• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 18

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 18

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی اٹھارویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۶؍فروری ۱۹۴۵ء تا ۲۰؍مئی ۱۹۴۷ء کی بتیس مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱) اسلام کا اقتصادی نظام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ معرکۃ الآراء اور انقلاب انگیز تقریر مؤرخہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء کو احمدیہ ہوسٹل واقع ۲۳ ڈیوس روڈ لاہور میں احمدیہ انٹرکالجیئیٹ ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام مختلف مذاہب کے لوگوں کے اجتماع میں ارشاد فرمائی۔ یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس تقریر میں احمدی احباب کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں مُسلم اور غیر مُسلم معززین بھی شامل تھے جن کی اکثریت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ طبقہ اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسرز اور طلباء سے تعلق رکھتی تھی۔ تقریر کے دوران پروفیسرز، وکلاء اور دیگر اہلِ علم دوست کثرت سے نوٹ لیتے رہے۔
اس تقریر کی صدارت مسٹر رامچندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی۔ تقریر کے خاتمہ پر صاحبِ صدر نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:۔
’’میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اِس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اِس وقت آپ لوگوں نے سُنی ہے اُس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضرت امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی اِن قیمتی معلومات سے فائدہ اُٹھایا ہوگا۔ مجھے اس بات سے بھی خوشی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مُسلم بھی شامل ہوئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مُسلمانوں اور غیر مُسلموں کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جماعت کے بہت سے معزز دوستوں سے مجھے تبادلۂ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے۔ پہلے تو میں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام اپنے قوانین میں صرف مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سُن کر بہت خوشی ہے۔ میں غیر مُسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟ آپ لوگوں نے جس سنجیدگی اور سکون سے اڑھائی گھنٹہ تک حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سُنی اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے۔ جہاں میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے سکون کے ساتھ تقریر کو سُنا وہاں میں اپنی طرف سے اور آپ سب لوگوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کا باربار اور لاکھ لاکھ شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے اپنی نہایت ہی قیمتی معلومات سے پُرتقریر سے ہمیں مستفید فرمایا‘‘۔
(تاریخ احمدیت جلد۱۰ صفحہ۴۹۵،۴۹۶)
سامعین پر اِس تقریر کے اثر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تقریر کو حاضرین نے ایسے شوق سے سنا کہ اتنے لمبے عرصہ تک لوگ اس طرح بیٹھے رہے کہ گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ ایک پروفیسر تو اِس تقریر کو سن کر رو پڑے اور بعض کمیونزم کے حامی طلباء نے اِس خیال کا اظہار کیا کہ وہ اسلامی شوشلزم کے قائل ہوگئے ہیں اور اب اسے صحیح اور درست تسلیم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ایم۔ اے کے بعض طلباء نے حضور کی اس تقریر کے متعلق یہ خواہش ظاہر کی کہ اس کا انگریزی ترجمہ چھپوا کر یونیورسٹی اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسروں کے پاس بھیجا جانا چاہئے۔ نیر اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ جہاں مختلف سکیمیں ہندوستان کی آئندہ ترقی اور بہبودی کیلئے دوسرے لوگوں کی طرف سے پیش ہو رہی ہیں وہاں یہ اسلامی نظام جو حضور نے پیش فرمایا ہے مسلمانوں کے خیالات کی نمائندگی کرے گا الغرض جوں جوں اس تقریر کی شہرت ہوئی بعض لوگ جو یونیورسٹی سے تعلق رکھتے تھے اور چوٹی کے پروفیسر تھے اُنہوں نے اپنے ملنے والوں سے معذرتیں کیں اور اس امر پر افسوس کیا کہ وہ بوجہ بعض دوسری مصروفیتوں کے اس عظیم الشان لیکچر کے سننے سے محروم رہے۔
حضور نے اپنے فاضلانہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح صرف دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا بلکہ اس کے ناجائز طور پر حصول کا بھی مؤثر سدباب فرمایا ہے۔
حضور نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں کمیونزم کی تحریک کا مذہبی، اقتصادی، سیاسی، نظریاتی اور عملی لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں اُس کے متعلق بائبل کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا اُردو متن سنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا۔
الغرض حضرت مصلح موعود کے اِس لیکچر نے چوٹی کے علمی طبقوں میں ایک تہلکہ مچا دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُسے ہر سطح پر غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔
(۲) قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
حضرت مصلح موعود کے ارشا دکی تعمیل میں مؤرخہ ۲۵؍ اگست تا ۲۵؍ ستمبر ۱۹۴۵ء ایک ماہ کی تعلیم القرآن کلاس قادیان میں منعقد ہوئی۔ اس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۱؍ستمبر۱۹۴۵ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نیز قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق نہایت اہم باتیں بیان فرمائیں اور جماعت کو پُرزور تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہراحمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا‘‘۔
(۳) نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ بصیرت افروز تقریر مؤرخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں نیکیوں پر دوام اور استقلال اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہی نیکی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتی ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جاتا ہے۔ کچھ دن نیکی کر کے پھر اُسے چھوڑ دینا ایک ایسی کمزوری ہے جس سے انسان کی روحانی زندگی ہر وقت خطرہ میں رہتی ہے۔ نیز فرمایا کہ جو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اُسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے۔
(۴) آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون ہندوستان میں آئندہ ہونے والے الیکشنوں سے چند روز پیشتر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو تحریر فرمایا جس میں احباب جماعت کو آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی سے آگاہ فرمایا جس کے بنیادی نکات حسب ذیل ہیں۔
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیر اثر ووٹ اُن کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے کھڑے ہونے والے احمدی امیدوار مُسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ سے ٹکٹ کے حصول میں کامیابی نہ ہوتو مُسلم لیگ کی پالیسی کے تابع ہی انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیر اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے۔
(۵) مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کے ساتویں سالانہ اجتماع پر ارشاد فرمائی۔
حضور نے اس تقریر میں سات کے ہندسہ کی اسلامی اصطلاح میں حیثیت و اہمیت نیز مطلب بیان کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو اس پہلو سے اپنی کارکردگی اور مساعی کا جائزہ لینا چاہئے کہ اُس نے گذشتہ سات سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟
نیز ہدایت فرمائی کہ جماعتوں کے مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد وضع کئے جائیں اور قواعد وضع کرتے وقت ان کے نتائج کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک مقامی جماعتوں کے حالات و مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قواعد نہ بنائے جائیں محض قواعد بنا لینے سے کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی لہٰذا جماعتوں کے حالات اور مسائل کا جائزہ لینے کیلئے پہلے انسپکٹران مقرر کئے جائیں پھر ان کے جائزہ کی روشنی میں لائحہ عمل تیار کیا جائے اور ساتھ ساتھ قواعد کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہئے اس پہلو سے بنائے گئے قواعد و ضوابط مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
(۶)مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۶۰ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ ان ارشادات میں حضور نے مختلف سماجی و معاشرتی کمزوریوں پر روشنی ڈالی نیز انگریز قوم کی بعض کمزوریوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی بعض خوبیوں کو بھی بیان فرمایا جن کی روشنی میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ ان سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو‘‘۔
(۷) نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ پُرمعارف خطاب مؤرخہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس ابدی اصول پر روشنی ڈالی کہ کفر ہمیشہ ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتدا سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اِسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے راستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔
چنانچہ اس اصول سے آپ نے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ تمام انبیاء کے حالات وواقعات ایک ہی طرح کے ہوتے ہیںلہٰذا اِسی معیار پر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو بخوبی پرکھا جا سکتا ہے۔
(۸) تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۵ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ارشاد فرمائی جس میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد کو کھول کر بیان فرمایا اور لاکھوں مبلغین تیار کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغِ اسلام کرنے کیلئے ہمیں لاکھوں مبلغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے‘‘۔
اس کے علاوہ حضور نے اس تقریر میں ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کرنے، تجارت کی طرف توجہ دینے اور زندگیاں وقف کرنے جیسی تحریکات پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کو ان کی طرف توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ اسی طرح مرکز سلسلہ میں بار بار آنے کی بھی تحریک فرمائی۔ آخر پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’دنیا میں وہی جماعت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتی ہے جس کے افراد اپنے دلوں میں محبتِ الٰہی رکھتے ہوں‘‘۔
(۹) پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
مارچ ۱۹۴۶ء میں برطانیہ کی لیبر حکومت نے ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کیلئے ایک سکیم دے کر لارڈ پنیتھک لارنس (وزیر ہند) سٹیفورڈ کرپس (لارڈ پریوی سیل) اور الیگزنڈر (وزیر بحر) پر مشتمل ایک وزارتی مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ وفد ۲۵؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو دہلی پہنچا اور آتے ہی مُسلم لیگ اور کانگرس کے زعماء سے بات چیت میں مصروف ہو گیا۔
پارلیمنٹری وفد کی ہندوستان میں آمد پر حضرت مصلح موعود نے ایک دینی اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے برطانوی ارکان، مُسلم لیگ اور کانگرس سب کو اُن کی نازک ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ہندوستان کی گتھی کو عدل و انصاف اور اخلاق کے تقاضوں کے مطابق سُلجھانے کا مخلصانہ مشورہ دیا۔ نیز مُسلم لیگ کے مؤقف کی زبردست حمایت کی اور کانگرس کے بے بنیاد پراپیگنڈا کی حقیقت واقعات کی روشنی میں واضح فرمائی اور اُسے مشورہ دیا کہ وہ تبدیلی مذہب کے متعلق اپنا زاویہ نگاہ بدل لے۔
(۱۰) ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ مضمون سورۃ الم نشرح کی تفسیر کرتے ہوئے درس میں بیان فرمایا تھا جسے افادۂ عام کے لئے مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل میں شائع کیا گیا اور اب اِسے کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۱۱) فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تقریب
یہ مختصر خطاب حضرت مصلح موعود نے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کے افتتاح کے موقع پر مؤرخہ ۱۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو نمائندگانِ شورٰی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جس میں حضور نے اس سلسلہ میں آئندہ ہونے والی توسیع نیز دیگر آلات وغیرہ کی خریداری کے سلسلہ میں پیش آمدہ ضروریات کے پیش نظر احباب جماعت کو مالی قربانیوں کیلئے تیار رہنے کی تلقین فرمائی نیز اِس انسٹیٹیوٹ کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’تا کہ ہم اپنی جدوجہد کے ذریعہ سائنس کو مذہب کے قریب لانے کی کوشش کریں… کوئی سچی سائنس سچے مذہب سے ٹکرا نہیں سکتی اور یہ کام بندوں کا ہے کہ وہ سائنس کے مسائل کو مذہب کے مطابق ثابت کریں اور دنیا سے اِس ناواجب تفرقہ اور شقاق کو دور کر دیں جو مذہب اور سائنس میں پایا جاتا ہے‘‘۔
(۱۲) ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں
حضرت مصلح موعود نے یہ تقریر مؤرخہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء کو بوقت بعد نماز مغرب بمقام قادیان دارالامان ارشاد فرمائی جس میں تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کیلئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا کہ:۔
’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھا ویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے‘‘۔
(۱۳)کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے
قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۹؍ مئی ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی۔ اس مضمون میں حضور نے حفاظت قرآن نیز مختلف قراء ت پر روشنی ڈالی اور تلقین فرمائی ہے کہ کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو۔ اس تعلق میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’جب تک لوگ قرآن کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے، جب تک قرآن کریم کو اپنا رہبر نہیں مانیں گے یہ اُس وقت تک چَین کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی دنیا کا مداوا ہے۔ ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تا کہ دنیا اس مأمن کے سایہ تلے آکر امن حاصل کرے‘‘۔
(۱۴) سپین اور سسلی میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۱۹۴۶ء میں جماعت احمدیہ کے دو مبلغین کے سپین میں پہنچنے کی اطلاع ملنے پر مؤرخہ ۳۰؍ جون ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ ملفوظات ارشاد فرمائے جن میں سپین میں نفوذِ اسلام اور تبلیغ اسلام کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے دوبارہ وہاں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے اور واپس لانے کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں کو واضح فرمایا اور اس سلسلہ میں احباب جماعت کو بڑھ چڑھ کر چندہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی تحریک فرمائی۔ نیز آپ نے فرمایا کہ سپین میں اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو بحال کرنے کیلئے اخلاق، متواتر قربانی اور بلند عزائم کی ضرورت ہے۔ ان اوصاف کے بغیر ہماری تمام کوششیں لاحاصل ہیں۔
(۱۵) یورپ کا پہلا شہید شریف دوتسا
۱۹۴۶ء میں البانیہ کے ایک ممتاز احمدی شریف دوتسا صاحب اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے۔ شریف دوتسا صاحب یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
مکرم ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی نے حضرت مصلح موعود کو جب اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی تو حضور نے اپنے قلم سے روزنامہ الفضل کے لئے یہ مضمون تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۱۲؍جولائی ۱۹۴۶ء کو روزنامہ الفضل قادیان میں شائع ہوا۔ جس میں حضور نے اس دردناک اور ایمان افرورز واقعہ کی تفصیل درج فرمائی ہے۔ نیز اس واقعہ کی روشنی میں احباب جماعت کو تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک بھی فرمائی ہے۔
(۱۶) اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور اور ایمان افروز تربیتی خطاب خدام الاحمدیہ سے مؤرخہ ۲۹؍ ستمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز ظہر بمقام پارک روڈ دہلی میں ارشاد فرمایا جس میں محض زبانی دعوؤں کی بجائے عملی نمونہ پیش کرنے کے متعلق نصائح فرمائی ہیں۔ اسی طرح حضور نے اس تقریر میں خدام کو اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرنے، تنظیم مضبوط بنانے، دین کیلئے قربانی کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ نیز ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ روحانی پاکیزگی اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’پس تم بے شک ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھو لیکن اس سے زیادہ فکر تمہیں روحانی گند کو دور کرنے کیلئے ہونا چاہئے۔ اس روحانی گند کو دور کرنے کی کوشش کرو اور قربانی کے معیار کو بہت بلند کرو‘‘۔
(۱۷) فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ لجنہ اماء اللہ دہلی میں ارشاد فرمائی۔ جس میں انہیں تبلیغ کرنے اور صحابیات کے نقشِ قدم پر چلنے کی پُرزور نصیحت کی اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات اور مثالیں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اگر تم چاہتی ہو کہ انہی انعامات کی وارث بنو جو صحابہ اور صحابیات پر ہوئے تو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرو۔ اب باتیں کرنے کے دن نہیں رہے… جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی اور اُس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہوسکتا‘‘۔
(۱۸) دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے عالمگیر امن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۹؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بوقت شام ساڑھے پانچ بجے بمقام کوٹھی ۸ پارک روڈ دہلی کے وسیع صحن میں ارشاد فرمائی۔ اس تقریر کو سننے کیلئے کئی سَو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور اُنہوں نے نہایت توجہ اور سکون کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ یہ تقریر پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۶۱ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی اور اب یہ انوارالعلوم کی اِس جلد میں کتابی صورت میں شائع ہو رہی ہے۔ اس تقریر کے بارہ میں اخبار ’’تیج‘‘ دہلی نے اپنی ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں حسبِ ذیل نوٹ شائع کیا۔
’’احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتنا ہی پُرانا ہے جتنا کہ خود انسان، کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کے لئے جذبہ دشمنی و نفرت کو ختم کرنا پڑے گا۔ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار، لالچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم میں نفرت اور لالچ کے بجائے برادری اور محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں۔ جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اِسی طرح دنیا داری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے۔ ہمیں قومیت و رنگ کے جھگڑوں کو ختم کر کے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے‘‘۔ (الفضل ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء)
(۱۹) ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے
یہ تقریر حضرت مصلح موعود نے دہلی سے قادیان کو واپسی سے ایک روز قبل ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جماعت احمدیہ دہلی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جو حضور کی زندگی کا دہلی میں آخری خطاب ثابت ہوا۔ حضور نے اس موقعہ پر نہایت مفید اور قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’اِس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ یہ خیال بھی کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لو گے تو دنیا بھر میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ تم جہاں جاؤ گے تمہارے رستہ سے رُکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی…ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں…اب تمہارے لئے موقع ہے کہ اس کام کو سنبھالو… خداتعالیٰ مجھ کو اور تم کو اِس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے‘‘۔
(۲۰) عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ روح پرور تقریر مجلس خدام الاحمدیہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع پر مؤرخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی۔ جس میں حضور نے خدام کو اپنی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں صرف اور صرف کام کیلئے وقف کرنے کی تلقین فرمائی۔ نیز اس طرح خدام کو یہ باور کروایا کہ عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ نیر اپنے خیالات و افکار میں ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی کہ جس سے خدام اسلام کا مجسم نمونہ بن جائیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ:۔
’’یہی اور یہی ذریعہ ہے اسلام کے دنیا پر غالب آنے کا۔ جب تک یہ نہ ہو اُس وقت تک ساری امیدیں مجنونانہ اور سارے خیالات پاگلانہ ہیں‘‘۔
(۲۱) دائیں کو بائیں پر فوقیت حاصل ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے یہ تقریر مؤرخہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ارشاد فرمائی اس تقریر میں حضور نے اسلام کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالی جس میں کھانے پینے، وضوکرنے، نہانے دھونے نیز دیگر بہت سارے امور میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دی گئی ہے۔ اس تعلق میں حضور نے فرمایا کہ مومن کے دل میں شریعت اسلام کے تمام چھوٹے بڑے احکام کا احترام ہونا چاہئے اور ہر معاملہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(۲۲) زمین کی عمر
مؤرخہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ قادیان میں ڈاکٹر میلا رام صاحب پی۔ایچ۔ ڈی پروفیسر طبیعات ایف سی کالج لاہور نے زمین کی عمر کے متعلق لیکچر دیا۔ اس جلسہ کی صدارت حضرت مصلح موعود نے فرمائی۔ حضور نے اپنے صدارتی خطاب میں مذہبی کتب کی روح سے دنیا کی عمر پر روشنی ڈالی اور سائنس اور مذہب کی روح سے زمین کی عمر کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کی بڑی عمدگی سے تطبیق فرمائی۔ حضور نے مذہبی کتب میں دنیا کی بیان فرمودہ چھ ہزار سال عمر کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم جو دنیا کی عمر چھ ہزار سال کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وہ آدم جس سے ہماری تہذیب و تمدن کی ابتداء ہوئی اس پر چھ ہزار سال گزرے ہیں۔ ورنہ ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ہمارے اس آدم سے پہلے کوئی آدم نہیں تھا‘‘۔
(۲۳) خداتعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ
نبی مبعوث فرماتا ہے
مؤرخہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان مجلس علم و عرفان میں ایک معزز سکھ حضور کی ملاقات کیلئے تشریف لائے اور مختلف امور پر باتیں کرتے رہے۔ اس موقع پر حضور نے انہیں نہایت لطیف پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی طرف بھی توجہ دلائی اور اسلام اور احمدیت کی دوسرے مذاہب پر فوقیت ثابت فرمائی۔ یہ مضمون حضور کے اس موقع پر بیان فرمودہ ملفوظات پر مبنی ہے۔ … روزنامہ الفضل میں افادۂ عام کیلئے مؤرخہ ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء کو پہلی دفعہ شائع کیا گیا اور اب انوارالعلوم کی جلد ھٰذا میں کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔
(۲۴)اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور مختصر خطاب مؤرخہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور یہ دنیا اُس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہ لہرانے لگ جائے۔ اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ہی آپ نے ہمارے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور اپنی جانوں کو خدا کیلئے قربان کر دیں اور اپنے نفوس کو ہمیشہ اس کی اطاعت کے لئے تیار رکھیں تاکہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہم پر نازل ہو اور ہم اس کے حقیر ہتھیار بن کر دنیا میں عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائیں‘‘۔
(۲۵) متفرق امور (۲۷؍ دسمبر۱۹۴۶ء)
اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی ہے۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت کے تعلق میں مولوی محمد علی صاحب کے مطالبہ حلف پرتبصرہ فرماتے ہوئے متنازعہ فیہ امر کے سلسلہ میں ایک نئی تجویز پیش فرمائی۔
۲۔ قرآن کریم کے تیسویں پارہ کی تفسیر کے دوسرے حصہ کی اشاعت کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کو اسے خریدنے کی تحریک فرمائی۔
۳۔ قرآن کریم انگریزی کی تکمیل نیز دیباچہ تفسیر القرآن کی تصنیف کے متعلق احباب جماعت کو معلومات بہم پہنچائیں۔
۴۔ قرآن کریم کے سات مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم کی تکمیل کی خوشخبری جماعت کو سنائی۔
۵۔ تحریک جدید کی رجسٹریشن اور اس کے مزید شعبہ جات قائم کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔
۶۔ تحریک جدید کے تحت یورپ، امریکہ اور افریقہ کے مختلف ممالک میں جماعتی مساعی پر روشنی ڈالی۔
۷۔ دیہاتی مبلغین کی افادیت کے پیش نظر اس سکیم کو بڑھانے کا پروگرام بیان فرمایا۔
اس خطاب کے آخر پر حضور نے فرمایا:۔
’’پس اس قدر اہم امور کی انجام دہی غیر معمولی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بلندی کیلئے ہر ممکن قربانی کریں اور دنیا اور آخرت میں سرخروئی حاصل کریں‘‘۔
(۲۶) جماعت کو چار چیزوں کی طرف زور دینا چاہئے
حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تربیتی امور پر مبنی خطاب مؤرخہ ۲۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے آخری روز ارشاد فرمایا جس میں نماز باجماعت، لجنہ اماء اللہ کا قیام، سچائی اور محنت کی عادت ڈالنے پر زور دیا اور فرمایا کہ:۔
’’اس امر کے لئے دعائیں کی جائیں کہ جو چار باتیں میں نے اِس وقت بیان کی ہیں ہماری جماعت کو اس پر قائم ہونے کی توفیق مل جائیـ۔یعنی نماز باجماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کرالی جائے۔… دوسرے سچائی پر قیام ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے۔ تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عُذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تن دہی سے سر انجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے۔ چوتھے عورتوں کی اصلاح ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش۔ یہ چارچیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اِس وقت تو جہ دلائی آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
(۲۷) وحشی اور غیر متمدن اقوام میں بیداری کی
ایک زبردست لہر
حضرت فضل عمر نے یہ پُرمعارف تقریر مؤرخہ ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۷ء کو قادیان میں ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کے موجودہ زمانہ میں ظہور پر روشنی ڈالی ہے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:۔
مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں تمام وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔
’’پس یہ علامت صرف موجودہ زمانہ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ادنیٰ اقوام بھی بیدار نظر آتی ہیں‘‘۔
نیز فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ نے کی پیشگوئی پورا کرنے کیلئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے مبلّغ افریقہ میں بھجوائیں چنانچہ نائیجریا، گولڈکوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں مبلغ بھجوائے جائیں گے اِس طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا چرچ آف انگلینڈ نے ایک مشن اِس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ یہ تحقیق کر ے کہ کیا وجہ ہے افریقہ میں عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے۔ اس کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی اس میں چالیس جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عیسائیت کی ترقی کا رُکنا محض اس وجہ سے ہے کہ افریقہ میں احمدیہ مشن کثرت سے پھیل گئے ہیں اور اِن کا مقابلہ عیسائیت سے نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ہمیں بھی ایک ذریعہ بنالیا‘‘۔
(۲۸) ہندوستانی اُلجھنوں کا آسان ترین حل
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ یکم مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب مجلس علم و عرفان میں اپنے اس تازہ الہام فَاِنْ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ حَقٌّ فَاَظْھِرٖ کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کے سلسلہ میں پیدا ہونے والی اُلجھنوں کا آسان ترین حل پیش فرمایا۔ آپ نے تقسیم کے سلسلہ میں یہ اصول بیان فرمایا کہ:۔
’’قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جس ملک یا علاقہ کی آواز کا صحیح طور پر پتہ نہ لگ سکے وہاں کے ہر ضلع اور ہر تحصیل کے لوگوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور جہاں شُبہ والی بات ہو وہاں ریفرنڈم کر لیا جائے۔ میرے نزدیک ایسا ہونا چاہئے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسلمان اپنے حقوق مانگنے میں حق پر ہیں تو ان کو اُن کے حقوق دیئے جائیں اور اگر ہندوؤں کے مطالبات جائز ہیں تو ان کے مطالبات تسلیم کر لئے جائیں‘‘۔
(۲۹) نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مؤرخہ ۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب بمقام قادیان یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں آپ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب بھی نیکی کی کوئی تحریک پیدا ہو تو فوراً اُس پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے اس لئے نیکی کے مواقع کو کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’پس جب کسی انسان کے دل میں نیکی کرنے کا ارادہ پیدا ہو تو اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ موقع گزر جائے اور پھر توفیق نہ مل سکے۔ پس مَیں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب نیکی کا دَور تم پر آئے تو اُس سے فائدہ اُٹھاؤ۔ جب تم نیکی کے ایک دَور سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو تمہارے لئے نیکی کا اگلا دَور بہت سہل ہو جائے گا‘‘۔
(۳۰)ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں
چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں
دلّی کے ایک اخبار نے لکھا کہ احمدی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ جب پاکستان بن جائے گا تو مسلمان پھر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۶؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں اِس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
’’ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں‘‘۔
نیز آپ نے فرمایا کہ:۔
’’ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے‘‘۔
حضور کے اس خطاب کو صیغہ نشر و اشاعت نظارت دعوۃ و تبلیغ قادیان نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ جسے اب انوارالعلوم کی اس جلد میں شامل کیا جا رہا ہے۔
(۳۱) انصاف پر قائم ہو جاؤ
حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ ۱۷؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں یہ خطاب ارشاد فرمایا جس میں سورۃ مائدہ کی آیت نمبر۹ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’عدل سے بڑھ کر جو چیز ہے وہ احسان اور حُسنِ سلوک ہے گویا اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دشمن کے مظالم اور اس کی جفا کاریوں کے مقابلہ میں تم نہ صرف عدل سے کام لو بلکہ اس سے احسان اور حُسنِ سلوک کا بھی معاملہ کرو۔ اگر تم صرف عدل سے کام لوگے تو گو یہ چیز اَقْرَبُ اِلَی التَّقْوٰی ہوگی مگر تقویٰ نہیں ہوگی۔ تقویٰ یہ ہے کہ تم دشمن سے احسان کا سلوک کرو اور اس کے مظالم کو بالکل بھول جاؤ‘‘۔
(۳۲) ایک آیت کی تفسیر
حضرت مصلح موعودنے مؤرخہ ۲۰؍ مئی ۱۹۴۷ء کو بعد نماز مغرب قادیان میں ایک خصوصی لیکچر ارشاد فرمایا۔ حضور کا یہ پُر معارف لیکچر ۱۹۶۱ء میں پہلی مرتبہ روزنامہ الفضل ربوہ میں پانچ قسطوں میں شائع ہوا اور اب یہ لیکچر کتابی صورت میں انوار العلوم کی اِس جلد میں شائع ہو رہا ہے۔
اس لیکچر میں حضور نے سورۃ الانفال کی آیت۶ (… الخ) کی انتہائی پُر معارف اور بے نظیر تفسیر بیان فرمائی۔ نیز اِس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُن کا حل بیان فرمایا۔ اسی طرح تعلق باللہ کی کمی کے باعث مفسرین سے تفسیر بیان کرتے ہوئے جو غلطیاں سرزد ہوئیں اُن کی اصلاح فرمائی۔ جس سے آپ کے متعلق پیشگوئی مصلح موعود کے ان الفاظ کہ:۔
’’کلام اللہ کا مرتبہ اُس سے ظاہر ہوگا اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘۔
کی کمال شان سے تصدیق ہوتی ہے۔
٭…٭…٭


اسلام کا اقتصادی نظام





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام کا اقتصادی نظام
(تقریر فرمودہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۵ء بمقام احمدیہ ہوسٹل واقع ۳۲ ڈیوس روڈ لاہور)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مضمون کی اہمیّت
میرا خطبہ آج اسلام کے اقتصادی نظام پر ہے۔ یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ اِس کو تھوڑے سے وقت میں بیان کرنا ایک نہایت ہی مشکل
کام ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے جدا کر کے پیش کر دینا اُسے مبہم بنا دیتا اور اس کی اہمیت کو کمزور کر دیتا ہے مگر پھر بھی میں کوشش کروں گا کہ جہاںتک ہو سکے مختصر طور پر اور ایسی صورت میں کہ میرا مضمون سمجھ میں آ سکے مَیں اسلام کے اقتصادی نظام کو آپ لوگوں کے سامنے پیش کروں اور وہ ضروری ضروری امور جو اُس کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے بنیادی اصول کے ساتھ وابستہ ہیں اُنہیں بھی بیان کروں۔ چونکہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک ایسی شکل رکھتاہے جسے ایک رنگ میں اُس نظام سے مشابہت ہے جسے آجکل کمیونزم کہتے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں میرا مضمون اُدھورا رہے گا اگر میں اِس تحریک کے متعلق بھی اسلامی نقطۂ نگاہ پیش نہ کروں اور وہ فرق بیان نہ کروں جو اسلامی اقتصادی تحریک اور کمیونزم کی اقتصادی تحریک میں ہیں۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح شاخیں اپنے درخت کی جڑوں میں سے نکلتی ہیں اِسی طرح مختلف مسائل پہلے سے قائم شدہ بنیادی مسائل میں سے نکلتے ہیں اور اُن بنیادی مسائل کو سمجھے بغیر بعد میں پیدا ہونے والے مستخرج مسائل کی حقیقت کو لوگ آسانی کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے اِس لئے اسلام کے اقتصادی نظام کو بیان کرنے سے پہلے مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ یہ بھی بیان کر دوں کہ اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد کس امر پر ہے۔
اسلام کے کُلّی نظام کی بنیاد
اسلام اپنے تمام سیاسی، اقتصادی اور تمدّنی اور دیگر ہر قسم کے نظاموںکی بنیاد اِس امر پر رکھتا ہے کہ
بادشاہت اور مالکیت خدا تعالیٰ کوہی حاصل ہے چنانچہ سورۃ زخرف رکوع سات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱؎
یعنی بہت برکت والاوہ خدا ہے جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اِسی طرح جو کچھ اِن کے درمیان ہے وہ بھی اُسی کے قبضہ و تصرف میں ہے اور اِن چیزوں کا اپنے مقصد اور مدّعا کو پورا کر کے جب فناء کا وقت آئے گا تو اس کا علم بھی اُسی کو ہے اور پھر آخر ہر چیز خدا کی طرف ہی جانے والی ہے۔ اِس آیت میں قرآن کریم نے یہ بات پیش کی ہے کہ درحقیقت آسمان اور زمین خدا تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہر چیز جو یہاں زندگی گزار رہی ہے اِس کا منتہٰی اور مرجع خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔
اگر کوئی شخص کسی امر کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے یا کوئی امانت اُس کے سپرد کی جاتی ہے تو وہ اِس ذمہ داری کی ادائیگی اور اِس امانت میں خیانت نہ کرنے کے متعلق امانت سپردکرنے والے کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن وہ شخص جو آزاد ہوتا ہے اپنے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ مَیں جس طرح چاہوں کروں مَیں کسی کے سامنے جواب دِہ نہیں ہوں۔ پس قرآن کریم نے اِس آیت میں یہ بتایا ہے کہ دنیا جہان کی حکومتیں، بادشاہتیں اور اقتدار چونکہ خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور اُس کی طرف سے بطور امانت انسانوں کے سپرد ہیں اِس لئے سب انسان بادشاہتوں اور ظاہری مِلکیتوں کے متعلق اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھ سکتے۔ وہ بظاہر بادشاہ یا بظاہر مالک ہیں لیکن حقیقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے متولّی ہیں اِس لئے جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے اُنہیں اِن امانتوں کے صحیح مصرف کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دِہ ہونا ہوگا۔
حکومت و بادشاہت کے متعلق اسلام کا نقطۂ نگاہ
پھر قرآن کریم یہ امر بھی صراحتًا بیان فرماتا ہے کہ بادشاہت خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اِس پر کسی کا ذاتی حق نہیں ہوتا۔چنانچہ فرماتا ہے۔

