی کورس چار سال میں ختم کرایا جا سکے۔ بہرحال آج زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے تا ابھی سے ان کی تیاری کا کام شروع کر دیا جائے۔ اِس وقت گو ہندوستان سے باہر ّمبلغ نہیں بھیجے جا سکتے مگرجنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگی۔ ِفی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہئے اور باہر کا جو راستہ بند ہو چکا ہے اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے۔ پس کیوں نہ ہم یہاں اتنا زور لگائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سَوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے اور دو تین سال میں ہی جماعت دُگنی ہو جائے۔ جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو کامیابی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے سامنے بہت بڑا کام کیا ہے؟ پونے دو ارب مخلوق ہے جسے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے کیونکہ ہم عالم نہیں ہیں۔ مجھے تو یہ کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک احمدی یہ خیال کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ احمدی سے زیادہ عالم اور کون ہو سکتا ہے۔ دوسرے لوگ تو اگر جہالت کی بات بھی جانیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ عالم ہو گئے ہیں مگر بعض احمدی اِس قدر دینی امور سے واقفیت رکھنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ علم نہیں رکھتے اور اس وجہ سے تبلیغ نہیں کر سکتے۔ میرے ایک دوست نے جو عزیز بھی ہیں سنایا کہ وہ ایک دفعہ شکار کے لئے گئے اور ایک ہرن شکار کیا۔ اُن کا نوکر ساتھ تھا وہ ان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ کیا آپ کو ہرن ذبح کرنے کی تکبیر آتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہر جانور ذبح کیا جاتا ہے۔ وہ کہنے لگا بس معلوم ہو گیا آپ کو ہرن کی تکبیر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ کیا تکبیر ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ ہرن کو ِلٹا کر اُس کی گردن پکڑکر کہنا چاہئے کہ ُتو لوگوں کے کھیت کھاتی اور مزے اُڑاتی تھی اب آئی تیری شامت اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اب دیکھو وہ بے چارہ ایک جہالت کے خیال میں مبتلاء تھا مگر اسے بھی علم سمجھ کر لوگوں میں پھیلانا چاہتا تھا۔ مگر تمہیں اتنے علوم سکھائے گئے ہیں پھر بھی تم سمجھتے ہو کہ تم عالم نہیں ہو۔ کونسا علم ہے جو قرآن کریم میں نہیں؟ تم ُعِل￿مالنفس اور دوسرے علوم کے وہ مسائل جو تمہیں سکھائے گئے ہیں دوسروں کو سنائو توبڑے بڑے عالم حیران ہو جائیں۔ میں تو حیران ہؤا کرتا ہوں کہ ایک احمدی کس طرح یہ سمجھ سکتا ہے کہ اسے کچھ نہیں آتا۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر انسان پر فرشتے نازل ہوں؟ اور ہر انسان اسی صورت میں سمجھ سکتا ہے کہ اسے فرشتے سمجھانے کے لئے آئیں؟ جو علم نہیں رکھتے وہ دوسروں کے علوم سے کیوں فائدہ نہیں اُٹھاتے؟ سلسلہ کی کتب اور اخبار و رسائل کیوں نہیں پڑھتے؟ اور اس طرح علم حاصل کیوں نہیں کرتے؟
ہندوئوں میں تبلیغ
یاد رکھو کہ ہمارے ذمہ دنیا کی فتح کا کام ڈالا گیا ہے اور یہ کام بہت اہم ہے۔ اس کے لئے ایک بہت بڑی جماعت کی ضرورت ہے اور اس
واسطے ہندوستان میں جماعت کا بڑھانا بہت ضروری ہے اور تبلیغ کرتے ہوئے غیر قوموں کی طرف خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے۔ اِس ملک میں ہندوئوں کی تعداد مسلمانوں کی نسبت تین گُنا ہے۔ صرف برطانوی ہندوستان کی آبادی ۳۲،۳۳ کروڑ ہے اور اس میں سے صرف تین چار ہزار کا سال بھر میں احمدی ہونا کوئی کام نہیں اس لئے تبلیغ کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ بِالخصوص ہمسایہ اقوام کے سامنے محبت اور پیار سے اسلام کو پیش کرنا چاہئے۔ ان سے کہو کہ تم ہمیں تبلیغ کرو اپنی باتیں سنائو اور ہماری سنو۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بات چیت کرنی ہو تو اپنا کوئی پنڈت یا گیانی لائو یہ ٹھیک نہیں۔ ایسی باتوں کی وجہ سے ہی وہ گھبراتے ہیں اور بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ کُھلے دل سے ان کی باتیں سنو اِس میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ آخر کار وہ تمہارے ساتھ شامل ہونگے۔ پانی ہمیشہ نیچے کی طرف ہی بہتا ہے تم بہت اونچے ہو اِس لئے پانی انہیں کی طرف جائے گا اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اِس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہندو قوم کو ترقی دینا چاہتا ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ ان بنیوں کو دین کی حکومت عطا کرے مگر یہ لوگ سَوراج کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور اُس عزت سے بے پروا ہیں جو اللہ تعالیٰ ان کو دینا چاہتا ہے اور جو اسلام کو قبول کرنے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ احمدیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ تمام ہندوستانیوں کی عزت بڑھے گی۔ عربوں نے ایک زمانہ میں اسلام کی خدمت کی تھی اور اس وجہ سے آج گو وہ ہر لحاظ سے گِر چکے ہیں پھر بھی مسلمان ان کی خدمت کرتے ہیں۔ جہاں کوئی عرب نظر آئے اُسے خوش آمدید کہتے ہیں اور کہتے ہیں آیئے عرب صاحب! آئیے عرب صاحب! تو جہاں جہاں احمدیت پھیلے گی وہاں جو ہندوستانی جائے گا وہاں کے احمدی اس کی عزت کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہمارے سردار ہیں۔ اُس ملک سے آئے ہیں جس میں قادیان واقع ہے۔ انہیں عزت سے بٹھائیں گے اور ان کے لئے کھانے پینے کا انتظام کریں گے تو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے ساتھ ہندوستانیوں کی عزّت بھی بڑھے گی اور ہر جگہ احمدی ان کی عزت کریں گے۔ یہاں سے چونکہ انہیں ہدایت حاصل ہوئی ہوگی اس لئے اِس ملک کے ہر باشندہ کو خواہ وہ ہندو ہو یا سِکھ، عیسائی ہو یا کسی اور مذہب کا، دیارِ محبوب کا باشندہ سمجھ کر اس کی عزت کریں گے۔
