• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 17

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 17



محبتِ الٰہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

محبتِ الٰہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۳ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ۔ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سب سے پہلے تو دوست میرے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیںکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس جلسہ کو اپنے منشاء کے مطابق پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری ان ناچیز کوششوں کو بہت بڑے ثمرات پیدا کرنے کا موجب بنائے اور یہ جو چھوٹا سا بیج ایک ایسی زمین میں جو اِس سے پہلے پھل دینے سے عاری تھی لگایا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اِس کو اُسی طرح بار آور فرمائے جس طرح اُس نے اُس بیج کو بار آور فرمایاجو وادی غَیْر ذِیْ زَرَع میں بویا گیا تھا۔
مکہ کا ایک ایسی جگہ واقع ہونا جو غَیْر ذِیْ زَرَع تھی خود اپنی ذات میں ایسی بات نہ تھی جو قرآن کریم میں خصوصیت سے بیان کی جاتی مگر اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایاکہ مکہ کی بستی ایک ایسی جگہ بسائی گئی جہاں کو ئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی اِس میں اس روحانی تقابل کی طرف اشارہ تھا کہ یہ وہ زمین ہے جو ہر قسم کے انسانوں کے بوئے ہوئے بیجوں کو ردّ کر دیتی تھی۔ اِس میں خدا نے بیج لگایا ہے جو ایسے پھل دے گاکہ کوئی اور آباد ی جو زراعت کے لحاظ سے مشہورترین ہو وہ بھی مقابلہ نہ کر سکے گی۔ ویسی ہی یہ قادیان کی زمین بھی ہے۔ دُنیوی تہذیب و تمدن کے مراتب سے دُور، تعلیمی مراتب سے دُور، دینیات اور دینی علوم کے مرکزسے دُورایک گوشہ میں پڑی ہوئی ہے، مُلک کے ایک ایسے صوبہ میں واقع ہے جو دوسرے صوبوں کے لوگوں کے مقابلہ میں تعلیم میں پیچھے ہے اور ایسا صوبہ ہے جو لڑائی اور فساد میں مشہور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کے ایک بھولے بسرے گائوں میں ایک ایسی تحریک جو دنیا میں امن قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے جاری فرمائی ہے۔
وہ صوبہ جو ہندوستان ایسے فسادی ملک میں فساد کی جڑ سمجھا جاتا ہے، وہ قومیں جو اشتعال انگیزی اور اشتعال پذیری میں پٹرول کی سی شہرت رکھتی ہیں، اِس جگہ اور اِن لوگوں میں امن عامہ کی تحریک کا پیدا کرنا اور پھر اُسے کامیاب بنانا ایک ایسا آسمانی نشان ہو گا کہ دنیا اِس کی عظمت کا انکار نہ کر سکے گی۔
پس آؤ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اِس ناممکن کام کو جو ہماری طاقتوں اور قوتوں کے لحاظ سے ناممکن ہے ممکن کر دکھائے۔ کیونکہ اِس کی طاقتوں اور قدرتوں کے لحاظ سے جس چیز کو وہ چاہے اور جس بات کا ارادہ کرے، وہ ناممکن نہیں ہے۔
(اِس کے بعد حضور نے تمام حاضرین سمیت لمبی دعا کروائی اور پھر فرمایا)
جلسہ کے بعد جلسہ کا پروگرام تو اَور ہے مگر میں ایک دو ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ دوستوں کو جیسا کہ پہلے اطلاع دی جا چکی ہے چونکہ میری طبیعت خراب ہے اِس لئے میں ملاقاتوں کا بوجھ زیادہ برداشت نہ کر سکوں گا۔ اِسی وجہ سے تقریروں میں بھی بہت کچھ کمی کرنے کی ضرورت ہو گی۔ احباب کو معلوم ہے کہ اِس سال کے ماہ مئی کے شروع سے میری طبیعت خراب چلی آرہی ہے۔ڈلہوزی جانے پر دو ماہ کے قریب آرام رہا۔ عوارض اور علامات میں تخفیف رہی مگر نومبر کے درمیان سے پھر کھانسی شروع ہو گئی اور اِس کی وجہ سے بعض دفعہ تو آواز اِس قدر بیٹھ جاتی ہے کہ اپنے قریب کے آدمی کو بھی نہیں سُنا سکتا۔ شروع بیماری کے وقت تو ایسی حالت ہو گئی تھی کہ پاس کے کمرہ میں سے بھی کسی کو بلانا ہوتا تو آواز دینے کی بجائے تالی بجانی پڑتی یا کوئی چیز کھٹکھٹانی پڑتی تھی۔ یہاں تک کہ میں اپنی آواز دس بارہ فٹ تک بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔ اَب بھی جس وقت کھانسی لمبی ہو جائے تو دَورہ کے طور پر ایسی حالت ہو جاتی ہے۔ پرسوں جمعہ پڑھانے کے بعد جب میں گیا تو آواز بیٹھ گئی اور کئی گھنٹوں کے بعد یہ تکلیف دُور ہوئی۔
اِن حالات میں قدرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت احتیاط کی ضرورت ہو گی۔ یوں بھی ضعف کی کیفیت ایسی ہے کہ بعض اوقات سینہ میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ سینہ میں کوئی تھیلی تھی جو نیچے کو جُھک گئی ہے اور اِس کی وجہ سے کندھے وغیرہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہتے اور بعض دفعہ تو کپڑے بھی بوجھ محسوس ہوتے ہیں اور سارے جسم میں درد شروع ہو جاتا ہے۔
پس اِن اسباب کی وجہ سے تقریروں اور ملاقاتوں میںبھی کمی کرنی ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں دوست اِس کو زیادہ محسوس نہ کریں گے کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کی مشیّتہے۔ آخر کام ایک حد تک ہی کیا جا سکتا ہے اِس سے زیادہ ناممکن ہوتا ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ آیا جلسہ کے ایام میں مَیں پوری طرح ملاقات بھی کر سکوں گا یا نہیں۔ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے میری ایک بیوی طاہر احمد کی والدہ بیمار ہیں اور لاہور کے ہسپتال میںداخل ہیں۔ اِن کے متعلق تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ سوائے آپریشن کے علاج کی اور کوئی صورت نہیں اور بدھ کے دن آپریشن کرنا تجویز کیا ہے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ مریضہ کے متعلق خطرہ پیدا ہوئے بغیر اگر آپریشن ایک دو دن کے لئے ملتوی کیا جا سکے تو کر دیا جائے تاکہ میں جلسہ کے کام سے فارغ ہو کر وہاں چلاجاؤں۔ لیکن اگر ملتوی نہ کیا جا سکا تو منگل کی شام کو مجھے لاہور جانا پڑے گا۔ اِس وجہ سے منگل کے بعد جو ملاقاتیںہیں وہ نہ ہو سکیں گی۔
میں نے اِس وقت اللہ تعالیٰ سے بہت ہی عجز کے ساتھ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اِس مقصد پر قائم رکھے جس کے لئے یہ قائم کی گئی ہے اور جماعت کو اپنی گود میں لے لے۔ بہرحال انسان آتے اور چلے جاتے ہیں جو پناہِ حقیقی اور دائمی ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا کا وہ حصہ جبکہ مَیں نے محسوس کیا کہ خداتعالیٰ کے خاص تصرف سے ہو رہی ہے پورے طور پر بغیر ایک ثانیہ اور ایک سیکنڈ اپنے لئے یا اپنے عزیزوںکے لئے صَرف کرنے کے ساری کی ساری دعا جماعت کے لئے کی ہے اور میں جب اللہ تعالیٰ سے عرض کر رہا تھا کہ تو اِس جماعت کو اپنی ہی گود میں لے لے اور خود اِس کی حفاظت فرما کیونکہ تیری حفاظت کے بغیر وہ کام نہیں ہو سکتا جس کے کرنے کے لئے تو نے اِس جماعت کو مقرر کیا ہے تو میں نے دیکھا کہ آسمان سے نور اُترا اور اِس جلسہ گاہ پر چھا گیا۔ـ پس میں یقین رکھتا ہوںکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیشہ ہی جماعت کا محافظ ہو گا اور جب تک جماعت اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو جائے وہ اِس میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو اِس کام کے کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں گے، جو خداتعالیٰ سے خاص تعلق رکھنے والے ہوں گے اور اُس کے کلام اور پیغام کی اندرونی اور بیرونی طور پر اشاعت کرتے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اِس جماعت کے کمزوروں کو اِس طرح اپنی گود میں اُٹھا لے گا جس طرح ماں اپنے پیارے بچہ کو اُٹھا لیتی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی روحانی ترقی کا سارا دارو مدار کُلّی طور پر بغیر کسی استثناء کے اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس انسان کے دل میںخداتعالیٰ کی محبت قائم رہے، جس کے دل میں یہ تڑپ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی گود میں داخل ہو جاؤں اور اُس کے دامن کو پکڑ لوں، ایسا انسان کبھی بھی خواہ وہ کتنے ہی گناہوں میں ملوث ہو گناہوں کی موت نہیں مرتا اور نہیں مرسکتا۔ جن دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو اُن کے گناہ ایسے ہوتے ہیں جیسے جسم کو تیل مَل کر اوپر سے پانی ڈال دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کا نام مسیح رکھا اور مسیح کے معنی یہی ہیں کہ جسے تیل ملا گیا ہو اور یہ جو آیا ہے کہ مسیح اور اُس کی ماں گناہوں سے پاک ہیں۔ اِس کے یہی معنی ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنی محبت کا تیل اُن کو مل دیا۔ جب شیطان آزمائش کے لئے اُن کے پاس آتا تو وہ آزمائش اُن پر سے اِس طرح پھسل جاتی جس طرح تیل مَلے جسم سے پانی پھسل جاتا ہے۔
ہمارے آنحضرت ﷺ کا درجہ حضرت مسیح سے افضل ہے کیونکہ تیل مَلے جسم پر تو پانی ڈالا اور وہ پھسل کر باہر چلا گیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے شیطان کو مسلمان کر دیا ہے گویا حضرت مسیح کی کیفیت تو یہ تھی کہ بدتحریکیں اُن پر اثر نہ ڈالتی تھیں اُن کے ساتھ جب کوئی بدی ٹکراتی تو بجائے جسم میں داخل ہونے کے پھسل کر دُور چلی جاتی مگر رسول کریم ﷺ کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی آپ پر بداثر ڈالنا چاہتا تو اُس کی بات آپ کے کان میں جاتے ہی نیک تحریک بن جاتی۔ گویا اِن دونوں روحانی معجزہ دکھانے والوں کی مثال یہ ہے کہ ایک پر پتھر پڑتے مگر اُسے چُھو کر نیچے گر پڑتے اور دوسرے پر پتھر پڑتے لیکن اُس کے ہاتھ میں آتے ہی کوئی پتھر آم بن جاتا، کوئی سیب بن جاتا، کوئی انار بن جاتا اور وہ اُسے کھا لیتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جس کے جسم پر پتھر پڑیں اور اُسے گزند نہ پہنچائیں وہ خداتعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ مگر اِس میں بھی شبہ نہیں کہ وہ انسان جس کے جسم پر جو پتھر پڑیں اُن میں سے کوئی آم،کوئی سیب، کوئی ناشپاتی، کوئی انار، کوئی انگور بن جاتا ہے جسے وہ خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے تو وہ اَور بھی زیادہ خداتعالیٰ کا پیارا ہے اور بہت زیادہ خداتعالیٰ کے قریب ہے۔ غرض محبت الٰہی ہی ساری ترقیات کی جڑ ہے اُسے پوری طرح حاصل کر لو پھر خواہ کوئی دشمن آئے تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دشمن بڑی ڈراؤنی شکل میں تمہارے سامنے آئے گا، خطرناک سے خطرناک عذاب اپنے ساتھ لائے گا،تمہارے اوپر پہاڑگرانے کی کوشش کرے گا اور تمہارے گلے میں پتھر باندھ کر سمندر میں ڈبونے کی سعی کرے گا مگر ہر تدبیر جو وہ تمہارے خلاف کرے گا اور جب وہ اپنے ذہن میں سمجھے گا کہ تمہاری تباہی کے سارے سامان اُس نے جمع کر دیئے اُس وقت خداتعالیٰ مسکراتا ہوا آئے گا اور کہے گا چھوڑو جی میرے بچے کو اور تم کو لے کر اپنی گود میں اُٹھا لے گا۔ اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
(الفضل ۳۱؍ دسمبر ۱۹۴۳ء)
۱؎ مسلم کتاب صفات المنافقین باب تحریش الشیطان (الخ)


مستورات سے خطاب
(۱۹۴۳ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مستورات سے خطاب
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۳ء برموقع جلسہ سالانہ۔ قادیان)
تشہّد، تعوّذ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ الکوثر کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جیسا کہ جماعت کے بھائی بہن اخبارات کے ذریعہ واقف ہیں گزشتہ مئی سے میری طبیعت بہت خراب چلی آتی ہے کھانسی اور گلے کی خرابی کی و جہ سے مَیں اچھی طرح بول نہیں سکتا اِس وجہ سے آج مَیں مستورات کے جلسہ میںصرف تھوڑی دیر بولنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اِسی طرح مردوں میں جو تقریر ہو گی وہ بھی گزشتہ سالوں کی نسبت مختصر کرنی پڑے گی۔ چونکہ مردوں کے جلسہ کی تقریر اَب لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ عورتیں بھی سُن سکتی ہیں اِس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس تیسری تقریر کی کوئی خاص ضرورت نہیں مگر چونکہ فطری طور پر اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں مقابلہ کی روح پیدا کی ہے اِس لئے اُن کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے چند منٹ بولنے کے لئے یہاں آ گیا ہوں۔
پیشتر اِس کے کہ مَیں اس سورۃ کے متعلق بیان کروں ناظماتِ جلسہ کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میرے پاس شکایت آئی ہے کہ سٹیج پر بیٹھنے والی عورتوں میں چائے تقسیم ہوتی ہے جس پر دوسری عورتیں بُرا مناتی ہیں۔ میرے نزدیک سٹیج پر بیٹھنے والی بہنوں کو اپنی دوسری بہنوں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے اور آئندہ ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر پہلے اِس قسم کی کوئی غلطی ہوتی رہی ہے تو آئندہ اس سے اجتناب کیا جائے ۔ بھوک اور پیاس ایسی چیزیں ہیں کہ سٹیج پر بیٹھنے والیوں کو ویسی ہی بھوک اور پیاس لگتی ہے جیسی کہ نیچے بیٹھنے والیوں کو ۔ وہ عورتیں جو نیچے بیٹھی ہوئی ہیں جب وہ باوجود تنگ اور سمٹ کر بیٹھنے کے اور دھوپ میں ہونے کے بھوک اور پیاس کو روک سکتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سٹیج والیاں روک نہیں سکتیں؟ ہاں بیمار اِس سے مستثنیٰ ہیں۔ اِکّا دُکّا بیمار ہوتی رہتی ہیں مگر یہ خیال کرنا کہ سب یہاں بیمار بیٹھی ہیںغلط ہے۔ شاذو نادر ہی کوئی بیمار ہے۔ مثلاً اُس کا دل کمزور ہے تو اُس پر رحم کرنا چاہئے نہ کہ اعتراض۔ بہرحال مستورات کے سٹیج کے متعلق موجود ہ نظام درست نہیں۔ اِس سلسلہ میں مَیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ سٹیج کا نظام قابلِ اصلاح ہے۔ مردوں کے سٹیج پر کِسی کو اِس لئے جگہ نہیں دی جاتی کہ وہ مال دار ہے یا کسی اونچے طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہاں صرف اُن کو جگہ دی جاتی ہے کہ جو بیرونی جماعتوں کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری ہیں اور اُن سے اُمید کی جاتی ہے کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو جماعتوں کو یہاں کے حالات سُنائیں گے سوائے اُن کے جو غیراحمدی ہوتے ہیں یا بیمار یا اونچا سُننے والے کہ وہ اِس سے مستثنیٰ ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں مستورات میں بھی ایسا ہی نظام ہونا چاہئے۔ مختلف انجمنوں کی پریذیڈنٹ اور سیکرٹریوں کو بیٹھنے کا موقع دیا جائے یا مرکزی انتظام جن کے سپرد ہوں وہ بیٹھ سکتی ہیں یا غیراحمدی جو باہر سے آتی ہیں وہ اتنی تکلیف برداشت کر سکتی ہیں اور یا پھر وہ بیٹھ سکتی ہیں جو معذور ہوں جو زمین پر زیادہ دیر نہ بیٹھ سکتی ہوں۔ اِسی طرح جلسہ گاہ کے آخر میں بنچ لگا دیئے جائیں تاکہ بیمار اور معذور عورتیں بیٹھ سکیں۔ مَیںاُمید کرتا ہوں کہ لجنہ اِس بات کو نوٹ کر لے گی اور آئندہ سال اِس قانون پر عمل کیا جائے گا۔
صرف لجنات کی پریذیڈنٹ ،سیکرٹری یا بیمار یا پھر غیراحمدی عورتوں اور منتظمات کو ہی سٹیج پر جگہ دی جائے۔ جن کو اِن قواعد کے ماتحت بیٹھنے کا موقع نہ مل سکتا ہو آئندہ وہ نیچے بیٹھا کریں۔
(اِس موقع پر افسر صاحب جلسہ سالانہ کی طرف سے رُقعہ پیش کیا گیا کہ کل اور آج سٹیج پر کھانا نہیں کھایا گیا اور نہ ہی چائے تقسیم ہوئی ہے۔ فرمایا)
یہ خوشی کی بات ہے کہ اِس دفعہ کھانا نہیں کھایا گیا۔ مگر اِس قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو کام انسان خدا کی خاطر کرتا ہے اُس پر جو اعتراض کئے جائیں وہ انسان کو بخوشی برداشت کرنے چاہئیں۔اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کرنے والا اعتراضوں پر خوش ہوتا ہے نہ کہ ناراض۔ پس اعتراض ایک کان سے سُننے چاہئیں دوسرے سے نکال دینے چاہئیں۔ دین میں خدا کی خاطر گالیاں سُننے سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ سچا احمدی تو وہی ہے جو خدا کی خاطر اعتراضوں کو برداشت کرتا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں کسی دوست نے ایک نیک تحریک جاری کی۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن سے پوچھا گیا کہ کام کیسا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ اچھا کام نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو پسند نہیں کیونکہ نہ کسی نے گالی دی اور نہ اعتراض کیا۔ تو خدا کی خاطر جو تحریک ہوتی ہے اس پر ضرور اعتراض ہوتے ہیں اُن پر بُرا نہیں منانا چاہئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ کہنے لگے کہ مبارک ہو یہ تحریک مبارک ہے۔ گالیوں سے بھرا ہواایک خط آیا ہے۔ تو خدا کی خاطر اعتراضات کو برداشت کرنا حقیقی قومی ترقی کی روح ہے۔ اعتراضات کا فوراً جواب دینا تُھڑدِلی کی علامت ہے۔
مولوی برُہان الدین صاحب سِلسلہ کے بزرگوں میں سے تھے۔ ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ بڑا شاندار استقبال ہوالیکن وہاں دشمنوں نے گالیاں بھی دیں۔ جب حضور واپس آنے لگے تو لوگ پتھر مارنے لگے، پتھروں کی کثرت کی وجہ سے گاڑی کی کھڑکیاں بند کر دی گئیں۔ مولوی صاحب بیچارے بوڑھے آدمی تھے ، وہ ان لوگوں کے قابو چڑھ گئے کبھی داڑھی کھینچتے، کبھی مکّے مارتے، کبھی دھکّے دیتے وہ چلتے جائیں اور کہتے جائیں ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ ساڈیاں ایسیاں قِسمتاں کِتّھوں‘‘ آخر لوگوں نے پکڑ کر اُن کے منہ میں گوبر ڈال دیا تو کہنے لگے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ ساڈی قسمت وچ ایہہ نعمتاں کِتّھوں‘‘ تو مؤمن پر دین کی وجہ سے جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اُس کی نجات کا موجب ہوتا ہے اِس سے اُسے گھبرانا نہیںچاہئے۔
حضرت ابوطلحہؓ رسولِ کریم ﷺ کے عزیز صحابی تھے۔ جنگِ اُحد میں جب حضور چند دوستوں کے ساتھ اکیلے رہ گئے تو حضرت ابوطلحہؓ حضورؐکے سامنے کھڑے ہو گئے اور حضورؐ کے منہ کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ دشمن نے اِس قدر تِیر پھینکے کہ اُن کا ہاتھ شَل ہو گیا۔ ۱؎ کئی سال کے بعد کسی نے اُن کا ہاتھ دیکھا تو کہا ’’ٹُنڈا‘‘۔ حضرت ابوطلحہؓ نے کہا کہ میرے لئے تو ساری برکتوں کا موجب یہ ہاتھ ہے۔ جنگ اُحد میں جب رسولِ کریمﷺ پر دشمن نے وار کیا تو مَیں نے یہ ہاتھ حضور کے منہ کے آگے رکھ دیا۔ وار ہوئاتو میرا ہاتھ چَھلنی ہو گیا کِسی نے پوچھا آپ کو درد نہیں ہوئا تھا؟ کہنے لگے اُس وقت تو میرے منہ سے سِی تک نہیں نکلی۔ درد تو ہوتا تھا مگر مَیں اِس ڈر کے مارے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ ہِل جائے، رسولِ کریم ﷺ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے سِی تک نہیں کرتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں کھانا، ماریں کھانا اور بے عزتی برداشت کرنا رُتبہ حاصل کرنا ہے۔
اَب میں اختصار کے ساتھ اس سورۃ کے متعلق جو مَیں نے ابھی پڑھی ہے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اِس سورۃ میں فرماتا ہے ۲؎ ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمائی۔ کوثر کے معنی ہیں کثرتِ بھلائی اور ایسا شخص جو بہت صدقہ و خیرات کرنے والا ہو۔ ۳؎ پس اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ اے محمد!صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے۔ یعنی ہر وہ چیز جو دنیا کی نعمت ہو سکتی ہے آپ کو دی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ایسے وقت میں نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت کم لوگ تھے۔ آپؐ کے ملنے جُلنے والے، رشتہ دار، عزیز سب مخالف تھے۔دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، دشمن اتنے طاقتور تھے کہ کوئی خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ترقی دے گااُس وقت اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھ کو ہر نعمت بڑی تعداد میں دی ہے۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے جبکہ مسلمان بہت تھوڑی تعداد میں تھے۔ اُن کے لئے گلیوں میں چلنا پھرنا بھی مشکل تھا۔ خدا تعالیٰ نے اُس وقت رسولِ کریمﷺسے وعدہ کیا کہ ہم تجھے بہتات دیں گے اور ترقی دیں گیـ۔ حضرت عمرؓ اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ ایک دن وہ گھر سے اس امر کا ارادہ کر کے نکلے کہ مَیں (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) رسول اللہﷺکو قتل کروں گا۔ راستے میں کسی نے پوچھا عمر! یہ تلوار لگائے کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے جا رہا ہوں۔ اُس نے کہا تمہارے بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں پہلے اُن کو قتل کرو۔ حضرت عمرؓ نے کہا ہیں! یہ بات ہے! حضرت عمرؓ لَوٹے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے۔ اُن کا دروازہ بند تھا وہ کسی سے قرآن سُن رہے تھے۔ انہوں نے جاتے ہی دروازہ کھٹکٹھایا۔ انہوں نے جواب دیا ٹھہرو کھولتے ہیں۔ اوّل تو گھر کا دروازہ بند ہونا ہی بہت بڑی بات تھی پھر اُن کا یہ کہنا کہ ٹھہرو کھولتے ہیں حضرت عمرؓ کا شُبہ بہت بڑھ گیا۔ پوچھا کہ دروازہ کیوں بند کیا تھا؟ کہنے لگے یونہی۔ حضرت عمرؓ نے کہا تمہاری آوازیں آ رہی تھیں اور آگے بڑھ کر بہنوئی کو مارنا شرو ع کر دیا۔ اُن کی بیوی خاوند کی محبت کی وجہ سے برداشت نہ کرسکیں، آگے آ کر کھڑی ہو گئیں۔ کہنے لگیں کہ مارنا ہے تو مجھے مارو مَیں تمہاری بہن ہوں ان کو کیوں مارتے ہو؟ حضرت عمرؓ نے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا ہواتھا اور وہ آگے کی طرف حرکت کر رہا تھا رُک نہ سکا اور پُورے زور کے ساتھ اُن کی بہن کے منہ پر لگا او ر ناک سے خون بہنے لگا۔ ایک بہادر آدمی کے لئے یہ چیز پریشان کر دینے والی تھی۔ بہن کا خون دیکھ کر اُن کا غصہ اُتر گیا اور کہنے لگے بہن معاف کرنا غلطی ہو گئی۔ جب دیکھا کہ بہن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تو کہنے لگے اچھا وہ جو سُن رہے تھے مجھے بھی دکھاؤ بہنوئی تو کچھ ڈرے مگر وہ صحابی جو قرآن سُنا رہے تھے جو ش سے باہر نکلے کہ عمر جیسا انسان قرآنِ شریف سُننے کے لئے تیار ہے۔ حضرت عمرؓ نے ورق کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ان کی بہن نے ورق ہاتھ سے چھین لیا اور کہا کہ ناپاک ہاتھ نہ لگاؤ پہلے غُسل کرو اور پھر اِس پاک کلام کو ہاتھ لگاؤ۔ ندامت اور شرمندگی تھی، نہائے۔ اِس کے بعد ایک آیت پڑھی تو دل نرم ہوئا، دوسری پڑھی اَور نرم ہوئا، تیسری پڑھی تو اَور حالت ہوئی، چوتھی پڑھی تو اورپانچویں پڑھی تو دل کی حالت اَور ہوئی، چھٹی پڑھی تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سورۃ ختم ہوئی تو خاموشی سے اُٹھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ اُن کا بھی دروازہ بند تھا دستک دی۔ کسی نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا عمر بن الخطّاب۔ عمر مکہ کے بہادر اور لڑاکے آدمی تھے۔ صحابہؓ نے آواز سُنتے ہی عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! عمر لڑاکا آدمی ہے دروازہ نہ کھولنا چاہئے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کھول دو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ ؓ بہت بہادر سپاہی تھے اُنہوں نے کہا دروازہ کھول دو مَیں دیکھوں گا عمر کس طرح گستاخی کا معاملہ کرتا ہے۔ عمر مجرموں کی طرح داخل ہوئے، رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ عمر کس طرح آئے ہو؟ کہنے لگے یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپؐ کا غلام ہونے آیا ہوں۔ صحابہ ؓ نے سُنتے ہی اِس قدر زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا کہ مکّہ گونج اُٹھا۔ ۴؎ تو مسلمان اتنے تنگ تھے کہ کھلے بندوں نماز تک نہیں پڑھ سکتے تھے۔ اُس وقت خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ اے محمد!ﷺ مَیں تجھے ہر چیز کی کثرت دوں گا اِتنی قومیں تیرے مذہب میں داخل ہوں گی کہ گِنی نہ جاسکیں گی۔ یہ غریب اور کنگال لوگ اتنے مالدار ہو جائیںگے کہ اِن کے مال کا کوئی حساب نہ ہو سکے گا۔ وہ بات کِس رنگ میں پُوری ہوئی۔ فتح مکّہ کے موقع پر رسول کریمﷺدس ہزار قدّوسیوں سمیت مکّہ میں داخل ہوئے۔ ابوسفیان نے دُور سے لشکر دیکھا اور دیکھ کر کہا کہ یہ کونسا لشکر ہے؟ اُس کے ساتھیوں نے کہا کہ فلاں قبیلہ کا ہے اُس نے کہا کہ نہیں ان کے پاس اس قدر لشکر کہاں۔ اس کے ساتھیوں نے تمام بڑے بڑے قبائل کا نام لیا۔ اُس نے کہا کِسی کے پاس بھی اتنا لشکر نہیں۔ پھر انہوں نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں گے۔ ابوسفیان نے جواب دیا مَیں ابھی اُن کو مدینہ چھوڑ کر آیا ہوں۔ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے ہو سکتے ہیں۔۵؎ تو آپؐ کے پاس اتنا بڑا لشکر تھا کہ عرب کی کِسی قوم کے پاس اتنا بڑا لشکر نہیں تھا۔ ایک وہ وقت تھا کہ آپؐ ایک دوست کے ساتھ مکّہ سے تن تنہا نکلنے کیلئے تیار ہوئے اُس وقت خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تجھے غریب وکنگال کہتے ہیں ہر چیز کی تجھے اِتنی کثرت ملے گی کہ اس کا شمار نہ ہو گا۔۔ ہم نے تجھے کثرت دی اور برکت دی، اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں عطا کیں، خیرکثیر میں قرآنِ کریم بھی شامل ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی سب کتابیں ہیچ ہیں۔
ہزاروں لاکھوں کتابیں دنیا میں تصنیف کی گئی ہیں۔ ہندوستان اور بیسیوں مُلکوں میں کُتب موجود ہیں۔ ہندوستان ایک غریب ملک ہے اور پنجاب ایک غریب صوبہ ہے مگر صرف اسی کے کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں۔ اسی طرح دنیا میں ہزاروں لائبریریاں ہیں اور ان میں لاکھوں کتابیں موجود ہیں اور اِس سے پہلے کروڑوں کتابیں لکھی گئیں اور تباہ ہو گئیں۔ بعض کتابیں ایسی ہیں کہ اُن کی سَوسَو جلدیں ہیں مگر ان سب کتابوں کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹی سی کتاب ملی جسے لوگ حفظ بھی کر لیتے ہیں مگر اس کے نور اور اس کے عرفان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر وسیع معانی و مفہوم رکھتا ہے۔ اِس کی ایک آیت کے مقابلہ میں بڑی سے بڑی کتاب ہیچ ہے۔ زبان اتنی شیریں ہے کہ بڑے سے بڑا ماہر اِس کو سُن کر دنگ رہ جاتا ہے۔ عرب میں سات بڑے شاعر ہوئے جن کے قصیدے سونے کے حروف سے لکھ کر خانہ کعبہ کے دروازوں پر لٹکائے گئے۔ اُن میں سے ایک شاعر لبید مسلمان ہوگئے۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ انہیں بُلایا اور کہا کوئی اچھا سا شعر سُنائیں۔ انہوں نے پڑھ کر سنانا شروع کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا آپ اچھے شاعر ہیں! انہوں نے کہا اے خلیفۃ الرسولؐ! کیا قرآن کے ہوتے ہوئے کسی شعر کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۶؎ ؟ اس کے مقابلے میں تو دنیا کی ساری شاعری ختم ہو گئی۔
عرب کا ایک دہریہ شاعر تھا بادشاہ بھی دہریہ تھا۔ اُس نے کہا کہ تمہاری ہمیشہ مسلمانوں سے بحث ہوتی رہتی ہے تم کیوں کوئی ایسی آیت نہیں لکھ دیتے جو مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں پیش کردیں۔ شاعر نے کہا ہم لوگ کھانے پینے کے محتاج ہیں لوگوں کی تعریف کرتے ہیں اگر آپ کھانے پینے کا سامان کر دیں تو پھر لکھوں۔ بادشاہ نے کہا کیا چاہئے؟ اُس نے کہا ایک باغ ہو، لونڈیاں ہوں،ہرقسم کا سامان موجود ہو اور چھ مہینے کی مُہلت دی جائے۔ چھ مہینے بادشاہ اِس خوشی میں بیٹھا رہا کہ اب مسلمانوں کے مقابلہ کی سورۃ تیار ہو جائے گی۔ جب چھ مہینے گزر گئے۔ پوچھا تیار ہو گئی؟ کہنے لگا نہیں۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپیہ اِس نے کھا لیا پھر کہتا ہے کہ نہیں تیار ہوئی۔ وہ کہنے لگا اے بادشاہ! مَیںنے اپنی کوشش میں کمی نہیں کی۔ اِس بات کا ثبوت آپ اندر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ بادشاہ نے دیکھا کہ کاغذوں کا ڈھیر لگا ہوئا ہے۔ وہ کہنے لگا قرآن کی مثال جب مَیں لکھنے لگتا تھا تو میری قلم رُک جاتی تھی۔ مجھے تو ہر قدم پر شرمندگی اور ذلّت اُٹھانی پڑی ہے۔
تو قرآن اتنی اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے کہ تمام انسانی ضرورتوں کا علاج اور ہر قسم کی ہدایات اِس میں موجود ہیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن ایسی نعمت بنائی ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا بیان ہے ہم نے تجھے ہر چیز کی کثرت دی ہے۔
ہم بچے تھے تو ایک قصّہ پڑھا کرتے تھے کہ عمر عیّار کے پاس ایک زنبیل تھی جس میں سب کچھ نکل آتا تھا۔ کھانا ہوتا تو اِس میں سے اعلیٰ قِسم کے کھانے نکل آتے۔ مقابلہ کے لئے لشکر، ہاتھی، گھوڑے سب کچھ نکل آتا۔ وہ تو ایک کہانی تھی مگر اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآنِ کریم ایسی زنبیل رسولِ کریم ﷺ کو دی گئی کہ دنیا کی کوئی حاجت، کوئی سوال عقلی اور نقلی ایسا نہیں جس کا کامل جواب اس میں موجود نہ ہو۔
اچھی باتوں کی تعریف، بُری باتوں کا ردّ، عورت اور مرد کے تعلّقات، صلح اور جنگ کے احکام، شادی بیاہ کے احکام، تجارت اور اقتصاد کے احکام، لین دین کے معاملات، غرض کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے متعلق سوال کیا جائے اور اس کا جواب اِس میں موجود نہ ہو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی چیز ملی کہ اِس کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔
مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا تجربہ کیا ہے مَیں کہتا ہوں کہ کوئی شخص ایسی بات پیش کرے جس کا جواب قرآن کریم میں موجود نہ ہو مگر آج تک کوئی ایسی بات پیش نہیں کر سکا۔
ایک دفعہ کوئی غیر احمدی مولوی آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب کی سچائی قرآن کی آیت سے بتائیں۔ مَیں نے کہا مرزا صاحب کی سچائی ہر آیت سے ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا اس آیت سے ثابت کریں۔ ۷؎ مَیں نے کہا یہ آیت ہمیشہ کیلئے ہے یا صرف اِس زمانہ کیلئے؟ کہنے لگے ہمیشہ کے لئے۔ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ قرآن کی موجودگی میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم قرآن پر یقین رکھتے ہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہو ں گے۔ اگر اُمّتِ محمدیہ میں سب نیک لوگ ہی پیدا ہوتے تو پھر نبی کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن اگر اُمّتِ محمدیہ نے بِگڑ جانا تھا تو اُن کے لئے خداتعالیٰ کے مأمور کی یقینا ضرورت تھی۔ چنانچہ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ یہی بتاتا ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو منافق ہوں گے جو منہ سے تو کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں مگر دل سے نہیں ہوں گے۔ تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ہو جو اُن کو حقیقت میں محمد رسول اللہﷺ کی اُمّت بنائے۔ تو بعض دفعہ ایسا خدائی تصرف ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے منہ سے بھی تائید کرا دیتا ہے۔
ایک دفعہ ایک پادری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آیا۔ اِس بات پر بحث ہورہی تھی کہ عربی زبان مختصر ہے کہ انگریزی۔ آپ نے فرمایا اچھا ’’میراپانی‘‘ اِس کی انگریزی کیا ہے؟ کہنے لگا ’’مائی واٹر‘‘ (MY WATER) حضرت صاحب نے فرمایا عربی میں صرف ’’مائی‘‘ کا لفظ کہنا کافی ہے۔ اِس پر وہ شرمندہ ہو گیا۔ تو یہ خدائی تصرّف تھا کہ خدا نے آپؑ کے منہ سے ایسا ہی لفظ نکلوا دیا جو عربی میں اپنے اندر اختصار رکھتا تھا۔
تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے کوثر دی۔ کیا بلحاظ اس زمانہ کے آپؐ کے ماننے والے ساری دنیا میں پیدا ہو گئے۔ یہ خدائی طاقت ہے کہ اُس نے آپؐ کے ماننے والے ساری دنیا میں پھیلا دیئے۔ ہم اتنے عرصہ کے بعد بھی یہاں بیٹھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں۔
تیسرے معنی اِس زمانہ کے متعلق ہیں یعنی مَیں تم کو ایسا آدمی دینے والا ہوں جو بہت بڑا سخی ہو گا اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والا ہو گا۔ رسولِ کریم ﷺ اِس زمانہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ مسیح موعود لوگوں میں روپیہ تقسیم کرے گا مگر لوگ ردّ کر دیںگے ۔۸؎ لوگ غلطی سے اِس کے معنی سونے چاندی کے لیتے ہیں حالانکہ سونے چاندی کو کوئی ردّ نہیں کیا کرتا۔
ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کو رات کے وقت صدقہ دیا۔ وہ چور تھا جسے اُس نے صدقہ دیا۔ چور نے ایک اور آدمی کے ہاتھ پر رکھ کر کہا کہ کوئی بیوقوف مجھے خود یہ روپیہ دے گیا ہے۔ صبح کو اُس نے اس کی ہنسی اُڑائی کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا۔ دوسرے دن اُس نے پھر صدقہ دیاوہ کوئی فاحشہ عورت تھی۔ لوگوں نے اُس کی ہنسی اُڑائی کہ ایسی عورت کو صدقہ دیا جس کا روپیہ فحش اور بدکاری میں صَرف ہوتا ہے۔ تیسرے دن اُس نے پھر ایک اور آدمی کے ہاتھ پر سَو پچاس روپیہ رکھ دیا۔ وہ کوئی امیر کبیر آدمی تھا تو صبح کو شور پڑ گیا کہ ایک امیر کبیر آدمی کو صدقہ دیا گیا بھلا اِسے کیا ضرورت تھی ۔۹؎ تو سب نے روپیہ قبول کر لیا، سونے چاندی کو تو کوئی چھوڑ نہیں سکتا۔
اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں میں جو آتا ہے کہ مسیح خزانے تقسیم کرے گا ایسے مسلمانوں کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں مسیح موعود اُن کے آگے قرآن کے خزانے رکھے گا مگر وہ اُسے اُٹھا اُٹھا کر پھینک دیں گے اور قبول نہیں کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ہم تیری اولادمیں سے ایک روحانی بیٹا پیدا کریں گے جو علومِ روحانی میں بڑی برکت والا ہو گا۔ وہ ان روحانی خزانوں کو دنیا کے چاروں طرف تقسیم کرے گا مگر بدقسمت لوگ اِن خزانوں کو ردّ کر دیں گے۔
۱۰؎ جب کسی کو خیر ملے تو وہ بہت قربانیاں کرے اور بہت عبادت بجا لائے۔ تم میں سے کئی ہوں گی جن کے دل میں خیال آتا ہو گا کہ ہماری بھی کیا قسمت ہے۔ ہماری اولاد نہیں ہے یا ہماری جائداد نہیں ہے یا ہمارے خاوند کا رُتبہ بڑا نہیں ہے یا ہمارے پاس دنیا کے علوم نہیں مگر تم کو وہ چیز ملی ہے جو دنیا کے بادشاہوں کو نہیں ملی۔ سینکڑوں بادشاہ اِس خزانے سے محروم ہیں۔ اُن کی اولادیں، اُن کے رشتہ دار، اُن کی عزتیں سب کی سب اِس دنیا میں موت سے پہلے ختم ہو جائیں گی۔ فرشتے آئیں گے تو اُنہیں کوڑے لگائیں گے کہ نکالو اپنی جانیں۔ وہ لوگ اِسی دنیا میں اپنی چیزیں چھوڑ کر چلے جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جو چیز تم کو ملی وہ آخرت میں بھی تمہارے ساتھ جائے گی۔ خداتعالیٰ نے عزت کے وہ خزانے تمہیں دیئے ہیں کہ جو کبھی ختم نہ ہوں گے۔ وہ لوگ جو سردار کہلاتے ہیں، آقا کہلاتے ہیں، حاکم کہلاتے ہیں دوزخ میں ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہیں گے کہ ہمیں ایک قطرہ پانی دے دو مگر مؤمن کہیں گے ہمیں خدا نے اجازت نہیں دی۔
پس ہر وہ شخص جس کو خدا کی طرف سے خیر کثیر ملی ہے اُس کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہے۔ اور زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے والا ہو۔ خدا نے تم کو خیرِ کثیر دی ہے جس کے مقابلہ کی دنیا میں اور کوئی چیز نہیں۔
دو چیزیں ہیں جن کا خداتعالیٰ مطالبہ کرتا ہے نماز سے اُس کا شکریہ ادا کرو یعنی قدر دان اور شکر گزار بنو اور پھر وہ انسان جن کو اِس خیرِ کثیر سے حصہ نہیں ملا اُن کو دینے کی کوشش کرو۔ بنی نوعِ انسان کی اصلاح کی کوشش کرو۔ اُن کی حالت کو سُدھارنے کے لئے اپنے اُوپر مشقّتیں برداشت کرو۔ جو شخص دین کی خدمت کرتا ہے وہ مال دار ہے۔ اُسی کے پاس سونا ہے، اُسی کے پاس چاندی ہے جس کے پاس یہ نہیں وہ کنگال اور بھوکا ہے۔ وہ ایک لمبا عذاب مرنے کے بعد اُٹھانے والا ہے۔
پس تم اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کرو۔ عورتیں نماز میں بہت سُستی کرتی ہیں۔ عبادت تو خدا اور بندے کے درمیان تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ تم اپنے خاوندوں کے متعلق شکایت کرتی ہو کہ وہ باہر رہتے ہیں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملتاـ۔ مگر خدا خود کہتا ہے کہ آؤ میرے ساتھ باتیں کرو۔ وہ محسن اور حسین ہے۔ کیا تمہارا خاوند اتنی محبت کر سکتا ہے جتنی کہ خدا کرنے والا ہے؟ جس مؤمن کو کوثر مل جائے اور اُس کے احکام پر عمل کرنے کا اُسے موقع مل جائے اس سے بڑھ کر اور کون خوش قسمت ہو سکتا ہے۔
پھر فرماتا ہے۱۱؎۔ اے محمد! رسول اللہﷺ اِس خیرِ کثیر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تیرا دشمن جو تیرے مقابلہ میں کھڑا ہو گا وہ ناکام ونامراد ہو گا۔
جب تم اِس مقام پر پہنچ جاؤ تو پھر تمہیں دشمن کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی تم کامیاب ہو جاؤ گی تمہارے دشمنوں کی جڑیں کاٹ دی جائیںگی اور سب لوگ تمہارے مقابلے میں شکست کھا جائیں گے۔ کوثر والا مؤمن بڑی شان والا ہو گا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہو جائے گا۔اُس کا ہر دشمن ذلیل و خوار ہو گا۔
رسولِ کریمﷺ کو ایک دفعہ گرفتار کرنے کے لئے ایران کے بادشاہ نے سپاہی بھیجے۔ قاصدوں نے کہا کہ آپ کو ایران کے بادشاہ نے بُلایا ہے۔ آپ چُپ چاپ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپ نے فرمایا تین دن کے بعدجواب دوں گا۔ آپ تین دن دعا میں لگے رہے۔ تین دن کے بعد فرمایا جاؤ! اپنے بادشاہ سے کہہ دو میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا۔ ۱۲؎ وہی دن تھا اور وہی تاریخ کہ اس بادشاہ کے بیٹے نے اپنے باپ کے ظلموں کی وجہ سے اسے قتل کر دیا۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تجھ کو خیر کثیر دی ہے۔ اگر تم دنیا میں نیکی کرو گے، عبادت کروگے تو میں تمہارا محافظ ہوں گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور نگران ہوں گا۔ تم ہمیشہ کامیاب ہوگے جو تمہاری بُرائی چاہے گا میں اس کی جڑیں کاٹ کر پھینک دوں گا۔
اب میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمارے مردوں اور عورتوں کو اس خیر کثیر سے حصہ دے۔ دنیا کی بہتری کیلئے قربانیاں کرنے کی توفیق دے اور دشمنوں کی شرارتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
(از مصباح جنوری ۱۹۴۴ء)
۱؎ بخاری کتاب المغازی باب اِذْھَمَّتْ طَّائِفَتَانِ مِنْکُمْ (الخ)
۲؎ الکوثر: ۲
۳؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ۱۰۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۱۱۹،۱۲۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۱۴ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۶؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۲۶۲ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۷؎ البقرۃ: ۹
۸؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم (الخ)
۹؎ بخاری کتاب الزکوۃ باب اذاتصدق علی غنی وھولایعلمہٗ
۱۰؎ الکوثر: ۳ ۱۱؎ الکوثر: ۴
۱۲؎ تاریخ طبری الجزء الثانی صفحہ۲۴۷ تا ۲۴۹ دارالفکر بیروت لبنان ۱۹۸۷ء


بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۳ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

بعض اہم اور ضروری امور
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۳ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے کل بھی یہ اعلان کیا تھا کہ بوجہ بیماری اور کمزوری اور کھانسی کی شکایت کے ملاقاتیں اور تقریریں گزشتہ سالوں کی نسبت نہایت مختصر ہی ہوسکیں گی۔ آج پھر دوستوں کو دوبارہ یاد کرانا چاہتا ہوں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پچھلے دو تین ماہ سے میری آواز بھی نسبتاً صاف ہوگئی ہے، اور آگے سے اب کچھ طاقت بھی آگئی تھی مگر دوبارہ بیماری کا حملہ ہونے اور کھانسی شروع ہوجانے کی وجہ سے طاقت میں کمی ہوگئی اور اب متواتر بیٹھے رہنے اور بولنے سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ آج مجھے عورتوں کے اجلاس میں بھی بولنا پڑا اِس لئے جتنی مجھے امید تھی کہ آواز بلند نکال سکوں گا اُتنی نہیں نکال سکتا۔ مگر مجھے امید ہے اور عورتوں کے جلسہ میں تقریر کرتے وقت میں نے دیکھا ہے کہ گو شروع میں آواز کم تھی مگر پھر زیادہ زور کی ہو گئی اگرچہ آخر میں بیٹھنے لگ گئی۔ اِس وقت بھی اللہ تعالیٰ چاہے تو بولتے بولتے آواز میں زور اور طاقت پیدا ہو جائے گی۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اُس نے مجھے آج بولنے کی توفیق عطا فرمائی جب مجھے پہلے کھانسی کا شدید دَورہ ہوء ا تو میری آواز بیٹھنی شروع ہو گئی۔ چونکہ اِس قسم کی لمبی بیماری میں آواز بیٹھتی رہی تھی اس لئے مجھے وہم پیدا ہوگیا کہ شاید آئندہ کبھی میں تقریر نہ کر سکوں گا مگر اللہ تعالیٰ نے اگست کے قریب آواز کی اصلاح کر دی اور آہستہ آہستہ آواز اچھی ہونے لگی۔
اِس وقت سب سے پہلے تو میں یہ بات کہنی چاہتا ہوں کہ جو آثار گزشتہ سال ایک ایسی بنیاد کے معلوم ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ بنیاد اسلام کی ترقی و غلبہ کا موجب ثابت ہوگی اس کے متعلق یہ خیال غیر معمولی طور پر درست ثابت ہو رہا ہے اور ایسے آثار پیدا ہو رہے ہیں کہ خداتعالیٰ دنیا میں نیک تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ سال جس طرح عیدین اور کئی …………… اور ایک دوست نے لکھا ہے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک صحیح ہے کہ ہندوؤں کا سال بھی اِس دفعہ جمعہ کے دن سے شروع ہوا ہے بہرحال موجودہ جنگ ایسے تغیرات اپنے اندر رکھتی ہے کہ جو اسلام کے لئے مفید ہیں اور اِس خیال کی تائید میں یہ آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ غیرمعمولی طور پر اتحادیوں کو فتوحات حاصل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اسلامی ترقیات جو غیر ممالک سے وابستہ ہیں وہ اتحادیوں سے وابستہ ہیں مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ ترقیات اتحادیوں کی فتح سے وابستہ ہیں خواہ وہ ترقیات اُن ممالک سے ہی شروع ہوں جو اِس وقت اتحادیوں کے دشمن ہیں اور ان سے برسرِ جنگ ہیں۔ میرا یہ خیال اب اور بھی مضبوط ہو گیا ہے اِس وجہ سے کہ کچھ عرصہ ہوا قادیان کے پاس ایک گاؤں میں فساد ہوا تھا۔ اس کے بعض حصہ کے متعلق یقین تھا اور اب بھی ہے کہ گورنمنٹ کے بعض حُکّام کا ان میں دخل ہے۔
حکومت انگریزی کے افسران کے متعلق
پھر ہمیں حکومت کے افسروں سے یہ بھی شکوہ ہے کہ گو اُنہوںنے
ہماری باتیں سن کر تسلیم کیا کہ ہم انہی باتوں کو درست سمجھتے ہیں جو تم نے بتائی ہیں مگر ساتھ ہی یہ کہا کہ قانون کو اسی طرح چلنے دیا جائے جس طرح وہ چلتا ہے حالانکہ قانون خود نہیں چلا کرتا اُسے انسان ہی چلاتے ہیں جس طرح کہ وہ چاہتے ہیں۔ مجھے یہ فعل گورنمنٹ کے بالا حُکّام کا انصاف، دیانت اور تقویٰ کے خلاف نظر آیا۔ اس سے گورنمنٹ کی اُس ہمدردی اور خیر خواہی کو جو ہمارے دل میں ہے بہت صدمہ پہنچا۔ مجھے خیال آیا کہ ایسی حکومت جس کے افراد ہزاروں میل دُور سے اپنے گھروں سے یہ کہہ کر نکلتے ہیں کہ ہم عدل اور انصاف قائم کرنے کے لئے چلے ہیں اور ہمارے کام دیانت داری پر مبنی ہوں گے۔ پھر وہ ہزاروں روپے تنخواہ پاتے ہیں اور یہ روپے ہندوستانیوں کی جیبوں سے نکلتے ہیں ان کی اگر یہ حالت ہو کہ ایک بات کو درست اور صحیح سمجھتے ہوئے یہ کہیں کہ قانون کی آڑ میں جو ہوتا ہے اُسے ہونے دو، تو یہ ایسا بُرا نمونہ ہے کہ اِس کی تقلید کا شوق کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسے خیالات میرے دل میں پیدا ہوئے اور قریب تھا کہ وہ دعائیں جو پہلے ہم اِس قدر شوق اور جوش سے انگریزوں کی کامیابی اور فتح کے لئے کرتے تھے وہ دل سے نکلنا بند ہو جائیں کہ انہیں ایام میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا۔
انگریزوں کی فتح کے بارہ میں ایک رؤیا
میں دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے میں اس میںہوں اور
تھوڑے سے پانی کے بعد ایک اور علاقہ ہے میں اُس علاقہ کا نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ مولوی عبدالکریم صاحب آئے ہیں اور انگریزوں کے حق میں ریکروٹنگ کے متعلق تقریریں کر رہے ہیں اُنہیں دیکھ کر میں حیران ہوتا ہوں کہ مولوی صاحب تو فوت ہو چکے ہیں اور اگلے جہان سے کوئی انسان اس دنیا میں آ نہیں سکتا۔ پھر یہ کیا بات ہے میں نے کسی سے دریافت کرایا یا کسی نے مجھے خود بتایا کہ مولوی صاحب اجازت لے کر آئے ہیں تا کہ اِس موقع پر انگریزوں کے حق میں پراپیگنڈہ کریں۔پھر میں نے دیکھا کہ دوسرا علاقہ جو میرے سامنے ہے اُس پر بے تحاشہ اور بڑی کثرت سے لاریاں اور موٹریں سامانِ جنگ سے بھری ہوئی اُترنی شروع ہوگئی ہیں۔ میں نے دیکھا اُدھر تو بے شمار اور لاتعداد موٹریں اور لاریاں بے تحاشہ دوڑتی جا رہی تھیں اور ادھر مولوی عبدالکریم صاحب تقریریں کر رہے تھے اُس وقت میں نے سمجھا کہ بعض افراد کی غلطیاں اس عظیم الشان حکمت پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ظہور میں آنے والی ہے خواہ انگریز ہمارے بارے میں کتنی ہی غلطیاں کریں خدا تعالیٰ اِن کے ذریعہ یا پھر اِن کے ہاتھوں ان کے دشمنوں کے ذریعے ایسے ذرائع اور اسباب پیدا کرنے والا ہے کہ جو اسلام اور احمدیت کے غلبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اِس وجہ سے اِن کی فتح ضروری ہے اور اِتنی ضروری ہے کہ جو بزرگ فوت ہو چکے ہیں اُن کی روحوں کو ان کی مدد کے لئے مقرر کیا گیاہے۔
دوسرے دن اٹلی میں اِتحادی فوجیں اُتر پڑیں اور تیسرے چوتھے روز اخبار’’ سِول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ میں ایک ولایتی اخبار کا اقتباس چھپا جس میں لکھا تھا کہ اٹلی میں اتنی اور اتنی لاریاں اُتریں کہ جن کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا سوائے اس کے کہ کسی نے لندن کی کسی بڑی سٹرک پر ٹریفک رُکنے کا نظارہ دیکھا ہو اور وہ اس تعداد کو کئی سَو گنا بڑھا لے۔ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے وہ نظارہ دیکھا ہے۔ لندن میں ہم کہیں جا رہے تھے کہ پولیس نے راستہ روک دیا اور جب راستہ کھلا تو دوسری طرف کے لوگوں کو پولیس نے پہلے راستہ دیا۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ آدھ گھنٹہ تک ایک کی دُم سے لگی ہوئی دوسری موٹر چلتی رہی تب جا کر سٹرک صاف ہوئی اور پھر ہمیں گزرنے کی اجازت دی گئی۔ ولایت کے اخبار نے لکھا تھا کہ اِس نظارہ کو اگر کئی سَوگنے بڑھا لیا جائے تب اُن لاریوں اور موٹروں کی تعداد کا کسی قدر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میں نے خواب میں بھی یہی نظارہ دیکھا تھا کہ ایک کے ساتھ ایک لگی ہوئی دوسری لاری اور موٹر بھاگ رہی ہے اور تسلسل ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ اُنہی دنوں میں نے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ انگریز اور امریکن خوش ہیں کہ اٹلی میں اُنہیں جلد فتح حاصل ہو جائے گی مگر یہ فتح جلدی نہ حاصل ہوگی۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی ریکروٹنگ کے لئے تقریریں کرنا بتاتا ہے کہ دیر میں فتح ہوگی اور بڑی مشکلیں پیش آئیں گی۔ چنانچہ اُس وقت جو بڑے بڑے وعدے کئے گئے تھے کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اُن کی بجائے اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اُس وقت جو باتیں کہی گئی تھیں وہ آئندہ کی صحیح امیدیں تو ہیں مگر یہ نہیں کہ وہ جلدی پوری بھی ہو جائیں گی۔ اِس کے لئے بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ چنانچہ اب کہ اٹلی میں اتحادیوں کو داخل ہوئے چار ماہ ہو گئے ہیں اتحادی فوجیں روم تک بھی نہیں پہنچیں۔ تو اِس خواب کے دوسرے حصہ میں اِس طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ یہ جنگ جلدی ختم نہ ہوگی اور ادھر مجھے متنبہ کیا گیا کہ ایسے واقعات سے متأثر نہ ہونا انگریزوں کی فتح میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی کامیابی کی بنیاد رکھی ہے ۔
ایک اور رؤیا
اِس کے چند روز بعد میں نے ایک اور رؤیا دیکھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی تعبیر کس رنگ میں ظاہر ہوگی مگر اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انگریزوں کو
دِقتیں اور مشکلات پیش آنے والی ہیں۔ میں ڈلہوزی میں تھا کہ میں نے دیکھا ایک دریا کا موڑ ہے جہاں میں کھڑا ہوں اور ایسا معلوم ہوا کہ انگلستان سے ریڈیو پر آواز آ رہی ہے جس میں خبریں سنائی جا رہی ہیں اور خبریں سنانے والے کی آواز غمگین سی ہے اور اُس میں رقت پائی جاتی ہے وہ یہ خبر سنا رہا ہے کہ ایک جگہ شاہی خاندان کے افراد سخت گولہ باری کی وجہ سے خطرہ میں گھرے ہوئے ہیں اور وہاں برطانوی فوج بھی خطرہ میں ہے یہ خبر سنتے ہی میرے آگے سے حجاب اُٹھ گیا اور وہ جگہ مجھے نظر آنے لگی جہاں شاہی خاندان کے لوگ خطرہ میں تھے۔ میں نے دیکھا وہ ایسی جگہ ہے جیسے پہاڑ کا دامن ہوتا ہے اور وہاں ایسی شدید گولہ باری دشمن کررہا ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے پاس نہیں جا سکتا اور حالت یہ ہے کہ گولہ باری سے پہاڑی گرتی جاتی ہے اور گولے اُس جگہ کے قریب سے قریب تر پڑتے جا رہے ہیں جہاں شاہی خاندان ٹھہرا ہوا ہے۔ اُس وقت ریڈیو کی آواز اس طرح آ رہی ہے کہ اب گولے اور بھی قریب پڑنے لگ گئے ہیں اب اور بھی قریب پڑ رہے ہیں اور میں دیکھتا جاتا ہوں کہ فی الواقعہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہاں ملکہ معظمہ بھی ہیں اور دیکھا کہ ایک دریا سامنے بہہ رہا ہے اُس کے پہلو میں وہ جگہ ہے جہاں میں کھڑا ہوں اُس وقت میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کے مقابلہ سے بھاگتی چلی آرہی ہے خواب میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ فوجی مجھے اس جگہ سے ہٹاتے نہیں جہاں میں کھڑا ہوں۔ اُس وقت گولیاں بڑے زور سے برس رہی ہیں اور فوجی کوئی میرے دائیں سے اور کوئی میرے بائیں سے بھاگتے جا رہے ہیں۔ اِسی دوران میں میَں نے دیکھا کہ ملکہ کی گاڑی آرہی ہے جس کے پیچھے جرمن فوج کا ایک دستہ ہے جو گھوڑ چڑھے سوار ہیں اور گاڑی کا بڑے زور شور سے تعاقب کر رہے ہیں اور بڑے خوش ہیں کہ ملکہ کی گاڑی اُن کے ہاتھ آنے والی ہے۔ وہ دوسری جگہ جہاں انگریزی فوج اب جمع ہو رہی تھی دریا کے پار ہے اور جرمن سمجھتے ہیں کہ دریا میں سے گاڑی نہیں گزر سکے گی۔ گاڑی بڑے زور سے دَوڑی آ رہی ہے کوچوان گھوڑوں کو کوڑے پر کوڑے مارتا جا رہا ہے اور گاڑی بڑی تیزی سے بھاگتی آرہی ہے اُس وقت میں انگریزوں کو جو دریا کے پار کھڑے ہیں روکتا ہوں اور کہتا ہوں یہ بڑی بزدلی اور بے عزتی کی بات ہے کہ تم ایسے موقع پر بھاگ جاؤ اور انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو ملکہ کی گاڑی آرہی ہے اِس وقت تم خوب جم کر مقابلہ کرو اور سمجھتا ہوں کہ ملکہ کی گاڑی اگر دریا پار کر لے تو انگریزی حکومت محفوظ ہو جائے گی اور جب میں انگریزوں کو روکتا ہوں تو میری بات اُن پر فوری اثر کرتی ہے اور جسے میں روکتا ہوں وہ رُک جاتا ہے اورجدھر سے گاڑ ی آرہی ہے اُدھر گاڑ ی کی حفاظت کے لئے بھاگ پڑتا ہے اور دریا میں کود جاتا ہے اِس طرح بہت سے انگریز گاڑی اور تعاقب کرنے والے جرمن دستہ کے درمیان پہنچ گئے ہیں۔ اِس دَوران میں کوچوان نے گاڑی کو دریا میں ڈال دیا اور گاڑی دریا میں گز ر کر اُس جگہ جہاں میں کھڑا تھا آگئی۔ اُس وقت ساری برطانوی حکومت سے تالیوں کی گونج سنائی دی اور باوجود اِس کے کہ یہ ہمارا طریق نہیں ہے اور ہم اِسے اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں مگر میرے ہاتھ بھی تالی بجانے لگ گئے اور میں نے دو تین دفعہ تالی بجائی۔ میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے شاہی خاندان کے بعض افراد کو خطرات پیش آئیں اور وہ مشکلات دیکھیں کیونکہ ایک فرد سے مراد اُس سے تعلق رکھنے والے اور افراد بھی ہوتے ہیں۔
بہرحال ان خوابوں سے میرے دل میں جو اِنقباض تھا وہ جاتا رہا اور میں نے سمجھا بہرحال اتحادیوں کی فتح ہمارے لئے مفید ہے خواہ ہمیں ان سے کچھ تکلیفیں بھی پہنچیں پس اِس وقت ہمیں ساری کوشش ان کو مدد دینے کے لئے کرنی چاہے۔ رؤیا میں مجھے دریا دکھایا گیا ہے ممکن ہے بعض دریاؤں پر بڑی سخت لڑائی ہو اور اب اٹلی میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پس میں دوستوں کو اِن خوابوں کی بناء پر توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو چاہئے کہ شوق کے ساتھ اور کثرت سے بھرتی ہوں ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے۔ بے شک تلوار کے ذریعہ نہیں کیونکہ ہم نے تلوار نہیں چلانی مگر تلوار کھانی تو ہے اور اسلام نے دفاع کا بھی حکم دیا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ کسی جگہ پر حملہ کرو مگر یہ ضرور کہتا ہے کہ اپنے آپ کو بچاؤ اور حفاظت کے لئے اپنے پاس ہتھیار رکھو اور اُن کو چلانا سیکھو تا کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے تو تم اپنی حفاظت کر سکو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اسے ایسا ضروری قرار دیا ہے کہ مسجدمیں جہاں ذکرِ الٰہی کے سِوا اور کوئی کام جائز نہیں اس میں فنونِ جنگ کی مشق کرائی ہے۔ ایک دفعہ آپ تیر اندازی کا مقابلہ کرا رہے تھے کہ آپ خود بھی ایک پارٹی میں شامل ہو گئے۔ یہ دیکھ کر دوسری پارٹی نے کمانیں پھینک دیں کہ ہم آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اِس پر آپ نے تیر چلانا چھوڑ دیا۔
تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو فنونِ جنگ سے اتناشغف تھا تو اِس کی وجہ یہی تھی کہ جرأت اور دلیری ہتھیاروں کے استعمال سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ پھر ہتھیارچلا سکنے والا، دشمن پر ہتھیار نہ چلائے بلکہ درگزر سے کام لے تو اِس کا بہت اثر ہوتا ہے ورنہ جو ہتھیار چلانا نہیں جانتا وہ اگر دشمن سے کہے کہ میں تم کو چھوڑتا ہوں اور تم پروار نہیں کرتا تو اس کی کیا وقعت ہو سکتی ہے۔ ہمیں لڑائی کا فن آتا ہو ہم تلوار، بندوق، توپ، مشین گن چلانا جانتے ہوں، اعلیٰ درجہ کے ہتھیار بنا سکتے ہوں اور اپنے پاس ہتھیار رکھتے ہوں پھر حملہ آور سے کہیں لو مار لوہم ہاتھ نہیں اُٹھاتے بلکہ تم سے محبت ہی کا اظہار کرتے ہیں تب قابل تعریف بات ہے۔
دیکھو ایک بچہ اگر کسی پہلوان سے کہے کہ تم بے شک مجھے مارلو میں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھاتا تو یہ ہنسی کی بات ہوگی مگر ایک مضبوط پہلوان کو کوئی کمزور مارنا چاہے اور پہلوان اُسے کہے بے شک تم مجھے مارلو میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا تو یہ قابل تعریف بات ہوگی۔ اِسی طرح جب ہم میں طاقت ہو، ہمارے پاس ہتھیار ہوں، ہم ہتھیار چلانا جانتے ہوں اور پھر یہ کہیں کہ ہمارے تو خدا نے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ہم ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے تب اِس کا اچھا اثر پڑے گا۔
دفاع کیلئے فنونِ سپہ گری سیکھنے کی ضرورت
اِسی لئے میں نے ہمیشہ اِس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری
جماعت کے لوگوں کو فنونِ سپہ گری سے واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اِس کیلئے جو بھی موقع میسر آئے اُس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ جب ہم ایسا کرلیں گے اُس وقت اپنی گردنیں مخالف کے ظلم و ستم کے سامنے جھکا دیں گے اور کہیں گے کہ ہم اِس رنگ میں تمہارا مقابلہ تو کر سکتے ہیں مگر تمہاری محبت اور تمہاری خیر خواہی ہمیں تم پر ہاتھ نہیں اُٹھانے دیتی تب لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوں گے اور اُن کی گردنیں ہمارے سامنے جھکیں گی۔ اِس طرف مَیں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر جماعت کا ایک حصہ ابھی تک فوج میں بھرتی ہونے کو ملازمت کرنا سمجھتا ہے حالانکہ ہم نوکری اور ملازمت کی خاطر بھرتی ہونے کیلئے نہیں کہتے بلکہ اِس لئے کہتے ہیں کہ جو احمدی بھرتی ہو کر جائیں وہ فنونِ جنگ سیکھ کر آئیں تا کہ ضرورت کے وقت وہ سچی اور مؤثر قربانی کر سکیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ احمدی تشدد کا مقابلہ اس لئے نہیں کرتے کہ ان میں طاقت نہیں بلکہ یہ سمجھیں کہ وہ طاقت رکھتے ہوئے اِس لئے ہاتھ نہیں اُٹھاتے کہ ان کو تعلیم یہی دی گئی ہے۔
پھر میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ غور تو کرو۔ اس بات کا کون ذمہ دار ہے کہ ہم پر وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جب ہمیں اِس رنگ میں دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے۔ گزشتہ نبیوں کی اُمتوں میں ہم یہ نظارے دیکھتے ہیں کہ گو وہ امن پسند تھیں، کسی کے خلاف ہاتھ نہ اُٹھانا چاہتی تھیں لیکن مخالفوںنے انہیں مار مار کر مجبور کر دیا کہ اپنی حفاظت کی طرف متوجہ ہوں اور آخر وہ وقت آ گیا جب خدا تعالیٰ نے انہیں کہا تمہیں بھی اب مقابلہ کرنے کی اجازت ہے۔ پس تمہیں کیا معلوم ہے کہ ہماری جماعت کیلئے کسی وقت ایسا ہی وقت آ جائے۔ کیا اُس وقت تم دشمن کے پاس یہ میمورنڈم بھیجو گے کہ دیکھو ہم ایک امن پسند جماعت ہیں اگر ہم پر حملہ کرنا ہی ہے تو کم از کم پانچ چھ سال کی مہلت دو تا کہ ہم بھی جنگ کرنا سیکھ لیںپھر ہم لڑائی کر سکیں گے۔ اگر تم ایسا کرو گے بھی تو اِسے کون مانے گا۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی بے وقوف بادشاہ تھا اُس نے ایک دن کہا کہ فوج پر خواہ مخواہ اِتنا خرچ کرنا پڑتا ہے اور یہ کام کچھ نہیں دیتی اِسے موقوف کر دیا جائے۔ چنانچہ فوج برخواست کر دی گئی۔ کسی نے کہا کہ اگر موقوف کر دیا گیا تو پھر دشمن کا مقابلہ کون کرے گا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر ایسا وقت آ گیا تو مقابلہ کیلئے ملک کے قصابوں کو جمع کر کے بھیج دیں گے۔ جب پاس کے کسی بادشاہ کو یہ معلوم ہوا کہ اس بادشاہ نے فوج موقوف کر دی ہے تو اُس نے اس مُلک پر حملہ کر دیا۔ اِس کے مقابلہ کیلئے قصابوں کو کہا گیا کہ اپنی چھریاں اور چھرے لے کر جاؤ اور مقابلہ کرو۔ قصاب چلے تو گئے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد بھاگتے ہوئے آئے کہ فریاد! فریاد! بادشاہ سلامت! اِن لوگوں کو روکا جائے کہ اِس طرح جنگ نہ کریں ہم تو اُن میں سے کسی ایک کو پکڑ کر باقاعدہ زمین پر لٹاتے ہیں اور پھر بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ذبح کرتے ہیں لیکن وہ بے تحاشہ مارتے جاتے ہیں کچھ دیکھتے ہی نہیں۔ اُنہیں کہا جائے اِس طرح بے تحاشہ قتل نہ کریں اتنے میں حملہ آوروں نے آکر بادشاہ کو بھی مار دیا اور ساری حکومت پر قبضہ کر لیا۔ پس ایسی قومیں جو اپنی حفاظت کا سامان نہیں کرتیں ہلاک کر دی جاتی ہیں کیونکہ بے سروسامانی اور کمزوری ایسا جُرم ہے جو کبھی معاف نہیں کیا جاتا۔ کمزوری کی حالت میں تم اگر کسی کی طرف منہ کر کے پھونک بھی مارو گے تو یہ کہہ کر تمہیں مجرم گردانا جائے گا کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں جادو کرنا آتا ہے اور اِس طرح تم دوسروں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔ یا پھر یہ کہیں گے کہ تمہارے اس طرح کرنے سے چونکہ دوسروں کو اشتعال آتا ہے اس لئے تم قصور وار ہو۔
دراصل قانون خود بخود نہیں چلتا بلکہ اُن افسروں کے ذریعہ چلتا ہے جو اُسے چلانے کیلئے مقرر ہوتے ہیں۔ اگر ان افسروں میں انصاف نہ ہو، خدا ترسی نہ ہو تو وہ ہر بات کو کمزوروں کے خلاف بنا لیتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اگر اللہ تعالیٰ نے احمدیہ جماعت کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کیلئے انگریزوں اور جرمنوں کی جنگ کرادی تو یہ حکمت بھی کوئی چھوٹی حکمت نہیں ہے۔ پچھلے دنوں بھرتی ہونے والوں کا شمار کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ قادیان میں جس قدر بھرتی ہونے والوں کے نام لکھے گئے وہ پونے بارہ سَو کے قریب ہیں یہ صرف قادیان سے بھرتی ہونے والوں کی تعداد ہے اور یہاں احمدیوں کی تعداد دس بارہ ہزار کے قریب ہے۔ گویا ۱۲،۱۴ بلکہ ۱۵فیصدی نوجوان بھرتی ہو کر قادیان سے چلے گئے ہیں۔ اِس طرح بیرونی جماعتوں میں سے بھرتی ہونے والوں کا اندازہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ اِس وقت تک ۱۵ ہزار کے قریب جوان بھرتی ہو کر لڑائی میں جا چکے ہیں حالانکہ ہماری تعداد آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ جالندھر ڈویژن کے متعلق رپورٹ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا اِس وقت تک سات ہزار رنگروٹ بھرتی ہوچکا ہے۔ تو اِس میں شُبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے بہت لوگ بھرتی ہو کر جنگ میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مگر ابھی بہت سے ایسے ہیں جو بھرتی ہو سکتے ہیں۔ پس یہ موقع جو خداتعالیٰ نے بہم پہنچایا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ٹیکنیکل بھرتی میں بے شک تنخواہ زیادہ ملتی ہے اور میں اِس میں بھرتی ہونے والوں کو فائدہ سے محروم کرنا نہیں چاہتا مگر مُلک اور حکومت اور دنیا کی خدمت بلکہ جماعت کی خدمت کا زیادہ موقع لڑنے والی فوج میں بھرتی ہونے سے مل سکتا ہے کیونکہ اِس میں ایسی ٹریننگ آ جاتی ہے کہ جب دشمن حملہ آور ہو تو کامیابی سے اُسکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس وقت اگر تم دشمن سے مار کھا لو اور مقابلہ میں زیادتی نہ کرو تو دنیا کہے گی کہ تم نے صبر سے کام لیا اور قابلِ تعریف حوصلہ دکھایا اور اس کا بہت اچھا اثر ہوگا۔
۱۹۳۲ء کے آخر میں جب مَیں سیالکوٹ گیا تو وہاں میرا لیکچر مقرر تھا۔ جب شام کے وقت مَیں لیکچر دینے کیلئے گیا تو کئی لوگوں کی طرف سے مجھے پیغام پہنچا کہ جلسہ گاہ کے گرد احراری بڑی جماعت میں جمع ہیں اور فساد کا خطرہ ہے آپ نہ آئیں۔ مَیں نے کہا چونکہ میری تقریر کا اعلان کر دیا گیا ہے اس لئے میں ضرور تقریر کیلئے جلسہ گاہ میں آؤں گا۔ آخر جب میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو بعض معززین نے کہا کہ جلسہ میں فساد برپا کرنے کی پوری تیاریاں کی جا چکی ہیں اِس جلسہ کو برخواست کر دیا جائے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ تشریف لے جائیں کیونکہ خطرہ ہے ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہ ہوگا لیکن ہم چونکہ جلسہ عام کا اعلان کر چکے ہیں اِس لئے اِس ڈر سے کہ لوگ فساد برپا کرنا چاہتے ہیں جلسہ بند نہیں کر سکتے۔ اِس پر وہ لوگ بھی جلسہ ہی میں بیٹھے رہے اور اُنہوں نے جانا پسند نہ کیا۔ آخر جب میری تقریر کا وقت ہوا اور میں تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہوا تو چاروں طرف سے لوگ پتھر مارنے لگ گئے۔ احباب جوشِ محبت سے میرے اِردگرد جمع ہوگئے۔ مگر باوجود اُن کی حفاظت کے دو تین پتھر مجھے بھی لگے اور میز پر پتھروں کا ڈھیر لگ گیا۔ اُس وقت ہم نے وہاں کے رؤساء سے کہہ دیا کہ آپ چلے جائیں اور وہ چلے گئے مگر اپنی جماعت کے لوگوں سے میں نے کہا ایسے موقع پر ہی انسان کی آزمائش ہوتی ہے تم سب لوگ بیٹھے رہو خواہ کچھ ہو صرف ڈاکٹرز زخمیوں کو اُٹھانے اور پٹی کرنے کیلئے کھڑے ہوں۔ چند ہی منٹوں میں ہمارے قریب پچیس آدمی زخمی ہوگئے۔ تب حُکّام کو توجہ ہوئی اور اُنہوں نے پتھر مارنے والوں کو ہٹا دیا۔ ہماری جماعت میں سے خدا کے فضل سے اُس وقت کوئی نہ بھاگا ممکن ہے کوئی گیا ہو لیکن مَیں تو کھڑا تھا مَیں نے کسی کو جاتے نہ دیکھا۔ ہمارے آدمی جس طرح پیٹھیں کئے بیٹھے تھے اُسی طرح بیٹھے رہے۔ ایک بھائی اِس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اُنہوں نے پتھر مارنے والوں کو مغلّظات سنانی شروع کر دیں۔ مَیں نے اُنہیں روکا تو کہنے لگے مَیں تو احمدی نہیں ہوں۔ اُس وقت وہ احمدی نہ تھے بعد میں انہوں نے بیعت کی۔ وہ اس نظارہ کو دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور زیادتی کرنے والوں کے خلاف بول اُٹھے۔ غیر مبائعین کی انجمن کے سیکرٹری ہمارے کتنے مخالف تھے لیکن وہ رات کے ایک بجے اُس مکان پر پہنچے جہاں میں پڑا ہوا تھا اور یہ کہہ کر ملنے کی اجازت مانگی کہ جب تک مَیں ان سے مل نہ لوں گا سو نہ سکوں گا۔ میں نے اُنہیں بُلا لیا تو وہ کہنے لگے دنیا نے تیرہ سَو سال قبل جو نظارہ بدر میں دیکھا تھا وہ آج ہم نے یہاں دیکھ لیا۔ یہ نظارہ دیکھنے کے بعد میں گھر نہیں جا سکا کہ اِن جذبات اور احساسات کا اظہار آپ سے کرنا ہے اور اِسی غرض سے میں اس وقت آیا ہوں۔
تو ایسے مواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہادری اور جرأت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ انسان مقابلہ کر سکے اور پھر نہ کرے ورنہ دشمن سمجھتا ہے کہ کمزور ہونے کی وجہ سے ڈر گیا اور بھاگ گیا۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ دوست ذرا زیادہ جرأت اور دلیری سے کام لے کر اور قربانی کر کے بھرتی ہونے کی کوشش کریں گے۔ خصوصاً احمدیہ کمپنیوں میں، کیونکہ ان میں جوانوں کی ضرورت ہے۔ گو اِس وقت تک ہم ۱۵ ہزار کے قریب بھرتی دے چکے ہیں اور پنجاب میں سرکاری رپورٹ کی رو سے ہماری تعداد ۷۰ ہزار ہے اور ہم اپنی جماعت کی تعداد پنجاب میں دو اڑھائی لاکھ کے قریب سمجھتے ہیں اگر حکومت کی بتائی ہوئی تعداد ۷۰ ہزار مانی جائے تو اس لحاظ سے اگر سارا ہندوستان ۸ کروڑ بھرتی دے تب ہمارے ذمہ ۱۵ ہزار کی بھرتی آتی ہے لیکن اگر ہماری تعداد اڑھائی لاکھ تسلیم کی جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے مقابلہ میں ہندوستان کو ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ کی بھرتی دینی چاہئے۔ ہندوستان کی ساری بھرتی ۱۵ لاکھ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے ہمارا بھرتی دینے کا جتنا حق بنتا ہے اُس سے پندرہ گنا زیادہ ہم دے چکے ہیں اور گورنمنٹ کی مردم شماری کی رپورٹ کو مدنظر رکھیں تو چار سَو گنے زیادہ دے چکے ہیں۔ مگر یہ ہمارے لئے خوشی کی بات نہیں ہے خوشی اُس وقت ہو سکتی ہے جب ہر احمدی نوجوان اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور اُسے ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کسی وقت مُلک میں فساد ہو جائے اور کسی طرف سے دشمن آ جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہماری بیویوں اور بیٹیوں کی عزت برباد ہو جائے گی اور نہ معلوم کیا کیا مصائب ہم پر ٹوٹ پڑیں گے لیکن اگر لوگوں کو یہ یقین ہو کہ کسی وقت فساد ہونے پر یا دشمن کے آ جانے پر ہمارے ہمسائے مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے جو ہماری حفاظت کریں گے تو وہ اطمینان کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے فوجی ٹریننگ کی ضرورت ہے پس جو بھی فوج میں بھرتی ہو سکتا ہے اسے ضرور بھرتی ہوجانا چاہئے۔
انگریزی ترجمۃ القرآن
اب میں انگریزی ترجمۃ القرآن کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کی اشاعت کے متعلق مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء
میں فیصلہ کیا گیا تھا اور اب ۱۹۴۳ء بھی ختم ہو رہا ہے مگر ترجمہ شائع نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہوئی کہ وہ پریس جس نے چھاپنے کا ٹھیکہ کیا تھا وہ عربی کا ٹائپ مہیا نہیں کر سکا۔ اب اس کے لئے حیدر آباد دکن میں انتظام کیا گیا ہے اگر وہاں عربی کا ٹائپ بن جائے تو انگریزی ترجمہ شائع ہو سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ۳۰؍نومبر کو سیسہ حیدر آباد بھجوایا گیا تھا لیکن رپورٹ آئی ہے کہ وہاں ابھی تک نہیں پہنچا حالانکہ سواری گاڑی میں بھیجا گیا تھا۔ حیدر آباد والے کہتے ہیں کہ اگر سیسہ مل جائے تو دو تین ماہ میں عربی ٹائپ کا کام ختم کر لیں گے۔ ارادہ یہ ہے کہ سورۃ نحل تک کا ترجمہ پہلی جلد میں چھپے جو قریباً تیار ہے۔ اگر جنوری میں بھی ٹائپ آ جائے تو مجلس شوریٰ سے پہلے پہلے تیار کر سکتے ہیں۔
مصالح تیار ہے صرف عربی ٹائپ کی دیر ہے۔ حیدر آباد کے دوست جلسہ سے واپس جا کر جلدی کام کرا دیں اور ٹائپ جلد بھجوا دیں تو میں سمجھتا ہوں پھر کام جلدی ہو جائے گا ورنہ جنگ کے بعد ہندوستان کے چھپے ہوئے کو انگریزوں کا پڑھنا مشکل ہوگا۔
غلّہ منڈی کی تحریک
اب میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آئندہ سال غلّہ کے لحاظ سے بہت مشکلات لے کر آنے والا ہے۔ ۱۹۴۲ء کے شروع
میں گورنمنٹ نے غلّہ پر کنٹرول کیا تھا مگر وہ بہت ناکام رہا۔ اُس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ضرورت کیلئے غلّہ جمع کر لینا چاہئے۔ اُس وقت جنہوں نے جمع کیا وہ آرام میں رہے اور جنہوں نے اِس طرف توجہ نہ کی انہوں نے بہت تکلیف اور نقصان اُٹھایا۔ ۱۹۴۲ء میں مَیں نے قادیان کے غرباء کیلئے غلّہ کی تحریک کی اِس پر کافی غلّہ جمع ہو گیا۔ اِسی طرح ۱۹۴۳ء میں بھی تحریک کی گئی اور سترہ اٹھارہ ہزار روپیہ کے قریب غرباء کے غلّہ کیلئے جمع ہوا اور غرباء کو پانچ پانچ ماہ کا غلّہ دے دیا گیا۔ اگلے سال کچھ مزید دِقتیں پیش آنے والی ہیں۔ اس سال ابھی تک بارش نہیں ہوئی اور اِس وجہ سے بارانی فصلوں کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ جوں جوں سردی لمبی ہوتی جائے گی اور گرد بڑھتی جائے گی فصلوں کی حالت خراب ہوتی جائے گی۔ اگر جلدی بارش نہ ہوئی تو ایسا نظر آتا ہے کہ پنجاب میں بھی قحط پڑ جائے گا۔ اِدھر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر غلّہ کم پیدا ہوا تو قیمت اور زیادہ بڑھا دی جائے گی۔ اب گورنمنٹ ہند نے زور دے کر کہا ہے کہ غلّہ کی قیمت گرائی جائے۔ کتنی گرائی جائے گی یہ معلوم نہیں مگر موجودہ نرخ سے کم کی جائے گی۔ ممکن ہے آٹھ روپے من یا اِس سے بھی کم کر دی جائے تو ایسی صورت میں جب کہ مُلک میں غلّہ کم ہو یا کم بچے تو بہت مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں جبکہ غرباء کے پاس نہ غلّہ ہوگا اور نہ پیسے، اُن کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پس دوستوں کو ابھی سے غلّہ فنڈ کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ جب اِس کیلئے اعلان ہو تو ان غرباء کیلئے جو قادیان میں رہتے ہیں ضرور اپنے خرچوں سے بچا کر اِس میں حصہ لیں۔ ایک حصہ جماعت کا ایسا ہے جو حصہ نہیں لیتا اگر سارے کے سارے لوگ حصہ لیں تو کافی غلّہ جمع ہو سکتا ہے۔
پچھلے سال مَیں نے ہدایت کی تھی کہ زمیندار زیادہ سے زیادہ غلّہ بوئیں۔ جنہوں نے اِس پر عمل کیا اچھی بات کی اور جنہوں نے نہ کیا اُنہوں نے غلطی کی۔ اب جو غلّہ بھی کسی قسم کا بو سکتے ہوں ضرور بوئیں تا کہ خود بھی تکلیف سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ بارش کی کمی کو دیکھ کر ڈر ہی لگتا ہے کہ پنجاب نے چونکہ بنگال کی مصیبت کو دور کرنے میں پوری طرح حصہ نہیں لیا اِس لئے پنجاب کو بھی (خدا کرے یہ میرا وہم ہو) اِسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے۔ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے بارش برسا کر اِس خطرہ کو دور فرمائے اور نہ صرف اِس صوبہ کو بلکہ سارے مُلک کو قحط کے عذاب سے نیز دوسرے ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ رکھے تا کہ لوگ تکلیف مَالَایُطَاق سے دوچار نہ ہوں۔
تحریک جدید
اب میں تحریک جدید کی طرف آتا ہوں۔ یہ دسواں سال ہے اور تحریک جدید کے پہلے دَور کا آخری سال ہے۔ یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت
شروع کی گئی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کیلئے جمع ہوگئی ہیں۔ ایک طرف احرار نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اُس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک وہ مٹا نہ لیں۔ دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے اُنہوں نے پوشیدہ بُغض نکالنے کیلئے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے اُن کی امداد کرنی شروع کر دی۔ اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی۔ یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کیلئے گیا تو اُسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اِس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا۔ ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے پندرہ سَو روپیہ روزانہ اُن کی آمدنی ہے۔ تو اُس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متأثر ہو کر ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھا لئے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا۔ چونکہ احرار کا دعویٰ تھا کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اِس لئے ہمیں اپنے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت کیلئے قدرتی طور پر کارروائی کرنی پڑی۔ اُس وقت ناظر امورِ عامہ نے اِردگرد کی احمدی جماعتوں کو لکھا کہ قادیان آجائیں۔ گورنمنٹ نے ایک طرف تو احرار کو اجازت دے دی کہ سارے ہندوستان سے جماعت احمدیہ کے خلاف لوگوں کوجمع کر لیں اور دوسری طرف امورِعامہ کی اتنی سی اطلاع کے متعلق سی آئی ڈی کے سپرنٹنڈنٹ کو بھیجا کہ جا کر تحقیقات کرو اور روکو کہ باہر سے لوگوں کو بُلانے کی احمدی تحریک نہ کریں۔ میرے پاس سپرنٹنڈنٹ صاحب آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میں اِس کام کے لئے آیا ہوں۔ مَیں نے کہا ہمیں تو اپنے مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت چاہئے اگر اِس بارے میں یقین دلا دیا جائے تو مَیں لوگوں کو یہاں آنے سے روک دوں گا۔ اُنہوں نے مجھے بعض تجاویز بتائیں کہ اگر یہ یہ انتظام ہو جائے تو آپ کا اطمینان ہو جائے گا۔ مَیں نے کہا ہاں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا ضرور ہو جائے گا آپ لوگوں کو آنے سے روک دیں۔ چنانچہ امورِعامہ نے روک دیا کہ اِس موقع پر کوئی احمدی نہ آئے اور فوراً اِس قسم کی چٹھی بھجوا دی گئی۔ لیکن گورنمنٹ تو بھری بیٹھی تھی رات کے بارہ بجے بٹالہ کے مجسٹریٹ صاحب نے آکر مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جب مَیں نے پتہ کرایا تو یہ بتایا گیا کہ کریمینل ایمنڈمنٹ لاء کے ماتحت یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آپ نے جماعت کے جن لوگوں کو باہر سے بُلایا ہے اُن کو فوراً روک دیں ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے روک دیا گیا تھا اور بُلانے کا میں نے حُکم نہیں دیا تھا۔ مَیں نے مجسٹریٹ کو لکھ دیا کہ یہ ظالمانہ حُکم ہے اور اِس طرح میری ہتک کی گئی ہے۔ مجسٹریٹ صاحب سمجھے یہ موقع اس کو ممنون کرنے کا ہے۔ کہنے لگے آپ نے یہ کیا لکھ دیا ہے سوچ لیں۔ مَیں نے کہا تم کو اِس سے کیا تم گورنمنٹ کی چٹھی لائے ہو اب اِس کا جواب لے جاؤ۔ پھر ہم چھ ماہ تک گورنمنٹ سے پوچھتے رہے کہ یہ حُکم کس بناء پر جاری کیا گیا تھا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا۔ آخر حکومت پنجاب کے چیف سیکرٹری نے کہا کہ ہم کافی ذلیل ہو چکے ہیں آپ آئندہ اِس بات کو نہ اُٹھائیں۔ یہاں اُس زمانہ میں جس قسم کے افسر بھیجے گئے اُن کا اندازہ اِس سے ہو سکتا ہے کہ ایک افسر نے کہا یہ تو میں ماننے کیلئے تیار ہوں کہ احمدی اچھے ہوتے ہیں لیکن میں یہ نہیں مان سکتا کہ جہاں احمدیوں کی کثرت ہو وہاں بھی وہ ظلم نہیں کرتے۔
غرض کیا احرار اور کیا دوسرے مسلمان، کیا گورنمنٹ اور کیا دوسری اقوام سب لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہوگئے۔ دوسری اقوام کے اخبارات بھی احرار کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ ایسے وقت میں تحریک جدید کو جاری کیا گیا۔ جب میں نے اِس کے متعلق ارادہ کیا تو مَیں خود نہ جانتا تھا کہ کیا کیا لکھوں گا مگر جوں جوں میں نوٹ لکھتا جاتا خدا تعالیٰ وہ طریق اور وہ ذرائع سمجھاتا جاتا جن سے احمدیت مضبوط ہوسکتی تھی۔ اُس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ تبلیغی ٹریکٹوں کی اشاعت سے ہم عاجز تھے۔ ایسے حالات میں مَیں نے تحریکِ جدید جاری کی اور اس کا ایک حصہ ریزروفنڈ کا رکھا۔ جب میں نے اِس کیلئے تحریک کی تو مجھے پتہ نہ تھا کہ میں کیا بول رہا ہوں۔ اُس وقت میں نے جو تقریر کی اُس کے الفاظ کچھ ایسے مبہم تھے کہ جماعت نے سمجھا کہ تین سال کیلئے چندہ مانگ رہے ہیں اور وہ اکٹھا دینا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مثلاً کسی کا ارادہ سَوروپیہ سال میں دینے کا تھا تو اُس نے تین سال کا چندہ تین سَوروپیہ اکٹھا دے دیا۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے صحیح مفہوم سمجھا مگر ایسے بھی تھے جنہوں نے غلط سمجھا اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ایک لاکھ سات ہزار کے وعدے ہوئے۔ جب دوسرے سال کیلئے تحریک کی گئی تو بعض لوگ کہنے لگے ہم نے تو تین سال کا اکٹھا چندہ دے دیا تھا اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میں نے کہا یہ طوعی چندہ ہے آپ اب نہ دیں مگر اُنہوں نے کہا ہم تکلیف اُٹھائیں گے اور خواہ کچھ ہو اب بھی ضرور چندہ دیں گے اور کہا کہ پہلے سے زیادہ دیں گے۔ اِس طرح اُنہوں نے تین سال کیلئے جو اکٹھا چندہ دیا تھا دوسرے سال اُس سے زیادہ دیا کیونکہ وہ مجبور ہوگئے کہ اپنے اخلاص کو قائم رکھنے کیلئے چندہ پہلے سے بڑھا کر دیں۔ بعض مخلص ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا سارے کا سارا اندوختہ دے دیا تھا۔ ایک نے لکھا دوسرے سال مَیں نے شرم کی وجہ سے بتایا نہیں تھا میں نے اپنی کچھ اشیاء بیچ کر چندہ دیا تھا۔ پھر تیسرے سال سب کچھ بیچ باچ کر چندہ دے چکا ہوں اب رقم کم کرنے پر مجبور ہوں۔ لیکن نویں سال میں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے کچھ رقم جمع کرنے کی توفیق عطا کی اِس لئے پہلے کی طرح ہر سال کا چندہ بڑھا کر ادا کروں گا۔ دراصل جب میں تحریکِ جدید کے چندہ کا اعلان کر رہا تھا خدا تعالیٰ ۲۵ لاکھ ریزروفنڈ کی تحریک جو پہلے کی گئی تھی اُسے کامیاب بنانے کی بنیاد رکھوا رہا تھا۔
میرا شروع سے ارادہ تھا کہ اِس چندہ سے ریزروفنڈ قائم کیا جائے جو تبلیغ اور سلسلہ کے دوسرے کاموں میں کام آئے۔ میں نے اس روپیہ سے زمین خریدی جو ساڑھے نو ہزار ایکڑ ہے اور تحریکِ جدید کی ملکیت ہے یہ زمین ابھی آزاد نہیں بلکہ مقاطعہ پر ہے مگر ۸۰ مربع پورے طور پر آزاد ہو چکے ہیں۔ اِن کی ساری قیمت ادا کی جا چکی ہے اور ۱۲۰ مربع اِس سال اور آزاد کرا لئے جائیں گے۔ ۱۶۰ مربعے باقی رہیں گے اور امید ہے کہ مارچ اور اپریل تک کچھ زمین کی آمد سے اور کچھ نئے چندہ سے رقم لے کر اَور زمین آزاد کرائی جا سکے گی اور کل تین سَو مربعے کے قریب زمین آزاد ہو جائے گی۔ اِس وقت جو زمین مقاطعہ پر ہے یا جو خراب ہے وہ اگر چھوڑ دی جائے تو باقی زمین پنجاب کے ریٹ سے ۲۵ لاکھ کی اور وہاں کے ریٹ سے سترہ اٹھارہ لاکھ کی ہے اور امید ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل ہو تو ۲۵ لاکھ کی پہلی قسط اَور دو تین سال میں ہم جمع کر لیں گے۔ اِس کے بعد دوسرے ۲۵ لاکھ کیلئے کوشش شروع کر دیں گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر صوبہ بلکہ ہر ضلع میں ایسا مشن قائم کر دیا جائے گا کہ ہر زبان جاننے والے مبلغوں اور ہر زبان کیلئے ٹریکٹوں کے ذریعہ تبلیغ کرے۔ عیسائیوں کے اِس وقت ساٹھ ہزار مشنری کام کر رہے ہیں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رؤیا کے یہ معنی سمجھتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ سپاہی مانگے۔ مگر آپ سے کہا گیا کہ پانچ ہزار دیئے گئے ہیں۔ اِس کے یہ معنی ہیں کہ پانچ ہزار چندہ دینے والوں سے پہلے فنڈ قائم کیا جائے گا پھر پانچ ہزار مبلّغوں سے دوسرا قدم اُٹھایا جائیگا اور پھر ایک لاکھ مبلّغوں سے تیسرا قدم اُٹھایا جائے گا۔ گویا کم از کم ساٹھ کروڑ روپیہ خرچ کیا جائے گا اور یہ دس ارب روپیہ کے فنڈ سے حاصل ہوگا۔ دنیا کی کسی قوم نے اِس قدر ریزروفنڈ جمع نہیں کیا مگر یہ تو خدا تعالیٰ جمع کرنے والا ہے۔ پھر یہ ایک لاکھ مبلّغ ایسے ہونگے جو اپنا سارا وقت خدمت دین اور تبلیغ احمدیت میں خرچ کریں گے ورنہ یوں تو سب کے سب احمدی مبلّغ ہیں۔
تحریک جدید اور پیغامی
تحریکِ جدید کے اِس فنڈ کی کامیابی نے پیغامیوں میں ایک کسک پیدا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں قادیان والے
یونہی پانچ ہزار بنتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس رؤیا کے مصداق تو ہم ہیں وہ کہتے ہیں کوئی امریکی آیا تھا اُس نے لکھا کہ ۵ ہزار پیغامی ہیں اس لئے ہم ہی اس رؤیا کے مصداق ہیں۔ حالانکہ اِس خواب میںیہ نہیں کہ جنہیں کوئی پانچ ہزار کہہ دے وہ اس کے مصداق ہیں۔
پیغامیوں کی تعداد
ہم نے پیغامیوں کے متعلق اندازہ لگایا تھا پیچھے مردم شماری کرائی گئی تھی سارا زور لگانے پر تین ہزار بنے تھے لیکن ہم تو کہتے ہیں کہ
تحریکِ جدید کے رجسٹروں میں چندہ دینے والوں کے نام لکھے ہوئے دیکھ لو وہ پانچ ہزار ہیں مگر وہ کچھ نہیں بتاتے۔ پھر ہم پوچھتے ہیں پانچ ہزار پیغامی چندہ دینے والے ہیں یا ان میں وہ بھی شامل ہیں جو پوتڑوں میں پاخانہ پھرتے ہیں۔ اگر وہ اِس تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل کرتے ہیں تو وہ سپاہی کس طرح کہلا سکتے ہیں۔ پس جب تک وہ پانچ ہزار چندہ دینے والے ثابت نہ کریں اُس وقت تک یہ خواب اُن پر نہیں لگ سکتی۔ مگر ہم چندہ دینے والے پانچ ہزار پیش کرتے ہیں۔
پھر پیغامی کہتے ہیں دس لاکھ کی تعداد میں سے پانچ ہزار نے چندہ دیا تو معلوم ہوا کہ ایک قلیل حصہ نے اِس تحریک میں حصہ لیا اور یہ فخر کی بات نہیں بلکہ شرم کا مقام ہے مگر انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایک خاندان کے سارے کے سارے افراد چندہ نہیں دیا کرتے۔ خاندان میں بعض بچے چھوٹے ہوتے ہیں اگر دس لاکھ کی تعداد ہو تو چندہ دینے والے دو لاکھ رہ گئے۔ پھر یہ تحریکِ جدید کا چندہ ہے دوسرا نہیں جس کا ادا کرنا ہر ایک کا فرض ہے۔ اِس میں یہ شرط ہے کہ کم از کم پانچ روپیہ تک چندہ دے اور دوسرا چندہ بھی ساتھ دے۔
ہندوستان کی روزانہ فی کس آمدنی
ہمارا مُلک بہت غریب ہے گاندھی جی نے اعلان کیا تھا کہ یہاں اوسط آمدنی
ڈیڑھ آنہ روزانہ ہے اور دو روپے تیرہ آنے ماہوار فی کس آمدنی بنتی ہے۔ اگر کوئی پانچ آدمیوں کا کنبہ ہو تو اُن کے کھانے پینے، شادی بیاہ، موت وغیرہ کے اخراجات اُن کی چودہ روپیہ ماہوار آمد سے ہی ہوتے ہیں۔ پھر اُنہیں چندہ دینا ہوتا ہے، وصیت کا چندہ ادا کرنا ہوتا ہے، جلسہ پر آنے کے اخراجات بھی ادا کرنے پڑتے ہیں، کوئی نہ کوئی اخبار خریدنا ہوتا ہے، کوئی کتاب خرید لی جاتی ہے، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کیلئے بھی کچھ نہ کچھ دینا ہوتا ہے اس طرح آمدنی کا ایک تہائی یا کم از کم ایک چوتھائی حصہ چلا جاتا ہے۔ اتنے چندے ادا کرنے کے بعد اور اتنے غریب مُلک میں لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنا کہ ہر فرد کو چندہ دینا چاہئے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب نے آمد کی اوسط چالیس روپیہ لگائی ہے اور اس کے مطابق ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اتنا چندہ بتاؤ۔
مجھے فرانس کی ایک ملکہ کی مثال یاد آگئی۔ ایک دفعہ کچھ غریب اکٹھے ہو کر اُس کے محل کے پاس گئے اور روٹی روٹی کا شور مچایا۔ ملکہ نے پوچھایہ لوگ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ کہتے ہیں روٹی نہیں ملتی۔ ملکہ نے کہا روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ مولوی صاحب بھی معلوم ہوتا ہے ایسے ہی مرض میں مبتلاء ہیں۔ کہتے ہیں دس لاکھ جماعت ہے تو چالیس کروڑ چندہ ہونا چاہئے تھا حالانکہ صاف بات ہے پانچ ہزار تو وہ اپنی تعداد مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رؤیا اپنے آپ پر چسپاں کرنے کیلئے وہ اِس لحاظ سے اپنا چندہ دو لاکھ دکھا دیں۔ آخر میں تو مولوی صاحب نے غضب ہی کر دیا۔ کہتے ہیں کہاں ہے بیس لاکھ روپیہ چندہ کا؟ دکھاؤ!! گویا ہم اُن کو منی آرڈر کر کے بھیج دیں تب وہ مانیں گے کہ بیس لاکھ روپیہ ہمیں چندہ وصول ہوا ہے۔ ہم تو ایسے حوصلے والے ہیں کہ مولوی صاحب قادیان سے جاتے ہوئے کئی ہزار روپیہ کی کتب لے گئے۔ میرے پاس اُس وقت لوگ آئے کہ یہ چیزیں لے جانے سے اُن کو روکا جائے۔ میں نے کہا جہاں مولوی صاحب جاتے ہیں وہاں ہی ان چیزوں کو بھی جانے دو مگر ان کی حالت یہ ہے کہ ہمارے گھر کا حساب مانگ رہے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ جنہوں نے ابھی تک چندہ تحریکِ جدید نہیں لکھایا وہ اب کے بڑھ چڑھ کر قربانی کریں گے۔ آئندہ کیلئے میرے مدِّنظر ایک اور سکیم ہے جو پچھلے سال نہ تھی مگر اِس سال اس کا حصہ معیّن طور پر میرے دل میں ہے۔ میں ابھی اس کا ذکر نہیں کرتا اگلے سال ظاہر کروں گا اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی اور اگر خدا تعالیٰ کی یہ مشیّت نہ ہوئی تو لکھ کر لفافہ میں بند کر دوں گا۔ میرے دل میں یہ اُمنگ ہے کہ پانچ ہزار چندہ دینے والے ایک لاکھ ۹۵ ہزار احمدی ہو جائیں اور پانچ ہزار مبلّغ تمام دنیا میں ہم پھیلا دیں۔ پھر ایک لاکھ تک مبلّغ پہنچا دیئے جائیں۔ یہ سکیم اِس وقت پاگل کی بڑ ہے لیکن ایسی شاندار بڑ ہے کہ جس نے بھی اِس کے پورا کرنے میں حصّہ لیا اِس بات کا خیال کر کے بھی اُس کی روح آسمان کی بلندیوں میں اُڑنے لگے گی کہ قیامت تک میرے لئے رات دن تبلیغ میں مصروف رہنے والے دنیا میں موجود ہونگے۔ میں مَر کر بے نام و نشان ہو جاؤں گا، میری ہڈیاں خاکستر ہو جائیں گی، میری نسل سے پیدا ہونے والی اولاد کو بھی میرا پتہ نہیں ہوگا مگر اِس چندہ سے مستقل طور پر میری طرف سے سارا سال کوئی مبلّغ تبلیغ کر رہا ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں جن لوگوں نے اِس دَور میں حصّہ لیا ہے وہ اِس بات کے مستحق ہیں کہ تھوڑی قربانی سے بھی زیادہ ثواب حاصل کریں۔ مگر آئندہ کیلئے شرائط زیادہ سخت کر دیئے جائیں گے اور نرم شرائط سے خدا تعالیٰ کے سپاہیوں میں لوگ داخل نہ ہو سکیں گے۔
اب میں تحریکِ جدید کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کرتا ہوں اور جو تشنۂ تکمیل ہیں۔ میں جان بوجھ کر ان بعض حصوں کی طرف سے خاموش تھا۔ اِس سال ارادہ ہے کہ ان پر بھی زور دیا جائے۔ مجھے اِس کام میں ایک اور بات بہت تکلیف دِہ معلوم ہوئی اور وہ یہ کہ جو کارکن تحریکِ جدید کی زمینوں پر بھیجے جارہے ہیں اُن کے کام دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ احمدی ماں باپ اپنے بچوں کو محنت و مشقت کی عادت نہیں ڈالتے۔ ہم منشی وہاں بھیجتے مگر وہ بھاگ آتے پھر اور بھیجتے وہ بھی بھاگ آتے۔ اِسی طرح کام کرنے کے لحاظ سے ایسے بھی تھے جو یہ کہتے کہ ہم رات کو کام نہیں کر سکتے، ایسے بھی تھے جو یہ کہتے کہ آج نہیں کل کام کریں گے۔ہمیں اس طرح جماعت کے نوجوانوں کے اخلاق دیکھنے کا موقع ملا۔ تعجب ہے کہ پُرانے لوگ بہت کام کر لیتے مگر نئی پود میں کم محنت کرنے کی عادت پائی جاتی ہے۔ اُدھیڑ عمر والوں میں سے اکثر عمدگی سے کام کرنے والے ثابت ہوئے مگر نوجوانوں میں سے اکثر نکمّے نکلے۔ میں جماعت کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس نے اگر ایسی ہی نسل پیدا کی تو وہ اسلام کی لڑائیاں نہیں لڑسکیں گے بلکہ بھگوڑے ثابت ہوں گے۔ اگر ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ محنت نہیں کر سکتے، اگر ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ مشقت نہیں برداشت کر سکتے، اگر ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ جفاکش نہیں ثابت ہو سکتے تو سمجھ لیجئے کہ وہ کچے انڈے کی طرح ہیں اور مَیں کہتا ہوںوہ روئی میں لپیٹ کر رکھنے کے قابل ہونگے۔ پس اگر ہماری جماعت نے ایسے بچے پیدا کئے ہیں تو اِس نے کوئی کام نہیں کیا اور اگر خدام الاحمدیہ نے ایسے نوجوان پیدا کئے ہیں تو اِس نے کچھ نہیں کیا۔ اِن حالات کو دیکھ کر مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر آئندہ کوئی ایسا موقع پیش آیا اور نوجوانوں نے ایسا نمونہ دکھایا تو ہم خدام کو سزا دیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ بڑی شاک پہنچانے والی بات ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قومی اور جماعتی طور پر سزا دینا بھی ضروری ہوتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی قاتل نہ پکڑا جائے اور دیت نہ دی جائے تو سارے علاقہ سے ہم دیت لیں گے۔ پس میں وقت پر اطلاع دیتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کا ایک حصہ سُست اور غافل ہے، محنت و مشقت کرنے کا عادی نہیں، اپنے فرائض کا اسے احساس نہیں اور اس کیلئے مقامی جماعتیں ذمہ دار ہیں کیونکہ ان کا فرض ہے کہ محنت و مشقت سے کام کرنے والے، افسروں کی اطاعت کرنے والے، سمجھ و عقل سے کام کرنے والے، جفاکش اور محنتی نوجوان پیدا کریں۔اگر کوئی جماعت ایسا نہیں کرتی تو وہ سمجھ لے کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے خواہ وہ دس کروڑ روپیہ بھی چندہ دے کیونکہ آدمیوں کے مقابلہ میں روپیہ کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اِس سال کیلئے جو نئی تجاویر میں پیش کرنا چاہتا ہوں جماعتیں ان کو نوٹ کر لیں اور یاد کر لیں تا کہ ان پر عمل کر سکیں۔
۱۔ جس قدر بڑی جماعتیں ہیں اور (اپنی چھوٹی سی جماعت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے) بڑی جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جس کے مرد، عورتیں اور بچے ملا کر پانچ سَو کی تعداد میں ہوں۔ اُس جماعت کا فرض ہے کہ ہر سال اپنی مردم شماری کرائے اور نقشہ پُر کر کے مرکز میں بھیجے جس میں یہ امور درج ہوں۔
(۱) پچھلے سال افراد کی تعداد کتنی تھی
(۲) ۱۲ ماہ کے بعد ان افراد میں سے کتنے کم ہوئے۔(i) فوت سے (ii) ارتداد سے (iii)کہیں دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے
(۳) اِس سال کتنے افراد کی زیاتی ہوئی (i) پیدائش کے ذریعہ (ii) باہر سے آنے کی وجہ سے (iii) احمدی ہونے کی وجہ سے۔
یہ نقشہ ہر سال بھجوانا ضروری ہوگا۔ لاہور، امرتسر، سیالکوٹ اور غالباً دہلی بھی اِن جماعتوں میں شامل ہے جن کے افراد کی تعداد پانچ سَو سے زیادہ ہے۔ پہلا نقشہ جنوری میں مل جانا چاہئے۔ اِس قانون کے اندر کون سی جماعت آتی ہے یہ اعلان کرا دیا جائے گا۔ چونکہ کام زیادہ ہے اس لئے مَیں میعاد بڑھا دیتا ہوں یہ نقشے فروری کی ۲۹ تاریخ تک پہنچ جائیں۔ جن میں لکھا ہو کہ اس وقت کل افراد کی یہ تعداد ہے۔ پہلے سال کے نقشہ میں کمی بیشی نہ لکھی جائے گی صرف یہ لکھا جائے گا۔
(۱) مرد اتنے ہیں
(۲) عورتیں اتنی ہیں
(۳) ۱۲ سال سے کم عمر کے بچے اتنے ہیں۔
چوتھا خانہ یہ ہوگا کہ اِس سال میں کوئی فرد یا خاندان مرتد ہوا یا نہیں۔
پانچواں خانہ یہ کہ کمزور اور قابل نگرانی کون کون ہیں۔
چھٹا یہ کہ لڑکے لڑکیوں میں سے کتنے تعلیم پا رہے ہیں۔
ساتواں لڑکوں اور لڑکیوں میں سے کتنے باترجمہ قرآن پڑھ سکتے ہیں اور دینیات کتنے سیکھ رہے ہیں۔
یہ نقشہ اِس سال فروری کے آخر تک اور آئندہ جنوری کی ۳۱ تاریخ تک بھیج دینا چاہئے۔ پھر اِس میں یہ بھی لکھنا چاہئے کہ ریلوے، ڈاک خانہ، سیکریٹریٹ اور عدالتوں میں کتنے ملازم ہیں یہ بھی اپنی الگ الگ انجمن بنائیں سوائے مقامی انجمن کے، تا کہ معلوم ہو سکے کہ ان محکموں میں کتنے احمدی ملازم ہیں۔ پھر اگلے سال بتائیں کہ اِن میں سے کتنے تبدیل ہو کر دوسری جگہوں میں چلے گئے یا فوت ہوگئے۔ کتنے نئے ملازم ہوئے یا ملازم کرائے گئے۔ اِس سال اِن کی مجموعی تعداد کتنی ہے۔اگلے سال کتنی تھی تا کہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اِن ملازمین کی تنخواہ گِر رہی ہے یا بڑھ رہی ہے۔اگر گِر رہی ہے تو اِس کا سبب کیا ہے۔ یہ کام مرکز میں امورِعامہ کے سپردہوگا۔
عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد تبلیغ کے وسیع مواقع
(۲) دوسری تجویز مَیں یہ کرتا ہوں کہ اِس وقت آثار ایسے نظر آ رہے ہیں کہ سال دو سال تک جنگ ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد فوراً تبلیغی میدان وسیع ہو جائے گا۔ یہ ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ اور انچارج صاحب
تحریکِ جدید کا کام ہے کہ وہ کچھ اور واقف کاروں کو ساتھ ملا کر جنگ کے بعد مختلف مُلکوں کیلئے تبلیغی لٹریچر کا نقشہ تیار کریں کہ کس مُلک کیلئے کس قسم کا لٹریچر مفید ہوگا پھر اِس کی منظوری مجھ سے لے کر جنگ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے اس کے چھپوانے کا انتظام کیا جائے۔ پہلے تو یہ شکایت کی جاتی تھی کہ روپیہ جمع کرنا انجمن کے سپرد ہے اور اسلام و احمدیت کی ترقی کی تجاویز خلیفہ کے ذہن میں آتی ہیں جن پر عمل کرنے کیلئے روپیہ نہیں ہوتا۔ مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے روپیہ ہے اور آتا رہے گا۔ اب ہمیں بعد جنگ مختلف مُلکوں مثلاً برطانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس، جاپان، چین، امریکہ وغیرہ کی ضروریات کے متعلق کس قسم کا لٹریچر تیار کرنا چاہئے، پہلے اِس کا فیصلہ کر لینا چاہئے اِس کے بعد میرے مشورہ سے ایسے آدمی مقرر کئے جائیں جو لٹریچر تیار کریں۔
قرآن کریم کے تراجم
(۳) تیسری تجویز یہ ہے کہ اِس وقت انگلستان میں مختلف ممالک کے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہم آسانی سے اچھے
جرمنی، اٹالین اور روسی زبانیں جاننے والے لوگ پا سکتے ہیں یہ لوگ مصیبت زدہ ہیں اور تھوڑے روپیہ پر کام کر سکتے ہیں۔ ہم نے مولوی جلال الدین صاحب شمس کو اس بارے میں لکھا تھا۔ انہوں نے جواب دیا ہے کہ میں اِس بارے میں انتظام کر رہا ہوں۔ ترجمۃ القرآن کے محکمہ کو میں ہدایت دیتا ہوں کہ جتنا حصہ وہ صاف کر چکے ہیں وہ شمسصاحب کو بھجوا دیں تا کہ وہ آگے کسی اور زبان میں ترجمہ کرانے کا انتظام کریں۔ اِس طرح کام میں بہت سہولت ہو جائے گی۔ اِس کے بعد عربی دان اس ترجمہ پر نظر ثانی کر لیں گے اور ہم جلد ہی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر سکیں گے۔ اِس میں دیر نہ کرنی چاہئے جنگ کے بعد لوگ جلد حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوں گے اِس لئے تفصیلات کی طرف زیادہ نہیں جانا چاہئے بلکہ زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وہ اِسی طرح پہنچ سکتا ہے کہ جلد سے جلد تبلیغی لٹریچر تیار کیا جائے۔
اِس کے بعد جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماراعمل اور نمونہ جو ہے وہ ہماری تبلیغ سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ جب تک ہم دنیا پر یہ روشن نہ کر دیں کہ ہم اچھے اور اعلیٰ اخلاق کے انسان ہیں، خدا کا خوف ہر موقع اور ہر قدم پر رکھنے والے انسان ہیں اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ صرف ہماری ظاہری باتوں سے لوگوں پر اثر ہوگا اور وہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے وہم ہے۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہم جو نیک اور اچھے کام کرتے ہیں اُن کی بھی لوگ بُری تعبیر لیتے ہیں۔ ہمارے گھر میں حضرت اماں جان کی ایک خادمہ ہے وہ ہے تو نوکر، مگر کہے، مجھے دکھانے کیلئے گھر والے نمازیں پڑھتے ہیں۔ گویا سال ہا سال سے اُسے دکھانے اور احمدی بنانے کیلئے سارے گھر کے لوگ نمازیں پڑھتے تھے۔ اب کچھ کہنے لگی ہے کہ خدا کیلئے نمازیں پڑھتے ہیں تو ہمارے اچھے سے اچھے کام کی بھی لوگ بُری تعبیر کر لیتے ہیں لیکن اگر ہم اچھے کام نہ کریں گے تو لوگ ہمیں بدنام کریں گے اور اُن کا حق ہوگا کہ جو چاہیں کہیں اور ہم اس بات کے مستحق ہونگے کہ اُن کی باتیں سنیں۔ آجکل میں دیکھتا ہوں کہ کچھ قوانین ایسے ہیں کہ احمدی بھی سمجھتے ہیں کہ اُن پر عمل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا قانوناً جائز ہے۔ مثلاً بعض فوجیوں نے بتایا کہ جب کسی شہر کو فتح کر کے اُس میں داخل ہوتے ہیں تو افسر کہہ دیتے ہیں کہ ۲۴گھنٹے تک ہمیں کچھ نہ بتاؤ اور جو چاہو کر لو مگر کسی احمدی کیلئے اِس اجازت کے باوجود اسلامی تعلیم کے خلاف کوئی بات کرنا جائز نہ ہوگا اور اگر احمدی اِس کا مرتکب ہوگا تو ہم اُسے سزا دیں گے۔ دراصل مؤمن انسانوں کے دشمن نہیں ہوتے بلکہ بُرے افعال کے دشمن ہوتے ہیں۔ ہم نہ اٹلی کے دشمن ہیں، نہ جرمنی کے، نہ جاپان کے، ہم مکاؤ اور ٹوجو اور ہٹلر کے دشمن نہیں بلکہ ان کے افعال کے دشمن ہیں۔پس کسی فعل کے متعلق قانون کا جواز کوئی جواز نہیں ہے۔ جو اِس دھوکا میں پڑ کر کوئی فعل اسلام کی تعلیم کے خلاف کرے گا وہ اپنے دین اور ایمان کو خراب کر لے گا۔
اِس سال ایک دو واقعات اِس قسم کے پیش آئے ہیں مثلاً ایک واقعہ تو یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی زمین کسی کے پاس فروخت کی۔ دس گیارہ ماہ کے بعد اس کے بیٹے نے زمین خریدنے والے پر نالش کر دی۔ انگریزی قانون اس کی اجازت دیتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقاً یہ جائز ہے؟ اگر ایسی بات ہو کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو اور بیٹے کو جائداد سے محروم کرنے کیلئے بیچے اور اگر بیٹا سمجھے کہ اس جائداد کے بغیر وہ گزارہ نہیں کر سکے گا تو اُس کا حق ہے کہ فروخت کردہ جائداد حاصل کرنے کی کوشش کرے ورنہ اگر باپ نے ایسا کیا تھا اور اُس کا حق مارا تھا تو بیٹے کو چاہئے کہ وہ ناخلف نہ بنے۔ اور اگر باپ بیٹے میں لڑائی جھگڑا نہیں وہ اکٹھے رہتے ہیں تو ایسی صورت میں زمین خریدنے والے سے جا کر بیٹے کا لڑنا دھوکا بازی ہوگی کہ باپ نے روپیہ لے لیا اور بیٹے سے دعویٰ دائر کرا دیا۔ اگر اسے قانون جائز قرار دے اور آج تک کے سارے وائسرائے لکھ دیں کہ ایسا کرنا جائز ہے تو بھی یہ جائز نہ ہوگا۔ دنیا کی کون سی اسمبلی ہے جو اِس بات کوجائز قرار دے سکے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز قرار نہیں دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ میں بھی انسان ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زیادہ باتیں کرنے والا ہو اور میں اُس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ اِس طرح میں جسے کچھ دلا دوں وہ اُس کیلئے دوزخ کا ٹکڑا ہوگا۔ ۱؎ پس جب خلافِ حق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی امن پیدا نہیں کر سکتا اور خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا تو انگریز جو صرف سیاست سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایسے کیونکر ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی ایسی بات کو جائز قرار دے دیں جسے خداتعالیٰ نے ناجائر قرار دیا ہے۔ مجھے اِس سلسلہ میں ایک اور تکلیف دِہ تجربہ ہوا ہے اور وہ یہ کہ جب بیٹے کی طرف سے باپ کی فروخت کی ہوئی زمین کے خلاف نالش ہوئی تو جس شخص کے پاس زمین بیچی گئی تھی وہ غیر احمدی تھا۔ مگر اُس نے مجھے لکھا کہ میں احمدی ہوں اور مجھ پر احمدیوں کی طرف سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ میں نے کہا اِس میںاحمدی اور غیر احمدی کا کیا سوال ہے جس بیٹے نے باپ کی فروخت کردہ زمین کے خلاف نالش کی ہے اُس نے غلطی کی ہے۔ اِس پر احمدیوں کے خط آنے شروع ہوگئے کہ اس نے آپ کو دھوکا دیا ہے وہ غیراحمدی ہے۔ بے شک اُس نے غلطی کی کہ احمدی نہ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو احمدی کہا مگر انصاف کے معاملہ میں احمدی اور غیر احمدی کا کیا سوال ہے۔ غیر احمدی نہیں اگر کوئی دہریہ ہو تو اُس سے بھی انصاف کرنا ضروری ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک لڑکی احمدیت سے پہلے امرتسر کے غزنویوں کے خاندان میں بیاہی گئی تھی۔ آپ جب قادیان تشریف لاتے تو امرتسر بھی اُترتے۔ ایک دن آپ نے اُن کے نوکر کو کوئی سَودا لانے کیلئے اَٹھنی دی۔ وہ سَودا لے آیا اور ساتھ اَٹھنی بھی لے آیا۔ آپ نے اُس سے پوچھا تم نے یہ کیا کیا؟ کہنے لگا جب دُکاندار کوئی چیز لینے اندر گیا تو میں نے اَٹھنی اُٹھا لی اور چونکہ وہ کراڑ تھا اِس لئے میرے لئے اُس کا مال لے لینا جائز تھا۔ انصاف کے معاملہ میں یہ کہنا کہ فلاں غیر احمدی ہے ایسی ہی بات ہے جیسی اِس نوکر نے کی۔ بے شک اُس نے یہ جھوٹ بولا کہ اپنے آپ کو احمدی کہا یہ اُس کی کمزوری تھی اُس نے سمجھا اگر مَیں اِن سے یہ کہوں گا کہ میں غیر احمدی ہوں تو وہ کہیں گے تمہارا مال لے لینا ہمارے لئے جائز ہے اِس ڈر سے اُس نے جھوٹ بولا مگر میں کہتا ہوں اگر وہ دس ہزار دفعہ بھی خدا اور اُس کے رسول کا انکار کرتا ہو تو بھی فتویٰ یہی دیا جاتا کہ جو تیرا حق ہے وہ تجھے ملنا چاہئے۔ پس مجھے تعجب ہے اُن احمدیوں پر جنہوں نے مجھے لکھا کہ اِس شخص نے اپنے آپ کو احمدی کہہ کر آپ کو دھوکا دیا ہے وہ دراصل غیر احمدی ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ اس قسم کی باتوں سے بچیں۔ خواہ قانون کوئی چیز دلا دے جب تک اسلام اسے جائز نہ قرار دے وہ جائز نہیں ہو سکتی۔ باپ کی فروخت کی ہوئی زمین اُسی صورت میں لینی جائز ہو سکتی ہے جب باپ بیٹے کا دشمن ہو اور اُسے نقصان پہنچانے کیلئے جائداد فروخت کرے۔ ایسی حالت میں بھی بیٹے کی سعادت مندی یہی ہے کہ اُس جائداد کو چھوڑ دے۔ لیکن اگر چھوڑ دینا اُس کے بس کی بات نہ ہو تو حاصل کر سکتا ہے ورنہ جو کام باپ نے کیا خواہ دشمنی سے ہی کیا بیٹا اگر اس میں باپ کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ ناخلف ہے اور قصور وار ہے۔
اِسی طرح ایک قانونِ اراضی ہے جس کے متعلق بہت گڑ بڑ پڑی ہوئی ہے۔ اگر تو کسی نے زمین قرضہ کے سُود میں لوٹی ہو تو اُس سے زمین واپس لے لینا جائز ہے لیکن اگر کسی نے بیچی ہے اور قیمت وصول کی ہوئی ہے تو اُس کا اِس طرح واپس لینا جائز نہیں ہے۔ مجھے ایک شخص کے متعلق بتایا گیا جسے ہم اخلاقی طور پر مجرم قرار دے چکے ہیں کہ اُسے کسی نے کہا تم اپنی فروخت شدہ زمین واپس لے سکتے ہو تو اُس نے کہا میں ایسا بے شرم نہیں ہوں کہ بیچی ہوئی زمین واپس لے لوں۔ اِس سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پس بیچی ہوئی چیز واپس نہیں لینی چاہئے خواہ حکومت کا قانون اُسے دلائے۔ حکومت نے یہ تو نہیں کہا کہ جو بیچی ہوئی زمین نہ لے گا اُس کواتنی سزا دی جائے گی تو اِس قانون کے ذریعہ زمین واپس لینا بھی جائز نہیں ہے۔
لڑکیوں کو ورثہ دیا جائے
تیسری بات ورثہ کے متعلق ہے ایک گزشتہ جلسہ کے موقع پر تمام جماعت نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ہم لڑکیوں کو
ورثہ دیں گے اور بہت سے احمدیوں نے لڑکیوں کو اُن کے حصے دیئے بھی ہیں مگر ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے وعدے کئے اور وہ فوت ہوگئے مگر اُن کی ناخلف اولاد نے نہ دیئے۔ یاد رکھو یہ زمینیں اور یہ جائدادیں آئی گئی چیزیں ہیں آج ہمارے پاس ہیں تو کل دوسروں کے پاس۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا کرتے تھے بلکہ یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں سے بھی سنتے تھے کہ یہ تمہارا گاؤں تھا، وہ تمہارا گاؤں تھا مگر آج وہاں ہمارے آدمیوں کو مارا اور پیٹا جاتا ہے۔ ایسی چیزوں کیلئے خدا تعالیٰ کے فضل کو ہاتھ سے دینا جو ہمیشہ ہمیش کیلئے قائم رہنے والا ہے کتنی بڑی غلطی ہے۔ میں پھر اپنی جماعت کے لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جب تک وہ عورتوں کو ورثہ نہ دیں گے اُن کے دلوںمیں دین کی کامل محبت پیدا نہ ہوگی اور دنیا کی محبت سرد نہ ہوگی۔ آئے دن کئی لوگ لکھتے رہتے ہیں کہ میں فلاں خاندان کا آدمی ہوں،ہمارے خاندان کے اتنے بڑے بڑے آدمی ہیں، میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں آپ مجھے کیا دیں گے اِس قسم کی چٹھیاں ہر سال ۲۰،۲۵ تک آجاتی ہیں۔ میں جواب دیتا ہوں ہم ایمان دیں گے اور خدا کی راہ میں مارپیٹ اور گالیاں کھانے کی ہمت اور جرأت پیدا کریں گے۔ اگر یہ آپ نہیں لینا چاہتے اور آپ کے پاس مربعے اور جائدادیں ہیں تو پھر آپ کو احمدیوں میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اِس قسم کے خطوط پڑھ کر مجھے تعجب آتا ہے کہ ایمان اور خدا تعالیٰ کی محبت سے لوگوں کے دل کس طرح خالی ہوگئے ہیں اور ایسے لوگوں نے ہم میں آ کر کیا لینا ہے۔ ہمارے ہاں تو ماریں پیٹیں ہیں اور ان کے جاری رہنے میں ہی ہمارے لئے لُطف ہے جب یہ چلی گئیں تو لُطف بھی جاتا رہے گا۔
قادیان کی ترقی
جماعت کو خدا تعالیٰ دُنیوی ترقیات بھی دے گا۔ قادیان بہت پھیلے گی اور ترقی کرے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا
ہے کہ قادیان کے بازاروں میں بڑی بڑی توندوں والے جوہری بیٹھے ہیں۔ ایسا وقت بھی آئے گا مگر کسی احمدی سے جو اِس وقت قادیان میں چپڑاسی کا ہی کام کرتا ہو اُسے کوئی پوچھے کہ تمہیں آنے والی حالت پسند ہے یا موجودہ؟ تو وہ یہی کہے گا کہ اِس وقت میرا چپڑاسی ہونا اُس زمانہ کے امیر و کبیر ہونے سے اچھا ہے۔ تو خدا تعالیٰ کی جماعتوں میں اس قسم کی چیزیں بھی آتی ہیں اور جماعت احمدیہ میں بھی آجائیں گی مگر جو مزا آج گالیاں کھانے اور ماریں سہنے میں ہے وہ اُس وقت نہیں آئے گا۔ کس قدر ہمیں اِس وقت حسرت ہوتی ہے جب ہم حدیثیں پڑھتے ہیں کہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہوتے اور آپ کی زیارت کا شرف حاصل کرتے خواہ کتنی دور سے زیارت نصیب ہوتی۔ خدا تعالیٰ نے یہ ہم پر فضل کیا ہے کہ اُس نے ایک ایسا انسان ہم میں بھیجا جسے قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل قرار دیا ہے۔ مگر باوجود اِس کے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ظِل مل گیا اصل کو دیکھنے کی ایسی خواہش ہے کہ بعض اوقات تو ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ جب میں صحابہ کرام ؓ کی قربانیوں کا ذکر پڑھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابیؓ اس لئے کھڑا ہے کہ آپ تک دشمن کا کوئی تیر نہ پہنچے اور تیر وہ اپنے جسم پر کھائے اور جب وہ تیر کھا کر مدہوش ہو جاتا اور گِر پڑتا ہے تو ایک دوسرا اُس کی جگہ یہ کہہ کر لے لیتا ہے کہ اس نے تو کافی نعمت حاصل کر لی اب مجھے یہ نعمت حاصل کرنے دیں، تو دل بے تاب ہو جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نصیب ہوا۔ اِس کے مقابلہ میں دنیا کے مال اور دوسری چیزیں کیا حقیقت رکھتی ہیں۔
۲۰۴۳ء
آج سے سَو سال بعد دنیا کا جو بہت بڑا بادشاہ ہو اُس میں اگر احمدیت کا ایمان ہوگا تو وہ کہے گا آج بادشاہ ہونے کی بجائے اگر میںحضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ڈیوڑھی کا دربان ہوتا یا آپ کی بستی میں تنور کی دُکان کرتا تو بہت اچھا ہوتا۔ پس یہ دنیا کی چیزیں ہیں کیا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں۔
احمدیت کیلئے مال آئیں گے اور ضرور آئیں گے اِس بات کا مجھے ڈر نہیں البتہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ ان اموال کو سنبھالنے والے دیانت دار ملیں گے؟۲؎ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت ایک لاکھ روپیہ آنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر اب آٹھ دس لاکھ روپیہ سالانہ آجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تو بعض اوقات ایسی حالت ہوتی تھی کہ اُس کا خیال کر کے رقت آجاتی ہے۔ زلزلہ کے دنوں میں جب اعلان کیا گیا کہ عذاب آنے والا ہے تو باہر سے مہمان زیادہ آنے لگے اور کثرت سے لوگ باغ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے والدہ کو بُلایا اور کہا آج میرے پاس کچھ ہے نہیں کہیں سے کچھ قرض لے لیں۔ یہ کہہ کر آپ نماز کیلئے گئے جب واپس آئے تو اندر جا کر دروازہ بند کر لیا اور پھر مسکراتے ہوئے باہر آئے اور والدہ سے فرمایا۔ میں نے ابھی کہیں سے قرض لینے کیلئے کہا تھا مگر ایک غریب نے جس کے تن کے کپڑے بھی ثابت نہ تھے یہ پوٹلی مجھے دی ہے۔ میں سمجھا اس میں دھیلے پیسے ہوں گے مگر جب اندر جا کر میں نے اسے کھولا تو اِس میں سے دو سَو سے زیادہ روپیہ نکلا ہے معلوم نہیں کس حالت میں وہ شخص لایا ہے۔ کہاں وہ زمانہ اور کہاں یہ۔ گو ہماری ضرورتیں بڑھ گئی ہیں اور مومن کا خرچ زیادہ اور آمد کم ہی رہتی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا جنون اپنے سر میں رکھتا ہے۔ جو کچھ اس کے پاس آتا ہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے۔ ریزروفنڈ اِسی لئے رکھا گیا ہے کیونکہ روپیہ پاس ہو تو خرچ ہو جاتا ہے۔ اپنی جماعت کے لحاظ سے یہ روپیہ دین کیلئے خرچ ہو جاتا ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے لحاظ سے میری ذات پر خرچ ہوتا ہے مگر خرچ ضرور ہو جاتا ہے تو مومن کے پاس روپیہ جمع نہیں رہتا۔ ہاں جب ضرورت پیش آئے تو خدا تعالیٰ ضرور دے دیتا ہے اور اُس وقت جو ایمان بڑھتا ہے وہ دنیا کے خزانوں سے کہاں بڑھ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ پر توکّل کرو۔ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ورثہ دو اِس سے تمہارا نقصان نہ ہوگا۔ جب تم سب کے سب اِس پر عمل کروگے تو تمہاری بیٹیاں اگر جائداد میں سے اپنا حصہ لے جائیں گی تو دوسروں کی بیٹیاں تمہارے ہاں لے بھی آئیں گی۔ پس ورثہ دینے کے متعلق میں پھر تاکید کرتا ہوں۔ ہمارا تمام سہارا خدا تعالیٰ پر ہے اور اُسی پر ہمیں بھروسہ ہے، اُس پر بدظنی نہ کرو کہ اگر اُس کے حکم پر عمل نہ کرو گے تو نقصان اُٹھاؤ گے۔ (مأخوذ از رجسٹر فضل عمر فاؤنڈیشن)
۱؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب فی قضاء القاضی اذا اخطأ
۲؎ الوصیت صفحہ۲۱ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۱۹ (مفہوماً)


اُسوہ حسنہ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اُسوہ حسنہ
(تقریر فرمودہ ۲۸؍ دسمبر۱۹۴۳ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج جس موضوع پر مَیں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اُس کے متعلق میرا ارادہ تو پہلے سے ہی تھا کہ مَیں اِسے جماعت کے سامنے بیان کروں مگر مزید تحریک مجھے اِس طرح ہوئی کہ ایک احمدی نوجوان نے مجھے لکھا کہ ہمارے جلسہ کی تقریروں میں جہاں علمی مضامین بیان کئے جاتے ہیں یا ایسے مضامین پر تقاریر کی جاتی ہیں جو بحث مباحثہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں وہاں جماعت کی تربیت اور اصلاحِ اخلاق کے متعلق بہت کم مضامین بیان کئے جاتے ہیں اِس سے مَیں نے سمجھا کہ یہ ایک الٰہی تحریک ہے جو میرے ارادہ کے ساتھ ہی دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب مَیں یہاں آ کر بیٹھا تو ایک غیر مُسلم دوست نے مجھے ایک رُقعہ دیا جس میں اِسی مضمون کے ایک حصہ کے متعلق خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ مَیں اس کے متعلق کچھ بیان کروں۔ مَیں نے اِن دونوں تحریکات سے یہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ یہ مضمون جماعت کے سامنے بیان کر دیا جائے۔
نمونہ کی مطابقت دنیا کے ہرکام میں ملحوظ رکھی جاتی ہے
یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کیلئے ایک نمونہ مقرر کیا ہوا ہے جب ہم اُس نمونہ کی نقل کرتے ہوئے کسی چیز کو تیار کر لیتے ہیں تو ہم اپنے
کام میں کامیاب سمجھے جاتے ہیں لیکن جب ہمارے سامنے کوئی نمونہ نہیں ہوتا تو ہم کئی قسم کی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک میں روزانہ تجارتی کاموں میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے کہ یہ دس روپے لو اور مجھے اِس کے عوض گندم بھجوا دو۔ جب گندم والا اُسے گندم بھجوا دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مَیں نے تو ایسی گندم بھجوانے کے لئے نہیں کہا تھا مَیں نے تو اَور قسم کی گندم کا مطالبہ کیا تھا اور جس نمونہ کے مطابق گندم بھجوانے کا مَیں نے آرڈر دیا تھا اُس کو تم نے ملحوظ نہیں رکھا۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب سَودا لو تو دیکھ کر لو تا کہ بعد میں کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو۔ یوروپین قوموں نے اِنہی جھگڑوں کو دیکھتے ہوئے ہر قسم کے نمونے اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور انہی نمونوں کے مطابق وہ اَجناس کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ اچھی گندم، اچھی کپاس، اچھی جوار اور اچھے چاولوں وغیرہ کے نمونے انہوں نے شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند کر کے رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اُن مرتبانوں پر وہ تمام کوائف لکھ دیتے ہیں کہ یہ گندم یا کپاس فلاں قسم کی ہے۔ فلاں خصوصیات اِس کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اِسی طرح اس کی صفائی وغیرہ کے متعلق بھی جو شرائط ضروری ہوں وہ بھی اُوپردرج کر دیتے ہیں اور جب وہ اُسی قسم کی جنس کہیں سے خریدنا چاہتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ نمونہ موجود ہے ہمیں ایسی گندم یا ایسی جوار یا ایسی کپاس چاہئے۔ اگر تاجر اس قسم کی گندم یا کپاس مہیا کر دینے کا وعدہ کرے تو گورنمنٹ اپنے ریکارڈ میں اس امر کو محفوظ کر لیتی ہے کہ فلاں فرم کے تاجر سے اِس نمونہ کے مطابق گندم یا کپاس لینی ہے۔ پھر جب وہ گندم یا کپاس مہیا کرتا ہے تو ماہرین فن نمونہ کو سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں کہ وہ جنس کہاں تک نمونہ کے مطابق ہے۔ اگر وہ نمونہ کے مطابق ہو اور کسی قسم کا نقص اُس میں نہ ہو تو گورنمنٹ اُس مال کو لے لیتی ہے ورنہ ماہرین فن یہ اندازہ لگا کر کہ نمونہ کے مقابلہ میں کس قدر کمی ہے حرجانہ ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ یہ نمونہ سے فلاں فلاں بات میں اختلاف رکھتی ہے اس لئے ہم اِس قدر حرجانہ تجویز کرتے ہیں۔
غرض یقینی طور پر کسی چیز کے اعلیٰ ہونے کے متعلق تبھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے جب ہمارے پاس کوئی نمونہ موجود ہو اور یہ دیکھ لیا جائے کہ جنس نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں۔ انسانی کاموں میں چونکہ اُتار چڑھائو ہمیشہ جاری رہتا ہے اس لئے تھوڑی بہت کمی کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے مگر جب بھی اِس قسم کی کوئی کمی ہو وہ لوگ جو جج مقرر ہوتے ہیں فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ کمی اِس قابل ہے کہ اِسے نظر انداز کر دیا جائے یا یہ قابلِ گرفت کمی ہے۔ اگر تو وہ کہہ دیں کہ یہ کمی ایسی نہیں جو قابلِ توجہ ہو اِسے نظر انداز کرنا چاہئے اور اس چیز کو ویسا ہی سمجھ لینا چاہئے جیسے نمونہ ہے تو اُسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ کمی ہو تو پھر اس کمی کے مطابق حرجانہ ڈال دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب کسی چیز کو قبول کیا جاتا ہے تو اُسی صورت میں قبول کیا جاتا ہے جب وہ نمونہ کے مطابق ہو یا اگر نمونہ کے پورے طور پر مطابق نہ ہو تو ایسی معمولی کمی ہو کہ لوگ کہہ دیں کہ یہ چیز ویسی ہی ہے تھوڑی بہت کمی نظر انداز کئے جانے کے قابل ہے۔
اخلاقی امور میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا کیلئے نمونہ ہوتے ہیں
جس طرح دنیا کی اور چیزوں کے متعلق نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے اور بغیر نمونہ کے لین دین مکمل نہیں ہو سکتا اور انسان کو یہ تسلی نہیں ہو سکتی
کہ مَیں نے نمونہ کے مطابق کام کر لیا ہے یا نہیں۔ اِسی طرح اخلاقی کاموں میں بھی کسی نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ نمونہ ہمیشہ ہی انبیاء کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ باقی مذاہب بھی اِس بات پر متفق ہیں کہ نبیوں کے ذریعہ ہی قوم کی اخلاقی اور روحانی ترقی ہوتی ہے جس جس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اخلاق کے جس نمونہ کی خریداری چاہتا ہے نبی کے ذریعہ وہ نمونہ بھجوا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے ایسا نمونہ چاہئے جو شخص اُس نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنائے گا اُسے قبول کر لیا جائے گا اور جو اُس نمونہ کے مطابق نہیں ہوگا اُسے ردّ کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱؎اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے اموال لے لئے ہیں اور اِس کے بدلہ میں اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں جنت میں داخل کر دے گا۔
اِس آیت میں جو اَنْفُسکا لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اُس سے ہر قسم کی جان مراد ہے یا بعض شرائط کے مطابق جان مراد ہے؟ اگر ہر قسم کی جان مراد لی جائے تو اِس کے معنی یہ ہونگے کہ خواہ کوئی منافق شخص ہو یا عملی لحاظ سے کتنا ہی کمزور مومن ہو محض اِس وجہ سے کہ اُس نے اپنے منہ سے ایمان کا اظہار کر دیا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی جان کو قبول کر لے اور اُسے جنت میں داخل کر دے مگر ظاہر ہے کہ یہ معنی درست نہیں ہوسکتے کیونکہ اسلام نے اِس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ محض ایمان کا دعویٰ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اصل چیز دل کا اخلاص اور وہ عمل ہے جو ایمان کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے۔ پس جب کہ اَنْفُس سے ہر قسم کی جان مراد نہیں لی جا سکتی تو کوئی نہ کوئی معیار ایسا ہونا چاہئے جس کے مطابق لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ خدا تعالیٰ کس قسم کی جان قبول فرمائے گا تا کہ اُس معیار اور اُس نمونہ کے مطابق لوگ اپنی جانوں کو بنانے کی کوشش کریں اور وہ سمجھ سکیں کہ اگر اس نمونہ کے مطابق ہماری جان ہوگی تو اللہ تعالیٰ اُسے قبول فرما لے گا اور اگر نہیں ہوگی تو اُسے ردّ کر دے گا۔ یہ نمونہ جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے زمانہ کا نبی ہوتا ہے۔ آدم کے زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے اُن کی جانیں خریدیں تو مطلب یہ تھا کہ سب لوگ آدم کے مشابہہ ہو جائیں۔ گویا آدم ؑکو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا کہ ہم یہ نمونہ تمہاری طرف بھیج رہے ہیں اس کے مطابق جو جانیں ہونگی وہ ہم قبول کرلیں گے۔ پس آدمؑ کے زمانہ میں جو جان آدمؑ کے مطابق تھی وہی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی، دوسری کوئی جان اُس نے قبول نہیں فرمائی۔ نوحؑ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ نوحؑ کے مطابق اپنی جانیں لے آئو مَیں انہیں قبول کر لوں گا۔ ابراہیم ؑکے زمانہ میںخداتعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ ابراہیم ؑ کے نمونہ کے مطابق اپنی جانیں لے آؤ مَیں تمہیں قبول کر لوں گا۔ موسٰی ؑکے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ موسٰیؑ جیسے نفس میرے سامنے لے آئو مَیں اُن نفوس کو قبول کر لوں گا۔ اِسی طرح ہندوستان میں اُس نے حضرت کرشنؑ اور حضرت رام چندرؑ کو بھیج کر اعلان فرما دیا کہ یہ لوگ میرے نمونہ ہیں اِن کے مشابہہ اپنے آپ کو بنا لو، مَیں تمہیں نجات دے دوں گا۔ ایران میں اعلان فرما دیا کہ ہم زرتشتؑ کو ایک نمونہ کے طور پر بھیج رہے ہیں اس کے مشابہہ اپنی جانوں کو بنا لو مَیں تمہیں جنت دینے کیلئے تیار ہوں۔ عراق کے علاقوں میں اعلان فرما دیا کہ ایوبؑ نبی کی طرح اپنے آپ کو بنا لو مَیں تم سے راضی ہو جائونگا۔
غرض یہ سلسلہ آدمؑ سے چلا اور چلتا چلا گیا۔ کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ نے دائودؑکو نمونہ بنایا، کسی زمانہ میں سلیمانؑ کو نمونہ بنایا، کسی زمانہ میں اسحاقؑ اور اسماعیل ؑکو نمونہ بنایااور کسی زمانہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نمونہ بنایا اِسی طرح آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک نفس لے آئو تو مَیں تمہیں نجات دے دونگا۔
غرض خدا تعالیٰ نے ایک طرف خریداری کا اعلان کر دیا اور دوسری طرف ایک نمونہ بھی بھیج دیا۔ جیسے مختلف ایسوسی ایشنز میں مختلف نمونے رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اِس ایسوسی ایشن کے ساتھ اگر سَودا طے کرنا ہے تو اس کے تجویز کردہ نمونہ کے مطابق جنس لے آئو یا اگر نمونہ کے مطابق نہیں تو اس کے قریب قریب ضرور ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ چونکہ بڑا رحیم و کریم ہے اس لئے اُس نے دُنیوی ایسوسی ایشنز سے مختلف طریق رکھا ہوا ہے۔ یہ ایسوسی ایشنز قریب کے اَور معنی لیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ قریب کے اَور معنی لیتا ہے۔ یہ تو قریب کے یہ معنی لیتی ہیں کہ بیس کی جگہ ہم پونے بیس بھی قبول کر لیں گی مگر اللہ تعالیٰ چونکہ بہت ہی رحیم و کریم ہے اس لئے وہ بیس کی جگہ سات آٹھ بھی قبول کر لیتا ہے اور اس کے نزدیک یہ بھی قریب قریب کے حکم میںہی ہوتا ہے۔ صرف ایک حد تک مشابہت اس چیز میں موجود ہونی چاہئے گویا ایک حد تک جب اعمال میں اصلاح ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو قبول فرما لیتا ہے اور کہتا ہے یہ چیز بھی ویسی ہی ہے۔
مسئلہ شفاعت کی حقیقت
یہ جو نمونہ کا مسئلہ ہے اِسی کو مسئلہ شفاعت بھی کہتے ہیں۔ لوگ اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے شفاعت پر بڑے
بڑے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ شفاعت کا مسئلہ ایسا ہی ہے جیسے کاٹن ایسوسی ایشنز یا گرین ایسوسی ایشنز اپنی طرف سے بعض لوگوں کو نمائندہ مقرر کر دیتی ہیں جو آرٹ مینز کہلاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ گندم نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں یا روئی کا جو نمونہ دکھایا گیا تھا اُس میں اور مہیا کردہ روئی میں کتنا فرق ہے۔ یا کھانڈ کا جو نمونہ دکھایا گیا تھا اُس کے مطابق کھانڈ مہیا کی گئی ہے یا نہیں اور پھر جو بھی وہ فیصلہ کرتے ہیں اُس کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ اگر تو وہ کہتے ہیں کہ نمونہ میں اور مہیا کردہ چیز میں بہت بڑا فرق ہے تو اُسے ردّ کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ کہتے ہیں یہ چیز نمونہ سے ملتی جلتی ہے تو اُسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ یہی اصول اللہ تعالیٰ نے عالمِ روحانیات میں رکھا ہوا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو نمونہ رکھا ہے وہ بولنے والا ہے۔ دنیا میں کپاس بول کر نہیں کہتی کہ فلاں کپاس میرے جیسی ہے اِسی لئے کپاس کی طرف سے کوئی آدمی کھڑا کیا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ یہ کپاس نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں۔ گندم یا جوار نہیں کہتی کہ فلاں گندم یا جوار میرے جیسی ہے اِسی وجہ سے گندم یا جوار کی طرف سے ایک شخص مقرر کیا جاتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ گندم نمونہ کے مطابق ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ دنیا میں جو نمونے بھیجتا ہے وہ بولنے والے ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہر قوم کا نبی آئے گا اور وہ اپنی اپنی قوم کو دیکھے گا اگر تو وہ کہہ دے گا کہ یہ میرے جیسے ہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو قبول کر لے گا اور فرمائے گا کہ گو اِن میں کچھ کمزوریاں پائی جاتی ہیں لیکن چونکہ انہوں نے نبی کے نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کی تھی اس لئے یہ بھی نمونہ کے قریب قریب ہیں۔ لیکن اگر نبی یہ کہے گا کہ فلاں شخص مجھ سے نہیں ملتا تو اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔۲؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بھی یہی مفہوم ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں اِس لئے آپ کی شفاعت یقینا سب نیبوں کی شفاعت سے زیادہ ارفع اور زیادہ اعلیٰ ہوگی۔ آپ قیامت تک تمام زمانوں کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں اِس لئے قیامت کے دن آپ لوگوں کے قلوب کو دیکھیں گے کہ انہوں نے کہاں تک محمدی نقش کو قبول کیا ہے۔ اگر اُن میں کچھ کمزوریاں، کچھ غلطیاں اور کچھ کوتاہیاں پائی جاتی ہونگی لیکن بحیثیت مجموعی انہوں نے کوشش کی ہوگی کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے بن جائیں تو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے قلوب کو دیکھیں گے تو فرمائیں گے یہ بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم تمہاری اِس شفاعت کی وجہ سے اِن کو جنت میں داخل کرتے ہیں۔
شَفَع لُغت میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ پس شفاعت کا مفہوم یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ یا اللہ! یہ بھی میرا جوڑا ہے، یہ بھی میرا جوڑا ہے، یہ بھی میرا جوڑا ہے پس جن لوگوں کی کمزوریوں کے باوجود اُن کا رسول قیامت کے دن یہ کہہ دے گا کہ اِن کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہیں، انہوں نے نیکی میں بڑھنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے میرے نمونہ پر چلنے کی سعی کی ہے اور گو اِن میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر پھر بھی یہ میرے مشابہہ ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے متعلق اپنے رسول کی شفاعت کو منظور کر لے گا اور انہیں نجات یافتہ لوگوں میں داخل کردے گا۔
کامل نجات شفاعت کے بغیر ناممکن ہے
یہ شفاعت کا مسئلہ ایسا لطیف اور ایسا اعلیٰ درجہ کا مسئلہ ہے کہ بجائے اِس
کے کہ اِس پر اعتراض کیا جاتا دنیا کو یہ محسوس کرنا چاہئے تھا کہ کامل نجات شفاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ آخر ساری دنیا کو یہ ماننا پڑے گا کہ انبیاء اِسی لئے آئے کہ لوگ اُن کے نمونہ کی اقتداء کریں۔ ہندو بھی تسلیم کریں گے کہ حضرت کرشنؑ اور حضرت رام چندرؑ کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے بھیجا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ کرشنؑ اور رام چندرؑ کے نمونہ پر چلیں اور انہیں کے رنگ میں رنگین ہوجائیں۔ مگر کیا ہندو یہ ماننے کیلئے تیار ہیں کہ سارے ہندو کرشن اور رام چندرؑ جیسے بن سکتے ہیں؟ اگر نہیں بن سکتے تو تسلیم کرنا پڑیگا کہ وہ لوگ جنہوں نے کوشش کی کہ ہم کرشنؑ جیسے بن جائیں، جنہوں نے اخلاص اور محبت کے ساتھ اس راہ میں جدوجہد کی، جنہوں نے پورا زور لگایا کہ کرشنؑ کی خوبو اور کرشنؑ کے اخلاق ان کے اندر سرایت کر جائیں اُن میں اگر کچھ خامیاں رہ گئی ہوں تو عقلِ سلیم چاہتی ہے کہ حضرت کرشنؑ قیامت کے دن اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہیں کہ اے خدا انہوں نے مجھ جیسا بننے کی پوری کوشش کی تھی اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اِن کے دل مجھ سے ملتے جلتے ہیں کچھ تھوڑی سی کمی باقی ہے، مَیں شفاعت کرتا ہوں کہ ان کو جنت میں داخل کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ اُن کی شفاعت کو قبول کر لے۔ یہی وہ مسئلہ شفاعت ہے جو اسلام کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت کرشنؑ کہیں گے کہ یہ بھی مجھ جیسے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا! ہم نے انہیں نجات دے دی۔ حضرت رام چندرؑ فرمائیں گے یہ بھی مجھ سے ملتے جلتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا۔ جب یہ رام چندرؑ جیسے ہیں تو مَیں انہیں کیوں نہ بخشوں۔غرض اِسی طرح ہر قوم کا نبی آئے گا اور جن جن لوگوں کے متعلق اس قوم کا نبی یہ کہے گا کہ یہ مجھ سے ملتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن سب کو نجات دے دے گا اور فرمائے گا یہ موسٰی ؑجیسے ہیں، یہ ابراہیم ؑ جیسے ہیں، یہ عیسیٰ جیسے ہیں، یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہیں، اِن کو نجات دے دو۔ پس بغیر شفاعت کا مسئلہ ماننے کے انسانی نجات قطعی طور پرناممکن ہے اسی صورت میں نجات کا امکان سمجھا جا سکتا ہے جب کہ دنیا میں جو لوگ نیک نیتی اور اخلاص سے کام کرنے والے ہیں اُن کی نیک نیتی اور اخلاص کو عمل کا درجہ دے دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اُن کی نیک نیتی اور اُن کا اخلاص ہی عمل کا قائمقام ہے۔ دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے دو سپاہی لڑنے کے لئے جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک آخر تک زندہ رہتا اور فتح پا کر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے کو پہلے دن ہی گولی لگتی ہے اور وہ مَر جاتا ہے۔ اب کیا پہلے کو مُلک کا کم خیر خواہ سمجھا جاتا ہے اور دوسرے کو زیادہ خیر خواہ سمجھا جاتا ہے؟ جو پہلے دن ہی گولی لگنے سے مَر گیا اُس نے کب کہا تھا کہ مجھے گولی مار دو اور دوسرا جو آخر تک زندہ رہا اُس نے کب کہا تھا کہ مجھے گولی نہ مارو۔ اِسی طرح لوگ مختلف ماحول میں رہتے اور اُس ماحول کے زیر اثر نیکی میں کم و بیش ترقی کرتے ہیں۔ کوئی شخص نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ نیکی میں ترقی کر جائے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کے لئے سارا زور صَرف کر دیتا ہے لیکن بعض دفعہ موت اُسے روحانیت میں ترقی کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بعض دفعہ گرد و پیش کے حالات اُسے بڑھنے کا موقع نہیں دیتے اور وہ اُسی حالت میں مَر جاتا اور اُس اعلیٰ مقام کو حاصل نہیں کر سکتا جو ویسا ہی ایک دوسرا شخص حاصل کر لیتا ہے۔ اِسی طرح بعض دفعہ خلقی کمزوریاں انسانی ترقی کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ ہر شخص کا دماغ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایک شخص کا حافظہ تیز ہوتا ہے اور قوتِ فکر اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے مگر دوسرے کا ذہن کُند ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب یکساں کوشش اور جدوجہد کرنے کے باوجود ایک شخص میں کوتاہی یا کمی پائی جائے گی تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی خلقی کمزوری کو مدنظر رکھے گا اور قیامت کے دن فرمائے گا کہ گو اِس میں کمی پائی جاتی ہے مگر چونکہ اُس نے اپنی طرف سے پوری جدوجہد کی اس لئے یہ بھی ویسا ہی ہے جیسے دوسرا شخص۔ مثلاً ایک شخص کا حافظہ بہت اعلیٰ درجہ کا ہے وہ دو مہینے میں سارا قرآن حفظ کر لیتا ہے اور دوسرا شخص ایسا ہے جو دو مہینے میں ایک رکوع بھی پورے طور پر یاد نہیں کر سکتا۔ اب فرض کرو دونوں کوشش کرتے ہیں اور اُن میں سے ایک تو حافظ بن جاتا ہے اور دوسرا حافظ نہیں بن سکتا تو بیشک قیامت کے دن اُن میں سے صرف ایک شخص حافظوں کی صف میں کھڑا کیا جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ دوسرے نے بھی تو حافظ بننے کی پوری کوشش کی تھی۔ پس گو وہ حافظ نہ بن سکا لیکن اُس کی اِس کوشش کی وجہ سے اُس کے حق کو کیوں زائل کیا جائے۔ پہلا شخص اگر حافظ بنا تو اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کا دماغ ایسا اعلیٰ درجہ کا بنایا تھا کہ اُس نے دو مہینے میں قرآن حفظ کر لیا اور دوسرا شخص اگر حافظ نہ بنا تو اِس لئے کہ اُس کا دماغ کمزور تھا اور وہ دو مہینہ میں ایک رکوع بھی حفظ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر بہرحال چونکہ دونوں نے ایک جیسی کوشش کی ہوگی اِس لئے ضرور ہے کہ ان دونوں کو انعام بھی ایک جیسا ملے۔ پس اگر ایک شخص اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے حافظوں میں شمار کیا جائے گا تو دوسرا شخص شفاعت کی وجہ سے حافظ سمجھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ چونکہ اس نے حافظ بننے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کی تھی اس لئے اِسے بھی حافظ ہی سمجھ لو۔
غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بندوں کی نجات کا ایک ذریعہ یہ بنایا ہے کہ جب کوئی بندہ اخلاص اور نیک نیتی سے کوشش کرتا ہے مگر مجبوریوں یا پیش آمدہ حالات کی وجہ سے اعلیٰ مقام کو نہیں پا سکتا تو قیامت کے دن اُس قوم کا نبی جس کو دنیا میں نمونہ بنا کر بھیجا گیا تھا جب اُسے دیکھے گا تو کہے گا کہ یا اللہ! یہ بھی میرے جیسا ہے اِسے نجات دے دی جائے، پس اللہ تعالیٰ اُسے نجات دے دے گا۔
نجات کا اصل گُر یہی ہے کہ ہر شخص کا عمل اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو
پس نجات کا اصل گُر یہ ہے کہ انسان اپنے نبی کے نمونہ کے مطابق ہو یا اِس قدر آپس میں مشابہت پائی جاتی ہو
کہ نبی اُسے دیکھ کر کہہ سکے کہ یہ مجھ سے ملتا جلتا ہے اِسے بھی نجات ملنی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمؑ کے زمانہ میں نجات کا اصل مستحق آدمؑ تھا اِس لئے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب وہی شخص جنت میں جائے گا جو آدمؑ سے ملتا جلتا ہوگا۔ جتنے لوگ آدمؑ بنتے چلے جائیں گے وہ جنت میں داخل ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی آدمؑ کی چھوٹی تصویر بنے اور کوئی آدمؑ کی بڑی تصویر بنے، کوئی چھوٹا آدم بنے اور کوئی بڑا آدمؑ بنے مگر بہرحال اُس زمانہ میں آدمؑ بننا ضروری تھا۔ جب تک کوئی شخص چھوٹا آدمؑ نہ بن جاتا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس کے بعد اگر نوحؑ دوسرے نبی ہوئے ہیں تو پھر نوحؑ اِس بات کا حق رکھتا تھا کہ لوگ اُس کے مشابہہ ہو جائیں۔ کوئی چھوٹا نوحؑ بن جائے اور کوئی بڑا نوحؑ بن جائے مگر بہرحال نوحؑ بننے کے بغیر نجات کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اِسی طرح کرشنؑ اور رام چندرؑ کے زمانہ میں خدائی فیصلہ یہ تھا کہ جو لوگ کرشنؑ اور رام چندرؑ کے مشابہہ ہوتے چلے جائیں گے اُنہیں اِس مشابہت کی وجہ سے قبول کر کے فضل اور رحمت کے دروازے میں داخل کر دیا جائے گا۔ پھر جب وہ آخری زمانہ آیا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ اب صِرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جنت میں جائیں گے اور یا پھر وہ لوگ جائیں گے جن کو خدا محمدؐ کا نام دے دے گا۔ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہونگے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل بروز ہونگے، وہ لوگ بھی شامل ہونگے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جزوی بروز ہونگے، وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے اخلاص اور محبت کے ساتھ اپنے دل پر نقش محمدی پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر اِس کوشش میں انہیں پوری کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے آئینۂ قلب پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر تو اُتار لی مگر وہ تصویر ایسی مصفّٰی اور اعلیٰ درجہ کی نہ تھی جیسی مصفّٰی اور اعلیٰ درجہ کی ہونی چاہئے تھی۔ ایسے تمام لوگوں کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن شفاعت کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ! یہ بھی مجھ سے ملتا جلتا ہے، یا اللہ! وہ بھی مجھ سے ملتا جلتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا بہت اچھا! ہم انہیں بھی جنت میں بھیج دیتے ہیں۔ غرض ہر نبی کے زمانہ میں نجات کے اصل مستحق اُس نبی کے بروز ہوتے ہیں چاہے وہ ادنیٰ بروز ہوں اور چاہے اعلیٰ بروز ہوں۔
چنانچہ انبیاء کے نمونہ ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۳؎ یعنی اُس دن لوگوں کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت کے سامنے اُن کے نبی کو جسے نمونہ کے طور پر بھیجا گیا تھا پیش کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے یہ نمونہ تمہاری طرف بھیجا تھا۔ اب تم جو کہتے ہو کہ ہمیں جنت میں داخل کیا جائے، تم پہلے یہ بتائو کہ تم نے اپنے آپ کو کہاں تک اِس نمونہ کے مطابق بنایا ہے۔ اگر تم اس نمونہ کے مطابق ہمیں نظر آئے تو تمہیں قبول کر لیا جائے گا اور اگر تم اس نمونہ کے مشابہہ نظر نہ آئے تو ہم تمہیں صاف کہہ دیں گے کہ یہ سَودا ہمیں منظور نہیں اور تم ردّ کر دیئے جائوگے۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ ۴؎ یعنی اُس وقت کا خیال کرو جب ہم ایک دن تمام قوموں میں سے ایک ایک نبی کھڑا کریں گے جو نمونہ ہونگے اُن تمام اقوام کے لئے اور اُن سے کہیں گے کہ اِس نمونہ کے مطابق ہمیں جنس دیتے چلے جائو۔
رسول کریمﷺ کے متعلق قرآنی اعلان
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ
خود آپ کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:-
۵؎ فرماتا ہے اے لوگو! اللہتعالیٰ کے پاس پہنچنے اور اُس کی مشابہت اختیار کرنے کیلئے پوری کوشش کرو اور جہاں تک زور چل سکتا ہے پورا زور لگا دو۔ اللہ تعالیٰ نے تم کو بڑی برتری اور بزرگی بخشی ہے اور ایسے احکام نازل کئے ہیں جن پر عمل کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ اگر تم ویسا ہی نمونہ بننا چاہو جیسے تمہارا نبی تھا تو بن سکتے ہو۔ اِس میں کوئی مشکل امر نہیں ہم ابراہیمی طریقہ پر تم کو چلا رہے ہیں جس میں سہولت اور نرمی تھی اور خدا تعالیٰ تمہیں ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے پاک کرنا چاہتا ہے مگر سختی کرنا نہیں چاہتا۔ وہ کیا طریق تھا۔ وہ طریق یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اُمتوں میں بھی اور اِس اُمت میں بھی تمہارا نام مُسلم رکھا ہے یعنی وہ جو اپنے آپ کو کامل طور پر خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اِس طرح نبی کا نمونہ اختیار کرتے ہوئے خود بھی نمونہ بن جائے۔ اور ہم نے یہ اس لئے کیا تا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے نمونہ کے طور پر ہوں اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اختیار کر کے باقی سب دنیا کیلئے اپنے اپنے دائرہ میں نمونہ بن جائو۔
نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی
فرماتاہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اور تم باقی سب دنیا کیلئے نمونہ بن جائو تو
تم کو چاہئے کہ عبادت کر کے اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خاص طور پر اپنی برکات سے حصہ دے اور تم پر اپنے قُرب کے انوار نازل کرے۔
یہ امر مُسلّمہ ہے کہ دو چیزیں جو ایک دوسرے کے قریب ہوں وہ ایک دوسرے کی صفات اور اس کے خواص کو اخذ کر لیتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑ لیتا ہے۔ اِسی طرح پُرانے زمانہ میں لوگ کہا کرتے تھے گو ہم نے اس کا تجربہ نہیں کیا کہ شہد اور ایلوہ ۶؎ کو پاس پاس رکھیں تو شہد میں کڑواہٹ کا اثر آ جاتا ہے۔ علم الحیوانات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ پرندے جس قسم کے درختوں میں رہتے ہیں ویسا ہی رنگ اُن کے جسم اختیار کر لیتے ہیں۔ پھولوں میں رہنے والی تیتریاں۷؎ پھولوں کی مناسبت سے اُن جیسا رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ سبز پتوں میں بیٹھنے والے طوطے سبز رنگ کے بن جاتے ہیں۔ اِسی طرح جس قسم کے درخت کے پتے ہوں ویسی ہی سبزی یا نیلاہٹ پرندوں کے پروں میں آ جاتی ہے۔ دریائوں میں رہنے والی مچھلیاں دریا کی مناسبت اور ریت کی چمک کی وجہ سے سفید رنگ کی ہوتی ہیں۔ غرض یہ ایک ثابت شُدہ حقیقت ہے کہ جس قسم کے ماحول میں کوئی چیز رہتی ہے اُس کے نقش کو قبول کر لیتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تم نے اللہ کا نقش قبول کرنا ہے تو تمہارا کام یہ ہے کہ تم نمازیں قائم کرو۔ احادیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز خدا اور بندے کے درمیان ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ ۸؎ پس اِس کے ذریعہ وہ الوہیت کا رنگ جو نبی کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے تم پر خوب چڑھ جائے گا اور تم بھی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جائو گے۔
پھر اس کے ساتھ ہی ہم تمہیں یہ بھی حکم دیتے ہیں کہ جہاں ایک طرف تم لوگوں کو خدا تعالیٰ کے قُرب کے مواقع بہم پہنچائو خود بھی نمازیں پڑھو اور دوسروں کو بھی نمازیں پڑھائو تا کہ تم پر خدا اور اُس کے رسول کا رنگ چڑھے وہاں اِس امر کو بھی مدنظر رکھو کہ اللہ تعالیٰ اُسی کو اپنا بناتا ہے جو اُس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے۔
مخلوق کی خدمت سے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول
دنیا میں بہترین ذریعہ کسی کی محبت
حاصل کرنے کا یہ ہوتا ہے کہ اُس کے کسی عزیز سے محبت کی جائے۔ ریلوے سفر میں روزانہ یہ نظارہ نظر آتا ہے پاس بیٹھے ہوئے دوست کے بچہ کو ذرا پچکار دیں یا اُسے کھانے کیلئے کوئی چیز دے دیں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی اس کا باپ اس سے محبت سے باتیں کرنے لگ جاتا ہے کہ گویا وہ اس کا بہت پرانا دوست ہے۔ تو فرماتا ہے اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اُس کا پائیدار ذریعہ یہ ہے کہ اُس کے بندوں کی خدمت کرو اور انہیں آرام پہنچانے کے لئے حتّی المقدور اپنے تمام ذرائع عمل میں لائو۔ جب تم ایسا کرو گے تو خدا کہے گا کہ چونکہ یہ میرے پیاروں کی خدمت کرتا ہے اس لئے اِسے بھی میرے پیاروں میں داخل کر لیا جائے۔ اِس کی تشریح بعض احادیث سے اس طرح معلوم ہوتی ہے (گو انجیل میں بھی اِس کا ذکر آتا ہے) کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو! مَیں بیمار تھامگر تم لوگ میری عیادت کیلئے نہ آئے۔ تب بندے کہیں گے اے ہمارے رب! تو کس طرح بیمار ہو سکتا تھا تو تو ہر قسم کے نقائص سے منزہ ہے۔ تیرا کام تو لوگوں کی بیماریوں کو دُور کرنا ہے تو خود کس طرح بیمار ہو سکتا تھا؟ اِس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب میرے بندوں میں سے بعض لوگ بیمار تھے اور تم اُن کی عیادت کے لئے نہ گئے تو گویا میں ہی بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوں سے فرمائے گا کہ ایک دن میں سخت بھوکا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ وہی بندے پھر عرض کریں گے کہ اے خدا! تو تو بھوک اور پیاس سے پاک ہے یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ تجھے بھوک لگتی اور تو پیاس سے تکلیف اُٹھاتا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ دنیا میں میرے بعض بندے ایسے تھے جو بھوکے اور پیاسے تھے جب تم نے اُن میں سے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندے کی بھوک اور پیاس کو دور کرنے کی بھی کوشش نہ کی تو گویا میری بھوک اور میری پیاس کو ہی دور کرنے کی کوشش نہ کی۔ پھر خدا تعالیٰ اُن سے کہے گا دیکھو! مَیںایک دن ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا۔ تب بندے کہیں گے اے خدا! یہ کِس طرح ہو سکتا ہے کہ تُو ننگا ہو۔ تُو تو خود سب لوگوں کو لباس عطا فرماتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے بندوں میں سے بعض لوگ ننگے پھرتے تھے مگر تم نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اگر تم ایک ادنیٰ سے ادنیٰ بندے کا ننگ ڈھانکنے کی طاقت رکھتے تھے مگر تم نے اس کا ننگ نہ ڈھانکا تو گویا مَیں ہی ننگاتھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا۔۹؎ اِس حدیث سے کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ یعنی میرے پیاروں سے پیار کرو۔ جب تم ایسا کرو گے تو میرا رنگ تم پر چڑھ جائے گا اور تم بھی میری صفات اپنے اندر جذب کر سکو گے۔
کوشش کرو کہ تم میں اور تمہارے خدا میں کوئی مغائرت باقی نہ رہے
پھر فرماتا ہے۔ یہ دو گُر ہم نے تم کو رُوحانی ترقی کے بتائے ہیں اِن کو اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ
کو اِس طرح چمٹ جاؤ جس طرح بچہ اپنی ماں کو چمٹجاتا ہے تاکہ خدا تمہارے آگے بھی ہو اور پیچھے بھی ہو۔ تمہارے دائیں بھی ہو اور تمہارے بائیں بھی ہو تاکہ جب کوئی شخص تم پر حملہ کرے تو اُس کے حملے کا وار تم پر نہ پڑے بلکہ خدا پر پڑے۔ عصمت کے معنی ہوتے ہیں محفوظ ہو جانا اور اعتصام کے معنی ہوتے ہیں کسی کے ذریعہ سے محفوظ ہو جانا۔ پس کے معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو ہر قسم کے حملوں سے بچاؤ اس طرح کہ تم میں اور تمہارے دشمن میں خدا حائل ہو جائے اور جب وہ تم پر حملہ کرنے لگے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ اُس نے تم پر حملہ کیا ہے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اُس نے خدا پر حملہ کیا ہے۔
گزشتہ عالمگیر جنگ میں ایک شخص نے غلطی سے لفافہ پر اُلٹا ٹکٹ لگا دیا تھا۔ اس پر مقدمہ چلا اور مجسٹریٹ نے اُسے یہ کہتے ہوئے سزا دی کہ اِس نے بادشاہ کی ہتک کی ہے حالانکہ بظاہر اُس نے بادشاہ کی ہتک نہیں کی تھی صرف ٹکٹ اُلٹا لگا دیا تھا۔ تو فرماتا ہے تم خدا تعالیٰ کے اِس طرح ہم شکل بن جاؤ کہ جب تم پر کوئی شخص حملہ کرے تو خداتعالیٰ یہ سمجھے کہ وہ حملہ مجھ پر کیا گیا ہے اور وہ تمہیں بچانے کیلئے خود آگے آ جائے۔ غرض اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کی اقتداء کرتے کرتے ایسے بن جاؤ کہ خدا تمہارے دلوں میں اُتر پڑے۔ تمہارے ہاتھ اُس کے ہاتھ، تمہارے پاؤں اُس کے پاؤںاور تمہاری زبان اُس کی زبان بن جائے۔ تم اپنے نفس سے کھوئے جاؤ اور خدا کے ہاتھ کا ایک ہتھیار بن جاؤ تاکہ تم میں اور تمہارے خدا میں کوئی دُوئی اور مغائرت باقی نہ رہے۔
وہ تمہارا مولیٰ ہے۔ جب تم اُس کے مشابہہ ہو جاؤ گے تو وہ تمہارا محافظ اور نگران ہو جائے گا اور پھر وہ تم سے ایسی محبت کرے گا اور تمہاری ترقی کے لئے ایسے ایسے راستے کھولے گا کہ تم اُس کے ظِل کہلانے لگ جاؤ گے، اُس کی شکل کہلانے لگ جاؤ گے۔۔ اَب تم بتاؤ کہ ایسا آقا تمہیں اور کون ملے گا جو غلام سے اِتنی محبت کرے کہ اُسے آخر اپنے جیسا بنالے۔
مسلمانوں کو ہدایت کہ وہ تمام انبیاء ؑ کے نمونہ پر چلیں
پھر قرآن کریم میں خدا تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ انہیں اُن سب نمونوں کی اتباع کرنی چاہئے جو پہلے گذر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔











۱۰؎ اللہ تعالیٰ اِن آیات میں فرماتا ہے کہ ہمارے بہت سے انبیاء گزرے ہیں جن کی بڑی شان تھی۔ اُن انبیاء میں نوحؑ بھی تھے، ابراہیمؑ بھی تھے، اسحاقؑ بھی تھے، یعقوب ؑ بھی تھے، داؤدؑ بھی تھے، سلیمانؑ بھی تھے، ایّوبؑ بھی تھے، یوسف ؑ بھی تھے، موسیٰؑ بھی تھے، ہارونؑ بھی تھے۔ اِسی طرح زکریاؑ ، یحییٰ ؑ، عیسیٰ ؑ، الیاسؑ، اسماعیل ؑ، الیسعؑ، یونس ؑ اور لُوطؑ وغیرہ سب ہمارے مقربین میں شامل تھے یہ اور اِن کے آباء اور اِن کی نسلوں اور رشتہ داروں میںسے بہت سے لوگ تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کیلئے چُن لیا۔ اور اے مسلمان! یہ سارے کے سارے وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔ پس اب ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ تُو اِن ساروں کی ہدایت کے پیچھے چل۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ ایک سچے مسلمان کو خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ تمام انبیاء کی ہداتیوں کے پیچھے چلے اور سب انبیاء کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھے ۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے نہ تو تمام گزشتہ انبیاء کی تصویریںموجود ہیں جن کو دیکھ کر ہم اپنی تصویریں اُن کے مطابق بنا سکیں اور نہ اُن کی تعلیمیں اپنی اصل صورت میں موجود ہیں، نہ وہ اخلاقی احکام موجود ہیںجو انہوں نے دیئے، نہ اُن کے نمونے اِس وقت ہماری آنکھوںکے سامنے پائے جاتے ہیںاور ایک ایسی دِقّت ہے جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ یہ حکم دیتا ہے کہ گزشتہ تمام انبیاء کی ہدایتوںاور اُن کے نمونوںکی اتباع کی جائے اور دوسری طرف ہمارے سامنے اُن میں سے کسی نبی کا مکمل نمونہ موجود نہیں کسی نبی کی مکمل تعلیم موجود نہیں۔ پس ہم اُن کی اقتداء کریںتو کِس طرح کریں؟ اِ س سوال کا جواب انہی آیات کے آگے چل کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
۱۱؎ چونکہ انسانی فطرت میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ گزشتہ انبیاء کی جو تعلیمیں تھیں اور جن تعلیموں کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں سے نمونہ طلب کرتا ہے وہ تو اب موجود نہیںہیں پھر اس کا کیا علاج ہو۔ اِس لئے فرماتا ہے اِس کاعلاج آسان ہے۔یہ وہ کتاب ہے جس میں سب علوم جمع کر دیئے گئے ہیں۔
کا لفظ برکۃ سے نکلا ہے اور بِرکۃ عربی زبان میںنیچی جگہ کو کہتے ہیں جہاں بارش کے بعد اِردگرد کا پانی بہہ کر جمع ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ کتاب ایک تالاب کے طور پر ہے۔ چنانچہ جس قدر گزشتہ نبیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی بارشیں ہوئی ہیں وہ سب بہہ کر اِس تالاب میں جمع ہو گئی ہیں۔ پس اَب تمہیں الگ الگ کسی پہلی الہامی کتاب پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ الگ الگ پہلے انبیاء کے نمونہ کو دیکھنے کی احتیاج ہے۔ تم ہمارے اِس قرآن کو دیکھ لو جو کچھ ہم نے پہلے انبیاء کو دیا وہ سب کچھ اِس میں موجود ہے۔ اور جو کچھ پہلے انبیاء نے نمونہ دکھایا وہ سب کا سب نمونہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں موجود ہے۔ ہم تم کو کہتے ہیں کہ تم ابراہیم ؑ جیسے بنو۔ تم کہہ دو گے کہ ہمیں پتہ نہیں ابراہیمؑ کو کیسا بنایا گیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ تمہیں پتہ نہیں ابراہیمؑ کیسا بنایا گیا تھا مگر آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ وہ کیسا بنایا گیا تھا۔فرماتا ہے ہم نے اُسے جیسا بھی بنایا تھا اُس کا قرآن میں مکمل ذکر موجود ہے۔ ہم تمہیں کہتے ہیں تم نوحؑ جیسے بنو، تم کہہ دو گے ہمیں کیا معلوم کہ نوحؑ کیسا تھا۔ سو آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ ہم نے نوحؑ کو جیسا بنایا تھا اُس کا پورا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ اِسی طرح ہرنبی جو آج تک اِس دنیا میں گزرا ہے اُس کی تعلیم کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور اُس کے اُن اخلاق کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جو اُس نے دکھائے۔ پس یہ کتاب مبارک ہے۔ یعنی ایک ایسی نشیب زمین کی طرح ہے کہ جو الہام نوحؑ پر ہؤا وہ بھی اِس میں جمع ہے۔ جو الہام موسیٰؑ پر ہؤا وہ بھی اِس میں جمع ہے، جو الہام رام چندرؑ پر ہؤا وہ بھی اِس میں جمع ہیـ، جو الہام عیسٰی ؑپر ہوا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام کرشن ؑپر ہوا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام زرتشت ؑ پر ہؤا وہ بھی اس میں جمع ہے، جو الہام ایّوبؑ پر ہؤا وہ بھی اِس میں جمع ہے اور پھر محمد رسول اللہ ﷺ پر جو نئی وحی نازل ہوئی وہ بھی اِس میںجمع ہے۔ گویا یہ ایک ایسا تالاب ہے جس میں تمام چوٹیوں کا پانی اِردگرد سے آ کر جمع ہو گیا ہے اور یہ کتاب جامع ہے سب نبیوں کے کمالات کی۔ اِس پر چل کر گویا سب نبیوں کی اِتباع ہو گئی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی عظیم الشان برکات
گزشتہ انبیاء کی تعلیموں کا سوال تو اِس طرح حل کر دیا۔ اَب سوال ہو سکتا تھا کہ ہم اُن انبیاء کا نمونہ کہاں تلاش کریں۔ سو اِس سوال
کا حل بھی قرآن کریم نے پیش کر دیا کہ بالکل آسان بات ہے تممحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرو۔ تمام انبیاء کا نمونہ اِسی میں آ جائے گا جیسا کہ
والی آیت سے تفصیل کے ساتھ یہ امر بیان کیا جائے جا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے اعمال پر جب ہم نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کا عمل وہی کچھ تھا جس کا قرآن کریم میںذکر آتا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول کریم ﷺ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو آپ نے فرمایا۔ تم مجھ سے کیا پوچھتے ہو کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ۔ آپؐ کے اخلاق وہی کچھ تھے جن کا قرآن میں ذکر آتا ہے۔ گویا محمد رسول اللہ ﷺ کا عمل اور قرآن کریم کی بات ایک ہی تھی۔ جو کچھ قرآن میں لکھا تھا سمجھ لو کہ رسول کریم ﷺ ویسا ہی کیا کرتے تھے اور جو کچھ رسول کریم ﷺ کیا کرتے تھے سمجھ لو کہ اُس کا حکم قرآن کریم میں ضرور موجود ہو گا۔
پس تمام انبیاء کی نقل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دے دی۔ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کر لیں تو ہم اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء کا انعکاس اپنے آئینۂ قلب میں پیدا کر لیتے ہیں۔ احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہؓ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھتے تھے وہی کچھ خود کرنے لگ جاتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہی کام ہمیںکرنے چاہیں۔ پس اگر ہم بھی اپنے اخلاق کو درست کرنا چاہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی نمونہ اپنے سامنے رکھیںاور وہ نمونہ جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کا ہے۔
اخلاق کے معنی
اخلاق کے معنی کیا ہیں؟ اخلاق درحقیقت صفاتِ الٰہیہ کے اُس ظہور کا نام ہے جو بندے کی طرف سے ہو۔ پس ہم جب اللہ تعالیٰ کی صفات کی
نقل کرتے ہیں تو بااخلاق کہلاتے ہیں۔ گویا ایک ہی چیز خداتعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو تو اُس کی صفت کہلاتی ہے اور بندوں کی طرف سے ظاہر ہو تو خلق کہلاتی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کے اندر تو یہ صفات ازلی ابدی طور پر پائی جاتی ہیں اور ہمارے اندر کسبی طور پر پائی جاتی ہیں۔ بہرحال جب یہ صفات ہمارے اندر آتی ہیں تو اخلاق کہلانے لگ جاتی ہیں اور جب خداتعالیٰ کی طرف انہیں منسوب کیا جاتا ہے تو وہ اسماء یا صفات کہلاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاق کی درستی کیلئے محمد رسول ﷺکو ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا ہے۔ اگر ہم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے محمدؐ بن جاتے ہیں تو اِس صورت میں ہم نجات کے مستحق ہوتے ہیں اور اسی صورت میں ہم بااخلاق کہلانے کے بھی مستحق ہوتے ہیں۔ پس دنیا میں کامل انسان بننے کیلئے یا بالفاظِ دیگر نجات یافتہ ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہم محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے نقوش اپنے دلوں پر قائم کریں۔
عیسائیت کی ایک بہت بڑی غلطی
یہاں عیسائیت نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ عیسائیت کہتی ہے کہ شریعت
*** ہے حالانکہ شریعت کِس چیز کا نام ہے؟ شریعت نام ہے اِس بات کا کہ خداتعالیٰ نے اپنی جو تصویر پیدا کی ہے اُس کی ہم پوری طرح نقل کریں اور احکام کی مثال ایسی ہی ہے جیسے تصویر بنانے والے کو کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ پر یہ رنگ پھیرو اور فلاں جگہ پر وہ رنگ پھیرو تاکہ یہ تصویر فلاں تصویر کے مشابہہ ہو جائے۔ اِسی طرح اخلاق کی وہ تعلیم جو خداتعالیٰ نے کبھی کسی صورت میں دی اور کبھی کسی صورت میں، ایسی ہی تھی جیسے ڈرائنگ کی کاپیوں میں لڑکوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ یہاں فلاں رنگ پھیرو اور وہاں فلاں رنگ پھیرو۔ پس شریعت اُن ہدایتوں کا نام ہے جن پر عمل کر کے ہم اپنے زمانہ کے نبی کی تصویر کھینچ سکتے ہیں۔ چونکہ نبی کی تصویر وہ ہوتی ہے جو دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے پیش کی جاتی ہے اور اس لئے پیش کی جاتی ہے کہ لوگ اُس کی نقل کریں اِس لئے جب ہم شریعت پر عمل کرتے ہیں تو گویا ہم خدا تعالیٰ کی تصویر اپنے آئینۂ قلب پر کھینچ لیتے ہیں۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں اشارہ فرمایا کہ ۱۳؎
یعنی اے محمد رسول اللہ! تُو لوگوں سے کہہ دے کہ مَیں خداتعالیٰ کے حُسن کا آئینہ ہوں۔ اگر تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے تو لازماً تم یہی کوشش کرو گے کہ ہمیں بھی اپنے محبوب کا چہرہ دکھائی دے۔ سو اگر تمہارے دل میں خداتعالیٰ کی محبت ہے اور تم چاہتے ہو کہ تم اپنے خدا کو دیکھو تو میرے پیچھے چلے آؤ۔ جب تم مجھ کو دیکھو گے تو چونکہ مَیں خداتعالیٰ کو دیکھ چکا ہوں اور اُس کی تصویر اُتار چکا ہوں اِس لئے نتیجہ یہ ہو گا کہ میرے پیچھے چلتے چلتے ایک دن تم بھی آئینہ بن جاؤ گے جس میں خدائی تصویر آ جائے گی اور تم بھی خداتعالیٰ کے محبوب اور پیارے بن جاؤ گے کیونکہ اُس کی شکل تم میں نظر آنے لگے گی اور خداتعالیٰ نے یہی طریق رکھا ہؤا ہے کہ جو اُسے دیکھ لے اور اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لے وہ اُس کا پیارا بن جاتا ہے۔
قربِ الٰہی کے مختلف مدارج
اِسی کی طرف قرآن کریم کی اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ
۱۴؎ فرماتا ہے جو کوئی اللہ اور اُس کے اِس رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ خداتعالیٰ کے منعم علیہ گروہ یعنی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صلحاء میں سے کسی ایک میں شامل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی اِتباع کے کئی درجے ہیں۔ کبھی کوئی شخص سب سے چھوٹا درجہ حاصل کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صالح کہلانے لگ جاتا ہے کبھی کوئی اِس سے بھی واضح تصویر محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنے دل پر کھینچ لیتا ہے اور وہ شہید کہلانے لگ جاتا ہے۔ کبھی کوئی شہید سے بھی زیادہ واضح اور روشن تصویر اپنے آئینہ قلب پر کھینچ لیتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدیق بن جاتا ہے۔ پھر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اُس سے بھی آگے ترقی کر جاتا اور وہ خداتعالیٰ کی نگاہ میںنبوت کا مستحق ہو جاتا ہے۔ پھر کوئی اُس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے اور وہ سورۃ جمعہ کی آیت ۱۵؎کے مطابق سارے نبیوں کی تصویریں اپنے اندر لے لیتا اور ظِلّی محمدؐ کہلانے لگ جاتا ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
پھر جب محمدرسول اللہ ﷺ کی تصویر میں سے کوئی شخص صرف عیسوی تصویر اُتار لے تو وہ عیسیٰ بن جاتا ہے، جب ابراہیمی تصویر اُتار لے تو ابراہیم بن جاتا ہے اور جب سارے انبیاء کے نقوش اور اُن کی تصویریں اپنے دل پر اُتار لیتا ہے تو وہ ظِلِّ محمدؐ بن جاتا ہے اِسی لئے اُمّتِ محمدیہ میں صرف وہی شخص نبی بن سکتا ہے جو ظِلِّ محمدؐ ہو خالی موسیٰؑ کا ظِل بننے یا خالی عیسیٰؑ کا ظِل بننے سے کوئی شخص نبی نہیں بن سکتا۔ کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ ساری دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور موسیٰؑ و عیسیٰؑ خاص خاص اقوام کی طرف مبعوث ہوئے۔ پس جو شخص انبیائے سابقین میں سے کسی ایک نبی کی تصویر اُتارتا اور اُس کے نقوش اپنے اندر پیدا کرتا ہے وہ بیشک عیسیٰ ثانی بن سکتا ہے، موسیٰ ثانی بن سکتا ہے مگر وہ اُمّتِ محمدیہ میں نبی نہیں بن سکتا۔ وہ ایسا ہی ہو گا جیسے حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ نے کہا کہ
ومبدم رُوح القدس اندر معینے دمد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم۱۶؎
یعنی جبرئیل لحظہ بہ لحظہ معین الدین کے اندر آ کر اپنی روح پھونکتا ہے اس لئے میں تو نہیں کہتا مگر حقیقت یہی ہے کہ میں عیسٰی ثانی ہو گیا ہوں۔
نبوت کیلئے ظِل محمدؐ بننا ضروری ہے
پس بے شک کوئی عیسیٰ ثانی بن جائے اِس میں کوئی حرج نہیں مگر محمد رسول اللہ
ﷺ کے زمانہ میں عیسیٰ ثانی ہونے سے انسان نبی نہیں بن سکتا۔ اِس زمانہ میں انسان نبی تبھی بنتا ہے جب وہ ظِلِّ محمدؐ ہو جاتا ہے۔ اِسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہر زمانے قتیلِ تازہ بخواست
غازۂ روئے او دمِ شہدا ست
ایں سعادت چوبود قسمتِ ما
رفتہ رفتہ رسید نوبتِ مَا
کربلائیست سیر ہر آنم
صد حسین است در گریبا نم
آدمم نیز احمدِ مختار
در برم جامئہ ہمہ ابرار
آنچہ داد است ہر نبی راجام
داد آں جام را مرا بتمام۱۷؎
فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کے لئے اپنا ایک شہید پیدا کیا کرتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی شان دنیا میں انہی شہیدوں کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے اور اُس کے چہرے کا حُسن انہی شہیدوں کے ذریعے نکھرا کرتا ہے۔ چونکہ میرے حصہ میں بھی یہ سعادت مقدر کی جا چکی تھی اِس لئے آہستہ آہستہ میری نوبت بھی آ گئی اور چونکہ خداتعالیٰ کے رستہ میں میرا قتیل ہونا ضروری تھا اور یہ قرار دیا جا چکا تھا کہ مَیں اُس کے عشق میں مارا جاؤںاِس لئے
کربلائیست سیر ہر آنم
مَیں نے کربلا کی سیر کی اور ہر گھڑی سیر کی۔ دشمن، صداقت کا دشمن، راستی اور نُور کا دشمن مجھ پر بھی آج تیر برسا رہا ہے۔ مگر تیر کچھ ایسی بیدردی کے ساتھ برسا رہا ہے کہ گویا اُس کے سامنے ایک حسینؓ نہیں سو حسینؓ کھڑا ہے۔
’’آدمم نیز احمدؐ مختار‘‘
مَیں سارے نبیوں کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہوں آدم ؑ سے لیکر محمد رسول اللہ ﷺ تک کوئی نبی ایسا نہیں جس کے کمالات مجھ میں پائے نہ جاتے ہوں۔
’’دربرم جامئہ ہمہ ابرار‘‘
ہر نبی اور ہر ولی کا کُرتہ مجھے پہنایا گیا ہے۔
آنچہ دادست ہر نبی راجام
داد آں جام را مرا بتمام
خدا تعالیٰ نے ہر نبی کو معرفت کا جو پیالہ پلایااُن میں سے ہر ایک پیالہ مجھے بھی پلایا گیا ہے اور خوب بھر بھر کر پلایا گیا ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کِسی پہلے نبی کو جو جام پلایا گیا ہو وہ چھوٹا ہو مگر مجھے وہی جام دیا گیا تو وہ خوب بھرا ہؤا تھا۔ یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچ کر انسان کو اِس زمانہ میں ظِلّی نبوت حاصل ہوتی ہے۔ یعنی وہ ظِلّ محمدؐ بن جائے تب نبی بنتا ہے۔ ظِلّ موسیٰ یا ظلِّ عیسیٰؑ بننے سے نبوت کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔
غرض تمام زمانوں میں نیکی اور اخلاقِ کامل کے معیار اُن زمانوں کے وہ انبیاء تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ نبی خدا کا نمونہ ہوتا ہے پس جو شخص نبی کا نمونہ بن جائے وہ نیک سمجھا جاتا ہے اور جو نبی کا نمونہ نہیں ہوتا اُسے نیک نہیں سمجھا جاتا۔ اِس زمانہ میں اگر کوئی نیکی کا راستہ ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر اپنے دل و دماغ پر کھینچنے میں۔ پس اِس زمانہ میں جو شخص محمد رسول اللہﷺ کا نمونہ بن جائے اور آپ کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لے وہی شخص مومن یا نجات یافتہ یا بااخلاق سمجھا جا سکتا ہے۔اِس تمہید کے بعد اَب مَیں محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق میں سے کچھ باتیں بیان کرتا ہوں تا ہر شخص جو اپنے دل پر جمالِ الٰہی کا نقش کرنا چاہے وہ اِس سے فائدہ اُٹھا سکے۔
درحقیقت ایک مسلمان کے لئے یہ وہم کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ رسول کریم ﷺ کے نمونہ کو اپنے سامنے رکھے بغیر وہ کوئی روحانی مقام حاصل کر سکتا ہے۔اگر کوئی شخص ایسا خیال کرتا ہے تو وہ اوّل درجہ کی حماقت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہم کوئی کمال حاصل نہیں کرسکتے جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر ہمارے سامنے نہ ہو اور اُس تصویر کو ہم اپنے دل پر نہ کھینچ لیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم بار بار اپنی بنائی ہوئی تصویر کو محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کے ساتھ ملائیں اور دیکھیں کہ وہ اصل کے مطابق ہے یا نہیں۔ کوئی زائد لکیر ہو تو اُسے مٹا دیں، کوئی پھیکا رنگ ہو تو اُسے تیز کر دیں، کوئی زیادہ تیز رنگ ہو تو اُسے ہلکا کر دیں، پھر بار بار اُسے اصل کے ساتھ ملائیں اور دیکھیں کہ وہ دونوں تصویریں آپس میں کِس حد تک مشابہہ ہو گئی ہیں۔ غرض ہماری زندگی کی تمام جدوجہد، تمام کوشش اور تمام سعی صرف اِس کا م کے لئے ہو کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر اپنے قُلوب پر کھینچ لیں۔ پس ہمیں ہر وقت محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر کو دیکھتے رہنا چاہئے۔ اگر ہماری تصویر اُس کے مطابق ہو تو پھر بے شک ہم خوش ہو سکتے ہیں اور خیال کر سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن ہماری شفاعت کریں گے۔ لیکن اگر ہماری تصویر اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تصویر میں کوئی مشابہت ہی نہ ہو تو پھر رسول کریم ﷺ کی شفاعت کی اُمید رکھنا صریح غلطی اور نادانی ہے۔
مسلمانوں میں شفاعت کی غلط تشریح
میرے نزدیک یہ بالکل غلط خیال ہے جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے کہ
مستحقِ شفاعت گنہگار اند
رسول کریم ﷺ کی شفاعت کے گنہگار مستحق نہیں ہوں گے بلکہ آپؐ کی شفاعت کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کا کچھ نقش اپنے اندر لے لیا اور وہ نقش ایسا ہؤا کہ قیامت کے دن رسول کریم ﷺاُسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے کہہ سکیں کہ اے میرے خدا! یہ بھی مجھ سے ملتے جُلتے ہیں مَیں اِن کی شفاعت کرتا ہوں ورنہ یہ تو سرا سرا ظلم ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کسی رنگ میں بھی مشابہت نہ رکھتا ہو اور وہ کہے کہ یہ مجھ سے ملتا جلتا ہے۔ یہ مان لیا کہ ایک شخص دوسرے سے اپنے تمام خدوخال میں مشابہت نہ رکھتا ہو مگر یہ تو ہو سکتا ہے کہ اُس کی آنکھیں دوسرے کی آنکھوں سے مِلتی جُلتی ہوں یا اُس کے ہاتھ دوسرے کے ہاتھ سے مِلتے جُلتے ہوں یا اُس کی آواز دوسرے کی آواز سے مِلتی جُلتی ہو لیکن ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص میں مشابہت کی کوئی بات بھی نہ پائی جاتی ہو اور اُس کے متعلق یونہی کہہ دیا جائے کہ وہ فلاں سے ملتا جلتا ہے۔ یہ تو ویسی ہی بات ہو گی جیسے بچپن میں میرے ایک عزیز کو مجھ سے کچھ رقابت تھی مَیں اُن کا نام نہیں لیتا اُن کی ہمیشہ یہ عادت تھی کہ مَیں جو بات بھی کہتا وہ ضرور اُس کے خلاف کہتے خواہ وہ کس قدر ہی معقول کیوں نہ ہوتی۔ اور میرے ایک اور عزیز تھے اُن کی یہ عادت تھی کہ جب وہ میرے خلاف کہتے وہ ہمیشہ اُس کی تصدیق کیا کرتے اور کہتے کہ ہاں یہ بالکل درست ہے اُس وقت ہم مدرسہ میں پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن میرے وہی عزیز آئے اور کہنے لگے مَیں تو روس کا جب بھی نقشہ دیکھتا ہوں مجھے خواجہ جمال الدین صاحب انسپکٹر جموں یاد آ جاتے ہیں جو خواجہ کمال الدین صاحب کے بھائی تھے کیونکہ مجھے وہ بالکل خواجہ جمال الدین صاحب
جیسا معلوم ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا آخراس کا کیا مطلب ہے کیا آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے خواجہ جمال الدین صاحب موٹے ہیں اِسی طرح آپ کو روس کا بڑا سا نقشہ دکھائی دیتا ہے کہنے لگے یہ تو نہیں مگر جب بھی مَیں روس کا نقشہ دیکھتا ہوں مجھے بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہیں۔ مَیںنے کہا تو کیا اُن کے سر سے نقشہ کا کوئی حصہ ملتا ہے؟ کہنے لگے یہ تو نہیں۔ مَیں نے کہا تو کیا اُن کے پاؤں سے نقشہ کا کوئی حصہ ملتا جُلتا ہے؟ کہنے لگے یہ بھی نہیں۔ صرف یہ ہے کہ جب مَیں نقشہ دیکھتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہیں۔ مَیں نے کہا اگر وہ آپ کو مشابہہ معلوم ہوتے ہیں تو مشابہت کی کوئی بات تو بتائیں۔ مثلاً اٹلی کا نقشہ ہے اُس کے نیچے کی جگہ بُوٹ کے مشابہہ معلوم ہوتی ہے۔ اِسی طرح آپ کو بتانا چاہئے کہ نقشہ میں وہ کونسی بات ہے جو آپ کو خواجہ جمال الدین صاحب کے مشابہہ نظر آتی ہے۔ آیا اُن کے سر سے کوئی حصہ ملتا ہے یا وہ چوڑا ایسا ہے جیسے خواجہ صاحب چوڑے چکلے ہیں یا اُن کے پیروں سے کوئی حصہ ملتا ہے۔ کہنے لگے اِن میں سے تو کوئی بات نہیں مگر مَیں جب دیکھتا ہوں مجھے یہی معلوم ہوتا ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اِتنے میں میرے دوسرے عزیز آ گئے اور مَیں نے سمجھا کہ آج تو یہ ضرور میری بات کی تائید کریں گے۔ چنانچہ مَیں نے کہا ابھی یہ ذکر کر رہے تھے کہ روس کا نقشہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کی شکل ہے اور مَیںنے اِن سے بار بار پوچھا ہے کہ آپ بتائیں آپ کو دونوں میں کِس چیز کی مشابہت نظر آتی ہے مگر وہ بتا نہیں سکتے اور یہی کہتے جاتے ہیں کہ وہ نقشہ خواجہ صاحب کی شکل سے ملتا ہے۔ مَیں نے اِس بات کا اُن سے ذکر کیا اور اپنے دل میں یہ سمجھا کہ آج تو یہ ضرور میری تائید کریں گے مگر وہ جھٹ کہنے لگے مجھے بھی یہ نقشہ بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسے خواجہ جمال الدین صاحب کھڑے ہوں۔
تو ایسی مشابہت پر شفاعت کی اُمید رکھنا بالکل لغو بات ہے آخر کچھ نہ کچھ محمدیت سے مشابہت تو ضروری ہے ورنہ رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے کِس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی مجھ سے ملتا جلتاہے، اِسے بھی جنت میں داخل کر دیجئے۔
نجات اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کا نام ہے
درحقیقت نجات نام ہی ہے اُن اعلیٰ صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کا جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں کے دلوں
میں پایا جاتا ہے کہ دوزخ سے بچجانا یا جنت کامِل جانا نجات ہے۔ جنت کا ملنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے کسی دوست سے ملنے کیلئے جاتا ہے تو وہ اُس کے آگے کھانا رکھ دیتا ہے۔ اَب کوئی کمینہ ہی ہو گا جو اپنے دوست سے ملنے کیلئے جائے اور پھر کہے کہ مجھے کھانا بھی کھلاؤ۔کھانا وہ اپنی مرضی سے کھلاتا ہے ورنہ اِس کا اصل مقصد اپنے دوست سے ملنا اور اُس سے باتیں کرنا ہوتا ہے۔ اِسی طرح جنت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو جو انعامات ملیں گے وہ ایک زائد چیز ہیں اور ایسے ہی ہیں جیسے دوست دوست سے ملنے کے لئے جاتا ہے تو وہ اُس کے سامنے اچھے سے اچھا کھانا بھی رکھ دیتا ہے ورنہ نجات اصل میں جنت میں داخل ہونے کا نام نہیں بلکہ اُن صفات کا انسان کے اندر پیدا ہو جانا نجات ہے جو خداتعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ جب ہم سِفلی اثرات سے محفوظ ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں تو ہمیں اِسی دنیا میں جنت مِل جاتی ہے۔ اِسی کی طرف قرآن کریم کی اِس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ۱۸؎ جو شخص اِس دنیا میں اندھا ہو گا وہ اگلے جہان میںبھی اندھا ہو گا۔یعنی اگر کسی شخص نے صفاتِ الٰہیہ کا انعکاس اپنے آئینۂ قلب میں پیدا نہیں کیا اور اس سِفلی زندگی کا وہ شکار ہو چکا ہے تو اگلے جہان میں بھی اُسے کوئی نُور نہیں ملے گا اور وہ اپنے آپ کو عذاب میں محسوس کرے گاکیونکہ اُس وقت حجاب اُٹھ چکا ہو گا اور اُسے علم عطا کر دیا جائے گا اور چونکہ اُس وقت اُسے اپنی نابینائی کا علم ہو جائے گا اِس لئے یہی احساس اُس کے لئے دُکھ اور عذاب کا موجب بن جائے گا۔ جیسے اگر کوئی شخص بیہوش ہو اور بیہوشی کی حالت میںہی اُس کی آنکھیں ماری جائیں تو اُسے اس کا حساس نہیں ہوتا اور نہ کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن اگر اُسے ہوش آ جائے تو پھر یہی چیز اِس کے لئے دُکھ اور عذاب کا موجب بن جاتی ہے۔ اِسی طرح ایک شخص دنیاکی زندگی میں روحانی لحاظ سے اندھا ہوتا ہے مگر وہ سمجھتا نہیں کہ وہ اندھا ہے۔ ایک مدہوشی کی سی حالت اُس پر طاری رہتی ہے۔ لیکن جب مرنے کے بعد حجاب اُٹھ جائے گا اور اُسے پتہ لگے گا کہ مَیںروحانی لحاظ سے اندھا ہوں، تب وہ اپنے دل میں ایک شدید دُکھ محسوس کرے گا اور اِسی کا نام دوزخ ہے۔ بیشک دوزخ کے عذاب کی مختلف شکلیں بھی ہوں گی لیکن اصل دوزخ اُس کے دل کا یہی احساس ہو گا کہ مَیں خداتعالیٰ سے دُور ہوں اور میرے اندر وہ اعلیٰ صفات نہیں ہیں جن سے میری خداتعالیٰ سے مشابہت ہو سکے تب اُسے عذاب شروع ہو جائے گا اور رات اور دن وہ اِس عذاب میں مبتلا رہے گا۔
آخرت میں آگ کے عذاب سے بھی سخت تر عذاب خداتعالیٰ کی ناراضگی ہے
مَیں مانتا ہوں کہ وہاں آگ کا عذاب بھی ہو گا لیکن پھر بھی اُس آگ کے عذاب سے بھی سخت تر
عذاب یہ ہو گا کہ اُسے اِس بات کا احساس ہو گا کہ میرا خدا مجھ سے ناراض ہے۔ ہم نے دنیا میں بارہا یہ نظارہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بچہ روٹھ جاتا ہے، بعض دفعہ بیوی سے ناراضگی ہو جاتی ہے،بعض دفعہ دوست سے کسی بات پر شکایت پیدا ہو جاتی ہے ایسی صورت میں ہر شخص جانتا ہے کہ یہ تکلیف کتنی شدید ہوتی ہے اور کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ یہ عذاب آگ کے عذاب سے کم ہوتا ہے۔ ہم نے تو دیکھا ہے یہ عذاب بعض دفعہ اتنا محسوس ہوتا ہے کہ ہزاروں دُکھوں سے بڑھ کر اِس کی تپش انسان کو جلا رہی ہوتی ہے اور جب تک ہمارا محبوب ہم سے راضی نہیں ہو جاتا اگر ہم روٹی کھاتے ہیں تو وہ ہمارے حلق سے نیچے نہیں اُترتی، پانی پیتے ہیں تواُچّھو ہونے لگتا ہے، سوتے ہیں تو نیند نہیں آتی،سوچتے ہیں تو پاگلوں کی طرح ہماری سمجھ میں کوئی بات ہی نہیں آتی، دل جو ہماری طاقت کا موجب ہوتا ہے وہ دھڑ دھڑ کر رہا ہوتا ہے، پیرجن سے ہم چلتے ہیں وہ کانپ رہے ہوتے ہیں، ہاتھ جن میں پکڑنے کی طاقت ہوتی ہے وہ شَل ہو کر رہ جاتے ہیں، آنکھیں جن سے ہم ساری دنیا کا حُسن دیکھتے ہیں انہی آنکھوں سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں ساری چیزیں پھیکی پھیکی نظر آتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں چاروں طرف اُداسی چھائی ہوئی ہے۔ دنیا میں ہر شخص کو کسی نہ کسی سے خاص اُنس ہوتا ہے۔ کسی کو بیوی سے ہوتا ہے، کسی کو ماں سے ہوتا ہے، کسی کو باپ سے ہوتا ہے اور ہر شخص کو اپنے اپنے دائرہ میں یہ تمام کیفیتیں اُس وقت معلوم ہو جاتی ہیں جب اُس کا محبوب اُس سے ناراض ہو جائے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ۔ اِس دنیا میں جس کے اندر وہ نورِ نظر پیدا نہ ہؤا جس سے وہ اپنے خداکو شناخت کر سکے، اگلے جہان میں بھی وہ اندھا ہی اُٹھے گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ اِس جہان میںاُسے احساس نہ تھا کہ وہ اندھا ہے مگر اگلے جہان میں حجاب اُٹھ جائے گا، تب اُس کے دل میں دُکھ اور درد پیدا ہو گا اور یہ دُکھ اور درد بڑھتا چلا جائے گایہاں تک کہ اُس کے دل اور اُس کے دماغ اور اُس کے جگر اور اُس کے تمام اعضاء پر حاوی ہو جائے گا۔ اُسے کھانے میں لذت نہیں آئے گی، اُسے پینے میں لذّت نہیں آئے گی، اُسے ہر اچھی چیز بُری معلوم ہو گی اور وہ ہر وقت اپنے آپ کو ایک شدید عذاب میں گھِرا ہؤا پائے گا۔ یہ عذاب کئی شکلیں اور کئی طریق بھی اختیار کرے گا مگر وہ سب اِسی ایک عذاب کا نتیجہ ہوں گے۔اور چونکہ ندامت انسان کے اندر احساسِ بیداری پیدا کرتی اور نیکی کا موجب بنتی ہے۔ اِس لئے احساسِ گناہ اور خواہش اصلاح سے ہی اُس کے اندر ایک نور پیدا ہو گا اور نیکی کا یہ احساس اُسے خود بخود عرفان کی حالت کی طرف منتقل کرتا چلاجائے گا اور آخر ایک دن اِسی نور کے نتیجہ میں اُسے وہ آنکھیں حاصل ہو جائیں گی جن سے وہ اپنے خدا کو دیکھ لے گا اور اِسی کا نام خداتعالیٰ نے جنت میں داخل ہونا رکھا ہے کیونکہ جنت وہ مقام ہے جہاں خدا دیکھا جاتا ہے۔ جس کی آنکھیں ہی نہیں اُس نے بھلا وہاں جا کر لینا ہی کیا ہے۔ کِسی چیز کا نظارہ تو آنکھوں والے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ گو ہمارے ملک میں بعض ایسے بیوقوف بھی ہیں جو سینما دیکھنے کیلئے چلے جاتے ہیں حالانکہ وہ اندھے ہوتے ہیںلیکن عقلمندوں کا یہ طریق نہیں ہے۔ جہاں کسی چیز کو دیکھنے کا سوال ہو گا وہاں ہمیشہ آنکھوں والے ہی جائیں گے، اندھے نہیں جائیں گے ۔ تو جنت وہ مقام ہے جہاں خداتعالیٰ کی رؤیت ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱۹؎اُس دن بعض لوگ ہشاش بَشّاش ہوں گے اور اپنے خدا کی طرف نظر لگائے بیٹھے ہوں گے۔ پس وہ جو اندھا ہے اُسے جنت میں لے جا کر کرنا ہی کیا ہے وہ باہر ہی رہے گا یہاں تک کہ اُس کے دل کی ندامت اور حسرت اور جلن سے اُس کی آنکھوں میں بینائی پیدا ہو جائے گی اور خداتعالیٰ اُس کے متعلق کہے گا کہ اَب یہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اِسے بھی جنت میں لے آؤ۔
اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ اگر ہم اپنے اخلاق کو درست کرنا چاہیں اور اپنی عادات میںایسی تبدیلی پیدا کرنا چاہئیں کہ ہر قسم کے رذائل ہم سے دُور ہو جائیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کے نمونہ سے فائدہ اُٹھا کر ہم کس رنگ میں ترقی کر سکتے ہیں؟
تعلق بِاللہ کی بنیاد ایمان کامل پر
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی زندگی میں سب سے اہم چیز تعلق بِاللہ ہے جس کی بنیاد
ایمانِ کامل پر ہوتی ہے اور درحقیقت یہی وہ ایمان ہے جو انسان کی سنجیدگی پر دلالت کیا کرتا ہے۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کے دل میں کس قسم کا ایمان پایا جاتا تھا کیونکہ ویسا ہی ایمان اسلام ہمیں پیدا کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ آجکل لوگ ایمان کادعوٰی تو بہت کرتے ہیںمگر ایمان کی حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتی ہے۔ ہماری جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مخلص لوگ موجود ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے نظر آجاتے ہیں جو ایک وقت ایمان کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں لیکن دوسرے وقت مخالفوں کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے ہماری جان آپ پر قربان ہے، ہمارا مال آپ پر قربان ہے،ـ آپ کی غلامی کے بغیر تو زندگی کا کوئی لُطف ہی نہیں مگر دوسرے وقت وہی شخص اپنی دیکھی ہوئی باتوں پر نہیں محض سُنی سُنائی باتوں پر مرتد ہو جاتا ہے اور کہتا ہے مَیں نے فلاں دوست سے ایسی ایسی بات سُنی ہے۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے جس ایمان کا وہ اظہار کیا کرتے تھے وہ کسی بصیرت پر مبنی نہیں تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سلسلہ کی باتیں سُنی اور بیعت کر لی اور پھر ایک خیالی چیز کا نام انہوں نے ایمان رکھ لیا ورنہ یہ ہو کِس طرح سکتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں ایمان راسخ ہو جائے اور پھر وہ ارتداد کے گڑھے میں گِر جائے۔
گزشتہ دنوں مَیں نے ایک شخص کو اپنی جماعت سے خارج کیا ہے کیونکہ اُس نے بعض ایسی حرکتیں کی تھیں جو احمدیت کی تعلیم کے خلاف تھیں مگر مجھے یاد ہے ۱۹۲۸ء میں جب ٹربیون میں میری موت کی خبر شائع ہوئی تو یہی شخص اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیکر میرے ملنے کے لئے قادیان آیا اور کہنے لگا مَیں تو یہ خبر سُن کر مرنے ہی لگا تھا مگر خدا کا شکر ہے کہ خبر غلط ثابت ہوئی۔ جب وہ قادیان میں آئے تو رات کا وقت تھا مگر وہ میاں بیوی آتے ہی میری سیڑھیوں میں بیٹھ گئے اور دستک پر دستک دینے لگ گئے۔ مَیں نے دروازہ کھولا اور اُن سے ملاقات کی تو وہ کہنے لگے ہم تو یہ خبر سُن کر مرنے ہی لگے تھے بھلاآپ کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے۔ـ مگر مجھے تعجب آتا ہے کہ اب وہی مخالفوں میں بیٹھتے ہیں، مخالفانہ باتیں کرتے ہیں اور انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ اِس تغیر کی یہی وجہ ہے کہ پہلے جس چیز کو انہوں نے ایمان سمجھا تھا وہ درحقیقت ایمان تھا ہی نہیں محض ایک خیالی چیز کو انہوں نے ایمان سمجھ لیا تھا۔ ایسے ہی اور بھی لوگ ہوتے ہیں جو پہلے تو ایمان کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیںلیکن بعد میں مرتد ہو کر گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور فخرالدین صاحب ملتانی کو ہی دیکھ لو کِس قدر اخلاص کے دعوے کیا کرتے تھے لیکن بعد میں جب انہوں نے مخالفت شروع کر دی تو شیخ عبدالرحمن صاحب مصری سے جب پوچھا جاتا کہ آپ نے یہ باتیں کہاں سے سُنیں تو وہ کہہ دیتے کہ فخرالدین صاحب سے سُنی ہیں اور فخرالدین سے جب پوچھا جاتا کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ تو وہ جواب دیتا کہ مصری صاحب سے پوچھو وہ ایسا کہتے ہیں لیکن اِس سے پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ دونوں سلسلہ پر فدا ہو رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جلسہ سالانہ کی تقریر سے فارغ ہو کر جب بھی میں واپس جاتا شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کالڑکا اُن کا یہ پیغام لے کر پہنچ جاتا کہ مجھے اپنی تقریر کے نوٹ دے دیں۔ مَیں اُن کی نقل کر لوں، معلوم نہیں یہ تقریر شائع کب ہو۔ اور یا اَب اُن کی یہ حالت ہے کہ دنیا جہان کے سارے عیوب میری طرف منسوب کر رہے ہیں اور جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں جو ایسا کہتا ہے ہم کیوںنہ مانیں۔
تو درحقیقت ایمان ہوتا ہی وہ ہے جو عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ پیدا ہو۔ بغیر اِس کے ایمانِ کامل پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔جو چیز انسان کی دیکھی ہوئی ہو اُس کے متعلق اُسے کبھی شُبہ نہیں ہو سکتا اور نہ اُسے کوئی تذبذب میں مبتلا کر سکتا ہے۔ مثلاً آپ لوگ اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں اور مَیں آپ کے سامنے تقریر کر رہا ہوں اَب اگر کوئی شخص آپ کو میرے متعلق یہ کہے کہ وہ تقریر نہیں کر رہے بلکہ فلاں جگہ سینما دیکھ رہے یا گانا سُن رہے ہیں تو کیا آپ اسے مان لیں گے؟ کبھی نہیں مانیں گے۔ آپ اُسے کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو کیونکہ وہ تو ہمارے سامنے تقریر کررہے ہیں۔ تو دیکھی ہوئی بات کے متعلق کوئی شخص شُبہ نہیں کر سکتا۔ شُبہ اُسی چیز کے متعلق کیا جاتا ہے جو بے دیکھی ہو۔
رسول کریم ﷺ کا غیر متزلزل ایمان
اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہﷺ کے اِس غیرمتزلزل ایمان کے متعلق جو
آپؐ کو عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرَتْ حاصل تھا قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
۲۰؎ اے لوگو! محمد رسول اللہﷺ نے ہم کو دیکھا ہے اور دیکھا بھی خوب اچھی طرح ہے۔ اُس طرح نہیں دیکھتا جیسے لوگ بعض دفعہ جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو بینائی کے نقص کی وجہ سے اُس کو صحیح طور پر نہیں دیکھ سکتے یا دُور سے دیکھ لیتے ہیں۔فرماتا ہے۔ دیکھنے میں دو نقص ہو جاتے ہیں۔ ایک نقص تو یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر پوری طرح اُس چیز تک نہیں پہنچتی اور ورے ہی رہ جاتی ہے۔ـ مثلاً ایک شخص سَو گز تک اچھی طرح دیکھ سکتا ہے لیکن چیز ڈیڑھ سَو گز پر پڑی ہے اَب یہ لازمی بات ہے کہ ایسا شخص ڈیڑھ سَو گز سے اُس چیز کو دیکھے گا تو اپنی بینائی کے اِس نقص کی وجہ سے اُسے صحیح طور پر نہیں دیکھ سکے گا۔ لیکن فرماتا ہےمحمد رسول اللہﷺ نے جب ہمیں دیکھا تو اُن کی نظر اِدھر اُدھر نہیں چلی گئی بلکہ عین صحیح مقام پر پہنچی۔کے معنی ہوتے ہیں اِدھر اُدھر ہو جانا یا ورے رہ جانا۔ پس فرماتا ہے محمد رسول اللہﷺ نے جب ہمیں دیکھا تو اُن کی نظر ایسی نہ تھی کہ وہ ورے رہ جاتی۔ انہوں نے دیکھا اور خوب اچھی طرح دیکھا گویا انہوں نے توجّہ سے بھی دیکھا اور اُن کی نظر بھی صحیح طور پر پہنچی۔ ایسا نہیں ہؤا کہ اُن کی نگاہ ورے ہی رہ گئی ہو۔
پھر فرماتا ہے ۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے، دُور کی نظر اچھی ہوتی ہے اِسی وجہ سے دونوں قسم کی عینکیں ہوتی ہیں۔ جن کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے اُن کو اور قسم کی عینک لگانی پڑتی ہے اور جن کی دُور کی نظر کمزور ہوتی ہے اُن کو اور قسم کی عینک لگانی پڑتی ہے۔ مَیں بھی دُور کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔ لوگ یہاں جلسہ گاہ میںبیٹھے ہیں مگر مجھے اُن کی صرف سفید سفید پگڑیاں نظر آتی ہیں شکلیں صحیح طور پر نظر نہیں آتیں لیکن دوسری طرف اگر مَیں عینک لگا کر اپنے نوٹ پڑھنا چاہوں تو نہیں پڑھ سکتا۔ گویا میری قریب کی نظر اچھی ہے دُور کی نظر اچھی نہیں۔ تو دنیا میں لوگوں کی آنکھوں میں دو قسم کے نقص ہؤا کرتے ہیں۔ بعض لوگ قریب کی چیز کو اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں دُور کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے اور بعض لوگ دُور کی چیز کو اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں قریب کی چیز کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں دیکھا اُن کی نظر کا فوکس بالکل اُسی جگہ پر تھاجہاں اُس کو پہنچنا چاہئے تھا۔ نہ اُس مقام کے لحاظ سے محمد رسول اللہﷺ شارٹ سائیٹڈ تھے اور نہ لانگ سائیٹڈ تھے۔ یعنی نہ تو ہم اتنے دُور تھے کہ اُن کی نظر قریب ہی رہ جاتی اور ہم دُور رہتے اور نہ ہم اتنے قریب تھے کہ اُن کی نظر دُور نکل جاتی اور ہم پیچھے رہ جاتے۔ گویا نہ تو محمدرسول اللہﷺ کی نظر ورے رہ گئی اور ہم پَرے رہ گئے کیونکہ آپؐ ایسے نہ تھے کہ آپ صرف قریب کی چیز کو دیکھ سکیں دُور کی چیز کو نہ دیکھ سکیں۔اور نہ ایسا ہؤا کہ ہم درے رہ گئے ہوں اور اُن کی نظر پرے چلی گئی ہو۔ـ گویا نہ آپ شارٹ سائیٹڈ تھے اور نہ لانگ سائیٹڈ تھے۔ یہ دونوں نقص محمد رسول اللہﷺ کی نظر میں نہ تھے۔
رؤیتِ باری کا کامل نقشہ
دیکھو! یہ کتنا کامل نقشہ محمد رسول اللہﷺ کی رؤیت کا کھینچا گیا ہے کہ نہ تو جب محمد
رسول اللہﷺنے خدا تعالیٰ کو دیکھا اُس وقت ایسی حالت تھی کہ خداتعالیٰ بہت دُور تھا اور محمد رسول اللہﷺ کی نظر اتنی دُور نہ دیکھ سکتی ہو۔ اور جب محمد رسول اللہﷺ نے ہمیں دیکھا تو یہ بھی نہیںتھا کہ ہم اتنے قریب ہوتے کہ محمد رسول اللہﷺ کی نظر دُور چلی جاتی۔ ہم وہیںکھڑے تھے جہاں کھڑے ہو کر محمدرسول اللہﷺ ہمیں پوری طرح دیکھ سکتے تھے۔
پھر محمد رسول اللہﷺ نے صرف ظاہر کو نہیں دیکھا بلکہاُس نے اپنے ربّ کے بڑے بڑے نشانات کو دیکھا۔ ایک رؤیت ایسی ہوتی ہے جس میں دشمن بھی شریک ہوتا ہے۔ جیسے ایک چور بھی جج کو دیکھتا ہے اور اُس کے بیوی بچے بھی اُس کو دیکھتے ہیں۔ لیکن فرماتا ہے ہمیں جب محمد رسول اللہﷺ نے دیکھا تو ہم اُس سے ایک محبت کرنے والے دوست کی طرح ملے اور اُس نے ہمارے بڑے بڑے نشانات دیکھے۔
فرماتا ہے یہ تو محمد رسول اللہﷺ کا حال ہے۔ اِس کے مقابلہ میں کُفّارومشرکین جو کہتے ہیںکہ ہم لات کو خدا مانتے ہیں، ہم عزّٰی کو خدا مانتے ہیں، ہم منات کو خدا مانتے ہیں اُن کی حالت بھی دیکھو۔ فرماتا ہے لات، منات اور عزّٰی تو ایسی چیزیں ہیں جو حواسِ خمسہ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ تم لات، منات اور عزّٰی کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو، ہاتھوں سے چُھو سکتے ہو ان پر جو تیل وغیرہ ملا جاتا ہے اُس کی خوشبو اپنی ناک سے سُونگھ سکتے ہو، اُن بُتوں کو ٹھکور کر اُن کی آوازیں سُن سکتے ہو، اُنہیں زبان لگا کر چکھ سکتے ہو۔ غرض ہر طرح اِن بُتوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور تم دعویٰ بھی کرتے ہو کہ ہم نے اپنے اِن خداؤں یعنی لات،منات اور عزّٰی کو خوب دیکھا ہؤا ہے پھر یہ کیا بات ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم کے نتیجہ میں تم لات،منات اور عزّٰی کے تو منکر ہو جاتے ہو جن کو تم اپنے پانچوں حواسوں سے دیکھ رہے ہو اور محمد رسول اللہﷺ اُس خدا کا وجود لوگوں سے منوا لیتے ہیں جسے نہ آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، نہ ہاتھوں سے چُھؤا جا سکتاہے، نہ زبان سے چکھا جا سکتا ہے اور نہ اُس کا کلام اِن مادی کانوں سے سُنا جا سکتا ہے۔ گویا پانچوں حواسِ ظاہری سے بتوں کو دیکھنے کے باوجود تم میں طاقت نہیں کہ تم محمد رسول اللہﷺ کے ایمان میں خلل ڈال کر دکھا سکو لیکن محمد رسول اللہﷺ تمہیں باوجود اِن بتوں کو اپنے تمام ظاہری حواس سے دیکھنے کے شُبہ میں ڈال دیتے ہیں اور تمہیں اِن بتوں کی بجائے اُس خدا کی طرف لے جاتے ہیں جسے کوئی بھی اپنے ظاہری حواس سے نہیں دیکھ رہا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک زبردست دلیل
یہ کتنی زبردست دلیل ہے جو محمد رسول اللہﷺ کی صداقت کی دلیل اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی کہ دیکھنا تو اُس کا ہوتا ہے جو دیکھنے کے بعد
اپنی رؤیت میں کسی قسم کاشک نہ کر سکے مگر مشرکوں کی تو یہ حالت ہے کہ وہ اُن چیزوں کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جنہیں ظاہری حواسِ خمسہ سے معلوم کیا جا سکتا ہے، جنہیں ظاہری حواس سے پہچانا جا سکتا ہے مگر باوجود اِس کے کہ وہ اِن چیزوں کو دیکھنے کے مدعی ہیں جو حواسِ خمسہ سے نظر آ جاتی ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ انہیں اپنے بتوں کو توڑنا پڑتا ہے، اپنے عقائد کو بدلنا پڑتا ہے، اپنے خیالات کو تبدیل کرنا پڑتا ہے اور اُس خدا پر ایمان لانا پڑتا ہے جو ظاہری حواس سے نہیں دیکھا جاتا۔ پس فرماتا ہے اے مشرکو! تمہیں حواسِ خمسہ سے محسوس کرنے کے باوجود بتوں کے وجود میں شُبہ ڈالا جا سکتا ہے لیکن حواسِ خمسہ سے بالا وجودِ الٰہی کے بارہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شُبہ میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اِس تقابل سے صاف ظاہرہے کہ تم نے اپنے بتوں کو دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دیکھا جسے اور لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ پھر تمہیں تو حواسِ خمسہ سے دیکھنے کے باوجود دھوکا لگ گیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حواسِ خمسہ سے بالا وجودِ الٰہی کے دیکھنے میں کوئی دھوکا نہ لگا اور وہ ساری دنیا کو اُسی خدا کی طرف کھینچ کر لے گیا۔
یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک جگہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’جیسا کہ آفتاب اور اُس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب اور یہ اُس کی روشنی ہے ایسا ہی مَیں اُس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خداتعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے‘‘۔۲۱؎
یہ وہی بات ہے جو اِس آیت میںبیان کی گئی ہے کہ مشرک لات،منات اور عُزّٰی کو اپنے حواسِ خمسہ سے دیکھنے کے باوجود اُن کو دیکھنے میں غلطی کر رہے ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس ہستی کو دیکھ کر غلطی نہیں کر رہا جو اِن حواسِ خمسہ سے نہیں دیکھی جا سکتی۔
اِسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کے اُس یقین اور وثوق کا اظہار کرتے ہوئے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر تھا بلکہ آپ کی اُمت اور آپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے یقین اور وثوق کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۲۲؎ یعنی اے محمد رسول اللہ! تو دنیا کو کہہ دے یہ میرا راستہ ہے۔ چنانچہ اس سے پہلی آیتوں میں اِس راستہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں مَیں دنیا کو خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ کسی شک یا گمان کی بناء پر مَیں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ مَیں خدا کو جان کر اور اُسے اچھی طرح پہچان کر لوگوں کو اُس کی طرف بلاتا ہوں۔ اور یہ خداتعالیٰ کی معرفت کا مقام صرف مجھے ہی حاصل نہیں بلکہ جو لوگ میری صحبت میں رہنے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے اُن میں بھی یہ ایمان پیدا کر دیا ہے۔ اور مَیں نے خدا کو اتنا دیکھا ہے اِتنا دیکھا ہے کہ میرے دیکھنے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مگر جب مَیں نے یہ کہا ہے کہ مَیں نے خدا کو دیکھا ہے تو اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ مجسم ہے۔ خدا تعالیٰ مجسم نہیں ہے۔ اور مَیں مشرک نہیں ہوں۔ پس جب مَیں یہ کہتا ہوں کہ مَیں نے خدا کو دیکھا ہے تو اُس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کو اُسی رنگ میں دیکھا ہے جس رنگ میں اُسے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ آپ کی زندگی کے واقعات سے کہاں تک درست ثابت ہوتا ہے۔
رسول کریمﷺ کا خدا تعالیٰ کی ذات پر بے مثال یقین
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جب نگاہ دَوڑائی جائے تو ہر شخص یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر جو یقین
حاصل تھا اُس کی مثال اور کسی نبی میں نہیں مل سکتی۔ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بڑی بڑی سازشیں اور بڑی بڑی شورشیں ہوئیں۔ آپ کو اِس قدر تکالیف دی گئیں کہ آخر آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا اور آپ نے مکہ سے نکلتے وقت یہ الفاظ فرمائے کہ اَے مکہ! تو مجھے تمام شہروں سے زیادہ عزیز تھا اور مَیں نہیں چاہتا تھا کہ تجھے چھوڑوں مگر تیرے رہنے والوں نے مجھے ٹھکرا دیا۔ انہوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ وہ اس برکت کو اپنے درمیان رہنے دیں اِس لئے مَیں اب تجھے چھوڑ کر چلا ہوں۔ ۲۳؎ آپ کا مکہ کو چھوڑنا اور مدینہ ہجرت کر کے جانا الٰہی منشاء کے مطابق تھا۔ خدا تعالیٰ تو چاہتا تھا کہ مکہ والے اِس برکت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کریں مگر جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اِس نعمت کو ٹھکرا دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب ہم چاہتے ہیں کہ کوئی اور قوم تجھ سے فائدہ اُٹھائے۔ چنانچہ آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔ جب آپ مکہ سے نکلے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے آپ انہیں لے کر غارِثور میں پہنچے۔ یہ غار مکہ سے تین چار میل کے فاصلہ پر ہے۔ اوپر سے دو تین گز چوڑی ہے لیکن اندر سے پندرہ بیس گز ہے۔ اُس زمانہ میں نقش پا پہچاننے والے اپنے فن میں بہت ماہر ہوا کرتے تھے۔ اب بھی پنجاب کے اس علاقہ میں جو جانگلی کہلاتا ہے ایسے ماہر کھوجی مل جاتے ہیں کیونکہ اُن کا روزمرہ کا یہی کام ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی بکری لے جائے یا گائے یا بھینس چُرا کر لے جائے تو وہ نقشِ پا کے پیچھے چلتے جاتے ہیں اور آخر چور کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں۔ بیکانیر وغیرہ کی طرف بھی ایسے ماہر تھے۔ عرب لوگ بھی اُس زمانہ میں اِس فن میں خاص طور پر ماہر تھے۔ مکہ والوں کا ارادہ اُسی دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا تھا جس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہجرت کی۔ جب صبح ہوئی اور مکہ والوں نے اندر داخل ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو انہوں نے بعض ماہر اپنے ساتھ لے کر نقش پا کا پیچھا کیا اور آخر چلتے چلتے وہ ثور پہاڑ پر جا چڑھے اور کھوجی نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس جگہ تک آئے ہیں اور پھر یہیں غار کے اندر چلے گئے ہیں۔ کھوجی کی یہ بات سن کر سب ہنس پڑے کہ یہ کیسی احمقانہ بات کر رہا ہے غار کے منہ پر تو مکڑی نے جالا تنا ہوا ہے اگر وہ اندر گئے ہوتے تو جالا ٹوٹ نہ جاتا۔ بعض باتیں بظاہر معمولی ہوتی ہیں مگر عقل پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایسے سامان پیدا فرمائے کہ مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بُن دیا۔ جن لوگوں نے مکڑی کو جالا بُنتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ مکڑی اتنی جلدی جالا بُنتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ اگر اُنگلی سے جالا توڑا جائے تو بعض دفعہ ایک منٹ کے اندر اندر وہ پھر جالا بُن دیتی ہے۔ پس غار میں جب کوئی آدمی اُترے اور اُس کے منہ پر جالا ہو تو لازماً وہ جالا ٹوٹ جانا چاہئے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ اِدھر آپ اُترے اور اُدھر مکڑی نے پھر جالا بُن دیا۔ لمبے لمبے تاگے ہوتے ہیں اور مکڑی اُن کو بڑی جلدی بُن دیتی ہے۔ جب کھوجی نے دیکھا کہ پائوں کے آثار اِسی جگہ تک آتے ہیں تو اُس نے کہا کہ وہ اب یہیں کہیں چھپے ہونگے۔ مگرغار کے منہ پر چونکہ مکڑی نے جالا بُنا ہوا تھا اس لئے وہ سب ہنس پڑے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ اگر وہ اِس غار میں نہیں ہیں تو پھر یقینا آسمان پر چلے گئے ہیں اور کسی طرف پائوں کے آثار نہیں ہیں۔ یہ سن کر سارے کے سارے ہنسنے لگ گئے کہ آج یہ کھوجی کیسی احمقانہ باتیں کر رہا ہے معلوم ہوتا ہے یہ پاگل ہو گیا ہے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ جھانک کر اندر دیکھے کہ کیا اندر تو کوئی آدمی چھپا ہوا نہیں۔
جب تمام کُفّار غارِ ثور کے منہ پر پہنچ گئے اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبرائے۔ چنانچہ اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یوں بیان فرماتا ہے۔
۲۴؎ فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب اُس کی قوم نے اور اُن لوگوں نے جو کافر تھے اُسے مکہ سے نکال دیا۔ـ اُس وقت وہ صرف دو ساتھی تھے ایک وہ اور ایک ابوبکرؓ۔ دونوں غار میں جا کر چھپ گئے۔ ۔ جب کُفّار تلاش کرتے غارِ ثور کے منہ پر پہنچ گئے تو اُس کا ساتھی گھبرا گیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!یہ لوگ تو آ پہنچے۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ گھبرائو نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے یہ لوگ کہاں ہم کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ ۲۵؎ اب کوئی انسان خواہ وہ ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو، وہ اس مقام پر غور کرے اور اپنے آپ کو اِس جگہ پر کھڑا کر کے سوچے کہ کس قدر بے مثال ایمان اور بے مثال یقین تھا ذات باری پر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا تھا۔ غار میں بیٹھے ہیں دشمن سر پر آ پہنچا ہے۔ غار کا منہ بھی چھوٹا نہیں دو تین گز چوڑا ہے۔ اُن کے ساتھ وہ ماہر کھوجی ہے جس پر تمام قوم اعتماد رکھتی ہے جو اپنے فن میں پوری مہارت رکھتا ہے۔ جو نقشِ پا کو خوب اچھی طرح پہچانتا ہے وہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی غار میں ہیں اور اگر یہاں نہیں تو آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اُس وقت جب تمام کُفّار غار کے سر پر کھڑے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑے اطمینان کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ غم مت کرو، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کُفّار یہاں آ جائیں۔ جس طرح خدا اِن دنیا کے اندھوں کو نظر نہیں آتا اِسی طرح ہم بھی اِن لوگوں کو نظر نہیں آ سکتے۔کوئی بتائے کہ کیا ایسے الفاظ کسی ایسے شخص کے منہ سے نکل سکتے ہیں جس نے خدا تعالیٰ کو نہ دیکھا ہو، جس نے اُس کی نصرت کا مشاہدہ نہ کیا ہو، جو اُس کے وجود پر کامل یقین نہ رکھتا ہو اور اُس کی معرفت سے ناآشنا ہو۔ یقینا یہ الفاظ کسی عام انسان کے منہ سے نہیں نکل سکتے اور یقینا یہی وہ ایمان اور یقین ہے جو ایک اندھے انسان کو بھی خدا تعالیٰ کا کچھ نہ کچھ دیدار کرا دیتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے پھر کیا چیز تھی جس نے اُن کو اِس قدر یقین اور وثوق سے بھر دیا۔ کونسی طاقت تھی جس کے بھروسہ پر ایسے حالات میں جب کہ دشمن سر پر کھڑا تھا اُسے روکنے والی کوئی چیز نہ تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ایمان کا اظہار کیا۔ کھوجی ساتھ تھا اور وہ اصرار کر رہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِسی غار کے اندر ہو سکتے ہیں اور کہیں نہیں۔ جائو اور دیکھو تو سہی کہ کیا وہ اندر تو نہیں مگر وہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتے وہ ہنستے ہیں کہ آج ہمارے کھوجی کو کیا ہو گیا۔ آج اُس کی عقل کہاں گئی، آج وہ کیوں دیوانوں کی سی باتیں کر رہا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھلا اِس غار میں ہو سکتے ہیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ مکڑی نے منہ پر جالا تن رکھا ہے؟ ایسے وقت میں، ایسی نازک گھڑیوں میں محمد رسول اللہ ﷺکا یہ فرمانا کہ بتاتا ہے کہ جس طرح ایک انسان کو ایک اور ایک دو پر یقین ہوتا ہے اِسی طرح بلکہ اِس سے بھی زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خدا پر یقین تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُس پر سکینت نازل کی۔
فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ کا مرجع
یاد رکھو! انتشارِ ضمائر عربی زبان کا خاصہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں
نے یہاں دھوکا کھایا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس قدر اطمینان سے بھرے ہوئے تھے کہ انہوں نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے کہا اور دوسری طرف فرماتا ہے۔ اللہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی سکینت نازل کی۔ اِتنے یقین کامل سے بھرے ہوئے ہونے کے بعد اُن کا دل تسلی سے کس طرح خالی ہو سکتا تھا اور پھر وجہ کیا ہے کہ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ دھوکا درحقیقت اِسی وجہ سے لگا ہے کہ انہوں نے ضمائر کو نہیں سمجھا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے اور کی ضمیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف پھرتی ہے یعنی اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗعَلٰی اَبِیْ بَکْرٍ۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ابوبکرؓ! غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے تو ابوبکرؓ کا دل تسلی پا گیا۔ اِس میں ہٗ کی ضمیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے لشکروں کے ساتھ مدد کی جن کو کافر دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اِس سے مراد فرشتوں کا وہ لشکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کے لئے بھیجا جب وہ کافر فرشتوں کو نہیں دیکھ سکتے تھے تو جو شخص فرشتوں کی فوج کے پیچھے کھڑا تھا اُسے کس طرح دیکھ سکتے تھے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اُن کو ذلیل کر دیا اور خدا تعالیٰ کی بات اونچی ہوگئی۔
یہاں ایک عجیب بات بیان کی گئی ہے۔ اُس وقت واقعہ یہ تھا کہ کافر اوپر تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تھے۔ طریق یہی ہے کہ اوپروالے سے نیچے والا مار کھاتا ہے۔ جو شخص پہاڑی پر کھڑا ہو وہ پتھر پھینک پھینک کر ہی اپنے دشمن کو ہلاک کر سکتا ہے۔ لیکن نیچے کھڑا ہونے والا اگر پتھر اُسے مارنے کیلئے پھینکے گا بھی تو سَو ڈیڑھ سَوگز تک رہ جائے گا اور غالب اوپر والا ہی آئے گا لیکن فرماتا ہے باوجود اِس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت نیچے تھے اور کافر اوپر اور ان کے لئے موقع تھا کہ وہ جھانکتے، دیکھتے اور پتہ لگاتے کہ اندر کوئی چھپا ہوا تو نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید نے یہ کرشمہ دکھایاکہ جو اونچا تھا وہ نیچا ہو گیا اور جو نیچے تھا وہ اوپر ہو گیا۔ جو غالب تھا وہ مغلوب ہو گیااور جو مغلوب تھا وہ غالب ہو گیا۔ حالانکہ بادیٔ النظر میں اگر کُفّار چاہتے تو اُس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کو ہلاک کر سکتے تھے مگر ہوا یہ کہ اِس واقعہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺکی صداقت کا ایک زندہ نشان دنیا میں قائم ہو گیا۔ ہمیشہ کے لئے دشمنوں کی ناکامی اور اُن کی خدا تعالیٰ کی نصرت سے محرومی کا ایک زندہ نشان دُنیا میں قائم ہو گیا۔ ہمیشہ کیلئے دشمنوں پر حجت قائم کرنے کا خدا نے یہ سامان پیدا فرما دیا کہ اگر محمد رسول اللہ ﷺخداکا پیارا نہیں تھا، اگر خدا اُس کے ساتھ نہیں تھا، اگر اُس کی تائید اور نصرت کا نشان اُس کے شامل حال نہیں تھا تو یہ کس طرح ہو گیا کہ تم نے محمد رسول اللہ ﷺکی تباہی کا جو سامان کیا تھا وہ اُس کی طاقت و قوت کے بڑھانے کا ایک ذریعہ بن گیا۔
حضرت ابوبکرؓ کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
ضمنی طور پر مَیں یہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ اِس
موقع پر بعض لوگ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے حضرت ابوبکر ؓ کے دل میں ایمان نہیں تھا کیونکہ وہ گھبرا گئے اور انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ دشمن ہمیں پکڑ لیں گے۔ حالانکہ اوّل تو یہ سوال ہے کہ اتنا بڑا ایمان دنیا میں کتنے لوگوں کے دلوں میں ہوتا ہے۔آخر ہر شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تو نہیں ہو سکتاکہ دشمن سر پر کھڑا ہے، کھو جی کہتا ہے کہ اِس غار میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) گئے ہیں اور وہ جس کے متعلق یہ باتیں ہو رہی ہیں بڑے اطمینان سے کہتا ہے کہ یہ ہمیں دیکھ کہاں سکتے ہیں ان کی مجال نہیں کہ اندر جھانکیں اور ہمارا پتہ لگا سکیں۔ کیا ہر شخص کی طاقت ہے کہ وہ ایسے نازک مواقع پر اس قسم کے ایمان اور یقین کا اظہار کر سکے؟ اربوں نہیں کھربوں میں سے کوئی ایسا آدمی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین اور وثوق رکھتا ہے۔ پس اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ حضرت ابوبکرؓ کی اِس بات سے یہ شُبہ پڑتا ہے کہ وہ یہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ دشمن اندر نہ آ جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کب اُن کو ایمان میں محمد رسول اللہ ﷺ کے برابر سمجھتے ہیں۔ بیشک انہوں نے رسول کریم ﷺ کی متابعت کی اور خوب کی مگر پھر بھی ہم اُن کو ویسا تو نہیں سمجھتے جیسے رسول کریم ﷺتھے۔ پس اگر بِالفرض یہ کسی کمزوری کا ثبوت ہے تو پھر بھی کیا ہوا آخر اُن کا ایمان رسول کریم ﷺجیسا تو نہیں تھا لیکن تاریخی لحاظ سے یہ بات بالکل غلط ہے جو اعتراض کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ تاریخوں میں آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ اب کیا ہو گا دشمن تو سر پر آ گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے اور فرمانے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مجھے اپنی جان کی فکر نہیں اگر مَیں مارا گیا تو میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں محض ایک آدمی مارا جائے گا لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی آنچ آئی تو دنیا تباہ ہو جائے گی۔ پس اُن کو غمگین اپنی جان کی فکر نے نہیں کیا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے عشق نے انہیں غمگین کیا۔ انہیں یہ غم نہیں تھا کہ کہیں دشمن اُن تک نہ آ پہنچے بلکہ یہ غم تھا کہ کہیں رسول کریمﷺ پر کوئی آنچ نہ آ جائے۔
یہ سوال کہ اُن کو خدا کا رسول سمجھتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے دل میں یہ خیال کس طرح آ گیا کہ کہیں دشمن سے آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اِسے محبت کرنے والا انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔ محبت اور عشق ایسی چیز ہے کہ کہتے ہیں
عشق است و ہزار بد گمانی
باوجود یہ یقین رکھنے کے کہ میرا محبوب اور میرا معشوق اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے پھر بھی عاشق کا دل لرزتا ہے، کانپتا ہے کہ کہیں اُس پر کوئی آنچ نہ آ جائے۔ ماؤں کو دیکھ لو تھوڑی دیر بھی اُن کا بچہ گھر میں نہ آئے تو خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ کہیں کسی موٹر کے نیچے نہ آ گیا ہو، کبھی خیال کرتی ہیں کہ کسی کے کوٹھے پر سے نہ گرگیا ہو، کبھی اُن کے دل میں یہ وہم پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ کسی کنویں میں نہ گر گیا ہو بچہ موجود ہوتا ہے، خیریت سے ہوتا ہے، کھیل کود رہا ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کا وقفہ بھی وہ برداشت نہیں کر سکتیں اور سب باتیں اُن کے لئے واقعات کی صورت اختیار کر لیتی ہیں وہ دل میں بھی سمجھ رہی ہوتی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا لیکن پھر بھی محبت کا جوش اُن سے یہ ساری باتیں منوا لیتا ہے۔ اِسی طرح حضرت ابوبکرؓ جانتے تھے کہ خدائی وعدوں کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی لیکن محبت اور عشق کی وجہ سے اُن کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن آ پہنچے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچ جائے۔
میری زندگی کا ایک قابلِ فخرواقعہ
میری زندگی میں بھی مجھ سے ایک ایسی ہی کمزوری سرزد ہوئی ہے مگر مجھے اپنے تمام
اعمال سے زیادہ اِس کمزوری پر خوشی ہوا کرتی ہے۔ وہ بیوقوفی کی بات تھی خالص پاگل پن تھا مگر مجھے جتنا اپنے اُس پاگل پن پر ناز ہے اتنا ناز مجھے اور کسی کام پر نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تھا کہ ایک دفعہ قادیان میں بجلی گِری اور اِس زور سے گری کہ بڑی دُور تک اُس کی دہشت ناک آواز پھیل گئی۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صحن میں تھے۔ جب بارش شروع ہوئی تو آپ صحن سے اُٹھ کر کمرہ کے اندر تشریف لے جانے لگے۔ ابھی آپ صحن میں ہی تھے کہ یکدم بجلی گرنے کی خوفناک آواز پیدا ہوئی۔ میں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھا مَیں نے جلدی سے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور آپ کے سر پر رکھ دیا یہ خیال کر کے کہ اگر بجلی گرے تو میرے ہاتھوںپر گرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہ گرے۔ یہ ساری ہی پاگل پن کی باتیں تھیں۔ اوّل یہ خیال کرنا کہ خدا کے مسیح پر بجلی گرے گی۔ دوم یہ خیال کرنا کہ اگر بجلی گری تو میرے ہاتھ اُسے روک لیں گے یہ دونوںہی پاگل پن کی باتیں ہیں اور بعد میں مَیںاپنی اِس حرکت پر ہنس بھی پڑا۔ مگر مَیں نے آج تک جتنے کام کئے ہیں اِس سے زیادہ مجھے اور کسی کام پر فخر نہیں۔ یہ ہے تو ایک بیوقوفی لیکن اِس بیوقوفی سے مجھے اُس وقت یہ یقین ہو گیا کہ میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پورا ایمان ہے۔ اگر یہ بیوقوفی مجھ سے سرزد نہ ہوتی تو مجھے اپنے اِس اندرونی ایمان کا پتہ نہ لگتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ خطرہ خیالی تھا مگر جس انسان کی خاطر مَیں نے یہ فعل کیا چونکہ وہ میرا محبوب تھااِس لئے مَیں نے اس خطرہ کو حقیقی خطرہ سمجھا اور یہ خیال میرے دل سے جاتا رہا کہ یہ وہم ہے ایسا کب ہو سکتا ہے۔
معلوم ہوتا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بھی اُس وقت ایسی ہی حالت تھی۔ بیشک عقل کی گھڑیوں میں انسان یہ سمجھ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خدا کے رسول ہیں اِس لئے اُن پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آ سکتی کہ دشمن اُن تک پہنچ جائے لیکن عشق میں یہ بات نہیں سُوجھتی۔ جب معشوق خطرہ میں ہو تو عاشق کا دل دھڑکتا ہے کہ ایسا نہ ہو اِسے کوئی نقصان پہنچ جائے۔
خدا تعالیٰ کی نصرت پر یقین کامل کا ایک اور واقعہ
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ میں تشریف لے گئے وہاں جس قوم سے لڑائی ہوئی اُس نے بعد میں فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں کا کھلے بندوں
مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہم جب بھی مقابلہ کریں گے شکست کھائیں گے اِس لئے ہمیں آئندہ مسلمانوں کا چوری چھپے مقابلہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ اُن میں سے ایک شخص نے قسم کھائی کہ مَیں اب محمد (ﷺ) کو مار کر ہی واپس آئوں گا۔ وہ گھر سے چلا اور چوری چھپے اسلامی لشکر کے پیچھے آتا رہا۔ جب مدینہ بہت تھوڑی دُور رہ گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کیلئے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ صحابہؓ بھی اِس خیال سے کہ اب تو ہم اپنے علاقہ میں آگئے ہیں اِردگرد جنگل میں پھیل گئے اور مختلف درختوں کے نیچے سو گئے۔ اتفاقاً اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شخص نہ رہا اور آپ اکیلے اُس درخت کے نیچے رہ گئے۔ آپ نے اپنی تلوار اُسی کیکر کی ایک شاخ کے ساتھ لٹکا دی اور سونے کیلئے لیٹ گئے۔ وہ شخص جو آپ کے تعاقب میں آ رہا تھا اُس نے اِس موقع کو تاڑا۔ وہ قریب آیا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس تلوار کو اُٹھا لیا جو کیکر کے درخت کے ساتھ لٹک رہی تھی۔ پھر اُس نے آپ کو جگایا اور کہنے لگا مَیں آپ کو مارنے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور مَیں قسم کھا کر چلا تھا کہ مَیں واپس نہیں جائوں گا جب تک آپ کو ہلاک نہ کر لوں اب آپ مرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ پھر کہنے لگا بولو اب کون تمہارے ساتھ ہے؟ تمہارے لشکر نے ہماری قوم کو تباہ کر دیا مگر اب وہ لشکر تمہارے پاس نہیں۔ تم اکیلے میرے سامنے ہو اور تلوار میرے ہاتھ میں ہے بتائو اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسی طرح لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا۔ ـ اب کہنے کو تو بعض دفعہ بچے بھی اِس قسم کی باتیں کہہ دیتے ہیں مگر جس یقین اور وثوق کے ساتھ آپ کی زبان سے یہ لفظ نکلا وہ اس کے نتیجہ سے ظاہر ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سادگی سے فرمایا کہ تو اُس کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آپ نے اُسی وقت اُٹھ کر تلوار کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے وہ کہنے لگا آپ ہی رحم فرما دیجئے، آپ کے سِوا اور کون بچا سکتا ہے۔۲۶؎
دیکھو! کتنا یقین اور وثوق ہے اللہ تعالیٰ کی ذات پر۔ یہ یقین اور وثوق ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سورج کے وجود پر مجھے شُبہ ہو سکتا ہے، چاند کے وجود پر مجھے شُبہ ہو سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ کی ذات پر مجھے شُبہ نہیں ہو سکتا۔ ۲۷؎یہی یقین اور ایمان کامل اور اَتَمّ طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پایا جاتا تھا اور آپ ہر وقت خدا تعالیٰ کو اپنے ساتھ دیکھتے تھے۔ـ
غزوۂ حنین میں خدا تعالیٰ کی نصرت پر غیر متزلزل یقین
پھر ایک اور واقعہ ہے جس سے آپ کے ایمان اور اُس یقین کا پتہ چلتا ہے جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب رسول کریمﷺ
بعض عرب قبائل کے مقابلہ کے لئے غزوہ حنین میں تشریف لے گئے تو چونکہ مکہ میں بہت سے لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اِس لئے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوگئے اور جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ بھی صرف اظہارِ شان اور قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے اپنی کثرت اور طاقت پر لاف زنی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اِس کبر کی سزا دینے کیلئے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ جب مسلمانوں کا لشکر آگے بڑھا تو دشمن کمین گاہ میں چھپ گیا اور اُن کے بڑے بڑے ماہر تیرانداز کچھ دائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ بائیں طرف چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب لشکر اس مقام سے گزرا جس کے دائیں بائیں ہزاروں تیر انداز چھپے بیٹھے تھے تو انہوں نے یکدم اسلامی لشکر پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ یہ دیکھ کر وہ حدیث العہد اور نئے مسلمان جن میں ابھی کمزوری پائی جاتی تھی اور مکہ کے وہ کافر جو صرف قومی جوش کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے بے تحاشہ میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسی صورت میں جب اگلے لوگ بھاگیں تو لازماً پیچھے آنے والوں کے گھوڑے بھی بدک جاتے ہیں اور وہ بھی بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جب وہ حدیث العہد مسلمان اور کُفّار تیروں کی بوچھاڑ برداشت نہ کرتے ہوئے بھاگے تو صحابہؓ کے گھوڑوں اور اونٹوں نے بھی بھاگنا شروع کر دیا اور تمام اسلامی لشکر تتربتّر ہو گیا۔ یہ مصیبت یہاں تک بڑھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ آدمی رہ گئے، باقی سب میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عباسؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا۔ اب ٹھہرنے کا وقت نہیں گھوڑے کی باگ پھیریں اور واپس چلیں تاکہ اسلامی فوج کو دوبارہ جمع کر کے حملہ کیا جائے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے نبی میدانِ جنگ سے پیٹھ نہیں موڑا کرتے۔ یہ کہہ کر آپ نے گھوڑے کی باگ اُٹھائی اور اُسے ایڑ لگا کر اور بھی آگے بڑھا دیا اور فرمایا:۔
اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ
مَیں خدا کا نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں اور مَیں جو آج اِن تیر اندازوں سے نہیں ڈرا اور چار ہزار تیر اندازوں کے نرغہ میں گھرے ہونے کے باوجود آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہوں تو اس نظارہ کو دیکھ کر تم کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں خدا ہوں یا مجھ میں بھی خدائی صفات پائی جاتی ہیں یاد رکھو! مَیں خدا نہیں، مَیں تو وہی عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ مگر یہ لوگ خدا نما وجود ہوتے ہیں جب یہ حالت پیدا ہوئی اور دشمن خوش ہوا کہ اُس نے مسلمانوں کو مار لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ عباس! آواز دو کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔۲۸؎
صحابہؓ کا جوش اخلاص
جب حضرت عباسؓ نے بلند آواز سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ دُہرایا کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا
ہے تو اُس وقت ایک انصاری کا بیان ہے کہ حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ ہمارے قبضہ سے نکلے جا رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ مکہ اور مدینہ کے ورے یہ نہیں رُکیں گے۔ وہ بوجہ مکہ کے ہزاروں لوگوں کے بھاگنے کے اِس قدر ڈر گئے تھے کہ کسی طرح واپس لوٹتے ہی نہ تھے۔ ہم اپنی سواریوں کی باگیں کھینچتے اور اِس قدر زور لگاتے کہ اُن کا منہ اُن کی دُم کو آ لگتا، مگر بجائے واپس لوٹنے کے وہ پیچھے کی طرف ہی بھاگتیں۔ ہماری یہی حالت تھی کہ ہمارے کانوں میں حضرت عباسؓ کی یہ گونجنے والی آواز آئی کہ اے انصار! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس آواز کے سنتے ہی ہماری یہ حالت ہوگئی کہ ہمیں یہ معلوم نہ ہوتا تھاکہ ہمیں کوئی آدمی پکار رہا ہے بلکہ ہمیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ قیامت کا دن ہے اور مُردہ رُوحوں کو زندہ کرنے کیلئے صورِاسرافیل پھونکا جا رہا ہے۔ اُس وقت ہمیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہ رہا اور صرف ایک ہی آواز ہمارے کانوں میں گونجنے لگی اور وہ عباسؓ کی آواز تھی۔ اُس وقت ہماری تمام کمزوری جاتی رہی اور یا تو ہمارے اندر یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ہم اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو نہیں روک سکتے یا پھر ہم نے آخری دفعہ پھر زور لگایا اور اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو موڑنے کی پوری کوشش کی۔ چنانچہ جو مُڑ گئے سو مُڑ گئے اور جو نہ مُڑے ہم نے تلواریں نکال کر اُن کی گردنیں کاٹ دیں اور پیدل دَوڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ ۲۹؎ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ایمان سے فائدہ اُٹھایا۔ چنانچہ جس طرح محمدرسول اللہ ﷺکی یہ شان تھی کہ خواہ کیسا ہی خطرہ ہو خدا آپ کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا تھا یہی شان اپنے درجہ کے مطابق صحابہؓ میں بھی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب غزوۂ احزاب کا موقع آیا تو خطرہ بہت بڑھ گیا۔ اُس وقت دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ منافق بھی اُن کو دیکھ کر دلیر ہوگئے اور وہ کہنے لگے یہ مسلمان تو دنیا فتح کرنے کا ارادہ رکھتے تھے آج دیکھو اِن کی کس طرح شامت آئی ہوئی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ منافقوں نے اُس وقت یہ کہنا شروع کر دیا کہ ۳۰؎ اے مدینہ والو! اب تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ باقی نہیںرہا۔ اب تمہاری نجات کی یہی صورت ہے کہ مرتد ہو جائو اور اسلام کو چھوڑ دو ورنہ سب کے سب مارے جائو گے۔ مگر اِس کا مومنوں پر کیا اثر تھا؟ وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ اُس وقت دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی، عرب کے سارے قبائل جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے آگئے تھے اور مسلمان نہایت قلیل تعداد میں تھے، اُدھر مدینہ کے اندر جو یہودی رہتے تھے وہ بھی مسلمانوں کے مخالف ہوگئے۔ دوسری طرف خود مسلمانوں کے ایک حصہ نے جو منافقوں پر مشتمل تھا انہیں طعنے دینے شروع کر دیئے کہ بتائو تمہارے دنیا فتح کرنے کے خواب کدھر گئے اب تو مرتد ہونے کے سِوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ ایسے خطرناک حالات میں جب کہ اپنے بھی بگڑ چکے تھے، ہمسائے بھی مخالف ہو چکے تھے اور باہر بھی سارا ملک حملہ کرنے کیلئے جمع تھا، مسلمانوں کی کیا حالت تھی؟ اللہ تعالیٰ اِس کا قرآن کریم میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔۳۱؎
فرماتا ہے جب چاروں طرف سے عرب کی قومیں مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہوگئیں، جب یہود نے علمِ بغاوت بلند کر دیا، جب منافقوں نے طعنے دینے شروع کر دیئے کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں رہی اور انہوں نے مسلمانوں کو کہنا شروع کر دیا کہ اگر اس حملہ سے بچنا چاہتے ہو تو مرتد ہو جائو تو ایسی نازک حالت میں بھی انہوں نے کہا اِن فتنوں سے ہمیں کیا ڈراتے ہو، یہ تو وہی خطرے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا تھا اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ تمہیں ایسے ایسے خطرات پیش آئیں گے اور یہ تو وہی باتیں ہیں جن کی ہمیں پہلے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہوئی تھی اور بتا دیا تھا کہ اسلام پر یہ لوگ ایک دن متحدہ طور پر حملہ کرنے کیلئے آئیں گے۔ پس اِن دشمنوں کے آنے سے اُن کا ایمان اور بھی بڑھ گیا اور انہوں نے کہا خدا اور اُس کے رسول نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھااور اس عظیم الشان فتنہ نے مومنوں کو اگر کسی چیز میں بڑھایا تو ایمان میں ہی بڑھایا۔
توکّل ترکِ عمل کا نام نہیں
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سنگِ پارس کی طرح تھے کہ آپ جس کو چھوتے اُس کے اندر بھی وہی
ایمان پیدا ہو جاتا جو آپ کے اندر تھا مگر یہ ایمان سُستی اور غفلت کا نہ تھا۔ اب بھی بعض لوگ ایسے نظر آ جائیں گے جو اِس قسم کے ایمان کا اپنے منہ سے دعویٰ کریں گے مگر درحقیقت اُن کا ایمان سُستی اور غفلت کا ایمان ہوگا اور بعض لوگ تو اپنی جہالت کی وجہ سے ترکِ عمل کا نام ایمان اور توکّل رکھ لیتے ہیں اور بعض اپنی سُستی کو چھپانے کے لئے اس کا نام ایمان رکھ لیتے ہیں۔ مثلاً کوئی کام کرنا ہے، بارش آگئی ہے اور اسباب اُٹھا کر کمرہ کے اندر رکھنا ہے تو وہ سُستی سے کام لیتے ہوئے اسباب کو تو نہ اُٹھائیں گے اور یونہی منہ سے کہہ دیں گے کہ اللہ خیر کرے گا۔ یا بارش کی وجہ سے خطرہ ہے کہ کھیت کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور بیوی یا کوئی اور رشتہ دار عورت کہتی ہے کہ جائو ذرا منڈیر درست کر آئو تو وہ کہہ دیں گے کہ اللہ پر توکّل کرو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ مجھ سے اِس وقت یہ کام نہیں ہو سکتا جو نقصان ہوتا ہے بیشک ہو جائے۔ پس یہ ایک نفس کا دھوکا ہے ایمان نہیں ہے۔ ایسے لوگ ایماندار اور متوکّل نہیں ہوتے بلکہ نکمّے اور قوم کیلئے بوجھ ہوتے ہیں۔ وہ قوم کی تباہی کا ذریعہ اور خدا کا ایک مجسم عذاب ہوتے ہیں۔ اُن کو متوکّل یا ایماندار کہنا توکّل اور ایمان کی ہتک کرنا ہے۔ وہ شخص جسے خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو اور پھر ساتھ ہی اُسے یہ بھی یقین ہو کہ مجھے اُس نے ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے وہ ترکِ عمل کب کر سکتا ہے۔ وہ تو سب سے زیادہ عمل کرنے والا ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ متوکّل نہیں ہوتے بلکہ سُست نکمّے اور غافل ہوتے ہیں۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال آپ کے ایمان کی وجہ سے تھے کیونکہ جو شخص سمجھتا ہے کہ ایک خدا ہے اور اُس نے مجھے کسی خاص مقصد کیلئے پیدا کیا ہے وہ اُس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کوشش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ایمان کا اظہار کرتے ہیں، جہاں غارِ ثور میں بیٹھے ہوئے حضرت ابوبکرؓ سے کہتے ہیں۔ ابوبکرؓ! مت گھبرائو خدا ہمارے ساتھ ہے اور وہی ہمارا محافظ ہے، وہاں آپ دین کے دوسرے کاموں میں رات اور دن اِس طرح مشغول رہتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے ساری خدائی کے کام آپ کے ہی سپرد کئے جا چکے ہیں۔ پس ایک طرف اگر آپ کو یہ یقین تھا کہ خدا ہے اور وہ اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے تو دوسری طرف آپ خدا کا امتحان لیتے نظر نہیں آتے۔ یہ نہیں کرتے کہ جب خدا نے کہہ دیا ہے کہ مَیں تجھے فتح دوں گا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ اب فتح کیلئے کسی کوشش کی کیا ضرورت ہے، اللہ اپنے وعدہ کے مطابق آپ فتح دے گا۔ آپ ایسا نہیں کرتے بلکہ فتح کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ لوگوں کو فوجی کرتب سکھاتے ہیں، دشمن کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کرتے ہیں، سواریوں کا انتظام کرتے ہیں، ہتھیار اکٹھے کرتے ہیں، فوجیوں کے کھانے اور رہائش وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں، پھر ان تمام انتظامات کو مکمل کرنے کے بعد دشمن سے لڑنے کیلئے جاتے ہیں اور جب کوئی ایسا وقت آتا ہے جب دشمن زیادہ ہوتا ہے اور صحابہ کم ہوتے ہیں تو آپ بڑے یقین اور وثوق اور ایمان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ گو ہم تھوڑے ہیں مگر جیتیں گے ہم ہی۔ پس جہاں تک انسانی تدابیر آپ کر سکتے تھے وہاں تک آپ تمام تدابیر سے کام لیتے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکّل کیا کرتے تھے۔ پس آپ کا ایمان جہالت اور سُستی والا ایمان نہ تھا بلکہ آپ کا ایمان مشاہدہ والا ایمان تھا اور مشاہدہ والا ایمان اُسی شخص کا ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں توکّل بھی کرتا ہے اور عمل بھی کرتا ہے، گویا عمل اور توکّل دونوں کو اکٹھا رکھتا ہے۔
پس یہ وہ ایمان ہے جو ہمارے لئے اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے اگر ہم یہ ایمان اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں یا اِس جیسا ایمان پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ ہر شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تصویر نہیں ہو سکتا تو یقینا ہم اپنے دلوں میں ایمان پیدا ہونے کی اُمید رکھ سکتے ہیں اور اطمینان حاصل کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ جس قسم کا ایمان ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اُس قسم کے ایمان کے لئے ہم نے صحیح کوشش شروع کر دی ہے۔
رسول کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ ایک پیہم عمل دکھائی دیتی ہے
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھو وہ ایک ایسا پیہم عمل ہے کہ حیرت آتی ہے۔ دنیا کا کوئی انسان اِس قدر کام کرنے والا نظر
نہیں آتا۔ وہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھاتے ہیں، قرآن کریم یاد کراتے ہیں، قرآن کریم کی تفسیر لوگوں کو سکھاتے ہیں، قاضی ہیں لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتے ہیں، محتسب ہیں اِس بات کی نگرانی رکھتے ہیں کہ تاجروں اور زمینداروں کے لین دین درست رہیں، غریبوں کے کام کرتے ہیں، قوم کے خزانچی ہیں، خزانہ جمع کرتے ہیں اور اُسے تقسیم کرتے ہیں، جرنیل ہیں فوج کی کمان کرتے ہیں، انسٹرکٹر ہیں فوجی ہنر قوم کو سکھاتے ہیں، سیاسی آدمی ہیں مسلمانوں اور یہود و مشرکین وغیرہ کے جھگڑے چکاتے ہیں۔ جاسوس جا رہے ہیں، معاہدات ہو رہے ہیں، گھر میں جاتے ہیں تو عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’یک انار صد بیمار‘‘ بھی ناممکن ہوتا ہے مگر یہاں تو ایک شخص ہزاروں کام کرتا ہے اور سارے ہی ٹھیک کرتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ اچھا خاوند بھی ہے اور اچھا باپ بھی ہے اچھا رشتہ دار بھی ہے۔ غرض ہر ضرورت کو تاڑتے ہیں وقت پر ہر کام کرتے ہیں اور یہ نہیں کہہ دیتے کہ ہمیں اللہ پر ایمان ہے وہ آپ ہی سب کام کر دے گا۔ آپ ایک صادق القول کی طرح خدا تعالیٰ کے ایمان کا اپنے عمل سے ثبوت دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا امتحان نہیں لیتے۔ عبادت کرتے ہیں تو پائوں سُوج جاتے ہیں اور لوگ توجہ دلاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اَفَـلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا۔۳۲؎ پھر اتنے عمل پر کوئی کہتا ہے کہ آپ اپنے عمل سے نجات پائیں گے تو فرماتے ہیں نہیں میری نجات بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگی۔ ۳۳؎ وہاں اتنا عمل کر کے یہ انکسار ہے اور یہاں عمل ترک کر کے خدا تعالیٰ پر حق جتائے جاتے ہیں بلکہ احسان رکھا جاتا ہے۔
درحقیقت ہم جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایمان اپنے اندر پیدا نہیں کرتے، ایمان کا دعویٰ ایک لغو دعویٰ ہے۔ میرا یہ مطلب نہیںکہ ہر شخص کا ایمان اتنا ہی شاندارہو مگر کم از کم اُس کی نقل کرنے کی کوشش تو ہونی چاہئے۔ راستہ تو وہ ہونا چاہئے، پھر راستہ میں مر جانے پر بھی ہم نجات پا سکتے ہیں۔ لیکن اگر راستہ ہی اَور ہو اور انسان اِس طریق کو ہی اختیار نہ کرے جو محمد رسول اللہ ﷺنے اختیارکیا تھا اور جس کا نمونہ آپؐ نے ہمارے سامنے پیش کیا تو ایسی صورت میں نجات کی کیا اُمید ہو سکتی ہے۔
محبت الٰہی کے ایمان افروز نظارے
پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی ایک نمایاں علامت محبت ہوا کرتی ہے۔ جہاں ایمان
ہو وہاں محبت ضرور موجود ہوتی ہے اور درحقیقت کامل معرفت کسی انسان کو حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک خداتعالیٰ کی کامل محبت اُس کے اندر نہ پائی جائے۔ـ رسول کریم ﷺکی ذات میں ہمیں محبت الٰہی کا نظارہ ایسے شاندار طریق پر نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر محبت الٰہی میں ہی گزار دی۔
رسول کریم ﷺکی روحانی بلوغتِ تامہ کی زندگی غارِ حرا سے شروع ہوتی ہے۔آپؐ کا طریق تھا کہ آپؐ وہاں جاتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے۔ آپؐ کی اُس وقت بیوی موجود تھی، بچے موجود تھے مگر اُن سب کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کے جوش میں تین تین، چار چار، پانچ پانچ دن وہاں رہتے اور ایک پہاڑی پر دو پتھروں کے درمیان بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے۔ پھر آپ واپس تشریف لاتے تو مسکینوں کی خبر گیری کرتے، کمزوروں کی مدد کرتے، اُن کی کوئی تکلیف معلوم ہوتی تو اُسے دُور کرنے کی کوشش کرتے اور پھر کھانا اپنے ساتھ لیکر کئی کئی دن تخلیہ میں عبادت کرنے کے لئے غارِ حرا میں چلے جاتے۔ غرض آ پ کی زندگی کی ابتداء محبت الٰہی سے ہوئی اور آپؐ کی زندگی کی انتہا بھی محبت الٰہی پر ہی ہوئی۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول کریمﷺ نے انتقال فرمایاتو اُس وقت آپؐ کا سر میرے سینہ پر تھا اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ ۳۴؎ اپنے آسمانی خدا کے پاس مَیں اَب جانا چاہتا ہوں۔ اپنے آسمانی دوست کے پاس مَیں اَب جانا چاہتا ہوں۔یہ محبت الٰہی کے نظارے آپؐ کی زندگی میں ایسے ایسے شاندار نظر آتے ہیں کہ اُن کو دیکھ کر حیرت آجاتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اللہ تعالیٰ کی توحید کے متعلق لوگوں کو وعظ کرنا شروع کیا اور شرک کی تردید شروع کی تو مکہ والوں کو یہ بات بہت ہی ناگوار گزری اور آخر ایک دن سمجھوتہ کر کے وہ ایک وفد کی صورت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے پاس آئے اور انہیں کہا کہ آپ ہماری قوم کے سردار ہیںآپ کا ہم بہت ادب کرتے ہیں اور آپ کے ادب کی وجہ سے ہی ہم آپ کے بھتیجے کو کچھ نہیں کہتے۔ مگر اَب معاملہ حد سے گزر گیا ہے اور ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ اُس سے اِس معاملہ میں ہماری طرف سے آخری بات کریں۔ اگر اُسے کوئی خوبصورت بیوی چاہئے تو ہم اُسے سب سے اعلیٰ گھرانے کی اور سب سے زیادہ حسین لڑکی دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر اُسے روپیہ کی ضرورت ہے تو ہم سب اُسے اپنی دولت میں سے ایک ایک حصہ دینے کے لئے تیار ہیں اور اگر اُسے حکومت چاہئے تو ہم اُسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ اِتنا لحاظ تو کرے کہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے۔ ہم اُسے یہ نہیں کہتے کہ وہ ہمارے بتوں کو مان لے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے اور اگر وہ ہماری اِن باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی نہ مانے تو پھر آپؐ اُس کا ساتھ چھوڑ دیں، ہم خود اُسے نپٹ لیں گے۔
رسول کریمﷺ نے ہر بڑی سے بڑی لالچ کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا
ابوطالب بڑے نیک آدمی تھے۔ رسول کریمﷺ سے بڑی محبت رکھتے تھے مگر انہیں اپنی سرداری بھی بڑی
پیاری تھی۔ انہوں نے رسول کریمﷺکو بُلوایااور کہا آج تیری قوم میرے پاس آئی تھی اور وہ کہتی تھی کہ ابوطالب ہمیں تیرا لحاظ ہے اور تیرے لحاظ کی وجہ سے ہی ہم نے تیرے بھتیجے کو اَب تک کچھ نہیں کہا مگر اَب بات حد سے گزر گئی ہے وہ اگر اور کوئی بات نہیں مانتا تو اُسے صرف اتنا کہہ دیاجائے کہ وہ ہمارے بُتوں کو بُرا بھلا نہ کہے ہم اُسے اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر دولت چاہے تو اُسے اتنی دولت دینے کے لئے تیار ہیں کہ عرب میں اُس سے بڑھ کر اور کوئی مالدار نہ رہے۔ کوئی حسین بیوی چاہے تو ہم اچھی سے اچھی عورت سے اُس کی شادی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ غرض وہ کوئی بھی مطالبہ کرے ہم اُسے پورا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ وہ صرف اتنا کرے کہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا نہ کہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابوطالب کے بڑے احسانات تھے، انہوں نے آپ کو بچپن سے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ پالا تھا اور ہر دُکھ اور مصیبت میں انہوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کی یہ حالت دیکھی تو اُن احسانات کو یاد کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مگر آپ نے فرمایا چچا مَیں تو نہیں کہتا کہ آپ میری مدد کریں، آپ بیشک اپنی قوم کا ساتھ دیں اور مجھے چھوڑ دیں۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی مَیں ایک خدا کے ذکر سے باز نہیں آؤں گا۔ ۳۵؎ دیکھو! کتنا وثوق اور کتنا یقین ہے خداتعالیٰ کی ذات پر۔ حالانکہ سورج کا اپنی جگہ سے ہلنا اِتنا بڑا معجزہ ہے کہ اگر یہ واقعہ ہو تو انسان حیران ہو کر رہ جائے۔ مگر آپ فرماتے ہیں اگر یہ سورج کو اُس کی جگہ سے ہلا دیں اور میرے پاس لا کر کھڑا کر دیں اگر یہ چاند کو اُس کی جگہ سے ہلا دیں اور میرے پاس لا کر کھڑاکردیں تب بھی خداتعالیٰ کی ذات پر مجھے ایسا یقین اور وثوق ہے کہ مَیں اِن چیزوں کو شعبدہ بازی سمجھوںگا۔مَیں اِن کی بُت پرستی پر ہمیشہ اعتراض کروں گااور اپنے اِس کام سے کبھی باز نہیں آؤں گا۔
آپ کا دنیا پر آخرت کو ترجیح دینا
اِسی طرح آپؐ کو خداتعالیٰ سے جو محبت تھی وہ ایک اور واقعہ سے بھی ظاہر ہے۔ دنیا میں
موت آتی ہے تو لوگ اُس سے بچنے کی ہزاروںتدبیریں کرتے ہیں۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام آئے تو ایک دن آپؐ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور صحابہؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا اے لوگو!اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے، اُس کو اُس کے خدا نے مخاطب کیا اور کہا اے میرے بندے! میں تجھے اختیار دیتا ہوں کہ چاہے تو دنیا میںرہ اور چاہے تو میرے پاس آ جا۔ اِس پر اُس بندے نے خدا کے قرب کو پسند کیا۔ جب رسول کریمﷺنے یہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مجھے اُن کا رونا دیکھ کر سخت غصہ آیا کہ رسول کریمﷺتو کسی بندے کا واقعہ بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو خداتعالیٰ کے پاس چلا جائے اور اُس نے خدا تعالیٰ کے قرب کو پسند کیا، یہ بڈھا کیوں رو رہا ہے؟ مگر حضرت ابوبکرؓ کی اتنی ہچکی بندھی، اتنی ہچکی بندھی کہ وہ کسی طرح رُکنے میں ہی نہیں آتی تھی۔ آخر آپؐ نے فرمایا ابوبکرؓ سے مجھے اِتنی محبت ہے کہ اگر خدا کے سِوا کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو مَیں ابوبکرؓؓ کو بناتا۔ ۳۶؎ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے بعد وفات پا گئے تو اُس وقت ہم نے سمجھا کہ ابوبکرؓ کا رونا سچا تھا اور ہمارا غصہ بیوقوفی کی علامت تھا۔۳۷؎
جذبہ شکر کی فراوانی
پھر بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر وہ اِس طرح دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہیں کہ جو شخص اُن باتوں کو دیکھتا یا سُنتا ہے وہ
اُن چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی خداتعالیٰ کی محبت کا نظارہ کئے بغیر نہیں رہتا۔
حدیثوں میں آتا ہے بعض دفعہ بادل آتے اور اُس کے موٹے موٹے قطرے گرتے تو آپؐ کمرہ سے باہر تشریف لاتے اپنی زبان باہر نکالتے اور اُس پر بارش کے اُن قطرات کو لیتے اور فرماتے میرے ربّ کی طرف سے اُس کی رحمت کا یہ تازہ قطرہ آیا ہے۔۳۸؎ اَب یہ بظاہر کتنی چھوٹی سی بات ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے ہر تازہ انعام سے خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو لذت اندوز ہوتے تھے اور اُسے اپنی زندگی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔
جذبۂ غیرت کا اظہار
پھر جس کے ساتھ انسان کو محبت ہوتی ہے اُس کے متعلق دل میں غیرت بھی پائی جاتی ہے اور درحقیقت غیرت علامت
ہوتیہے کامل تعلق کی۔ رسول کریمﷺ کی غیرت جس شان کی تھی اُس کی مثال ہمیں دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اِس غیرت کی ایک واضح مثال اُحد کا واقعہ ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اِس جنگ میں کچھ آدمی ایک درّہ پر مقرر کئے تھے اور اُن کو آپؐ نے یہ ہدایت دی تھی کہ تم نے اِس درّہ سے نہیں ہلنا۔ جب اِس جنگ میں کفّار کو شکست ہوئی تو انہوں نے قیاس سے کام لیا اور کہا رسول کریمﷺ کا منشا آخر ہمیں یہاں کھڑا کرنے سے یہی تھا کہ ہم جنگ ختم ہونے تک کھڑے رہیں۔ اَب جبکہ کفّار کو شکست ہو چکی ہے اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گئی ہے ہم یہاں کیوں ٹھہریں۔ چنانچہ وہ بھی وہاں سے چل پڑے اور درّہ خالی ہو گیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید اُس وقت تک کافر تھے اور عکرمہؓ بن ابوجہل بھی کافر تھے اور یہ دونوں اپنی فوجوں کے جرنیل تھے۔ انہوں نے عمرو بن العاص کو کہ وہ بھی اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے کہا فوج لیکر اِس طرف سے حملہ کر دو۔ چنانچہ یہ حملہ آور ہو گئے۔ وہاں چند مسلمان جو اِس وجہ سے رہ گئے تھے کہ رسول کریمﷺ کاحکم ہمیں یہی تھا کہ ہم یہاں سے نہ ہلیں، اُن کو انہوں نے مار ڈالا اور جب مسلمان اپنی فتح کے یقین کے ساتھ اِدھر اُدھر پھیل چکے تھے اور اسلامی صفیں پراگندہ تھیں، انہوں نے یکدم پیچھے سے حملہ کر دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے مسلمان مارے گئے، بہت سے زخمی ہوئے اور بعض لوگ بھاگ نکلے۔ یہاں تک کہ اُن میں سے بعض بھاگ کر مدینہ میں جا پہنچے۔ اِس جنگ میں ایک وقت ایسا آیا جب صرف ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گیا۔ اور کسی وقت چھ،کسی وقت سات اور کسی وقت بارہ آدمی رسول کریم ﷺ کے اِردگرد رہ گئے، باقی سب منتشر ہو گئے تھے۔ اُس وقت کفّار نے یہ دیکھ کر کہ اَب رسول کریمﷺ اپنے لشکر سے الگ ہیں اُن پر پتھر پھینکنے اور تیر برسانے شروع کر دیئے اور اِس قدر تیر برسائے کہ آپ بیہوش ہو کر ایک گڑھے میں گِر گئے اور پھر حفاظت کرنے والے صحابہؓ ایک ایک کر کے آپؐ پر گرنے شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ آپ کے جسم پر کئی صحابہؓ کی لاشیں آ پڑیںاور عام طور پر یہی سمجھا گیا کہ شاید رسول کریمﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں۔کچھ دیر کے بعد جب مسلمان واپس آئے اور آپؐ کے خاندان کی بعض مستورات بھی وہاں پہنچ گئیں تو نیچے سے رسول کریم ﷺ کو نکالا گیا۔ آپ اُس وقت بے ہوش تھے مگر تھوڑی دیر کے بعد آپ کو ہوش آ گیا۔ وہ ایسے خطرے کا وقت تھا کہ مسلمانوںکے بچنے کی بظاہر کوئی صورت نہ تھی۔ دشمن کا تین ہزار سپاہی میدان میں موجود تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور چونکہ رسول کریم ﷺ بھی بے ہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے تھے اس لئے کُفّار نے یہ سمجھا کہ رسول کریمﷺ بھی شہید ہو گئے ہیں۔ اُس وقت ابوسفیان بہت خوش ہوا اور اُس نے بلند آواز سے کہا۔ بتاؤ اب محمد کہاں ہے؟ صحابہؓ جواب دینا چاہتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو روک دیا۔ اِس پر اُس نے بڑے جوش سے کہا۔ ہم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار دیا ہے۔ حضرت عمرؓ اُس وقت فوراً جواب دینے لگے کہ رسول کریمﷺ زندہ ہیں مگر رسول کریمﷺ نے انہیں جواب دینے سے روک دیا۔اور فرمایا کہ یہ مصلحت کے خلاف ہے، چپ رہو۔ پھر اُس نے حضرت ابوبکرؓ کا نام لیا اور کہا بتاؤ ابوبکرؓ کہاں ہے؟حضرت ابوبکرؓ بولنا چاہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کوئی مت بولے۔ اِس پر پھر اُس نے بڑے جوش سے کہا ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا ہے۔ پھر اُس نے پوچھا بتاؤ عمرؓ کہاں ہے؟ حضرت عمرؓ کی زبان پر ابھی یہ الفاظ آنے ہی والے تھے کہ مَیں تمہارا سر توڑنے کے لئے موجود ہوں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا خاموش رہو، اِس وقت بولنا مصلحت کے خلاف ہے۔ پندرہ بیس آدمی اِس وقت موجود ہیں اور وہ بھی زخمی اور دشمن تین ہزار کی تعداد میں ہے اِس وقت بولنا مناسب نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے۔ اِس پر اُس نے بڑے جوش سے کہا ہم نے محمدؐ کو بھی مار دیا ، ہم نے ابوبکرؓ کو بھی مار دیا، ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ پھر اِس خیال سے کہ آخر ہمارا دین ہی سچا نکلا اور مسلمانوں کا دین جھوٹا ثابت ہوا وہ بلند آواز سے کہنے لگا۔ اُعْلُ ھُبُلْ۔ ہُبل دیوتا کی شان بلند ہو، ہُبل دیوتا کی شان بلند ہو کہ ہم نے توحید پرستوں کو مار دیا۔ اِس پر وہی محمد رسول اللہﷺ جو ایک انتہائی خطرہ کے مقام پر کھڑے تھے جنہوں نے ابوبکرؓ کو چپ کرا دیاتھا اور کہا تھا کہ مت کہو ابوبکرؓ زندہ ہے۔ جنہوں نے عمرؓ کو چپ کرا دیا تھا اور کہا تھا کہ مت کہو عمرؓ زندہ ہے۔ جنہوں نے خود اپنے متعلق صحابہؓ کو جواب دینے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا مت کہو مَیں زندہ ہوں اِس وقت بولنا مصلحت کے خلاف ہے۔ وہ بیتاب ہو گئے، آپ کی غیرت اِس بات کو برداشت نہ کر سکی اور آپ نے صحابہؓ سے فرمایا تم جواب کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ۔ ۳۹؎ ہمارا خدا ہی سب سے بڑا ہے۔ ہمارا خدا ہی سب سے بڑا ہے۔
دیکھو! اِس واقعہ میں کیسا عجیب تقابل پایا جاتا ہے۔ سارے واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ کواِس مقام کی نزاکت کا خوب احساس تھا۔ آپؐ کو علم تھا کہ اگر دشمن کو اِس بات کا پتہ لگا کہ ہم زندہ موجود ہیں تو ہماری جانوں کی خیر نہیں۔ اِسی وجہ سے وہ آپؐ کا نام لیتے تو آپؐ صحابہؓ کو چپ کرا دیتے اور فرماتے مت جواب دو۔ ابوبکرؓ کا نام لیتے ہیں تو آپ چپ کرا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں مت جواب دو۔ عمرؓ کا نام لیتے ہیں تو چپ کرا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں مت جواب دو۔ مگر اُسی حالت میں، اُسی موقع پر اور انہی لمحات میں جب وہی زخمی صحابہؓ میدان میں موجود ہیں، وہی دشمن کا تین ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے، جب کُفّار اپنے دیوتاؤں کا نام بلند کرتے ہیں تو آپؐ صحابہؓ سے فرماتے ہیں بولتے کیوں نہیں؟ کہو اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ اللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَجَلُّ۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے جو غیرت تھی وہ دنیا میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتی۔
مرض الموت میں توحید کے متعلق آپ کی بے چینی اور اضطراب
دوسری مثال اِس غیرت کی یہ ہے کہ جب رسول کریمﷺ فوت ہونے لگے تو سخت بیماری کی حالت میں آپ کروٹیں بدلتے،
کبھی دائیںطرف ہوتے اور کبھی بائیںطرف ہوتے اور فرماتے اللہ *** کرے یہود اور نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔۴۰؎ آپ سمجھتے تھے کہ آپ کی موت اب قریب ہے اِس لئے آپ بار بار یہ الفاظ فرماتے اور اِس طرح صحابہؓ کو بتاتے کہ دیکھنا میری عظمت اور میری شان کو دیکھ کر کہیں میری طرف کوئی خدائی صفات منسوب نہ کر دینا۔ خدا کی شان اور اُس کی عظمت اُس کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہود اور نصاریٰ کی طرح تم میری طرف بھی کوئی خدائی صفت منسوب کر دو۔ یہ کرب، یہ اضطراب اور یہ گھبراہٹ آپ کے اندر کیوں تھی؟ اِسی لئے آپؐ کی غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کسی شخص کو خدا کا شریک ٹھہرایا جائے اور آپؐ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ میری اُمت میں سے بھی کوئی اِس غلطی کا ارتکاب کرے اِسی لئے آپ بار بار ذکر فرماتے تھے مگر افسوس آج مسلمانوں میں ہی بعض ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیںکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علمِ غیب حاصل تھا یا اِسی قسم کی بعض اور خدائی صفات آپؐ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
آپ کا اپنے بیٹے کی وفات پر اعلان کہ سورج اور چاند گرہن کا کسی کی موت سے تعلق نہیں
غیرت کی تیسری مثال جو آپ کی زندگی میں ہمیں نظر آتی ہے اور جو ایک
نہایت ہی لطیف مثال ہے وہ یہ ہے کہ جب آپ کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہوا جو آپ کی آخری عمر کی اولاد تھے اور بڑی اُمیدوں کے بعد اور بہت دیر کے بعد پیدا ہوئے تھے تو طبعی طور پر صحابہؓ کو سخت صدمہ ہوا۔ اِس خیال سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی لڑکا تھا اور وہ بھی فوت ہو گیا۔ اتفاقاً اُسی دن سورج کو گرہن لگ گیا اور صحابہؓ نے کہنا شروع کر دیا کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کا علم ہوا تو آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا خدا کے بندے بندے ہی ہوا کرتے ہیں، خدا نہیں ہوتے۔ سورج اور چاند گرہن خدا تعالیٰ کی آیتوں میں سے ایک آیت ہیں، اُن کا کسی بندے کی موت سے کوئی تعلق نہیں۔۴۱؎
خشیت الٰہی
خشیت اللہ بھی ایمان کیلئے ایک لازمی چیز ہے۔ اِس کے بغیر انسان کا ایمان کبھی کامل نہیں ہو سکتا۔ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر جب اِس
نقطۂ نگاہ سے غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خشیت اللہ آپ پر اس قدر غالب تھی اور اس قدر نمایاں طور پر آپ میں پائی جاتی تھی کہ اُس کو دیکھ کر انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ایک کامل نبی اور خاتم النبیین کے اندر اِسی قسم کی خشیت اللہ پائی جانی چاہئے۔
اوّل تو رسول کریم ﷺکی نمازوں کو ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اِتنی رقت سے نمازیں پڑھا کرتے تھے کہ بعض دفعہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی دیگ کے نیچے آگ جل رہی اور اُس کا پانی اُبل رہا ہے۔
پھر بعض دفعہ آپ گھر جاتے اور بستر پر آپ کو کوئی کھجور پڑی ہوئی نظر آتی تو اُسے کھانے لگتے مگر پھر خیال آتا کہ یہ کھجور کہیں صدقہ کی نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ مَیں غریبوں کا حق کھا جائوں چنانچہ آپ کھجور کو اُسی طرح رکھ دیتے اور اپنے منہ میں نہ ڈالتے۔
اِسی طرح حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ صدقہ کی کچھ کھجوریں آئیں۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپ کے دو نواسے تھے اور یہ دونوں آپ کو بہت پیارے تھے کیونکہ آپ کی اور کوئی اولاد نہ تھی اِن دونوں کی اُس وقت دو دو تین تین سال کی عمر تھی اِن میں سے حضرت حسنؓ نے آتے ہی ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فوراً حضرت حسنؓ کے منہ میں سے کھجور نکال لی اور فرمایا یہ تمہارا حق نہیں یہ دوسروں کا حق ہے۔۴۲؎
اَب مَیں وہ اخلاق جو دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلق رکھنے کے دوران میں انسان سے ظاہر ہوتے ہیں اُن کی بعض مثالیں بیان کر دیتا ہوں۔
اخلاقِ فاضلہ میں بلند ترین مقام
سب سے پہلے مَیں اخلاق فاضلہ میں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصولی
اخلاق بیان کرتا ہوں جو میرے نزدیک تمام اخلاق کی کنجی ہیں اور جن کا اس روایت میں ذکر آتا ہے جس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اُس گواہی کا ذکر ہے جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق دی۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اِس خیال سے کہ اتنا بڑا کام مَیں کس طرح کر سکوں گا۔ ایسا نہ ہو مَیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکوں آپ سخت گھبرائے اور اسی گھبراہٹ کی حالت میں آپ اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دی اور یہ الفاظ کہے کہ کَلاَّ وَ اللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا(۱) اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ (۲) وَتَحْمِلُ الْکَلَّ (۳) وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ (۴) وَتَقْرِی الضَّیْفَ (۵) وَتُعِیْنَ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔۴۳؎ یعنی آپ گھبرائیں نہیں۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ ناکام ہو جائیں۔ آپ کے اندر پانچ عظیم الشان خصلتیں پائی جاتی ہیں اور ان نیک خصلتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ناکام نہیں ہونے دے گا۔چنانچہ وہ اِس کی تشریح کرتی ہیں اور کہتی ہیں اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں اور رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرتے ہیں وَتَحْمِلُ الْکَلَّ اور جو لوگ کسی کام کے بھی قابل نہیں آپ اُن کے بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ اور وہ علوم اور اخلاق جو دنیا سے معدوم ہوگئے ہیں آپ اُن کو پیدا کرتے ہیں۔ وَتَقْرِی الضَّیْفَاور آپ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَائِبِ الْحَقِّاور جن لوگوں پر کوئی حقیقی مصیبت آجائے آپ اُن کی مدد کرتے ہیں۔
یہ وہ پانچ اصولی خوبیاں ہیں جن سے دنیا بس رہی ہے یا بس سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ نظام ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے۔
صلہ رحمی
صلہ رحمی میںافرادِ خاندان، قبیلہ، قوم اور مُلک سب شامل ہیں اور ہر ایک سے اُس کے درجہ اور مقام کے لحاظ سے حسنِ سلوک کرنا صلہ رحمی میں داخل ہے۔ دنیا میں
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رشتہ داروں سے تو حسنِ سلوک نہیں کرتے لیکن اگر کوئی غیر اُن کے پاس آ جائے تو اُس کی بڑی خاطر تواضع کرتے ہیں۔ بھائی یا چچا آ جائے تو اُس کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات بھی نہیں کرتے اور غیر قوم والوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ انگریزی پڑھے ہوئے ہندوستانیوں میں خصوصیت سے یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی انگریز اُن سے ملے تو بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مگر جب کسی ہندوستانی سے بات کرنے لگیں تو کہتے ہیں ہم نہیں جانتے ٹُم کون ہو۔ اُس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُردو کا ایک لفظ بھی اِن کے کانوں میں کبھی نہیں پڑا۔ اِسی طرح خواہ اُن کا اپنا رنگ بعض ہندوستانیوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہو جیسے چاند کے سامنے توا ہوتا ہے مگر وہ اُن سے بات کریں گے تو کہیں گے ’’یو کالا لوگ ہے‘‘ اِس کی وجہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں سے اپنی قوم کی محبت اُٹھ چکی ہوتی ہے اور صلہ رحمی مٹ چکی ہوتی ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تھے جو اپنوں اور بیگانوں ہر ایک سے اچھا سلوک کرتے تھے۔ اُن کے دل میں قریبیوں کی بھی محبت تھی، پھر اُن سے جو بعید تھے اُن کی بھی محبت تھی، دوستوں اور تعلق رکھنے والوں کی بھی محبت تھی اور آپ ہر ایک کے ساتھ اُس کے مقام اور درجہ کے لحاظ سے محبت سے پیش آتے اور اُس کی خیر خواہی کرتے اور درحقیقت یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں امن قائم کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
مہمان نوازی
اِس کے بعد دوسرا اصولی خُلق یہ ہے کہ وَ َتَقْرِی الضَّیْفَ باہر سے آنے والے مہمان کے ساتھ عزت کا سلوک کیا جائے اور اُس کی مہمان نوازی
میں کوئی کمی نہ کی جائے۔ لیکن مہمان نوازی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مہمان نوازی تو یہ ہے کہ لاہور سے کوئی مہمان آئے یا پشاور سے مہمان آئے تو ہم اُس کی مہمان نوازی کریں۔ یہ مہمان نوازی درحقیقت مہمان نوازی کی ایک ادنیٰ قسم ہے کیونکہ اس مہمان نوازی میں ایک یہ غرض بھی پوشیدہ ہوتی ہے کہ جب ہم لاہور یا پشاور جائیں گے تو یہ شخص ہماری مہمان نوازی کرے گا۔ پس یہ مہمان نوازی ایسی اعلیٰ نہیں۔ اِس سے بڑھ کر ایک اور مہمان نوازی یہ ہوتی ہے کہ یو۔ پی کا ہمارے ہاں کوئی مہمان آ جائے یا سرحد سے ہمارے ہاں کوئی مہمان آ جائے یا بنگال اور بہار سے ہمارے ہاں کوئی مہمان آ جائے تو ہم اُس کی خدمت کریں۔ یہ مہمان نوازی پہلی مہمان نوازی سے زیادہ اعلیٰ ہے کیونکہ یو۔پی یا سرحد یا بنگال یا بہار میں ہمیں جانے کا اتنا موقع نہیں مل سکتا جتنا لاہور یا پشاور جانے کا مل سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ سب ہمارے ملک کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم سے ایک قسم کا تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے اندر یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر آج یہ ہمارے پاس آئے ہیں تو ممکن ہے کبھی ہمیں بھی ان کے علاقہ میں جانا پڑے پس یہ مہمان نوازی کسی دوسرے وقت خود ہمارے ہی کام آ سکتی ہے۔ لیکن ایک مہمان وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے ملک کا ہوتا ہے۔ مثلاً آسٹریا کا کوئی باشندہ ہو یا کینیڈا کا کوئی باشندہ ہو جن کا مُلک اور ہے، جن کی زبان اور ہے، جن کے رسم و رواج اور ہیں، جن کی طرزِ معاشرت اور ہے، جن کی حکومت اور ہے ایسے ممالک کے رہنے والوں میں سے اگر کوئی شخص ہمارے ہاں آتا ہے اور ہم اُس کی مہمان نوازی میں حصہ لیتے ہیں تو یقینا یہ مہمان نوازی زیادہ شاندار ہے کیونکہ ہم نے اُس شخص کی مہمان نوازی کی جس کے ہاں جانے کی ہمیں کوئی توقع ہی نہیں تھی۔
غرض دنیا میں مختلف قومیں اپنے مہمانوں سے مختلف سلوک کرتی ہیں۔ بعض قومیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی قوم والوں سے تو اچھا سلوک کرتی ہیں لیکن اگر کوئی غیر قوم والا اُن کے پاس چلا جائے تو اُس سے کوئی سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ جیسے آسٹریلیا ہے یا سائوتھ افریقہ ہے یا یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے یا برازیل وغیرہ ہیں۔ اِن ممالک کے باشندے اپنے ملک کے لوگوں سے یا اپنے ہمسایہ ممالک کے لوگوں سے تو حسن سلوک کرتے ہیں مگر دوسروں سے حسن سلوک نہیں کرتے مگر یہ مہمان نوازی بھی دراصل حقیقی مہمان نوازی نہیں ہوتی بلکہ ایک قسم کا سَودا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج ہم نے اُن کی خدمت کی ہے تو کل ہمیں ان کے ہاں جانا پڑے گا اور اُس وقت ہمیں ان کی خدمت کی ضرورت ہوگی۔ پس یہ تو ایک قسم کا سَودا ہے لیکن اگر ہم آسٹریلیا سے آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں یا یونائیٹڈ سٹیٹس سے آنے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیں تو یہ حقیقی مہمان نوازی ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اُس وقت یہ اُمید نہیں ہوتی کہ کسی وقت ہم بھی آسٹریلیا یا امریکہ میں اُس کے پاس جائیں گے پس مہمان نوازی مختلف اقسام رکھتی ہے۔ بعض ممالک ایسے ہیں جن کے افراد آج بھی اپنی خود داری کی وجہ سے غیر اقوام کے آدمیوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے۔ جیسے یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ہے یا آسٹریا، جنوبی امریکہ اور روس وغیرہ ممالک ہیں۔ وہ جرمنوں سے اچھا سلوک کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ اطالویوں سے اچھا سلوک کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ انہیں دیکھیں گے تو ہاتھ ملائیں گے، اپنے گھر میں انہیں مہمان ٹھہرائیں گے لیکن ایک ہندوستانی کو دیکھتے ہی اُن کی ناک بھوں چڑھ جائے گی۔ بلکہ ریل کے ڈبہ میں اگر وہ اُن کے ساتھ ایک کوچ پر بھی بیٹھ جائے تو وہ اِس پر بھی بُرامنائیں گے کہ یہ ہندوستانی ہمارے کمرہ میں کیوں آ گیا اور کیوں ہمارے ساتھ بیٹھا۔
غرض مہمان نوازی میں مختلف قوموں کے مختلف اصول ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تھے جن کی مہمان نوازی صرف اپنی قوم کے ساتھ مخصوص نہ تھی، اپنے ملک کے ساتھ مخصوص نہ تھی، بلکہ جو بھی اجنبی خواہ وہ کسی قوم اور کسی ملّت سے تعلق رکھنے والا ہو آپ کے پاس آتا، آپ اُس کی مہمان نوازی میں حصہ لیتے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اس کیلئے رستہ کھولا اور اپنی تعلیم سے بھی لوگوں کو مشورہ دیا کہ قومی تعصب مٹا دو سب لوگوں سے بِلا امتیاز مذہب و ملت محبت و پیار کا سلوک کرو۔ ہر آنے والے کی مہمان نوازی کرو اور اِس طرح دنیا کی ترقی میں مدد دو۔
ناداروں اور معذوروں کی امداد
تیسری صفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تَحْمِلُ الْکَلَّ کے الفاظ میں بیان کی گئی
ہے۔ درحقیقت اِس کے بغیر بھی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا تَحْمِلُ الْکَلَّ کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص کسی کام کا نہ ہو اُس کی مدد کرنا۔ مثلاًلولے لنگڑے اور اندھے جو خود کام کرنے سے معذور ہوتے ہیں اُن کی مدد کرنا تَحْمِلُ الْکَلَّ کے مفہوم میں شامل ہے۔ اِسی طرح اگر کسی کے ماں باپ مر جائیں اور بچے یتیم رہ جائیں تو اُن بچوں کو تعلیم دلانا۔ یا جن کے لئے کمائی کرنے والا کوئی نہ رہا ہو اُن کی پرورش کرنا یہ بھی تَحْمِلُ الْکَلَّ میں شامل ہے۔ پس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ آپ وہ شخص ہیں کہ صرف اپنا بوجھ نہیں اُٹھاتے بلکہ اُن لوگوں کے بھی بوجھ اُٹھاتے ہیں جن کا بوجھ اُٹھانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ یہ بھی ایک ایسی خوبی ہے جو قومی ترقی کا جزو اعظم ہے اور اس کے بغیر کبھی کوئی قوم اعلیٰ مدارج تک نہیں پہنچ سکتی۔
مَیں نے نظامِ نو کے متعلق جو تقریر کی تھی اور جو کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے، اُس میں مَیں نے اِسی امر کے متعلق توجہ دلائی تھی کہ قوم کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی معذوری کی وجہ سے کمائی نہیں کر سکتے اُن کے لئے کھانا، کپڑا اور دوائی وغیرہ مہیا کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اسلامی نقطۂ نگاہ سے وہ ہرگز کامیاب حکومت نہیں کہلا سکتی۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یہ بیان فرماتی ہیں کہ آپ اُن لوگوں کی بھی مدد کیا کرتے تھے جو کسی کام کے نہیں ہوتے تھے۔
متوسط الحال مگر ضرورت مند طبقہ کی اعانت
ایک اور خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یہ بیان کی
ہے کہ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اُن کی مدد تو کر دیتے ہیں جو بالکل معذور ہوتے ہیں جیسے اندھے اور اپاہج وغیرہ لیکن وہ مصیبت زدہ لوگ جو کما تو سکتے ہیں لیکن پوری طرح نہیں کما سکتے اُن کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں کرتے حالانکہ دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا بوجھ کسی حد تک تواُٹھا لیتے ہیں لیکن پورا نہیں اُٹھا سکتیـ۔ ایسے مصیبت زدہ لوگوں کو دنیا میں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص پچاس روپے کما لیتا ہے لیکن اُسے ضرورت ستّر روپوں کی ہوتی ہے ایسے لوگوں کو چونکہ دنیا کھاتا پیتا دیکھتی ہے اِس لئے اُن کی طرف اسے توجہ پیدا نہیں ہوتی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اتنی وسیع تھی کہ آپ اُن لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے جن کے پاس کچھ سامان ہوتا ہے اورکچھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے بوجھ کو کوئی اور شخص آ کر اُٹھائے۔ وہ نہ تو اتنے لولے لنگڑے ہوتے ہیں کہ اپنا بوجھ نہ اُٹھا سکیں اور نہ اُن کا کندھا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ سب بوجھ بغیر کسی تکلیف کے اُٹھا سکیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ایسے لوگوں کی مدد فرمایا کرتے تھے جس کے بعد وہ اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہو جاتے اور تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ کے الفاظ میں حضرت خدیجہؓ نے ایسے ہی لوگوں کی مدد کا ذکر کیا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسے لوگ سُستی اور غفلت سے کام لینے والے نہ ہوں بلکہ وہ واقعہ میں مدد کے محتاج ہوں اور اگر بعض لوگ سُستی اور غفلت سے کام لیتے ہوں تو اُن کو کام پر مجبور کرنا حکومت اور قوم کا فرض ہے۔
قومی ترقی کیلئے نئے نئے راستوں کی تلاش
جب ان باتوں پر عمل کر کے قوموں میں ایک حد تک
ترقی ہو جاتی ہے اور وہ اپنا اندرونی نظام قائم کر لیتی ہیں، صلہ رحمی اُن کا شیوہ ہو جاتا ہے، غریبوں اور یتیموں کی پرورش اُن میں شروع ہو جاتی ہے، غیر قوموں سے صلح اور حسنِ سلوک اُن کے طریق عمل میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ مصیبت زدہ جو اپنا بوجھ نہیں اٹھا سکتے اُن کی مدد کا بھی انہیں خیال پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک نظام کے ماتحت یہ تمام کام سرانجام دیتی ہیں تو پھر بھی وہ صحیح طور پر ترقی نہیں کرسکتیںجب تک ایک نئی خوبی اُن میں پیدا نہ ہو اور وہ خوبی وہی ہے جو تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں آج دنیا ترقی کی طرف جا رہی ہے مگر اُس کی ترقی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نئے علوم ظاہر ہو رہے اور نئی نئی ایجادیں دنیا میں ہو رہی ہیں۔ ہر نیا علم دنیا کو ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے اور ہر نئی ایجاد دنیا کے ذہنی اور فکری قویٰ کو اور زیادہ جِلا دے دیتی ہے۔ اگر نئے علوم ظاہر نہ ہوں اور علمی لحاظ سے دنیا کسی مقام پر آ کر رُک جائے، اگر نئی ایجادیں نہ ہوں اور دنیا پرانی ایجادات تک ہی رُک جائے تو کبھی لوگوں کو ترقی حاصل نہ ہو اور کبھی اُن کے علمی اور دماغی قوی کو نئی قوت اور روشنی حاصل نہ ہو۔ پس اخلاق فاضلہ اور علوم کو زندہ رکھنے کیلئے نئی نئی ایجادوں کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے اور وہ قومیں کبھی زندہ نہیں رہتیں جن میں نئے علوم اور ایجادات کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمِ کے الفاظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِسی خصوصیت کا ذکر کیا گیا ہے یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ وہ چیزیں جو دنیا والوں کو آج معلوم نہیں آپ اُن کو بھی دریافت کرکے دنیا میںپھیلا رہے ہیں۔ گویا آپ کے ذریعہ دنیا میں ترقی اور ایجاد کا مادہ قائم ہے۔
نظامِ نو کا قیام
یہ پانچ چیزیں ہیں جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اہلی زندگی کو بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو ہمیشہ کیلئے درست کر دیا۔
جن کے کاممیں کوئی روک تھی اُن کی روک کو دور کر کے آپ نے ملک میں کام کا راستہ کھولا۔ جو لوگ اپاہج یا کمانے کے ناقابل تھے اُن کے لئے معیشت کا پورا سامان جمع کیا اور پھر قوم میں آئندہ ترقی کا ہمیشہ کیلئے دروازہ کھول دیا۔ گویا یہ نظامِ نو ہو گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم فرمایا ہے۔
یہ پانچوں اخلاق جب کسی قوم میں پیدا ہو جاتے ہیں وہ آپس میں حسنِ سلوک سے کام لیتی ہے، اپنے ہمسائیوں اور غیر ممالک والوں سے بھی حسنِ سلوک کرتی ہے، وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو کسی کام کے اہل نہ ہوں اُن کے لئے روزی کا سامان مہیا ہوجائے، وہ ایسا انتظام بھی کرتی ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو اپنی کچھ روزی کما سکتے ہیں اور کچھ نہیں کما سکتے اُن کی پریشانی بھی دور ہو جائے اور اُن کی بقیہ ضرورتیں پوری ہو جائیں وہ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمِ پر بھی عمل کرتی اور ملک میں یونیورسٹیاں قائم کرتی ہے تا کہ علوم میں ترقی ہو، ملک کی صنعت و حرفت میں ترقی ہو اور لوگ ان درسگاہوں سے تعلیم حاصل کر کے جب باہر نکلیں تو وہ دینی اور دُنیوی علوم میں نئی نئی تحقیقات سے کام لیں۔ وہ عِلْمُ الْاَخْلَاق کو ترقی دیں، وہ عِلْمُ الْاَدْیَانکو ترقی دیں، وہ عِلْمُ الْاَبْدَان کو ترقی دیں، وہ عِلْمُ الْحَیْوَانَات کو ترقی دیں، وہ عِلْمُ النَّفْسکو ترقی دیں۔ غرض نئے نئے علوم پیدا کریں اور نئی نئی ایجادات ملک کی ترقی کے لئے کریں تو بتائو اس قوم کے لئے پھر اور کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نبوت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے نظامِ نو کا بیج رکھ دیا تھا اور آپ کے اخلاق شروع سے ہی ایسے تھے جن پر آئندہ دنیا کا نیا نظام قائم ہونے والا تھا۔
رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کی بعض مثالیں
اَب مَیں ذرا تفصیل سے بعض مثالیں دیتا ہوں جن سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قسم کے اخلاقِ فاضلہ
دکھایا کرتے تھے۔
سب سے پہلی بات جو اخلاقِ فاضلہ سے تعلق رکھتی ہے اور جو درحقیقت نہایت ہی اہم اور ضروری ہے وہ سچائی ہے۔
سچائی کا بلند ترین معیار
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے جس کے پاس کوئی اخلاقی کتاب نہیں تھی۔ مگر ایسی قوم
میں پیدا ہو کر سچائی کا جو اعلیٰ معیار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا وہ نہایت ہی حیرت انگیز ہے۔ آپ میں سچائی ایسی اعلیٰ درجہ کی پائی جاتی تھی کہ قوم میں آپ کا نام ہی صادق مشہور ہو گیا تھا اور لوگ بجائے آپ کے نام سے آپ کو پکارنے کے آپ کو صادق کے نام سے پکارا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے وہ صادق، وہ راست باز اور وہ سچا آدمی اِس طرح کہتا ہے۔ یہ خوبی آپ میں اِس قدر غالب تھی کہ دنیا میں آپ کو جاننے والا کوئی شخص ایسا نہ تھا جو آپ کے صدق پر شُبہ کر سکتا۔ خواہ بظاہر آپ انہونی بات ہی کیوں نہ کہہ دیتے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ کھڑے ہوئے اور قوم کے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا تم جانتے ہو مَیں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ انہوں نے اقرار کیا اور کہا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے آپ نے آج تک کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے میری قوم کے لوگو! اگر مَیں تم سے یہ کہوں کہ ایک بڑا لشکر مکہ کے پاس پڑا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری اِس بات کو تسلیم کر لوگے؟ انہوں نے کہا ہاں ہم مان لیں گے حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ مکہ کے پاس کوئی لشکر چھپ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہاں اگر کوئی لشکر آئے تو ایک بچہ بھی اُسے دیکھ سکتا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ اگر مَیں یہ کہوں کہ مکہ کے دامن میں ایک بہت بڑا لشکر چھپا بیٹھا ہے اور وہ عنقریب تم پر حملہ کرنے والا ہے خود تم میں سے کوئی شخص اُس لشکر کو نہ دیکھے تو کیا تم میری اِس بات کو جو بظاہر بالکل ناممکن دکھائی دیتی ہے مان لو گے؟ انہوں نے کہا یقینا ہم آپ کی بات مان لیں گے کیونکہ آپ وہ ہیں جنہوں نے کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی بات ہے اور تمہیں میری سچائی پر اس قدر اعتماد ہے تو مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے خدا نے یہ کہہ کر تمہاری طرف بھیجا ہے کہ مَیں تمہیں توحید کی طرف بُلائوں۔ اِس پر لوگوں نے آپ کو جھوٹا کہنا شروع کر دیا۔۴۴؎
تو دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا معیار اتنا بلند تھا کہ آپ نے اپنی قوم کے سامنے ایک ایسی بات پیش کی جو کسی صورت میں بھی ممکن نہیں تھی۔ آپ نے کہا اگر مَیں تمہیں یہ کہوں کہ مکہ کے پاس ایک بہت بڑا لشکر چھپا بیٹھا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری اِس بات کو مان لو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ہم ضرور آپ کی بات مان لیں گے۔ بیشک اُس لشکر کو ہم نہ دیکھیں، بے شک ہم میں سے ایک فرد بھی باوجود کوشش کے لشکر کو نہ دیکھ سکے لیکن چونکہ ہمیں آپ کی سچائی پر پورا یقین ہے اس لئے ہم اپنی آنکھوں کو جھوٹا کہہ لیں گے مگر آپ کو جھوٹا نہیں کہیں گے۔ـ مگر باوجود اِس کے انہوں نے آپ کے دعویٰ کو نہ مانا۔ بہرحال اِس سے اِتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ مکہ والوں نے سچائی کے معیار میں آپ کو ایسے عظیم الشان مقام پر دیکھا تھا کہ آپ خواہ کوئی بات کہیں اُس کا انکار اُن کے لئے بالکل ناممکن تھا۔
مَیں نے بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جو خوبیاں پائی جاتی ہیں جب تک ہم اُن تمام خوبیوں کو اپنے اندر پیدا نہ کر لیں اور جب تک ہم اپنے اپنے دائرہ میں ایک چھوٹے محمد نہ بن جائیں اُس وقت تک ہم کبھی نجات نہیں پا سکتے۔ اِسی طرح ہمارے اندر جب تک ویسی ہی سچائی کی طاقت پیدا نہیں ہو جاتی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پائی جاتی تھی اُس وقت تک ہم کسی صورت میں بھی نجات اور خدا تعالیٰ کے فضل کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
جھوٹ کے متعلق اُمت کو انتباہ
رسول کریمﷺ کوصداقت کا اِس قدر خیال تھا کہ ابی بکرہ روایت کرتے ہیں۔ آپؐ نے
ایک دفعہ صحابہؓ کو فرمایا اَلْاِاُنَبِّئُکُمْ بِاَکْبَرِ الْکَبَائِرِ۔ اے میرے صحابہؓ ! کیا مَیں تمہیں اُن گناہوں کی خبر نہ دوں جو سب سے بڑے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ضرور بتائیے آپؐ نے فرمایا۔ اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ سب سے بڑا گناہ خداتعالیٰ کا کسی کو شریک قرار دینا ہے۔ پھر فرمایا۔ وَعَقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ بڑے بڑے گناہوں میں سے ایک اور بڑا گناہ یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی کی جائے، اُن کو دُکھ دیا جائے اور اُن کی باتوں کو نہ مانا جائے۔ یہ کہہ کر آپؐ اُٹھ کربیٹھ گئے۔ وَکَانَ مُتَّکِئًا۔ اِس سے پہلے آپؐ تکیّہ لگائے ہوئے تھے اور پھر بڑے زور سے فرمایا۔ اَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ۔ اَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ۔ اَلا وَقَوْلَ الزُّوْرِ۔۴۵؎ کان کھول کر سُن لو کہ پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے،پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے، پھر بہت بڑا گناہ جھوٹ بولنا ہے۔ـ پھر رسول کریم ﷺ نے بڑے درد اور کرب سے اِس بات کو اتنی بار دُہرایا کہ ہمیں آپ کی تکلیف کا شدید احساس ہوا اور ہم نے اپنے دل میں خیال کرنا شروع کیا کہ کاش! رسول کریم ﷺ اَب خاموش ہو جائیں، کیونکہ ہم نے آپؐ کی بات خوب سمجھ لی ہے۔
مگر کتنے ہیں جو آج سچائی کو وہ اہمیت دیتے ہیں جو محمد رسول اللہﷺ نے دی۔ ہم تو دیکھتے ہیں لوگ ذرا ذرا سی بات پر جھوٹ بول لیتے ہیں اور اِس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے کہ اسلام نے سچائی کو کس قدر اہمیت دی ہے۔
ہماری جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے سچائی کو بہت حد تک اپنے معاملات میں ملحوظ رکھتی ہے لیکن پھر بھی ابھی ایک طبقہ ایسے لوگوںکا پایا جاتا ہے جو جھوٹ سے نفرت نہیں کرتا بلکہ بعض لوگ میرے سامنے آ کر بھی بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں واقعہ ہوا تو یوں ہے مگر میرے پاس فلاں شخص اِس کے متعلق کچھ دریافت کرنے آیا تو مَیں نے اُسے کہہ دیا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ مَیںاُس وقت حیرت سے اُس کے منہ کو دیکھتا ہوں کہ یہ خلیفۂ وقت کے سامنے جب جھوٹ بول رہا ہے تو پھر دوسرے لوگوں کے سامنے یہ کس قدر جھوٹ بولتا ہو گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے اِس قدر نفرت تھی کہ آپ نے درد کے ساتھ اِس فقرہ کو اِتنا دُہرایا اِتنا دُہرایا کہ صحابہؓ کہتے ہیں ہم نے اپنے دل میں کہا خدایا! رسول کریم ﷺ اَب خاموش ہو جائیں آپؐ کی تکلیف ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔
رسول کریمﷺکی دیانت و امانت کا شہرہ
اخلاقِ فاضلہ میں سے ایک اور خُلق امانت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوامانت میں بھی اِتنا اعلیٰ درجہ حاصل تھا کہ مکّہ کے لوگ آپ کو امین کہتے تھے۔ آپ کی امانت
کی تاریخ میں جو مثالیں پائی جاتی ہیں اُن میں سے ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت خدیجہؓ نے آپ کو اپنا مال دے کر تجارت کی غرض سے شام کی طرف بھیجا تو چونکہ آپ کی تمام تر توجہ اِس بات کی طرف رہتی تھی کہ دیانت داری کے ساتھ کام کیا جائے اور اِس غرض کے لئے آپؐ اپنی طرف سے پورا زور لگایا کرتے تھے اِس لئے آپ نے اُن کے مال کی ایسی نگرانی کی کہ تجارت میں غیر معمولی نفع ہوا اور آپ نہایت کامیاب ہو کر اِس سفر سے واپس تشریف لائے۔ حضرت خدیجہؓ کا پہلا تجربہ یہ تھا کہ جو لوگ اُن کا مال لے کر تجارت کے لئے جایا کرتے تھے وہ بددیانتی سے کام لیتے تھے لیکن رسول کریمﷺ نے نہ خود کوئی مال لیا اور نہ کسی اور ملازم کو لینے دیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب آپ تجارت سے واپس آئے تو وہ غلام جو آپ کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ نے بھجوائے تھے انہوں نے حضرت خدیجہؓ سے ذکر کیا کہ اِس شخص سے بڑھ کر نیک اور دیانت دار شخص ہم نے عمر بھر میں کوئی نہیں دیکھا۔ ۴۶؎یہی وہ گواہی تھی جس کی بناء پر حضرت خدیجہؓ نے خود خواہش کر کے آپؐ سے شادی کی حالانکہ وہ ایک بہت بڑی مالدار عورت تھیں اور رسول کریم ﷺاُس وقت کے لحاظ سے بالکل مفلس تھے۔
رسول کریمﷺکااعلیٰ درجہ کا حلم
حلم بھی اخلاقِ فاضلہ میں سے ایک عظیم الشان خلق ہے۔ یعنی لوگوں کو معاف کرنااور اُن سے
نرمی اور محبت کے ساتھ پیش آنا۔ اِس خلق کے لحاظ سے بھی رسول کریمﷺ نے ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ آج اُس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ صدقہ و خیرات تقسیم کر رہے تھے کہ تقسیم کرتے کرتے جس قدر مال آپؐ کے پاس آیا تھا وہ ختم ہو گیا۔ـ جب سب مال تقسیم ہو چکا تو ایک بدوی آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا لائیے مجھے بھی کچھ دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا اَب میرے پاس کچھ نہیں جس قدر مال آیا تھا وہ مَیں تقسیم کر چکا ہوں۔ وہ آخر بدوی تھا، ایمان اُسے حاصل نہیںتھا اُس نے آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کر دیا کہ میرا حصہ ہے یا نہیں؟ یہاں تک کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ مگر آپؐ نے سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہا کہ دیکھو! مَیں بخیل نہیں اگر میرے پاس مال ہوتا تو مَیں تمہیں ضرور دے دیتا۔ ۴۷؎ اِس واقعہ کی اہمیت اُس وقت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلوک بدوی نے آپ سے اُس وقت کیا جب آپؐ عرب کے بادشاہ تھے۔ آج کسی انگریز کے چپڑاسی سے بھی اِس قسم کی بات کہو تو وہ فوراً دوسرے کو پیٹنا شروع کردے گا اور کہتا جائے گا تم نہیں جانتے مَیں ہوں کون، حالانکہ وہ ہوتا چپڑاسی ہے۔
اِسی طرح آپؐ ایک دفعہ صدقہ و خیرات تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص نے جسے یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے کم حصہ ملا ہے رسول کریم ﷺکو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا اور کہا آپؐ ظلم کر رہے ہیں۔ صحابہؓ اِس بات کو کَب برداشت کر سکتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے تلوار نکال لی کہ ابھی مَیں اِس کو قتل کرتا ہوں مگر رسول کریمﷺ نے فرمایا اِسے کچھ نہ کہو۔۴۸؎
غیر مذاہب کے پیرؤوں کے جذبات کا احترام
دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا بھی ایک بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ انسان جب کسی دوسرے انسان کے پاس جائے تو طبعی طور پر اِس سے یہ توقع رکھتا
ہے کہ وہ اُس سے کوئی ایسا سلوک نہ کرے جس کے نتیجہ میں اُسے دُکھ پہنچے مگر سوال یہ ہے کہ آج کتنے لوگ ہیں جو اِس کا خیال رکھتے ہیں۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کسی سے ذرا سا بھی کوئی ایسا کام ہو جائے جو دوسرے کے منشاء کے خلاف ہو تو وہ فوراً چڑ جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ کچھ عیسائی آئے اور مسجد میں آپؐ سے مذہبی مسائل پر بحث کرتے رہے۔ اُس روز اتوار کا دن تھا جب اُن کی عبادت کا وقت آیا تو انہوں نے کہا اَب ہم مسجد سے باہر جاتے ہیں تاکہ اپنے مذہب کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجدیں خداتعالیٰ کی عبادت کے لئے ہی ہوتی ہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں،اِسی جگہ عبادت کر لیں۔۴۹؎
یہ وہ رواداری ہے جس کا رسول کریمﷺ نے نمونہ دکھایااور جس کے ماتحت ہمارے لئے بھی یہی ہدایت ہے کہ اگر غیرمذہب کا کوئی پیرو ہماری مساجد میں اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے تو وہ بیشک کر لے، اِس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہم میں اِس کا پورا احساس پیدا نہیں ہوا اور ایسی اعلیٰ تعلیم کے ہوتے ہوئے ہم میں سے بعض ایسی تنگ دلی کا اظہار کرتے ہیں جو نہایت قابل تعجب ہوتی ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جس سے مجھے بہت ہی تعجب ہوا اور مَیں نے سمجھا کہ ابھی تک ہمارے اندر غیرمذاہب والوں سے حُسنِ سلوک کا وہ جذبہ پیدا نہیں ہوا جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ سندھ کی زمینوں کے کام کے لئے ہمیں مختلف قسم کے ماہرین کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ بیشک قومی کام ہونے کی وجہ سے ہم احمدیوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر اپنے فن میں ماہر احمدی نہ مل سکیں تو پھر مجبوراً غیراقوام کے لوگوں کو ملازم رکھنا پڑتا ہے۔ اِسی سلسلہ میں ہم نے ایک سکھ کو ملازم رکھ لیا کیونکہ وہ اپنے فن میںماہر تھا مگر مجھے تعجب ہوا کہ ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ اگر آپ سکھ ملازم رکھنے لگے تو پھر ہمارے لئے کام کرنا مشکل ہے۔ مَیں نے اُسے لکھا کہ اگر آپ کو یہ پسند نہیں تو پھر بے شک آپ تشریف لے جائیے ہمیں آپ کی ضرورت نہیں۔ ہم تو لوگوں کو یہ سکھاتے سکھاتے تھک گئے کہ سب مذاہب والوںکواپنا بھائی سمجھو اور کام کرنے کے لحاظ سے اگر تمہیں ایک انگریز بلکہ ایک چوہڑے کے ماتحت بھی کام کرنا پڑتا ہے تو بیشک کرو۔ مگر حالت یہ ہے کہ بعض احمدیوںکو یہ بھی بُرا لگتا ہے کہ کسی سکھ کو کیوں ملازم رکھ لیا گیا ہے۔ پس ابھی اپنی جماعت کے اندر بھی یہ کامل احساس پیدا کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے لیکن رسول کریمﷺ کی یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس عیسائی آتے ہیں، وہ لوگ آتے ہیں جن سے روزانہ آپ کی لڑائیاں رہتی ہیں مگر جب وہ عبادت کرنے کے لئے باہر جانے لگتے ہیں تو آپؐ انہیں منع کرتے ہیں اور فرماتے ہیں آپ باہر کیوں جاتے ہیں یہیں عبادت کر لیجئے۔
ایک بدوی کے ساتھ ملاطفت
اِسی طرح ایک دفعہ ایک بدوی آیا اُسے پتہ نہ تھا کہ مسجد میں پیشاب کرنا منع ہے وہ آیا اور مسجد
میں پیشاب کرنے لگ گیا۔ صحابہؓ ڈنڈے لے کر اُٹھے تو رسول کریمﷺ نے فرمایا اِسے کچھ نہ کہو، اِس کا پیشاب رُک جائے گا۔ اِس بیچارے کو کیا پتہ کہ یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ آرام سے بیٹھو اور اِسے پیشاب کر لینے دو جب وہ پیشاب کر کے چلا گیا تورسول کریم ﷺنے فرمایا۔ اَب لوٹے بھرو اور پیشاب کی جگہ پانی بہا دو، جگہ صاف ہو جائے گی۔۵۰؎
تو دیکھو رسول کریم ﷺنے اُس کے جذبات اور احساسات کا کیسا خیال رکھا کہ صحابہؓ کو منع کرنے بھی نہ دیا اِس خیال سے کہ وہ دوسروں کے سامنے ذلیل اور شرمندہ ہو گا۔
ڈھولک کے گیت پر رسول کریم کا حکیمانہ طریق عمل
اِسی طرح حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ آپؐ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس مدینہ کی دو لڑکیاں آئیں اور انہوں
نے ڈھولک کے ساتھ کوئی گیت گانا شروع کر دیا۔ اوپر سے حضرت ابوبکرؓ آ گئے انہوں نے ڈانٹا کہ یہ کیا کر رہی ہو۔ تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیںاور اُن کے سامنے یہ شیطانی کام کرتی ہو مگر رسول کریم ﷺ نے اُن سے کچھ نہیں کہا۔ آپؐ نے صرف اِتنا کیا کہ چار پائی پر لیٹے لیٹے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ حضرت عائشہؓ سمجھ گئیںکہ رسول کریمﷺ کا کیا منشاء ہے۔ چنانچہ جب رسول کریم ﷺکو نیند آنے لگی تو وہ فرماتی ہیں مَیں نے لڑکیوں کو اشارہ کیا کہ اَب چلی جاؤ۔ ۵۱؎ چنانچہ وہ اُٹھ کر چلی گئیں۔
اَب دیکھو یہ اَمر بظاہر رسول کریمﷺ کی شان کے خلاف تھا اور کہنے والوں نے یہی کہنا تھا کہ رسول کریمﷺ ڈھولک کے ساتھ گانا سُنتے ہیں۔ مگر آپؐ نے اُن لڑکیوں کا دل رکھنے کے لئے خاموشی اختیار کی اور ایسا طریق اختیار کیا جس سے حضرت عائشہؓ بھی سمجھ گئیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا منشاء ہے اور اُن لڑکیوں کا دل بھی نہ دُکھا۔
رسول کریم ﷺکی رحم دلی
رحم بھی بڑی اعلیٰ درجہ کی صفت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔ چنانچہ
فتح مکہ اِس کا ایک روشن ترین ثبوت ہے۔ فتح مکہ میں جو کچھ ہوا اُس کی تفصیل کو مَیں چھوڑتا ہوں۔ مَیں اِس وقت ایک اور مشہور واقعہ بیان کر دیتا ہوں۔ رسول کریمﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے تو ایک دفعہ ایک قبیلہ کے چند لوگ حملہ کر کے رسول کریمﷺ کی اونٹنیاں لے گئے۔اُن اونٹنیوں کی حفاظت کیلئے جو نوکر مقرر تھا وہ دَوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! کچھ لوگ حملہ کر کے آئے تھے اور وہ آپؐ کی اونٹنیاں چُرا کر لے گئے ہیں۔ اَکْوَعؓایک صحابیؓتھے وہ اُس وقت اکیلے وہاں موجود تھے اور اونٹنیوںکو لے جانے والے بہت زیادہ تھے مگر وہ یہ سُنتے ہی اونٹنیاں واپس لانے کے لئے تیار ہو گئے۔ انہوں نے آواز دی کہ کوئی اور شخص بھی مدد کے لئے آئے مگر اُس وقت کوئی شخص نہ پہنچا اور وہ اکیلے ہی چل پڑے۔وہ تھے تو اکیلے لیکن چونکہ تیرانداز تھے اِس لئے وہ درختوں کے پیچھے چُھپ کر اُن پر تیر چلا دیتے جس سے وہ زخمی ہو جاتے۔ اِس طرح انہوں نے کئی میل تک اُن کا تعاقب کیا اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اُن پر اِس قدر تیر برسائے کہ آخر وہ زخمی ہونے کی وجہ سے اونٹنیوں کو سنبھال نہ سکے اور اکوعؓ تمام اونٹنیاں چھڑا کر رسول کریمﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ جب وہ رسول کریم ﷺکے پاس پہنچے تو کہنے لگے یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ!وہ لوگ سخت پیاسے تھے اور وہ اونٹنیوں کا دودھ پینے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر جب بھی وہ دودھ پینے لگتے مَیں انہیں تیر مار کر زخمی کر دیتا اور اِس طرح سب کو ناکارہ کر کے مَیں اونٹنیاں چھڑا لایا ہوں۔ اَب آپؐ کچھ آدمی بھجوا دیجئے وہ زیادہ دُور نہیں ہیں، دس بارہ میل کے اندر ہیں اور زخموں کی وجہ سے وہ بھاگ بھی نہیں سکتے۔ اِس لئے اُن کو آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اَکْوَعْ! ہمیں اپنا مال تو مِل گیا اَب اُن غریبوں کو تم کیوں دُکھ دیتے ہو، انہیں جانے دو تعاقب کی ضرورت نہیں۔۵۲؎
دیکھو! یہ رحمدلی کی کیسی شاندار مثال ہے۔ اُس صحابیؓ کو جوش ہے اور وہ کہتا ہے کہ اُن کو ضرور گرفتار کرنا چاہئے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ پیاسے اور زخمی ہیں اِس وجہ سے بھاگ نہیں سکتے بڑی آسانی سے گرفتار ہو سکتے ہیں مگر محمد رسول اللہﷺ فرماتے ہیںہماری چیز تو ہمارے پاس آ گئی، اَب تعاقب کی کیا ضرورت ہے۔
اِسی طرح ایک اور واقعہ بھی جو غیر معروف ہے رسول کریمﷺ کے جذباتِ رحم کو نمایاں کرتا ہے۔
ایک دفعہ آپؐ ایک انصاری کو ملنے کے لئے گئے اور اُس سے کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ جب واپس آنے لگے تو اُس نے گھوڑے پر کاٹھی ڈال دی اور رسول کریمﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ اِس گھوڑے پر سوار ہو کر واپس تشریف لے جائیں۔ پھر اُس نے اپنے ایک عزیز کو جس کا نام قیس تھا بُلایا اور کہا تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤاور آپ کو اپنے گھر چھوڑ آؤ ۔ جب رسول کریمﷺ باہرنکلے تو آپ نے اُس سے فرمایا قیس! یہ تو بُرا لگتا ہے کہ مَیں سواری پر بیٹھوں اور تم میرے ساتھ پیدل چلو۔ اُس نے کہا یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! مَیںتو اِسی طرح جاؤں گا، مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ مَیں آپ کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ جاؤں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیس! یا تو تمہیں میرے ساتھ گھوڑے پر سوار ہونا پڑے گا اور یا پھر واپس چلے جاؤ۔ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ مَیں گھوڑے پر سوار رہوں اور تم پیدل ساتھ چلو۔ اُس نے کہا یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! پھر مجھے اجازت دیجئے کہ مَیں واپس چلا جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا بہت اچھا تم واپس جا سکتے ہو، چنانچہ وہ واپس چلا گیا۔۵۳؎
اِس واقعہ سے ظاہر ہے کہ رسول کریمﷺ کسی دوسرے کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ رحم آپؐ کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور آپؐ کے لئے کسی کو تکلیف کی حالت میں دیکھنا بالکل ناقابلِ برداشت تھا۔
جانوروں پر شفقت
اِسی طرح رسول کریمﷺ نے جانوروں پر بھی رحم کیا۔ لوگ جب جانوروں کو داغ دیا کرتے تھے تو اُن کی گردن یا مُنہ پر داغ
دیا کرتے تھے۔ مگر رسول کریمﷺ نے اِس سے منع فرمایا اور ہدایت کی کہ آئندہ مُنہ یا گردن کی بجائے جانوروں کی پیٹھ پر داغ دیا جائے کیونکہ اُن میں بھی جان ہوتی ہے اور مُنہ پر داغ لگانے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔۵۴؎
عدل و انصاف کے چند واقعات
انصاف بھی اخلاقِ فاضلہ میں سے ایک بہت بڑا خلق ہے اور رسول کریمﷺ کی
زندگی میں اِس کی بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مَیں صرف ایک مثال بیان کر دیتا ہوں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسول کریمﷺ کے چچا تھے، وہ بدر کی جنگ میں قید ہو گئے۔ اُس زمانہ میں چونکہ ہتھکڑیاں نہیں ہوتی تھیں اس لئے قیدیوں کو رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے جکڑ کر کسی ستون یا لکڑی کے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا۔ حضرت عباسؓ کو بھی اِسی طرح رسیوںسے باندھ دیا گیا۔ چونکہ گرہیں سخت تھیں اور حضرت عباسؓ ناز و نعم میں پلے ہوئے تھے اِس لئے تمام رات اُن کے کراہنے کی آواز آتی رہی۔ رسول کریمﷺ کو اُن کے کراہنے کی وجہ سے نیند نہ آئی اور صحابہؓ نے یہ دیکھا کہ آپ کبھی دائیں کروٹ بدلتے ہیں اور کبھی بائیں۔ صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اِس کی وجہ سے انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کیا کہ رسول کریمﷺ کو آج نیندنہیں آ رہی اور اِس کی وجہ غالباً حضرت عباسؓ کا کراہنا ہے۔ ایک صحابیؓ کہنے لگا تم چُپ رہو، مَیں عباسؓ کی رسیاں ڈھیلی کر دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ گیا اور اُس نے حضرت عباسؓ کی رسیاں ڈھیلی کر دیں۔ رسیوں کے ڈھیلا ہوتے ہی اُن کے کراہنے کی آواز بند ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب رسول کریم ﷺکو حضرت عباسؓ کی آواز نہ آئی تو آپ نے فرمایا عباسؓ کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آتی؟ صحابہؓ نے عرض کیا یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! ہم نے اُن کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ تو مناسب نہیں یا تو سب قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو اور یا پھر عباسؓ کی رسیاں بھی سخت کر دو۔۵۵؎
یہ وہ لوگ تھے جو تلواریں لے کر مسلمانوں کے مقابلہ کیلئے نکلے تھے مگر باوجود اِس کے کہ وہ مسلمانوں کے قتل کے ارادہ کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلے تھے جب مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوئے تو رسول کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ عباسؓ میرا چچا ہے اِس کی رسیاں بے شک ڈھیلی کر دو اور باقی قیدیوں کی رسیاں سخت رکھو بلکہ آپؐ نے فرمایا یا تو سب کی رسیاں ڈھیلی کر دو اور یا پھر عباسؓ کی بھی سخت کر دو۔
اِسی طرح حضرت عباسؓ کی قید کے بعد صحابہؓ رسول کریمﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپؐ سے کچھ مانگنے آئے ہیں۔ ہماری ایک بہن کا بیٹا عباس ؓ ہے، اس کا فدیہ معاف کر دیا جائے (جنگ بدر میں کُفّار کے جس قدر آدمی قید ہوئے تھے اُن کے متعلق یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وہ فدیہ دیکر رہا ہو سکتے ہیں) رسول کریمﷺ نے فرمایایا تو سب کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور یا اِن سے بھی فدیہ وصول کیا جائے۔۵۶؎
یہ وہ انصاف تھا جو رسول کریمﷺ کے اندر پایا جاتا تھا۔ اِدھر صحابہؓ کا کمالِ ادب دیکھو کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہیَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! آپ کے چچا عباسؓ کا فدیہ ہم معاف کرانے کے لئے آئے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ سمجھا جاتا کہ وہ رسول کریمﷺ پر کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ یہ درخواست کی کہ ہماری بہن کا ایک بیٹا عباسؓ ہے اُس کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم اُن سے فدیہ وصول نہ کریں۔
بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے تڑپ
بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے آپؐ کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی
تھی وہ ۵۷؎ سے ظاہر ہوتی ہے۔
اِسی طرح بخاری میں آتا ہے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ نے اُن سے فرمایا عبداللہ! کچھ قرآن شریف پڑھ کر سُناؤ۔ انہوں نے کہا یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! وحی آپ پر نازل ہوتی ہے اور قرآن مَیں آپؐ کو پڑھ کر سُناؤں آپ نے فرمایا ہاں مجھے دوسروں سے قرآن سُننے میں مزا آتا ہے۔ انہوں نے سورۃ نساء کی چند آیتیں پڑھ کر سُنائیں۔ جب وہ اِس آیت پر پہنچے کہ یعنی اُس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہرایک جماعت میں سے ایک ایک گواہ لائیں گے اور تجھے اِن لوگوں کے متعلق بطور شاہد پیش کریں گے۔ تو حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں مجھے رسول کریمﷺ نے فرمایاٹھہر جاؤ، ٹھہرجاؤ۔ جب مَیں نے آپؐ کی طرف نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔ مَیں ابھی بتا چکا ہوں کہ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کو لوگوں کے سامنے کھڑا کرے گا اور فرمائے گا یہ وہ نمونہ ہے جس کی نقل کرنے کے لئے مَیں نے اِسے دنیا میں بھیجاتھا۔ آج اگر تم اِس نمونہ کے مطابق نظر آئے تو تم جنت میں داخل کر دیئے جاؤ گے ورنہ اِس نمونہ کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں تمہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا۔ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قرآن کریم پڑھتے پڑھتے اِس مقام پر پہنچے تو رسول کریمﷺ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نہ معلوم کتنے لوگ ہوں گے جو اِس تعلیم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے دوزخ میں گرا دیئے جائیں گے۔ کیسی عظیم الشان نعمت تھی جو اُن کے سامنے پیش کی گئی مگر پھر کس قدر لوگ ہیں جو تعصّب یا جہالت یا غصہ کی وجہ سے اِس نعمت سے محروم ہو گئے اور وہ خداتعالیٰ کے ابدی انعامات کو حاصل نہ کر سکے۔ اِس خیال کا پیدا ہونا تھا کہ آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، رقّت آپؐ پر غالب آ گئی اور آپؐ نے فرمایا آگے نہ پڑھو اَب مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتا۔۵۸؎
عورتوں سے حُسنِ سلوک کی تعلیم
چونکہ عورتیں بھی اِس وقت تقریر سُن رہی ہیں۔ اِس لئے مَیں اَب عورتوں سے حُسنِ سلوک
کے متعلق رسول کریمﷺ کی تعلیم میں سے چند باتیں بیان کر دیتا ہوں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے حُسنِ سلوک کرنے کے متعلق ایک نہایت ہی لطیف بات بیان فرمائی ہے۔ نادان اِس پر اعتراض کرتے اور اُسے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریمﷺ کی جہالت قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے کہ اُس سے بہتر ناممکن ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اے لوگو! عورتوں سے زیادہ سختی کا معاملہ نہ کیا کرو۔ کیونکہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ ۵۹؎ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ اگر تم زیادہ زور دو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی سیدھی نہیں ہو سکے گی۔
نادان دشمن اعتراض کرتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے عورت کو پسلی سے پیدا شدہ قرار دیا ہے اور یہ امر واقعات کے بالکل خلاف ہے۔ حالانکہ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے اور اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں مادہ اُس میں رکھا گیا ہے۔ پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ کے یہ معنی نہیں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے بلکہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ عورت پسلی کی شکل میں پیدا کی گی ہے۔ اَب دیکھ لو پسلی کی شکل میں عورت کو پیدا کرنا کتنا لطیف استعارہ بن جاتا ہے۔ انسانی جسم میں پسلیاں ہی ایک ایسی چیز ہیں جو دل کی طرف مُنہ کر کے جُھکی ہوئی ہوتی ہیں اور پھر وہ جسم میں ایک علیحدہ حصہ بھی نظر آتی ہیں۔ پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ میں رسول کریم ﷺ نے عورت کے ساتھ انسان کے تعلق کی مثال بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ تم عورت سے تعلق رکھتے وقت پسلی کی مثال کو اپنے سامنے رکھا کرو۔ پسلی اگر ایک طرف پوری طرح جُھکی ہوئی ہوتی ہے اور اُس کا رُخ انسانی قلب کی طرف ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ جسم میں ایک علیحدہ وجود بھی نظر آتی ہے۔ گویا ایک ہی وقت میں دونوں باتیں اُس میں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ جسم کے ساتھ بھی پیوست ہوتی ہے اور اس کا ہر حصہ علیحدہ علیحدہ بھی نظر آتا ہے۔ پس درحقیقت اِس مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد اور عورت کے تعلقات کا ذکر کیا ہے اور عورت کو پسلی سے مشابہہ قرار دے کر اُس سے حسنِ سلوک کرنے کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ غور کر کے دیکھ لو دنیا میں جس قدر رشتے پائے جاتے ہیں اُن میں سے صرف عورت کا ہی ایک ایسا رشتہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے خاوند کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اگر اُسے الگ کرو تو وہ الگ بھی ہو جاتی ہے۔ ماں بیٹی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا، باپ بیٹے کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا، بھائی بھائی کا رشتہ کسی طرح ٹوٹ نہیں سکتا لیکن خاوند اور بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ وقت آنے پر وہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ بسااوقات ایک میاں بیوی میں اس سے بھی زیادہ محبت ہوتی ہے جتنی ماں باپ کو اپنے بیٹوں سے محبت ہوتی ہے۔ خاوند بیوی پر جان قربان کرتا ہے اور بیوی خاوند پر فدا ہوتی ہے اور وہ اِس طرح اپنے خاوند کی طرف جُھکی ہوئی ہوتی ہے جیسے پسلیاں دل کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور اگر اُس پر زیادہ سختی کرو تو وہ علیحدہ ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے جسم کا ٹکڑہ ہی نہ تھی۔
پس اِس حدیث میں رسول کریمﷺ نے اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی کے تعلقات جہاں بے انتہا محبت پر مبنی ہوتے ہیں وہاں یہ تعلق ایسا نازک بھی ہے کہ بعض اوقات آپس میں نفرت بھی پیدا ہو جایا کرتی ہے اِس لئے عورتوں پر زیادہ سختی نہ کیا کرو۔ بیشک عورت کی اصلاح کی کوشش کرو لیکن ایسا نہ ہو کہ تمہاری سختی کی وجہ سے عورت کا دل تمہاری طرف سے پھر جائے اور وہی جو تم پر جان دیتی تھی تمہیں چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے۔
عورتوں کے متعلق آپ کا عملی نمونہ
اِسی طرح ایک دفعہ جب کہ آپ غزوہ خبیر سے واپس تشریف لا رہے تھے اورآپ
کی بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی آپؐ کے ساتھ تھیں۔ راستہ میں اونٹ بِدک گیا اور آپؐ اور حضرت صفیہ ؓ دونوں گر گئے۔حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کا اونٹ آپؐ کے پیچھے ہی تھا وہ فوراً اپنے اونٹ سے کود کر آپؐ کی طرف گئے اور کہنے لگے یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! میری جان آپؐ پر قربان آپؐ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی؟ جب ابوطلحہؓ آپؐ کے پاس پہنچے تو رسول کریمﷺ نے فرمایاابوطلحہ! پہلے عورت کی طرف، پہلے عورت کی طرف۔ وہ تو رسول کریمﷺ کے عاشق تھے جب آپؐ کی جان کا سوال ہو تو اُس وقت انہیں کوئی اور کیسے نظر آ سکتا تھا۔ مگر رسول کریمﷺ نے فرمایا جاؤ اور پہلے عورت کو اُٹھا ؤ۔۶۰؎ غرض عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور اُن کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنے کے متعلق ہمیں رسول کریمﷺ کی زندگی میںایسا اعلیٰ نمونہ ملتا ہے جس نے دنیا میں عورت کے معیار کو بلند کر دیا ہے۔ اِسی طرح آپ نے انہیں ورثہ میں حصہ دلایا اور اِس طرح اُن کے حقوق کو ہمیشہ کے لئے قائم کر دیا۔
اب میں دو تین واقعات آپؐ کی وفات سے تعلق رکھنے والے بیان کر دیتا ہوں جن سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ نے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں اخلاقِ فاضلہ کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا۔
رسول کریمﷺ جب فوت ہونے لگے تو آپؐ نے ایک خطبہ پڑھا جس میں صحابہؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا دیکھو! مَیں تم کو عورتوں کے متعلق خاص طور پر وصیت کرتا ہوں، اُن کا خیال رکھنا اور اُن پر کبھی سختی نہ کرنا۔۶۱؎
دوسری طرف آپؐ کو اپنے خادموں اور شاگردوں سے جو محبت تھی اُس کا نظارہ بھی ہمیں آپؐ کی ذات میں دکھائی دیتا ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ تکلیف کی حالت میں لوگ اپنے آرام کا کس قدر فکر رکھتے ہیں مگر رسول کریمﷺ کی یہ حالت تھی کہ جب آپؐ کی مرض نے شدّت اختیار کر لی اور آپ اِس تکلیف کی وجہ سے نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں نہ جا سکتے تھے تو صحابہؓ جب نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے تو بعض دفعہ یہ خیال کر کے کہ رسول کریمﷺ بیمارہیں اور نماز کے لئے نہیں آ سکتے اُن کو اِس قدر صدمہ ہوتا کہ وہ رونے لگ جاتے اور اُن کی چیخیں اِس زور سے نکلتیں کہ دُور دُور تک اُن کی آواز سُنائی دیتی۔ ایک دفعہ جبکہ رسول کریمﷺ کو تیز بخار چڑھا ہوا تھا آپؐ نے اپنی بیوی سے فرمایا پانی کی مشکیں لاؤ اور مجھ پر ڈالو۔ چنانچہ آپ ایک لگن میں بیٹھ گئے اور پانی کی سات آٹھ مشکیں آپؐ نے اپنے جسم پر ڈلوائیں اور ارادہ کیا کہ باہر نماز کے لئے تشریف لائیں مگر حالت خراب ہو گئی اور آپ تشریف نہ لا سکے۔ اِس کے بعد جب آپؐ کو کچھ افاقہ ہوا تو آپؐ نے پھر اپنے اوپر پانی ڈلوایا اور چاہا کہ نماز کے لئے تشریف لے جائیں مگر آپؐ پھر بھی تشریف نہ لے جا سکے۔ کچھ دیر کے بعد جب پھر آپؐ نے افاقہ محسوس کیا تو پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا حضور! وہ آپؐ کا انتظار کر رہے ہیں۔ اِس پر آپؐ نے پھر غسل کیا مگر تین دفعہ غسل کرنے کے بعد بھی جب آپؐ نے طاقت محسوس نہ کی تو فرمایا ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ ۶۲؎
غرض آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی خاطر جس قدر قربانی ممکن تھی کی اور اُن کے جذبات اور احساسات کا ہر طرح خیال رکھا۔
صحابہؓ کی دلداری کی کوشش
اِسی طرح ایک دفعہ جب آپ کو بخار چڑھا ہوا تھا اور حالت خراب تھی آپ سہارا لے کر قریب کی کھڑکی
کے پاس گئے اور پردہ اُٹھا کر آپ نے صحابہؓ کو نمازپڑھتے دیکھا اور مسکرائے۔ صحابہؓ پر اِس کا اِتنا اثر ہوا کہ قریب تھا بعض صحابہؓ خوشی میں اپنی نمازیں توڑ دیتے۔ پھر آپؐ سہارا لے کر چارپائی پر لیٹ گئے۔ـ اِس کے بعد آپ کو اُٹھنے کا موقع نہیں ملا۔ ۶۳؎
دیکھو! یہ محبت کا کیسا شاندار نظارہ ہے۔ اُس محبت کا جو ہمارے آقا کو اپنے خادموں اور غلاموں سے تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غلام بھی اپنے آقاؤں کے لئے وہ قربانی نہیں کیاکرتے جو خود ہمارے آقا نے اپنے غلاموں کے لئے کی۔
آپ کے انصاف کی ایک مثال مَیں نے پیچھے بیان کی ہے مگر ایک مثال مَیں نے عمداً چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ آپ کی وفات کے ساتھ تعلق رکھتی تھی۔ اَب جبکہ مَیں آپ کی وفات کے حالات بیان کر رہاہوں اُس جذبۂ انصاف کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جو رسول کریمﷺ کے اندر پایا جاتا تھا اور جس کا نمونہ آپ نے اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں دکھایا۔
جسمِ اطہر پر ایک صحابیؓ کا بوسہ
جب رسول کریمﷺ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو!
مَیں بھی انسان ہوں جیسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور مَیں نے تم میں سے کسی کو نقصان پہنچایا ہو اَب بجائے اِس کے کہ مَیں خداتعالیٰ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوں کہ تم مدعی بنو، مَیں تم سے یہ کہتا ہوںکہ اگر تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی نقصان پہنچا ہو تو وہ اِسی دنیا میں مجھ سے اپنے نقصان کی تلافی کرا لے۔ صحابہؓ کو رسول کریمﷺ سے جو عشق تھااُس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ رسول کریمﷺ کے اِن الفاظ سے اُن کے دل پر کتنی چُھریاں چلی ہوں گی اور کس طرح اُن کے دل میں رقّت طاری ہوئی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ صحابہ پر رقت طاری ہوگئی۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اُن کیلئے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر ایک صحابیؓ اُٹھے اور انہوں نے کہا۔ یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! جب آپ نے کہا ہے کہ اگر کسی کو مَیں نے کوئی نقصان پہنچایا ہو تو وہ مجھ سے اِس کا بدلہ لے لے تو مَیں آپ سے ایک بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہاں۔ـ جلدی بتاؤ۔ تمہیں مجھ سے کیا نقصان پہنچا ہے۔ وہ صحابیؓ کہنے لگے۔ یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! فلاں جنگ کے موقع پر آپ صفیں درست کروا رہے تھے کہ ایک صف سے گزر کر آپ کو آگے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ آپ جس وقت صف کو چیر کر آگے گئے تو آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگ گئی آج مَیں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں اُس وقت غصہ میں ہماری تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور ہماری آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا اگر رسول کریمﷺاُس وقت ہمارے سامنے موجود نہ ہوتے تو یقینا ہم اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے مگر رسول کریم ﷺنے اپنی پیٹھ اُس کی طرف موڑ دی اور فرمایا۔ لو اپنا بدلہ لے لو اور مجھے بھی اُسی طرح کہنی مار لو۔ اُس آدمی نے کہا۔ یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! ابھی نہیں۔ جب آپ کی کہنی مجھے لگی تھی اُس وقت میری پیٹھ ننگی تھی اور آپ کی پیٹھ پر کپڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا۔ میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو کہ یہ شخص اپنا بدلہ مجھ سے لے لے۔
جب صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دیا تو وہ صحابیؓ کانپتے ہوئے ہونٹوں اور بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ننگی پیٹھ پر محبت سے ایک بوسہ دیا اور کہا۔ یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! کُجا بدلہ اور کُجا یہ ناچیز غلام! جس وقت حضور سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جس کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو مَیں نے چاہا کہ میرے ہونٹ ایک دفعہ اس بابرکت جسم کو مَس کر لیں جسے خدا نے تمام برکتوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ پس مَیں نے اِس کہنی لگنے کو اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک بہانہ بنایا اور مَیں نے چاہا کہ آخری دفعہ آپ کابوسہ تو لے لوں۔۶۴؎
یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ! کہنی لگنا کیا چیز ہے۔ ہماری تو ہر چیز آپ کیلئے قربان ہے۔ میرے نفس نے تو یہ ایک بہانہ بنایا تھا تا کہ آپ کا بوسہ لینے کا موقع مل جائے۔ وہ صحابہؓ جو اُس شخص کو قتل کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ کہتے ہیں پھرہم میں سے ہر شخص کو اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ ہمیں کیوں نہ یہ موقع ملا کہ ہم اپنے پیارے کا بوسہ لے لیتے۔
یہ وہ شخص تھا جو ہمارا ہادی اور راہنما تھا جس نے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے لئے وہ نمونہ دکھایا جس کی مثال اور کسی نبی میں نہیں مل سکتی۔
اسلام ہر مسلمان کو آرٹسٹ بناتا ہے
مجھے افسوس ہے کہ مَیں وقت کی قلت اور اپنی بیماری کی وجہ سے رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی مکمل تصویر نہیں کھینچ سکا مگر بہرحال جو کچھ مَیں نے بیان کیا ہے اگر اُسی کی ہم نقل کرنے لگیں اور اِنہیں اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو شاید صدیوں ہمیں اِس کی نقل کرنے میں لگ جائیں مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہم ان اخلاق کی نقل کرنے کے بغیر دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جب تک ہم میں سے ہر شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس تصویر کو جو مَیں نے کھینچی ہے معہ اُن اخلاق کے جو مَیں نے بیان نہیں کئے اپنے دل پر نہیں کھینچ لیتا اور جب تک ہم میں سے ہر شخص ایک چھوٹا محمد نہیں بن جاتا اُس وقت تک ہم کبھی خدا تعالیٰ کے پیارے نہیں ہو سکتے۔
لوگ کہتے ہیں اسلام نے تصویر بنانا منع کر کے آرٹ کو نقصان پہنچایا ہے وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اسلام تو ہر مسلمان کو آرٹسٹ بناتا ہے۔ وہ تصویر بنانے سے نہیں روکتا بلکہ ادنیٰ اور بے نفع تصویریں بنانے سے روکتا ہے اور وہ تصویر بنانے کا حکم دیتا ہے جواِس دُنیا میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے اور آخرت میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے۔
لوگ تصویریں بناتے ہیں تو کیا کرتے ہیں۔ وہ بُرش لے کر کبھی کُتّے کی تصویر بناتے ہیں، کبھی گدھے کی تصویر بناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے کُتّے یا گدھے کی تصویر بنا لی مگر اسلام کہتا ہے اے مسلمانو! تم میں سے ہر شخص رات اور دن، صبح اور شام، بچپن اور جوانی اور بڑھاپے میں عقل اور فہم کا بُرش لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچتا رہے جو ہماری تصویر ہے۔
پس اِس تصویر کو کھینچو اور بار بار کھینچو، یہاں تک کہ تم بھی محمد بن جائو اور چونکہ محمد ہماری تصویر ہے اِس لئے جب تم محمد بنوگے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تم بھی ہمارے قرب میں آ جائو گے۔ پس ہر مسلمان آرٹسٹ ہے، ہر مسلمان مصور ہے مگر وہ اُس قیمتی چیز کی تصویر بناتا ہے جو دنیا کے لئے بھی مفید ہے اور آخرت کیلئے بھی مفید ہے۔ وہ لغو چیزیں نہیں بناتا جن سے بہتر تصویریں نیچر نے پہلے ہی تیار کی ہوئی ہیں۔ ورنہ اسلام ہر مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ جلوۂ الٰہی قلبِ محمد پر پڑ رہا ہے۔ اُس نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لی ہے مگر تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ کے اِس قدر قریب ہونے کی توفیق نہیں ہے۔ اِس لئے تم محمد رسول اللہ کے دل کی تصویر اپنے دلوں پر کھینچو۔ اِس طرح اصل کو دیکھ نہ سکو تو اُس کی تصویر سے تم ایک اور تصویر کھینچ سکو گے۔
غرض تمام انسان محمدی تصویر سے جمالِ الٰہی کی تصویر کھینچنے کے قابل ہیں۔ صرف ہمت کی ضرورت ہے اور کوشش کی ضرورت ہے ورنہ راستہ کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا۔
دوستوں کو ایک قیمتی نصیحت
مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر یہ ملکہ پیدا کریں کہ جب بھی وہ کوئی کام کریں اِس
حیثیت سے نہ کریں کہ مثلاً اللہ دتا یا عبداللہ یا شکراللہ یہ کام کر رہاہے بلکہ جب بھی وہ کوئی کام کرنے لگیں اُس وقت سوچیں اور غور کریں کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا وہ وہی کام کرتے جو مَیں کر رہا ہوں۔ آخر خدا ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے؟ وہ ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور آپ کی عادات کی پوری پوری نقل کریں اور وہی کام کریں جو آپ نے کئے۔
پس ہر کام کے کرتے وقت اپنے دل سے یہ سوال کر لیا کرو کہ مَیں جو کچھ کر رہا ہوں آیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپ کے نمونہ کے مطابق ہے؟ اور اگر اِس وقت میری جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تو کیا وہ یہی کام کرتے؟ پھر تم خود بخود محسوس کروگے کہ تمہارے دل میں اپنے افعال پر کتنی ندامت اور شرمندگی پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص تم سے کوئی بات کہتا ہے اور تم غصہ میں اُسے ماں یا بہن کی گالی دے دیتے ہو۔ اگر گالی دیتے وقت تم یہ سوچو کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا یہ گالی اُن کے منہ سے نکل سکتی تھی، تو یقینا تمہارے دل میں ندامت پیدا ہوگی۔ اُس وقت تمہیں اِس بات کا احساس ہوگا کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں۔ اگر مَیں اِسی حالت میں مر گیا تو قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے متعلق اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ یہ بھی میرے جیسا ہے، اِسے جنت میں داخل کر دیا جائے۔
یا تم دیکھتے ہو کہ ایک شخص بھوکا مَر رہا ہے اور تم اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور چپ کر کے وہاں سے چلے آتے ہو۔ اُس وقت تمہیں سوچنا چاہئے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جگہ ہوتے تو کیا وہ اسی طرح خاموشی سے گزر جاتے اور بھوکے کی کوئی مدد نہ کرتے۔
پس تم اپنی زندگی میں وہ اعمال بجا لائو جن کا نمونہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے سامنے رکھا ہے۔ تمہارے لئے نجات کا سوائے اِس کے اور کوئی ذریعہ نہیں کہ تم اپنے دل پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کھینچو اور اپنے آپ کو اُنہی جیسا بنانے کی کوشش کرو۔ بلکہ تمہارے لئے تو اِس زمانہ میں اور بھی آسانی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ وہ تصویر جو مٹ چکی تھی حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اُس کو دوبارہ روشن کر دیا ہے۔ مِٹی ہوئی تصویر سے نقشہ کھینچنا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر تصویر پر دوبارہ رنگ پھیر دیا جائے تو نقشہ اُتارنے میں کوئی دِقّت پیش نہیں آ سکتی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک زندگی بخش کارنامہ
موجودہ زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جو تصویر دُھندلی پڑ گئی تھی اور لوگوں کو نظر آنی مشکل ہو گئی تھی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسی پر رنگ پھیر کر اُس کو روشن کر دیا ہے۔ پس اگر اب بھی غفلت سے کام لو، اب بھی اس تصویر کو اپنے دل پر اُتارنے کی کوشش نہ کرو، اب بھی اُس کی نقل کرنے میں کوتاہی سے کام لو تو یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ خدا نے ہمارے لئے ایک آسان صورت پیدا کر دی ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے وہ تمام جام جو دوسروں کو پلائے گئے تھے وہ سب بھربھر کر مجھے پلائے گئے ہیں۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل میں جب ہم نے آپ کی تصویر کو دیکھ لیا تو آج ہمارے لئے کوئی بھی بہانہ باقی نہیں رہا۔ آج کوئی بھی خلق ایسا باقی نہیں رہا جس کا نمونہ ہمارے سامنے موجود نہ ہو۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے کھول کھول کر قرآن کریم کے احکام کی وہ تشریحات ہمارے سامنے رکھ دی ہیں جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے۔ پس ہم میں سے ہر شخص کا خواہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، بچہ ہو یا ادھیڑ عمر کا فرض ہے کہ وہ مصور بن جائے اور ایسا کامل مصور بنے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کے مشابہہ تصویر اپنے قلب پر کھینچ لے۔
مَیں نے بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ سے زیادہ شکل جو ممکن ہے خدا سے ملتی ہے۔ پس جب ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنے دل پر کھینچنے کی کوشش کریں گے تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تصویر خدا کی تصویر ہے، اس لئے خدا کی تصویر ہمارے اندر آ جائے گی اور جب خدا کی تصویر ہمارے اندر آجائے گی تو ہمارے لئے کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا، ہمارے سامنے کوئی ٹھوکر کا مقام نہیں آئے گا، ہماری اُمیدیں آپ ہی آپ حاصل ہو جائیں گی۔ خطرات آپ ہی آپ دُور ہو جائیں گے کیونکہ خدا ان سب باتوں سے مستغنی ہے۔ اُسے نہ کوئی خطرہ پیش آ سکتا ہے اور نہ اُس کا کوئی ارادہ پورا ہونے سے رہ سکتا ہے اِسی لئے مومنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جنت میں وہ جو چاہیں گے انہیں حاصل ہو جائے گا۔ ۶۶؎ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے اور اُس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لینے کے نتیجہ میں اُن کے دلوں میں وہی خواہش پیدا ہوگی جو پوری ہونے والی ہوگی۔
عورتوں کو نصیحت
عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ مَیں اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے زیادہ احسان اُن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے
کیونکہ دنیا کے پردہ پر عورتوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم قوم نہ تھی۔ وہ حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھیں اور اُن کو کہیں بھی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں پر بہت بڑااحسان ہے کہ آپ نے اُن کی قدرومنزلت قائم کی اور اُن کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے کی مردوںکو ہدایت کی۔ اِس احسان کی یاد میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن پر کیا ہے اُن کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپ کے اعمال اور اخلاق کی نقل کریں اور اعمال و اخلاق کے یہی نقوش اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ آج کا انسان دراصل مجبور ہوتا ہے اُن اخلاق سے جو نو یا دس سال کی عمر میں اُس کے بنا دیئے جاتے ہیں۔ وہ نو یا دس سال کی عمر تک ماں کی گود میں پلتا اور اُسی سے اخلاق و عادات سیکھتا ہے۔
پس بہترین مصور دنیا میں عورتیں ہو سکتی ہیں جن کی گود میں اُن کے بچے پلتے ہیں اور جو چھوٹی عمر میں ہی اُن کے قلوب پر جو تصویر اُتارنا چاہیں اُتار سکتی ہیں۔ پس تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر کھینچو تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں کسی نئی تصویر کی ضرورت محسوس نہ ہو بلکہ اُن کے بڑے ہونے کے ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تصویر بھی بڑی ہو جائے جو اُن کی مائوں نے اُن کے دلوں پر کھینچی تھی۔
اِس کے ساتھ ہی مَیں بڑوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ جو کوتاہی آپ لوگوں سے اب تک اِس سلسلہ میں ہو چکی ہے اُس کو دُور کرو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ پیش کرو کہ دنیا والوں کو اِس جہان میں اِس کے سِوا اور کوئی چیز نظر ہی نہ آئے۔ جیسے ایک شاعر نے کہا ہے کہ
جِدھر دیکھتا ہوں اُدھر تُو ہی تُو ہے
اِسی طرح ان اخلاق میں ترقی کرتے کرتے ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہم جدھر بھی دیکھیں ہمیں سوائے محمدؐ کے اور کوئی نظر نہ آئے۔ خواہ وہ چھوٹا محمد ہو یا بڑا محمد ہو اور یقینی بات ہے کہ جب اِس دنیا میں ہمیں محمد ہی محمد نظر آنے لگیں گے تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی صفات کی ایک تصویر ہیں اِس لئے دنیا میں توحید کامل پیدا ہو جائے گی اور شرک باقی نہیں رہے گا کیونکہ جہاں خدا ہی خدا ہو وہاں شرک باقی نہیں رہ سکتا۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ۱۹۶۱ء)
۱؎ التوبۃ: ۱۱۱ ۲؎ بنی اسرائیل: ۷۲ ۳؎ النساء: ۴۲
۴؎ النحل: ۹۰ ۵؎ الحج: ۷۹
۶؎ ایلوہ: (ایلوا)۔ ایک نہایت کڑوی دوا
۷؎ تیتریاں: تیتری کی جمع۔ ایک خوبصورت پروں والا کیڑا۔ تتلی۔ بھنبیری
۸؎ بخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب الصلوات الخمس کفارۃ
۹؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
۱۰؎ الانعام: ۸۴تا۹۱ ۱۱؎ الانعام: ۹۳
۱۲؎ مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ۲۱۶ مطبوعہ مصر ۱۳۱۳ھ
۱۳؎ اٰل عمران: ۳۲ ۱۴؎ النساء: ۷۱ ۱۵؎ الجمعۃ: ۴
۱۶؎ دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ۵۶
۱۷؎ درثمین فارسی صفحہ۲۳۸۔ ناشر نظارت اشاعت ربوہ
۱۸؎ بنی اسرائیل: ۷۳ ۱۹؎ القیامۃ: ۲۳،۲۴ ۲۰؎ النجم: ۱۸ تا ۲۱
۲۱؎ تجلیاتِ الٰہیہ صفحہ۲۰ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۴۱۲
۲۲؎ یوسف: ۱۰۹
۲۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۴؎ التوبۃ: ۴۰
۲۵؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب
المہاجرین و فضلھم
۲۶؎ زرقانی شرح مواہب اللدنیۃ جلد۲ صفحہ۱۵ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ
۲۷؎
۲۸؎ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوہ حنین
۲۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۹،۱۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۳۰؎ الاحزاب: ۱۴ ۳۱؎ الاحزاب: ۲۳
۳۲؎ بخاری کتاب الرقاق باب الصبرعن محارم اللّٰہ
۳۳؎ بخاری کتاب الرقاق باب القصدوالمداومۃ علی العمل
۳۴؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وفاتہ
۳۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۹۵ء
۳۶؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قول النبیﷺ سدوالابواب
الا باب ابی بکر
۳۷؎
۳۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۲۶۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۳۹؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اُحد
۴۰؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیﷺ و وفاتہ
۴۱؎
۴۲؎ بخاری کتاب الزکوۃ باب اخذ صدقۃ التمرعندصرام النحل (الخ)
۴۳؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی (الخ)
۴۴؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ اللہب
۴۵؎ بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین من الکبائر
۴۶؎
۴۷؎ بخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبھم
۴۸؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
۴۹؎ السیرۃ الحلبیہ جلد۳ صفحہ۲۳۹ مطبع محمد علی صبیح مصر ۱۹۳۵ء
۵۰؎ بخاری کتاب الوضوء باب صب الماء علی البول فی المسجد
۵۱؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۵۲؎
۵۳؎
۵۴؎
۵۵؎
۵۶؎
۵۷؎ الشعراء: ۴
۵۸؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ النساء باب فکیف اذا جئنا (الخ)
۵۹؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۶۰؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب مایقول اذا رجع من الغزو
۶۱؎ ترمذی کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق المرأۃ علی زوجہا
۶۲،۶۳؎ طبقات ابن سعد جلد۲ صفحہ۳۵۸،۳۵۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
۶۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۶۵؎ لَھُمْ فِیْھَا مَایَشَائُ وْنَ (النحل: ۳۲)


دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

دعویٰ مصلح موعود کے متعلق پُرشوکت اعلان
(تقریر فرمودہ ۲۰ ؍فروری ۱۹۴۴ء بمقام ہوشیارپور)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں جو کچھ کہنا چاہتاہوںاِس سے پہلے کچھ قرآنی اَدعیہ پڑھوں گا۔ ہماری جماعت کے احباب آہستہ آہستہ اپنے منہ میں یعنی زیادہ بلند آواز سے نہیںبلکہ آہستگی سے میرے ساتھ وہ دعائیں پڑھتے جائیں۔
۱۔