۲؎
یعنی اے مخاطب تو کہہ دے کہ اے اللہ! تمام بادشاہتوں کے مالک خدا! تو جس کو چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہے اور جس کے ہاتھ سے واپس لینا چاہے اُس کے ہاتھ سے واپس لے لیتا ہے۔ جس کوچاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر دیتاہے۔ ساری خیر اور نیکی تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اِس آیت میں بھی بتایا گیا ہے کہ بادشاہت جب کسی شخص کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت آتی ہے۔ اِس کے یہ معنی نہیںکہ ہر صورت میں ہر بادشاہ اور مقتدر کو خداتعالیٰ کی طرف سے حکومت ملتی ہے خواہ وہ کیسا ہی جابر بادشاہ ہو یا کیسا ہی ظالم ہو یا کیسا ہی گندہ اور خراب ہو وہ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہت ملنے کے سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ پس اگر کسی کو بادشاہت ملتی ہے تو وہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیدا کردہ اسباب سے کام لینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اور جبکہ بادشاہت خداتعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو جسے بھی بادشاہت یا کوئی اقتدار حاصل ہو وہ زیادہ سے زیادہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے وکیل اور متولّی قراردیا جاسکتا ہے حاکمِ مطلق یا مالکِ مطلق قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری طاقت اور آخری فیصلہ کرنے والی ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ بہر حال جوبھی حاکم ہو، بادشاہ ہو،ڈکٹیٹر ہو یا پارلیمنٹ کی صورت میں بعض افراد کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہواگر وہ کوئی آئین دنیا میں نافذ کرتے ہیں تو وہ اُس آئین کے نفاذ میں خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دِہ ہیں۔ اگر وہ کوئی ایسی خرابی پیدا کریں گے جس سے خُدا تعالیٰ نے روکا ہوا ہے یا کوئی ایسی نیکی ترک کریں گے جس کے کرنے کا خداتعالیٰ نے حکم دیا ہوا ہے تو وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں پیش ہوں گے۔ ویسے ہی جیسے ایک باغی غلام یا سرکش ملازم اپنے آقا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے اپنے ان افعال کی سزا پائیں گے خواہ وہ بادشاہ کہلاتے ہوں یا ڈکٹیٹر کہلاتے ہوں یا پارلیمنٹ کہلاتے ہوں۔ پس اِس آیت کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہر شخص جو بادشاہ بنتا ہے خداتعالیٰ کی مرضی سے بنتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دائرۂ عمل میں خدا تعالیٰ کی ملکیت پر قابض ہوتا ہے اِس لئے اُسے خدائی آئین کے مطابق حکومت کرنی چاہئے اور خداتعالیٰ کی نیابت میں اپنے اقتدار کو استعمال کرنا چاہئے ورنہ وہ گنہگار ہوگا۔ ہاں بعض حالات میں خداتعالیٰ کی طرف سے بھی بادشاہ مقرر کئے جاتے ہیں جو بہرحال نیک اور منصف ہوتے ہیںمگر اُن کی بادشاہتیں دینی ہوتی ہیں دُنیوی نہیں۔
حُکّام کیلئے اسلامی احکام
اِسی طرح حُکّام کے بارے میں فرماتا ہے کہ بعض حاکم ایسے ہوتے ہیں کہ
۳؎یعنی دنیا میں کئی حاکم اور بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں بادشاہت مل جاتی ہے یعنی وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں سے کام لے کر حکومت پر قابض ہوجاتے ہیں تو بجائے اِس کے کہ رعایا اور مُلک کی خدمت کریں، بجائے اِس کے کہ امن قائم کریں، بجائے اِس کے کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور اطمینان پیدا کریں وہ ایسی تدابیراختیار کرنی شروع کردیتے ہیں جن سے قومیں قوموں سے قبیلے قبیلوں سے اور ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہیں اور مُلک میں طوائف الملوکی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن سے مُلک کی تمدّنی اور اقتصادی حالت تباہ ہو جاتی ہے اور آئندہ نسلیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ حَرْثکے لغوی معنی تو کھیتی کے ہیں مگر یہاں حَرْثکا لفظ استعارۃً وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے ذرائع مُلک کی اقتصادی ترقی کے یا جتنے ذرائع مُلک کی مالی حالت کو ترقی دینے والے یا جتنے ذرائع مُلک کی تمدّنی حالت کو بہتر بنانے والے ہوتے ہیں اُن ذرائع کو اختیار کرنے کی بجائے وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جن سے تمدّن تباہ ہو، اقتصاد بربادہو، مالی حالت میں ترقی نہ ہو اِس طرح وہ نسلوں کی ترقی پر تبر رکھ دیتے ہیں اور ایسے قوانین بناتے ہیںجس سے آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں اپنی طاقتوں کو کھوبیٹھتی ہیں اور ایسی تعلیمات جن کو سیکھ کر وہ ترقی کر سکتی ہیں اُن سے محروم رہ جاتی ہیں۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ فسادکو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے ایسے بادشاہ اور حکمران خداتعالیٰ کی نگاہ میں مغضوب ہیںاور وہ اُن کو سخت نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
اِس آیت سے یہ نتیجہ نکل آیا کہ اسلام کے نزدیک وہی بادشاہ صحیح معنوں میں بادشاہ کہلاسکتا ہے جو لوگوں کے لئے ہر قسم کا امن مہیّا کرے، اُن کی اقتصادی حالت کو درست کرے اور اُن کی جانوں کی حفاظت کرے۔ کیا بلحاظ صحت کا خیال رکھنے کے اورکیا بلحاظ اِس کے کہ وہ غیرضروری جنگیں نہ کرے اور اپنے مُلک کے افراد کو بلا وجہ مرنے نہ دے۔ گویا ہر قسم کے امن اور جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلام کے نزدیک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وہ اِس امر کی پابند ہے کہ مُلک کی ترقی اور رعایا کی بہبودی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
حُکّام کو افراد واقوام کے درمیان عد ل قائم کرنے کی تاکید
اسی طرح دوسری جگہ فرماتا ہے
۴؎ یعنی اے لوگو! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جب تمہیں موقع ملے کہ تم بادشاہت کی امانتیں کسی کے سپرد کرو تو یاد رکھو تم یہ امانتیں ہمیشہ اُن لوگوں کے سپرد کیا کروجو تمہارے نزدیک بادشاہت اور حکومت کے اہل ہوں اور جن کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہو کہ وہ حکومتی کاموں کو عمدگی سے سرانجام دے سکیںاور پھر اے وہ لوگو! جن کے سپرد مُلک کے لوگ بادشاہت کی امانت کریں (جہاں ہم نے مُلک کے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ تم حکومت کے لئے ایسے ہی لوگوں کا انتخاب کرو جو اِس امانت کے سنبھالنے کے اہل ہوںجو مُلک کے بہترین راہنما ہوں اور جو رعایا کے لئے ہر قسم کی ترقی کے سامان جمع کرنے کے قابل ہوں) وہاں تم لوگوں کو جن کا حکومت کے لئے انتخاب کیا گیاہے اور جن پر اعتماد کرکے مُلک کے لوگوں نے حکومت کی امانت اُن کے سپرد کی ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ یعنی جب تم کوئی فیصلہ کرو تو عدل سے کام لو۔ یہ نہ ہو کہ کسی فرد کو بڑھا دواور کسی کو نیچے گرا دو، کسی قوم کو اونچا کردو اورکسی قوم کو نیچا کر دو،کسی قوم میں تعلیم پھیلادو اور کسی قوم کو جاہل رکھو، کسی کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرو اور کسی کی اقتصادی ضروریات کونظر انداز کردو بلکہ جب تم لوگوں کے حقوق کا فیصلہ کرو تو ہمیشہ عدل وانصاف سے فیصلہ کرو۔رعایت یا بے جاطرف داری سے کام نہ لو۔ پھر فرماتا ہے ہمارا یہ حکم ایسا نہیں جیسے بادشاہ بعض دفعہ بغیر کسی خاص مقصد یا بغیر کسی خاص حکمت کے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہمارا منشاء یوں ہے بس اِسی طرح کیا جائے۔ ہم اِن بادشاہوں کی طرح بغیر سوچے سمجھے یہ حکم نہیں دے رہے بلکہ ہم تمہارے خالق ومالک خدا ہیں اور ہم تمہیں جو کچھ حکم دے رہے ہیں اِسی میں تمہارا فائدہ اور تمہارا سُکھ ہے۔ اگر تم ایسے حاکم مقرر کرو گے جو اچھے ہوں گے،جو حکومت کے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں گے، جو اِس امانت کی قدروقیمت کو سمجھتے ہونگے تو اِس میں تمہارااپنا فائدہ ہے اور اے حاکمو! اگر تم لوگوں کی جانوں کی حفاظت کرو گے، اگر تم ان کے اموال کی حفاظت کروگے، اگر تم اپنے فیصلوں میں ہمیشہ عدل کو ملحوظ رکھو گے، اگر تم افراد اور اقوام میں تفریق سے کام نہیں لوگے، اگر تم چھوٹوں اور بڑوں سب سے یکساں سلوک کرو گے، اگر تم مُلک کی مجموعی حالت کو درست رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرو گے، اگر تم ان بادشاہوں کے نقش قدم پر نہیں چلو گے جو کسی کو بڑھادیتے ہیں اور کسی کو گرا دیتے ہیں اور کسی کو ناواجب سزا دے د یتے ہیں اور کسی کی ناواجب رعایت کردیتے ہیں تو تم صرف ہمارا حکم ہی پورا نہیں کرو گے بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ امر خود تمہارے لئے بھی بہتر ہوگا۔ پھر فرماتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ لوگ دنیا کے ظالم بادشاہوں کی ایڑیوں کے نیچے کچلے گئے اور وہ تباہ وبرباد کئے گئے۔ بادشاہوں نے اُن پر ظلم کیا اور ان کے حقوق کو انتہائی بیدردی کے ساتھ پامال کر دیا۔ یہ حالات خدا نے دیکھے اور اُس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ بنی نوع انسان ہمیشہ ظلموں کے نیچے دبتے چلے جائیں اور حُکّام اپنی من مانی کارروائیاں کرتے رہیں پس اُس نے چاہا کہ اِس بارہ میں خود ہدایات دے۔ چنانچہ جب ظلم اپنی انتہا تک پہنچ گیا اور لوگوں نے ہمارے حضور چلّا کر کہا کہ اے خدا! اِس قسم کے حاکم ہم پر مسلط ہو رہے ہیں جو ہمارے حقوق کو ادانہیں کرتے تو خدا نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اپنی شریعت میں یہ حکم نازل فرمادے کہ ہمیشہ حُکّام انتخاب سے مقرر کئے جائیں۔ اور ایسے حاکم چُنے جائیں جو انصاف اور عدل کا مادہ اپنے اندررکھتے ہوں اور حکومت کے اہل ہوں۔ اِسی طرح حُکّام کو خدا نے اپنی شریعت میں یہ حکم دے دیا کہ دیکھو! ہمیشہ عدل اور انصاف سے کام لو،مُلک کی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کی کوشش کرو، رعایا کے جان ومال کی حفاظت کرو،اقوام اور افراد میںتفریق پیدا نہ کرو، ایسی تدابیر اختیار نہ کرو جو مُلک کی ترقی میں روک ڈالنے والی یا آئندہ نسلوں کو تباہ کرنے والی ہوں بلکہ ہمیشہ ایسے طریق اختیار کرو اورایسے قوانین بناؤ جو مُلک کی ترقی کا موجب ہوں۔
حکومت کے متعلق اِسلام کی چار اصولی ہدایات
یہ وہ ماحول ہے جس میں اسلام اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اور بغیر کسی مناسب ماحول کے کوئی اچھے سے اچھا نظام بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسلام دنیا میں پہلا
مذہب ہے جس نے
(۱) انتخابی حکومت کا اصول مقرر کیا ہے اور حکومت کی بنیاد اہلیت پر قائم کی۔
(۲) جس نے حکومت کو ملکیت نہیںبلکہ امانت قرار دیا ہے۔
(۳) جس نے لوگوں کی عزت، جان اور مال کی حفاظت کو حکومت کا مقصد قرار دیا ہے۔
(۴) جس نے حاکم کو افراد اور اقوام کے درمیان عدل کرنے کی تاکید فرمائی اور اُسے خداتعالیٰ کے سامنے جواب دہ قرار دیاہے۔
غرض اسلام کے نزدیک کوئی نسلی بادشاہ نہیں وہ صاف اور کھلے طور پرفرماتاہے کہ یعنی خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت ہمیشہ اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو۔ پس اسلام کسی نسلی بادشاہت کا قائل نہیں بلکہ اسلام کے نزدیک حکومت انتخابی اصل پر قائم ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ غورو فکر کے بعد اپنی قوم میں سے بہترین شخص کے سپرد حکومت کی امانت کیا کریں۔ جب تک مسلمان قرآن کریم کے احکام پر عمل کرتے رہے وہ اسی رنگ میں حُکّام کا انتخاب کرتے رہے اور آئندہ بھی جب مسلمانوں کو قرآن کریم کے اِن احکام پر عمل کرنے کی توفیق حاصل ہوگی اُن کے لئے پہلا حکم یہی ہوگا کہ تم خود کسی شخص کو حکومت کے لئے منتخب کرو۔اور پھر دوسرا حکم یہ ہو گا کہ تم کسی کو اس لئے نہ چنو کہ وہ اعلیٰ خاندان میں سے ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ جابر ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ وہ مالدار ہے، کسی کو اِس لئے نہ چنو کہ اُس کے ساتھ جتھہ ہے بلکہ تم اس لئے چنو کہ وہ مُلک کی حکومت کے لئے بہترین شخص ثابت ہوگا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے حُکّام کو یہ حکم دیدیا کہ جب تمہارا انتخاب عمل میں آجائے تو عدل وانصاف سے کام لو۔ یہی وہ روح تھی جس نے بادشاہت پیدا ہوجانے کے بعد بھی مسلمانوں کے خیالات کو جمہوریت اور انصاف کی طرف مائل رکھا۔
اسلامی تاریخ کا ایک شاندار منظر
گِبن جوایک مشہور عیسائی مؤرخ ہے اُس نے روم کے حالات کے متعلق ایک تاریخی کتاب
لکھی ہے وہ اس کتاب میں ملک شاہ A۴؎کے متعلق جو الپ ارسلان B۴؎ کا بیٹا تھا بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل نوجوان تھا جب اُس کا والد فوت ہوا۔ اُس کے مرنے کے بعد ملک شاہ کے ایک چچا ایک چچیرے بھائی اور ایک سگے بھائی نے بالمقابل بادشاہت کا دعویٰ کردیا اور خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ نظام الدین طوسی جو ملک شاہ کے وزیر تھے وہ (بوجہ شیعہ ہونے کے) ملک شاہ کو امام موسیٰ رضاؓ کی قبر پر دعا کے لئے لے گئے دعا کے بعد ملک شاہ نے وزیر سے پوچھا۔ آپ نے کیا دعا کی؟ وزیر نے جواب دیا یہ کہ خداتعالیٰ آپ کوفتح بخشے۔ملک شاہ نے کہا اور مَیں نے خدا سے یہ دعا کی ہے کہ اے میرے ربّ!اگر میرا بھائی مسلمانوں پر حکومت کرنے کا مجھ سے زیادہ اہل ہے تو اے میرے ربّ! آج میری جان اور میرا تاج مجھ سے واپس لے لے۔
گِبن ایک عیسائی مؤرخ اور نہایت ہی متعصّب عیسائی مؤرخ ہے مگر اِس واقعہ کے ذکرکے سلسلہ میں بے اختیار لکھتا ہے۔ اِس تُرک(مسلمان) شہزادہ کے اس قول سے زیادہ پاکیزہ اور وسیع نظریہ تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ مگریہ روح کہاں سے آئی اور کیوں مسلمانوں کے دلوں اور اُن کے دماغوں میں یہ بات مرکوز تھی کہ حکومت کسی کا ذاتی حق نہیں بلکہ ایک امانت ہے جو مُلک کے لوگ خود اپنے میں سے قابل ترین شخص کے سپرد کرتے ہیں اورپھر اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ انصاف سے کام لے اور حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے۔ یہ پاکیزہ خیالات اور یہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ مسلمانوں میں اِسی وجہ سے دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کے دماغوں میں شروع سے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ بادشاہت ایک امانت ہے اور یہ امانت صرف حقدار کو بطور انتخاب دینی چاہئے نہ کہ ورثہ کے طور پر لوگ اُس پر قابض ہوں۔ یا اہلیت کے سِوا اورکسی وجہ سے اُنہیں اِس کام پر مقرر کیا جائے۔ نیز یہ کہ جوشخص اِس امانت پر مقرر ہو اُس کا فرض ہے کہ اِس امانت کے سب حقوق کو پوری طرح ادا کرے اور جو شخص اِس کے تمام حقوق اورفرائض کے ساتھ اُسے ادا نہیں کرے گا وہ خداتعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی طرح کھڑا ہوگا۔ پس مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت یہ آیت رہتی تھی کہ یعنی جو لوگ حکومت کے قابل ہوں، جو انتظامی امور کو سنبھالنے کی اہلیت اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو یہ امانت سپرد کیا کرو۔ اور پھر جب یہ امانت بعض لوگوں کے سپرد ہوجاتی تھی توشریعت کا یہ حکم ہر وقت اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا کہ دیانت داری اور عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ اگر تم نے عد ل کو نظر انداز کردیا، اگر تم نے دیانت داری کوملحوظ نہ رکھا، اگر تم نے اِس امانت میں کسی خیانت سے کام لیاتو خدا تم سے حساب لے گا اور وہ تمہیں اِس جرم کی سزادیگا۔
حصرت عمرؓ کا عدیم المثال خدمات کے باوجود وفات کے وقت غیرمعمولی کرب
یہی وہ چیزتھی جس کا اثر حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طبیعت پر اِس قدرغالب اور نمایاں تھا کہ
اُسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ جو اسلام میں خلیفہ ثانی گزرے ہیں اُنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے اِس قدر قربانیوں سے کام لیا ہے کہ وہ یورپین مصنّف جو دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جو رسول کریم ﷺ کے متعلق اپنی کتابوں میں نہایت ڈھٹائی کے ساتھ یہ لکھتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ! آپ نے دیانت داری سے کام نہیں لیا وہ بھی ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ذکر پر یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جس محنت اور قربانی سے اِن لوگوں نے کام کیا ہے اِس قسم کی محنت اور قربانی کی مثال دنیا کے کسی حکمران میں نظر نہیں آتی۔خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کام کی تو وہ بے حد تعریف کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جس نے رات اور دن انہماک کے ساتھ اسلام کے قوانین کی اشاعت اور مسلمانوں کی ترقی کے فرض کو سر انجام دیا۔ مگر عمرؓ کا اپنا کیا حال تھا۔ اُس کے سامنے باوجود ہزاروں کام کرنے کے، باوجود ہزاروں قربانیاں کرنے کے باوجود ہزاروں تکالیف برداشت کرنے کے یہ آیت رہتی تھی کہ اور یہ کہ یعنی جب تمہیں خدا کی طرف سے کسی کام پر مقر ر کیا جاوے اور تمہارے مُلک کے لوگ اور تمہارے اپنے بھائی حکومت کے لئے تمہارا انتخاب کریں تو تمہارا فرض ہے کہ تم عدل کے ساتھ کام کرواور اپنی تمام قوتوں کو بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے صرف کردو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ کیسا دردناک ہے کہ وفات کے قریب جبکہ آپ کو ظالم سمجھتے ہوئے ایک شخص نے نادانی اور جہالت سے خنجر سے آپ پروار کیااور آپ کو اپنی موت کا یقین ہوگیا تو آپ بستر پر نہایت کرب سے تڑپتے تھے اور بار بار کہتے تھے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ۔ اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ۵؎ اے خدا! تو نے مجھ کو اس حکومت پر قائم کیا تھا اور ایک امانت تو نے میرے سپرد کی تھی۔ مَیں نہیں جانتا کہ مَیں نے اس حکومت کا حق ادا کر دیا ہے یا نہیں۔ اب میری موت کا وقت قریب ہے اور مَیں دنیا کو چھوڑ کر تیرے پاس آنے والا ہوں۔ اے میرے ربّ!میں تجھ سے اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی اچھے اَجر کا طالب نہیں، کسی انعام کا خواہشمند نہیں بلکہ اے میرے ربّ! میں صرف اِس بات کا طالب ہوں کہ تو مجھ پر رحم کر کے مجھے معاف فرمادے اور اگر اِس ذمہ داری کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی قصورہوگیا ہو تو اُس سے درگزر فرمادے۔ عمرؓ وہ جلیل القدر انسان تھا جس کے عدل اور انصاف کی مثال دنیا کے پردہ پر بہت کم پائی جاتی ہے۔ مگر اس حکم کے ماتحت کہ جب وہ مرتا ہے تو ایسی بے چینی اور ایسے اضطراب کی حالت میں مرتا ہے کہ اُسے وہ تمام خدمات جو اُس نے مُلک کی بہتری کے لئے کیں، وہ تمام خدمات جو اُس نے لوگوں کی بہتری کے لئے کیں۔ وہ تمام خدمات جو اس نے اسلام کی ترقی کے لئے کیںبالکل حقیر نظر آتی ہیں۔ وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کے تمام مسلمانوں کو اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو اُس کے مُلک کی غیراقوام کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے مُلک کے اپنوں اور غیروں کو ہی نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگوں کو بھی اچھی نظر آتی تھیں، وہ تمام خدمات جو صرف اُس کے زمانہ میں ہی لوگوں کو اچھی نظر آتی تھیں بلکہ آج تیرہ سَو سال گزرنے کے بعدبھی وہ لوگ جو اُس کے آقا پر حملہ کرنے سے نہیں چوکتے جب عمرؓ کی خدمات کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں۔ بے شک عمرؓ اپنے کارناموں میں ایک بے مثال شخص تھا۔ وہ تمام خدمات خود عمرؓ کی نگاہ میں بالکل حقیر ہو جاتی ہیں اور وہ تڑپتے ہوئے کہتا ہے اَللّٰھُمَّ لَا عَلَیَّ وَلَالِیْ اے میرے ربّ! ایک امانت میرے سپرد کی گئی تھی۔مَیں نہیں جانتا کہ میں نے اس کے حقوق کو ادا بھی کیاہے یا نہیں۔ اِس لئے میں تجھ سے اتنی ہی درخواست کرتا ہوں کہ تو میرے قصوروں کو معاف فرمادے اور مجھے سزا سے محفوظ رکھ۔
ہر چیز کیلئے اچھے ماحول کی ضرورت
یہ ماحول میں نے اِس لئے بیان کیا ہے کہ کوئی چیز اچھے ماحول کے بغیر کبھی
کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اچھی سے اچھی گٹھلی لو اور اُسے ایسی زمین میں دبا دو جو اُ س کے مناسبِ حال نہ ہو یا گٹھلی کو اُگانے کی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو تو وہ کبھی اچھا درخت پیدا نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر ماحول اچھا ہو تو معمولی اور ادنیٰ بیج بھی نشوونما حاصل کر لیتا ہے۔ پس یہ وہ ماحول ہے جو اسلام نے پیش کیااور ایسے ہی ماحول میں پبلک کے مفیدِ مطلب اقتصادی نظام چل سکتا ہے۔
دنیا میں تین قسم کے اقتصادی نظام
اِس ماحول کے بیان کرنے کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں تین قسم کے اقتصادی
نظام ہوتے ہیں۔ ایک نظام غیرآئینی ہوتا ہے یعنی ہم اُس کا نام اقتصادی نظام محض بات کو سمجھنے کے لئے رکھ دیتے ہیں ورنہ حقیت یہ ہے کہ بعض قومیں اور حکومتیں دنیا میں ایسی ہیں جنہوں نے کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے اقتصادی نظام کو کس طرح چلانا ہے۔ جس طرح انسان بعض دفعہ رستہ میں چلتے ہوئے کسی چیز کو اُٹھالیتا ہے اِسی طرح ان لوگوں کے سامنے اگر اقتصادی ترقی کے لئے کوئی قومی ذریعہ آجائے تو وہ اسے اختیار کرلیتے ہیں، فردی ذریعہ آجائے تو اُسے اختیار کرلیتے ہیں۔کوئی معیّن اور مقررہ پالیسی ان کے سامنے نہیں ہوتی۔
دوسرا نظام قومی ہوتا ہے۔ یعنی بعض قومیں دنیا میںایسی ہیں جوصرف قومی اقتصادی نظام کو اختیار کرتی ہیں اور وہ مُلک کے نظام کو ایسے رنگ میں چلاتی ہیں جس سے بحیثیت مجموعی اُن کی قوم کو فائدہ ہو۔
تیسرا نظام انفرادی ہوتا ہے جس میں افراد کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اپنے طور پر مُلک کی اقتصادی حالت کو درست کرنے اور اُسے ترقی دینے کی کوشش کریں۔ مزدوروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریںاور سرمایہ داروں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ اِسی طرح ملازموں کوحق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسروں سے تنخواہوں وغیرہ کے متعلق بحث کرکے فیصلہ کریں اور افسروں کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملازموں کے متعلق قواعد وضع کریں۔ گویا اِس نظام میں انفرادیت پر زور دیا جاتا ہے۔
یہی تین قسم کے اقتصادی نظام اِس وقت دنیا میں پا ئے جا تے ہیں۔ایک بے قانون، دوسرا قومی اور تیسرا انفرادی۔ یعنی بعض میں کوئی بھی آئین نہیں بعض میں قومی کاروبار پربنیاد ہوتی ہے اوربعص میں انفرادی کاروبار پر۔اِسلام غیرآئینی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ایک آئینی نظام کو قائم کرتا اور اُس کے ماتحت چلنے کی لوگوں کو ہدایت دیتاہے۔ وہ ہر چیز کو حکمت اوردانائی کے ماتحت اختیار کرنے کا قائل ہے۔ وہ اِس بات کا قائل نہیں کہ نظام اور آئین کو نظرانداز کرکے جو راستہ بھی سامنے نظر آئے اُس پر چلنا شروع کردیا جائے۔ غیر آئینی نظام والوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے جنگل میں آپ ہی آپ جو بُوٹیاں اُگ آتی ہیں اُنہیں کھانا شروع کر دیا جائے۔ مگر اسلام کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جوباقاعدہ ایک باغ لگاتا، اُس کی آبپاشی کرتا اور اُس کے پودوں کی نگرانی رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کونسی چیز مجھے اِس باغ میں رکھنی چاہئے اور کونسی چیز نہیں رکھنی چاہئے۔
اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول
مَیں نے اوپر جو ماحول اسلام کی تعلیم کا بیان کیا ہے وہ ماحول اسلام کی اقتصادی تعلیم کیلئے
بھی ضروری ہے کیونکہ اِس کے بغیر اسلام کی اقتصادی تعلیم دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتی چونکہ اِس ماحول کا اسلام کی اقتصادی تعلیم کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اِس لئے ضروری تھا کہ میں اِسے بیان کرتا اور بتاتا کہ کس ماحول میں اسلام نے دنیا کے سامنے ایک مفید اور اعلیٰ درجہ کا اقتصادی نظام رکھا ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام غیر آئینی نظام کو تسلیم نہیں کرتا البتہ دوسرے دو نظاموں کے درمیان ایک راستہ پیش کرتا ہے مگر بنیادی اصول اسلام کے اقتصادیات کا، ان ہی پہلے حقائق پر قائم ہے جن کو اوپربیان کیا جاچکا ہے۔
اموال کے متعلق اِسلام کا اِقتصادی نظریہ
اسلام کا اقتصادی نظریہ اموال کے متعلق یہ ہے۔فرماتا ہے۔
۶؎ یعنی جس قدر چیزیں دنیا میںپائی جاتی ہیں وہ سب کی سب خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیں۔ اگر تمہیں دنیا میں پہاڑ نظر آتے ہیں،اگر تمہیں دنیا میں دریا نظرآتے ہیں، اگر تمہیں دنیا میں کانیں نظرآتی ہیں، اگر تمہیں دنیا میں ترقی کی اَور ہزاروں اشیاء نظر آتی ہیں توتمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کا نظریہ اِن اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ یہ سب کی سب بنی نوع انسان میں مشترک ہیں اور سب بحیثیت مجموعی اِن کے مالک ہیں۔ کانوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، دریاؤں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، پہاڑوں سے بہت کچھ فائدہ اُٹھایا جاتا ہے، مثلاً بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں، سونا چاندی اور دوسری قیمتی دھاتیں حاصل کی جاتی ہیںیا دوائیں وغیرہ وہاں پائی جاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اُٹھاتاہے علاج معالجہ کے رنگ میں بھی اور تجارت کے رنگ میں بھی یااِسی قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جوصنعت وحرفت میںکام آتی ہیں ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اے بنی نوع انسان! یہ سب کی سب چیزیں تمہارے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ زید کی خاطر نہیں، یہ بکر کی خاطر نہیں، یہ نمرودکی خاطر نہیں، یہ ہٹلر کی خاطر نہیں، یہ سٹالن کی خاطر نہیں، یہ چرچل کی خاطر نہیں، یہ روز ویلٹ کی خاطر نہیں بلکہ ہر فردِ بشر جو دنیا میں پیدا ہوا ہے اُس کے لئے خدا نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں پس کوئی ہو، حاکم ہو محکوم ہو،بڑا ہوچھوٹا ہو،سیّد ہو چمار ہو، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ چیزیں صرف میرے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔ اے بنی نوع انسان یہ چیزیں تم سب کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز کے تم سب کے سب بحیثیت انسان مالک ہو۔
مال کے متعلق اسلام کا فیصلہ
پھر اموال کے متعلق یہ قاعدہ بیان فرماتا ہے کہ ۷؎
اے لوگو ! جب تمہارے پاس غلام ہوںیعنی جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آئیں مگر حالت یہ ہو کہ نہ اُن کی گورنمنٹ اُنہیں رہا کرانے کا کوئی احساس رکھتی ہواور نہ اُن کے رشتہ دار اُن کی آزادی کیلئے کوئی کوشش کرتے ہوں اور دوسری طرف خود اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ وہ خود فدیہ دے کر رہا ہو سکیں تو ایسی صورت میں ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ اے جنگی قیدیوں کے نگرانو! اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اُس میں سے اِس غلام کی مدد کرو۔ یعنی اسے اپنے پاس سے کچھ سرمایہ دے دو کہ اِس ذریعہ سے وہ روپیہ کما کر اپنا فدیہ ادا کر سکے اور آزاد ہو جائے۔ گویا اگر وہ خود رہا ہونے کا اپنے پاس کوئی سامان نہیں رکھتا تو تم اپنے اموال میں سے کچھ مال اسے دے دو کیونکہ مال خدا کا ہے اور خدا کے مال میں سب لوگوں کا حق شامل ہے اِس لئے اگر آزادی کے سامان اِس کے پاس مفقود ہیں تو تم خود اسے خدا کے اموال میں سے کچھ مال دے دو۔ اِسی طرح اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان حاکموں اور بادشاہوں سے بھی کہا ہے کہ اے مسلمان حاکمواور بادشاہو !اللہ تعالیٰ کے اموال میں صرف تمہارا حق ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے حقوق شامل ہیں اِس لئے اگر جنگی قیدی تمہارے قبضہ میں آتے ہیں اور اس کے بعد اُن کی قوم اُن سے غدّاری کرتی ہے، اُن کے رشتہ دار اُن سے غدّاری کرتے ہیں اور وہ اُنہیں چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کرتے یا فرض کرو کوئی جنگی قیدی مالدار ہے اور اُس کے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ قید ہی رہے تاکہ اُس کی جائدا پر قابض ہو جائیں تو ایسی صورت میں ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اگر قوم نے اُن سے غداری کی ہے یا اُن کے رشتہ دار اُن سے غداری کررہے ہیں تو تم اُن سے غداری مت کرو بلکہ خود اپنے مال کا ایک حصہ اُن کی آزادی کے لئے خرچ کرو کیونکہ جو مال تمہارے قبضہ میں آیاہے وہ تمہارا مال نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور جس طرح تم اللہ تعالیٰ کے بندے ہو اُسی طرح غلام بھی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ اِن حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ
اوّل اسلام کے نزدیک دنیا کی دولت سب انسانوں کی ہے۔
دوسرے اصل مالک دولت کااللہ تعالیٰ ہے اس لئے انسان کو اپنے مال کو خرچ کرنے کا کُلّی اختیار نہیں بلکہ مالک کے حکم کے مطابق اُسے اپنی آزادی کو محدود کرنا ہوگا۔
یہ اصل اموال کی ملکیت کے بارہ میں قرآن کریم کے نزدیک ہمیشہ سے انبیاء علیہم السَّلام بتاتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السَّلام کی نسبت آتا ہے کہ جب انہوں نے لوگوں سے کہا کہ دوسرے لوگوں کے حقوق غصب نہ کرواور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو اور اموال کمانے یا اس کو خرچ کرنے کے وہ طریق اختیار نہ کرو جن سے فساد ہوتا ہے تو لوگوں نے اُن سے کہاکہ۸؎ یعنی اے شعیب! یہ کیا بات ہے کہ روپیہ ہمارا، مال ہمارا، جائدادیں ہماری ہم جس کو چاہیں دیںاور جس کو چاہیں نہ دیں۔ جہاں چاہیں خرچ کریں اور جہاں چاہیں خرچ نہ کریں تم اِن معاملات میںدخل دینے والے کون ہو۔ مال تمہارا نہیں کہ تم اس کی تقسیم یا خرچ کے ذمہ دار ہو۔ مال ہمارا ہے ہم اختیار رکھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ کیا نمازیں پڑھ پڑھ کر تمہارا سر چکرا گیا ہے کہ ا ب ہمارے مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگ گئے ہو کہ اِس طرح خرچ کرو گے تو ثواب ہوگا۔ اِس طرح خرچ کرو گے تو عذاب ہوگا۔ہمیں نصیحت کرنے اور سمجھانے کا یہ حق تمہیں کہاں سے حاصل ہوگیا ہے۔پھر وہ طنز کے طور پر کہتے ہیں کہ بڑا غریبوں کا ہمدرد آیا ہے تو تو بڑا حلیم اور بڑا بھلا مانس معلوم ہوتا ہے یعنی یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تم حلیم ہو اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تم رشید ہو مگر اب تم حلیم اور رشید بن کر ہم پر رُعب جمانا چاہتے ہو ہم تمہارے اِس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔
ابتدائے آفرینش سے اموال کے متعلق ایک ہی نظریہ
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نے اموال کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہی پہلے انبیاء کی طرف سے پیش ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ بنی نوع
انسان کو اموال کمانے اور خرچ کرنے میں آزاد نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اموال سب خدا کے ہیں اور خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف اُن کو خرچ کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
قومی ترقی کے لئے غرباء کو اُبھارنے کی ضرورت
اِن اصول کے بعد مَیں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے اپنی ابتدا میں ہی غرباء کے اُبھارنے اوراُن کی مدد کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ سورتیں جو بالکل ابتدائی زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں جب اِن کا مطالعہ کیا جائے توصاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اِن ابتدائی سورتوں میں سب سے زیادہ غرباء کو اُبھارنے ،اُن کی مدد کرنے اور اُن کو ترقی کی دَوڑ میں آگے لے جانے کا ذکر آتا ہے اور مومنوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اگر قومی ترقی چاہتے ہیں، اگر خداتعالیٰ کی رضا صاصل کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا طریق یہی ہے کہ غرباء کی مدد کریں اور اُن کی تکالیف کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی دوسرے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے۔ ابھی قرآن کریم نے نمازوں کی تفصیل بیان نہیں کی تھی، ابھی قرآن کریم نے تجارت کے اصول بیان نہیں کئے تھے، ابھی قرآن کریم نے قضاء کے احکام لوگوں کے سامنے بیان نہیں کئے تھے، ابھی لین دین کے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں ہوئے تھے، ابھی میاں بیوی کے حقوق یاراعی اور رعایا کے حقوق یاآقااور ملازمین کے حقوق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئی تھیں لیکن اِس ابتدائی زمانہ میں قرآن نے غرباء کو اُبھارنے اور اُن کی مدد کرنے کی طرف لوگوں کو توجہ دلائی بلکہ اُن کے نہ اُبھارنے اور اُن کی مدد نہ کرنے کے نتیجہ میں قوم کی تباہی کی خبر دی اور بتایا کہ وہ قوم اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جاتی ہے جو غرباء کے حقوق کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
اِسلام کی ابتدائی تعلیم میں غرباء کو اُبھارنے کی تلقین
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سورۃ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ ۹؎والی سورۃ
ہے۔ اِس سے یہ مراد نہیں کہ ساری سورۃ ایک ہی دن میں نازل ہوگئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اِسی سورۃ کا ابتدائی ٹکڑا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور پھر رفتہ رفتہ ساری سورۃ نازل ہوگئی۔ اِس سورۃ کے نزول کے بعد قریب ترین عرصہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں اُن میں سے چار سورتیں ایسی ہیں جن کو سرولیم میورجو یو۔پی کے لیفٹیننٹ گورنر رہ چکے ہیں اور یورپین مصنفین میں خاص عظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سولیلو کی (SOLILOQUY)’’یعنی محادثہ بِالنفس کی سورتیں قرار دیتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس میں دعویٰ سے پہلے جو خیالات پیدا ہوا کرتے تھے اِن چار سورتوں میں انہی خیالات کاذکر آتا ہے۔ سرولیم میور کے نزدیک یہ چار سورتیں آخری پارہ کی سورۃ البلد۔ سورۃ الشمس۔سورۃاللیل اور سورۃ الضحیٰ ہیں۔ مفسّرین کے نزدیک تو یہ سورتیں سورۃ العلق کے بعد نازل ہوئی ہیں اور تاریخی طور پر بھی یہی بات درست ہے لیکن میورکا خیال ہے کہ یہ سورتیں والی سورۃ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اُن کی بنائے استدلال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جب کہا اِقْرَاْ یعنی پڑھ ۔ تو بہرحال اِس سے پہلے کوئی چیز موجود ہونی چاہئے تھی جس کو پڑھنے کاحکم دیاجاتا۔ اسلامی تاریخ کے لحاظ سے بھی یہ نہایت ابتدائی سورتیں ہیں اور میور کے خیال کے لحاظ سے تو یہ اتنی ابتدائی سورتیں ہیں کہ رسول کریم ﷺکے دعویٰ سے بھی پہلے کی ہیں۔ اِن چار سورتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اِن میں سے تین میں غرباء کی خبر گیری کو نجات اور ترقی قومی کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لوگوں کو غرباء کی خبر گیری اور اُن کی خدمات پر اُبھارا گیا ہے اور اُمراء کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃ البلد میں آتا ہے۔
۱۰؎ فرماتا ہے ہر مالدار دنیا میں کہتا ہے کہ مَیں بڑا مالدار آدمی ہوں میَں نے بڑا روپیہ دنیا میں خرچ کیا ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ مَیں خرچ کر چکا ہوں ۔ کے معنٰی ڈھیروں ڈھیر کے ہوتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ڈھیر مَیں خرچ کرتا چلا گیا اور مَیں نے روپیہ کی کچھ پرواہ نہ کی اب بتاؤ مجھ سے زیادہ اور کون شخص اِس بات کا مستحق ہے کہ اُسے عزت دی جائے اور اُسے پبلک میںعظمت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اِس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ کیا وہ نادان یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا دنیا میںکوئی موجود نہیں! وہ دعوتیں کرتا ہے اور ایک ایک دن میں سینکڑوں اونٹ ذبح کردیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ مَیں نے مُلک پر بڑا احسان کیا۔ فرماتا ہے کیا دنیا اندھی ہے وہ یہ نہیں سمجھتی کہ یہ سَو اونٹ جو قربان کیا گیا ہے محض اِس لئے ہے کہ اُسے شہرت اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ غرباء کی ہمدردی اور اُن کی محبت کا جذبہ اُس کے دل میں کام نہیں کر رہا۔اگر واقعہ میں اس کے دل میں غریبوں کی تکالیف کا احساس ہوتا،وہ ان کی غربت اور تکالیف کو دور کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا تو سَو سَو اونٹ ایک دن میں ذبح کرنے کی بجائے وہ سَو دنوں میں ایک ایک اونٹ ذبح کرتا تاکہ غرباء ایک لمبے عرصے تک بھوک کی تکالیف سے بچے رہتے مگر اُس کے مدِّنظر تو یہ بات تھی ہی نہیں وہ تو یہی چاہتا تھا کہ پبلک میں میری شہرت ہو اور لوگ سمجھیں کہ میں بڑا امیر ہوں فرماتا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اُسے کوئی دیکھتا نہیں، اُس کے اعمال پر کوئی نظر نہیں رکھتا؟ یہ اُس کا خیال بالکل غلط ہے۔ دنیا اتنی اندھی اور بیوقوف نہیں ہے وہ جانتی ہے کہ اُس نے جو کچھ خرچ کیا بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے خرچ نہیں کیا بلکہ اپنے نفس کے لئے خرچ کیا ہے فرماتا ہے کیا ہم نے اُسے آنکھیں نہیں دی تھیں کیاوہ نہیں دیکھتا تھا کہ مُلک کا کیا حال ہے؟ غریب بھوکے مر رہے ہیں اور کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں مگر یہ ایک ایک دن میں سَو سَو دو دو سَو اونٹ محض اپنی شہرت کیلئے ذبح کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے بڑا کام کیاہے۔ کیا اُس کی آنکھیں نہیں تھیں کہ وہ مُلک کا حال دیکھ لیتا۔ اور اگر اُسے آنکھوں سے اپنے مُلک کا حال نظر نہیں آتا تھا تو کیا اُس کے منہ میں زبان نہیں تھی اور کیا یہ لوگوں سے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ روپیہ کا صحیح مصرف کیا ہے اور مجھے کہاں کہاں خرچ کرنا چاہئے؟ پھر کیا ہم نے اُس کی دینی اور دُنیوی ترقی کے لئے اُس کی فطرت میں مادہ نہیں رکھ دیا تھا؟ کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ خدا تعالیٰ کو پانے اور اُس سے محبت پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرے؟ اور کیا ہم نے اُس کی فطرت میں یہ مادہ نہیں رکھا کہ یہ بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرے؟ اگر اِن تین طریقوں کو اس نے استعمال نہیں کیا اور اپنے روپیہ کو بغیر اصول کے خرچ کر دیا تو اس نے روپیہ کو خرچ نہیں کیا بلکہ اُسے تباہ کیا ہے پھر فرماتا ہے۔باوجود اِس کے کہ اُس کی آنکھیں موجود تھیں جن سے یہ غرباء کا حال دیکھ سکتا تھا۔ اُس کی زبان اور اُس کے ہونٹ سلامت تھے اور یہ لوگوں سے پوچھ سکتا تھا کہ مجھے تو روپیہ کے صحیح مصرف کا علم نہیں تم ہی بتاؤ کہ روپیہ کس طرح خرچ کروں؟ اور باوجود اِس کے کہ ہم نے اُس کی فطرت میں نیکی اور حسنِ سلوک کے مادے رکھ دیئے تھے، ہم نے خدا کی محبت اُس کی فطرت میں رکھ دی تھی اور ہم نے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے کا مادہ بھی اُس کی فطرت میں رکھ دیا تھا مگر ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس گھاٹی پر نہیں چڑھا اور چڑھائی پر چڑھنا اس کے لئے مشکل ہوگیا۔ جیسے موٹا آدمی پہاڑ کی چوٹی پرنہیں چڑھ سکتا اور راستہ میں ہی تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ بھی گھاٹی کو عبور نہ کر سکا اور نام و نمود پر ہی اپنے روپیہ کو برباد کرتا رہا۔
اِس قسم کے بیہودہ اور لغو کاموں پرروپیہ برباد کرنے کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً بعض عیاش اُمراء کنچنیوں کے ناچ پر ہزاروں روپیہ برباد کر دیتے ہیں۔ بعض کو روپیہ صرف کرنے کا اور کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ مشاعرہ کی مجلس منعقد کر کے روپیہ ضائع کردیتے ہیں۔ اُن کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت ساری رات اپنے بھوکے بچوں کو سینہ سے چمٹائے پڑی رہتی ہے وہ بھوک سے بلبلاتے اور چیختے چلاتے ہیں مگر اُسے اُن یتیم بچوں کو کچھ کھلانے کی توفیق نہیں ملتی اور ہزار ہزار روپیہ مشاعرہ پر برباد کردیتا ہے۔محض اِس لئے کہ لوگوں میں شہرت ہو کہ فلاں رئیس نے یہ مشاعرہ کروایا ہے۔ فرماتا ہے یہ روپیہ کا خرچ کرنا نہیں بلکہ اُسے ضائع اور برباد کرنا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں کچھ معلوم ہے کہ چوٹی پر چڑھنے کا کیا مطلب ہے یعنی ہم نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چوٹی پر نہیں چڑھا تو تم نہیں سمجھ سکے ہو گے کہ اِس کا مطلب کیا ہے؟ آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کیا مطلب ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ وہ غلام جو بنی نوع انسان کے قبضہ میں ہیں جو اپنے باپوں اور اپنی ماؤں اور اپنے بھائیوں اور اپنی بہنوں سے جدا ہیں کیا اس کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ ان کو آزاد کرے اور انہیں بھی آزادانہ زندگی کی فضا میں سانس لینے دے۔ یا بجائے اس کے سَو سَو دو دو سَو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا اور اُمراء کو بُلا کر اُن کی ایک شاندار دعوت کردیتا۔ کیوں اس نے ایسا نہ کیا کہ وہ غرباء اور مساکین کو کھانا کھلاتا۔ قحط کے دنوں میں جب کہ غرباء کو غلّہ کی شدید تکلیف ہوتی ہے اور اُن میں سے اکثر فاقہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یا سردی کے دنوں میں جبکہ غلّہ میں کمی آجاتی ہے اُس کا فرض تھا کہ وہ غرباء کی خبر گیری کرتا، بھوکوں کو کھانا کھلاتا، ننگوں کو کپڑے دیتا اور اِس طرح اپنے مال کو جائز طور پرصحیح مقام پرخرچ کرتا مگر اُس نے ایسا تو نہ کیا اور ایک ایک دن میں سَو سَودو دوسَو اونٹ ذبح کر کے بڑے بڑے امراء کو کھانا کھلا دیا۔ محض اس لئے کہ اُس کی شہرت ہو اور لوگوں میںیہ بات مشہور ہو کہ وہ بڑا مالدار ہےیتیموں ہی کو کھانا کھلا دیتا بجائے اِس کے کہ دعوتوں پر یہ روپیہ برباد کرتا یا جوئے بازی اور مختلف کھیل تماشوں پر اپنی دولت کو ضائع کرتا۔ اگر اس کے دل میں غرباء کا سچا درد ہوتا، اگر اس کے دل میں یتامیٰ کی خبر گیری کا صحیح احساس ہوتا تو اُسے چاہئے تھا کہ اپنے روپیہ کو بجائے ضائع کرنے کے قرابت والے یتیم کو کھانا کھلاتا۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی قرابت والے یتیم کو وہ کھانا کھلاتا کیونکہ اپنے قرابت دار یتیم کو تو بہت سے بخیل بھی کھانا کھلادیا کرتے ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ یتیم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ یتیم ہوتا ہے جس کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا اُسے دیکھ کر بعض دفعہ سنگدل سے سنگدل انسان کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ اُسے کھانا کھلا دیتا ہے مگر ایک یتیم ایسا ہوتاہے جس کے بھائی موجود ہوتے ہیں، جس کی بہنیں موجود ہوتی ہیں، جس کے چچا اور دوسرے رشتہ دار موجود ہوتے ہیں لوگ ایسے یتیموں کی طرف کم توجہ کرتے ہیں اِس لئے فرماتا ہے اگر کوئی ایسا یتیم ہو جس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوں تب بھی اُس کے دل میں اتنا درد ہونا چاہئے تھا کہ وہ اس یتیم کو دیکھ کر سمجھتا کہ یہ یتیم میرا ہے اُن کا نہیں۔ باوجود اِس کے کہ اس کے اپنے رشتہ دار موجود ہوتے اس کے دل میں یتیم کی اپنی محبت ہوتی کہ وہ سمجھتا کہ مَیں ہی اِس کا نگران اور پُرسانِ حال ہوں وہ اِس کے نگران نہیں ہیں۔ یا اُس نے کیوں ایسے مسکین کو کھانا نہ کھلایا جو تھا یعنی اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے پروٹسٹ اور احتجاج بھی نہیں کر سکتا تھا، کسی کے گھر پر دستک بھی نہیں دے سکتا تھا، بلکہ ایسا تھا جیسے مٹی پر گری پڑی کوئی چیز ہو۔ دنیا میں بعض ایسے مساکین ہوتے ہیں جو لوگوں کے دروازوں پر پہنچ کر اپنی غربت اور مسکنت کا حال بیان کرتے اوراُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیںجو دروازوں پرپہنچ کر خوب شور مچاتے اور آخر گھر والوں سے کچھ نہ کچھ لے کر اگلے دروازہ پر جاتے ہیں اور بعض ایسے مسکین ہوتے ہیں جن کو اگر کچھ دیا نہ جائے تو وہ دروازے سے ہلتے ہی نہیں۔ ایسے مساکین کو خرگدا کہا جاتا ہے۔ پھر کئی ایسے مسکین بھی ہوتے ہیں جو باقاعدہ پروٹسٹ کرتے ہیں۔ مظاہرے کرتے ہیں اوروفدبنا بنا کر حکومت کے پاس پہنچتے ہیں یا امراء کے پاس جاتے ہیں اور اُن سے امداد کے طالب ہوتے ہیں۔ ایسے مساکین کو تو لوگ پھر بھی کچھ دے ہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم تو تم سے اِس قدر ہمدردی اور محبت کی امید رکھتے تھے کہ وہ مسکین جو مٹی پر گرا پڑا ہے، جو جنگل میں اکیلا بے کس اور بے بس پڑا ہے جس میں مظاہرہ کرنے کی بھی ہمت نہیں، جس میں کسی کے دروازے تک پہنچنے کی بھی طاقت نہیں، نہ وہ ٹریڈیونین کا ممبر ہے نہ کسی اور ایسی مجلس کا جو اپنے حقوق کیلئے شور مچاتی ہے، وہ بیمار،کمزور اور نحیف الگ ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا ہواہے، اُس کا دنیا میں کوئی سہارا نہیں، معاش کا اُس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں، وہ بے بس اور بیکس نہایت کس مپرسی کی حالت میں پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے اندر اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا کہ کسی کے دروازہ پر چل کر جاسکے تمہارا فرض تھا کہ تم اُس سہارے کے محتاج کے پاس جاتے اور اُس خاکِ مذلّت پر پڑے ہوئے مسکین کی خبر گیری کرتے پھر یہ شخص اپنی ہمدردی اور اپنی محبت اور اپنے حُسِن سلوک میں اِس قدر ترقی کرتا کہ جب وہ یہ سب کچھ کر چکتا تو ہم اُس سے یہ اُمید رکھتے کہ وہ یہ نہ کہتا کہ مَیں نے فلاں غریب کی پرورش کی، میں نے فلاں مسکین کی خبر گیری کی، بلکہ وہ خدا کے حضور نہایت عجز اور انکسار کے ساتھ یہ عرض کرتا کہ اے میرے ربّ!میں نے تیرے حکم کو پورا کرنے کی کس قدر کوشش کی ہے۔ مگر مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مَیںنے اِس حکم کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں ـ۔ گویا بجائے احسان جتانے کے تم مومن بنتے اور سمجھتے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے کسی پر احسان نہیں کیا۔ اپنے مہربان آقا کے حکم کو پورا کیا ہے اور وہ بھی معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے عائد کردہ فرض کو صحیح طور پر ادا بھی کیا ہے یا نہیں پھر اِس سے بھی ترقی کر کے تم مُلک کی مصیبتوں کے اپنے آپ کو ذمہ دار بناتے۔ یہی نہیں کہ خود تو عیش وآرام کی زندگی بسر کرتے اور غرباء تکالیف میں دن گزاردیتے۔جیسے آج کل کنٹرول کی وجہ سے امراء تو چیزیں لے جاتے ہیں مگر غرباء رہ جاتے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں کہ تم قربانی کرکے غرباء کی مدد کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر ہم تم سے یہ امید کرتے تھے کہ تم اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی اِس راہ پر چلانے کی کوشش کرتے اور تمام کے تمام افرادِ مُلک مل کر مُلک کی بہتری کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہم یہ چاہتے تھے کہ یعنی سب نیکیاں کر کے پھر بھی سمجھتے کہ ہم نے کچھ نہیں کیااور ایک دوسرے کو نصیحت کرتے رہتے کہ اَور زیادہ غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرو اور اُن سے محبت کرو اور یہ نصیحت مرتے دم تک جاری رہتی۔
یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کی تعلیم ہے جب قرآن کریم کے نزول کا ابھی آغازہی ہوا تھا، جب تفصیلی احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی نازل نہیں ہوئے تھے اور جب مکّہ والے بھی ابھی اسلام سے پورے طور پر واقف نہیں ہوئے تھے۔سر میور کے نزدیک رسول کریم ﷺ کے یہ وہ ابتدائی خیالات ہیں جن سے متاثر ہوکر آپ نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نبوت کا دعویٰ کیا اور ہمارے نزدیک یہ وہ ابتدائی الہامات ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِقرَاُ کا حکم ہوا تھا کہ جاؤاور لوگوں کو اِن کا قائل بناؤ۔بہرحال اسلام کی بنیاد کے وقت کی یہ تعلیم صاف طور پر بتارہی ہے کہ اسلام نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ جہاں اسلام فرد کی آزادی اور اُس کی شخصی ترقی کے لئے جدوجہد کوجائز رکھتا ہے وہاں وہ اِس اَمر کی بھی اجازت نہیں دے سکتا کہ کچھ لوگ تو عیش وآرام کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ تکلیف اور دُکھ کی زندگی بسر کریں۔
اسلام کا عدمِ مساوات کو روکنا
غلامی
یہ امر یادر رکھنا چاہئے کہ غیر طبعی اور غیر مساوی سلوک جو دنیا میںشروع زمانہ سے چلا آتا تھا اور جسے اسلام نے قطعاً روک دیااُس کی بڑی وجہ غلامی تھی۔آجکل کے لوگ
اس بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ دنیا کی اقتصادیات کا غلامی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ مگر درحقیقت غلامی اور اقتصادیات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے غلامی کو بالکل روک دیا۔ اسلام سے پہلے بلکہ ظہورِ اسلام کے بعد بھی دنیا کے ایک بڑے حصے میں غلامی کا طریق رائج رہا ہے۔چنانچہ آپ رومن، یونانی، مصری اور ایرانی تاریخ کو پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو اِن میں سے ہر مُلک کی ترقی کی بنیاد غلامی پر رکھی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ غلام دوطرح بنائے جاتے تھے۔ ایک طریق تو یہ تھا کہ ہمسایہ قومیں جن سے جنگ ہوتی تھی ـاُن کے افراد کو جہاں اِکاّ دُکّا نظر آئے پکڑکر لے جاتے اور اُنہیں غلام بنا لیتے۔ چنانچہ رومی لوگ ایرانیوں کو پکڑکر لے جاتے اور ایرانیوں کو موقع ملتا تو وہ رومیوں کو پکڑکر لے جاتے اور سمجھتے کہ اِس طرح ہم نے دوسرے مُلک کو سیاسی لحاظ سے نقصان پہنچایا ہے۔دوسرا طریق یہ تھا کہ لوگ غیر مہذب ہمسایہ اقوام کی عورتیں، ان کے بچے پکڑ کر لے جاتے اور اُنہیں اپنی غلامی میں رکھتے۔ اوّل الذکر جب موقع ملے اور ثانی الذکر طریق بطور دستور اُن میں جاری تھا۔ بلکہ یہ طریق اٹھارویں صدی تک دینا میں رائج رہا ہے۔ چنانچہ مغربی افریقہ سے لاکھوں غلام یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ میں لے جائے گئے جو اَب تک وہاں موجود ہیں اور گواب وہ آزاد ہو چکے ہیں مگر دو تین کروڑ باشندے اب بھی امریکہ میں ایسے موجود ہیں جو مغربی افریقہ سے بطور غلام وہاں پہنچائے گئے تھے۔ متمدن اقوام کی غرض اِس سے یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے مُلک کی دولت کو بڑھائیں۔ چنانچہ ان غلاموں سے کئی قسم کے کام لئے جاتے تھے۔ کہیںاُن کو کارخانوں میں لگا دیا جاتا تھا، کہیں جہازوں کا کام اُن کے سپرد کردیا جاتا تھا اس طرح محنت ومشقت کے سب کام جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتے تھے وہ اُن غلاموں سے لئے جاتے تھے۔ مثلاً سَستی چیزیں پیدا کرنا اور زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا تو اِن غلاموں کو زمینوں کی آب پاشی اور فصلوں کی کاشت اور نگرانی پر مقرر کردیا جاتا۔
اسلام میں جنگی قیدیوں کے علاوہ غلام بنانے کی ممانعت
غرض اِس طریق سے ایک طرف تو بنی نوع انسان کے ایک حصہ کو مساوات سے محروم کیا جاتا تھا۔ قرآن کریم نے اِن دونوں طریقوں کو قطعاً
روک دیا ہے چنانچہ فرماتا ہے۔۱۱؎ فرماتا ہے ہم نے کسی نبی کیلئے نہ پہلے یہ جائز رکھا ہے اور نہ تمہارے لئے جائز ہے کہ بغیر اِس کے کہ کسی حکومت سے باقاعدہ لڑائی ہو اُن کے افراد کو غلام بنا لیا جائے۔ اگر کسی حکومت سے جنگ ہو اور جنگ بھی سیاسی نہیں بلکہ مذہبی تو عین میدا نِ جنگ میں قیدی پکڑے جاسکتے ہیں اور اِس کی ہماری طرف سے اجازت ہے لیکن تمہیں یہ حق نہیں کہ بغیر کسی مذہبی جنگ کے دوسری قوم کے افراد کو قیدی بناؤ۔ یا میدانِ جنگ میں تو نہ پکڑو لیکن بعد میں اُن کو گرفتار کر کے قید ی بنا لو۔ قیدی بنانا صرف اِس صورت میں جائز ہے جب کسی قوم سے باقاعدہ جنگ ہو اور عین میدانِ جنگ میں دشمن قوم کے افراد کو بطور جنگی قیدی گرفتار کر لیاجائے۔ گویا وہ قوم جس کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں ہوا اُس کے افراد کو پکڑنا جائز نہیں ہے۔ اِس طرح وہ قوم جس سے جنگ ہو اُس کے افراد کو بھی میدانِ جنگ کے علاوہ کسی جگہ سے بعد میں پکڑنا جائز نہیں ہے۔ صرف لڑائی کے دوران میں لڑنے والے سپاہیوں کو یا اُن کوجو لڑنے والے سپاہیوں کی مدد کر رہے ہوں پکڑ لیا جائے توجائز ہوگا کیونکہ اگر اُن کو چھوڑ دیا جائے تو وہ بعد میں دوسرے لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں پھر فرماتا ہے اے مسلمانو! کیا تم دوسرے لوگوں کی طرح یہ چاہتے ہو کہ تم غیر اقوام کے افراد کو پکڑ کر اپنی طاقت اور قوت کو بڑھالو اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم دنیا کے پیچھے چلو بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن احکام پر چلائے جو انجام کے لحاظ سے تمہارے لئے بہتر ہوںاور اگلے جہان میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کا مستحق بنانے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور انجام کے خوشگوار ہونے کے لحاظ سے یہی حکم تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم سوائے جنگی قیدیوں کو جنہیں دورانِ جنگ میں گرفتار کیا گیا ہو اور کسی کو قیدی مت بناؤگویا جنگی قیدیوں کے سِوا اسلام میں کسی قسم کے قیدی بنانے جائز نہیں۔ اِس حکم پر شروع اسلام میں اِس سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ یمن کے لوگوں کا ایک وفد آپ کے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ اسلام سے پہلے ہم کو مسیحیوں نے بِلا کسی جنگ کے یونہی زو ر سے غلام بنا لیا تھا ورنہ ہم آزاد قبیلہ تھے ہمیں اِس غلامی سے آزاد کرایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے مگر پھر بھی میں اِس کی تحقیقات کروں گا۔ اگر تمہاری بات درست ثابت ہوئی تو تمہیں فوراً آزاد کرادیاجائیگا۔ لیکن اِس کے برخلاف جیسا کہ بتایا جاچکا ہے یورپ اپنی تجارتوں اور زراعتوں کے فروغ کے لئے اُنیسویں صدی کے شروع تک غلامی کو جاری رکھتا چلا گیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی تاریخ سے ایک غیراسلامی غلامی کا بھی پتہ لگتا ہے مگر پھر بھی غلاموں کے ذریعہ سے مُلکی طور پرتجارتی یا صنعتی ترقی کرنے کاکہیں پتہ نہیں چلتا۔
اسلامی تعلیم کے مطابق جنگی قیدیوں کی رہائی
اب رہے جنگی قیدی۔ سو اُن کے بارے میں اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ ۱۲؎ یعنی جب لڑائی میں تمہارے پاس قیدی آئیں تو تمہارے دلوں میں یہ سوال پیدا
ہوگا کہ اَب ہمیں اِن کے متعلق کیا کرنا چاہئے سو یاد رکھو ہمارا حکم یہ ہے کہ یا تو احسان کر کے انہیں بلا کسی تاوان کے آزاد کر دو یا پھر تاوان لے کر انہیں رہا کر دو۔اِن دو صورتوں کے سِوا کوئی اور صورت تمہارے لئے جائز نہیں۔ بہر حال تمہارا فرض ہے کہ تم اِن دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو۔ یا تو یونہی احسان کر کے اُن کو رہا کردو اور سمجھ لو کہ تمہارے اِس فعل کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تم سے خوش ہوگا اور اگر تم اقتصادی مشکلات کی وجہ سے احسان نہیں کر سکتے تو وہ تاوان جو عام طور پر حکومتیں وصول کیا کرتی ہیں وہ تاوان لے کر قیدیوں کو رہا کر دو۔ لیکن چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ایک شخص فدیہ دینے کی طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہواور حکومت یا اُس کے رشتہ دار بھی اُس کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کریں اور اِس کے ساتھ ہی قیدی کے نگران کی بھی یہ حالت ہو کہ وہ بغیر فدیہ کے اُسے آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اس لئے اسلام نے اس کا یہ علاج بتایا کہ وہ غلام تاوانِ جنگ کی قسطیں مقرر کرکے آزاد ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۳؎ یعنی اگر کوئی ایسا قیدی ہو جسے تم احسان کر کے نہ چھوڑ سکو اور اُس کے رشتہ دار بھی اس کا فدیہ نہ دے سکیںتو اِس صورت میں ہماری یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ آزاد ہونا چاہے تو وہ نگران سے کہہ دے کہ میں خود روپیہ کما کر قسط اور فدیہ ادا کرتا چلا جاؤں گاآپ مجھے آزاد کر دیں۔ اگر وہ قسط اور فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرلے تو اسلامی تعلیم کے ماتحت وہ اُسی وقت آزاد ہو جائے گا۔ پھر فرمایا ہم تمہیں اس کے ساتھ یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تمہیں توفیق ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہواہو تو چونکہ مال خدا کا ہے اور غلام بھی خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ ہے اس لئے تم اپنے مال میں سے ایک حصہ اُسے بطور سرمایہ دے دو تاکہ وہ اُس پر اپنے کاروبار کی بنیاد رکھ کر آسانی سے قسطیں ادا کر سکے۔ اب بتاؤ کیا کوئی بھی صورت ایسی رہ جاتی ہے جس میں کسی کو غلام بنایا جاسکتا ہو۔ اتنے وسیع احکام اور اتنی غیر معمولی رعایتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص غلامی سے آزاد ہونا پسند نہیں کرتا اور اپنی مرضی سے کسی مسلمان کے پاس رہتا ہے تو سوائے اِس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود اپنے گھر کے ظلموں سے بیزار ہے اور جانتا ہے کہ اگر میں آزاد ہو کر اپنے گھر گیا تو مجھے زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑے گی اِس لئے میرے لئے یہی بہتر ہے کہ اِس زندگی کو ترجیح دوں ۔ ورنہ غور کر کے دیکھ لیا جائے کوئی ایک صورت بھی ایسی نہیں رہ جاتی جس میں کسی کو غلام بنایا جا سکتا ہو۔ پہلے تو یہ حکم دیا کہ تم احسان کر کے بغیر کسی تاوان کے ہی اُن کو رہا کر دو۔ پھر یہ کہا کہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو تاوان وصول کر کے آزاد کردواور اگر کوئی شخص ایسا رہ جائے جو خودتاوان ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہواس کی حکومت بھی اُس کے معاملہ میں کوئی دلچسپی نہ لیتی ہو اور اُس کے رشتہ دار بھی لاپرواہ ہوں تو وہ تم کو نوٹس دے کر اپنی تاوان کی قسطیں مقرر کروا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جہاں تک اُس کی کمائی کا تعلق ہے قسط چھوڑ کر سب اُسی کی ہوگی اور وہ عملاً پورے طور پر آزاد ہوگا۔
حضرت عمرؓ کی شہادت ایک غلام کے ہاتھ سے
حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ایک ایسے غلام نے ہی مارا تھا جس نے مکاتبت کی ہوئی تھی۔ وہ غلام جس مسلمان کے پاس رہتا تھا اُن سے ایک دن اُس نے کہا کہ
میری اتنی حیثیت ہے آپ مجھ پر تاوان ڈال دیں مَیں ماہوار اقساط کے ذریعہ آہستہ آہستہ تمام تاوان ادا کردونگا۔ انہوں نے ایک معمولی سی قسط مقرر کر دی اور وہ ادا کرتا رہا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اُس نے شکایت کی کہ میرے مالک نے مجھ پر بھاری قسط مقرر کر رکھی ہے آپ اُسے کم کرادیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کی آمدن کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جتنی آمد کے اندازہ پر قسط مقرر ہوئی تھی اُس سے کئی گُنا زیادہ آمد وہ پیدا کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایاکہ اس قدر آمد کے مقابلہ میں تمہاری قسط بہت معمولی ہے اِسے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اِس فیصلہ سے اُسے سخت غصّہ آیا اور اُس نے سمجھا کہ میں چونکہ ایرانی ہوں اِس لئے میرے خلاف فیصلہ کیا گیاہے اور میرے مالک کا عرب ہونے کی وجہ سے لحاظ کیا گیاہے۔ چنانچہ اِس غصہ میں اُس نے دوسرے ہی دن خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا اور آپ انہی زخموں کے نتیجہ میں شہید ہوگئے۔
غرض اسلام نے یہ حق مقرر کیا ہوا تھا کہ اگر کوئی غلام آزاد ہونا چاہے تو وہ قسط وار تاوان کو ادا کرنا شروع کر دے اور اگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی کام شروع کرنے کے قابل نہ ہو تو اس صورت میں کا حکم تھا یعنی مالک خود مدد کر کے یا حکومتِ مُسلمہ مدد کر کے اُسے آزادی کا معاہدہ کروا دے۔
جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک کی تعلیم
کام کے بارہ میں یہ ہدایت دی کہ جب تک وہ گھر میں رہے اُس سے وہی کام لو
جو وہ کر سکتا ہو۔ اگر کوئی مشکل کام ہو تو اُس کے ساتھ شامل ہو جاؤ اُسے گالی نہ دو۔ اگر وہ مزدوری کرتا ہے تو اُس کی مزدوری اُسے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ اگر کام کرنے والا آزاد ہے اور مالک اُسے مار بیٹھتا ہے تو وہ حق رکھتا ہے کہ عدالت میں جائے اور قصاص کا مطالبہ کر کے اسلامی قضاء سے اُسے سزا دِلوائے۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو میرا نوکر تھا اور مجھے اِس کو پیٹنے کا حق تھا۔اسلام اس قسم کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نوکر کو اجازت دیتا ہے کہ اگر اُسے پیٹا جائے تو قضاء میں اپنے مالک کے خلاف دعویٰ دائرکرے اور اُسے سزا دِلوائے۔ اور اگر وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے تو اگر وہ اُسے ایک تھپڑ بھی ماربیٹھے تو اسلامی حکومت کو حکم ہے کہ وہ اُسے فوراً آزاد کرادے اور نگران سے کہے کہ تم اِس قابل نہیں ہو کہ کسی قیدی کو اپنے پاس رکھ سکو۔ پھر حکم دیا کہ جو کچھ خود کھاؤ وہ اپنے غلاموں کو کھلاؤ، جو خود پہنو وہی اُن کو پہناؤ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے زمانہ میں کئی غلام اپنے گھروں کو واپس جانا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم گھر گئے تو ہمیں دال بھی نصیب نہیں ہوگی مگر یہاں تو ہمیں روزانہ اچھا کھانا کھانے کو ملتا ہے اور پھر مالک کی یہ حالت ہے کہ وہ پہلے ہمیں کھلاتا ہے اور بعد میں آپ کھاتا ہے۔ ایسے مزے ہمیں اپنے گھروں میں کہاں میسر آسکتے ہیں۔چنانچہ جب مسلمان بادشاہ بنے اور حکومت اُن کے ہاتھ میں آئی تو وہ غلاموں کو اپنے گھروں سے نکالتے بھی تھے تو وہ نہیں نکلتے تھے۔ وہ کہتے تھے فدیہ دو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ فدیہ نہ دیتے۔ وہ کہتے تھے اگر فدیہ نہیںدے سکتے تو ہم سے قسطیں مقرر کر لو اور آزاد ہو جاؤ مگر وہ قسطیں بھی مقرر نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر ہم آزاد ہو کر واپس چلے گئے تو پھر وہ مزے ہمیں حاصل نہیں ہوں گے جو اَب حاصل ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کچھ لوگ غلام بھی رہے ہوں تو دنیا کو ایسی غلامی پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
غلامی اور اقتصادیات
یہ غلامی کا مضمون نہیںلیکن دنیا کی لمبی تاریخ میں غلامی اور مُلکوںکے اقتصادی نظام آپس میں ملے چلے آتے ہیں۔
روس میں سائبیریا کی آبادی غلاموں یا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ اِسی طرح امریکہ کی آبادی غلاموںیا سیاسی قیدیوں ہی کی رہینِ منّت تھی۔ وہ اپنے علاقوں کو کبھی خود آباد نہیں کرسکتے تھے۔ لاکھوں لاکھ غلام وہ مغربی افریقہ سے لائے اور وہ امریکہ کے بے آباد علاقوں کو آباد کر گئے۔ آج امریکہ اپنی دولت پر نازاں ہے، اپنی تجارت اور اپنی صنعت پر نازاں ہے مگر امریکہ کی یہ دولت اور امریکہ کی آبادی رہینِ منّت ہے اُن حبشی غلاموں کی جن کو وہ مغربی افریقہ سے پکڑ کر لائے۔ اِسی طرح یونان اور روما کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُن کی آبادی بھی غلاموں کی خدمات کی رہینِ منّت ہے، مصر کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اس کی آبادی غلاموں کی خدمات کی وجہ سے ہوئی۔ فرانس اور سپین کی تاریخ بھی بتاتی ہے کہ اُن کی ترقی اُن خدمات کی رہینِ منت تھی جو آج سے دو تین سَو سال پہلے اُن ممالک میں غلاموں نے سرانجام دیں اور جنہوں نے اُن کی اقتصادی حالت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ پس غلامی اور اقتصادی مسائل چونکہ باہم لازم و ملزوم ہیں اِس لئے مَیں نے بتایا ہے کہ اسلام کا نظام کیسا کامل ہے کہ اُس نے شروع سے ہی غلامی پر تبر رکھ دیا اور کہہ دیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہوگی وہ کبھی شریفانہ اور باعزت ترقی نہیں کہلا سکتی۔
عام اقتصادی نظام
اقتصادی نظام کے متعلق دوقسم کے نظریئے
اَب مَیں عام اقتصادی نظام کو لیتا ہوں لیکن اس مضمون کو بیان
کرنے سے پہلے مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جو حیات مَابَعْدالْمَوْت کے قائل ہیں اقتصادینظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہیںـ۔ درحقیقت دنیا میں دو قسم کی قومیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو مذہبی ہیں اور دوسری وہ ہیں جو لامذہب ہیں۔ جو اقوام لامذہب ہیں وہ تو ہر قسم کے نظام کو جواُن کی عقل میں آجائے تسلیم کر سکتی ہیں لیکن وہ اقوام جو مذہب کو قبول کر تی ہیں وہ اصرار کریں گی کہ دنیا میں ایسا ہی نظام ہونا چاہئے جو مرنے کے بعد کی زندگی پر اثر انداز نہ ہوتا ہو۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ مذاہب جو حیات بَعْدُالْمَوْت کے قائل ہیں لازماً اقتصادی نظام کے بارہ میں انفرادی آزادی کے قیام کے پابند ہوں گے کیونکہ جو لوگ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو زندہ کیا جائے گا وہ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ جولوگ نیک اعمال بجالائیں گے انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا قرب ان کو حاصل ہوگا، خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اُن کے شاملِ حال ہوگی، اُس کی قدوسیّت اور سبوحیت اُنہیں ڈھانپے ہوئے ہوگی، وہ مقربانِ الٰہی میں شامل ہوں گے، ہر قسم کے اعلیٰ روحانی علوم اُن کو حاصل ہوں گے اور دنیا کی سب کمزوریاں دُور ہو کر علم وعرفان کا کمال اُن کو حاصل ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی شخص کہہ دے یہ عقیدہ بالکل غلط ہے، جھوٹ ہے، وہم ہے اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حقیقت نہیںلیکن بہرحال جو شخص یقین رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہمیں ملنے والی ہے وہ لازماً اِس دنیا میں ایسے ہی اعمال بجالائے گا جو اُس کے نزدیک اگلے جہان کی زندگی میں اُس کے کام آنے والے ہوں۔ وہ کبھی اِس مادی دنیا کے فوائد پر اُخروی زندگی کے فوائد کو قربان نہیں کرسکتا کیونکہ اِس دنیا کے فوائد تو پچاس ساٹھ یا سَو سال تک حاصل ہو سکتے ہیں مگر اگلے جہان کی زندگی بعض اقوام کے نزدیک کروڑوں اوراربوں سال تک اوربعض کے نزدیک دائمی ہے۔ یعنی وہ زندگی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ پس اگر یہ دونوں زندگیاں آپس میں تسلسل رکھتی ہیں، اگر یہ دنیا ہماری ایک منزل ہے آخری مقام نہیں ہے تو لازماً ہر شخص جو حیات بعدالموت کاقائل ہے وہ اُخروی زندگی کے لمبے سفر کے فوائد کو ترجیح دے گا اور اِس دنیا کے چھوٹے سفر کے فوائد کو اگر وہ اُس کی اُخروی ترقی کے راستہ میں حائل ہوں قربان کر دے گا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مذاہب جواگلی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اُن کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ دنیا میں جوطوعی نیک کام کئے جاتے ہیں انہی پر اگلی زندگی کے اچھے یا بُرے ہونے کا دارومدار ہے۔ چنانچہ جتنے لوگ اُخروی حیات کے قائل ہیں وہ سب کے سب اِس دنیا کو دارالمزرعہ سمجھتے ہیں۔ جس طرح ایک وقت کھیتی میں بیج بونے کا ہوتا ہے اور دوسرا وقت اُس بیج سے پیدا شدہ فصل کو کاٹنے کا ہوتا ہے اور عقلمند زمینداروہی چیز بوتاہے جس کو وقت پر کاٹنے کی وہ خواہش رکھتا ہے اِسی طرح جو شخص اس زندگی کو اگلے جہان کی زندگی کا ایک تسلسل سمجھتا ہے جو اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ قرار دیتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اِس جہان کے اعمال اگلی زندگی میں میرے کام آئیں گے وہ لازماً اِس جہان کی کھیتی میں وہی جنس بوئے گا جس کے متعلق وہ جانتا ہوگا کہ اگلے جہاںمیں وہ جنس میرے کام آئے گی۔اَب خواہ آپ لوگ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو پاگل کہیں، دیوانہ کہیں، جاہل کہیں بہر حال جو شخص مانتا ہے کہ مرنے کے بعد پھر ایک نئی زندگی بنی نوع انسان کو حاصل ہوگی وہ لازماً اِس دنیا کی زندگی کو تابع کرے گا اگلے جہان کی زندگی کے۔ اور چونکہ اِس دنیا کے ایسے ہی کاموں پر اگلے جہان کی زندگی کا مدار ہے جو اپنی خوشی اور مرضی سے طوعی طور پر کئے جائیں اِس لئے لازماً وہ وہی اقتصادی نظام پسند کرے گا جس میں اقتصادی طور پر ایک وسیع دائرہ میں افراد کو آزادی دی گئی ہو کیونکہ اگر آزادی نہ دی گئی ہو تو جن کاموں کو وہ نیک سمجھتا ہے، جن کاموں کواختیار کرنا وہ اپنی اُخروی حیات کے لئے ضروری قرار دیتا ہے اُن میں اُس کا دائرۂ عمل وسیع نہیں ہوگا اور وہ سمجھے گا کہ دائرۂ عمل کے تنگ ہونے کی وجہ سے میں گھاٹے میں رہوں گا۔ گویا مَا بَعْدَالْمَوْت اعلیٰ زندگی کا دارومدار ہے اِس دنیا کے طوعی نیک کاموں پر، اور طوعی نیک کاموں کا مدار اقتصادی حُریّت پر ہے۔ اگر اقتصادی طور پر افراد کوایک وسیع دائرہ میں آزادی نہ دی جائے تو طوعی نیک کاموں کا سلسلہ اور اخلاقِ فاضلہ کی وُسعت بند اور محدود ہو جاتی ہے اور انسان اپنے آپ کو گھاٹے میں سمجھتا ہے۔پس جو مذہب مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل ہے اور اِس دنیا کو عالَمِ مزرعہ سمجھتا ہے وہ پابند ہے اِس کا کہ سوائے اشد مجبوری کی حالتوں کے انفرادی آزادی کو اقتصادیات میں قائم رکھے۔
اسلام کا ’’اقتصادی نظام‘‘ میں انفرادی آزادی کو ملحوظ رکھنا
اس مسئلہ کو خوب ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اسلام سب سے زیادہ حیات بعدالموت کاقائل ہے اِس لئے اسلام مصر ہے اس بات
پر کہ اقتصادیات میں انفرادی آزادی کو زیادہ سے زیادہ قاـئم رکھا جائے کیونکہ وہ جتنا زیادہ آزاد ہوگا اُسی قدر زیادہ اپنی مرضی سے کام کر کے اگلے جہان کی زندگی کو سُدھار سکے گا۔ اگر زندگی کے ہر پہلو کو مختلف قسم کے جالوں میں جکڑ دیا گیا تو وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا اور جب کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کر سکے گا تو اُسے اَگلے جہان میں کسی ثواب کی بھی امید نہیں ہو سکے گی کیونکہ ثواب ملتا ہے طَوعی نیک کاموں پر۔ اگر ایک شخص جبر کے ماتحت کوئی کام کرتا ہے تو گو وہ کام کیسا ہی اچھا ہو جب اگلے جہان میں اعمال کی جزاء کا وقت آئے گا تو اُسے کہا جائے گا کہ یہ کام تم نے نہیں کیا لینن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیاسٹالن نے کیا ہے، یہ کام تم نے نہیں کیا انگریزوں نے کیاہے۔ غرض جتنے کام انسان جبر کے ماتحت کرتا ہے اُس میں وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔پس ایک سچے مسلمان کو جو اپنے مذہب کی بنیاد کو سمجھتا ہے حریت شخصی کے مٹا دینے کا قائل کرنا نا ممکن ہے۔ اُسی صورت میں وہ اِس امر کو تسلیم کرے گا جب وہ اپنے مذہب کی بنیاد کا ہی انکار کر دے گا۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو مسلمان کہلاتا ہو وہ اسلام کی تعلیم سے بدظن ہو جائے اور وہ اُس تعلیم کا قائل ہی نہ رہے جو اسلام نے اقتصادیا ت کے متعلق دی ہے مگر جو شخص اسلام کی تعلیم پر یقین رکھتا ہو جو اُس کے اقتصادی نظریات کو جزوایمان قرار دیتا ہو وہ کبھی بھی حریت شخصی کو اصولی طور پر مٹا دینے کا قائل نہیں ہو سکتا۔
اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد دو اصولوں پر
اِن حالات میں یہ امر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کوئی منصفانہ اور عادلانہ اقتصادی نظام قائم کرے گا تو اُس کی بنیاد اِن دو اصولوں پر ہوگی۔
(۱) بنی نوع انسان میں منصفانہ تقسیم اموال اور مناسب ذرائع کسب کی تقسیم کا اصول طوعی فردی قربانی پر ہونا چاہئے تاکہ دنیا کی اقتصادی حالت بھی درست ہو اور اس کے ساتھ ہی انسان اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی سامان جمع کرلے۔ اِسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں ثواب اور خداتعالیٰ کی خوشنودی کی نیت سے لقمہ ڈالتا ہے وہ ایسا ہی کام کرتا ہے جیسا کہ صدقہ کرنے والا۔ ۱۴؎
اب دیکھو یہ فعل وہ ہے جس میں انسان کی اپنی خواہش کا دخل ہے۔ وہ اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے، وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور اُس سے محبت کرنے میں لذّت حاصل کرتاہے لیکن اگر وہ اپنی نیت کو بدل ڈالے اور بجائے اپنی محبت کے خدا تعالیٰ کے حکم اور اُس کی رضا اور خوشنودی کو محبت اور پیار کا موجب بنالے تو یہی چیز اُس کے لئے ثواب کا موجب بن جائے گی۔ روٹی اُس کے پیٹ میں اُسی طرح جائے گی جس طرح پہلے جاتی تھی، کپڑا اُس کی بیوی کے تن پر وہی مقصد پورا کرے گا جو مقصد وہ پہلے پورا کرتا تھا مگر اس صورت میں جب وہ خدا کے لئے اُس سے محبت کرے گا، جب وہ خدا کے لئے اُس سے پیار کرے گا نہ صرف وہ اپنی بیوی کو خوش کرے گا، نہ صرف وہ اپنے آپ کو خوش کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی ثواب کا امیدوار ہوگا کیونکہ اُس نے یہ فعل خدا کی رضا کے لئے کیا ہوگا۔
(۲) دوسرا اصل اسلام کا یہ ہے کہ چونکہ اموال اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اُس نے سب مخلوق کیلئے پیدا کئے ہیں اس لئے جو حصہ اوپرکی تدبیر سے پورا نہ کیا جاسکے اُس کیلئے قانونی طور پرتدارک کی صورت پیدا کی جائے۔ یعنی جو حصہ طوعی نظام سے پورا نہ ہو اور اَدھورا رہ جائے اُسے قانونی طور پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور الٰہی نظام کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اِسلامی اقتصاد کا لُبِّ لباب
پس اسلامی اقتصاد نام ہے فردی آزادی اور حکومتی تداخل کے ایک مناسب اختلاط کا۔ یعنی اسلام دنیا
کے سامنے جو اقتصادی نظام پیش کرتا ہے اُس میں ایک حد تک حکومت کی دخل اندازی بھی رکھی گئی ہے اور ایک حد تک افراد کو بھی آزادی دی گئی ہے اِن دونوں کے مناسب اختلاط کا نام اسلامی اقتصاد ہے۔ فردی آزادی اِس لئے رکھی گئی ہے تا کہ افراد آخرت کا سرمایہ اپنے لئے جمع کر لیں اور اُن کے اندر تسابق اور مقابلہ کی روح ترقی کرے۔ اور حکومت کا تداخل اِس لئے رکھا گیا ہے کہ امرا کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اپنے غریب بھائیوں کو اقتصادی طور پر تباہ کر دیں۔ گویا جہاں تک بنی نوع انسان کو تباہی سے محفوظ رکھنے کا سوال ہے حکومت کی دخل اندازی ضروری سمجھی گئی ہے اور جہاں تک تسابق اور اُخروی زندگی کے لئے زاد جمع کرنے کا سوال ہے حُریت شخصی کو قائم رکھا گیا ہے اور فردی آزادی کو کچلنے کی بجائے اس کی پوری پوری حفاظت کی گئی ہے۔ پس اسلامی اقتصادیات میں فردی آزادی کی بھی پوری حفاظت کی گئی ہے تا کہ انسان طَوعی خدمات کے ذریعہ سے آئندہ کی زندگی کے لئے سامان بہم پہنچا سکے اور تسابق کی رُوح ترقی پا کر ذہنی ترقی کے میدان کو ہمیشہ کیلئے وسیع کرتی چلی جائے۔ اور حکومت کا دخل بھی قائم رکھا گیا ہے تا کہ فرد کی کمزوری کی وجہ سے اقتصادیات کی بنیاد ظلم، بے انصافی پر قائم نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کے کسی حصہ کے راستہ میں روک نہ بن جائے۔
اِس مضمون کے سمجھ لینے کے بعد یہ سمجھ لینا آسان ہے کہ اسلام خصوصاً اور دیگر مذاہب عموماً جو بعث بعد الموت کے قائل ہیں اِس مسئلہ پر خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نہیں بلکہ مذہبی، اخلاقی اور اقتصادی تین نقطہائے نگاہ سے نظر کریں گے اور ان تین اصولوں کی مشترک راہنمائی سے اس کا فیصلہ کریں گے۔ اُن سے خالص اقتصادی نقطۂ نگاہ سے نظر ڈالنے کی امید اُن کے مذہب میں تداخل کے برابر ہوگی جسے وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ شخص جو مذہب کو نہیں مانتا وہ تو بے شک صرف اقتصادی نقطۂ نگاہ سے اِس مضمون کو دیکھے گا لیکن وہ شخص جو مذہب کو مانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھے گا کہ کس قسم کا اقتصادی نقطۂ نگاہ اُس کے سامنے پیش کیا گیا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اُس کے سامنے ایک ایسا طریق عمل آ جائے جو اقتصادی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو، اخلاقی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو اور مذہبی قانون کے لحاظ سے بھی درست ہو۔
اِس تمہید کے بعد اَب میں یہ بتاتا ہوں کہ اوپر کے دو اصولوں کے ماتحت اسلام نے ہر فرد کو تجارت اور صنعت و حرفت وغیرہ میں آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس کی آزادی کو ایسی حد بندیوں میں رکھ دیا ہے جو اُس کی جائز بلند پروازی کو روکیں بھی نہیں اور اُس کی انفرادیت کو کچلیں بھی نہیں اور پھر ناجائز آزادی کے خطرات سے بھی اُسے محفوظ کر دیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اقتصادی مقابلے جو دنیا میں ہوتے ہیں اُن میں مختلف قسم کی خرابیوں کے پیدا ہونے اور ظلم و بیداد کا دروازہ کھلنے کی وجہ چند خواہشاتِ نفسانی ہوتی ہیں جو نفسِ انسانی میں پیدا ہوتی ہیں۔ اُن میں سے بعض خواہشات ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ دنیا کی حالت خواہ کتنی ہی خراب ہو، غریب لوگ فاقہ سے مَر رہے ہوں، بیوائیں روٹی کیلئے تڑپ رہی ہوں، یتیم کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوں وہ یہی چاہتا ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو جائے۔ اِس ظلم اور تعدی کے کئی محرکات ہوتے ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو اِس رُوح کے پسِ پردہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔
دولت کمانے کے محرکات
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
۱۵؎ یاد رکھو! دنیا کی زندگی میں جو لوگ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی اِس کوشش اور جدوجہد کے کچھ محرکات ہوتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں۔
(۱) پہلی وجہ تو ہے۔ اُن کے دلوں میں کھیل کود کی خواہش ہوتی ہے اور یہ کھیل کود کی خواہش اُن کے لئے روپیہ کمانے کا محرک بن جاتی ہے۔میں جوئے بازی، سٹہ بازی اور گھوڑ دَوڑوغیرہ سب شامل ہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ میرے پاس روپیہ ہو اور مَیں جؤا کھیلوں، روپیہ ہو اور میں سٹہ بازی کروں، روپیہ ہو اور مَیں گھوڑ دَوڑ میں حصہ لیا کروں۔ یہ کھیل کود کی خواہش اُس کے دل میں پیدا ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح روپیہ جمع کر کے اپنی اس خواہش کو پورا کرے۔
(۲) دوسری وجہ کی بتاتا ہے۔ لوگ اگر روپیہ کماتے ہیں تو اس کی ایک وجہ بھی ہوتی ہے۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس اتنی دولت ہو کہ انہیں کوئی کام نہ کرنا پڑے سارا دن سُست اور بیکار بیٹھے رہیں یا تاش، گنجفہ ۱۶؎ اور شراب وغیرہ میں اپنا وقت گزار دیں۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جو لوگوں کے لئے مال جمع کرنے کا محرک بن جاتی ہے۔
(۳) تیسری وجہ جلبِ زر کی خواہش کی بتائی گئی ہے۔ یعنی انسان چاہتا ہے میرے کپڑے عمدہ ہوں، لباس عمدہ ہو، سواریاں عمدہ ہوں اورعمدہ عمدہ کھانے مجھے حاصل ہوں۔
(۴) چوتھا محرک روپیہ کمانے کا بتایا گیا ہے۔ یعنی بعض لوگ اِس بات کے لئے بھی روپیہ جمع کرتے ہیں کہ لوگوں میں اُن کی عزت بڑھے، وہ بڑے مالدار مشہور ہوں اور لوگوں سے کہہ سکیں کہ تم جانتے نہیں ہم کتنے امیر ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے یہ مرض اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ہمارے مُلک میں تو بعض لوگ غلامی کے اقرار میں بھی اپنی بڑائی سمجھتے ہیں۔ وہ باتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ نہیں جانتے میں کون ہوں۔ میں انگریزی حکومت کا اتنا ٹیکس ادا کرنے والا ہوں۔ گویا بجائے اُن کے دل میں یہ احساس پیدا ہونے کے کہ مَیں دوسری قوم کا ماتحت ہوں اور اُس کو ٹیکس ادا کرتا ہوں وہ اُسے فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ مَیں اتنا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتا ہوں بلکہ مَیں نے تو اِس سے بھی زیادہ دیکھا ہے کہ بعض ہندوستانی اِس پر بھی فخر کرتے ہیں کہ ’’مَیںبڑے صاحب کا اَردلی ہوں‘‘۔ پس فرماتا ہے روپیہ کمانے کا ایک محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ہم دوسروں پر فخر کر سکیں، اُن پر رُعب ڈال سکیں اور اُنہیں کہہ سکیں کہ ہم اتنے مالدار ہیں۔ تمہارا فرض ہے کہ ہماری باتیں مانو۔
(۵) پانچواں محرک مال زیادہ کمانے کا ہوتا ہے۔ یعنی محض روپیہ جمع کرنے کی خواہش بھی بعض لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس دوسروں سے زیادہ روپیہ جمع ہوتا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہمسایہ کے پاس اگر دس لاکھ روپیہ ہے تو ہمارے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو۔ یا اُس کے پاس اگر ایک کروڑ روپیہ ہو تو ہمارے خزانہ میں دو کروڑ روپیہ ہو۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے یہی امور دولت کمانے کے محرک ہوتے ہیں جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔
اسلام میں ناجائز اغراض کیلئے دولت کمانے کی ممانعت
ان محرکات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔
ہم ان تمام امور کو اُس بادل کی طرح قرار دیتے ہیں جو آسمان پر چھا جاتا ہے اور زمیندار سمجھتا ہے کہ اب اِس بادل کے برسنے سے میری کھیتی ہری بھری ہو جائے گی۔ مگر جب وہ بادل برستا ہے تو ایسے رنگ میں برستا ہے کہ بجائے اِس کے کہ وہ کھیتی ہری بھری ہو، بجائے اِس کے کہ غلّہ زیادہ پیدا ہو، بجائے اِس کے کہ زمیندار کو نفع ہو وہ کھیتی سُوکھ جاتی ہے اُس کا دانہ سڑ جاتا ہے اور آخر ردّی ہو کر وہ کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے۔ مثلاً زیادہ بارش ہو جاتی ہے اور کھیتی برباد ہو جاتی ہے یا ضرورت سے کم بارش برستی ہے اور اس صورت میں بھی کھیتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور علاوہ اِس کے کہ اِن امور کا نتیجہ اِس دنیا میں خراب نکلتا ہے مرنے کے بعد بھی ایسے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ اِن محرکات کو دباتے ہیں اور اِن کا شکار نہیں ہوتے اُن کو اللہ تعالیٰ اپنی بخشش سے ڈھانپ لیتا ہے اور اپنی رضاء اور خوشنودی سے مسرور کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ اور اِس دنیا کی زندگی تو بالکل دھوکے کی زندگی ہے۔ جب ہمارے پاس مغفرت اور رضوان بھی ہے اور ہمارے پاس عذاب بھی ہے تو اے انسان! تو دنیا کی لغو خواہشات کی وجہ سے ہماری مغفرت اور ہماری رضوان کو کیوں نظر انداز کر رہا ہے اور کیوں اعلیٰ درجہ کی چیزوں کو چھوڑ کر ذلیل اور ادنیٰ چیزوں کی طرف دَوڑ رہا ہے۔ اس آیت میں قرآن کریم نے اُن محرکات و موجبات کو ذلیل اور حقیر اور مضر بتایا ہے جو دنیا کمانے کی طرف انسان کو متوجہ کرتے ہیں اور فرماتا ہے کہ یہ سب امور جو ناجائز دنیا کمانے کا موجب ہوتے ہیں نتیجہ کے لحاظ سے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ عمدہ کھیتی سُوکھ کر راکھ ہو جائے۔ یعنی جس طرح وہ کام نہیں آتی اِسی طرح ایسی دولت بھی انسان کو کوئی حقیقی نفع نہیں بخشتی اس لئے تم اِن اغراض کے ماتحت دولت مت کمائو کہ یہ خدا تعالیٰ کا غضب بھڑکانے کا موجب ہیں۔ جب اُس کے پاس فضل بھی ہے تو تم کیوں فضل کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور کیوں اِن حقیر اور ذلیل خواہشات کے پیچھے چلتے ہو۔
اَب ظاہر ہے کہ جو شخص اسلام پر عمل کرے وہ کبھی اوپر کے محرکات سے متاثر ہو کر دولت نہیں کما سکتا اور اگر اِس حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ کچھ کمائے گا بھی تو وہ نیک کاموں میں خرچ ہو جائے گا۔ اور اس طرح غربت و امارت کی خلیج وسیع نہ ہوگی بلکہ پاٹی جائے گی کیونکہ اِن اغراض کے روک دینے کے بعد کوئی ایسا محرک باقی نہیں رہتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنے نفس کیلئے اموال کما سکے کیونکہ مال کمانے کی تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) اپنی ضرورت کے مطابق ۔
(۲) اپنی ضرورت سے زیادہ لیکن اس لئے کہ اُس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا سکے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔
(۳) مال اوپر کے بُرے محرکات کی وجہ سے کمائے۔ یعنی کھیل تماشے کیلئے،عیاشی کیلئے، فخر اور عزت کے لئے، حرصِ مال کی وجہ سے۔
ظاہر ہے کہ آخر الذکر صورتوں میں ہی انسان ناجائز طور پر مال کمائے گا اور دوسرے انسانوں کے لئے نقصان کا موجب ہوگا۔ اوّل الذکر دونوں صورتوں میں یہ بات پیدا نہ ہوگی۔ جو شخص ضرورت کے مطابق کمائے گا وہ بھی دوسروں کے لئے نقصان کا موجب نہ ہوگا اور جو ضرورت سے زائد کمالے گا لیکن اُس مال کے کمانے کا محرک صرف خیر و نیکی میں مسابقت کی روح ہوگی اُس کا مال بھی دوسرے انسانوں کے فائدہ کے لئے خرچ ہوگا اور اس سے افرادِ مُلک یا قوم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔
اسلام میں دولت کے غلط استعمال کی ممانعت
اَب میں اس بارہ میں اسلامی احکام ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط خرچ کو روکا ہے۔
اوّل سچے مسلمان کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے ۱۷؎ یعنی مسلمان وہی ہیں جو لغو کاموں سے بچیں۔ یعنی ایسے کاموں سے جن کا کوئی عقلی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔مثال کے طور پر شطرنج ہے، تاش ہے یااور اِسی قسم کی کئی کھیلیں ہیںجن سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ اسلام ہر مومن کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے لغو کاموں سے بچے اور شطرنج یا تاش یا اس قسم کی دوسری کھیلوں میں حصہ لے کر اپنے وقت کو ضائع نہ کرے یا مثلاً مجالس میں بیٹھ کر گپیّں ہانکنا ہے یہ بھی لغو ہے ۔ یامثلاً بے کار زندگی بسر کرنا ہے یہ بھی لغو ہے۔ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ سارا دن بے کار بیٹھے دوستوں کی مجلس میں گپیں ہانکتے رہتے ہیں اور اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے اوقات کا کس بے دردی کے ساتھ خون کر رہے ہیں۔ ایک شخص کا باپ مر جاتا ہے اور وہ اپنے پیچھے بہت بڑی جائداد چھوڑ جاتا ہے۔ اب لڑکے کا کام یہی رہ جاتا ہے کہ وہ سارا دن اپنے دوستوں کی مجلس میں بیٹھا رہتا ہے۔ ایک آتا ہے اور کہتا ہے نواب صاحب! آپ ایسے ہیں ـ یا لالہ صاحب! آپ ایسے ہیں۔ یا پنڈت صاحب! آپ ایسے ہیں یا شاہ صاحب آپ ایسے ہیں۔ پھر دوسرا تعریف شروع کر دیتا ہے۔ وہ خاموش ہوتا ہے تو تیسرا اُس کی تعریف شروع کر دیتا ہے۔ اِس طرح سارا دن یہی شغل جاری رہتا ہے کہ دوست آتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں اور اُس کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں یا اُسے بدراہ پر چلانے کے لئے عورتوں یا جوئے یا شراب یا اِسراف کے دوسرے طریقوں کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اِس پر وہ بھی اُن کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے۔ اگر تھوڑی توفیق ہوئی تو پان الائچی سے تواضع کر دیتا ہے اور اگر زیادہ توفیق ہوئی تو صبح شام اُن کو کھانا اپنے دستر خوان پر کھلاتا ہے۔ مگر اس لئے نہیں کہ وہ غریب ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ بھوکے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ ہمدردی کے قابل ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اُس کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں اور مجلس میں خوشی کے ساتھ دن گزر جاتا ہے۔ اسلام اس قسم کے کاموں کی قطعاً اجازت نہیںدیتا۔ وہ فرماتا ہے مسلمان ہمیشہ لغو کاموں سے بچتے اور احتراز کرتے ہیں وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتے اور کوئی ایسا کام اُن کو نہیں کرنا چاہئے جن کا کوئی عقلی فائدہ نہ ہو اور جس سے زندگی بے کار ہو جاتی ہو۔وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی کمائی کھاتا ہے اور خود کوئی کام نہیں کرتا آخر اُسے سوچنا چاہئے کہ اُس کے اِس فعل کا اُسے کیا فائدہ ہو سکتا ہے یا اس کی قوم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے ۔ یہ چیز تو ایسی ہے جس کا اس کی ذات کو بھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اُس کی قوم کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتااور دنیا کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا یہ زندگی کو محض بے کاری اور عیاشی میں ضائع کرتا ہے اور اسلام اِس قسم کی بے کار زندگی کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایک شخص کو اپنے باپ کے مرنے کے بعد دس کروڑ روپیہ بھی جائدادمیں ملتا ہے تو قرآن کریم کا حکم یہی ہے کہ وہ اتنی بڑی جائداد کا مالک ہونے کے باوجود اپنے وقت کوضائع نہ کرے بلکہ اُسے قوم اور مذہب کے فائدہ کے لئے خرچ کرے۔ اگر اُسے اس قسم کی خدمات کی ضرورت نہیں جن کے نتیجہ میں اُسے روٹی میسر آئے تو وہ ایسی خدمات سر انجام دے سکتا ہے جو آنریری رنگ رکھتی ہوں۔ اِس طرح وہ بغیر معاوضہ لئے اپنے مُلک یا اپنی قوم یا اپنے مذہب کی خدمت کرکے اپنے وقت کو بھی ضائع ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور اپنے اوقات کا بھی صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو نافع الناس وجود بنا سکتا ہے۔ اِسی طرح اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم وہ کھیلیں مت کھیلو جو وقت کو ضائع کرنے والی اور زندگی کو بے کار کھونے والی ہوں۔ اِسی حکم کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ مرد زیور نہ پہنیں، وہ ریشم استعمال نہ کریں۱۸؎ اِسی طرح سونے چاندی کے برتن استعمال کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ۱۹؎ عورتوں کے لئے زیور حرام نہیں مگر اُن کے لئے بھی عام حالات میں رسول کریمﷺ نے زیورات کو ناپسند فرمایا ہے۔ گو اس وجہ سے کہ وہ مقامِ زینت ہیں زیورات کا استعمال اُن کے لئے پوری طرح منع نہیں کیا۔ مگر اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ زیورات پر اِس قدر روپیہ خرچ کیا جائے کہ مُلک کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچ جائے یا اُنہیں اِس قدر زیورات بنواکر دیئے جائیں کہ اُن میں تفاخر کی روح پیدا ہو جائے یا اِس کے نتیجہ میں لالچ اور حرص کامادہ اُن میں بڑھ جائے۔ اُن کے لئے زیورات کی اجازت ہے مگر ایک حد کے اندر۔ لیکن مردوں کے لئے زیورات کا استعمال قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح وہ برتن جو سونے چاندی کے ہوںاُن کا استعمال رسول کریمﷺنے ممنوع قرار دیا ہے۔
اِس ضمن میں وہ اشیاء بھی آجاتی ہیں جو عام طور پرمحض زینت یا تفاخر کے لئے امراء اپنے مکانوں میں رکھتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے مکان کی زینت کے لئے ایسی ایسی چیزیں خرید لیتے ہیںجن کا کوئی بھی فائد ہ نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض لوگ چینی کے پُرانے برتن خریدکر اپنے مکانوں میں رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک بڑی قیمتی چیز خریدی ہے۔ یورپین لوگوں میں خصوصیت کیساتھ یہ نقص ہے کہ وہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپیہ تک کے اِس قسم کے برتن خرید لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ وہ برتن ہیں جو آج سے اتنے ہزار سال پہلے کے ہیں۔ یا پُرانے قالین بڑی بڑی قیمت پر خرید کر اپنے مکانوں میں لٹکا لیتے ہیں ۔ حالانکہ ویسے ہی قالین پچاس ساٹھ روپیہ میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن محض اِس لئے کہ وہ لوگوں کو یہ بتاسکیں کہ یہ قالین فلاں بادشاہ کا ہے یا فلاں زمانہ کا ہے وہ بہت کچھ روپیہ اُس کے خریدنے پر برباد کر دیتے ہیں۔اسلام کے نزدیک یہ سب لغو چیزیں ہیںاَور اِن میں کوئی حقیقی فائدہ نہیں صرف دولت کے اظہار کے لئے لوگ اِن چیزوں کو خریدتے اور اپنے روپیہ کو برباد کرتے ہیں۔رسول کریمﷺ نے اِن باتوں کو عملاً ناجائز قرار دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ ان لغو کاموں میں اپنے وقت کوضائع کرے اور اس قسم کی بے کار چیزوں پر اپنے روپیہ کو برباد کرے آجکل کے لحاظ سے سینما اور تھیٹروغیرہ بھی اس حکم کے نیچے آجائیں گے۔ کیونکہ سینمااور تھیٹروں وغیرہ پر بھی مُلک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ضائع چلا جاتا ہے۔ مَیں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ کروڑوں کروڑ روپیہ سینما پر ہرسال خرچ ہوتا ہے۔ لاہورہی میں کوئی پچیس کے قریب سینما سُناجاتا ہے اوراوسط آمد ہر سینما کی ہفتہ وار دو تین ہزار بتائی جاتی ہے اگر اڑھائی ہزار اوسط آمد شمار کی جائے تو ماہوار آمد دس ہزار ہوئی۔ اور سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار۔ بیس سینما بھی اگرشمار کئے جائیں تو صرف لاہور کاسالانہ سینما کا خرچ چوبیس لاکھ کا ہوا۔ اگر ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبات کو سینما کے لحاظ سے لاہور کے برابر سمجھا جائے گویقینا اِس سے زیادہ نسبت ہوگی تو بھی ایک ہزار سینما سارے ہندوستان میں بن جاتا ہے اور بارہ کروڑ کے قریب سالانہ خرچ سینما کا ہوجاتا ہے اور اگر سینما کے لوازمات کو بھی شامل کیا جاوے کہ ایسے لوگ بالعموم شراب خوری اور ایک دوسرے کی عیاشانہ دعوتوںمیںبھی روپیہ خرچ کرتے ہیںتو پچیس تیس کروڑ روپیہ سے زائد خرچ سینما اور اس کے لوازمات پر اُٹھ جاتا ہے اور یہ رقم حکومتِ ہند کی آمد کا۴؍۱حصہ ہے۔ گویا صرف سینما پر اِس قدر خرچ اُٹھتا ہے کہ جو سارے مُلک پر سال میں ہونے والے خرچ کا ایک چوتھائی ہے۔ حالانکہ اِس کا کوئی بھی فائدہ نہ مُلک کو ہوتا ہے نہ قوم کو ہوتا ہے اور نہ خود سینما دیکھنے والوں کو ہوتا ہے۔
قرآن کریم اس قسم کے تمام راستوں کو بند کرتا ہے اور فرماتا ہے مومن وہی ہیں جو اس قسم کے لغو کاموں سے احتراز کریں اوراپنی کمائی کا ایک پیسہ بھی اِن پر ضائع نہ کریں۔ یورپ کی آزاد حکومتیں جو اپنی اقتصادی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتی رہتی ہیں اُن کی تو یہ حالت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سینما اور تھیٹربناتی ہیں۔ جتنے سنیما گھرآج انگلستان میں ہیں جنگ کے بعد یقینا اِن میں زیادتی کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ سینما کم ہیں سینکڑوں اَور سینما گھر بنائے جائیں۔ تاکہ وہ لوگ جو سینماؤںکی کمی کی وجہ سے اس تعیش سے محروم ہیں وہ بھی اس میں حصہ لے سکیں اور اُن کی دولت اور اُن کا وقت بھی اِس پر صرف ہو۔ لیکن اسلام قطعی طور پر ان تمام چیزوں کو جو بنی نوع انسان کے لئے مفید نہیں بند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر اسلام کے اِن احکام پرپوری طرح عمل کیاجائے تو امراء کی ظاہری حالت بھی ایک حد تک مساوات کی طرف لوٹ آئے کیونکہ ناجائز کمائی کا ایک بڑا محرک ناجائز اور بے فائدہ اخراجات ہی ہوتے ہیں۔
اِسلام میں اسراف کی ممانعت
دوسرے اسلام نے اسراف سے منع کیا ہے جس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ گوخرچ کا محل توجائز ہو
مگر خرچ ضرورت سے زیادہ ہو۔ مثلاً اونچی اونچی عمارات بنانا یا زینت اور تفاخر کے طور پر باغ اور چمن تیار کرانا۔ ایک باغ ایسے ہوتے ہیں جو پھلوں کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ایسے باغ بنانا اسلام کے روسے منع نہیں ہیں لیکن بعض باغ اِس قسم کے ہوتے ہیں جن کی غرض محض نمائش یا عیاشی ہوتی ہے۔ جیسے پُرانے زمانہ میں بعض بادشاہ بڑے بڑے باغ تیار کرایا کرتے تھے جن سے اُن کی غرض محض یہ ہوا کرتی تھی کہ وہاں ناچ گانا ہو اور وہ اِس سے لطف اندوز ہوں۔ اِس طرح محض اپنے نفس کے اہتزاز ۲۰؎کے لئے وہ اتنا روپیہ خرچ کر دیتے تھے جو اسراف میں داخل ہو جاتا تھا۔ لیکن اِس قسم کے باغ بنانے جیسے میونسپل کمیٹیاں تیار کروایا کرتی ہیں اور جن سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ وہاں جائیں، سیر کریں اور صحت میں ترقی کریں اسلام کی رو سے منع نہیں ہیں۔ اسلام کے نزدیک اگر ایک میونسپل کمیٹی دس لاکھ روپیہ بھی اس قسم کے باغ تیار کرنے پر صرف کردے جس سے چار پانچ لاکھ آدمی فائدہ اُٹھا سکتے ہوںتو وہ بالکل جائز کام کرے گی۔ مثلاً لاہور کی آبادی ۹ لاکھ ہے اگر لاہور کی میونسپل کمیٹی متعدد پارک بنانے پرلاکھوں لاکھ روپیہ خرچ کردے توچونکہ نو لاکھ کی آبادی یا اس آبادی کی اکثریت اس سے فائدہ اُٹھائے گی اِس لئے روپیہ کا یہ مصرف بالکل جائز سمجھا جائے گا بلکہ اگر ایک لاکھ آدمی بھی اِس سے فائدہ اُٹھائیں گے تو یہ سمجھا جائے گاکہ میونسپل کمیٹی نے ایک آدمی کی صحت کے لئے چار یا پانچ روپے صرف کئے اور یہ بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر ایک بادشاہ اپنے لئے یا اپنے بیوی بچوں کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے ایک باغ تیار کراتا ہے اوراُس میں دوسروں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تو اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ اُس نے ایک ایک نفس پر لاکھ لاکھ یا دو دو لاکھ روپیہ خرچ کر دیا حالانکہ اگر وہی ایک لاکھ یا دو لاکھ یا تین لاکھ یا چار لاکھ روپیہ عام لوگوں کے لئے خرچ کیا جاتا تو لاکھوں لوگ اس سے فائدہ اُٹھاتے اور اُن کی صحت پہلے سے بہت زیادہ ترقی کرجاتی۔ پس اسلام جائز ضروریات پر روپیہ صرف کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اِس امر سے روکتا ہے کہ روپیہ کو صحیح طور پراستعمال نہ کیا جائے اور بنی نوع انسان کے حقوق کو تلف کرکے ناجائز فائدہ اُٹھایا جاوے۔ اگر ایک دفتر بنانے کا سوال ہو اور ہزاروں لوگوں کے لئے کمروں کی ضرورت ہو تو خواہ بیس منزلہ مکان بنالیا جائے اور اُس میں سینکڑوں کمرے ہوں اسلام کی رو سے بالکل جائز ہو گا لیکن وہ لوگ جو بلاوجہ اپنی ضرورت سے زائدکمرے بنوالیتے ہیں محض اس لئے کہ لوگ اُن کو دیکھیں اور تعریف کریں قرآن کریم کے رو سے وہ ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسلام اُسے اِسراف قرار دیتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو پکڑے گا اور اُس سے جواب طلب کرے گا کہ اُس نے کیوں وہ روپیہ جو بنی نوع انسان کی خدمت یا اُن کی ترقی کے سامانوں پر صرف ہو سکتا تھا اِ س رنگ میں ضائع کیا اور مُلک اور قوم کی اقتصادی حالت کو نقصان پہنچایا۔دُور کیوں جائیں تاج محلؔ ہمارے گھر کی مثال ہے مجھے خود وہ بہت پسند ہے اور مَیں اُسے دیکھنے بھی جایا کرتا ہوں لیکن اسلامی اقتصاد کے لحاظ سے تاج محل کی تعمیر پر ناجائز طور پر روپیہ صرف کیا گیا ہے۔ تاج محل آخر کیا ہے؟ ایک بہت بڑی شاندار عمارت ہے جو محض ایک عورت کی قبر پر زینت کے لئے بنائی گئی اور اُس پر کروڑوں روپیہ صرف کیا گیا۔ اگر وہی روپیہ صدقہ وخیرات پر صرف کیا جاتا یا غرباء کے لئے کوئی ایسا ادارہ قائم کر دیا جاتا جس سے لاکھوں مساکین، لاکھوں یتیم، اور لاکھوں بے کس ایک مدت درازتک فائدہ اُٹھاتے چلے جاتے اور وہ اپنے کھانے اور اپنے پینے اور اپنے پہننے اور اپنے رہنے کے تمام سامانوں کو حاصل کر لیتے تویہ زیادہ بہتر ہوتا۔ بے شک جہاں تک عمارت کا سوال ہے، جہاں تک انجنیئرنگ کا سوال ہے تاج محل کی ہم تعریف کرتے ہیںاور اُسے دیکھنے کے لئے بھی جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقیقت کا سوال ہے ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ اس قسم کی عمارتیں جو بعض افراد محض اپنے نام ونمود کے لئے یا نمائش کے لئے دنیا میں تیار کرتے ہیں اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہیں۔ لیکن وہ عمارتیں جو قوم کے لئے یا پبلک کے مفاد کے لئے یا ایسی ہی اور ضروریات کے لئے تیار کی جاتی ہیںوہ خواہ کتنی ہی بلند ہوں جائز کہلائیں گی۔ غرض بِلا ضرورت اونچی عمارات بنانا، زینت اور تفاخر کے طور پر باغات تیار کروانا، کھانا زیادہ مقدار میں کھانا یا بہت سے کھانے کھانا، لباس وغیرہ پر غیرضروری رقوم خرچ کرنا، گھوڑے اور موٹریں ضرورت سے زیادہ رکھنا، فرنیچر وغیرہ ضرورت سے زیادہ بنوانا، عورتوں کا لیس اور فیتوں وغیرہ پر زیادہ رقوم خرچ کرنا اِن سب امور سے قرآن کریم اور احادیث میں منع کیا گیا ہے اور اس طرح مال کمانے کی ضرورتوں کو محدود کر دیا گیاہے۔
سیاسی اقتدار کیلئے روپیہ خرچ کرنا
اِسی طرح مال اور دولت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار دینے سے بھی
اسلام نے منع فرمادیا ہے۔ مَیں اِس بارہ میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کا یہ صریح حکم ہے کہ ۲۱؎کہ تم حکومتیں انہیں لوگوں کے سپرد کیا کرو جو حکومت کے کام کے اہل ہوں محض کسی کے مال یا أُس کی دولت کی وجہ سے اُس کو سیاسی اقتدار دے دینا اسلامی تعلیم کے ماتحت جائزنہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال اور دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ اہلیت اور قابلیت کی بناء پر لوگوں کے سپرد حکومتی کام کیا کرو۔ پس جو لوگ مال و دولت اِس لئے جمع کرتے ہیںکہ اِس کی وجہ سے ہمیں حکومت میں حصہ مل جائے گا یا بڑے بڑے عہدے ہمیں حاصل ہو جائیں گے اسلام اُن کے اِس نفع کو بھی ناجائز قرار دیتا ہے اور اُمّتِ مُسلمہ کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ حکّام کے انتخاب کے وقت اہلیّت کو مدِنظر رکھا کریں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ دولت وثروت کی وجہ سے کسی کو سیاسی اقتدار سونپ دیا جائے۔
روپیہ جمع کرنے کی حرص
پھر بعض لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو بہت سا روپیہ اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں۔اِسلام نے اپنے متبعین
کو روپیہ جمع کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ ۲۲؎ فرماتا ہے وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُس کو خرچ نہیں کرتے ہم اُن کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دیتے ہیں۔ جب سونا اورچاندی جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اُنہیں گَلا کر اُن کے ہاتھوں اور اُن کے پہلوؤں اور اُن کی پیٹھوں پر داغ دیا جائے گااور کہا جائے گا کہ یہ وہ خزانے ہیں جو تم نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کی ترقی کے لئے روک رکھے تھے اور خدا تعالیٰ کے بندوں کو تم نے اُن سے محروم کر دیا تھا۔ پس چونکہ لوگوں نے اس سونے اور چاندی سے فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ تم نے اُسے صرف اپنے لئے جمع کر رکھا تھا اس لئے آج ہم یہ سونا اور چاندی تمہاری طرف ہی واپس لوٹاتے ہیں۔ مگر اُس جہان میں چونکہ سونا اور چاندی کسی کام نہیں آسکتے اس لئے ہم اس رنگ میں یہ سونا اور چاندی تمہیں دیتے ہیں کہ ان کو پگھلا پگھلا کر تمہارے ہاتھوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغ دینگے تا کہ تمہیں معلوم ہو کہ سونے اور چاندی کو روک رکھنا اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اُسے صرف نہ کرنا کتنا بڑا گناہ تھا۔ گویہ مثال جو میں نے دی ہے اِس میں روپیہ کے غلط خرچ کا ذکر نہیں بلکہ روپیہ جمع کرنے کا ذکر ہے لیکن درحقیقت یہ بھی غلط خرچ کے مشابہہ ہے کیونکہ غلط خرچ کا نقصان بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور روپیہ کو جمع کر رکھنے اور کام پر نہ لگانے سے بھی اس قسم کا نقصان ہوتا ہے۔ پس نتیجہ کے لحاظ سے یہ روپیہ کا جمع کرنا اور اُسے نامناسب مواقع پر خرچ کرنا ایک سا ہی ہے۔غرض جتنے محرکات دولت کے حد سے زیادہ کمانے یا اُس کو اپنے پاس جمع رکھنے کے دنیا میں پائے جاتے ہیں اسلام نے اُن سب کو ردّ کر دیا ہے۔ اور درحقیقت بعض محرکات وموجبات ہی دولت کے زیادہ کمانے یا اُسے لوگوں کے لئے خرچ نہ کرنے کے ہوا کرتے ہیں۔ جب ان تمام محرکات کو ناجائز قرار دے دیا جائے تو کوئی شخص اتنی دولت جمع نہیں کر سکتا جو بنی نوع انسان کی ترقی میںروک بن جائے۔مثلاً لوگ گھوڑ دَوڑ کے لئے اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے رکھتے ہیںاور ان پر لاکھوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں۔یا جوئے بازی پر ہزاروں روپیہ برباد کردیتے ہیں لیکن اس تعلیم کے ماتحت جو اسلام نے بیان کی ہے ایک مسلمان ریس(RACE)کے لئے گھوڑے نہیں رکھ سکتا- وہ سواری کے لئے تو گھوڑا رکھے گا مگریہ نہیں کر سکتا کہ ریس(RACE) میں حصہ لینے کے لئے لاکھوں روپیہ گھوڑوں کی خرید پر خرچ کرتا چلا جائے۔ جب اِس قسم کے تما م محرکات جاتے رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ روپیہ کے زیادہ کمانے کی خواہش اس کے دل میں باقی نہ رہے گی۔ روپیہ کی زیادہ خواہش اِسی لئے پیدا ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے فلاں کے پاس ایک لاکھ روپیہ جمع ہے میرے پاس بھی اتنا روپیہ جمع ہونا چاہئے۔ یا فلاں نے ریس کے لئے بڑے اچھے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں مَیں بھی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے خرید کر رکھوں۔یا محض مال کی محبت ہو اور انسان روپیہ کومحض روپیہ کے لئے جمع کرے مگر جب اِس قسم کی تمام خواہشات سے اسلام نے منع کر دیا تو وہ ناواجب حد تک روپیہ کمانے کی فکر ہی نہیں کرے گا۔
کمزور طبائع کا علاج
مگر اِس تعلیم کے باوجود پھر بھی کمزور طبائع ناجائز حد تک روپیہ کما سکتی تھیں اور صرف وعظ اِس غرض کو پورا
نہیں کر سکتا تھا۔ آخر مَیں نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ صرف ایک وعظ ہے جس سے انسان فائدہ اُٹھاسکتا ہے لیکن دنیا میں ایسے کمزور طبع لوگ پائے جاتے ہیں جو وعظ سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ پس چونکہ دنیا میں ایک عنصر ایسے کمزورلوگوں کا بھی تھا جنہوں نے اِس وعظ سے پورا فائدہ نہیں اُٹھاناتھا اس لئے شریعت اسلامی نے بعض ایسے آئین تجویز کر دیئے ہیں جن پر عمل کرانا حکومت کے ذمہ ہے اور جن سے دولت ناجائز حد تک کمائی نہیں جاسکتی ـ۔ وہ آئین جو اسلام نے مقرر کئے ہیں یہ ہیں۔
اسلام میںناجائز طور پر روپیہ کے حصول کا سِدّباب
سُود کی مناعی
اوّل اسلام نے سُود پر روپیہ لینے اور دینے سے منع کر دیا ہے اور اس طرح تجارت کو محددو کر دیا۔ تعجب کی بات ہے کہ عام طور پر ہمارا تعلیم
یافتہ طبقہ ایک طرف تو کمیونزم کے اصول کا دِلدادہ ہے دوسری طرف سُود کی بھی تائید کرتا نظر آتا ہے حالانکہ دنیا کی اقتصادی تباہی کا سب سے بڑا موجب یہی سُود ہے۔ سُود کے ذریعہ ایک ہوشیاراور عقلمند تاجر کروڑوں روپیہ لے لیتا ہے اور پھر اس روپیہ کے ذریعہ دنیا کی تجارت پر قبضہ کر لیتا ہے۔ بڑے بڑے کارخانے قائم کرلیتا ہے اور ہزاروں ہزار لوگوں کو ہمیشہ کی غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اگر دنیا کے مالداروں کی فہرست بنائی جائے تو اکثر مالداروہی نکلیں گے جنہوں نے سُود کے ذریعہ ترقی کی ہوگی۔ پہلے وہ دوچار ہزار روپیہ کے سرمایہ سے کام شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ وہ اتنی ساکھ پیدا کرلیتے ہیں کہ بڑے بڑے بنکوں سے لاکھوں روپیہ قرض یا اوور ڈرافٹ (OVER DRAFT)کے طور پر نکلوالیتے ہیں اور چند سالوں میں ہی لاکھوں سے کروڑوں روپیہ پیدا کرلیتے ہیں۔ یا ایک شخص معمولی سرمایہ اپنے پاس رکھتا ہے مگر اُس کا دماغ اچھا ہوتا ہے وہ کسی بنک کے سیکرٹری سے دوستی پیدا کر کے اُس سے ضرورت کے مطابق لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ روپیہ لے لیتا ہے اور چند سالوں میںہی اُس سے کئی گنا نفع کما کر وہ کروڑپتی بن جاتا ہے۔ غرض جس قدر بڑے بڑے ما لدار دنیامیں پائے جاتے ہیں اُن کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اِن میں اپنی خالص کمائی سے بڑھنے والا شاید سَو میں سے کوئی ایک ہی ہو گا باقی ننانوے فیصدی ایسے ہی مالدار نظر آئیں گے جنہوں نے سُود پر بنکوں سے روپیہ لیا اور تھوڑے عرصہ میں ہی اپنے اعلیٰ دماغ کی وجہ سے کروڑ پتی بن گئے اور لوگوں پر اپنا رُعب قائم کر لیا۔ پس سُود دنیا کی اقتصادی تباہی کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور غرباء کی ترقی کے راستہ میں ایک بہت بڑی روک ہے جس کو دُور کرنا بنی نوع انسان کا فرض ہے۔ اگر ان لوگوں کو سُود کے ذریعہ بنکوں میں سے آسانی کے ساتھ روپیہ نہ ملتا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوتی یا تو وہ دوسرے لوگوں کو اپنی تجارت میں شامل کرنے پر مجبور ہوتے اور یا پھر اپنی تجارت کو اس قدر بڑھانہ سکتے کہ بعد میں آنے والوں کے لئے روک بن جاتے اور ٹرسٹ وغیرہ قائم کر کے لوگوں کے لئے ترقی کا راستہ بالکل بند کر دیتے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ مال مُلک میں مناسب تناسب کے ساتھ تقسیم ہوتا اور خاص خاص لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع نہ ہوتا جو اقتصادی ترقی کے لئے سخت مُہلک اور ضرررساں چیزہے۔ مگر افسوس ہے کہ لوگ سُود کے اِن نقصانات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر اِس کے باوجود جس طرح مکڑی اپنے اِرد گرد جالا تنتی چلی جاتی ہے اِسی طرح وہ سُود کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور اس بات پر ذرا بھی غور نہیں کرتے کہ اُن کے اس طریق کا مُلک اور قوم کے لئے کیسا خطرناک نتیجہ نکلے گااور اس الزام سے کمیونزم کے حامی بھی بَری نہیںوہ بھی اِس جڑ کو جو سرمایہ داری کا درخت پیدا کرتی ہے نہ صرف یہ کہ کاٹتے نہیں بلکہ وہ اُسے بُرا بھی نہیں کہتے ۔ہزاروں لاکھوں کمیونسٹ دنیا میں ملیں گے جو سُود لیتے ہیں اور اس طرح بالواسطہ سرمایہ داری کی جڑیں مضبوط کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
سُود کی وسیع تعریف
اسلام نے سُود کی ایسی تعریف کی ہے جس سے بعض ایسی چیزیں بھی جو عرفِ عام میں سُود نہیں سمجھی جاتیں سُود کے
دائرہ عمل میں آجاتی ہیں اور وہ بھی بنی نوع انسان کے لئے ناجائز ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے سُود کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ کام جس پر نفع یقینی ہو۔ اب اِس تعریف کے ماتحت جتنے ٹرسٹ ہیں وہ سب ناجائز سمجھے جائیں گے کیونکہ ٹرسٹ کی غرض یہی ہوتی ہے کہ مقابلہ بند ہوجائے اور جتنا نفع تاجر کمانا چاہیں اُتنا نفع اُن کو بغیر کسی روک کے حاصل ہو جائے۔ مثلاً ایک مُلک کے پندرہ بیس بڑے بڑے تاجر اکٹھے ہو کر اگر ایک مقررہ قیمت کا فیصلہ کر لیں اور ایک دوسرے کا تجارتی مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیں تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک چیز جو دو روپے کو تجارتی اصول پر بِکنی چاہئے اُس کے متعلق وہ کہہ سکتے ہیں ہم اُسے پانچ روپے میں فروخت کریں گے اور چونکہ سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہوگا۔ اِس لئے لوگ مجبور ہوں گے کہ پانچ روپے میں ہی وہ چیز خرید یں کیونکہ اِس سے کم قیمت میں اُن کو وہ چیز کسی اور جگہ سے مل ہی نہیں سکے گی۔ وہ ایک کے پاس جائیں گے تو وہ پانچ روپے قیمت بتائے گا، دوسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپے ہی بتاتا ہے ،تیسرے کے پاس جائیں گے تو وہ بھی پانچ روپیہ ہی قیمت بتاتا ہے غرض جس کے پاس جائیں گے وہ پانچ روپیہ ہی قیمت بتائے گا اور آخر وہ مجبور ہو جائے گا کہ وہی قیمت اداکر کے چیز خریدے۔ چھوٹے تاجروں کو اوّل تو یہ جرأت ہی نہیں ہوتی کہ اُن کا مقابلہ کریں اور اگر اُن میں سے کوئی شخص وہی چیز سَستے داموں پر فروخت کرنے لگے مثلاً وہ اُس کی دو روپے قیمت رکھ دے تو وہ بڑے تاجرجنہوںنے آپس میں اتحاد کیا ہوا ہوتا ہے اُس کا سارا مال اُس گری ہوئی قیمت پر خرید لیتے اور اِس طرح اُس کا چند دن میں ہی دیوالہ نکال دیتے ہیں۔ پس یہ ٹرسٹ سسٹم ایک نہایت ہی خطرناک چیزہے اور دنیا کی اقتصادی حالت کو بالکل تباہ کر دیتا ہے۔
مجھے ایک دفعہ جماعت احمدیہ کی تجارتی سکیموں کے سِلسلہ میں تحریک ہوئی کہ میں لاکھ۲۳؎ کی تجارت کے متعلق معلومات حاصل کروں۔ لاکھ کی تجارت صرف چند لاکھ روپے کی تجارت ہے اور لاکھ صرف ہندوستان کے چند علاقوں میں تیار ہوتی ہے ریاست پٹیالہ میں بھی تیار کی جاتی ہے ۔ مجھے تحقیق پر معلوم ہوا کہ ایک یورپین فرم اِس کی تجارت پر قابض ہے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی تو مجھے بتایا گیا کہ اور تاجروں کی حیثیت تو پندرہ سولہ لاکھ کی ہوتی ہے مگر اِس یورپین فرم کا سرمایہ تیس چالیس کروڑ روپیہ کا ہے۔ پھراُن کے پاس صرف یہی تجارت نہیں بلکہ گندم کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، کپڑے کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے، جیوٹ ۲۴؎ کی تجارت بھی اُن کے ہاتھ میں ہے اِسی طرح اور کئی قسم کی تجارتیں اُن کے ہاتھ میں ہیں۔ اُن کے مقابلہ میں جب کوئی تاجر چند لاکھ روپیہ صرف کر کے لاکھ کی تجارت شروع کرتا ہے تو وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اتنی کم کر دیتی ہے کہ جس نے نئی نئی تجارت شروع کی ہوتی ہے اُن کے مقابلہ میں ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکتا اور نقصان اُٹھا کر کفِ افسوس ملتا ہوا گھر واپس آجاتا ہے۔ فرض کرو ایک شخص کا اس تجارت پر دس لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ اُسے توقع تھی کہ مجھے نفع حاصل ہوگا۔ پس اُس نے یورپین فرم کے مقابلہ کے لئے قیمت گرا کر رکھی مگر اُس کو میدانِ مقابلہ میں دیکھتے ہی وہ یورپین فرم لاکھ کی قیمت اِس قدر گِرا دے گی کہ اُس تاجر کو رأس المال بچانا بھی مشکل ہو جائے گا اور آخر وہ مجبور ہو کر لاگت سے کم داموں پر اُسی یورپین فرم کو اپنا لاکھ کا سٹاک دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس یورپین فرم کو قیمت گرانے سے نقصان نہ ہوگا کیونکہ اپنے حریف کو شکست دے کر وہ پھر قیمت بڑھا دے گی۔ اِس رنگ میں وہ یورپین فرم لاکھ کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے اور کوئی اُس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔غرض جس قدر ٹرسٹ ہیں وہ بنی نوع انسان کو تباہ کرنے والے ہیں اور چونکہ ٹرسٹ سسٹم میں نفع یقینی ہوتا ہے اس لئے اسلام کے مذکورہ بالا قاعدہ کے مطابق ٹرسٹ سسٹم اسلام کے روسے ناجائز قرار دیا جائے گا۔
یہی حال کارٹل سسٹم کا ہے۔ کارٹل سسٹم بھی ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی نقطہ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔ ٹرسٹ سسٹم میں جہاں ایک مُلک کے تاجر آپس میں سمجھوتہ کر کے تجارت کرتے ہیں وہاں کارٹل سسٹم میں مختلف ممالک کے تاجر آپس میں اتحاد پیدا کر لیتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں چیز فلاں قیمت پر فروخت کرنی ہے اِس سے کم میں نہیں۔ٹرسٹ سسٹم تو یہ ہے کہ ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی امر کے متعلق سمجھوتہ کر لیں اور کارٹل سسٹم یہ ہے کہ مثلاً امریکہ اور انگلستان کے تاجر یا امریکہ، انگلستان اور جرمنی کے تاجر یا انگلستان اور ہندوستان کے تاجر آپس میں کسی تجارت کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔فرض کرو کیمیکلز (CHEMICALES)یعنی کیمیائی ساخت کی اشیاء کے متعلق سمجھوتہ کر لیں۔مثلاً اِس زمانہ میں امریکہ ،انگلستا ن اور جرمنی یہ تین ممالک ہی کیمیکلز بنانے والے ہیں اِن تینوں ممالک کے تاجر سمجھوتہ کر لیں کہ ہم ایک دوسرے کا مقابلہ نہیں کریں گے بلکہ ایک ہی قیمت پر اپنی دواؤں کو فروخت کریں گے تو اِس کے نتیجہ میں دنیا مجبور ہوگی کہ اُن سے اُسی قیمت پر دوائیں خریدے۔ اور جتنا نفع وہ مانگتے ہیں وہ اُن کو دے ۔ یہ کارٹل سسٹم اتنا خطرناک ہے کہ اِس سے حکومتیں بھی تنگ آگئی ہیںاور ابھی گزشتہ دنوں اِس جرم میں اس کی طرف سے کئی تاجروں پر مقدمات چل چکے ہیں اور انہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں مگر چونکہ یقینی نفع کی تمام صورتوں کو اسلام نے ناجائز قرار دے دیا ہے تاکہ دنیا کی دولت پر کوئی ایک طبقہ قابض نہ ہو جائے بلکہ مال تمام لوگوں میں چکّر کھاتا رہے اور غرباء بھی اس سے اپنی اقتصادی حالت کو درست کرسکیں۔اسلامی حکومتوں میں یہ طریق چل نہیں سکتے۔
سامان کا روک رکھنا منع ہے
اِسی طرح اسلام نے ایک حکم یہ بھی دیا ہے کہ تم جو مال بھی تیار کرو یا دوسروں سے خریدو اُسے
روک کر نہ رکھ لیا کرو کہ جب مال مہنگا ہو گا اور قیمت زیادہ ہوگی اُس وقت ہم اِس مال کو فروخت کریں گے۔ اگر ایک تاجر مال کو قیمت بڑھنے کے خیال سے روک لیتا ہے اور اُسے لوگوںکے پاس فروخت نہیں کرتا تو اسلامی نقطہ نگاہ کے ماتحت وہ ایک ناجائزفعل کا ارتکاب کرتا ہے۔ اگر ایک تاجر کے پاس گندم ہے اور لوگ اپنی ضروریات کے لئے اُس سے گندم خریدنا چاہتے ہیںاور وہ اِس خیال سے کہ جب گندم مہنگی ہوگی اُس وقت میں اسے فروخت کروں گا اُس گندم کو روک لیتا ہے اور خریداروں کو دینے سے انکار کر دیتا ہے تو اسلام کی تعلیم کے رو سے دہ ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ چیزوں پر کنٹرول اِس زمانہ میں ہی کیا گیا ہے حالانکہ کنٹرول اسلام میں ہمیشہ سے چلا آتا ہے۔ انگریزوں نے تو آج اِس کو اختیار کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ حکم دیا تھا کہ احتکار منع ہے اور احتکار کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ کسی چیز کو اس لئے روک لیا جائے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائیگی تب اُسے فروخت کیاجائے گا۔ اگر کسی شخص کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ احتکار کر رہا ہے اور اسلامی حکومت قائم ہو تو وہ اُسے مجبور کرے گی کہ وہ اپنا مال فروخت کردے اور اگر وہ خود فروخت کرنے کے لئے تیار نہ ہو توگورنمنٹ اُس کے سٹور پر قبضہ کر کے مناسب قیمت پر اُسے فروخت کردے گی۔ بہرحال کوئی شخص اِس بات کا مجاز نہیں کہ وہ مال کو روک رکھے اِس خیال سے کہ جب مہنگا ہو گا تب میں اسے فروخت کروں گا۔(اِس میں کوئی شک نہیں کہ احتکار کے معنیٰ غلہ کو روکنے کے ہیں لیکن تفقّہ کے ماتحت جواسلام کا ایک جزوِ ضروری ہے اِس حکم کو عام کیا جائے گااور کسی شَے کو جو عوام کے کام آنے والی ہے اس لئے روک رکھنا کہ قیمت بڑھ جائے گی تو فروخت کریں اسلامی تعلیم کے رو سے ناجائز قرار دیا جائے گا۔)
اِسلام میں مال کی قیمت گرانے کی ممانعت
اِس کے علاوہ اسلام نے قیمت کو ناجائز حد تک گرانے سے بھی منع کیا ہے اور جیسا کہ مَیں نے اوپر بیان کیا ہے قیمت کا گرانابھی ناجائز مال کمانے کا ذریعہ ہوتا ہے
کیونکہ طاقتور تاجر اِس ذریعہ سے کمزور تاجروں کو تھوڑی قیمت پر مال فرخت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ان کا دیوالہ نکلوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ بازار کا دَورہ کر رہے تھے کہ ایک باہر سے آئے ہوئے شخص کو دیکھاکہ وہ خشک انگور نہایت ارزاں قیمت پر فروخت کر رہا تھا جس قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ نے اُسے حکم دیا کہ یا تو اپنا مال منڈی سے اُٹھا کر لے جائے یا پھر اُسی قیمت پر فروخت کرے جس مناسب قیمت پر مدینہ کے تاجر فروخت کررہے تھے۔ جب آپ سے اِس حُکم کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے جواب دیا کہ اگر اِس طرح فروخت کرنے کی اِسے اجازت دی گئی تو مدینہ کے تاجروں کو جو مناسب قیمت پر مال فروخت کررہے ہیںنقصان پہنچے گا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بعض صحابہؓ نے حضرت عمرؓ کے اس فعل کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول پیش کیا کہ منڈی کے بھاؤ میں دخل نہیں دینا چاہئے۲۵؎ مگر اُن کا یہ اعتراض درست نہ تھا کیونکہ منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے کے یہ معنیٰ ہیں کہ پیداوار اور مانگ(SUPPLY AND DEMAND) کے اصول میں دخل دیا جائے اور ایسا کرنا بے شک نقصان دہ ہے اور اس سے حکومت کو بچنا چاہئے۔ ورنہ عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گااور تاجر تباہ ہو جائیں گے۔ ہم نے قریب زمانہ میں ہی اس کا تجربہ کیا ہے۔ جب حکومت نے جنگ کی وجہ سے گندم کی فروخت کی ایک ہی قیمت مقرر کردی تو اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی تجارت بالکل رُک گئی کیونکہ کوئی عقلمندیہ امید نہیں کر سکتا کہ تاجر اسی قیمت پر خرید کر اُسی قیمت پر فروخت کرسکے گا۔نتیجہ یہ ہوا کہ گندم کی باقاعدہ تجارت بالکل بند ہوگئی اور مقررہ قیمت چھ روپے کی جگہ سولہ روپیہ فی من تک گندم کی قیمت پہنچ گئی۔ لوگ گورنمنٹ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بیوی بچوں کو فاقوں سے نہیں مار سکتے تھے۔ وہ ہر قیمت پرگندم خریدتے تھے اور چونکہ گندم پر زندگی کا انحصار ہے وہ ان تاجروں کی رپورٹ کرنے کے لئے بھی تیار نہ تھے جو بلیک مارکیٹ ریٹس پر اُن کو گندم دیتے تھے۔ مَیں نے اِس کے خلاف کئی ماہ پہلے گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ اُن کے اِس قانون کا خطرناک نتیجہ نکلے گا مگر حکومت نے اِس پر کان نہ دھرے اور آخر سخت ہنگامہ اور شور کے بعد معقول طریق اختیار کیا۔ پہلے قانون کی وجہ زمینداروں کی خدمت بتائی گئی تھی مگر نتیجہ اُلٹ نکلا۔ زمیندار لُٹ گئے اور تاجر کئی گُنے زیادہ قیمت حاصل کر گئے۔
غرض نا واجب طور پر منڈی کے بھاؤ میں دخل دینے اور پیداوار اور مانگ کے اصول کو نظر انداز کرنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ ورنہ ناواجب بھاؤ میں خواہ وہ قیمت کی زیادتی کے متعلق ہو خواہ قیمت کی کمی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا۔چنانچہ احتکار سے روکنا جو احادیث سے ثابت ہے اس امر کا یقینی ثبوت ہے کیونکہ احتکار سے روکنے کی غرض یہی ہے کہ ناجائز طور پر بھاؤ کو بڑھایا نہ جائے اوریہ مناعی یقینا منڈی کے بھاؤ میں دخل دینا ہے مگر جائز دخل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منڈی کے بھاؤ میں دخل اندازی سے منع کیا تھا تو ناجائز دخل اندازی سے منع کیا تھا۔ اصولِ اقتصادیات کے ماتحت دخل اندازی سے منع نہیں فرمایا تھا اور حضرت عمرؓ کا فعل عین مطابق شریعت اور اسلام کے ایک زبر دست اصول کا ظاہر کرنے والا تھا۔
خلاصہ یہ کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ لوگ ناجائز طور پر دولت اپنے قبضہ میں لیا کرتے ہیں اِس لئے اسلام نے اِن تینوں چیزوں سے روک دیا ہے اور اس طرح ناجائز اور حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کے راستہ کو بند کر دیاہے۔
حد سے زائد روپیہ جمع ہونے کے راستہ میں مزید روکیں
مگر چونکہ پھر بھی بعض لوگ ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے ناجائز حد تک روپیہ کما سکتے تھے اور ہو سکتا تھا کہ اِن تمام ہدایات اور
قیود اور پابندیوں کے باوجود بعض لوگوں کے پاس حد سے زیادہ روپیہ جمع ہو جائے اور غرباء کو نقصان پہنچ جائے۔ اس لئے اسلام نے اس کا علاج مندرجہ ذیل ذرائع سے کیا۔
زکوٰۃ
اوّل زکوٰۃ کا حکم دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس قدر جائداد کسی انسان کے پاس سونے چاندی کے سِکّوں یا اموالِ تجارت وغیرہ کی قسم میں سے ہو اور اُس پر
ایک سال گزر چکاہو حکومت اُس سے اندازاً اڑھائی فیصدی سالانہ ٹیکس لے لیاکرے گی جو مُلک کے غرباء اور مساکین کی بہبودی پر خرچ کیا جائے گا ۔ اگر کسی شخص کے پاس چالیس روپے جمع ہوں اور اُن چالیس روپوں پر ایک سال گزر جائے تو اس کے بعد لازماً اُسے اپنے جمع کردہ مال میںسے ایک روپیہ حکومت کو بطور زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انکم ٹیکس نہیں جو آمد پر ادا کیا جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ جمع کئے ہوئے مال پر کیپیٹل ٹیکس ہے جو غرباء کی بہبودی کے لئے لیا جاتا ہے اور زکوٰۃ ہر قسم کے مال پر واجب ہوتی ہے۔ خواہ سکّے ہوںیا جانور ہوں یا غلہ ہو یا زیور ہو یا کوئی دوسرا تجارتی مال ہو۔ صرف سونے چاندی کے وہ زیور جو عام طور پر عورتوں کے استعمال میں رہتے ہوں اور غرباء کو بھی کبھی کبھی عاریتہ دئیے جاتے ہوں اُن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ زیورات خود تو عام طور پر استعمال کئے جاتے ہوں مگر غرباء کو عاریتہ نہ دیئے جاتے ہوں تو اِس صورت میں اُن کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی فقہائے اسلام زیادہ مناسب قرار دیتے ہیں۔ اور جو زیور عام طور پر استعمال میں نہ آتے ہوں اُن پر زکوٰۃ ادا کرنا تو نہایت ضروری ہے اور اسلام میں اِس کا سختی سے حکم پایا جاتا ہے۔ یہ زکوٰۃ جب تک کسی کے پاس مال بقدرِ نصاب باقی ہو ہر سال ادا کرنی ضروری ہوتی ہے اور نہ صرف سرمایہ پر بلکہ سرمایہ اور نفع دونوں کے مجموعہ پر ادا کرنی ہوتی ہے۔ پس اگر کوئی شخص اوپر بیان کردہ تمام قیود اور پابندیوں کے باوجود کچھ روپیہ پس انداز کر لے تو اسلامی حکومت اس ذریعہ سے ہر سال اُس سے ٹیکس وصول کرتی چلی جائے گی کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ یہ ہے کہ امراء کی دولت میں غرباء کے حقوق اور اُن کی محنت بھی شامل ہے اس لئے ایک ایسا قاعدہ مقرر کر دیا گیاہے جس کے مطابق ہر سال زکوٰۃ کے ذریعہ سے غرباء کا حق امراء سے لے لیا جائے گا۔
خمس
دوسری وجہ جس سے بعض لوگوں کے ہاتھ میں حد سے زیادہ مال جمع ہو جاتا ہے کانوں کی دریافت ہے۔ اسلام نے اِس نقص کا علاج یہ کیا کہ اُس نے کانوں میں
حکومت کا خمس حق مقرر کر دیا ہے۔ یہ پانچواںحصہ تو اُس مال میں سے ہے جو کان سے نکالا جاتا ہے خواہ اُس پر سال چھوڑ ایک ماہ بھی نہ گزرا ہو۔ اس کے علاوہ کانوں کے مالک جواپنے حصہ کے نفع میں سے پس انداز کریں اور اس پر ایک سال گزر جائے اُس پر زکوٰۃ الگ لگے گی اور سال بہ سال لگتی چلی جائے گی۔ گویا اس طرح حکومت کانوںمیں بھی حصہ دار ہو جاتی ہے اور کانوں کے مالک جو روپیہ اپنے حصہ میں سے بچاتے ہیں اُن سے بھی ہر سال غرباء کی ترقی کے لئے ایک مقررہ ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ جب بھی کسی کے جمع کردہ مال پر ایک سال گزر جائے گا حکومت کے افراد اس کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ لاؤ جی غرباء کا حق ہمیں دے دو۔
طَوعی صدقہ
تیسرے اسلام نے طوعی صدقہ رکھا ہے۔ چنانچہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر شخص کو صدقہ وخیرات کے طور پر یتیموں، غریبوں اور مسکینوں کی خبر گیری
اور اُن کی پرورش کے لئے کچھ نہ کچھ مال ہمیشہ خرچ کرتے رہنا چاہئے۔ یہ حکم بھی ایسا ہے کہ اس کی وجہ سے کسی شخص کے پاس حد سے زیادہ دولت جمع نہیں رہ سکتی۔
ورثہ کی تقسیم
اگر ان تمام طریقوں سے کام لینے کے باوجود پھر بھی کسی انسان کے پاس کچھ مال بچ جائے اور وہ اپنی جائداد بنالے تو اُس کے مرنے
کے معاً بعد شریعت اس کی تمام جائداد کو اُس کے خاندان میں تقسیم کرا دے گی۔ چنانچہ ورثہ کا حکم شریعت میں اِسی غرض کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جائداد کسی ایک شخص کو نہ دے جائے بلکہ وہ اُس کے ورثاء میں تقسیم ہو جائے۔ شریعت نے اِس تقسیم میں اولاد کا بھی حق رکھا ہے، ماں باپ کا بھی حق رکھا ہے، بیوی کا بھی حق رکھا ہے، خاوند کا بھی حق رکھا ہے اور بعض حالتوں میں بھائیوں اور بہنوں کا بھی حق رکھا ہے۔ قرآن کریم نے صاف طور پر حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اِس تقسیم کو بدل سکے۔یا کسی ایک رشتہ دار کو اپنی تمام جائداد سپرد کر جائے ۔اُس کی جس قدر جائداد ہوگی شریعت جبراً اس کے تمام رشتہ داروں میں تقسیم کرا دے گی اور ہر ایک کو وہ حصہ دے گی جو قرآن کریم میں اُس کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ تعجب ہے کہ جہاں دنیا سُود کی تائید میں ہے حالانکہ دہ دنیا کی بے جوڑ مالی تقسیم کا بڑا موجب ہے وہاں اکثر لوگ جبری ورثہ کے بھی مخالف ہیں اور اس امر کی اجازت دیتے ہیں کہ ایک ہی لڑکے کو مرنے والا اپنا مال دے جائے حالانکہ اِس سسٹم سے دولت ایک خاندان میں غیر محدود وقت تک جمع ہوتی جاتی ہے لیکن اسلامی اصولِ وراثت کے مطابق جائداد خواہ کتنی بڑی ہو تھوڑے ہی عرصہ میں اولاد در اولاد میں تقسیم ہو کر مالدار سے مالدار خاندان عام لوگوں کی سطح پر آجاتا ہے اور اِس حکم کے نتیجہ میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جس کی بڑی سے بڑی جائداد یا بڑی سے بڑی دولت تین چار نسلوں سے آگے بڑھ سکے۔ وہ بمشکل تین چار نسلوں تک پہنچے گی اور پھر سب کی سب ختم ہو جائے گی اور آئندہ نسل کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوگی کہ وہ اپنے لئے اور جائداد پیدا کرے۔ یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے مالدار اور لارڈز اسی لئے ہیں کہ انگلستان میں یہ قانون ہے کہ جائداد کا مالک صرف بڑا بیٹا ہوتا ہے۔ اور امریکہ میں اجازت ہے کہ باپ اپنی جائداد چاہے تو صرف ایک بیٹے کو دے جائے باقی ماں باپ، بھائی بہنیں، خاوند بیوی سب محروم رہتے ہیںیا رکھے جاسکتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ وہاں بڑے بڑے مالدار یہ وصیّت کر جاتے ہیں کہ ہماری دس لاکھ کی جائداد ہے اُس میں سے ایک لاکھ تو دوسرے رشتہ داروں کو دے دیا جائے اور نو لاکھ بڑے لڑے کو دے دیا جائے۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ بالکل ناجائز ہے تمہارے خاندان کی عظمت سو سائٹی کے فائدہ کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہمیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ تمہارا خاندان مُلک میں چوٹی کا خاندان ہمیشہ سمجھا جاتا ہے یا نہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مال تقسیم در تقسیم ہوتاچلا جائے تاکہ غرباء کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کرنا پڑے اور اُن کے لئے ترقی کا راستہ دنیا میں کھلا رہے۔
غرض ایک طرف اسلام نے جذبات پر قابو پایا اور اُن تمام محرکات کو مَسل دیا جن کے نتیجہ میں انسان یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت جمع ہو۔ دوسری طرف اُس نے بیہودہ اخراجات کو حُکماً روک دیا اور کہہ دیا کہ ہم ان اخراجات کی تمہیں اجازت نہیں دے سکتے۔ تیسری طرف روپیہ جمع کرنے کے تمام طریق جن میں یقینی نفع ہوا کرتا ہے اُس نے ناجائز قرار دے دیئے۔ چوتھی طرف زکوٰۃ اور طوعی صدقات وغیرہ کے احکام دے دیئے۔ اور اگر ان سب احکام کے باوجود پھر بھی کوئی شخص اپنی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ سے کچھ زائد روپیہ کما لیتا ہے اور خطرہ ہے کہ اُس کا خاندان غرباء کے راستہ میں روک بن کر کھڑا ہو جائے تو شریعت اُس کے مرنے کے ساتھ ہی اُس کی تمام جائداد اس کے ورثاء میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہے اور اُس کے دس بیٹے ہیں تو اس کے مرنے کے بعد ہر ایک کو دس دس لاکھ روپیہ مل جائے گا اور اگر پھر ان میں سے ہر ایک کے دس دس لڑکے ہوں تو وہ دس لاکھ ایک ایک لاکھ میں تقسیم ہو جائے گا اور تیسری نسل میں وہ دس دس ہزار روپیہ تک آ جائے گا۔ گویا زیادہ سے زیادہ تین چار نسلوں میں بڑے سے بڑے تاجر کا بھی تمام روپیہ ختم ہو جائے گا اورایک بلاک غرباء کے راستہ میں کبھی کھڑا نہیں ہوگا۔ تقسیم ورثہ صرف وقف کی صورت میں روکی جا سکتی ہے مگر جس نے روپیہ کما کر غرباء اور رفاہِ عام کیلئے جائداد وقف کر دینی ہو وہ ناجائز طور پر روپیہ کمائے گا ہی کیوں۔
اِن احکام پر اگر عمل کیا جائے تو لازماً جو روپیہ بھی زائد آئے گا یا وہ حکومت کے پاس چلا جائے گا یا وہ لوگوں کے پاس چلا جائے گا اور یا پھر اولاد میں بٹ جائے گا بہرحال کوئی شخص بڑا امیر نہیں رہے گا۔ اگر کوئی خود امیر ہو تو کوئی خاندان ایسا نہیں رہے گا جو مستقل طور پر اپنی خاندانی وجاہت یا اپنے خاندانی رُعب کی وجہ سے مُلک کے غرباء کوغلامی کی زنجیروں میں جکڑ سکے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِن احکام پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ زکوٰۃ کا حکم موجود ہے مگر وہ زکوٰۃ نہیں دیتے، اِسراف کے تمام طریقوں کو ناجائز قرار دیا گیا ہے مگر وہ اسراف سے باز نہیں آتے، ورثہ کا حکم دیا گیا ہے مگر وہ ورثہ کے احکام پر عمل نہیں کرتے لیکن پھر بھی چونکہ کچھ نہ کچھ عمل ہوتا ہے اس لئے اسلامی ممالک میں امیروں اور غریبوں کا وہ فرق نہیں ہے جو دوسرے ممالک میں پایا جاتا ہے مگر ان تدابیر سے بھی پورا علاج نہیں ہوتا۔ ہو سکتا تھا کہ جو روپیہ حکومت کے پاس آئے وہ پھر امراء ہی کی طرف منتقل ہو جائے اور وہ دوبارہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیں۔ قرآن کریم نے اِس کا بھی علاج بتایا ہے چنانچہ اُس نے اُس روپیہ پر جو حکومت کے پاس آئے کئی قسم کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
حکومت کے روپیہ پر تصرف کہ وہ امراء کو طاقت دینے کیلئے خرچ نہ ہو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۲۶؎ فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو اِردگرد کی فتوحات کے ذریعہ جو روپیہ دیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور اُس کے رسول کے لئے ہے اور قرابت والوں کے لئے ہے اور یتامی اور مساکین کیلئے ہے اور اُن مسافروں کے لئے ہے جو علوم پھیلانے اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں پھر رہے ہوتے ہیں اور ہم نے یہ احکام تمہیں اِس لئے دیئے ہیں تا کہ یہ روپیہ پھر امیروں کے پاس نہ چلا جائے اور اُن ہی کے حلقہ میں چکر نہ کھانے لگے۔ اِن آیات پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے غرباء کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور اسلامی اقتصاد کی بنیادوں کوانتہائی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ فرماتا ہے ہم نے یہ اسلامی اقتصادی نظام اس لئے قائم کیا ہے تا کہ اقتصادی حالت کو کوئی دھکّا نہ لگے۔ اگر ہم آزادی دے دیتے اور اپنی طرف سے حقوق مقرر نہ کرتے تو پھر یہ اموال امراء کی طرف منتقل ہو جاتے اور غرباء ویسے ہی خستہ حال رہتے جیسے پہلے تھے۔ پس ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وہ روپیہ جو حکومت کے قبضہ میں آئے پھر امیروں کے پاس ہی نہ چلا جائے۔ اِس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کے اموال کو غرباء اور اُن لوگوں کیلئے جن کی ترقی کے راستہ میں روکیں حائل تھیں مخصوص کر دیا ہے۔
یہاں اللہ اور رسول کا جو حق مقرر کیا گیاہے درحقیقت اِس سے مراد بھی غرباء ہی ہیں۔ اللہ اور اُس کے رسول کانام صرف اِس لئے لیا گیاہے کہ کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ عبادت گاہیں بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مدرسے بنائے، کبھی حکومت کو اِس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ہسپتال بنائے۔ اگر خالی غرباء کے حقوق کا ہی ذکر ہوتا تو جب کبھی حکومت اِس روپیہ سے اِس قسم کے کام کرنے لگتی اُس وقت لوگ اس پر اعتراض کرتے کہ تم کو کیاحق ہے کہ اس روپیہ سے عبادت گاہیں بنائو یا شفاخانہ بنائو یا سڑکیں بنائو یا سکول بنائو یہ تو صرف غرباء کے کھانے، پینے، پہننے پر ہی خرچ ہونا چاہئے۔ پس اِس نقص کے ازالہ کے لئے اللہ اور اُس کے رسول کے الفاظ رکھ دیئے گئے ہیں۔ ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ تو روپیہ لینے کیلئے نہیں آتا اور رسول کا حق بھی غرباء کو جائے گا کیونکہ رسول تو ایک فانی وجود ہوتا ہے۔ اُس کے نام سے مراد اُس کا قائم کردہ نظام ہی ہو سکتا ہے۔
پھر ذِی الْقُرْبٰی کا جو حق بیان کیا گیا ہے اُس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ذِی الْقُرْبٰی کے الفاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کا بھی اِس روپیہ میں حق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو صاف فرما دیا ہے کہ سادات کیلئے صدقہ یا زکوٰۃ کا روپیہ لینا حرام ہے۔۲۷؎ درحقیقت اِس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی رشتہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت اور اُس کے دین کی خدمت میں دن رات مشغول ہوں اور اِس طرح خدا اور اُس کے رسول کے عیال میں داخل ہو گئے ہوں۔ گویا ذِی الْقُرْبٰیکہہ کر بتایا کہ وہ لوگ جو دین کی خدمت پر لگے ہوئے ہوں اُن کو نکمّا وجود نہیں سمجھنا چاہئے وہ خدا تعالیٰ کا قُرب چاہنے والے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کے قُرب میں بڑھانے والے ہیں اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے۔ پس وہ لوگ جو قرآن پڑھانے والے ہوں یا حدیث پڑھانے والے ہوں یا دین کی اشاعت کا کام کرنے والے ہوں اِس آیت کے مطابق اُن پر بھی یہ روپیہ خرچ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب وہ دن رات دینی اور مذہبی کاموں میں مشغول رہیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ اپنے لئے دنیاکما نہیں سکیں گے۔ ایسی صورت میں اگر حکومت کی طرف سے اُن پر روپیہ خرچ نہیں کیا جائے گا تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہوگی۔ یا تو اُن کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہونگے اور یا پھر اِس خدمت کو ہی ترک کر دیں گے اور دوسرے لوگوں کی طرح دنیا کمانے میں لگ جائیں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ صاف طور پر حکم موجود ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی موجود رہنی چاہئے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہو اور رات دن دین کی اشاعت کا کام سرانجام دے رہی ہو۔ پس ذِی الْقُرْبٰی سے مرادخدمت دین کا کام کرنے والے لوگ ہیں اور اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ جہاں اِس روپیہ میں غرباء کا حق ہے وہاں ان لوگوں کا بھی حق ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اُن پر روپیہ صرف کرے۔
پھر فرمایا کہ ہماری اِس نصیحت کو یاد رکھنا کہ یہ مال امراء کی طرف پھر منتقل نہ ہونے پائے۔ آخر میں کہہ کر امراء کو سمجھایا کہ دیکھو تم اِس روپیہ کو کسی طرح حاصل کرنے کی کوشش نہ کرنا کہ تمہارا فائدہ اِسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرو۔
اسلامی حکومت کا ہر شخص کیلئے روٹی کپڑے کاانتظام کرنا
اِسلامی حکومت نے اِن احکام پر اِس طرح عمل کیا کہ جب وہ اموال کی مالک ہوئی تو اُس نے ہر ایک شخص کی روٹی کپڑے کا انتظام کیا۔ چنانچہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب نظام مکمل ہوا تو اُس وقت اسلامی تعلیم کے ماتحت ہر فردوبشر کے لئے روٹی اور کپڑا مہیا کرنا حکومت کے ذمہ تھا اور وہ اپنے اِس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس غرض کیلئے مردم شماری کا طریق جاری کیا اور رجسٹرات کھولے جن میں تمام لوگوں کے ناموں کا اندراج ہوا کرتا تھا۔ یورپین مصنّفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کی اور اُنہوں نے ہی رجسٹرات کا طریق جاری کیا۔ اِس مردم شماری کی وجہ یہی تھی کہ ہر شخص کو روٹی کپڑا دیا جاتا تھا اور حکومت کیلئے ضروری تھا کہ وہ اِس بات کا علم رکھے کہ کتنے لوگ اِس مُلک میں پائے جاتے ہیں۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ سوویٹ رشیا نے غرباء کے کھانے اور اُن کے کپڑے کا انتظام کیا ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے اِس قسم کا اقتصادی نظام اسلام نے جاری کیا ہے اور عملی رنگ میںحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہر گائوں، ہر قصبہ اور ہر شہر کے لوگوں کے نام رجسٹر میں درج کئے جاتے تھے، ہر شخص کی بیوی، اُس کے بچوں کے نام اور اُن کی تعداد درج کی جاتی تھی اور پھر ہر شخص کیلئے غذا کی بھی ایک حد مقرر کر دی گئی تھی تا کہ تھوڑا کھانے والے بھی گزارہ کر سکیں اور زیادہ کھانے والے بھی اپنی خواہش کے مطابق کھا سکیں۔
تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابتداء میں جو فیصلے فرمائے اُن میں دودھ پیتے بچوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور اُن کو اُس وقت غلّہ وغیرہ کی صورت میں مدد ملنی شروع ہوتی تھی جب مائیں اپنے بچوں کا دودھ چھڑا دیتی تھیں۔ ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے گشت لگا رہے تھے کہ ایک خیمہ میں سے کسی بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں ٹھہر گئے۔ مگر بچہ تھا کہ روتا چلا جاتا تھا اور ماں اُسے تھپکیاں دے رہی تھی تا کہ وہ سو جائے۔ جب بہت دیر ہوگئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمہ کے اندر گئے اور عورت سے کہا کہ تم بچے کو دودھ کیوں نہیں پلاتی، یہ کتنی دیر سے رو رہا ہے؟ اُس عورت نے آپ کو پہچانا نہیں اُس نے سمجھا کہ کوئی عام شخص ہے چنانچہ اُس نے جواب میںکہا کہ تمہیں معلوم نہیں عمر نے فیصلہ کر دیا ہے کہ دودھ پینے والے بچہ کو غذا نہ ملے ہم غریب ہیں ہمارا گزارہ تنگی سے ہوتا ہے مَیں نے اِس بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے تا کہ بیت المال سے اِس کا غلّہ بھی مل سکے۔ اب اگر یہ روتا ہے تو روئے عمرؓ کی جان کو جس نے ایسا قانون بنایا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اُسی وقت واپس آئے اور راستہ میں نہایت غم سے کہتے جاتے تھے کہ عمر! عمر!! معلوم نہیں تو نے اِس قانون سے کتنے عرب بچوں کا دودھ چھڑوا کر آئندہ نسل کو کمزور کر دیا ہے اِن سب کا گناہ اَب تیرے ذمہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ سٹور میں آئے دروازہ کھولا اور ایک بوری آٹے کی اپنی پیٹھ پر اُٹھا لی۔ کسی شخص نے کہا کہ لائیے مَیں اِس بوری کو اُٹھا لیتاہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں! غلطی میری ہے اور اب ضروری ہے کہ اس کا خمیازہ بھی مَیں ہی بھگتوں۔ چنانچہ وہ بوری آٹے کی اُنہوں نے اِس عورت کو پہنچائی اور دوسرے ہی دن حُکم دیا کہ جس دن بچہ پیدا ہو اُسی دن سے اُس کیلئے غلّہ مقرر کیا جائے کیونکہ اُس کی ماں جو اُس کو دودھ پلاتی ہے زیادہ غذا کی محتاج ہے۔
قرآن مجید کا حکم کہ ہر فردوبشر کی ضرورت کو پوراکیا جائے
اَب دیکھو! یہ انتظام اسلام نے شروع دن سے ہی کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے تو پتہ لگتا ہے کہ اِس انتظام کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کے زمانہ سے نہیں ہوئی بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہوئی ہے۔ چنانچہ پہلی وحی جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوئی اُس میں یہی حکم ہے کہ ہم تمہیں ایک جنت میں رکھتے ہیں۔ جس کے متعلق ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ ۔۲۸؎ یعنی اے آدم! ہم نے تمہارے جنت میں رکھے جانے کا فیصلہ کر دیا ہیـ تم اُس میں بھوکے نہیں رہوگے تم اُس میں ننگے نہیں رہوگے۔ تم اُس میں پیاسے نہیں رہوگے اور تم اُس میں رہنے کی وجہ سے دھوپ میں نہیں پھروگے۔ لوگ اِس آیت سے غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس سے مراد اُخروی جنت ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب انسان جنت میں جائے گا تو وہاں اس کا یہ حال ہوگا۔ حالانکہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے کہ آدم اِسی دنیا میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲۹؎ مَیں دنیا میں اپنا خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور دنیا میں جو شخص پیدا ہوتا ہے وہ بھوکا بھی ہو سکتا ہے، وہ پیاسا بھی ہو سکتا ہے، وہ ننگا بھی ہو سکتا ہے، وہ دھوپ میں بھی پھر سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ دنیا میں تو پیدا ہو اور بھوک اور پیاس اور لباس اور مکان کی ضرورت اُسے نہ ہو اور جب کہ یہ آیت اِسی دنیا کے متعلق ہے تو لازماً ہمیں اِس کے کوئی اَور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ معنی یہی ہیں کہ ہم نے اپنا پہلا قانون جو دنیا میں نازل کیا اُس میں ہم نے آدم سے یہ کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ایسا قانون تمہیں دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیری اُمت کو جنت میں داخل کر دے گا اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر ایک کے کھانے پینے لباس اور مکان کا انتظام کیا جائے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بھوکا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کے لئے غذا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص ننگا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص پیاسا نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ تالابوں اور کنووں وغیرہ کا انتظام کرے۔ آئندہ تم میں سے کوئی شخص بغیر مکان کے نہیں رہنا چاہئے بلکہ یہ سوسائٹی کا کام ہونا چاہئے کہ وہ ہر ایک کے لئے مکان مہیا کرے۔ یہ وہ پہلی وحی ہے جو دنیا میںنازل کی گئی اور یہ وہ پہلا تمدّن ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں قائم کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے دنیا پر اِس حقیقت کو ظاہر فرمایا کہ خدا سب کا خدا ہے وہ امیروں کا بھی خدا ہے، وہ غریبوں کا بھی خدا ہے۔ کمزوروں کا بھی خدا ہے اور طاقتوروں کا بھی خدا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دنیا کا ایک طبقہ تو خوشحالی میں اپنی زندگی بسر کرے اور دوسرا روٹی اور کپڑے کیلئے ترستا رہے۔
یہی وہ نظام تھا جو اسلام نے اپنے زمانہ میں دوبارہ قائم کیا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام جلدی مٹ گیا مگر اِس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ دنیا میں جتنے بڑے کام ہیں اُن میں بھی یہی قانون پایا جاتا ہے کہ وہ کئی لہروں سے اپنی بلندی کو پہنچتے ہیں۔ ایک دفعہ دنیا میں وہ قائم ہو جاتے ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد پُرانے رسم و رواج کی وجہ سے مٹ جاتے ہیں مگر دماغوں میں ان کی یاد قائم رہ جاتی ہے اور ایک اچھا بیج دنیا میں بویا جاتا ہے اور ہر شریف اور منصف مزاج انسان تسلیم کرتا ہے کہ وہ چیز اچھی تھی مجھے دوبارہ اس چیزکو دنیا میں واپس لانا چاہئے۔ پس گو یہ نظام ایک دفعہ مٹ گیا مگر اب اُسی نظام کو دوبارہ احمدیت دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایک طرف حد سے زیادہ دولت کے اجتماع کو روکے گی دوسری طرف غرباء کی ترقی کے سامان کرے گی اور تیسری طرف ہر شخص کے لئے کھانے پینے کپڑے اور مکان کا انتظام کرے گی۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا اقتصادی نظام مبنی ہے:-
(۱) دولت جمع کرنے کے خلاف وعظ پر۔
(۲) دولت حد سے زیادہ جمع کرنے کے محرکات کو روکنے پر۔
(۳) جمع شدہ دولت کو جلد سے جلد بانٹ دینے یاکم کر دینے پر۔
(۴) حکومت کے روپیہ کو غرباء اور کمزوروں پر خرچ کرنے اور اُن کی ضروریات کو مہیا کرنے پر۔ اور یہی نظام حقیقی اور مکمل ہے کیونکہ اس سے
(۱) اُخروی زندگی کیلئے سامان بہم پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔
(۲) سادہ اور مفید زندگی کی عادت پڑتی ہے۔
(۳) جبر کا اس میں دخل نہیں ہے۔
(۴) انفرادی قابلیت کو کُچلا نہیں گیا۔
(۵) باوجود اِس کے غرباء اور کمزوروں کے آرام اور اُن کی ترقی کاسامان مہیا کیا گیا ہے۔
(۶) اور پھر اس سے دشمنیوں کی بنیاد بھی نہیں پڑتی۔
کمیونزم
اِس نظام کے مقابلہ میں چونکہ کمیونزم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے اور اِس پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے اِس لئے میں اَب کچھ باتیں کمیونزم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔
کمیونزم کا دعویٰ ہے کہ:
اوّل ہر ایک سے اُس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے۔
دوم ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق خرچ دیا جائے۔
سوم باقی روپیہ حکومت کے پاس رعایا کے وکیل (TRUSTEE)کی صورت میں جمع رہے۔
اُن کی بنیاد اس امر پر ہے کہ تمام انسانوں میں مساوات ہونی چاہئے کیونکہ اگر ہر شخص کام کرتا ہے تو ہر شخص مساوی بدلہ کا مستحق ہے اور کوئی شخص زائد دولت اپنے پاس رکھنے کا حقدار نہیں اوراگر کسی شخص کے پاس زائد دولت ہو تو وہ اُس سے لے لینی چاہئے۔ یہ اُس کا اقتصادی نظریہ ہے۔اِس نظریہ کا ایک سیاسی ماحول بھی ہے مگر چونکہ میرا مضمون سیاسی نہیں بلکہ اقتصادی ہے اِس لئے مَیں اُسے نہیں چھوتا۔
جہاں تک نتیجہ کا سوال ہے یہ بات بالکل درست ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو روٹی ملنی چاہئے، ہر انسان کو کپڑا ملنا چاہئے، ہر انسان کو رہائش کیلئے مکان ملنا چاہئے، ہر انسان کے علاج کا سامان ہونا چاہئے، ہر انسان کی تعلیم کی صورت ہونی چاہئے۔یعنی بنی نوع انسان کی ابتدائی حقیقی ضرورتیں بہرحال پوری ہونی چاہئیں اور کوئی شخص بھوکا یا پیاسا یا ننگا نہیں رہنا چاہئے۔اِسی طرح کوئی شخص ایسا نہیں ہونا چاہئے جو بغیر مکان کے ہو، جس کی تعلیم کی کوئی صورت نہ ہو اور جس کے بیمار ہونے کی صورت میں اُس کے علاج کا کوئی سامان موجود نہ ہو۔ پس جہاں تک اِس نتیجہ کا سوال ہے اسلام کی تعلیم کو اس سے کُلّی طور پر اتفاق ہے۔ وہ سَو فیصدی اِس بات پر متفق ہے کہ پبلک کا اقتصادی نظام ایسا ہی ہونا چاہئے اور اسلام کے نزدیک بھی وہی حکومت صحیح معنوں میںحکومت کہلا سکتی ہے جو ہر ایک کیلئے روٹی مہیا کرے، ہر ایک کیلئے کپڑا مہیا کرے، ہر ایک کیلئے مکان مہیا کرے، ہر ایک کی تعلیم کا انتظام کرے اور ہر ایک کے علاج کاانتظام کرے۔ پس اس حد تک اسلام کمیونزم کے نظریہ سے بالکل متفق ہے گو یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگرکوئی شخص اپنی قابلیت کا اظہار کرنا چاہے تو کمیونزم کے ماتحت وہ نہیں کر سکتا کیونکہ اِس میں انفرادی جدوجہد کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہے۔