اب دیکھو! اِس عزت کے مقابل میں سَوَراج کی حقیقت ہی کیا ہے مگر افسوس کہ ہندوئوں نے اِس سوال کو اس نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا۔ پہلے جو نبی آتے تھے وہ مخصوص قوموں اور مخصوص مُلکوں کے لئے ہوتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت کے لئے مأمور فرمایا ہے اور احمدیت نے دنیا کے کناروں تک پھیلنا ہے اور اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے کناروں تک ہندوستانیوں کا روحانی ادب اور رُعب قائم کرے گا۔
میں نے سَوَراج کا ذکر کیا ہے پہلے جنگی خطرات کا ذکر مَیں کر چکا ہوں اس لئے ضمناً اس کے متعلق بھی کچھ بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور موجودہ وقت میں حکومت اور رعایا میں لڑائی بہت نازک اور خطرناک ہے اور ملک کا ہر ایک بہی خواہ اسے دور کرنے کی کوشش میں ہے۔ اِس وقت کانگرس مُلکی حکومت کے لئے مطالبہ کر رہی ہے۔ مسلم لیگ اس کی اس وجہ سے مخالف ہے کہ جب تک مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ نہ ہو کوئی نیا نظام قائم نہیں کرنا چاہئے اور حکومت کہہ رہی ہے کہ جب تک ہندو مسلمان متحد نہ ہوں ہم کچھ نہیں دے سکتے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان تینوں میں اِس وقت اختلافات ہیں اور ہم جو نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ موقع بہت اہم ہے ۔ اِس وقت مُلکی فضاء کو درست کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرنی چاہئے تا مُلک سے فساد دور ہو مگر افسوس ہے کہ جتنا یہ سوال اہم ہے اتنا ہی اِس کی طرف وہ توجہ نہیں دی جا رہی جو دی جانی چاہئے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں ہی سنجیدگی سے کام نہیں لے رہے۔ پہلے مَیں حکومت کی پوزیشن کو لیتا ہوں۔ انگریز کہتے ہیں کہ پہلے ہندو مسلمان متحد ہوں اور کوئی متفقہ مطالبہ پیش کریں پھر ہم مزید حقوق دینے کے سوال پر غور کریں گے اور بظاہر یہ بات معقول نظرآتی ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ انگریز بے چارے کیا کریں۔ جب یہ دونوں قومیں آپس میں پہلے ہی لڑ رہی ہیں تو اگر انگریز حقوق دے بھی دیں تو اور خانہ جنگی شروع ہو جائے گی مگر غور کیا جائے تو یہ جواب درست نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگرہندو مسلمان آپس میں صلح کر لیں اور کامل آزادی کا مطالبہ کریں تو کیا انگریز یہ مطالبہ پورا کر دیں گے اور ہندوستان کو مکمل آزادی دے دیںگے؟ میں نے تو کبھی اِن کی طرف سے کوئی ایسا اعلان نہیں پڑھا اور جب وہ اس کے لئے تیار ہی نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مزید حقوق کے لئے اِس اختلاف کو ُعذر بنایا جائے اور کہا جائے کہ اگر ہندو ُمسلم صلح کر لیں تو ہندوستان کو مزید حقوق مل جائیں گے۔ اگر حکومت کی نیت واقعی یہ ہوتی کہ ہندو مسلمان آپس میں صلح کر لیں تو اُسے چاہئے تھا کہ بتا دیتی کہ اگر یہ صلح ہوئی تو وہ کیا حقوق دے گی اور یہ کہ اگر ہندو مسلمانوں نے صلح نہ کی تو وہ کیا قدم اُٹھائے گی۔ اگر ہندو ُمسلم اتفاق کے بعد بھی وہ آزادیٔ کامل دینے کے لئے تیار نہیں تو پھر اس کا یہ جواب صریحاً غلط ہے جو وہ کانگرس کو دیتی ہے۔ گورنمنٹ کا یہ جواب اِس لئے بھی غلط ہے کہ وہ پہلے ہندو مسلمانوں اور سکھوں میں اختلافات کے باوجود بعض حقوق دے چکی ہے۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۳۵ء جو ہے اِس کے متعلق بھی تو ہندوئوں، سکھوں اور مسلمانوں میں اتفاق نہ تھا اور اِس اتفاق کے نہ ہونے کے باوجود اس نے حقوق دے کر یہ بتا دیا ہے کہ ہندوستان کو حقوق دینے کے لئے وہ اِن قوموں کے اتحاد کو ضروری نہیں سمجھتی۔ پھر جب وہ پہلے ایسا کر چکی ہے تو اب یہ شرط کیوں لگاتی ہے؟ ہاں اگر انگریز ہندوستان کو بالکل اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہتے ہوں (جس طرح ڈومینیئنز(DOMINIONS) کو ان کے حال پر چھوڑا گیا ہے ورنہ میں اس قسم کی آزادی کا قائل نہیں کہ ہندوستان برطانوی امپائر سے الگ ہو جائے۔ یہ زمانہ مُلکوں میں اتحاد پیدا کرنے کا ہے نہ کہ نئی ُ ّکلی آزاد حکومتوں کے بنانے کا) اور اس ملک کو کامل آزادی دے دینے کا فیصلہ کر چکے ہوں تو پھر حکومت کا یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ جب تک ہندو مسلمانوں میں صلح اور اتفاق نہ ہو ہم آزادی کیسے دیدیں کیونکہ جب مختلف قوموں میں اِس وقت بھی فساد ہو رہے ہیں تو آزادی حاصل ہونے کے بعد اور زیادہ ہو نگے۔ پس میرے نزدیک اگر گورنمنٹ واقعی ملک میں امن چاہتی ہے اور ہندو مسلمانوں میں صلح کی خواہش مند ہے تو اسے اعلان کر دینا چاہئے کہ اگر یہ قومیں متحد ہو کر اور متفقہ مطالبہ لے کر آئیں تو ہم ہندوستان کو ُ ّکلیآزادی دے دیں گے۔ یا پھر دوسری بات دیانت کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ وہ اعلان کرے کہ اگر یہ صلح نہ ہوئی تو پھر اس کا رویہ کیا ہوگا۔ مثلاً اسے اعلان کر دینا چاہئے کہ اس صورت میں وہ کچھ نہ دے گی اِس سے بھی صلح کی طرف توجہ ہو جائے گی۔ پس صحیح طریق یہ ہے کہ حکومت اعلان کر دے کہ صلح کر لو تو کامل آزادی دے دی جائے گی اور یہ کہ اگر صلح نہ کرو گے تو کچھ نہ دیا جائے گا۔ اِس کا موجودہ طریق تو یہ ہے کہ وہ ہندو مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود مزید تبدیلی حکومت میں کر دیتی ہے اور پھر جب اگلا مطالبہ ہوتا ہے تو کہتی ہے کہ پہلے صلح کرو اور پھر آئو اور یہ بالکل غلط طریق ہے۔ اگر وہ اس طریق کو اختیار کرے جو میں نے پیش کیا ہے تو اِس سے ان لوگوں کو تقویت حاصل ہوگی جو چاہتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں حکومت اور رعایا میں صلح ہونی چاہئے۔ اگر حکومت نے سمجھوتہ کے بغیر بھی حقوق دے دینے ہیں یا سمجھوتہ کے بغیر بھی کامل آزادی نہیں دینی تو پھر سمجھوتہ کا سوال اُٹھانا دیانتداری نہیں۔ اور حکومت کو چاہئے کہ اس رویہ کو فوراً بدل دے۔ ُیوں تو وائسرائے ہند اور سب گورنر بھی یہ کہتے ہیں کہ صلح کر لینی چاہئے مگر انہیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ صلح کے لئے کوئی ماحول بھی تو ہونا چاہئے۔ ہندوستانیوں کے مطالبہ کا جو جواب حکومت دیتی ہے وہ صلح کے لئے ماحول پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتا۔ جنگ سے ڈرا کر صلح کا مطالبہ تسلی دینے والا جواب نہیں اور ایسے جوابات سے دل صاف نہیں ہوتے۔ ایسے جوابات سے دلوں میں ُبغض بڑھ جاتا ہے کیونکہ دوسرا فریق خیال کرتا ہے کہ میری مشکل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف کانگرس اپنی بات پر مُصِرّہے وہ حکومت سے کہتی ہے کہ ہم خود صلح کر لیں گے تم بہرحال ہمیں حقوق دے دو یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ اسے اصولی ّمعین بات کرنی چاہئے یا تو وہ صاف لفظوں میں یہ کہہ دے کہ مسلمانوں کی رائے کا مُلک کے آئندہ انتظام میں کوئی دخل نہ ہوگا۔ ہندوئوں کے مقابلہ میں ان کی آبادی کی نسبت تین اور ایک کی ہے اور ڈیموکریسی کا اصول یہ ہے کہ تین ایک پر حکومت کریں۔ اِس سے مسلمان اپنی پوزیشن کو سمجھ لیں گے اور انہیں پتہ لگ جائے گا کہ آئندہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور وہ اپنے لئے جو راستہ موزوں سمجھیں گے اختیار کر لیں گے۔ پس ہندوئوں کو چاہئے کہ یا تو یہ اعلان کر دیں کہ آئندہ نظام میں اکثریت کی رائے ہی مانی جائے گی خواہ وہ خالصتہً ہندو ہی کیوں نہ ہو اور یا پھر یہ بتائیں کہ یہ اندرونی جھگڑے کس طرح طے ہوںگے؟ اور اگر وہ تسلیم کر لیں کہ مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا اور اقلیتوں کو بہرحال مطمئن کیا جائے گا اور ان کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے گا تو پھر وہ سوچیں کہ جب تک ہندوئوں اور مسلمانوں میں فیصلہ اور سمجھوتہ نہ ہو انگریز اگر حقوق دیں تو کِسے دیں اور اس طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کرکے گویا اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انگریزوں کی طرف سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ صحیح ہے ہاں اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنا ہی نہیں چاہتے تو بھی صاف کہہ دیں کہ مسلمانوں کی کوئی پروا نہ کی جائے گی۔ اکثریت کی حکومت ہوگی بہرحال انہیں اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہئے۔ ہم نے کانگرس سے دریافت کیا تھا کہ آیا کانگرسی حکومت میں تبلیغ اور تبدیلیٔ مذہب کی اجازت ہوگی اِس کا جواب یہ ملا کہ فلاں ریزولیوشن دیکھو۔ ہم نے لکھا کہ اس کے معنی ہم پر واضح نہیں ہیں وضاحت سے بتایا جائے کہ اِس کا کیا مطلب ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ ہم کسی ریزولیوشن کے معنے کرنے کے مجاز نہیں ہیں تو یہ کتنی دھوکا بازی ہے کہ صفائی سے کوئی بات کی ہی نہیں جاتی۔ تیسرا فریق مسلم لیگ ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب تک اس کے ساتھ کانگرس کوئی فیصلہ نہ کرے کوئی حقوق مُلک کو نہ دیئے جائیں تو کیا اِس کا مطلب یہ ہؤا کہ اگر وہ راضی نہ ہوں تو سارا ملک ہی حقوق سے محروم رہے؟ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر تو اقلیتیں سب کچھ ہی ُلوٹنے کی کوشش کریں گی کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ ہماری رضامندی کے بغیر تو کوئی قوم بھی کچھ نہیں لے سکتی اس لئے لازمی طور پر ہمیں راضی کیا جائے گا اور یہ کہاں کی دیانتداری ہے پھر میں نے دیکھا ہے کہ اسمبلیوں میں مسلم لیگ کے ممبر زیادہ تر آزادی کے حق میں اور گورنمنٹ کے خلاف ہی رائے دیتے ہیں اور مسلم لیگ پارٹی کوشش کرتی ہے کہ ہر ایک معاملہ میں گورنمنٹ کو شکست دِلوائے اور اس طرح وہ اعلانیہ کانگرس کے مطالبہ کی تائید کرتی ہے۔ پس مسلم لیگ کا یہ مطالبہ کہ جب تک وہ راضی نہ ہو مُلک کو کوئی حقوق ہی نہ دیئے جائیں ایسا ہے کہ زیادہ دیرتک اصلاحات میں تعویق ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی اُلجھن ہے کہ اسے دُورکرنا حکومت کا فرض ہے اور ہندو مسلمانوں کے سمجھوتہ کو جو وہ روک ظاہر کر رہی ہے وہ بالکل نامناسب ہے۔
مانٹیگوچیمسفورڈ سکیم جب نافذ کی گئی اُس وقت بھی ہندو مسلمان متحد و متفق نہ تھے۔ پھر جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے نتیجہ میں ہندوستان کو کچھ مزید حقوق دیئے گئے اُس وقت بھی ان میں سے کوئی راضی نہ تھا اور ان موقعوں پر حکومت نے ہندوستان کو حقوق دے کر عملاً بتا دیا کہ وہ ہندو مسلمانوں کے سمجھوتہ کے بغیر بھی حقوق دینے کو تیار ہے اس لئے جو جواب وہ اِس وقت دے رہی ہے وہ معقول تصوّر نہیں کیا جاسکتا۔ اور موجودہ اُلجھن کا یہی حل ہے کہ حکومت جو کچھ دینا چاہتی ہے اس کا اعلان کر دے۔ اس سے قبل حکومت ثالث کی حیثیت اپنے لئے قبول کر چکی ہے اور اس نے اس حیثیت سے دو فیصلے کئے ہیں اور اسی طرح اب تیسرا بھی کر سکتی ہے۔
ہندو مسلمانوں کے اتفاق کا ُعذر درست نہیں۔کیا جب انگریز یہاں آئے تھے تو ہندو مسلمانوں سے پوچھ کر اور ان کی رضامندی سے آئے تھے؟ ان کے یہاں آنے کی تصدیق کس نے کی تھی؟ جب انہوں نے ہندوستان پر قبضہ ہندو مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر کر لیا تھا تو اب اسے چھوڑنے کے لئے وہ ان کی رضامندی کو اِس قدر ضروری کیوں سمجھتی ہے؟ جب وہ ان دونوں کی رضامندی کے بغیر یہاں آگئی تھی توگویا اس نے اِس اصل کو تسلیم کر لیا تھا کہ وہ ان کی رضامندی کی پابند نہیں تو پھر اب اسی اصل کے مطابق جو دینا چاہتی ہے دے دے۔ اسے چاہئے کہ اعلان کر دے کہ اس کے نزدیک اِس اِس طرح سب قوموں کے حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن اگر یہاں کی مختلف قومیں آپس میں کوئی فیصلہ کر لیں تو وہ اسے منظور کر لے گی۔ میرے خیال میں حکومت کو چاہئے کہ اعلان کر دے کہ جنگ کے ختم ہونے کے ایک سال بعد ہندوستان کو درجہ نوآبادیات دے دیا جائے گا اور مختلف اقوام کے حقوق برطانوی حکومت ان قوموں کے ان نمائندوں سے مشوروں کے بعد جو اسے مشورہ دینے پر آمادہ ہوں خود مقررکر دے گی۔ ہاں اس سے پہلے پہلے اگر ہندو مسلمان کوئی متفقہ مطالبہ ہمارے سامنے لے آئیں گے تو اُسے مان لیا جائے گا۔ یہ طریق دیانتدارانہ ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اسے اختیار کرے۔ اِس اعلان کے نتیجہ میں یقینا ہندو مسلمانوں کو مناسب سمجھوتہ کی طرف توجہ ہوگی ورنہ موجودہ وقت میں ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ آخر تنگ آکر حکومت کچھ نہ کچھ دے دے گی اور وہ ڈیماکریسی کے اصول پر ہی ہوگا جس سے بہرحال ہندوئوں کو ہی فائدہ پہنچے گا اور مسلمان خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے گلے پر ُچھری کیوں پھیریں۔ وہ کیوں نہ زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کرنے کے لئے لڑتے رہیں تو اِس طرح باہمی اختلاف کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ (الفضل ۹، ۱۶، ۱۷ ؍جنوری۔ ۸، ۱۰، ۱۱ ؍فروری ۱۹۴۲ء)