۔۱؎
۲۔ ۔۲؎
۳۔
۔۳؎
۴۔ ۔ ۴؎
۵۔ ۵؎
۶۔
۔۶؎
۷۔
۔۷؎
۸۔
۔۸؎
یہ اللہ تعالیٰ کی وہ دعائیں ہیں جن میں انبیاء اور ان کی ابتدائی جماعتوں کے لئے خدا نے ایک طریقِ راہ بیان فرمایا ہے۔ اِس کے بعد میں قرآنی الفاظ میں ہی اپنے ربّ کو مخاطب کر کے اُس کے حضور نذرِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ دوست بھی اِن الفاظ کو دُہراتے جائیں۔
۔۹؎
جیسا کہ آپ لوگوں نے سنا ہے آج سے پورے ۵۸ سال پہلے جس کو آج ۵۹ واں سال شروع ہو رہا ہے ۲۰ ؍فروری کے دن ۱۸۸۶ء میں اِس شہر ہوشیارپور میں اِس مکان میں جو کہ میری انگلی کے سامنے ہے ایک ایسے مکان میں جو اُس وقت طویلہ کہلاتا تھا جس کے معنی یہ ہیںکہ وہ رہائش کا اصلی مقام نہیں تھا بلکہ ایک رئیس کے زائد مکانوں میں سے وہ ایک مکان تھا جس میں شاید اتفاقی طور پر کوئی مہمان ٹھہر جاتا ہو یا وہاں انہوں نے سٹور بنا رکھا ہو یا حسبِ ضرورت جانور باندھے جاتے ہوں، قادیان کا ایک گمنام شخص جس کو خود قادیان کے لوگ بھی پوری طرح نہیں جانتے تھے، لوگوں کی اِس مخالفت کو دیکھ کر جو اسلام اور بانی اسلام سے وہ رکھتے تھے اپنے خدا کے حضور علیحدگی میں عبادت کرنے اور اُس کی نصرت اور تائید کانشان طلب کرنے کے لئے آیا اور چالیس دن لوگوں سے علیحدہ رہ کر اُس نے اپنے خدا سے دعائیں مانگیں۔ چالیس دن کی دعاؤں کے بعد خدا نے اُس کو ایک نشان دیا۔ وہ نشان یہ تھا کہ مَیں نہ صرف اِن وعدوں کو جو میں نے تمہارے ساتھ کئے ہیں پورا کروں گا اور تمہارے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا بلکہ اِس وعدہ کو زیادہ شان کے ساتھ پورا کرنے کے لئے مَیں تمہیں ایک بیٹا دوں گا جو بعض خاص صفات سے متّصف ہو گا۔ وہ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، کلامِ الٰہی کے معارف لوگوں کو سمجھائے گا، رحمت اور فضل کا نشان ہو گا اور وہ دینی اور دُنیوی علوم جو اسلام کی اشاعت کے لئے ضروری ہیں اُسے عطا کئے جائیں گے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ اُس کو لمبی عمر عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
یہ اعلان بانی سلسلہ احمدیہ نے یہاں سے کیا اور اُس وقت کیا جبکہ وہ ابھی بانی سلسلہ نہیں تھے اور جماعت احمدیہ کی ابھی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی۔ قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی اور اَب بھی وہ ہوشیارپور سے ایک تہائی ہے۔ ہوشیار پور کی آبادی چالیس ہزارہے اور قادیان کی آبادی چودہ پندرہ ہزار لیکن جس وقت وہ یہاں آئے ہیں اُس وقت قادیان کی آبادی ۱۸ سَو کس کی تھی اور دُنیوی وجاہت کا جہاں تک تعلق ہے اِس کے لحاظ سے آپ کو کسی قسم کی عزت حاصل نہیں تھی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کا خاندان ایک معزز زمیندار خاندان تھا اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلطنت مغلیہ کے عہد میں اِس خاندان کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے عہد میں بھی اِس خاندان کے بعض افراد کو معزز عہدے حاصل رہے ہیں لیکن اِس زمانہ میں یہ خاندان اپنی قدیم عزت کو کھو چکا تھا اور بعض وجوہ سے اِس کی جائداد کا اکثر حصہ ضبط ہو چکا تھا۔ پس اِس زمانہ میں دُنیوی لحاظ سے اِس کی حیثیت ایک معمولی زمیندار کی سی تھی اور پھر اِن کو اپنی عزت بڑھانے کا کوئی شوق بھی نہیں تھا۔ باپ نے انہیں بار بار توجہ دلائی کہ وہ مستقل طور پر کوئی ملازمت اختیار کر لیں مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ایسا شخص اُس زمانہ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو پھیلائے گا اور پھر میرے کام کو لمبا کرنے کے لئے مجھے ایک خاص بیٹا عطا فرمائے گا کیونکہ یہ زمانہ بہت بڑے مفاسد کاہے اور اِن مفاسد کی اصلاح کے لئے ایک لمبے عرصہ کی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اَب وہ زمانہ نہیں رہا جبکہ جنگ اور قتال سے فیصلہ ہو جاتا تھا بلکہ اَب دلائل اور لمبی بحثوں کے بعد فیصلہ ہوتا ہے اور یہ کام ایک طویل عرصہ چاہتا ہے۔ پس چونکہ موجودہ زمانہ کی اصلاح ایک لمبے عرصہ کی متقضی تھی اِس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ وہ آپ کو ایک بیٹا عطا فرمائے گا اور جیسا کہ بعض دوسری خبروں میں اِس کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ لڑکا ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا، تمہارا جانشین ہو گا اور اِن صفات سے متّصف ہو گا۔
یہ خبر ایسی زبردست ہے کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں دیانت کا مادہ رکھتا ہو اِس کے پورے ہونے سے انکار نہیں کر سکتا اور اُسے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے ہی تھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں تھاکہ وہ ایسی خبر دے سکتا۔
اوّل تو کوئی کہہ نہیں سکتا کہ وہ خود بھی زندہ رہے گا یا نہیں۔ پھر اگر وہ زندہ بھی رہے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اِس کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا۔ پھر اگر بیٹا پیدا ہو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضرور زندہ رہے گا اور لمبی عمر پائے گا۔ پھر اگر وہ خود بھی زندہ رہے اور اُس کا بیٹا بھی زندہ رہے تو کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ کسی زمانہ میں اُسے اتنی عزت حاصل ہو جائے گی کہ اُس کے جانشین مقرر ہوا کریں گے۔ پھر اگر کسی کو ایسی عزت مل بھی جائے کہ اُس کے جانشین مقرر ہوا کریں تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اُس کا بیٹا ضرور جانشین ہو گا۔ پھر اگر کسی کا بیٹا جانشین بھی ہو جائے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت حاصل کریں گی۔ غرض اِس پیشگوئی پر جس قدر غور کیا جائے اُتنی ہی اِس کی عظمت اور اہمیت ظاہر ہوتی ہے اور انسان کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کو پورا کرنا کسی انسان کی طاقت میں ہرگز نہیں تھا۔
کون شخص ہے جو کہہ سکے کہ میں اتنا عرصہ ضرور زندہ رہوں گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ وہ بیٹا ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ کسی زمانہ میں مَیں اتنی عظمت حاصل کر لوں گا کہ دنیا میں میرے جانشین مقرر ہوا کریں گے۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرا بیٹا ایک زمانے میں میرا خلیفہ اور جانشین ہوگا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ میرے بیٹے کے زمانہ میںاسلام سارے جہان میں پھیل جائے گا اور اِس کے دنیا پر غالب آ جانے کے سامان پیدا ہو جائیں گے۔ یہ اتنے نشان ایک پیشگوئی میں جمع ہیں کہ کسی انسان میں طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کر سکتا اور پھر دنیا میں اعلان کر کے کہہ سکتا کہ یہ پیشگوئی ایک دن ضرور پوری ہوگیلیکن یہ پیشگوئی جو آج سے اٹھاون سال پہلے کی گئی تھی پوری ہوئی اور بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی۔
۱۸۸۶ء میں جب بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ پیشگوئی شائع کی اُس وقت آپ کا کوئی مرید نہ تھا۔ آپ کی حیثیت ایک فردِ واحد کی سی تھی۔ اِس کے بعد ۱۸۸۷ء میں آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو ۱۸۸۸ء میں فوت ہو گیا۔ آپ نے اُس لڑکے کے متعلق کسی ایک جگہ بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ وہی لڑکا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت حاصل کریں گی لیکن اُس لڑکے کے فوت ہونے پر لوگوں نے شور مچا دیا کہ جس لڑکے کے متعلق اتنے بڑے دعوے کئے گئے تھے، وہ زندہ ہی نہ رہا اور آخر یہ شور اتنا بڑھا کہ وہ جو آپ کے ساتھی تھے اُن میں سے بھی بعض اُس وقت آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ لوگ آپ کے مرید نہ تھے صرف آپ سے ملنے والے اور آپ سے حسنِ عقیدت رکھنے والے تھے لیکن اِس لڑکے کی وفات پر اُن کو بھی ابتلاء آ گیا اور وہ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ایسے نازک حالات میں جب لوگوں کے لئے ایک ابتلاء کی سی حالت تھی اور جب اپنے بھی آپ کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تو لوگوں سے بیعت لے اور ایک سلسلۂ روحانی قائم کر۔ لوگ ایسے ابتلاؤں کے وقت اِس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ اُن کے ہوش بھی ٹھکانے نہیں رہتے مگر چونکہ وہ موعود تھا اِس لئے جب لوگ ہنس رہے تھے کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی ایسے خطرات اور انکار کے زمانہ میں اُس نے احمدیت کی بنیاد رکھی اور لوگوں سے بیعت لینے کا اعلان فرما دیا۔ یہ اعلان آپ نے ۱۸۸۸ء کے آخر میں فرمایا اور ۱۸۸۹ء میں پیشگوئی کے مطابق آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے تفاؤل کے طور پر (کیونکہ آپ نے لکھا کہ ابھی مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا کوئی اَور ہے) محمود رکھا کیونکہ اُس بیٹے کا ایک نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے محمود بتایا گیا تھا اور چونکہ الہام میں اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اس لئے اُس کا پورا نام بشیرالدین محمود احمد رکھا گیا۔ خدا کی قدرت ہے اتفاقاً اِس لڑکے کی جو کھلائی مقرر کی گئی وہ شدید امراض میں مبتلا تھی۔ ایسے شدید امراض میں کہ اِس کے سات آٹھ بلکہ نو بچے کچھ بچپن میں اور کچھ بڑے ہو کر سِل اور دِق سے مر گئے تھے۔ اُس عورت نے بغیر اِس کے کہ لڑکے کے والدین سے اجازت حاصل کرتی اِس کو دودھ پلادیا۔ عموماً اِس قسم کی عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں چلی جاتی ہیں اور اِس وجہ سے کہ بچہ انہیں جلدی واپس نہ لانا پڑے اُسے دودھ پلا دیتی ہیں۔ اِس عورت نے بھی بغیر اجازت کے اِس لڑکے کو دودھ پلا دیا اور اِس طرح دِق اور سلِ اور خنازیر کے جراثیم اِس بچے کے اندر چلے گئے۔ چنانچہ جب وہ دو سال کا ہوا تو پہلے اُسے کھانسی ہوئی اور پھر وہ شدید خنازیر میں مبتلا ہو گیا اور کئی سال تک مدقوق و مسلول رہا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے ذریعہ ایک بہت بڑا نشان ظاہر کرنا تھا، اِس لئے خدا نے اُس کو بچا لیا۔ لیکن خنازیر کا مرض برابر اُسے رہا بلکہ بعض دفعہ خنازیر کی گلٹیاں پھول کر گیند کے برابر برابر ہو جاتیں اور مسلسل بارہ تیرہ سال تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ ڈاکٹر اور طبیب مختلف اَدویہ کی اُسے مالش کراتے اور کھانے کے لئے بھی کئی قسم کی دوائیں دیتے۔ جب وہ لڑکا جوان ہوا تو اِس بیماری نے دوسری شکل اختیار کر لی اور اُسے سات آٹھ مہینے متواتر بخار آتا رہا۔ اطباء کہتے تھے کہ اِس کا بچنا مخدوش ہے اور اَب شاید ہی یہ جان بر ہو سکے اِس وجہ سے وہ مدرسے میں بھی پڑھ نہیں سکتا تھا۔ جب وہ مدرسے میں جاتا تو چونکہ اُس کی آنکھوں میں ککرے بھی تھے اِس لئے وہ بورڈ کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر دیکھتا تو اُس کے سر میں درد شروع ہو جاتا اِس وجہ سے وہ پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اُس کے اُستادوں نے بانی سلسلہ سے شکایت کی کہ یہ لڑکا پڑھتا نہیں۔ انہوں نے کہا یہ بیمار ہے اِس پر زیادہ زور نہ دو۔ مدرسے میں آتا رہے اور کوئی لفظ اِس کے کان میں پڑ جائے اتنا ہی کافی ہے زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ اُس نے سکول کا کوئی امتحان پاس نہ کیا۔ پرائمری میں شاید پاس ہوا ہو تو ہوا ہو اور غالباً وہ پرائمری میں بھی پاس نہیں ہوا لیکن مڈل میں وہ یقینا فیل ہوا اور انٹرنس میں بھی یقینا فیل ہوا۔ جب وہ انٹرنس میں پڑھتا تھا تو اُس کی لیاقت کا یہ حال تھا کہ امتحان پر جانے سے پہلے اُس نے گھر کا امتحان دیاتو TWO جو انگریزی کا ایک معمولی سا لفظ ہے اِس کو اُس نے TOW لکھ دیا اور اُستاد نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا لفظ ہے؟ میں تو اِسے نہیں جانتا یہ اُس کی تعلیم کا حال تھا۔ پھر جب بانی سلسلہ احمدیہ فوت ہوئے تو جماعت کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ اِن کا بھی ایک خلیفہ مقرر ہونا چاہئے جیسے اسلام کی سنت ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مقرر کر دیا اور لوگوں نے سمجھا کہ وہ پیشگوئی جو ایک لڑکے کے جانشین ہونے کے متعلق تھی وہ غلط ثابت ہوئی اور خلیفہ کوئی اور شخص بن گیا۔ اِس کے بعد جماعت میں تفرقہ پیدا ہوا۔ صدرانجمن احمدیہ جو مرکزی مجلس تھی اِس کا اکثر حصہ کسی بات میں دوسرے لوگوں سے لڑ پڑا۔ زیادہ جھگڑا یہ تھا کہ یہ نوجوان کہیں بانی سلسلہ احمدیہ کا جانشین نہ بن جائے اور انہوں نے سر سے پیر تک اُس کی مخالفت میں زور لگایا۔ یہ لوگ بڑے مشہور لیکچرار تھے اور دُور دُور تک اِن کا نام پہنچا ہواتھا۔ اِن میں سے ایک کا نام غالباً آپ نے سُنا ہو گا ـ خواجہ کمال الدین صاحب تھا۔ وہ جہاں جاتے اِن کے لیکچر مشہور ہو جاتے۔ انگلستان میں بھی وہ مبلّغ رہے ہیں اور ٹرکی، مصر اور افریقہ کے علاقہ میں بھی وہ پھرے اور انہیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ دوسرے مولوی محمد علی صاحب تھے یہ اُن دنوں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کیا کرتے تھے اور اِس وجہ سے بہت مشہور تھے۔ اِسی طرح ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، یہ سب اِس لڑکے کے مخالف ہو گئے او رچونکہ یہ صدرانجمن احمدیہ کے بھی ممبر تھے اِس لئے انہوں نے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دَورے کرنے شروع کر دیئے تاکہ جماعت میں اِس لڑکے کے خلاف شورش پیدا ہو جائے اور تا ایسا نہ ہو کہ یہ لڑکا خلیفہ بن جائے۔ گویا اگر اِس لڑکے کے متعلق کوئی پیشگوئی پوری ہونی تھی تو دنیا نے پورا زور لگایا کہ وہ پیشگوئی پوری نہ ہو۔ اگر وہ لڑکا چپ کر کے خلیفہ ہو جاتا جیسے پیروں میں طریق ہوتا ہے کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین بنتا ہے تو لوگ کہتے مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی اتفاقی طور پر پوری ہوئی ہے۔ چونکہ پیروں میں قاعدہ ہے کہ بڑا مر جائے تو بیٹا خلیفہ بنتا ہے اِس لئے مرزا صاحب کی وفات کے بعد اِن کا بیٹا جانشین بن گیا اِس میں عجیب بات کون سی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب کو خلیفہ مقرر کیا اور اِس طرح وہ سوال اُٹھ گیا کہ یہ جانشینی پیروں کے عام دستور کے مطابق ہوئی ہے۔ پھر اگر حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وفات کے بعد وہ لڑکا بغیر مخالفت کے خلیفہ بن جاتا تو بھی لوگ کہہ سکتے تھے کہ چونکہ اِس لڑکے کے والد صاحب کی بزرگی کا احساس جماعت میں قائم تھا اِس لئے انہوں نے اِس بزرگی کا احساس کرتے ہوئے اِن کے لڑکے کو خلیفہ بنا لیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دیئے کہ جماعت کے تمام سرکردہ لوگ اُس لڑکے کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اِس قدر شدید مخالفت کی کہ ساری جماعت میں ایک آگ سی لگا دی اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو جائے یہ لڑکا خلیفہ نہ ہو بلکہ غصہ میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جماعت کا کوئی خلیفہ ہونا ہی نہیں چاہئے۔ لیکن جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے اور جماعت آپ کی وفات پر جمع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے جس کا یہ فیصلہ تھا کہ یہ پیشگوئی ضرور پوری ہو ایسے سامان کر دیئے کہ اِن لوگوں نے اِس ڈر سے کہ کہیں جماعت اُس لڑکے کو ہی خلیفہ نہ بنا لے، جماعت کے ایمان کے خلاف یہ کہنا شروع کر دیا کہ خلافت ہی نہیں ہونی چاہئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب اِن کے یہ خیالات جماعت کے سامنے آئے تو لوگوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ یہ کہتے کہ فلاں خلیفہ نہ ہو بلکہ فلاں ہو تو اور بات تھی مگر اَب تو یہ کہتے ہیں کہ خلافت کا سلسلہ ہی جاری نہیں رہنا چاہئے اور یہ بات ہمارے اصول کے خلاف ہے اِسے ہم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ اُس وقت جماعت نے اِس لڑکے کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اِس طرح وہ پیشگوئی جو حضرت مرزا صاحب نے ہوشیارپور سے شائع کی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہو گااور وہ میرا جانشین ہو گا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی۔
آپ لوگ جانتے ہیں مَیں اِس وقت کس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں وہ لڑکا مَیں ہی ہوں جو بارہ تیرہ سال تک خنازیر کے مرض میں مبتلا رہا۔ میں ہی وہ ہوں جو مہینوںنہیں سالوں مدقوق و مسلول لوگوں کی طرح بیمار رہا جیسے ہماری زبان میں بعض لوگوں کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ وہ ہینگ ہگتے ۱۰؎ ہیں۔ میں ہی وہ ہوں جو نہایت کمزور، دُبلا اور نحیف تھا۔ پھر میں ہی وہ ہوں جس کی آنکھوں میں تیرہ چودہ سال کی عمر میں شدید ککرے ہوگئے اور میں پڑھائی کے ناقابل ہوگیا یہاں تک کہ میں بورڈ کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں ہی وہ ہوں مڈل میں بھی فیل ہوا اور انٹرنس میں بھی۔ اور میں ہی وہ ہوں جسے انگریزی کا ایک معمولی لفظ Twoبھی نہیں لکھنا آتا تھا اور جس نے Two کی بجائے Towلکھ دیا۔ پھر میں ہی وہ ہوں جس کے خلاف جماعت کے بڑے بڑے لوگ کھڑے ہوگئے۔ تمام محکموں پر ان کا قبضہ تھا، مدرسہ ان کے پاس تھا، لنگر ان کے پاس تھا ،ریویو ان کے پاس تھا، جماعت کا انتظام ان کے ہاتھوں میں تھا، خزانہ ان کے پاس تھااور مختلف عُہدے ان کو حاصل تھے۔ پھر میں ہی وہ ہوں جو اپنا بھی مخالف تھاچنانچہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ آپ خلافت کا انکار نہ کریں کسی ایک شخص کا نام پیش کر دیں میں سب سے پہلے اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوںمگر باوجود اِس کے کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کو یہ کہا کہ آپ کسی کا نام پیش کر یں میں اُس کی بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں چونکہ خدا کا منشایہ تھا کہ اِس شہر میں اُس نے جو الہامات نازل فرمائے تھے اُن کو پورا کرے اور دنیا کو اپنی قدرت کا نشان دکھائے اِس لئے ان کی عقل پر ایسے پتھر پڑگئے کہ انہوں نے میری اِس بات کو تسلیم نہ کیا اور چونکہ جماعت اِس بات پرمُصِرّ تھی کہ کسی شخص کو خلیفہ ضرور بنایا جائے اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی بات کو کسی نے نہ مانا اور جماعت نے مجھے اپناخلیفہ بنا لیا۔
میں بتا چکا ہوں کہ میں تعلیم سے بچپن سے ہی کورا ہوںوہ سمجھتے تھے کہ ایسا آدمی جب ایک علمی جماعت کا امام بنے گا تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور اِس میں کیا شبہ ہے کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے اس بات کا امکان ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اُس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جو ایک کامیاب ڈاکٹر تھے، انہوں نے باہر نکل کر ہمارے مدرسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا آج ہم تو جارہے ہیں کیونکہ جماعت نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیںکیالیکن تم تھوڑے ہی دنوں تک دیکھو گے کہ اِس مدرسہ پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور تمام عمارت ان کے پاس چلی جائے گی۔یہ اُس وقت کہا گیا تھا جب ہمارے سالانہ جلسہ پر دو اَڑھائی ہزار آدمی آیا کرتے تھے اور اُس وقت کہا گیا تھا جب خزانہ میں صرف گیارہ بارہ آنے کے پیسے تھے اور ستر ہ اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا۔ یہ لوگ جو بڑے بڑے مالدار تھے اورجماعت میں عزت اور وقار رکھتے تھے انہوں نے سمجھا کہ جب ہم قادیان کو چھوڑ کر چلے جائیں گے تو جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اُس وقت میر ی عمر پچیس سال کی تھی اور میری ساری عمر بیماریوں میں گزر گئی تھی ۔ میںنے دینی یا دُنیوی تعلیم کسی مدرسہ میں حاصل نہیں کی تھی اور میرے مقابلہ میں جو لوگ کھڑے تھے وہ قوم کے لیڈر، سردار اور معزز تھے، پس دُینوی لحاظ سے یہی خیال کیا جا سکتا تھا کہ وہ قوم ڈوب جائے گی جسے ایسا راہنمااور سردا ر ملا ہو لیکن جس وقت اُنہوں نے یہ کہا کہ اِس مدرسہ پر عیسائی قابض ہو جائیں گے اور تمام عمارتیں اُن کے پاس چلی جائیں گی اور جس وقت انہوں نے یہ کہا کہ اب قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اُس وقت میں اپنے گھر میں گیا اور میںنے اپنے خدا سے یہ دعا کی کہ خدایا! میں اِس عُہدے کے لئے کبھی متمنی نہیں ہوا ، میں نے کبھی تجھ سے نہیں چاہا کہ تو مجھے خلیفہ مقرر کر دے ۔اب جب کہ تو نے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور تو نے خود مجھے اس کام کے لئے چُنا ہے تو اے میرے ربّ! تو مجھے طاقت بھی دے جس سے میں ان صنادید کا مقابلہ کرسکوں ورنہ میرے اندر اِن کا مقابلہ کرنے کی قطعاً طاقت نہیں۔ اِن میں سے بعض میرے اُستاد ہیں اور باقی ایسے ہیں جن کا انجمن کے مال اور محکموں پر قبضہ ہے اُس وقت ہمارے اندر اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ اگر یہ لوگ ہمیں کہتے مسجد سے نکل جائو تو ہم اپنی مسجد میں بھی ٹھہر سکتے۔ غرض میں نے خدا سے یہ دعا کی۔ رات کو جب مَیں لیٹا تو مجھے الہام ہوا۔
’’کون ہے جو خدا کے کا م کو روک سکے‘‘
اور چونکہ اِن لوگوں نے کہا تھا کہ جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور آج سے وہ تباہی و بربادی کے راستہ پر چل پڑے گی اِس لئے خدا نے مجھے الہام کیا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ اے محمود! یہ لوگ جو اپنے علم اور اپنی طاقت اور اپنے جتھے اور اپنی دولت کے دعوے کر رہے ہیں ہم ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔چنانچہ میں نے اُسی وقت اس مضمون کا ایک اشتہار شائع کر دیا وہ اشتہار آج تک موجود ہے غیر بھی گواہی دے سکتے ہیں اور اپنے بھی کہ اُس میں جو کچھ لکھا گیا تھا وہ کس شان سے پورا ہوا۔ میں نے اُس اشتہار کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا تھا کہ
’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘
پھر میں نے کہا تھا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ وہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
اُس وقت ہماری جماعت کا ۹۵ فیصدی حصہ ان کے ساتھ تھا اور پانچ فیصدی ہمارے ساتھ تھا اور وہ لوگ فخر کے ساتھ اِس بات کو شائع کرتے تھے کہ ہم وہ ہیں جن کے ساتھ جماعت کی اکثریت ہے اور یہ بات ہمارے حق پر ہونے کا کُھلا ثبوت ہے۔ـلیکن ابھی تین ہفتے اِس الہام پر نہیں گزرے تھے کہ جماعت کے ۹۵فی صدی حصہ نے میری بیعت کر لی اور پانچ فیصد ان کے ساتھ رہ گئے۔یہ خدا کا وہ نشان ہے جو اُس نے پورا کیا اور جس میں بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ خبر دی تھی کہ میرا ایک بیٹاہوگا جو میرا خلیفہ ہوگا اور خدا اُس کی تائید کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر میری تائید اور نصرت کرنی شروع کر دی۔
میں نے بتایا ہے کہ میں نے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا کہ مجھے اُس کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا کیا گیاہے اور چونکہ قرآن کریم کے علم میں دنیا کے سارے علوم شامل ہیںاس لئے اس کے بعد جماعت اور اسلام کے لئے مجھے جس علم کی بھی ضرورت محسوس ہوئی وہ خدا نے مجھے سکھا دیا ۔ چنانچہ آج میں دعوے کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں بلکہ آج سے نہیں بیس پچیس سال سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ دنیاکا کوئی فلاسفر، دنیا کا کوئی پروفیسر، دنیا کا کوئی ایم ۔اے، خواہ وہ ولایت کا پاس شدہ ہی کیوں نہ ہواور خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا ہو، خواہ وہ فلسفہ کا ماہر ہو، خواہ وہ منطق کا ماہر ہو، خواہ وہ علم النفس کا ماہر ہو، خواہ وہ سائنس کا ماہر ہو، خواہ دہ دنیا کے کسی علم کا ماہر ہو میرے سامنے اگر قرآن اور اسلام پر کوئی اعتراض کرے تو نہ صرف مَیں اُس کے اعترا ض کا جواب دے سکتا ہوں بلکہ خدا کے فضل سے اُس کا ناطقہ بند کر سکتا ہوں۔ دنیا کا کوئی علم نہیں جس کے متعلق خدا نے مجھ کو معلومات نہ بخشی ہوںاور اِس قدر صحیح علم جو اپنی زندگی درست رکھنے یا قوم کی راہنمائی کے لئے ضروری ہو مجھ کو نہ دیا گیا ہو۔
پھر اِس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے فوراً مجھے ہمت بخشی اور میں نے دنیا کے مختلف اطراف میں اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کے لئے مشن قائم کر دیئے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے اُس وقت صرف ہندوستا ن اور کسی قدر افغانستان میں جماعت احمدیہ قائم تھی باقی کسی جگہ احمدیہ مشن قائم نہیں تھا۔ مگرجیسا کہ خدا نے پیشگوئی میں بتایا تھا ’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘۔۱۱؎ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔ چنانچہ میں نے اپنی خلافت کے ابتدا میں ہی انگلستان ،سیلون اور ماریشس میں احمدیہ مشن قائم کئے ۔پھر یہ سلسلہ بڑھا اور بڑھتاچلا گیاچنانچہ ایران میں ،روس میں،عراق میں، مصرمیں، شام میں،فلسطین میں،لیگوس نائیجیریا میں، گولڈ کوسٹ میں،سیرالیون میں ،ایسٹ افریقہ میں، یورپ میں سے انگلستان کے علاوہ سپین میں،اٹلی میں ،زیکوسلواکیہ میں، ہنگری میں، پولینڈ میں یوگوسلاویہ میں، البانیہ میں ،جرمنی میں، یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ میں ، ارجنٹائن میں،چین میں، جاپان میں ، ملایا میں ،سٹریٹ سیٹلمنٹس ۱۲؎ میں،سماٹرامیں، جاوا میں، سروبایامیں، کاشغر میں خدا کے فضل سے مشن قائم ہوئے۔ ان میں سے بعض مبلّغ اِس وقت دشمن کے ہاتھ میں قید ہیں، بعض کام کر رہے ہیں اور بعض مشن جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر بند کر دیئے گئے ہیں غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آرہا ہے۔ حکومتیں اِس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اِس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔چنانچہ روس میں جب ہمارا مبلّغ گیا تو اُسے سخت تکلیفیں دی گئیں۔ اُسے مارا بھی گیا،پیٹا گیا اور ایک لمبے عرصہ تک قید رکھاگیا لیکن چونکہ خدا کا وعدہ تھا کہ وہ اس سلسلہ کو پھیلائے گا اور میرے ذریعہ اس کو دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا اس لئے اُس نے اپنے فضل وکرم سے ان تمام مقامات میں احمدیت کو پہنچایا بلکہ بعض مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم کر دیں۔ بہرحال جب اِس قسم کی علامتیں ظاہر ہوئیں تو جماعت نے کہا کہ وہ پیشگوئی جس کی خبر شیخ مہر علی صاحب کے طویلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی گئی تھی وہ پوری ہوگئی مگر مَیں نے ہمیشہ اِس کو قبول کرنے سے احتراز کیا اور مَیں نے یہ کبھی دعویٰ نہ کیا کہ میں اِس پیشگوئی کا مصداق ہوں ۔ میں نے اپنے دل میں کہا جو خدا کا کلام ہے جب تک خدا اِس کے متعلق یہ تصدیق نہ کرے کہ یہ میرے ذریعہ سے پورا ہو چکا ہے اُس وقت تک بولنا میرے لئے مناسب نہیں ہے۔ مجھے کیا خبر ہے کہ میں اِس پیشگوئی کا مصداق ہوں یا نہیںہوں؟اگر میں اس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہوں تو کیوں میں ایک غلط بات کہوںاور اگر میں اِس کا مصداق ہوں تو جس خدا نے یہ پیشگوئی فرمائی ہے اُس کا یہ کام ہے کہ وہ مجھے خبر دے کہ میں اِس کا مصداق ہوں۔ پس گو جماعت نے متواتر اصرار کیا کہ میں اِس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قراردوں مگر میں نے کبھی اس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق قرار نہ دیا اور جب بھی یہ پیشگوئی میرے سامنے آتی میں اِس پر سے خاموشی کے ساتھ گزر جاتا۔ اِس عرصہ میں دشمن نے چیلنج بھی کئے کہ اگر یہ شخص اس پیشگوئی کا مصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں ۔مگر میں نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ خدا پر تقدم تقویٰ کے خلاف ہے۔ پس میں خاموش رہا اور باوجود جماعت کے اصرار اور دشمنوں کے چیلنج کے میں نے کبھی اِس کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ یہاں تک کہ تیس سال کا لمبا عرصہ اِس پر گزر گیا اور یہ مضمون قریباً ٹھنڈا ہو گیا۔ دوستوں نے زور لگایا کہ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کروں مگر میں خاموش رہا۔ دشمنوںنے کہا کہ اگر یہ اِس پیشگوئی کامصداق ہے تو بولتا کیوں نہیں؟ مگر میں نہ بولا۔
جب موافق اور مخالف سب اس مضمون پر بحثیںکر کر کے تھک گئے تو اِس سال کے شروع میں ۵،۶؍ جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی رات کو میں نے ایک رؤیا دیکھا۔رؤیا کی حالت میں دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ پر ہوں جہاں دشمن کی فوج کے ساتھ جنگ ہو رہی ہے ۔وہاں کھڑے ہو کر میں کچھ لو گوں سے باتیں کر رہا ہوں کہ یکدم مجھے ایسا محسوس ہواجیسے جرمن فوج نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے جہاں میں ہوں اور ایسی شدت سے حملہ کیا ہے کہ جس فوج کے پاس میں تھا اُس نے شکست کھانی شروع کر دی۔ میں یہ دیکھ کر خواب میں خیال کرتا ہوں کہ اب یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں مجھے بھاگ کر کہیں اور چلے جانا چاہئے۔ چنانچہ میں اُس مقام سے باہر نکلا مگر جونہی باہر آیا معاً میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کسی سابق پیشگوئی کے ماتحت مَیں اِس مقام سے بھاگنے کے لئے نکلا ہوں اور اب میرا آئندہ سفر اِس پیشگوئی کے مطابق ہو گا۔چنانچہ میں نے دَوڑنا شروع کر دیا۔ رؤیا میں مَیں محسوس کرتاہوں کہ میں اس تیزی سے دَوڑ رہاہوں کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے اور میں میلوں میل ایک آن میں طے کرتا جا رہا ہوں۔میری اُس تیزی کا اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جتنی دیر میں کوئی شخص گز بھر چلتا ہے میں خواب میںاتنی دیر میں پچاس ساٹھ میل بڑھ جاتا ہوں۔ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیںاور میرے ساتھیوں کو بھی گو قدرت کی طرف سے دَوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی تھی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ گئے یہاں تک کہ میںدَوڑتے دَوڑتے ایک پہاڑی دامن میں جا پہنچا۔وہاں مختلف رستے مجھے دکھائی دئیے کوئی کسی طرف جاتا تھا اور کوئی کسی طرف۔ میں ان رستوں کے بالمقابل دَوڑتا چلا گیاتا میں معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق میں نے کونسا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اُس وقت میں ایک ایسی سٹرک کی طرف جارہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اِس پر میرا ایک ساتھی مجھے آوازدے کر کہتاہے کہ اِس سٹرک پر نہیں دوسری سٹرک پر جاؤں۔ جب میں اس کے کہنے کے مطابق اُس سڑک کی طرف جو انتہائی دائیں طرف تھی واپس لوٹتا ہوں تو خدا تعالیٰ کی قدرت کے زبردست ہاتھ نے مجھے پکڑ کر ایک درمیانی راستہ پر چلا دیا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلاجاتا ہے کہ اِس طرف آئیں اُس طرف نہ جائیں مگر مَیں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں اور اُسی راستے پر دَوڑتا چلا جاتا ہوں اور یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ رستہ اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا منشا ہے۔ غرض میں اُس رستے پر چلتا چلا جاتاہوں۔ اِسی دوران مجھے خیال آیا کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی کی گئی تھی اس میں یہ بھی ذکر تھا کہ اس کے بعد ایک جھیل آئے گی وہ جھیل کہاں ہے؟ جب مجھے یہ خیال آیا تو یکدم میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے ایک جھیل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے لئے اِس جھیل کو پار کرنا ضروری ہے ۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ جھیل پر کچھ کشتی نما چیزیں تیر رہی ہیں جن پر بعض لوگ سوار ہیں۔خواب میں مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ لوگ جن پر سوارہیں ان کے بُت ہیں اور اُس وقت یہ لوگ اپنے سالانہ تہوار پر بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے جب اُس جھیل کو عبور کرنے کا اور کوئی طریق نہ دیکھا تو جھٹ کود کر ایک بُت پر سوار ہوا تو اِردگرد کے لوگوںنے ایسے کلمات کہنے شروع کر دیئے جن سے ان کے بتوں کی عظمت ظاہر ہوتی تھی۔ میں نے اُس وقت اپنے دل میں کہا کہ میرا اِس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے۔چنانچہ میں نے توحید کی دعوت اُن لوگو ں کو دینی شروع کی اور بڑے زور سے میں نے شرک کی بُرائیاں بیان کیں۔اُس وقت خواب میں مَیں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے اور عربی میں ہی مَیں اُنہیں توحید کی تعلیم دے رہا ہوں ۔اتنے میں مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میری اِس تقریر سے متأثر ہو کر بعض مجاوروں کے دلوں میں توحید پر ایمان پیداہونا شروع ہوا اور وہ یکے بعد دیگرے مجھ پر ایمان لاتے چلے گئے مگر میں نے اپنی تبلیغ جاری رکھی یہاں تک کہ میں نے اُن سے کہا جب اِس جھیل کا کنارہ آئے گاتو تمہارے یہ بُت اِس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ غرض اِسی طرح میں تبلیغ کرتا چلا گیا۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں نے اُن کو حکم دیا کہ اِن بتوں کو پانی میںغرق کر دو اور اُن سب نے میرے اِس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان بتوں کو جھیل میں غرق کردیا ۔ اس کے بعد میں پھر کھڑا ہوگیا اور انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ اُس وقت مجھے محسوس ہوا کہ وہ لوگ خدائے واحد پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتے جارہے ہیں مگر قوم کا کچھ حصہ ابھی ایمان نہیں لایا۔ اُس وقت مَیں اُنہی میں سے ایک شخص کو جس کا اسلامی نام میں نے عبدالشکور رکھا ہے مخاطب کر کے کہتا ہوں اے عبدالشکور! میں تم کو اِس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں تمہارا فرض یہ ہوگا کہ تم اپنی قوم میں توحید قائم کرو اور شرک کو مٹادو اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو بتاؤ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور تمہارایہ بھی فرض ہوگا کہ تم اس قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی طرف تو جہ دلائو۔میں جب واپس آؤں گا تو تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تُو نے ان فرائض کو کہاں تک ادا کیا ہے۔رؤیا کی حالت میں جب میں اُس سے کہتاہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ تُوان لوگوں کو یہ سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور تُو ان لوگوں سے یہ اقرار لے کہ اَشْھَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ۔ تواُس وقت مجھے ایسا محسوس ہواکہ میری زبان سے اللہ تعالیٰ خود بول رہاہے اور جب میں نے کہا تمہیں لوگوں سے یہ اقرار بھی لینا پڑے گا کہ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔ یکدم مجھے معلوم ہوا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح کو اجازت دی ہے کہ وہ میری زبان پر قابوپائیں اور خودمیری زبان سے کلام فرمائیں ۔چنانچہ جب میں کہتا ہوں تمہیں یہ اقرار لینا پڑے گا کہ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میری زبان سے بولے اور آپؐ نے فرمایا۔ اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اے لوگو! سن لو کہ میں محمد ہوں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول۔پھر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قدرت دی گئی اور جب میں نے اُسے کہاکہ تمہیں اپنی قوم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا بھی اقرار لینا پڑے گا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور آپ نے میری زبان سے فرمایا۔اَنَاالْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ اے لوگو! میں تم کو بتاتا ہوںکہ میں وہی مسیح ہوں جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا۔ اِس کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور میں ان سے کہوں کہ میں مسیح موعود ؑ کا خلیفہ ہوںمگر اُس وقت بجائے یہ الفاظ جاری ہونے کے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ میں بھی مسیح موعود ہی ہوں یعنی اُس کا مشابہہ ،نظیر اور خلیفہ۔ جب خواب میں مَیں نے اپنے متعلق یہ الفاظ کہے تو یکدم میں گھبراگیا کہ میں نے یہ کیا کہہ دیا ہے اِس پر معاً مجھے اِلقاء ہوا کہ یہ وہی پیشگوئی ہے جو مصلح موعود کے بارہ میں کی گئی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مثیل اور نظیر ہوگا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ پیشگوئی خدا نے میرے لئے ہی مقدر کی ہوئی تھی۔
رؤیا کی حالت میں مَیں نے اور بھی بعض باتیں بیان کی ہیں مثلاً میں نے ان سے کہا میں وہی ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔یہ در حقیقت انجیل کی ایک پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح ناصری ؑ فرماتے ہیں جب میں دوبارہ دنیا میں آئوں گا تو بعض قومیں مجھ پر ایمان لائیں گی اور بعض انکار کر دیں گی اُس وقت اِن قوموں کی مثال ایسی ہوگی جیسے دس کنواریاں جن میں سے کچھ ہوشیار تھیں اور کچھ سُست، دولہا کے انتظار میں بیٹھ گئیں جوسُست تھیںاُن کا انتظار کی حالت میں ہی تیل ختم ہوگیا اور جب وہ دوبارہ تیل لینے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آگیا اور وہ اُس کے ساتھ شامل ہونے سے محروم رہ گئیںلیکن جو ہوشیار تھیں اور جنہوں نے تیل اپنے ساتھ رکھا تھا وہ دولہاکو اپنے ساتھ لے کر اُس کے قلعہ میں چلی گئیں۔ اِس تمثیل میں حضرت مسیح ناصری ؑنے اِس امر کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ جب میں دوبارہ دنیامیں آؤں گا تو کچھ قومیں جو ہوشیار ہونگی وہ مجھے مان لیں گی لیکن کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے مجھے ماننے سے محروم رہ جائیں گی۔ پس اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رؤیا کی حالت میں مَیں ان سے کہتاہوں کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔ اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جس کے لئے اُنیس سَو سال سے کنواریاں انتظار کر رہی تھیں تو کچھ نوجوان عورتیں جو سات یا نو ہیں اور جو کنارئہ سمندر پر بیٹھی ہوئی میری طرف دیکھ رہی تھیں اِن الفاظ کے سنتے ہی دَوڑ تے ہوئے میری طرف آئیں اور انہوں نے میرے اِردگرد گھیرا ڈال لیا اور کہا ہاں ہاں تم سچ کہتے ہو ہم اُنیس سَوسال سے تمہارا انتظار کر رہی تھیں۔ اِس کے بعد میں پھر اُن کو ہدایتیں دے کر کسی اور طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ خواب میں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ میں اور آگے جاؤں گا۔چنانچہ خواب کی حالت میں ہی میں اُس شخص سے جس کا نام میں نے عبدالشکور رکھا ہے کہتا ہوں جب میں اِس سفر سے واپس آؤں گا تو دیکھوں گا کہ تیر ی قوم توحید پر قائم ہوچکی ہے، اسلام کی تعلیم پر کاربند ہو چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر ایمان لا چکی ہے؟
اِس رؤیا نے جس میںکشف اور الہام کا بھی حصہ ہے مجھ پر واضح کر دیا کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس مقام سے شائع فرمائی تھی وہ میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے چنانچہ وہ بات جس کے متعلق مَیں تیس سال تک خاموش رہا اُس کا میں نے دنیا میں اعلان کرنا شروع کر دیا۔ اِس وقت یہاں احمدی بھی موجود ہیں، غیر احمدی بھی موجود ہیں، ہندو بھی موجود ہیں، سکھ بھی موجود ہیں، میں اِن سب سے کہتا ہوں کہ دیکھو! خدا سے بڑ ا کوئی نہیں،خدا کے قہر سے بڑھ کر کسی کا قہر نہیں اور خدا کے عذاب سے بڑھ کر کسی کا عذاب نہیں۔دنیا کی بادشاہتیں اور حکومتیں سب اُس کے سامنے ہیچ اور ذلیل ہیں اور اُس کی جھوٹی قسم کھانا انسان کو عذاب میں گرفتار کر دیتا ہے میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ وتصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جو رؤیا بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُکوئی خفیف سا فرق بیان کرنے میں ہوگیا ہو تو علیحدہ بات ہے ۔میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالت میں کہا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ اور میں نے اِس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔ پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موعود بھی آئیں گے اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے۔ـبلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گااور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہو گا نازل ہوگی اور وہ میرے نقشِ قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا۔ پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اِس شہر ہوشیار میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اِس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پور ی ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اِس پیشگوئی کا مصداق ہو سکے۔
یہ پیشگوئی کسی بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھی بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا اِس زمانہ کے لوگوں کے ایمان کی زیا دتی کے لئے یہ پیشگوئی کی گئی تھی۔پس ضروری تھا کہ یہ پیشگوئی اِسی زمانہ میں پوری ہوتی اور ان لوگوں کے سامنے پوری ہوتی جن کے سامنے یہ شائع کی گئی تھی۔ہم میں ابھی سینکڑوں وہ لوگ زندہ موجود ہیں جنہوں نے اپنے سامنے اِس اشتہار کو شائع ہوتے دیکھا اور پڑھا۔ اُنہوں نے وہ تمام مخالفتیں دیکھیں جو پیشگوئی کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے ہوئیںاور پھر انہوں نے اس پیشگوئی کی اکثر علامات کو پورا ہوتے دیکھا۔ پس آج ہم اِس جگہ پر اِس لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی حمد کریں جس نے ایک گمنام شخص کو ایسے گمنام شخص کو، جوگھر میں بھی پہچانا نہیں جاتا تھادنیاکے کونے کونے تک مشہور کر دیا۔
آپ ایسی گمنامی کی حالت میں دعا کرتے تھے کہ بعض دفعہ جب دُور کے رشتہ دار آتے تو وہ سجدہ میں آپ کو بیٹھا دیکھ کر یہ خیال کیا کرتے تھے کہ کوئی مُلّاں بیٹھا ہے، بعض دفعہ آپ پر ایسی ایسی حالت بھی گزر جاتی کہ خود فاقہ کرنا پڑتا اور اپنا کھانا کسی مہمان کو کھلادینا پڑتا۔چونکہ ہماری جدّی جائداد پر تایا صاحب کا قبضہ تھا اس لئے ہماری تائی صاحبہ بعض دفعہ اس غصہ میں کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے انہیں کھانا بھی نہیں بھجواتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ خود سنایا کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ جب کوئی میرے پاس مہمان آتا اور مَیں کھانے کیلئے اُن کو کہلا بھیجتا تو وہ کہہ دیتیں کہ ہمارے پاس مہمان کے لئے کوئی کھانا نہیں ۔اِس پر چپ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا کھانا مہمان کو کھلادیتے اور خود بھوکے رہتے۔ ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک لمبے عرصہ تک آپ کے پاس مہمان رہاآپ کا طریق یہ تھا کہ اپنے لئے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور خود چنے بھُنوا کر اُن پر گزارہ کرتے۔آپ اپنے اشعار میں بھی فرماتے ہیں۔
لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِکَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَ ھَالِیْ۱۳؎
اے لوگو! تم جانتے ہو کہ ایک وقت مجھ پر ایسا گزرا ہے جب دسترخوانوں کے ٹکڑے اور بچی ہوئی روٹی مجھے کھانے کے لئے دی جاتی تھی لیکن آج وہ دن ہے کہ سینکڑوں خاندان اور قبیلے میرے ذریعہ پرورش پارہے ہیں۔ پس وہی جس کو دنیا نے ردّکیا، جس کو ذلیل اور حقیر سمجھا آج اُس کی آواز پر لاکھوں انسان اپنی جانیں قربان کرنے کو تیارہیں۔ دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ بھی آج ایسا نہیں مل سکتا جس کے ساتھ اِس قدر لوگ عقیدت اور اخلاص رکھنے والے ہوں اور جس کے نام پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے وہ لوگ تیار ہوں۔ قومیں بے شک وطنیت کے ماتحت آج قربانی کر رہی ہیں مگر دنیا کے پردہ پر کوئی فرد ایسا نہیں جس کے نام پر اتنے آدمی اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں جتنے آدمی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نا م پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں حالانکہ یہ وہی شخص تھا جو ایک طویلہ میں چالیس دن تک چلّہ کشی کرتا رہا اور جس کو سوائے چند لوگوں کے دنیا میں کوئی شخص نہیں جانتا تھا۔ پھر خدانے اُس کو بڑھایا اور دنیا میںاُس کے نام کو پھیلایا۔ جب دنیا اُس کا انکار کر رہی تھی، جب دنیا اُس کی مخالفت کر رہی تھی، جب دنیا اُس کو مٹانے کے لئے تیار اپناسارا زورصَرف کررہی تھی اُس وقت خدا نے اُس کو مخاطب کیا اور فرمایا ۔
’’دنیامیں ایک نذیر آیاپر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔ ۱۴؎
سو دیکھو! خدا نے زور آور حملوں سے اس کی سچائی دنیا پر ظاہر کی یا نہیں؟آج لاکھوں آدمی ایسے ہیںجو اِس انسان پر ایمان لاتے ہیں صرف ہندوستان میں ہی نہیں بیرونی ملکوں میں بھی۔ آج پنجاب اور ہندوستان میں جماعت کو ایسی طاقت حاصل ہے اور اِس قدر اعلیٰ طور پر وہ منظم ہے کہ اور کوئی جماعت اپنی طاقت اور اپنی تنظیم میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اتنی تعداد چھوڑ اس سے سَو گنا بڑی جماعت بھی دنیا میں کوئی ایسی نہیں جو وہ قربانیاں کر رہی ہو جو یہ جماعت دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ایسے زور آور حملوں کے ساتھ پو را کیا ہے کہ میں نہیں سمجھتا دنیا کا کوئی شخص دیانتداری سے غور کرنے کے بعد یہ کہہ سکے کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ خدا کی پیشگوئی ہے۔ اُسی خدا کی جو عالم الغیب ہے جس کے قبضہ وتصرف میںزمین وآسمان کا ذرّہ ذرّہ ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جو خدانے ظاہر کیا۔ مَیں اِس نشان کو پیش کرتے ہوئے ان لوگوں سے جو اِ س وقت یہاں جمع ہیں کہتاہوں کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ لوگ خدا کے اِس نشان پر غور کریں اور اِس سے فائدہ اُٹھائیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کے ان زور آور حملوں کو دیکھنے کے بعد اُس کے مامور کو قبول کریں تاکہ دنیا میں امن اور آشتی پیدا ہو اور صلح کا دَور دَورہ ہو؟ یاد رکھو! جب تک خدا کے بھیجے ہوئے مامور کی راہنمائی کو دنیا قبول نہیں کرتی اُس وقت تک اسے کبھی امن حاصل نہیں ہوسکتاچاہے وہ کتنا زور لگالے اور چاہے کتنا ہی امن کے حصول کے لئے جدوجہد کر لے۔ دنیا کے لئے ایک ہی ذریعہ امن حاصل کرنے کا ہے کہ وہ اِس درخت کے سایہ کے نیچے آجائے جو خدانے لگایا ہے۔ جب تک وہ اِس درخت کے سایہ کے نیچے نہیں آتی اُس وقت تک اُسے کبھی حقیقی امن اور اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا۔
میں نے بتایا ہے کہ یہ پیشگوئی صرف ایک پیشگوئی نہیں بلکہ اس میں اتنی کثیر خبریں جمع ہیں کہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں تھا کہ وہ ایسی خبر یں دے سکتا۔ دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوگا ، وہ ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا، وہ زندہ رہے گا، وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ رحمت اور فضل کا نشان ہوگا، قومیں اُس سے برکت پائیں گی، اسیراُس سے رستگار ہوں گے اور دین اسلام کا شرف اُس کے ذریعہ ظاہر ہو گا۔ یہ تمام امور ایک ایک کرکے اِس بات کی شہادت پیش کر رہے ہیں کہ یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے تھی۔ پھر اِسی قدر نہیں اِس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور بھی بہت سی باتیں بتائی گئی تھیں چنانچہ وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس پیشگوئی میں بتائی گئی ہیں وہ یہ ہیں۔
اوّل یہ بتایا گیا تھا کہ وہ لڑکا خدا تعالیٰ کی قدرت کا نشان ہو گا یعنی وہ زندہ رکھا جائے گا تاکہ اُس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا کلام پورا ہو۔
دوسرے وہ رحمت کا نشان ہوگا۔ یعنی اس کے ظہور سے احمدیت کی ترقی ہو گی اور مخالفین اسلام کے حملوں سے نجات حاصل ہوگی۔
تیسرے وہ قربت کا نشان ہوگا۔یعنی کچھ لوگ اِس جماعت میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کو گرانے اور جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِن کے حملوں کا وہ دفاع کرے گا اور اِس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحیح مقام اور درجہ لوگوں پرظاہر کر دے گا۔
چوتھے وہ فضل کا نشان ہو گا۔ یعنی سلسلہ کی ترقی اُس کے ساتھ وابستہ ہوگی۔
پانچویں وہ احسان کا نشان ہوگا۔ یعنی مقاصد کی تکمیل اُس کے ذریعہ سے ہوگی۔
چھٹے وہ فتح کی کلید ہوگا۔
ساتویں وہ ظفر کی کلید ہوگا۔
آٹھویں وہ صاحب شکوہ ہوگا۔
نویں وہ صاحب عظمت ہوگا۔
دسویں وہ صاحب دولت ہوگا۔
گیارہویں وہ اپنے مسیحی نفس سے لوگوں کو بیماریوں سے شفادے گا۔
بارہویں وہ روح الحق کی برکت اپنے ساتھ رکھتا ہوگا۔
تیرہویں وہ کلمۃ اللہ ہوگا۔
چودہویں وہ کلمۂ تمجید سے بھیجا جائے گا ۔
پندرہوں وہ سخت ذہین ہوگا۔
سولہویں وہ سخت فہیم ہوگا۔
سترہویں وہ دل کا حلیم ہوگا۔
اٹھارویں وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔
انیسویں وہ علومِ باطنی سے پُر کیا جائے گا۔
بیسویں وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔
اکیسویں دو شنبہ سے اُس کا خاص تعلق ہوگا۔
بائیسویں فرزند ِدلبند ہوگا۔
تیسویں گرامی اَرجمند ہوگا۔
چوبیسویں مظہر الاوّل ہوگا۔
پچیسویں مظہر الآخرہوگا۔
چھبیسویں مظہر الحق ہوگا۔
ستائیسویں مظہر العلاہوگا۔
اٹھائیسویں وہ ایسا ہوگا جیسے خدا نے اِس زمانے میں آسمان سے نزول کیا۔
انتیسویں اُس کا نزول بہت مبارک ہوگا۔
تیسویں اُس کا نزول جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔
اکتیسویں وہ نور ہوگا۔
بتیسویں وہ رضائے الٰہی کے عطرسے ممسوح ہوگا۔
تینتیسویں اُس میں خدا اپنی روح ڈالے گا یعنی کلامِ الٰہی اُس پر نازل ہوگا۔
چونتیسویں خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا۔
پینتیسویں وہ جلد جلد بڑھے گا۔
چھتیسویں وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔
سینتیسویں وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
اڑتیسویں قو میں اُس سے برکت پائیں گی۔
اُنتالیسویں اُس کا نفسی نقطہ آسمان ہوگا۔
چالیسویں وہ دیر سے ظاہر ہو گا۔
اِکتالیسویں وہ دور سے آئے گا ۔
بیالیسویں وہ فخررُسل ہوگا۔
تینتالیسویں اُس کی ظاہری برکتیں تمام جہان پر پھیلیں گی۔
چوالیسویں اُس کی باطنی برکتیں تمام جہان پر پھیلیں گی۔
پینتالیسویں یوسفؑ کی طرح اُس کے بھائی اُس کی مخالفت کریں گے۔جیسے میں نے بتایا ہے کہ قوم کے لیڈر میرے مخالف ہوگئے۔
چھیالیسویں اُس کی کئی شادیا ں ہوں گی۔چنانچہ اِس وقت تک مَیں چھ شادیاں کر چکا ہو ں دو بیویاں فوت ہو چکی ہیں اور چار موجود ہیں۔
سینتالیسویں وہ عالمِ کباب ہوگا۔ یعنی اُس کے زمانہ میں بڑی بڑی جنگیں ہوں گی۔چنانچہ پہلی جنگ ِعظیم بھی میرے زمانۂ خلافت میں ہوئی اور اب دوسری جنگ بھی میرے زمانہ میںہی ہو رہی ہے۔
اَڑتالیسویں وہ بشیر الدولہ ہوگا۔ یعنی جس حکومت میں وہ ہوگاخدا اُس حکومت کی فتح کی خبر اُسے دے گا۔
اُنچاسویں وہ محمود ہوگا۔
پچاسویں وہ ذکی ہو گا۔
اِکاون وہ اولوالعزم ہوگا۔
باون وہ حضرت عمرؓ کی طرح دوسرا خلیفہ ہوگا۔
تریپن وہ حسن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کانظیر ہوگا۔
چون وہ احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا۔
پچپن وہ کلمۃ العـزیزہوگا۔
چھپن وہ کلمۃ اللہ خان ہوگا۔
ستاون وہ ناصر الدین یعنی دین کی مد د کرنے والا ہوگا۔
اَٹھاون وہ فاتح الدین ہوگا۔
یہ و ہ اٹھاون نام یا پیشگوئیاں ہیں جن کا الہامات میں ذکر آتا ہے ان پر تفصیلی بحث تو بعد میں کسی رسالہ میں کی جائے گی اور بتایا جائے گاکہ اِن میں سے کتنی پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں اور کتنی ابھی پوری ہونے والی ہیں لیکن ایک سرسری نظر ان الہامات پر ڈال کر آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہ باتیں کس عظمت کے ساتھ پوری ہوئیں۔
جس زمانہ میں مَیں خلیفہ ہوا ہوں لوگ کہا کرتے تھے کہ ایک بچہ جماعت کا خلیفہ ہوگیا ہے اب یہ جماعت ضرور تباہ ہوجائے گی۔مگر دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہی جماعت جو ایک بچہ کے سپرد کی گئی تھی آج اُس سے کئی گنا زیادہ ہے جب وہ میرے سپرد کی گئی تھی۔ آج جماعت احمدیہ اُس وقت سے بیسیوں گنے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے، آج جماعت کی عزت میں اُس وقت سے بیسیوں گنا زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ آج جماعت کے خزانہ میں اُس وقت سے بیسیوں نہیں سینکڑوں گنازیادہ روپیہ ہے۔ پھر وہی شخص جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ جاہل ہے علوم سے نابلد ہے۔ خدانے اُس کواپنے پاس سے علم دیا چنانچہ میرے ذریعہ سے مسائلِ اسلامیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایسے علوم جمع کر دیئے ہیں کہ آج دشمن سے دشمن بھی اُن کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ اسلام کی تشریح اِس سے بہتر ناممکن ہے۔
کچھ عرصہ ہوا فورمین کرسچین کالج کے پروفیسر مسٹر لوکس جو امریکہ کے رہنے والے تھے قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔بعد میں انہوں نے سیلون میں ایک تقریر کی جس میںکہا عیسائی اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا آئندہ مصر سے مقابلہ ہوگا۔ کبھی وہ خیال کرتے ہیں اگر مصر نہیں تو کسی اور اسلامی ملک سے ہمارامقابلہ ہوگا یہ بالکل غلط ہے میں ابھی ایک چھوٹے سے گائوں سے ہوکر واپس آرہا ہوں۔ وہاں ریل بھی نہیں جاتی مگر وہاں رہ کر میں نے جو کچھ دیکھا ہے اُس کو دیکھنے کے بعد میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ یہ فیصلہ کہ دنیا کا مذہب اسلام ہویا عیسائیت؟ یہ اور کسی جگہ نہیں ہوگاصرف قادیان میں ہوگا اور دنیا کے پردہ پر اور کسی جگہ یہ لڑائی نہیں لڑی جائے گی یہ لڑائی اگر لڑی گئی تو قادیان میں ہی لڑی جائے گی مصر یا شام یا فلسطین میں نہیں لڑی جائے گی۔ یہ ایک عیسائی کی رائے ہے جو اسلام کا شدید ترین دشمن تھا۔ وہ پادری تھا اور اُس کا کام لوگوں کو عیسائی بنانا تھامگر وہ پادری قادیان کو ایک دفعہ دیکھنے کے بعد اِس رائے کا اظہار کرنے پر مجبور ہوا کہ اگر عیسائیت اور اسلام کی جنگ ہوئی تو اِس کا فیصلہ قادیان میں ہوگا اور کسی جگہ نہیں ہوگا۔
یہ وہ نشان ہیں جن کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا اور اِن نشانات کو پورا ہوتے دیکھ کر انسان یقین کر سکتا ہے کہ باقی نشانات بھی ایک دن پورے ہو کر رہیں گے۔میں نے بتایا ہے کہ اِس پیشگوئی کے اکثر حصے پورے ہوچکے ہیں صرف تھوڑی سی باتیں ہیں جن کے لئے ابھی کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا۔بہرحال یہ ایک ایسا عظیم الشّان آسمانی نشان ہے جس کو دیکھتے ہوئے مومنوں کے دل اِس یقین اور ایمان سے بھر جاتے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے۔ میں جماعت کے احباب کو خصوصیت سے اس موقع پر توجہ دلاتا ہوں کہ اس نشان کے بعد آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ جس شخص کے ہاتھ پر آپ لوگوں نے بیعت کی ہے اُس کا یہ فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرے۔ پس آپ لوگوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو گئی ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ اُس وقت تک آرام کا سانس نہ لیں جب تک خدا کی بادشاہت اسی طرح زمین پر نہیں آجاتی جس طرح وہ آسمان پر ہے اور جو لوگ ابھی ہماری جماعت میں شامل نہیں ہیں اُن سے کہتا ہوں کہ کب تک انتظار کرتے چلے جائو گے؟ جو آنے والا تھا آگیا ا ب اِس کے بعد کوئی نہیں جو تمہاری امیدوں کے مطابق آسمان سے اُترے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے کہ چاہے قیامت تک تم ناک رگڑتے رہو تمہارا مسیح آسمان سے نہیں اُتر سکتا جس نے آنا تھا وہ آچکا ۔۱۵؎ اسی طرح میں کہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جس مثیل اور نظیر نے آپ کی پیشگوئی کے مطابق دنیا میں آنا تھا وہ آچکا ہے اب چاہے قیامت تک انتظار کرتے رہو اور کوئی شخص اِس پیشگوئی کا مصداق پیدا نہیں ہوسکتا۔
پس ہماری جماعت کو اِس مقام پر جمع ہو کر اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے ۔یہ مکان جو سامنے دکھائی دے رہا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چالیس روز تک چلّہ کشی کی اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں اُس زمانہ میں شہر کے ایک کنارہ پر ہوا کرتا تھا۔ مگر اب شہر کی آبادی میں ترقی ہو چکی ہے اور اس کے اِردگرد بھی کئی عمارتیں بن گئی ہیں یہاں خدا نے ایک عظیم الشان نشان کی بشارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائی جس کو اٹھاون سال کے بعد ہماری جماعت نے پورا ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ یہ ایک نشان ہے اور بہت بڑا نشان۔ اگر ہماری جماعت اِس بات پر یقین رکھتی ہے کہ یہ نشان خدا نے ظاہر فرمایا ہے توجماعت کو اِس امر کا بھی یقین کر لینا چاہئے کہ اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہونے والی ہے۔ یاتو شیطان کی طرف سے اسلام پر کوئی شدید حملہ ہونے والاہے جس کے دفاع کے لئے ہر شخص کو اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینا پڑے گا یا پھر اسلام کی طرف سے عنقریب غیراسلامی دنیا پر کوئی ایسا شدید حملہ ہونے والا ہے جس میں ہر شخص کو اپنی جان اور اپنا مال قربان کر دینا پڑے گا۔ دونوں صورتیں ایسی ہی جن میں قربانی کرنی پڑے گی،دونوں صورتیں ایسی ہیں جن میں اپنی جانوں اور مالوں کو ایک حقیر چیز کی طرح خدا کی راہ میں پیش کرنا پڑے گا۔ پس ہر احمدی جو آج اِس مجمع میں موجود ہے اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ اب دو باتوں میں سے ایک بات ضرو ر ہوکر رہنے والی ہے یا تو کفر کا اسلام پہ کوئی نیا حملہ ہونے والا ہے اور یا پھر اسلام کا کفر کے قلعہ پر حملہ ہونے والا ہے۔ بیشک آپ لوگوں نے پہلے بھی قربانیاں کی ہیںمگر آئندہ آنے والی قربانیوں کے مقابلہ میں وہ قربانیاں بالکل ہیچ ہو جائیں گی اور وہی شخص اِس امتحان میں کامیاب اُترے گا جو اپنی جان اور اپنے مال، اپنی بیوی اور اپنے بچوں کی قربانی کرنے میں ایک لمحہ کیلئے بھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لے گا۔ وہ ابراہیم ؑ کی طرح آگے بڑھے گا اور جس طرح ابراہیم ؑنے خدا کے حکم کے ماتحت اپنے اکلوتے بچّہ کے گلے پر چھر ی رکھ دی تھی اِسی طرح وہ اپنی ہر خواہش، اپنی ہر عزت، اپنی ہر دولت اور اپنے ہر آرام پر چھری پھیر کر لَبَّیْکَ کہتا ہوااللہ تعالیٰ کی آواز کی طرف دوڑے گا۔ اُس کی روح آستانۂ الٰہی پر گر جائے گی اُس کا دل ایمان سے پُر ہوگا اور وہ اپنی ہر چیز کو حقیر اور ذلیل سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دے گا۔ اُس کی آنکھوں میں سوائے خدا کے اور کسی کا جلوہ نظر نہیں آئے گا۔ اُس کے دل پر سوائے خدا کے اور کسی کی حکومت نہیں ہوگی اور اُس کے کانوں میں سوائے اُس کے مامور اور مرسل کی آواز کے اور کسی کی آواز نہیں آئے گی وہ ایک فرض شناس سپاہی کی طرح کفر کے مقابلہ کے لئے نکلے گا اور اُس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک کفر کو مٹا نہیں لیتا یا اِس جدوجہد میں اپنے آپ کو ہلاک نہیں کردیتا۔
پس مَیں نے آج وہ ذمہ داری جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر عائد کی گئی تھی ادا کر دی۔میں نے جماعت پر بھی حُجّت کر دی اور میں نے ہوشیار پور کے رہنے والوں کو بتا دیا کہ خدا نے اِس مقام کو ایک بہت بڑی عزت بخشی ہے۔ اِس مقام سے اُس نشان کا اعلان ہوا جسے خدا نے رحمت کا نشان قرار دیا ہے جسے فضل اور احسان کا نشان قرار دیا ہے پس اپنے وعدہ کے مطابق خدا اِس نشان کو لوگوں کے لئے رحمت اور فضل کا ہی موجب رکھے گا جب تک وہ اُس کی رحمت اور فضل کے نشان کو ردّ کر کے ’’عالمِ کباب‘‘ ہونے والے نشان کا مطالبہ نہ کریں مگر یہ سب کچھ آپ لوگوں کے اختیار میںہے۔ آپ کے اختیار میں ہے کہ اگر چاہیں تو اُس کے رحمت اور فضل کے نشان کو اپنی ذات میں دیکھیں اور اگر چاہیں تو اس کے عالمِ کباب ہونے والے نشان کا اپنی ذات میں مشاہدہ کریں۔خدا تعالیٰ کے مامور جو دنیا کی ہدایت کے لئے آیا کرتے ہیں اُن کے ایک ہاتھ میں تریاق کا پیالہ ہوتا ہے اور اُن کے دوسرے ہاتھ میں زہر کا پیالہ ہوتا ہے اور لوگوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو زہر کاپیالہ پی لیں اور اگر چاہیں تو تریاق کا پیالہ پی لیں۔ پس اپنے عمل سے آپ لوگوں نے رحمت کانشان دیکھنا ہے اور اپنے عمل سے آپ لوگوں نے اُس کے عالمِ کباب ہونے والے نشان کا مشاہدہ کرنا ہے۔ خدا کے پاس دونوں چیزیں موجود ہیں۔ اس کے پاس موت بھی ہے اور اُس کے پاس حیات بھی ہے مگر کیسا بدبخت ہے وہ انسان جو حی وقیّوم خدا سے موت مانگنے کے لئے تو تیار ہوجاتا ہے مگر زندگی مانگنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو نبیوں سے کہا کرتے ہیں ہمیں کوئی ایسا نشان دکھاؤ جس کے نتیجہ میں اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہلاک ہو جائیں۔ اِن بدبختوں کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ ہلاکت اور بربادی کا نشان طلب کرنے کی بجائے ہدایت اور رحمت کا نشان کیوں طلب نہیں کرتے حالا نکہ رحمت بھی اُس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے جس طرح ہلاکت اُس کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے ۔ پس اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشّان نشانِ رحمت سے فائدہ اٹھانا چاہے تواللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے نشانات اُسے دکھادے گا اور اگر وہ ہلاکت اور بربادی کانشان دیکھنا چاہے تواُسے یاد رکھنا چاہئے کہ جس خدا کے پاس حیات ہے اُس خدا کے پاس ہلاکت بھی ہے جب آسمان پر دنیا کی ہلاکت اور بربادی کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے تو نہ بادشاہ اُس ہلاکت کو روک سکتے ہیں نہ پارلیمنٹیں اُس ہلاکت کو روک سکتی ہیں، نہ تنظیمیں اُس ہلاکت سے بچ سکتی ہیں نہ جمعیتیںاُس ہلاکت سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔جب آسمان سے عذاب نازل ہوتاہے اُس وقت بڑے سے بڑے بادشاہ اُس عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں اور کوئی حکومت اور کوئی سلطنت اور دنیا کی کوئی طاقت اُن کو عذاب سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ لیکن جب رحمت کا نشان نازل ہوتا ہے تو اُس وقت معمولی معمولی کاموں کے حیرت انگیزنشان ظاہر ہوتے ہیں اور برکات اور انوارکا دریا ہر طرف موجیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ غرض آج میں نے اپنے فرض کوادا کر دیا اور میں نے سب لوگوں کو بتادیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پیشگوئی جو آپ نے اپنے ایک لڑکے کے متعلق فرمائی تھی اور جس میں بتایا تھا کہ وہ زمیں کے کناروں تک شہرت پائے گا میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور میں ہی آپ کا وہ موعود بیٹا ہوں جس کا اُس اشتہار میں ذکر کیا گیا تھا جو آپ نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو شائع کیا۔
میں اِس پیشگوئی پر زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنا چاہتا تھا مگر چونکہ اب وقت نہیں اِس لئے میںاپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں ۔اب مختلف ملکوں کے نمائندے باری باری تقریریں کریں گے اور بتائیں گے کہ اِس پیشگوئی کے مطابق دنیاکے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام میرے ذریعہ سے اور میرے بھیجے ہوئے آدمیوں کے ذریعہ سے ہی پہنچا ہے۔
(حضور کے اِس ارشاد پر مختلف ملکوں کے نمائندوں نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ کس طرح حضرت مصلح موعود کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت زمین کے کناروں تک پہنچ چکی ہے۔ )
اس کے بعد حضور نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:۔
اِس وقت مختلف ممالک کے مبلّغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا۔ مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اُس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اِسی طرح ایشیا اور یورپ کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھیجے ہوئے مبلّغین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاوں گا‘‘ ۱۶؎اور ساتھ ہی آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ’’میرا ایک لڑکا ہو گا جو زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘ جس کے معنے یہ تھے کہ وہ پہلی پیشگوئی جوزمین کے کناروں تک تبلیغ پہنچنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میرے اس لڑکے کے ذریعہ پوری ہوگی جس نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کرنی ہے۔
اب ہر شخص غور کر کے دیکھ لے کہ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اس تبلیغ کو اِس وقت تک دنیا کے کناروں تک پہنچنے سے روکے رکھا جب تک وہ لڑکا ظاہر نہ ہوگیا۔اور پھر وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے میرے مبلّغوں کے ذریعہ جاپان سے لے کر شمالی امریکہ تک تمام دنیا میں اِس سلسلہ کو پھیلانا شروع کر دیا بلکہ ہر مُلک کے افراد کو اِس میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ اِن میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سننابھی گوارہ نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپ پر درود اور سلام بھیجتے اور صبح شام آپ کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے نا آشنا تھے مگر خداتعالیٰ میرے ذریعہ سے اُن لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا۔ صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے تمام روکوں کو دُور کیا اور صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے زمین کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام میرے ذریعہ سے پہنچایا۔پس یہ پیشگوئی جس مقام سے کی گئی تھی اُسی مقام کے سامنے کھڑے ہوکر یہ اعلان آپ لوگوں کے سامنے کر دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ خدا کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اِن تقاریر کے دَوران بعض ایسے ممالک کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں احمدیوں کو خاص طور پر تکلیفیں دی گئی ہیں چنانچہ بعض ممالک میں ہمارے مبلّغ سنگسار کئے گئے اور بعض ممالک میں حکومتوں نے اُن کو ملک بدر کر دیا۔ مگر مَیں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس جس ملک کی حکومت نے ہمارے مبلّغین کے ساتھ ایسا سلوک کیا تھاخدا نے اُن حکومتوں کو سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑا۔ وہ بڑے بڑے ممالک جن میں ہمارے مبلّغین کے ساتھ سختی کی گئی افغانستان، روس ،پولینڈاور البانیہ ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں خصوصیت سے احمدیوں کو تکالیف پہنچائی گئیں اور حکومتوں نے یا تو ہمارے آدمیوں کو مار ڈالا یا ان کو اپنے ملک سے نکال دیا۔
پس میں اُن لوگوں کو جو ابھی جماعت میں شامل نہیں توجہ دلاتا ہوں کہ مغرب کے کناروں سے مشرق کے انتہائی کناروں تک ہم اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیںہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اِس سلسلہ کی حقیقت پر غور کریں اور خدا تعالیٰ کے اُن نشانات سے فائدہ اُٹھائیں جو دنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں اور اگر آپ لوگ ابھی اِس سلسلہ کی صداقت پر غور نہیں کر سکتے تو کم سے کم خداتعالیٰ کا اتنا خوف اپنے دل میں ضرور پیدا کریں کہ جب اِس جماعت کے افراد اسلام کی تبلیغ کے لئے نکلیں تواُس وقت ان کی مخالفت کرنے سے احتراز کریں اور سمجھ لیں کہ یہ وار اِن پر نہیں خدا کے دین پر ہوگا اور اِس کا نقصان افراد کو نہیں بلکہ مذہب اور اسلام کو ہوگا۔اسی طرح میں اُن لوگوں سے بھی جو ابھی اسلام کی صداقت کے قائل نہیں کہتا ہوں کہ ہم مبلّغ ہیںتبلیغ ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم نے ہمیشہ کرنا ہے خواہ کوئی ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے تبلیغ کریں اور اسلام کی تعلیم اس کے کانوں تک پہنچائیں۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ تبلیغ کرنا صرف ہمارا حق ہے اُن کا بھی حق ہے کہ وہ ہمیں تبلیغ کریں۔ ہمیں اس پر کوئی گلہ نہیںہو سکتا لیکن اس کے مقابلہ میں یہ ضروری ہے کہ وہ ہماری تبلیغ پر چڑیں نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم نر می اور پیار اور محبت سے ان کو تبلیغ کریں اور جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ لوگ اس دین کو اختیار کریں تو پھر چاہے لوگ ہمیں ماریں، پیٹیں، گالیاں دیں ہم مجبور ہیں کہ اُن کو اسلام کی تبلیغ کرتے چلے جائیں۔کسی کا بچہ کنویں میں گر رہا ہو تو دوسرا شخص اُسے دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتا۔ کسی جگہ آگ لگ رہی ہو تو کوئی شخص اُس آگ کو دیکھ کر آرام سے بیٹھ نہیں سکتا۔پھر جب کہ ہم کو بھی اُن سے ویسی ہی محبت ہے جیسے ایک باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے یا بھائی کو اپنے بھائی سے ہوتی ہے اور جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اسلام میں داخل نہیں وہ ایک آگ میں گرے ہوئے ہیں تو پھر ہم پورا زور لگائیں گے کہ وہ اس آگ سے بچ جائیں خواہ اِس جدوجہد میں ہماری اپنی جان بھی کیوں نہ چلی جائے ۔پس تبلیغ کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اپنے اِس فرض کو ہمیشہ ادا کرتے رہیں گے لیکن آپ لوگ مت سمجھیں کہ آپ خدا کی تقدیر کو پورا ہونے سے روک سکتے ہیں۔ خدا کی تقدیر ایک دن پوری ہوکر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے۔مَیں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں، مَیں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں، میں ہوشیاپور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔ اگر لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے اُن کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہوجائیں گے اوراُن کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سِوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
میرا اپنا واقعہ ہے جب میں دمشق میں گیا تو عبدالقادر مغربی جو اس علاقہ کی اسلامی تحریکات کی مجلس کے صدر تھے مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور باتوںباتوں میں کہنے لگے ہندوستانی لوگ جاہل ہیں وہ اسلام اور قرآن سے ناواقف ہیں اور اِس ناواقفیت سے فائدہ اُٹھا کر آپ نے اُن لوگوں میں اپنے سلسلہ کو پھیلا لیا۔عرب لوگ قرآن کی بولی جانتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کیاکہتا ہے اس لئے یہاں اِن عقائد کاہر گز نام نہ لیں اور یادرکھیں کہ ایک عرب بھی آپ کے سلسلہ کو قبول نہیں کر سکتا ۔میں نے اُن سے کہا آپ کہتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ چونکہ جاہل ہیں اِس لئے اُن میں ہمارا سلسلہ پھیل گیاعرب کا کوئی آدمی ہمارے سلسلہ کو قبول نہیں کر سکتا میں یہاں سے جاتے ہی اپنا مشن بھیجوں گا اور اس وقت تک اِس علاقہ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک عربوں میں سے کئی لوگوں کو احمدی نہ بنا لوں۔ چنانچہ میں نے آتے ہی اپنے مبلّغین کو اِس علاقہ میں بھجوا دیا اور اب بڑے بڑے ڈاکٹر ،بیرسٹر اور تعلیم یافتہ اشخاص ہمارے سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں اور ہزاروں روپیہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے خرچ کر رہے ہیں۔ پس یہ ہونہیں سکتا کہ دنیاانکار کرے اور انکار کرتی چلی جائے، یہ ہوہی نہیں سکتا کہ جسے خدا نے بھیجا ہے اُس پر لوگ ایمان نہ لائیںمگر مبارک ہیں وہ جو اَب ایمان لاتے ہیں، مبارک ہیں وہ جو خدا کی آواز کو سنتے اور اُس پر لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کیونکہ جو شخص خدا کے مامور کی آواز کو سنتا ہے وہ در حقیقت خدا کی آواز کو سنتا ہے اور جو شخص خداتعالیٰ کے مامور کی آوازکو ردّ کرتا ہے وہ در حقیقت خدا تعالیٰ کی آواز کو ردّ کرتا ہے۔ پس بڑی ہی بد قسمتی ہو گی اگر لوگ ایما ن نہ لائیں اور خدا کے اس مامور کو قبول نہ کریں جو خدانے ان کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔
(اِس کے بعد حضور اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں چلہ کشی فرمائی تھی اور قبلہ رُو دو زانوبیٹھ کر اسلام کی ترقی اور اُس کی شان وشوکت کے لئے پُر سوز دُعا کروائی۔)
(الفضل ۱۹؍ فروری۱۹۵۶ء، و ۱۹؍ فروری ۱۹۶۰ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۸۷ ۲؎ اٰل عمران: ۵۴ ۳؎ اٰل عمران: ۱۴۸
۴تا۷؎ اٰل عمران: ۱۹۴،۱۹۵ ۸؎ اٰل عمران: ۹ ۹؎ البقرۃ: ۱۳۷
۱۰؎ ھینگ ہگنا: پیچش کے مرض میں مبتلا ہونا۔ بیمار پڑا رہنا۔ نہایت کمزور و ناتواں ہونا
۱۱؎ تذکرہ صفحہ۱۳۹۔ ایڈیشن چہارم
۱۲؎ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی۔ ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ،ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱صفحہ۷۴۱مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۱۳؎ آئینہ کمالاتِ اسلام جلد۵ صفحہ۵۹۶
۱۴؎ تذکرہ صفحہ۱۰۴۔ ایڈیشن چہارم
۱۵؎ تذکرۃ الشہادتین صفحہ۶۷ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۷
۱۶؎ تذکرہ صفحہ۳۱۲۔ ایڈیشن چہارم


ایک اہم ہدایت





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

ایک اہم ہدایت
قادیان کے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک نماز مسجد مبارک میں پڑھے
(تقریر۹؍مارچ ۱۹۴۴ء بعد نماز عصر بمقام بیت مبارک قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
دیکھو! بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے مگر وہ بہت بڑے نتائج پیدا کر دیتی ہے۔ میں نے آپ لوگوں میں یہ تحریک کی تھی کہ جو لوگ قادیان آتے ہیں اُن کو روزانہ کوئی نہ کوئی نماز مسجد مبارک میں آ کر ادا کرنی چاہئے۔ قادیان کی آبادی اِس وقت بارہ ہزار ہے۔ اِس میں سے چھ ہزار اگر عورتیں نکال دی جائیں اور باقی چھ ہزار میں سے دو ہزار بچے یا بیمار یا بوڑھے اور کمزور لوگ نکال دیئے جائیں تو چار ہزار کی آبادی رہ جاتی ہے۔ چار ہزار آدمی اگر پانچ نمازوں میں تقسیم ہوں تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ قادیان کی موجودہ آبادی کے لحاظ سے آٹھ سَو آدمی فی نماز مسجد مبارک میں آنا چاہئے۔ لیکن حال یہ تھا کہ مسجد کی دو یا تین صفوں کے بعد عموماً مسجد خالی پڑی رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے دلوں میں تحریک پیدا کر دیتا ہے۔ مَیں جب مسجد کی اِس حالت کو دیکھتا تو میرے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی کہ میں کس رنگ میں جماعت کے سامنے تحریک کروں۔ جب خدا تعالیٰ نے مجھے اِس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اَب اسلام کے غلبہ کا وقت آ پہنچا ہے تو وہ مختلف پہلو میرے ذہن میں آنے شروع ہوئے جو اِس غلبہ کے لئے ضروری ہیں۔ وہ بیسیوں پہلو ہیں اور کسی ایک خطبہ یا تقریر میں اُن کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میرا ارادہ ہے کہ لاہور یا لدھیانہ کے جلسہ کے بعد روزانہ مغرب اور عشاء کے درمیان مسجد میں بیٹھا کروں اور دوستوں کو اُن باتوں میں سے کچھ نہ کچھ سنایا کروں تاکہ وہ آگے کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ انہی اُمور میں سے ایک بات یہ بھی خداتعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی کہ جو مقاماتِ مقدس ہوا کرتے ہیں وہ اپنے حق کا لوگوں سے مطالبہ بھی کیا کرتے ہیں اور اگر افرادِ جماعت اُن مقامات کا حق ادا نہیں کرتے تو خداتعالیٰ کی طرف سے انہیں تنبیہہ ہوتی یا اُن پر عذاب نازل ہوتا ہے۔ پس میرے دل میں ایک یہ بات بھی آئی کہ مسجد مبارک کی صفوں کی صفیں ہر نماز میں خالی پڑی رہتی ہیں حالانکہ قادیان کی آبادی اِس وقت بارہ ہزارـ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِس مسجد کا ایک ایک انچ خداتعالیٰ کے حضورزبانِ حال سے فریاد کر رہا تھا کہ یہ جماعت کہتی تو یہ ہے کہ اِس نے دنیا فتح کرنی ہے مگر حالت یہ ہے کہ وہ اُس مسجد کو بھی اَب تک آباد نہیں کر سکی جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ برکت دینے والی جگہ ہے۔ یہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور ہر کام جو یہاں کیا جائے گا وہ مبارک ہو گا۔ اِس بات کے کہنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ خدا کہہ رہا ہے۔ اگر خدا ایک دفعہ بھی کسی چیز کو مبارک قرار دے دے تب بھی اُس کی برکت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا نے بار بار مبارک کہا اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد برکت دہندہ اور نزولِ برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اِس مسجد میں کیا جائے گا وہ مبارک ہو گا۔ جس کے معنی یہ ہیںکہ وہ نماز مبارک ہے جو اِس مسجد میں ادا کی جائے، وہ سجدہ مبارک ہے جو اِس مسجد میں کیا جائے، وہ قومہ مبارک ہے جو اِس مسجد میں کیا جائیـ، وہ تشہد مبارک ہے جو اِس مسجد میں کیا جائے، وہ سلام مبارک ہے جو اِس مسجد میں کیا جائے، وہ تکبیر مبارک ہے جو اِس مسجد میں کہی جائے اور وہ دعائیں مبارک ہیں جو اِس مسجد میں کی جائیں۔خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں، اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں اور پھر انسان اِن برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے اور کبھی چھ مہینے یا سال کے بعد اِس مسجد میں آ کر کوئی ایک نماز ادا کرے تو اِس سے زیادہ محروم اور بدقسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے۔ اگر اِسی وقت جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو مہینوں بعد بھی اِس مسجد میں آ کر ایک نماز ادا نہیں کرتے۔ مگر اللہ تعالیٰ چونکہ ستار ہے اِس لئے ہم بھی جائزہ نہیں لیتے۔ لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ قادیان میں بعض ایسے لوگ موجود ہیں جو تین تین سال سے اِس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیںآئے۔ اِس صورت میں وہ خود ہی غور کریں ان کی روحانیت کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ابھی میں لاہور میں ہی تھا کہ مجھے ایک دوست ملے جو قادیان کے رہنے والے تھے انہوں نے اپنے متعلق ذکر کیا کہ میری حالت یہ ہے کہ جب تک مَیں قادیان میں رہتا ہوں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میری روحانیت ماری گئی ہے مگر جب میں باہر جاتا ہوں تو اُس وقت سلسلہ کی محبت کا ایک جوش اپنے اندر پاتا ہوں۔ میں نے اُن سے کہا آپ ٹھیک کہتے ہوں گے مجھے انکار نہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہو گا لیکن جب حالت یہ ہے تو آپ اپنی روحانیت کو کیوں تباہ کرتے ہیں آپ باہر ہی رہا کریں قادیان میں نہ رہیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ محض قادیان میں آ جانے سے انسان کو برکت حاصل نہیں ہوتی بلکہ برکت اُن ذمہ واریوں کو ادا کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہیں۔ جو شخص یہاں آ کر اِن ذمہ واریوں کو ادا نہیں کرتا وہ اگر دانستہ ایسا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہو گا۔ اور اگر نادانستہ ایسا نہیں کرتا تو گو اُسے عذاب نہ ہو مگر اُس کے دل پر زنگ ضرور لگ جائے گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو گولی مار کر ہلاک کر لیتا ہے اور وہ خودکشی کا مرتکب سمجھا جاتا ہے لیکن دوسرا شخص خود تو اپنے آپ کو گولی نہیں مارتا ہاں غلطی سے اُس کی بندوق اُس کے ہاتھ سے اُسی کی طرف چل جاتی ہے۔ ایسی صورت میں گو وہ خود کشی کا مرتکب نہ سمجھا جائے مگر ہلاک ضرور ہو گا۔ اِسی طرح جو شخص دانستہ اِن ذمہ واریوں کو ادا نہیں کرتا وہ عذاب کا مستحق ہوگا اور جو شخص نادانستہ اِن ذمہ واریوں کو ادا نہیں کرتا وہ گو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ نہ بنے مگر اُس کے دل پر زنگ ضرور لگ جائے گا۔
غرض خداتعالیٰ کی طرف سے جب میرے دل پر یہ خیال غالب آ گیا تو میں نے جماعت کے دوستوں میں تحریک کی کہ وہ یہاں آ کر نمازیں پڑھا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس تحریک کو قبول فرمایا۔ چنانچہ کجا تو یہ حالت تھی کہ آج سے چار پانچ دن پہلے یہ مسجد خدا سے فریادی ہو رہی تھی کہ میرے پاس جگہ خالی پڑی ہیـ قادیان میں احمدی موجود ہیں مگر وہ اِسے پُر کرنے کے لئے نہیں آتے۔ تو کہتا ہے کہ اگر وہ اِس مسجد میں آ کر نماز پڑھیں گے تو اُنہیں برکت ملے گی مگر وہ اِس برکت کو لینے کے لئے تیار نظر نہیں آتے اور کجا یہ حالت ہے کہ اَب اِس کثرت سے لوگ یہاں نمازیں پڑھنے کے لئے آ رہے ہیں کہ کَل سے میں بھی سوچ رہا ہوں اور بعض دوسرے دوست بھی کہ اَب یہ مسجد اِس قابل نہیں رہی کہ سب لوگ اِس میں سما سکیں بلکہ اَب ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِسے بڑھا دیا جائے۔ چنانچہ اِس کے نتیجہ میں پہلی برکت تو یہ نازل ہوئی ہے کہ آج ہی میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اِس مسجد کو پہلو کی طرف بڑھا دیا جائے۔ اِس سے اِنْشَائَ اللّٰہُ یہ مسجد موجودہ مسجد سے دُگنی ہو جائے گی۔ مسجد کے لئے یہ جگہ سالہا سال سے خریدی جا چکی تھی لیکن جبکہ پہلے ہی مسجد کی کئی صفیں نمازیوں سے خالی رہتی ہوںتو یہ تحریک کس طرح کی جا سکتی تھی کہ اِسے اور بڑھا دیا جائے۔ مگر اَب جبکہ پرسوں سے لوگ کثرت کے ساتھ اِس مسجد میں نماز کے لئے آنے شروع ہو گئے ہیں صاف پتہ لگ رہا ہے کہ پہلے تو مسجد خداتعالیٰ کے حضور فریادی تھی اور کہہ رہی تھی کہ خدایا! تو نے مجھے بے کس کیوں چھوڑ رکھا ہے اور آج نمازی فریادی ہیں کہ اے خدا! ہمیں اِس مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے جگہ نہیں مل رہی تو اِس مسجد کو اور بڑھا دے تاکہ ہم اِس کی برکات سے حصہ لے سکیں۔ یہ کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے کہ آج سے چار دن پہلے روحانی نگاہ سے فرشتے زمین کی طرف حسرت سے دیکھ رہے تھے کہ کیوں خدا کے بندے اِس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے اور چار دن کے بعد آج آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور انسان حیرت سے کہہ رہے ہیں کہ خدایا! تو ہم پر اور فضل کیوں نازل نہیں کرتا۔
میں نے بتایا ہے اِس غرض کے لئے زمین خریدی جا چکی تھی اَب اِنْشَائَ اللّٰہُ اِس مسجد کو بڑھا دیا جائے گا۔ مَیں اپنے قلب میں ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے خداتعالیٰ کی طرف سے یہ انکشاف ہوتا ہے۔ گو کسی الہام یا رؤیا کی بناء پر مَیں یہ نہیں کہہ رہا مگر میرا قلب یہ محسوس کرتا ہے کہ ہر شخص جو یہاں نماز پڑھنے کے لئے آتا ہے وہ سلسلہ کی ترقی کے لئے ایک نیا باب کھولتا ہے۔ ہر نماز جو وہ یہاں ادا کرتا ہے خدا کے سامنے کہہ رہی ہوتی ہے کہ اے خدا! لوگوں نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی اَب تو اَور جگہ لا جہاں اور آدمی آئیں اور اپنے ربّ کی عبادت کریں۔ پہلے خداتعالیٰ کو اپنے بندوں سے شکوہ تھا کہ وہ اِس مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے کیوں نہیں آتے اور کیوں اِسے خالی رکھتے ہیں اور آج بندے خدا سے یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ خدایا! ہم پر جو فرض عائد تھا وہ ہم نے پورا کر دیا اَب تو اور فضل نازل فرما اور اپنی اور زیادہ برکات سے ہمیں حصہ عطا فرما۔ اور درحقیقت یہی انسان کی ترقی کا راز ہے۔ بندے جب اللہ تعالیٰ کے سارے فضلوں کو لے لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں اے اللہ! ہم پر اور فضل نازل فرما تو خدا اِن پر اور فضل نازل فرما دیتا ہے۔ وہ شخص جس کی جھولی میں روٹیاںبھری ہوئی ہوںـ اُسے کون خیرات ڈالتا ہے۔ جو شخص بھی اُسے دیکھے گا یہی کہے گا کہ تمہاری جیب میں تو پہلے ہی کافی روٹیاں موجود ہیں تمہیں اور خیرات کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن جب اُس کی جیب خالی ہو تو پھرہر شخص اُسے خیرات دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح جب تک یہاں جگہ خالی تھی اللہ تعالیٰ کے مزید فضل نازل ہونے کے لئے بظاہر کوئی محرک نہ تھا کیونکہ آدمی موجود تھے لیکن وہ توجہ سے کام نہیں لیتے تھے۔ مگر اَب جبکہ جگہ پُر ہو گئی ہے، فرشتے خداتعالیٰ سے یہ عرض کرتے ہیں اور ہر نماز میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا! پہلی جگہ تو بھر گئی اَب تو اور جگہ دے جس میں تیرے اور مومن بندے آئیں اور تیری عبادت بجا لائیں۔ چنانچہ آج ہی میں نے اِس غرض کے لئے احکام جاری کر دیئے ہیں اور قریباً اتنی ہی اور مسجد اِنْشَائَ اللّٰہُ بن جائے گی۔ یہ نئی برکت آپ لوگوںکے صرف تین دن یہاں آ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے نازل ہوئی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص مسجد بناتا ہے، خدا اُس کا گھر جنت میں بناتا ہے۔ ۱؎بے شک تعمیر مسجد سے بھی جنت ملتی ہے مگر جو اپنے آنے کی وجہ سے مسجد بنواتا یا اُس کی توسیع کا موجب بنتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جنت میں اپنا گھر بنواتا ہے۔ جو شخص روپے خرچ کرتا ہے اور اُس کی وجہ سے مسجد کیلئے زمین خریدی جاتی ہے یا اینٹیں خریدی جاتی ہیں یا اور ضروریات مہیا کی جاتی ہیں وہ اگر جنت میں جا سکتا ہے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اِن مومنوں کو کیوں جنت نہیں ملے گی جو مسجد میں آ کر نماز پڑھتے ہیں اور جن کے نماز پڑھنے کی وجہ سے مسجد تنگ ہو جاتی ہے اور اِسے وسیع کرنا پڑتا ہے۔
تو بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر بڑے بڑے نتائج پیدا کر دیا کرتی ہیں۔ اِسی طرح اور بہت سی باتیں ہیں جو ابھی آپ لوگوں نے کرنی ہیں اور میں اِنْشَائَ اللّٰہُ وقتاً فوقتاً وہ باتیں بتاتا رہوں گا جب آپ لوگ اِن باتوں کو پورا کر لیں گے تو اِس کے بعد آپ کو ترقیات ملیں گی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے ہماری جماعت کے لئے کھل جائیں گے۔ مگر اِس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے آپ کو قربانیاں کرنے کے لئے تیار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب قربانی کے لئے نئے راستے کھلتے ہیں تو بعض لوگ ابتلاء میں آ جاتے ہیں اِس لئے دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ثباتِ قدم عطا فرمائے اور ہمیں قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ابھی ہم قیاس بھی نہیں کر سکتے کہ ہمیں کن کن مشکلات میں سے گزرنا پڑے گا۔ ہاں ہم اتنا جانتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا تو وہ مشکلات ہمارے لئے لذت اور سرور کا موجب ہوں گی تکلیف اور عذاب کا موجب نہیں ہوں گی۔ وہ دنیا کے لئے عذاب ہوں گی مگر ہمارے لئے خدا تعالیٰ کے فضلوں کا پیش خیمہ ہوں گی کیونکہ مومن کا دل خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے ابتلاؤں میں سچی راحت پاتا ہے اور وہ اِن میں اسلام اور اپنے مقصد کی کامیابی دیکھتا ہے۔ جیسے بچہ کے پیدا ہونے پر ہر ماں کو دردیں ہوتی ہیں مگر پھر بھی وہ خوش ہوتی ہے بلکہ بعض دفعہ ڈاکٹر ہدایت دے دیتا ہے کہ آئندہ بچہ نہیں ہونا چاہئے ورنہ ماں کی زندگی کو خطرہ ہو گا لیکن ماؤں کی طرف سے پھر بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ دعا کریں کہ ہمارے ہاں بچہ ہو جائے۔ اِسی طرح مومن کو بے شک مشکلات پیش آتی ہیں مگر اِس کی سب مشکلات اور تکلیفیں آخر میں راحت سے بدل جاتی ہیں۔
(الفضل ۶؍ اپریل۱۹۴۴ء)
۱؎ مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ باب فضل بناء المساجد


مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دعا اور اُس کی حکمت




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دعا
اور اُس کی حکمت
(تقریر فرمودہ۹؍مارچ ۱۹۴۴ء بعد نماز عصر بمقام بہشتی مقبرہ قادیان )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
کَل میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ یہاں آ کر جو دعا ہمیں مانگنی چاہئے وہ قرآن شریف کی ہی ایک دعا ہے اور رسول کریم ﷺ ہمیشہ وہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ہمارا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ دعا یہاں آ کر بار بار مانگی جائے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُس کے وعدے پیش کر کے اور اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر عاجزی اور تضرع سے اُس کو پکارا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑکے اور اُس کا فضل ہم پر نازل ہو۔
بعض دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ ایسی باتوں سے بعض لوگ مُشرکانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ قبروں پر جانا اور وہاں دعا کرنا شاید اِس لئے ہے کہ قبر والے سے دعا مانگی جاتی ہے۔ مَیں امید تو نہیں کرتا کہ کسی احمدی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بندہ ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ محمد رسول اللہﷺ ہی کیوں نہ ہوں اور ہم اُن سے بھی دعائیں نہیں مانگتے بلکہ کبھی ہمارے واہمہ اور خیال میں بھی یہ نہیں آیا کہ اگر ہم دعا مانگیں تو وہ اِسے قبول کر سکتے ہیں بلکہ حدیث میں جو آتا ہے کہ مُردے نعلین کی آواز سُن لیتے ہیں۱؎ میں فطرتاً اِس حدیث کو بھی ظاہری معنوں میں نہیں لیتا بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ مُردوں کو اگلے جہان میں اپنے عزیزوں کے پاؤں کی آہٹ سُنا دیتا ہے۔ ورنہ جو شخص مٹی کے نیچے دفن ہے وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے اِس سے زیادہ اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔
میں اِس بات کا بھی قائل نہیں کہ انبیاء کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور مٹی انہیں نہیں کھاتی۔ بائبل سے صاف ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان لائی گئیں ۲؎ (بعض احادیث میں بھی اِس کا ذکر ہے) پس یہ ایک خیال ہے کہ انبیاء کا جسم ضرور محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص مٹی کی قبر میں دفن ہے وہ مٹی ہے۔ جس طرح انبیاء کھانا کھاتے اور پاخانہ کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ پاخانہ کی بجائے مشک اِن کے جسم سے نکلے۔ اِسی طرح انسان کے مادی جسم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں وہ اِن کے جسم پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ باقی رہا بعض لوگوں کے جسموں کا محفوظ رہنا اور ہمارے مشاہدہ میں اِس بات کا آنا سو اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ بعض زمینیں اِس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن میں جسم گلتے نہیں بلکہ سلامت اور محفوظ رہتے ہیں لیکن اِس میں نبی یا مومن کی کوئی شرط نہیں۔ ایک کافر بھی وہاں دفن کیا جائے تو اُس کا جسم محفوظ رہے گا۔ اِس کے مقابلہ میں بعض زمینوں میں اِس قسم کے کیمیائی مادے ہوتے ہیں کہ وہاں جو شخص دفن ہو اُس کا جسم تھوڑے دنوں میں ہی مٹی ہو جاتا ہے۔ وہاں کافر ،مومن، نبی اور غیر نبی جو بھی دفن ہو گا میرا یقین ہے کہ اُس کا جسم کچھ عرصہ کے بعد ضرور متغیّر ہو جائے گا۔ پس یہ خیالات جو مشرکانہ ہیں ہم ان کے قریب بھی نہیں جاتے۔ اگر کسی احمدی کے دل میں ایسا خیال ہو تو اُسے اپنے دل سے اِسے بالکل دور کردینا چاہئے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے تبرک کے طور پر مٹی لے جاتے ہیں۔ بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پھول چڑھا جاتے ہیں۔ یہ سب لغو باتیں ہیں اِن سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور ایمان ضائع چلا جاتا ہے۔ بھلا قبر پر پھول چڑھانے سے مُردے کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اُن کی روحیں تو اِس قبر میں نہیں ہوتیں وہ تو اور مقام پر ہوتی ہیں۔ ہاں اِس میں شبہ نہیں کہ روح کو اِس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گو مرنے والوں کی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ اِن ظاہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب مَیں دعا کر رہا تھا تو صاحبِ قبر اپنی قبر سے نکل کر میرے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ مگر اِس سے مراد بھی یہ نہیں کہ اُن کی روح اِس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُس بزرگ کو اپنی اصلی قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی۔ وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۔۳؎ اُسی قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے۔ ورنہ یہ قبریں دنیا میں ہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور اِن کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اُسی جگہ دوسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سَو سَو آدمی دفن ہو جاتے ہیں اور وہ سب مٹی ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے اِس قبر کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر دیا ہے اِس وجہ سے قبر پر آنے سے طبیعت میں جو رقت اور خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے وہ دوسرے مقام پر کم ہوتا ہے۔ پس ہماری غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے سے سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھ کر ہمارے اندر رقت پیدا ہو اور ہم خداتعالیٰ سے یہ عرض کریں کہ اے خدا! یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کر دی، یہ وہ شخص ہے جس پر تو نے الہامات نازل کئے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا اِحیاء ہو گا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی، اَب یہ شخص فوت ہو چکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے، ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اِس کے ساتھ محبت رکھتے اور اِس کے غلاموں میں شامل ہیں اِس لئے اَب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس ذمہ داری کو ادا کریں اور اُن وعدوں کو جو تو نے کئے پورا کرنے کے لئے اپنی جدوجہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں۔ مگر ہم کمزور ہیں ہمارے اندر کئی قسم کی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو طاقت دے، ہمارے ناتوان ہاتھوں کو مضبوط بنا اور ہماری کوششوں میں ایسی برکت پیدا فرما کہ تیرے وعدے پورے ہوں اور تیرا دین دنیا پر غالب آ جائے۔ یہ وجہ ہے جس کی بناء پر ہم نے یہاں دعاؤں کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ پس اِس موقع پر ہمیں تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں اور ہمیں یہ خیال آنا چاہئے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس وقت زندہ ہوتے تو وہ کس قسم کی قربانیاں اسلام کی فتح کیلئے کرتے۔ یہی غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے میں ہے۔ اگر اِس غرض کیلئے ہم رسول کریم ﷺ کے مزار پر پہنچ سکتے تو وہاں بھی پہنچ کر ہم ضرور دعا کرتے۔
تو صرف اِن اُمور کی طرف توجہ پیدا کرنے اور زیادہ تضرع سے دعائیں مانگنے کے لئے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ بچوں کو دیکھ لو وہ سارا دن کھیلتے رہتے ہیں لیکن جب اپنی تازہ مری ہوئی ماں یا اپنے باپ کی قبر پر جاتے ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ پہلے سے مرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِسے انسانی کمزوری سمجھ لو یا انسانی فطرت کا ایک خاصہ قرار دے لو بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے کسی بزرگ کی قبر پر دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں رقت زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ہم دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ایک رنگ میں ہمارے لئے بھی بلندیٔ درجات کا موجب بنتی ہے۔ چنانچہ ہم جب درود پڑھتے ہیں تو اِس کے نتیجہ میں جہاں رسول کریمﷺ کے درجات بلند ہوتے ہیں وہاں ہمارے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اِن کو انعام مل کر پھر اِن کے واسطہ سے ہم تک پہنچتا ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھلنی میں کوئی چیز ڈالو تو وہ اِس میں سے نکل کر نیچے جو کپڑا پڑا ہو اُس میں بھی آ گرتی ہے۔ اِسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے اِس اُمّت کے لئے بطور چھلنی بنایا ہے پہلے خدا اِن کو اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے اور پھر وہ برکات اِن کے توسط اور اِن کے طفیل سے ہمیں ملتی ہیں۔ جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خداتعالیٰ اِ س کے بدلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خداتعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے اِس پر اُن کے دل میں ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دے دیتا ہے۔
میں اپنے متعلق بتاتا ہوںکہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر دعا کرنے کے لئے آتا ہوں مَیں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریمﷺ کے لئے دعا کیا کرتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کرتا ہوں اور دعا یہ کیا کرتا ہوں کہ یا اللہ! میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو مَیںاپنے اِن بزرگوں کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کر سکوں۔ میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لئے مَیں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اِس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہوتو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ! یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ہے؟ اور جب خداانہیں بتاتا ہے تو وہ اُس کیلئے دعا کرتے ہیں اور اِس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے۔ اسلام کا مسلمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دعا ئیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی ۴؎ کہہ کر اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیںکوئی شخص تحفہ پیش کرے تو تم اُس سے بہتر تحفہ اُسے دو ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اُس نے دیا۔ قرآن کریم کی اِس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریمﷺ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیلئے دعا کریں گے اور ان پر درود اور سلام بھیجیں گے تو خداتعالیٰ ہماری طرف سے اِس دعا کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگراللہ تعالیٰ تو اُن نعمتوں کو خوب جانتا ہے اِس لئے جب ہم دعا کریں گے کہ الٰہی! تو رسول کریم ﷺ کو کوئی ایسا تحفہ دے جو اِس سے پہلے اُنہیںنہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ اُنہیں دیا جاتا ہوگا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہو گا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اِس علم کے بعد وہ چپ کرکے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لئے دعا نہ کریں۔ ایسے موقع پر بے اختیار اُن کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائے گی اور کہے گی کہ اے خدا! اَب تو ہماری طرف سے اِس کو بہتر جزاء عطا فرما ۔ اِس طرح کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اِس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہو گی۔ پس یہ ذریعہ ہے جس سے بغیر اِس کے کہ کوئی مشرکانہ حرکت ہو ہم خود بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور قوم بھی فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ گویا قومی اور فردی دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ باقی یہ کہنا کہ اَے خدا کے مسیح موعود! تو مجھے فلاں چیز دے۔ یا یہ کہنا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میری فلاں خواہش پوری فرمائیں یہ پاگل پن کی بات ہے۔ کوئی مومن ایسی حرکات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہمارا جو تعلق ہے محض خدا کے واسطہ سے ہے۔ اگر یہ واسطہ نہ ہوتا تو پھر ہماری طرح وہ آدمی ہی تھے اِس سے بڑھ کر اُن میں کون سی بات تھی۔ پس جو شخص ایسا پاگل ہو کہ وہ خدا کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگے، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ احمدی ہے ہی نہیں۔
پس دعا کے وقت اِس اَمر کو مدنظر رکھنا چاہئے تاکہ ہماری دعا کا کوئی پہلو ایسا نہ ہو جو مشرکانہ ہو۔ دعا کرنے سے پہلے درود پڑھا جائے اور اِس کے بعد وہی دعا مانگی جائے جو ہم روزانہ یہاں آ کر مانگتے ہیں اور جو اُمّت کیلئے بہترین دعا ہے۔ یعنی یہ دعا کہ ۵؎ اے ہمارے ربّ! ہم نے تیری طرف سے ایک منادی کو یہ پکارتے سنا کہ خدا پر ایمان لے آؤ سو ہم نے اِس کی آواز کو سنا اور تجھ پر ایمان لے آئے۔ ایمان کے بعد ہم پر بہت سے فرائض عائد ہوگئے ہیں مگر ہم کمزور اور ناتواں ہیں۔ ۔۶؎ اے ہمارے ربّ! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہمارے گناہوں کو بخش۔ ہمیں ہمت اور توفیق عطا فرما اور اپنی بخشش ہم پر نازل فرما اور ہماری موت جب بھی آئے ہم نیک لوگوں میں شامل ہوں۔ اِس طرح جب ہم اِس سے اپنی کمزوریاں معاف کرالیں تو اِس کے بعد ہم کہتے ہیں ۔۷؎ جب آپ ہمارے قصور معاف فرما چکے ہیں تو اَب ہمارے ذریعہ سے وہ وعدے پورے فرمائیے جو نبی سے آپ نے کئے تھے۔ یہی ذریعہ ہے جس سے اُمتیں ترقی کرتی ہیں کہ پہلے نبیوں کو انعام ملتا ہے اور پھروہی انعام اُن کی اُمتوں کو مل جاتا ہے۔ (الفضل ۷؍ مئی ۱۹۴۴ء)
۱؎ بخاری کتاب الجنائز باب المیت یسمع خفق النعال
۲؎ یشوع باب ۲۴ آیت ۳۲ کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’یوسف کی ہڈیوں کو جنہیں بنی اسرائیل مصر سے اُٹھا لائے تھے‘‘۔(برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء)
۳؎ عبس: ۲۲ ۴؎ النساء: ۸۷
۵،۶؎ اٰل عمران: ۱۹۴ ۷؎ اٰل عمران: ۱۹۵


میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی
کا مصداق ہوں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں
(تقریر فرمودہ ۱۲؍ مارچ ۱۹۴۴ء بمقام لاہور)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضو رنے فرمایا:-
سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے مگر قرآن کریم نے ہمیں کچھ اور دعائیں بھی سکھائی ہیں۔ چونکہ خدائے عزوجل کی تمام برکات اُس کے بندوں کے عجز اور اُن کی اِنابت اور اِنکسار کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہیں اس لئے مَیں وہ دعائیں پڑھتا ہوں ہماری جماعت کے احباب بھی میرے ساتھ ان دعائوں میں شریک ہوں اور خدا تعالیٰ کے حضور عجز و انکسار سے آمین کہیں۔
۱۔ ۔۱؎
۲۔ ۔۲؎
۳۔
۳؎
۴۔
۔۴؎
۵۔

۔۵؎
۶۔ ۔
۷۔ ۔
۸۔
۔۶؎
۹۔
۔۷؎
۱۰۔
۔۸؎
۱۱۔
۔۹؎
۱۲۔
۔
یہ وہ دعائیں ہیں جو پہلے انبیاء کی اُمتوں نے قرآن کریم کے فرمان کے مطابق کی ہیں یا ہماری اُمت کو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہمیشہ یہ دعائیں اُس سے مانگتے رہتے تھے چونکہ اَب میں ایک ایسی پیشگوئی کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے اس لئے قرآن کریم کے الفاظ میں ہی وہ اقرار خدا تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں جوکے جواب میں مسلمانوں کے منہ سے قرآن کریم میں دُہرایا گیا ہے۔ دوست بھی آہستہ آہستہ میرے ساتھ وہ الفاظ کہیں تا کہ ہم سب کی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور یہ اقرار ہو جائے کہ ہم اُس کے کلام پر ایمان لائے اور ہم اپنی زندگیاں اُس کے احکام کے مطابق بنانے کے لئے تیار ہیں ۔

۔۱۰؎
برادران! اللہ تعالیٰ کے حضور ہندو، عیسائی، سکھ اور مسلمان سارے ہی اُس کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے ایک جیسے ہیں اور وہ سب کا خیرخواہ اور سب سے ہی محبت کرنے والا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ تو اُس کی باتوں کو سن کر اُس کی رحیمیت والے احسان کو قبول کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کی رحمانیت والے احسان کو (یعنی اللہ تعالیٰ کے اُس احسان کو جو بغیر محنت کے نازل ہوتا ہے) حاصل کرتے ہیں۔ محنت اور کوشش والے انعام کو حاصل کرنے کی جدوجہد نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو اُن کی اِس غفلت کی وجہ سے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جب کبھی اُن کے دل اُس سے پھر جاتے ہیں، جب کبھی غفلت اور تاریکی دنیا میں چھا جاتی ہے، جب کبھی لوگوںمیں جہالت، دین سے بُعد اور خدا تعالیٰ سے منافرت پیدا ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے مأموروں کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو صاف کریں۔ اُن کو خداتعالیٰ کی طرف واپس لائیں، نیکی اور تقویٰ دنیا میں قائم کریں اور خداتعالیٰ کی بادشاہت اِسی طرح اِس زمین پر آ جائے جس طرح وہ آسمان پر ہے۔ـ ایسے ہی لوگوں میں سے بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ تھے اور جس طرح خداتعالیٰ کی سنت ہے کہ ہمیشہ اُس کی طرف سے آنے والے لوگ ادنیٰ حالت سے ترقی کیا کرتے ہیں، ویسی ہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی تھی۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا خاندان بادشاہوں کی نسل میں سے ہے۔ چنانچہ ہمارے خاندان کا مورثِ اعلیٰ مرزاہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو امیر تیمور کے چچا تھے اور جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ علاقہ کشؔ کے اصل بادشاہ حاجی برلاس ہی تھے، تیمور نے حملہ کر کے اِن کے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اِسی وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد جاہلیت کے زمانہ میں جبکہ احمدیت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی اور جبکہ قرآنی تعلیم اِن کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی، تیموری نسل کی لڑکیاں تو لے لیتے تھے مگر تیموری نسل کے مغلوں کو اپنی لڑکیاں نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ اُن کو اپنے مقابلہ میں ادنیٰ سمجھتے تھے۔ لیکن بہرحال جہاں تک ظاہری وجاہت کا سوال ہے وہ قریباً قریباً تباہ اور برباد ہو چکی تھی۔ مغلیہ سلطنت کے مٹنے کے بعد جب سکھوں کا دَور شروع ہوا تو اُس وقت ہماری تمام ریاست سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی۔ اِس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے پانچ گاؤں واگزار کر دیئے۔ مگر جب انگریزی حکومت کا دَور شروع ہوا تو اُس وقت پھر ہماری خاندانی ریاست کو صدمہ پہنچا اور ہماری وہ جائداد بھی ضبط کر لی گئی جو کسی قدر باقی رہ گئی تھی۔ یہ ہمارے خاندان کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا۔ اگر ہماری یہ ریاست اپنی پہلی حالت میں قائم ہوتی تب بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی اور اتنی چھوٹی ریاست کو بھلا پوچھتا ہی کون ہے۔ مگر خداتعالیٰ نے اتنی ریاست بھی پسند نہ کی تاکہ اُس کی صفات پر کوئی دھبہ نہ آئے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ سابقہ عزت کی وجہ سے انہیں ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ہمارے دادا کو بڑا فکر رہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ایسے کام پر لگا دیں جس سے وہ اپنا گزارہ آسانی کے ساتھ کر سکے۔ مہاراجہ کپور تھلہ کے شاہی خاندان سے بھی ہمارے خاندان کے چونکہ پُرانے تعلقات ہیں اِس لئے انہوں نے کوشش کرکے بانی سلسلہ احمدیہ کے لئے وہاں ایک معزز عُہدہ تلاش کر لیا۔ چنانچہ اِن کے لئے انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے عُہدہ کی منظوری آ گئی۔ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں ایک سکھ صاحب رہا کرتے تھے جو اکثر ہمارے دادا کے پاس آیا جایا کرتے تھے۔ انہوں نے خود سنایا کہ مَیں اور میرا بھائی اکثر بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آ جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ہم دونوں اِن سے ملنے کے لئے گئے تو وہ کہنے لگے کہ مرزا غلام احمد کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں میں حیران ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اِس کا کیا حال ہو گا۔ میں نے اِس کے متعلق کپور تھلہ میں کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں سے آرڈر آ گیا ہے کہ اِسے ریاست کا افسر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے۔ میں اگر اسے کہوں تو شاید مجھے جواب نہ دے تم دونوں اِس کے ہم عمر ہو تم اِس کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ اِس عُہدہ کو قبول کر لے۔ وہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی اِن کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مبارک ہو ریاست کپور تھلہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ وہاں کے افسر تعلیم مقرر کئے گئے ہیں۔ آپ کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ آپ یہ نوکری اختیار کر لیں اور ریاست کپورتھلہ میں چلے جائیں۔ وہ کہتے ہیں جس وقت ہم نے یہ بات کہی اُنہوں نے ایک آہ کھینچی اور کہا والد صاحب تو خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں مَیں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا اَب مَیں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ وہ کہتے ہیں ہم دونوں واپس آ گئے اور آپ کے دادا صاحب کو کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ والد صاحب یونہی بے فائدہ فکر کررہے ہیں میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی اَب مَیں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اِس پر وہ کہتے ہیں کہ آپ کے دادا صاحب نے کہا اگر اِس نے یہ کہا ہے تو خیر رہنے دو وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا۔
پھر جب آپ بڑے ہوئے تو اُس وقت بھی ساری جائداد آپ کے بھائی کے قبضہ میں رہی۔ آپ نے اُس میں سے اپنا حصہ نہ لیا۔ جائداد خداتعالیٰ کے فضل سے کافی تھی بلکہ اَب تک اِس قدر جائداد ہے کہ باوجود اِس کے کہ ایک لمبے عرصے تک ہم اِس کو بیچ کر کھاتے رہے ہیں، پھر بھی وہ لاکھوں روپیہ کی موجود ہے۔ غرض جائداد تھی مگر وہ سب ہمارے تایا صاحب کے قبضہ میں تھی۔ بانی سلسلہ احمدیہ اِس جائداد میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ جب ہمارے تایا صاحب فوت ہو گئے تو آپ نے پھر بھی جائداد نہ لی اور وہ تائی صاحبہ کے پاس چلی گئی۔ آپ کو کھانا ہماری تائی صاحبہ ہی بھجواتی تھیں اور چونکہ وہ آپ کی شدید مخالف تھیں اِدھر آپ بہت بڑے مہمان نواز تھے اِس لئے بسااوقات جب آپ ہماری تائی صاحبہ کو کہلا بھیجتے کہ آج ایک مہمان آیا ہوا ہے اُس کے لئے بھی کھانا بھجوا دیا جائے تو وہ صرف آپ کا کھانا بھجوا دیتیں اور مہمان کے لئے کوئی کھانا نہ بھجواتیں۔ اِس پر ہمیشہ آپ اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کر لیتے۔
اُس زمانہ کے آدمی سنایا کرتے ہیںکہ جب بھی کوئی مہمان آپ کے پاس آتا آپ چُپ کرکے اپنا کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے اور خود بھوکے رہتے یا چنوں وغیرہ پر گزارہ کر لیتے۔ ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک دفعہ قریباً چالیس دن تک آپ کا مہمان رہا۔ آپ باقاعدہ صبح و شام اندر سے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور آپ دانے چبا کر گزراہ کر لیتے۔ آپ خود فرماتے ہیں۔
لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِکَانَ اُکُلِیْ
وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَ ھَالِیْ۱۱؎
کہ اے لوگو! تم کو یاد نہیں ایک دن میرا یہ حال تھا کہ دستر خوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میرے کھانے میں آیا کرتے تھے یعنی دوسروں کے رحم و کرم پر میرا گزارہ تھا لیکن آج یہ حال ہے کہ میرے ذریعہ سے کئی خاندان پرورش پا رہے ہیں۔
ایسی حالت میں آپ کو خبر دی گئی کہ اسلام کی خدمت کے لئے خداتعالیٰ نے آپ کو چُن لیا ہے۔ جس وقت یہ آواز آپ کے کان میں پڑی آپ کی حالت یہ تھی کہ اور لوگ تو الگ رہے خود قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہیں جانتے تھے۔ میں نے خود قادیان کے کئی باشندوں سے سُنا ہے کہ ہم سمجھتے تھے بڑے مرزا صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے دوسرے کا ہمیں علم نہیں تھا۔ آپ اکثر مسجد کے حجرے میں بیٹھے رہتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے۔ اُس وقت خداتعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ کو بہت بڑی برکت دے گا اور آپ کا نام عزت کے ساتھ دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ یہ الہام بھی ایک عجیب موقع پر ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اہلحدیث کے ایک مشہور لیڈر تھے جب وہ نئے نئے مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے پڑھ کر آئے تو اُس وقت حنفیوں کا بہت زور تھا اور اہلحدیث کم تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب جب تعلیم سے فارغ ہو کر بٹالہ میں آئے تو ایک شور مچ گیا کہ یہ مولوی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ اتفاقاً اُنہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اپنے کسی کام کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے۔ لوگوں نے زور دیا کہ آپ چلیں اور مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کریں کیونکہ وہ بزرگوں کی ہتک کرتا ہے اور اسلام پر تبر چلا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کے ساتھ جامع مسجد میں چلے گئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی وہیں موجود تھے۔ آپ نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب !مجھے معلوم نہیں آپ کے کیا عقائد ہیں۔ پہلے آپ اپنے عقائد بیان کریں اگر وہ غلط ہوئے تو میں اِن کی تردید کروں گا اور اگر صحیح ہوئے تو اُنہیں تسلیم کر لوں گا۔ مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی جس میں بیان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر، قرآن کریم پر اور محمد رسول اللہﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن چونکہ خداتعالیٰ کا ایک یقینی اور قطعی کلام ہے اِس لئے ہم اِسے سب سے مقدم قرار دیتے ہیں اور جو کچھ قرآن میںلکھا ہے اِسے مانتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ہم سمجھتے ہیںکہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے اور اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو اِس صورت میں ہم قرآن کریم کے بیان کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی بات ہمیں قرآن اور حدیث دونوں میں نظر نہ آئے تو پھر قرآن اور حدیث کی روشنی میں جو کچھ ہمیں سمجھ آئے اِس پر ہم عمل کرتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ تقریر کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سن کر فرمایا یہ تو بالکل ٹھیک باتیں ہیں اِن میں سے کسی کی تردید کی ضرورت نہیں۔
وہ ہزاروں آدمی جو آپ کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اُن سب نے کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور بُرا بھلا کہنے لگے کہ تم ڈرپوک ہو، بزدل ہو، ہار گئے ہو۔ غرض آپ پر خوب نعرے کسے گئے۔ آپ گئے تھے ہزاروں کے ہجوم میں اور نکلے ایسی حالت میں جبکہ لوگ آپ کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ گئے تھے ایسی حالت میں کہ لوگ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے جا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم اسلام کا ایک پہلوان اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں مگر نکلے ایسی حالت میں کہ لوگ آپ کو ایک بھگوڑا قرار دے رہے تھے اور آپ کے خلاف نعرے کَس رہے تھے۔ مگر آپ نے اِن باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے واپس چل پڑے۔ اُسی رات آپ پر الہام نازل ہوا کہ:۔
’’تیرا خدا تیرے اِس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘۱۲؎
غرض آپ پر یہ الہام ہوا اور آپ نے اُسی وقت اِس الہام کو دنیا میں شائع کر دیا۔ تب دنیا میں چاروں طرف سے آپ کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئیں۔ بعضوں نے کہا مکّار ہے اور اس ذریعہ سے اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے، بعضوں نے کہا یہ شخص یونہی اسلام کی تائید کر رہا ہے ورنہ درحقیقت اسلام میں سچائی پائی ہی نہیں جاتی۔ غرض جو لوگ اسلام کے قائل تھے انہوں نے بھی اور جو لوگ اسلام کے قائل نہیں تھے انہوں نے بھی ہر رنگ میں آپ کی تضحیک شروع کر دی۔ اُس وقت خصوصیت سے پنڈت لیکھرام نے شور مچایا کہ یہ جو معجزات دکھانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اگر اسلام سچا ہے، اگر قرآن سچا ہے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے۔ اِسی طرح ایک منشی اندر من صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی شور مچایا کہ یہ نشان نمائی کے دعوے سب غلط ہیں اگر اسلام کی صداقت میں نشان دکھایا جا سکتا ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے۔ اِسی طرح قادیان کے ہندوؤں نے بھی یہ مطالبہ کیا اور مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ اِن کے ہمنوا ہو گئے۔ چنانچہ انہی میںسے لدھیانہ کا ایک خاندان ہے جو اپنی مخالفت پر ہمیشہ فخر کیا کرتا ہے اُس کے خیال میں اُس کا یہ فعل قابل فخر ہے مگر ہمارے نزدیک یہ اِس خاندان کی بدقسمتی ہے کہ وہ ابتدا سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہا ہے۔
بہرحال جب اِن لوگوں نے بہت شور مچایا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! میرے ہاتھ پر اسلام کی تائید میں کوئی ایسا نشان دکھا جسے دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو کہ ایسا نشان انسانی تدبیر اور کوشش سے ظاہر نہیں ہو سکتا۔ مزیدبرآں یہ نشان ایسا ہو جو رسول کریمﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت کو روشن کرے اور خدا کا جلال دنیا میں ظاہر ہو۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ہوشیارپور جائیں اور وہاں اِس مقصد کے لئے دعا کریں۔ اِس پر آپ صرف تین آدمیوں کے ساتھ ہوشیارپور تشریف لے گئے۔ اِن میں سے ایک کھانا پکاتا تھا، ایک سَودا لاتا تھا اور ایک دروازے پر بیٹھا رہتا تھا تاکہ کوئی شخص آپ سے ملنے کے لئے اندر نہ جائے۔ وہاں ایک مکان میں جو اُن دنوں شیخ مہر علی صاحب ریئس ہوشیارپور کا طویلہ کہلاتا تھا آپ فروکش ہوئے۔
اَب یہ مکان ایک معزز ہندو دوست سیٹھ ہرکشن داس صاحب کی ملکیت میں ہے۔ سیٹھ صاحب بڑے بھاری تاجر ہیں۔ـ اِن کی چین میں بھی تجارت ہے اور بعض دوسرے ممالک میں بھی، اِن کے چائے کے باغات بھی ہیں۔ غرض اس کے بالا خانہ پر بیٹھ کر آپ چالیس دن مسلسل اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعاکرتے رہے کہ اے خدا! اسلام کی شوکت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے اظہار کے لئے مجھے کوئی ایسا نشان دے جو لوگوں کے لئے ناقابل انکار ہو اور جس کو دیکھ کر وہی لوگ انکار کر سکیں جو ضد کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ چنانچہ اُس وقت آپ پر وہ الہامات نازل ہوئے جو ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج ہیں۔ جس وقت آپ نے یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہ تھا، جبکہ جماعت احمدیہ کا وجود بھی ابھی تک قائم نہیں ہواتھا۔ یہ اشتہار ۱۸۸۶ء کا ہے اور آپ نے لوگوں سے بیعت اِس اشتہار کے تین سال بعد ۱۸۸۹ء میں لی ہے۔ گویا بیعت سے تین سال پہلے ۱۸۸۶ء میں خداتعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ تمہارے ہاں ایک بیٹا ہو گا اور وہ یہ یہ صفات اور کمالات اپنے اندر رکھتا ہو گا جیسا کہ میں ابھی اُن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کروں گا۔ بہرحال آپ نے یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شائع فرما دی اور دنیا میں اعلان فرما دیا کہ میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کے عروج کا باعث ہو گا۔ جب آپ نے یہ پیشگوئی شائع فرمائی لوگوں نے شور مچا دیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے ہمیشہ لوگوں کے ہاں بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا اُس وقت آپ کی عمر ۵۲ سال کی تھی اور اُس وقت آپ نے یہ بھی شائع فرما دیا تھا کہ میری اور بھی بہت سی اولاد ہو گی جن میں سے کچھ زندہ رہیں گے اور کچھ بچپن میں فوت ہو جائیں گے اور یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ چار لڑکوں کا میرے ہاں پیدا ہونا ضروری ہے۔ غرض آپ نے یہ پیشگوئی اُس وقت کی جب آپ کی عمر ۵۲ سا ل کی تھی اور ۵۲سال کی عمرمیں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی آئندہ اولاد ہونی بند ہو جاتی ہے لیکن اگر اولاد ہو بھی تو کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹے پیدا ہوں گے۔ یا اگر بیٹے ہوں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ رہیں گے۔ اور اگر بعض بیٹے زندہ بھی رہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ چار ضرور ہوں گے۔ـ غرض کوئی شخص اپنی طرف سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا جب تک خدا اُسے خبر نہ دے۔ بہرحال لوگوں نے اعتراض کیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے لوگوں کے ہاں ہمیشہ بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کسی نے اِس کو نشان قرار نہیں دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اوّل تو میر ی عمر اِس وقت بڑھاپے کی ہے۔ جوانی میں بھی انسان کی زندگی کا اعتبار نہیں ہوتا مگر بڑھاپے میں تو ایک دن کے لئے بھی انسان وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ رہے گا کجا یہ کہ وہ اِس قدر لمبا عرصہ رہے کہ اُس کے ہاں چار بیٹے پیدا ہو جائیں۔
پھر اصل سوال یہ نہیں کہ اِس عمر میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ بعض دفعہ سَو سال کی عمر میں بھی انسان کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن کیا اِس شان کا بیٹا بھی اتفاقی طور پر پیدا ہو سکتا ہے جس شان کا بیٹا پیدا ہونے کی مَیں خبر دے رہا ہوں۔ کیا یہ میرے اختیار کی بات ہے کہ میں بیٹا پیدا کروں اور وہ بیٹا بھی ایسا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے اور خداتعالیٰ کا کلام اُس پر نازل ہو۔ اگر ایسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی طرف سے بنا لی تو ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا ہیں کیونکہ باتیں آپ نے وہ کہیں جو خداتعالیٰ کے سِوا اور کوئی نہیں کہہ سکتا اور اگر وہ خدا نہیں اور اگر مرزا صاحب کو خدا قرار دینا یقیناً شرک ہے، وہ اُس کے بندوں میں سے ایک بندے تھے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ باتیں جو انہوں نے کہیں ناممکن ہے کہ کوئی انسان اپنی طرف سے کہے اور پھر وہ پوری ہو سکیں۔ چنانچہ انہی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ اِس کے معنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سمجھ میں نہیں آئے مگر اِن الفاظ میں جو بات بیان کی گئی تھی وہ ۱۸۸۹ء میں آ کر پوری ہو گئی۔ پیشگوئی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اُس لڑکے کا نام محمود ہو گا اور چونکہ اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اِس لئے میرا پورا نام بشیرالدین محمود احمد رکھا گیا اور خداتعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ وہ جو پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا یہ اَمر کئی رنگوں میں میرے ذریعہ سے پورا ہو گیا۔ چنانچہ انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء میں شائع کی گئی تھی۔ پس ۱۸۸۶ء ایک، ۱۸۸۷ء دو، اور ۱۸۸۸ء تین اور ۱۸۸۹ء چار ہوئے اور ۱۸۸۹ء ہی وہ سال ہے جس میں میری پیدائش ہوئی۔ پس تین کو چار کرنے والے کا مطلب یہ تھا کہ آج سے چوتھے سال وہ لڑکا تولد ہو گا۔ چنانچہ اِس پیشگوئی کے عین چوتھے سال ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو میری پیدائش ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان شائع کیا کہ وہ جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی وہ پیدا ہو گیا ہے۔ مگر ابھی اِس بارے میں انکشافِ تام نہیں ہوا کہ یہی وہ لڑکا ہے جس کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا تھا یاوہ کسی اور وقت پیدا ہو گا اور آپ نے تفاؤل کے طور پر میرا نام بشیر اور محمود رکھ دیا۔
پھر تین کو چار کرنے والی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی میرے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی بیوی سے مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز افضل احمد صاحب دو بیٹے ہوئے تیسرا بیٹا ہماری والدہ سے بشیر احمد اوّل پیدا ہوا اور چوتھا مَیں پیدا ہوا۔ گویا پیشگوئی میں بتایا یہ گیا تھا کہ وہ چوتھا بیٹا ہو گا اور اپنی پیدائش کے ساتھ تین بیٹوں کو چار کر دے گا۔
اَب یہ جو پیشگوئی ہے اِس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں۔ پہلا حصہ اِس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اَب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا تھاجب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے۔ بعض بڑے بڑے مصنف ہوتے ہیں اور وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں۔ اِس وجہ سے اُن کا نام مشہور ہو جاتا ہے۔ بعض بُرے کام کرتے ہیں اور اِس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں لیکن بہرحال اُن کی اچھی یا بُری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی کسی ایک علاقہ یا ایک حصہ ملک میں اُن کی شہرت ہوتی ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔
پس یہ پیشگوئی اِسی صورت میں عظیم الشان پیشگوئی کہلا سکتی تھی جب آپ کی شہرت غیرمعمولی حالات میں ہوتی، چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ ایسا ہی ہوا۔ جب میں پیدا ہوا تو اِس کے دواڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اِس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہو گئیـ۔
۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو ہمارے سلسلہ کی بنیاد پڑی ہے اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو حالت تھی وہ اِس سے ظاہر ہے کہ تمام مسلمان آپ کے دشمن تھے۔ اپنے کیا اور بیگانے کیا، رشتہ دار کیا اور غیررشتہ دار کیا، سب آپ کی مخالفت کرنے لگ گئے یہاں تک کہ گورنمنٹ کی نظروں میں بھی آپ کا دعویٰ کھٹکنے لگاـ کیونکہ آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں مہدی ہوں اور مہدی کے متعلق مسلمانوں میں مشہور تھا کہ وہ کُفّار کا خون بہائے گا۔ پس گورنمنٹ کو شبہ پڑا کہ ایسا نہ ہو اِس کے ذریعہ دنیا میں کوئی فساد پیدا ہو۔ چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے اُس وقت قادیان میں ہمیشہ ایک کانسٹیبل رہتا تھا اور جو شخص بھی آپ سے ملنے کے لئے آتا اُس کا نام نوٹ کر کے وہ گورنمنٹ کو اطلاع دے دیتا اور اگر کبھی کوئی سرکاری افسر احمدی ہو جاتا تو بالا افسر اُسے اشاروں ہی اشاروں میں سمجھاتے کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ فرقہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تمہیں اِس میںشامل ہونے سے اجتناب اختیار کرنا چاہئے۔ یہ مخالفت آخر بڑھتے بڑھتے اتنی شدید ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بچپن سے آپ کے دوست تھے اور ہمیشہ آپ سے تعلقات رکھتے تھے جنہوں نے براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو بھی لکھا تھا وہ بھی آپ کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں یہ الفاظ لکھے کہ مَیںنے اِس شخص کو بڑھایا تھا اور اَب مَیں ہی اِس کو گراؤں گا۔۱۳؎
اِسی شہر لاہور کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مریض کی عیادت کیلئے سنہری مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور بندگاڑی میں سوار ہوئے۔ اُن دنوں بند گاڑی کو شکرم کہا جاتا تھا۔ جب آپ دہلی دروازہ سے روانہ ہوئے تو وہاں اُن دنوں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ اِس چبوترے پر کھڑے ہو کر ایک شخص شور مچار رہا تھا کہ دیکھو! یہ شخص مرتد ہے، کافر ہے، اِس پر پتھر پھینکو گے تو ثواب حاصل ہو گا اور اُس کے اِردگرد بہت بڑا ہجوم تھا۔ جب گاڑی قریب سے گزری تو لوگ آپ پر لعنتیں ڈالنے لگے اور آوازیں کسنے لگے۔ بعض نے آپ پر پتھر بھی پھینکے اور گالیاں دینی شروع کر دیں۔ میرے لئے بچپن کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی۔ میں نے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا اور مَیںنے دیکھا کہ اُس شخص کے پاس جو یہ شور مچا رہا تھا ایک اور شخص کھڑاتھا اوربڑا ساجُبہ پہنے ہوئے تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کوئی مولوی ہے مگر اُس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اُس پر زرد زرد ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں مَیں نے دیکھا کووہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا مرزا نَٹھ گیا، مرزا نَٹھ گیا۔ گویا وہ اپنے زخمی ہاتھ کو بھی دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک ثواب کا کام کر رہا ہے۔
پھر یہیں لاہور میںمیلا رام کے منڈوہ ۱۴؎ میں ۱۹۰۴ء میں آپ کا ایک دفعہ لیکچر ہوا۔ محمود خان صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس کے والد رحمت اللہ خان صاحب اُن دنوں شہر کے کوتوال تھے انہوں نے پولیس کا بڑا اچھا انتظام کیا مگر پھر بھی چاروں طرف سے اُنہیں اِس قدر فساد کی رپورٹیں پہنچیں کہ انہوں نے چھاؤنی سے گورا سپاہی منگوائے اور آپ کے آگے پیچھے کھڑے کر دیئے۔ پھر مجھے وہ نظارہ بھی خوب یاد ہے جبکہ قادیان میں جس کا واحد مالک ہمارا خاندان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا اور لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا گیا، چوڑھوں کو کہا گیا کہ وہ صفائی نہ کریں، کمہاروں کو کہا گیا کہ وہ برتن نہ بنائیں، سقّوں کو کہا گیا کہ وہ پانی نہ بھریں، نائیوں کو کہا گیا کہ وہ حجامت نہ بنائیں، قلعی گروں کو کہا گیا کہ وہ آپ کے برتنوں پر قلعی نہ کریں۔ غرض نہ کوئی صفائی کرتا، نہ کوئی قلعی کرتا بڑی مصیبت سے اِرد گرد کے گاؤں والوں سے اِن ضروریات کو پورا کیا جاتا ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر آپ کی مسجد کے سامنے دیوار کھینچ دی گئی تاکہ کوئی شخص اِس میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آ سکے۔
اِسی طرح آپ پر مختلف قسم کے مقدمات دائر کئے گئے اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر چاہا کہ آپ کو مٹا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک پادری نے آپ پر اقدامِ قتل کا نہایت جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ایک شخص کو پیش کیا جو کہتا تھا کہ مجھے مرزا صاحب نے اِس پادری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ آخر اِسی شخص نے عدالت کے سامنے اقرار کیا کہ مجھے جھوٹ سکھایا گیا تھا تاکہ کسی طرح مرزا صاحب سزا یاب ہوں ورنہ وہ اِس الزام سے بالکل بَری ہیں۔ کرنل ڈگلس جو ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کے سامنے ہی مقدمہ پیش ہوا اور باوجود اِس کے کہ یہ مقدمہ عیسائیوں کی طرف سے تھا اور اِس بناء پر تھا کہ مرزا صاحب اسلام کی تائید کرتے اور عیسائیوں کو دجّال قرار دیتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عیسائیوںکی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے۔ یہ وہی شخص تھے جنہوں نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اَب میں ہی انہیں گراؤں گا۔
مسٹر ڈگلس جن کے سامنے یہ کیس پیش ہوا (اور جو ۲۵؍فروری ۱۹۵۷ء کو لنڈن میں وفات پا گئے ہیں)پہلے ایسے متعصب عیسائی تھے کہ جب وہ گورداسپور آئے تو انہوں نے آتے ہی اِس بات پر اظہارِ تعجب کیا کہ ابھی تک اِس شخص کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا جو اپنے آپ کو مسیح موعودکہتا ہے۔ لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ میں اُن کے سامنے پیش ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتے ہی اُن کی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ اُنہیں یقین ہو گیا کہ یہ شخص مجرم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر نے ڈائس پر اپنے پہلو میں کرسی بچھوائی اور اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تشریف رکھنے کے لئے کہا۔ یہ وہی دن تھا جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی وہ اِس امید پر آئے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ مگر جب وہ اندر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مدعی اور اُس کے ساتھی تو باہر کھڑے ہیں اور ملزم کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر اُن کو آگ لگ گئی اور اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ میرے لئے بھی کرسی کا انتظام کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیاکہ میںنہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو کیوں کرسی دی جائے۔ آپ ایک گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں اور گواہوں کو کرسی نہیں ملا کرتی۔ اِس پر وہ زیادہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں مجھے ضرور کرسی دی جائے۔ مسٹر ڈگلس کہنے لگے میں نے کہہ جو دیا ہے کہ آپ کو کرسی نہیں ملے گی۔ اِس پربھی وہ خاموش نہ ہوئے اور کہنے لگے میں لاٹ صاحب کے پاس ملنے جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دے دیتے ہیں آپ مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے۔ یہ سن کر ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا اگر ایک چوڑھا بھی ہم سے مکان پر ملنے کے لئے آئے تو ہم اُسے بھی کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے یہاں تمہیں کرسی نہیں مل سکتی۔ وہ اِس پر بھی خاموش نہ ہوئے اور پھر کرسی کے لئے اصرار کرنے لگے۔ آخر ڈپٹی کمشنر نہایت غصہ سے کہنے لگا بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میںکھڑا ہوجا۔
یہ اُس شخص کا حال ہوا جس نے کہا تھا کہ مَیں نے ہی اِس شخص کو بڑھایا تھا اور اَب میں ہی اِس کو گراؤں گا۔ وہاں سے اپنی ذلّت کروا کے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی اُس پر آ کر بیٹھ گئے۔ مگر مشہور ہے کہ نوکر آقا کے پیچھے چلتے ہیں۔ چپڑاسی جو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ اندر ڈپٹی کمشنر اِن پر سخت ناراض ہوئے ہیں اُس نے جب دیکھا کہ برآمدہ میں یہ کرسی پر آ کر بیٹھ گئے ہیں تو وہ دَوڑا دَوڑا آیا اور آ کر کہنے لگا مولوی صاحب! کرسی سے اُٹھیے یہاں آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ وہاں سے اُٹھے تو باہر ہجوم میں آ گئے۔ وہاں کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی ۔یہ جاتے ہی اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے یہاں چادر پر بیٹھا دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے کمرہ عدالت میں بھی اچھی جگہ ملی ہو گی۔ مگر وہ جس نے خدا کے مأمور کے متعلق کہا تھا کہ مَیں نے ہی اِسے بڑھایا ہے اور اَب میں ہی اِسے نیچے گراؤں گا خدا نے اُسے یہاں بھی ذلیل کیا۔ابھی وہ چادر پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک باغیرت مسلمان دَوڑا دَوڑا آیااور کہنے لگا میری چادرپلید مت کرو تم ایک مسلمان کے خلاف ایک عیسائی کے حق میں گواہی دینے آئے ہو۔آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی ذلّت کے ساتھ اُٹھنا پڑا۔
پھر میں نے خود اِنہی مولوی محمد حسین صاحب کو اِس حالت میں دیکھا کہ عجز اور مَسکنت ان کی صورت سے ظاہر ہوتی تھی۔میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تووہ کسی کام کے لئے مجھ سے ملنے کے لئے آئے مگر انہیں شرم آتی تھی کہ جس شخص کی ساری عمر مَیں شدید مخالفت کرتا رہا اُس کے بیٹے سے کس طرح ملوں ۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ کمرے میں آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے پھر آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے چار پانچ دفعہ انہوں نے اسی طرح کیا۔
ہمارے ہاں ایک ملازم ہوا کرتا تھا پیرا اُس کا نام تھا وہ بالکل اَنْ پڑھ اور جاہل تھا۔ نمازتک اُسے یاد نہیں ہوتی تھی بیسیوں دفعہ اَسے یاد کرائی گئی مگر دہ ہمیشہ بھول جاتا۔ اُسے کبھی تاریں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ بھجوادیا کرتے تھے یا کوئی بِلٹی آتی تو اُسے چھڑوانے کے لئے اُسے بٹالہ بھجوا دیا جاتا ۔ایک دفعہ اِسی طرح وہ کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ گیا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُسے مل گئے۔ مولوی صاحب کی عادت تھی کہ وہ اسٹیشن پر جاتے اور لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے ایک دن انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو پیرے کو ہی انہوں نے پکڑ لیا اورکہنے لگے۔ پیرے تم مرزا صاحب کے پاس کیوں رہتے ہو وہ تو کافر اور بے دین ہیں۔ وہ کہنے لگا مولوی صاحب میں تو پڑھا لکھا آدمی نہیں نماز تک مجھے نہیں آتی کئی دفعہ لوگوں نے مجھے سکھائی ہے مگر مجھے یاد نہیں ہوتی پس مجھے مسائل تو آتے ہی نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے جو میں نے دیکھی ہے ۔مولوی صاحب کہنے لگے وہ کیا؟ پیرے نے کہا میں ہمیشہ تاریں دینے یا بلٹیاں لینے کے لئے بٹالے آتا رہتا ہوںاور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو یہاں پھرتے اور لوگوں کو ورغلاتے دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص قادیان نہ جائے۔مولوی صاحب! اب تک آپ کی اِس کوشش میں شاید کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی مگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں سنتا۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر بھی ساری دنیا اُن کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے۔ آخر اُن کے پاس کوئی سچائی ہے تبھی تو ایسا ہو رہا ہے ورنہ لوگ آپ کی بات کیوں نہ سنتے۔
تو دنیا جس قدر مخالفت کر سکتی تھی اُس نے کی مگر باوجود اِس کے ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک اور ایک کے بعد ایک اِس سلسلہ میں داخل ہونا شروع ہوا۔ ہندوستان کے ہر گوشہ سے لوگ آئے اور اِس جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر صرف ہندوستان میں ہی نہیں افغانستان میں بھی یہ سلسلہ پھیلا۔ یہاں تک کہ وہ شخص جس نے امیر حبیب اللہ خان کے سر پر تاج رکھا تھا وہ بھی آپ کی بیعت میں شامل ہو گیااور اِسی ایمان کی وجہ سے کابل میں سنگسار کیا گیا۔ اِن کی سنگساری سے پہلے امیر حبیب اللہ خان نے اُن کو بار بار کہا کہ ایک دفعہ لوگوں کے دکھانے کے لئے ہی کہہ دیںکہ میں احمدی نہیں، میں آپ کی ہتھکڑی اُتارنے کے لئے تیار ہوں۔ مگر وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ بادشاہ! تم کو کیا پتہ کہ یہ ہتھکڑی مجھے سونے کے کڑوں سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے۔ جب اُنہیں سنگسار کرنے کے لئے پتھر پھینکے گئے تو وہ لوگ جو اُس وقت پاس موجود تھے بتاتے ہیں کہ اِدھر اُن پر پتھر پڑ رہے تھے اور اِدھر اُن کی زبان سے یہ کلمات نکل رہے تھے کہ اے خدا! میری اِس قوم کو بخش دے اور اِسے ہدایت دے کیونکہ اِسے پتہ نہیں کہ میں سچائی پر قائم ہوں۔
بہرحال اُس وقت صرف افغانستان تک ہی جماعت احمدیہ پہنچی تھی اور ممالک میں صرف اِکاّ دُکاّ کوئی احمدی تھا۔ خود ہندوستان میں اُس وقت جماعت احمدیہ کی یہ حالت تھی کہ گو اِس کے اکثر حصوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچ چکا تھا مگر جماعت کا رُعب ابھی قائم نہیں ہوا تھا۔ لوگ مخالفت کرتے اور شدت سے کرتے تھے۔ اِسی شہر لاہور میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر جو کچھ کیا گیا وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ جماعت احمدیہ کی اُس وقت کیا حالت تھی۔ اور اے لاہور کے لوگو! ہم نے آپ لوگوں کو گو اپنے دل سے بخش دیا ہے مگر آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات پر جو سلوک ہم سے کیا وہ دنیا میں کوئی شریف انسان کسی دوسرے شریف انسان سے نہیںکیا کرتا۔ دنیا میں ایک انسان کا معمولی باپ مر جاتا ہے جس پر اُس کا گزارہ بھی نہیں ہوتا، دنیا میں کسی شخص کی ماں مر جاتی ہے، دنیا میں کسی شخص کا بچہ مر جاتا ہے تو سب لوگ اُس سے ہمدردی کرنے کے لئے آتے ہیں۔ مگر ہم میں اُس شخص کی وفات ہوئی جو میرے لئے ہی نہیں ساری جماعت کے لئے خدا کا ایک نور تھا، ہمارا مقتدا اور پیشوا تھا جس سے ہماری نجات وابستہ تھی مگر اُدھر آپ کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی نعش کو قادیان لے جانے کی تیاری کرنے لگے اور اِدھر لاہور کے ہزاروں آدمیوں نے چارپائی پر ایک شخص کو لٹا کر اور اُس پر کفن کی طرح کپڑا ڈال کر اپنے کندوں پر اُٹھا لیا اور ہمارے دل دُکھانے کے لئے اِن ہزاروں آدمیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہائے ہائے مرزا۔ ہائے ہائے مرزا۔مگر ہمارے حوصلے ہیں کہ ہم نے کبھی اِس کا گلہ نہیں کیا۔ ہمارے دل سے کبھی اے لاہور والو! تمہارے متعلق بددعا بھی نہیں نکلی۔ ہم نے تمہارا یہ فعل اپنی آنکھ سے دیکھا مگر پھرہم نے اپنے خدا سے یہی کہا کہ خدایا! یہ ناواقف لوگ ہیں اِن کو پتہ نہیں کہ جس شخص کی یہ مخالفت کر رہے ہیں وہ تیرا رسول اور دنیا کا نجات دہندہ ہے۔ اے ہمارے ربّ! انہوں نے جو کچھ کیا یہ سمجھ کر کیا کہ وہ ایک سچائی کی تائید کر رہے ہیں پس تو بھی اِن کو معاف فرما دے اور اِن کو اپنے کسی عذاب میں مبتلا مت کر بلکہ اِن کو ہدایت دے اور اِن کے دل اپنی سچائی کیلئے کھول دے تاکہ یہ تیرے نبی کا جھنڈا بلند کرنے کا باعث ہوں اِسے گرانے اور دین کو رُسوا کرنے کا موجب نہ ہوں۔
بہرحال یہ وہ حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اَب مرزا صاحب تو فوت ہو گئے ہیں اِس سلسلہ کا اَب خاتمہ سمجھو۔ تب اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک خلیفہ مقرر کریں۔ چنانچہ سب جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی اوروہ خلیفہ اوّل مقرر ہوئے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ جماعت کا شیرازہ بِکھرا نہیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ سب ترقی حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وجہ سے اِس سلسلہ کو حاصل ہو رہی تھی۔ وہ پیچھے بیٹھ کر کتابیں لکھتے اور مرزا صاحب اپنے نام سے شائع کر دیتے تھے۔ بس اِس کی زندگی تک اِس سلسلہ نے ترقی کرنی ہے، مولوی نورالدین صاحب کے مرتے ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ مگر خدا کی قدرت ہے اپنے تمام زمانہ خلافت میں حضرت خلیفہ اوّل نے ایک کتاب بھی نہ لکھی اور اِس طرح وہ اعتراض باطل ہو گیا جو مخالف کرتے رہتے تھے کہ کتابیں مولوی نورالدین صاحب لکھتے ہیں اور نام مرزا صاحب کا ہوتا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل کا طرزِ تحریر ہی بالکل اور رنگ کا تھا۔ مگر بہرحال لوگوں نے یہ سمجھا کہ حضرت مولوی صاحب تک ہی اِس سلسلہ کی زندگی ہے اِس کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا مگر وہ خدائے واحد و قہار جس نے بانی سلسلہ احمدیہ کو خبر دی تھی کہ تیرا ایک بیٹا ہو گا جو تیرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور دین اسلام کی شوکت قائم کرنے کا موجب ہو گا اُس نے مخالفوں کی اِس امید کو بھی خاک میں ملا دیا۔ آخر وہ وقت آ گیا جب حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہوئی۔اُس وقت جماعت میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ جماعت کے ایک برسراقتدار حصہ نے جس کے قبضہ میں صدرانجمن احمدیہ تھی، جس کے قبضہ میں خزانہ تھا اور جس کے زیر اثر جماعت کے تمام بڑے بڑے لوگ تھے کہنا شروع کر دیا کہ خلافت کی ضرورت نہیں۔ خواجہ کمال الدین صاحب جیسے سحرالبیان لیکچرار، مولوی محمد علی صاحب جیسے مشہور مصنف، شیخ رحمت اللہ صاحب جیسے مشہور تاجر، مولوی غلام حسین صاحب جیسے مشہور عالم جن کے سرحدی علاقہ میں اکثر شاگرد ہیں، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب جیسے بارسوخ اور صاحب جائداد ڈاکٹر یہ سب ایک طرف ہو گئے اور اِن لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایک بچہ کو بعض لوگ خلیفہ بنا کر جماعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ بچہ جس کی طرف ان کا اشارہ تھا مَیں تھا۔ اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور اللہ بہتر جانتا ہے مجھے قطعاً علم نہیں تھا کہ میرے متعلق یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ میں جماعت کا خلیفہ بنوں۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے نہ میںاِن باتوں میں شامل تھا اور نہ مجھے کسی بات کا علم تھا۔ سب سے پہلے میرے کانوں میں یہ آواز شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش ویئرہاؤس کی طرف سے آئی۔ میں نے سنا کہ وہ مسجد میں بڑے جوش سے کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر سلسلہ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ مجھے اُس وقت اُن کی یہ بات اتنی عجیب معلوم ہوئی کہ باہر نکل کر میں نے دوستوں سے پوچھا کہ وہ بچہ ہے کون جس کا آج شیخ رحمت اللہ صاحب ذکر کر رہے تھے۔ وہ میری اِس بات کو سُن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے وہ بچہ تم ہی تو ہو۔ غرض میں اِن باتوں سے اتنا بے بہرہ تھاکہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مَیں زیر بحث ہوں اور میرے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ اِس کی وجہ سے جماعت تباہ ہو رہی ہے۔ مگر خداتعالیٰ کی مشیّت یہی تھی کہ وہ مجھے دنیا کی مخالفانہ کوششوں کے باوجود آگے کرے اور میرے سپرد جماعت کی نگرانی کا کام کرے۔ میں نے امن قائم رکھنے اور جماعت کو تفرقہ سے بچانے کی بڑی کوشش کی مگر خدا تعالیٰ کے ارادہ کو کون روک سکتا ہے۔ آخر وہی ہوا جو اُس کا منشاء تھا۔ جوں جوں حضرت خلیفہ اوّل کی وفات نزدیک آتی گئی اِن لوگوں نے جماعت میں کثرت کے ساتھ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ آئندہ خلافت کا سلسلہ جاری نہیں ہونا چاہئے۔ جس دن حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے دنیا نے کہا اَب یہ سلسلہ ختم ہو گیا کیونکہ جس شخص پر اِس سلسلہ کا تمام انحصار تھا وہ اُٹھ گیا۔ اُس دن جب مخالفوں کی زبان پر یہ تھا کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ میں نے جماعت کو تفرقہ سے بچانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب سے گفتگو کی اور میں نے اُن سے کہا کہ آپ کسی شخص کو خلیفہ مقرر کریں میں اُس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مَیں نے اُن سے یہ بھی کہا کہ جب میں بیعت کر لوں گا تو وہ لوگ جو میرے ساتھی ہیں وہ بھی میرے ساتھ ہی خود بخود بیعت کر لیں گے اور اِس طرح تفرقہ پیدا نہیں ہوگا۔ مگر باوجود میری تمام کوششوں کے آخری جو اب مولوی محمد علی صاحب نے یہ دیا کہ آپ جانتے ہیں جماعت والے کس کو خلیفہ مقرر کریں گے اور یہ کہہ کر وہاں سے چلے آئے۔ حالانکہ میری نیک نیتی اِس سے ظاہر ہے کہ جس دن عصر کی نماز کے وقت لوگوں نے میری بیعت کی اُسی دن صبح کے وقت میں نے اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کیا اور اُن سے کہا کہ ہمیں ضد نہیں کرنی چاہئے اگر وہ خلافت کو تسلیم کر لیں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوںفریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو پھر اِن لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے اور میرے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام اہلِ بیت نے اِس امر کو تسلیم کر لیا۔ پھر میری یہ حالت تھی کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے چند دن پہلے میں اُس مقام پر گیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کیا کرتے تھے اور میں نے وضو کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ میری عمر اُس وقت اتنی چھوٹی نہ تھی مگر بڑی بھی نہ تھی۔ ۲۵سال میری عمر تھی، میری والدہ موجود تھیں، میری بیوی موجود تھیں اور میرے بچے بھی تھے مگر مَیں نے اُس وقت نیت کر لی کہ چونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری وجہ سے جماعت میں تفرقہ پیدا ہو رہا ہے اِس لئے میں خاموشی سے کہیں باہر نکل جاؤں گا تاکہ میں تفرقہ کا باعث نہ بنوں۔ چنانچہ میں نے دعا کی کہ خدایا! مَیں اِس جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والا نہ بنوں تُو میرے دل کو تقویت عطا فرما تاکہ مَیں پنجاب یا ہندوستان کے کسی علاقہ میں اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکل جاؤں اور میری وجہ سے کوئی فتنہ پیدا نہ ہو۔ اِس کے بعد میں نے پختہ ارادہ کر لیا کہ کہیں نکل کر چلا جاؤں گا مگر خدا کی قدرت ہے دوسرے تیسرے دن ہی اچانک حضرت خلیفہ اوّل کی وفات ہو گئی اور میں اِس جھگڑے میں پھنس گیا۔ تب جماعت کے غریب طبقہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اور وہ جو بڑے بڑے لوگ کہلاتے تھے جماعت سے الگ ہو گئے۔ اِن میں سے ایک ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے۔ انہوں نے وہاں سے روانہ ہوتے وقت ہماری عمارتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو جاتے ہیں کیونکہ جماعت نے ہم سے اچھا سلوک نہیں کیا لیکن تم دیکھ لو گے کہ دس سال کے عرصہ میں اِن جگہوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کے ہاتھ سے یہ تمام جائدادیں نکل جائیں گی۔ اُس وقت میرے ہاتھ پر دو ہزار کے قریب آدمیوں نے بیعت کی، باہر کی اکثر جماعتیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ ’’پیغام صلح‘‘ میں لکھا گیا کہ پچانوے فیصدی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے۔ مگر ابھی دو مہینے نہیں گزرے تھے بلکہ ابھی صرف ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ساری کی ساری جماعت میری بیعت میں شامل ہو گئی اور پیغام صلح نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ۹۵فیصدی جماعت مرزا محمود احمد کے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی ہمارے ساتھ۔ پھر میری مخالفت بھی تھوڑی نہیں ہوئی میرے قتل کی کئی بار کوششیں کی گئیں۔
احرار کی شورش کے ایام میں ہی ایک دفعہ قادیان میں سرحد کی طرف سے ایک پٹھان آیا اور میرے مکان کے دروازے پر کھڑے ہو کر اُس نے لڑکا اندر بھیجا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ مَیں تو اِن باتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتا مَیں آنے ہی لگا تھاکہ مجھے باہر کچھ شور کی آواز سنائی دی۔ معلوم ہوا کہ ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست جو پٹھان ہیں اُنہوں نے اُسے پکڑ لیا اور اُس کے نیفے میں سے چھرا نکال لیا۔ بعد میں اُس نے تسلیم کیا کہ میں واقع میں قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا۔
اِسی طرح یہاں لاہور میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی کو پھانسی ہوئی۔ جے میتھوز اُس کا نام تھا۔ اُس نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا جس کی پاداش میں سیشن جج نے اُسے پھانسی کی سزا دی۔ اُس نے اپنے بیانات میں اِس اَمر کا اظہار کیا کہ میں ایک دفعہ پستول لے کر مرزا محمود احمد کو مارنے کے لئے قادیان گیا تھا مگر ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ میں اُن سے مل نہ سکا اور وہ دریا پر چلے گئے۔ پھر میں پستول لیکر اُن کے پیچھے پیچھے دریا پر گیا۔ وہاں ایک دن میں نے اُن کے ایک ساتھی کو بندوق صاف کرتے دیکھا جس سے میں ڈر گیا کہ بندوق تو دُور تک وار کر جاتی ہے، ایسا نہ ہو میں خود ہی مارا جاؤں چنانچہ میں واپس آگیا اور اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑکر میں نے اُسے قتل کر دیا۔یہ ایک عدالتی بیان ہے جو سیشن جج کی عدالت میں اُس نے لاہور میں دیا۔ اُس نے یہ بھی ذکر کیا کہ لوگوں کی جوش دلانے والی باتیں سن کر مَیں نے اِن کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔
پھر اِسی قسم کا ایک اور کیس ہوا۔ ایک شخص ہماری دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا۔ بعد میں پولیس نے اُسے پاگل قرار دیکر چھوڑ دیا حالانکہ وہ دیوار پھاندتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا وہ قتل کرنے کی نیت سے ہی آیا تھا۔
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے سالانہ جلسہ میں تقریر کر رہا تھا کہ پیچھے سے کسی شخص نے ملائی دی کہ جلدی سے حضرت صاحب تک پہنچا دی جائے آپ تقریر کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ چنانچہ گھبراہٹ میں لوگوں نے جلدی جلدی ملائی آگے پہنچانی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ وہ سٹیج پر پہنچ گئی۔ سٹیج پر کسی شخص کو ہوش آیا اور اُس نے ذرا سی ملائی اپنی زبان پر لگائی تو لگاتے ہی اُس کی زبان کٹ گئی۔ تب اِدھر اُدھر تلاش کیا گیا کہ ملائی دینے والا کون تھا مگر وہ نہ ملا۔ غرض ہر رنگ میں دشمنوں نے مجھے مٹانے اور گرانے کی کوشش کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اُن کو ناکام ونامراد رکھا۔
گزشتہ سالوں میں ہی لاہور میں سرسکندر حیات خاں نے اپنی کوٹھی پر مجھے اِس غرض کے لئے بُلا بھیجا کہ اگر کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میںفیصلہ کر دے گی۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا آپ کو ایسی میٹنگ میں شامل ہونے پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں اور نہ مجھے سیاسیات سے کوئی دلچسپی ہے۔میں تو ایک مذہبی آدمی ہوں اور چاہتا ہوں کہ اِس قسم کے جھگڑے جلد دُور ہو جائیں۔ وہاں احرار کی طرف سے چوہدری افضل حق صاحب شامل ہوئے اور انہوں نے بڑے غصہ سے کہاکہ میں اِن سے ہرگز صلح نہیں کر سکتا کیونکہ میں جب الیکشن کے لئے کھڑا ہوا تھا تو اِنہوں نے میری دو دفعہ مخالفت کی تھی۔ میں نے اُن سے کہا کہ مخالفت کرنا ہر شخص کا حق ہے مگر یہ درست نہیںکہ مَیں نے آپ کی دو دفعہ مخالفت کی ہے۔ ایک دفعہ مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے۔ سرسکندرحیات خاں بھی اِن سے کہنے لگے کہ آپ بھولتے ہیں آپ نے خود مجھے کہا تھا کہ امام جماعت احمدیہ سے چونکہ میرے دوستانہ تعلقات ہیں اِس لئے میں آپ کے متعلق اِن کے پاس سفارش کر دوں اور میں نے آپ کے کہنے پر سفارش کی اور انہوں نے آپ کی مدد کی۔ پس یہ درست نہیں کہ انہوں نے دو دفعہ مخالفت کی ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے مخالفت کی ہے اور ایک دفعہ تائید کی ہے۔ اِس پر چوہدری افضل حق صاحب کہنے لگے خواہ کچھ ہو مَیں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو کُچل کر رکھ دوں گا۔اسی طرح وہ غصہ میں اور بھی بہت کچھ کہتے چلے گئے میں مسکراتا رہااور خاموش رہا ۔جب وہ اپنا غصہ نکال چکے تو میں نے کہا چوہدری صاحب! ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے اگر ہمارا یہ دعویٰ جھوٹا ہے تو آپ کی کسی کوشش کی ضرورت نہیںخدا خود ہمارے سلسلہ کو کُچل دے گا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قائم کردہ سلسلہ ہے تو پھر آپ کی کیا حیثیت ہے دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ہمارے سلسلہ کو کچلنا چاہیں تو وہ خودکُچلے جائیں گے مگر ہمارے سلسلہ کو کُچل نہیں سکتے۔ اُس وقت مجلس میں نواب مظفر خان صاحب موجود تھے،شیخ محمد صادق صاحب موجود تھے، نواب احمد یار خاں صاحب دولتانہ موجود تھے،جب مجلس ختم ہوئی تو شیخ محمد صادق صاحب چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے گھر تک گئے اور انہیں کہا کہ چوہدری صاحب! آپ نے اچھا نہیں کیا۔گھر پر بُلا کر امام جماعت احمدیہ کی آج شدید ہتک کی گئی ہے چنانچہ بعد میں واپس آکر اُنہوں نے خود ہی ذکر کیا کہ میں چوہدری افضل حق صاحب کے ساتھ اُن کے دووازہ تک گیا تھا اور اُن سے کہا تھا کہ آپ نے آج جو کچھ کیا ہے اچھا نہیں کیا اور چوہدری افضل حق صاحب کہتے تھے کہ اب میں بھی محسوس کرتاہوں کہ مجھے یہ الفاظ نہیں کہنے چاہئے تھے اصل بات یہ ہے غصہ میں میری زبان قابو میں نہیں رہی تھی۔ تو لوگوں نے ہر طرح زور لگایا کہ ہمارے سلسلہ کو مٹا دیں ۔
یہاں تک کہ ۱۹۳۴ء میںانگریزی گورنمنٹ بھی ہماری جماعت کی مخالف ہوگئی۔سرایمرسن جو گورنر پنجاب رہ چکے ہیں گورنری سے پہلے میرے بڑے دوست تھے۔یہاں تک کہ لندن سے انہوں نے مجھے چٹھی لکھی کہ میں اب گورنر بن کر آرہا ہوں اور امید کرتے ہیں کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے مگر یہاں آتے ہی ہماری جماعت کے شدید مخالف ہوگئے یہاں تک کہ سر فضل حسین صاحب نے ایک ملاقات کے دَوران میں مجھ سے کہا کہ نہ معلوم سرایمرسن کو کیا ہوگیا ہے وہ تو آپ کے سلسلہ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں۔پھر انہوں نے کریمنل لاء ایمنڈمنٹ (CRIMINAL LAW AMENDMENT)ایکٹ مجھ پر لگانا چاہا اور قادیان میں احرار کا جلسہ کرایاجس میں ہمارے سلسلہ کی شدید ہتک کی گئی۔ غرض ہر رنگ میں ہماری مخالفت ہوئی اور ہر طبقہ نے مخالفت کی۔افغانستان میں میرے زمانہ میں جماعت احمدیہ کے چار آدمی یکے بعد دیگر ے شہید کئے گئے حالانکہ افغانستان کے وزیر خارجہ نے خود ہمیں چٹھی لکھی تھی کہ افغانستان میں آپ کو تبلیغ کی اجازت ہے بے شک اپنے مبلّغ بھجوائیں۔مگر جب ہم نے اپنے مبلّغ بھجوائے تو حکومت نے اُن کو سنگسار کر دیا۔ غرض جتنا زور دنیا لگا سکتی تھی اُس نے لگا کر دیکھ لیامگر باوجود اِس کے خدانے ہمیں بڑھایا اور ایسی ترقی دی جوہمارے وہم اور خیال میں بھی نہیں تھی۔
جب میں خلیفہ ہوا اُس وقت ہمارے خزانہ میں صرف چودہ آنے کے پیسے تھے اور ۱۸ ہزار کا قرض تھایہاں تک کہ میں نے اپنے زمانۂ خلافت میں جوپہلا اشتہار لکھا اور جس کا عنوان تھا۔ ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘ اُس کو چھپوانے کے لئے بھی میرے پاس کوئی روپیہ نہ تھا۔ اُس وقت ہمارے نانا جان کے پاس کچھ چندہ تھاجو اُنہوں نے مسجد کے لئے لوگوں سے جمع کیا تھا اُنہوں نے اُس چندہ میں سے دو سَوروپیہ اِس اشتہار کے چھپوانے کے لئے دیا اور کہا کہ جب خزانہ میں روپیہ آنا شروع ہو جائے گا تو یہ دو سَو روپیہ ادا ہو جائے گا۔ غرض وہ روپیہ اُن سے قرض لے کر یہ اشتہار شائع کیا گیا۔مگر اُس وقت جب جماعت کے سر کردہ لوگ میرے مخالف تھے، جب جماعت کے لیڈر میرے مخالف تھے، جب خزانہ خالی تھا، جب صرف چودہ آنے کے پیسے اس میں موجود تھے، جب اٹھارہ ہزار کا انجمن پر قرض تھا، جب انجمن کی اکثریت میر ی مخالف تھی، جب انجمن کا سیکرٹری میرا مخالف تھا، جب مدرسہ کا ہیڈماسٹر میرامخالف تھا میرے یہ الفاظ ہیں جو میں نے خدا کے منشاء کے ماتحت اُس اشتہار میں شائع کئے کہ:
’’خدا چاہتا ہے کہ جماعت کا اتحاد میرے ہی ہاتھ پر ہو اور خدا کے اِس ارادہ کو اَب کوئی نہیں روک سکتا۔کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ان کے لئے صرف دو ہی راہ کھلے ہیں یا تو وہ میری بیعت کرکے جماعت میں تفرقہ کرنے سے باز رہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑ کر اُس پاک باغ کو جسے پاک لوگوں نے خون کے آنسوئوں سے سینچا تھا اُکھاڑ کر پھینک دیں۔جو کچھ ہو چکا ہو چکا مگر اب اِس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کا اتحاد ایک ہی طریق سے ہو سکتا ہے کہ جسے خدا نے خلیفہ بنایا ہے اُس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے ورنہ ہر ایک شخص جو اُس کے خلاف چلے گا تفرقہ کا باعث ہوگا‘‘۔
پھر میں نے لکھا۔
’’ اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میری خلافت بڑی نہیں ہوسکتی اور سب کے سب خدانخواستہ مجھے تر ک کر دیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے نبی اکیلا ہی نبی ہوتا ہے اِسی طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے۔ خدا تعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پر رکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اُس کی مدد میرے شاملِ حال نہ ہو تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔لیکن مجھے اُس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گی۔‘‘
غرض طرح طرح کی مخالفتیں ہوئیں سیاسی بھی اور مذہبی بھی، اندرونی بھی اور بیرونی بھی مگر خداتعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں جماعت کو اَور زیادہ ترقی کی طرف لے جائوں۔چنانچہ یہ جماعت بڑھنی شروع ہوئی یہاں تک کہ آج دنیا کے کونے کونے میں یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیل چکی ہے۔ اِسی شہر لاہور میں پہلے جماعت احمدیہ کے صرف چند افراد ہوا کرتے تھے مگر آج ہزاروں کی تعداد میں یہاں جماعت موجود ہے اِسی طرح دنیا کے ہر گوشہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اور اسلام کا پیغام میرے ذریعہ سے پہنچ چکا ہے اور وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی وہ میرے وجود میں بڑی شان سے پوری ہو چکی ہے۔ اِس پیشگوئی میں اُنسٹھ باتیں بتائی گئی ہیں۔مگر ان تمام باتوں کے متعلق اس وقت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔صرف ایک دو باتیں میں بیان کردیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس طرح میرا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی طرح میرا بیٹا دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ دنیا کے کناروں کے لحاظ سے امریکہ ایک طرف ہے اور جاپان دوسری طرف۔ درمیان میںیورپ اور افریقہ کا علاقہ ہے۔ ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے مطابق مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں احمدیہ مشن قائم کروں۔چنانچہ اِس وقت امریکہ میں احمدیہ مشن قائم ہے، انگلستان میں احمدیہ مشن قائم ہے، شمالی اور جنوبی افریقہ میں احمدیہ مشن قائم ہے،چین اور جاپان میں بھی احمدیہ مشن قائم کئے گئے تھے مگر جنگ کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے بند کردئیے ہیں، سماٹرا اور جاوا میں احمدیہ مشن قائم ہیں، اسی طرح جرمنی میں اورہنگری میں،ارجنٹائن میں، یوگوسلاویہ میں ،البانیہ میں ،پولینڈ میں، زیکوسلواکیہ میں، سیرالیون میں، گولڈکوسٹ میں، نائیجیریا میں، مصر میں، فلسطین میں، ماریشس میں، شام میں، روس میں، سڑیٹ سیٹلمنٹس ۱۵؎ میں ،ایران میں ،کابل میں، ملایا میں اور دوسرے کئی ممالک میں اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور و ہ پیشگوئی پوری ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کہ دنیا کے کناروں تک وہ اسلام اور احمدیت کا نام پہنچائے گا۔ یہ پیشگوئی جس نے شائع کی اُس کا اپنا نام اُس گاؤں کے رہنے والے بھی نہیں جانتے تھے جو اُس کا وطن تھا مگر اُس نے کہا نہ صرف میرا نام دنیا کے کونہ کونہ میں مشہورہو گا بلکہ میرا ایک بیٹا ہوگا اور اُس کا نام بھی دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ یہ پیشگوئی جس شان کے ساتھ پوری ہو چکی ہے اِس سے کوئی شخص جس کے دل میں سچائی اور دیانت کا ایک ذرّہ بھر بھی مادہ ہو اِنکار نہیں کرسکتا ۔
۱۸۸۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۸۸۶ء کے اشتہار کی مزید تشریح کرتے ہوئے ایک اشتہار شائع فرمایا تھا جو سبز رنگ کے کاغذوں پرشائع ہوا ۔ہماری جماعت میں اس اشتہار کانام ہی ’’سبز اشتہار‘‘ مشہور ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ وہ مکان جس میں آپ نے چالیس روز اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جو اَب ایک ہندو دوست کے قبضہ میں ہے اور جسے ہم ہوشیار پور میں دیکھ آئے ہیں اُس کا رنگ بھی سبز ہی ہے۔ گویا ۱۸۸۸ء کا اشتہار بھی سبز رنگ کے اَوراق پر شائع ہوا اور اُس مکان کا رنگ بھی سبز ہی ہے جو اُس ہندو دوست کے قبضہ میں ہے۔ سیٹھ صاحب قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے تھے میں نے اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیونکر خیال آگیا کہ اس مکان پر سبز رنگ کیا جائے کوئی اور رنگ نہ ہو۔ وہ کہنے لگے ہمارا کاروبار چونکہ بہت وسیع ہے (چنانچہ ایک ہسپتال انہوں نے بنایا ہوا ہے جس میں سینکڑوں مریضوں کو روزانہ مفت دوا دی جاتی ہے اسی طرح اُن کی ایک سرائے ہے)اس لئے جب یہ مکان بنا تو ایک کمپنی جس کا نام انہوں نے غالباً ڈیکوبتایا اُس کا ایجنٹ ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا ہماری فرم آپ کی کوٹھی پر مفت پینٹ کرنا چاہتی ہے بتائیے آپ کو نساروغن کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کوئی روغن کردیں۔ اُس نے روغنوں کی کاپی نکال کر میرے سامنے رکھ دی کہ ان میںسے کوئی سا روغن پسند کر لیں ۔ اُس وقت بے اختیارمیری اُنگلی سبز رنگ کی طرف اُٹھ گئی اور میں نے کہا کہ یہ رنگ ہماری کوٹھی پر کردیں چنانچہ سبز رنگ کر دیا گیا اور وہ اشتہار بھی سبز رنگ کا ہی تھا جس میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کی خبر کی مزید تشریح فرمائی تھی۔
بعض لوگ کہتے ہیں مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چار سَوسال کے بعد آئے گا موجودہ زمانہ میں نہیں آسکتا ۔ مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اِس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں رکھتا۔چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے اندر من اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں اے خدا! تو ایسا نشان دکھا جو اِن نشان طلب کرنے والوںکوا سلام کا قائل کردے، تو ایسا نشان دکھا جو اندرمن مرادآبادی وغیرہ کو اسلام کا قائل کر دے۔ اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سَو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہوگا۔ کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اِس بات کو معقول قراردے سکے؟ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازہ پر جائے اور کہے بھائی! مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے خدا کے لئے مجھے پانی پلاؤاور وہ آگے سے یہ جواب دے کہ صاحب! آپ گھبرائیں نہیں میں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے وہاں سے اِسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجہ کا ایسنس آجائے گا اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلادیا جائے گا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کرسکتا۔کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اُس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ پنڈت لیکھرام، منشی اندرمن مراد آبادی اور قادیان کے ہندو تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ ہے اگر اِس دعویٰ میںکوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے رحمت کا نشان دکھا،تو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما۔پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونا چاہئے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۱۸۸۹ء میں جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ نشان مانگا تھا پھر جو ں جوں میں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے۔ بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی پہلے کالی کھانسی ہوئی اور پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ بارہ سال کی عمر تک میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتارہا کہ میری زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی۔ اِسی دَوران میں میری آنکھیں دُکھنے آگئیں اور اِس قدر دُکھیں کہ میری ایک آنکھ قریباً ماری گئی۔ چنانچہ اس میں سے مجھے بہت کم نظر آتاہے۔ پھر جب میں اور بڑا ہوا تو متواتر چھ سات ماہ تک مجھے بخار آتا رہا۔اورسِل اور دِق کا مریض مجھے قرار دے دیا گیا۔ اِن وجوہ سے میں باقاعدہ پڑھائی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لاہور کے ہی ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کی مسلم ٹاؤن میں کوٹھی ہے ہمارے سکول میںحساب پڑھایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ پڑھنے نہیں آتا اور اکثر غائب رہتا ہے۔ میں ڈرا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام ناراض ہوں گے مگر آپ فرمانے لگے ماسٹر صاحب! اِس کی صحت کمزوررہتی ہے ہم اتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتاہے اور کوئی بات اِس کے کانوں میں پڑجاتی ہے زیادہ زور اس پر نہ دیں۔ بلکہ مجھے یاد ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہم نے حساب سکھا کر اسے کیا کرنا ہے۔ کیا ہم نے اِس سے کوئی دُکان کرانی ہے۔قرآن اور حدیث پڑھ لے گا تو کافی ہے۔غرض میری صحت ایسی کمزور تھی کہ دنیا کے علم پڑھنے کے میں بالکل نا قابل تھا میری نظر بھی کمزور تھی مَیں پرائمری مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں فیل ہوا ہوں کسی امتحان میں پاس نہیں ہوا۔ مگر خدا نے میرے متعلق خبر دی تھی کہ میں علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جاؤں گا۔چنانچہ باوجود اس کے کہ دُنیوی علوم میں سے کوئی علم میں نے نہیں پڑھا اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان علمی کتابیں میرے قلم سے لکھوائیں کہ دنیا اِن کو پڑھ کر حیران ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اِس سے بڑھ کر اسلامی مسائل کے متعلق اور کچھ نہیں لکھا جاسکتا ۔ابھی تفسیر کبیرکے نام سے میں نے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ لکھا ہے اسے پڑھ کر بڑے بڑے مخالفوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اِس جیسی آج تک کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔پھر ہمیشہ میں لاہور میں آتا رہتا ہوں اور یہاں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ سے کالجوں کے پروفیسر ملنے آتے ہیں، سٹوڈنٹس ملنے آتے ہیں، ڈاکٹر ملنے آتے ہیں، مشہور پلیڈر اور وکیل ملنے آتے ہیںمگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بڑے سے بڑے مشہور عالم نے میرے سامنے اسلام اور قرآن پر کوئی اعتراض کیا ہواور میں نے اسلام اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ہی اُسے ساکت اور لاجواب نہ کردیاہو اور اسے یہ تسلیم نہ کرنا پڑا ہو کہ واقعہ میں اسلام کی تعلیم پر کوئی حقیقی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہے ورنہ میں نے دُنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی علم نہیں سیکھا لیکن میںاِس بات سے انکار نہیںکر سکتا کہ خدا نے مجھے اپنے پاس سے علم دیااور خود مجھے ہر قسم کے ظاہری اور باطنی علوم سے حصہ عطا فرمایا۔
مَیں ابھی بچہ ہی تھا کہ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اُس میں سے ٹن کی آواز پیداہوئی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تصویر کے فریم کی صورت اختیار کر گئی۔پھر میں نے دیکھا کہ اُس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی۔تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اُس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آگیا اور اُس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں اور تمہیں قرآن کریم کی تفسیر سکھانے کے لئے آیا ہوں ۔میںنے کہا سکھاؤ۔ تب اُس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کردی وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیایہاں تک کہ جب وہ ۱۶؎ تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنے مفسر گزرے ہیں اُن سب نے صرف اِس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اِس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں۔ چنانچہ اُس نے ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی۔
اِس رؤیا کے معنی درحقیقت یہی تھے کہ فہمِ قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ ملکہ میرے اندر اِس قدر ہے کہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں اور جس مجلس میں چاہومَیں یہ دعویٰ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ سورۃ فاتحہ سے ہی میں تمام اسلامی علوم بیان کر سکتا ہوں۔
میں ابھی چھوٹا ہی تھاسکول میں پڑھا کرتا تھا کہ ہمارے سکول کی فٹ بال ٹیم امرتسر کے خالصہ کالج کی ٹیم سے کھیلنے کے لئے گئی ۔مقابلہ ہوا اور ہماری ٹیم جیت گئی ۔اس پرباوجود اُس مخالفت کے جو مسلمان ہماری جماعت کے ساتھ رکھتے ہیں چونکہ ایک رنگ میں مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی تھی اِس لئے امرتسر کے ایک رئیس نے ہماری ٹیم کو چائے کی دعوت دی۔جب ہم وہاں گئے تو مجھے تقریر کرنے کے لئے کھڑاکر دیا گیا۔ میں نے اس تقریر کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ جب مجھے کھڑا کیا گیا تو معاً مجھے یہ رؤیا یاد آگیا اور میں نے خداتعالیٰ سے دعاکی کہ اے خدا! تیرا فرشتہ مجھے خواب میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھا گیاتھا۔ آج میں اس بات کا امتحان لینا چاہتا ہوں کہ یہ خواب تیری طرف سے تھا یا میرے نفس کا دھوکا تھا۔ اگر یہ خواب تیر ی طرف سے تھا تو تو مجھے سورہ فاتحہ کا ہی آج کوئی ایسا نکتہ بتا جو اِس سے پہلے دنیا کے کسی مفسر نے بیان نہ کیا ہو۔چنانچہ اِس دعا کے معاً بعد خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نکتہ ڈالا اور میں نے کہا دیکھو! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعاسکھائی ہے کہ۱۷؎ اے مسلمانو! تم پانچ نمازوں میں اور اپنی نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کیا کرو کہ ہم اور ضَالّ نہ بن جائیں۔ کے معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثوں میں خود بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کے معنی ہیں اَلْیَہُوْد اور ضَالّ کے معنی ہیں نصاریٰ ۱۸؎ پس سے مراد یہ تھا کہ الٰہی! ہم یہودی نہ بن جائیں اور سے مراد یہ تھا کہ ہم نصاریٰ نہ بن جائیں۔ اِس امر کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اِس اُمت میںایک مسیح آئے گا۔ پس جو لوگ اُس کا انکار کریں گے وہ لازماً یہود صفت بن جائیں گے۔ دوسری طرف آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عیسائیت کافتنہ ایک زمانہ میں خاص طورپر بڑھ جائے گا لوگ روٹی کے لئے، ملازمت کے لئے، سوسائٹی میں عزت حاصل کرنے کے لئے عیسائیت اختیار کر لیں گے یا دھوکا کھا کر اور اپنے مذہب کی تعلیم کو نہ سمجھ کر عیسائیت قبول کر لیں گے۔۱۹؎ مگر یہ عجیب بات ہے کہ سورہ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور اُس وقت نہ عیسائی اسلام کے زیادہ مخالف تھے اور نہ یہودی اسلام کے زیادہ مخالف تھے۔اُس وقت سب سے زیادہ مخالفت مکہ کے بُت پرستوں کی طرف سے کی جاتی تھی۔ مگر دعا یہ نہیں سکھائی گئی کہ الٰہی! ہم بُت پرست نہ بن جائیں بلکہ دعا یہ سکھائی گئی ہے کہ الٰہی! ہم یہودی یا نصاریٰ نہ بن جائیںاس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِس سورۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمادی تھی کہ مکہ کے بُت پرست ہمیشہ کے لئے مٹادیئے جائیںگے اور اُن کا نام ونشان تک باقی نہیں رہے گا۔ پس اِس بات کی ضرورت ہی نہیں کہ ان کے متعلق مسلمانوں کو کوئی دعا سکھائی جائے ہاں یہودیت اور عیسائیت یا دونوں باقی رہیں گے اور تمہارے لئے ضروری ہو گا کہ ان کے فتنہ سے بچنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو۔ جب میری یہ تقریر ہو چکی تو بعد میں بڑے بڑے رؤسا مجھے ملے اور کہنے لگے آپ نے قرآن خوب پڑھا ہوا ہے۔ ہم نے تو اپنی ساری عمر میں یہ نکتہ پہلی دفعہ سنا ہے۔ چنانچہ واقعہ یہی ہے ساری تفسیروں کو دیکھ لو کسی مفسر قرآن نے آج تک یہ نکتہ بیان نہیں کیا۔ حالانکہ میری عمر اُس وقت بیس سال کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے یہ نکتہ مجھ پر کھولا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اُس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اِسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے۔ دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضیلت اُس پر ظاہر نہ کر سکوں۔ یہ لاہور شہر ہے یہاں یونیورسٹی موجود ہے، کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں، بڑے بڑے علوم کے ماہراِس جگہ پائے جاتے ہیں میں اِن سب سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے، دنیا کا کوئی سائنسدان میرے سامنے آجائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اُس کے اعتراض کا ر دّ ہوگیا اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا کے کلام سے ہی اُس کو جواب دوں گااور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو ردّ کر کے دکھا دوں گا۔
دوسری پیشگوئی میرے متعلق یہ کی گئی تھی کہ اس پر خدا کا کلام نازل ہوگا۔ یہ پیشگوئی بھی میری ذات میں پوری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے سینکڑوں مرتبہ غیب کی باتیں مجھ پر ظاہر کیں۔ مَیں اِس وقت صرف دوتازہ مثالیں دے دیتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے کلام سے نوازا اور غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرمائی ۔۱۹۳۹ء کی بات ہے میںاُس وقت دھرم سالہ میں تھا اور خبریں یہ آرہی تھیں کہ انگریزوں اور جرمنی میں لڑائی چھڑنے والی ہے۔ اُنہی دنوں میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور ایک فرشتہ میرے سامنے انگلستان اور فرانس کی حکومتوں کی باہمی خط و کتابت پیش کر رہا ہے وہ کاغذات میرے سامنے پیش کرتا چلا جاتا ہے اور میں ان کاغذات کو پڑھ کر اُسے واپس دیتا چلا جاتا ہوں گویا فائل میں سے وہ ایک ایک کاغذ نکالتا اور میرے سامنے پیش کرتا ہے اور میں پڑھنے کے بعد اُسے واپس دے دیتاہوں۔ اِسی دَوران میں اُس نے ایک کاغذ میرے سامنے پیش کیا اور میںنے دیکھا کہ وہ ایک خط ہے جو انگلستان کے وزیر اعظم نے فرانسیسی حکومت کی طرف لکھا ہے اور اُس کا مضمون یہ ہے کہ جنگ کی حالت ایسی خطرناک ہوگئی ہے کہ آج ہمارا ملک دشمن کے ہاتھوں میں چلے جانے کے خطرہ میں ہے۔ میں اِس نہایت ہی نازک حالت میں فرانس کو پیشکش کرتا ہوں کہ فرانسیسی اور انگریزی دونوں حکومتوں کا اِلحاق کر دیا جائے اِس طور پر کہ شہریت کے حقوق مشترک ہو جائیں یعنی حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں ملا دی جائیں۔ خوراک کے ذخائر اور خزانہ بھی ایک ہی سمجھا جائے۔ یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں مَیں سخت گھبرا گیا کہ کیا انگلستان کی ایسی حالت ہونے والی ہے کہ وہ فرانس کو یہ آفر (OFFER)پیش کرے گا کہ ہماری اور تمہاری دونوں حکومتیں ایک ہوجائیں اور شہریت کے حقوق مشترک کردیئے جائیں۔جب مَیں گھبرا تا ہوں تو فرشتہ مجھے کہتا ہے یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی چھ مہینہ کے بعد حالت بدل جائے گی اور انگلستان کی کمزوری کی یہ حالت جاتی رہے گی۔ مَیں نے یہ رؤیا اُسی وقت دوستوں کو سنا دی تھی۔ چنانچہ اِس رؤیا کے عین مطابق بعد میں واقعات رونما ہوئے۔ اِس رؤیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوباتیں بتائی گئی تھیں وہ یہ تھیں۔
اوّل۔جرمنی اور انگریزوں کی لڑائی ہوگی۔
دوم۔ انگلستان اور فرانس ایک طرف ہوں گے۔ یہ تو سب لوگ کہتے ہی تھے جہاں سے پیشگوئی کا حصہ شروع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اِس جنگ میں انگلستان پر ایک ایسا نازک وقت آئے گا جب انگریزی حکومت فرانسیسی حکومت سے درخواست کرے گی کہ انگریزی اور فرانسیسی گورنمنٹ کو ایک کر دیا جائے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں یہاں پر بڑے بڑے پروفیسر موجود ہیں،تاریخ دان بیٹھے ہوئے ہیں، میں اِن سب سے کہتا ہوں کہ دنیا کے کسی ملک کی تاریخ نکال کر دیکھ لو تمہیں کہیں یہ مثال نہیں ملے گی کہ دوزبردست حکومتوں میں سے جب ایک کو خطرہ محسوس ہوا ہو تو اُس نے دوسری حکومت سے یہ کہا ہو کہ آو ہم تم دونوں ایک ہو جائیں۔کوئی انسانی دماغ ایسی بات نہیں کہہ سکتا تھا کیونکہ انسانی دماغ وہی بات کہہ سکتا ہے جس کی مثالیں پہلے ملتی ہوں مگر میں نے بتایا ہے چھ سات ہزار سال کی تاریخ موجود ہے۔ امریکہ کی تاریخ لے لو، انگلستان کی تاریخ لے لو، ہندوستان کی تاریخ لے لو، ایران، مصر اور عرب کی تاریخ لے لو،چین اور جاپان کی تاریخ لے لو،دنیاکی کسی تاریخ میں سات ہزار سال کے لمبے عرصہ میں تمہیں یہ مثال نہیں ملے گی کہ دوزبردست حکومتوں میں سے ایک نے دوسری کو یہ پیشکش کی ہو کہ آؤ اِس موقع پر ہم دونوں ایک ہو جائیں اور دونوں حکومتوں کو باہم ملا دیا جائے۔ مگر سب لوگ جانتے ہیں۱۹۴۰ء میں جب فرانسیسی حکومت کو شکست ہوئی تو اُس وقت برطانیہ نے خیال کیا کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو اس وقت تک کچھ نہ کچھ مزاحمت اس کی طرف سے جاری رہے گی اس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے اور اس کی نو آبادیاں بھی کسی نہ کسی صورت میں جنگ جاری رکھیں گی لیکن اگر اس نے صلح کرلی تو جرمنی کا سارا زور ہم پر آپڑے گا۔ چنانچہ اُس وقت حکومت برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر آج تک دنیا کی تاریخ پیش نہیں کر سکتی اور انگلستان کے وزیراعظم نے فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے۔پس وہ الفاظ جو آج سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کبھی سُنے نہیں گئے تھے خدا نے مجھے بتائے اور وہی الفاظ انگلستان کے وزیراعظم نے فرانسیسی حکومت کو لکھ کر بھیج دیئے۔پھر اس رؤیامیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی۔چنانچہ جب رؤیا کا ایک حصہ پورا ہوگیا تو ہماری جماعت کے دلوں میں ایک جوش پیدا ہوا اور اُنہوںنے چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جانے کی خبرکثرت سے لوگوں میں پھیلانی شروع کردی۔چنانچہ یہ بات لوگوں میں خوب پھیل گئی بلکہ بعض لوگوں نے تو اپنے گھروں میںیہ خبر لکھ کر لٹکا لی۔ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے بھی یہ رؤیا بہت سے انگریز حُکّام تک پہنچا دی کہ چھٹے مہینہ تک انگریزوں کی حالت بدل جائے گی۔ چنانچہ ایک دفعہ لارڈ لنلتھگو وائسرائے ہند نے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب سے کہا کہ ظفراللہ خاں! کیا تم سمجھتے ہوکہ ہماری یہ حالت کبھی درست ہو سکے گی؟ اس پر چوہدری صاحب نے کہا یقینا۱۵؍دسمبر کو یہ حالت بدل جائے گی(کیونکہ برطانیہ نے دونوں حکومتوں کے اِلحاق کی پیشکش ۱۵؍جون ۱۹۴۰ء کو کی تھی) چنانچہ عین چھٹے مہینے اٹلی کی فوجوں کو مصر میں شکست ہونی شروع ہوئی اور حالاتِ جنگ میں یہ پہلی تبدیلی اتحادیوں کی فتح کا پیش خیمہ بن گئی۔
دوسری رؤیا جس کے کئی انگریز بھی گواہ ہیں اور ہندوستانی بھی۔ وہ بھی ایسی ہی ہے جس کا کوئی سلیم الطبع انسان انکار نہیں کرسکتا۔ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں انگلستان میں ہوں اور مجھے کہا گیا ہے کہ کیا آپ ہمارے ملک کو دشمن کے حملہ سے بچا سکتے ہیں۔ میں اُن سے کہتا ہوں کہ مجھے جنگی سامانوں اور اپنے کارخانوں کا معائنہ کرنے دو۔ اس کے بعد میں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں گا۔ چنانچہ میں نے انگریزوں کے جنگی سامان کا معائنہ کیا اور میں نے کہا اور تو سب کچھ ٹھیک ہے صرف ہوائی جہاز کم ہیں۔ اگر ہوائی جہاز مل جائیں تو انگلستان کو فتح حاصل ہو سکتی ہے۔ جب میں نے یہ کہا کہ انگریزوں کے پاس صرف ہوائی جہازوںکی کمی ہے اگر یہ کمی پوری ہو جائے تو انہیں فتح حاصل ہو سکتی ہے تو یکدم رؤیا کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ امریکہ سے تار آیا ہے جس میں لکھا ہے:
‏ The British Representative from America wishes that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.
یعنی امریکن گورنمنٹ نے ۲۸ سَو ہوائی جہاز بھجوادئیے ہیں۔ جب یہ تار آتا ہے تو میں نے کہا اب میں انگلستان کی حفاظت کا کام آسانی سے سر انجام دے سکوں گا۔ یہ رؤیا مجھے ستمبر ۱۹۴۰ء میں آئی ۔دوسرے تیسرے دن چوہدری ظفراللہ خاں صاحب قادیان آئے اور میں نے اُن سے اِس رؤیا کا ذکر کیاانہوں نے کئی انگریز حُکّام کو اِس رؤیا کی خبردے دی۔یہاں تک سرکلو جوکہ اُس وقت ریلوے ممبر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے اُن سے بھی اِس کا ذکر کر دیا۔ اِسی طرح سرراما سوامی مدلیار اور دوسرے معزز لوگوں سے چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے کہہ دیا کہ امام جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ حکومت امریکہ ۲۸سَو ہوائی جہاز برطانیہ کی مدد کیلئے بھجوائے گی۔ دیکھو! قیاس سے انسان یہ تو کہہ سکتا ہے کہ امریکہ انگلستان کی مدد کرے گا۔ قیاس سے انسان یہ بھی کہہ سکتا ہے شاید امریکہ ہوائی جہاز بھجوا دے مگر مسٹر چرچل بھی قیاس سے یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ امریکہ ۲۸ سَو ہوائی جہاز بھجوائے گا اور نہ دنیا کا کوئی انسان محض عقل سے کام لے کر یہ تعداد معین کر سکتا تھا۔ مگر اِس رؤیا کے تیسرے مہینے ہی مَیں ایک مسجد میں بیٹھا تھا اور دوستوں سے باتیں کر رہا تھا کہ ایک شخص دَوڑا دَوڑا آیا اور کہنے لگا آپ کے کمرے کا دروازہ بند ہے اور اندر ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی ہے معلوم ہوتا ہے کوئی ضروری فون آیا ہے۔مَیں گیا اور رسیور اُٹھا کر مرکز سے میں نے دریافت کیا کہ مجھے کون فون کر رہا تھا؟ ہمارا ٹیلیفون کا مرکز امرتسر ہے وہاں سے جواب آیا کہ دہلی سے آپ کی طرف فون آیا ہیـ۔ میںنے کہا میں آ گیا ہوں دہلی سے کنکشن کر دو۔ تھوڑی دیر کے بعد سرظفراللہ خان صاحب کی آواز آئی جو کانپ رہی تھی کہ مبارک ہو۔ میں نے کہا خیر مبارک مگر مجھے پتہ نہیں لگ سکا کہ یہ کیسی مبارک ہے۔ انہوں نے کہا آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے ایک رؤیا سنایا تھا کہ امریکہ سے تار آئی ہے کہ اُس نے برطانیہ کی مدد کے لئے ۲۸ سَو ہوائی جہاز بھجوائے ہیں۔ میں نے کہا مجھے خوب یاد ہے۔ وہ کہنے لگے مبارک ہو اِس وقت تار میرے سامنے پڑی ہے اور اِس کے الفاظ یہ ہیں کہ:۔
‏ The British Representative from America wishes that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the
‏British Government.
پھر انہوں نے کہا کہ جس وقت یہ تار مجھے ملی میں نے اُسی وقت اُن سرکاری حُکّام کو فون کیا جن کو میں نے یہ خواب بتائی ہوئی تھی اور اُن سب کو یاد دلایا کہ دیکھو! امام جماعت احمدیہ کی جو خواب میں نے تم کو بتائی تھی وہ آج کس شان کے ساتھ پوری ہو گئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ میں نے سرکلو کو بھی فون کیا کہ تم کو معلوم ہے کہ امام جماعت احمدیہ کی میں نے تمہیں ایک خواب بتائی تھی؟ بعض دفعہ خداتعالیٰ انسان سے غلطی کرا دیتا ہے تاکہ اُس پر زیادہ حُجّت ہو۔ سرکلو کہنے لگے ظفراللہ خاں! تار تو آئی ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی اُتنی تعداد کا تار میں ذکر نہیں۔ ظفراللہ خاں کہتے ہیں مَیں نے کہا تمہیں کیا یاد ہے؟ وہ کہنے لگے تم نے تو ۲۸ سَو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں ۲۵سَو ہوائی جہاز بھجوانے کا ذکر ہے انہوں نے جلدی سے ۲۸ سَو کو ۲۵سَو پڑھ لیا۔ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کہنے لگے تمہارے پاس تار ہے وہ کہنے لگے ہاں میرے سامنے ہی پڑی ہے چوہدری صاحب کہنے لگے اِسے پھر پڑھو۔ سرکلو نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگے ۔ اوہو! ظفراللہ خاں یہ تو ۲۸ سَو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے۔
یہ دو مثالیں میں نے اِس اَمر کی بیان کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کس طرح اپنے غیب کا اظہار کیا۔ ابھی میری ایک بیوی (اُمِّ طاہر) فوت ہوئی ہیں وہ میری نہایت پیاری بیوی تھیں سلسلہ کے کام میں ہمیشہ میرے ساتھ تعاون کرنے والی تھیں۔ ۲۳ سال میرے ساتھ رہیں۔ اِن کی وفات سے بارہ سال پہلے خداتعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی کہ اِن کا آپریشن ہو گا اور پھر اِن کا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ اِسی طرح مجھے بتایا گیا تھا کہ جب وہ فوت ہوں گی تو دو عورتیں اِن کے پاس ہوں گی۔ وہ جب تک بیمار رہیں ہمیشہ ایک عورت خدمت کے لئے اِن کے پاس موجود رہی مگر وفات سے چار پانچ دن پہلے اُنہوں نے اصرار کر کے ایک اور عورت کو بُلوایا۔ اور جب اِن کی وفات ہوئی تو ایک عورت اِن کے دائیں طرف بیٹھی تھی اور دوسری بائیں طرف۔ غرض اللہ تعالیٰ نے سینکڑوں مرتبہ مجھے اپنے غیب سے اطلاع دی ہے اور اِس طرح وہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہو گا۔ لوگوں نے کہا کہ مرزا صاحب جھوٹ بولتے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا اِن سے ہمکلام ہوتا ہے مگر درحقیقت خدا اِن سے ہمکلام نہیں ہوتا۔ تب خدا نے یہ عظیم الشان نشان اِن کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا تا لوگوں پر ظاہر کرے کہ اِن کا خدا سے تعلق ہے اور خدا اپنے اسرار اِن پر ظاہر فرماتا ہے۔
دنیا میں کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں ضرور بیٹا پیدا ہو گا۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بیٹا زندہ رہے گا۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک جماعت کاامام بنے گا۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کا کلام اُس پر نازل ہو گا۔ یقینا کوئی انسان ایسی باتیں اپنی طرف سے نہیں کہہ سکتا اور نہ کسی انسان کی طاقت اور قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اِن باتوں کو پورا کر سکے۔ پس یہ نشانات جو میرے ذریعہ سے ظاہر ہوئے انہوں نے روزروشن کی طرح ظاہر کر دیا ہے کہ خداتعالیٰ کے مسیح نے جو خبر دی تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔
پس اے لوگو! مَیں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ میں تم سب سے کہتا ہوں کہ ۔ ہم نے خدا کے مامور کو آواز دیتے سنا اور ہم اس پر ایمان لائے اور ہم آپ لوگوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیںکہ آپ اِس اَمر پر غور کریں گیـ، آپ اپنی جانوں پر رحم کریں، اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کر کے اپنی عاقبت کو درست کر لیں۔ یقینا جو لوگ خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کریں گے، خداتعالیٰ اُن کے گھروں کو اپنی برکتوں سے بھر دے گا۔ مگر وہ جو خداتعالیٰ کے مامور کو ردّ کر دیں گے اُن پر اُس کی برکتوںکے دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور ایسے وجود انتہائی طور پر بدقسمت ہوں گے۔ خدا نہ کرے آپ اُن بدقسمت لوگوں میں سے ہوں اور خداتعالیٰ کے مامور کو ردّ کر کے اُس کی رحمت کے دروازوں کو بند کرنے والے ہوں۔
ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے دلوں کو کھول دے۔ حق آپ پر واضح کر دے اور محمدی فوج میں آپ سب کو داخل کر دے تاکہ محمد رسول اللہﷺ کے سچے متبعین میں شامل ہو کر آپ دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے کا موجب ہوں۔ روحانیت کی ترقی ہو، تقویٰ کا قیام ہو اور سب لوگ قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر دنیا کے ہر ملک اور دنیا کے ہر گوشہ میں خداتعالیٰ کے انوار کو پھیلا دیں۔
ہم نہ مسلمانوں کے دشمن ہیں نہ عیسائیوں،ہندوؤں اور یہودیوں کے دشمن ہیں بلکہ ہم سب کے دوست اور خیرخواہ ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اِن کے کانوں تک اپنی آواز پہنچائیں۔ مَیں حیران ہوں کہ لوگ ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہیں۔ جب ہم مانتے ہیں کہ وہ ایک غلط راستہ پر ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم دوسروں کو صحیح راستہ پر لائیںاور غلط راستہ پر چلنے سے انہیں روکیں۔ مان لو کہ ہم غلطی پر ہیں مگر بہرحال جب ہم سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ ایک ایسے راستہ پر چل رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم لوگوں کو سمجھائیں اور انہیں صحیح راستہ پر چلائیں؟ اگر ایک شخص کنویں میں گر رہا ہو تو کیا دوسرے کا فرض نہیں ہوتا کہ وہ اُس کو بچانے کی کوشش کرے۔ ہم جب سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہﷺ خداتعالیٰ کے آخری شرعی رسول ہیں، جب ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن اُس کا آخری شرعی کلام ہے، جب ہم سمجھتے ہیںکہ اسلام خدا کا نور ہے اور اُس کی برکتیں اُنہی لوگوں کو مل سکتی ہیں جو اُس کے احکام پر عمل کریں تو پھر ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم دوسروں کو تبلیغ کریں اور انہیں سمجھائیں کہ صحیح راستہ کون سا ہے اور غلط راستہ کونسا۔ پس اگر ہماری جماعت کے افراد آپ لوگوں کے پاس تبلیغ کے لئے آتے ہیں تو آپ کو ہماری ہمدردی اور ہمارے جذبۂ اخوت کی قدر کرنی چاہئے کہ ہم تکلیف اُٹھا کر اور اپنے وقت کی قربانی کر کے آپ لوگوں کے پاس آتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آتا تب بھی آپ کا فرض ہے کہ ہماری قدر کریں اور ہمارے جذباتِ اخلاص اور محبت کو اُسی نگاہ سے دیکھیں جس نگاہ کے یہ مستحق ہیں۔
اَب ہماری جماعت کے وہ مبلّغ جو اِس وقت یہاں موجود ہیں آپ لوگوں کو بتائیں گے کہ کس طرح میرے زمانہ میں اسلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آپ نے اپنے بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کہ اُس کے زمانہ میں سلسلہ کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلے گا۔ بعض مبلّغ اِس وقت جنگ کی وجہ سے بیرونی ممالک میں قید ہیں اِس لئے اُن کی جگہ بعض دوسرے دوست مختصر طور پر سلسلہ کے حالات بیان کریں گے۔
(اِس پر بعض مبلغین سلسلہ نے بتایا کہ مصلح موعود کے مبارک دَور میں کس طرح اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچا۔ آخر میں حضور نے فرمایا۔)
ابھی بہت سے تبلیغی مشنوں کی رپورٹیں باقی ہیںـ۔ چنانچہ چین مشن، جاپان مشن، سماٹرا مشن، جاوا مشن، ملایا مشن، سٹریٹ سیٹلمینٹس، بورنیو مشن، سروبایا مشن، ایران مشن، کابل مشن اور اِسی طرح بعض دوسرے تبلیغی مشنوں کے حالات سنانے باقی ہیں۔ مگر چونکہ بہت سے لوگوں نے ساڑھے چھ بجے کی گاڑی سے واپس جانا ہے اِس لئے اِن مشنوں کی تبلیغی رپورٹیں ملتوی کر دی گئی ہیں اور اِس کی بجائے میں نے صرف اِن مشنوں کے نام سنا دیئے ہیں۔خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں اِن تمام ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے مشن قائم کروں۔ چنانچہ ایران میں احمدیہ مشن قائم ہوا، چین میں احمدیہ مشن قائم ہوا، جاپان میں احمدیہ مشن قائم ہوا، سماٹرا میں احمدیہ مشن قائم ہوا، جاوا میں احمدیہ مشن قائم ہوا، ملایا میں احمدیہ مشن قائم ہوا، سٹریٹ سیٹلمینٹس میں احمدیہ مشن قائم ہوا۔ بورنیو میں احمدیہ مشن قائم ہوا اور اِسی طرح ہر اُس ملک میں احمدیہ مشن قائم ہوا جس کے حالات ابھی مختصر طور پر آپ لوگوں کے سامنے بیان کئے گئے ہیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے اِن ممالک میں اسلام کی تبلیغ ایسے رنگ میں ہوئی ہے کہ ہزارہا لوگ جو اسلام کی ترقی اور اِس کی اشاعت سے مایوس ہو چکے تھے اُن کے دلوں میں پھر یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اسلام دنیا میں پھیل کر رہے گا اور دنیا کاکوئی مذہب اس پر غالب نہیں آسکتا۔ بعض ممالک میں ہمارے مبلغین پر بڑی سختی بھی کی گئی مگر ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں ہمارے مبلغین سے بُرا سلوک کیاگیا ہو اور خدا نے اُسے سزادئیے بغیر چھوڑا ہو۔پولینڈ میں جب مَیں نے اپنے مبلّغ کو بھیجا اور اُس نے عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو ترقی دینی شروع کی تو وہاں کی حکومت کو فکر پڑگئی کہ ایسا نہ ہو یہاں کے مسلمان منظم ہو جائیں اور عیسائیت کے لئے ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے۔ وہاں صدیوں سے مسلمان رہتے ہیں مگر بالکل کسمپرسی اور بے کسی کی حالت میں۔ جب ہمارا مبلّغ گیا اور اُس نے تبلیغ کی اور اسلام کی صداقت ثات کرنی شروع کی تو حکومت نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو مسلمان منظم ہوجائیں اور وہ ہمارے خلاف کھٹرے ہو جائیں چنانچہ اُس نے راتوں رات ہمارے مبلّغ کو پکڑ ا اور اُسے اپنے ملک سے نکال کر زیکوسلواکیہ کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا۔ اُس نے خیال کیا کہ وہ احمدیت کو اِس طرح مٹا سکے گی وہ اسلام کو پولینڈ میں پھیلنے سے روک سکے گی مگر خدا نے اُس حکومت سے بدلہ لیا۔ ہٹلر نے اس ملک پر فوج کشی کی اور راتوں رات وہاں کی حکومت اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی اور اِس طرح خدا نے بتادیا کہ اسلام کاخدا ایک زندہ خدا ہے۔
دوسرا ملک جہاں ہمارے مبلّغ پر سختی کی گئی البانیہ ہے۔ شاہ زوغو کی حکومت نے بھی سختی سے ہمارے مبلّغ کا مقابلہ کیا اور اُسے اپنے ملک سے نکال دیا۔ مگر پھر وہی بادشاہ جس نے ہمارے مبلّغ کو نکالا تھا تاج وتخت سے محروم کر دیا گیا اور اُسے اپنے ملک سے بھا گنا پڑا۔
تیسری حکومت جس نے ہمارے مبلغین سے سختی کی افغانستان کی حکومت ہے۔ امیرامان اللہ خان نے اعلان کیا کہ ان کے ملک میں تبلیغ کی اجازت ہے بلکہ محمود طرزی صاحب سابق وزیر خارجہ حکومت افغانستان نے ہمیں خود لکھا کہ آپ اپنے مبلّغ اِس علاقہ میں بھجوادیں انہیں تبلیغ کی مکمل آزادی ہوگی مگر جب میں نے اپنے مبلّغ بھجوائے تو حکومت افغانستان نے مُلّانوں کے شور سے مرعوب ہو کر ہمارے چار آدمی یکے بعد دیگرے سنگسار کر دئیے تب خدا نے اس حکومت سے بھی بدلہ لیا اور امان اللہ خان جو افغانستان کے تاج و تخت کا مالک تھا خدانے اُسے ایسی سزا دی کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر بھاگا اور آج تک جلاوطنی میں اپنی زندگی بسر کر رہا ہے ۔
غرض خدا تعالیٰ کی تازہ تائیدات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ ہے اوراُس کی نصرت اور تائید اِس کے شاملِ حال ہے اِس طرح وہ پیشگوئی جو آج سے ۵۹سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے کی گئی تھی کہ میں تجھے ایک بیٹا عطا کروں گا جو خداتعالیٰ کی رحمت کا نشان ہوگا، جو خداتعالیٰ کی قدرت کا نشان ہوگا، جو خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نشان ہوگا، اُس کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ وہ پیشگوئی بڑی شان اور جاہ و جلال کے ساتھ پوری ہوگئی۔آج سینکڑوں ممالک زبانِ حال سے گواہی دے رہے ہیں کہ میرے زمانۂ خلافت میں ہی اسلام کا نام اُن تک پہنچا، میرے زمانۂ خلافت میں ہی احمدیت کے نام سے وہاں کے رہنے والوں کے کان آشنا ہوئے۔ ایک نہیں، دو نہیں بیسیوں ممالک میں میرے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کانام پہنچا اور خدا نے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں ایک غریب جماعت کے ذریعہ ان ممالک میں اسلام کا جھنڈا بلند کروں۔
اِسی لاہور شہر میں ایک مشہور اخبار کا ایڈیٹر ہمیشہ اپنے اخبار میں شورمچاتا رہتا ہے کہ احمدیوں کا گروہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے، ایک حقیر اور ذلیل گروہ ہے،زیادہ سے زیادہ اِن کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ یہ ایک لاکھ اگر مسلمانوں سے خارج کردئیے جائیں تو اِس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ مگر وہ ایک لاکھ ا فراد جن کو اسلام اور مسلمانوں سے خارج قرار دے کر اِس اخبار کے ایڈیٹر کے نزدیک مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا وہی اور صرف وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے، وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچارہا ہے،وہی ایک گروہ ہے جو دنیا کے کناروں تک اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بڑی مضبوطی سے گاڑرہا ہے۔ یہ ایک مٹھی بھر جماعت ہے مگر اِس مٹھی بھر جماعت نے دنیا میں جس قدر تبلیغی مشن قائم کر کے دکھائے ہیں اِن سے آدھے مشن ہی کروڑوں مسلمان کہلانے والے ہمیں دنیا میں دکھادیں جو اُنہوں نے قائم کئے ہوں۔وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ شرک کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے، وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ عیسائیت کو چھوڑ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، وہ لوگ جو ہمارے ذریعہ دین اسلام میں شامل ہوئے اُن کے مقابلہ میں مسلمان ہمیں نصف ہی ایسے لوگ دکھادیں جنہوں نے ان کے ہاتھ پر شرک اور کفر سے توبہ کی ہو، جنہوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام اور قرآن کی صداقت کا اعتراف کیا ہو۔
پھر میرے ذریعہ بیرونی ممالک میں صرف احمدیہ مشن ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں میرے زمانۂ خلافت میں خود بخود احمدیت کانام پہنچ گیا اور خداتعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ایسے ممالک میں جن کا ہمیں علم تک نہیں تھا تبلیغ کے رستے کھل گئے اور وہاں کے رہنے والے آپ ہی آپ ہمارے سلسلہ میں شامل ہوگئے۔چنانچہ سعد پاشاجو کُردوں کے لیڈر تھے اُنہوں نے ایک بیان میں اقرار کیا کہ میں احمدی ہوںحالانکہ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ وہ احمدیت اختیار کر چکے ہیں۔ کُرد قوم نے مصطفی کمال کے زمانہ میں ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی جس کے نتیجہ کے طور پر جنرل سعد پاشا جو کرد قوم کے لیڈر تھے گرفتار کر لئے گئے اور اُن کا کورٹ مارشل کیاگیا ہے۔ اُنہوں نے گرفتاری کے بعد جو بیان دیا وہ ترکی اخبارات میں شائع ہوا اور وہاں سے بعض مصری اخبارات نے نقل کیا جس سے ہمیں اُن کے حالات کا پتہ مل گیا۔اُن سے پوچھا گیا کہ ترکی حکومت جو اسلامی حکومت ہے اُس کے خلاف اُنہوں نے کیوں بغاوت کی؟ کرد لیڈر نے جواب دیا کہ گو میری قوم سیاستاً ترکوں سے الگ ہونا چاہتی تھی مگر مجھے سیاسیا ت سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ بعض مذہبی رسائل پڑھ کر میں دل سے جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکا تھا جس کا مرکز قادیان ہے اور میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب قادیان چلا جاؤں گا اور اپنی بقیہ عمر اسی جگہ گزار دوں گاکیونکہ مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ اسلام کی آئندہ فتح تلوار سے نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوگی پس میں چاہتا تھا کہ اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کردوں اور اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے قادیان چلا جاؤں۔اِسی دوران میں مَیں نے چند ترک سپاہیوں کو دیکھا کہ وہ کُرد لڑکیوں کی ہتک کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ ایسا مت کرو۔ اِس پر اُن میں سے ایک نے مجھے مارا۔ یہ دیکھ کر مجھے جوش آگیا اور میں نے اپنا پستول نکال کر اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا۔ ایسی صورت میں مجبور ہو کر مجھے باغیوں سے ملنا پڑااور اُنہوں نے مجھے اپنا لیڈر بنالیا۔
اب دیکھو ایک قوم کا لیڈر احمدی ہوگیا مگر ہمیں اس کے احمدی ہونے کا کوئی علم نہ تھا اور نہ ہمارے اختیار میں تھا کہ ہم اُسے احمدی بنا سکتے۔خدا نے خود اُس کا دل کھولا اور اُسے احمدیت کا شیدا بنادیا۔ اسی طرح ترکی پارلیمنٹ کا ایک ممبر ذکر کرتاہے کہ میں ایک دفعہ چین میں گیا اور وہاں میںنے چین کے ایک شہر کا فٹن میں ایک مسجد کے سامنے چند لوگوںکو جھگڑتے دیکھا۔ میں نے دریافت کیا کہ وہ کیوں جھگڑ رہے ہیں؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں مسلمانوں کی ایک جماعت ہے جو ہندوستان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہندوستان کے ایک شہر میں خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح اور مہدی کو بھیج دیا ہے اور ہم اُس کو ماننے والے ہیں۔یہ جماعت دوسرے مسلمانوں سے جامع مسجد کے متعلق جھگڑ رہی تھی۔ احمدیہ جماعت کے افراد کہتے تھے کہ یہ مسجد ہماری ہے اور دوسرے مسلمان کہتے تھے کہ یہ مسجد ہماری ہے۔اب دیکھو ہمیں پتہ بھی نہیں کہ وہاں احمدیہ جماعت قائم ہے مگر ترکی پارلیمنٹ کا وہ ممبر اپنے سفر نامہ میں لکھتاہے کہ نہ صرف وہاں جماعت موجود ہے بلکہ اتنی بڑی جماعت موجودہے کہ وہ ایک مسجد پر قبضہ کرنے کے لئے دوسرے مسلمانوں سے جھگڑ تی اور اپنا حق دوسروں سے فائق سمجھتی ہے۔
غرض خدا تعالیٰ نے ایسے غیب سے سامان پیدا کردیئے ہیں کہ ہماری جماعت آپ ہی آپ مختلف ممالک میں پھیلتی جارہی ہے اور وہ پیشگوئی پوری ہورہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔ آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ یہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی اور چونکہ اکثر علامات جو اس بیٹے کی بتائی گئی تھیں وہ سالہا سال سے پوری ہو رہی تھیں اِس لئے جماعت ہمیشہ مجھے یہ کہا کرتی تھی کہ مصلح موعود آپ ہی ہیں۔ مگر میں نے اِس امر کو تسلیم کرنے سے انکار کیاا ور میں نے کہا جب تک خدا مجھے آپ یہ اطلاع نہ دے کہ میں اِس پیشگوئی کا مصداق ہوں اُس وقت تک میرا اپنے آپ کو اِس پیشگوئی کا مصداق قرار دے کر دعویٰ کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ یہی حالت ایک لمبے عرصہ تک رہی یہا ں تک کہ اِس سال کے شروع میں ۵اور ۶ جنوری کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کے ذریعہ بتایا کہ میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں ذکر کیاگیا تھا اور میرے ذریعہ ہی دور دراز ملکوں میں خدائے واحد کی آواز پہنچے گی، میرے ذریعہ ہی شرک کو مٹایا جائے گا اور میرے ذریعہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔خصوصاً مغربی ممالک جہاں تو حید کا نام مٹ چکا ہے وہاں میرے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ توحید کو بلند کرے گا اور شرک اور کفر کو ہمیشہ ککیلئے مٹا دیا جائے گا۔تب جبکہ خدا نے مجھے یہ خبر دیدی میں نے اِس کادنیا میں اعلان کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ آج مَیں اِس جلسہ میں اُسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوںکا کام ہے اور جس پر افتراء کرنے والا اس کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکتا کہ خدا نے مجھے اسی شہر لاہور میں ۱۳ ٹمپل روڈ پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مکان میں یہ خبر دی کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور میں ہی وہ مصلح موعود ہوں جس کے ذریعہ اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اور توحید دنیا میں قائم ہوگی۔پس یہ جلسہ اِس غرض کیلئے کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کوبتایا جائے کہ وہ عظیم الشّان پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۸۶ء میں فرمائی تھی پوری ہوگئی۔ اِس پیشگوئی کی صداقت پر وہ لاکھوں لوگ گواہ ہیں جو میرے ذریعہ اسلام پر قائم ہوئے،جو میرے ذریعے توحید پر قائم ہوے، جو میرے ذریعہ خدا اور اس کے رسول کے والہ وشیدابنے۔عیسائی اِس بات کے گواہ رہیں کہ پیشگوئی پوری ہو گئی، آریہ اِس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، مسلمان اِس بات کے گواہ رہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔
آج سے اُنسٹھ سال پہلے خدائے علیم وخبیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو خبردی تھی کہ میرا ایک بیٹا ہوگا اور وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گایہ پیشگوئی پوری ہوگئی، انگلستان اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی،سپین اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی،اٹلی اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، برلن اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری گئی، ہنگری اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، البانیہ اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، یوگوسلاویہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، پولینڈ اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، زیکوسلواکیہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، شمالی امریکہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، جنوبی امریکہ اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، سیرالیون اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، گولڈکوسٹ اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، نائیجیریا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، مصر اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، کینیا کالونی اِس بات پر گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، یوگنڈا اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، زنجبار اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، ٹانگانیکا اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، سیلون اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، ماریشس اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، فلسطین اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، شام اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، روس اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، چین اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی،جاپان اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، سماٹرا اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، جاوا اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، ملایا اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، بورنیو اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، ایران اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، کابل اِس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی، ہندوستان کا گوشہ گوشہ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس میں یہ طاقت ہو کہ وہ دلوں کو فتح کر سکے، دنیا میں کون ایسا انسان ہے جو لوگوں کو اس عظیم الشّان قربانی پر آمادہ کر سکے۔ یہ خداتعالیٰ کا ہی ہاتھ تھا جس نے دنیا میں اِس قدر تغیرات پیدا کئے، یہ خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے لوگوں کے دلوں کو کھینچا اورا نہیں اسلام کے لئے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرنے کے لئے آمادہ کر دیا۔ چنانچہ ایک طرف اگر خدا نے یہ خبر دی کہ وہ میرے ذریعہ دنیا میں اسلام کا نام روشن کرے گا تو دوسری طرف اس نے ایک غریب جماعت میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے وہ ایمان پیدا کر دیا جس کی مثال آج روئے زمین پر اور کوئی جماعت پیش نہیں کر سکتی۔ ابھی ایک خطبہ جمعہ میں مَیں نے جماعت کے سامنے اعلان کیا کہ اسلام اِس وقت تم سے خاص قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے تم اگر خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنی تمام جائدادیں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کر دو تا کہ جب بھی اسلام پر کفر کا حملہ ہو ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے یہ پریشانی نہ ہو کہ ہم روپیہ کہاں سے لائیں بلکہ ہر وقت ہمارے پاس جائدادیں موجود ہوں جن کو فروخت کر کے یاگرو رکھ کر ہم اسلام کی تبلیغ آسانی سے کر سکیں۔ ہماری جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے، ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے مگر جمعہ کے دن دو بجے مَیں نے یہ اعلان کیا اور ابھی رات کے دس نہیں بجے تھے کہ چالیس لاکھ روپیہ سے زیادہ کی جائدادیں انہوں نے میری آواز پر خدمت اسلام کیلئے وقف کر دیں۔جن میں سے پانچ سَو سے زیادہ مربعہ زمین ہے اور ایک سَو سے زیادہ مکان ہیں اور لاکھوں روپیہ کے وعدے ہیں۔ یہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اوراُس کی نصرت کے نشانات ہیں جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جن کے بعد کوئی ازلی شقی ہی خدا تعالیٰ کے اِس نور کو قبول کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔
میں نے اِس سے پہلے جس قدر مبلّغ دنیا میں بھجوائے وہ قریباً سب کے سب اناڑی تھے کوئی کالج میںسے نکلا تو میں نے اُس سے کہا کہ خدا کے دین کے لئے آج مبلّغوں کی ضرورت ہے کیا تم اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہو؟ اور میرے کہنے پر وہ تبلیغ کے لئے نکل کھڑاہوا۔
یہی مولوی ظہور حسین صاحب جنہوں نے ابھی روس کے حالات بیان کئے ہیں جب اِنہوں نے مولوی فاضل پاس کیا تو اُس وقت لڑکے ہی تھے۔ میں نے ان سے کہا کیا تم روس جاؤ گے؟ اِنہوں نے کہا میں جانے کے لئے تیار ہوں۔میں نے کہا جاؤ گے تو پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ کہنے لگے بے شک نہ ملے مَیں بغیر پاسپورٹ کے ہی اس ملک میں تبلیغ کے لئے جاؤں گا۔ آخر وہ گئے اور دو سال جیل میں رہ کر اِنہوں نے بتادیا کہ خدانے کیسے کام کرنے والے وجود مجھے دئیے ہیں۔ خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کررکھ دیتی ہیں، خدانے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آوازپر ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانے کے لئے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لئے تیار ہیں،مَیں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لئے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرا دیں، میں انہیں جلتے ہوئے تنوروں میں کُودجانے کا حکم دوں تو وہ جلتے تنوروں میں کُود کر دکھا دیں۔ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو مَیں اِس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سَو آدمیوں کو مَیں اپنے پیٹ میں خنجر مار کر ہلاک ہو جانے کا حکم دیتا اور وہ سَوآدمی اِسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مر جاتا۔
خدانے ہمیں اسلام کی تائید کے لئے کھڑا کیا ہے، خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے۔ دنیا مایوس ہو چکی تھی اسلام کی ترقی سے، دنیا کہہ رہی تھی کہ اسلام اب دنیا پر غالب نہیں آسکتا۔ تب خدا نے میرے ہاتھ سے ان اناڑی لوگوں کو دنیا میں بھجوایا اور اِنہوں نے ہزاروں افراد کو اسلام کاحلقۂ بگوش بنا دیا مگر یہ پہلی فوج اناڑیوں کی تھی۔ اب باقاعدہ ایک تعلیم یافتہ گروہ اِس غرض کے لئے تیار ہو رہا ہے جس نے اپنی تما م زندگی اسلام کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ان میں سے اکثر گریجوایٹ ہیں اور ان کی تعداد ۲۵ کے قریب ہے۔ مگر میرا ارادہ ان کو ایک سَو تک پہنچانے کا ہے۔ اِن لوگوں کو تمام دینی علوم پڑھائے جائیں گے اور پھر جنگ کے بعد اِن کو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلادیا جائے گا۔ ان کے اخراجات اور تبلیغی ضرورتوں کیلئے میں نے ایک فنڈ جاری کیا ہوا ہے جس کا نام تحریک جدید ہے اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک اعلیٰ درجہ کی چارسَو مربع زمین خریدی جاچکی ہے اور آئندہ کے لئے سکیم یہ ہے کہ اِس فنڈ کی آمد سے ہی تمام اخراجات پورے کئے جائیں گے۔غرض کام ہورہا ہے اور وہ دن رات محنت کر کے دنیی تعلیم کو مکمل کر رہے ہیںگویا پہلے اناڑیوں کی فوج تھی مگر اب باقاعدہ تعلیم یافتہ لوگوں کی فوج تیار ہو رہی ہے جن کو جنگ کے بعد دنیا کے کناروں تک پھیلا دیا جائے گا اور وہ دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے میں اسلام اور قرآن کی تبلیغ کریں گے۔ جہاں آج خدائے واحد کا نام بھی نہیں لیاجاتا وہاں تھوڑے دنوں تک ہی تم دیکھ لو گے ان علاقوں کے کونے کونے سے یہ آواز اُٹھتی سنائی دے گی کہ اَشْھَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
قوموں نے ہماری مخالفت کی، ملکوں نے ہماری مخالفت کی، حکومتوں نے ہماری مخالفت کی مگر خدا نے ہمارا ساتھ دیا اور جس کے ساتھ خدا ہو اُسے نہ حکومتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، نہ سلطنتیں نقصان پہچا سکتی ہیں، نہ بادشاہتیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پس اے اہل لاہور! میں تم کو خدا کا پیغام پہنچاتا ہوں۔میں تمہیں اُس ازلی ابدی خدا کی طرف بلاتا ہوں جس نے تم سب کو پیدا کیا۔ تم مت سمجھو کہ اِس وقت مَیں بول رہا ہوں۔ اِس وقت مَیں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے۔ میرے سامنے دین اسلام کے خلاف جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے گا اُس کی آواز کو دبا دیا جائے گا، جو شخص میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ ذلیل کیا جائے گا، وہ رُسوا کیا جائے گا، وہ تباہ اور برباد کیا جائے گا مگر خدا بڑی عزت کے ساتھ میرے ذریعہ اسلام کی ترقی اور اس کی تائید کے لئے ایک عظیم الشّان بنیاد قائم کردے گا۔ میں ایک انسان ہوں مَیں آج بھی مر سکتا ہوں اور کَل بھی مَر سکتا ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں اس مقصد میں نا کام رہوں جس کے لئے خدانے مجھے کھڑا کیا ہے۔
مَیں ابھی سترہ اٹھارہ سال کاہی تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔اے محمود! میں اپنی ذات کی ہی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یقینا جو تیرے متبع ہوں گے وہ قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رہیں گے۔ یہ خدا کا وعدہ ہے جو اُس نے میرے ساتھ کیا۔ میں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بے شک دو دن بھی زندہ نہ رہوں مگر یہ وعدہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا جو خدا نے میرے ساتھ کیا کہ وہ میرے ذریعہ سے اشاعت اسلام کی ایک مستحکم بنیاد قائم کرے گا اور میرے ماننے والے قیامت تک میرے منکرین پر غالب رہیں گے۔ اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ اسلام مغلوب ہوگیا، اگر دنیا کسی وقت دیکھ لے کہ میرے ماننے والوں پر میرے انکار کرنے والے غالب آگئے تو بے شک تم سمجھ لو کہ میں ایک مفتری تھا لیکن اگر یہ خبر سچی نکلی تو تم خود سوچ لو تمہارا کیاانجام ہوگا کہ تم نے خدا کی آواز میری زبان سے سنی اور پھر بھی اُسے قبول نہ کیا۔
(الفضل ۱۸؍ فروری ۱۹۵۸ء)
۱؎ ال عمران: ۵۴ ۲،۳؎ آل عمران: ۹ ۴؎ البقرۃ: ۲۰۲
۵،۶؎ البقرۃ: ۲۸۷ ۷؎ آل عمران: ۱۴۸ ۸؎ آل عمران: ۱۹۴
۹؎ آل عمران: ۱۹۵ ۱۰؎ البقرۃ: ۱۳۷
۱۱؎ آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۹۶روحانی خزائن جلد۵
۱۲؎ تذکرہ صفحہ ۱۰۔ ایڈیشن چہارم
۱۳؎ اشاعۃ السنۃ جلد۱۳ نمبر۱ ۱۸۹۰ء صفحہ۴
۱۴؎ منڈوہ: تھیٹر، تماشا گاہ، پنڈال
۱۵؎ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی۔ ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱صفحہ۷۴۱مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۱۶؎ الفاتحۃ: ۵ ۱۷؎ الفاتحۃ: ۷
۱۸،۱۹؎ ترمذی ابواب تفسیر القرآن۔ باب ومن سورۃ فاتحۃ الکتاب


حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات
پر تقریر




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

حضرت میر محمد اسحق صاحب کی وفات پر تقریر
(تقریر فرمودہ ۱۷؍مارچ ۱۹۴۴ء)
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص کو اپنے قریب کی چیزوں کا زیادہ احساس ہوتا ہے اور جو چیز بعید ہوتی ہے اُس کا احساس اس کو کم ہوتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوا تو صحابہ کرام کے لئے وہ ایک موت کا دن تھا مگر جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہوئے تو وہ تابعین جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا تھے اور اسلام حضرت ابو بکرؓ سے ہی سیکھا تھا اُن کو اس وفات کا شدید ترین صدمہ ہوا ویسا ہی صدمہ جیسا کہ صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ہواتھا۔ اِسی طرح ایک کے بعد ایک زمانہ کے لوگ گزرتے چلے گئے اور جب سار ے گزر گئے تو کسی وقت عالمِ اسلامی کے لئے حسن بصریؒ یا جنید بغدادیؒ کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی جیسی صحابہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مگر یہ احساس نتیجہ تھا اِس بات کا کہ حسن بصریؒ اور جنید بغدادیؒ جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شاذ پیدا ہوتے تھے۔ اگر ساری اُمت ہی حسن اور جنید ہوتی تو وہ درداور وہ چُبھن جو اِن بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں یوں بلند نہ ہوتیں۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ رونا بھی جانتے ہیں، اظہارِ غم کرنا بھی جانتے ہیں مگر اکثر لوگ خدا تعالیٰ کے لئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنانہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حزن وغم کی چادر پڑی رہتی ہے۔اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میںلگے ہوتے تو دنیا کا عرفان اور علم ایسے بلند معیار پر آجاتا کہ کسی قابل قدر، خادمِ اسلام کی وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے، یہ کبھی نہ ہوتا۔میر محمد اسحاق صاحب خدماتِ سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھاتو اِن کو تھا، رات دن قرآن اور حدیث لوگوں کو پڑھانا ان کامشغلہ تھا۔ وہ زندگی کے آخری دَور میں کئی بار موت کے منہ سے بچے۔جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار اُن پر نمونیا کا حملہ ہوا۔ ایسے شخص کی وفات پر طبعاً لوگوں میںیہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے، لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا۔ جب ہر شخص اپنی ذمہ دارـی کو سمجھتا ہے تو کسی کارکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیںہوتا کہ اب ہم کیا کریںگے بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کر رہے ہیں۔ عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا۔موت کا رنج تو لازمی بات ہے مگر یہ رنج مایوسی پیدا نہیں کر تا بلکہ ہر شخص ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اُس نے وقت پر چاروںکونوں کو سنبھال لیا تھا۔ احباب کی اِس غلطی کی وجہ سے کہ ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد نمائندہ تصور نہ کیا اور اس کے لئے کوشش نہ کی آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا نقصان ہے کہ نظر آرہا ہے اِس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اِس طرز کے آدمی تھے۔ ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرـحوم تھے اورتیسرے اِس رنگ میں میرصاحب رنگین تھے۔ اور اِن کی وفات کا بڑا صدمہ اِس وجہ سے بھی ہے کہ اِن جیسے اور لوگ جماعت میں موجود نہیں ہیں اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بے شک ان کی وفات کاصدمہ ہوتا ویساہی صدمہ جیسا ایک عزیز کی وفات کا ہوتاہے مگر جماعتی پہلومحفوظ ہوتا اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہوگیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا اُس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں، جماعت کے لوگ مایوس نہ ہوتے اور دہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائم مقام موجود ہیں۔مگر قحط الرجال ایسی چیز ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کردیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگااور دشمن بھی کہتا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہوجائے گی اب اس کاکام چلانے والا کوئی نہیں۔لیکن اگر ایک کے بعد کام کرنے والے کئی موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میںمایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو خوش ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے بر وقت سمجھ دی او رمیں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے ہم نے دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اِس کے لئے ہزارہا علماء درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت اتنی بڑھ رہی ہے کہ آٹھ دس علماء تو ہروقت ایسے چاہئیں جو مرکز میںرہیں اور مختلف مساجد میں قرآن وحدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس باقاعدہ جاری رہے اور اس طرح نظر آئے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں زندہ موجود ہیں۔ اب کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ خود خلیفہ اِسے نہیں سنبھال سکتا۔ اگر قرآن کریم کا درس ہم میں جاری رہے تو گویا کہ زندہ خدا ہم میں موجود ہو گا۔ اگر حدیث کا درس جاری رہے تو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں زندہ ہوں گے، اگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درس جاری رہے توگویا حضرت مسیح موعو د علیہ السلام ہم میں زندہ ہوں گے سو یہ کتنی بڑی غفلت ہے جو جماعت سے ہوئی۔ میں تو اِس کا خیال کر کے بھی کانپ جاتا ہوں کتنے تھوڑے لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد گار تھے اور اب تو وہ اور بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ اگر ان کے مرنے سے پہلے پہلے جماعت نے اِس کمی کو پورا نہ کیا تو اِس نقصان کا اندازہ بھی نہیںکیا جاسکتا جوجماعت کو پہنچے گا۔
ذرا غور کرو ہمارے سامنے کتنا بڑا کام ہے اور کتنی بڑی کوتاہی ہے جو جماعت سے ہوئی۔پس اب بھی سنبھلو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد گار لوگ اب بہت تھوڑے رہ گئے ہیں اور شاید تھوڑے ہی دن ہیں۔ پھر میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں کہ میری عمر کتنی ہوگی اور اعلانِ مصلح موعود کی پیشگوئی پوری ہونے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جتنا کام لینا ہو لے لیا ہو ۔ پس یہ بڑے خطرات کے دن ہیںاس لئے سنبھلو، اپنے نفسوں سے دنیا کی محبتوں کو سرد کر دو اور دین کی خدمت کے لئے آگے آئو اور ان لوگوں کے علوم کے وارث بنو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی صحبت پائی تا تم آئند ہ نسلوں کو سنبھال سکو۔ تم لوگ تھوڑے تھے اور تمہارے لئے تھوڑے مدرِّس کا فی تھے مگر آئندہ آنے والی نسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگی اور ان کے لئے بہت زیادہ مدرِّس درکار ہیں۔ پس اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کر دواور یہ نہ دیکھو کہ اس کے عوض تمہیں کیا ملتا ہے ۔ جو شخص یہ دیکھتا ہے کہ اسے کتنے پیسے ملتے ہیں وہ کبھی خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل نہیں کر سکتا اللہ تعالیٰ کی نصرت اُسی کو ملتی ہے جو اس کا نام لے کر سمندر میں کود پڑتا ہے چاہے موتی اُس کے ہاتھ میں آجائے اور چاہے وہ مچھلیوں کی غذا بن جائے ۔پس مومن کا کام عرفان کے سمندر میں غوطہ لگادینا ہے وہ اس بات سے بے پروا ہوتا ہے کہ اُسے موتی ملتے ہیں یا وہ مچھلیوں کی غذا بنتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو تااللہ تعالیٰ دلوں سے گھبراہٹ دور کر دے اور بشارات دیکر دلوں کو مضبوط کر دے۔ پس آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں خصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی جائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلاء مقدرہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹا ل دے اور اگر تمہاراخیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کر دے اور اپنے فضل سے ایسی سچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ ٹھوکر سے بچ جائیں ۔پس خوب دعائیں کرو اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے۔ خصوصاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بہت دعائیں کریں (حضورنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض صحابہ کے نام بھی لئے) وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا اور انہیں موقع ملا کہ وہ حضور علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہے خاص طور پر میرے مخاطب ہیں وہ آج رات بھی اور آئندہ بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے واقعات اور ابتلاؤں سے بچائے جو کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو سکتے ہیںاور جن سے افسردگی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور اِن دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہئے بلکہ دلوں میں ایساعزمِ صمیم ہونا چاہئے کہ جس کے ماتحت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر سکیں۔پس خوب دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کمزور لوگوں کو ٹھوکر سے بچائے اور ایسی بشارات دے کہ جو دلوں کو مضبوط کر دیں اور اطمینان پیدا کریں ایسا اطمینان کہ جو پھر کبھی نہ چھیناجائے اور جماعت کو کوئی ایسا نقصان نہ ہو جو اِرادوں کو پست کرنے اور ہمتوں کو توڑنے والا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ دلوں میں ایسی تبدیلی پیدا کرے کہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے بڑھیں۔ اور ایسی روح پیدا ہو کہ ہم اور ہماری اولادیں اللہ تعالیٰ کے نور پراِس طرح فدا ہونے کیلئے تیار ہو جائیں کہ جس طرح برسات کی رات پروانے شمع پر قربان ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے قرآن کے نو ر کی شعاعیں ہمارے دلوں پر ڈالے اور اُس نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں انہیں اپنے فضل سے پورا فرمائے، ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے، ہمارے دلوں کو ڈھارس دے، ہمیں اور ہماری اولادوں کو اپنی پسندیدہ راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے حتیٰ کہ ہم اُس کے ہی ہو جائیں اور کوئی چیز ہمارے اور اُس کے درمیان روک نہ ہواور کوئی چیز اُس کوہم سے جدا کرنے والی نہ ہو وہ ہمارااور ہمارا اور ہماراہی ہو جائے اور ہم بھی اُس کے اور اُس کے اور صرف اُسی کے ہوجائیں۔آمین
(الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء)


اہالیانِ لدھیانہ سے خطاب




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اہالیانِ لدھیانہ سے خطاب
(تقریر فرمودہ۲۳ ؍مارچ ۱۹۴۴ء بمقام لدھیانہ)
تشہّد،تعوّذ ،سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کی بعض اَدعیہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :-
مَیں آج اِس جگہ اِس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ آج سے ۵۵ سال پہلے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبروں اور اُس کے ارشاد فرمائے ہوئے حکم کے ماتحت اِس شہر لدھیانہ میں ۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے بیعت لی تھی اور اس بیعت کے وقت صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لانے والے تھے۔ یہ ساری کی ساری پونجی تھی جسے لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی فتح کیلئے کھڑ ے ہوئے تھے باقی تمام دنیا ہندو، عیسائی، سکھ، ہندوستانی ، ایرانی ،عرب ،چین اور برطانیہ وغیرہ سب کے سب آپ کے مخالف تھے اور آپ کو مٹادینے پر تُلے ہوئے تھے مگر اِن مخالفتوں کے باوجود آپ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو بتایا کہ:
’’دنیا میں ایک نذیرآیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زورآور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘۔۱؎
اس اعلان کے بعد باوجود شدید مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے سلسلہ کو بڑھانا شروع کیا مگر اِس وقت مَیں جس چیز کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بیعت سے بھی قبل یعنی ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسا کہ مولوی عبدا لرحیم صاحب درد۔ ایم ۔اے جو لدھیانہ ہی کے باشندے ہیں ابھی آپ کو بتا چکے ہیں اپنے تین خدام کے ساتھ دعائیں کرنے کے لئے ہوشیار پور تشریف لے گئے تا کہ جو لوگ مطالبہ کرتے تھے کہ ایسے نشان دکھائے جائیں جو اسلام کی صداقت کی علامت ہوں اور جن سے یہ یقین ہو سکے کہ خداتعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور اپنے بندوں پر غیب ظاہر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی نشان ظاہر کرے اور وہاں ایک مکان میں ٹھہرے جو اُس وقت شیخ مہر علی صاحب کا طویلہ کہلاتا تھااور اب وہاں لالہ ہرکشن لال صاحب بینکر کا مکان ہے۔ یہ مکان اُس وقت شہر سے باہر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش بھی یہی تھی کہ شہر سے باہر رہیں تا کہ علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی عبادت کر سکیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں چالیس روز دعا کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے ۔اِس دَوران میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بعض الہامات ہوئے۔ اِن الہاموں میں سب سے لمبا اور واضح الہام جسے قدرت، رحمت اور فضل کا نشان قرار دیا گیا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ قریب عرصہ میں ہی اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکا دے گا جو تین کو چار کرنے والا ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل نازل ہوں گے۔ اس الہام میں اس لڑکے کی ساٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام کا خدا عالم الغیب اور تمام قدرتو ں کا مالک خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلّت دیتا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے اور دنیا کا کوئی قانون اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر ۵۲ سال کی تھی اور اس سے قبل آپ پر بعض امراض کے شدید حملے ہو چکے تھے جن کی وجہ سے آپ بہت کمزور تھے۔حتّٰی کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب جو اُس وقت دیوبند کے طالب علم تھے بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے آپ کو دیکھا تو اپنے ایک دوست سے کہا کہ ان کے دعوے پر غور کرنے کی ضرورت نہیں یہ زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ میں فوت ہوجائیں گے۔ غرض ایسی حالت میں جبکہ ستّر فیصدلوگوں کے ہاں اولاد کا ہونا بند ہو جاتا ہے اور صرف تیس فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہاں اولاد ہو سکتی ہے اور ایسی حالت میں جبکہ آپ کی صحت سخت کمزور تھی آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ آپ کے ہاں اولاد پیدا ہوگی اورایک سے زیادہ بچے پیدا ہوں گے اور آپ کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا بعض خاص خصوصیات کا حامل ہوگا جو اِس الہام میں بالتفصیل بیان کی گئی ہیں۔ اِس پیشگوئی پر مختلف اعتراض کئے گئے اور کہاگیا کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیںلوگوں کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اوّل تو اِس عمر میں انسان موت کے قریب ہوتا ہے ۵۵سال کی عمر میں گورنمنٹ بھی پنشن دے دیتی ہے گویا وہ یہ سمجھتی ہے کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا۔ہمارے ملک میں اوسطاً عمر ۲۶سال ہے اور آپ گویا اُس وقت اِس سے دُگنی عمر پاچکے تھے۔ایسی عمر میں گواَولاد کا ہونا ناممکن نہیں مگر ستّر فیصدی لوگوں کے ہاں نہیں ہوتی مگر آپ نے پیشگوئی فرمائی کہ آپ کے ہاں اولاد ہوگی، پھر اگر اولاد ہو بھی تو کون سا قانون ہے جس کے ماتحت کوئی یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ زندہ بھی ضرور رہے گی، پھر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک اس کے ہاں اولاد ہوتی رہے گی،کئی بچے زندہ رہیں گے اور بعض کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور پھر اِس اولاد میں سے ایک لڑکا ایسا ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا خاص طور پر وارث ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان ہوگا۔
دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس قسم کا دعویٰ کر سکتے ہیںاور اگر کوئی جھوٹ بولے تو یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی سمجھادے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولو اور اگر کوئی کہہ بھی دے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ شریر اور جھوٹے آدمی کی اولاد ایسی نہ ہو۔ ابوجہل کے لڑکے عکرمہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے اُنہوں نے شہادت کا درجہ پایا۔ پس اگر کوئی شخص اپنی اولاد کو نصیحت بھی کر دے کہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرو تو کیا یہ ممکن نہیں کہ لڑکوں میں ایسا شعور، نیکی اور تقویٰ ہو کہ وہ کہہ دیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ لایا گیا ہے اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ یہ ابوجہل کے لئے ہے۔ یہ خواب دیکھ کر آپ گھبرا کر اُٹھ بیٹھے مگر درحقیقت اِس کی تعبیر یہ تھی کہ اِس کے لڑکے عکرمہؓ کو جنت ملے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۲؎ اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کے لڑکے کو ایسا نیک کیا کہ اِس نے دین کے لئے شاندار قربانیاں کیں۔ ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا۔ عیسائی تیر انداز تاک تاک کر مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر مارتے تھے اور صحابہؓ شہید ہوتے جاتے تھے۔ عکرمہ نے کہا مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا اور اپنی فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اِن پر حملہ کروں اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لے کر دشمن کے لشکر کے قلب پر حملہ کر دیا۔ اور ایسا شدید حملہ کیا کہ اُس کے کمانڈر کو جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا جس سے دشمن کے لشکر میں بھی بھگدڑ مچ گئی۔ یہ جانباز ایسی بہادری سے لڑے کہ جب اسلامی لشکر وہاں پہنچا تو تمام کے تمام یا تو شہید ہو چکے تھے یا سخت زخمی پڑے تھے۔ حضرت عکرمہؓ بھی سخت زخمی تھے۔ ایک افسر پانی لے کر زخمیوں کے پاس آیا اور اُس نے پہلے عکرمہؓ کو پانی دینا چاہا مگر آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیلؓ بن عمر پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے اُس افسر سے کہا کہ پہلے سہیلؓ کو پانی پلاؤ پھر میں پیوں گا۔ مَیں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا بھائی پیاس کی حالت میں پاس پڑا رہے اور میں پانی پی لوںـ۔ وہ سہیلؓ کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اُن کے پاس حارث بن ہشام زخمی پڑے تھے۔ سہیلؓ نے کہا پہلے حارثؓ کو پلاؤ۔ وہ حارثؓ کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے۔ پھر وہ واپس سہیلؓ کے پاس آیا تو وہ بھی وفات پا چکے تھے اور جب وہ عکرمہؓ کے پاس پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی۔۳؎
تو یہ عکرمہ ابوجہل کے لڑکے تھے۔ پس اگر کوئی شخص شریر ہو، بے دین اور جھوٹا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کا بیٹا بھی ضرور اُس جیسا ہو گا۔ مگر خداتعالیٰ کے کلام میں ایسی شہادتیں ہوتی ہیں جو اِس کی صداقت کو واضح کر دیتی ہیں اور جس میں شہادت نہ ہو وہ ماننے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی میں بھی دوسری پیشگوئیوں کی طرح بہت سی شہادتیں موجود ہیں۔ آپ نے ایسے وقت میں جب قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے یہ پیشگوئی فرمائی۔ قادیان کے کئی بوڑھے لوگوں نے سُنایا ہے کہ ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے۔ ہم سمجھا کرتے تھے کہ غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا مرزا غلام قادر ہے۔ تو ایسا شخص جو خود گمنام ہو جسے اُس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اولاد دے گا جو زندہ بھی رہے گی اور اُس کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ایسا ہو گا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اُس کے ذریعہ اِس کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گی۔ کون ہے جو اپنے پاس سے ایسی بات کہہ سکے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ اِس کے یہ معنی بھی تھے کہ وہ اِس پیشگوئی سے چوتھے سال میں پیدا ہو گا چنانچہ آپ نے یہ پیشگوئی ۱۸۸۶ء میں کی اور میری پیدائش ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۳؍مارچ۱۸۸۹ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اِس پیشگوئی کا ہماری جماعت میں بھی اور باہر بھی بہت چرچا ہے اور عموماً یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکا کون ہے؟ پیشگوئی میں اُس لڑکے کا نام محمود بھی بتایا گیا تھا اِس لئے بطور تفاؤل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرا نام محمود بھی رکھا اور چونکہ اُس کا نام بشیر ثانی بھی تھا اِس لئے میرا پورا نام بشیرالدین محمود احمد رکھا۔ جہاں تک اولاد ہونے اور اُس کے زندہ رہنے کا تعلق تھا یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور ایک بیٹے کا نام محمود رکھنے کی بھی توفیق آپ کو ملی۔ مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ یہ پیشگوئی کس لڑکے کے متعلق ہے چنانچہ آج میں یہی بتانے کے لئے لدھیانہ میں آیا ہوں۔
لدھیانہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کئی رنگ میں تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلی بیعت اِسی شہر میں لی۔ آپ کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے اور اُن کی شادی لدھیانہ میں ہی حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں ہوئی تھی اور اِس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُس بیوی کے بطن سے پیدا ہوا جو لدھیانہ میں بھی رہی ہیں۔
مجھے یاد ہے بچپن میں کچھ عرصہ میں بھی یہاں رہا ہوں۔ میں اُس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اُس زمانہ کی یاد نہیں ہیں کیونکہ اُس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے سر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی۔ میں اپنے مکان سے باہر آیا تو ایک چھوٹا سا لڑکا دوسری طرف سے آ رہا تھا۔ اُس نے میرے پاس آ کر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی۔ میں اِس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہوا گھر کی طرف بھاگا۔ اُس بازار کا نقشہ مجھے یاد ہے وہ سیدھا بازار تھا گو اَب میں نہیں جانتا کہ وہ کونسا تھا۔ ہمارا مکان ایک سِرے پر تھا تو میں نے کئی ماہ اپنے بچپن کی عمر کے یہاں گزارے ہیں۔ پس اِس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کے دعویٰ کا اعلان یہاں سے کیا، پہلی بیعت یہاں سے شروع فرمائی، حضرت خلیفہ اوّل کی شادی یہاں ہوئی اور پھر اُن کی اُس بیوی سے جو اِس شہر کی ہیں ایک لڑکی تھیں جن کے ساتھ میری شادی ہوئی، پھر میں نے بچپن کا کچھ زمانہ یہاں گزارا، اِن باتوں کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اعلان بھی اِس شہر میں کروں۔ میں اَب اِس شہر میں سے گزر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ بعض لوگ ایک جلوس بنا کر جا رہے تھے اور کہتے تھے مرزا مر گیا، مرزا مر گیا۔ لیکن ہمیں اِن باتوں کی پرواہ نہیں کہ ہمارا یہ جلسہ اِن لوگوں کی ناراضگی کا باعث ہوا ہے۔ ہم نے ہوشیارپور میں بھی ایسا ہی جلسہ کیا تھا مگر وہاں کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی، پھر لاہور میں پندرہ ہزار کے مجمع میں مَیں نے تقریر کی وہاں بھی کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی، مجھے کئی دفعہ یہ خیال آتا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے جن باتوں کا اعلان کیا جاتا ہے اُن کی مخالفت لوگ ضرور کرتے ہیں معلوم نہیں میرے اِس اعلان کے بعد کہ یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے اَب تک کسی نے مخالفت کیوں نہیں کی۔
سو خدا تعالیٰ کا شکرہے کہ آج لدھیانہ میں یہ مخالفت بھی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کے قانون اور انبیاء کی سنت کے مطابق لدھیانہ کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی باتوں پر اِستہزاء کیا۔ وہ ایک دائمی حیات پانے والے انسان کے متعلق کہہ رہے تھے کہ مر گیا مگر ہم اِن لوگوں سے ناراض نہیں ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی باتوں سے اِستہزاء کیا۔ ہم اِن کیلئے بھی دعا ہی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! اِن لوگوںنے جو کچھ کیا نادانی سے کیا، ناواقفی سے کیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھلانے کی وجہ سے استہزاء کیا مگر اے خدا! تو اِن کو معاف کر اور اِن کو ہدایت دے اور اِن کے قلوب کو سچ کے قبول کرنے کے لئے کھول دے اور جس طرح آج میں نے اِن کو دین کے ساتھ استہزاء کرتے دیکھا ہے میں اپنی آنکھوں سے اِن کو دین کے لئے قربانیاں کرنے کی غرض سے آگے بڑھتا ہوا دیکھوں۔ اِنہوں نے آج اِس بات پر استہزاء کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جس پر اِستہزاء کا اَب تک نہ ہونا مجھے حیران کر رہا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے آج میری یہ خواہش بھی ان لوگوں کے ذریعہ پوری کر دی کیونکہ انہوں نے خوب مخالفت کی اور ہنسی اُڑائی۔ اِس قسم کا سلوک اَب تک کسی اور شہر میں ہمارے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ سو میں اِن لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے میری اِس خواہش کو پورا کیا کہ اللہ تعالیٰ اِن کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے، اِن کو ہدایت دے اور ایمان بخشے۔
اِس وقت اِس جلسہ میں لدھیانہ کے لوگ غالباً بہت کم ہوں گے، زیادہ تر بیرونی لوگ ہیں لیکن اگر یہاں ایک بھی لدھیانہ کا شخص ہے تو میں اُس کے ذریعہ اہل لدھیانہ کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ اے لدھیانہ کے لوگو! تم نے میری مخالفت کی اور میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں۔ تم نے میری موت کی خواہش کی مگر میں تمہاری زندگی کا خواہاں ہوں کیونکہ میرے سامنے میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال ہے۔ آپ جب طائف میں تبلیغ کے لئے گئے تو شہر کے لوگوں نے آپ کو پتھر مارے اور لہولہان کر کے شہر سے نکال دیا۔ آپ زخمی ہو کر واپس آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا اگر آپ فرمائیں تو اِس شہر کو اُلٹا کر رکھ دوں۔ مگر میرے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ماں باپ، میری جان، میرے جسم اور میری روح کا ذرّہ ذرّہ آپ پر قربان ہو، فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ لوگ ناواقف تھے، نادان تھے اِ سلئے انہوں نے مجھے تکلیف دی اگر یہ لوگ تباہ کر دیئے گئے تو ایمان کون لائے گا۔۴؎ سو اے اہلِ لدھیانہ! جنہوں نے میری موت کی تمنا کی میں تمہارے لئے زندگی کا پیغام لایا ہوں، اَبدی زندگی اور دائمی زندگی کا پیغام۔ ایسی ابدی زندگی کا پیغام جس کے بعد فنا نہیں اور کوئی موت نہیں۔ میں تمہارے لئے خداتعالیٰ کی رضا کا پیغام لایا ہوں جسے حاصل کرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی دُکھ نہیں رہتا اور مجھے یقین ہے کہ آج کی مخالفت کل دلوں کو ضرور کھولے گی اور دنیا دیکھے گی کہ یہ شہر اِنْشَائَ اللّٰہ خداتعالیٰ کے نور سے منور ہو گا اور میرے کام میں میرا ممدومعاون بنے گا۔ میں خداتعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوں اور اُس کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا۔ آج یہاں ہماری مخالفت ہوئی ہے، ہمیں گالیاں دی گئی ہیں، اِستہزاء کیا گیا ہے اور بعض لوگوں کو پتھر بھی پڑے ہیں مگر آج سے چارپانچ سال قبل یعنی اِن بُری باتوں کو سننے سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ مجھے اِس شہر کے متعلق خوشخبری بھی دے چکا ہے۔
چار پانچ سال کی بات ہے مَیں نے رؤیا دیکھا جس میں کسی بیرونی خیال کا کوئی دخل نہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ مَیں لدھیانہ میں ہوں اور ایک ایسے مکان میں ٹھہرا ہوا ہوں جو ایک لمبی سڑک کے کنارے پر واقع ہے یہ سڑک بہت چوڑی ہے اور بازار لمبا ہے جس میں کھانے کی دُکانیں بھی ہیں میں اِس بازار میں ٹہلتا ہوں اور کوئی شخص مجھے کچھ نہیں کہتا اور نہ کوئی مخالفت کرتا ہے اور میں دل میں کہتا ہوں کہ اِس شہر میں تو ہمیں گالیاں ملا کرتی تھیں پھر آج یہ کیا تغیر ہوا ہے کہ کوئی ہمیں کچھ بھی نہیں کہتا۔ تو اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت جب اُس کے بندوں کو کوئی صدمہ یا تکلیف پہنچنے والی ہوتی ہے تو وہ پہلے سے ہی اُن کے ساتھ دلداری بھی کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اظہار ِہمدردی پر مشتمل خواب مجھے عرصہ ہوا دکھایا جا چکا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس وقت یہ پیشگوئی فرمائی اُس وقت تک آپ نے بیعت نہ لی تھی اور ایک شخص بھی آپ کا مرید نہ تھا۔ چار سال کے بعد آپ نے لدھیانہ میں بیعت لینی شروع کی اور صرف چالیس آدمی آپ کی بیعت میں شامل ہوئے مگر ساری دنیا میں آپ کی مخالفت کا شور بپا ہو گیا۔ چاروں طرف سے آپ کو گالیاں دی جانے لگیں اور آپ کو کافر و دجال کہا گیا، آپ کو واجب القتل قرار دیا گیا، اسلام کا دشمن بتایا گیا اور ہر قوم و مذہب کے لوگ آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ شخص ہمارے عیسیٰ کو وفات یافتہ ٹھہراتا ہے اِسے مار دینا چاہئے۔ ہندوؤں نے شور مچایا کہ یہ ہمارے مذہب کو نقصان پہنچا رہا ہے اِسے مار دیا جائے۔ گورنمنٹ بھی مخالف تھی قادیان جانے والوں کے نام پولیس نوٹ کرتی تھی۔ کوئی احمدی ہوتا تو اُسے بُلا کر ڈرایا دھمکایا جاتا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ لوگ احمدی نہ ہوں۔ حتّٰی کہ سر ایبٹس گورنر ہو کر آئے اور اُنہوں نے تمام حالات کا جائزہ لیکر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا مطالعہ کرنے کے بعد گورنمنٹ کو یہ رپورٹ کی کہ اِس جماعت کے ساتھ یہ سلوک نامناسب ہے۔ یہ بڑی ناشکری کی بات ہے کہ جس شخص نے امن قائم کیا اور جو امن پسند جماعت قائم کر رہا ہے اِس پر پولیس چھوڑی گئی ہے۔ یہ بڑی احسان فراموشی ہے اور میں اِسے مٹا کر چھوڑوں گا۔ اِس طرح ۱۹۰۷ء میں یہ حالت تبدیل ہوئی اور احمدیوں کی نگرانی کا سلسلہ بند ہواـ۔ پھر مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کی سخت مخالفت کی گئی اور احمدیوں کو بھی انتہائی تکالیف پہنچائی جاتی تھیں حتّٰی کہ قادیان میں جس کا ہمارا خاندان واحد مالک ہے خاندان کے دوسرے حصہ کے بعض افراد کے زیرِ اثر احمدیوں کو سخت تکالیف دی جاتی تھیں۔ دھوبی، ماشکی اور حجام اِن کا کام نہ کرتے تھے، مسجد کو جانے والی گلی میں دیوار کھینچ کر اندر جانے کا رستہ بند کر دیا گیا جو کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے گروا دی۔ میں اُس زمانہ میں بہت چھوٹا تھا ۱۲،۱۳ سال کی عمر تھی اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے سچے رؤیا ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک رؤیا اِسی دیوار کے متعلق اُس زمانہ میں ہوا۔ دیوار گرانے کے لئے عدالت میں دعویٰ دائر کیا گیا تو مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میں اِس مسجد کی سیڑھیوں کے ایک جانب کھڑا ہوں اور بعض لوگ اِس دیوار کو گرا رہے ہیں کہ دوسری جانب سے حضرت خلیفہ اوّل جو منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے داماد تھے آ رہے ہیں اور پاس آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ آخر اِس مقدمہ کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا اور اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جب سرکاری پیادہ دیوار کو گرانے کے لئے آیا اور دیوار گرائی جانے لگی تو مَیں سیڑھیوں میں اِسی جگہ کھڑا تھا جہاں میں نے خواب میں اپنے آپ کو کھڑا دیکھا تھا اور عین اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل مسجد اقصیٰ کی طرف سے درس دے کر آئے اور آ کر اُسی جگہ کھڑے ہو گئے جہاں میں نے خواب میں اُن کو دیکھا تھا۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو انسان عقل سے معلوم نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ شروع سے ہی میرا تعلق اُس کے ساتھ ایسا رہا ہے کہ وہ غیب کی باتیں مجھے بتاتا رہتا ہے۔ مَیں بیان کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالت ایسی کمزور تھی کہ کوئی شخص خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ تمام دنیا تو کجا پنجاب میں بھی کوئی شہرت حاصل کر سکے گا۔ آپ کے قتل کے منصوبے کئے گئے، دوسروں کو قتل کرانے کے جھوٹے مقدمات آپ پر بنائے گئے مگر ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد اور نصرت کی اور پھر دنیا میں چاروں طرف آپ کا نام پھیلا اور عزت کے ساتھ لیا جانے لگا اور جب آپ فوت ہوئے تو آپ کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی مگر پھر بھی آپ کی جماعت ابھی اتنی کمزور تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت جب ہم لوگ انتہائی درد کی حالت میں تھے، جب کہ ہمارا ایسا لیڈر جس کے متعلق ہمارا یقین اور ایمان تھا کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے ہم سے رُخصت ہو گیا اور جب ہمارے دل اتنے زخمی تھے کہ کسی یتیم کا دل بھی اتنا زخمی نہیں ہوتا اُس وقت لاہور میں مخالفوں نے ایک جنازہ بنا کر بازاروں میں سے گزارا جس پر وہ گوبر اور پاخانہ اور اینٹیں اور پتھر پھینک رہے تھے اور اِس طرح ہنسی اُڑا رہے تھے۔ مگر خداتعالیٰ نے جو آپ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کو میرے ذریعہ پورا کروانا چاہتا تھا اُس نے اپنے فضل سے مجھے اِس بات کی توفیق دی کہ جب میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالف اِس طرح تمسخر کر رہے ہیں اور خوشی منا رہے ہیں اور بعض اپنی جماعت کے لوگوں کے قدم بھی ڈگمگا رہے ہیں تو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش کے پاس گیا اور آپ کے سرہانے کی طرف کھڑا ہو کر خداتعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! میں تیرے اِس مامور کے پاس کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس کام کے لئے تُو نے اِسے مامور کیا تھا میں اِسے سرانجام دوں گا اور اگر ساری کی ساری جماعت بھی خدانخواستہ مرتد ہو جائے تب بھی میں اِسے نہیںچھوڑوں گا اور اِس کام میں کسی کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اُس وقت میری عمر ۱۹ سال کی تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ایک انیس سالہ نوجوان کے منہ سے یہ الفاظ نکلوائے اور پھر اُس نے اپنے فضل سے ہی مجھے یہ بھی توفیق دی کہ اپنے وعدہ کو پورے زور کے ساتھ پورا کروں اور اِن پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا موجب بنوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کی تھیں۔
بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے اور میں جو ایک کمزور اور بیمار انسان تھا، ایسے وقت میں جب دنیا سمجھ رہی تھی کہ سلسلہ کا کام اَب بند ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ میں آپ کے کام کو ضرور کروں گا۔ آپ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر اکٹھا کر دیا۔ مولوی صاحب مرحوم بہت بڑے عالم تھے۔ جب وہ خلیفہ ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ مولوی صاحب ہی پہلے اِس سلسلہ کو چلا رہے تھے۔ پہلے آپ پیچھے تھے اَب آ پ آ گے آ گئے ہیں اُن کی زندگی تک تو یہ سلسلہ نہیں ٹوٹے گا مگر اُن کے بعد ختم ہو جائے گا لیکن ابھی چھ ماہ کا ہی عرصہ گزرا تھا کہ جماعت کے وہ لوگ جو سب سے زیادہ رُسوخ جماعت میں رکھتے تھے وہ خلافت کی مخالفت کیلئے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن کو اپنا قائم مقام بنایا ہے، مولوی صاحب کو بزرگ سمجھ کر ہم نے اِن کی بیعت کر لی ہے مگر کام چلانے کی ذمہ داری انجمن پر ہے۔
جب اِس مخالفت نے سر نکالا تو حضرت خلیفہ اوّل نے اعلان کیا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں کوئی پیر نہیں ہوں کسی کی طاقت نہیں کہ مجھے خلافت سے معزول کر سکے۔
اِس پر یہ لوگ بظاہریہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ ہم اَب اِن کی بیعت کر چکے ہیں اور اِس طرح اِن کے قبضہ میں ہیں مگر اِس کے ساتھ دوسرا ہتھیار یہ استعمال کرنے لگے کہ مجھ بے گناہ کو جسے کبھی یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ مَیں خلیفہ بنوں گا،یہ کہہ کہہ کر بدنام کرنا شروع کر دیا کہ اِس بچہ کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور میرے خلاف ایسا پروپیگنڈا شروع کیا کہ میرے بعض عزیز دوست بھی مجھے اِس خیال سے تحقیر کی نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ گویا مَیں جماعت میںفتنہ ڈالنے والا ہوں۔ ہم نے ایک مجلس بنائی ہوئی تھی جس میں تقریروں کی مشق کی جاتی تھی، حضرت خلیفہ اوّل اِس کے صدر تھے مگر اِن لوگوں نے اِس کے اجلاس کا پروگرام ایسا بنایا کہ میری تقریر اِس میں نہ ہو سکے۔ چنانچہ ایک دن جب مَیں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس اِس لئے گیا کہ پروگرام میں اِس طرح تبدیلی کی جائے تو ایک دوست نے بڑے غصہ سے کہا کہ ہم یہاں تمہاری تقریریں سننے کیلئے نہیں آئے۔ یہی لوگ ہر قسم کے انتظامات پر قابض تھے، سیکرٹری بھی انہی میں سے تھا، رسالوں کی ایڈیٹری پر بھی یہی قابض تھے اور یہ سب مجھے بدنام کر رہے تھے۔
ایسی حالت میں ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اوّل کا انتقال ہو گیا۔ اِن کی وفات سے قبل ہی مولوی محمد علی صاحب نے خفیہ طور پر ایک ٹریکٹ چھاپ کر رکھا ہوا تھا کہ مولوی صاحب کی وفات کے بعد کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات سے قبل جب میں نے انہیں کہا کہ ہمیں مل کر یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہم میں کوئی اختلاف و جھگڑا وغیرہ نہیں تھا انہوں نے مجھے یہ جواب دیا کہ اِن باتوں کا قادیان سے باہر کسی کو علم بھی نہیں کیا ضرورت ہے کہ اِس بارہ میں کوئی اعلان لکھا جائے مگر خود خفیہ طور پر یہ ٹریکٹ چھپوا کر رکھ چھوڑا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کا نظام انجمن کے سپرد کیا ہے خلافت کی کوئی ضرورت نہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل کی بیعت تو اِس لئے کر لی گئی تھی کہ آپ قابل اور بزرگ آدمی تھے۔ میں نے یہ دیکھ کر مولوی محمد علی صاحب سے کہا کہ جماعت میں اتفاق رہنا چاہئے اور اِس کو قائم رکھنے کے لئے مَیں یہ پیشکش کرتا ہوں کہ آپ اور آپ کی پارٹی جس کو بھی خلیفہ منتخب کرے میں اُس کی بیعت کر لوں گا اور جن لوگوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ میری پارٹی میں ہیں اُن کا جب کوئی ہیڈ نہ رہے گا تو وہ بھی خود بخود بیعت کر لیں گے۔ مگر مولوی صاحب نے کہا ہم خلافت کے قائل ہی نہیں اِس لئے یہ صورت منظور نہیں کر سکتے۔ مولوی صاحب نے میری اِس قربانی کو جو مَیں جماعت میں اتفاق قائم رکھنے کی غرض سے کرنے کو تیار تھا ردّ کر دیا۔ میں نے اصرار اور خوشامد سے اِن کو اِس بات پر آمادہ کرنا چاہا مگر وہ نہ مانے۔ آخر اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت جماعت میرے ہاتھ پر اکٹھی ہوگئی۔
مَیں وہ شخص ہوں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے کورا ہوں۔ یوں تو میں نے انٹرنس کا امتحان بھی دیا مگر یہ یاد نہیں کہ کوئی امتحان پاس بھی کیا ہو۔ پھر دینی تعلیم بھی میں نے کسی مدرسہ میں نہیں پائی اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا انتخاب بطور خلیفہ عقل کے خلاف بات ہے اگر عقل سے کام لیا جاتا تو مولوی محمد علی صاحب اور مولوی محمد احسن صاحب وغیرہ میں سے کوئی خلیفہ ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ میرے اپنے ایک برادرِنسبتی اور بچپن کے دوست نے مجھے سنایا کہ میں یہ ارادہ کر کے آیا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب یا مولوی محمد احسن صاحب کی بیعت کروں گا اور خود میں نے بھی یہ پیشکش کی تھی جیسا کہ مَیں بیان کر چکا ہوں مگر خدا کی قدرت کہ جب جماعت کے لوگ جمع ہوئے تو مولوی محمد علی صاحب نے یہ تقریر کرنی چاہی کہ کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے مگر جماعت کے لوگوں نے کہا کہ چونکہ جماعت خلافت پر ایمان رکھتی ہے اِس لئے اِس بارہ میں وہ آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔ اِس پر وہ لوگ مسجد سے چلے گئے اور میں جس کی نہ صحت اِس قابل تھی اور نہ تعلیم اِس کے ہاتھ پر جماعت جمع ہو گئی۔ اور یہ لوگ مخالف تھے اور اُس زمانہ کے اخبارات کے فائل گواہ ہیں کہ یہ لوگ خود کہتے ہیں کہ پانچ فیصدی ہی لوگوں نے مرزا محمود احمد کی بیعت کی ہے اور باقی ہمارے ساتھ ہیں اور مالی حالت یہ تھی کہ خزانہ میں صرف ۱۴آنے تھے اور اٹھارہ ہزار کے بِل قابل ادائیگی تھے ایسے حالات میں وہ لوگ جو جماعت میں بارسوخ تھے قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے۔ اور اُس وقت وہ آئندہ کے متعلق جو امیدیں رکھتے تھے اُس کا اندازہ اِس بات سے ہو سکتا ہے کہ اِن میں سے ایک یعنی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے قادیان کے ہائی سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو یہاں سے جا رہے ہیں لیکن ابھی دس سال نہیں گزرنے پائیں گے کہ اِن عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا۔ تو ایسے حالات میں جماعت کی امامت ایک ایسے شخص کے سپرد ہوئی جو نہ دُنیوی علوم رکھتا تھا اور نہ دینی مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی اللہ تعالیٰ کا اِس کے متعلق یہ وعدہ تھا کہ وہ ظاہری اور باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا اور خداتعالیٰ اُسے آسمان سے اپنے علوم سکھائے گا اور فرشتے وہ علوم اُسے پڑھائیں گے جو دین کے لئے ضروری ہیں۔ میری حالت یہ تھی کہ میں انگریزی کی دوسطریں بھی صحیح نہیں لکھ سکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود میری ایسی تربیت کی کہ ہر علم میں مجھے ملکہ عطا کیا اور ہر قسم کے علوم سکھائے۔ میں نے کئی دفعہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ کسی علم کا کوئی کتنا بھی ماہر کیوں نہ ہو وہ اپنے علم کے رو سے قرآن کریم پر کوئی اعتراض کرے میں خداتعالیٰ کے فضل سے اُسے مُسکت جواب دوں گا۔ پھر (باوجود اِس کے کہ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور مَیں سیاسی آدمی نہیں ) سیاسیات میں بھی خداتعالیٰ نے مجھے ایسا ملکہ اور شعور عطا کیا کہ سرفضل حسین صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہلا بھیجا کہ آپ سیاسیات میں کیوں دخل نہیں دیتے؟ مولوی فضل الحق صاحب سابق وزیر اعظم بنگال اور عبداللہ سہروردی صاحب نے کہا کہ ہم آپ کے سیاسی مرید ہیں اور ڈاکٹر محمود صاحب نے میرے ایک سیاسی رسالہ کا ذکر کر کے کہا کہ میں اِسے ہر وقت جیب میں رکھتا ہوں۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیاسی امور میں بھی ہمیشہ میرا مشورہ ٹھیک ثابت ہوا ہے۔ جب دہلی میں خلافت کانفرنس ہوئی تو مجھے بھی اُس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔ میں نے ایک رسالہ رکھ کر وہاں تقسیم کرانے کے لئے بھیج دیا اور اُس میں بعض مشورے اِس تحریک کی کامیابی کے لئے دیئے مگر اُس وقت کارپردازوں نے اُن پر توجہ نہ کی اور عمل کرنے سے انکار کر دیا مگر وفات سے کچھ عرصہ قبل مولانا شوکت علی صاحب مجھ سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ فلاں فلاں وجہ سے ہماری یہ تحریک فیل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے فلاں فلاں مشورہ آپ لوگوں کو دیا تھا اگر آپ اُن پر عمل کرتے تو آج ناکامی کا منہ دیکھنا نہ پڑتا۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ اِس بات کا اظہار کیا کہ مجھے آپ کا وہ رسالہ نہیں ملا۔ تو اللہ تعالیٰ نے سیاسیات میںبھی مجھے راہنمائی کی توفیق دی۔
اِسی طرح اقتصادیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے راہنمائی کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں جماعت کا قدم بلندی کی طرف اُٹھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم مَیں نے فرشتوں سے پڑھا ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت دنیا کے پردہ پر قرآن کریم کے مسائل کو حل کرنے کے لئے مجھ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ماتحت الہام اور وحی سے ایسے معانی قرآن کریم کے مجھے سمجھائے ہیں کہ اسلام اور قرآن کریم پر سے سب اعتراضات دُور ہو جاتے ہیں اور سننے والا اِس کی خوبی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ غرض یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں پوری کی کہ بظاہر اِس کے پورا ہونے کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ مجھ میں کوئی ذاتی خوبی نہ تھی، کوئی علم نہ تھا مگر الہام میں کہا گیا تھا کہ وہ لڑکا الہامِ الٰہی سے حصہ پائے گا اور اللہ تعالیٰ نے بچپن میں مجھے غیب کی خبروں سے آگاہ کیا اور اِس زمانے میں تو یہ نشان اِس کثرت سے ظاہر ہوا ہے کہ شدید ترین مخالف کے لئے بھی انکار کی گنجائش نہیں۔ ستمبر ۱۹۴۰ء میں مَیں شملہ میں چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا کہ میں نے وہاں خواب میں دیکھا کہ لیبیا کی طرف سے انگریزی علاقہ کی طرف اطالوی فوجیں بڑھ رہی ہیں۔ انگریزی فوجیں اُن کا مقابلہ کرتی ہیں مگر اُن کے قدم جمتے نہیں یہاں تک کہ اُنہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ میدانِ جنگ مجھے ایک ہال کی شکل میں دکھایا گیاجس کی ایک طرف دروازہ کی جگہ سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور وہ سیڑھیاں اُس ہال میں اُترتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر پھر دشمن کے دباؤ کو برداشت نہ کرتے ہوئے انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی سیڑھیوں پر سے اُترنا شروع کیا اور دشمن کی فوجوں نے آگے بڑھنا شرو ع کیا۔ انگریزی فوجیں لڑتی ہیں مگر پھر سیڑھیوں پر سے اُترنے پر مجبور ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ تمام سیڑھیاں ختم ہو گئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اُتر آئیں اور دشمن کی فوج بھی اُن کے پیچھے ہال میں اُترنے لگ گئی جب میں نے رؤیا میں اِس طرح انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو گھبرا گیا کہ اَب کیا ہو گا۔ـ میں تیزی سے گھر کی طرف آیا اور میاں بشیر احمد صاحب کو تلاش کیا وہ مجھے ملے تو اُن سے کہا کہ ہم فوج میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری صحت ایسی نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں ہم باہر سے انگریزوں کی مدد کر سکتے ہیں آپ کے پاس رائفل ہے اور میرے پاس بھی، چلو ہم اپنی رائفلیں لیں اور دشمن پر حملہ کر دیں۔ چنانچہ میں اُن کو اپنے ساتھ لیکر وہاں گیا۔ اُس وقت لڑائی گوہال میں ہو رہی تھی مگر ہم باہر کھڑے ہو کر اندر کا تمام نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ وہاں ایک جگہ جھاڑی دیکھ کر مَیں لیٹ گیا یا دو زانو ہو گیا اور میں نے کچھ فائر کئے۔ اِن فائروں کے بعد اٹلی والوں کو انگریزی فوج دبانے لگی اور پھر اُنہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کیا جن پر سے اُتری تھیں۔ انگریزی فوج دشمن کو دباتے دباتے دوسرے سرے تک بڑھ گئی اور اُس وقت مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے۔۵؎
چوہدری صاحب وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے جا رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں یہ خواب وہاں سناؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے ممبروں سے اِس کا ذکر کیا اور انہیں بتایا کہ ہمارے امام کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ لیبیا کی لڑائی میں پہلے انگریز کمزور ہوں گے مگر آخر فتح پا جائیں گے۔ لیتھویٹ، وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری تھے انہوں نے کہا کہ میں یہ خواب خود امام جماعت احمدیہ کی زبان سے سُننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ چوہدری صاحب اگلے روز کیلئے اُن کو چائے کی دعوت دے آئے اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ میں یہ خواب اُن کو سناؤں۔ چنانچہ میں نے سنائی اور آخر بالکل اُسی طرح ہوا جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں سے آخری فتح انگریزوں کو عطا کر دی جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا۔ دشمن مصر کی سرحد کے اندر آ کر واپس بھاگا ۔ العالمین کے محاذ پر جب لڑائی شروع ہوئی تو مسٹر چرچل نے کہاتھا کہ اگر اَب ہم یہاں سے ہٹے تو پھر قدم نہ جم سکیں گے۔ العالمین کے محاذ پر ایک طرف سمندر اور دوسری طرف دلدلیں تھیں اور ایک تنگ علاقہ میں لڑائی ہو رہی تھی اور انگریز خود مانتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو جرمن دائیں بائیں سے حملہ کر کے ضرور کامیاب ہو جاتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے بظاہر شکست کو فتح سے بدل دیا اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کے خود انگریز بھی گواہ ہیں۔ غرض العالمین کے محاذ پر اللہ تعالیٰ نے اُن کو میری دعاؤں سے فتح دی۔ اِسی طرح اور بھی کئی واقعات ہیں۔ ہماری جماعت کے ایک ڈاکٹر مطلوب خان ہیںجو گزشتہ جنگ میں شامل تھے کانگڑھ کے رہنے والے اور آنکھوں کے علاج میں شہرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ جنگ میں وہ میدانِ جنگ میں گئے ہوئے تھے کہ اُن کے بوڑھے والدین مجھ سے ملنے آئے۔ اُن کے والد کی عمر۷۵ ،۸۰ برس کی تھی۔ وہ کُبڑے ہو چکے تھے اور منہ پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں وہ مجھے مل کر گئے اور تھوڑا ہی عرصہ بعد اُن کے بھتیجے نے میرے بھائی میاں شریف احمد صاحب سے ذکر کیا کہ میرے چچا کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ اُن کو گورنمنٹ کی طرف سے یہ تار آئی ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خان جنگ میں مارے گئے ہیں۔ اُن کے والدین چونکہ اُنہی دنوں میں مجھے مل کر گئے تھے اور میں نے اِن کے بڑھاپے اور کمزوری کی حالت کو خود دیکھا تھا اِس لئے مجھے یہ خبر سن کر بہت افسوس ہوا اور میں نے دعا کی کہ یا الٰہی! ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہوں۔
مگر دعا کرتے وقت مجھے یہ خیال بھی آیا کہ گورنمنٹ کی طرف سے یقینی اطلاع ملنے کے بعد اِس دعا کے کیا معنی ہیں۔ مجھے چاہئے کہ اپنے نفس کو اِس دعا سے روکوں مگر پھر بھی میں دعا کرتا گیا۔ اِس پر مجھے رؤیا میں دکھایا گیا کہ اطلاع آئی ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں زندہ ہیںاور تین دن کے بعد زندہ ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنے بھائی مرزا شریف احمد صاحب سے ذکر کیا اور اُنہوں نے مطلوب خاں کے چچا زاد بھائی کو بتایا اور انہوں نے اپنے چچا کو لکھ دیا اور آخر ڈاکٹر صاحب کا اپنا تار اُن کے والدین کو ملا کہ میں زندہ ہوں۔ اِس پر سب حیران تھے کہ یہ کیا بات ہے، گورنمنٹ کی اطلاع تھی کہ مارے گئے اور اُن کی تار یہ ہے کہ میں زندہ ہوں۔ اُن کو لکھا گیا کہ کیا معاملہ ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ عرب کے ساتھ لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ میرا ایک سکھ دوست جو ڈاکٹر تھا مجھ سے ملنے آیا وہ تھا تو سکھ مگر کیس نہ تھے، داڑھی تھی، رنگ وغیرہ بھی یکساں ہی تھا لڑائی ہوئی تو وہ سکھ مارا گیا اور مجھے عرب قید کر کے لے گئے۔ سکھ چونکہ بُری طرح زخمی ہو چکا تھا اِس لئے اچھی طرح پہچانا نہ جاتا تھا اور سرکاری ریکارڈ کے رو سے وہاں کوئی اور ڈاکٹر تھا ہی نہیں اِس لئے اُس کی داڑھی وغیرہ سے یہ اندازہ کر لیا گیا کہ میں مارا گیا ہوں۔ عربوں نے جہاں مجھے قید کیا ہوا تھا وہاں انگریزوں نے بم باری کی اور عرب گاؤں چھوڑ کر بھاگ گئے اور میں تین دن کے بعد وہاں سے واپس اپنے کیمپ میں آ گیا۔ اَب غور کریں کیا کوئی انسانی دماغ ایسی بات بنا سکتا ہے، یہ کتنی عظیم الشان علامات ہیں۔
یہ لوگ زندہ ہیں اور کوئی چاہے تو حلفاً اِن سے دریافت کر سکتا ہے۔ پھر اِن پیشگوئیوں کے عیسائی گواہ ہیں جن کے مذہب کو مٹانے کے لئے ہم کھڑے ہیں۔ پھر گورنمنٹ کے ریکارڈ اِن کے پورا ہونے پر گواہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کثرت سے مجھے قبل از وقت ایسی خبریں دیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں مگر میں اِس وقت تفاصیل میں نہیں جا سکتا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اپنے منشاء کے مطابق جب چاہے رؤیا کے ذریعہ غیب پر مشتمل خبریں مجھے دیتا ہے۔ پھر اِس کے ساتھ جماعت کی امامت کے متعلق جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں منتخب کیا جب خزانہ میں چند آنے تھے اور ہزاروں روپیہ قرض تھا اور جو لوگ جماعت کے لیڈر تھے وہ چھوڑ کر جا چکے تھے اور خیال کیا جاتا تھا کہ اَب یہ جماعت برباد ہو جائے گی۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ جب سلسلہ کی باگ میرے ہاتھ میں آئی تو ہندوستان سے باہر کوئی ایک مشن بھی نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور مَیں نے خلافت کے پہلے سال ہی انگلستان میں مشن قائم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے خود لوگوں کے قلوب میں الہام کیا اور انہوں نے اپنی زندگیاں اشاعتِ اسلام کیلئے وقف کیں اور اِس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ مشنری دیئے جو تمام دنیا میں پھیل گئے حتّٰی کہ سخت خطرات کے دنوں میں پاسپورٹ کے بغیر روس میں گھس گئے۔ قیدیں کاٹیں، جیلوں میں مصائب برداشت کئے، ماریں کھائیں مگر تبلیغ کی۔ افغانستان میں گئے اور وہاں سنگسار ہوئے مگر احمدیت کے پیغام کو وہاں پہنچا دیا۔ اُن کو طرح طرح کی تکالیف بھی دی گئیں مگر وہ اپنے کام سے نہ رُکے۔ پھر وہ سپین میں گئے، اٹلی گئے، ہنگری گئے،یوگوسلاویہ، بلغاریہ،رومانیہ، جرمنی، پولینڈ، البانیہ، یونان، چیکوسلواکیہ، فرانس میں پہنچے۔ ایران، عرب، مصر، شام اور فلسطین میں گئے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ وہ افریقہ کے تمام ممالک میں پہنچے۔ گولڈکوسٹ، یوگنڈا، ٹانگا نیکا، نٹال میں گئے۔ غرض دنیا کا کوئی علاقہ اور کوئی ملک نہیں جہاں میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے وہ باتیں پوری نہ کیں۔ جنوبی امریکہ اور شمالی امریکہ میں احمدی مبلغ گئے اور اِس طرح دنیا کے گوشہ گوشہ میں میری طرف سے مشنری گئے اور اسلام کی تبلیغ کی اور آج دنیا میں میرے سِوا کوئی ایک بھی مسلمان ایسا نہیں کہ جس کے ذریعہ دنیا کے تمام براعظموں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے پیدا ہوئے ہوں۔ جس کے ذریعہ شمالی اور جنوبی امریکہ، فرانس، انگلستان اور دوسرے یورپین ممالک کے عیسائیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اِسی طرح سماٹرا ،جاوا،بورنیو، سٹریٹ سیٹلمنٹ ۷؎کے بُت پرست اور عیسائی اَب درود بھیجتے ہیں۔ مغربی افریقہ کے تین ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہزارہا لوگ عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ میرے ذریعہ سے ہوا۔ پھر میرے ہی ذریعہ مشرقی افریقہ کی پُرانی اقوام ہزاروں کی تعداد میں عیسائیت یا بُت پرستی کو چھوڑ کر رسول کریمﷺ پر درود بھیجنے لگی ہیں اور اِس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے مقامِ محمود کا جو وعدہ فرمایا تھا اِس کا ایک حصہ مجھ محمود کے ذریعہ بھی اِس طرح پورا کرایا کہ میرے بھیجے ہوئے واعظوں کے ذریعہ ہزاروں لوگ مسلمان ہو کر آپؐ پر درود بھیج رہے ہیں۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی درود بھیجتے ہیں اور وہ میرے بھی ممنون ہیں جو اُنہیں کھینچ کر جنت میں لے گیا اور اِس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر گوشہ میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو میرے نام اور کام سے واقف ہیں اور جو میرے کہنے پر اسلام کی خاطر جان و مال کی قربانی کرنے کیلئے تیار ہیں اور یہ اُس فرزند کی ایک بہت بڑی علامت تھی جس کا ذکرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی میں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس کی ساٹھ علامات بیان فرمائی ہیں اور اِن سب کے متعلق اِس وقت مَیں بیان نہیں کر سکتا بلکہ آج میں جو کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ دسمبر ۱۹۴۳ء میں میری بیوی شدید بیمار تھیں اور میں انہیں علاج کیلئے لاہور لے گیا۔ وہاں ہوشیارپور ہی کے رہنے والے اور شیخ مہر علی صاحب ہوشیارپوری کی برادری سے تعلق رکھنے والے شیخ نیاز محمد صاحب کے مکان میں جس میں آجکل شیخ بشیر احمد صاحب رہتے ہیں مَیں ٹھہرا ہوا تھا کہ مَیں نے وہاں ایک رؤیا دیکھا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اُس موعود فرزند کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو علامات بیان فرمائی ہیں اُن میں سے کئی ایک کے پورا ہونے کی وجہ سے ہماری جماعت کے بہت سے لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ پیشگوئی میرے ہی متعلق ہے مگر میں ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے یہ حکم نہ دے کہ میں کوئی ایسا اعلان کروں مَیں نہیں کروں گا۔ آخر وہ دن آ گیا جب خداتعالیٰ نے میری زبان سے اِس کا اعلان کرانا تھا۔ ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں، نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹرنچز ہیں، بہرحال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق مَیں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے اُن سے تعلق ہے، میں اِن کے پاس ہوں۔ اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اِس فوج سے کہ جس کے پاس مَیں ہوں برسرپیکار ہے یہ معلوم کر لیا کہ میں وہاں ہوں اور اُس نے اُس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اُس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی اِس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا۔ بہرحال وہاں جو فوج تھی اُس کو جرمنوں سے دَبنا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اُس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں مَیں تھا۔ تب مَیں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اَب اِس جگہ ٹھہرا جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے۔ اُس وقت میں رؤیا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دَوڑتا ہوں۔ میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دَوڑتے ہیں اور جب میں نے دَوڑنا شروع کیا تو رؤیا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دَوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبردست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میل ایک آن میں طے کرتا جا رہا ہوں۔ اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دَوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمنی فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دَوڑتے آ رہے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رؤیا میں یوں معلوم ہوا کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رؤیا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی، اُس میں اِس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اِس مقام سے دَوڑے گا تو اِس اِس طرح دَوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا۔ چنانچہ رؤیا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اُس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اِس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اُس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میںبہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا۔ چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اُس مقام پر مجھے کئی پگ ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف ۔ مَیں اُن پگ ڈنڈیوں کے بالمقابل دَوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ مَیں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے ایسا نہ ہو مَیں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کر لوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں۔ اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اُس وقت مَیں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اِس سڑک پر نہیں دوسری سڑک پر جائیں اور مَیں اُس کے کہنے پر اُس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں۔ وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیںطرف ہے اور جس سڑک کو مَیں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی پس چونکہ مَیں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بُلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اِس لئے مَیں لوٹ کر اُس سڑک کی طرف چلا۔ مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اُس زبردست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگ ڈنڈی پر چلا دیا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اِس طرف، اُس طرف نہیں اِس طرف۔ مگر مَیں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگ ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں۔ جب مَیں تھوڑی دُور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں مَیں اُسی راستہ پر آ گیا جو خداتعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا۔ اُس وقت رؤیا میں مَیں اِس کی کچھ توجیہہ بھی کرتا ہوں کہ مَیں درمیانی پگ ڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اِس کا کیا مطلب ہے۔ چنانچہ جس وقت میری آنکھ کُھلی معاً مجھے خیا ل آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رؤیا میں دکھایا گیا ہے اِس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دُنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مردا خالص دینی طریق، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی۔ یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو! قرآن شریف نے اُمتِ محمدیہ کو اُمَّۃً وَّسَطاً قرار دیا ہے اِس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنی ہیں کہ یہ اُمت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اِس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ غرض میں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اِتنی دُور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سُنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دَوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے۔ اُس وقت میں کہتا ہوں کہ اِس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اِس راستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اُس وقت مَیں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب مَیں نے یہ کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اِس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے۔ مَیں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیے۸؎ وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں۔ وہ اُوپر سے گول ہیں جیسے اژدہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیے کے گھونسلے سے سفیدی زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا، وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور اِن کے اُوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں اُن کے بُت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اَب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو مَیں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بُت پر سوار ہو گیا۔ تب میں نے سُنا کہ بتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے۔ اِس پر مَیں نے دل میں کہا کہ اِس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زورزور سے مَیں نے توحید کی دعوت اِن لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی بُرائیاں بیان کرنے لگا۔ تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے چنانچہ میں عربی میںبول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں۔ رؤیا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اَور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ میں اسی طرح اُن کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اِس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اُس کشتی نما بُت والا جس پر مَیں سوار ہوں یا اُس کے ساتھ کے بُت والا بُت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحّد ہو گیا ہے۔ اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں اُن کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیاتھا پانی میں غرق کر دیا جائے۔ اِس پر جو لوگ موحّدہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحّد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور مَیں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اِس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے۔ صرف پُجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اِس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی۔ اِس لئے میں نے اُن کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ یہ تبلیغ مَیں اُن کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں۔ جب میں اُنہیں تبلیغ کر رہا ہوں تا کہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اَب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں۔ جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا۔ غرض میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے۔ بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالباً کا لفظ میں نے اِس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو، ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا، بہرحال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور مَیں نے اُس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے۔ میں اُس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوںمیں بیان کیاگیا ہے مَیں اب آگے جائوں گا اِس لئے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اِس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔ تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے۔ میں واپس آ کر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سر انجام دہی کیلئے مقرر کیا ہے ان کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے۔ اِس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد ؐاس کے بندہ اور اُس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اُسے حکم دیتا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بُلانے کی تلقین کرتا ہوں۔ جس وقت مَیں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ اس کے بعدحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ۔ اس کے بعد میں اُن کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے وَاَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ اور مَیں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اُس کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں۔ تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اِس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔
اُس وقت معاًمیرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اِس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مَثِیْلُہٗ مَیںاُس کا نظیر ہوں وَخَلِیْفَتُہٗ اور اُس کا خلیفہ ہوں۔یہ الفاظ اِس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا اِس کے مطابق اور اُسے پورا کرنے کیلئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اُس کا مثیل ہونے اور اُس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں مَیں بھی مسیح موعود ہی ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا۔ پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتاہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کیلئے انیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں ’’میں وہ ہوں جس کے لئے انیس سَو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں‘‘ تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دَوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں۔ مجھے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کیلئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم اُنیس سَو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں‘‘ اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ مَیں وہ ہوں جسے علومِ اسلام اور علومِ عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اُس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔ رئویا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اُس میں یہ بھی خبر تھی کہ ’’جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہوگی اور جب وہ اُس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اُس کی تبلیغ سے متأثر ہو کر مسلمان ہو جائے گی تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا اُس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی کہ ہم لڑ کر مَر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے‘‘۔ چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم اِن کو ہمارے حوالے کر دو۔ اُس وقت مَیں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم باوجود اِس کے کہ ابھی ایک حصہ اُس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اِس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تب مَیں کہتا ہوں دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔ اس کے بعد پھر اُن کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں۔ اُس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں۔ چنانچہ اِسی لئے میں اُس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوںاب میں واپس آئوں گا تو اے عبدالشکور! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے، موحّد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کاربند ہو چکی ہے۔
یہ وہ رؤیا ہے جو میں نے جنوری ۱۹۴۴ء (مطابق صلح ۱۳۲۳ہش) میں دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اُڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیداہوئی کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میں اُردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں چنانچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رؤیا پر غور کرتا اور سوچتا رہا۔ مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال وجواب میرے دل میں آتے تھے۔
یہ رؤیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا اور چونکہ اِس پیشگوئی میں بتایا گیا تھاکہ وہ موعود فرزند اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا نشان ہوگا اِس لئے میرا فرض ہوا کہ میں دنیا کو یہ رؤیا سنا دوں۔ پس ۲۰؍فروری کو جس دن کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی لکھی تھی ہوشیار پور میں اِس کا اعلان کر دیا گیا۔۱۲؍مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور میں (جہاں مجھے رؤیا ہوئی تھی) جلسہ کر کے یہ رؤیا سنا دی گئی اور آج یہاں اعلان کرنے کیلئے مَیں آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا تو صرف چالیس آدمیوں نے بیعت کی تھی مگر آج یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں افراد پر مشتمل ہے۔ پچاس ہزار سے زائد تو صرف مغربی افریقہ میں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے ننگے پھرتے تھے اور بالکل وحشی تھے مگر اب دین سیکھ رہے ہیں اور ان میں سے ہی بعض اب مبلّغ اور مدرِّس بھی ہیں۔ ایسے جنگلوں میں جہاں میلوں میل کوئی آبادی نہیں ملتی اور جہاں شدید قسم کا ملیریا ہوتا ہے، جہاں ایسی نسلیں بھی آباد ہیں جو آدمی کو کھا جاتی ہیں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام تبلیغ کر رہے ہیں۔ پس مَیں آج اہل لدھیانہ کو یہ خبر دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر پا کر قدرت اور فضل اور رحمت کے جس نشان کی خبر دی تھی وہ ظاہر ہوچکا۔ جن لوگوں کے کان میں یہ آواز پہنچے وہ اُن لوگوںتک اِسے پہنچا دیں جو سُن نہیں رہے۔ اور مَیں لدھیانہ والوں کو یہ پیغام دے کر بری الذمہ ہوتا ہوں اور اُن کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ انکار کر کے نقصان نہ اُٹھائیں۔ یہ عظیم الشان پیشگوئی غیرمعمولی حالات میں پوری ہو چکی ہے۔ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمر اور غلبہ عطا کیا۔ پھر جیسا کہ نعمت اللہ صاحب ولی کی پیشگوئی میں بھی چار پانچ سَو سال قبل بتایا گیاتھا کہ:
پسرش یادگار مے بینم
اور جیسا کہ پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی بتایا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد دی اور پھر ایسا بیٹا عطا کیا جو ان پیشگوئیوں کا مصداق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے نشانوں کے ساتھ کھڑا کیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کس رنگ میں اور کس طریق سے اپنے کام کو پورا کرے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ کام ہو کر رہے گا۔ میرے ذریعہ یا مجھ سے دین سیکھنے والے کسی اور کے ذریعہ۔ اور جہاں آج دنیا میں ہر طرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے ہیں، وہاں گھر گھر سے درود کی آوازیں آئیں گی اور خدا تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔
(اس کے بعد حضور کے ارشاد کے ماتحت مختلف ممالک کے مبلّغین نے تقریریں کیں پھر آپ نے فرمایا)
اب آپ لوگوں نے وہ حالات سُن لئے ہیں جو تبلیغ اسلام کے متعلق میرے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ آپ کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا۔ نیز ایک پیشگوئی یہ فرمائی تھی کہ وہ موعود لڑکا دنیا کے کناروںتک شہرت پائے گا اور اِس طرح یہ دونوں پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچی اور میرا نام بھی جو اِس پیشگوئی کا مصداق ہوا دنیا کے کناروں تک پھیلا۔ پھر آج جو بارش ہوئی ہے یہ بھی ایک پیشگوئی کو پورا کرتی ہے جو اس موعود لڑکے کے بارہ میں ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہوشیار پور میں جو ہمارا جلسہ ہوا تو وہاں پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ’’نور آتا ہے نور‘‘۔ ۲۰؍فروری ۱۹۴۴ء کو وہاں ہمارا جلسہ ہوا۔ اس سے کئی روز قبل بارش ہو رہی تھی۔ ۱۹؍فروری کو عشاء کے وقت مجھے بذریعہ فون اطلاع دی گئی کہ بارش ہو رہی ہے مگر میں نے کہا کہ ہم اِنْشَائَ اللّٰہُ پہنچ جائیں گے۔ ۲۰؍فروری کو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ بارش بالکل بند رہی اور خوب دھوپ نکل آئی اور ہم جب وہاں سے آ گئے تو پھر بارش ہونے لگی۔ گویا پہلے بھی بارش اور بعد میں بھی بارش۔ مگر بیچ میں دھوپ اور اِس طرح اس پیشگوئی کا یہ حصہ پورا ہوا کہ ’’نور آتا ہے نور‘‘۔ آج کے جلسہ میں بھی اس موعود لڑکے کے متعلق پیشگوئی کا ایک دوسرا حصہ پورا ہوا ہے۔ الہامِ الٰہی میں اس کے متعلق کہا گیا تھاکہ اِنَّا اَرْسَلْنَاہُ شَاھِداً وَّ مُبَشِّراً وَ نَذِیْراً کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَائِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّ بَرْقٌ ۹؎ یعنی اس کی مثال اس بارش کی سی ہوگی جس میں ظلمت اور گرج اور چمک ہو۔ یہ الہام ظاہری رنگ میں آج پورا ہوگیا ہے۔ آج بارش میں ہی ہم نے نماز پڑھی اور بارش ہی میں مَیں نے تقریر کی۔ہمارے مخالف خوش ہوتے ہوں گے کہ بارش شروع ہوگئی ہے اور یہ ان کے جلسہ کو روک دے گی لیکن میرا دل اِس بارش کو دیکھ کر خوشی سے لبریز ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور نشان پورا ہو رہا ہے۔ اور لدھیانہ کے لوگ اِس نشان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے جس کا اعلان یکم دسمبر۱۸۸۸ء کے اشتہار میں کیا گیا تھا۔
اب مَیں لدھیانہ کے لوگوں کو اور اُن لوگوں کو بھی جو باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آسمان کی آواز ہے جو اللہ تعالیٰ نے بلند کی ہے اسے بند کرنا آسان نہیں۔ یہ جماعت شروع میں صرف چالیس افراد پر مشتمل تھی مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ تمام دنیا نے ہماری مخالفت کی مگر سب مخالف ناکام ہوئے اور آئندہ بھی ناکام ہوں گے اور دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کی ترقی کو روک نہیں سکے گی۔ پھر ان رؤیا کے علاوہ جو میں نے بیان کئے ہیں اور بھی کئی باتیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بتائیںاور وہ پوری ہوئیں جو خدا آسمانوں اور زمینوں کا خدا ہے، جو پہلوں کا خدا ہے، حال کا خدا ہے اور آئندہ کا خدا ہے جس کے ہاتھ میں میری اور سب کی جان ہے اور جس کے سامنے مَر کر ہم سب نے پیش ہونا ہے، میں اسی خدائے قہار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں اُسی نے مجھے بتائیں اور اُسی نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ میرے ماننے والوں کو منکرین پر قیامت تک غلبہ اور فوقیت دے گا۔ میں انسان ہوں مَر سکتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر اُس کا یہ وعدہ نہیں ٹل سکتا۔ اِس سلسلہ کی تائید کیلئے خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اُتریں گے اور روز بروز یہ سلسلہ پھیلتا چلا جائے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ پیغام اُن ممالک تک جو آپ پر ایمان نہیں رکھتے ضرور پہنچے گا اور جس طرح پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں اور پھر اُن سے نہریں نکلتی ہیںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی نہریں میرے ذریعہ ساری دنیا میں جاری ہوں گی۔ اسلام دنیا میں جیتے گا اور ضرور جیت کر رہے گا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان لوگوں کے دشمن ہیں جو ابھی تک ایمان نہیں لائے۔ ہم اُن کے حقیقی خیر خواہ ہیں اور اُن کی خیر خواہی سے مجبور ہو کر ہی اُن کو سمجھاتے ہیں۔ جس طرح ایک ماں جب دیکھتی ہے کہ اُس کا بچہ کنویں میں گرنے لگا ہے تو وہ پوری کوشش کر کے اُس کو بچاتی ہے اِسی طرح ہم ان لوگوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم اسلام کو سچا سمجھتے ہیں تو پھر ہم یہ بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ سچائی کو دنیا میں پھیلائیں۔ ہمارے مخالف اگر ایمان نہ لائیں تو بھی ان کو چاہئے کہ ہماری خیر خواہی کے قائل ہوں اور اِس بات کو مانیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں ان کی ہمدردی کیلئے کہتے ہیں اور کہتے چلے جائیں گے چاہے وہ ہم کو کتنے دُکھ کیوں نہ دیں، کتنی تکالیف کیوں نہ پہنچائیں۔ خواہ ہمیں وہ آروں سے چیر دیں، خواہ شیروں کے آگے ڈالیں، پتھروں سے سنگسار کریں، پہاڑوں سے گرا کر ہلاک کریں، سمندر میں پھینک دیں ہم خدا کا نام لے کر کھڑے ہوئے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے رہ نہیں سکتے۔ جب تک ہماری جان میں جان ہے ہم یہ آواز بلند کرتے چلے جائیں گے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ تعلیم ضرور پھیل کر رہے گی اور زبردست سے زبردست قومیں بھی ہمارے راستہ میں اگر کھڑی ہوں گی تو وہ ناکام ہوں گی۔ بیشک ہمارے جسموںکو وہ مٹا سکتی ہیں مگر ہماری روحیں بلند ہوں گی اور یہ پیغام بند نہ ہوگا۔ پس بہتری اِسی میں ہے کہ ہماری آواز کو سنو۔ اپنی عاقبت کی بہتری کیلئے سنو! اور اِس آواز کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلند ہو رہی ہے غور سے سنو اور سمجھنے کی کوشش کرو۔
اے خدا! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو اِن لوگوں کے دلوں کو کھول دے اور ساری دنیا کے کانوں تک اِس آواز کے پہنچنے کے سامان پیدا کر دے۔ جس طرح ہم تیرے بندے ہیں اسی طرح وہ بھی ہیں جنہوں نے ابھی تیرے پیارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہچانا تو اُن کو ہدایت دے اور سب کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کر دے۔ دنیا سے فساد، بدامنی، بے دینی، ظلم، فسق و فجور ایک دوسرے کے مال کو کھانے اور آپس میں لڑنے کی روح کو دنیا سے مٹا دے اور امن و آشتی کی روح پیدا کردے۔ اب میں دعا کرتا ہوں دوست بھی دعا کریں تا اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دے اور دنیا کی بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کردے۔(الفضل ۱۸؍ فروری ۱۹۵۹ء)
۱؎ تذکرہ صفحہ۱۰۴۔ ایڈیشن چہارم
۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۶،۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳؎ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد۳ صفحہ۱۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
۴؎ مسلم کتاب الجہاد باب مالقی النبی ﷺ من اذی المشرکین و المنافقین
۵؎ الفضل ۱۲؍ نومبر ۱۹۴۲ء
۶؎
۷؎ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی۔ ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱صفحہ۷۴۱مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۸؎ بیے: بَیّا: چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ۔ اِس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
۹؎ تذکرہ صفحہ۱۴۹۔ ایڈیشن چہارم


زندگی وقف کرنے کی تحریک





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

زندگی وقف کرنے کی تحریک
(تقریر فرمودہ یکم مئی ۱۹۴۴ء)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضو رنے فرمایا:-
میری تحریک پرہماری جماعت کے بہت سے دوستوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کیلئے وقف کی ہیںمَیں سمجھتا ہوں شاید قادیان میں سے ہی ساٹھ ستر بلکہ اس سے بھی زیادہ نوجوانوں نے اپنی زندگی وقف کی ہے۔ وقف کا جو مفہوم اِس وقت تک عمل میں آ رہا ہے اِس کے لحاظ سے میں نے تبلیغی اخراجات کا ایک معمولی سا اندازہ لگایا ہے اور غور کیا ہے کہ اگر دنیا کے ایک معتدبہ حصہ میں جس طرح پانی کا ایک چھینٹا دے دیا جاتا ہے اِسی طرح اگر ہم چھینٹے کے طور پر ہی تبلیغ کریں تو جماعت پر مالی لحاظ سے کتنا بار پڑ جاتا ہے۔ اخراجات کا وہ معمولی اندازہ بھی ایسا ہے جو درحقیقت ہماری جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے ایک اچھا خاصہ بوجھ ہے۔ مثلاً سب سے پہلے تبلیغی نقطۂ نگاہ سے ہمارے سامنے ہندوستان ہے۔ ہندوستان جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کی بعثت کیلئے منتخب فرمایا ہے اِس میں اس وقت گیارہ صوبے ہیں۔ سندھ، سرحد، پنجاب، یوپی، بہار، اُڑیسہ، بنگال، سی پی، بمبئی، مدراس، آسام۔ یہ وہ صوبے ہیں جو گورنروں کے صوبے ہیں۔ ان کے علاوہ بلوچستان ہے، وہ بھی ایک مستقل ملک ہے۔ اگر اس کو ملا لیا جائے تو بارہ بن جاتے ہیں۔ پھر بعض بڑی بڑی ریاستیں ہیں جو درحقیقت صوبوں کی قائم مقام ہیں جیسے کشمیر، حیدر آباد، میسور، بڑودہ، گوالیار اور ٹراونکور ہیں۔ بارہ(۱۲) وہ اور چھ یہ اٹھارہ ہوگئے۔ اِس کے بعد درمیانی درجہ کی ریاستوں میں سے بیکانیر ہے، جے پور ہے، جودھ پور ہے یہ سب ریاستیں مل کر کئی صوبوں کے برابر ہو جاتی ہیں۔ اگر ان میں چار مرکز بھی مقرر کئے جائیں تو بائیس مقامات ہوگئے جہاں ہمیں اپنے تبلیغی مراکز قائم کرنے چاہئیں۔ اگر ایک ایک مبلّغ فی صوبہ مقرر کیا جائے تو بیس مبلّغ رکھنے پڑتے ہیں۔ مگر ان میں سے کئی صوبے ایسے ہیں جو خاص توجہ کے محتاج ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے ان میں تبلیغ کرنا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً پنجاب مرکز ہے احمدیت کا اور اِس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ لاہور ، راولپنڈی اور ملتان خاص اہمیت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے کہ بیعت شروع ہوئی تھی لدھیانہ سے، لدھیانہ بھی اہم مقام ہے اور اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلے زیادہ تر سیالکوٹ میں رہے ہیں، سیالکوٹ بھی خاص توجہ چاہتا ہے۔ اسی طرح امرتسر پنجاب میں مشہور شہر ہے۔ یہ چھ جگہیں ایسی ہیں جہاں ہمیں چھ مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ ایک مبلّغ چونکہ صوبہ کے لحاظ سے آ گیا تھا اِس لئے اُس کو نکال کر پچیس مبلّغ ہوگئے۔ اِس کے بعد یوپی لے لیا جائے۔ یوپی اس لحاظ سے کہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کا مرکز رہا ہے زیادہ توجہ کا محتاج ہے گو وہاں مسلمان اب کم ہیں مگر پھر بھی لکھنؤ، الٰہ آباد، کانپور اور بنارس خاص جگہیں ہیں۔ اگر صوبہ کا ایک مبلّغ نکال دیا جائے تو تین مبلّغ اَور بڑھ گئے۔ گویا پچیس اور تین اٹھائیس ہوگئے۔ بنگال میں ڈھاکہ اور کلکۃ کے علاوہ میمن سنگھ ایک اہم جگہ ہے اور مسلمانوں کا مرکز ہے۔ وہاں مولوی کثرت سے پائے جاتے ہیں ان مقامات میں کم سے کم ہمیں دو مرکز قائم کرنے چاہئیں۔ اٹھائیس پہلے تھے دو یہ ہوگئے گویا تیس مبلّغ ہوگئے۔
سندھ میں حیدر آباد ایسا شہر ہے جہاں مستقل مرکز کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں سے تاجر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اِس طرح اکتیس مبلّغ ہوگئے۔ بمبئی میں احمد آباد اور پونہ خاص مقام ہیں اگر ان کو بھی شامل کر لیا جائے تو تینتیس ہوگئے۔ مدراس میں مالا بار وہ جگہ ہے جہاں احمدیت کی ابتدا ہوئی۔ دوسرا اہم شہر مدراس میں مڈورا ہے جو پانچ لاکھ کی آبادی رکھتا ہے۔ ان دو کو شامل کر کے پینتیس مبلّغ ہوگئے۔ ان میں سے بعض شہر ایسے ہیں جن میں ایک ایک مبلّغ کافی نہیں ہو سکتا جیسے کلکۃ ہے یا بمبئی ہے یا اسی طرح کے بعض دوسرے شہر ہیں۔ اگر ان شہروں کے لئے جن میں دہلی بھی شامل ہے پانچ اور مبلّغ رکھے جائیں تو چالیس مبلّغ ہوگئے۔ چالیس مبلّغوں کے لئے اگر ان شہروں کے اخراجات کو مدنظر رکھا جائے، مکانات کا کرایہ دیکھا جائے اور اِدھر اُدھر پھرنے پر جو اخراجات ہوتے ہیںان کو ملحوظ رکھا جائے تو درحقیقت دو سَو روپیہ فی مبلّغ خرچ کا اندازہ ہے۔ پھر خالی مبلّغ رکھنا کافی نہیں ہو سکتا بلکہ تبلیغ کیلئے ٹریکٹوں وغیرہ کی اشاعت بھی ضروری ہوتی ہے ایسے کاموں کے لئے اگر سَو روپیہ ماہوار رکھا جائے تو تین سَو روپیہ ماہوار ایک مبلّغ پر خرچ آ سکتا ہے۔ چالیس کو تین سَو سے ضرب دی جائے تو بارہ ہزار روپیہ ماہوار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر چھ ہزار روپیہ بعض اور تبلیغی ضروریات کیلئے رکھ لیا جائے کیونکہ بعض دفعہ فوری طور پر ایسے اخراجات آ پڑتے ہیں جن کا خیال تک نہیں ہوتا تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے بعد ہم ادنیٰ سے ادنیٰ تبلیغی مرکز ہندوستان میں کھول سکتے ہیں اور یہ ابھی صرف شہر ہیں دیہات کا حساب نہیں کیا گیا حالانکہ دیہات کی طرف ہمارا توجہ کرنا اور بھی ضروری ہے۔ اِس سے کم توجہ کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے اور اگر ہم کم توجہ کریں تو دنیا کی آبادی کے مقابلہ میں یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شخص شہر کی ایک تنگ گلی کے ایک چھوٹے سے مکان میں ایک تنگ کوٹھڑی میں دروازے بند کر کے شور مچانا شروع کر دے۔ ابتداء میں جب ہم نے احمدیت کا اعلان کرنا تھا یہ صورت ہمارے لئے کافی ہو سکتی تھی مگر موجودہ صورت میں چالیس مبلّغوں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ سے کم میں ہندوستان کے شہروں میں تبلیغ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں بنتے۔ پھر جہاں چالیس مبلّغ ہوں گے وہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی بیمار ہو جائے یا ان میں سے کوئی چُھٹی پر چلا جائے۔ ان امور کو دیکھتے ہوئے درحقیقت دس مبلّغ ہمیں زائد رکھنے پڑیں گے تا کہ جو لوگ چُھٹی پر آئیں اُن کی جگہ وہ اس عرصہ میں تبلیغ کر سکیں بلکہ چالیس مبلّغوں کے لحاظ سے دس مبلّغ ریزرو رکھنے بھی کم ہیں اصل میں بیس مبلّغ ہونے چاہئیں۔ بہرحال دس ہی سمجھ لو تو پچاس ہوگئے۔ دس مبلّغوں کو ان اچانک پیش آنے والی ضروریات کے لئے اگر مرکز میں رکھا جائے تو چونکہ ان کے اخراجات اتنے نہیں ہو سکتے جتنے اُن مبلّغوں کے اخراجات ہوسکتے ہیں جو باہر رہتے ہیں، اِس لئے مَیں سمجھتا ہوں ان کے لئے بیس ہزار روپیہ ہمیں زائد رکھنا چاہئے۔ گویا ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ ہو گیا۔ یہ کم سے کم وہ تبلیغی اخراجات ہیں جو ہندوستان کے بعض شہروں پر ہو سکتے ہیں لیکن اِس رقم میں لٹریچر کے اخراجات صرف نام کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ ان اخراجات سے ایسا لٹریچر شائع نہیں کیا جا سکتا جو سارے ہندوستان میں شور مچا دینے والا ہو۔ اگر اس کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار زائد طور پر ایسے لٹریچر کے لئے رکھنا چاہئے تو تیس ہزار روپیہ سالانہ ہو گیا اور ایک لاکھ ستّر ہزار میں شامل کر کے پورا دو لاکھ روپیہ بن گیا۔ یہ تو صرف ہندوستان کے شہروں کی تبلیغ کا اندازہ ہے۔ گائوں کی تبلیغ اِس کے علاوہ ہے۔ گائوں کی آبادی شہروں سے نو گنے زیادہ ہے مگر چونکہ وہاں خرچ شہروں سے کم ہوتا ہے۔ اگر پانچ گنے زیادہ خرچ گائوں کی تبلیغ کا رکھا جائے تو ہندوستان کی تبلیغ کیلئے جو معمولی ہوگی پچاس شہری مبلّغ اور ساڑھے سات سَو گائوں کے مبلّغ اور بارہ لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہوگی۔ اب رہی باہر کی تبلیغ۔ مَیں نے سوچا ہے کہ بیرونی ممالک میں سے انگلستان سب سے مقدم ہے۔ اسی ملک کے لوگ ہندوستان میں آئے اور انہوں نے ہمارے ملک کو فتح کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی انگلستان کے متعلق بڑی بڑی پیشگوئیاں ہیں اور اُن پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر انگلستان کیلئے اسلام لانا مقدر ہے۔ اِس وقت وہاں ہمارا صرف ایک مبلّغ رہتا ہے اور ساڑھے چار کروڑ کی آبادی ہے۔ ایک مبلّغ چار کروڑ کی آبادی والے ملک میں رکھنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا اور پھر اس ایک مبلّغ کیلئے بھی ہم صحیح طور پر تبلیغی سامان بہم نہیں پہنچا رہے۔ اگر وہ مبلّغ سال میں صرف ایک دفعہ دو صفحے کا اشتہار شائع کرے تو چار کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ اشتہار شائع ہونا چاہئے۔ اگر ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو دو صفحہ کا اشتہار دو روپیہ میں ہزار چھپے گا اور چونکہ ہم نے ایک کروڑ اشتہار شائع کرنا ہے اس لئے ایک کروڑ کے لئے بیس ہزار روپیہ ضروری ہوگا۔ گویا اگر ہم اپنے مبلّغ کو بیس ہزار روپیہ دیں تو وہ اس کے ذریعہ سال میں صرف ایک دفعہ انگلستان کے ہر آدمی تک پہنچ سکتا ہے بشرطیکہ بچوں وغیرہ کو نکال دیا جائے۔ میں نے سَوا دو کروڑ بچوں وغیرہ کو نکال کر بقیہ آبادی کے نصف پر اندازہ لگایا ہے مگر سال میں ایک دفعہ اشتہار پہنچنے پر کسی کو کوئی خاص توجہ نہیں ہو سکتی۔ ضروری ہے کہ بار بار اشتہارات شائع کئے جائیں۔ اِس نقص کے ازالہ کیلئے اگر ہم صرف بیس لاکھ آدمیوں تک اپنی آواز پہنچائیں اور یہ فر ض کر لیں کہ ان میں سے ہر شخص آگے پانچ پانچ آدمیوں کو وہ اشتہار پہنچا دے گا اور اس طرح ایک کروڑ آدمیوں تک ہماری آواز پہنچ جائے گی تو سال میں بیس لاکھ اشتہار ہم پانچ دفعہ شائع کر سکتے ہیں بجائے اِس کے کہ یکدم ایک کروڑ اشتہار شائع ہو۔ اس صورت میں بیس ہزار روپیہ کے ذریعہ ہم ملک کی چوتھائی آبادی تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت ہم صرف بیسویں حصہ تک آواز پہنچائیں گے آگے یہ امید کر لیں گے کہ وہ اور لوگوں کو بھی یہ پیغام پہنچا دیں گے۔
گویا اگر ہم انگلستان کے مبلّغ کو بیس ہزار روپیہ لٹریچر کے لئے دیں تب وہ مبلّغ تھوڑا بہت کام کرتا ہوا نظر آ سکتا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم اسے بیس ہزار تو کُجا دو سَو روپیہ بھی نہیں دیتے گویا وہ وہاں بیٹھا صرف روٹی کھا رہا ہے۔ پھر تبلیغ کے لئے صرف اشتہار ہی کافی نہیں ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں سے ملا جائے اور اُن سے ذاتی طور پر واقفیت پیدا کر کے انہیں تبلیغ کی جائے۔ مگر اتنا بڑا ملک جو ایک لمبے عرصہ سے دنیا کی آلائشوں میں ملوث چلا آ رہا ہے اور دنیا کی محبت اُس پر غالب ہے اُن کے پاس ایک آدمی کس طرح پہنچ سکتا ہے۔ پس میں نے یہ سوچا ہے کہ وہاں ہمارے کم سے کم پانچ مبلّغ ہونے چاہئیں۔ دو مبلّغ ہر وقت لندن میں رہیں اور دو مبلّغ مختلف شہروں میں دورہ کرتے رہیں اور جو لٹریچر وغیرہ شائع ہو اُسے لوگوں میں تقسیم کریں تاکہ بار بار کے دَوروں سے لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک پیدا ہو کہ فلاں اشتہار جو ہمیں ملا تھا اُس کا لکھنے والا مولوی بھی آج یہاں آیا ہوا ہے، اس سے ہم ذاتی طور پربھی مل لیں اور پوچھیں کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوگی اور ایک مبلّغ بطور سیکرٹری کے ہو جو لٹریچر وغیرہ کی اشاعت، فروخت اور دوسرے ایسے ہی کاموں کی نگرانی کرے۔ پس پانچ مبلّغ صرف انگلستان میں ہونے چاہئیں۔ انگلستان کے علاوہ یورپ میں یوں تو دس پندرہ ملک ہیں لیکن اگر مرکزی ممالک ہی لئے جائیں تو وہ جرمنی، اٹلی اور فرانس ہیں۔ ان ممالک میں ابتدائی طور پر کم سے کم چھ مبلّغ ہونے چاہئیں، ورنہ میرے نزدیک تو پندرہ مبلّغوں کی ضرورت ہے۔ چھ مبلّغ ایک ایک جگہ رہیں اور چھ مبلّغ دَورہ کرتے رہیں۔ مثلاً ہمارے کچھ مبلّغ جرمنی، اٹلی اور فرانس کے بڑے بڑے شہروں میں بیٹھ جائیں اور کچھ مبلّغ ان ممالک میں تبلیغی دَورے کرتے رہیں، کبھی کسی ملک میں جائیں اور کبھی کسی ملک میں اور تین مبلّغ مراکز میں بطور سیکرٹری کام کریں۔ پس پانچ انگلستان کے مبلّغ اور چھ یہ، گویا گیارہ مبلّغ یورپ کے لئے ایک اقل ترین چیز ہیں۔ـ اصل میں تو وہاں بیس مبلّغ ہونے چاہئیں تب ہم اپنی آواز ایک محدود حلقہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ پھر یونائٹیڈ اسٹیٹس امریکہ ہے۔ وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور ہندوستان سے دوگنا ملک ہے مگر ہم نے وہاں صرف ایک مبلّغ رکھا ہوا ہے۔ اگر سارے ہندوستان میں ہم ایک مبلّغ رکھنے کی تجویز پیش کریں تو ساری مجلس قہقہہ لگا کر ہنس پڑے گی کہ یہ عجیب تبلیغ ہے کہ سارا ہندوستان سامنے ہے اور مبلّغ ایک رکھا جا رہا ہے۔ مگر ہم نے امریکہ میں جو ہندوستان سے دوگنا ملک ہے اپنا ایک ہی مبلّغ رکھا ہوا ہے۔ اگر امریکہ کو ہم چار حصوں میں تقسیم کریں تو وہاں بھی چار مبلّغ ہونے چاہئیں اور یہ بھی اقل ترین تعداد ہے۔ گیارہ وہ اور چار یہ پندرہ ہوگئے۔پھر جنوبی امریکہ میں مبلّغوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کینیڈا میں مبلّغوں کی ضرورت ہے۔ ان مقامات کے لئے اگر پانچ مبلّغ اور تجویز کریں تو اکیس ہوگئے۔ پھر عربی ممالک بھی توجہ کے محتاج ہیں۔ ان میں مصر ہے، شام ہے، فلسطین ہے، عراق ہے۔ ان میں بھی اگر وہی بات مدنظر رکھی جائے جو یورپین ممالک میں مدنظر رکھی گئی ہے اور ہم ان ممالک کے لئے دو جگہ سنٹر قائم کریں تو دونوں جگہ تین تین مبلّغ ہونے چاہئیں۔ ایک ایک مبلّغ تو سنٹر میں رہے اور رسالے وغیرہ کی ایڈیٹری کرے اور دو مبلّغ ہر وقت گشت لگاتے رہیں گویا کم سے کم یہ چھ مبلّغ اَور ہمیں چاہئیں۔ اکیس اور چھ ستائیس ہوگئے۔ پھر اگر سماٹرا اور جاوا وغیرہ جزائر کو مدنظر رکھا جائے تو کم سے کم چھ اَور مبلّغوں کا ہمیں شمار کرنا چاہئے۔ ستائیس پہلے اور چھ یہ تینتیس مبلّغ ہوگئے۔
بیرونی ممالک کی تبلیغ اور اشاعت لٹریچر کے لحاظ سے اوپر کے سولہ مشنوں پر کم سے کم چھ سَو روپیہ ماہوار فی مشن خرچ کی ہم کو گنجائش رکھنی چاہئے۔ یہ خرچ اندازاً ایک لاکھ سولہ ہزار کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مبلّغوں کے آنے جانے کے اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی یا جو مبلّغ آئیں گے اُن کی جگہ دوسروں کو بھیجنے کی ضرورت ہوگی۔ بہرحال تینتیس بیرونی مبلّغین کے سالانہ ذاتی اخراجات کو اور تینتیس مبلّغ جو مرکزی پہلے مبلّغوں کے قائمقام ہو کر جانے کیلئے رکھے جائیں گے، اُن کے اخراجات کو ملحوظ رکھ کر ایک لاکھ چھیانوے ہزار روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔
افریقہ کے مختلف مشنوں کا خرچ بھی کم سے کم ساٹھ ہزار روپیہ سالانہ رکھا جانا چاہئے۔ گویا تین لاکھ بہتر ہزار روپیہ سے بیرونی ممالک میں ہم اقل ترین تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اگر ان میں بارہ لاکھ روپیہ ہندوستان کی تبلیغ کا بھی شامل کر لیا جائے تو پندرہ لاکھ بہتر ہزار اور مرکز کے اخراجات کو شامل کر کے پونے سترہ لاکھ روپیہ سالانہ اگر ہم تبلیغ پر خرچ کریں تو ہندوستان اور یورپ میں اقل ترین تبلیغ کی جاسکتی ہے۔لیکن تحریک جدید کی تو دس سالہ آمد ملا کر بھی اتنی نہیں کہ ان اخراجات کو صرف ایک سال کے لئے برداشت کر سکے۔یہ سال گزشتہ تمام سالوں سے اچھا رہا ہے مگراِس سال بھی جماعت کی طرف سے صرف سَوا تین لاکھ روپیہ کے وعدے آئے ہیںاور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اِن وعدوں میں سے پورے کتنے ہوں گے۔ابھی پچھلے سالوں کے وعدوں میں سے بھی پچاس ہزار روپیہ کی وصولی باقی ہے۔گویا اگر ہم تحریک جدید کی ایک سال کی ساری آمد بھی تبلیغ پر خرچ کر دیں تو ہم ہندوستان اور بیرون ہند میں اقل ترین تبلیغ بھی نہیں کر سکتے۔ ابھی ہماری زمینوں سے اتنی آمد شروع نہیں ہوئی کہ یہ کمی پوری ہو سکے بلکہ ہمیں اپنی زمینوں کے لئے ابھی اچھے کارکن بھی میسر نہیںآسکے۔ اگر ان زمینوں کی اچھی پیداوار ہو تو ایک لاکھ روپیہ سالانہ کی اِس ذریعہ سے بھی امید ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم اس آمد کو تبلیغ کے جاری اخراجات پر خرچ کر دیں تو پھر ریزرو فنڈ قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اگر ہم تحریک جدید کا چندہ آئندہ سالوں میں جاری رکھیںتب بھی ہم نے تبلیغی اخراجات کا جواقل ترین اندازہ لگایا ہے بمشکل اس کا نواں حصہ پورا ہوسکتاہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ جیسا براعظم جس کی تیس کروڑ سے زیادہ آبادی ہے وہاں ایک لاکھ آدمیوں پر ایک مبلّغ ہو تب صحیح طور پر تبلیغ ہو سکتی ہے۔گویا تیس کی بجائے ہمیں وہاں تین سَو مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ اور اگر امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان مبلّغوں کی تعداد چھ سَو تک بڑھانی پڑتی ہے۔ ہندوستان جو ہمارا مرکز ہے یہاں درحقیقت ہمارا کم سے کم دو ہزار مبلّغ ہو نا چاہئے لیکن اگر ان باتوں کو دور کی باتیں سمجھ لو تو بھی پانچ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ تو ایک معمولی بات ہے مگر ابھی ہماری جماعت میں اتنی وسعت نہیں کہ ان اخراجات کو پورا کر سکے یا ابھی اتنا قربانی کا مادہ نہیں کہ اِس خرچ کو برداشت کر سکے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت یہ فیصلہ کر لے کہ جیسے حضرت مسیح ناصری کی جماعت کے لوگ فقیر کہلانے لگ گئے تھے اِسی طرح وہ خدا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجائیں تو یہ پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم بڑی آسانی سے مہیّا ہو سکتی ہے۔مگر یہ ضروری نہیں ہو تا کہ ہر شخص کے دل میںاعلیٰ درجہ کا ایمان ہو۔کچھ لوگ ایمان کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں کچھ ادنیٰ درجہ رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو درمیانی مقام پر ہوتے ہیں۔یہ حالات مدنظر رکھتے ہوئے جبکہ ابھی ہماری جماعت کو وہ مالی وسعت حاصل نہیں کہ ان اخراجات کو برداشت کر سکے یہی صورت نظر آتی ہے کہ لوگ اپنے اپنے اخراجات پر باہر نکل جائیں اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کریں۔ مثلاً مغربی افریقہ ہے میں نے اور ممالک کا ذکر کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا تھا۔یہاں ہماری جماعت کے لئے ایک بہت بڑا تبلیغی میدان پڑا ہے اورپُرانی اقوام دین کی باتیں سننے کے لئے پیاسی بیٹھی ہیں۔ یہاں اخراجات بھی بہت کم ہیںپچاس پچاس ساٹھ ساٹھ روپیہ میںآسانی سے گزارہ ہو سکتا ہے اور پھران لوگوں میں بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قربانی کرنے والے ہیںباوجود جاہل ہونے کے، باوجود دینی تعلیم سے کورے ہونے کے اور باوجود موجودہ تہذیب وتمّدن کی روشنی سے نا آشنا ہونے کے وہ اتنی جلدی اپنے تبلیغی اخراجات برداشت کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی لوگ اتنی جلدی تبلیغی اخراجات برداشت نہیں کرتے۔ وہ فوراً مدر سے قائم کر لیتے ہیں، مسجدیں بنا لیتے ہیں اور اخراجات کا بوجھ خود اُٹھانے لگ جاتے ہیں۔ پس بہت بڑی بیداری ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اور قربانی کی روح ہے جو اُن میں نظر آتی ہے۔ یہ علاقہ ہماری تبلیغ کے لئے بہت ہی مبارک ہے۔ہمیںوہاں روپیہ بھجوانے کی بہت کم ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ وہاں کی جماعتیں خود اپنے اخراجات برداشت کر لیتی ہیں۔ ابھی ہمارے مبلّغ نے لکھا ہے کہ اگر وہاں تبلیغ کے لئے جماعت کے دوستوں کو بھجوایا جائے تو چھ مہینہ کے بعد مقامی جماعتیں ان کے اخراجات برداشت کر لیں گی۔ یہ لوگ ایسے ہیں جیسے کوئی سخت پیاسا ہوتا ہے اور پانی کے لئے چاروں طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دنیا نے اِن لوگوں پر اِس قدر مظالم کئے ہیں کہ اب وہ اِس بات کی امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور اُن کی تعلیم وتربیت کا انتظام کر کے انہیں عزت وآبرو کے مقام تک پہنچائے اور یہ بات اسلام اور احمدیت کے سِوا اُنہیں کسی جگہ میسر نہیں آسکتی۔ افریقہ کے مغربی اور مشرقی یہ دو علاقے ایسے ہیں جن میں میرے نزدیک ہمیں اس وقت ایک سَو مبلّغوں کی ضرورت ہے۔ وہاں کاگزارہ پچاس روپیہ ماہوار میں ہو جاتا ہے کچھ گزارہ ہمیں مبلّغین کے اہل وعیال کو بھی دینا پڑتاہے۔ اسی طرح لٹریچر کے اخراجات اور آمدورفت کے کرایہ وغیرہ کو شامل کر کے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہو سکتا ہے لیکن مبلّغین کے اخراجات چونکہ بِالعموم وہ لوگ خود برداشت کر لیتے ہیں اِس لئے اگر سَو مبلّغ ہوں تو ساٹھ ہزار روپیہ سال کے خرچ سے ہم وسیع طور پر وہاں تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سَو مبلّغ مقرر کریں تو میرا اندازہ یہ ہے کہ ایک ایک سال میں ہی لاکھ دولاکھ احمدی ہو جائیں اور دس بارہ سال میں خدا تعالیٰ کے فضل سے افریقہ کا اکثر حصہ احمدی ہو جائے کیونکہ تبلیغی لحاظ سے وہ اِس قسم کاعلاقہ ہے جسے کسی کو کوئی کان مل جاتی ہے یا خزانہ اُس کے ہاتھ آجاتا ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ اِس کان کو کھودیں اور اِس خزانہ سے فائدہ اُٹھائیں ـ۔اگر ہم افریقہ میںصحیح طور پر تبلیغ کریں تو جیسے نبیوں کی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایک دن ۱؎ کا نظارہ انہیں نظر آنے لگتا ہے اسی طرح ہم کانظارہ افریقہ میں دیکھ سکتے ہیں۔وہاں بعض دفعہ ایک ایک دن میں سَو سَو، دو دوسَو بلکہ ہزار ہزار احمدی ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو جماعت کو اگر کہیں کامیابی ہو تو دوسری جگہ کے لوگ لٹھ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ تمہیں وہاں تو کامیابی ہوگئی تھی اب ہمارے ہاں آکر دیکھو ہم کس طرح تمہاری خبر لیتے ہیں مگر وہاں یہ بات نہیں۔ وہاں اُلٹا دوسرے لوگ شِکوہ کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمیں کیوں بھول گئے کیا دوسرے زیادہ حق رکھتے تھے کہ آپ اُن کے پاس گئے اور ہمارے پاس نہیں آئے۔ پس درحقیقت وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں اس بات کے کہ اُن کی طرف توجہ کی جائے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گو ان اخراجات کو برداشت کرنے کی بھی ہماری جماعت میں طاقت نہیں لیکن فرض کرو جماعت ان اخراجات کو برداشت کر لے تو پھر بھی کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ یہ تبلیغ آٹے میں نمک کے برابرا بھی نہیں۔ میں نے سرِ دست صرف ۸۰ مبلّغین کا اندازہ کیا ہے۔ پچاس ہندوستان کے لئے اور تیس بیرون ہند کے لئے۔ اور اگر ان مبلّغین کو بھی شامل کر لیا جائے جو بیرونی ممالک کے مبلّغین کی جگہ بھجوانے کیلئے تیار کئے جائیں گے تو یہ تعداد ایک سَو دس تک پہنچ جاتی ہے لیکن اگر ہماری جماعت اِس کو اہم کام قرار دے کر مطمئن ہو جائے اور اُس کادل اِس تبلیغ پر تسلّی پاجائے تو مَیں اِس کو جنون سے کم نہیں سمجھوں گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میںتبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلّغوں کی ضرورت ہے۔مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلّغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کو ن برداشت کرے۔ مَیں نے بہت سوچا ہے مگر بڑے غوروفکر کے بعد مَیں سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا اُس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
حضرت بدھ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ پھرتے پھراتے جب اپنے باپ کے علاقہ میں آئے تو چونکہ اُنہوں نے تاج وتخت چھوڑ دیا تھا اور جیسے ہماری شریعت میں قانون ہے کہ یتیم پوتے کو ورثہ نہیں ملتا سوائے اِس کے کہ اگر دادا چاہے تو اپنی جائداد کے اُس حصہ میں سے جس کی وصیّت اس کے لئے جائز ہے کچھ حصہ اُسے ہبہ کردے۔ اسی طرح اس ریاست میں یہ قانون تھا کہ اگر بیٹا بادشاہ نہ بنتا تو پوتا تاج وتخت کا وارث نہیں ہوسکتا تھا۔ حضرت بدھ کے باپ کو بڑا فکر تھا کہ میرے بیٹے نے تو تخت کو چھوڑ ہی دیا تھا اس لئے میرے پوتے کے ہاتھ سے بھی بادشاہت نکل جائے گی۔ ایک دفعہ اتفاقاً حضرت بدھ اسی علاقہ میں آئے تو اُ ن کے باپ نے اپنے پوتے کو جو دس گیارہ سال کا تھا ایک پیالہ دے کر کہا کہ جاؤ اور اپنے باپ سے بھیک مانگ لا۔مطلب یہ تھا کہ آپ نے تو گدی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے اب اپنے اِس حق کو میری طرف ہی منتقل کردیں کیونکہ اُس ملک میں یہ دستور تھاکہ گوایسی حالت میں پوتا بادشاہ نہیں بن سکتا تھا لیکن اگر باپ اُس کی طرف بادشاہت منتقل کر دے تو وہ منتقل ہوجاتی تھی۔ چنانچہ حضرت بدھ جہاں تعلیم دے رہے تھے وہیں اُن کا بیٹا جا پہنچااور اُن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا مہاراج! مَیںاپنا حق لینے آیا ہوں۔ بدھوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی کو بھکشو بناتے ہیں تو اُس کا سر منڈوا دیتے ہیں جیسے عیسائی بپتسمہ دیتے ہیں۔ وہ بھکشو بنانے کیلئے سر منڈوا نا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب اُس نے کہا مہاراج! مَیں آپ سے اپناحق لینے آیا ہوں تو حضرت بدھ نے نائی بلایا اور اُس کا سر منڈوادیا۔ گویا وہ تو گدی لینے گیا تھا مگر اُنہوں نے اُس کو بھی بھکشوبنالیا۔ اُن کے باپ کو جب معلوم ہوا کہ بدھ نے میرے پوتے کو بھی بھکشوبنادیا ہے تو وہ ان پر ناراض ہوا کہ تم نے آپ تو گدی چھوڑی تھی اپنے بیٹے کو بھکشو بنا کر تو تم نے اپنے خاندان کی جڑ ہی کاٹ دی اور ہماری نسل کو ہی تباہ کر دیا۔(بدھ بھکشوشادی نہیں کرسکتا اس لئے آئندہ اولاد کا چلنا نا ممکن ہوگیا)انہوں نے کہا مَیں کیا کرتا جب میرا بیٹا مجھ سے خیرات لینے کے لئے آیا تو میں اسے کیا دیتامیرے پاس سب سے بڑی دولت یہی تھی اِس لئے میں نے اسے یہی چیز دے دی۔ دنیا میرے پاس تھی نہیں کہ میں اسے دیتا میرے پاس تو یہی ایک چیز تھی سو میں نے اسے دے دی۔باپ کہنے لگا اب تو جو کچھ ہو چکا سو ہوچکا آئندہ کے لئے کسی نا بالغ کو بھکشو نہ بنانا۔ حضرت بدھ نے وعدہ کر لیا چنانچہ اب تک بدھ مذہب کے احکام میں یہ شامل ہے کہ کسی نابالغ کو بھکشو نہ بنایا جائے۔ یہی طریق عیسائیوں کی تبلیغ کا تھا۔ حضرت مسیح ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میںنکل جاؤ اور تبلیغ کرو۔جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اسی بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھاؤ اور پھر آگے چل دو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات اپنی اُمت کو سکھائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر بستی والے کھانا نہ کھلائیں تو کیا کیا جائے؟ آپؐ نے فرمایا تم زبردستی اُن سے لے لو۔۲؎ گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلائیں۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں رسول کریمﷺ نے تبلیغ کے طریق کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں، ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم اُن سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیگ ہو گی۔ اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اِسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں۔ ایک ایک گاؤں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں۔ اگر کسی گاؤں والے لڑیں تو جیسے حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا وہ اپنے پاؤں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہوں تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی جب وقف زندگی کا اعلان کیا تو گو وقفِ زندگی کی شرائط آپ نے خود نہیں لکھیں بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے لکھوائیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِن کو دیکھا اور کچھ اصلاح کے ساتھ پسند فرمایا۔ مجھے خوب یاد ہے اِن میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مَیں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا۔ یہی وہ طریق ہے جس سے صحیح طور پر تبلیغ ہو سکتی ہے۔ جب ہم اعدادو شمار سے کام لینے لگتے ہیں تو اخراجات کا اندازہ اِس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ یہ اخراجات کس طرح پورے ہو سکیں گے۔ پس اصل تبلیغ ہم اسی طرح کر سکتے ہیں اِس کے بغیر اگر ہم تبلیغ کرنا چاہیں تو مجھے اِس میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ چونکہ بہت سے دوستوں نے میرے اعلان پر اپنی زندگیوں کو سلسلہ کے لئے وقف کیا ہے اِس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قربانی کا ارادہ اور عزم اپنے اندر پیدا کریں ورنہ سلسلہ کبھی کامیاب تبلیغ نہیں کر سکتا۔ اگر ایسے مبلّغ آئیں جو بغیر کسی معاوضہ کے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو ہمیں اِن کے متعلق کوئی فکر نہیں ہو گا۔ مگر اَب تو لوگ اُدھر زندگی وقف کرتے ہیں اور اِدھر ہمیں فکر پیدا ہونا شروع ہو جاتاہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ بھی ہے یا نہیں کہ ہم اِن کاوقف قبول کریں۔ لیکن اگر وہ ہم سے معاوضہ لئے بغیر نکل جائیں، سادہ لباس پہنیں اور سادہ خوراک استعمال کریں، اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں تو نہ سلسلہ پر بار پڑ سکتا ہے اور نہ اِن کو کوئی خاص پریشانی لاحق ہو سکتی ہے کیونکہ جب وہ اخلاص سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اِن کے کام میں برکت ڈال دے گا اور اِن کے اِردگرد ایک جماعت پیدا کر دے گا۔ پھر وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی موزوں مقام کا انتخاب کر کے وہاں بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں۔
پس اِس طریق کے ماتحت یہ نہیں ہو گا کہ وہ ہمیشہ پھرتے رہیں گے بلکہ اگر کسی علاقہ میں زیادہ لوگ احمدی ہو جائیں تو وہ ایسا بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اُسی جگہ بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں۔ درس سے اُن کی کمائی کی صورت بھی پیدا ہو جائے گی اور تبلیغ کا دائرہ بھی وسیع ہو جائے گا۔ ہندوستان میں بہت بڑا اثر حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور حضرت سید احمد صاحبؒ بریلوی کے طریق تبلیغ کا ہوا ہے۔ حضرت سید احمد صاحبؒ درحقیقت حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؒ دہلوی کے علمی طور پر شاگرد ہی تھے اور اِن دونوں بزرگوں نے جس طریق سے کامیابی حاصل کی وہ یہی تھا کہ انہوں نے درس جاری کر دیئے جن میں جوق درجوق لوگوں نے شامل ہونا شروع کر دیا اور اِس طرح سارے ہندوستان میں اِن کے شاگرد پھیل گئے۔ پہلے ایک شخص اِن سے تعلیم لے کر نکلا، پھر دوسرا شخص نکلا، پھر تیسرا شخص نکلا یہاں تک کہ انہوں نے درسوں کے ذریعہ سب جگہ اپنے عقائد پھیلا دیئے۔ مگر یہ تبلیغ کا دوسرا ذریعہ ہے پہلا ذریعہ یہی ہے کہ انسان خود علم سیکھے اور دوسروں کو تبلیغ کرے۔ جب تبلیغ کرتے کرتے اُسے کوئی مرکز نظر آ جائے اور وہ سمجھ لے کہ اَب دس پندرہ آدمی میری باتوں میں دلچسپی لینے لگ گئے ہیں تو وہ اُسی جگہ بیٹھ جائے اور مدرسہ جاری کر دے جس میں لوگوں کو دین کی باتیں سکھائے۔ جوں جوں لوگ اِس سے پڑھیں گے وہ اِردگرد کے گاؤں اور دیہات میں اِن اثرات کو پھیلائیں گے۔ آگے وہ اَور لوگوں تک اِن باتوں کو پہنچائیں گے یہاں تک کہ اِس کے ذریعہ ہزارہا معلم اور ہزار ہا مدرس پیدا ہوجائیں گے جو لاکھوں کروڑوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے۔ یہ وہ روح ہے جس کو پیدا کئے بغیر تبلیغ میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر تبلیغ کے لئے لٹریچر کی اشاعت بھی بڑی ضروری چیز ہے اور چونکہ دنیا میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اِس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مختلف زبانوں میں لٹریچر موجود ہو۔ اَب تو یہ حالت ہے کہ جامعہ احمدیہ سے ایک طالب علم نکلتا ہے تو دعوۃ و تبلیغ والے کہتے ہیں اِسے تبلیغ کے لئے لو۔ـ پھر وہ اُسے دفتر میں بٹھا لیتے ہیں اور جب گجرات یا جہلم سے کوئی چٹھی آتی ہے تو اِسے تقریر کے لئے وہاں بھجوا دیتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی اِس بات کو مدنظر ہی نہیں رکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف قادیان یا پنجاب کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ساری دنیا کے لئے آئے تھے جس میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پس اِن کا فرض تھا کہ وہ دنیا کی ہر زبان کے لئے مبلّغ تیار کرتے اور ہر زبان میں لٹریچر تیار کراتے۔ مگر پچاس سال گزر گئے انہوں نے اِس بات کی طرف توجہ ہی نہیں کی بلکہ ساری دنیا کو جانے دو، سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں ہی صرف اُردو زبان بولی جاتی ہے کوئی اور زبان نہیں بولی جاتی؟ جب ہندوستان میں ہی کئی زبانیں بولی جاتی ہیں تو محکمہ دعوۃ وتبلیغ نے یہ کس طرح سمجھ لیا کہ وہ اُردو میں بولنے والے مبلّغ رکھ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو گیا ہے۔ پنجاب میں بے شک اُردو بولی جاتی ہے مگر بنگال میں اُردو زبان کام نہیں دے سکتی بلکہ بنگالی کام آتی ہے۔ اڑیسہ میں اڑیہ زبان کام آتی ہے۔ بمبئی میں مرہٹی یا گجراتی کام آتی ہے۔ سی پی میں بھی گجراتی کام آتی ہے۔ مدراس میں تامل، تلنگو، اور مالا باری کام دیتی ہے۔ صوبہ سرحد میں پشتو اور فارسی کام دیتی ہیں۔ پھر بڑے بڑے شہروں مثلاً کلکتہ، بمبئی، ڈھاکہ، مدراس اور کراچی وغیرہ میں بھی اُردو کام نہیں آتی بلکہ انگریزی کام آتی ہے۔ـ سندھ میں سندھی زبان بولی جاتی ہے مگر انہوں نے اِس بات کو کبھی مدنظر ہی نہیں رکھا۔ بس اپنا کام صرف اتنا ہی سمجھ لیا کہ مبلّغوں کو دفتر میں بٹھا لیا اور جب گجرات یا جہلم یا کسی اور جگہ سے کوئی چٹھی آئی تو وہاں دو دن کے لئے مبلّغ بھجوا دیا اور پھر دو دو مہینے اِسے آرام کرنے کے لئے اپنے گھر میں بٹھا دیا۔ پھر کسی جگہ سے چٹھی آتی تو پھر چند دنوں کے لئے انہیں تقریر کرنے کے لئے بھجوا دیا۔ اَب میں نے بڑی مشکل سے اِن مبلّغوں کو باہر نکالا ہے مگر اِن میں سے اکثر ایسے مبلّغ ہیں جو پنجاب کے باہر اور کہیں کام نہیں کر سکتے۔ حالانکہ سرحد میں تبلیغ کا خدا نے ایک بہترین ذریعہ یہ پیدا کر رکھا ہے کہ وہاں ہمارے شہداء نے اپنے خون سے سلسلہ کی صداقت کی وہ تحریر لکھ رکھی ہے جو ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا موجب ہو سکتی ہے۔ مگر افسوس اِس زبان میں تبلیغ کی طرف توجہ ہی نہیں کی گئی۔ اِسی طرح سندھ میں تبلیغ کا بڑا میدا ن ہے مگر ہمارے پاس سندھی زبان کا ماہر کوئی مبلّغ موجود نہیں۔ اِسی طرح گجراتی، مرہٹی، تامل، تلنگو، بنگالی، ہندی اور اڑیہ وغیرہ زبانیں جاننے والے ہمارے پاس کوئی مبلّغ نہیں۔ اگر دعوۃ و تبلیغ والے سوچتے کہ ہم یہ کیا کر رہے ہیں تو وہ کب سے بیدار ہو چکے ہوتے اور انہیں محسوس ہوتا کہ وہ ایک غلط قدم اُٹھا رہے ہیں۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اورزبانوں کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ کوئی ایسا مبلّغ بھی تیار نہیں کیا جو انگریزی میں عمدگی سے تقریریں وغیرہ کر سکے۔ اِس وقت دنیا میں ایک شور مچ رہا ہے۔ اور بمبئی، کلکتہ اور مدراس وغیرہ سے چٹھیاں آ رہی ہیں کہ ہماری طرف مبلّغ بھیجے جائیں جو انگریزی میں تقریریں وغیرہ کر سکیں۔ مگر دعوۃ و تبلیغ والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی انگریزی بولنے والا مبلّغ نہیں۔ پچاس سال سے کُفر کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی ہے اور ابھی تک انہیں خیال ہی پیدا نہیں ہوا کہ ہم اپنے مبلّغوں کو کس کس رنگ میںتیار کریں۔ سوتے ہوئے دیوؤں کے متعلق بھی مشہور ہے کہ انہیں چھ مہینے کے بعد ہوش آ جاتی ہے مگر یہاں پچاس سال گزر گئے اور ابھی تک آنکھ نہیں کھلی۔
اَب وقت آ گیا ہے کہ اِس رنگ میں کام کیا جائے۔ چنانچہ مَیں جن واقفینِ زندگی کو تیار کر رہا ہوں اُن کے متعلق میری یہی سکیم ہے کہ اُنہیں دنیا کی ایک ایک زبان کا ماہر بنا دیا جائے تاکہ ہر زبان میں کام کرنے والے تحریکِ جدید کے مبلّغ ہمارے پاس موجود ہوں اور ہم اُنہیں دنیا میں پھیلا کر اسلام کی اشاعت کا کام سرانجام دے سکیں۔ اِن واقفین کی تعلیم پر بہت سا وقت ضائع بھی ہوا ہے کیونکہ ہر چیز تجربہ سے حاصل ہوتی ہے لیکن اَب چونکہ ایک تجربہ ہو چکا ہے اِس لئے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جتنا وقت اِن پر صرف ہوا ہے آئندہ اِ س سے آدھے عرصہ میں نئے مبلّغ تیار ہو جایا کریں گے اور وہ خداتعالیٰ کے فضل سے ایسے ہوں گے کہ اُن میں سے کوئی جرمن زبان کا ماہر ہو گا، کوئی فرانسیسی زبان کا ماہر ہوگا، کوئی ڈچ زبان کا ماہر ہو گا، کوئی اٹالین زبان کا ماہر ہو گا، کوئی روسی زبان کا ماہر ہو گا، کوئی سپینش زبان کا ماہر ہو گا اور کوئی پرتگیزی زبان کا ماہر ہو گا۔ اِسی طرح ہندوستان کی زبانوں میں سے کسی کو اڑیہ زبان سکھائی جائے گی، کسی کو بنگالی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو مرہٹی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تامل زبان سکھائی جائے گی، کسی کو تلنگو زبان سکھائی جائے گی، کسی کو سندھی زبان سکھائی جائے گی، کسی کو پشتو زبان سکھائی جائے گی تاکہ وہ ہر زبان میں کام کر سکیں اور ہر زبان کے جاننے والوں کو اسلام میں داخل کر سکیں۔
پس تبلیغ کا ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں مہارت پیدا کی جائے اور پھر تبلیغ کی طرف توجہ کی جائے۔ دوسرا ذریعہ تبلیغ کا طبّ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں نے ایک طالب علم کو خاص طور پر دہلی میں طبّ کی تعلیم دلوائی ہے۔ طبّ کی موٹی موٹی باتیں انسان چھ ماہ میں سیکھ کر ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ابھی ہمارے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں ڈاکٹری کی بجائے دیسی طبّ کا علاج ہے اور انسان اگر معمولی توجہ سے بھی کام لے تو وہ طبّ میں مہارت پیدا کر کے کئی قسم کی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے مثلاً داڑھ درد ہے یا بخار ہے یا تلی ہے یا سردرد ہے یا قبض ہے یا کھانسی ہے یا نزلہ ان امراض کے متعلق ایسی ایسی سستی دوائیں موجود ہیں جو چند پیسوں میں تیار ہو سکتی ہیںاور بیسیوں لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اگر گولیاں بنائی جائیں تو وہ بھی چند آنوں میں دو دو تین تین سَو تیار ہو سکتی ہیں۔ جب کسی بیمار کو ایسا شخص دوائی دے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ فائدہ محسوس ہونے پر دوسرا شخص خدمت کرنے کی کوشش کرے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک دفعہ علاج کے لئے بمبئی بلایا گیا۔ آپ نے یہ سفر جہاز میں کیا تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ دوستوں نے مجھے کہا کہ آپ سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ خرید لیںمگر میں نے کہا مَیں توڈیک کا ٹکٹ لوں گا۔ جب جہاز میں سوار ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ تمام جگہ لوگوں سے بھری ہوئی ہے ۔ آپ نے ایک جگہ اپنا بستر بچھایا تو لوگوں نے اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا۔ وہ گجراتی طرز کے لوگ تھے۔آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیافہ شناسی میں بڑا ملکہ عطا فرمایا ہوا تھا اور طبّ میں تو ماہر ہی تھے آپ نے اُن میںسے ایک شخص کے چہر ے کی طرف غور سے دیکھا اور چونکہ سمندری کنارہ کے رہنے والوں میں قوتِ باہ کی کمی ہوتی ہے اس لئے آپ نے اُسے کہا مجھے تمہاری شکل سے معلوم ہوگیا ہے کہ تم میں قوتِ باہ کی کمزوری ہے۔ وہ کہنے لگا آپ کو کس طرح پتہ لگا؟آپ نے کہا مَیں تمہارے چہرے سے تاڑ گیا ہوں کیونکہ میں طبیب ہوں۔ اُس نے کہا آپ بالکل درست فرماتے ہیں۔مہربانی فرما کر کوئی نسخہ لکھ دیں آپ نے ایک نسخہ لکھ دیا۔فرماتے تھے اُس ایک نسخے کا لکھنا تھا کہ یوں معلوم ہوا جیسے سب جہازوالے قوتِ باہ کے مریض ہیں ۔ہر ایک نے اپنا اپنا حال آپ سے بیان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ اَور امراض کے مریض بھی نکل آئے اور آپ نے ہر ایک کو علاج بتایا۔ اِس کا ایسا اثر ہوا کہ یا تو انہوں نے آپ کا بستر اُٹھا کر پھینکا تھا اور یا درمیان میں ایک بڑی سی جگہ بناکر بڑی عزت سے انہوں نے آپ کا بستر بچھادیا۔پھر کوئی کھانا پکا کر دیتا، کوئی پاخانہ میں لوٹا رکھ دیتا، کوئی پانی پلانے کے لئے موجود ہوتا، کوئی دبانے کے لئے پاس بیٹھا رہتا اس طرح آپ فرماتے کہ میں ڈیک میں اتنے آرام سے پہنچا کہ سیکنڈ کلاس میں بھی اتنا آرام میسر نہیں آسکتا تھا۔ تو طبّ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر کوئی شخص باقاعدہ علمِ طبّ حاصل نہیں کر سکتا تو وہ چھوٹی موٹی باتیں تو یاد رکھ سکتا ہے۔ عربی میں مثل ہے مَالَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لاَ یُتْرَکُ کُلُّہٗ۔جو چیز ساری حاصل نہیں کی جاسکتی وہ ساری چھوڑنی بھی تو نہیں چاہئے ۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ طبّ میں سرجری نہیں اِسی طرح بعض اور تحقیقاتوں میں وہ ڈاکٹری سے بہت پیچھے ہے لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مخلوق کو ابھی طبّ سے جس قدر فائدہ پہنچا یا جاسکتا ہے وہ فائدہ ابھی تک نہیں پہنچایا گیا۔اگر ہمارے مبلّغ طبّ سیکھ لیں تو انہیں روٹی مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔وہ جہاں جائیں گے لوگ انہیں عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور ان کی خدمت کر کے خوش ہوں گے۔
پس یہ بھی ایک ذریعہ ہے جس سے ہماری جماعت کے دوست تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح تبلیغ کا ایک یہ بھی ذریعہ ہے کھاتے پیتے لوگ اپنی اولادوں کو خود خرچ دیں اور ان کے ذریعہ تبلیغ کرائیں۔حقیقت یہ ہے کہ قوم اُسی وقت تبلیغ میں کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ اپنے گھروں سے اُسی طرح نکل کھڑی ہو جس طرح بارش کے بعد زمین میں سے کیڑے مکوڑے نکلنے شروع ہوجاتے ہیں تب کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے جب بارش کے بعد کیڑے مکوڑے نکلنے شروع ہوتے ہیں درحقیقت وہ بھی ایک چھوٹا سا حشر ہوتا ہے۔ جب زمین پر پانی کا چھینٹا پڑتا ہے تو کوئی دولاتوں کا ٹڈا، کوئی چار لاتوں کا ٹڈا، کوئی موٹا، کوئی چھوٹا سب زمین میں سے نکل آتے ہیں۔ یہی خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ جب دنیا پر نبوت کی بارش نازل ہو تو اس کے بعد عالم بھی اور جاہل بھی، تھوڑے علم والے بھی اور زیادہ علم والے بھی، لائق بھی اور نالائق بھی سب اپنے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں جب وہ ایسا کرتے ہیں تو چونکہ سچائی میں ایک طاقت ہوتی ہے اِس لئے لوگ خود بخود ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ اِسی طرح اِس امر کی بھی ضرورت ہے کہ پُرانے علماء کی طرف توجہ کی جائے اور اُنہیں احمدیت کی طرف مائل کیا جائے۔ اگر دس پندرہ بڑے بڑے صاحب رسوخ مولوی ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو ان کے اثر کی وجہ سے ایک ایک کے ساتھ ہزار ہزار دو دو ہزار آدمی آسکتے ہیں۔ پس ہمیں اپنی جماعت میں مولویوں کو کھینچ کھینچ کر لانا چاہئے بلکہ اگر ہمیں اُن کو قادیان آنے اور یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے اُن کی منتیں بھی کرنی پڑیں تو کوئی حرج نہیں۔مولوی قوم کے راجہ ہوتے ہیں جس طرح راجہ کے پیچھے اُس کی رعایا چلتی ہے اِسی طرح جب کوئی صاحب اثر مولوی احمدیت قبول کر لے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا بیعت میں شامل ہو جانا بالکل آسان ہوتا ہے۔ ہماری جماعت میں مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کے اثر کے ماتحت بہت لوگ داخل ہوئے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جہلم سے مقدمہ کی پیروی کے بعد واپس تشریف لائے تو آپ بہت ہی متأثر تھے کیونکہ مولوی برہان الدین صاحب کا وہاں بڑا اثر تھا اور آپ جہاں جاتے یہی وعظ کرتے تھے کہ مرزا صاحب آرہے ہیں جاؤ اور اُن کو دیکھو ۔پھر اُن کے وعظ کا رنگ بھی عجیب تھا کہ بار بار کہتے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِایہہ نعمتاں کتھوں۔‘‘چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب جہلم تشریف لے گئے تو ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سٹیشن سے کچہری تک لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے یہ حالت تھی کہ اگر تھالی پھینکی جاتی تو اُن کے سروں پر اُڑتی چلی جاتی۔ ایک علاقہ کے علاقہ میں اتنی بڑی ہلچل کا پیدا ہو جانا محض مولوی برہان الدین صاحب کے اثر کا نتیجہ تھا۔ اِسی طرح اگر اب علماء کی طرف توجہ کی جائے تو ہزاروں لوگ ان کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں۔
(ایک دوست نے علاقہ سرگودھا کے حالات بیان کرکے عرض کیا کہ یہ علاقہ بھی تبلیغی نقطہ نگاہ سے حضورکی توجہ کا محتاج ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا)
سرگودھا بے شک تبلیغ کے لحاظ سے ہم پر حق رکھتا ہے کیونکہ حضرت خلیفہ اوّل اسی علاقہ کے تھے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایا کرتے تھے جب سکھوں نے قادیان فتح کر لیا تو ہمارے خاندان کے افراد کپور تھلہ میں چلے گئے اوروہاں کی ریاست نے ان کو گزارہ کے لئے دو گاؤں دے دیئے۔ کپورتھلہ میںہی ہمارے پردادا صاحب فوت ہوگئے تھے۔ہمارے دادا کی عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پردادا اپنے والد کے بر خلاف جو بہت بڑے پارسا اور عزم کے مالک تھے کم ہمت تھے اور اسی وجہ سے ہمارے خاندان کو یہ ذلت پہنچی لیکن ہمارے دادا ہمت والے تھے۔ اُس وقت جب ہمارے پردادا فوت ہوئے وہ صرف سولہ سال کے تھے لیکن انہوں نے کہا میں اپنے باپ کو قادیان میں ہی دفن کروں گا۔ چنانچہ وہ اُن کی لاش یہاں لائے سکھوں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا مگر کچھ تو اُن کی دلیری کی وجہ سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ ہمارے آباء اِس علاقہ پر حکمران رہ چکے تھے سارے علاقہ میں شورش ہوگئی اور لوگوں نے کہا ہم اِس بات کو برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کو اب یہاں دفن ہونے کے لئے بھی جگہ نہ دی جائے۔چنانچہ سکھوں نے اجازت دے دی اور وہ انہیں قادیان میں دفن کر گئے۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دادا نے جب یہ سلوک دیکھا تو انہوں نے کہا چونکہ اِس زمانہ میں ساری عزت علم سے ہے اس لئے مَیں اب علم حاصل کر کے رہونگا تا کہ ہمارے خاندان کو عزت حاصل ہو۔ چنانچہ انہوں نے گھر کو چھوڑدیا اور دلّی چلے گئے۔اُن کے ساتھ اُس زمانہ کے طریق کے مطابق ایک میراثی بھی چل پڑا۔ اُنہوں نے سنا ہوا تھا کہ مساجد میں تعلیم کا انتظام ہوتا ہے جہاں لڑکے پڑھتے ہیں۔ وہ بھی گئے اور ایک مسجد میں جاکر بیٹھ گئے مگر کسی نے اُن کو پوچھا تک نہیںیہاں تک کہ تین چار دن فاقہ سے گزرگئے۔ تیسرے چوتھے دن کسی غریب کو خیال آیا اور وہ رات کے وقت انہیں ایک روٹی دے گیا مگر معلوم ہوتا ہے وہ کوئی بہت ہی غریب شخص تھا کیونکہ روٹی سات آٹھ دن کی تھی اور ایسی سُوکھی ہوئی تھی جیسے لوہے کی تھالی ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میںروٹی لے کر انتہائی افسردگی کے عالم میں بیٹھ گئے اور حیرت سے منہ میں اُنگلی ڈال کر اپنی حالت پر غور کرنے لگے کہ کس حد تک ہماری حالت گر چکی ہے۔میراثی اُن کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اِس وقت یہ سخت غم کی حالت میں ہیں اور اُس نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو یہ صدمے سے بیمار ہو جائیں، میراثیوں کو چونکہ ہنسی کی عادت ہوتی ہے اِس لئے اُس نے سمجھا کہ اب مجھے کوئی مذاق کر کے اِن کی طبیعت کا رُخ کسی اور طرف بدلنا چاہئے۔ چنانچہ وہ مذاقاً کہنے لگا۔مرزا جی! میرا حصہ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ کوئی حصے والی چیزنہیں مگر چونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کا صدمہ کسی طرح دُور ہو اِس لئے اُس نے مذاق کر دیا۔ اُنہیں یہ سن کرسخت غصہ آیا اور اُنہوں نے زور سے روٹی اُس کی طرف پھینکی جو اُس کی ناک پر لگی اور خون بہنے لگ گیا۔یہ دیکھ کر وہ اُٹھے اور میراثی سے ہمدردی کرنے لگے۔ اِس طرح اُن کی دماغی حالت جو صدمہ سے غیر متوازن ہو گئی تھی درست ہوگئی ورنہ خطرہ یہی تھا کہ وہ اِس غم سے کہیں پاگل نہ ہو جائیں۔پھر خدانے اُن کیلئے ایسے سامان پیدا فرمادیئے کہ وہ وہاں سے خوب علم پڑھ کر واپس آئے۔
تو جب انسان کسی بات کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سامان بھی پیدا کر دیتاہے اصل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ قربانی کی قدر کرتا ہے۔ اگر لوگ دیکھیں کہ واقعہ میں کوئی شخص تکلیف اُٹھا رہا ہے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنے نفس کو مشقت میں ڈال رہا ہے تو اُن کے دلوں میں ضرور جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اِس سے کوئی نیک سلوک کر کے ثواب میں شامل ہو جائیں۔
(عشاء کی نماز کے بعد فرمایا)
میں نے جو تبلیغ کی سکیم بتائی ہے اس سے میری غرض یہ ہے کہ دوست اِس کی اہمیت کو سمجھیں اور یہ بھی جان لیں کہ ان تبلیغی اخراجات کو برداشت کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ایسے حالات میں ہمارے لئے سوائے اِس کے اور کوئی راہ نہیں کہ ہم دعاؤں میں مشغول ہو جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اپنے فضل سے ایسے راستے کھول دے جن سے تبلیغ میں آسانی پیدا ہو۔ ایسی وسیع دنیا میں ستّر مبلّغ اور چالیس اُن کے قائم مقام گویا صرف ایک سَو دس آدمی مَیں نے تجویز کئے ہیں مگر پھر بھی سالانہ خرچ کا اندازہ پانچ لاکھ روپیہ تک بن جاتا ہے۔ پس یہ ایسی چیز ہے جس کے لئے بہت بڑی دعاؤں، گریہ وزاری اور نفس کی اصلاح کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور وہ ان مشکلات کو دُور فرما دے۔ روپیہ تو ہاتھ کی مَیل ہوتی ہے اور وہ پانچ کروڑ بھی اکٹھا ہوسکتا ہے مگر صرف روپیہ تبلیغ کے لئے کافی نہیں ہوتا اِس کے لئے دلوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔پس جماعت کے دوستوں کو خاص طور پر دعاؤں سے کام لینا چاہئے تاکہ اِن مشکلات میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے اور ہماری جماعت اپنے قلوب کی اصلاح کر کے اس کے فضلوں کی وارث ہو جائے ۔ اَلّٰلھُمَّ اٰمِیْنَ
(الفضل ۲۱،۲۲ ؍دسمبر۱۹۴۴ء)
۱؎ النصر: ۳
۲؎ مسلم کتاب اللقطۃ باب الضیافۃ و نحوھا


لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں
کی اصلاح کرے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

لجنہ اماء اللہ سنجیدگی سے عورتوں کی اصلاح کرے
(تقریر فرمودہ ۲۰؍ مئی ۱۹۴۴ء)
تشہّد، تعوّذ، اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
دُنیا میں انسان کے لئے سب سے قیمتی جو ہر سنجیدگی ہے۔ قرآن کریم نے اس کا نام اخلاص اور ایمان رکھا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ ایک طرف تو فرماتا ہے کہ نمازیں پڑھو مگر دوسری طرف نماز پڑھنے والوں کے لئے ہلاکت کا لفظ کہا ہے۔ اِس سے مراد وہی نماز ہے جس میں اخلاص نہ ہو۔ نمازانسان اور خدا کے درمیان ملاقات کا ذریعہ ہے۔ اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے نماز خدا کے حضور حقیقی نماز نہیں کہلا سکتی ۔ روزہ حقیقی روزہ نہیں کہلا سکتا اگر اخلاص نہ ہو۔ اگر اخلاص ہے تو حج بھی ہے زکوٰۃاور صدقہ بھی ہے اگر اخلاص نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ایک ایکٹر بادشاہ بنتا ہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے لیکن ایک پندرہ بیس گھماؤں کا چوہدری آتا ہے تو لوگ اُس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ اس میں اصلیّت ہے۔ ایک ایکٹر بڑا چور بنتا ہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے کیونکہ اُس کا چور ہونا ایک تماشہ ہوتا ہے لیکن ایک شخص معمولی چوری کرنے والا ہوتا ہے جو دو آنے چُرا لیتا ہے تو لوگ اُس کے آنے پر ڈرنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو! چور آگیا ہے ہوشیار رہنا۔ لوگ تھیئٹر میں جاتے ہیں اور وہاں ایک درزی دیکھتے ہیں جس کے پاس بڑے بڑے لارڈ وغیرہ کپڑے لے کے جاتے ہیں مگر دوسرے دن وہ اُس کے پاس اپنا کپڑا نہیں لے جاتے بلکہ اپنے معمولی درزی کے پاس جس کی سلائی چار آنے ہوتی ہے اپنا کپڑا سلانے کیلئے لے جاتے ہیں کیونکہ وہ سچا درزی ہے اوراوّل الذکر جھوٹا ۔ اِسی طرح ڈاکٹر کے بیٹے کے پاس لوگ نہیں جاتے حالانکہ بعض دفعہ وہ عرفاً ڈاکٹر کہلاتا ہے کیونکہ حقیقت میں ڈاکٹر نہیں۔ اِسی طرح لوگ معمولی عطّار کے پاس جاکر علاج کرالیتے ہیں مگر ناٹک کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ پس جب تم دُنیاوی کاموں میں اتنی احتیاط کرتے ہو تو کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا اپنے کاموں میں احتیاط نہیں کرتا؟ اگر تم سَوفیصدی احتیاط کرتے ہو تو خداتعالیٰ دوسَو فیصدی کرتا ہے اور جب تم اپنے آپ کو اِس قدر عقلمند سمجھتے ہو تو کیا خداتعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ اتنا بے وقوف ہے کہ وہ تمہاری بغیر اخلاص کے نماز قبول کر لے۔ تمہارے کھوٹے سے کھوٹے روپے کو صدقہ کے طور پر قبول کر لے۔ اصل چیز اخلاص ہے جب تک اخلاص پیدا نہ ہو جائے تب تک ترقی ممکن نہیں۔ بڑی دِقّت یہی ہے کہ لوگ اخلاص سے بہت دُور ہیں۔ عورتیں بِالعموم لفاظی کو قبول کر لیتی ہیں۔ عورتیں احمدی کہلاتی ہیں لیکن سب بُرائیاں ان میں پائی جاتی ہیں حالانکہ عمل اور اخلاص کی ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی نا ممکن ہے۔ موجودہ حالت میں مردوں کے پاس اِس کے سِوا کیا چارہ ہے کہ یا تو احمدی عورتیں اخلاص پیدا کریں یا پھر وہ ان کو چھوڑدیں۔ اِس وقت تک ایک بھی مثال ہمارے پاس ایسی نہیں کہ مرد مُرتد ہوا ہو اور عورت بچ گئی ہو۔ مردوں کے ساتھ عورتیں بھی مُرتد ہو جاتی ہیں۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ عورت کا اپنا کوئی ایمان نہیں اُس کا ایمان اُس کے خاوند کا ایمان تھا۔ دس بیس میں سے ایک عورت تو ایسی ہوتی جس کے متعلق ہم کہہ سکتے کہ اُس کا اپنا ایمان تھا ۔ـ ان کے ایمان اپنے ایمان نہیں بلکہ خاوندوں اور باپوں اور بیٹوں کے ایمان تھے۔دیگ ایک چاول سے پہچانی جاتی ہے یہ ایک نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ شاید خداتعالیٰ نے بھی اسی لئے یہ ارتداد دکھایا کہ عورتوں کے ایمان کا پتہ لگ جائے۔
جب عبدالرحمن مصری مرتد ہوا تو میرا خیال تھا کہ اُس کی بیوی شاید اُس کے ساتھ مرتد نہ ہو۔ میرے اُستاد کی وہ بیٹی تھی بڑے پختہ ایمان کی عورت معلوم ہوتی تھی لیکن آخر خاوند کے ساتھ وہ بھی مرتد ہوئی۔ تو یہ باتیں بتاتی ہیں کہ جو اخلاص اور ایمان چاہئے وہ ہماری عورتوں میں نہیں ہے اور اِس کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ مَیں خصوصاً لجنہ کو خطاب کرتا ہوں۔ ہر محلہ کی لجنہ اپنے آپ کو منظم کرے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر سب جوان، بوڑھی عورتوں کو جمع کر کے ان کی تعداد معلوم کرے اور جبراً اُن کو لجنہ میں داخل کرے اور جو داخل نہ ہو اُس کے متعلق سمجھ لو کہ وہ احمدی نہیں ہے۔
پہلے لجنہ کا ایک ہی اجلاس ہوتا تھا جس میں سب ممبرات شامل ہوتی تھیں۔ مگر سُستی طاری ہوتی گئی اور محلہ وار کام شروع ہوا اَب صرف چندہ لینے تک کام محدود رہ گیا۔ کئی سال سے کوئی رپورٹ میرے پاس نہیں آئی اِس لئے مَیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ کام ہوتا ہی نہیں۔ مَیں نے اِسی لئے آج تم کو جمع کیا ہے کہ اصولی ہدایات تم کو دوں۔ ایک ہفتہ کے اندر اندر اپنے آپ کو منظم کر لو اور ہر احمدی عورت کو لجنہ میں شامل کرو اور پھر جمع ہو کر اپنے لئے کام متعین کرو۔
بہت سی عورتیں صحیح پردہ نہیں کرتیں۔ غیراحمدیوں، بدمعاشوں کے اڈے یہاں بن چکے ہیں جن کی وجہ سے بہت بدنامی ہو رہی ہے۔ ایسی آوارہ عورتوں کا جس گھر میں جانا ہو گا وہ ایک غیرمرد کے آنے کے برابر ہے۔
پھر عورت کا اپنے مرد کے بغیر سفر پر جانا خلافِ شریعت ہے مگر مجھے معلوم ہوا کہ بعض عورتیں بغیر اپنے مرد کے بٹالہ یا امرتسر کا سفر کرتی ہیں۔پھر سینما دیکھنے سے ہم نے روکا ہوا ہے مگر محلوں کے لڑکے بعض ریلوے گارڈوں سے دوستانہ کر کے بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں اور بٹالہ جا کر سینما دیکھتے ہیں۔ آخر سینما والے انہیں مُفت کیوں تماشہ دکھاتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اُن سے اُن کے دوستانہ ہوتے ہیں اور ہر دوستانہ جو جرم میں ممد ہوتا ہے خود بھی ایک جرم ہے۔ اگر اُن کی مائیں اُن کی نگرانی کریں تو وہ کبھی نہ جا سکیں۔
پھر قادیان میں بیسیوں ریڈیو لگے ہوئے ہیں اور گانے سُنے جاتے ہیں۔ ریڈیو خبروں کے لئے ، علمی و ادبی مضامین کے لئے ہیں۔ اگر اِس دن کے بعد کوئی رپورٹ میرے پاس آئی کہ کسی نے گانا سنا ہے خواہ تم کہو کہ نعت سُنی ہے تو اِس کا مقاطعہ کر دیا جائے گا۔ علمی و ادبی تقاریر اور خبروں کے لئے ریڈیو مفید ہے یا کوئی ادبی مضمون یا ڈرامہ جس میں گانا نہ ہو۔ باقی قوالی، نعت وغیرہ سب ناجائز ہے۔ بچہ بھی آ آ کرتا ہے اور ننگا پھرتا ہے قوالی گانے والے بھی آ آ کرتے ہیں اگر گانے والے آ آ کریں تو تم شوق سے سنو اور اگر وہ ننگے آ کھڑے ہوں تو تم اُن سے دور بھاگتی ہو۔ تو گانے میں وہی حرکت جو بچے کرتے ہیں وہی گانے والے بھی کرتے ہیں۔
یہ ساری باتیں گندی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہیں اور وقار کو تباہ کرنے والی ہیں۔ یہ لجنہ کا فرض ہے کہ وہ اِن کی اصلاح کرے۔ـ مجھے جو یہ الہام ہوا ہے کہ اگر تم پچاس فی صدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی۔ پچاس فیصدی سے یہی مراد ہے کہ پچاس فیصدی کی اصلاح بھی بہت بڑی بات ہے۔ـ
تم میں اور غیراحمدی میں اِس کے سِوا کیا فرق ہے کہ تم اپنے پیسے چندے میں دے دیتی ہو اور وہ سینما میں دے دیتی ہیں۔ حقیقی روح ایمان کی ابھی تم کو بھی حاصل نہیں ہوئی۔تم میں سے کوئی عورت علمی بات کرنے کے قابل نہیں، کسی مجلس میں بول نہیں سکتی۔ تم گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر اپنے بچے ہوئے اوقات کو جو تم خدا کو دے سکتی تھیں جب خدا کو دینے کی بجائے ریڈیو سن کر میراثیوں اور کنچنیوں کو دے دیئے تو خدا کے گھر میں تمہارے لئے کیا حصہ ہو گا۔ تمہاری نسلیں کس طرح اصلاح پذیر ہوں گی۔ آئندہ نسلوں کی اصلاح کا کون ذمہ دار ہو گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ تم شادیاں کرو تا تمہاری نسل بڑھے اور اسلام ترقی کرے۔۲؎ مگر ایسی نسل سے کیا فائدہ جو اسلام کے سپاہی نہ ہوں۔
پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اِس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے۔ اگر نوکری کرو گی تو بچوں کو کون سنبھالے گا؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیت بد ہوتی ہے اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہو گا۔ اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتیجے ہی پیدا ہوں گے۔ جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر اُن کے لئے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہاں اگر لڑکیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لئے حاصل کریں۔ اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اُس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے۔
یہ ساری باتیں لجنہ سے تعلق رکھتی ہیں جن کی وہ اصلاح کرے۔ مرکزی لجنہ کی سیکرٹری تمام محلہ جات سے رپورٹ لیکر مجھے دکھائے اور مَیں یہ قانون بناتا ہوں کہ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ یا فی الحال دو ماہ میں ایک دفعہ قادیان کی سب عورتیں اکٹھی ہوں اور اُن کو غور کرنا چاہئے کہ ہمارے محلہ میں کون کون سے نقائص ہیں اور اُن کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ محلہ کی پریذیڈنٹ اور سیکرٹری کا فرض ہو گا کہ وہ سب عورتوں کو جلسہ میں شریک کرے۔ اگر تم صرف پچاس فیصدی عورتوں کو جلسہ میں لاؤ گی تو باقی پچاس فیصدی عورتوں کو تم مار رہی ہو گی کیونکہ وہ اپنے اخلاص میں کم ہوتی جائیں گی۔ پندرہ روزہ جلسہ محلہ کا ہو اور پندرہ روزہ مرکز کا۔ ایک جمعہ یا ہفتہ کو محلہ کا جلسہ ہو اور ایک ہفتہ مرکز کا۔ کام کو باقاعدگی سے کرنے سے ہی فائدہ ہو گا۔ تھوڑا کام کرو اور اُس کی عادت ڈالو پھر اُس کو اَور بڑھاؤ اَور بڑھاؤ۔ـ
ہر عورت سے عہد لیا جائے کہ وہ لجنہ کے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکلتے وقت کسی اور گھر نہ جائے اور اپنے کام کو پورا کرے تا کوئی مرد یہ نہ کہہ سکے کہ لجنہ کے جلسہ کے بہانے سے عورتیں بے فائدہ دوسرے گھروں میں پھرتی ہیں۔
(اخبار الفضل ۲۴ ؍مئی ۱۹۴۴ء )
۱؎ الماعون: ۵
۲؎ ابوداؤد کتاب النکاح باب النھی عن تزویج من لم یلدمن النساء


تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی اغراض
(تقریر فرمودہ ۴؍جون ۱۹۴۴ء ۔ برموقع افتتاح تعلیم الاسلام کالج قادیان)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضو رنے معوذتین کی تلاوت کی اور اِس کے بعد فرمایا:-
یہ تقریب جو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دوگنا مقاصد رکھتی ہے۔ ایک مقصد تو اشاعتِ تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک تعلیمی سوال ہے یہ کالج اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لئے کھلے رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا حصول کسی ایک قوم کے لئے نہیں ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم کو بحیثیت ایک انسان ہونے کے ہر انسان کے لئے ممکن اور سہل الحصول بنا دیں۔ مَیں نے لاہور میں ایک دو ایسی انسٹی ٹیوٹ دیکھیں جن کے بانی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ اِن میں کسی مسلمان کا داخلہ ناجائز ہو گا۔ مجھ سے جب اِس بات کا ذکر ہوا تو مَیں نے کہا اِس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی ایسی ہی انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور اِس میں یہ واضح کریںکہ اِس میں کسی غیرمسلم کا داخلہ ناجائز نہ ہوگا، کیونکہ ایک مُسلم کا اخلاقی نقطہ نگاہ دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے۔ پس جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو۔ اِس کالج کے دروازے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور انہیں ہر ممکن امداد اِس انسٹی ٹیوٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دی جائے۔
دوسرا پہلو اِس کا یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم بہت سا اثر مذہب پر بھی ڈالتی ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ غلط اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے خلاف ہوتا ہے۔ ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ خدا کا فعل اُس کے قول کے خلاف ہوتا ہے، نہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ خدا کا قول اُس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ خواہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہ بھی ہوں جن سے اِن اعتراضات کا اِسی رنگ میں دفعیہ کیا جا سکتا ہو جس رنگ میں وہ اسلام پر کئے جاتے ہیں یا جن علوم کے ذریعہ وہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اُنہی علوم کے ذریعہ اُن اعتراضات کا ردّ کیا جا سکتا ہو۔ پھر بھی یہ یقینی بات ہے کہ جو اعتراضات خداتعالیٰ کی ہستی پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات خداتعالیٰ کے رسولوں پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات اسلام کے بیان کردہ عقائد پر پڑتے ہیں وہ تمام اعتراضات غلط ہیں اور یقینا کسی غلط استنباط کا نتیجہ ہیں۔ چونکہ اِس قسم کے اعتراضات کا مرکز کالج ہوتے ہیں اِس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں اُن کا انہی علوم کے ذریعہ ردّ کیا جائے۔ اور ہمارے کالج میں جہاں اِن علوم کے پڑھانے والے پر وفیسر مقرر ہوں وہاں اِن کا ایک یہ کام بھی ہو کہ وہ انہی علوم کے ذریعہ اِن اعتراضات کو ردّ کریں اور دنیا پر ثابت کریں کہ اسلام پر جو اعتراضات اِن علوم کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں وہ سر تاپا غلط اور بے بنیاد ہیں۔
پس جہاں دوسرے پروفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اِن اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہو گی کہ وہ اِن اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ ردّ کرتے چلے جائیں۔ اَب تک ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا۔ انفرادی طور پر ہماری جماعت میں پروفیسر موجود تھے مگر وہ چنداں مفید نہیں ہو سکتے تھے اور نہ اُن کے لئے کوئی موقع تھا کہ وہ اپنے مقصد اور مدعا کو معتدبہ طور پر حاصل کر سکیں۔
پس جہاں ہمارے کالج کے منتظمین کو اور عملہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ غیرمذاہب کے طالب علم جو داخل ہونے کے لئے آئیںاُن کے داخلہ میں کوئی ایسی روک نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کالج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کرسکیں وہاں منتظمین کو یہ بھی چاہئے کہ وہ کالج کے پروفیسروں کے ایسے ادارے بنائیں جو اِن مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں جمع کریں اور اپنے طور پر اُن کو ردّ کرنے کی کوشش کریں اور ایسے رنگ میں تحقیقات کریں کہ نہ صرف عقلی اور مذہبی طور پر وہ اِن اعتراضات کو ردّ کر سکیں بلکہ خود اُن علوم سے ہی وہ اُن کی تردید کر دیں۔
میں نے دیکھا ہے بسااوقات بعض علوم جو رائج ہوتے ہیں محض اِن کی ابتداء کی وجہ سے لوگ اِن سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ ذرا کوئی تھیوری نکل آئے تو بغیر اُس کا ماحول دیکھنے اور بغیر اُس کے مَالَہٗ اور مَاعَلَیْہِ پر کافی غور کرنے کے وہ اِن سے متأثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اُسے علمی تحقیق قرار دے دیتے ہیں۔ مثلاً پچھے سَو سال سے ڈارون تھیوری نے انسانی دماغوں پر ایسا قبضہ کر لیا تھا کہ گو اِس کا مذہب پر حملہ نہیں تھا مگر لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اِس تھیوری کی وجہ سے تمام مذاہب باطل ہو گئے ہیں کیونکہ ارتقاء کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے۔ حالانکہ جس مذہب پر اِس تھیوری کا براہِ راست حملہ ہو سکتا تھا وہ عیسائیت ہے، اسلام پر اِس کا کوئی حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اِسی طرح جہاں تک خداتعالیٰ کے وجود کا علمی تعلق ہے ارتقاء کے مسئلہ کا مذہب کے خلاف کوئی اثر نہیں تھا صرف انتہائی حد تک پہنچ کر اِس مسئلہ کا بعض صفاتِ الٰہیہ کے ساتھ ٹکراؤ نظر آتا تھا اور درحقیقت وہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ تھا لیکن ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈارون تھیوری کے خلاف کوئی بات کہنا عقل اور سائنس پر حملہ کرنا ہے۔ مگر اَب ہم دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ وہی یورپ جو کسی زمانہ میں ڈارون تھیوری کا قائل تھا اَب اِس میں ایک زبردست رَو اِس تھیوری کے خلاف چل رہی ہے اور اَب اِس پر نیا حملہ حساب کی طرف سے ہوا ہے۔ چنانچہ علمِ حساب کے ماہرین اِس طرف آ رہے ہیں کہ یہ تھوری بالکل غلط ہے۔ مجھے پہلے بھی اِس قسم کے رسالے پڑھنے کا موقع ملا تھا مگر گزشتہ دنوں جب مَیں دہلی گیا تو وہاں مجھے علمِ حساب کے ایک بہت بڑے ماہر پروفیسر مولر ۱؎ملے جنہیں پنجاب یونیورسٹی نے پچھلے دنوں لیکچروں کے لئے بلایا تھا اور اُن کے پانچ سات لیکچر ہوئے تھے انہوں نے بتایا تھا کہ علمِ حساب کی رُو سے یہ قطعی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ سورج اَڑتالیس ہزار سال میں اپنے محور کے گرد چکر لگاتا ہے اور جب وہ اپنے اِس چکر کو مکمل کر لیتا ہے تو اُس وقت مختلف سیاروں سے مل کر اُس کی گرمی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اِس گرمی کے اثر کی وجہ سے اِس کے اِردگرد چکر لگانے والے تمام سیارے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا اگر اڑتالیس ہزار سال میں تمام سیارے سورج کی گرمی سے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی عمر اِس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے دنیا کی عمر اِس سے زیادہ ہرگز نہیں ہو سکتی۔ مَیں نے کہا ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم قطعی طور پر صحیح ہے لیکن اگر آپ کی رائے کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ ڈارون تھیوری اور جیالوجی کی پُرانی تھیوری بالکل باطل ہے۔ وہ کہنے لگے یقینا باطل ہیں۔ مَیں نے کہا علوم کا اتنا بڑا ٹکراؤ آپس میں کس طرح ہو گیا؟ انہوں نے کہا وہ تو علوم ہیں ہی نہیں عقلی ڈھکوسلے ہیں اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علمِ حساب کی رُو سے کہتے ہیں۔ بہرحال اَب ایک ایسی رَو چل پڑی ہے کہ وہ بات جس کے متعلق سَو سال سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اِس کے بغیر علم مکمل ہی نہیں ہو سکتا اَب اِسی کو ردّ کرنے والے اَور علوم ظاہر ہو رہے ہیں۔
اِسی طرح نیوٹن کی تھیوری جو کششِ ثقل کے متعلق تھی ایک لمبے عرصہ تک قائم رہی مگر اَب آئن سٹائن کے نظریہ نے اِس کا بہت سا حصہ باطل کر دیا ہے۔اِس سے پتہ لگتا ہے کہ جن باتوں سے دنیا مرعوب ہو جاتی ہے وہ بسااوقات محض باطل ہوتی ہیں اور اُن کا لوگوں کے دلوں پر اثر نئے علم کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب دنیا میں ہمیں یہ حالات نظر آ رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسائل جنہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی ہمارے پروفیسر دلیری سے یہ کوشش نہ کریں کہ بجائے اِس کے کہ بعد میں بعض علوم اِن کو باطل کر دیں ہماری انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی اِن کا غلط ہونا ظاہر کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلام پر اِن علوم کے ذریعہ جو حملے کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ اگر وہ کوشش کریں تو میرے نزدیک اِن کا اِس کام میں کامیاب ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ خدا کی مدد سے، محمد رسول اللہﷺ نے جو دین قائم کیا ہے اِس کی مدد سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو روشنی لائے ہیں اِس کی مدد سے اور احمدیت نے جو ماحول پیدا کیا ہے اِس کی مدد سے وہ بہت جلد اِس میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور جو کام اور لوگوں سے دس گنا عرصہ میں بھی نہیں ہو سکتا وہ ہمارے پروفیسر قلیل سے قلیل مدت میں سرانجام دے سکتے ہیں۔
پس میری غرض کالج کے قیام سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ایک ایسا مرکز مل جائے جس میں ہم بیج کے طور پر اِن تمام باتوں کو قائم کر دیں تاکہ آہستہ آہستہ اِس بیج کے ذریعہ ایک ایسا درخت قائم ہو جائے، ایک ایسا نظام قائم ہو جائے، ایک ایسا ماحول قائم ہو جائے جو اسلام کی مدد کرنے والا ہو، جیسے یوروپین نظام اسلام کے خلاف حملہ کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہے۔
پس ہمارے کالج کے منتظمین کو مختلف علوم کے پروفیسروں کی ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہئیں جن کی غرض یہ ہو کہ اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے بڑے علوم کے ذریعہ جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا دفعیہ انہی علوم کے ذریعہ کریں۔ اور اگر وہ دیکھیں کہ موجودہ علوم کی مدد سے اِن کا دفعیہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ پوانٹ نوٹ کریں کہ کون کون سی ایسی باتیں ہیں جو موجودہ علوم سے حل نہیں ہوتیں اور نہ صرف خود اِن پر غور کریں بلکہ کالج کے بِالمقابل چونکہ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے اِس لئے وہ پوائنٹ نوٹ کر کے اِس انسٹی ٹیوٹ کو بھجواتے رہیں اور اُنہیں کہیں کہ تم بھی اِن باتوں پر غور کرو اور ہماری مدد کرو کہ کس طرح اسلام کے مطابق ہم اِن کی تشریح کر سکتے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام اِن باتوں کا محتاج نہیںاسلام وہ مذہب ہے جس کا مدار ایک زندہ خدا پر ہے پس وہ سائنس کی تحقیقات کا محتاج نہیں۔ مثلاً وہی پروفیسر مولر جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے جب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور نیویارک کے بعض اَور پروفیسر بھی تحقیقات کے بعد اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اِس ساری یونیورس کا ایک مرکز ہے۔ اِس مرکز کا انہوں نے نام بھی لیا تھا جو مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا۔ اُنہوں نے بتایا کہ سارے نظامِ عالَم کا فلاں مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اُس کے علاوہ اور لاکھوں کروڑوں سورج چکر لگا رہے ہیں اور انہوں نے کہا میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے۔
گویا اِس تحقیق کے ذریعہ ہم خدا کے بھی قائل ہیں، یہ نہیں کہ ہم دہریت کی طرف مائل ہو گئے ہوں۔پہلے سائنس خداتعالیٰ کے وجود کو ردّ کرتی تھی مگر اَب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اِس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے۔ مَیں نے کہا نظامِ عالَم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اِس پر اعتراض نہیں قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اِس کا ایک مرکز ہے۔ مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں۔ مَیں نے اُن سے کہا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنے کلام اور الہام کے ذریعہ وہ مجھے قبل از وقت بتا دیتا ہے۔ آپ بتائیں کہ کیا آپ جس مرکز کو خدا کہتے ہیں وہ بھی کسی پر الہام نازل کر سکتا ہے؟ وہ کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا۔ مَیں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کر لوں کہ وہی مرکز خدا ہے۔ مجھے تو ذاتی طور پر اِس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں۔ کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اِس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا آپ مجھے بتائیں کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے اٹھائیس سَو ہوائی جہاز بھجوایا جا ئے گا۔ وہ کہنے لگے اِس کرہ سے تو کوئی ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جا سکتی۔ مَیں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اِس کرے کا اور اِسی طرح اَور کروں کا خدا کوئی اَور ہے، یہ خود اپنی ذات میں خدا نہیںہیں کیونکہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اِس مرکز کے ذریعہ کسی کو کوئی خبر قبل از وقت نہیں پہنچ سکتی لیکن میںاپنے تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پس آپ بیشک اِس مرکز کو ہی خدا مان لیں لیکن ہم تو ایک علیم و خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں۔ اُس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر جلال بھی ہوتا ہے، اُس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر مُحی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر ممیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر حلیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر واسع ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے غرض بیسیوں قسم کی صفات ہیںجو اُس کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اِسی طرح اُس کا نور ہونا، اُس کا وہاب ہونا، اُس کا شکور ہونا، اُس کا غفور ہونا، اُس کا رحیم ہونا، اُس کا ودود ہونا، اُس کا کریم ہونا، اُس کاستار ہونا اور اِسی طرح اور کئی صفات کا اُس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں۔ کیا یہ صفات اس مرکز میں بھی پائی جاتی ہیں جس کو آپ خدا کہتے ہیں؟ جب ایک طرف اس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو اپنی ان صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اِس کے کہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اُس کا کلام پورا ہو جاتا ہے اور جو کچھ اُس نے کہا ہوتا ہے وہی کچھ دنیا کو دیکھنا پڑتا ہے تو اِس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح مان سکتے ہیں۔ اِس پر وہ کہنے لگا اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑے گاکہ یہ تھیوری باطل ہے۔اِس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تما م مرکز ہوتو مذہب کے لحاظ سے ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں۔ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم سائنس کے علوم کی مدد سے خداتعالیٰ کو حاصل کریں خدا بغیر سائنس کے بھی انسان کو مل جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو آپ نے نہ فلسفہ پڑھا، نہ سائنس پڑھی، نہ حساب پڑھا، نہ کوئی اور علم سیکھا مگر پھر بھی خداآپ سے اِس طرح بولا کہ آج تک نہ کسی سائنسدان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے، نہ کسی حساب دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے، نہ کسی فلسفی کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نہ یہ فلسفہ پڑھا، نہ یہ سائنس پڑھی، نہ یہ حساب پڑھا لیکن جس رنگ میں خدا نے آپ سے کلام کیا وہ نہ کسی فلسفے والے کو نصیب ہوا، نہ کسی سائنس والے کو نصیب ہوا، نہ کسی حساب والے کو نصیب ہوا۔ اِسی طرح اب میرے ساتھ جس طرح خدا متواتر کلام کرتا اور اپنے غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرماتا ہے یہ نہ سائنس کا نتیجہ ہے، نہ فلسفے کا نتیجہ ہے، نہ حساب کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے نہ سائنس پڑھی ہے ،نہ فلسفہ پڑھا ہے،نہ حساب پڑھا ہے تو ہمیں کسی سائنس یا فلسفہ یا حساب کی مدد کی ضرورت نہیںبلکہ وہ لوگ جو دن رات اِن علوم میں محو رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ اگر ہم اُس کے سامنے اپنے الہامات پیش کریں اور وہ اِن پر غور کرے تو ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ جائے گا۔ جیسے پروفیسر مولر جب میرے پاس آیا اور میں نے اُس سے سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیں تو وہ حقیقت کو سمجھ گیا۔ اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ میں مجھے قبل از وقت الہام کے ذریعہ کئی خبریں دی گئی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ اِس وجہ سے اُس کی راہ میں مشکلات تھیں لیکن اُس نے اتنا ضرور تسلیم کر لیا کہ اگر الہام ثابت ہو جائے تو پھر یہ مان لینا پڑے گا کہ جس تھیوری کو مَیں پیش کرتا ہوں وہ غلط ہے۔ جب اُس نے الہام کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو غلط مان لیا تو وہ جن کے سامنے الہام پورے ہوتے ہیں وہ ایسی تھیوری کو کب مان سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے ہی خدا کو مان سکتے ہیں جو قادر ہے، کریم ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، سمیع ہے، مجیب ہے، حفیظ ہے اِسی طرح اَور کئی صفاتِ حسنہ کا مالک ہے۔ اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو کون ردّ کر سکتا ہے۔ تو سائنس بھی اور فلسفہ بھی اور حساب بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے ایک تھیوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ان کو ماننے والا کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ غلط ہوں یا شاید یہ صحیح ہوں اسے قطعی اور یقینی وثوق ان علوم کی سچائی پر نہیں ہوسکتا لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر جو یقین ہے اور وہ ہر قسم کے شبہات سے بالاتر ہے وہ یقین ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے خدا! مَیں سورج کا انکار کر سکتا ہوں، میں اپنے وجود کا انکار کر سکتا ہوں مگر جس طرح تو مجھ پرظاہر ہوا ہے میں اِس کا کبھی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ وہ یقین ہے جو خدا پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتا ہے۔ مگر کیا ایسا یقین کسی سائنسدان کو اپنے کسی سائنس کے مسئلہ کی سچائی پر ہو سکتا ہے یا کیا ایسا یقین کسی حساب دان کو اپنے حسا ـب کے کسی مسئلہ کی سچائی پر ہو سکتا ہے؟ پہلے سمجھا جاتاتھا کہ حساب قطعی اور یقینی چیز ہے مگر اب نئی دریافتیں ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حساب کے متعلق بھی شبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مگر حساب سے عام سودے والاحساب مراد نہیں بلکہ وہ حساب مراد ہے جو فلسفہ کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور فلسفہ خود مشکوک ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں جو فلاسفر ظاہر ہوتا ہے اُس کے علوم کا انکار کرنے والا علومِ جدیدہ کا منکر قرار دیا جاتا ہے لیکن ابھی پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلسفی کھڑا ہو جاتا ہے جو اس پہلے فلاسفر کی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا اور نئے نظریات پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اُس وقت جو لوگ اُس کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لوگ اِن کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ علومِ جدیدہ کے منکر ہیں مگر پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اَور فلاسفر اِس تحقیق کو قدیم تحقیق قرار دے کر ایک نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور پہلی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ خدا کا وجود بھی غلط قرار دیا گیا ہو؟ یا کبھی کوئی نبی ایسا کھڑا ہوا ہو جس نے کہا ہو کہ خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں جو خیال پایا جاتا تھا وہ موجودہ تحقیق نے غلط ثابت کر دیا ہے؟
آدمؑ سے لیکر اَب تک ہمیشہ ایسے وجود آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے اور پھر دلائل و براہین سے اُس کے وجود کو ایسا ثابت کیا کہ دنیا اُن دلائل کا انکار نہ کر سکی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی طرف سے کھڑے ہوئے ہیں اور خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا۔ چنانچہ دنیا نے اُن کی مخالفت کی مگر خدا نے اُن کو کامیاب کر کے دکھا دیا اور اِس طرح ثابت کر دیا کہ اِس عالم کا حقیقتاً ایک قادر اور مقتدر خدا ہے جو اپنے پیاروں سے کلام کرتا اور مخالف حالات میں اُن کو کامیاب کرتا ہے۔ پس خدا کے وجود پر انبیاء کی متفقہ گواہی ایک قطعی اور یقینی شہادت ہے جو اُس کی ہستی کو ثابت کر رہی ہے۔ آج تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی تردید کی ہو۔
ہر سائنسدان پہلے سائنسدان کی تردید کرتا ہے، ہر فلاسفر پہلے فلاسفر کی تردید کرتا ہے، ہر حساب دان پہلے حساب دان کی تردید کرتا ہے مگر انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اُن کی تردید کرے، وہ اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کو باطل ثابت کرے۔ قرآن کریم نے اِس حقیقت کو اِن الفاظ میں پیش کیا تھا جسے عیسائیوں نے غلطی سے نہ سمجھا اور اعتراض کر دیا کہ ۲؎ یعنی دنیا میں ایک ہی سلسلہ ہے جس میں ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا ہے اِس کی تکذیب اور تردیدنہیں کرتا۔ آدمؑ سے لیکر حضرت محمد مصطفی ﷺ تک اور محمدﷺ سے لیکر مسیح موعود ؑ تک ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس نے پہلے انبیاء اور اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کا انکار کیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ پہلوں کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن دوسرے تمام علوم چونکہ ظنی ہیں، وہمی اور خیالی ہیں اِس لئے ہر نئی سائنس پہلی سائنس کی تردید کرتی ہے اور ہر نیا فلسفہ پہلے فلسفہ کی تردید کرتا ہے، ہر نیا حساب پہلے حساب کی تردید کرتا ہے۔ بیشک انبیاء کی تعلیمیں منسوخ بھی ہوتی ہیں مگر منسوخ ہونا اَور چیز ہے اور اِن تعلیموں کو غلط قرار دینا اَور چیز ہے۔ فلسفہ والے کہتے ہیں کہ فلاں زمانہ میں جو فلسفی گزرا تھا اُس کا فلسفہ غلط تھا کیونکہ نئی تحقیقات نے اِس کو باطل ثابت کر دیا ہے سائنسدان کہتے ہیں پہلے سائنسدانوں نے غلطی کی، اُنہوں نے فلاں فلاں مسائل بالکل غلط بیان کئے تھے۔اِسی طرح علمِ حساب کی تحقیق ہوتی ہے حساب دان یہ کہتے ہیں کہ فلاں حساب دان نے یہ غلطی کی تھی اور فلاں حساب دان نے وہ غلطی کی تھی لیکن دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہو اور اُس نے یہ کہا ہو کہ فلاں نبی نے غلط بات کہی تھی۔ انبیائے سابقین کی تعلیمیں بیشک منسوخ ہوتی رہی ہیں مگر منسوخ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ تعلیمیں غلط تھیں۔ اِن تعلیموں کے منسوخ ہونے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ وہ تعلیمیں اُس زمانہ کے لئے تھیں بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھیں۔
پس ہمیں ذاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سائنس اور فلسفہ اور حساب اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت ثابت کریں، اسلام اِن سب سے بالاہے لیکن چونکہ دنیا میں کچھ لوگ اِن وہموں میں مبتلا ہیں اور وہ اِن علوم کے رُعب کی وجہ سے اسلام کی تائید میں اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے اِس لئے اُن کی ہدایت اور راہ نمائی کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مرکز کھولیں اور اُن کی زبان میں اُن سے باتیں کرنے کی کوشش کریں اوراُنہیں بتائیں کہ علومِ جدیدہ کی نئی تحقیقاتیں بھی اسلام کی مؤید ہیں۔اسلام کی تردید کرنے والی اور اِس کو غلط ثابت کرنے والی نہیں ہیں۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے چونکہ یہ نیا کام ہے اِس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اِس کام میں دقتیں پیش آئیں لیکن ایک وقت آئے گا جب آہستہ آہستہ اِن علوم کے ذریعہ بھی اسلام کی صداقت دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل جائے گی اور لوگ محسوس کریں گے کہ علوم خواہ کس قدر بڑھ جائیں، سائنس خواہ کس قدر ترقی کر جائے اسلام کے کسی مسئلہ پر زد نہیں پڑ سکتی۔
دنیا میں ہمیشہ دشمن کے قلعہ پر پہلے گولہ باری کی جاتی ہے اور یہ گولہ باری فوج کا بہت بڑا کام ہوتا ہے لیکن جب گولہ باری کرتے کرتے قلعہ میں سوراخ ہو جاتا ہے تو پھر فوج اِس سُرعت سے بڑھتی ہے کہ دشمن کے لئے ہتھیار ڈال دینے کے سِوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔
ہم نے بھی کفر کے مقابلہ میں ایک بنیاد رکھی ہے اور ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے پُرانے زمانہ کی منجنیقیں اپنے ہاتھ میں لیکر کوئی شخص موجودہ زمانہ کے مضبوط ترین قلعوں کو سر کرنے کی کوشش کرے یا غلیلوں سے دشمن کو شکست دینے کا ارادہ کرے۔ ہم کو بھی جب دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ وہ عظیم الشان قلعے جو کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں، جن کی تعمیر میں بڑے بڑے قیمتی مصالحے صرف ہوئے ہیں، جن کو ایلیون پونڈر گنز (Eleven Pounder Guns)سیون ٹی فائیو ملی میٹر گنز(75 M. Meter Guns) بھی بمشکل سر کر سکتی ہیں، اِن قلعوں کو وہ اِن پتھروں یا غلیلوںسے کس طرح توڑ سکیں گے مگر جو خدا کی طرف سے کام ہوتے ہیں وہ اِسی طرح ہوتے ہیں۔ پہلے دنیا اُن کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے ایسا ہونا ناممکن ہے مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی دنیا کہتی ہے اِس کام نے تو ہونا ہی تھا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے۔ جب محمدرسول اللہ ﷺ آئے تو لوگوں نے اُس وقت یہی کیا کہ اِن دعووں کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ انہوں نے آپ کو مجنون کہا، انہوں نے آپ کے متعلق یہ کہا کہ اِس شخص پر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ہمارے بتوں کی *** پڑ گئی ہے مگر آج یورپ کے مصنفوں کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو، وہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں کے مقابلہ میںقیصر کی حکومت کو شکست ہو گئی، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں کسریٰ کی حکومت کو شکست ہو گئی، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم نہیں ٹھہر سکی تو اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور اُس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے جو محمدﷺ کی تائید میں تھے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمدﷺ کے زمانہ میں تو آپ کے دعویٰ کو پاگل پن اور جنون سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے دعویٰ کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تو اِس میں کون سی عجب بات ہے، زمانہ کے حالات اِس دعویٰ کے مطابق تھے اور لوگوں کی طبائع آپ کے عقائد کو تسلیم کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو چکی تھیں۔ یہی احمدیت کا حال ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا لوگ کہتے تھے کہ ناممکن ہے کہ یہ شخص دنیا پر فتح حاصل کر سکے، یہ اپنی آئی آپ مر جائے گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے یہ کہہ دیا کہ مَیں نے ہی اِس شخص کو بڑھایا تھا اور اَب میں ہی اِس کو گراؤں گا۔۳؎
مگر آپ کے سلسلہ کو دن بدن ترقی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ شخص جسے قادیان میں بھی لوگ اچھی طرح نہیں جانتے تھے، اُس کی جماعت پہلے پنجاب کے مختلف حلقوں میں پھیلنی شروع ہوئی۔ پھر پنجاب سے بڑھی اور افغانستان میں گئی، بنگال میں گئی، بمبئی میں گئی، مدراس میں گئی، یو۔پی میں گئی، سندھ میں گئی، بہار میں گئی، اڑیسہ میں گئی، سی پی میں گئی، آسام میں گئی اور پھر اِس سے بڑھ کر بیرونی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی۔ چنانچہ انگلستان میں احمدیت پھیلی، جرمنی میں احمدیت پھیلی، ہنگری میں احمدیت پھیلی، امریکہ میں احمدیت پھیلی، ارجنٹائن میں احمدیت پھیلی، یوگوسلاویہ میں احمدیت پھیلی، البانیہ میں احمدیت پھیلی، پولینڈ میں احمدیت پھیلی، زیکوسلواکیہ میں احمدیت پھیلی، سیرالیون میں احمدیت پھیلی، گولڈ کوسٹ میں احمدیت پھیلی، نائیجیریا میں احمدیت پھیلی، مصر میں احمدیت پھیلی، مشرقی افریقہ میں احمدیت پھیلی، ماریشس میں احمدیت پھیلی، فلسطین میں احمدیت پھیلی، شام میں احمدیت پھیلی، روس میں احمدیت پھیلی، کاشغر میں احمدیت پھیلی، ایران میں احمدیت پھیلی، سٹریٹ سیٹلمنٹس ۴؎ میں احمدیت پھیلی، جاوا میں احمدیت پھیلی، ملایا میں احمدیت پھیلی، چین میں احمدیت پھیلی، جاپان میں احمدیت پھیلی غرض دنیا کے کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دنیا میں کچھ پاگل لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اگر چند پاگلوں نے احمدیت کو مان لیا ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں مگر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ دنیا میں احمدیت کی ایسی مضبوط بنیاد قائم ہو جائے گی کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ احمدیت کی فتح کی امید ایک مجنونانہ خیال ہے بلکہ کہا جائے گا کہ احمدیت کو مار دینے کا خیال ایک مجنونانہ خیال ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ وہی لوگ جو آج احمدیت کی ترقی کو ایک ناممکن چیز قرار دے رہے ہیں جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ احمدیت ترقی کر گئی ہے، احمدیت ساری دنیا پر چھا گئی ہے، احمدیت نے روحانی لحاظ سے ایک انقلابِ عظیم پیدا کر دیا ہے، تو وہی لوگ کہیں گے احمدیت کی کامیابی اور اِس کی فتح کوئی معجزہ نہیں۔ اگر احمدیت فتحیاب نہ ہوتی تو کیا ہوتا اُس وقت یورپ اتنا مضمحل ہو چکا تھا، اُس وقت انسانی دماغ اتنا پراگندہ ہو چکا تھا، اُس وقت سائنس اپنی حد بندیوں کو توڑ کر اِس طرح کا ایک فلسفہ بن چکی تھی کہ اگر احمدیت نے فتح پائی تو یہ کوئی معجزہ نہیں۔ اُس وقت کے حالات ہی اِس فتح کو پیدا کر رہے تھے۔
پس یہ بیج جو ہم بو رہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ بیج پھیل جائے گا۔ ہمیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ بیج کبھی ضائع نہیں ہو گا ہم اِسے خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اِس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ بیج ایسا ہے جس میں سے ایک دن ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا ہے جس کے سایہ میں بیٹھنے کے لئے لوگ مجبور ہوں گے۔ اور اگر وہ نہیں بیٹھیں گے تو تپتی دھوپ میں وہ اپنے دماغوں کو جُھلسائیں گے اور انہیں دنیا میں کہیں آرام کی جگہ نہیں ملے گی۔
پس ہم جانتے ہیں کہ جس راستہ کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ ضرور ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے۔ کسی خیال کے ماتحت نہیں، کسی وہم اور گمان کے ماتحت نہیں بلکہ اُس علیم و خبیر ہستی کے بتانے کی وجہ سے یہ یقین ہمیں حاصل ہوا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی، جس کی بتائی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی۔
یہ ہو سکتا یہ کہ جن لوگوں پر اعتبار کر کے ہم نے انہیں اِس کالج میں پروفیسر مقرر کیا ہے، اِن میں سے بعض نااہل ثابت ہوں مگر اِن کے نااہل ثابت ہونے کی وجہ سے اِس کام میں کوئی نقص واقعہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دریا کے دہارے کے سامنے پتھر آ جائے تو وہ بہہ جاتا ہے مگر دریاکے دہارے کو وہ روک نہیں سکتا، اِسی طرح اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے یا اپنے کام کے لئے کوئی غلط طریق اختیار کرتا ہے وہ احمدیت کے دریا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کرتا ہے وہ مٹ جائے گا مگر جس دریا کو خدا نے چلایا ہے، جس کی حفاظت کے لئے اُس نے اپنے فرشتوں کو آپ مقرر کیا ہے دنیاکی کوئی طاقت اِس کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی۔ـ خواہ وہ یورپ کی ہو، خواہ وہ امریکہ کی ہو، خواہ وہ ایشیا کی ہو اور خواہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کی ہو۔ہمیں نظر آرہا ہے کہ خداتعالیٰ کے فرشتے یورپ میں بھی اُتررہے ہیں، امریکہ میں بھی اُتر رہے ہیں، ایشیا میں بھی اُتر رہے ہیں اور ہر شخص جو اِس مشن کا مقابلہ کرتا ہے، ہر شخص جو خداتعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو ردّ کرتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے آپ سامان کرتا ہے۔ آج اور کَل اور پرسوں اور ترسوں دن گزرتے چلے جائیں گے، زمانہ بدلتا چلا جائے گا، انقلاب بڑھتا چلا جائے گا اور تغیر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ روز بروز اِس سلسلہ کی راہ سے روکیں دور ہوتی جائیں گی، روزبروز یہ دریا زیادہ سے زیادہ فراخ ہوتا چلا جائے گا۔ دریا کے منبع کے پاس چھوٹے چھوٹے نالے ہوتے ہیں جن پر سے ہر شخص آسانی سے کود کر گزر سکتا ہے۔ مَیں نے خود جہلم کے منبع کے پاس ایسے نالے دیکھے ہیں اور مَیں خود بھی اِن نالوں پر سے کود کر گزرا ہوں مگر آہستہ آہستہ دریا ایسا وسیع ہوتا جاتا ہے کہ بڑے بڑے گاؤں اور بڑے بڑے شہر بہا کر لے جاتاہے۔ اِسی طرح ابھی ہم دریا کے منبع کے قریب ہیں۔
ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب لوگ ہماری جماعت کے متعلق سمجھتے تھے کہ یہ ایک نالے کی طرح ہے، جو شخص چاہے اِس پر سے کود کر گزر جائے مگر اَب ہم ایک نہر کی طرح بن چکے ہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کے بڑے سے بڑے دریا کی وسعت بھی اِس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائے گی۔ جب اِس کا پھیلاؤ اتنا وسیع ہو جائے گا، جب اِس کا بہاؤ اتنی شدت کا ہو گا کہ دنیا کی کوئی عمارت اور دنیا کا کوئی قلعہ اِس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکے گا۔
پس ہمارے پروفیسروں کے سپرد وہ کام ہیں جو خدا اور اُس کے فرشتے کر رہے ہیں۔ اگر وہ دیانتداری کے ساتھ کام کریں گے تو یقینا کامیاب ہوں گے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو ہم یہی دعا کریں گے کہ خدا اُنہیں توبہ کی توفیق دے اور اُنہیں محنت سے کام کرنے کی ہمت عطا فرمائے لیکن اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ اِس سلسلہ کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بن سکیں گے۔ جس طرح ایک مچھر بیل کے سینگ پر بیٹھ کر اُسے تھکا نہیں سکتا اِسی طرح ایسے کمزور انسان احمدیت کو کسی قسم کی تھکاوٹ اور ضعف نہیں پہنچا سکیں گے۔
جن سوالات کو اِس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے اِن سب کے متعلق میں ابھی فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک لباس کا سوال ہے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو آسان اور سہل الحصول بنانا چاہئے اور کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جسے طالبِ علم برداشت نہ کرسکیں تا ایسا نہ ہو کہ غریب لڑکے اِس بوجھ کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائیں۔
جہاں تک کھیلوں کا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ کالجوں میں بعض ایسی کھیلیں اختیار کر لی گئیں ہیں جن پر روپیہ بھی صرف ہوتا ہے اور صحت پر بھی وہ بُرا اثر ڈالتی ہیں۔ میں نے یورپین رسالوں میں پڑھا ہے انگلستان میں کھیلوں کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی جس نے بہت کچھ غور کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ ہاکی کے کھلاڑیوں میں سِل کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق تو آج کی گئی ہے لیکن مَیں نے آج سے ۲۱ سال پہلے اِس کی طرف توجہ دلا دی تھی اور میں نے کہاتھا کہ مَیں ہاکی سے نفرت کرتا ہوں یہ صحت کے لئے مضر ہے۔ اِس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جُھک کر کھیلنا پڑتا ہے۔۵؎
اِسی طرح بعض اور مواقع پر بھی مَیں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ہاکی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر کرتی ہے۔ ہاکی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں اس طرح باوجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا۔۶؎ جب میں نے یہ بات کہی اُس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ہاکی سے سینہ کمزور ہو کر سِل کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مگراب دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ اسی طرف آرہے ۔ عزیزم مرزا ناصر احمد کا ان الفاظ میں کہ:۔
’’ وہ تمام قومیں جوانگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ توجہ اتھلیٹکس (ATHLETICS) کی طرف رہتی ہے اور اِس وجہ سے ان قوموں کے طلباء کی صحتوں پر کوئی بُرا اثرنظر نہیں آتا‘‘
غالباً جرمنی کی طرف اشارہ ہے جہاں ان کھیلوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان کھیلوں پر روپیہ اور وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر صحت کو کم فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ ان کھیلوں کی بجائے انہوں نے جودوسری کھیلیں اختیار کی ہیں ان کا صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور روپیہ بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری کھیلوں کا رواج اب دن بدن بڑھ رہا ہے۔ انگریزی ممالک میں شاید اِس وجہ سے کہ وہاں کہر زیادہ ہوتی ہے اِس قسم کی کھیلوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے جو دوڑ دھوپ والی ہوں لیکن وسطی یورپ یا جنوبی یورپ میں اِن کا زیادہ رواج نہیں۔ میں یورپین کھیلوں میں سب سے کم مضر فٹ بال سمجھتا ہوں کیونکہ اِس سے سینہ پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ سینہ چوڑا اور فراخ رہتا ہے۔ ہاکی میں چونکہ دونوں ہاتھ بند ہوتے ہیں اُدھر سانس سینہ میں پھولتا نہیں اِس لئے ہاکی کے نتیجہ میں اکثر سینہ پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ کمزور ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاکی کو مضر سمجھتا رہا ہوں ۔ مگر اب چار پانچ سال ہوئے انگلستان میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ کی ہے کہ ہاکی پلیئر میں سِل کا مادہ نسبتاً زیادہ دیکھا گیا ہے۔
بہر حال یہ ایک ابتدائی کام ہے اور جیسا کہ بتایاگیا ہے ایسے لڑکے کالج میں نہیں آئے جو بڑے بڑے نمبروں پر پاس ہوئے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے پروفیسر کوشش کریں اور وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقاً ۷؎کے ماتحت اپنے فرض کی ادائیگی میں پوری طرح منہمک ہو جائیں اور وہ سمجھ لیں کہ تعلیمی طور پر تربیت تعلیم سے باہر نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ہی شامل ہے ہم نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو لڑکے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں، وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں، وہ اخلاقِ فاضلہ میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں تو یقینا وہ اِن اَنْ گھڑے جواہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خداتعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں، ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنائیں اور اِن کی مذہبی حالت بھی بہتر بنائیں۔
میں اِس موقع پر اساتذہ اور طلبا دونوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔ کئی باتیں اس قسم کی ہیں جو دوسرے کالجوں میں جائز سمجھی جاتی ہیں لیکن ہم اپنے کالج میں اُن باتوں کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور اِن افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ اگر کسی شخص کو کوئی شکایت پیدا ہو تو اسلامی طریق کے رُو سے یہ جائز ہے کہ وہ بالا افسر کے پاس اُس معاملہ کو پہنچائے اور حقیقت ظاہر کرے اور اگر وہ افسر توجہ سے کام نہ لے تو اُس سے بھی بالا افسر کے پا س اپیل کرے۔ یہ دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے اور وہ اس سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ ہمارا یہ طریق نہیں کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ہم کسی کی بات نہیں سنتے۔ ہم صداقت کو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کے منہ سے سُن کر بھی قبول کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ صداقت اگرایک چوہڑے کے منہ سے نکلے تو ہم اُس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر صداقت نہ ہو تو خواہ سارا کالج مل کر زور لگائے ہم وہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ پس جو روایت ہمارے سکول میں قائم ہے میں امید کرتا ہوں کہ کالج میں بھی اس کو قائم رکھا جائے گا۔ احمدی طالب علموں کے متعلق تومیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اِس پر پوری طرح قائم رہیںگے لیکن چونکہ اِس کالج میں دوسرے طالب علم بھی داخل ہوں گے اِس لئے امید کرتا ہوں کہ ہمارے احمدی طلباء اپنے اثر سے دوسروں کو بھی اِس روایت پر قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور کوئی ایسی حرکت نہیں ہونے دیں گے جو کالج کے نظام کے خلاف ہو اور جس سے یہ شبہ پڑتا ہو کہ زور اور طاقت سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ زور اور طاقت سے ماننے کے لئے یہاں کوئی شخص تیار نہیں ہے۔ دنیا میں لوگ زور اور طاقت سے اپنے مطالبات منواتے ہیں مگر وہ اُس وقت منواتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ دوسرا فریق زور اور طاقت سے مرعوب ہو جائے گا۔ اگر اُنہیں یہ یقین نہ ہو تو وہ زور اور طاقت استعمال کرنے کی جرأت بھی نہ کریں۔
واقعہ مشہور ہے کہ کوئی یتیم لڑکا جس کی ماں چکی پیس پیس کر گزار کیا کرتی تھی ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا مجھے دو آنے چاہئیں۔ اُس نے اُسے کہا میرے پاس تو صرف ایک آنہ ہے وہ لے لو۔ مگر لڑکا ضد کرنے لگا اور کہنے لگا میں تو دو آنے ہی لوں گا۔ وہ لڑکا اُس وقت چھت کی منڈیر پر بیٹھا تھا ماں کو کہنے لگا مجھے دو آنے دو ورنہ میں ابھی چھلانگ لگا کر مر جاؤں گا۔ اُس بیچاری کا ایک ہی لڑکا تھا وہ اُسے ہاتھ جوڑے، منتیں کرے اور بار بار کہے کہ بیٹا ایک آنہ لے لے اِس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں مگروہ یہی کہتا چلا جائے کہ مجھے دو آنے دے نہیں تو میں ابھی چھلانگ لگاتا ہوں۔ ماں نیچے کھڑی روتی جائے اور بچہ اوپر بیٹھ کر چھلانگ لگانے کی دھمکی دیتاچلا جائے۔ اُس وقت اتفاقاً گلی میں سے کوئی زمیندار گزر رہا تھا۔ وہ پہلے تو باتیں سُنتا رہا آخر اُس نے وہ آلہ جس سے توڑی ہِلائی جاتی ہے اور جسے سانگھا کہتے ہیں نکال کر اُس لڑکے کے سامنے کیا اور کہا تو اُوپر سے آ مَیں نیچے سے سانگھا تیرے پیٹ میں ماروں گا۔ لڑکا یہ سنتے ہی کہنے لگا میں نے چھلانگ تھوڑی لگانی ہے میں تو اپنی ماں کو ڈرا رہا تھا۔ تو اِس قسم کی باتیں وہیں سُنی جاتی ہیں جہاں زور اور طاقت سے دوسرے لوگ مرعوب ہوجاتے ہوں لیکن ہم وہ ہیں جنہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ صداقت خواہ ایک کمزور سے کمزور انسان کے منہ سے نکلے اُسے قبول کر لو اور صداقت کے خلاف کوئی بات قبول مت کروچاہے وہ ایک طاقتور کے منہ سے نکل رہی ہو۔ قادیان سے باہر بے شک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمارے سلسلہ کی کسی انسٹی ٹیوٹ میں اِس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جاسکتیں۔ پس ہمارے نوجوانوں کو خود بھی احمدیت کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے اور دوسرے نوجوانوں پر بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہاں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کیا جا سکتا جو دین کے خلاف ہو اور مذہبی روایات کے منافی ہو۔ ہم نے یہ کالج دین کی تائید کے لئے بنایا ہے اگر کسی وقت یہ محسوس ہو کہ یہ کالج بجائے دین کی تائید کرنے کے بے دینی کا ایک ذریعہ ثابت ہو رہا ہے تو ہم ہزار گنا یہ زیادہ بہتر سمجھیں گے کہ اِس کالج کو بند کر دیں بجائے اِس کے کہ بے دینی اور خلافِ مذہب حرکات کو برداشت کریں۔
اس کالج کے پروفیسروں کو بھی یہ امر مّدِنظر رکھنا چاہئے کہ بیرونی دنیا میں عام طور پر صداقت کو اُس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اِس بات کو پیش کر رہے ہیں۔ اگر ایک جتھہ کی طرف سے کوئی بات پیش کی جارہی ہو تو اُسے مان لیتے ہیں لیکن اگر ایک کمزور انسان کے منہ سے صداقت کی بات نکلے تو اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہمیں اِس طریق کے خلاف یہ عمل کرنا چاہئے کہ اگر صداقت صرف ایک لڑکے کے منہ سے نکلتی ہے توہم اِس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب تک سَو لڑکا اُس کی تائید میں نہیں ہوگا ہم اُسے نہیں مانیں گے بلکہ ہمیں فوراً وہ بات قبول کر لینی چاہئے کیونکہ صداقت کو قبول کرنے میں ہی برکت ہے اور صداقت کو قبول کرنے سے ہی قومی ترقی ہوتی ہے۔ یہ اَمر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا طریق سارے کا سارا اسلامی ہونا چاہئے بے شک ہندو ، سِکھ، عیسائی جو بھی آئیں ہمیں فراخ دلی کے ساتھ اُنہیں خوش آمدید کہنا چاہئے مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اُن کے اخلاق سرتاپا مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ اُن کی عادات مذہب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوں،اُن کے افکار مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، اُن کے خیالات مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ پس جہاں ہمارے پروفیسروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیں وہاں اُن کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ رات دن اِس کام میں لگے رہیں کہ لڑکوں کے اخلاق اور اُن کی عادات اور اُن کے خیالات اور اُن کے افکار ایسے اعلیٰ ہوں کہ دوسروں کے لئے مذہبی لحاظ سے وہ ایک مثال اور نمونہ ہوں۔ اگر خداتعالیٰ کی توحید کا یقین ہم لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ہندؤوں اور سِکھوں کو اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور سِکھ بھی خدا کے قائل ہیں۔ اگر ہم دہریت کو مٹاتے ہیں، اگر ہم خداتعالیٰ کی ہستی کا یقین لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کادرس اُن کو دیتے ہیں تو اُن کے ماں باپ یہ سُن کر بُرا نہیں منائیں گے بلکہ خوش ہوں گے کہ ہمارے لڑکے ایسی جگہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی مذہبی لحاظ سے بھی تربیت کی جارہی ہے۔ پس جہاں تک توحید کے قیام کا سوال ہے، جہاں تک مذہب کی عظمت کا سوال ہے، جہاں تک خدا تعالیٰ کی محبت کا سوال ہے مسلمان ، ہندو، سِکھ، عیسائی سب اِس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کو یہ تعلیم دی جائے کیونکہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی باتیں سکھاتا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں اِن باتوں پر اِس قدر زور دینا چاہئے کہ ہمارے کالج کا یہ ایک امتیازی نشان بن جائے کہ یہاں سے جو طالب علم بھی پڑھ کر نکلتا ہے وہ خدا پر پورایقین رکھتا ہے، وہ اخلاق کی حفاظت کرتا ہے، وہ مذہب کی عظمت کا قائل ہوتا ہے۔ اگر ایک ہندو یہاں سے بی۔اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خداتعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے، اگر ایک سِکھ یہا ں سے بی۔ اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خداتعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے، وہ دہریت کے دشمن ہوں، وہ اخلاق سوز حرکات کے دشمن ہوں، وہ مذہب کو نا قابل عمل قرار دینے والوں کے مخالف ہوں اور یورپین اثر سے پوری طرح آزاد ہوں۔ وہ چاہے احمدیت کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں مگر مذہب کی بنیادی باتیں اُن کے دلوں میں ایسی راسخ ہوں کہ اُن کو وہ کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں ۔
اِسی طرح ہمارے کالج کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر ایک عیسائی یا یہودی اِس جگہ تعلیم حاصل کرے تو وہ بھی بعد میں یہ نہ کہے کہ سائنس یا حساب یا فلسفہ کے فلاں اعتراض سے مذہب باطل ثابت ہوتا ہے بلکہ جب بھی کوئی شخص اِن علوم کے ذریعہ اس پر کوئی اعتراض کرے وہ فوراً اُس کا جواب دے اور کہے میں ایک ایسی جگہ سے پڑھ کر آیاہوں جہاں دلائل وبراہین سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اِس دنیا کا ایک خدا ہے جو سب پر حکمران ہے میں ایسے اعتراضات کاقائل نہیں ہوں۔
اگر ہم دہریت کی تمام شاخوں کی قطع وبرید کر دیں، اگر ہم خداتعالیٰ کی ہستی کا یقین کالج میں تعلیم پانے والے لڑکوں کے دلوںمیں اِس مضبوطی سے پیدا کر دیں کہ دنیا کا کوئی فلسفہ، دنیا کی کوئی سائنس او ردنیا کا کوئی حساب انہیں اِس عقیدہ سے منحرف نہ کر سکے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔
چونکہ اب شام ہو گئی ہے اِس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں لیکن میں آخر میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری نیت یہ ہے کہ جلد سے جلد اِس کالج کو بی ۔ اے بلکہ ایم۔اے تک پہنچا دیں اِس لئے کالج کے جو پروفیسر مقرر ہوئے ہیں اُنہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بڑھانے کا فکر کرنا چاہئے اورآئندہ ضروریات کے لئے اُنہیں ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے تاکہ جب بڑی کلاسز کھولی جائیں تو قواعد کے لحاظ سے اور ضرورت کے لحاظ سے اور تجربہ کے لحاظ سے وہ اُن کلاسز کو تعلیم دینے کے لئے موزوں ہوں اور اِس کام کے اہل ہوں اور چونکہ ہمارا منشاء آگے بڑھنے کا ہے اِس لئے جہاں کالج کے پروفیسروں کو اپنا تعلیمی معیار بلند کرنا چاہئے اور اپنے اندر موجودہ قابلیت سے بہت زیادہ قابلیت پیدا کرنی چاہئے وہاں انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب کالج میں وسعت پیدا ہو تو جو اچھے اور ہو نہار طالب علم ہوں اور دین کا جوش اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو اِس قابل بنائیں کہ وہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں اور ساتھ ہی اُن کے دینی جوش میں ترقی ہو تاکہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ صرف دنیا کمانے میں ہی نہ لگ جائیںبلکہ اِس کالج میں پروفیسر یا لیکچرار کا کام کر کے سلسلہ کی خدمت کر سکیں۔ پس ایک طرف وہ اعلیٰ درج کے ذہین اور ہوشیار لڑکوں کے متعلق یہ کوشش کریں کہ وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوں اور دوسری طرف اُنہیں اِس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ جب وہ اپنے تعلیمی مقصد کو حاصل کر لیں تو اس کے بعد اپنی محنت اور دماغی کاوش کا بہترین بدلہ بجائے سونے چاندی کی صورت میں حاصل کرنے کے اِس رنگ میں حاصل کریں کہ اپنے آپ کو مُلک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ اِس کے بغیر کالج کا عملہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
پس ایک طرف ہمارے پروفیسر خود علم بڑھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف آئندہ پروفیسروں کے لئے ابھی سے سامان پیدا کرنے شروع کر دیںاور نوجوانوں سے کہیں کہ وہ قوم کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ پھر خواہ اُنہیں کالج میں رکھ لیا جائے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر لگا یا جائے بہرحال ان کا وجود مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سکول میں مَیں نے دیکھا ہے جب افسروں کو اِس طرف توجہ دلائی گئی تو اِس کے بعد ہمیں سکول میں سے ہی ایسے کئی لڑکے مل گئے جنہوں نے اپنی زندگیاںسلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ـ میں امید کرتا ہوں کہ یہی طریق کالج میں بھی اختیار کیا جائے گا تاکہ جو طالب علم اِس کالج سے تعلیم پا کر نکلیں اُن کے متعلق ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ تعلیم کے بعد دین کے میدان میں ہی آئیں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ دنیا کمانے میں مشغول ہو جائیں اور تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہمارے کالج کا ہر طالب علم اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے پیش کردیتا ہے۔ صرف ہمارے بچے ہوئے طالب علم ہی دنیا کی طرف جاتے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم کو ئی کام کریں ہماری اصل دَوڑ مذہب کی طرف ہی ہونی چاہئے اَب میں دعاکر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور یہ بیج جو اِس مقام پر ہم بو رہے ہیں اِس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو، ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعتِ اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو جس کے ذریعہ کفر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اوراحمدیت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
(الفضل ۱۲،۱۴،۱۵، ۱۶ ؍فروری ۱۹۶۱ء)
۱؎ مولر MULLER PAUL HERMAN: (۱۸۹۹ء۔۱۹۶۵ء) سوئس محقق کیمیا۔ اِس نے ۱۹۳۹ء میں ڈی ڈی ٹی کے کرم کش خواص دریافت کئے۔ جس کے صلے میں اِسے ۱۹۴۸ء میں فعلیات اور طبّ کا نوبل انعام ملا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ ۱۶۴۶۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۲؎ البقرۃ: ۴۲
۳؎ اشاعۃ السنۃ جلد۱۳ نمبر۱ صفحہ ۳،۴ ۱۹۸۰ء
۴؎ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی۔ ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱صفحہ۷۴۱مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۵؎ الفضل ۱۱؍ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ۸
۶؎ الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء
۷؎ النّٰزعٰت:۲


غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرامؓ کا
قابلِ تقلید نمونہ




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرامؓ کا قابلِ تقلید نمونہ
(تقریر فرمودہ ۱۶؍جون ۱۹۴۴ء )۱؎
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
آج سے تیرہ سَو سال پہلے بلکہ اَب تو کہنا چاہئے ساڑھے تیرہ سَوسال پہلے ایک جنگل میںکچھ لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جمع کیا اور انہیں کہا ہمارے سامنے دو دشمن ہیں۔ ایک دشمن تو وہ قافلہ ہے جو شام سے مکہ والوں کے لئے غذاؤں کا سامان اور لباسوں کا سامان لارہا ہے اور ایک دشمن وہ ہتھیار بند فوج ہے جس کی تعداد ہماری تعداد سے کہیں زیادہ ہے اورایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مقابلہ غالباً اِس ہتھیار بند فوج سے ہوگا مجھے الٰہی اشارات سے یہی معلوم ہوتا ہے اَب تم لوگ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ ایک کے بعد دوسرا مہاجر اُٹھنا شروع ہوا اور ہر ایک نے یہی کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں آپ ہمیں آگے بڑھنے کا حکم دیجئے۔ جب کوئی مہاجر مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اے لوگو ! تم مجھے مشورہ دو جب متواتر آپ نے یہی ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! شاید آپ کی مراد ہم سے ہے۔ آپ متواتر فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو حالانکہ مشورہ آپ کو مل رہا ہے اور ہمارے کئی مہاجر بھائی کھڑے ہوکر اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں پس غالباً آپ کی مراد ہم انصار سے ہے کہ اس موقع پر ہم بولیں۔ آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے۔ اُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم اِس لئے چپ تھے کہ ہمارے اِن مہاجر بھائیوں کے بھائی ہم سے لڑنے کیلئے آئے ہوئے ہیں اور ہماری محبت اور شرافت چاہتی تھی کہ ہم خاموش رہیں تا یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اپنے بھائیوں کے بھائیوں کو مارنے کے لئے آمادہ بیٹھے ہیں۔ ورنہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ تو کوئی سوال ہی نہیں ہم ہر طرح لڑنے کے لئے آمادہ ہیں۔ پھر اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ جو بار بار فرما رہے ہیں کہ اے لوگ مجھے مشورہ دو تو شاید اِس سے آپ کا اشارہ بیعت عقبہ کی طرف ہے یعنی اُس پہلی بیعت کی طرف جو مدینہ میں ہوئی اور جس میں ہم نے اقرار کیا تھا کہ ہم آپ کی صرف اُس وقت مدد کریں گے جب آپ مدینہ میں ہوں گے اگر آپ مدینہ سے باہر لڑنے کیلئے جائیں گے تو ہم آپ کی مدد کے ذمہ وار نہیں ہوں گے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! جب ہم نے وہ عہد کیا تھا کہ ہم صرف اُسی وقت مدد کے ذمہ وار ہوں گے جب آپ مدینہ میں ہوں گے اگر مدینہ سے باہر نکل کر آپ کو کسی قوم کا مقابلہ کرنا پڑا تو ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہو گی، اُس وقت ہمیں آپ کی شان کا پوری طرح علم نہیں تھا اور اِسی وجہ سے ہم نے یہ شرطیں لگائی تھیں لیکن اَب جبکہ ہمیں آپ کی شان کا پتہ لگ چکا ہے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ مدینہ میں جنگ ہو یا مدینہ سے باہر ہو۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔۲؎
یہ اُس وقت کا جذبہء ایمان ہے جب ابھی رسول کریمﷺ کا نور پوراظاہر نہیں ہوا تھا۔ بہت سے معجزات ہیں جو اِس کے بعد ظاہر ہوئے، بہت سے نشانات ہیں جو اِس کے بعد ظاہر ہوئے، بہت سا حصہ قرآن کا ہے جو اِس کے بعد نازل ہوا۔ اگر ہر معجزہ انسان کے ایمان کو بڑھاتا ہے ، اگر ہر نشان انسان کے ایمان کو بڑھاتا ہے، اگر قرآن کی ہر آیت انسان کے ایمان کو بڑھانے والی ہے تو یقینا بعد میں اِن کے لئے اپنے ایمان بڑھانے کے زیادہ مواقع تھے۔ کیونکہ وہ اجمالی ایمان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انہیں حاصل ہوا تھا بعد میں تفصیلی ایمان کو جگہ دے کر ہٹتا چلا گیا اور آخر میں ایک ایسا تفصیلی ایمان اُن کو نصیب ہوا جس کا کوئی زاویہ، جس کا کوئی کونہ اور جس کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو مکمل نہ ہو۔ جس کی تعمیر نہ ہو چکی ہو اور جس کی تزئین و تحسین نہ ہو چکی ہو لیکن اِس ابتدائی زمانہ میں ہی اِس صحابیؓ نے یہ کیسا شاندار فقرہ کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ یہ اُس وقت انہوں نے کہا تھا جب رسول کریمﷺ جسمانی طور پر زندہ تھے، جب رسول کریمﷺ کے ہاتھوں میں یہ طاقت تھی کہ دشمن کے ہتھیار کے مقابلہ میں ہتھیار اُٹھا سکتے، جب آپ کے اندر یہ طاقت موجود تھی کہ آپ اُس کے حملہ کو روک سکتے ایسی صورت میں انسان کو اپنی حفاظت کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ضرورت اُس وقت ہوتی ہے جب وہ ہتھیار نہیں اُٹھا سکتا، مثلاً وہ سویا ہوا ہو۔ سویا ہوا انسان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا اُس وقت اُسے اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یا فرض کرو وہ غیر حاضر ہے اور اِس کی غیرحاضری میں کوئی شخص اُس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے تو اُس وقت بھی اُسے اپنے دوستوں کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ منہ دیکھے کی محبت جتانے کے لئے سارے ہی موجود ہوتے ہیں لیکن اصل محبت وہ ہوتی ہے جو غیبت میں ہوتی ہے۔ تو وہ وقت ایسا تھا جب رسول کریمﷺ اپنی جان کی خود بھی حفاظت کر سکتے تھے اور انہوں نے ایسا کر کے دکھا بھی دیا۔
اُحد کی جنگ میں جب ایک شدید دشمن آگے بڑھا اور رسول کریمﷺ کا نام لیکر کہنے لگا وہ خود کیوں میرے مقابلہ میں نہیں نکلتے۔ تو چونکہ وہ ایک مشہور اور تجربہ کار جرنیل تھا، صحابہؓ آپ کے اِردگرد اکٹھے ہو گئیـ مگر آپ نے فرمایا آگے سے ہٹ جاؤ اور اُسے آنے دو۔ جب وہ آپ کے سامنے آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا نیزہ بڑھا کر اُس کے سینہ کو چُھو دیا اور بہت ہلکا سا زخم لگایا مگر وہ اِس معمولی زخم سے ہی بھاگ اُٹھا اور درد سے اُس نے تڑپنا شروع کر دیا۔ جب لوگ اُسے کہتے تجھے ہوا کیا ہے، زخم تو بہت معمولی سا ہے تو وہ کہتا تمہیں کیا معلوم مجھے اِس زخم سے ایسی سخت تکلیف ہے کہ گویا وہ ہزار نیزوں کے زخموں سے بھی بڑھ کر ہے۔ ۳؎ تو رسول کریمﷺ خدا کی حفاظت میں تھے پھر بھی اِس دنیا میں آپ جب تک بقیدِ حیات تھے اور دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے آپ نے اُس کا مقابلہ کیا اور لوگوںکیلئے ایک نمونہ قائم کر کے دکھادیا۔
چنانچہ حنین کے موقع پر ہم دیکھتے ہیں ایک حادثہ کی وجہ سے قریباً سارے صحابہؓ میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ گئے اور صرف بارہ صحابہؓ آپ کے اِردگرد رہ گئے۔ اُس وقت حضرت عباسؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے مشورہ سے آپ کو پیچھے ہٹانا چاہا مگر آپ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو کہ مَیں آگے جاؤں گا۔ ۴؎ اِسی طرح صحابہؓ نے بھی وہ قربانیاں کیں جو عدیم المثال ہیں لیکن آج وہ زمانہ ہے کہ رسول کریمﷺ اِس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ آج آپ پر اعتراض کرنے والے لوگوں کا دفعیہ صرف آپ کے محب ہی کرسکتے ہیں۔ ایک وقت آپ دنیا میں موجود تھے لوگ اعتراض کرتے تو آپ اپنے صحابہؓ سے کہہ دیتے کہ اِن کو جواب دو۔ حسانؓ کو آپ کئی دفعہ کھڑا کر دیتے اور فرماتے اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ خدایا !تو حسانؓ کی اپنے نشانات سے مدد فرما۔ بعض دفعہ آپ انہیں بتاتے بھی کہ اِس طرح جواب دینا ایسا رنگ اختیار نہیں کرنا کہ ہم پر حملہ ہو جائے۔ یہ چیزیں سب موجود تھیں مگر اَب خدا کا وہ آخری شریعت لانے والا رسول ہم میں نہیں ہے اور جس قسم کا طعن اور جس قسم کا حملہ آج اسلام پر ہو رہا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا۔
آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے مکہ میں رہنے والے جن کو رسول کریمﷺ کی ہرحرکت کا پتہ تھا، جن کو رسول کریمﷺ کے ہر سکون کا پتہ تھا، جن کو آپ کے رات کے اعمال کا بھی پتہ تھا اور آپ کے دن کے اعمال کا بھی پتہ تھا، جن کو آپ کے معاملات کا بھی علم تھااور آپ کی عبادات کا بھی علم تھا، جنہیں آپ کی گفتگو کا بھی علم تھا اور آپ کے چال چلن کا بھی علم تھا، اُن سے جب رسول کریمﷺ نے پوچھا کہ اے لوگو! بتاؤ تم مجھے کیا سمجھتے ہو تو اُن سب نے کہا ہم آپ کو صدوق اور امین سمجھتے ہیں۔ مگر آج ساڑھے تیرہ سَو سال کے بعد یورپ کے نادان اور ظالم مصنف سینکڑوں صفحے بھر دیتے ہیں اِن دلیلوں سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایک فریب کار انسان تھے، ایک چالباز انسان تھے، آپ نے جھوٹا دعویٰ کیا اور جھوٹے دلائل سے لوگوں کو ورغلا ورغلا کر اپنی جماعت میں شامل کیا ۔ وہ جو شاہد و غائب کے جاننے والے تھے، اُنہوں نے تو آپ کو صدوق اور امین قرار دیا مگر آج ساڑھے تیرہ سَو سال کے بعد یورپین مصنف اُس کے بالکل اُلٹ محض اِس لئے کہ تلوار اِن کے ہاتھ میں ہے، طاقت اِن کے ہاتھ میں ہے، حکومت اِن کے ہاتھ میں ہے، فوجیں ان کے پاس ہیں، بنک ان کے پاس ہیں، جہاز ان کے پاس ہیں، اپنی حکومت اور طاقت کے نشہ میں اِس بَل بوتے پر کہ اَب اِن حملوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں، اِس بَل بوتے پر کہ وہ جتنی اشاعت اپنے لٹریچر کی کرنا چاہئیں کر سکتے ہیں اعتراضوں پر اعتراض بکھیرتے چلے جا رہے ہیں۔ پھر تعلیم بھی اِن کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ کالجوں میں لڑکے جب تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں تو انہی کی لکھی ہوئی کتابیںپڑھتے ہیں۔ ان کتابوں کے پڑھنے کے بعدجب وہ وہاں سے نکلتے ہیں تو رسولِ کریمﷺ کی محبت سے ان کے دل بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ایک تاجر جو لین دین کے لئے، جو سَودا خریدنے یا سَودا بیچنے کے لئے ان کی کوٹھیوں میں جاتا ہے جب وہ ان کی کوٹھیوں سے نکلتا ہے اُس کا دل رسول کریمﷺ کی محبت سے خالی ہوتا ہے یہی حال قریباً سب ایشیائی اور افریقن لوگوں کا ہے۔ کیونکہ اپنی روزی کمانے کے لئے یا نوکری حاصل کرنے کے لئے سب اِن کے محتاج ہیں اور جب بھی کوئی شخص اِن کی نوکری اختیار کرتا ہے اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُ اپنے دین اور ایمان کو بیچ دیتا ہے۔ اُس کا دل ایمان اور محبتِ رسول سے خالی ہو جاتا ہے۔ـ ایک مسلمان کو اِن کی نوکری کرتے ہوئے ایک چھوٹے سے چھوٹے عہدہ کے لئے بھی مذہب چھوڑنا پڑتا ہے بلکہ اُس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ دے۔ـ ابھی میری جیب میں ہی وہ خط پڑا ہے جوڈلہوزی سے چلتے ہوئے مجھے ملا۔ جب مَیں ڈلہوزی سے روانہ ہونے لگا تو مجھے پنجاب کے ریکروٹنگ افسر کا جو ایک انگریز ہیں خط ملا کہ انہیں بحری فوج کے افسر نے اطلاع دی ہے کہ آپ کے احمدی بعض دفعہ دوسروں کو تبلیغ کر بیٹھتے ہیں اِس لئے مجھے حکم ملا ہے کہ آئندہ احمدیوں کو بحری فوج میں بھرتی نہ کیا جائے قطع نظر اِس سے کہ ہم ایک قلیل جماعت ہیں یہ سلوک آج مسلمانوں کے ہر فرقہ سے ہو رہا ہے۔ خواہ وہ احمدی ہوں یا کوئی اور، کیونکہ مسلمان کمزور ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔ نزلہ جب گرتا ہے عضوِ ضعیف پر ہی گرتا ہے۔ اِس کے مقابلہ میں ایک انگریز سرمیور گورنر یو۔پی جس کے متعلق یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ ہر قوم سے عدل و انصاف کا سلوک کرے، جو بحری فوج سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کی طرح کوئی رنگروٹ نہیں تھا بلکہ ایک صوبے کا گورنر تھا اور گورنر کو ایسے امور میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی پھر بھی اُس نے اپنے مذہب کی تبلیغ کی۔ چنانچہ اسلام کے خلاف سب سے زیادہ کثیرالاشاعت کتاب سرمیور گورنر یو پی کی ہی لکھی ہوئی ہے۔ مگر کسی نے اُس سے نہیں پوچھا کہ کیا تم کو چھ ہزار میل دور دس ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ پر اِس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم مسلمانوں اور ہندوں اور سکھوں اور عیسائیوں کے درمیان عدل و انصاف کرو یا تمہیں اِس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے اکثر اوقات کو ایک ایسے کام کے لئے خرچ کرو جس سے مسلمان رعایا کے دل دُکھیں۔ پس فرق کیا ہے؟ فرق یہی ہے کہ احمدی رنگروٹ ایک کمزور اور ضعیف قوم کا فرد ہے لیکن سرمیور ایک حاکم قوم کا فرد ہے اِس لئے جو بات اِس کے لئے جائز ہے وہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں۔ ایک انگریزکے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ جائز ہے، ایک عیسائی کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ جائز ہے لیکن ایک احمدی کے لئے اپنے مذہب کی تبلیغ اِن کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ تو آج جس طرح رسول کریمﷺ پر حملے ہو رہے ہیں وہ کوئی مخفی بات نہیں بلکہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ ہم فلسفہ کی کتابوں کو اُٹھاتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں، ہم سائنس کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں۔ہم تاریخ کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اسلام کے خلاف نظر آتی ہیں۔ آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے قرآن نے مسلمانوں کو ایک سبق دیا تھا جس کو بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھلا دیا لیکن یورپ نے اِس کو اختیار کر لیا۔ قرآن نے بتایا تھا کہ۵؎ ہر شخص کے سامنے ایک مقصود اور مطمح النظر ہوتا ہے جو ہر وقت اُس کے سامنے رہتا ہے۔ یاد رکھو تمہارا بھی ایک مطمح نظر ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ تشتتِ قومی کے ماتحت کوئی کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے اور کوئی کسی مقصد کو یا فرمایا تھا۔ ۶؎ اے مسلمانو! تم مدینہ میں تو آ گئے ہو مگر یاد رکھو اسلام کی ترقی فتح مکہ کے ساتھ وابستہ ہے اِس لئے تم جہاں بھی جاؤ یہ مقصد تمہارے سامنے رہنا چاہئے کہ ہم نے چکر کاٹ کر بہرحال مکہ میں پہنچنا ہے اور جس طرح ہو اِس کو فتح کرنا ہے۔ جب تک یہ مرکز اور یہ قلعہ تمہیں حاصل نہیں ہو گا سارے عرب اور پھر ساری دنیا پر تمہیں غلبہ میسر نہیں آ سکے گا۔
یہ سبق آج سے ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے مسلمانوں کو دیا گیا۔ مسلمان اِس سبق کو بھول گئے لیکن یورپ نے اِس سبق کو سیکھا اور افسوس کہ کس ظالمانہ طور پر سیکھا۔ اُس نے دیکھ لیا کہ اسلام کا نقطۂ مرکزی محمد ﷺ کی ذات ہے۔ چنانچہ یورپ کا جو مصنف بھی اُٹھتا ہے محمدﷺ کی ذات پر حملہ شروع کر دیتا ہے۔ خواہ وہ فلسفہ کی کتاب لکھے، خواہ وہ سائنس کی کتاب لکھے، خواہ وہ تاریخ کی کتاب لکھے، وہ چاہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو لوگوں کی نظروں سے گرا دے۔ـ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو اِس نقطۂ مرکزی سے منحرف کر دے۔ سبق ہم کو سکھایا گیا تھا مگر اِس کا فائدہ کہو یا ناجائز فائدہ ہمارا دشمن اُٹھا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ مَیں نے بتایا ہے رسول کریمﷺ خود اپنے جسمِ اطہر کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہیں، ایک محبت کرنے والے مسلمان کی غیرت کتنی بھڑک اُٹھنی چاہئے ۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریمﷺ جہاں تک آپ کے فیوض کا تعلق ہے زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے، لیکن جہاں تک جسم کا تعلق ہے وہ فوت ہو چکے ہیں اور مَیں نہیں سمجھتا کہ کوئی باغیرت انسان ایسا ہو سکتا ہے جس کے زندہ باپ پر اگر کوئی شخص حملہ کرے تو وہ اُس کی حفاظت کے لئے آگے بڑھے لیکن اگر اُس کے باپ کی لاش پر کوئی حملہ کرے تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائے۔ یقیناجس طرح وہ اپنے زندہ باپ کی حفاظت کرے گا اِسی طرح اگر اُس کے اندر غیرت موجود ہے تو مَیں یقینا سمجھتا ہوں جب وہ اپنے باپ کی لاش پر کسی شخص کو حملہ کرتے دیکھے گا تو اُس کے اندر دیوانگی کی سی روح پیدا ہو جائے گی۔ مُردہ جسم بے شک کام نہیں آسکتا مگر اُس کے ساتھ جو محبت کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں وہ اُس کی قیمت زندہ سے بھی بڑھا دیتے ہیں یاد ِرفتہ اپنے اندر ایک ایسا درد رکھتی ہے، ایک ایسا اُبال رکھتی ہے کہ انسان اپنی ہر چیز ایک ساعت کے اندر فنا کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی کے زندہ باپ کو کوئی شخص مارے تو بھی اُسے غصہ آئے گا لیکن اگر یہ مشہور ہو جائے کہ کسی کے باپ کی لاش کو جوتیاں ماری گئی ہیں تو وہ کہے گا مَیں اب دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
جب محبانِ صادق نے رسول کریمﷺ کی زندگی میں یہ کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ تو اَب جبکہ رسول کریمﷺ فوت ہو چکے ہیں، اب جبکہ آپ کی عزت وناموس پر دشمن چاروں طرف سے حملہ کر رہا ہے، اَب جبکہ وہ خود دنیا میں اِن حملوں کا جواب دینے کے لئے موجود نہیں ہیں مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ سے سچی محبت رکھنے والے اِس صحابی سے سَو گنا زیادہ جوش سے بلکہ ہزار گنا زیادہ جوش سے یہ کیوں نہیں کہیں گے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ ہمارے اندر موجود نہیں ہیں مگر آپ کی عزت وناموس پر حملہ کرنے والا آپ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم اپنی عزت وناموس کو قربان کر دیں گے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے اور یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! جب تک دشمن ہماری عزت وناموس کو کچلتا ہوا نہیں گزرے گا آپ کی عزت وناموس تک وہ نہیں پہنچ سکتا۔ اگر ہم میں سے ہر شخص کے دل سے یہ آواز نہیں نکلتی، اگر ہم میں سے ہر شخص حنین کے غزوہ کی طرح دیوانہ وار لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آپ کی طرف نہیں دَوڑتا تو مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس کے اندر ایمان کا ایک شمہ بھی پایا جاتا ہے۔
غزوہ حنین کے موقع پر جب اسلامی لشکر میں انتشار پیدا ہوگیا تو رسول کریمﷺ نے حضرت عباس سے کہا عباس! آواز دو کہ اے انصار!اے بیعتِ رضوان میں شامل ہو نے والے لوگو! خدا کا رسول تم کو بُلاتا ہے صحابہ کہتے ہیں جب یہ آواز ہمارے کانوں میں پہنچی تو ہماری حالت یہ تھی کہ ہمارے گھوڑے میدانِ جنگ سے بھاگے چلے جارہے تھے۔ ہم انہیں روکتے تھے مگر وہ رُکتے نہ تھے، ہم اُونٹوں کو موڑتے تھے مگر وہ مڑتے نہ تھے۔ جب ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی کہ اے انصار! خدا کارسول تم کو بلاتا ہے تو جن کی سواریاں مڑسکیں انہوں نے اپنے پورے زور سے سواریاں موڑ لیں اور جن کی سواریاں نہ مڑیں انہوں نے تلواریں نکال کر اپنے اونٹوں اور گھوڑں کی گردنیں کاٹ دیں اور لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لَبَّیْکَ کہتے ہوئے پیدل ہی رسول کریم ﷺ کی طرف دوڑ پڑے۔ ۷؎ جب تک ہم یہی نمونہ نہیں دکھاتے جو غزوہ حنین کے موقع پر رسول کریمﷺ کی آواز کے جواب میں صحابہ کرامؓ نے دکھایا، جب تک روحانی طور پر اِس نظارہ کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہی آواز ہماری روح سے نہیں نکلتی کہ لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لَبَّیْکَ !ہم نہیںکہہ سکتے کہ ہم نے اپنے ایمان کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم کہیں یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم اِن حملوں کے دفاع کیلئے حاضر ہیں اُسی جوش اور اُسی اخلاص کے ساتھ حاضر ہیں جو صحابہ نے دکھایا۔ بلکہ ان کے جوش اور اخلاص سے بھی بڑھ کر ہم اپنے جذباتِ عقیدت کا اظہار آپ کی خدمت میں کرتے ہیں۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ہماری عزت وناموس آپ کی عزت وناموس پر قربان، ہماری عزتیں پہلے قربان ہوں گی، ہمارا ناموس پہلے کچلا جائے گااور دشمن آپ کی عزت وناموس تک اُس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری عزت وناموس کو کچل کر نہیں گزرتا۔
بے شک ان حملوں کے دفاع کے لئے تلوار ہمارے پاس نہیں مگر تلوار سے کب لوگوں کے دلوںکو تسکین ہو سکتی ہے۔ مسلمانوں نے تلوار استعمال کی اور سپین کھودیا۔ آج ہم قرآن استعمال کریں گے اور پھر خدا کے فضل سے سپین کو واپس لیں گے۔ مسلمانوں نے سپین اِس طرح کھویا کہ جب اسلامی حکومت کا زمانہ ممتد ہوگیا اور عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے خلاف کسی طرح عیسائی قوم میں جوش پیدا نہیں ہوتا تو انہوں نے مشورہ کر کے یہ تدبیرکی کہ بعض عیسائیوں کو جامع مسجد میں بھجوادیتے اور جب خطیب تقریر کر رہا ہوتا تو وہ کھڑے ہو کرناشائستہ الفاظ رسول کریم ﷺ کی ذات اور قرآن اور اسلام کے متعلق استعمال کرنا شروع کر دیتے۔ جس پر جوشیلے مسلمان انہیں وہیں قتل کر دیتے اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ جب یکے بعد دیگرے کئی عیسائی قتل ہونے شروع ہوگئے تو سارے عیسائیوں میں جوش پیدا ہوگیا۔ وہ اکٹھے ہو گئے اور اُنہوں نے مسلمانوں کو سپین سے نکال دیا۔اگر مسلمان عیسائیوں کی اِس تدبیر کے مقابلہ میں دانائی سے کام لیتے، اگر وہ عیسائیوں کو قتل کرنے کی بجائے اپنے آپ پر ماتم کرتے کہ ہم نے آٹھ سَو سال اِس ملک پر حکومت کر کے بھی یہاں کے رہنے والوں کو مسلمان نہیں کیا، ہم عمارتوں کی تکمیل میں تو لگے رہے، ہم سربفلک محلات تیار کرنے میں تو مشغول رہے، ہم اپنی عزتوں کے قائم کرنے میں تو مصروف رہے مگر ہم نے محمدﷺ کی عزت قائم کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عیسائی ہمارے منہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیا ںدے رہے ہیںاور پھر بجائے تلوار سے اُن لوگوں کو قتل کرنے کے اُن سے کہتے کہ بے شک تم نے سخت کلامی کی ہے مگر چونکہ ہمارے آقا کی یہی تعلیم ہے کہ ہم دشمن سے نرمی کا برتاؤ کریں اِس لئے ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے تو عیسائیوں کی ساری سکیم دھری کی دھری رہ جاتی اور اسلام کو سپین میں ایک نئی زندگی حاصل ہوتی مگر انہوں نے اپنی طاقت اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں یہ سمجھا کہ تلوار سے اُن کو کامیابی ہو جائے گی۔ حالانکہ یہاں دلوں کو فتح کرنے کا سوال تھا اور دلوں کو فتح کرنے کے لئے تلواریں کام نہیں دے سکتیں۔
غرض اِس وقت ضرورت اِس بات کی ہے کہ دشمن جب کہ چاروں طرف سے حملہ کر رہاہے رسول کریمﷺ کے محبین اِن حملوں کے دفاع کے لئے آگے بڑھیں۔ وہ اپنے وطنوں کی محبت کو بھول جائیں، وہ اپنے رشتہ داروں کی محبت کو بھول جائیں، وہ اپنی عزت اور اپنے مناصب، اپنے آرام اور اپنی سہولت کو مد نظر نہ رکھیں بلکہ جہاں ضرورت ہو، جہاں اسلام کے قلعہ پر حملہ ہو رہا ہو، یا جہاں دشمن کے قلعہ پر کامیاب حملہ کیا جا سکتا ہو وہاں جائیں اور اپنی زندگیاں اور اپنے اوقات اسلام کی ترقی اور اُس کی عظمت کے لئے قربان کر دیں۔ جیسا کہ میَں نے بتایا ہے آج ہمارے ایمانوں کے امتحان کا وقت ہے۔ پہلے لوگ آئے اور جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسم کی حفاظت کا سوال تھا وہاں انہوں نے اپنی جانوں کو قربان کرنے سے دریغ نہ کیا۔ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! دشمن آپ تک نہیںپہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوانہ گذرے۔آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی حفاظت کا سوال نہیں بلکہ آج رسول کریم ﷺ کی عزت اور آپ کے ناموس کی حفاظت کا سوال ہے۔ پس آج ہر سچے مومن کا فرض ہے کہ وہ دشمن کے اِس چیلنج کو قبول کرے اور اُسے کہے کہ باوجود تمہاری طاقت اور قوت کے، اور باوجود تمہاری شوکت کے مَیںتمہاری حقیقت ایک پر پشہ کے برابر بھی نہیں سمجھتا۔ اگر رسول کریمﷺ کے ننگ و ناموس پر حملہ کروگے تو پہلے تمہیں میرے ننگ وناموس کو چاک کرنا پڑے گا۔ ہر شخص جس کے دل میں یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا اُسے ایمانِ کامل حاصل نہیں بلکہ مَیں کہتا ہوں اُسے ایمانِ ناقص بھی حاصل نہیں کیونکہ محبت کا ایک ادنیٰ جذبہ بھی انسان کو بے تاب کر دیتا ہے۔
پس وہ مبلّغ جو تبلیغ کے لئے پہلے گئے ہوئے ہوں یا اَب جارہے ہیں مَیں اُن کو کہتا ہوں بے شک آپ لوگ وہ ہیں جنہیں رسول کریمﷺ کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنے کا پہلا موقع ملا مگر یاد رکھیں آپ اِس وقت اکیلے نہیں بلکہ ہر سچے احمدی کا دل آپ کے ساتھ ہے کیونکہ ہر سچا احمد ی اِس میدان میں اپنی شہادت کو بہترین انعام سمجھتا ہے اور ہر سچے احمدی کا دل اِس بات پر غمگین ہے کہ جو موقع اُن لوگوں کو ملا جو اِس میدان میں بڑھ چکے ہیں کاش! یہ موقع اُسے میسر آتا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو وہ اپنی چارپائی پر لیٹے ہوئے رو رہے تھے۔ اُن کا ایک دوست اُس وقت اُن کے پاس پہنچا اور کہنے لگا خالد! یہ رونے کا کونسا موقع ہے۔آج تو تمہارے لئے خوش ہونے کا دن ہے کہ خداسے انعامات لینے کا وقت آگیا۔ اُس نے سمجھا شاید خالد موت کے ڈر سے رو رہے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے کہا تم میری بات کو نہیں سمجھے کہ مَیں کیوں رو رہا ہوں۔ تم میرے سینہ پر سے کپڑا اُ ٹھاؤ۔ اُس نے کپڑا اُٹھا یا تو حضرت خالد نے کہا بتاؤ کیا میرے سینہ پر کوئی جگہ خالی ہے جہاں تلوار کے زخم نہ ہوں؟ اس نے کہا کوئی جگہ خالی نہیں ۔ حضرت خالد نے کہا اَب میری پیٹھ پَر سے کپڑا اُٹھاؤ۔ اُس نے کپڑا اُٹھایا تو انہوں نے پوچھا بتاؤ کیا میری پیٹھ پر کوئی جگہ ایسی ہے جو تلوار کے زخموں سے خالی ہو؟ اُس نے کہا کوئی جگہ خالی نہیں۔ حضرت خالد نے کہا اَب میرا پاجامہ اوپر اُٹھاؤ اور دیکھو کہ کیا میری ٹانگوں پر کوئی جگہ ایسی ہے جہاں تلوار کے زخم نہ ہوں؟اُس نے ایک ایک کرکے دونوں ٹانگوں پر سے پاجامہ اُٹھایا اور کہا کوئی جگہ خالی نہیں ہر جگہ تلوار کے زخموں کے نشان لگے ہوئے ہیںـ۔یہ نشانات دکھا کر حضرت خالد کہنے لگے میں نے ہر موت کی جگہ میں جہاں مجھے شہادت نصیب ہو سکتی تھی اپنے آپ کو نَڈر ہو کر ڈال دیا مگر مجھے شہادت نصیب نہ ہوئی ۔ اِس کے مقابلہ میں میرے بہت سے بھائی ایک ایک جنگ میں شریک ہوئے اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگئے ۔ لیکن مَیں جس نے ہر خطرہ میں اپنے آپ کوڈالا تھا آج رو رہا ہوں اور چارپائی پر مَررہاہوں ۔۸؎
خالد اپنی محبت اور اخلاص کی وجہ سے اپنی چارپائی پر مرنے کو بُرا محسوس کر رہا تھا لیکن عارف کی آنکھ جانتی ہے اور خداتعالیٰ کے مقّرب بندے سمجھتے ہیں کہ جہاں دوسروں کو ایک ایک شہادت کا ثواب ملا وہاں خالد کو بیسیوں شہادتوں کا ثواب مل چکا۔ صرف تلوار سے مرنا انسان کو انعام کا مستحق نہیں بناتا بلکہ شہادت کی خواہشِ شدید انسان کو شہید بنا یا کرتی ہے ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حمزہ تو شہید ہوئے لیکن محمدﷺ شہیدنہیں ہوئے مگر یہ بالکل غلط ہے۔ اگر حمزہ ایک دفعہ شہید ہوئے تھے تو محمدﷺ سینکڑوں بار شہید ہوئے۔ خود صحابہؓ کہتے ہیں جب اُن سے پوچھا گیا کہ تم میں سے سب سے بڑا بہادر کو ن تھا؟ تو اُنہوں نے کہا ہم میں سے سب سے بڑا بہادر وہ شخص سمجھا جاتا تھا جو جنگ میں رسول کریم ﷺکے پاس کھڑا ہوتا اِس لئے کہ دشمن اپنا سارا زور اِس بات پر صرف کردیا کرتا تھا کہ رسول کریم ﷺ کو شہید کرے۔ پس آپ کے پاس کھڑا ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پھر انہوں نے کہا رسول کریم ﷺ کے پا س کھڑے ہونے کا سب سے زیادہ موقع ابوبکرؓ کو ملتا تھا۔ تو صحابہ کرام کی گواہی ہے کہ رسول کریمﷺ سب زیادہ خطرے میں ہوتے تھے۔ اگرخداتعالیٰ کا ہاتھ ان کو بچا لیتا تھا اور آپ اپنی طرف سے جان دینے کے لئے تیار رہتے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ محمدﷺ شہید نہ ہوئے۔ محمد ﷺ تو ان سے ہزاروں گنا زیادہ شہادت کا ثواب لے گئے کیونکہ ہر موقع پر انہوں نے اپنا نفس قربان کرنے کے لئے پیش کر دیا۔ اگر انہیں ظاہری شہادت نصیب نہیں ہوئی تو اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں یہ خدا کا فعل ہے۔ خدا نے یہی چاہا کہ اُس کا رسول زندہ رہے اور لوگوں کی تربیت کاکام کرتا رہے۔ پس جو پیچھے رہنے والے ہیں اِن میں سے ہر سچا احمدی اپنے دل میں یہ درد رکھتا ہے کہ کاش! اِس میدان میں اُسے آگے جانے کا موقع ملتا۔جب نعمت اللہ خاں صاحب کابل میں شہید ہوئے تو میں اُن دنوں انگلستان میں تھا۔ مجھے جب ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو اُس وقت بے اختیار میری زبان پر یہ شعر آگیا کہ
خدا شاہد ہے اُس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں
مرا ہر ذرّہ تن جھک رہاہے اِلتجا ہو کر
پس ہر مومن کا دل اُدھر ہی مشغول ہے جس طرف وہ جارہا ہے اور ہر مومن کی دعائیں اُس کے ساتھ ہیں صرف اتنی بات ہے کہ خدا نے اِس کو اس خدمت کے لئے دوسروں سے پہلے چنا۔ ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ یہ انعام کے طور پر ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کا یہ انتخاب بطور انعام نہ ہو بلکہ بطور ابتلا ہو اِس لئے یہ بہت ہی خوف کا مقام ہے۔ انہیں دعاؤںاور زاری سے کام لیتے ہوئے آگے جانا چاہئے تاکہ وہ اپنی کسی غلطی اور قصور کی وجہ سے اس انعام کو عذاب میں نہ بدل لیںکیونکہ جہاں خدا کی طرف سے کام کے مواقع بہم پہنچائے جاتے ہیں وہاں کوئی موقع ایسا آتا ہے کہ انسان بخشا جاتا اور انعام کا مستحق ہوتا ہے اور کوئی موقع ایسا آتا ہے جب وہ پکڑا جاتا اور سزا پاتا ہے۔ اَب میں دعا کر دیتا ہوںدوست بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں۔
(الفضل ۲۷؍ فروری ۱۹۴۵ء)
۱؎ ۱۶؍جون ۱۹۴۴ء مجاہدینِ تحریک جدید نے چوہدری احسان الٰہی صاحب جنجوعہ مبلغ مغربی افریقہ کے اعزاز میں ایک دعوتِ چائے دی۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر فرمائی۔
۲؎ بخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالیٰ اذتستغیثون+ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۸۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۴؎ مسلم کتاب الجہاد باب غزوۃ حنین (مفہوماً)
۵؎ البقرۃ: ۱۴۸ ۶؎ البقرۃ: ۱۵۱
۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۸؎ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد۲ صفحہ ۱۴مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء


خلافت کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے
وابستہ رہو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خلافت کے ذریعہ خداتعالیٰ سے وابستہ رہو
(تقریر فرمودہ ۲۵؍جون ۱۹۴۴ء بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
انسانی زندگی بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب بنائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سِوا ساری ہی چیزیں اپنی جگہ پر ضروری بھی ہیں اور غیر ضروری بھی۔ جو خالصتہً ضروری چیز ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے۔ ہر چیز اپنے وقت میں اور اپنے ماحول میں ضروری نظر آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ ایک مرکز ہے دنیا کا جس کے گرد ساری دنیا چکر لگا رہی ہے مگر باوجود اِس کے پھر ایک وقت پر وہ چیز جاتی رہتی ہے ایک اثر اور ایک نشان تو وہ ایک عرصہ کے لئے چھوڑ جاتی ہے لیکن دنیا پھر بھی جاری ہی رہتی ہے۔ پھر نئے وجود دنیا میں پیدا ہو جاتے ہیں جن کے متعلق لوگ یہ خیال کرتے ہیںکہ شاید اِن کے بغیر اَب دنیا نہیں چل سکتی۔ پھر وہ مٹ جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے وہ اپنا اثر اور نشان چھوڑ جاتے ہیں مگر پھر خدا کی طرف سے اُس وقت کے ماحول کے ساتھ لوگوںکو ایک مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اِس کے بعد وہ خیال کرتے ہیںکہ اَب یہ نئے وجود نہایت ضروری ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں پیدا کیا اُس وقت ابھی دنیا کی ابتداء تھی۔ ابھی لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کیسی کیسی مخلوق دنیا میں بھجوانے والا ہے۔ خدا کا تازہ کلام اور ان معنوں میں تازہ کلام کہ اِس شکل میں اِس سے پہلے نازل نہیں ہوا تھا آدم پر اُترا اور لوگوں کے لئے ابھی ایمانیات سے باہر اور کوئی دلیل ایسی نہ تھی جس کی بناء پر وہ سمجھتے کہ یہ کلام پھر بھی دنیا میں اُترے گا اور انسان اپنے تجربہ کا غلام ہوتا ہے۔ جس وقت آدم کے ساتھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ آدم بھی ایک دن اِس دنیا سے گزر جائے گا وہ وقت اُن کے لئے کیساتکلیف دِہ ہوتا ہو گا۔ اِن کے لئے کوئی مثال موجود نہ تھی کہ آدم کا قائم مقام کوئی اور آدمی بھی ہو سکتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کے سارے فضلوں کو آدم ؑ میں ہی مرکوز دیکھتے تھے اور آدم سے بڑھ کر کسی اور وجود میں اِن فضلوں کا مشاہدہ کرنا اُن کے نزدیک خام خیالی تھی کیونکہ اور کوئی انسان انہوں نے نہیں دیکھا تھا جو آدمؑ سے بڑھ کر ہوتا۔ غرض آدمؑ جس کی تعلیم کا نشان سوائے قرآن کے اور کہیں نہیں ملتا، آدم جس کی تربیت کا نشان دنیا کی کسی تاریخ سے مہیا نہیں ہوتا وہ اُن لوگوں کیلئے اپنے زمانہ کے لحاظ سے ایسا ہی ضروری تھا جیسے حیات کے قیام کے لئے ہوا اور پانی ضروری ہوتا ہے۔ وہ آدم کو اپنی روحانی حیات کے قیام کا ذریعہ سمجھتے تھے اور روحانی حیات کو آدم کا نتیجہ قرار دیتے تھے مگر ایک دن آیا جب خدا کی قدرت نے آدم کو اُٹھا لیا۔ آدم کے مومنوں پر وہ کیسا تکلیف کا دن ہو گا۔ وہ کس طرح تاریکی اور خلا اپنے اندر محسوس کرتے ہوں گے مگر وہ نسل گزری اور اُس نسل کی نسل گزری اور اِسی طرح کئی نسلیں گزرتی چلی گئیں اور آدم کی قیمت اُن کے دلوں سے کم ہو گئی یہاں تک کہ وہ اُس وجود کو بھی بھول گئے جس کی وجہ سے آدم کی قدر وقیمت تھی یعنی انہوں نے خداتعالیٰ کو بھی بھلا دیا۔ اُس سے قطع تعلق کر لیا اور اُن کی ساری کوششیں دنیا میں ہی محدود ہوگئیں۔
تب خدا نے نوحؑ کو دنیا میں بھیجا۔ یا کم سے کم ہمارے لئے جس شخص کے ذکر کی ضرورت سمجھی گئی ہے وہ نوحؑ ہی ہے۔ درمیان میں بعض اور وجود بھی آئے ہوں گے مگر وہ اہم وجود جس کا قرآن نے ذکر کیا نوحؑ ہی ہے۔ نوحؑ کے زمانہ میں جو لوگ اُس پر ایمان لائے کس طرح انہیں محسوس ہوتا ہوگا کہ وہ تاریکی سے نکل کر نور کی طرف آگئے ہیں۔ وہ تنہائی کی زندگی کو چھوڑ کر ایک نبی کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اور اُس کی پُرمعرفت باتیں سن کر ان کے اندر کیسی زندگی پیدا ہوتی ہوگی، کیسا یقین پیدا ہوتا ہوگا، کتنی خوشی ہوتی ہوگی کہ کس طرح انہوں نے یہ غلط خیال کر لیا تھا کہ خداتعالیٰ کا کلام اور اُس کا نور اَب دنیا میں نہیں آئے گا۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ ہم کس طرح دنیا میں مشغول تھے کہ خدا کا ہاتھ پھر ہماری طرف لمبا ہوا اور اُس نے ہمیں تاریک گڑھوں سے نکال کر معرفت کی روشنی میںکھڑا کر دیا لیکن اُس زمانہ کے لوگ بھی یہ خیال کرتے ہوں گے کہ نوحؑ جیسی نعمت کے بعد اور کیا نعمت ہوگی، کون سی برکت ہوگی جو اُس کے بعد بھی آئے گی۔ وہ خیال کرتے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کی آخری نعمت ہم کو حاصل ہوگئی اَب ہماری زندگیاں خوشی کی زندگیاں ہیں اب ہم علیحدگی اور تنہائی کی بدمزگیوں سے بچ گئے۔ اَب خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم خداکے ساتھ ہیں لیکن پھر ایک زمانہ آیا جب خدا کی حکمتِ کا ملہ نے نوحؑ کو اُٹھا لیا۔ اُس وقت نوحؑ کے ماننے والوں کی جو کیفیت ہوگی اُسے ہم تو سمجھ سکتے ہیں جنہیں ایک نبی کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا مگر دوسرے لوگ اِس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ کس طرح چمکتا ہوا سورج اُن کے لئے تاریک ہوگیا ہو گا، کس طرح نور والا چاند اُن کے لئے اندھیرا ہوگیا ہوگا، کس طرح اللہ تعالیٰ کا روشن چہرہ جو ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اُنہیں دُھندلکے میں چھپا ہوا دکھائی دینے لگا ہوگا اور کس طرح دہ یہ خیال کرتے ہوں گے کہ دنیا اب ہلاکت کے گڑھے میں گر گئی۔ لیکن ابھی نوحؑ کا پیدا کردہ ایمان لوگوں کے دلوں میں موجود تھا اُس ایمان کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہوں گے کہ جس طرح آدمؑ کے بعداللہ تعالیٰ نے نوحؑ کو کھڑا کر دیا اِسی طرح شاید نوحؑ کے بعد کسی اور کو کھڑا کر دے۔ پس وہ ایک ہلکی سی امید اپنے دل میںرکھتے ہوں گے گویہ امید اپنے ساتھ ایسا زخم رکھتی ہوگی، ایسا درد اور اضطراب رکھتی ہوگی جس کی مثال انبیاء کی جماعتوں کے باہر اور کہیں نہیں مل سکتی۔
پھر خداتعالیٰ کے فضل نے نہ معلوم کتنے عرصے کے بعد، کتنے تغیرات کے بعد، کتنی چھوٹی چھوٹی روشنیوں کے بعد ابراہیم ؑ کو پیدا کیا اور پھر وہی کیفیت جو نوحؑ کے زمانہ میں لوگوں پر گزری تھی ابراہیم ؑ کے زمانہ میں دکھائی دینے لگی۔ اب لوگوں کی دماغی ترقی کو دیکھ کر خدا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پے درپے اپنے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے چنانچہ ابراہیم ؑ کے بعد اسحاقؑ کو ایک مُلک میں اور اسماعیل ؑ کو دوسرے مُلک میں کھڑا کیا گیا۔ پھر یعقوبؑ آئے پھر یوسفؑ آئے اور یہ سلسلہ چلتا چلا گیا اور لوگ نورِ ہدایت سے منور ہوتے رہے۔ مگر پھر ایک ایسا وقت آیا جب دنیا تاریکی کے گڑھوں میں گر گئی، گمراہی میں مبتلا ہوگئی،خداتعالیٰ کے تازہ نشانوں سے محروم ہوگئی اور یہ دورِ ضلالت جاری رہا یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اُنہوں نے بندوں کا خدا سے پھر تازہ عہد باندھا۔ اِس کے بعد پے درپے انبیاء لوگوں کی ہدایت کے لئے آتے رہے۔داؤد ؑ آئے، سلیمانؑ آئے، الیاسؑ آئے، یحییٰ ؑ آئے، عیسیٰ ؑ آئے اور آخر میں ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے۔ جس طرح آدمؑ کے زمانہ میں لوگوں کو یہ احساس تھا کہ خدا نے ایک نیانور پیدا کیا ہے، ایک نئی چیز دنیا میں ظاہر کی ہے اور وہ خیال کرتے تھے کہ ایسی چیز پھر دنیا میں کب آسکتی ہے وہ اپنے تجربہ کے مطابق آدمؑ کو ہی اوّل الانبیاء اور آدمؑ کو ہی آخر الانبیاء سمجھتے تھے۔ اِسی طرح کا احساس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ بات یہ ہے کہ سارے ہی نبی اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ہر نبی کی اُمت یہی سمجھ لیتی ہے کہ یہ نبی آخری نبی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام فوت ہوگئے تو اُن کی قوم نے کہا اب یوسف کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔۱؎ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء خداتعالیٰ کی مہربانی اور اُس کی شفقت اور اُس کی عنایت اور اُس کی رأفت کاایسا دلکش نمونہ ہوتے ہیں کہ اُن کو دیکھنے کے بعد لوگ یہ خیال بھی نہیں کرسکتے کہ ایسے وجود دُنیا پھر بھی پیدا کرسکتی ہے۔
لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود تو ایسا تھا جس کے متعلق یہ دعویٰ بھی موجود تھا کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کی شریعت آخری شریعت ہے۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک تو اِس کے یہ معنی تھے کہ آپ آخری شرعی رسول ہیں اوریہ کہ اب دنیا میں جو بھی رسول اور مصلح آئے گا وہ آپ سے روحانی فیوض حاصل کرکے اور آپ کا غلام اور شاگرد بن کر آئے گا۔ مگر جو دیکھنے والے تھے جن کو ابھی آئندہ کا تجربہ نہیں تھا اُن میں سے بعض شاید یہی سمجھتے ہوں کہ آپ دنیا کے لئے آخری روشنی ہیںاور وہ یہی خیال کرتے ہوں کہ اِس روشنی کو خدا اب واپس نہیں لے گا اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا خیال بھی اُن کے لئے ایک ایسا صدمہ تھا جن کو برداشت کرنا اُن کی طاقت سے بالکل باہر تھا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو یہ بات صحابہ کے لئے اِس قدر صدمہ کا موجب ہوئی کہ وہ لمبی تعلیم جو متواتر تیئیسسال تک خدا کا رسول اُن کو دیتا رہا اُس کو بھی وہ بھول گئے۔ جس رسول نے بڑے زور سے اُن پر یہ واضح کیا تھا کہ مرنے کے بعد انسان اِس دنیا میں واپس نہیں آتا، جس رسول نے بڑے زور سے واضح کیا تھاکہ ہر انسان جو اِس دنیا میں آیا وہ ایک دن مرے گا اور جس رسول کے کلام میں یہ بات موجود تھی کہ ایک دن وہ خود بھی مرنے والا ہے اُس کی اُمت کے ایک جلیل القدر فرزند نے کہنا شروع کر دیا کہ جو شخص کہے گا محمد رسول اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اُس کی تلوار سے گردن اُڑا دی جائے گی۔۲؎ ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کا زمانہ نہیں دیکھا شاید اِس پر تعجب کرتے ہوں گے اور یہ واقعہ پڑھ کر اُن کو خیال آتا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ کو یہ خیال کیونکر پیدا ہوگیا کہ آپ فوت نہیں ہو سکتے۔مگر جب وہ اِس نقطہ نگاہ سے دیکھیں گے تو اِس بات کا سمجھنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا کہ جن وجودوں سے شدید محبت ہوتی ہے اُن کی جدائی کا اِمکان بھی دل پر گراں گزرتا ہے اور جب وہ وقت آجاتا ہے جس کا تصور بھی انسان کو بے چین کر دیتا ہے تو عارضی طور پر انسان پر ایک سکتہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ کیا ہی سچے جذبات کا آئینہ ہے حسانؓ کا وہ شعر جو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا جب آپ کی وفات اُن پر ثابت ہوگئی تو انہوں نے کہا ع
کُنْتَ السَّوَا دَ لِنَاظِرِیْ۔ فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ۔ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۳؎
یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو میری آنکھ کی پتلی تھے آج آپ فوت ہوئے تو میری آنکھ بھی جاتی رہی۔ یادرکھنا چاہئے کہ اِس شعر کی عظمت اور اِس کی خوبی کا اِس امر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شعر کہنے والا آخری عمر میں نابینا ہوگیا تھا اور اندھے کی نظر پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے۔ پس اُس کے یہ کہنے کا کہ آپ میری آنکھ کی پتلی تھے آپ کی وفات سے مَیں اندھا ہوگیا مطلب یہ تھا کہ باوجود اِس کے کہ مَیں اندھا تھا آپ کی موجودگی میں مجھے اپنا اندھا پن بُرا معلوم نہیں ہوتا تھا، بے شک میں نے اپنی جسمانی آنکھیں کھودی تھیں مگر مَیں خوش تھا، مَیںشاداں تھا، مَیں فرحاں تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ میری روحانی آنکھیں موجود ہیں، مجھے وہ پتلی حاصل ہے جس کے ساتھ میں اپنے خدا کو دیکھ سکتا ہوں۔ اگر میری جسمانی آنکھیں نہیں ہیں، اگر میں لوٹے اور گلاس کو نہیں دیکھ سکتا تو کیا ہوا مجھے وہ پتلی تو ملی ہوئی ہے جس سے مَیں اپنے پیدا کرنے والے خدا کو دیکھ سکتا ہوں۔ بھلا لوٹے اور گلاس اور رنگ کو دیکھنے میں کیا مزا ہے۔ مزا تو یہ ہے کہ انسان اپنے خدا کو دیکھ سکے لیکن آج جب وہ پتلی مجھ سے لے لی گئی ہے، جب وہ عینک مجھ سے چھین لی گئی ہے تو فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗاے لوگو! تم مجھے پہلے اندھا کہا کرتے تھے لیکن حقیقتاً میں اندھا آج ہوا ہوں۔ مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْمیری بیوی بھی ہے، میرے بچے بھی ہیں اور عزیز اور رشتہ دار بھی ہیں مگر اب مجھے کوئی پروا نہیں کہ اُن میں سے کون مر جاتا ہے جو بھی مرتا ہے مر جائے اُس کی موت میرے لئے اس نقصان کا موجب نہیں ہو سکتی جس نقصان کا موجب میرے لئے یہ موت ہوئی ہے۔ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! میں تو اِسی دن سے ڈرتا تھا کہ میر ی یہ بینائی کہیں چھینِ نہ لی جائے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کی تاریکیوں سے لوگوں کو نکالا، جس قسم کی تباہیوں سے عربوں کو بچایا، جس قسم کی ذلّت سے اور رُسوائی سے نکال کر ان کو ترقی کے بلند مقام تک پہنچایا اُس کو دیکھتے ہوئے آپ کے احسانوں کی جو قدروقیمت صحابہ کے دل میں ہوسکتی تھی وہ بعد میں آنے والے لوگوں کے دلوں میں نہیں ہوسکتی۔ مگر پھر بھی دنیا چلی اور چلتی چلی گئی یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صرف زبانوں پر رہ گئی دلوں میں سے مٹ گئی۔خداتعالیٰ کا نور کتابوں میں تو رہ گیا مگر دماغوں میں سے جاتا رہا۔ دنیا خدا کو بھول گئی اور اُس کی لذتیں دنیا سے ہی وابستہ ہوگئیں۔ جس طرح کسی درخت کو ایک زمین سے اُکھیڑ کر دوسری جگہ لگادیا جاتا ہے اِسی طرح خدا کی زمین میں سے لوگوں کی جڑیں اُکھڑ گئیں اور شیطان کی زمین میں جا لگیں، ان کا ماحول شیطانی ہوگیا اور اُن کی تمام لذت اور اُن کا تما م سرور شیطانی کاموں سے وابستہ ہوگیا۔
تب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا۔ دنیا اِن کی بعثت پر حیران رہ گئی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب خداتعالیٰ کے انعامات کو اِس رنگ میں پانے والا کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر خدا اور بندے کو آمنے سامنے کر دے کوئی نہیں آسکتا۔ جن لوگوں کی آنکھیں کھلی تھیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا آپ پر ایمان لائے اور انہوں نے یوں محسوس کیا جیسے ایک کھویا ہوا بچہ اپنی ماں کی گود میں بیٹھ جاتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو صدیوں سے خداسے دُور جا چکے تھے اِس شخص کے ذریعہ خدا کی گود میں جابیٹھے ہیں۔ اُن کی خوشیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا،اُن کی فرحت کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کے کسی نبی کا مبعوث ہونا نا ممکن ہے جہاں اُن کے غصہ کی کوئی حد نہ تھی وہاں مومنوں کی خوشی اور اُن کی مسرت کی بھی کوئی حد نہ تھی اور اُنہوں نے یہ خیال کرنا شروع کر لیا کہ اتنے صدموں کے بعداب کوئی اور صدمہ انہیں پیش نہیں آئے گا۔ چنانچہ ہر شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لاتا تھا اِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہُجس کا ایمان ابھی اپنے کمال کو نہیں پہنچا تھا یہ تو نہیں سمجھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت نہیں ہوں گے مگر ہر شخص یہ ضرور سمجھتا تھا کہ کم سے کم میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگی۔
مگر ایک دن آیا کہ ہر شخص جو یہ سمجھ رہا تھا کہ میری موت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوں گے اُس نے دیکھا کہ وہ تو زندہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اُٹھا لیا۔ وہ وقت پھر اُن لوگوں کے لئے جو سچے مومن تھے نہایت مصیبت کا وقت تھااور یہ صدمہ ایسا شدید تھا کہ جس کی چوٹ کو برداشت کرنا بظاہر وہ ناممکن خیال کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چیز آتی ہے اُسے بہر حال لینا پڑتا ہے اور انسان کو نئی حالت کے تابع ہونا پڑتا ہے اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاتھا کہ:
’’اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھادے سو اَب ممکن نہیں ہے کہ خداتعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اِس لئے تم میری اِس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہوجائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی‘‘۔۴؎
اللہ بہتر جانتا ہے کہ جماعت کی یہ حالت کب تک رہے گی، کب تک خدا کا نور ہمارے درمیان موجودرہے گا، کب تک ہم اپنے آپ کو اِس نور سے وابستہ رکھیں گے،مگر بہرحال یہ لمبا سلسلہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک کے بعد ایک چیز آئی۔ لوگ جب پہلی چیز کو بھول جاتے ہیں تو خدا دوسری چیز کو بھیج دیتا ہے اور دنیا کی خوشی اور اُس کی شادمانی کا سامان مہیا کردیتا ہے لیکن ایک چیز ہے جو شروع سے آخر تک ہمیں تمام سلسلہ میں نظر آتی ہے۔ آدمؑ آیا اور آدم کے ساتھ خدا آیا۔آدمؑ چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اِس دنیا میںموجود رہا، نوحؑ آیا اور نوحؑ کے ساتھ خدا آیا۔ نوحؑ چلا گیا لیکن ہمارا زندہ خدا اِس دنیا میں موجود رہا، ابراہیم آیا اور ابراہیم کے ساتھ خدا آیا ابراہیم فوت ہوگیا لیکن ہمارا زندہ خدا اِس دنیا میں موجود رہا۔ اِسی طرح اسماعیل ؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ، یوسفؑ ،موسیٰ ؑ ،عیسیٰ ؑ اور آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میںسے ہر ایک کے ساتھ خدا آیا۔ اُن میں سے ہر شخص فوت ہوگیا لیکن ہمارا خدا زندہ رہا، زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ ہر شخص جواُس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے وہ ہمیشہ اپنی جڑیں اِس زمین میں پائے گا جو خدا کی رحمت کے پانی سے سیراب ہوتی ہے۔ اُس پودے کی طرح اپنے آپ کو نہیں پائے گا جس کی جڑیں اچھی زمین میں سے اُکھیڑ کر ایک خراب اور ناقص زمین میں لگا دی جاتی ہیں۔
پس یاد رکھو! جسمانی تناسل انسان کو موت اور فنا کی طرف لے جاتا ہے گو وہ انسان کے لئے خوشی کا بھی موجب ہوتا ہے، راحت کا بھی موجب ہوتاہے مگر روحانی تناسل جس کے ذریعہ ایک پاک انسان دوسرے پاک انسان کو پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے دنیا سے رنج اور غم کو بالکل مٹا دیتا ہے کیونکہ اِس تعلق کیلئے موت نہیں، اِس تعلق کیلئے فنا نہیں اور اگر بنی نوع انسان چاہیں تو وہ اپنی زندگی کو دائمی زندگی بناسکتے ہیں۔ جس کاطریق یہی ہے کہ ہر نسل قدرتِ ثانیہ کے مظاہر کے ذریعہ اِس طرح خدا تعالیٰ سے وابستہ رہے جس طرح پہلی نسل اُس سے وابستہ رہی ہو بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر۔ کیونکہ روحانی تناسل کا انقطاع ایک موت ہے لیکن جسمانی تناسل کا انقطاع صرف ایک عارضی صدمہ۔
تم عیسائیوں کو دیکھ لو انہیں تم کچھ کہہ لو۔چا ہے اُن کو خدا کا منکر کہو، چاہے اُن کو صلیب پرست کہو، چاہے اُن کو مشرک کہو اور چاہے اُن کو ضالّین کہہ لو مگر ایک مثال اُن کے اندر ایسی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کی آنکھ اُن کے سامنے جھک جانے پر مجبور ہوجاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ تمہارے اندر خلافت قائم کی جائے گی اور اِس وعدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر خلافت قائم بھی کی لیکن مسلمانوں نے خداتعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کو اپنی نادانی سے اُڑا دیااور عیسائیوں نے خود خلافت قائم کی جو اُنیس سَو سال کا لمبا عرصہ گزارنے کے باوجود آج تک اُن کے اندر قائم ہے۔ عیسائیوں کے پوپ کو دیکھ لو اُس کو وہ خلیفہ کے برابر ہی سمجھتے ہیں اور باوجود یکہ مذہب نے اُن کو کوئی ہدایت نہیں دی تھی انہوں نے خداتعالیٰ کی گزشتہ سنت کو دیکھتے ہوئے اِسی میں اپنی بہتری سمجھی اور کہا آؤ ہم اس خدا ئی سنت سے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے اندر خلافت قائم کریں۔ وہ قوم دینی لحاظ سے بالکل تباہ ہو گئی، وہ قوم اچھے اعمال کو کھو بیٹھی، اس قوم نے اپنے آپ کو کُلّی طور پر دُنیوی رنگ میں رنگین کر لیا، اس قوم نے خداتعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کی لیکن اُنہوں نے آج تک اِس چیز کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے کہ آج بھی ان کا پوپ یورپ کے بڑے سے بڑے تاجدار اور شہنشاہ کی برابری کرتا ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بادشاہت ہمیں پوپ سے ہی پہنچی ہے۔ یہ وہ چیز تھی جو اُن کی کامیابی کا موجب ہوئی۔ اگرمسلمان بھی اِس کو قائم رکھتے تو آج اِن کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ اِنہوں نے خلافت کو اُڑا دیا اورپھر اپنے دلوں کو تسکین دینے کے لئے ہر بادشاہ کو خلیفہ کہنا شروع کر دیا مگر کُجا لکڑی کی بنی ہوئی بھینس اور کُجا اصل بھینس ۔ لکڑی کی بنی ہوئی بھینس کو دیکھ کر کوئی شخص خوش نہیں ہو سکتالیکن وہ اپنی اصل بھینس کو دیکھ کر ضرور خوش ہوتا ہے چاہے وہ کتنی ہی لاغر اور دُبلی پتلی کیوں نہ ہو اور چاہے وہ دودھ دے یا نہ دے۔
مسلمانوں نے چونکہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ خلافت کی ناقدری کی اور اُسے اُڑا دیا اور پھر اِس کی برکات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوئے دُنیوی بادشاہوں کو خلیفہ کہنا شروع کردیا اس لئے وہ خلافت کی برکات سے محروم ہوگئے۔ اب یہ ہماری جماعت کا کام ہے کہ وہ اِس غفلت اور کوتاہی کا ازالہ کرے اور خلافت احمدیہ کوایسی مضبوطی سے قائم رکھے کہ قیامت تک کوئی دشمن اِس میں رخنہ اندازی کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جماعت اپنی روحانیت اور اتحاداور تنظیم کی برکت سے ساری دنیا کو اِسلام کی آغوش میں لے آئے۔
بے شک جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ دنیا چلتی چلی جاتی ہے اور ایسے رنگ میں جاری ہے کہ ہرزمانہ کے لوگ اپنے آپ کوپہلوں سے ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ مرنے والے مر جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں اب کیا ہوگا؟ لیکن ابھی ایک صدی بھی نہیں گزرتی کہ لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں اَب ہم زیادہ عقلمند ہیں پہلے لوگ جاہل اور علومِ صحیحہ سے بے بہرہ تھے ۔ گویا وہی جن کے متعلق ایک زمانہ میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا انہیں آئندہ آنے والے احمق اور جاہل قرار دیتے ہیں لیکن روحانی تعلق ایسا نہیں ہوتا کہ اِس میںایک دوسرے کو جاہل کہا جاسکے نہ یہ تعلق اِس قسم کی مایوسی پیدا کرتا ہے جس قسم کی مایوسی جسمانی تعلق کا انقطاع پیدا کرتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص خدا سے تعلق پیدا کرلیتا ہے اُسے بھی غم ہو سکتا ہے لیکن مایوسی اُس کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ غم ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے روحانی ترقی کے لئے اِس دنیا میں ضروری قرار دیا ہے۔ دو وفائیں ہیں جو خدا نے ضروری قرار دی ہیں ایک اپنے ساتھ اور ایک اپنے بندوں کے ساتھ۔ اگر غم نہ ہوتو یہ بندوں کے ساتھ وفا نہیں سمجھی جائے گی اور اگر مایوسی ہو تو یہ خدا کے متعلق بے وفائی ہوگی اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے مگر ہم کہتے وہی ہیں جس کا ہمیں خدا نے حکم دیا۔ ۵؎ تو جہاں انسان کو دنیا میں کئی قسم کی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں وہاں اُسے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب خوشیاں عارضی ہیں۔ اُسے وہ حقیقی تعلق استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو موت کو مٹا دے۔ موت اُسی صورت میں موت ہے جب انسان یہ سمجھتا ہو کہ میں ایک ایسی چیز سے محروم کیا گیا ہوں جس کا کوئی قائم مقام نہیں۔روحانیت میں چونکہ انسان کا اصل تعلق خدا سے ہوتا ہے اور اِس تعلق میں انقطاع واقع نہیں ہو سکتا جب تک کوئی شیطان سے تعلق پیدا نہ کرلے اِس لئے کسی کی موت اُسے اپنے محبوب سے جدا نہیں کر سکتی۔ اس طرح اگر جسمانی طور پر اُس کے عزیزوں اور رشتہ داروں میں سے بعض لوگ مر جاتے ہیں تو مایوسی اُس پر طاری نہیں ہوتی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جدائی عارضی ہے اور ایک دن آنے والا ہے جب ہم پھر ایک دوسرے سے مل جائیں گے لیکن جب انسان کا خداسے تعلق نہیں ہوتا تو ہر موت، ہر جدائی اور ہر تفرقہ اُسے دائمی معلوم ہوتا ہے اور وہ اُس کے دل کو ہمیشہ کیلئے مایوسی اور تاریکی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
(الفضل ۲۴؍ مئی ۱۹۶۰ء)
۱؎ (المؤمن: ۳۵)
۲؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳؎ شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ۲۲۱ مطبوعہ آرام باغ کراچی
۴؎ الوصیت صفحہ۷۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۵
۵؎ بخاری کتاب الجنائز باب قول النبیﷺ انابک لمحزونون


میری مریم





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
میری مریم
۱؎
بُلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اَے دل تو جاں فدا کر
( رقم فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی)
رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْناً وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً وَبِالْقُرْاٰنِ حَکَماً۔
سیدہ اُمّ ِطاہرکا بچپن
چھتیس سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح
ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد سے پڑھوایا۔ اِس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خوابیں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے اِن کے انذاری پہلو کو بدلنا مقصود تھا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جا ملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے ناواقف تھی بیوہ کہلانے لگی۔ اُس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ اُن کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اُس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے کھیلنے کے لئے اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تو میں کبھی مریم کو اُٹھا کر کبھی نصیرہ کو اُٹھا کر گول کمرہ میں چھوڑ آیا کرتا تھا اُس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ وہ بچی جسے مَیں اُٹھا کر نیچے لے جایا کرتاہوں کبھی میری بیوی بننے والی ہے اور یہ خیال تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ مَیں پھر اُس کو اُٹھا کر نیچے لے جاؤں گا مگر گول کمرہ کی طرف نہیں بلکہ قبر کی لحد کی طرف۔ اِس خیال سے نہیں کہ کَل پھر اِس کا چہرہ دیکھوں گا بلکہ اِس یقین کے ساتھ کے قبر کے اِس کنارہ پر پھر اِس کی شکل کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اِس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہو گا۔
۱۹۰۷ء سے ۱۹۱۷ء تک کا عرصہ
عزیز مبارک احمد فوت ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہو گئی۔ وہ بھی واپس اپنی ملازمت
پر رعیہ ضلع سیالکوٹ چلے گئے۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اُس وقت سکول میں پڑھا کرتے تھے دونوں میرے دوست تھے مگر ڈاکٹر حبیب عام دوستوں سے زیادہ تھے۔ ہم یکجان دو قالب تھے مگر اُس وقت کبھی وہم بھی نہ آیا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی۔ اُن کی دوستی خود اُن کی وجہ سے تھی اِس کا باعث یہ نہ تھا کہ اُن کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی۔ دن کے بعد دن اور سالوں کے بعدسال گزر گئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے مٹ گیا۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات کے بعد ایک دن شاید ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امۃ الحی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آ رہا تھا راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا اُس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی مَیں نے دیکھا ایک دُبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اُس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لبا س سمٹا لیا۔ـ مَیں نے کمرہ میں جا کر امۃ الحی مرحومہ سے پوچھا امۃ الحی! یہ لڑکی باہر کون کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا آپ نے پہچانا نہیں،ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم ہے۔ مَیں نے کہا اُس نے تو پردہ کیا تھا اور اگر سامنے بھی ہوتی تو مَیں اُسے کب پہچان سکتا تھا۔ ۱۹۰۷ء کے بعد اِس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی۔
سیدہ اُمِّ طاہر سے نکاح
اَب مَیں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی بھی کہیںتجویز ہے؟ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات
ہیں، ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہو گئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اِسی طرح بیٹھی رہے گی میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی۔ مَیں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سِوا کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ آخر مَیں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اِس طرح اِس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئے اِن میں سے کوئی مریم سے نکاح کر لے لیکن اِس کا جواب بھی نفی میں ملا۔ تب مَیں نے اِس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہئے اور اِس وجہ سے کہ اِن کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ مَیں مریم سے خود نکاح کر لوں گا اور ۱۹۲۰ء میں اِس کی بابت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم سے مَیں نے درخواست کر دی جو اُنہوں نے منظور کر لی اور ۷؍فروری ۱۹۲۱ء کو ہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہو گیا۔ وہ نکاح کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا۔ دعاؤں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور گریہ وزاری سے سب کے رُخسار تر تھے۔ آخر ۲۱؍فروری ۱۹۲۱ء کو نہایت سادگی سے جا کر مَیں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت اُمّ المومنین کے گھر میں اِن کو اُتارا جنہوں نے ایک کمرہ اِن کو دے دیا جس میں اِن کی باری میں ہم رہتے تھے۔ وہی کمرہ جس میں اَب مریم صدیقہ رہتی ہیں وہاں پانچ سال تک وہ رہیں اور وہیں اِن کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔ یعنی طاہراحمد(اوّل) مرحوم اور اِس کے چلے میں وہ سخت بیمار ہوئیں جو بیماری بڑھتے بڑھتے ایک دن اِن کی موت کا موجب ثابت ہوئی۔
شادی کے ابتدائی ایام
شادی کے ابتدائی ایام میں وہ سخت دُبلی پتلی ہوتی تھیں اور شکل میں بعض ایسے نقص تھے جو میری طبیعت پر گراں گزرا
کرتے تھے۔ اِسی طرح وہ ٹھیٹھ پنجابی بولتی تھیں اور مجھے گھر میں کسی کا پنجابی بولنا زہر معلوم ہوتا ہے۔ اِن کی طبیعت ہنسوڑ تھی وہ مجھے چڑانے کے لئے جان کر بھی اُردو بولتے ہوئے پنجابی الفاظ اِس میں ملا دیا کرتی تھیں۔ اِسی طرح چونکہ باپ ماں کی وہ بہت لاڈلی تھیں ذرا سی بات بھی اگر ناپسند ہوتی تو اُس پر چڑ کر رونے لگ جاتی تھیں اور جب رونے لگتیں تو آنسوؤں کا ایک سیلاب آ جاتا تھا، دو دو دن تک متوار روتی رہتی تھیں۔ شاید یہ مرض ہسٹیریا کے سبب سے تھا۔ جب مَیں انگلستان گیا ہوں تو امۃ الحی مرحومہ اور اِن کی باہمی لڑائی کی وجہ سے مَیں اِن سے کچھ خفا تھا مگر مجھے واپس آ کر معلوم ہوا کہ غلطی زیادہ امۃ الحی مرحومہ کی تھی۔ اِس خفگی کی وجہ سے سفر کے پہلے چند روز مَیں نے مریم کو خط نہ لکھا مگر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جلد سمجھ دے دی اور مَیں نے اِن کو ناجائز تکالیف میں پڑنے سے بچا لیا۔ـ اٹلی سے مَیں نے اِن کو ایک محبت سے پُر خط لکھا۔ جسے اُنہوں نے سنبھال کر رکھا ہوا تھا اِس میں ایک شعر تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ روم اچھاشہر ہے مگر تمہارے بغیر تو یہ بھی اُجاڑ معلوم ہوتا ہے۔ اتفاقاً ایک دفعہ اِس شعر کا ذکر ۱۹۳۰ء میں یعنی سفرِ ولایت کے سات سال بعد ہوا تو وہ جھٹ اُٹھ کر وہ خط لے آئیں اور کہا کہ مَیں نے وہ خط سنبھال کر رکھاہوا ہے۔ یہی شعر میں نے امۃ الحی مرحومہ کو بھی لکھا تھا۔ خدا کی قدرت یہ دونوں ہی فوت ہو گئیں اور روم کی جگہ اِس دنیا میں مجھے اِن کے بغیر زندگی بسر کرنی پڑی۔
سیدہ امۃ الحی سے آخری وقت کا وعدہ
بہرحال جب میں سفرِ انگلستان سے واپس آیا اور آنے کے چند روز بعد
امۃ الحی فوت ہو گئیں تو اِن کے چھوٹے بچوں کا سنبھالنے والا مجھے کوئی نظر نہ آتا تھا۔ اِدھر مرحومہ کے دل پر اِن کی وفات کے وقت اپنے بچوں کی پرورش کا سخت بوجھ تھا۔ خصوصاً امۃ القیوم بیگم کے بارہ میں وہ بار بار کہتی تھیں کہ رشید کو دائی نے پالا ہے اِسے میرا اتنا خیال نہ ہو گا۔ خلیل ابھی ایک ماہ کا ہے اِسے مَیں یاد بھی نہ رہوں گی امۃ القیوم بڑی ہے اِس کا کیا حال ہو گا۔ کبھی وہ ایک کی طرف دیکھتی تھیں اور کبھی دوسرے کی طرف مگر اِس بارہ میں میری طرف نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتی تھیں۔ شاید سمجھتی ہوں گی مرد بچوں کو پالنا کیا جانیں۔ مَیں بار بار اِن کی طرف دیکھتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر دوسرے لوگوں کی موجودگی سے شرما جاتاتھا۔ آخر ایک وقت خلوت کا مل گیا اور امۃ الحی سے کہا امۃ الحی! تم اِس قدرفکر کیوں کرتی ہو۔ اگر مَیں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور اِنْشَائَ اللّٰہَ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا۔ مَیں نے اِن کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں ۔
وعدہ کا اِیفاء
آخر امۃ الحی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا مریم! مجھ پر ایک بوجھ آ پڑا ہے کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار برکتیں اِن کی
روحپر ہوں وہ فوراً بول پڑیں ہاں مَیں اِن کا خیال رکھوں گی۔ جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے مَیں اِن کو پالوں گی اور دوسرے دن قیوم اور رشید کو لا کر مَیں نے اِن کے حوالے کر دیا نہ اُنہیں اور نہ مجھے معلوم تھا کہ ہم اِس وقت اِن کی موت کے فیصلہ پر دستخط کر رہے تھے کیونکہ اِس ذمہ واری کی وجہ سے انہیں بھی اور مجھے بھی بہت تکالیف پہنچیں مگر ہم اِن تکالیف کی وجہ سے محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب ہیں۔ مجھے امۃ الحی بہت پیاری تھی اور پیاری ہے مگر مَیں دیانتداری سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتیں تو اِس طرح اپنے بچوں کی بیماری میں اِن کی تیمارداری کر سکتیں جس طرح مریم بیگم نے اِن کے بچوں کی بیماریوں میں اِن کی تیمارداری کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو اپنی گود میں اُٹھا لے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی فضل فرمائے۔
اُنیس سالہ لڑکی کا یکدم تین بچوں کی ماں ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگر اُنہوں نے خوشی سے اور جوش سے اِس بوجھ کو اُٹھایا اور میری اُس وقت مدد کی جب ساری دنیا میں میرا کوئی مددگار نہ تھا۔ انہوں نے مجھے اِس وعدہ کی ذمہ واری سے سبکدوش کیا جس سے سبکدوش ہونا میرے بس کی بات نہ تھی۔ میری نظروں کے سامنے وہ نظارہ آج بھی ہے جب میں قیوم اور رشید کو مرحومہ کے پاس لایا اور اُنہوں نے پُرنم آنکھوں سے اِن کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے کہاکہ اَب سے مَیں تمہاری اُمّی ہوں اور یہ سہمی ہوئی بچیاں بھی اُس وقت سِسکتی ہوئیں اِن کے گلے سے لگ گئیں۔
محبت کے لئے دعا جو خدا نے سن لی
مَیں نے اِن سے اُس وقت وعدہ کیا کہ مریم! تم اِن بے ماں کے بچوں کو پالو
اورمیں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ مَیں تم سے بہت محبت کروں گا اور مَیں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اِن کی محبت میرے دل میں پیدا کر دے اور اُس نے میری دعا سن لی۔ مَیں نے اُس دن سے اِن سے محبت کرنی شروع کر دی۔ اِن کی طرف سے سب انقباض دل سے نکل گیا اور وہ میرے دل پر مسلّط ہو گئیں۔ اِن کی وہی شکل جو میری آنکھوں میں چبھتی تھی، اَب مجھے ساری دنیا میں حسین ترین نظر آنے لگی اور اِن کا لااُبالی پن جس پر میں بُرا منایا کرتا تھا اَب مجھے اِنکا پیدائشی حق معلوم دینے لگا۔
غضب کی ذہانت
مریم کچھ زیادہ لکھی پڑھی نہ تھیں اور اِن کا خط بھی بہت خراب تھا۔ اِستقلال سے پڑھنے لکھنے کا ملکہ بھی نہ تھا۔ صرف چند دن سبق لے
کر چھوڑ دیتی تھیں مگر ذہانت غضب کی تھی۔ آنکھ سے، ماتھے کی شکنوں سے، سانس سے، چال سے، اشارہ سے راز کو اِس طرح پا لیتی تھیں کہ حیرت آتی تھی۔ انسان خیال کرتا تھا کہ اِنہیں غیب معلوم کرنے کا کوئی نسخہ آتا ہے۔ طبیعت سخت حساس تھی۔ جہاں طنز مدنظر نہ ہوتی تھی انہیں طنز نظر آتی تھی، جہاں خفگی کا شائبہ بھی نہ ہوتا تھا وہ خفگی کے آثار محسوس کرتی تھیں دوسروں سے بڑھ کر بھی اِن سے سلوک کرو تو وہ سمجھتی تھیں کہ مجھ سے بے انصافی ہو رہی ہے۔ یہ معاملہ اِن کا مجھ سے ہی تھا اور اِسی معاملہ میں آ کر اِن کی ذہانت بے کار ہو جاتی تھی۔
احمدیت پر سچا ایمان
مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں اِن کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اِس
کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا اس لئے ط،ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زورسے ادا کرتی تھیں۔علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں۔ جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی پر مَیں اِس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہاہوگااور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پُل باندھ دے گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ قیاس میرا شاذہی غلط ہوتا تھا۔ مَیں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ سی پیدا ہو رہی ہوتی تھی۔
بہادر دل کی عورت
مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا مَیں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا۔ اِن کی نسوانی کمزوری
اس وقت دَب جاتی، چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سِوا اِس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے۔ یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اِس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ اِنہیں صرف اتنا کہناکافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا اور اِس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اِس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورمِ پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے۔ اور وہ کام اِن کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا آپریشن ہوتا تھا۔
دیگر صفات
لذت حاصل کرنے کا مادہ مریم میںغضب کا تھا۔ ایک مردہ دل کو زندہ دل بنا دیتی تھیں۔ گھوڑے کی سواری کی بے انتہا شوقین تھیں، بندوق چلانا بھی
جانتی تھیں اور اگر کبھی اِن کا نشانہ میرے نشانہ سے بڑھ جاتا تو اِن کی خوشی کی حد نہ رہتی۔ پہاڑو دریاکی سیر سے لذت اُٹھانا اِنہی کو آتا تھا۔۱۹۲۱ء میں کشمیر میرے ساتھ گئیں تو وہ اِن کے ساون بھادوں کا موسم تھا۔ میں سنجیدگی کی طرف بُلاتا اور وہ قہقہوں کی طرف بھاگتیں نتیجہ یہ ہوا کہ نہ سنجیدگی رہی اور نہ قہقہے ساون کی جھڑیوں کی طرح جو آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہوئے تو کشمیر سے واپسی تک بہتے ہی چلے گئے۔ دوسری دفعہ ہم پھر میریم ہی کے کہنے پر کشمیر گئے یہ ۱۹۲۹ء کا زمانہ تھا۔ اب تین بچے مریم کے اپنے تھے اور تین امۃ الحی مرحومہ کے اس سبب سے کچھ تو مریم میں سنجیدگی پیدا ہوگئی تھی کچھ مجھے امۃ الحی مرحومہ کے بچوں کے پالنے کی وجہ سے اِن کا لحاظ زیادہ ہوگیا تھا اِس لئے اب اِن کے قہقہوں کے لئے فضا سازگار ہوگئی تھی۔ پس اِس دفعہ کشمیر کی خوب سیر کی اور ۱۹۲۱ء کی کمی پوری کر لی مگر یہ حسرت پھر بھی رہ گئی کہ مجھے ایک دفعہ کشمیر اکیلے دکھا دو یعنی جب کوئی دوسر ی بیوی ساتھ نہ ہو۔
عجیب متضادبات
مریم کی طبیعت میں یہ عجیب متضادبات تھی کہ میرے سب بچوں سے خوا ہ کسی ماں سے ہوں وہ بے انتہا محبت کرتی تھیں بلکہ ادب
تک کرتیتھیں۔ لیکن میری بیویوں سے اِن کی نہ نبھتی تھی۔ گنواروں کی طرح لڑتی نہ تھیں مگر دل میں غصہ ضرور تھا۔ اِن کے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ کسی نہ کسی امر میں اِن سے امتیازی سلوک ہو اور چونکہ خدا اور رسول کے ماتحت میں ایسا نہ کر سکتا تھا، وہ یہ یقین رکھتی تھیںکہ میَں اِن سے محبت نہیں کرتا اور دوسری بیویوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔
سیدہ اُمِّ طاہر کا ایک سوال اوراُس کا جواب
بعض دفعہ خلوت کی گھڑیوں میں پوچھتی تھیں کہ آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ اور مَیں اِس کا جو اب دیتا کہ اِس جواب سے مجھے خدا تعالیٰ کا حکم روکتا ہے
اور وہ ناراض ہو کر خاموش ہوجاتیں۔ ہاں گزشتہ چند سال سے انہوں نے یہ سوال کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آج اگر انہیں اللہ تعالیٰ اِس دنیا میں آکر میرے دل سے نکلتے ہوئے اِن شعلوں کو دیکھنے کا موقع دے جو دل سے نکل نکل کر عرش تک جاتے ہیںاور رحم کی استدعا کرتے ہوئے عرش کے پایوں سے لپٹ لپٹ جاتے ہیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ اِن کے سوال کا کیا جواب تھا۔ آج اگر انہیں دُنیا میں آنے کا موقع مل جائے اور وہ میرے ذکرِالٰہی کے وقت یہ دیکھیں کہ جب خداتعالیٰ کی سبوحیت بیان کرتے کرتے اُس کی پاکیزگی کا احساس میرے تن بدن کو ڈھانپ لیتا ہے تو میرے بدن پر ایک کپکپی آجاتی ہے اور اِس سبوحیت کے آخری جلوہ کے وقت میرے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے کہ اے سبوح خدا! کیا میری مریم کو بھی تو پاک نہیں کر دے گا۔یا جب اُس کی حمد کاذکر کرتے کرتے ساری دنیا میری نگاہ میں اُس کی حمد کے ترانے گانے لگتی ہے اور زمین وآسمان پر حمد ہی حمد کا جلوہ نظر آنے لگتا ہے تو یکدم میرا جسم ایک جھٹکا کھاتا ہے، میرے دل کو ایک دھکا لگتا ہے اور میری زبان پر بے اختیار جاری ہو جاتا ہے اے وہ خدا جس کی حمد ذرّہ ذرّہ کر رہا ہے کیا میری مریم کو تو اپنی حمد کا مورد نہیں بنائے گا۔ ہاں اگر اِن کی روح اس نظارہ کو دیکھ لے تو وہ کتنی شرمندہ ہوں اُس لمبی بدگمانی پر جو اِنہوں نے مجھ پر کی ۔ اے میرے ربّ! اے میرے ربّ! مَیں نے بھی ایک لمبے عرصہ تک تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے نفس پرجبر کیا ہے۔ کیا تو اِس کے بدلہ میں میری مریم کو اگلے جہان میں خوش نہیں کر دے گا۔ میرے آقا! تیری رحمت کے دامن کو چھوتا ہوںاور تیرے عرش کے سامنے جبینِ نیاز رگڑتا ہوں۔ میری اِس التجا کو سُن اور اس چنگاری کو جو تو نے میرے دل میں سُلگا دی ہے ہم دونوں کے لئے کافی سمجھ اور اسے ہر آسیب اور ہر وحشت سے محفوظ رکھ۔
رشتہ داروں سے محبت
میری مریم کو میرے رشتہ داروں سے بہت محبت تھی وہ ان کو اپنے عزیزوں سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ میرے بھائی،
میری بہنیں، میرے ماموں اور ان کی اولادیں انہیں بے حد عزیز تھے۔ ان کی نیک رائے کو وہ بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور اِس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتی تھیں۔ حضرت اُمّ المومنین کی خدمت کا بے انتہاء شوق تھا۔ اوّل اوّل جب آپ کے گھر میں رہی تھیں تو ایک دو خادمہ سے اُن کو بہت تکلیف پہنچی تھی اِس وجہ سے ایک دو سال کچھ حجاب رہا مگر پھر یہ حجاب دُور ہوگیا۔ ہمارے خاندان میں کسی کو کو ئی تکلیف ہو سب سے آگے خدمت کرنے کو مریم موجود ہوتی تھیں اور رات دن جاگنا پڑے تو اِس سے دریغ نہ ہوتا تھا۔ بچوں کی ولادت کے موقع پر شدید بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود زچہ کا پیٹ پکڑے گھنٹوں بیٹھتیں اور اُف تک زبان پر نہ آنے دیتیں ۔
انتہاء درجہ کی مہمان نوازی
مہمان نواز انتہاء کی تھیں۔ ہر اک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر
بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں۔ خود تکلیف اُٹھاتیں، بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔ بعض دفعہ اپنے پر اِس قدر بوجھ لادلیتیں کہ مَیں بھی خفا ہوتا کہ آخر مہمان خانہ کا عملہ اِسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اِس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو۔ آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اُٹھانی پڑتی ہے مگر اِس بارہ میں کسی نصیحت کا اِن پر اثر نہ ہوتا ۔ کاش! اَب جبکہ وہ اپنے ربّ کی مہمان ہیں اِن کی یہ مہمان نوازیاں اِن کے کام آجائیںاور وہ کریم میزبان اِس وادی غربت میں بھٹکنے والی اِس تنہا روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کر کے لے جائے۔
بلا کا حافظہ
امۃ الحی مرحومہ کی وفات پر لڑکیوں میں تعلیم کا رواج پیدا کرنے کیلئے مَیں نے ایک تعلیمی کلاس جاری کی اُس میں مریم بھی داخل ہوئیں مگر اِن کا دل کتاب
میں نہیں، کام میں تھا۔ وہ اِس بوجھ کو اُٹھا نہ سکیں اور کسی نہ کسی بہانہ سے چند ماہ بعد تعلیم کو چھوڑ دیا۔ مگر حافظہ اِس بلا کا تھا کہ اُس وقت کی پڑھی ہوئی بعض عربی کی نظمیں اب تک انہیں یاد تھیں۔ ابھی چند ماہ ہوئے نہایت خوش الحانی سے ایک عربی نظم مجھے سنائی تھی۔
سیّدہ سارہ بیگم کے بچوں سے سلوک
جب مَیں نے تعلیمِ نسواں کے خیال سے سارہ بیگم مرحومہ سے شادی کی تو
مرحومہ نے خوشی سے اِن کو اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا مگر اِس وعدہ کو نباہ نہ سکیں اور آخر الگ الگ انتظام کرنا پڑا۔ یہ باہمی رقابت سارہ بیگم کی وفات تک رہی مگر بعد میں اِن کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے اِن کو اپنی ماں کی طرح عزیز سمجھتے تھے۔
بیماری کی ابتداء
مَیں بتا چکا ہوں کہ مریم بیگم کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری لگ گئی تھی جو ہر بچہ کی پیدائش پر بڑھ جاتی تھی اور جب بھی کوئی محنت
کا کام کرنا پڑتا تو اِس سے اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ مَیں نے اِس کے لئے ہر چند علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا۔ دو دفعہ ایچی سن ہاسپٹل میں داخل کروا کر علاج کروایا۔ ایک دفعہ لاہور چھائونی میں رکھ کر علاج کروایا۔ کرنل نلسن، کرنل ہیز، کرنل کاکس وغیرہ چوٹی کے ڈاکٹروں سے مشورے بھی لئے، علاج بھی کروائے مگر مرض میں ایسی کمی نہیں آئی کہ صحت عَود کر آئے بلکہ صرف عارضی افاقہ ہوتا تھا چونکہ طبیعت حساس تھی کسی بات کی برداشت نہ تھی، کئی دفعہ ناراضگی میں بے ہوشی کے دَورے ہو جاتے تھے اور اُن میں اندرونی اعضاء کو اور صدمہ پہنچ جاتا تھا۔ آخر مَیں نے دل پر پتھر رکھ کر اِن سے کہہ دیا کہ پھر دَورہ ہوا تو مَیں علاج کیلئے پاس نہ آئوں گا۔ چونکہ دَورے ہسٹیریا کے تھے۔ مَیں جانتا تھا کہ اس سے فائدہ ہوگا اس کے بعد صرف ایک دَورہ ہوا اور میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر خود چلا گیا اِس وجہ سے آئندہ انہوں نے اپنے نفس کو روکنا شروع کر دیا اور عمر کے آخری تین چار سالوں میں دَورہ نہیں ہوا۔
لجنہ کے کام کو غیر معمولی ترقی دی
مَیں نے اوپر لکھا ہے کہ ان کا دل کام میں تھا کتاب میں نہیں۔ جب سارہ بیگم فوت ہوئیں
تو مریم کے کام کی روح اُبھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا۔ جماعت کی مستورات اِس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اِس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امۃ الحی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے۔ انہوں نے کئی کو ناراض بھی کیا مگر بہتوں کو خوش کیا، بیوائوں کی خبر گیری،یتامیٰ کی پرورش، کمزوروں کی پُرسش، جلسہ کا انتظام، باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات، غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی اور جب یہ دیکھا جائے کہ اِس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چار پائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا تو احسان شناس انسان کا دل اِس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے۔ اے میرے ربّ! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی۔
۱۹۴۲ء کی بیماری
۱۹۴۲ء میں مَیں سندھ میں تھاکہ مرحومہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہوگئی۔ مجھے تار گئی کہ دل کی حالت خراب ہے۔ مَیں
نے پوچھا کہ کیا مَیں آ جائوں؟ تو جواب گیا کہ نہیں اب طبیعت سنبھل گئی ہے۔ یہ دورہ مہینوں تک چلا اور کہیں جون جولائی میں جا کر کچھ افاقہ ہوا۔ اُس سال اُنہی دنوں میں اُمِّ ناصر احمد کو بھی دل کے دورے ہوئے۔ نہ معلوم اس کا کیا سبب تھا۔ ۱۹۴۳ء کے مئی میں مَیں ان کو دہلی لے گیا کہ ان کا علاج حکیموں سے کروائوں۔ حکیم محمود احمد خان صاحب کے صاحبزادے کو دکھایا اور علاج تجویز کروایا مگر مرحومہ علاج صرف اپنی مرضی کاکروا سکتی تھیں چنانچہ وہ علاج انہیں پسند نہ آیا اور انہوں نے پوری طرح کیا نہیں۔ وہاں بھی چھوٹا سا ایک دورہ اندرونی تکلیف کا ہوا مگر جلدی آرام آ گیا۔ اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لٹیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کو سیٹوں پر لٹوایا۔
دہلی سے واپسی کے معاً بعد مجھے سخت دَورہ کھانسی بخار کا ہوا جس میں مرحومہ نے حد سے زیادہ خدمت کی۔ ان گرمی کے ایام میں رات اور دن میرے پاس رہتیں اور اکثر پاخانہ کا برتن خود اُٹھاتیں اور خود صاف کرتیں، کھانا بھی پکاتیں حتیّٰ کہ پائوں کے تلوے ان کے گھس گئے۔ مَیں جاگتا تو ساری ساری رات ساتھ جاگتیں۔ سو جاتا اور کھانسی اُٹھتی تو سب سے پہلے وہ میرے پاس پہنچ چکی ہوتی تھیں۔ جب کچھ افاقہ ہوا اور ہم ڈلہوزی آئے تو وہاں بھی باورچی خانہ کا انتظام پہلے انہوں نے لیا اور کوٹھی کو باقرینہ سجایا۔ یہاں اِن کو پھر شدید دَورہ بیماری کا ہوا مگر میری بیماری کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا اظہار نہ کیا۔
چنبہ کا سفر
جب مجھے ذرا اور افاقہ ہوا اور میں چنبہ گیا تو باوجود بیمار ہونے کے اصرار کے ساتھ وہاں گئیں اور گھوڑے کی سواری کی کیونکہ کچھ حصۂ سفر میں ڈانڈی ۲؎نہ ملی
تھی میں نے سمجھایا کہ اِس طرح جانا مناسب نہیں مگر حسبِ دستور یہی جواب دیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ مَیں سیر نہ کروں مَیں ضرور جائوں گی۔ آخر اِن کی بیماری کی وجہ سے مَیں نے دوسروں کو روکا اور اُن کو ساتھ لے گیا۔
رمضان میں مشقّت
اس کے بعد رمضان آ گیا اور ہندوستانی عادت کے ماتحت قافلہ کے لوگوں نے غذا کے بارہ میں شکایات شروع کیں اور
ملازم آخر ملازم ہوتے ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ مرحومہ نے اِس جان لیوا بیماری میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر تین تین چار چار سیر کے پراٹھے سحری کے وقت پکا کر لوگوں کے لئے بھیجے جس سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت جسم سے بالکل جاتی رہی۔ مَیں تو کمزور تھا روزے نہ رکھتا تھا جب مجھے علم ہوا تو میں نے اِن کو روکا مگر اِس کا جواب اِنہوں نے یہی دیا کہ کیا معلوم پھر ثواب کمانے کا موقع ملے یا نہ ملے اور اِس عمل سے نہ رُکیں۔
شدید دَورہ
ہم واپس آئے تو اُن کی صحت ابھی کمزور ہی تھی۔ تین چار ہفتوں کے بعد ہی پھر شدید دَورہ ہو گیا۔ میں اُس وقت گردے کی درد سے بیمار پڑا ہوا تھا۔
اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ دورہ ایسا سخت ہے کہ بچنے کی امید نہیں یہ پہلا موقع تھا کہ مریم کی موت میری آنکھوں کے سامنے آئی۔ مَیں چل تو سکتا نہ تھا، اِس لئے جب میرا کمرہ خالی ہوا چار پائی پر اوندھے گر کر مَیں نے اپنے ربّ سے عاجزی اور انکساری کے ساتھ اِن کیلئے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور اُس وقت موت ٹل گئی اور مَیں اچھا ہوکر وہاں جانے لگ گیا۔
مرض الموت کا حملہ
کچھ دنوں بعد پھر مجھے نقرس کا دَورہ ہوا اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا۔ اُس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا ٹیکہ لگایا گیا جس
کے خلاف مریم بیگم نے بہت شور کیا کہ یہ ٹیکہ مجھے موافق نہیں آتا۔ اِس کے بعد اُس ٹیکہ کے متعلق مجھے لاہور کے قیام میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے معلوم ہوا کہ مرحومہ کے مخصوص حالات میں وہ ٹیکہ واقعہ میں مضر تھا۔ اُس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ اِن کا پیٹ یکدم پھول گیا اور اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا۔ میں بیماری میں لنگڑاتا ہوا وہاں پہنچا اور اِن کی حالت زیادہ خطرناک پا کر لاہور سے کرنل ہیز کو اور امرت سر سے لیڈی ڈاکٹر وائن کو بُلوایا۔ دوسرے دن یہ لوگ پہنچے اور مشورہ ہوا کہ انہیں لاہور پہنچایا جائے جہاں سترہ دسمبر ۱۹۴۳ء کو موٹر کے ذریعہ سے انہیں پہنچایا گیا۔ـ کرنل کی رائے تھی کہ کچھ علاج کر کے کوشش کروں گا کہ دوائوں سے ہی فائدہ ہو جائے چنانچہ ۱۷؍دسمبر سے ۸،۹؍جنوری تک وہ اس کی کوشش کرتے رہے۔
آپریشن
مگر آخر یہ فیصلہ کیا کہ آپریشن کے بغیر کچھ نہیںہو سکتا۔ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی مگر مجھے اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔
اس لئیمَیں نے مرحومہ سے ہی پوچھا کہ یہ حالات ہیں، تمہارا جو منشاء ہو اُس پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کروا ہی لیں۔ گو مجھے اِس طرح محفوظ الفاظ میںمشورہ دیا مگر اُن کے ساتھ رہنے والی خاتون نے بعد میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ مجھ سے کہتی رہتی تھیں کہ دعا کرو کہیں وقت پر حضرت صاحب کا دل آپریشن سے ڈر نہ جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزدیک آپریشن کو ضروری سمجھتی تھیں۔ بہرحال ۱۴؍جنوری کو اِن کا آپریشن ہوا۔ اُس وقت اِن کی طاقت کا پورا خیال نہ رکھا گیا اور ۱۵؍جنوری کو اِن کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہوگئی۔ اُس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہوگئی اور اچھی ہوتی گئی۔
افاقہ کے بعد تشویشناک حالت
یہاں تک کہ ۲۵؍تاریخ کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک اِن کو ہسپتال سے رُخصت کر دیا
جائے گا اور میںاجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آگیا۔ میرے قادیان جانے کے بعد ہی اِن کی حالت خراب ہوگئی اور وہ زخم جسے مندمل بتایا جاتا تھا پھر دوبارہ پورا کا پورا کھول دیا گیا مگر مجھے اِس سے غافل رکھا گیا اور اِس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادیان ٹھہرا رہا۔ ڈاکٹر غلام مصطفی جنہوں نے اُن کی بیماری میںبہت خدمت کی۔ جَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔ انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیںـ لیکن اچانک جمعرات کی رات کو شیخ بشیر احمد صاحب کا فون ملا کہ برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمشیرہ مریم کی حالت خراب ہے، آپ کو فوراً آنا چاہئے۔ جس پر مَیں جمعہ کو واپس لاہور گیا اور ان کو سخت کمزور پایا۔ یہ کمزوری ایسی تھی کہ اِس کے بعد تندرستی کی حالت ان پر پھر نہیں آئی۔
بیماری پر خرچ
دو نرسیں اِن پر رات اور دن کے پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ اِن کا خرچ پچاس ساٹھ روپیہ روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اِس کااِن
کے دل پر بہت بوجھ ہے اور وہ بعض سہیلیوں سے کہتیں کہ میری وجہ سے اِن پر اِس قدر بوجھ پڑا ہوا ہے۔ مجھے کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے ان کو تسلی دلائی کہ مریم! اِس کی بالکل فکر نہ کرو میں یہ خرچ تمہارے آرام کے لئے کر رہا ہوں تم کو تکلیف دینے کیلئے نہیں اور ان کی بعض سہیلیوں سے بھی کہا کہ اِن کو سمجھائو کہ یہ خرچ میرے لئے عین خوشی کا موجب ہے اور میرا خدا جانتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ یہاں تک کہ ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہو رہا ہے، روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا ؟ تو دل میں بغیر ادنیٰ انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کوٹھی دارالحمد اور اُس کا ملحقہ باغ فروخت کر دوں گا۔ میں نے دل میں کہا کہ اِس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اِسے اَونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچھتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اِس طرح اگر ایک سال بھی مریم کیلئے یہ خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک اِن کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی اور یہی نہیں میرا نفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کیلئے تیار تھا تا کسی طرح وہ زندہ رہیں خواہ بیماری ہی کی حالت میں۔
بیماری کی تکلیف سے بچانے کیلئے دعا
مگر کچھ دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ بیماری سے سخت اذیت محسوس
کر رہی ہیں جو زخم کے درد کی وجہ سے ناقابلِ برداشت ہے۔ تب مَیں نے اپنے ربّ سے درخواست کرنی شروع کی کہ اے میرے ربّ! تیرے پاس صحت بھی ہے پس تجھ سے میری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ تو مریم بیگم کو صحت دے لیکن اگر کسی وجہ سے تو سمجھتا ہے کہ اب مریم بیگم کا اِس دنیا میں رہنا اِس کے اور میرے دین و دنیا کیلئے بہتر نہیں تو اے میرے ربّ! پھر اِسے اِس تکلیف سے بچا لے جو اِس کے دین کو صدمہ پہنچائے۔ اِس دعا کے بعد جو اِن کی وفات سے کوئی آٹھ نو دن پہلے کی گئی تھی میں نے دیکھا اِن کی درد کی تکلیف کم ہونی شروع ہوگئی مگر اِن کے ضعف اور دل کے دَوروں کی تکلیف بڑھنے لگی۔ ظاہری سبب یہ بھی پیدا ہوا کہ ڈاکٹر بڑوچہ نے جن کے علاج کے لئے اب ہم اِنہیں سرگنگارام ہسپتال میں لے آئے تھے انہیں افیون بھی دینی شروع کر دی تھی۔
آخری لمحات
بہرحال اب انجام قریب آ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ پر اُمید قائم تھی، میری بھی اور ان کی بھی۔ وفات سے پہلے دن ان کی حالت نازک دیکھ کر اقبال بیگم
(جو اِن کی خدمت کیلئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ رہیں اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدارج عطا فرمائے) رونے لگیں۔ اُن کا بیان ہے کہ مجھے روتے ہوئے دیکھ کر مریم محبت سے بولیں پگلی روتی کیوں ہو، اللہ تعالیٰ میں سب طاقت ہے۔ دعا کرو، وہ مجھے شفا دے سکتا ہے۔ ۴؍مارچ کی رات کو میرمحمد اسماعیل صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت بہت نازک ہوچکی ہے اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا اس لئے میں دیر تک وہاں رہا۔ پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کیلئے چلا گیا۔ کوئی چار بجے آدمی دَوڑا ہوا آیا کہ جلد چلیں حالت نازک ہے۔ اُس وقت میرے دل میں یہ یقین پیدا ہو گیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رُخصت ہونے کو ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ اب دل کی حرکت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی تھی اور میرے دل کی ٹھنڈک دارالآخرۃ کی طرف اُڑنے کے لئے پَر تول رہی تھی۔
آخری بات
کوئی پانچ بجے کے قریب مَیں پھر ایک دفعہ جب پاس کے کمرہ سے جہاں مَیں معالجین کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس گیا تو ٹھنڈے پسینے آ رہے
تھے اور شدید ضعف کے آثار ظاہر ہو رہے تھے مگر ابھی بول سکتی تھیں۔ کوئی بات انہوں نے کی جس پر میں نے انہیں نصیحت کی۔ انہوں نے اِس سے سمجھا کہ گویا مَیں نے یہ کہا ہے کہ تم نے روحانی کمزوری دکھائی ہے رحم کو اُبھارنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میرے پیارے آقا! مجھے کافر کر کے نہ ماریں یعنی اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھ پر ناراض نہ ہوں، مجھے صحیح بات بتا دیں۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ موت تیزی سے ان کی طرف بڑھتی آ رہی ہے۔ میرا حساس دل اب میرے قابو سے نکلا جا رہا تھا، میری طاقت مجھے جواب دے رہی تھی مگر میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ اور مرحومہ سے وفاداری چاہتی ہے کہ اِس وقت میں انہیں ذکرِ الٰہی کی تلقین کرتا جائوں اور اپنی تکلیف کو بھول جائوں۔ میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور ٹانگوں کو زور سے قائم کیا اور مریم کے پہلو میں جھک کر نرمی سے کہا تم خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرو۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی (وہ سید تھیں) اور مسیح موعود علیہ السلام کی بہو کو کافر کرکے نہیں مارے گا۔
آخری گفتگو
اُس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں اِن سے کچھ محبت کی باتیں کر لوں مگر مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اِس جہان
کی روح نہیں اُس جہان کی ہے اب ہمارا تعلق اِس سے ختم ہے۔ اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے اس واسطہ میں خلل ڈالنا اِس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے اور میں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلائوں تا کہ وہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جائیں مگر صاف طور پر کہنے سے بھی ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر ِالٰہی کا موقع پانے سے پہلے ہی بیٹھ نہ جائے۔ آخر سوچ کر میں نے ان سے اِس طرح کہا کہ مریم! مرنا تو ہر ایک نے ہے دیکھو! اگر میں پہلے مر جائوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو تمہاری ملاقات کے لئے اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہوگئیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دے دیا کرے اور مریم! اس صورت میں تم میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلام کہنا۔
تلاوتِ قرآن
اِس کے بعد میں نے کہا مریم! تم بیماری کی وجہ سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں آئو میں تم کو قرآن کریم پڑھ کر سنائوں۔ پھر میں نے سورہ رحمن
جو ان کو بہت پیاری تھی پڑھ کر سنانی شروع کی (مجھے اِس کا علم نہ تھا بعد میں اِن کی بعض سہیلیوں نے بتایا کہ ایسا تھا )اور ساتھ ساتھ اِس کا ترجمہ بھی سنانا شروع کیا۔ جب مَیں سورۃ پڑھ چکا تو انہوں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اور پڑھیں تب مَیں نے سمجھ لیاکہ وہ اپنے آخری وقت کا احساس کر چکی ہیں اور تب مَیں نے سورۂ یسن پڑھنی شروع کر دی۔
آخری دعائیں
اِس کے بعد چونکہ اب اپنے آخری وقت کا انکشاف ہو چکا تھا کسی بات پر جو انہوں نے مجھے کہا کہ میرے پیارے! تو میں نے ان سے کہا
مریم! اب وہ وقت ہے کہ تم کو میرا پیار بھی بھول جانا چاہئے۔ اب صرف اُسی کو یاد کرو جو میرا بھی اور تمہارا بھی پیارا ہے۔ مریم! اُسی پیارے کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے اور میں نے کبھی لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ اور کبھی رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ اِنَّہٗ لَا یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ اور کبھی بِرَحْمَتِک اُسْتَغِیثُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ پڑھنا شروع کیا اور ان سے کہا کہ وہ اِسے دُہراتی جائیں۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خود بخود اَذکار پر چل پڑی ہے۔ چہرہ پر عجیب قسم کی ملائمت پیدا ہوگئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر ناز سے اُس کے رحم کی درخواست کر رہی ہیں۔ نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار بار یَاحَیُّ یَاقَیَّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ کہنا شروع کیا۔ یہ الفاظ وہ اِس انداز سے کہتیں اور اَسْتَغِیْثُ کہتے وقت ان کے ہونٹ اِس طرح گول ہو جاتے کہ معلوم ہوتا تھا اپنے ربّ پر پورا یقین رکھتے ہوئے اُس سے ناز کر رہی ہیں اور صرف عبادت کے طور پر یہ الفاظ کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کی روح اس سے کہہ رہی ہے کہ میرے ربّ! مجھے معلوم ہے تو مجھے معاف کر ہی دے گا۔
اِس کے بعد میں نے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو بُلوایا کہ اب مجھ میں برداشت نہیں، آپ تلقین کرتے رہیں۔ چنانچہ انہوں نے کچھ دیر تلاوت اور اَذکار کا سلسلہ جاری رکھا۔ اِس کے بعد کچھ دیر کے لئے پھر میں آ گیا۔ پھر میر صاحب تشریف لے آئے۔ باری باری ہم تلقین کرتے رہے۔ اب ان کی آواز رُک گئی تھی مگر ہونٹ ہِل رہے تھے اور زبان بھی حرکت کر رہی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر لطیف صاحب دہلی سے تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے سانس پر دبائو ہے اور ڈر ہے کہ جان کندن کی تکلیف زیادہ سخت نہ ہو اس لئے آکسیجن گیس سنگھانی چاہئے۔ چنانچہ وہ لائی گئی اور اس کے سنگھانے سے سانس آرام سے چلنے لگ گیا مگر آہستہ ہوتا گیا لیکن ہونٹوں میں اب تک ذکر کی حرکت تھی۔
خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو گیا
آخر دو بج کر دس منٹ پر جب کہ مَیں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا، عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہر
نکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ اِس اشارہ کے معنی یہ تھے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے۔ مَیں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہوا پایا مگر چہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے۔ ان کی لمبی تکلیف اور طبیعت کے چڑچڑا پن کی وجہ سے مجھے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں کسی بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں اِس لئے ان کے شاندار اور مؤمنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار اَلْحَمْدُللّٰہِ نکلا۔
سجدۂ شکر
اور مَیں ان کی چارپائی کے پاس قبلہ رُخ ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گیا اور دیر تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اُس نے ان کو ابتلاء سے بچایا اور
شکرگزاری کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا۔ اِس کے بعد ہم نے ان کے قادیان لے جانے کی تیاری کی اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر لا کر انہیں غسل دیا گیا۔ پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کر کے قادیان خدا کے مسیح کے گھر میں ان کو لے آئے۔ ایک رات ان کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ان کو خدا تعالیٰ کے مسیح کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرام گاہ میں خود مَیں نے سر کے پاس سے سہارا دے کر اُتارا اور لحد میں لٹا دیا۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھَا وَارَحَمْنِیْ
اولاد
مرحومہ کی اولاد چار بچے ہیں تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ یعنی امۃ الحکیم، امۃ الباسط، طاہر احمد اور امۃ الجمیل سَلَّمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَکَانَ مَعَھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِجب
مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امۃ الجمیل جو ان کی اور میری بہت لاڈلی تھی اور کُل سات برس کی عمر کی ہے، اُسے میں نے دیکھا کہ ہائے اُمّی! ہائے اُمّی! کہہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے۔ میں اُس بچی کے پاس گیا اور اُسے کہا جمی! (ہم اُسے جمی کہتے ہیں) اُمّی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں وہاں اُن کو زیادہ آرام ملے گا اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں۔ دیکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے، تمہارے دادا جان فوت ہوگئے کیا تمہاری اُمّی اُن سے بڑھ کر تھیں۔ میرے خدا کا سایہ اِس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو، میرے اِس فقرہ کے بعد اُس نے ماں کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی بلکہ دوسرے دن جنازہ کے وقت جب اُس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے، صدمہ سے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی تو میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جا کر میری جمی اُن سے کہنے لگی چھوٹی آپا! (انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں) باجی کتنی پاگل ہے۔ ابا جان کہتے ہیں اُمّی کے مرنے میں اللہ کی مرضی تھی؟ یہ پھر بھی روتی ہے۔ اے میرے رب! اے میرے رب! جس کی چھوٹی بچی نے تیری رضاء کے لئے اپنی ماں کی موت پر غم نہ کیا، کیا تواُسے اگلے جہان میں ہرغم سے محفوظ نہ رکھے گا۔ اے میرے رحیم خدا! تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے اور اِس امید کا پورا کرنا تیرے شایانِ شان ہے۔
ایک دوسرے کو سمجھنے کی حسرت
میری مریم جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں اپنی بیماری کی وجہ سے اِس وہم میں اکثر مبتلا رہتیں
کہ میں اُن سے محبت نہیں کرتا یا یہ کہ دوسروں سے کم کرتا ہوں اور اِس وجہ سے دوسرے لوگوں سے تو اچھی رہتیں مگر مجھ سے بہت دفعہ جھگڑ پڑتیں اور ہماری زندگی محبت اور تنازع کا ایک معجون سا تھی۔ میں ان سے بے حد محبت کرتا تھا اور تکلیف کے وقت اِن کی شکل دیکھ لینا میری کوفت کو کم کر دیتاتھا۔ مگر وہ اِس وہم میں رہتیں کہ مجھ سے محبت کم کی جاتی ہے۔ لیکن آخری بیماری میں جو دو عورتیں باری باری اِن کی صحبت میں رہیں، اُنہوں نے مجھے الگ الگ سنایا ہے کہ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ پہلی نے سنایا کہ انہوں نے اِس امر کا اظہار کیا کہ میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب کو مجھ سے محبت نہیں مگر یہ غلط ہے۔ میری بیماری میں جو اِنہوں نے خدمت کی ہے اِس سے مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اِن کو مجھ سے بہت محبت ہے۔ اگر مَیں زندہ رہی تو مَیں اِن کے پائوں دھو دھو کر پیوں گی اور دوسری نے سنایا کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ اب مجھے تسلی ہوگئی ہے کہ مجھ سے اِن کو بہت محبت ہے۔ اگر میں زندہ رہی تو میںاپنی عمر اِن کی خدمت میں خرچ کر دوں گی۔ مگر قسمت کا پھیر دیکھو کہ دونوں نے اِن کی وفات کے بعد یہ بات مجھ سے بیان کی اگر وہ ان کی زندگی میں مجھ سے یہ بات کہتیں تو میرے لئے کتنی خوشی کا موجب ہوتا۔ میں اِن کے پاس جاتا اور ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہتا کہ مریم! تم فکر نہ کرو، تم کو نہ خدمت کی ضرورت ہے اور نہ پائوں دھونے کی۔ تمہارے دل میں اِس خیال کے آنے سے ہی مجھے میری ساری محبت کا بدلہ مل گیا ہے۔ شاید اِس سے انہیں بھی تسلی ہوتی اور میرا دل بھی خوش ہو جاتا۔ اگر ایک منٹ کے لئے بھی ہم ایک دوسرے کے سامنے اِس طرح کھڑے ہو جاتے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہوتے تو یہ لمحہ ہم دونوں کیلئے کیسا خوش کُن ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔ شاید ہمارے گناہوں کی شامت ہم سے ایک بڑی قربانی کا تقاضا کر رہی تھی۔
حواس آخری سانس تک قائم رہے
عجیب بات ہے کہ باوجود اِس قدر لمبی بیماری کے مریم بیگم کے حواس نزع کی
آخری گھڑیوں تک قائم رہے۔ وفات سے دو دن پہلے جب ضعف انتہاء کو پہنچ گیا تھا مجھ سے کہا کہ چھوٹے میز پوش منگوا دیں۔ میں نے مریم صدیقہ سے کہا کہ وہ موٹر میں جا کر پسند کر لائیں۔ میں نے جب مرحومہ کو میز پوش دکھایا تو غنودگی کی حالت میں انہوں نے کہا کہ اچھا ہے، ایک درجن میز پوش منگوا دیں۔ میں نے سمجھا کہ اِن کے حواس ٹھیک نہیں رہے کیونکہ ہسپتال کے کمرہ میں تو ایک چائے کی میز تھی۔ میں نے کہا بہت اچھا، بہت اچھا! اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور مَیں گھبرا کر باہر آ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اِن کی مصاحبہ کمرہ سے باہر آئی اور کہا کہ بی بی بُلاتی ہیں۔ میں گیا تو انہوں نے زور سے اپنی غنودگی پر قابو پا لیا تھا مگر ضعف بدستور تھا مجھے اشارہ سے نزدیک کر کے کہا کہ آپ گھبرا گئے، مَیں ہوش میں ہوں مَیں نے ہسپتال کے لئے نہیں بلکہ گھر کے لئے میز پوش منگوائے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بات اِن کے کمزور دل نے بعد میں بنائی۔ اصل میں یہی بات تھی کہ وقتی غنودگی اِن پر آئی لیکن اِس قدر سمجھ تھی کہ میری گھبراہٹ کو تاڑ لیا اور اِن کے نفس نے اپنا محاسبہ کر کے معلوم کر لیا کہ میں کوئی غلطی کر بیٹھی ہوں اور اِس رنگ میں میز پوشوں کی بات کو حل کیا کہ وہ بات معقول ہوگئی اور پھر مجھے بُلا کر تسلی دینے کی کوشش کی۔
تیمار داری کرنے والوں کیلئے دعا
مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خاں صاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی
اقبال بیگم نے خدمت کی۔ـ اڑھائی مہینہ اُس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اِس طرح خدمت کی کہ مجھے وہم ہونے لگ گیا تھاکہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور اُن کے سارے خاندان پر ہمیشہ اپنے فضل کا سایہ رکھے۔
پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو اُن کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقع ملا۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے کئی ماہ تک ہماری مہمان نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی۔ میاں احسان اللہ صاحب لاہوری نے دن رات خدمت کی یہاں تک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ اُن کا خاتمہ بِالخیر کرے۔ حکیم سراج الدین صاحب بھاٹی دروازہ والوں نے برابر اِن کی ہمراہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے۔ ڈاکٹر معراج الدین صاحب کو رعشہ کا مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں اِس حالت میں کانپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آکر کھڑے ہو جاتے کہ مَیں نکلوں تو وہ مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے اِس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ ناکارہ کی محبت اُس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے، میری آنکھوںمیں آنسو آ جاتے۔ لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات ادا کیں۔ سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اِس کی مثال کم ملتی ہے۔ حیدر آباد جیسے دُور دراز مقام سے پہلے اِن کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رہیں اور بار بار لاہور جا کر خبر پوچھتی رہیں۔ آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزم سیٹھ محمد اعظم اپنا کاروبار چھوڑ کر حیدر آبا دسے لاہور آ بیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس گئے۔ ڈاکٹر لطیف صاحب کئی دفعہ دہلی سے دیکھنے آئے۔ میرے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی محبت سے قربانیاں کیں۔ مگر اِن پر تو حق تھا مَیں اِن لوگوں کو سوائے دعا کے اور کیا بدلہ دے سکتا ہوں۔ اَے میرے ربّ! تو اِن سب پر اور اُن سب پر جن کے نام میں نہیں لکھ سکا یا جن کا مجھے علم بھی نہیں، اپنی برکتیں اور فضل نازل کر۔ اے میرے ربّ! مَیں محسوس کرتا ہوں کہ یہ تیرے نیک بندے مجھ سے زیادہ مخلص اور خادم رہنما کے مستحق ہیں۔ مَیں اور کن لفظوں سے اِن کی سفارش تیرے پاس کر سکتا ہوں۔
جماعت کی طرف سے اظہارِ اخلاص
مریم بیگم کی وفات پر جس اخلاص کا اظہار جماعت نے کیا وہ ایمان کو
نہایت ہی بڑھانے والا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت ہی ہے جس نے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کے اخلاص کو قبول کرے، اِن کی غلطیوں کو دُور کرے اور نیکیوں کو بڑھائے اور اِن کی آئندہ نسلوں کی اپنے ہاتھوں سے تربیت فرمائے۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
اے میرے ربّ! میں اب اپنے مضمون کوختم کرتا ہوں اور بخاری میں مذکور مشہور واقعہ کو تجھے یاد دلاتے ہوئے تجھ سے کہتا ہوں کہ اگر مریم بیگم کی وفات کے وقت باوجود دل سے خون ٹپکنے کے مَیں نے اِس کے آخری لمحوں کو صرف تیری ہی محبت کے لئے وقف رکھنے کے لئے کوشش کی تھی اور اپنے جذبات کو اِس لئے قربان کر دیا تھا کہ تیرے ایک بندہ کی روح تیری ہی محبت سے چمٹ کر تیرے پاس پہنچے تو اے میرے پیارے! اگر میرا وہ فعل تیرے لئے اور تیرے نام کی بڑائی کے لئے تھا تو تو اُس کے بدلہ میں میرے دل سے مریم کی تکلیف دِہ یاد کو نکال دے۔ اے میرے ربّ! جب مریم بیگم نے امۃ الحی مرحومہ کے بچوں کو پالنے کا وعدہ کیا اور میں نے اِس سے وعدہ کیا کہ میں اِس سے بہت محبت کروں گا تو اُس وقت مَیں نے تجھ سے دعا کی تھی کہ تو اِس کی محبت میرے دل میں ڈال دے اور تو نے میری دعا سُنی اور باوجود ہزاروں بدمزگیوں کے اِس کی محبت میرے دل سے نہیں نکلی۔ آج مَیں تجھ سے پھر عرض کرتا ہوں کہ اِس کی محبت تو میرے میں رہے کہ مَیں اِس کیلئے دعا کرتا رہوں مگر اِس کی تکلیف دہ یاد میرے دل سے جاتی رہے۔ تا مَیں تیرے دین کی خدمت اچھی طرح اور آخری وقت تک ادا کرتا رہوں۔ اے میرے ربّ! میں یقین رکھتا ہوں کہ اب کہ مریم اگلے جہان میں ہیں اور حقائق اُن پر واضح ہوچکے ہیں اگر تو اُن پر یہ امر منکشف فرمائے تو وہ بھی اس امر کو بُرا نہیں منائے گی بلکہ خود بھی تجھ سے یہی عرض کرے گی کہ میرے خاوند نے میری روح کو بابرکت بنانے کیلئے مجھ سے میری آخری گھڑیوں میں درخواست کی تھی کہ مریم میری محبت کو بھول جائو خدا تعالیٰ ہی ہمارا پیارا ہے پس اُسی کو یاد رکھو، اب میں اِس کی سفارش کرتی ہوں کہ اس کے دل سے میری وہ محبت جو اُس نے تجھ سے دعا کر کے لی تھی اب واپس لے لے نہ اِس قدر کہ وہ میرے لئے دعائوں میں غافل ہو جائے بلکہ وہ محبت جو اس کے دل میں تشویش پیدا کرنے والی ہو اور اس کے کام میں روک بننے والی ہو۔
ساری جماعت کیلئے جامع دعا
اے میرے ربّ! تو کتنا پیارا ہے۔ نہ معلوم میری موت کب آنے والی ہے اس لئے مَیں
آج ہی اپنی ساری اولاد اور اپنے سارے عزیز و اقارب اور ساری احمدیہ جماعت تیرے سپرد کرتا ہوں۔ اے میرے ربّ! تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں۔ میری آنکھیں اور میری روح اِن کی تکلیف نہ دیکھیں، یہ بڑھیں اور پھلیں اور پھولیں اور تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کر دیں اور نیک نسلیں چھوڑ کر جو اِن سے کم دین کی خادم نہ ہوں تیرے پاس واپس آئیں۔ خدایا! صدیوں تک تو مجھے اِن کا دکھ نہ دکھائیو اور میری روح کو اِن کے لئے غمگین نہ اور اے میرے ربّ! میری امۃ الحی اور میری سارہ اور میری مریم پر بھی اپنے فضل کر اور اُن کا حافظ و ناصر ہو جا اور اُن کی اَرواح کو اگلے جہان کی ہر وحشت سے محفوظ رکھ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
آخری درد بھرا پیغام
اے مریم کی روح! اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو لو یہ میرا آخری درد بھرا پیغام سن لو اور جائو خدا تعالیٰ کی رحمتوں
میں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا، جہاں درد کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا، جہاں ہم ساکنین ارض کی یاد کسی کو نہیں ستاتی۔وَالسَّلَامُ
وَ اٰخِرُ دَعْوَئنَا وَ دَعْوئکُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
اَبْکِیْ عَلَیْکِ کُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ
اَرْثِیْکِ یَا زَوْجِیْ بِقَلْبٍ دَامِیْ
میں تجھ پر ہر دن اور ہر رات روتا ہوں۔ اے میری بیوی! میں تیری وفات کا افسوس خون بہانے والے دل سے کرتا ہوں۔
صِرْتُ کَصَیْدٍ صِیْدَفِی الصُّبْحِ غَبْلَۃً
قَدْ غَابَ عَنِّیْ مَقْصِد ِیْ وَ مَرَامِیْ
مَیں تیری موت پر اُس شکار کی طرح ہو گیا۔ جسے صبح کے وقت جب وہ بے فکر غذا کھانے کے لئے نکلتا ہے پھانس لیا جاتا ہے۔ ایسا یکدم صدمہ پہنچا کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں بھول گیا ہوں کہ میرا رُخ کدھر کو تھا اور میں کدِھر جا رہا تھا۔
لَولَمْ یَکُنْ تَائِیْدُ رَبِّیْ مُسَاعِدِیْ
لَاَ صْبَحْتُ مَیْتًا عُرْضَۃً لِسِھَامِیْ
اگر خدا تعالیٰ کی تائید میری مدد پر نہ ہوتی تو مَیں اپنے ہی دل کے تیروں کا نشانہ بن کر مردار کی طرح ہو جاتا
وَلٰکِنَّ فَضْلَ اللّٰہِ جَائَ لِنَجْدَتِیْ
وَاَنْقَذَنِیْ مِنْ زَلَّۃِ الْاَقْدَامِٖ
مگر اللہ کا فضل میری مدد کے لئے آ گیا اور اُس نے مجھے قدموں کے پھسلنے سے محفوظ رکھا۔
یَارَبِّ سَتِّرْنِیْ بِجُنَّۃِ عَفْوِکَ
کُنْ نَاصِرِیْ وَمُصَاحِبِیْ وَمُحَامِیْ
اے میرے ربّ! مجھے اپنی بخشش کی ڈھال سے ڈھانپ لے۔ اے میرے مددگار! اے میرے ساتھی !اور میرے محاظ!
اَلْغَمُّ کَالضِّرْ غَامِ یَأْکُلُ لَحْمَنَا
لاَ تَجْعَلَنِّیْ لُقْمَۃَ الضِّرْ غَامِ
غم شیر کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے گوشت کو کھا جاتا ہے۔ اے خد!ا مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے دیجیؤ
یَارَبِّ صَاحِبْھَا بِلُطْفِکَ دَائِماً
وَاجْعَلْ لَھَا مَأْوًی بِقَبْرٍ سَامِیْ
اے میرے ربّ! ہمیشہ اس کے ساتھ رہنا اور اپنا فضل اس پر نازل کرتے رہنا۔ اور اس کا ٹھکانا ایک بلند شان قبر میں بنانا
یَارَبِّ اَنعِمْھَا بِقُرْبِ مُحَمَّدٍ
ذِیْ المَجْدِ وَالْاِحْسَانِ وَالْاِکْرَامٖ
اے میرے ربّ! اپنے فضل سے اسے محمد رسول اللہ کے قُرب میں جگہ دینا۔ جو بڑی بزرگی والے ہیں، بڑا احسان کرنے والے ہیں اور جن کو تو نے بہت عزت بخشی ہے۔
اِس دنیا کی سب محبتیں عارضی ہیں اور صدمے بھی۔ اصل محبت اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اُس میں ہو کر ہم اپنے مادی عزیزوں سے مل سکتے ہیں اور اُس سے جدا ہو کر ہم سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہماری ناقص عقلیں جن امور کو اپنے لئے تکلیف کا موجب سمجھتی ہیں بسا اوقات اُن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی احسان پوشیدہ ہوتا ہے۔ پس مَیں تو یہی کہتا ہوںکہ میرا دل جھوٹا ہے اور میرا خدا سچا ہے۔ وَالْحَمْدُللّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ۔ خدا تعالیٰ کے فضل کا طالب۔
مرزا محمود احمد
(الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۴ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۵۷
۲؎ ڈانڈی: ایک قسم کی پہاڑی سواری جس کے دونوں طرف لکڑی اور بیچ میں دری لگی ہوتی ہے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ کیلئے تین اہم باتیں
(تقریر فرمودہ ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۴۴ء برموقع چھٹا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
مجھے مسوڑھوں کی سوزش اور دانتوں کے درد کی وجہ سے بولنا تو نہیں چاہئے لیکن چونکہ مَیں گزشتہ سال بھی خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں تقریر نہیں کر سکا اِس لئے باوجود تکلیف کے مَیں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھے کچھ نہ کچھ اِس موقع پر ضرور آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہئے۔ جب مَیں گھر سے چلنے لگا تو قدرتی طور پر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ مَیں آج کس مضمون پر تقریر کروں؟ اِس خیال کے پیدا ہوتے ہی دو مضمون میرے ذہن میں آئے جن میں سے ایک مضمون فوراً ہی اپنی ارتقائی منازل کو طے کرتے ہوئے ایسی صورت اختیار کر گیا کہ مَیں نے سمجھا نہ یہ موقع اِس مضمون کے مناسبِ حال ہے اور نہ وقت اتنا ہے کہ میں اِس مضمون کے متعلق اپنے خیالات پوری طرح ظاہر کر سکوں۔ وہ مضمون اپنی ذات میں ایک کتابی صورت کی تمہید بننے کے قابل ہے تھوڑے سے وقت میں اُس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا جا سکتا تب مَیں نے دوسرا مضمون لے لیا۔ درحقیقت میرا منشاء یہ تھا کہ یہ دوسرا مضمون اُس تمہید کی تفصیل ہو لیکن وہ تمہید ایسا رنگ اختیار کر گئی کہ میرے نزدیک وہ زیادہ اہم کتاب کی تمہید بننے کے قابل ہے اِس لئے مَیں نے دوسرے حصہ کو جسے میں اُس تمہید کی تفصیل کے طور پر بیان کرنا چاہتا تھا منتخب کر لیا اور میں نے سمجھا کہ اِس مضمون کو مَیں چھوٹا بھی کر سکتا ہوں اور بچوں کے لحاظ سے اِس کا بیان کرنا زیادہ مناسب بھی ہے۔
میں نے بار ہا بیان کیا ہے کہ ہماری جماعت کی تنظیم درحقیقت دو حصے رکھتی ہے جن میں سے ایک حصہ اِس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ ہماری جماعت دوسری جماعتوں سے مختلف ہے اور دوسرا حصہ اِس لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ اِس کے بغیر کوئی قوم فعّال نہیں بن سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کسی مقصد کو لے کر کھڑی نہیں ہوتی نہ اُس میں اپنے کام کے متعلق جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ اُس کا ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ قدم بڑھ سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر کسی قوم میں صحیح قوت عملیہ نہ پائی جائے اور وہ اُن طریقوں کو اختیار نہ کرے جن کے ذریعہ قوم اپنے خیالات اور اپنے عقائد کو کامیاب طور پر دنیا میں پھیلا سکتی ہے تو اُس وقت تک بھی وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس ایک طرف ہمارے لئے اِس اَمر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ آیا کوئی اہم مقصد ہمارے سامنے ہے یا نہیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور دوسری طرف ہماری تربیت اِس رنگ میں ہونی چاہئے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے۔ ہر قوم کی ترقی کے لئے بنیادی طور پر یہ اَمر نہایت ضروری ہے کہ اُس کا ہر فرد اِن دو فقروں کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو کہ ’’ہم نے کیا کہنا ہے‘‘ جس کے اندر ’’ہم نے کیا کرنا ہے‘‘ بھی شامل ہے اور دوسرے یہ کہ ’’ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے‘‘۔ جب یہ دونوں باتیں حل ہو جائیں اور پھر جو کچھ ہم نے کہنا ہو وہ اپنے اندر اہمیت بھی رکھتا ہو تو ہماری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ چیز ہے جسے یورپ کے لوگ آجکل خاص طور پر اہمیت دیتے ہیں بِالخصوص اخبارات کے نمائندے جب کسی لیڈر سے ملتے ہیں تو اُس سے کہتے ہیں آپ کا پیغام کیا ہے یعنی آپ دنیا کو وہ کونسی بات بتانا چاہتے ہیں جسے وہ جانتی نہیں۔ یا جس کو وہ بھولی ہوئی ہے اور اُسے یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ لیکن چونکہ وہ ایک عظیم الشان مضمون کو چند لفظوں میں بیان کرانا چاہتے ہیں اِس لئے بسا اوقات بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ غلط فہمی یوروپین نامہ نگاروں اور یوروپین مصنفین کو مسیحیت سے لگی ہے۔ مسیحیت نے یہ کہہ کر کہ شریعت *** ہے۱؎ تمام مذہبی تفصیلات کو بے کار قرار دے دیا ہے اور صرف اِس ایک نقطہ نگاہ کو پیش کیا ہے کہ خدا محبت ہے۔۲؎ اِس ایک نقطہ کو لے کر انہوں نے باقی ساری چیزوں کو ترک کر دیا ہے اور پھر ’’خدا محبت ہے‘‘ کی ترجمانی بھی انہوں نے خدا کے سپرد نہیں کی بلکہ اپنے ذمہ لے لی ہے۔
پس چونکہ اُنہوں نے مذہب کے معنی ایک فقرہ کے کر لئے ہیں اور چونکہ اِس ایک فقرہ کے نتیجہ میں اُنہوں نے خدا اور اُس کے رسولوں کو مذہب کی تفصیلات بیان کرنے سے چھٹی دے دی ہے اور اُن کو اِس کام سے بالکل معطّل کر دیا ہے اِس لئے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ باقی مذاہب بھی کسی ایک لفظ یا کسی ایک فقرہ میں ساری تفصیلات کو بیان کر سکتے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ باقی مذاہب کے بھی بعض خلاصے ہیں مگر اُن مذاہب کے پیروؤں سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے اُن خلاصوں کو اتنا پھیلایا نہیں کہ دنیا اُن خلاصوں سے ہی سمجھ سکتی کہ وہ مذاہب دنیا کے سامنے کون سا پیغام لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ مثلاً اسلام کو لے لو۔ اسلام بھی کہتا ہے کہ خدا محبت ہے اور اسلام نے بھی اپنے مذہب کا ایک خلاصہ اِن الفاظ میں پیش کیا ہے کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ مگر جس طرح عیسائیت نے ’’خدا محبت ہے‘‘ کی تشریح، مختلف جہتوں اور مختلف شعبوں سے مختلف عبارتوں میں انسانی جذبات سے وابستہ کر کے کی ہے اُس طرحلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تشریح نہیں کی گئی اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب ’’خدا محبت ہے‘‘ کی ایک چھوٹی سی تشریح بھی کسی نامہ نگار کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو وہ متأثر ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ دنیا کے لئے کار آمد باتیں ہیں لیکن اگر تم کسی نامہ نگار کے سامنے یہ کہو کہ مَیں دنیا کے لئے یہ پیغام لایا ہوں کہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ توچونکہ اِس کی بار بار اور مختلف پیراؤں سے تشریح نہیں کی گئی اِس لئے اِس خلاصہ سے تعلق رکھنے والے کئی مضامین کی باریکیاں اُس کی وسعتیں اور اُس کے وسیع دائرے اُس کے ذہن میں نہیں آتے۔ وہ حیران ہو جاتا ہے اور وہ اِس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اسلام جس کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا ایک ہے اور جس کا یہ دعویٰ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ اُس کے رسول ہیں اُس کے اِس فقرہ میں دنیا کے لئے نیا پیغام کونسا ہے۔ یہ تو وہی پُرانی بات ہے جو ایک لمبے عرصہ سے اسلام کی طرف سے پیش کی جا رہی ہے حالانکہ خدا ایک ہے اتنا وسیع مضمون ہے کہ اِس کا کروڑواں حصہ بھی اِس فقرہ میں بیان نہیں کیا گیا کہ ’’خدا محبت ہے‘‘ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے مقابلہ میں اِس فقرہ کی اتنی حیثیت بھی نہیں جتنی ہاتھی کے مقابلہ میں مچھر کی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ فقرہ یاد کرایا گیا ہے اور یہ فقرہ یاد نہیں کرایا گیا۔ اُس فقرہ کے مطالب کو با ربار لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور اِس فقرہ کے مطالب کو بار بار لوگوں کے سامنے نہیں رکھاگیا۔ـ اِسی وجہ سے جب ہم لوگوں کے سامنے یہ وسیع مضمون بیان کرتے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ ہم اِس بات کو جو دنیا کو پہلے بھی معلوم ہے ایک نیا پیغام کس طرح قرار دے رہے ہیں حالانکہ اصل کوتاہی اُن کی اپنی نظر کی ہوتی ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ جب اُن کے سامنے اِن تمام وسیع مضامین کا ایک مجموعہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ متأثر نہیں ہوتے لیکن جب اُن کے سامنے اسلام کے اِس خلاصہ کا ہزارواں بلکہ کروڑواں حصہ نکال کر پیش کیا جاتا ہے اور اُس کی کوئی ایک تشریح اُن کے سامنے کی جاتی ہے تو وہ اِس سے متأثر ہو جاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز واقعہ میں ایسی ہے جو دنیا کے لئے ایک نیا پیغام کہلا سکتی ہے۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ مذہب کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کیا جائے اور بنی نوع انسان سے شفقت کی جائے۔ یہ خلاصہ اگر ہم لوگوں کے سامنے بیان کریں تو تمام یوروپین مصنف اور نامہ نگار اِسے ایک نیا پیغام قرار دیں گے۔ وہ اِس سے متأثر ہوں گے اور وہ تسلیم کریں گے کہ یہ نظریہ یقینا ایسا ہے جو دنیا کے سامنے بار بار آنا چاہئے اور جس کو قائم کرنے کے لئے ہمیں اپنی انتہائی کوششیں صرف کرنی چاہئیں لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ خلاصہ آگے پھر خلاصہ ہے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا۔ درحقیقت لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ بہت سے وسیع مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے صرف ایک مضمون کا خلاصہ وہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے لیکن اسلام کے اس پیش کردہ خلاصہ کو نہ جاننے کی وجہ سے یوروپین نامہ نگارلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے متأثر نہیں ہوں گے۔ ہاں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اِس خلاصہ کو پیش کیا جائے کہ مذہب کی اہم اغراض دو ہیں ’’خدا سے تعلق اور بنی نوع انسان سے محبت‘‘ تو ساری دنیا اِس سے متأثر ہو گی اور وہ سمجھے گی کہ ترقی کا یہ ایک نیا پہلو ہمارے سامنے رکھا گیا ہے اور ایک نئی چیز ہے جو ہمارے سامنے پیش کی گئی ہے۔ عیسائی اگر کوشش کریں تو وہ بھی ’’خدا محبت ہے‘‘ میں سے یہ دونوں باتیں نکال سکتے ہیں لیکن وہ اِس اَمر سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ ایک نیا طریق بیان ہے جس سے بنی نوع انسان کو نیکی کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے۔
پس ہمارے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہئے کیونکہ کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے بغیر انسان کو کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اُسے کوئی پیغام دیں اور گو مغربی لوگ اِس پیغام کا دائرہ نہایت محدود رکھتے ہیں لیکن بہرحال اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ایک مختصر پیغام دنیا میں عظمت کی نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے تو تفصیلی پیغام یقینا زیادہ عظمت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ـ ضرورت صرف اِس اَمر کی ہے کہ ہم اپنے مقاصد کی اہمیت کو سمجھیں اور اُن کے مطابق دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
پس سب سے پہلی چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے کوئی مقصد ہونا چاہئے جس کی بناء پر ہم کہہ سکیں کہ ہم نے لوگوں سے کچھ کہنا ہے۔ـ دوسرے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے۔ کس طرح کہنے میں بھی بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ـ سکول کا کورس ایک ہوتا ہے، یونیورسٹی ایک ہوتی ہے مگر اِس فرق کی وجہ سے کہ ایک شخص جانتا ہے اُس نے جو کچھ کہا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور دوسرا اِس اَمرسے ناواقف ہوتا ہے۔ ایک شخص تو ترقی کرتے کرتے محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر مقرر ہو جاتا ہے اور دوسرا اِسی ڈگری کا شخص سکول کی مدرّسی میں ہی اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے۔ اِسی امتیاز کی وجہ سے دنیا میں قابلیت کے الگ الگ مدارج تجویز کر دیئے گئے ہیں۔ کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے پرائمری رکھا ہوا ہے، کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے مڈل رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے انٹرنس رکھا ہوا ہے اور کسی درجہ کی قابلیت کا نام لوگوں نے ایف اے اور بی اے رکھا ہوا ہے تو کس طرح کہنے کا فرق بھی زمین و آسمان کا تغیر پیدا کر دیا کرتا ہے۔ پرائمری کے بعض طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو آئندہ مڈل میں تعلیم پانے والوں کے لئے نمونہ بننے والے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ادنیٰ سے ادنیٰ سکول کیلئے بھی ذلّت کا موجب ہوتے ہیں۔ کچھ پرائمری کے ماسٹر اِس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ اُن کو ترقی دے کر مڈل کی تعلیم اُن کے سپرد کی جائے اور بعض ماسٹر کچھ کہنے سے اِس طرح ناواقف ہوتے ہیں کہ اُن کا پرائمری میں رکھا جانا بھی انسپکٹروں کی ناواقفی یا جنبہ داری اور لحاظ کی بناء پر ہوتا ہے ذاتی قابلیت کا اُس میں دخل نہیں ہوتا۔ تو کہنے کے طریق سے بھی انسان کی عملی زندگی میں بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہیـ۔ وہ کتابیں مقرر ہوتی ہیں جن سے پرائمری کا امتحان پاس کیا جا سکتا ہے، وہ کتابیں مقرر ہوتی ہیں جن سے مڈل اور انٹرنس اور ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کئے جا سکتے ہیں لیکن پڑھانے والوں کے نقص یا اُن کی خوبی کی وجہ سے بعض کے شاگرد بالکل نالائق رہتے ہیں اور بعض کے شاگرد اعلیٰ درجہ کی قابلیت حاصل کر لیتے ہیں تو صرف اتنا ہی ضروری نہیں کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ہم نے کچھ کہنا ہے بلکہ اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور وہ طریق ہمارے فرائض کی ادائیگی میں ممد ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
یہی دو چیزیں ہیں جن کو گزشتہ تقاریر میں مختلف پیراؤں میں مَیں نے خدام الاحمدیہ کے سامنے رکھا اور یہی وہ چیز ہے جسے آج میں پھر خدام الاحمدیہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ـ جس طرح پُرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کے لئے وہ دلکشی اور جاذبیت کا موجب ہو سکے اِسی طرح آج مَیں اُسی پُرانی شراب کو جسے مَیں بارہا پیش کر چکا ہوںنئی بوتلوں میں تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں ۔
یہ اَمر اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک خدام الاحمدیہ کے کارکن اور خدام الاحمدیہ کے تمام رُکن اِس بات کو مدنظر نہیںرکھیں گے کہ ہم نے کیا کہنا ہے اور پھر جو کچھ کہنا ہے اِس کے متعلق تمام خدام کے ذہنوں میں یہ امرمستحضر نہیں ہو گا کہ اِسے کس طرح کہنا ہے اُس وقت تک اِس انسٹی ٹیوٹ اور اِس محکمہ یا ادارہ کی کامیابی قطعاً غیر یقینی اور شکی ہو گی بلکہ بعض صورتوں میں یہ لاعلمی نہایت خطرناک نتائج پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوانوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اُنہوں نے کیا کہنا ہے تو وہ قومی خیالات کو مٹانے والے ہوں گے اور اگر اُنہیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے اور اِس کے پیش کرنے کا صحیح طریق کیا ہے تب بھی جس مقصد کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اُس کو وہ قائم نہیں کر سکتے۔ جس طرح چھت پر پڑے ہوئے پانی کو نکالنے کے لئے جب صحیح راستہ اختیار نہیںکیا جاتا تو وہ چھت میں سوراخ بنا کر مکان کو گرانے کا موجب بن جاتا ہے اِسی طرح اگر نوجوانوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا ہے تو اُس وقت تک بھی وہ قوم کی صحیح خدمت کبھی سرانجام نہیں دے سکتے۔ پس یہ دونوں باتیں خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہیں۔ اِن کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اسلام کی مکمل واقفیت ہو اور اِن کے لئے ضروری ہے کہ انہیں اسلام کو پیش کرنے کا صحیح طریق معلوم ہو کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ سب کا سب اسلام میں بیان ہو چکا ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ اسلام کے مفہوم اور اِس کی تعلیم کو اچھی طرح سمجھ لیں تو اِن کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہ سکتی کیونکہ اسلام حاوی ہے تمام اعلیٰ تعلیموں پر۔ اور جو شخص اسلام کی تعلیم سے مکمل طور پر آگاہ ہو اُسے یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اُس نے دنیا سے کیا کہنا ہے۔ـ
پس اصل چیز اسلام ہی ہے اگر ہم اِس کا نام احمدیت رکھتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ احمدیت، اسلام کے علاوہ کوئی اور چیزہے بلکہ اسلام کا نام ہم احمدیت اِس لئے رکھتے ہیں کہ لوگوں نے اسلام کو ایک غلط رنگ دے دیا تھا اور ضروری تھا کہ اسلام کے غلط مفہوم کو واضح کرنے اور اسلام کی حقیقت کو روشن کرنے کیلئے کوئی امتیازی نشان قائم کیا جاتا اور وہ امیتازی نشان احمدیت کے نام کے ذریعہ قائم کیا گیا ہیـ ورنہ اسلام کا ایک شوشہ بھی ایسا نہیں جسے کوئی شخص بدل سکے بلکہ ایک شوشہ تو کیا ایک زبر اور ایک زیر بھی ایسی نہیں جو تبدیل کی جا سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا وہ سب کا سب خدا کے کلام اور رسول کریمﷺ کے کلام سے ماخوذ ہے بلکہ نہ صرف آپ نے جو کچھ کہا وہ قرآن کریم اور حدیث سے ماخوذ ہے بلکہ آپ نے وہی کچھ کہا جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہی کچھ جو حدیث میں موجود ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ اگر قرآن اور حدیث میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے الگ ہو کر ایک شوشہ بھی بیان کیا جائے بلکہ ایک زبر اور ایک زیر کا بھی اضافہ کیا جائے تو وہ یقینا کفر ہو گا، الحاد ہو گا اور اُس کی اشاعت سے دنیا میں علم نہیں پھیلے گا بلکہ جہالت اور بے دینی میں ترقی ہو گی۔ پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآنی تعلیم کو سمجھیں اور اِس کو اپنے دلوں اور دماغوں میں پوری مضبوطی سے قائم کریں۔
میں نے کہا تھاکہ ہر احمدی نوجوان کا یہ فرض ہے کہ وہ قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہو۔ اصل میں تو یہ ہراحمدی نوجوان کا فرض ہے کہ وہ عربی جانتا ہو لیکن کم سے کم اتنا تو اُسے معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم میں کیا لکھا ہے اور خدا ہم سے کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ عربی جاننے سے یہ سہولت حاصل ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور اِس کا مفہوم سمجھنے کی منزلیں جلد طے ہو جاتی ہیں لیکن اگر کوئی شخص زیادہ عربی نہ جانتا ہو تو اُسے کم سے کم اتنی عربی تو ضرور آنی چاہئے کہ قرآن کریم کے ترجمہ کو وہ سمجھ سکے۔ میں نے ۱۹۴۲ء کے اجتماع کے موقع پر سوال کیا تھا کہ کتنے خدا م ہیں جنہیں قرآن کریم کا سارا ترجمہ آتا ہے؟ اُس وقت سات آٹھ سَو میں سے قادیان کے خدام میں سے ۱۵۲ اور بیرونی خدام میں سے ۳۲ کھڑے ہوئے تھے۔۳؎ اَب مَیں دو سال کے بعد پھر یہی سوال کرتا ہوں۔ میرے اِس سوال کے مہمان مخاطب نہیں بلکہ صرف خدام اور اطفال مخاطب ہیں۔ جو خدام اور اطفال اِس وقت پہرے پر یا کسی اور ڈیوٹی پر مقرر ہیں وہ بیٹھ جائیں تاکہ تعداد شمار کرنے میں کوئی غلطی نہ ہو۔
(حضور کے اِس ارشاد پر سب بیٹھ گئے تو حضور نے فرمایا۔)
قادیان کے خدام الاحمدیہ یا اطفال الاحمدیہ کے وہ ممبر جو قرآن کریم کا سارا ترجمہ پڑھ چکے ہیں کھڑے ہو جائیں ۔
(حضور کے اِس ارشاد پر ۱۸۸ دوست کھڑے ہوئے۔ حضور نے فرمایا۔)
بیرونی خدام کو شامل کر کے ساری تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ پس اِس کے معنی یہ ہوئے کہ قادیان کے خدام میں سے قریباً اکیس فی صدی نوجوان قرآن کا ترجمہ جانتے ہیں۔
اَب جو دوست باہر سے بطور نمائندہ آئے ہوئے ہیں اور جن کی تعداد ایک سَو ہے اِن میں سے جنہوں نے سارا قرآن ترجمہ سے پڑھا ہوا ہے وہ کھڑے ہو جائیں۔
(۲۳ دوست کھڑے ہوئے فرمایا۔)
یہ تعداد قادیان والوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ قادیان والوں میں ۲۷۰ کے قریب اطفال بھی ہیں۔
یہ تعداد بھی نہایت افسوسناک ہے۔ قرآن شریف ہی تو وہ چیز ہے جس پر ہمارے دین کی بنیاد ہے اگر ہمارے چنیدہ نوجوانوں میں سے بھی صرف ۲۰ فیصدی قرآن جانتے ہوں اور ۸۰فیصدی قرآن نہ جانتے ہوں تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اگر ہم ساروں کو شامل کر لیں تو غالباً چارپانچ فیصدی نوجوان ایسے نکلیں گے جو قرآن کو جانتے ہوں گے اور پچانوے فیصدی ایسے نوجوان نکلیں گے جو قرآن کا ترجمہ نہیں جانتے ہوں گے۔ تم خود ہی سوچ لو جس قوم کے صرف چار پانچ فیصدی نوجوان قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں اور ۹۵فیصدی نہ جانتے ہوں کیا اُس کی کامیابی کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے؟
ہم اپنی قوتِ واہمہ کو کتنا ہی وسیع کر لیں اور اِس وہم کو شک بلکہ خیالِ فاسدہ کی حد تک لے جائیں تب بھی جس قوم کے پچانوے فیصدی افراد قرآن نہ جانتے ہوں اور صرف ۵ فیصدی قرآن کا ترجمہ جانتے ہوں اُس کی ترقی اور کامیابی کی کوئی صورت انسانی واہمہ اور خیال میں بھی نہیں آ سکتی۔ مَیں نے بار ہا توجہ دلائی ہے کہ جب تک قرآن کریم سے ہر چھوٹے بڑے کو واقف نہیں کیا جا سکتا اُس وقت تک ہمیں اپنی کامیابی کی کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے اور اگر ہم رکھتے ہیں تو ہم ایک ایسا نقطۂ نگاہ اپنے سامنے رکھتے ہیں جو عقلمندوں کا نہیں بلکہ مجنونوں اور پاگلوں کا ہوتا ہے۔ آج مَیں اِس امر کی طرف جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں اور نوجوانوں کو خصوصیت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی جلد سے جلد کوشش کرنی چاہئے۔
مَیں نے اعلان کیا تھا کہ جو انجمنیں قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کی خواہش کریں گی اور وہ اپنی اِس خواہش سے ہمیں اطلاع دیں گی اُن کو مرکز کی طرف سے قرآن کریم پڑھانے والے بھجوا دیئے جائیں گے مگر تجربہ سے یہ طریق کامیاب ثابت نہیں ہوا اِس لئے اَب میں یہ ہدایت دیتا ہوں کہ ہر سال مرکز کی طرف سے باہر سے آنے والے خدام کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا انتظام کیا جائے اور ہر جماعت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا ایک ایک نمائندہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے۔ یہاں اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھانے کا باقاعدہ انتظام کیا جائے گا اور اِس کے بعد اُن کو اِس اَمر کا ذمہ وار قرار دیا جائے گا کہ وہ باہر اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کا درس جاری کریںاورجن کو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھائیں یہاں تک کہ ہماری جماعت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بچہ، نہ جوان، نہ بوڑھا جسے قرآن کریم کا ترجمہ نہ آتا ہو۔پس آج مَیں یہ نئی ہدایت دیتا ہوں کہ ہر خدام الاحمدیہ کی جماعت میں سے ایک ایک نمائندہ قرآن کریم کے اِس درس میں شامل ہونے کے لئے بُلویا جائے تاکہ وہ اور لوگوں کو اپنی جماعت میں تعلیم دے سکیں۔مَیں ابھی یہ نہیں کہتا کہ جبرًا ہر جماعت میں سے ایک ایک نمائندہ بُلوایا جائے مگر مَیں یہ ضرور کہتا ہوں کہ مرکز کو اپنی کوشش ضرور کرنی چاہئے جو جبر کے قریب قریب ہو۔گویا جبر بھی نہ ہو اور معمولی کوشش بھی نہ ہو بلکہ پوری کوشش کی جائے کہ ہر جماعت کے نمائندے قادیان بُلوائے جائیں اور اُن کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے۔ اِس غرض کے لئے ہر سال ایک ماہ کی مدت کافی ہے۔ اِس ایک مہینہ میں باہر سے آنیوالے نمائندگان کو قرآن کریم پڑھانے کے لئے جماعت کے چوٹی کے علماء مقرر کئے جاسکتے ہیں اور خدام الاحمدیہ اگر چاہیں تو اِس بارہ میں مجھ سے مدد لے سکتے ہیں۔ ہم اِس ایک مہینہ کے درس کے لئے اُنہیں اپنی جماعت کے چوٹی کے عالم دے دیں گے جو آنے والوں کو قرآن کریم پڑھا دیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ پہلے سال میں اُنہیں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ پڑھا دیا جائے اگر ایک مہینہ میں دس یا پندرہ سیپارے بھی پڑھائے جا سکیں تو اگلے ایک یا دو سالوں میں وہ سارا ترجمہ پڑھ سکتے ہیں۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو تین سال کے اندر اندر ہر جماعت میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں گے جو قرآن کریم کو اچھی طرح جانتے ہوں گے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم پڑھا سکیں گے۔ قرآن کریم کے ترجمہ اور اِس کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے کسی قدر صرف ونحو کی بھی ضروت ہوا کرتی ہے اِس غرض کے لئے ایک کورس مقرر کر دیا جائے گا تاکہ وہ صرف ونحو سے بھی واقف ہوجائیں ممکن ہے صرف ونحو کے اِس کورس کی وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ زیادہ نہ پڑھایا جاسکے لیکن اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ سالوں میں صرف ونحو جاننے کی وجہ سے وہ زیادہ عمدگی سے قرآن کریم کا بقیہ حصہ پڑھ سکیں گے اور زیادہ عمدگی سے پڑھا سکیںگے۔ جب تک تھوڑی بہت صرف ونحو نہ آتی ہو اُس وقت تک دوسروں کو پڑھانا آسان نہیں بلکہ مشکل ہوتا ہے۔
دوسری ہدایت تعلیمی نقطہ نگاہ سے یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کا نہ صرف قرآن کے ترجمہ سے بلکہ بعض اور دینی علوم سے بھی واقف ہونا ضروری ہے مگر وہ علوم آہستہ آہستہ ہی حاصل ہو سکتے ہیں فوری طور پر اُن کا حاصل ہونا ناممکن ہے۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ سارے علوم قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں اگر انسان کو قرآن کا صحیح علم ہو تو اُسے اَور علوم خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں اور اِسی مقصد کے لئے میں نے یہ ہدایت دی ہے کہ ہر سال یہاں بیرونی جماعتوں سے آنے والے نمائندگان کو قرآن پڑھانے کاا نتظام ہونا چاہئے۔ مگر جب تک یہ سکیم مکمل نہیں ہوتی اور جب تک دو تین سال کے بعد یہاں سے تعلیم حاصل کر کے لوگ اپنی اپنی جماعتوں میں درس شروع نہیں کردیتے اُس وقت تک ضروری ہے کہ دینی علوم سے جماعت کے لوگوں کو واقف رکھنے کے لئے بعض اور ذرائع پر بھی عمل کیا جائے۔ جب اُنہیں دینی لحاظ سے مکمل واقفیت حاصل ہو جائے گی تو اِس کے بعد یہ سوال پیدا ہوگا کہ اُنہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اُسے لوگوں کے سامنے کس طرح پیش کرنا چاہئے۔ خدام الاحمدیہ نے دینی واقفیت بڑھانے کے لئے کچھ عرصہ سے ایک طریق جاری کیا ہوا ہے جو بہت مفید ہے اور وہ طریق یہ ہے کہ ہر سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا یا میری لکھی ہوئی کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا وہ امتحان لیتے ہیں۔ یہ طریق یقینا مفید ہے اور اِس میں شامل ہو کر ہر شخص اپنی دینی معلومات میں بہت کچھ اضافہ کر سکتاہے۔ اِس کے علاوہ مَیں آجکل حدیث کی ایک نئی کتاب مرتب کرارہاہوں جس میں ایک ہزار حدیثیں جمع ہوں گی۔آٹھ سَو حدیثیں منتخب کی جا چکی ہیں صرف دو سَو حدیثیں باقی ہیں اُن کا بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ جلدی انتخاب کر لیا جائے گا۔ اور پھر اس کتاب کو شائع کر کے اِسے مدرسہ احمدیہ کے نصاب میں شامل کر دیا جائے گا ۔حدیث کی اس کتاب کا امتحان ہر خادم کے لئے لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہم میں سے ہر شخص کومعلوم ہو کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہماری عملی زندگی کے متعلق کیا ہدایات دی ہیں۔جس طرح میری سکیم کے ماتحت آئندہ قرآن کریم کا درس ہوا کرے گا اِسی طرح حدیث کی اِس کتاب کو بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ پڑھایا جائے گا تاکہ حدیث سے بھی ہر شخص کو مس اور مؤانست پیدا ہو جائے۔ گویا دینی واقفیت کے لئے یہ تین چیزیں ضروری ہیں۔
اوّل قرآن کریم کا ترجمہ۔
دوم حدیث
اور سوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ۔ـ
حدیث کی واقفیت کے لئے میں نے بتایا ہے کہ کتاب لکھی جارہی ہے اور عنقریب چھپنے والی ہے۔ ہر خادم کے لئے اُس کتاب کا پڑھنا اور پھر اُس کتاب کے امتحان میں شامل ہونا لازمی ہوگا کیونکہ اُس کتاب میںایسی ہی حدیثیں جمع کی گئی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے کیریکٹر کے متعلق ہیںیا انسانی فرائض اور ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہیں اور یا پھر ہمارے عقائد کے متعلق ہیں۔ اکثر حدیثیں منتخب کر لی گئی ہیں صرف تھوڑا سا حصّہ باقی ہے جس کے متعلق مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ بھی جلد پورا ہوجائے گا۔ اِس کے علاوہ میری یہ بھی خواہش ہے کہ علماء کی مجلس سے مشورہ لے کر ایک مختصر کورس شائع کیا جائے جو عقائد،فقہ اور اخلاق پر مشتمل ہو یعنی کتاب تو ایک ہو مگر اُس کا ایک باب علم العقائد کے متعلق ہو، ایک باب علم الاعمال کے متعلق ہو جس میں فقہی کتابوں سے موٹے موٹے عنوانات لے لئے جائیں اور اُن کے متعلق جو ضروری مسائل ہیں وہ جمع کر دیئے جائیں اور تیسرا حصہ علم الاخلاق کے متعلق ہو جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اخلاق کے متعلق کیا تعلیم دی ہے۔ میرا منشاء یہ ہے کہ ایک مختصر سی کتاب تیار ہو جائے جواڑھائی تین سَو صفحوں سے زائد نہ ہو اور جس میں یہ تینوں باب الگ الگ ہوں تاکہ پڑھنے اور یاد کرنے میں سہولت ہو اور پھر اِس کورس کا بھی ہر خادم کے لئے پڑھنا ضروری قرار دیا جائے۔
دوسرا حصّہ یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ کہنا ہے اُس کے متعلق ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے کس طرح کہنا ہے۔ درحقیقت ہمارے اخلاق کبھی بھی درست نہیں ہوسکتے جب تک ہم اِس امر کو اچھی طرح ذہن نشین نہیں کرلیتے کہ ہمیں دوسرے سے کوئی بات کس طرح کہنی چاہئے۔مگر یہ امر یاد رکھو کہ ’’کہنا چاہئے‘‘ میں ’’کرنا چاہئے‘‘ بھی شامل ہے۔ جس طرح ہم نے’’ کیاکہنا ہے‘‘ میں ’’کیا کرنا‘‘بھی شامل ہے اسی طرح’’ کس طرح کہنا چاہئے‘‘ میں ’’کس طرح کرناچاہئے‘‘ بھی شامل ہے۔ اِس کی طرف بھی بہت بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ علمی حصّہ کی کمی بعض اور ذرائع سے بھی پوری ہوتی رہتی ہے مثلاً سلسلہ کی طرف سے مختلف کتابیں چھپتی رہتی ہیں،اخبار شائع ہوتا ہے اور اِس طرح علمی لحاظ سے جماعت کے سامنے ہمیشہ مفید معلومات پیش ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کہنا ہے وہ کس طرح کہنا چاہئے اور کس طرح کرنا چاہئے اِس کی خالص ذمہ داری خدام الاحمدیہ پرعائد ہوتی ہے مگر مَیں دیکھتا ہوں اِس لحاظ سے ابھی بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے۔ مثلاً عملی لحاظ سے تبلیغ ہمارا سب سے اہم فرض ہے مگر تبلیغ اچھی طرح تبھی ہو سکتی ہے جب تبلیغ کرنے والے کا عملی نمونہ اعلیٰ درجہ کا ہو مگر مَیں نے دیکھا ہے ابھی تک اِس قسم کی شکایتیں آتی رہتی ہیں کہ نوجوان جب کہیں باہر سفر پر جاتے ہیں تو اُن میں سے بعض ریلوں کے ٹکٹ نہیں لیتے، بعض غلط ڈبوں میںبیٹھ جاتے ہیں یا دوسروں سے دوستی پیدا کر کے سنیما دیکھنے چلے جاتے ہیں یا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو جلدی غصہ میں آجاتے ہیںیا جلدی لڑائی شروع کردیتے ہیں یا اگر انہیں قاضی کے سامنے کسی معاملہ میں بیان دینا پڑے اور وہ بیان اُن کے کسی دوست کے خلاف پڑتا ہو یا اُن کے ما ں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف پڑتا ہو تو وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ یااگر اُنہیں کسی ذمہ داری کے کام پر مقرر کیا جائے تو پوری طرح اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے یا اگر روپیہ اُن کے ہاتھ میں دیا جائے تو وہ دیانت دار ثابت نہیں ہوتے۔ چنانچہ اِس قسم کی شکایات میرے پاس کثرت کے ساتھ پہنچتی رہتی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ خدام الاحمدیہ کے قیام کی وجہ سے اِن شکایتوں میں کوئی کمی آئی ہو حالانکہ اصل کام یہی ہے کہ خدام الاحمدیہ کے عہدہ دار نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھیں اور اُن کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کریں۔ میرایہ مطلب نہیں کہ وہ تعلیمی حصہ کی طرف توجہ نہ کریں یا اس میں سُستی اور غفلت سے کام لیں میرا مطلب یہ ہے کہ تعلیمی حصہ بعض اور ذرائع سے بھی جماعت کے سامنے بار بار آتا رہتا ہے مگر عملی نگرانی کاکام سُست ہے۔یعنی ہم نے جو کچھ کہنا ہے اُسے کس طرح کہنا چاہئے اور جو کچھ کرنا ہے وہ کس طرح کرنا چاہئے یہ کام ہے جو خدام الاحمدیہ کا ہے۔ پس اُس کے ہر فرد کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون سے اخلاق ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں جن کے بعد ہم اپنی تعلیم دنیا تک صحیح رنگ میں پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہمارے اندر سچائی نہیں، اگر ہمارے اندر دیانت نہیں، اگر ہمارے اندر محنت کی عادت نہیں، اگر ہمارے اندر عقل نہیں، اگر ہمارے اندر عزم نہیں، اگر ہمارے اندر قربانی اور اثیار کا مادہ نہیں تو ہم اپنے پیغام کو خواہ کتنے ہی شاندار الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کریںاور خواہ کس قدر اُس کی تشریح اور تفصیل بیان کریں ہرگز ہرگزاورہرگز ہم دنیا پر غالب نہیں آسکتے اور ہماری ناکامی اور نامرادی اور شکست میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔پس ضروری ہے کہ اِس پہلو کو نمایاں کیا جائے اور نوجوانوں کے اخلاق کی نگرانی رکھی جائے۔ جہاں وہ لوگ جو بڑی عمر کے ہیں اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی پہلو کو نمایاں کریں وہاں خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عملی پہلو کو نمایاں کریں کیونکہ آئندہ تمام کام نوجوانوں کو ہی کرنا پڑے گا۔
پس خدام الاحمدیہ کی نگرانی کی جائے اور اُن میں قوتِ عملیہ پیدا کی جائے۔مجھے افسوس کے ساتھ بیان کرنا پڑتا ہے کہ نوجوانوں کے متعلق مجھے بعض نہایت ہی تلخ تجارب ہوئے ہیں شاید اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت سندھ کی زمینوں کا کام اِسی لئے میں نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اِس کے ذریعہ سے مجھ پر اپنی جماعت کے نوجوانوں کے اخلاق کی حقیقت منکشف کرناچاہتا تھا ۔باوجود اِس کے کہ مجھے فرصت نہیں تھی اور باوجود اس کے کہ اور کاموں کے علاوہ تحریک جدید کابوجھ بھی مجھ پر پڑاہواتھا پھر بھی میں نے سندھ کی زمینوں کا کام اپنی نگرانی میں لے لیا اور مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ ابھی تک دیانت بھی بعض احمدیوں میں نہیں پائی جاتی اور ابھی تک کام کرنے کا صحیح مفہوم بھی کئی نوجوان نہیں جانتے۔ ایسے ایسے آدمی بھی ہماری جماعت میں ہیں کہ اگر اُن کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ بھی اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے بھی ہیں جو سلسلہ کی ضروریات کیلئے اپنے اوقات کی ادنیٰ سے ادنیٰ قربانی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود اس کے کہ سلسلہ کے نفع اور نقصان کا سوال درپیش تھا بعض نوجوان چھ سات گھنٹہ کام کرنے کے بعد گھروں میں بیٹھ گئے اور سلسلہ کا دس بیس ہزار روپیہ کا نقصان ہو گیا۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو مجاہد کہلاتے ہیں اور وہ بھی شامل جو مجاہد تو نہیں کہلاتے مگر عام خدام میں سے ہیں۔ پس یہ حصہ نہایت ضروری ہے اور قوم کے نوجوانوں میں محنت سے کام کرنے کی عادت پیدا کرنا خدام الاحمدیہ کا اہم فرض ہے۔ مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ ایسے طریق ایجاد کریں جن سے انہیں معلوم ہو سکے کہ ہر احمدی جو مجلس خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے وہ کیا کام کرتا ہے اور اگر کسی کے متعلق معلوم ہو کہ وہ کوئی کام نہیں کررہا تو اُسے کسی نہ کسی کام پر مجبور کیا جائے۔ اسی طرح آپ لوگوں کو سکولوں اور بورڈنگوں وغیرہ کا معائنہ کر کے افسروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور ایسی سکیمیں سوچنی چاہئیں جن سے لڑکے پڑھائی میں غفلت نہ کریں۔ اِسی طرح کھیل کود میں بھی وہ باقاعدگی سے حصہ لیں۔ آپ لوگوں کو اِس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کسی محلہ میں کوئی لڑکا آوارہ نہ پھرے۔ آپ لوگوں کو اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کون کون سے نوجوان ہیں جو لغو باتیں کرنے کے عادی ہیں اور پھر ان نوجوانوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔آپ لوگوں کو اِس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ دُکانوں پر خریدو فروخت کرتے ہوئے دُکاندار اورتاجر دیانت داری سے کام لیتے ہیں یانہیں اسی طرح اور معاملات میں اُن کی دیانت اور امانت کا کیا حال ہے۔ یہ عام امور ایسے ہیں جن کی نگرانی رکھنا خدام الاحمدیہ کا کام ہے مگر اب تک اس لحاظ سے خدام الاحمدیہ نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس نہیں کیا۔ میرے پاس رپورٹیں پہنچ رہی ہیںکہ کئی مہینوںسے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری ہے اور دُکان دار دھوکا سے گراں قیمت پر اپنی اشیاء فروخت کرتے رہتے ہیں۔ اگر گوئی شخص دُکان پر گاہک بن کر آئے تو وہ انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں چیز نہیں ہے لیکن اگر وہ ایک کی بجائے دوروپے دے دے تو چوری چھپے وہ اُسے چیز لاکر دے دیتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے کہ خدام الاحمدیہ کانظام اتنا وسیع بنا دیاگیا ہے کہ ہر پندرہ سے چالیس سالہ عمر کے نوجوان کا اِس مجلس میں شامل ہونا لازمی ہے پھر بھی اِس حرکت کا انسداد نہیں کیا گیا بلکہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کئی مہینوںسے قادیان میں ایسا ہو رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ قادیان میں مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سَو ممبر ہیں مَیں اِس تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہتا ہوں اگرمجلس خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کو پوری خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہوتی اور اگر اُس کے آٹھ سَو جاسوس قادیان کے گلی کوچوں میں موجود ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ان آٹھ سَوجاسوسوں کے ہوتے ہوئے قادیان میں بلیک مارکیٹ جاری رہتی اور دھوکا بازی سے گراں قیمت پر اشیاء فروخت ہوتی رہتیں۔ دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے یاتو ان آٹھ سَو جاسوسوں میں سے ایک حصہ کو اپنی قوم کا غدّار کہنا پڑے گا اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ اُن کو اپنے فرائض سے ایسا غافل رکھا گیا ہے کہ اُنہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ اُنہیں کام کس طرح کرنا چاہئے ورنہ اگر یہ بات ہو رہی ہے اور جیسا کہ کہاجاتاہے کہ کچھ عرصہ سے قادیان کے دُکانداروں میں یہ عادت پیدا ہوگئی ہے اور دوسری طرف قادیان مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھ سَو یا آٹھ سَو پچاس جاسوس موجود ہوتے تو یہ ناممکن تھا کہ اُن کی موجودگی میں یہ بات جاری رہتی ۔ میں جاسوس کا لفظ اُن کی اہمیت کو نمایاںکرنے کے لئے استعمال کر رہا ہوں ورنہ جاسوس کا لفظ جس قسم کے لوگوں کے لئے آجکل استعمال کیا جاتا ہے اس قسم کی جاسوسی اسلام میں منع ہے۔ میں نے صرف اُن کے فرائض پر زور دینے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے ورنہ صحیح الفاظ یوں ہیں کہ اگر احمدیت کے اخلاق کے آٹھ سَو نمائندے قادیان میں موجود ہوتے اور کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جس میں ایک نمائندہ موجود نہ ہوتا یا اگر کوئی ایک گھر خالی ہوتا تو اس کے قریب کے گھر میں اخلاقِ احمدیت کا نمائندہ موجود ہوتا تو اِس قسم کے حالات کے پیدا ہونے پر اُن میں سے ہر شخص آگے بڑھتا اور کہتا میں اپنے باپ کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے چچا کے خلاف شہادت دیتا ہوں یا اپنے دوست کے خلاف شہادت دیتا ہوں کہ وہ گراں قیمت پر چوری چھپے اشیاء فروخت کررہا ہے۔ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ اگر تمہیں اپنے باپ یا اپنی ماںیا بھائی یا اپنے کسی اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تو تم خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے نڈر ہو کر گواہی دے دو اور رشتہ داری کی کوئی پرواہ نہ کرو۔ اِسی طرح اگر خدامِ خلق یہ جذبہ اپنے اندر پیدا کر چکے ہوتے تو ہر محلہ میں سے ایسے نوجوان نکل کر کھڑے ہو جاتے جو ہمارے پاس آکر کہتے ہمارے باپ کے پاس فلاں چیز موجود ہے مگر وہ دُکان پر تو یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس نہیں لیکن جب کوئی چوری چھپے زیادہ قیمت دے دیتا ہے تو اُسے وہ چیز دے دیتا ہے۔ اِسی طرح کو ئی اور نوجوان نکلتا اور کہتا کہ میری ماں جو کپڑا بیچا کرتی ہے وہ دُکان پر تو یہ کہہ دیتی ہے کہ میرے پاس فلاں کپڑا نہیں لیکن جب کوئی گھر میںآکر زیادہ قیمت دے دیتا ہے تو اِس قیمت پر وہ کپڑا نکال کر اسے دے دیتی ہے۔ اگر خدام الاحمدیہ نے اپنے فرائض کو ادا کیا ہوتا اور ہر نوجوان کے دل میں اخلاق کی اہمیت کو قائم کیا ہوتا توہمیں آج اپنے اندر وہی نظارہ نظر آتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں صحابہ کے اخلاق کا نظر آیا کرتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک منافق نے کہہ دیا کہ مدینہ چل لینے دو وہاں سب سے زیادہ معزز آدمی یعنی (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) عبداللہ بن ابی ابن سلول سب سے زیادہ ذلیل شخص یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ سے نکال دے گا۔جب اُس نے یہ بات کہی تو اس کے بعد سب سے پہلا شخص جو یہ شکایت لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچا اِسی عبداللہ بن ابی ابن سلول کا بیٹا تھا۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میرے باپ نے ایسا کہا ہے اور اُس کے اِس فعل کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ میرے باپ کے قتل کا حکم نافذ فرمائیں تو مجھے اُس کے قتل پر مقرر کیا جائے کسی اور کو مقرر نہ کیا جائے کیونکہ اگر کسی اور نے میرے باپ کو قتل کیا تو ممکن ہے میرے دل میں اُس کے خلاف جوش پیدا ہو اور میں کسی خلافِ شریعت فعل کا ارتکاب کر بیٹھوں۔ تو اگر واقعہ میں خدامِ خلق میں یہ جذبہ پیدا ہو چکا ہوتا اور وہ جرائم کی شناعت کو سمجھتے تو بجائے اِس کے کہ اس موقع پر ہمیں تحقیق کرنی پڑتی کہ کون کون لوگ ایسے ہیں جو اِس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں ہر شخص آگے بڑھتا اور کہتا کہ میرا باپ یا میرا بھائی یا میری ماں یا میرا فلاں رشتہ دار یہ جرم کر رہا ہے اور میں اس کے خلاف اپنی شہادت پیش کرتا ہوں۔
فردی جرم بے شک ایسی چیز ہے جس پر پردہ ڈالا جا سکتاہے لیکن قومی جرائم پر کبھی پردہ نہیں ڈالا جا سکتا اگر قومی جرائم پر بھی پردہ ڈالا جائے تو قوم کی ترقی با لکل رُک جائے اور اس کے افراد اعلیٰ اخلاق کو بالکل کھو دیں۔ قومی جرائم کے ارتکاب کے لئے یہ ضروری ہوتاہے کہ ہر محلہ بلکہ ہر گھر میں سے لوگ نکلیںاور بدی کا ارتکاب کرنے والوں کے راز کھول دیں۔جب قومی جرائم کے ارتکاب پر اِس طرح راز کھولے جائیںتوجن لوگوں کی اصلاح اَور ذرائع سے نہیں ہو سکتی اُن کی اصلاح اس طریق سے ہو جا تی ہے اور جبری طور پر اُن میں نیکی پیدا ہو جا تی ہے۔بدی پر جرأت انسان کواُسی وقت ہوتی ہے جب اُسے یقین ہو تا ہے کہ میرے دوست یا میرے رشتے دار میرے راز کو ظاہر نہیں کریںگے لیکن اگر اسے یقین ہو کہ میں نے جو بھی بُرا فعل کیا اُسے میرے دوست خود بخود ظاہر کر دیں گے تو وہ کبھی بُرے افعال کے ارتکاب کی جرأت نہیں کر سکتا۔ دیکھ لو چور ہمیشہ رات کی تاریکی میں چوری کرنے کی کوشش کیا کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا انتظام ہوتا کہ جونہی کوئی چور سیندھ لگاتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آسمان پر کوئی ستارہ ایسا ظاہر ہوتا جس کی چمک اور روشنی کی وجہ سے لوگ فوراً دیکھ لیتے کہ کون شخص چوری کر رہا ہے تو کیا اِس کے بعد کسی ایک شخص کو بھی چوری کی جراء ت ہو سکتی؟ یقینا کوئی شخص چوری نہ کرتا کیونکہ وہ ڈرتا کہ اِدھر میں نے چوری کی تو اُدھر ساتھ ہی میری گرفتاری عمل میں آ جائے گی اور لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ اِس فعل کا ارتکاب کس نے کیا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی سوسائٹی کے لئے ایک چمکتا ہوا ستارہ بن جائے تو کمزور لوگوں کو اخلاق اور شریعت کے خلاف افعال کرنے کی جراء ت نہ رہے اور وہ بھی نیکی اور تقویٰ کے لباس میں ملبوس ہو جائیں۔ یہی امید خداتعالیٰ اپنے مومن بندوں سے رکھتا ہے کہ وہ سب کے سب ہدایت اور رہنمائی کے چمکتے ہوئے ستارے بنیں اور جب بھی کوئی شخص کسی بُرائی کا ارتکاب کرے وہ اُس پر اُسی وقت اپنی روشنی ڈال دیں تاکہ آئندہ وہ اپنی اصلاح کر سکے اور قومی ترقی میں روک واقع نہ ہو۔ یہی خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ذریعہ ایک روحانی جماعت قائم کرنے سے منشاء ہوتا ہے۔
پس تم کو اپنا نور اتنا پھیلانا چاہئے اتنا پھیلانا چاہئے کہ تمہاری وجہ سے تاریکی کا کہیں نشان تک نہ رہے اور اگر بعض لوگ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے قومی جرائم کا ارتکاب کریں تو تمہارا فرض ہے تم اِن کو فوراً ظاہر کرو۔ بے شک اگر کسی شخص میں کوئی فردی کمزوری پائی جاتی ہے تو تم اُس کے عیب کو ظاہر نہ کرو بلکہ علیحدگی میں اُسے سمجھاؤ اور دل میں اُس کی ہدایت اور اصلاح کے لئے دعائیں کرتے رہو۔ تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم فردی کمزوریوں کا لوگوں میں ذکر کرتے پھرو لیکن جس طرح فردی جرائم کا ظاہر کرنا گناہ ہے اِسی طرح قومی جرائم کا چھپانا گناہ ہے۔ جب تمہیں قومی جرائم کا علم ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اُن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ظاہر کرو۔
میرے نزدیک اِس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہر مجلس اصلاحِ اخلاق کے سلسلہ میں اپنے پاس ریکارڈ رکھے جس سے یہ ظاہرہو سکے کہ کن کن اخلاق کی طرف ہمیں زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے بتایا ہے کہ فردی جرائم میں صرف نصیحت کرنا کافی ہے جرم کرنے والے کے نام کو ظاہر کرنا ضروری نہیں لیکن ریکارڈ میں بغیر نام ظاہر کرنے کے اِس اَمر کی صراحت کی جا سکتی ہے کہ ہم نے اتنے لوگوں کو فلاں فلاں قسم کے فردی جرائم کی بناء پر نصیحت کی اور اُن کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اِسی طرح جب کوئی قومی جرم کا ارتکاب کرے تو اُس کا بھی ریکارڈ میں ذکر آنا چاہئے۔ اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہر مجلس یہ بتا سکے گی کہ سَو میں سے اتنے فیصدی فلاں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، اتنے فیصدی لوگوں میں فلاںقسم کی کمزوری پائی جاتی ہے اور اتنے فیصدی لوگ فلاں عیب میں مبتلاء ہیں۔ بے شک اگر اِن لوگوں کا نام ظاہر کیا جائے گا تو شریعت کے خلاف ہو گا لیکن بغیر نام کی صراحت کے ایک عام ریکارڈ کے ذریعہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کن کن اخلاق کی نوجوانوں میں کمی ہے اور کن امور کی طرف ہمیں زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سچائی ہے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر مجلس میں کتنے فیصدی نوجوان سچائی اختیار کرنے میں اعلیٰ نمونہ نہیں دکھا رہے۔ یا اشاعتِ فحش ایک جرم ہے ہمیں معلوم ہوناچاہئے کہ اِس جرم کا ارتکاب کرنے والے کتنے لوگ ہمارے اندر موجود ہیں۔ بہرحال اخلاق کی نگہداشت خدام الاحمدیہ کا اہم فرض ہے اور ہر رُکن کے لئے اِس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ قومی جرم کا چھپانا ایک خطرناک جرم ہے۔ جس طرح فردی جرم کو ظاہر کرنا جرم ہے۔
قومی جرم سے مراد درحقیقت دو قسم کے جرائم ہوتے ہیں۔
اوّل وہ جرم جو قوم کے خلاف ہوتے ہیں اور جن کا قومی لحاظ سے شدید نقصان ہوتا ہے۔
دوسرے وہ افعال جو کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص کسی دوسرے پر قاتلانہ حملہ کرنے کے متعلق کوئی بات کر رہا ہو اور اُس کا علم کسی اَور شخص کو ہو جائے تو یہ فردی جرم نہیں ہو گا بلکہ قومی جرم ہو گا کیونکہ اِس کا نقصان قوم کے ایک فرد کو پہنچنے کا امکان ہے۔ اِس صورت میں اگر وہ اخفاء سے کام لیتا ہے اور دوسرا شخص حملہ کر کے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ جس نے بات کو سنا تھا اور جسے اِس سازش کا پہلے سے علم ہوچکا تھا مگر اُس نے ظاہر نہیں کیا وہ بھی اِس قتل میں شریک سمجھا جائے گا۔ـ اگر وہ وقت پر بتا دیتا تو اصلاح کی جا سکتی تھی لیکن چونکہ اُس نے وقت پر نہ بتایا اِس لئے وہ بھی قاتل سمجھا جائے گا اور شریعت کے نزدیک مجرم ہو گا۔ پس قومی جرم سے مراد وہ جرم ہیں جن کا ضرر کسی دوسرے انسان کو پہنچ سکتا ہو اور فردی جرم سے مراد وہ جرم ہیں جن کا ضرر کسی دوسرے کو نہ پہنچتا ہو یا کسی کے ایسے گزشتہ جرم کا ذکر کرنا جوخواہ اپنی ذات میں قومی جرم ہی ہو لیکن وہ حال سے منقطع ہو چکا ہو وہ بھی فردی جرم ہی سمجھا جائے گا۔ مثلاً فرض کرو ایک شخص نے آج سے دس سال پہلے کوئی چوری کی تھی اَب چوری کرنا ایک قومی جرم ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی کے دس سالہ گزشتہ چوری کے واقعہ کا ذکر کرتا ہے تو اِس چوری کو قومی جرم نہیں بلکہ فردی جرم قرار دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں ضروری ہو گا کہ وہ دوسرے کے فعل پر پردہ ڈالے اور اِس کا لوگوں میں اظہار نہ کرے۔ دس سال پہلے اگر اُس نے کسی کی پنسل چرا لی تھی یا ایسی ہی کوئی اور چیز چرالی تھی تو گو چوری کے لحاظ سے اِس کا یہ جرم کچھ کم نہیں تھا مگر چونکہ اِس پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اِس لئے اَب اِس کا اظہار کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ اَب ایسی چوری کا علاج سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ انسان توبہ کرے۔ اپنے گزشتہ قصور پر استغفار کرے اور آئندہ کے لئے عہد کرے کہ وہ ایسا فعل کبھی نہیں کرے گا۔ بہرحال اتنا لمبا عرصہ گزرنے پر اِس کا یہ فعل قومی جرم نہیں رہا بلکہ ایک فردی جرم بن گیا ہے۔ پس ہر وہ جرم جس کا ازالہ نہیں ہو سکتا یا جس فعل کے دوبارہ ہونے کا امکان نہیں وہ فردی جرم ہے۔ اور ہر وہ جرم جس کا ازالہ ہو سکتا ہے اور جس کا اثر قوم پر پڑتا ہے وہ قومی جرم ہے۔ پس قومی اور فردی جرائم میں جو فرق ہے وہ بار بار نوجوانوں کو بتانا چاہئے تاکہ ایک طرف جہاں لوگوں میں تجسس کا مادہ پیدا نہ ہو وہاں دوسری طرف لوگوں کے اخلاق کی نگرانی ہو سکے اور معلوم ہو سکے کہ کون لوگ اخلاقی حصوں پر عمل کرنے میں سُستی سے کام لے رہے ہیں۔ اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے اِس رنگ میں اصلاحِ اخلاق کی کوشش کی جاتی تو میرے سامنے یہ ذکر نہ آتا کہ قادیان میں مخفی طور پر بعض لوگ گراں قیمت پر اشیاء فروخت کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ قادیان میں ایسا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا لیکن اگر ہوتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ خدام الاحمدیہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ اِن کے نمائندے ہر محلہ میں موجود ہیں، ہر گھر میں موجود ہیں اور وہ اگر چاہتے تو اِس نقص کا آسانی کے ساتھ ازالہ کر سکتے تھے لیکن چونکہ انہوں نے اِس طرف توجہ نہیں کی اِس لئے میں سمجھتا ہوں اِس کی ذمہ داری خدام الاحمدیہ کے کارکنوں پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ باتیں باربار اپنے نمائندوں کے سامنے نہیں رکھیں ورنہ اِس سُستی اور غفلت کا ان کی طرف سے مظاہرہ نہ ہوتا۔
تیسری چیز لڑائی جھگڑا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ عادت بھی ابھی برابر جاری ہے۔ ذراسی بات ہوتی ہے لیکن اِس پر آپس میں لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک خطرناک نقص ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔ بسااوقات انسان ہنسی مذاق میں کوئی بات کہہ رہاہوتا ہے مگر دوسرا اِس مذاق کو برداشت نہ کرکے لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کردیتا ہے حالانکہ ایسے حالات میں بات کو ہنسی میں ٹال دینا زیادہ مناسب ہوا کرتا ہے۔مگر بعض دفعہ ایک شخص غصیلا ہوتا ہے اور مذاق کو برداشت نہ کر کے وہ لڑپڑتا ہے۔ جہاں ایسی صورت پیدا ہو وہاں دوسرے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاموش رہے اور وہاں سے اُٹھ کر چلا جائے۔ ہر بات جو ناپسند ہے اُس پر لڑائی شروع کر دینا معاملہ کو بِلا وجہ طول دینا اور تفرقہ وشقاق کی صورت پیدا کر کے مقاطعہ تک نوبت پہنچانا اور بول چال بند کر دینا ہرگز ایک مومن کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اگر ہر شخص کو اِس امر کی اجازت دی جائے کہ وہ جس سے چاہے بول چال بند کر دے جس سے چاہے تفرقہ اختیار کر لے تو قوم کی ٹوٹتے ٹوٹتے کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ باتیں ہیں جن کی طرف خدام الاحمدیہ کو میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ انہیں جہاں بھی پتہ لگے کہ دو احمدی نوجوان کسی وجہ سے آپس میں گفتگو نہیں کرتے تو اُن کے اِس فعل کو قومی جرم قرار دیا جائے اور انہیں نصیحت کی جائے کہ مقاطعہ کرنا یا بول چال بند کردینا جائز نہیں ہے۔ یہ تین چیزیں ہیں جن کی طرف میں اِس وقت خصوصیت سے خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں اور اصل بات تو یہ ہے کہ درد کی وجہ سے مضمون کا تسلسل بھی قائم نہیں رہا اور اب مزید کچھ کہنا میرے لئے ناممکن ہے اس لئے میں انہی تین شقوں پر آج کی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے کارکنو ںاور تمام خدام اور اطفال کو اپنی اپنی ذمہ داری کے سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قدم پر وہ آپ لوگوں کی راہنمائی فرمائے تاکہ وہ باتیں جو آپ لوگوں کو معلوم ہیں اُن پر آپ عمل کر سکیں اور جو باتیں معلوم نہیں وہ خداتعالیٰ خود آپ لوگوں کو سکھائے تاکہ آپ دین کی باتوں کو اچھی طرح جانیں اور ہمیشہ ان پر عمل کرتے رہیں ۔ (الفضل ۹؍ نومبر ۱۹۴۴ء)
۱؎ گلتیوں باب۳ آیت ۱۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۲؎ ۱۔ یوحنا باب۴ آیت ۸۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۳؎ الفضل ۸؍ نومبر ۱۹۴۲ء صفحہ۲