اِسلام اور کمیونزم میں ایک فرق
درحقیقت انفرادی آزادی ایک طرف انسانی قابلیت کی نشوونما کے لئے ضروری ہوتی ہے
اور دوسری طرف موت کے بعد کی اعلیٰ زندگی کا دارومدار اقتصادیات میں انفرادی آزادی کے قیام پر ہے مگرکمیونزم انفرادی جدوجہد کا راستہ بند کرتی اور حُریتِ شخصی کو مٹا دیتی ہے جو ایک بہت بڑانقص ہے۔ یہ اختلاف ہے جو اسلام اور کمیونزم میں پایا جاتا ہے۔ مگر بہرحال نتیجہ سے اُسے کوئی اختلاف نہیں۔
روس نے اِس نظریہ پر عمل کر کے جو اقتصادی پروگرام بنایا ہے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اُس نے اِس میں خاص ترقی کی ہے اور وہاں کے عام لوگوں کی مالی حالت یا یوں کہو (گو کمیونسٹ اِس سے متفق نہ ہوں) کہ یورپین حصہ کی مالی حالت آگے سے اچھی ہے اور ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہاں غرباء کو روٹی ملی، کپڑا ملا، مکان ملا، علاج کیلئے دوائیں میسر آئیں اور تعلیم کیلئے مدرسے اُن کے لئے کھولے گئے۔ پس جہاں تک روس کی کمیونسٹ پارٹی کے اِس نتیجہ کا تعلق ہے اسلامی روحِ اقتصادیات اِس پر خوش ہی ہوگی لیکن جیسا کہ اوپر کے بیان سے ظاہر ہے ذرائع اور بعض نتائج سے اسلام موافق نہیں ہو سکتا۔
کمیونزم پر مذہبی لحاظ سے بعض اعتراضات
مَیں چونکہ اسلام کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ اِس لئے سب
سے پہلے مَیں کمیونسٹ اقتصادی نظام کے اُن حصوںکو لیتا ہوں جو مذہب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی جدوجہد جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہو کر انسان کو اُخروی زندگی میں مستحق ثواب بناتی ہے اُس کے لئے بہت ہی کم موقع باقی رکھا گیا ہے۔ بجائے اِس کے کہ اُس سے ضروری حصہ دولت کا لے کر باقی حصہ کے خرچ کو اُس پر چھوڑا جائے کہ وہ اُسے جس رنگ میں چاہے صرف کرے۔ اُس کی خوراک اور لباس کے سِوا اُس کے پاس کچھ چھوڑا ہی نہیں گیا کہ وہ اپنی اُخروی زندگی کے لئے بھی کوئی جدوجہد کرے۔ وہ روٹی کھا سکتا ہے، وہ کپڑاپہن سکتا ہے، وہ رہائش کے لئے مکان لے سکتا ہے، وہ اپنا علاج کرا سکتا ہے، وہ اپنی تعلیم سے بے فکر ہو سکتا ہے مگر اُخروی زندگی کے لئے اُس کے پاس ایک پیسہ بھی چھوڑا نہیں جاتا۔ گویا اُس کی چالیس پچاس سالہ زندگی کی تو فکر کی گئی ہے مگر اُس عقیدہ کے رو سے جو غیر متناہی زندگی آنے والی تھی اُس کو یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے کوئی شخص جو مذہب کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اپنی نجات کے لئے ضروری سمجھتا ہو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ مثلاًاسلام اُن مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جائو اور دنیا میں تبلیغ کرو، جائو اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے۔ وہ شخص جو اسلام سے باہر رہے گا نجات سے محروم رہے گا اور اُخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا۔ تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہہ لو، بے وقوف کہہ لو، جاہل کہہ لوبہرحال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے، جب تک وہ بنی نوع انسان کی نجات صرف اسلام میں داخل ہونے پر ہی منحصر سمجھتا ہے اُس وقت تک وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ مَیں اپنے ہر اُس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کاپیغام پہنچائوں، اُسے تبلیغ کروں اور اُس پر اسلام کے محاسن اِس عمدگی سے ظاہر کروں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے۔ـ آخر اگر یہ بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہے، اگر یہ اُن کی بھلائی اورعاقبت کی بہتری کا خواہشمند ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ اُن کے سامنے اس پیغام کو پیش نہ کرے جو اُس کے عقیدہ کی رو سے انسان کی دائمی حیات کے لئے ضروری ہے۔ اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ وہ گڑھے میں جا گرے، اگر یہ اپنے دوست کے متعلق پسند نہیں کرتا کہ دشمن اُسے گولی کا شکار بنائے تو یہ کس طرح پسند کر سکتا ہے کہ اَبدالآباد کی زندگی میں وہ دوزخ میں ڈالا جائے اور خدا تعالیٰ کی جنت اور اُس کے قُرب اور اُس کی رضامندی سے محروم ہو جائے۔ چاہے تم کچھ کہہ لو ایک مذہب سے وابستہ انسان کی انتہائی آرزو یہی ہوگی کہ وہ اپنے بھائی کی اعتقادی اور عملی حالت کو درست کرے لیکن کمیونسٹ نظام میں اِس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُس کی جدوجہد کو اوّل تو سیاسی طور پر روکا جائے گا چنانچہ ہمارا اپنا تجربہ اِس کی تصدیق کرتا ہے۔ مَیںنے ایک احمدی مبلّغ روس میں بھجوایا مگر بجائے اِس کے کہ اُسے تبلیغ کی اجازت دی جاتی اُسے قید کیا گیا۔ اُسے لوہے کے تختوں کے ساتھ نہایت سختی کے ساتھ باندھ کر اور کئی کئی دن بھوکا اور پیاسا رکھ کر مارا پیٹا گیا اور اُسے مجبور کیا گیا کہ وہ سؤر کا گوشت کھائے اور یہ مظالم برابر ایک لمبے عرصہ تک اُس پر ہوتے چلے گئے۔ (حضور نے اس موقع پر مولوی ظہورحسین صاحب مجاہد روس کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا) یہ وہ صاحب ہیں جنہیں مبلّغ بنا کر بھیجا گیا تھا۔ دو سال دو ماہ کم اِن کو تاشقند، عشق آباد اور ماسکو کے قید خانوں میں رکھا گیا اور لوہے کے تختوں کے ساتھ باندھ باندھ کر مارا گیا اور اِنہیں بار بار مجبور کیاگیا کہ سؤر کا گوشت کھائو یہاں تک کہ اِن متواتر مظالم کے نتیجہ میں اِن کی دماغی حالت خراب ہوگئی۔ اِس پر وہ اِنہیں ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئے۔ وہاں کے برطانوی سفیر نے گورنمنٹ آف اِنڈیا کو اطلاع دی اور گورنمنٹ آف انڈیا نے مجھے تار دیا کہ آپ کے ایک مبلّغ کو روسی حکومت ایران کی سرحد پر لا کر چھوڑ گئی ہے۔ چنانچہ مَیں نے گورنمنٹ کو لکھا کہ اِس مبلّغ کو آپ ہمارے پاس بھجوا دیں اور آپ کا جس قدر خرچ ہو وہ ہم سے وصول کریں۔ اِس پر گورنمنٹ نے اِن کو ہندوستان پہنچا دیا۔ پس یہ وہ ہمارے مبلّغ ہیں جنہیں دو ماہ کم دو سال شدید ترین عذابوں میں مبتلا رکھا گیا اور کسی ایک مرحلہ پر بھی اِن کو مذہبی تبلیغ کی اجازت روس میں نہ دی گئی۔
پس اوّل تو وہ سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اِس لئے اسے نظر انداز بھی کر دو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی کے بعد لٹریچر وغیرہ مہیا کر سکتی ہے۔ مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو۔ ہم اقلیت ہیں مگر دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کیلئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کے لئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنا مال ہے جو اِس جدوجہد پر خرچ آ سکتا ہے۔ ہماری جماعت اِس جدوجہد کو اُسی صورت میں جاری رکھ سکتی ہے جب اِس کی کمائی اِس سے پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہننے کے علاوہ بھی اِس کے پاس روپیہ ہو تا وہ اس سے اِن اخراجات کو پورا کر سکے جن کو وہ اپنی اُخروی بھلائی کیلئے ضروری سمجھتی ہے۔ لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدوجہد کو کام ہی نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں۔ وہ مشین چلانے کو کام سمجھتا ہے، وہ ہل چلانے کو کام سمجھتا ہے۔ وہ کارخانے میں کام کرنے کو کام سمجھتا ہے لیکن خدائے واحد کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی اشاعت کے کام کو وہ کام نہیں سمجھتا کیونکہ وہ الہام کو نہیں مانتا۔ وہ شریعت کو نہیں مانتا۔ـ وہ مذہب کو نہیں مانتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ مذہبی لوگ پاگل ہیں اور اپنے وقت کو ضائع کر رہے ہیں۔ اس لئے اِن مبلّغوں کی خوراک یا لباس یا رہائش وغیرہ کی حکومت ذمہ دار نہیں ہوسکتی۔ حکومت اُن کی اسی صورت میں ذمہ دار ہو سکتی ہے جب وہ کام کریں جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ مادی کام کریں۔ مذہبی اور روحانی کاموں سے دست بردار ہو جائیں۔ پس کمیونزم کے ماتحت اسلام روس میں اپنی اس جدوجہد کو جاری ہی نہیں کر سکتا۔ جاری رکھنا اورمسلسل جاری رکھتے چلے جانا تو الگ رہا۔ ایک مسلمان کے نزدیک خواہ وہ بھوکا رہے۔ مگر اُخروی زندگی درست ہو جائے تو وہ کامیاب ہے اور اپنے بھائی کے متعلق اس کا یہ نظریہ ہے کہ اگر دنیا بھر کی دولت اس کے پاس ہو لیکن اُخروی زندگی اُس کو نہ ملے۔ ہدایت اُس کو میسر نہ آئے خدا تعالیٰ کی رضا اس کو حاصل نہ ہو تو وہ ناکام ہے۔
جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اس کی خیر خواہی اُسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے گمراہ بھائی کی اُخروی زندگی کیلئے سامان مہیا کرے۔ مگر اُس سے اُس کا سارا مال لے لیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ہم وطن کی جان بچاتے ہیں اور اُس کی روح کو مرنے دیا جاتا ہے۔ جہاں تک روٹی اور کپڑا اور مکان مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک تعلیم مہیا کرنے کا سوال تھا۔ جہاں تک علاج مہیا کرنے کا سوال تھا ہم اسلامی تعلیم کے ماتحت اُن سے متفق تھے اور ہم سمجھتے تھے کہ اس قدر ٹیکس ضرور لگنا چاہئے کہ دنیا میں ہر فرد کو یہ تمام ضروریات میسر آجائیں۔ مگر یہاں تو دوسرا نقطہ یہ بھی ہے کہ اپنی روٹی کپڑے سے زائد سب کچھ حکومت کو دے دو اور اپنے عقیدہ کی اشاعت میں کوئی حصہ نہ لو۔ گویا ہم نے تو اُن کی تائید کی اور اس لئے کہ ہمارا مذہب بھی یہی تعلیم دیتا ہے۔ مگر انہوں نے بجائے مذہب کا شکرگزار ہونے کے اور اُس کی اشاعت کی اجازت دینے کے یہ کہہ دیا کہ ہم خدا اور اس کے رسول کا نام پھیلانے کی تمہیں اپنے مُلک میں اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ بیکاری اور قوم پر بوجھ بن کر بیٹھ جانا ہے اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اُسے غیرضروری قرار دیتے ہیں تو گو پھر بھی ہمیں اختلاف ہوتا۔ مگر ہمیں افسوس نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی زبان سے ظاہر کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے۔ وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ماتحت تمہارے مذہب کو اپنے مُلک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اُس وقت اُن کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جب کہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔کمیونزم اگر کھلے بندوں کہے کہ ہم اُخروی زندگی کو کوئی وقعت نہیں دیتے ہم اُس کے پر چارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں چھوڑنا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اُس میں داخل ہوں۔ مگر دوسرے ممالک میں اِس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمیونزم صرف ایک اقتصادی نظام ہے مذہب سے اِس کا کوئی ٹکراؤ نہیں۔ حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا، مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خداتعالیٰ کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو،لٹریچر کے ذریعہ ہو یاکتابوں کے ذریعہ ہو مگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا ہی نہیں۔ پھر ایک مذہبی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتابیں کس طرح مُلک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے۔ اِس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رُک جائے اورلامذہبیت کا دَور دَورہ ہو جائے۔
دین کے لئے زندگی وقف کرنے میں کمیونسٹ نظام کی روکیں
اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ مَیں روپیہ نہیں مانگتا لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف
کردیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں سارے روس میں پھروں گا اور اپنے خیالات اُن لوگوں پر ظاہر کروں گا۔ میں گاؤں بہ گاؤں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر جاؤں گااور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے مُلک میں پھرنے کی اجازت دے گی۔ یا جبراً اُسے اس کام سے روکے گی اور اُسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھٹریوں میں محبوس کر دے گی۔ یقینا اس کا ایک ہی جواب ہے کمیونسٹ گورنمنٹ اُسے جبراً اس کام سے روکے گی اُسے دین اور مذہب کا کام نہیں کرنے دے گی۔ اُسے قیدخانہ میں بند کردے گی اور اُسے کہے گی کہ یا تو کوئی اورکام کرو ورنہ یاد رکھو اس قسم کے کام کے ساتھ تمہیں روٹی اور کپڑا نہیں مل سکتا۔ گویا خدا کے لئے میرا اپنی زندگی کو وقف کر دینا ،میرا قرآ ن کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا،میراحدیث کی تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دینا جس کے بغیر میرے عقیدے کی رو سے میری اُخروی زندگی سدھر ہی نہیں سکتی کمیونزم کے نزدیک نکماپن ہے، یہ بے کاری اور وقت کا ضیاع ہے۔ کمیونسٹ حکومت اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے کو کہے گی کہ اگر تم نے مذہب کی اشاعت کا کام کیا تو یاد رکھو یا تو تمہیں قید کر دیا جائے گا اور یا تمہاری روٹی اور کپڑا بند کر دیا جائے گا۔حالانکہ قرآن کریم اس قسم کے افراد کی جماعت کو قومی لحاظ سے نہایت ضروری قرار دیتا ہے اور مذہب کو ماننے والے اِس امر کے قائل ہیں کہ ایک حصّہ اُن کے افراد کا پوری طرح مذہبی نظام کے قیام کے لئے فارغ ہونا چاہئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳۰؎ یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دنیوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں، عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور بُرے اخلاق سے لوگوں کو روکیں پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ یہ صحیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کرنے والوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایک خاص کام ان کے سپرد کرتا ہے۔ اسلام پادریّت(PRIESTHOOD) کا قائل نہیں مگر وہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے۔عیسائیت تو جن لوگوں کے سپردتبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروںسے بعض زائد حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی زائد حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں گے لیکن یہ ضرو ر ہے کہ زندگی وقف کرنے والے کے سپرد خاص طور پر یہ کام ہو گا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی یا تربیتی نقطۂ نگاہ سے ہر وقت اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑامقصد سمجھے۔ اِس قسم کے لوگوں کی نفی کر کے نظامِ اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کے ماہروں اور بغیر اس کے مبلّغوں کے کس طرح چل سکتا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ سیاسیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ آقا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ معلّم اور متعلّم کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے، وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور اُن میں سے ایک ایک امر مکمل تعلیم اور کامل معلّموں کو چاہتا ہے جو رات دن اِسی کام میں لگے رہیں۔ جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اِسلام میں موجود نہیں ہوں گے لوگ سیکھیں گے کیا؟اور کس سے؟ اور اسلام پر مسلمان عمل کس طرح کریں گے اور اسلام دنیا میں پھیلے گا کس طرح ؟ـ
تفسیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے۔ جب تک مفسّر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اور مفسّر بننے کے لئے سالہاسال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، لُغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، صرف ونحو کا مطالعہ کرنے کی ضرروت ہے، احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، پھر پُرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصاً تاریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے بغیر اِن باتوں کے جاننے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست کسی کو سمجھائے مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں۔ صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے جو تقویٰ کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر اور عربی بارہ سال تک پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقع کب دے سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے شخص کو یا قید کر دیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکما اور قوم پر بوجھ ہے۔ اِسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوں حدیث کی کتب کے ، درجنوں اُن کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف ونحو اور اَسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے بغیر حدیث کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہو سکتا۔ اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں مسلمانوں میں اِس علم کی واقفیت پیدا ہی نہیں ہو سکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو بھی لغو اور فضول اور بے کار قرار دیتی ہے۔ وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعاً خرچ نہ کرنے دے گی۔ یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اُسے فاقوں سے مارے گی کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بیکار وجود ہے اور قوم پر بار۔ مگر مسلمان بغیر اس علم کے ماہر ین کے اپنے دین سے نہ واقف ہو سکتے ہیں نہ اس پر کار بند ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح علمِ فقہ ، علمِ قضاء، علمِ تاریخ اسلام، علمِ تصوف، علمِ معاشِ اسلامی، علمِ اقتصادِ اسلامی ایسے علوم ہیں کہ اُن کے جاننے والوں کے بغیر اسلامی جماعت کو جہاں تک اسلام کا تعلق ہے زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ مگر کمیونزم نہ اِن علوم کے پڑھانے والوں کو اپنے مُلک میں رہنے دے سکتی ہے اور نہ پڑھنے والوں کو ۔ کیونکہ وہ ان لوگوں کو بے کار قرار دے کر ان کے لئے گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتی اور عوام کے پاس سوویٹ اقتصادیات کے ماتحت اِس قدر روپیہ نہیں ہو سکتا کہ وہ ان لوگوںکے گزارہ کی خود صورت پیدا کریں جیسا کہ ہندوستان ،چین، عرب وغیرہ ممالک میں مسلمان اسلامی علماء اور طلباء کے گزارہ کی صورت پیدا کر رہے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اسلام اور دیگر مذاہب اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں سخت اختلاف ہے ۔
اسلام اور کمیونزم کے کام کی تشریح میں اختلاف
ہمارے نزدیک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو شخص مذہب پھیلارہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم دے رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے اور
جو مذہب کی تعلیم حاصل کر رہا ہے وہ بھی کام کر رہا ہے۔مگر اُن کے نزدیک جو شخص مشین چلاتا ہے۔ وہ تو کام کرنے والا ہے ـمگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھاتا یا پھیلاتا ہے وہ نکما اور بے کار ہے۔ اُن کے نزدیک لوگوں کو الفؔاور باؔسکھاناکام ہے مگر لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں بلکہ نکما پن ہے۔ پس گو لفظاً ہم اُن سے متفق ہیں اور ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کام کرنے والا ہی روٹی کا مستحق ہو نا چاہئے مگر اس امر میں ہم ہر گز اُن سے متفق نہیں ہیں کہ جب تک ایک کمیونسٹ کسی کام کی تصدیق نہ کرے وہ کام ہی نہیں ہے۔ کمیونسٹ کے نزدیک اُخروی زندگی کے لئے کام کام نہیں بلکہ وقت کا ضیاع ہے۔ اُس کے نزدیک قرآن پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، حدیث پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، اصول فقہ پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تفسیر پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، تصوف پڑھانے والا وقت ضائع کر رہا ہے، لوگوں کو اخلاق کا درس دینے والا وقت ضائع کر رہا ہے، ایک مسلمان کے نزدیک یہ اُس کی جان سے زیادہ قیمتی اشیاء ہیں اور اِن علوم کو زندہ رکھنے اور پھیلانے کے لئے ہزاروں انسانوں کی ضرورت ہے۔ صرف روس میں کہ جہاں مسلمان تین کروڑ ہیں کم سے کم پچاس ہزار علماء اور اتنے ہی طلباء چاہئیں جو آئندہ اُن کی جگہ لیں۔ مگرکمیونزم نظام کے نزدیک یہ تمام لوگ جو قرآن پڑھانے والے، حدیث پڑھانے والے، تفسیر پڑھانے والے، تصّوف پڑھانے والے ، فقہ پڑھانے والے، اصولِ فقہ پڑھانے والے یا اخلاق کا درس دنیا کودینے والے ہیںخون کو چوس لینے والے قوم کو تباہ کردینے والے کیڑے ہیں یہ نکمے اور نالائق وجود ہیں۔ یہ اپنی قوم پر بار ہیں اور یہ لوگ اس قابل ہیں کہ اِن کو جلد سے جلد دنیا سے مٹا دیا جائے۔
اب دیکھو ہمارے نظریہ اور اُن کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدر بُعد کو کسِ طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لوگ دھوکے باز بھی ہوتے ہیں اور وہ دین کی خدمت کا دعویٰ کر کے اپنے اعمال اس کے مطابق نہیں بناتے مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شخص جو دین کی سچی خدمت کر رہا ہو، جو اسلام کی اشاعت کیلئے اپنی زندگی کو قربان کر رہا ہو ہم اُسے اپنا سردار سمجھتے ہیں، اُسے قومی زندگی کیلئے بمنزلہ رُوح سمجھتے ہیں اور ہم اُسے اپنا بڑے سے بڑا محسن سمجھتے ہیں مگر کمیونسٹ ایسے لوگوں کو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل تروجود قرار دیتے ہیں۔ وہ اُن کو نکما اور قوم کا غدّار سمجھتے ہیں اور اُن کے نزدیک یہ لوگ اس قابل ہیں کہ یا تو ان کو قید کر دیا جائے اور یا اپنے مُلک سے باہر نکال دیا جائے۔ـ
کمیونسٹ نظام میں انبیاء علیہم السلام کا درجہ
اِس تفصیل کے ماتحت کمیونزم نظام میں وہ شخص جس کے
پَیروں کی مَیل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے، جس کیلئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفیﷺ جو رات اور دن خدا کی باتیں سنا کر بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے اِسی طرح مسیحؑ، موسیٰؑ، ابراہیمؑ، کرشنؑ، رام چندرؑ، بدھؑ، زرتشتؑ، گورونانکؒ، کنفیوشسؑ یہ سب کے سب نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نکمے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو اُن کے قانون کے ماتحت یا تو فیکٹریوں میں کام کے لئے بھجوادینا چاہئے تاکہ اُن سے جوتے بنوائے جائیں یا اُن سے بوٹ اور گرگابیاں تیار کرائی جائیں یا اُن سے کپڑے سلائے جائیں یا اُن کو لوگوں کے بال کاٹنے پر مقرر کیا جائے اور اگر یہ لوگ اِس قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوںتو پھر اُن کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ لوگ نکمے اور قوم پر بار ہیں۔ کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیتا ہے، وہ سیٹچو(STATUE) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اُسے نکما پن سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اُس کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر اُن کو عبادت سے روک دو تو وہ کبھی بھی چین نہیں پائیں گے خواہ اُن کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے۔
کمیونزم کا کام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ
تعجب ہے کہ کمیونسٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کرکے سینما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والاقرار دیتا ہے، وہ
فوٹوگرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا۔ پچھلے دنوں مارشل ماٹی نووسکائی ( MOTI NOOSKY) سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کس کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا کہ
‏’’They are intrested in photography music and keeping rabbits.‘‘
گویا کمیونسٹ نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جو فوٹوگرافی میں اپنے وقت کو گزار دیتا ہے، جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے، جو خرگوشوں کو پال پال کر اُن کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے روٹی دی جائے لیکن محمدرسولﷺ، مسیحؑ، موسیٰؑ ، کرشنؑ، بدھؑ، زرتشتؑ ، گورونانکؒ یہ اگر خدا کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ ( نَغُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ) پیراسائٹس(PARASITES)ہیں۔ یہ سوسائٹی کو ہلاک کرنے والے جراثیم ہیں۔ یہ اِس قابل نہیں ہیں کہ اُن کو کام کرنے والا قرار دیا جائے حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا۔ انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا، تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیامگر یہ لوگ اُن کے نزدیک نکمے اور قوم پر بار تھے۔ وہ سینما میں اپنے رات اور دن بسر کرنے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے۔ وہ لوگ جو مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے، جو اخلاق کو درست کیا کرتے تھے، جو ہر قسم کی تکالیف برداشت کر کے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو مٹاتے تھے وہ تو نکمے تھے اور یہ سینما میں جانے والے اور شرابیں پی پی کر ناچنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کر پیں پیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں۔
سچے مسلمان کے لئے غیرت کا مقام
غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے کمیونسٹ نظام میں اِن لوگوں کی کوئی
جگہ نہیں۔مَیں دوسری دنیا کو نہیں جانتا مگر مَیں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نظام جس میں محمد رسول اللہﷺ کی جگہ نہیںخدا کی قسم! اُس میں میری بھی جگہ نہیں۔ ہم اُسی مُلک اور اُسی نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں اِن لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے۔ وہ مُلک اگر محمد رسول اللہ ﷺکے لئے بند ہے تو یقینا ہر سچے مسلمان کے لئے بھی بندہے۔ وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظا م کی طرف لاسکتے ہیں مگر حقیقت کو واضح کر کے کبھی نہیں لا سکتے۔ کمیونسٹ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں مگر جیسا کہ مَیں نے اوپر بتایاہے یہ بات درست نہیں وہ لفظاً خلاف نہیں لیکن عملاً خلاف ہیں اور جبکہ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ مذہب کی کوئی حیثیت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تو یہ کہنا کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں ہیں جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ۔
مذہبی تعلیم میں روک ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع کا استعمال
اِس سلِسلہ میں ضمناً یہ بات بھی کہے جانے کے قابل ہے کہ روس میں مذہبی تعلیم میں روک ڈالی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ماں باپ کا یہ
ہرگز حق نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی باتیں سکھائیں اور پیدا ہوتے ہی اُس کے کانوں میں ایسی باتیں ڈالنی شروع کر دیں جن کے نتیجہ میں وہ مذہب کی طرف مائل ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بچے پر کتنا بڑاظلم ہے کہ اسے پیدا ہوتے ہی ایک مسلمان اسلام کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے، ایک ہندو ہندو مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایک عیسائی عیسائی مذہب کی طرف مائل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ انصاف کا طریق یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو بلوغت تک اُسے مذہب کی کوئی بات سکھائی نہ جائے۔ دوسری طرف ہم بھی اُسے کوئی بات نہیں بتائیں گے۔ جب وہ بڑا ہوگا تو خود بخود فیصلہ کرلے گا کہ اُسے کونسا طریق اختیار کرنا چاہئے۔ اب بظاہر یہ ایک منصفانہ طریق نظر آتا ہے مگر حقیقتاً یہ بڑا بھاری ظلم اور تشدد ہے اِس لئے کہ اسلام یا عیسائیت یا ہندومت یہ سب مثبت مذاہب ہیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز کا وجود ہے لیکن دہریہ یہ کہتے ہیں کہ اِس چیز کا وجود نہیں ہے۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ سکھانے کی تو مثبت والے کو ضرورت ہوتی ہے منفی والے کو کیا ضرورت ہے۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی اور فریب کاری ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تم بھی کچھ نہ سکھاؤ اور ہم بھی کچھ نہیں سکھائیں گے تودوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم تو سکھائیں گے مگر تمہاری کوئی بات بچے کو سیکھنے نہیں دیں گے۔اب بتائو کیا کوئی بھی معقول آدمی اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ منصفانہ طریق ہے یہ تو صریح یکطرفہ طریق ہے اور ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی کے باپ کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیں کہ مَیں تمہارا باپ ہوں اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اُس کے باپ نہیں ہیں اب بتائو اِس کے نتیجہ میں بچہ کیا سیکھے گا؟ یہی سمجھے گا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے۔ یا ایک شخص مدرسہ میں جا کر اُستاد سے کہے کہ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ الف ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ الف نہیں۔ آپ بچے کو یہ نہ بتائیے کہ یہ با ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ یہ با نہیں۔ بتائو اِس کے نتیجہ میں الف، با کا علم پیدا ہوگا یا جہالت پیدا ہوگی؟ یا ایک شخص کسی کے پاس جائے اور کہے کہ تم بچے کو یہ نہ بتائو کہ امریکہ ایک مُلک ہے اور مَیں اُسے یہ نہیں کہوں گا کہ امریکہ مُلک نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ آخر کیا ہوگا؟ یہی ہوگا کہ اُسے امریکہ کا علم نہیں ہوگا۔ غرض کوئی بھی معقول آدمی اِس سودے کو انصاف کا سَودا نہیں کہہ سکتا۔ اور اِس کی وجہ جیسا کہ مَیں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ مذہب مثبت ہے اور دہریت اِگناسٹزم ہے یعنی نہ جاننے کا دعویٰ۔ تعلیم کی نفی کی صورت میں اگناسٹک کا مدّعا پورا ہوگیا اور نقصان صرف مثبت والے کو ہوا۔ پس یہ مساوات نہیں بلکہ دھوکے بازی ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ۳۱؎ ہم انسان کو قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم سکھائیں گے جن کو وہ اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ پس جب کہ اسلام دعویٰ ہی یہ کرتا ہے کہ ہم وہ علوم تمہیں بتائیں گے جو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔ تو اگر تم کسی کو وہ علوم بتانے ہی نہیں دو گے تو تم ایک مسلمان کے برابر کس طرح ہوگئے۔ تم تو اُس بے علم کو اس حالت میں لے گئے جو اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت کی حالت تھی اور مسلمان کو اس کے کام سے محروم کر دیا۔ اسی طرح بعض اور بھی سوالات ہیں جو اس جگہ پیدا ہوتے ہیں مگر چونکہ میں اِس وقت اُن سیاسی، علمی اور مذہبی سوالوں کو جو اقتصادیات سے جُدا ہیں نہیں چھو رہا اِس لئے میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
مکمل مساوات ناممکن ہے
کمیونسٹ اقتصادیات کا جو اثر مذاہب پر پڑتا ہے اُس کی خرابیاں بتانے کے بعد اَب مَیں یہ بتاتا ہوںکہ یہ
نظام عقلاً بھی ناقص ہے۔ پوری مساوات کوئی شخص کر ہی نہیں سکتا۔ صرف روپیہ ہی تو انسان کی خوشی کا موجب نہیں ہوتا نہ صرف روٹی اُس کا پیٹ بھرتی ہے مگر پھر بھی سوال یہ ہے کہ کیا ہر شخص ایک سی روٹی کھاتا ہے؟ کیا ہر شخص ایک سا مزہ کھانے سے حاصل کر سکتا ہے؟ کیا ہر شخص کی نظر ایک سی ہے؟ کیا ہر شخص کی صحت ایک سی ہے اور کیا ان امور میں مساوات پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ چیزیں بھی تو انسان کا آرام بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں۔ ذہنی قابلیتیں کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہیں مگر دنیا میں کیا کوئی گورنمنٹ اِن ذہنی قابلیتوں میں مساوات پیدا کر سکتی ہے؟ رشتہ داروں کی حیات انسان کے اطمینانِ قلب کا کس قدر موجب ہوتی ہے مگر کیا کوئی رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ کیا کوئی گورنمنٹ کہہ سکتی ہے کہ مَیں اس رنگ میں مساوات قائم کروں گی کہ آئندہ تیری بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی اور فلاں شخص کی بیوی بھی اتنے سال زندہ رہے گی یا زید کے بھائی بھی اتنا عرصہ جیتے رہیں گے اور بکر کے بھائی بھی اتنا عرصہ زندہ رہیں گے؟ پھر اولاد کا وجود اور ان کی زندگی انسان کیلئے کس قدر تسلی کا موجب ہوتی ہے مگر کیا دنیا کی کوئی بھی گورنمنٹ ایسا کر سکتی ہے کہ سب کے ہاں ایک جتنی اولاد پیدا ہو، سب کی ایک جیسی قابلیت ہو اور سب کی ایک جتنی زندگی ہو؟ پھر رشتہ داروں کے دکھ سے انسان کو کیسا عذاب ہوتا ہے تم ہزار پلائو اور فرنیاں سامنے رکھ دو وہ ماں جس کا اکلوتا بچہ مرگیا ہے اُسے اِن کھانوں میں کوئی مزا نہیں آئیگا لیکن وہ ماں جس کے سینہ سے اس کا بچہ چمٹا ہوا ہو اُسے جو مزا باسی روٹی کھانے میں آتا ہے وہ اس بڑے سے بڑے مالدار کو بھی نہیں آتا جس کے سامنے بارہ یا چودہ ڈشوں میں مختلف قسم کے کھانے پک کر آتے ہیں۔ رشتہ داروں کے متعلق انسانی جذبات کی شدت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتداء میں جب بالشویک اور منشویک دو پارٹیاں بنیں تو مارٹوو (MARTOV, YULY 1873-1923)جولینن کی طرح اپنی پارٹی میں مقتدر تھا اس نے کہا کہ ہمیں اپنے قوانین میں یہ بھی لکھ لینا چاہئے کہ آئندہ ہماری حکومت میں پھانسی کی سزا کسی کو نہیں دی جائے گی کیونکہ انسانی جان لینا درست نہیں اور لوگ بھی اس سے متفق تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پھانسی کی سزا کو اُڑا دیا جائے مگر لینن نے اُس سے اختلاف کیا اور کہا کہ گو اصولاً یہ بات درست ہے مگر اِس وقت اگر یہ بات قانون میں داخل کر دی گئی تو زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا پس خواہ صرف زار کی جان لینے کیلئے اس قانون کو جاری رکھنا پڑے تب بھی یہ قانون ضرور قائم رہنا چاہئے ورنہ زار کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جا سکے گا۔ لینن کی زار سے یہ انتہا درجہ کی دشمنی جس کی وجہ سے اُس نے پھانسی کی سزا کو منسوخ نہ ہونے دیا محض اس وجہ سے تھی کہ اُس کے بھائی کو زارسٹ حکومت نے کسی جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ لینن کے دل میں اپنے بھائی کی شدید محبت تھی اِس لئے اُس نے چاہا کہ پھانسی کا قانون قائم رہے تا کہ وہ اپنے بھائی کی موت کا بدلہ زار سے لے سکے اور اُسے پھانسی پر لٹکا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کر سکے۔ غرض رشتہ داروں کا دکھ بھی اتنا سخت ہوتا ہے کہ روٹی کا دُکھ اُس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا۔ مگر کیا کوئی بھی گورنمنٹ اِس میں مساوات قائم کر سکتی ہے اور کیا کوئی شخص کسی گورنمنٹ سے اپنے رشتہ داروں کی زندگی کا بیمہ لے سکتا ہے؟ پس دل کا چین اور حقیقی راحت بغیر مذہب اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ امور اُسی کے اختیار میں ہیں۔ تم روٹی بیشک برابر کی دے دو، کپڑا بے شک یکساں دے دو لیکن انسان کو حقیقی چین اُس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک اُس کا خدا سے تعلق نہ ہو کیونکہ روٹی کپڑے کے علاوہ ہزاروں چیزیں ہیں جن میں کمی بیشی سے دل کا چین جاتا رہتا ہے اور اُن کا دینا محض اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
کمیونزم کی حق ملکیت میں دخل اندازی
(۲) روس، زار کے زمانہ میں صنعتی مُلک نہ تھا بلکہ بڑے بڑے زمینداروں
کا مُلک تھا اس لئے کمیونزم کو براہ راست تعلق زمینوں سے تھا نہ کہ صنعت سے۔ کارل مارکس نے اگر سرمایہ داری پر کچھ لکھا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جرمنی میں پَلا اور وہیں کی یونیورسٹی میں اُس نے تعلیم پائی۔ لینن وغیرہ نے جب اُس کے فلسفہ کو اپنایا تو اس کی تعلیم سرمایہ داری کو زمینداری طریق پر چسپاںکرنے کی کوشش کی اور یہ اصول مقرر کیا کہ:
(۱) زمین حکومت کی ہے۔
(۲) اس لئے مُلک کی سب زمینوں کو لے کر اُس آبادی میں جو خودزمیندارہ کام کرے زمین تقسیم کر دینی چاہئے۔
(۳) جس قدر زمین میں کوئی ہل چلا سکے اُسی قدر زمین اُس کے پاس رہنے دینی چاہئے اس سے زائد نہیں
(۴) چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ضروری ہے۔ کاشتکار چونکہ حکومت کا نمائندہ ہے اُسے کاشت کے بارہ میں حکومت کی دخل اندازی کو تسلیم کرنا چاہئے۔
اسلام میں حق ملکیت
اسلام کی تعلیم جس کے اصول پہلے بتائے جا چکے ہیں اس بارہ میں یہ ہے کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے حق ملکیت
کو جو جائز طور پر ہو تسلیم کیا ہے مگر اِس کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ زمین کا مالک اپنی زمین کو اپنی اولاد میں ضرور تقسیم کرے (لڑکے کا ایک حصہ لڑکی کا نصف حصہ اور والدین کا ۳؍۱) اور کسی ایک بچے کے پاس نہ رہنے دے۔ اگر اولاد نہ ہو تب بھی وہ ماں باپ اور بہن بھائیوں میں تقسیم ہو۔ اگر وہ بھی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی نمائندہ حکومت کے پاس وہ زمین لَوٹ جائے۔ ۳؍۱سے زائد کوئی شخص اپنی جائداد کو وصیت میں نہیں دے سکتا لیکن یہ ۳؍۱ حصہ وارثوں میں سے کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ کس قدر پُرحکمت یہ تعلیم ہے۔
(۱) بوجہ ملکیت کو تسلیم کرنے کے ہر شخص جس کے پاس زمین ہوگی اُسے بہتر طور پر کاشت کرے گا کیونکہ اس کے گزارہ کا مدار اس زمین پر ہوگا
(۲) اس کے بچے یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس زمین پر کاشت کریں گے اِس فن میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے
(۳) اگر زمین نسبتی طور پر زیادہ بھی ہوگی تو تقسیم وارثت کے ذریعہ سے لازماً کم ہوتی چلی جائے گی
(۴) چونکہ اسلام زمین کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیتا ہے اس لئے ناجائز طور پر بہت سی زمین کسی کے پاس نہیں جا سکتی۔ ناجائز سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے سوا دوسرے نظاموں میں مفتوحہ مُلکوں کی زمین بادشاہ کے ساتھیوں یا بارسوخ ہم قوموں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔ اسی نظام کی وجہ سے نارمنڈی -B۳۱؎ کے بادشاہوں نے انگلستان، سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کے بعض علاقوں کی زمینیں چند امراء میں تقسیم کر دیں اور باقی سب لوگ بغیر زمین کے رہ گئے حتیّٰ کہ لوگوں کو مکان بنانے کیلئے بھی زمین نہ ملتی تھی۔ بلکہ پُرانے قانون کے ماتحت لوگ مکانوں تک کے لئے امراء سے زمین نہ خرید سکتے تھے اور آخر لمبے مقاطعہ کی صورت میں زمینوں کی خرید و فروخت کا طریق جاری ہوا لیکن پھر بھی بہت سے قصبات کی عمارتیں بڑے زمینداروں کے قبضہ میں ہیں جو لوگوں کو کرایہ پر دے کر اپنا تصرف لوگوں پر قائم رکھتے ہیں۔ فرانس میں بھی اور جرمنی اور آسٹریا میں بھی ایک حد تک ایسا ہی ہوا۔ اٹلی میں بھی ایک لمبے عرصہ تک یہی حال رہا اور نپولین کی جنگوں کے بعد کسی قدر اصلاح ہوئی۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ کی ترقی میں بھی بڑے زمینداروں کی ایک جماعت اِسی طرح پیدا ہوگئی کہ پُرانے باشندوں کی زمین کے جتنے وسیع رقبہ پر کوئی قبضہ کر سکا اس نے قبضہ کر لیا۔ آسٹریا میں بھی ایسا ہوا اور کینیا کالونی میں بھی اِسی طرح ہوا کہ بعض انگریزوں نے لاکھ لاکھ ایکڑ پر قبضہ کر لیا اور پُرانے باشندوں کو محروم کر دیا۔
مفتوحہ علاقہ کی زمین پر قبضہ کرنے کے متعلق اسلام کا بہترین نمونہ
اس کے مقابل پر اسلامی فتوحات میں عرب میں تو فاتحین کو افتادہ زمینوں میں سے کچھ حصہ دیا گیا کیونکہ عرب میں تو
زمین ہی کم ہے اس سے وہ ناجائز طور پر بڑے زمیندار نہیں ہو سکتے تھے لیکن یمن اور شام میں جو پُرانے زمیندار تھے اُن ہی کے پاس زمین رہنے دی گئی۔ عراق کا علاقہ چونکہ غیرآباد تھا اور ایرانی اسلام کی فتح پر اس علاقہ کو چھوڑ گئے تھے اور یہ علاقہ دو دریائوں کے درمیان ہے اس لئے وہاں بہت سی اُفتادہ زمین مسلمانوں کو ملی مگر باوجود اس کے کہ لشکرِ اسلام کے بعض جرنیلوں نے اس وقت کے عام دستور کے مطابق اس زمین کو جو افتادہ اور سرکاری تھی فاتحین میں بانٹنے کی کوشش کی۔ حضرت عمرؓ نے اِس بناء پر تقسیم کرنے سے انکار کیا کہ اس سے آئندہ نسلوں اور عامۃ الناس مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور اُسے گورنمنٹ کی ملکیت ہی رہنے دیا گیا۔ اِسی طرح مصر میں بھی زمین وہاں کے سابق باشندوں کے پاس رہنے دی گئی۔ غرض اسلامی نظام کی جو تعبیر ابتدائے اسلام میں کی گئی اس میں یہ امر تسلیم کر لیا گیا کہ اُفتادہ زمین کو بجائے امراء میں بانٹ دینے اوربڑے بڑے زمینداروں کی جماعت تیار کرنے کے جیسا کہ یورپین نظام کے ماتحت ہوا ہے حکومت کے قبضہ میں رکھنا چاہئے تا کہ آئندہ نسل اور آبادی کی ترقی پر سب مُلک کی ضرورت کا انتظام ہو سکے جس کی وجہ سے اسلامی نظام کے ماتحت بڑی زمینداریوں کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ گو بعد میں اسلام کی تعلیم پر پورا عمل نہیں ہوا پھر بھی اسلامی تعلیم کے اثر سے مسلمان بادشاہ پوری طرح آزاد نہیں ہوئے اور ہندوستان میں جب اسلامی حکومت آئی تو یہاں بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ زمینیں پُرانے باشندوں کے قبضہ میں رہنی چاہئیں اور اُفتادہ زمین حکومت کے قبضہ میں۔ اور ہندوستان کی بڑی زمینداریاں سب کی سب انگریزی زمانہ کی پیداوار ہیں۔ جب انگریز آئے تو انہوں نے اپنے انتظام کی سہولت کے لئے پُرانے تحصیلداروں یا ریونیو افسروں کو اُن کے علاقوں کا مالک قرار دے کر بنگال اور یو۔پی میں بڑے زمینداروں کی جماعت قائم کر دی حالانکہ یہ لوگ اصل میں صرف تحصیلدار تھے۔ اس نئے انتظام کے ماتحت غریب زمینداروں کو ان کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
غرض اسلامی نظام زمیندارہ کے متعلق بھی ویسا ہی مکمل ہے جیسا کہ دوسرے اقتصادی امور میں۔ اس میں بڑے زمینداروں کی جگہ نہیں یعنی حکومت مُلکی زمینوں سے بڑے زمیندار نہیں بنا سکتی۔ ہاں کوئی شخص زمین خرید کر اپنی زمین کچھ بڑھا لے تو یہ اور بات ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ زمین خرید کر بڑھانا معمولی کام نہیں کیونکہ جس روپیہ سے زمین خریدی جائے گی وہ اگر تاجر کا ہے تو وہ تجارت کے زیادہ فائدہ کو زمین کی خاطر نہیں چھوڑے گا اور اگر روپیہ زمیندار کا ہے تو بہرحال محدود ہوگا۔ زمیندار کی کمائی سے حاصل کردہ روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کبھی بھی کسی زمیندار کو اتنا نہیں بڑھنے دے گی کہ وہ مُلک کی اقتصادی حالت کو خراب کر سکے۔ پھر تقسیم وراثت کے ذریعہ سے اُس کی زمین کو بھی ایک دو نسلوں میں کم کر دیا جائے گا۔
اسلام کی کمیونزم کے مقابل پر بڑی زمینداریوں کو مٹانے کی بہترین سکیم
یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی قانون کے مطابق کسی شخص کو خواہ وہ بے اولاد ہی کیوں نہ ہو ۳؍۱ سے زائد کی وصیت
کرنی جائزنہیں۔ پس اگر کوئی شخص صاحبِ اولاد ہوگا تو اُس کی زمین تقسیم ہو کر کم ہوتی جائے گی اور اگر وہ اپنے خاندان کی وجاہت کے قیام کے لئے ۳؍۱اپنی اولاد میں سے کسی کو دینا چاہے گاتو اِس کی اسلام اُسے اجازت نہ دے گا کیونکہ وصیّت وارثوں کے حق میں اسلام جائز نہیں قرار دیتا غیر وارثوں کے حق میں جائز قرار دیتا ہے۔ اور اس طرح زمین کی تقسیم سے روک کر بڑی رمینداریوں کے قیام کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ اور اگر کوئی لاوارث ہو تو اسلام اُسے بھی ۳؍۱ حصّہ کی وصیّت کی اجازت دیتا ہے باقی زمین اُس کی گورنمنٹ کے پاس چلی جائے گی اور اس طرح پھر مُلک کے عوام کے کام آئے گی۔
اِس نظام میں بھی یہ خوبی ہے کہ بڑے زمیندار جو نسلوں تک دوسروں کے لئے روک بن کر کھڑے رہیںاِس کے ماتحت نہیں بن سکتے مگر اس کے ساتھ ہی شخصی آزادی میں بھی کوئی فرق نہیں آتا اور ذہنی ترقی، عائلی ہمدردی اور ایسے نیک کاموں میں حصہ لینے کا راستہ کھلا رہتا ہے جن کو انسان اپنی عاقبت کی درستی کے لئے ضروری سمجھے۔ اس کے بر خلاف کمیونزم نے جو تجاویز اپنے نظام کے لئے پسند کی ہیں وہ شخصی آزادی کو کچلنے والی، عائلی ہمدردی کو مٹانے والی اور دین کی خدمت سے محروم کرنے والی ہیں اور پھر اُن کے جاری کرنے میں وہ کُلّی طور پر ناکام بھی رہے ہیں۔
کمیونزم نے زمین کے متعلق یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ زمین سب کی سب مُلک کی ہے اور اس لئے حکومت کی ہے۔ اس طرح سب زمینداروں کو اُنہوں نے مزدور بنا دیا حالانکہ تاجراپنی جائداد کا جو سامان کی صورت میں ہو ایک حد تک مالک سمجھا جاتا ہے۔ اپنے مقرر کردہ اصل کو عملی شکل دینے کے لئے کمیونزم نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ زمین حکومت کی ہے اِس لئے حکومت کو اختیار ہے کہ وہ جہاں جو چیز بونا مناسب سمجھے زمیندار کو اُسی کے بونے پر مجبور کرے اور چونکہ زمیندار اپنے تجربہ کی بناء پر خاص خاص اجناس کے بونے میں ماہر ہوتے ہیں اِس لئے یہ بھی اصل تسلیم کیا کہ زمینداروںکو اُن کی قابلیت کے مطابق جس علاقہ میں چاہے بھجوادے۔ جب اس نظام کو اُس کی تمام تفاصیل کے مطابق مُلک میں رائج کیا گیا تو زمینداروں نے محسوس کیا کہ:
(۱) ان کو محض مزدور کی حیثیت دے دی گئی ہے اور عام تاجر اور صنّاع سے بھی اُن کا درجہ گرا دیا گیا ہے۔
(۲) اُن کے عائلی نظام کو تہہ و بالا کر دیا گیا ہے کیونکہ اِس کے یہ معنی ہیں کہ وہ زمین کو عمدہ بنانے میں جو بھی محنت کریں اُن کی نسل اُن کی محنت سے فائدہ اُٹھانے سے روک دی جائے گی۔
(۳) اُن کو ہر وقت اپنے وطنوں سے بے وطن ہونے کا خطرہ ہوگا۔
(۴) وہ اپنی روزمرّہ کی ضروریات زمین سے پیدا نہ کر سکیں گے بلکہ وہی اشیاء بو سکیں گے جن کی حکومت انہیں اجازت دے اور اس طرح اُن کا وہ پُرانا نظام جس کے ماتحت وہ اپنے گاؤں اور قصبہ میں مکمل زندگی بسر کر رہے تھے تباہ ہو جائے گا۔
ان حالات کو دیکھ کر انہوں نے بغاوت کر دی اور سالہاسال تک روس میں زمینداروں کی بغاوت زور پر رہی اور اجناس کی پیداوار بہت کم ہوگئی۔ آخر موسیو سٹالن نے اس نظام کو منسوخ کر کے پُرانے نظام کو پھر قائم کیا۔ زمینداروں کو اُن کی زمینوں کا مالک قرار دیا گیا اور فصل بونے کے بارہ میں بہت حد تک اُن کو آزادی دے دی گئی۔ اس طرح بغاوت تو فروہوگئی لیکن خودبالشویک لیڈر کے فیصلہ کے مطابق کمیونسٹ نظام کی غلطی پر مہر لگ گئی۔ چنانچہ موسیوسٹالن کے دشمنوں نے اُن پر ایک یہ الزام بھی لگایا ہے کہ زمینوں کے متعلق لینن کے مقررکردہ نظام کو انہوں نے توڑ کر کمیونزم سے بغاوت کی ہے۔ اور موسیوسٹالن نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ اصل نصب العین کمیونزم کا عوام کی حکومت ہے سواس نصب العین کے حصول کے لئے اگر دوسرے اصول بدل دیئے جائیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہر حال اُن کے جواب سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ کمیونزم ایک مستقل فلسفہ کی حیثیت میں کم سے کم زمینوں کے متعلق اقتصادی نظام قائم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہے اور خود اس کے لیڈروں نے اسے تسلیم کر لیا ہے کہ اس کے اصول بطور ایک فلسفہ کے جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ حسبِ ضرورت اُن میںتبدیلی کرنی پڑتی ہے اور کمیونزم کے سِوا دوسرے اصولوں کی مدد سے مُلک اور قوم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اسلام کے کامیاب اقتصادی نظام کے مقابل پر یہ زبردست ناکامی اسلامی تعلیم کی برتری کا ایک بیّن ثبوت ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ کمیونزم کوئی اصولی فلسفہ نہیں بلکہ محض ایک سیاسی تحریک ہے جس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے اور اُسے مذہب کے مقابل پر کھڑا کرنا سچائی اور دیانت کا منہ چڑانا ہے۔ چنانچہ اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان حال ہی میں روس میں دورہ کر کے آئے ہیںـ اُن کا ایک مضمون ’’SOVIET UNION‘‘ ماہ جون میں چھپا ہے۔ اِس میں وہ لکھتے ہیں کہ روس کے اِس وقت دو بڑے مقصد ہیں۔
(۱) روسں کو ازسرِ نو تعمیر کرنا۔
(۲) روس کو دنیا میں سب سے بڑا، سب سے اچھا، سب سے زیادہ مالدار قوم بنانا۔ (دیکھو SOVIET UNION NEWS. VOL-IV NO.6) پس کمیونزم محض ایک سیاسی تحریک ہے اور اس کی اصل غرض روس کو طاقتور بنانا ہے۔
کمیونزم تحریک کے نتیجہ میں علمی ترقی کی بندش
(۳) تیسرا نقص کمیونزم میں یہ ہے کہ اس نظام کی وجہ سے جوکمیونزم نے قائم کیا ہے گو روٹی کپڑا ملتا ہے مگر اس کا ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس سے آئندہ علمی ترقی
بالکل رُک جائے گی اس لئے کہ روٹی اور کپڑے کے لئے جتنا روپیہ ایک شخص کو ملتا ہے وہ اتناناکافی ہوتا ہے کہ اس میں سفر کرنا اور دنیا میں پھر نا ایک کمیونسٹ کے لئے بالکل ناممکن ہے۔ جب تک روسیوں کو اقتصادیات میں حُریّتِ شخصی حاصل تھی وہ اپنے روپیہ کا ایک حصہ مختلف سفروں کے لئے رکھ لیتے تھے۔ وہ دنیا میں پھرتے تھے، مختلف مُلکوں اور قوموں میں گھومتے تھے، غیر اقوام سے مل کر اُن کے حالات کا جائزہ لیتے تھے اور پھراُن معلومات سے خود فائدہ اُٹھاتے تھے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اُن معلومات کو اپنے ملک میں شائع کر دیتے تھے اور ملک کے لوگ اُن کی معلومات سے فائدہ اُٹھاکر ترقی کی شاہراہ کی طرف پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھانے لگتے تھے۔ یہی حقیقی مدرسہ مُلکوں کی علمی ترقی کے لئے قانونِ قدرت نے قائم کیا ہے اور اِس میں پڑھ کر قومیں ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی چلی آئی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی باربار مختلف مُلکوں کی سیر اور اُن کے حالات دیکھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نکتہ نگاہ وسیع نہیں ہوتا اور مختلف ممالک کے علوم کا آپس میں تبادلہ نہیں ہوتا۔ مگر اب کمیونسٹ سسٹم کی وجہ سے اُن کا لوگوں سے ملنا، دنیا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مختلف ممالک میں پھرنابالکل ناممکن ہوگیا ہے اور جہاں جہاں کمیونزم پھیلے گی یہی نتیجہ وہاں بھی پیدا ہوگا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ قوم میں ذہنی تنزّل واقعہ ہو جائے گا۔ کمیونسٹ گورنمنٹ کا کوئی نمائندہ تو دوسرے مُلکوں میں دیکھا جاسکتا ہے مگر کمیونسٹ خیالات کے کسی عام روسی کی شکل دیکھنا اب لوگوں کے لئے ایسا ہی ہوگیا ہے جیسے ہُما کی تلاش ہوتی ہے۔ مجھے وسیع ذرائع حاصل ہیں مگر اَب تک مجھے بھی کسی آزاد روسی کمیونسٹ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملاہاں حکومت کے نمائندے مل جاتے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے اِس بات کا کہ لوگوں کے پاس کوئی زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیا جاتا۔ روٹی اور کپڑے کی ضروریات کے علاوہ جو کچھ ہوتا ہے حکومت لے جاتی ہے اور لوگ بالکل خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتاہے جب حکومت اپنے نمائندے باہر بھجوادیتی ہے تو اُن کے ذریعہ سے غیر ملکی خیالات اور ایجادات مُلک میں آسکتی ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ
(۱) اوّل حکومت کا نمائندہ انہی باتوں کے اخذ کرنے پر مجبور ہے جن کے لئے حکومت اُسے بھجوائے۔
(۲) انسانی ذہنوں اور میلانوں میں بے انتہا فرق ہے۔ کسی شخص کا اپنے شوق سے جانا اور اپنے میلان کے مطابق ایک بات کو اخذ کرنا یہ بالکل مختلف ہے اس سے کہ حکومت خود چن کر کسی شخص کو بھجوائے۔ ایسا منتخب کردہ شخص ہر میلان والے گروہ کی ترقی کا سامان پیدا نہیں کر سکتا۔
(۳) خود مختلف ممالک کے لوگوں کا کثرت سے باہم ملنا انسانی دماغ کی ترقی اور صلح اور امن اور اتحاد کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے اِس نظام کی وجہ سے اس کا راستہ بالکل مسدود کر دیا گیا ہے۔
اس وقت جو آزاد روسی باہر ملتے ہیں وہ یا کمیونزم کے مخا لف ہیں جو اپنے مُلک کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا وہ کمیونسٹ ہیں جوحکومت کی طرف سے پروپیگنڈا کے لئے مقرر ہیں لیکن اپنے اثر کو وسیع کرنے کے لئے غیر مُلکوں میں جاکر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ آزاد روسی ہیں اورحکومت سے ان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب زائد روپیہ عوام کے پاس ہوتا ہی نہیں تو وہ دُوردراز کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی سے لاہور آتے ہوئے مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ائیر کنڈیشنڈ کمپارٹمنٹ میں ایک روسی ہے جو اپنے آپ کو آزاد سیاح بتاتا ہے اور کمیونزم کی تائید میںبہت کچھ پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ مَیں نے اُس دوست سے کہا کہ اس سے کہو کہ تمہارا آزاد روسی ہونے کا دعویٰ سر اسر جھوٹا ہے۔ تمہارے نقطہ نگاہ سے میں ایک بڑا زمیندار ہوں مگر میں سیکنڈ میں سفر کر رہاہوں۔ تمہارے ہاں تو بڑے زمیندار ہوتے ہی نہیں تم ایک کسان ہو کر یا مزدور ہو کر کس طرح اتنے دُور دراز علاقہ کا سفر اس عیاشی کے ساتھ کر رہے ہو۔ اگر تمہارا مزدور اور کسان ائیر کنڈیشنڈ کمرہ میں ہزاروں میلوں کا سفر کر رہا ہے تو ہندوستان کے ان لوگوں کے خلاف تمہارا جوش کس امر پر مبنی ہے جو تم سے بہت کم آرام حاصل کر رہے ہیں اور جن کا حال درحقیقتتمہارے مزدوروں کا سا ہے۔ تم سے جو درحقیقت حکومت کے گماشتے ہو ان کو کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ تمہاری دولت اور ان کے گزارہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
کمیونزم نظام قائم رکھنے کے لئے سونٹے کی ضرورت
(۴) چوتھا نقص اس نظام میں یہ ہے کہ جب بھی اِس میں خرابی پیدا ہوئی اور اِس تحریک پر زوال آیا مُلک میں ڈکٹیٹر شپ قائم ہوگی اور نتائج پہلے
سے بھی خطر ناک ہو جائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں قابلیّت کو مٹا کر دماغ کو ضائع کر دیا گیا ہے اِس لئے جب بھی تنزّل ہوگا یہ تحریک کُلّی طور پر گر جائے گی اور خلا کو پُر کرنے کے لئے سوائے ڈکٹیٹر کے اور کوئی چیز میسر نہ آئے گی۔ جرمنی نے اگر ہٹلر کو قبول کیا تو کمیونسٹ میلانات کی وجہ سے، جو جرمنی میں شدت سے پیدا ہو رہے تھے۔ فرانس کا تجربہ بھی اِس پر گواہ ہے جب فرانس کے باغیوں میں تنزّل پیدا ہوا تو اس کے نتیجہ میں نپولین جیسا جبارپیدا ہوگیا۔ جمہور میں سے جمہوریت کا کوئی دِلدادہ اس جگہ کو نہ لے سکا۔ اسی طرح بے شک کمیونزم اپنی حکومت کو پرولی ٹیری ایٹ(PRPLETAROATE) کہہ لے یا اِس کا نام ٹوٹیلی ٹیرین (TOTALITARIAN) حکومت رکھ لے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نظام آخر چکّر کھا کر ایک ڈکٹیٹر کی شکل اختیار کر لے گا بلکہ اِس وقت بھی عملی رنگ میں یہی حالت ہے کیونکہ گو یہ لوگ اقتدارِ عوام کے حامی ہیں لیکن عملاً حکومت کا اقتدار عوام کے ہاتھ میں دینا پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ روس میں ایک منٹ کے لئے بھی جمہوری حکومت قائم نہیں ہوئی بلکہ ڈکٹیٹر شپ ہی چلی جارہی ہے۔ لینن پہلا ڈکٹیٹر تھااب دوسراڈکٹیٹر سٹالن بنا ہوا ہے۔ سٹالن کے بعد شاید موسیومولوٹوف ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور جب مولوٹوف مرے تو کسی اور ٹوف یا خوف کی باری آجائے گی۔ بہرحال اس قسم کے نظام کو سونٹے کی مدد کے سوا کبھی قابو میں نہیں رکھا جا سکتا اور روس کا تجربہ اس امر پر شاہد ہے۔
(۵) پانچواں نقص کمیونزم کے اقتصادی نظام میں یہ ہے کہ اِس میں سُود کی ممانعت کو بطور فلسفہ کے اختیار نہیں کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں انفرادی سُودی بنک نہیں ہیں۔ اِس وقت تک مجھے اس بارہ میں کوئی تحقیقی علم نہیں اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن انفرادی سُودی بنکوں کا نہ ہونا اورسُود کو اصولی طور پر بُرا سمجھنا دونوں بالکل متبائن باتیں ہیں۔ انفرادی سُودی بنک کا نہ ہونا سامان میسر نہ آنے کے سبب سے بھی ہو سکتا ہے۔ اوربنکنگ کے اصول سے عام پبلک کی ناواقفیت کے سبب سے بھی ہوسکتا ہے،مصلحتِ وقتی کے ماتحت بھی ہو سکتا ہے۔ جب سامان میسر آجائیں یا پبلک کا ترقی کرنے والا حصّہ بنکنگ سسٹم سے آگاہ ہوجائے یا وقتی مصلحت بدل جائے تو انفرادی بنک مُلک میں جاری ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی قوم کسی بات کواصولی طور پر بُرا سمجھتی ہے تو خواہ حالات بدل جائیں، خواہ اِس بات کا باریک اور عملی علم حاصل ہوجائے، خواہ سامان کثرت سے مہیّا ہوں وہ قوم اِس بات کوکبھی اختیار نہیں کرے گی کیونکہ اُس کا اِس بات کوترک کرنا اصولی بناء پر تھا نہ وقتی مشکلات یا وقتی مصالح کی بناء پر۔
غرض روس میں اگر افراد سے لین دین کرنے والے بنک نہیں ہیں تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ کیپٹلزم کی جڑ کو جو سُودہے روس نے کاٹ دیا ہے۔مَیں نے کہا ہے کہ مجھے اس بارہ میں ذاتی علم نہیں لیکن ایک بات واضح ہے اور وہ یہ کہ کمیونزم کے لٹریچر میں سُود کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں۔ اور یہ بات مجھے اِس بات کا دعویٰ کرنے کا حق دیتی ہے کہ کمیونزم سُود کی اصولی طور پر مخالف نہیں۔ پھر میں دیکھتا ہوں کہ روسی گورنمنٹ دوسری حکومتوں سے جو سُود کے بغیر کوئی کام نہیں کرتیں روپیہ قرض لیتی ہے اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمیونزم سُود کی مخالف نہیں ہے بلکہ اِس کے حق میں ہے ۔ کیونکہ اگر وہ سُود کے حق میں نہ ہوتی تو سُود پر رقوم قرض کیوں لیتی۔ نیز موجودہ جنگ میں روس نے اپنے ملکی لوگوں سے بھی بہت روپیہ قرض لیا ہے۔ میں قیاس کرتا ہوں کہ یہ روپیہ بھی سُود پر ہی لیا گیا ہے۔
اگر میری یہ رائے درست ہے کہ کمیونزم سُود کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں ہے اور بہت سے واقعات میری رائے کی تائید کرتے ہیں تو یہ امر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ روس میں سُودی کاروبار کی کمی محض ایک وقتی امر ہے اور سابق نظام میں ایک غیر معمولی تغیر کا نتیجہ ہے لیکن جب کمیونسٹ لوگ روس سے باہر جانے لگیں گے تو وہاں کاروبار کے لئے وہ سُود پر روپیہ لیں گے اور جب مُلک زیادہ ترقی کرے گا اور صنعت وحرفت اور زراعت ترقی کریں گے تو یورپ کی دوسری اقوام کی طرح کمیونسٹ بھی اِن کاموں کی ترقی کے لئے سُود کا کاروبا کریں گے۔اِسی طرح جنگوں کو کامیاب طور پر چلانے اور وسیع صنعتی ترقی کے لئے سٹیٹ بنک کی شاخیں مُلک میں کثرت سے کھولی جائیں گی اور آخر سُود اُسی طرح کمیونزم کو کیپٹلزم کی طرف لے جائے گا جس طرح دوسرے مغربی ممالک کو لے گیا ہے۔
(۶) چھٹا نقص کمیونسٹ اقتصادی نظام کا جس کی وجہ سے کیپٹلزم کچلا نہیں جا سکتا ایکسچینج (EXCHANGE) کے طریق کا جواز ہے۔ وہی تبادلۂ سکہ کا طریق جو بنکوں کی وجہ سے اور حکومتوں کے تداخل کی وجہ سے اِس زمانہ میں جاری ہوا ہے کمیونزم بھی اُسی کی تائید کرتا ہے اور اُسی کے مطابق عمل کرتاہے۔ موجودہ زمانہ میں ایکسچینج ریٹ ( یعنی دومُلکوں کے سکوںکی متبادل قیمتوں کی تعیین) دو مُلکوں کی تجارت کے طبعی توازن پر نہیں رہا بلکہ کمزور مُلکوں کے مقابل پر تو بنکوں کے ہاتھ میں اُس کی کنجی ہے۔ اور طاقتور مُلکوں کی شرح مبادلہ خود حکومتیں مقرر کرتی ہیں اور قیمت کی تعیین میں تجارتِ موجودہ کے علاوہ یہ غرض مدّنظر ہوتی ہے کہ کس مُلک سے کس قدر آئندہ تجارت کرنا اِس حکومت کے مقصود ہے۔ ہمیشہ شرح تبادلہ پر غریب مُلک شور مچاتے رہتے ہیں لیکن چونکہ اُن کے پاس جواب دینے کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ موجود نہیں ہوتی اس لئے خاموش ہوجاتے ہیں اور اس طرح زبردست مُلک کمزور مُلک کو تجارتی طور پر کمزور کر دیتا ہے حالانکہ تبادلہ شرح ایک بناوٹی اصول ہے وہ اصول جس پر دو مُلکوں کے تجارتی تعلقات کی بنیاد قائم ہونی چاہئے تبادلۂ اشیاء ہے یا تبادلۂ قیمت یعنی سونا چاندی۔ لیکن بجائے اشیاء کے تبادلہ یا سونے چاندی پر تجارت کی بنیاد رکھنے کے ایکسچینج ریٹ پر تجارت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کی وجہ سے غیرمتمدن ممالک بنکوں کے ہاتھوں پر پڑ گئے ہیں اور متمدن ممالک میں بنکوں میں تجارت سیاست کے تابع چلی گئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایکسچینج کی وجہ سے تجارت میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے اور موجودہ زمانہ کی بڑھی ہوئی تجارت بغیر کسی آسان طریق تبادلہ کے سہولت سے جاری نہیں رکھی جاسکتی لیکن یہ ضرروری نہیں کہ شرح تبادلہ کو سیاسیات کے تابع رکھا جائے اور کمزور مُلکوں کے لُوٹنے کا ذریعہ بنایا جائے بلکہ اگر غور کیا جائے تو سابق بارٹرسسٹم کو جس میں اشیاء کا اشیاء کے مقابلہ میں تبادلہ ہوتا ہے نہ کہ ایکسچینج ریٹ کے اصول پر، ایسے طریق پر ڈھالا جاسکتا ہے کہ موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق وہ ہوجائے اور حکومتوں کادخل اِس سے ہٹا دیا جائے۔ بلکہ مختلف ممالک کے تاجروں اور حکومت کے نمائندوں کے مشورہ سے وقتاً فوقتاً مختلف ممالک کے لئے ایکسچینج کا ایک ایسا طریق مقرر کیا جائے جس کا بنیادی اصول تبادلۂ اشیاء ہو نہ کہ کاغذی روپیہ کی مصنوعی قیمت پر ۔
جرمنی نے گزشتہ جنگ کے بعد ایکسچینج (EXCHANGE) میں سیاسی دخل اندازی کر کے اپنے کاغذی روپیہ کو اس قدر سستا کر دیا کہ سب دنیا کی دولت اس طرف کھنچی چلی آئی اور جب کافی سرمایہ غیر مُلکوں سے تجارت کرنے کے لئے اُس کے پاس جمع ہو گیا تو اُس نے اپنے کاغذی سکہ کو منسوخ کر دیا اور اس طرح تمام دنیا کے ممالک میں بہت کم خرچ سے بہت بڑی رقوم غیر ملکی سکوں کی اپنی آئندہ تجارت کے لئے جمع کر لیں۔ اگر بارٹرسسٹم ( تبادلہ اشیاء) پر بین الاقوامی تجارت کی بنیاد ہوتی تو جرمنی اس طرح ہر گز نہ کر سکتا تھا۔ روس نے بھی جرمنی کی نقل میں ایکسچینج کو بہت گر ا دیا لیکن بوجہ جرمنی جیسا ہو شیار نہ ہونے کے اور بوجہ صنعتی تنظیم نہ ہونے کے اس نے فائدہ نہ اُٹھایا درحقیقت مصنوعی شرح تبادلہ ایک زبر دستوں کا ہتھیار ہے جس سے وہ کمزور قوموںکی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور غیر طبعی طریقوں سے تجارت کے بہاؤ کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔
روس نے اِس نظام کو تسلیم کر لیا ہے اور اِس طرح ملکی کیپٹلزم کی بنیاد کو قائم رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جو ں جوں روسی صنعت وحرفت مضبوط ہو گی کمیونزم زیادہ سے زیادہ اس ہتھیار سے کام لے گی اور کمزور ممالک کی تجارتوں کو اپنے مطلب اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کرے گی اور اس طرح گو مادی دولت کو جمع کر لے گی لیکن اصولی طور پر خود اپنے اصول کو توڑنے والی اور غریب اور کمزور ممالک پر ظلم کرنیوالی ثابت ہوگی۔
کمیونزم کا اقتصادیات میں جبر سے کام لینا
(۷) ساتویں اِس نظام کے اقتصادی حصہ کو چلانے کیلئے
جبر سے کام لیا جاتا ہے جو آخرمُلک کے لئے مضر ثابت ہوگا۔کمیونزم کہتی ہے کہ دولت مندوں کی دولت لوٹ لی جائے اور سوائے ابتدائی انسانی ضروریات کے خرچ کے انہیں اور کچھ نہ دیا جائے۔ یہ نظریہ اپنی ذات میں اچھا ہو یا بُرا سوال یہ ہے کہ کمیونزم جبر کو جائزسمجھتی ہے اور اس سے کام لیتی ہے اور بجائے اس کے کہ آہستہ آہستہ ترغیب اور تربیت سے لوگوں کی عادات درست کی جائیںاور اپنے سے کمزورں پر رحم کی عادت ڈالی جائے اور غرباء کی محبت اور اُن سے مساوات کا خیال اُن سے اونچے طبقہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالا جائے کمیونزم جبر کی طرف مائل ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دیتی ہے اور اُس نے برسر اقتدار آتے ہی یکدم آسودہ حال لوگوں کی دولت کو چھین لیا اور اُن کی تمام جائدادوں کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جن کو شاہی محلّات میں سے نکال کر چوہڑوں کے گھروںمیں بٹھا دیا جائے اُن کے دلوں میں جتنا بھی اِس تحریک کے متعلق بغض پیدا ہوکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اِس تحریک سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ اِس سے انتہائی طور پر بغض رکھتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں بے شک اسلام نے بھی اُمراء سے اُن کی دولت لی ہے مگر جبر سے نہیں بلکہ پہلے انہیں وعظ کیا، پھر دولت کے محرکات کو مٹایا، پھر اُن کی ضروریات کو محدود کیا، پھر انہیں زکوٰۃ اور صدقہ وغیرہ احکام کا قائل کیا اور بالآخر ان تدابیر کے باوجود جو دولت اُن کے ہاتھوں میں رہ گئی اُسے اُن کی اولادوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرا دیا۔ اِس طرح دولت اسلام نے بھی لے لی اور کمیونزم نے بھی مگر کمیونزم نے جبر سے کام لے کر امراء سے اُن کی دولت لی اور اسلام نے محبت سے اُن کی دولت لی۔اِس جبرکا یہ نتیجہ ہے کہ غیر ممالک میں ایک بہت بڑا عنصر اُن اُمراء کا موجود ہے جو روس کے خلاف ہیں کیونکہ کمیونزم نے اُن کی دولت کو چھین لیا اور اُنہیں تخت شاہی سے اُٹھا کر خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔
کمیونسٹ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ آجکل اس تحریک کے خلاف کسی مُلک میں جوش نہیں ہے اور وہ اِس پر بہت خوش ہیں حالانکہ اِس وقت کی خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ غیر ممالک اِس وقت روس کی مدد کے مختاج ہیں۔ اِس وقت انگلستان کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں، اِس وقت امریکہ کوئی بات روس کے خلاف سننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ امریکہ اور انگلستان دونوں اِس وقت روس کی مدد کے محتاج ہیں اور لوگ اِس وجہ سے خاموش بیٹھے ہیں۔ جس دن لڑائی ختم ہوئی اور لوگوں کی آواز پرحکومت کی گرفت نہ رہی اُسی دن وہ لوگ جو آج مصلحت کے ماتحت خاموش بیٹھے ہیں روس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گے اور اِس تحریک کو مٹانے کی کوشش کریں گے۔(چنانچہ اِس تقریر کے بعد جنگ جرمنی ختم ہو گئی اور مختلف ممالک میں روسی نظام کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئی ہیں خصوصاً یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں)
کمیونزم کے ذریعہ عائلی محبت کی موت
(۸) آٹھواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں عائلی محبت کا سر کچل دیا گیا ہے جو آخر مضر ہوگا۔ کمیونزم میں ماں اور باپ اور بہنوں اور بھائیوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں
کی محبت کو نظرانداز کر دیاگیا ہے اور بچوں کو کمیونزم کی تعلیم دینے اور مذہب سے بیگانہ کرنے کے لئے حکومت کے بچے قرار دے دیا گیا ہے۔ ہر بچہ بجائے اِس کے کہ ماں کی گود میں رہے، بجائے اِس کے کہ باپ کی آنکھوں کے سامنے پرورش پائے کُلّی طور پر گورنمنٹ کے اختیار میں چلا جاتا ہے یا کم سے کم قانونی طور پرایسا ہے۔ اس طرح ماں باپ کی محبت کا خانہ بالکل خالی کر دیا جاتا ہے۔ یہ نظام بھی ایسا ہے جو دیر تک نہیں چل سکتا۔ یا تو اِس نظام کو بدلنا پڑے گا یا رشیا کاانسان انسان نہ رہے گا کچھ اور بن کر رہ جائے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کامیاب ہوگیا حالانکہ اِس وقت کمیونزم کی کامیابی محض زار کے مظالم کی وجہ سے ہے۔ جب پچاس ساٹھ سال کا زمانہ گزر گیا، جب زار کے ظلموں کی یاد دلوں سے مٹ گئی، جب اُس کے نقوش دُھندلے پڑگئے اگراُس وقت بھی یہ نظام کامیاب رہا تب ہم سمجھیں گے کہ کمیونزم واقعہ میں ماں کی محبت اور باپ کے پیار اور بہن کی ہمدردی کو کچلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ لیکن دنیا یاد رکھے یہ محبتیں کبھی کچلی نہیں جا سکتیں۔ ایک دن آئے گا کہ پھر یہ محبتیں اپنا رنگ لائیں گی پھر دنیا میں ماں کو ماں ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر باپ کو باپ ہونے کا حق دیا جائے گا، پھر بہن کو بہن ہونے کا حق دیا جائے گا اورپھر یہ گم گشتہ محبتیں واپس آئیں گی۔ لیکن اِس وقت یہ حالت ہے کہ کمیونزم انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشین سمجھتا ہے۔ نہ وہ بچہ کے متعلق ماںکے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ باپ کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ بہن کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، نہ وہ اور رشتہ داروں کے جذبات کی پرواہ کرتا ہے، وہ انسان کو انسان نہیں بلکہ ایک مشینری کی حیثیت دے رہا ہے مگر یہ مشینری زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ وقت آئے گا کہ انسان اس مشینری کو توڑ پھوڑ کر رکھ دے گا اور اُس نظام کو اپنے لئے قائم کرے گا جس میں عائلی جذبات کو اپنی پوری شان کے ساتھ برقرار رکھا جائے گا۔
دماغی قابلیّت کی بے قدری
(۹) نواں نقص اِس نظام میں یہ ہے کہ اِس میں دماغ کی قدر نہیں اِس لئے مجبوراً اعلیٰ دماغ کے
لوگ روس میں سے باہر نکلیں گے اور اپنی دماغی ایجادات کی قیمت دنیا سے طلب کریں گے۔بالشوزم کے نزدیک ہاتھ کا کام اصل کام ہے وہ دماغی قابلیتوں کو ہاتھ کے کام کے بغیر بے کار محض قرار دیتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہاتھ کا کام بھی کام ہے مگر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دماغی کام بھی اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیّت رکھتے ہیں اور پھر فطرتِ انسانی میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنی خدمات کا صلہ چاہتی ہے۔ جب کمیونسٹ گورنمنٹ دماغی قابلیتوں کی قدر نہیں کرے گی تو فطرت کا مقابلہ زیادہ دیرتک نہیں ہو سکے گا۔ یا تو کمیونسٹ نظام خود اپنے اندرتبدیلی کرنے پر مجبور ہوگا اور دوسرے نظاموں کی صف میں آکر کھڑا ہو جائے گا اور اپنے فلسفہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوگا یا پھر اعلیٰ دماغ رکھنے والے لوگ باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں اپنی ایجادات کو رجسٹرڈ کرا کے اُن سے فائدہ اُٹھائیں گے مگر روس اُن کی دماغی قابلیتوں کے فوائد سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا۔ اِس وقت روسی گورنمنٹ سختی سے لوگوں کو باہر جانے سے روکے ہوئے ہے۔ مگر جب آپس میں میل جول شروع ہوا اور اِس جنگ کے نتیجہ میں ایک حد تک ایسا ضرور ہوگا تو روسی موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں دوسرے موجدوں کی حالت کو دیکھ کر خود بھی کمپنیاں قائم کر کے اپنی ایجادات سے نفع اُٹھانا شروع کر دیں گے۔ جیسے جرمنی نے جب یہودیوں پر مظالم شروع کئے تو یہودی جرمن میں سے نکل کر امریکہ میں چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی چیزیں اور وہی دوائیں جو پہلے جرمنی میں تیار ہوا کرتی تھیں اب امریکہ میں تیار ہونی شروع ہو گئی ہیں۔ بڑے بڑے کارخانے امریکہ میں اُن یہودیوں نے کھول رکھے ہیں اور اُن سے خود بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور امریکہ کو بھی فائدہ پہنچا رہے ہیں حالانکہ وہ کارخانے پہلے جرمنی میں تھے جب اُن کے حقوق کو دبایا گیا تو وہ انگلستان اور امریکہ میں چلے گئے۔ اِسی طرح روس میں جب بھی ڈھیل ہوئی اور لوگوں کو آمدورفت کی آزادی ملی وہاں کے موجد باہر نکلیں گے اور غیر ممالک میں بس کر اپنی دفاعی قابلیتوں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیں گے یا پھر بیرونی ملکوں سے میل جول کے بند ہونے کی وجہ سے روسی دماغ میں کمزوری آنی شروع ہو جائے گی اور آخر وہ ایک کھڑے پانی کے تالاب کی طرح سٹر کر رہ جائے گا۔
روسی صنعت میں تنزّلکا خطرہ
(۱۰) دسواں نقص کمیونسٹ نظام میں یہ ہے کہ چونکہ اِس وقت کھانا اور کپڑا
وغیرہ حکومت کے سپرد ہے اور صنعت وحرفت بھی اُس کے سپرد ہے اور امپورٹ (IMPORT) اور ایکسپورٹ (EXPORT) بھی اس کے قبضہ میں ہیں اور جس مُلک میں وہ قائم ہوئی ہے وہ صنعت میں بہت پیچھے تھا اِس لئے فوراً حقیقی نتائج معلوم نہیں ہوسکتے مگر عقلاً یہ امر ظاہر ہے کہ جب تک صرف اس قدر صنعت وہاں ہے کہ مُلک کی ضرورت کو پورا کرے نقصان کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ جس قیمت پر بھی چیز بنے بنتی جائے گی اور مُلک میں کھپتی جائے گی اُس کے مہنگا ہونے کا علم نہیں ہوگا ۔ جب تک وہاں کارخانے صرف روسیوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اُس وقت تک یہ پتہ نہیں لگ سکتا کہ کارخانے نفع پر چل رہے ہیں یا نقصان کی طرف جارہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جس قیمت پر بھی کوئی چیز تیار ہوتی ہے وہ مُلک میں کھپ جاتی ہے مگر ایک وقت آئے گا کہ صنعت مُلک کی ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے گی اگر اُس وقت صنعت کو روکا گیا تو اِس میں تنزّل شروع ہوجائے گا۔ اور اگر بڑھنے دیا گیا تو اس صورت میں یہ امر لازمی ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء دوسرے مُلکوں کو بھجوائی جائیں تب یہ بھی ضروری ہوگا کہ روسی صنعت کی اشیاء کی وہی قیمت مقرر کی جائے جس پر وہ باہر کی منڈیوں میں فروخت ہو سکیں۔ اگر اس مجبوری کے ماتحت روسی پیداوار کو اس کی لاگت سے کم قیمت پر فروخت کیا گیا تو گویا روسی صنّاع غیر مُلکوں کا غلام بن جائے گا کہ رات دن محنت کرکے لاگت سے کم قیمت پر انہیں اشیاء مہیّا کرے گا لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو لازماً مُلک کی صنعت ایک حد تک ترقی کر کے رُک جائیگی۔ یا پھر روس کو امپیر یلزم کا طریق اختیار کرنا ہوگا یعنی دوسرے مُلکوں کو قبضہ میں لا کر اُن پر مصنوعات ٹھونسنی پڑیں گی اور اِس طرح خود اپنے ہاتھ سے روس اپنی آزادی کے دعوؤں کو دفن کردے گا۔ غرض اِس وقت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کم سے کم قیمت پر مال پیدا کرنے کی روح سخت کمزور ہے اور آئندہ اور بھی کمزور ہوتی جائے گی۔ اِس وقت اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک غریب عورت دن میں پانچ سیر دانے پیس لیتی ہے تو گھر والے خوش ہو جاتے ہیں کہ اس نے خوب کام کیا ہے اور وہی آٹا رات کو پکا کر کھا لیتے ہیں لیکن جب وہ باہر جاکر مزدوری کرتی ہے تب اُسے پتہ لگتا ہے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے اور کتنا کام مجھے کرنا چاہئے تھا۔کیونکہ پانچ سیر دانوں کی پسائی کے مقابل پر باہر مزدوری اُسے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اِسی طرح جب تک روسی اپنی تیار کردہ اشیاء اپنے گھر میں استعمال کرتے رہتے ہیں یہ صحیح طور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ روس تجارتی طور پر بڑھ رہاہے یا گھٹ رہا ہے۔ اِس وقت بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ روس اقتصادی طور پر کامیاب ہو رہا ہے لیکن جب اس کی صنعت بڑھے گی اُس وقت اس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور اقتصادی طور پر وہ بالکل گر جائے گا۔ لیکن اگرکامیاب ہوگیا تو اس کا ایک اور خطرناک نتیجہ نکلے گا جو ذیل کے ہیڈنگ کے نیچے بیان کیا گیاہے۔
کمیونزم کے نظام میں عالمگیر ہمدردی کا فقدان
(۱۱) گیارہواں نقص کمیونزم نظام میں یہ ہے کہ اس کی بنیاد صرف مُلکی ہمدردی پر ہے عالمگیر ہمدردی کا اصل اس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ
اگر روسی کمیونزم نظام صنعتی ترقی میں کامیاب ہوگیا تو وہ مجبور ہوگا کہ ایک زبردست کیپٹلسٹنظام جو پہلے نظام سے بھی بڑا ہو اور دنیا کیلئے پہلے نظام سے بہت زیادہ خطرناک ہو قائم کرے۔ مَیں حیران ہوں کہ اتنے اہم سوال کی موجودگی میں ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ کمیونزم کی حمایت کس بناء پر کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روس نے اجتماعی سرمایہ داری کو ایک عظیم الشان شکل میں پیش کیا ہے اور اِس سے دنیا کو آخر بہت نقصان پہنچے گا۔ روس میں اور دوسرے ممالک میں جو کمیونسٹ ہیں وہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ کمیونزم نے ہر شخص کی روٹی اور کپڑے کا انتظام کر دیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک روٹی اور کپڑے کا سوال ہے ہم بھی خوش ہیں کہ لوگوں کی اس ضرورت کو پورا کیا گیا لیکن اِس کے ساتھ ہی اُس عظیم الشان خطرہ کوکسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو ایک نئے کیپیٹلسسٹم (CAPITAL SYSTEM) کی صورت میں دنیا کے سامنے آنے والا ہے۔
روس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک اپنے مُلک کی صنعتی پیداوارکو%۶۲۶ فیصدی بڑھا دیا ہے۔ یعنی پہلے اگر ایک ارب تھی تو اَب چھ ارب پچیس کروڑ ہے۔ پہلے اگر سَو موٹر روس میں بنتا تھا تو اب ۶۲۵ موٹر بنتا ہے یا پہلے اُس کے کارخانوں میں اگر ایک لاکھ تھان کپڑے کا تیار ہوا کرتا تھا تو اب چھ لاکھ پچیس ہزار تھان بنتا ہے۔ یہ ترقی واقعہ میں ایسی ہے جو قابل تعریف ہے۔ روسی کمیونزم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۷ء تک دس بلین روبلز سے اس کا صنعتی سرمایہ پچہتر بلین روبلز تک بڑھ گیا ہے (روبل کی موجودہ قیمت بہت تھوڑی ہے) گویا اس عرصہ میں اُس نے ساڑھے سات گنا اپنا سرمایہ بڑھا لیا ہے اور سَوا چھ سَو گنا اُس نے اپنی صنعتی پیداوار کو بڑھا لیا ہے۔ اُس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ صرف ۱۹۳۷ء میں اُس نے اپنی ملکی آمد کا ۳؍۱ حصہ کارخانوں کی ترقی پر لگایا ہے یہ بھی بڑی شاندار ترقی ہے۔ مگر ایک بات پر غور کرنا چاہئے کیا روس بغیر دوسرے مُلکوں سے تجارتی لین دین کرنے کے ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے اپنی اس ترقی کی رفتار کو جاری رکھ سکتا ہے؟ اِس وقت تو صورت یہ ہے کہ روس نہ بیرونی مُلکوں کو اپنی بنی ہوئی چیزیں بھیجتا ہے اور نہ الِاَّمَاشَائَ اللّٰہُ باہر سے کوئی چیزیں لیتا ہے۔ وہ اگر باہر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو صرف اُتنی جس سے اُس کے کارخانوں کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ گویا روس کی مثال اس وقت ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کا کسان اپنی زمین پر گزارہ کرتا ہے۔ اُس کے کچھ حصہ سے گڑ پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے ماش پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے چاول پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے تل پیدا کر لیتا ہے، کچھ حصہ سے گندم پیدا کر لیتا ہے اور اِس طرح اپنی زندگی کے دن گزارتا رہتا ہے۔ مگر یہ صورتِ حالات تمدن کے ہر درجہ میں قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر یہ صورت تمدن کے ہر درجہ میں جاری رہ سکتی تو وہ جھگڑے جو آج دنیا کے تمام ممالک میں نظر آ رہے ہیں اور جن کی وجہ سے عالمگیر جنگوں تک نوبت آچکی ہے کیوں پیدا ہوتے۔ بہرحال یہ صورت متمدن ممالک میں قائم نہیں رہ سکتی۔
دنیا کیلئے اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا
دنیا کی ساری قومیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ کوئی مُلک اکیلا زندہ نہیں
رہ سکتا بلکہ وہ اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسروں سے تعلقات پیدا کرے اور تجربہ اِس کی صداقت پر گواہ ہے۔ پس جب کہ روس ہمیشہ کیلئے ایک بند دروازہ کی پالیسی پر عمل کر کے ترقی نہیں کر سکتا تو کیا جب روسی کارخانوں کی پیداوار اُس کے مُلک کی ضرورت سے بڑھ جائے گی تو وہ اپنی صنعت کو دوسرے ممالک میں پھیلانے کی کوشش نہیں کرے گا؟ دُور کیوں جائیں اِن جنگ کے دنوں میں ہی روس مجبور ہوا ہے کہ امریکہ اور انگلستان سے نہایت کثرت کے ساتھ سامان منگوائے اور جس سُرعت اور تیزی کے ساتھ روس صنعت میں ترقی کر رہا ہے وہ اگر جاری رہی تو چند سالوں میں ہی روس کے صنعتی کارخانے اِس قدر سامان پیدا کریں گے کہ وہ اِس بات پر مجبور ہو جائے گا کہ غیرمُلکوں کے پاس اُسے فروخت کرے۔ ذرا سوچو کہ جب وہ دن آئے گا تو کیا اُس وقت روس کی وہی پالیسی نہیں ہوگی جو اَب بڑے بڑے تاجروں کی ہوتی ہے؟ اور کیا وہ اِس مال کو فروخت کرنے کیلئے وہی طریقے اختیار نہیں کرے گا جو امریکہ اور انگلستان کے بڑے بڑے تاجر اختیار کرتے ہیں؟ یعنی کیا وہ کسی نہ کسی طرح دوسرے ممالک کو مجبور نہ کرے گا کہ وہ اُس سے مال خریدیں تا کہ اُس کے اپنے مُلک کے مزدور بیکار نہ رہیں اور اُس کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ جیسے ہندوستان کی سیاسی آزادی کا سوال آئے تو انگلستان کے بڑے بڑے مدبر ہائوس آف کامنز میں دُھواں دھار تقریریں کرتے ہیں لیکن جب اقتصادی ترقی کا سوال آ جائے تو فوراً اُس کے اقتصادی اکابر کہنے لگتے ہیں کہ برطانوی مفاد کی حفاظت کرلی جائے۔ یہی حالت روس کی ہوگی لیکن جہاں انگلستان اور امریکہ کا مقابلہ دوسرے مُلکوں سے صرف تاجروں کے زور پر ہوگا وہاں روس کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے تاجروں کے ذریعہ سے نہ ہوگا بلکہ سارے روس کے اشتراکی نظام کا مقابلہ دوسرے مُلکوں کے انفرادی تجارسے ہوگا۔ اور جس دن روس میں یہ حالت پیدا ہوئی اُس وقت روس یہ نہیں کہے گا کہ چلو ہم اپنے کارخانے بند کر دیتے ہیں، ہم اپنے مزدوروں کو بیکار رہنے دیتے ہیں مگر ہم غیرمُلکوں میں اپنے مال کو فروخت نہیں کرتے بلکہ اُس وقت وہ اپنے ہمسایہ ممالک کو مختلف ذرائع سے مجبور کرے گا کہ وہ اس سے چیزیں خریدیں اور حق یہ ہے کہ وہ ان تمام ذرائع کو استعمال میں لائے گا جو بڑے بڑے سرمایہ دار تاجر اپنے استعمال میں لاتے ہیں اور چونکہ روس کی صنعت حکومت کے ہاتھ میں ہے اِس لئے حکومت کا سیاسی زور بھی اِس کے ساتھ کُلّی طور پر شامل ہوگا۔ روس اِس وقت بہت بڑی طاقت ہے۔ حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے، رُعب اور دبدبہ اس کو حاصل ہے، ایسی حالت میں اس کا مقابلہ چھوٹے مُلک کب کر سکیں گے بلکہ انگلستان اور امریکہ کے تاجر بھی کب کر سکیں گے۔ اُس وقت روس کو صرف یہی خیال نہیں ہوگا کہ اِس طرح تجارتی نفوذ بڑھا کر اُسے روپیہ آئے گا بلکہ اُسے یہ بھی خیال ہوگا کہ اِس کے نتیجہ میں مُلک کا صنعتی معیار بلند ہوگا۔ مزدور بھوکا نہیں رہے گا، کارخانوں کو بند نہیں کرنا پڑے گا اور غیرممالک کی دولت کو اپنی طرف زیادہ سے زیادہ کھینچا جاسکے گا۔ پس اس کے ہمسایہ کمزور مُلک اِسی طرح اُس کے لئے دروازے کھولنے پر مجبور ہونگے جس طرح مغربی تجار کے لئے وہ اپنے دروازے کھولنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ اِس سے کہیں اور زیادہ دنیا اقتصادی طور پر ایک سخت دھکّا کھائے گی۔
بعض لوگ اِس موقع پر یہ خیالات پیش کر دیا کرتے ہیں کہ ہم روسی حکومت میں شامل ہو جائیں گے اور اس طرح وہی فوائد حاصل کر لیں گے جو روسی باشندے کمیونزم کی وجہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہم کہتے ہیں دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو کمیونزم کی حمایت کی وجہ سے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کرنے کیلئے تیار ہیں۔ کمیونسٹ طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو یہ تو چاہتے ہیں کہ اُن کے مُلک میں بھی وہی قوانین جاری ہو جائیںجو کمیونسٹ حکومت نے اپنے مُلک میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ روسی حکومت کا اُنہیں جزو بنا دیا جائے۔ انگلستان کے کمیونسٹ اِس بات کے تو خواہشمند پائے جاتے ہیں کہ روسی حکومت کے قواعد انگلستان میں بھی جاری ہو جائیں مگر وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ انگلستان روس کا جزو بن جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ روس کے قواعد اپنے طور پر مُلک میں جاری کر کے اُس سے فوائد حاصل کریں۔ اِسی طرح امریکہ کے کمیونسٹ یہ تو خواہش رکھتے ہیں کہ امریکہ کے لوگوں کے متعلق بھی وہی قواعد نافذ کئے جائیں جو روس نے اپنی حکومت میں جاری کئے ہوئے ہیں مگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ امریکہ روس کا جزو بن جائے اور وہ اُس کی سیاسی حکومت میں شامل ہو جائے۔
مَیںہندوستان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں کے کمیونسٹ کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے ہندوستانی کمیونسٹ عام طور پر سوچنے کے عادی نہیں ہوتے اور زیادہ تر کم علم طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نعرے لگانے کے عادی تو ہیں مگر ان نعروں کی حقیقت کو ان میں سے بہت کم طبقہ سمجھتا ہے باقی لوگ جذبات کی رَو میں بہہ کر عقل و فکر کو جواب دے دیتے ہیں۔ ممکن ہے ہندوستان کے نوے فیصدی کمیونسٹ یہی چاہتے ہوں کہ بیشک ہندوستان کو روس میں ملا دیا جائے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن باقی دنیا کے کمیونسٹ ایسا نہیں کہتے اور ایسا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بات اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب ہوگی۔
روسی مقبوضات میں عدم مساوات
پھر یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ایشیائی مقبوضات اِس امر کے شاہد ہیں کہ یورپین لوگوں کی
حالت اور اُن کی حالت میں بہت بڑا فرق ہے۔ مَیں تمام خرچ برداشت کرنے کیلئے تیار ہوں کمیونسٹ پارٹی بیشک میرا آدمی اپنے ساتھ لے اور وہ اُسے بخارا اور ماسکو وغیرہ میں لے جائے اور پھر ثابت کرے کہ بخارا کے غرباء کو بھی وہی کچھ ملتا ہے جو ماسکو کے غرباء کو ملتا ہے یا بخارا کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم وغیرہ کا اُسی طرح انتظام کیا جاتا ہے جس طرح ماسکو کے لوگوں کے لباس اور مکان اور تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یقینا حالات کا جائزہ لینے پر یہی معلوم ہوگا کہ ماسکو میں اور طریق رائج ہے اور بخارا وغیرہ میں اور طریق رائج ہے۔ یہی حال دوسرے روسی ایشیائی مقبوضات کا ہے۔ کسی اور ثبوت کی کیا ضرورت ہے ابھی دو ہفتے ہوئے روسی حکومت کی طرف سے ایشیائی مقبوضات کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان علاقوں کے حالات کی درستی کے لئے بھی اب سکیمیں تیار کی جا رہی ہیں اور آئندہ ان کی ترقی کے متعلق بھی ایک خاص پروگرام بنایا جائے گا۔ یہ اعلان ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جیسا سلوک روس اپنے ملک کے باشندوں سے کرتا ہے ویسا ہی سلوک وہ ایشیائی مقبوضات کے باشندوں سے بھی کرتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یورپی روس اور ایشیائی روس میں ایک ساتھ اور ایک ہی قسم کی اقتصادی اصلاحات عمل میں لائی جاتیں اور دونوں مُلک ایک ہی وقت میں ایک سے معیارِ ترقی پرپہنچ جاتے مگر ایسانہیں ہوا۔ پس یہ خیال واقعات کے بالکل خلاف ہے۔ ان علاقوں میں ابھی غرباء موجود ہیں، ان علاقوں میں ابھی مفلوک الحال لوگ موجود ہیں مگر روسی ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرتے جو اپنے مُلک کے غرباء سے یا یورپین طبقہ سے کرتے ہیں اور ان دونوں کی حالت میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد ہی مساوات پر ہے وہ ایسا نہیں کرے گی کہ اپنے مُلک کی طاقت بڑھانے کے لئے دوسروں کے حقوق پر چھاپہ مارنے لگے۔ مگر یہ بھی محض وہم ہے اور ’’عصمت بی بی از بے چارگی‘‘والی بات ہے۔ جب تک کمیونزم صنعتی پیداوار کی کمی کی وجہ سے بیرونی مُلکوں یا اُن کی دولت کی ضرورت نہیں سمجھتی اُس وقت تک اُس کا یہ حال ہے لیکن جب یہ مجبوری دُور ہوئی تو وہ دوسروں سے زیادہ غیر ممالک کو لوٹنے اور اُن کی اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرے گی۔ چنانچہ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ جب تک سیاستاً روس کا اپنے مُلک میں اُلجھاؤ تھا جارجیا بھی آزاد تھا، فن لینڈ بھی آزاد تھا، لٹویا بھی آزاد تھا ،لیتھونیا بھی آزاد تھا، استھونیا بھی آزاد تھا اور روس یہ کہا کرتا تھا کہ ہمارے نظام کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں سے اُلجھاؤ نہیں کرتا۔ ہم تو حُریّتِ ضمیر کے قائل ہیں ہم نے ان تمام ممالک کو آزاد کر دیا ہے جو ہم سے آزاد ہونا چاہتے تھے ہم نے لٹویا، لیتھونیا ،استھونیا،فن لینڈ، پولینڈ، جارجیا وغیرہ ممالک کو آزاد کر دیا ہے، ترکوں کو آرمینیا کا وہ علاقہ جواُن سے متعلق ہے دے دیا ہے مگر جوں ہی روس کے اندرونی جھگڑے کم ہوئے جارجیا کو روس میں شامل کر لیا گیا۔ جب اور طاقت آئی تو فن لینڈ سے سرحدوں کی بحث شروع کر دی اور طاقت پکڑی تو لٹویا، لیتھونیا اور استھونیا کو اپنے اندر شامل کر لیا۔ رومانیہ کے بعض علاقوں کو ہتھیالیا پھر فن لینڈ کو مغلوب کر کے اُس کے کچھ علاقے لے لئے اور باقی مُلک کی آزادی کو محدود کر دیا۔ اب پولینڈ کا کچھ حصہ لیا جارہا ہے باقی کی آزادی محدود کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ روسی سرحدوں پر وہی حکومت رہ سکتی ہے جو روسی حکومت سے تعاون کرے اور اِس اصل کے ماتحت پولینڈ، زیکوسلواکیہ اور رومانیہ کے اندرونی معاملات میں دخل دیا جارہا ہے۔ ایران کے چشموں پر قبضہ کرنے کی سکیم تیار کی جارہی ہے، ترکی سے آرمینیاکے حصوں کی واپسی اور درّہ دانیال میں روسی نفاذ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ کیا پُرانی امپیریل حکومتیںاِس کے سِوا کچھ اور کرتی تھیں؟بلکہ کیا وہ اس سے زیادہ آہستگی اور بظاہر نرم نظر آنے والے طریق استعمال نہیں کرتی تھیں؟ انگلستان کو درّہ دانیال کی ضرورت دیر سے محسوس ہو رہی ہے مگر اُس نے صدیوں میں ترکی پر اِس قدر زور نہیں ڈالا جس قدر زور روس چند سالوں میں ڈال رہا ہے۔ اِن امور کے ہوتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ روس اپنی صنعتی ترقی کے بعد اس طرح اپنے ہمسایہ مُلکوں کو اقتصادی غلامی اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرے گا جس طرح کہ مغربی ڈیماکریسی کے تجاراپنی حکومتوں پر زور ڈال کر اُن کے ذریعہ سے دوسرے مُلکوں کو مجبور کرتے ہیں ایک وہم نہیں تو اور کیا ہے۔ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب روس کو طاقت حاصل ہوئی سیاسی مساوات اور حریّت کے وہ تمام دعوے جو روس کرتا تھا دھرے کے دھرے رہ گئے اور اب اس دعویٰ کا نشان تک مٹا جارہا ہے کہ روس کا دوسرے ممالک سے کوئی تعلق نہیں۔ روس صرف اپنے مُلک کے غرباء کی روٹی اور اُن کے کپڑے کا انتظام کرنا چاہتا ہے۔ جب سیاسی دنیا میں آکر کمیونزم کی رائے بدل گئی اور اُس نے خود اپنے بنائے ہوئے اصول کو اپنے مُلک کے فائدہ اور برتری کے لئے واضح طور پر پس پشت ڈال دیا۔ جارجیا، بخارا، فن لینڈ، لٹویا، لیتھونیا،استھونیا پر قبضہ کر لیا۔ فن لینڈ ، پولینڈ ، رومانیہ، زیکوسلواکیہ کو کم و بیش سیاسی اقتدار کے تلے لے آیا، ایران اورترکی کو زیراثر لانے کے لئے جوڑتوڑ کر رہا ہے، چین کے حصے بخرے کرنے کی تجویزیں ہو رہی ہیں آخر کس مساوات اور حُریّتِ ضمیر کے قانون کے ماتحت اُس کے لئے یہ جائز تھا کہ ان ممالک پر قبضہ کرتا۔ کیوں فن لینڈ اپنے مُلک کا ایک حصہ کاٹ کر روس کو دیتا۔ یا کیوں لٹویا اور لیتھونیا اور استھونیا کی آزادی کو سلب کر لیا جاتا۔ کیا اِن ممالک کا یہ فرض تھا کہ وہ وائٹ رشیا کی حفاظت کرتے اور اپنے آپ کو روس کے لئے قربان کر دیتے۔ یا جارجیا اور بخارا کے فرائض میں شامل تھا کہ وہ روسی حکومت میں اپنے آپ کو شامل کر دیتے۔ اگر حُریّتِ ضمیر اور مساوات اسے جائز قرار دیتے ہیںتو اِس کے اُلٹ کیوں نہ ہوا۔ کیوں روس کا کچھ حصہ کاٹ کر فن لینڈ کو نہ دے دیا گیا تا وہ مضبوط ہو کر اپنی حفاظت کر سکے، کیوں نہ کچھ حصّے کاٹ کر پولینڈ، رومانیا، ترکی اور ایران کو نہ دیے گئے تاوہ مضبوط ہو جاتے۔ اِن کمزور مُلکوں کو حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے یا طاقتور روس کو؟ پس حفاظت کے اصول کے لحاظ سے اِن مُلکوں کو اَور علاقے ملنے چاہئیں تھے نہ کہ روس کو ۔ مگر بات یہ ہے کہ پہلے اگر روس خاموش تھا تو محض اِس لئے کہ اُس کے پاس طاقت نہیں تھی۔ جب اُس کے پاس طاقت آگئی تو یہ چھوٹی چھوٹی حکومتیں اُس کا شکار بن گئیں مگر دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکنے کے لئے کہا گیا کہ ہم اِن ممالک پر اس لئے قبضہ کرتے ہیں کہ روسی سرحدیں ان کے بغیر محفوظ نہیں ہیں۔ اگر یہ طریق درست ہے تو کل امریکہ والے بھی کہہ دیں گے کہ ہمارے لئے جاپانی جزیروں پر قبضہ کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے مُلک کی حفاظت اس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ پیدا کرہی لیا کرتا ہے۔ جب روس کے پاس طاقت آئی تو اس نے بھی ڈیفنس آف سائبیریا، ڈیفنس آف لینن گریڈ، ڈیفنس آف وائٹ رشیا اورڈیفنس آف یوکرین کے بہانہ سے کئی ممالک کی آزادی کو سلب کر لیا۔ جب سیاسیات میں روس کی یہ حالت ہے تو اقتصادیات میں یہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ روس دوسرے ممالک کے ساتھ مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر کہو کہ نہیں ہم اقتصادیات کے متعلق نہیں سمجھ سکتے کہ روس ایسا کرے گا سیاسی صورت الگ ہے۔ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ دور کیوں جاتے ہو مساوات پر زور دینے والی کمیونزم کی یہ حالت ہے کہ وہ آج ایران کے تیل پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ کیا ایران کیلئے اپنے چشموں سے فائدہ اُٹھانا جائزنہیں کہ ایک دوسرا مُلک اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ تیل کے چشموں سے اُسے فائدہ اُٹھانے دیا جائے۔جب ایران کو خود اپنے تیل کے چشموں کی ضرورت ہے، جب اُس کے اپنے آدمی بھوکے مر رہے ہیں تو روس نے اُس سے یہ کیوں مطالبہ کیا؟ اگر مساوات اور بنی نوع انسان کی ہمدردی مقصود تھی تو کیوں ایران کو بغیر سُود کے روپیہ نہ دے دیا کہ اپنے تیل کے چشموں کو کھودو اور اُن سے اپنے مُلک کی حالت کو درست کرو۔ کیا یہ اِس بات کی دلیل نہیں کہ طاقت حاصل ہونے کے نتیجہ میں روس اب یہ چاہتا ہے کہ ایران سے اُس کے تیل کے چشمے بھی چھین لے اور خود اُن پر قابض ہو جائے۔
بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ انگریزوں نے بھی تو ایران کے تیل کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ انہوں نے بھی اچھانہیں کیا مگر مَیں تو یہ کہہ رہاہوں کہ اگر انگریزوں نے اچھا نہیں کیا تو روس نے بھی اچھا نہیں کیا۔ تم اُس کو بھی گالیاں دو اور اِس کو بھی بُرا بھلا کہومگر یہ کیا کہ انگریز ایک کام کریں تو انہیں بُرا بھلا کہا جائے اور ویسا ہی کام روسی کریں تو انہیں کچھ نہ کہا جائے بلکہ اُن کی تعریف کی جائے۔ اگر انگریزوں نے ابادان کے چشموں پر قبضہ کیا ہوا ہے تو روس کا مطالبہ بھی تو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اقتصادیات میں کمیونزم پُرانے امپیریلسٹک کی پالیسی والے مُلکوں سے کوئی جُداگانہ راہ نہیں رکھتا اور وہ بھی غیر مُلکوں سے مساوات کا سلوک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اگر وہ مساوات کے لئے تیار ہے تو کیا اگر ایرانی یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں باکو کے چشموں سے فائدہ اُٹھانے دیا جائے تو روسی کہیں گے بہت اچھا آجاؤ اور باکو کے چشموں پر قبضہ کر لو؟ اگر مساوات کا سلوک کیا جاتا تو ایران سے کہا جاتا کہ تمہارا بھی حق ہے کہ مجھ سے مانگو اور میرا بھی حق ہے کہ میں تم سے مانگوں مگرروس اس طرف آتاہی نہیں اور ابھی تو یہ ابتداء ہے جب کمیونزم کی صنعت وحرفت بڑھے گی دوسرے مُلک اس طرح چلائیں گے کہ پہلے کبھی نہیں چلائے اور اس سے زیادہ ان کی صنعت کو کچلا جائے گا جس قدر کہ پہلے کبھی کچلا گیا۔ کیونکہ کمیونزم نے صرف فردی کیپٹلزم کو کچلا ہے اجتماعی کیپٹلزم کو نہیں بلکہ اجتماعی کیپٹلزم کو اِس قدر طاقت دے دی ہے کہ اِس سے پہلے اِسے کبھی نصیب نہیں ہوئی اور اجتماعی کیپٹلزم ہی سب سے زیادہ خطرناک شے ہے۔ امریکہ نے ٹرسٹ سسٹم اور کارٹل سسٹم کے خلاف قانون اِسی لئے پاس کیا ہے۔
ایک خطرناک کیپٹلزم کا اجراء اور اُس کے انسداد کی دو صورتیں
اقتصادی تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ انفرادی تاجر کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ کمپنیاں۔ اور کمپنیاں
کبھی اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جس قدر کہ ٹرسٹ۔ اور ٹرسٹ کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدر کہ کارٹل۔ اور کارٹل کبھی اتنے کامیاب نہیں ہوئے جس قدرکہ وہ کمپنیاں کامیاب ہوں گی جن کے پیچھے سارے مُلک کی دولت اور سیاست ہوگی جیسا کہ روس میں کیا جارہا ہے۔ افراد کی کمپنیوں کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور غیر منظم بڑے مُلک کر سکتے تھے مگراجتماعی حکومتی کیپٹلزم کا مقابلہ چھوٹے مُلک اور بڑے( لیکن کمزور) مُلک کسی صورت میں نہیں کر سکتے۔
اس سے پہلے بھی بڑے صنّاع مُلک چھوٹے مُلکوں پر اقتدار پیدا کر لیتے تھے لیکن انفرادی کیپٹلزم کی موجودگی میں ضروری نہ تھا کہ جو مُلک چھوٹاہواُس میں کیپٹلسٹ نہ ہوں۔ چونکہ مقابلہ افراد میں تھا اس لئے باوجود مُلک کے چھوٹا ہونے کے اس کے کچھ افراد بڑے اور منظم مُلک کا مقابلہ کرتے رہتے تھے کیونکہ وہ بھی کیپٹلسٹ ہوتے تھے۔ انگلستان نہایت منظم صنعتی مُلک ہے مگر باوجود اس کے ہالینڈ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ جیسے مُلکوں کے بعض کیپٹلسٹ انگلستان کے کیپٹلسٹوں کا مقابلہ کر سکتے تھے کیونکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ یا انگلستان اور بیلیجئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کا نہ تھا بلکہ مقابلہ انگلستان اور ہالینڈ کے اور انگلستان اور بیلجیئم اور انگلستان اور سوئٹزرلینڈ کے دو کیپٹلسٹوں کا تھا اور اُن کئے آگے نکلنے سے مُلک کا دوسرا طبقہ بھی فائدہ اُٹھالیتا ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسا کہ انگلستان اور بیلجیئم کی فوجیں سامنے آئیں تو بیلجیئم مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن انگلستان کا کوئی سپاہی بیلجیئم کے کسی سپاہی کے مقابلہ پر آجائے تو بیلجیئم کا سپاہی انگلستان کے سپاہی پر غالب آسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ فردی کیپٹلزم بھی ایک خطرناک شَے ہے مگر اس کے باوجود خود اس مُلک کے لوگوںاور اس کے حریف مُلکوں کے لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ راستہ بچاؤ کا کھلا رہتا ہے لیکن حکومتی کیپٹلزم کے سامنے چھوٹے اور غیر منظم مُلک بالکل نہیں ٹھہر سکتے اور ان کے بچنے کی کوئی ممکن صورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اور یہ مقابلہ ایسا ہی عبث ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک مشین گن رکھنے والی فوج کے مقابل پر سونٹے لے کر نکلنے والی فوج عبث اور بے کار ہوتی ہے۔ کمیونزم نے مُلکی اجتماعی کیپٹلزم کا طریق جاری کر کے جس میں سارے مُلک کی دولت اور اس کی سیاسی برتری مجموعی طور پر دوسرے مُلکوں کے منفرد صنّاعـوں اور تاجروں کے مقابل پر کھڑی ہوتی ہے ایک ایسا طریق رائج کیا ہے جودنیا کے اقتصادی نظام کو بالکل تہہ وبالا کر دے گا۔ لوگ ٹرسٹوں اور کارٹلز کے خلاف شور مچارہے تھے اور ان کے ظلموں کے شاکی تھے مگر کمیونزم نظام کے ماتحت ترقی کرنے والی صنعت وحرفت تمام دوسرے مُلکوں کے لئے ایسی خطرناک ثابت ہوگی کہ اس کے مقابلہ پر ٹرسٹ تو کیا کارٹلزبھی ایسے معلوم ہوں گے جیسے ایک دیو کے مقابلہ پر ایک پانچ سالہ لڑکا۔ انگلستان کا ایک بڑا تاجر امریکہ کے ایک بڑے تاجر کا مقابلہ تو کر سکتا تھا اگر مقابلہ نہ ہوسکتاتھا تو انگلستان کے چند تاجر مل کرایک ٹرسٹ بنا لیتے تھے۔ اگر جرمنی کی سائنٹیفک مصنوعات کا مقابلہ امریکہ اور انگلستان کے صناعوں کے لئے مشکل ہوتا تو دونوں مُلکوں کے تاجر مل کر ایک کارٹل کے حصہ دار ہو جاتے تھے مگر کمیونزم کی صنعت کا مقابلہ کوئی زبردست سے زبردست کارٹل بھی کس طرح کر سکتا ہے کیونکہ کمیونزم کے ترقی یافتہ کارخانوں کی مدد پر ایک یا دو تاجر نہ ہوں گے بلکہ سب مُلک کی دولت ہوگی اور تاجروں کی دولت ہی نہ ہوگی روس کی ڈپلومیٹک فوج اور لڑنے والی فوج اور اس کا بحری بیڑا بھی ہو گا کیونکہ اس کے کارخانہ کی ناکامی کسی ایک فرد یا کمپنی کی ناکامی نہ ہوگی بلکہ خود روسی حکومت کی ناکامی ہوگی۔ کیونکہ کمیونزم کے نظامِ صنعت وحرفت کے کارخانے حکومت کے قبضہ اور انتظام میں ہوں گے۔ پس جس صنعت کو یہ مدد حاصل ہوگی اس کا مقابلہ غیر مُلکوں کے تاجر یا ٹرسٹ یا کئی مُلکوں کے اشتراک سے بنے ہوئے کارٹلز بھی کس طرح کر سکتے ہیں۔
پس رشین کمیونزم نے ایک نہایت خطرناک کیپٹلزم کا راستہ کھولا ہے جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس کا مقابلہ اِن دوہی صورتوں سے ہو سکتا ہے۔
(۱) سب دنیا ایک ہی نظام میں پروئی جائے یعنی سب مُلک روسی حکومت کا جزوبن جائیں اور اس طرح آئندہ غیر مساوی مقابلہ کو بند کر دیں۔ مگر کیا کمیونزم میںکوئی ایسے اشتراک کی گنجائش ہے؟ یا کیا غیر مُلکوں کے لوگ مثلاً انگلستان، امریکہ، فرانس کے لوگ اِس امر کے لئے تیار ہیں کہ اس آئندہ آنے والے خطرہ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو روسی حکومت میں شامل کر دیں؟ اور کیا اس کی کوئی معقول امید ہے کہ اگر وہ ایسا کر بھی دیں تو وہ روسیوں کے ساتھ ہر جہت سے مساوی حقوق حاصل کر لیں گے؟ اگر یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں جیسا کہ میرے نزدیک ہر عقلمند انسان انہیں ناممکن کہے گا تو پھر یہ علاج تو بے کار ہوا۔
(۲) دوسرا ممکن علاج اس خطرہ کا یہ ہو سکتا ہے کہ سب دنیا کے مُلک کمیونزم سسٹم کے مطابق الگ الگ نظام قائم کرلیں۔ مگر سب دنیا کمیونزم میں آجائے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند حکومتی ٹرسٹ ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے اور وہ حالت موجودہ حالت سے بہت زیادہ خطرناک ہوجائے گی۔ اِس تبدیلی سے صرف یہ فرق پڑے گا کہ پہلے تو ہندوستان کے تاجرکا رشیا کے تاجر سے مقابلہ ہوا کرتا تھا مگر پھر ہندوستانی حکومت کے صنعتی ادارہ کا مقابلہ روسی حکومت کے صنعتی ادارہ سے ہوگا۔ گویا اب تو جنگ کبھی کبھار ہوتی ہے اُس وقت ایک مستقل جنگ دنیا میں جاری ہو جائے گی۔ ہر تجارتی قافلہ کا افسر درحقیقت ایک سفیر ہوگا اور ہر تجارتی مال اپنی حفاظت کے لئے اپنے مُلک کی فوج اور اُس کا بیڑا ساتھ رکھتا ہوگا۔ تجارتی نزاع تاجروں میں نہیں حکومتوں میں ہوں گے اور لین دین کے لئے کمپنیوں کے مینیجر نہیں بلکہ حکومتوں کے وزیر خط وکتابت کریں گے۔ اِس نظام میں کسی چھوٹے مُلک یا غیر منظم کو کوئی جگہ ہی نہیں مل سکتی۔ چھوٹے مُلک اور غیر منظم مُلک اِس نظام کے جاری ہونے پر اپنی حریّت پوری طرح کھو بیٹھیں گے اور صرف بڑے مُلکوں کی چراگاہیں بن کر رہ جائیں گے۔ اور جو مُلک منظم اور بڑے ہوں گے اُن میں پہلے کی طرح مقابلہ جاری رہے گا صرف فرق یہ ہوگاکہ پہلے تو زید اور بکر کا تجارتی مقابلہ ہوتا تھا آئندہ حکومت کا حکومت سے تجارتی مقابلہ ہوگا۔
اگریہ خیال کیا جائے کہ سب لوگ مل کر ایک باانصاف معاہدہ کرلیں گے تو یہ بھی درست نہیں۔ آج کا روس کل کا روس نہیں اور کل کا روس آج کا روس نہ ہوگا۔ جب اِس کی صنعت وحرفت ترقی کرے گی اور جب اس کی دولت بڑھے گی وہ دوسروں سے اپنی دولت بانٹنے کے لئے تیار نہیں ہوگا بلکہ وہ تو آج بھی تیار نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ایران کے تیل پر کیوں قبضہ کرنا چاہتا۔
روس کا فعل اپنے قول کے خلاف
روس کا تھری بگز(THREE BIGS) میں شامل ہونا بھی اُس کے اپنے اصول سے ہٹنے
پر دلالت کرتا ہے۔ آخر ان تین بڑوں کے علاوہ جو دوسری حکومتیں ہیں وہ کیا چیزہیں۔ سمجھ لو کہ طاقتور آدمی کے مقابل پر کمزور اور غریب آدمی کی حیثیت رکھتی ہیں۔بیلجیئم کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ ہالینڈ کیا ہے؟ ایک کمزور اور غریب آدمی۔ روس انگلستان اور امریکہ کیاہیں؟ مضبوط پہلوان اور کڑور پتی تاجر۔ اگر روس اپنے اصول میں سچائی پر قائم ہے تو اُسے اِن کمزور اور غریب ممالک کے ساتھ ایک ہی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ ہمارا اصول یہ ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہم اپنے اور اِن کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتے ۔جیسے ہمیں اپنی جان پیاری ہے ویسے ہی ان کو پیاری ہے، جیسے ہمیں اپنے مُلک کا فائد ہ مدنظر ہے ویسے ہی ان کو مدنظر ہے۔ پس حکومتوں کی مشاورتی مجالس میں ہم میں اور کمزور حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے کہ ہر ایک نے اپنے حقوق کی حفاظت کرنی ہے۔ مگر روس کی کمیونسٹ حکومت نے ایسا نہیں کیا اُس نے یہ مطالبہ کیا کہ تین بڑوں کے مشورہ سے سب اصول اور امورطے ہوں۔ اُس نے اپنی آواز کی اَور قیمت مقرر کی ہے اور بیلجیئم اور ہالینڈ کی اور۔ اور اگر بیلجئیم اور ہالینڈ کی آوازوں اور روس کی آواز میں فرق ہے، اگر کمزور قوم کو طاقتور قوم کے مقابل پر نہیں لایا جاسکتا، اگر ایک غریب قوم کے ساتھ مساوات کا سلوک نہیں کیا جاسکتا تو فرد کو فرد کے مقابل پر مساوات کیوں دی جائے۔ ایک عالم اور جاہل اور ذہین اور کند ذہن میں جو قدرتی فرق ہے اُسے کیوں مٹایا جائے۔ اور روس کا خود تھری بِگز (THREE BIGS)میں شامل ہونا اور اِس تین بڑوں یا پانچ بڑوں کے اصول پر زور دینا بتاتا ہے کہ کمیونزم کا مساوات کا اصول بالکل غلط اور دکھاوے کا ہے۔ اگر بڑی حکومت چھوٹی حکومت کے مقابل میں امتیازی سلوک کی مستحق ہے تو عالم جاہل کے مقابل پر اور فطرتی صنّاع اور تاجرایک کودن۳۲؎ صنّاع اور غیر تجربہ کار تاجر کے مقابل پر اپنے فن سے فائدہ اُٹھانے کا کیوں مستحق نہیں۔ ایک بڑی قوم کے مقابل پر ایک چھوٹی قوم کو نیچا کر دینا اِس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ ایک شخص کا اپنی قابلیت سے دوسرے سے کچھ آگے نکل جاناخصوصاً جب کہ طبعی مساوات کے قیام کے لئے اسلام کے مقرر کردہ پاکیزہ اصول موجود ہوں۔
اِس موقع پر مجھے ہندوستان کے ایک بڑے لیڈرکا ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ ایک مقام پربعض مسائل کے متعلق غور کرنے کے لئے بہت سے لیڈر ہندوستان کے مختلف مقامات سے جمع ہوگئے مجھے بھی سرسکندر مرحوم اور سرفیروزخان نون نے تار دیکر بلوایا۔ یہ مجلس شملہ میں ہوئی تھی غالباً ۷۰ یا ۸۰ لیڈر تھے جومختلف مقامات سے شامل ہونے کے لئے آئے تھے۔ جب اتنے بڑے لیڈروں کو اُس لیڈر نے اکٹھے دیکھا تو انہیں بہت بُرا لگا کہ ہندوستان کے اتنے لیڈر ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے معاملات اتنے بڑے اجتماعوں میں طے نہیں ہو سکتے بہترہوگا کہ ہم چند لیڈروں کے لیڈر (We Leaders of Leaders) اس میں بیٹھ کر فیصلہ کر کے ان لوگوں کو سنا دیں یہی حال روس کا ہے۔ زید اور بکر کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن میں مساوات ہونی چاہئے مگر جب حکومت کا سوال آتا ہے تو کہا جاتا ہے ہم تین بڑی حکومتیں مل کر جو فیصلہ کریں گی وہی تمام اقوام کو ماننا پڑے گا۔ ان کا حق نہیں کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوں یاہماری کانفرنس میں شریک ہوں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سوائے اِس کے کہ روس کے پاس توپیں زیادہ ہیں اور دوسروں کے پاس توپیں کم ہیں، روس کے پاس ٹینک اور ہوائی جہاز اور فوجیں زیادہ ہیں لیکن بیلجیئم، فرانس اور ہالینڈکے پاس کم ہیں۔ اگر سامانِ حرب کی کثرت کی وجہ سے روس اِس بات کا حق رکھتا ہے کہ اُس کی آواز کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وقعت دی جائے اور وہ دوسرے چھوٹے مُلکوںکے برابر ہونے کے لئے تیار نہیں ہے تو وہ کَل کواُن کو اپنے اقتصادی پروگرام میں شامل کس طرح کرے گا ۔جو مُلک اِس بات کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ دوسرے مُلکوں کی رائے کو کوئی وقعت دے یا ان کو مجلس صلح میں بٹھائے وہ اُن کو کھانا اور کپڑا دینے کے لئے کس طرح تیار ہوگا۔ یقینا جب روس کی انڈسٹری بڑھے گی تو وہ اپنی منڈیوں کے لئے منڈیٹس (MANDATES (چاہے گا برابر کے شریک نہیں۔
غرض سرمایہ داری مُردہ باد کا کوئی سوال نہیں یہ محض وہم ہے جو لوگوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اصل سلوگن یہ ہے کہ الف ؔ کی سرمایہ داری مُردہ باد اور مُلکِ روس کی سرمایہ داری زندہ باد۔ اور اِس کا انجام تم خود سوچ لو۔ الف ؔ اور بؔکی سرمایہ داری کا تولوگ مقابلہ کر سکتے تھے مگروہ روس کی حکومتی سرمایہ داری کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
روس میں غیر روسی کے داخلے کا امتناع
روس اپنی کمزوری کو خود بھی محسوس کرتا ہے اور اِسی وجہ سے وہ غیرممالک
کے تعلقات کو سختی سے روکے ہوئے ہے چنانچہ حال ہی میں اسٹیفن کنگ حال ممبر پارلیمنٹ انگلستان روس میں دورہ کر کے آئے ہیں۔ اُنہوں نے اِس دورہ کا مفصل ذکر ایک مضمون میں کیا ہے جو ’’SOVIET UNION‘‘ کے ماہ جون کے پرچہ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں ’’ روسی گورنمنٹ نہیں چاہتی کہ روس کی قوم آزادی سے اور بغیر کسی روک کے ہمارے خیالات سے یا کسی اور خیال سے جو روسی نہ ہو واقف ہوسکے‘‘ پھر کہتے ہیں۔ ’’کہ کوئی شخص روسی طرزِ زندگی کو براہِ راست نہیں سمجھ سکتا بجز روسی سرکاری ذرائع کے۔ اور یہ مشکل ابھی کتنے ہی سال تک رہے گی‘‘پھرابھی پچھلے دنوں روس کے ماہرین یہاں آئے تھے۔ امریکہ کے بعض ماہرین بھی اُن کے ساتھ تھے۔ وہ سب سے زیادہ ہندوستان کی حالت کو دیکھ کر حیران ہوئے کیونکہ اُن کے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ سفر کر سکیں لیکن ہندوستان کا ہر شخص جہاں جی چاہے آسانی کے ساتھ آجاسکتا ہے اس لئے جب انہوں نے اپنی حکومت کے خرچ پر ہندوستان کو دیکھا تو انہیں یہ مُلک اس طرح نظر آیا جیسے مر کر انسان اگلے جہان کو دیکھتا ہے۔ یہ نتیجہ تھا اُن کی ناواقفیت کا مگر آخر یہ کولڈ سٹوریج میں رکھنے کا معاملہ کب تک چلے گا۔ ایک دن یہ دیوار ٹوٹے گی اور دُنیا ایک زبردست تغیر دیکھے گی۔
روسی اقتصادیات کے متعلق بعض غور طلب باتیں
روس کی عملی مساوات میں بھی مجھے شبہ ہے۔ مگر وہاں کے پورے حالات چونکہ معلوم نہیں ہوتے اِس لئے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن مجھے قطعی طور پر معلوم
ہوا ہے کہ روسی سپاہی کالباس نہایت بوسیدہوتا ہے۔ یہ رپورٹیں مجھے اپنی جماعت کے بعض احمدی افسروں اور بعض احمدی سپاہیوںنے پہنچائی ہیں جنہیںفوج میں ایسے مقامات پر کام کرنے کاموقع ملا جہاں روسی افسر اور روسی سپاہی بھی اُن کیساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ روسی سپاہی کا لباس خصوصاً ایشیائی سپاہی کا لباس نہایت ادنیٰ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مارشل توموشنکو اور مارشل کونیف کی تصویروں کو دیکھا جائے تو انہوں نے نہایت قیمتی تمغے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا لباس بھی بڑا خوبصورت ہوتا ہے۔ مارشل کاتمغہ ساٹھ ہزار کی قیمت کا ہوتا ہے ۔ اس تمغہ سے ہی اقتصادی مساوات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مساوات کے دعویٰ کی عملاً تغلیط
پھر کمیونزم میں جو مساوات پائی جاتی ہے اُس کا اِس سے بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ
موسیوسٹالن نے اِسی جنگ کے ایّام میں مسٹر چرچل کی ایک ملاقات کے موقع پراُن کے اعزاز میں ایک دعوت دی تو اُس موقع پر بڑی تعداد میں کھانے تیار کئے گئے جو موسیوسٹالن اور ان دوسرے لوگوں نے کھائے جو اس دعوت میں شریک تھے ۔ مسٹرچرچل جب انگلستان واپس گئے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دعوت کاذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ کاش! مجھے اپنے کیپٹلسٹ مُلک میں وہ کھانے میّسر آتے جو پرولی ٹیری ایٹ (Protletariate) حکومت میں مجھے کھانے کو ملے۔ اگر وہاں واقعہ میں مساوات پائی جاتی ہے تو کیا ماسکو کے ہر شہری کو اِسی طرح ساٹھ ساٹھ کھانے ملا کرتے ہیں؟ اگرنہیں تو یہ امور صاف طور پر بتاتے ہیں کہ کامل مساوات کا سوال ابھی حل نہیں ہوااور نہ حل ہوگا۔ تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مجبوری تھی کیونکہ اِن جنگ کے دنوں میں انگلستان کی حکومتی دعوتیں بھی بہت سادہ ہوتی ہیں۔ اِس سے بہت سادہ دعوت بھی کافی ہو سکتی تھی مگر اصل میں تو روسی دبدبہ دکھانامدنظر تھا اور یہ جذبہ مساوات کی روح کو کچلنے کاموجب ہوا کرتا ہے۔ دوسرے اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مساوات کے معنی روس میں بدل رہے ہیں اور ایک نیا طبقہ امراء کا وہاں پیدا ہو رہا ہے جس کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی میں پیدا کئے ہوئے رسوخ پرہے۔ پس مساوات کی شکل بدلی ہے چیز اسی طرح قائم ہے جس طرح پہلے تھی۔
اِس تقریرکے مسودہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ایک خبر روس کی اِس عدمِ مساوات کے بارہ میں ملی ہے جسے مَیں اِس جگہ نقل کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ وہ میرے مضمون کے اِس حصہ پر روشنی ڈالتی ہے اور اِس کی تائید میں ہے۔ آسٹریلیا کے مشہور اخبار’’ سن‘‘ نے اپنے کنبرا کے نامہ نگار کی رپورٹ پر یہ خبر شائع کی ہے کہ آسٹریلین وزیر متعینہ روس نے اپنی رخصت کے ایام میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹری سنسر پارٹی کی ایک مجلس میں مندرجہ ذیل واقعات بیان کئے۔
(۱) روس میں ایک نئی دولت مندوں کی جماعت پیدا ہو رہی ہے کیونکہ عام لوگوں کی نسبت کمیونسٹ پارٹی کے سربرآوردہ ممبروں اور ’’صنعتی ماہروں‘‘ سے بہت ہی زیادہ بہتر سلوک کیا جاتا ہے۔
(۲) ریسٹورینٹوں (RESTAURANT) میں پانچ قسم کی غذا تیار ہوتی ہے جس کے ٹکٹ کمیونسٹ پارٹی میں رسوخ اور کام کی نوعیت کے مطابق تقسیم ہوتے ہیں( یعنی اوّل درجہ کو اوّل درجہ کا کھانا۔ دوسرے درجہ والے کو دوسرے درجہ کا کھانااور اسی طرح آخر تک)
(۳) یہ کہ اِن امتیازی سلوکوں کے نتیجہ میں افراد کے درجوں کا فرق ویسا ہی نمایا ں ہے جیسا کہ زار روس کے زمانہ میں تھا۔
(۴) یہ کہ جہاں دوسرے مُلکوں میں بلیک مارکیٹ چور تاجر چلاتے ہیں روس میں خود حکومت کی طرف سے عَلَی الْاِعْلَان یہ مارکیٹ جاری ہے۔
(۵) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑے عہدہ والے لوگ قریباً ہر چیز حاصل کرسکتے ہیں جب کہ عام کاریگر اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے۔
آسٹریلین وزیر نے اس خبر کے شائع ہونے پر اظہار افسوس کیا ہے اور لکھا ہے کہ ہماری حکومت اور روس کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اِس خبر کا انکار نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انکار سیاسی ہے حقیقی نہیں۔
یہ خبر وضاحت سے اس اندازہ کی تصدیق کرتی ہے جو مَیں نے اپنے لیکچر میں سوویٹ کے مستقبل کے متعلق لگایا تھا کہ آئندہ ایک نیا طبقہ امراء کا پیدا ہونا ضروری ہے کیونکہ لیاقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہ ظاہر ہے کہ چونکہ اسلامی حد بندیاں اِس ممتاز طبقہ کو حدود کے اندر رکھنے کے لئے کمیونزم میں موجود نہیں یہ طبقہ آخر کمیونسٹ حکومتوں کو پھر پُرانے اصول کی طرف لے جائے گا اور کمیونسٹ کی بغاوت کا صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ روس کو اقوامِ عالم میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہو جائے گی اور امپیریلسٹک حکومتوں کی نفع اندوزی میں وہ بھی شریک ہو جائے گا اور ورلڈ پرالیٹریٹ یعنی دنیا کی حکومت عوام کا اصل ایک خواب کی شکل میں تبدیل ہو جائے گا ایسا خواب جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ کمیونزم فلسفہ انسانی ہمدردی کے اصول پر نہیں بلکہ زار کی حکومت سے انتقام کے اصول پر مبنی ہے۔
روسی سپاہیوں کا تمدّنی معیار
اِس موقع پرضمناً مَیں روسی سپاہیوں کے تمدّنی معیار کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا
گیا ہے کہ ایران میں سے بنزائن کی ایک گاڑی گزر رہی تھی کہ ایک ڈرم میں سوراخ ہوگیا اور اس میں سے بنزائن بہنے لگا۔ روسی سپاہیوں نے جب یہ دیکھا تو انہوں نے سمجھا کہ شایدرَمْ (RUM)یا بیئر( BEER ) ہے۔ چنانچہ انہوں نے بنزائن کو شراب سمجھ کر پینا شروع کر دیا۔ـ قریباً ایک ہزار روسی سپاہیوں نے یہ بنزائن استعمال کی اور اُن میں سے درجنوں اس زہر کی وجہ سے مر گئے اور سینکڑوں بیمار ہوگئے۔ قومی خدمت کا یہ ایک بہت بُرا نمونہ ہے۔ اتنے سپاہیوں کا اپنے قومی فرض کو بھول جانا اور بجائے قومی مال کی حفاظت کے اُسے اپنے استعمال میں لانے کی کوشش کرنا بتاتا ہے کہ عام سپاہی کی اقتصادی حالت اِس قدر اچھی نہیں کہ وہ حقیقی یا فرضی لالچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ کم سے کم ایران میں رہنے والے روسی سپاہیوں کی حالت ایسی نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ روس نے اُن کی حالت کو بدل دیاہے۔
کمیونزم کے دعویٰ مساوات کے متعلق بعض حل طلب سوالات
انڈسٹری کے متعلق یہ حل طلب سوال ہے کہ کیا ہر انڈسٹری میں ایک ساکام ہے۔ کوئلہ کی کان میں اور قسم کا کام ہے اور دُکان
میں بیٹھنے کا اور کام ہے۔ پھریہ سوال پیدا ہوتاہے کہ درزی کو اَور سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو ہری کو اَور کی اِس کا کمیونزم میں کیا حل سوچا گیا ہے؟ کیا دُکانوں کا سرمایہ سب حکومت کا ہوتا ہے اور وہاں کی سب تجارت حکومت کے ہاتھ میں ہے پھریہ بھی سوال ہے کہ اچھے اور بُرے ڈاکٹر اور اچھے اور بُرے وکیل کی فیس ایک ہی ہے یا اس میں اختلاف ہے؟ اگراختلاف ہے تو کیوں؟ اگر نہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا سب لوگ اچھے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو بہرحال وہ سب کا علاج نہیں کر سکتا پھر وہ کیا کرتا ہے؟ یا سب لوگ اچھے وکیل کے پاس جاتے ہیں؟ اگر جاتے ہیں تو وہ سب کے مقدمات نہیں لڑسکتا۔ اگر سب مقدمات نہیں لیتا تو وہ اُن کا انتخاب کس طرح کرتا ہے؟ ایسے ہی بیسیوں سوالات ہیں جن پرغور کر کے مساوات کا حقیقی علم حاصل ہو سکتا ہے۔ ان سوالات کے بغیر حقیقی مساوات کا علم ناممکن ہے۔ مگر ان کے معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور جب تک اِن باتوں کا جواب مہیّا نہ کیا جائے کمیونزم کے حامی مساوات کا دعویٰ کرنے میں غلطی پر ہیں۔
صحیح اقتصادی نظام
ان تمام باتوں پرغور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہر عقلمند انسان اِس نتیجہ پر ہی پہنچے گا کہ اصل اقتصادی نظام وہی ہے جو
مذہب کے لئے گنجائش رکھے کیونکہ تھوڑے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات پرایک لمبے عرصہ پراثر انداز ہونے والی اقتصادیات کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ اور اقتصادیات وہی اچھی ہیں جن میں ہر فرد کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان ہو مگر اس کے ساتھ ہی ایک حد تک فردی ترقی کا راستہ بھی کھلا ہوتاکہ نیک رقابت پیدا ہو اور بُری رقابت کچلی جائے۔
اصل بات یہ ہے کہ کمیونزم ایک ردِ عمل ہے لمبے ظلم کا۔ اِسی وجہ سے یہ ظلم کے علاقوں میں کامیاب ہے لیکن امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں کامیاب نہیں۔ اِسی طرح نیشلسٹ اورسوشلسٹ علاقوں میں بھی کامیاب نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا امریکہ کے ایک اخبار نے مزدوروں سے یہ سوال کیا کہ تم اپنے آپ کو کیپٹلسٹ سمجھتے ہو یا مڈل کلاس(MIDDLE CLASS) میں سے سمجھتے ہو یا غریب کلاس میں سے سمجھتے ہو؟ اِس سوال کے جواب میں اکثر جوابات میں یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپنے آپ کو مڈل کلاس (MIDDLE CLASS)میں سے سمجھتے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ امریکہ کے مزدور کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ غرباء میںسے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمیونزم امریکہ میں انگلستان سے بھی زیادہ ناکام رہا ہے کیونکہ وہاں دولت بہت زیادہ ہے اور دولت کی کثرت کی وجہ سے مزدوروں میں یہ احساس ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ غریب ہیں یا انہیں اپنے لئے کسی ایسے نظام کی ضرورت ہے جو اُن کی اِس تکلیف کو دور کر سکے جس کا روٹی یا کپڑے کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔
پس اصل علاج یہی ہے کہ (۱) اسلامی تعلیم کے ماتحت غرباء کو اُن کا حق دیا جائے اور (۲)اُمیدوں اور اُمنگوں کو بڑھا دیا جائے جیسے جرمنی اور اٹلی نے اپنے مُلک کے لوگوں کو روپیہ نہیں دیا لیکن اُس نے اُن کی اُمنگوں کو بڑھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو غالب اور فاتح اقوام میں سے سمجھنے لگے۔ ترقی کے لئے اُمنگ کا پیدا ہونا نہایت ضروری ہوا کرتا ہے ۔ جس قوم کے دلوں میں سے اُمنگیں مٹ جائیں، اُس کی اُمیدیں مر جائیں، اُس کے جذبات سرد ہو جائیں اور غرباء کے حقوق کو بھی وہ نظر انداز کر دے اُس قوم کی تباہی یقینی ہوتی ہے۔
غرباء کی ضروریات کے متعلق امیروں کا فرض
پس ہمارے مُلک کے اُمراء کو چاہئے کہ وہ وقت پر اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اُن حقوق کو ادا کریں جو اُن پر غرباء کے متعلق عائد ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ
کمیونزم کا پیدا ہونا ایک سزا ہے اُن لمبے مظالم کی جو اُمراء کی طرف سے غرباء پر ہوتے چلے آئے تھے لیکن اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرلیں اور توبہ سے اپنے گزشتہ گناہوں کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے غرباء کو اُن کے حقوق ادا نہیں کریں گے تو خدا اِس سزا کے ذریعہ اُن کے اموال اُن سے لے لیگا۔ لیکن اگر وہ توبہ کریں گے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو یہ مہیب آفت جو اُن کے سروں پر منڈلا رہی ہے اسی طرح چکر کھا کر گزر جائے گی جس طرح آندھی ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ کی طرف اپنا رُخ موڑ لیتی ہے۔ اَب یہ تمہارا اختیار ہے کہ چاہو تو اللہ تعالیٰ کے اُس محبت کے ہاتھ کو جو تمہاری طرف بڑھایا گیا ہے اَدب کے ساتھ تھامو اور اپنے اموال کو غرباء کی بہبودی کے لئے خرچ کرو اور اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو برداشت کر لو اور دولت اپنے پاس رکھو جو کچھ دنوں بعد تم سے باغیوں اور فسادیوں کے ہاتھ چھنوادی جائے گی۔ آخر میں مَیں اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کمیونزم کی ترقی اور روسی اقتصادیات پر غور کر تے وقت ہمیں ایک اور اہم بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے جو ایسے حالات میں کہی گئی ہے جبکہ روس کو دنیا میں کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
روس کے متعلق اڑہائی ہزار سال پہلے کی ایک پیشگوئی
روس کیا ہے؟ ایک ایسا مُلک ہے جس نے صرف تین چار سَو سال سے اہمیت حاصل کی ہے اِس سے پہلے وہ ایک پراگندہ قوم تھی۔ صرف چند قبائل تھے
جو تھوڑے تھوڑے علاقہ پر قابض تھے مگر اپنے علاقہ میں بھی اُس کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیںتھی۔ آج سے ایک ہزار سال پہلے وہ بہت ہی غیر معروف تھا اور اِس قدر بے آباد اور ویران تھا کہ کوئی شخص اُس کی بے آبادی کی وجہ سے اس کی طرف منہ بھی نہیں کرتا تھا۔ اور آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے تو اس سے کوئی شخص واقف بھی نہیں تھا۔ شاذونادر کے طور پر جغرافیہ والوں کو اِس کا علم ہو تو ہو ورنہ یہ اس قدر ویران تھا کہ کوئی شخص اس کی طرف منہ کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ اُس زمانہ میں جب کہ روس کو کوئی اہمیّت حاصل نہیں تھی حزقیل نبی نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے روس کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو آج تک بائبل میں موجو ہے اور حزقیل باب ۳۸ اور ۳۹ میں اِس کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے چنانچہ لکھا ہے۔
’’اور خدا وند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد! جوج کی طرف جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر۔ اور کہہ خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا! میں تیرا مخالف ہوں اور مَیں تجھے پھرا دونگا اور تیرے جبڑوں میں آنکڑے ڈال کر تجھے اور تیرے تمام لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو سب کے سب مسلّح لشکر ہیں جو پھریاں اور سپریں لئے ہیں اور سب کے سب تیغ زن ہیں کھینچ نکالوں گا۔ اور اُن کے ساتھ فارس اور کُوش اور فوط جو سب کے سب سپربردار اور خودپوش ہیں، جمر اور اس کا تمام لشکر اور شمال کی دُور اطراف کے اہل تجرمہ اور اُن کا تمام لشکر یعنی بہت سے لوگ جو تیرے ساتھ ہیں تو تیار ہو اور اپنے لئے تیاری کر۔ تواور تیری تمام جماعت جو تیرے پاس فراہم ہوئی ہے اور تو اُن کا پیشوا ہو۔ اور بہت دنوں کے بعد تو یاد کیا جائے گا اور آخری برسوں میں اُس سر زمین پر جو تلوار کے غلبہ سے چھڑائی گئی ہے اور جس کے لوگ بہت سی قوموں کے درمیان سے فراہم کئے گئے ہیں اسرائیل کے پہاڑوں پر جو قدیم سے ویران تھے چڑھ آئے گا۔ لیکن وہ تما م اقوام سے آزاد ہے اور وہ سب کے سب امن و امان سے سکونت کریں گے۔ توچڑھائی کرے گا اور آندھی کی طرح آئے گا۔ تو بادل کی مانند زمین کو چھپائے گا۔ تو اور تیرا تمام لشکر اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ ۔خداوندخدا یوں فرماتا ہے کہ اُس وقت یوں ہوگا کہ بہت سے مضمون تیرے دل میں آئیں گے اور تو ایک بڑا منصوبہ باندھے گا اور تو کہے گا کہ مَیں دیہات کی سر زمین پر حملہ کرونگا مَیں اُن پر حملہ کرونگا جو راحت وآرام سے بستے ہیں۔ جن کی نہ فصیل ہے نہ اَڑبنگے اور نہ پھاٹک ہیں تاکہ تو لوٹے اور مال کو چھین لے۔ اور اُن ویرانوں پر جو اَب آباد ہیں اور اُن لوگوں پر جو تمام قوموں میں سے فراہم ہوئے ہیں جو مویشی اور مال کے مالک ہیں اور زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلائے۔ سبا اور دوان اور ترسیس کے سوداگر اور اُن کے تمام جوان شیر ببر تجھ سے پوچھیں گے کیا توغارت کرنے آیا ہے؟ کیا تونے اپنا غول اس لئے جمع کیا ہے کہ مال چھین لے او رچاندی سونا لوٹے اور مویشی اور مال لے جائے اور بڑی غنیمت حاصل کرے۔
اِس لئے اے آدم زاد! نبوت کر اور جوج سے کہہ خداوند خدایوں فرماتا ہے کہ جب میری اُمت اسرائیل امن سے بسے گی کیا تجھے خبر نہ ہوگی؟ اور تو اپنی جگہ سے شمال کی دور اطراف سے آئے گا تو اور بہت سے لوگ تیرے ساتھ جو سب کے سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے ایک بڑی فوج اور بھاری لشکر۔ تو میری اُمت اسرائیل کے مقابلہ کو نکلے گا اور زمین کو بادل کی طرح چھپا لے گا۔ یہ آخری دنوں میں ہوگا اور مَیں تجھے اپنی سر زمین پر چڑھا لاؤنگا تاکہ قومیں مجھے جانیں۔ جس وقت مَیں اے جوج! ان کی آنکھوں کے سامنے تجھ سے اپنی تقدِیس کراؤں۔ خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ کیا تو وہی نہیں جس کی بابت مَیں نے قدیم زمانہ میں اپنے خدمت گذار اسرائیلی نبیوں کی معرفت جنہوں نے ان ایام میں سالہاسال تک نبوت کی فرمایا تھا کہ مَیں تجھے اُن پر چڑھا لاؤنگا اور یوں ہوگا کہ اُن ایام میں جب جوج اسرائیل کی مملکت پر چڑھائی کرے گا تو میرا قہر میرے چہرہ سے نمایاں ہوگا۔ خداوند خدا فرماتا ہے کیونکہ میں نے اپنی غیرت اور آتش قہر میں فرمایا کہ یقینا اُس روز اسرائیل کی سر زمین میں سخت زلزلہ آئے گا یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور میدان کے چرندے اورسب کیڑے مکوڑے جوزمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور تمام انسان جو رؤے زمین پر ہیں میرے حضور تھر تھرائیں گے اور پہاڑ گر پڑیں گے اور کراڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی اور مَیں اپنے سب پہاڑوں سے اُس پر تلوار طلب کروں گا۔ خدا وند خدا فرماتا ہے اور ہر ایک انسان کی تلوار اُس کے بھائی پر چلے گی اور مَیں وَبا بھیج کر اور خونریزی کرکے اُسے سزا دونگااور اُس پر اور اُس کے لشکروں پر اور اُن بہت سے لوگوں پر جو اس کے ساتھ ہیں شدّت کا مینہہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤنگا او راپنی بزرگی اور اپنی تقدیس کراؤنگا اور بہت سی قوموں کی نظروں میں مشہور ہوں گا اور وہ جانیں گے کہ خدا وند مَیں ہوں۔
پس اے آدم زاد! توجوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ خداوندخدایوں فرماتاہے دیکھ اے جوج ، روش، اور مسک اور توبل کے فرمانروا! مَیں تیرا مخالف ہوںاور مَیں تجھے پھرادونگااور تجھے لئے پھرونگا اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھالاؤنگا اور تجھے اسرائیل کے پہاڑوں پر پہنچاؤںگا اور تیری کمان تیرے بائیں ہاتھ سے چُھڑا دوں گا اور تیرے تِیر تیرے داہنے ہاتھ سے گرا دونگا۔ تو اسرائیل کے پہاڑوں پر اپنے سب لشکر اور حمایتیوں سمیت گر جائے گا اور مَیں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو دوں گا کہ کھا جائیں۔تو کھلے میدان میں گرے گا کیونکہ مَیں ہی نے کہا خداوند خدا فرماتا ہے اور مَیں ماجوج پر اور اُن پر جو بحری ممالک میں امن و سکونت کرتے ہیں آگ بھیجونگا اور وہ جانیں گے کہ مَیں خدا وندہوں اور مَیں اپنے مقدس نام کو اپنی اُمت اسرائیل میں ظاہر کرونگا اور پھر اپنے مقدس نام کی بے حرمتی نہ ہونے دونگا اور قومیں جانیں گی کہ مَیں خداونداسرائیل کا قدوس ہوں۔ دیکھ! وہ پہنچااور وقوع میں آیا خداوندخدا فرماتا ہے یہ وہی دن ہے جس کی بابت میں نے فرمایا تھا۔ تب اسرائیل کے شہروں کے بسنے والے نکلیں گے اور آگ لگا کر ہتھیاروں کو جلائیں گے یعنی سپروں اور پھر یوں کو، کمانوں اور تیروں کو اور بھالوں اور برچھیوں کو اوروہ سات برس تک اُن کو جلاتے رہیںگے۔ یہاں تک کہ وہ نہ میدان سے لکڑی لائیں گے اور نہ جنگلوں سے کاٹیں گے۔ کیونکہ وہ ہتھیار ہی جلائیں گے اور وہ اپنے لوٹنے والوں کو لوٹیں گے اور اپنے غارت کرنے والوں کو غارت کریں گے۔
خداوندخدا فرماتا ہے۔اور اُسی دن یوں ہوگا کہ مَیں وہاں اسرائیل میں جوج کو ایک گورستان دوں گا یعنی راہگذروں کی وادی جو سمندر کے مشرق میں ہے اُس سے راہگذروں کی راہ بند ہوگی اور وہاں جوج کو اور اُس کی تمام جمعیت کو دفن کریں گے اور جمعیت جوج کی وادی اُس کا نام رکھیں گے اور سات مہینوں تک بنی اسرائیل اُن کو دفن کرتے رہیں گے تاکہ مُلک کو صاف کریں۔ ہاں اُس مُلک کے سب لوگ ان کو دفن کریں گے اور یہ اُن کے لئے ناموری کا سبب ہوگا جس روز میری تمجید ہوگی۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور وہ چند آدمیوں کو چُن لیں گے جو اس کام میں ہمیشہ مشغول رہیں گے اور وہ زمین پر گزرتے ہوئے راہگذروں کی مدد سے اُن کو جو سطح زمین پر پڑے رہ گئے ہوں دفن کریں گے تاکہ اُسے صاف کریں پورے سات مہینوں کے بعد تلاش کریں گے اور جب وہ مُلک میں سے گزریں اور اُن میں سے کوئی کسی آدمی کی ہڈی دیکھے تو اُس کے پاس ایک نشان کھڑا کرے گا جب تک دفن کرنیوالے جمعیت جوج کی وادی میں اُسے دفن نہ کریں اور شہر بھی جمعیت کہلائے گا یوں وہ زمین کو پاک کریں گے۔
اور اے آدم زاد! خدا وند خدا فرماتا ہے ہر قسم کے پرندے اور میدان کے ہر ایک جانور سے کہہ جمع ہو کر آؤ میرے اس ذبیحہ پر جسے مَیں تمہارے لئے ذبح کرتا ہوں۔ ہاں اسرائیل کے پہاڑوں پے ایک بڑے ذبیحہ پر ہر طرف سے جمع ہو تاکہ تم گوشت کھاؤ اور خون پیئو تم بہادروں کا گوشت کھاؤ گے اور زمین کے امراء کا خون پیو گے ہاں مینڈھوں ،برّوں، بکروں اور بیلوں کا۔ وہ سب کے سب بسن کے فربہ ہیں اور تم میرے ذبیحہ کی جسے مَیں نے تمہارے لئے ذبح کیا یہاں تک چربی کھاؤ گے کہ سیر ہو جاؤ گے اور اتنا خون پیو گے کہ مست ہو جاؤ گے او رتم میرے دسترخوان پر گھوڑوں اور سواروں سے اور بہادروں اور تمام جنگی مردوں سے سیر ہوگے۔ خداوندخدا فرماتا ہے اور مَیں قوموں کے درمیان اپنی بزرگی ظاہر کروں گا اور تمام قومیں میری سزا کو جو مَیں نے دی اور میرے ہاتھ کو جو مَیں نے اُ ن پر رکھا دیکھیں گی‘‘۔۳۳؎
دیکھو! حزقیل نبی اُس زمانہ میں جب کوئی شخص روس کو نہ جانتا تھا اور جب کسی شخص کے وہم وگمان میںبھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ روس دنیا میں اس قدر ترقی کرے گا کہ اپنی حکومت اور شوکت کے ذریعہ سب پر چھا جائے گا روس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۔
’’ اے روس، ماسکو اور ٹوبالسک کے بادشاہ! خداوندخدایوں فرماتا ہے کہ مَیں دنیا کے آخری زمانہ میں تیری طاقت کو بڑھاؤں گا اور تیری شوکت میں غیر معمولی اضافہ کروں گا یہاں تک کہ تو اس گھمنڈ میں کہ تیری طاقت بہت بڑھ چکی ہے اور تیری عظمت میں اضافہ ہوگیا ہے غیر مُلکوں کو اپنے قبضہ میں لانے اور ان کے اموال اور اُن کے مواشی اور ان کی دولت لوٹنے کی کوشش کر ے گا یہاں تک کہ فارس اور ایران پر بھی تیرا قبضہ ہو جائے گا( جس کی بنیاد ڈالنے کے لئے روس اب ایران کے چشمے مانگ رہا ہے) اے روسـ، ماسکواور ٹوبالسک کے بادشاہ! اس لئے کہ تو غیر مُلکوں کی دولت کو لوٹ لے۔ اُن کا سونا اور چاندی اپنے قبضہ میں کر لے اور اُن کے مواشی اور ان کے اموال کو غصب کر لے اپنے مُلک میں سے نکلے گا (پیشگوئی کے اس حصہ سے ظاہر ہے کہ کمیونزم کا اقتصادی نظام پہلے نظاموں سے بھی زیادہ دوسرے مُلکوں کے لئے خطرناک ہوگا) اور غیر ممالک پر حملہ کرتے ہوئے بڑھتا چلاجائے گا۔ یہاں تک کہ تویروشلم پر حکومت کرنا چاہے گا جس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تب میرا غضب تجھ پر بھڑکے گا مَیں آگ اور گندھک کا مینہہ تجھ پر برساؤں گا اور مَیں تجھے بنسیاں مار مار کر تیرے منہ اور جبڑوں کو چیر دونگا اور تجھے اس طرح تباہ وبرباد کروں گا تیری لاشوں کے انبار جنگلوں میں لگ جائیں گے اور لوگ انہیں مہینوں تک زمین میں دفن کرتے رہیں گے‘‘۔
وہ لوگ جو پیشگوئیوں کو نہیں مانتے مَیں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر وہ اپنے انبیاء کو غیب کی خبروں سے اطلاع نہیں دیا کرتا تو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کو یہ کس نے بتادیا تھا کہ ایک زمانہ میںروس دنیا کی زبردست طاقت بن جائے گا اور وہ دنیا کا سونا اور چاندی لوٹنے کے لئے غیر ممالک پر حملہ کرے گا اور بادل کی طرح اُن پر چھا جائے گا مگر آخر خدا کا غضب اُس پر بھڑکے گا اور وہ آسمانی عذاب کا نشانہ بن کر تباہ وبرباد ہو جائے گا۔ اِس نکتہ پر غور کرنے کے بعد انسان سوائے اِس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتاکہ اِس قسم کی قبل ازوقت خبریں دینا خدا کا ہی کام ہے اور اگر دنیا کا ایک خدا ہے اور اُس خدا نے حزقیل نبی کو یہ خبر دی ہے جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے تو پھر اِس خبر کے جو آج سے اڑہائی ہزار سال پہلے دی گئی سوائے اِس کے اور کوئی معنیٰ نہیں ہیں کہ خدا اِس اقتصادی نظام کو دنیا میں رہنے دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
روس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی
ایک نئی پیشگوئی بھی سُن لو۔ اِس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زارِ روس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ
اُس پر ایک نہایت ہی شدید عذاب آنے والا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا۔
زاربھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی باحالِ زار ۳۴؎
یعنی وہ گھڑی آنے والی ہے جب کہ زار بھی باحالِ زار ہو جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق بالشویک لوگوں نے زار اور اُس کے خاندان کی مستورات کو ایسے ایسے سخت عذاب دیئے اور اِس اِس رنگ میں اُن کی بے حرمتی کر کے اُن کو مارا کہ وہ واقعات آج بھی سن کر دشمن سے دشمن انسان کا دل بھی کانپ اُٹھتا ہے اور اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے مگر اُس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک او ربھی خبر دی جو یہ ہے ۔
’’۲۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء کو مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ زارِ روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں آگیا ہے وہ بڑا لمبا اورخوب صورت ہے۔ پھر مَیں نے غور سے دیکھا تو وہ بندوق ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتاکہ وہ بندوق ہے بلکہ اُس میں پوشیدہ نالیاں بھی ہیں گویا بظاہر سونٹا معلوم ہوتا ہے اور وہ بندوق بھی ہے‘‘ ۔۳۵؎
رؤیا میںکسی حکومت کا عصا دیئے جانے کے معنیٰ وہاں طاقت اور نفوذ کے حاصل ہونے کے ہوتے ہیں۔ پس جہاں حزقیل نبی کی خبر یہ بتارہی ہے کہ کمیونسٹ نظامِ اقتصاد کو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم رکھنا پسند نہیں کرتا اور یہ کہ اگر اس نظام کے متولّیوں نے اِس سے توبہ نہ کی اور وہ غیرقوموں میں دخل اندازی اور تصرف سے باز نہ آیا تو خداتعالیٰ کا عذاب اُس پر نازل ہوگا اور وہ اس کی ہیبت ناک سزا کا نشانہ بن کر دنیا کے لئے ایک عبرت کا سامان پیدا کر جائے گا وہاں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ آخر روس کا نظام ہمارے ہاتھوں میں دیا جائے گا اور اُس کی اصلاح کا کام ہمارے سپرد ہوگا۔ یہ خدائی کلام ہیں جو ایسے وقت میں کہے گئے ہیں جبکہ ان کے پورا ہونے کے کوئی بھی اسباب دنیا میں نظر نہیں آتے تھے اور نہ اب نظر آتے ہیں۔ مَیں ان ہزاروں لوگوں کے سامنے جو آج اِس مقام پر جمع ہیں خدا تعالیٰ کے اِن کلاموں کو پیش کرتا ہوں۔ حزقی ایل نبی کا کلام وہ ہے جو حضرت مسیح سے چھ سَو سال پہلے یعنی آج سے دوہزار پانچ سَو سال پہلے نازل ہوا جبکہ روس کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنی طاقت حاصل کر لے گا کہ غیراقوام میں دخل اندازی شروع کردے گا اور اُن کے سونے اور چاندی کو جمع کرنے لگ جائے گا۔ پس غور کرو کہ کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے جو روس کے متعلق کی گئی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئی موجود ہے جس میں آپ کو زارِ روس کی تباہی کی خبر دی گئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اب دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ ایک دن روس کی حکومت بدل کر ایسے رنگ میں آجائے گی کہ اُس کا عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ جس طرح رسول کریمﷺ نے یہ دیکھا کہ آپ کو قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں مگر وہ کنجیاں آپ کی بجائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں ۔ اسی طرح گوزارِ روس کے عصا کے متعلق یہ دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہ عصا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں دیا مگر انبیاء کے ذریعہ جو پیشگوئیاں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُن کے ہاتھ پر پوری نہیں ہوتیں بلکہ اُن میں سے اکثر اُن کی جماعتوں کے ذریعہ پوری ہوتی ہیں اور اِس پیشگوئی کے متعلق بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ خیالی بات نہیں بلکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ روس کی خرابیوں کو درست کرنا اور اُس کے نظام کی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اور ایک دن روس کے لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو کر اس کے بیان کردہ نظام کو اپنے ہاں جاری کریں گے۔ پس جلدیا بدیر کمیونزم کا نظر آنیوالا زبردست خطرہ دُور ہو جائے گا اور لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کی خرابیوں کی اصلاح اور اُن کے دکھوں کا علاج صرف اسلامی تعلیم میں ہی پایا جاتا ہے۔
کمیونزم کی تباہی کے متعلق ایک رؤیا
چوبیس سال کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے
جس میں مَیں کھڑا ہوں۔ اتنے میں مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان بَلا جوایک بہت بڑے اژدہا کی شکل میں ہے دُور سے چلی آرہی ہے۔ وہ اژدہا دس بیس گزلمبا ہے اور ایسا موٹا ہے جیسے کوئی بڑا درخت ہو۔ وہ اژدہا بڑھتا چلا آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دنیا کے ایک کنارے سے چلاہے اور درمیان میں جس قدر چیزیں تھیں اُن سب کو کھاتا چلا آرہا ہے یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اژدہا اُس جگہ پر پہنچ گیا جہاں ہم ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ باقی لوگوں کو کھاتے کھاتے وہ ایک احمدی کے پیچھے بھی دَوڑا۔ وہ احمدی آگے آگے ہے اور اژدہا پیچھے پیچھے۔ مَیں نے جب دیکھا کہ اژدہا ایک احمدی کو کھانے کے لئے دوڑ پڑا ہے تو مَیں ہاتھ میں سونٹا لے کر اُس کے پیچھے بھاگا لیکن خواب میں مَیں محسوس کرتا ہوں کہ مَیں اتنی تیزی سے دَوڑنہیں سکتا جتنی تیزی سے سانپ دَوڑتا ہے۔ چنانچہ مَیں اگر ایک قدم چلتا ہوں تو سانپ دس قدم کے فاصلہ پر پہنچ جاتا ہے۔ بہرحال مَیں دَوڑتا چلا گیا یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا وہ احمدی ایک درخت کے قریب پہنچا او رتیزی سے اُس پر چڑھ گیا۔ اُس نے خیال کیا کہ اگر میں درخت پر چڑھ گیا تو مَیں اژدہا کے حملہ سے بچ جاؤنگا مگر ابھی وہ اس درخت کے نصف میں ہی تھا کہ اژدہا اُس کے پاس پہنچ گیا اور سر اُٹھا کر اُسے نِگل گیا۔ اس کے بعد وہ پھر واپس لَوٹا اور اِس غصہ میں کہ مَیں احمدی کو بچانے کے لئے کیوں اُس کے پیچھے دَوڑا تھا اُس نے مجھ پر حملہ کیا۔ مگر جب وہ مجھ پر حملہ کرتا ہے تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے قریب ہی ایک چارپائی پڑی ہوئی ہے مگر وہ بُنی ہوئی نہیںصرف پٹیاں وغیرہ ہیں۔ جس وقت اژدہا میرے پاس پہنچا مَیں کود کر اُس چارپائی کی پٹیوں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوگیا اور مَیں نے اپنا ایک پاؤں اُس کی ایک پٹی پر اور دوسرا پاؤں اُس کی دوسری پٹی پر رکھ لیا۔ جب اژدہا چارپائی کے قریب پہنچا تو کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ اس کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیںکہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ۳۶؎ اُس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سانپ کا حملہ دراصل یاجوج اور ماجوج کا حملہ ہے کیونکہ یہ حدیث اُن کے بارہ میں ہے۔ مَیں اُس وقت یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ دجال بھی ہے۔ اتنے میں وہ اژدہا میری چارپائی کے قریب پہنچ گیا اور مَیں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنی شروع کر دی۔ اِسی دَوران میںاُن احمدیوں سے جنہوں نے مجھے مقابلہ کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ جب رسول کریم ﷺ فرماچکے ہیں کہ یا جوج اور ماجوج کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکے گی مَیں کہتا ہوں کہ رسول کریمﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ لَایَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقِتَالِھِمْ کسی کے پاس کوئی ایسا ہاتھ نہیں ہوگا جس سے وہ اُن کا مقابلہ کر سکے مگر مَیں نے تو اپنے ہاتھ مقابلہ کے لئے اُس کی طرف نہیں بڑھائے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ خدا کی طرف اُٹھا دیئے ہیں اور خدا کی طرف ہاتھ اُٹھا کر فتح پانے کے امکان کو رسول کریمﷺ نے ردّ نہیں فرمایا۔ غرض مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے خدا! مجھ میں تو طاقت نہیں کہ مَیں اِس فتنہ کا مقابلہ کر سکوں لیکن تجھ میں سب طاقت اور قدرت ہے مَیں تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ تو اِس فتنہ کو دور فرما دے۔ جب مَیںنے یہ دُعا کی تو مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے اُس اژدہا کی حالت میں تغّیر پیدا ہونے لگا جیسے پہاڑی کیڑے پر نمک گرانے سے ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اُس اژدہا کے جوش میںکمی آنی شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ اُس کی تیزی بالکل کم ہوگئی۔ چنانچہ پہلے تو وہ میری چارپائی کے نیچے گھسا۔ پھر اُس کے جوش میں کمی آنی شروع ہوگئی ۔ پھر وہ خاموشی سے لیٹ گیا اور پھر مَیں نے دیکھا کے وہ ایک ایسی چیزبن گیا ہے۔ جیسے جیلی ہوتی ہے اور بالآخر وہ اژدہا پانی ہو کر بہہ گیااور مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا دیکھو! دعا کا کیسا اثر ہوا۔ بے شک میرے اندر طاقت نہیں تھی کہ مَیں اُس کا مقابلہ کر سکتا مگر میرے خدا میں تو طاقت تھی کہ وہ اس خطرہ کو دُور کر دیتا۔
ایک قابلِ ذکر امر
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور دشمن سے دشمن انسان کی بدخواہی کا خیال
بھی ہمارے دل کے کسی گوشہ میں نہیں آتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں اخلاق کی فتح ہو، روحانیت کی ترقی ہو، خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم ہو۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو بھی نظام جاری ہو خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی، تمدّنی ہو یا معاشرتی بہرحال خدا اور اُس کے رسول کا خانہ خالی نہ رہے اور دنیا کو اُن کے احکام کی اتباع سے نہ روکا جائے۔ پس ہم روس یا کمیونزم کے دشمن نہیں بلکہ روس سے مجھے دلی ہمدردی ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ قوم جو سینکڑوں سال ظلموں کا شکار رہی ہے ترقی کرے اور اس کے دن پھریں۔ ہاں مَیں یا اور کوئی حریت پسند یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ ایک غلط فلسفہ کو بعض قوموں کی ترقی اور دوسروں کے تنزّل کاموجب بنایا جائے۔ پس اسلام اور رسول کریمﷺ کی بیا ن فرمودہ ہدایات کو اگر دنیا کا کوئی نظام اپنا لے اور اپنا نظام اسلامی رنگ میں ڈھال لے تو اُس کی باتیں ہمارے سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کرے تو مذہبی لوگ اِس بات کے پابند ہیں کہ وہ اُس نظام کو قبول نہ کریں کیونکہ بے شک روٹی کی تکلیف بھی بڑی تکلیف ہے مگر مذہب ایسی چیز ہے جسے انسان کسی حالت میں بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔
مَیں نے اس مضمون کے بیان کرنے میں بہت کچھ اختصار کر دیا ہے اور کئی باتیں چھوڑدی ہیں لیکن پھر بھی مَیں نے لمبا وقت لے لیا ہے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ اسلامی اقتصادیات اور کمیونزم کے اثرات کے متعلق مَیں نے جن امور پر روشنی ڈالی ہے دوست اُن پر غور کریں گے اور محض سُنی سُنائی باتوں کے پیچھے نہیں چلیں گے کیونکہ ذہنی ارتقاء کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ جس بات کو بھی اختیار کیا جائے اُس کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لیا جائے تاکہ انسان جس راستہ کو بھی اختیار کرے سوچ سمجھ کر کرے اور جس نظام کو بھی قبول کرے کھلی آنکھوں کے ساتھ کرے۔ یہی وہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے سچائی ظاہر ہو سکتی ہے اور فتنہ وفساد کا سدِّباب ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم فرمائے اور اپنی ہدایت کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور خداتعالیٰ آپ لوگوں کو بھی اُس راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو آپ کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی اولادوں کے لئے بھی مفید ہو۔ آپ کے دین کے لئے بھی مفید ہو اور آپ کی دنیا کے لئے بھی مفید ہو۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(مطبوعہ فیض اللہ پرنٹنگ پریس قادیان ۱۹۴۵ء)
۱؎ الزخرف: ۸۶ ۲؎ آل عمران: ۲۷ ۳؎ البقرۃ: ۲۰۶
۴؎ النساء: ۵۹
‏A ۴؎ الپ ارسلان (۱۰۲۹۔۱۰۷۲ء): بانی سلطنت سلجوقیہ۔ نہایت دلیر اور نیک دل حکمران تھا۔ ۱۰۶۴ء میں بزنطینی سلطنت کے صوبہ آرمینیا پر قبضہ کیا ۱۰۷۱ء میں اس نے تھوڑی سی فوج کے ساتھ شاہ قسطنطنیہ کو شکست فاش دی اور قیدکر لیا۔ اتفاقاً ایک باغی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۱۹۔ مطبوعہ لاہور۱۹۸۷ء
‏B۴؎ مِلکِ شاہ سلجوتی MALIK SHAH (۱۰۵۵۔۱۰۹۲ء): ترکیہ کے آخری سلجوتی سلاطین میں سے ایک (۱۰۷۲۔۱۰۹۲ء) سائنس اور فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ اصفہان میں بہت سی مساجد تعمیر کرائیں۔ سن جلالی کی ابتداء اسی کے عہد میں ہوئی۔ سلطان الپ ارسلان کا بیٹا۔ سلطان کی ہلاکت پر ۱۷ سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا۔ بخارا، ثمرقند، شام و مصر فتح کر کے سلطنت مضبوط کی اور امیر کاشغر کو خراج ادا کرنے پر مجبور کیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۱۰۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۵؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۷۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۶؎ البقرۃ: ۳۰ ۷؎ النور: ۳۴ ۸؎ ھود: ۸۸
۹؎ العلق: ۲ ۱۰؎ البلد: ۷ تا ۱۸ ۱۱؎ الانفال: ۶۸
۱۲؎ محمد: ۵ ۱۳؎ النور: ۳۴
۱۴؎ بخاری کتاب الایمان باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ
۱۵؎ الحدید: ۲۱
۱۶؎ گنجفہ: ایک کھیل کا نام
۱۷؎ المؤمنون: ۴
۱۸؎،۱۹؎ بخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذھب
۲۰؎ اہتزاز: خوشی، مسرت
۲۱؎ النساء: ۵۹ ۲۲؎ التوبۃ: ۳۴،۳۵
۲۳؎ لاکھ: ایک قسم کاگوند
۲۴؎ جیوٹ (JUTE) :پٹ سن
۲۵؎
۲۶؎ الحشر: ۸
۲۷؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ الصدقۃ التمرعند صرام النخل (الخ)
۲۸؎ طٰہٰ: ۱۹۹،۱۲۰ ۲۹؎ البقرۃ: ۳۱ ۳۰؎ اٰل عمران: ۱۰۵
۳۱؎ العلق: ۶
‏-B۳۱؎ نارمنڈی (NORMANDY): فرانس کے قدیم صوبوںمیں سے ایک صوبہ۔ اس علاقے میں دسویں صدی عیسوی میں ملحد سکنڈے نیویائی لوگوں نے قبضہ کیا۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کے مابین جنگوں میں متعدد بار ایک دوسرے نے اس پر قبضہ کیا۔ ۱۴۵۰ء میں چارلس ہفتم نے اس پرقبضہ کیا۔ ۱۹۴۴ء میں یہ پھر میدان جنگ بنا۔ برطانیہ اور امریکہ کے مشترکہ حملے سے نازی فوجوں کو پسپا ہونا پڑا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۶۹۴۔ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۳۲؎ کودن: کندذہن
۳۳؎ حزقی ایل باب۳۸ آیت ۱ تا ۲۳۔ باب ۳۹ آیت ۱ تا ۲۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳
۳۴؎ تذکرہ صفحہ ۵۴۰۔ ایڈیشن چہارم
۳۵؎ تذکرہ صفحہ ۴۵۸۔ ایڈیشن چہارم (مفہوماً)
۳۶؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال


قرآن کریم پڑھنے پڑھانے
کے متعلق تاکید




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید
(تقریر فرمودہ ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۵ء بمقام بیت اقصیٰ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں نے پہلے بھی کئی بار بلکہ کئی بار کا لفظ بھی شاید غلط ہوگا یوں کہنا چاہئے کہ اپنے پیشروؤں کے تسلسل میں متواتر اور بار بار جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ قرآن شریف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے انسان کی پیدائش اور موت کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے درختوں کے پھل لانے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے سبزیاں اور ترکاریاں بونے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے اُن کے کاٹنے کا ایک وقت ہوتا ہے اِسی طرح بنی نوع انسان کے اعمال بھی خاص خاص ماحول میں پیدا ہوتے، پنپتے، بڑھتے اور مکمل ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک پُرانے بزرگ اپنے واقعات میں سے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کوئی مالدار شخص بہت ہی عیاش تھا اور رات دن اپنے اموال گانے بجانے اور شراب وغیرہ کے شغل میں خرچ کیا کرتا تھا۔ کوئی بزرگ تھے اُنہوں نے اُسے کئی دفعہ سمجھایا لیکن بجائے اِس کے کہ اُن کی نصیحت اس کے دل پر اثر کرتی اور بجائے اِس کے کہ وہ ان کے وعظ سے نصیحت حاصل کرتا وہ اپنی بداعمالیوں میں اور زیادہ بڑھتا چلا گیا اور بجائے اِس کے کہ وہ اس بزرگ کی خیر خواہی اور اس کے اخلاص کی قدر کرتا اُس نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان کو دُکھ دینا شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کر دیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ حج کے ایام میں جب کہ لوگ ذوق و شوق سے طوافِ کعبہ کر رہے تھے اور وہ بزرگ بھی طواف کعبہ میں مشغول تھے (حج کرنے والوں نے تو وہاں کی حالت کو دیکھا ہے جنہوں نے نہیں دیکھا وہ اِس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس طرح شمع کے گِرد پروانے چکر لگاتے ہیں اِسی طرح کعبہ کے گِرد ایک عجیب والہانہ رنگ میں دینِ اسلام کے شیدائی پھر رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت اُن کی وہ مضطربانہ حرکات انسانوں کی حرکات معلوم نہیں ہوتیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ شمع ہے اور اُس کے گِرد گھومنے والے پروانے ہیں اور حج کے ایام میں تو اس کے گِرد چلتے وقت راستہ ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ جیسے میلوں وغیرہ کے دنوں میں ریلوے ٹکٹ گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں اِسی طرح وہاں کی حالت ہوتی ہے) اُن کو اپنے سامنے کے آدمی سے ٹھوکر لگی اُنہوں نے آنکھیں اُٹھا کر دیکھا تو وہ مغرور امیر جس کی وجہ سے اُن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا طوافِ کعبہ کر رہا تھا اُن کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں؟ اُس نے جواب میں کہا جہاں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں وہیں ہوں۔ انہوں نے کہا آخر تمہاری ہدایت کا موجب کونسی چیز ہوئی؟ میں نے ہر طریقہ وعظ کا تمہاری ہدایت کے لئے اختیار کیا تھا اور ہر ذریعہ نصیحت دلانے کا میں نے استعمال کیا تھا لیکن تم پر ایک ذرہ بھر بھی اثر نہ ہوا اب خدا تعالیٰ نے وہ کونسی نئی بات پیدا کر دی ہے جو تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوئی۔ اُس نے کہا کچھ بھی نہیں آپ نے بیشک قرآن شریف بھی استعمال کیا، حدیث بھی استعمال کی، عقل بھی استعمال کی، غرض ہر ممکن طریقہ مجھے سمجھانے کے لئے استعمال کیا لیکن میرے نصیحت حاصل کرنے کا ابھی وقت نہ آیا تھا۔ مجھے قرآن شریف کی آیات بے معنی معلوم ہوتی تھیں، مجھے حدیث کا کلام بالکل فرسودہ کلام نظر آتا تھا، مجھے آپ کی عقل کی باتیں پاگل پن کی باتیں نظر آتی تھیں اور میں اپنی شرارتوں اور اپنی لغویات میں بڑھتا چلا جاتا تھا اور ان حالات میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا لیکن ایک دن میں اِسی طرح اپنی مجلسِ راگ و رنگ منانے کے لئے بیٹھا ہوا تھا اور تمام سامانِ تعیش کا موجود تھا اور میں لُطف اُٹھا رہا تھا کہ گلی میں سے نہ معلوم کون شخص گزرا۔ اتفاقاً اُس کی آواز اور میری توجہ ہم آہنگ ہوگئیں اور میرے کانوں میں ترنم سے ایک آواز آئی اور یہ الفاظ میرے کانوں میں پڑے ۱؎ کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی یاد کی طرف مائل ہوں؟ اُس نے کہا یہ الفاظ جو نہ معلوم کون شخص کس طرز پر اور کس خیال میں پڑھتا چلا جاتا تھا میرے کانوں پر اِس طرح گرے جیسے بیان کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اسرافیل کا صور پھونکا جائے گا۔ اِن الفاظ کا میرے کانوں میں پڑنا تھا کہ دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہوگئی اور وہ چیزیں جن کو میں زندگی کا جزو سمجھتا تھا اب نہایت ہی بے ہنگم نظر آنے لگیں، میں اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اب آپ مجھے یہاں دیکھ رہے ہیں جہاں میں ہوں۔ تو جس شخص پر سارے قرآن شریف نے اثر نہ کیا جب وقت آیا تو ایک آیت نے اُس کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت پانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہدایت دینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اُس وقت جب کہ ایک شخص کے لئے ہدایت مقدر ہوتی ہے تھک کر اس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے دس سال مغز ماری کی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے ہم اِس کا کیا کریں؟ اگر اُنہیں علمِ غیب ہوتا تو وہ یہ جانتے کہ یہ دس سال مُہروں کے دس سال تھے مگر اس سے اگلا منٹ جس وقت وہ اس کو چھوڑ کر چلے آئے وہی وقت تھا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس مُہر کو توڑنے کے لئے آ رہے تھے اور ہزار ہا انسان اسی لئے ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ وہ ہدایت کی باتیں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، اُن کے دل میں سچائی کو تلاش کرنے کی جستجو اور خواہش ہوتی ہے مگر ایک وقت گزر جانے کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے سینوں کو سچائی سے پُر کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اُن کی مُہروں کو توڑنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے اور کہتے ہیں ہم نے بہت غور کر لیا ہے اور بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے شاید دنیا میں ہدایت ہے ہی نہیں یا ہدایت ہمارے لئے مقدر ہی نہیں اس لئے سچے مذہب کی جستجو کی خواہش فضول ہے اور وہ عین اُس وقت اپنے پاؤں کولَوٹا دیتے ہیں جس وقت منزلِ مقصود اُن کے قریب آچکی ہوتی ہے۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقدر تھا کہ جب اِس تحریک کو ایسی شکل ملنی تھی جس کے ذریعے سے تمام باہر کی جماعتوں کے احمدی قرآن شریف سے واقفیت حاصل کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس تحریک میں نئی تبدیلیوں کا بھی اثر ہے جو قادیان کے مرکزی نظام میں مجھے پچھلے سال سے کرنی پڑیں۔ میں نے محسوس کیا کہ صدر انجمن احمدیہ کے افسر یہ خیال کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کبھی بھی اِس دنیا سے گزر نہیں جانااور اُن کا خیال ہے کہ قیامت کے بوریے وہی سمیٹیں گے اور اُن کے قائم مقاموں کی جماعت کو کوئی ضرورت نہیں۔ جب میں نے دیکھاکہ بڑھاپے کے آثار اُن میں پیدا ہو رہے ہیں، جب میں نے دیکھا کہ اُن کی قوتیں مضمحل ہو رہی ہیں اور جب میں نے دیکھا کہ وہ بات کو جلدی سے فوری طور پر سمجھنے کی قابلیتیں کھو رہے ہیں اور عنقریب ایسا خلا پیدا ہونے والا ہے جس کا پُر کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہو جائے گا تو مَیں نے خود اپنے اختیار سے باہر کا نوجوان عنصر اُن میں شامل کر دیا اور واقفین میں سے بھی کچھ نوجوان فارغ کر کے نائب ناظر اور معاون ناظر کر کے اُن کے ساتھ لگانے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے نظارتوں کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔ مثلاً اِس سال جو خطبہ جمعہ میں نے مولانا آزاد کے متعلق پڑھا تھا اُس کے متعلق میں نے دیکھا کہ وہ کام جو سابق نظارت میں شاید مہینوں تک بھی نہ ہوتا اور کچھ عرصہ کے بعد کہہ دیا جاتا اِس کاخیال تو آیا تھا مگر کچھ مشکلات پیش آگئیں، اِن نوجوانوں نے مل کر میری تقریر اُسی وقت صاف کروا لی اور اِس کا انگریزی ترجمہ بھی کر دیا اور اُسی رات چھپوا کر دوسرے دن صبح ہی تمام ہندوستان میں پھیلا دیا۔ اور ایک آدمی کے ذریعہ کچھ خطبات شملہ بھی بھیج دیئے۔ یہ تبدیلی اس نوجوان خون کی وجہ سے ہوئی ہے جس کا انجمن کی بوڑھی رگوں میں داخل کرنے کا مجھے خدا تعالیٰ نے موقع دیا۔
یہ تحریک بھی میں سمجھتا ہوں کہ اِس تبدیلی کی ممنونِ احسان ہے۔ نیا خون انسان کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ پھر اپنی طاقتیں کھوتا ہے اور پھر عمرِ طبعی کو پہنچ کر مر جاتا ہے اور اگر وقتاً فوقتاً نیا عنصر اُس میں داخل کیا جائے تو وہ سلسلہ قائم رہتا ہے ورنہ نہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہے گو خوشی ابھی مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ لاکھوں کی جماعت میں سے صرف ۷۰،۸۰ آدمیوں کاقرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے کے لئے آنا یہ ایک چھوٹا سا بیج تو کہلا سکتا ہے لیکن ایسا درخت نہیں کہلا سکتا جس کے سایہ کے نیچے لاکھوں انسان آرام کر سکیں۔ مگر بہرحال بیجوں سے ہی روئیدگیاں پیدا ہوتی ہیںاور روئیدگیوں سے ہی تنے بن جایا کرتے ہیں اور اِن تنوں سے ہی شاخیں نکلتی ہیں اور شاخیں ہی پتے پیدا کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے سائے کے نیچے سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسان آرام پاتے ہیں۔ اسی طرح یہ ۷۰،۸۰ یہ تو نہیں کہتا کہ نوجوان کیونکہ اِن میں سے بعض عمر کے لحاظ سے بوڑھے بھی ہیں لیکن یہ روحانی نوجوان جو اِس جگہ پڑھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اگر ہم ان کو بیج کے طور پر تصور کر لیں اور سمجھیں کہ یہ اپنے اپنے وطن جا کر حقیقی بیج ثابت ہونگے (بیج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر بڑھنے بڑھانے، پھلنے اور پھولنے کی طاقت پائی جاتی ہو) تو یہ لوگ سلسلہ کے لئے نہایت ہی مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں اور اسلام کی کھیتی کے لئے کھاد ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن شریف ہی دین کی جان ہے اِس کو پڑھے پڑھائے بغیر کسی قسم کی ترقی کا خیال کر لینا ایک غلط خیال ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل عام طور پر عورتوں کے درس میں ایک چھوٹی سی مثال سنایا کرتے تھے۔ وہ ایک نہایت ہی لطیف بات ہے اگر ہم چاہیں تو اس سے بہت بڑا سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو! جب میں کہتا ہوں قرآن شریف پڑھو یا سنو تو تم یہ جواب دیا کرتی ہو کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں حالانکہ اگر کسی عورت کا بچہ باہر گیا ہوا ہو اور اُس کے نام کا کارڈ باہر سے آئے تو جو پڑھی ہوئی ہوتی ہیں وہ تو اُس کو ایک دفعہ پڑھ کر سرہانے کے نیچے رکھ دیتی ہیں یا ٹرنک میں رکھ لیتی ہیں یا کسی طاق میں رکھ دیتی ہیں مگر جو اَن پڑھ ہوتی ہیں اُن کو ایک دفعہ خط پڑھوا کر سننے سے تسلی نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی دوسرے کے پاس جاتی ہیں اور پھر اُس سے سنتی ہیں۔ مثلاً جب ایک اَن پڑھ عورت کے پاس خط آتا ہے تو پہلے وہ گاؤں کے مُلاّ کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے مُلاّ جی! ذرا کارڈ پڑھنا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے سنتی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید کوئی لفظ مُلاّ جی کی نگاہ سے رہ گیاہویا شاید جلدی میں سارا مضمون نہ سنایا ہو، پھر وہ دَوڑی دَوڑی چوہدری جی کی بیٹھک میں جاتی ہے اور کہتی ہے چوہدری جی! ذرا یہ کارڈ تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے۔ اُس سے خط سنتی ہے مگر پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور وہ پٹواری جی کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے پٹواری جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا میرے بیٹے کی طرف سے آیا ہے اُس سے سنتی ہے۔ پھر وہ مدرّس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے منشی جی! ذرااِس خط کو تو سنا دینا پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو ڈاکخانے والے بابو کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے۔ ڈاکٹر بابو جی! ذرا اِس خط کو تو سنا دینا (گاؤں والے بیچارے ڈاکخانے کو کم علمی کی وجہ سے ڈاکٹر خانہ کہتے ہیں) وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے ڈاکٹر بابو جی! ذرا یہ خط تو سنا دینا اور اِس طرح جب تک اُسے سات آٹھ دفعہ سن نہیں لیتی اُسے تسلی نہیں ہوتی اور کارڈ کو اپنے قریب ہی رکھتی ہے۔ ایک دو ماہ کے بعد اگر کوئی باہر کا آدمی اس گاؤں میں آ جائے اور اُس کو اِس کا علم ہو جائے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس چلی جاتی ہے اور کہتی ہے ذرا یہ خط تو سنا دیں۔ غرض پڑھی لکھی عورتیں تو ایک دفعہ پڑھ کر چپ کر جاتی ہیں مگر اَن پڑھ عورتوں کو تم دیکھتی ہو کہ جب تک سات آٹھ دفعہ خط پڑھوا نہ لیں آرام نہیں لیتیں۔
پس خدا تعالیٰ تمہارا یہ عُذر ہرگز نہیں سنے گا کہ ہم پڑھی ہوئی نہیں ہیں خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے اپنے بیٹے کا کارڈ اتنی دفعہ پڑھوا لیا تھا تو تم نے میرا کارڈ کیوں نہ پڑھوایا۔ اگر تمہیں مجھ سے اتنی بھی محبت ہوتی جتنی اپنے بیٹے سے تھی تو تم میرا خط بھی پڑھوا کر سنا کرتیں مگر تم نے میرا خط بند کر کے رکھ دیا اور کسی سے نہ سنا اور اپنے بیٹے کا کارڈ پڑھواتی پھریں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جس چیز پر انسان کی زندگی کا مدار ہے اور جس کے بغیر انسان انسان نہیں کہلا سکتا اس کے متعلق اس قسم کے عُذر تراشنا کہ ہم پڑھے ہوئے نہیں جاہل ہیں بالکل غلط بات ہے۔
دنیا میں ہر چیز پڑھی تو نہیں جاتی بہت سی چیزیں سننے سے آتی ہیں۔ کیا دنیا کے ہر شخص نے کابل دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے طہران دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے بغداد دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قاہرہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے دمشق دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے قسطنطنیہ دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ٹوکیو (TOKYO) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے برلن (BERLIN) دیکھاہے؟ کیا ہر شخص نے پیرس (PARIS) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے میڈرڈ (MEDRID) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے لندن (LONDON) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے پیٹس برگ (PETSBURG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ماسکو (MOSCOW) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے نیویارک (NEW YORK) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے ہانگ کانگ (HONG KONG) دیکھا ہے؟ کیا ہر شخص نے شنگھائی دیکھا ہے؟ ہم نے کتنی چیزیں دیکھی ہیں اور کتنی سُنی ہیں؟ اگر مقابلہ کیا جائے تو سننے کی چیزیں ہزار ہا گُنا زیادہ ہیں اور دیکھنے والی چیزیں ہزار ہا گُنا کم ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیکھی ہوئی چیزیں اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں اور سنی ہوئی چیزیں اکثر یاد رہتی ہیں۔ ہم روزانہ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور میدانوں اور پہاڑوں اور جنگلوں میں سے گزرتے ہیں لیکن جب باہر سے آنے والے انسان سے پوچھو کہ تم نے سیر میں کیا کیا دیکھا؟ اُس نے کئی کروڑ چیزیں دیکھی ہوتی ہیں مگر جب پوچھیں تو زیادہ سے زیادہ یوں کہہ دے گا بڑا اچھا نظارہ تھا۔ جب پوچھیں بتاؤ تو سہی کیا نظارہ تھا؟ تو آگے سے یہ جواب دے دیتے ہیں کہ بڑا اچھا نظارہ تھا، دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ دراصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ یاد کچھ نہیں اور ہمارا یہ فقرہ کہنا کہ وہ نظارے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اپنے اندر درحقیقت یہ مفہوم رکھتا ہے کہ خاص نگاہ سے کسی چیز کو دیکھا ہی نہیں ویسے نظارے اچھے لگے۔ لیکن اِس کے مقابل پر اگر یہ پوچھا جائے کہ راستہ میں کون کون ملا اور کس کس سے کیا کیا باتیں کیں؟ تو وہ اس سے بیسیوں گُنے زیادہ باتیں بتا دے گا۔ وہ یہ بتلائے گا کہ راستے میں فلاں چوہدری ملا اُس نے یہ کہا، فلاں ملا اُس نے یہ کہا اور فلاں آدمی جو مجھے ملا اُس نے یہ کہا تو جو سُنی ہوئی باتیں ہیں وہ قریباً ساری یاد ہونگی اور دیکھی ہوئی باتوں میں سے اکثر بھول گئی ہونگی۔
بات یہ ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والی دیکھنے اور سننے کی الگ الگ حسیں ہیں اور تجربہ بتاتا ہے کہ سننے والی چیزیں زیادہ یاد رہتی ہیں اور دیکھنے والی چیزیں کم یاد رہتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہم کسی چیز کو زیادہ قریب کرتے ہیں اُتنا ہی وہ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ ہر وقت ماں کی گود میں رہنے والا بچہ ماں کو اتنا یاد نہیں ہوتا جتنا دُور کا رہنے والا۔ وہ اپنے ایک بچہ کو گود میں اُٹھائے ہوئے ہوتی ہے لیکن اُس کا دماغ اُس بچہ کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اُس بچہ کی طرف ہوتا ہے جو دور ہوتا ہے۔ اِسی طرح وہ چیزیں جن میں سے انسان ہر وقت گزرتا ہے وہ اتنا اثر اُس کی طبیعت پر نہیں ڈالتیں جتنا وہ چیزیں جن میں سے انسان کبھی کبھی گزرتا ہے اثر ڈالتی ہیں۔ آنکھیں ہر وقت دیکھتی ہیں مگر کان ہر وقت نہیں سنتے، شوروغل تو ہر وقت ہوتا رہتا ہے مگر اُس کی طرف انسان کی توجہ نہیں ہوتی صرف ایک گونج سی ہوتی ہے جو کان سنتے ہیں مگر وہ چیز توجہ کھینچنے والی نہیں ہوتی۔ جس طرح میں تقریر کر رہا ہوں اور میری تقریر تمہاری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے تو جو معیّن سننا ہے وہ کبھی کبھی ہوتا ہے۔ لیکن جب تک انسان جاگتا رہتا ہے آنکھیں کھلی رہتی ہیں اور کوئی نہ کوئی چیز ہر وقت آنکھ دیکھتی رہتی ہے جس کی وجہ سے آنکھ فوراً اثر اخذ نہیں کرتی۔ لیکن کان کبھی کبھی سنتے ہیں اس لئے کان اس کو اخذ کرنے کے لئے اور دماغ اس کو حاصل کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اِسے دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لو کہ آپ کا ایک بڑا گہرا دوست آپ کو ملنے کیلئے آتا ہے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے آپ وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ کہہ کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں اور آپ کو اس کا خیال نہیں رہتا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کہتے ہیں اوہ! مجھے خیال نہیں رہا تھا آپ سے بات کرنے کا۔ لیکن ایک اجنبی آدمی آتا ہے تو آپ اُس سے اِس طرح نہیں کرتے جس طرح اپنے دوست کے ساتھ کیا تھا بلکہ آپ فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُسے تپاک سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں آپ کہاں سے آئے؟ کیسے آئے؟ اس طرح دس بیس باتیں کرتے ہیں اور پھر اُسے تپاک سے رُخصت کرتے ہیں تو نئے آنے والے کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت کے کئی افراد جو زیادہ سمجھدار نہیں ہوتے وہ اِس پر بگڑ جاتے ہیں کہ غیر کی خاطر کی اور ہماری نہیں کی وہ جانتے نہیں کہ یہ فطرتی اور طبعی امر ہے کہ انسان نئی چیز کی طرف نئی توجہ کرتا ہے اور اسے ایسا کرنا چاہئے۔
حضرت مسیح ناصری کی ایک مثال کیسی لطیف ہے۔ آپ نے فرمایا کوئی شخص تھا اُس نے اپنے اموال دو بیٹوں میں تقسیم کر دیئے اور کہا بیٹو! جاؤ کماؤ اور کھاؤ! اُن میں سے ایک نے کہا باپ سے مال ملا ہے مُفت کا ہے اِس لئے آؤ خوب گل چھرے اُڑائیں۔ اُس نے عیاشی شروع کر دی اور خوب مال اُڑایا۔ دوسرے نے کہا میرے باپ کا مال ہے اِس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اُس نے روپیہ کمانا اور جمع کرنا شروع کردیا۔ حسبِ ضرورت کچھ گزارے کے لئے خرچ کرتا رہا اور باقی رقم جمع کرتا گیا آخر بہت سار وپیہ لے کر گھر واپس آیا۔ باپ نے اُس کی بڑی تعریف کی اور عزت سے گھر میں بٹھایا اور اپنے دوسرے بیٹے کا انتظار کرتا رہا مگر دوسرا بیٹاسارا مال کھا چکا تھا وہ کونسا منہ لے کر باپ کے پاس جاتا، وہ باپ کے پاس جانے کا خیال چھوڑ کر دُور نکل گیا اور کسی شخص کے ہاں سؤر کا گلہ چرانے پر نوکر ہوگیا، روزانہ چھوٹے چھوٹے بچے جو چل نہ سکتے تھے اُن کو کمرپر لادتا اور باقی بچوں کی گردنوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے ریوڑ کو ہانک کر باہر لے جاتا اور لاتا تھا۔ اُس کا مالک بعض اوقات کسی وجہ سے اُسے گالیاںدیتا اور مارنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا اور کہتا نالائق! تم نے یہ کام نہیں کیا وہ کام نہیں کیا، وہ اس سے بہت تنگ آگیا اور ایک دن غصے میں آکر اُس نے سؤر کے بچے کو زور سے زمین پر پٹخ دیا اور کہا میرے باپ کے گھر میں صرف بھائی ہی تو نہیں کئی نوکر بھی ہیں اگر نوکری ہی کرنی ہے تو کیوں نہ میں باپ کے پاس چلا جاؤں اور اُس کی نوکری کر لوں، وہ لَوٹ کر اپنے باپ کی طرف آیا۔ جب باپ کو پتہ لگا کہ میرا بیٹا واپس آرہا ہے تو اُس نے اپنے تمام دوستوں کو جمع کیا اور اُس کے استقبال کے واسطے گیا اور اپنے گھر میں لے آیا۔ اُس نے اِس خوشی میں کئی دنبے ذبح کئے اور لوگوں کو بُلا کر اُن کی دعوت کی۔ دوسرا بیٹا جو کما کے لایا تھا اُس کو بہت غصہ چڑھا اور اُس نے اپنے باپ سے کہا اے باپ !تیری بھی عجیب عقلہے میں نے تیرے مال کو حفاظت سے رکھا، کمایا، اُس کو بڑھایا اور پھر واپس لے کر تیرے گھر آیا لیکن تو نے میرے آنے پر ایک کمزور دُنبی بھی ذبح نہیں کی لیکن یہ جس نے تیرے مال کو ضائع کیا اور اس کو تلف کر دیااور عیاشی میں اپنی عمر گزاری یہ آیا تو تو نے اِس کا استقبال کیا اور کئی دُنبے ذبح کرڈالے۔ باپ نے کہا اے میرے بیٹے! تو میرے پاس تھا جو چیز پاس ہوتی ہے اُس کی انسان خوشی نہیں کیا کرتے لیکن جو چیز ـگم ہو جاتی ہے اور پھر ملتی ہے اُس کی خوشی کیا کرتے ہیں۔ یہ گم ہوا تھا مجھے واپس ملا اِس لئے میں نے خوشی کی ۔ ۲؎ پھر حضرت مسیحؑ نے فرمایا۔ ایسا ہی خدا کو اُس شخص کے واپس آنے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو گنہگار ہوتا ہے اور توبہ کرکے اُس کے حضور میں حاضر ہو جاتا ہے۔
اِس مثال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز ہر وقت پاس موجود رہتی ہے اس کی وجہ سے طبیعت میں کوئی خاص تغیر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی طرف خاص طور پر توجہ نہیں ہوتی لیکن جو گم جائے یعنی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے چونکہ اس کا گم ہو جانا ہر وقت دل میں ٹیس پیدا کرتا ہے اس لئے جب بھی وہ زخم مندمل ہو تو قدرتاً خوشی ہوتی ہے۔ تو جو چیزیں کبھی کبھی سامنے آئیں اُن کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حِسیں جو کبھی کبھی کام کرتی ہیں وہ گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں بہ نسبت اُن حِسوں کے جو ہرقت کام کرتی ہیں۔
ایک اور موٹی مثال دیکھو! زندگی میں ہم کتنی چیزوں کو دیکھتے ہیں جن کا مادی زندگی سے تعلق ہوتا ہے، مادی زندگی کے لحاظ سے ہمارے جاگنے کی حالت حقیقی ہے اور رؤیا کی حالت غیرحقیقی ہے۔ اور اگلے جہان کے لحاظ سے رؤیا کی حالت حقیقی ہے اور مادی زندگی کی غیرحقیقی۔پس جہاں تک اِس جہاں کا تعلق ہے ہماری رؤیا کی حالت غیر حقیقی ہے اور جاگنے کی حالت حقیقی ہے اب اپنی عمر میں تم اندازہ لگا کر دیکھو کہ عام طور پر آدمی اپنی عمر میں چند رؤیا دیکھتا ہے اور اس کے مقابل پر اربوں ارب نظارے جاگنے کی حالت میں دیکھتا ہے لیکن ان میں سے اکثر بھول جاتے ہیں لیکن جو خواب کے نظارے ہوتے ہیں ان میں سے بعض پر بعض اوقات چالیس پچاس سال گزر جاتے ہیں لیکن وہ نہیں بھولتے۔ کوئی شخص خواب دیکھتا ہے وہ کہتا ہے میں نے ایک بڑا خوشنما درخت چالیس سال ہوئے دیکھا اور اس کے مقابل پر جاگتے ہوئے وہ روزانہ جو بڑے بڑے خوشنما درخت دیکھتا ہے وہ یاد نہیں رہتے کیونکہ مادی آنکھوں کے نظارے وہ روزانہ کرتا ہے اور خواب کی آنکھ سے کبھی کبھی نظارہ دیکھتا ہے یہی فرق دیکھنے اور سننے کی حِس کا ہے۔ انسان کی دیکھنے کی حِس ہر وقت کا م کرتی ہے اور سُننے کی حِس اِس سے کم کام کرتی ہے اس لئے سننے کی حِس کا قوتِ حافظہ پر زیادہ اثر پڑتا ہے بہ نسبت دیکھنے والی حِس کے۔ پھر بعض دفعہ دو دو، تین تین حِسیں مل کر ایک کیفیت کو محسوس کرتی ہیں وہ حافظہ پر اور بھی گہرا اثر ڈالتی ہیںاسی لئے اگر ایک حِس سے کوئی ثواب کا کام کیا جائے اور اس کے ساتھ دوسری ایک دو اور حِسوں کو بھی ملا لیا جائے تو زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان بزرگ باوجود اِس کے کہ اُن کو قرآن شریف حفظ ہوتا تھا وہ قرآن شریف کو کھول کر اُسے آنکھوں سے دیکھتے تھے، زبان سے پڑھتے تھے اور ساتھ ساتھ اُنگلی چلاتے جاتے تھے۔ کسی ایسے ہی بزرگ سے جب کسی نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے جب آپ کو قرآن شریف حفظ ہے تو پھر قرآن شریف دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں اور اگر قرآن شریف دیکھ کر پڑھتے ہی ہیں تو ساتھ ساتھ منہ سے کیوں دُہراتے جاتے ہیں اور پھر اِس کے ساتھ اُنگلی ہلاتے جانے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میاں! خداتعالیٰ کے سامنے ہر چیز کا جائزہ ہوگا اگر میں نے حافظہ کے ذریعہ پڑھا تو صرف دماغ عبادت گزار ہو گا جب خداتعالیٰ نے مجھے آنکھیں دی ہیں تو یہ عبادت گزار کیوں نہ ہوں اور زبان دی ہے تو وہ عبادت گزار کیوں نہ ہو اِس لئے قرآن شریف دیکھ کر پڑھتا ہوں اور زبان سے دُہراتا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ اُنگلی بھی رکھتا چلا جاتا ہوں تاکہ اُنگلی بھی عبادت گزار ہو جائے۔ تو جتنی حِسیں زیادہ کام کرتی چلی جاتی ہیں ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اِسی طرح حافظے میں جتنی زیادہ حِسیں لگائیں گے اتنی ہی زیادہ بات یاد رہے گی۔ جس کام میں کان، آنکھ اور قوتِ لامسہ تینوں لگ جائیں وہ زیادہ دیر تک حافظہ میں قائم رہے گی تو جن چیزوں کو انسان کبھی کبھار استعمال کرتا ہے وہی حافظہ میں زیادہ قابلِ قدر سمجھی جاتی ہیں کیونکہ کبھی کبھار آنے والے انسان کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔
دماغ میں ایک بڑی لائبریری بنی ہوئی ہے جس طرح دنیا میں لائبریریاں ہیں۔ دنیا کی لائبریریاں چھوٹی ہیں لیکن دماغ میں اتنی بڑی لائبریری ہے کہ اربوں ارب کو ٹھڑیاں اِس میں ہیں ہر چیز جسے انسان دیکھتا ہے یا جسے انسان سنتا ہے اُسی وقت حافظہ کے نگران اُس چیز کو جسے وہ دیکھتا ہے یا سنتا ہے یا چھوتا ہے یا چکھتا ہے یا سونگھتا ہے فوراً ہر الگ الگ چیز کو الگ الگ کوٹھڑیوں میں رکھ دیتے ہیں۔ غرض ہر بات کے لئے ایک الگ کوٹھڑی موجود ہے فوراً اُسے وہاں رکھ دیا جاتا ہے اور ہر ادنیٰ حرکت جو ہم کرتے ہیں وہاں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہے۔ پھر جب ہمیں کسی وقت کوئی خیال آتا ہے مثلاً ہم نے زید کو دیکھا اُس کو دیکھتے ہی دل میں خیال پید ا ہوتا ہے کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے یہ تو ہمارا پُرانا واقف ہے، ہمارے محلے کا رہنے والا ہے اور ہمیں فلاں جگہ ملا تھا۔پہلے اس کو ان باتوں کا بالکل خیال نہیں ہوتا لیکن جس طرح ایک افسر جب دفتر میں آتا ہے اور اس کے سامنے مسل پیش ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے اس کے متعلق پہلے کاغذات پیش کرو اسی طرح جب زید سامنے آتا ہے تو جو دماغ کے لائبریرین ہیں اُن کو فوراً حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی مسل مکمل کر کے پیش کرو۔ اِس پر وہ اس کی مسل مکمل کر تے ہیں وہ مختلف خانوں سے جوجو باتیں اس سے متعلق ہوتی ہیں انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور اس کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور وہ اُسے ملتے ہی کہتا ہے آپ میرے رشتہ دارہیں مجھے فلاں جگہ ملے تھے، آپ کا گھر فلاں جگہ ہے، آپ ہماری بیوی کے فلاں رشتہ دارہیں، آپ کی والدہ ہماری خالہ لگتی ہیں وغیرہ وغیرہ حالانکہ زید کو دیکھنے سے پہلے یہ خیالات اُس کے ذہن میں نہ تھے مگر سامنے آتے ہی ساری کی ساری مسل مکمل ہو کر پیش ہو جاتی ہے۔ تو جتنے زیادہ حواس کسی چیز کے محسوس کرنے میں استعمال ہوتے ہیں اُتنی ہی زیادہ وہ حافظہ میں قائم رہتی ہے کیونکہ اُسے لائبریری کی کئی الماریوں میں رکھا جاتا ہے اور لائبریرین کا اسے نکالنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اگر ایک الماری اُس کے ذہن سے نکل گئی ہو تو دوسری الماری اُسے اس کے وجود کا پتہ دے دیتی ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے حافظہ کے متعلق ایک بڑا لطیف اور وسیع قانون بنایا ہے اور اس قانون سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں سُنی ہوئی باتیں ہمیں زیادہ یاد رہتی ہیں بہ نسبت دیکھی ہوئی باتوں کے۔( جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سُنی ہوئی بات اپنی اصلی شکل میں قائم رہتی ہے اور دیکھی ہوئی چیز بدلتی رہتی ہے جیسے انسانوں کی شکلیں، مکانات، سٹرکوں وغیرہ کی حالت) میری تقریر کو ہی لے لو اِس کا سننا زیادہ اہم ہے پڑھنے سے۔ کیونکہ زیادہ آدمی سننے والے ہیں اور پڑھنے والے تھوڑے ہیں، پڑھنے والے اگر بعد میں پڑھ لیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن اکثر حصہ تعلیم یافتہ نہیںہے اس لئے ہمیں پڑھے ہوؤں کی اتنی فکر نہیں جتنی اَن پڑھوں کی۔ ہمارے ملک میںچھ فیصدی آدمی پڑھے ہوئے ہیں اور ۹۴ فیصد آدمی اَن پڑھ ہیں ۔ ہمیں چھ فیصدی پڑھے ہوؤںکی اتنی فکر نہیں ہونی چاہئے جتنی۹۴فیصدی اَن پڑھوں کی۔ یہ سیدھی اور صاف بات ہے کہ اگر کسی قوم کے ۹۴فیصدی افرادخراب ہوں گے تو چھ فیصدی اس سے بچ نہیں سکتے۔ لکڑی تیرتی ہے اور پتھر ڈوبتا ہے لیکن اگر بڑی لکڑی پر ایک چھوٹے سے پتھر کو رکھ دیں تو وہ بھی تیرتا ہے اور اگر چھوٹی سی لکڑی پر ایک بڑی سِل رکھ دیں تو لکڑی بھی ساتھ ہی ڈوب جائے گی تو کثرت، قلّت کو اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ پس اگر چھ فیصدی آدمی قرآن شریف پڑھ لیں اور اُسے اچھی طرح جان لیں اور ۹۴ فیصدی آدمی قرآن شریف نہ جانتے ہوں تو روحانی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک سَو فیصدی آدمی قرآن شریف نہ پڑھ لیں، اُسے سمجھ نہ لیں، اُسے اچھی طرح جان نہ لیں ہم محفوظ نہیں ہو سکتے اس لئے ضروری ہے کہ باقی ۹۴ فیصدی کو بھی ہم پڑھائیں، ان کی سُستیوں کو دور کریں اور بار بار کہہ کر اُن کو مجبور کر دیں کہ وہ قرآن شریف کو سُنیں اور یاد کریں اور ان کی توجہ اِس طرف پھیر دیں کہ اُن کے لئے قرآن شریف کا سننا اور یاد کرنا ضروری ہے۔
اس کام کو پورا کرنے کے لئے میں نے اس تحریک کو شروع کیا ہے اور اِس دفعہ سَتر اَسّی آدمی آئے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ۷۰،۸۰ آدمی کافی ہیںہاں وہ ۷۰،۸۰ آدمی بنیاد کا کام تو دے سکتے ہیںمگر ہمارے لئے مکمل عمارت کا کام نہیں دے سکتے۔ لاکھو ں کی جماعت میں سے ۷۰،۸۰ آدمیوں کا تیار ہو جانا کوئی حیثیت نہیں رکھتااِس کی تو اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی آٹے میں نمک کی۔ یہ تو اُسی وقت ہمارے کام آسکتے ہیں جب یہ اپنی جماعتوں میں جاکر جو کچھ اِنہوں نے پڑھا ہے اُسے اُن لوگوں کو پڑھائیں جو پڑھ سکتے ہیں اور باقیوں کو سننے اور یادکرنے پر مجبور کریں اور اتنا سنائیں کہ اُن کو یاد ہو جائے اور اِس طرح اُن کو یاد کرائیں کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کو قرآن شریف کا علم حاصل ہو جائے۔آخر ہمیں سوچنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتے ہوئے تیرہ یا پندرہ سال کے اندر اندر ایسی جماعت تیار ہو گئی جو ساری دنیا کی معلّم ثابت ہوئی لیکن ہم پر پچاس سال گزر گئے ہیں ابھی تک ہم میں وہ تغیر نہیں پیدا ہوا اور نہ ہم سے وہ تغیر پیدا ہوا ہے۔ اگرچہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لئے انہیں ایک سہولت حاصل تھی کہ جو باتیں اُن کے سامنے کی جاتی تھیں وہ اُن کی اپنی زبان میں ہوتی تھیں اس لئے ہر بات سُنتے ہوئے اسے ساتھ ساتھ سمجھتے بھی جاتے تھے ان کے لئے اتنا کافی تھا کہ اگر کوئی انسان ان کے کان میں صرف اتنا ہی کہہ دیتا کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تو اُن کی زندگی کے لئے کافی تھا اسلئے کہ ان میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ ال کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھاکہ حمد کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا کہ دال کے اوپر جو پیش ہے اُس کے کیا معنی ہیں،وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اللّٰہِ جس کے آخر میں ہ ہے اور جس کی ہ کے نیچے زیر ہے اِس کے کیا معنی ہیں، وہ جانتا تھا الرَّحْمٰن میں ال کیا کہتا ہے اور رحمٰن کیا، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ الرَّحِیْمِ کا ال کیا کہتا ہے اور رحیم کیا کہتا ہے، اور الرَّحِیْمِ کے نیچے جو زیر ہے وہ کیا کہتی ہے، وہ یہ سب کچھ جانتا تھا اِس لئے اس کیلئے اَلْحَمْدُ کے الفاظ کا سننا ہی کافی ہو جاتا تھا مگر ہمارے ملک کے لوگ جو عربی زبان سے بکلّی ناواقف ہیں ان سے بِسْمِ اللّٰہِ کی ب سے لیکر وَالنَّاسِ کی س تک قرآن سُن جاؤ اگر انہوں نے ناظرہ پڑھا ہوا ہے یا قرآن حفظ کیا ہوا ہے تو وہ سب کچھ سنا دیں گے لیکن یہ نہ جانتے ہوں گے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ سمجھتے کچھ بھی نہیں بلکہ جو کچھ یاد ہے یا جو لفظ پڑھے ہوئے ہیں انہیں دُہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب والوں میں صرف سورہ فاتحہ جو تغیر پیدا کر سکتی تھی ہماری جماعت میں سارا قرآن وہ تغیر پیدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ اِس جماعت کے اکثر افراد قرآن کریم کے معنی نہیں جانتے۔اب اِس کا علاج دو ہی طرح ہو سکتا ہے کہ یا تو ہم ان کو قرآن تک لے جائیں یعنی اُن کو عربی پڑھا دیں تا وہ قرآن کو سمجھ سکیں اور اگر یہ نہیں تو قرآن کو اُن تک لے جائیں یعنی اِس کا ترجمہ اُن کو سنائیں۔ ان عربی دانوں کے بغیر ہم قومی تغیر پیدا نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی روحانی عظیم الشان تغیر کر سکتے ہیں۔ ہمارے اندر جو کوتاہیاں، سُستیاں اور غفلتیں پائی جاتی ہیں اِن کی ایک ہی وجہ ہے کہ ابھی تک ہم پر قرآن شریف کے دروازے نہیں کُھلے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اسلام باہر کے ممالک میں پھیلا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تو اُن کے لئے یہی مشکل پیش آئی کہ وہ نمازیں کس طرح پڑھیں، قرآن کس طرح پڑھیں جبکہ اُن کو عربی ہی نہیں آتی۔ اِس حالت کو دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فتویٰ دے دیا کہ گو نماز کو اصل صورت میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے لیکن جو قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے اور نماز بھی عربی میں نہیں پڑھ سکتے وہ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا کریں اور یہ بھی جائز ہے کہ نمازکا بھی اپنی زبان میں ترجمہ کرلیں اور اسے یاد کرلیں اور نماز دل میں پڑھا کریں۔غرض ایک تو وہ لوگ تھے کہ وہ جب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھتے تھے تو جانتے تھے کہ اِس کے کیا معنی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِکے کیا معنی ہیں لیکن ایک آجکل کے لوگ ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن قرآن شریف کو نہیں جانتے اسلام سے محض ناواقف ہیں۔ ان دونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص وہ ہے جو ٹرنک کھولتا ہے اور اُس میں سے کپڑے نکال کر دیکھتا ہے کہ یہ پاجامہ ہے، یہ قمیض ہے، یہ کوٹ ہے، یہ پگڑی ہے اور ایک اور انسان ہے وہ ایک ٹرنک جس کو تالا لگا ہوا ہے اُس پر ہاتھ پھیرلیتا ہے کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ جس شخص کو قرآن شریف کے معنی نہیں آتے اُس کی مثال تو ویسی ہے جیسے ٹرنک پر ہاتھ پھیرنے والاانسان۔ اُس کو نہ کپڑے دیکھنے اور نہ استعمال کرنے کی توفیق ہوئی، نہ اُس نے ہاتھوں سے اُن کپڑوں کو ٹٹولا، نہ اُس کے جسم نے انہیں پہنا اور نہ ہی پہن سکتا ہے کیونکہ ٹرنک کو تالا لگا ہوا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اُس شخص کی مثال کی طرح کس طرح ہو سکتی ہے جس کے پاس اس ٹرنک کی چابی ہے وہ چابی سے تالا کھولتا ہے، کپڑے پہنتا ہے اور اس سے اپنے جسم کو ڈھانکتا ہے اور اسے خوشنما بنا کر دوستوں کو دکھاتا ہے اِن دونوں میں تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ تو جب تک قرآن شریف کو ہم کھول کر لوگوں کے سامنے نہیں لے آتے اورجب تک لوگوں کو اس سے اچھی طرح واقف نہیں کرادیتے اُس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ ہم کوئی تغیر پیدا کر لیں گے غلط ہے۔ اور ہماری حالت اُس برہمن کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک دن جبکہ بہت زیادہ سردی تھی نہانے کے لئے دریا پر گیا زیادہ سردی کی وجہ سے وہ راستہ میں ٹھٹھررہا تھا اور ڈر رہا تھاکہ اگر دریا میں نہایا تو بیمار ہو جاؤں گا لیکن چونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہمن کوضرور روزانہ دریا پر (دریا اگر پاس ہو) تو نہانا چاہئے اِس لئے باوجود سخت سردی کے وہ دریا کی طرف چل دیا۔ جب وہ دریا کی طرف جارہا تھا تو راستہ میں اسے کوئی دوسرا برہمن آتا ہوا نظر آیا اُس کو دیکھ کر اُس نے کہا کیا کریں آج تو نہایا نہیں جاتا بڑی سردی ہے تم نے کیا کیا؟ دوسرے برہمن نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہوگیا میں یہ کہہ کر واپس آگیا۔ اس پر وہ برہمن کہنے لگا ’’تور اشنان سوموراشنا ن‘‘ یہی بات ہے تو پھر تیرا نہانامیرا نہانا ہو گیا ۔یعنی کنکر کا نہانا اِس برہمن کا نہانا ہو گیا اور اُس برہمن کا نہانا اِس دوسرے برہمن کا نہانا ہوگیا۔یہی اِس وقت کے لوگوں کی حالت ہے جب کسی سے کوئی اس کے مذہب کے متعلق سوال کرے تو کہہ دیتے ہیں ہمارے مولوی صاحب خوب جانتے ہیں۔گویا ان کے دماغوں کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ بے کار ہو چکے ہیں۔ قرآن شریف کا جاننا تو الگ رہا اِن کی حالت تو اُس شخص کی طرح ہے جو صرف ٹرنک پر ہاتھ پھیرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا اور پا لیا۔
میں جس وقت حج کے لئے گیا تو میاں عبدالوہاب صاحب ایک شخص سہارن پور کے رہنے والے تھے وہ بھی جج کے لئے گئے ہوئے تھے وہ چونکہ بہت ہی سیدھے سادھے آدمی تھے اِس لئے لوگ اُن سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے پاس تھوڑے سے روپے تھے جو اُن کے لڑکوں نے اُن کو دیئے تھے کچھ شرارتی لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ روپیہ اُن سے لے لیں۔ میں مصر کے راستہ سے گیا تھا اور ہمارے نانا صاحب میرناصر نواب صاحب مرحوم جو جہاز سیدھا عرب جاتا ہے اُس میں گئے تھے اُنہوں نے جب دیکھا کہ لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں اور ان سے روپیہ لوٹ لینا چاہتے ہیں تو انہوں نے ان کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ جہاز سے اُترے اور مجھ سے ملے تو میاں عبدالوہاب صاحب ان کے ساتھ تھے ۔مَیں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا سادہ آدمی ہے اور اس کی سادگی کی وجہ سے کچھ شرارتی لوگ اِس کو لُوٹنا چاہتے تھے اس لئے اس کو میں نے اپنے ساتھ لے لیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی وہ بڑا سادہ آدمی تھا قرآن شریف کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا، نماز انہیں آتی نہیں تھی میں حیران تھا کہ جب اِن کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تو آخر وہ کس طرح یہاں آئے؟ میں نے اُن سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے؟ یہ سوال کر کے میں منٹ بھر خاموش انتظار کرتا رہا جب اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں سمجھا کہ شایدسنا نہیں۔ پھر میں نے اِسی سوال کو اونچی آواز سے دُہرایا کہ میاں عبدالوہاب! تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ کہنے لگے جلدی نہ کرو سوچ کر جواب دیتا ہوں۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ سوچنے کا کیا مطلب، حساب تھوڑا ہی ہے کہ ضربیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا میاں عبدالوہاب! میں نے مذہب پوچھا ہے سوچنے والی بات کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یونہی نہ گھبرا دیا کرو ذرا سوچ تو لینے دو۔ پھر میں نے کہا اس کا تو ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے واپس جاؤں گا تو مُلاّ سے لکھوا کر بھیجوں گا۔ میں نے کہا مَیں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھ رہا آپ کا مذہب پوچھ رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے ٹھہر جائیں ذرا سوچ تو لینے دیں آپ تو گھبرا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ۔ میرے ذہن میں نہ آیا کہ علیہ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا کہ علیہ تو آج تک کوئی مذہب نہیں سنا۔ پھر انہوں نے کہا تم تو گھبرا دیتے ہو سوچنے نہیں دیتے۔ خیر تھوڑی دیر تک علیہ علیہ کر کے کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ امام ۔ اُس وقت میرا ذہن اِس طرف گیا کہ علیہ امام سے مطلب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ تب میں نے جان کر اُنہیں چڑانا شروع کیا کہ بتائیے آپ کا مذہب کیا ہے چپ کیوں ہیں؟ اِس پر وہ پھر کہنے لگے مَیں نے جو کہا ہے مُلاّ سے لکھوا دوں گا۔ مَیں نے پھر کہا کہ میں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھتا آپ کا پوچھتا ہوں۔ آخر بڑا سوچ سوچ کر انہوں نے کچھ اس قسم کا فقرہ کہا رحمۃ اللہ امام علیہ۔ اِس پر مَیں نے کہا میاں عبدالوہاب! آپ کے یہاں آنے کا کیا فائدہ تھا، آپ خواہ نخواہ اس بڑھاپے میں حج کے لئے چلے آئے آپ کو تو اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ وہ بڑے غصہ میں آ کر بولے۔ میرے بیٹوں نے مجھے مجبور کیا کہ ابا! جا کر حج کر آؤ تب ہم خوش ہونگے مجھے کیا پتہ حج کیا ہوتا ہے۔جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو تو کیا اِس پر یہ امید کی جاتی ہے کہ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی۔ جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ خدا اور رسول کیا چیز ہے وہ خدا اور رسول کی کیا حکومت قائم کر سکتا ہے وہ تو جب بھی قائم کرے گا اپنے نفس کی حکومت قائم کرے گا تو قرآن شریف جانے بغیر اور اس کو سمجھے بغیر خدا کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
ہماری قربانیاں بے شک قابلِ قدر ہیں، ہمارے چندے بھی بے شک قابلِ قدر ہیں اور ہماری تبلیغ بھی قابلِ قدر ہے مگر ہم کس چیز کو قائم کرنا چاہتے ہیں؟ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت کو؟ مگر خدا اور اس کے رسول کی حکومت بغیر قرآن شریف سمجھے قائم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کیا پتہ ہے کہ جس وقت اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا اُس وقت کون زندہ ہوگا، ہمیں کیا پتہ ہے کہ اگر ہم زندہ بھی ہوں گے تو اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق ہمیں ملے گی یا کسی اَور کو۔ کیونکہ ہر انسان ہر جگہ موجود نہیں ہوتا۔ پس کیا معلوم کہ جسے اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق حاصل ہوگی وہ کون سا ہاتھ ہوگا۔ اگر اُن انسانوں کو جو ہمارے قائمقام ہونگے اگر اُن کے زمانہ میں جھنڈا گڑا یا اس جگہ پر جہاںجھنڈا گاڑا گیا جو ہمارا قائم مقام ہوا اگر اُس کو قرآن شریف کا پتہ نہیں ہوگا تو اُس نے کیا کرنا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ایک پٹھان تھا اُس کو خواہش پیدا ہوگئی کہ کسی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان بناؤں۔ اُسی گاؤں میں جس میں وہ رہتا تھا ایک بنیا تھا ایک دن اُسے اکیلا دیکھ کر اُسے جوش آ گیا اُس نے اُسے پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھ، نہیں تو مارتا ہوں۔ اُس نے کہا میں کلمہ کس طرح پڑھوں؟ میں تو مسلمان نہیں ہوں۔ کہنے لگا خو مسلمان ہے یا نہیں آج تم کو کلمہ ضرور پڑھوانا ہے کیونکہ تم کو مسلمان کر کے میں نے جنت میں جانا ہے۔ لالہ نے بڑی منتیں کیں اور ٹالتا رہا کہ شاید اِس عرصہ میں کوئی دوسرا آدمی آ جائے اور میرا چھٹکارا ہو مگر اتفاق کی بات کہ اُس وقت کوئی دوسرا وہاں نہ پہنچا۔ بزدل آدمی کو جان زیادہ پیاری ہوتی ہے جب دیکھا کہ اتنی دیر سے کوئی نہیں آیا تو کہنے لگا اچھا تم کلمہ بتاتے جاؤ میں پڑھتا جاتا ہوں۔ پٹھان نے کہا خو تم آپ پڑھو۔ بنیینے کہا میں ہندو ہوں مجھے کلمے کا کیا پتہ۔ اس پر پٹھان بولا خو تمہارا قسمت بڑا خراب ہے کلمہ تو مجھ کو بھی نہیں آتا، نہیں تو آج تم مسلمان ہو جاتا اور ہم جنت میں چلا جاتا۔ یہی قرآن نہ جاننے والوں کی حالت ہے۔ اس حالت میں کیا چیز ہے جو ہم دنیا کے سامنے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم بھی قرآن شریف جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی طرف پیغام ہے اس کو نہیں جانتے، اگر ہمیں اِس کا کچھ علم ہی نہیں اور اِس کی بجائے ہم اپنی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ غلط بات اور لغو خیال ہے۔
ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اِس میں کامیاب ہو جائیں تو پھر ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دوسرے مسلمانوں میں بعض لوگ قرآن شریف جانتے ہیں مگر اُن کے حالات بھی خراب ہیں پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو لوگ اِس کو جاننے کی کوشش کریں گے اُن کی یہ حالت نہ ہوگی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو لفظوں کا جاننا اور حکمت کا جاننا دو مختلف اَشیاء ہیں۔ دوسرے میں کہتا ہوں کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ جب ملک میں طاعون یا ہیضہ نہیں ہوتا تو اُس ملک کا کمزور سے کمزور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ ہوتا ہے اور جب ملک میں طاعون اور ہیضہ ہوتا ہے تو پھر طاقتور سے طاقتور انسان بھی طاعون اور ہیضہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جس قوم میں جاہل بکثرت موجود ہوتے ہیں وہاں عالموں کا ایمان بھی خطرہ میں ہوتا ہے اور جس قوم میں علم اچھی طرح پھیلا دیا جاتا ہے اور جہالت کو دور کر دیا جاتا ہے اُس میں عالموں کے ایمان کی مضبوطی کے ساتھ جاہلوں کا ایمان بھی مضبوط ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگ غیروں میں بھی قرآن شریف جاننے والے موجود ہیںلیکن اوّل تو اُن کا علم محض لفظی ہے دوسرے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اُن کے دائیں بائیں کون کھڑے ہیں؟ ان کے دائیں بائیں کثرت سے جاہل اور خدا سے دُور لوگ کھڑے ہیں جو اُن کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں پس وہ تو چند لفظی طور پر قرآن پڑھے ہوئے لوگ ہیں جو کہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ قوم کو، جبکہ ہماری جماعت میں بے شک حقیقی طور پر قرآن جاننے والے لوگ موجود ہیں لیکن اِن کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ بھی اپنی جماعت کو پورا فائدہ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ نسبتی طور پر اتنے تھوڑے ہیں کہ ان کے نور پر جہالت کی ظلمت کے چھا جانے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ پس ہمارا فرض ہے کہ عوام احمدیوں تک بھی قرآن شریف پہنچائیں۔ ان تک قرآن شریف پہنچانا نہ صرف ان کے لئے ضروری ہے بلکہ اس میں اپنی بھی حفاظت ہے۔ احمق ہے وہ انسان جس کے گاؤں میں ہیضہ آجائے اور وہ کہے کہ میرے گاؤںمیں صرف ایک انسان کو ہیضہ ہوا ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس گاؤں میں ایک آدمی کو ہیضہ ہوا ہے تو یقینا اس کا بیٹا بھی ہیضہ سے محفوظ نہیں لیکن اگر اس کے گاؤں کے پرلے کنارے پر ہیضہ کی ایک واردات ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے کو ہیضہ ہوا ہے تو نہ صرف وہ بلکہ اُس کا گاؤں بھی ہیضے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح اگر قوم کے تمام افراد روحانی عالم نہیں تو اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گاؤں میں ہیضہ آگیا اور جب ہیضہ آگیا تو کوئی نوجوان بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اگر اِس قوم میں سے کُلّی طور پر جہالت نکال دیں اور جہالت کا مرض دور کر دیں اور اگر اپنے تمام افراد کو کُلّی طور پر اسلامی علوم سے آشنا کر دیں تو پھر گویا ہم نے ہیضہ کو کُلّی طور پر اپنی قوم سے نکال دیا اور اس صورت میں صرف مضبوط انسان ہی نہیں بلکہ کمزور ایمان والے انسان کو بھی روحانی ہیضہ نہیں ہو سکتا۔ پس آپ لوگ بھی جو یہاں پڑھنے کے لئے آئے ہیں آپ کا یہ کام نہیں کہ یہاں سے پڑھ کر جائیں اور علم کو اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ پڑھ کر جائیں لوگوں کو جا کر سنائیں۔ ہر شخص جو تم میں سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر کے جائے گا وہ یہ ذمہ داری لے کر جائے گا کہ دوسروں کو بھی علم پڑھا ئے ۔اگر وہ واپس جا کر اپنے علاقے کے ہر فرد کو قرآن نہیں سکھائے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہو گا۔
جب تک یہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع پیدا نہیں ہوا تھا تم مجرم نہیں تھے مگر اب جبکہ وہ موقع پیدا ہوگیا ہے اگر تم نے سُستی سے کام لیا اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اِس کو پورا نہ کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم کی صورت میں پیش ہو گے۔ شاید تم میں سے بعض یہ کہیں کہ پھر تو علمِ قرآن کا حاصل کرنا بجائے فائدہ کے وبالِ جان ہو گیا یہ تو ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم یہاں آگئے۔ اگر تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو تو یہ صرف ایک بے حقیقت وہم ہوگا۔
دیکھو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جہاد کا موقع آیا بہت سے لوگ اس میں شامل ہوئے اور کچھ نہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ جنگ میں نہ جانیوالا شخص اس بات کا مجرم نہیں تھا کہ اُس نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کیوں نہیں کی بلکہ وہ مجرم تھا اس بات کا کہ وہ جہاد میں کیوں نہیں گیا۔ لیکن ایسے لوگ جو جہاد میں تو شامل ہوئے لیکن اُنہوں نے رسول کریمﷺ کی جان کی حفاظت نہیں کی اور اُس وقت جبکہ رسول کریم ﷺؐ پر حملہ ہوا انہوں نے رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان نہیں کی وہ ضرور مجرم ہوئے اِس بات کے کہ اُنہوںنے اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام نہیں دیا۔ مجرم دونوں ہوئے لیکن دونوں کے جُرم کی نوعیت مختلف تھی۔ جو جہاد میں شامل نہ ہوئے ان کے جُرم کی نوعیت اور تھی اور بعض منافق جو صحابہؓ سے مل کر جہاد میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر اُن کی غرض اسلام اور رسول کریمﷺ کی حفاظت نہ ہوتی تھی اُن کے جُرم کی نوعیت اَور تھی۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیوں مجرم ہوگئے۔ وہ تو میدانِ جنگ میں گئے تھے کیونکہ مجرم کی نوعیت مقامات کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ ہر مقام سے جب انسان ترقی کرتا ہے تو اُس کے اس مقام کے بدلنے کے ساتھ ہی اس کی ذمہ داریوں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے اور ان کے ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کے جُرموں کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک انسان جب پہلی سیڑھی پر ہوتا ہے تو اُس کا پہلی سیڑھی سے گرنے کا امکان ہوتا ہے لیکن جب وہ پہلی سیڑھی سے دوسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو اُس کے لئے دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان تو ہوتا ہے لیکن پہلی سیڑھی سے نیچے گرنے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلی سیڑھی پر نہیں ہے لیکن جب وہ تیسری سیڑھی پر چڑھ جائے تو دوسری سیڑھی سے گرنے کا امکان نہیں رہتا۔ ایک شخص ایک مقام پر کھڑا ہے اُس سے کچھ گناہ سر زد ہوتے ہیں۔ ایک اور شخص ہے جو اُس سے اوپر کے مقام پر کھڑا ہے اُس سے اَور قسم کی غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں لیکن وہ غلطیاں سر زد نہیں ہو سکتیں جو نچلے مقام والے انسان سے ہوئیں۔ اسی طرح ایک تیسرا شخص ہے جو دوسرے شخص سے زیادہ اونچے مقام پر ہے اُس سے غلطیاں تو سر زد ہو سکتی ہیں لیکن وہ نہیں جو اُس سے نچلے مقام والے انسان سے سرزد ہو سکتی ہیں۔جرائم تو سب سے ہی ہوں گے لیکن جرائم کی نوعیت ہر مقام پر بدل جائے گی۔ جو سب سے اوپر کے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو اُس سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی اور جو سب سے نچلے درجہ پر ہوگا اُس کے جرائم کی نوعیت اور ہوگی۔ جو لوگ پڑھنے کے لئے نہیں آئے وہ مجرم ہیں اِس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو موقع دیا کہ وہ روحانی آنکھیں پیدا کر لیں لیکن اُنہوں نے پیدا نہ کیں اور اندھے رہے۔ اور تم میں سے جو آنکھیںپیدا کر لیں گے لیکن اِس کے ذریعہ اندھوں کو راستہ نہیں دکھلائیں گے تو وہ مجرم ہوں گے اِس بات کے کہ انہوں نے اندھوںکو پکڑ کر منزلِ مقصود تک کیوں نہ پہنچایا۔ پس یہ مت خیال کرو کہ کسی صورت میں بھی تم ذمہ داری سے بچ سکتے تھے تم ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے تھے صرف تمہاری ذمہ داری کی نوعیت بدل سکتی تھی۔ اگر تم قرآن کریم پڑھنے نہ آتے تو تم پر یہ الزام قائم ہوتا کہ ان کو روحانی آنکھیں حاصل کرنے کا موقع مل سکتا تھا مگر یہ اندھے رہے اوراب اگرقرآن کریم پڑھ کر دوسروں کو نہ سکھاؤگے تو یہ الزام ہو گاکہ اِن کو آنکھیں ملی تھیں پھر اِنہوں نے اندھوں کو کیوں راستہ نہ دکھلایا۔ تو آپ کا صرف یہ کام نہیں کہ جب قرآن شریف پڑھ کر جائیں تو اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں بلکہ آپ کا یہ بھی کام ہے کہ اپنے وطن واپس جا کر اپنی جماعتوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھائیں تو زیادہ منشاء میرا یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو قرآن شریف سنائیں کیونکہ ہمارے ملک کے اکثر لوگ پڑھے ہوئے نہیں۔
دوسرا فرض آپ کا یہ ہے کہ چونکہ آپ سارا قرآن شریف اِن دنوں میں نہیں پڑھ سکیں گے اور ساری صَرف ونحو بھی نہیں پڑھ سکیں گے بلکہ اِس کے موٹے موٹے مسائل بھی شاید اِس دفعہ ختم نہ کر سکیں گے اِس لئے آپ آج ہی سے دل میں پکا عہد کریں کہ اگلے سال آکر اپنی تعلیم مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آدھی تعلیم حاصل کرنے سے آپ کی ذمہ داری ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہے ایک شخص جو کسی کے گھر میں کرائے پر رہتا ہے اگر وہ اُس مکان کو خراب کرتا ہے، اُس کو ضائع کرتا ہے تواُس کو محلے والے بھی اور مالک مکان بھی بُرا کہتے ہیں۔ لیکن ایک اور شخص جو ایک مکان کی دیواریں بنا کر چھوڑ دیتا ہے اور مکان کی تکمیل نہیں کرتا اس کی وفات کے بعد اس کے محلے والے ہی اُسے بُرا نہیں کہتے اُس کی اولاد بھی اُسے بُرا کہتی ہے کہ ہمارے باپ نے یونہی روپیہ ضائع کرا دیا۔ اگر وہ یہاں روپیہ نہ لگاتا تو کسی اور جگہ کام آجاتا۔ اور ہمسائے کہتے ہیں اِس کی اینٹیں گرتی ہیں، بے چارے راہ گیروں کے سروں پر لگتی ہیں ان کے سر پھٹ جاتے ہیں یا لوگوں کو ٹھوکریں لگتی ہیں اگر مکان بنانا تھا تو مکمل بناتا، نہیں تو نہ بناتا۔ اب آپ لوگ بھی سوچیں کہ آپ لوگ سارا قرآن شریف ختم کر کے نہیں جا سکتے اس لئے آپ بھی علمِ دین کے مکان کی دیواریں کھڑی کر کے جا رہے ہیں،نہ چھت پڑے گی، نہ دروازے لگیں گے، نہ پلستر ہوگا پس آپ کو یہ وعدہ کر لینا چاہئے اور فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اب ہم اپنی ساری توجہ اِس طرف لگا دیں گے اور اِس سارے علم کو حاصل کر کے چھوڑ یں گے اور آپ کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اگلے سال پھر اِنْشَائَ اللّٰہُ آئیں گے اور اپنے علم کی تکمیل کریں گے یہاں تک کہ سارا علم آجائے۔
دوسرے آپ میں سے جسے خدا تعالیٰ اگلے سال آنے کی پھر توفیق دے وہ دو تین اَور کو تحریک کر کے ضرور اپنے ساتھ لائے تا علم حاصل کر کے واپس اپنے وطنوں میں جا کر پڑھانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔ ہماری جماعت اب اتنی ہے کہ ہزارہا بھی اس کے لئے کافی نہیں ہو سکتے۔ اب اسّی نوے کا تو سوال ہی نہیں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہزارہا ایسے مبلغ پیدا کریں جنہوں نے قرآن شریف پڑھا ہوا ہو، تا وہ اپنے اپنے وطن واپس جا کر لوگوں کو قرآن شریف پڑھائیں۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے مجھے خواہش تھی کہ میں آپ لوگوں میں آکرتقریر کروں اور آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
اب میں آپ لوگوں کو مختصر الفاظ میں کچھ ایسی باتیں بتاتا ہوں جو قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق ہیں۔ جب آپ قرآن شریف پڑھیں گے تو وہ باتیں جو اُستاد آپ کے کانوں میں ڈالیں گے اگر آپ اُن کو یاد رکھیں گے تو آپ کی حیثیت آنحضرت ﷺ کے مقولہ کے مطابق صرف ایسی ہوگی جیسے ایک زمین پر پانی پڑتا ہے اور وہ اُسے محفوظ رکھتی ہے دوسرے لوگ اس سے آکر پانی پیتے ہیں یا پانی لے جاتے ہیں یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ رسول کریمﷺ فرماتے ہیں علم کے لحاظ سے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کی مثال اُس زمین کی سی ہوتی ہے جو ڈھلوان ہوتی ہے اور سخت بھی جس پر پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو نشیب میں ہوتی ہے اُس پر پانی پڑتا ہے اور جمع ہو جاتا ہے لیکن پانی تہہ میں نہیں جاتا وہ زمین پانی نہیں پیتی لیکن چار پائے آتے اور پیتے ہیں۔ تیسری مثال ایسی زمین کی ہے جو عمدہ قسم کی ہوتی ہے جس میں روئیدگی اُگانے کی طاقت ہے اُس میں ڈھلوان نہیں کہ پانی بہہ جائے اور وہ کنکریلی نہیں کہ پانی جذب نہ کر سکے بلکہ جب آسمان سے بارش ہوتی ہے تو وہ اُس پانی کو جذب کر لیتی ہے، پیتی ہے پھر سبزہ اُگاتی ہے، پھل پھول اور اناج اُگاتی ہے دوسرے لوگ آتے ہیں اور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، انسان اُس سے پھل کھاتا ہے اور اناج حاصل کرتا ہے، جانور اُس سے چارہ حاصل کرتے ہیں وہ زمین آپ بھی پانی پیتی ہے اور دوسروں کو بھی پلاتی ہے۔۳؎
یہی تین حالتیں انسان کی ہیں۔ ایک عالم ایسے ہوتے ہیں جو علم کو حاصل کرتے ہیں اور حاصل کر کے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اُن کی مثال اُس زمین کی ہے جو پانی پیتی ہے اور روئیدگی اُگاتی ہے آپ بھی فائدہ حاصل کرتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک ایسے عالمِ ہوتے ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں اور اُسے اُسی شکل میںمحفوظ رکھتے ہیں وہ عالمِ تو ہوتے ہیں لیکن بے عمل، خدا اور رسول کی باتیں تو لوگوں کو بتاتے ہیں لیکن خود اُن پر عمل نہیں کرتے۔ اُن کی مثال ایسی نشیب زمین کی ہے جو پانی جمع کر لیتی ہے اُسے خود تو پیتی نہیں لیکن دوسروں کو پلادیتی ہے۔ تیسری قسم کے عالموں کی مثال ڈھلوان زمین کی ہے وہ علم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کو یاد نہیں رکھتے وہ نہ خود اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جیسا کہ ڈھلوان کنکریلی زمین سے پانی بہہ جاتا ہے اسی طرح ان پر سے علم گزر جاتا ہے لیکن اس سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پس اگر آپ لوگوں نے جو پڑھا ہے اُس کو بُھلا دیا تو رسول کریم ﷺ نے آپ لوگوں کی مثال یہ بتائی ہے کہ جیسے کنکریلی ڈھلوان زمین جس نے نہ آپ پانی پیا اور نہ دوسروں کو پلایا۔ اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور لوگوں کو جا کر سمجھائیں لیکن خود اُن پرعمل نہ کیا تو آپ کی مثال اُس جوہڑ کی سی ہوگی جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے لیکن وہ خود اس میں سے پانی نہیں پیتا ہاں لوگوں کو پلا دیتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے قرآن شریف کی باتیں سُنیں اور اُن پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی قرآن شریف پڑھایا اور سمجھایا تو آپ کی مثال ایسی اچھی زمین کی ہوگی جو خود پانی پیتی ہے اور دوسروں کو گھاس، چارہ، پھل اور پھول دیتی ہے اور بنی نوع انسان اس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ زمین ہے جس کے لئے زمیندار خواہش کرتے ہیں اور جس کو حاصل کرنے کے لئے ہر ایک خواہش کرتا ہے۔ راجپوتانہ کے علاقہ میں ہزارہا میل کے میدان بیابان پڑے ہیںلیکن کوئی شخص ان کے لئے خوشی سے ایک پیسہ دینے کی بھی خواہش نہیں رکھتا لیکن لائل پور اور سرگودھا کے علاقوں میں پچیس پچیس ہزار روپے دے کر ایک مربع زمین خریدتے ہیں۔ نیلامی میں تو یہاں تک مول پڑتا ہے کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ لوگوں نے ایک جگہ پانچ ایکڑ زمین کی ایک لاکھ کئی ہزار بولی دی، تو اچھی زمین ہی قیمتی ہوتی ہے۔ پس اگر آپ قیمتی وجود بننا چاہتے ہیں تو آپ اِس پڑھے ہوئے پر عمل کریں اور جو کچھ یہاں سے سبق حاصل کر کے جائیں اُس کو خود بھی استعمال کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔
میں ایک اور بات بیان کرتا ہوں جو رسول کریمﷺ کی حدیث کی تردید نہیں کرتی بلکہ تائید کرتی ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول کریمﷺ نے جو زمین کی مثال دی تھی اس سے ہمیں ایک اور سبق ملتا ہے اوروہ یہ ہے کہ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جوپانی جذب کر تی ہے اور پانی ہی اُگلتی ہے۔ ایک زمین ایسی ہوتی ہے جو پانی جذب کرتی ہے لیکن پانی نہیں نکالتی بلکہ اس کی بجائے انگور،انار، آم،گندم، کپاس، گھاس، چارہ وغیرہ نکالتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ لوگوں نے جو کچھ یہاں پڑھا وہی واپس جا کر پڑھایا تو آپ کی مثال ایسی زمین کی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور پانی نکال دیتی ہے لیکن اگر آپ دوسری مثال کے مصداق بننا چاہتے ہیں تو آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ کو اُستاد جو باتیں بتلائیںاُن میں تغیر و تبدل کر کے ایک نئی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اگر آپ کو صرف وہی نکتے یاد رہتے ہیں جو اُستاد نے بتائے ہیں تو آپ ہرگز اس مثال کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ لیکن اگر ان باتوں نے آپ کے دل میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ کے جذبات میں ہیجان پیدا کر دیا ہے اور آپ میں غور کرنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے اور آپ کے اندر ایسا تقویٰ پیدا ہوگیا ہے جس سے آپ پرقرآن شریف کے معارف کھل جاتے ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے نتیجے میں پھل پھول نکالتی ہے۔ پس آپ لوگ اس زمین کی طرح نہ ہوں جو پانی کے بدلے پانی نکال دیتی ہے بلکہ اُس زمین کی طرح ہوں جو پانی پی کر اس کے نتیجہ میں گھاس چارہ اور پھل اور پھول پیش کرتی ہے۔ تو جب تک آپ میں یہ قابلیتیں پیدا نہ ہو جائیں کہ جو باتیں آپ مدرس سے سنتے ہیں ان کو بدل نہ ڈالیں اور چارے کی شکل میں، پھل پھول کی شکل میں اور غلّے کی شکل میں تبدیل کر کے پیش نہ کریں اُس وقت تک آپ پوری طرح اِس حدیث کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ جو انسان بھی علم ایسی صورت میں حاصل کرتا ہے کہ اپنے اُستاد کی بتائی ہوئی باتوں کو اُسی شکل میں رہنے دیتا ہے وہ جہالت اور بے وقوفی کا مرتکب ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں لطیفہ مشہورہے کہ کسی بادشاہ نے اپنے بیٹے کو کسی عالمِ کے پاس بٹھایا جسے ہر قسم کے علوم، علمِ نجوم اور علمِ ہیئت وغیرہ آتے تھے اور اُسے کہا کہ اِس کو تمام علوم میں ماہر کردو۔ جب وہ علوم سیکھ چکا تو بادشاہ نے کہا میں اِس کا علمِ نجوم میں امتحان لیتا ہوں۔ اُس نے اپنی مٹھی میں انگوٹھی کا ایک نگینہ پکڑ لیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اُس نے حساب لگا کر کہا کہ آپ کے ہاتھ میں چکی کا پاٹ ہے۔ بادشاہ اُس کے اُستاد پر بڑا ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے میرے لڑکے کو کیا پڑھایا ہے؟ عالم نے کہا حضور میں نے جو پڑھایا ہے ٹھیک ہے میں نے اُسے ایسا طریقہ بتایا تھا جس سے پتہ لگ جائے کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی پتھر کی چیز ہے سو اُس نے یہ بات معلوم کر لی مگر میں آپ کے لڑکے کے دماغ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا کہ اِسے عقل بھی دیتا جاؤں، آپ کے بیٹے کے دماغ میں اتنی عقل ہی نہیں کہ وہ معلوم کر سکے کہ مٹھی میں چکی کے پاٹ کا پتھر نہیں آسکتا مٹھی میں تو نگینہ ہی آئے گا۔ پس یہ نہ ہو کہ آپ لوگ اِس قسم کی جہالت کے مرتکب ہوں اور جو علم یہاں سے لے کر جائیںاُسے اسی طرح لفظاً لفظاً دُہرانے لگ جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ دوسرا کس صورت میں اعتراض کر رہا ہے اور ہم جواب کیا دے رہے ہیں۔ وہ آپ کے مقابل پر ایک نیا اعتراض پیش کر رہا ہے لیکن آپ ہیں کہ اُستاد کی بات ہی دُہراتے چلے جاتے ہیں صرف میا ں مٹھو کہنا جانتے ہیں اور کچھ بھی نہیں جانتے۔
پس آپ میں یہ قابلیت پیدا ہونی چاہئے کہ آپ نے جو قرآن شریف کی باتیں سُنی ہیں ان کے لئے معنی استنباط کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ میرا خیال تھا کہ میں اس سلسلہ میں بعض ہدایات دوں لیکن اب وقت نہیں رہا دوسرے گلے کی خرابی کی وجہ سے بھی میں زیادہ بول نہیں سکتا لیکن میں نے اپنی بعض کتابوں میں قرآن شریف کی تفسیر کے اصول لکھے ہیںاُن کو پڑھیں اور اُن پر غور کریںاور اُن کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ایک گُر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کبھی اور کبھی اور کبھی بھی اپنے دشمنوں کی بات کو مروڑنے کی عادت نہ ڈالو۔ جو دشمن کی بات کو مروڑتے ہیں وہ دشمن کی بات کو نہیں مروڑتے بلکہ وہ اپنی عقل کو مروڑتے ہیں۔ میں نے بہت لوگوں کو دیکھا ہے کہ دشمن کی باتوں کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اُن پر خود ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں بظاہر وہ اُس کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ اُس کا مذاق نہیں اُڑارہے ہوتے بلکہ اپنے خود ساختہ خیالات کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا دماغ علم حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ وہ دشمن کے اعتراضوں کو مروڑتے ہیں اور اپنے مطلب کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مصنوعی باتوں سے انسان کو پکڑنا چاہتے ہیں اور اِس پر بڑے خوش ہوتے ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امر وہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خداتعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤںاور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا۔ وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا۔ اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذونادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں۔ ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آگیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آکر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتاًوہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اِس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعود نے اُس کا علاج کیا اِس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسنِ سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھادیا۔ چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیاکہ مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں نکلتے، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اِس وقت نہیں آسکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا۔ مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہونگی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس پر نازل ہوتا ہے۔
بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اُس کو اُلٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آ جاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ پیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا۔ میرے پاس بھی ایک دفعہ دو مولوی دیوبند کے آئے۔ اُن کو پتہ تھا کہ میں کسی مدرسہ میں نہیں پڑھا ہوا۔ میں اُس وقت لاہور میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی نے آتے ہی سوال کیا آپ نے کیا پڑھا ہوا ہے؟ میں نے کہا مَیں نے آپ کی تعریف علم کے مطابق کچھ نہیں پڑھا۔ وہ کہنے لگے آخر کسی مدرسے میں کچھ تو پڑھا ہوگا۔ میں نے کہا میں نے کسی مدرسے میں کچھ نہیں پڑھا۔ تو وہ کہنے لگے آپ نے کسی عربی کے مدرسے میں علومِ اسلامی حاصل نہیں کئے؟ میں نے کہا نہیں بالکل نہیں۔ وہ کہنے لگے تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ علومِ اسلامی سے کورے ہیں میں نے مسکرا کر کہا بالکل نہیں۔ اُس وقت اُس کے ساتھ جو دوسرا مولوی آیا تھا وہ بھی پہلے تو اعتراض میں شریک تھا لیکن اُس نے جب میرے چہرے پر نظر ڈالی تو مجھے مسکراتا دیکھ کر چپ نہ رہ سکا اور اپنے ساتھی سے کہنے لگا۔ ان کا مطلب اِس سے کچھ اَور ہے۔ اُس کے ساتھی نے کہا اور کیا مطلب ہو سکتا ہے واضح بات ہے۔ اِس پر دوسرے مولوی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ آخر اسلام کے مبلّغ ہیں آپ کو اسلام کی کچھ تو واقفیت ہوگی۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جس مکتبہ سے علم حاصل کیا تھا اُسی سے میں نے کیا ہے اور وہی کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں دیوبند میں نہیں پڑھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدرسہ میں پڑھا ہوں۔ بے شک میں آپ کے علم کے لحاظ سے بڑا جاہل ہوں جس طرح آپ جاہل ہیں میرے علم کے لحاظ سے۔ میرے اِس جواب سے اُن پر ایسی اوس پڑی کہ پھر نہیں بول سکے۔ تو جب کوئی آپ پر اعتراض کرے یا کوئی سوال پوچھے تو اس کا صحیح جواب دینا چاہئے اُس کو موڑنا توڑنا نہیں چاہئے۔
ہماری جماعت کے بعض دوست بعض اوقات دشمن کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ غلط طریقہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو علم میں نے سیکھا ہے اس کا معتدبہ حصہ مجھے اسی طرح آیا ہے کہ جب کبھی بھی کوئی دشمن قرآن شریف پر کوئی اعتراض کرتا ہے میں اس کے آگے اعتراض کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہ اس کو بیان نہ کر سکا ہو کیونکہ بعض اوقات کچھ باتیں بیان کرتے ہوئے نظر انداز ہو جایا کرتی ہیں اس لئے شاید کچھ حصہ نظر انداز ہو گیا ہو تو میں اعتراض کو مضبوط کر کے پھر اس پر غور کرتا ہوں اور جب خدا تعالیٰ مجھے اس کا جواب سمجھاتا ہے تو وہ مکمل جواب ہوتا ہے۔ اور جب میں کسی اعتراض کا جواب دیتا ہوں تو وہ اُس کی تسلی سے بھی زیادہ ہوتا ہے اور اُس میں اُس کے اعتراض سے بھی زیادہ مواد موجود ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم ہنسیں اور تمسخر میں اُس کے اعتراض کو اُڑانے کی کوشش کریں تو ظاہر ہے کہ ہمارا جواب دشمن کے اعتراض کے بعض پہلوؤں پر روشنی نہیں ڈالے گا اور یقینا خود کمزور ہوگا اور ساری حقیقت پر مشتمل نہیں ہوگا اِس وجہ سے اعتراض کرنے والے کے دل میں بھی شکوک باقی رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قرآن شریف پر جتنے اعتراضات میں نے اپنے ذہن میں کئے ہیں شاید اتنے اعتراضات سارے مخالفِ اسلام مصنفین نے بھی نہ کئے ہونگے۔ چونکہ میں نے قرآن شریف کے مضامین کو حل کرنے کیلئے بے دردی سے اعتراضات کئے اس لئے اس کی حقیقت بھی مجھ پر زیادہ کھلی اور جیسے ڈاکٹر جب پیٹ کی کسی بیماری کی وجہ سے اپنے بچہ کا آپریشن کرتا ہے اور اُس کا پیٹ پھاڑ دیتا ہے تو وہ اُس کا دشمن نہیں کہلاتا کیونکہ وہ خدمت کر رہا ہوتا ہے اور خارجی مواد کو نکال کر صحت کو درست کر دیتا ہے۔ اِسی طرح جب کبھی کوئی شخص قرآن شریف پر کوئی اعتراض اس لئے کرتا ہے کہ ہے تو یہ خدا تعالیٰ کی کتاب، غلطی اِس میں نہ نکلے گی میری عقل میں نکلے گی میں تو اِس کے پوشیدہ معارف سمجھنا چاہتا ہوں، میں اِس میں جتنا بھی گہرا جاؤں گا اُتنی ہی اچھی چیز ملے گی اور میں مایوس واپس نہیں آؤں گا تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ جب آپ قرآن شریف پر اعتراض کریں تو اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو اور یہ خیال ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ساتھ ہی یہ دعا بھی مانگیں کہ یا اللہ! یہ اعتراض ہمارے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو جائے۔ اِس کے ماتحت جب کبھی بھی میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی باتیں سمجھائیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور علمِ غیب پر مشتمل ہے۔ پس اعتراض کے وقت آپ کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ قرآن شریف پر اعتراض ہوگا تو کیا بنے گا۔ اگر آپ ڈریں گے تو یہ ایسی ہی جہالت ہوگی جیسی بچے بعض دفعہ کر بیٹھتے ہیں۔
مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے۔ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میںبعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالاکی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اِس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے۔ چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے۔
مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابوبکرؓ جیسے لوگ ہوتے تو اِتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف بِسْمِ اللّٰہِ کی ’’ب‘‘کافی تھی۔ قرآن کریم کا اتنا پُر معارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے۔ اگر ابوجہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اِتنے مفصّل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی۔ غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی۔ پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں۔ ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے۔ ہاں ہمیں یہ ضرور چاہئے کہ نہ اعتراض کو اس کی حقیقت سے چھوٹا کریں اور نہ ہی حقیقت سے باہر لے جا کر بڑا بنا دیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو موازنہ کی طاقت دی ہے اس سے کام لیں۔ اگر موازنہ میں غلطی کر وگے اور اعتراض کو اُس کی عقلی حدود سے بڑھا دو گے تو ضرور تمہارے دل پر زنگ لگ جائے گا اور اگر اعتراض کو بِلاوجہ کم کر دو گے تو تمہارے دماغ کو زنگ لگ جائے گا ۔اور اگر بے دلیل اعتراض بناؤ گے تو تمہاری روحانیت کو زنگ لگ جائے گا۔ درمیان میں جو پُل صراط کا راستہ ہے اُس پر چل کر ہی تم کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہو اور قرآنی علوم کو حاصل کر سکتے ہو۔ آپ کو چاہئے کہ اِس نکتہ کو یاد رکھیں اور اِس پر عمل کر کے قرآن کریم کی تفسیر سیکھیں اور اس کے علوم حاصل کریں اور اس علم کو بڑھائیں۔ اگر آپ وہی باتیں بیان کریں گے جو آپ نے اپنے استاد سے سنی ہیں تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پی کر پانی اُگل دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ اُن باتوں کو جو آپ نے اپنے اُستاد سے سنی ہیں ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل دینے میں کامیاب ہوں گے تو آپ کی مثال اُس زمین کی سی ہوگی جو پانی پیتی ہے اور اس کے بعد سبزیاں نکالتی ہے۔
پس میں اِس نصیحت کے ساتھ اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی اور دوسرے لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں اُن پر بھی اپنے فضل نازل کرے قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور یہ بھی توفیق عطا فرمائے کہ آپ اِس کو سمجھ کر ہر نئے اعتراض کے وقت ایک نئے علم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ نادان کہتے ہیں کہ کسی نئی بات کی کیا ضرورت ہے اگر اِس کی ضرورت تھی تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا علم نہیں تھا کیا وہ اسے بیان نہیں کر سکتے تھے؟ نادان نہیں جانتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے کلام کا پانی لے کر آئے اور جس طرح زمین پانی پیتی ہے اور سبزیاں بنا کر اُسے اُگل دیتی ہے اِسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام کے مفہوم کو نیک انسان ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق ایک نئی شکل میں پیش کرتے رہیں گے ہاں اس تعلیم کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا۔ جس طرح پانی زمین میں جذب ہوتا ہے اور جذب ہو کر زمین میں سے سبزیاں نکالتا ہے اوراس سے پانی ہی کی عظمت ثابت ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم کے محل الفاظ کا انسانی دماغ میں داخل ہو کر اس میں نئے علوم کا پیدا ہونا قرآن کریم ہی کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ لوگوںکو پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق عطا فرماوے اور جماعت کے دوسرے دوستوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ وہ قرآن شریف کے علوم حاصل کریں۔ اور ہماری جماعت میں قرآن شریف کو اس طرح قائم کر دیں کہ اِس کی جڑوں کو کوئی اُکھیڑ نہ سکے اور ہمارے بعد ہماری اولادوں کو بھی توفیق عطا فرماوے کہ قرآنی علوم حاصل کریں اور دنیا میں پھیلائیں اور اِس سلسلہ کو اِس قدر وسیع کرتے چلے جائیں جس طرح پُرانے زمانے میں فقیہہ بیٹھتے تھے۔ جیسے حضرت امام مالکؒ کے تو پانچ پانچ ہزار آدمی درس میں موجود ہوتے تھے اِسی طرح ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ قرآن شریف پڑھنے اور پڑھانے والوں کے دلوں میں یہ جذبہ پیدا کر دے کہ معلّمین قرآن کا پڑھانا اور متعلّمین درسوں میں جانا ایک مصیبت اور چٹی نہ سمجھیں بلکہ پروانوں کی طرح وہاں جمع ہوں۔ اور اِسی طرح ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ ہم اور ہماری اولادیں اور اُن کی اولادوں کی اولادیں ایک زمانہ دراز تک خدا تعالیٰ کی حکومت کے ماتحت اُس کے کلام کو سیکھتے اور سکھاتے ہوئے اِس طرح ہنستے ہوئے اور خوشی کے ساتھ اُچھلتے ہوئے چلتے چلے جائیں گویا ہماری زندگی کی لذت اِسی میں محصور ہے۔
(الفضل ۳ تا ۶ ؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
۱؎ الحد ید: ۱۷
۲؎ لوقا باب۱۵ آیت ۱۱ تا ۳۲
۳؎ بخاری کتاب العلم باب فضل من علم وعلم


نیکیوں پر استقلال اوردوام کی
عادت ڈالیں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت ڈالیں
(تقریر فرمودہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
میں نے اپنے خطبات میں جماعت کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ کام وہی بابرکت اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جس میں استقلال اور دوام کا رنگ پایا جائے۔ یوں تو ادنیٰ سے ادنیٰ اور ذلیل سے ذلیل انسان بھی کبھی نہ کبھی کوئی نیکی کر لیتا ہے لیکن اُس کا دو دن کے لئے نیکی پر کاربند ہونا اِس بات کی علامت نہیں سمجھی جا سکتی کہ وہ فی الحقیقت نیک انسان ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی شخص کچھ عرصہ باقاعدہ نمازیں ادا کرتا ہے، باقاعدہ چندہ دیتا ہے، دین کے لئے قربانی بھی کرتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اِن سب باتوں کو چھوڑ دیتا ہے تو کوئی عقلمند انسان ایسا نہیں جو ایسے شخص کو کامل طور پر ایماندار یا متقی سمجھ سکے۔ ہمارے ملک کی مساجد میں سے کچھ مساجد ایسی بھی ہیں جو کنچنیوں کی بنوائی ہوئی ہیں یا بعض ایسے لوگوں کی بنوائی ہوئی ہیں جن کی ساری عمر ظلم و تعدّی اور دوسری بدعات میں گزری لیکن جب وہ مرنے کے قریب پہنچے تو کوئی مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا دی اور اِس کے بنوانے کے بعد اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کام کر دیا ہے اور مسجد یا کنواں یا مدرسہ یا لائبریری بنوا کر اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کر دیا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا کوئی حق نہیں کہ آخرت میں اُن سے اُن کے اعمال کے متعلق باز پُرس کرے۔ گویا اصل مالک وہ ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کا محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کی اسی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایسے جاہل اور بے وقوف ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق کہتے ہیں کہ اصل مالدار تو ہم ہیں اور اللہ تعالیٰ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ فقیر اور محتاج ہے جو اپنے دین کی اشاعت کیلئے ہم سے پیسے مانگتا ہے۱؎ یہ سب باتیںوہ تمسخر سے کہتے تھے حالانکہ جتنا لمبا سلسلہ انبیاء کا بنی اسرائیل میں گزرا ہے اور کسی قوم میں نہیں گزرا لیکن پھر بھی اُن کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا نہ ہوئی۔ وہ کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیتے تھے کہ ۲؎کہ اے موسیٰ! تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ اگر یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا نام درمیان میں کیوں لاتے ہو۔ قربانیاں ہم کریں، آدمی ہمارے مارے جائیں اور فتح اللہ تعالیٰ کے نام لگے۔ یہ ذہنیت شیطان ہر زمانہ میں لوگوں کے اندر پیدا کرتا رہتا ہے اور اُن کے دلوں میں وساوس اور شبہات پیدا کر کے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں ایک پردہ اور اِخفاء کا رنگ ہوتا ہے اِس لئے ظاہر بین نگاہوں کو انسانوں کے ہاتھ تو کام کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کے سامان اُن کی نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ آسمان پھٹے اور اُس میں سے دنیا والوں کو جبرائیل کا منہ نظر آنے لگے اور جبرائیل بآوازِ بلند یہ کہہ رہا ہو کہ اے لوگو! آدم اللہ تعالیٰ کا نبی ہے اور تمہاری طرف اُس کا پیغام لے کر آیا ہے اس کی تکذیب اور انکار نہ کرنا۔ اور ایسا بھی آج تک کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مثلاً خانہ کعبہ بنانے کا ارادہ کیا ہو اور شام کے وقت میکائل آسمان سے سر نکال کر دنیا والوں کو آواز دے کہ اپنے اپنے سر بچالو اور کمروں کے اندر بیٹھ جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان سے خانہ کعبہ کے بنانے کے لئے روپوں کی تھیلیوں کی بارش کرنے لگا ہے۔ نہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں ایسا ہوا، نہ حضرت نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت کرشن ؑ اور رام چندرؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا، نہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں ایسا ہوا اور نہ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے دین کی اشاعت اور دین کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے آسمان سے روپوں کی بارش کی ہو یا آسمان سے مؤمنوں کے لئے بیجوں کی بارش کی ہو اور وہ خود بخود رات کو اُگ کر صبح تک بڑے بڑے درخت بن گئے ہوں۔ یا اللہ تعالیٰ کے کسی نبی کو اشتہار چھپوانے کی ضرورت پیش آئی ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے چھپے ہوئے اشتہار اُس کی ضرورت کے مطابق پھینک دیئے ہوں۔ یا لڑائی کا موقع ہو اور گھوڑوں اور نیزوں کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے گھوڑوں اور نیزوں کی بارش کی ہو، نہ کبھی آج تک ایسا ہوا اور نہ آئندہ ایسا ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی یہ سارے سامان مہیا کیا کرتا ہے لیکن بنی اسرائیل کی ذہنیت یہ تھی کہ ہم خدا تعالیٰ کا کام کیوں کریں اللہ تعالیٰ خود کرے۔ چنانچہ باوجود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مان لینے کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف رنگوں میں وہ حُجّت بازی کرتے رہے۔ گو الفاظ تبدیل کر لیتے تھے کبھی کہہ دیتے تھے کہ جا تُو اور تیرا رَبّ جا کر لڑو فتح ہو جائے تو ہمیں آ کر بتا دینا ہم آ جائیں گے، کبھی کہہ دیتے کہ خدا تعالیٰ تمہیں روپے نہیں دیتا کہ ہم سے مانگتے ہو، کیا خدا تعالیٰ فقیر ہے کہ ہم اُس کے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے اپنا مال خرچ کریں؟ اور یہ بات صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ آج مسلمان کہلوانے والوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں اپنے آپ کوشامل کرنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت کا سوال ہو تو کہتے ہیں کہ جس نے اسلام بھیجا ہے وہی اِس کو برتر اور غالب کرنے کے سامان پیدا کرے گا ہمارے ہاتھوں کچھ نہیں بنے گا۔ اگر اسلام کے لئے مال کی ضرورت ہو تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو خود پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی ہم چندہ کہاں سے دیں، اگر غریبوں کی غربت دور کرنے کا سوال ہو تو کہتے ہیںکہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ خود غربت دُور کرنے کے سامان کرے ہم کیوں کریں۔ لیکن جب مرنے لگتے ہیں تو کوئی مسجد یا کنواں یا مہمان خانہ یا امام باڑہ بنوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں اب ہمیشہ کے لئے ہمارے سامنے نیچی رہیں گی اور وہ قیامت کے دن ہم سے محاسبہ نہیں کر سکے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل کی ایک بہن غیر احمدی تھیں وہ آپ سے ملنے کے لئے ایک دفعہ قادیان آئیں، آپ نے اُن کو تبلیغ کی اور بعض باتیں سکھائیں کہ جا کر اپنے پیر صاحب سے پوچھنا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ دوبارہ قادیان آئیں تو حضرت خلیفہ اوّل سے کہنے لگیں کہ ہمارے پیر صاحب کہتے ہیں کہ ہم جانیں اور ہمارا کام ہم قیامت کے دن تمہارے ذمہ دار ہوں گے اور تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں جنت میں چھوڑ آئیں گے۔ ہم قیامت کے دن تمہارے وکیل ہوں گے اور وکیل خود بحث کیا کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک وکیل ہی بحث کیا کرتا ہے لیکن اگر بحث میں وکیل سے کوئی بات پوچھی جائے اور وکیل کے پاس وجہ معقول ہو تو وہ جواب دے سکتا ہے لیکن اگر اُس کے پاس وجہ معقول نہ ہو تو وہ کیا جواب دے گا؟ یا اگر جواب دیتا ہے اور وہ غلط نکلتا ہے تو وکیل کا کیا نقصان ہوگا نقصان تو مؤکّل کا ہی ہوگا۔ یہ باتیں آپ کی بہن نے جا کر پیر صاحب کے سامنے بیان کیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تیرے ذہن کی باتیں نہیں بلکہ تجھے یہ باتیں نورالدین نے سکھائی ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ تم فکر نہ کرو جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سے پوچھے گا تو ہم کہیں گے کہ اس کے ذمہ دار ہم ہیں اِس کا حساب ہم سے لیا جائے ’’پھر تسیں دگڑ دگڑ کردے ہوئے جنت وچ چلے جاناں‘‘ یعنی پھر تم دَگڑ دَگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا۔ انہوں نے کہا پیر صاحب! سوال تو آپ کا ہے کہ آپ جنت میں کیسے داخل ہونگے؟پیر صاحب نے جواب دیا ہمارا کیا ہے جب آپ لوگ جنت میں چلے جائیںگے تو اللہ تعالیٰ ہم سے کہے گا کہ ان کو تم نے جنت میں بھیج دیا ہے اب تم بولو۔ تو ہم کہیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا مذاق ہو رہا ہے کیا ہمارے نانا امام حسین کی قربانی کافی نہ تھی کہ آج ہمیں اعمال بجالانے کے لئے دِق کیا جاتا ہے؟ اِس پر ہمیں اللہ تعالیٰ بغیر حساب لئے جنت میںداخل کر دیگا۔
میں سمجھتا ہوں یہ خیالات لوگوںمیں اِسی لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ نجات ہمارے اپنے اعمال سے وابستہ ہے یہی وجہ ہے کہ اگر وہ کوئی نیکی کا کام کرتے بھی ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایک احسان سمجھتے ہیں اور یہی ذہنیت ہے جو نیکیوں پر استقلال اور دوام کی عادت پیدا نہیں ہونے دیتی۔ لوگ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کر کے بھی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر بڑا احسان کر دیا ہے اور احسان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ برابر ہوتا ہے۔ گویا وہ اللہ تعالیٰ کو رشوت دیتے ہیں۔ جس طرح کسی شخص کے پاس ٹکٹ نہ ہو اور وہ ریل گاڑی میںسفر کر رہا ہو اور ٹکٹ چیک کرنے والا آجائے تو وہ بجائے پورا کرایہ ادا کرنے کے کچھ رشوت دے کر ٹکٹ چیکر کو خاموش کر ادے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے وہ اِس ایک نیکی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی آنکھیں نیچی کرنا چاہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم ساری عمر بھی نیکیاں کرتے چلے جائیں تو بھی ہماری ذمہ داری ادا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو کچھ دیر کام کرنے کے بعد کچھ عرصہ قربانی کرنے کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے اندر سُستی اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے اور اِس اَمر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن کوپھر بیدار کیا جائے اور اُن کو ذمہ داریوں کا اِحساس دلایا جائے ایسے لوگوں کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ایک شخص ساری عمر بھی کھانا کھاتا ہے لیکن صرف دس دن کھانا نہ کھائے تو وہ یا تو مر جائے گا یا مرنے کے قریب پہنچ جائے گا۔ اگر ایک شخص ہزار سال میں نو سَو ننانوے سال اور تین سَو پچاس دن تک کھانا کھاتا رہے لیکن صرف دس پندرہ دن نہ کھائے تو اُس کا پچھلا کھایا ہوا آئندہ نہ کھانے والے دنوں میں کام نہیں آئے گا۔ یہی حال انسان کی روحانی زندگی کا ہے اگر اس کو روحانی غذا نہ ملے تو ایسے شخص کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے اور وہ یا تو مر جاتا ہے یا مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی حالت کی طرف توجہ کرے اور توبہ و استغفار کرے تو اسے اللہ تعالیٰ موت کے گڑھے سے نکال لیتا ہے اور اگر توجہ نہ کرے اور اپنی اصلاح کے لئے نیکی کی طرف قدم نہ اُٹھائے تو اُس پر موت وارد ہو جاتی ہے۔ پس تھوڑا سا کام کر کے یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی آخرت کے لئے بہت کچھ کر لیا ہے یہ محض نفس کا دھوکا ہے۔ یہ ایسی ذہنیت ہے جو عملی حالت کو خراب کر رہی ہے اور اگر ہماری جماعت بھی اِس رَو میں بہہ جائے تو یہ قابلِ افسوس بات ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں کہ نمازوں میں پھر سُستی پیدا ہو رہی ہے۔ آج اِس مسجد میں پہلے سے آدھی قطاریں نماز پڑھنے والوں کی ہیں میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ تو بیمار نہیں ہوگیا۔ وہ تو دیکھتا ہے کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ دوست آج محلوں میں جا کر لوگوں سے پوچھیں کہ کیا میرے بیمار ہونے سے اللہ تعالیٰ بھی بیمار ہو گیا ہے کہ لوگ نماز پڑھنے کے لئے نہیں آتے۔ کیا اب اللہ تعالیٰ ان کو دیکھ نہیں رہا جیسے پہلے دیکھتا تھا کہ کون مسجد میں آیا ہے اور کون نہیں آیا۔ یا ان کو ضرورت نہیں رہی کہ وہ اس مسجد میں آ کر نماز ادا کریں۔ میرے نزدیک نہ آنے والے لوگوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے سکول کے بچوں کی ہوتی ہے۔ اگر استاد کی توجہ کسی دوسری طرف ہو جائے یا استاد کلاس میں نہ رہے تو بچے تختیاں رکھ کر آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے کام کو بھول جاتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ میں تو مسجد میں آتا نہیں اس لئے انہیں مسجد میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ بچے تو نادان ہوتے ہیں اس لئے وہ دوسری طرف مشغول ہو جاتے یا آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں لیکن مومن تو بہت عقلمند اور بیدار مغز ہوتا ہے اس کا مقصد ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہنا چاہئے۔ بیشک استاد کی غیر حاضری میں بچے جو کچھ کرتے ہیں اسے ان باتوں کا علم نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اُسے انسان کی ہر حالت کا علم ہوتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون کون مسجد میں آیا ہے اور کون کون نہیں آیا۔ لیکن اگر بفرضِ محال اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرلے کہ میں آج مسجد میں جھانکوں گا تو گو اللہ تعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے اُس کے لئے تو یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی وقت نہ دیکھے لیکن اگر محال کے طور پر فرض بھی کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کو روک دے اور مسجد میں نہ دیکھے تو بھی نقصان اُسی شخص کا ہوا جو نماز کے لئے نہیں آیا کیونکہ وہ نماز کے ثواب سے محروم ہو گیا۔ اور میرے نزدیک تو مسجد میں نہ آنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالے یا اپنے کانوں کو بند کر دے یا اپنی زبان کاٹ ڈالے یا اپنے دانت توڑ دے یا اپنی ناک کاٹ لے۔ جو شخص اپنے ان اعضاء کو کاٹتا ہے وہی دُکھ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح نمازیں بھی انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ نمازوں میں سُستی کرنا اپنے روحانی اعضاء کو کاٹنے کے مترادف ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو جو نہ آنکھیں رکھتا ہو، نہ کان رکھتا ہو، نہ ناک رکھتا ہو، نہ زبان رکھتا ہو، نہ ہاتھ رکھتا ہو جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ اس سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ جیسے کسی لُولے لنگڑے اور اندھے شخص کو شالامار باغ میں بٹھا دیا جائے تو وہ اُس سے کیا لطف حاصل کرسکے گا۔ اسی طرح جس شخص کے روحانی اعضا ء کام نہیں کرتے تو اُسے اگر جنت میں بھی داخل کر دیا جائے تو وہ جنت سے کیا لطف اُٹھائے گا۔ گو ایسے آدمی کا جس کے روحانی اعضاء کام نہ کرتے ہوں جنت میں جانا ناممکن ہے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص فرشتوں کو دھوکا دے کر جنت میں چلا بھی جائے تو وہ اندھا، لُنجا اور لنگڑا شخص جنت میں جا کر کیا کرے گا۔ اس کی آنکھیں نہیں کہ جنت کے نظاروں کو دیکھ سکے، اُس کے کان نہیں کہ جنت کی عمدہ آوازوں کو سن سکے، اُس کی زبان نہیں کہ جنت کے ثمرات کو چکھ سکے، اُس کے ہاتھ نہیں کہ کسی کو چھو کر اُس کی لطافت کو محسوس کر سکے جنت سے تو وہی لطف اُٹھا سکتا ہے جس کی نمازیں باقاعدہ ہوں، جس کے چندے باقاعدہ ہوں، اور وہ تقویٰ کی تمام راہوں پر گامزن ہو کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو انسان کے روحانی اعضاء ہیں۔ جس نے ان میں سُستی اختیار کی گویا اُس نے اپنے روحانی اعضاء کاٹ ڈالے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۳؎ کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا۔
قرآن مجید کا یہ طریق ہے کہ وہ بات کو نہایت اختصار سے بیان کرتا ہے اور یہ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ بات ایک جزو کے متعلق کرتے ہیں مگر تمام اجزاء مراد ہوتے ہیں۔ اِس آیت کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ۴؎ یعنی ان کے سینوں میں ظاہری طور پر دل تو موجود ہیں لیکن وہ ان سے کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھوں میں ظاہری طور پر ڈیلے تو موجود ہیں لیکن وہ اُن سے دیکھتے نہیں اور ان کے ظاہری طور پر کان تو ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ یہ کافر کی علامت ہوتی ہے کہ وہ روحانی لحاظ سے بالکل اندھا، بہرہ اور گونگا ہوتا ہے۔ وہ ظاہری آنکھیں رکھنے کے باوجود نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کے کیا کیا نشانات ظاہر ہو رہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی نصرت کر رہا ہے، وہ ظاہری کان رکھنے کے باوجود نہیں سنتا۔ ہر طرف سے صداقت اور سچائی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں، چاروں طرف لوگ سچائی کا بآوازِ بلند اقرار کرتے ہیں لیکن اُس کے کانوں میں آواز نہیں پہنچتی، اُس کے پاس دل ہوتا ہے لیکن وہ صرف ایک گوشت کی بوٹی ہوتی ہے۔ جو کام دل کا ہوتا ہے کہ وہ کسی بات کے متعلق فیصلہ کرے اور اُس پر مضبوطی سے قائم ہو جائے یہ بات اس میں نہیں ہوتی۔ پھر کافر گونگا ہوتا ہے یعنی حق کے مقابلہ میں کوئی بات اُس کے منہ سے نہیں نکلتی وہ حق کے مقابلہ میں حیران و ششدر ہو جاتا ہے۔ پس سے مراد صرف آنکھوں کا اندھا پن نہیں بلکہ دوسری آیات جو اسی مضمون کی ہیں وہ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی طور پر اندھا ہے وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَصَمّہے وہ شخص اگلے جہان میں بھی اَصَمّ ہوگا، جو شخص اس جہان میں روحانی طور پر اَبْکَمُ ہے وہ اگلے جہان میں بھی اَبْکَمُ ہوگا ۔نام ایک عضو کا لیااور مراد اِس سے تمام اعضاء ہیں۔ پس جس شخص کی نہ آنکھیں ہوں، نہ کان ہوں، نہ زبان ہو، نہ ناک ہو، نہ ہاتھ ہوں وہ جنت سے کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے متعلق فرماتے ہیں جنت ایسی چیز ہے کہ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ۵؎ نہ آنکھوں نے اسے دیکھا نہ کانوں نے کبھی اس کی حقیقت کو سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا تصور آ سکتا ہے۔ یہی تینوں الفاظ ہیں جو قرآن مجید نے بیان فرمائے ہیں۔ لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَاوَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّیُبْصِرُوْنَ بِھَا۔ وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا کے مقابل پر مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ فرمایا اور وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَّیَسْمَعُوْنَ بِھَا کے مقابل پر وَلَااُذُنٌ سَمِعَتْ فرمایا۔ اور لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَّیَفْقَھُوْنَ بِھَا کے بِالمقابل وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فرمایا۔ یعنی وہ چیزیں ایسی ہیں کہ مؤمن ان چیزوں کو اِس جہان میں نہیں دیکھتا مگر اگلے جہان میں دیکھے گا۔ لیکن کافر اِس جہان میں بھی نہیں دیکھتا اور اگلے جہان میں بھی نہیں دیکھے گا۔ مؤمن کو ایسی آنکھیں دی جائیں گی جو جنت کی چیزوں کو دیکھیں گی، اُن سے لطف اندوز ہوں گی ۔اور اگلے جہان میں مؤمن کو ایسے کان ملیں گے جو جنت کی عمدہ آوازوں کو سُن کر لذت اُٹھائیں گے۔ اور مؤمن کو اگلے جہان میں ایسا دل ملے گا جو جنت کی نعماء سے لذت اندوز ہوگا۔ کافر کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہوں گی کیونکہ وہ روحانیت کے لحاظ سے اِس دنیا میں بھی اندھا تھا اور اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ وہ روحانیت کے لحاظ سے اس جہان میں بھی بہرہ تھا اور وہاں بھی بہرہ ہی ہوگا۔ اس کا دل اس جہان میں بھی روحانیت کی باتوں سے ناآشنا تھا اور اگلے جہان میں بھی جنت کی لذات سے ناآشنا ہوگا۔ جو حالت اس کی اس جہان میں ہے وہی حالت اگلے جہان میں ہوگی۔ میرے خیال میں یہ حدیث اِسی آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں کچھ ایسے حواس دیئے جائیں گے جو اِن حواس کے مشابہہ ہونگے جو اِس وقت ہم رکھتے ہیں تو وہ حواس بہت لطیف ہوں گے۔ اور جنت میں کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کو دیکھ کر آنکھیں لذت اُٹھائیں گی، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے کان لذت اُٹھائیں گے، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے قلب محظوظ ہوگا، کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن سے زبان لذت پائے گی۔ مثلاً جنت میں ثمرات وغیرہ کھانے کو ملیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ جنتی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کہیں گے ۶؎لیکن جس شخص کے حواس دنیا میں کام نہیں کرتے اور وہ روحانی نعمتوں سے محروم ہیں وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ پس جو شخص سوچ سمجھ کر اعمال بجا لاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی نیکی سے محروم نہ رہے اُسے ہر نماز کے ذریعہ ایک نئی طاقت دی جاتی ہے۔ اگر وہ حج کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر زکوٰۃ دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے۔ اگر وہ کسی کو تعلیم دیتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ نیک بات کسی کو کہتا ہے تو اسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی کی تربیت کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ اچھے کلمے کی کسی کو تلقین کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ ظلم و تعدی کو دور کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے،اگر وہ کسی یتیم یا بیوہ کے بوجھ کاکفیل بنتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، اگر وہ کسی مصیبت زدہ کی مدد کرتا ہے تو اُسے ایک نئی طاقت عطا کی جاتی ہے، ہر نیکی جو انسان کرتا ہے اس کے ذریعہ وہ اپنی ایک نئی حِس اور نئی طاقت کو زندہ کرتا ہے جو جنت میں اس کے کام آنے والی ہے۔ جتنی نعمتیں جنت میں ہیں اگر انسان چاہے کہ ان سب سے لطف اُٹھائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مقابل پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔ جس طرح انسان دنیا میں اچھے نظارے دیکھ کر لطف اُٹھاتا ہے۔ ناک سے خوشبو سونگھ کر یا کانوں سے اچھی آوازوں کو سُن کر لطف اندوز ہوتا ہے یا زبان سے چکھ کر لذت اُٹھاتا ہے۔ اور ہر ایک چیز کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں قسمیں ہوتی ہیں۔ نظارے دنیا میں ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اسی طرح خوشبوئیں بھی ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور چیزوں کے ذائقے بھی ہزاروں قسم کے ہیں۔ ہر ایک آدمی کا ذوق مختلف ہوتا ہے بعض آدمی تُرش چیز کو پسند کرتے ہیں لیکن بعض آدمی تُرش چیز کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتی اور جن کو تُرش چیز پسند ہے وہ بھی سارے کے سارے کسی ایک چیز کو پسند نہیں کرتے بلکہ مختلف طبائع مختلف چیزوں کو پسند کرتی ہیں کیونکہ تُرش چیزیں کوئی ایک دو قسم کی نہیں بلکہ ہزاروں قسم کی ہیں بعض مٹھاس کو پسند کرتے ہیں، آگے مٹھاس کی بھی ہزاروں قسمیں ہیں، بعض کو گڑ پسند ہوتا ہے، بعض آم کو پسند کرتے ہیں، بعض کو زردہ پسند ہوتا ہے، بعض کو فیرنی پسند ہوتی ہے۔یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن کسی کو کوئی میٹھی چیز پسندہوتی ہے اور کسی کو کوئی۔ اسی طرح جنت کی نعمتیں بھی لاکھوں کروڑوں قسم کی ہوں گی مگر ان کے مقابل پر انسان کو بھی کروڑوں کروڑ نیکیاں کرنی چاہئیں۔
قرآن مجید سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مؤمنوں کے لئے افتراق اور جُدائی کو پسند نہیں فرمایا۔ پس وہاں اعلیٰ اور ادنیٰ کا امتیاز اس رنگ میں باقی نہیں رہے گا کہ وہ ایک دوسرے سے جُدا رہیں بلکہ ان کو ایک درجہ میں جمع کر دیا جائے گا۔ مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء بھی جنت کی لذات سے اسی طرح سَوفیصدی لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ چونکہ جذباتی لحاظ سے انسان پر اس کے پیاروں کی جُدائی شاق گزرتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ادنیٰ اور اعلیٰ کے امتیاز کو مٹا کر ایک ہی مقام میں اُن کو جمع کر دے گا مگر اِس کے باوجود اُن میں مدارج کا امتیاز ہوگا ۔ایک ہی پلیٹ سے دو آدمی کھانا کھاتے ہیں تو ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ہر روز گھر میں کھانا پکتا ہے، میاں، بیوی، بچے اور دوسرے رشتہ دار اُسے کھاتے ہیں مگر کیا وہ سارے کے سارے ایک سا مزہ اُٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سب کے سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں پس مشارکت سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ سب مزہ اُٹھانے میں بھی برابر ہوں۔ جنت میں مشارکت بھی ضروری ہے کیونکہ اگر سارے رشتہ داراِن نعمتوں میں شامل نہ ہوں تو جنت پورا انعام نہیں کہلا سکتی۔ باپ کہے گا میرا بیٹا میرے پاس نہیں ہے، بیوی کہے گی میرا خاوند میرے پاس نہیں ہے، خاوند کہے گا کہ میری بیوی میرے پاس نہیں ہے، بیٹا کہے گا میرے ماں باپ میرے پاس نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سب کو جمع کر دے گا مگر باوجود ایک جگہ جمع ہونے کے ضروری نہیں کہ وہ سب جنت کی نعمتوں سے ایک جیسا لُطف اُٹھائیں۔ جیسا کہ ہمارے گھروں میں عام طور پر ایک ہی کھانا پکتاہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ بیوی خاوند کیلئے تو پلاؤ پکائے، بچوں کیلئے قورما پکائے اور اپنے لئے دال پکائے، کوئی آدمی بھی گھر میں اس تفریق کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن باوجود اس کے کہ وہ سب ایک ہی کھانے میں شریک ہوتے ہیں اُن کے ذوق اور اُن کے مزے میں اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہے تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا، اگر کسی کے دانت نہیں تو وہ اور مزہ اُٹھائے گا اور جس کے دانت بھی ہیں اور صحت بھی ٹھیک ہے وہ اس سے اور مزہ اُٹھائے گا حالانکہ کھانا ایک ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور رشتہ دار اور مقرب صحابہؓ وغیرہ کھانے میں آپ کے شریک ہوں گے تا کہ اُن کے دلوں کو ٹھیس نہ لگے لیکن ہر ایک ان میں الگ الگ مزہ لے رہا ہوگا اس لحاظ سے ان میں فرق بھی ہوگا اور درجات کا امتیاز بھی باقی ہوگا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھی سَوفیصدی اُسی طرح جنت سے لُطف اُٹھائیں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لُطف اُٹھا رہے ہونگے تو جنت کے مدارج باطل ہو جاتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے کا امتیاز باقی نہیں رہتا حالانکہ یہ امتیاز موجود ہوگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ دوسرے لوگ مزہ میں سَوفیصدی تب شامل ہوسکتے ہیں کہ ان کے اعمال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعمال کے برابر ہوں لیکن ہم میں سے ہر ایک شخص جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعمال کے لحاظ سے تمام انبیاء سے ارفع اور اعلیٰ ہیں۔ پھر باقی انبیاء آپ کے ساتھ جنت کی نعماء میں سَوفیصدی کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔
اِس نکتہ کو یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اِس دنیا میں اپنے اعمال کے ذریعہ جیسا ذوق پیدا کریں گے اسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائیں گے اور ہر نیکی جس کے کرنے میں کوتاہی سے کام لیں گے ہم اپنے ہاتھ سے اُس نعمت کا دروازہ اپنے اوپر بند کریں گے۔اِس نکتہ کو پہلے لوگوں میں سے بھی کسی نے بیان نہیں کیا۔ جہاں تک میں نے صوفیاء کی کتابیں پڑھی ہیں کسی نے اِس بات کے متعلق بحث نہیں کی اور نہ اِس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ غرض جنتیوں کے اتصال اور اتحاد سے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ جنتی لوگوں کو تسکینِ قلب حاصل ہو اور کوئی خلش ان کو تکلیف نہ دے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بے شک تسکینِ قلب حاصل تھی لیکن بعد میں آنے والے دل میں ایک چبھن محسوس کرتے ہیںکہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے، ہم بھی آپ کا زمانہ دیکھتے، ہم بھی آپ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے لیکن جنت میں اِس قسم کی کوئی خلش باقی نہیں رہے گی۔ پس جنت میں اِتحاد اور اِتصال بھی ہوگا اور وہ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ سب رشتہ داروں کو ایک جگہ جمع کر دے گا تا کہ جُدائی ان کو تکلیف نہ دے لیکن ان میں مدارج کا امتیاز بھی باقی رہے گا اور وہ اس طرح کہ ہر ایک ان میں سے اپنے اپنے ذوق اور اپنی اپنی حِس کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اُٹھائے گا۔
پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس جس حِس کو انسان دنیا میں تقویت دے گا اُسی کے مطابق جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا اور انسان کی حِسیں اِس دنیا میں اِس طرح تیز ہو سکتی ہیں کہ انسان محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کے لئے اعمال بجا لائے اور اعمال کے بجالانے میں اِستقلال اور دوام اختیار کرے۔ جب تک اعمال میں اِستقلال اور مداومت کا رنگ نہ ہو اُس وقت تک وہ انسان کی روحانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ کچھ دن تک التزام سے نماز پڑھنا پھر چھوڑ دینا، کچھ دن اصلاح و ارشاد کے کام میں جوش دکھانا پھر خاموشی اختیار کر لینا، کچھ دن تک قربانی کرنا اور پھر تھک جانا یہ ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی روحانی زندگی خطرہ میں ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پورے طور پر اُنہیں لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اعمال بجا لاتے ہیں اور اِس بات کے محتاج نہیں ہوتے کہ نبی یا خلیفہ اُن کو بار بار توجہ دلائے۔ وہ اِس بات کا خیال نہیں کرتے کہ کسی بڑے آدمی نے تحریک کی ہے یا کسی چھوٹے آدمی نے، بلکہ وہ ہر نیک تحریک پر خواہ وہ نبی کی طرف سے ہو یا خلیفہ کی طرف سے ہو یا اُس کے کسی نائب کی طرف سے ہو لَبَّیْکَ کہنے کیلئے تیار رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ لوگ نبی یا خلیفہ کی خاطر کام کریں۔ موحّد قوم وہی ہوتی ہے کہ خواہ نبی یا خلیفہ زندہ رہے یا فوت ہو جائے اُس کے اخلاص میں اور اُس کے جوش میں کمی نہ آئے بلکہ وہ اُسی جوش اور اخلاص سے کام کرتی چلے جائے جس جوش اور اخلاص سے وہ پہلے کام کرتی تھی ۔اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم پورے طور پر موحّد ہو اُسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔ نہ حکومتیں اسے کوئی گزند پہنچا سکتی ہیں اور نہ بادشاہتیں اُس کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ہمیشہ شرک ہی قوموں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔
پس دوستوں کو اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ آپ لوگوں کے اعمال میں کسی قسم کی ملونی نہ ہو اور ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں مداومت اختیار کریں اور کسی بات کے متعلق بھی آپ لوگوں کو بار بار توجہ دلانے کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک آواز ہی آپ کے لئے کافی ہوجو قوم اِس بات کی عادی ہو کہ اُسے بار بار بیدار کیا جائے اسے اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ انبیاء اور خلفاء تو اللہ تعالیٰ کی سواریاں ہوتے ہیں جو بوقتِ ضرورت بندوں کو عطا کی جاتی ہیں اور وہ بڑی حد تک جماعتوں کے بوجھوں کو اُٹھاتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سہولت کے لئے اپنے بندوں کو یہ سواریاں دے دے تو یہ اُس کا احسان ہوتا ہے اور اگر یہ سواریاں نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کی جماعتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اِن بوجھوں کو خود اُٹھائیں۔ اگر کسی والد کو اپنا بچہ اُٹھا کر لے جانے کے لئے سواری نہ ملے تو وہ اُس کو پھینک نہیں دیتا بلکہ خود اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ اور موت فوت کا سلسلہ تو انسانوں کے ساتھ جاری ہے اِس لئے نہ کسی انسان پر بھروسہ کرنا جائز ہے اور نہ بھروسہ کرنا چاہئے۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ کے لوگوں کے لئے بہت بڑے ابتلاء کی صورت پیدا ہوگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُس وقت مدینہ میں موجود نہ تھے۔ آپ جب مدینہ میں آئے تو آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہوا اور آپ کو لوگوں کی حالت کا بھی علم ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مَحَمَّدًاﷺ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ ۷؎ کہ جو شخص تم میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا یعنی آپ کی خاطر نماز پڑھتا تھا یا آپ کی خاطر روزہ رکھتا تھا یا آپ کی خاطر زکوٰۃ دیتا تھا اُسے جان لینا چاہئے کہ اُس کا معبود فوت ہو گیا ہے اور اب اُسے ان اعمال کے بجا لانے کی ضرورت نہیں۔
وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ۸؎ اور جو شخص تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے احکام پر عمل کرتا تھا اُسے اب بھی یہ اعمال کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی۔
پس جن لوگوں میں یہ کیفیت پیدا ہو جائے کہ خواہ کوئی زندہ رہے یا فوت ہو اُن کے اعمال میں کوئی کمی واقعہ نہ ہو یہی لوگ موحّد ہوتے ہیں اور جب توحید کی روح قوم میں سے مٹ جائے تو قوم بھی مٹ جاتی ہے۔ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کا سپرد کردہ کام چھوڑ دیا تھا؟ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ ہم نے نہایت اخلاص سے جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے اخلاص کو قبول فرمایا اور ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ ترقی عطا کی گئی۔ اگر آئندہ بھی جماعت اِس روح کو قائم رکھے کہ کسی کی موت کی وجہ سے ان میں سُستی پیدا نہ ہو بلکہ وہ اپنے کام کو پہلے کی نسبت زیادہ ہمت کے ساتھ کرتی چلی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ ترقیات دے گا۔ پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جس قوم میں توحید زندہ ہے وہ قوم زندہ رہے گی اور جس قوم میں سے توحید مٹ جائے گی وہ قوم بھی مٹ جائے گی۔
(الفضل ۲۹؍ جون ۱۹۶۰ء)
۱؎ (اٰل عمران:۱۸۲)
۲؎ المائدہ: ۲۵ ۳؎ بنی اسرائیل: ۷۳ ۴؎ الاعراف: ۱۸۰
۵؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ… (الخ)
۶؎ البقرۃ: ۲۶
۷،۸؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ۔ باب قول النبیﷺ لوکنت متخذا خلیلا…


آئندہ الیکشنوں کے متعلق
جماعت احمدیہ کی پالیسی




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعتِ احمدیہ کی پالیسی
(رقم فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے تھوڑے ہی دنوں میںتمام ہندوستان میں پہلے تو ہندوستان کی دونوںکونسلوں کے لئے ممبروں کے انتخاب کی مہم شروع ہونے والی ہے اور اِس کے بعد صوبہ جاتی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی باعزت سمجھوتہ ہو جائے اور ملک میں محبت اور پیار اور تعاون کی روح کام کرنے لگے مگر افسوس کہ اِس وقت تک ہم اِس غرض میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
شملہ کانفرنس ایک نادر موقع تھا مگر اسے بھی کھو دیا گیا اور بعض لوگوں نے ذاتی رنجشوں اور اغراض کو مقدم کرتے ہوئے ایسے سوال پیدا کر دیئے کہ ملک کی آزادی کئی سال پیچھے جا پڑی اور چالیس کروڑ ہندوستانی آزادی کے دروازہ پر پہنچ کر پھر غلامی کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
جہاں تک میں نے سوچا ہے اصل سوال ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کا ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے مفاد نظر انداز کئے جا سکتے ہیں بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ دوسری اقوام کے مفاد اِس جھگڑے کے طے ہو جانے پر نسبتاً سہولت سے طے ہو سکتے ہیں۔ سب سے مشکل سوال ہندو مُسلم سمجھوتے کا ہی ہے اور یہ سوال پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے مسائل سے بہت پہلے کا ہے۔ اصل مسائل وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا ذہن پاکستان کی طرف پھیرا ہے اور اکھنڈ ہندوستان کے خیالات کے محرک بھی وہی مسائل ہیں جو اِس سے پہلے مسلمانوں کے مطالبات کو ردّ کرانے کا موجب رہے ہیں۔ کسی شاعر نے جو کچھ اِس شعر میں کہا ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
وہی حال اِس وقت پاکستان اوراکھنڈ ہندوستان کے دعووں کاہے۔ پس اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جا سکیں تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہوگا ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں، پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شُبہ ہی نہیں۔ اِس ہندو مسلمان سمجھوتے کی ممکن صورت یہی ہو سکتی تھی کہ ایک جماعت مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور ایک جماعت ہندوؤں کی نمائندہ ہو یا ہندوؤں کی اکثریت کی نمائندہ تو نہ ہو یا ایسا کہلانا پسند نہ کرتی ہو مگر اکثر ہندوؤں کی طرف سے سمجھوتہ کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور یہ دونوں جماعتیں مل کر آپس میں فیصلہ کر لیں۔ شملہ میں ایساموقع پیدا ہو گیا تھا مسلمانوں کی طرف سے مُسلم لیگ اور ہندوؤں کے جذبات کی نمائندگی کے لئے کانگرس ایک مجلس میں جمع ہوگئی تھیں مگر افسوس کہ یہ اجتماع مزید افتراق کا موجب بن گیا۔
کانگرس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب اقوام کے حقوق کی محافظ ہے اور ہم اِس دعویٰ کو ردّ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیںکرتے مگر باوجود اِس کے کانگرس اِس امر کا انکار نہیں کر سکتی کہ جو مسلمان یا سکھ یا عیسائی کانگرس میں شامل ہیں وہ مسلمانوں یا سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں۔ پس کانگرس اگر یہ دعویٰ کرے کہ ہم جو سوچتے ہیں یا ہم جو سکیم بناتے ہیں اِس میں اُسی طرح سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا خیال رکھتے ہیں جس طرح ہندوؤں کا خیال رکھتے ہیں تو بحث ختم کرنے کے لئے ہم اِس دعویٰ کو بھی سچا تسلیم کر لینے کے لئے تیار ہیں لیکن کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کا دیانت داری سے خیال رکھنا یا ایسا کرنے کا دعویدار ہونا اُسے اُس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا۔ کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش ہو سکتا ہے کہ میں مدعی یا مدعا علیہ کے مقرر کردہ وکیل سے زیادہ سمجھ اور دیانت داری سے اس کے حقوق کو پیش کر سکوں گا؟ کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعویٰ کو باوجود سچا سمجھنے کے قبول کر سکے گی؟ اور کیا اِس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیموکریسی، ڈیموکریسی کہلا سکتی ہے؟
ڈیموکریسی یا جمہوریت کے اصول کے لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی جماعت کی نمائندگی کرنے کا کون اہل ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جماعت کی اکثریت کس کو اپنا نمائندہ قرار دیتی ہے۔ان حالات میں کانگرس کو ہندوؤں کے سِوا تمام دوسری اقوام کا نمائندہ اسی صورت میں قرار دیا جا سکتا ہے اگر ان اقوام کے اکثر افراد کانگرس میں شامل ہوں۔ جہاں تک ہمارا علم ہے کانگرس میں ہندو قوم کی اکثریت کے نمائندے تو ہیں لیکن مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں اِس لئے خواہ کانگرس مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے حقوق کی سکیم مسلمانوں، سکھوں یا عیسائیوں کے نمائندوں سے بہتر تجویز کر سکے وہ جمہوری اصول کے مطابق مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی نمائندہ نہیں کہلا سکتی۔ لیکن باوجود غیرجانبدار اور ملکی تحریک ہونے کے ہندوؤں کی نمائندگی کر سکتی ہے کیونکہ ہندوؤں کی اکثریت اسے تسلیم کر چکی ہے۔ جب حالات یہ ہیں تو عقلاً اور جمہوری اصول کے مطابق قطع نظر اِس کے کہ کانگرس کی سکیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بہتر ہے یا مُسلم لیگ کی سکیم، مُسلم لیگ کی سکیم ہی کو مسلمانوں کی پیش کردہ سکیم سمجھا جائے گا اور کانگرس کو یا تو میدان چھوڑ کر ہندو مُسلم سمجھوتے کیلئے ہندو مہاسبھا اور مُسلم لیگ کو باہمی سمجھوتے کی دعوت دینی ہوگی یا پھر خود ہندو اکثریت کی نیابت میں مُسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنا ہوگا اِس کے سِوا اور کوئی معقول صورت نہیں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ اگر کانگرس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو مُسلم لیگ کے نمائندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ مُسلم لیگ کو نمائندہ قرار دینے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ گاندھی جی ایک طرف اور وائسرائے ہند دوسری طرف اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھ کر اِس سے اسلامی حقوق کے بارہ میں گفت و شنید کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ پس مُسلم لیگ نمائندہ ہے یا نہیں ہے مگر اِس میں کوئی شک نہیں کہ اب کانگرس اور گورنمنٹ اس کے سِوا کوئی دوسرا نظریہ اختیار نہیں کر سکتی۔ اگر مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا کانگرس اور حکومتِ ہند دونوں مسلمانوں کے حقوق کا ایک غیر نمائندہ جماعت کے ساتھ تصفیہ کر کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی فکر میں تھے؟ لیکن فرض کرو مُسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں تو پھر کون مسلمانوں کا نمائندہ ہے؟ کیا آزاد مسلمان کانفرنس؟ کیا احرار؟ کیا کوئی اَور جماعت جو صرف اسلامی نام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے ہوئے ہے؟ اگر اِن میں سے کوئی ایک یا سب کی سب مل کر مسلمانوں کی نمائندہ ہیں تو کیا کونسلوں میں اِن لوگوں کی کثرت ہے؟ مرکزی کونسلوں میں مُسلم لیگ کے مقابل پر ان کی کیا تعداد ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے صوبہ جاتی کونسلوں میں بھی اور مرکزی کونسلوں میں بھی غیر لیگی ممبروں کی تعداد لیگی ممبروں سے بہت کم ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبت صوبہ جاتی نسبت سے بھی کم ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ صوبہ جاتی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبتی زیادتی مقامی مناقشات اور رقابتوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اِنہی ووٹروں نے صوبہ جات میں ایک پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے اور مرکز کے لئے نمائندہ بھجواتے ہوئے دوسری پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے۔ پھر مثلاً پنجاب ہے اِس میں یونینسٹ ممبر اصولاً اپنے آپ کو مُسلم لیگ کے حق میں قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی عَلَی الْاِعْلَان تائید کرتے ہیں۔ پس ہر یونینسٹ ہندو مُسلم سمجھوتے کے سوال کے لحاظ سے درحقیقت مُسلم لیگی ہے۔ بلکہ وہ تو اِس امر کا مدعی ہے کہ مجھے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایک طبقہ نے باہر کر دیا ہے ورنہ میں تو پہلے بھی مُسلم لیگی تھا اور اب بھی مُسلم لیگی ہوں۔ اِن حالات میں صوبہ جاتی غیر لیگی ممبروں کی تعداد مُسلم لیگی ممبروں کے مقابل پر اور بھی کم ہو جاتی ہے۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں اِس وقت مسلمانانِ ہند کی اکثریت مُسلم لیگ کے حق میں ہے۔ کانگرس گورنمنٹ اور پبلک ووٹ سب کی شہادت اِس بارہ میں موجود ہے اور اِن حالات میں اگر ہندوستان میں صلح کی پائیدار بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو مُسلم لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے سے ہی رکھی جا سکتی ہے۔ مگر افسوس کہ باوجود اس کے شملہ کانفرنس کی ناکامی سے بددل ہو کر کانگرس نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہِ راست مسلمانوں کی اکثریت سے خطاب کرے گی۔ عام حالات میں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ اگر کانگرس شروع سے ہی اس نظریہ پر کاربند ہوتی تو کم سے کم میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا لیکن اب جب کہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کر چکے ہیں کانگرس کا یہ فیصلہ اُن لوگوں کے لئے بھی تکلیف دِہ ثابت ہوا ہے جو اِس وقت تک کانگرس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ مجھے کانگرس سے اختلاف ہے اور بہت سخت اختلاف ہے مگر میں اِس امر کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ہندو مُسلم اتحاد کی بنیاد ہندوؤں کی طرف سے کانگرس کے ذریعہ سے ہی پڑ سکے گی اور اس اتحاد کی آرزو میں شملہ کانفرنس کے ایام میں مجھے شکوہ مسلمان نمائندوں سے ہی پیدا ہوتا رہا ہے اور بار بار میرے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ چالیس کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے اگر مسلمان اپنے کچھ اور حق چھوڑ دیں تو کیا حرج ہے لیکن کانگرس کے اِس اعلان نے کہ اب وہ مُسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلمان افراد سے خطاب کرے گی میرے جذبات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سُرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اِس کے معنی مُسلم لیگ کی تباہی نہیں بلکہ مُسلم کیریکٹر اور مُسلم قوم کی تباہی ہے۔ پس اُسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جب تک یہ صورتِ حالات نہ بدلے ہمیں مُسلم لیگ یا مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے۔ گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان ہی کے قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہو، تا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو مگر ہم اِس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہو سکتا ہے اور نہ ہندوستان اِس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے۔
میں نے یہ اُمور اس لئے بیان کئے ہیں تا ہماری جماعت اور ہندوستان کی دوسری جماعتیں میری اِس رائے کو بخوبی سمجھ سکیں جو میں آئندہ انتخابات کے متعلق دینے والا ہوں۔ جو صورتِ حالات میں نے اوپر بیان کی ہے، اُس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مُسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے تا انتخابات کے بعد مُسلم لیگ بِلاخوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں اِن کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکہ مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک اِن کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند آدمی اِس حالت کی ذمہ داری اپنے پر لینے کو تیار ہو۔ پس میں اِس اعلان کے ذریعہ سے پنجاب کے سِوا (جس کی نسبت میں آخر میں کچھ بیان کروں گا) تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مُسلم لیگ کی مدد کریں اِس طرح کہ:
۱۔ جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مُسلم لیگی امیدوار کو دیں۔
۲۔ میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر احمدی بھی اِن کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پنجاب کے باہر کے تمام احمدی اپنے ووٹ مُسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ اِن کے زیر اثر ہیں اُن کے ووٹ بھی مُسلم لیگ کے امیدواروں کو دلائیں۔
۳۔ ہماری جماعت چونکہ اعلیٰ درجہ کی منظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر لوگوں کے دلوں کو ہِلا دیتے ہیں۔ مَیں ہر احمدی سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر سے باہر جا کر اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو آنے والے الیکشن میں مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اِس قدر زور لگائے کہ اُس کے حلقۂ اثر میں مُسلم لیگ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد کیا مرد اور کیا عورتیں، مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جا کر اُن کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے اور اِس امر کو اِس قدر اہم سمجھیں گے کہ تمام جگہوں پر مُسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مُسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا بلکہ کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اِس کام میں مقامی مُسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے اور جائز ہوگا کہ وہ اِس کے ممبر ہو جائیں اگر ان کے نزدیک اور مُسلم لیگ کے کارکنوں کے نزدیک ان کا شامل ہونا وہاں کے حالات کے لحاظ سے باہر رہنے سے زیادہ مفید ہو۔
جماعت کی تعداد اور اِس کے رسوخ کے لحاظ سے سندھ، صوبہ سرحد ، یوپی، بنگال اور بہار میں احمدیہ جماعتیں خوب اچھا کام کر سکتی ہیں اور مَیں امید کرتا ہوں کہ وہ اِس موقع پر بھی اپنے روایتی ایثار اور قربانی کا نمایاں ثبوت مہیا کریں گی۔
میں نے پنجاب کو مستثنیٰ رکھا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس جگہ مُسلم لیگ کے بعض کارکن بِلاوجہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں۔ مُسلم لیگ ایک سیاسی انجمن ہے اور اِسے اپنے دائرہ عمل کے لحاظ سے ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلمان سمجھ کر اپنے ساتھ شریک کرنا چاہئے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہماری جماعت تو ہر جگہ مُسلم لیگ کا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے مگر لاہور کے مُسلم لیگ کے ایک جلسہ میں جماعت احمدیہ کو خوب خوب گالیاں دی گئیں حالانکہ گالیاں دینا تو دشمن کے حق میں بھی روا نہیں کجا یہ کہ ایک ایسی جماعت کو گالیاں دی جائیں جو مُسلم لیگ کے بارہ میں بے تعلق بھی نہیں بلکہ اُس کے حق میں ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ گالیاں دینے والے تو چند افراد ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو جماعت چند افراد کا منہ بند نہیں کر سکتی وہ عام جوش کے وقت کسی اقلیت کی حفاظت کس طرح کر سکے گی۔
جماعت احمدیہ نے اپنا معاملہ مسٹر جناح صاحب کی خدمت میں پیش کیا تھا اُنہوں نے جواب دیا ہے کہ صوبہ جاتی سوال کو صوبہ کی کونسل ہی حل کر سکتی ہے۔ مگر جہاں تک میں نے معلوم کیا ہے، صوبہ جاتی کونسل ابھی اپنے آپ کو اس سوال کے حل کرنے کے قابل نہیں پاتی۔ دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ یونینسٹ پارٹی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مرکزی نمائندگی میں مُسلم لیگ کے نمائندوں کا مقابلہ نہیں کرے گی یہ ایک نیک اقدام ہے۔ اور کہتے ہیں کہ صبح کا بُھولا شام کو واپس آئے تو اُسے بُھولا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر یونینسٹ پارٹی ایک اَور قدم اُٹھائے تو میں سمجھتا ہوں جہاں تک لیگ اور کانگرس کے سمجھوتے کا سوال ہے یونینسٹ پارٹی اُس کے راستہ میں حائل نہیں رہے گی اور مسلمانوں کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لیڈروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا ہی کریں۔ اِس کے بعد اگر وہ مقامی لیگ کے مقابل پر اپنے ممبر کھڑے کریں تو یہ مُسلم لیگ کے نظریہ اور اس کے مخالف نظریہ کی بحث نہ ہوگی بلکہ یہ صرف ایک ذاتی اور صوبہ جاتی سوال رہ جائے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ یونینسٹ لیڈر اِس طرف توجہ کر کے اپنے نام پر سے وہ دھبہ دھو دیں گے جو اِس وقت اُن کے نام کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور جو ایسا بدنما ہے کہ ہم لوگ جو مُسلم لیگ میں شامل نہ تھے اور ہمارے تعلقات یونینسٹ سے بہت اچھے تھے اس دھبہ کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کی بھی ہمت نہیں پاتے۔ مگر یونینسٹ لیڈر جو کچھ فیصلہ کریں گے اس کا علم مجھے اس وقت نہیں اس لئے بادلِ ناخواستہ میں پنجاب کے متعلق یہ اعلان کرتا ہوں کہ پنجاب کے بارہ میں ہم کوئی اصولی مرکزی پالیسی سرِدست اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جہاں جہاں سے کوئی احمدی کھڑا ہونا چاہے میرا پہلا مشورہ اُسے یہ ہے کہ وہ مُسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ یہ ٹکٹ حاصل نہ کر سکے تو پھر اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ احمدی ووٹ یا اس کی قوم کا ووٹ زیادہ ہے اور اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جا رہا ہے تو پھر اسے اجازت ہے کہ وہ یہ اعلان کر کے ممبری کے لئے کھڑا ہو جائے کہ میں پالیسی کے لحاظ سے مُسلم لیگ سے متفق ہوں مگر چونکہ مُسلم لیگ میرے حلقہ کے ووٹوں کی اکثریت کو اُس کا حق نہیں دیتی اس لئے میں مجبوراً انڈیپنڈنٹ کھڑا ہو رہا ہوں۔ جب تک یونینسٹ پارٹی اپنی پالیسی کی ایسی وضاحت نہیں کرتی جس سے اُس کا مُسلم لیگ کی مرکزی پالیسی سے پورا تعاون اور تائید ثابت ہو اور جس کے بعد شملہ کانفرنس والے حالات کا اعادہ ناممکن ہو جائے میں سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو یونینسٹ ٹکٹ پر کھڑا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن اگر وہ ایسی وضاحت کر دے تو پھر جو شخص مُسلم لیگ کے آل انڈیا پروگرام کی تائید کرتے ہوئے پنجاب کے مقامی سوالوں میں یونینسٹ سے اتفاق رکھتا ہو اُس کے ٹکٹ پر اس کا کھڑا ہونا معیوب نہیں ہوگا۔ مگر پہلے میری اور مرکزی ادارہ کی تسلی اِس بارہ میں ہو جانی چاہئے۔ جہاں سے کوئی احمدی کھڑا نہیں ہو رہا وہاں کی جماعتوں کو بھی اپنے مخصوص حالات پیش کر کے امور عامہ سے اپنے حلقہ کے بارہ میں مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ میری اوپر کی سب ہدایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ پنجاب کے باہر ہر احمدی پوری طرح مُسلم لیگ کی کمیٹیوں اور اُس کے امیدواروں کی مدد کرے۔ اپنے اور اپنے زیرِ اثر ووٹ ان کو دے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کو مُسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے۔
۲۔ پنجاب سے جو احمدی کھڑے ہونا چاہیں اور جن کو علاقہ کی اکثریت ایسا کرنے کا مشورہ دے، وہ مُسلم لیگ سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر مُسلم لیگ ایسا نہ کرے اور ووٹر ان پر زور دیں تو وہ یہ اعلان کر کے کہ وہ مُسلم لیگ کی پالیسی ہی کے حق میں ہیں،انڈیپنڈنٹ کھڑے ہوں تو مرکز کو ان پر اعتراض نہ ہوگامگر جب تک یونینسٹ پارٹی کی پالیسی کے بارہ میں ہماری تسلی نہ ہو جائے وہ اُس کے ٹکٹ پر کھڑے نہ ہوں۔ ہاں اگر اِس پارٹی نے اپنی پالیسی ایسی بنا لی کہ مُسلم لیگ کے مرکزی پروگرام کو نقصان پہنچنے کا احتمال نہ رہے تو ہو سکتا ہے کہ امیدوار اور اُس کے حلقہ کے لوگوں کی خواہش کے احترام میں اُسے یونینسٹ پارٹی کی طرف سے کھڑا ہونے کی اجازت دے دی جائے مگر سرِدست ایسا کرنے کی میں کسی احمدی کو اجازت نہیں دیتا۔
۳۔ پنجاب کے تمام احمدی ووٹ یا زیرِ اثر ووٹ محفوظ رکھے جائیں اور ان کے بارہ میں مرکز سے انفرادی مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے۔ آپ ہی آپ فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ صوبہ جاتی پالیٹکس نے ہمارے لئے اور کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء
(الفضل ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء)



مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام
(تقریر فرمودہ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
(اس مضمون کو لکھنے والے نے بہت خراب کر دیا ہے۔ اکثر جگہ دلیل کا ایک ٹکڑا نقل کیا ہے دوسرا چھوڑ دیا ہے بعض جگہ واقعات ہی بدل ڈالے ہیں۔ میں نے کاٹ کاٹ کر ترتیب درست کرنے کی تو کوشش کی ہے مگر پھر بھی افسوس ہے کہ مضمون کی اہمیت کو بہت نقصان پہنچ گیا ہے۔)
(مرزا محمود احمد)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ۔
میں نے اِس دفعہ کے پروگرام میں دیکھا ہے کہ یہ مجلس خدام الاحمدیہ کا ساتواں سالانہ جلسہ ہے۔ سات کا عدد اسلامی اصطلاح میں تکمیل پر دلالت کرتا ہے ۔ پس ہر ایک خادمِ احمدیت کو اپنے دل میں غور کرنا چاہئے کہ آیااِن سات سالوں میں اُس کی یا اُس کے محلہ کی یا اُس کے شہر کی یا اُس کی قوم کی تکمیل ہوگئی ہے؟ سات سال کاعرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت کے سات سال بعد یعنی آٹھویں سال تمام عرب پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اور وہ مُلک جو ایک سرے سے دوسرے تک اسلام کی مخالفت میں کھول رہا تھا اور اس کا جوش دوزخ کی آگ کو مات کر رہاتھاعاشقوں اور فدائیوں کے طور پر آپ کے قدموں میں آگرا۔ اِس سات سال کے عرصہ میں صحابہؓ نے مُلک کی حالت کو بدل ڈالا، قلوب کی حالت کو بدل ڈالا اور اُن کے اندر زمین و آسمان کے فرق کی طرح امتیاز قائم کر دیا۔ پس خدام الاحمدیہ کو بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اس سات سال کے عرصہ میں مُلک کو چھوڑ کر، ضلع کو چھوڑ کر، شہر کو چھوڑ کر، محلہ کو چھوڑ کر، گھر کو چھوڑ کر صرف اپنے دل میں کیا فرق اور امتیاز پیدا کیا ہے۔ انسان دوسروں کے متعلق ہزاروں باتیں کہتا ہے اگر حق قبول کرنے کے متعلق کوئی بات ہو تو لوگ فوراً دوسروں کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ نادان لوگ ہیںسنتے نہیں، جاہل لوگ ہیں کسی بات پر غور نہیں کرتے، دنیا کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دین کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہی باتیں ان کے اپنے اندر پائی جائیں تو کیا یہی باتیں وہ اپنے متعلق کہنے کو تیار ہوتے ہیں؟ اپنے ہمسائے کے متعلق ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا دو تین سال سمجھاتے ہوگئے ہیں پھر بھی نہیں سمجھتا لیکن اگر ان کے اپنے متعلق یہی سوال ہو تو کیا وہ اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ بڑا ضدی ہے نہیں مانتا، بہت سمجھایا ہے نہیں سمجھتا۔ ہمسائے کے متعلق یہ عُذر کر دیتے ہیں کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سنتا ہی نہیں بڑا جاہل ہے۔ اپنے ہمسائے کے متعلق تو کہہ دیتے ہیں کہ سارا دن دنیا کے کاموں میں مشغول رہتا ہے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتا مگر کیا اپنے نفس کے متعلق بھی یہی کہیں گے کہ سارا دن کام میں لگا رہتا ہوں اس لئے دین کے کاموں کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ غرض وہ کونسا جواب ہے جو اپنے ہمسائے کے لئے دیتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہی جواب پسند کرتے ہوں۔ اگر کوئی شخص ان کی طرف سے یہی جواب دے تو لال لال آنکھیں نکال کر دیکھیں گے اور کہیں گے اس نے میری ہتک کر دی۔
پس یہ ایک اہم سوال ہے اور ہر خادم کو اس امر کے متعلق غور کرنا چاہئے کہ اس سات سال کے عرصہ میں اس نے کیا کیا۔ جہاں تک اہم باتوں کا سوال ہے ابھی تک خدام ان میں بہت پیچھے ہیں۔حاضری کو ہی دیکھ لو کتنی کم ہے، بیرونی جماعتوں کی طرف سے پچھلے سال چودہ نمائندے آئے تھے اور اِس سال اکتیس نمائندے آئے ہیں ہماری جماعتیں آٹھ سَوسے زیادہ ہیں اور جو جماعت آٹھ سَو سے زیادہ شاخیں رکھتی ہو اُس کے صرف اکتیس نمائندے آئیںتو یہ کوئی اچھا نمونہ نہیں بلکہ ایسا نمونہ ہے جسے دشمن کے سامنے پیش کرتے ہوئے ہمارے ماتھے پر پسینے کے قطرے آ جاتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بُرا کہتے ہیں لیکن ہماری اپنی حالت بعض باتوں میں اُن سے زیادہ کمزور ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کا نمونہ اکثر باتوں میں دوسری جماعتوں کی نسبت اچھا ہے لیکن بعض باتوں میں ہم ابھی تک اُن کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ مثلاً خاکساروں کی تعداد ہماری تعداد سے بہت کم ہے اور ہماری جماعت اُن کی نسبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اور اُن سے بہت زیادہ مقامات پر پائی جاتی ہے۔ اگر خاکساروں کی طرف سے کسی جگہ پر جانے کا اعلان ہو جائے تو بسا اوقات دو دو، تین تین ہزار آدمی دو تین مہینے تک ایک ہی شہر میں پڑے رہتے ہیں۔ اُن کی کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح پر اثر ڈالیں یا گاندھی جی پر اثر ڈالیں اور کبھی یہ غرض ہوتی ہے کہ لکھنو جا کر مدحِ صحابہؓ کے جھگڑے کا فیصلہ کرائیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے کھانے اور دوسرے اخراجات کا خود ذمہ دار ہوتا ہے مگر ہمارے خدام کی یہ حالت ہے کہ اپنے سالانہ اجتماع پرکُل اکتیس جماعتوں نے نمائندے بھیجے ہیں۔ بے شک ایک سَو اِکسٹھ خدام اور بھی اپنے طور پر شامل ہوئے ہیں لیکن اپنی خوشی سے شامل ہونا اور بات ہے اور اپنے فرض کو پورا کرنا اور بات ہے۔ اور یہ ایک سَو اِکسٹھ خدام جو آئے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو قریب ترین جگہوں کے رہنے والے ہونگے یا ایسے ہونگے جنہوں نے قادیان آنا تھا اور انہوں نے اپنا پروگرام اس اجتماع کے ساتھ متعلق کر لیا۔ اُن کا آنا خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ جس طرح عام طور پر لوگ قادیان آتے رہتے ہیں اسی طرح وہ بھی آئے۔ لیکن اگر وہ بِلااستثناء سارے کے سارے خدام الاحمدیہ کے جلسہ کے لئے ہی آئے ہوں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ تمام جماعت میں سے صرف ایک سَو اکسٹھ خادم ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کاموں کا حرج کیا اور خوشی سے خدام الاحمدیہ کے جلسہ میں شامل ہوئے۔ اور اِس کے ساتھ یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ آٹھ سَو جماعتوں میں سے صرف اکتیس جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا فرض ادا کیا۔ مجھے کہا گیا ہے کہ ہم نے الفضل میں اعلان کیا تھا لیکن چونکہ الفضل ہر جگہ نہیں پہنچتا اِس لئے آٹھ سَو جماعتوں میں سے اکتیس نمائندے آئے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بات ماننے کے قابل نہیں کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے اور باقی جگہوں میں نہیں پہنچتا۔ یہ تو مَیں مان سکتا ہوں کہ آٹھ سَو میں سے سَو یا دو سَو جگہیں ایسی ہو سکتی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا لیکن یہ کہ آٹھ سَو میں سے صرف اکتیس جگہ الفضل پہنچتا ہے یہ مَیں ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اگر فرض کر لیں کہ آٹھ سَو میں سے دو سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل نہیں پہنچتا اور چھ سَو جماعتیں ایسی ہیں جہاں الفضل پہنچتا ہے تو اگر چھ سَو جماعتوں میں سے چھ یا سات سَو نمائندے آ جاتے تو یہ خیال کیا جا سکتا تھا کہ باقی جماعتوں میں الفضل نہیں پہنچتا اس لئے اُن کے نمائندے نہیں آئے لیکن آٹھ سَو میں سے تیس چالیس نمائندوں کا آنا خوش کن بات نہیں اور الفضل کا نہ پہنچنا میرے نزدیک کافی جواب نہیں ہو سکتا۔ پس میرے نزدیک اس میں بہت حدتک دخل اور بہت حد تک ذمہ داری مرکزی ادارے کی ہے۔ مرکز کو چاہئے کہ انسپکٹر بھیج کر اپنی جماعتوں کی تنظیم کرے کیونکہ بغیر انسپکٹروں کے ان بیماریوں کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بیرونی جماعتیں پورے طور پر مرکز کی آواز کو سن سکتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت سی غلطیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ مرکز کی آواز صحیح طور پر لوگوں تک نہیں پہنچتی۔ صرف قواعد بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ ان قواعد کے نتائج کی طرف خیال رکھنا چاہئے کہ کیسے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان قواعد کو بدلنے کی ضرورت ہو تو ان کو بدل دیا جائے اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو تو ان میں اصلاح کر دی جائے۔ دیکھو! ذی روح اور غیرذی روح چیزوں کے قواعد میں کتنا بڑا فرق ہے۔ غیر ذی روح چیزوں کے قواعد نہیں بدلتے اور ذی روح چیزوں کے قواعد ہر منٹ اور ہر سیکنڈ بدلتے چلے جاتے ہیں۔ پھرذِی روح چیزوں کے دو حصے ہیں۔ ایک انسان اور دوسرے حیوان۔ ان دونوں کے قواعد میں بھی بہت بڑا فرق ہے۔ مثلاً انسانی خوراک اور جانوروں کی خوراک میں کتنا فرق ہے۔ آدم کے زمانہ سے لے کر بلکہ اس سے بھی پہلے سے گائے اور بیل گھاس کھاتے آتے ہیں اور ان کے لئے غذا کے بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض جانورایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے ہیں ایک قسم کا کیڑا کھاتے ہیں۔ بعض جانور ایسے ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئے گوشت کھاتے ہیں جیسے شیر اورچیتے وغیرہ۔ اور بعض گھاس اور بعض پتے کھاتے چلے آئے ہیں۔ مگر اس کے مقابل پر انسان کی یہ حالت ہے کہ اگر گھر میں ایک ہی قسم کا کھانا دو تین دن تک پکے تو لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ خاوند بیوی سے خفگی کا اظہار کرتا ہے، بیٹا ماں سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کہ اتنے دن سے گھر میں ایک ہی کھانا پک رہا ہے اور کوئی چیز پکانے کے لئے نہیں رہی۔ پس کجا جانور کہ ان کی خوراک ساری عمر بدلتی ہی نہیں اور کجا انسان کہ اگر ایک ہی قسم کی غذا اسے دو دن کھانی پڑے تو گھر والوں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیتا ہے۔ ـپس انسانوں اور جانوروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس کے بعد اگر نباتات کو دیکھا جائے تو یہ فرق اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ نباتات کی جو غذائیں ہیں وہ بھی ابتداء سے آخر تک ایک ہی طرح چلتی چلی جاتی ہیں مگر ساتھ ہی وہ جگہ بھی ایک ہی رکھتی ہیں۔ جانوراپنی جگہ بدل لیتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں مگر درخت پہلو بھی نہیں بدلتے جس جگہ پیدا ہوتے ہیں اُسی جگہ مر جاتے ہیں۔ بیس، پچیس، پچاس، سَو یا ہزار سال جو بھی عمر ہو اس میں وہ کبھی اپنے مقام کو نہیں بدلتا۔ جہاں انسانوں اور حیوانوں میں غذا کے بدلنے کا فرق ہے وہاں نباتات اور حیوانات میں جگہ کے بدلنے کا فرق ہے۔ انسان اور حیوان دونوں جگہ بدل لیتے ہیں لیکن حیوان غذائیں نہیں بدلتے اور انسان اپنی غذائیں بدل لیتے ہیں۔ نباتات غذائیں بھی نہیں بدلتے اور جگہ بھی نہیں بدلتے۔ بعض درخت بیسیوں اور بعض سینکڑوں سال ایک ہی جگہ پیدا ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پس انسان کو دوسری اشیاء سے بھی یہی امتیاز حاصل ہے کہ اس کے حالات دوسری مخلوقات کے مقابل پر جلد جلد بدلتے ہیں اور ہر انسان کا دوسرے انسان سے بھی فرق ہوتا ہے تو یقینا ہر زمانہ اور بعض دفعہ ہر جماعت الگ قسم کے قواعد کی محتاج ہوتی ہے مگر بعض نادان منتظم یہ خیال کر لیتے ہیں کہ ہر حالت میں ایک ہی علاج ہونا چاہئے۔ وہ قانون پاس کر دیتے ہیں اور اس قانون کو پاس کرنے کے بعد یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اس قانون سے ہر شخص کا علاج ہو جائے گا اور یہ قانون ہر شخص کی حالت کے مطابق ہوگا حالانکہ یہ بات ناممکن ہے۔ ہر انسان کی حالت دوسرے انسان سے الگ ہوتی ہے، ہر جماعت کی حالت دوسری جماعت سے الگ ہوتی ہے اور ہر ایک جماعت کے مختلف لوگوں کی حالت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوتی ہے۔ جب تک ان تمام حالات کا اندازہ نہ کیا جائے اور ان کے مطابق علاج نہ سوچا جائے وہ بے اثر اور بے فائدہ ثابت ہوگا خواہ وہ علاج کتنا ہی اعلیٰ درجہ کا اور بے نظیر کیوں نہ ہو۔
کام قواعد سے نہیں چلا کرتے بلکہ قواعد کے ساتھ ان کے نتائج کی طرف بھی نگاہ رکھنی چاہئے۔ یہ ایک ناتجربہ کاری کی حالت ہوتی ہے کہ انسان قانون بنا دے لیکن اس کے نتائج پر غور نہ کرے۔ میرے نزدیک جیوریز (JURY)کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ بیٹھیں اور قواعد بنا دیں بلکہ ان قواعد کے نتائج سے پورے طو رپر آگاہ ہونا بھی جیوریز کا فرض ہے اور انہیں علم ہونا چاہئے کہ انہیں ان قواعد کے بنانے سے کس حد تک اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی ہے۔
ہر قاعدہ کو جاری کرنے کے بعد دو باتیں دیکھنی چاہئیں۔ اوّل یہ کہ آیا وہ قاعدہ پورے طور پر جاری ہوا ہے یا نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے نتائج کیسے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر کسی جگہ پر بھی اس کے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو وہ قاعدہ غلط ہے اور اگر بعض جگہ پیدا ہوئے ہیں اور بعض جگہ پیدا نہیں ہوئے تو یا تو اُس قاعدہ پر وہاں عمل نہیں کیا گیا اور اگر وہاں اُس قاعدہ پر عمل کرنے کے باوجود اچھے نتائج پیدا نہیں ہوئے تو ماننا پڑے گا کہ وہ قاعدہ اُس مقام و گروہ کے لئے مفید نہ تھا اور اِس کا علاج کچھ اور تھا۔ اگر اس گروہ نے اس قاعدہ پر عمل نہیں کیا تو اس پر عمل کرانا چاہئے تھا اور اگر عمل کے بعد بھی اصلاح نہیں ہوئی تو کوئی اور ذریعہ اصلاح کا سوچنا چاہئے۔ اگر ایک ہی علاج تمام انسانوں کے لئے کافی ہوتا تو قرآن مجید میں ہر مسئلہ کے متعلق ایک ہی دلیل بیان ہوتی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید ہر رکوع میں ایک نئی دلیل دیتا ہے بلکہ ہر آیت میں ایک نئی دلیل دیتا ہے۔ پس مختلف انسانوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں، مختلف روحانی بیماریوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں اور مختلف وقتوں کے علاج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں ہم ایک دلیل مؤثر دیکھتے ہیں لیکن دوسرے وقت میں وہ دلیل بے فائدہ اور بے اثر نظر آتی ہے۔ ایک دلیل ایک انسان کے لئے تو بہت مؤثر نظر آتی ہے مگر دوسرے کے لئے بے اثر نظر آتی ہے ۔ پس اگر ہم نے انسانوں سے معاملہ کرنا ہے تو ہمیں ان مشکلات کو بھی مد نظررکھنا ہو گا جو ان کے راستہ میں پیش آتی ہیں۔ جب تک ہم پوری کوشش کے ساتھ مختلف افرادکی بیماریوں اور ان بیماریوں کی نوعیتوں کی تشخیص نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہم بیماری کا پتہ لگا سکتے ہیں اور نہ اس کا صحیح علاج کر سکتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے مرضوں کا صحیح طور پر علاج بغیر انسپکٹروں کے نہیں ہو سکتا۔ پس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو چاہئے کہ وہ اپنے انسپکٹروں کو مختلف علاقوں میں دَوروں کے لئے بھیجے جب وہ دَوروں سے واپس آئیں تو اُن سے صحیح حالات معلوم کئے جائیں۔ اور انسپکٹروں سے دریافت کیا جائے کہ سُستی دکھانے والی جماعتوں کی سُستی کی وجوہ کیا ہیں؟ اور پھر اس کا علاج کیا جائے۔مرکز میں بیٹھے رہنے سے ان حالات کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا اور مرکز پر بیرونی جماعتوں کا قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
مرکز میں دفتر موجود ہے اور پھر یہاں ہر قسم کی واقفیت رکھنے والے آدمی پائے جاتے ہیں مگر کیا جوسامان قادیان کی مجالس کو حاصل ہیں وہی کیا باقی مجالس کو بھی حاصل ہیں؟ قادیان میں علم والے آدمیوں کی بہتات ہے اور اعلیٰ قابلیت رکھنے والوں کی بہتات ہے، نصیحت اور وعظ کرنے والوں کی بہتات ہے، جماعت کی کثرت کی وجہ سے ہر قابلیت کا آدمی مل سکتا ہے لیکن اِن حالات کو بیرونی جماعتوں پر چسپاں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر جگہ نہ اتنی قابلیتوں کے آدمی مل سکتے ہیں، نہ اتنے وعظ و نصیحت کرنے والے میسرآسکتے ہیں، نہ وہاں جماعت کی اتنی کثرت ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام کو جماعتی طور پر دباؤ ڈال کر قائم کیا جا سکتا ہو بلکہ بعض مقامات میں ایک احمدی ہے، بعض میں دو، بعض میں تین، بعض میں چار، اِس سے کم وبیش احمدی ہیں اور بعض مقامات ایسے ہیں جہاں کوئی احمدی بھی تعلیم یافتہ نہیں، بعض جگہوں پر قابل آدمی مل سکتے ہیں، بعض جگہوں پر نہیں مل سکتے اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں قابل آدمی تو موجود ہیں لیکن ان کی قابلیت چھپی ہوئی ہے جب تک اُن کو اُبھارانہ جائے اُس وقت تک وہ قابلیتیں ہمارے کام نہیں آسکتیں ۔پس ضروری ہے کہ انسپکٹر مقرر کئے جائیں جو باہر کی جماعتوں کی پورے طور پر نگرانی کریں اور جو قانون مرکز میں جاری کئے جائیں ان کو رواج دینے کی کوشش کریں۔
اِس کے بعد میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آئندہ سالوں میں ہاتھ سے کام کرنے کی روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور خدام سے ایسے کام کرائے جائیں جن میں وہ ہتک محسوس کرتے ہوں اور وہ کام انفرادی طور پر کرائے جائیں۔ جس وقت قادیان کے تمام خدام جمع ہوں اوروہ سب ایک ہی کام کر رہے ہوں تو اُنہیں اُس وقت کسی کام میں ہتک محسوس نہیں ہوگی کیونکہ اُن کے دوسرے ساتھی بھی اُن کے ساتھ اُسی کام میں شریک ہوتے ہیں لیکن اگر ایک خادم اکیلاکوئی کام کر رہا ہو اور اُس کے ساتھی اُسے دیکھیں تو وہ ضرور ہتک محسوس کرے گا۔ میرا اِس سے یہ مطلب نہیں کہ اجتماعی طور پر کوئی کام نہ ہو بے شک اجتماعی طور پر بھی ہو لیکن انفرادی کام کے مواقع بھی کثرت سے پیدا کئے جائیں۔مثلاً کسی غریب کا آٹا اُٹھا کر اُس کے گھر پر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کا چارہ اُٹھا کر اُس کے گھر پہنچا دیا جائے یا کسی غریب کی روٹیاں پکوا دی جائیں۔جب خادم روٹیاں پکوانے جائے گا تو دل میں ڈر رہاہو گا کہ مجھے کوئی دیکھ نہ لے اور اگر کوئی دوست اُسے راستے میں مل جائے تو اُسے کہے گا میری اپنی نہیںفلاں غریب کی ہیں۔ اُس کا یہ اظہار کرنا اِس بات کی دلیل ہوگا کہ وہ اِس کام کو ہتک آمیز خیال کرتا ہے یہ پہلا قدم ہوگا۔ اِسی طرح بعض اور کام اس نوعیت کے سوچے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام کرانے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی خادم میں تکبر کا شائبہ باقی نہ رہے اور اس کا نفس مر جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر ایک کام کرنے کو تیار ہوجائے۔
ایک اور بات جوبہت زیادہ تو جہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ خدام کی سختی کے ساتھ نگرانی کی جائے کہ وہ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں یا نہیں۔ ابھی تک محلوں سے اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ بعض خادم نمازوں میں سُست ہیں اور باوجود بار بار کہنے کے اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ زعماء کو چاہئے کہ اُن کی طرف خاص توجہ کریں۔ خدام کے عہدیداران اُن کے پاس جائیں اور انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے باوجود وہ توجہ نہ کریں تو محلہ کے پریذیڈنٹ اور دوسرے دوست انہیں سمجھائیں۔ اگر اِس کے بعد بھی وہ نمازوں میں سُستی کریں تو اُن کے نام میرے سامنے پیش کئے جائیں ۔ یہ ایک بہت ضروری حصہ ہے خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا۔
خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہئے کہ خدا م کی پڑھائی کا خاص خیال رکھا جائے اور اس بات کی نگرانی کی جائے کہ کون کون خادم سٹڈی (STUDY) کے وقت گلیوں میں پھرتا ہے، اِس بات کی نگرانی کے لئے کچھ خادم ہر روزمقرر کئے جاسکتے ہیں اُن کو جہاں کوئی خادم بازار میں پھرتا ہوا مل جائے اُسے پوچھیں کہ تمہارا سٹڈی کا وقت ہے اور تم بازار میں کیوںپھر رہے ہو؟ اگر اِس بات کی نگرانی کی جائے تو ایک تو طالب علموں میں آوارہ گردی کی عادت نہ رہے گی اور دوسرے وہ پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیں گیـ۔ہمارے طالب علموں کی پڑھائی کی موجودہ حالت بہت قابلِ افسوس ہے اور ہمارے سکول کے نتائج اِس وقت تمام سکولوں سے بدتر ہیں۔ میں نے نظارت تعلیم وتربیت کو یہ ہدایت کی کہ صرف اُن اُستادوں کو اِس سال ترقیاں دی جائیں جن کے نتائج اوسط سے پانچ فیصدی زیادہ ہوں۔ اِس پر ناظر صاحب تعلیم مجھے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کے مقررہ کردہ قاعدہ کے مطابق تو سارے سکول میں سے صرف ایک استاد ایسا ہے جسے ترقی مل سکتی ہے۔ میں نے کہا کہ سارے پنجاب میں میٹرک کے نتیجہ کی اوسط ۷۶فیصدی ہے گورنمنٹ سکولوں کا نتیجہ ۹۹ فیصدی بلکہ بعض کا سَوفیصدی ہے لیکن آپ کہتے ہیں کہ اوسط پر پانچ فیصدی زائد کرنے سے صرف ایک استاد کو ترقی مل سکتی ہے اچھا آپ اِن اُستادوں کو ترقیاں دے دیں جن کا نتیجہ اوسط کے برابر ہو۔ تو وہ کہنے لگے کہ اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف دو اُستاد آتے ہیں۔پھر میں نے کہا کہ اچھا اوسط سے پانچ فیصدی کم پر ترقی دے دیں تو وہ کہنے لگے اِس قاعدہ کے ماتحت بھی صرف چار اُستاد آتے ہیں۔ اور اِس پر مَیں نے انہیں کہا کہ کیا باقیوں کو جماعت کے لڑکے فیل کرنے کی خوشی میں ترقیاں دی جائیں؟ ہمارے استاد اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور لڑکوں کی نگرانی کی طرف کما حقہٗ توجہ نہیں کرتے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت حد تک نتیجہ کی ذمہ داری لڑکوں پر بھی ہے لیکن جہاں تک نگرانی کا تعلق ہے میں اِس کی ذمہ داری اُستادوں پر ڈالتا ہوں کہ انہوں نے کیوں ان کی نگرانی نہیں کی۔ جہاں تک شوق پیداکرنے کا سوال ہے خدام الاحمدیہ کا فر ض ہے کہ وہ طلباء کے لئے ایسے طریق سوچیں جن کی وجہ سے خدام میں تعلیم کا شوق ترقی کرے۔ بہرحال نگرانی سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ پڑھائی کے وقت سب خدام گھروں میں بیٹھ کر پڑھائی کریں اور جوطالب علم باہر پھرتا ہوا پکڑا جائے اُس سے باز پُرس کی جائے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر خدام اس پر عمل کریںتو جن طالب علموں کو باہر پھرنے کی عادت ہو وہ خودبخود گھر میں سٹڈی کرنے پر مجبور ہونگے کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ باہر تو پھر نہیں سکتے چلو کوئی کتاب ہی اُٹھا کر پڑھ لیں۔ ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ’’جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی‘‘۔یعنی جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی اگر چور چوری کر کے بھاگا جارہا ہو اور تم اُس سے اور کچھ نہیں چھین سکتے تو اُس کی لنگوٹی ہی چھین لوآخر کچھ نہ کچھ تو تمہارے ہاتھ آجائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ایک فقیر تھا جو اکثر اُس کمرے کے سامنے جہاں پہلے محاسب کادفتر تھا بیٹھا کرتا تھا۔ جب اُسے کوئی آدمی احمدیہ چوک میں سے آتا ہوا نظر آتا تو کہتا ایک روپیہ دیدے، جب آنے والاکچھ قدم آگے آجاتا تو کہتا اٹھنی ہی سہی۔ جب وہ کچھ اور آگے آتا تو کہتا چونی ہی سہی، جب اُس کے مقابل پر آجاتا تو کہتا دو آنے ہی دے دے، جب اس کے پاس سے گزرکر دو قدم آگے چلا جاتا تو کہتا ایک آنہ ہی سہی، جب کچھ اور آگے چلا جاتاتو کہتا ایک پیسہ ہی دیدے، جب کچھ اور آگے چلا جاتا ہے تو کہتا دھیلا ہی سہی، جب جانے والا اُس موڑ کے قریب پہنچتا جہاں سے مسجد اقصیٰ کی طرف مُڑتے ہیں تو کہتا پکوڑا ہی دیدے، جب دیکھتا کہ آخری نکڑ پر پہنچ گیا ہے تو کہتا مرچ ہی دے دے۔ وہ روپیہ سے شروع کرتا اور مرچ پر ختم کرتا۔ اِسی طرح کام کرنے والوں کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ تو ہمارے ہاتھ آ جائے۔ اگر پہلی دفعہ سَو میں سے ایک کی طرف توجہ کرے گا تو اگلی دفعہ دو ہو جائیں گے اِس سے اگلی دفعہ چار ہو جائیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیںگے پس کام کرو اور پھر نتیجہ دیکھو۔ جب دُنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں لیکن جن کے من ّ*** ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کام کرتے ہیں لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہنے سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری محنت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے دشمنی نکال رہا ہے۔ یہ کہنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے۔ گویا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو کام ہم کرتے ہیں اُس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ لیکن اچھے یا بُرے نتیجہ کا دارومدار ہمارے اپنے کام پر ہوتا ہے۔کسی شخص نے ۱۰؍۱ حصہ کسی کام کے لئے محنت کی تو قانون قدرت یہی ہے کہ اُس کا ۱۰؍۱ نتیجہ نکلے ۔اب اس کے ۱۰؍۱ حصہ نکلنے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کی وجہ سے ۱۰؍۱ حصہ نتیجہ نکلا ورنہ اُس نے محنت تو زیادہ کی تھی۔ قانون قدرت کسی محنت کو ضائع نہیں کرتا لیکن شرارتی نفس یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اپنافرض ادا کر دیا تھا لیکن اللہ میاں اپنا فرض ادا کرنا بھول گیا اِس سے بڑا کفر اور کیا ہو سکتا ہے۔ پس جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے نتائج ہمارے ہی اختیارمیں ہیں۔ اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو سمجھ لو کہ ہمارے کام میں کوئی غلطی رہ گئی ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معیّن صورت میں ہمارے سامنے آسکیں۔ اگر ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ ہو تو ہم اندازہ کر سکیں گے کہ پچھلے سال سے اس سال نمازوں میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، تعلیم میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی، کتنے خدام پچھلے سال باہر کی جماعتوں سے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے آئے اور کتنے اس سال آئے ہیں اِسی طرح باہر کی خدام الاحمدیہ کی جماعتیں بھی اپنے ہاں ان باتوں کا ریکارڈ رکھیں کہ پچھلے سال تعلیم کتنے فیصدی تھی اور اس سال کتنے فیصدی ہے،اخلاق میں کتنے فیصدی ترقی ہوئی۔ اور یہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر جماعت اجتماع کے موقع پر اپنی رپورٹ پڑھ کر سنائے تاکہ تمہیں معلوم ہو سکے کہ تمہارا قدم ترقی کی طرف جا رہا ہے یا تنزّل کی طرف۔ اِس میں شبہ نہیں کہ کبھی اندازہ میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن عام طورپر اندازہ صحیح ہوتا ہے اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو کچھ نہ کچھ قدم ضرور ترقی کی طرف اُٹھے گا۔ صحیح اندازہ لگانے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ دس فیصدی کام اس رپورٹ میں سے کم کر دیا جائے۔ مثلاً کسی جماعت کی ترقی بارہ یا پندرہ فیصدی ہے تو اس میں سے دس فیصدی کم کرنے کے بعد ہم کہیں گے کہ اس جماعت نے دس فیصدی ترقی کی ہے پھر تمام جماعتوں کا آپس میں مقابلہ کیا جائے کہ تبلیغی طور پر کونسی مجلس اوّل ہے، تعلیم میں کونسی مجلس اوّل ہے، اخلاق کی ترقی میں کونسی مجلس اوّل ہے، ہاتھوں سے کام کرنے میں کونسی مجلس اوّل ہے ،نمازوں کی باقاعدگی میں کونسی مجلس اوّل ہے۔ اس قسم کے مقابلوں سے ایک دوسرے سے بڑھنے کی رُوح ترقی کرے گی اور اگر کسی مجلس کا کام فرض کرو پچھلے سال بھی دس فیصدی تھا اور اس سال بھی دس فیصدی ہے تو اُس کے متعلق سوچنا چاہئے کہ کیا وجوہ ہیں جو اُس مجلس کی ترقی میں روک ہیں۔پس ایسے ذرائع سوچے جاسکتے ہیں جن سے معیّن نتیجہ نکالاجا سکتا ہے۔
سات سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کے لئے کہنا چاہئے اور اگر دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھتا ہو تو اُسے مار پیٹ کر نماز پڑھانی چاہئے۱؎۔گویا پہلے سات سال ترغیب وتحریص کے ہیں اور اگلے سال میں سختی بھی کی جاسکتی ہے۔ پندرہ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعض لڑکوں کو جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔ پس اگر آج ساری ذمہ داریاں تم پر نہیں ہیں توآج سے آٹھ سال کے بعد تمہیں تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی ہوں گی اور خداتعالیٰ کے نزدیک تم ایک ایسے مقام پر پہنچ جاؤ گے جس مقام پر پہنچ کر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ پس جس دَور میں تم داخل ہو رہے ہو نہایت نازک دَور ہے اور جوذمہ داریاں تم پر پڑنے والی ہیں وہ بہت بڑی ہیں گو پہلے بھی تم ذمہ داریوں سے خالی نہیں لیکن آئندہ ذمہ داریاں ان سے بڑھ کر ہوں گی۔ میرے نزدیک پچھلے سات سال تم نے ضائع کر دیئے ہیں اگر آئندہ سات سال بھی آپ لوگوں نے ضائع کر دیئے تو آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک موردِالزام ہوں گے۔پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اورسمجھ سوچ سے کام لیتے ہوئے ہر کام کو پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو۔ اندھادُھند قانون بنا دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کسی قانون کے متعلق یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی مفید ہے اورہر جگہ جاری کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اندھا دُھند قانون بنانے والوں کی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مثل سنایا کرتے تھے کہ ایک مُلّاتھا اور اُس کے ساتھ اُس کا کنبہ بھی تھا وہ دریا کے کنارے کشتی پر سوار ہونے کے لئے آئے ملاّح اُن کے لئے کشتی لینے گیا کشتی چونکہ کنارے کے پاس ہی تھی مُلّا نے دیکھا کہ ملاّح کے ٹخنوں تک پانی آتا ہے اور دریا کی چوڑائی اتنی ہے اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پانی کمر تک آجائے گا حالانکہ دریا کے متعلق اس قسم کا اندازہ لگانا حد درجے کی حماقت ہے کیونکہ دریا میں اگر ایک جگہ ٹخنے تک پانی ہو تو اُس کے ساتھ ہی ایک فٹ کے فاصلہ پر بانس کے برابر ہو سکتا ہے مگر اُس مُلّا نے اربعہ سے نتیجہ نکالا کہ پانی کمر تک آئے گا۔یہ خیال کرتے ہوئے اُس نے کشتی کا خیال چھوڑ دیا اور سب بیوی بچوں کو لے کر دریا عبور کرنے لگا ۔ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ پانی بہت گہرا ہو گیا اور سب غوطے کھانے لگے خود تو وہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اُس نے اپنی جان بچالی مگر بیوی بچے سب ڈوب گئے۔دوسرے کنارے پر پہنچ کر پھر اربعہ لگانے لگا کہ شاید پہلے میں نے اربعہ لگانے میں کوئی غلطی کی ہے لیکن دوبارہ وہی نتیجہ نکلا تو وہ کہنے لگا کہ ’’اربعہ نکلا جو ں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں‘‘۔ پس بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اربعہ نہیں لگایا جاسکتا ہر ایک چیز کا اندازہ الگ الگ طریقہ پر کیا جاتا ہے اور ہر ایک بیماری کا علاج الگ الگ ہوتا ہے، خالی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک حالات کو مدنظر نہ رکھا جائے۔
پس میں آئندہ نتیجہ دیکھوں گا میں نہیں سنوں گا کہ کون سیکرٹری تھا اور کس نے اُسے سیکرٹری بنایا مجھے تو کام سے غرض ہے کہ خدام نے نمازوں میں کتنی ترقی کی، سادہ زندگی میںکتنی ترقی کی اور سادہ زندگی کے کن کن اصول پرانہوں نے عمل کیا، تعلیم میں کتنی ترقی کی، کتنے لڑکوں نے انٹرنس، کتنے لڑکوں نے ایف ۔اے اور بی۔اے کے امتحان دیئے، کتنے لڑکے انٹرنس کے بعد کالجوں میں داخل ہوئے، کتنے لڑکوں نے مڈل اور پرائمری کے امتحان دیئے، کتنے لڑکوں نے تبلیغ میں حصہ لیا، ان کے ذریعہ کتنے آدمی احمدی ہوئے، کتنے خدام نے زندگی وقف کی۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے تجارت کی تحریک کی ہے اور قادیان میں بیسیوں لڑکے ایسے ہیں جو بے کار ہیں اور ان کے ماں باپ گندم کے لئے منظوریاں لیتے پھرتے ہیں۔ عرضی میں لکھتے ہیں کہ بیس سال کا لڑکا ہے مگر بے کار ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس لڑکے کے والدین کی یہ حالت ہے وہ بے کار کیوں بیٹھا ہے؟ محلہ کا پریذیڈنٹ سفارش کرتا ہے کہ یہ امداد کے بہت مستحق ہیں۔ میں کہتا ہوں ایسے لڑکے امداد کے مستحق نہیں بلکہ اِس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کو بید لگائے جائیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کے متعلق سفارش کی جاتی ہے کہ یہ فلاں کے گھر میں کام کرتے ہیں وہاں سے اُنہیں آٹھ روپے ملتے ہیں لیکن آٹھ روپے میں گزارہ نہیں ہوتا اِس لئے اُن کو گندم دی جائے۔ ایسے لوگوں کے متعلق بھی مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے تو کیوں پھیری کا کام نہیں کر لیتے۔ پھیری والے ہر روز تین روپے کما لیتے ہیں۔ اگر کسی سے پوچھاجائے کہ آپ کا لڑکا کیوں بے کار ہے تو کہتے ہیں کہ فلاں قسم کا کام ملتا ہے لیکن اُس کی مرضی ہے کہ مجھے اس قسم کا کام ملے تو میں کروں اس لئے بے کارہے۔ (جلسہ کے دنوں میں ایک دوست ملے کہ میرے لڑکے کو چپڑاسی کروادیں میں نے کہا کہ گورنمنٹ ورکشاپ میں ملازم کرو ادیتا ہوں دو چار سال میں اسّی روپے کمانے لگے گا آپ چپڑاسی کیوں بنواتے ہیں؟ اِس پر انہوں نے فرمایا کہ لڑکے کی مرضی چپڑاسی ہونے کی ہی ہے۔) ایسے لڑکوں کی عقلوں کو درست کرنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ بے کاری ایک ایسی چیز ہے جو جماعتی لحاظ سے اور شخصی لحاظ سے دونوں طرح سخت مُضِرّ ہے۔ میرا خیال ہے کہ صرف قادیان میں سے دو تین سَو آدمی ایسے نکل آئیں گے جو ایسے وقت میں جب کہ ہر طرف روز گار مل رہے ہیں بے کار بیٹھے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ جماعت پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے رشتہ داروں پر باربن رہے ہیں، وہ اپنے گھروالوں پرباربنے ہوئے ہیںاگر وہ اپنے آپ کو وقف کریں تو تبلیغ کی تبلیغ اور کام کا کام۔ ہمارے ہاں مثل مشہور ہے’’ نالے حج نالے بیوپار‘‘ یہ تبلیغ کی تبلیغ ہو گی اور بیوپار کا بیوپار ہو گا۔
بلکہ ایک اور بات جس کی طرف میں خدام الاحمدیہ کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صحتیں نہایت کمزور ہیں اور دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ جب میں نوجوانوں کی صحتیں دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم لوگ جواپنے آپ کوکمزور صحت والے خیال کرتے ہیں اِن نوجوانوں سے اچھے ہیں۔آجکل کے نوجوانوں کے قد بہت چھوٹے ہیں یا بہت پتلے دُبلے یا بہت موٹے، موٹاپا بیماری کی ایک قسم ہوتی ہے، چہرے زرد ہیں اور چہروں پر جھریاں پڑی ہوتی ہیں گویا ان پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ کہتے ہیں کوئی بُڈھا بازار میں پاؤں پھسلنے کی وجہ سے گر پڑا تو بولا ہائے جوانی یعنی اب جوانی جوکہ تنومندی اور قوت کے دن تھے جاتے رہے اور میں محض بڑھاپے کی وجہ سے گر گیا ہوں۔ جب اُٹھاتو اُس نے دیکھا کہ اُس کے اِردگرد کوئی آدمی نہیں تو اِس پر بولا ’’پھٹے منہ جوانی ویلے توں کہیڑا بہادر سی‘‘یعنی تیرے منہ پر پھٹکار پڑے تو جوانی کے وقت کونسا بہادر تھا۔ ہمارے نوجوانوں کا بھی یہی حال ہے اِن پر جوانی آنے سے پہلے ہی بڑھاپے کا زمانہ آجاتا ہے۔ اگر نوجوانوں کی صحتوں کی یہی حالت رہی تو یہ خطرہ سے خالی نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کا یہ فرض ہے کہ نوجوانوں کی صحت کی طرف جلد توجہ کریں اور ان کے لئے ایسے کام تجویز کریں جو محنت کشی کے ہوں اور جن کے کرنے سے ان کی ورزش ہو اور جسم میں طاقت پیدا ہو۔ مثلاًہر جماعت میں جتنے پیشہ ور ہیں اُن سے کہا جائے کہ وہ خدام کو سائیکل کھولنا اور جوڑنا یا موٹر کی مرمت کا کام یا موٹر ڈرائیونگ سکھا دیں۔ یہ کام ایسے ہیںکہ ان میں انسان کی صحت بھی ترقی کرتی ہے اور انسان ان کو بطور ہابی(HOBBY) کے سیکھ سکتا ہے اور اگر اسے شوق ہو تو اس میں بہت حد تک ترقی بھی کر سکتا ہے۔ سکھ قوم کے مالدار ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قوم لاری ڈرائیونگ اور لوہار کے کام میں سب سے آگے ہے اور پنجاب کی تمام لاریاں اور اکثر مستر ی خانے ان کے قبضہ میں ہیں جس جگہ جاؤ تمہیں لاری ڈرائیور سکھ ہی نظر آئے گا حالانکہ سکھ پنجاب میں کُل دس بارہ فیصدی ہیں لیکن سفر کے تمام ذرائع اِنہوں نے اپنے قبضہ میں لے رکھے ہیں۔ کسی سٹرک پر کھڑے ہو جاؤ، کسی ضلع یا تحصیل میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ سائیکلوں پر گزرنے والوں میں دو تہائی سکھ ہوں گے او رایک تہائی ہندو یا مسلمان ہوں گے۔ اور اگر تم گاؤں میں چلے جاؤ تو تم دیکھو گے کہ ایک سکھ سائیکل پر سوار ہے اور اپنی بیوی کو پیچھے بٹھائے لئے جارہا ہے۔ موٹروں کی درستی کے جتنے کارخانے ہیں ان میں سے اکثر سکھوں کے ہیں۔ بندوق بنانے، کارتوس بنانے، لاریاں بنانے، سائیکل بنانے، مشینری بنانے کے جتنے کارخانے ہیں سب سکھوں کے ہیں کیونکہ جتنی سہولت ان کو ان چیزوں کے بنانے میں ہے دوسرے لوگوں کو نہیں۔ اوّل تو ہمارے مسلمانوںکے پاس موٹریں ہی نہیں اور اگر کسی کے پاس ہے بھی تو وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ اگرکسی جگہ موٹر یا لاری خراب ہو جائے تو پھرسورن سنگھ کی منتیں کریں گے کہ اسے درست کردو۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا روپیہ سکھوں کے پاس ہے اتنا قومی طور پر ہندوؤں کے پاس بھی نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ قوم محنت کی بہت عادی ہے۔
لاہور میںایک سکھ نوجوان سے جو کہ بی۔اے پاس تھا اور بانسوں اور رسیوں کی دُکان کرتا تھا میں نے پوچھا کہ آپ ملازمت کیوں نہیں کر لیتے؟ وہ کہنے لگا کہ میرے دوسرے ساتھیوں میں سے جو ملازم ہیں کوئی چالیس روپے لیتا ہے اور کوئی پچاس روپے اور میں تین چار سَو روپے ماہوار کما لیتا ہوں مجھے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔پس کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہماری جماعت اِن کاموں میں ترقی کرنے کی کوشش کرے تو وہ دوسری جماعتوں سے پیچھے رہ جائے۔ اگر ہماری جماعت میں سے پانچ چھ فیصدی لوگ مستری ہو جائیں تو پھر اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے لوگ مشینری میں کامیاب ہو سکیں گے کیونکہ اِن لوگوں کو آرگنائز کر کے آئندہ اِن کے لئے زیادہ اچھا پروگرام بنایا جاسکتا ہے اور کچھ اور لوگوں کو ان کے ساتھ لگا کر کام سکھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت میرے نزدیک اگر مرکزی مجلس ایک موٹر خرید سکے تو یہ بہت مفید کام ہوگا اِس کے ذریعے خدام کو موٹر ڈرائیونگ کا کام سکھایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ موٹر کی عام مرمت کیا ہوتی ہے، جو خادم سیکھیں ان میں سے بعض مختلف جگہوں پر موٹر کی مرمت کی دُکان کھول لیں۔ یہ بہت مفید کام ہے اِس میں جسمانی صحت بھی ترقی کرے گی اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہو گا۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کو گھوڑے کی سواری، سائیکل کی سواری سکھائی جائے۔ سائیکل کی سواری کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوتی ہے کہ اُسے کھولنا اور مرمت کرنا آتا ہو کیونکہ بعض اوقات چھوٹی سی چیز کی خرابی کی وجہ سے انسان بہت بڑی تکلیف اُٹھاتا ہے۔ پس ہمارے خدام کو مشینری کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آجکل مشینوں میں برکت دی ہے جو شخص مشینوں پر کام کرناجانتا ہو وہ کسی جگہ بھی چلا جائے اپنے لئے عمدہ گذارہ پیدا کر سکتا ہے۔ آجکل تمام قسم کے فوائدمشینوں سے وابستہ ہیں اور جتنا مشینوں سے آجکل کوئی قوم دُور ہوگی اُتنی ہی وہ ترقیات میں پیچھے رہ جائے گی۔اسی طرح اگر خدام لوہار، ترکھان، بھٹی اور دھونکنی کا کام سیکھیں تو ان کی ورزش کی ورزش بھی ہوتی رہے گی اور پیشے کا پیشہ بھی ہے۔ چونکہ خدام کے لئے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالناضروری ہے اگر خدام ایسے کام کریں تو وہ ایک طرف ہاتھ سے کام کرنے والے ہوں گے اور دوسری طرف اپنا گزارہ پیدا کرنے والے ہوں گے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنا یہ ہمارا طرۂ امتیاز ہونا چاہئے جیسے بعض قومیں اپنے اندر بعض خصوصیتیں پیدا کر لیتی ہیں۔ وہ قومیں جو سمندر کے کنارے پر رہتی ہیں وہ نیوی میں بڑی خوشی سے بھرتی ہوتی ہیں لیکن اگر انفنٹری میں بھرتی ہونے کے لئے اُنہیں کہا جائے تو اِس کے لئے ہرگز تیار نہیں ہونگے۔ اور اگر پنجاب کے لوگوں کو نیوی میں بھرتی ہونے کے لئے کہا جائے تو وہ اِس سے بھاگتے ہیں لیکن انفنٹری میں خوشی کے ساتھ بھرتی ہوتے ہیں اور یہ صرف عادت کی بات ہے۔ پس ہمارے خدام کو یہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مشینوں کا زمانہ ہے اور آئندہ زندگی میں وہ مشینوں پر کام کریں گے۔ اگر کارخانوں میں کام نہ کر سکو تو ابتداء میں لڑکوں میں ان کھیلوں کا ہی رواج ڈالو جن میں لوہے کے پُرزوںسے مشینیں بنانی سکھائی جاتی ہیں۔ مثلاً لوہے کے ٹکڑے ملا کر چھوٹے چھوٹے پُل بناتے ہیں، پنگھوڑے، ریلیں اور اِسی قسم کی بعض اور چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ ایسی کھیلوں سے یہ فائدہ بھی ہوگا کہ بچوں کے ذہن انجینئرنگ کی طرف مائل ہوں گے۔
یہ سائنس کی ترقی کا زمانہ ہے اِس لئے خدام الاحمدیہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد سائنس کے ابتدائی اصولوں سے واقف ہو جائے اور ابتدائی اصول اِس کثرت کے ساتھ جماعت کے سامنے دُہرائے جائیں کہ ہمارے نائی، دھوبی بھی یہ جانتے ہوں کہ پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن سے بنا ہوا ہے۔ یا روشنی آکسیجن لیتی ہے اور کاربن چھوڑتی ہے اگر اسے آکسیجن نہ ملے تو بجھ جاتی ہے۔ جب اِن ابتدائی باتوں سے اکثر لوگ واقف ہو جائیں گے تو بعد میں آنے والے اِن سے اُوپر کے درجہ پر ترقی پا جائیں گے۔
ایڈیسن جس نے ایک ہزار ایک ایجادیں کی ہیں وہ ایک کارخانے میں چپڑاسی تھا۔ کارخانے میں جو تجربات ہوتے وہ ان کو غور سے دیکھتا رہتا۔ اُس کی اس دلچسپی کو دیکھ کر ایک افسر نے اُسے ایسی جگہ مقرر کر دیا جہاں وہ کام بھی سیکھ سکتا تھا۔ پھر اُسے ایسی درسگاہ میں داخل کرا دیا گیا جہاں وہ ایک حد تک علمِ سائنس سے واقف ہو سکے۔ آخر وہ ایجادیں کرنے لگ گیا اور آج وہ دنیا کا سب سے بڑا موجد سمجھا جاتا ہے۔ بجلی، فونوگراف، ٹیلیفون اِسی طرح کی اور بہت سی چیزیں اِس نے ایجاد کیں اور بعض چیزوں میں ایسی شاندارترمیم کی کہ وہ ایک نئی چیز بن گئیں۔ـ پس جن لوگوں کے دماغ سائنس سے مانوس ہوں وہ دوسری کتابوں سے امداد لے کر ترقی کر جائیں گے۔ بعض لوگ بظاہر نکمّے اور بے عقل سمجھے جاتے ہیں لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چلتا ہے تو حیران کُن نتائج پیدا کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو بہت زیادہ عقلمند اور ہوشیار نظر آئے وہی سائنس میں ترقی کرے۔ اِس وقت قادیان میں سب سے زیادہ کامیاب کارخانہ میاں محمد احمد خان کا ہے۔ کچھ دن ہوئے مجھے ایک سائنس کا پروفیسر ملا تھا اُس نے مجھے حیرت کے ساتھ کہا کہ میک ورکس نے بہت ترقی کی ہے اور ان کی بعض چیزیں بہت قابلِ تعریف ہیں لیکن میاں محمد احمد خان جو اِس کارخانہ کے موجد ہیں اُن کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی ٹوپی رکھ کر بھول جاتے ہیں کہ کہاں رکھی ہے اور بعض دفعہ ٹوپی اُن کے سر پر ہوتی ہے اور وہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ اُن کی ٹوپی ان کے سر پر تھی اور وہ اپنے ماموں میاں بشیراحمد صاحب کی ٹوپی بغل میں دبا کر چل پڑے۔ میاں صاحب نے دیکھا کہ میری ٹوپی لئے جارہے ہیں تو بُلا کر کہا کہ اگر ٹوپی کی ضرورت ہے تو بے شک لے جاؤ ورنہ تمہاری ٹوپی تمہارے سر پر ہے۔ غرض ایک طرف تو اُن کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میری ٹوپی میرے سر پر ہے یا نہیں دوسری طرف سائنس میںاُن کا دماغ خوب چلتا ہے۔ تو بظاہر بعض لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ تو کوئی کام بھی نہیں کر سکیں گے لیکن جب اُن کا دماغ کسی طرف چل پڑتا ہے تو وہ دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ پس میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جہاں ہمارے دوست دینی علوم سے واقف ہوں وہاں کچھ نہ کچھ انہیں سائنس کے ابتدائی اصول سے ضرور واقفیت ہونی چاہئے کیونکہ ان کا جاننا بھی اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔
آج میں نے اتنا وسیع پروگرام آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ اس کے مطابق کام کریں تو دو تین سال میں جماعت کی کایا پلٹ جائے گی اور جماعت اپنے پہلے مقام سے بہت بلند مقام پر پہنچ جائے گی اور دشمن تسلیم کریں گے کہ اِس جماعت کا مقابلہ ناممکن ہے۔ دشمن جب بھی جماعت کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھے گا اُس کی نظریں خیرہ ہو جائیں گی۔
میری صحت تو اچھی نہیں تھی لیکن اِس کے باوجود میں طبیعت پر بوجھ ڈال کر آ گیا ہوں۔ رات سے اسہال ہو رہے ہیں اگر بیٹھوں تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہوں تو بیٹھ نہیں سکتا۔ اب میں دعا کر کے جلسہ کو ختم کرتا ہوں۔
(الفضل ۱۸،۲۱ جنوری ۱۹۴۶ء)
۱؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب متٰی یؤمر الغلام بالصلٰوۃ


مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھایا




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا
اعلیٰ نمونہ دکھایا
(تقریر فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۵ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
تشہّد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب کوئی قوم غالب آتی ہے تو اعلیٰ اخلاق کو ترک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں پر یورپین اعتراض کرتے ہیں مگر انہوں نے خود کیسا گندا نمونہ دکھایا ہے۔ مسلمانوں کے غلبہ کے زمانہ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ وہ کسی مُلک میں گئے ہوں اور اُس مُلک کے باشندوں کو خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ حالت میں ہوں فنا کر دیا ہو اور آپ اُن کے مُلک میں بس گئے ہوں۔
مسلمان سپین میں گئے اور وہاں سات سَو سال تک حکومت کی لیکن اِس سات سَو سال کے عرصہ میں اُنہوں نے سپین کے باشندوں کو تباہ نہیں کیا۔ مسلمان بربر۱؎ میں گئے جہاں کے باشندے بالکل وحشی تھے، تباہ حال تھے، ننگے پھرتے تھے لیکن مسلمانوں کے جانے کے بعد اُن کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ مسلمانوں نے اُن کو تعلیم دی اور اُن کے اندر ایسا تغیر پیدا کر دیا کہ دنیا کے بڑے بڑے عالِم بربر میں پیدا ہوئے اور اب تک وہی قوم اس مُلک میں آباد ہے۔ مسلمان مصر میں گئے اور وہاں ایسی شاندار حکومت کی کہ مصر کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن باوجود اِس کے آج تک وہاں کی اصلی قومیں موجود ہیں۔ مسلمان شام میں گئے اور ایسی حکومت کی کہ شام کی زبان ہی عربی ہوگئی لیکن وہاں کی قومیں اب تک موجود ہیں حالانکہ یہاں کثرت سے عیسائی تھے اور اب ان کو آزاد حکومت مل گئی ہے ورنہ پہلے وہ مسلمانوں کے ماتحت تھے لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے مذہب کو بدلیں۔ مسلمان فلسطین میں گئے لیکن اُنہوں نے وہاں کے باشندوں کو تباہ نہ کیا بلکہ اب تک وہ قومیں موجود ہیں۔ دوسرے مذاہب کو اختیار کر لینے سے ہم کسی کو نہیں روک سکتے۔ وہ اگر مسلمان ہوئے تو اپنی مرضی سے۔ اسی طرح مسلمان افریقہ میں گئے لیکن کوئی علاقہ ایسا نہیں جس کی نسل فنا ہوگئی ہو۔ غرض جہاں جہاں مسلمان گئے وہاں کی اصلی قومیں اب تک موجود ہیں۔ ان کے پہلو بہ پہلو عرب کے باشندے بھی بستے ہیں لیکن وہ قلیل تعداد میں ہیں۔ اِسی طرح ماریشس ہے، جاوا ہے، سماٹرا ہے، مڈغاسکر ہے، فلپائن ہے۔ اِن علاقوں میں سے جس جگہ بھی مسلمان گئے وہاں کے لوگوں کو ہر رنگ میں فائدہ پہنچایا انہوں نے کسی قوم کو مٹایا نہیں اور کسی قوم کی جگہ دنیاوی طور پر نہ لی بلکہ جہاں جہاں بھی مسلمان گئے وہاں اُن علاقوں کی قومیں ان کے زمانہ میں آباد رہیں۔ کسی ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہاں کی قوموں کو مٹا کر مسلمانوں نے اُن کے مُلک پر قبضہ کر لیا ہو۔ مگر ان ہی علاقوں میں جب یورپین اقوام گئیں تو انہوں نے وہاں کی ساری دولت اور جائدادیں اپنے قبضہ میں کر لیں اور وہاں کے اصلی باشندوں کو مٹا دیا۔ مثلاً نیروبی ہے وہاں عربوں کا اتنا دخل تھا کہ وہاں کی زبان بگڑی ہوئی عربی ہے لیکن باوجود اِس کے کہ نیروبی مسلمانوں کے ماتحت تھا وہاں کی جائدادیں وہاں کے اصلی باشندوں کے پاس رہیں اور اب تک وہ نسلیں چلی آتی ہیں لیکن جب وہاں انگریز گئے تو انہوں نے ان کی زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ حبشیوں کو چونکہ کبھی زمین پر قبضہ کرنے کا خیال نہیں آیا اِس لئے یہ اپنے مُلک میں زمینوں کے مالک نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ وہاں کی زمینیں کچھ انگریزوں میں بانٹ دی گئیں اور کچھ حکومت نے لے لیں۔ ایک ایک انگریز کو بیس بیس میل لمبا علاقہ دے دیا گیا جسے وہ بیس بیس نسلوں تک بھی آباد نہیں کر سکتے۔ لیکن عربوں نے کہا جس کی چیز ہے اُسے دے دو۔ انگریز آسٹریلیا میں گئے اور وہاں کے باشندوں کی ایسی حالت کی کہ اس قوم کے اصل باشندوں کو آج تلاش کرنا سخت مشکل ہے اور اگر ان کو تلاش کیا جائے تو چند ہزار سے زیادہ نہیں ملیں گے حالانکہ وہ ہندوستان سے ڈیوڑھا مُلک ہے۔ امریکہ ہندوستان سے دوگنا ہے اور وہ سارے کا سارا آباد ہے لیکن اب تلاش کرنے سے بھی وہاں کے اصلی باشندے جو کہ ریڈاِنڈینز(RED INDIANS) کہلاتے ہیں چند ہزار سے زیادہ نہیں مل سکتے۔ نہ ان کے پاس جائدادیں ہیں نہ زمینیں وہ مزدوری کرتے ہیں اور اس طرح غریبانہ طور پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا ہے کینیڈا کے اصلی باشندے کہاں گئے؟ جن جن جزائر میں یورپین گئے وہاں کے باشندے تباہ ہوگئے۔
آخر کوئی بتائے تو سہی کہ کیا قسّام ِازل نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ مسلمان جہاں جائیں گے وہاں کے اصلی باشندے تو زندہ رہیں گے اور ترقی کریں گے لیکن جہاں یورپین اقوام جائیں گی وہاں کے اصلی باشندے مر جائیں گے۔ کہتے ہیں وہاں کے لوگ خود بخود مر گئے مگر سوال یہ ہے کہ وہ کیوں مَر گئے؟ مسلمانوں کے پاس وٹامنز نہیں تھی لیکن یہ وٹامنز نکال کر بھی وہاں کے اصلی باشندوں کو مارتے جاتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کا بہانہ ہے ورنہ کون شخص تسلیم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ماتحت ہزار سال میں تو وہ قومیں نہ مریں لیکن جہاں فرانسیسی یا انگریز گئے یا دوسری یورپین قومیں گئیں وہاں کے اصلی باشندے دو تین سَو سال کے اندر اندر مرگئے۔ بیشک افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جن میں یورپین دس بارہ سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ ایسے علاقوں کو چھوڑ دو جہاں بیماریاں پڑتی ہیں اور جہاں سے وہ حبشیوں کو نکال نہیں سکتے۔ جیسے ویسٹ افریقہ ہے جہاں وبائیں بہت زیادہ پڑتی ہیں اِسی لئے اس کا نام WHITE MEN'S GRAVE ہے یعنی سفید آدمی کی قبر۔ جو انگریز بھی وہاں جاتا ہے آٹھ دس سال سے زیادہ وہاں نہیں رہ سکتا اور اگر رہے تو مر جاتا ہے اِس لئے وہاں کے پادریوں کو آٹھ دس سال کے بعد بدل دیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے ہی مبلّغ ہیں جو پندرہ سولہ سال سے متواتر کام کر رہے ہیں اور پھر بھی واپس جانے کے خواہشمند ہیں۔ بہرحال انگریز وہاں آٹھ دس سال سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔ اِس دوران میں بھی ایک دو سال کے بعد ان کو لمبی چھٹی مل جاتی ہے پھر بھی وہ مشکل سے اتنا عرصہ وہاں رہتے ہیں۔ اِن علاقوں کو تو یورپین لوگوں نے خود چھوڑ دیا ہے کیونکہ قبر میں رہنا کوئی پسند نہیں کرتا اور اس لئے وہاں کے اصلی باشندے وہاں موجود ہیں۔ مگر ان قبروں کو چھوڑ کر باقی سارے علاقے جو اچھے ہیں اور جہاں ان کا قبضہ ہے وہاں انہوں نے اصلی باشندوں کو بالکل بے دخل کر دیا ہے اور ان کی اکثر نسلیں فنا ہوگئی ہیں۔یہی حال نٹال کا ہے وہ سب حبشی بے دخل ہیں، ان کی جائدادوں پر انگریزوں کا قبضہ ہے اور وہ ان کی خدمت گزاری کرتے ہیں۔ بچپن میں جب ہم کھیلا کرتے تھے اور ہمیں کوئی گری پڑی چیز مل جاتی تو ہم اسے ہاتھ میں لے کر کہتے ’’لبھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی‘‘۔ بچپن کے لحاظ سے ہم سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا منتر ہے کہ جس کے پڑھنے سے دوسرے کی چیز لے لینا جائز ہو جاتا ہے۔
یہی حال اُن لوگوں کا ہے ہم جو چیز اُٹھاتے تھے وہ تو چاک کا ٹکڑا یا کُلّی۲؎ یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہوتی تھی جو حقیقت میں دھیلے بلکہ دمڑی کے برابر بھی نہ ہوتی تھی مگر یہ لوگ ملکوں کے مُلک اپنے قبضہ میں لے کر کہتے ہیں ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ ہندوستان کا مُلک اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ افریقہ جو ہندوستان سے بھی بڑا ہے اُٹھایا اور کہہ دیا ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ کوئی مُلک ایسا نہیں جو ’’لبھی چیز خدا دی‘‘ میں شامل نہ ہو۔ میں ان کے اس جواب پر ہمیشہ حیران ہوتا ہوں کہ اتنے عقلمند ہونے کے باوجود شاید وہ سمجھتے ہیں کہ باقی دنیا پاگل ہے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اسے سمجھ ہی نہیں سکتی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ڈنڈے کے زور سے دبے ہوئے ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر شور ڈالا تو جیل خانے میں جائیں گے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تصرف بے جا ہے اور بہت بڑا ظلم ہے جس کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ اس بارہ میں وہ کتنا بڑا نشان ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نے دکھایا۔ عیسائی کہا کرتے ہیں کہ تاریخ میں آتا ہے کہ اورنگ زیب نے یہ ظلم کیا یا تاریخ کے فلاں صفحہ پر آتا ہے کہ اس نے اس طرح ناانصافیاں کیں یا فلاں مسلمان بادشاہ کے متعلق آتا ہے کہ اس نے فردوسی کے ساتھ ساٹھ ہزار اشرفیوں کا وعدہ کر کے صرف ایک ہزار اشرفی دی۔ مگر پچھلی باتوں کو چھوڑ دو کہ ان کی صحت یا عدمِ صحت کا ہم کو علم نہیں وہ ذرا موجودہ زمانہ میں ہی اپنی حالت تو دیکھیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس طرح ظلم کئے لیکن وہ اپنے آپ کو تو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ جو قومیں مسلمانوں کے قبضہ کرنے سے پہلے موجود اور مسلمانوں کے چلے جانے کے بعد موجود رہیں وہ انگریزوں کے زمانے میں مفقود ہو گئیں۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے موجودہ دنیا کی عمر تو چھ ہزار سال ہے لیکن انگریزوں کے نقطۂ نگاہ سے دنیا کی عمر بیس لاکھ سال ہے ہم انگریزوں کے نقطۂ نگاہ کو ہی بالفرض تسلیم کر لیں تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جو نسلیں بیس بیس لاکھ سال سے چلی آ رہی تھیں اور مسلمانوں کے زمانے میں بھی قائم رہیں وہ یورپین قوموں کے قبضہ میں آتے ہی تباہ ہوگئیں۔ یورپین آسٹریلیا میں گئے، افریقہ میں گئے جہاں بھی گئے وہاں کی اصلی قومیں غائب ہونی شروع ہوگئیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جب وہاں کے اصلی باشندوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا، حکومت سے اُنہیں علیحدہ کر کے بے دخل کر دیا گیا اور اپنا غلام بنا لیا گیا تو انہیں زندگی کے ساتھ دلچسپی نہ رہی اور جب کسی انسان کو زندگی سے دلچسپی نہ رہے تو وہ زندہ رہنے کی خواہش ہی نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ جب کسی چیز میں میرا دخل ہی نہیں تو میں نے زندہ رہ کر کیا کرنا ہے اس طرح وہ قومیں جو بے دخل ہو جاتیں ہیں خود بخود فنا ہو جاتی ہیں۔ ایک عربی شاعر کے کچھ شعر ہیں جو مجھ کو یاد تو نہیں لیکن وہ شعر تاریخی ہیں اور اُس نے بہت دردناک پیرائے میں بیان کئے ہیں۔ جب گذشتہ جنگ ختم ہوئی اور اتحادی ملکوں میں فتح کی خوشیاں منائی گئیں تو اس نے کچھ شعر کہے جن کا مفہوم یہ ہے کہ اتحادیوں نے جنگ فتح کر لی ہے اور لوگ خوش خوش گھروں کو آ رہے ہیں وہ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے۔ پر اے میرے بھائی! تو اُن کی خوشی میں شامل نہ ہونا کیونکہ یورپین تو اپنے گھروں کو خوشیاں منانے آ رہے ہیں پر تیرا کونسا گھر ہے جہاں تو آکر خوشیاں منائے گا۔ ہاں تیرا گھر تھا لیکن وہاں پر تو غیروں نے قبضہ کر لیا ہے اب تیرے پاس کچھ نہیں۔ فلسطین تیرا گھر تھا لیکن اب نہیں کیونکہ فلسطین پر تو غیروں کا قبضہ ہے۔ وہ لوگ آئیں گے اور خوشیاں منائیں گے اِس لئے کہ اُن کے لئے دنیا میں رہنے کے لئے جگہ ہے لیکن تیرے پاس کونسی جگہ ہے۔ ان کے پاس تجارت ہے پر تیرے پاس کونسی تجارت ہے غرض تیرا تو کچھ بھی نہیں۔ پھر آخر میں کہتا ہے اے میرے بھائی! تیرے لئے دنیا میں کچھ نہیں۔ اب تیرا کام یہ ہے کہ بیلچہ پکڑ اور میرے ساتھ مل، پھر ہم دونوں ایک خندق کھودیں اور خندق کھود کر اپنے مقتولوں کو اُس میں دفن کر دیں یہ ہماری خوشی کا وقت نہیں۔ چونکہ شاعر کی غرض دنیا ہوتی ہے اس لئے وہ خندق کھود کر مُردوں کو دفن کر دیتا ہے۔ پھر کہتا ہے اے بھائی! اب ہم نے اپنے مُردوں کو تو دفن کر لیا ہے اب آ تا کہ ہم ایک اور خندق کھودیں اور اس میں ہم اپنے آپ کو اور اپنے زندوں کو دفن کر لیں کیونکہ ہمارے لئے دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ حالت ہے جو انگریزوں نے بنا دی ہے۔ جس طرف بھی دیکھو یہ قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تمہاری حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں اپنے کسی فائدہ کے لئے نہیں۔ امریکہ کے پریذیڈنٹ جو صلح اور انصاف کے نعرے بلند کرتے ہیں، اُن کا ایک مضمون چھپا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم کسی پر بے جا قبضہ پسند نہیں کرتے لیکن اِردگرد کے چھوٹے چھوٹے مُلک جن کا اپنے قبضہ میں رکھنا ہماری حفاظت کیلئے ضروری ہے ہم صرف اُن پر قبضہ رکھیں گے۔ یہ بات وہی ہے جو یورپین قومیں کہتی ہیں، یہی انگریز کہتے ہیں، یہی فرانسیسی کہتے ہیں اور یہی جرمن والے کہتے ہیں کہ اگر فلاں فلاں مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہماری حفاظت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اب انڈونیشیا کے باشندوں نے جو اپنی آزادی کا عَلم بلند کیا ہے تو فرانسیسیوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ اگر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم کیا کریں گے اور انگریزی فوجیں ان کی مدد کر رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا دوسروں کو اپنی حفاظت کی ضرورت نہیں؟ آخر ان بیچاروں کا کیا قصور ہے کہ امریکہ والے ان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ان سے کونسی ایسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کی بناء پر وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ غرض یہ غاصب خود تو دوسرے ملکوں پر بے جا تصرف کرتے ہیں لیکن جب ان پر حملہ ہوتا ہے تو انصاف انصاف پکارنے لگ جاتے ہیں۔ اٹلی والوں نے جب ایبے سینیا (ABAY SENIA) پر حملہ کیا اور انگریزوں نے شور مچایا تو گو اٹلی والوں نے بھی اس کا جواب دیا مگر جرمنی نے اس کا جو جواب دیا وہ بہت خوب تھا۔ اُس نے کہا صرف تم ہی اتنے عرصہ سے دنیا کو مہذب بنانے کی کوشش کر رہے ہو اور ہمیں اس میں شامل نہیں کرتے۔ تم اس غرض کے لئے ہندوستان اور دوسرے ممالک پر قبضہ کئے بیٹھے ہو اب ہمیں بھی اس نیک کام میں حصہ لینے دو اور ہمیں بھی دنیا میں تھوڑی سی تہذیب پھیلانے دو۔ پس یہ کہہ دینا کہ ہم تمہارے فائدہ کے لئے آئے ہیں نہایت فضول بات ہے تمہیں ان سے کیا۔ ہر شخص اپنا فائدہ سمجھتا ہے اگر وہ نہیں سمجھتا تو وہ اپنی تباہی آپ مول لیتا ہے دوسرے کو اس سے کیا تعلق۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے ٹاٹا والے کسی رئیس کے روپیہ پر اِس لئے قبضہ کر لیں کہ وہ شرابی ہے اور اپنا مال صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ ضائع کرتا ہے اگر وہ ایسا کریں تو کیا کوئی شخص ان کی اس بات کو تسلیم کرلے گا؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ وہ اپنی جائداد شراب نوشی میں اُڑا رہا ہے یا کنچنیوں کا ناچ کروا کر اور اس طرح دوسرے بیہودہ افعال پر اپنا مال ضائع کر رہا تھا اس لئے ٹاٹا والوں نے جو کچھ کیا اچھا کیا۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس قسم کے فعل کو جائز قرار دے ہر شخص انہیں مجرم قرار دے گا اور کہے گا تمہیں اس سے کیا غرض کہ وہ اس کو شراب نوشی یا دوسرے لغو کاموں پر کیوں ضائع کرتا ہے، تم اس کے روپیہ پر قبضہ کرنے والے کون ہو۔ یہ حیلہ سازیاں ہیں جو یورپین قوموں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں اور جن کو لوگ کمزور ہونے کی وجہ سے برداشت کر رہے ہیں۔ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی بھیڑیا کسی نہر کے کنارے اوپر کی طرف کھڑا ہو کر پانی پی رہا تھا اور نچلی طرف ایک بکری کا بچہ پانی پی رہا تھاـ بھیڑیئے کا دل للچایا اور اُس نے چاہا کہ کسی بہانے اُسے کھا جاؤں۔ اُس نے کہا کیوں بے نالائق۔ اب تیری یہ جرأت کہ ہمارا پانی گدلا کرتا ہے؟ اس نے کہا حضور اوپر کی طرف کھڑے پانی پی رہے ہیں اور میں نچلی طرف اس لئے آپ کا گدلا پانی تو میری طرف آ سکتا ہے میرا گدلا پانی آپ کی طرف نہیں جا سکتا۔ بھیڑیئے نے غصے سے اُس پر جھپٹ کر کہا۔ اچھا! اب آگے سے جواب دیتا ہے۔ یہی حالت غالب قوموں کی ہوتی ہے وہ اپنی مرضی چلاتی ہیں اور جو بات دل میں آئے خواہ وہ کتنی ہی احمقانہ ہو اُس پر عمل شروع کر دیتی ہیں۔
جب دنیا کے ایسے گندے حالات ہو جاتے ہیں اور لوگ ظلم میں انتہائی مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ کے نبی آتے ہیں۔ اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں انصاف قائم کریں لیکن سوال یہ ہے کہ جو تربیت نبی آ کر کرتے ہیں اور جو اخلاق نبی کے آنے سے کسی کو حاصل ہوتے ہیں وہ تربیت اور وہ اخلاق ہماری جماعت کو حاصل ہیں یا نہیں۔ مَیں نے اپنی جماعت میں بھی یہ نقص دیکھا ہے کہ جب کوئی کسی کی چیز لیتا ہے مثلاً کسی کا مکان کرائے پر لیتا ہے تو اُس کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اگر میرا زور چلے تو میں کرایہ نہ دوں اور صرف یہی نہیں بلکہ اُس مکان پر قبضہ کرکے وہیں بیٹھا رہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا لیکن کیا وجہ ہے کہ ہماری ترقی نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک اِس کی وجہ یہی ہے کہ ابھی تک جماعت نے وہ اخلاق پیدا نہیں کئے جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو تا تمہیں ترقی ملے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کر دے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دے دے۔ پس جب تک ہماری جماعت وہ اخلاق پیدا نہ کر لے جو انبیاء کی جماعتوں میں ہونے چاہئیں اُس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل نازل نہیں ہو سکتے۔ اگر اِن بُرے اخلاق کے باوجود ہم میں حکومت آ جائے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ خداتعالیٰ (نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)خود اِس ظلم میں شریک ہوگا اور یہ مظلوم کو بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر طبیب کے سپرد کرنے والی بات نہیں ہوگی بلکہ ایک مظلوم کو ایک بھیڑیئے کے منہ سے نکال کر دوسرے بھیڑیئے کے منہ میں دینے والی بات ہو جائے گی۔ صرف فرق یہ ہوگا کہ انگریزوں کے ہاتھ سے نکل کر احمدیوں کے ہاتھ میں مال آ جائے گا ورنہ انگریز بھی ویسے اور احمدی بھی ویسے۔ لیکن اگر احمدیوں کے اخلاق ایسے ہوں گے کہ وہ لوگوں کے مالوں کی حفاظت کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے ہوں گے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے۔
مجھے ایک شخص مکان کے مقدمہ کے بارہ میں ملنے آیا میں نے اُسے سمجھانے کی غرض سے کہا دیکھو! تم فوج میں ملازم ہو۔ سال میں ۱۵،۲۰ دن کے لئے تم آئے ہو اتنا عرصہ تم مہمان خانہ میں یا اپنے کسی دوست کے ہاں ٹھہر سکتے ہو اِس وقت مکان نہیں ملتے۔ اگر تم نے ان کو اپنے پندرہ دن کے آرام کے لئے نکالا تو ان کو بڑی تکلیف ہوگی۔ صحابہؓ نے تو باہر سے آنے والوں کو اپنی جائدادیں دے دی تھیں بلکہ باہر سے آنے والوں کے ساتھ اس سے بڑھ کر یہ سلوک بھی کیا کہ ان میں سے بعض اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو اپنے بھائی کی خاطر طلاق دینے کے لئے تیار ہوگئے تھے تا کہ وہ اُس سے شادی کر لے لیکن ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اپنے پندرہ یا زیادہ سے زیادہ بیس دن کے آرام کے لئے ان کو جنہوں نے مکان میں ساڑھے گیارہ مہینے رہنا ہے چاہتے ہیں کہ نکال دیں۔ میں نے اس کو اس طرح نصیحت کی اور دیکھا کہ میری نصیحت کا اس پر اثر تھا لیکن اس نے کہا حضور! میں تسلیم کرتا ہوں کہ انہیں اس طرح دِق کرنا میری غلطی ہے لیکن آپ ان سے دریافت کر لیں انہوں نے آٹھ نو ماہ سے تو کرایہ بھی ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے میں ان کو نکالنے پر مجبور ہوں۔ میں نے کہا یہ بات تو معقول ہے اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اس وقت میری عجیب حالت ہوگئی کہ دیکھو میں نے اس کے دل کو نرم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے ایک ایسی بات پیش کر دی ہے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ اگر دوسرے نے کرایہ دیا ہوا ہوتا تو میں نے میدان مار لیا تھا مگر چونکہ وہ آٹھ نو ماہ کا کرایہ بھی کھا جانا چاہتا تھا اور مکان پر قبضہ بھی جمائے رکھنا چاہتا تھا اِس لئے میری حالت اُس وقت ویسی ہی ہوگئی جیسے کہتے ہیں کہ پٹھان نے ایک ہندو کو پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھو۔ کہنے لگا میں کس طرح پڑھوں میں تو ہندو ہوں۔ پٹھان کہنے لگا خو کلمہ پڑھو ہم ہندو وندو نہیں جانتاتم کو کلمہ پڑھانے سے ہم جنت میں چلا جائے گا۔ اصل بات یہ تھی کہ اُس نے سنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو مسلمان بنا دے تو وہ سیدھا جنت میں چلا جاتا ہے اِس لئے اس نے کہا خواہ تو ہندو ہے یا کوئی اور آج تجھے کلمہ پڑھا کر چھوڑنا ہے۔ اُس نے تلوار نکال لی اور کہا کلمہ پڑھ نہیں تو ابھی مارتا ہوں۔ وہ بیچارہ منتیں کرکے وقت گزارتا رہا اور اِدھر اُدھر دیکھتا رہا کہ شاید کوئی آ جائے اور میں بچ جاؤں لیکن اُس کی بدقسمتی کہ کافی دیر تک کوئی نہ آیا۔ لالوں کو جان پیاری ہوتی ہے آخر تنگ آکر کہنے لگا اچھا کلمہ پڑھاؤ۔ پٹھان نے کہا خو تم خود پڑھو۔ اُس نے کہا میں ہندو ہوں مجھے کہاں آتا ہے۔ کہنے لگا خو تمہارا قسمت خراب ہے کلمہ تو ہم کو بھی نہیں آتا اگر کلمہ آتا تو آج تم کو مسلمان بنا کر ہم جنت میں چلا جاتا۔ اِسی طرح میں نے نصیحت کر کے اُس کے دل کو نرم کیا اور جب نرم کر لیا تو اُس نے ایسا جواب دیا کہ میرا کلمہ وہیں رہ گیا اب میں اُسے کیا جواب دیتا۔ اگر اس نے کرایہ ادا کیا ہوتا تو میں اسے کلمہ پڑھا لیتا لیکن اس کے جواب کے بعد میں کیا کر سکتا تھا۔ پس مومنوں کو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں چست ہونا چاہئے۔
صحابہؓ میں نیکی کا اتنا غلبہ تھا کہ ایک صحابی کسی دوسرے صحابی کے پاس اپنا گھوڑا بیچنے آئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے؟ اُس نے کہا ایک ہزار درہم۔ اُس نے گھوڑے کو دیکھ کر کہا تم نے اِس کا کم مول لگایا ہے اِس کی قیمت تو دو ہزار درہم ہے ۔مالک نے کہا اس کی قیمت ایک ہزار درہم ہے میں صدقہ لینا نہیں چاہتا، میں ایک ہزار درہم ہی لوں گا۔ اُس نے کہا میں کسی کا مال کھانا نہیں چاہتا اِس کی قیمت دو ہزار درہم ہے اور میں دو ہزار درہم ہی دوں گا۔ ہوتے ہوتے یہ بات قاضی کے سامنے پیش ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ یہ گھوڑا دو ہزار کا ہے۔ پھر اُس نے وہ رقم لی۳؎۔ اب دیکھو لینے والا کم بتاتا ہے اور دینے والا زیادہ بتاتا ہے۔ لیکن لینے والا کہتا ہے یہ صدقہ ہے میں نہیں لینا چاہتا اور دینے والا کہتا ہے میں زیادہ دوں گا میں کسی کا مال نہیں کھانا چاہتا۔ یہی چیز تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکومت دی۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ جب مسلمان یروشلم کو (جس پر کہ ان کا قبضہ تھا) کسی وجہ سے چھوڑ کر واپس آنے لگے تو بجائے اس کے کہ اس وقت اہلِ شہر جو عیسائی تھے خوش ہوتے کہ مسلمان ہمارے مُلک سے نکل گئے ہیں اور اب ہماری اپنی حکومت ہوگی۔ وہ روتے ہوئے اُن کے ساتھ شہر سے باہر آئے وہ روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا آپ لوگوں کو پھر ہمارے شہر میں واپس لائے۴؎۔ اِس نیکی کو پیدا کرنے کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے ایک جماعت قائم کی اب ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ ایسے اخلاق پیدا کرے جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بن جائے۔
مَیں نے یورپین قوموں کی جہاں بُرائی بیان کی ہے وہاں اُن کی ایک خوبی بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں۔ ان میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ قانون کو قائم رکھتے ہیں جہاں وہ لوگوں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں وہاں جو قانون بناتے ہیں اُس پر عمل بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے مُلک کے لوگ خواہ کسی درجہ کے ہوں وہ اِس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اِسی وجہ سے جب کسی انگریز کے پاس مقدمہ چلا جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف ہو جائے اور جب مقدمہ کسی ہندوستانی کے پاس جائے تو کہتے ہیں کہ انصاف کی کوئی امید نہیںیہاں سفارش چل جائے گی۔ حتیّٰ کہ ججوں کے متعلق شبہ کرتے ہیں یہ شبہ چاہے غلط ہو یا درست آخر شبہ ہندوستانیوں کو اپنے بھائیوں کے متعلق کیوں پڑتا ہے، اور انگریز جو غیر قوم ہے اس کے متعلق کیوں نہیں ہوتا اسی لئے کہ اگرچہ یورپین لوگ ایک ایسی تلوار ہیں جو قوموں کی قوموں کو کاٹتی چلی جاتی ہیں لیکن جو خاص جوڈیشنل معاملات ہیں اُن میں وہ انصاف کو پوری طرح مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں پر ان کا اچھا اثر ہوتا ہے اور وہ اپنی ملکی حکومت کی بجائے غیر قوموں کی حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ جرمنی کے جنگی مجرموں پر جو مقدمات ہو رہے ہیں ان میں انگریز مجسٹریٹ ہیں اور وکیل بھی۔ انگریز ہیں لیکن انہیں وکالت کرتے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ یاد ہی نہیں کہ وہ اتنا لمبا عرصہ اُن سے برسرِپیکار رہے ہیں بلکہ وہ اس طرح جرح کرتے ہیں اور اس شدت کے ساتھ وکالت کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کے کوئی عزیز و اقارب ہیں جن کے لئے وہ اتنی بیتابی اور شدت سے جرح کر رہے ہیں۔ یہی انصاف کی روح ہے جس کی وجہ سے غیر قومیں ان کو پسند کرتی ہیں۔ پس جہاں ان میں ایک رنگ کا ظلم پایا جاتا ہے وہاں ایک رنگ کا انصاف بھی پایا جاتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اُن کی بُری عادت کو چھوڑ دیں اور اچھی عادت کو لے لیں اور ان اخلاق میں ان سے بھی بہتر نمونہ دکھائیں۔
پھر تجارت کو دیکھ لو انگلستان میں خصوصاً اور باقی یورپ میں عموماً یہ خوبی ہے کہ وہ جو چیزیں بناتے ہیں معیاری بناتے ہیں۔ یہاں سے بیٹھے بیٹھے ان سے دس لاکھ کا سَودا کر لو تو اس کے بعد بہت حد تک اطمینان ہوتا ہے کہ جیسی چیز مانگی ہے ویسی ہی مل جائے گی۔ لیکن یہاں پر اگر سامنے بھی سارا مال لیا جائے تو ڈر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دھوکا نہ ہو اور یہ واقعہ ہے کہ یہاں سر پر بیٹھے لوگ دھوکا کر لیتے ہیں۔ ہم ایک دفعہ کشمیر گئے اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی ہمارے ساتھ مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی تھے۔ کشمیر میں عام طور پر گبھے بنائے جاتے ہیں جو پُرانے اور پھٹے ہوئے قالینوں سے تیار کئے جاتے ہیں لیکن جب گبھا بن جاتا ہے تو اُس پر مختلف رنگ دیئے جاتے ہیں اور پھر اُس پر ریشم کے دھاگے سے پھول بنا دیتے ہیں اور وہ اچھا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ میں نے بھی گبھا بنوایا۔ کمرے کے لحاظ سے بنانے والے کو مَیں نے سائز بتایا کہ اتنا لمبا اور اتنا چوڑا ہو۔ چند دنوں کے بعد اس سے دریافت کیا گیا کہ گبھا تیار ہو گیا ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا تیار ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ لمبائی اور چوڑائی میں ایک ایک فٹ چھوٹا تھا اور اس سے قیمت میں کئی روپے کا فرق پڑ جاتا تھا۔ پھر وہ کمرے کے لحاظ سے مناسب بھی نہیں تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ میں تو اسے لینے کے لئے تیار نہیں یہ تو بہت چھوٹا ہے۔ میں نے تو تمہیں کہہ دیا تھا کہ آٹھ فٹ لمبائی اور پانچ فٹ چوڑائی یعنی چالیس مربع فٹ ہو لیکن تم نے تو سات فٹ لمبا اور چار فٹ چوڑا یعنی اٹھائیس مربع فٹ کا گبھا بنایا ہے اور ۱۲ مربع فٹ کا فرق ڈال دیا ہے جو بہت بڑا فرق ہے۔ ایک تو تم نے مجھے دھوکا دیا ہے دوسرے اتنا چھوٹا ہو جانے کی وجہ سے اب یہ میرے کام کا بھی نہیں رہاکیونکہ میں نے یہ اپنے ایک دوست کے کمرے کا سائز لے کر اُس کو بطور تحفہ پیش کرنے کے لئے بنوایا تھا لیکن اب یہ اس کمرے میں بھدا معلوم ہوگا اس لئے میں اسے پیش نہیں کر سکتا اور یہ اب میرے کام کا نہیں رہا۔ میری یہ بات سن کر اس نے بچوں کی طرح بڑی اونچی آواز سے رونا شروع کر دیا کہ مجھ پر رحم کرو میں مسلمان ہوں۔ وہ یہ فقرہ بار بار دُہرائے اور مجھے غصہ چڑھے کہ یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اِس لئے مجھ پر رحم کرو کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے میں کیوں دھوکا نہ کروں یہ میرا ہی حق ہے کہ میں دھوکا کروں۔ اگرچہ اس کا مطلب یہ نہ تھا لیکن اس سے نکلتا یہی تھا۔ اصل میں اُس کا مطلب یہ تھا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور تم میرے مسلمان بھائی ہو اس لئے تم مجھے معاف کر دو۔ اُس کے شور کو سن کر لوگ اکٹھے ہوگئے اور کہنے لگے بے چارہ غریب ہے غلطی کر بیٹھا ہے آپ اسے معاف کر دیں اور رقم اسے دے دیں۔ میں نے کہا میں تو دینے کے لئے تیار ہوں لیکن یہ کیوں کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اس لئے مجھے چھوڑ دو گویا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے فریب اور دھوکا کرنا اس کا حق ہے سیدھی طرح کہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے درگزر کر دیں آئندہ اس طرح نہیں کروں گا۔ یہ آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فریب کرنا ہمارا حق ہے۔ اگر فریب کرنا ہمارا حق نہیں تو اور کس کا ہے۔ اسی طرح انگریز بند ڈبوں میں دودھ بیچتے ہیں اور اس میں کوئی ملونی نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں جو دودھ بیچتے ہیں اس میں عام طور پر پانی ملا ہوا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب کو ایک دفعہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی طرح ان دھوکے بازوں کو پکڑا جائے۔ اُنہوں نے ایک آلہ منگوایا جس سے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں ملونی ہے یا نہیں۔ اس آلے میں ایک مقام پر ایک نشان لگا ہوتا ہے جو دودھ کے وزن کے مطابق ہوتا ہے (ہر چیز کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اور دودھ کا بھی ایک وزن ہوتا ہے) اگر اس نشان تک آلہ دودھ میں رہے تو دودھ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ آلہ اس نشان سے اونچا رہے تو سمجھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ چونکہ پانی کا وزن کم ہوتا ہے اور دودھ کا زیادہ اس لئے جب پانی دودھ میں ملتا ہے تو دونوں کا وزن مل کر ایک نیا وزن بن جاتا ہے جو کہ دودھ کے وزن سے ہلکا ہوتا ہے اور آلہ اس نشان تک دودھ میں نہیں ڈوبتا جتنا خالص دودھ ہونے کی وجہ سے ڈوبنا چاہئے اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے۔ وہ آلہ منگوا کر میر صاحب نے شہر میں پھرنا شروع کر دیا اور جس نے بھی دودھ بیچنے کے لئے آنا کہنا کہ دودھ دکھاؤ۔ اگر ٹھیک ہوتا تو اس کو کہہ دینا ٹھیک ہے جاؤ اور بیچو اور اگر آلہ نے دودھ کو ناقص بتانا تو ان کو دودھ بیچنے سے منع کر دینا۔ یہ ان کا مشغلہ ہو گیا تھا کہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرنا اور جس کو دیکھنا بلانا اور آلہ لگانا ۔اُس وقت ہسپتال اس چوک میں جہاں پر کہ بُک ڈپو ہے ہوتا تھا اور غالباً ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب وہاں کام کرتے تھے۔ بہرحال جو بھی تھے انہوں نے ایک شخص کے متعلق کہا کہ آلہ کے ذریعہ ہم نے کئی دفعہ اِس کا دودھ دیکھا ہے اور یہ دودھ ٹھیک ہے۔ اس لئے دودھ اس سے لیا جائے ۔مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دفعہ وہی شخص برتن میں سے ایک گڑوی دودھ نکال کر کسی کو دینے لگا تو اس میں سے چھوٹی سی مچھلی کود کر باہر آپڑی۔ اصل میں وہ ہوشیار آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ آلہ لگاتے ہیں تو اس نے ڈھاب کا پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ ڈھاب کے پانی میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور مٹی بھاری ہوتی ہے اس لئے پانی کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلہ اس مقررہ نشان تک پہنچ جاتا اور دھوکا بازی کا پتہ نہ لگتا۔ لوگ سمجھتے کہ بڑا دیانتدار ہے کیونکہ آلہ دودھ کے مقررہ نشان تک پہنچ جاتا ہے لیکن ایک دن مچھلی کود کر باہر آ پڑی تو پھر اُس کی چالاکی کا علم ہوا۔ جس قوم میں دھیلے دھیلے اور دمڑی دمڑی کے لئے اتنی دھوکا بازی کی جاتی ہو اور جو قوم دمڑی دمڑی پر اتنی حریص ہو اور جس قوم کے ایسے اخلاق ہوں وہ لوگوں پر کیا رُعب قائم رکھ سکتی ہے۔
اسی طرح ہماری جماعت میں اور بھی کئی ایسے اخلاق کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جب میں ڈلہوزی میں تھا ہم ایک گجر سے دودھ لیا کرتے تھے، میرے ملازم نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ دودھ میں پانی ڈالتا ہے۔ میں نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم اس کے متعلق کیوں بدظنی کرتے ہو؟ مگر بعد میں لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس کو دودھ میں پانی ڈالتے ہوئے دیکھا گیا ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ بات ٹھیک تھی۔ ایک دن تو لطیفہ ہو گیا۔ ہمارے مہمان زیادہ ہوگئے اِس لئے ہم نے دودھ بجائے سات سیر لینے کے دس سیر لینا شروع کیا۔ دوسرے چوتھے دن چند دوست اُس کو پکڑ کر میرے پاس لائے اور کہا کہ ہم نے اِس کو دودھ میں پانی ڈالتے دیکھا ہے۔ میں نے تحقیقات کروائی تو گوالے نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری بھینس سات سیر دودھ دیتی ہے زیادہ نہیں دیتی اِس لئے میں کہاں سے دس سیر لاؤں لیکن یہ کہتے تھے کہ ہم نے ضرور دس سیر دودھ لینا ہے۔ آخر میں کیا کر سکتا تھا میں نے پانی ڈالنا شروع کر دیا تا کہ دس سیر پورا کیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سادہ آدمی تھا اُس نے یہ کام دھوکا دینے کیلئے نہیں کیا بلکہ اُس نے سمجھا کہ جب وہ خود دس سیر کہتے ہیں تو اِس کا مطلب صاف ہے کہ پانی ڈال کر دس سیر دودھ پورا کر لو اس لئے میں پانی ڈال کر دیتا ہوں۔ یہ بات تو الگ رہی ڈلہوزی میں تویہ ہوتا ہے کہ دودھ بیچنے والے کہتے ہیں کہ روپے کا تین سیر والا لینا ہے یا روپے کا پانچ سیر والا یا روپے کا سات سیر والا۔ اگر کوئی لالچ میں آ جائے اور سات سیر والا دودھ مانگے تو اس کے سامنے نلکے میں سے ڈیڑھ پاؤ دودھ میں قریباً اڑھائی پاؤ پانی ملا کر اُسے دے دیتے ہیں۔ غرض تجارتی معاملات میں ہندوستانیوں میں عام طور پر دیانت داری نہیں پائی جاتی لیکن یورپین قومیں ان باتوں میں نہایت دیانت دار ہوتی ہیں۔ ان کی چیز اگر خراب ہو جائے تو وہ اسے فوراً پھینک دیں گے لیکن ہمارے مُلک کے تاجر اُن کو پھینکتے نہیں بلکہ سستے داموں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہر چیز کا ایک سٹینڈرڈ (STANDERD) ہونا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اس معیار سے چیز نہ گرے اور اگر گرے تو اس کو بیچا نہ جائے۔ اگر اس کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کوئی کارخانہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہمارے قادیان میں ہی کئی کارخانے ہیں اور اچھے چل رہے ہیں۔ـ پچھلی دفعہ جب میں لاہور گیا تو بعض بڑے بڑے ماہروں نے تسلیم کیا کہ قادیان اتنی ترقی کر گیا ہے کہ ہندوستان کے کسی اور شہر میں اتنی ترقی نہیں ہوئی لیکن وہ اور دوسرے مال لینے والے سب یہی شکوہ کرتے تھے کہ کارخانوں کا ایک سٹینڈرڈ نہیں بلکہ کبھی اعلیٰ چیز تیار ہو جاتی ہے اور کبھی ادنیٰ۔ اس کے مقابلہ میں انگلستان کی لاکھوں فرمیں ہیں مگر ان کا سٹینڈرڈ قائم ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے چیکرز رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب کارخانے سے باہر مال جانے لگتا ہے تو وہ پہلے مال کو چیک کرتے ہیں اور جو چیز سٹینڈرڈ سے کم ہو اُسے ردّی قرار دے کر باہر نہیں جانے دیتے بلکہ ضائع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کا سٹینڈرڈ نہ ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں چیکرز نہیں۔ دوسرے کارخانہ والے اپنے مال کو جان بوجھ کر چاہے وہ کتنا ہی ردّی ہو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ردّی چیز کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں اور چونکہ مال لینے والے بھی ہندوستانی ہوتے ہیں وہ بھی سستا مال دیکھ کر خرید لیتے ہیں۔ اگر ایک چیز کارخانہ سے ایک روپیہ پر نکلتی ہے اور بازار میں ڈیڑھ روپیہ کی بکتی ہے تو ردّی مال لینے والے دُکاندار بجائے اِس کے کہ آٹھ آنے کی چیز ایک روپے میں بیچیں وہ ڈیڑھ روپے میں بیچتے ہیں اور اس طرح دوسرے لوگوں کو بھی دھوکے میں رکھتے ہیں کہ یہ اصل سٹینڈرڈ والی چیز ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ چیز خراب ہے تو وہ دکاندار کے پاس شکوہ کرتے ہیں اور دُکاندار کہتا ہے میں کیا کروں میں نے تو فلاں فرم کو آرڈر دے کر منگوائی تھی اس طرح کارخانہ والوں کی بدنامی ہوتی ہے۔ انگریزوں میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر چیز کے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میر مہدی حسن صاحب بھی اِس طرز کے آدمی تھے۔ میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں چھپوائی کے انچارج تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی کتاب کی کاپی چھپتی تو وہ بڑے غور سے پڑھتے۔ اگر فل سٹاپ بھی غلط جگہ لگا ہوتا تو اُس کاپی کو تلف کر دیتے اور نئی لکھواتے۔ اِس طرح کام کرنے والے دو چار دن تک جب تک کہ نئی کاپی تیار نہ ہوتی یونہی بیٹھے رہتے۔ پھر جب وہ تیار ہوتی تو پھر وہ دیکھتے اور اگر کوئی غلطی دیکھتے تو پھر اسے تلف کر دیتے اور اُس وقت تک کتاب چھپنے نہ دیتے جب تک کہ اُنہیں یقین نہ آتا کہ اب اس میں کوئی غلطی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دریافت فرماتے کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔ تو وہ کہتے حضور ابھی پروف میں بڑی غلطیاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی صاف اور اچھی چیز چاہتے تھے اِس لئے آپ کبھی بھی اِس بات کا خیال نہ فرماتے کہ مزدور اور کام کرنے والے یونہی بیٹھے ہیں اور مفت کی تنخواہیں کھا رہے ہیں بلکہ آپ کی بھی یہ یہی خواہش ہوتی کہ لوگوں کے سامنے اچھی چیز پیش ہو۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بھی عادت تھی کہ کتاب میں ذرا نقص ہوتا تو اس کو پھاڑ دینا اور فرمانا دوبارہ لکھو۔ کاتب نے پھر کتاب لکھنی اور اگر کہیں ذرا بھی نقص ہوتا تو اسے پھاڑ دینا اور جب تک اچھی کتابت نہ ہوتی اُس وقت تک مضمون چھپنے کے لئے نہ دینا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن سے کتابت کرواتے تھے وہ شروع میں تو احمدی نہیں تھے لیکن بعد میں احمدی ہوگئے اُن کا لڑکا بھی احمدی ہے۔ان میں یہ خوبی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر پہنچانتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کی قدر پہچانتے تھے۔ باوجود غیر احمدی ہونے کے جب بھی حضرت صاحب کو کتابت کی ضرورت ہوتی انہوں نے قادیان آ جانا۔ اس زمانے میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں پچیس روپے ماہوار اور روٹی کے لئے الاؤنس ملتا تھا۔ ان کی یہ عادت تھی کہ جب کام ختم ہونے کے قریب پہنچتا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے اب گھر جانے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمانا کیوں اتنی جلدی کیا پڑی ہے۔ انہوں نے کہنا حضور! ضرور جانا ہے۔ آپ نے فرمانا ابھی تو کچھ کتابت باقی ہے کہنا حضور! روٹی پکانی پڑتی ہے۔ اِس پر سارا دن صرف ہو جاتا ہے، روٹی پکایا کروں یا کتابت کیا کروں، سارا دن روٹی پکانے میں لگ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمانا آپ کی روٹی کا میں لنگر خانہ سے انتظام کروا دیتا ہوں۔ اس طرح اُن کو ۳۵ روپے تنخواہ مل جاتی اور روٹی مفت۔ کچھ دن کے بعد اُنہوں نے پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیوں کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی بھی کوئی روٹی ہے دال الگ پانی الگ اور نمک ہے ہی نہیں اور کسی وقت اتنی مرچیں ڈال دینی کہ آدمی کوسُوکھی روٹی کھانی پڑے یہ روٹی کھا کر کوئی انسان کام نہیں کر سکتا۔ آپ نے فرمانا اچھا بتاؤ کیا کروں؟ اُنہوں نے کہنا اس کے لئے کچھ رقم الگ دے دیا کریں اس مصیبت سے تو خود روٹی پکانے کی مصیبت اُٹھانا بہتر ہے میں خود روٹی پکا لیا کروں گا۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دس روپے اور بڑھا دینے اور کہنا لو اب آپ کو ۴۵ روپے ملا کریں گے۔ پھر اُنہوں نے دس دن کے بعد آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔ یہاں سارا دن روٹی پکاتا رہتا ہوں کام کیا کروں۔ آپ نے فرمانا پھر کیا کریں؟ کہنا حضور! لنگر خانے میں انتظام کروا دیں۔ آپ نے فرمانا اچھا تمہیں ۴۵ روپے ملتے رہیں گے اور کھانا بھی لنگر خانے میںلگوا دیتا ہوں۔ انہوں نے واپس آ کر پھر کام شروع کر دینا۔ کچھ دنوں کے بعد پھر آ جانا اور کہنا حضور! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضور نے پوچھنا کیا بات ہے؟ کہنا حضور! لنگر کی روٹی تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی بھلا یہ بھی کوئی روٹی ہے آپ مجھے دس روپے روٹی کے لئے دے دیں میں خود انتظام کر لوں گا۔ حضرت صاحب نے دس روپے بڑھا کر ۵۵روپے کر دینے۔ چونکہ وہ حضرت صاحب کی طبیعت سے واقف تھے اُنہوں نے اپنے لڑکے کو سکھایا ہوا تھا کہ میں تیرے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگوں گا اور تو شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اِس اِس طرح کہنا۔ چنانچہ باپ نے ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے بھاگنا اور اُس نے شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور کہنا حضور! مار دیا مار دیا۔ اتنے میں اس کے والد نے آ جانا اور کہنا باہر نکل تیری خبر لیتا ہوں۔ حضرت صاحب نے یہ حالت دیکھ کر پوچھنا کیا بات ہے کیوں چھوٹے بچے کو مارتے ہو؟ کہنا حضور! سات آٹھ دن ہوئے اس کو جوتی لے کر دی تھی وہ اس نے گم کر دی ہے۔ اس وقت میں خاموش رہا پھر لے کر دی وہ بھی گم کر دی۔ اب مجھ میں طاقت کہاں ہے کہ اِس کو اَور جوتی لے کر دوں میں اِسے سزا دوں گا۔ اگر آج سزا نہ دی تو کل پھر جوتی گم کر دے گا۔ حضرت صاحب نے فرمانا میاں! بتاؤ جوتی کتنے کی تھی؟ کہنا حضور! تین روپے کی۔ حضرت صاحب نے فرمانا اچھا یہ تین روپے لے لو اور اِس کو کچھ نہ کہو۔ اُنہوں نے تین روپے لے کر واپس آ جانا چار دن نہ گزرنے تو پھر لڑکے نے شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اُنہوں نے لاٹھی لے کر اُس کے پیچھے پیچھے آنا اور کہنا باہر نکل، اُس دن تو حضرت صاحب کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج تو تجھے نہیں چھوڑنا۔ حضرت صاحب نے پوچھنا کیا بات ہے کیوں اِس بچے کو مارتے ہو؟ اُس نے کہنا حضور! اُس دن تو میں نے آپ کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج اِسے نہیں چھوڑنا آج پھر یہ جوتی گم کر آیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمانا اسے نہ مارو جوتی کی قیمت مجھ سے لے لو۔ پھر انہوں نے جو رقم بتانی وصول کر کے لے جانی اور کہنا حضور! میں نے اِس دفعہ چھوڑنا تو نہیں تھا لیکن آپ کے فرمانے پر چھوڑ دیتا ہوں۔ غرض اِس طرح اُنہوں نے کرتے رہنا لیکن کتابت ایسی اچھی کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اُن ہی سے اپنی کتابیں لکھوایا کرتے تھے اور یہ پسندنہیں کرتے تھے کہ کسی معمولی کاتب سے کتاب لکھوا کر خراب کی جائے کیونکہ اِس طرح کتاب کا معیار لوگوں کی نظروں میں کم ہو جاتا ہے۔ بہرحال ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ اُن سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رُعب قائم ہو۔
(الفضل ۲۹تا ۳۱؍ جولائی، ۲؍ اگست ۱۹۶۰ء)
۱؎ بربر: سوڈان کاا یک شہر
۲؎ کُلِّی: رقیق چیز
۳؎
۴؎ فتوح البلدان۔ بلاذری صفحہ۱۴۳،۱۴۴ مطبوعہ قاہرہ ۱۳۱۹ھ


نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۵ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
انسانی زندگی ایک دَور بلکہ چند اَدوار کا نام ہے۔ ایک دَور چل کر ختم ہو جاتا ہے تو ایک اور دَور چل پڑتا ہے ۔ وہ ختم ہوتا ہے تو پھر ایک اور دَور ویسا ہی چل پڑتا ہے۔ جیسے رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اِسی طرح ایک دَور کے بعد دوسرا چلتا چلا جاتا ہے اور الٰہی منشاء اِسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دَور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں۔ اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اِن اَدوار کے لوگ ایک دوسرے کی نقلیں کر رہے ہیں۔ مؤمنوں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسے پہلے مومنوں کی اور کافروں کی باتیں ویسی ہی معلوم ہوتی ہیں جیسی پہلے کافروں کی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حیرت کا اظہار فرماتا ہے کہ ۱؎ ان کافروں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ وہی باتیں کہتے ہیں جو پہلے نبیوں کو ان کے نہ ماننے والوں نے کہیں اور کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جو نئی ہو اور پہلے انبیاء کو ان کے مخالفوں نے نہ کہی ہو۔ عیسائی اور یہودی مصنّفین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہمیں کیا علم ہے کہ پہلے انبیاء کے دشمنوں نے وہی اعتراض اپنے وقت کے نبیوں پر کئے تھے یا نہیں جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر کئے گئے اور ہمارے پاس کیا ثبوت ہے اِس بات کا جو محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہی کہ مجھے یہ الہام ہوا ہے کہ آدم کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے، نوحؑ کے دشمنوںنے بھی یہی اعتراض کئے تھے، ابراہیم ؑ کے دشمنوں نے بھی یہی اعتراض کئے تھے۔ یہ کہنا کہ یہ خبریں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہیں محض باتیں ہی باتیں ہیں اِن میں حقیقت کچھ بھی نہیں۔ بلکہ یہ قصے آدمؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ کے منہ سے کہلوا دیئے گئے ہیں۔ اگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ نہ ملا ہوتا اور کوئی اِس بات کا ثبوت ہم سے مانگتا تو ہمیں مشکل پیش آتی لیکن اِس علم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بعینہٖ وہی باتیں کہی گئیں جو جہالت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے کہی تھیں اور وہی اعتراض آپ پر کئے گئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے آپ پر کئے تھے۔ اِس سے ہم نے یقین کر لیا اور ہمارے لئے شک کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ واقعی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن وہی باتیں کہتے ہونگے جو حضرت آدمؑ ،حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ ،حضرت موسیٰ ؑاورحضرت عیسیٰ ؑکے دشمن کہتے تھے۔ کیونکہ آج ۱۳۰۰ سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے دشمنوں نے کئے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن جب آپ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آپ کے مخالفین نے کئے تھے۔ جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے قابلِ اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں۔ پس جو جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اِس طریق سے حُجّت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابوجہل کرتا تھا جو شخص ان اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیلِ ابوجہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں وہ مثیلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ پس ہر زمانہ میں مؤمنوں اور کافروں کی پہلے مؤمنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اِس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دَور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اِس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اِس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے۔ اس کے اپنے اور بیگانے ،دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں۔
حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اِس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں۔ ہم آپ لوگوں سے اِس کو زیادہ جانتے ہیں، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہو سکتی، ہم اِس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اِسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے۔
مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے۔ دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے۔ میاں! تم کہاں اِس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے۔ ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیرنے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے۔ اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابوجہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوا لیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی۔
لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نو مُسلمتھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے۔ اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کادعویٰ بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہئے۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں ابھی انہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہوگئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا۔ انہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان نو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں۔ اِس پر اُنہوں نے اِن نو مُسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی۔ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے۔ غالباً وہ ۹ آدمی تھے اُن میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ اُن کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اِس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو۔ چنانچہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اِس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے۔ جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حُقّہ پینے کی عادت تھی اِس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے گئے۔ وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا۔ انسان کو کام وہ کرنا چاہئے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو تم جو اِتنی دُور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو (کیونکہ اُن کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اِس لئے پیدل جانا ہوگا) بتاؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُن میں سے ایک نو مُسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اِس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا؟ آپ مرزا صاحب کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہوگئے۔ لوگ ہمیں مرزائی، مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا۔ اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں۔
مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سالے اور مرزا فضل احمد صاحب کے خسر تھے۔ اُنہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا۔ رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے تسبیح کے دانے پھیرتے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔ بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے۔ اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت ہوتی تھی، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی سفید رنگ تھا،ـ تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے، تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بُلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر مَیں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالباً وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ اب تو لوگ جلسہ کے دَوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن اُن پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارۃ المسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وُسعت اِس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی، نہ کالج تھا نہ سکول تھے۔ اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اِس سے ملو اور اِس سے باتیں پوچھو اُن کا ایمان اِسی سے بڑھ جاتا تھا اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا۔ لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔ وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سَوگز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آ رہے تھے۔ علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بُلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں۔ علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اِس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دُکان کھول لی ہے۔ آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔ یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائیں ہیں۔ چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے۔ اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا۔ گویا اِسے اُن سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے۔ علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے۔ اِس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ۔ اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اِس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور مَیں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنا لوں گا۔ اس دوست کے باقی ساتھی دَوڑ کر آگئے تو اس نے کہا۔ مَیں نے تمہیں اس لئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے۔ مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے۔ پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا۔
اب دیکھو کس طرح ایک قوم دوسری قوم کے قدم بقدم چلتی ہے۔ ہم نے خود دیکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن تیرہ سَو سال کے بعد وہی اعتراض کرتے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے گئے بلکہ وہی اعتراض کئے جاتے ہیں جو حضرت نوحؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے یا جو اعتراض حضرت ابراہیم ؑ پر آپ کے دشمنوں نے کئے، یا جو اعتراض حضرت موسیٰ ؑکے دشمنوں نے آپ پر کئے، یا جو اعتراض حضرت عیسیٰ ؑپر آپ کے دشمنوں نے کئے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ سچ کا مقابلہ سوائے جھوٹ اور فریب کے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سچ ہر زمانہ میں سچ ہے اور جھوٹ ہر زمانہ میں جھوٹ ہے۔ سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ اور فریب کے آ ہی کیا سکتا ہے۔ اگر کوئی چیز دشمنوں کے پاس سوائے جھوٹ کے ہو تو نکلے۔
ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ کسی میراثی کے گھر میں رات کے وقت چور آیا یہ سمجھ کر کہ آخر دس بیس پچاس روپے تو اُس کے ہاں ضرور ہونگے اور نہیں تو کوئی کپڑا ہی سہی۔ چور کونسا لاکھ پتی ہوتا ہے کہ ضرور لاکھوں والی جگہ ہی چوری کرے۔ اگر اُسے ایک روپیہ بھی مل جائے تو وہ اُسے ہی غنیمت سمجھتا ہے۔ وہ بھی یہی سمجھتا کہ آخر کوئی نہ کوئی ہدیہ ہی میراثی کو ججمانوں ۲؎کے ہاں سے ملا ہوگا وہی سہی۔ پُرانے زمانے میں یہ دستور تھا کہ جس کے پاس کوئی نقدی یا زیور ہوتا وہ اُسے کسی برتن میں ڈال کر زمین میں دفن کر دیتا تھا اور چوروں نے اُسے نکالنے کا یہ طریق نکالا تھا کہ وہ لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھتے جہاں انہیں نرم نرم زمین معلوم ہوتی وہاں سے کھود کر نقدی یا زیور نکال لیتے تھے۔ یہی طریق اُس چور نے اختیار کیا اور لاٹھی لے کر گھر کی زمین کو ٹھکور ٹھکور کر دیکھنے لگا۔ اِسی اثناء میں میراثی کی آنکھ کھل گئی اور اُسے چور کی یہ حرکت دیکھ کر ہنسی آنے لگی کہ ہمیں تو کھانے کو نہیں ملتا اور یہ سوٹیاں مار مار کر خزانہ تلاش کر رہا ہے۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے ہنس کر چور سے کہا۔ ’’ججمان! سانوں ایتھے دن نوں کچھ نہیں لبھدا۔ تہانوں راتیں کی لبھنا ہے‘‘۔ یعنی ہمیں یہاں دن کو کوئی چیز نہیں ملتی آپ کو رات کے وقت یہاں کیا ملے گا۔ یہی حالت مخالفین کی ہے سچ کے مقابلہ میں سوائے جھوٹ کے کوئی اورچیز ہو تو وہ پیش کریں اور سچ کے مقابلہ میں سچ کہاں سے لائیں۔
مقابلہ کے دو ہی طریق ہیں ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کا بندہ جب کہتا ہے کہ میں نشان دکھاتا ہوں تو دشمن بھی کہیں کہ ہم بھی ویسا ہی نشان دکھاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہوتے اس لئے نشان کے مقابل پر نشان دکھانے کے لئے سامنے نہیں آتے۔ ہاں دوسرا طریق یہ ہے کہ آئیں بائیں شائیں کرتے اور خوب شور و شغب پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم خوب مقابلہ کر رہے ہیں اور یہی طریق ہمیشہ انبیاء اور خدا تعالیٰ کے دوسرے خادموں کے دشمن اختیار کیا کرتے ہیں۔
جب سے میں نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا ہے مولوی محمد علی صاحب نے ویسے ہی اعتراض کرنے شروع کر دیئے ہیں جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کیا کرتے تھے۔ میں خواب یا الہام سناتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اعلام کی بناء پر اعلان کرتا ہوں لیکن مولوی محمد علی صاحب نہ تو مقابل پر کوئی خواب یا الہام پیش کرتے ہیں اور نہ ہی وہ پیش کر سکتے ہیں کیونکہ وہ سارا زور لگا کر تیس سالہ پُرانا ایک الہام پیش کر سکے ہیں مگر وہ بھی واقعات کے رو سے غلط نکلا ہے۔ پس جب الہام ہوا ہی نہیں تو وہ الہام پیش کیسے کریں۔ اب سوائے اعتراضوں کے ان کے پاس کوئی چیز نہیں اگر وہ اعتراض بھی نہ کریں تو مقابلہ کس طرح کریں۔ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کے دشمن اِس بات کا تو انکار نہیں کر سکتے تھے کہ الہام ہوتا ہی نہیں کیونکہ ان سے پہلے انبیاء کو الہام ہوتا تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے اِس لئے ان انبیاء کا انکار کرنے والے اس بات کا انکار نہ کر سکتے تھے کہ الہام کوئی چیز نہیں۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے کیلئے اور ان انبیاء کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ کہتے تھے کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں نے بھی یہی کہا کہ ان کے الہام خود ساختہ ہیں۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا یہ قول درست تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وحی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خود ساختہ تھی اللہ تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل پر الہام کر دیتا تا مفتریوں کی قلعی کھل جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ان کو الہام سے محروم رکھنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی حق پر تھے اور آپ کے دشمن یہودی اور عیسائی ناحق پر تھے۔ اسی طرح آج مولوی محمد علی صاحب یہ کہتے ہیں کہ میرے الہام جھوٹے ہیں لیکن کیوں اللہ تعالیٰ ان کو میرے مقابل پر سچے الہام نہیں کر دیتا، تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ مولوی صاحب حق پر ہیں اور مَیں ناحق پر ہوں۔
حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص دن رات اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو گمراہ کرے اور دن رات اُس کے بندوں کو فریب اور دغا بازی سے غلط راستہ کی طرف لے جائے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کو غیرت نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو غیرت نہیں آتی تو اِس کی وجہ سوائے اِس کے یقینا اور کوئی نہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ مولوی صاحب اِس کے قرب سے بہت دُور ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کو الہام نہیں کیا۔ پس سچائی کے مقابلے میں ابتداء سے انکار ہوتا رہا ہے یہ سلسلہ ابتداء سے چلتا آیا ہے اور چلتا چلا جائے گا۔
یہ ایک بالکل واضح بات ہے کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس طریق کو بھول جاتے ہیں۔ وقت سے پہلے وہ ان باتوں کو اپنی مجالس میں دُہراتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں لیکن عین موقع پر اِن کا صاف انکار کر دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اوّل کو اس قدر صدمہ ہوا کہ شدتِ غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے اسی حالت میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اوّل کا ہاتھ پکڑ کر کہا اَنْتَ الصِّدِّیْقُ اور بعض اور فقرات بھی کہے جن کا مفہوم یہ تھا کہ خلافت اسلام کی سنت ہے لیکن بعد میں مولوی سید محمد احسن صاحب اِس بات پر قائم نہ رہے اور اُنہوں نے خلافت سے منہ پھیر لیا۔ مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء نے ان کے بچوں کو آٹے کی مشین لگوا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ پس اِس بات پر لڑکے اور بیوی پیغامیوں کا ساتھ دیتے رہے اور مولوی صاحب کو بھی مجبور کرتے رہے کہ وہ لاہوریوں کا ساتھ دیں۔ جب وہ ابتلاء کے کچھ عرصہ بعد قادیان میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو صاف کہا کہ میں مجبور ہوں فالج نے قویٰ مار دیئے ہیں میں طہارت تک خود نہیں کر سکتا ان لوگوں کو وعدہ دے کر لاہوریوں نے بگاڑ رکھا ہے اور میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یعقوب اور اُس کی والدہ کو سنبھال لیا جائے تو میں بھی رہ سکوں گا مگر چونکہ میں اِس قسم کی رشوت دینے کا عادی نہیں مَیں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ مجھے اکثر ایسے لوگوں کی حالت پر حیرت آتی ہے کہ ذرا ان کو سلسلہ سے کوئی شکایت پیدا ہو تو اُنہیں خلافت کے مسئلہ میں بھی شک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
گجرات کے دوستوں نے سنایا کہ جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوئے تو ایک اہل حدیث مولوی نے ہمیں کہا اب تم لوگ قابو آئے ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہے۳؎ اور تم میں خلافت نہیں ہوگی تم لوگ انگریزی دان ہو اس لئے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے۔ وہ دوست بتاتے ہیں کہ دوسرے دن تار موصول ہوئی کہ جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی بیعت کر لی ہے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لیا ہے۔ جب احمدیوں نے اُس مولوی کو بتایا تو کہنے لگا نورالدین بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا اِس لئے اُس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو کہنے لگا اُس وقت اور بات تھی اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اگلے دن تار پہنچ گئی کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اِس پر کہنے لگا یارو تم بڑے عجیب ہو، تمہارا کوئی پتہ نہیں لگتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کفر ہمیشہ سے ایک ہی راستے پر چل رہا ہے اور اِس سے پیار کرنے والے ہر نبی کے زمانہ میں وہی طریق اختیار کرتے ہیں جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں اختیار کیا گیا۔ اسی طرح ہدایت کا بھی ایک بنا بنایا راستہ ہے جو ابتداء سے آج تک بغیر تغیر و تبدل کے چلا آ رہا ہے اور ہر آنے والا اسی راستہ پر چلتا ہے لیکن لوگ اس بنے ہوئے رستہ کی طرف توجہ نہیں کرتے اور خود تراشیدہ قوانین کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی مُسلم لیگ بناتا ہے، کوئی زمیندارہ لیگ بناتا ہے، کوئی سیاسی انجمنیں بناتا ہے، کوئی اقتصادی انجمنیں بناتا ہے، کوئی مذہبی مجالس قائم کرتا ہے اور اسے دین کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں حالانکہ دُنیوی ضرورتیں تو سمجھو کہ ان سے پوری ہو سکتی ہیں دینی ضرورتیں کب ان طریقوں سے پوری ہو سکتی ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کو تو اپنے دین کا فکر نہیں صرف اِن لوگوں کو فکر ہے۔ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کی جماعت ہیں تو اُسے اِن کا فکر ضرور ہوگا، اگر اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اِس کی نگرانی سے غافل ہو، اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہے جو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجی گئی تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کیا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دادا کے زمانے میں یمن کا علاقہ حبشہ کے ماتحت تھا اور چونکہ حبشہ ایک عیسائی مُلک تھا اِس لئے یمن کا گورنر بھی عیسائی ہوا کرتا تھا۔ عبدالمطلب کے زمانہ میں یمن کے والی کا نام ابرہہ تھا۔ یہ شخص کعبہ سے سخت دشمنی رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح عرب کے لوگوں کو کعبہ سے پھیر دے۔ چنانچہ اس نے کعبہ کے مقابلہ پر یمن میں ایک معبد تیار کیا اور لوگوں میں تحریک کی کہ وہ بجائے کعبہ کے اس عبادت گاہ کے حج کے لئے آیا کریں۔ عرب کی فطرت بھلا کب اِس بات کو برداشت کر سکتی تھی۔ ایک عرب نے غصہ سے جوش میں آکر اس معبد میں پاخانہ پھر دیا۔ ابرہہ کو اِس بات کا علم ہوا تو اُس نے غصہ میں آ کر ارادہ کیا کہ مکہ پر فوج کشی کر کے کعبہ کو مسمار کر دے۔ چنانچہ وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ یمن سے نکلا اور مکہ کے قریب پہنچ کر شہر کے سامنے اپنی فوجیں ڈال دیں۔ جب قریش کو اِس کا علم ہوا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم اس کے مقابلے کی تاب نہیں رکھتے۔ چنانچہ اُنہوں نے عبدالمطلب کو ابرہہ کے پاس بطور وفد کے روانہ کیا۔ وہ ابرہہ کے پاس گئے ابرہہ ان کی باتوں اور ان کی نجابت سے بہت خوش ہوا اور ان سے بڑی عزت کے ساتھ پیش آیا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو مَیں اِن کو کیا انعام دوں؟ عبدالمطلب نے کہا کہ آپ کی فوج نے میرے دو سَو اونٹ پکڑ لئے ہیں وہ مجھے دِلوا دیئے جائیں۔ اُس نے اونٹ تو واپس دِلوا دیئے مگر منہ بنا کر کہا میں تمہارے کعبہ کو مسمار کرنے کے لئے آیا ہوں تم نے اِس کی فکر نہ کی اور جھوٹے منہ بھی تم نے مجھے یہ نہ کہا کہ کعبہ کو نہ گرایا جائے او رتمہیں اپنے دو سَو اونٹوں کی فکر لگ گئی۔ عبدالمطلب نے جواب میں کہا۔ مَیں تو صرف اونٹوں کا ربّ اور مالک ہوں مگر اس گھر کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اِس کی حفاظت کرے گا۔ اگر مجھے اپنے اونٹوں کی فکر ہے تو کیا اُسے اپنے اِس گھر کی فکر نہیں۔۴؎ اسی طرح میں کہتا ہوں اگر واقعہ میں اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اللہ تعالیٰ نے یقینا اِس کی حفاظت اور اِس کی بہتری کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل پیدا کی ہوگی اور اُسے بندوں کے سہارے نہیں چھوڑا ہوگا۔ وہ بہتری کی سبیل اور حقیقی اسلام کا رستہ آج احمدیت ہے۔ لیکن اگر احمدیت بُری چیز ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرض ہے کہ وہ اپنی غیرت دکھائے کیونکہ مخالفین کے نزدیک نَعُوْذُ بِاللّٰہِ احمدیت اُس کے دین میں رخنہ اندازی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ جیسے فرمایا ۵؎ مگر مولوی کہتے ہیں کہ قرآن کریم تو خدا نے بھیج دیا مگر اِس کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے اور مسلمانوں کے لیڈر اِس غرض کے لئے لیگیں، انجمنیں اور ایسوسی ایشنیں بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ قرآن کریم کی حفاظت کر سکے۔ دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جو چیز دنیا میں موجود ہے وہ اپنے وجود کا خود پتہ دیتی ہے اور جو چیزیں موجود ہیں ان میں سے جو چیز طاقتور ہوگی وہ دوسری چیزوں پر غالب آ جائے گی۔ جب وہ غالب آنے لگتی ہے تو دنیا بھی اس کا مقابلہ نہیں کرتی اور جو شخص کسی کام کا اہل یا کسی بوجھ کو اُٹھانے والا ہوتا ہے وہ خود بخود ہی میدانِ عمل میں آجاتا ہے۔ پہلے مسلمانوں کے لیڈر اور مسلمانوں کے نمائندہ سر میاں فضل حسین صاحب رہے اُس وقت مسٹر جناح کے خیالات کانگرسی تھے اور کانگرس کی تائید میں تھے اور مُسلم لیگ کا دائرہ اُس وقت اتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے۔ کچھ عرصہ کانگرس میں کام کرنے کے بعد مسٹر جناح مُسلم لیگ میں آ گئے اور آہستہ آہستہ اپنی قابلیت منواتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ تمام مسلمان لیڈر اُن کے پیچھے لگ گئے اور وہ مُسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ یہی حال انگریزی قوم کا ہے تمام قوم پچیس سال تک مسٹر چرچل کو دھتکارتی رہی کہ یہ لڑاکا ہے۔ فساد کرتا ہے لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو کیا لیبر اور کیا یونینسٹ اور کیا کنزرویٹونیمسٹر چرچل کو اِس کام کیلئے منتخب کیا ۔تو جو شخص کسی کام کا اہل ہوتا ہے وہ آپ ہی آپ دوسروں پر چھا جاتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے بھی انسانوں کی حفاظت ضرورت نہ تھی بلکہ جس کے سپرد یہ کام تھا وہ خود ہی آگے آ جانا چاہئے تھا۔ جب کسی چیز کے اُگنے کا موسم آ جائے اور وہ وقت پر اُگ آئے تو ہم سمجھیں گے کہ اُس کابیج زمین میں موجود تھا لیکن اگر باوجود موسم کے آ جانے کے زمین سے کوئی چیز نہ اُگے ہم تو کہیں گے کہ اس میں کسی چیز کا بیج موجود نہ تھا اس لئے اس سے کوئی چیز نہیں اُگی اور اب اس میں بیج باہر سے ڈالا جائے گا۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کی خستہ حالی کے وقت مسلمان خود مل کر اس کا علاج کر لیتے تو ہم سمجھ سکتے تھے کہ اب خدا کی طرف سے کسی کے آنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اپنی تمام کوششوں کے باوجود مسلمانوں پر خستہ حالی اور اسلام پر ادبار کے بادل چھائے رہیں تو ماننا پڑے گا کہ اب اس کا علاج کرنے والا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آئے گا کیونکہ مسلمان خود اس قابل نہیں رہے کہ وہ اسلام کو دوبارہ باقی ادیان پر غالب کر دیں۔ کیا مسٹر جناح دنیا کے سارے مسلمانوں کے نگران ہو سکتے ہیں؟ اور کیا مسٹر جناح اسلامی دنیا کے تمام نقائص اور خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں؟ کیا مسٹر جناح یا کوئی مسلمان نمائندہ آج پھر ایمان کو اُسی پہلی حالت میں قائم کر سکتا ہے جو حالت کہ قرونِ اُولیٰ کی تھی؟ ہر انسان جو سوچ اور عقل سے جواب دے گا وہ یہی جواب دے گا کہ مسٹر جناح ہندوستان کے سیاسی لیڈر ہیں دنیا بھر کے مذہبی لیڈر نہیں ہیں۔ یہ کام سوائے ایسے شخص کے نہیں ہو سکتا جو مَؤیَّد مِنَ اللّٰہِ ہو اور جسے اللہ تعالیٰ خود مقرر کرے اور وہ تمام مسلمانوں کا نگران ہو۔ مسلمانوں کے ہر مرض کا علاج کرنے والا اور مسلمانوں کی ہر تکلیف کا مداوا ہو، جو اسلام کو اَدیانِ باطلہ پر غالب کرنے والا ہو۔ آج ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔ پس جس طرح ہر چیز اپنے موسم میں پیدا ہو جاتی ہے اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے وقت پر پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ ایک چیز کی اشد ضرورت محسوس کی جائے۔ اُس کا موسم آ جائے، لوگ اس کے لئے بے تاب ہوں لیکن اپنی طرف سے وہ چیز عطا نہ کرے۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ جس طرح دوسری چیزیں اپنے اپنے موسم میں پیداہوتی ہیں اِسی طرح نبوت اور خلافت بھی اپنے اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دی جاتی ہیں تا اِن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے بندے اُس کی قرب کی راہوں پر چلیں اور اُن تمام باتوںسے بچیں جو کہ اُس سے دور لے جاتی ہیں۔اور خلافت قوم میں چلتی چلی جاتی ہے جب تک قوم درست رہتی ہے لیکن جب قوم کے افراد میں غداری اور دغا بازی کی رُوح پیدا ہو جاتی ہے تو خلافت بھی مٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن سے یہ نعمت چھین لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ قوم کی حالت کو دیکھ کر خلیفہ مقرر کرتا ہے۔ اگر قوم کے حالات درست ہوں تو خلافت دے دیتا ہے اور اگر درست نہ ہوں تو یہ انعام واپس لے لیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شرعی مسئلہ ہے اور یہ ایک لحاظ سے ہے بھی لیکن اِسی حد تک کہ بندے اُس کو خلیفہ مقرر کریں۔ مگر خلافت کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کو خلیفہ بناتا ہے اور ایک یہ ہے کہ بندے اُس کا انتخاب کرتے ہیں۔ جہاں تک بندوں کے انتخاب کا سوال ہے وہ ہو جائے گا لیکن جو حصہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر بندے خلیفہ چننے کے لئے اُن قوانین کی پابندی کریں گے جو خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں تو وہ خلافت کامیاب ہوگی لیکن اگر نہیں کریں گے تو اگرچہ وہ خلیفہ تو بنا لیں گے لیکن کامیاب نہیں ہونگے۔ یا پھر اُس خلیفہ کی حیثیت عیسائیوں کے پوپ کی طرح ہو جائے گی جس سے قوم کوئی حقیقی فائدہ نہیں اُٹھا سکے گی۔ مگر باوجود اِس کے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔
دنیا ان باتوں کو ہمیشہ بھول جاتی ہے حالانکہ یہ بات ہمیشہ اور بار بار ہوتی ہے۔ یہی چیزیں ہماری جماعت میں ہوتی ہیں اور آئندہ بھی ہونگی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور اُسی رنگ میں آئے جس رنگ میں حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپ کے بعد بھی اُسی رنگ میں سلسلہ خلافت شروع ہوا۔ جس طرح پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ قائم ہوا۔ اگرہم عقل کے ساتھ دیکھیں اور اِس کی حقیقت کو پہنچاننے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں اگر دس ہزار نسلیں بھی اِس کے قیام کے لئے قربان کر دی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ میں دوسروں کے متعلق تو نہیں جانتا مگر کم از کم اپنے متعلق جانتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی تاریخ پڑھنے کے بعد جب میں حضرت عثمانؓ پر پڑی ہوئی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اُس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آ کر ان میں پیدا کی تھی تو مَیں کہتا ہوں اگر دنیا میں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہوتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساعت میں جمع کر کے قربان کر دی جاتیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جوں دے کر ہاتھی خریدنے کے سَودے سے بھی زیادہ سَستا سَودا ہوتا۔درحقیقت ہمیں کسی چیز کی قیمت کا پتہ پیچھے لگتا ہے۔
اب میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ دین کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی۔ دین کی قیمت تو الگ رہی ہم دنیاوی حیثیت دیکھتے ہیں تو وہ بھی نہیں رہی۔ کجا وہ وقت تھا کہ ایک مسلمان خواہ کسی جگہ پر چلا جاتا) چاہے وہ چوڑھا ہوتا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کی طرف انگلی نہ اُٹھا سکتا۔ چین کا بادشاہ جس کی بادشاہت اس زمانہ کے لحاظ سے بہت بڑی بادشاہت تھی اُس کو بھی حوصلہ نہیں تھا کہ ایک چوڑھے مسلمان کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے اس لئے کہ سارا عالم اسلامی اس کی پشت پر تھا۔ آخری زمانہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ خلافتِ بغداد بالکل تباہ ہوکر ریاستوں کی شکل اختیار کر چکی تھی لیکن نام باقی تھا۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی مرا ہوا بھی بھاری ہوتا ہے۔ خلافت تو تھی گو چند گاؤں بھی ان کے قبضہ میں نہ رہے تھے صرف بغداد تھا باقی سب جگہ دوسری بادشاہتیں قائم ہوگئی تھیں۔ وہ بادشاہ مطلق العنان ہونے کے باوجود بھی خلافت کا احترام کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو غائب بادشاہ ہیں، اصل بادشاہ خلیفہ ہے۔ یوں وہ اپنا قانون چلاتے تھے، اپنی فوجیں رکھتے تھے، خود ہی لڑائیاں لڑتے تھے، خود ہی فیصلہ کرتے تھے، خود ہی معاملات طے کرتے تھے اور خلیفہ کو پوچھتے تک بھی نہ تھے مگر اِس نام کی بھی برکت تھی۔ اُس زمانہ میں مسلمانوں کے ایک علاقہ میں سے جب کہ مسلمان کمزور ہوچکے تھے یورپین فوجیں گزریں اور اُنہوں نے کسی مسلمان عورت کو چھیڑا (اُس بیچاری کو کچھ پتہ نہ تھا کہ خلافت ٹوٹ چکی ہے اور تقسیم ہو کر مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے وہ یہی سنتی آ رہی تھی کہ ابھی تک یہاں خلیفہ کی حکومت ہے) اُس نے اِسی خیال کے ماتحت خلیفہ کو پکار کر بآوازِ بلند یَالَلْخَلِیْفَۃکہا۔ یعنی اے خلیفہ! میں مدد کے لئے تمہیں آواز دیتی ہوں۔ اُس وقت وہاں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا اُس نے یہ باتیں سنیں۔ وہ قافلہ بغداد کی طرف جا رہا تھا۔ پُرانے زمانہ میں رواج تھا کہ جب قافلہ شہر میں آتا تو قافلہ کی آمد کی خبر سن کر لوگ شہر کے باہر قافلہ کے استقبال کے لئے جاتے۔ تاجر لوگ بھی اُس وقت وہاں پہنچ جاتے اور آجکل کی بلیک مارکیٹ کی طرح وہیں مال خریدنے کی کوشش کرتے کیونکہ جو مال باہر سے آتا تھا وہ سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم آتا تھا اِس لئے ہر ایک تاجر یہی کوشش کرتا کہ وہیں جا کر سَودا کرے اور اُسے دوسروں سے پہلے حاصل کرے۔ جب وہ قافلہ آیا اور شہری اُس کے استقبال کے لئے شہر سے باہر گئے اور اُسے ملے تو اہلِ شہر نے اُن سے سفر کے حالات پوچھنے شروع کئے اور کہا کہ کوئی نئی بات سناؤ۔ اُنہوں نے کہا سفر ہر طرح آرام سے کٹ گیا مگر ہم نے راستہ میں ایک عجیب تمسخر سنا۔ ایک عورت خلیفہ کو آوازیں دے رہی تھی اور مدد کے لئے بُلا رہی تھی۔ اُس بے چاری کو کیا پتہ کہ اِس جگہ اب اُس کی حکومت ہی نہیں۔ یہ باتیں سننے والوں میں سے ایک درباری بھی تھا وہ دربار میں آیا اور بادشاہ سے اِس کا ذکر کیا اُس نے کہا آج ایک عجیب بات ہوئی ہے ایک قافلہ فلاں جگہ سے آیا اور اُس نے سنایا کہ ایک عورت خلیفہ کو پکارتی تھی۔ اگرچہ بادشاہت تو اُس وقت تباہ ہوچکی تھی اور خلافت مٹ چکی تھی مگر معلوم ہوتا ہے ابھی اسلامی ایمان کی کوئی چنگاری باقی تھی۔ خلیفہ میں کوئی طاقت نہ تھی وہ جانتا تھا کہ میں اکیلا ہوں لیکن جب اُس نے یہ بات سنی تو تخت سے اُتر آیا اور ننگے پاؤں چلا اور کہا کہ گو اب خلیفہ کا وہ اقتدار نہیں رہا مگر بہرحال اُس نے خلافت کو آواز دی ہے اب میرا فرض ہے کہ میں اُس کے پاس جاؤں اور اُس کی مدد کروں۔ یہ بات ایسی ہے کہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہمارا خون کھول جاتا ہے اُس زمانہ میں کیوں نہ کھولا ہوگا۔ جونہی یہ بات دوسرے بادشاہوں نے سنی اُنہوں نے خلیفہ کو یہ اطلاع بھیجی کہ ہم مدد دیں گے آپ اُس عورت کو آزاد کرائیں اور اُن سے اِس کا بدلہ لیں۔چنانچہ وہ گئے اور اُنہوں نے اُس عورت کو آزاد کرایا اور عیسائیوں سے اُس کا بدلہ لیا۔
لیکن آج بڑی بڑی مسلمان شخصیتوں کا سوال ہی نہیں رہا اب تو بڑی بڑی مسلمان حکومتیں بھی ریاستوں سے بالا نہیں۔ سب سے بڑی حکومت مسلمانوں کی اِس وقت ترکی کی حکومت ہے مگر اِس کی حالت یہ ہے کہ جب روس کوئی بات کرتا ہے تو وہ کھسیانہ ہو کر کبھی انگریزوں اور کبھی امریکہ کی طرف دیکھتا ہے اور دیکھ کر سوچتا ہے کہ آیا بھبکی دوں یا سسکی بھروں۔ اگر دیکھے کہ وہ ہماری طرف مہربانی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تو سسکیاں مار کر رونے لگ جاتا ہے اور اگر سمجھتا ہے کہ مدد کریں گے تو پھر ان کو بھبھکیاں دیتا ہے۔ ہر ایک کے اندر جذبات ہوتے ہیں لیکن یہ حالت دیکھ کر بھی کسی مسلمان کی غیرت جوش میں نہیں آتی۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اگر میں احمدی نہ ہوتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے گھر میں پرورش نہ پاتا تو میرے کیا اخلاق ہوتے لیکن اگر میرے یہی جذبات ہوتے جو اِس وقت ہیں اور احمدیت والا ایمان میرے اندر نہ ہوتا تو اگر کوئی سَو فیصدی سے بھی زیادہ یقین دلانے کا کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یا میں پاگل ہو جاتا اور یا پھر اپنے ہاتھ سے اپنے بیوی بچوں کو مار کر اپنے آپ کو مار ڈالتا کیونکہ میرے نزدیک اس قسم کی زندگی کو ایک لمحہ کیلئے بھی برداشت کرنا کسی خبیث اور بے ایمان آدمی کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ذات ہے جس نے ہمارے دل میں ایک نئی اُمنگ پیدا کر دی ہے۔ آج وہ کرن دُور ہے اور شعائیں فاصلہ پر نظر آتی ہیں مگر بہرحال کھڑکی کھلی نظر آتی ہے اور پتہ لگتا ہے کہ ہم کسی نہ کسی دن اُس مقام پر پہنچیں گے۔ جس طرح اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو گھٹنوں کے بل گرانے کی کوشش کی اور ناک رگڑوانا چاہا ہم اِنْشَائَ اللّٰہَ اِن کو گھٹنوں کے بل گرائیں گے اور ناک رگڑوائیں گے۔ مگر ناک رگڑوانے سے مراد یہ نہیں کہ ہم ظاہری رنگ میں ایسا کریں گے بلکہ معنوی رنگ میں ہم ان سے ایسا سلوک کریں گے جو گھٹنے ٹیکنے اور ناک رگڑنے کا مترادف ہوگا۔ دیکھو! جب مکہ فتح ہوا تو اُس وقت ظاہری طور پر کسی نے ناک نہیں رگڑوائے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو یہی کہا کہ تم ہمارے بھائی ہو ہم تمہیں معاف کرتے ہیں۶؎ مگر معنوی طورپر ان کے ناک رگڑے گئے۔ جس شخص کے قتل کے کوئی درپے ہو اور اس کے ساتھ اتنی دشمنی کی گئی ہو کہ اس حالت میں کہ اُس کی لڑکی حاملہ ہونے کی صورت میں اکیلی سفر کر رہی ہو، اُس کے اونٹ کے شغدف کا بند کاٹ کر اُسے گرا دیا ہو اور اِس طرح اُس کا حمل ضائع کروا دیا ہو جب وہ اُس کے سامنے آئیں اور اُن سے پوچھا جائے کہ بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے؟ اور وہ کہیں ہم تم سے یوسفؑ والے سلوک کی امید رکھتے ہیں اور وہ کہہ دے تم سے یوسفؑ والا سلوک ہی کیا جائے گا اور تمہیں معاف کیا جائے گا۔ تو بتاؤ اِن مخالفین کی کیا حالت ہوگی۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ایسے واقعہ سے دل پر ایسی چوٹ لگتی ہے کہ اِس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بظاہر ان کی بے عزتی نہیں کی گئی اور بظاہر ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی، بظاہر ان سے ناک نہیں رگڑوائے گئے مگر معنوی طور پر ان کے ناک رگڑے گئے اور ان کے سرجھکائے گئے اور وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مُردہ ہوگئے۔
میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ سنایا ہے۔ بچپن کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کشتی خریدی۔ اُس وقت وہ کشتی ہمیں۲۷ روپے میں مل گئی جو کہ اُس وقت کے لحاظ سے کافی سُستی تھی اب تو کشتی دو سَو روپے میں ملتی ہے۔ ہم قادیان کی ڈھاب میں اُس کشتی پر سیر کیا کرتے تھے۔ جیسے بچوں کا قاعدہ ہے دس پندرہ دن تک تو ہم باقاعدہ سیر کرتے رہے، پھر ہفتہ میں تین دن سیر کرتے، پھر ہفتہ میں دو دن اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم پندرہویں دن سیر کیلئے جاتے۔ جب ہم وہاں نہ ہوتے تو باہر کے لڑکے آ کر اُس کشتی کو چلاتے۔ جب ہم کشتی کو آ کر دیکھتے تو پہلے سے کچھ نہ کچھ خستہ حالت میں ہوتی۔ میں اِس حالت سے بہت تنگ آیا اور میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کسی طرح تم انہیں پکڑوا دو۔ ایک دن عصر کے وقت ایک لڑکا دَوڑا ہوا آیا اور کہا کہ میں ان لڑکوں کو پکڑوا دوں۔ اُس کشتی میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ آدمی بیٹھ سکتے تھے لیکن جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ اٹھارہ اُنیس لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اتنے آدمی کشتی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر غصہ سے کہا جلدی اِدھر کشتی لاؤ۔ وہ گاؤں کے لڑکے تھے اور گاؤں والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بڑے زمینداروں کا مقابلہ کر سکیں۔ اِس ڈر سے کہ کہیں پٹ نہ جائیں اُن میں سے کچھ نے چھلانگیں لگا دیں اور تیر کر دوسرے کنارے نکل گئے اور کچھ اتنے مغلوب ہوئے کہ وہیں بیٹھے رہے اور کشتی کو کنارے کی طرف لے آئے۔ میں غصہ سے سوٹی پکڑے ہوئے کھڑا تھا اور اِس خیال میں تھاکہ جب یہ باہر آئیں گے تو میں اُنہیں خوب ماروں گا۔ وہ جب قریب آئے اور میری یہ حالت دیکھی تو اُن میں سے سوائے ایک کے باقی سب نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں اور مختلف جہات کو دَوڑ گئے۔ صرف ایک لڑکا کشتی میں رہ گیا جسے میں نے پکڑ لیا۔ میں سمجھتا تھا کہ اصل شرارتی یہی ہے اُس نے مدرسہ احمدیہ کے باورچی خانے کے پاس جہاں خانصاحب فرزند علی صاحب کا مکان ہے اور آجکل وہاں دفتر بیت المال ہے کشتی لا کر کھڑی کی۔ جب وہ کشتی سے اُترا تو میں نے کہا اِدھر آؤ۔ قریب آنے پر میرے دل میں معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ میں نے سوٹی رکھ دی اور اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ جس وقت میں نے ہاتھ اُٹھایا تو اُس نے بھی ہاتھ اُٹھایا۔ میں نے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا لیکن اُس نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا۔ اُس کی اِس حرکت کی تاب نہ لاتے ہوئے اور زیادہ غصہ میں آ کر میں نے اپنا ہاتھ اور پیچھے کی طرف کھینچا تا کہ اُسے زور سے چانٹا رسید کروں لیکن جونہی میں نے ہاتھ پیچھے کیا اُس نے ہاتھ نیچے گرا دیا۔ اس وقت میری عمر ۱۷سال کے قریب تھی آج میں ۵۷ سال کا ہو گیا ہوں گویا اِس واقعہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن جب بھی یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پسینہ چھٹ جاتا ہے۔ جب اُس نے ہاتھ گرایا تو میں اُس وقت اتنا شرمندہ ہوا کہ میں سمجھتا تھا کہ کسی طرح زمین پھٹ جائے تو میں اِس میں سما جاؤں۔ یہ میرے سامنے کھڑا ہے اور اُس نے ہاتھ پیچھے گرا لیا ہے گویا دوسرے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مار لو۔ اُس کی یہ نرمی میرے لئے اتنی تکلیف دہ تھی کہ میں اُس وقت اپنے آپ کو دنیا کا ذلیل ترین انسان خیال کرتا تھا۔ میں کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور مجھے یہ ذلّت کی حالت نہ دیکھنی پڑے۔ اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی۔ کشتی صرف ۲۷ روپے کی تھی اور وہ بھی چند آدمیوں کے چندہ سے خریدی ہوئی اور وہ بھی پُرانی۔ پھر وہ سیکنڈ ہینڈ کشتی تھرڈ ہینڈ بنی پھر فورتھ ہینڈ بنی اور پھر ففتھ ہینڈ بنی لیکن اس پر بھی میں جوش میں آ کر اُسے مارنے لگا مگر اُس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا۔ اس کا نیچے ہاتھ گرانا کسی جذبۂ شرافت کے ماتحت نہیں تھا صرف اِس لئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ بڑے آدمی کے بیٹے ہیں اگر مارا تو اِن کے ساتھی مجھے ماریں گے۔ پھر یہ بھی نہیں تھا کہ مظلوم ہونے کے باوجود اُس نے مجھ پر رحم کیا ہو بلکہ ظالم وہ تھا اور کمزور وہ تھا مگر باوجود اِس کے کہ وہ ظالم تھا اور کمزور تھا اُس کا یہ فعل میرے لئے اتنا تکلیف دہ ہوا کہ آج تک اس واقعہ کو یاد کر کے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں ۔پس کیا حال ہوا ہوگا اُن بڑے بڑے آدمیوں کا جو میدانوں میں نکل نکل کر کہتے تھے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی اولاد کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، جو کہا کرتے تھے کہ یہ نوجوان تیرے چند روزہ ساتھی ہیں یہ تیرا ساتھ چھوڑ دیں گے، جنہیں وہ بھاگ جانے والے کہتے تھے اور جن کے سامنے وہ میدان میں گھوڑے دَوڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ آؤ مقابل پر ،اور جنہیں وہ کمینہ آدمی سمجھتے تھے جب وہ اُن کے سامنے تلوار نہ اُٹھا سکے اور مغلوب ہوئے تو اُن کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ وہ اُس وقت کتنے ذلیل اور شرمندہ ہوئے ہوں گے اور کس طرح اُن کے ناک رگڑے گئے ہوں گے۔ جب اُن سے ہار کر اُنہوں نے خود اِستدعا کی کہ ہم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے۔ اور پھر اس وقت کیا حالت ہوئی ہوگی جب واقعہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں یہ فرمایا کہ ہاں ہاں تم سے یوسف ؑ کے بھائیوں کا سا سلوک کیا جائے گا۔ جاؤ اپنے گھروں میںآرام سے بیٹھو ہم تم سے کچھ نہ کہیں گے۔ ۶؎یہی حالت اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک دن اسلام کے دشمنوں پر آنے والی ہے۔
(الفضل ۱۷،۱۸؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
۱؎ الذّٰریٰت: ۵۴
۲؎ ججمان: برہمنوں یا نائیوں کی آسامی جس کا وہ پشتوں سے کام کرتے آ رہے ہوں۔ مخدوم، آقا، مربی
۳؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۱۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۴۴ حاشیہ مطبوعہ پاکستان ۱۹۷۷ء
۵؎ الحجر: ۱۰
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء


تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد
(تقریر فرمودہ۲۸؍دسمبر۱۹۴۵ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام اور احمدیت کی آواز پہنچانے کے لئے اپنے مبلّغین کا جال پھیلادیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کو یہ حقیقت بھی کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کامیابی صرف فوج کو بھرتی کرلینے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس فوج کے پاس ہر قسم کا وہ سامان موجود ہو جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ہم اپنی جماعت میں سے کسی فرد کو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اے بہادر! جا اور اپنی جان کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دے بلکہ اگر ہماری جماعت کی تعداد دس کروڑ ہو جائے تو ہم دس کروڑ سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جاؤ اور دین کی اشاعت کرو اور اس راستہ میں اگر تمہاری جان بھی چلی جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرومگر ہمارے شاباش کہنے سے وہ دس کروڑ آدمی ساری دنیا تک پہنچ نہیں سکتا۔ ساری دنیا تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی ریل میں سوار ہونے لگے تو کرایہ ادا کر کے ٹکٹ خریدے، کسی ہوٹل میں کھانا کھائے تو ہوٹل کا بل ادا کرے کسی شہر میں رہائش کے لئے مکان لے تو اُس مکان کا مناسب کرایہ مالک مکان کو پیش کرے۔ جب تک وہ ریل کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،جہاز کا کرایہ ادا نہیں کرے گا،ہوٹل کا خرچ ادا نہیں کرے گا، مکانوں کا کرایہ ادا نہیں کرے گا اُس وقت تک وہ دنیا تک پہنچ ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہو گا کہ اگر وہ اشتہار شائع کرنا چاہے تو اُس کے پاس اِس قدر روپیہ موجود ہو جس سے وہ اشتہار لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچا سکے۔ اگر روپیہ اُس کے پاس نہیں ہو گا تو کاتب اُس کی کتابت کس طرح کرے گا ،پریس اس کو شائع کس طرح کرے گا اور لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے کون اُس کی مدد کرے گا۔ پھر جب کوئی تبلیغ کرنا چاہے گا اس کے لئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ وہ کوئی ہال کرایہ پر لے جس میں تقاریر وغیرہ کے لئے لوگوں کو مدعو کر سکے۔ یہاں بھی اگر ہال کرایہ پرلیا جائے تو پچاس ساٹھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں اور بیرونی ممالک میں تو کافی روپیہ کی ضروت ہوتی ہے۔ پھر اُس کے لئے بھی ضرروی ہو گا کہ وہ ایسے آدمی اپنے ساتھ رکھے جو اشتہارات تقسیم کرنے میں اس کی مدد کر سکیں۔ یا ایسے بارسوخ ہوں جو علمی طبقہ تک اس کی آواز پہنچا سکیں۔ ان تمام اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر وہ ایک لیکچر بھی دے گا تو خواہ اس میں سَو ڈیڑھ سَو آدمی آئیں اس کا پانچ سات سَو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ پھر اگر وہ ایک اشتہاربھی شائع کرنا چاہے گا تو اُسے کافی اخراجات کی ضروت ہوگی۔ مثلاً انگلستان کی آبادی چار کروڑ ہے اگر وہ چار کروڑ کی آبادی میں سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کر ے اور ایک صفحہ کے ایک ہزار اشتہار کی صرف ایک روپیہ قیمت سمجھی جائے تو سولہ صفحہ کے ایک ہزار اشتہار پر سولہ روپے، ایک لاکھ اشتہار پر سولہ سَو روپیہ، ایک کروڑ اشتہار پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ اور چار کروڑ پر چھ لاکھ چالیس ہزار روپیہ خرچ آئے گا ۔اگر چار کروڑ کی آبادی میں سے بچوں کو نکال دیا جائے اور اُن کی تعداد نصف سمجھ لی جائے تو دو کروڑ کی آبادی کے لئے سولہ صفحہ کا ایک اشتہار شائع کرنے پرتین لاکھ ۲۰ ہزار روپیہ خرچ آئے گا۔ اور اگر دو کروڑ کے صرف دسویں حصہ تک آواز پہنچائی جائے تب بھی ایک اشتہار کی چھپوائی اور اس کی تقسیم وغیرہ پر ۳۲ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اگر ہم ان اخراجات کو مہیا نہ کریں تو نہ ہم اپنے مبلّغ ساری دنیا میں پھیلا سکتے ہیں اور نہ وہ اپنی تبلیغ کو وسیع کر سکتے ہیں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے لئے صرف فوج کی موجودگی کافی نہیںہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ فوج کے پاس وہ سامان ہو جو فتح و کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے مگر میںدیکھتا ہوں کہ جماعت میں باوجود اخلاص کے اور باوجود عقل اورسمجھ کے تحریک جدید کے متعلق جس کاکام بیرونی ممالک کے مبلّغین کے لئے اخراجات مہیا کرنا اور تبلیغ کے دائرہ کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے کچھ بے تو جہی سی پائی جاتی ہے اور جس طرح بیمار کو ایک لمبے عرصہ تک چارپائی پر لیٹے رہنے کے بعد چلنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اِسی طرح ہماری جماعت کے افراد میں بھی ایک لمبی قربانی کے بعد تھکان کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ دین کے کاموں میں کسی قسم کی سستی اور غفلت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ اِس میں کچھ میر ی بھی غلطی تھی کہ میں نے تحریک جدید کے متعلق ابتداء میں یہ خیال کر لیا کہ وہ دس سال میں ختم ہو جائے گی۔ میں سمجھتا تھا کہ شاید دس سال کے اندر اندر ایسا مضبوط ریزروفنڈ قائم ہو جائے گا جس کی آمد سے تبلیغی اخراجات آسانی سے پورے ہوتے رہیں گے مگر یہ قیاس غلط نکلا اور جماعت کو مزید قربانیوں کی تحریک کرنی پڑی۔تم اسے میری غلطی قرار دے دومگر بہرحال یہ ایک انسانی اندازہ تھا جو غلط نکلا۔ مگر کیا تم میری غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو نقصان پہنچادو گے یا میری غلطی کی وجہ سے دین میں کسی قسم کی کمزوری کا پیدا ہونا برداشت کرلو گے؟ تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے امام نے غلطی کی اس نے سمجھا کہ دس سال کے اندر تحریک جدید کی آمد سے ایسا ریزرو فنڈ قائم ہو جائے گا جو تبلیغی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوگا مگر اس کا خیال غلط نکلا لیکن دین کا کام تو بہر حال تم نے چلانا ہے۔ اگر تم دین کا کام نہیں کروگے تو آخر وہ کونسی جماعت ہے جو اِس وقت اسلام کی مدد کے لئے آگے آئے گی۔ تمہارے سامنے مسلمان موجود ہیں کیا ان میں سے کسی کو بھی یہ فکر ہے کہ اسلام کو تقویت حاصل ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام جودنیا سے مٹ چکا ہے وہ پھر پوری شان کے ساتھ قائم ہو، اگر غور کرو تو تمہیں محسوس ہوگا کہ صرف ہماری جماعت ہی اِس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں اسلام کا جھنڈا بلند کر رہی ہے۔ اب بتاؤ کہ کیا خدا کے دین اور اُس کی فوج میں شامل ہو کر تم بھی موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہی کہوگے کہ ۱؎ تو اور تیرا ربّ آپ دونوںدشمن سے جاکر لڑتے رہوہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ہر وہ شخض جس کے اندر ایمان کا ایک ذرّہ بھی پایا جاتا ہو وہ کہے گا کہ اگر میری گرتے گرتے یہاں تک حالت پہنچنے والی ہو تو خدا اس دن سے پہلے مجھے موت دے دے تا کہ میری زبان سے موسیٰ ؑ کے ساتھیوں کی طرح یہ فقرہ نہ نکلے بلکہ میری زبان وہی کچھ کہے جو محمد رسول اللہ ﷺکے ساتھیوں نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ آگے بڑھئے ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۲؎ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر ہونا چاہئے اور یہی ایمان ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو بُری نگاہ سے دیکھنا آسان بات نہیں۔ جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا کوئی شخص آگے نہیں بڑھے گا اُس وقت تک وہ محمد رسول اللہ ﷺ کوبُرا بھلا نہیں کہہ سکے گا۔ یہ ایمان ہے جو انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بناتا ہے اور یہی قربانی کی روح ہے جو مُردوں کو زندہ کر دیا کرتی ہے۔پس جماعت کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ تحریک جدید کے مطالبات کے متعلق اس کے اندر سستی اور غفلت کے جو آثار نظر آرہے ہیں ان کو دور کرے اور قربانیوں کے میدان میں اپنا قدم کبھی ڈھیلا نہ ہونے دے۔
مَیں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ایک خدائی تدبیر تھی کہ اس نے مجھے غفلت میں رکھا اور اصل حقیقت اس وقت منکشف ہوئی جب تحریک جدید کی دس سالہ میعاد ختم ہونے کو آئی تم کچھ کہہ لو میرے ساتھ تو یہ بات بالکل ویسی ہی ہوئی جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ سے پہلے صحابہؓ سے فرمایا کہ باہرنکلو شاید دشمن کے تجارتی قافلہ سے مقابلہ ہو جائے یا شاید کفار کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو جائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ دراصل بدرکی جنگ میں نہ مسلمان لڑنے کی نیت سے نکلے تھے نہ کفار، کفار تو لشکر لے کر اِس لئے نکلے تھے کہ مسلمانوں کے رُعب کو مٹایا جائے اور مسلمان اِس لئے نکلے تھے کہ کفار کا علاقہ پر اثر نہ پڑے مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ سے باہر نکلے تو آپ کو الہام ہوا کہ دشمن کے لشکر سے ہی مقابلہ ہو گا مگر ابھی مسلمانوں کو آپ بتائیں نہیں۔ـچنانچہ جب وہ عین بدر کے موقع کے قریب پہنچ گئے تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو اَب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ صحابہؓ نے کہا یاَرَسُوْلَ اللہ! ارادہ کا کیا سوال ہے آپ حکم دیجئے ہم لڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۳؎۔ اب دیکھو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے علم تھا کہ کفار سے مقابلہ ہونے والا ہے اور نہ صحابہؓ کو اِس بات کا علم تھا۔ جب عین بدرکے مقام پر جاپہنچے تب اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے صحابہؓ کو بتایا کہ خدا تعالیٰ انہیں مدینہ سے کس غرض کے لئے لایا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ کئی کمزور جو دوسرے موقع پر کمزوری دکھا جاتے عین موقع پر آکر بہادر بن گئے اور انہوں نے دین کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اسی طرح تحریک جدید میں اللہ تعالیٰ نے ایک تدبیر کی میں پہلے یہی سمجھتا رہا کہ یہ بوجھ شاید دس سال تک ہی رہے گامگر آخر اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما دیا کہ یہ قربانی جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک کرنی پڑے گی۔ پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ سستی اور غفلت کو دُور کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے قربانیوں کا جو موقع عطا فرمایا ہے اِس میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔ یہ کام ایسا ہے جو لاکھوں روپیہ کا تقاضا کرتا ہے اور جب ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا میں پھیلائیں گے اور اِسلام کے جلال اور اس کی شان کے اظہار کے لئے اپنی ہر چیز قربان کردیں گے تو ہمیں اِن تبلیغی سکیموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو گی اُس کو پورا کرنا بھی ہماری جماعت کا ہی فرض ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا میں صحیح طور پر تبلیغ اسلام کرنے کے لئے ہمیں لاکھوں مبلّغوں اور کروڑوں روپیہ کی ضرورت ہے۔
جب میں رات کو اپنے بستر پر لیٹتاہوں تو بسا اوقات سارے جہان میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے میں مختلف رنگوں میں اندازے لگاتا ہوں،کبھی کہتا ہوں ہمیں اتنے مبلّغ چاہئیں اور کبھی کہتا ہوں اتنے مبلّغوں سے کام نہیں بن سکتا اس سے بھی زیادہ مبلّغ چاہئیں یہاں تک کہ بعض دفعہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغین کی تعداد پہنچا کر مَیں سو جایا کرتا ہوں۔ میرے اُس وقت کے خیالات کو اگر ریکارڈ کیا جائے تو شاید دنیا یہ خیال کرے کہ سب سے بڑا شیخ چلّی مَیں ہوں مگر مجھے اپنے ان خیالات اور اندازوں میں اتنامزہ آتا ہے کہ سارے دن کی کوفت دُور ہو جاتی ہے ۔مَیں کبھی سوچتا ہوں کہ پانچ ہزار مبلّغ کافی ہوں گے، پھر کہتا ہوں پانچ ہزار سے کیا بن سکتا ہے دس ہزارکی ضرورت ہے، پھر کہتا ہوں دس ہزار بھی کچھ چیز نہیں، جاوا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، سماٹرا میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، چین اور جاپان میں اتنے مبلّغوں کی ضرورت ہے، پھر میں ہر مُلک کی آبادی کا حساب لگاتا ہوں، اُن کے اخراجات کا اندازہ لگاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں یہ مبلّغ بھی تھوڑے ہیںاِس سے بھی زیادہ مبلّغوں کی ضروت ہے۔ یہاں تک کہ بیس بیس لاکھ تک مبلّغوں کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اپنے اِن مزے کی گھڑیوں میں مَیں نے بیس بیس لاکھ مبلّغ تجویز کیا ہے۔ دنیا کے نزدیک میرے یہ خیالات ایک واہمہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو چیز ایک دفعہ پیدا ہو جائے وہ مرتی نہیں جب تک اپنے مقصد کو پورا نہ کرے۔ لوگ مجھے بے شک شیخ چلّی کہہ لیں مگر میں جانتا ہوں کہ میرے اِن خیالات کا خداتعالیٰ کی پیدا کردہ فضامیں ریکارڈ ہوتا چلا جارہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب اللہ تعالیٰ میرے اِن خیالات کو عملی رنگ میں پورا کرنا شروع کر دے گا۔آج نہیں تو آج سے ساٹھ یا سَو سال کے بعد اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بندہ ایسا ہوا جو میرے اِن ریکارڈوں کو پڑھ سکا اور اُسے توفیق ہوئی تو وہ ایک لاکھ مبلّغ تیار کردے گا، پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور بندے کو کھڑا کر دے گا جو مبلّغوں کو دو لاکھ تک پہنچا دے گا، پھر کوئی اور بندہ کھڑا ہو جائے گا جو میرے اس ریکارڈ کودیکھ کر مبلّغوں کو تین لاکھ تک پہنچا دے گا اس طرح قدم بقدم اللہ تعالیٰ وہ وقت بھی لے آئے گا جب ساری دنیا میں ہمارے بیس لاکھ مبلّغ کام کررہے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اس سے پہلے کسی چیز کے متعلق امید رکھنا بیوقوفی ہوتی ہے۔ میرے یہ خیال بھی اب ریکارڈ میں محفوظ ہو چکے ہیں اور زمانہ سے مٹ نہیں سکتے آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں میرے یہ خیالات عملی شکل اختیار کرنے والے ہیں اور اگر اِن خیالات کا اور کوئی فائدہ نہیں تو کم سے کم اتنا فائدہ تو سرِدست ہو ہی جاتا ہے کہ میرے دن بھر کی کوفت دور ہو جاتی اور آرام سے نیند آجاتی ہے اور اس میں جو مزہ مجھے حاصل ہوتا ہے اُس کا اندازہ کوئی اور شخص لگا ہی نہیں سکتا۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کام ہم نے ہی کرنا ہے کسی اور نے نہیں کرنا۔ اور پھر ہمارے لئے یہ کوئی سوال نہیں کہ ہم نے یہ کام کتنی قربانی سے کرنا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن کے کرتے وقت انسان یہ سوچ لیتا ہے کہ اِس پر وہ کس حد تک روپیہ خرچ کر سکتا ہے۔ اگر زیادہ روپیہ خرچ ہو تو وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں ایک ایسا گھوڑا خریدنا چاہتا ہوں کہ جس پر تین سَو روپیہ خرچ آتا ہو تو اِس کے صاف معنٰی یہ ہوں گے کہ اگر ساڑھے تین سَو روپیہ کوگھوڑا ملے گا تو میں نہیں لو ں گا۔ لیکن ہم تو یہ نہیں کہتے کہ اگر فلاں قربانی سے کام ہوا تو ہم کریں گے ورنہ نہیں کریں گے ہمارا یہ اقرار ہے کہ ہم اسلام کے لئے اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنے مال، جان اور عزت کو بھی قربان کر دیں گے۔ کئی لوگ پوچھا کرتے ہیں کہ کیا عزت اور آبرو کی قربانی بھی اسلام جائز قرار دیتا ہے؟ میں انہیں ہمیشہ یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ ہاں اسلام کے لئے اگر عزت اور آبرو کو بھی قربان کرنا پڑے تو مؤمن کو یہ چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہزاروں اوقات انسانی زندگی میں ایسے آتے ہیں جب عزت اور آبرو خطرہ میں ہوتی ہے۔ دشمن ننگ و ناموس کو کچلنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر خدا اور اُس کے رسول کی طرف سے انسان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اُسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ عزت و آبرو کا قربان ہونا برداشت کرلے مگر اپنے فرائض میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے دے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ایک طرف جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ اُٹھا اور دوسری طرف قبائلِ عرب میں ایسے باغی پیدا ہو گئے جنہوںنے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اور شورش اس حد تک بڑھی کہ مدینہ پر حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا تو اُسوقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے ماتحت اُسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر شام کی طرف عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔حالات کی نزاکت دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ اِس وقت باغیوں کی وجہ سے سخت خطرہ ہے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں بہتر ہو گا کہ اسامہؓ کے لشکر کو روک لیا جائے اگر یہ لشکر بھی روانہ ہو گیا اور باغیوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تو ہماری عورتوں کی وہ بے حرمتی ہو گی کہ اَلْاَمَان۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا خدا کی قسم! اگر دشمن ہم پر غالب آ جائے اور مدینہ کی گلیوں میں کُتے ہماری عورتوں کی ٹانگیں گھسیٹتے پھر یں تب بھی میں اِس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ ہو نے کا ارشاد فرمایا ہے لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا۔۴؎
اب دیکھو یہ اسلام کے لئے عزت اور آبرو کی قربانی تھی جسے پیش کرنے کے لئے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ فوراً تیارہوگئے۔ بیس پچیس ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا اور صرف چند سَو آدمی مدینہ میں موجود تھے جو اُن کے مقابلہ کے لئے قطعاً کافی نہیں تھے۔ دس ہزار تجربہ کار سپاہیوں کا لشکر دشمن کو شکست دینے کیلئے موجود تھا مگر چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے شام کی طرف روانہ ہونے کا ارشاد فرما چکے تھے اس لئے حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ باوجود شدید خطرات کے یہ لشکر نہیں رُکے گااِسے ضرور بھیجا جائے گا خواہ مدینہ میں صرف بوڑھے، عورتیں اور بچے ہی رہ جائیں اور دشمن اس قدر غالب آجائے کہ عورتوں کی ٹانگیں مدینہ کی گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھر یں۔ بھلا اس سے زیادہ عزت کی قربانی کیا ہوگی کہ شریف اور معزز عورتوں کی لاشیں مدینہ کی گلیوں میں روندی جائیں اور کتے اُن کی ٹانگیں گھسیٹتے پھریں۔
پس یقینا سچے ایمان کے ساتھ ہر انسان کو اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنی آبرواور اپنے احساسات غرض ہر چیز کی قربانی کے لئے پوری طرح تیار رہنا چاہئے۔ اگر ہم ان قربانیوں کے بغیر اپنی کامیابی کی امید رکھتے ہیں تو یہ امید بالکل غلط ہے۔ قربانیاں ہی ہیں جو قوموں کو کامیاب کرتی ہیں اور قربانیاں ہی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے جس دن ہماری جماعت قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچ جائے گی اس دن وہ ایک پیارے بچے کی طرح خداتعالیٰ کی گود میں آجائے گی اورہماری ہر مصیبت اور تکلیف دیکھتے دیکھتے غائب ہو جائے گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچہ کو بعض دفعہ ماں اپنے ہاتھ میں چھری لے کر ڈراتی ہے اور کہتی ہے آؤ میں تمہیں ذبح کر دوں۔ جب بچہ اچھا کہہ کر چارپائی پر لیٹ جاتا ہے تو ماں اپنے گلے سے اُسے چمٹا لیتی اور اِتنے زور سے اسے چومتی ہے کہ اُس کے کَلّے سرخ ہو جاتے ہیں اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں سے محبت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُن کو قربانیوں کی بھڑکتی ہوئی آگ میں چھلانگ لگانے کا حکم دیتا ہے۔ جب مؤمن قربانی کے ارادہ سے اِس تنور میں اپنے آپ کو جھونک دیتے ہیں تو مَعاً اللہ تعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اور وہ اِس قدر پیار کرتا ہے کہ انہیں ہر مصیبت اور تکلیف بھول جاتی ہے۔ جب تک ہماری جماعت کے افراد اپنے دلوں میں قربانی کا اِسی قسم کا جذبہ پیدا نہیں کرتے اُس وقت تک وہ کسی قسم کی ترقی حاصل نہیں کر سکتے۔
پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں قربانی کے میدان میں اپنے قدم کو ڈھیلا نہیں بلکہ تیز تر کرتے چلے جانا چاہئے۔ اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے چندے بھی نہایت اہم ہیں جن کی ادائیگی میں جماعت کو پوری توجہ کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ میںنے بتایا ہے کہ موجودہ حالت ایسی ہے کہ ہم اسلام کی جنگوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی روک نہیں سکتے ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس جنگ کو جاری رکھیں اور اِس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ہم میں سے ہر فرد کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ دین کی ضرورتیں ہم سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر رہی ہیں اگرہم سستی اور غفلت سے کام لیں گے اور خدا تعالیٰ کے عائد کر دہ فرائض کو نظر انداز کر دیں گے تو ہم سے زیادہ مجرم اور کوئی نہیں ہوگا۔ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اسلام جو اِس وقت مُردہ ہو رہا ہے اِسے اپنی کوششوں سے زندہ کریں اور اپنی تدابیر کو انتہائی کمال تک پہنچا دیں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم پر بھروسہ رکھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے بہت سی تدابیر اختیار کی ہیں اور کئی سکیمیں ہیں جن کا جماعت کے سامنے اعلان کر چکا ہوں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے بھی بہتر تدابیر جماعت کی علمی، تجارتی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے لئے بتاسکے لیکن تمہیں اِس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اگر تم آسمان کی چوٹی پر بھی پہنچ جاؤتب بھی اسلام تمہیں یہی کہتا ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ۵؎ تمہاری ڈھال تمہارا امام ہے اور تمہار ی تمام تر سلامتی محض اسی میں ہے کہ تم اُس کے پیچھے ہو کر جنگ کرو۔اگر تم اپنے امام کو ڈھال نہیں بناتے اور اپنی عقلی تدابیرکے ماتحت دشمن کا مقابلہ کرتے ہوتو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیابی اسی شخص کے لئے مقدر ہے جو اسلام کی جنگ میری متابعت میں لڑے گا۔ پس ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کسی شخص کی ذاتی رائے تجارت کے معاملہ میں مجھ سے بہتر ہو یا صنعت و حرفت کے متعلق وہ زیادہ معلومات پیش کر سکتا ہو لیکن بہرحال جو اصولی سکیم میری طرف سے پیش ہو گی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی میں برکت پیدا کی جائے گی اور وہی اس کے منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوگی۔ اگر تم اُس سکیم پر عمل کرو گے تو کامیاب ہو جاؤ گے اور اگر تم اُس سکیم کو نظر انداز کر کے اپنی ذاتی آراء کو مد نظر رکھو گے اور اپنے تجربہ اور ذاتی معلومات کو اپنا راہنما بناؤ گے تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعتیںاِن تمام باتوں کو پوری طرح ملحوظ رکھیںگی اور کوشش کریں گی کہ اُن کا قدم ترقی کی دَوڑ میں پہلے سے زیادہ تیز ہو۔
میں نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے کہ
ہے ساعتِ سعدآئی اسلام کی جنگوں کی
آغاز تو مَیں کر دوں انجام خدا جانے
چنانچہ ایک خوشی تو اللہ تعالیٰ نے جلدنصیب کر دی کہ اس نے محض اپنے فضل سے وہ دن مجھے دکھا دیا جبکہ مبلّغین، اسلام واحمدیت کی اشاعت اور خداتعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کے لئے بیرونی ممالک میں جارہے ہیں۔ اب یہ خداتعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ اس کا انجام مجھے دکھائے یا نہ دکھائے، وہ بادشاہ ہے ہمارا اُس پر کوئی حق نہیں ہم اُس کے رحم اور فضل کے ہر آن طلب گار ہیں اور ہم اُس سے یہی کہتے ہیں کہ اے خدا! تیرے نام کی بلندی ہو اور تیرا جلال دنیا میں پوری طرح ظاہر ہو لیکن انجام خواہ میں دیکھوں یا نہ دیکھوں، ہمارے لڑنے والے سپاہی اپنے غنیم پر کبھی فتح حاصل نہیں کر سکتے جب تک ہم اُن کی مدد نہ کریں، جب تک ہم اُن کے لئے سامان مہیا نہ کریں اور جب تک ہم اُن کے قائم مقام تیار کرنے کی کوشش نہ کریں۔پس جماعت کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانیوں میں حصہ لے کر اس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس پر عائد کیا گیا ہے اور اِس طرح نہ صرف تحریک جدید، وقف زندگی، وقف تجارت اور صنعت وحرفت وغیرہ تحریکات کو کامیاب کرے بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں بھی کسی قسم کی کمی نہ آنے دے۔
تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر احمدی جس نے دفتر اوّل میں حصہ لیا ہے اُسے کوشش کرنی چاہئے کہ کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے والا کھڑا کرے۔ جس طرح آپ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی نسل جاری رہے اِسی طرح آپ لوگوںکو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کی روحانی نسل جاری رہے۔ اور روحانی نسل کو بڑھانے کا ایک طریق یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو تحریک جدید کے دفتر اوّل میں حصہ لے چکا ہے وہ عہد کرے کہ نہ صرف آخر تک وہ خود پوری باقاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہے گا بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ لے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیار کر سکے تو یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ دنیا میں لوگ صرف ایک بیٹے پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پانچ پانچ، سات سات بیٹے ہوں جس طرح دنیامیں لوگ اپنے لئے پانچ پانچ، سات سات بیٹے پسند کرتے ہیں اِسی طرح ہر شخص کو یہ کوشش کر نی چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم میںحصہ لینے والے پانچ پانچ، سات سات نئے آدمی تیار کرے۔ پھر دوسرے دفتر میں حصہ لینے والا ہر شخص کوشش کرے کہ وہ تیسرے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی کھڑے کرے اور تیسرے دفتر میں حصہ لینے والا شخص کوشش کرے کہ وہ چوتھے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی تیار کرے تاکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور اِس روپیہ سے تبلیغ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ اگر دوست زیادہ آدمی تیار نہ کرسکیں تو کم از کم ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے ایک آدمی ضرور تیار کرے ورنہ روحانی لحاظ سے وہ بے نسل سمجھا جائے گا اور دین کی اشاعت کا کام جو اُس نے شروع کیا تھا وہ اُس کی ذات کے ساتھ ہی منقطع ہو جائے گا۔
پس جماعت کو دفتر دوم کی طرف بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے۔ تحریک جدید کے دَورِ اوّل میں حصہ لینے والوں میں سے ہر فرد کا دفتردوم کے لئے کم ازکم ایک آدمی تیار کرناایسا ہی ہے جیسے روحانی اولاد کی زیادتی میںحصہ لینا ۔اِس طرح قیامت تک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چلتا جائے گا اور جماعت کے لئے دائمی ثواب اور خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک دائمی رستہ کھلا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ اگر انسان کو توفیق عطا فرمائے تو وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے لفظ اور ایک چھوٹے سے چھوٹے اشارہ سے بھی وہ کچھ سمجھ لیتا ہے جو بڑی بڑی کتابوں اور تقریروں سے بھی اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انسان شیطانی حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ ہو جاتا ہے اور روحانی میدان میں وہ کسی طرح شکست نہیں کھا سکتا۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بہت بڑے عالم تھے اور آپ ساری عمر ہی درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اور پھر مجھے بھی آپ نے بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ پڑھایا اور میری تعلیم کا خاص طور پر خیال رکھا لیکن اصل سبق جو انہوں نے مجھے دیا اور جس کو میں آج تک نہیں بھولا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے انسان کو اسی سے علوم سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اپنی ذات میں ایک ایسا نکتہ ہے کہ اس کے لئے میں اُن کا جتنا بھی ممنون ہوں کم ہے اور جتنا بھی اس نصیحت پر عمل کیا جائے تھوڑا ہے۔
مجھے یا د ہے حافظ روشن علی صاحب اور میں دونوں حضرت خلیفہ اوّل سے پڑھا کرتے تھے بعض اور دوست بھی ہمارے اس سبق میں شریک تھے۔ حافظ صاحب کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر بال کی کھال اُدھیڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ ابھی ہم نے بخاری کا سبق شروع ہی کیا تھا اور صرف دو چار سبق ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان کے سوالوں سے تنگ آ گئے۔ وہ سبق کو چلنے ہی نہیں دیتے تھے پہلے ایک اعتراض کرتے اور جب حضرت خلیفہ اوّل اس کا جواب دیتے تو وہ اس جواب پر اعتراض کر دیتے۔ پھر جواب دیتے تو جواب الجواب پر اعتراض کر دیتے اور اِس طرح اُن کے سوالات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میری عمر اُس وقت بیس اکیس سال کی تھی اور طبیعت بھی تیز تھی۔ حافظ صاحب کو سوالات کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں۔ چنانچہ چوتھے دن میں نے بھی سوالات شروع کر دیئے۔ ایک دن تو حضرت خلیفہ اوّل چپ رہے مگر دوسرے دن جب میں نے بعض سوالات کئے تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب کے لئے سوالات کرنے جائز ہیں تمہارے لئے نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ دیکھو! تم بڑی مدت سے مجھ سے ملنے والے ہو اور تم میری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو کیا تم کہہ سکتے ہو کہ میں بخیل ہوں یا کوئی علم میرے پاس ایسا ہے جسے میں چھپا کر رکھتا ہوں؟ میں نے کبھی کوئی بات دوسروں سے چھپا کر نہیں رکھی جو کچھ آتا ہے وہ بتا دیا کرتا ہوں۔ اب خواہ تم کتنے اعتراض کرو، میں نے تو بہرحال وہی کچھ کہنا ہے جو میں جانتا ہوں اس سے زیادہ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ اب کسی بات کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو جو بات میں نے بتائی ہے وہ معقول ہے تم اسے سمجھے نہیں اور یا پھر جو بات میں نے بتائی ہے وہ غلط ہے اور تمہارا اعتراض درست ہے۔ اگر تو جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ غلط ہے تو یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں بددیانتی سے تم کو دھوکا دینے کے لئے کوئی بات نہیں کہتا میں جو کچھ کہتا ہوں اسے صحیح سمجھتے ہوئے ہی کہتا ہوں۔ ایسی صورت میں خواہ تم کتنے اعتراض کرو میں تو وہی کچھ کہتا چلا جاؤں گا جو میں نے ایک دفعہ کہا اور اگر میں نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے تو اس پر اعتراض کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسی حالت میں اگر تم اعتراض کرو گے تو اس سے تمہاری طبیعت میں ضد پیدا ہوگی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم سوالات نہ کیا کرو بلکہ خود سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر کوئی بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسے مان لیا کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ خود تمہیں سمجھائے اور اپنے پاس سے علم عطا فرمائے۔ اس نصیحت کے بعد مَیں نے پھر حضرت خلیفہ اوّل سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ کچھ دن گزرے تو آپ نے حافظ صاحب کو بھی ڈانٹ دیا کہ وہ دورانِ سبق سوالات نہ کیا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے روزانہ بخاری کا آدھ آدھ پارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ بے شک اور علوم بھی ہم پڑھتے تھے لیکن بہرحال آدھ پارہ روزانہ تبھی ختم ہو سکتا ہے جب طالب علم اپنے منہ پر مُہر لگالے اور وہ فیصلہ کرلے کہ میں نے استاد سے کچھ نہیں پوچھنا۔ جو کچھ وہ بتائے گا اسے سنتا چلا جاؤں گا۔ پس علمِ حقیقی جوہر قسم کے شبہات و و ساوس کا ازالہ کر سکتا ہو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور وہی قوم دنیا میں علم کو وسیع طور پر پھیلا سکتی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر مشکل کو دور کرے۔
میں بچہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی زندہ تھے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا جو میں نے بارہا سنایا ہے مگر وہ رؤیا ایسا ہے کہ اگر میں اُسے لاکھوں دفعہ سناؤں تب بھی کم ہے اور اگر تم اسے لاکھوں دفعہ سنو تب بھی کم ہے، پھر اگر تم لاکھوں دفعہ سُن کر اس پر لاکھوں دفعہ غور کرو تب بھی اس کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کم ہوگا۔ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ یکدم مجھے آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے انگلی سے ٹھکور دیں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کٹورے کو انگلی ماری ہے اور اس میں سے ٹن کی آوازپیدا ہوئی ہے۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی جیسا کہ آوازیں ہمیشہ جو میں پھیلا کرتی ہیں۔ پہلے تو وہ آواز مجھے سمٹی ہوئی معلوم ہوئی مگر پھر دُور دُور تک پھیلنی شروع ہوگئی جب وہ آواز تمام جو میں پھیلنے لگی تو میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ آواز ساتھ ہی ساتھ ایک نظارہ کی شکل میں بدلتی چلی گئی۔ گویا وہ خالی آواز ہی نہ رہی بلکہ ساتھ ہی ایک نظارہ بھی پیدا ہو گیا۔ رفتہ رفتہ آواز بھی غائب ہوگئی اور صرف نظارہ رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ نظارہ سمٹ سمٹا کر تصویر کا ایک فریم بن گیا۔ اُس فریم کو میں حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ عجیب تماشا ہے کہ پہلے آسمان سے ایک آواز پیدا ہوئی، پھر وہ آواز جو میں پھیلی، پھیل کر نظارہ بنی اور پھر اس نظارے نے تصویر کے ایک چوکھٹے کی صورت اختیار کر لی۔ اس فریم کی درمیانی جگہ خالی ہے گتے تو لگے ہوئے ہیں مگر تصویر کوئی نہیں۔ مَیں اس فریم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ بات کیا ہے کہ اس فریم میں کوئی تصویر نہیں۔ مگر ابھی کچھ لمبا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس فریم کے اندر ایک تصویر نمودار ہوگئی ہے۔ اِس پر مَیں زیادہ حیران ہوا اور مَیں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھاکہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے ایک وجود کُود کر میرے سامنے آ گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں کیا مَیں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ مَیں نے کہا اگر تم مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دو تو اور کیا چاہئے۔ اُس نے کہا تو پھر سنو۔ چنانچہ مَیں بھی کھڑا ہوں اور وہ بھی۔ اُس نے تفسیر بیان کرنا شروع کر دی اور مَیں اسے سنتا رہا۔ جب وہ ۶؎پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین نے تفسیریں لکھی ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے۔ آگے تفسیر نہیں لکھی۔ مجھے خواب میں فرشتہ کی اس بات پر حیرت محسوس ہوتی ہے مگر زیادہ حیرت نہیں۔ جاگتے ہوئے تو اگر کوئی شخص ایسی بات کہے تو دوسرا فوراً شور مچانے لگ جائے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ مفسرین نے تو سارے قرآن کی تفسیریں لکھی ہیں مگر خواب میں مجھے فرشتہ کی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں تمہیں آگے بھی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے۷؎ تک ساری تفسیر سکھا دی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس وقت مجھے فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے دو تین باتیں یاد تھیں لیکن چونکہ دو تین بجے کا وقت تھا مَیں بعد میں پھر سو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مَیں دوبارہ اُٹھا تو مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ صبح اُٹھ کر میںحضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھنے کے لئے گیا، اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل مجھے طب پڑھایا کرتے تھے، بخاری غالباً ابھی شروع نہیں کی تھی یا شاید شروع کی ہوئی ہو (مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں) میں نے آپ سے کہا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ رؤیا سنتے وقت حضرت خلیفہ اوّل کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا۔ جب رؤیا ختم ہوا تو آپ نے فرمایا اُن باتوں میں سے کچھ ہمیں بھی سناؤ جو فرشتہ نے تمہیں سکھائی ہیں۔ میں نے کہا دو تین باتیں مجھے یاد تھیں مگر چونکہ بعد میں مَیں سو گیا اس لئے وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ اِس پر حضرت خلیفہ اوّل ناراض ہو کر فرمانے لگے تم نے بڑی غفلت کی کہ فرشتہ کی سکھائی تفسیر کو بُھلا دیا۔ اگر تمہیں ساری رات بھی جاگنا پڑتا تو تمہیں چاہئے تھاکہ تم جاگتے اور اُن باتوں کو لکھ لیتے، سونے کے بعد تو خواب بدل جایا کرتا ہے۔ اُس وقت میرے دل میں بھی ندامت پیدا ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر میں فرشتہ کی بتائی باتوں کو لکھ لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ پہلے کسی اور تاویل کی طرف میرا ذہن نہیں جاتا تھا مگر بعد میں مَیں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کا متواتر میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ جب میں سورہ فاتحہ پر غور کروں تو وہ ہمیشہ اس سورۃ کے نئے مطالب مجھ پر کھولتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اسلام کی اقتصادی، سیاسی اور تمدنی ترقی کے متعلق سورہ فاتحہ سے ایک لمبا مضمون مجھے بتایا۔ وہ مضمون اپنی ذات میں اس قدر اہم اور عظیم الشان ہے کہ اگر اس کو پوری طرح سمجھ لیا جائے تو ان تمام مفاسد کو کامیاب طور پر ردّ کیا جاسکتا ہے جنہوں نے آج دنیا کو نئی قسم کی مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ گویا سورہ فاتحہ صرف روحانی ترقی کے ذرائع ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اس میں ہر قسم کے فلسفی، سیاسی اور اقتصادی جھگڑوں کے دور کرنے کے ذرائع بھی بیان کئے گئے ہیں اور ایسے طریق بتائے گئے ہیں جن پر چل کر دجال کی ظاہری شان و شوکت کو مٹایا جا سکتا ہے۔
بہرحال ایک لمبے عرصہ سے اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ ہمیشہ سورۃ فاتحہ کے نئے حقائق مجھ پر روشن فرماتا ہے یہاں تک کہ دنیا کا کوئی اہم مسئلہ نہیں جس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا اور مجھے اس کا صحیح حل اس سورۃ سے نہ مل گیا ہو۔ جس وقت میں نے یہ رؤیا دیکھا میری عمر ۱۷ سال تھی اور اب میری عمر ستاون ۵۷ سال ہے گویا چالیس سال اس رؤیا پر گزر چکے ہیں۔ اس چالیس سالہ عرصہ میں کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ دشمن نے کوئی اعتراض کیا ہو اور اس کا جواب تفصیلی طور پر قرآن کریم سے معلوم نہ ہوا تواجمالی طور پر سورہ فاتحہ سے نہ مل گیا ہو اور میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا متواتر اور مسلسل سلوک ہے کہ اس کے خلاف کبھی ایک دفعہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سورۃ فاتحہ پر غور کیا ہو تو اس کے بیسیوں نئے مضامین مجھ پر نہ کھولے گئے ہوں۔ بے شک کچھ مضامین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ دُہرانے پڑتے ہیں مگر ان مضامین کے علاوہ جب بھی میں نے سورہ فاتحہ پر غور کیا ہے ہمیشہ کچھ نہ کچھ زائد مضامین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کئے گئے ہیں۔
تفسیر کبیر کی پہلی جلد جب میں نے لکھنی شروع کی تو اُس وقت میں چاہتا تھا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات میں ہی ختم کر دیا جائے کیونکہ میرا منشاء یہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے تفسیری نوٹوں کے ساتھ جلد سے جلد سارا قرآن کریم شائع کر دیا جائے۔ پس چونکہ ارادہ یہ تھا کہ مختصر نوٹ ہوں اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سورہ فاتحہ کی تفسیر کو تیس چالیس صفحات تک ہی محدود رکھا جائے اور چونکہ پُرانے مضامین ہی اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ اگر ان کو لکھا جائے تو وہ تیس چالیس صفحات میں نہیں آ سکتے اس لئے میں نے سمجھا کہ اس تفسیر کے لئے کسی نئے مضمون کی ضرورت نہیں پُرانے مضامین ہی کافی ہیں مگر لکھتے لکھتے مجھے خیال آیا کہ اگر اللہ تعالیٰ اِس وقت بھی کوئی نیا نکتہ سمجھا دے تو یہ اس کا فضل اور احسان ہوگا۔ چنانچہ اِدھر میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور اُدھر فوری طور پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے سورہ فاتحہ کے چند ایسے نئے نکات سمجھا دیئے جو پہلے کبھی ذہن میں نہیں آئے تھے اور جو نہایت اہم اور اصولی نکتے تھے جن کا سلسلہ اور اسلام کی ترقی کے ساتھ گہرا تعلق تھا چنانچہ میں نے ان نکات کو بھی تفسیر میں درج کر دیا۔ غرض میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ سلوک چلا آ رہا ہے کہ وہ غور کرنے پر سورہ فاتحہ کے نئے سے نئے مطالب مجھ پر روشن فرماتا ہے اور درحقیقت علم وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو بندہ آخر دوسرے کو کتنا سکھا سکتا ہے معمولی معمولی ضرورتیں بھی تو انسان پورے طور پر دوسرے کو نہیں بتا سکتا۔ پھر علمی اور اخلاقی اور روحانی ضرورتیں کوئی انسان دوسرے کو کس طرح بتا سکتا ہے اور کس طرح کوئی انسان دوسرے کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں آجکل بیمار ہوں میں نے دیکھا ہے بعض دن مجھ پر ایسے گزرتے ہیں کہ نہ میں پیشاب کے لئے جا سکتا ہوں نہ پاخانہ کے لئے، چارپائی پر ہی پاٹ رکھنا پڑتا ہے اور حالت ایسی ہوتی ہے کہ نہ دائیں کروٹ بدل سکتا ہوں نہ بائیں بالکل سیدھا لیٹا رہتا ہوں اور ۱۰،۱۰،۱۲،۱۲ بلکہ بعض دفعہ ۲۴،۲۴ گھنٹہ تک یہی حالت رہتی ہے۔ اگر اس دَوران میں افاقہ بھی ہو تو بہت معمولی ہوتا ہے ایسی حالت میں اگر بیوی بعض دفعہ تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے کسی کام کے لئے جانا چاہے اور وہ کہے کہ اگر کوئی ضرورت ہوتو مجھے بتا دیں تو میں نے دیکھا ہے دو چار منٹ کی ضرورتیں بھی پورے طور پر نہیں بتائی جا سکتیں۔ بعض دفعہ خیال آتا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں مگر اس کے جاتے ہی کئی قسم کی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ کہا جاتا ہے صرف دوائی پاس رکھ دو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں مگر بعد میں خیال آتا ہے کہ ایک ضروری خط لکھنا تھا اس کے لئے قلم چاہئے مگر اُس وقت کوئی ایسا شخص قریب نہیں ہوتا جسے قلم پکڑانے کے لئے کہا جائے۔ جب چھوٹی چھوٹی ضرورتیں بھی انسان دوسرے کو پورے طور پر نہیں بتا سکتا تو دین کے معاملہ میں کون شخص ایسا ہو سکتا ہے جو اوّل سے آخر تک تمام باتیں دوسروں کو بتا سکے۔ اگر دوسروں کی بتائی ہوئی باتوں پر ہی انسان اپنا انحصار رکھے اور خدا تعالیٰ سے اس کا ذاتی تعلق نہ ہو تو عملی زندگی میں اس کی یہی حالت رہے گی کہ
دیکھ لو سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ لو۔ آپ نے قرآنی احکام کی کس قدر تشریح کی ہے اور کس کثرت کے ساتھ آپ نے اپنی اُمت کو روحانی مسائل سکھائے ہیں مگر باوجود ان تمام تشریحات کے ہر زمانہ میں نئے سوال پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے لئے کوئی نیا مثیل محمدؐ پیدا ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے پیدا کردہ شبہات و وساوس کا ازالہ کرتا ہے اور یہ سنت اللہ ایسی ہے جو ہر زمانہ میں جاری رہتی ہے۔ ہر زمانہ کی الگ الگ ضرورتیں ہوتی ہیں اور ہر زمانہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے نئے نئے اعتراضات کئے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں ان کے اعتراضات کے جوابات اور اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئے مثیل محمدؐ پیدا ہوں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جس قدر باتیں بیان کرتے ہیں وہ قرآن کریم میں موجود ہوتی ہیں، احادیث سے ان کی تائید ہوتی ہے، آئمہ سلف کی شہادت ان کے حق میں موجود ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے پاس سے وہ باتیں بتاتے ہیں ہم جو کچھ مال پیش کرتے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی مال ہوتا ہے مگر بہرحال ہر زمانہ کے مفاسد کے لحاظ سے پرانی باتوں کو نئے الفاظ میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ دشمن اپنے اعتراضات کی کمزوری سے واقف ہو کر شرمندہ ہو اور چونکہ اعتراضات ہمیشہ بدلتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک شخص تمام باتیں پورے طور پر نہیں بتا سکتا اس لئے اصل چیز جس کی طرف ایک مؤمن کو ہمیشہ توجہ رکھنی چاہئے یہ ہے کہ اس کا اللہ تعالیٰ سے براہِ راست تعلق پیدا ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے پاس سے اسے علم سکھائے دوسرے انسانوں کی احتیاج جاتی رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی جماعت کامیاب طور پر اپنے فرائض کو ایک لمبے عرصہ تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اُس کے افراد میں یہ تڑپ نہ ہو کہ ہمارا خداتعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ خدا کا پیار ہمیں حاصل ہو، ہم اس کے نام پر فدا ہونے والے ہوں اور وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہو۔ جب تک یہ تعلق مضبوط سے مضبوط تر نہ ہوتا چلا جائے اور محبتِ الٰہی اپنے کمال کو نہ پہنچ جائے اُس وقت تک کوئی انسان تنزّل سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ نجات اسی کے لئے ہے جس نے اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کی اور پھر اس محبت کو اس حد تک بڑھایا کہ اس کے رگ و ریشہ میں اس کا اثر سرایت کر گیا۔
دوسری بات جس کی طرف مَیں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تمہیں اس بات پر کامل یقین اور ایمان رکھنا چاہئے کہ خواہ دنیا تمہاری کس قدر مخالفت کرے اور تمہاری کامیابی کے راستہ میں کس قدر روڑے اٹکائے تم نے بہرحال جیتنا ہے۔ اگر تم میں سے کسی شخص کے دل میں یہ وسوسہ ہے کہ اس نے نہیں جیتنا تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے احمدی نہیں سمجھتے اور میں بھی اسے احمدی نہیں سمجھتا۔ جس شخص کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ ہم دنیا کے مقابلہ میں ہار جائیں گے، دنیا جیت جائے گی اور ہم اپنے مقصد میں ناکام رہیں گے وہ ہرگز احمدی نہیں اور اس نے قطعاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد اور اس کی بعثت کی غرض کو نہیں سمجھا۔ جس شخص کے آنے کی اُمت محمدیہ کے تمام اولیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں، جس شخص کے آنے کی گزشتہ انبیاء تک نے خبریں دی ہیں اور جس شخص کے آنے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آنا قرار دیا ہے اگر اُس نے بھی دنیا کے مقابلہ میں ہارجانا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا ہار نہیں سکتے اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار نہیں سکتے تو آپ کا مثیل کیسے ہار سکتا ہے۔ پس ہم نے یقینا جیتنا ہے مگر ہم کس طرح جیتیں گے؟ یہ ابھی عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ فتح اور غلبہ کے حصول کے لئے جس انتہائی اخلاص اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہ تمام و کمال ابھی ہمارے پاس نہیں یا اگر ہے تو جماعت کے افراد اس سے پوری طرح کام نہیں لیتے۔ ہماری جماعت میں بے شک قربانی کی بہت بڑی روح پائی جاتی ہے اور یہ قربانی اور ایثار کا مادہ اس حد تک ہماری جماعت میں پایا جاتا ہے کہ جب میں اپنی جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں یا جب میں اپنی جماعت کے بعض افراد کی قربانیوں کودیکھتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ ایسے مواد کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیوں دیر ہو رہی ہے اور کیوں ہماری جماعت کو موجودہ حالت سے بہت بڑھ کر ترقی حاصل نہیں ہوتی۔ لیکن جب میں اپنی جماعت کے کمزور طبقہ پر اپنی نگاہ دَوڑاتا ہوں اور قومی کاموں میں اس کی کمزوری اور غفلت کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مجھے حیرت آتی ہے کہ جماعت کو وہ ترقی ملی کیوں جو اِسے حاصل ہے۔ گویا میری حالت بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے آئینہ خانہ میں جانے والے کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ حیران و پریشان سا ہو جاتا ہے اسی طرح میں بھی جب جماعت کے بعض لوگوں کی یا تمام جماعت کی بعض قسم کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس ایثار اور قربانی کے باوجود ہماری جماعت نے کیوں موجودہ حالت سے بہت زیادہ ترقی نہیں کی اور کیوں الٰہی مدد اور اس کی نصرت کے نزول میں دیر ہو رہی ہے؟ لیکن جب میں بعض لوگوں کی کمیِ اخلاق اور ان سے ناقص اعمال کو دیکھتا ہوں اور دینی معاملات میں ان کی غفلت اور کوتاہی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے کمزور طبقہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کو جو ترقی ہوئی ہے وہ کیسے ہوئی ہے۔ بہرحال خواہ کمزور طبقہ کی کمزوری اور اس کی غفلت جماعت کیلئے کس قدر اندوہناک ہو یہ یقینی اور قطعی امر ہے کہ ہم نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم نے کس ذریعہ سے اور کن طریقوں سے جیتنا ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ اسلام کی اس فتح اور غلبہ میں ہمارا اور ہمارے عزیزوں کا کس قدر حصہ ہوگا میں تمہارے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کہ تم اپنے دلوں میں کیا خیالات رکھتے ہو لیکن میں اپنے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ میرے دل میں یقینا یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اسلام اور احمدیت کو جو فتح حاصل ہونے والی ہے اس میں میرا اور میری اولاد اور میرے پیاروں کا بھی حصہ ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت اخلاص کے اُس بلند مقام تک نہیں پہنچی جس کے بعد کوئی لغزش انسانی قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی۔ اگر تم سارے کے سارے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہو کہ ہماری جماعت کا ہر فرد مخلص ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ خیال درست نہیں۔ اگر تم اپنے دماغ کا تجزیہ کرو، اپنے اعمال پر نظر ڈالو اور سلسلہ کے لئے جو کچھ تم سے مطالبات کئے جارہے ہیں اُن پر غور کرتے ہوئے اپنی قربانیوں کو دیکھو تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تم میں سے ہر فرد مخلص نہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جن سے سلسلہ سے حقیقی اخلاص اور محبت رکھنے والا کبھی ٹھوکر نہیں کھاسکتا مگر جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان باتوں پہ ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جماعت کا ہر فرد مخلص ہے یا ہر فرد سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کا انتہائی جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن بہر حال ایسے لوگ منہ سے تو میری طرف ہی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور ان کی کمزوریاں جماعت کے دوسرے طبقہ پر اثر انداز ہوتی ہیں اس لئے ہم ان کی اصلاح سے غافل نہیں ہو سکتے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ رات کو جب مجھے اپنی جماعت کے اس کمزور طبقہ کا خیال آتا ہے تو میری نینداُڑ جاتی ہے اور میں گھنٹوں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ خدایا! میں کیا کروں اور کس طرح اس طبقہ کی اصلاح کروں؟ میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے میں ان کے دلوں کے گند کو دور کر سکوں۔ انسانی طاقت میں کسی کی اصلاح کے جس قدر ذرائع میں استعمال کرتا ہوں۔ میں تعلیمِ قرآن بھی دیتا ہوں، میں قربانی کی روح پیدا کرنے کے لئے تقریریں بھی کرتا ہوں اور شاید میں نے اتنی تقریریں کر لی ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو بڑے سے بڑے مصنّف کی کتابوں سے بھی بڑھ جائیں اور بیسیوں مجلدات اُن سے تیار ہوجائیں مگر باوجود ان تمام باتوں کے ابھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کے دل میں دین کی اشاعت کے لئے وہ دُھن اور جنون نہیں جو صحابہ کے اندر پایا جاتا تھا۔
دیکھو کامیابی حاصل کرنے کا ایک گُر یہ ہوتا ہے کہ قوم کی اکثریت درست ہو جائے تو وہ اقلیت پر غالب آجایا کرتی ہے یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ۸؎ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو تم ہدایت پا جاؤ گے۔ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی اکثریت کو ہدایت یافتہ قرار دیا ہے اور بِاَیِّھُمْ میں اسی طرف اشارہ ہے ورنہ مسلمانوں میں بعض منافق بھی تھے اور اس کا خود احادیث سے پتہ چلتا ہے مگر چونکہ کثرت ایسی تھی جس کی اصلاح ہو چکی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھُمُ اقٖتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے تمہیں نظر آجائے گا کہ وہ خدا کے ساتھ چل رہا ہے اس لئے ممکن ہی نہیں کہ تم گمراہ ہو جاؤ۔اصل بات یہ ہے کہ ہدایت خداتعالیٰ سے ملتی ہے اور وہی شخص دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ اسکی کوئی حرکت اور اس کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے احکام کے خلاف نہ ہو۔ پس چونکہ قطعی ہدایت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس لئے دوسروں کے لئے بھی ہدایت کا موجب وہی شخص ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ چل رہا ہو اور جس کی نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اُٹھتی ہو۔ اورچونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ خدا تعالیٰ کے پیچھے چل رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ میرے صحابہؓ اللہ تعالیٰ سے کیسا مضبوط تعلق رکھتے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ان کی اکثریت ہدایت پر قائم ہے اس لئے تم ان میں سے جس شخص کے پیچھے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے کیونکہ وہ خدا کے پیچھے چل رہا ہے یہ جماعت ہے جو جیتا کرتی ہے اور ایسی ہی جماعت کی ہمیں ضرورت ہے جب تک اِس قسم کی جماعت پیدا نہ ہو اُس وقت تک خواہ دس ہزار عالم روزانہ پانچ پانچ سات سات تقریریں کرتے رہیں دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا لیکن جس دن یہ جماعت پیدا ہو جائے گی اس دن تم میں سے ہر شخص عالم ہو گا، تم میں سے ہر شخص عارف ہو گا اور تم میں سے ہر شخص کو خدا تعالیٰ اپنے پاس سے علم سکھائے گا۔ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ معمولی عورتوں کے منہ سے ایسی ایسی معرفت کی باتیںنکلتی ہیں کہ ان کو سُن کر دل خوشی سے اُچھلنے لگ جاتا ہے۔ میں نے خود بعض جاہل اور اَن پڑھ مردوں سے دین کے ایسے ایسے نکات سُنے ہیں کہ میں نے ان کا گھنٹوں اپنے دل میں مزہ اُٹھایا ہے کیونکہ ظاہری لحاظ سے جاہل اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود اُن کا خدا سے تعلق تھا اور خدا نے ان کو اپنے پاس سے علم سکھایا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑی چیز تعلق باللہ ہے جب کوئی شخص سچے دل سے خدا کا ہو جائے اور وہ اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو اس کے لئے ترک کر دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ضرور نئے علوم سکھائے جاتے ہیں اور وہ معرفت اور حکمت میں ترقی کرتے ہوئے کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے۔ موجودہ بیماری میں مجھے جماعت کے متعلق سب سے زیادہ احساس اس بات کا رہا ہے کہ ہماری جماعت کے افراد کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ خود اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر ضرورت کو پوراکرے۔یہ بیماری عام طور پر لمبی چلتی اور بار بار دورہ کرتی ہے خصوصاً اس عمر میں جس مَیں سے میں گذر رہا ہوں۔ اگر کسی کو یہ مرض ہو جائے تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ مرض دور نہیں ہوتا اِس بناء پر میرے لئے یہ مسئلہ اِس بیماری میں اور بھی اہم ہو گیا اور اس پر غورکرنا میرے لئے ضروری ہوگیا۔ مَیںہمیشہ ہی اس مسئلہ کو سوچتا رہا ہوں کہ آخر ایک دن ایسا آئے گا جب میرا کام ختم ہو جائے گا اس دن سے پہلے پہلے اگر میں اس اصلاح میں کامیاب ہو جاؤں جو جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے اور جس کے بعد جماعت کا قدم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی تنزّل کی طرف نہیں جا سکتا تو یہ میرے لئے انتہائی خوشی کا مقام ہوگا۔ میں نے قدم بقدم خدا تعالیٰ سے دعائیں اور استمداد کرتے ہوئے مختلف راستے تجویز کئے اور رفتہ رفتہ میں نے ان راستوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا مجھے خوشی ہے کہ جماعت نے میری اُن تجاویز پر ایک حد تک عمل کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی برکت عطافرمائی کہ وہ اپنی تعداد اور اپنے وقار کے لحاظ سے کہیں سے کہیں جاپہنچی کجا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اُس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد سات سَو تھی اور حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میں جو آخری سالانہ جلسہ ہوا اس میں شامل ہونے والوں کی کل تعداد تیرہ سَو تھی اور کُجا یہ حالت ہے کہ اب ہمارے جلسہ کی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۳۴،۳۵ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے گویا حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کے زمانہ میں آخری جلسہ سالانہ پر جس قدر آدمی آئے تھے اُن سے ۲۵ گنا زیادہ آدمی آج ہمارے سالانہ جلسہ میں موجود ہیں اور یہ تعداد ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر سال زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے۔ میں نے بارہا کہاہے گو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں تقریر کرنے کے بعد یہاں سے زندہ اُٹھوں گا یا نہیں مگر جو کچھ میں کہتا ہوں( اور میں وہی کچھ کہتا ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے کہا)وہ یہ ہے کہ میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو،شور مچائے، گالیاں دے یا بُرا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ یہ تقدیرمبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ زمین وآسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہوگا مگر بہر حال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ خدا نے اس جماعت اور سلسلہ کی ترقی کو میری ذات سے وابستہ کر دیا ہے اور اُس نے اپنے نام اور اپنی طاقت اور اپنے جلال کے اظہار کے لئے مجھے چُن لیا ہے باوجود اس بات کے کہ میں ایک نہایت کمزور اور جاہل انسان ہوں خدا نے اپنے نام کی اشاعت اور اپنے جلال کے اظہار کو میرے نام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے جس طرح لکڑی کے تختہ پر کوئی بادشاہ یا شہزادہ سوار ہو جائے تو جب لکڑی کا تختہ پانی میں تیرے گا لازماً بادشاہ بھی اُس کے ساتھ ہی اِدھر اُدھر ہو گا اُس وقت کوئی شخص حقارت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اٹھنی کا تختہ ہے اور میں اسے توڑ پھوڑ دوں کیونکہ اُس تختہ پر بادشاہ سوار ہوتا ہے اور اس لکڑی کو چھیڑنے کے معنٰی تخت شاہی کو چھیڑنے کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ شخص جو مجھ کو چھیڑے گا وہ مجھ کو نہیں بلکہ عرشِ الٰہی کو چھیڑے گا کیونکہ خدا نے اپنے جلال کا اظہار میرے نام سے وابستہ کر دیا ہے۔ لیکن بہرحال میں نے ایک دن مرنا ہے دنیامیںکوئی شخص عارضی اور فانی کاموں کے متعلق بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی موت کے ساتھ ختم ہو جائیںپھر جو چیز بمنزلہ جان اور روح ہو اس کے متعلق کون شخص پسند کر سکتا ہے کہ وہ اُس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ کے نام کی بلندی اور اس کے جلال کا اظہار ہر مؤمن کی جان اور اُس کی روح ہے پھر کوئی مؤمن یہ کس طرح برداشت کر سکتا ہے کہ میں مروں تو خدا تعالیٰ کا نام بھی دنیا سے مٹ جائے اِسی طرح میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام صرف میرے ساتھ وابستہ نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کا نام تمہارے ساتھ وابستہ ہو جائے کیونکہ انسان مر سکتا ہے مگر قوم نہیں مر سکتی۔ جب کوئی نام کسی قوم کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ چلتا چلا جاتا ہے اور قوم کے بیٹے نسلاً بعد نسلٍ اُس مقدس امانت کے حامل بنتے چلے جاتے ہیں۔ درحقیقت فرد کے ساتھ کسی چیز کی وابستگی قومی لحاظ سے کوئی بڑا کمال نہیں ہوتا۔ قومی لحاظ سے بڑائی تبھی ہوتی ہے جب قوم سے اللہ تعالیٰ کا نام وابستہ ہو جائے اسی لئے مجھے ہمیشہ یہ تڑپ رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے اور اس سے سچا اور مخلصانہ تعلق تم کو حاصل ہو اور مَیں اس غرض کے لئے ہمیشہ کئی قسم کی کوششیں کرتا رہا ہوں۔ میں نے ہزاروں راستے اور ہزاروں ذرائع تمہارے سامنے رکھے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ذرائع پر عمل کر کے سینکڑوں اور ہزاروں مخلص بھی پیدا ہوئے مگر پھر بھی ہماری جماعت میں حقیقی اخلاص کی ابھی کمی ہے جس کے لئے مَیں اللہ تعالیٰ سے متواتر دعائیں کرتا رہتا ہوں۔
اب اس موقع پر مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ یاد رکھو کہ میری موت یا حیات تو کوئی چیز ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت بڑی چیز تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ان سے بھی بڑی چیز تھی مگر اس حقیقت کے باوجود میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اگر جماعت حقیقی ایمان پر قائم ہو اور وہ خدا تعالیٰ سے سچا اور مضبوط تعلق رکھتی ہو تو کسی بڑے سے بڑے نبی کی وفات بھی اس کے قدم کو متزلزل نہیں کر سکتی بلکہ بعض برکات اور ترقیات ایسی ہوتی ہیں جو انبیاء کی وفات کے بعد قوم کو حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ قوم صحیح رنگ میں ایمان پر قائم ہو۔ پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو اور اپنے نفوس میں ایسا تغیر رونما کرو کہ تمہارے دلوں میں یہ بات گڑ جائے کہ ہم نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ سے وابستہ کرناہے اور اس کی محبت اور پیار کو حاصل کرنا ہے۔ جب کسی کو خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے تو پھر نصیحت کی آواز خود انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے بیرونی نصیحتوں کی اُسے ضرورت نہیں رہتی۔
ہماری جماعت کو یہ امر بھی کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ ہم اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر غالب کریں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچانے کے لئے دنیا کے تمام ممالک میں اپنے مبلّغین پھیلانے کی کوشش کریں۔ میں ایک لمبے غورکے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز ہمیں کم از کم چھ مبلّغ رکھنے چاہئیں۔ یہ تعداد اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں اور ایک وسیع علاقہ میں چھ مبلّغین کا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن پھر بھی اگر بیج کے طور پر ہم اپنی تبلیغ کو دنیا میں پھیلانا چاہیں تو اس سے کم میں ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ چھ مبلّغ جو ایک علاقہ کے لئے تجویز کئے گئے ہیں اس سے مراد کوئی چھوٹا علاقہ نہیں بلکہ سرِدست ہمارے مد نظر یہ ہے کہ اگر ہم یونائٹیڈسٹیٹس امریکہ جیسے وسیع مُلک میں اپنا مرکز قائم کریں تو وہاں بھی اپنے چھ مبلّغ رکھیں حالانکہ وہاں کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور وہ ہندوستان سے دو گنامُلک ہے۔ اسی طرح ہم یہ چھ مبلّغ آسٹریلیا کے لئے تجویز کر رہے ہیں حالانکہ وہ ہندوستان سے تگنا علاقہ ہے لیکن بظاہر یہ تعداد خواہ کس قدر ناکافی ہو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم جو بھی مشن قائم کریں اُس کو کامیاب طور پر چلانے کے لئے ایک علاقہ میں ابتدائی طور پر چھ مبلّغ رکھیں۔ ان چھ مبلّغین میں سے ایک تو ایسا ہوگا جس کا کام یہ ہوگا کہ وہ مرکز میں بیٹھ کر رات دن کام کرے جو لوگ ملنے کے لئے آئیں ان سے تبادلۂ خیالات کر ے۔ انہیں سلسلہ کے حالات بتائے۔ مکان اور مسجد وغیرہ دکھائے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے گویا وہ مرکزی انچارج ہو گا۔
دوسرے مبلّغ کا یہ کام ہو گا کہ وہ علمی طبقہ سے اپنے تعلقات رکھے اور انہیں احمدیت کی خصوصیات وغیرہ سے آگاہ کرتا رہے۔ مثلاً جو لوگ عربی یا فارسی جاننے والے ہوں یااسلامی اصول سے دلچسپی رکھتے ہوں یا مثلاً پادری وغیرہ جو مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسے تمام لوگوں سے اس کے تعلقات ہوں۔ اسی طرح علمی اداروں میں اس کی آمدورفت ہواور وہ مُلک کے تعلیم یا فتہ طبقہ سے اچھے تعلقات رکھنے والا ہوتا کہ علمی حلقہ میں احمدیت کو مقبولیت حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں میں جووساوس پائے جاتے ہیں اُن کا ازالہ ہو۔
تیسرا مبلّغ ایسا ہو گا جس کا کام یہ ہوگا کہ بڑے بڑے اور بااثر لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے اور مُلک کے اندر جو ان کی پارٹیاں پائی جاتی ہوں ان کے خیالات کو درست رکھنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم اور جماعت کی ترقی کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھنے والا ہے۔ اس مبلّغ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں سے اپنے تعلقات رکھے تاکہ مُلک کے ہر طبقہ میں اس کے دوست موجود ہوں اور جب بھی کوئی بات احمدیت کے خلاف ہو یا گورنمنٹ کسی غلط فہمی کی بناء پر کوئی ناجائز قدم اُٹھانے لگے تو خود مُلک کے سربرآوردہ لوگ اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور وہ لوگوںکو بتا سکیں کہ احمدیت کیا چیز ہے اور وہ دنیا میں کیا تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے۔
چوتھے آدمی کا یہ کام ہوگاکہ وہ مُلک بھر کی یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات بڑھائے۔ درحقیقت یونیورسٹیاں مُلک میں خیالات پھیلانے کا گڑھ ہوتی ہیں اور وہی مبلّغ کامیاب ہو سکتے ہیں جو اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے یونیورسٹیوں سے اپنے تعلقات زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کریں۔ ہر طالب علم جو کسی سکول یا کالج میں تعلیم پاتا ہے اُسے چونکہ نئے نئے علوم پڑھائے جاتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اُس کے کانوں میں پڑتی ہیں اس لئے اُس کے قلب میں ترقی کا غیرمعمولی جذبہ ہوتا ہے اور وہ خیال کرتاہے کہ پہلوں نے کیا ترقی کی ہے مَیں ایسے ایسے علوم پھیلاؤں گا اور ایسی ایسی ایجادات کروں گا کہ دنیا محو حیرت ہو جائے گی۔ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ دنیا میں ایسے گزرے ہیں جو مرے تو ایسی حالت میں کہ ایک کلرک سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی مگر طالب علمی کے زمانہ میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم بادشاہ نہ بنے تو وزیر بننا تو کوئی بات ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ طلباء کے قلوب میں ایک غیر معمولی اُمنگ ہوتی ہے، ان کے خیالات میں بلندی ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں سننے اور پھر اُن باتوںکے سیکھنے کا انہیں بے حد شوق ہوتا ہے۔ خود حضرت مسیح موعودؑ پر بھی ابتداء میں زیادہ تر طالب علم ایمان لائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ابتداء میں زیادہ تر وہی لوگ ایمان لائے جو نوجوان تھے۔ بڑی عمر والے حضرت ابوبکرؓ ہی تھے مگر حضرت ابو بکرؓ جب سَوا دو سال کی خلافت کے بعدفوت ہوئے تب وہ اُس تریسٹھ سال کی عمر تک پہنچے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی گویا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں اڑھائی سال کے قریب چھوٹے تھے۔پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے ساڑھے دس سال خلافت کرنے کے بعد ۶۳سال کی عمر میں انتقال کیا۔حضرت ابو بکرؓ کے خلافت کے سَوا دو سال اور حضرت عمر کی خلافت کے ساڑھے دس سال جمع ہو جائیں تو یہ تیرہ سال کا عرصہ بنتا ہے اور چونکہ وہ نبوت کے چھٹے سال ایمان لائے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیس سالہ عہدِ نبوت میں سے چھ سال نکال دئیے جائیں تو سترہ سال رہ جاتے ہیں۔ سترہ سال یہ اور تیرہ سال وہ گویا تیس سال انہوں نے اسلام کی خدمات سرانجام دیں اور چونکہ ان کی وفات تریسٹھ سال میں ہوئی ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر ۳۳ سال تھی۔ اسی طرح حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ سترہ سترہ سال کے تھے جب ایمان لائے اور حضرت علی گیارہ سال کے تھے جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب ہوا گویا اسلام کی جڑ اور ستون سب ایسے لوگ ہی ثابت ہوئے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے وقت نوجوان تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ اُمنگوں کا زمانہ ہوتا ہے اور انسانی خیالات کی پرواز بہت بلند ہوتی ہے اگر نوجوانوں کو کسی سچائی کا پتہ لگ جائے تو پھر وہ کسی مصیبت اور تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم مر جائیں گے مگر سچائی کو قبول کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔پس نوجوان طبقہ تک ہمارا اپنی آواز کو پہنچانا نہایت ضروری ہے جس کا طریق یہی ہے کہ ایک مبلّغ ایسا ہو جس کا یونیورسٹیوں سے تعلق ہواور وہ نوجوان طبقہ کو احمدیت کی طرف متوجہ کرتا رہے۔
پانچواں مبلّغ ایسا ہو گا جس کا تجارت سے تعلق ہو گا اور اُس کا فرض ہو گا کہ وہ سلسلہ کے تبلیغی اخراجات کو زیادہ سے زیادہ تجارت کی آمدسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ کام اپنی ذات میں نہایت اہم ہے اور اس کو وسیع طور پر پھیلا کر نہ صرف سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سلسلہ کے اخراجات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے بلکہ سلسلہ کے لئے نئی آمد بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کام پر جو مبلّغ مقر ہو گا اس کا صرف یہی کام نہیں ہو گا کہ وہ اپنے علاقہ میں تجارت کرے بلکہ اس کایہ کام بھی ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرے۔ مثلاًانگلستان کا مبلّغ کوشش کرے کہ وہ ایران میں اشیاء بھجوائے یا عرب میں ان کی کھپت کا انتظام کرے اور ایران والا کوشش کرے کہ وہ انگلستان میں چیزیں پہنچائے اس طرح تجارت کو وسیع کرنا، ایک مُلک کے دوسرے مُلک سے تجارتی تعلقات قائم کرنا اور سلسلہ کے اخراجات کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی کوشش کرنا اس کا کام ہوگا ۔
چھٹا مبلّغ پراپیگنڈا کے لئے وقف ہو گا اور اس کا فرض ہو گا کہ وہ اخباروں سے تعلقات رکھے جو JOURNALISMکا امتحان پاس کرے،پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرے اور اپنے تعلقات اور دوستیوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے دیکھا ہے اَور تو اَور یورپ جیسے ممالک میں جہاں ایک ایک اخبار کی اشاعت دس دس لاکھ تک ہوتی ہے منہ دیکھے کا لحاظ ہوتا ہے اور چائے کی ایک پیالی اتنا کام کرجاتی ہے جتنا کام بیسیوں روپوں سے نہیں ہوسکتا۔ غرض ایک مبلّغ اشاعت کے لئے وقف ہونا چاہئے اور اُس کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ مصنّفین سے تعلقات رکھے۔ اخبارات اور رسالوں کے مالکوں اور ان کے ایڈیٹروں وغیرہ سے میل جول رکھے اور اس طرح احمدیت کا اثر ان پر قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جب تک کسی مرکز میںاس قسم کے چھ مبلّغین نہ رکھے جائیں اور بیک وقت الگ دائرہ میں اپنا کام شروع نہ کریں اُس وقت تک صحیح معنوں میں اشاعتِ اسلام نہیں ہو سکتی۔ گو حقیقت یہ ہے کہ کسی مُلک میں چھ مبلّغین کا موجود ہونا بھی تبلیغی نقطئہ نگاہ سے کسی طرح کافی نہیں سمجھا جاسکتا۔لاہور جیسے شہر میں بھی اگر چھ مبلّغ رکھے جائیں تو وہ سب لوگوں کو پوری طرح تبلیغ نہیں کر سکتے۔ مگر ہم نے بعض علاقوں میں صرف ایک مبلّغ رکھا ہوا ہے اور جب وہ لوگ کسی اور مبلّغ کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے ایک مبلّغ دیا ہوا ہے حالانکہ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی ہرگز صحیح طور پر تبلیغ نہیں کرسکتا مگر مرکز اس قسم کا جواب دینے پر مجبورہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک دفعہ حضرت ابوعبیدہؓ نے لکھا کہ عیسائیوں نے لشکر اسلام پر سخت حملہ کر دیا ہے ان کا کئی لاکھ لشکر ہے اور اسلامی لشکر صرف چند ہزار ہے دشمن کا کامیاب مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آٹھ ہزار سپاہی ہمیں مدد کے لئے بھجوائے جائیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے آٹھ ہزار فوج اپنی مد د کے لئے مانگی ہے میں معدی کرب کو بھیجتا ہوں یہ تین ہزار کاقائم مقام ہے باقی پانچ ہزار سپاہی بھی عنقریب بھیج دئیے جائیںگے۔صحابہؓ کا ایمان بھی دیکھو جب حضرت عمرؓ کا یہ خط پہنچا تو انہوں نے افسوس نہیں کیا کہ عمرؓ نے ہمارے مطالبہ کا کیا جواب دیا ہے بلکہ جب معدی کرب آئے تو حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکرِ اسلام سے کہا کہ معدی کرب جن کو حضرت عمرؓ نے تین ہزار کا قائم مقام قرار دیا ہے آرہے ہیںان کا استقبال کرنے چلو۔چنانچہ جب معدی کرب پہنچے تو لشکرِاسلام نے اس زور سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے بلند کئے کہ دشمن نے سمجھا مسلمانوں کو کمک پہنچ گئی ہے اور وہ ڈر کر کئی مقامات سے خودبخود پیچھے ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے معدی کربوں کی فوج کے سپاہی بھی اب یکے بعد دیگرے اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے باہر جانے شروع ہوگئے ہیں جن کی کوششوں کے نتیجہ میں ہماری جماعت مختلف ممالک میں اب پہلے سے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور اس کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ مختلف ممالک سے اس قسم کی کئی خوشخبریاں ہمیں مل رہی ہیں مثلاً انگلستان میں پہلے یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کسی ہسٹیریا کی ماری ہوئی عورت کو اگر عیسائیت میں اطمینان حاصل نہ ہوا تو وہ اسلام کی آغوش میں آگئی یا کسی عورت کا کوئی معشوق بھاگ گیا اور اُسے اپنی زندگی دوبھر معلوم ہونے لگی اور پھراس دوران میں اس نے ہمارے مبلّغ کو کہیں تقریر کرتے دیکھ لیا اور اُس نے سمجھا کہ شاید خدا کی پناہ میں مجھے اطمینان حاصل ہو جائے چنانچہ وہ آتی اور اسلام قبول کر لیتی۔ اسی طرح اگر کوئی مرد بھی اسلام قبول کرتا تو ایسا ہی ہوتا جو سوسائٹی کا مارا ہوا ہوتا سوائے تین چار کے جو اچھے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے مگر اب نسبتاً زیادہ معقول اور باحیثیت لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔
مَیں ہمیشہ اپنے اُن مبلّغوں کو جنہیں یورپ میں تبلیغ کے لئے بھیجا جاتا ہے کہا کرتا ہوں کہ تمہیں عورتوں کی بجائے مردوں کو زیادہ تبلیغ کرنی چاہئے کیونکہ یورپ میں عورتیں مردوں سے تین گناہیں اور اس وجہ سے اُن میں ہسٹیریاکا مرض زیادہ پایا جاتا ہے اگر عورتوں کی طرف توجہ کی جائے تو زیادہ تر ایسی عورتیں ہی اسلام کی طرف آتی ہیں جو ہسٹیریکل ہوتی ہیں اور ہمارامبلّغ اپنی غلطی سے یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ مجھے بہت بڑی کامیابی ہو رہی ہے حالانکہ ان کی توجہ محض ہسٹیریا کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مَیں جب پہلی دفعہ یورپ گیا تو ایک عورت نے بڑے شوق سے ہماری مجالس میں آنا شروع کر دیا۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز آجاتی اور آدھ آدھ گھنٹہ تک باتیں کرتی رہتی۔ ہمارے دوست کہتے کہ یہ عورت اسلام سے بہت دلچسپی رکھتی ہے ضرور مسلمان ہو جائے گی مگر آخر مہینہ کے بعد وہ ایک دن برنارڈشاہ کی ایک کتاب میرے پاس لائی اور کہنے لگی میں نے بہت کوشش کی تھی کہ آپ کو برنارڈشاہ کا مرید بنا لوں مگر آ پ نہ بنے یہ اس کی کتاب ہے میں آپ کو مطالعہ کے لئے دینا چاہتی ہوں اسے آپ ضرور پڑھیں ۔مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا لو تم تو کہتے تھے کہ یہ عورت مسلمان ہو جائے گی مگر یہ تو اُلٹا مجھے برنارڈشا کا مرید بنانا چاہتی ہے غرض پہلے زیادہ تر عورتیں ہی اسلام کی طرف توجہ کیا کرتی تھیں مگر اب جو نئے مبلّغ بھجوائے گئے ہیں ان کو میں نے خاص طور پر یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ یونیورسٹیوں سے تعلقات رکھیں، مذہبی لوگوں سے واقفیت پیدا کریں، اخباروں اور رسالوں والوں سے میل جول رکھیں، مصنفوں سے تعلقات بڑھائیں اور تجارت کے ذریعہ سلسلہ کی آمد میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر ہم اپنی تبلیغ کو وسیع نہیں کر سکتے۔ پھر صرف انگلستان میں ہی نہیں بلکہ اور ممالک میں بھی احمدیت کی ترقی کے آثار خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو رہے ہیں بلکہ ایسے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنی شروع ہوگئی ہے جہاں پہلے باوجود کوشش کے ہمیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ ملایا میں یا تویہ حالت تھی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز کو ایک دفعہ لوگوں نے رات کو مار مار کر گلی میں پھینک دیا اور کُتے اُن کو چاٹتے رہے اور یا اب جو لوگ ملایا سے واپس آئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ اچھے اچھے مالدار ہوٹلوں کے مالک معزز طبقہ کے ستّر اسّی کے قریب دوست احمدی ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، جاوا اورسماٹرا سے جو اطلاع آئی ہے اس میں بھی یہی لکھا ہے کہ آگے کی نسبت تبلیغ کے راستے زیادہ کھل رہے ہیں غرض یہ ایک اہم موقع ہے جس سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے اب ہم ویسے ہی مقام پر کھڑے ہیں جیسے قصہ مشہور ہے کہ پُرانے زمانہ میں ایک دیوارِ قہقہہ ہوا کرتی تھی جو بھی اُس پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکتا وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اُسی طرف چلا جاتاواپس آنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ہم بھی اس وقت ایک دیوارِ قہقہہ کے نیچے کھڑے ہیں جو شخص جرأت کر کے اس دیوار کی دوسری طرف جھانکے گا اس کا دل دنیا سے ایسا سرد ہو جائے گا کہ پھرواپس لوٹنے کا نام نہیں لے گا اور کامیابی ہمارے قدم چوم لے گی۔
(الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر۱۹۶۰ء)
کچھ عرصہ ہوا میں نے جماعت کے دوستوں کو بعض تحریکات کی تھیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ان پر عمل کئے بغیر جماعت کُلّی طور پر کبھی ترقی نہیں کر سکتی مگرافسوس ہے کہ جماعت نے ان کی طرف پوری توجہ نہیں کی اب میں پھر دوستوں کو ان تحریکات کی طرف توجہ لانا چاہتا ہوں۔ ان میں سے ایک تحریک تو یہ ہے کہ ہر جگہ قرآن کریم کے درس جاری کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ جماعت کا ہر فرد قرآن کریم کا ترجمہ جانتاہو۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کا یہ کام ہے کہ وہ جماعت کی نگرانی رکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کون کون لوگ قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے۔ پھر جو لوگ ایسے ہوں ان کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے اور اس بارہ میں اس قدر تعہّد سے کام لیا جائے کہ جماعت کا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور جولوگ قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہوں ان کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں دوسرے علوم سے واقفیت پیدا ہو۔
پھر میں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ چونکہ دنیوی تعلیم بھی نہایت اہم چیز ہے اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے افراد کا جائزہ لے اور کوشش کرے کہ جماعت کاکوئی لڑکا ایسا نہ ہو جو کم از کم پرائمری پاس نہ ہو، پھر جو لڑکے پرائمری پاس ہوں اُن کے متعلق کوشش کرنی چاہئے کہ وہ مڈل تک تعلیم حاصل کریں، جن کی تعلیم مڈل تک ہے اُن کے متعلق کوشش کریں کہ وہ انٹرنس پاس کریں اور جو لڑکے انٹرنس پاس ہیں ان کے متعلق کوشش کریں کہ وہ کالج میں داخل ہوں اور ایف۔اے یا بی۔ اے پا س کریں۔غرض تعلیم کو ترقی دینا ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے۔ اس طرح ایک طرف تو خود ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا ہوگی اور دوسری طرف جماعت کی طاقت اور اس کی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ پس میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ فوراً اس قسم کے نقشے پُر کر کے نظارت میں بھجوائیں کہ ہر جماعت میں پانچ سے بیس سال تک کی عمر کے کتنے لڑکے ہیں؟ ان میں سے کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ اور جو پڑھتے ہیں وہ کون کونسی جماعت میں پڑھتے ہیں، پھر جو نہیں پڑھتے ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دِلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں میں پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین صاحبِ استطاعت ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں یہاں کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں تا کہ ہماری جماعت دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھنے والی ہو۔
تیسری تحریک جو کچھ عرصہ سے میں جماعت کو کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو اب تجارت کی طرف زیاہ توجہ کرنی چاہئے۔ میں نے بارہا بتایا ہے کہ تجارت ایسی چیز ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بہت بڑا اثرورسوخ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دو نوجوان افریقہ گئے ایک کو ہم نے کہا کہ تمہیں خرچ کے لئے ہم ۲۵ روپے ماہوار دیں گے مگر دوسرے سے ہم نے کہا کہ تمہارے اخراجات برداشت کرنے کی ہمیں توفیق نہیں۔اس نے کہا توفیق کا کیا سوال ہے میں خود محنت مزدوری کر کے اپنے لئے روپیہ پیدا کروں گا سلسلہ پر کوئی بار ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو بہت مبارک خیال ہے اگر ایسے نوجوان ہمیں میسر آجائیں تو اور کیا چاہئے چنانچہ وہ دونوں گئے اور انہوں نے پندرہ روپیہ چندہ ڈال کر تجارت شروع کی اب ایک تازہ خط سے معلوم ہوا ہے کہ وہی نوجوان جنہوں نے پندرہ روپے سے تجارت شروع کی تھی اب تک ایک ہزار روپیہ تبلیغی اخراجات کے لئے چندہ دے چکے ہیں اور اپنا گزارہ بھی اتنی مدت سے عمدگی کے ساتھ کرتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مشن کے ذمہ ان کا چالیس پونڈ کے قریب قرض بھی ہے جو انہوں نے اپنی تجارت کے نفع سے دیا۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہم اس سے بھی زیادہ روپیہ کما لیتے مگر چونکہ گورنمنٹ نے مال کی درآمدوبرآمد پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں اس لئے ہم زیادہ روپیہ کما نہیں سکے ورنہ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجودہیں کہ اس مُلک میں بعض نوجوان ہزار ہزار دو دو ہزارروپیہ کے ساتھ آئے اور اب وہ لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے مالک ہیں۔ یہاں سے ایک نوجوان امریکہ بھاگ گیا تھا وہ ذہین تو تھا مگر یہاں اسے دین سے کوئی اُنس نہیں تھا۔ غیر مُلک میں جاکر اسے دین سے بھی اُنس پیدا ہو گیا اور اس نے روپیہ بھی کمانا شروع کر دیا۔یہاں سے وہ جہاز میں چوری چھپے بیٹھ کر گیا تھا راستہ میں پکڑا گیا تو اسے جہاز میں کوئلہ ڈالنے پر مقرر کر دیا گیا اس طرح وہ امریکہ پہنچا۔ ایک پیسہ بھی اس کے پاس نہیں تھا مگر اب وہ سال میں دو تین ہزار روپیہ چندہ بھیج دیتا ہے۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے اس نے تحریک جدید کے امانت فنڈ میں تیس پینتیس ہزار روپیہ بھجوایا ہے اس کے علاوہ چھ سات ہزار روپیہ اس نے وصیت کا بھی بھیجا ہے حالانکہ یہاں سے وہ بغیر کسی پیسہ کے گیا تھا۔غرض نوجوان اگر ہمت سے کام لیں تو غیر ممالک میں جاکر وہ ہزاروں روپیہ بڑی آسانی سے کما سکتے ہیں مگر مَیں حیران ہوں کہ ہماری جماعت کے بعض نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اگر ان کے سپرد کوئی کام کیا جائے تو اُس کو محنت سے سر انجام دینے کی بجائے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے وقف زندگی کی تحریک کی اورمیں نے بڑی وضاحت سے جماعت کے نوجوانوں کو باربار سمجھایا کہ دیکھو! تمہیں بطور حق کے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا، تمہیں اپنے پاس سے کھانا کھانا پڑے گا، تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا، تمہیں فاقے کرنا پڑیں گے، تمہیں ماریں کھانی پڑیں گی، تمہیں ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں گی اور تمہارا فرض ہوگا کہ ان تمام حالات میں ثابت قدم رہو اور استقلال سے خدمتِ دین میں مصروف رہو۔ یہ سبق میں اپنے خطبات میں دُہراتا اور بار بار دُہراتا ہوں پھر میں اس پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ نوجوانوں کو خود انٹرویو کے لئے اپنے سامنے بلاتا ہوںاور کہتا ہوں دیکھو! تم نے میرے خطبات تو پڑھ لئے ہوں گے اب پھر مجھ سے سن لو تمہیں کوئی پیسہ نہیں ملے گا کیا تمہیں منظور ہے؟ وہ کہتے ہیں منظور ہے۔ پھرکہتا ہوں تمہیں پیدل سفر کرنا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں پوری طرح تیار ہیں۔پھرکہتا ہوں تمہیں جنگلوں میں جانا پڑے گا کیا اس کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم جنگلوں میں جانے کے لئے بھی تیار ہیں۔پھر کہتا ہوں تمہیں فاقے بھی آئیں گے کیا تم فاقہ کے لئے تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم فاقہ کے لئے بھی تیار ہیں۔ میں کہتا ہوں تمہیں لوگوں سے ماریں کھانی پڑیں گی کیا تم اس کے لئے بھی تیار ہو؟ وہ کہتے ہیں ہم ماریں کھانے کے لئے بھی تیار ہیں۔ غرض یہ سبق انہیں خوب یاد کرایا جاتا اور بار بار ان کے سامنے دُہرایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سبق ان کو خوب یاد ہو چکا ہوگا تو ہم کہتے ہیں جاؤ سندھ میں جو سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر کام کرو،منشی کا کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے جاتے ہیں تو تیسرے دن مینیجر کی طرف سے تار آجاتا ہے کہ منشی صاحب بھاگ گئے ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے میرا دل یہاں نہیں لگتا۔کوئی ایک مثال ہو تو اُسے برداشت کیا جائے، دومثالیں ہوں تو اُنہیں برداشت کیا جائے مگر ایسی کئی مثالیں ہیں کہ بعض نوجوانوں نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی زندگیاں وقف کیں مگر جب اُن کو سلسلہ کے کسی کام پر مقرر کیا گیا تو بھاگ گئے محض اس لئے کہ تکالیف ان سے برداشت نہیں ہو سکتیں۔ اس قسم کے مواد کو لے کر کوئی جرنیل کیا لڑسکتا ہے۔آدمی کو کم از کم یہ تو تسلی ہونی چاہئے کہ مَیں بھی جان دینے کے لئے تیار ہوں اور میرا ساتھی بھی خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنی جان دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ بعض نوجوان اپنی زندگی وقف کرتے ہیں اور پھر ذرا سی محنت اور ذرا سی تکلیف پر کام چھوڑ کر بھا گ جاتے ہیں اور جب ان میں سے کسی کو سرزنش کی جاتی ہے تو جماعتیں اُس کو اپنے گلے سے لپٹا لیتی ہیں اور لکھتی ہیںکہ آپ کو اس کے متعلق کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ یہ آدمی بڑا مخلص ہے اور سلسلہ کے لئے بڑی قربانی کرنے والا ہے۔ حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ایسا شخص واپس آتا تو بیوی اپنے دروازے بند کر لیتی اور کہتی کہ میں تمہاری شکل دیکھنے کے لئے تیار نہیں، بچے اُس سے منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ تم دین سے غداری کا ارتکاب کر کے آئے ہو ہم تم سے ملنے کے لئے تیار نہیں،دوست اُس سے منہ موڑ لیتے کہ ہم تم سے دوستی رکھنے کے لئے تیار نہیں تم نے تو موت تک اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کی تھی اب تم خود واپس نہیں آسکتے تمہاری روح ہی آسکتی ہے مگر روح بھی یہاں نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ کے حضور جائے گی اس لئے تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر بعض جماعتیں ایسے لوگوں کو بڑے پیار سے اپنے گلے لگاتی اور سینہ سے چمٹانے لگ جاتی ہیں۔
ہم جب بچے تھے تو حضرت اماں جان ہمیں کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اُٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اُڑتے اُڑتے کسی شہر کے پاس آگرا۔اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اُس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو ردّ کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اُترے گا کسی اور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی ایک دن وہ جولاہا بگولے کی لپیٹ میں جو اُس شہر کے قریب آکر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضور! آسمان سے فرشتہ آگیا ہے اب اپنی لڑکی کی شادی کر دیں۔ بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولاہے سے شادی کر دی وہ پہاڑی آدمی تھا نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا اُسے تو سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھا لے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اُس کی خاطر تواضع بڑھنے لگی نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکائیں،کبھی زردہ پکائیں، کبھی مرغا تیار کریں، پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گدے ہوتے اور اوپر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے۔کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا ماں نے اُسے دیکھا تو گلے سے چمٹا لیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی۔ جولا ہا بھی چیخیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا اماں! میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں میرے تو پور پورمیں دکھ بھرا ہوا ہے۔اماں! کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیئے جاتے تھے اُن کا نام اُس نے کیڑے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اُس نے مارنا قرار دیا اس طرح ایک ایک کر کے اُس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے۔ ماں نے یہ سنا تو چیخیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘ یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں۔ یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں سینہ سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ہے پُت تجھ پہ یہ یہ دُکھ‘‘۔ بہرحال ہمیں واقف چاہئیں مگر بُزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر اُنہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی، وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ چونکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ وسیع کرنے کے لئے ابھی مبلّغین کے ایک لمبے سلسلہ کی ضرورت ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں کو پھر وقف زندگی کی تحریک کرتا ہوں اور ماں باپ کو اس کی اہمیت کی طرف توجہ لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک ہر باپ یہ اقرار نہیں کرتا کہ میں اپنی اولاد اسلام کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں،جب تک ہر ماںیہ اقرار نہیں کرتی کہ وہ دین کے لئے اپنی اولاد کو قربان کرنا اپنے لئے سعادت کا موجب سمجھے گی اُس وقت تک ہم دین کی ترقی کے لئے کوئی مضبوط اور پائیدار بنیاد قائم نہیں کر سکتے۔ہم میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اگر دین کے لئے اس کی اولاد قربان ہو جائے گی تو اُس کی موت انتہائی سُکھ کی موت ہو گی اور اگر سلسلہ کے لئے اس کی اولا ہر قسم کی قربانی سے کام نہیں لے گی تو اُس کی موت کی گھڑیاں انتہائی دُکھ اور تکلیف میں گزریں گی۔ یہ ایمان ہے جو ہمارے اندر پیدا ہونا چاہئے۔ جب تک ہم میں سے ہر مرد اور عورت میں فدائیت اور جان نثاری کا یہ جذبہ پیدا نہ ہو اُس وقت تک ہم ایک مضبوط اور ترقی کرنے والی قوم کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔
ایک اعلان میں نے یہ کیا تھا کہ جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس رنگ میں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر یں کہ مرکزکی طرف سے انہیں جہاں بھی تجارت کرنے کے لئے کہا جائے گا وہاں وہ جائیں گے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہیں گے۔ تجارت ایک ایسی چیز ہے جس میں انسان بغیر کسی خاص سرمایہ کے بہت تھوڑی محنت کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس طرف توجہ کریں گے وہ نہ صرف اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے روزی کا سامان پیدا کریں گے بلکہ دین کی خدمت کے لئے چندہ بھی دے سکیں گے اور سلسلہ کی اشاعت کوبھی وسیع کرنے کا موجب بنیں گے۔ ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے آپ کو تجارت کے لئے وقف کریں اگر انہیں کام سیکھنے کی ضرورت ہوئی تو ہم انہیں کام سکھائیں گے،انہیں تجارت کے لئے موزوں مقام بتائیں گے، انہیں کارخانوں سے مال دِلوا دیں گے اور اگر کوئی مشکل پیش آئے گی تو اُس کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ افریقہ میں ایسا ہی ہوا کہ بعض لوگ وہاں تجارت کے لئے گئے تو ہم نے اپنی ضمانت پر انہیں کارخانوں سے مال دلوادیا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگئے۔ اگر ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں تو ہم قلیل ترین عرصہ میں ہی سارے مُلک میں اپنے تاجر اور صناع پھیلا سکتے ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ جس جس علاقہ میں ہمارا تاجر اور صناع ہو گا ان علاقوں میںصرف ان کی تجارت اور صنعت ہی کامیاب نہیں ہوگی بلکہ جماعت بھی پھیلے گی۔
ایک اور امر جس کی طرف میںاس موقع پر جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ اس انسٹیٹیوٹ کے ماتحت ہم مُلک کے مختلف حصوں میں بعض کارخانے کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لئے ہمیں روپیہ کی ضرورت ہو گی۔ جماعت کو چاہئے کہ وہ تیار رہے اورجب مرکز کی طرف سے تحریک ہو تو اس میں پورے جوش کے ساتھ حصہ لے۔ خصوصیت کے ساتھ میں کارخانہ داروں اور تاجروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کریں اور سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماتحت جو کارخانے کھولے جائیں گے ان میں حصہ لیں تاکہ ہماری جماعت صنعت و حرفت کے میدان میں بھی ترقی کر سکے اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کا سامان پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ادنیٰ اور پس ماندہ اقوام کو اسلام میں داخل کرنا چاہیں تو ہمارے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ یا تو ہمارے پاس بہت بڑی زمینیں اور جائدادیں ہوں اور یا پھر صنعت وحرفت کے لحاظ سے ہمارے پاس کافی طاقت ہو۔ مجھے ایک دفعہ کا نگڑہ کے ضلع سے ایک شخص جو اپنی قوم کا لیڈر تھا ملنے کے لئے آیا اور اس نے کہا ہمارے سات ہزار آدمی اسلام لانے کے لئے تیار ہیں۔ میں نے کہا یہ تو بڑی اچھی بات ہے لیکن آپ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ کہنے لگا کوئی بات نہیں ہم کاشتکاری کرتے ہیں اور روپیہ ہمارے پاس کافی ہے اپنے متعلق بتایا کہ میں ٹھیکیدار ہوں اور مجھے مالی رنگ میں کسی قسم کی احتیاج نہیں۔ میں نے کہا پھر بھی کوئی بات تو ہوگی جو اور لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس آئے ہیں۔ کہنے لگا صرف اتنی بات ہے کہ ہماری قوم جس جگہ بسی ہوئی ہے وہ زمین ایک ہندو ٹھاکر کی ہے جس دن ہم مسلمان ہوئے ہندو ٹھاکر نے ہمیں نوٹس دے دینا ہے کہ اپنا سامان اُٹھاؤ اور یہاں سے نکل جاؤ اگر آپ ہمارے لئے زمین کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے بالکل تیار ہیں مکان وغیرہ ہم خود بنا لیں گے ہمیں اس کے لئے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہو گی۔ میں نے کہا میں تو تم سے بھی زیادہ مجبور ہوں سات ہزار آدمیوں کو بسانے کے لئے میں کہاں سے زمین لاؤں۔ اُس نے کہا یوں تو علماء بھی کہتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھانے کے لئے تیار ہیں مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان سات ہزار آدمیوں کا پھر بنے گا کیا اور جب یہ نکال دئیے جائیں گے تو ان کو مکانوں کے لئے زمین کہاں سے ملے گی۔ اب دیکھو کس طرح سات ہزار آدمی مفت اسلام میں داخل ہو رہاتھا مگر ایک منٹ کے اندر اندر ہاتھ سے نکل گیا۔ اسی طرح اور بہت سے مقامات ہیں جہاں سات سات دس دس ہزار آدمی منٹوں میں اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں وہ بیزار ہیں اپنے مذاہب سے اور بیزار ہیں اپنے مذاہب کے علمبرداروں سے، نہ ان کے مذہب میں نور ہے نہ ہدایت ہے نہ علم ہے نہ دین اور دنیوی ترقی کا کوئی سامان ہے اور نہ کوئی اور خوبی ہے۔اگر ان کی اصلاح اور ترقی کے لئے تجارت اور صنعت و حرفت کے میدان میں ہماری جماعت مضبوط ہو جائے اور مختلف مقامات پر کارخانے کھل جائیں تو ان کے کام کے لئے بھی بہت کچھ گنجائش نکل سکتی ہے۔ کانگرس نے دیہات سدھار کے نام سے جو سکیم جاری کی تھی اس کی غرض بھی در حقیقت ہندو مذہب کی مضبوطی تھی کیونکہ اس ذریعہ سے جب مزدور طبقہ کو کام مل جاتا ہے تو ہندو مذہب پر وہ اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال اگر مختلف مقامات پر کارخانے جاری ہو جائیں اور جماعتیں ان میں حصہ لیں تو یہ تبلیغ اسلام کا ایک ایسا کامیاب ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ہزاروں ہزار مزدوروں کے لئے کام کرنے کا موقع پیدا ہو جائے گا۔ اس کے بعد جب ہم ان کو اسلام کی دعوت دیں گے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا موجودہ حالات کی نسبت زیادہ آسان ہوگا۔ یہ وہ اہم اور ضروری تحریکات ہیں جو جماعت کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھنی چاہئیں یعنی تعلیم القرآن کو عام کرنا، دُنیوی تعلیم کے حصول میں ترقی کرنا، تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینا، دفتردوم کو مضبوط کرنا، وقف زندگی کی تحریک میں اپنے آپ کو پیش کرنا، وقفِ تجارت میں اپنا نام لکھوانا، صنعت وحرفت کی ترقی کیلئے جو کارخانے جاری کئے جانیوالے ہیں ان میں حصہ لینا۔اگر ان تمام تحریکات میں جماعت پورے جوش کے ساتھ حصہ لے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کا ایک ایسا مکمل دائرہ تیار ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد جماعت بغیر کسی تکلیف کے اپنے کاموں کو جاری رکھ سکتی ہے اور وہ لٹریچر بھی جو تبلیغی ضرورتوں کے لئے تیار کیا جا چکا ہے یاآئندہ تیار ہوآسانی سے مختلف ممالک میں پھیلایا جا سکتا ہے۔
میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ فضائل القرآن کے موضوع پر گزشتہ سالوں میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جو تقاریرمیں کرتا رہا ہوں(یعنی ۱۹۲۸ء، ۱۹۲۹ء،۱۹۳۰ء،۱۹۳۱ء،۱۹۳۲ ء،اور ۱۹۳۶ء میں) ان کو بھی کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔ چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں دوستوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص یہ سوچ سمجھ کر میری لکھی ہوئی تفسیر کو پڑھے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ قرآن کریم کی تفسیر مکمل نہیں ہوئی۔اصل بات یہ ہے کہ میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں۔ فرض کرو ایک نکتہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خود بخود درمیانی خلاء کو پُر کرسکے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نکتہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نکتہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہو گا وہ بہرحال وہی ہو گا جو ان دونوں نکتوں کے مطابق ہو۔ اگر درمیانی مضمون کسی اور طرف چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلۂ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی۔ پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں درمیانی آیات کا حل کرنا اُس کے لئے بالکل آسان ہو گا کیونکہ ترتیبِ مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جواس ترتیب کے مطابق ہوں۔
ایک لطیفہ یاد آگیا جب میں سورہ کہف کی تفسیر لکھنے بیٹھا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس آیت کے کیا معنی ہیں کہ۹؎اور اس کا پہلی آیات سے جوڑ کیا ہے؟ میں دو تین گھنٹے سوچتا رہامگر یہ آیت حل نہ ہوئی آخر میں گھبرا گیا اور میں نے کہا اچھا اگر اِس وقت مجھے اس آیت کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو نہ سہی جب میں تفسیر لکھتے لکھتے یہاں پہنچوں گا تو دیکھا جائے گا جب میں سورئہ کہف کی تفسیر لکھتے لکھتے اس آیت سے پہلی آیت پر پہنچا تو اگلی آیت آپ ہی آپ حل ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ اس کے کیا معنی ہیں کیونکہ ان معنوں کے سوا کوئی اور معنی ترتیبِ آیات کے لحاظ سے بن ہی نہیں سکتے تھے۔ اُن دنوں مولوی شیر علی صاحب ولایت میں تھے لطیفہ یہ ہوا کہ جب مولوی شیر علی صاحب انگریزی ترجمۃ القرآن کے نوٹ میرے پاس لائے تو میرے دل میں خیال گزرا کہ چلو یہی دیکھ لو کہکے انہوں نے کیا معنی کئے ہیں۔ جب میں نے دیکھا تو وہی معنی لکھے تھے جو میں نے کئے تھے میں نے کہامولوی شیر علی صاحب نے تو کمال کر دیا کہ جو آیت میرے لئے معمہ بنی رہی تھی اسے اُنہوں نے لند ن میں ہی حل کر لیا۔ اس پر ملک غلام فرید صاحب کہنے لگے کہ یہ مولوی شیر علی صاحب کے معنی نہیں بلکہ آپ کے ہی معنی ہیں آپ نے اگست ۱۹۲۸ء میںجوقرآن کریم کا درس دیا تھا اس میں آپ نے اس آیت کے یہی معنی کئے تھے اور مولوی صاحب نے اسی درس کے نوٹوں سے یہ معنی لئے تھے۔ معلوم ہوتا ہے اُس وقت بھی چونکہ میں ترتیب کے ماتحت تفسیر کر رہا تھا اِس لئے یہ آیت خود بخود حل ہو گئی اور بعد میں مجھے یاد بھی نہ رہا کہ میں نے اس کے کیا معنی کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں بغیر ترتیب کے اس پر غور کرنے بیٹھا تو مجھے اس کے کوئی معنی سمجھ میں نہ آئے لیکن ترتیب میں آکر حل ہو گئے۔
پس میری تفسیر کے متعلق یہ اصولی گُر یاد رکھنا چاہئے کہ میری تفسیر ہمیشہ ترتیبِ آیا ت کے ماتحت چلتی ہے اور جب کوئی تفسیر ترتیب کے ماتحت چل رہی ہو تو ایسی حالت میں اگر کسی کو دو الگ الگ نکتے مل جائیں گے تو خواہ درمیان میں فاصلہ ہو وہ آسانی سے درمیانی آیات کی تفسیر کو نکال سکتا ہے کیونکہ وہ سمجھ جائیگا کہ صحیح تفسیر ہی ہوگی جوان دونکتوں کے مطابق ہو۔ جس طرح پٹواری جب کسی زمین میں الگ الگ مقامات پر کیلے گاڑ دیتا ہے تو پھر اسے کوئی مشکل نہیں رہتی اور وہ آسانی سے پیمائش کر سکتا ہے رسّی کا ایک کونہ ایک کیلے سے باندھ دیتا ہے اور دوسرا کونہ دوسرے کیلے سے اور وہ جانتا ہے کہ اب رسّی اِدھر اُدھر ہو ہی نہیں سکتی اسی طرف جائے گی جس طرف کیلا ہو گا۔ اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو۔ بہرحال فضائل القرآن کا مضمون بھی نہایت اہم ہے اگر یہ مضمون مکمل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے براہین احمدیہ مکمل ہو جائے گی۔ لیکچر تو کئی سالوں سے تیار ہیں مگر ان میں سے چھپا ایک بھی نہیں اب ارادہ ہے کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے۔
غرض جماعت کی دینی ،دنیوی ،علمی،تجارتی، صنعتی،اقتصادی، اور تربیتی ترقی کے لئے میں نے مختلف تحریکات کی ہوئی ہیں دوستوں کو ان سب تحریکوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا چاہئے۔ پھر سب سے بڑھ کر جو چیز اہمیت رکھنے والی ہے وہ محبتِ الٰہی ہے پس جماعت کو علاوہ اور تحریکات میں حصہ لینے کے کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرے اور انہیں ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے۔ پھر زمینداروں کی اصلاح اور ان کی بہبودی کے متعلق بھی میرے ذہن میں ایک سکیم ہے مگر زمیندار بڑی مشکل سے قابو آتے ہیں۔ کئی باتیں اُن کے فائدہ کی ہوتی ہیں مگر جب انہیں سمجھایا جاتا ہے تو ان باتوں کا انہیں قائل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان کی اصلاح کے لئے بھی کوئی قدم اُٹھایا جائے جس سے زمیندارہ کام میں ترقی ہو اور پیداوار پہلے سے زیادہ ہوسکے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہماری جماعت کے یہ تمام طبقات پوری طرح مضبوط ہو جائیں، زمیندار بھی ترقی کی طرف اپنا قدم اُٹھانا شروع کر دیں، تاجر اور صناع بھی مختلف علاقوں میں تجارت اور صنعت شروع کر دیں، مزدوروں اور ادنیٰ اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے بھی مختلف کارخانوں میں کام کرنے کے مواقع پیدا ہو جائیں تو ہزاروں نہیں لاکھوں لاکھ ہندو اور عیسائی اسلام میں داخل ہونے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ آج دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلام سچا ہے مگر دُنیوی روکیں ان کو اسلام قبول کرنے کی طرف اپنا قدم بڑھانے نہیں دیتیں۔ اگر ہماری جماعت کے تاجر اور صناع اور زمیندار اور کارخانہ دار سب کے سب منظم ہو جائیں اور مزدوروں اور ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ترقی کے لئے ہمارے پاس تجارت اور صنعت وحرفت کا ایک بہت بڑا میدان تیار ہو جائے تو ان لوگوں کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کے متعلق جو ایک ظاہری ڈر پایا جاتا ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ دلیری اور جرأت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونا شروع کر دیں گے اُس وقت ہمیں وہی نظارہ نظر آنے لگے جو اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ ۱۰؎ پھر ہمیں یہ خبریں نہیں آئیں گی کہ آج دس آدمیوں نے بیعت کی ہے، آج بیس نے بیعت کی ہے، آج تیس اور چالیس نے بیعت کی ہے بلکہ ہمارے مبلّغ دنیا کے مختلف اطراف سے ہمیں تاروں پر تاریں بھجوائیں گے کہ آج دس ہزار نے بیعت کی ہے، آج پچاس ہزار نے بیعت کی ہے، آج ایک لاکھ نے بیعت کی ہے صرف اپنے ایثار اورقربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنے معیار کو اونچا کر لیں گے تو ہماری ترقی ایک یقینی چیز ہے جس میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوسکتی ۔
مَیں آخر میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہماری جماعت کے افراد کو کثرت کے ساتھ آنا چاہئے یہاں تک کہ آپ یہ بھی فرماتے کہ جو شخص قادیان میں بار بار نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کے متعلق ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ یہ آپ لوگوں کا ہی قصور ہے کہ صرف جلسہ پر آتے ہیں دوسرے اوقات میں آنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں۔ اب تو میں سوائے بیماری یا سفر کے ہمیشہ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دین کی باتیں دوستوں کو سکھاتا رہتا ہوں یہ بھی ایک نیاموقع ہے جس سے ہماری جماعت کے افراد کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تاکہ آہستہ آہستہ وہ لوگ تیار ہو جائیں جو دین کی اشاعت کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہوں اور ان کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہو کہ وہ ہر قسم کی قربانی پیش کرکے دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح میری خواہش ہے کہ ہر مسجد بلکہ ہر محلہ میں درس جاری ہوں تا کہ لوگوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دین سیکھنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ پس بجائے اس کے کہ آپ سارازور انہی دنوں میں صرف کریں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے مواقع پر بھی مرکز میں آتے رہیں۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ پوربیا چوبیس گھنٹے میں صرف ایک وقت کھاتا ہے اور خوب کھاتا ہے آپ لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں کہ اور ایام میں تو یہاں آنے کی کوشش نہیں کرتے اور سال بھر میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں پہنچنے کے لئے پورا زور صرف کر دیتے ہیں۔ آپ لوگوں کو دوسرے مواقع پر بھی بار بار آنا چاہئے اور اس جگہ دین سیکھنے کے جو مواقع خدا تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں ان سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور وہ ہمیشہ اپنے فضل اور رحم کی بارش آپ پر اور آپ کے تمام متعلقین اور رشتہ داروں پر برسائے تا کہ دین اور دنیا دونوں کی ترقیات کے سامان آپ کے لئے اور آپ کی آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ جاری رہیں۔ آمِیْن یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
(الفضل ربوہ ۲۸؍ اگست۱۹۵۹ء۔۲۲؍جنوری ۱۹۶۰ء۔۱۱ ؍جولائی ۱۹۶۲ء)
۱؎ المائدہ: ۲۵
۲،۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲،۱۳۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۵؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام … الخ
۶،۷؎ الفاتحہ: ۵،۶،۷
۸؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۹؎ الکھف: ۲۴،۲۵
۱۰؎ النصر: ۳


پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں
کا فرض




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
(رقم فرمودہ ۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء)
پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہو چکا ہے مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو ان کے خیالات کے اظہار کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا کہ:۔
اوّل تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے (گو مسیحیوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے)
دوسرے جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
تیسرے ہم ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور پارلیمنٹری وفد اِس وقت اُن سے بات کر رہا ہے جو ہندوستان کے مستقبل کو بنا یا بگاڑ سکتے ہیں۔ دُنیوی نقطۂ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں اس لئے باوجود اس امر کے کہ جنگی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی نسبت آبادی کے مدنظر ہم تمام دوسری جماعتوں سے زیادہ قربانی کرنے والے تھے کمیشن کے نقطۂ نگاہ سے ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں۔
چوتھے یہ کہ خواہ کمیشن کے سامنے ہمارے آدمی پیش ہوں یا نہ ہوں ہم اپنے خیالات تحریر کے ذریعہ سے ہر وقت پیش کر سکتے ہیں۔
سو جواب کے آخری حصہ کے مطابق میں چند باتیں پہلی قسط کے طور پر پارلیمنٹری وفد اور ہندوستان کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ وفد کے ممبران کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا فساد سب سے زیادہ اِس امر سے ترقی کر رہا ہے کہ حکومتیں اخلاقی اصول کی پیروی سیاسیات میں ضروری نہیں سمجھتیں حالانکہ سیاست افراد کو تسلی دینے کے لئے برتی جاتی ہے اور افراد جو اخلاق کی بناء پر سوچنے اور غور کرنے کے عادی ہیں جب ایک فیصلہ ایسا دیکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد عام جانے بوجھے ہوئے اخلاقی نظریات کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس سے تسلی نہیں پاتے اور ان کی دل کی خلش انہیں شورش اور فساد پر آمادہ کر دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی امیدوں اور اُمنگوں کے پورا نہ ہونے پر بھی شورش ہوتی ہے لیکن وہ شورش دیرپا نہیں ہوتی اور اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اخلاقی اصول کے خلاف کیا گیا فیصلہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک فساد اور بے چینی کو لمبا کئے جاتا ہے۔ پس انہیں چاہئے کہ ہندوستان کی اُلجھنوں کا حل صرف سیاست کی مدد سے کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخلاق کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا اگر اس حل سے کوئی فساد پیدا ہو تو وہ دیر پا نہ ہو۔
دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی وعدے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں۔ مثلاً ایک گورنمنٹ سے کسی دوسری گورنمنٹ کا کوئی معاہدہ ہو لیکن بعد میں اس مُلک کی اکثریت اپنی گورنمنٹ کے خلاف ہو جائے تو معاہد حکومت یقینا پابند نہیں کہ اوّل الذکر حکومت کا ان حالات میں بھی ساتھ دے کیونکہ معاہدہ اس امر کی فرضیت پر مبنی تھا کہ وہ حکومت اپنے مُلک کی نمائندہ ہے جب وہ نمائندہ نہ رہے تو معاہد حکومت کا حق ہے کہ اپنے سابق معاہدہ کو تبدیل کر دے جیسا کہ پولینڈ کی حکومت کے بارہ میں انگلستان نے کیا۔ (اس امر کو مَیں نظر انداز کرتا ہوں کہ انگلستان نے پوری تحقیق اس امر کی کر لی تھی کہ نہیں، کہ پولینڈ کی اکثریت سابق حکومت کے ساتھ ہے یا خاص حالات پیدا کر کے اس سے خلاف رائے لے لی گئی ہے) لیکن اگر حالات وہی ہوں جیسے کہ پہلے تھے تو پھر یہ کہہ کر سابق وعدہ کو نظر انداز کر دینا کہ حالات بدلنے پر وعدے بھی بدل سکتے ہیں اخلاق کے خلاف ہوگا۔ حکومت انگریزی کو اپنے سابق وعدوں میں کسی تبدیلی سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں کوئی وعدہ انہوں نے کیا تھا اور اب کون سے نئے حالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا طبعی نتیجہ وعدہ کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں ان کا یہ کہہ دینا کہ اب حالات بدل گئے ہیں صرف متعلقہ جماعت کے دلوں میں شکوک اور جائز شکوک پیدا کرنے کا موجب ہوگا۔ اخلاق کی طاقت یقینا انگلستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ پس اگر حقیقتاً حالات نہ بدلے ہوں تو گول مول الفاظ استعمال کرنے کی بجائے پارلیمنٹری وفد کو اعلان کرنا چاہئے کہ ہم سے پہلی حکومت بددیانتی سے ہندوستانیوں کو لڑوانے کے لئے بعض اقوام سے کچھ وعدے کر چکی ہے جو ہم برسرِ اقتدار ہونے کے بعد پورا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ لیکن یہ درست نہیں کہ وہ ایک ہی سانس میں پہلی حکومت کی دیانت کا بھی اظہار کرے اور اس کے وعدوں کو یہ کہہ کر توڑ بھی دے کہ بدلے ہوئے حالات میں وعدے بھی بدل جاتے ہیں (حالانکہ جن حالات میں وہ وعدے کئے گئے تھے وہ بالکل نہ بدلے ہوں) عوام الناس فقروں میں آ جاتے ہیں لیکن عقلمند لوگ صرف فقروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔
تیسری بات میں مشن کے ممبروں سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حالت پیدا کر دینا جس کے نتیجہ میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے، خود انگلستان کو ہی مجرم بنائے گا۔ انگلستان یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ اس نے یہ نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ نتائج کی ذمہ داری ذرائع پیدا کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔
چوتھی بات کمیشن کے ممبروں سے میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقینا ہندو مسلم سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ میں اس امر کا قائل نہیں کہ انگلستان کا بنایا ہوا ہندوستان اصل ہندوستان ہے لیکن میں اس امر کا بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہندوستان میں جس قدر اتحاد بھی باہمی سمجھوتہ سے ہو سکے وہ یقینا ہندوستان اور دوسری دنیا کے لئے مفید ہوگا۔ میں برٹش امپائر کے اصول کا دیرینہ مداح ہوں میرے نزدیک برطانوی امپائر کا اصول اِس وقت تک کی قائم کردہ انٹرنیشنل لیگ یا یو این اے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی اصلاح کی تو ضرورت ہے لیکن اس کا حصہ دار بننے کا نام غلامی رکھنا ایک جذباتی مظاہرہ تو کہلا سکتا ہے حقیقت نہیں کہلا سکتا۔ مگر بہرحال ہندوستان کے مختلف حصوں کا باہمی تعاون اور ہندوستان کا برطانوی امپائر سے تعاون باہمی سمجھوتے پر مبنی ہونا چاہئے۔
پانچویں ہر سیاسی اصل ضروری نہیں کہ ہر جگہ اپنی تمام شقوں کے ساتھ چسپاں ہو سکے۔ میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کے اکثر مدبر اپنے مُلک کے تجربہ کو ہندوستان پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے حالات یقینا انگلستان سے مختلف ہیں۔ یہاں آزادی کا بھی اور مفہوم ہے اور انصاف کا بھی اور مفہوم ہے۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے مسٹر گاندھی سے سوال کیا کہ کیا آزاد ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب کی آزادی ضرور ہوگی مگر مذہب کی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے اس بارہ میں حکومت مناسب رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ آزادی کے صریح خلاف ہے۔ مَیں نے اِس امر کی تحقیق کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدہ داروں سے کہا کہ وہ کانگرس سے اس کا نقطۂ نگاہ دریافت کریں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جماعت کے سیکرٹری نے اس بارہ میں جو چٹھی لکھی اس کا جواب کانگرس کے سیکرٹری نے نہیں دیا۔ پھر رجسٹری خط گیا اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ اس پر تیسرا خط رجسٹری کر کے ارسال کیا گیا مگر اس کاجواب بھی نہ دیا گیا۔ تب تار دی گئی کہ اگر اب بھی جواب نہ دیا گیا تو معاملہ مسٹر گاندھی کے سامنے رکھا جائے گا۔ اس پر کانگرس کے سیکرٹری نے جواب دیا کہ مسٹر بوس کو افسوس ہے کہ اب تک جواب نہیں دیا گیا (اُس وقت مسٹر سبھاش چندر بوس کانگرس کے پریذیڈنٹ تھے) اب جواب بھجوایا جا رہا ہے۔ یہ جواب جب موصول ہوا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو کانگرس کے کراچی ریزولیوشن نمبر فلاں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ جب لکھا گیا کہ اسی ریزولیوشن کی تعبیر کے متعلق تو ہمارا سوال ہے تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ کانگرس ہی اپنے ریزولیوشن کی تعبیر کر سکتی ہے۔ جب اس پر کہا گیا کہ کانگرس سے تو اس کے عہدہ دار ہی پوچھ سکتے ہیں ہمارے پاس کونسا ذریعہ ہے تو اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نہیں پوچھ سکتے آپ ہی دریافت کریں۔ اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ کانگرس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یورپ کے زمانۂ وسطیٰ والا ہے جسے مسلمان کسی صورت میں تسلیم نہیں کر سکتے۔ چنانچہ عملاً اس کا یہ نمونہ موجود ہے کہ ہندو ریاستوں میں ایک ہندو اگر مسلمان ہو جائے تو اوّل بغیر مجسٹریٹ کی اجازت کے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ دوم اسے اپنے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کانگرس سے جو ہماری گفت و شنید ہوئی ہے اُس نے ریاستوں کے اس رویہ پر مُہرِ تصدیق لگا دی ہے۔ غرض صرف ڈیموکریسی (DEMOCRACY) کے لفظ پر نہیں جانا چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈیموکریسی کا مفہوم کس قوم میں کیا ہے۔ اِس وقت روس مغربی حکومتوں کے خلاف بار بار یہ اعلان کر رہا ہے کہ مغربی ممالک کے ری ایکشنری (REACTIONARY) لوگ ہمارے خلاف یونان اور ایران اور چین کی تائید کے نام سے غلط فضاء پیدا کر رہے ہیں لیکن کیا صرف ری ایکشنری کے لفظ کے استعمال کی وجہ سے انگلستان اور امریکہ کے لوگ اپنی منصفانہ پالیسی چھوڑ دیں گے؟ اگر نہیں تو صرف ڈیموکریسی کے لفظ کے استعمال سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو جانی چاہئے۔
مَیں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اُسی طرح ہے جس طرح ہندوؤں کا۔ ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے مُلک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس مُلک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے۔ ہندوستان کی خدمت ہندوؤں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی لیکن ہم نے اس مُلک کی ترقی کے لئے آٹھ سَو سال تک کوشش کی ہے۔ پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کر مدراس تک اُن محبانِ وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس مُلک کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دی تھیں۔ ہر علاقہ میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں کیا ہم ان سب کو خیر باد کہہ دیں گے؟ کیا ان کے باوجودہم ہندوستان کو ہندوؤں کا کہہ سکتے ہیں؟ یقینا ہندوستان ہندوؤں سے ہمارا زیادہ ہے۔قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس مُلک میں ملتے ہیں۔ اس مُلک کے مالیہ کا نظام، اس مُلک کا پنچائتی نظام، اس مُلک کے ذرائع آمدو رفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں پھر ہم اسے غیر کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بُھول گئے ہیں؟ ہم یقینا اسے نہیں بُھولے ہم یقینا ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے۔ اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے یہ مُلک ہمارا ہندوؤں سے زیادہ ہے۔ ہماری سُستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ مُلک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے ہماری تلواریں جس مقام پر جا کر کُندہو گئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہو گا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کر کے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے مگر اس کے لئے ہمیں راستہ تو کھلا رکھنا چاہئے۔ ہمیں ہر گزوہ باتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کی موت ہو مگر ہمیں وہ طریق بھی اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے ہندوستان میںاسلام کی حیات کا دروازہ بند ہو جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہم ایک ایسا منصفانہ طریق اختیار کر سکتے ہیں صرف ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ اسلام نے انصاف اور اخلاق پر سیاسیات کی بنیاد رکھ کر سیاست کی سطح کو بہت اونچا کر دیا ہے کیا ہم اس سطح پر کھڑے ہو کر صلح اور محبت کی ایک دائمی بنیاد نہیں قائم کر سکتے؟ کیا ہم کچھ دیرکیلئے جذباتی نعروں کی دنیا سے الگ ہو کر حقیقت کی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتے تا ہماری دنیا بھی درست ہو جائے اور دوسروں کی دنیا بھی درست ہو جائے۔
میں مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے جس طرح بھی ہو اپنے اختلافات کو مٹا کر مسلمانوں کی اکثریت کی تائید کریں اور اکثریت اپنے لیڈر کا ساتھ دے اُس وقت تک کہ یہ معلوم ہو کہ اب کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہیں رہی اور اب آزادانہ رائے دینے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اِس معاملہ میں جلدی نہ کی جائے تا کامیابی کے قریب پہنچ کر ناکامی کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔
میں ہندوبھائیوں سے اور خصوصاً کانگر س والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگرس کے لئے مسٹر گاندھی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو تو بھی انہوں نے اس پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ اسے اس اصل کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ ہمارے فیصلوں کی بنیاد اخلاق پر ہونی چاہئے تفصیل میں مجھے خواہ ان سے اختلاف ہومگر اصول میں مجھے ان سے اختلاف نہیں کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل کو جاری کیا ہے۔ آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدمِ تشدد کے قائل ہیں دوسری طرف مسلمانوں کے مقابل پر اپنے مطالبات نہ پورا ہونے کی صورت میں بعض لیڈر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ میں نے آج ہی ایک کانگرسی لیڈر کا اعلان پڑھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ۔
’’ کہ کوئی اسے اچھا سمجھے یا بُرا اس کے نتیجہ میں مُلک میں شدید فساد پیدا ہوگا‘‘
پھر لکھتے ہیں۔
’’مگر جو کوئی بھی مُلک کے موجودہ جذبات کو جانتا ہے اس بات کو معلوم کر سکتا ہے کہ کوئی طاقت اس( فساد) کو روک نہیں سکتی اور ممکن ہے کہ یہ( فساد) ایک ایسی شکل اختیار کر لے جسے ہم میں سے کوئی بھی روک نہ سکے‘‘۔
اس لیڈر نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسٹر جناح نے بھی خون خرابہ کی دھمکی دی ہے یہ درست ہے مگر مسٹر جناح نے غلطی کی یا درست کام کیا وہ عدمِ تشدد کے قائل نہیں۔ ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں مگر کانگرس جو عدمِ تشدد کی قائل ہے اگر اس کا ایک لیڈر ایسی بات کرتا ہے تو وہ یقینا دو باتوں میں سے ایک کو ثابت کرتا ہے یا تو اس امرکو کہ کانگرس کی عدمِ تشدد کی پالیسی صرف اس لئے تھی کہ جب وہ جاری کی گئی کانگرس کمزور تھی اس لئے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعہ دنیا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھاکہ ہم تو عدمِ تشدد کرنے والے ہیں ہماری گرفتاریاں کر کے برطانیہ ظلم کر رہا ہے یا ہندوستانی گورنمنٹ کی آنکھوں میں خاک ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدمِ تشدد کے بڑے حامی ہیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں ہم آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے یا پھر اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ پبلک پر اثر کا دعویٰ کرنے میں کانگرس حقیقت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے خلاف ضرور جا سکتے ہیں لیکن قوم کا اتنا حصہ لیڈروں کے خلاف نہیں جا سکتا جو مُلک کے حالات کو قابوسے باہر کر دے یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ لیڈر لیڈر ہی نہ ہو اور اپنے اثر اور قبضہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو۔ کانگرس کے لیڈروں کو اس موقع پر بہت ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے ورنہ انہیں یاد رہے کہ سیاسی حالات یکساں نہیں رہتے۔ اس قسم کے بیج کبھی نہایت تلخ پھل بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں کیونکہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خداہے اور وہ تعداد میں زیادہ، مال میں زیادہ، حکومت میں طاقتور قوم کو تھوڑے اور کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرنے دے گا۔ اسلام ہر حالت میں زندہ رہے گا خواہ مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تکلیف اُٹھالے۔
ایک اور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہو سکے تو باہمی سمجھوتے سے ہم لوگ اُسی طرح اکٹھے رہیں جس طرح کئی سَوسال سے اکٹھے چلے آتے ہیں لیکن فرض کرو مسلمان کُلّی طور پر باقی ہندوستان سے انقطاع کا فیصلہ کریں اور برطانیہ انہیں مجبور کر کے باقی ہندوستان سے ملا دے اور جیسا کہ مسٹر جناح نے کہا ہے مسلمان بزور اس فیصلہ کا مقابلہ کریں تو یقینا وہ قانوناً باغی نہیں کہلا سکتے کیونکہ یہ ایک نیا انتظام ہو گا اور نئی گورنمنٹ، سابق گورنمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جو اس مُلک کے اصل حاکم تھے دوسروں کے ماتحت ان کی مرضی کے خلاف کر دے۔ اس حکومتی ردّوبدل کے وقت ہر حصۂ مُلک کو نیا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو بزور لینے کا فیصلہ کرتے وقت وہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ہر گز باغی نہیں کہلا سکتے۔ مگر کیا ہندوؤں کو بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے؟ وہ کب اس شکل میں مسلم صوبوں کے حاکم ہوئے تھے کہ انہیں دستورِ قدیمہ کو قائم رکھنے کا قانونی حق حاصل ہو۔ حکومتوں کے بدلنے پر’’سٹیٹس کو(STATUS QUO)‘‘ کا سوال ہی نہیں رہتا۔ پس مسلمان خدانخواستہ اگر ایسا کرنے پر مجبور ہوں تو قانونی لحاظ سے وہ جائز کام کریں گے۔ ہندو اگر جبراً ان کو اپنے ماتحت لانا چاہیں تو قانونی لحاظ سے وہ ظالم ہوں گے۔ اگر انگریز مسلمانوں کو ان کی مرضی کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ملا دیں تو وہ بھی ظالم ہوں گے کیونکہ مسلمان بھیڑ بکریاں نہیں کہ انگریز جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریںپس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مشکل کو محبت سے سُلجھانے کی کوشش کی جائے زور اور خود ساختہ قانون سے نہیں۔ میں ہندوؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل ان کے ساتھ ہے ان معنوں میں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے اور یہ سوتیلے بھائی اس مُلک میں سگے بن کر رہیں۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ میں اس امر کے حق میں ہوں کہ جس طرح ہو ہندوستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی جائے ہماری جُدائی اصلی جُدائی نہ ہو بلکہ جُدائی اتحاد کا پیش خیمہ ہو مگر میں اپنے ہندو بھائیوں سے یہ بھی ضرور کہوں گا کہ غلط دلائل کسی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتے بلکہ بہت دفعہ حقیقت کو اور بھی مشتبہہ کر دیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ پنجاب سندھ وغیرہ صوبوں کے الگ ہو جانے سے ہندوستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا۔ کینیڈا کے الگ ہو جانے سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ میکسیکو کی آزادی سے کیا یونائٹیڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہوگیاہے؟ ارجنٹائن کے الگ ہونے سے کیا برازیل کا ڈیفنس کمزور ہو گیا ہے؟ اگر مسلم صوبے الگ بھی ہو جائیں تو باقی ہندوستان کا کیا بگڑ سکتا ہے۔ اِس وقت بھی ہندوستان کی آبادی روس سے قریباً دُگنی، یونائٹیڈ سٹیٹس سے قریباً اَڑھائی گنی ،سابق جرمن سے قریباً چار گنی ہو گی اور مُلک کی وسعت بھی کافی ہو گی۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم صوبے الگ ہو کر ترقی نہیں کر سکیں گے دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے الگ ہو جانے سے ہندوستان اپنی عظمت کھو بیٹھے گا۔ اگر ہندوستان کی عظمت اسلامی صوبوں سے ہے تو ان کے الگ ہونے پر اسلامی صوبوں کو نقصان کیونکر پہنچے گا یہ تو وہی دلیل ہے جو روس اِس وقت پولینڈ،رومانیہ، بلغاریہ ،ٹرکی اور ایران کے بعض صوبوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں دیتا ہے۔ روس اپنی تمام طاقت کے ساتھ تو جرمنی اور اٹلی کے حملہ سے جو تباہ شدہ مُلک ہیں نہیں بچ سکتا نہ افغانستان اور جنوبی ایران جیسے زبردست ملکوں کے حملوں سے بچ سکتا ہے اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ پولینڈ اور رومانیہ اور بلغاریہ اس کے زیر تصرف ہوجائیں یا ٹرکی کے بعض صوبے اور ایران کا شمالی حصہ اسے مل جائے کیا یہ دلیل ہے؟ کیا ایسی ہی دلیلوں سے ہندو مسلمانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کرسکتے ہیں؟ میں پھر کہتا ہوں کہ اس نازک موقع پر اخلاق پراپنے دعوؤںکی بنیاد رکھیں بھلا اِس قسم کے دعوؤں سے کہ مسلم لیگ مسلم رائے کی نمائندہ نہیں کیونکہ اس کے منتخب ممبر جو کونسلوں میں آئے اکثر بڑے زمیندار ہیں کیا بنتا ہے؟ کیا عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بڑے زمیندار کو اپنا نمائندہ مقرر کریں؟ اس دلیل سے تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کے نزدیک جنہوں نے یہ امر پیش کیا ہے مسلمان اپنا نمائندہ چننے کے اہل نہیں۔اگر ان کا یہ خیال ہے تو دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ مسلمان چونکہ اپنے نمائندے چننے کے اہل نہیں اس لئے موجودہ ملکی فیصلہ میں ان سے رائے نہیں لینی چاہئے۔اگر وہ ایسا کہیں تو خواہ یہ بات غلط ہو یا درست مگر منطقی ضرور ہو گی مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے چونکہ اپنا نمائندہ چند بڑے زمینداروں کو چنا ہے اس لئے وہ لوگ موجودہ سوال کو حل کرنے کے لئے مسلمانوں کے نمائندے نہیں کہلا سکتے ایک ایسی غیر منطقی بات ہے کہ پنڈت نہرو جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان کا یہ مطلب نہیں تو انہوں نے اس امر کا ذکراس موقع پر کیا کیوں تھا؟ درحقیقت ان کا یہ اعتراض ویسا ہی ہے جیسا کہ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی عموماًمسٹر برلا کے مکان پر کیوں ٹھہرتے ہیں۔ یقینا مسٹر گاندھی کو مسٹر برلا کے مکان پر ٹھہرنے کا پورا حق ہے کیونکہ وہاں ان سے ملنے والوں کے لئے سہولتیں میسر ہیں ان کے وہاں ٹھہرنے سے ہر گز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مالداروں کے قبضہ میں ہیں اسی طرح مسلم لیگ کے امیدوار اگر بڑے زمیندار ہوں اور مسلم پبلک اُن کو منتخب کرے تو اِس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے لئے غلط قسم کا نمائندہ چنتا ہے تو وہ اپنے کئے کی سزا خود بُھگتے گا دوسرے کسی شخص کو اس کے نمائندہ کی نمائندگی میں شبہ کرنے کا حق نہیں یہ باتیں صرف لڑائی جھگڑے کو بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں اور کوئی فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا۔ پھر یہ بات ہے بھی تو غلط کہ مسلم لیگ کے اکثر نمائندے بڑے زمیندار ہیں پنجاب ہی کو لے لو اِس میں ۷۹ ممبر اِس وقت مسلم لیگ کے نمائندے ہیں اور چھ یونینسٹ پارٹی کے جن سے کانگرس نے سمجھوتہ کیا ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے چھ ممبروں میں سے ملک سر خضرحیا ت، ملک سراللہ بخش اور نواب مظفر علی بڑے زمیندار ہیںگویا پچاس فیصدی ممبر بڑے زمیندار ہیں دوسرے تین کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا ممکن ہے ان میں سے بھی کوئی بڑا زمیندار ہو۔ اس کے مقابل پر مسلم لیگ کے ۷۹ممبروں میں سے صرف چار بڑے زمیندار ہیں یعنی نواب صاحب ممدوٹ،نواب لغاری، مسٹر ممتاز دولتانہ اور مسٹر احمد یار دولتانہ۔ دو اور ہیں جو میرے علم میں بڑے زمیندار نہیں مگر شاید انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کیا جاسکتا ہو وہ سر فیروز خان اور میجر عاشق حسین ہیں اور ان کوبھی بڑے زمیندار وں میںشامل کر لیا جائے تو یونینسٹ پارٹی جو کانگرس کی حلیف ہے اس کے ممبرو ں میں سے پچاس فیصد بڑے زمینداروں کے مقابلہ پر لیگ کے ۷۹ میں سے ۶ بڑے زمیندار صرف ساڑھے سات فیصدی ہوتے ہیں اور کیا یہ نسبت اِس بات کا ثبوت کہلا سکتی ہے کہ کوئی پارٹی بڑے زمینداروں کی پارٹی ہے۔ بڑے زمینداروں کا طعنہ مدت سے کانگرس کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے حالانکہ بڑا خواہ زمیندار ہو یا تاجر اگر وہ بُرے معنوں میں بڑا ہے تو ہر شکل میں بُرا ہے لیکن اگر وہ اپنے حلقہ کا نمائندہ ہے تو جب تک مُلک کا قانونِ انتخاب اُس کی دولت اس کے پاس رہنے دیتا ہے اور جب تک کہ اس کا حلقہ اس کاانتخاب کرتا ہے نمائندگی میں کسی دوسرے سے کم نہیں۔ پنجاب میں گورنمنٹ رپورٹ کے مطابق صرف تیرہ زمیندار ایسے ہیںجو آٹھ ہزار سے زیادہ ریونیو دیتے ہیں(یعنی جن کی آمد رائج الوقت مال گزاری کے اصول کے مطابق ۱۶ ہزار سالانہ سے زائد ہے اس سے کم آمد ہرگز کسی کو بڑا زمیندار نہیں بنا سکتی بلکہ یہ آمد بھی بڑی نہیں کہلا سکتی اتنی آمد معمولی معمولی دُکانداروں کی بھی ہوتی ہے گو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ظاہر کریں یا نہ کریں۔ زمیندار کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ اپنی حیثیت ظاہر کرنے پر مجبور ہے)ان میں غالباً کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے اگر سب مسلمان ہی ہوں تو بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں اور جب یہ دیکھا جائے کہ یہ لوگ جس قدر ریونیو ادا کرتے ہیں وہ پنجاب کے کُل ریونیو کے سویں حصہ سے بھی کم ہے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ پنجاب کی اکثر زمین چھوٹے زمینداروں کے پاس ہے بڑے زمینداروں کے پاس نہیں۔ بڑا زمیندارہ صرف یوپی اور بنگال میں ہے لیکن وہاں کے بڑے زمینداروں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جن میں سے اکثریت کانگرس کی تائید میں ہے۔ مگر اس کے بھی یہ معنی نہیں کہ ہندواکثریت کانگرس کے ساتھ نہیں اور زمینداروں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بھی کانگرس کی نمائندگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
ایک نصیحت میں کانگر س کوخصوصاًاور عام ہندوؤں کو عموماً یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغِ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں۔ مذہب کے معاملہ میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی وہ مذہب کو سیاست میں بدل کر کبھی چین نہیں پا سکتے۔ تبلیغِ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کرنی چاہئے اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چاہئے جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے اور اس تنگی کو کوئی آزاد شخص بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ جب تک مُلک کی ذہنیت غلامانہ ہے ایسی باتیں چل جائیں گی لیکن جب حُریت کی ہوا لوگوں کو لگی ایسے غلط نظریوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اُٹھیں گے تبدیلی تو ہو کر رہے گی لیکن جو لوگ اِس تنگ ظرفی کے ذمہ دار ہونگے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی اولادوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ فطرت کے اس تقاضہ کو اس حقیقت سے سمجھ سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ بدنام کرنے والا وہ غلط الزام ہے کہ اس نے مذہب میں دست اندازی کی۔ ان کا یہ خیال کہ ہم دوسرے کا مذہب بدلوانے پر زورنہیں دیتے ایک غلط خیال ہوگا کیونکہ بدھ، کرشن ،عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ بھی دوسرے کا مذہب نہیں بدلواتے تھے ان کو تبلیغ سے اور اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے سے روکتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں اور مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے۔ اگر ایسا ہی ارادہ آپ لوگوں نے کیا تو اُسی *** کے آپ حصہ دار ہوں گے جس *** کا بوجھ ان پہلوں پر پڑچکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ وقت ایسا نہیں کہ غلط اور سُنی سنائی باتوں کو لے کر پبلک میں ہیجان پیدا کیا جائے یا پارلیمنٹری مشن پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے کوئی خدا کومانے یا نہ مانے مگر فطرتِ صحیحہ کی مخالفت کبھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ یہ وقت سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنے کا ہے کہ کس طرح ہمارا مُلک آزاد ہو سکتا ہے اور کس طرح ہر قوم خوش رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو ہم صرف قید خانہ بدلنے والے ہوں گے۔
میں نے اس مخلصانہ مشورہ میں صرف اشارات سے کام لیا ہے اگر مجھے مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پرواہ ہو کر میں اِنْشَائَ اللّٰہُ اپنا مخلصانہ مشورہ مشن یا پبلک کے اس حصہ کے آگے پیش کروں گا جو سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دماغ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پارلیمنٹری وفد کو بھی اور ہندو مسلمان اور دوسری اقوام کے نمائندوں کو بھی صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے ۔آمین
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
قادیان
۵۔۴۔۱۹۴۶ء


ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے
سورۃ الم نشرح کی تفسیر کے وقت درس القرآن کے موقع پر فرمایا:۔
قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں۔ یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں پہلے صوفیاء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جِدتیں پیدا کی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں۔ بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی ؒکی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرا لئے تھے حالانکہ اگر غور وفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہرِ فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہرِ فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنۂ تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ دوسروں سے نمایاں کام کر کے دکھا دیتا ہے۔ مثلاً تصویر کھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویرکھینچ سکتا ہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بُری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنا دوں گا مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہرِ فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا یہی ہوگا کہ ماہرِ فن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کر دوں گا۔ پس کسی مضمون کا خالی بیان کر دینا اور بات ہوتی ہے اور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پُرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جس طرح ایک ماہرِ فن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شاہد پیش کر کے بتایا ہے کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے۔
حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس تشریح کے مطابق علم الیقین تو یہ ہوتا ہے کہ زید یابکر ہمارے پاس آئے اور وہ ہمیں بتائے کہ فلاں بات یوں ہے جیسے ایک شخص ہمارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچا دیا ہے۔ ہم اُس کی بات سنتے اور خیال کر لیتے ہیں کہ اس نے ٹھیک ہی کام کیا ہوگا حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس نے گوشت نہ پہنچایا ہو اور محض دھوکا دینے کے لئے ہمیں ایک غلط خبر دے دی ہو۔
دنیا میں بہت سی خرابیاں بِالعموم علم الیقین سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کاموں کی بنیاد علم الیقین کی بجائے حق الیقین پر رکھی جائے اور اُس وقت تک انسان اطمینان حاصل نہ کرے جب تک اُسے یہ یقین حاصل نہ ہو جائے کہ جو کام میرے سپرد کیا گیا تھا یا جو کام میں کرنا چاہتا تھا وہ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے تو وہ نقائص جو عموماً واقع ہوا کرتے ہیں اور جن کی بناء پر بعض دفعہ بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جایا کرتی ہیں کبھی واقع نہ ہوں۔
مجھے اپنی ساری عمر میں لوگوں سے کام لینے میں اگر کوئی دقت پیش آئی ہے تو وہ یہی ہے کہ جو شخص بھی کام کرتا ہے علم الیقین پر اس کی بنیاد رکھتا ہے حق الیقین پر بنیاد نہیں رکھتا۔ میں نے مختلف صیغہ جات مقرر کئے ہوئے ہیں، مختلف محکمے کام کی سہولت کے لئے قائم کئے ہوئے ہیں اور مختلف لوگ ان محکموں کے انچارج ہیں مگر جب بھی کسی محکمہ میں کوئی نقص واقعہ ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کام کی اہمیت کو نظر انداز کر کے علم الیقین پر بنیاد رکھ لی جاتی ہے اور یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ کام ہو گیا ہوگا حالانکہ وہ کام نہیں ہوا ہوتا۔ میں نے پرائیویٹ سیکرٹری کے محکمہ کو دیکھا ہے جب بھی ان سے کہو کہ فلاں کام اس طرح کر دیا جائے او رپھر دو گھنٹہ کے بعد پوچھا جائے کہ کام ہو گیا ہے تو پرائیویٹ سیکرٹری جواب دے گا، میں نے فلاں کو کہہ دیا تھا اس سے پوچھ کر جواب دیتا ہوں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔ حالانکہ فلاں کو کہہ دینا یہ علم الیقین ہے بلکہ علم الیقین سے بھی پہلے کی چیز ہے اور اس پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھ کر فرض کر لینا کہ کام ہو گیا ہے یا ہو رہا ہے بالکل ویسی ہی بات ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر مہمان آیا۔ اُس نے اپنے نوکر کو ہر قسم کے ضروری آداب سکھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ بروقت اور نہایت عمدگی سے کام کرنے کا عادی تھا۔ اتفاقاً مہمان کے سامنے میزبان کو کسی چیز کی ضرورت پیش آ گئی مثلاً دہی کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس نے اپنے نوکر کو دہی لانے کے لئے بازار بھیج دیا اور اس دوست سے کہا کہ میرا نوکر بہت مؤدب اور فرض شناس ہے جو کام بھی اسے کرنے کے لئے کہا جائے ٹھیک وقت کے اندر اسے سرانجام دیتا ہے۔ چنانچہ کہنے لگا دیکھ لیجئے میں نے اسے دہی لینے کے لئے بازار بھیجا ہے اور دُکان تک دو چار منٹ کا راستہ ہے۔ اب چونکہ ایک منٹ گزر چکا ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ فلاں جگہ تک پہنچ گیا ہوگا تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دُکان تک پہنچ گیا ہوگا، پھر کچھ وقت انتظار کرنے کے بعد جو سَودا خریدنے پر صرف ہو سکتا تھا اس نے کہا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر وہاں سے چل پڑا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں نکڑ تک پہنچ گیا ہوگا، کچھ اور دیر گزری تو کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ اب وہ ڈیوڑھی میں آ چکا ہے۔ چنانچہ اس نے آواز دی کہ کیوں میاں دہی لے آئے؟ نوکر نے جواب دیا حضور! حاضر ہے۔ یہ نمونہ ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ اسے دیکھ کر ہر شخص کی طبیعت خوشی محسوس کرتی تھی۔ چنانچہ مہمان بھی بہت خوش ہوا اور اس نے فیصلہ کیا کہ میں بھی اپنے نوکر کی ایسی ہی تربیت کروں گا مگر وہ مہمان خود اُجڈ اور جاہل تھا۔ اس نے اپنے نوکر سے تہذیب و شائستگی کے اصول کیا سکھانے تھے اس کے اپنے کاموں میں بھی کوئی باقاعدگی نہ پائی جاتی تھی مگر اُس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہا اب میں بھی اپنے نوکر کو ایسی ہی تہذیب سکھاؤں گا۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر اپنے نوکر کو سکھانا شروع کر دیا مگر وہ اُجڈ، اَن پڑھ اور جاہل تھا اُس پر اِن سبقوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا پانچ چھ ماہ گزر گئے تو اس نے اپنے شہری دوست کی دعوت کی اور اسے کہا کہ گاؤں کی آب و ہوا اچھی ہوتی ہے آپ میرے ہاں تشریف لائیں۔ چنانچہ وہ اس دعوت پر اس کے گاؤں میں گیا۔ جب دستر خواں بچھا تو اُس نے بھی نقل کرنی شروع کر دی۔ زمینداروں کے گھروں میں عام طور پر دہی ہوتا ہے مگر اس نے چونکہ اپنے دوست کو یہ بتانا تھا کہ میرا نوکر بھی بڑا ہوشیار اور فرض شناس ہے اس لئے اسے آواز دے کر کہنے لگا میاں ذرا جانا اور فلاں دُکاندار کے ہاں سے دہی تو لے آنا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا میرا نوکر بڑا ہوشیار اور مؤدب ہے اب وہ فلاں جگہ پر پہنچ چکا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد کہا مجھے یقین ہے کہ اب وہ دُکان تک پہنچ چکا ہوگا، پھر کچھ وقفے کے بعد کہا اب وہ دہی لے رہا ہوگا، تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا اب وہ دہی لے کر وہاں سے ضرور چل پڑا ہے، ایک منٹ کے بعد کہنے لگا اب وہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہوگا، پھر کچھ وقت گزرا تو کہا اب مجھے یقین ہے کہ وہ دہی لے کر ڈیوڑھی میں پہنچ چکا ہے۔ چنانچہ اُسے آواز دے کر کہنے لگا کیوں میاں دہی لے آئے؟ نوکر کہنے لگا ’’تُسیں اینے کاہلے کیوں پَے گئے ہو مَیں جتی تے لبھ لواں فیر دہی وی لے آواں گا‘‘۔ یعنی آپ اتنی جلدی کیوں کرتے ہیں مَیں جوتی تو تلاش کر لوں پھر دہی بھی لے آؤں گا۔ دیکھو یہ علم الیقین تھا جس پر اس نے اپنے کام کی بنیاد رکھی اور شرمندگی اور ندامت اسے حاصل ہوئی۔ اسی طرح ہندوستانی مینٹلیٹی (MENTALITY) ایسی ہے کہ جب کسی شخص کے سپرد کوئی کام ہو وہ کبھی حق الیقین پر اس کی بنیاد نہیں رکھتا۔ اور یہ تو علم الیقین سے بھی پہلے کی بات ہے کہ جب انسان دوسرے سے دریافت کرے کہ کیا فلاں کام ہو گیا ہے؟ تو وہ جواب دے کہ جی ابھی پوچھ کر بتاتا ہوں۔ پھر جب پوچھا جاتا ہے اور پتہ لگتا ہے کہ کام نہیں ہوا تو دفتر والے جواب دیتے ہیں کہ ہم نے تو فلاں سے کہہ دیا تھا مگر کمبخت گیا نہیں۔ چنانچہ پھر اُسے ڈانٹا جاتا ہے کہ کیوں تم نے یہ کام نہیں کیا۔ مَیں کہتا ہوں تم کیوں اپنے علم کو عین الیقین بلکہ حق الیقین سے نہیں بدل لیتے تا کہ یہاں تک نوبت ہی نہ پہنچے۔
یورپین قوموں کی تربیت اس لحاظ سے ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ افسرانِ بالا کی طرف سے جو کام بھی سپرد کیا جائے اسے پوری دیانت اور محنت کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں اور کبھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ افسروں کو سکھایا جاتا ہے کہ جب تم کسی کو کوئی آرڈر دو تو پھر اُسے دُہراؤ کیونکہ بعض دفعہ آرڈر کچھ دیا جاتا ہے اور سمجھا کچھ جاتا ہے، اس کے بعد ماتحت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ جب تم کام کر چکو تو تمہارا فرض ہے کہ ہمیں اطلاع دو کہ کام ہو گیا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے ہمارے کارکنوں کو اس بات کی عادت ہی نہیں کہ جب کوئی کام ان کے سپرد ہو تو وہ اس کے متعلق اپنے افسر کو یہ اطلاع دیں کہ کام ہو گیا ہے یا اس میں فلاں فلاں روکیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اگر کارکنوں کو اس بات کی عادت ڈلوائی جائے کہ جب کسی کام کے لئے کہا جائے تو واپس آکر ہمیں بتانا ہوگا کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں تو وہ نقائص پیدا نہ ہوں جو اَب ہمارے کاموں میں بعض دفعہ پیدا ہو جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے بہت کچھ اُلجھنیں واقعہ ہو جاتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ضروری کاغذات دفتر کے سپرد کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ متعلقہ دفاتر میں پہنچا دیئے جائیں۔ تین چار منٹ کے بعد فون کیا جاتا ہے کہ کیا وہ کاغذ بھجوا دیئے گئے ہیں؟ تو کہا جاتا ہے ابھی دریافت کر کے اطلاع دی جاتی ہے۔ پھر دس منٹ کے بعد جواب آتا ہے کہ غلطی ہوگئی رجسٹرمیں اور بھی بہت سی چِٹھیاں اس وقت نقل ہو رہی تھیں اس لئے ان کاغذات کو بھی کلرک نے رکھ لیا اور سمجھا کہ جب اور چِٹھیاں جائیں گی تو یہ بھی چلی جائے گی۔ اب ہدایت دے دی گئی ہے کہ ان کاغذات کو فوراً پہنچا دیا جائے۔ اگر آرڈر دینے کے بعد ہمیشہ اس کو دُہرایا جائے اور کارکن کو سمجھایا جائے کہ اسے کیا حکم دیا گیا ہے تو اس قسم کی غلطیاں کیوں واقعہ ہوں۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ کام کرنے کے بعد ہمیں آکر بتانا ہے کہ کام ہوا ہے یا نہیں تب بھی یہ نقائص واقعہ نہ ہوں اور یہ جواب نہ دینا پڑے کہ مَیں نے تو کہہ دیا تھا اب مَیں دریافت کر کے اطلاع دیتا ہوں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔
غرض پہلی چیز علم الیقین ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے بہت سے کام علم الیقین سے تعلق رکھتے ہیں مگر جب اہم کام پیش آئیں تو اس وقت علم الیقین کی بجائے عین الیقین بلکہ حق الیقین پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ علم الیقین کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ہمیں آ کر یہ خبر دے کہ مَیں فلاں گھر میں گیا تھا وہاں آگ جل رہی تھی۔ جب وہ کہتا ہے آگ جل رہی تھی تو ہمیں اس کے ذریعہ سے ایک علم حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ علم محض سماعی ہوتا ہے۔ کوئی شخص ہمارے پاس آتا اور ہمیں یہ خبر پہنچا جاتا ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے سچائی سے کام لیا ہے یا کذب بیانی سے۔ لیکن اس کے بعد جب ہم اُس مکان کی طرف جاتے اوردور سے دُھواںاُٹھتے دیکھتے ہیں تو ہمارا علم عین الیقین سے بدل جاتا ہے۔ یا ہم آگ کو جلتا دیکھ لیتے ہیں تب بھی عین الیقین کا مقام ہم حاصل کر لیتے ہیں لیکن اب بھی آگ کی عام تأثیرات ہم پر نہیں پڑتیں ہم صرف دور سے اس کا نظارہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب اس کے بعد ہم اُس آگ میں اپنا ہاتھ ڈال دیتے ہیں تب ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اُس کی گرمی کیسی ہے یہ مقام حق الیقین کہلاتا ہے کہ ہم نے صرف آنکھوں سے آگ کو نہیں دیکھا بلکہ خود اُس آگ میں پڑ کر اس کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔ اسی طرح جب کسی شخص سے ہم نے کہا کہ فلاں کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے اور اُس نے ہمیں آ کر کہہ دیا کہ میں نے وہ کام کر دیا ہے تو کام کے لحاظ سے یہ صرف علم الیقین کا مقام ہوگا اس کے بعد اگر وہ کوئی ثبوت بہم پہنچا دیتا ہے مثلاً ہمارے پاس رسید لے آتا ہے تو ہم عین الیقین کا مقام حاصل کر لیتے ہیں پھر آخر میں جب ہمیں ہر لحاظ سے کام کے متعلق اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو کام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ واقعہ میں ہو چکا ہے تو ہمیں حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ اپنے کاموں کی بنیاد ابتدائی یقین پر رکھتے ہیں اور اس طرح کئی امور میں ٹھوکر کھاتے یا کام کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ بہرحال جسے علم الیقین ہوتا ہے اُس سے بہت زیادہ جدوجہد اُس شخص کی ہوتی ہے جسے عین الیقین حاصل ہوتا ہے اور جسے حق الیقین حاصل ہو جائے وہ تو کمال درجہ کی جدوجہد سے کام لینا شروع کر دیتا ہے۔ حق الیقین سے اوپر جو مقام ہے وہ وہی ہے جو
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوشش کا سوال نہیں ہوتا کیونکہ انسان کسی اور کے لئے کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے کرتا ہے اس لئے اس کی جدوجہد دوسرے لوگوں کی جدوجہد کے مقابلہ میں بالکل نرالا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔
غرض انسانی علم اور یقین کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں جو مختلف لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایک متذبذب حالت ہوتی ہے انسان کام تو کرتا ہے مگر کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید ہو جائے اور کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید نہ ہو۔ مثلاً وہ کسی سے اپنے لئے رشتہ مانگنا چاہتا ہے اُس وقت اُس کی حالت متذبذب ہوتی ہے کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید وہ شخص رشتہ دے دے اور کبھی خیال کرتا ہے کہ ممکن ہے نہ دے۔ آخر بہت کچھ سوچنے کے بعد وہ درخواست دے دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اگر اس نے درخواست کو ردّ کر دیا تو کسی اور جگہ کوشش کر دیکھوں گا۔ بہرحال اس کی حالت میں تذبذب ہوتا ہے اور ایک خلجان سا اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہے۔ اس سے اوپر ایک اور مقام ہوتا ہے جس میں تذبذب تو نہیں ہوتا مگر یقین بھی نہیں ہوتا اس حالت کو ہم ’’یقینی مگر قابلِ تذبذب حالت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ ظاہر میں سمجھتا ہے کہ مجھے یقین حاصل ہے مگر دراصل اُس کا یقین کمزور ہوتا ہے اور وہ جلد ہی اپنے اصل مقام سے اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے۔ جیسے لَیَالِیْ عَشَرَ کی تشریح میں مَیں نے بتایا تھا کہ حضرت ابن عمرؓ سے جب طلحہ بن عبداللہؓ نے کہا کہ اس سے ذِی الحجہ کے ایامِ عرفہ و نحر مراد ہیں تو انہوں نے کہا تم کو کس طرح معلوم ہوا؟ وہ کہنے لگے مجھے یقین ہے۔ اس پر انہوں نے کہا اگر یقین ہے تو مَیں ابھی تم کو شک میں ڈال دیتا ہوں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ جانتے تھے اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی بات مروی نہیں جو کچھ کہا جاتا ہے رواۃ کی اپنی رائے ہے اس لئے انہیں آسانی سے شبہ ڈالا جا سکتا ہے۔ گویا یہ مقام ایسا ہے جس میں انسان کو شک تو نہیں ہوتا مگر شک کا امکان ہوتا ہے اور گو وہ اپنے مقصد کے لئے زیادہ جدوجہد کرتا ہے مگر ابھی اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ دیوانہ وار جدوجہد کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ایک اور حالت ہوتی ہے جس میں انسان کو یقین تو ہوتا ہے مگر غیر معمولی حالات میں وہ ہلِ جانے والا ہوتا ہے اور کبھی انسان کو ایسا مضبوط یقین حاصل ہوتا ہے کہ بیسیوں دلائل اس کے سامنے پیش کئے جائیں وہ گھبراتا نہیں وہ علیٰ وَجہ ِالبصیرت اپنے دعویٰ پر قائم ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بات اس طرح نہیں جس طرح لوگ کہتے ہیں بلکہ اس طرح ہے جس طرح مَیں کہتا ہوں۔ ایسا شخص اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوسروں سے بہت زیادہ کوشش کرتا ہے اور اس کے قدم کو غیر معمولی ثبات حاصل ہوتا ہے۔ وہ بسا اوقات مشکلات و حوادث کے طوفان میں گھر جاتا ہے مگر اُس کے قدم ڈگمگاتے نہیں اور وہ مضبوطی سے اپنے مقام پر کھڑا رہتا ہے۔
غرض جتنا جتنا یقین ہوتا ہے اتنی ہی اس کے مقابلہ میں کوشش کی جاتی ہے۔ جسے قطعی یقین حاصل ہوتا ہے وہ بالکل اور طرح کوشش کرتا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مجنونانہ وار اپنے کام کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور کسی بڑی سے بڑی روک کی بھی پرواہ نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ بہرحال ہو جائے گا لیکن جو شخص سمجھتا ہے کہ کام ہو گا ہی نہیں وہ کوشش بھی نہیں کرتا اور اگر کچھ کرتا بھی ہے تو نہایت بے دِلی سے، کیونکہ یہ خیال اُس کے دل میں بیٹھ چکا ہوتا ہے کہ کام تو ہونا ہی نہیں۔ بہرحال ہر ایک کام اپنی اہمیت کے لحاظ سے یقین کا ایک درجہ چاہتا ہے۔ بعض کام متذبذب بھی کر لیتا ہے، بعض قابلِ تذبذب بھی کر لیتا ہے، بعض مضبوط مگر غیر معمولی حالات میں ہِل جانے والا بھی کر لیتا ہے لیکن جسے اپنے کام کے متعلق غیر معمولی یقین حاصل ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ نہ ہو زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر مَیں اپنے کام میں ناکام نہیں ہو سکتا اُس کے پاس چونکہ اپنے نفس کو تسلی دینے یا لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے کوئی عُذر نہیں ہوتا اس لئے وہ سر توڑ کوشش شروع کر دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میری کانشنس بھی مجھے ناکامی پر ملامت کرے گی اور دنیا بھی مجھے ملامت کرے گی۔
(الفضل قادیان ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۶ء)


فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے
افتتاح کی تقریب




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تقریب
(فرمودہ ۱۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
جہاں تک افتتاح کا سوال ہے وہ تو ہوچکا ہماری فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر صاحب نے بھی اپنا ایڈریس پڑھ دیا اور ڈاکٹر بھٹناگر صاحب نے بھی اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کر دیا۔ اِس وقت میں صرف ان نمائندگان سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جومختلف جماعتوں کی طرف سے مجلسِ شوریٰ میں شامل ہونے کے لئے قادیان تشریف لائے ہیں اور اِس وقت یہاں موجود ہیں۔
ابھی ڈاکٹر بھٹناگر صاحب نے اپنے جواب میں بیان کیا ہے کہ اس قسم کی انسٹی ٹیوٹ کو جاری کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہمارے کارکنوں نے کسی قسم کی تحقیق شروع کی اور نئے نئے مسائل اور علوم نکلنے شروع ہوئے تو پھر ان کو سرمایہ کی کمی کی وجہ سے اسی جگہ چھوڑ دینا اور نتائج کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کرنا علمی ترقی کا موجب نہیں بلکہ تالاب کے پانی میں سڑاند پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ بات بالکل درست ہے اور میں نے شروع سے ہی اس امر کو اپنے مدنظر رکھا ہے۔ میں نے اس سے پہلے اس انسٹی ٹیوٹ کی مالی ضرورتوں کو جماعت کے سامنے نہیں رکھا صرف ایک خطبہ میں مَیں نے یہ بیان کیا تھا کہ گو ابھی جماعت کو میں اس کی مالی ضرورتوں کے لئے نہیں بُلاتا لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب جماعت کو اس کے لئے مالی قربانیاں کرنی پڑیں گی۔
اب اس موقع پر میں جماعت کو ایک بار پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں۔ ابھی ہمیں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ ہم جماعت سے مالی قربانی کا مطالبہ کریں اور اس غرض کے لئے ایک خاص فنڈ کھول دیں لیکن دو تین سال تک جب ہمیں زمین مہیا ہو جائے گی عمارتوں کا میٹیریل (MATERIAL)ملنا شروع ہو جائے گا اور اس میٹیریل سے عمارتیں بننی شروع ہو جائیں گی ہمیں اس کے لئے لاکھوں روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ ان عمارتوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی جو اس غرض کے لئے بنائی جائیں گی، ان زمینوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی جن پر یہ عمارتیں تعمیر کی جائیںگی ان سامانوں کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی جو عمارتوں کی تعمیر کیلئے درکار ہوگا، ان کارکنوں کے گزارہ کیلئے روپیہ کی ضرورت ہوگی جو اس انسٹیٹیوٹ میں کام کریں گے اور ان نتائج کو عملی جامہ پہنانے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہوگی جو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پیدا کرے گی۔
پس گو اب بھی میں جماعت کو کسی چندہ کے متعلق تحریک نہیں کرتا مگر میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے یہ امر اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔ اِس وقت صرف چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے اپنے دوستوں میں تحریک کر کے اس غرض کے لئے پچاس ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور اڑھائی لاکھ روپیہ سلسلہ کی طرف سے خرچ ہوا ہے۔ میرا بھی وعدہ ہے کہ میں اپنی طرف سے اور اپنے بعض دوستوں کی طرف سے ایک لاکھ روپیہ جمع کر دوں گا اور چونکہ اب اخراجات روز بروز زیادہ ہونگے اور دو تین سال میں ہی وہ وقت آنے والا ہے جب جماعت کے سامنے ا س کے متعلق تحریک کی جائے گی اس لئے میں جماعت کو ابھی سے اس طرف توجہ دلا دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جب جماعت کے سامنے اس کے متعلق تحریک کی جائے گی تو ہماری جماعت کے تمام افراد اپنے پورے اخلاص اور جوش کے ساتھ جس حد تک ان کے ذرائع آمد اِن کا ساتھ دیں گے اس تحریک میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں گے۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ کوئی دُنیوی انسٹی ٹیوٹ نہیں بلکہ یہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جاری کی گئی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے ابتداء میں ہی ظاہر فرما دیا تھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ایک خدا تعالیٰ کا قول ہوتا ہے اور ایک فعل۔ خدا تعالیٰ کا قول وہ الہامی کتابیں ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف اوقات پر لوگوں کی ہدایت اور ان کی راہ نمائی کیلئے نازل ہوئیں اور خدا تعالیٰ کا فعل وہ قانونِ قدرت ہے جسے دوسرے لفظوں میں سائنس کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا دنیا میں کوئی معقول انسان ایسا نہیں ہو سکتا جو بات کچھ اور کرے اور کام کچھ اور کرے۔ ہر معقول انسان کے قول اور فعل میں تطابق اور یک جہتی پائی جاتی ہے۔ پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کہے کچھ اور کرے کچھ۔ الہام کچھ اور نازل کرے اور دنیا میں قواعد ایسے جاری کرے جو الہام کے خلاف ہوں۔ اگر کہیں خدا تعالیٰ کے قول اور اس کے فعل میں اختلافِ نظر آتا ہو تو یہ صرف غلط فہمی کا نتیجہ ہوگا۔ ورنہ سچی سائنس اور سچا مذہب آپس میں کبھی ٹکرا نہیں سکتے اور اگر ٹکراتے ہیں تو دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوگی یا تو مذہب کی طرف جو بات منسوب کی جاتی ہے وہ غلط ہوگی یا پھر سائنس جو کچھ کہہ رہی ہو گی وہ غلط ہوگا ان دونوں میں سے کسی ایک کی غلطی نکالنے کے بغیر ہم صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے۔ اسی لئے سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کی گئی ہے تا کہ ہم اپنی جدوجہد کے ذریعہ سائنس کو مذہب کے قریب لانے کی کوشش کریں۔ جس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہایت قوی دلائل دے کر اسلام کے ہر مسئلہ کو سچا ثابت کر دیا ہے اور آپ نے مذہب کی ایسی تفسیر بیان فرمائی ہے جو انسانی عقل اور ضمیر کے خلاف نہیں بلکہ ہر مجلس ہر جلسہ اور ہر میدان میں ہم اسلام کے ہر مسئلہ کی کھلے طور پر تصدیق کرنے کے لئے تیار ہیں اور دشمن کے کسی حملہ پر اس کے مقابلہ میں ہماری آنکھیں نیچی نہیں ہوتیں۔ اب دوسرا حصہ باقی تھا کہ کوئی سچی سائنس سچے مذہب سے ٹکرا نہیں سکتی اور یہ کام بندوں کا ہے کہ وہ سائنس کے مسائل کو مذہب کے مطابق ثابت کریں اور دنیا سے اس ناواجب تفرقہ اور شِقاق کو دُور کر دیں جو مذہب اور سائنس میں پایا جاتا ہے۔
میں صرف اتنا ہی کہنے کے لئے کھڑا ہوا تھا تاکہ جماعت کے احباب کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں جو اِس انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی وجہ سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ اَب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور ان تمام دوستوں کا جو اس موقع پر تشریف لائے ہیں خصوصاً ڈاکٹر سربھٹناگر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے یہاں تشریف لا کر ہمارے لئے خوشی کا سامان مہیا کیا۔
(الفضل ۳؍ مئی ۱۹۴۶ء)