اب میںاحباب کو مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جماعت کے احباب یا چالیس سال سے کم عمر کے ہیں یا چالیس سال سے زیادہ کے اور میں نے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لئے مجلس انصار اللہ قائم کی ہے یا پھر عورتیں ہیں ان کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم ہے۔
میری غرض ان تحریکات سے یہ ہے کہ جو قوم بھی اصلاح و ارشاد کے کام میں پڑتی ہے اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں اور یہ خواہش کہ اور لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں جہاں جماعت کو عزت اور طاقت بخشتی ہے وہاں بعض اوقات جماعت میں ایسا رخنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہو جایا کرتی ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ جماعت اگر کروڑ دو کروڑ بھی ہو جائے اور اس میں دس لاکھ منافق ہوں تو بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی جتنی کہ اگر دس ہزار مخلص ہوں تو ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند صحابہؓ نے جو کام کئے وہ آج چالیس کروڑ مسلمان بھی نہیں کر سکتے۔
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد سات سَو تھی۔ صحابہؓ نے خیال کیا کہ شاید آپؐ نے اِس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپؐ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !اب تو ہم سات َسو ہو گئے ہیں کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا۔۱۳؎ یہ کیا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات َسو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا مگر آج صرف ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جس سے بھی بات کرو اندر سے کھوکھلا معلوم ہوتاہے اور سب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں کیا ہوجائے گا۔ ُکجا تو سات َسو میں اتنی جرأت تھی اور ُکجا آج سات کروڑ بلکہ دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان ہیں مگر سب ڈر رہے ہیں اور یہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہے وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا۔
ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے میں وہاں تو تھا مگر اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہؤا۔ مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لاہور گیا تھا آریوں نے اُس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دے دو خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو، یہ تمہاری قومی خدمت ہوگی اور وہ ان سے وعدہ کرکے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپؑ لیٹے ہوئے تھے یہ سنکر آپؑ ُکہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایاخواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہیچنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اُس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اُس کا تنزّل ہو گیا یعنی وہ ای اے سی سے منصف بنا دیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آکر کیا تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کااس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں۔ اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اُس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اُس کا دودھ بیس سیر ہو گیا ہے۔ خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔
جو قومیں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں اُن کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے اور اِن مجالس کا قیام مَیں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصار اللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ ہے۔ ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے ایک مصرع آپؑ نے لکھا کہ :-
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے
اُسی وقت آپؑ کو دوسرا مصرع الہام ہؤا جو یہ ہے کہ:
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
اِس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کر سکیں گی۔ اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہو جائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔
قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے الٓمّٓ ذَالِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ۔۱۴؎ لَارَیْبَ فِیْہِ تو قرآن کریم کی ذاتی خوبی بتائی اور دوسروں سے تعلق رکھنے والی خوبی یہ بتائی کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ یعنی یہ کلام متقی پر اثر کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص تو روٹی کھاتا اور اس سے طاقت حاصل کرکے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے کو دو آدمی پکڑ کر کھڑا کرتے ہیں ۔ غیر متقی کو جو ہدایت ہوتی ہے وہ تو ایسی ہوتی ہے جیسے دو آدمی کسی کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیں مگر جو متقی ہے وہ اس سے غذا لیتا اور طاقت حاصل کرتا ہے۔ ہم اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآ ن کریم کی مدد سے ہی۔ اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی غذا متقی کے لئے ہی طاقت اور قوت کا موجب ہو سکتی ہے۔ اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی خرابی ہو تو اُسے گھی، دودھ، مرغ، بادام، پھل اور کتنی اعلیٰ غذائیں کیوں نہ کھلائی جائیں اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا بلکہ اُلٹا اُسے ہیضہ ہو جائے گا۔ غذا اُسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے جب وہ ہضم ہو اگر ہضم نہ ہو تو اُلٹا نقصان کرتی ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ غذا ایسی ہے جو مؤمن کے معدہ میں ہی ٹھہر سکتی ہے۔ پس اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے قرآن کریم سے فائدہ اُٹھانا ہے اور اِس سے فائدہ اُٹھائے بغیر ہم کوئی ترقی نہیں کر سکتے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ۔ ’’کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَـتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ۱۵؎ یعنی تمام برکت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ہے پس بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سکھایا اور بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سیکھا۔ اس میں محمدؐ سے مراد دراصل قرآن کریم ہی ہے کیونکہ آپؐ ہی قرآن کریم کے الفاظ لائے ہیں۔ پس جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔ اِس زمانہ میں مؤمن اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم پر چل کر ہی۔ اور اگر یہ غذا ہضم نہ ہو سکے تو پھر کیا فائدہ۔ اور اگر اسے ہضم کرنے چاہتے ہو تو متقی بنو۔ ابتدائی تقویٰ جس سے قرآن کریم کی غذا ہضم ہو سکتی ہے وہ کیا ہے؟ وہ ایمان کی درستی ہے۔
تقویٰ کے لئے پہلی ضروری چیزایمان کی درستی ہی ہے۔ قرآن کریم نے مؤمن کی علامت یہ بتائی ہے کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ۔۱۶؎ ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں متقی کیسے بنوں؟ پس اس کی پہلی علامت ایمان بِالغیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ، ملائکہ، قیامت اور رسولوں پر ایمان لانا پھر اس ایمان کے نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بِالغیب ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، قیامت اور رسالت نظر نہیں آتی اِس لئے اِس کے دلائل قرآن کریم نے مہیا کئے ہیں اور وہ دلائل ایسے ہیں کہ انسان کے لئے ماننے کے ِسوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ مگر کئی لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے آجکل ایمان بِالغیب پر لوگ تمسخر اُڑاتے ہیں۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں بعض لوگ ان کا تمسخر اُڑاتے ہیں تو کہتے ہیں تم تعلیم یافتہ ہو کر خدا کو مانتے ہو۔ پھر قیامت اور مرنے کے بعد اعمال کی جزا و سزا پر بھی لوگ تمسخر اُڑاتے ہیں۔ ملائکہ بھی اللہ کا پیغام اور دین لانے والے ہیں اور یہ سب ابتدائی صداقتیں ہیں مگر لوگ ان سب باتوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ یہ سارا ایک ہی سلسلہ ہے اور جس نے اس کی ایک کڑی کو بھی چھوڑ دیا وہ ایمان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بِالغیب میں شامل ہے اور یہی تو ّکل کا مقام ہے۔ ایک شخص اگر دس سیر آٹا کسی غریب کو دیتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر ملے گا تو وہ گویا غیب پر ایمان لاتا ہے۔ وہ کسی حاضر نتیجہ کے لئے یہ کام نہیں کرتا بلکہ غیب پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ایسا کرتا ہے۔ بلکہ جو شخص خداتعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا وہ بھی اگر ایسی کوئی نیکی کرتا ہے تو غیب پر ایمان کی وجہ سے ہی کر سکتا ہے۔ فرض کرو کوئی شخص قومی نقطۂ نگاہ سے کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو بھی یہی سمجھ کر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت مجھ پر یا میرے خاندان پر زوال آیا تو اسی طرح دوسرے لوگ میری یا میرے خاندان کی مدد کریں گے۔ تو تمام ترقیات غیب پر مبنی ہیں کیونکہ بڑے کاموں کے نتائج فوراً نہیں نکلتے اور ایسے کام جن کے نتائج نظر نہ آئیں حوصلہ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔
قربانی کا مادہ بھی ایمان بِالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ گویا قرآن کریم نے ابتداء میں ہی ایک بڑی بات اپنے ماننے والوں میں پیدا کر دی۔ چنانچہ وہ صحابہؓ جو بدر اور اُحد کی لڑائیوں میں لڑے کیا وہ کسی ایسے نتیجہ کے لئے لڑے تھے جو سامنے نظر آرہا تھا؟ نہیں بلکہ ان کے دلوں میں ایمان بِالغیب تھا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر مکہ کے بعض امراء نے صلح کی کوشش کی مگر بعض ایسے لوگوں نے جنہیں نقصان پہنچا ہؤا تھا شور مچا دیا کہ ہرگز صلح نہیں ہونی چاہئے۔ آخر ایک شخص نے کہا کہ کسی آدمی کو بھیجا جائے جو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ کرکے آئے۔ چنانچہ ایک آدمی بھیجا گیا اور اُس نے آکر کہا کہ اے میری قوم! میرا مشورہ یہی ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی نہ کرو۔ انہوں نے کہا تم بتائو تو سہی کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور سامان وغیرہ کیسا ہے؟ اُس نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ مسلمانوں کی تعداد ۳۱۰ اور ۳۳۰ کے درمیان ہے اور کوئی خاص سامان بھی نہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر جب یہ حالت ہے تو تم یہ مشورہ کیوں دیتے ہو کہ ان سے لڑائی نہ کی جائے جب ان کی تعداد بھی ہم سے بہت کم ہے اور سامان بھی ان کے پاس بہت کم ہے۔ اُس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں میں نے جو چہرہ بھی دیکھا میں نے معلوم کیا کہ وہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ خود بھی مر جائے گا اور تم کو بھی مار دے گا۔۱۷؎