تمام جماعتوں میںانصار اللہ کی
تنظیم ضروری ہے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تمام جماعتوں میں انصار اللہ کی تنظیم ضروری ہے
(تقریر فرمودہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۴ء برموقع سالانہ اجتماع انصار اللہ قادیان)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضو رنے فرمایا:-
مَیں صرف مجلس انصار اللہ کی خواہش کے مطابق اِس جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کر دعا سے اِس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جاؤں گا۔ انصارللہ کی مجلس کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اَب تک اِس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔ زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ:
اوّل تنظیم کامل ہو جائے۔
دوسرے متواتر حرکتِ عمل پیدا ہو جائے۔
اور تیسرے اِس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں۔
مَیں اِن تینوں باتوں میں مجلس انصار اللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں۔ انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی، حرکتِ عمل ابھی اِن میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے مگر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے اور کم از کم اِس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو جاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثار ابھی نظر نہیں آتے۔
غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے مَیں امید کرتا ہوں کہ اِس اجتماع میں وہ اِن کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور قادیان کی مجلس انصارللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اِس ذمہ واری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اِس کے ہمسایہ کا اثر اِس پر پڑتا ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متأثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر کو قبول کرتی ہیں بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ اُن پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔ مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اِس لئے اُن کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہو گیا، مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اِس لئے اُن کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا، ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالا رنگ کے ہوتے ہیں، سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے، جنگلوں اور سُوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سُوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اُسی قسم کے ہو جاتے ہیں۔ پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں حالانکہ اُن میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی تو انسانوں کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کی وجہ سے کیوں نہیں بدل سکتے۔ خداتعالیٰ نے اِسی لئے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ۔ ۱؎ یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اِس کا گُر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو جائے جو اُس میں پایا جاتا ہے۔ پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اِس روح کو زندہ رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں ہی اُس کی اپنی اصلاح ہے۔ ہر شخص جو اپنے آپ کو اِس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے۔ بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخر دم تک ۲؎ کی دعا کرتے رہے۔ پس اگر خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور پچھلوں کا سردار ہے جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہو گا اور جس نے خداتعالیٰ کا ایسا قُرب حاصل کیا کہ اِس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر کہتا ہے، اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اِس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خداتعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا۔ پس جو شخص اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا کیونکہ اِس قسم کا استغناء عزت نہیں بلکہ ذلت ہے، ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازے کی طرف بھاگا جا رہا ہے۔
پس تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردوپیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے اِسی سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے، اِسی سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔ دعائیں بھی وہی قبول ہوتی ہیں جو خداتعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں۔ خداتعالیٰ نے ہمارے دعا مانگنے کے لئے میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردوپیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اِس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے۔ چنانچہ اِسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصار اللہ، لجنہ اماء اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کی ہیں۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ اِس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصاراللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ اِن کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گردوپیش کی اصلاح کیلئے بھی ہوں اور اِن کی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کر دیں۔
اَب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں۔ خدا کرے مجلس انصارللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں جن سے آگے خداتعالیٰ ہزاروں گنا اور بیج پیدا کر ے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لئے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خدا کی روحانی بادشاہت اُسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اُس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے۔ اٰمِیْنَ
(الفضل ۶؍ اگست ۱۹۴۵ء)
۱؎ التوبۃ: ۱۱۹ ۲؎ الفاتحۃ: ۶،۷


افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ء





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ء
وہ وقت آ گیا ہے جب ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اُٹھے گا یا نیچے گر جائے گا
(تقریر فرمودہ ۲۶ ؍دسمبر ۱۹۴۴ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
ہم پھر ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کی آواز پر لَبَّیْکَ کہتے ہوئے اُس کے دین کی خدمت اور اُس کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آج وہ حسین ترین چہرہ جس سے سورج اور چاند روشن ہیں دنیا کی نگاہوں میں تاریک نظر آرہا ہے۔ کیا مسلمان اور کیا غیرمسلمان سب کی نگاہیں آج اُس چہرہ سے ہٹ کر دوسری چیزوں پر پڑ رہی ہیں۔ وہ محبت اور وہ اخلاص اور وہ تعلق جو کسی زمانہ میں مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا آج اِس میں بے انتہاء کمی آ چکی ہے۔ ایک وقت جس کے معمولی اشارے پر لوگ بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے میں فخر سمجھتے تھے آج اُس کی آواز اور اُس کی پکار کو سننے کے لئے بھی کان تیار نہیں ہیں۔ آسمان سے اور عرش سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پکارتا ہے اور جنت سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی روح آوازیں دے رہی ہے مگر مسلمان ہیں کہ اپنے کانوں میں روئی ڈالے ہوئے ہیں نہ اِن پر عرش کی پکار کا اثر ہوتا ہے اور نہ جنت کی آوازیں سنتے ہیں۔ یا سُن سکتے ہی نہیں بلکہ لہو ولعب اور دنیا کے کاروبار سے انہیں فرصت ہی نہیں۔ کفر روز بروز اسلام کو کھائے جا رہا ہے، اسلامی روحانیت کُچلی گئی ہے، شیطان پھر آزاد ہو گیا ہے اور اُس نے پھر اسلام پر حملہ شروع کر دیا ہے۔ مسلم ہر جگہ اور ہر میدان میں اور ہر ملک میں اور ہر علاقہ میں شکست کھا رہا ہے، اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہو رہا ہے اور کفر کا جھنڈا اونچے مقام پر لہرا رہا ہے مگر پھر بھی مسلمانوں کے دلوں میں کوئی جوش، کوئی حرارت اور کوئی غیرت پیدا نہیں ہوتی۔ اسلام دن بدن کمزور ہو رہا ہے اور روز بروز گرتا جا رہا ہے ایسی حالت میں صرف اور صرف ایک ہی جماعت ہے جس نے اسلام کی امداد اور حفاظت کا بیڑہ اُٹھایا ہے اور وہ جماعت احمدیہ ہے۔
آج سے پچاس سال پہلے اسلام کی خدمت اور حفاظت کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا اور آج کے دن تک کوئی گھڑی ،کوئی لمحہ اور کوئی ساعت ایسی نہیں گزری کہ جس میں آپ یا آپ کی جماعت کی طرف سے اسلام کی خدمت نہ ہوئی ہو مگرجس حالت میں اِس وقت آپ کی جماعت ہے اِس کی تعداد اور طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی نہیںکہہ سکتا کہ یہ کمزور اور قلیل التعداد جماعت زبردست اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے کفر کو زیر کرلے گی اور اِس پر غالب آ جائے گی لیکن خداتعالیٰ کی باتیں پوری ہو کر رہتی ہیں اور کوئی طاقت اِن کو روک نہیں سکتی۔ ہمیں وہ نظارے بھی یاد ہیں جب دو چار آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے اور آج ہم یہ نظارہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں، دنیا کی ہر قوم میں، ہر نسل میں اور ہر زبان بولنے والوں میں احمدی موجود ہیں اور اِن میں ہمت اور اخلاص اور فداکاری کے جذبات اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور وہ قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔ آج خداتعالیٰ کا ہاتھ اِن کو روک رہا ہے ورنہ وہ آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پروانے موجود ہیں شمع ہی انہیں قربان ہو جانے سے روک رہی ہے اور وہ جل جانے کی خواہش اور تمنا میں جل رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تھوڑی سے بڑھ کر اَب اِس مقام پر پہنچ چکی ہے اور اِتنا وسیع کام اِس کے سامنے ہے کہ جو قومیں اِس مقام پر پہنچ جاتی ہیں وہ یا تو اوپر نکل جاتی اور سب رُکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہیں یا پھر تنزّل کے گڑھے میں گر جاتی ہیں۔ دراصل یہ مقام سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے بہت لوگ یہاں سے جب گرتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں چلے گئے مگر بہت اِس مقام سے آگے بڑھ کر اِس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اُنہیں خداتعالیٰ کا عرش نظر آنے لگتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سنتے اور اِس کے خاص انعامات کے مورد بنتے ہیں۔ خدا اُن کا ہو جاتا ہے وہ خدا کے ہو جاتے ہیں۔
پس اِس نازک وقت اور نازک مقام کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور آج آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ یا تو ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اُٹھے گا یا پھر نیچے کو گِر جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیّت اور ارادہ کے ماتحت اِس بات کا ارشا دفرمایا کہ مَیں اعلان میں اقرار کروں کہ مَیں وہی ہوں جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کے اعلان میں خبر دی ہے اور جس کے متعلق لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اُسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایۂ قبولیت جگہ دی‘‘۔۱؎
پھر فرمایا:۔
’’تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذرّیت و نسل ہو گا‘‘۔ ۲؎
سو خداتعالیٰ کے اِس ارشاد کے ماتحت مَیں نے پہلے بھی اعلان کیا اور اِس موقع پر بھی اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کا میں ہی مصداق ہوں مجھے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں اور کسی عزت کی خواہش نہیں۔ میری تو ایک ہی خواہش ہے اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ کے دین کی خدمت میں جان دے دوں اور محمدﷺ کی کھوئی ہوئی وراثت آپ کے حضور پیش کر دوں۔
میں نے بارہااپنے مولیٰ سے التجا کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہتا ہوں کہ الٰہی! اگر میری مٹی بھی کسی ذلیل ترین مقام پر پھینک دینے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی کچھ خدمت ہو سکتی ہے تو میری کسی لحاظ سے بھی کوئی پرواہ نہ کر اور محمدﷺ کے مقام کی عزت کے لئے جو بھی قربانی لی جانی ضروری ہو وہ مجھ سے لے اور مجھے توفیق دے کہ میری زندگی اور میری موت تیرے لئے اور تیرے رسول کے لئے ہو اور میری ہی نہیںمیرے دوستوں اور میرے عزیزوں کی زندگیاں بھی اِسی کے لئے ہوں۔ ہم تیرے دین کے لئے تیرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قائم کرنے والے ہوں۔
پس مَیں اَب دعا کر کے اِس جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے ہمارے دلوں میں کامل یقین اور ایمان پیدا کرے، ہم سب کو روحانی بینائی عطا کرے۔ کوئی ہم میں سے نابینانہ مرے۔ وہ ہماری آنکھیں اِس طرح کھول دے کہ ہمارے سوتے جاگتے، زندہ رہتے اور مرتے وقت خداتعالیٰ ہمارے سامنے رہے اور وہ کسی وقت بھی ہم سے مخفی نہ ہو کیونکہ اُس سے ایک منٹ کی دوری بھی تباہی ہے۔ مادی ہزار آنکھ بھی اگر پھوٹ جائے تو ہمیں کوئی پرواہ نہیں مگر دین کی آنکھ ضائع نہ ہو۔ ہر حسین چہرہ ہم سے اوجھل ہو جائے تو ہو جائے مگر خداتعالیٰ کا چہرہ اوجھل نہ ہو۔ سب دوست دعا میں شریک ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِس اجتماع کو بابرکت بنائے۔ خداتعالیٰ کا چہرہ ہمیں اِس شان سے نظر آئے کہ پھر وہ ہم سے اوجھل نہ ہو۔ اسلام کو اِس قدر بلندی حاصل ہو کہ آج جس مقام پر کفر ہے اسلام اِس سے بہت بلند مقام پر پہنچے۔ دنیا کا ایک ہی بادشاہ ہو یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ایک ہی خالق اور ربّ ہو یعنی اللہ۔
(تمام مجمع سمیت دعا کرنے کے بعد فرمایا۔)
دوستوں کو میں یاد دلاتا ہوں کہ یہ ایام خاص دعاؤں کے ہیں تمام احمدی جماعتوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا کام ہے کہ اپنی جماعت کے سب لوگوں کو دین کے کام میں لگائے رکھیں اور اِدھر اُدھر نہ پھرنے دیں۔
اِسی طرح لجنہ اماء اللہ کو چاہئے کہ عورتوں میں یہ تبلیغ جاری رکھیں کہ نمازوں کی پوری طرح پابندی کریں، دعاؤں میں مصروف رہیں، پردہ کا خیال رکھیں، ایسے ہجوم میں پردہ کا خیال کم رکھا جاتا ہے لیکن اگر ہمارا کام اسلام کو قائم کرنا ہے تو اِسی صورت میں قائم کرنا ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا ورنہ اگر کسی اور شکل میں قائم کریں گے تو یہ اسلام کی خدمت نہ ہو گی بلکہ اسلام کی دشمنی ہو گی اور ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے خادم نہ ہوں گے بلکہ آپ کے دشمن ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے افعال سے بچائے جو خدا اور اُس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہوں اور ایسے افعال کی توفیق دے جو خدا اور اُس کے رسول کو خوش کرنے والے ہوں۔ (الفضل ۳۰؍ دسمبر ۱۹۴۴ء)
۱،۲؎ تذکرہ صفحہ۱۳۶،۱۳۷ ۔ایڈیشن چہارم


لجنہ اماء اللہ کی تنظیم سے متعلق
ضروری ہدایات




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

لجنہ اماء اللہ کی تنظیم سے متعلق ضروری ہدایات
(تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۴ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
چونکہ اَب ایسا انتظام موجود ہے کہ باہر (مردانہ جلسہ) سے بھی یہاں تقریریں سُن لی جاتی ہیں اور باہر بھی مجھے تقریر کرنی ہوتی ہے اِس لئے عورتوں اور مردوں میں مشترک تقریریں ہو جاتی ہیں اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا تھا ضرورت تو نہیں تھی کہ مَیں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریر کروں مگر پھر بھی چونکہ بعض امور ایسے ہوتے ہیں جو عورتوں کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتے ہیں اور بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی طرف عورتوں کو توجہ دلانا ضروری ہوتا ہے اِس لئے بعض دفعہ ضرورت پیش آ سکتی ہے کہ مَیں عورتوں کے جلسہ میں الگ تقریر بھی کروں مگر گزشتہ سالوں میں عورتوں کی طرف سے اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مَیں ضرور اُن کے جلسہ میں الگ تقریر کیا کروں۔ یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ ہر انسان اپنا حق چاہتا ہے۔ مَیں اِس تقاضا کو بھی ردّ نہیں کر سکتا لیکن میرے گلے کی حالت اِس قسم کی ہے کہ تقریر ابھی شروع نہیں کی اور گلا بیٹھ گیا ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ اِس دفعہ مَیں کیونکر اپنی تقریریں مناسب طور پر کر سکوں گا۔ بہرحال مَیںکچھ نہ کچھ عورتوں کے جلسہ میں بھی کہنا چاہتا ہوں خصوصاً اِس لئے کہ اِس دفعہ بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔
ہماری الہامی کتاب یعنی قرآن مجید ایک ایسی زبان میں نازل ہوئی ہے جو زبان اپنے اندر معنی رکھتی ہے۔ یعنی اِس میں ہر نام کے کوئی معنی ہوتے ہیں۔ باقی زبانوں میں اگر کسی چیز کا نام بدل کر اُس کی جگہ اور نام رکھ لیا جائے تو اُس کے معنوںمیں فرق نہیں پڑے گا لیکن عربی کا نام اگر بدل کر اور نام رکھ دیا جائے تو یقینا اِس کے معنوں میں فرق پڑ جائے گا۔ مثلاً اُمّ کا لفظ لے لو۔ اُمّ کے معنی عربی زبان میں جڑ اور مقصود کے ہیں یعنی ایسی چیز جس میں سے اور چیزیں نکلیں اور جس کی طرف دوسرے متوجہ ہوں۔ اب اگر ماں کے لئے اُمّ کی جگہ عربی میں کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے تو یہ معنی بالکل بدل جائیں گے لیکن اگر پنجابی میں یا اُردو میں ماں کی جگہ کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے مثلاً پاںؔ کہہ لیا یا تاںؔ کہہ لیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ چاہے ب۔ الف۔ن کہہ لیں یا ت۔ الف۔ نکہہ لیں یا د۔ الف۔ ن کہہ لیںاور جو چاہیں اِس سے مراد لے لیں معنوں پر اِس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن عربی کے لحاظ سے اگر ہم نام کو بدل دیں تو وہ نام بے معنی ہو جائے گا۔ وہ صرف علامت ہو گی اُس کے کوئی معنی نہیں ہوں گے جیسے اُمّ کا لفظ ہے اِس کی بجائے عربی میں اگر ہم کُم کہہ دیں گے تو وہ صرف علامت رہ جائے گی اِس کے وہ معنی نہیں ہوں گے جو اُمّ کے لفظ میں پائے جاتے ہیں۔ ماں کو عربی میں اُمّ اِس لئے کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے بچوں کیلئے۔ دوسرے بچے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اِس کے محتاج ہوتے ہیں۔ پس اُمّ کے معنی عربی زبان میں اُس چیز کے ہیں جو بطور جڑ کے ہو اور جس کی طرف دوسرے لوگ متوجہ ہوں اور ماں کو اِسی لئے اُمّ کہتے ہیں کہ یہ بطور جڑ ہے نیز بچوں کی تربیت کا مرکزی مقام ہے جس کی طرف بچے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متوجہ ہوتے ہیں۔ اَب اگر اُمّ کا لفظ بدل کر اِس کی جگہ پر کوئی اور لفظ رکھ دیا جائے تو اِس لفظ سے ہرگز یہ معنی پیدا نہیں ہوں گے جو اُمّ کے لفظ سے پیدا ہوتے ہیں صرف ایک علامت رہ جائے گی۔ اِسی طرح ہمارے قرآنِ مجید میں بنی نوع یعنی مرد اور عورت کا جو مشترکہ نام ’’انسان‘‘ رکھا ہے۔یہ ’’انسان‘‘ کا لفظ بھی ایک بامعنٰی لفظ ہے۔ اصل میں یہ لفظ اُنُسَانِہے جس کے معنی ہیں دو محبتیں۔ پس یہ لفظ جو مرد اور عورت دونوں پر مشتمل ہے اِس کے معنی ہیں ایسا وجود جو دو محبتوں کا ظاہر کرنے والا ہے۔ یعنی ایک طرف یہ لفظ اُس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان ہے اور دوسری طرف اُس تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو بندوں کو بندوں سے ہے۔
پس انسان کے معنی ہیں وہ وجود جو ایک طرف خدا سے محبت کرنے والا ہو اور دوسری طرف بندوںسے محبت کرنے والا ہو۔ ایسا وجود سوائے انسان کے دنیا میں اور کوئی نہیں۔ انسان میں اگر حیات پائی جاتی ہے تو دوسرے جانوروں میں بھی حیات پائی جاتی ہے، انسان دیکھتا ہے تو دوسرے جانوروں کی بھی آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ بھی دیکھتے ہیں، انسان کے کان ہیں تو دوسرے جانوروں کے بھی کان ہوتے ہیں، جس طرح انسان کھاتا پیتا ہے، اِسی طرح وہ بھی کھاتے پیتے ہیں، انسان میں چلنے اور دَوڑنے کی صفت پائی جاتی ہے تو باقی جانور بھی چلتے پھرتے اور دَوڑتے ہیں، انسان کے نرومادہ ہوتے ہیں تو باقی جانوروں میں بھی نرو مادہ ہوتے ہیں اور وہ بھی بچے جنتے ہیں اور پالتے ہیں لیکن ایک چیز جو انسان کو باقی جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور جو چیز باقی جانوروں میں نہیں پائی جاتی وہ اُنسیت ہے جو بندے کو خدا سے ہوتی ہے۔ انسانوں میں ہی وہ لوگ نظر آتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور اُن کو خداتعالیٰ سے محبت کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی اُس کے دروازہ سے الگ نہیں ہوتے لیکن کسی حیوان میں یہ ملکہ نہیں پایا جاتا اِس لئے حیوان اِسی دنیا میں اپنی زندگی کو پورا کر لیتے ہیں اور مرنے کے بعد اُن کو دوبارہ زندگی نہیں ملتی لیکن انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتاہے اور اپنی دائمی زندگی گزارنے کے لئے وہ ایک نئی سڑک پرقدم مارتا ہے جو سٹرک کبھی جنت میں سے ہو کر گزرتی ہے اورکبھی دوزح میں سے ہو کر گزرتی ہے۔
پس انسان کے معنی ہیں دو محبتیں رکھنے والا وجود۔ ایک خداتعالیٰ سے محبت اور دوسرے بنی نوع انسان سے محبت ۔چنانچہ اِسی نام کی وجہ سے اسلام نے مذہب کی جو حقیقت بیان کی ہے وہ یہی ہے کہ مذہب اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور انسان کو بنی نوع انسان سے ہمدردی اور محبت کرنا سکھائے۔مذہب کی ساری تفاصیل یا خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کرنے کے متعلق ہو تی ہیں اور یا بنی نوع انسان سے نیک تعلق رکھنے کے متعلق ہوتی ہیں۔ نماز کیا ہے یہ اُس تعلق کا اور اُس محبت کا اظہار ہے جو بندسے اور خدا کے درمیان ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو یاد کرتی ہے جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کو یاد کرتا ہے، جس طرح بھائی بھائی کو یاد کرتا ہے، جس طرح دوست دوست کو یاد کرتا ہے، جس طرح خاوند بیوی کو یاد کرتاہے، جس طرح بیوی خاوند کو یاد کرتی ہے اِسی طرح ایک نیک انسان اپنے خدا کو فراموش نہیں کرتا اور دن میں متعدد بار اپنے خدا کو یاد کرتا ہے۔ اِسی کا نام عبادت ہے اور یہی نماز ہے۔ ہم دیکھتے ہیں جہاں حقیقی محبت ہو وہاں کوئی شخص کسی کو اُس کی یاد سے روک نہیں سکتا۔ ایک ماں کو کتنا ہی سمجھاؤ کہ وہ اپنے بچہ کی یاد چھوڑدے، بچہ کو کتناہی کہو کہ وہ اپنی ماں کو یادنہ کرئے، دوست کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے دوست کو یاد نہ کرئے، بھائی کو کتنا ہی کہو وہ اپنے بھائی کو یاد نہ کرے، باپ کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے بیٹوں کو یاد نہ کرے، بیٹوں کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے باپ کو یاد نہ کریں، بیوی کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنے خاوند کو یاد نہ کرے یا خاوند کو کتنا ہی کہو کہ وہ اپنی بیوی کو یاد نہ کرے وہ قطعاً اِس بات کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ جن کے ساتھ اُن کو محبت ہے وہ اُن کی یاد چھوڑ دیں کیونکہ اُن میں حقیقی محبت ہوتی ہے مگر انسانوں میں سے ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے ہیں جو اپنے اندر انسانیت کی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ اپنے خدا کو بھُلا بیٹھے ہیں اور وہ اِس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کو یاد دلایا جائے کہ اُن کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہی اُن کا حقیقی مالک ہے۔ اگر اُن کو یہ بات یاد کرادی جائے تو پھر وہ اِس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ اُن کے دل میں خداتعالیٰ کی یاد تازہ رکھی جائے اور پھر وہ اِس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ یاد دلادلا کر خداتعالیٰ سے اُن کا تعلق مضبوط کیا جائے یہ ایک کمزوری ہے جو انسان میں حیوانیت کی وجہ سے آئی ہے۔ انسان چونکہ پیدائش کے لحاظ سے حیوانوں سے تعلق رکھتا ہے اِس لئے جب اس پر حیوانیت غالب آجاتی ہے تو جہاں ہمیں ایسے انسان نظر آتے ہیں جو ہر قسم کے تعلقات پر خدا تعالیٰ کو ترجیح دیتے ہیں اور دنیا کی محبت پر خداتعالیٰ کی محبت کو مقّدم رکھتے ہیں وہاں اِس حیوانیت کے غالب آجانے کی وجہ سے ایسے انسان بھی نظر آتے ہیں جو خداتعالیٰ کی محبت اور اُس کے تعلق کو بھُلا کر حیوانوں کی طرح کھانے پینے، عیش اور آرام کرنے، عمدہ اور آرائش کے سامان مہیّا کرنے، سیروتفریح کرنے اور دنیا کی لذّات حاصل کرنے میں ہی زندگی سمجھتے ہیں اور اُخروی زندگی سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اُن کی ساری کی ساری خواہشات اِس دنیا کی زندگی سے وابستہ ہوتی ہیں۔ مجھے اِس پر تعجب آتا ہے۔ جس طرح ہر انسان موت سے ڈرتا ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جس طرح موت کو اپنے سے دُور رکھنے کے لئے ایک انسان ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے اگر ہماری زندگی صرف اِسی دنیا کے ساتھ وابستہ ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ موت سے بچنا چاہتا ہے۔ ہمیں اِس زندگی میں ہزار ہا بلکہ کروڑ ہا انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کے پاس دنیا کے بہترین سامانوں سے مال و دولت، آرام وآسائش اور اِس دنیا کی باقی تمام لذّتوں سے کچھ بھی موجود نہیں مگر باوجود اِس کے وہ اِس دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ اُن کے اندر اِس خواہش کا پایا جانابتاتا ہے کہ کسی اَوراہم مقصد کو پورا کرنے کے لئے اُن کو پیدا کیا گیا ہے۔ اگر کسی اَور اہم مقصد کے لئے اُن کو پیدا نہیں کیا گیا تو پھر وہ کونسی چیز ہے جو باوجود تکالیف کے اُن کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور زندہ رہنے کی اور موت سے بھاگنے کی تلقین کرتی ہے۔ پس یہ وہی خواہش اور وہی حس ہے جو خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے کہ ۱؎ کہ جِنّ واِنس کو صرف اِس لئے پیدا کیا گیا ہے تا کہ وہ عبادتِ الٰہی میں اپنا وقت گزاریں اور آئندہ زندگی کے لئے روحانی آنکھیں پیدا کریں جو خداتعالیٰ کو دیکھنے کے قابل ہوں ۔ خداتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ۲؎ یعنی جو شخص اِس دنیا میں اندھا ہے اور اُس کی روحانی آنکھیں نہیں جو خداتعالیٰ کو دیکھ سکیں آخرت میں بھی وہ اندھا ہی اُٹھایا جائے گا کیونکہ آخرت میں اُس کی روحانی آنکھیں اِسی دنیا کی رؤیتِ الٰہی سے پیدا ہوں گی۔ پس جس نے اِس دنیا میں خدا تعالیٰ کو دیکھنے والی روحانی آنکھیں پیدا نہ کی ہوں گی وہ اگلے جہان میں بھی نابینا اُٹھایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکے گا۔ قرآن مجید میں آتا ہے کہ اِس قسم کے لوگ جب اندھے اُٹھائے جائیں گے تو وہ کہیں گے ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا تو خدا تعالیٰ اُن کو یہ جواب دے گا کہ تم پچھلے جہان میں اندھے تھے اور تم نے میرے دیکھنے والی آنکھیں پیدا نہیں کیں جو اِسی جہان میں پیدا ہوتی ہیں اِس لئے اَب تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔اُس وقت ایسے لوگ کہیں گے کہ اگر ہم تجھے دیکھنے کے قابل نہیں تو ہماری اِس زندگی کا فائد ہ ہی کیا ہے۔ پس یہ خداسے تعلق پیدا کرنے اور دائمی زندگی حاصل کرنے کی خواہش انسان کے اندر مخفی ہے جسے یہ ظاہر میں بُھلا بیٹھا ہے مگر یہی خواہش اُس کو اندرہی اندر زندہ رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خودکشی سے منع کیا ہے۔ اگر انسان کو کھانے پینے کے لئے ہی پیدا کیاگیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پھر اِس کو خود کشی پر سزا ملتی ہے؟ ایک انسان کی اپنی مرضی ہے خواہ وہ کھانے پینے کے لئے زندہ رہے خواہ زندہ نہ رہے اُس کو اِس دنیا سے جُدا ہونے پر سزا دینے کی وجہ کیا ہے؟ یہی اور صرف یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس لئے پیدا کیا ہے کہ اِس دنیا میں انسان اگلے جہان کے لئے تیاری کرے۔ اگر وہ اگلے جہان کے لئے تیاری کرنے میں سُستی یا غفلت کرتا ہے اور اِس وقت کو ضائع کر دیتا ہے تو وہ مجرم ہے کیونکہ یہ وقت ایسا ہی ہے جس طرح سکول میں طالبِ علم کی پڑھائی کا وقت ہوتا ہے۔ اگر کوئی طالبِ علم کلاس سے غیرحاضر رہے تو اُس کو سزا ملتی ہے کہ اُس نے اپنے پڑھائی کے وقت کو ضائع کیا اور تعلیم حاصل کرنے میں کوتاہی کی۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص اس دنیا کی زندگی میں اگلی زندگی کے لئے تیاری نہیں کرتا تو وہ سزا کا مستحق ہے کہ اُس نے اپنے وقت کو ضائع کر دیا۔
پس انسان کے لفظ میں خدا تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا نام انسان اِس لئے رکھا گیا ہے کہ تم دو محبتیں اور دو تعلق پیدا کرو۔ ایک خدا سے محبت کرو اور اُس سے تعلق پیدا کرو اور دوسرے بنی نوع انسان سے محبت اور اُس سے تعلق پیدا کرو۔ عبادت کے جتنے حصے ہیں وہ سارے کے سارے پہلی شق کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں یعنی خداتعالیٰ سے محبت کرنے کے ساتھ اُن کا تعلق ہے۔ اور باقی جتنے اس قسم کے احکام ہیں کہ جھوٹ نہ بولو، چوری نہ کرو، خیانت نہ کرو، فریب نہ کرو، دھوکا نہ دو، غیبت نہ کرو، چغل خوری نہ کرو، ترش روئی سے پیش نہ آؤ، ہشاش بشاش رہو، نیک سلوک کرو، بزرگوں کی عزت کرو، اپنے اموال میں مستحقین کا حصہ قائم کرو، دوسروں کے دُکھوں اور غموں میں شریک ہو، عدل و انصاف کا معاملہ کرو، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو یہ سارے کے سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوعِ انسان سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس انسان اُس وجود کا نام ہے جو دو محبتیں اور دو تعلق رکھنے والا ہو ایک خدا سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے۔ اگر یہ دونوں باتیں اُس میں پائی جاتی ہیں تو وہ انسان ہے اور اگر یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تو وہ حیوان ہے خواہ اُس کی شکل انسانوں جیسی ہو کیونکہ خالی شکل کوئی چیز نہیں صرف حقیقت ہی ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے ورنہ خالی شکل تو ایسی ہی ہے جس طرح کسی چیز کی تصویر ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ بڑے سے بڑے پہلوان کی تصویر ایک بچہ پھاڑ کر پھینک سکتا ہے اگر رستم کی تصویر کاغذ پر بنی ہوئی ہو تو دو سال کا بچہ آسانی سے اُسے پھاڑ سکتا ہے۔ پس وہ انسان جس کے اندر انسانیت والی یہ دو باتیں نہیں پائی جاتیں وہ بھی محض ایک تصویر ہے جس کی خداتعالیٰ کے نزدیک کوئی قدر اور کوئی عزت نہیں۔
آگے پھر انسان کے دو حصے ہیں ایک آدم کہلاتا ہے اور ایک کو کا نام دیا گیا ہے اور جب ہم آدمی کا لفظ بولتے ہیں تو اِس کے معنی ہوتے ہیں آدم کی اولاد، مرد ہو یا عورت۔ بچوں کو ڈرانا ہو تو عورتیں کا نام لے کر ڈراتی ہیں وہ بھی یہی ہے۔ بعض بُڑھیا عورتیں جن کے دانت نِکل چکے ہوں کمر خمیدہ ہو چکی ہو اُس کے قریبی رشتہ دار بچے بھی اُس کو دیکھ کر ڈرنے لگتے ہیں یہ خیال کر کے کہ اتنے ہزار سال پہلے کی دادی اگرآ جائیں تو یقینا اُس کو دیکھ کر ڈر کے مارے بچے بھاگتے پھریں۔ کہہ کر عورتیں اپنے بچوں کو ڈراتی ہیں مگر یہ دراصل وہی دادی ہیں جو آدم علیہ السلام کی بیوی تھیں۔ آدم علیہ السلام کا نام تو قرآن مجید میں آتا ہے اور کا نام اسلامی لٹریچر اور احادیث وغیرہ میں مذکور ہے۔ یہ دونوں نام یعنی آدم اور بامعنی لفظ ہیں۔ آدم کے معنی ہیں سطح زمین پر رہنے والا جو کھیتوں میں کام کرتا ہے، تجارتیں کرتا ہے، سفر کرتا ہے۔ عربی میں اَدِیمُ الارْض سطح زمین کو کہتے ہیں اور آدم اُس وجود کا نام ہے جو سطح زمین پر رہتا ہے اور میدانوں میں کام کر کے اپنی روزی کماتا ہے۔ اور کا لفظ حَوٰی یَحْوِیْ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو ڈھانپ لینا۔ کسی چیز کو جمع کر لینا یا کسی چیز کا مالک ہو جانا تو کے معنی ہیں جو بچوں کو گھیر کر اپنے اِردگرد جمع کر لیتی ہے اور اُن پر حکومت کرتی ہے اور گھر کی مالکہ کہلاتی ہے۔ پس یہ دونوں نام بامعنی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جس کو ہم آدم کہتے ہیں واقعہ میں اُس کا نام ہی آدم تھا یا اُس کی اِن صفات کی وجہ سے اُس کا نام آدم رکھا گیا ہے اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ حدیثوں میں جس وجود کا نا م رکھا گیا ہے واقعہ میں اُس کا نام ہی تھا یا اُس کی اِن صفات کو ظاہر کرنے کے لئے اِس کا یہ نام رکھا گیا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو اگر فی الواقعہ یہ اُن کے نام تھے تو اُن کے یہ نام حقیقت کو ظاہر کرنے والے تھے اور اگر یہ اُن کی صفات تھیں تو پھر تو صفات ہی تھیں۔ پس آدم کے معنی ہیں جو محنت کرے، میدانوں میں کام کاج کرے، کھیتوں میں ہل چلائے اور زمین کو درست کر کے رہنے کے قابل بنائے۔ اور کے معنی ہیں وہ عورت جو گھر میں بیٹھتی ہے، بچوں کی نگرانی کرتی ہے اور گھر کی رانی کہلاتی ہے۔ پس ہر عورت جو آج بھی اِن صفات کو اپنے اندر رکھتی ہے یعنی گھر کی نگرانی کرتی ہے، بچوں کی تربیت کرتی ہے وہ ہے اور ہر شریف آدمی جو محنت کرتا ہے اور کام کرتا ہے اور زمین کو رہنے کے قابل بناتا ہے وہی انسان صحیح معنوں میں آدمی ہے۔ اور جو لوگ غفلت کی وجہ سے گھر میں بیٹھے مکھیاں مارتے ہیں اور محنت نہیں کرتے یا بعض امراء اور عیاش لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے باپ دادا کی کمائیاں کھاتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے وہ آدمی تو ہیں مگر صرف نام کے، کام کے آدم نہیں کیونکہ آدم کے معنی ہیں جو باہر نکل کر کام کرے اور زمین کی درستی کر کے اُسے رہنے کے قابل بنائے۔ اِسی طرح وہ عورتیں جو گھر کی خبر گیری نہیں کرتیں، بچوں کی تربیت نہیں کرتیں، گھر کے تمام سامانوں کا انتظام نہیں کرتیں اور اپنی اولاد کی تربیت اِس رنگ میں نہیں کرتیں کہ آئندہ نسل نیک، متقی، بہادر اور جری اور دین کی خاطر ہر طرح کی قربانی کرنے والی اور دین کا علم حاصل کرنے والی ہو وہ اَور ہیں کی بیٹیاں صرف نام کی ہیں کام کی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے اِرد گرد جمع نہیں کیا اور صحیح طور پر گھر کی مالکہ ہونے کا ثبوت نہیں دیا اور جیسا کہ گھر کی مالکہ کا حق تھا۔ بچوں کی بہتری اور اُن کی تربیت کا خیال رکھے اِس حق کو ادا نہیں کیا اور اولاد کی نگرانی کا جو اُن پر فرض تھا اِس فرض کو ادا نہیں کیا۔ پس وہ عورت جو بچوں کو اپنے اِرد گرد جمع کر کے اُن کی بہتری اور اُن کی تربیت کے سامان نہیں کرتی اور گھر کے کاموں کی نگرانی نہیں کرتی وہ ہے مگر صرف نام کی نہ کہ کام کی۔
پس اگر ایک عورت کی حقیقی بیٹی کہلانا چاہتی ہے تو اُس کا فرض ہے کہ گھر کے انتظام کو درست رکھے، اولاد کی صحیح تربیت کرے، ایسی تربیت کہ وہ گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق ہو۔ مالک کے یہ معنی ہیں کہ اِس کے ماتحت اِس کے فرمانبردار ہوں لیکن اگر ایک عورت بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتی تو اولاد نافرمان ہو گی کیونکہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بچوں میں یہ عادت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ بات نہیں مانتے اور پھر اُن میں بدی کی عادت ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔
کہتے ہیں ایک آوارہ گرد لڑکا تھا۔ اُس کی ماں اُس سے بہت محبت کرتی تھی جو محبت غلط قسم کی تھی وہ اُس کو کسی بُرائی سے نہیں روکتی تھی۔ شروع شروع میں جب وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی چوری کرتا تو وہ اُسے منع نہ کرتی اور اگر کوئی اُس کی ماں سے شکایت کرتا تو کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو ایسا نہیں۔ یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اُس نے بڑی بڑی چوریاں شروع کر دیں اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی۔ آخر کسی کو قتل کرنے کے جرم میں پکڑا گیا اور اُس کو پھانسی کی سزا ملی۔ جب پھانسی کا وقت قریب آیا تو حُکّام نے کہا اگر تمہاری کوئی خواہش ہو یا کسی سے ملنا چاہو تو ہم اِس کا انتظام کر دیں۔ اُس نے کہا ہاں میری ماں کو بُلوا دو مَیں اُس سے ملنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ جب اُس کی ماں کو بُلوایا گیا تو اُس نے اپنی ماں سے کہا مَیں کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ ماں نے جب اپنا کان اُس کے قریب کیا تو اُس نے اتنے زور سے اُس کے کان پر کاٹا کہ وہ تڑپ اُٹھی۔ جیل کے ملازم جو قریب ہی کھڑے تھے یہ نظارہ دیکھ کر کہنے لگے ارے ظالم! تم ابھی چند منٹ کے اندر پھانسی کے تختے پر چڑھنے والے ہو پھر بھی ایسا ظلم کر رہے ہو یہ کہاں کی شرافت ہے کہ تم نے اِس آخری وقت میں اپنی ماں کا کان کاٹ کھایا۔ اُس نے کہا آج اِسی ماں کی وجہ سے تو مجھے پھانسی کی سزا ملی ہے اگر یہ میری صحیح تربیت کرتی تو آج مَیں بھی نیک انسان ہوتا لیکن اِس نے میری صحیح تربیت نہ کی۔ بچپن میں جب مَیں غلطیاں کرتا تو یہ ماں اُن غلطیوں پر پردہ ڈالتی اگر مَیں کسی کی کوئی چیز اُٹھا لاتا اور وہ اُس کی تلاش میں میرے پیچھے آتے تو یہ کہہ دیتی کہ میرا بچہ تو تمہاری چیز نہیں لایا۔ اِسی طرح آہستہ آہستہ میرے اخلاق بگڑتے گئے یہاں تک کہ مَیں ظالم، چور اور ڈاکو بن گیا اور آج مَیں اِن گناہوں کی وجہ سے پھانسی کی سزا پانے والا ہوں۔
پس عورت اِسی صورت میں صحیح معنوں میں کی بیٹی کہلاسکتی ہے جب وہ بچوں کی صحیح تربیت کرے اور اُن کے اخلاق کی نگرانی کرے۔ اگر بچوں کے اخلاق کی نگرانی نہیں کرتی تو وہ ہرگز کی بیٹی اور گھر کی مالکہ کہلانے کی مستحق نہیں ۔ پس کی بیٹیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کریں۔
قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ ہی آتی ہے
رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ماں کے قدموں
کے نیچے جنت ہے۔۳؎ یہ کتنا لطیف فقرہ ہے اورآنحضرت ﷺنے ماں کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ عام طور پر لوگ اِس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ ماں کی اطاعت اور فرمانبرداری میں جنت ملتی ہے یہ بھی درست ہے لیکن اِس کے اصل معنی یہ ہیں کہ در حقیقت قوم میں جنت تبھی آتی ہے جب مائیں اچھی ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں۔اگر مائیں اچھی نہ ہوں اور اولاد کی صحیح تربیت نہ کریں تو اولاد بھی کبھی اچھی نہیں ہوگی اور جس قوم کی اولاد اچھی نہیں ہوگی اُس قوم میں جنت بھی نہیں آئے گی۔ پس درحقیقت قوم میں جنت ماؤں کے ذریعہ سے ہی آتی ہے۔ قوم کی مائیں جس رنگ میں بچوں کی تربیت کریں گی اُسی رنگ میں اُس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے یا بُرے پیدا ہوں گے۔اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت کریں گی تو اُس قوم کے کاموں کے نتائج اچھے پیدا ہوں گے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی اور اگر مائیں بچوں کی صحیح تربیت نہیں کریں گی تو اس قوم کے کاموں کے نتائج بھی اچھے پیدا نہیں ہوںگے اور وہ قوم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر خاص زور دیا ہے۔ رسول کریم ﷺ ایک دفعہ وعظ فرمارہے تھے کہ اگر کسی شخص کے ہاں تین لڑکیاں ہوںاور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ شخص جنت کا مستحق ہو جائے گا۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کسی کے تین لڑکیاں نہ ہوں بلکہ دو ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے دو لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ بھی جنت کا مستحق ہو جائے گا۔پھر آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کے ہاں ایک ہی لڑکی ہو اوروہ اُس کو اچھی تعلیم دلائے اور اچھی تربیت کرے تو وہ جنت کا مستحق ہو جائے گا۔۴؎
اَب دیکھورسول کریم ﷺ نے عورتوں کو تعلیم دلانے کی کتنی اہمیت بیان فرمائی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کی تعلیم وتربیت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ مجھے خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا ہے کہ اگر پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی۔ گویا خداتعالیٰ نے اسلام کی ترقی کو تمہاری اصلاح کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ جب تک تم اپنی اصلاح نہ کر لو ہمارے مبلّغ خواہ کچھ کریں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہی ہے کہ جب تک دنیا پر یہ ظاہر نہ کر دیا جائے کہ اسلام نے عورت کو وہ درجہ دیا ہے اور عورتوں کو ایسے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا ہے کہ دنیا کی کوئی قوم اِس میں اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی اُس وقت ہم غیروں کو اسلام کی طرف لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک غیر مذہب کا آدمی قرآنِ مجید کا مطالعہ اور اِس پر غور اور اِس پر عمل تو تب کرے گا جب وہ مسلمان ہو جائے گا۔ مسلمان ہونے سے پہلے تو وہ ہمارے عمل اور ہمارے نمونہ سے ہی اسلام کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ پس عورتوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے۔قادیان میں تو اِس کام کے لئے ہر قسم کی جدوجہد ہو رہی ہے۔ یہاں تعلیم کا انتظام بھی موجود ہے۔ لڑکیوں کے لئے مدرسہ اور دینیات کا کالج بھی ہے مگر جیساکہ مَیں بتا چکا ہوں اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے یہ کام ہمارے بس کا نہیں بلکہ یہ کام تمہارے ہاتھوں سے ہو سکتا ہے جب تک تم ہماری مد د نہ کرو اور ہمارے ساتھ تعاون نہ کرو اور جب تک تم اپنی زندگیوں کو اسلام کے فائدہ کے لئے نہ لگاؤ گی اُس وقت تک ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے دو حصے کر کے اِس کے اندر الگ الگ جذبات پیدا کئے ہیں۔ عورت مرد کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتی اور مرد عورت کے جذبات کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا پس چونکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات پہچاننے سے قاصر ہیں اِس لئے مردوں کی صحیح تربیت مرد ہی کرسکتے ہیں اور عورتوں کی صحیح تربیت عورتیں ہی کر سکتی ہیں۔ ہم عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتے ہمارے دلوں میں تو مردوں والے جذبات ہیں عورتوں کے دُکھ اور اُن کی ضروریات عورتیں ہی سمجھ سکتی ہیںاور وہی اُن کے شکوک کا ازالہ اور اُن کی مشکلات کاحل اور اُن کی صحیح اصلاح کر سکتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے وہی مذہب مفید ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہو۔ اگر انسان مذہب بنائے گا اور اُس مذہب کا بنانے والا مرد ہوگاتو وہ صرف مردوں کے جذبات اور مردوں کے خیالات کو ہی ملحوظ رکھے گا وہ عورتوں کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گا۔ اور اگر اُس مذہب کو بنانے والی عورت ہوگی تو وہ صرف عورتوں کے جذبات اور عورتوں کے خیالات کو ملحوظ رکھ سکے گی اور مردوں کے جذبات اور مردوںکے خیالات کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکے گی۔ پس اِس خلیج کو جو مرداور عورت کے درمیان حائل ہے اگر کوئی وجود پاٹ سکتا ہے تو وہ خداتعالیٰ ہی ہے اور وہی مذہب ساری دنیا کے لئے مفید ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہو۔ خداتعالیٰ ہی ہے جس نے مردوں کو بھی پیدا کیا ہے اور عورتوں کو بھی، اور جو عورتوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور مردوں کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے اور مرودں کی خوبیوں سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے اور مردوں کی قابلیت سے بھی واقف ہے، جو عورتوں کے جذبات کو بھی سمجھتا ہے اور مردوں کے جذبات کوبھی جانتا ہے قرآن مجید میں آتا ہے۔ ۵؎ کہ اِس دنیا میں دو دریا پاس پاس اور اکٹھے بہتے ہیں مگر باوجود پاس پاس اور اکٹھے بہنے کے وہ آپس میں ملتے نہیں۔ یہ دو دریا مرد اور عورت ہی ہیں جو ایک دوسرے کے پاس پاس رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے اُن کو محبت اور پیار بھی ہوتاہے۔ بہن بھائی سے محبت کرتی ہے اوربھائی بہن سے محبت کرتاہے، خا وند بیوی سے محبت کرتا ہے اور بیوی خاوند سے محبت کرتی ہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کی خاطر بعض دفعہ اپنی جا نیں بھی قربان کردیتے ہیں لیکن پھر بھی عورت عورت ہی ہے اور مرد مرد ہی ہے اِــــــــــــن دونوںکے درمیان ایک پردہ حائل ہے اور یہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے سوائے اِس کے کہ خدا تعالیٰ میں ہو کر آپس میں مل جا ئیںیہی ایک رشتہ ہے جو ایک دوسر ے کوآپس میں ملاتا ہے۔خدا تعا لیٰ نے اِس لئے مجھے کہا ہے کہ عورتوں کی اصلاح کروکہ مَیں امام ہوں لیکن جیسا کہ مَیں نے بتا یا ہے یہ کام تمہاری مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔تم ہی ہو جو یہ کام کر سکتی ہو ۔تم ہی ہو جواسلام کی ترقی کی داغ بیل ڈال سکتی ہو۔یہ کام صرف تمہا رے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے اور تمہا ری مدد اور تعاون کے بغیر اِس کام میں کامیاب ہونا ممکن نہیں۔ پس مَیںیہ اللہ تعا لیٰ کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوںکہ اگر تم پچاس فیصدی عورتوںکی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حا صل ہو جا ئے گی۔پس جو عورتیں اِسلام کا درد رکھتی ہیں اور اس کی ترقی چاہتی ہیںاور اپنے اندر اخلاص رکھتی ہیںاُن کا فرض ہے کہ عورتوں کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوں۔
مَیں نے عورتوں کی اصلاح کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم کی ہوئی ہے لجنہ کو چاہئے کہ وہ اپنی تنظم کومکمل کرے اور عورتوں کی اصلاح اور اُن کی تربیت اور اُن کے اخلاق کی درستی کی کوشش کرے اور عورتوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے جن سامانوں کی ضروت ہے وہ سامان مہیا کرے۔ قادیان میں تو لجنہ اماء اللہ دیر سے قائم ہے باقی سارے ہندوستان میں چالیس پچاس لجنائیں ہیں حالانکہ اِس کے مقابل مردوں کی آٹھ سَو سے اوپر انجمنیں ہیں۔ جہاں مردوں کی آٹھ سَو سے اُوپر انجمنیں ہیں وہاں عورتوں کی چالیس پچاس لجناؤں کے معنی یہ ہیں کہ ابھی تک عورتوں کا بیسواں حصہ بھی منظم نہیں ہوا۔ کام کا سوال تو دوسری چیز ہے پہلا کام تو یہی ہوتا ہے کہ تنظیم مکمل کی جائے جب تک تنظیم کے سامان ہی پیدا نہ ہوں اُس وقت تک آگے کام کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس آج مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جتنی عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہیں اگر اُن کے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم نہیں ہے تو وہ یہاں سے واپس جا کر لجنہ اماء اللہ قائم کریں اور اگر وہاں لجنہ اماء اللہ قائم کرنے کے سامان نہ ہوں مثلاً وہاں کوئی پڑھی لکھی عورت نہ ہو جو کام کرسکے تو وہ مرکزی لجنہ اماء اللہ سے مِل کر بات کرتی جائیں اور ہدایات لے لیں اور اپنا نام و پتہ وغیرہ اُن کو لکھاتی جائیں تاکہ ان کے ہاں لجنہ کے قیام کا سامان کیا جائے۔اگر ہم عورتوں کی اصلاح کا کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ جہاں ایک سے زیادہ عورتیں ہوں وہاں لجنہ اماء اللہ قائم کی جائے۔ لجنہ کے معنی ہیں کمیٹی۔ اردو میں جس کو کمیٹی کہتے ہیں عربی میں اس کانام لجنہ ہے پس ہر احمدیہ جماعت میں مستورات کی ایک کمیٹی ہو جہاں پڑھی لکھی عورتیں موجود ہوں وہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ سے خط وکتابت کر کے قواعد وغیرہ منگوالیں اور اپنے ہاں کی عورتوں کو جمع کر کے اُن کو وہ قواعد وغیرہ سُنائیں اور لجنہ قائم کریں۔ اورجہاں پڑھی لکھی عورتیں موجود نہ ہوں وہ کسی مرد سے خط لکھوالیں اور مرکزی لجنہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں اور اگر وہ عورتیں یہاں جلسہ پر آئی ہوئی ہوں تو وہ خود لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی کارکنوں سے مل کر اپنی ضرورتیں ان کے سامنے بیان کریں تاکہ مرکزی لجنہ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مسئلہ کو حل کر سکے اور ہر جماعت میں لجنہ قائم ہو سکے۔ پس جب تک تمام عورتوں تک آواز نہ پہنچائی جاسکے اُس وقت تک کام نہیں ہو سکتا اور آواز پہنچانے کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تمام عورتوں کو منظم کیا جائے اور ہر گاؤں اور ہر قصبہ اور ہر شہر میں لجنائیں قائم کی جائیں۔ اِس وقت ہندوستان سے باہر بھی بعض جگہوں پر لجنائیں قائم ہیں لیکن نہ تو ہندوستان کے اند ر پوری طرح کام ہو رہا ہے اور نہ باہر ہی کام ہو رہا ہے پس مَیں جماعت کی خواتین کو خصوصیّت کے ساتھ یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ یہاں سے یہ پُختہ ارادہ کر کے جائیں کہ اپنے شہر اور اپنے گاؤں میں لجنہ قائم کئے بغیر وہ دم نہیں لیں گی اور اگر اُن کے ہاں پڑھی لکھی عورتیں نہ ہوں اور خط وکتابت کرنے میں دِقت ہو تو وہ کسی مرد سے خط لکھوالیں اور لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو اطلاع دیں اور اپنی ضروریات اُن کے سامنے بیان کریں یا مجھے خط لکھوا دیں مَیں اُن کی ضروریات پوراکرنے کا انتظام کرادوںگا۔ میرا منشاء ہے مبلّغین کے سپرد بھی یہ کام کیا جائے کہ جہاں جہاں وہ جائیں وہاں لجنہ اماء اللہ ضرور قائم کریں اور اِس سال کے اندر اندر ہر گاؤں ،ہر قصبہ اور ہر شہر میں یہ کام ہو جائے۔ اِس وقت گاؤں تو الگ رہے کئی شہروں میں بھی ابھی لجنائیں قائم نہیں۔ پس اِس سال اِس کے لئے پوری پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ۱۹۴۵ء کے اندر اندر ہر جماعت میں عورتوں کی تنظیم اور لجنہ کا قیام ہو جائے تا کہ خدا تعالیٰ تو فیق دے تو دوسرے سال ہم عورتوں کی اصلاح اور تربیت کی طرف قدم اُٹھاسکیں۔
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو بھی مَیں ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دفتر کو مضبوط کرے اور اپنے کام کی اہمیت کو سمجھے۔ اِس وقت تک قادیان کی لجنہ اماء اللہ کو ہی لجنہ مرکزیہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ قادیان کی لجنہ دوسرے شہروں کی لجناؤں کی طرح الگ ہو اور لجنہ مرکزیہ الگ ہو۔ پھر لجنہ مرکزیہ چھ سات مختلف کاموں کے لئے مختلف سیکرٹری مقرر کرے اور اُن کے الگ الگ دفاتر بنا کر جن جماعتوں کا اُنہیں پتہ ہو اُن کے ساتھ خط وکتابت کریں اور جن جماعتوں کا اُنہیں علم نہ ہواُن کا پتہ صدر انجمن احمدیہ کے دفتر سے لے لیں اور پھر وہاں کے مرد سیکرٹری سے خط وکتابت کر کے وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کر لیں اور پھر وہاں پر لجنہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ پس ایک طرف تو مَیں ہر عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہاں سے وہ اِس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ وہاں جاکر ضرو رلجنہ اماء اللہ قائم کرے گی اور دوسری طرف مَیں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو اِس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اِس سال کے اندر اندر ہندوستان کے ہر شہر ،ہر قصبہ اور ہرگاؤں میں ضرور لجنہ اماء اللہ قائم کردے گی اور نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی لجنائیں قائم کرنے کی کوشش کرے گی۔مَیں دونوں کواِس لئے توجہ دلاتا ہوں کہ بعض دفعہ افراد سُستی کر جاتے ہیں اور بعض دفعہ مرکز سُستی کرجاتا ہے اِس لئے مَیں نے دونوں کو توجہ دلادی ہے کہ اگر مرکز سُستی کرے گا توافراد اِس سُستی کو دُور کرنے کی طرف مرکز کو توجہ دلاسکیںگے اور اگر افراد سُستی کریں گے تو مرکزاُن کی اصلاح کی کوشش کرے گا۔ اِس وقت تک مرکزی لجنہ کا قصور ہے اور اُن کی غلطی ہے کہ ابھی تک اُنہوں نے اپنے دفتر کو منظم نہیں کیا۔ بڑے کام بغیر کسی عملہ کے نہیں ہوسکتے مَیں نے کئی دفعہ لجنہ کی عورتوں کو توجہ دلائی کہ وہ دفتر میں ایسی مستقل کارکن عورتیں مقرر کریں جوپورا وقت دفتر میں کام کریں۔ آخر عورتیں مدرسوں میں پڑھاتی ہیں۔ ڈاکٹری کرتی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ مستقل طور پر کام کرنے والی عورتیں دفتر کو نہ مل سکیں۔ پس مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسی عورتیں مِل سکتی ہیں جو مناسب گزارہ پر کلر ک یا سیکرٹری کے طور پر باقاعدہ دفتر میں کام کریں اور باہر کی لجنات سے خط وکتابت کریں۔ اِس وقت یہ کام ایسی عورتوں کے سپرد ہے جن کو کبھی فرصت ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی اِس لئے وہ اِس رنگ میں کام نہیں کر سکتیں جس رنگ میں کہ ہونا چاہئے۔ مَیں نے خدام کو بھی شروع شروع میں نصیحت کی تھی کہ اپنے دفتر میں مستقل کارکن رکھو اور اِس بات کی پرواہ نہ کرو کہ ایسے کارکنوں کو گزارے کے لئے کچھ رقم دینی پڑے گی کیونکہ جب تک تم مستقل کارکن نہیں رکھوگے اُس وقت تک تم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ خدام نے ایسے کارکن رکھے اور بہت حد تک ہندوستان میں اُن کی تنظیم ہوچکی ہے اِسی طرح لجنہ بھی جب تک مستقل کارکن دفتر میں مقرر نہیں کرے گی اُس وقت تک وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ـیہ خیال بالکل غلط ہے کہ بغیر مستقل طور پر کام کرنے والی عورتوں کے وہ اِس کام میں کامیاب ہو سکیں گی۔ شاید عورتیں آج سے پانچ سال پہلے منظم ہو جاتیں اگر مرکزی دفتر میں مستقل طور پر کام کرنے والی کلرک عورتیں مقرر ہوتیں جو باقاعدہ باہر کی عورتوںسے خط وکتابت کرتیں۔ پس مَیںلجنہ اماء اللہ مرکزیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنوری ۱۹۴۵ء میں وہ اپنے کام کی سکیم مرتب کر لیں اور ایسی کلرک عورتیں اپنے دفتر میں مقرر کریں جن کا یہ کام ہو کہ وہ ہر روز بیرون جات کی عورتوں سے خط وکتابت کریں اور جہاں کے پتے ان کو معلوم نہ ہوں صدر انجمن کے ذریعہ سے وہاں کے مرد سیکرٹریوں کے پتے دریافت کرکے اُن کو خط لکھ کر وہاں کی عورتوں کے متعلق دریافت کرلیں اورپھر ان عورتوں سے خط وکتابت کر کے وہاں لجنہ قائم کریں۔ اِس طرح جب ہر جگہ لجنہ اماء اللہ قائم ہوجائے گی تو اُن کی ضرورتوں کا لجنہ مرکزیہ کو علم ہوتا رہے گا اور اُن کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ ہو سکے گی۔ اگر کسی جگہ قرآن مجید جاننے والی کوئی عورت نہ ہوگی تو وہاں کی عورتیں لجنہ مرکزیہ کو لکھیں گی کہ ہمارے لئے اُستانی مقرر کرو جو ہمیں قرآنِ شریف پڑھائے۔اگر کسی جگہ اُردوجاننے والی کوئی عورت نہیں ہوگی تو وہاں کی عورتیں، لجنہ مرکزیہ کو لکھیں گی کہ کسی اُستانی کا انتظام کیا جائے جو ہمیں اُرود پڑھائے تاکہ ہم سلسلہ کے اخبار اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھ سکیں۔ تو وہاں کی لجنہ، مرکزی لجنہ سے خط وکتابت کر کے اپنی ضرورتیں اُن کے سامنے بیان کرے گی اور لجنہ مرکزیہ کا کام ہوگا کہ اُن کی اِس قسم کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ پس جب تک عورتوں کی تربیت کے مسئلہ کو حل نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کام نہیں بن سکتا۔
عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اِس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشہ کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آسکتا ہے لیکن اُس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے ۔ پس جب تک افراد کی درستی نہ ہواُس وقت تک قوم کبھی درست نہیں ہو سکتی کیونکہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے پس لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے بہت بڑا کام کرنا ہے جو یہ ہے کہ جماعت کی تمام عورتوں کو اِس قابل بنادیا جائے کہ وہ دین کی باتوں کو پڑھ کر اُن پر غور کر سکیں اور اُن کو سمجھ سکیں ـ۔جب دینی باتوں کی تفصیلات پر غور کرنے کامادہ اُن کے اندر پیدا ہو جائے گا اِس کے بعدپھر یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ سکیں اور دین کے لئے مفیدکام کر سکیں۔ جس طرح انسان کا ہاتھ ہی ہوتا ہے جو سارے کام کرتا ہے لیکن بندھا ہوا یا زخمی ہاتھ کیا کام کر سکتا ہے اسی طرح عورتیں بے شک قیمتی اور مفید وجود ہیں جو بہت کام کر سکتی ہیں لیکن پہلے ان کو مفید اورکام دینے کے قابل بنانا پڑے گا۔ اور جس طرح پہلے ہیرے کو تراشا جاتا ہے اور پھر وہ مفید اور زینت کا موجب ہوتا ہے اِسی طرح عورتوں کی بھی اصلاح کرنی پڑے گی پھر وہ دین کے لئے مفید ہوسکیں گی۔ پس لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے ابھی بہت لمبی منزل طے کرنی ہے اور بہت بڑا کام اُس کے سامنے ہے جس کے لئے رات اور دن قربانی کی ضرورت ہے اور ایسی عورتوں کی ضرورت ہے جو اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کریں جس طرح مرودں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے۔ پس مَیں لجنہ مرکزیہ کو ایک مہینہ تک کی مُہلت دیتا ہوں کہ اِس مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری ۱۹۴۵ء ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کر لیں۔
دفتر کے لئے زمین بھی خریدی جاچکی ہے جو اُمِّ طاہر مرحومہ کی یاد گار ہے اِس کی قیمت قرض لے کر ادا کر دی تھی۔ یہ جگہ دارالانوار کو جاتے ہوئے پریس کے قریب ہے جہاں سٹرک کا موڑ ہے وہاں لجنہ کے دفاتر اچھی طرح بن سکتے ہیں۔ یہ جگہ خالص احمدی علاقہ میں ہے جہاں عورتوں کو جمع ہونے میں کوئی تکلیف نہیںہو سکتی اور پھر صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی وہاں سے قریب ہیں جہاں سے ضرورت کے موقع پر ہر قسم کی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے پیدا شُدہ مشکلات کی وجہ سے ہم فی الحال وہاں پر عمارت تو نہیں بنا سکتے زمین وقت پر ملک عمر علی صاحب سے خرید لی گئی تھی جو اُس وقت ملک صاحب نے سلسلہ کی خاطر قربانی کر کے چارہزار روپیہ میں دیدی تھی جو اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے بھی سَستی تھی اگر وہ اِس سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کرتے تو اُن کا حق تھا ۔میں نے اُمِّ طاہر مرحومہ سے کہا کہ تم ملک صاحب سے کہو کہ سلسلہ کے لئے اِس زمین کی ضرورت ہے بغیر کسی نفع کے وہ یہ زمین سلسلہ کے لئے دید یں۔ چنانچہ اُنہوں نے بغیر کسی نفع لئے دیدی حالانکہ اُس وقت بھی اس کی قیمت اس رقم سے زیادہ تھی جو انہوں نے لی اور اَب تو موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے وہ پچیس تیس ہزار روپیہ کی ہے۔ اگر جنگ کے بعد وہاں عمارت بنائی جائے تو میرا ندازہ ہے کہ تیس چالیس ہزاز روپیہ عمارت پر خرچ آئے گا جس میں کچھ کمرے دفاتر کے لئے مخصوص ہوں، تقریروں وغیرہ کے لئے ایک ہال ہو جس میں ہزار ڈیڑھ ہزار عورتیں جمع ہو کر اپنے اجلاس وغیرہ کر سکیں، کچھ کمرے بطور مدرسہ کے ہوں، کچھ کواٹر بن جائیں تاکہ دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والیاں وہاں رہ سکیں، ایک لائبریری بھی ہو اِن سب کاموں کے لئے کم ازکم پندرہ بیس کمرے ہوں اور ایک ہال ہو جس میں اجلاس وغیرہ ہو سکیں۔ میرا اندازہ ہے کہ غالباً تیس چالیس ہزار روپیہ اِس عمارت پر خرچ آئے گا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی مستورات کے لئے اِس رقم کا جمع کرناکوئی بڑی بات نہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے باوجود اِس کے کہ گو ہماری جماعت کی مستورات دوسری مستورات سے تعلیم میں زیادہ نہیں ہیں مگر ان کے اندر خدا کے فضل سے قربانی کی ایسی روح اور ایسا اخلاص پایا جاتا ہے کہ چندہ کی جو تحریک بھی ان کے سامنے پیش کی جائے فوراً ہی وہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے۔
آج سے بیس سال قبل مَیں نے برلن میں مسجد بنانے کے لئے جماعت کی عورتوں میں چندہ کی تحریک کی تو اُس میں نمایاں کامیابی ہوئی اور فوراً ہی ستّر ہزار روپیہ عورتوں نے جمع کر دیا۔مَیں سمجھتا ہوں ہندوستان میں کسی قوم کی عورتیں بھی ایسی نہیں جن کے اندر قربانی کا ایسا مادہ پایا جاتا ہو جیسا کہ ہماری جماعت کی عورتوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اگر ہندوستان کی چھوٹی سے چھوٹی قوم کے برابر بھی ہماری تعداد ہوتی تو آج خدا کے فضل سے ہمارے مرد تو مرد ہماری عورتیں بھی دین کی خاطر اتنی رقم پیش کر دیتیں کہ یورپ کے مال دار ممالک کے لوگ بھی مذہب کی خاطر اتنی رقم پیش نہ کر سکتے اور نہیں کیا کرتے۔ اِس وقت ہمار ی کل تعداد چار پانچ لاکھ ہے اور سِکّھوں کی تعداد جو ہندوستان میں سب سے چھوٹی اقلیت ہیں چالیس لاکھ ہے گویا ہم اُن سے بھی آٹھواں دسواںحصہ ہیں لیکن اگر ہماری تعداد سکّھوں کے برابربھی ہوتی تو ہماری جماعت کی عورتیں مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع کر دیتیں کہ یورپ کی بڑی بڑی مالدار قومیں بھی مذہب کی خاطر اتنا چندہ جمع نہ کرسکتیں اور نہیں کیا کرتیں۔ پس قربانی کا مادہ تو ہماری جماعت کے اندر خداتعالیٰ کے فضل سے پایا جاتا ہے اور وہ ایمان بھی اِسے حاصل ہے جو قربانی کرایا کرتا ہے۔ صرف ہماری طرف سے ہی کوشش میں کوتاہی ہوتی ہے۔
پس یہ سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کہ یہ روپیہ کہاں سے آئے گا کیونکہ جب ہم خداتعالیٰ کے دین کی خاطر کسی کام کا ارادہ کرتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ یہ کام ہو جائے تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کُنْ اور وہ کام ہو جاتا ہے۔پس روپیہ کی دِقّت نہیں روپیہ تو ہماری جماعت کی عورتیں خداتعالیٰ کے فضل سے آسانی سے ادا کر دیں گی۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ لجنہ اماء اللہ کے مرکزی دفتر کو منظم کیا جائے اور مستقل کام کرنے والی عورتیں دفتر میں رکھی جائیں اور ہر جگہ کی عورتوں کے پتے دریافت کر کے اُن کے ساتھ خط و کتابت کی جائے اور ہر جگہ لجنہ قائم کی جائے اور وہاں کی عورتوں کو منظم کیا جائے۔
اِس کے بعد جس طرح مردوں کے دو اجتماع ہوتے ہیں ایک یہ جلسہ سالانہ اور ایک مجلسِ شوریٰ اسی طرح عورتیں بھی اِس جلسہ کے علاوہ کسی اور موقع پر اپنا ایک دوسرا اجتماع کیا کریں اور ہندوستان کی تمام لجنات کی طرف سے نمائندہ عورتیں اِس اجتماع میں شامل ہو کر اپنے کاموں پر غور کریں اور ایسے قواعد مرتب کریں جن سے وہ مزید ترقی کر سکیں۔ لجنہ مرکزیہ کو چاہئے کہ اِس موقع (جلسہ سالانہ) پر جو عورتیں باہر سے آئی ہوئی ہیںاُن سے مل کر مشورہ کرے کہ وہ اجتماع کس موقع پر رکھا جائے۔ اگر وہ اجتماع مجلسِ شورٰی کے موقع پر رکھ لیا جائے اور تمام لجنات کی مختلف کاموں کی سیکرٹریوں کو اُس موقع پر بُلا لیا جائے تو شاید مَیں بھی اُس موقع پر وقت نکال کر انہیں ہدایات دے سکوں کہ وہ کس طرح اپنے کام کو منظم بنا سکتی ہیں۔ جب وہ منظم ہو جائیں گی تو پھر اُن کی اصلاح کے لئے اگلا قدم یہ اُٹھایا جائے گا کہ ہر ایک عورت اپنی مروّجہ زبان میں لکھنا پڑھنا سیکھ لے۔ درحقیقت جس قوم کو اپنی زبان میں لکھنا اور پڑھنا آ جائے اُس کیلئے باقی سارے علوم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جس کو ہم منطق یا لاجک (LOGIC)کہتے ہیں یہ وہی چیز ہے جو ہر مرد اور ہر عورت روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتے ہیں۔ جب تم کسی کی بیوقوفی پر ہنستی ہو تو اِس کی یہی وجہ ہوتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اِس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ تم اُس کی بات کو غیر منطقی یا اَن لاجیکل (UN-LOGICAL)سمجھتی ہو۔ جب تم کسی بات پر کہتی ہو کہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی یا یہ بات خلافِ عقل ہے تو اِسی کا نام غیرمنطقی یا اَن لاجیکل رکھ کر تمہیں ڈرایا جاتا ہے۔ ورنہ وہ کوئی اور علم نہیں جو مردوں کو آتا ہے اور تمہیں نہیں آتا بلکہ یہ وہی چیز ہے جو تم روزمرہ کی بول چال میں استعمال کرتی ہو۔ اِسی قسم کی ہزارہا باتیں ہیں جن کا نام تم غیرزبان میں سُن کر حیران اور مرعوب ہو جاتی ہو ورنہ وہ کوئی اور چیز نہیں ہوتی وہی چیز ہوتی ہے جو تمہاری عام بول چال میں پائی جاتی ہے۔ پس اگر تم اپنی اُردو زبان میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لو تو اُن تمام باتوں کو تم آسانی سے سمجھ سکتی ہو اور ہر علم سے فائدہ اُٹھا سکتی ہو اور آج جن علوم کے بڑے بڑے نام رکھ کر تمہیں مرعوب کیا جاتا ہے اُردو جان لینے پر اِن تمام باتوں کا سمجھنا تمہارے لئے بالکل معمولی معلوم ہو گا۔ پس لجنہ اماء اللہ کا
پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب اُن کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا اور پڑھنا سکھا دے پھر
دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز،روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اُردو زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے جائیں اورپھر
تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ اُن کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر اُن کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور
آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآنِ مجید آ جائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآنِ مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو۔
اِس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہو گی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو۔ میری حیثیت اُستاد کی ہے اِس لئے کوئی حرج نہیں اگر مَیں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عورتیں قرآنِ مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں۔ مَیں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں اِس لئے جو ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں ۔
(حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہو گئیں جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا)
بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ اَب بیٹھ جاؤ۔ میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اِس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآنِ مجید کا ترجمہ جانتی ہوں مگر خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں۔ میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہو گی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآنِ مجید کا ترجمہ جانتی ہو گی اور مجھے خوشی اُس وقت ہو گی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہیں جانتی ہو بلکہ قرآن مجید کو سمجھتی بھی ہو۔ اور مجھے حقیقی خوشی اُس وقت ہو گی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو اور پھر اِس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہو گا جس دن خداتعالیٰ تمہارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآنِ مجید کو سمجھ لیا ہے اور اِس پر عمل بھی کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اِس تقریر سے میری جو غرض تھی وہ پوری ہو چکی ہے پرسوں سے نزلہ میرے گلے میں گِر رہا ہے جس کی وجہ سے آواز بیٹھی جا رہی ہے۔ ابھی مَیں نے باہر جا کر مردوں میں لمبی تقریر کرنی ہے جو یہاں بھی آپ سُن لیں گی اِس لئے اَب میں اِسی پر بس کرتا ہوں اور جو باتیں مَیں نے بیان کی ہیں انہیں پھر دُہرا دیتا ہوں کہ:
(۱) آپ میں سے ہر خاتون یہاں سے اِس ارادہ کے ساتھ اپنے وطن واپس جائے کہ جاتے ہی اپنے ہاں لجنہ قائم کرے گی۔
(۲) اور لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ایک ماہ کے اندر اندر منظم ہو جائے اور ایسی کوشش اور محنت کے ساتھ کام کرے کہ اِس سال کم از کم تمام عورتوں کی تنظیم ہو جائے اور تمام ممالک میں بِالخصوص ہندوستان میں ہر گاؤں، ہر قصبہ اور ہر شہر میں لجنہ اماء اللہ قائم ہو جائے۔
اِس کے بعد مَیں یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ گزشتہ دنوں مَیں نے جو قرآنِ مجید کے سات زبانوں میں تراجم کی تحریک کی تھی اُس میں سے ایک زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ اور کسی ایک اسلامی کتاب کا ایک زبان میں ترجمہ اور اُس کی اشاعت کا خرچ یعنی اُٹھائیس ہزار روپیہ مَیں نے عورتوں کے ذمہ لگایا تھا اور مَیں نے کہا تھا کہ جرمن زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اِس کے چھپوانے کا خرچ اورجرمنی زبان میں کسی ایک اِسلامی کتاب کا ترجمہ کرانے اور جرمن زبان میں اُس کے چھپوانے کا خرچ جس کے لئے اُٹھائیس ہزار روپیہ کااندازہ ہے یہ رقم جماعت کی عورتیں مل کر ادا کریں۔ چنانچہ ہماری جماعت کی عورتوں نے اپنی قدیم روایتوں کو قائم رکھا ہے اور اِس وقت تک ۳۴ ہزار روپے کے وعدے ہو چکے ہیں۔ گو خداتعالیٰ کے فضل سے رقم پوری ہو چکی ہے بلکہ جتنا مطالبہ کیا گیا تھا اُس سے زائد وعدے ہو چکے ہیں لیکن ابھی جماعت کی عورتوں کا ایسا حصہ باقی ہے جنہوں نے اِس میں حصہ نہیں لیااور مَیں چاہتا ہوں کہ ہر ایک عورت اِس میں شامل ہو جائے وہ ایک ادھنی یا ایک پائی ہی دے مگر اِس نیکی میں شامل ہونے سے محروم نہ رہے اِس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ جن عورتوں نے ابھی تک حصہ نہیں لیا وہ بھی ضرور حصہ لیں۔ اگر کوئی عورت ادھنی دے سکتی ہے تو وہ ادھنی دے کر ہی اِس نیکی میں شامل ہو جائے کیونکہ رقم کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس وقت جرمن زبان میں یہ ترجمہ شائع ہو گا تو ہر آدمی جو اِس ترجمہ سے فائدہ اُٹھائے گا وہ اِن عورتوں کو دعا دے گا کہ اُن پر خداتعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں جن کے ذریعہ یہ نعمت ہم تک پہنچی اور جو شخص بھی اِس ترجمہ کے ذریعہ مسلمان ہو گا اُس کے ایمان لانے کی وجہ سے خداتعالیٰ کی رحمتیں اُن عورتوں پر نازل ہوں گی جنہوں نے اِس ترجمہ میں حصہ لیا ہو گا۔ پس مَیں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی عورت بھی اِس ثواب سے محروم نہ رہے او رتم میں سے کوئی عورت بھی ایسی نہ رہے جو اِن رحمتوں سے حصہ لینے والی نہ ہو۔ اگر وہ ایک کوڑی دینے کی ہی حیثیت رکھتی ہے تو ایک کوڑی دے کر ہی اِس میں شامل ہو جائے۔ اگر کسی کی حیثیت کوڑی دینے کی ہی ہے تو خداتعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوڑی ہی کروڑ روپیہ کے برابر ہے کیونکہ خداتعالیٰ اِس رقم کو نہیں دیکھتا کہ وہ کتنی ہے بلکہ خداتعالیٰ اُس اخلاص اور اُس نیت کو دیکھتا ہے جس اخلاص اور جس نیت کے ساتھ وہ دی گئی ہے۔
اِس کے علاوہ مَیں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری گولڈ گوسٹ کی جماعت نے فیصلہ کیا ہے کہ اَب وہاں ایک زنانہ سکول بھی جاری کیا جائے جس کے لئے وہاں کے ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپیہ کی زمین دے دی ہے اور اَب وہاں کی لجنہ نے فیصلہ کیا ہے کہ عورتیں چندہ جمع کر کے وہاں سکول بنائیں مجھے وہاں سے چٹھی آئی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی احمدی بہنوں سے کہیں کہ وہ بھی اِس کام میں ہماری مدد کریں۔ چنانچہ مَیں نے اِس کے متعلق لجنہ اماء اللہ مرکزیہ سے بات کی ہے اور اُنہوں نے چار ہزار روپیہ بھجوانے کا وعدہ کیا ہے۔ اِس چار ہزار میں سے پندرہ سَو کا وعدہ تو دہلی کی لجنہ اماء اللہ نے چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کی معرفت کیا ہے اور باقی رقم لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے مختلف لجناؤں پر ڈال دی ہے جس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچ جائے گی۔ بہت تھوڑی تھوڑی رقم لجنات کے ذمہ ڈالی گئی ہے حتیّٰ کہ بعض کے ذمہ تو صرف چار چار پانچ پانچ روپے ڈالے گئے ہیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ جب اِس کی اطلاع ہر ایک لجنہ کے پاس پہنچے گی تو اِس چندہ میں بھی وہ ضرور حصہ لیں گی۔ گویہ چار ہزار روپیہ کی رقم اتنی تھوڑی ہے کہ مَیں اگر چاہتا تو قادیان سے ہی بھجوائی جاسکتی تھی لیکن مَیں چاہتا ہوں کہ ساری جماعت کے اندر قربانی کی روح اور بیداری پیدا کی جائے اور اِس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک فرد کو دین کے کاموں میں شامل کیا جائے اِس لئے مَیں نے یہ رقم جماعت کی مستورات پر پھیلا دی ہے۔ـ ہر لجنہ کو اِس کی اطلاع پہنچ جائے گی جب اِن کو یہ اطلاع ملے تو ہر ایک عورت اِس میں شامل ہو تاکہ وہ ثواب سے محروم نہ رہے۔
گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ کے اُس علاقہ میں ہے جہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو ننگے پھرتے ہیں اور کچی چیزیں کھاتے ہیں اور درختوں کے نیچے رہتے ہیں وہاں ہمارے مبلّغ خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا عظیم الشان کام کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے لئے سکول اور بورڈنگ جاری ہیں جس میں وہ لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ننگے پھرنے والے کپڑے پہن رہے ہیں، درختوں کے نیچے رہنے والے مکان بنا رہے ہیں اور حبشی قرآنِ مجید اور نمازیں پڑھتے ہیں اور اِس طرح وہاں اسلام ترقی کر رہا ہے اور رسولِ کریمﷺ کا جھنڈا وہاں گاڑا جا رہا ہے اور ہمارے مبلّغوں کے سامنے عیسائی مبلّغ بھاگ رہے ہیں۔ پس اِس چندہ میں جس سے اِس ملک میں زنانہ سکول جاری کیا جائے گا ہر ایک عورت ضرور حصہ لے اور یہ سمجھ کر حصہ لے کہ اِس چندہ سے جو سکول بنے گا اُس کے ذریعہ سے ایسی جاہل عورتیں دین کی تعلیم حاصل کریں گی جو رسولِ کریم ﷺ کے نام سے بھی واقف نہیں تھیں۔
ایک اور بات بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اِس سال قادیان میں زنانہ بورڈنگ کے قیام کے لئے کوشش شروع کر دی جائے۔ باہر کے لوگ ہمیشہ یہ شکایت کیا کرتے تھے کہ قادیان میں زنانہ بورڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری لڑکیاں اعلیٰ دینی تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں اَب میں اعلان کرتا ہوں کہ اِس سال اِنْشَائَ اللّٰہ یہ کام شروع ہو جائے گا۔ مَیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ بورڈنگ کی عمارت بھی بن جائے گی کیونکہ جنگ کی وجہ سے عمارت بنانے میں بہت سی مشکلات ہیں بہرحال اِس سال بورڈنگ شروع کر دیا جائے گاـ ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ توفیق دے کہ تم دینی تعلیم حاصل کرو اور سلسلہ کے لئے ایسا مفید وجود بنو کہ جب تک تم دنیا میں رہو تو دنیا تم سے علم سیکھے اور فائدہ اُٹھائے اور جب تم خدا کے پاس جاؤ تو خداتعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنو اور دنیا تمہاری نیکیوں کی وجہ سے تمہارے لئے دعائیں کرتی رہے۔
اَب مَیں دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اندر سچی محبت اپنی پیدا کرے اور سچی محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کرے اور سچی محبت قرآن اور دین اسلام کی پیدا کرے اور سچی محبت بنی نوع انسان کی پیدا کرے اور تم دنیا میں ایسا بہترین وجود بنو کہ دنیا میں تمہاری مثال نہ ہو اور جب تم اِس دنیا سے جاؤ تو خدا تعالیٰ بھی تم سے خوش ہو، خداتعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے خوش ہو، گھر والے بھی تم سے خوش ہوں، محلے والے بھی تم سے خوش ہوں اور دنیا بھی تم سے خوش ہو۔ تم میں سے کئی مائیں ہیں اور کئی مائیں بننے والی ہیں اور جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے خدا کرے تم حقیقی مائیں بنو اور تمہارے ذریعہ سے اِس دنیا میں ہماری قوم میں جنت پیدا ہو اور جب تم اِس دنیا سے جدا ہو کر اگلے جہان میں جاؤ تو خداتعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں تم پر نازل ہوں اور تم خدا کی جنت حاصل کرنے والی بنو۔ آمین (الفضل ۱۶،۱۸؍ جنوری ۱۹۴۵ء)
۱؎ الذّٰریٰت: ۵۷ ۲؎ بنی اسرائیل: ۷۳
۳؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ ۴۲۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۴؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی فضل من عال یتمی
۵؎ الرَّحْمٰن: ۲۰،۲۱


بعض اہم اور ضروری امور
(۱۹۴۴ء)





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

بعض اہم اور ضروری امور
(تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۴ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
بے شک ہمیں بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے مگر ہم اپنے خدا کی رضا پر راضی ہیں اور اِس کے فضلوں پر یقین رکھتے ہیں
سب سے پہلے مَیں اُن دو نقصانات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اِس سال سلسلہ احمدیہ کو پہنچے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ میری ذات کو پہنچے ہیں۔ یعنی ایک اُمِّ طاہر مرحومہ کی وفات
اور ایک میر محمد اسحق صاحب کی وفات۔ جہاں تک آپس کی نسبت کا سوال ہے نہ صرف دونوں میرے عزیز تھے اور اِس طرح آپس میں بھی عزیز تھے بلکہ اِن دونوں میں ایک صفت مشترک بھی پائی جاتی تھی اور وہ یہ کہ دونوں غرباء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ میر صاحب جب فوت ہوئے تو اِن کو دفن کرنے کے بعد جب مَیں واپس آ رہا تھا تو مَیں نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ابھی چند روز ہوئے عورتیں یتیم ہو گئی تھیں اور آج ہم مرد بھی یتیم ہو گئے۔ یہ ایک جذباتی بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خدائی جماعتیں کبھی یتیم نہیں ہوتیں۔
مومن کا خدا ایسا ہے کہ اِس پر کسی انسان کے پیدا ہونے یا مرنے سے کوئی اثر نہیں ہوتا۔ دنیا آتی بھی ہے اور جاتی بھی ہے، لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں مگر خداتعالیٰ کی بادشاہت چلتی ہی چلی جاتی ہے اور جو لوگ خود اپنے لئے خداتعالیٰ کی ذات کو مار نہیں لیتے اِن کا زندہ خدا ہمیشہ اِن کا وارث ہوتا ہے۔
خداتعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور اُس پر موت کبھی وارد نہیں ہو سکتی مگر اُس کا سلوک اپنے بندوں سے یہی ہے کہ کوئی بندہ اُسے جیسا سمجھتا ہے وہ اُس کے لئے ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ اُن کے ایک اُستاد بھوپال میں تھے انہوں نے رؤیا میں خداتعالیٰ کو کوڑھی کی شکل میں دیکھا جو چلنے پھرنے سے معذور تھا، تمام جسم پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور وہ شہر سے باہر ایک پُل پر پڑا تھا۔ اُنہوں نے اُسے دیکھا اور کہا خدایا! میں تو تیری تعریفیں قرآن و حدیث میں پڑھ کر تجھے کچھ اور ہی سمجھتا تھا۔ مَیں تو سمجھتا تھا کہ تو سارے دُکھوں کا دور کرنے والا اور سب خوبیوں سے متصف ہے مگر تُو تو خود بیماریوں سے سٹر رہا ہے اور بیکسی کی حالت میں پڑا ہے۔ یہ سُن کر اُس نے اُن سے کہا کہ جو تو سمجھتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے اور جو تو دیکھتا ہے وہ بھی ٹھیک ہے۔قرآن کریم کا خدا ویسا ہی ہے جیسے تو نے پڑھا مگر جسے تو یہاں پڑا دیکھتا ہے یہ بھوپال کا خدا ہے۔ تو انسان جہاں خداتعالیٰ کی حکومت کے تابع ہے، جہاں خداتعالیٰ نے اُسے پیدا کیا اور اُس کی تمام ضروریات مہیا کرتا ہے وہاں یہ بھی سچ ہے کہ انسان اپنے لئے خدا کو خود پیدا کرتا ہے اور اُسے صفات بخشتا ہے۔ یعنی جیسا اُس کا یقین خداتعالیٰ کے متعلق ہوتا ہے ویسا ہی خداتعالیٰ اُس سے معاملہ کرتا ہے۔ اگر انسان خداتعالیٰ کو ایک بے کار محض وجود سمجھتا ہے تو اُس کے معاملات میں خداتعالیٰ بھی بے کار محض ہو جاتا ہے، جو انسان اُس کی قدرتوں کا انکار کرتا ہے خداتعالیٰ اُس کے لئے اپنی قدرتیں کبھی نہیں دکھاتا لیکن جو انسان خداتعالیٰ کو قادر یقین کرتا ہے خدا تعالیٰ اُس کے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے،جو اُسے زندہ خدا یقین کرتا ہے خدا بھی اُس کے لئے زندگی کا ثبوت مہیا کرتا ہے، جو اُسے ربّ العٰلمین سمجھتا ہے خدا اُس کا مربی اور نگران بن جاتا ہے اور جو خدا کو رحمن مانتا ہے وہ بھی اُس پر رحمانیت کی بارشیں برساتا ہے۔ اگر انسان خدا کو رحیم مانتا ہے تو وہ بھی رحیم بن کر اُس پر ظاہر ہوتا ہیـ۔
پس جہاں تک خداتعالیٰ کا تعلق ہے مومن کے لئے زندہ خدا کے بعد اور کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر دیرینہ تعلقات اور محبتیں اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں اور انسان جسے اللہ تعالیٰ نے روح کے باوجود جسم بھی عطا فرمایا ہے بسااوقات اُس کی روح تندرست ہوتی ہے مگر اُس کا جسم زخمی ہوتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ جو دن اُن کو صلیب دیئے جانے کے لئے مقرر تھا اُس رات اُنہوں نے دعا مانگی کہ:۔
’’اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تاہم جیسا میں چاہتا ہوں ویسا نہیں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے ویسا ہو‘‘۔۱؎
پس ہمارے دل تو راضی ہیں مگر نفس بوجھ محسوس کرتے ہیں اور ہم اپنے خدا سے یہی کہتے ہیں کہ تیری ہی مرضی ہو کہ ہمارے لئے اِسی میں برکت ہے۔ خداتعالیٰ کا مومن بندہ اِسی قسم کی کیفیات کے ساتھ اُس کے حضور کھڑا ہوتا ہے۔ انسان ہونے کے لحاظ سے ہم زخموں کا انکار نہیں کر سکتے، بہتے ہوئے خون کو بند نہیں کر سکتے مگر خدا تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بات جسے ہم تکلیف سمجھتے ہیں اِسے وہ ہمارے لئے اور ہمارے دوستوں کے لئے برکت کا موجب بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دُکھ کے نیچے اپنے فضلوں کے خزانے مخفی رکھے ہیں جس طرح دُنیوی خزانے بڑی بڑی چٹانوں کے نیچے مخفی ہوتے ہیں۔ بے شک غموں کا اُٹھانا اور دُکھوں کا برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے مگر جس طرح چٹانوں کو اُٹھائے بغیر قیمتی خزائن بھی حاصل نہیں کئے جاسکتے اِن دُکھوں کو اُٹھائے بغیر اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل نہیں ہو سکتیں۔ـ
پس ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پور ی ہوئی اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اِسی میں ہماری بہتری ہو گیـ۔ ہم اُس کے بندے ہیں اور اُس کی بادشاہی کی طرف باوجود اپنی کمزوریوں اور اپنے نقائص کے کوئی بدی منسوب نہیں کر سکتے اور یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا مہربان آقا جو کرتا ہے ہماری بہتری اور بھلائی کے لئے کرتا ہے اور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی حکمتوں اور رحمتوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور اگر ہم اِن کے سمجھنے میں کوتاہی کریں تو ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ہمیں ہمت اور حوصلہ عطا کرے تاکہ ہم ہر گھڑی اور ہر لحظہ اُس کی یاد کو سب یادوں پر مقدم کر سکیں، اُس کی محبت کو سب محبتوں اور اُس کے کام کو سب کاموں پر مقدم کرنے والے ہوں۔ ہماری زندگی بھی اور ہماری موت بھی اُس کے لئے ہو تا جب ہم اُس کے حضور جائیں تو ہمارا جانا ہمارے عزیزوں کے لئے دُکھ اور غم کا موجب ہو ہمارے لئے خوشی کا موجب ہو کہ ہم ادنیٰ کو چھوڑ کر اعلیٰ کی طرف جا رہے ہیں اور چھوٹے پیارکرنے والوں کو چھوڑ کر بڑے پیارے کرنے والوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ (الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۳ء)
اِس کے بعد مَیں اللہ تعالیٰ کا اِس امر پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے ایک کھوئے ہوئے مبلّغ کے متعلق جن کی زندگی کے بارہ میں اکثر دوست مایوس تھے حال ہی میں یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ جاپانیوں کی قید میں ہیں۔ جہاز کے غرق ہونے کے بعد جن لوگوں کو بچا لیا گیا اُن کی فہرست میں ان کا نام بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں اپنے فضل سے محفوظ رکھے اور خیر وعافیت سے واپس لائے۔ اسلام کا یہ سپاہی بے وقت اپنی جان نہ کھوئے اور اس کے تجربات سے جو اس نے یورپ کے مختلف ممالک میں حاصل کئے اسلام اور احمدیت پورا پورا فائدہ اُٹھا سکیں ۔ مولوی محمد الدین صاحب اگرچہ انگریزی علوم سے ناواقف تھے اور اُن کو تجربہ بھی نہ تھا مگر یورپ میں تبلیغ کے زمانہ میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ پہلے البانیہ گئے اور وہاں تبلیغ شروع کی متعدد لوگ داخلِ اسلام بھی ہوئے مگر مخالفین نے حکومت کے پاس شکایات کیں کہ یہ شخص مذہب کو بگاڑ رہا ہے۔ البانیہ کی حکومت مسلمان تھی مسلمانوں نے شور کیا اور کنگ زدعذ نے آرڈر دے دیا کہ مولوی صاحب کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ پولیس ان کو پکڑ کر سرحد پر چھوڑ آئی۔ وہاں سے نکالے جانے پر انہوں نے یونان میں تبلیغ شروع کر دی اور میرے لکھنے پر وہاں سے یوگو سلاویہ چلے گئے۔ البانیہ کی سرحد یوگوسلاویہ سے ملتی ہے۔ میں نے لکھا کہ وہاں بھی تبلیغ کرتے ہیں اور ان کی تبلیغ سے بعض ایسے لوگ بھی مسلمان ہوئے جو مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل تھے۔ حکومت یوگوسلاویہ کو حکومت البانیہ نے توجہ دلائی اور تحریک کی کہ مولوی صاحب کو وہاں سے بھی نکال دیا جائے۔ چنانچہ انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ اِس پر وہ اٹلی آگئے اور پھر وہاں سے مصر اور وہاں سے ہندوستان واپس آگئے۔ پھر ان کو مغربی افریقہ بھیجا گیا تھا اور وہ وہاں جا رہے تھے کہ ان کا جہاز ڈوب گیا اور اب معلوم ہوا ہے کہ وہ زندہ ہیں حالانکہ اکثر دوست یہی خیال کرتے تھے کہ وہ فوت ہو چکے ہوں گے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس مردہ کو جسے اس نے زندہ کیا ہے بہت سے روحانی مردوں کو زندہ کرنے کا موجب بنائے۔
اِس کے بعد مَیں ایک ایسی بات کا ذکر کرتا ہوں جو میرے اصل مضمون کا تو حصہ نہیں مگر تازہ پیدا ہوئی ہے اِس لئے اِس کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ پرسوں یہاں پر ایک جلسہ کیا گیا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو جماعت سے نکالے ہوئے ہیں یا نکالے گئے ہیں۔ اِس جلسہ میں ہمارے خلاف بہت کچھ سبّ وشتم سے کام لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے سلسلہ کے بعض کارکن بہت غصہ میں تھے۔ انہوں نے مجھے اِس امر کی رپورٹ کی اور دریافت کیا کہ ہم اِس کا ازالہ چاہتے ہیں کیا کارروائی کریں۔ میرا خیال ہے ہماری جماعت کے دوست بعض دفعہ بھول جاتے ہیں کہ خدائی جماعتیں ہوتی ہی گالیاں کھانے کے لئے ہیں۔ جب تک وہ اِس حقیقت کو یاد نہ رکھیں گے وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مشہور مثل ہے کہ ’’ ایاز قدرے خودشناس‘‘ مومنوں کی جماعت ہمیشہ گالیاں کھانے کیلئے ہوتی ہے۔ اگر وہ گالیاں نہ کھائیں تو دوسروں کا حق ہے کہ یہ اعتراض کریں کہ اگر تم صداقت پر ہو تو کیوں تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو خداتعالیٰ کی جماعتوں سے ہوتا آیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاںدی گئیں ، مارا گیا، صحابہؓ کو گالیاں ملتی تھیں اور تکالیف پہنچائی جاتی تھیں کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بُرا مناتے تھے اور کیا اسلام میں اس سے کوئی فرق آتا تھا؟ پھر ہم کیوں اِن گالیوں پر بُرا منائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اِن ہی رستوں پر چل کر خدا تعالیٰـ کو پا سکتے ہیں جن پر چل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کو پایا، جن پر چل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خداتعالیٰ کو حاصل کیا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ۲؎کی دعا سکھائی ہے۔ جسکے معنی یہ ہیں کہ ہم کو اُس رستہ پر چلا جو سیدھا اور تیرے نبیوں کا رستہ ہے آگے فرمایا ۳؎ گویا مومن کہتا ہے کہ میں جانتاہوں اِس رستہ میں خطرات بھی ہوتے ہیں مگر میں اِن خطرات سے نہیں گھبراتابلکہ اِن کو برادشت کرنے لئے تیار ہوں۔ میں تو منعم علیہ گروہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں اِن تکالیف سے نہیں گھبراتا جو تیرے بندوں کو پہنچتی رہی ہیں۔
اِس تازہ انکشاف کے بعد جو مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا ہے لازمی طور کچھ عرصہ کے لئے مخالفت کا بڑھ جانا ضروری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اِس انکشاف کے بعد مَیں روزانہ دشمن کی طرف سے بیداری کا منتظر رہتا تھا اور اگر دشمن کی طرف سے مخالفت نہ ہوتی تو میرے دل میں پوری طرح تسلی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اِس قسم کی باتوں کا پیدا ہونا انسان کے لئے بھی اور خداتعالیٰ کی شان کے اظہار کے لئے بھی ضروری ہے۔ اگر ہم آرام کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں اور دشمن کوئی مخالفت نہ کرے تو خداتعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ کہا ں نظر آئے۔ خدا تعالیٰ اِس طرح اپنا ہاتھ دکھانا اور اپنے آپ کو روشناس کرانا چاہتا ہے اور خطرات پیدا کر کے اپنی طاقت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ جب تک تکالیف پیش نہ آئیں خدا تعالیٰ کی قدرت ظاہر نہیں ہوتی۔ پس مخالفت کا جو نیا دَور احراریوں کی طرف سے شروع ہوا ہے یا قادیان کے مخالفین نے جو مخالفت ازسر نو شروع کی ہے یہ اِس بات کی علامت ہے کہ خداتعالیٰ پھر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا چاہتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اِس سے اچھی بات ہمارے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرے اور نشان دکھائے۔ اُس کی قدرت مخالفت کے زمانہ میں ہی ظاہر ہوتی ہے۔
میں نے حضرت مسیح موعود سے بارہا سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابوجہل گو بہت گندا تھا لیکن اگر وہ گندانہ ہوتا تو قرآن کریم بھی نہ ہوتا۔ ابوبکرؓ جیسوں کے لئے تو صرف ہی کافی تھا۔ اتنا قرآن کریم تو مختلف مدارج رکھنے والے، طرح طرح کی تاریکیوںاور ظلمتوں میں پڑے ہوئے اور جہالتوں میں مبتلا لوگوں کے لئے ہی نازل ہوا ورنہ مومن کے لئے تو ہی کافی تھا۔ تو اِس قسم کی مخالفتیں بہت فائدہ کا موجب ہوئی ہیں اور ضروری ہیں ان سے گھبرانا مومن کی شان کے خلاف بات ہے۔ بلکہ ہمیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ وہ خود کوئی نشان دکھائے۔ اِن گالیوں کو سُننا اور اِن تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے اِن پر بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمزور اِس سے گمراہ نہ ہو جائے لیکن جو شخص ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گمراہ ہو سکتا ہے وہ ہمارے اندر رہ کر بھی کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ ایمان تو ایسی چیز ہے کہ اِس راہ میں قدم مارنے والوں کو جان ہتھیلی پر لے کر چلنا پڑتا ہے۔ صرف کثرت کوئی خوبی کی بات نہیں ہم کتنے تھوڑے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے کس قدر قربانی ہم کر رہے ہیں اور کتنی خدمت اسلام کی بجا لا رہے ہیں۔ چالیس کروڑ مسلمان مل کر بھی اسلام کے لئے وہ قربانی نہیں کر سکتے جتنی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم چار پانچ لاکھ کر رہے ہیں۔ اور اِس لحاظ سے ایک احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ہزار مسلمانوں کے برابر ہے۔ ہزار مسلمان مل کر اتنی قربانی نہیں کرتے جتنی کہ ایک احمدی کرتا ہے۔مسٹر جناح نے مسلم لیگ کے لئے سات کروڑ مسلمانوں سے دس لاکھ روپیہ چندہ طلب کیا تھا اور مسلمانوں میں ایسے ایسے لوگ ہیں کہ ایک ایک کروڑ کروڑ روپیہ دے سکتا ہے۔ مگر سال چھ ماہ کے بعد جب آمد دیکھی گئی تو صرف تین لاکھ روپیہ جمع ہوا تھا۔ اِس کے بِالمقابل ہماری جماعت جو بِالعموم غریبوں کی جماعت ہے اِس میں کس طرح ہر تحریک محض خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہی ہے اور ہماری جماعت میں ایسے ایسے مخلص لوگ ہیں کہ جو خود فاقے کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو فاقے کراتے ہیںمگر خدا تعالیٰ کے خزانہ میں چندہ لاکر دے دیتے ہیں یہ چیز ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ پس ہم بھی اگر چار پانچ نہیں چالیس لاکھ ہو جائیں مگر ویسے ہی سُست ہوں جیسے دوسرے مسلمان تو اِس کثرت کا ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ پس یہ گالیاں اور یہ تکالیف ہمیں کھرا کرنے کے لئے ہیں۔ اِن سے کھوٹا کھرا الگ الگ ہو جائیں گے۔ اگر مخالفوں کی مخالفت کے نتیجہ میں کوئی دھوکا کھاتا اور ہم سے الگ ہوتا ہے تو ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے آخر ہمیں خود بھی تو بعض ــکو نکالنا پڑتا ہی ہے۔ مصری صاحب اور ان کے ساتھیوں کو مَیں نے خود ہی نکال دیا تھا۔ پس اگر کوئی خود دھوکا کھا کر الگ ہوتا ہے تو یہ تو ہمارے لئے اچھا ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اُسے الگ کرنے کی مصیبت سے بچا لیا اور جو گندا تھا وہ خود بخود نکل گیا۔ کسی انسان کے جسم پر کوئی پھوڑا نکلے تو کیا وہ خود پسند کرتا ہے کہ خود بخود پھوٹ کر بہہ جائے؟ یا ڈاکٹر کے چاقو سے اُس کا چیرا جانا پسندکرتا ہے؟ ہر عقلمند اس بات کو پسند کرتا ہے کہ پھوڑا خود بخود پھوٹ جائے اِسی طرح اگر کوئی گندا آدمی ہم میں سے خود بخود الگ ہوتا ہے تو اِسے اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہئے اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اُس نے ہمیں اپنے ساتھی کو خود الگ کرنے کے الزام سے بچا لیا۔
ایک اور بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کا ایک چیلنج مجھے دیا گیا ہے کہ جو اُن کی طرف سے جلسہ کے موقع پر تقسیم کیا گیا ہے اُنہوں نے لکھا ہے کہ وہ مجھے بار بار مقابلہ کے لئے بُلاتے ہیں مگر میں سامنے نہیں آتا۔ اِس موقع پر جبکہ یہاں پر بہت سے غیر مسلم، ہندو، سکھ اور غیراحمدی معززین بھی جمع ہیں میں اِس امر کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے اگر کسی کو خدا تعالیٰ توفیق دے تو وہ اِس معاملہ میں دخل دے کر اِس عقدہ کو حل کرادیں۔ میں شروع سے ہی اِن کو توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ان امور کے بارے میں جن کے متعلق ہمار ے مابین اختلاف ہے وہ میرے ساتھ فیصلہ کر لیں۔ مگر وہ ہر بار کوئی نہ کوئی ایسی شرط پیش کر دیتے ہیں کہ جسے ماننے کے لئے میں ہرگز تیار نہیں ہو سکتا۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ مذہبی امور کا فیصلہ کرنے کے لئے کوئی جج ہو اور یہ ایک ایسی شرط ہے جسے میں نہیں مان سکتا۔ میں کبھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مذہب کسی کی خاطر بدلا جا سکتا ہے۔ اگر مذہب کے بارہ میں کسی کی رائے کو مانا جا سکے تو ماں باپ کا سب سے زیادہ حق ہے اُن کی رائے مان لی جائے۔ مگر مذہب کے بارہ میں توماں باپ کی رائے کو ماننے کی بھی اجازت اسلام نے نہیں دی۔ جب کوئی شخص مذہب کو تبدیل کرنے لگے تو اُس کے ماں باپ اور بہن بھائی اُس کی مخالفت کرتے اور اُسے یہی مشورہ دیتے ہیں کہ ایسا نہ کرے۔ اب اگر مذہب کے بارہ میں جائز ہو تو ماں باپ کی رائے کو کیوں نہ مانا جائے۔ اگر مذہب کے بارہ میں ججی جائز ہو تو کوئی شخص مذہب کو تبدیل کر ہی نہیں سکتا۔ جب بھی کوئی مذہب تبدیل کرنے لگے اُس کے ماں باپ اور بھائی بہن یہی کہتے ہیں کہ وہ غلطی کرنے لگا ہے اور اگر کسی غیر شخص کو مذہب کے معاملہ میں جج ماننا جائز ہو تو ماں باپ کی رائے کو ہی کیوں نہ مانا جائے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں کسی صورت میں نہیں مان سکتا میری تو یہ حالت ہے کہ باوجودیکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پیدا ہوا۔ ابھی میری عمر گیارہ برس کی تھی کہ میں نے ایک دن خیال کیا کہ کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اِس لئے مانتا ہوں کہ میں اُن کا بیٹا ہوں یا میرے پاس اُن کی صداقت کے ثبوت ہیں۔ میں اُس وقت گھر سے باہر تھا اور میں نے خیال کیا کہ اگر میرے پاس ان کی صداقت کے ثبوت نہیں ہیں تو میں گھر میں واپس نہ جاؤں گا بلکہ یہیں سے اِسی وقت کہیں باہر چلا جاؤں گا۔ جب میں نے اپنے دل میں اِس سوال کو حل کرنا شروع کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعویٰ میں سچے ہیں یا نہیں؟ تو میں نے اِس سوال کو قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں حل کرنا چاہا۔ اِس پر مجھے خیال آیا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں ان کو بھی اِسی لئے سچا سمجھتا ہوں کہ میں نے ماں باپ سے سنا ہے کہ یہ سچے ہیں۔ تب میں نے اپنے دل میں اس سوال پر بحث شروع کی کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سچے ہیں؟ اِس سوال پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیا توحیدِ الٰہی کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں اسے صرف اس لئے مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ اس کے قائل ہیں۔ تب میں نے خداتعالیٰ کی پیدا کی گئی کائنات اور اُس کی قدرتوں سے اِس سوال کو حل کرنا شروع کیا اور توحیدِ الٰہی پر غور کرتا گیا حتیّٰ کہ میرا دماغ تھک گیا اور آرام کرنا چاہا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ یا تو میں اِس سوال کو حل کر کے چھوڑوں گا اور یا میں گھر میں داخل نہ ہوں گا۔ اُس وقت آسمان صاف تھا اور یہ آخری سوال تھا جسے میں حل کرنا چاہتا تھا میں نے خیال کیا کہ جب ہر چیز کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہو جاتی ہے تو پھر خداتعالیٰ کو غیرمحددو ماننا کیونکر درست ہو سکتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کو غیر محدود ماننا درست ہے تو دوسری چیزوں کے متعلق بھی ایسا کیوں نہ سمجھا جائے۔ اور میری طبیعت یہاں آکر رکی کہ خدا تعالیٰ کا غیرمحدود ہونا سمجھ میں نہیں آسکتا اور محدود خدا نہیں ہو سکتا۔ میری نظر ستاروں پر پڑی اور وہ بہت خوبصورت نظر آتے تھے۔ میں نے خیال کرنا شروع کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا؟ میرے نفس نے جواب دیا کہ اور ستارے ہوں گے پھر میں نے خیال کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا؟ اور پھر میرے نفس نے جواب دیا کہ اور ستارے ہونگے۔ اور ان کے پیچھے؟ تب میرے نفس نے جواب دیا کہ یہ تو ایک لامتناہی سلسلہ بن گیا یہ کہاں ختم ہوگا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ محدود دماغ میں نہیں آسکتا اور اِس کی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ تب میرا دماغ واپس لوٹا اور میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو اپنی قدرتوں سے ظاہر کرتا ہے اور مجھے پتہ لگ گیا کہ اِسی سوال کو حل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو پیدا کیا ہے۔ ہم ستاروں کے بارہ میں جب یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوتا ہے اور زمین کے بارہ میں بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اس کی جگہ پہلے کیا تھا؟ کہا جاتا ہے پہلے پانی ہی پانی تھا تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اِس سے پہلے کیا تھا اور پھر اس سے پہلے کیا تھا، یہ ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتا ہے کہ جسے سمجھنا ممکن نہیں مگر ہم اِن دونوں چیزوں کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی ان کا انکار کرے تو لوگ اُسے پاگل کہیں گے اور ان کی موجودگی میں خداتعالیٰ کے بارہ میں شبہ کرنا بھی ویسا ہی پاگلانہ خیال ہے اور اِس طرح یکدم مجھے خدا تعالیٰ کا ثبوت مل گیا۔ اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید سے آپ کے سچے ہونے کا ثبوت مل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مل گیا۔ تو میں جس نے مذہب کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بغیر ثبوت کے حَکم ماننا تسلیم نہ کیا وہ کسی اور کو مذہبی عقائد کے بارہ میں جج کیوں کر مان سکتا ہے؟
پھر مولوی محمد علی صاحب ایک اور بات پیش کرتے ہیں۔ بعض ایسے امور ہیں جو عقائد سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان کے بارہ میں بھی میں چاہتا ہوں کہ فیصلہ ہو جائے اور ان کے متعلق مَیں ان کی جج بنائے جانے کی شرط کو ماننے کو تیار ہوں۔ مگر وہ اس بارہ میں بھی ایک عجیب بات پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تین جج میری جماعت میں سے ہوں اور تین اُن کے ساتھیوں میں سے ہوں لیکن جماعت احمدیہ میں سے تین آدمی وہ نامزد کریں اور اُن کے ساتھیوں میں سے تین مَیں کروں حالانکہ یہ بات بھی بالکل غیر معقول ہے۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ دو آدمیوں میں کوئی مقدمہ ہو اور ایک جا کر عدالت میں کہے کہ مجھے اختیار دیا جائے کہ دوسرے فریق کی طرف سے وکیل مَیں مقرر کروں اور میری طرف سے وہ کرے یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی معقول آدمی منظور نہیں کر سکتا۔ صحیح طریق یہ ہے کہ میں اپنے نمائندے مقرر کروں اور وہ اپنے کریں مگر وہ اُلٹی بات کہتے ہیں یعنی یہ کہ میرے نمائندے وہ مقرر کریں اور اُن کے مَیں کروں۔ اور جب میں اِس کا انکار کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ تم بات کو نہیں مانتے کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہاری جماعت میں منافق ہیں اِس لئے ڈرتے ہو اور یہ کہ میرے ساتھیوں میں چونکہ منافق نہیں ہیں اِس لئے مَیں نہیں ڈرتا مگر اِس کی وجہ یہ کیوں نہ سمجھی جائے کہ مولوی صاحب ہماری جماعت کے منافقوں سے تعلقات رکھتے ہیں اور میں ایسا نہیں کرتا۔ یا وہ منافق بنا کرہماری جماعت میں داخل کرتے ہیں گو میں یہ بھی نہیں کرتا۔ پھر اِس کا ایک اور پہلو بھی ہے یہ ایمان یا منافقت کا سوال نہیں ہر شخص بات کو سمجھنے اور اُسے حل کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ بعض لوگ تفقہ کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ وہ مومن نہیں منافق ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بہت سے مسائل یاد تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ وہ تفقہ میں کمزور تھے۔ پس اگر وہ ہماری جماعت میں سے کسی ایسے آدمی کو مقرر کر دیں جو تفقہ کے لحاظ سے کمزور ہو یا ہمارے نقطۂ نگاہ کو واضح نہ کر سکے تو اِس میں ہمارا نقصان ہوگا۔ پس یہ منافقت کا سوال نہیں تفقہ اور بات کو سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت کا سوال ہے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جب میں اِس شرط کو اپنے لئے مانتا ہوں تو آپ کیوں نہیں مانتے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اُن کو مجھ پر حسن ظنی ہے کہ میں اِس بارہ میں دیانتداری سے کام لوں گا مگر مجھے اِن پر نہیں۔ ان کے پچھلے طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے میں یہی سمجھنے پر مجبور ہوں کہ وہ ضرور کوئی چالاکی کرنے کی کوشش کریں گے تو اُن کی ایسی ہی باتیں ہیں جو فیصلہ نہیں ہونے دیتیں۔ وہ کیوں اسی طرح فیصلہ نہیں کرتے جس طرح دنیا ہمیشہ کرتی آئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق عمل بھی یہی تھا۔ آپ جاتے تھے اور اپنے دلائل سناتے تھے ماننے والے مان لیتے تھے اور انکار کرنے والے انکار کر دیتے تھے۔ وہ بھی کیوں اس طرح نہیں کر لیتے؟ وہ اپنے دلائل بیان کریں میں اپنے کروں گا۔ وہ ایسا طریق کیوں اخیتار کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا، جو حضرت موسیٰؑ نے اختیار نہیں کیا بلکہ جو کسی بھی نبی نے اختیار نہیں کیا۔ نئے نئے طریقے پیش کرنے کے معنی تو یہی ہیں کہ وہ کوئی چالاکی کرنا چاہتے ہیں۔ پس اِس وقت جبکہ غیر مذاہب کے بھی بہت سے معزز اصحاب موجود ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی صاحب مہربانی کر کے مولوی صاحب کو فیصلہ پر آمادہ کریں اور ان سے بات چیت کر کے مجھے اطلاع دیں اور انہیں سمجھائیں کہ فیصلہ کا جو طریق ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اُس کے مطابق وہ کیوں فیصلہ پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اُن کی یہ بات کہ مذہب کے فیصلہ کے لئے جج مقرر ہوں بالکل ناجائز ہے۔ یا ایسے امور کے فیصلہ کیلئے جو عقائد میں داخل نہیں میرے جج مقرر کئے جانے کی شرط مان لیتے۔ پر اُن کا یہ کہنا کہ میرے نمائندے وہ مقرر کریں اور اُن کے میں کروں بالکل خلافِ عقل بات ہے۔ پھر میں تو فیصلہ کے نہایت آسان طریق ان کے سامنے پیش کر چکا ہوں۔ مثلاً میں نے کئی بار کہا ہے کہ:۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے جو عقائد تھے اور جن کی اشاعت کی جاتی تھی وہی عقائد صحیح ہو سکتے ہیں۔ میں اُن کو اُس زمانہ کی تحریروں میں سے اُن کے عقائد نکال دیتا ہوں اور وہ میری اِس زمانہ کی تحریروں میں سے میرے عقائد نکال لیں۔ ان کو اکٹھا شائع کر دیا جائے اور ہم دونوں اُن کے نیچے لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے یہی عقائد ہیں وہ میرے حوالے نکال دیں میں اُن کے نکال دیتا ہوں اپنی طرف سے کوئی کچھ نہ لکھے۔ ہاں اگر کوئی فریق دوسرے کے حوالہ کو ادھورے رنگ میں پیش کرے تو اُسے حق ہے کہ اُسے مکمل طور پر درج کرنے کا مطالبہ کرے اور اس کے ساتھ اُس حصہ کو شامل کراسکے جس سے اُس کی عبارت پوری طرح واضح ہوتی ہو اور دونوں نیچے لکھ دیں کہ یہ ہمارے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں تھے اور آج بھی ہم اِن پر قائم ہیں اور اِس سے سارا جھگڑا ختم ہو جائے گا مگر وہ اِس طریق کی طرف بھی نہیں آتے۔
۲۔پھر ایک اور طریق یہ ہے کہ وہ جب بعض حوالے پیش کرتے ہیں تو ہم کیا کرتے ہیں کہ ان کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آخری زمانہ میں ’’ ایک غلطی کا ازالہ ‘‘ نامی رسالہ میں کی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جو بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نبوت کے بارہ میں شروع میں تھا اور جو تشریح آپ اِس کی شروع میں فرماتے تھے وہی اِس رسالہ میں ہے۔ اور میں نے ان کے سامنے فیصلہ کا یہ طریق پیش کیا ہے کہ دونوں اِس رسالہ پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ یہی ہمارا عقیدہ ہے اور پھر اِسے شائع کر دیں۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر پر دستخط کرنے کو تیار ہوں گا مگر وہ نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں کہ اِس رسالہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کی تشریح میں تبدیلی کی ہے مگر وہ اِس بات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں بلکہ اِس میں بھی وہی بات دُہرائی گئی ہے جو آپ اس سے پہلے بیان فرماتے رہے۔ اور میں نے کئی بار فیصلہ کا یہ طریق ان کے سامنے پیش کیا ہے کہ دونوں اِس پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ ہمارا یہی عقیدہ ہے اور پھر اِس رسالہ کو مشترکہ خرچ سے لاکھ دو لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ میں تو فیصلہ کے کئی طریق پیش کرتا ہوں مگر وہ پہلے کھڑے ہو کر میں نہ مانوں میں نہ مانوں کہہ دیتے ہیں اور بجائے کسی فیصلہ کے لئے تیار ہونے کے میرے متعلق سخت کلامی پر اُترآتے ہیں حالانکہ میں نے ان کے متعلق کبھی سخت کلامی نہیں کی۔ وہ کئی بار مجھے یزید کہہ چکے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اِس پربُرا منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یزید ایک بادشاہ تھا یہ تو عزت افزائی ہے اور اتنا نہیں سوچتے کہ نمرود اور فرعون بھی تو بادشاہ تھے اگر اُن کو اِن ناموں سے مخاطب کیا جائے تو کیا وہ خوش ہوں گے اور اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے یا بُرا منائیں گے۔
پس اِس وقت جو غیر احمدی یا غیر مسلم دوست بیٹھے ہیں میں ان کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ان میں سے کوئی صاحب ایسے ہوں جو اِن پر کوئی اثر رکھتے ہیں تو وہ ان کو توجہ دلائیں کہ ان طریقوں میں سے کسی کے مطابق فیصلہ کر لیں اور نہیں تو وہ جسے مامور الٰہی سمجھتے ہیں اُس کی تحریر پر دستخط کردیں۔
۳۔ پھر ایک اور طریق فیصلہ کا بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں انہوں نے عدالت میں ایک شہادت دی تھی وہ ان کی اپنی شہادت ہے میری نہیں وہ اُسی پر دستخط کر دیں اور لکھ دیں کہ آج ان کا عقیدہ وہی ہے میں اُس پر دستخط کر دوں گا اور لکھ دوں گا کہ میرا عقیدہ بھی یہی ہے ۔ گویا ان کے اپنی ہی شہادت پر دستخط کر دینے سے بات ختم ہو جاتی ہے۔ یہ کیسے سہل طریق ہیں اور جائز اور تقویٰ کے مطابق ہیں مگر وہ اِن کی طرف نہیں آتے اور عجیب عجیب شرطیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میرے وکیل وہ مقرر کریں اور اُن کے میں کروں۔ اِس طرح تو بٹیر لڑانے والے بھی نہیں کرتے کہ میرا بیٹرا تو لڑا اور تیرا میں لڑاؤں اور جو طریق بیٹر باز بھی اختیار نہیں کرتے مَیں دینی امور کے بارہ میں اُسے کس طرح اختیار کر لوں۔
اب میں اِس سال کے بعض کاموں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تا جماعت کو مجموعی طور پر ان کی طرف توجہ ہو۔ اِس سال دو نئے ادارے قائم کئے گئے ہیں ایک تعلیم الاسلام کالج ہے اور ایک فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۔ کالج کی پہلی جماعت یعنی ایف اے کا پہلا سال شروع ہو چکا ہے اور آئندہ سال کوشش کی جائے گی کہ بی اے کا پہلا سال بھی شروع کیا جا سکے۔ خیال یہ تھا کہ چونکہ پہلا سال ہے اور اعلان بھی پوری طرح نہیں ہو سکا اس لئے ۴۰،۵۰ طالب علم بھی آجائیں تو بہت ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ۸۰ طالب علم آگئے ہیں جن میں دس بارہ ہندو اور سکھ بھی ہیں۔ گویا کالج کی ابتداء نہایت خوش کن ہے اور امید ہے کہ اگر جماعت نے اِس روح کے ماتحت کام کیا تو یہ بہت ترقی کر جائے گا اور اگر اس سال ۸۰ طالب علم آئے ہیں تو اگلے سال اور بھی زیادہ آئیں گے۔ اس سال پندرہ سولہ طالب علم تو ایسے آئے ہیں کہ جنہوں نے تعلیم ختم کر رکھی تھی یعنی میٹرک پاس کرنے کے بعد دو دو چار چار سال سے بیٹھے تھے۔ جب یہاں کالج شروع ہوا تو وہ آکر داخل ہوگئے۔ ان کے والدین نے ان کو یہاں بھیج دیا اور اس طرح گویا یہ طالب علم کالج کو مفت مل گئے اور جو نئے آئے ہیں اُن کی تعداد قریباً ۶۵ ہے۔ پھر کوئی ادارہ نیا نیا جاری ہوتا ہے تو لوگوں میں نیا نیا جوش بھی ہوتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اِس کا تجربہ کرے مگر کچھ عرصہ کے بعد نئے ہونے کی لذت جاتی رہتی ہے۔ یہ وہ نقطۂ نگاہ ہے جس کی طرف مَیں منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ اِس کا خیال رکھیں اور جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ اب کالج کھل چکا ہے اُن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طلباء کو بھجوائیں تا وہ اعلیٰ درجہ کی دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کر سکیں۔ یہاں اخراجات بھی باہر کی نسبت کم ہوں گے اور ان کے بچے دوسرے شہروں کی مسموم ہوا سے بھی محفوظ رہیں گے۔ بِالعموم جب طالب علم کالجوں میں جاکر داخل ہوتے ہیں تو اُن کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اور اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زہریلی ہوا اُن پر اثر کرتی ہے لیکن اگر یہاں بی اے تک کی تعلیم وہ پاسکیں تو پھر وہ ہوا جو اِباحت اور بے دینی پیدا کرتی ہے اُن پر اثر نہ کر سکے گی خواہ وہ کہیں چلے جائیں ۔ کیونکہ یہاں وہ اُن لوگوں سے تعلیم حاصل کریں گے جو ان اعتراضات اور مسائل کو حل کرنے والے ہوں گے جو نوجوانوں کے اندر بے دینی اور لا مذہبیت پیدا کرتے ہیں اور پھر یورپین فلسفہ کا اثر اُن پر بہت کم ہوگا یا بالکل نہیں ہوگا۔ یہاں کالج کا جاری کرنا ضروری تھا کیونکہ جس قسم کے حملہ کی تیاریاں باہر ہو رہی ہیں اُس کے دفاع کا انتظام اِس کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ جو نوجوان ملازمت اختیار کر لیتے ہیں یا دوسرے کام کاج میں لگ جاتے ہیں اُن کو مطالعہ کا موقع بہت کم ملتا ہے اور اگر وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو صرف لطف اُٹھانے کے لئے، اور اس طرح ان پر اثر کم ہوتا ہے۔ لیکن کالج کے طالب علموں کا چونکہ یہی کام ہوتا ہے اور پھر ان کے پروفیسر وغیرہ بھی اِس قسم کے ہوتے ہیں اور دن رات اُن کو ایسے لوگوں میں رہنا پڑتا ہے جو عام طور پر بے دین ہوتے ہیں اس لئے باہر کی مسموم ہوا کا اُن پر زیادہ اثر ہوتا ہے اس لئے یہاں کالج کا ہونا ضروری تھا تا جہاں ہزاروں پروفیسر اسلام کے خلاف مواد جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یورپین علوم کو اسلام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں وہاں کم سے کم پندرہ سولہ ہی ایسے ہوںجو اِن ہی علوم کو اسلام کی تائید میں استعمال کریں اور اِن سے اسلامی مسائل کی تائید کا پہلو نکالیں۔ میں نے کالج کے منتظمین کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسی مختلف سوسائٹیاں قائم کریں کہ جو سائنس اور مختلف علوم کے نظریات سے اسلام کے مسائل کی تائید کے پہلوؤں پر غور کریں۔ پہلے اِن سوالات کو جمع کیا جائے جو اسلام پر پڑتے ہیں اور پھر ان کے جوابات سوچیں۔ باہر سے مشہور پروفیسروں کو یہاں منگوائیں اور اُن سے ایسی تقریریں کرائیں جو مذہب کے خلاف ہوں اور پھر اُن کے جواب تیار کریں اور وہ جواب باہر کے پروفیسروں کو بھجوائیں اور لکھیں کہ اب تک یہاں تک بحث فلاں فلاں بات کے متعلق ہو چکی ہے اگر آپ اِن پر مزید روشنی ڈالنا چاہیں تو ڈالیں تا مزید غور اِن کے متعلق ہو سکے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہے تا جب یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علم باہر جائیں تو وہ سارے سوالات جو اسلام پر کئے جاتے ہیں اُن کے سامنے آچکے ہوں اور ان کے جواب بھی اِن کو معلوم ہوں۔ ایسے مضامین شائع بھی کئے جا سکتے ہیں تا باہر کے جو لوگ بھی چاہیں تو اِن میں حصہ لے سکیں۔
ریسرچ کی غرض
فضل عمر سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ سائنس کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ ایک حد تک سائنس پہنچتی
ہے اور اُس کے بعد مذہب کی تائید کا پہلو اُس میں سے نکلتا ہے اور اِس انسٹی ٹیوٹ کی غرض یہ ہے کہ سائنس کے جن مسائل کا مذہب پر اثر پڑتا ہے اُنہیں حل کر کے دنیا کے سامنے پیش کریںاور بتائیں کہ ان سے اسلام کی تائید ہوتی ہے۔ اِس کے متعلق بھی میں نے ایک سوسائٹی کے قیام کی ہدایت کی ہے جو باہر سے اہل علم لوگوں کو بُلائے گی اور مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسائل میں ان کی تقریریں کرائے گی۔ پھر ان کے جواب میں تقریروں کا انتظام کرے گی اور پھر باہر کے لوگوں کو جواب الجواب کا موقع دے گی۔ یہ مضامین بھی شائع کئے جائیں گے اور لکھا جائے گا کہ فلاں مسئلہ سے اِس حد تک مذہب کی تائید ہوتی ہے اگر گوئی اِس کے خلاف تقریر کرنا چاہے تو آکر کر سکتا ہے۔ یا اگر کوئی یہاں نہ آسکے تو لکھ کر بھیج سکتا ہے۔ اور بعض اوقات ایسے لوگوں کو جو تقریریں وغیرہ کرنے کے سلسلہ میں آئیں کرایہ وغیرہ بھی دیا جائے گا۔ گویا کہ کالج کے ذریعہ اسلام کو ڈیفنس کرنے کا انتظام کیا جائے گااور اِس سے دیگر مذاہب کے خلاف جارحانہ کارروائی کا سامان مہیا کیا جائے گا۔
پھر اِس کا یہ بھی کام ہوگا کہ ایسی مختلف چیزوں کو دریافت کرے جو تجارتی لحاظ سے مفید ہوسکیں گویا مادی حصہ کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ اِس کام کا ایک حصہ شروع ہو چکا ہے اور امید ہے اگلے سال تک تیاری مکمل ہو جائے گی۔ اگر خدا تعالیٰ اِس کام میں کامیابی بخشے تو بعض ایجادات کا فائدہ تحریک جدید کو پہنچ سکتا ہے۔ بعض میں دوسرے افراد کو بھی اگر ضرورت ہو تو شامل کیا جا سکے گا اور بعض ایسی بھی ہو سکتی ہیں جنہیں ہم خود نہ چلا سکتے ہوں انہیں فروخت کر کے ریزرو فنڈ کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر یہ ایک خیالی بات معلوم ہوتی ہے مگر جس حد تک بعض کارروائیاں ہو چکی ہیں اُن سے امید کی جا سکتی ہے کہ مادی طور پر بھی اس کام کو مفید بنایا جا سکتاہے۔
کالج کے لئے میں نے دو لاکھ روپیہ چندہ کی اپیل کی تھی۔ پہلی تحریک ایک لاکھ پچا س ہزار کی تھی مگر بعد میں دو لاکھ کی کی تھی اور اب تک ایک لاکھ ستاون ہزار روپیہ کے وعدے آچکے ہیں اور ۴۳ ہزار باقی ہے احباب کو چاہئے کہ اِس رقم کو جلد از جلد پورا کریں۔ میں نے جہاں تک غور کیا ہے کالج کے چندہ کا بوجھ صرف چند لوگوں نے اُٹھایا ہے اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اِس میں حصہ نہیں لیا۔ بیت المال پھر تحریک کر رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ جماعت کے دوست ۴۳ہزارروپیہ جلد از جلد پورا کر دیں گے۔ اگر دوست تھوڑا تھوڑا بھی حصہ لیں تو یہ رقم نہایت آسانی سے پوری ہو سکتی ہے۔ مستقل اخراجات کیلئے چالیس پچاس ہزار روپیہ کی مزید ضرورت ہوگی اور بی اے ۔ بی ایس سی کی کلاسیں جاری کرنے کے لئے ایک لاکھ کے قریب روپیہ کی ضرورت ہوگی مگر اس کے لئے اعلان ۱۹۴۵ء کے کسی حصہ میں کیا جائے گا۔ سردست دو لاکھ روپیہ میں سے جتنا باقی ہے اسے پورا کر دیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی باقاعدہ چندے بھی درست با شرح اور باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے رہیں تا سلسلہ کے دوسرے کاموںپر کوئی اثر نہ پڑے۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جس کا مَیں نے ذکر کیا ہے اِسے صحیح طور پر چلانے کے لئے تو کم از کم تیس لاکھ روپیہ چاہئے اِس میں ۲۵،۳۰ ایم ایس سی یا بی ایسی سی کام کرنے والے ہونے چاہئیں۔ ہم بِالعموم زندگیاں وقف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر فی کس دو سَو روپیہ بھی سب کو وظیفہ دیا جائے تو ۷۲ ہزار روپیہ سالانہ تو صرف تنخواہوں کا خرچ ہو گا۔ اِس کے علاوہ آلات کا خرچ ہے، کیمیکلز کا خرچ ہے، دھاتوں وغیرہ کا خرچ ہے، بجلی کا خرچ ہے اور اِس قسم کے کئی دوسرے اخراجات ہیں۔ جن کے لئے کافی روپیہ چاہئے تو یہ سب سے زیادہ اخراجات والی چیز ہے۔ مگر چونکہ یہ ادارہ خود بھی آمد پیدا کرے گا۔ اِس لئے امید ہے کہ اِس کے لئے زیادہ چندوں کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ بہرحال کچھ عرصہ کے بعد پتہ لگ سکے گا کہ ہم اِس سکیم کو کس طرح چلا سکتے ہیں۔ اِس سکیم کے ماتحت پانچ نوجوان ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک دوست جو پہلے گورنمنٹ سروس میں تھے استعفیٰ دے کر یہاں آچکے ہیں اِس سال اُن کو P.H.Dکی ڈگری حاصل ہوئی ہے اور اب وہ D.S.Cکا امتحان دینے والے ہیں۔ بعض نوجوان ابھی چھوٹی جماعتوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور ابھی کہا نہیں جا سکتا کہ کب تیار ہوں گے بہرحال اِس کے لئے بہت اخراجات کی ضرورت ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے امید ہے کہ وہ اسے مکمل کرا دے گا اور کوئی نہ کوئی ایسے ذرائع پیدا کر دے گا کہ یہ کام اچھی طرح چل سکے اور ہم اس کے ذریعہ ایک مضبوط ریزرو فنڈ قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ اِس کے علاوہ یہ ادارہ تبلیغ کا بھی ایک مؤثر ذریعہ ہوگا اِس سے ہم یورپ اور امریکہ کی توجہ کو اپنی طرف منعطف کرا سکیں گے اِس کام کی طرف مجھے اِس لئے بھی توجہ ہوئی کہ ساری قومیں سائنس میں ترقی کر رہی ہیں اور ایسے ادارے قائم کر کے اپنی اپنی قوم کی مادی ترقی میں کوشاں ہیں مگر مسلمانوں کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے حالانکہ قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ نیچر کے مسائل پر غور کرنا چاہئے مگر مسلمان اس سے غافل تھے۔ اِس لئے مَیں نے ضروری سمجھا کہ ہم ہی اِسے شروع کر دیں۔ سردست یہ کام قرض لے کر شروع کر دیا گیا ہے۔
تجارتی تنظیم
اِس کے ساتھ یہ بھی ضروی ہے کہ جماعت کی تجارتی تنظیم بھی ہو جائے۔ اس کے بارہ میں مَیں نے ایک خطبہ بھی پڑھا تھا مگر عمر بھر میں
میرا کوئی اور خطبہ ایسا نہیں جس پر اِس قدر بے توجہی سے جماعت نے کام لیا ہو جتنا اِس پر لیا ہے۔ باہر سے کسی تاجر کا کوئی خط نہیں آیا جس میں کوئی مشورہ دیا گیا ہو یا تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ہو۔ میری زندگی کا یہ پہلا تجربہ ہے کہ جو تحریک جماعت کو مخاطب کر کے کی گئی اُس پر کوئی توجہ نہیں ہوئی۔ ممکن ہے اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے کہا تھا کہ اِس کیلئے مرکز میں ایک ادارہ قائم کر دیا جائے گا۔ مگر وجہ خواہ کچھ ہو عملی طور پر ہوا یہی ہے کہ بعض ایسے تجربہ کار لوگوں نے جن کا تجارت کے پیشہ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں بعض بڑی بڑی لمبی اور تفصیلی سکیمیں ارسال کی ہیں۔ یہ بھی ایک مرض ہے کہ جب بھی کوئی نئی بات پیش ہوتی ہے بعض ایسے لوگ جن کا کوئی واسطہ اُس سے نہیں ہوتا لمبی لمبی تفاصیل اِس کے متعلق لکھ کر بھیج دیتے ہیں اوربڑی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ اِسی طرح اِس تحریک کے متعلق ہوا ہے بعض ایسے لوگوں کی طرف سے جن کا اِس فن سے کوئی تعلق نہیں بہت سی تجاویز آئی ہیں ایسی تجاویز جن پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ مگر جو ماہرینِ فن ہیںانہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی بہرحال اب میں نے مرکز میں اِس کے لئے ایک ادارہ بھی قائم کر دیا ہے اور سیکرٹری مقرر کر دیا ہے کیونکہ ریسرچ انسٹی ُٹیوٹ کے ساتھ تجارتی تنظیم کا کام بہت ضروری ہے۔ اب بعض چیزیں قریباً تیار ہیں مگر اُنہیں کامیابی کے ساتھ چلانے کے لئے دوستوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ مثلاً یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اِس قسم کی چیزوں میں دلچسپی لینے والے تاجر کون ہیں جن کے پاس اِن کو فروخت کیا جاسکتا ہے یا جن کے ساتھ مل کر کام کو چلایا جاسکتا ہے۔ اگر دوست اِس کام میں دلچسپی لیں تو خود اُن کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اور سب سے بڑی چیز جو میرے مد نظر ہے یہ ہے کہ تاجروں کو منظم کر کے تبلیغ کے کام کو
وسیع کیا جائے۔ بعض سکیمیں ایسی ہیں کہ جن سے تاجروں کو بھی کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور تبلیغ کے کام میں بھی مدد مل سکتی ہے مگر میں اُن کو پبلک میں بیان نہیں کر سکتا۔ اگر ان کو پبلک میں بیان کر دیا جائے تو مخالف بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں یہ سب باتیں میں اسی صورت میں بیان کر سکتا ہوں کہ تجارتی تنظیم مکمل ہو جائے اور احمدی تاجروں کی انجمن قائم ہو جائے۔ جماعتی تعاون تجارت میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کئی ایسے لوگ ہیں جو تجارتی کاموں میں پڑنا چاہتے ہیں مگر اُن کو واقفیت نہیں ہوتی کہ کیا کام شروع کریں، کس طرح کریں اور کہاں سے کریں۔ بعض کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا، بعض کے پاس سرمایہ تو تھوڑا بہت ہوتا ہے مگر اُنہیں کام کرنے کا ذریعہ معلوم نہیں ہوتا۔ اگر جماعت کی تجارتی تنظیم ہو جائے تو ایک دوسرے کو بہت مدد مل سکتی ہے۔ پھر کئی ایسے ممالک ہیں کہ اگر احمدی تاجر وہاں جائیں تو بہت جلد ترقی کی امید کر سکتے ہیں مگر یہ سب معلومات پبلک میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ اگر پبلک میں یہ باتیں بیان کر دی جائیں تو دوسرے لوگ فائدہ اُٹھالیں گے اور اُن علاقوں کے تاجر بھی سمجھیں گے کہ یہ لوگ بِالا رادہ اور ایک سکیم کے ماتحت یہاں آئے ہیں اور اس لئے وہ زیادہ مخالفت کریں گے۔ پس میں جماعت کے تاجروں کو اپنے اِس خطبہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تبلیغ سلسلہ کے لئے اُن کا جلداز جلدمنظم ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اِس وقت مزدوروں اور کارخانہ داروں کے درمیان لڑائیاں جاری ہیں لیکن ہم ایسے رنگ میں اِس سکیم کو چلانا چاہتے ہیں کہ ایسے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں اور دونوں ترقی کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور ہم اِس کیلئے بہت سی باتیں بتا سکتے ہیں مگر پبلک میں ان کا بیان کرنا مناسب نہیں۔ تاجر احباب جلدسے جلد اپنی انجمن بنا لیں جس کے سامنے میں یہ باتیں بیان کر دوں گا۔ احمدی تاجروں کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنے نام تحریک جدید کے دفتر میں بھجوادیں اور جس قسم کا تعاون کر سکیں کریں۔اِن کاموں کے چلانے کے لئے واقفین کی بھی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو چاہئے کہ اِن کاموں کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں۔
۱۸۰مربعہ اراضی
گزشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا کہ سندھ سے ۱۸۰ مربعہ اراضی آزاد کرائی جا چکی ہے اِس سال تک یہ رقبہ تین سَو مربعہ یعنی
ساڑھے سترہ ہزار ایکڑ کے قریب ہے جو آزاد کرایا جا چکا ہے دوہزار ایکڑ کے قریب باقی ہے جس میں سے ہزار ڈیڑھ ہزار ایکڑ کے قریب زمین خریدی جاچکی ہے اور باقی کی خرید کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ جو خریدی جا چکی ہے اُسے قریبی عرصہ میں آزد کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ پانچ چھ سَو ایکڑ تو عنقریب ہی آزاد ہو جائے گی۔ اِس کے علاوہ کچھ رقبہ ایسا ہے جس کے متعلق خیال ہے کہ وہ خریدنے کے قابل ہی نہیں۔ امید ہے کہ ۱۹۴۵ء میں ساری کی ساری زمین جو ہم خریدنا چاہتے ہیں ہم خرید کر آزاد کرا سکیں گے۔تحریک جدید کے دس سالہ دَور میں کل قریباً ساڑھے نو ہزار ایکڑاراضی خریدی گئی ہے اِس کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ روپیہ قرض لے کر ادا کیا گیا ہے اور باقی تحریک جدید کے چندوں سے۔ سندھ میں چونکہ کاشت کرنے والے بہت کم ہیں اِس لئے وہاں زمینوں کی قیمتیں پنچاب کی نسبت بہت کم ہیں پھر بھی سندھ کی موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے یہ جائداد ساڑھے بائیس لاکھ روپیہ کی ہے اور اگر پنجاب میں زمینوں کی قیمتوں پر اندازہ کیا جائے تو یہ ساٹھ سے اسّی لاکھ تک مالیت کی ہے۔ مگر صوبہ سندھ زراعت میں پنجاب سے بہت پیچھے ہے اور وہاں کاشت کرنے والے بھی کم ہیں۔ پنجاب میں تو یہ حالت ہے کہ مزارعین مالکانِ اراضی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں مگر وہاں مالکان مزارعین کے پیچھے پھرتے ہیں اور وہ زیادہ پروا نہیں کرتے۔ یہاں تو مزارعین پیشگی دے کر ٹھیکے اور کاشت پر مربعے لیتے ہیں مگر وہاں مالکان مزارعین کو پیشگی رقوم دے کر آمادہ کرتے ہیں کہ کاشت کریں۔ پھر یہاں تو زمیندار زمین کو ایسا تیار کرتے ہیں کہ وہ بہت پیداوار دیتی ہے مگر وہاں کسان اتنی محنت نہیں کرتے وہ صرف بیج پھینک آتے ہیں اور باقی سارا کام مالک خود کراتے ہیں۔ پھر بھی حالات بدل رہے ہیں۔ ۱۹۳۴ ء میں جب میں نے پہلی دفعہ سندھ کا سفر کیا تھا تو گھوڑوں پر کیا تھا اور حالت یہ تھی کہ کئی جگہ رستہ نہیں ملتا تھا اور اِردگرد آدمی بھیج کر دریافت کرانا پڑتا تھا کہ راستہ کس طرف ہے مگر اب وہاں ریل جاری ہو گئی ہے اور بعض ریلوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ جگہ نہیں ملتی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ علاقے آباد ہو رہے ہیں اور امید ہے آہستہ آہستہ وہاں بھی زمینوں کی قیمت پنجاب جتنی ہی ہو جائے گی مگر سرِدست کم ہے۔ پھر بھی ساڑھے بائیس لاکھ روپیہ کی یہ جائداد ہے اور اگر باقی کی زمین بھی آزاد ہو جائے تو گویا تیس لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ قائم ہو جائے گا۔ وہاں کام کرنے کے لئے بھی کارکنوں کی بہت ضرورت ہے اور میں تحریک کرتا ہوں کہ وہاں کام کرنے کے لئے بھی ایسے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کریں جو زمیندارہ کام سے واقف ہوں۔ ان کے لئے اکاؤنٹنٹ،مینیجر اور منشیوں کا کام کرنے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے اور جو لوگ وہاں خدمت سرانجام دیں گے وہ بھی سلسلہ کے ایسے ہی خادم سمجھے جائیں گے جیسے سلسلہ کے مبلّغ ہیں۔ جو شخص وہاں جا کر منشی کا کام کرتاہے وہ ثواب کا ویسا ہی مستحق ہے جیسے امریکہ کا مبلّغ، اس لئے میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ بیس سے تیس سال تک کی عمر کے نوجوان جو پرائمری یا مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں سندھ کی اراضیات پر کام کرنے کے لئے اپنے نام پیش کریں اور زندگیاں وقف کریں تا اُنہیں کام کے لئے تیار کر کے وہاں بھجوایا جا سکے۔ پھر وہاں مینیجروں کی بھی ضرورت ہے اِس کے لئے دو گریجوایٹوں نے زندگیاں وقف کی ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہم ایم ایس سی کی دوسرے کو بی ایسی سی کی تعلیم دلا رہے ہیں۔ اور بھی ایسے نوجوان جو بی اے یا بی ایس سی ہوں اور جنہیں زمیندارہ کام کا تجربہ ہو اگر اپنے نام پیش کریں تو بہت اچھا ہے۔
دفتری نظام
ایک اور خطرہ جو ہمارے دفتری کاموں کے سلسلہ میں ہے میں اُس کا ذکر بھی کر دینا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ موجودہ ناظر جب سے مقرر
ہوئے ہیں وہی کام کر رہے ہیں اِن کا کوئی قائم مقام تیار نہیں ہوا۔ یہی چند ایک لوگ ہیں جو بیس بیس سال سے زائد عرصہ سے کام کر رہے ہیں اور آگے ہمارے پاس کوئی ایسے آدمی نہیں ہیں جو اِن کی جگہ لے سکیں۔ میں نے مجلس مشاورت کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ میں تحریک جدید کے واقفین میں سے ایسے آدمی دوں گا جنہیں ایسے رنگ سے ٹریننگ دی جائے کہ وہ آئندہ جا کر نظارتوں کا کام کر سکیں۔ چنانچہ میں نے واقفین میں سے چھ نوجوان صدر انجمن احمدیہ کو دئیے ہیں کہ اِنہیں مختلف محکموں میں ٹریننگ دی جائے تا جب کسی ناظر کی کوئی جگہ خالی ہو تو وہ کام کو سنبھال سکیں۔ یہ نوجوان واقفین میں سے دیئے گئے ہیں۔ ہم اِن کو صرف گزارہ دیں گے جو صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید کو ادا کر دیا کرے گی۔ اِن کو ترقیات اور گریڈ وغیرہ کوئی نہیں دیئے جائیں گے کیونکہ وہ واقف ہیں۔
تبلیغ کے کام کو وسعت دینے کے لئے اس سال کراچی، بمبئی اور کلکتہ میں باقاعدہ مشن کھول دیئے گئے ہیں۔ میری عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ ان مقامات پر مشن کھولے جائیں جو ہندوستان …… مگر افسوس کہ اب تک اِس طرف توجہ نہ دی گئی۔ اب یہ مشن کھل گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی کامیابی ہو رہی ہے خصوصاً کلکتہ میں زیادہ کامیابی ہو رہی ہے وہاں اب تک ایک درجن اچھے کام کرنے والے آدمی سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیںاور درجنوں ہیں جو تیار ہو رہے ہیں اور قریب آ رہے ہیں۔ کراچی میں بھی بیداری کے آثار نظر آتے ہیں کچھ لوگ وہاں بھی احمدی ہوئے ہیں اور امید ہے کہ وہاں جلد مرکز مضبوط ہو کر زیادہ اچھے نتائج پیدا ہو سکیںگے۔ بمبئی میں دیر سے مشن قائم ہوا ہے ابھی موزوں جگہ بھی نہیں مل سکی مگر وہاں نیر صاحب بطور مبلّغ گئے ہیں جو پُرانے تجربہ کار آدمی ہیں وہ کوشش بھی کر رہے ہیں اور امید ہے اِنْشَائَ اللّٰہَ وہاں بھی جلد کامیابی ہو جائے گی۔ اِس کے بعد مدراس اور پشاور رہ جائیں گے اگر وہاں بھی مشن قائم ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرحدیں مضبوط ہو جائیں گی۔ کوئٹہ کو میں نے پہلے شامل نہیں کیا تھا مگر اب اِسے بھی شامل کرنا ہے وہاں بھی مشن کا قائم ہونا ضروری ہے۔ وہاں سے بھی افغانستان کو آنے جانے والے قافلے گزرتے ہیں اور اگر وہاں بھی ہمارا مشن ہو تو خداتعالیٰ کے فضل سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو تبلیغ ہو سکتی ہے ۔
مساجد کی تحریک
اِس کے بعد میں مساجد کی تحریک کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے اِس سال یہ تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس میں کافی کامیابی ہوئی ہے۔
اُمِّ طاہر احمد مرحومہ کی وفات کے بعد میں نے مسجد مبارک کی توسیع کی تحریک کی تھی اور احباب نے دیکھ لیا ہوگا کہ اب کیسی شاندار مسجد بن چکی ہے۔ پہلے تو اندازہ تھا کہ اِس پر ۱۲،۱۳ ہزار روپیہ خرچ آئے گا اور میرا یہ بھی ارادہ تھا کہ بیرونی دوستوں کو بھی اِس میں حصہ لینے کا موقع دوں گا۔ مگر میں نے عصر کی نماز کے بعد یہ تحریک کی کہ میں چاہتا ہوں اِس مسجد کو وسیع کیا جائے اور عشاء کی نماز تک سولہ ہزار کی بجائے قادیان کی جماعت نے ہی ۲۴ ہزار روپیہ جمع کر دیا۔ اِس تحریک کے نتیجہ میں مسجد مبارک پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے اور ابھی بعض اور سامان بھی اُس کی وسعت کے ہیں اور خداتعالیٰ چاہے تو اِس سے بھی وسیع ہوسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسجد اقصیٰ کو وسیع کیا جائے ۔ چند ہی سال ہوئے ہم نے اِس مسجد کو بڑھایا تھا۔ شیخ محمدیوسف صاحب ایڈیٹر نورنے مہربانی کر کے اپنا مکان انجمن کے پاس فروخت کردیا جسے مسجد میں شامل کر لیا گیا۔ بعض نادانوں نے اُس وقت اعتراض بھی کیا تھا کہ اُنہوں نے مکان بہت مہنگا دیا مگر یہ اعتراض صحیح نہیں۔ انہوں نے جو قیمت لی وہ واجبی تھی اورمیں سمجھتا ہوں اُنہوں نے اپنا مکان دے کر قربانی ہی کی تھی ورنہ جس مکان میں آدمی ایک عرصہ سے رہ رہا ہو اُسے دے دینا آسان نہیں ہوتا۔ اب وہ مسجد بھی تنگ ہوگئی ہے دوسری طرف باہر کے دوستوں کی طرف سے میرے پاس یہ شکایت پہنچتی ہے کہ مسجد مبارک کے چندہ کی تحریک میں انہیں حصہ لینے کا موقع نہیں دیا گیا اب اگر مسجد اقصیٰ میں تو سیع کی تحریک کی گئی تو باہر کے دوستوں کو ضرور اس میں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا مگر ابھی اس تحریک کا موقع نہیں۔ اگر اس مسجد کو بڑھایا گیا تو میرا خیال ہے اِس پر پچاس ہزار روپیہ بلکہ ممکن ہے ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو۔اب جن عمارات کو اِس میں شامل کر کے اِسے وسعت دی جا سکتی ہے وہ بہت قیمتی جائدادیں ہیں۔ اِس لئے اِسے وسیع کرنے پر کافی خرچ آئے گا اور جب اِس کا موقع آئے گا میں تحریک کر دوں گا اور باہر کی جماعتوں کو اِس میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا۔
اِس سال میں نے یہ تحریک بھی کی تھی کہ ہندوستان کے سات اہم مقامات پر مساجد تعمیر کرنا چاہئیں یعنی پشاور، لاہور، کراچی، دہلی، بمبئی، مدراس اور کلکتہ میں۔ اور یہ تحریک بھی خداتعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو رہی ہے۔ دہلی کے دوستوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور سب نے ایک ایک ماہ کی آمد چندہ میں دی اور اِس طرح اِس مد میں تیس ہزار روپیہ کے وعدے ہو چکے ہیں اور کچھ روپیہ امانت فنڈ سے دے دیا گیا ہے۔ دوکنال زمین خرید لی گئی ہے جس کی قیمت پچاس ہزار روپیہ ہے یہ نواب پٹواری کی جائداد ہے۔ ستّر ہزار روپیہ عمارت کی تعمیر پرخرچ ہونے کا اندازہ ہے۔ یہ جگہ جو خریدی گئی ہے یہاں پہلے عیسائیوں کا مشن بنا تھا۔
مجھے اِس سلسلہ میں ایک بات یاد آئی جس سے بہت لطف آیا۔ قریباً تیس سال پہلے مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ہائی سکول اور بورڈنگ کی عمارتوں کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ہم تو قادیان سے جارہے ہیں لیکن دس سال نہیں گزریں گے کہ اِن عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اُن کی یہ بات تو خداتعالیٰ نے غلط ثابت کر دی اور ہمیں توفیق دی کہ دہلی میں عین اُس مقام پر ہم مسجد بنا رہے ہیں جہاں سب سے پہلے عیسائیوں نے اپنا مشن قائم کیا تھا اور اِس طرح بجائے اِس کے کہ عیسائی ہماری عمارتوں پر قبضہ کر سکتے ہم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جگہ دے دی جہاں اُنہوں نے پہلے اپنا مشن قائم کیا۔ امید ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ میں وہاں ایک مسجد اور ایک ہال تعمیر ہو جائے گا۔ میرا تو اندازہ تھا کہ کم سے کم سَوا لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا مگر دہلی کے دوستوں نے بتایا ہے کہ بعض تجاویز ایسی ہیں کے اِنْشَائَ اللّٰہُ انہیں سامان سستا مِل سکے گا اور اِس طرح بہت جلد وہاں مسجد، ہال اور ایک مہمان خانہ تعمیر ہو سکے گا اور ہندوستان کے سیاسی مرکز میں ہمارا تبلیغی مرکز قائم ہو جائے گا۔
دوسری جماعت جس نے جماعت دہلی سے بھی بڑھ کر اِس تحریک میں حصہ لیا ہے وہ کلکتہ کی جماعت ہے۔ ابھی پانچ سات سال کی بات ہے کہ کلکتہ کی جماعت کا چندہ دو چار ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہوتا تھا مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہوا ہے کچھ نئے آدمی وہاں گئے اور جو پہلے سے وہاں موجود تھے اُن میں سے بعض کی حالت سُدھر گئی اور اب یہ حالت ہے کہ اِس جماعت نے ۶۶ ہزار روپیہ چندہ مسجد کے لئے دیا ہے اور ان میں سے بعض نے تحریک کی ہے کہ اِس چندہ کو ڈبل کیا جائے گویا ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب۔ ایک جگہ بھی انہوں نے مسجد کیلئے تجویز کی ہے جو امید ہے ساٹھ پینسٹھ ہزار میں مل جائے گی۔ ایک اور ٹکڑہ زمین کا شہر کے اندر ہے مگر اُس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپیہ ہے میں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ شہر کے باہر کے علاقہ میں بنائیں۔ باہر کے علاقہ میں تبلیغ میں سہولت ہوتی ہے وہاں مخالفت بھی بڑی ہوتی ہے تو اِس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کلکتہ میں سامان ہو رہا ہے اور جماعت نے ۶۶ ہزار روپیہ جمع کر دیا ہے۔
بمبئی میں ابھی جگہ خریدی نہیں گئی مگر وہاں بھی سامان ہو رہا ہے۔ وہاں قبرستان کے لئے بھی جگہ حاصل کی جا رہی ہے۔ بعض ممبروں کے دستخط بھی ہو چکے ہیں صرف ایک کے باقی ہیں۔ فی الحال بمبئی میں زمین خریدنے کے لئے روپیہ مرکز سے بھجوایا گیا ہے۔
پشاور میں پہلے سے مسجد ہے مگر چھوٹی ہے وہاں مبلّغ کے لئے مکان اور لیکچر ہال کی بھی ضرورت ہے اور میں صوبہ سرحد کے احمدیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ کسی ایسی جگہ کا خیال رکھیں جہاں پاس آبادی بھی ہو اور جگہ کھلی مل سکے تا اگر ہو سکے تو وہاں عربی مدرسہ بھی جاری کیا جاسکے۔
کراچی میں چار کنال کے قریب زمین مَیں دیر سے خرید چکا ہوا ہوں یہ دراصل اراضیاتِ سندھ کے سلسلہ میں خریدی گئی تھی کیونکہ خیال تھا کہ کراچی میں شاید …… رکھنا پڑے گا جوکہ حُکّام وغیرہ سے …… کچھ تو مَیں نے ذاتی طور پر خریدی تھی اور کچھ انجمن کی طرف سے خریدی تھی۔
لاہور میں بھی اچھے موقع پر سات ایکڑ زمین خریدلی گئی ہے مگر اب حکومت کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے اور وہ اِسے واپس لینا چاہتی ہے کوشش کی جائے گی کہ وہ واپس نہ لے کیونکہ ہمارے پاس تو وہاں اور کوئی زمین ہے نہیں اور اگر انصاف سے کام لیا گیا تو ہم سے یہ زمین جبراً نہ لی جائے گی۔
مدراس میں کوئی کوشش نہیں کی گئی اگر وہاں بھی مسجد بن سکتی تو تبلیغ کا بہت اچھا موقع پیدا ہو سکتا تھا۔
حیدر آباد بھی ہندوستان میں ایک اہم جگہ ہے سیٹھ عبداللہ الہٰ دین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور اُنہوں نے ۲۵،۳۰ ہزار روپیہ صرف کر کے وہاں ایک احمدیہ جوبلی ہال تعمیر کرایا ہے۔ ہے تو وہ مسجد ہی مگر کہلاتی ہال ہے اب انہوں نے اسے اور بڑا کر دیا ہے اور وہ اب تک اس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد میں بیرونی مشنوں کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
بیرونی مشنوں کے متعلق
اس سال جنگی مشکلات کے باوجود انگلستان، امریکہ اور افریقہ میں تبلیغی لحاظ سے اچھی کامیابی ہوئی ہے۔
انگلستان اور امریکہ وغیرہ ممالک میں یہ حالت ہے کہ قریباً تمام مرد جنگی خدمات کے سلسلہ میں بھرتی ہو چکے ہیں۔ یا تو وہ فوج میں کام کرتے ہیں اور یا کارخانوں میں، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انگلستان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو توفیق دی اور انہوں نے انگلستان کے بڑے طبقہ کے لوگوں میں احمدیت کو روشناس کرا دیا۔ اِسی طرح امریکہ میں بھی اچھی کامیابی ہوئی ہے مگر سب سے زیادہ کامیابی افریقہ میں ہوئی ہے۔ وہاں اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے تین مشن ہیں (۱)نائیجریا میں۔ جو ہندوستان کے بعد سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی دس کروڑ کے قریب ہے اور وہاں دو تین کروڑ ہے۔
(۲)گولڈ کوسٹ۔ یہاں بھی کثرت سے مسلمان آباد ہیں۔
(۳) سیرالیون۔ یہاں بھی مسلمان آباد ہیں ان علاقوں میں عیسائیوں نے مشن کھول رکھے ہیں اور عیسائی حکومت بھی ان کی مدد کرتی ہے۔ حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ عیسائیوں کے سکولوں کے سِوا کسی سکول کو کوئی امداد نہ دی جائے۔ ہم نے بھی وہاں کئی سکول قائم کئے ہیں اور لڑ بھڑ کر حکومت سے امداد بھی لی ہے اِن تینوں علاقوں میں ہمارے مدارس قائم ہیں جن میں ہزاروں طالب علم تعلیم پا رہے ہیں اور ایسی کامیابی سے تبلیغ ہو رہی ہے کہ ہزاروں لوگ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔ وہاں جماعت کی ترقی کا اندازہ اِس سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک کانفرنس میں تین ہزار نمائندے شریک ہوئے تھے۔ صرف ایک مُلک میں مردم شماری کرائی تو تعداد ۲۵ہزار تھی۔ بعض علاقوں میں تو یہ حالت ہے کہ امراء شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری طرف تبلیغ کیوں نہیں کرتے۔ ایک چیف کی بہت خواہش تھی کہ کوئی احمدی مبلّغ اُس کی ریاست میں آئے وہ دو سال انتظار کرتا رہا مگر کوئی نہ جا سکا اب وہ فوت ہو چکا ہے۔ تو وہاں لوگوں کے دلوں میں تڑپ پائی جاتی ہے کہ ہماری باتیں سنیں مگر ہمارے مبلّغ اُن تک پہنچ نہیں سکتے۔ وہاں تبلیغ میں بعض مشکلات بھی ہیں وہاں نئے نئے قوانیں رائج ہیں مثلاً عدالت میں بیان دیتے وقت ایک سٹول پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانی پڑتی ہے۔ احمدیوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم ایک زندہ خدا کے ماننے والے ہیں اور اُس کے سِوا کسی کی قسم نہیں کھا سکتے۔ ان کے ساتھ سختیاں بھی کی گئیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ پُرانے قانون کو احمدیوں کے لئے توڑا نہیں جا سکتا اور جو احمدی انکار کرتا اُسے جیل بھیج دیا جاتا۔ مگر احمدی دلیری سے جیل میں جانے لگے اور اب حکومت نے فیصلہ کر دیا ہے کہ احمدیوں کو خدا کی قسم کھانے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ کئی احباب نے دیکھا ہوگا نیر صاحب ان علاقوں کے لوگوں کی تصویریں دکھایا کرتے ہیں۔ پہلے وہاں ہزاروں لوگ ننگے پھرا کرتے تھے مگر اب وہ کپڑے پہننے لگے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے سیرالیون کے مبلّغ واپس آرہے ہیں۔ حیفا سے اُن کا تار آیا ہے کہ ویزاچونکہ جلدی نہیں مل سکا اِس لئے جلسہ سالانہ پر نہیں پہنچ سکا۔ اب وہ عراق کی طرف روانہ ہوگئے ہیںوہ جلسہ پر نہیں پہنچ سکے ورنہ میں چاہتا تھا کہ وہ خود اپنی مشکلات پیش کرتے۔ وہاں تبلیغ کا میدان بہت وسیع ہے اور درجنوں مبلّغ ہوں تو کام دے سکتے ہیں۔ چھ چھ ماہ کے بعد اِن مبلّغوں کا خرچ مقامی لوگ برداشت کر سکتے ہیں وہاں بہت سے افریقن مبلّغ بھی کام کرتے ہیں۔ کچھ دن ہوئے مجھے ایک مقامی مبلّغ کا خط آیا تھا اُس نے لکھا تھا کہ :۔
مولوی نذیر احمد صاحب
مولوی نذیر احمد صاحب کے کام کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے وہ بہت جانفشانی سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں
کام کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ملیریا بہت ہے اور مچھر بہت ہیں۔ راستے بھی دُشوار گزار ہیں مگر مولوی صاحب اِن سب مشکلات کے باوجود بہت محنت سے کام کرتے ہیں اور انہوں نے بعض علاقوں میں جو بالکل جنگلی ہیں سَو سَو اور دو دو سَو میل لمبے سفر پیدل کئے ہیں گو وہ اِس کے عادی نہ تھے۔ اِس مقامی مبلّغ نے لکھا تھا کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسی قربانی کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارے مبلّغین کی اِن جانفشانیوں کا نتیجہ ہے کہ ان ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو ترقی حاصل ہو رہی ہے اور کالے چمڑے والے قیامت کے دن سفید شکلوں میں اُٹھیں گے۔ ان کے دل نور ایمان سے منور ہو رہے ہیں اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور اِس مُلک پر وسیع طور پر پھیل جائے گا اور گری ہوئی اقوام جلد ترقی کریں گی۔
ٹانگا نیکا میں نئی احمدیہ مسجد تعمیرہوئی ہے اور مدرسہ بھی کھل چکا ہے وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ اگر جماعت احمدیہ حبشیوں کی آبادی میں سکول کھولے تو وہ مدد دے گی اور وہاں کے تاجروں نے جو غیر احمدی ہیں ہزاروں روپیہ کی امداد کا وعدہ کیا ہے چنانچہ وہاںسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حبشہ میں سب سے پہلے ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو تبلیغ کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی تھی تو اُن کی تبلیغ سے تو اس ملک کا کوئی باشندہ احمدی نہ ہوا تھا مگر فلسطین کے مبلّغ نے اطلاع دی ہے کہ رسالہ البشریٰ پڑھ کر حبشہ کے ایک صاحب احمدی ہوئے ہیں جو مصری پولیس میں انسپکٹر تھے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیںاور سوڈان میں رہتے ہیں۔ گویا وہ تین مُلکوں سے نسبت رکھتے ہیں حبشہ کے باشندہ ہو نے کی وجہ سے، مصری حکومت میں ملازمت کرنے کی وجہ سے اور سوڈان میں بودوباش رکھنے کی وجہ سے۔ سوڈان میں پہلے بھی ایک دوست احمدی تھے احمدیت کی وجہ سے وہاں اُن کو دکھ دیئے گئے اس لئے وہ عدن آگئے تھے۔ جنگ کی وجہ سے بعض احمدی ایبیسینیا گئے اور اُن کو تبلیغ کا موقع ملا اور اِس طرح جنگ کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مفت تبلیغ کے راستے ہمارے لئے کھول دئیے۔
ایک اور نوجوان جزیرہ لکا دیپ کے رہنے والے اب قادیان آئے ہیں۔ سٹریٹ سیٹلمینٹس اور ہندوستان کے درمیان بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں اِن میں سے ایک جزیزہ سے ایک جہاز ہندوستان کی طرف آرہا تھا کہ چاپانی آب دوز نے تار پیڈ و مار کر غرق کر دیا تمام مسافر سوائے تین کے ڈوب گئے۔ یہ تینوں بمبئی پہنچے وہاں پہنچ کر دو مر گئے اور ایک بچا۔ اسے ایک احمدی دوست مل گئے جب اِس نوجوان نے اپنے حالات جہاز کی غرقابی اور مصائب اُٹھا کر بمبئی پہنچنے کے واقعات بیان کئے تو اُس احمدی دوست نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انکار کے نتیجہ میں دُنیا پر عذاب آرہے ہیں۔ اِس نوجوان نے پوچھا کہ مسیح موعود کون ہیں؟ اور اس طرح اس احمدی کو موقع مل گیا کہ اسے تبلیغ کرے چنانچہ اب وہ نوجوان یہاں پہنچ گیا ہوا ہے۔ یہ نوجوان اپنے جزیزہ کے سلطان کے وزیر کا لڑکا ہے۔ بعد میں وہاں سے کچھ اور لوگ ہندوستان آئے ہیں یہ اطلاع ملی ہے اِس نوجوان کے متعلق وہاں یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ مر چکا ہے تو اِس طرح اللہ تعالیٰ تبلیغ کے نئے نئے راستے کھول رہا ہے اور سامان وسیع کر رہا ہے۔
دیہاتی مبلّغ
اِس سال پندرہ دیہاتی مبلّغ تیار کئے گئے ہیں اِن کو قرآن کریم کا ترجمہ، موٹے موٹے دینی مسائل اور طب وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے۔ اِن کے
علاقے بھی مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ تین ضلع سیالکوٹ میں، تین ضلع گورداسپور، دو ضلع لاہور ،دو ضلع سرگودھا ،ایک ضلع ملتان، ایک ضلع کرنال، ایک ضلع امرتسر اور دو ضلع گوجرانوالہ میں لگائے گئے ہیں یہ سکیم مَیں پہلے شائع کر چکا ہوں۔ میرا منشاء یہ ہے کہ دس پندرہ یا بیس دیہات کے لئے ایک مبلّغ مقرر کیا جائے۔ یوں تو بہت سے دیہاتی مبلّغین کی ضرورت ہے اگر صرف ان مقامات پر ہی دیہاتی مبلّغ رکھے جائیں جہاں جماعتیں ہیں تو بھی آٹھ سَو جماعتیں ہیں۔ اگر ہر دیہاتی مبلّغ کا حلقہ چار چار جماعتوں پر پھیلا ہوا ہو تو بھی دو سَو دیہاتی مبلّغ درکار ہوں گے۔ لیکن اگر دو سَو دیہاتی مبلّغ بھی مہیا کئے جائیں تو اُن پر سَوا لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ اگر ہر مبلّغ کا خرچ پچاس روپیہ بھی سمجھ لیا جائے تو اِس کے معنی ہوں گے دس ہزار روپیہ ماہوار۔ یعنی ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ سالانہ۔ مگر ابھی ہم اتنا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے میری تجویز ہے کہ فی الحال پچاس تیار کئے جائیں۔ اس کے لئے بھی بیس سے تیس سال تک کی عمر کے نوجوان جن کی تعلیم مڈل کے درجہ تک ہو اپنے نام پیش کریں۔ چالیس سال تک کی عمر کے وہ لوگ بھی لئے جاسکتے ہیں جو اس کام کے لئے موزوں سمجھے جائیں۔
ترجمۃ القرآن
ایک کام ترجمۃ القرآن کا بھی ہے جس کے لئے میں نے چندہ کی تحریک کی تھی۔ مگر بعض جماعتوں کو اس کا علم نہیں ہو سکا اور وہ حصہ نہیں لے
سکیں۔ یہ سوال نہیں کہ کوئی کتنی رقم دے کر اِس میں حصہ لیتا ہے بلکہ ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ جو کچھ بھی وہ دے سکے دے کر شامل ہو تا کوئی بھی اِس ثواب سے محروم نہ رہے۔ میں نے اس کام کے لئے ایک لاکھ ۹۴ ہزار روپیہ چندہ کی تحریک کی تھی اور الگ الگ حلقے مقرر کر دیئے تھے۔ ایک حلقہ قادیان، ایک لجنہ اماء اللہ کا حلقہ، لاہور کا حلقہ، صوبہ سرحد کا حلقہ، دہلی کا حلقہ، کلکۃ کا حلقہ اور ساتواں حیدر آباد کا حلقہ۔ یہ سات حلقے مقرر کئے گئے تھے۔ ان پر کلکتہ اور حیدر آباد دکن کی جماعتوں نے فوراً اطلاع دی کہ وہ اِس ذمہ داری کو بخوشی اُٹھاتی ہیں اور مقررہ رقم جمع کر کے دینے کی ذمہ دار ہیں خواہ اُن سے ملحقہ جماعتیں پوری طرح حصہ لیں یا نہ لیں وہ مقررہ رقم ضرور پوری کر دیں گی۔ دہلی ، صوبہ سرحد اور لاہور کی جماعتوں نے بھی رقوم پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ پشاور کے دوست باوجود یکہ مالدار نہیں ہیں پھر بھی انہوں نے اخلاص کا نمونہ دکھلایا ہے اور کہا ہے کہ چاہے کچھ ہو وہ رقم پوری کریں گے۔ اِن کے وعد ے بیس ہزار کے آگئے ہیں۔ لاہور کا وعدہ ابھی کم ہے مگر شاید وہ ابھی اپنے طور پر کوشش کر رہے ہوں۔قادیان کا وعدہ ۲۳ ہزار تک کا ہے مگر ابھی خاص قادیان میں کوشش جاری ہے اور باہر کی بعض جماعتیں ابھی باقی ہیں۔ اب تک کُل وعدے دو لاکھ ۱۲ ہزا ر کے ہو چکے ہیں حالانکہ بہت سے جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ابھی حصہ نہیں لیا۔ اور میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اِس تحریک میں ضرور حصہ لیں خواہ ایک دھیلہ ہی دے سکیں تا جہاں جہاں قرآن کریم کے یہ تراجم چھپ کر جائیں ثواب میں اُن کا حصہ بھی ہو۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایک کوڑی دیکر بھی آدمی حصہ لے سکتا ہے اتنی رعایت کے باوجود بھی جو حصہ نہیں لیتا وہ اپنے آپ کو بہت بڑے انعام سے محروم رکھتا ہے۔ پس ہر دوست اِس میں حصہ لے خواہ ایک پیسہ یا ایک دھیلہ دے کر ہی حصہ لے سکے ۔ غرض یہ ہے کہ ہر شخص اِس ثواب میں شامل ہو سکے۔
اُترسوں مجھے بذریعہ تار انگلستان سے اطلاع ملی ہے کہ جرمن، روس اور انگریزی زبانوں میں بارہ بارہ سیپاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے ڈچ، اطالوی اور سپنیش میں آٹھ اور دس سیپاروں کے درمیان ہو چکے ہیں اور اب تک کچھ اور کام بھی ہو چکا ہوگا بقیہ…… اور امید کی جاتی ہے کہ ۱۹۴۵ء میں اِنْشَائَ اللّٰہُ سات زبانوں میں تراجم کا کام مکمل ہو جائے گا اور اس کے بعد طباعت کا انتظام کیا جائے گا۔ چندہ کی رقم خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری ہو چکی ہے بلکہ زیادہ ہو چکی ہے اور جو رقم بچ جائے گی اُسے تراجم اور تبلیغی کتب کا سیٹ چھپوانے پر صرف کیا جائے گا۔ میں نے چندہ کی جو رقم مقرر کی تھی اُس میں قرآن کریم کے ترجمہ اور طباعت کے ساتھ ایک کتاب کے ترجمہ اور طباعت کے اخراجات بھی شامل ہیں مگر جو روپیہ زائد آئے گا اُسے دوسری کتابوں کے تراجم اور طباعت پر خرچ کیا جائے گا۔ اِسی طرح اِس سال ہم نے ستیار تھ پر کاش کا جواب لکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو لکھا جا رہا ہے بہت سے باب لکھے گئے ہیں اور باقی لکھے جا رہے ہیں امید ہے دو ماہ تک یہ مکمل ہو جائے گی۔چودھویں باب کا جواب جس میں اسلام پر اعتراضات ہیں مَیں خود لکھوں گا۔ یہ کتاب ہزار پندرہ سَو صفحات کی ہوگی اور خدا تعالیٰ چاہے تو جلد شائع ہو جائے گی۔ اصول اِس جواب میں یہ رکھا گیا ہے کہ مصنف نے جو اعتراضات کئے ہیں خواہ وہ کسی مذہب پر ہیں خواہ وہ سکھوں پر ہیں یا عیسائیوں پر یابُدھوں اور جینیوں پر اور خواہ دوسرے ہندوؤں پر وہ اگر غلط ہیں تو ان سب کے جواب دئیے جائیں گے۔
ایک ہزار احادیث کا مجموعہ
اس کے علاوہ ایک ہزار منتخب احادیث کا مجموعہ بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے جس میں عام مسائل
آجائیں گے ساڑھے سات سَو احادیث مَیں نے منتخب کر کے دی ہیں اور باقی بعض اور دوستوں کے سپرد کی ہیں اِس میں یہ امر مد نظر ہے کہ تمام اہم امور کے متعلق احادیث جمع ہو جائیں جو تحقیق شدہ ہوں یہ مجموعہ یہاں کے سکولوں میں پڑھایا جائے گا اِس مجموعہ میں بہت سے اخلاقی اور علمی مسائل آجائیں گے یہ مجموعہ بھی اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد شائع ہو جائے گا۔
عربی بول چال کی کتاب
اِسی طرح عربی بول چال کی ایک کتاب بھی شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا منشاء تھا کہ ایک ایسی کتاب ہونی چاہئے یہ بھی تیار ہورہی ہے اور مولوی ابوالعطاء صاحب کے سپرد اِس کی تیاری کا کام کیا گیا ہے۔ کچھ اَسباق میں نے بھی دیئے ہیں جو اِس میں شامل کئے جائیں گے۔
بعض سکیمیں
اِس کے بعد میں بعض سکیموں کا ذکر کرتاہوں جن کو آئندہ سال جاری کرنے کا ارادہ ہے۔
گورمکھی اور ہندی رسالے
اِن میںسے ایک تو یہ ہے کہ اگر کاغذ کی اجازت مل جائے تو گورمکھی اور ہندی میں مؤقف الشیوع
رسالے شائع کئے جائیں تا کہ گورمکھی جاننیوالے سکھوں اور ہندی جاننے والے ہندوؤں میں تبلیغ ہو سکے اور اُن تک بھی ہمارے خیالات بآسانی پہنچ سکیں اور اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دُور ہو سکیں۔ پنجاب میں سکھوں اور مسلمانوں میں کئی مقامات پر نماز اور اذان پر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ سکھ صرف ناواقفی کی وجہ سے اذان وغیرہ پر اعتراض کرتے ہیں۔ اگر اذان گورمکھی میں ہو اور سکھوں کو معلوم ہو سکے کہ یہ کیا چیز ہے تو وہ کبھی اِس پر اعتراض نہ کریں بلکہ اذانیں دِلوانے میں مدد کریں۔ اِسی طرح ہندی زبان میں تبلیغ کا انتظام کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں ہندوؤں کی کثرت ہے۔ ہندوستان میں ۷۵ فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اُردو پڑھنا نہیں جانتے اور ان میں تبلیغ کیلئے ضروری ہے کہ ہندی میں لٹریچر ہو۔ پس میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کاغذ کی اجازت مل جائے تو اِن دونوں زبانوں میں رسالے جاری کئے جائیں تا سکھوں اور ہندوؤں میں تبلیغ ہو سکے۔ چاہے شروع میں یہ رسالے سہ ماہی ہی ہوں۔ بعد میں ان کو ہفتہ وار بھی کیا جا سکتا ہے مگر شروع میں ہی اِس رنگ میں کام کرنا مناسب نہیں کہ جس کا بوجھ نہ اُٹھایا جا سکے۔ بہرحال خواہ سہ ماہی ہی شائع ہوں مگر ہوں ضرور۔
مزید دیہاتی مبلّغ تیار کئے جائیں
دوسرے میرا ارادہ ہے کہ مزید مبلّغ تیار کئے جائیں اور دیہاتی مبلّغین کی نئی کلاس
جاری کرنے کا ارادہ ہے۔ پندرہ پہلے تیار ہو چکے ہیں جو جلد اپنے اپنے حلقوں میں کام کرنے کیلئے چلے جائیں گے۔ اب نئی کلاس کیلئے مزید نوجوان زندگیاں وقف کریں۔ کم از کم پچاس نوجوان اِس کلاس میں لئے جائیں گے۔ اِس سکیم کیلئے اخراجات کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ان میں سے ہر ایک کا زمانہ تعلیم میں ۲۵ روپیہ ماہوار خرچ رکھا جائے تو قریباً پندرہ ہزار روپیہ سالانہ خرچ ان پر ہوگا۔ مگر اس خرچ کو اُٹھانے کے نتیجہ میں پچاس نئے حلقے تبلیغ کے کھل جائیں گے یہ اتنی عظیم الشان چیز ہے کہ یہ خرچ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اور امید ہے کہ مغربی افریقہ میں کچھ عرصہ کے بعد مقامی جماعتیں مبلّغین کا خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہیں یہاں بھی ایسا ہو سکے گا۔ اور ان مبلّغین کی کوششوں سے جب جماعتیں ترقی کریں گی تو وہ بوجھ بھی برداشت کر سکیں گی۔ میری تجویز ہے کہ جن جماعتوں میں یہ مبلّغ لگائے جائیں اُن کا موجودہ چندہ نوٹ کر لیا جائے اور پھر اِس میں جو اضافہ ہوتا جائے اُس کا آدھا اُن ہی جماعتوں کو مقامی تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے کیلئے دے دیا جائے۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ نوجوان بہت جلد اپنے نام زندگیاں وقف کرنے کیلئے پیش کریں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ مختلف علاقوں کے ایسے نوجوانوں نے ابھی تک زندگیاں وقف نہیں کیں جو اِن علاقوں کی زبانیں جانتے ہوں۔ اب ایسے علاقوں کی جو جماعتیں ملاقات کیلئے آتی رہی ہیں میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ اُنہوں نے واقفین میں کتنے آدمی دیئے ہیں؟ اور وہ اِس سوال پر شرمندہ ہو جاتی رہی ہیں۔ مثلاً صوبہ سرحد میں ایسے ہی نوجوان کامیابی سے تبلیغ کر سکتے ہیں جو پشتو اور فارسی جانتے ہوں۔ صوبہ سرحد میں اگر صحیح رنگ میں تبلیغ کی جائے تو بہت کامیابی کی امید ہو سکتی ہے۔ وہاں بعض لوگ علمی خاندانوں کے داخلِ سلسلہ ہوئے ہیں اور بعض اچھے زمینداروں میں سے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ صوبہ سرحد میں جس نسبت سے جماعت میں داخل ہوئے ہیں اُس کے لحاظ سے پنجاب میں بہت کم ہیں۔ یہاں بِالعموم درمیانی طبقہ کے لوگ جماعت میں شامل ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بہت کم ہیں۔ شاید ہزار دو ہزار میں ایک ہو۔ مگر صوبہ سرحد میں جماعت کی نسبت کے لحاظ سے اعلیٰ خاندانوں یا بڑی بڑی جائدادیں رکھنے والے یا اُن کے رشتہ دار جو داخل ہوئے ہیں اُن کی نسبت میرے خیال میں آٹھ دس فیصدی ہے۔ پس میں اِس صوبہ میں تبلیغ کو خاص اہمیت دیتا ہوں مگر اب تک اس صوبہ سے ہمیں ایسے نوجوان نہیں مل سکے جو دینی تعلیم حاصل کر کے وہاں تبلیغ کا کام کریں۔ اب سید عبداللطیف صاحب شہید کے خاندان کا ایک بچہ آیا ہے اور ایک اَور بھی پڑھ رہا ہے۔ اگر یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کے کاموں میں نہ لگ گئے تو امید ہے اِن سے تبلیغ کے کام میں مدد مل سکے گی۔ اِس صوبہ کے آدمی وہاں کامیابی سے تبلیغ کر سکتے ہیں۔ پنجابیوں کے اور ان کے تمدّن میں بہت فرق ہے اِس لئے پنجابی مبلّغ وہاں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح صوبہ سندھ سے بھی بہت کم طالب علم آتے ہیں جو آئے بھی ہیں وہ یا تو بیچ میں ہی تعلیم کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اور یا اگر پوری تعلیم حاصل کی تو پھر دُنیاوی کاموں میں لگ گئے ہیں تبلیغ کے کام کیلئے زندگیاں وقف کرنے والے اِن صوبوں سے بہت کم آئے ہیں۔
اِسی طرح صوبہ بہار کے دوست جب ملنے آئے تو اُنہوں نے مبلّغ مانگا اور میں نے اُن سے یہی سوال کیا کہ آپ لوگوں نے اپنے صوبہ سے کتنے طالب علم بھیجے ہیں کہ انہیں تعلیم دے کر وہیں تبلیغ کیلئے بھیجا جا سکے۔ بنگال سے بھی کوئی طالب علم نہیں آیا۔ صوفی مطیع الرحمن صاحب نے زندگی وقف کی مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد۔ یوپی کا خانہ بھی خالی ہے۔ اگر ذوالفقار علی خاں صاحب کو علیحدہ رکھا جائے تو صوبہ یوپی کا خانہ بالکل خالی ہے۔ بمبئی کے صوبہ سے بالکل کوئی طالب علم نہیں آیا۔ مالابار نے بے شک ہمت دکھائی ہے گو وہاں جماعت کم ہے مگر وہاں سے آدمی ملتے رہے ہیں اور مل رہے ہیں تو ہر صوبہ سے ایسے طالب علم یہاں آنے چاہئیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے صوبوں میں جا کر کام کر سکیں۔
ہمارے دوستوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے آسمان سے فرشتے آ کر نہیں کریں گے اور احمدیوں نے ہی کرنا ہے۔ یہ کام ایسا نہیں کہ غیر قوموں کے آدمی اس کیلئے ملازم رکھ لئے جائیں۔ صوبہ پنجاب نے قربانی کی ہے مگر بعض اضلاع پنجاب کے بھی خالی ہیں۔ مثلاً اضلاع فیروز پور اور منٹگمری ہیں اِن اضلاع کے دوست جب ملنے آئے تو اُن سے بھی میں نے یہی سوال کیا کہ انہوں نے کتنے آدمی دیئے ہیں۔
پس میں پھر تحریک کرتا ہوں کہ دوست زندگیاں وقف کریں اور اپنے نام پیش کریں۔ ہر علاقہ کے لوگ ایسے آدمی دیں۔ یہ ٹھیک نہیں کہ دوسرے علاقوں کے لوگ ان کے وہاں جا کر کام کریں۔ ایک علاقہ کے لوگ جب مبلّغ مانگتے ہیں تو اُن کا فرض ہے کہ وہ ایسے آدمی دیں جن کو تعلیم دِلا کر وہاں بھیجا جا سکے۔ پہلے تو مبلّغ بننے کیلئے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا مگر اب تو ہم مڈل پاس نوجوانوں کو لے رہے ہیں اور انہیں سال ڈیڑھ سال تعلیم دِلا کر کام پر لگا رہے ہیں۔ انہیں موٹے موٹے دینی مسائل سکھا دیئے جاتے ہیں اور کچھ طبّ پڑھا دی جاتی ہے تا وہ اپنی مدد آپ کرنے کے بھی قابل ہو سکیں۔ انہیں طبیبوں اور عطاروں سے کام سکھایا جاتا ہے اور اس لئے اب مبلّغ بننے کیلئے اتنی قربانی کی ضرورت نہیں جتنی پہلے کرنی پڑتی تھی۔ پھر بھی اگر کسی علاقہ کو مبلّغ نہ ملے تو اُسے مرکز پر شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنے آپ سے شکوہ کرنا چاہئے۔
دیہاتی مبلّغین کی نئی کلاس کیلئے پچاس نوجوانوں کی ضرورت ہے اِس لئے اگر سَو دو سَو درخواستیں آئیں تو ان میں سے پچاس منتخب کئے جا سکیں گے۔ کیونکہ ہر شخص جو اپنا نام پیش کرتا ہے وہ کام کے قابل نہیں ہوتا۔ اگر پچاس نوجوان مل جائیں تو پندرہ جو تیار ہو چکے ہیں اُن کو مِلا کر تمام مُلک میں اچھا خاصا شور تبلیغ کا مچایا جا سکتا ہے۔
گرلز ہوسٹل
ایک اور سکیم یہ ہے کہ جس کا مَیںعورتوں میں بھی اعلان کر آیا ہوں۔ دوستوں کی طرف سے متواتر یہ تحریک ہو رہی تھی کہ قادیان میں ایک
زنانہ بورڈنگ ہونا چاہئے تا باہر سے لڑکیاں آ کر دینی تعلیم حاصل کر سکیں۔ دوستوں کو یہ شکایت تھی کہ باہر وہ لڑکیوں کیلئے تعلیم کا انتظام نہیںکر سکتے اور یہاں ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہیں اور وہ چاہتے تھے کہ یہاں زنانہ بورڈنگ قائم کیا جائے۔ اب تک تو مَیں انکار ہی کرتا رہا ہوں کیونکہ ہمارے پاس ایسی تعلیم یافتہ عورتیں نہ تھیں جو نگرانی کر سکتیں۔ مگر اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہے تو اِس سال زنانہ بورڈنگ جاری کر دیا جائے تا جو دوست باہر اپنی لڑکیوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے یہاں بھیجنا چاہیں وہ بھیج کر دینی تعلیم دِلوا سکیں یا جو زنانہ ہائی سکول میں تعلیم دِلانا چاہیں وہ بھی دِلوا سکیں۔
کمیونزم کا خطرہ
اس کے بعد ایک اور ضروری امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توبہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں چنددن ہوئے اس کا اعلان کر چکا ہوں جو
الفضل ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۴ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اِس وقت سب جگہوں کے دوست یہاں جمع ہیں اِس لئے میں پھر اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ کمیونزم کا خطرہ ہے۔ جماعت کو اِس خطرہ کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ہمیں آخری لڑائی اسی فتنہ کے ساتھ لڑنی پڑے گی کیونکہ اِس کی بنیاد دہریت پرہے یہ فتنہ ہر جگہ پھیل رہا ہے اور ہمارے صوبہ میں بھی زور پکڑ رہا ہے اور ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کمیونسٹ قادیان پر خصوصیت کے ساتھ حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے بھی یہاںاس فتنہ کو پھیلانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ایک دفعہ یہاں سکھ کمیونسٹ آیا اور مسلمان بن کر رہا اور ایک غیر احمدی، احمدی بن کر رہا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ یہاں اپنے خیالات پھیلانے کی کوشش کی لیکن …… مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہاں لوگ خصوصیت کے ساتھ قادیان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ہماری جماعت کو اِس فتنہ کے مقابلہ کیلئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہئے۔ اِس فتنہ کی بنیاد دہریت پر ہے اور یہ لوگ اِس طرح اللہ تعالیٰ کی ہنسی اُڑاتے ہیں کہ ایک مومن سُننا بھی پسند نہیں کر سکتا۔ مثلاً روس میں ایسے ڈرامے کئے جاتے ہیں کہ ایک شخص جج بنتا ہے اور اس کے سامنے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا تعالیٰ کو ملزم کی حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے اور اُس پر یہ الزام لگائے جاتے ہیں کہ اُس نے دنیا میں امراء پیدا کئے ہیں اور بعض کو غریب پیدا کیا ہے اور کہ یہ دنیا پر مصائب نازل کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اور جج اُس کے متعلق فیصلہ دیتا ہے کہ اُسے پھانسی دے دیا جائے۔ اور پھر ایک مجسمہ کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس فتنہ کو مذہب کے مقابل پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ مگریہ لوگ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ مذہب میں کوئی دخل نہیں دیتے اور اس میں بچوں کو ماؤں سے جدا کر لیا جاتا ہے اور پھر اُن کو دہریت کی تعلیم دی جاتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم ان کو آزاد خیال بناتے ہیں تو اِس کا مقابلہ ہمیں سب سے زیادہ کرنا پڑے گا۔
دہریت اور عیسائیت سے ہمارا مقابلہ
عیسائیت سے بھی ہمارا مقابلہ ہے اِس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کا شریک
بناتی ہے اور اسے صفت خلق سے جواب دیتی ہے مگر یہ لوگ تو خدا تعالیٰ کو خدائی سے ہی جواب دیتے ہیں۔ پس یہ سب سے بڑے دشمن ہیں اور ہمیں اِن کا پوری طرح مقابلہ کرنا ہوگا۔ میں جماعت کے مصنّفین اور مضمون نگاروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اِن کا لٹریچر پڑھیں اور جماعت کو اِس سے اچھی طرح آگاہ کریں۔ یہ اپنے آپ کو بظاہر… غریبوں کے ہمدرد ہیں مگر حقیقت یہ نہیں۔ شیطان بھی تو جنت میں اچھی شکل میں داخل ہوا تھا تا آدم کو ورغلاسکے۔ پس اِن لوگوں کے دھوکوں سے ہمارے دوستوں کو اچھی طرح آگاہ رہنا چاہئے۔ اِن کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف ہے کہ میں نے دیکھا کہ زارِ روس کا عصا میرے ہاتھ میں دیا گیا۴؎ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فتنہ ہمارے ہی ہاتھوں سے کچلا جائے گا مگر تبلیغ کے ذریعہ نہ کہ مادی طاقت سے۔ سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں جب خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ سے تلوار چھین ہی لی ہے تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ اب ہم نے تلوار سے کام نہیں لینا بلکہ تبلیغ کے ذریعہ دلوں کو فتح کرنا ہے۔ اِس وقت روس برطانیہ کا اتحادی ہے اور اِس لئے جنگ میں اِس کی فتح برطانیہ کی فتح ہے۔
روسی ہمارے دشمن نہیں ہیں
روسی ہمارے دشمن نہیں ہیں مگر جہاں تک مذہب کے متعلق اِن کے عقائد کا تعلق ہے یہ ہمارے
بدترین دشمن ہیں اور جماعت کو ان کے عقائد کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے۔
سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں
اس کے بعد میں اپنے ملک کی سیاسیات کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حقیقت
یہ ہے کہ حقیقی سیاسیات سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں۔ ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے اور اگر ہم سیاسیات میں پڑ جائیں تو اپنا اصل کام نہیں کر سکیں گے مگر چونکہ ہماری جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے اِس لئے کوئی نہ کوئی سوال لازماً ہمارے سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اس وقت زمیندارہ لیگ اور مسلم لیگ کی ایک نئی کشمکش مسلمانوں میں شروع ہوگئی ہے اور ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اِس میں شامل کرنے کی بعض لوگ کوشش کرتے ہیں۔ مجھے باہر سے خطوط آ تے رہتے ہیں کوئی لکھتا ہے کہ بعض لوگ آتے ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ بتایا جائے کہ ہم …… اور کوئی لکھتا ہے کہ بعض سرکاری حُکّام زور دیتے ہیں کہ زمیندارہ لیگ میں شریک ہو جاؤ، ہمیں بتائیں کہ ان کو کیا جواب دیں ہر ایک اپنا سیاسی اثر ڈالنا چاہتا ہے۔ میں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ان میں سے کسی میں بھی کوئی حصہ نہ لیں۔
مسلم لیگ میں جو طبقہ برسرِاقتدار ہے اس کا کوئی اصول نہیں وہ تھالی کے بینگن کی طرح ہیں۔ پنجاب میں جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کا کوئی متفقہ پروگرام ہی نہیں ہے۔ ان میں کمیونسٹ پروپیگنڈا کرنے والے بھی شامل ہیں اور ان کو کمیونسٹوں کی امداد بھی حاصل ہے ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض امور میں کانگرس کی بھی تائید کرتے ہیں۔ مثلاً سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سوال ہے وہ اِس مطالبہ میں کانگرس کی حمایت کرتے ہیں اور یہ حمایت کرنے والے بعض ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مشورہ سے کانگرسی قید کئے گئے تھے۔ مطلب یہ کہ یہ لوگ مصلحتِ وقت کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ پنجاب کی مسلم لیگ کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ نام تو مسلم لیگ ہے مگر وہ بعض کانگرسی مطالبات کی تائید بھی کرتی ہے جیسا کہ کانگرسی قیدیوں کی رہائی کے سوال کا میں نے ذکرکیا ہے۔ پھر اِس میں کمیونسٹوں کے حامی بھی ہیں گویا وہ ہر دلعزیز بننے کی کوشش کرتی ہے۔ دوسری پارٹی مسلمانوں کی جو ہے اِس میں زیادہ سنجیدہ لوگ ہیں مگر وہ بھی بعض خرابیاں کر رہی ہے اور اس کی طرف سے بعض ایسی حرکات ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجہ میں سرکاری افسروں کی اخلاقی حالت گر رہی ہے۔ خواہ کوئی اس امر کا اقرار کرے یا نہ کرے یہ واقعہ ہے کہ اِس پارٹی کی طرف سے سرکاری افسروں پر ایسا دباؤ ضرور ڈالا جاتا ہے کہ وہ اِس کی تقویت کیلئے کام کریں اور اس کی حمایت کریں۔ مجھے ایک بڑے سرکاری افسر نے کہا کہ میں نے اِس پارٹی کیلئے چندہ جمع کرنا ہے اور اتنی رقم پیش کرنی ہے کیونکہ مجھ سے فلاں بڑے آدمی نے یہ خواہش کی تھی کہ اِس پارٹی کو چندہ دلاؤں اور میرے نزدیک سرکاری حُکّام کا پارٹی بازی میں حصہ لینا نہایت ہی خطرناک بات ہے۔ میں یہ مان لیتا ہوں کہ بعض وزراء کا اِس میں دخل نہ ہوگا لیکن اِس میں شک نہیں کہ سرکاری حُکّام سے اِس پارٹی کی حمایت کا کام ضرور لیا جاتا ہے جو نہایت ہی بُری بات ہے۔ برطانوی سیاست اِسی لئے کامیاب ہے کہ انگریز حکّام کسی سیاسی پارٹی میں حصہ نہیں لیتے جو بھی پارٹی برسرِاقتدار ہو اُس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اگر لبرلوں کی حکومت ہو تو اُس کی اطاعت کرتے ہیں اور اگر لیبر پارٹی کی حکومت ہو تو اُس کی اطاعت کرتے ہیں خود کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے۔
سیاسیات میں حکومت کے افسران کا شامل ہونا خطرناک ہے
سرکاری حُکّام کا سیاسی پارٹیوں میں شامل ہونا بہت خطرناک نتائج پیدا کرنے والی بات ہے۔ یونان میں اِس وقت جو
فسادات ہو رہے ہیں اِس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ سرکاری حُکّام کو سیاسی پارٹیوں میں گھسیٹا گیا۔ اگر کوئی سرکاری افسر آج زمیندارہ لیگ کے لئے چندہ جمع کرتا ہے تو کل اگر مسلم لیگ کی حکومت بن جائے گی تو وہ کہے گی کہ تم نے زمیندارہ لیگ کو سات لاکھ چندہ جمع کر کے دیا تھا اب ہمیں دس لاکھ کر کے دو۔ اور اگر کوئی اور پارٹی برسرِاقتدار آ جائے گی تو وہ کہے گی ہمیں پندرہ لاکھ جمع کر کے دو۔ اور اگر اسی طرح سیاسی پارٹیوں کیلئے چندہ جمع ہوتا رہے تو غریب زمینداروں کی تو شامت آ جائے گی۔ اب تو زمیندار سرکاری حُکّام کے کہنے پر زمیندارہ لیگ کیلئے چندے دے دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ معمولی بات ہے تھوڑا سا چندہ دے کر افسروں کو خوش کریں مگر جہاں ڈیماکریسی ہو وہاں کبھی کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں رہ سکتی۔ یہ بات نا ممکن ہے کہ پنجاب میں ہمیشہ زمیندارہ لیگ ہی کی حکومت رہے۔ آج اس کی حکومت ہے تو اگلے انتخابات میں کسی اور پارٹی کی ہو سکتی ہے اور اس سے اگلے میں کسی اور کی۔ اِس طرح حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر افسر نہیں بدلتے وہ تو مستقل ہوتے ہیں۔ اور اگر افسروں کی اخلاقی حالت بگڑ جائے تو انتظام کا قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اپنے ملک کی بہتری کیلئے ہر مسلمان، ہر ہندو اور ہر سکھ کا فرض ہے کہ اگر وہ وزیر ہو یا کسی دوسری بڑی پوزیشن کا تو کبھی کسی سرکاری حاکم کو اپنی پارٹی کی مدد کیلئے نہ کہے۔ سیاسی آدمی تو ہمیشہ بدلتے رہیں گے مگر سرکاری افسر مستقل ہوتے ہیں اور ملک کے فائدہ کیلئے ضروری ہے کہ اُن کو پارٹیوں سے آزاد رکھا جائے اور اُن پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہونا چاہئے۔ ورنہ ان کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ سرکاری حکّام پارٹی بازی میں حصہ لیتے ہیں۔ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کے پاس ہمارے آدمیوں کا ایک وفد گیا اور اسے توجہ دلائی کہ اس ضلع میں ہمارے خلاف شورش ہوئی ہے اُسے دبائیں۔ ہماری جماعت ہمیشہ حکومت سے تعاون کرتی ہے اور وفادار ہے۔ اُس ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ کبھی ایسا ہوگا اب تو آپ لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کی جماعت حکومت کی وفادار ہے اور اس سے تعاون کرتی ہے۔ کیونکہ فلاں چوہدری صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کی جماعت کے فلاں آدمی کو زمیندارہ لیگ کی سیکرٹری شپ پیش کی گئی تھی مگر اُس نے انکار کر دیا پھر آپ لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی جماعت حکومت کی وفادار ہے۔ تو سرکاری حکّام کو سیاسیات میں گھسیٹنے سے ان کے اخلاق ضرور خراب ہوتے ہیں۔ پھر اس پارٹی میں ایک نقص یہ بھی ہے کہ اس کا اپنا کوئی قومی پروگرام نہیں۔ اس میں ہندو بھی ممبر ہیں جو ہندوؤں کے نمائندہ ہیں، سکھ بھی ہیں جو سکھوں کے نمائندے ہیں اور ان کی پارٹیوں کے اپنے مقررہ پروگرام ہیں اور اس پارٹی کو اِن سب کے پروگراموں کو سمجھ کر چلانا پڑتا ہے۔ اِس پارٹی کا اپنا کوئی پروگرام نہیں۔ اِس میں جو مسلمان ممبر ہیں وہ پہلے مسلم لیگ میں تھے مگر اب اُس میں نہیں رہے اور ان کا اپنا کوئی پروگرام ہے نہیں۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب یہ پارٹی ٹوٹی تو اِن لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا سوائے اِس کے کہ جہاں کسی کے سینگ سمائیں شامل ہو جائے اور یا پھر ’’نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے‘‘ والی حالت ان کی ہوگی۔
میں سندھ گیا تو ریلوے سٹیشن پر ایک ہندو سیٹھ نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی۔ اُس زمانہ میں وہاں خاں بہادر اللہ بخش وزیر اعظم بنے تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں اُن سے دریافت کیا کہ ٹھاکر صاحب! آپ کس کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے اِس سوال پر وہ مسکرائے اور جواب دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب سر غلام حسین کی حکومت تھی ہم اُس کے ساتھ تھے اب اللہ بخش کی حکومت ہے تو اُس کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوںکے متعلق تو میرا پہلے سے یہ تجربہ تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ اس اصل پر چلتے ہیں کہ جس کی حکومت بنی اُسی کے ساتھ ہوگئے مگر ہندوؤں کے متعلق ایسا نہ سمجھتا تھا مگر ان کی بات سن کر مجھے معلوم ہوا کہ اِن میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ ان کا جواب سن کر میں نے کہا کہ ٹھاکر صاحب! پھر خواہ غلام حسین کی وزارت ٹوٹے اور خواہ اللہ بخش کی، آپ کی وزارت کبھی نہ ٹوٹے گی۔ تو ایسے لوگ اپنی وزارت رکھنا چاہتے ہیں کوئی اصول ان کا نہیں ہوتا۔ پس اگر یہی حالات رہے جو اِس وقت پنجاب میں ہیں تو اخلاقی حالت بہت گر جائے گی۔ اگر زمیندارہ لیگ کسی وقت ٹوٹی تو ہندو اور سکھ ممبر تو اپنی اپنی پارٹیوں میں جا کر شامل ہو جائیں گے مگر مسلمان ممبروں کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوگا۔ مسلم لیگ کو تو یہ لوگ پہلے جواب دے چکے ہیں اور دوسری کوئی ایسی مجلس ہے نہیں جس میں یہ شامل ہو سکیں۔ جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہم ہندوستان کی کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہو سکتے اور پنجاب میں جو دو پارٹیاں اِس وقت ہیں ان میں سے بھی ہم کسی کے ساتھ نہیں مل سکتے۔ کیونکہ ایک تو ان میں سے بداصول ہے اور دوسری بے اصول۔ ایک کا پروگرام تو ہے مگر غلط ہے اور وہ ابن الوقتی کا ثبوت دے رہی ہے اور دوسری کا کوئی پروگرام ہے ہی نہیں۔ اور سرکاری حکّام کے اخلاق اِس کی وجہ سے بگڑ رہے ہیں میں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حکّام کو آزاد رہنے دیں۔ ہمارے صوبہ کیلئے وہ دن بہت بُرا ہوگا جب سرکاری حکّام کو سیاسی پارٹیوں میں گھسیٹا جائے گا۔ جو سرکاری افسر احمدی ہیں اُن کو میرا حکم ہے کہ وہ کسی پارٹی میں شامل نہ ہوں اور جو شامل ہوگا وہ بددیانت ہوگا اور بددیانتی کی روٹی کھانے والا ہوگا۔ وہ جو سرکاری ملازمت میں ہوتے ہوئے زمیندارہ لیگ یا کسی اور سیاسی پارٹی کی مدد کرے گا یا مخالفت کرے گا وہ بددیانتی کرنے والا ہوگا۔ اُن کے لئے نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی مدد کرنا جائز ہے اور نہ مخالفت کرنا۔ ملازم کیلئے صرف اُس حکم کی تعمیل کرنی ضروری ہے جو اُسے سرکاری طور پر ملے۔ اگر کسی سرکاری افسر سے کوئی کہے کہ کسی سیاسی پارٹی کیلئے چندہ کر کے دو تو اُسے چاہئے کہ ایسا کہنے والے سے کہے کہ مجھے لکھ کر یہ حُکم دے دیں۔ اور اگر کوئی ایسا حکم دے دے تو اسے پبلک میں شائع کر دے۔ سرکاری ملازم کا یہ کام ہرگز نہیں کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی مدد کرے یا اُس کی مخالفت کرے۔ پس احمدی سرکاری ملازم کسی پارٹی کی حمایت نہ کریں اور نہ ہی کسی کی مخالفت کریں۔ اِسی طرح افرادِ جماعت بھی کسی پارٹی میں شامل نہ ہوں۔ باقی رہا چندہ دینے کا سوال تو اگر افسر مجبور کرکے چندہ لینا چاہیں تو ’’دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے کوئی معمولی سی رقم دے کر چھٹکارا حاصل کر لیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اِس طرح کرنا چاہے تو ہم اسے روکتے نہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب دنیا پر ایسا نازک وقت آ رہا ہے کہ ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوستان کی دوسری قوموں میں جو سیاسی جھگڑے ہیں وہ سب ختم ہو جانے چاہئیں اور اسی طرح انگریزوں اور ہندوستانیوں میں جو جھگڑے ہیں وہ بھی ختم کر دینے کا وقت آ گیا ہے۔ اِس سے پہلے اِن جھگڑوں میں زیادہ خطرہ کی بات نہ تھی مگر اب ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ جو لوگ الہامی کتابوں سے فائدہ اُٹھانے کے عادی نہیں ہیں اگر تہران کانفرنس کے حالات ہی انہوں نے پڑھے ہیں تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا پر ایسی مصائب آنے والی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی قوموں کازندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اور اگر یورپ اور ایشیا میں پیدا ہونے والے حالات اور واقعات ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ دنیا میں زندہ رہنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ اِسی طرح انگریزوں کے گردوپیش جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اُن کے پیش نظر ضروری ہے کہ انگریزیت اور ہندوستانیت کے سوال کو کسی نہ کسی طرح جلد از جلد حل کر لیا جائے۔ اِس وقت دونوں کی زندگی کا انحصار ایک دوسرے کی اِعانت پر ہے اور اگر دیانتداری سے دونوں نے اپنے اختلافات دُور کرنے کی کوشش نہ کی تو بہت ہی تھوڑے عرصہ کے بعد دونوں کی زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی اور پھر دونوں کو بیٹھ کر رونا ہوگا۔ اِس سوال کی زیادہ وضاحت تو میں نہیں کر سکتا مگر پُرانی کتب میں بھی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں اور میرے بعض کشوف بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا کیلئے بہت نازک دن آنے والے ہیں۔ میں زیادہ وضاحت سے اِس بات کو یہاں اِس لئے بیان نہیں کر سکتا کہ ممکن ہے بعض انگریز افسروں کے نزدیک میراایسا کرنا مناسب نہ ہو۔ یہاں جو ایک انگریز افسر آتے ہیں وہ بِالعموم تیسرے درجہ کے ہوتے ہیں وہ خود بھی اعلیٰ درجہ کے سیاست دان نہیں ہوتے اور فوراً اعتراض کا پہلو اُن کو نظر آنے لگتا ہے اِس کا ہمیں پہلے بھی تجربہ ہوچکا ہے۔
مَیں نے ایک دفعہ ایک مضمون لکھا جو الفضل میں شائع ہوا تھا تو پنجاب سی آئی ڈی نے رپورٹ کی کہ یہ مضمون ضبط ہونا چاہئے بہت خطرناک ہے۔ مگر اُس زمانہ میں جو صاحب پنجاب کے گورنر تھے وہ چونکہ ذاتی طور پر مجھے جانتے تھے اُنہوں نے کہا کہ نہیں ایسے آدمی نہیں کہ اِن کے مضامین قابلِ ضبطی ہوں۔ وہی مضامین ہمارے ایک بنگالی رسالہ میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئے تو وہاں کی حکومت نے ایڈیٹر و پرنٹر کو نوٹس دیا کہ ایسے خطرناک مضامین کیوں شائع کئے گئے ہیں؟ اور حُکم دیا کہ آئندہ سنسر کرا کر مضمون شائع کیا کرو۔ اُنہوں نے بہتیرا کہا کہ ہماری جماعت ایسی جماعت نہیں ہے کہ اِس پر حکومت کی مخالفت کا شُبہ کیا جائے مگر کسی نے اس بات پر غور نہ کیا۔ لیکن وہی مضامین جب ولایت میں پہنچے تو ہمارے مبلّغ نے ان کا انگریزی میں ترجمہ کر کے وہاں کے بڑے بڑے سیاسی آدمیوں کو بھجوایا تو انہوں نے بہت پسند کیا۔ لارڈ زیلنڈ نے لکھا کہ یہ نہایت اعلیٰ مضامین ہیں اور شکریہ ادا کیا۔ مسٹر چیمبر لین کے سیکرٹری نے ان کی طرف سے لکھا کہ یہ مضامین لکھ کر امام جماعت احمدیہ نے بہت بڑی خدمت کی ہے۔ تو یہاں جو افسر ہوتے ہیں وہ چونکہ تھرڈ گریڈ طبقہ سے عام طور پر ہوتے ہیں اِس لئے ایسے مضامین بھی اِن کو پسند نہیں آتے جنہیں برطانیہ کے وزیر اعظم بہت بڑی خدمت قرار دیتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پس میں اِس مضمون کو اِس لئے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہاں بیان نہیں کر سکتا کہ ہندوستان کے انگریز سیاست دان کہیں گے کہ یہ کیا بم گرا دیا گیا ہے۔ مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور دونوں کو چاہئے کہ اپنے سیاسی نقطۂ نظر میں تبدیلی کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح کرنے کیلئے قدم اُٹھائیں۔ اور میں اپنی جماعت کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم اس بارہ میں پورا پورا تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ہندوستانیوں کی اور انگریزوں کی اور ہندوستان کی مختلف قوموں کی آپس میں صلح نہایت ضروری ہے اور اِسے کرانے کیلئے ہم ہر قسم کی مدد دینے کیلئے تیار ہیں۔ پُرانے اختلافات کو اب نئے نقطۂ نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔
بعض نئے فتنوں کی بنیادیں
مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ بعض نئے فتنوں کی بنیادیں پیدا ہو چکی ہیں اور مَیں نے جو رؤیا اِس
بارہ میں دیکھا تھا اُس کے بعد ہی یہ سب بنیادیں بنی ہیں اور ہندوستان اور انگلستان دونوں کیلئے مشکلات پیدا ہونے والی ہیں اور دونوں کا فائدہ اِسی میں ہے کہ ایک دوسرے سے صلح کر لیں۔ انگلستان کو بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر غور کرنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کو کہاں تک آزادی دے سکتا ہے اور ہندوستانیوں کو ان حالات کے پیش نظر یہ سوچنا چاہئے کہ اگر وہ انگریزوں کی کوئی بات مان لیں تو ان کے لئے بہت فائدہ ہوگا۔ اور اسی طرح ہندومسلمان بھی بدلنے والے حالات کے پیش نظر اپنے نقطۂ نگاہ میں تبدیلی کر لیں تو ان کیلئے بہت اچھا ہوگا۔ اور اِس بات پر غور کریں کہ جب ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جو بہت خطرناک ہیں تو وہ اگر کسی غیر کی بجائے اپنے بھائی کو کچھ دے دیں تو کیا حرج ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ کے ماتحت ان کو چاہئے کہ اپنی سیاسیات میں تبدیلی پیدا کر لیں۔
ہندو سیاست کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی
ہندوؤں کی سیاست کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ جب مُلک میںان کی اکثریت
ہے اور ایک مسلمان کے مقابلہ میں تین ہندو ہیں تو ان کو مسلمانوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال اب وقت ایسا ہے کہ سب اختلافات کو نظر انداز کر کے صلح کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔(ماخوذ از رجسٹر فضل عمر فاؤنڈیشن)
حلف الفضول کے اصول
اَب میں اپنے ایک رؤیا کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو جولائی ۱۹۴۴ء میں مَیں نے دیکھا اور
جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے۔
’’میں نے دیکھا کہ میں گویا اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کچھ کہہ رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ جس طرح حلف الفضول رسول کریمﷺ کے زمانہ میں ہوتی تھی ایسا ہی ایک معاہدہ میری اولاد کرے۔ تو اِس کے نتیجہ میں اُس پر خدا کے فضل خاص طور پر نازل ہوں گے اور وہ کبھی تباہ نہ ہو گی۔‘‘۵؎
حلف الفضول ایک معاہدہ تھا جو رسول کریمﷺ کے زمانہ میں بعض لوگوں نے آپس میں کیا تھا۔ اِس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین ایسے آدمی تھے جن کے نام فضل تھے اور اِسی وجہ سے اِسے حلف الفضول کہتے ہیں۔
اِس کا مقصد یہ تھا کہ حلف الفضول والے مل کر یا اکیلے اکیلے مظلوم کا حق دلوایا کریں گے۔ رسول کریمﷺ نے اُس زمانہ میں ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اُس نے تحریک کی کہ آپ بھی اِس میں شریک ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نیک کام ہے اور مَیں اِس میں ضرور شامل ہوں گا۔ چنانچہ آپ اِس میں شامل ہوئے اور آپ اِس کی پوری طرح پابندی کرتے رہے۔ حتیّٰ کہ جب آپ نے دعویٰ کیا اور اہلِ مکہ آپ کی مخالفت کر رہے تھے تو اُس زمانہ میں کسی گاؤں کا ایک آدمی مکہ میں آیا جس سے ابوجہل نے کوئی مال خریدا تھا اور وہ اُس کی قیمت ادا نہ کرتا تھا۔ وہ حلف الفضول میں شامل ہونے والے لوگوں میں سے ہر ایک کے پاس باری باری گیا اور اُن سے کہا کہ ابوجہل سے میری رقم دِلوادیں مگر سب نے اُس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ہر ایک ابوجہل جیسے بدگو آدمی کے پاس جانے سے ڈرتا تھا۔ لوگوں نے اُس شخص کو مشورہ دیا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤ۔ وہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ بھی اِس معاہدہ میں شامل ہیں آپ میرے ساتھ چلیں اور ابوجہل سے میری رقم دِلوادیں۔ جن لوگوں نے اُسے آپ کے پاس جانے کا مشورہ دیا وہ جانتے تھے کہ ابوجہل آپ کا سخت مخالف ہے اِس لئے آپ اُس کے پاس نہ جائیں گے مگر جب اُس شخص نے آ کر آپ سے کہا کہ میرے ساتھ چلیں۔ تو آپ نے فرمایا چلو۔ چنانچہ آپ اُس کے ساتھ ابوجہل کے مکان پر گئے اور جا کر دروازہ پر دستک دی۔ ابوجہل باہر آیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ نے اِس شخص کی کچھ رقم دینی ہے؟ اُس نے کہا ہاں دینی تو ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر دے دیں آپ بڑے آدمی ہیں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ اِس کی رقم نہ دیں۔ یہ سن کر ابوجہل فوراً اندر گیا اور رقم لا کر اُس کے حوالہ کر دی۔ لوگ اِس بات کے منتظر تھے کہ ابوجہل آپ کی بات ہرگز نہ مانے گا اور اُن کو موقع مل جائے گا کہ کہیں کہ دیکھو! یہ نبی بنے پھرتے ہیں کیا ابوجہل سے اِس شخص کی رقم دِلوا دی؟ مگر جب وہ شخص واپس آیا تو لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ اُس نے کہا کہ میری رقم مجھے مل گئی ہے۔ اُنہوں نے پوچھا کس طرح؟ اُس نے سارا واقعہ سنا دیا۔ اِس پر لوگ بہت حیران ہوئے اور ابوجہل کے پاس گئے اور کہا تم ہم لوگوں کو تو کہتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بات تک نہ کرو، اُن پر ظلم کرو، خوب تنگ کرو، مگر خود تم نے اُن کے کہنے پر اِس شخص کی رقم فوراً ادا کر دی ہے۔ ابوجہل نے کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس شخص کے ساتھ آئے اور اُنہوں نے دروازہ پر دستک دی تو میں باہر آیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس شخص کی رقم اگر تمہارے ذمہ ہے تو ادا کر دو۔ میں چاہتا تو تھا کہ یہی جواب دوں کہ تم کون ہو جو مجھے نصیحت کرنے آئے ہو مگر مجھے یوں معلوم ہوا کہ اِن کے دائیں اور بائیں دو مست اونٹ ہیںجو مجھ پر حملہ آور ہونے لگے ہیں اور مجھ سے سوائے اِس کے کچھ جواب نہ بن پڑا کہ ٹھہرئیے ابھی لا دیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے رقم لا کر اُس شخص کو دے دی۔۶؎
مدینہ کی زندگی میں ایک دفعہ آنحضرتﷺ سے کسی نے حلف الفضول کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ سنا ہے آپ بھی اِس میں شامل ہوئے تھے آپ نے فرمایا ہاں اگر جاہلیت کی کسی ایسی ہی چیز کی طرف جس طرح کہ حلف الفضول تھی مجھے بلایا جائے تو مَیں اُس کو ضرور قبول کروں اور اُس میں شامل ہوں۔
تو یہ رؤیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ میری اولاد تباہ نہیں ہو گی اگر وہ حلف الفضول کا معاہدہ کرے ۔ گو رؤیا میں مَیں نے اپنے بیٹوں کو دیکھا مگر اولاد سے مراد روحانی اولاد بھی ہوتی ہے اور جب میں نے رؤیا میں اپنی اولاد کو مخاطب کیا تو گویا روحانی اولاد کو خطاب کیا ہے۔ اِس رؤیا کے شائع ہونے کے بعد بعض دوستوں نے اپنے نام اِس میں شامل ہونے کے لئے مجھے لکھے مگر مَیں نے مناسب نہ سمجھا کہ اِس تحریک کو شروع کروں اور یہی مناسب سمجھا کہ مَیں ایسے وقت میں اِس کی تحریک کروں گا جب میری روحانی اولاد کا ایک کثیر حصہ سامنے ہو گا۔ سو اَب کہ خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو یہاں جمع کیا ہے اور مجھے آپ لوگوں کے لئے بمنزلہ والد بنایا ہے اور آپ لوگ میری روحانی اولاد ہیں مَیں آپ کے سامنے حلف الفضول والا معاہدہ پیش کرتا ہوں مگر اِس کیلئے کچھ شرطیں ہیں جو مَیں بیان کرتا ہوں کیونکہ ہر ایک اِس بار کو نہیںاُٹھا سکتا۔ معاہدہ یہ ہوگا کہ:۔
اِس میں شریک ہونے والا یہ عہد کرے گا کہ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ مظلوم کی مدد کرے گا خواہ مظلوم اُس کا یا اُس کی اولاد کا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اِس میں کسی قرابت اور دوستی کی پروا نہیں کرے گا اور مظلوم خواہ اُس کا دشمن ہی کیوں نہ ہو اُس کی حمایت کرے گا اور اگر جماعت کے دوست ایسا معاہدہ کریں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں بتایا ہے وہ تباہ نہیں ہو گی۔ جو اِس معاہدہ میں شامل ہونا چاہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ سات دن تک مسلسل بغیر ناغہ کے استخارہ کرے، نمازِ عشاء میں دعا کرے یا عشاء کی نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کرے کہ الٰہی! اگر میں اِس کو نباہ سکتا ہوں اور اِسے توڑ کر تیرے غضب کو اپنے لئے بھڑکانے والا نہ ہوں گا تو مجھے اِس میں شامل ہونے کی توفیق دے۔ پس جو دوست اِس میں شامل ہونا چاہیں وہ سات روز تک مسلسل استخارہ کرنے کے بعد مجھے اطلاع دیں۔
دوسرے اِس میں شامل ہونے والوں کو یہ عہدکرنا ہو گا کہ کسی بھائی سے خواہ اُن کا کتنا شدید اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حُکم کے بغیر اُس کی اقتداء میں نماز ادا کرنا ترک نہ کریں گے۔ اور اگر وہ دعوت کرے گا تو اُسے ردّ نہ کریں گے۔ اور خواہ کسی سے جائداد کا جھگڑا ہو خواہ کوئی اور جھگڑا ہو، کسی نے اُن کو یا اُن کے بیوی بچوں کو کتنی تکلیف کیوں نہ دی ہو اور خواہ اُس سے اِن کے مقدمات چل رہے ہوں وہ بات چیت کرنا ترک نہ کریں گے۔ اُس کی دعوت کو ردّ نہ کریں گے اور نماز پڑھانے والے امام کے ساتھ اگر اِن کا جھگڑا ہو تو اُس کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہرگز گریز نہ کریں گے جو دوست یہ وعدہ کرنے کو تیار ہوں وہ اپنے نام پیش کریں ورنہ نہیں۔
تیسرا اقرار جو اُن کو کرنا ہو گا اور جو دراصل ہر احمدی بیعت میں شامل ہوتے وقت بھی کرتا ہے یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اُن کیلئے جو ذریعہ اصلاح تجویز کیا جائے اُسے بخوشی قبول کریں گے۔
چوتھے یہ کہ اِس کام کو وہ نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان اور قرابت و رشتہ داری کے خیالات کے ماتحت ہرگز نہ کریں گے اور ہمیشہ مظلوم کی مدد کے جذبہ کے ماتحت کھڑے ہوں گے اور یہ بھی خیال نہ کریں گے کہ مظلوم اُن کا رشتہ دار اور عزیز ہے یا دوست ہے بلکہ اُس کی مدد خالصۃً اِس لئے کریں گے کہ وہ مظلوم ہے۔ پھر مظلوم کے معنی احمدی یا مسلمان کے ہی نہیں ہیں بلکہ مظلوم خواہ کسی مذہب اور کسی فرقہ اور کسی مُلک کا ہو اُس کی مدد کریں گے جو شخص اِن شرائط کو پورا کرنے کا عہد کرے گا اُس کے شامل کرنے کے متعلق مَیں غور کروں گا اَور کسی کے متعلق نہیں۔ آگے مدد کس طرح کرنی ہو گی یہ سب تفاصیل بعد میں بتائی جائیں گی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا ہے اور عقلی طور پر بھی میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کا معتدبہ حصہ اِس میں شامل ہو جائے اور عمدگی سے کام کرے تو خدا تعالیٰ جماعت کو یقینا ہر قسم کی تباہی سے بچائے گا اور ہماری ترقی کی نئی نئی راہیںکھول دے گا۔ (الفضل ۲۹؍ ستمبر ۱۹۶۰ء)
۱؎ متی باب ۲۶ آیت:۳۹ (مفہوماً)
۲؎ الفاتحۃ: ۶
۳؎ الفاتحۃ: ۷
۴؎
۵؎ الفضل ۲۲؍ جولائی ۱۹۴۴ء
۶؎