چنانچہ اِس کا ثبوت اِس سے ملتا ہے کہ ابوجہل میدان میں کھڑا تھا اور عکرمہؓ اور خالد بن ولیدؓ جیسے بہادر نوجوان اُس کے ِگرد پہرہ دے رہے تھے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو دونوں طرف پندرہ پندرہ سال کے بچے کھڑے تھے میں نے خیال کیا کہ میں آج کیا جنگ کر سکوں گا جبکہ میرے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے بچے ہیں لیکن ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے آہستہ سے مجھے ُکہنی ماری اور پوچھا چچا! وہ ابوجہل کون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا ہے میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ آج اُسے ماروں گا۔ ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح آہستہ سے ،ُکہنی ماری اور مجھ سے یہی سوال کیا۔ میں اِس بات سے حیران تو ہؤا مگر اُنگلی کے اشارہ سے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے جو َخود پہنے کھڑا ہے۔ اور ابھی میں نے اُنگلی کا اشارہ کرکے ہاتھ نیچے ہی کیا تھا کہ وہ دونوں بچے اِس طرح اُس پر جاگِرے جس طرح چیل اپنے شکار پر جھپٹتی ہے اور تلواریں سونت کر ایسی بے جگری سے اُس پر حملہ آور ہوئے کہ اُس کے محافظ سپاہی ابھی تلواریں سنبھال بھی نہ سکے تھے کہ انہوں نے ابوجہل کو نیچے ِگرا دیا۔۱۸؎ ان میں سے ایک کا بازو کٹ گیا مگر قبل اِس کے کہ باقاعدہ جنگ شروع ہو ابوجہل ُمہلک طورپر زخمی ہو چکا تھا۔ یہ کیا چیز تھی جس نے ان لوگوں میں اتنی جرأت پید اکر دی تھی؟ یہ ایمان بِالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر وقت قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے تیار رہتے تھے، اور یہ ایمان بِالغیب ہی تھا جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو چکا تھا کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہی ہے اور خواہ کچھ ہو ہم اسلام کو دنیا میں غالب کرکے رہیں گے۔
پس مجلس انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بِالغیب ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ، ملائکہ، قیامت، رسولوں اور اُن شاندار اور عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں ایمان پیدا کرنا چاہئے۔ انسان کے اندر ُبزدلی اور ِنفاق وغیرہ اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بِالغیب نہ ہو۔ اِس صورت میںانسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلا گیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتا ہے۔
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے ایک معنے امن دینا بھی ہے۔ یعنی جب قوم کا کوئی فرد باہر جاتا ہے تو اس کے دل میں یہ اطمینان ہونا ضروری ہے کہ اُس کے بھائی اُس کے بیوی بچوں کو امن دیں گے۔ کوئی قوم جہاد نہیں کر سکتی جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ اُس کے پیچھے رہنے والے بھائی دیانت دار ہیں۔ پس ان تینوں مجلسوں کا ایک یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے اندر ایسی امن کی روح پیدا کریں۔ اِن تینوں مجالس کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایمان بِالغیب ایک میخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گڑ جائے کہ اُس کا ہر خیال، ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں سے متأثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں وہ ہر گز کوئی کام نہیں کر سکتے۔ پس مجالس انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہر ممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ لیکچروں کے ذریعہ، اسباق کے ذریعہ اور بار بار امتحان لے کر ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے یہاں تک کہ ہر مرد و عورت اور ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ایمان بِالغیب پیدا ہو جائے۔
دوسرے ضروری چیز نمازپوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے قرآن کریم نے یُـؤَدُّوْنَ الصَّلٰوۃَ کہیں نہیں فرمایا یا یُصَلُّوْنَ نہیں کہا بلکہ جب بھی نماز کا حکم دیا ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۱۹؎ فرمایا ہے اور اقامت کے معنے باجماعت نماز ادا کرنے کے ہیں اور پھر اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ گویا صرف نماز کا ادا کرنا کافی نہیں بلکہ نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے اور اس طرح ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص نہ رہے۔ اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم ہے اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ نماز پڑھنے پر خوش نہ ہو بلکہ نماز قائم کرنے پر خوش ہو۔ پھر خود ہی نماز قائم کرلینا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو اس پر قائم کرنا چاہئے۔ اپنے بیوی بچوں کو بھی اقامتِ نماز کا عادی بنانا چاہئے۔ بعض لوگ خود تو نماز کے پابند ہوتے ہیں مگر بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ اگر دل میں اخلاص ہوتو یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی بچے کا یا بیوی کا یا بہن بھائی کا نماز چھوڑنا انسان گوارا کر سکے۔
ہماری جماعت میں ایک مخلص دوست تھے جو اَب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے لڑکے نے مجھے لکھا کہ میرے والد میرے نام ’’الفضل‘‘ جاری نہیں کراتے۔ میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام ’’الفضل‘‘ جاری نہیں کراتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل ہو اور وہ آزادانہ طور پر اِس پر غور کر سکے۔ میں نے انہیں لکھا کہ ’’الفضل‘‘ پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہ رہے گی لیکن کیا اِس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں، کتابیں جو وہ پڑھتا ہے وہ اثر نہ ڈالیں، دوست اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیاآپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیا جائے اور تریاق سے بچایا جائے۔ تو میں بتا رہا تھا کہ اقامتِ نماز ضروری ہے اور اس میں خود نماز پڑھنا، دوسروں کو پڑھوانا، اخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا، باوضو ہو کر ٹھہر ٹھہر کر باجماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے اس کی طرف ہمارے دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔ مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہؤا ہے کہ وہ خود تو نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی اولاد نہیں پڑھتی۔ اولاد کو نماز کا پابند بنانا بھی اشد ضروری ہے اور نہ پڑھنے پر ان کو سزا دینی چاہئے۔ ایسی صورت میں بچوں کا خرچ بند کرنے کا تو حق نہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں خرچ تو دیتا رہوں گا مگر تم میرے سامنے نہ آئو جب تک نماز کے پابند نہ ہو۔ ہاں اگر کوئی بچہ کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں تو پھر البتہ حق نہیں کہ اُس پر زور دیا جائے لیکن اگر وہ احمدی اور مسلمان ہے تو پھر اسے سزا دینی چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ آج سے تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے جب تک کہ نماز کے پابند نہ ہو جائو۔
تیسری چیز وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۲۰؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے۔ خداتعالیٰ کی دی ہوئی پہلی چیز جذبات ہیں۔ بچہ جب ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو محبت اور پیار اور غصہ کو محسوس کرتا ہے، خوش ہوتا اور ناراض ہوتا ہے، پھر پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں، ناک، کان اور ہاتھ پائوں دیئے ہیں۔ پھر بڑا ہونے پر ِعلم ملتا ہے، طاقت ملتی ہے ان سب میں سے تھوڑا تھوڑا خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ ہے۔ علم، روپیہ، عقل، جذبات اور اپنی طاقتیں خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے یہ مطالبہ ایسا وسیع ہے کہ اس کی تفصیل کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں اور اس پر ہزار صفحہ کی کتاب لکھی جا سکتی ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اِس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ بہت سے ہیں جو تھوڑا بہت صدقہ دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر دیا۔ حالانکہ یہ بہت وسیع ہے۔ جہاد کا حکم بھی اسی کا ایک ُجزو ہے۔ بعض امراء صدقہ دے دیتے ہیں، کچھ پیسے خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اِس حکم کی تعمیل کر دی حالانکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کی دی ہوئی بہت سی چیزوں میں سے ایک کو خرچ کر دیا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب کچھ جو تمہیں دیا گیا ہے ان سب میں سے کچھ کچھ خرچ کرو۔
ہماری تائی صاحبہ تھیں ا ّسی پچاسی سال کی عمر میں سارا سال روئی کو کتوانا، پھر اَٹیاں بنانا، پھر جلاہوں کو دے کر اُس کا کپڑا ُبنوانا اورپھر رضائیاں اور توشکیں بنوا کر غریبوں میں تقسیم کرنا اُن کا دستور تھا اور اِس میں سے بہت سا کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتیں۔ جب کہا جاتا کہ دوسروں سے کرا لیا کریں تو کہتیں اس طرح مزا نہیں آتا۔ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر چیز کو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں؟ بعض لوگ چند پیسے کسی غریب کو دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اِس پر عمل ہو گیا حالانکہ یہ درست نہیں۔ جو شخص پیسے تو خرچ کرتا ہے مگر اصلاح و ارشاد کے کام میں حصہ نہیں لیتا وہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اِس حکم پر عمل کر لیا ہے یا جو یہ کام بھی کرتا ہے مگر ہاتھ پائوں اور اپنی طاقت کو خرچ نہیں کرتا، بیوائوں اور یتیموں کی خدمت نہیں کرتا وہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اُس نے اِس پر عمل کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ساری قوتوں کو َصرف کرنے کا حکم ہے۔ جذبات کو بھی خداتعالیٰ کی راہ میں صَرف کرنا ضروری ہے مثلاً غصہ چڑھا تو معاف کر دیا۔ اِسی کے ماتحت ہاتھ سے کام کرنا اور محنت کرنا بھی ہے۔ اور میں خدام الاحمدیہ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خد ِمت خلق کی روح نوجوانوں میں پیدا کریں۔ شادیوں بیاہوں اور دیگر تقریبات میں کام کرو، خواہ وہ کسی مذہب کے لوگوں کی ہو۔
اِس کے بعد فرمایا وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ ۲۱؎ اس میں ایمان بِالقرآن کا حکم ہے مگر اس کو صرف ماننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ہر حکم کو اپنے اوپر حاکم بنانا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں مَیں نے احباب کو یہ نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم نے عورتوں کو حصہ دینے کا جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں۔ اور چند سال ہوئے جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے احباب سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر اِس کا اقرار کریں اور اکثر نے کیا بھی تھا مگر میرے پاس شکائتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی نہ صرف یہ کہ خود حصہ نہیں دیتے بلکہ دوسروں سے لڑتے ہیں کہ تم بھی کیوں دیتے ہو۔ مسلمانوں نے جب عورتوں سے یہ سلوک شروع کیا تو خداتعالیٰ نے اُن کو عورتیں بنا دیا۔ انہیں ماتحت کر دیا اور دوسروں کو ان پر حاکم کر دیا انہوں نے عورتوں کو ان کے حق سے محروم کیا تو خداتعالیٰ نے ان سے حکومت ِچھین کر انگریزوں کو دے دی۔ انہوں نے عورتوں کو نیچے گِرایا اور خداتعالیٰ نے ان کو گِرا دیا۔ لیکن اگر تم آج عورتوں کو ان کے حقوق دینے لگ جائو اور مظلوموں کے حق قائم کرو تو خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور تمہیں اُٹھا کر اوپر لے جائیںگے۔