الموعود





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

الموعود
(تقریر فرمودہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۴ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل قرآنی دعائیں پڑھیں۔
۱۔
۔۱؎
۲۔
۔
۳۔
۔
۴۔

۲؎
۵۔
۔۳؎
۶۔
۔۴؎
۷۔
۔۵؎
۸۔
۶؎
۹۔

۷؎
اس کے بعد فرمایا:
آج میرا گلا بالکل بیٹھا ہوا ہے گو کَل کی نسبت رات سے کسی قدر فرق ہے ۔ رات کو تو آواز بالکل ہی نہیں نکلتی تھی اور اَب نکلتی تو ہے مگر زور اور تکلیف کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دے کہ مَیں اپنا مضمون آج بیان کر سکوں کیونکہ سینہ میں مجھے اِس قسم کی جلن اور سوزش ہے کہ مَیں ڈرتا ہوں شاید میں زیادہ دیر تک بول نہ سکوں اور مضمون اِس قسم کا ہے کہ دو تین گھنٹہ سے کم میں اِس کا بیان ہونا مشکل معلوم ہوتا ہے بلکہ ممکن ہے اِس سے بھی زیادہ وقت صرف ہو جائے۔
کَل مَیں بعض باتیں بیان کرنا بھول گیا تھا اور تقریر کے بعض حصے مجھے چھوڑنے بھی پڑے تھے کیونکہ وقت زیادہ ہو گیا تھا۔ آج میں اُن باتوں میں سے دو تین باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں۔
رسالہ ’’فرقان‘‘
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رسالہ ’’فرقان‘‘ کے متعلق مَیں نے یہ اجازت دی ہے کہ اِسے دو سال تک اور شائع کیا جائے مگر آئندہ
صرف غیرمبائعین کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین کا ہی اِس میں جواب نہ دیا جائے بلکہ بہائیوں کے زہر کا بھی ازالہ کیا جائے۔ گویا آئندہ ’’فرقان‘‘ دونوں قسم کے مضامین پر مشتمل ہو گا۔ کچھ تو پیغامیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین ہوں گے اور کچھ بہائیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے مضامین ہوں گے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ احباب جس طرح پہلے اِس کی اشاعت کے ثواب میں شامل ہوتے ہیں اِسی طرح اِس دوسرے دَور میں بھی وہ ’’فرقان‘‘ جاری رکھنے والوں کی ہمت افزائی کریں گے اور اِس رسالہ کی اشاعت کر کے اِن دونوں فتنوں کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔
سیرت حضرت اماں جان کا دوسرا حصہ
ایک بات مجھے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے کہی ہے کہ مَیں
سیرت حضرت اماں جان کی خریداری کے متعلق دوسروں کو تحریک کروں۔ غالباً اِن کی مراد یہ ہے کہ سیرت حضرت اماں جان کا دوسرا حصہ جو اِن کی طرف سے شائع ہو رہا ہے دوست اِس کی خریداری میں اور زیادہ سے زیادہ اشاعت میں حصہ لیں۔ میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اِس کتاب کی خریداری کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ دوسرا حصہ شیخ محمود احمد صاحب مرحوم کا لکھا ہوا ہے یا شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اِسے مرتب کیا ہے بہرحال پہلی جلد کو مرتب کرنے میں بہت بڑی محنت سے کام لیا گیا تھا اور جماعت کے دوستوں نے بھی اِسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ احباب اِس دوسری جلد کی اشاعت میں بھی اِن کی امداد کریں گے۔
افریقہ میں زنانہ بورڈنگ مدرسہ
سلسلہ کے آئندہ تبلیغی کاموں کے متعلق بھی بعض باتیں کَل کی تقریر میں رہ گئی تھیں جن
میں سے چند باتوں کا ذکر کر دیتا ہوں ایک اعلان تو مَیں نے کر دیا تھا کہ افریقہ میں بھی زنانہ بورڈنگ مدرسہ جاری کرنے کا ہمارا ارادہ ہے۔ مجھے یاد نہیں مَیں نے اِس کے ساتھ ہی اِس امر کا ذکر کیا تھا یا نہیں کہ افریقہ کے ایک دوست نے اِس غرض کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کی زمین وقف کر دی ہے اور وہاں کی احمدی مستورات چندہ جمع کر کے اِس سکول کو جاری کرنا چاہتی ہیں۔ اِن کا خط میرے نام آیا ہے جس میں اُنہوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہندوستان کی احمدی خواتین بھی اِس تحریک میں حصہ لیں۔ مَیں نے لجنہ اماء اللہ کو تحریک کی تھی کہ وہ اِس میں حصہ لے چنانچہ لجنہ نے اِس غرض کے لئے چار ہزار روپیہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اِس کے علاوہ وہاں اِنْشَائَ اللّٰہُ ایک ایسا سکول جاری کرنے کا بھی ارادہ ہے جو لنڈن میٹرک یا سینئر کیمبرج کا لڑکوں کو امتحان دلا سکے۔ یہاں ہندوستان میں تو الگ الگ یونیورسٹیاں ہیں اور ہر یونیورسٹی سے لوگ امتحان دے کر ملازمت حاصل کر سکتے ہیں مگر مغربی افریقہ میں یونیورسٹیاں نہیں ہیں۔ اِس وقت وہاں ہماری جماعت کی طرف سے صرف مڈل سکول قائم ہیں اور مغربی افریقہ کے قانون کے مطابق مڈل پاس لڑکوں کو معمولی ملازمتیں تو مل جاتی ہیں مگر اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں ہمارے ہاں تو آجکل مڈل بلکہ انٹرنس کا بھی کوئی سوال نہیں لیکن ایک زمانہ ہندوستان پر بھی ایسا گزرا ہے جب مڈل پاس لڑکوں کو یہاں ملازمتیں مل جاتی تھیں اور وہاں ابھی وہی زمانہ ہے۔ وہ لوگ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں بلکہ وہاں کے باشندوں کا ایک حصہ ایسا ہے جو ننگا پھرا کرتا تھا پھر احمدی مبلّغوں کے زور دینے پر انہوں نے کپڑے پہننے شروع کئے۔ وہاں چونکہ جماعت کے لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُنہیں تحریک کی جاتی ہے کہ وہ جماعت کے مدارس میں داخل ہوں اور ہمارے مدرسوں میں انگریزی کی وہ اعلیٰ تعلیم نہیں دی جاتی جو دوسرے عیسائی مدرسوں میں دی جاتی ہے اِس لئے ملازمتوں کے معاملہ میں ہماری جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اعلیٰ درجہ کی ملازمتیں ہماری جماعت کے نوجوانوں کو نہیں ملتیں۔ اَب تجویز یہ ہے کہ لنڈن میٹرک یا سینئر کیمبرج کے اصول پر وہاں ایک سکول جاری کیا جائے۔ جس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکے اِن امتحانات کو پاس کر کے اعلیٰ درجہ کی ملازمتیں حاصل کر سکیں۔ واقفین میں سے ایک نوجوان کو اِس غرض کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ پہلے انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جائیں گے اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے تو اُنہیں ویسٹ افریقہ میں مقرر کر دیا جائے گا۔ امید ہے کہ وہ دو تین ماہ تک یہاں سے انگلستان روانہ ہو جائیں گے۔
مغربی افریقہ کیلئے ایک اَور مبلّغ کا مطالبہ
ایک اور درخواست افریقہ سے میرے پاس پرسوں ہی پہنچی ہے
جس کا مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ مَیں نے مغربی افریقہ میں جو مبلّغین بھجوائے ہیں اُن کے علاوہ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلّغ نے ایک اَورمبلّغ کا بھی مطالبہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ نائیجریا کے ایک حصہ میں عیسائی مشنوں نے اتنا کام کیا ہے کہ قریباً سب کے سب لوگ عیسائی ہو چکے ہیں۔ چنانچہ جو وہاں کے اصل باشندے ہیں اُن میں سے بمشکل ایک فیصدی کوئی مسلمان نظر آئے گا ورنہ سب کے سب عیسائی ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے بیشک آٹھ دس فیصدی مسلمان ہیں مگر وہ مسلمان ایسے ہیں جو دوسرے علاقوںسے وہاںآئے ہوئے ہیں اصل باشندے نہیں۔ پس انہوں نے درخواست کی ہے کہ ایک مبلّغ جو کم سے کم بی اے ہو اور اگر ایم اے ہو تو زیادہ اچھا ہے اُس علاقہ میں تبلیغ کیلئے بھجوایا جائے۔ سو اِنْشَائَ اللّٰہُ اِس سال وہاں ایک گریجوایٹ مبلّغ بھجوانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وہ عیسائیت کا مقابلہ کرے۔
تفسیر القرآن کے متعلق اعلان
مَیں یہ بھی اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ اِس وقت قرآن کریم کی تفسیر کی دو جلدیں تیار ہو رہی
ہیں۔ ایک جلد آخری پارہ کی ہے جو نصف کے قریب ہو چکی ہے اور ایک جلد پہلے پارہ کی ہے جو نصف سے زیادہ ہو چکی ہے۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا تو جلسہ سالانہ کے بعد دو چار ماہ کے اندر اندر آخری پارہ کی تفسیر لکھی جائے گی اور پھر دو تین مہینہ کے اندر شائع کر دی جائے گی ۔ اِس کے بعد اِنْشَائَ اللّٰہُ پہلے پارہ کی تفسیر شائع کی جائے گی۔ پہلے میرا منشاء تھا کہ ابتدائی پانچ پاروں کی تفسیر اکٹھی شائع ہو مگر جب تفسیر لکھنے لگا تو پہلے پارہ کی تفسیر ہی بہت بڑھ گئی کیونکہ شروع میں بہت سے مضامین کو کھول کر بیان کرنا پڑتا ہے اور اِس کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر مَیں نے ارادہ کیا کہ سورہ بقرہ کی تفسیر ایک جلد میں شائع ہو جائے مگر اِس ارادہ کو بھی منسوخ کرنا پڑا کیونکہ ابھی تک نصف پارے سے کچھ اوپر تفسیر لکھی گئی ہے اور چھ سَو سے زیادہ صفحات ہو چکے ہیں اگر اگلے نصف حصہ کی تفسیر کو مختصر کر دیا جائے تو بھی آٹھ نو سَو بلکہ ہزار صفحہ تک ایک پارہ کی تفسیر پہنچ جائے گی اور اگر سورہ بقرہ کی تمام تفسیر کو پہلی جِلد میں شامل کیا جائے تو دو ہزار صفحات سے کم میں یہ تفسیر نہیں آ سکے گی۔
پچھلی تفسیر جب شائع ہوئی تو بعض نوابوں کی طرف سے مجھے پیغام پہنچا کہ ہمیں تفسیر پڑھنے کا بڑا شوق ہے مگر ہماری عادت یہ ہے کہ ہم سوتے وقت کتاب پڑھتے ہیں کوئی ہلکی سی کتاب ہوئی اُسے سینہ پر رکھ لیا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھتے پڑھتے جب نیند آ گئی تو سو گئے مگر آپ نے اتنی بڑی کتاب لکھ دی ہے کہ سینہ پر اُسے رکھنے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور ہم اِسے نہیں پڑھ سکتے۔ اگر آپ نے تفسیر ہمیں بھی پڑھانی ہے تو ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سَو صفحہ کی کتاب لکھیں جو آسانی سے ہم لوگ پڑھ سکیں اور آسانی سے اُٹھا بھی سکیں اتنی بڑی کتاب نہ اُٹھائی جاتی ہے نہ آسانی سے پڑھی جاتی ہے۔ اگر سورہ بقرہ کی ہی دو اڑھائی ہزار صفحات میںتفسیر شائع ہو تو اِس قسم کے لوگ اَوروں کو بھی ڈرا دیں گے اِس لئے مَیں سمجھتا ہوں ہمیں پہلے پارہ کی تفسیر الگ شائع کرنی پڑے گی۔ بہرحال یہ دونوں تفسیریں اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد شائع ہو جائیں گی۔ آخری پارہ کی تفسیر کے متعلق میری یہ خواہش تھی کہ جلسہ سالانہ تک اِس کے تین چار سَو صفحے چھپ جائیں مگر مشکل یہ ہوئی کہ قادیان میں کوئی پریس اِس غرض کے لئے فارغ نہیں تھا اُن کے پاس اور بہت سے کام تھے یا اُن کی چھپوائی اتنی اچھی نہیں تھی جتنی اچھی چھپوائی ہم تفسیر کی چاہتے ہیں۔ دو مہینے کی بات ہے کچھ کاپیاں ایک پریس پر لگائی گئیں تو وہ سب کی سب اُڑ گئیں۔ اَب میں نے تحریک جدید کی طرف سے ایک پریس خرید لیا ہے اور دس ہزار روپیہ اُس پر صرف آیا ہے اور اِنْشَائَ اللّٰہُ جنوری میں فٹ ہو کر تفسیر کی چھپوائی شروع ہو جائے گی۔ یہ دقتیں تھیں جن کی وجہ سے تفسیر شائع نہ ہو سکی ورنہ اگر پہلے چھپ سکتی تو جس طرح پہلے سال میں نے شائع شدہ تفسیر کا کچھ حصہ دوستوں کے لئے دفتر میں رکھوا دیا تھا اِسی طرح اِس سال بھی میں اُس کا کچھ حصہ رکھوا دیتا مگر پریس کی مشکلات کی وجہ سے باوجود اِس کے کہ مضمون تیار ہے اور باوجود اِس کے کہ کاپیاں لکھنے والے فارغ ہیں اور کچھ کاپیاں لکھی ہوئی بھی موجود ہیں ہم اِس کا کوئی حصہ چھپوا نہیں سکے جس کی وجہ سے احباب کو تفسیر کا نمونہ دکھانے سے ہم قاصر رہے ہیں۔ (الفضل ۲۵؍ جنوری ۱۹۴۵ء)
(اس کے بعد اصل مضمون ’’الموعود‘‘ کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:۔)
براہین احمدیہ کی اشاعت سے غیر مذاہب میں تہلکہ
۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظیم الشان کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی آخری جِلد شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے شائع ہونے پر
قدرتی طور پر غیر مذاہب کے وہ مشنری اور مبلّغ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم اسلام کو کھا جائیں گے، اُن کے اندر بے چینی اور گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہوگئی کیونکہ اس سے پہلے ایک طرف تو عیسائی یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان ہمارا شکار ہیں اور دوسری طرف ہندوؤں میں پنڈت دیانند صاحب بانی آریہ سماج کی کوششوں کی وجہ سے ایک مذہبی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور وہ بھی یہ خیال کر رہے تھے کہ مسلمان اب ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے۔ اِسی طرح برہمو سماج والے بھی اسلام کے خلاف کوشش کر رہے تھے اور اپنی اِس جدوجہد میں انہیں کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ ایسے وقت میں جب عیسائی، ہندو، آریہ اور برہمو سب یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمان ہمارا شکار ہیں اب ہم اُن کو اسلام سے منحرف کر کے اپنے مذہب میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں آپ نے تین سَو دلائل کے ساتھ اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ چار جلدیں اِس کتاب کی شائع ہوئیں، ایک جلد اشتہار کے طور پر اور تین جلدیں اصل مضمون کے طور پر اور پھر یہ تین جلدیں جو آپ کی طرف سے شائع ہوئیں اِن میں بھی اسلام کی صداقت کی دراصل ایک ہی دلیل بیان ہوئی تھی اور وہ بھی مکمل طور پر نہیں بلکہ دلیل ابھی جاری تھی کہ کتاب بند ہوگئی۔ اِس آدھی دلیل سے ہی جو براہین احمدیہ کی تین جلدوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے غیر مذاہب میں ایسا تہلکہ مچ گیا کہ یا تو اُن مذاہب کے لیڈروں اور ان مذاہب کے پیروئوں کے دلوں میں یہ خیال قائم ہو گیا تھا کہ وہ اسلام کو کھا جائیں گے اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے معدوم کر دیں گے یا اب اُن کو یہ فکر پیدا ہو گیا کہ کہیں اسلام دنیا پر غالب نہ آ جائے اور ہمارے اپنے بھائی اسلام کی طرف نہ کھینچے جائیں۔ چنانچہ اِس کتاب کے شائع ہوتے ہی دشمنانِ اسلام نے حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’ہونہار بِروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے مطابق اپنے لئے ایک مستقل خطرہ کا الارم سمجھ کر اپنے تیروں کا ہدف بنانا شروع کر دیا اور وہ سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے۔ اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہیں تھا، صرف اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں آپ نے یہ کتاب لکھی تھی۔ جب اِس کتاب کو لکھتے لکھتے آپ چوتھی جلد تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے الہامات سے آپ سمجھ گئے کہ اب الٰہی منشاء کسی اور رنگ میں آپ سے خدمتِ دین لینے کا ہے۔ چنانچہ آپ نے ’’براہین احمدیہ جلد چہارم‘‘ کے ٹائٹل پیج پر ’’ہم اور ہماری کتاب‘‘ کے زیر عنوان اعلان فرما دیا کہ:-
’’ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اِس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اِس کے قدرتِ الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اِس احقر عباد کو موسٰی کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی۔ یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شبِ تاریک میں سفر کر رہا تھا کہ ایک دفعہ پردۂ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی۔ سو اب اِس کتاب کا متولی اور مہتمم ظَاہِراً وَّ بَاطِناً حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اِس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اُس نے جلد چہارم تک انوارِ حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اِتمام حجت کیلئے کافی ہیں اور اُس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلّی دُور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا۔ اگرچہ اِس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اِس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حی و قیوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دینِ اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اُس کا فضل ہے کہ جو اِس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا‘‘۔۸؎
بہرحال یہ کتاب چونکہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کو ایک نئے رنگ میں دنیا پر ظاہر کرنے والی تھی، اِس لئے آریوں، ہندوئوں، عیسائیوں اور برہموئوں وغیرہ نے مل کرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حملہ کر دیا اور افسوس یہ ہے کہ مسلمان بھی اِس حملہ میں اُن کے ساتھ مل گئے حالانکہ یہ ایک موٹی بات تھی جس کو وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کہ اسلام کی تائید میں یہ پہلی کتاب نہیں تھی جو شائع ہوئی ہو بلکہ اِس سے پہلے خود مسلمان بیسیوں کتابیں اسلام کی تائید میں شائع کر چکے تھے مگر اُن کتابوں سے نہ عیسائیوں میں کوئی جوش پیدا ہوا ،نہ ہندوئوں میں کوئی جوش پیدا ہوا، نہ آریوں میں کوئی جوش پیدا ہوا اور نہ برہموؤں میں کوئی جوش پیدا ہوا۔ پھر وجہ کیا تھی کہ اُن کتابوں سے تو اُن کے دلوں میں کوئی جوش پیدا نہ ہوا لیکن اِس کتاب کے نکلتے ہی عیسائی بھی جوش میں آگئے، ہندو بھی غصہ سے بھرگئے، آریہ بھی مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے، برہمو سماجی بھی اِس کے اثر کو باطل کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے او رتمام غیر مذاہب کے مشنری اور مبلّغ اشتہاروں، ٹریکٹوں اور کتابوں کے ذریعہ اُس کا جواب دینے لگ گئے۔ یہاں تک کہ بعض نے اچھا خاصا گند اُچھالا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے وہ دلائل جو براہین احمدیہ میں حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائے تھے اُن کے خلاف انہوں نے پے در پے لکھنا شروع کر دیا۔ یہ شور جو غیر مذاہب کے مشنریوں اور اُن کے مبلّغوں میں پیدا ہوا اور جس نے اُن کی صفوں میں ایک تزلزل پیدا کر دیا مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا اور وہ اگر ذرا بھی غور اور تدبر سے کام لیتے تو اِس حقیقت کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کہ اِس کتاب میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جس سے مسیحی مبلّغ اور آریہ مشنری سخت گھبراتے ہیں۔ اگر کوئی ایسی چیز اِس کتاب میں موجود نہ ہوتی تو وہ سب کے سب آپ کے پیچھے کیوں پڑ جاتے۔
مخالفت کا اصل راز
اصل بات یہ ہے کہ دشمن کی توجہ ہی صحیح حقیقت کا انکشاف کیا کرتی ہے اور بااثر طبقہ کی طرف سے مخالفت ہی کسی چیز کی
اہمیت کا ثبوت ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی چیز دشمن کے مقابلہ میں پیش کی جائے تو خواہ پیش کرنے والا اُسے کتنا ہی بڑا کامیاب حربہ قرار دے اگر دشمن اُس کی مخالفت نہیں کرتا، اگر وہ اُس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تو یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا کہ وہ چیز فی الواقع دشمن کے لئے خطرناک ہے یا بہت بڑا کامیاب حربہ ہے لیکن اگر وہ فوراً مخالفت شروع کر دیتا ہے تو یہ اِس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اُس پر کاری حملہ ہوا ہے اور اب اُسے اپنے بچائو کا فکر لاحق ہوگیا ہے۔ پس مخالفین اسلام کا گھبرانا، اُن کا شور مچانا، اُن کا گند اُچھالنا، اور اُن کا براہین احمدیہ کی اشاعت پر اِس کی تردید کے لئے کمربستہ ہو جانا خود اِس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اِس کتاب کو اپنے لئے ایک زبردست خطرہ سمجھنے لگ گئے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر اسلام کی حفاظت کا یہ سلسلہ اِسی رنگ میں جاری رہا تو اسلام غالب آ جائے گا اور ہم مغلوب ہوجائیں گے۔ مگر مسلمانوں نے اِس نکتہ کو نہ سمجھا اور انہوں نے خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حملے شروع کر دیئے اور اِس طرح عیسائیت اور آریہ سماج کا ہاتھ مضبوط کرنے لگ گئے۔
پنڈت لیکھرام اور منشی اندرمن مراد آبادی کا مقابلہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ حالات دیکھے تو آپ نے اشتہاروں کے ذریعہ دشمنوں کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ اِس
مخالفت میں خصوصیت کے ساتھ اُس وقت کی آریہ سماج کے لیڈر پنڈت لیکھرام صاحب اور منشی اندرمن صاحب مراد آبادی پیش پیش تھے۔ بِالخصوص پنڈت لیکھرام صاحب نے اِس مخالفت میں نمایاں حصہ لیا اور انہوں نے تکذیب براہین نامی کتاب بھی لکھی۔ یہ حالات بتاتے ہیں کہ آریہ سماج نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حملہ کی سختی اور طاقت کو محسوس کر لیا تھا ورنہ اُن کے لیڈر کو اپنی عمر آپ کی تردید میں اِس طرح خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ کاش! مسلمان اِس حقیقت کو سمجھتے تو وہ وقت پر خطرہ سے آگاہ ہو جاتے۔ مگر اُنہوں نے خود بھی آپ کی مخالفت میں حصہ لے کر دشمنان اسلام کے ہاتھ کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُس وقت اپنا کوئی دعویٰ نہیں تھا جس کی تردید کے لئے یہ لوگ کھڑے ہوئے ہوں بلکہ اُس وقت آپ کا صرف اتنا دعویٰ تھا کہ اسلام سچا مذہب ہے لوگوں نے قرآن کریم پر غور نہیں کیا اور غور نہ کرنے کی وجہ سے ہی وہ اِس کی تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں اب میں قرآن کریم کی تعلیم کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کروں گا کہ لوگوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسی بدلائل اور پاکیزہ کتاب دنیا میں اور کوئی نہیں۔ اِس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ مخالفینِ اسلام کا اصل حملہ آپ پر نہیں تھا کیونکہ آپ تو محض اسلام کے ایک وکیل کی حیثیت سے دنیا میں کھڑے ہوئے تھے اُن کا اصل حملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور قرآن کریم کی حقانیت پر تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ دنیا میں قرآن کریم کا نور ظاہر ہو یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی راستبازی کا دنیا کو علم ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چِلّہ کشی کا ارادہ
جب آپ نے دیکھا کہ غیر مسلم تو الگ رہے خود مسلمانوں میں
بھی ایک طبقہ ایسا موجود ہے جس نے آپ کے خلاف لکھنا شروع کر دیا ہے حالانکہ آپ اسلام کی تائید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کے اظہار کیلئے کھڑے ہوئے تھے تو آپ کے دل میں سخت درد پیدا ہوا اور آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ دعائیں مانگنی شروع کیں کہ تُو مجھے اپنی تائید سے ایسا موقع بہم پہنچا کہ مَیں اُن تمام وساوس کو جو اسلام کے خلاف پھیلائے جاتے ہیں اور اُن تمام حملوں کو جو اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جاتے ہیں کامیابی سے دُور کر سکوں اور اسلام کی محافظت اور دشمنوں کے حملوں کے دفاع کا فرض پوری خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے سکوں۔ اِس غور وفکر میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ میں چالیس دن تک چِلّہ کروں اور کسی علیحدہ مقام پر خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کروں کہ وہ ایسی تائیدات کے سامان میرے لئے مہیا فرمائے جن سے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا کامل اور روشن تر ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر سکوں۔ چنانچہ آپ نے دعائوں اور استخاروں سے کام لینا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ الٰہی! بعض مقامات بھی خاص طور پر بابرکت ہوتے ہیں اور ان مقامات کے ساتھ تیرے خاص فضل وابستہ ہوتے ہیں۔ وہاں اگر دعائیں کی جائیں تو وہ اور دعاؤں کی نسبت زیادہ شان سے اور قریب ترین عرصہ میں شرف قبولیت حاصل کرتی ہیں۔ تو اپنے خاص فضل سے اِس بارہ میں بھی میری راہنمائی فرما کہ میں یہ دعائیں کہاں کروں اور کس جگہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنے کے لئے جائوں۔
ہوشیار پور کے حالات
اِن دعائوں اور استخارہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا گیا کہ آپ ہوشیار پور میں چِلّہ کریں۔
مولوی عبداللہ صاحب سنوری اُس وقت آپ کے معتقد تھے۔ اُنہیں جب معلوم ہوا کہ آپ چالیس دنوں تک خاص دعائیں کرنا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ جب آپ چِلّہ کریں تو مجھے بھی اطلاع دیں کہ کس جگہ چِلّہ کیا جائے گا تاکہ میں بھی خدمت کا ثواب حاصل کر سکوں۔ وہ اُس وقت پٹیالہ میں پٹواری ہوا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ ہوشیارپور کے مقام پر چِلّہ کرنا پسندکرتا ہے تو آپ نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو لکھا کہ مَیں چِلّہ کیلئے ہوشیارپور جا رہا ہوں آپ بھی فوراً پہنچ جائیں تا کہ قادیان سے ہم اکٹھے روانہ ہو سکیں۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب سنوری قادیان پہنچ گئے اور آپ ۲۱؍جنوری ۱۸۸۶ء کو ہوشیار پور روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ صرف تین آدمی تھے۔
اوّل مولوی عبداللہ صاحب سنوری۔
دوم حافظ شیخ حامد علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت پُرانے خادموں میں سے تھے اور لمبے عرصے تک آپ کی خدمت کرتے رہے ہیں۔
سوم فتح خاں صاحب جو رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کے ایک زمیندار دوست تھے۔
آپ نے جانے سے پہلے شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کو جو آپ کے واقفوں اور دوستوں میں سے تھے ایک خط لکھا کہ مَیں وہاں دو ماہ کے لئے آنا چاہتاہوں آپ میرے لئے کسی مکان کا انتظام کریں جہاں ٹھہر کر مَیں علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کر سکوں۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ مَیں نہیں چاہتا ان ایام میں لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آئیں۔ مَیں صرف اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا چاہتا ہوں اِس لئے مکان ایسا ہو جو شہر کے ایک طرف ہو اور اُس میں بالاخانہ بھی ہو تاکہ دعا اور توجہ الی اللہ میں کوئی نقص واقع نہ ہو۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنا ایک خاندانی مکان جو کسی وقت طویلے ۹؎کے طور پر کام آتا تھا اور اسی نام سے مشہور تھا آپ کے لئے خالی کرا دیا اور لکھا کہ میں نے آپ کے لئے ایک مکان کا انتظام کر دیا ہے جو شہر سے باہر ہے لیکن اتنی دور بھی نہیں کہ شہر سے چیزیں لانے میں تکلیف محسوس ہو آپ جب چاہیں تشریف لے آئیں۔ اِس اطلاع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۲۱؍جنوری ۱۸۸۶ء کو روانہ ہوئے اور راستہ میں ایک رات رسول پور ٹھہرتے ہوئے ۲۲؍جنوری جمعہ کے دن وہاں پہنچ گئے۔ جاتے ہی آپ نے شیخ مہر علی صاحب کے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور پھر اُن تینوں دوستوں کو جو آپ کے ساتھ تھے الگ الگ ڈیوٹیوں پر مقرر فرما دیا۔ مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا۔ فتح خان صاحب کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سَودا وغیرہ لایا کریں اور حافظ شیخ حامد علی صاحب کا یہ کام مقرر کیا گیا کہ وہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والوں کی مہمان نوازی کریں۔ آپ نے یہ بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور گھر میں سے بھی کوئی شخص مجھے نہ بُلائے نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آئے۔ میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جائے مگر اِس بات کا انتظار نہ کیا جائے کہ مَیں نے کھانا کھا لیا ہے یا نہیں بلکہ کھانا رکھ کر فوراً کھانا لانے والا واپس چلا جائے اور خالی برتن دوسرے وقت لے جایا کرے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ ان ایام میں کسی اور کام کی طرف توجہ کروں۔ چنانچہ چالیس دن آپ نے اِس بالا خانہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور علیحدگی میں دعائیں کیں۔ اِس دَوران میں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض عظیم الشان انکشافات ہوئے جن کی بناء پر ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو ہفتہ کے دن ہوشیارپور میں ہی آپ نے ایک اشتہار لکھا اور اُسے شائع کر کے مختلف علاقوں میں بھجوا دیا۔
مصلح موعود کے متعلق خدا تعالیٰ کی ایک عظیم الشان پیشگوئی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس وقت جو اشتہار لکھا اُس کا کچھ حصہ یہ ہے جو میرے آج کے مضمون کے ساتھ تعلق رکھتا ہے
آپ فرماتے ہیں:-
’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزّو جل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر چیز پر قادر ہے جَلَّ شَأْنُہٗ وَ عزَّاِسْمُہٗ مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اُسی کے موافق جو تُو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سُنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لُدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کر دیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلیدتجھے ملتی ہے ۔ اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں۔ اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔ اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفی کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اُس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اُس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گااور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گااور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا (اِس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزندِ دلبند گرامی ارجمند۔ مَظْہَرُ الْاَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْہَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلاَئِ کَأَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور۔ جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اُس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کاسایہ اُس کے سَر پر ہو گا۔ وہ جَلد جَلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت پائیں گے۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔‘‘
پیشگوئی کی غرض و غایت
یہ وہ اشتہار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہوشیار پور میں شائع فرمایا۔ اس اشتہار سے ظاہر ہے کہ
یہ پیشگوئی اِس لئے کی گئی تھی کہ:-
(۱) جوزندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جوقبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں۔
(۲) تادینِ اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔
(۳) تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔
(۴) تا لوگ سمجھیں کہ خدا قادر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
(۵) اور تا وہ یقین لائیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔
(۶) اورتاانہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے۔
(۷) اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
دشمنانِ سلسلہ کی طرف سے اعتراضات
جب یہ اشتہار شائع ہواتو دشمنوں نے اِس پر بھی اعتراضات کا ایک
سلسلہ شروع کر دیا۔ تب۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء کو آپ نے ایک اور اشتہار شائع فرمایا۔ دشمنوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ایسی پیشگوئی کا کیا اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ کیا ہمیشہ لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا نہیں ہوا کرتے۔ شاذونادر کے طور پر ہی کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس کا کوئی لڑکا نہ ہو یا جس کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوں۔ ورنہ عام طور پر لوگوں کے ہاں لڑکے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور کبھی اُن کی پیدائش کو کوئی خاص نشان قرار نہیں دیا جاتا۔پس اگر آپ کے ہاں بھی کوئی لڑکا پیدا ہو جائے تو اِس سے یہ کیونکر ثابت ہو گا کہ دنیا میں اِس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا کوئی خاص نشان ظاہر ہوا ہے۔ آپ نے لوگوں کے اِس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ۲۲؍مارچ کے اشتہار میں تحریر فرمایا کہ :-
’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشانِ آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جَلَّ شَاْنُہٗنے ہمارے نبی کریم رؤف و رحیم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا۔‘‘۱۰؎
پھر اِسی اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا:۔
’’بفضلہ تعالیٰ واحسانہٖ وببرکت حضرت خاتم الانبیاء صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خداوند کریم نے اِس عاجز کی دعا کو قبول کر کے ایسی با برکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی‘‘۔۱۱؎
بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنے ہاںمحض ایک بیٹاپیدا ہونے کی خبر دیتے تب بھی یہ خبر اپنی ذات میں ایک پیشگوئی ہوتی کیونکہ دنیا میں ایک حصّہ خواہ وہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو بہرحال ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جن کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوتی۔ دوسرے آپ نے جب یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کی عمر پچاس سال سے اُ وپر تھی اور ہزاروں ہزار لوگ دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں جن کے ہاں پچاس سال کے بعد اولاد کی پیدائش کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاں لڑکے تو پیدا ہوتے ہیں مگر پیدا ہونے کے تھوڑے عرصہ ہی بعد مر جاتے ہیں۔ اور یہ سارے شبہات اِس جگہ موجود تھے۔ پس اوّل تو کسی لڑکے کی پیدایش کی خبر دینا کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہوسکتا۔ لیکن آپ بطور تنزّل اِس اعتراض کو تسلیم کرکے فرماتے ہیں کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ محض کسی لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلاسکتا۔ تو سوال یہ ہے کہ میں نے محض ایک لڑکے کی پیدائش کی کب خبر دی ہے۔میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعائوں کو قبول فرما کر ایک ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔
آپ کے دشمن یہ تو کہہ سکتے تھے کہ سَو میں سے ننانوے لوگوں کے ہاں اولاد پیدا ہو جاتی ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ سَو نہیں ہزار انسانوں میں سے ایک کے ہاں ضرور ایسی اولاد پیدا ہوتی ہے جو تمام زمین میں شہرت پا جاتی ہے اور اُس کی ظاہری اور باطنی برکتیں تمام لوگوں میں پھیل جاتی ہیں بلکہ وہ تو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ لاکھ میں سے ایک شخص کی اولاد ضرور ساری دنیا میں مشہور ہو جاتی ہے بلکہ اِس کو بھی جانے دو وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ کروڑ لڑکوںمیں سے ایک لڑکا ضرور ایسا ہوتا ہے جو ساری دنیا میں شہرت پا جاتا ہے۔ غرض آپ کے دشمن تو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں سَو میں ننانوے پیشگوئی کا مصداق ہوسکتے ہیں اِس لئے یہ کوئی پیشگوئی نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے جواب دیا کہ میں نے جو پیشگوئی کی ہے اِس کے مطابق سَو میں سے ننانوے نہیں کروڑ انسانوں میں سے ایک شخض کی اولادبھی اِس کا مصداق ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ پیشگوئی یہ ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہوگا جو دینی لحاظ سے تمام زمین میں شہرت پائے گا۔ اور دینی لحاظ سے تمام زمین میں شہرت پاجانے کی اس زمانہ میں ایک مثال بھی دشمنوں کی طرف سے پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ اِس زمانہ میں مادیت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے۔ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دینی لحاظ سے تمام دنیا میں شہرت حاصل کی لیکن آپ تو اِس پیشگوئی کا جزو اعظم تھے۔ آپ کے علاوہ کوئی اَور ایسا شخص نہیں جسے دینی لحاظ سے شہرت کا یہ مقام حاصل ہوا ہو۔ اگر دو ارب دنیا کی آبادی سمجھ لی جائے اور اس میں سے ایک ارب عورتوں اور بچوں کو نکال دیا جائے تو باقی ایک ارب لوگوں میںسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی جس نے دینی لحاظ سے تمام دنیا میں شہرت حاصل کی ہو۔ یہ بالکل واضح اور نمایاں بات ہے کہ اگر دینی لحاظ سے بعض لوگوں نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کی ہو تو جتنی نسبت ایسے شہرت پانے والے شخصوں کی دنیا کی باقی آبادی کے مقابلہ میں ہوگی وہی نسبت اِس پیشگوئی کی عظمت یا اِس کی عدمِ عظمت کے درمیان سمجھی جائے گی۔ فرض کرو ساری دنیا میں سے دس آدمی ایسے پیش کئے جا سکتے ہوں جنہوں نے دینی لحاظ سے تمام دنیامیں شہرت پائی ہو تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسی پیشگوئی کی جو بیس کروڑ میں سے ایک پر پوری ہو سکتی ہے اور جہاں بیس کروڑ چانس نفی کے ہوں کیا وہاں ایک منٹ کے لئے بھی کوئی شخص ایسی پیشگوئی کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں کوئی ایک مثال بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے سلسلہ کے باہر ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کسی شخص نے اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کرکے مذہبی لحاظ سے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی ہو۔ عیسائی ہیں انہیں دُنیوی لحاظ سے بڑی طاقت حاصل ہے اور اُن کے بادشاہوں کی شہرت بھی دنیا کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہے لیکن اُن کو اِس مثال کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہاں یہ شرط ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اسلام کی متابعت کرتے ہوئے ساری دنیا میں شہرت حاصل کرے گااور یہ بات ایسی ہے جو اُن میں سے کسی کو حاصل نہیں۔وہ طاقتور ہیں، وہ غالب اقوام میں سے ہیں اور اپنی طاقت اور غلبہ کے زور سے دنیا میں شہرت حاصل کر رہے ہیں اِس لئے شہرت حاصل نہیں کررہے کہ انہوں نے اسلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے۔ اِسی طرح کئی سیاسی لیڈر ہیں جن کی شہرت دینا کے کناروں تک پھیلی ہوئی ہے۔مثلاً ہمیں اِس سے ہرگز انکار نہیں کہ مسٹر چرچل، مسٹر ایڈن، لارڈ ہیلی فیکس یا مسٹر روز ویلٹ وغیرہ کو تمام دنیا میں شہرت حاصل ہے اگر ان میں سے کسی کا نام کوئی شخص پیش کر دے یا مسٹر سٹالن کا نام لے اور کہے کہ تم نے کونسی نرالی پیشگوئی کی ہے یہ لوگ دنیا میں ایسے موجود ہیں جو بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ بیشک اِن لوگوں کو اور اِسی طرح اور بیسیوں لوگوں کو شہرت حاصل ہوئی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو پیشگوئی فرمائی ہے اُس میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ کے ہاں ایک ایسا بیٹا پیدا ہو گا جو دینِ اسلام کی خدمت اور قرآن کو پھیلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور ہوگاحالانکہ دین ایک ایسی چیز ہے جسے آج دنیا میں سب سے زیادہ نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسلام وہ مذہب ہے جس کی طرف آج کسی کو بھی توجہ نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ رسول ہیں جن کی آج سب سے زیادہ تحقیر کی جاتی ہے لیکن آپ فرماتے ہیں اِس دین کی غلامی کرتے ہوئے، اس مذہب کی اشاعت کرتے ہوئے اور اِس پاک رسول کے نام کو بلند کرتے ہوئے وہ ساری دنیا میں شہرت پائے گا اور زمین کے کناروں تک عزّت کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ اِن شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص بتادے کہ گزشتہ پچاس یا سَو سال میں سے کسی ایک شخص نے ہی اسلام کی خدمت کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک شہرت حاصل کی ہو اور قوموں نے اُس سے برکت پائی ہو۔ اگر ایک ارب دنیا کی آبادی سمجھی جائے اور پچیس سال ایک نسل کی اوسط عمر سمجھی جائے تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ چار ارب آدمیوں میں سے ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کی جا سکتی کہ کسی نے دین کی خدمت کرتے ہوئے ساری دنیا میںشہرت حاصل کی ہو اور جو مثال اتنی نایاب ہو کہ چار ارب میں سے کوئی ایک شخص بھی اِس پر پورا نہ اُترسکتا ہو اُسے انسانی واہمہ یا قیاس کا نتیجہ کس طرح کہا جا سکتا ہے۔ اگر ایسی پیشگوئی کی جائے تو ہر سمجھدار انسان کو ماننا پڑے گا کہ یہ پیشگوئی قیاس سے نہیں کی گئی کیونکہ اِس میںایسی شرائط موجود ہیں جو چار ارب میں سے کسی ایک پر پوری نہیں ہو سکتیں ۔پھر فرماتے ہیں ۔
’’جو لوگ مسلمانوں میں چھپے ہوئے مُرتد ہیں وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ظہور دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ اُن کو بڑا رنج پہنچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا‘‘۔۱۲؎
اِس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے دنیا کے سامنے اِس حقیقت کو پیش فرمایاتھا کہ یہ نشان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہوگا اور اِس سے دنیا پر آپ کے معجزات کا سچا ہونا ثابت ہو جائے گا۔
مصلح موعود کی پیدائش کیلئے نو سال کی میعادکا تقرر
اِسی طرح آپ نے اشتہار میں لکھا کہ:۔
’’ ایسا لڑکا بموجب وعدۂ الٰہی ۹ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگاخواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہر حال اِس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا‘‘۔۱۳؎
اِس طرح آپ نے پیشگوئی میں ایک اور شرط بڑھا دی۔ پہلے تو کسی میعاد کی تعیین نہیں تھی۔ انسان کہہ سکتا تھا کہ ممکن ہے دس یا پندرہ یا بیس سال میں لڑکا پیدا ہو جائے مگر اِس اشتہار کے ذریعہ آپ نے ایک مزید شرط کا اعلان فرما دیااور بتا دیا کہ الہامِ الٰہی سے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ وہ لڑکا جس کی پہلے اشتہار میں خبر دی گئی تھی ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہو جائے گا خواہ جلد ہو یا دیر سے بہر حال اِس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا۔ اِس پر لوگوں نے اعتراض کیا کہ ۹ سال تو بہت لمبی میعاد ہے اتنے عرصہ میں کسی لڑکے کا پیدا ہوجانا کونسی بعید بات ہے۔ جب آپ کو یہ اعتراض پہنچا تو آپ نے ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میںلکھا کہ:-
’’جن صفاتِ خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے کسی لمبی معیاد سے گو ۹ برس سے بھی دو چند ہوتی اُس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا بلکہ صریح دلی انصاف ہر یک انسان کا شہادت دیتا ہے کہ ایسے عالی درجہ کی خبر جو ایسے نامی اور اخص آدمی کے تولد پر مشتمل ہے انسانی طاقتوں سے بالاتر ہے‘‘۔۱۴؎
یعنی ہم صرف ایک لڑکے کی پیدائش کی خبر نہیں دے رہے بلکہ ایک ایسے لڑکے کی پیدائش کی خبر دے رہے ہیں جو ۹ سال میںپیدا ہو گا، دین اسلام کی خدمت کرے گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلائے گا اور دین کی خدمت کرتے ہوئے زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
قریب زمانہ میں پیدا ہونے والے ایک اَور لڑکے کی خبر
پھر اسی اشتہار میں آپ نے
لکھا کہ:-
’’توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جل شانہٗ کی طرف سے اِس عاجزپر اِس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والاہے جو ایک مدتِ حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا اِس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بِالضرور اس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اَور وقت میں ۹ بر س کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں‘‘۔۱۵؎
غرض اِس اشتہار کے ذریعہ سے جو ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کو شائع کیا گیا تھا آپ نے لوگوں کے اعتراض کاجواب دے دیا کہ اوّل تو تم جو اعتراض کرتے ہو کہ کسی لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دینا پیشگوئی نہیں کہلا سکتا اِس لحاظ سے درست نہیں کہ میں نے صرف ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر نہیں دی بلکہ ایک ایسے لڑکے کے پیدا ہونے کی خبر دی ہے جو اپنے ساتھ کئی قسم کی صفات رکھتا ہوگا اور اُن صفاتِ خاصہ کے ساتھ کسی کی پیدائش کی خبر دینا انسانی قیاس کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے تم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ۹برس بہت لمبی معیاد ہے اِس قدر لمبے عرصہ میں تو بہرحال کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو سکتا ہے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے ۔پس تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہو گیا کہ ۹برس بہت لمبی میعاد ہے۔ اتنے عرصہ میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو ہی سکتا ہے کیونکہ میںایک ایسے لڑکے کی بھی خبر دیتا ہوں جو قریب زمانہ میں پیدا ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو لڑکا اب قریب ترین عرصہ میں پیدا ہونے والا ہے یہ وہی موعود لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں ۹برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ غرض جس قدر اعتراضات لوگوں کی طرف سے ہوئے اُن تمام کے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے متواتر اپنے اشتہارات میں دیئے اور دشمنانِ اسلام پر ہر طرح اِتمامِ حُجّت کر دیا۔
بشیراوّل کی پیدائش
اِن پیشگوئیوں کے شائع ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں۷؍ اگست ۱۸۸۷ء کو ایک لڑکا پیدا ہوا
( دیکھواشتہار ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء )جس کا نام آپ نے بشیر رکھااور اسے ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں جو ایک اورلڑکے کی پیشگوئی تھی جو قریب مدت میں پیدا ہونے والا تھا اُس کا مصداق قرار دیا۔۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں پیشگوئی کے یہ الفاظ تھے کہ:۔
’’اِس عاجز پر اس قدر کھل گیاکہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو مدتِ حمل سے تجاوز نہ کرے گا۔ اِس سے ظاہر ہے کہ ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بِالضرور اِس کے قریب حمل میں لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں ۹ برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا اور پھر اِس کے بعد الہام ہوا کہ آنے والایہی ہے یاہم دوسرے کی راہ تکیں ‘‘۔ ۱۶؎
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے ان اعتراضات کی وجہ سے کہ ۹ بر س میں پیدا ہونے والے لڑکے کے لئے جو مدت مقرر کی گئی ہے وہ بہت لمبی ہے اِس عرصہ میں تو کوئی نہ کوئی لڑکا ہو ہی جاتا ہے آپ نے دعا کی تو آپ پر یہ ظاہر کیا گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونیوالا ہے۔ ’’ایک ‘‘ کا لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں ظاہر فرمایا کہ جو لڑکا قریب ہی ہونے والا ہے وہ وہی ۹ سالہ میعاد میں پیدا ہونے والا موعود لڑکا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اَور ہو۔
اس پیشگوئی کی اصل غرض دشمنوں کے اِس اعتراض کو دُور کرنا تھی کہ لمبی مدت میں لڑکے کا ہونا عجیب بات نہیں پیشگوئی قریب زمانہ کے متعلق ہونی چاہئے۔گو اُن کے اعتراض کا اصل جواب تو یہ دیا گیا کہ جس شان کا لڑکا موعود ہے اس شان کا لڑکا ۹ چھوڑ اٹھارہ سال میں بھی اگر ہو جائے تو پیشگوئی کی عظمت میں فرق نہیں آتا لیکن اُن کے اعتراض کو خود اُن کے دعووں کے مطابق ہی ردّ کرنے کے لئے یہ دوسرا طریق اختیار کیاگیا کہ بہت اچھا! ہم ایک لڑکے کی قریب مدت میں بھی خبر دے دیتے ہیں اِس کے بعد تم کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
اِس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نوٹ بھی اپنی طرف سے لکھ دیا کہ یہ نہیںکہہ سکتے کہ جولڑکا قریب مدت میں ہوگا وہی موعود ہوگا یا یہ کہ یہ پیشگوئی بالکل الگ ہے اور ایک دوسرے لڑکے کی خبردیتی ہے ۔یعنی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے ۹ سالہ میعاد کو مختصر کر کے قریب مدت سے محصور کر دیا ہے یا یہ کہ ۹ سالہ میعاد الگ قائم ہے اور یہ پیشگوئی الگ ہے۔بہرحال اِس نوٹ سے دشمن کو اعتراض کا کوئی حق نہ پہنچتا تھا کیونکہ دشمن کا اعتراض صرف یہ تھا کہ مدت لمبی ہے تھوڑا وقت مقرر ہونا چاہئے چنانچہ آپ نے ایک مدت حمل میں لڑکا پیدا ہونے کا اعلان کر دیا۔یہ لڑکا خواہ وہی موعود لڑکا ہوتا جس کی خبر ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں دی گئی تھی یا دوسرا لڑکا ہوتا، دشمن کا اعتراض بہرحال اِس قریب مدت میں لڑکا پیدا ہو جانے سے دور ہو جاتا تھا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لکھنا کہ نامعلوم قریب مدت میں پیدا ہونے والا لڑکا موعود ہے یا نیا لڑکا، صرف یہ فائدہ دیتا ہے کہ اِس پیشگوئی میںدونوں امکان ہیں یہ بھی کہ ایک اور لڑکے کی خبر بھی دی گئی ہے جو جلد پیدا ہو گااور یہ بھی کہ شاید مصلح موعود کی میعادکو گھٹا کر کم کر دیا گیا ہے۔
دوسرا الہام اِس اشتہار میں یہ درج ہے کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں یعنی لوگ اُس کی پیدائش پر سوال کریں گے کہ کیا یہی لڑکا جو قریب مدت میں پیدا ہوا ہے آنے والا موعود ہے یاوہ اِس کے بعد پیدا ہو گا ۔اِس الہام کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ پیشگوئی دولڑکوں کی پیدائش کا امکان اپنے اندر رکھتی ہے کیونکہ اگر دو لڑکوں کا امکان اِس سے پیدا نہ ہوتا تو لوگوں کی زبان سے یہ فقرہ نہ کہلوایا جاتا کہ آنے والا یہی ہے یاہم دوسرے کی راہ تکیں۔یہ فقرہ اُسی وقت کہا جاتا ہے جب کہ ایک سے زیادہ وجودوں کی خبر ہو جن میں سے ایک خاص علامات رکھنے والا وجود ہو۔ جب ایک وجود اس خبر کے بعد ظاہر ہو تو طبعاً لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ یہ وجود عام موعود ہے یا خاص موعود ہے۔ اِس لڑکے یعنی بشیر اوّل سے پہلے اور آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء والے اشتہار کے چند ماہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جس کا نام آپ نے عصمت رکھا تھا۔ اُس لڑکی کی پیدائش پر دشمنوں نے شور مچایا کہ لڑکے کی پیشگوئی غلط نکلی کیونکہ لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ حالانکہ الہام یہ تھا کہ پیدا ہونے والا لڑکا ایک مدت حمل سے تجاوزنہ کرے گا اور مدتِ حمل نو اور دس ماہ کے درمیان ہوتی ہے۔ جو لڑکی پیٹ میں تھی اور دو تین ماہ میں پیدا ہونے والی تھی اُس کی نسبت یہ الفاظ استعمال کرنے تو بالکل لغو ہو جاتے ہیں اگر اس حمل کی طرف اشارہ ہوتا۔ تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار محک اخیار میں لکھا ہے’’ اس حمل‘‘ کے الفاظ چاہئے تھے نہ کہ ’’مدت حمل ‘‘ کے۔
بشیر اوّل کی وفات پر لوگوں کے اعتراضات
پھر یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو بشیر اوّل کی وفات پر آپ نے وہ اشتہار شائع
فرمایا جو سبز اشتہار کہلاتا ہے۔اِس میں آپ نے لوگوں کے اُس شور وشرکا جواب دیا جو بشیر اوّل کی وفات پر پیدا ہوا تھا کہ پیشگوئی تو ایک بہت بڑی شان اور عظمت رکھنے والے لڑکے کے متعلق کی گئی تھی مگر وہ بچپن میں ہی فوت ہوگیا ۔ یہ شورش سراسر غلط تھی کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے الہامات میں ایک لفظ بھی ایسا نہ تھا جس سے یہ ثابت ہوتا کہ پہلا بشیر اِس پیشگوئی کا مصداق تھا۔ الہامات میں تو صرف ایک خاص صفات والے لڑکے کی خبر تھی جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ ۹ سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ہاں ایک اور لڑکے کی بھی خبر تھی جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ ایک مدت حمل میں پیدا ہوگا اور تشریح کر دی گئی تھی کہ اس وقت حضرت اماں جان حاملہ ہیں یا اس حمل میں یا اِس کے قریب کے حمل میں وہ پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق بشیر اوّل پیدا ہوا۔ اور ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کے ہی ایک دوسرے حصّہ کے مطابق جس میںاُسے مہمان قرار دیا گیا تھاوہ ۴؍ نومبر ۱۸۸۸ء کو فوت ہوگیا۔
۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء والی پیشگوئی کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی الہامی تصریح
’’سبزاشتہار‘‘ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درحقیقت دو پیش گوئیاں
تھیں۔ ’’مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے‘‘ اِن الفاظ تک بشیر اوّل کے متعلق پیشگوئی تھی اور ’’اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘ اِن الفاظ سے وہ پیشگوئی شروع ہوتی ہے جو مصلح موعود کے متعلق ہے۔ گویا یہ پیشگوئی جو پہلے صرف ایک لڑکے کے متعلق سمجھی گئی تھی اِس کے متعلق بعد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً یہ بات معلوم ہوئی کہ اِس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ پیشگوئی کا یہ ہے کہ:۔
’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ذرّیت و نسل ہو گا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے اور وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔‘‘
پیشگوئی کے اِس حصہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا کہ یہ پہلے بشیر کے متعلق ہے۔
دوسرا حصہ پیشگوئی کا وہ ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور وہ حصہ اِن الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ ’’اس کے ساتھ فضل ہے۔ جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘ اور ’’کَانَ اَمْراً مَّقْضِیًّا‘‘ تک جاتا ہے۔
پھر آپ نے اِسی اشتہار میں جو یکم دسمبر۱۸۸۸ء کو آپ نے شائع فرمایا یہ بھی تحریر فرمایا کہ ہم نے اپنے کسی اشتہار میں یہ نہیں لکھا کہ بشیر اوّل ہی مصلح موعود ہے۔ چنانچہ میں نے تمام حوالجات سنا دیئے ہیں۔ اِن میں اشارۃً بھی یہ ذکر نہیں آتا کہ بشیر اوّل ہی مصلح موعود ہے۔ صرف ایک جگہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ:۔
’’غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بِالضرور اِس کے قریب حمل میں‘‘
لیکن وہاں آپ نے صراحتاً تحریر فرما دیا تھا کہ مجھ پر:
’’یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں ۹برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔‘‘
ہاں آپ لکھتے ہیں کہ بوجہ بشیر اوّل کے اُن ذاتی کمالات کے جو الہامات میں بیان ہوئے تھے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید یہی وہ لڑکا ہو مگر اِس کے باوجود اِس رائے کو ظاہر نہیں کیا گیا کہ ضرور یہ لڑکا پختہ عمر کو پہنچے گا کیونکہ وہ استعدادی کمالات جو بشیر اوّل کے بیان کئے گئے تھے ایسے نہیں تھے جن کے لئے بڑی عمر پانا ضروری ہوتا بلکہ وہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب تھے۔ اِسی سلسلہ میں آپ نے تحریر فرمایا۔
’’اگر ہم اس خیال کی بناء پر کہ الہامی طور پر ذاتی بزرگیاں پسرِ متوفی کی ظاہر ہوئی ہیں اور اس کا نام مبشر اور بشیر اور نور اللہ اور صیّب اور چراغ دین وغیرہ اسماء مشتمل کاملیت ذاتی اور روشنی فطرت کے رکھے گئے ہیں کوئی مفصّل و مبسوط اشتہار بھی شائع کرتے اور اس میں بحوالہ اُن ناموں کے اپنی یہ رائے لکھتے کہ شاید مصلح موعود اور عمر پانے والا یہی لڑکا ہو گا تب بھی صاحبانِ بصیرت کی نظر میں یہ اجتہادی بیان ہمارا قابلِ اعتراض نہ ٹھہرتا کیونکہ اُن کا منصفانہ خیال اور ان کی عارفانہ نگاہ فی الفور انہیں سمجھا دیتی کہ یہ اجتہاد صرف چند ایسے ناموں کی صورت پر نظر کر کے کیا گیا ہے جو فِیْ حَدِّ ذَاتِہٖ صاف اور کُھلے کُھلے نہیں ہیں بلکہ ذوالوجوہ اور تاویل طلب ہیں۔‘‘۱۷؎
اِس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا کہ بیشک مبشر اور بشیر اور نور اللہ اور صیّب اور چراغ دین وغیرہ اسماء متوفی لڑکے کے رکھے گئے تھے مگر یہ سب کی سب اِس کی صفات ذاتیہ تھیں۔ اس کے عمر پانے کی کوئی شرط الہام میں مذکور نہیں تھی بلکہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں ہی یہ لکھا ہوا تھا کہ:۔
’’خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے‘‘
اور مہمان وہی ہوتا ہے جس کا قیام عارضی اور چند روزہ ہو۔ ہاں اُس کی ذاتی فضیلت کے متعلق جو الہامات تھے اور جن میں اُسے مبشر اور بشیر اور نوراللہ اور صیّب اور چراغ دین وغیرہ قرار دیا گیا تھا اُن سے صرف اتنا پتہ لگتا تھا کہ وہ استعدادِ ذاتی میں اعلیٰ درجہ کا ہو گا یہ پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ زندہ بھی رہے گا اور لمبی عمر پائے گا۔ آپ نے فرمایا یہ بات ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر فرمایا لَوْعَاشَ اِبْرَاہِیْمُ لَکَانَ صِدِّیْقاً نَبِیّاً۔۱۸؎
اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی بن جاتا۔ اَب یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺاپنے پاس سے ابراہیم کو نبوت کا مقام نہیں دے سکتے تھے کیونکہ نبی خدا بناتا ہے انسان نہیں بناتا اور جبکہ آپ اُسے اپنی طرف سے نبوت کا مقام نہیں دے سکتے تھے تو آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی بن جاتا صاف بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً بتایا تھا کہ ابراہیم کی ذاتی قابلیت نبوت کی مستحق ہے مگر خداتعالیٰ کے نزدیک وہ عمر پانے والا نہیں تھا۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتایا کہ بشیر اوّل بیشک اپنے ذاتی کمالات کے لحاظ سے مبشر تھا، بشیر تھا، نور اللہ تھا،صیّب تھا، چراغ دین تھا مگر خدا کی مشیت میں وہ عمر پانے والا نہیں تھا جیسا کہ خدا کی طرف سے ہی بتایا گیا تھا کہ وہ مہمان کی طرح تمہارے پاس صرف چند دنوں کے لئے آئے گا۔ لیکن بعد کی خبریں اس بچہ کے متعلق ہیں جس کے متعلق یہ خبر ہے کہ وہ مصلح موعود ہو گا اور اسلام اور رسول کریمﷺ کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا۔ـ
ظُلمت کے بعد روشنی کے ظہور کی خبر
پھر فرمایا۔
’’الہامی… عبارت کی ترتیبِ بیانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پسر متوفی کے قدم اُٹھانے کے بعد پہلے ظلمت آئے گی اور پھر رعد اور برق۔ اِس ترتیب کے رُو سے اس پیشگوئی کا پورا ہونا شروع ہوا یعنی پہلے بشیر کی موت کی وجہ سے ابتلاء کی ظلمت وارد ہوئی (یعنی جب وہ فوت ہو گیا تو کئی لوگوں کو ٹھوکر لگی۔ اُن کے دلوں میں کئی قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں لوگوں کے یہ اعتراضات اُن کی کم فہمی کا نتیجہ تھے۔ اس ظلمت کا پہلے وارد ہونا الہامات کے رُو سے ضروری تھا) اور پھر اس کے بعد رعد اور روشنی ظاہر ہونے والی ہے۔‘‘ ۱۹؎
یعنی بشیر اوّل کی وفات سے جو ابتلا کی ظلمت پیدا ہو گئی تھی وہ اَب دُور ہو گی اور اِس کے بعد رعد اور روشنی کا ظہور ہو گا یعنی وہ لڑکا پیدا ہو گا جو زندہ رہنے والا ،اسلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچانے والا اور رسول کریم ﷺکی شان اور آپ کی عظمت کو بلند کرنے والا ہو گا اور وہ تمام کام سرانجام دے گا جن کا پیشگوئی میں تفصیلاً ذکر آتا ہے۔
پھر اور زیادہ وضاحت سے تحریر فرماتے ہیں۔
’’صاف ظاہر کیا گیا کہ ظُلمت اور روشنی دونوں اِس لڑکے کے قدموں کے نیچے ہیں یعنی اُس کے قدم اُٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے، اُن کا آنا ضرور ہے۔ سواے وے لوگو! جنہوں نے ظُلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اِس کے بعد اب روشنی آئے گی۔‘‘۲۰؎
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے نام اپنے ایک خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔
’’وفاتِ بشیر پر لوگوں کی شورش پر یہ الہام ہوا۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوآ اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ۔ وَقَالُوْا تَاللّٰہِ تَفْتَؤُا تَذْکُرُ یُوْسُفَ حَتّٰی تَکُوْنَ حَرَضاً اَوْتَکُوْنَ مِنَ الْھَالِکِیْنَ۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی لَھُمْ اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔۲۱؎ (یعنی کیا لوگ یہ سمجھے ہیںکہ اللہ تعالیٰ اُن کو بغیر امتحان لینے کے یونہی چھوڑ دے گا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے خاص بندوں کے زمانہ میں لوگوں کے ایمانوں کا امتحان لیا کرتا ہے اور اِس زمانہ میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ چنانچہ اِسی وجہ سے یہ پیشگوئی بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنی کیونکہ انہوںنے غلط اجتہاد سے کام لیا اور اِس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ پیشگوئی سچی ثابت نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لوگ تجھے کہیں گے کہ جس کی خبر تو دے رہا ہے وہ تجھے کبھی نہیں ملے گا جس طرح یوسفؑ کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ تو اِسی طرح یوسفؑ کا ذکر کرتا رہے گا یہاں تک کہ تیری عقل یا تیرے جسم میں بیماری پیدا ہو جائے گی اور یا تُو اِسی غم میں ہلاک ہو جائے گا۔ اِس زمانہ کے لوگ بھی تجھے کہیں گے کہ تیرے ہاں کوئی ایسا بیٹا پیدا نہیں ہو گا تُو اِسی طرح اِس کا ذکر کرتے کرتے مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ اِن کہنے والوں کے منہ کالے ہو جائیں گے۔ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ حَتّٰی حِیْنٍ۔ کچھ دیر کے لئے تُو ان سے منہ پھیر لے۔ اللہ تعالیٰ بہرحال اِس پیشگوئی کو پورا کرے گا۔ اِنَّ الصَّابِرِیْنَ یُوَفّٰی لَھُمْ اَجْرُھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں اور اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اعلیٰ سے اعلیٰ اجر عطا فرمائے گا۔)
پھر اِسی خط میں آپ تحریر فرماتے ہیں۔
’’ایک الہام میں اِس دوسرے فرزند کا نام بھی بشیر رکھا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا۔ یہ وہی بشیر ہے جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ جس کی نسبت فرمایا اولوالعزم ہو گا اور حُسن اور احسان میں تیرا نظیر ہو گا۔ یَخْلُقُ مَایَشَائُ ‘‘۲۲؎
اِن الہامات اور حوالوں سے ثابت ہے کہ جس موعود کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی گئی تھی، اُس نے یقینا ایسے ہی زمانہ کے لوگوں میں آنا تھا جو اِس پیشگوئی کے مخاطب تھے کیونکہ جو سات اغراض اِس پیشگوئی کی ظاہر کی گئی ہیں وہ اِسی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ سات اغراض میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ لیکن اِس موقع پر پھر اُن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
پیشگوئی مصلح موعود کی سات اہم اغراض
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار
میں ذکر فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پیشگوئی جو دنیا کے سامنے کی گئی ہے، اِس کی کئی اغراض ہیں۔
اوّل یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ اِس پیشگوئی نے چار سَو سال کے بعد پورا ہونا ہے تو اِس کے معنی یہ بنیں گے کہ مَیں نے یہ پیشگوئی اِس لئے کی ہے کہ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں وہ بے شک مرے رہیں چار سَو سال کے بعد اُن کو زندہ کر دیا جائے گا۔ یہ فقرہ بِالبداہت باطل اور غلط ہے۔ آپ فرماتے ہیں یہ چِلّہ اِس لئے کیا گیا ہے تاکہ وہ لوگ جو دینِ اسلام سے منکر ہیں، اُن کے سامنے خداتعالیٰ کا ایک زندہ نشان ظاہر ہو اور جو رسول کریمﷺ کی کرامت کا انکار کر رہے ہیں ان کو ایک تازہ اور زبردست ثبوت اس بات کا مل جائے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے۔ وہ الہامی الفاظ جو اِس پیشگوئی کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہیں یہ ہیں کہ:
’’خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں‘‘۔
اَب اگر اُن لوگوں کے نظریہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ مصلح موعود تین چار سَو سال کے بعد آئے گا تو اِس فقرہ کی تشریح یوں ہوتی ہے کہ یہ پیشگوئی اِس لئے کی گئی ہے تاکہ وہ لوگ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں مرے رہیں چار سَو سال کے بعداُن کی نسلوں میں سے بعض لوگوں کو زندہ کر دیا جائے گا مگر کیا اِس فقرہ کو کوئی شخص بھی صحیح تسلیم کر سکتا ہے۔
دوسرے یہ پیشگوئی اِس لئے کی گئی تھی تادینِ اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر عیاں ہو۔ اِس فقرہ کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ دین اسلام کا شرف اِس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ اِسی طرح کلام اللہ کا مرتبہ اِس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ مگر کہا یہ جاتا ہے کہ خدا نے یہ پیشگوئی اِس لئے کی ہے تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ آج سے تین سَو سال کے بعد یا چار سَو سال کے بعد جب یہ لوگ بھی مر جائیں گے، اِن کی اولادیں بھی مر جائیں گی اور اُن کی اولادیں بھی مر جائیں گی، لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ جب نہ پنڈت لیکھرام ہو گا نہ منشی اندرمن مراد آبادی ہو گا نہ اِن کی اولادیں ہوںگی اور نہ اُن اولادوں کی اولادیں ہوں گی۔ اُس وقت دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا جائے گا۔ بتاؤ کہ کیاکوئی بھی شخص اِن معنوں کو درست سمجھ سکتا ہے؟
تیسرے آپ نے فرمایا یہ پیشگوئی اِس لئے کی گئی ہے تاکہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آ جائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اِس کے معنی بھی ظاہر ہیں کہ حق اِس وقت کمزور ہے اور باطل غلبہ پر ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسا نشان ظاہر ہو کہ عقلی اور علمی طور پر دشمنانِ اسلام پر حُجّت تمام ہو جائے اور وہ لوگ اِس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام حق ہے اور اس کے مقابل میں جس قدر مذاہب کھڑے ہیں وہ باطل ہیں۔
چوتھی غرض اِس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اَب یہ غور کرنے والی بات ہے کہ لوگ خداتعالیٰ کو اِس صورت میں کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ تین سَو سال کے بعد یا چار سَو سال کے بعد ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جس سے تم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کا خدا قادر ہے، ایسی پیشگوئی کو لیکھرام کیا اہمیت دے سکتا تھا یا وہ لوگ جو اُس وقت دین اسلام پر اعتراضات کر رہے تھے، رسول کریم ﷺ کے نشانات کو باطل قرار دے رہے تھے، اسلام کو ایک مُردہ مذہب قرار دے رہے تھے اُن پر کیا حُجّت ہو سکتی تھی کہ تم چار سَو سال کے بعد خدا تعالیٰ کو قادر سمجھنے لگ جاؤ گے۔ـ چار سَو سال کے بعد پوری ہونے والی پیشگوئی سے وہ لوگ خداتعالیٰ کو کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے۔ وہ تو یہی کہتے کہ ہم اِن زبانی دعووں کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ چار سَو سال کے بعد ایسا ہو جائے گا۔ یہ تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے بات تب ہے کہ ہمارے سامنے نشان دکھایا جائے اور اسلام کے خدا کا قادر ہونا ثابت کیا جائے۔
پانچویں غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ اگر اِس پیشگوئی نے چار سَو سال کے بعد ہی پورا ہونا تھا تو اُس زمانہ کے لوگ یہ کس طرح یقین کر سکتے تھے کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔
چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا اُنہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کُھلی نشانی ملیـ۔ اِس کے معنی بھی یہی بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو میرے زمانہ میں اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں، اُن کے سامنے میں یہ پیشگوئی کرتا ہوںکہ اُنہیں اسلام کی صداقت کی ایک بڑی کھلی نشانی ملے گیـ مگر ملے گی چار سَو سال کے بعد۔ جب موجودہ زمانہ کے لوگوں بلکہ اِن کی اولادوں اور اُن کی اولادوںمیں سے بھی کوئی زندہ نہیں ہو گا۔
ساتویں آپ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشگوئی اِس لئے کی گئی ہے تاکہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ چار سَو سال کے بعد آنے والے وجود سے اِس زمانہ کے لوگوں کو کیونکر پتہ لگ سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بو ل رہے تھے۔
نو سالہ میعاد
پھر اشتہارات میں آپ نے یہ بھی تحریر فرما دیا تھا کہ ایسا لڑکا بموجب الہام الٰہی ۹ سال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا۔ اِس سے صاف ظاہر
ہے کہ الہام الٰہی اِس کی پیدائش کو ۹ سال میں ضروری قرار دیتا ہے۔ یہاں اجتہاد کا کوئی سوال نہیں بلکہ آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ الہام ہے کہ وہ لڑکا ۹ سال کے اندر ضرور پیدا ہو جائے گا۔ پس تین یا چار سَو سال کے بعد اگر کوئی شخص اِس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ کرے تو بہرحال ایسا شخص ہی اِس کے مصداق ہونے کا اعلان کر سکتا ہے جو پیدا ۹ سال میں ہوا ہو لیکن ظاہر تین سَو یا چار سَو سال کے بعد ہوا ہو کیونکہ الہام اِس بات کی تعیین کرتا ہے کہ آنے والے موعود کو بہرحال ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء سے ۲۰؍ فروری ۱۸۹۵ء تک کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہو جانا چاہئے اِس عرصہ کے بعد پیدا ہونے والا کوئی شخص اِس پیشگوئی کا مصداق نہیں ہو سکتا ۔
مصلح موعود کی پیدائش
بشیر اوّل کے ساتھ مقدر تھی
پھر فرمایا کہ الہامِ الٰہی نے بتایا تھا کہ:-
’’اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘۔ اِس سے بھی ظاہر ہے کہ مصلح موعود
کی پیدائش بشیر اوّل کے ساتھ وابستہ ہونی چاہئے ورنہ یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ بشیر اوّل فوت ہو جائے اور اِس کے تین یا چار سَو سال کے بعد مصلح موعود ظاہر ہو اور اُس کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ بشیر اوّل کے ساتھ آیا ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں ہو سکتا جو دو مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آنے والا کہہ سکے۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ بشیر اوّل جو پیدا ہو کر فوت ہو گیا اُس کے ساتھ آنے والا اُس شخص کو قرار دیا جائے جو تین یا چار سَو سال کے بعد ظاہر ہو۔ اگر اِس طرح ایک کی پیدائش دوسرے کے ساتھ وابستہ سمجھی جا سکتی ہے تو پھر تو کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ مَیں آدم کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ ’’ساتھ‘‘ کے مفہوم میں یہ بات داخل ہوتی ہے کہ دوسرا پیدا ہونے والا اتنا قریب ہو کہ اُسے پہلے کے ساتھ کہا جا سکے۔
ظلمات اور رعدوبرق
پھر فرمایا کہ اَوْکَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَائِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌّ وَّبَرْقٌ کے الہام میں ظلمات سے مراد بشیر اوّل کی موت ہے
اور رعدوبرق سے مراد دوسرے بشیر کا ظہور ہے۔ اِس الہام میں ایک ہی نام دونوں کے رکھ کر یعنی صَیِّبٌ قرار دے کر دو ظہوروں کی خبر دینا بتاتا ہے کہ دونوں ایک ہی زمانہ میں ہوں گے۔ بشیر اوّل کا ظہور فِیْہِ ظُلُمٰتٌ والے حصہ کی صداقت کا ثبوت ہو گا اور بشیر ثانی کا ظہور رعد اور برق والے حصہ کی صداقت کا ثبوت ہو گا۔ گویا بادل تو ایک ہی ہے مگر اِس کے نتائج تین ہیں۔ ہر بادل جو آسمان پر آتا ہے اُس کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ تاریکی پیدا کر دیتا ہے اِس کے بعد جب بارش برستی ہے تو اِس کے نتیجہ میں رعد پیدا ہوتی ہے اِسی طرح بجلی کے چمکنے سے روشنی ظاہر ہوتی ہے گویا صَیِّبٌ تو ایک ہوتا ہے مگر اِس کے نتائج تین ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے بادل ایک رکھا ہے مگر اِس کے نتائج تین بیان کئے ہیں۔ یعنی ظلمات، رعد اور برق۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ اِس صیب کا ایک نتیجہ جو ظلمات سے تعلق رکھتا ہے بشیر اوّل ہے اور دوسرا نتیجہ جو رعد اور برق سے تعلق رکھتا ہے بشیر ثانی ہے۔ اگر یہ معنی لئے جائیں گے کہ بشیر ثانی تین سَو سال کے بعد ظاہر ہو گا تو اِس کے معنی یہ بنیں گے کہ بادل تو آج آیا ہے اور اِس بادل کی ظلمات بھی آج ظاہر ہو گئی ہیں مگر اِس بادل کی رعد اور برق تین سَو سال کے بعد ظاہر ہوں گی۔ حالانکہ یہ بالکل عقل کے خلاف ہے کہ ایک بادل کی ظلمات آج ظاہر ہوں اور اُس کی رعد اور برق تین چار سَو سال کے بعد ظاہر ہوں۔ بیشک مثال مثال ہی ہوتی ہے مگر مثال کے چسپاں کرنے کے لئے دونوں میں مشابہت کا پایا جانا تو ضروری ہوتا ہے۔ اگر مشابہت نہ ہو تو مثال دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بادل کی مثال دی ہے اور غور کر کے دیکھ لو دنیا میں کوئی بادل ایسا نہیں ہوتا جس کی تاریکی آج ظاہر ہو اور اُس کی رعد اور برق چار سَو سال کے بعد ظاہر ہو۔ اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رعد اور برق ظلمت کے بعد اتنے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونی چاہئے کہ اِن تینوں کا ایک ہی زمانہ قرار دیا جائے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے یعنی بشیر اوّل کی موت کے بعد دوسرا بشیر قریب ترین عرصہ میں پیدا ہو جائے تاکہ دوسرے بشیر کو پہلے بشیر کے ساتھ قرار دیا جا سکے۔
پھر فرماتے ہیں الہام سے ظاہر ہے کہ ظلمت اور روشنی دونوں بشیر اوّل کے قدموں کے نیچے ہیں۔ یعنی اُس کی موت کے بعد یہ دونوں امر ظاہر ہوں گے۔ اِس سے بھی ظاہر ہے کہ بشیر ثانی کا ظہور بشیر اوّل کی موت کے ساتھ ہی ہونے والا تھاـ ورنہ اُس کے قدموں کے نیچے ہونا ایسے امر کو کس طرح کہا جا سکتا تھا جو تین سَو سال کے بعد ہونے والا تھا۔
ایک شُبہ کا ازالہ
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کے سلسلہ میں بعض دفعہ ایک نبی کو دوسرے نبی کے ساتھ آنے والا قرار دے دیا جاتا ہے خواہ اِن دو نبیوں کے
درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو مگر یہاں اِس مثال کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اِس لئے کہ بشیر اوّل مامور نہیں تھا۔ اگر ایک مامور دنیا میں آئے تو اِس کے بعد دوسرے مامور کی بعثت تک کا تمام زمانہ ایک ہی سمجھا جاتا ہے اور جب دوسرا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مامور فلاں مامور کے ساتھ آیا۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئے اور انہوں نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا۔ اَب اُن کا زمانہ صرف اتنا ہی نہیں تھا جتنے عرصہ تک وہ زندہ رہے بلکہ چھ سَو سال تک اُن کا زمانہ جاری رہایہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے۔ پس بیشک انبیاء علیہم السلام میں بعض دفعہ ایک نبی کو دوسرے نبی کے ساتھ آنے والا قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ اُن دونوں کے درمیان ایک لمبا فاصلہ ہوتا ہے لیکن یہاں اِس مثال کو اِس لئے پیش نہیں کیا جا سکتا کہ بشیر اوّل مامور نہیں تھا بلکہ ایک بچہ تھا جو چند دن زندہ رہ کر فوت ہو گیا اِس کے ذریعہ کوئی ایسا نشان قائم نہیں ہوا جو تین سَو سال تک جاری رہتا۔ اگر تو بشیر اوّل زندہ رہتا، مأموریت کا دعویٰ کرتا اور پھر تین سَو سال کے بعد دوسرا مأمور آجاتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ دوسرا مأمور پہلے مأمور کے ساتھ آیا۔ـ درمیانی تین سَو سال کے عرصہ کو بشیر اوّل کی ماموریت کا زمانہ قرار دے دیا جاتا۔ مگر جس شخص کو صرف جسمانی حیات حاصل ہوئی ہے، ماموریت نہیں ملی، اُس کے ساتھ آنے والا کبھی ایسے شخص کو نہیں کہا جا سکتا جو تین سَو سال کے بعد ظاہر ہو۔ پس بشیر اوّل اور بشیر ثانی کا تین سَو سال کا وقفہ کسی طرح بھی درست ثابت نہیں ہو سکتا۔
خوشی سے اُچھلنے کے الفاظ سے استنباط
پھر فرماتے ہیں۔
’’اَے لوگو! جنہوں نے ظُلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو۔ بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اِس کے بعد اَب روشنی آئے گی‘‘۔
اِس فقرہ کو بھی اگر اُس تشریح کی روشنی میں دیکھا جائے جس میں تین سَو سال کے بعد مصلح موعود کا ظاہر ہونا بتایا جاتا ہے تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اے لوگو! تم حیرانی میں کیوں پڑتے ہوئے ہو آج سے تین سَو سال کے بعد روشنی آنے والی ہے اور اے لوگو! جو ظلمت میں اپنی عمریں گزار رہے ہو تم خوشی سے اُچھلو اور کُودو کیونکہ تین سَو سال کے بعد روشنی ظاہر ہو گی۔ اِس کے جواب میں کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم کیوں اُچھلیں اور کُودیں۔ اگر اُچھلنے کی ضرورت ہے تو وہ نسلیں اُچھلیں گی جن کے زمانہ میں یہ روشنی ظاہر ہو گی ہم سے یہ کیوں مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ہم اِس ظلمت میں ہی اُچھلنے اور کُودنے لگ جائیں۔ ہمارے سامنے تو اسلام پر اعتراضات ہو رہے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا سے مٹایا جا رہا ہے، قرآن کریم کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ایک ناقابلِ عمل کتاب قرار دیا جا رہا ہے مگر کوئی روشنی ہمارے سامنے ظاہر نہیں ہوئی جو اِس ظلمت کو دُور کر دے۔ اگر کسی آنے والی روشنی پر اُچھلنا ضروری ہے تو وہی لوگ خوشی سے اُچھل سکتے ہیں جو اِس روشنی کو دیکھ لیں۔ ہم نے تو اِس روشنی کو دیکھا ہی نہیں پھر ہم کس طرح خوشی منا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ہی کہ:۔
’’اے لوگو!جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اِس کے بعد اَب روشنی آئے گی۔‘‘
صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہزاروں لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ یہ روشنی ظاہر ہو جائے گی اِس لئے وہ لوگ جو اِس روشنی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اُن سے کہا گیا کہ وہ خوش ہوں اور خوشی سے اُچھلیں۔ غرض یہ الفاظ بھی اِس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اِس زمانہ کے لوگوں کے لئے ہی خوشی سے اُچھلنے اور کُودنے کا وقت ہے کیونکہ یہ روشنی اُن کے سامنے ظاہر ہو گی۔
شَاھَتِ الْوُجُوْہُ
پھر حضرت خلیفۃ اوّل کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے خط میں ایک الہام تحریر فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ لوگ
کہتے ہیں تُو یوسف کی یاد کرتے کرتے یا تو دیوانہ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا یعنی تیرے زمانہ میں وہ ظاہر نہیں ہو گا مگر فرماتا ہے۔ شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ اِن دشمنوں کے منہ کالے ہو جائیں گے اور تُو ضرور یوسف کو دیکھے گا۔ـ اِس سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اِ س موعود کا پیدا ہونا ضروری ہے ورنہ حضرت یوسفؑ اور حضرت یعقوبؑ کی مثال کے کیا معنی ہو سکتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ اور حضرت یعقوبؑ کی مثال اِسی صورت میںچسپاں ہو سکتی تھی جب آپ کو بھی اپنا یوسف زندگی میں مل جاتا کیونکہ حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسفؑ کو اپنی زندگی میں دیکھ لیا تھا۔ـ یہ نہیں ہوا کہ اُن کی وفات کے تین سَو سال کے بعد کہیں اِن کی نسل کو یوسف کا پتہ لگا ہو۔ یہ پیشگوئی صاف بتا رہی تھی کہ لوگ اعتراض کریں گے اور کہیں گے کہ تُو یوسف کی یاد کرتے کرتے یا دیوانہ ہو جائے گا یا اِسی حالت میں مَر جائے گا تیرے زمانہ میں وہ ظاہر نہیں ہو گا لیکن فرماتا ہے شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔ اللہ تعالیٰ اِن دشمنوں کے منہ کالے کر دے گااور تُو اپنی زندگی میں یوسف کو دیکھ لے گا یعنی یہ پیشگوئی کسی اور زمانہ میں نہیں بلکہ تیرے زمانہ میں اور تیری زندگی میں ہی پوری ہو جائے گی۔
بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں
پھر فرماتے ہیں ایک دوسرے بشیر کا وعدہ ہے جس کا نام محمود بھی ہے۔ چنانچہ فرمایا۔
’’خداتعالیٰ نے اِس عاجز پر ظاہر کیا کہ ایک دوسرا بشیر تمہیں دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہے وہ اپنے کاموں میں الوالعزم ہو گا۔ یَخْلُقُ اللّٰہُ مَایَشَائُ ‘‘ ۲۳؎
اِسی طرح پندرہ جولائی ۱۸۸۸ء کے اشتہار میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ایک اور لڑکاہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا جس کا نام محمود احمد ہوگا‘‘۔۲۴؎
اِس سے معلوم ہوا کہ بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں اور محمود کی نسبت یہ وعدہ ہے کہ وہ ’’قریب مدت‘‘ میں پیدا ہو گا۔ گویا اِس میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔
اوّل یہ کہ بشیر ثانی اور محمود ایک ہی ہیں۔دوسرے یہ کہ وہ بشیر اوّل کے بعد ’’قریب مدت‘‘ میں پیدا ہو گا۔ اِن الہامات کے مطابق لازماً بشیر اوّل کی وفات کے بعد قریب مدت میں اِس موعود کا پیدا ہونا ضروری تھا۔
اِن تمام الہامات سے جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ثابت ہوتا ہے کہ مصلح موعود کا ۹ سال میں اور قریب مدت میں بشیر اوّل کے قریب زمانہ میں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اور اُن لوگوں کی زندگی میں جن کو بشیر اوّل کی وفات کا صدمہ ہوا تھا اور بہت سے اُن دشمنوں کی زندگی میں جو اسلام کی اُس وقت مخالفت کر رہے تھے اور اسلام کی فتح سے گھبراتے تھے پیدا ہونا ضروری تھا اور یقینا مصلح موعود ۹ سال کے عرصہ میں، قریب مدت میں، بشیر اوّل کے قریب زمانہ میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی پیدا ہوا اور اُن لوگوں کی زندگی میں ظاہر ہواجن کو بشیر اوّل کی وفات کی وجہ سے لوگوں کے طعنے سُننے پڑتے تھے اور بہت سے اُن دشمنوں کی زندگی میں پیدا ہوا جو اسلام کی صداقت کا کوئی نشان دیکھنا چاہتے تھے، جو اسلام کی اُس وقت شدید ترین مخالفت کر رہے تھے اور اسلام کی فتح سے سخت گھبراتے تھے۔
مصلح موعود کی احادیث میں خبر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مصلح موعود کی خبر دیتے ہیں اور اُس کا ظہور زمانہ مسیح موعود میں ہی
بتاتیہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ ۲۵؎
مسیح موعود شادی کرے گا اور اُس کے ہاں اولاد پیدا ہو گی۔ اَب اِس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ مسیح موعود کے ہاں ویسی ہی معمولی اولاد پیدا ہو جائے گا جیسی اور لوگوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے کیونکہ اگر اِس کے یہی معنی ہوں تو پھر اِس پر وہی اعتراض پیدا ہو گا جو غیراحمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پر کیا کرتے تھے کہ اولاد ہونا کونسی بڑی بات ہے، دنیا میں ہر شخص کے ہاں اولاد ہوا ہی کرتی ہے اور یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ اگر محض اِتنی خبر دی جائے کہ ایک لڑکا پیدا ہو گا تو یہ کوئی خاص پیشگوئی نہیں کہلا سکتی۔ اِسی طرح جب رسول کریمﷺ نے یہ فرمایا کہ مسیح موعود کے ہاں اولاد پیدا ہو گی تو اِس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ اُس کے ہاں معمولی اولاد پیدا ہو گی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو رسول کریمﷺ کو خاص طور پر یہ خبر دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ کا یہ خبر دینا بتاتا ہے کہ رسول کریمﷺ کا منشاء یہ تھا کہ اُس کے ہاں خاص اولاد پیدا ہو گی ویسے ہی کمالات اور ویسے ہی اوصاف رکھنے والی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِنْ ھٰؤُلَائِ ۲۶؎
بخاری کتاب التفسیر میں بھی یہ حدیث آتی ہے اور وہاں الفاظ یہ ہیں کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ اَوْ رَجَلٌ مِنْ ھٰؤُلَائِ ۲۷؎
یعنی اگر ایمان ثریا پر بھی جا چکا ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اُسے زمین پر واپس لائیں گے۔ پس صرف مسیح موعودؑ کے متعلق ہی رسول کریم ﷺنے پیشگوئی نہیں فرمائی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے بعض اور افراد کے متعلق بھی پیشگوئی فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ تمام افراد مل کر ثریا سے ایمان واپس لائیں گے۔ اَب اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے تین سَو سال کے بعد پوری ہو گی اور دوسرا رَجُل آئندہ کسی اور زمانہ میں آئے گا تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ مسیح موعود کے ذریعہ پیشگوئی کا ایک حصہ پورا ہونے کے بعد پھر ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور پھر بشیر ثانی اُس کو آسمان سے واپس لائے گا حالانکہ خود مولوی محمد علی صاحب کا بھی یہ عقیدہ نہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ تین سَو سال تک یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا درمیان میں کوئی گمراہی اور ضلالت کا دَور نہیں آئے گا اور جبکہ یہ سلسلہ ترقی کرتا چلا جائے گا تو انتہائی ترقی کے دَور میں مصلح موعود کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے۔ مصلح موعود تین سَو سال کے بعد اِسی صورت میں آ سکتا ہے جب مسیح موعود کے ذریعہ پہلے ہدایت کا بیج بویا جائے، پھر گمراہی اور ضلالت کادَور آ جائے اور پھر ایک فارسی الاصل انسان ایمان کو ثریا سے واپس لائے۔ حالانکہ غیر مبائعین بھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ تین سَو سال تک ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا۔ بہرحال مصلح موعود کا زمانہ مسیح موعود میں ہی ظاہر ہونا ضروری تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور آپ کی تشریحات سے بھی یہی ثابت ہوتا تھا۔ـ
ایک عظیم الشان رؤیا
اِس پیشگوئی کو جماعت کے کئی افراد مجھ پر چسپاںکیا کرتے تھے مگر مَیں سنجیدگی سے کبھی اِس مسئلہ پر غور نہیں کرتا تھا، کیونکہ جیسا
کہ مَیں نے بار ہا بتایا ہے مَیں سمجھتا تھا اگر اِس پیشگوئی کے مصداق کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ الہامِ الٰہی سے دعویٰ کرے تو مجھے اپنی طرف سے اِس دعویٰ کی ضرورت نہیں۔ اگر خدا میری زبان سے اِس کے متعلق کوئی اعلان کرانا چاہے گا تو وہ خود کرا لے گا اور اگر اِس کے مصداق کے لئے کسی الہام کی ضرورت نہیںتو مجھے بھی کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں۔ بہرحال یہ ایک پیشگوئی ہے جس پر غور کر کے لوگ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اگر اِس کے لئے الہام کی ضرورت ہے تو میں بغیر الہام کے دعویٰ کر کے کیوں گنہگار بنوں۔ جسے الہام ہو گا وہ خود دعویٰ کر دے گا اور اگر اِس کیلئے الہام کی ضرورت نہیںتو پھر دعویٰ کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ جنوری ۱۹۴۴ء کے دوسرے ہفتہ میں مجھے ایک رؤیا ہوا۔
پہلے میں نے کہا تھا کہ یہ رئویا’’غالباً پانچ اور چھ( جنوری )کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی۔‘‘ مگر اب تحقیق سے معلوم ہواہے کہ یہ رئویا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہوا۔ کیونکہ یہ رئویا میں نے اپنی بیوی مریم صدیقہ کے ہسپتال جانے کے بعد دیکھا تھا اور مریم صدیقہ کا آپریشن لاہور میںجمعہ ۷؍جنوری کو ہوا تھا اور اُس دن وہ ہسپتال میں داخل ہو چکی تھیں۔ پس یہ رؤیا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہوا۔ اُس رات وہ میرے کمرہ میں نہیں تھیں بلکہ آپریشن کے لئے ہسپتال میں داخل تھیں ۔ یہ رؤیا میں نے دوسرے ہی دن چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو سُنا دیا تھا اور اِس کے ایک دن بعد اُن کے برادر نسبتی کا ولیمہ تھا جو معلوم ہوا ہے کہ اتوار کو تھا۔ بہرحال یہ رؤیا جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو میں نے دیکھا۔
یہ رؤیا میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں مگر اِس موقع پر مَیں وہ رؤیا ایک بار پھر دوستوں کو سُنا دیتا ہوں۔
میں نے دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہورہی ہے۔ وہاں کچھ عمارتیں ہیں نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹرنچز۲۸؎ (TRENCHES)ہیں۔ بہرحال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق مَیں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے اُن سے تعلق ہے، مَیں اُن کے پاس ہوں اِتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اُس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں برسر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ مَیں وہاں ہوں اور اُس نے اُس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اُس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی، اِس کا مجھے اُس وقت کوئی خیال نہیں آیا۔ بہرحال وہاں جو فوج تھی اُس کو جرمنوں سے دبنا پڑا اور اُس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اُس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں مَیں تھا۔ تب میں خواب میں کہتاہوں دشمن کی جگہ پر رہنادرست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اَب اِس جگہ ٹھہرا جائے، یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے۔ اُس وقت مَیں رؤیا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دَوڑتا ہوں۔ میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رؤیا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے مَیں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبردست طاقت مجھے تیزی سے لے جا رہی ہے کہ میلوں میل ایک آن میں مَیں طے کرتا جا رہا ہوں۔ اُس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ گئے اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے آ رہے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رؤیا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ مَیں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامنِ کوہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے، رؤیا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اُس میں اِس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھاکہ جب وہ موعود اُس مقام سے دَوڑے گا تو اِس اِس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا۔ چنانچہ رؤیا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اُس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اِس اَمر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے مَیں اختیار کروں گا اور اُس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا۔ چنانچہ جب مَیں یہ خیال کرتا ہوں تو اُس مقام پر مجھے کئی ایک پگ ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف۔ میں اُن پگ ڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ مَیں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کر لوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں۔ اُس وقت میں اُس سڑک کی طرف جارہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اُس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اِس سڑک پر نہیں، دوسری سڑک پر جائیں اور میں اُس کے کہنے پر اُس سڑک کی طرف جو بہت دُور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں۔ وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سزک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی۔ پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بُلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اِس لئے میں لوٹ کر اُس سڑک کی طرف چلا مگر جس وقت مَیں پیچھے کی طرف واپس ہٹا ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اِس زبردست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگ ڈنڈی پر چلا دیا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اُس طرف نہیں اِس طرف، اُس طرف نہیں اِس طرف۔ مگر مَیں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگ ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں۔(اس جگہ کی شکل رؤیا کے مطابق اِس طرح بنتی ہے)