پس عورتوں کے حقوق ان کو ادا کرو اور ان کے حصے ان کو دو مگر اس طرح نہیں جس طرح کا ایک واقعہ میں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے ایک احمدی تھے ان کی دو بیویاں تھیں۔ قادیان سے ایک دوست ان کے پاس گئے تو ان کو معلوم ہؤا کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ انہوں نے نصیحت کی کہ یہ ٹھیک نہیں۔ اُس نے کہا کہ میں نے اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ جب ایک غلطی کرے تو اُسے تو اُس کی غلطی کی وجہ سے مارتا ہوں اور دوسری کو ساتھ اِس لئے مارتا ہوں کہ وہ اس پر ہنسے نہیں۔ جو دوست قادیان سے گئے تھے اُنہوں نے بہت سمجھایا کہ یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بات ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے سخت ناپسند فرماتے ہیں۔ اُس نے سن کر کہا کہ اچھا پھر تو بہت بڑی غلطی ہوئی اب کیا کروں۔ کیا معافی مانگوں؟ انہوں نے کہا ہاں معافی مانگ لو۔ وہ گھر پہنچے اور بیویوں کو بُلا کر کہا کہ مجھ سے تو بڑی غلطی ہوتی رہی جو میں تم کو مارتا رہا۔ مجھے معلوم ہؤا ہے کہ یہ تو گناہ ہے اور حضرت صاحب اس پر بہت ناراض ہوتے ہیں اس لئے مجھے معافی دے دو۔ وہ دل میں خوش ہوئیں کہ آج ہمارے حقوق قائم ہونے لگے ہیں۔ ِبگڑ کر کہنے لگیں کہ تم مارا ہی کیوں کرتے ہو؟ اُس نے کہا کہ بس غلطی ہو گئی اب معاف کر دو۔ وہ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو معاف نہیں کریں گی۔ اِس پر اُس نے کہاکہ سیدھی طرح معافی دیتی ہو یا ’’لاہواں ِچھل‘‘ یعنی کھال اُدھیڑوں۔ وہ سمجھ گئیں کہ بس اب یہ ِبگڑ گئے ہیں جھٹ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو یونہی کہہ رہی تھیں آپ کی مار تو ہمارے لئے پھولوں کی طرح ہے۔
ہندوستان میں عورتوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔ ُ ّکتے کو اس طرح نہیں مارا جاتا، بیلوں اور جانوروں کو بھی اس طرح نہیں مارا جاتا جس طرح عورتوں کو مارا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ ان کے اس سلوک کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عورتوں کی پوزیشن دے دی ہے۔ جب عورت کی عزت نہ کی جائے تو اولاد کے دل میں بھی خساست پیدا ہوتی ہے۔ باپ خواہ سید ہو لیکن اگر اُس کی ماں کی عزت نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو انسان کا بچہ نہیں بلکہ ایک انسان اور حیوان کا بچہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ ُبزدل بھی ہو جاتا ہے۔ پس عورتوں کی عزت قائم کرو اس کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ تمہارے بچے اگر گیدڑ ہیں تو وہ شیر ہو جائیں گے۔
یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے بعد ایمان وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ۲۲؎ کا حکم ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ دوسروں کے بزرگوں کا جائز ادب اور احترام کرو۔ گویا اس میں صلح کی تعلیم دی گئی ہے پھر اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریق اختیار کرو۔
آخری چیز یقین بِالآخرۃ ہے اس کے معنے دو ہیں ایک تو مرنے کے بعد زندگی کا یقین ہے۔ بعض دفعہ انسان کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں مگر ایمان بِال￿غَی￿ب کی طرف اُس کا ذہن نہیں جاتا اُس وقت اِس بات سے ہی اس کی ہمت بندھتی ہے کہ میری اِس قربانی کا نتیجہ اگلے جہان میں نکلے گا۔ پھر اِس کے یہ معنے بھی ہیں کہ انسان ایمان رکھے کہ خداتعالیٰ مجھ پر بھی اسی طرح کلام نازل کر سکتا ہے جس طرح اُس نے پہلوں پر کیا اِس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ سے محبت وہی شخص کر سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ خداتعالیٰ میری محبت کا صلہ مجھے ضرور دے سکتا ہے جس کے دل میں یہ ایمان نہ ہو وہ خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔
پس یہ چھ کام ہیںجو انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے ذمہ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ پوری کوشش کرکے جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تاکہ ان کا ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لئے مَیں نے اِس تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ (الفضل ۲۶؍اکتوبر۱۹۶۰ء)
۱؎ البقرۃ : ۲۶
۲؎ آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۸۶روحانی خزائن جلد ۵
۳؎ آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۹۶روحانی خزائن جلد ۵ ۴؎ المنافقون: ۸
۵؎ مسلم کتاب البروالصِّلۃِ باب تراحم المؤمنین (الخ)
۶؎ شھادۃ القرآن صفحہ۸۴ روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۸۰
۷؎ ازالہ اوہام صفحہ ۲۷۳ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۳۷۳ ۸؎ النمل : ۳۵
۹ ؎ کریٹ : (CRETE) ۔ مشرقی بحیرہ روم میں یونان کا سب سے بڑا جزیرہ۔ کریٹ کی قدیم منونی (MINOAN) تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے تھی۔ دوسری عالَمی جنگ میں انگریزی فوجیں اپریل ۱۹۴۱ء میں پسپا ہو کر کریٹ میں جمع ہوئیں اور مئی میں جرمنوں کے زبردست ہوائی حملوں سے ُکچلی گئیں ۱۹۴۴ء کے آخر میں برطانوی بحری طاقت نے جزیرے کو گھیرے میںلے لیا اور جرمنوں نے چھاپہ مار اتحادی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۱۹۹۔ لاہور ۱۹۸۸ء)
۱۰؎ حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۲۶ ۔ روحانی خزائن جلد ۲۲
۱۱؎ متی باب ۲۵ آیت ۱ تا ۱۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء
۱۲؎ کنسنٹریشن کیمپ: سیاسی اور جنگی اسیروں کے کیمپ
۱۳؎ مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بِالایمانِ للخائف
۱۴؎ البقرۃ : ۲،۳ ۱۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۵ ۔ ایڈیشن چہارم
۱۶؎ البقرۃ : ۴
۱۷؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۸؎ بخاری کتاب المغازی باب فَضْلُ مَنْ شَھِدَ بَدْرًا
۱۹؎ ، ۲۰؎ البقرۃ : ۴ ۲۱؎ ،۲۲؎ البقرۃ : ۶
 
Top