جب میں تھوڑی دُور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں میں اُسی راستہ پر آ گیا جو خداتعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا۔ اُس وقت رؤیا میں مَیں اِس کی کچھ توجیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگ ڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اِس کا کیا مطلب ہے۔ چنانچہ جس وقت میری آنکھ کُھلی معاً مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رؤیا میں دکھایا گیا ہے، اِس میں بائیں رستہ سے مراد خالص دُنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق، دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہو گی۔ یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی۔ اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو! قرآن شریف نے اُمت محمدیہ کو اُمَّۃً وَسَطاً ۲۹؎ قرار دیا ہے ۔ اِس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنی ہیں کہ یہ اُمّت اسلام کا کامل نمونہ ہو گی اور چھوٹی پگ ڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ درمیانی راستہ گو درست راستہ ہے مگر اِس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں۔
غرض مَیں اُس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اِتنی دُور کہ نہ اُس کے قدموں کی آہٹ سُنائی دیتی ہے اور نہ اُس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے۔ اُس وقت میں کہتا ہوں کہ اِس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اُس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اِس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اُس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اُس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاںہے؟ جب میں نے کہا وہ پانی کہاں ہے تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس جھیل کے پار ہو جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے۔ مَیں نے اُس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تَیر رہی ہیں ۔ وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیے۳۰ ؎ وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اژدہا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیے کے گھونسلے سے سفیدی، زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا ہو، وہ پانی پر تَیر رہی ہیں اور اُن کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو اُن کو چلا رہے ہیں۔ خواب میں مَیں سمجھتا ہوں یہ بُت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں، اُن کے بُت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اَب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو مَیں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بُت پر سوار ہو گیا۔ تب مَیں نے سُنا کہ بتوں کے پُجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے گرنے لگے۔ اِس پر مَیں نے دل میں کہا کہ اِس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے مَیں نے توحید کی دعوت اُن لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی بُرائیاں بیان کرنے لگا۔ تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اُردو نہیں بلکہ عربی ہے۔ چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں۔ رؤیا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ اِن لوگوں کی زبان تو عربی نہیں، یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو اِن کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتیں خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ میں اِسی طرح اُن کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے اُن کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بُت اِس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اِسی کشتی نما بُت والا جس پر میں سوار ہوں یا اُس کے ساتھ کے بُت والا بُت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحّد ہو گیا ہے۔ اِس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا، مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنے میںہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو مَیں اُن کو حکم دیتا ہوں کہ اِن بُتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا پانی میں غرق کر دیا جائے۔ اِس پر جو لوگ موحّد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحّد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں، میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بُتوںکو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور مَیں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اِس آسانی سے جھیل کی تَہہ میں کس طرح چلے گئے۔ صرف پجاری پکڑ کر اُن کو پانی میں غوطہ دیتے ہیںاور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اِس کے بعد مَیں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اِس لئے مَیں نے اُن کو تبلیغ کرنی شروع کر دی، یہ تبلیغ میں اُن کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں۔ جب میں اُنہیں تبلیغ کر رہا ہوں تا کہ وہ لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جا رہی ہیں جیسے خطبہ الہامیہ تھا، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا۔ غرض میرا کلام اُس وقت بند ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے۔بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا، غالباً کا لفظ مَیں نے اِس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو۔ ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے با اثر اور مفید وجود تھا۔ بہر حال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اُس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے۔ میں اُس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیاہے، میں اب آگے جائوں گا اِس لئے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اِس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔ تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹا دے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے؟ میں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گااور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لئے مقرر کیا ہے اُن کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے۔ اِس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور مَیں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اُسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اُس کے بندہ اور رسول ہیں۔ اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اِس کے سکھانے کا اُسے حکم دیتا ہوں ۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اِس ایمان کی طر ف بُلانے کی تلقین کرتا ہوں۔ جس وقت مَیں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے) یوں معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں۔ ’’اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘
اِس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور آپ فرماتے ہیں۔’’اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ ‘‘
اِس کے بعد میں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔ چنانچہ اُس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہو اوہ یہ ہے۔
’’وَاَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ‘‘
اور میں بھی مسیح موعود ہوں۔یعنی اُس کا مثیل اور اُس کا خلیفہ ہوں۔ تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اِس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں؟ اُس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اِس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مَثِیْلُہٗ میں اس کا نظیرہوں۔ وَ خَلِیْفَتُہٗ اور اُس کا خلیفہ ہوں ۔ یہ الفاظ اِس سوال کوحل کر دیتے ہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حُسن واحسان میں تیرا نظیر ہو گا اِس کے مطابق اور اِسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اُس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میںمَیں بھی مسیح موعودؑ ہی ہوں۔ کیونکہ جو کسی کا نظیر ہو گا اور اُس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گاوہ ایک رنگ میں اُس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا۔
پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے اُنیس سَو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔ اور جب میں کہتا ہوں ۔’’میں وہ ہوں جس کے لئے اُنیس سوسال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں‘‘تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا ۹ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں۔ مجھے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں’’ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم اُنیس سَو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں۔‘‘ اِس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علومِ اسلام اورعلومِ عربی اور اِس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اُس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔
رؤیا میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی، اُس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہو گی اور جب وہ اُس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہو گی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اُس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائے گی۔ تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا،اُس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اِس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کہے گی ہم لڑکر مر جائیں گے مگر اِسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔ چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم اِن کو ہمارے حوالے کر دو۔ اُس وقت میں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم باوجود اِس کے کہ ابھی ایک حصہ اِس کا ایمان نہیں لایا، بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز اِن کو تمہارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم لڑکرفنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اِس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ تب مَیں کہتا ہوں دیکھو! وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی۔
اِس کے بعد میں پھر اُن کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں۔ اِس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اِس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں چنانچہ اِسی لئے میں اُس شخص سے جسے میں نے اُس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب میں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے، موحّد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کاربند ہو چکی ہے۔۳۱؎
یہ رؤیا سات آٹھ جنوری ۱۹۴۴ء کی درمیانی شب خداتعالیٰ نے مجھے دکھایا جس سے یہ بات آسمانی طور پر مجھ پر ظاہر ہو گئی کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک بیٹے کے متعلق فرمائی تھی اور جس کے متعلق یہ تعیین فرمائی تھی کہ وہ ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء سے ۹ سال کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا تھا کہ وہ اُسے آپ کا جانشین بنائے گا، اُس سے آپ کے کام کی تکمیل کروائے گا اور اُس کے وجود میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں کو بھی پورا کرے گا،وہ مَیں ہی ہوں۔ چنانچہ ۲۸؍جنوری کو قادیان کی مسجد اقصیٰ میں جمعہ کے دن میں نے اپنے خطبہ میں اِس کا اعلان کر دیا اور چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے مجھ پر یہ انکشاف کیا گیا ہے اِس لئے گو مَیں پہلے بھی مختلف مقامات پر اِس کا اعلان کر چکا ہوں مگر اَب جبکہ ساری جماعت یہاں جمع ہے مَیں اِس کے سامنے ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اِذن اور اِسی کے انکشاف کے ماتحت میں اس امر کا اقرار کرتا ہوں کہ وہ مصلح موعود جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت دنیا میں آنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدرتھا کہ وہ اسلام اور رسول کریمﷺ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا، اور اس کا وجود خداتعالیٰ کے جلالی نشانات کا حامل ہو گا، وہ مَیں ہی ہوں اور میرے ذریعہ ہی وہ پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک موعود بیٹے کے متعلق فرمائی تھیں۔ یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لئے دعوے دار نہیں ہوں۔ میں فقط خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہ ﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اِس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اِسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آ جائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔
مجھے کسی دعوے کا شوق نہیں ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی جب خدا اُن کو کہتا ہے تو وہ دعوے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خود اُن کو دعویٰ کرنے کا شوق نہیں ہوتا۔ میری ذاتی کیفیت تو جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے یہ ہے کہ اگر خدا مجھ سے دین کی خدمت کا کام لے لے تو چاہے کوئی شخص میرا نام چوڑھا یا چوڑھے سے بھی بدتر رکھ دے مجھے اِس کی کوئی پروا نہیں ہو سکتی مگر چونکہ خدا نے مجھے دعویٰ کرنے کیلئے کہا ہے اور چونکہ اس اجتماع میں بعض ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کو میرے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع نہ ملا ہو اور وہ اس امر کو نہ سمجھتے ہوں کہ مَیں سچ بولنے والا ہوں یا جھوٹ بولنے والا ہوں اس لئے جس طرح پہلے مختلف مقامات پر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس امر کا اعلان کر چکا ہوں اِسی طرح اب جب کہ جماعتوں کے نمائندے یہاں ہزاروں کی تعداد میں چاروں طرف سے جمع ہیں اور غیر بھی سینکڑوں کی تعداد میں یہاں موجود ہیں مَیں اللہ تعالیٰ کی جو زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔ جس نے مجھے بھی پیدا کیا اور میرے آباؤ اجداد کو بھی۔ جس کی بادشاہت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ جس کا مقابلہ کرنا انسان کو *** بنا دیتا اور دینی اور دُنیوی تباہیوں کا مستوجب بنا دیتا ہے مَیں اُسی وحدہٗ لاشریک خدا کی جو قرآن، اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خدا ہے قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کاکام ہے کہ میں نے اس وقت جو رؤیا بیان کیا ہے وہ میں نے حقیقتاً اِسی رنگ میں دیکھا تھا اور میں نے بغیر کسی قطع و برید کے اور بغیر کسی زیادتی کے (سوائے اس کے کہ رؤیا کو بیان کرتے ہوئے کوئی لفظ بدل گیا ہو) اس کو اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ رؤیا دکھایا گیا۔ اگر میں اپنے اس بیان میں جھوٹا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے جھوٹوں کی سزا دے لیکن میں جانتا ہوں کہ جو کچھ مَیں نے بیان کیا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی مجھے دکھایا گیا ہے اور خداتعالیٰ خود ایک نظارہ دکھا کر اپنے کسی بندہ کو ذلیل نہیں کیا کرتا۔
مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسی خبر اَب تک نہیں ملی کہ میرے ذمہ کوئی کام باقی ہے یا نہیں لیکن خواہ میری زندگی میں سے ایک منٹ بھی باقی رہتا ہو میں پورے یقین اور وثوق کے ساتھ خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا دشمن خواہ کتنا زور لگا لے وہ اسلام کی تاریخ سے میرا نام نہیں مٹا سکتا کیونکہ میں راستباز ہوں اور میں نے خداتعالیٰ سے خبر پا کر دنیا کو یہ اطلاع دی ہے اپنی طرف سے کوئی بات بیان نہیں کی۔
پیشگوئی کے وہ حصے جو غیروں کیلئے بھی حُجّت ہیں
اَب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل پیشگوئی کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان نشان
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمایا۔
اصل پیشگوئی بڑی تفصیلی پیشگوئی ہے۔ جس میں آنے والے موعود کی کئی علامات بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ وہ ۹ سال کے عرصہ کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا۔ اَب اِس علامت سے صرف اتنی ہی بات ثابت ہو سکتی ہے کہ ۹ سال کے عرصہ میں جو بچے پیدا ہوں اُن میں سے کسی ایک پر یہ پیشگوئی پوری ہو جائے گی لیکن یہ علامت اس بات کا ثبوت نہیں ہو سکتی کہ پیشگوئی کا مصداق زید ہے یا بکر یا کوئی اور ہے اِس لئے میں اِس قسم کی علامتوںکو چھوڑتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک اِن سے میعاد کی تعیین تو ہو جاتی ہے لیکن کسی فرد کی تعیین نہیں ہوتی۔
پھر پیشگوئیوں کے بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جن کو مومن تو مان سکتے ہیں مگر وہ غیروں کیلئے حجت نہیں ہو سکتے۔ مثلاً یہ علامت کہ اُسے خدا کا قرب حاصل ہو گا اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت اور پیار کرے گا۔ یہ علامت محض مومنوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جو لوگ ماننے والے ہیں وہ تو کہیں گے کہ واقعہ میں فلاں شخص کو خدا کا قرب حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت اور پیار کرتا ہے لیکن دوسرے لوگ اِس بات کو نہیں مان سکتے۔ وہ کہیں گے کہ یہ محض ڈھکوسلا ہے کہ فلاں کو خدا کا قرب حاصل ہے، ہم اِس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ لیکن بعض حصے ایسے ہوتے ہیں جو غیروں کے لئے بھی دلیل اور حجت ہوتے ہیں اور وہ پیشگوئیوں میں اِس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ غیروں سے بھی منوایا جائے کہ یہ پیشگوئی فلاں شخص کے ذریعہ پوری ہو گئی ہے۔ میں اِس وقت بعض ایسے حصے ہی اِس پیشگوئی کے لیتا ہوں جو میرے نزدیک غیروں کیلئے بھی دلیل بن سکتے ہیں اور دشمن سے دشمن بھی پیشگوئی کے اِن حصوں کے پورا ہونے سے انکار نہیں کر سکتا۔
آنے والے موعود کی باون علامات
جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ بڑی تفصیلی پیشگوئی ہے اور اِس سے ظاہر ہے کہ آنے
والا اپنے اندر کئی قسم کی خصوصیات رکھتا ہو گا۔ چنانچہ اگر اِس پیشگوئی کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِس پیشگوئی میں آنے والے موعود کی یہ یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں۔
پہلی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قدرت کا نشان ہو گا۔
دوسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ رحمت کا نشان ہو گا۔
تیسری علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قربت کا نشان ہو گا۔
چوتھی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فضل کا نشان ہو گا۔
پانچویں علامتیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ احسان کا نشان ہو گا۔
چھٹی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ شکوہ ہو گا۔
ساتویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ صاحبِ عظمت ہو گا۔
آٹھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ صاحبِ دولت ہو گا۔
نویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مسیحی نفس ہو گا۔
دسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔
گیارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ اللہ ہو گا۔
بارھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خداتعالیٰ کی رحمت اور غیوری نے اُسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہو گا۔
تیرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت ذہین ہو گا۔
چودھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ سخت فہیم ہو گا۔
پندرھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل کا حلیم ہو گا۔
سولہویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔
سترھویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ علوم باطنی سے پُر کیا جائے گا۔
اٹھارویں علامت یہ بیان کی ہے کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا۔
اُنیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ دوشنبہ کا اِس کے ساتھ خاص تعلق ہو گا۔
بیسیویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فرزندِ دلبند ہو گا۔
اکیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ گرامی ارجمند ہو گا۔
بائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الاوّل ہو گا۔
تئیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الآخر ہو گا۔
چوبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر الحق ہو گا۔
پچیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مظہر العلاء ہو گا۔
چھبیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ کا مصداق ہوگا۔
ستائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کا نزول بہت مبارک ہو گا۔
اٹھائیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اِس کا نزول جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔
اُنتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نور ہوگا ۔
تیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ خدا کی رضا مندی کے عطر سے ممسوح ہو گا۔
اکتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا اُس میں اپنی روح ڈالے گا۔
بتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہوگا ۔
تینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔
چونتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔
پینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
چھتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومیں اِس سے برکت پائیں گی۔
سینتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔
اَڑتیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دیر سے آنے والا ہو گا۔
اُنتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دُور سے آنے والا ہو گا۔
چالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فخر رُسل ہو گا۔
اکتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی ظاہری برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔
بیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ اُس کی باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی۔
تینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ یوسفؑ کی طرح اُس کے بڑے بھائی اس کی مخالفت کریں گے۔
چوالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر الدولہ ہو گا۔
پینتالیسویںعلامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شادی خاں ہو گا۔
چھیالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ عالَمِ کباب ہو گا۔
سینتالیسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ حُسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نظیر ہوگا۔
اَڑتالیسویںعلامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ العزیز ہو گا۔
اُنچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کلمۃ اللہ خان ہوگا۔
پچاسویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ناصر الدین ہو گا۔
اکیاونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ فاتح الدین ہو گا۔
باونویں علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بشیر ثانی ہو گا۔
یہ علامتیں ہیں جو اِس پیشگوئی میں آنے والے کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ اِن میں سے کچھ علامتیں تو ایسی ہیں جو صرف مومنوں کے متعلق ہیں اور وہی اِن کی صداقت کی گواہی دے سکتے ہیں۔ لیکن بعض علامتیں ایسی ہیں جو نہ ماننے والوں کے متعلق ہیں اور اُن علامات کو پیش کر کے اُن پر حُجّت تمام کی جا سکتی ہے۔ میں اِس وقت ایسی ہی علامات کو لیتا ہوں جن کے پورا ہونے کا دشمن سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا۔
مصلح موعود کا علوم ظاہری سے پُر کیا جانا
پہلی پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے
گا۔ اِس پیشگوئی کامفہوم یہ ہے کہ وہ علومِ ظاہری سیکھے گا نہیں بلکہ خدا کی طرف سے اُسے یہ علوم سکھائے جائیں گے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ علومِ ظاہری میں خوب مہارت رکھتا ہو گا بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ وہ علوم ظاہری سے پُر کیا جائے گا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور طاقت اُسے یہ علومِ ظاہری سکھائے گی۔ اُس کی اپنی کوشش اور محنت اور جدوجہد کا اِس میں دخل نہیں ہو گا۔ یہاں علومِ ظاہری سے مُراد حساب اور سائنس وغیرہ علوم نہیں ہو سکتے کیونکہ یہاں ’’پُر کیا جائے گا‘‘ کے الفاظ ہیں جو ظاہر کرتے ہیںکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُسے یہ علوم سکھائے جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے سائنس اور حساب اور جغرافیہ وغیرہ علوم نہیں سکھائے جاتے بلکہ دین اور قرآن سکھایا جاتا ہے۔ پس پیشگوئی کے اِن الفاظ کا کہ وہ علومِ ظاہری سے پُر کیا جائے گا یہ مفہوم ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے علومِ دینیہ اور قرآنیہ سکھلائے جائیں گے اور خدا خود اُس کا معلّم ہو گا۔
میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میںنہیں تھا۔ میرے اساتذہ میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض فوت ہو چکے ہیں۔ میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا ہے۔ آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اِس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اِس قابل نہیں کہ میںکتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اِس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں! مَیںپڑھتا جاتا ہوں تم سُنتے جاؤ۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت ککرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دُکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اِس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شرو ع کر دیئے۔ مجھے اِس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے۔ بہرحال تین یا سات روزے آپ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے لیکن اِس بیماری کی شدت اور اِس کے متواتر حملوںکا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیںآنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اُس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اُس کی شکل نظر نہیں آ سکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگراُس میں بھی ککرے پڑ گئے اور ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے میرے اُستادوںسے کہہ دیا تھا کہ اِس کی پڑھائی اِس کی مرضی پر ہو گی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اِس پرزورنہ دیا جائے کیونکہ اِس کی صحت اِس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بار ہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو۔ اِس کے علاوہ آپ نے مجھے کچھ اور پڑھنے کے لئے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔ماسٹر فقیراللہ صاحب جن کو خداتعالیٰ نے اِسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ ہمارے حساب کے استاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے کیونکہ جتنی دُوربورڈ تھا اُتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھرزیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی۔ اِس وجہ سے مَیں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ماسٹر فقیراللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضوریہ کچھ پڑھتا نہیں۔ کبھی مدرسہ میں آ جاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تومیں ڈر کے مارے چُھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے جب یہ بات سُنی تو آپ نے فرمایا آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سُن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسے چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اِس کی صحت اِس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر ہنس کر فرمانے لگے اِس سے ہم نے آٹے دال کی دُکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اِسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اِسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم ﷺ یا آپ کے صحابہؓ نے کونسا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اِسے مجبورنہیں کرنا چاہئے۔یہ سُن کر ماسٹر صاحب واپس آ گئے۔ میں نے اِس نرمی سے اور بھی فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسہ میں جاناہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی۔ غرض اِس رنگ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یاساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی۔ـ ریڈآئیو ڈائیڈ آف مرکری (MERCURY)کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اِسی طرح گلے پر بھی اِس کی مالش کی جاتی کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں ککرے، جگر کی خرابی، عظم طحال کی شکایت اور پھر اِس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اُترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اِس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔اِن حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔
ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے میرا اُردو کا امتحان لیا۔ مَیں اَب بھی بہت بدخط ہوں مگر اُس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھاکہ مَیں نے کیا لکھا ہے۔ اُنہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر اُنہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں۔ میرے خط کا نمونہ صرف میری لڑکی امۃ الرشید کی تحریر میں پایا جاتا ہے۔ اُس کا لکھا ہوا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ہم نے امۃ الرشید کے لکھے ہوئے پر ایک روپیہ انعام مقرر کر دیا تھا کہ اگر خود امۃ الرشید بھی پڑھ کر بتا دے کہ اُس نے کیا لکھا ہے تو اُسے ایک روپیہ انعام دیا جائے گا۔ یہی حالت اُس وقت میری تھی کہ مجھ سے بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا بھی پڑھا نہیں جاتا تھا۔ جب میر صاحب نے پرچہ دیکھا تو وہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے یہ تو ایسا ہے جیسے لنڈے لکھے ہوئے ہوں۔ اُن کی طبیعت بڑی تیز تھی۔ غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچے۔ مَیں بھی اتفاقاً اُس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ہی اُن کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اَب نہ معلوم کیا ہو۔ خیر میر صاحب گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں۔ مَیں نے اِس کا اُردو کا امتحان لیا تھا، آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اِس کا اتنا بُرا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑ ھ سکتا۔ پھر اِسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میرصاحب کو اِس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا بُلاؤ حضرت مولوی صاحب کو۔ جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اوّل کو بُلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اوّل کو مجھ سے بڑی محبت تھی ۔ آپ تشریف لائے اور حسب معمول سرنیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مولوی صاحب! میں نے آپ کو اِس غرض کے لئے بُلایا ہے کہ میر صاحب میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا بالکل پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اِس کا امتحان لے لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اُٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اِس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا۔ مَیںنے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اُس کو نقل کر دیا۔ اوّل تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیںتھی دوسرے مَیں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کو دیکھا تو فرمانے لگے مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اِس کاخط میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل پہلے ہی میری تائید میںاُدہار کھائے بیٹھے تھے فرمانے لگے حضور! میر صاحب کو یونہی جوش آ گیا ورنہ اِس کا خط تو بڑااچھا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں! تمہاری صحت ایسی نہیںکہ تم خود پڑھ سکو۔ میرے پاس آ جایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سُنتے رہا کرو۔ چنانچہ اُنہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی۔ یہ نہیںکہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو بلکہ آپ کا طریق یہ تھاکہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اِس کا ترجمہ کرتے جاتے۔ کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے۔ آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا۔ اِس کے بعد پھر کچھ ناغے ہونے لگ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے پھر مجھے کہا کہ میاں! مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو۔ دراصل مَیں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مَیں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گو ناغے ہوتے رہے۔ اِسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر دی تھی۔ طب کا سبق میں نے اور میر محمد اسحق صاحب نے ایک دن ہی شروع کیا تھا بلکہ میر صاحب کا ایک لطیفہ ہے جو ہمارے گھر میں خوب مشہور ہوا کہ دوسرے ہی دن میر محمد اسحاق صاحب اپنی والدہ سے کہنے لگے اماں جان! مجھے صبح جلدی جگا دیںکیونکہ مولوی صاحب دیر سے مطب میں آتے ہیں۔ مَیں پہلے مطب میں چلا جاؤں گا تاکہ مریضوں کو نسخے لکھ لکھ کر دوں حالانکہ ابھی ایک ہی دن اُن کو طب شروع کئے ہوا تھا۔
غرض میں نے آپ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی۔ قرآن کریم کی تفسیر آپ نے دو مہینے میں ختم کرا دی۔ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سُنا دیتے۔ کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے۔ اِسی طرح بخاری آپ نے دو تین مہینہ میں مجھے ختم کرا دی۔ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا۔ چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ غرض یہ میری علمیت تھی مگر اُنہی دنوں جب میں یہ کورس ختم کر رہا تھا مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا دکھایا۔
قرآنی علوم کا انکشاف
مَیں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں۔ مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ آسمان پر سے مجھے ایسی آواز آئی جیسے گھنٹی
بجتی ہے یا جیسے پیتل کا کوئی کٹورہ ہو اور اُسے ٹھکوریں تو اُس میں سے باریک سی ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ـ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی یہاں تک کہ تمام جوّ میں پھیل گئی۔ اِس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ آواز متشکل ہو کر تصویر کا چوکٹھا بن گئی۔ پھر اُس چوکٹھے میں حرکت پیدا ہونی شروع ہوئی اور اُس میں ایک نہایت ہی حسین اور خوبصورت وجود کی تصویر نظر آنے لگی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اُس میں سے کُود کر ایک وجود میرے سامنے آ گیا اور کہنے لگا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے پاس اِس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہیں سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ میں نے کہا سکھاؤ۔ وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ ۳۲؎ تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین گزرے ہیں، اُن سب نے یہیں تک تفسیر کی ہے لیکن میں تمہیں آگے بھی سکھانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا سکھاؤ۔ چنانچہ وہ سکھاتا چلا گیا یہاں تک کہ ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر اُس نے مجھے سکھادی۔
جب میری آنکھ کُھلی تو اُس وقت فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے کچھ باتیں مجھے یاد تھیں مگر میں نے اُن کو نوٹ نہ کیا۔ دوسرے دن حضرت خلیفہ اوّل سے مَیں نے اِس رؤیا کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے کچھ باتیں یاد تھیں مگر مَیں نے اُن کو نوٹ نہ کیا اور اَب وہ میرے ذہن سے اُتر گئی ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل پیار سے فرمانے لگے کہ آپ ہی تمام علم لے لیا کچھ یاد رکھتے تو ہمیں بھی سُناتے۔
یہ رؤیا اصل میں اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بیج کے طور پر میرے دل اور دماغ میں قرآنی علوم کا ایک خزانہ رکھ دیا ہے۔ چنانچہ وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، کبھی کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہو یا اُس کے متعلق کوئی مضمون بیان کیا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے سے نئے معار ف اور نئے سے نئے علوم مجھے عطا نہ فرمائے گئے ہوں۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے قرآن کریم کے تمام مشکل مضامین مجھ پر حل کر دیئے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایسی آیات جن کے متعلق حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اُن کے معانی کے متعلق پوری تسلی نہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان آیات کے معانی بھی مجھ پر کھول دیئے گئے ہیںاور اَب قرآن کریم میں کوئی بات ایسی موجود نہیں جس کے مضمون کو مَیں ایسے واضح طور پر نہ بیان کر سکوں کہ دشمن سے دشمن کیلئے بھی اُس پر اعتراض کرنا ناممکن ہو۔ـ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی شکست تسلیم نہ کرے لیکن یہ ہو نہیں سکتا کہ میں قرآن کریم کے رُو سے دشمن پر حجت تمام نہ کر دوں اور اُس کے اعتراضات کا ایسا جواب نہ دوں جو عقلی طور پر مُسکِتْ اور لاجواب ہو۔ـ
تفسیر القرآن کے متعلق دنیا کو چیلنج
مَیں نے اِس بارہ میں بار بار لوگوں کو چیلنج دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر میں میرا مقابلہ
کر لیں مگر آج تک کسی کو جراء ت نہیں ہوئی کہ وہ قرآنی تفسیر میں میرا مقابلہ کر سکے۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب میرے اِس چیلنج کے مقابلہ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ اُن کے دلوں میں دیانتداری کے ساتھ یہ جراء ت نہیں پائی جاتی کہ وہ قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق میرے چیلنج کو قبول کریں۔ مولوی ثناء اللہ صاحب اِس کے جواب میں یہ لکھ دیا کرتے ہیں کہ میری طرف سے صرف اتنی شرط ہے کہ بے ترجمہ قرآن کریم اور کاغذ، قلم، دوات لے کر ہم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جائیں اور قرآن کریم کی تفسیر لکھیں۔ مجھے اُن کی اِس بات سے ہمیشہ یہ شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ غالباً اُن کو یہ یقین ہے کہ مجھے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا۔ اگر سادہ قرآن کریم میرے ہاتھ میں دے دیا گیا تو میں کہوں گا کہ اَب میں کیا کروں مجھے تو ترجمہ ہی نہیں آتا، میں تفسیر کِس طرح لکھوں۔ حالانکہ جب میں قرآن کریم کی تفسیر کے متعلق چیلنج دے رہا ہوں اور دنیاکے تمام علماء سے کہتا ہوں کہ اگر اُن میں ہمت ہے تو وہ میرا مقابلہ کر لیں، تو اُنہیں سمجھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا ترجمہ تو مجھے بہرحال آتا ہوگا مگر معلوم ہوتا ہے مولوی ثناء اللہ صاحب باوجود اِس کے کہ میری طرف سے تفسیر نویسی کا چیلنج دیا جا رہا ہے سمجھتے ہیں کہ اگر میرے پاس سادہ قرآن ہوا تو میں کچھ نہ لکھ سکوں گا۔ بہرحال وہ ہمیشہ یہی بات پیش کر کے خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ میرا اصل چیلنج جو پہلے بھی شائع ہو چکا ہے اور اَب بھی قائم ہے، یہ ہے کہ :۔
’’غیراحمدی علماء مل کر قرآن کریم کے وہ معارفِ روحانیہ بیان کریں جو پہلے کسی کتاب میں نہیں ملتے اور جن کے بغیر روحانی تکمیل ناممکن تھی۔ پھر میں اُن کے مقابلہ پر کم سے کم دُگنے معارفِ قرآنیہ بیان کر وں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھے ہیں اور اِن مولویوں کو تو کیا سُوجھنے تھے پہلے مفسرین و مصنّفین نے بھی نہیں لکھے۔ اگر میں کم سے کم دُگنے ایسے معارف نہ لکھ سکوں تو بے شک مولوی صاحبان اعتراض کریں۔ طریق فیصلہ یہ ہو گا کہ مولوی صاحبان معارفِ قرآنیہ کی ایک کتاب ایک سال تک لکھ کر شائع کر دیں اور اِس کے بعد مَیں اُس پر جرح کروں گا جس کے لئے مجھے چھ ماہ کی مدت ملے گی۔ اِس مدت میں جس قدر باتیں اُن کی میرے نزدیک پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں اُن کو مَیں پیش کروں گا۔ اگر ثالث فیصلہ کر دیں کہ وہ باتیں واقعہ میں پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں تو اُس حصہ کو کاٹ کر صرف وہ حصہ اُن کی کتاب کا تسلیم کیا جائے گا جس میں ایسے معارفِ قرآنیہ بیان ہوں جو پہلی کتب میں نہیں پائے جاتے۔ اِس کے بعد چھ ماہ کے عرصہ میں ایسے معارفِ قرآنیہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے یا آپ کے مقرر کردہ اصول کی بناء پر لکھوں گا جو پہلے کسی مصنّف اسلامی نے نہیںلکھے اور مولوی صاحبان کو چھ ماہ کی مدت دی جائے گی کہ وہ اُس پر جرح کر لیں اور جس قدر حصہ اِن کی جرح کا منصف تسلیم کریں اُس کو کاٹ کر باقی کتاب کا مقابلہ اُن کی کتاب سے کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ میرے بیان کردہ معارفِ قرآنیہ جو حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے لئے گئے ہوں گے اور جو پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں گے، اِن علماء کے معارفِ قرآنیہ سے کم از کم دُگنے ہیں یا نہیں جو اُنہوں نے قرآن کریم سے ماخوذ کئے ہوں اور وہ پہلی کسی کتاب میں موجود نہ ہوں۔ اگر میں ایسے دُگنے معارف دکھانے سے قاصر رہوں تو مولوی صاحبان جو چاہیں کہیں۔ لیکن اگر مولوی صاحبان اِس مقابلہ سے گریز کریں یا شکست کھائیں تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ منجانب اللہ تھا۔ یہ ضروری ہو گا کہ ہر فریق اپنی کتاب کی اشاعت کے معاً بعد اپنی کتاب دوسرے فریق کو رجسٹری کے ذریعہ سے بھیج دے۔ مولوی صاحبان کو مَیں اجازت دیتا ہوں کہ وہ دُگنی چوگنی قیمت کا، وی پی میرے نام کر دیں ۔ اگر مولوی صاحبان اِس طریق فیصلہ کو ناپسند کریں اور اِس سے گریز کریں تو دوسرا طریق یہ ہے کہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اُس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوںاور میں بھی اُسی ٹکڑے کی اِسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کی روشنی میں اُس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اِس سے پہلے کسی مفسر یا مصنّف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اُس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق اور کیا رشتہ ہے۔‘‘ ۳۳؎
یہ ہے اصل چیلنج جو میری طرف سے دیا گیا لیکن مولوی ثناء اللہ صاحب اِس کے جواب میں یہ لکھ دیتے ہیں کہ صرف سادہ قرآن اور کاغذ، قلم، دوات لے کر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنا ہو گا کسی اور کتاب کے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کیسی غیرمعقول بات ہے اوّل تو ترجمہ یا بے ترجمہ قرآن کریم کا کوئی سوال ہی نہیں ہو سکتا لیکن معلوم ہوتا ہے مولوی صاحب کی عقل اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ باوجود اِس کے کہ اُنہوں نے میری متعدد کتابیں پڑھی ہوں گی پھر بھی وہ سمجھتے ہیںکہ جب میرے ہاتھ میں بے ترجمہ قرآن آیاتو میں اُن کے مقابلہ میں بالکل رہ جاؤں گا۔
دوسرے یہ کہنا کہ اپنے پاس قرآن کریم کے علاوہ اور کوئی تفسیر کی کتاب نہ رکھی جائے یہ بھی بے معنی بات ہے۔ اِس لئے کہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ مَیں ایسی تفسیر لکھوں گا جس میں نئے مضامین ہوں گے پُرانے مضامین نہیں ہوں گے۔ مَیں نے یہ نہیں کہا کہ مَیں پُرانی تفسیروں کا حافظ ہوں۔ وہ اگر اپنے آپ کو پُرانی تفسیروں کا حافظ سمجھتے ہیں تو بے شک اِس کا اعلان کر دیں۔ لیکن مَیں پُرانی تفسیروں کا حافظ نہیں اور جب میرا دعویٰ یہ ہے کہ مَیں اپنی تفسیر میں ایسی نئی باتیں لکھوں گا جو پُرانے مفسرین نے نہیں لکھیں تو اِس لحاظ سے ضروری ہے کہ اِس وقت میرے پاس تفسیریں بھی موجود ہوں تاکہ میں صرف وہ مضامین بیان کروں جو نئے ہوں کوئی ایسا مضمون بیان نہ کروں جو پہلے کسی تفسیر میں لکھا ہوا ہو۔ پھر میں نے اِس اَمر کی طرف بھی اُن کو توجہ دلائی ہے کہ اگر تفسیروں کے موجود ہونے سے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ شاید میں اُن تفسیروں میں سے کچھ چُرا لوں تو پھر تو اُن کو بڑا اچھا موقع میسر آ سکتا ہے اور وہ ساری دنیا میں شورمچا سکتے ہیں کہ دیکھ لو دعویٰ تو یہ تھا کہ مَیں ایسے معارف بیان کروں گا جو جدید ہوں گے مگر فلاں فلاں مضمون، فلاں فلاں تفسیر سے چُرا لیا گیا ہے اِس صورت میں تو اُن کی فتح اور کامیابی یقینی ہے کیونکہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں ایسی باتیں بیان کروں گا جو پہلی تفسیروں میں نہیں آئیں۔ پس اگر میں اِن تفسیروں میں سے کچھ چُرا لوں گا تو وہ اعلان کر دیں گے کہ دعویٰ تو یہ کیا گیا تھا کہ میںنئے علوم اور نئے معارف پیش کروں گا مگر فلاں فلاں بات امام رازی یا علامہ ابن حیان بھی بیان کر چکے ہیں اِس صورت میں میرا چیلنج خود بخود باطل ہو جائے گا۔ پھر سوال یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ خیال کیونکر پیدا ہو گیا ہے کہ مجھے پُرانی تفسیروں میں سے کچھ چُرانا زیادہ آتا ہے اور اُن کو نہیںآتا۔ وہ پکے مولوی ہیں۔ اگر میرے سامنے وہ تفاسیر ہوں گی تو آخروہ تفاسیر اُن کے سامنے بھی تو ہوں گی۔ اگر میں نے اُن سے کچھ چُرا لینا ہے تو مولوی صاحب بھی تو چُرا سکتے ہیں۔ علومِ جدیدہ کی میرے پاس کوئی خاص تفاسیر تو نہیں ہیں جو میں نے چھپا رکھی ہیں۔
پھر ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم تو عربی میں ہے اور تفسیریں بھی عربی میں ہیں۔ اُن کے نزدیک جب میں عربی جانتا ہی نہیں اور اِسی لئے وہ بے ترجمہ قرآن رکھنے کی شرط پیش کرتے ہیںتو اُن کو یہ کیونکر خیال پیدا ہو گیا کہ میں عربی تفسیروں سے مضمون چُرالُوں گا۔
پھر قرآن تو صرف عربی میں ہے مگر تفاسیر میں علم صرف کے مضامین بھی آتے ہیں، علمِ نحو کے مضامین بھی آتے ہیں، علمِ کلام کے مضامین بھی آتے ہیں، علم فلسفہ کے مضامین بھی آتے ہیں، علمِ منطق کے مضامین بھی آتے ہیں۔ اگر ایک شخص قرآن کریم کا ترجمہ تک نہیں جانتا تو وہ اِن تفسیروں سے مختلف مضامین کس طرح چُرا سکتا ہے۔ پس میں نہیں سمجھتا کہ ایسی شرائط کو پیش کرنے سے اُن کی غرض کیا ہے۔ سوائے اِس کے کہ وقت ضائع کیا جائے مگر مجھے خداتعالیٰ نے اِس لئے کھڑا نہیں کیا کہ میں کھیل میں اپنے وقت کو ضائع کردوں۔
مجھے بعض دفعہ یہ بھی خیال آیا کرتا ہے کہ ممکن ہے اُن کا خیال ہو کہ میں بعض ایسی تفسیریں اپنے ساتھ چھپا کر لے جاؤں گا جو اُن کے پاس نہیں ہوں گی اور اِس طرح مَیں غالب آ جاؤں گا۔ اگر اُن کو یہ خیال ہو تو مَیں اعلان کرتا ہوں کہ مجلس میں بیٹھ کر اگر وہ میری تفسیروں کو دیکھنا چاہیں تو وہ اُن کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اُن سب کے نام نوٹ کر لیں اور پھر حوالہ دیکھنے کے لئے جس کتاب کی ضرورت ہو وہ بیشک مجھ سے مانگ لیں میں اُن کو وہ کتاب حوالہ دیکھنے کے لئے عاریتاً بھجوا دوں گا۔
مَیں جیسا کہ بتا چکا ہوں ہمیشہ یہ شرط پیش کیا کرتا ہوں کہ قرعہ ڈال کر قرآن کریم کے بعض رکوع نکال لئے جائیں اور پھر وہ بھی بیٹھ جائیں اور میں بھی بیٹھ جاؤں اور ہم دونوں قرآن کریم کے اُن رکوعوں کی تفسیر لکھیں۔ مگر شرط یہ ہو گی کہ تفسیر میں ایسے ہی مضامین بیان کئے جائیں جو پہلی تفسیروں میں نہ آ چکے ہوں اور پھر صرف، نحو اور لغت وغیرہ علوم کے لحاظ سے وہ معنی درست ہوں۔ اِسی طرح قرآن کریم کے سیاق و سباق کے لحاظ سے بھی وہ معنی صحیح ہوںـ۔
مَیں اِس بات کے لئے بھی تیار ہوں کہ اِس غرض کے لئے بعض لوگ بطور قاضی یا جج مقرر کر دیئے جائیں جو بعد میں غور کر کے فیصلہ کر دیں کہ کس فریق نے قرآن کریم کے ایسے نئے علوم بیان کئے ہیں جو پہلی کسی تفسیر میں بیان نہیں ہوئے لیکن یہ ضروری ہو گا کہ وہ بادلائل فیصلہ لکھیں۔ یہ کوئی عقائد سے تعلق رکھنے والی بات نہیں جس میں ججوں کا مقرر کرناخلافِ اصول ہو۔ یہ محض ایک علمی چیز ہے اور اِس کے لئے ججوں کو فیصلہ کے لئے مقرر کیا جا سکتا ہے۔ـ
مَیں جس فیصلہ کرنے والے بورڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کرتا ہوں اور وہ ایسا بورڈ ہوتا ہے جس کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ عقائد کے متعلق فیصلہ کرے گا اور مَیں اِس بات کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ عقائد کے تصفیہ کے متعلق کوئی بورڈ مقرر کیا جا سکتا ہے یا کسی اور کا فیصلہ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ عقائد کے بارہ میں کسی شخص کی کوئی بات تسلیم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن یہ ایک علمی مقابلہ ہے اس میں بعض لوگ اگر بطور جج مقرر ہو جائیں تو میرے نزدیک اِس میں کوئی حرج نہیں۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں نے جو طریق فیصلہ پیش کیا ہے اِس میں مخالف علماء کو کیا شُبہ ہے اور میں اُن سے کس طرح دھوکا کر لوں گا۔
مولوی محمد علی صاحب کا جواب
تفسیر نویسی کے اِس چیلنج کے جواب میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک مضمون لکھا ہے۔ اسی طرح مصری صاحب
نے بھی اِس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اِن میں سے ایک نے ۳۴؎کی آیت کو اور دوسرے نے۳۵؎والی آیت کو پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ اِن آیات کی تفسیر میں مقابلہ کر لیا جائے حالانکہ یہ سیدھی بات ہے کہ جو آیتیں ایسی ہیں کہ اِن کے معانی کے بیان کرنے میں ہم میں اور غیراحمدیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اُن میں کوئی لطیف سے لطیف بات بھی مخالفین کے دلوں کو مطمئن نہیں کر سکتی۔ خواہ ہم آیت خاتم النبیین کے کیسے ہی لطیف معنی کریں یا کی کتنی اعلیٰ درجہ کی تشریح کریں غیراحمدی ہمارے معنوں کو ضرور ناپسند کریں گے اِس لئے ایسے اختلافی مسائل کے متعلق اُن کی رائے صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکتی۔ اُن کی رائے ایسے ہی امور کے بارہ میں صحیح طور پر معلوم ہو سکتی ہے جو عام مضامین سے تعلق رکھتے ہوں۔ اِسی غرض کے لئے میں نے کہا ہے کہ قرعہ ڈالو اور قرآن کریم کے کوئی رکوع نکال لو۔ اگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہو گی کہ آیت خاتم النبیین یاآیت کی تفسیر کی جائے تو قرعہ میں یہی آیات نکل آئیں گی۔ اِنہیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے وہ سیدھی طرح مقابلہ میںآئیں اور قرعہ کی تجویز کو منظور کر لیں جو رکوع بھی قرعہ کے نتیجہ میں نکل آیا اُس کی مَیں تفسیر لکھ دوں گا۔ اور اگر وہ قرعہ کی تجویز کو بھی منظور نہیں کرتے تو اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اُن کو اپنے دلوں میں یقین ہے کہ خدا میرے ساتھ ہے۔ اگر ہم نے قرعہ بھی ڈالا تو وہی آیات نکلیں گی جن کی تفسیر اِس کو اچھی آتی ہو گی لیکن ہمیں اِن کی تفسیر نہیں آتی ہو گی اور اگر یہ بات نہیں تو وہ ڈرتے کیوں ہیں۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اِس کے کئی سَو رکوع ہیں وہ قرعہ ڈال لیں پھر جو بھی آیات نکل آئیں گی مَیں اُن کی تفسیر لکھنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر قرعہ کا طریق نظر انداز کر دیا جائے اور جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں اُن آیات کی تفسیر لکھی جائے جن کے معانی میں ہم میں اور غیراحمدیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ اُس تفسیر کے متعلق فیصلہ کرنے میں اُن کا دماغ آزاد نہیں ہو گا۔ اور وہ آسانی سے فیصلہ نہیں کر سکیں گے کہ کس کی تفسیر زیادہ اعلیٰ ہے۔ـ لیکن اگر اختلافی مسائل سے تعلق رکھنے والی آیت نہ ہو تو اُس کی تفسیر کے متعلق اُن کا دماغ آزاد ہو گا اور آسانی سے وہ فیصلہ کر سکیں گے کہ میری تفسیر زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے یا مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے۔قرعہ میں یہ بھی کوئی شرط نہیں کہ اگر آیت خاتم النبیین یا نکلی تو اِس کی تفسیر نہیں لکھی جائے گی۔ اگر وہ سمجھتے ہیںکہ خداتعالیٰ کی تائید اُن کو حاصل ہے تو کیوں وہ خداتعالیٰ پر یہ یقین نہیں رکھتے کہ خداتعالیٰ قرعہ میں اُن کے حسبِ منشاء آیات نکلوا دے گا اور اِس طرح اُن کے غلبہ اور تفوق کے سامان پیدا فرما دے گا۔ اُن کا بار بار ایسی ہی آیات کو تفسیر کے لئے پیش کرنا جن کے متعلق ہم میں اور غیراحمدیوں میں اختلاف پایا جاتا ہے بتاتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں اِس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ ہم تفسیر میں مقابلہ نہیں کر سکتے اِسی لئے وہ اِن آیات کی پناہ ڈھونڈتے ہیں جن میں ہمارا غیراحمدیوں کے ساتھ اختلاف پایا جاتا ہے تاکہ اگر وہ معارف یا علوم کے لحاظ سے غالب نہ آ سکیں تو کم از کم غیراحمدیوں کی تائید تو اُن کو حاصل ہو جائے۔ دوسرے اُن کا قرعہ سے گھبرانا اور اِس طریق کو قبول نہ کرنا اِس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں خدا اِس کے ساتھ ہے اگر ہم نے قرعہ کا طریق منظور کر لیا تو خدا قرعہ میں ایسی ہی آیات نکلوائے گا جن کی تفسیر اِس کو اچھی طرح آتی ہو گی اور ہم شَاھَتِ الْوُجُوْہُ کے مصداق بن کر رہ جائیں گے۔
باقی رہے مصری صاحب سو وہ نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ وہ ایک لمبا عرصہ یہاں رہے ہیں اور میرے سامنے شاگردوں کی طرح بیٹھتے رہے ہیں جب بھی مَیں جلسہ سالانہ کے بعد تقریر سے فارغ ہو کر گھر جاتا تو مصری صاحب دروازہ پر ہی مجھے روک لیتے اور کہتے حضور نوٹ عنایت فرماویں۔ میں کہتا کہ نوٹوں کی کیا ضرورت ہے تقریر چھپ جائے گی۔ اِس پر وہ کہتے کہ کون تقریر کے چھپنے کا انتظار کرے آپ اپنے نوٹ مجھے دے دیں جب تک تقریر شائع نہیں ہوتی میں اِن معارف سے فائدہ اُٹھاتا رہوں گا۔ وہ شخص جو اِس طرح لمبے عرصہ تک میرے علوم سے فائدہ اُٹھاتا رہا ہے اور شاگردوں کی طرح میرے سامنے بیٹھتا رہا ہے، اَب وہ مجھے تفسیر نویسی کا چیلنج دے رہا ہے۔ اِن کو یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں ہرگز کوئی نیابتی پوزیشن حاصل نہیں ہے اور نہ وہ اِس قابل ہیں کہ انہیں تفسیر نویسی کا اہل سمجھا جائے۔ بہرحال تفسیر نویسی کا جو راستہ میں نے بتایا ہے وہ نہایت منصفانہ ہے۔ قرعہ ڈالنے میں کسی کو کوئی خاص رعایت نہیں ملتی۔ غیراحمدیوں کا کوئی نمائندہ جو فی الواقع نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہو یا مولوی محمدعلی صاحب اِس طرح مقابلہ کر لیں اللہ تعالیٰ خود فیصلہ کر دے گا اور صداقت کو ظاہر کر دے گا۔
اِس کے علاوہ قرآن کریم کے بہت سے حصوں کی تفسیر میری طرف سے لکھی ہوئی موجود ہے۔ اِس شائع شدہ تفسیر سے بھی اِس پیشگوئی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بعض دشمن اِس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں غیرمبائعین میں سے بھی اور دوسروں میں سے بھی کہ ہم مانتے ہیں آپ بہت ذہین ہیں، باتیں خوب نکال لیتے ہیں اور مناسب مضمون اخذ کر لیتے ہیں۔ مگر اِس اعتراض سے بھی میری صداقت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اِس اعتراف کے معنی یہ بن جائیں گے کہ مرزاصاحب نے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ۹ سال کے عرصہ میں میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہوگا جو بہت ذہین ہوگا اور بڑا چالاک ہوگا اور پُرانی تفسیروں میں سے ایسے ایسے علوم چُرانے کا اُسے ملکہ حاصل ہو گا کہ اُس وقت کے بڑے بڑے تجربہ کار بھی اِس قسم کی علمی چوری میں اُس کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور پھر وہ زندہ بھی رہے گا اور اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گا۔ اگر یہی نتیجہ نکالا جائے تو میں کہتا ہوں کہ کیا کسی انسان کو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ ایسی پیشگوئی کر سکے اور کہہ سکے کہ ۹ سال کے اندر میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو ایسا ذہین اور ہوشیار ہو گا کہ بڑے بڑے مولوی بھی اُس کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جراء ت نہیں کر سکیں گے پھر کیا وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایسالڑکا زندہ رہے گا۔ اور کیا وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایسالڑکا اپنی چالاکی سے ساری دنیا میں مشہور ہو جائے گا؟ اگر وہ یہ بہانہ کرتے ہیں تو بیشک وہ میرا نام چالاک رکھ دیں، مجھے ہوشیار اور تجربہ کار کہہ لیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کی صداقت میں شُبہ نہیں ہو سکتا اور ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خبر دی تھی کہ آپ کے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا جو مولویوں کو شکست دے گا، وہ خبر سچی ثابت ہوئی۔ خدا نے مجھے ایسی مدد دی ہے اور میری تائید میں اپنے نشانات کو اِس طرح پَے درپَے نازل کیا ہے کہ آج دشمن میرے مقابل پر سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کوئی بھی معقول اور صحیح بات اپنی زبان پر نہیں لا سکتا اور اِس طرح اپنی شکست کو تسلیم کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کی صداقت کو وہ اپنے عمل سے واضح کر رہا ہے۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ چیلنج ہر اُس شخص کے لئے اَب بھی قائم ہے جو مقابلہ کا اہل ہو۔ یعنی وہ اِس حیثیت کا ہو کہ اُس سے مقابلہ کرنا کوئی فائدہ رکھتا ہو۔ ورنہ یوں تو ہر آدمی چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان کر سکتا ہے اور وقت کے ضیاع سے زیادہ اِس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
مصلح موعود کا علوم باطنی سے پُر کیاجانا
دوسری خبر اِس پیشگوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پُر کیا جائے گا۔ باطنی علوم سے
مراد وہ علومِ مخصوصہ ہیں جو خداتعالیٰ سے خاص ہیں جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ایسے بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تاکہ خداتعالیٰ سے اُن کا تعلق ظاہر ہو اور وہ اُن کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں۔ سو اِس شِق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوابیں اور الہام مجھے ہوئے ہیں جو علومِ غیب پر مشتمل ہیں مگر مَیں مثال کے طور پر صرف چند کا اِس جگہ ذکر کرتا ہوں۔
مبائعین کے مقابلہ میں غیرمبائعین کی ناکامی کی خبر
(۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ہی جبکہ خلافت کا کوئی سوال بھی ذہن میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف
سے یہ الہام ہوا کہ یعنی وہ لوگ جو تجھ پر ایمان لائیں گے اُن لوگوں پر جو تیرے مخالف ہوں گے قیامت تک غالب رہیں گے۔یہ الہام مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سُنایا اور آپ نے اِسے لکھ لیا۔ یہ وہی آیت ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے مگر وہاں الفاظ یہ ہیں۔۔ ۳۶؎ کہ میں تیرے منکروں پر تیرے مومنوں کو قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں۔ مگر مجھے جو الہام ہوا وہ یہ ہے کہ ۔ جو پہلے سے زیادہ تاکیدی ہے یعنی میںاپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقینا تیرے ماننے والوں کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دوں گا۔ یہ الہام جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُنایا اور آپ نے اِسے لکھ لیا۔ میں عرصہ دراز سے یہ الہام دوستوں کو سُناتا چلا آ رہا ہوں۔ اِس کے نتیجہ میں دیکھو کہ کس کس طرح میری مخالفت ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے فتح دی۔ غیر مبائعین نے حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں یہ کہہ کہہ کر کہ ’’ ایک بچہ ہے جس کی خاطر جماعت کو تباہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘ پراپیگنڈہ کیا مگر بالکل بے اثر ثابت ہوا۔ مَیں اِن باتوں سے اُس وقت اتنا ناواقف تھا کہ ایک دن صبح کی نماز کے وقت میں حضرت اماں جان کے کمرہ میں جو مسجد کے بالکل ساتھ ہے نماز کے انتظار میں ٹہل رہا تھاکہ مسجد میں سے مجھے لوگوں کی اُونچی اُونچی آوازیں آنی شروع ہوگئیں جیسے کسی بات پر وہ جھگڑ رہے ہوں۔ اُن میں سے ایک آواز جسے میں نے پہچانا وہ شیخ رحمت اللہ صاحب کی تھی۔ مَیںنے سُنا کہ وہ بڑے جوش سے یہ کہہ رہے ہیںکہ تقویٰ کرناچاہئے، خدا کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے ایک بچہ کو آگے کر کے جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے، ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ میں اُس وقت اِن باتوں سے اِس قدر ناواقف تھا کہ مجھے اُن کی یہ بات سُن کر سخت حیرت ہوئی کہ وہ بچہ ہے کون جس کے متعلق یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے باہر نکل کر غالباً شیخ یعقوب علی صاحب سے پوچھا کہ آج مسجد میں یہ کیسا شور تھا اور شیخ رحمت اللہ صاحب یہ کیا کہہ رہے تھے کہ ایک بچہ کی خاطر یہ سارا فساد برپا کیا جا رہا ہے۔ وہ بچہ ہے کون جس کی طرف شیخ صاحب اشارہ کر رہے تھے؟ وہ مجھے ہنس کر کہنے لگے وہ بچہ تم ہی تو ہو اور کون ہے۔ گویا میری اور اُن کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ ایک نابینا اور بینا دونوں کھانا کھانے بیٹھے۔ نابینا نے سمجھا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا اور اِسے سب کچھ نظر آتاہے، لازماً یہ مجھ سے زیادہ کھا رہا ہو گا۔ چنانچہ یہ خیال آتے ہی اُس نے جلدی جلدی کھانا، کھانا شروع کر دیا۔ پھر اُسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اِس نے دیکھ لی ہو گی اور اَب یہ بھی جلدی جلدی کھانا کھانے لگ گیا ہو گا میں کیا کروں؟ چنانچہ اُس نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا۔ پھر سمجھا کہ اَب یہ بھی اِس نے دیکھ لیا ہو گا اور اِس نے بھی دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کردیا ہو گا، میں اَب کس طرح زیادہ کھاؤں؟ اِس خیال کے آنے پر اُس نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا اور دوسرے ہاتھ سے چاول اپنی جھولی میںڈالنے شروع کر دیئے ۔ پھر اُسے خیال آیا کہ میری یہ حرکت بھی اُس نے دیکھ لی ہو گی اور اُس نے بھی ایسا ہی کرنا شروع کر دیا ہو گا۔ یہ خیال آنے پر اُس نے تھالی اُٹھا لی اور کہنے لگا بس اب میرا حصہ ہی رہ گیا ہے تم اپنا حصہ لے چکے ہو اور اُس بیچارے کی یہ حالت تھی کہ اُس نے ایک لقمہ بھی منہ میں نہیںڈالا تھا۔ وہ اِس نابینا کی حرکات دیکھ دیکھ کر ہی دل میں ہنس رہا تھا کہ یہ کیا کر رہاہے۔
یہی میرا اور اُن کا حال تھا۔ یہ بھی اُس نابینا کی طرح ہمیشہ سوچتے رہتے کہ اَب یہ یوں کر رہا ہو گا، اَب یہ اِس طرح جماعت کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہو گا اور مجھے کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے خلا ف کیا کچھ ہو رہا ہے۔ میں سوائے خداتعالیٰ کی ذات پر توکّل رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں کرتا تھااور حالات سے ایسا ناواقف تھاکہ سمجھتا تھا کوئی اور بچہ ہے جس کا یہ ذکر ہو رہاہے۔ مگر باوجود اِس کے کہ یہ لوگ اُس وقت بڑا رسوخ رکھتے تھے اور جماعت پر اِن کا خاص طور پر اثر تھا، اللہ تعالیٰ نے اُن کے تمام پراپیگنڈہ کو بے اثر ثابت کیا اور مجھے اُس نے فتح اور کامرانی عطا کی۔
غیر مبائعین کی ایک اور عبرتناک ناکامی
(۲) پھر میری خلافت کے وقت جب مسجد نور میں جماعت کے لوگوں نے
میری بیعت کی۔ انہوں نے ’’الوصیۃ‘‘ کے ایک حوالہ کے ماتحت جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ
’’جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اِس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے۔ وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا۔‘‘۳۷؎
کوشش کی کہ میرے مقابل میںکسی کو خلیفہ بنا لیں۔ اِس حوالہ کے تو اور معنی ہیں مگر بہرحال انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ کسی طرح خلافت کو چھوڑ نہیں سکتے تو انہوں نے چاہا کہ ہم بھی مقابل میں ایک خلیفہ بنا لیں۔ چنانچہ ماسٹر عبدالحق صاحب جنہوں نے پہلے پارے کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اور جنہوں نے شروع میں میری بیعت نہ کی تھی بلکہ وہ اِن لوگوں کے ساتھ تھے، بعد میں بتایا کہ مولوی صدرالدین صاحب رات کے وقت ہاتھ میں لالٹین لے کر دو ہزار احمدیوں کے مکانوں پر ماسٹر عبدالحق صاحب اور ایک اور صاحب سمیت چکر لگاتے رہے کہ چالیس آدمی ہی اِس خیال کے مل جاویں مگر اتنے آدمی بھی اُن کو نہ ملے جو اُن کا ساتھ دیتے بلکہ اُن کی روایت تھی کہ صرف تیرہ آدمی ملے جو اِس خیال کے حامی تھے، چالیس کی تعداد پوری نہ ہوئی۔
اَب دیکھو یہ خداتعالیٰ کی کیسی عظیم الشان قدرت ہے کہ اُس وقت سارا کام اِن لوگوں کے ہاتھ میںتھا۔ انجمن پر اِن کا قبضہ تھا، تصانیف اِن کے ہاتھ میں تھیں، عہدے ان کے قبضہ میں تھے۔ مگر سارا زور لگا کر قادیان میں سے تیرہ سے زیادہ آدمی نہ نکلے جو اِس بات پر متفق ہوں کہ میرے مقابل میں کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ انہوں نے اِس غرض کے لئے سید عابد علی شاہ صاحب کا نام تجویز کیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ اُن کی خلافت کے لئے چالیس آدمی تیار کئے جائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کو نہ صرف اِس طرح شرمندہ کیا کہ اتنے بڑے مجمع میں سے ساری رات گشت لگانے کے باوجود چالیس آدمی بھی نہ مل سکے اور وہ ناکام اپنے گھروں کو واپس لوٹے بلکہ خدا نے اُن کو اِس طرح بھی شرمندہ کیا کہ آخر سیدعابد علی شاہ صاحب نے میری بیعت کر لی۔ مگر بعد میں اُن کو جنون ہو گیا اور دماغی نقص کی وجہ سے انہوں نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اعلان کر دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میرے گھر میں طاعون نہیں آئے گی لیکن اِس اعلان کے بعد وہ خود ہی طاعون سے مَر گئے۔
غرض قوم کے لیڈر میرے مقابل میں کھڑے ہوئے جن کے ہاتھ میں سلسلہ کا خزانہ تھا اور جن کاجماعت کے قلوب پر اِس قدر رُعب تھا کہ اِسی مسجد نور میں کھڑے ہو کر ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب نے جماعت کے سامنے چندے کی تحریک کی تو بعض احمدی اُٹھ کر کسی کام کے لئے باہر جانے لگے۔ مولوی محمد علی صاحب جن کی طبیعت جوشیلی ہے یہ دیکھ کر غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے اَب میں نے چندے کی تحریک کی ہے تو تم بھاگنے لگے ہو۔ یاد رکھو کہ میں تم سے جوتیوں سے چندہ وصول کروں گا۔ اِن الفاظ سے اُن کے اخلاق کا جو نمونہ ظاہر ہوتا ہے وہ تو عیاں ہی ہے لیکن میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انہوں نے اتنے سخت الفاظ جماعت کو مخاطب کر کے کہے مگر کسی ایک شخص نے بھی چوں تک نہیں کی اور سب خاموش رہے۔ غرض اُن کا اُس وقت اتنا رُعب تھا اور اِس قدر رُسوخ اُن کو حاصل تھا کہ جماعت کے معززین کو اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ میں جوتیاں مار کر تم سے چندہ وصول کروں گا تو پھر بھی وہ خاموش رہتے تھے۔
تاریخوں میںلکھا ہے۔ نپولین کو ایک دفعہ شکست ہوئی۔ اُس کی فوج کے سپاہی اور جرنیل بھاگتے چلے آرہے تھے کہ راستے میں ایک جرنیل نے کہا۔
’’وہ جرمن فوج آ گئی‘‘۔ جرمن فوج واقعہ میں پیچھے سے آ رہی تھی اور اُس نے جو کچھ کہا درست تھا مگر نپولین نے اُسے جواب دیا۔
کُتّا! تم کو ہر وقت جرمن ہی نظر آتے ہیں۔
وہ کہتا ہے اگر میرا باپ بھی مجھے یہ الفاظ کہتا تو میں اُسی وقت تلوار اُس کے پیٹ میں گھونپ دیتا۔ مگر نپولین کیلئے ہم کتے ہی تھے وہ ہمیں بُوٹ مارتا اور ہم اُس کے پاؤں چاٹتے۔
شریف اور معزز احمدی سامنے بیٹھے ہیں اور مولوی محمد علی صاحب کہتے ہیں کہ میں جوتیاں مار مار کر تم سے چندہ وصول کروں گا۔ بعد میں بعض احمدیوں نے مجھے یہ بات پہنچائی تو مَیں نے کہا میں امید نہیں کرتاکہ اُنہوں نے یہ الفاظ کہے ہوں مگر کئی لوگوں نے شہادت دی کہ واقعہ میں انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے۔ غرض وہ شخص جسے اتنا بڑا رُعب حاصل تھا میرے مقابل میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی کوئی بات نہ چلنے دی اور اُسے خائب و خاسر کر دیا۔
احرار کی شکست
(۳) اِسی طرح احرار میرے مقابل میں اُٹھے۔ احرار کو بعض ریاستوں کی بھی تائید حاصل تھی۔ کیونکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت جو میرے سپرد کی
گئی تھی اِس کی وجہ سے کئی ریاستوں کو یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ اِس زور کو توڑنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی اور ریاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں یا پھر کشمیر کے خلاف ہی اپنی جدوجہد کو شروع کر دیں۔ چنانچہ احرار نے ۱۹۳۴ء میں شورش شروع کی اور اِس قدر مخالفت کی کہ تمام ہندوستان کو ہماری جماعت کے خلاف بھڑکا دیا۔ اُس وقت مسجد میں منبر پر کھڑے ہو کر میں نے اپنے ایک خطبہ میںاعلان کیا کہ تم احرار کے فتنہ سے مت گھبراؤ۔
’’خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے۔ جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اُس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں اُن کی شکست کو اُن کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں۔ وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں، اتنی ہی نمایاں مجھے اُن کی موت دکھائی دیتی ہے۔‘‘ ۳۸؎
چنانچہ ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ شہید گنج کا واقعہ ہو گیا اور یا تو وہ ساری دنیا میں ہمارے خلاف شور مچاتے تھے اور لوگ انہیں بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور یا پھر لاہور میں جو اُن کا مرکز تھا وہ ایسے ذلیل اور رُسوا ہوئے کہ دو سال تک لوگوں نے اُن کو جلسہ نہ کرنے دیا۔ بیشک ہماری جماعت کی مخالفت ہوتی چلی آئی ہے اور اَب بھی ہیـ۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ہر قدم پر خداتعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھاتا ہے اور کسی ایک موقع پر بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن کے حملہ کی وجہ سے ہماری جماعت کم ہو گئی ہو۔ ہم تو خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک دن بھی ہم پر ایسا نہیں چڑھا جب ہماری تعداد میں پہلے سے اضافہ نہ ہو گیا ہو ۔ پس کامیابی ہماری ہے اور ناکامی ہمارے دشمن کی۔
اِس موقع پر بعض غیرمبائعین یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے۔ اِس لئے یہ زیادتی اور ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت ہے تمہارا اِس سے اپنی صداقت کے متعلق کوئی استدلال کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ سلسلہ کی تمام ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ہی منسوب ہوں گی۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا الہام میں یہ بھی ذکر تھا کہ یہ الہام ایک جھوٹے کے ذریعہ پورا ہو گا۔ مولوی محمد علی صاحب جو سچے ہوں گے اُن کے ذریعہ پورا نہیں ہو گا۔ آخر وہ کیا ہے کہ ایک کاذب کے ذریعہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کا یہ الہام پورا ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ اکنافِ عالَم میں پھیلتی جا رہی ہے مگر صادق کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
مبائعین کے غلبہ کا ایک بیّن ثبوت
ایک دفعہ غیرمبائعین نے لکھا کہ ہماری جماعت میں علمی لوگ زیادہ ہیں مگر تمہاری
جماعت میں علمی لوگ کم ہیں۔ میں نے اُس وقت چیلنج دیا کہ تم اپنی جماعت کے تمام بی۔اے اور ایم۔اے تعلیم یافتہ لوگو ں کی فہرست شائع کر دو۔ مَیں اپنی جماعت کے بی۔اے اور ایم۔ اے پاس افراد کی فہرست شائع کر دوں گا۔ پھر خود بخود پتہ لگ جائے گا کہ علمی لوگ ہماری جماعت میں زیادہ ہیں یا تمہاری جماعت میں۔ اِسی طرح انہوں نے صحابہؓ کا ذکرکیا کہ ہماری جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ زیادہ شامل ہیں۔ میں نے کہا کہ تم اپنی جماعت کے صحابہ کی فہرست شائع کر دو میں اپنی جماعت کے صحابہ کی فہرست شائع کر دوں گا۔ پھر خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ صحابہ کی اکثریت کس طرف ہے۔ مگروہ اِس مقابلہ میں نہ نکلے اور نہ نکل سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری جماعت ہر لحاظ سے اُن پر فوقیت رکھتی ہے اور یہ اُس الہام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی مجھے ہوا کہ
غیر مبائعین میں افتراق پیدا ہونے کی خبر
(۲) دوسرے اللہ تعالیٰ نے غیر مبائعین کے فتنہ کے شروع
میںہی مجھے خبر دی تھی۔ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ۔ اللہ تعالیٰ اِن لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ چنانچہ یہ الہام اُسی وقت میں نے اُس ٹریکٹ میںشائع کر دیا تھا جس کا نام ہے’’کون ہے جو خدا کے کام روک سکے۔‘‘ یہ الہام بھی پورا ہوا، یہاں تک کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو ۹۵فیصدی کہا کرتے تھے اُن کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ وہ واقعہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیںـ۔ اُن میں اتنے شدید اختلافات پیدا ہو گئے اور آپس میں ایسی ایسی سخت مخالفتیں ہوئیں کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی اِس الہام کی صداقت کا اقرار کیا۔ خواجہ صاحب میرے اُستاد تھے کیونکہ اُنہوں نے سکول میں مجھے دو دن پڑھایا تھا۔ اُن کے متعلق یہ روایت ہے جو اُن کے بعض واقفوں نے مجھے پہنچائی کہ وہ اپنی وفات سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ میاں محمود کی کوئی اور بات سچی ہو یا نہ ہو مگر اُن کا یہ الہام تو پورا ہو گیا ہے کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ اور ہم واقعہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ اِس الہام سے پہلے مولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی یہ حالت تھی کہ وہ دانت کاٹی روٹی کھایا کرتے تھے۔ مگر جب وہ میرے مقابل میں کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اِس الہام کے مطابق اُن میں ایسا تفرقہ پیدا کر دیا کہ خواجہ کمال الدین صاحب کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا گیا اور اُن کی اور مولوی محمد علی صاحب کی آپس میں شدید مخالفت ہو گئی۔ اِسی طرح ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے ایک دفعہ احمدیہ مسجد میں کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ ایسا ایسا آدمی یہاں آئے تو سہی مَیں اُس کی ٹانگیں نہ توڑ دُوں اور اِس سے اُن کی مراد مولوی محمد علی صاحب تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب سے بھی اُن کی مخالفت ہوئی اور وہ اِس قدر بیزار ہوئے کہ اُنہوں نے اپنی وفات سے پہلے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے اِرد گرد سخت اندھیرا ہے اور میں اپنے خیالات کا پورے طور پر اظہار نہیں کر سکتا۔ آپ میری طرف اپنا کوئی آدمی بھیجیں، مَیں اُس کے ذریعہ آپ تک بعض باتیں پہنچانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر کو خط دے کر لاہور بھیجا مگر اُس وقت بیماری کی وجہ سے اُن کے تمام رشتہ دار اکٹھے تھے وہ کوئی گفتگو نہ کر سکے۔
گزشتہ جنگ عظیم کے متعلق رؤیا
(۳) تیسرے گزشتہ جنگ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت جبکہ اٹلی اور ٹرکی
دونوں جنگ میں شامل نہیں تھے ایک رؤیا دکھایا۔ میں نے دیکھا کہ جرمنی سے ٹرکی کی طرف کنکشن ہوا ہے اور کوئی خبر ہے جو ٹرکی کے نام جرمنی کی طرف سے پہنچائی جا رہی ہے۔ اِسی دوران میں کسی نے آلہ میرے کان میں لگا دیا اور مَیں نے سُنا کہ جرمن حکومت ٹرکی سے یہ گفتگو کر رہی ہے کہ اٹلی ہمارے خلاف انگریزوں سے ملنے والا ہے، تم ہمارے ساتھ مل جاؤ۔ یہ رؤیا مجھے اُس وقت ہوا جبکہ اٹلی جرمنی کا حلیف تھااور آسٹریا، جرمنی اور اٹلی تینوں کا آپس میں معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اِسی لئے اُن کو TRIPLE ALLIANCE (ٹریپل الائنس) یعنی تین طاقتوں کااتحاد قرار دیا جاتا تھا۔ مگر اِس رؤیا کے عین مطابق واقعہ یہ ہوا کہ اٹلی انگریزوں سے جا ملا اورٹرکی جرمنوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔ گویا دو پہلو تھے جو اِس رؤیا میں بتائے گئے تھے ایک یہ کہ اٹلی جرمنوں سے غداری کرے گا اور دوسرا یہ کہ ٹرکی اِس کے مقابلہ میں جرمنوں سے جا ملے گا۔ دنیا میں کوئی بڑے سے بڑا سیاست دان بھی قبل از وقت ایسی بات نہیں کر سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر بتائی اور جیسا کہ مجھے دکھایا گیا تھا ویسا ہی وقوع میں آگیا۔
ایک اور اہم رؤیا
(۴) اِسی طرح گزشتہ جنگ کے موقع پر جب بیلجیئم پر حملہ ہوا اور جرمن بڑے زور سے آگے بڑھ رہے تھے۔ مَیں نے رؤیا میں
دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمن اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے۔ جرمن فٹ بال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گول ہو نہیں سکا۔ اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا۔ جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی فٹ بال لیکر دوڑنے لگے۔ مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنا لیں جن کے اندر وہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بھی بیٹھ گئے۔ بعینہٖ اِسی طرح گزشتہ جنگ میں جرمن لشکر نے جب حملہ کیا تو اِس کی فوجیں بڑھتے بڑھتے پیرس تک پہنچ گئیں یہاں تک گورنمنٹ کے ذخائر بھی دوسری جگہ تبدیل کر دیئے گئے مگر پھر اُسے واپس لوٹنا پڑا اور جب وہ سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اِس نے ٹرنچز (TRENCHES) بنا لیں اور اُس کے اندر بیٹھ گیا اور اِس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی۔
مشکلات کے ہجوم میں خداتعالیٰ کے فضل اور رحم پر بھروسہ رکھنے کی تلقین
(۵) پانچویں خواب جو میں ہمیشہ سے سُناتا چلا آ رہا ہوں اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری بھی اِس کے گواہ ہیں۔ وہ یہ ہے کہ
میں نے ۱۹۱۳ء میں جبکہ میں شملہ کے مقام پر تھا، رؤیا میں دیکھا کہ کوئی بہت بڑا اور اہم کام میرے سپرد کیا گیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے راستہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ ایک فرشتہ میرے پاس آتا ہے اور وہ مجھے کہتا ہے کہ اِس کام کی تکمیل کے راستہ میں بہت سی رُکاوٹیں حائل ہوں گی اور شیطان اور ابلیس مختلف طریقوں سے تمہیں ڈرائیں گے اور تمہیں اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے مگر اُن کا کوئی خیال نہ کرنا بلکہ جب بھی کوئی ایسی روک دکھائی دے تم نے یہ کہنا شروع کر دینا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ چنانچہ میں چل پڑا۔ میرا راستہ دو پہاڑیوں کے درمیان میں سے گزرتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ میں جنگل میں سے جا رہا ہوں۔ بالکل سنسان بیانان ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بہت خطرہ اور خوف کی جگہ ہے۔ مَیں اِسی طرح جا رہا ہوں کہ دُور سے شور سنائی دیتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں میرے کانوں میں آنے لگتی ہیں۔ کوئی مجھے گالی دیتا ہے اور کوئی مجھ سے بیہودہ سوال کرتا ہے لیکن میں اُن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا اور ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتا ہوا آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہوں اور جب میں یہ الفاظ کہتا ہوں تو وہ شور بند ہو جاتا ہے۔ مگر تھوڑی دُور اور آگے گیا تو مجھے بعض عجیب قسم کے وجود نظر آنے لگے اور اُن کی عجیب عجیب شکلیں دکھائی دینے لگیں، کسی کے کئی کئی ہاتھ ہیں، کسی کا سر بہت بڑا ہے اور کسی کا بہت چھوٹا۔کوئی وجود تو انسان کا ہے مگر اُس کا سر ہاتھی کا ہے اور کسی کا دھڑ شیر کا ہے اور سر انسان کا ہے، کہیں خالی دھڑ ہی دھڑ ہیں اور کہیں خالی سر ہی سر ہیں۔ یہ سب کے سب مجھے ڈراتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور مجھے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں مگر جب بھی میں کہتا ہوں۔ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ تو یہ سب شکلیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اِس کے تھوڑی دیر بعد بعض اور بھیانک نظارے نظر آنے لگ گئے ۔ کوئی ہاتھ کٹا ہوا علیحدہ نظر آتا ہے، کوئی سر بغیر دھڑ کے دکھائی دیتا ہے اور کوئی دھڑ بغیر سر کے نظر آتا ہے، کوئی شکل ایسی نظر آتی ہے کہ جس کی لمبی سی زبان باہر نکلی ہوئی ہے، کسی کے بال کُھلے ہوئے ہیں، کسی کی آنکھیںحلقوں سے باہر نکل رہی ہیں اور وہ شکلیں طرح طرح سے مجھے ڈرانے کی کوشش کرتی ہیں۔ مگر میں ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہوں اور جب میں یہ الفاظ کہتاہوں تو یہ تمام جن اور بھوت غائب ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ میں منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔
یہ رؤیا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی زندگی میں ۱۹۱۳ء کے شروع میں مَیں نے دیکھا تھا۔ اُس وقت میں نے سمجھا کہ میری زندگی میں کوئی ایسا تغیر پیدا ہونے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص کام میرے سپرد کیا جائے گا۔ دشمن مجھے اُس کام سے غافل کرنے کی کوشش کرے گا وہ مجھے ڈرائے گا، دھمکائے گا اور گالیاں دے گا مگر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ میں اُن کی گالیوں کی طرف توجہ نہ کروں اور ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتا ہوا منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاؤں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ہر مضمون پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں کہ :
’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘
اِس رؤیا کو دیکھو کہ کس طرح میری زندگی میںاِس کا ایک ایک حرف پورا ہوا۔ بارہالوگوں نے چاہا کہ وہ مجھے اپنی باتوں میں اُلجھا کر اصل مقصد سے غافل کردیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی مجھے اِس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ مَیں اُن کے منصوبوں میں نہ آؤں اور خدا تعالیٰ نے میرے سپرد جو کام کیا ہے اُس کو کرتا چلا جاؤں۔ مولوی محمد علی صاحب یا مولوی ثناء اللہ صاحب لغو اور بیہودہ شرائط پیش کر کے کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے چیلنج کو قبول نہیں کیا جاتا مگر میں اُن کی اِن باتوں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میرے خدا نے مجھے کہا کہ میں لغو باتوں میں اپنا وقت ضائع نہ کروں اور’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ کہتا ہوا منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاؤں۔ آخر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کتنی لغو بات ہے کہ عقائد پر بحث ہو تو میری جماعت میں سے جج مولوی محمد علی صاحب مقرر کریں اور اُن کی جماعت سے مَیں مقرر کروں۔ بچے بھی ایسی بیہودہ بات نہیں کرتے مگر مولوی محمدعلی صاحب ہمیشہ ایسی ہی باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے رہتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ میں بھی اِن باتوں میں اُلجھ جاؤں یا کفر و اسلام وغیرہ مسائل میں کوئی کمزوری دکھاؤں یا غیراحمدیوں کے جنازہ کے متعلق یا اُن کے رشتہ ناطہ کے متعلق کوئی ایسی بات کہہ دوں جو میرے عقائد کے خلاف ہو مگر میںایسے لغو امور پر اپنے وقت کو ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ اگر صفائیِ نیت کے ساتھ سیدھے طور پر بحث کرنے کے لئے وہ تیار ہوں تو مجھے اُن سے بحث کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اگر وہ لغو شرائط اور بیہودہ باتیں پیش کرنا شرو ع کر دیں تو میں اُن شراط کی طرف توجہ نہیں کر سکتا کیونکہ میرے خدا نے مجھے اِن باتوں سے منع کیا ہوا ہے۔ یہی بات میں نے رؤیا میں دیکھی تھی کہ جب میں چلا تو راستے میں ایک بڑا جنگل آ گیا اور مختلف قسم کی رُوحوں نے مجھے اپنے مقصد سے منحرف کرنے کی کوشش کی اور بعض نے مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں مگر مَیں نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہ کی ۔ پھر بڑھا تو عجیب عجیب شکلوں نے میرے سامنے ناچنا کُودنا شروع کر دیا۔ کسی کا منہ جانور کا تھا اور دھڑ انسان کا اور کسی کا دھڑ انسان کا تھا مگر سر گدھے کا۔ میں نے پھر بھی توجہ نہ کی اور یہ یہی کہتا چلا گیا کہ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ ’’خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘ اِس رؤیا پر میں نے ہمیشہ عمل کیا اور اَب بھی میرا عمل اِسی کے مطابق ہے۔ اگر مَیں شکست خوردہ ہوں، اگر مَیں میدانِ مقابلہ سے بھاگنے والا ہوں، اگر مَیں بہانے بنا بنا کر بحثوں کو ٹالنے والا ہوں تو مخالفین کو آخر سوچنا چاہئے کہ وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی لاتا ہے میرے پاس لاتا ہے۔ وہ ہمارے راستہ میں اِس طرح بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح منکرین انبیاء کے راستہ میں بیٹھا کرتے ہیں۔ مگر اِس کے باوجود اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور جو بھی آتا ہے میرے پاس آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ پیر پرست تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے کو جب اُنہوں نے خلیفہ بنتے دیکھا تو فوراً اُسے مان لیا۔ مگر مَیں کہتا ہوں وہ لوگ تو ساری جماعت کا دسواں حصہ بھی نہیں ہیں۔ اگر انہوں نے پیرپرستی کی وجہ سے مجھے مان لیا تھا تو سوال یہ ہے کہ اَب جو لوگ غیروں میں سے لاکھوں کی تعداد میں آ رہے ہیں یہ کونسی پیرپرستی کی وجہ سے آ رہے ہیں۔ یہ تو تمہاری باتیں سُن کر اور تمہارے فتووں کو پڑھ کر میری طرف آئے ہیں اور اِن کی تعداد اُن لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہے جن کے متعلق یہ کہاجاتا ہے کہ وہ پیرپرستی کی وجہ سے میری بیعت میں شامل ہوئے تھے۔
میرے پاس ایک دفعہ اوکاڑہ کے ایک تاجر آئے اور کفرو اسلام اور نبوت وغیرہ مسائل پر بڑی بحث کرتے رہے۔ وہ حاجی تھے اور بڑی عمر کے تھے جب وہ بہت بحث کر چکے تو میں نے اُن سے کہاکہ آپ مرزا صاحب کو تو مانتے ہیں صرف آپ کو نبوت یا کفرواسلام وغیرہ چند مسائل میں ابھی اطمینان نہیں۔ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانتے ہیںتو کم از کم پہلا قدم تو اُٹھائیے اور اگر میری بیعت نہیں کر سکتے تو لاہورمیں جا کر مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لیجئے۔ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی نہیں مانتے۔ میری یہ بات سُن کر وہ بے تاب ہو کر کہنے لگے میں بیعت کروں گا تو آپ کی ہی کروں گا آدھے راستے میں تو مَیں نہیں ٹھہر سکتا۔ گویا وہ جو اُن کے ہم خیال ہیں وہ بھی اُن کی بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں اور اُن کے دل میںبھی یہی بات پائی جاتی ہے کہ اگر ہم نے بیعت کی تو قادیان میں ہی جا کر کریں گے۔ قلوب پر یہ عظیم الشان تصرف جو نظر آ رہا ہے، اُنہیں سوچنا چاہئے کہ آخر اِس کی وجہ کیا ہے۔ لوگوں کو اشتعال وہ دلاتے ہیں، الزام وہ لگاتے ہیں، جوش وہ دلاتے ہیں مگر اِس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کی گردنیں پکڑ پکڑ کر میری طرف لا رہا ہے اور وہ خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔ کوئی اِکاّ دُکاّ اُن کی طرف چلا جائے تو علیحدہ بات ہے۔ گویا ہماری اور اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے جال والا اپنے جال کے ذریعہ بہت سی مچھلیاں پکڑ کر لے آتا ہے اور دوسرا شخص لہر کی پھینکی ہوئی مُردہ مچھلی کو اُٹھا کر اپنے گھروں میں لے جاتا ہے۔
سیٹھ عبداللہ بھائی کے متعلق ایک عجیب رؤیا
(۶) پھر چھٹی پیشگوئی جو خداتعالیٰ نے مجھ سے کروائی
وہ بھی اپنی ذات میں ایک زندہ ثبوت اِس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے اخبارِ غیبیہ سے اطلاع دیتا اور اُن کو نہایت ہی شان کے ساتھ پورا کرتا ہے۔
۱۹۱۵ء یا ۱۹۱۶ء کی بات ہے کہ ہمارے مبلّغ حیدر آباد دکن گئے اور وہاں سے انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ ایک خوجہ قوم کے تاجر ہیں جن کا نام عبداللہ بھائی ہے۔ ہم انہیں تبلیغ کرنے گئے تھے انہوں نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں جو آپ کی خدمت میں بھیجے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر اُن کی تسلی ہو گئی تو وہ احمدی ہو جائیں گے۔ جب مجھے یہ خط پہنچا مَیں نے اُن سوالات کے جواب لکھوائے اور ساتھ ہی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت عطا فرمائے۔ رات کو مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک میدان ہے جس میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اور اُس پر سیٹھ عبداللہ بھائی بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آسمان مَیں سے ایک کھڑکی کُھلی ہے اور اُس میں سے نور کے بورے بھر بھر کر فرشتے اُن پر ڈال رہے ہیں۔ مَیں نے اُسی وقت اِس رؤیا کی اپنے دوستوں کو اطلاع دے دی۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد ہی اُنہوں نے بیعت کر لی۔ یوں تو بیسیوں تاجر ہماری جماعت میں داخل ہوتے رہتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ مجھے اُن کے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلی کوئی خواب آیا ہو۔ لیکن سیٹھ عبداللہ بھائی ابھی ہماری جماعت میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق رؤیا دکھایا کہ آسمان میں سے خدا کا نور اُن پر چاروں طرف سے برس رہا ہے جس کے معنی یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے خاص طور پر خدمتِ دین کا کام لے گا اور اُنہیں اسلام کا نور دنیا میں پھیلانے کی توفیق عطا کرے گا۔
سیٹھ عبداللہ بھائی کی علمی قابلیت زیادہ اعلیٰ درجہ کی نہیں بلکہ اُن کی اُردو بھی درحقیقت ہمارے نقطۂ نگاہ سے صحیح نہیں۔ انگریزی میں بھی اُن کی تعلیم بہت معمولی ہے۔ وہ ابھی چھوٹے بچے تھے کہ اُن کے والد فوت ہوگئے اور انہیں تعلیم کی بجائے تجارت کے کام کی طرف توجہ کرنی پڑی۔ مگر باوجود اِس کے کہ اُن کی تعلیم معمولی تھی، اُن کی انگریزی تعلیم بھی زیادہ نہ تھی اور اُردو بھی زیادہ صحیح نہ لکھ سکتے تھے اللہ تعالیٰ نے اِس رؤیا کو ایسی شان کے ساتھ پورا کیا کہ اِسے دیکھ کر اُس کی قدرت اور طاقت کا نقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اِس رؤیا کے بعد وہ احمدی ہوئے اور اُنہوں نے سلسلہ کی کتابیں پڑھیں اور پھر تبلیغ کی طرف ایسے جوش کے ساتھ متوجہ ہوگئے کہ اِس وقت تک ڈیڑھ لاکھ روپیہ وہ سلسلہ کی کتابوں اور تبلیغی لٹریچر کی اشاعت وغیرہ پر خرچ کر چکے ہیں۔ اب دیکھو ایک شخص ہماری جماعت میں داخل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جاتا ہے کہ اُس پر آسمان سے خدا کا نور برس رہا ہے۔ پھر اس رؤیا کے عین مطابق اللہ تعالیٰ اُسے توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ روحانی علوم کو دنیا میں پھیلائے اور لوگوں کو احمدیت میں داخل کرے۔ پھر باوجود اِس کے کہ اُن کی صحت کمزور تھی، خدا نے اُن کو لمبی زندگی خدمتِ دین کے لئے عطا فرمائی۔ اُن کے کان اتنے خراب تھے کہ آلہ لگا کر لوگوں کی باتیں سنتے تھے مگر خداتعالیٰ نے بعد میں اپنے فضل سے اُن کی شنوائی کو درست کر دیا اور وہ بغیر آلہ کے ہی باتیں سننے لگ گئے۔ یہ کتنی عظیم الشان خبر ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ نہ انہیں احمدیت کا علم تھا نہ اُن کا علمی مذاق تھا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی اور پھر اِس کے بعد آپ ہی آپ اُن کے دل میں القاء اور الہام ہوا اور اُنہوں نے سلسلہ کی تائید میں کتابیں لکھنی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ اُن کی کتب اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو مختلف زبانوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انگریزی میں بھی اور اُردو میں بھی اور گجراتی میں بھی۔ اِسی طرح اب تک وہ ایک لاکھ روپیہ انعام دینے کے اشتہارات شائع کر چکے ہیں بشرطیکہ مخالف اُن کی مقرر کردہ شرائط کے مطابق اختلافی مسائل کا تصفیہ کرنے پر آمادہ ہوں۔ لوگ دس دس، بیس بیس اور سَو سَو روپیہ کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں مگر وہ ہزاروں روپے انعام دیتے ہیں اور کوئی شخص لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ کیسی زبردست پیشگوئی ہے جو سیٹھ عبداللہ بھائی کے ذریعہ پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تاجر قوم میں سے ، ایک ایسی قوم میں سے جو اُردو بھی صحیح نہیں جانتی اور جس کی انگریزی تعلیم بھی بہت معمولی ہے، ایک شخص احمدیت میں داخل ہوگا وہ بظاہر علمی دنیا سے کوئی تعلق نہ رکھتا ہوگا مگر خدا اُسے قبول کرے گا اور آسمان سے نور کے بورے بھربھر کر اُس پر برسائے گا۔ چنانچہ پھر وہ شخص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہے اور تبلیغ کا ایسا جنون اُس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دس لاکھ کتابیں اور اشہارات سلسلہ کی تائید کے لئے شائع کرتا اور علاوہ اور چندوں میں حصہ لینے کے یہ تمام اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرتا ہے۔
سرسکندر حیات خاں کے متعلق ایک رئویا
(۷) پھر دس بارہ سال کی بات ہے میں نے رئویا میں دیکھا کہ
سر سکندر حیات خاں کی طرف سے ایک آدمی آیا ہے جس نے ایسی وردی پہنی ہوئی ہے جیسے پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے اردلیوں کی ہوتی ہے اور اُس کے ہاتھ میں ایک لفافہ ہے جو تار کی شکل کا ہے مگر ہے خط۔ وہ کہتا ہے کہ یہ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے لئے ہے۔ میں نے اُسے کہا کہ لائو یہ خط مجھے دے دو۔ اُس نے مجھے دے دیا۔ میں نے اُسے دیکھاتو اُس میں سرسکندر حیات خاں نے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو یہ لکھا تھا کہ میں کسی کام کے متعلق آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں، آپ مجھے ملیں۔ اِس خواب کا ایک حصہ تو اُسی وقت پورا ہو گیا کیونکہ سرسکندر حیات خاں جو اُس وقت بہاولپور میں وزیر تھے اُن کا چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے نام تار آیا کہ میں بھوپال گورنمنٹ کے ایک کام کے لئے بمبئی جا رہا ہوں اور آپ سے بھی مشورہ لینا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں۔ لیکن اِس خواب کا ایک دوسرا حصہ بھی تھا اور وہ یہ کہ وہ پنجاب گورنمنٹ میں وزارت کے عہدے پر پہنچیں گے کیونکہ میں نے اُن کے اردلی کو ایسی وردی پہنے دیکھا تھا جو پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے اردلیوں کی ہوتی ہے۔ خواب کا یہ حصہ بعد میں اِس طرح پورا ہوا کہ وہ پہلے ریونیو ممبر بنے اور پھر پنجاب گورنمنٹ کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔
سرسکندر حیات خاں نے بے شک اپنی زندگی کامیاب طور پر بسر کی ہے مگر اُن کی پہلی زندگی ایسی کامیاب نہیں تھی۔ جب سرمانٹیگو آئے تو اُس وقت مَیں بھی دہلی گیا۔ سرسکندر حیات اُس وقت نوجوان تھے ۲۴،۲۵ سال اُن کی عمر تھی اور وہ دہلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مجھ سے ملنے کیلئے آئے اور کہنے لگے کہ خان بہادر راجہ پائندہ خاں جنجوعہ کو آپ اجازت دیں کہ وہ زمینداروں کے اُس وفد میں شامل ہوں جو ہماری طرف سے سرمانٹیگو کے سامنے پیش ہونے والا ہے۔ میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری طرف سے بھی ہوں اور آپ کی طرف سے بھی۔ ممکن ہے آپ کے میمورنڈم میں کوئی ایسی باتیں ہوں جو ہمارے نزدیک درست نہ ہوں اور ہم اُن کے خلاف اپنے میمورنڈم میں اظہار خیالات کر چکے ہوں۔ وہ کہنے لگے پھر کیا کیا جائے اُن کا شامل ہونا نہایت ضروری ہے۔ میں نے کہا پھر ایک شرط ہے اپنا میمورنڈم لائیے تا کہ میں اُسے دیکھ لوں۔ اگر اس میں کوئی اختلافی بات ہوئی تو میں اُسے کاٹ دوں گا۔ پھر بے شک وہ آپ کی طرف سے بھی پیش ہو سکتے ہیں۔ اُنہوں نے یہ بات منظور کر لی۔ وہ میمورنڈم لائے اور میں نے اُس میں سے پانچ سات غلطیاں نکالیں جن کو اُنہوں نے تسلیم کیا اور اُن کی اصلاح کی۔ غرض اُس وقت اُن کی حیثیت بالکل طالب علمانہ تھی اور مجھ سے اِس طرح مشورہ لیتے تھے جس طرح شاگرد اپنے اُستاد سے مشورہ لیتا ہے۔ ایسے شخص کے متعلق جس کی سیاسی دنیا میں کوئی خاص شہرت نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خبریں دیں ایک تو یہ کہ وہ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو اپنے کسی کام کے لئے بلائیں گے اور دوسری یہ کہ وہ گورنمنٹ پنجاب میں وزارت کے عہدہ پر آ جائیں گے۔ اِن میں سے ایک خبر تو معاً اُنہی دنوں میں پوری ہو گئی اور دوسری خبر کچھ عرصہ کے بعد جا کر پوری ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کی خبر
(۸) آٹھویں خبر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل
کی وفات کے متعلق ملی۔ مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں گاڑی میں بیٹھا ہوا کہیں سے آ رہا ہوں کہ راستہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح وفات پا گئے ہیں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جبکہ حضرت خلیفہ اوّل بیمار تھے۔ اُنہی ایام میں مجھے ایک ضروری کام کے لئے لاہور جانے کی ضرورت محسوس ہوئی مگر اِس رؤیا کی وجہ سے میں نے لاہور جانا ملتوی کر دیا اور میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ میں جانے سے اِس لئے ڈرتا ہوں کہ مجھے رؤیا میں گاڑی میں سوار ہونے کی حالت میں حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کی خبر ملی ہے ایسا نہ ہو کہ میں باہر جاؤں اور یہ واقعہ ہو جائے۔ پس میں نے اپنے سفر کو ملتوی کر دیا تاکہ یہ خواب کسی طرح ٹل جائے۔ مگر انسان خداتعالیٰ کے فیصلہ سے بچنے کی خواہ کس قدر کوشش کرے بعض دفعہ تقدیرپوری ہو کر رہتی ہے۔ آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کے حکم کے ماتحت جمعہ بھی اور دوسری نمازیں بھی مَیں ہی پڑھایا کرتا تھا۔ ایک دن جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد اقصیٰ میں گیا اور نماز سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے لئے مَیں اپنے گھر چلا گیا۔ اتنے میں خان محمد علی خان صاحب کا ایک ملازم میرے پاس اُن کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور اُن کی گاڑی کھڑی ہے۔ چنانچہ میں اُن کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر اُن کے مکان کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی ہم راستہ میں ہی تھے کہ ایک شخص دَوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہاکہ حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے ہیں ۔ اِس طرح وہ رؤیا پورا ہو گیا جو میں نے دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں کہیں سے آ رہا ہوں کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کی خبر ملی ہے۔ میں نے محض اِس لئے کہ یہ خواب ٹل جائے باہر جانے سے اپنے آپ کو روکا مگر خدا تعالیٰ نے قادیان میں ہی اِس کو پورا کر دیا۔
دیوار گرائے جانے کی خبر
(۹) پھر مَیں ابھی بچہ ہی تھا کہ ہمارے شرکاء نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شدید مخالف
تھے، مسجد کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر کے اُس کا دروازہ بند کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کے لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اُوپر سے چکر کاٹ کر اور سخت تکلیف اُٹھا کر آتے۔ اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب لوگوں کو دعا کرنے کے لئے کہااور مجھے بھی دعا کا ارشاد فرمایا۔ میری عمر اُس وقت پندرہ سال کی تھی میں نے دعا کی تو مجھے ایک رؤیا ہوا جس میںمَیں نے دیکھا کہ میںبڑی مسجد سے آ رہاہوں کہ دیوار گرائی جا رہی ہے۔ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل بھی تشریف لا رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جا رہی ہے۔ خداتعالیٰ کی قدرت ہے پہلے ایک مقدمہ ہوا جس میں ناکامی ہوئی پھر دوسرا مقدمہ ہوا اور اُس میں ناکامی ہوئی آخر تیسرے مقدمہ میںکامیابی ہوئی اور عدالت نے دیوار گرائے جانے کا حکم دے دیا۔ مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اوّل اُس روز درس دے رہے تھے۔ جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے۔ مَیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفہ اوّل آ رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جا رہی ہے۔ـ گویا جس طرح میں نے خواب میں نظارہ دیکھا تھا ویسا ہی وقوع میں آ گیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے یہ خواب حضرت خلیفہ اوّل کو سُنایا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ نے اُس وقت میری بات سُن کر فرمایا لو میاں تمہاری خواب پوری ہو گئی۔ یہ دیوار اُس مقام پر تھی جہاں آ جکل محاسب کا دفتر ہے۔
ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کے متعلق ایک حیرت انگیز رؤیا
(۱۰) پھر پچھلی جنگ کا واقعہ ہے۔ ہم اُن دنوں حضرت اماں جان کے گھر تینوں بھائی کھانا کھایاکرتے تھے۔ اُس وقت ہمارا دستور یہ تھا
کہ ہم ایک وقت کا کھانا اُن کے ہاں کھایا کرتے تاکہ اُن کا دل بہلا رہے ۔ جب ہم تینوں بھائی وہاں اکٹھے تھے تو میاں شریف احمد صاحب نے (جن سے ماسٹر محمد نذیر خاں صاحب نے یہ بات بیان کی تھی)ذکر کیا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے متعلق یہ اطلاع آئی ہے کہ وہ جنگ میں مارے گئے ہیں۔ اِس سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کی والدہ اور اُن کے والد قادیان میں آئے تھے۔ میں نے گھر میں اُن کی والدہ کو دیکھا تھا اور باہر جبکہ میں ایک خطبۂ نکاح پڑھا رہا تھا، مَیں نے اُن کے والد کو دیکھا تھاوہ اُس وقت میرے سامنے ہی بیٹھے تھے اور اُس وقت اتنے کمزور اور منحنی تھے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب تو بتاتے ہیں کہ اُن کی عمر اُس وقت پینسٹھ سال تھی مگر مجھے وہ پچھتر سال کے نظر آتے تھے اور بہت ہی ضعیف ہو چکے تھے۔ سات آٹھ دن کے بعد جب میں نے سُنا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب فوت ہو گئے ہیں تو مجھے یہ خبر سُن کر شدید صدمہ ہوا۔ مجھے اُس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے علاوہ اُن کے اور بھی لڑکے ہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ اُن کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ بہرحال مَیں نے جب اِس خبر کو سُنا تو مجھے بہت تکلیف ہوئی کہ اِس عمر میں اکلوتے بچے کی وفات کا اُنہیں بہت ہی صدمہ ہوا ہو گا۔ چنانچہ میں کھانا تو کھاتا جاؤں مگر بار بار دل سے دعا نکلے کہ خدایا! وہ زندہ ہی ہوں۔ پھر میں اپنے دل کو سمجھاؤں کہ کیا مُردے بھی کبھی زندہ ہو سکتے ہیں۔ مگر باوجود اِس علم کے کہ مُردے زندہ نہیں ہو سکتے، دل سے بار بار یہی دعا اُٹھے کہ خدایا! وہ زندہ ہی ہوں۔ یہی کیفیت مجھ پر طاری رہی۔ رات کو جب میں سویا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا ہے اور وہ آ کر کہتا ہے کہ ڈاکٹر مطلوب خاں چند دن فوت رہنے کے بعدزندہ ہو گئے ہیں۔ دوسرے دن پھر میں نے اسی مجلس میں ذکر کیا کہ ہمارے نزدیک تو مُردہ زندہ نہیں ہو سکتا مگر ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں۔ معلوم نہیں اِس خواب کا کیا مطلب ہے، حالانکہ اُن کے متعلق تو اطلاع بھی آ چکی ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں۔ ماسٹر محمد نذیر خاں صاحب کو یہ خبر مرزا معظم بیگ صاحب نے بتائی تھی جو آجکل گلگت میں قونصل خانہ کے ہیڈ کلرک ہیں اور اُن دنوں وہ بغداد میں تھے اور بصرہ کے راستے واپس ہندوستان آئے تھے انہیں بصرہ ہسپتال سے معلوم ہوا تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خان صاحب مارے گئے ہیں اور انہوں نے ہی ماسٹر نذیر خاں صاحب کو اِس کی اطلاع دی۔ ماسٹر صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب یا میاں شریف احمد صاحب سے اِس کاذکر کیا اور اُنہوں نے یہ بات میرے آگے بیان کی لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب چند دن کے بعد پھر زندہ ہو گئے ہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان کئے کہ بعد میں گورنمنٹ کی طرف سے اطلاع آ گئی کہ ڈاکٹر مطلوب خان صاحب کی موت کی خبر غلط ہے، وہ زندہ ہی ہیں۔ چونکہ اُنہیںعرب لوگ قید کر کے لے گئے تھے اور اِس پارٹی کے قریباً تمام آدمیوں کو عربوں نے قتل کر دیا تھا، اِس لئے اُن کو بھی مردہ سمجھ لیا گیا تھا ورنہ دراصل وہ زندہ تھے۔
پہلے میری سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ اُن کی موت کی خبر کس طرح مشہور ہو گئی مگر اترسوں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کو بُلا کر میں نے اُن سے تفصیلی حالات پوچھے تو مجھے اِس حقیقت کا علم ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ۱۹۲۰ء میں جب عراق میں بغاوت ہوئی تو مجھے ناصریہ سے جہازوں کے ایک قافلہ کے ہمراہ دریائے فرات کی طرف روانہ کیا گیا تاکہ ایک فوجی جہاز ’’گرین فلائی‘‘ جو دریائے فرات کے کنارہ پر ریت میں پھنس گیا تھا اور ایک ماہ سے اُس کے آدمی بغیر راشن کے تھے اُن کو ضروری راشن اور روپیہ وغیرہ دیا جائے اور اگر ہو سکے تو جہاز کو بھی کھینچ کر نکالا جائے۔ اِسی طرح سماوہ میں ایک انگریزی فوج گھری ہوئی تھی اِس کو بھی راشن، روپیہ اور گولہ بارود پہنچانا ہمارا کام تھا۔ وہ کہتے ہیں راستہ میں عربوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے جہاز کے چند آدمی خطرناک طور پر زخمی ہو گئے۔ اُن کو مرہم پٹی کرتے وقت میرا جسم بھی خون سے لتھڑ گیا بلکہ کارتوسوں کے کچھ چھرّے میرے جسم پر بھی لگے جن سے خون جاری ہو گیا۔ دوسرے جہاز جو ساتھ آئے تھے وہ بھی اِس جہاز کو چھوڑ کر آگے نکل گئے۔ عربوں نے جب دیکھا کہ یہ جہاز اکیلا کنارے پر رہ گیا ہے تو وہ اپنے مورچوں سے باہر نکل آئے اور پھر تختۂ جہاز پر چڑھ کر لُوٹ مچا دی۔ کسی کو خنجر سے مارا، کسی کو گولی سے اور کسی کو تلوار سے اور جس قدر سامان تھا سب لُوٹ لیا۔
ڈاکٹر مطلوب خاں کہتے ہیں مَیں نے ایک عرب کی جو ایک گاؤں کا شیخ تھا، پناہ لی اور آخر جہاز سے اُنہوں نے مجھے نکالا اور قید کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ چونکہ جہاز میںزخمیوں کی مرہم پٹی کرتے وقت اور کچھ گولیوں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کا جسم سر سے پَیر تک لہولہان ہو گیا تھا اِس لئے ایک جمعدار نے جو وہاں سے بھاگ نکلا تھا اور زخمی ہو کر بصرہ ہسپتال میںاپنے علاج کے لئے داخل ہوا تھا، اُس سے ہسپتال کے ڈاکٹر نے پوچھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں کا کیا حال ہوا؟ تو اُس نے بتایا کہ وہ سخت زخمی تھے اور غالباً مارے گئے ہیں۔ اُس نے چونکہ اُن کو خون میں لتھڑا ہوا دیکھا تھا، اس لئے کچھ بات اپنے پاس سے ملا کر کہہ دیا کہ وہ غالباً مر چکے ہیں۔ اُس ڈاکٹر نے اپنے ایک دوست کو جو دھرم سالہ چھاؤنی ہسپتال میں کام کرتا تھا، اطلاع دی کہ ڈاکٹر مطلوب خاںصاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ مار ے گئے ہیں۔ دھرم سالہ میں ڈاکٹر مطلوب خاں صاحب کے ماموں اور اُن کے سُسرال تھے۔ـ انہیں اُس ڈاکٹر سے اس بات کاعلم ہوا اور پھر رفتہ رفتہ یہ بات قادیان میں مجھ تک پہنچ گئی۔ اُن کے والد صاحب نے گورنمنٹ کو لکھا تھا کہ ڈاکٹر مطلوب خاں کے بارہ میں کیا اطلاع ہے۔ گورنمنٹ نے جواب دیا کہ اُن کی موت کی خبر مصدقہ نہیں وہ مسنگ لِسٹ (MISSING LIST) پر ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہوائی جہاز اِس علاقہ میں گئے جہاں وہ قید تھے اور اُنہوں نے اوپر سے بمباری کی۔ ساتھ ہی انگریزی فوج کی کمک بھی پہنچ گئی اور وہاں دو دن تک سخت مقابلہ ہوا۔ تیسرے دن برطانیہ کو فتح ہوئی۔ اُس وقت ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں، میں نے عرب شیخ سے کہا کہ اَب وہ مجھے چھوڑ دے۔ اُس نے کہا دو تین دن تک ٹھہرو میں تمہیں گھوڑے پر سوار کر کے بھیجوں گا۔ مگر میں نے کہا کہ مجھے پیدل چلنے میں کوئی تکلیف نہیں۔ آخر اُس نے ایک شخص کے ہمراہ بہت خاطر مدارات کے ساتھ انہیں واپس کیا اور اِس طرح ایک مُردہ خداتعالیٰ کے فضل سے زندہ ہو گیا۔
اَب دیکھو ایک شخص کے متعلق خبر آتی ہے کہ وہ مارا گیا ہے۔ گورنمنٹ بھی شک میں پڑی ہوئی ہے اور وہ کہتی ہے کہ ہم نے اس کا نام مسنگ لسٹ میں رکھا ہوا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ مگر خداتعالیٰ بتاتا ہے کہ وہ چند دنوں کے بعد زندہ ہو جائے گا۔ـ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہاں ہوائی جہاز پہنچتے ہیں، وہ بمباری کرتے ہیں اور اِس طرح انہیں آزاد ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی قدرت اور اُس کی طاقت کا کیسا زندہ نشان ہے اور کس طرح اُس نے ایک مُردہ کو زندہ کر کے دکھا دیا۔
انگلستان پر جرمنی کے حملہ اور انگریزی اور فرانسیسی حکومتوں کے الحاق کی خبر
(۱۱) پھر انگلستان اور جرمنی کی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ مَیں نے دھرم سالہ میں جہاں میں اُن دنوں
تبدیل آب و ہوا کے لئے مقیم تھا رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور میرا منہ مشرق کی طرف ہے کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے جیساکہ سرشتہ دار ہوتے ہیں بعض کاغذات میرے سامنے پیش کرنے شروع کر دیئے۔ وہ کاغذات انگلستان اور فرانس کی باہمی خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ مختلف ڈاکیومنٹس(DOCUMENTS) کے بعدایک ڈاکیو منٹ میرے سامنے پیش کیا گیا۔ میں نے اُسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی ہے جو انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کو لکھی گئی ہے اور اُس کا مضمون یہ ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں گھِر گیا ہے۔جرمنی اُس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اُسے مغلوب کر لے۔ اِس لئے ہم آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ انگریزی اور فرانسیسی دونوں حکومتوں کا اِلحاق کر دیا جائے، دونوںایک نظام کے ماتحت آ جائیں اور دونوں کو آپس میں اِس طرح ملا دیا جائے کہ دونوں کے شہریت کے حقوق یکساں ہوں۔ یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں مَیں سخت گھبرا گیا اور قریب تھاکہ اِسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کُھل جاتی کہ یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اِس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بالکل بدل جائیں گے اور انگلستان کی خطرہ کی حالت جاتی رہے گی۔ یہ رؤیا میں نے اُنہی دنوں بعض دوستوں کو سُنا دیا تھا۔ جب مَیں نے یہ رؤیا دیکھا اُس وقت لوگوں کو ابھی جنگ کے شروع ہونے کا بھی یقین نہیں آتا تھا۔ لوگ عام طور پر کہتے تھے کہ ہٹلر ڈراوے دے رہا ہے۔ یہ رؤیا دھرم سالہ میں جو لائی ۱۹۳۹ء کے آخر یا اگست کے شروع میں مَیں نے دیکھا تھا۔ اِس کے بعد ستمبر ۱۹۳۹ء میں جنگ شروع ہوئی اور وہ بھی ایسے رنگ میں کہ مارچ تک کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ہٹلر غالب آ جائے گا۔ بِالعموم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ برابر کی ٹکر ہے۔ مارچ کے آخر تک یہی حالت رہی مگر اِس کے بعد جرمنی نے نہایت شدت سے حملہ کیا اور ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور بیلجیئم پر قبضہ کر لیا۔ پھر وہ فرانس کی طرف بڑھا اور اُس پر بھی شدید حملہ کیا۔ جب فرانس گِرنے لگا تو اُس وقت برطانیہ نے خیال کہ اگر فرانس صلح نہ کرے تو کچھ نہ کچھ مزاحمت اِس کی طرف سے جاری رہے گی۔اُس کے جہاز بھی لڑتے رہیں گے اور اُس کی نوآبادیاں بھی جنگ کو کسی نہ کسی صورت میں جاری رکھیں گی لیکن اگر وہ صلح کر لے تو اُس کے جہاز بھی جرمنی کو مل جائیں گے نوآبادیاں بھی اُسے مل جائیں گی اور اس صورت میں جرمنی کے حملے کا سارا زور ہم پر آپڑے گا۔ چنانچہ اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ برطانیہ نے وہ کام کیا جس کی نظیر جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی آج تک نہیں ملتی۔ یعنی اُس نے ۱۷؍ جون ۱۹۴۰ء کو فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں مُلکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے اِلحاق کر دیا جائے۔ حکومت ایک ہو، پارلیمنٹیں بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ کو بھی ایک ہی سمجھا جائے۔ ۳۹؎
میں دنیا کے تمام تاریخ دانوں کو موقع دیتا ہوں کہ وہ دنیا کی تاریخ پر غور کریں اور اِس قسم کی کوئی ایک مثال ہی پیش کریں کہ دو زبردست طاقتوں میں سے ایک نے دوسری کے سامنے یہ تجویز رکھی ہو کہ دونوں حکومتوں کو ایک بنا دیا جائے۔ یہ وہ واقعہ ہے جس کی آدم سے لیکر اَب تک کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس کی ایک بھی مثال دنیا کی ہزاروں سال کی تاریخ میں نہ ملتی ہو اُسے یقینا انسانی دماغ نہیں بنا سکتا۔ اُس وقت انگریزوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ مسٹر چرچل نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا اَب وہ دن آ گیا ہے کہ ہماری قوم پر جرمن حملہ آور ہوں۔ ہم سمندر کے کناروں پر جرمنوں کا مقابلہ کریں گے اور اگر سمندر کے کناروں پر مقابلہ نہ ہو سکا اور وہ اندر داخل ہو گئے تو ہم اپنے شہر میں اُن کا مقابلہ کریں گے۔ ہم لندن کی گلیوں میں اُن کا مقابلہ کریں گے اور اگر پھر بھی ہم دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے اور وہ ہمارے ملک پر قابض ہو گیا تو ہم کینیڈاچلے جائیںگے اور وہاں سے اُس کا مقابلہ کریں گے۔ گویا برطانیہ کا وزیراعظم بھی اِس بات کا امکان سمجھتا تھا کہ جرمن ساحلِ انگلستان پر حملہ کرے گا اور اِس میں کامیاب ہو جائے گا۔ پھر لندن پر حملہ کرے گا اور اِس میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ اِس بات کا بھی امکان سمجھتے تھے کہ حکومت لندن سے بھاگ جائے اور کینیڈا چلی جائے۔ مگر ایسی حالت میں خداتعالیٰ نے مجھے دوسری خبر یہ دی کہ یہ چھ مہینے پہلے کی بات ہے یعنی چھ ماہ کے بعدانگریزوں کی حالت بدل جائے گی۔ اُس وقت چوہدری ظفراللہ خاں صاحب سے جیسا کہ اُنہوں نے بعد میں سنایا وائسرائے نے یا کسی اور نے ایک دفعہ پوچھا کہ ظفراللہ خاں! تم اِس جنگ کا کیا نتیجہ سمجھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے امام نے خواب دیکھا ہوا ہے کہ چھ ماہ کے بعد یہ حالات بدل جائیں گے اِس لئے میں تو یقین رکھتا ہوںکہ چھ ماہ تک یہ خطرہ کی حالت دُور ہو جائے گی۔ـ چنانچہ عین چھ ماہ کے بعد ۱۵؍دسمبر کو اٹلی کو پہلی شکست ہوئی اور انگریزوں کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہو گئی اور ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۰ء کو پرائم منسٹر نے ہاؤس آف کامنز میں اعلان کیا کہ
’’اَب ہم پہلے سے محفوظ ہو گئے ہیں اور ہم نے ایک ایسی حالت سے ترقی کی ہے جبکہ ہمارے بہترین دوست بھی اِس بات سے مایوس ہو چکے تھے کہ ہم مقابلہ جاری رکھ سکیں گے۔‘‘ ۴۰؎
یہ دو دھاری تلوار تھی جو مجھے عطا کی گئی کہ ایک رؤیا کے ذریعہ دو خبریں دی گئیں۔ ایک خبر تو ایسی دی گئی کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں اور کوئی مثال نہیں ملتی اور دوسری خبر یہ دی گئی کہ چھ ماہ کے بعد یہ خطرہ کی حالت جاتی رہے گی۔ چنانچہ ٹھیک چھ ماہ کے بعدحالات میں تبدیلی رونماہوئی اور مسٹر الیگزینڈر جو انگریزوں کے وزیر بحری تھے،انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جون جولائی میں (جب حکومت برطانیہ نے حکومتِ فرانس کو تار دیاتھا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے اِلحاق ہو جانا چاہئے) ہر وہ شخص جو جنگی فنون سے ذرا بھی واقفیت رکھتا ہے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہم پھر امن میں آجائیں گے۔ اگر کوئی ایسی بات کہتا تو یا تو میںاُسے سیاست سے بالکل نابلد اور ناواقف کہتا اور یا میں اُسے احمق اور پاگل خیال کرتا۔ گویا انگریزوں کی حالت اِتنی ناز ک اور خراب تھی کہ اُن کے نزدیک اِس قسم کا خیال کرنا بھی کہ اُن کی حالت چھ ماہ تک بدل جائے گی، احمقانہ اور مجنونانہ خیال تھا۔ مگر جبکہ حکومت کے بڑے بڑے مدبریہ کہہ رہے تھے کہ انگریز خطرہ میں گھِر گئے ہیں، اَب اُن کے لئے سِوائے اِس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ کینیڈا چلے جائیں اور مقابلہ جاری رکھیں، خدا نے مجھے خبر دی کہ ۱۵دسمبر تک یہ حالات بدل جائیں گے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ عین ۱۵ دسمبر کو حالات نے یکدم پلٹا کھایا اور انگریزوں کے قدم مضبوط ہو گئے۔
انگلستان کو امریکہ سے اٹھائیس سَو ہوائی جہاز بھجوائے جانے کی خبر
(۱۲) ایک اور خبر جو اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس جنگ کے متعلق بتائی اور نہایت ہی عجیب رنگ میں پوری ہوئی، وہ یہ ہے کہ میں نے
ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور انگریزی گورنمنٹ مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں۔ مَیں نے اُس سے کہاکہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو، پھر میں بتا سکوں گا کہ مَیں تمہارے مُلک کی حفاظت کاکام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں۔ اِس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور میں اُن کو دیکھتا چلا گیا۔آ خر میںمَیں نے کہاکہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے۔ اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتاہوں۔ جب میں نے یہ کہا تو معاً میں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‏ The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.
یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سَو ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دیئے ہیں۔ اِس کے بعد میری آنکھ کُھل گئی۔
یہ رؤیا میں نے چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو بتا دیا تھا اور اُنہوں نے آگے اپنی کئی انگریزدوستوں سے اِس کا ذکر کر دیا۔ یہاں تک کہ سر کلوجو اُس وقت ریلوے کے وزیر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے، اُن کو بھی چوہدری صاحب نے یہ رؤیا بتا دیا تھا۔ اِ س رؤیا کے چھ ہفتہ کے بعد ایک دن عصر کی نماز کے بعد مَیں مسجد مبارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک ضروری فون آیا ہے میں گیا اور امرتسر والوں سے مَیں نے پوچھا کہ مجھے کون بُلا رہا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ شملہ یا دہلی سے کوئی دوست بات کرنا چاہتے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تو چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کی آواز آئی۔ اُن کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ کیا آپ نے وہ خبر پڑھ لی ہے اور دوسرا فقرہ یہ تھا کہ مبارک ہو آپ کی خوا ب پوری ہو گئی۔ میں نے کہا کیا بات ہے۔ وہ کہنے لگے ابھی ابھی وہ تار آیا ہے جو برطانوی نمائندہ نے امریکہ سے انگریزی حکومت کو بھجوایا ہے اور وہ میرے سامنے پڑا ہوا ہے۔ اِس کے الفاظ یہ ہیں:۔
‏ The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.
یعنی امریکن گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سَو ہوائی جہاز برطانوی حکومت کو بھجوائے ہیں۔ پھر چوہدری صاحب کہنے لگے میں نے اُسی وقت اُن تمام لوگوں کو فون کیا ہے جن کو میں پہلے سے یہ خبر بتا چکا ہوں کہ دیکھو! امام جماعت احمدیہ نے جو خواب دیکھی اور جو میں نے تمہیں قبل از وقت بتا دی تھی، کس شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ چونکہ اُنہوں نے سرکلو سے بھی اِس رؤیا کا ذکر کیا ہوا تھا، انہوں نے سرکلو کو بھی فون کیا کہ کیا آج کا تار تم نے پڑھا ہے؟ـ وہ کہنے لگا میں نے ابھی نہیں پڑھا۔ چوہدری صاحب نے کہا پڑھو۔ اُس نے پڑھا تو کہنے لگا ظفراللہ خاں! تار تو آیا ہے مگر جہازوں کی جتنی تعداد تم نے بتائی تھی اُتنی تعداد کا تو اِس میں ذکر نہیں۔ چوہدری صاحب نے کہاتمہیں کیا یاد ہے؟ وہ کہنے لگا تم نے تو ۲۸ سَو ہوائی جہازوں کا ذکر کیا تھا اور تار میں پچیس سَو لکھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اُس نے جلدی میںاٹھائیس سَو کو پچیس سَو پڑھ لیا۔ چوہدری صاحب کہنے لگے تار کو پھر پڑھو۔ اُس نے دوبارہ تار پڑھی تو کہنے لگا اوہو! اِس میں تو اٹھائیس سَو ہوائی جہازوں کا ہی ذکر ہے۔
اَب دیکھو چھ ہفتے پہلے خداتعالیٰ نے یہ کیسی عظیم الشان خبر مجھے دی جو اُسی شکل میں پوری ہوئی جس شکل میں مجھے بتائی گئی تھی۔ گورنمنٹ کے بڑے بڑے ذمہ دار افسر دو چار دن پہلے تک یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ امریکہ ۲۸ سَو ہوائی جہاز بھجوائے گا۔ مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے چھ ہفتے پہلے بتا دیا کہ تار آئے گا، تار امریکن گورنمنٹ کی طرف سے آئے گا اور تار کا مضمون یہ ہو گا کہ امریکہ ۲۸سَو ہوائی جہاز برطانیہ کے لئے بھجوائے رہا ہے۔ گویا تار بتا دیا، تار کا مضمون بتا دیا، یہ بتا دیا کہ تار کس کی طرف سے آئے گا، یہ بتا دیا کہ چیز کیا ہے اور پھر یہ بتا دیا کہ اِس چیز کی تعداد کیا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے جنگ میں شامل ہونے کی خبر
(۱۳) پھر ۱۹۴۰ء میں مَیں نے رؤیا بیان کیا تھا کہ میں نے دیکھا ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے اُس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر
بظاہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں اور کوئی شخص کہتاہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو یکدم حالات میں تغیر پیدا ہو جائے گا اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی۔ اِس کے بعد میں نے دیکھا کہ اعلان ہوا ہے کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقۂ اثر میں آنے جانے میںکوئی رُکاوٹ نہیںڈالتی۔
یہ رؤیا ۱۹۴۰ء کے شروع میں مَیں نے اُس وقت دیکھا تھا جب کسی کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ امریکن گورنمنٹ اِس لڑائی میں شامل ہو جائے گی۔ مگر پھر ایسے حالات بدلے کہ امریکہ کو اِس جنگ میں شامل ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ امریکن فوجیں ہندوستان میں آ گئیں چنانچہ اَب کراچی اور بمبئی میں جگہ جگہ امریکن سپاہی دیکھے جاسکتے ہیں۔
بیلجیئم کے بادشاہ کے معزول ہونے کی خبر
(۱۴) پھر ۲۶مئی۱۹۴۰ء کو ہزاروں لوگوں کے مجمع میں مَیں نے اپنے ایک کشف کا ذکر کیا تھا جو تین دن کے اندر اندر پورا ہوگیا۔ میں ۲۵؍مئی کو کراچی کے سفر سے واپس
آ رہا تھا کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا ایک میدان ہے جس میں اندھیرا سا ہے اور اُس میں ایک شخص سیاہی مائل سبز سی وردی پہنے کھڑا ہے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی بادشاہ ہے۔ـ پھر الہام ہوا ’’ایب ڈی کیٹڈ‘‘(ABDICATED) میں نے اپنے اِس کشف کا ذکر ۲۶؍مئی کو ایک بہت بڑے مجمع میں کر دیا تھا جبکہ لوگ حکومت برطانیہ کی کامیابی کے متعلق دعا کرنے کے لئے جمع تھے اور میں نے اِس کی تعبیر یہ کی تھی کہ کوئی بادشاہ اِس جنگ میں معزول کیا جائے گا یا کسی معزول شدہ بادشاہ کے ذریعہ کوئی تغیر واقعہ ہو گا۔ـ چنانچہ اِس الہام پر ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ خداتعالیٰ نے بیلجیئم کے بادشاہ لیو پولڈ کو ناگہانی طور پر معزول کر دیا۔ ایب ڈی کیٹڈ کے لغت کے لحاظ سے یہ معنی کہ کوئی ایسا شخص جو اپنے اختیارات کو چھوڑ دے BY DENOUNCEMENT کسی اعلان کے ذریعہ سے OR DEFAULT یا عملاً اپنے فرائض منصبی کو ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے۔ گویا یا تو وہ خود کہہ رہے ہیں کہ مَیں بادشاہت سے الگ ہوتا ہوں یا ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ وہ بادشاہت کے فرائض کو ادا نہ کر سکے۔ بعینہٖ یہی الفاظ بیلجیئمگورنمنٹ نے استعمال کئے اور اُس نے کہا کہ ہمارا بادشاہ جرمن قوم کے ہاتھ میں ہے اور اَب وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا۔ پس اَب بیلجیئمکی قانونی گورنمنٹ ہم ہیں نہ کہ لیوپولڈ۔ اِس لئے بیلجیئم کے لوگوں کو لیو پولڈ کی بات نہیں ماننی چاہئے بلکہ ہماری بات ماننی چاہئے۔ تم غور کرو یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے جو خداتعالیٰ نے دکھایا۔ تین دن پہلے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی اور منگل کی رات کو بغیر اِس کے کہ کسی اور کو علم ہو بیلجیئم کے بادشاہ نے اپنے آپ کو جرمنوں کے سپرد کر دیااور وہ معزول ہوگیا۔ یہ وہ خبر تھی جو ہزاروں آدمیوں کی مجلس میں مَیں نے قبل ازوقت سُنا دی تھی۔
لیبیا کے محاذ پر انگریزی فوجیوں کی کامیابی کی خبر
(۱۵) پھر ستمبر ۱۹۴۰ء کی بات ہے۔ مَیں چند
دنوں کے لئے شملہ گیا اور وہاں چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے مکان پر ٹھہرا۔غالباً ۲۰دسمبر کے دو چار دن بعد کی کوئی تاریخ تھی کہ میں نے رات کو رئویا میں دیکھاکہ میں مصر میں ہوں اور لیبیا کے محاذ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ اُس وقت لڑائی کا میدان مجھے اِس شکل میں دکھایا گیا کہ گویا انگریزی علاقہ ایک ہال کی طرح ہے۔ اُس ہال میں ایک طرف سے سیڑھیاں اُترتی ہیں۔ چوڑی چوڑی سیڑھیاں کچھ دُور تک سیدھی جاکر پھر ایک طرف کو مُڑ جاتی ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس ہال میں آنے کا راستہ ہے۔ میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج دشمن کے دبائو کو برداشت نہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹتی ہے۔ وہ بڑی بہادری سے لڑتی ہے مگر دشمن کا زور اتنا زیادہ ہے کہ وہ اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی رائفلیں دونوں فریق کے ہاتھ میں ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر BAYONET CHARGE کرتی ہیں۔میں نے دیکھا کہ پہلے تو انگریزی فوجیں سیڑھیوں کے دوسرے سِرے پر دشمن سے لڑ رہی ہیں مگر آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر سے اُترنا شروع ہوگئیں۔ دشمن اُس کے پیچھے پیچھے آتا جاتا ہے یہاں تک کہ سیڑھیاں ختم ہوگئیں اور انگریزی فوجیں ہال میں اُتر آئیں دشمن کی فوج بھی اُن کے پیچھے اُترنا شروع ہوگئی۔ اِس نظارہ کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ انگریزی فوج کمزور حالت میں ہے اور میں اپنے دل میں جوش محسوس کرتا ہوں کہ اُن کی مدد کروں۔ اِس خیال کے آنے پر میں تیزی سے گھر کی طرف آتا ہوں اور گھر پہنچ کر میاں بشیر احمد صاحب کی تلاش کرتا ہوں وہ مجھے ملے تو میں نے اُن سے کہا ہم فوج میں تو داخل نہیں ہو سکتے مگر ہمارے پاس رائفلیں اور بندوقیں ہیںوہی لے کر ہم اپنے طور پر دشمن پر حملہ کر دیں یہ کہہ کر میں اُن کو ساتھ لے کر گیا ہوں۔ خواب کا نظارہ بھی عجیب ہوتا ہے۔ اُس وقت گو لڑائی ہال میں ہو رہی ہے مگر ہم باہر کھڑے ہو کر اندر کا تمام نظارہ دیکھ رہے ہیں اور ہال کی دیواریں اِس نظارہ میں روک نہیں بنتیں۔ وہاںایک جھاڑی دیکھ کر مَیں لیٹ گیا یا دوزانو ہو گیا اور میں نے کچھ فائر کئے ۔ یہ یاد نہیں کہ میاں بشیر احمد صاحب نے بھی کوئی فائر کیا ہے یا نہیں۔ بہرحال میں نے دیکھا کہ اِن فائروں کے بعد انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی اور اُنہوں نے پھر اُنہی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا جن پر سے وہ اُتری تھی۔ دشمن کی فوج پیچھے ہٹتے ہوئے نہایت سختی سے مقابلہ کرتی ہے مگر پھر بھی انگریزی فوج اُسے دباتے ہوئے سیڑھیوں تک لے گئی اور پھر اُسے ہٹاتی ہوئی دوسرے سِرے تک چڑھ گئی۔ جب میں نے یہ نظارہ دیکھاتو اُس وقت مجھے آواز آئی کہ ایسا دو تین بار ہو چکا ہے۔ گویا دو تین دفعہ دشمن اِسی طرح انگریزی فوج کو دبا کر لے آیا ہے اور پھر انگریزی فوج اُسے دباتی ہوئی اپنے علاقہ سے باہر لے گئی ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب لیبیا میں انگریزی فوج نے کوئی پیش قدمی نہیں کی تھی۔اٹلی کی فوجیں مصر میں تھوڑا ساآگے بڑھ آئی تھیں اور دونوں میں لڑائی ہو رہی تھی۔ دوسرے دن میں نے یہ رؤیا چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو سُنایا۔ وہ اُس وقت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کے لئے جا رہے تھے۔ جب واپس آئے تو اُنہوں نے کہاکہ میں نے آپ کے اِس رؤیا کا علاوہ اور لوگوں کے ہِزایکسی لنسی وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری سرلیتھویٹ سے بھی ذکر کیا تھا اور اُنہوں نے اِس کو سُن کر بہت تعجب کیا۔ اگلے دن اُنہوں نے چوہدری صاحب کے ہاں چائے پر آنا تھا۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ انہوں نے خواہش کی تھی کہ میں یہ رؤیا خود اُن کی زبان سے بھی سُننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اُن کی خواہش پر مَیں نے اُن سے یہ مکمل رؤیا بیان کر دیا اور جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے اِس جنگ میں ایسا ہی دد تین بار ہوا۔ پہلے ۱۹۴۰ء کے شروع میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور اُنہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن ۱۹۴۰ء کے آخر میں پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں۔ ۱۹۴۱ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہوا مصر کی سرحد پر لے آیااور ۱۹۴۱ء کے آخر میں انگریز پھر بڑھے اور دشمن کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے کئی سَو میل تک لے گئے۔ جون ۱۹۴۲ء میں پھر دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور ایسا شدید حملہ کیا کہ العالمینؔ ۲۹؎کے مقام پر انگریزوں کی حالت ایسی نازک ہو گئی کہ اُن کا بچنا مشکل نظر آتا تھا۔ مسٹر چرچل خود اِس محاذ پر پہنچے اور انگریز مدبرین کو سخت فکر لاحق ہوگیا۔ مگر اُس وقت جب انگریز یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم اَب شکست کھا جائیں گے، العالمین کی جنگ سے چند دن پہلے میںنے اپنے خطبہ میں اعلان کیاکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کا رؤیا دکھایا ہوا ہے اِس کے مطابق میں سمجھتا ہوں کہ آخری حملہ میں انگریزوں کو ہی کامیابی ہو گی۔ـ چنانچہ چند دن کے اندر اندر العالمین کے مقام پر دشمن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے رنگ میں شکست دی کہ خود انگریز حیران رہ گئے کہ حالات میں یکدم یہ کیسا غیر متوقع تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ العالمین کے مقام پر انگریزوںکی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اِس بات کا شدید خطرہ محسوس کیا جا رہاتھا کہ انگریز اِس مقابلہ میں رہ جائیں گے۔ یہاں تک کہ ایک دن دشمن فوجوں نے انگریزی صفیں توڑ ڈالیں اور وہ اپنے ٹینک اور فوجی آگے لے آئے۔ قریب تھا کہ انگریز بالکل شکست کھا جاتے کہ انگریزی فوج کا ایک تازہ دم دستہ جو مدد کے لئے آیا تھاوہ آگے بڑھااور اُس سے کچھ مُڈبھیڑ ہوئی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی لڑائی ہوئی تھی کہ یکدم مخالف فوج کے ٹینک پیچھے ہٹ گئے اور باقی سپاہیوں نے مقابلہ کرنا بند کر دیا۔ جب انگریزی فوج کے سپاہی اُن کے پاس پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کی زبانیں لٹکی ہوئی ہیں، حلق خشک ہیں اور ایسی بُری حالت میں ہیں کہ ایک منٹ کے مقابلہ کی بھی وہ اپنے اندر تاب نہیں رکھتے۔
واقعہ یہ بتایا جاتا ہے کہ جب دشمن کی فوج انگریزی صفوں کو توڑ کر آگے بڑھی تو اُس نے ایک پمپ پر قبضہ کر لیا۔ لیکن چونکہ خدا نے اُس کو شکست دینی تھی اِس لئے ایسا اتفاق ہوا کہ انگریز افسروں نے پمپ کا تجربہ کرنے کیلئے اُس میں سمندر کا نمکین پانی چھوڑا ہوا تھا کیونکہ میٹھا پانی قیمتی ہوتا ہے اور اُسے تجربوں پر ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ دشمن فوج کو اِس کا علم نہیں تھا جب اس کے سپاہی وہاں پہنچے تو گرمی کی وجہ سے اُنہیں شدید پیاس لگی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے یہ پانی پینا شروع کر دیا اور چونکہ سمندر کا پانی شدید نمکین ہوتا ہے اِس لئے بجائے پیاس بجھنے کے اُن کی زبانیں باہر نکل آئیں اور اُن کی مقابلہ کی سکت بالکل جاتی رہی۔ اِس طرح یہ لڑائی ایک خدائی فعل کی وجہ سے دشمن کی شکست اور انگریزی فوجوں کی فتح کی صورت میں بدل گئی ورنہ انگریزوں کی کامیابی کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ گویا وہی نظارہ جو خدا نے مجھے دکھایا تھا کہ میرے فائروں کی وجہ سے جرمن فوجوں کو شکست ہوئی، اِس رنگ میں پورا ہو گیا کہ میری دعا کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ باوجود اِس کے کہ جرمن فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں وہ اِس بات پر مجبور ہو گئیں کہ انگریزی فوجوں کے مقابلہ میں اپنی شکست کو تسلیم کرلیں۔
مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر یہ چند واقعات جو بطور نمونہ پیش کئے گئے ہیں، یہ بھی اِس بات کو ثابت کرنے کیلئے بہت کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو علاوہ اور کمالات رکھنے کے علومِ باطنی سے بھی پُر کیا جائے گا، وہ بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہو چکی ہے۔
مصلح موعود کی زمین کے کناروں تک شہرت اور اسلام کی اکنافِ عالَم میں اشاعت
۳۔ تیسری پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کی تبلیغ اُس کے ذریعہ سے مختلف ملکوں میں ہوگی۔ یہ پیشگوئی بھی ایسے رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اِس کا انکار نہیں کر سکتا۔
جب خلافت کے مقام پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا اُس وقت جماعت کی حالت یہ تھی کہ خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور اٹھارہ ہزار روپیہ قرض تھا۔ مالی حالت ایسی کمزور تھی کہ وہ اشتہارات جو ہم غیر مبائعین کے جواب میں شائع کرنا چاہتے تھے، اُن کے لئے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا۔ اشتہارات تو ہم لکھ سکتے تھے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اُن اشتہارات کے شائع ہونے کی کیا صورت ہوگی۔ ابتدا ء ہونے کی وجہ سے چندہ کی تحریک بھی نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ ڈر تھا کہ لوگ گھبرا نہ جائیں۔ اِسی فکر میں مَیں تھا کہ ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے شاید تمہیں اشتہارات کے متعلق یہ خیال ہوگا کہ اُن کی اشاعت کیلئے روپیہ کہاں سے آئے گا۔ میرے پاس اِس وقت دارالضعفاء کا چندہ ہے یہ لے لو جب روپیہ آئے تو واپس کر دینا۔ چنانچہ اُنہوں نے پانچ سَو روپیہ کی تھیلی میرے سامنے رکھ دی۔ اِس طرح جو چندہ ملا اُس سے وہ پہلا اشتہار شائع کیا گیا جس کا عنوان ہے۔
’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘
پھر ایسی حالت میں جب کہ جماعت کے بڑے بڑے لیڈر مخالف تھے اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ یہ اعلان کرایا کہ لَیُمَزِّقَنَّھُمْ اللہ تعالیٰ اُن کو ٹکڑے کر دے گا۔ غرض ایک طرف تو یہ اعلان شائع ہوا کہ ’’کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے‘‘ اور دوسری طرف یہ اعلان کر دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور اُن کی جمعیت کو پراگندہ کر دے گا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما دیئے کہ نہ صرف اُس نے ہمیں اپنی حالت کو سنبھالنے کی توفیق عطا فرمائی بلکہ باہر کی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی بھی اُس نے طاقت دی۔ اُس وقت غیرمبائعین اپنے متعلق عَلَی الْاِعْلَان کہا کرتے تھے کہ ہمارے ساتھ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ہے اور ان کے ساتھ صرف پانچ فیصدی ہے۔ مگر اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوت عطا فرمانی شروع کر دی اور ایسے علماء اُس نے اپنے فضل سے مجھے عطا فرمائے جو میرے حکم پر غیرممالک میں نکل گئے اور اُنہوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچایا۔ اِس سے پہلے صرف افغانستان ہی ایک ایسا مُلک تھا جہاں کسی اہمیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچا تھا، باقاعدہ جماعت اور کسی ملک میں قائم نہیں تھی۔ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں خواجہ کمال الدین صاحب بے شک انگلستان گئے مگر وہاں اُنہوں نے احمدیت کا ذکر سمِ قاتل قرار دے دیا اِس لئے اُن کے ذریعہ انگلستان میں جو مشن قائم ہوا وہ احمدیت کی تبلیغ اور اُس کی اشاعت کا موجب نہیں ہوا۔ اگر نام پھیلا تو خواجہ صاحب کا نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا۔ بہرحال بیرونی ممالک میں سے سِوائے افغانستان کے اور کوئی مُلک ایسا نہیں تھا جہاں میری خلافت سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچا ہو۔ مگر جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے (۱)سیلون (۲)ماریشس (۳)سماٹرا (۴) جاوا (۵) سٹریٹس سیٹلمینٹس۴۱؎ (۶) چین (۷) جاپان (۸)بخارا (۹) روس (۱۰) ایران (۱۱) عراق (۱۲) شام (۱۳) فلسطین (۱۴) مصر (۱۵) سوڈان (۱۶) ابی سینیا (۱۷) مراکو (۱۸) سیرالیون (۱۹) نائیجیریا (۲۰)گولڈکوسٹ (۲۱) نٹال۴۲؎ (۲۲)انگلستان (۲۳) جرمنی(۲۴) سپین(۲۵) فرانس (۲۶)اٹلی (۲۷) ہنگری (۲۸)یونان (۲۹) البانیا (۳۰) پولینڈ (۳۱) زیکوسلواکیہ (۳۲)یوگوسلاویا (۳۳)یونائیٹڈسٹیٹس امریکہ (۳۴) ارجنٹائن اور اِسی طرح اَور کئی علاقوں میں تبلیغِ اسلام اور احمدیت پھیلائی اور ہزاروں مسیحی میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل ہوئے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ ۔
اِس طرح میرے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی جو تبلیغ ہوئی ہے وہ ساری دنیا پر حاوی ہوجاتی ہے۔ اِن میں سے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔چنانچہ انگلستان میں ہماری بڑی جماعت ہے اِسی طرح اٹلی میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ہنگری میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عراق میں بھی جماعت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔فلسطین میںبھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اخلاص رکھنے والی جماعت پائی جاتی ہے۔ وہ لوگ اپنا رسالہ نکالتے اور عربی ممالک میں تبلیغِ احمدیت کا کام بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ سر انجام دیتے ہیں۔ اِسی طرح مصر میں بھی ہماری جماعت پائی جاتی ہے اور اب تو سوڈان اور ابی سینیا میں بھی ایک ایک دو دو احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو گئے ہیں۔ ویسٹ افریقہ میں تو ہماری اتنی بڑی جماعت قائم ہے کہ اِس کی تعداد ۷۵ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ غرض دنیا کے چاروں کونوں میں احمدیت میرے زمانہ میں اور میرے ذریعہ سے پھیلی اور ہزارہا لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام سے آشنانہ تھے ــــ،جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آشنا نہ تھے ، جو اسلام کے دشمن،عیسائی مذہب کے پیرو یا بُت پر ست تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو میرے ذریعہ سے اسلام میں داخل کیا اور اِس طرح مجھے اُس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا جو مصلح موعود کے متعلق کی گئی تھی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اُس سے برکت پائیں گی۔وہ مبلّغ جو میرے زمانۂ خلافت میں بیرونی مالک میں بھیجے گئے اُن میں سے بعض اِس وقت یہاں موجود ہیں۔ میں اِ ن سب مبلّغین سے کہتا ہوں کہ وہ یہاں سٹیج پر آجائیں اور مختصر طور پر اپنے تبلیغی کوائف کا ذکر کریں۔
مبلّغین سلسلہ کی تقاریر
حضور کے اس ارشاد پر مندرجہ ذیل مبلّغین نے جو جلسہ سالانہ کے موقع پر موجود تھے۔سیٹج پرکھڑے ہو کر بتایا کہ حضرت
خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد کے ماتحت وہ غیر ممالک میں گئے اور انہوں نے اسلام اور احمدیت کا نام بلند کیا۔
۱۔جناب ملک غلام فریدصاحب ایم ۔ اے جرمنی
۲۔ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل روس
۳۔ جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر اعلیٰ انگلستان
۴۔ عبدالاحد خان صاحب افغان کابل
۵۔خافظ صوفی غلام محمد صاحب بی ۔اے ماریشس
۶۔جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شام
۷۔خاں صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب انگلستان
۸۔ جناب مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے انگلستان
۹۔ جناب مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ فلسطین
۱۰۔مولوی محمد یار صاحب عارفؔ مولوی فاضل انگلستان
۱۱۔ مسٹر محمد مدثر صاحب ایم ۔اے (جو مغربی افریقہ کے باشندہ ہیں) نائیجیریا
(انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہوں جس میں آپ کو بتایا گیاتھا کہ دنیا کے کناروں سے لوگ تیرے پاس آئیں گے۔ چنانچہ میں مغربی افریقہ سے یہاں آیا ہوںاور مجھے خوشی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آج مجھے اِس دوسری پیشگوئی کے سننے کا بھی موقع عطاء فرما دیا جو مصلح موعود کے متعلق تھی)
۱۲۔ مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل مِصر
۱۳۔ جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) سیلون۔ انڈیمان جزائرنکو باراور برما
۱۴۔ (پروفیسر ) محمد ابراہیم صاحب ناصرؔ ہنگری
۱۵۔ جناب اے۔ پی ابراہیم صاحب مالاباری سیلون
۱۶۔ بابو فقیر علی صاحب ایران
۱۷۔ مولوی عبداللہ صاحب مالاباری مالا بار
۱۸ ۔شیح عبدالواحدصاحب واقفِ زندگی چین
۱۹ ۔جناب مولوی محمد دین صاحب امریکہ
۲۰ ۔ جناب صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی ۔اے جاپان
۲۱۔ مولوی احمد خان صاحب نسیم مولوی فاضل برما
۲۲۔ محمد زُہدی صاحب سٹریٹس سیٹلمنٹ
ان تقاریر کے بعد حضور نے فرمایا۔
بعض ممالک کے مبلّغ چونکہ اِس وقت جنگ کی وجہ سے قیدہیں اور بعض قادیان میں موجودنہیں اِس لئے اُن کا ذکر اِس وقت نہیں کیا گیا۔ بہر حال تیس کے قریب مختلف ممالک ہیں جن میں اسلام احمدیت اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے مبلّغ بھجوانے کی توفیق عطافرمائی۔ باوجو د اِس کے کہ ہماری جماعت بہت قلیل ہے اور باوجود اِس کے کہ ہماری جماعت مالی لحاظ سے بے طاقت ہے اُس نے نہ صرف ہندوستان میں اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا بلکہ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام پہنچا دیا۔ ارجنٹائن (جنوبی امریکہ)میں مولوی رمضان علی صاحب ہماری جماعت کی طرف سے تبلیغ کا کام کر رہے ہیں ۔ البانیہ ،یوگو سلاویہ اور زیکوسلواکیہ میں مولوی محمد دین صاحب تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ پولینڈ میں حاجی احمد خاں صاحب ایاز نے کام کیا۔ لندن میں اِس وقت مولوی جلال الدین صاحب شمس کام کر رہے ہیں۔ امریکہ میں صوفی مطیع الرحمن صاحب کام کر رہے ہیں۔ ملک محمد شریف صاحب اٹلی میں کام کرتے رہے ہیں اور چوہدری محمد شریف صاحب مصر ، فلسطین اور شام میں تبلیغی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور مشرقی افریقہ میں شیخ مبارک احمد صاحب اور سماٹرا جاوا اور ملایامیںمولوی رحمت علی صاحب ،مولوی محمد صادق صاحب، مولوی غلام حسین صاحب ایاز ، ملک عزیز احمد صاحب اور سیّد شاہ محمد صاحب کام کر رہے ہیں۔ اِسی طرح مغربی افریقہ یعنی سیرالیون ،گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ہمارے بہت سے مبلّغ کام کر رہے ہیں جن میں مولوی نذیر احمد صاحب ابن بابو فقیر علی صاحب ،مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ،حکیم فضل الرحمن صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ اِس وقت ویسٹ افریقہ کے ایک نمائندہ دوستوں کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ اور اُنہوں نے اپنی زبان سے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اِس پیشگوئی کو کس طرح پورا کیا۔
غرض جماعت کی قلت اور اِس کی غربت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کیا اور اس نے میرے ذریعہ سے دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام روشن کیا۔
اسیروں کی رستگاری
۴۔ ایک پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کاموجب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس پیشگوئی کو بھی میرے ذریعہ
سے پورا کیا۔ اوّل تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے اُن قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف مسلمانوں کو کوئی توجہ ہی نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں۔ وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں۔ نہ اُن میں تعلیم پائی جاتی تھی، نہ اُن کا تمدّن اعلیٰ درجے کا تھا، نہ اُن کی تربیت کا کوئی سامان تھا جیسے افریقن علاقے ہیںکہ اُن کو دُنیانے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے۔ ابھی مغربی افریقہ کے ایک نمائندہ آپ لوگوں کے سامنے پیش ہوچکے ہیں اِس ملک کے بعض لوگ تو تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرونِ ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے تھے اور ننگے پھرا کرتے تھے ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزار ہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے ۔ وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت اِن علاقوں میں ہمارے مبلّغ گئے اور اِنہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے۔ اِس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقر ر ہے۔ اُس نے ایک کمیشن اِس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اِس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رُک گئی ہے۔ اُس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اُس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اِس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے۔ غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں مُلکوں میں حبشی قومیں کثرت سے اسلام لارہی ہیں۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے اِن قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کرمجھے اِن اسیروں کا رستگار بنایا اور اِن کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
آزادیٔ کشمیر کے لئے جدوجہد
پھر اسیروں کی رستگاری کے لحاظ سے کشمیر کا واقعہ بھی اِس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست
ثبوت ہے اور ہر شخص جو اِن واقعات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے، یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی کشمیریوں کی رستگاری کے سامان پیدا کئے اوران کے دشمنوں کو شکست دی۔ کشمیر کی قوم اِس طرح غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی کہ گورنمنٹ کا یہ فیصلہ تھا کہ زمین اُن کی نہیں بلکہ راجہ صاحب کی ہے گویا سارا مُلک ایک مزارع کی حیثیت رکھتا تھا اور راجہ صاحب کا اختیار تھا کہ جب جی چاہا اُن کو نکال دیا۔ اُنہیں نہ درخت کاٹنے کی اجازت تھی اور نہ زمین سے کسی اور رنگ میں فائدہ حاصل کرنے کی۔ بے گارکا یہ حال تھا کہ ۱۹۰۹ء میں مَیں کشمیر گیا تو ایک مقام سے چلتے وقت میں نے تحصیلدار سے کہا کہ ہمارے لئے کسی مزدور کا انتظام کر دیا جائے۔ اُس نے رستہ میں سے ایک شخص کو پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دیا کہ اِس کے سر پر اَسباب رکھوادیں ہم نے اُسے سامان دے دیا مگر ہم نے دیکھا کہ وہ راستہ میں باربار ہائے ہائے کرتا تھا۔ آخر ایک جگہ پہنچ کر اُس نے تھک کر ٹرنک نیچے رکھ دیا۔ میں نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے بڑا تعجب ہوااور میں نے اُس سے کہا کہ کشمیر ی تو بہت بوجھ اُٹھانے والے ہوتے ہیں تم سے یہ معمولی ٹرنک بھی نہیں اُٹھایا جاتا۔ وہ کہنے لگا میَں مزدور نہیں ہوں میں تو زمیندار ہوں اپنے گائوں کا معزز شخص ہوں اور دولہا ہوں جو برات میں جارہاتھا کہ مجھے راستہ میں تحصیلدار نے پکڑ لیا اور اَسباب اُٹھانے کے لئے آپ کے پاس بھیج دیا۔ میں نے اُسی وقت اُسے چھوڑ دیا کہ تم جائو ہم کوئی اور انتظام کر لیں گے۔ اِس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کس قدر ادنیٰ اور گری ہوئی حالت میں تھے۔ میں نے خود کشمیرمیں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سَودوسَو کے قریب مسلمان جمع ہیںاور ایک ہندواُن کو ڈانٹ رہا ہے اور وہ بھی کوئی افسر نہیں تھا بلکہ معمولی تاجر تھا اور وہ سارے کے سارے مُسلمان اُس کے خوف سے کانپ رہے تھے۔
تحریک کشمیر کے واقعات
جب تحریک کشمیر کاآغاز ہوا اُس وقت شملہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں مَیں بھی شامل ہوا۔سراقبال اُس
وقت زندہ تھے وہ بھی شریک ہوئے سر میاں فضل حسین صاحب بھی موجود تھے۔ ان سب نے مجھ سے کہا کہ اِس بارہ میں آپ وائسر ائے سے ملیں اور اس سے گفتگو کر کے معلوم کریں کہ وہ کس حد تک کشمیر کے معاملات میں دخل دے سکتا ہے جس حد تک دہ دخل دے سکتا ہو اُس حد تک ہمیں یہ سوال اُٹھانا چاہئے۔ چونکہ گورنمنٹ کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ ریاستی معاملات میں زیادہ دخل نہ دیا جائے اِس لئے وائسرائے سے پہلے مِل لینا ضروی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ وہ کس حد تک اِن معاملات میں دخل دے سکتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میں اِس مجلس میں اِس شرط پر شریک ہو سکتا ہوں کہ وائسرائے سے نہیں بلکہ ہم کشمیریوںسے پوچھیں گے کہ تمہارے کیامطالبات ہیں اور پھر ہم کو شش کریں گے کہ گورنمنٹ اُن مطالبات کو منظور کرے۔ یہ طریق درست نہیں کہ وائسرائے سے پوچھا جائے کہ وہ کس حد تک دخل دے سکتا ہے بلکہ ہم سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں سے پوچھیں گے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور پھراُن کے مطالبات کو پورے زور کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے رکھیں گے۔ سر اقبال کہنے لگے پھر آپ ہی اِس کمیٹی کے پریذیڈنٹ بن جائیں ہمیں آپ کی صدارت پر اتفاق ہے۔ میں نے کہا میں پریذیڈنٹ بنا تو لوگ شور مچادیں گے کہ ایک کافر کو پریذیڈنٹ بنا لیا گیا ہے کسی اور کوبنا لیجئے۔ وہ کہنے لگے میں تو تیار ہوں کہ آپ کو پریذیڈنٹ تسلیم کروں دوسرے لوگوں نے بھی اِس پر زور دیا اور آخر مَیں پریذیڈنٹ بن گیا کیونکہ خدا چاہتا تھا کہ میرے ذریعہ سے اسیروں کی رستگاری ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو۔ جب میں صدر بنا تو اِس کے بعد لارڈ ولنگڈن سے میَں اِس غرض سے مِلا۔ پہلے تو وہ بڑی محبت سے باتیں کرتے رہے جب میںنے کشمیر کا نام لیا تو وہ اپنے کوچ سے کچھ آگے کی طرف ہو کر کہنے لگے کہ کیا آپ کو بھی کشمیر کے معاملات میں انٹرسٹ ہے آپ تو مذہبی آدمی ہیں مذہبی آدمی کا ان باتوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا مَیں بے شک مذہبی آدمی ہوںاور مجھے مذہبی امور میں ہی دخل دینا چاہئے مگر کشمیر میں تو لوگوں کو ابتدائی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اور یہ وہ کام ہے جو ہر مذہبی شخص کر سکتا ہے بلکہ اُسے کرنا چاہئے اس لئے مذہبی ہونے کے لحاظ سے بھی اور انسان ہونے کے لحاظ سے بھی میرا فرض ہے کہ میں انہیں وہ ابتدائی انسانی حقوق دلوائوں جو ریاست نے چھین رکھے ہیں۔ـآپ اِس بارہ میں کشمیر کے معاملات میں دخل دیں تا کہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں اُن کا انسداد ہو۔ وہ کہنے لگے آپ جانتے ہیں کہ ریاستوں کے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے۔ میں نے کہا میں یہ جانتا تو ہوں مگر کبھی کبھی آپ دخل دے بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا حیدرآباد میں آپ نے انگریزوزیر بھجوائے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگے تو کیا آپ کو پتہ نہیںنظام حیدرآباد کیسا بُرا مناتا ہے؟ میں نے کہا یہی بات تو مَیں کہتا ہوں کہ آخر وجہ کیا ہے کہ نظام حیدرآباد بُرا منائیں تو آپ اُن کی کوئی پرواہ نہ کریں اور مہاراجہ صاحب کشمیر بُرا منائیںتوآپ ـاُن کے معاملات میںدخل دینے سے رُک جائیں۔ یہ ہندو مسلم میں سوتیلے بیٹوں والا فرق آپ کیوں کرتے ہیں؟ آخر یا تو وہ یہ کہہ رہے تھے کہ گورنمنٹ ریاستی معاملات میں دخل نہیں دے سکتی اور یا کہنے لگے کہ جب مجھے وائسرائے مقرر کیا گیا تھا تو وزیر ہند نے مجھ سے کہا کہ ہندوستان کی سیاسی حالت سخت خراب ہے کیا تم اِس کو سنبھال لو گے؟ میں نے کہا کہ میں سنبھال تو لوں گا مگر شرط یہ ہے کہ مجھے چھ مہینہ کی مہلت دی جائے اور مجھ پر اعتراض نہ کیا جائے کہ تم نے کوئی انتظام نہیں کیا۔ ہاں اگر چھ مہینے کے بعد بھی میں انتظام نہ کر سکا تو آپ بے شک مجھے الزام دیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ چھ مہینے یا سال نہیں میں آپ کو ۱۸ مہینے کی مہلت دیتا ہوں آپ اِس عرصہ کے اندر یہ کام کر کے دکھادیں۔ لارڈ ولنگڈن کہنے لگے وزیر ہند نے تو مجھے ۱۸ مہینے کی مہلت دی تھی اور آپ مجھے کچھ بھی مہلت نہیں دیتے بلکہ چاہتے ہیں کہ فوری طور پر میں یہ کام کردوں۔میں نے کہا اگر یہی بات ہے تو پھر جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں۔ انہوں نے تو ۱۸ مہینے کی آپ کو مہلت دی ہے میں آپ کو ۱۸ سال کی مہلت دینے کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ آپ مجھے یقین دلائیں کہ کشمیر کے مسلمانوں کی حالت سُدھر جائے گی۔انہوں نے کہا پانچ چھ ماہ تک مجھے حالات دیکھنے دیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اِس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں کروں گا اور کشمیر کے مسلمانوں کو اُن کے حقوق دلانے کی پوری پوری کوشش کروں گا۔ چنانچہ اِس کے بعد بڑے بڑے واقعات ہوئے جن کو تفصیل کے ساتھ سُنایا نہیں جا سکتا۔ بہر حال میں نے کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسی طاقت عطا فرما دی کہ کشمیر کی گورنمنٹ سخت گھبرا گئی اور اُس نے دو دفعہ مجھے پیغام بھیجا کہ آپ جموں آئیں اور مہاراجہ صاحب سے مِل کر فیصلہ کر لیں۔آپس کی گفتگوکے بعد جن حقوق کے متعلق اتفاق ہوگا وہ کشمیر کے مسلمانوں کو دے دیئے جائیں گے۔ میں نے کہامیرے فیصلے کا کوئی سوال نہیں۔ کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کا فیصلہ ہونا ہے اور یہ فیصلہ کشمیر کے نمائندے ہی کر سکتے ہیں مَیں نہیں کر سکتا۔ مَیں یہ نہیں چاہتا کہ میں آئوں اور آپ سے باتیں کر کے کچھ فیصلہ کر لوں بلکہ مَیں یہ چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے حقوق کا سوال ہے اُن کے نمائندوں کو بات کرنے کا موقع دیا جائے۔ آخر وہی وائسرائے جنہوںنے کہا تھا کہ میں اِن معاملات میں دخل نہیں دے سکتا جب بار بار اُن کو واقعات بتائے گئے تو اُنہوں نے بھی تسلیم کیا کہ کشمیر میں بہت سی خرابیاں ہیں جن کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔چنانچہ گورنمنٹ آف اِنڈیا نے بھی کشمیر گورنمنٹ پر زور دینا شروع کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر ہری کشن کو ل جو وزیراعظم تھے اِس بات پر مجبور ہوئے کہ میری طرف توجہ کریں اور آخر اُنہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے آدمی بھجوادیں جن سے بات کر کے وہ حقوق جو مسلمانوں کو دیئے جا سکتے ہوں اُن کو دے دیئے جائیں ۔
لارڈ ولنگڈن کا ایک خط
میں اِس وقت دو خطوط سُنا تا ہوںجن میں سے ایک لارڈولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری کا ہے۔لوگ عام طور
پر کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو جو حقوق ملے ہیں وہ دوسروں کی کوشش کے نتیجہ میں ملے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر میں یہ خط پیش کرتا ہوں جو لارڈ ولنگڈن کے پرائیویٹ سیکرٹری الکیوٹٹدآئیلے کا لکھا ہوا ہے۔ اور ۳۱؍نومبر ۱۹۳۱ء کا ہے ۔ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں ۔
‏D. O. No. 10407 G.M
‏The Viceroy's House,
‏New Delhi,
‏13th. November 1931.
‏ Your Holiness
‏ His Excellency wishes me to thank you for your letter of the 7th November. He regrets very much to learn that you are dissatisfied with his previous reply and feel that the efforts made by you and your community in the interests of peace in Kashmir have received scanty appreciation or attention from the Government of India. His Excellancy is sure that this is due to some misunderstanding for it has certainly never been his intention to be liltle in any way the loyal assistance which your community is always ready to render to Government. You will recognise, however, that in the internal affairs of an Indian State it is practically impossible for Government to insist upon the State dealing with any outside committee however wellintentioned and representative and the negotiations must take place, if the Ruler so desires, direct with the Government of India.
‏ His Excellency wishes me to assure you that he has throughout given the Kashmir question his most anxious and sympathetic consideration and has left nothing un-done which in his view could lead to a peaceful and satisfactory solution of the present troubles. He would be the last to say that all Government action has been exactly right or has been taken at exactly the right moment but he does claim that it has been with the one purpose of obtaining an early and satisfactory settlement between the Maharaja and his Moslem subjects. He trusts that his efforts in this direction will soon begin to have effect and that confidence will be restored among the Muslim community in Kashmir.
‏ His Excelloncy wishes me to thank you for the frank and candid expression of your views and opinions which will be of much value to him in appreciating and dealing with a very difficult situation. His Excellency is assured that he can rely upon you and the other members of the All-India Kashmir Committee to use your best efforts to produce the peaceful atmosphere. Which will go far to assist an early and satisfactory solution.
‏ Yours Sincerely
‏To
‏His Holiness
‏M. B. Mahmud Ahmad,
‏Head of The Ahmadiyya Community
‏and President, All India Kashmir Committee,
‏`Al- Faiz`, 6, Lytton Road, Lahore.
اِس خط کا ترجمہ یہ ہے۔
ہِزایکسی لنسی حضور وائسرائے نے فرمایا ہے کہ مَیں آپ کے خط مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۳۱ء کا شکریہ ادا کروں۔ ہِزایکسی لنسی کو اِس بات کے معلوم ہونے پر افسوس ہوا کہ آپ اُن کے پہلے جواب کو ناتسلی بخش خیال فرماتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ جو آپ نے اور آپ کی جماعت نے کشمیر میں اَمن کی خاطر کوششیں فرمائی ہیں۔ اُن کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا اور یہ کہ حکومتِ ہند نے اُس کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ ہِزایکسی لنسی کو یقین ہے کہ اِس کا باعث کوئی غلط فہمی ہے کیونکہ اُن کا ہرگز کبھی یہ ارادہ نہیںہوا کہ آپ کی اور آپ کی جماعت کی اِس وفادارانہ امداد کو جو آپ ہمیشہ حکومت کی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں کسی طرح اِستخفاف کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن آپ اِس بات کو تسلیم فرمائیں گے کہ حکومت کے لئے یہ بات عملاً ناممکن ہے کہ کسی ہندوستانی ریاست کے اندرونی معاملات کے متعلق ریاست پر یہ زور دے کہ وہ کسی بیرونی کمیٹی کے ساتھ معاملہ کرے خواہ وہ کمیٹی کیسی ہی نیک نیت اور نمائندہ حیثیت رکھتی ہو اور اگر والی ریاست ایسا چاہے تو اِس صورت میں ضروری ہے کہ اِس بارہ میں براہِ راست حکومتِ ہند کے ساتھ گفت وشنید کی جائے۔
حضور وائسرائے نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مَیں آپ کو یقین دلاؤں کہ انہوں نے شروع سے ہی سوالِ کشمیر پر پورے فکر اور ہمدردی کے ساتھ غور کیا ہے اور انہوں نے موجودہ مشکلات کے تسلی بخش اور پُرامن حل کا ذریعہ نکالنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھا۔ حضور وائسرائے آخری آدمی ہوں گے جو یہ کہیں کہ حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یا یہ کہ وہ صحیح وقت کیا گیا ہے۔ لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے اِس کا واحد مقصد یہی تھا کہ مہاراجہ صاحب اور اُن کی مسلمان رعایا کے مابین جلد سے جلد اور تسلی بخش تصفیہ ہو جائے اور اُنہیں امید ہے کہ اِس معاملہ میں اُن کی کوششیں جلد ہی نتیجہ پیدا کریں گی اور یہ کہ مسلمانانِ کشمیر میں پھر اعتماد پیدا ہو جائے گا۔
حضور وائسرائے فرماتے ہیں کہ مَیں آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے نہایت صفائی سے اپنے خیالات اور آراء کو ظاہر فرما دیا ہے اور یہ اُن کے لئے ایک مشکل سوال کے صحیح طور پر سمجھنے اور اِس کے حل کرنے میں بہت مفید اور قیمتی ثابت ہو گا۔ ہِزایکسی لنسی کو یقین ہے کہ وہ آپ پر اور آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے ممبروں پر یہ اعتماد رکھ سکتے ہیںکہ آپ اپنی بہترین کوششوں کے ساتھ ایک پُرامن ماحول پیدا کریں گے جس سے جلد اور تسلی بخش حل کرنے میںبہت بڑی مدد ملے گی۔
پرسنل اسسٹنٹ وزیراعظم کشمیر کا خط
دوسرا خط وزیراعظم کشمیر کے پرسنل اسسٹنٹ کا ہے جو انہوں نے میرے
پرائیوٹ سیکرٹری کے نام لکھا وہ خط یہ ہے۔
سرینگر کشمیر
مؤرخہ ۱۰؍نومبر۱۹۳۱ء
مکرم پرائیوٹ سیکرٹری صاحب
تسلیم۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۳؍ نومبر ۱۹۳۱ء جناب حضور والا شان پرائم منسٹر صاحب بہادر کے ملاحظہ سے گزرا۔ مختصراً جواب عرض کرتا ہوں کہ ابتدا سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانانِ کشمیر کو ابتدائی جائز حقوق دینے میں بے حد جلدی کی جاوے اور خاص طور پر گزشتہ ایک ہفتہ سے تو شب و روز سوائے اِس کام کے پرائم منسٹر صاحب کسی دوسرے کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ البتہ دو تین روز کے لئے جموں کے واقعات نے مجبور کیا کہ وہاں پرائم منسٹر صاحب خود تشریف لے جاویں۔ جموں کے واقعات نے جس کے ذمہ دار احرار ہیں۔ معاملۂ مطالبات کو قدرے التواء میں ڈال دیا اور صدر صاحب کے ساتھ گفت و شنید یا خط و کتابت میں بھی دیر محض اِسی وجہ سے ہوئی (لوگ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے کشمیر میں کامیابی حاصل ہوئی اوروہ یہ کہتے ہیں کہ احرار کی وجہ سے معاملۂ مطالبات کے منظور ہونے میں دیر ہو گئی ورنہ بات جلدی طے ہو جاتی) علاوہ بریں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے نمائندگان مقیمی سرینگر عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا اسماعیل غزنوی صاحب کے ساتھ اکثر تبادلۂ خیالات ہوتا رہتا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ کو بتلا سکیں گے کہ حکومتِ ہند نے اِس معاملہ میں کس قدر دلچسپی لی ہے۔ (دراصل گورنمنٹ کشمیر نے مجھے لکھا تھا کہ اپنے دو نمائندے یہاں بھجوا دیں جن سے ہم وقتاً فوقتاً گفتگو کرتے رہیں۔ اِس پر میں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔اے اور مولوی محمد اسمعٰیل صاحب غزنوی کو بطور نمائندہ بھجوا دیا تھا) کسی قدر یہ ہمیں تسلی بھی تھی کہ صدر صاحب خود ریاست کی سرحد پر آ کر اپنے نمائندگان سے مل گئے ہیں اور تمام حالات معلوم کر گئے ہیں۔ (یہ درست ہے مَیں ہزارے کی طرف جا کر کشمیر کے نمائندوں سے ملا تھا اور اُن سے میں نے تمام حالات معلوم کئے تھے) صدر صاحب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ مساجد وغیرہ کے اعلان میں صدر صاحب اور ہماری منشاء کے خلاف ہمیں اعلان کو جلد شائع کرنے کے لئے کس طرح سے رائے دی گئی۔ جو مجبوری کی حد تک پہنچ گئی (میں نے اُنہیں کہا تھا کہ تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے اِس پر وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں کشمیر کے نمائندوں نے مجبور کیا تھا کہ ہم اِس قسم کا اعلان کر دیں) آپ نے صدر صاحب کے خیال کو اِس شکل میں رکھا ہے کہ وہ سمجھتے ہیںکہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ کسی مفید نتیجہ پر پہنچنے کی غرض سے گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں۔ یہ محض غلط فہمی ہے افسوس ہے کہ صدرصاحب نے ہماری مصروفیت اور مشکلات کا اندازہ نہیں کیا لیکن ہر بات کا علاج وقت اور میعاد ہے۔ صدر صاحب عنقریب یقین کرنے پر تیار ہو جاویں گے کہ ہم معاملہ کو لمبا کرنا چاہتے ہیں یا مختصر اور کہاں تک اِس کے مشورۂ صائب کے مطابق عمل کررہے ہیں۔ آپ کے لکھنے کے مطابق صدر صاحب کی خواہش محض مسلمانانِ کشمیر کو حقوق دلوانے کی ہے جس میں حکومت پورے طور سے خود مصروف ہے۔
آپ کا صادق
جیون لعل
پرسنل اسسٹنٹ
اِن خطوط سے معلوم ہو سکتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا بھی میری تحریک پر کام کر رہی تھی اور کشمیر گورنمنٹ کے وزیراعظم بھی میرے مشورہ سے ہی کام کرتے تھے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد جب ہمیں کامیابی حاصل ہوئی تو انہوں نے احرار کو اپنے ساتھ ملا کر اِس معاملہ کو خراب کرنا شروع کر دیا۔ مَیں نے پھر زور سے مقابلہ شروع کر دیا۔
مہاراجہ صاحب کشمیر کا ملاقات کرنے سے انکار
آخر سرہری کشن کول نے مجبور ہو کر مجھے لکھاکہ آپ
اپنے چیف سیکرٹری کو بھیج دیں مہاراجہ صاحب کہتے ہیں مَیں خود اُن سے بات کر کے اِن معاملات کا فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو بھیج دیا مگر ساتھ ہی اُنہیں کہہ دیا کہ یہ پرائم منسٹر کی کوئی چال نہ ہو۔ تیسرے دن اُن کا تار پہنچا کہ مَیں یہاں تین دن سے بیٹھا ہوا ہوں مگر مہاراجہ صاحب ملاقات میں لیت ولعل کر رہے ہیں۔مَیں نے کہا آپ اُن پر حُجّت تمام کر کے واپس آ جائیں۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک دفعہ پھر ملاقات کی کوشش کی مگر جب اُنہیں کامیابی نہ ہوئی تو وہ میری ہدایت کے ماتحت واپس آ گئے۔
چوہدری صاحب کے واپس آنے کے بعد سر ہری کشن کول کا خط آیا کہ مہاراجہ صاحب تو ملنا چاہتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا۔ اُن کے سیکرٹری سے ملاقات کرنے میں تو میری ہتک ہے۔ اتفاق کی بات ہے اِس کے چند دن بعد ہی مَیں لاہور گیا تو سرہری کشن کول مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ مہاراجہ صاحب خود آتے تو میں اُن سے ملاقات بھی کرتا آپ تو اُن کے سیکرٹری ہیں اور آپ سے ملنے میں میری ہتک ہے۔ میرا یہ جواب سُن کر وہ سخت گھبرایا۔ میں نے کہا پہلے تو مَیں تم سے ملتا رہا ہوں کیونکہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ سیکرٹری کے ساتھ ملنے سے انسان کی ہتک ہو جاتی ہے لیکن اَب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سیکرٹری سے ملاقات کی جائے تو ہتک ہو جاتی ہے؟ اِس لئے میں اَب تم سے نہیں مل سکتا۔ گویا خدا نے فوری طور پر اُن سے بدلہ لینے کا موقع عطا فرما دیا۔
چوہدر ی افضل حق صاحب کی مخالفت
آخر اِسی دوران میں ایک دن سرسکندر حیات خاں صاحب نے مجھے کہلا
بھیجا کہ کشمیر کمیٹی اور احرار میں کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کسی نہ کسی رنگ میں فیصلہ کر دے گی۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اِس بارہ میں دونوں میں تبادلۂ خیالات ہو جائے۔ کیا آپ ایسی مجلس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ مَیں نے کہا مجھے شریک ہونے میں کوئی عذر نہیں۔ چنانچہ یہ میٹنگ سرسکندر حیات خاں کی کوٹھی پر لاہور میں ہوئی اور میں بھی اِس میںشامل ہوا۔ چوہدری افضل حق صاحب بھی وہیں تھے۔ باتوں باتوں میں وہ جوش میں آ گئے اور میرے متعلق کہنے لگے کہ اِنہوں نے الیکشن میں میری مدد نہیں کی اور اَب تو ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ احمدیہ جماعت کو کُچل کر رکھ دیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اگر جماعتِ احمدیہ کسی انسان کے ہاتھ سے کچلی جا سکتی تو کبھی کی کچلی جا چکی ہوتی اور اَب بھی اگر کوئی انسان اِسے کچل سکتا ہے تو یقینا یہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ پھر مَیں نے کہا یہ بھی درست نہیں کہ مَیں نے الیکشن میں آپ کی مدد نہیں کی ایک الیکشن میں مَیں نے آپ کی مخالفت کی ہے اور ایک الیکشن میں آپ کی مدد کی ہے۔ سرسکندر حیات خاں بھی کہنے لگے۔ افضل حق! تم بات بھول گئے ہو اِنہوں نے ایک الیکشن میں تمہاری مدد کی تھی صرف ایک الیکشن میں اِنہوں نے تمہاری مخالف کی ہے۔ وہ کہنے لگے میری بڑی ہتک ہوئی ہے اور اَب تو مَیں نے احمدیت کو کُچل کر رکھ دینا ہے۔
مسلمانانِ کشمیر کی جلد بازی
جب اِس طرح کوئی فیصلہ نہ ہوا تو گورنمنٹ آف اِنڈیا نے ایک والی ریاست کو اِس غرض کے لئے مقرر
کیا کہ کسی طرح اِس جھگڑے کا وہ فیصلہ کروا دیں۔ انہوں نے میری طرف آدمی بھیجے اور کہا کہ جب تک آپ دخل نہیں دیں گے یہ معاملہ کسی طرح ختم نہیں ہو گا۔ میں نے کہا مجھے تو دخل دینے میں کوئی اعتراض نہیں میری تو اپنی خواہش ہے کہ یہ جھگڑا دُور ہو جائے ۔ آخر اُن کا پیغام آیا کہ آپ دہلی آئیں۔میں دہلی گیا چوہدری ظفراللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ دو دفعہ ہم نے کشمیر کے متعلق سکیم تیار کی اور آخر گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ فیصلہ ہوا کہ اِن اِن شرائط پر صُلح ہو جانی چاہئے۔ اُس وقت کشمیر میں بھی یہ خبر پہنچ گئی اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے فیصلہ میں دیر کی تو تمام کریڈٹ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ پیشتر اِس کے کہ ہم اپنی تجاویز کے مطابق تمام فیصلے کروا لیتے مسلمانوں نے اُن سے بہت کم مطالبات پر دستخط کر دیئے۔ حالانکہ اُن سے بہت زیادہ حقوق کا ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ فیصلہ کروا چکے تھے۔
غرض کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کا تمام کام میرے ذریعہ سے ہوا اور اِس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنایا کہ مصلح موعود اسیروں کا رستگار ہو گا۔
سر ہری کشن کول کی وزارت سے علیحدگی
اُنہی ایام میں آخری دفعہ جب میں لاہور گیا تو سرہری کشن کول بھی وہاں
آئے ہوئے تھے۔ اُن کا میرے نام پیغام آیاکہ اپنے آدمی بھیج دیں تاکہ شرائط کا اُن کے ساتھ تصفیہ ہو جائے۔ مَیں نے کہلا بھیجا کہ تصفیہ اِن اِن شرائط پر ہو گا اگر مان لو تو صُلح ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ وہ کہنے لگے یہ شرائط تو بہت سخت ہیں اگر اِن کو تسلیم کر لیا گیا تو ہماری قوم بگڑ جائے گی۔ میں نے کہا یہ تمہاری مرضی ہے چاہو تو صُلح کر لو اور چاہو تو نہ کرو۔ درد صاحب اُس کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے آخر رات کے گیارہ بجے اُس نے کہہ دیا کہ اِن شرائط پر صُلح نہیں ہو سکتی۔ مجھے درد صاحب نے یہ بات پہنچائی تو مَیں نے اُن سے کہا آپ سر ہری کشن کول سے جا کر کہہ دیں کہ اگر اِن شرائط پر وہ صلح کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھروہ بھی وزیر نہیں رہ سکتے۔ درد صاحب نے یہ بات اُسے کہی تو وہ کہنے لگا مَیں تجربہ کار ہوں میں ایسے بَلفْ (BLUFF) سے نہیں ڈرا کرتا۔ مَیں نے درد صاحب سے کہا آپ اُن سے دریافت کریں اور پوچھیں کہ کرنل بکسر جموں گیا ہے یا نہیں؟ اگر وہ جموں گیا ہے اور مہاراجہ صاحب سے ملا ہے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا مہاراجہ صاحب نے آپ کو وہ باتیں بتائی ہیں؟ اگر نہیں بتائیں حالانکہ مہاراجہ آپ کو اپنا باپ کہا کرتا ہے تو اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کو الگ کرنا چاہتا ہے چنانچہ میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اَب آپ کا زمانہ گزر چکا ہے اَب آپ وزیراعظم نہیں رہ سکتے۔ مہاراجہ صاحب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ آپ کو الگ کر دیا جائے اور کالون صاحب کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ یہ سُنتے ہی اُس کا رنگ فق ہو گیا او رکہنے لگا بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پھر اُسی وقت اُس نے اپنا موٹر تیار کیا اور درد صاحب سے کہا کہ آپ اُن سے اجازت لے کر آئیں اور میرے ساتھ چلیں جو شرائط بھی آپ لکھیں گے میں اُن پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اُنہوں نے کہا اَب دستخط کرنے کا وقت نہیں رہا کل صبح تم پرائم منسٹر ہو گے ہی نہیں۔ اُس کو ایسا فکر ہوا کہ وہ اُسی وقت راتوں رات موٹر پر جموں گیا مگر جب صبح ہوئی تو مہاراجہ نے اُسے کہہ دیا کہ تمہیں وزارت سے الگ کیا جاتا ہے۔
غرض کشمیر کے لوگوں کو جو کچھ ملا وہ میری جدوجہد کے نتیجہ میں ملا اور واقعہ یہ ہے کہ اگر کشمیر کے لوگ جلدی نہ کرتے تو گورنمنٹ آف اِنڈیا کی معرفت جو سمجھوتہ ہوتا اُس میں اُنہیں زیادہ حقوق مل جاتے اور گائے کا سوال بھی حل ہو جاتا۔
مَیں نے اِن واقعات کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں چھوڑ دی ہیںاور بعض والیانِ ریاست کا نام بھی نہیں لیا۔ اگر مَیں آخر ی مرحلہ کی تفصیل بیان کروں تو شاید بعض والیان ریاست اِسے اپنی ہتک خیال کریں۔ مگر چونکہ یہ واقعہ اَب گزر چکا ہے اِس لئے اِس کی تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
جلالِ الٰہی کا ظہور
۵۔ پانچویں خبر یہ دی گئی تھی کہ اُس کا نزول جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا۔ یہ خبر بھی میرے زمانہ میں ہی پوری ہوئی۔چنانچہ
میرے خلافت پر متمکن ہوتے ہی پہلی جنگ ہوئی اور اَب دوسری جنگ شروع ہے۔ جس سے جلالِ الٰہی کا دنیا میں ظہور ہو رہا ہے۔ شاید کوئی شخص کہہ دے کہ اِس وقت لاکھوں کروڑوں لوگ زندہ ہیں اگر اِن لڑائیوں کو تم اپنی صداقت میں پیش کر سکتے ہو تو اِس طرح ہر زندہ شخص اِن کو اپنی تائید میں پیش کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہ جنگیں میری صداقت کی علامت ہیں۔
اِس کے متعلق میرا جواب یہ ہے کہ اگر اُن لاکھوں کروڑوں لوگوںکو جو اِس وقت زندہ ہیں اِن جنگوں کی خبریں دی گئی ہیں تو یہ ہر زندہ شخص کی علامت بن سکتی ہیں اور اگر اُن کو اِن لڑائیوں کی خبریں نہیں دی گئیں تو پھر جس کو اِن جنگوں کی تفصیل بتائی گئی ہے اِسی کے متعلق جلالِ الٰہی کا یہ ظہور کہا جائے گا۔
مصلح موعود کا نام ’’عالَمِ کباب‘‘ بھی رکھا گیا ہے اور گو یہ پیر منظور محمد صاحب کے لڑکے کا نام رکھا گیا تھا لیکن اِس کے معنی یہی تھے کہ وہ لڑکا منظورِ محمد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہو گا اور محمدی بیگم سے مراد سیّدانی کی اولا دہے۔ ہر سیّدانی بوجہ آنحضرت ﷺ کی ذرّیت ہونے کے محمدی بیگم ہے یعنی محمد رسول اللہﷺ کی طرف نسبت ذریت رکھنے والی بیگم۔ دوسرے معنی اِس کے یہ بھی تھے کہ سب سے پہلے مصلح موعود کا اعلان پیر منظور محمد صاحب کریں گے اور چونکہ اِس لحاظ سے وہ اِس خیال کو سب سے پہلے بحث میں لانے والے تھے اور تصنیف مصنف کی معنوی اولاد ہوتی ہے اِس لئے پیشگوئی پر پردہ ڈالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ رنگ اختیار کیا اور بتایا کہ جماعت میں سب سے پہلے اِس پیشگوئی کی حقیقت کی طرف پیر منظور محمد صاحب اشارہ کریں گے۔
مخالفین کی ارادۂ قتل میں ناکامی
۶۔ چھٹی خبر یہ دی گئی تھی کہ خدا کا سایہ اُس کے سر پر ہو گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اُس کا حافظ و ناصرہوگا اور اُسے
دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے گا ۔ اَب دیکھو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اِس الہام کی صداقت میں متواتر میری حفاظت اور نصرت کی ہے۔ مجھے اِس وقت تک کوئی ایسا الہام نہیں ہوا جس کی بناء پر میں کہہ سکوں کہ میں انسانی ہاتھوں سے نہیں مروں گا لیکن بہرحال میں اِس یقین پر قائم ہوں کہ جب تک میرا کام باقی ہے اُس وقت تک کوئی شخص مجھے مار نہیں سکتا۔ میرے ساتھ متواتر ایسے واقعات گزرے ہیں کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے اُن کے حملوںسے مجھے محفوظ رکھا۔
پہلا واقعہ
ایک گزشتہ جلسے کا واقعہ ہے مَیں تقریر کر رہا تھا اور تقریر کرتے کرتے میری عادت ہے کہ میں گرم گرم چائے کے ایک دو گھونٹ پی لیا کرتا ہوں تاکہ گلا
درست رہے کہ اِسی دَوران میں جلسہ گاہ میں سے کسی شخص نے ملائی کی ایک پیالی دی اور کہا کہ یہ جلدی حضرت صاحب تک پہنچا دیں کیونکہ حضور کو تقریر کرتے کرتے ضعف ہو رہا ہے چنانچہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو وہ پیالی ہاتھوں ہاتھ پہنچانی شروع کر دی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ سٹیج پر پہنچ گئی۔ سٹیج پر اتفاقاً کسی شخص کو خیال آگیا اور اُس نے احتیاط کے طور پر ذرا سی ملائی چکھی تو اُس کی زبان کٹ گئی۔ تب معلوم ہوا کہ اِس میں زہر مِلی ہوئی ہے اَب اگر وہ ملائی مجھ تک پہنچ جاتی اور میں خدانخواستہ اُسے چکھ لیتا تو اور کچھ اثر ہوتا یا نہ ہوتا اتنا ضرور ہوتا کہ تقریر رُک جاتی۔
دوسرا واقعہ
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک دیسی عیسائی آیا جس کا نام جے میتھیوز تھااور اُس کا ارادہ تھا وہ مجھے قتل کر دے۔ یہاں سے جب
وہ ناکام واپس لَوٹا تو اُس کا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور اُس نے اُسے قتل کر دیا۔ اِس پر عدالت میں مقدمہ چلا اور اُس نے سیشن کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرا ارادہ اپنی بیوی کو ہلاک کرنے کا نہیں تھا بلکہ میں مرزا صاحب کو ہلاک کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک جگہ کسی مولوی کی تقریر سُنی جس نے ذکر کیا کہ قادیان کے مرزا صاحب بہت بُرے آدمی ہیں اور اُن میں یہ یہ بُرائیاں ہیں۔ مَیں نے اُس کی تقریر کے بعد فیصلہ کیا کہ میں قادیان جا کر مرزا صاحب کو مار ڈالوں گا۔ چنانچہ میں پستول لے کر قادیان گیا اتفاقاً اُس روز جمعہ تھا۔ جمعہ کے خطبہ میںچونکہ بہت لوگ اکٹھے تھے اِس لئے مجھے اُن پر حملہ کرنے کی جرأ ت نہ ہوئی۔ دوسرے دن میں نے سُنا کہ وہ پھیرو چیچی چلے گئے ہیں۔ میں پستول لے کر اُن کے پیچھے پیچھے پھیروچیچی گیا اور مَیں نے سمجھا کہ وہاں آسانی سے میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکوں گا۔ مگر وہاں بھی میں نے دیکھا کہ اُن کے دروازہ پر ہر وقت پہرہ دار بیٹھے رہتے ہیں اِس لئے مَیں واپس آگیا۔ گھر آ کر میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور میں نے اُسے مار ڈالا۔ یہ سارا واقعہ اُس نے عدالت میں خود بیان کیا حالانکہ ہمیں کچھ علم نہیں تھا کہ کوئی شخص کس نیت اور ارادہ کے ساتھ ہمارے پاس آیا ہے لیکن ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی اور اُسے حملہ کرنے میں ناکام رکھا۔
تیسرا واقعہ
تیسرا واقعہ یہ ہے کہ احرار کی شورش کے ایام میں مَیں ایک دن اپنی کوٹھی دارالحمد میں تھا کہ ایک افغان لڑکا آیا اور اُس نے کہلا بھیجا کہ مَیں آپ سے
ملنا چاہتا ہوں۔ میرے چھوٹے بچے اندر آئے اور اُنہوں نے بتایا کہ ایک لڑکا باہر کھڑا ہے اور وہ ملنا چاہتا ہے۔ میں باہر نکلنے ہی والا تھا کہ میںنے شور کی آواز سُنی۔ میں حیران ہوا کہ یہ شور کیسا ہے۔ چنانچہ میں نے دریافت کرایا تو مجھے اطلاع دی گئی کہ یہ لڑکا قتل کے ارادہ سے آیا تھا مگر عبدالاحد صاحب نے اُسے پکڑ لیا اور اُس سے ایک چھرا بھی اُنہوں نے برآمد کر لیا ہے۔ میں نے عبدالاحد صاحب سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا کہ یہ قتل کے ارادہ سے آیاہے؟ وہ کہنے لگا کہ یہ لڑکا پٹھان تھا اور ہم پٹھانوں کی عادات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب یہ باتیں کر رہا تھا تو باتیں کرتے کرتے اِس نے اپنی ٹانگوںکو اِس طرح ہِلایا کہ میں فوراً سمجھ گیا کہ اُس نے چھرا چھپایا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے ہاتھ ڈالا تو چھرا نکل آیا۔ پولیس نے اُس پر مقدمہ بھی چلایا تھا اور غالباً اُس نے اقرار کیا تھا کہ میں قتل کی نیت سے ہی قادیان آیا تھا۔
(اِس موقع پر حضور نے فرمایا کہ میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ اس جیل خانہ میں قید تھا جہاں میں افسر لگا ہوا تھا اور وہ کہتا تھا کہ میں پہلے دھرم سالہ تک اِن کو قتل کرنے لئے گیا تھا مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی۔ آخر مَیں قادیان گیا اور پکڑا گیا)
چوتھا واقعہ
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ اُمِّ طاہر کے مکان کی دیوار پھاند کر ایک شخص اندر کُودنا چاہتا تھا کہ لوگوں نے اُسے پکڑ لیا۔ پولیس والے چونکہ ہمارے
خلاف تھے اِس لئے اُنہوں نے یہ کہہ کر اُسے چھوڑ دیا کہ یہ پاگل ہے۔
پانچواں واقعہ
پانچواں واقعہ بالکل تازہ ہے جو کل ہی ہوا ہے۔ کل ہمارے گھر میں دودھ رکھا ہوا تھا کہ میری بیوی کو شُبہ پیدا ہوا کہ کسی نے دودھ میں کچھ
ڈال دیا ہے چنانچہ اِس شُبہ کی وجہ سے اُنہوں نے کہہ دیا کہ اِس دودھ کو استعمال نہ کیا جائے۔ ایک دوسری عورت جسے اِس کا علم نہیں تھا یا اُس نے خیال کیا کہ یہ محض وہم ہے اُس نے وہ دودھ پی لیا اور اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُسے اَب تک متواتر قئیں آ رہی ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ جو شُبہ کیا گیا تھا وہ درست تھا۔
لیکن باوجود اِس کے کہ لوگوں نے مجھے ہلاک کرنے کی کئی کوششیں کیں اور ہر رنگ میں اُنہوں نے زور لگایا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ خدا کا سایہ میرے سَر پر ہو گا اِس لئے وہ ہمیشہ میری حفاظت کرتا رہا اور اُس وقت تک کرتا رہے گا جب تک وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اپنی تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔
قبولیت دعا کا نشان
خدا کا سایہ سَر پر ہونے کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کی کثرت سے دعائیں سُنے گا۔ یہ علامت بھی اتنی بیّن اور واضح
طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے کہ اِس اَمر کی ہزاروں نہیں، لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں کہ غیرمعمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے میری دعائیںسنیں۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ
پھریہ نہیں کہ میری دعاؤں کی قبولیت کے صرف احمدی گواہ ہیں بلکہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہزاروں عیسائی،ہزاروں ہندو اور ہزاروں غیراحمدی بھی اِس بات کے گواہ ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے متعلق میری دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا اور اُن کی مشکلات کو دُور کیا۔ ’’الفضل‘‘ میں بھی ایسے بیسیوں خطوط وقتاً فوقتاً چھپتے رہتے ہیںکہ کس طرح مخالف حالات میں لوگوں نے مجھے دعاؤں کے لئے لکھااور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کی مشکلات کو دُور کر دیا۔ اِس معاملہ میںبھی مَیں نے بار بار چیلنج دیا ہے کہ اگر کسی میںہمت ہے تو وہ دعاؤں کی قبولیت کے سلسلہ میں ہی میرا مقابلہ کر کے دیکھ لے۔ مگر کوئی مقابلہ پر نہیں آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اِس رنگ میں دنیا کو مقابلہ کا چیلنج دے چکے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’میرے مخالف منکروں میں سے جو شخص اشد مخالف ہو اور مجھ کو کافر اور کذاب سمجھتا ہو وہ کم سے کم دس نامی مولوی صاحبوں یا دس نامی رئیسوں کی طرف سے منتخب ہو کر اِس طور سے مجھ سے مقابلہ کرے۔ جو دو سخت بیماروں پر ہم دونوں اپنے صدق و کذب کی آزمائش کریں۔ یعنی اِس طرح پر کہ دو خطرناک بیمار لے کر جو جُدا جُدا بیماری کی قسم میں مبتلا ہوں قرعہ اندازی کے ذریعہ سے دونوں بیماروں کو اپنی اپنی دعا کے لئے تقسیم کر لیں۔ پھر جس فریق کا بیمار بکلّی اچھا ہو جاوے یا دوسرے بیمار کے مقابل پر اُس کی عمر زیادہ کی جائے وہی فریق سچا سمجھا جاوے۔‘‘۴۲؎
یہ چیلنج میری طرف سے بھی ہے اگر لوگ اِس معاملہ میں میری دعاؤںکی قبولیت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ بعض سخت مریض قرعہ اندازی کے ذریعہ تقسیم کر لیں اور پھر دیکھیں کہ کون ہے جس کی دعاؤں کو خداتعالیٰ قبول کرتا ہے۔ کس کے مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کے مریض اچھے نہیں ہوتے ۔
یوسفِ ثانی کی خبر
۷۔ ساتویں اُس کا نام یوسف رکھا گیا تھااور یوسف کا واقعہ بھی یہی ہے کہ اُس کے بڑے بھائیوں نے اُسے گم کر دیا اور پھر باپ
کو کہنے لگے کہ اب وہ نہیں ملتا تم اُس کی یاد میں مر جائو گے لیکن اُسے نہ پائو گے اِسی طرح میرے ساتھ ہوا۔ ہماری جماعت میں جو بڑے لوگ تھے اُنہوں نے انکار کیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں یوسف ؑ نے ظاہر نہیں ہونا۔ صرف فرق یہ ہے کہ یوسف کے بھائی آخر تائب ہوئے اور وہ یوسف ؑپر ایمان لے آئے۔ مگر میرے یہ بڑے بھائی جو یوسف ؑ کے بھائیوں سے بھی مخالفت میں بڑھ گئے ہیں ایمان نہیں لائے اور درحقیقت ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہاں تو یہ خبر دی گئی تھی کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند یوسف ؑ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ مگر یہاں یہ خبرنہیں دی گئی کہ وہ بڑے بھائی سجدہ کر یں گے بلکہ یہاں یہ خبر دی گئی تھی کہ شَاہَتِ الْوُجُوْہُ۔۴۴؎ اُن کے منہ کالے کر دیئے جائیں گے دیکھو! یہ پیشگوئی کتنا بڑا نشان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا کیسا عظیم الشان ثبوت ہے ۔ آپ فرماتے ہیں یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ اور پھر فرماتے ہیں اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیاتو لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِنْ ھٰؤُ لَائِ فارسی الاصل لوگوں میں سے بعض رِجَال اُسے واپس لے آئیں گے اب ایک آنے والے کی خبر سُن کر جھوٹا شخص بھی فائدہ اُٹھانے کے لئے دعویٰ کر سکتا ہے مگر وہ اِن دو باتوں کا ثبوت کہاں سے لائے گا کہ اولاد بھی ہو اور اُس کے کام کو چلانے والی اوراسلام کو پھیلانے والی ہو اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کا یہ کیسا زبر دست ثبوت ہے کہ لڑکا ہوا، پھر وہ ایسے حالات میں سے گزرا کہ اُس کی عمر خطرہ میں اور اُس کا علم صفر تھا، پھر خداتعالیٰ نے اس کی مخالفت کروائی اور بڑے بڑے لوگوں کو اُس کے خلاف کھڑا کر دیا جنہوں نے یہاں تک کہا کہ ہم تو جاتے ہیں مگر چند دنوں کے بعد ہی تم دیکھو گے کہ یہاں عیسائی قبضہ کر لیں گے۔ مگر ایک ایک کر کے وہ سب مخالفتیں ختم ہو گئیں اور آج اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم الشان نشان نظر آرہا ہے کہ ہزاروں لوگ یہاں جمع ہیں۔ پس ایک ایک آدمی جو یہاں بیٹھا ہے وہ میری سچائی کا نشان اور اِس بات کا ثبوت ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا۔
مولوی محمد علی صاحب کا پہلا اعتراض
مولوی محمد علی صاحب نے اِس پیشگوئی کے متعلق لکھا ہے کہ موعود تین سَو سال
کے بعد آئے گا اِس کا جواب میں دے چکا ہوں۔
دوسرے انہوں نے کئی مخالف دلائل اِس اصل پر دیئے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات سے سندیا تو غلط ہے یا مستند نہیں۔ میں اِس بحث میں پڑتا ہی نہیں کہ وہ سند درست ہے یا نہیں کیونکہ میں تو صرف الہامات اور اُن کے مفہوم کو لیتا ہوں باقی انہوں نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس پیشگوئی کو مبارک احمد پر چسپاں کیا اور وہ اجتہاد غلط نکلا۔ میں اِس بارہ میںمولوی صاحب کی بات کو تسلیم کر لیتا ہوں کہ چلو وہ پیشگوئی آپ نے مبار ک احمد پر لگائی اور آپ کا اجتہاد غلط نکلا کیونکہ میری تشریح کا سب دارومدار تو اللہ تعالیٰ کی وحی پر ہے نہ کہ مأمور کے اجتہاد پر۔ مگر اِسی سلسلہ میں انہوں نے ایک نہایت افسوسناک حرکت کی ہے اور وہ یہ کہ اُنہوں نے اِس جوش میں کہ وہ ہماری جماعت کو جھوٹا کہیں اپنی پانچویں دلیل کا ہیڈنگ یہ قائم کیا ہے کہ۔
’’الہام الٰہی کے بغیر مصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے *** کی ہے‘‘۔
اور اِس کا ثبوت اُنہوں نے یہ دیا ہے کہ:۔
’’ حضرت مسیح موعودؑ نے جس زور سے پسر موعود کے بارے میںالہام کا مطالبہ اپنے مخالفین سے کیا ہے اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدوں کھلے کھلے الہامِ الٰہی کے کسی کو مصلح موعود قرار دینا ایک خطرناک غلطی ہے۔ ’’حُجَّۃُ اللّٰہ‘‘ میں جو’’سراجِ منیر‘‘ کے بعد طبع ہوئی ذیل کے الفاظ آج ہمار ے احباب کو بہت غور سے پڑھنے چاہئیں اور سوچنا چاہئے کہ وہ کن لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں صفحہ ۱۰ پر فرماتے ہیں ۔
’’ہاں اگر اِس پیشگوئی میں کوئی ایسا الہام مَیں نے لکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ الہام نے اسی کو موعود لڑکا قرار دیا تھاتو کیوں وہ الہام پیش نہیں کیا جاتا ۔ پس جبکہ تم الہام کے پیش کرنے سے عاجز ہو تو کیا یہ *** تم پر ہے یاکسی اور پر……اور بِالفرض اگر میری یہی مراد ہوتی تو میرا کہنا اور خدا کا کہنا ایک نہیں ہے۔ میں انسان ہوں ممکن ہے کہ اجتہاد سے ایک بات کہوں اور وہ صحیح نہ ہو پَر میں پوچھتا ہوں کہ وہ خدا کاالہام کو نساہے کہ میں نے ظاہر کیا تھاکہ پہلے حمل میں ہی لڑکا پیدا ہو جائے گا یا جودوسرے میں پیدا ہوگا وہ درحقیقت وہی موعود لڑکا ہوگا اور وہ الہام پورا نہ ہوا۔ اگر ایسا الہام میرا تمہارے پاس موجود ہے تو تم پر *** ہے اگر وہ الہام شائع نہ کرو۔‘‘۴۵؎
اِس حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو یہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں نے الہام کے مطابق بشیر اوّل کو اپنا موعود لڑکا قرار دے دیا تھا وہ جھوٹ بولتے ہیںاور جھوٹ بولنا لعنتیوںکا کام ہوتاہے۔ اگر اُن کے پاس میرا کوئی ایسا الہام ہے تو اُن پر *** ہے اگر وہ اُس الہام کو شائع نہ کریں۔یہ نہیں فرما تے کہ الہامِ الٰہی کے بغیر تعیین کرنا *** ہوتی ہے اس طرح تو مولوی محمد علی صاحب خود بھی زیرِ الزام آجاتے ہیں کیونکہ انہوں نے بائبل کی کئی پیشگوئیوں کو رسول کریم ﷺپر چسپاں کیا ہے اور ریویو آف ریلیجنز اُردو کے گزشتہ مضامین اس امر پر شاہد ہیں۔ وہ بار بار ان مضامین میںلکھتے رہے ہیں کہ بائبل کی فلاں پیشگوئی رسول کریم ﷺ پر چسپاں ہوتی ہے کیا انہوں نے یہ تعیین الہامِ الٰہی کے مطابق کی تھی یا بغیر الہامِ الٰہی کے۔ اگر الہامِ الٰہی کے بغیر تعیین کر نا لعنتیوں کا کام ہوتا ہے تو پھر یہ *** کا کام مولوی محمد علی صاحب نے کیوں کیا؟ لیکن سب سے زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ اِس فقرہ کے لکھنے کے چند صفحات بعد اِسی کتاب میں،یہ نہیں کہ کسی دوسری کتاب میں یا اِسی کتاب کے کسی دوسرے ایڈیشن میں بلکہ اسی کتاب اور اسی ایڈیشن میں یہ لکھنے کے بعد کہ :۔
’’الہامِ الٰہی کے بغیرمصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت مسیح موعود ؑ نے *** کی ہے‘‘
محمد علی صاحب لکھتے ہیں۔
’’خدا را غور کرو کہ مصلح موعود کی تعیین حضرت مسیح موعود ؑنے کس کے حق میں کی ہے۔ یاد رکھو کہ مصلح موعود صرف ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی کے دوسرے حصہ کا موعود ہے اور اُس کو اپنی ساری تحریروں میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک دفعہ بھی سوائے مبارک احمد کے اور کسی لڑکے پر نہیں لگایا‘‘۔ ۴۶؎
اب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ الہامِ الٰہی کے بغیر مصلح موعود کی تعیین کرنے والے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے *** کی ہے اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بغیر الہامِ الٰہی کے مصلح موعود کی تعیین کی اور اِس پیشگوئی کو مبارک احمد پر چسپاں کیایہ کتنی کور باطنی ہے کہ ایک شخص مرید ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر ایک طرف توکہتا ہے کہ جو شخص بغیر الہامِ الٰہی کے مصلح موعود کی تعیین کرتا ہے وہ *** ہے اور دوسری طرف وہ اُسی شخص کو جس کا وہ مرید ہے لکھتا ہے کہ اُس نے بغیر الہامِ الٰہی کے مبارک احمد کے متعلق تعیین کی اور کہا کہ وہ اِس پیشگوئی کامصداق ہے۔
دوسرا اعتراض
مولوی صاحب نے تین کو چار کرنے والے الہام پر بہت زور دیاہے اور میرے متعلق لکھا ہے کہ یہ علامت اُن پر کسی طرح بھی چسپاں
نہیں ہو سکتی۔ میں جیسا کہ پہلے بھی بتا چکا ہوں حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ’’اِس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے‘‘جب کہ آپؑ پر اِس کے معنی ہی حل نہیں ہوئے تو اگر کسی جگہ آپ نے اِس کے کوئی ایسے معنی لئے ہیں جو میرے خلاف پڑتے ہیںتو بہرحال وہ آپ کا ایک اجتہاد سمجھا جائے گا جسے اُن معنوں کے قطعی حل کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ مگر مولوی محمد علی صاحب کی عادت ہے کہ اگر میرے خلاف کوئی حوالہ پڑتا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسا لکھ دیا ہے تو ہم اِس کے خلاف کس طرح کہہ سکتے ہیں اور اگر میری تائید میں کوئی حوالہ ہو تو کہہ دیتے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اجتہاد تھا اور اجتہاد میں غلطی ہو سکتی ہے حالانکہ اگر اجتہاد میں ایک جگہ غلطی ہو سکتی ہے تو دوسری جگہ کیوں نہیں ہو سکتی۔
پھر یہ بھی صحیح نہیں کہ تین کو چار کرنے والے کی علامت مجھ پر چسپاں نہیں ہوتی۔ میں خداتعالیٰ کے فضل سے کئی رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوں۔
اوّل اِس طرح کہ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب ،مرزا افضل احمد صاحب ،اور بشیر اوّل پیدا ہوئے اور چوتھا مَیں ہوا۔
ـدوسرے اِس طرح کہ میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے اور اِس طرح میں نے اُن تین کو چار کر دیا یعنی مرزا مبارک احمد ، مرزا شریف احمد، مرزا بشیر احمد اور چوتھا میں ۔
تیسرے اِس طرح بھی مَیں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندہ اولاد میں سے ہم صرف تین بھائی یعنی مَیں، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریت میں شامل نہیں تھے۔ اُنہیں حضرت خلیفہ اوّل پر بڑا اعتقاد تھا مگر باوجود اعتقاد کے آپ کے زمانہ میں وہ احمدی نہ ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ایک رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے ہدایت مقدر کی ہوئی ہے وہ رؤیا یہ ہے آپ نے دیکھا کہ۔
’’مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سرتاپاسیاہ ہے۔ ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی اُسی وقت معلو م ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے اُس وقت میںنے گھر میں مخاطب ہو کر کہاکہ یہ میرا بیٹا ہے‘‘۔۴۷؎
آپ کامرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ ’’یہ میرا بیٹا ہے‘‘بتا رہا تھا کہ اُن کے لئے آپ کی روحانی ذرّیت میں شامل ہونا مقدر ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے ۔ جب میرا زمانہ آیاتو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ وہ میرے ذریعے سے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ اِس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں میرے ہاتھ پربیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اور بڑے بھائی کے لئے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ بیعت کے بعد اُنہوں نے خود بتایا کہ مَیں ایک عرصہ تک اِسی وجہ سے بیعت کرنے سے رُکتا رہا کہ اگر میں بیعت کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتا یا حضرت خلیفہ اوّل کی کرتا جن پر مجھے بڑا اعتقاد تھااپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کر لوں مگر کہنے لگے آخر میں نے کہا یہ پیالہ مجھے پینا ہی پڑے گا۔چنانچہ اُنہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنادیا۔کیونکہ پہلے روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذرّیت میں ہم صرف تین بھائی تھے مگر پھر تین سے چار ہوگئے۔
پھر اِس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا۔ ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیشگوئی کی تھی اور ۱۸۸۹ء میں میری پیدائش ہوئی۔ ۱۸۸۶ء ایک ،۱۸۸۷ء دو،۱۸۸۸تین، اور ۱۸۸۹ء چار ۔گویا تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ میری پیدائش پیشگوئی سے چوتھے سال ہوگی اور اس طرح میں تین کو چار کرنے والا بنوں گاچنانچہ ایسا ہی ہوا۔۱۸۸۶ء میں پیشگوئی ہوئی اور ۱۸۸۹ء میں اِس پیشگوئی کے عین مطابق میری ولادت ہوئی۔
تیسرا اعتراض
ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ مامور کی پہلی زندگی پر اعتراض نہیں ہوتے لیکن میاں صاحب کی زندگی پر بڑے بڑے
اعتراض ہوئے ہیں ۔ اُن کے دوست اور اُن کے نہایت مخلص مُرید ایک دو نہیں ،بیسیوں کی تعداد میں اُن پر نہایت گندے الزام لگاتے رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے یہ اعتراض کرتے ہوئے جس قسم کے الفاظ میرے متعلق استعمال کئے ہیں مجھے اُن کا شکوہ نہیںکیونکہ انسان کے جیسے اخلاق ہوتے ہیں ویسی ہی اس سے حرکات سر زد ہوتی ہیں۔
میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولو ی صاحب نے اپنے خیال میں یہ دلیل میرے خلاف دی ہے لیکن ہے میرے حق میں اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنے والے کے بارہ میں لکھتے ہیں۔
’’تمہیں یاد رہے کہ ہر ایک کی شناخت اُس کے وقت میں ہوتی ہے اور قبل ازوقت ممکن ہے کہ وہ معمولی انسان دکھائی دے۔ یابعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے قابلِ اعتراض ٹھہرے‘‘۔۴۸؎
یہ پیشگوئی تھی جو میرے متعلق پائی جاتی تھی کہ بعض دھوکا دینے والے خیالات کی وجہ سے مجھے قابلِ اعتراض ٹھہرایاجائے گا۔ اگر مولوی صاحب یہ اعتراض نہ کرتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی۔ پس اُن کے اِس اعتراض کے صرف اتنے معنی ہیں کہ میرے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور پیشگوئی پوری ہو گئی۔
چوتھا اعتراض
ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنے والے کی نسبت لکھا ہے کہ:۔
’’میں تیری جماعت کے لئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا اور اُس کو اپنے قرب اور وحی سے مخصوص کروں گا۔‘‘۴۹؎
گویا وہ موعود الہامِ الٰہی سے کھڑا ہو گا اور ماموریت کامدعی ہو گا۔ نہ یہ کہ خلافت کی طرح اُس کا انتخاب ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
’’اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے اَمر سے کھڑا کرے گا پس اُس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نشان یہ ہو گا کہ وہ مامور ہو گا‘‘۔
مگر اِس کا جواب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’الوصیت‘‘ میں دے چکے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے۔ تب خداتعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑاکر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا‘‘۔۵۰؎
اَب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہاں وہی الفاظ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق استعمال کئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب نے مصلح موعود کے متعلق استعمال کئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے یہ الفاظ استعمال کئے کہ:۔
’’میں تیری جماعت کیلئے تیری ہی ذریت سے ایک شخص کو قائم کروں گا۔‘‘
اور مولوی محمد علی صاحب نے اِن کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ:۔
’’اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے اَمر سے کھڑا کرے گا‘‘
بعینہٖ یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق استعمال کر دیئے اور فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات پر جب صحابہؓ کو شدید صدمہ ہوا اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے۔
’’تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کھڑا کیا‘‘
اِسی طرح اگر مَیں کھڑا ہوا تو میرے کھڑے ہونے کو خداتعالیٰ کا کھڑا کرنا کیوں نہ کہا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن معنوں میںحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تھے اُنہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا بلکہ ایک زائد اَمر یہ ہے کہ اُنہوں نے الہام سے کھڑے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اِس دعویٰ کے بارہ میں مجھے الٰہی اشارہ ہوا اور مَیں نے الہاماً دنیا کے سامنے اپنے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ پیش کیا۔
پانچواں اعتراض
ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ مجھے خواب میں یہ نہیں کہا گیا کہ مَیں مصلح موعود ہوں یہ تو مَیں نے اجتہادکیا ہے۔ مگر یہ
اعتراض بھی درست نہیں۔ خواب میں صراحتاً یہ باتیں موجود ہیں۔ چنانچہ رؤیا میں میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ:
اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ
میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی مسیح موعود کا مثیل اور اُس کا خلیفہ۔ اور میں نے بتایا ہے کہ خواب میں ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی کہ مَثِیْلُہٗ وَخَلِیْفَتُہٗ میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اِس پیشگوئی کا مصداق ہوں جو آپ نے ایک موعود کے متعلق فرمائی تھی اور جس کے متعلق بتایا تھاکہ وہ حُسن واحسان میں میرا نظیر ہو گا۔ـ اور یہ وہی پیشگوئی ہے جو مصلح موعود کے متعلق ہے۔
پس یہ کہنا کہ خواب میں اِس اَمر کا کہیں ذکر نہیں کہ مجھے مصلح موعود قرار دیا گیا ہے، غلط ہے۔ یہ الہامی الفاظ اور پھر اِن الفاظ کی تشریح سب خواب کا حصہ ہیں اور مَثِیْلُہٗ میں اِسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔
چھٹا اعتراض
ایک اعتراض مولوی صاحب کا یہ ہے جو پہلے بھی کئی دفعہ کر چکے ہیں کہ خوابوں کا کیا ہے خوابیں تو کنچنیوں کو بھی آجایا کرتی ہیں۔
مولوی صاحب جب میرے متعلق سنتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں خوابیں آئی ہیں یا فلاں فلاں الہامات ہوئے ہیں تو اُنہیں بُرا لگتا ہے اور وہ یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیںکہ خوابوں کا کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے بعض فاسق اور فاجر بھی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ اُن کو کبھی کبھی سچی خوابیں آ جاتی ہیںبلکہ کنچنیاں بھی بعض دفعہ سچی خوابیں دیکھ لیتی ہیں اِس لئے خوابوں کا آنا کوئی قابلِ فخر بات نہیں۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ مولوی صاحب یہ اعتراض تو مجھ پر کرتے ہیں مگر کیا اُنہوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ وہ خدا جو کنچنیوں پر بھی رحم کر دیتا ہے باوجود اِس کے کہ وہ سخت گنہگار ہیں وہ اُن پر جو مفسرقرآن ہیں کیوں رحم نہیں کرتا اور کیوں اُن سے وہ سلوک نہیں کرتا جو وہ کنچنیوں سے بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ وہ مجھ پر تو چوٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خوابوں کا کیا ہے خوابیں کنچنیوں کو بھی آ جاتی ہیں مگر انہیں یہ کبھی خیال نہیںآتا کہ خدا نے اُن کو کیسا محروم رکھا ہے کہ اُن پر وہ الہام بھی نہیں ہوتا جو کنچنیوں پر ہو سکتا ہے اگر ایک مفسر قرآن پر خدا اِتنا بھی رحم نہیں کرتا جتنا رحم وہ کنچنیوں پر کیا کرتا ہے تو اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اُن سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جس نے اُنہیں اِس نعمت سے محروم کر دیا ہے۔
ساتواں اعتراض
ایک اعتراض مولوی صاحب نے یہ کیا ہے کہ تم جو کہتے ہو ہم نے بڑی ترقی کی اور یہ ترقی ہماری سچائی کا ثبوت ہے یہ بالکل غلط
ہے۔تمہارے ساتھ ایک بڑی جماعت ہے اور ہمارے ساتھ صرف چندآدمی۔ چندآدمیوں کا کام کر کے دکھا دینا زیادہ قیمتی ہوتا ہے بہ نسبت ایک جماعت کے کام کرنے کے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ساتھ جماعت ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے شدید مخالفت کے باوجود ترقی کی ہے اور یہ ترقی ہماری صداقت کا ثبوت ہے۔ تم کہہ سکتے ہو کہ مسیلمہ کے ساتھ بھی ایک بڑی جماعت تھی یا اسود عنسی کے ساتھ بھی ایک بڑی جماعت تھی مگر سوال یہ ہے کہ مسیلمہ کی کس نے مخالفت کی یا اسودعنسی کی کس نے مخالفت کی؟ وہ اُٹھے اور بغیر مخالفت کے انہیں لاکھوں لوگ مل گئے۔ گو تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ خود بھی مٹ گئے اور اُن کی جماعتوں کا بھی نام و نشان نہ رہا لیکن بہرحال اُن کی مخالفت نہیں ہوئی۔ یہ نہیں ہوا کہ اُنہوں نے دعویٰ کیا ہو تو اُن کی شدید مخالفت ہوئی ہو اور پھر وہ دنیا پر غالب آ گئے ہوں لیکن ہماری جماعت وہ ہے جس کی شدید مخالفت ہوئی اپنوں نے بھی کی غیروں نے بھی کی اور جماعت کے بڑے بڑے لیڈروں نے بھی کی۔ـ ایسے حالات میں جبکہ جماعت کی ترقی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر الہام نازل کیااور فرمایاکہ مَیں تیرے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔میں تیری تمام مشکلات کو دور کروں گا اور تجھے غلبہ اور کامیابی عطا کروں گا چنانچہ باوجود اِس کے کہ قدم قدم پر مشکلات حائل تھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق ہماری جماعت کو ترقی دی اور ایسی ترقی دی کہ وہ جو اپنے آپ کو پچانوے فیصدی کہا کرتے تھے آج اپنے آپ کو پانچ فیصدی بلکہ اِس سے بھی کم قرار دے رہے ہیںاور ہمارے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ اِس جماعت کی تعداد زیادہ ہے، اِس کی طاقت زیادہ ہے اور اِس میں کام کرنے والے آدمی زیادہ ہیں۔ یہ ترقی یقینا ہماری صداقت کا ثبوت ہے۔ کیونکہ یہ وہ ترقی ہے جو مخالف حالات میں ہوئی۔ دنیا نے چاہا کہ ہمیں مٹا دے مگر خدا نے ہمیں کامیاب کیا اور ہمیں ہر لحاظ سے غلبہ و اقتدار عطا فرمایا اور وہ دشمن جو ہماری تباہی کے منصوبے سوچ رہے تھے خداتعالیٰ نے اُن کو ناکام و نامراد کیا۔ یہ چیز ہے جسے ہم اپنی صداقت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ چیز ایسی ہے جس کا کوئی دشمن سے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتا۔
آٹھواں اعتراض
پھر مولوی صاحب نے ایک اوراعتراض یہ کیا ہے کہ تم جو کہتے ہو ہم نے بڑی ترقی کی، یہ بالکل غلط ہے۔ ترقی تو ہم نے کی ہے کہ
ہماریپہلے سال آمد صرف سات ہزار روپیہ تھی جو اَب ترقی کر کے سَوا چار لاکھ روپیہ تک جا پہنچی ہے اور تمہاری پہلے سال دو لاکھ روپیہ آمد تھی جو اَب ترقی کر کے چھ لاکھ تک پہنچی ہے۔
گویا تم نے صرف تین گنا ترقی کی اور ہم نے ساٹھ گنا کی۔ چنانچہ مولوی صاحب لکھتے ہیں۔
’’آمدنی جو سال اوّل میں صرف سات ہزار روپے تھی ترقی کر کے سَوا چار لاکھ تک پہنچی جو سالِ اوّل سے ساٹھ گنا ہے اور قادیانی جماعت اپنے سارے بلند بانگ دعاوی کے ساتھ دو لاکھ آمدنی سے ترقی کرکے صرف چھ لاکھ سالانہ آمدنی تک پہنچی۔ جو ابتدائی حالت سے تگنی ہے۔ کجا ساٹھ گنی ترقی اور کہاں تگنی۔‘‘۵۱؎
مولوی صاحب کی عادت ہے کہ وہ واقعات کو بگاڑے بغیر نہیںرہ سکتے۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بڑھیا تھی جسے چوری کی عادت تھی۔ ایک دفعہ وہ کسی کے گھر گئی تو ایک آدمی اُس کے ساتھ ساتھ رہا تاکہ وہ کوئی چیز چُرا نہ سکے۔ جب وہ واپس آنے لگی تو اُس نے دہلیز سے ذرا سی مٹی اُٹھا لی۔ کسی نے اُس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیا کیا ہے؟ وہ کہنے لگی عادت جو پوری کرنی ہوئی اور کوئی چیز نہیں ملی تو میں نے کہا چلو مٹی ہی اُٹھا لیں۔ یہی بات مولوی صاحب میں پائی جاتی ہے کہ وہ حوالوں میں کتربیونت یا واقعات کو مسخ کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ جب بھی کوئی بات پیش کریں گے اُس میں ضرور کوئی نہ کوئی غلط بات شامل کر دیں گے۔
اوّل تو ہم کہتے ہیں کہ اگر مولوی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اُن کا پہلے سال کا بجٹ صرف سات ہزار روپیہ کا تھا تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ اُن کے ساتھ تھے اُن کے ایمان نہایت کمزور تھے اور وہ دین کے لئے قربانی کا مادہ اپنے اندر نہیں رکھتے تھے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر بشارت احمد صاحب، ڈاکٹر غلام محمد صاحب اور اِسی طرح ان کے دوسرے ساتھی بڑی بڑی آمدنیںرکھتے تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب ہی تین سَو روپیہ ماہوار چندہ دیا کرتے تھے۔ اگر صرف اُن کا چندہ ہی شامل کر لیا جائے تو سال کا ۳۶۰۰ روپیہ بن جاتا ہے۔ پھر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب، ڈاکٹر بشارت صاحب اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب وغیرہ کی آمدنیں بھی تین تین چار چار ہزار روپیہ سالانہ سے کم نہیں تھیں ۔ اگر اِن میں سے ایک ایک شخص کے سالانہ چندہ کی اوسط ۱۸۰ روپیہ سمجھی جائے تو اِس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ ۹۰۰ روپیہ سالانہ صرف پانچ ڈاکٹروںکی طرف سے ہی آ جاتا تھا۔ ۳۶۰۰ وہ اور ۹۰۰ روپیہ یہ ساڑھے چار ہزار روپیہ ہو گیا۔ پھر لائل پور کے شیخ مولا بخش صاحب ہیں۔ اِسی طرح وزیرآباد کے شیخ نیاز احمد صاحب ہیں اِن سب کی آمدنیوں کو ملا لیا جائے تو کئی لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔ لائل پور کے تاجر ملک التجار کہلاتے ہیں اور بعض لوگ بتاتے ہیں کہ اُن کو ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ تک آمد ہو جاتی ہے۔ اگر اِس میں کچھ مبالغہ بھی ہو اور اُن کی بیس لاکھ روپیہ سالانہ آمد سمجھ لو تب بھی سَوا لاکھ روپیہ تو انہیں صرف ایک خاندان سے مل سکتا تھا۔ اگر اِس قدر دولت رکھنے والے لوگوں کے باوجود اِن کا سالانہ چند صرف سات ہزار روپیہ تھا تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کمزور طبیعت کے تھے۔ ایمان اور اخلاص کے ساتھ وہ مولوی صاحب کے ساتھ شامل نہیںہوئے تھے۔
غیر مبائعین کا ۳۸۔۱۹۳۷ء کا بجٹ
پھر مولوی صاحب کی طرف سے جو کہا جاتا ہے کہ اُن کا چندہ ترقی کر کے اَب
سَوا چار لاکھ روپیہ تک جا پہنچا ہے یہ بھی درست نہیں۔ میرے پاس اِس وقت اُن کی انجمن کا ۳۸۔۱۹۳۷ء کا بجٹ ہے۔ اِس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انجمن کے کتنے صیغے ہیں اور ہر صیغہ کے آمد و خرچ کی کیا نسبت ہے۔ اِس نقشہ میں ۳۸۔۱۹۳۷ء کا اصل آمد و خرچ ۳۸۔۱۹۳۷ء کا تخمینہ بجٹ اور ۳۸۔۱۹۳۷ء کا ۹ ماہ کا اصل آمد و خرچ اور تین ماہ کا تخمینہ آمد و خرچ دکھایا گیا ہے جو یہ ہے۔
تخمینہ بجٹ آمد صیغہ جات احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور
تفصیل
اصل آمد ایک سال بابت ۳۷۔۱۹۳۶ء
تخمینہ آمد بابت سال ۳۸۔۱۹۳۷ء
اصل آمد نو ماہ از یکم نومبر ۱۹۳۷ء تا آخر جولائی ۱۹۳۸ء
تخمینہ آمد ۳ ماہ از یکم اگست ۱۹۳۸ء تا آخر اکتوبر ۱۹۳۸ء
میزان اصل آمد نوماہ معہ تخمینہ آمد
تین ماہ
صیغہ اغراض عام
۴۔۱۳۔۶۱۲۱۴
۷۹۱۵۰
۵۔۶۔۳۹۹۳۷
۱۰۲۲۹
۵۔۶۔۴۹۴۶۶
صیغہ تالیف و تصنیف
۷۔۱۔۱۵۰۶۳
۱۷۶۰۰
۱۰۔۱۴۔۱۱۴۹۳
۴۳۰۰
۱۰۔۱۴۔۱۵۷۹۴
صیغہ اراضی اسلام آباد
۹۔۱۔۲۱۵۴۴
۲۸۲۰۰
۹۔۱۰۔۱۵۸۰۳
۶۰۳۵
۹۔۱۰۔۲۱۸۳۸
صیغہ لاہور سکول
۹۔۰۔۲۰۲۲۶
۲۰۹۰۰
۹۔۱۲۔۱۶۵۰۲
۵۱۰۲
۹۔۱۲۔۲۱۶۰۴
صیغہ بدوملہی سکول
۱۱۔۷۔۶۶۸۷
۱۰۲۱۵
۹۔۱۱۔۶۱۶۱
۱۷۰۱
۹۔۱۱۔۷۸۶۲
صیغہ متفرق غیر معمولی
۵۰۰۰۰٭
۰۔۰۔۴۰۰
۴۵۰۰۰
۰۔۰۔۴۵۴۰۰
میزان
۴۔۹۔۱۲۴۸۳۵
۲۰۶۰۶۵
۶۔۸۔۹۰۲۹۹
۷۲۳۶۷
۶۔۸۔۱۶۲۶۶۶
اِس بجٹ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ۳۸۔۱۹۳۷ء میںصیغہ اغراضِ عام میں ۵۔۶۔۴۹۴۶۶ آئے۔ کتابیں فروخت کرنے سے اُنہیں ۱۵۷۹۴ روپے ۱۴آنے ۱۰ پائی آمد ہوئی۔ صیغہ اراضی اسلام آباد میں ۲۱۸۳۸ روپے ۱۰ آنے ۹ پائی آئے۔ صیغہ لاہور سکول میں ۲۱۶۰۴
٭ یہ صیغہ احتیاطاً فرضی طور پر رکھا جاتا ہے کہ اگر دورانِ سال میںکوئی خاص ضرورت چندہ وغیرہ کی پڑ جائے تو اِس صیغہ کے آمد و خرچ سے وہ پوری ہو۔
روپے ۱۲آنے ۹ پائی کی آمد ہوئی۔ صیغہ بدوملہی سکول میں ۷۸۶۲ روپے ۱۱ آنے ۹ پائی آئے اور صیغہ متفرق غیرمعمولی میں ۵۰۰۰۰ کا تخمینہ بتایا گیا مگر یہ پچاس ہزار روپیہ محض بجٹ کو زیادہ دکھانے کیلئے رکھا جاتا ہے۔ اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ اگر دورانِ سال میںکوئی خاص ضرورت پیش آ جائے تو وہ اِس صیغہ سے پوری کی جائے۔
بہرحال ۳۸۔۱۹۳۷ء میں ۲۰۶۰۶۵ آمد کا تخمینہ بتایا گیا۔ لیکن اصل آمد جو ۹ ماہ میں ہوئی وہ آئندہ تین ماہ کی آمد کے تخمینہ کے ساتھ صرف ۱۶۲۶۶۶ روپے۸ آنے ۶ پائی ہے۔ اِس ایک لاکھ باسٹھ ہزار چھ سَو چھیاسٹھ روپیہ میں سے اگر پچاس ہزار دستِ غیب والی آمد نکال دی جائے تو ایک لاکھ بارہ ہزار چھ سَوچھیاسٹھ روپیہ رہ جاتا ہے اور یہ روپیہ وہ ہے جس میں کتب کی آمد بھی شامل ہے، سکولوں کی آمد بھی شاملِ ہے، زمینوںکی آمد بھی شامل ہے او رچندہ عام کا ۹ ماہ کا ۹۰۲۹۹ روپے ۸ آنے ۶ پائی بھی شامل ہے۔ گویا اصل میں اُن کی آمد صرف ایک لاکھ کے قریب قریب ہے۔ جسے انہوں نے سَوا چار لاکھ روپیہ قرار دیا ہے اور اِسے اپنی ساٹھ گنا ترقی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔
مجھے بعض معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اُن کا اغراضِ عامہ کا بجٹ اِس سال نوے ہزار روپیہ کا ہے اور باقی دوسری مدات کا۔ جن میں سے کچھ وقتی چندے ہیںاور کچھ فرضی۔ـ اِس کے مقابلہ میں اُنہوں نے ہمارا بجٹ اوّل تو صرف چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا بتایا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ ہمارا بجٹ آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ صدرانجمن احمدیہ کی آمد و خرچ کے بجٹ میں ہماری زمینوں کی آمد کا بجٹ شامل نہیں ہوتا۔ اِسی طرح تحریک جدید کا چندہ اِس سے علیحدہ ہوتا ہے۔ اگر تحریک جدید کا چندہ اِس میں شامل کیا جائے تو وہ سَوا تین لاکھ روپیہ کے قریب ہوتا ہے۔ آٹھ لاکھ وہ اور سَوا تین لاکھ یہ سَوا گیارہ لاکھ روپیہ ہو گیا۔ پھر کالج کا چندہ اِس میں شامل نہیں جو ڈیڑھ لاکھ کے قریب اکٹھا ہوا۔ مساجد کا چندہ اِس میں شامل نہیں حالانکہ تیس ہزار روپیہ کے وعدے تحریک مساجد میں صرف دہلی کی جماعت نے پیش کئے اور ۶۶ ہزار روپیہ کلکتہ والوں نے جمع کیا مسجد مبارک کی توسیع کے لئے جو چندہ ہوا وہ اِس سے علیحدہ ہے۔ اِسی طرح تین لاکھ ہماری زمینوں کی آمد کا بجٹ ہوتا ہے۔ سترہ لاکھ کے قریب یہ بن گیا۔ پھر انہوں نے اپنے بجٹ میں لاہور اور بدوملہی کے سکولوں کی آمد بھی شامل کی ہے۔ لیکن ہمارے مقامی سکولوں کے بجٹ اِس میں شامل نہیں ہوتے حالانکہ افریقہ، امریکہ اور دوسری جگہوں کے اخراجات ملاؤ تو دو لاکھ یہ بڑھ جائیں گے۔ غرض اِس طرح اگر تمام اخراجات اور ہر قسم کے چندے شامل کئے جائیں تو ہمارے بجٹ کا اندازہ ۲۴،۲۵ لاکھ تک جا پہنچتا ہے۔ مگر مولوی صاحب نے حسبِ عادت دونوں طرف سے دخل اندازی کی ہے۔ ایک طرف کی ڈنڈی اُنہوں نے اونچی کر دی اور دوسری طرف کی نیچی کر دی۔ ہمارے ۲۴،۲۵ لاکھ کے بجٹ کو اُنہوں نے چھ لاکھ کا بجٹ قرار دے دیا اور اپنے ایک لاکھ کے بجٹ کو سَوا چار لاکھ کا بجٹ کہہ دیا۔
دعویٰ مصلح موعود کے متعلق حلفیہ اعلان اور
مخالفین کو مباہلہ کی دعوت
خلاصہ یہ کہ مولوی صاحب کے تمام اعتراضات بے حقیقت ہیں اور خداتعالیٰ کے اِس تازہ انکشاف کے بعد تو وہ اور بھی بے حقیقت ہو جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اور خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں اور مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے اُن پیشگوئیوں کا مورد بنایا ہے جو ایک آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائیں۔ جو شخص سمجھتا ہے کہ میں نے افتراء سے کام لیا ہے یا اِس بارہ میں جھوٹ اور کذب بیانی کا ارتکاب کیا ہے وہ آئے اور اِس معاملہ میں میرے ساتھ مباہلہ کر لے اور یا پھر اللہ تعالیٰ کی موکّدبعذاب قسم کھا کر اعلان کر دے کہ اُسے خدا نے کہا ہے کہ مَیں جھوٹ سے کام لے رہا ہوں پھر اللہ تعالیٰ خود بخود اپنے آسمانی نشانات سے فیصلہ فرما دے گا کہ کون کاذب ہے اور کون صادق۔
اور اگر وہ کہتے ہیں کہ خواب تو سچا ہے جیسا کہ مصری صاحب نے کہا تو پھر اِس کی حقیقت پر وہ مضمون لکھیں۔ میں اُن کے اِس مضمون کا جواب دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ اِس مقابلہ میں آئے تو ایسی منہ کی کھائیں گے کہ مدتوں یا درکھیں گے۔
غرض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کے متعلق اپنے الہام او راعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور اَب دشمنانِ اسلام پر خداتعالیٰ نے کاملِ حجت کر دی ہے اور اُن پر یہ اَمر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خداتعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خداتعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں ۔ کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں۔ خدا نے اِس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ ۱۸۸۶ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اُس کے ہاں ۹ سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا، وہ جلد جلد بڑھے گا، وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ اسلام اور رسول کریمﷺ کا نام دنیا میں پھیلائے گا، وہ علومِ ظاہری اور باطنی سے پُر کیا جائے گا، وہ جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہو گا اور خداتعالیٰ کی قدرت اور اُس کی قربت اور اُس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہو گا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے یہ خبر دی اور پھر اُسی خدا نے اِس خبر کو پورا کیا۔ اُس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ اُمید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔
میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہہ دیا کہ اِسے سِل ہو گئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اِسے بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جا کر میں اُداس ہو گیا اور اِس وجہ سے جلدی ہی واپس آ گیا۔ غرض ایساانسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی؟ اُس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اِس لئے زندہ رکھا کہ اُس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا؟ مگر خدانے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پُھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اِس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علمِ قرآن بخشا ہے اور اِس زمانہ میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا اُستاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اِس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہﷺ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤںاور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل اَدیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔ دنیا زور لگا لے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مِل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اِس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوںکہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اِس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریمﷺ کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اُس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہﷺ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے۔
اے میرے دوستو! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں نہ جب تک خداتعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار ۔ ہاں خداتعالیٰ کے فضل کا میں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوںکہ رسول کریم ﷺ اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کُچلنے میں میرے گزشتہ یا آئندہ کاموں کا اِنْشَائَ اللّٰہ بہت کچھ حصہ ہو گا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کُچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی اُن میں سے ایک ایڑی میری بھی ہو گی۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
میں اِس سچائی کو نہایت کُھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خداکی آواز ہے۔ یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے۔ یہ سچائی نہیں ٹلے گی، نہیں ٹلے گی اور نہیں ٹلے گی۔ اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا۔ مسیحیت دنیا میں مغلوب ہو کر رہے گی۔ اَب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے۔ خدا میرے ہاتھ سے اِس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اِس کو اِس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اُٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہو گا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مُرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اُڑتا ہوا دکھائی دے گا۔
میں اِس موقع پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُس پیشگوئی کو پورا کر دیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی۔ وہاں میں آپ لوگوں کو اُن ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ لوگ جو میرے اِس اعلان کے مصدق ہیں آپ کا اوّلین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں۔ بیشک آپ لوگ خوش ہو سکتے ہیں کہ خدا نے اِس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقینا خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اِس کے بعد اَب روشنی آئے گی۔ پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا۔ میں تمہیں اُچھلنے کودنے سے نہیں روکتا۔ بیشک تم خوشیاں مناؤ اور خوشی سے اُچھلو اور کُودو۔ لیکن میں کہتا ہوں اِس خوشی اور اُچھل کُود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو۔ جس طرح خدا نے مجھے رؤیا میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جا رہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جا رہی ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔ پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سُرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جاؤں مگر اِس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی سُست روی کو ترک کر دیں۔ مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سُرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دَوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس شخص پر جو سُستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتا ہے۔ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو، اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آؤ تاکہ ہم کُفر کے قلب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحۂ عالم سے نیست و نابود کر دیں اور اِنْشَائَ اللّٰہُ ایسا ہی ہو گا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔ (مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ۱۹۶۱ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۰۲ ۲،۳؎ البقرۃ: ۲۸۷
۴؎ آل عمران: ۱۹۴ ۵؎ آل عمران: ۱۹۵ ۶؎ آل عمران: ۹
۷؎ البقرۃ: ۱۳۷
۸؎ براہین احمدیہ۔ جلد چہارم روحانی خزائن جلد۱ صفحہ۶۷۳
۹؎ طویلے: طویلہ۔ گھوڑوں کا تھان۔ اصطبل
۱۰؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۱۴
۱۱،۱۲؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۱۵
۱۳؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۱۳
۱۴،۱۵؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۱۷
۱۶؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۶۷
۱۷؎ سبز اشتہار صفحہ۴،۵ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۴۵۰،۴۵۱
۱۸؎ ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلوٰۃ علی ابن رسول اللہ ﷺ الخ
۱۹؎ سبز اشتہار صفحہ۱۶،۱۷۔ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۴۶۲،۴۶۳
۲۰؎ سبز اشتہار صفحہ۱۷۔ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۴۶۳
۲۱؎ خلافت محمود مصلح موعود صفحہ۵۴ مطبوعہ ۱۹۱۴ء مصنفہ میر قاسم علی
۲۲؎ خلافت محمود۔ مصلح موعود صفحہ۵۵ مطبوعہ ۱۹۱۴ء مصنفہ میر قاسم علی
۲۳؎ سبز اشتہار صفحہ۱۷ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۴۶۳ حاشیہ
۲۴؎ مجموعہ اشتہارات جلد۱ صفحہ۱۶۲
۲۵؎ مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسیٰ
۲۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۴۱۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۲۷؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ
۲۸؎ ٹرنچز: خندقیں
۲۹؎ البقرۃ: ۱۴۴
۳۰؎ بیے: بیا۔ چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ۔ اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
۳۱؎ الفضل یکم فروری ۱۹۴۴ء
۳۲؎ الفاتحہ: ۵
۳۳؎ الفضل ۱۶ ؍جولائی ۱۹۲۵ء
۳۴؎ الصف: ۷ ۳۵؎ احزاب: ۴۱ ۳۶؎ آل عمران: ۵۶
۳۷؎ الوصیت صفحہ۸ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۶ حاشیہ
۳۸؎ الفضل ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء صفحہ۵
۳۹؎ لندن ٹائمز مؤرخہ ۱۸؍ جون ۱۹۴۰ء
۴۰؎ لندن ٹائمز مؤرخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۰ء
۴۱؎ سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی۔ ۱۸۲۶ء سے ۱۸۵۸ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ، ملکا اور سنگاپور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا۔ بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ۱۸۶۷ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور ۱۹۴۶ء میں ختم کر دی گئی۔ اب سنگاپور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہوگئے ہیں۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱صفحہ۷۴۱مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۴۲؎ نٹال: مشرقی و جنوبی افریقہ کا صوبہ۔ ۱۸۳۷ء میں بوئر نقل مکان کر کے نٹال پہنچے اور زولو قبیلے کو ۱۸۳۸ء میں شکست دے کر جمہوریہ نٹال کی بناء ڈالی۔ ۱۸۴۲ء میں برطانیہ نے نٹال کا الحاق کر لیا۔ ۱۸۵۶ء میں یہ شاہی نو آبادی بنا اور ۱۸۹۷ء میں زولینڈ کو شامل کر لیا۔ ۱۹۱۰ء میں یہ جنوبی افریقہ کا صوبہ بنا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۰۹ لاہور ۱۹۸۸ء)
۴۳؎ چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۴
۴۴؎ تذکرہ صفحہ۱۶۳ ۔ ایڈیشن چہارم
۴۵؎ حجۃ اللّٰہ صفحہ۲۰۔ روحانی خزائن جلد۱۲ صفحہ۱۵۸
۴۶؎ المصلح الموعود صفحہ۲۱۔ ایڈیشن اوّل
۴۷؎ تذکرہ صفحہ۵۳۲ ۔ ایڈیشن چہارم
۴۸؎ الوصیت صفحہ۸ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۶ حاشیہ
۴۹؎ الوصیت صفحہ۷۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۳۰۵
۵۰؎ الوصیت صفحہ ۴،۵ روحانی خزائن جلد۲۰
۵۱؎ پیغام صلح ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۴ء صفحہ۲
 
Top