ہماری جماعت میںبکثرت حفاظ
ہونے چاہئیں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں
(فرمودہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
پرسوں ایک دوست مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ وہ اپنے لڑکے کو قرآن شریف حفظ کرانا چاہتے ہیں مگر کہا کہ جو دوست بھی ملتا ہے یہی کہتا ہے کہ ایسا نہ کیجئے بچے پر بوجھ پڑ جائے گا اور وہ بیمار ہو جائے گا۔ مَیں نے جواب دیا کہ شیطان تو ہمیشہ ہی نیک کام میں دخل دیا کرتا ہے آپ اسے بھی شیطانی وسوسہ سمجھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ہر جماعت میں کچھ لوگ شیطان کے قائمقام ہوتے ہیں وہاں مؤمن بھی بعض دفعہ اپنی کمزوری سے ایسے لوگوں کو دلیر کر دیتے ہیں۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن ابی بن سلول جیسے لوگ ہوتے تھے اور وہ لوگ ایسی باتیں کرتے تھے جن کے نتیجہ میں دین کی تنظیم اور اس کی ترقی کے سامان پیدا نہ ہوں یا پیدا ہوں تو کوئی روک واقع ہو جائے اسی طرح آجکل بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں۔ پھر بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو دین کی ترقی کو دیکھ ہی نہیں سکتیں، بعض طبائع حسد رکھتی ہیں اور جب دیکھتی ہیں کہ کوئی شخص قرآن حفظ کر رہا ہے یا دین کی طرف توجہ کر رہا ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اسی طرح یہ طریق جاری رہا تو لوگ ہم پر الزام لگائیں گے کہ تمہارے حالات بھی تو ایسے ہی تھے تم نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ اس وجہ سے ان کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور اس ڈر سے کہ ہم پر کوئی الزام عائد نہ کرے وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو نیک کام کرنے سے ورغلا دیں۔
جب آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تو شیطان کو غصہ آیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور مَیں نہیں ہوا اور اُس نے چاہا کہ کسی طرح اِس سے بھی نافرمانی کرائیں۔ چنانچہ آدمؑ اور شیطان والا قصہ ہمیشہ دُہرایا جاتا ہے۔ آخر ہر شخص آدمؑ کی اولاد میں سے ہے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسے آدمؑ کا ناک تو ملے، آنکھ تو ملے، کان تو ملے، دھڑ تو ملے غرض سب چیزیں اسے آدمؑ کی ملیں مگر آدمؑ کا شیطان اسے نہ ملے یا آدمؑ کے فرشتے اسے نہ ملیں۔ جب اسے آدمؑ کی ہر چیز ملی ہے تو ضروری تھاکہ اسے آدمؑ کا فرشتہ اور آدمؑ کا شیطان بھی ملتا۔ چنانچہ دنیا میں ہزاروں لوگوں کو کچھ نیک صلاح دینے والے مل جاتے ہیں، کچھ بد صلاح دینے والے مل جاتے ہیں۔ جو آدمؑ کے نقش قدم پر چلنے والا ہوتا ہے۔ ۱؎ کے مطابق اگر کبھی غلطی سے اس کی بات مان بھی لے تو بعد میں ہوشیار ہو جاتا ہے اور اس کے اصل تعلقات فرشتے سے ہی رہتے ہیں لیکن جس کے اندر آدمیّت کم ہوتی ہے قدرتی طور پر وہ شیطان کی طرف جھک جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس میں کچھ حصہ مؤمنوں کی کمزوری کا بھی ہوتا ہے۔ مؤمن بھی ایسی باتیں سن کر جرأت نہیں کرتے کہ دوسرے کو سمجھائیں ورنہ اگر ذرا بھی جرأت سے کام لیں تو دوسرے کو کبھی ورغلانے کی جرأت نہ ہو۔
مَیں نے پہلے بھی قصہ سنایا ہے کہ ضلع گجرات کے پانچ بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں یہاں آیا کرتے تھے، مدت تک رہتے اور محبت سے سلسلہ کی باتیں سنتے۔ قادیان کے مقدس مقامات کی وسعتِ شان اور عظمت جس کو اب لوگ دیکھتے اور اس طرح آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں کہ ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کسی نشان کے پاس سے گزر رہے ہیں اُس زمانہ میں نہیں تھی مگر پھر بھی آنے والے چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے ایمانوں کو تازہ کر لیا کرتے تھے۔ اب تو منارۃ المسیح ہے، مسجد اقصیٰ ہے، بہشتی مقبرہ ہے اور قدم قدم پر انسان کے ایمان کو تازہ کرنے والے نشانات موجود ہیں مگر اُس زمانہ میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ اب بھی یہ مسجد چھوٹی ہی کہلاتی ہے حالانکہ بہت سے قصبوں کی جامع مسجدوں کے برابر ہے مگر پہلے واقعہ میں چھوٹی ہوا کرتی تھی اور فی صف صرف چھ آدمی پھنس پھنس کر آتے تھے۔ اگر پتلے آدمی ہوتے یا ان میں کوئی بچہ بھی شامل ہوتا تو سات بھی آ جاتے۔ اس مسجد میں چھ صفیں ہوا کرتی تھیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ نمازی جوتیوں تک چلے جائیں اور مسجد پوری بھری ہوئی ہو گویا مسجد میں صرف ۳۶ آدمی آ سکتے تھے اور وہ بھی پھنس پھنس کر۔ اگر کھلے طور پر کھڑے ہوتے تو اس سے بھی کم آتے۔ بچپن میں مَیں صفیں اور ان صفوں میں کھڑے ہونے والے آدمیوں کو گِنا کرتا تھا اور مَیں نے دیکھا ہے کہ بہت شاذ ایسا ہوتا کہ کسی صف میں سات آدمی ہوتے ورنہ بعض دفعہ چھ اور بعض دفعہ پانچ آدمی ہی ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے ۔اب بھی وہ جگہ موجود ہے اور پرانی مسجد کے نشانات باقی ہیں اس میں کھڑے ہو کر دیکھ لو۔ بچے اگر کھڑے ہو جائیں تو ایک صف میں سات بچے آ سکتے ہیں اور اگر بڑے کھڑے ہوں تو چھ سے زیادہ کھڑے نہیں ہو سکتے اور وہ بھی پھنس کر کھڑے ہونگے۔ یہ مسجد ہوا کرتی تھی مگر اِسی کو دیکھ دیکھ کر لوگوں کے ایمان تازہ ہو جاتے تھے۔ وہ یہاں آتے، بیٹھتے اور ذکرِ الٰہی کرتے اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو باغ میں چلے جاتے اورایک دوسرے سے کہتے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کا باغ ہے۔ اُس زمانہ میں مقبرہ بہشتی نہیں ہوتا تھا اب تو لوگ مقبرہ بہشتی میں دعا کے لئے جاتے اور اپنے ایمان تازہ کرتے ہیں مگر اُن کا ایمان صرف باغ کو دیکھ کر ہی تازہ ہو جاتا تھا اور اُنہیں خدا تعالیٰ کی قدرت کا وہ نظارہ نظر آنے لگتا تھا جو آجکل کے لوگوں کو بڑے بڑے نشانات دیکھ کر بھی نہیں آتا۔ وہ ۳۶ آدمیوں کی مسجد کو دیکھ کر کہتے کہ ہمارے خدا میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کجا یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا اور کجا یہ حالت ہے کہ ۳۶ آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ اسی طرح وہ مسجد اقصیٰ کو دیکھتے تو ان کے ایمان اور زیادہ تازہ ہو جاتے اور کہتے اَللّٰہُ اَکْبَرُ ہماری ایک جامع مسجد بھی ہے۔ اُن کو یہی بڑا نشان نظر آتا تھا کہ ہماری پانچ وقتہ نماز کیلئے الگ مسجد ہے اور جمعہ پڑھنے کے لئے الگ مسجد ہے۔ یہ دوست جن کا مَیں ذکر کر رہا ہوں جب یہاں آئے تو تین یا تین سے زیادہ تھے ان میں سے ایک بھائی جلدی جلدی آگے چلا جا رہا تھا اور تین چار پیچھے تھے یا ایک آگے تھا اور دو تین پیچھے تھے۔ ہمارے ایک ماموں تھے مرزا علی شیر صاحب جو مرزا سلطان احمد صاحب کے خسر تھے جہاں اب دارالضعفاء ہے وہاں ان کی زمین ہوتی تھی اس زمین میں انہوں نے باغ لگایا اور ترکاریاں وغیرہ بو دیں۔یہی ان کا شغل تھا کہ وہ ہر وقت وہاں بیٹھے رہتے۔ باغ کی نگرانی رکھتے اور ترکاریوں وغیرہ کو دیکھتے رہتے۔ ساتھ ساتھ ایک لمبی تسبیح جو اِن کے ہاتھ میں ہوتی تھی اس پر ذکر بھی کرتے چلے جاتے تھے۔ وہ پیری مُریدی کیا کرتے تھے مگر بالکل ابو جہل کے نقشِ قدم پر تھے جس طرح ابوجہل کو جب کوئی ایسا آدمی ملتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر مکہ میں آیا ہوتا تو وہ اس سے ملتا اور کہتا کہ یہ تو محض دکانداری ہے اگر اس کے اندر کچھ بھی صداقت ہوتی تو مَیں نہ مانتا مَیں تو اس کا رشتہ دار ہوں۔ اسی طرح مرزا علی شیر صاحب کو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں میں سے کوئی مل جاتا تو وہ اسے ورغلانے کی کوشش کرتے اور کہتے تم کہاں پھنس گئے ہو مَیں انہیں خوب جانتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ یہ محض مکر اور فریب سے ایک دکان نکال لی گئی ہے ورنہ سچائی کہاں ہے اگر سچائی ہوتی تو مَیں قبول نہ کرتا۔ مَیں تو ان کا رشتہ دار ہوں۔ وہ سارے بھائی مل کر چونکہ باغ کی طرف جا رہے تھے اور ایک ان میں سے آگے آگے تھا اس لئے مرزا علی شیر صاحب نے جب اُس کو دیکھا تو آواز دی کہ بھائی صاحب! ذرا اِدھر تشریف لائیے۔ وہ آئے تو اس کو بٹھا کر انہوں نے تقریر شروع کر دی اور کہا کہ کیا آپ مرزا صاحب سے ملنے آئے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ مرزا علی شیر صاحب کہنے لگے دیکھئے! مَیں محض آپ کی بھلائی اور فائدہ کے لئے کہتا ہوں کہ آپ اِس خیال کو جانے دیں ہم آپ کے دلی خیر خواہ ہیں ہم آپ کو سچ سچ بتاتے ہیں کہ اس شخص نے محض ایک دکان نکال لی ہے اور آپ کا فائدہ اس میں ہے کہ اس کو چھوڑ دیں۔ جب وہ الفاظ کو خوب سجا سجا کر تقریر کر چکے تو انہوں نے بڑے جوش سے مرزا علی شیر صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ مجھے تو آپ کے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا اچھا ہوا کہ آپ کی ملاقات نصیب ہوگئی۔ مرزا علی شیر صاحب دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا۔ وہ اسی طرح ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بیٹھے رہے پھر انہوں نے زور سے اپنے بھائیوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ جلدی آنا، جلدی آنا، ایک نہایت ضروری کام ہے۔ وہ بھاگے بھاگے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی نے مرزا علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور مرزا علی شیر صاحب کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہے کہ آج خدا نے کیسے اچھے لوگوں سے میری ملاقات کرائی ہے جب وہ قریب آئے تو انہوں نے پوچھا کہ بتائیں کیا کام تھا؟ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید میں روزانہ پڑھتے تھے اور اپنے مولویوں سے بھی سنتے تھے کہ دنیا میں ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر ہم نے اُسے کبھی دیکھا نہیں تھا آج خدا نے ہماری حسرت بھی پوری کر دی تو یہ سامنے شیطان بیٹھا ہے اسے خوب اچھی طرح دیکھ لو خدا نے بڑی مدت کے بعد ایسا اچھا موقع ہمیں نصیب کیا ہے کہ شیطان ہم نے دیکھ لیا ہے۔ اب یا تو وہ بڑے شوق سے انہیں اپنے پاس بٹھا کر اس طرح خاموش ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیٹھے تھے جس طرح ایک بزرگ بیٹھا ہوتا ہے اور یا جب انہوں نے یہ بات سُنی تو ہاتھ چھڑانے لگ گئے مگر وہ نہ چھوڑیں اور یہی کہتے جائیں کہ بڑی مدت سے خواہش تھی کہ شیطان کو دیکھیں سو آج خدا نے ہماری یہ خواہش بھی پوری کر دی اور ہم نے شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ تو اِس قسم کے لوگ ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ اگر وہ بات سن کر اُٹھ کر چلا جاتا تو وہ اثر نہ ہوتا جو اس صورت میں اُس پر ہوا ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد چار پانچ ماہ تک انہوں نے کسی کو آواز نہیں دی ہوگی کہ آؤ اور میری بات سن جاؤ۔ اگر سارے مؤمن ایسی ہی غیرت دکھلائیں اور جب کوئی شخص انہیں ورغلانے کی کوشش کرے تو وہ بلند آواز سے أَعُوْذُ پڑھ کر اور بائیں طرف تھوک کر کہیں کہ قرآن کریم نے ہمیں یہی ہدایت دی ہے کہ جب تمہارے پاس شیطان آئے تو تم أَعُوْذُ پڑھ لیا کرو تو مَیں سمجھتا ہوں ایسے منافق کو بات کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔ وہ اسی وقت جرأت کرتا ہے جب سمجھتا ہے کہ منافق یا کمزور آدمی میری بات سن کر ہنستا رہے گا۔ اگر اس میں سچی غیرت ہو تو دوسرے شخص کو جرأت ہی نہیں ہو سکتی کہ اس سے ایسی باتیں کرے۔ بے غیرتی دوسروں میں بھی بے غیرتی پیدا کر دیتی ہے اور غیرت دوسروں میں بھی غیرت پیدا کر دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے مَیں چھوٹا بچہ تھا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے ہوائی بندوق منگوائی۔ مجھے شکار کا شوق تھا ایک دن ہم اَور بچوں کو اپنے ساتھ لے کر عیدگاہ کی طرف جو را ستہ جاتا ہے اُس طرف شکار کے لئے گئے اور ناتھ پور کے قریب جا پہنچے وہ سکھوں کا گاؤں ہے ہم اِردگرد شکار کے لئے کوئی فاختہ تلاش کر رہے تھے کہ ایک سکھ نوجوان دَوڑا دَوڑا آیا اور اس نے کہا یہاں کیا ہے چلو میں شکار بتاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا وہاں کیکر یا بیری کا ایک درخت تھا جس پر آٹھ دس فاختائیں بیٹھی تھیں۔ مَیں ابھی نشانہ ہی باندھ رہا تھا کہ ایک بڑھیا عورت اندر سے نکلی اور اس نے بڑے جوش سے کہا ہمارے گاؤں میں جیوہتیا ہونے لگی ہے یہ کہتے ہوئے اس نے شور ڈال دیا اور ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں۔ ہم نے اس کے شور پر کسی فاختہ کو نہ مارا اور ہمیں کوئی تعجب بھی نہ ہوا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ غیر مسلم ہیں انہیں شکار ضرور بُرا معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہمیں زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا اس کی آنکھیں بھی سرخ ہوگئیں اور وہ بڑے غصہ سے کہنے لگا چلے جاؤ یہاں سے تم یہاں کہاں شکار کے لئے آئے ہو۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ تو خود ہمیں شکار کے لئے لایا تھا اب یہی کہہ رہا ہے کہ چلے جاؤ یہاں آئے کیوں تھے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ غیرت متعدی چیز ہوتی ہے۔ ہم جب شکار کر رہے تھے تو اُس پر بھی اثر پڑا اور اُس نے کہا کہ شکار بہت اچھا ہوتا ہے۔ پھر جب عورت نے شور مچایا کہ جیوہتیا ہونے لگی ہے تو وہ بھی کہنے لگا کہ جیوہتیا ہم برداشت نہیں کر سکتے تو جس قسم کا اثر ڈالا جائے اسی قسم کا اثر دوسرے پر پڑ جاتا ہے۔یہی چیز ہے جو کامیابی کا باعث بنتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں آج پراپیگنڈہ کا زمانہ ہے حالانکہ جب سے آدمؑ پیدا ہوا پراپیگنڈہ ہوتا چلا آتا ہے۔ شیطان نے بھی یہی کیا تھا کہ آدمؑ سے اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسی لئے شجرہ سے منع کیا ہے کہ تم اس طرح دائمی زندگی حاصل کر لو گے۔ اس نے کوئی دلیل نہیں دی صرف ایک بات تھی جو اس نے بار بار کہی کیونکہ بار بار کہنے سے اثر ہو جاتا ہے۔
ایک شخص نے اسی حقیقت کو لطیفہ کے رنگ میں بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ ایک پادری تھا اس پر کچھ مالی تنگی کے دن آئے تووہ اپنی بکری بیچنے کے لئے اُسے بازار لے گیا۔ رستہ میں چند بدمعاشوں نے اسے دیکھا تو ان کا جی للچایا اور انہوں نے چاہا کہ کسی طرح بکری اس سے چھین لی جائے۔ ایک نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ آخر یہ پادری ہے ہم اسے مار تو سکتے نہیں پھر بکری اس سے کس طرح چھینی جائے؟ دوسرے نے کہا ترکیب مَیں بتاتا ہوں تم عمل کرنے والے بنو۔ وہ چار پانچ آدمی تھے۔ اس نے سب کو سَوسَو دو دو سَو گز کے فاصلہ پر کھڑا کر دیا اور ہر ایک کو سکھایا کہ جب پادری تمہارے پاس سے گزرے تو تم اسے کہنا کہ پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے چلے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پادری صاحب جا رہے تھے کہ پہلا آدمی اُنہیں ملا۔ اُس نے کہا کیوں پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے جا رہے ہیں آپ کی شایان شان تو نہیں کہ ہاتھ میں کتا پکڑے پھریں۔ پادری نے کہا کچھ ہوش کی دوا کرو یہ تو بکری ہے بیچنے کے لئے بازار لے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا ہوگی مگر مجھے تو کتا ہی نظر آتا ہے۔ خیر پادری بڑبڑاتے بڑبڑاتے آگے چلا گیا۔ سَو گز دور گیا ہوگا کہ دوسرا آدمی ملا کہنے لگا پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے چلے ہیں وہ کہنے لگے کتا؟ یہ کتا ہے یا بکری؟ اس نے کہا آپ کی بات ماننی تو مشکل ہے مگر خیر آپ جو کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں ورنہ ہے بالکل کتا۔ پادری صاحب پر کچھ اثر ہو گیا۔ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے اس بکری کی شکل کتے سے بہت ملتی ہے اس لئے لوگوں کو دھوکا لگ رہا ہے۔ تھوڑی دور آگے گئے تو تیسرا آدمی ملا اور کہنے لگا پادری صاحب! یہ کیا حرکت ہے کہ کتا ہاتھ میں پکڑے جا رہے ہیں۔ پادری صاحب کہنے لگے کیا کروں ہے تو بکری مگر اس کی شکل کتے سے بہت ملتی ہے مَیں بھی جب دیکھتا ہوں تو کتا ہی نظر آتا ہے۔ گویا پہلے تو صرف اتنا ہی خیال تھا کہ دوسرے لوگ اسے کتا سمجھتے ہیں مگر اب فرمانے لگے کہ مجھے بھی یہ کتا ہی نظر آتا ہے وہ کہنے لگا پادری صاحب سچی بات یہ ہے کہ یہ ہے ہی کتا کسی نے آپ کی سادہ لوحی دیکھ کر دھوکا دے دیا ہے۔ کہنے لگا شاید کتا ہی ہو۔ تھوڑی دور اور آگے گئے تھے کہ چوتھا آدمی ملا اور اس نے کہا پادری صاحب! یہ کیا کتا پکڑا ہوا ہے کہنے لگا کچھ شبہ والی بات ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہ بکری ہے اور کبھی خیال آتا ہے کہ یہ کتاہے۔ وہ کہنے لگا آپ اِس شُبہ کو جانے دیں یہ واقعہ میں کتا ہے۔ آپ جب منڈی جائیں گے تو لوگ ہنسیں گے کہ عجیب آدمی ہے کتا بیچنے کیلئے آ گیا ہے۔ پادری صاحب گھبرا گئے انہوں نے بکری چھوڑ دی اور استغفار کرتے ہوئے گھر آگئے اور افسوس کرتے رہے کہ میری نظر اب اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ میں یہ شناخت بھی نہیں کر سکتا کہ میرے ہاتھ میں بکری ہے یا کتا۔ جب پادری صاحب واپس لوٹے تو انہوں نے بکری لے لی اور اس کو ذبح کر کے خوب کباب وغیرہ کھائے۔ یہ مثال اس بات کی ہے کہ پروپیگنڈا سے کچھ کی کچھ شکل بدل جاتی ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر حقائق کی طرف نہیں جاتی بلکہ دُہرائی تہرائی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر دس بیس کسی چیز کو اچھا کہہ دیں تو وہ بھی اچھا کہنے لگ جاتے ہیں اور اگر وہ بُرا کہہ دیں تو وہ بھی بُرا کہنے لگ جاتے ہیں۔ مثلاً اِس وقت اسلام کو روپیہ کی ضرورت ہے اگر شیطان کسی کو دھوکا دینا چاہے تو اس رنگ میں بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ چندہ دے دینا ہی کافی ہے اِس کی کیا ضرورت ہے کہ ہمارے بچے قرآن حفظ کریں وہ نہیں جانتے کہ چندہ مانگا جاتا ہے انسانوں پر خرچ کرنے کے لئے، جب آدمی ہی نہیں ہوں گے تو خرچ کس پر ہوگا۔ روپیہ یا سکولوں پر خرچ ہوگا یا سلسلہ کے دوسرے کاموں پر۔ گورنمنٹ والی تنخواہیں تو نہیں دی جاسکتیں مگر بہرحال کچھ نہ کچھ تنخواہیں تو دینی پڑتی ہیں جن سے وہ گزارہ کر سکیں۔ اگر سکول میں لڑکے نہ ہوں گے تو چندہ کہاں خرچ ہوگا یا اگر مبلغین نہ ہوں گے تو چندہ کہاں خرچ ہوگا یہ شیطانی وسوسہ ہے جو انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے۔ دو چار دن ہوئے میں نے اس کی مثال بھی سنائی تھی کہ ایک شخص جب نماز کی نیت کرتا تو کہتا ’’چار رکعت نماز فرض پیچھے اِس امام کے‘‘۔ پھر وسوسہ اس کے دل میں بڑھنا شروع ہوا یہاں تک کہ وہ امام کو دھکے دیتا اور کہتا کہ پیچھے اِس امام کے۔ اگر اسی طرح وساوس بڑھتے چلے جائیں تو ان کی حد بندی ہی نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جائے گا کہ ہم مختلف مواقع پر پندرہ پندرہ، بیس بیس دن قادیان جا کر رہتے ہیں اس کی بجائے کیوں نہ تجارت کرتے رہیں اور چندہ قادیان بھیج دیں۔ ہم اگر گئے تو مفت روٹی کھا کر آ جائیں گے۔ـ پھر یہ وسوسہ پیدا ہوگا کہ ہم جلسہ سالانہ پر کیوں جاتے ہیں یوپی، سی پی، بنگال، بہار اور حیدر آباد وغیرہ سے لوگ آتے ہیں اور فی کس پچاس ساٹھ بلکہ سَو روپیہ آمد و رفت پر خرچ ہو جاتا ہے اور وہ بھی تھرڈ کلاس ہیں۔ انٹر یا سیکنڈ کلاس میں دو تین سَوروپیہ فی کس خرچ آتا ہے۔ وقت الگ صرف ہوتا ہے اگر اس کی بجائے ہم روپیہ بھیج دیں تو وقت بھی بچ جائے گا اور تکلیف بھی نہیں ہوگی اور پھر پانچ چھ سَو آدمی یوپی، بہار اور بنگال وغیرہ کا جو جلسہ پر روٹی کھاتا ہے اس کا بوجھ بھی سلسلہ پر نہیں پڑے گا۔غرض اسی طرح وساوس بڑھتے چلے جائیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ دین سیکھنے کی کوشش مر جائے گی اور ہمارے جلسہ کا بھی وہی حال ہوگا جو عرسوں کا ہوتا ہے جہاں تماشہ دیکھنے والے عیاش طبع لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور باقی لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔
غرض یہ بات یاد رکھو کہ وساوس انسان کو کہیں ورے نہیں رہنے دیتے بلکہ انتہائی حالت تک پہنچا دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے اشعار میں لکھا ہے کہ
بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ
پر کے اک ریشہ سے ہو جاتی ہے کوّوں کی قطار ۲؎
جب بھی انسان کا قدم اصول سے ہٹتا ہے اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے۔ بعض لوگ ہمیشہ پوچھتے رہتے ہیں کہ عید کے موقع پر قربانی کرنے کی بجائے اگر وہی رقم ہی چندہ میں دے دیں تو کیا حرج ہے؟ میں اُن کو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ جس دن تم نے یہ قدم اُٹھایاتم سمجھ لو کہ تمہارا ایمان گیا ۔جو دین کا حاکم ہے اُس کا کام ہے کہ وہ حکم کی شکل بتائے تمہارا کام نہیں کہ خود بخود اپنے لئے ایک نئی شاہراہ پیدا کر لو۔ـ اگر ہر شخص خود بخود اپنے لئے کام تجویز کر لے تو دین کچھ کا کچھ بن جائے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے کہ وہ بتائے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھنی ہے، روزہ کس طرح رکھنا ہے، حج کس طرح کرنا ہے، زکوٰۃ کس طرح دینی ہے، پھر جو کچھ وہ بتائے گا اسی میں برکت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم قیاس سے کام لینے لگیں گے تو دین کی شکل کچھ کی کچھ بن جائے گی۔
ہمارے گھر میں چونکہ اکثر مستورات ملنے کے لئے آتی رہتی ہیں میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ان کی وجہ سے بعض دفعہ عجیب عجیب باتیں ظہور میں آتی ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک دن کھانے میں بے انتہا نمک تھا۔ میں سمجھتا ہوں جس قدر مقدار ہونی چاہئے تھی اُس سے دس بیس گنا زیادہ تھا۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نمک اس طرح زیادہ ہوا ہے کہ ایک عورت آئی اور اُس نے ہنڈیا پکتی دیکھی تو نمک ڈال دیا، پھر دوسری آئی تو اس نے تھوڑا سا نمک ڈال دیا، اِسی طرح اور عورتیں آئیں اور نمک ڈالتی گئیں یہاں تک کہ نمک اِس قدر زیادہ ہو گیا کہ سالن کھانے کے ہی ناقابل ہو گیا۔
پس یہ طریق بڑا ہی غلط ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لینے لگ جائے۔ جب انسان ایک قدم جادۂ صداقت سے پیچھے ہٹاتا ہے تو پھر وہ پیچھے ہی جا پڑتا ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ کیا سب سے مقدم کام وہ نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا؟ جب سب سے مقدم کام وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ صرف چندہ دینا ہی اصل چیز ہے وہ بدبخت دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا ہوں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چندہ نہیں دیا زکوٰۃ آپ نے ساری عمر نہیں دی۔ اگر چندہ دینا ہی سب سے بہتر ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نہایت ہی ادنیٰ درجہ کی جنت میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔ کروڑ پتی تاجر جو برلاؔ قسم کے ہوں وہ تو عرش پر اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہوں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوْذُ بِاللّٰہِ نیچے بیٹھے ہونگے۔ میں تو حیران ہوں کہ ایک مسلمان، مسلمان کہلاتے ہوئے اس قدر اندھا کس طرح بن جاتا ہے کہ وہ ایسی بات کہتا ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں بعض لوگوں سے یہ سنتا ہوں کہ سلسلہ کو روپیہ کما کر دینا زیادہ اچھا ہے بجائے اس کے کہ سلسلہ کیلئے اپنی یا اپنے کسی لڑکے کی زندگی وقف کی جائے حالانکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اکثر نادہند ہوتے ہیں کیونکہ انبیاء کی ہتک کرنے والے کو نیکی کی توفیق کبھی نہیں ملتی۔ جو لوگ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں عارضی طور پر یا مستقل طور پر، وہی لوگ ہیں جن کو چندہ دینے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ پس ان شیطانی وساوس سے بچنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ اس قسم کے وساوس کے بعد انسان کی جگہ جنت میں نہیں رہ سکتی۔ جب وہ پھسلا تو بہرحال نیچے ہی گرے گا۔ جو لوگ سیڑھیوں سے گرتے ہیں گرنے کے بعد ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ رُک سکیں، اتفاقی طور پر کوئی روک آ جائے تو اور بات ہے اسی طرح جب بھی کوئی شخص صراطِ مستقیم سے گرتا ہے وہ بہت نیچے چلا جاتا ہے یہ ایسی چیز نہیں جسے انسان سرسری نظر سے دیکھنے لگے۔ یہ معمولی بات نہیں بلکہ انسان کو تَحْتَ الثَّرٰی میں گرا دینے والی بات ہے۔
صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھاویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے۔ حفاظ نہ ہونے کا یہ بھی نقصان ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو تراویح پڑھانے والے نہیں ملتے اور باہر سے بُلانے پڑتے ہیں۔ اگر یہ لوگ قاری ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے کیونکہ غیر قاری سے قرآن حفظ کرانے میں نقص رہ جاتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک بچہ میرے پاس آیا جو بہت ذہین معلوم ہوتا ہے۔ اُس کی بہن نے بتایا کہ میرے اس بھائی نے خود بخود آدھا سیپارہ گھر میں حفظ کر لیا ہے۔ میں نے کہا گھر میں اپنے طور پر حفظ نہ کرانا ورنہ تلفظ کی غلطیاں پختہ ہو جائیں گی اور پھر اُن کا دور کرنا مشکل ہوگا۔ جس نے قرآن کریم حفظ کرنا ہو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی اچھے حافظ یا قاری کی نگرانی میں حفظ کرے تا کہ وہ صحیح طور پر حفظ کر سکے۔
(الفضل ۷؍ اپریل ۱۹۶۵ء)
۱؎ طٰہٰ: ۱۱۶
۲؎ درثمین اُردو صفحہ۱۲۰ شائع کردہ نظارت اشاعت۔ ربوہ


کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم باترجمہ نہ آتا ہو



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کوئی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے جسے قرآن کریم
باترجمہ نہ آتا ہو
(فرمودہ ۹؍مئی ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
دنیا کے تمام مذاہب میں سے اسلام کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی مذہبی اور الہامی کتاب یقینی اور قطعی طور پر محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی ایسی حفاظت فرمائی ہے کہ دشمن سے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دینے پر مجبور ہے اور قرآن کریم کا محفوظ ہونا اس کی اندرونی شہادت سے ایسا ثابت ہے کہ کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص گلاب کے پھول کی دو چار پنکھڑیاں نوچ کر پھینک دے تو گلاب کے پھول کی شکل ہی بتا دے گی کہ یہ اصل صورت نہیں ہے۔ دراصل قدرت کی پیدا کی ہوئی جتنی چیزیں ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ اگر ان کا کوئی حصہ کاٹا گیا ہو تو اس کا فوراً پتہ لگ جاتاہے۔ خربوزہ کتنی عام چیز ہے ایک پیسہ کے دو دو سیر بکتے تو ہم نے بھی دیکھے ہیں۔ اگر کوئی شخص خربوزہ کا کچھ حصہ کاٹ لے تو کیا یہ چوری چھپ سکتی ہے آم کا ایک ٹکڑا اگر کوئی الگ کر دے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اس کا پتہ نہ لگے؟ انگور، سردا، انار غرض جس قدر پھل یا ترکاریاں ہیں ان میں سے کسی میں ذرا بھی فرق کرو تو فوراً پتہ لگ جائے گا پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے کلام میں دست اندازی کرے اور اس کا پتہ نہ چلے۔ اگر کوئی شخص دست اندازی کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلی چیز میں کوئی نہ کوئی تبدیلی کرے اور کسی چیز میں تبدیلی ہمیشہ دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ اوّل اتفاقی حوادث سے۔ دوم جو بِالارادہ کی جائے۔
اگر پہلی بات لو تو قرآن کریم کی آیات میں اتفاقی حادثہ کے رنگ میں کسی قسم کی تبدیلی بھی ثابت نہیں۔ اتفاقی حادثہ یہ ہو سکتا تھا کہ مثلاًرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی کسی لمبی عبارت کا کوئی فقرہ بھول جاتا اور آپ اس کی جگہ کوئی اور فقرہ رکھ دیتے مگر یہ اعتراض نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کسی کافر نے کیا اور نہ ہی مسلمانوں میں سے کبھی کسی نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کا کوئی فقرہ بھول گیا تھا۔ بعد میں بے شک دشمنوں نے اس قسم کی خرافات آپ کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے مگر بعد کی بنائی ہوئی بات کو کون درست تسلیم کر سکتا ہے ہر شخص اسے دشمنی اور عداوت پر ہی محمول کرے گا۔باقی رہا قرآن کریم کے کسی حصہ کا بِالارادہ نکال دینا سو اس کے مدعی مسلمانوں میں سے صرف شیعہ ہیں جوکہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بعض حصے ارادتاً چھوڑ دیئے گئے ہیں مگر ان کی غلطی آپ ہی ظاہر ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ہی حکمت ہے کہ حضرت علیؓ آخری خلیفہ ہوئے اگر وہ حضرت ابوبکرؓ یا حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فوت ہو جاتے تو شیعہ کہتے کہ ان کے پاس جو قرآن کا حصہ تھا وہ ان کے ساتھ ہی چلا گیا مگر خدا تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو ان خلفاء کے زمانہ میں زندگی دی اور حضرت عثمانؓ کے بعد خلافت پر بٹھایا۔ اب بے شک کوئی شیعہ یہ کہے کہ حضرت علیؓ نے اُس وقت بھی قرآن کریم کا وہ حصہ چھپائے رکھا جو اُن کے پاس تھا مگر اس کو کون درست سمجھ سکتا ہے ہر شخص یہی کہے گا کہ حضرت علیؓ جب خود بادشاہ بن گئے تھے تو انہوں نے قرآن کریم کا وہ حصہ کیوں ظاہر نہ کیا۔ غرض کوئی اعتراض قرآن کریم پر ایسا نہیں پڑتا جو معقول ہو اور قرآن کریم کی حفاظت کے متعلق شبہ پیدا کر سکے۔ پھر قرآن کریم کے بیسیوںحُفّاظ اُس وقت موجود تھے اِس وجہ سے بھی قرآن کریم میں خرابی کا امکان نہیں ہو سکتا۔ یہ شرف بھی صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ ایک وقت میں اس کے بیسیوں حافظ موجود تھے اور پھر وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہوگئے، پھر سینکڑوں سے ہزاروں کی تعداد میںہوگئے اور اِس وقت لاکھوں کی تعداد میں حفاظ موجود ہیں سوائے قرآن کریم کے دنیاکی کوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جس کوحفظ کیا جاتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی اعلیٰ ترتیب کے ساتھ اُتارا ہے کہ اس کا یاد کرنا بہت آسان ہے۔ میرا بیٹا ناصر احمد حافظ ہے اور اِس نے پندرہ سال کی عمر میں ہی قرآن کریم حفظ کر لیا تھا اور اس گئے گزرے زمانہ میں بھی جبکہ مسلمان اسلام سے بے اعتنائی کررہے ہیںلاکھوں حافظ موجود ہیں۔
ابتداء میں رسول کریم ﷺ کی قوم لکھنے کو عار سمجھتی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی صحابہؓ کی تعلیم کا انتظام کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بہت جلد لکھنے پڑھنے میں مہارت پیدا کرلی اور قرآن کریم بھی لکھا جانے گا۔ چنانچہ پہلے حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کریم کو جو الگ الگ ٹکڑوں میں لکھا ہوا تھا ایک جلد میں لکھایا۔ پھر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے حفاظ سے اس کی نظر ثانی کرائی تاکہ لکھنے والوں سے اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح کروا دی جائے۔ اس کے علاوہ اصل کام حضرت عثمان ؓ نے قرآن کریم کی حفاظت کے متعلق یہ کیا کہ کئی جلدیں لکھواکر تمام اسلامی ممالک میں بھجوا دیں تا کہ لوگوں میں تلاوت کا جو اختلاف تھا وہ مٹ جائے۔ مختلف علاقوں میں مختلف الفاظ ایک ہی مفہوم ادا کرنے کیلئے بولے جاتے ہیں اور جب تعلیم عام ہو جاتی ہے تو وہ اختلاف مٹ جاتا ہے۔
مستشرقینِ یورپ نے قراء توں کے اختلاف کو ایک ایسا رنگ دے دیا ہے کہ عام انسان ان کا جواب دینے سے گھبرا جاتا ہے حالانکہ بات کچھ بھی نہیں پنجاب کے ہی مختلف علاقوں میں ایک ہی مفہوم کے ادا کرنے کے لئے مختلف الفاظ بولے جاتے ہیں۔ مثلاً قادیان کے لوگ اگر پنجابی میں یہ کہنا چاہیں کہ انہوں نے پکڑ لیا ہے تو کہیں گے ’’پھڑ لیا‘‘ لیکن گجرات وغیرہ کے لوگ کہیں گے ’’پھدلیا‘‘ اب کیا کوئی شخص شور مچاتا ہے کہ بڑا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ زبانوں میں اِس قدر اختلاف ہے۔ دلّی والے یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ ہماری اُردو اچھی ہے اور لکھنؤ والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کی اُردو اچھی ہے۔ دہلی والے کیچڑ کہتے ہیں لیکن لکھنؤ والے اس کو کیچ کہیں گے۔ جس طرح ہمارے ہاں زبانوں میں اختلاف ہے اسی طرح عربوں میں بھی بعض اختلاف تھے۔ بعض قبائل میم کی جگہ ب بولتے تھے جیسے مکہ کو بکہ کہہ دیتے تھے۔ جب کسی کو نزلہ و زکام ہوتو وہ میم ادا نہیں کر سکتا۔ اگر وہ میری کہے گا تو منہ سے بیری نکلے گا۔ اُس زمانہ میں آبادیاں بہت دور ہوتی تھیں اگر وہ بیمار ہوتا تو وہ خیمے میں ہی پڑا رہتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ بچے جو تلفظ اس سے سنتے ویسا ہی کہنا شروع کر دیتے۔ ان کو اصل زبان کا علم کیسے ہو سکتا تھا۔ جس طرح ان کے ماں باپ نے ان کے سامنے کوئی لفظ بولا اسی طرح انہوں نے بولنا شروع کر دیا اور وہ اس جگہ کی زبان بن گئی۔ ہم نے کئی دفعہ سنا ہے۔ چھوٹے بچے میری کو میلی کہتے ہیں۔ غرض زبان کے توتلے ہونے یا کسی اور نقص کی وجہ سے جو لفظ بار بار نکلے گا وہی اس علاقے کی زبان بن جائے گا۔ جیسے پنجابی میں ’’پھڑلو‘‘ اور ’’پھدلو‘‘ بن گیا لیکن آہستہ آہستہ جب تعلیم پھیل گئی اور زبان مکمل ہوگئی تو یہ اختلاف مٹ گیا۔ پس یہ قرأت کا اختلاف ایسا نہیں جو قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے متعلق کوئی شُبہ پیدا کر سکے۔
میرا جی چاہتا ہے کہ اختلافِ الفاظ کے اسباب پر ایک کتاب منن الرحمن کے طور پر لکھی جائے جس میں بتایا جائے کہ اختلاف کے کیا اسباب اور وجوہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کی حفاظت میں شُبہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے اور دوسری طرف چلے گئے ہیں حالانکہ یہ ایک نہایت ہی قیمتی چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان نعمت کے طور پر مسلمانوں کو ملی تھی۔ اب جماعت احمدیہ کو اس کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے اور ہمارا کوئی آدمی ایسا نہیں رہنا چاہئے جو قرآن کریم نہ پڑھ سکتا ہو اور جسے اس کا ترجمہ نہ آتا ہو۔ اگر کسی شخص کو اُس کے کسی دوست کا کوئی خط آجائے تو جب تک وہ اُسے پڑھ نہ لے اسے چین نہیں آتا اور اگر خود پڑھا ہوا نہ ہو تو یکے بعد دیگرے دو تین آدمیوں سے پڑھائے گا تب اُسے یقین آئے گا کہ پڑھنے والے نے صحیح پڑھا ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خط آئے اور اس کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ غرباء قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور امراء اِس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جو شخص دنیاوی لحاظ سے کوئی علم رکھتا ہے یا امیر ہے تو اُس کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اس کو قرآن کریم کے پڑھنے کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ایسے لوگ جو کہ تعلیم یافتہ ہیں مثلاً ڈاکٹر ہیں، وکیل ہیں، بیرسٹر ہیں، انجینئر ہیں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مجرم ہیں کیونکہ وہ اگر قرآن مجید پڑھنا چاہتے تو بہت آسانی سے اور بہت جلدی پڑھ سکتے تھے پس ایسے لوگ خداتعالیٰ کے نزدیک زیادہ گنہگار ہیں۔ دوسرے لوگوں کے متعلق تو یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ ان کا حافظہ کام نہیں کرتا تھا لیکن ان لوگوں کے دماغ تو روشن تھے اور حافظہ کام کرتا تھا تبھی تو انہوں نے ایسے علوم سیکھ لئے۔ ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تمہیں دُنیوی علوم کے لئے تو وقت اور حافظہ مل گیا لیکن میرے کلام کو سمجھنے کے لئے نہ تمہارے پاس وقت تھا اور نہ ہی تمہارے پاس حافظہ تھا۔ ایک غریب آدمی کو تو دن میں د س بارہ گھنٹے اپنے پیٹ کے لئے بھی کام کرنا پڑتا ہے لیکن باوجود اس کے وہ قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک امیر آدمی یا ایک ڈاکٹر جن کو چند گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے ان کے لئے قرآن کریم پڑھنا کیا مشکل ہے۔ یہ سب سستی اور غفلت کی علامت ہے اگر انسان کوشش کرے تو بہت جلد اللہ تعالیٰ اس کے لئے رستہ آسان کر دیتا ہے۔ دوسری دنیا تو پہلے ہی دنیا کمانے میں منہمک ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے اگر ہماری جماعت بھی اسی طرح کرے تو کتنے افسوس کی بات ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا علم و ہنر اور دوسری ایجادوں میں تو ترقی کرتی جا رہی ہے لیکن چونکہ قرآن کریم سے دور جا رہی ہے اس لئے وہی چیزیں اس پر تباہی اور بربادی لا رہی ہیں۔ جب تک لوگ قرآن کریم کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے، جب تک قرآن کریم کو اپنا راہبر نہیں مانیں گے یہ اُس وقت تک چین کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہی دنیا کا مداوا ہے ہماری جماعت کو کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا قرآن کریم کی خوبیوں سے واقف ہو اور قرآن کریم کی تعلیم لوگوں کے سامنے بار بار آتی رہے تا کہ دنیا اس مأمن کے سایہ تلے آ کر امن حاصل کرے۔
(الفضل ۳۰؍ جون ۱۹۶۵ء)


سپین اور سِسلی میں تبلیغِ اسلام اور جماعت احمدیہ




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سپین اور سسلی میں تبلغِ اسلام اور جماعت احمدیہ
(فرمودہ ۳۰؍ جون ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب)
اسلامی تاریخی میں ایک نہایت ہی اہم واقعہ سپین پر اسلامی لشکر کا حملہ ہے جس سے یورپ میں اسلام کا قیام ہوا۔ یوں تو سارے انسان ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک جیسے ہیں اور کسی جماعت یا کسی طبقہ کو کسی دوسری جماعت پر کوئی فوقیت نہیں لیکن یورپ اس اسلامی حملہ کے بعد سارے مشرق پر چھا گیا گویا یہ اسلامی حملہ ایسا تھا جس نے ذوالقرنین کے بند کو توڑ دیا۔ یورپ سویا ہوا تھا اسلامی حملہ نے اسے بیدار کر دیا، یورپ غافل تھا اسلامی حملہ نے اسے ہوشیار کر دیا، اس نے بیدار ہوتے ہی ایشیا اور افریقہ پر قبضہ کر لیا۔ مسلمان اگر ہمت دکھاتے اور جو چیز ان کو دی گئی تھی اُسے مضبوطی سے پکڑے رکھتے اور اپنی طاقت کو کمزور ہونے سے بچاتے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی کہ بجائے اِس کے کہ ایشیا یورپ پر قابض تھا آج یورپ ایشیا پر قابض ہے اور بجائے اس کے کہ اسلام کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے یورپ میں عیسائیت کا نام و نشان نہ ملتا آج عیسائیت ایشیا میں اسلام کو کمزور کر رہی ہے۔ مسلمان حملہ کرنے اور ان ممالک کو فتح کرنے کے بعد سب کچھ بھول گئے، وہ اُن عزائم کو بھول گئے جن کا وہ عہد کر کے نکلے تھے اور وہ ان مقاصد کو بھول گئے جن کو حاصل کرنے کے لئے نکلے تھے، اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آپس میں لڑنے لگ گئے اور آپس میں لڑنے کی وجہ سے ان کی طاقت کمزور ہوگئی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو ابھی پچاس ساٹھ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ مسلمان افریقہ پر چھا گئے اور ابھی پہلی صدی باقی ہی تھی کہ انہوں نے سپین پر حملہ کیا اور ایسے جوش سے حملہ کیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا ان کے اندر ایک آگ تھی جو ان کو ہر میدان میں فتح اور کامیابی عطا کرتی تھی۔
ہسپانیہ کو طارق نامی جرنیل نے فتح کیا جو بہت تھوڑی سی فوج کے ساتھ ہسپانیہ میں داخل ہوا۔ اس نے حملہ کرنے سے پیشتر اپنی فوج کے سامنے ایک تقریر کی اور فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم اسلام کے غلبہ کے لئے اِس مُلک میں آئے ہیں۔ (ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسلمانوں نے یونہی سپین پر حملہ نہیں کیا بلکہ سپینی لوگوں نے افریقہ کے مسلمانوں پر حملہ کر کے لڑائی کو مسلمانوں کے لئے جائز کر دیا تھا اس جرنیل نے کہا) یہ مُلک بہت وسیع ہے اور ہماری فوج بہت تھوڑی ہے اتنے وسیع مُلک کو فتح کرنے کیلئے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ممکن ہے کہ اتنے بڑے مُلک کو سَر کرنے کیلئے ہمیں لاکھوں کی فوج کا مقابلہ کرنا پڑے اور بعض مسلمانوں کے دلوں میں بُزدلی پیدا ہو کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکے گا ہمارے لئے واپس جانا بھی ممکن رہے کیونکہ ہمارے جہاز تیار کھڑے ہیں ہم جہازوں پر چڑھ کر بھاگ جائیں گے اس لئے آؤ ہم پہلے اپنے جہاز غرق کریں اور پھر حملہ شروع کریں۔ اگر ہم لڑائی میں فاتح ہونے کی حالت میں زندہ رہے تو ہمیں نئے جہاز مل جائیں گے اور اگر ہم مغلوب ہوگئے تو پھر ہم یہیں مر جائیں گے اور اس ذلّت کی حالت میں واپس نہیں جائیں گے۔ سب نے کہا ہاں ٹھیک ہے پہلے جہازوں کو غرق کرنا چاہئے تا کہ بھاگنے کا خیال بھی کسی کے دل میں نہ آئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے جہاز غرق کر دیئے اور پھر لشکر آگے بڑھا۔ لشکر ابھی تھوڑا ہی آگے بڑھا تھا کہ ہسپانیہ کی فوجیں مقابلہ کے لئے آ گئیں بہت شدت کا رَن پڑا آخر ہسپانیہ کی فوجیں پسپا ہوگئیں۔ کچھ دُور اور آگے بڑھے تو ہسپانیہ کی ایک تازہ دم فوج جو ایک لاکھ کے قریب تھی مقابلہ کے لئے آگے بڑھی۔ چند دن کی شدید جنگ کے بعد مسلمانوں نے اُس فوج کو بھی تتر بتر کر دیا اور اس حصہ پر قابض ہوگئے۔ اس علاقہ کو فتح کرنے کے بعد طارق نے ابوموسیٰ کو جو اصل کمانڈر تھے، افریقہ میں اطلاع بھیجی کہ ہم نے یہ علاقہ فتح کر لیا ہے۔ چونکہ اُس وقت لمبے فاصلے طے کرنے مشکل تھے اور ذرائع رسل و رسائل عام نہ تھے اس لئے مُلک کے ایک گوشہ کو ہی ایک مُلک سمجھ لیا جاتا تھا۔ مثلاً مدراس کو ایک مُلک، بمبئی کو ایک مُلک اور سندھ کو ایک مُلک خیال کیا جاتا تھا۔ اُندلسیہ جو سپین کا نچلا علاقہ ہے یہ بھی اُس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑا علاقہ سمجھا جاتا تھا اُنہوں نے سمجھا کہ ہم نے سپین کو فتح کر لیا ہے حالانکہ سپین کا ایک بہت بڑا حصہ ابھی باقی تھا جس کو بعد میں آہستہ آہستہ مسلمانوں نے فتح کیا۔
جب بنو اُمیہ کو بنو عباس نے شکست دی تو بنو اُمیہ کے بعض شہزادے بھاگ کر سپین چلے گئے اور اُنہوں نے ایک نئی بادشاہت وہاں قائم کر لی جو بعد میں خلافت کے نام میں تبدیل ہوگئی۔ خلافت ۱۳۰۰ عیسوی تک قائم رہی۔ اِس علاقہ پر آٹھ سَو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی اور ان کے آباء اس شان کے تھے کہ یورپ کی بڑی سے بڑی حکومتیں بھی ان سے ڈرتی تھیں لیکن جو بیٹے پیدا ہوئے وہ معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑ پڑتے تھے۔ اس وجہ سے وہ اتحاد قائم نہ رکھ سکے۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر عیسائیوں کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے باہم اتحاد کر کے ایک ایک کر کے مسلمانوں کے علاقے فتح کرنے شروع کئے۔ وہ ایک رئیس کو دوسرے رئیس سے لڑوا دیتے اور ان میں سے ایک کی مدد کر دیتے۔ اس طرح انہوںنے مسلمانوں کی طاقت کو بالکل کمزور کر دیا اور مسلمانوں کا آخری بادشاہ صرف غرناطہ کابادشاہ رہ گیا لیکن ابھی تک اُس میں اتنی طاقت تھی اور اُس کا اتنا رُعب تھا کہ باوجود اس کے کہ فرانس بھی عیسائیوں کی مدد پر تھا ان کے لئے غرناطہ کا شہر فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ـ عیسائیوں نے مسلمان رؤساء کو اپنے ساتھ ملایا اس کے علاوہ سارے سپین، فرانس اور اِردگرد کے علاقوں نے بھی اپنی نمائندہ فوجیں بھیجیں لیکن اِس کے باوجود وہ اس شہر کو فتح نہ کر سکے۔ آخر عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ نے یہ سوچ کر کہ اس شہر کو فتح کرنا آسان کام نہیں، غرناطہ والوں کے سامنے یہ پیش کیا کہ اگر صلح کر لو تو ہم تمہیں اجازت دیں گے کہ اپنا سامان ساتھ لے جاؤ اور کتب خانے بھی لے جاؤ ہم کوئی تعرّض نہ کریں گے۔ جب یہ شرائط عیسائی بادشاہ نے پیش کیں تو مسلمان بادشاہ نے بڑے بڑے مسلمان رؤساء کو بُلایا اور اُن کے سامنے یہ شرائط پیش کیں۔ انہوں نے کہا ہاں ہمیںمنظور ہے۔ وہ لمبے محاصرہ کی وجہ سے گھبرائے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے بخوشی منظور کرنا پسند کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ ہم دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور اگر زیادہ دیر تک محاصرہ رہا تو ہم ہتھیار رکھ دینے پر مجبور ہوں گے۔ اُس وقت ایک مسلمان جرنیل کھڑا ہوا اور اُس نے کہا سَوسال سے عیسائی تمہارے ساتھ یہ سلوک کرتے آ رہے ہیں کہ وہ ایک حکومت سے معاہدہ کرتے ہیں اور دوسری پر حملہ کر دیتے ہیں اور اُس طرح آہستہ آہستہ انہوں نے ہماری ساری طاقت کو ختم کر دیا ہے کیا اب بھی تمہاری آنکھیں نہیں کھلیں؟ ایک یہ جگہ رہ گئی ہے جہاں اسلام کا جھنڈا لہراتا ہے کیا اسے بھی تم دشمن کے حوالہ کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں اپنے آباء واجداد کی شان بھول گئی ہے جب کہ پوپ تک ان سے ادب و احترام سے پیش آتے تھے۔ وہ لوگ نہایت عزت کی زندگیاں بسر کرتے ہوئے ہم سے رُخصت ہوئے اور یہ امانت ہمارے سپرد کر گئے۔ اگر آپ لوگ آج ہتھیار ڈال دیں گے تو اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں سے سرنِگوں کرنے والے ہوں گے۔ جب اُس نے بات ختم کی تو سب نے کہا پھر کوئی علاج بتاؤ کہ اب کیا کیا جائے؟ اُس نے کہا علاج یہی ہے کہ جوانمردی اور بہادری سے مرتے ہوئے جان دے دو لیکن ہتھیار نہ رکھو۔ آخر تم میں سے کون ہے جس نے مرنا نہیں۔ اگر ہر ایک نے مرنا ہے تو پھر چارپائی پر ذلّت کی موت سے یہ بہادری کی موت ہزار درجے بہترہے اور اگر تم اپنی جانوں کو عزیز سمجھے اور ان کی قربانی کے لئے تیار نہ ہوئے تو آئندہ نسلیں تم پر *** بھیجیں گی کہ ہمارے آباء و اجداد نے اسلام کا جھنڈا اپنے ہاتھوں سے سرنِگوں کر دیا تھا۔ اُس کی اِس تقریر نے بہت سے رؤساء کے دلوں میں جوش پیدا کر دیا اور بادشاہ اور رؤسا نے کہا یہ ٹھیک کہتا ہے ہمیں ایسا ہی کرنا چاہئے اور اپنی روایات کو برقرار رکھنا چاہئے لیکن کچھ بُزدل رؤساء نے کہا یہ تو پاگلوں والی بات ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اگر ہم مقابلہ کریں گے تو ہماری ہلاکت یقینی ہے تو پھر ہمارا لڑنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہمیں ان کی شرائط کو قبول کر لینا چاہئے۔ جب وہ ہمیں اپنے کتب خانے، اپنے اسباب اور اپنے اموال لے جانے کی اجازت دیتے ہیں اور ہمارے رستے کھلے چھوڑتے ہیں تو ہمیں ان شرائط کے قبول کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس پر پھر وہ جرنیل کھڑا ہوا اور اُس نے کہا کیا عیسائیوں نے پہلی دفعہ یہ معاہدہ کیا ہے کہ ہمیں ان کے رویہ کا علم نہیں؟ وہ سَو سال سے معاہدے کرتے اور توڑتے چلے آتے ہیں اس حالت میں ہمیں ان کے اس معاہدہ پر کیا اعتبار ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے رستے میں روک نہیں بنیں گے۔ اس کے جواب میں رؤساء نے کہا یہ ضروری نہیں کہ جو شخص دس دفعہ جھوٹ بولتا ہے، وہ گیارہویں دفعہ بھی ضرور جھوٹ بولے، ہو سکتا ہے کہ وہ اس دفعہ ایفائے عہد کر دیں اور ہم صحیح سلامت اپنے وطنوں کو چلے جائیں۔ ان کا یہ جواب سن کر اُس جرنیل نے کہا بہت اچھا اگر آپ کو اپنی زندگیاں پیاری ہیں تو آپ ہتھیار رکھ دیں میں تو اس قسم کی زندگی سے مرنا بہتر سمجھتا ہوں۔ چنانچہ وہ اپنی تلوار لے کر باہر نکلا اور اکیلا ہی دشمنوں کا مقابلہ کرتا ہوا مارا گیا۔ باقی لوگوں نے ہتھیار رکھ دیئے۔ غرناطہ کا بادشاہ اپنے شہر سے کچھ دور نکل کر ایک ٹیلے پر چڑھ گیا جہاں سے سب شہر نظر آتا تھا وہاں کھڑا ہو کر اس نے شہر پر نظر ڈالی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اُس کی بیوی بھی اُس کے ساتھ تھی، معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی بیوی میں کچھ اسلامی روح پائی جاتی تھی، اس نے بادشاہ سے کہا مردوں کا کام تو تونے کیا نہیں، بجائے اس کے کہ تم لڑتے ہوئے اپنی جان دے دیتے تم نے ذلّت کی زندگی پسند کی اب روتے کیوں ہو؟ رونا تو ہم عورتوں کا کام تھا جب ہم نہیں روتیں تو تم کیوں روتے ہو؟ بہرحال جہازوں میں کتب خانے اور مال و اسباب سب کچھ لاد کر وہ لوگ واپس اپنے وطنوں کو چلے۔ ابھی کچھ دُور ہی گئے تھے کہ عیسائیوں نے جہاز غرق کر دیئے اور صرف چند مسلمان کشتیوں کے ذریعہ واپس اپنے وطن میں پہنچے باقی سب غرق ہوگئے۔ اس مُلک میں آج تک مسلمانوں کے بنائے ہوئے عالیشان محلات موجودہیں۔ غرناطہ اور قرطبہ میں اِس اِس قسم کے محلات تھے کہ تاج محل اُن کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ انسان جب ان کے کھنڈرات کی تصویروں کو بھی دیکھتا ہے تو عش عش کر اٹھتا ہے۔ غرناطہ میں ہزاروں ہزار باغات تھے۔ مسلمانوں کے وقت مُلک میں جگہ جگہ لائبریریاں تھیں۔ بعض کتب میں لکھا ہے کہ چھ سات سَو کے قریب وہاں لائبریریاں تھیں اور بعض لائبریریوں میں لاکھ لاکھ، ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کتابیں تھیں۔ سارا یورپ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتا تھا۔ جس طرح آج لوگ برلن اور انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں یہی حال اُس وقت قرطبہ اور غرناطہ کا تھا اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں اُٹھارہویں صدی تک وہاں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔ جس مُلک میں مسلمانوں نے اِس شان سے حکومت کی آج وہاں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملتا۔ کوئی غیر مُلک سے وہاں تعلیم کے سلسلہ میں یا اور کسی کام کے لئے گیا ہو تو اور بات ہے لیکن اس مُلک کا کوئی باشندہ مسلمان نظر نہیں آئے گا۔وہ لوگ جنہوں نے سینکڑوں سال تک سپین پر حکومت کی وہ آج سپین کے زیرِنگیں ہیں اور وہ لوگ جو سپین کے بادشاہ تھے آج سپین کے غلام ہیں۔ یہ واقعات ایسے اہم ہیں جن کو کسی وقت بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ آٹھ سَو سال کی حکومت کوئی معمولی بات نہیں لیکن آج اس مُلک کی یہ حالت ہے کہ اس میں کسی مسلمان کی ہوا تک سونگھنے کو نہیں ملتی۔
اُس زمانہ میں جس وقت مسلمان سپین پر حکومت کرتے تھے یورپ میں ایک دوسرا مقام بھی تھا جو سپین سے اُتر کر دوسرے نمبر پر تھا۔ مسلمانوں میں عام طور پر ہسپانیہ مشہور ہے اور عام لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اُندلس کی یہ بات ہے اور وہ بات ہے لیکن اِس حکومت کو عوام الناس نہیں جانتے۔ یہ صقلیہ کی حکومت تھی جو سپین سے دوسرے نمبر پر تھی اور بڑی شان و شوکت سے اس پر اسلام کا جھنڈا لہراتا تھا اور یورپ کی بڑی بڑی حکومتیں اس سے خائف اور لرزاں تھیں۔ صقلیہ وہ علاقہ ہے جسے آجکل سِسلی کہتے ہیں۔ یہ ایک جزیرہ ہے جو اٹلی کے نچلے حصہ میں ہے۔ پُرانے زمانہ میں یہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا اور وہ بحیرہ روم پر پورے طور پر قابض تھے اور کسی حکومت کی طاقت نہ تھی کہ ان کی اجازت کے بغیر تجارتی جہاز اس میں سے گزار سکے مسلمانوں کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں یہاں تھیں۔صقلیہ پر مسلمانوں کا حملہ ۶۴۵ء یا ۶۵۰ء میں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے تھوڑے عرصہ بعد ہی ہو گیا تھا۔ بنو اُمیہ نے جہاں سپین کی طرف رُخ کیا وہاں انہوں نے صقلیہ کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کی لیکن صرف کناروں کا علاقہ فتح کر کے چھاؤنیاں قائم کیں اور باقی اسی طرح پڑا رہا۔ اس کے بعد سپین والوں اور افریقہ کی حکومتِ اسلامی نے اپنے عساکر بھیج کر باقی علاقہ کو فتح کیا۔ یہ علاقہ قریباً تین سَو سال تک مسلمانوں کے ماتحت رہا۔ یہ علاقہ مسلمانوں نے بہت مشکل سے فتح کیا، ایک لمبے عرصہ تک لڑائی جاری رہی اور اندازاً ۱۳۸ سال میں جا کر یہ سارا علاقہ اسلامی حکومت کا حصہ بنا۔ اِس علاقہ کے لوگ بہت جفاکش، محنتی اور جنگجو تھے اِس لئے یورپ کی بڑی بڑی حکومتیں بھی اسے فتح نہیں کر سکتی تھیں مگرمسلمانوں نے ایک لمبی جنگ کے بعد اسے سَر کیا اور اڑھائی تین سَو سال تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا۔ مسلمانوں نے اسے تمام علوم و فنون کا مرکز بنایا۔ دُور دُور کے ملکوں سے طالب علم یہاں تحصیل علم کی خاطر آتے تھے اور تمام قسم کے علوم کی یونیورسٹیاں یہاں پائی جاتی تھیں اور مسلمان سب سے معزز لوگ اس علاقہ میں سمجھے جاتے تھے اور کوئی قوم ان کے مقابلہ میں ٹھہر نہ سکتی تھی لیکن جو سپین والوں کا حشر ہوا وہی ان کا ہوا۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو صقلیہ کی سرزمین سے اس طرح چن چن کر نکالا کہ آج وہاں کوئی مسلمان دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اگر کوئی مسلمان مُردہ دل ہو تو اور بات ہے ورنہ ایک غیرت رکھنے والے مسلمان کے دل پر ان حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو زخم لگتے ہیں ان کے اندمال کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ وہ اپنا خونِ دل پیتا رہے۔ اُندلس میں مسلمانوں کو جو شان و شوکت حاصل تھی اور پھر اس کے بعد جو سلوک وہاں کے مسلمانوں سے کیا گیا، اسی طرح صقلیہ میں مسلمانوں کا جو رُعب و دبدبہ تھا اور اس کے بعد جس طرح انہیں وہاں سے نکالا گیا۔
جب میں نے یہ حالات تاریخوں میں پڑھے تو میں نے عزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے مبلغین بھجواؤنگا جو اسلام کو دوبارہ ان علاقوںمیں غالب کریں اور اسلام کا جھنڈا دوبارہ اس مُلک میں گاڑ دیں۔ پہلے میں نے ملک محمد شریف صاحب کو اس مُلک میں بھیجا لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہاں اندرونی جنگ شروع ہوگئی اور قونصل سپین کے انگریزی قونصل (COUNSEL) نے ان سے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ پھر میں نے ان کو اٹلی بھیج دیا مگر اب جو نئے وفود گئے ہیں ان میں مَیں نے سپین کو بھی مدنظر رکھا اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغ سپین کے دارالسلطنت میڈرڈ میں پہنچ گئے ہیں جیسا کہ اخبار میں شائع ہو چکا ہے۔ دو آدمی اتنے بڑے علاقہ کیلئے کافی نہیں ہو سکتے اور ہمیں اس کے لئے مزید کوشش جاری رکھنی ہوگی مگر سرِدست ہم ان دو کو ہی ہزاروں کا قائمقام سمجھتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جو لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں اکثر اوقات مسلمانوں کی قلت ہوتی تھی۔ شام کی لڑائی میں سپاہیوںکی بہت کمی تھی حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ دشمن بہت زیادہ تعداد میں ہے اس لئے اور فوج بھیجنے کا بندوبست فرما دیں۔ حضرت عمرؓ نے جائزہ لیا تو آپ کو نئی فوج کابھرتی کرنا ناممکن معلوم ہوا کیونکہ عرب کے اِردگرد کے قبائل کے نوجوان یا تو مارے گئے تھے یا سب کے سب پہلے ہی فوج میں شامل تھے۔ آپ نے مشورہ کے لئے ایک جلسہ کیا اور اس میں مختلف قبائل کے لوگوں کو بُلایا اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک قبیلہ ایسا ہے جس میں کچھ آدمی مل سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک افسر کو حکم دیا کہ وہ فوراً اس قبیلہ میں سے نوجوان جمع کریں اور حضرت ابوعبیدہ کو لکھا کہ چھ ہزار سپاہی تمہاری مدد کے لئے بھیج رہا ہوں جو چند دنوں تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے۔ تین ہزار آدمی تو فلاں فلاں قبائل میں سے تمہارے پاس پہنچ جائیں گے اور باقی تین ہزار کے برابر عمرو بن معدی کرب کو بھیج رہا ہوں۔ ہمارے ایک نوجوان کو اگر تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں بھیجا جائے تو وہ کہے گا کہ کیسی خلافِ عقل بات ہے۔ کیا خلیفہ کی عقل ماری گئی ہے۔ ایک آدمی کبھی تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے لیکن ان لوگوں کے ایمان کتنے مضبوط تھے۔ حضرت ابوعبیدہؓ کو حضرت عمرؓ کا خط ملا تو انہوں نے خط پڑھ کر اپنے سپاہیوں سے کہا خوش ہو جاؤ کل عمرو بن معدی کرب تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔ سپاہیوں نے اگلے دن بڑے جوش کے ساتھ عمرو بن معدی کرب کا استقبال کیا اور نعرے لگائے۔ دشمن سمجھا کہ شاید مسلمانوں کی مدد کے لئے لاکھ دو لاکھ فوج آ رہی ہے اس لئے وہ اِس قدر خوش ہیں حالانکہ وہ اکیلے عمرو بن معدی کرب تھے۔ اس کے بعد وہ تین ہزار فوج بھی پہنچ گئی اور مسلمانوںنے دشمن کو شکست دی حالانکہ تلوار کی لڑائی میں ایک آدمی تین ہزار کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ زبان کی لڑائی میں تو ایک آدمی بھی کئی ہزار لوگوں کو اپنی بات پہنچا سکتا ہے مگر وہ لوگ خلیفۂ وقت کی بات کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے عمرو بن معدی کرب کو تین ہزار سپاہیوں کا قائمقام بنا کر بھیجا تو سپاہیوں نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اکیلا آدمی کس طرح تین ہزار کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اسے تین ہزار کے برابر ہی سمجھا اور بڑی شان و شوکت سے اُس کا استقبال کیا۔ مسلمانوں کے اِس استقبال کی وجہ سے دشمن کے دل ڈر گئے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید لاکھ دو لاکھ فوج مسلمانوں کی مدد کو آگئی ہے اس لئے میدانِ جنگ سے ان کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ شکست کھا کر بھاگ نکلے۔ سرِدست ہمیں بھی اس طرح اپنے دل کو اطمینان دینا ہوگا۔
صقلیہ کے لوگ آج کل اپنی آزادی کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ اس علاقے کے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایا گیاتھا لیکن امتدادِ زمانہ کی وجہ سے وہ اب اپنے آبائی مذہب کو بالکل بھول گئے ہیں۔ صقلیہ میں رہنے والوں میں سے لاکھوں ایسے ہیں جو مخلص دیندار اور پرہیز گار مسلمانوں کی اولادیں ہیں۔ ان کے آباء و اجداد اسلام کے فدائی اور بہت متقی لوگ تھے لیکن یہ لوگ اسلام سے بالکل غافل ہیں اور عیسائیت کو ہی اپنا اصلی مذہب سمجھتے ہیں۔ میں نے اٹلی کے مبلّغین کو لکھا کہ آپ اِس علاقہ میں تبلیغ پر زور دیں کیونکہ ہو سکتاہے کہ ان کے آباء واجداد کی ارواح کی تڑپ اور ان کی نیکی ان کی اولادوں کو اسلام کی طرف لے آئے۔ پہلا خط ان کا جو مجھے پہنچا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم اب روم سے آگئے ہیں اور صقلیہ کی طرف جا رہے ہیں۔ پھر ان کا دوسرا خط مجھے پہنچا کہ ہم مسینا میں پہنچ گئے ہیں۔ لوگ ہمارے لباس کو دیکھ کر جوق در جوق ہمارے اِردگرد جمع ہو جاتے ہیں ہم ان کو یہ وعظ کرتے ہیں کہ تمہارے باپ دادے تو مسلمان تھے تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اسلام سے دُور چلے گئے ہو اب دوسرا مسیح آ گیا ہے آؤ اور اس کے ذریعہ حقیقی اسلام میں داخل ہو جاؤ۔ تیسرا خط ان کا مجھے آج ملا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے دو نوجوان احمدی ہوگئے ہیں دونوں بہت جوشیلے احمدی ہیں، احمدیت کی تبلیغ کا بہت جوش رکھتے ہیں۔ ایک کا نام ہم نے محمود رکھا ہے اور دوسرے کانام بشیر رکھا ہے۔ ان کاخط بھی مجھے آیا ہے جس میں انہوں نے بیعت کا لکھا ہے۔ ہمارے لئے یہ حالات خوش کن ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ یہ دونوں مُلک ہمارے ذریعہ پھر اسلام کا گہوارہ بن جائیں لیکن جہاں ہمارے مبلّغین بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ہماری طرف سے فریضۂ تبلیغ ادا کر رہے ہیں وہاں ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کی امداد صحیح طور پر کریں اور ان کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مبلّغین کا تو بیرونی ممالک میں یہ حال ہے کہ ان میں سے ایک یعنی ماسٹر محمد ابراہیم صاحب نے جنگل میں جاکر درختوں کے پتے کھا کر پیٹ بھرا اور دوسرے بھی نہایت تنگی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں لیکن ہمارے لوگ یہاں تحریک جدید کے چندوں سے بھی گریز کرتے ہیں اور جماعت کا اکثر حصہ ایسا ہے جس نے اِس تحریک میں حصہ نہیں لیا۔ پہلے دَور میںپانچ ہزار آدمیوں نے حصہ لیا تھا لیکن تحریک جدید کے دفتر دوم میں ابھی تک ان سے چوتھائی آدمیوں نے بھی حصہ نہیں لیا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جس طرح پُرانے لوگ اپنے گھروں سے بے سروسامانی کی حالت میں تبلیغ کے لئے نکل پڑتے تھے اسی طرح میری تحریک پر ہزاروں احمدی ٹڈی دل کی طرح پیدل ہی تبلیغ کے لئے نکل پڑتے۔ مگر جن کو خود توفیق نہیں ملی ان کا اتنا تو فرض تھا کہ وہ اپنے گھروں کے اموال تبلیغِ احمدیت کے لئے گھروں سے باہر نکال کر خلیفہ کے سامنے پھینک دیتے۔ اگر وہ ایساکرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے قربانی کا صحیح نمونہ پیش کیا ہے مگر کتنے ہیں جنہوں نے ایسا نمونہ پیش کیا۔
دفتر دوم میں پچھلے سال ۶۰ ہزار کے وعدے آئے تھے اور اِس سال ۷۷ ہزار کے وعدے آئے ہیں۔ اِس ۷۷ ہزار میں سے صرف ۲۴ ہزار کی ابھی تک وصولی ہوئی ہے۔ سات ماہ گزر چکے ہیں اور ابھی صرف ایک تہائی وصولی ہوئی ہے حالانکہ ہمارا موجودہ خرچ ساڑھے تین لاکھ سالانہ سے بھی زیادہ ہے جہاں ساڑھے تین لاکھ سالانہ کی ضرورت ہو وہاں ۷۷ ہزار کیا کام دے سکتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے تحریک جدید کے معاملہ میں کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ یہ ۷۷ ہزار کا وعدہ نوجوانوں کی طرف سے ہے کیونکہ پُرانے لوگ تو دورِاوّل میں شامل ہو چکے ہیں۔ دفتر دوم نوجوانوں کے لئے جاری کیا گیا تھا کہ وہ اُس بوجھ کو اُٹھانے کی کوشش کریں جو اِن سے قبل پانچ ہزاری فوج نے اُٹھایا ہے۔ دفتر دوم سے جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں مَیں پہلے ایک ریزرو فنڈ قائم کرنا چاہتا ہوں تا کہ جب دفتر دوم والوں کے کام کرنے کا وقت آئے ان کا بھی ایک مضبوط ریزروفنڈ ہو لیکن جو رفتار اِس وقت دفتر دوم کی ہے اس کے لحاظ سے تو صرف پانچ چھ لاکھ کا ریزروفنڈ قائم ہو سکتا ہے اور یہ فنڈ اِس قابل نہیں جو آئندہ آنے والے اخراجات کا متحمل ہو سکے۔ اب ہمارا خرچ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ ہے اور اتنے بڑے اخراجات کو چلانے کیلئے بیس پچیس لاکھ کا ریزرو فنڈ ہونا چاہئے تا کہ وقتی کمی کو پورا کیا جا سکے اور ہنگامی کاموں کے علاوہ دوسرے مستقل اخراجات کا انتظام اِسی سے کیا جائے۔ اگر ہمارے نوجوانوں میں پہلی پانچ ہزاری فوج والا ہی اخلاص ہوتا اور ان کی طرح دفتر دوم کی آمد بھی تین لاکھ روپیہ سالانہ ہو جاتی تو نو سال کے عرصہ میں ۲۷ لاکھ کا ایک اچھا ریزرو فنڈ قائم ہو سکتا تھا اور اگر ہم پانچ فی صدی آمد بھی فرض کریں تو اس ریزروفنڈ سے ہمیں ایک لاکھ پینتیس ہزار کی سالانہ آمد ہو سکتی تھی اور دس سال کے عرصہ میں اس کی اتنی آمد ہو سکتی تھی کہ اس سے دفتر دوم کے تبلیغی پروگرام کی اہم ضروریات کا بوجھ اُٹھایا جا سکتا تھا۔
جماعت کی پہلی پانچ ہزاری فوج نے چار سَو مربع زمین خریدی ہے اور اب اس سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کی سالانہ آمد ہو جاتی ہے اور امید ہے کہ یہ آمد دو اڑھائی لاکھ تک پہنچ جائے گی اِنْشَائَ اللّٰہُ اور اس کی وجہ سے جب پہلے دفتر کے مجاہدین کے چندہ دینے کی مدت ختم بھی ہو جائے گی تب بھی کسی مُلک میں ان کے ریزروفنڈ سے تبلیغ ہوتی رہے گی اور ان کے لئے قیامت تک کے لئے ثواب کی صورت ہو جائے گی اور جب تک ہمارا نظام قائم رہے گا اُس وقت تک وہ ثواب کے مستحق رہیں گے اِنْشَائَ اللّٰہُ۔ـ ایک مشن کے ذریعہ اگر لاکھوں آدمی اسلام قبول کرتے ہیں تو ان لاکھوں آدمیوں کے مسلمان بنانے میں ان کا بھی حصہ ہوگا اور خواہ ان پر پانچ پشتیں گزر جائیں، خواہ دس پشتیں گزر جائیں، خواہ بیس پشتیں گزر جائیں، اُن کو اِس کارِخیر کا ثواب ملتار ہے گا۔ کیا یہ چھوٹی بات ہے اور کیا اسے کوئی مؤمن معمولی بات سمجھ سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ انگلستان یا امریکہ یا فرانس یا دوسرے ممالک میں لاکھوں انسان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بُرا کہنے والے تھے،آپ کے نام لیوا بن جائیں، کیا یہ معمولی بات ہے؟ مگر مجھے افسوس ہے کہ نوجوانوں نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔ نہ ہی قادیان کے نوجوانوں نے اِس کی اہمیت کو سمجھا ہے اور نہ ہی باہر والوں نے اپنے فرض کو کماحقہٗ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے کثرت سے اہم مقامات پر نئے تبلیغی رستے کھل رہے ہیں اور وہاں سے پیاسی روحیں پکار رہی ہیں کہ ہماری سیرابی کا کوئی انتظام کیا جائے لیکن ہمارے پاس نہ اتنی تعداد میں آدمی ہیں کہ ہم ہر آواز پر ایک وفد بھیج دیں اور نہ ہی وفود کے بھیجنے کے لئے اخراجات ہیں۔ ایسے حالات میں ایک مؤمن کا خون کھولنے لگتا ہے، خصوصاً سپین اور صقلیہ کے واقعات کو پڑھ کر تو اس کا خون گرمی کی حد سے نکل کر اُبلنے کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ جہاں ہمارے آباء واجداد نے سینکڑوں سالوں تک حکومتیں کیں اور وہ ان ممالک کے بادشاہ رہے وہاں مسلمانوں سے یہ سلوک کیا گیا کہ ان کو جبراً عیسائی بنا لیا گیا اور آج وہاں اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔ پھر یہ علاقے اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہاں سے تمام یورپین ملکوں میں تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں۔ پس ِاس فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی، ضرورت ہے متواتر قربانی کی، ضرورت ہے بلند عزائم کی، تمہاری موجودہ قربانی دوسروں پر کوئی اثر نہیں کر سکتی کیونکہ ہم اس کو قربانی کہہ ہی نہیں سکتے سوائے چند افراد کے جنہوں نے قربانی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے لیکن جب تک جماعت بحیثیت جماعت قربانی کانمونہ پیش نہیں کرتی وہ دشمن کو مرعوب نہیں کر سکتی۔ بیشک آفتاب آفتاب ہے لیکن اگر لاکھ دو لاکھ بتیاں بھی کسی میدان میں رکھ دی جائیں تو وہ بھی اس کو جگمگا دیتی ہیں۔ ہماری جماعت اِس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہے اگر یہ لاکھوں شمعیں جل پڑیں تو وہ ایک بہت بڑے مُلک کو جس میں ۵۰ یا ۶۰ لاکھ انسان رہتے ہوں بقعۂ نور بنا سکتی ہیں لیکن ضرورت ہے تقویٰ کی اور ایمان کی۔
پس تم اپنی جماعتی قربانی کے ذریعہ سے سورج بننے کی کوشش کرو تم برسات کا پتنگا نہ بنو جو پیدا ہوتا اور مر جاتا ہے۔
میں نے جماعت کو ان باتوں کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے لیکن اس کی جمود کی حالت زائل ہی نہیں ہوتی۔ مَیں تم سے پوچھتا ہوں کیا ہمارے دل پتھر ہوگئے ہیں؟ کیا ہم انسان نہیں رہے؟ کیا ہمارے دلوں میں درد نہیں رہا؟ کیا ہمارے دلوں میں ٹیس نہیں اُٹھتی؟ ہم کیوں اِن واقعات کو پڑھ کر پاگل نہیں ہو جاتے اور اگر اِن واقعات کو پڑھنے کے بعد بھی ہمارے دلوں میں کوئی غیرت پیدا نہیں ہوتی تو سوائے اِس کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم بے ایمان ہوگئے ہیں، ہم بے غیرت ہوگئے ہیں اور ہمارے دل یخ ہوگئے ہیں کہ ان پر کوئی چیز اثر ہی نہیں کرتی۔ اب تو ایسا زمانہ آچکا ہے کہ ہمارے لوگوں کو چاہئے وہ آدمی نظر نہ آئیں بلکہ موتیں نظر آئیں کیونکہ جس کو دنیا موت سمجھتی ہے اُس کا رستہ چھوڑ دیتی ہے اور اُس کا مقابلہ کرنے سے گھبراتی ہے۔ بدر کی جنگ میںکفار نے ایک شخص کو صحابہؓ کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے بھیجا۔ اس نے واپس جا کر کہا، ہَیں تو وہ تین سَو کے قریب لیکن تم یہ سمجھ لو کہ گھوڑوں پر آدمی سوار نہیں بلکہ موتیں سوار ہیں۔ ۱؎ اگر وہی عزم اور وہی ارادہ تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو کیا امریکہ اور کیا انگلستان اور کیا روس اور کیا جرمنی سب کے سب مل کر بھی تمہیں مار نہیں سکتے اور دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مٹا نہیں سکتی کیونکہ جو شخص مجسم موت بن جائے اُس پر موت طاری نہیں ہو سکتی۔
(الفضل قادیان ۱۷؍ جولائی ۱۹۴۶ء)
۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ


یورپ کا پہلا شہید شریف دوتسا





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
یورپ کا پہلا احمدی شہید شریف دوتسا
اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دوتسا ایک البانوی سرکردہ اور رئیس جو البانیہ اور یوگوسلاویہ دونوں ملکوں میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے (دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور البانیہ کی سرحد پر رہنے والے یوگوسلاویہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور بارسوخ ہیں اور دونوں ملکوں میں ان کی جائدادیں ہیں۔ عزیز م مولوی محمد الدین صاحب اس علاقہ میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے بعد میں مسلمانوں کی تنظیم سے ڈر کر انہیں یوگوسلاوین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اور وہ اٹلی آگئے) اور جو یوگوسلاویہ کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندے تھے جنگ سے پہلے احمدی ہوگئے تھے اور بہت مخلص تھے انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کمیونسٹ ہے ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کمیونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جو مسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوَنَ۔
مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو الٰہی مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے۔ شریف دوتسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور اَلْفَضْلُ لِلْمُتَقَدِّمِ کے مقولہ کے تحت اپنے بعد میں آنے والے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہو کر وہ ان کے ثواب میں شریک ہونگے۔ برادرم شریف کے خاندان میں سے ان کا بڑا لڑکا بہرام زندہ ہی ہے اور وہ اس وقت مسلمانوں کے ایک ایسے گروہ کا جو البانیہ میں اسلامی حکومت کا خواہاں ہے سردار ہے۔ وہ اِس وقت پہاڑوں میں بیٹھ کر مسلمانوں کی قیادت کر رہا ہے اور کمیونسٹ حکومت سے برسرِ پیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عزیز کی حفاظت کرے اور اگر اس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو اسے کامیاب کرے اور اگر بظاہر بُری نظر آنے والی البانین کمیونسٹ حکومت آئندہ اسلام کیلئے مفید اور کارآمد ثابت ہونے والی ہے تو اسے اس سے صلح اور اتحاد کی توفیق بخشے کہ علمِ غیب اللہ ہی کو ہے اور ۱؎ نہ صرف الٰہی فرمان ہے بلکہ بار بار انسان کے تجربہ میں آچکا ہے۔ اَلّٰلھُمَّ اٰمِیْنَ۔ دوست اپنی دعاؤں میں عزیز بہرام کے لئے دعا کرتے رہا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حافظ و ناصر ہو اور اسے صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے۔
بعض اور ذمہ دار فوجی افسر بھی البانیہ میں احمدی ہیں نہ معلوم ان کا کیا حال ہے۔ احباب ان کیلئے بھی دعا کرتے رہا کریں۔ یہ واقعہ ہمارے لئے تکلیف دِہ بھی ہے اور خوشی کا موجب بھی۔ تکلیف کا موجب اس لئے کہ ایک بارسوخ آدمی جو جنگ کے بعد احمدیت کی اشاعت کا موجب ہو سکتا تھا ہم سے ایسے موقع پر جدا ہو گیا جب ہماری تبلیغ کا میدان وسیع ہو رہا تھا اور خوشی کا اس لئے کہ یورپ میں بھی احمدی شہداء کا خون بہایا گیا۔ وہ مادیت کی سرزمین جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دور بھاگ رہی تھی اور وہ علاقہ جو کمیونزم کے ساتھ دہریت کو بھی دنیا میں پھیلا رہا تھا وہاں خدائے واحد کے ماننے والوں کا خون بہایا جانے لگا ہے۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا اِس کا ایک ایک قطرہ چِلاّ چِلّا کر خداتعالیٰ کی مدد مانگے گا، اس کی رطوبت کھیتوںمیں جذب ہو کر وہ غلّہ پیدا کرے گی جو ایمان کی راہ میں قربانی کرنے کیلئے گرم اور کھولتا ہوا خون پیدا کرے گا، جو لوگوں کی رگوں میں دَوڑ دَوڑ کر انہیں میدانِ شہادت کی طرف لے جائے گا۔ اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے مؤمن اِس چیلنج کو قبول کریں گے اور شوقِ شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو اور سعادت مندوں کے سینے کھول دے تا اسلام اور احمدیت کی فوج میں کمی نہ آئے اور اس کیلئے روز بروز زیادہ سے زیادہ مجاہد ملتے جائیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
اے ہندوستان کے احمدیو! ذراغور تو کرو۔ تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دن لائی ہیں تم شہید تو نہیں ہوئے مگر تم شہید گر ضرور ہو۔ افغانستان کے شہداء ہندوستان کے نہ تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں کی ہی قربانیوں کے طفیل حاصل ہوئی۔ مصر کا شہید ہندوستانی تو نہ تھا مگراسے بھی ہندوستانیوں ہی نے نورِ احمدیت سے روشناس کروایا تھا۔ اب یورپ کا پہلا شہید گو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا جس نے اس کے اندر اسلام کا جذبہ پیدا کیا، کون تھا جس نے اسے صداقت پر قائم رہنے کی ہمت دلائی؟ بے شک ایک ہندوستانی احمدی۔ اے عزیزو! فتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آ رہی ہے مگر جوں جوں وہ قریب آ رہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کے لئے ناکافی ثابت ہو رہی ہیں۔ نئے مسائل نئے زاویۂ نگاہ چاہتے ہیں، نئے اہم امور ایک نئے رنگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں اب ہماری سابق قربانیاں بالکل ویسی ہی ہیں جیسے ایک جوان کے لئے بچہ کا لباس۔ کیا وہ اس لباس کو پہن کر شریفوں میں گنا جا سکتا ہے یا عقلمندوں میں شمار ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو جان لو کہ اب تم بھی آج سے پہلے کی قربانیوں کے ساتھ وفاداروں میں نہیں گنے جا سکتے اور مخلصوں میں شمار نہیں ہو سکتے۔ اب جہاد ایک خاص منزل پر پہنچنے والا ہے۔ پہلا دَور مصیبتوں کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ رسالت کے ابتدائی دَور کے مشابہہ تھا گزر گیا۔ اب دوسرا دَور چل رہا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وادی میں نظر بند ہونے کے مشابہہ ہے۔ آج اگر ہم نے اس دور کے مطابق قربانیاں نہ کیں تو ہمارا ٹھکانا کہیں نہ ہوگا۔ ہماری مثال اِس صورت میں اُس شخص کی سی ہوگی جو منار کی چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے۔ مبارک ہے وہ جو منار پر چڑھ جاتا ہے مگر اُس سے زیادہ بدقسمت بھی کوئی نہیں جو مینار کی چوٹی پر چڑھ کر گر جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان قربانیوں کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ لیکن ہمارے چندہ دہندگان اپنے بٹووں کو کھولنے کی بجائے اُن کا منہ بند کر رہے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ
اے غافلو! جاگو۔ اے بے پرواہو! ہوشیار ہو جاؤ۔ تحریک جدید نے تبلیغِ اسلام کے لئے ایک بہت بڑا کام کیا ہے مگر اب وہ کام اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ موجودہ چندے اس کے بوجھ کو اُٹھا نہیں سکتے۔ مبارک ہے وہ سپاہی جو اپنی جان دینے کے لئے آگے بڑھتا ہے مگر بدقسمت ہے اس کا وہ وطنی جو اُس کے لئے گولہ بارود مہیا نہیں کرتا۔ گولہ بارود کے ساتھ ایک فوج دشمن کی صفوں کو تہہ و بالا کر سکتی ہے مگر اس کے بغیر وہ ایک بکروں کی قطار ہے جسے قصائی یکے بعد دیگرے ذبح کرتا جائے گا۔ تمہارے بیٹے ہاں بیٹوں سے بھی زیادہ قیمتی وجود جان دینے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں کیا تم اپنے مالوں کی محبت کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے اُن کو مرتا ہوا دیکھو گے اگر وہ اس حالت میں مرے کہ تم نے بھی قربانی کا پورا نمونہ دکھا دیا ہوگا تو وہ اگلے جہان میں تمہارے شفیع ہونگے اور خدا کے حضور میں تمہاری سفارش کریں گے لیکن اگر وہ اس طرح جان دینے پر مجبور ہوئے کہ ان کی قوم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کے وطن نے ان کو مدد نہ پہنچائی تو وہ تو شہید ہی ہونگے مگر ان کے اہلِ وطن کا کیا حال ہوگا؟ دنیا میں ذلّت اور عقبیٰ میں…؟ اِس سوال کا جواب نہ دینا جواب دینے سے اچھا ہے۔ اس دنیا کی ذلت سے تو انسان منہ چھپا کر گزارہ کر سکتا ہے مگر اُس دنیا میں وہ کیا کرے گا؟ غالب نے خوب کہا ہے ع
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چَین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جو ذلّت صرف اس دنیا کے متعلق ہو موت اُس سے نجات دے سکتی ہے مگر جو دونوں جہان سے متعلق ہو موت اُس میں کیا فائدہ دے گی وہ تو کلنک کے ٹیکہ کو اور بھی سیاہ کر دے گی۔
پس اے عزیزو! کمریں کس لو اور زبانیں دانتوں میں دبا لو جو تم میں سے قربانی کرتے ہیں وہ اور زیادہ قربانیاں کریں اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں دین کی ضرورت کے مطابق اور جو نہیں کرتے قربانی کرنے والے انہیں بیدار کریں۔ ہر تحریک جدید کا حصہ دار اپنے پر واجب کر لے کہ وہ دفتر دوم کے لئے ایک نیا حصہ دار تیار کریگا اور جب تک وہ ایسا نہ کرسکے وہ سمجھ لے کہ میری پہلی قربانی بیکار گئی اور شاید کسی نقص کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دربار سے واپس کر دی گئی۔ وہ پھل جو درخت بن گیا وہی پھل ہے جو کسی کے پیٹ میں جا کر فضلہ بن گیا اور اپنی نسل کو قائم نہ رکھ سکا وہ کیا پھل ہے۔ خدا ہی اس پر رحم کرے۔ـ
والسلام
خاکسار
مرزا محمود احمد
(الفضل قادیان ۱۲؍ جولائی ۱۹۴۶ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۱۷


اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے
(فرمودہ ۲۹؍ستمبر۱۹۴۶ء بمقام دہلی خدام سے خطاب)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے بولنا اور تقریر کرنا اپنے دل کی صفائی اور دوسروں کے دلوں کی صفائی کیلئے بنایا ہے لیکن اس چیز کو دنیا نے آہستہ آہستہ تماشہ اور کھیل کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ جتنی جتنی نیکی ترقی کر رہی ہے اتنا ہی شیطان اسے بدلنے کی کوشش کر رہا ہے دوسروں کو نصیحت کرناایک بڑی نیکی ہے۔
نصیحت کے معنی اخلاص اور خیر خواہی کے ہیں جب کوئی کہتا ہے کہ مجھے نصیحت کرو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میری خیر خواہی کرواور میرے لئے اچھا راستہ تلاش کرو لیکن اب اس چیز کو بھی لوگ کھیل اور تماشے کا ذریعہ بنا رہے ہیں اور آجکل کے نوجوان عجیب مرض میں مبتلاء نظر آتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ کوئی ایسا عمل کریں جوان کی زندگی کامیاب بنانے والا اور مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچائے والا ہو یہ رٹ لگائے جاتے ہیں کہ ہمیں کوئی نصیحت کریں۔ چنا نچہ جب بھی وہ کسی لیڈر یا راہ نما سے ملتے ہیں تو جھٹ کاپی آگے کر دیتے ہیں کہ اس پر کوئی نصیحت لکھ دیں غرض لفظ ہدایت، ارشاد اور نصیحت ایک مشغلہ سا بن گیا ہے اور اتنا قیمتی لفظ جس کے لئے بڑے بڑے مفکّر اورمدبر پیدا ہوتے آئے ہیں محض ایک رواج بن گیا ہے۔ پچھلے دنوں کچھ نوجوان میرے پاس بھی آئے اور میرے سامنے کا پیاں پیش کیں کہ کوئی نصیحت لکھ دیں میں نے ہر ایک کی کاپی پر یہ لکھا کہ لغو باتوں سے اسلام روکتا ہے۔ وہ میرے اس فقرہ کوپڑھ کر بہت خوش خوش گئے گویا میں نے ان کی خواہش کو پورا کر دیا ان کو یہ سمجھ نہ آیا کہ میں نے ان کے فعل پر طنز کی ہے۔ یہ ہمارے ملک کے لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی نئی بات نکلے فوراً اس کی تقلید کرنا شروع کردیتے ہیں۔
مجھ سے خدام الاحمدیہ دہلی کے عہدہ داروں نے یہ خواہش کی ہے کہ میں ان کو کچھ نصیحتیں کروں۔ جہاں تک باتوں کا تعلق ہے وہ بہت ہو چکی ہیں اور باتوں کا زمانہ بہت لمبا ہو گیا ہے۔ باتیں یا سونے کے لئے کی جاتی ہیں یاکام کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ راتوں کو مائیں بچوں کو سُلانے کے لئے باتیں سناتی ہیں اور دن کو لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ اس طرح ان کو کوئی معقول بات مل جائے جو ان کے کام میں آسانی پیدا کرے۔ ہماری باتیں سونے کے لئے نہیں ہوسکتیں کیونکہ ایسے مصائب اور دُکھوں کے زمانہ میں سونا موت سے کسی طرح کم نہیں ہو سکتا باقی رہیں دوسری باتیں جو کام میں آسانی پیدا کرتی ہیں وہ بھی کافی ہو چکی ہیں اور مزید باتوں کی کوئی خاص ضرورت نظر نہیں آتی۔ ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے ۵۶سال ہوگئے ہیں جس نے اس عرصہ میں باتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی وہ اب آئندہ کی باتوں سے کیا فائدہ اُٹھائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لاکھوں نشانات دکھائے جس شخص نے ان نشانات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی آئندہ ظاہر ہونے والے نشانات اسے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱؎کیا مؤمنوں کیلئے وقت نہیں آیا کہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور خدا تعالیٰ کی خشیت سے ان کے دل ڈر جائیں؟ میں بھی یہی نوجوانوں کو کہتا ہوں کہکیا ابھی باتوں کا وقت ختم نہیں ہوا؟ اورکیا اب تک کام کا وقت نہیں آیا،کیا اب تک کافی نصیحتیں نہیں ہو چکیں جن کے بعد طریق عمل اور ہدایت کا رستہ واضح ہوجاتا ہے؟ اگر تمہارا طریق عمل یقینی طور پر واضح ہے تو زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کرو اگر تمہاری آنکھیںکھلی ہیں۔ اگر تم اپنے اندر فکر کا مادہ رکھتے ہو تو تمہیں سوچنا چاہئے کہ مسلمان کیا تھے اور کیا بن گئے اور مسلمان کہاں تھے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
مسلمان نوجوان جغرافیہ پڑھتے ہیں، نقشہ دیکھتے ہیں مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ ان کے دل کیوں بیٹھ نہیں جاتے، کیوں ان کے دلوں میں درد اور اضطراب پیدا نہیں ہوتا۔ ایک دن وہ تھا کہ سارانقشہ اسلامی حکومتوں کے رنگ سے رنگیں تھا یا آج یہ حالت ہے کہ یورپین حکومتیں دنیا پر چھائی ہوئی ہیں اور مسلمان ان کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ایک زمانہ وہ تھا اسلامی رنگ نقشہ میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھرا ہوا تھا۔ چین میں سینکڑوں سال تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے یہاں تک کہ آج بھی جا پانی مائیں اپنے بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ چپ کر چپ کر ’’جو گو‘‘ یعنی مسلمان آگیا۔ امریکہ میں بھی بعض مسجدیں پائی گئیں ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ وہاں تک مسلمان پھیلے ہوئے تھے اور فلپائن وغیرہ میں بھی مسلمان موجود تھے غرض کوئی گوشہ دنیا کا ایسانہ تھا جہاں اسلامی حکومت قائم نہ تھی۔ وہ حکومتیں ملکی حکومتیں تھیں امپیریل ازم نہ تھا اِلاَّمَاشَائَ اللّٰہُ۔ اگر کسی زمانہ کے مسلمانوں نے کوئی غلطی کی ہو تو وہ اپنی غلطی کے آپ ذمہ دار تھے اسلام ذمہ دار نہیں۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ ان باتوں کو معلوم کرکے بھی مسلمانوںکے دلوں میں معمولی سی گدگدی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ جب کسی زمیندار کے بیٹے سے پوچھا جائے کہ آپ کس خاندان سے ہیں۔ تو وہ گننا شروع کردیتا ہے کہ میں فلاں چوہدری کا بیٹا ہوں، فلاں چوہدری کا پوتا ہوں لیکن مسلمانوں کے دل اس بات کو نہیں سوچتے کہ ہم کن لوگوں کی اولادیں ہیں اور ہمارے آباء واجداد کس شان کے لوگ تھے۔
ساتویں صدی میں جبکہ مسلمان بہت کچھ گر چکے تھے اس گرے ہوئے زمانہ میں بھی مسلمانوں کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے لئے غیرت موجود تھی اُس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ خلافتِ بغداد بالکل تباہ ہو کر ریاستوں کی شکل اختیار کر چکی تھی لیکن نام باقی تھا، کہتے ہیں کہ ہاتھی مرا ہوا بھی بھاری ہوتا ہے، خلافت تو تھی گو چند گاؤں بھی ان کے قبضہ میں نہ رہے تھے صرف بغداد میں ہی ان کی حکومت محدود تھی باقی سب جگہ دوسری بادشاہتیں قائم ہو گئی تھیں۔ وہ بادشاہ مطلق العنان ہونے کے باوجود خلافت کا احترام کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم تو نائب بادشاہ ہیں اصل بادشاہ خلیفہ ہے یوں وہ اپنا قانون چلاتے تھے ،اپنی فوجیں رکھتے تھے، خود ہی لڑائیاں لڑتے تھے، خود ہی فیصلے کرتے تھے، خود ہی معاملات طے کرتے تھے اور خلیفہ کو پوچھتے تک بھی نہ تھے مگر اس نام کی بھی برکت تھی۔ اُس زمانہ میں مسلمانوں کے ایک علاقہ میں سے جبکہ مسلمان کمزور ہو چکے تھے یورپین فوجیں گزریں اور انہوں نے کسی مسلمان عورت کو چھیڑا (اس بے چاری کو کچھ پتہ نہ تھا کہ خلافت ٹوٹ چکی ہے اور تقسیم ہو کر مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے وہ یہی سنتی آرہی تھی کہ ابھی تک یہاں خلیفہ کی حکومت ہے)اس نے اس خیال کے ماتحت خلیفہ کو پکار کر بلند آواز سے یَالَلْخَلِیْفَۃکہا یعنی اے خلیفہ! میں مدد کے لئے تمہیں آواز دیتی ہوں۔ اُس وقت وہاں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا اس نے یہ باتیں سنیں وہ قافلہ بغداد کی طرف جارہا تھا۔پُرانے زمانے میں رواج تھا کہ جب قافلہ شہر میں آتا تو قافلہ کی آمد کی خبر سن کر لوگ شہر کے باہر قافلہ کے استقبال کے لئے جاتے اور تاجر لوگ بھی اُس وقت وہاں پہنچ جاتے اور آج کل کی بلیک مارکیٹ کی طرح وہیں مال خریدنے کی کوشش کرتے کیونکہ جو مال باہر سے آتا تھا وہ سفر کی مشکلات کی وجہ سے بہت کم آتا تھا اس لئے ہر ایک تاجر یہی کوشش کرتا تھا کہ وہیں جا کر سودا کرے اور اسے دوسروں سے پہلے حاصل کر لے۔ جب وہ قافلہ آیا اور شہری اس کے استقبال کے لئے شہر سے باہر گئے اور اسے ملے تو اہلِ شہر نے ان سے سفر کے حالات پوچھنے شروع کئے اور کہا کہ کوئی نئی بات سناؤ۔ انہوں نے کہا سفر ہر طرح آرام سے گزرا مگر ہم نے راستہ میں ایک عجیب تمسخر سنا۔ ایک عورت خلیفہ کو آوازیں دے رہی تھی اور مدد کے لئے بُلا رہی تھی۔ اُس بے چاری کو کیا پتہ کہ اس جگہ اب اس کی حکومت ہی نہیں اور اب وہ وظیفہ خوار بادشاہ ہے۔ یہ باتیں سننے والوں میں سے ایک درباری بھی تھا وہ دربار میں آیا اور بادشاہ سے اِس بات کاذکر کیا۔ اُس نے کہا آج ایک عجیب بات سُنی ہے ایک قافلہ فلاں جگہ سے آیا اور اُس نے سنایا کہ ایک عورت خلیفہ کو مدد کے لئے پکارتی تھی۔ اگرچہ خلافت اُس وقت مٹ چکی تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اسلامی ایمان کی کوئی چنگاری باقی تھی، خلیفہ میں کوئی طاقت نہ تھی وہ جانتا تھا کہ میں اکیلا ہوں لیکن جب اُس نے یہ بات سُنی تو تخت سے اُتر آیا اور ننگے پاؤں چل پڑا اور کہا کہ گو اب خلیفہ کا وہ اقتدار نہیں رہا مگر بہرحال اس عورت نے خلافت کو آواز دی ہے، اب میرا فرض ہے کہ میں اس کے پاس جاؤں اور اُس کی مدد کروں۔یہ بات ایسی ہے کہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہمارا خون کھولنے لگتا ہے اُس زمانہ میں کیوں نہ کھولا ہوگا جو نہی یہ بات دوسرے بادشاہوں نے سُنی انہوں نے خلیفہ کو یہ اطلاع بھیجی کہ ہم ہر طرح آپ کی مدد کریں گے آپ اُس عورت کوآزاد کر ائیں اور اُن سے اِس کا بدلہ لیں۔ چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے اس عورت کوآزاد کرایا اور عیسائیوں سے اس کا بدلہ لیا۔ اس کی و جہ یہی ہے کہ ان کے دلوں میں حمیت اور غیرت موجود تھی اور ایمان کی روشنی ان کے دلوں میں موجود تھی۔ مگر اب کیا مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے عارضی جوش بھی پیدا ہوتا ہے؟ اور کیا ان کو اسلام کے لئے قربانیاں کرنے کا شوق ہے، کیا ان کے دماغ کبھی غورو فکر نہیں کرتے کہ کیا تھے اور کیا بن گئے۔
اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوںپر یہ مصائب اور آفات اس لئے آرہی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو سر انجام دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر وہ اپنے حالات کا بغور مطالعہ کریں اور ان مصائب کو دُور کرنے کا پورا تہیا کر لیں اور اس کے ساتھ کوشش بھی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان حالات سے نجات نہ پاسکیں۔ جب اسلام کی حالت ایسی کمزور ہے اور تم اپنی آنکھوں سے یہ چیز دیکھ رہے ہو تو کونسا سبق باقی ہے جو تم سیکھنا چاہتے ہو۔ کیا زمین نے تمہیں سبق نہیں سکھایا؟ کیا آسمان نے تمہیں سبق نہیں سکھایا؟ کیا اردگرد کے ہمسایوںنے تمہیں سبق نہیں سکھا یا؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ چاروں طرف ہمارے نشان ظاہر ہو رہے ہیں مگر لوگ اندھے ہو کر چلتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ کہ کونسی سیکھنے والی بات باقی رہ گئی ہے اور کیوں تمہارا قدم عمل کی طرف نہیں اُٹھتا، کس دن کا تمہیں انتظار ہے۔ میں حیران ہوں کہ جو لوگ اپنے وقتوں اور جائدادوں کی قربانیاں نہیں کر سکتے وہ اپنے نفوس کی قربانیاںکس طرح پیش کر دیں گے۔
یہ بات یاد رکھوکہ قومی عزت بغیر قربانیوں کے قائم نہیں ہو سکتی وہ لوگ جنہیں اپنی قومی عزت کا خیال نہیں اور وہ لوگ جن میں قومی غیرت موجود نہیں وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں۔ وہ دنیا میں ایسے ہی پھرتے ہیں جیسے گائیں اور بھیڑیں پھرتی ہیں وہ لوگ اپنی قوم کے لئے کسی فائدے کا موجب نہیں۔ ابتدائی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رؤیا دیکھاکہ ایک لمبی نالی ہے جو کہ کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اس پر ہزارہا بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ پر ایک قصاب بیٹھا ہے وہ بھیڑیں اس طرح لٹائی گئی ہیں کہ ان کا سر نالی کے کنارہ پر ہے کہ ذبخ کرتے وقت ان کا خون نالی میں پڑے باقی حصہ ان کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور ان تما م قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو کہ ہر ایک بھیڑ کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبخ کرنے کے لئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تب مَیں ان کے نزدیک گیا اور مَیں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی۔ قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْ لَادُعَاؤُ کُمْ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے اگر تم اُس کی پرستش نہ کرو اور اُس کے حکموں کو نہ سنو۔ میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت دی گئی ہے گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے۔ تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور چھریوں کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک درد ناک طور پر تڑپنا شروع کیا۔ تب ان فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو۲؎ اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے دنیا دار اور دنیا پرست لوگوںکی تشبیہہ گوہ کھانے والی بھیڑوں سے دی ہے کہ ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ کو پرواہ ہی کیا ہے جس طرح بھیڑیں بغیر کسی درد کے ذبح کی جاتی ہیں اسی طرح ایسے لوگ ذبح کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم نہیں کھائے گا۔ اللہ تعالیٰ بھی انہی لوگوں کی پرواہ کرتا ہے جو اس کی پرواہ کرتے ہیں۔ آخر رسول کریم ﷺ بھی آدمی ہی تھے کہ تمام دنیا کی مخالفت ان کو کوئی گزندنہ پہنچا سکی۔ بلحاظ بشریت کے دوسرے انسانوں کی طرح آپ بھی ایک بشر تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک انسان کے خلاف ایک گاؤں کے لوگ ہی ہو جائیں تو اس کا جینا دشورا ہو جاتا ہے لیکن تمام دنیا ایک طرف تھی اور آپ ایک طرف تھے اِس کے باوجود دنیا آپ کا بال بھی بیکا نہ کر سکی۔ ان لاکھوں لاکھ انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کی غیرت نہ بھڑکی لیکن اس ایک انسان کیلئے خداتعالیٰ کی غیرت جوش میں آگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا ۔۳؎ گویایہ تمام دنیا کو ایک چیلنچ تھا کہ تم ہمارے اس بندے کو چھیڑ کر تودیکھو کہ تمہارا کیا حال ہوتا ہے مَیں اللہ جو تمام کائناتِ عالَم کا مالک ہوں مَیں اس کی حفاظت کرنے ولا ہوں۔ بعض دفعہ دشمن آپ تک پہنچ بھی گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے معجزانہ طور پر آپ کو بچایا کہ آج تک دنیا ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتی ہے۔
ایک جنگ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم واپس آرہے تھے تو ساتھ ساتھ ایک دشمن بھی چل پڑا۔ صحابہؓ نے خیال کیا کوئی اجنبی آدمی ہے اور اپنا سفر طے کر رہا ہے اس لئے کسی نے اس سے مزاحمت نہ کی۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر جب صحابہؓ کو اطمینان ہو گیا کہ اب ہم خطرہ والے علاقے سے نکل کر اپنے علاقہ میں داخل ہوگئے ہیں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کچھ دیر آرام کرنے کے لئے عرض کیا آپ نے اس کی اجازت دے دی۔ دوپہر کا وقت تھا صحابہؓ مختلف درختوں کے نیچے آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک علیحدہ درخت کے نیچے جا کر لیٹ گئے اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی آپ کی آنکھ لگ گئی۔ وہ شخص جو لشکر میں آپ کا پیچھا کرتا آرہا تھا اُس نے آپ کی تلوار لی اور تلوار ننگی کر کے آپ کو جگایا اور آپ کو کہا کہ مَیں کافی فاصلہ سے آپ کا پیچھا کر رہا تھا مگر مجھے موقع نہیں ملتا تھا اب مجھے موقع ملا ہے اور مَیں آپ کو قتل کرنا چاہتا ہوں اب آپ بتائیںکہ آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بغیر کسی گھبراہٹ کے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ بچا سکتا ہے؟ ہزاروںلاکھوں لوگ منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے لیکن جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو اس یقین اور اعتماد کاثبوت نہیں دیتے بلکہ دُنیوی اسباب کی طرف اپنی نگاہ دوڑاتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منہ سے یہ فقرہ ایسے یقین اور رُعب کے ساتھ نکلا کہ اس شخص کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُٹھ کر وہ تلوار پکڑلی اور تلوار کھینچ کر اس سے پوچھا اب بتاؤ تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس شخص نے نہایت خوف وہراس کی حالت میں کہا آپ ہی رحم کریں اور میری جان بخشی کریں۔۴؎ آپ نے اسے فرمایا بیوقوف تم نے مجھ سے سن کر بھی سبق نہ سیکھا تمہیں کہنا چاہئے تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ بچا سکتا ہے۔ آپ کو یہ سن کر خوشی نہیں ہوئی کہ اس نے میری تعریف کی ہے بلکہ آپ کو تکلیف ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا نام کیوں چھوڑدیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ کیوں تھا اور اس وقت وہ مسلمانوں کو کافروں پر کیوں غلبہ عطا کرتا تھا اورآج کیوں ان کی اولادوں کو چھوڑ بیٹھا ہے؟ کیا اس وقت نَعُوُذُ بِااللّٰہخدا بوڑھا ہو گیا ہے یا اب خدا مر گیا ہے یا اس پر تعطل کی حالت طاری ہے یا اسلام کے لئے اس کے دل میں غیرت نہیں رہی یا اسے اسلام سے نفرت ہوگئی ہے؟ نہیں !اللہ تعالیٰ کی ذات میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور وہ ایسی تبدیلیوں سے پاک ہے اور وہ اَلآنَ کَمَا کَانَ ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اندر تبدیلی کر لی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قطع کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کی بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی اس لئے خداتعالیٰ نے بھی ان سے منہ پھیر لیا کہ جاؤ دُنیوی سامانوں پر بھروسہ کر کے دیکھ لو ورنہ اللہ تعالیٰ آج بھی اُسی طرح اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے جس طرح وہ پہلے سنتا تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے عمل سے اُسی محبت کا ثبوت دیں جس کا ثبوت ان کے آباء و اجداد نے دیا اور اُسی طریقہ کار کو لازم پکڑیں جس پر چل کر ان کے آباء و اجداد نے کامیابی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ وفادار ہے جو شخص اس سے وفاداری کرتا ہے اللہ تعالیٰ کبھی اس سے بے وفائی نہیں کرتا۔
پس اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بننا چاہتے ہو تو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ تم لوگ ایک ہاتھ پر جمع ہوئے ہو اس لئے نہیں کہ مل کر دعوتیں اُڑاؤ اور عیش و عشرت کے دن بسر کرو بلکہ تم لوگ اس لئے آگے آئے ہو کہ ہم اسلام کے لئے قربانیاں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصد قرار دیں گے، تم اس سلسلہ میں اس لئے نہیں داخل ہوئے کہ مائدے پر بیٹھ کر لقمے اُڑاؤ بلکہ تم ا س لئے اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو کہ ہم ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانیں کریں گے اور اسلام کی حکومت کو دنیا بھر میں ازسرِ نو قائم کریں گے۔ پس اپنے اس عہد کو ہمیشہ مدنظر رکھو اگر تم اپنے عہد کو پورا کرتے جاؤ تو دنیا کی کوئی طاقت بلکہ دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی تمہارے رستے میں روک نہیں بن سکتیں کیونکہ جب تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ گے تو پھر اللہ تعالیٰ خود تمہارے لئے کامیابی کے سامان پیدا کرے گا اور تمہارے لئے کامیابی کے رستے کھول دے گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تمہاری باتوں میں اثر نہیں۔ ایسی چمڑے کی زبان رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تھی اور ویسی چمڑے کی زبانیں دوسرے لوگوں کی تھیں لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان بولتی تھی تو وہ گوشت اور چمڑے کی زبان نہ ہوتی تھی بلکہ وہ خداتعالیٰ کی زبان ہوتی تھی اس لئے اس زبان کی باتیں پوری ہو کر رہتی تھیں اور دنیا کی طاقتیں ان کو پورا ہونے سے روک نہ سکیں۔ وہی طاقت اور قوت رکھنے والا خدا آج موجود ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے اندر اخلاص اور تقویٰ پیدا کرو اور نیک نیتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو جاؤ۔ باتوں کا زمانہ گزر گیا اور اب باتوں کا زمانہ نہیں بلکہ عمل کرنے کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ اب دیکھنا چاہتاہے کہ ان بڑے بڑے دعووں کے بعد تم کتنے قطرے خونِ دل کے اُس کے حضور پیش کرتے ہو۔ دنیا کے بادشاہ موتیوں اور ہیروں کی نذریں قبول کرتے ہیں مگر زمین وآسمان کا مالک اور سب بادشاہوں کا بادشاہ یہ دیکھتا ہے کہ کتنے قطرے خونِ دل کے کوئی شخص ہمارے حضور پیش کرتا ہے۔ ہمارے خدا کے دربار میں ہیروں اور موتیوں کی بجائے خونِ دل کے قطرے قبول کئے جاتے ہیں۔ دنیا کی قومیں تو اسی زندگی کو ہی اپنا مقصود قرار دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے بندوں کا اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ان کی حقیقی اور نہ مٹنے والی زندگی اگلے جہان سے شروع ہوگی اس لئے وہ موت سے نہیں ڈرتے دنیا کے لوگ مرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی ختم ہوئی تو ہم ختم ہوئے لیکن مؤمنوں کی مثال روایتی دیو کی طرح ہوتی ہے کہ اس کے خون کے جتنے قطرے گرتے ہیں ان سے اتنے ہی آدمی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہی حال خدائی جماعتوں کا ہوتا ہے وہ جتنی جتنی جانی قربانیاں دیتی ہیں اُتنی ہی وہ ترقی کرتی ہیں۔ جس طرح سُوکھی شاخیں اور سُوکھے پتے تنور میں جھونکنے سے آگ تیز ہوتی ہے اسی طرح جوں جوں مرنیوالے مرتے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو اور زیادہ ترقی دیتا ہے اور مرنے والوں کے ناموں کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے۔ جب مرنا ہر ایک نے ہے اور کوئی شخص موت سے بچ نہیں سکتا تو پھر انسان کیوں نہ خداتعالیٰ کی راہ میں ہی مرے۔
فرض کرو ایک شخص نے بیس سال کی عمر میں ملازمت شروع کی اور ساٹھ سال کی عمر تک وہ ملازمت کرتا رہا اور ہر ماہ اسے پانچ سَو روپیہ تنخواہ ملتی تھی تو کیا اس شخص کی چالیس سال کی ملازمت ایسے شخص کے ایک دن سے بھی کوئی نسبت رکھتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا گیا۔ مرنا تو ہر ایک نے ہے، چھوٹے، بڑے، نوجوان اور بوڑھے سب اجل کا پیالہ پینے والے ہیں۔ کوئی بچپن میں ہی مر جاتا ہے، کوئی جوانی میں مر جاتا ہے، کوئی بڑھاپے میں مر جاتا ہے، کون زندگی کی گارنٹی دے سکتا ہے؟ پھر ایسی زندگی کو سبنھال کر کرنا ہی کیا ہے کس دن کے لئے یہ زندگی بچانے کی کوشش کریں اور ایسی زندگی کا کیا فائدہ جبکہ اسلام اور مسلمان ذلّت اور رُسوائی کی حالت میں ہوں۔ عقل مندوں کے نزدیک پاخانے میں سَو سال کی زندگی گزارنے سے چھ ماہ کی آزاد زندگی زیادہ بہتر ہے اور پاخانہ میں زندگی بسر کرنے کی بجائے وہ موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو شخص ہر وقت گندگی میں رہے گا اُس کا دماغ بدبو کی وجہ سے سخت پریشان رہے گا اور اس زندگی کا مزا کیا آئے گا۔ پس ہماری خوشی اور راحت اِسی بات میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ہو جائیںاور اسی کے لئے زندگی بسر کریں بیشک تمہارا یہ کام بھی ہے کہ تم گلیوں اور شہروں کو صاف کرو، لوگوں کے آرام کا باعث بنو لیکن اس ظاہری گند سے روحانی گند زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اہلِ مغرب نے ظاہری صفائی پر بہت زور دیا اور جسمانی صفائی کے بہت سے انتظام کئے ہیں لیکن روحانی صفائی کا علاج ان کے پاس نہیں، جسمانی گند سے جسم مرتا ہے لیکن روحانی گند سے روح مر جاتی ہے اور یہ چیز قابلِ برداشت نہیں کیونکہ روح کے مرنے سے انسان دائمی طور پر جہنمی بن جاتا ہے۔ جسمانی گند کا اثر روحانی گند کے اثر کے مقابل میں بہت محدود ہوتا ہے پس تم بے شک ظاہری صفائی کا بھی خیال رکھو لیکن اس سے زیادہ فکر تمہیں روحانی گند کو دور کرنے کے لئے ہونی چاہئے۔ اس روحانی گند کو دور کرنے کی کوشش کرو اور قرباقی کے معیار کو بلند کرو۔
تم غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کی حکومت تمام دنیا میں قائم کرنے کے لئے تمہیں کس قدر قربانیاں کرنی چاہئیں۔ جب دنیا کے لوگ اور دنیا کے سپاہی چھوٹی چھوٹی چیزو ں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کر دیتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا روحانی سپاہی تو ان سب سے بڑھ کر ہوناچاہئے اور اس کی قربانی دنیاداروں کی قربانیوں سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئے اس لئے وہ لوگ جو تھوڑی سی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ دے دیا اور وہ اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے بہادرسپاہی کس طرح کہلا سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کا بہادر سپاہی وہ ہے جو اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آواز پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور ہر قت پابہ رکاب رہتا ہو۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سچے مؤمن کی مثال سچے دوست سے دیتے تھے آپ سنایا کرتے تھے کہ کوئی امیر آدمی تھا اس کے لڑکے کے کچھ اوباش لڑکے دوست تھے باپ نے اُسے سمجھایا کہ یہ لوگ تیرے سچے دوست نہیںہیں محض لالچ وغیرہ کی خاطر تمہارے پاس آتے ہیں ورنہ ان میں سے کوئی بھی تمہاراوفادار نہیں مگر لڑکے نے اپنے باپ کو جواب دیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی سچا دوست شاید میسر نہیںآیا اس لئے آپ سب لوگوںکے متعلق یہی خیال رکھتے ہیں مگر میرے دوست ایسے نہیں وہ بہت وفادار ہیں اور میرے لئے جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں۔ باپ نے پھر سمجھایا کہ سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے ساری عمر میں مجھے ایک ہی سچا دوست ملا ہے لیکن وہ لڑکا اپنی ضد پر قائم رہا کچھ عرصے کے بعد اس نے گھر سے خرچ کے لئے کچھ رقم مانگی تو باپ نے جواب دیا کہ میں تمہارا خرچ برداشت نہیں کر سکتا تم اپنے دوستوں سے مانگومیرے پاس اِس وقت کچھ نہیں ۔دراصل اُس کا باپ اس کے لئے موقع پیدا کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کا امتحان لے جب باپ نے گھر سے جواب دے دیا اور تمام دوستوںکو معلوم ہو گیا کہ اسے گھر سے جواب مل گیا ہے توانہوں نے آنا جانا بند کر دیا اور میل ملاقات بھی چھوڑ دی آخر تنگ آکر خود ہی ان کو ملنے کے لئے ان کے گھروں پر گیا۔ جس دوست کے دروازہ پر دستک دیتا وہ اندرسے ہی کہلا بھیجتا کہ وہ گھر میں نہیں ہے کہیں باہر گئے ہوئے ہیں یا وہ بیمار ہیں اس وقت مل نہیں سکتے۔ سارا دن اُس نے چکر لگایا مگر کوئی دوست ملنے کے لئے باہر نہ نکلا آخر شام کو گھر واپس لوٹ آیا۔ باپ نے پوچھا بتاؤ دوستوں نے کوئی مدد کی وہ کہنے لگا سارے ہی حرام خور ہیں کسی نے کوئی بہانہ بنا لیا ہے اور کسی نے کوئی۔ باپ نے کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ وفادار نہیں ہیں اچھا ہوا تمہیں بھی تجربہ ہوگیا ہے۔ اب آؤ میں تمہیں اپنے دوست سے ملاؤں وہ پاس ہی کسی چوکی میں سپاہی کے طور پر ملازم تھا یہ باپ بیٹا اُس کے مکان پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی کہ میں آتا ہوں لیکن کافی دیر ہو گئی اور وہ دروازہ کھولنے کے لئے نہ آیا۔ لڑکے کے دل میں مختلف خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے اُس نے باپ سے کہا ابا جی! معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ہے۔ باپ نے کہا کچھ دیر انتظار کرو آدھا گھنٹہ گزرچکنے کے بعد اُس نے دروازہ کھولا گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں ایک تھیلی اُٹھائی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑے ہوئے تھا، دروازہ کھولتے ہی اُس نے کہا معاف فرمائیے آپ کو بہت تکلیف ہوئی میں جلدی نہ آسکا۔ میرے جلدی نہ آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ آپ نے جب دروازہ پر دستک دی تو میں سمجھ گیا کہ آج کوئی خاص بات ہے کہ آپ خود آئے ہیں ورنہ آپ کسی نوکر کو بھی بھجواسکتے تھے، میں نے دروازہ کھولنا چاہا تو مجھے یکدم خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مصیبت آئی ہو یہ تین چیزیں میرے پاس تھیں ایک تلوار اور ایک تھیلی جس میں میرا ایک سال کا اندوختہ جو کہ پانچ سَو روپے کے قریب ہے اور میری بیوی خدمت کے لئے آئی ہے کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو اور یہ دیر جو ہوئی ہے وہ اس تھیلی کے کھودنے میں ہوئی ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے کوئی ایسی مصیبت ہو جس میں کوئی جانباز کام آسکتا ہو اس لئے میں نے تلوار ساتھ لے لی ہے کہ اگر جان کی ضرورت ہو تو میں جان پیش کر سکوں، پھر میں نے خیال کیا کہ گو آپ امیر آدمی ہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ کوئی مصیبت ایسی ہو جس سے آپ کا مال ضائع ہو گیا ہو اور میں روپیہ سے آپ کی مدد کر سکوں تو میں نے یہ تھیلی ساتھ لے لی ہے اور پھر میں نے خیال کیا کہ بیماری وغیرہ انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو تو مَیں نے بیوی کو بھی ساتھ لے لیا ہے تا کہ وہ خدمت کر سکے۔ اس امیر آدمی نے کہا میرے دوست! مجھے اِس وقت کسی مدد کی ضرورت نہیں اور کوئی مصیبت اِس وقت مجھ پر نہیں آئی بلکہ میں صرف اپنے بیٹے کو سبق سکھانے کے لئے اِس وقت آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ سچی دوستی ہے اور اس سے بڑھ کر سچی دوستی انسان کو اللہ تعالیٰ سے قائم کرنی چاہئے کہ وہ اپنی جان اور مال اور اپنی ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہے جس طرح دوست کبھی مانتے ہیں اور کبھی منواتے ہیں اسی طرح انسان کا فرض ہے کہ وہ صدقِ دل کے ساتھ اور شرح صدر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کتنی باتیں مانتا ہے رات دن ہم اس کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، اُس نے جو چیزیں ہماری راحت اور آرام کے لئے بنائی ہیں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں، آخر کس حق کے ماتحت ہم ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ہماری کتنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ دفعہ اپنی خواہش کے خلاف ہو جائے تو کس طرح لوگ اللہ تعالیٰ سے بدظن ہو جاتے ہیں اصل تعلق یہ ہے جو عُسر اور یُسر دونوں حالتوں میں استوار رہے اور اس میں کوئی فرق نہ آئے۔
پس تم ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں حقیر سمجھو کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ تمہارے کاموں اور تمہارے اوقات میں کتنا حصہ خدا تعالیٰ کیلئے ہے۔ تم صبح اُٹھ کر اپنے گھروں کے لئے سَودا سلف خریدنے جاتے ہو، پھر اس کے بعدتم اپنے دفتروں میں کام کرنے چلے جاتے ہو، شام کو آکر آرام سے سو جاتے ہو، اس میں ایک دو گھنٹہ نمازوں کا وقت سمجھا جا سکتا ہے گویا تم بائیس یا تیئیس گھنٹے اپنا کام کرتے ہو اور ایک دو گھنٹے دین کے کاموں اور عبادتوں کیلئے صرف کرتے ہو اب تم خود ہی سوچ لو کہ کتنا حصہ تمہارے اوقات کا اللہ تعالیٰ کے کاموں کے لئے خرچ ہوتا ہے اور کتنا اپنے کاموںمیں۔ پھر تم یہ بھی سمجھتے ہو کہ ہم نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے باندھا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اسے پورا کر رہے ہیں یہ کتنے افسوس کی بات ہے دو سری مسلمان دنیا اگر اسلام کے پھیلانے میں کوتاہی سے کام لیتی ہے تووہ اتنی مجرم نہیں جتنے تم مجرم ہو کیونکہ تم ہی دعویٰ کرتے ہو کہ ہم خدامِ احمدیت ہیں اور ہمارے ذریعہ اسلام تمام دنیا پر غالب آئے گا۔ خداتعالیٰ کے کام تو ہو کر رہیں گے لیکن اگر تم نے اپنے فرائض کو سرانجام نہ دیا تو پھر تم خدا تعالیٰ کے سامنے سچے خادموں کی حیثیت میں پیش نہیں ہو سکتے کیونکہ تمہارے عمل تمہارے دعووں کو جھوٹا کر کے دکھا رہے ہوں گے۔ پس اپنے اندر نیک تبدیلی پیدا کرو اور وہ تبدیلی ایسی ہو کہ ہرکس و ناکس کو معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ اب کوئی نئی چیز بن گئے ہیں۔ اب باتیں کرنے اور سننے کا وقت ختم ہو گیا ہے اب اس بات کی ضروت ہے کہ باتیں کم کی جائیں اور اپنی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔
میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقیات کے ساتھ ساتھ مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ہم جتنے بڑھیں گے اتنا ہی ہمیں زیادہ قربانیوں کی ضرورت ہو گی۔ ہماری جماعت کے لوگ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں تکلیفیں دی جاتی ہیں مگر مجھے یہ شکوہ نہیں کہ لوگ اِن کو دُکھ کیوں دیتے ہیں بلکہ مجھے یہ شکوہ ہے کہ لوگ ان کو تھوڑی تکلیفیں کیوں دیتے ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ دکھ اور تکلیف سے زیادہ سچا اُستاد اور کوئی نہیں۔ مجھے یہ یقین ہے کہ ہم مصائب کی وجہ سے کم نہیں ہونگے بلکہ اور زیادہ بڑھیں گے کیونکہ جب تکلیف قابلِ برداشت ہو تو انسان سمجھتا ہے کہ میرے اندر طاقت ہے میں اس کا مقابلہ کر لوں گا اس لئے وہ خدا تعالیٰ کی طرف زیادہ نہیں جھکتا لیکن جب چاروں طرف سے ناطقہ بند ہو جائے تو وہ بے بس ہو جاتا ہے اور سوائے خداتعالیٰ کے اس کے لئے کوئی مدد گار باقی نہیں رہتا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پورے طور پر جھک جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے تو اس کا یقین اور ایمان ترقی کرتا ہے۔ بے شک کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ کی طرف جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دنیا دھکے دے کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی مخالفتیں ہوتی ہیں اور ان کو سخت سے سخت مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے وہی سنت ہمارے لئے جاری ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جو سلوک باقی انبیاء کی جماعتوں سے ہوا وہی ہم سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدمؑ کا دشمن نہ تھا، اللہ تعالیٰ نوحؑ کا دشمن نہ تھا، اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کا دشمن نہ تھا، اللہ تعالیٰ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کا دشمن نہ تھا، اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن نہ تھا، ہمارا رشتہ دار نہیں کہ ہم ان تکلیفوں سے بچ جائیں، جب تک تم آگ کی بھٹی میں ڈالے نہیں جاتے اور آروں سے چیرے نہیں جاتے اُس وقت تک تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔پس تیاری کرو تا آنے والے امتحان میں فیل نہ ہو جاؤ بغیر تیاری کے تم ہرگز ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اگر تم دین کے لئے قربانیاں کرنے سے گھبراتے ہو تو تم ایسی چیز نہیں جس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک حفاظت کی ضرورت ہو تم اپنے لئے موت اور صرف موت میں ہی زندگی تلاش کر و، جب موت تمہاری نظروں میں معمولی اور حقیر چیز بن جائے گی تو تم تمام دنیا پر بھاری ہو جاؤ گے اور دنیا تمہارے مقابلہ سے عاجز آجائے گی۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور انہیں ہمت کے ساتھ ادا کرتے جاؤ اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جب تک صحیح طور پر کوشش نہیں کی جائے گی اُس وقت تک صحیح نتائج نہیں نکلیں گے۔
(الفضل ۱۹؍اکتوبر۱۹۶۰ء)
۱؎ الحدید: ۷
۲؎ تذکرہ صفحہ۱۸ ۔ایڈیشن چہارم
۳؎ تذکرہ صفحہ ۲۷۹،۲۸۰ایڈیشن چہارم
۴؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع، شرحمواہب اللّدنیہ جلد۲ صفحہ۵۳۰، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۹۹۶ء


فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
فریضۂ تبلیغ اور احمدی خواتین
(فرمودہ یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء برموقع جلسہ لجنہ اماء اللہ بمقام ۸ یارک روڈ دہلی)
تشہّد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں انسان کی پیدائش کا ذکر آیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نے ایک نفس کو پیدا کیا پھر ۱؎ پھر اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔ اِسی نفس سے جوڑا پیدا کرنے کے متعلق بائیبل نے یہ تشریح کی ہے کہ حضرت آدم کی پسلی کو چیر کر اس میں سے عورت نکالی گئی۲؎ لیکن قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ حضرت آدمؑ کی پسلی کو چیر کر اس میں سے عورت کو پیدا کیا گیا بلکہ قرآن مجید کہتا ہے کہ کہ اِس نفس سے ہی اُس کا جوڑا پیدا کیا۔ ِاس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جنس سے ہی اللہ تعالیٰ نے عورت کو پیدا کیا مِنْ کے معنی یہاں جنس کے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۳؎کہ تم اپنے میںسے اُن لوگوں کو حاکم بناؤ جو تمہاری قسم میں سے ہیں اس جگہ کوئی شخص بھی کے معنی یہ نہیں کرے گا کہ تم اُن لوگوں کو حاکم بناؤ جو تمہاری پسلیوں میں سے چیر کر نکالے گئے ہیں اور کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ مُراد یہ ہے کہ جو لوگ تمہاری قسم کے ہوں۔ جس قسم کے تمہارے حالات ہیں اسی قسم کے ان کے حالات ہیں اور جن چیزوں کی تمہیں ضرورت ہے اُن ہی چیزوں کی انہیں بھی ضرورت ہے وہ تمہارے جیسے انسان اور تمہارے سے جذبات ان میں بھی ہیں، تمہاری ضرورت کو سمجھتے ہیں ان کی حکومت کو تسلیم کرو اور خیالی حاکم نہ تلاش کرو کہ نہ ملیں گے نہ مفید ہوں گے۔ قرآن کریم میں کثرت سے اور کے الفاظ آئے ہیں لیکن اُس کے یہ معنی نہیں کہ ان چیزوں کو تمہاری پسلی کاٹ کر بنایا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس قسم کے تم ہو اُسی قسم کے وہ ہیں۔پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انسان کی قسم سے ہی اُس کی بیوی کو پیدا کیا اس سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قسم کے مردوں کے دل اور دماغ بنائے ہیں اُسی قسم کے عورتوں کے دل اور دماغ بنائے ہیں۔پس وہاں پسلی کا ذکر نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں کا آپس میںتشابہہ اور ملتے جلتے ہونے کا ذکر ہے لیکن جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے بعض دَور ایسے آئے ہیں کہ مردوں نے عورتوں کو اُن کی ذمہ داریوںکی ادائیگی سے روکنے کی کوشش کی اور بعض دَور ایسے آئے کہ عورتوں نے مردوں کو اُن کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے بعض دَور ایسے آئے کہ مردوں نے عورتوں کو ایک الگ مخلوق سمجھا اور بعض دور ایسے آئے کہ عورتوں نے مردوں کو ایک الگ وجود سمجھا لیکن قرآن کریم کے نزول سے یہ چیز مٹا دی گئی اور قرآن کریم نے کہہ کر اس تفاوت کو مٹادیا اور بتایا کہ عورتوں کی ویسی ہی ذمہ داریاں ہیں جیسی مردوں کی اور عورتوں میں ویسے ہی احساسات اور جذبات ہیں جیسے مردوں میں اور مرد اور عورت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مردوں کے کام اور قسم کے ہیں اور عورتوں کے کام اورقسم کے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عورتیں مردوں کی ذمہ داریوں کو سمجھ نہیں سکتیں۔ مردوں میں بھی کاموں او رپیشوں کا اختلاف ہوتا ہے کوئی تحصیلدار ہوتا ہے، کوئی تھانیدار ہوتا ہے، کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن باوجود ان کے پیشوں کے اختلاف کے ان کے احساسات، ان کے جذبات اور ان کی ذمہ داریوں میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح ان کاموں کے اختلاف کی وجہ سے ان کے احساسات اور ان کے جذبات اور ان کی ذمہ داریوں میں فرق نہیں پڑتا اسی طرح عورت کے کام کے اختلاف کی وجہ سے اس کی ذمہ داریوں اور اس کے احساسات اور جذبات میں فرق نہیں ہو سکتا اگر فرق ہے تو صرف تقسیم عمل میں کہ بعض قسم کے کام مرد کے سپرد ہیں اور بعض قسم کے کام عورتوں کے سپرد ہیں لیکن ذمہ داری دونوں پر ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْ لٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۴؎کہ تم میں سے ہر ایک اپنے فرائض کے متعلق اور اپنی ذمہ داریوں کے متعلق پوچھا جائے گا جس طرح گڈریے کا فرض ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرے اسی طرح ہر مردو عورت اپنے کاموں کے متعلق ذمہ دار ہے۔ اگر عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بچوں کی نگرانی کرے اور خاوند کے گھر اور مال کی حفاظت کرے تو اس سے انہی چیزوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اگر مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کی پرورش کا انتظام کرے تو اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اسی طرح جو چیزیں نوکر کے سپرد تھیں اور جو کام نوکر کے سپرد تھے اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ پس مردوں کا یہ خیال کرنا کہ عورتیں کسی قربانی میں حصہ نہ لیں اور دین کے کاموں سے علیحدہ رہیں اور اُن کے لئے کھلونا بنی رہیں یا عورتوں کا یہ سمجھنا کہ انہیں کسی قسم کی قربانی میں حصہ نہیں لینا چاہئے یہ دونوں نقطئہ نگاہ غلط ہیں جب تک ہماری عورتیں اور ہمارے مرد اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کریں گے اور اِس اختلاف کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اُس وقت تک کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتے۔ اسی اختلاف کو دُور کرنے کے لئے میں نے لجنہ اماء اللہ کی مجلس قائم کی اور لجنہ اماء اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی لونڈیوں کی مجلس ۔جس طرح مرد کیلئے سب سے پسندیدہ نام عبداللہ ہے اِسی طرح عورت کیلئے سب سے پسندیدہ نام امۃ اللہ ہے۔ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوبیوں میں سے جس خوبی کا نام اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ ۵؎ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونا سب سے بڑی خوبی ہے اسی طرح عورت کے لئے سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لونڈی ہو۔ جس طرح غلام پر فرض ہوتا ہو کہ وہ اپنے آقا کے تمام حکموں کو پورا کرے اسی طرح مَیں نے تمہیں یہ نام دے کر توجہ دلائی تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں بننے کی کوشش کرو۔ اس وقت تمہارے لئے موقع ہے کہ تم ایسے کام کرو جن سے تم اپنے آقا کو راضی کر لو اورجب تم اس کے سامنے جاؤ تو تم اس سے انعام کی امید وار ہو۔ اور تمہارے لئے یہ بھی موقع ہے کہ تم اپنے فرائض کو پس پُشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی موردبنو اور مجرم کی حیثیت میں اُس کے سامنے پیش ہو۔ اس شخص میں جو اللہ تعالیٰ سے انعام حاصل کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا اور اس شخص میں جو اللہ تعالیٰ کے سامنے مجرم کی حیثیت میں پیش ہوگا زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ایک شخص جو بادشاہ کے سامنے مجرم کی حیثیت سے پیش ہوتا ہے اور ایک جرنیل جو بادشاہ کے دربار میں انعام حاصل کرنے کیلئے پیش ہوتا ہے ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ جرنیل پر لوگ رشک کرتے ہیں لیکن مجرم کی حالت پر افسوس کرتے ہیں حالانکہ دونوں ایک ہی بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے لیکن ایک مجرم کی حیثیت میں مذامت سے اپنا سرجھکائے ہوئے تھا اور دوسرا اپنی کامیابی پر خوش تھا اور دنیا اُس پر رشک کرتی تھی۔پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان کے مطابق اپنے اندر بیداری پیدا کرو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں اور دونوں کی ذمہ داریاں یکساں ہیں۔
جب ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ دو نبی ایسے ہیں جن کی تاریخ محفوظ ہے ان میں ایک نبی کی تاریخ بہت ہی محفوظ ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ آپ کی زندگی کے تمام حالات سچے طور پر محفوظ ہیں اور دوسرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ان کی زندگی کے چند سالوں کے تفصیلی حالات موجود ہیں۔ ان کے زمانۂ نبوت کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے زمانہ میں عورتوں نے قربانیوں میں بہت خاصہ حصہ لیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے بعض عورتیں بھی تھیں جو اپنا دن رات تبلیغ میں صَرف کرتی تھیں۔عیسائی عورتیں آج تک اُ ن عورتوں کی قربانی پر فخر کرتی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب کے تختے سے جب اُتارا گیا تو انہیں ایک قبر میں رکھا گیا جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئی تھی کہ مَیں تین دن رات قبر میں رہنے کے بعد زندہ باہر نکلوں گا۔۶؎ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب قبر سے باہر نکلے تو ان کے ملنے کے لئے عورتیں ہی پہلے وہاں پہنچیں مرد تو ڈر کے مارے بھاگ چکے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس صبح سویرے ہی مریم مگدلینی اور اس کے ساتھ دو اور عورتیں پہنچ گئیں اور وہ حکومت کے ڈر سے مرغوب نہ ہوئیں۔ اس موقع پر مردوں سے بڑھ کر عورتوں نے جو دلیری دکھائی اور ایمان کا نمونہ دکھایا عیسائی عورتیں اس پر فخر کرتی ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کی عورتوں نے قربانی کا جو نمونہ قائم کیا اُس کی نظیر آج تک نہیں ملتی اور ان قربانیوں کو پڑھ کر ایک مسلمان کا دل وجد کرنے لگتا ہے کہ اس کی مائیں اور دادیاں کس شان کی عورتیں تھیں اور انہوں نے کیسا اعلیٰ معیار قربانی کا قائم کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والی یہ صحابیات عرب تھیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اکثر مسلمان عرب نہیں لیکن مذہب کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحابیات ہر مسلمان کی مائیں اور دادیاں ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام مسلمانوں کا باپ قرار دیتا ہے۷؎ اس لحاظ سے آپ صرف عرب کے مسلمانوں کے ہی باپ نہیں بلکہ آپ مسلمان پٹھانوں کے بھی باپ ہیں، مسلمان راجپوتوں کے بھی باپ ہیں، مسلمان جاٹوں کے بھی باپ ہیں بلکہ آپ ادنیٰ اقوام سے مسلمان ہونے والوں کے بھی باپ ہیں۔ ہر ایک شخص جو کلمہ پڑھتا ہے اس کے آپ باپ ہیں اسی طرح آپ کی صحابیات آپ کے زمانہ کے لوگوں کی مائیں اور بہنیں تھیں اور اِس زمانہ کے مسلمانوں کی دادیاں ہیں۔ جب ایک مسلمان ان واقعات کو پڑھتا ہے تو وہ محوِ حیرت ہو جاتا ہے کہ میری دادیاں کیسی شان دار قربانی کرنے والی تھیں۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں پر بہت مظالم ہوتے تھے اور مسلمانوں کو قسم قسم کے دکھ دیئے جاتے تھے ان مسلمانوں میں کچھ لوگ آزاد تھے اور کچھ غلام تھے جو لوگ غلام تھے اُن کو بہت زیادہ تکلیفیں دی جاتی تھیں اور وہ اکثر مصائب کا نشانہ بنے رہتے تھے لیکن آزاد مسلمانوں پر دشمنوں کا زور کم چلتا تھا اس لئے ان کو بہت زیادہ تکلیفیں نہ دے سکتے تھے۔ ان غلاموں میں دو میاں بیوی بھی تھے ان کا مالک اس قسم کے ظلم اُن پر کرتا تھا کہ اُن کو پڑھ کر انسان کا دل کانپنے لگتا ہے۔ ان کا مالک انہیں تپتی ریت پر لٹا دیتا اوران کی چھاتیوں پر چڑھ کر کودتا اور انہیں دھوپ میں ڈال دیتا، ان کی آنکھیں سرخ ہو کرسُوج جاتیں اور اُسے ذرا بھی رحم نہ آتا ۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے پاس سے گزرے آپ نے دیکھا کہ ان پر سخت ظلم ہو رہے ہیں ان کے مالک نے میاںبیوی کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا ہوا تھا اور انہیں سخت دُکھ دے رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا انکار کرو اور کہو کہ خدا کے سِوا اور معبود بھی ہیں۔۸؎ جب ایک باپ اپنی اولاد کی یہ کیفیت دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ ماں باپ سے زیادہ محبت کرنے والے تھے یہ تکلیف کب برداشت کر سکتے تھے آپ کو سخت تکلیف ہوئی آپ اُن کے پاس کھڑے ہو گئے اور شاید ان کے لئے دعا کی اور خدا تعالیٰ سے ان کے متعلق خبر پائی اس پر اُن سے مخاطب ہو کر فرمایا صبر کرو صبر کرو اللہ تعالیٰ تمہاری یہ تکلیفیں بہت جلد دُور کر ے گا اور تمہیں ان تکلیفوں سے نجات دے گا۔۹؎ اس کے دو تین دن بعد وہ مرد تو ان تکالیف کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اس جہان سے کوچ کر گیا اور اُس عورت کو مالک نے نیزہ مار کر مار دیا۔
یہ لوگ غلام تھے آزاد خاندانوں میں سے نہ تھے اور غلاموں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ ان کے ذہن بلند نہیں ہوتے، ان کی عقل معمولی نوکروں سے بھی کم ہوتی ہے کیونکہ وہ نسلاً بَعْدَ نَسلٍ غلام چلے آتے ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لے آنے کی وجہ سے وہ ایسے ذہین اور بلند حوصلہ ہوگئے کہ انہوں نے ہر قربانی کی مگر خدائے واحد کی توحید کا انکار نہ کیا۔ انہی غلاموں میں سے حضرت بلالؓ بھی تھے جن کو ان کا مالک شدید سے شدید تکلیفیں دیتا تھامگر میں تمہیں عورتوں کی مثالیں بتانا چاہتا ہوں ایک مثال اُوپر بیان کر آیا ہوں اور عورتوں کی قربانیوں کا کچھ اور ذکر تمہارے سامنے کرتا ہوں۔
مکہ میں جب تکلیفیں حد سے بڑھ گئیں اور دشمن شرارتوں میں دن بدن بڑھتے جا رہے تھے، جب تکلیفیں برداشت سے باہر ہو گئیں تو رسول کریم ﷺنے اپنے صحابہؓ کو مشورہ دیا کہ وہ ایبے سینیا کی طرف ہجرت کر جائیں۔انہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ تویہاں تکلیفوں میں رہیں اور ہم دوسرے ملک میں جاکر آرام سے زندگی بسر کریں۔ آپ نے فرمایا! ابھی میرے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کرنے کی اجازت نہیں آئی تم ہجرت کر جاؤ جب مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت مل جائے گی تو میں ہجرت کروں گا۔۱۰؎ ان ہجرت کرنے والوں میں ایک عورت بھی تھی جوکہ اپنے خاوند کے ساتھ اُونٹوں پر صبح سویرے سامان لدوا رہی تھی حضرت عمرؓ اُس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے آپ پھرتے پھراتے اس رستہ سے گزرے۔ آپ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو آپ کی طبیعت پر اس نظارہ کا بہت گہرا اثر ہوا عربوں میں بے شک کفر تھا، گناہ تھا لیکن وہ بہادر تھے اور کمزور اور ضعیف پر اُن کا ہاتھ نہ اُٹھتا تھا حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ صبح صبح ایک عورت مکہ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے والی ہے تو آپ نے رِقّت بھری آواز میں اُس عورت سے پوچھا بی بی! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم سفر کی تیاری کر رہی ہو۔ اُس عورت نے کہا ہم نے یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہے اب تمہاری تکلیفیں برداشت سے باہر ہو گئی ہیں آخر ہم نے تمہارا کیا قصور کیا ہے؟ ہم یہی کہتے ہیں ناکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے لیکن تم ہمیںاس سے بھی روکتے ہو اس لئے ہم جا رہے ہیں۔ یہ بے بسی اور بے کسی کا منظر دیکھ کر سنگدل عمر جس کے دل میں مسلمانوں کے لئے ذرا رحم نہ تھا اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہا۔اچھا بی بی تمہارا خداحافظ یہ کہہ کر منہ پھیر لیا۔۱۱؎
پس عورتوں نے وطن چھوڑے، ماریں بھی کھائیں اور موت کو بھی قبول کیا لیکن خدائے واحد کے نام کو چھپانا پسندنہ کیا۔ یہ عورتیں بھی تمہارے جیسی عورتیں تھیںجس طرح تمہارے سینوں میں دل ہیں ان کے سینوں میں بھی دل تھے، جس طرح تمہاری اولادیں ہیں ان کی بھی اولادیں تھیں لیکن خدا کے رستے میں انہوں نے ہر چیز قربان کر دی۔
حضرت عمرؓ کی بہن بھی عورت ہی تھیں جن کے ذریعے حضرت عمرؓ کو تبلیغ ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ ہاتھ میں تلوار لے کر باہر نکلے کسی نے پوچھا کہ عمر کہاں جارہے ہو؟ حضرت عمرؓ نے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ اُس نے کہا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو قتل کر کے تمہیں کیا ملے گا اگر تم اسے قتل کرو گے تو اس کا خاندان تمہیں اور تمہارے خاندان کو قتل کر دے گا اس لئے بہتر ہے کہ پہلے تم اپنے خاندان کی خبر لو تمہاری اپنی بہن مسلمان ہو چکی ہے تم دوسروں کو کیا کہتے ہو۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر سیدھے اپنی بہن کے گھر کی طرف آئے جس وقت حضرت عمرؓ ان کے گھر پہنچے اُس وقت ایک صحابیؓ ان کی بہن اور بہنوئی کو قرآن مجید پڑھا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے دروازہ پر دستک دی آپ کی بہن اور بہنوئی نے صحابی کو چھپا دیا اور قرآن کریم کے پرچے بھی چھپا دئیے۔ جب حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے تو آپ نے اپنی بہن سے پوچھا کیا چیز تھی جو تم پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہا قرآن تھا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا تمہیں کون پڑھا رہا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا تعلق۔ پھر حضرت عمرؓ نے پوچھا سنا ہے تم صابی ہو گئے ہو اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے۔ جب آپ نے ہاتھ اُوپر اُٹھاکر بازوؤں کو زورسے حرکت دی تو ان کی بیوی کو یہ دیکھ کر کہ ان کا خاوند اسلام لانے کی وجہ سے پٹنے لگا ہے جوش آگیا اور وہ دَوڑ کر حضرت عمرؓ اور اپنے خاوند کے درمیان آکر کھڑی ہو گئیں اور کہا ہاں ہاں ہم مسلمان ہوگئے ہیں مارنا چاہتے ہو تو بے شک مارلو۔ عمرؓ کا ہاتھ بلند ہو چکا تھا اور زور سے گھوم کر نیچے کی طرف آرہا تھا اب اُس ہاتھ کو روکنا خود عمر کے اختیار میںبھی نہ تھا چنانچہ بازو زور سے جنبش کھاکر نیچے گرا اور حضرت عمرؓ کی بہن کے منہ پر اس زناٹے سے آکر لگا کہ کمرہ گونج گیا۔ حضرت عمرؓ کی بہن کے ناک سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا اور وہ عمرجو ابھی اپنے بہنوئی کو مار مار کر زمین پر لٹا دینے کے لئے تیار ہو رہا تھا حیرت زدہ ہو کر اس نظارہ کو دیکھنے لگا وہ لاکھ ظالم تھا، کافر تھامگر عرب کے ایک شریف خاندان کا چشم وچراغ تھا اُس کی ہمت اور اُس کی بہادری کی عمارت متنرلزل ہو گئی اچانک اپنے آپ کو ایک مجرم کی حیثیت میں کھڑا پایا اُس نے ایک عورت پر ہاتھ اُٹھایا تھا وہ اپنی بہن کے خون بہانے کا مجرم تھا جس کی حفاظت اس کا اوّلین فرض تھا اس گھبراہٹ میں عمرؓ کو اس کے سِوا اور کچھ نہ سُوجھا کہ نہایت مسکینی کے ساتھ اپنی بہن سے بولے بہن! لاؤ وہ کلام جو تم لوگ سُن رہے تھے مَیں بھی اسے پڑھوں گا۔ عمرؓ کی بہن کے ایمان کا شعلہ اب بھڑک چکا تھا اب وہ عورت نہ تھی ایک شیرنی تھی اب عمرؓ ایک مرد نہ تھا ایک گیدڑ تھا جوشیر کے حملہ کا انتظار کر رہا ہو۔ بہن نے کہا کیا تم قرآن کو ہاتھ لگا سکتے ہو تم جو پا ک اورناپاک کا فرق نہیں کر سکتے مَیں ہرگز تمہیں قرآن کریم کو ہاتھ لگانے نہ دوں گی ۔عمرؓ نے جو اپنی ظالمانہ کرتوت کی ندامت کے اثرسے بھیگی بلی بنے سامنے کھڑے تھے لجاجت کرتے ہوئے بہن سے کہا کہ بہن میں کیا کروں جس سے قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے قابل بن جاؤں۔ بہن نے کہا وہ سامنے غسل خانہ ہے وہاں جاؤ اور غسل کر کے آؤ پھر قرآن کریم کو ہاتھ لگانے دوں گی۔ عمرؓ خاموشی سے وہاں گئے اور غسل کیا پھر بہن کے سامنے آئے اب بہن کے دل میں بھی امید کی شعاع پیدا ہونے لگی اور اُس نے دھڑکتے دل سے سوچنا شروع کیا کہ شاید میرا کافر بھائی اسلام کی روشنی سے حصہ پالے اور کاپنتے ہاتھوں سے قرآن کے وہ ورق جس کا سبق میاں بیوی لے رہے تھے عمرؓ کے ہاتھ میں دئیے۔عمرؓ نے قرآن کریم کو آج پہلے دن اس حالت میں پڑھا کہ ان کا دل تعصب سے آزاد تھا ابھی چند آیات ہی پڑھی تھیں کہ قرآن کریم نے ان کے دل کو رام کرنا شروع کیا کچھ آیتیں اور پڑھیں تو آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کچھ اور آگے بڑھے تو اپنے کفر سے گھن آنے لگی اپنی سابق زندگی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے کچھ اورآیتیں پڑھیں تو دل ہاتھ سے جاتا رہا دیوانہ وار اُٹھے اور بہن سے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کہاں رہتے ہیں؟ بہن بھائی کو محبت کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی اور اس کے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں کہ کاش! میری ماںکا جایا دوزخ سے نجات پائے اتنے میں کان میں آواز آئی بہن! محمد کہاں رہتے ہیں؟ بھائی کی محبت کو اس آواز نے ہوا میں اُڑا دیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اب پورے جوش سے اس کے دل کے فوارہ سے پھوٹنے لگی۔ اس نے سوچا اگر عمرؓ کا یہ جوش عارضی ہوا، اگر اس کے دل میں بد نیتی کے خیال پوشیدہ ہوں، اگر اس نے میرے محبوب محمدؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ہو تو پھر مَیں کیا کروں گی؟ اُس نے عمرؓ کے اسلام کے خیال کو دماغ کے پچھلے خلیوں میں دھکیل دیا اور محمد رسول اللہ کی محبت کے جوش سے متوالی ہو کر عمرؓ کا گریبان پکڑ لیا اور اس دیوانگی سے جسے محبت کے سِوا اور کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتی چلائی خدا کی قسم! میں تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جانے دو نگی پہلے تم قسم کھاؤ کہ تم کسی بد ارادہ سے نہیں جا رہے۔ عمرؓ نے بہن کی طرف مسکین نگاہوں سے دیکھا جس طرح مرغِ بسمل ذبح کے وقت دیکھتا ہے اور کہا بہن! میں مسلمان ہونے جارہا ہوں۔ یہ کلام کیا تھا مُردہ بہن کو زندہ کرنے والا تھا۔ اس نے عمرؓ کا گریبان چھوڑ دیا اور اپنے خدا کا شکریہ ادا کیا جس نے بچھڑے ہوئے بھائی کو پھر سے بہن کو ملادیا۔ جس نے خطاب کے گھرانہ کی دوزخ کو جنت سے بدل دیا اور کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُمِّ ہانی کے گھر پر ہیں اور عمرؓ خامو شی سے اس گھر کی طرف چل پڑے۔ جب آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکان پر پہنچے اور دستک دی تو صحابہؓ نے دروازوں کی دراڑوں میں سے دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بتایا کہ باہر عمرؓ تلوار لئے کھڑے دستک دے رہے ہیں اور مشورہ دیا کہ اِس وقت دروازہ کھولنا مناسب نہ ہوگا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں تم دروازہ کھول دو۔ حضرت عمرؓ اسی طرح تلوار لئے اندر داخل ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آگے بڑھے اور عمرؓ کا گریبان پکڑ کر کھینچا اور فرمایا عمر! تمہارے بدارادے ابھی تک بدلے نہیں؟ حضرت عمرؓ نے آنکھیں نیچی کر لیں اور کہا یا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں کسی بد ارادے سے نہیں آیا بلکہ آپ کے غلاموں میں شامل ہونے آیا ہوں۔ ان کلمات کا سننا تھا کہ مسلمانوں نے جوش سے اَللّٰہُ اَکْبَرُکا نعرہ بلند کیا جس سے مکہ کی فضا ایک سرے سے دوسرے سرے تک گونج گئی۔ ۱۲؎ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کا اسلام لانا ایک عورت کی تبلیغ اور قربانی کے نتیجہ میں تھا اور جو جو کام حضرت عمرؓ نے اسلام لانے کے بعد کئے ان میں حضرت عمرؓ کی بہن برابرکی شریک تھیں کہ آپ کے اسلام لانے کا وہی موجب ہوئیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہجرت کی تحریک کرنے کے لئے جو وفد مدینے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اُس وفد میں ایک عورت بھی تھی جو اصرار کے ساتھ اس وفد میں شاـمل ہوئی تھی یہ وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رات کے ایک بجے ملا اُس وقت بھی وہ عورت اس وفد کے ساتھ تھی۔ اس وفد نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ جب بھی ہجرت کریں تو مدینہ تشریف لائیں۔ یہ عورت اس جوش اور اخلاص کی مالک تھی کہ ہمیشہ جہاد میں حصہ لیتی اور اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اسلام کے جانثار سپاہی ثابت ہوئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا اُس وقت بھی آپ کی ہجرت میں ایک عورت نے خاص طور پر حصہ لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے مکہ سے روانگی کے وقت آخری کھانا حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن اسماء نے بنایا اُس زمانے میں کپڑے بہت کم ہوتے تھے عورتوں کے پاس ایک ہی بڑی سی چادر ہوتی تھی جس کو وہ ساڑھی کی طرح اپنے اِردگرد لپیٹ لیتی تھیں بہت سے مردوں کو ایسی چادر بھی نہیں ملتی تھی وہ صرف تہہ بند ہی باندھتے تھے حضرت اسماء جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے کھانا باندھنے لگیں تو انہیں کوئی کپڑا نہ ملا انہوں نے اپنی ساڑھی سے ہی ایک ٹکڑا پھاڑ کر اس میں کھانا باندھا اور ساڑھی کے پھٹ جانے کی وجہ سے جہاں سے کپڑا پھاڑا تھا وہاں دو ٹکڑے ہوگئے وہ ایک ٹکڑے کو کمرکے گرد لپیٹ لیا کرتی تھیں اس وجہ سے ان کا نام ذَاتُ النَّطَاقَتَیْنِ پڑ گیا۱۳؎ عام طور پر ایسی پھٹی ہوئی ساڑھی لونڈیاں باندھتی تھیں۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ایک موقع پر عبداللہ بن زبیر کو کسی شخص نے کہا کہ وہ ذَاتُ النَّطَاقَتَیْنِ کے بیٹے ہیںیعنی ایک لونڈی کے۔ ایک صحابیؓ نے جب یہ سنا تو اُس نے کہا تمہیں یہ طعنہ دیتے ہوئے خیال نہیں آیا کہ اس کی ماں کو ذَاتُ النَّطَاقَتَیْنِکیوں کہا جاتا تھا؟ جس لباس کے نام کی وجہ سے تم اسے لونڈی کا طعنہ دیتے ہو اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ساڑھی کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے کھانا باندھا تھا۔پس یہ طعنہ نہیں یہ اس کی ماں کی فضیلت کی دلیل ہے۱۴؎ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو جیسی مردوں کو خوشی تھی ویسی ہی عورتوں کو خوشی تھی مدینہ کی عورتیں دیوانہ وار گیت گاتی ہوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے استقبال کو نکلیں وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی تھیں کہ اس نے ان کے لئے ثَنِیَّۃِ الْوِدَاعسے چاند چڑھا دیاہے وہ والہانہ طور یہ شعرگاتی تھیں۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَامِنْ ثَنِیَّۃِ الوِدَاعِ۱۵؎
اے لوگو! دیکھو تو لوگوں کاچاند مشرق سے نکلتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارا چاند ثنیتہ الوادع سے چڑھا دیا ہے۔ اس کے بعد مدینہ کی مسلمان عورتوں نے اپنی متواتر قربانیوں سے شاندار مثالیں قائم کیں۔ قربانی کی وہ مثالیں جو صحابیات نے قائم کیں ان کی نظیر آج تک کسی قوم کی عورت میں نہیں ملتی۔
اُحد کی جنگ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شہید ہونے کی خبر پھیل گئی اور جب کمزور اور بُزدل لوگ میدا نِ جنگ سے بھاگ کر مدینہ کی طرف آرہے تھے مدینہ کی عورتیں اُحد کے میدان کی طرف دیوانہ وار دوڑی جاتی تھیں اور بعض عورتیں تو میدانِ جنگ تک جاپہنچیں۔ ایک عورت کے متعلق آتا ہے کہ جب و ہ میدانِ جنگ میں پہنچیں تو انہوں نے ایک مسلمان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خیریت کے متعلق پوچھا تو اُس شخص نے جواب دیا کہ بی بی! تمہارا باپ مارا گیا ہے۔ اُس نے کہا مَیں تم سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھ رہی مَیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پوچھتی ہوں۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس شخص نے اس کے باپ ،بھائی، بیٹااور خاوند چاروں کے مرنے کی اطلاع اُسے دی اور بعض روایات میں آتا ہے کہ اس نے اسکے تین رشتہ داروں یعنی باپ،بھائی، اور خاوند کے مرنے کی اطلاع دی لیکن ہر دفعہ اس عورت نے یہی کہا کہ مَیں تم سے رشتہ داروں کے متعلق نہیں پوچھتی مَیں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اُس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں۔ اس کے بعد پھر وہ میدانِ جنگ کی طرف بھاگ پڑی اور وہ فقرہ جو وہ کہتی تھی اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کتنی محبت تھی وہ اُحد کے میدان کی طرف دَوڑی جاتی تھی اسے جو سپاہی ملتا اُسے کہتی مَافَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وسلم) ارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یہ فقرہ خالص طور پر عورتوں کا فقرہ ہے کوئی مرد اپنے پاس سے یہ فقرہ نہیں بنا سکتا کیونکہ جب کسی عورت کا بچہ یا اُس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ کہتی ہے ارے تم نے یہ کیا کیا تم ہمیںچھوڑ کر چلے گئے۔ پس یہ فقرہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیا کیا، ایک زنانہ آواز ہے اور کوئی مؤرخ ایسا جھوٹا فقرہ نہیں بنا سکتا کیونکہ عورتوں کے سِوا یہ فقرہ کسی اور کے منہ سے نہیں نکل سکتا وہ عورت یہ کہتی جاتی تھی کہ
ہائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیا کیا کہ آپ شہید ہو گئے اور ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اسے صحابیؓ کے بتا دینے پر بھی تسلی نہ ہوئی اور اصرار کیا کہ تم مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس لے چلو۔ جب اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نظر آئے تو وہ بھاگتی ہوئی آپ کے پاس پہنچی اور آپ کا دامن پکڑ لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بی بی! مجھے افسوس ہے کہ تیرا باپ اور تیرا بھائی اور تیرا خاوند لڑائی میں مارے گئے۔ اُس عورت نے جواب دیا جب آپ زندہ ہیں تو مجھے کسی اور کی موت کی پرواہ نہیں۔۱۶؎
یہ وہ عشق تھا جوان عورتوں کو پروانہ وار قربانیوں کے میدان میں کھینچے لئے آتا تھا جو عہدانہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا اس کو سچا کر دکھایا۔جنگ سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سواری کی باگ حضرت سعدبن معاذؓپکڑے ہوئے فخر سے چلے آرہے تھے جنگ میں آپ کا بھائی بھی مارا گیا تھا مدینہ کے قریب پہنچ کر حضرت سعدؓ نے اپنی ماںکو آتے ہوئے دیکھا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میری ماں آرہی ہے حضرت سعدؓ کی والدہ کی عمر اَسّی بیاسی سال کی تھی، آنکھوں کا نور جاچکاتھا، دھوپ چھاؤں مشکل سے نظرآتی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر وہ بڑھیا بھی لڑکھڑاتی ہوئی مدینہ سے باہر نکلی جارہی تھی۔ حضرت سعدؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میری ماں آرہی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میری سواری کو ٹھہرا لو۔ جب آپ اس بوڑھی عورت کے قریب آئے تو اُس نے اپنے بیٹوں کے متعلق کوئی خبر نہیں پوچھی، پوچھا تو یہ پوچھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہاں ہیں؟ حضرت سعدؓ نے جواب دیا آپ کے سامنے ہیں اس بوڑھی عورت نے اوپر نظر اُٹھائی اور اس کی کمزور نگاہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرے پر پھیل کر رہ گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بی بی! مجھے افسوس ہے تمہارا جوان بیٹا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے۔ بڑھاپے میں کوئی شخص ایسی خبر سُنتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن اس بڑھیا نے کیسا محبت بھرا جواب دیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں مجھے تو آپ کی خیریت کا فکر تھا ۔۱۷؎
یہی وہ عورتیں تھیں جو اسلام کی اشاعت اور تبلیغ میں مردوں کے دوش بدوش چلتی تھیں اور یہی وہ عورتیں تھیں جن کی قربانیوں پر اسلامی دنیا فخر کرتی ہے۔ تمہارا بھی دعویٰ ہے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائی ہو اور حضرت مسیح موعود ؑ رسول کریم کے بروز ہیں گویا دوسرے لفظوں میں تم صحابیات کی بروز ہو لیکن تم صحیح طور پر بتاؤ کہ کیا تمہارے اندر دین کا وہی جذبہ موجزن ہے جو صحابیات میں تھا، کیا تمہارے اندر وہی نور موجود ہے جو صحابیات میں تھا، کیا تمہاری اولادیں ویسی ہی نیک ہیں جیسی صحابیات کی تھیں؟ اگر تم غور کرو گی توتم اپنے آپ کو صحابیات سے بہت پیچھے پاؤگی۔صحابیات نے جو قربانیاں کیں آج تک دنیا کے پردے پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی قربانیاں جو انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر کیں اللہ تعالیٰ کو ایسی پیاری لگیں کہ اللہ تعا لیٰ نے بہت جلد اُن کو کامیابی عطا کی اور دوسری قومیں جس کام کو صدیوں میں نہ کر سکیں ان کو صحابہؓ اور صحابیات نے چند سالوں کے اندر کر کے دکھادیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے اس وقت آپ تنہا تھے آپ ایک بے کس اور بے بس وجود تھے لیکن ابھی آٹھ سال نہیں گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔آٹھ سال کے اندر اندر مردوں اور عورتوں نے ایسے رنگ میں قربانیاں کیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ان کیلئے جوش میں آیا اور ان پر کامیابی کے دروازے کھول دیئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے وقت تمام عرب میں اسلام پھیل چکا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحابیات ہر قربانی پر آپ سے یہ عرض کر تی تھیں کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !کیا ان قربانیوں میں ہمارا حصہ نہیں؟ مرد ہر میدان میں قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں لیکن ہم جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لے سکتیں آپ ہمیں کیوں اس میں حصہ نہیںلینے دیتے۔ ۱۸؎
اُس زمانہ کی عورتیں قربانی کے کام کر کے مردوں کا مقابلہ کرتی تھیںاور آج کل کی عورتیں اپنے نکمّے پن سے مردوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ جنگ کے لئے جانے لگے تو ایک صحابیہ بھی لشکر میں آشامل ہوئی، جب صحابہؓ نے اس کو منع کیا تو اس عورت نے کہا کیوں، ہم کیوںنہ جائیں کیا ہم پر اسلام کی خدمت فرض نہیں؟ اس کا یہ جواب سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہنس پڑے اور فرمایااسے بھی ساتھ لے چلو اور زخمیوں کو پانی پلانے اور اُن کی مرہم پٹی کرنے کا کام اُس کے سپرد کر دیا۔۱۹؎ فتح کے بعد جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو مالِ غنیمت میں اس عورت کا حصہ ایک مرد کے برابررکھا گیا۔اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ معمول تھاکہ جب آپ جنگ کے لئے جاتے تو کچھ عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے جو نرسنگ کا کام کرتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔ اکثر دفعہ آپ کی بیویاں بھی جنگ میں شامل ہوتیں اور نرسنگ کا کام کرتیں۔ جنگ ِاُحد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہؓ بھی شامل تھیں۔ کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں صحابیات پیچھے رہی ہوں اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں مؤمن مردوں کا ذکر کرتا ہے وہاں مقابل میں عورتوں کا بھی ذکر کرتا ہے اگر یہی جذبہ آج ہماری عورتوں میں بھی پیدا ہو جائے تو احمدیت بہت جلد ترقی کرنے لگے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ تبلیغ کرنا اور اسلام کے لئے قربانی کرنا صرف مردوں کا کام ہے ہمارا کام صرف کھانا پکانا اور بچوں کو پالنا ہے۔ تم میںسے کتنی ہیں جو باقاعدہ طور پر تبلیغ کرتی ہیں؟ میرا خیال ہے کہ عورتوں کی تبلیغ سے ہزار میں سے ایک عورت بھی ایسی نہیں جوکسی احمدی عورت کی تبلیغ کی وجہ سے احمدی ہوئی ہو ۔اکثرعورتیں ایسی ہیں کہ جن کے خاوند احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہوگئیں یا جن کے بھائی احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہوگئیں یا جن کے باپ احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہو گئیں یا جن کے بیٹے احمدی ہوئے اور وہ احمدی ہو گئیں ان عورتوں کا ایمان مرہونِ منت ہے مردوں کا۔ تمہارے ہمسایہ میں ہزاروں ہزار عورتیں رہتی ہیں مرد عورتوں کو تبلیغ نہیں کر سکتے عورتیں ہی عورتوں کو تبلیغ کر سکتی ہیں اگر تم اپنے فرض کو سمجھو اور ہر سال دہلی میں دو چار سَو مرد مردوں کی تبلیغ کے ذریعے احمدیت میں داخل ہوں اور دو چار سَو عورتوں کی تبلیغ کے ذریعے احمدیت میں داخل ہوں تو یہ دو چار سَو مرد اور دوچار سَو عورتیں ہی صرف احمدیت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی، بہنیں اور بیٹے اور بچے بھی احمدیت میں داخل ہوں گے اور اس طرح تبلیغ کی رفتار دُگنی ہو جائے گی۔ لیکن مَیں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے کبھی تبلیغ کے لئے اپنے دل میں درد محسوس کیا ہے اور کیا کبھی تم نے یہ سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے کی وجہ سے تم پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ احمدیت اس کا نام نہیں کہ چند روپے چندہ دے دیا یا منہ پر پانی کے چندچھینٹے ڈالے اور وضوکر کے دو چار سجدے اور رکوع کر دیئے بلکہ احمدیت اللہ تعالیٰ سے ایسے تعلق کا نام ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بندے کا اتصال ہو جائے اور بندہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور محبوبوں میں شامل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا اُس کا دروازہ ہر ایک بندے کے لئے کھلا ہے لیکن ضرورت اِس بات کی ہے کہ بندہ اپنے اندر یہ تڑپ پیدا کرے کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے ملے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور میری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جس طرح مردوں نے قربانیاں کی اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے مورد بنے اسی طرح جن عورتوں نے اللہ تعالیٰ کے رستے میں قربانیاں کیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی مورد بنیں بلکہ وہ بعض باتوں میں مردوں سے بھی آگے نکل گئیں۔ تفقّہ میں جو درجہ حضرت عائشہؓ کو حاصل ہے وہ کسی مرد کو حاصل نہیں۔
آج خاتم النبیینؐ کا مسئلہ ہمارے اور غیر احمدیوں کے درمیان مَابِہِ النّزاع مسئلہ ہے ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے تابع نبی آسکتے ہیں لیکن غیراحمدی یہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہے اور کسی قسم کاکوئی نبی نہیں آسکتا اور اسی اختلاف کی وجہ سے سالہاسال سے ہمارے اور ان کے درمیان یہ جھگڑا چلا آتا ہے اس جھگڑے کو ایک عورت نے کیا اچھا حل کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفا ت کے بعد حضرت عائشہؓ نے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سُنا جو خاتم النبیین کی جگہ لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ پر زور دیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے ان کی باتیں سُنیں تو فرمایا۔ (قُولُـوْا اِنَّہ‘ خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ وَلاَ تَقُوْ لُوْالَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ)۲۰؎ تم یہ تو بے شک کہو کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔آپ نے یہ فقرہ کہہ کر اُن لوگوں پر واضح کر دیا کہ خاتم النبییں کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے بعد نبی نہیں آسکتا۔ حضرت عائشہؓنے اس خطرہ کو محسوس کیا کہ لوگ اس غلطی میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ آپ کے بعدکوئی نبی نہیں آسکتا کیونکہ آپ یہ جانتی تھیں کہ خود رسول کریم ﷺ نے اپنے بعد ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی فرمائی ہے اور قرآن کریم میں آپ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ آپ کی بعثت دوبارہ ہوگی اور آپ یہ بھی جانتی تھیں کہ مُردے دوبارہ زندہ نہیں ہوتے اور آپ کی اس بعثت سے مراد آپ کا بروز ہے۔ حضرت عائشہؓ اس بات کو سمجھ گئیں لیکن بعض دوسرے جلیل القدر صحابہؓ اس بات کو نہ سمجھ سکے۔ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول بھی اس قسم کا ہے لیکن حضرت عائشہؓ کا قول سب سے زیادہ زور دار ہے۔ حضرت علیؓ کے بیٹوں حسنؑ اور حسینؑ کو ایک شخص پڑھایا کرتا تھا حضرت علیؓ ایک دفعہ اپنے بچوں کے پاس سے گزرے تو آ پ نے سنا کہ آپ کے بچوں کو اُن کا اُستاد خَاتِمَ النَّبِّیین پڑھا رہا تھا حضرت علیؓ نے فرمایا میرے بچوں کو خَاتِمَ النّبِّیین نہ پڑھاؤ بلکہ خَاتَمَ النَّبِّیین پڑھایا کرو۔ یعنی بے شک یہ دونوں قراء تیں ہیں لیکن میں خَاتَمَ النّبِّیین کی قراء ت کو زیادہ پسند کرتا ہوں کیونکہ خَاتَمَ النّبِّیین کے معنی ہیں نبیوں کی مُہر اور خَاتِمَ النّبِّیین کے معنی ہیں نبیوں کو ختم کرنے والا، میرے بچوں کو تا کی زبر سے پڑھایا کرو۔۲۱؎
آج ہر مسلمان خواہ وہ عالم ہو یا جاہل ہو احمدیوں کے سِوایہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا لیکن آج سے تیرہ سَو سال قبل حضرت عائشہؓ نے اِس غلطی کو تاڑ لیا اور بہت زور دار لفظو ں میں اِس کی تردید کی۔ کتنا عظیم الشان حل ہے جوحضرت عائشہؓ نے پیش کیا۔ اِسی قسم کی اَور بہت سی مثالیں ہیں اور بہت مواقع ہیں جن میں عورتیں مردوں پر سبقت لے گئیں۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک لشکر جنگ کے لئے بھیجا اور اس کا سردار حضرت زیدؓ کو بنایا۔ حضرت زیدؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام تھے جن کو آپ نے آزاد کر دیا تھا، آزادہونے کے بعد حضرت زیدؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ چھوڑنا پسند نہ کیا، حضرت زیدؓ کے چچا اور ان کے والدان کو لینے کے لئے آئے، اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ آپ زیدؓ کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں، اس کی والدہ روتے روتے اندھی ہو گئی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں زید کو آزاد کر چکاہوں اور اس کو میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ خوشی کے ساتھ تمہارے ساتھ چلا جائے۔آپ نے زید کو بلایا اور فرمایا کہ دیکھو! تمہارا باپ اور تمہارا چچا تمہیں لینے آئے ہیں تم ان کے ساتھ چلے جاؤ۔ حضرت زیدؓ اصل میں آزاد خاندان سے تعلق رکھتے تھے اُن کو بچپن میں عیسائی ڈاکو پکڑ کے لے گئے تھے اور کسی کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ آخربِکتے بِکتے وہ حضرت خدیجہؓ کے ہاتھ بِک گئے تھے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوئی تو حضرت خدیجہؓ نے یہ غلام آپ کی نذر کر دیا اور رسول کریم ﷺ نے اُسے آزاد کر دیا۔حضرت زیدؓ کے والد نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ آپ جتنا روپیہ لینا چاہتے ہیں لے لیں اور زید کو آزاد کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مَیں تو اُس کو پہلے ہی آزاد کر چکا ہوں اور اُسے میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ تمہارے ساتھ چلا جائے۔ آپ نے زید کو فرمایا کہ تمہارے ماں باپ کو تمہاری جُدائی کی وجہ سے صدمہ ہے اَب تم اپنے باپ کے ساتھ چلے جاؤ لیکن حضرت زیدؓ نے کہا آپ بے شک مجھے آزاد کر چکے ہیں لیکن مَیں اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتا مَیں آپ کو کسی حالت میں بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور آپ مجھے ماںباپ سے بھی زیادہ عزیر ہیں۔ پھر اپنے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی ماں سے بہت محبت ہے میری ماں کو میری طرف سے سلام کہنا اور یہ عرض کرنا کہ مجھے تیری محبت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ زیادہ محبت ہے۔ جب حضرت زیدؓ نے اپنے باپ کو یہ جواب دیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل محبت سے بھر گیا اور آپ نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ لوگو! سُن لو آج سے زیدؓ میرا بیٹا ہے۲۲؎ اُس وقت تک ابھی متبنّٰی کی رسم جاری تھی اور اُس کے امتناع کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ وہ لشکر جس کا مَیں نے اُوپر ذکر کیا ہے اُس کا افسر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی زیدؓ کو مقرر کیا تھا مگر ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا کہ مَیں اِس وقت زید کو لشکر کا سردار بناتا ہوں اگر زید لڑائی میں مارے جائیں تو ان کی جگہ جعفرؓ لشکر کی کمان کریں، اگر وہ بھی مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحؓ کمان کریں، اگر وہ بھی مارے جائیں تو پھر جس پر مسلمان متفق ہوں وہ فوج کی کمان کرے۔۲۳؎ جس وقت آپ نے یہ ارشاد فرمایا اُس وقت ایک یہودی بھی آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اُس نے کہا مَیں آپ کو نبی تو نہیں مانتا لیکن اگر آپ سچے بھی ہوںتو ان تینوں میں سے کوئی بھی زندہ بچ کر نہیں آئے گا کیونکہ نبی کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ پوری ہو کر رہتی ہے۔ وہ یہودی حضرت زیدؓ کے پاس گیا اور انہیںبتایا کہ اگر تمہارا رسول سچاہے تو تم زندہ واپس نہیں آؤگے۔ حضرت زیدؓنے فرمایا مَیں زندہ آؤںگا یا نہیں آؤں گا اِس کو تو اللہ ہی جانے مگر ہمارا رسول ﷺ ضرور سچا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ یہ واقعہ بالکل اسی طرح پورا ہوا۔ پہلے حضرت زیدؓ شہید ہوئے اور ان کے بعد حضرت جعفرؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی وہ بھی شہید ہوگئے اور ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواح نے لشکر کی کمان سنبھالی لیکن وہ بھی مارے گئے اور قریب تھا کہ لشکر میں انتشار پیدا ہو جاتا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بعض مسلمانوں کے کہنے سے جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ مسلمانوں کو فتح دی اور وہ خیریت سے لشکر کو واپس لے آئے۔
جب یہ لشکر مدینہ پہنچا تو جو مسلمان جنگ میں شہید ہوئے تھے ان کے رشتہ داروں نے ان پر واویلا کرنا شروع کیا۔ اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے محسوس کیا کہ جعفرؓ کے گھر میں سے چیخنے چلانے کی آوازیں نہیں آتی تھیں شاید اس وجہ سے کہ حضرت جعفرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اِس لئے ان کے گھر والے شریعت کے زیادہ واقف تھے اور انہوں نے صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھایا یا اِس وجہ سے کہ بوجہ مہاجر ہونے کے گھر میں صرف اُن کی بیوی ہی تھیں اَور کوئی ہمدرد نہ تھا۔ اُس وقت سارے مدینے میں ایک کہرام مچا ہوا تھا اور عورتیں اپنے اپنے رشتہ داروں پر رو رہی تھیں لیکن جعفرؓ کا گھر سنسان پڑا تھا۔ غرض اِس فرق کو دیکھ کر آپ کے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ جعفر پر رونے والا کوئی نہیں۔ آپ کے منہ سے اِس فقرہ کا نکلنا تھاکہ صحابہؓ کے سر ندامت کے مارے جھک گئے اور اُن میں سے کئی مجلس سے اُٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو گئے اور اپنی بہنوں اور بیویوں سے کہا تم یہاں کیا کر رہی ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ سب لوگ اپنے رشتہ داروں پر رو رہے ہیں لیکن جعفرؓ کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں۔ یہ بات سنتے ہی مدینے کی تمام عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر جمع ہو گئیں (اُس وقت عربوں میں بَین کرنے کا رواج موجود تھا اور ابھی تک اس کی ممانعت نہیں ہوئی تھی) عورتوں نے زور زور سے رونا اور پیٹنا شروع کیا ان کے رونے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا مدینہ میں ایک کہرام مچ گیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شور سن کر صحابہؓ سے پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے؟ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے جو کہا تھا کہ جعفرؓ کے گھر میں رونے والا کوئی نہیں آپ کے اس فقرہ کو سن کر تمام مدینہ کی عورتیں جعفرؓ کے گھر جمع ہوگئیں ہیں وہ جعفرؓ پر رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا میرا یہ مطلب تو نہیں تھا مَیں رونے کو پسند نہیں کرتا جاؤ اور اُن کو منع کرو۔ لیکن اَب عورتیں بھی اِس جذبہ کے ماتحت رو رہی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی شہید ہو گیا ہے، اُن کے دلوں میں ندامت پیدا ہو چکی تھی کہ ہم اپنے خاوندوں اور بھائیوں پر تو رو رہی تھیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی پر رونے والاکوئی نہیں اس لئے یہ رونا محبت و عشق کا رونا تھا اور سچا جوش اِس میں پایا جاتا تھا۔ اتنے میں ایک صحابیؓ وہاں آ گئے اور کہا چپ کرو چپ کرو، روؤ نہیں کیونکہ اس طرح رونے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے۔ عورتوں نے اُسے جواب دیا ۔جا جا، اپنے گھر بیٹھ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھائی شہید ہو جائے اور ہم نہ روئیں۔ جب وہ عورتیں رونے سے باز نہ آئیں تو وہ صحابیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے او رعرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مَیں نے ان کو بہت منع کیا ہے لیکن وہ رونے سے باز نہیں آتیں۔ آپ نے فرمایا جانے دو رو رو کر خود خاموش ہو جائیں گی۔ آپ نے اس موقع پر یہ الفاظ بیان فرمائے اُحْثُ التُّرَابَ عَلٰی وُجُوْھِھِنَّ۲۴؎ کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالو مطلب یہ تھا کہ ان کو چھوڑ دو۔ پنجابی میں بھی کہتے ہیں کہ ’’اِس نوں کھیہہ کھان دے‘‘۔ مطلب یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحابیؓ کوئی زیادہ ذہین نہ تھے اُنہوں نے اُحْثُ التُّرَابَ عَلٰی وُجُوْھِھِنَّ کے الفاظ سُنے اور واپس آ کر اپنی چادر میں مٹی ڈالی اور عورتوں کے مونہوں پر ڈالنی شروع کر دی۔ حضرت عائشہؓ نے دیکھ لیا اور اُس صحابیؓ سے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اُحْثُ التُّرَابَ عَلٰی وُجُوْھِھِنَّ ۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تم کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اِس سے آپ کا منشاء کیا ہے؟ آپ کا منشاء یہ ہے کہ ان کو چھوڑ دو وہ خود بخود خاموش ہو جائیں گی۔اب دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فقرہ کو ایک صحابیؓ مرد نہیں سمجھ سکا لیکن حضرت عائشہؓ اس کو سمجھ گئیں۔پس کوئی صیغہ دین کا اور قربانی کا ایسا نہیں تھا جس میں عورتیں پیچھے ہوں۔
جن عورتوں کی مثالیں مَیں نے تمہارے سامنے بیان کی ہیں وہ بھی عورتیں ہی تھیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ وہ تمہاری طر ح نازک اندام نہ تھیں اور وہ اپنے فرائض کو سمجھنے والی تھیں۔ اگر تم چاہتی ہو کہ انہی انعامات کی وارث بنو جو صحابہؓ اور صحابیات پر ہوئے تو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو۔ اَب باتیں کرنے کے دن نہیں رہے اَب ہر دن جو مسلمانوں پر چڑھتا ہے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ آفتیں اور مصائب لاتا ہے اور جو آئندہ مردوں پر آئیں گی اُس میں تم بھی اسی طرح شریک ہوگی جس طرح مرد ان مصائب میں حصہ دار ہوں گے۔
کابل میں جو احمدی شہید کئے گئے ان میں سے اکثر کی بیویوں اور بچوں کو سخت سے سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ عورتیں بیوہ ہو گئیں اور بچے یتیم ہوگئے اور ایک لمبے عرصہ تک انہیں قید کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اسی طرح اگر آئندہ زمانہ میں احمدیت کے لئے مصائب پیدا ہوں گے تو اس میں تم بھی برابر کی حصہ دار ہوگی۔ پس ہوشیار ہو جاؤ اور سُستیوں کو ترک کرو۔ جب تک عورتیں مردوں کے ساتھ ہر کام میں اُن کے دوش بدوش نہیں چلتیں اُس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی اور اُس وقت تک اسلام دنیا پر غالب نہیں ہو سکتا۔
مجھے یہاں کی لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری سے یہ بات سن کر بہت تکلیف ہوئی کہ عورتیں دینی کاموں میں بہت کم حصہ لیتی ہیں اور لجنہ کے اجلاس میں بہت کم عورتیں حاضر ہوتی ہیں۔ اکثر عورتیں یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہمیں اپنے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی، بعض کہہ دیتی ہیں کہ ہمارے مرد ہمیں باہر نہیں نکلنے دیتے، کیا تم سمجھتی ہو کہ تمہارا ایمان تمہارے خاوندوں اور تمہارے بھائیوں کے ماتحت ہے۔ ایسے موقع پر تمہیں چاہئے کہ اگر تمہارا بھائی یا تمہارا خاوند تمہیں دینی کاموں میں حصہ لینے سے روکے تو تم اُسے صاف کہہ دو کہ اِس معاملہ میں مَیں تمہاری بات ماننے کو تیار نہیں مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب مَیں نے دینا ہے نہ کہ تم نے۔
جب پردے کا حکم نیانیا نازل ہوا تو ایک صحابیؓ نے ایک شخص سے درخواست کی کہ مَیں آپ کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ شخص رضامند ہو گیا لیکن شادی کرنے والے نے یہ شرط لگائی کہ جب تک مَیں لڑکی کو دیکھ نہ لوں اُس وقت تک شادی نہیں کروں گا۔ جب اُس نے یہ شرط پیش کی تو لڑکی والے نے انکار کر دیا کہ ہم لڑکی دکھانے کے لئے تیار نہیں۔ وہ صحابیؓ جو شادی کا خواہشمند تھا وہ رسول کریم ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ایک آدمی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن لڑکی والے، لڑکی دکھانے سے انکار کرتے ہیں ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا کہ اسلام نے عورتوں کے لئے پردے کا حکم دیا ہے لیکن شادی کے موقع پر اسلام نے اجازت دی ہے کہ مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب سن کر وہ شخص پھر لڑکی والوں کے پاس گیا اور کہا کہ مَیں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایسے موقع پر عورت کا منہ دیکھنا جائز ہے۔ لڑکی کے باپ نے کہا جائز ناجائز کا سوال نہیں مَیں لڑکی دکھانے کو تیار نہیں اِس میں میری ہتک ہے۔ لڑکی نے اندر بیٹھے ہوئے اِن دونوں کی گفتگو کو سُن لیا اور جوش سے پردہ ایک طرف کر کے اُس مرد کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور کہا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے تو میرے باپ کا کوئی حق نہیں کہ مجھے دکھانے سے انکار کرے مَیں تمہارے سامنے کھڑی ہوں مجھے دیکھ لو۔ چونکہ اُس وقت مردوں اور عورتوں میں اعلیٰ درجہ کا ایمان پایا جاتا تھا جونہی وہ لڑکی یہ کہتے ہوئے سامنے آئی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہیں تو میرے باپ کا کیا حق ہے کہ مجھے دکھانے سے انکار کرے اُس شخص کی آنکھیں معاً رُعب سے نیچے جھک گئیں۔ اُس نے کہا جس لڑکی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا اِس قدر پاس ہے خدا کی قسم! مَیں اُس سے بے دیکھے شادی کروں گا۔ چنانچہ اُس شخص نے اُس لڑکی سے بے دیکھے شادی کیـ۔ یہ وہ عورتیں تھیں جن کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت تھی۔
پس تمہارے باپ یا تمہارے بھائی کی تم پر اُس وقت تک حکومت ہے جب تک وہ دین کے رستے ہیں روک نہیں بنتے لیکن اگر وہ تمہیں دینی کاموں میں حصہ لینے سے روکتے ہیں اور تم اُن کی بات مان لیتی ہو تو تم نے خدا کی بجائے اپنے بھائی یا اپنے خاوند کو اپنا خدا سمجھا اور تم نے نیکی حاصل کرنے کی بجائے گناہ کا ارتکاب کیا اور ایمان دار بننے کی بجائے تم بے ایمان بن گئیں۔ تم کو سب سے زیادہ عزیز اپنا ایمان ہونا چاہئے اور اپنے ایمان کے مقابلہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ سید احمد صاحب بریلویؒ جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے مجدد تھے جب وہ حج کے لئے گئے تو اُن کے قافلہ میں سَو کے قریب ایسی عورتیں بھی تھیں جو کہ کبھی گھر سے باہر بے پردہ نہ نکلی تھیں۔جب وہ باہر جاتیں تو اُن کے کمر ے میں ڈولی لے جائی جاتی اور وہ وہیں سے سوار ہو کر باہر نکلتیں اور اگر کبھی انہیں ایک گلی سے دوسری گلی میں جانا ہوتا تو پہلے بہت سے پردے کئے جاتے تب وہ اس جگہ سے گزرتیں یہ سَو عورتیں جب حج کے لئے مکہ پہنچیں اور خانہ کعبہ میں طواف کا وقت آیا تو سید احمد صاحب نے کہا اے بہنو! جس خدا کا یہ حکم تھا کہ تم پردہ کیا کرو اسی خدا کا اب یہ حکم ہے کہ تم یہاں طواف کے وقت پردہ نہ کرو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تمام کی تمام عورتوں نے اُسی وقت نقاب چہرہ پر سے اُلٹ دیئے اور کوئی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ یہ ایمان تیرھویں صدی کی عورتوں میں تھا جن کے پاس نورکا ایسا سرچشمہ نہ تھا جیسا تمہارے پاس ہے اور انہوں نے اس قدرنشانات اور معجزات نہیں دیکھے تھے جتنے تم نے دیکھے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ تم سُستی کو ترک نہیں کرتیں۔ اگر تم تبلیغ نہیں کروگی تو اَور کون کرے گا۔ مرد تو عورتوں کو اُن کے پردہ کی وجہ سے تبلیغ نہیں کر سکتے اگر تم بھی اُن کو تبلیغ نہ کرو تو عورتوں میں احمدیت کس طرح پھیلے گی۔ جو عورتیں بے پرد ہ ہو چکی ہیں اُن کو دین سے کوئی دلچسپی نہیں رہی وہ تو بے دین ہو چکی ہیں اور نہ ہی دینی باتیں سُننے کے لئے تیار ہیں دین کی باتیں پردہ دار عورتیں ہی زیادہ کر سکیں گی اور اُن تک تم ہی پہنچ سکتی ہو۔ پس تم پر بھی تبلیغ اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے اگر تم دینی کاموں میں مردوں کے ساتھ ساتھ نہیں چلو گی تو تم جماعت کا مفید جزو نہیں بلکہ پھوڑے کی طرح ہوگی جو انسان کواس کے فرائض سر انجام دینے سے روک دتیا ہے۔ پھوڑا نکلنے کی وجہ سے بے شک کچھ گوشت بڑھ جاتا ہے لیکن وہ جسم کی طاقت بڑھانے کا موجب نہیں ہوتا بلکہ بیماری کی علامت ہوتا ہے اور کوئی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ پھوڑا اُس کے جسم کا جزو بنا ر ہے اسی طرح ہم بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری عورتیں گندے عضو کی طرح ہمارے باقی جسم کو خراب کریں اگر وہ ایسی رہیں گی تو یقینا اس قابل ہوں گی کہ انہیں جسم سے علیحدہ کر دیا جائے۔
پس تم اپنی سستیوں اور غفلت کو ترک کرو اور اپنے آپ کو احمدیت کے لئے ایک مفید جزو بناؤ اور تم کو یہ عزم کر لینا چاہئے کہ یا تو ہم احمدیت قائم کر دیں گی یا مر جائیں گی جب تک تم یہ عزم نہیں کرتیں اُس وقت تک تم احمدیت کے لئے مفید وجود ثابت نہیں ہو سکتیں۔ تم پر جو ذمہ داریاں ہیں اُن کو پوراکرنے کی کوشش کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک کامیاب خادم کی حیثیت میں کھڑی ہو اور اِس کے لئے ضروری ہے کہ تم اپنے اندر ایک عظیم الشان تبدیلی پیدا کرو جس کو تم بھی اور تمہارے ہمسائے بھی اور باقی دنیا بھی محسوس کرے کہ اب تم میں ایک نئی روح پھونکی گئی ہے۔ تم خود بھی دین سیکھو اور اپنی اولادوں کو بھی دین سکھاؤ اگر تم خود دین نہیں سیکھو گی تو دوسری عورتوں کو تبلیغ کس طرح کرو گی۔ تمہیں تبلیغ کا اس قدر شوق ہونا چاہئے کہ اگر تمہیں ایک مکان میں رہتے رہتے دو سال گزر جائیں اور تمہاری تبلیغ وہاں مؤثر ثابت نہ ہو تو تمہیں چاہئے کہ اپنے بھائی یا اپنے خاوند سے کہو کہ اب کسی اور محلہ میں مکان لو تاکہ ہم کسی دوسری جگہ چل کر احمدیت کو پھیلائیں۔
پس مَیں امید کرتاہوں کہ وقت نکلنے سے پہلے تم اپنے نفسوں کی اصلاح کرو گی اور اپنی آخرت کی فکر کروگی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے دلوں کی اصلاح کرے اور تمہاری جہالتوں اور بے ایمانیوں کو دور کرے تا کہ تم پکی مؤمن بن جاؤ اور ہمارے لئے بھی عزت کا موجب بنو۔ اس کے بعد مَیں دعا کروں گا تم بھی میرے ساتھ شامل ہو جاؤ تاکہ تمہارے دلوں کے زنگ دور ہوں اور تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو کر پیش ہو سکو۔آمین
۱؎ النساء: ۲
۲؎ پیدائش باب ۲آیت ۲۱،۲۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۳؎ النساء: ۶۰
۴؎ بخاری کتاب النکاح باب المراء ۃُ راعیۃ فی بیت زوجھا
۵؎ (الجن: ۲۰)
۶؎ متی باب۱۲ آیت۳۹،۴۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء
۷؎ (الاحزاب: ۷)
۸،۹؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۴۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۱۰؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۲۶۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۶۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۳؎ اسد الغابۃ جلد۵ صفحہ ۳۹۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۰ھ
۱۴؎
۱۵؎ شرح مواہب اللدنیۃ جلد۱ صفحہ۳۵۹۔ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ
۱۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۶۷ ،۲۶۸مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۸؎
۱۹؎
۲۰؎ تکملہ مجمع البحار جلد۴ صفحہ۵۸ حرف الزاء مطبوعہ لکھنؤ
۲۱؎
۲۲؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۲۲۵۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۲۳،۲۴؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ موتۃ من ارض الشام


دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتاہے


از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتاہے
(فرمودہ ۹؍اکتوبر ۱۹۴۶ء بمقام کوٹھی نمبر۸ یارک روڈ دہلی)
تشہّد، تعوذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں اس طریق کار پر کچھ روشنی ڈالوں جو اسلام نے موجودہ بے چینی ،بے اطمینانی اور بدامنی کو دور کرنے کے لئے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ دنیا کی بے چینی اور بدامنی اتنی وسیع ہے کہ شاید اس دنیا کے پردہ پر اتنی وسیع بے امنی اور بے چینی کبھی نہیں ہوئی ہوگی اور اس کے اِس قدر مختلف اسباب پائے جاتے ہیں کہ ان کے متعلق طائرانہ نظر ڈالنا بھی کوئی آسان کام نہیںکجا یہ کہ اس کی حقیقت کو بیان کیا جائے اور اِسلام کی تعلیم کو کھول کر بیان کیا جائے اور پھر ایسے جلسے میں بیان کیاجائے جو اِس وقت ساڑھے پانچ بجے شروع ہو رہا ہے آجکل چھ بجکر ۲۰ منٹ پر سورج غروب ہوتا ہے اور مغرب کا وقت زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ اور ۱۵ منٹ ہوتا ہے اگر مغرب کے وقت میں سے بھی کچھ وقت لے لیا جائے تو وہ ۱۵تا ۲۰ منٹ ہو سکتا ہے اس تھوڑے سے وقت میں اتنے وسیع مضمون کو بیان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر میں ساڑھے چھ بجے تک بھی تقریر کروں تو مشکل سے ایک گھنٹہ وقت مل سکے گا، بہرحال میں کوشش کروں گا کہ بعض حصوں پر اختصار سے روشنی ڈالوں۔ میں سب سے پہلے اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں اور اس بات کی طرف آپ کی توجہ منعطف کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا کے یہ فسادات کسی نئی چیز اور نئے سبب کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ فسادات کی وجوہ وہی ہیں جو آدمؑ سے لے کر اَب تک پیدا ہوتی چلی آئی ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو اپنا منبع بیرونی دنیا میں رکھتی ہیں اور جو چیزیں اپنا منبع بیرونی دنیا میں رکھتی ہیں وہ بدلتی رہتی ہیں جیسے پہلے وقتوں کے لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور اب ریلیں، کاریں اور ہوائی جہاز نکل آئے ہیں لیکن جہاں تک لڑائی جھگڑے اور فساد کا تعلق ہے وہ انسانی دماغ سے پیدا ہوتے ہیں اور انسانی دماغ شروع سے لے کر اَب تک ایک ہی رنگ میں چلے آتے ہیں۔ جب انسان کو غصہ آتا ہے تو اُس کے دماغ میں ہیجان پیدا ہوتا ہے، اس کا دورانِ خون تیز ہو جاتا ہے اور چہرہ پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں، جو کیفیت غصہ کے وقت انسانی دماغ کی پہلے زمانہ میں ہوتی تھی وہی اب بھی ہوتی ہے۔ پہلے زمانہ میں اگر کسی کو غصہ آتا تھا تو وہ دوسرے کے کُلّے پر مُکہ مار لیتا تھا پھر اور ترقی ہوئی تو لوگوں نے سونٹے کا استعمال شروع کیا، پھر اور ترقی ہوئی تو لوگوں نے تیرکمان کا استعمال شروع کیا، پھر اور ترقی ہوئی تو بندوق کا استعمال شروع ہوا اور اب اس سے بڑھ کر لوگوں نے غصہ کو فرو کرنے کے لئے بم اور ایٹم بم کا استعمال شروع کر دیا ہے مگر غصے کے اسباب وہی ہیں جو پہلے تھے اور جو کیفیت غصے سے انسانی قلب اور دماغ کی آج سے دس ہزار سال پہلے پیدا ہوتی تھی وہی آج پیدا ہوتی ہے کوئی نیا سبب پیدا نہیں ہوا۔ کوئی شخص دنیا کی عمر لاکھوں سال کی بتاتا ہے کوئی ہزاروں سال کی بتاتا ہے بہرحال غصہ کو ظاہر کرنے کے لئے جو ہیجان انسانی دماغ میں ابتدائی زمانہ میں پیدا ہوتا تھا وہی اس وقت پیدا ہوتا ہے۔ صرف اس ہیجان کو ظاہر کرنے کیلئے کسی وقت کوئی تدبیر اختیار کر لی گئی اور کسی وقت کوئی تدبیر اختیار کر لی گئی۔ پس اس دنیا میں جو بدامنی اور فسادات پیدا ہورہے ہیں ان کے لئے کسی نئی تدبیر کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں انسانی دماغ پر غور کرنا چاہئے کہ انسانی دماغ کیوں کسی کے خلاف بھڑک اُٹھتا ہے اور اس میں کیوں حدّت اور تیزی اور جوش پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم ان وجوہ پر غور کریں تو ہم یقینا بدامنی کا علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ محض اس لئے کہ چونکہ یہ حالات ۱۹۴۶ء میں پیدا ہوئے اس لئے ہمیں کسی نئی تجویز پر غور کرنا چاہئے بے وقوفی کی بات ہے۔ اس مرض کا علاج جیسے آدمؑ کے زمانہ میں تھا ویسا ہی آج ہے آج بھی انسانی دماغ ویسا ہی ہے۔ انسانی دماغ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوا لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سیدھی سادی اور فطری تجویزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہم کوئی نیا علاج نکالیں۔ ان لوگوں کی مثال لال بجھکڑ کی سی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی کی بہو نئی آئی تھی، اسے جب ہمسایوں کے گھر سے مٹھائی آئی تو اس نے شرم کے مارے ستون کے پیچھے ہو کر اور ستون کے دونوں طرف بازو پھیلا کر مٹھائی لے لی، مٹھائی تو دونوں ہاتھوں میں لے لی لیکن دونوں بازوؤں کے درمیان ستون آگیا۔ اب اگر وہ ہاتھ نکالے تو مٹھائی گر جاتی تھی اور وہ مٹھائی بھی نہیں گرانا چاہتی تھی۔ وہ اسی حالت میں تھی کہ ساس سُسر جو کہیں باہر گئے ہوئے تھے وہ آ گئے انہوں نے بہو کو اس حالت میں دیکھا تو بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے ان کو کسی نے کہا کہ تم لال بجھکڑ سے جا کر اس کا حل پوچھو۔ وہ لال بجھکڑ کے پاس گئے تو اس نے آ کر دیکھا اور دیکھ کر کہا پہلے مکان کی چھت اُتارو، پھر ستون کی اینٹیں نکال لو اس طرح لڑکی کے بازو باہر نکل آئیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے اس طرح کرنا شروع کر دیا، مکان کی چھت اُتار رہے تھے کہ کوئی شخص دریا پار کے علاقہ سے آیا؟ اس نے پوچھا کہ بات کیاہے؟ لوگوں نے سارا واقعہ سنایا اس نے لال بجھکڑ سے کہا یہ کونسی مشکل بات تھی جس کے لئے تم چھت اُتار رہے ہو۔ لڑکی کے ہاتھوں کے نیچے تھالی رکھ کر مٹھائی اس میں گرالو اور اس کے بازو نکال لو۔ لال بجھکڑ نے کہا اگراس طرح کیا جائے تو اُستادی کیا ہوئی یہی حالت آج کل کے لوگوں کی ہے وہ سوچتے ہیں کہ ہم کوئی نیا حل نکالیں جس سے ہماری استادی ظاہر ہو۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پہلے زمانہ کے لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور اب لوگ ریلوں اور ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں یا پہلے زمانہ کے لوگ غصہ کے وقت تھپڑ اور گھونسے سے کام لیتے تھے اور آج کل کے لوگ بم اور ایٹم بم سے کام لیتے ہیں لیکن انسانی دماغ ایک ہی قسم کا ہے اور فساد کی وجوہ بھی وہی ہیں جو پہلے تھیں۔
پس ہمیں کسی نئے علاج کے سوچنے کی ضرورت نہیں ہم آج اسی چیز کو استعمال کریں گے جو آج سے ہزاروں سال قبل استعمال کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عام بات فسادات کے متعلق بیان فرمائی ہے کہ فسادات کیوں ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱؎ اگر زمین و آسمان میں ایک خدا سے زائد خدا ہوتے تو ان میں فساد اور لڑائی جھگڑے ہوتے اور وہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے بے اطمینان رہتے اور یہ نظامِ عالم نہ چل سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ جو ربّ العرش ہے شرک سے پاک ہے تم نظامِ عالم پر غور کر کے دیکھو کہ سارے کا سارا نظام یکساں طور پر چل رہا ہے، سورج اپنے اصل کے ماتحت کام کر رہا ہے، زمین اپنے طریق پر حرکت کر رہی ہے اور اس کی حرکت ایک خاص نظام کے ماتحت نظر آتی ہے۔ غرض اس دنیا کی تمام چیزوں میں ایک ایسا نظام نظر آتا ہے جو ایک دوسرے کو متحد کئے ہوئے ہے اور کسی چیز میں ٹکڑاؤ نظر نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب ساری دنیا میں تمہیں ایک ہی نظام نظر آتا ہے تو تم کس طرح کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا معبود بھی ہے کیونکہ اگر دو ہوتے تو ان میں ضرور فساد ہوتا اور کائناتِ عالم کا نظام اس طرح نہ چل سکتا۔ اب ہمیں فساد کی وجہ معلوم ہوگئی کہ جب کسی نظام میں خلل پڑ جائے تو فساد پیدا ہوتا ہے اور جب ایک مرکز کے ساتھ متحد رہیں تو فسادات پیدا نہیں ہوتے۔ پس اس قانون کے ماتحت ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جب کسی انسان کے دماغ پر دو حاکم ہوں تو وہ آرام میں نہیں رہ سکتا بلکہ یہ ضروری بات ہے کہ اس کے دماغ میں پراگندگی اور فساد پیدا ہو۔ مثلاً خدا بھی حاکم ہو اور اس کا نفس بھی حاکم ہو تو فساد پیدا ہوگا یا خدا بھی حاکم ہو اور اس کی قوم بھی اس پر حاکم ہو تو فساد پیدا ہوگا یا اس پر خدا بھی حاکم ہو اور اس کی قوم کے رسم و رواج بھی حاکم ہوں تو فساد پیدا ہو گا یا خدا تعالیٰ بھی حاکم ہو اور اس کی حکومت بھی اس پرحاکم ہو تو فساد پیدا ہوگا۔ غرض کئی قسم کی حکومتیں پائی جاتی ہیں جو شخص ان مختلف حکومتوں کے ماتحت ہوگا اسے کبھی بھی اطمینانِ قلب نصیب نہ ہوگا۔ ایک شخص مذہب کو بھی تسلیم کرتا ہے اور اِدھر اس کے تعلقات مغربی دنیا کے ساتھ ہیں جو ایسے کاموں کی طرف اسے لے جاتے ہیں جو خلافِ اسلام ہیں اور اس وجہ سے نماز روزہ کے متعلق یہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ یہ پرانے زمانہ کی باتیں ہیں۔ اِدھر قرآن کریم اسے کہتا ہے کہ نماز پڑھو اور روزے رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کی مجلس میں جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پرانے زمانہ کی باتیں ہیں۔ ایسا انسان آخر دہریہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دل پر پورے طور پر یا تو خداتعالیٰ کی حکومت قائم ہو سکتی ہے یا شیطان کی حکومت قائم ہو سکتی ہے دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر کوئی شخص بچ نہیں سکتا۔ جب ایک طرف خدا تعالیٰ معبود ہو اور دوسری طرف دوست معبود بنے ہوئے ہوں یا ایک طرف اللہ تعالیٰ معبود ہو اور دوسری طرف قوم اور اس کے رسم و رواج اور اس کا فلسفہ معبود بنا ہوا ہو تو ایسا شخص اطمینان سے نہیں رہ سکتا کیونکہ قرآن کریم نے یہ اصول قائم کیا ہے کہ جب دو حاکم ہوں گے فساد ضرور پیدا ہوگا۔ چنانچہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ دنیا کی ترقی اور تباہی زمین و آسمان کے اتحاد پر موقوف ہے۔ جب بھی فساد ہوتا ہے زمین و آسمان کے بگاڑ سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۲؎ کہ کیا کفار نہیں دیکھتے کہ زمین و آسمان بند تھے یعنی نہ زمین اپنے روحانی پھل اور سبزیاں اُگاتی تھی اور نہ ہی آسمان وقت پر بارش برساتا تھا زمین و آسمان بند ہو گئے تھے پھر ہم نے اُن میں کشائش کے سامان پیدا کئے اور ان کو اپنے انبیاء کے ذریعے پھاڑ دیا۔ پس دنیا میں ترقی اور کشائش کے سامان تبھی پیدا ہوتے ہیں جب زمین و آسمان متحد ہو جائیں اور دنیا کی تباہی اور بربادی کے سامان بھی تبھی ہوتے ہیں جب زمین و آسمان جمع ہو جائیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی تباہی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمان سے بارش برسی اور زمین سے چشمے پھوٹ پڑے اور اس طرح وہ قوم تباہ ہوگئی ۔۳؎ اگر آسمان سے بارش برستی لیکن زمین سے چشمے نہ پھوٹتے تو وہ قوم تباہ نہ ہوتی یا اگر زمین سے چشمے پھوٹے تھے تو آسمان سے بارش نہ ہوتی تو وہ قوم بچ جاتی۔ مگر چونکہ زمین وآسمان متحد ہوگئے اس لئے وہ قوم تباہ ہوگئی۔ اسی طرح باقی انبیاء کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دشمنوں کی تباہی کی وجہ یہی ہوئی کہ زمین و آسمان ان کے خلاف ہوگئے اور وہ تباہ ہوگئے۔
پس حقیقت میں امنِ کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ زمین وآسمان میں ایک حکومت نہ ہو۔ کامل امن اور کامل آزادی اسی وقت نصیب ہوگی جب زمین پر بھی خداتعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح قائم ہو جائے جس طرح آسمان پرہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو یہ دعا سکھائی کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہو اس دعا میں حضرت مسیح علیہ السلام نے یہی کا مضمون ادا کیا ہے۔ غرض امن کا ذریعہ یہی ہے کہ یا تو دو آدمی جن میں جھگڑا ہے مل بیٹھیں اور یا پھر ایک شخص دوسرے کو مار دے اسی طرح یا تو دنیا میں کلی طور پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو جائے تو امن ہو جائے گا اور یا پھر کُلّی طور پر شیطان کی حکومت قائم ہو جائے تو پھر بھی امن قائم ہوجائیگا۔ جب سے یورپین لوگوںنے ہندوستان اور افریقہ وغیرہ پر قبضہ کیا ہے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان ملکوں کے لوگوں کو نکمّا کر کے ہم پورے طور پر ان ملکوں پر قابض ہوجائیںلیکن آسمان کی حکومت ان کے ساتھ نہیں تھی اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگر وہ ان ممالک کے متعلق آسمان سے فیصلہ کرادیتے کہ ان ملکوں کے باشندوں کی اولادیں بندہو جائیں اور ان کی نسلیں منقطع ہو جائیںتو پھر یہ ہو سکتا تھا لیکن آسمان کی حکومت ان کے ساتھ نہیں تھی اس لئے بجائے اس کے کہ ہندوستان کی نسل بند ہوتی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی۔ جس وقت انگریز ہندوستان میں آئے تھے اس وقت ہندوستان کی آبادی بیس کروڑ تھی اور اب چالیس کروڑہے گویا پہلے کی نسبت دُگنی آبادی ہوگئی کیونکہ آسمانی بادشاہت کا یہ حکم تھا کہ ان کی نسلیں بڑھیں۔ اسی طرح انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ تو کرلیا لیکن ذہنیتوں کو غلام نہ بنا سکے۔ ہاں اگر آسمان کی حکومت ان کے ساتھ ہوتی اور وہ فیصلہ کر دیتی کہ آئندہ جتنے بچے پیدا ہوں ان سب کی ذہنیت غلامانہ بنادی جائے تو پھر کوئی شخص اس غلامی کو دُورنہ کر سکتا۔ بے شک یورپ اور امریکہ نے مختلف ملکوں پر قبضہ کرلیا لیکن ذہنیتوں کو غلام نہیں بنا سکے کیونکہ پیدائش اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کی ذہنیت غلامانہ بنادیتا تو کوئی بھی بغاوت نہ کرتا۔ مثلاً کتے، گھوڑے، گدھے اور بیل سب اسی طرح کام کرتے چلے جاتے ہیں جس طرح آسمانی آقا نے انہیں حکم دیا ہے تم نے کبھی نہیں دیکھا کہ کتوں، گھوڑوں اور بیلوں نے کبھی بغاوت کی ہو۔وہ کوڑے کھاتے ہیں مگر پھر بھی محبت کرتے ہیں کیونکہ آسمان نے انہیں اسی لئے بنایا ہے جس غرض کے لئے زمین تقاضا کرتی تھی۔ زمین چاہتی تھی کہ گھوڑا اپنے مالک کی فرمانبرداری کرے آسمان نے بھی اسے اسی مقصد کے لئے پیدا کیا، زمین چاہتی تھی کہ کتا مالک کے گھر کا پہرہ دے۔ آسمان نے بھی اُسے اُسی کام کے لئے پیدا کیا اس لئے اُن میں بغاوت کا مادہ نہیں لاکھوں ہزاروں سالوں سے یہ اسی طرح کام کرتے آرہے ہیں اور ان میں کو ئی تغیر نہیں ہوا کیونکہ انسان نے چاہا کہ وہ کتے پر حکومت کرے آسمانی بادشاہت نے کہا ہاں بیشک حکومت کروانسان نے چاہا کہ گھوڑے پر حکومت کرے آسمانی بادشاہت نے کہا ہاں بے شک حکومت کرو، ہم نے اسی لئے اس کو پیدا کیا ہے، انسان نے چاہا بیل سے کھیتی باڑی کا کام لے آسمانی بادشاہت نے کہا ہاں بے شک اس سے کام لو۔ پس جب آسمانی اور زمینی بادشاہت کا منشاء ایک ہو جاتا ہے تو کوئی فساد پیدا نہیں ہوتا اور کوئی بغاوت نہیں ہوتی لیکن آسمانی بادشاہت نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انسان میرے سوا کسی دوسرے کا غلام بن کر نہ رہے۔ دنیا کے بادشاہوں نے انسان کو غلام بنانے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے ہیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ آسمانی بادشاہت کا منشاء یہ نہیں۔ زمینی بادشاہوں نے محکوم قوموں کی اولادوں کی عقلوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، نئے نئے فلسفے ان کے سامنے رکھے تاکہ آزادی کا خیال ان کے دلوں سے مٹ جائے مگر بالکل اسی طرح جس طرح پانی کی بھری ہوئی مشک کے سوراخ سے پانی اُچھل کر نکلتا ہے اور سوراخ زیادہ ہوتا جاتا ہے یہی حال انسان کی آزادی کا ہے جتنا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اتنی ہی بغاوت پیدا ہوتی ہے۔پس حقیقی امن نہیں ہوسکتا جب تک آسمان اور زمین کی بادشاہت ایک نہیں ہو جاتی یا خدا تعالیٰ کی بادشاہت زمین پر غالب آجائے یا شیطان کی حکومت آسمان پر غالب آجائے لیکن شیطان آسمان پر غالب نہیں آسکتا ہاں اللہ تعالیٰ کی حکومت زمین پر غالب ہو سکتی ہے۔ جس طرح آسمان اور زمین کی بادشاہتیں آپس میں اختلاف رکھتی ہوں تو امن قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح اگر دنیا کی مختلف حکومتیں آپس میں اختلاف رکھتی ہوں تو امن نہیں ہو سکتا کیونکہ امن اور ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ مختلف اشیاء کا تبادلہ ہو سکے اور وہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکیں اور یہ فطرتی تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کی ضروریات آسانی سے ملتی رہیں لیکن چونکہ دنیا میں مختلف حکومتیں ہیں اس لئے ان کے مقاصد الگ الگ ہیں، ان کے ترقیات کے معیار الگ الگ ہیں، ان کے منافع الگ الگ قسم کے ہیں اس لئے اس اختلاف کی وجہ سے لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔
پس اصل سوال یہ ہیں ۔
(۱) کہ کیا ساری دنیا پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت آسکتی ہے یعنی کیا ساری دنیا ایک مذہب پر قائم ہو سکتی ہے ؟
(۲) کیا دنیا میں ایک حکومت قائم ہو سکتی ہے؟
سوال اوّل کا جواب نفی میں ہے کیونکہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف قسم کے ذہنی اختلاف باقی رہیں گے کیونکہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تیرے متبعین اور تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے۔ ۵؎ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ متبعین بھی رہیں گے اور منکرین بھی رہیں گے اور دونوں ہی قیامت تک رہیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقدر نہیں کہ تمام دنیا کا ایک ہی مذہب ہو جائے۔ پس معلوم ہوا کہ خدائی بادشاہت اس رنگ میں نہیں آئے گی کہ تمام دنیا ایک ہی دینی رو کے تابع ہو جائے اور کوئی کنبہ اور کوئی خاندان اس کا مخالف باقی نہ رہے۔ دوسرے سوال کا جواب بھی بظاہر یہی ہے کہ ابھی اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا لیکن یہ چیز نا ممکن بھی نہیں اور کوئی مذہبی پیشگوئی ایسی نہیں جو اسے ناممکن قرار دیتی ہو اور کوئی دُنیوی وجہ بھی ایسی نہیں کہ ہم یہ خیال کریں کہ تمام دنیا میں ایک حکومت نہیں ہو سکتی لیکن موجودہ زمانہ میں اس کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا تو ان مشکلات کا علاج کیا ہے؟
میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک حکومت قائم نہ ہو سکے اس وقت تک کوشش کی جائے کہ مختلف حکومتیں آپس میں حقیقی طور پر اتحاد کر لیں۔ اگر یہ صورت ہو جائے تو یہ بھی ایک حکومت کے قائم مقام ہو سکتی ہے اگر یہ بھی نہ ہو سکے اور کلی طور پر اتحاد کرنا مشکل ہو تو پھر باوجود اختلاف کے حکومتیں اختلاف پر ہی متحد ہو جائیں یعنی اس اختلاف کی وجہ سے لڑائی جھگڑانہ کریں۔ بعض دفعہ دنیا دار لوگوں کے مونہوں سے بھی بعض حکمت کی باتیں نکل جاتی ہیں گزشتہ جنگ کے بعد مسٹر لائڈ جارج فرانس کے ساتھ یہ مشورہ کرنے کے لئے گئے کہ جرمنوں کے ساتھ کن شرائط پر صلح کی جائے۔فرانس والے یہ چاہتے تھے کہ جرمنی کابہت سا حصہ ان کے سپرد کر دیا جائے لیکن مسٹر لائڈ جارج یہ نہیں چاہتے تھے کہ جرمنی کا کوئی حصہ فرانس کے سپرد کیا جائے۔ کئی دن تک اس مطالبہ کے متعلق گفتگو ہوتی رہی آخر انہوں نے دیکھا کہ اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اس لئے وہ گفتگو ختم کر کے واپس آگئے۔ لوگوں نے بحث کا نتیجہ پوچھا تو انہوں نے کہا نتیجہ بہت اچھا رہا ہے ہم نے ایک دوسرے کے اختلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ پس ہر اختلاف میں لڑائی نہیں ہوتی بلکہ لڑائی وہاں ہوتی ہے جہاں انسان اپنی بات کو زور سے منوانے کی کوشش کرے اور اس اختلاف کو بنرورِبازو دور کرنا چاہے ورنہ ہر گھر میں مختلف طبائع ہوتی ہیں اور مختلف کھانوں کو پسند کرتی ہیں۔ کوئی کدو نہیں کھاتا اور کوئی آلو نہیں کھاتا اور کوئی کریلے نہیں کھاتا اور کوئی دودھ کو پسند کرتا ہے اور کوئی چائے کو پسند کرتا ہے اور کوئی لسّی کو پسند کرتا ہے لیکن کیا ان باتوں پر گھروں میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ گو بعض اوقات ہو بھی جاتی ہیں لیکن وہ صرف اس صورت میں ہوتی ہیں کہ کوئی شخص گھر والوں کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ باقی سب چیزیں چھوڑ کر فلاں چیز ہی پکایا کریں ایسی صورت میں لڑائی کا امکان ہے لیکن اس کا یہ مطالبہ بالکل احمقانہ ہوتا ہے۔ پس اختلاف کو برداشت کرنا بھی امن کا ذریعہ ہے۔
دنیا میں امن پیدا کرنے کے دو ہی ذریعے ہیں کہ یا تو اختلاف کو مٹا دیا جائے اور مکمل اتحاد کی صورت پیدا کر لی جائے اور یا پھر اس اختلاف کو برداشت کیا جائے۔ دنیا میں جب بھی نبی آتے ہیں تو لوگ ان کو مارتے اور دکھ دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس اختلاف کو برداشت نہیں کر سکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لڑائی یہودیوں سے اس لئے نہ تھی کہ تم مجھے ضرور مانو بلکہ اس لئے تھی کہ یہودی آپ کو مجبورکرتے تھے کہ تم اپنا مذہب چھوڑ دو اور یہ اختلاف پیدا نہ کرو۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مکہ والوں سے لڑائی اس لئے نہ تھی کو تم مجھے ضرور مانو بلکہ اس لئے تھی کہ مکہ والے آپ کو اس بات پر مجبور کرتے تھے کہ تم اپنا مذہب چھوڑ دو اور ہماری قوم میں اختلاف پیدا نہ کرو ہم تمہارے اس اختلاف کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ لڑائی کی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون نے پیدا کی اور یہی وجہ ہندوستان کے نبی کرشن اور رام چندر کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی اور یہی وجہ ایران کے نبی زرتشت کے زمانے میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی اور یہی وجہ چین کے نبی کنفیوشس کے زمانہ میں ان کے دشمنوں نے پیدا کی تمام زمانوں میں انبیاء سے لڑائی کی وجہ یہی تھی حالانکہ نبیوں نے کسی کو اپنے ماننے کے لئے مجبور نہیں کیا ہاں دشمن مجبور کرتے تھے کہ تم اپنا دعویٰ چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عرب میں غلبہ عطا کیا تو آپ نے بحرین کے بادشاہ کے پاس وفد بھیجا اور ساتھ ہی اپنا ایک خط بھی دیا جس کی بناء پر وہ مسلمان ہوگیا جب وہ مسلمان ہو گیا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خط لکھا کہ میرے علاقہ میں جو عیسائی اور مجوسی وغیرہ رہتے ہیں ان سے کیا سلوک کیا جائے۔ آپ نے اس کو لکھوایا کہ غیر مذہب والے کو اسلام لانے پر مجبور نہ کرو اور نہ ہی اس کو اپنے ملک سے نکالو جو لوگ اپنے مذہب پر رہنا چاہیں انہیں اپنے مذہب پر ہی رہنے دو ہاں ان سے ٹیکس وصول کرو اگر وہ ٹیکس ادا کرتے جائیں تو تمہیں ان پر کسی طرح دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں۔۶؎ اسلام کا یہ طریق بتاتا ہے کہ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ضرور اسلام میں داخل ہو بلکہ وہ اختلاف کو برداشت کرتا ہے۔ پس فساد کی وجہ صرف اختلاف نہیں بلکہ ایسا اختلاف ہے جس کے چھوڑنے کے لئے دوسرے کو مجبور کیا جائے اور دوسروں کو اپنے اندر شامل رہنے پر مجبور کیا جائے۔ دوسروں کو اپنے اندر شامل رکھنے کے لئے مجبور کرنا بظاہر اتحاد نظر آتا ہے مگر یہی چیز فساد کا منبع ہے۔ جب کفار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف دیتے تھے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم اختلاف کو دور کرنا چاہتے اور قوم میں اتحاد پیدا کرناچاہتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ کی قوم کو فرعون نے تکلیفیں دیں تو وہ بھی یہی دعویٰ کرتا تھا کہ میں قوم کو متحد کرنا چاہتا ہوں اور قوم کو ایک کرنا چاہتا ہوں لیکن حضرت موسیٰ اور اس کے ساتھی قوم کے لئے افتراق کا باعث بن رہے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اسی لئے تکالیف دی گئیں کہ یہ شخص قوم میں اختلاف کی روح پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح قوم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اسے اس کام سے باز رکھنا چاہئے۔ تو دعویٰ سب کا یہی تھا کہ ہم اختلاف کو دور کرنا چاہتے ہیں اور قوم کو ایک کرنا چاہتے ہیں مگر کسی قوم کاجبر ی طور پر اختلاف کو مٹانا ہی فساد کا موجب ہے۔ جب ایک شخص کسی اصولی بات پر دل سے قائم ہے تو وہ اسے جبراً چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوگا اور جب اسے مجبور کیا جائے گاکہ وہ اس بات کو چھوڑے تو لازمی بات ہے کہ لڑائی ہوگی اور وہی بات جو بظاہر اتحاد کا ذریعہ نظر آتی ہے فساد اور جھگڑے کا موجب بن جائے گی۔ اگر کوئی شخص سوال کرے جب مذہب ایک نہیں ہو سکتا اور یہ چیز امن کے لئے ضروری ہے تو پھر کیا کیا جائے۔ اس کا جوا ب یہ ہے کہ اوّل ہم میں سے ہر آدمی اپنے اندر تحقیق کا مادہ پیدا کرے اور ہر شخص بغور دیکھے کہ جس مذہب کو وہ مانتا ہے کیا اس کے پاس واقعہ میں اس مذہب کے سچا ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں یا اندھا دھند والدین کی تقلید کر رہا ہے وہ اپنے مذہب کو بھی دیکھے اور غور کرے اور دوسرے مذاہب کا بھی مطالعہ کرے اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ اس کے سوچ بچار اور تحقیقات کا نتیجہ چاہے صحیح نکلے یا غلط بہرحال ہر انسان کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ مذاہب کا مطالعہ کرے اور جو مذہب اسے سچا معلوم ہو اسے اختیار کرے۔ بغیرتحقیق کے کسی مذہب کو مان لینا انسان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتا ہے کہ تو ان لوگوں کو کہہ دے کہ ۷؎ یعنی میں اور میرے ماننے والے کیوں حق پر ہیں اس لئے کہ ہم نے اسے بصیرت کے ساتھ قبول کیا ہے لیکن تم اس لئے غلطی پر ہو کہ تم نے بصیرت کے ساتھ اس مذہب کو نہیں مانا بلکہ تم اپنے آباء واجداد کا مذہب سمجھ کر اسے مانتے آر ہے ہو۔تمہارے پاس اس کے سچا ہونے کی کوئی دلیل نہیں خدا کا ایک ہونا درست ہے یا تین خداؤں کا عقیدہ رکھنا درست ہے یہ چیز زیر بحث نہیں بلکہ اصل بات ہے کہ ہم نے جو کچھ مانا ہے وہ تحقیق کر کے مانا ہے دلائل اور شواہد کے ساتھ مانا ہے حالانکہ ہمارے آباء و اجداد ان باتوں کو نہیں مانتے تھے لیکن تم جو کچھ مانتے ہو وہ محض آباء و اجداد کی اندھا دھند تقلید ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔پس یہ نہایت ضروری امر ہے کہ ہر شخص تحقیقات کے بعداپنا مذہب خود اختیار کرے۔لیکن جب تحقیق کرنے لگے تو اسے یہ عہد کرلینا چاہئے کہ اگر مجھے حق مل گیا تو میں اس کے قبول کرنے میں ضد اور تعصّب سے کام نہیں لوں گا بلکہ اپنی عقل اور فکر سے کام لے کر سوچوں گا کہ ایک سچے مذہب میں جن امور کا پایا جانا ضروری ہے کیا وہ میرے تجویز کردہ مذہب میں بھی پائے جاتے ہیں یا نہیں اور اگر نہ پائے جائیں تو مجھے اس کے چھوڑنے میں کوئی دریغ نہیں ہو گا۔ یہ خیال کرلینا کہ جو کچھ ہمارے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں وہی درست ہے اور اب ہمارا بھی فرض ہے کہ اس کو مانیں اور اپنی ذاتی عقل اور فکر سے کام نہ لیں ایک ایسا خیال ہے جو کسی طرح سے بھی درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر تمہارے ماں باپ کا مذہب ہی تمہارے لئے کافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمہیں عقل نہ دیتا بلکہ تمہارا حصہ بھی تمہارے ماں باپ کو دے دیتا جنہوں نے تمہارے متعلق فیصلہ کرنا تھا اور جن کی تم نے پیروی کرنی تھی۔ اس لحاظ سے تو عقل کی صرف انہیں ہی ضرورت تھی تمہیں ضرورت نہ تھی پھر تم کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کیوں دیا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فعل عبث نہیں ہے بلکہ اس نے تمہیں عقل اس لئے دی ہے کہ تم اس سے کام لو اور اس کے ذریعہ حق و باطل میں تمیز کر سکو۔ پس یہ ایک بیوقوفی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دماغ تو دے دیا لیکن اب اس سے سوچنے اور کام لینے کی ضرورت نہیں۔ جب تک انسان میں دماغ موجود ہے اس کو نیکی اور بدی کی پہچان اور حق وباطل میں خود تمیز کرنی چاہئے۔ یہ ایک اہم فریضہ ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے۔
پس اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ دینی اصولوں میں ماں باپ کا فلسفہ کا فی نہیں بلکہ اس کے متعلق پورے طور پر تحقیقات کرنا تمہارا فرض ہے اور تحقیق حق کر کے کسی مذہب کو ماننا ہی انسان کی جسمانی اور روحانی زندگی کو کوئی فائدہ دے سکتا ہے اور تحقیق کر کے ماننا ہی مذہب کی جان ہے میں نے سینکڑوں مسلمان نوجوانوں سے پوچھا ہے کہ تم مسلمان کیوں ہو اور اسلام میں کیا خوبی ہے جس کی وجہ سے تم نے اسے اختیار کیا ہے۔ تو وہ جواب دیتے ہیں ہمیں تو پتہ نہیں۔ اور میں نے سینکڑوں مسلمان نوجوانوں سے پوچھا ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیوں مانتے ہو؟ کہتے ہیں کبھی غور نہیں کیا۔ میں ایک مذہبی جماعت کا امام ہوں اس لئے لوگ مجھ سے اکثر ملنے کے لئے آتے رہتے ہیں اور میں ان سے اس قسم کے سوالات بعض اوقات پوچھ لیتا ہوں لیکن اُن میں سے اکثر یہی جواب دیتے ہیں کہ کبھی غور نہیں کیا۔ میں ایسے لوگوں کو کہا کرتا ہوں کہ تم اسلام کے نام پر لڑنا تو شروع کر دیتے ہومگر تم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم مسلمان کیوں کہلاتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کئی ہندوؤں سے پوچھا ہے کہ آپ کیوں ہندو مذہب کو اختیار کئے ہوئے ہیں کو نسی خوبی ہے جو ہندو مذہب میں ہے اور دوسرے کسی مذہب میں نہیں؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے ہندو مذہب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی یا ہم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا۔ اب اس قسم کا مذہب نسلی مذہب تو کہلا سکتا ہے لیکن حقیقی مذہب نہیں کہلا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں میں صرف نسلی مذہب رہ گیا ہے اصلی مذہب کی جستجو ان کے دلوں میں نہیں رہی۔
پس اسلام اختلاف کو جائز قراردیتا ہے اور سختی کے ساتھ اس بات سے روکتا ہے کہ اختلافِ مذہب کی وجہ سے آپس میں جنگ وجدال کیا جائے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو لوگ تحقیقات کرنے کے عادی ہیں وہ اختلاف کی وجہ سے لڑتے ہی نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب میرا حق ہے کہ میں تحقیق حق کر کے کسی نتیجہ پر پہنچوں تو دوسرے شخص کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ بھی تحقیق کرے۔دیکھ لو سائنسدان کبھی آپس میں اختلاف کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایک سائنسدان نے ایک لمبی تحقیق کے بعد ایک تھیوری نکالی لیکن کچھ عرصہ کے بعد کسی دوسرے سائنسدان نے اس کی تحقیقات کو غلط ثابت کر دیا اور اس نے ایک جدید تھیوری قائم کر دی مگر باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کی تھیوریوں کو غلط ثابت کرتے چلے جاتے ہیں ان میں کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا کہ تم نے میری تھیوری کو کیوں غلط قرار دے دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح میرا حق ہے کہ میں کبھی کوئی تھیوری نکالوں اسی طرح دوسرے کا حق ہے کہ وہ بھی تحقیقات کرے اوراگر اسے مجھ سے کوئی بہتر چیز معلوم ہو تو وہ بے شک میری بات کو غلط قرار دے دے۔ لیکن عام لوگ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو ہم نے اپنے ماں باپ کے مذہب کو نہیں چھوڑنا اس لئے وہ دوسرے مذاہب کے خلاف اپنے دلوں میں ضد اور عداوت لئے بیٹھے رہتے ہیں۔
پس پہلی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص تحقیق حق کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ضد نہ کرے اگر تحقیقات کرنے کے بعد اس پر حق کھل جائے تو اسے بخوشی تسلیم کر لے اور اس کے قبول کرنے میں کسی تساہل سے کام نہ لے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی کہ ایک شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ حق بات کیا ہے لیکن وہ اس کے قبول کرنے سے گریز کرے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ حق کے قبول کرنے میں کئی قسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں لیکن ان تکالیف سے ڈر کر حق کو چھوڑ دینا بھی نہایت ہی کم ہمتی ہے۔ گلیلیو۸؎ نے یہ تحقیقات کی کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے جب یہ خبر شائع ہوئی تو پوپ نے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا کہ یہ بات بائبل کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے اس فتویٰ کی وجہ سے گلیلیو پر لوگوں نے مظالم کرنے شروع کردئیے۔ کچھ مدت تک وہ ان مظالم کو برداشت کرتا رہا آخر تنگ آکر اس نے کہہ دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ شیطان میرے دماغ پر غالب آگیا تھا اس لئے میں نے یہ کہہ دیا کہ زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہے اس طرح اس کو لوگوں کے مظالم سے تنگ آکر صداقت کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے ماننا ہی نہیں چاہے ہمیں صداقت بھی نظر آجائے۔ ہمارے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال موجود ہے آپ کے پاس کچھ یہودی آئے اور انہوں نے آپ سے باتیں کیں جب مجلس سے اُٹھ کر باہر نکلے تو ایک دوسرے کو کہنے لگا کہ بتاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی باتوں کا تم پر کیا اثر ہوا؟ دوسرے نے کہا تورات کی پیشگوئیاں تو اس پر پوری ہو چکی ہیں۔ اس پروہ کہنے لگا پھرکیا فیصلہ ہے اس نے کہا فیصلہ کیا جب تک دم میں دم ہے اس کو نہیں ماننا تو جب انسان ضد پر قائم ہو جائے تو لازمی بات ہے کہ وہ حق کو نہیں پاسکتا۔
پس دوسری چیز یہ ہے کہ ہر انسان اپنے دل سے ضد کو نکال دے اور اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کر لے کہ جہاں کہیں مجھے سچائی مل جائے گی میں اسے قبول کر لوں گا۔ ضد تبھی پیدا ہوتی ہے جب وہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں کسی حالت میں بھی اپنے مذہب کو نہیں چھوڑ وں گا۔
تیسری ضروری بات یہ ہے کہ اختلافِ مذہب کو کبھی وجہ فساد نہ بنایا جائے ہر انسان اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لے کہ تحقیق کر کے کوئی فیصلہ کروں گا۔ اگر حق مل گیا تو قبول کر لوں گا اور اگر حق مجھ پر نہ کھلا تو لڑائی جھگڑا نہیں کروں گا بلکہ خاموش ہو جاؤں گا ۔ جب کوئی شخص تحقیق حق کرے گا تو دو ہی پہلو ہوں گے یا تو اس پر حق کھل جائے گا اور یا نہیں کھلے گا۔ اگر وہ اس نیت سے تحقیق حق کر ے گا کہ اگر حق کھل گیا تو مان لوں گا اور اگر حق مجھ پر نہ کھلا تو لڑوںگا نہیں تو ایسا شخص صداقت معلوم ہونے پر اسے قبول کرنے سے ہچکچائے گا نہیں اور اگر اسے صداقت نہ ملی تو وہ خاموش ہو جائے گا اور لڑائی جھگڑا کا بازار گرم نہیں کرے گا۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اس اختلاف کو برداشت نہ کریں جبکہ پہلے لوگ بھی دوسروں سے اختلاف کرتے چلے آئے ہیں۔ جب حضرت کرشنؑ اور حضرت رام چندر جیؑ نے دعویٰ کیا تو کیا انہوں نے پہلے لوگوں سے اختلاف کیا تھا یا نہیں؟ اگر اختلاف کیا تھا تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج ان کے ماننے والے اس اختلاف کوبرداشت نہیں کرتے اور ٹھنڈے دل سے غور نہیں کرتے۔ جب زرتشت نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا تو کیا انہوں نے پہلے لوگوں سے اختلاف نہیں کیا تھا؟ اگر اُنہوں نے پہلے لوگوں سے اختلاف کیا تھا تو کیا وجہ ہے آج حضرت زرتشت ؑ کے ماننے والے دوسروں کے اختلاف کو برداشت نہیں کرتے۔ جب حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑنے اپنے زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو کیاانہوں نے پہلے لوگوں سے اختلاف کیا تھا یانہیں؟ اگر اُنہوں نے اختلاف کیا تھا تو کیا وجہ ہے کہ آج ان کے ماننے والے دوسروں کے اختلاف کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر ان کو اپنے اپنے زمانہ میں دوسروں سے اختلاف کرنے کا حق تھا تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا۔
پس گزشتہ انبیاء کے اَتباع کو کسی طرح بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی سے محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے دشمنی اور بغض رکھیں۔ اسلام اس بات سے سختی سے منع کرتا ہے کہ کسی شخص سے محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے بغض و عناد رکھا جائے۔ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُسوہ حسنہ موجو د ہے آپ کے گھر ایک یہودی آیا آپ نے اُس کو اپنا مہمان ٹھہرایا۔ وہ یہودی آپ سے بہت کینہ اور بغض رکھتا تھا صبح جاتے وقت وہ بستر پر پاخانہ پھر گیا۔ اُس وقت بستر بہت سادہ ہوتے تھے عام طور پر ایک ہی کپڑا ہوتا تھا تو شکوں وغیرہ کا استعمال ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس کپڑے کو دھونا شروع کیا خادمہ جو پانی ڈال رہی تھی اس کے منہ سے غصہ کی وجہ سے یہ فقرہ نکلا کہ خدا اس کا بیڑا غرق کرے کتنا بُرا آدمی تھا کہ رات اس بستر میں سویا رہا اور صبح جاتی دفعہ اس میں پاخانہ کر گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کو بُرا بھلا کہنے سے فوراًروک دیا اور فرمایا اسے بُرا نہ کہو خدا جانے اُسے کیا تکلیف تھی۔۹؎ پس اختلاف کو وجہ فساد بناناعقل مندی نہیں اور اس اختلاف پر لڑنے سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ تین چیزیں پیدا ہو جائیں تو خداتعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو سکتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دُنیوی طور پر حکومتوں کے اختلاف کس طرح مٹ سکتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں کہ موجود زمانہ میں یہ چیز بظاہر مشکل نظر آتی ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ دوسری قسم کا اختلاف دنیا میں پارٹی سسٹم کی وجہ سے تقویت پکڑ رہا ہے اِس سسٹم کی وجہ سے ایک حکومت دوسری حکومت سے اختلاف رکھتی ہے بلکہ حکومتوں کے اندر بھی یہ فساد پایا جاتا ہے مگر ہم ان کا فیصلہ نہیں کر سکتے ان کا فیصلہ خود حکومتیں ہی کر سکتیں ہیں۔ اب میں یہ بیان کر وں گا کہ اسلامی تعلیم ایسے حالات میں ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ دنیا اِس پر عمل کرے یا نہ کرے کیونکہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں کہ کسی کو یہ بات منوا سکوں، نہ میں ہندوستان والوں کو اپنی بات منوا سکتا ہوں اور نہ ہی انڈونیشیا والوںاور فلسطین کے لوگوں کو اپنی بات منوا سکتا ہوں، میرے پاس سوائے دلیل کے اور کوئی طاقت نہیں۔ پس اگرکوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ تمام دنیا کا اتحاد ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو میں اسے یہی کہوں گا کہ بظاہر ناممکن ہے ہاں اسلام نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اگر ساری دنیا میں ایک حکومت قائم نہ ہو سکے تو تمام حکومتیں مل کر ایک ایسا نظام قائم کریں جو کہ اس کے قائمقام ہو سکے۔ یورپ میں جب لیگ آ ف نیشنز کا تقرر ہوا تو اسے یورپ نے اپنی بہت بڑی ایجاد سمجھا لیکن وہ لیگ آف نیشنز کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ اس میں بعض خامیاں تھیں لیکن قرآن کریم نے جو لیگ آف نیشنز بیان کی ہے وہ ایسی مکمل اور ایسی مضبوط ہے کہ اس پر چلنے سے کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔
میں نے ۱۹۲۴ء میںجو مضمون ویمبلے کانفریس لنڈن کیلئے تیار کیا تھا اُس میں مَیںنے اس مضمون کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۰؎ یعنی اگر مؤمنوں کے دو گر وہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کی آپس میں صلح کرا دو یعنی دوسری قوموں کو چاہئے کہ بیچ میں پڑ کر ان کو جنگ سے روکیں اور جو جنگ کا اصل باعث ہو اُس کو مٹائیں اور ہر ایک کو اس کا حق دلائیں لیکن اگر صلح ہو جانے کے بعد ان میں سے ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کر دے اور مشترکہ انجمن کا فیصلہ نہ مانے تو سب قومیں مل کر اُس سے لڑیں یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف لَوٹ آئے یعنی ظلم سے دستکش ہو جائے پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لَوٹ آئے تو ان دونوں قوموں میں پھر صلح کرادو، مگر انصاف اور عدل سے کام لو اور صلح کرتے وقت اپنے فوائد سامنے نہ رکھا کرو اللہ تعالیٰ یقیناانصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام حکومتوں کا فرض قراردیا ہے کہ وہ لڑنے والی حکومتوں کی آپس میں صلح کروائیں اور جو حکومت بغاوت کرے سب حکومتیں مل کر اُس کا مقابلہ کریں یہاں تک کہ وہ ہتھیار رکھ دے اور صلح کے لئے تیار ہو جائے اور جب صلح کرائی جائے تو عدل و انصاف سے کام لیا جائے اور بندر بانٹ کی طرح حکومتیں خود ہی حصہ دار نہ بن بیٹھیں۔
کہتے ہیں دو بلیوں نے کسی گھر سے پنیر چرایا اور فیصلہ کیاکہ چلو بندر کے پاس چل کر اس سے تقسیم کرالیں۔ وہ پنیر لے کر بندر کے پاس گئیں بندر ترازو لے کربیٹھ گیا اور اس نے پنیر تقسیم کرنا شروع کیا۔ جس طرف پلڑا ذرا بھاری ہوتا اُس طرف سے وہ اتنا زیادہ پنیر اُٹھا لیتا کہ دوسری طرف بھاری ہوجاتی اور وہ پنیر خود کھا لیتا، پھر دوسری طرف سے ایک کافی حصہ اُٹھا لیتا اور کھاجاتا اس طرح اُس نے اکثر حصہ پنیر کا کھا لیا اور جو تھوڑا سا باقی رہ گیا اس کے متعلق کہنے لگا کہ یہ میرے تقسیم کرنے کی اُجرت ہے۔ یہی حال یورپ والوں کا ہے جب وہ صلح کرانے لگتے ہیں تو اپنے مطالبات لے کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے تمہاری صلح کرائی ہے اس کے عوض میں ہمیں اپنے ملک کا فلاں فلاں حصہ دے دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ چیز آئندہ کے لئے زیادہ بغض اور حسد پیدا کرتی ہیں۔
پس سارے جھگڑے پارٹی بازی کی وجہ سے ہیں مختلف حکومتوںکو یہ یقین ہے کہ ان کی قومیں صرف اس خیال سے کہ وہ ان کی حکومتیں ہیں ان کا ساتھ دینے کو تیار ہیں اس لئے وہ بے خوف ہو کر دوسری حکومتوں پر حملہ کر دیتی ہیں۔ اِس وقت قومی تعصب اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اپنی قوم کا سوال پیدا ہوتا ہے تو سب لوگ بِلا غور کرنے کے ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہماری حکومت کی غلطی ہے تو ہم اسے سمجھا دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے زیادتی کرنے والی حکومت کو زیادتی سے روکو اور ان حکومتوں کی آپس میں صلح کرا دو اور کوئی نئی شرائط پیش نہ کرو اور نہ ہی تم اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرو لیکن موجودہ جنگ کا ہی حال دیکھ لو کہ حکومتیں طاقت کے زور پر اپنے حصے مانگ رہی ہیں اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طریق کو اختیار کرنے سے کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا جیسی آزادی کی ضرورت روس کو ہے یا جیسی آزادی کی ضرورت برطانیہ کو ہے یا جیسی آزادی کی ضرورت امریکہ کو ہے اسی طرح آزادی کی ضرورت چھوٹی حکومتوں کوبھی ہے۔ آزادی کے لحاظ سے یونٹ سب کے لئے ایک جیسا ہے۔ یہ نہیں کہ ان بڑی حکومتوں کے دماغ تو انسانوں کے دماغ ہیں لیکن چھوٹی حکومتوں کے دماغ جانوروں کے دماغ ہیں۔ جیسے وہ انسان ہیں ویسے ہی یہ انسان ہیں اور آزادی کا جیسا احساس ان بڑی حکومتوں کو ہے ویسا ہی ان چھوٹی حکومتوں کو ہے۔ کیا ہالینڈ کا ایک آدمی ویسے ہی احساسات نہیں رکھتا جیسے احساسات برطانیہ کا آدمی رکھتا ہے۔ جب احساسات ایک جیسے ہیں تو پھر بڑی حکومت کا چھوٹی حکومت پر دباؤ ڈالنا انصاف پرمبنی نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک شخص چار فٹ کا ہو اور دوسرا سات فٹ کا ہو اور سات فٹ کا آدمی چار فٹ والے کو کہے کہ میرا حق ہے کہ میں تمہیں گالیاں دے لوں یا تمہارے منہ پر تھپڑ مارلوں کیونکہ میں سات فٹ کا ہوں اور تم چار فٹ کے ہو تو کیا کوئی حکومت اسے جائز سمجھے گی؟ وہ کہے گی کہ جیسا دماغ سا ت فٹ والے کا ہے ویسا ہی دماغ چارفٹ والے کا ہے اور جو حقوق سات فٹ والے کے ہیں وہی حقوق چار فٹ والے کے ہیںلیکن جب آزادی اور حریت کا سوال آتا ہے تو چھوٹے ملکوں اور بڑے ملکوں میں امتیاز کیا جاتا ہے اور چھوٹے ملکوں کے لئے حریت ضروری نہیں خیال کی جاتی حالانکہ آزادی کی ضرورت جیسے بڑی حکومتوں کو ہے ویسی ہی ضرورت چھوٹی حکومتوں کو ہے۔
اسلام کہتا ہے کہ صلح کرتے وقت کسی کی آزادی کو سلب نہ کرو اور صلح کرانے کی وجہ سے کوئی مطالبہ پیش نہ کرو کیونکہ تمہارا لڑائی میں شامل ہوتا امن کو بحال کرنے کے لئے تھا اس لئے تم کسی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ فرض کرو ہالینڈ کو بچانے کے لئے امریکہ اور انگلستان کو شش کریں تو کیا اس سے امریکہ اور انگلستان کا اپنا بھلا نہ ہوگا کیونکہ اگر فساد ہو گا تو انگلستان اور امریکہ بھی اس کی لپیٹ سے بچ نہیں سکیں گے اور جب بھی لڑائی چھڑے گی تو زیادہ نقصان ان ہی دو حکومتوں کو ہوگا جن کی آبادی زیادہ ہو گی، جن کے مقبوضات زیادہ ہوں گے پس وہ اس لحاظ سے دوسروں سے زیادہ امن کی محتاج ہیں۔ اگر فساد ہو اور لڑائی ہو تو ہالینڈ کی نسبت امریکہ کا زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ امریکہ کی آبادی چودہ کروڑ کی ہے اور ہالینڈ کی آبادی کل اسّی لاکھ کی ہے اور اسّی لاکھ کی نسبت چودہ کروڑ کی حفاظت اور امن زیادہ ضروری ہوتا ہے اور اگر نقصان ہو تو چودہ کروڑ کا حصہ اسّی لاکھ کی نسبت بہر حال زیادہ ہوگا۔ پس جس طرح چار کروڑ کی آبادی رکھنے والے فرانس کو امن کی ضرورت ہے، جس طرح ۴۵ لاکھ کی آبادی رکھنے والے بیلجیئم کو امن کی ضرورت ہے اسی طرح ان بڑی حکومتوں کو بھی امن کی ضرورت ہے پس اسلام کہتا ہے کہ ان چار چیزوں کے بغیر امن نہیں ہو سکتا۔
اوّل لیگ کے پاس فوجی طاقت ہو۔
دوم عدل وانصاف کے ساتھ آپس میںصلح کرائی جائے۔
سوم جو نہ مانے اس کے خلاف سارے مل کر لڑائی کریں ۔
چہارم اور جب صلح ہو جائے تو صلح کرانے والے ذاتی فائدہ نہ اُٹھائیں۔
یہ چار اصول لیگ آف نیشنز کے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں جب تک ان پر عمل نہیں ہو گا حقیقی امن پیدا نہیں ہو سکتا۔
پہلی لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہی اور اب دوسری لیگ آف نیشنز بھی ناکام رہے گی۔ پس ضروری ہے کہ دنیا اسلام کے اصولوں کو اپنائے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک یہ پارٹی سسٹم جاری ہے اور جب تک یہ امتیاز باقی ہے کہ یہ چھوٹی قوم ہے اور وہ بڑی قوم ہے اور یہ کمزور حکومت ہے اور وہ طاقتور حکومت ہے اُس وقت تک دنیا کے امن کے خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے۔ پس ضروری ہے کہ اس امتیاز کو دلوں سے مٹایا جائے جب تک یہ چیز باقی رہے گی کہ یہ بڑی جان ہے اور یہ چھوٹی جان ہے اُس وقت تک دنیا امن وچین کا سانس نہیں لے سکتی۔
کشمیر ایجی ٹیشن کے موقع کا ایک عجیب لطیفہ مجھے یاد ہے کشمیر ایجی ٹیشن کے موقع پر پرائم منسٹر لالہ ہری کرشن صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے۔ اُن دنوں کوئی سپاہی مارا گیا تھا اس کے بدلے حکومت نے چارآدمیوں کو پکڑ لیا کشمیر کا ایک لیڈر مجھ سے ملنے کے لئے آیا تو اُس نے ذکر کیا کہ یہ کتنا ظلم ہے کہ ایک آدمی کے بدلے میںچار آدمی پکڑلئے ہیں۔ میں نے ہری کرشن صاحب سے کہا یہ کیا ظلم ہے کہ آپ کا ایک سپاہی مارا گیا ہے اور آپ نے چار آدمیوں کو پکڑ لیا ہے سزا صرف اُسی شخص کو ملنی چاہئے جس نے اسے قتل کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی شخص کے قتل میں دس آدمی شریک ہوں تو دسوں ہی ذمہ دار ہوں گے لیکن اُس سپاہی کو ایک آدمی نے ہی مارا تھا۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگے ایک کے بدلے میں ایک ہی مارا جائے یہ کس طرح ہو سکتا ہے اس طرح تو حکومت کی بے عزتی ہے۔ گویا ان کے نزدیک سپاہی کی جان عام جانوں سے بہت بڑی تھی۔ پس لیگ آف نیشنز تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق بنائی جائے اور اسلام کے حکموں کے مطابق کام کرے ۔ لیگ آف نیشنز کے بعد اگر دنیا امن حاصل کرنا چاہے تو اسے مندرجہ ذیل چار چیزوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اگر یہ چیزیں اکٹھی کر دی جائیں تو وہ دنیا میں ایک حکومت کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔
(۱) سکہ اور ایکسچینج
(۲) تجارتی تعلقات
(۳) بین الااقوامی قضاء
(۴) ذرائع آمدورفت یعنی ہر انسان کو سفر کی سہولتیں میسر ہونی چاہئیں تا کہ وہ آزادی سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکے۔
یہ چیزیں لیگ آف نیشنز سے بھی زیادہ ضروری ہیں کیونکہ لیگ آف نیشنز کی تو کبھی کبھی ضرورت پڑتی ہے لیکن سفر اور تجارتی تعلقات وغیرہ روزانہ کی چیزیں ہیں۔ اس وقت بعض ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ کوئی غیر ملکی شخص ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو سکتا۔ مثلاً روس اور بعض دوسرے ممالک نے یہ پابندی لگائی ہوئی ہے کہ کوئی غیر ملکی آدمی ہمارے ملک میں نہیں آسکتا۔ ہم نے اپنے مبلغ کو وہاں بھیجنے کے لئے پاسپورٹ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن پاسپورٹ نہ دیا گیا۔ پس جب تک خیالات کا تبادلہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی اُس وقت تک اتحاد نہیں ہو سکتا کیونکہ حکومتوں کے اتحاد کیلئے افراد کا اتحاد ضروری ہے اور افراد کا اتحاد ہو نہیں سکتا جب تک وہ تبادلۂ خیالات نہ کریں اس لئے تبادلۂ خیالات حکومتوں کے اتحاد کے لئے پہلا قدم ہے۔ پس ان چار چیزوں کو اگر جمع کر دیا جائے تو امن قائم ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد اندرونِ ملک کے جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے اسلام نے جو قواعد مقرر کئے ہیں اب میں وہ بیان کرتا ہوں چونکہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اس لئے میں تفصیلات میں نہیں جاسکتا صرف موٹے موٹے عنوانات پر ہی اکتفا کروں گا۔
پہلی چیز یہ ہے کہ نسلوں کا امتیاز مٹا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۱؎ یعنی اے لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو کئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ یہ چیز تمہارے لئے آپس میں تعارف کا ذریعہ بنے مگر یہ بات یاد رکھو کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے یہ قومیں اور قبیلے اور خاندان تو تعارف اور پہچان کے لئے ہیں۔ جس طرح پہچان کے لئے نام رکھے جاتے ہیں مگر کیا ناموں کی وجہ سے تم یہ کبھی سمجھتے ہو کہ چونکہ اس کا نام عبداللہ ہے اس لئے یہ چھوٹا ہے اور اس کا نام رحمن ہے اس لئے وہ بڑا ہے بلکہ یہ نام تو پہچاننے کے لئے ہیں لیکن بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے معزز سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے مسلمانوں میں سید اور ہندوؤں میں برہمن عام طور پر اپنے آپ کو افضل سمجھتے ہیں۔ پس یہ قوموں اور قبائل کی تقسیم اپنے اندر کوئی بزرگی نہیں رکھتی بلکہ یہ تو تعارف کے لئے ہے۔ اگرسارے ہی عبدالرحمن نام کے ہوتے، اگر سارے ہی عبداللہ نام کے ہوتے یا سارے ہی چونی لال یا رام لال نام رکھتے تو پھر پہچان مشکل ہو جاتی اس لئے یہ نام اور قبائل اور وطن وغیرہ ہمارے لئے تعارف میں آسانی پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں ورنہ اسلام کسی انسان کو دوسرے انسان پر محض قبیلہ یا خاندان یا وطن کی وجہ سے برتری نہیں دیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ عربی شخص کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے سب ہی اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔۱۲؎
دوسری بات یہ ہے کہ دوستی یا عدمِ دوستی کے امتیاز کو اڑا دیا جائے۔ دنیا میں یہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور جن لوگوں سے انہیں کوئی اختلاف ہو ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یہ طریق امن کو برباد کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۳؎ کہ ہم تمہیں دوستی سے منع نہیں کرتے تم دوستوں کی مدد بے شک کرو مگر دہ نیکی اور تقویٰ کی حدود کے اندر ہو جو حق اُسے پہنچتا ہے وہی اُسے پہنچاؤ یہ نہیں کہ چونکہ دوست ہے اس لئے گناہ اور سرکشی کی حالت میں بھی اس کی مدد کرتے جاؤ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایا کہ اُنْصُرُاَخَاکَ ظَالِمًا اَوْمَظْلُوْمًا کہ تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔صحابہؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!مظلوم کی مدد تو ہماری سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں؟ آپ نے فرمایا اس کو ظلم کرنے سے روکو! یہی اس کی مدد ہے۔۱۴؎ گویا اپنے بھائی کی مدد کرنا ہر حالت میں تمہارا فرض ہے اگر وہ مظلوم ہے تو ظالم کے ہاتھوں کو روکو اور اگر وہ خود ظالم ہے تو اُسے ظلم کرنے سے روکو۔ پس جائز تعاون کے متعلق اسلام حکم دیتا ہے لیکن ناجائز تعاون سے بہت سختی سے روکتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ خوشی کے نشہ میں ہر ناجائز بات نہ مانتے جاؤ۔
تیسری بات یہ ہے کہ مالداروں اور غیر مالداروں کے امتیاز کو مٹانے کی کوشش کی جائے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۵؎یعنی بستیوں کے لوگوں کا جو مال اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو عطا فرماتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اور قرابت داروں کا ہے اسی طرح یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کا ہے اور ہم نے یہ قانون اس لئے بنایا ہے کہ یہ دولت تم میں سے امراء کے اندر ہی چکرنہ کاٹتی رہے بلکہ غرباء کی ضرورت کا بھی خیال رکھا جائے۔ ہاں اسلام یہ نہیں کہتا کہ مالداروں سے پورے طور پر دولت چھین لی جائے اور ہر رنگ میں مساوات قائم کر دی جائے بلکہ وہ انفرادی آزادی کا حق بھی قائم رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی وہ نظامِ حکومت کو توجہ دلاتا ہے کہ اپنے مالوں کو اس رنگ میں خرچ کرو کہ اس کے ذریعہ غرباء کو ترقی حاصل ہو۔
چوتھی بات یہ ہے کہ قومی جنبہ داری کی روح کو دور کیا جائے۔ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں جو صرف اتنی بات دیکھتے ہیں کہ چونکہ ہماری قوم فلاں بات کہتی ہے اس لئے اس کی بات درست ہے اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی قوم کی ہر بات کی تائید کریں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ قوم حق پر ہے یا ناحق پر۔ اور چونکہ قوم کو یہ توقع ہوتی ہے کہ افرادِ قوم ہر حالت میں ہمارا ساتھ دیں گے اس لئے وہ جائز و ناجائز ہر قسم کے کام کو اپنے لئے مباح سمجھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۶؎ یعنی اے مؤمنو! تم اہم امور میں مشورہ کرو تو ہمیشہ اس اصل کو اپنے سامنے رکھو کہ ہم گناہ اور زیادتی اور اپنے رسول کی نافرمانی کسی صورت میں نہیں کریں گے اور ایسے معاملات میںاپنی قوم سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ پس اسلام اس قسم کے جتھے کو ناجائز قرار دیتا ہے جس کے اندر گناہ اور زیادتی اور معصیۃ الرسول سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہاں اسلام یہ کہتا ہے کہ ایسی کمیٹیاں بناؤ جو نیکی اور تقویٰ پر مبنی ہوں اور اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرو اور اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرو کیونکہ تمہاری یہ پارٹیاں اس دنیا میں ہی رہ جائیں گی تم عارضی طور پر اس دارالامتحان میں آئے ہو مگر تمہاری نجات اگلی دنیا سے وابستہ ہے۔ پس ایسے اعمال نہ کرو کہ تمہاری آئندہ زندگی خراب ہو جائے۔ یہ چاراصول ہیں جو اسلام نے بیان کئے ہیں اگر دنیا ان پر عمل کرے تو موجودہ بے چینی اور بدامنی سے نجات پاسکتی ہے۔
(الفضل ۱۵،۱۶،۱۸، ۲۰؍ اپریل ۱۹۶۱ء)
۱،۲؎ الانبیآء: ۲۳،۳۱
۳؎ ۔ (القمر:۱۲،۱۳)
۴؎ متی باب۶ آیت ۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۵؎ (اٰل عمران:۵۶)
۶؎
۷؎ یوسف: ۱۰۹
۸؎ گلیلیو (Galileo) (۱۵۶۴۔۱۶۴۲) اطالوی ماہر ہیئت ریاضیات و طبیعیات۔ اس نے طبیعیات کے متعلق متعدد کلیوں کو از روئے ریاضیات منضبط کیا اور ایسے نتائج اخذ کئے جن سے نیوٹن کے کلیاتِ حرکت کی پیش قیاسی ممکن ہوئی۔ ۱۶۰۹ء میں اس نے فلکی دوربین مکمل کی اس کے فلکی انکشافات سے نظامِ شمی کے متعلق کو پرنیکی نظریے کی تصدیق ہوئی۔ چنانچہ ان دو بنیادی نظام ہائے عالم کے بارہ میں اس نے اپنے مکالمے میں جو ۱۶۳۲ء میں شائع ہوا تھا نظریہ مذکور کی تائید کی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۲۸۷۔ لاہور ۱۹۸۸ء)
۹؎
۱۰،۱۱؎ الحجرات: ۱۰،۱۴
۲؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۴۱۱ المکتب الاسلامی بیروت
۱۳؎ المائدہ: ۳
۱۴؎ بخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہٖ
۱۵؎ الحشر: ۸
۱۶؎ المجادلہ: ۱۰


ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے
کا کام ہے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے
(فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۴۶ء بمقام یارک روڈ۔ دہلی)
تشہّد، تعوّذ اور سورئہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
سب سے پہلے میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوںکہ اِنْشَائَ اللّٰہ کل شام کی گاڑی سے ہم واپس جارہے ہیں اس لئے دوستوں کو آج میں نے بلایا ہے تا بعض نصائح کروں۔ رات کے لحاظ سے یہاں آج آخری رات ہوگی اور اب یہ مجالس ختم ہونے والی ہیں۔ دوستوں نے میری آمد سے ہر طرح فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے، دوست خود بھی آتے رہے اور اپنے ملنے والوں کو بھی ساتھ لاتے رہے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں پر اپنا فضل نازل فرمائے اورکامیابیوں اور ترقیات کے دروازے آپ لوگوں پر کھول دے۔ اسی طرح جماعت دہلی نے جس مہمان نوازی کا نمونہ دکھایا ہے گو اسے مکمل نہ کہا جاسکے مگر یقینا وہ دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔ ہماری مہمان نوازی چوہدری شاہ نواز صاحب نے کی جس میں ان کی اہلیہ صاحبہ کا بہت سا حصہ ہے فَجَزَا ھَا اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ باقی ساتھیوں اور مہمانوں کی مہمان نوازی تین ہفتے متواتر جماعت احمدیہ دہلی نے کی اور بعض لوگ تو رات دن کام پر رہے اور بعض دوست کھانا کھلانے کے لئے اکثرآتے رہے مثلاً بابو عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ دہلی اسی طرح اور کئی دوست کام میں لگے رہے، امیر صاحب جماعت دہلی ڈاکٹر عبداللطیف صاحب، چوہدری بشیر احمد صاحب اسی طرح کئی اور دوست ان دنوں اسی طرح کام پر لگے رہے کہ گویا ان کا کام مہمان نوازی اور ہماری امداد کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹر لطیف صاحب اور سید انتظار حسین صاحب کی موٹریں رات دن ہماری کوٹھی پر رہیں اور چوہدری شاہ نواز صاحب کی کار کے ساتھ ہر وقت سلسلہ کے کام کرتی رہیں اور یہ قربانی ان لوگوں نے متواتر تین ہفتہ تک رات اور دن پیش کی۔ یقینا یہی ایمان کا تقاضا تھا اور امتحان کے آنے پر اس قسم کا اخلاص دکھائے بغیر کوئی جماعت اپنے ایمان کے دعویٰ میںسچی نہیں ہو سکتی۔ یہ کوئی اخلاص نہیں کہ امام آیا ہوا ہے اور لوگ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں یہ تو دین سے استغناء کا مظاہر ہ ہے اور جو دین سے استغناء کرتا ہے وہ ایماندار کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اکثر احباب جماعت مغرب و عشاء میں متواتر تین ہفتہ شامل ہوتے رہے۔ میرے نزدیک جماعت کا ۴؍۳ حصہ روزانہ نماز میں آتا تھا اور کافی تعداد کوئی ۴؍۱ کے قریب باوجود دفتروں کا وقت ہونے کے ظہر وعصر میں شامل ہوتی تھی۔ ان میں سے بعض کو پانچ چھ بلکہ سات میل سے آنا پڑتا تھاکثرت سے جماعت کے دوست دوسروں کو ملاقات کے لئے لاتے رہے اور مفید سوال و جواب سے اپنے اور دوسروں کے ایمان تازہ کرتے رہے۔ بہت سوں نے اس غرض سے دعوتیں کیں تا معزز غیر احمدیوں اور ہندوؤں کو ملنے کا موقع ملے۔ کئی کی دعوتیں ہم قبول کر سکے اور کئی کی قلتِ وقت کی وجہ سے نہ کر سکے۔ عورتوں کی خدمات اور اخلاص بھی قابلِ تعریف تھا انہوں نے قابلِ رشک نمونہ دکھایا بہرحال میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اخلاص اور تقویٰ کی زیادتی کے لئے اور دینی و دُنیوی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ باتیں کرنے اور عمل کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اِس زمانے میں باتیں بہت بڑھ گئی ہیں اورقوتِ عملیہ بالکل کم ہو گئی ہے۔ لوگ جتنی باتیں آجکل کرتے ہیں اگر اس کے سینکڑویں حصے پر بھی عمل کر دکھائیں تو وہ ولی اللہ بن جائیں پس میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ کو باتوں سے زیادہ عمل پر زور دینا چاہیے کیونکہ اب باتوں کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے اور دنیا باتوں سے فتح نہیں ہوا کرتی جب تک اس کے ساتھ عملی پہلو نہ اختیار کیا جائے۔
دوسرے یہ بات بھی آج کل کے لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے کہ جتنا زیادہ کوئی دعویٰ کرنے میں ہوشیار ہو گا لوگ اسے اتنا ہی بڑا لیڈر مانیں گے خواہ وہ مخالف کا مقابلہ کر ے یا نہ کرے مگر لوگ اُسے بڑا لیڈر ہی کہیں گے۔ اگر ایک شخص اُٹھ کر کہے کہ دشمنوں کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاؤ تو لوگ فوراً اُسے بڑا لیڈر قراردے دیں گے۔ اس کے بعد اگر کوئی دوسرا شخص اُٹھے اور کہے کہ مخالف سے فوراً لڑائی شروع کر دو تو خواہ یہ کہنے کے بعد وہ خود گھر چلا جائے اور اس بات پر خود کوئی عمل نہ کرے وہ اس پہلے سے بھی بڑا لیڈر مانا جائے گا، پھر اگر ایک تیسرا شخص اُٹھے اور کہنا شروع کر دے کہ مخالف سے صرف لڑنا ہی نہیں چاہئے بلکہ اسے مار مار کر شہر سے باہر نکال دینا چاہئے تو وہ اور بھی بڑا لیڈر بن جائے گا اور لوگ اس کے عمل کو نہ دیکھیں گے۔ یہ ایک مصیبت کی بات ہے کیونکہ صرف دعوؤں سے کچھ نہیں بنتا جب تک ان دعوؤں کے ساتھ عملی پہلو نہ ہو۔ آج کل مسلمانوں میں یہ مرض عام طور پر پایا جاتا ہے کہ جتنا بڑا کوئی دعویٰ کرے اتنا ہی اسے اچھا سمجھیں گے اور بڑا لیڈر ماننے لگ جائیں گے۔ اب دیکھ لو ہماری جماعت کا سواں حصہ بھی غیر احمدی قربانی نہیں کرتے مگر پھر بھی ان کے نزدیک ہماری قربانی بالکل ذلیل اور حقیر سمجھی جاتی ہے صرف اس لئے کہ موجودہ زمانہ کے حالات کے پیش نظر ہم تلوار کے جہاد کے قائل نہیں اور وہ جہاد کے قائل ہیں ،ہم بہت کچھ قربانیاں کرتے ہوئے بھی اسلام کے دشمن کہلاتے ہیں اور وہ لوگ کچھ نہ کرتے ہوئے بھی اسلام کے دوست کہلاتے ہیں۔ یہ مرض لوگوں میں پھیلا ہوا ہے اور اخلاق کی دنیا تباہ اور برباد ہو رہی ہے مگر ہمیں زیادہ سے زیادہ عمل پر زور دیتے چلے جانا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم صرف وہی دعویٰ کریں جس کو پورا کر سکتے ہوں کیونکہ دعویٰ بغیرعمل کے نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتا۔ جس شخص نے صرف دعویٰ کیا اور عمل نہ کیا اُس نے دھوکا کیا۔ صرف کھڑے ہو کر کسی مجلس میں اگر کوئی شخص یہ کہہ دیتا ہے کہ میں فلاں کام کے لئے سَو روپیہ دوں گا مگر دیتا کچھ نہیں تو وہ بے ایمانی کرتا ہے۔ شملہ میں جب راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں نمائندے بھجوانے کا سوال تھا میں بھی اُس وقت شملہ میں ہی تھا اُس وقت مسلم کانفرنس میں اس پر بحث ہو رہی تھی کہ گیارہ ہزار روپیہ اس کام کے لئے کس طرح اکٹھا کیا جائے تاکہ اس وقت مسلمانوں کا نقطہ نگاہ دنیاپر ثابت کیا جائے۔ ان کی بات سن کر میں حیران ہوا کہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں سے گیارہ ہزار کی حقیر رقم اکٹھی کرنا چاہتے ہیں اور پھر اسے اتنا بڑا کام سمجھتے ہیں اورتجویز یہ پیش ہے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ گیارہ ہزار روپیہ تو ایک چھوٹے قصبہ سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور پھر سوال تو یہ ہے کہ اگر گیارہ ہزار کی رقم فراہم کر بھی لی جائے تو اس سے پراپیگنڈا نہیں ہوسکتا اس کے لئے لاکھوں کی بلکہ کروڑوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تو اتنے کی بھی امید نہیں چہ جائیکہ لاکھوں اور کروڑوں والی سکیم بنائی جائے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ لوگ قربانی کرنا چاہتے ہیں تو عملی قربانی دکھانی چاہئے۔ میرے نزدیک اگر ایک صوبہ میں سے پچاس ہزار روپیہ مل جائے تو دس صوبوں میں سے پانچ لاکھ روپیہ جمع کیا جا سکتا ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ پچیس تیس لاکھ ہونا چاہئے تب جا کر کہیں اس روپے سے یورپ میںاور امریکہ وغیرہ ممالک میں پراپیگنڈا کیا جاسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا یہ تو سب خیالی باتیں ہیں اتنا کچھ کون کر سکتا ہے؟ میں نے کہامیرا تو یقین ہے کہ ایک ہی بڑے شہر سے جس میں پانچ لاکھ مسلمان بستے ہوں اگر ان لو گوں کے سامنے یہ حالات صحیح طور پر رکھے جائیں اور موجودہ دقتیں اور ضروریات ان کے ذہن نشین کرا دی جائیں تو پانچ لاکھ روپیہ تو ایک شہر میں سے اکٹھا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہاہمارے لئے تو اس قسم کا خیال کرنا بھی ناممکن ہے۔ میں نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں آتا تو پنجاب میرے سپرد کر دیں۔ اس پر تو وہ راضی نہ ہوئے مگر میری تجویز پر غور کرنے کے لئے انہوں نے ایک کمیٹی بنا دی۔ سر ضیاء الدین صاحب، نواب محمد یوسف صاحب، مولانا شوکت علی، سر فیروز خان نون وغیرہ اس کمیٹی کے ممبر تھے ان کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ چندہ کے متعلق مکمل طور پر کوئی سکیم تیارکریں۔ میں نے کہا بعد کی تحریکیں توبعد میں دیکھی جائیں گی آپ لوگ خود جو کچھ دینا چاہتے ہیں وہ ابھی لکھوا دیں۔ میں نے سر فیروز خاں سے کہا آپ دوہزار کا وعدہ کریں انہوں نے کہا کہ آپ اگراتنا وعدہ کریں تو میں بھی کرتا ہوں، اس پر میں نے بھی دوہزار کا وعدہ کیا پھر دوسرے ممبران سے وعدے لکھوانے کے بعد اس کمیٹی میں ہی تیرہ چودہ ہزار کے وعدے ہو گئے۔ میں نے کہا کہ یہ صرف دس آدمی ہیں جن سے وعدے لئے گئے ہیں اگر ہندوستان کے دس کروڑ آدمیوں سے چندہ جمع کیا جائے تو ایک بہت بڑی رقم فراہم ہو سکتی ہے اس کے متعلق میری تجویز یہ تھی کہ معین طور پر ہر صوبہ پچاس ہزار روپیہ دے مگر وہ لوگ اس تجویز پر متفق نہ ہوئے۔ میرے ذہن میں یہ نہ تھا کہ یہ لوگ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے اور صرف کمیٹی مقرر کر دی گئی ہے۔ دوسرے دن مجھے ان ممبروں میں سے ایک ممبر کا فون آیا کہ دیکھئے وہ وعدہ دو ہزار کا دے نہ دیں۔ میں نے کہا نہ دینے کا کیا مطلب ہے جب وعدہ کیا ہے تو دینا تو ضرور ہوگا۔ کہنے لگے اگر اس طرح دے دیا تو وہ روپیہ کھا جائیں گے۔ میں نے کہا مجھے اس سے کیا اگر کھا جائیں گے تو وہ جانیں اور ان کا کام، مجھے تو دینے سے غرض ہے خواہ وہ کھا جائیں یا پھینک دیں۔ انہوں نے کہا کہ خطرہ ہے کہ اگر اس قدر رقم اکٹھی ان کے ہاتھ آگئی تو اس کا نتیجہ خاطر خواہ نہ ہوگا۔ میں نے کہا میں نے تو آپ کو بھی چندہ لئے بغیر نہیں چھوڑنا۔انہوں نے کہا آپ زبردستی کرتے ہیں موجودہ انتظام ٹھیک نہیں اگر وہ روپیہ کھا جائیں گے تو مفت میں بد نامی ہوگی۔ میں نے کہا کہ چونکہ میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے میں تو وہ روپیہ ضرور دوں گا چنانچہ میں نے دوہزار روپیہ دے دیا، ایک اور صاحب نے بھی میرے کہنے پر پانچ سَو روپیہ کا چیک د ے دیا۔ محمد شفیع صاحب داؤدی جو کمیٹی کے سیکرٹری تھے ایک سال بعد ان سے ملاقات ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ کل کتنی رقم اکٹھی ہوئی تھی؟ کہنے لگے وہی دوہزار روپیہ جو آپ نے دیا تھا اور پانچ سَو جو آپ نے دلایا تھا وہی اَڑھائی ہزار کی رقم ہے اس کے بعد تو کسی نے کچھ نہیں دیاتھا تو اس قسم کی حالت آجکل کے مسلمانوں کی ہے۔ اسکیمیں بناتے ہیں، پروگرام مرتب کرتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے۔ تعجب آتا ہے جب یہ لوگ کہتے ہیں کہ روپیہ نہیں ملتا حالانکہ روپیہ سب کے پاس ہے مگر دیتے نہیں۔ کوئی کسان اپنی زمین میں بیج ڈالتے وقت اس بات سے نہیں ڈرتا کہ بیج ضائع ہو جائے گا وہ خود بھوکا رہے گا، اپنی بیوی کو فاقہ دے گا، اپنے بچوں کوفاقہ دے گا مگر وہ اپنی زمین میں بیج ضرور ڈالے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مجھے سال بھر کی غذا اسی بیج کے بدلہ میں ملے گی اگر میں بیج نہیں ڈالوں گا تو غلہ کہاں سے پیدا ہو سکے گا۔ پس کوئی کسان بیج ڈالتے وقت ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریگا وہ بڑے اطمینان سے بیج کو مٹی میں ملا کر واپس آجائے گا اور چارمہنیے یا چھ مہنیے کے بعد جا کر اسی زمین میں سے اسی بیج میں سے پیدا شدہ فصل کاٹ کر سال بھر کے لئے اناج حاصل کر لے گا۔ احمق اور پاگل لوگ تو قومی خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر وہ جو عقلمند ہیں جانتے ہیں کہ وہ خرچ جو قومی مفاد کے لئے کیا جائیگا وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہو کر واپس ملے گا۔
کانگرس کو دیکھ لو اِس میں برلا جیسے لوگ موجود ہیں جو قومی کاموں کے لئے لاکھوں روپیہ بھی دے دیں تو انہیں بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی دولت کی بڑی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قومی مفاد کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے اور وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ قومی طور پر اگر کام کئے جائیں تو ان کی دولت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں۔ ایک دفعہ ایک وفد جو مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم اور میر محمد اسحاق صاحب مرحوم پر مشتمل تھا بمبئی گیا وہاں کے بڑے بڑے آدمیوں نے انہیں دعوتیں دیں انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ یہاں بمبئی میں بوہرہ قوم کا کوئی آدمی غریب نہیں ہے اور سب کے سب کسی نہ کسی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ جب بوہرہ قوم کے چند لیڈروں سے اس کا سبب پوچھا گیاکہ کیا وجہ ہے کہ بوہرہ قوم کے سب آدمی دولت مند اور آسودہ حال ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ سوائے اوباش اور بدمعاش کے ہم اپنی قوم کے کسی فرد کو گرنے نہیں دیتے۔ جب کوئی بوہرہ دیوالیہ ہو جاتا ہے یا اس قابل نہیں رہتا کہ وہ خود کوئی کام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے تو ہم لوگ باہمی مشورہ سے اس کی مدد کا فیصلہ کرتے ہیں۔چنانچہ کبھی ہم یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ایک مہینہ کے لئے دیا سلائیوں کا اب بیوپار اس کے حوالے کر دیا جائے۔ جس بوہرہ تاجر کے پاس چھوٹے تاجر دیاسلائی کے لئے آتے ہیں وہ ان سے کہہ دیتا ہے کہ آجکل میرے پاس دیا سلائی نہیں فلاں کے پاس ہے اور اس مصیبت زدہ کے پاس بھجوادیتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بغیر ایک پیسہ اپنے پاس سے دینے کے وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے ہمارا کچھ نہیں جاتا کیونکہ ہماری دیا سلائی کی پوری قیمت اس سے وصول ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کسی کو مٹی کا تیل یا کوئی اور اِسی قسم کی چیز دے دی جاتی ہے مگر کسی کو چندہ اکٹھا کر کے امداد کے طور پر نہیں دیا جاتا کیونکہ اس طرح کام کرنے کی حس مر جاتی ہے اور وہ شخص بیکار ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہندوؤں میں بھی تنظیم ہے ہندوؤں میں سے اگر کوئی شخص بیکار ہو تو وہ کبھی متفکر نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پیشے بہت ہیں ایک جگہ نہیں تو دوسری جگہ جاکر کوئی کام شروع کردوں گا اور اگر دوسری جگہ بھی نہیں تو کہیں اور جاکر کوئی پیشہ اختیار کر لوں گا لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیکھو اگر کوئی مسلمان بے کار ہو جائے تو ایک آدھ جگہ ملازمت کی کوشش کرے گا اگر وہ ناکام رہا تو سوائے بھیک مانگنے کے وہ کسی دوسرے پیشہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو گا۔
میں ابھی طالب علم تھا عبدالرحمن صاحب کاغانی مرحوم جن کا اخبارات میں اٹھرا کی گولیوں کا اشتہار چھپا کرتا تھا وہ بھی طالب علم تھے، وہ مجھ سے پہلے سے پڑھ رہے تھے اِس لئے وہ مجھ سے سینئر تھے ہم حضرت خلیفہ اوّل سے طب پڑھتے تھے ایک دن مطب میں ہم بیٹھے ہوئے تھے حضرت خلیفہ اوّل ہمیں کوئی طب کی کتاب پڑھارہے تھے اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل خلیفہ نہ تھے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے کسی شخص کا پچاس ساٹھ روپے قرض دینا تھا آپ نے عبدالرحمن صاحب کاغانی کو بلایا اور کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ یہ روپیہ لے جاؤ اور فلاں آدمی کو جا کر دے آؤ۔ عبدالرحمن صاحب کاغانی نے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے وہ روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دئیے مگر ہم نے دیکھا کہ روپے لیتے وقت عبدالرحمن صاحب کاغانی کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ کچھ متوحش سے نظر آنے لگے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے کہا دیکھو مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ چونکہ پچاس یا ساٹھ روپیہ انہوں نے کبھی دیکھا نہ تھا اس لئے روپیہ پکڑتے وقت ان کے ہاتھ کانپنے لگے، صرف اس خیال سے کہ اگر یہ روپیہ رستہ میں کہیں گم ہو جائے یا گر جائے تو میں اتنا روپیہ کہاں سے ادا کروں گا۔ آپ نے فرمایا ایک ہندو کو بلاؤ اس کو میں اگر ایک لاکھ روپیہ بھی دوں تو وہ دھوتی کے کسی کونے میں دبا کر اطمینان سے لے جائے گا اور اُس کو خیال بھی نہ ہو گا کہ میں کیا لئے جا رہا ہوں۔ تو ہندو اگر بے کار بھی ہو گا تو اسے فکر نہ ہو گی مگر اس کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو سخت تکلیف کا سامنا ہو گا۔ اِس کی وجہ صرف یہی ہے کہ مسلمانوں نے تجارت جیسے منافع بخش پیشے کو چھوڑ دیا، اگر مسلمان تجارت کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔
انگلستان کی کل آبادی ۴ کروڑ ہے مگر وہ اس وقت ساری دنیا میں تجارت کر رہے اور ساری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ پایا تجارت سے پایا اِدھر ہندوستان میں جو آبادی مسلمانوں کی اِس وقت ہے وہ انگریزوں سے اڑھائی گنا ہے مگر پھر بھی وہ نہایت ذلّت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ نہیں دیکھتے کہ وہ انگلستان سے اڑھائی گنا ہیں، وہ اپنے دل میں خیال ہی نہیں لاتے کہ وہ فرانس سے پونے تین گنے ہیں، ان کو کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ سپین سے پونے تین گنے ہیں، ان کا ذہن کبھی اس طرف گیا ہی نہیں کہ وہ امریکہ کی آبادی کے قریباً برابر ہیں کیونکہ امریکہ کی آبادی تیرہ کروڑ کے قریب ہے اور مسلمانوں کی آبادی دس کروڑ کے قریب ہے گویا آبادی کے لحاظ سے وہ قریباً امریکہ کے برابر ہیں مگر جو سامان اِس وقت امریکہ والوں کو حاصل ہیں وہ مسلمانوں کو کیوں میسرنہیں؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ مسلمانوں میں تنظیم نہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰؓ کو کوفہ کا گورنر بناکر بھیجا گیا حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کوفہ میں بعض لوگ شرارتیں کیا کرتے تھے اور جب کوئی افسر وہاں پہنچتا تو ان لوگوں کی رپورٹیں حضرت عمرؓ کے پاس آنی شروع ہو جاتی تھیں کہ یہ ظالم افسر ہے انتظام کو بدل دیا جائے۔ حضرت عمرؓ اس افسر کو بدل کر اور بھیج دیتے تھے مگر جب کوئی دوسرا افسر پہنچتا اُس کے خلاف جھٹ رپورٹیں آنی شروع ہو جاتی تھیں پھر حضر ت عمرؓ اُس کو بدل ڈالتے تھے۔ جب یکے بعد دیگرے پانچ سات افسر بدلے گئے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ اب ایساافسر بھیجا جانا چاہئے جو کوفہ کے لوگوں کو سیدھا کر دے۔ آپ نے حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیج دیا، اُس وقت حضرت عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ کی عمر اُنیس سال کی تھی، جب اس کے متعلق کوفہ والوں نے سنا کہ ایک ایسا شخص جس کی عمر ۱۹ سال کی ہے گورنر بنا کر ہم پر حکومت کرنے کے لئے بھیجا جا رہا ہے تو انہوں نے ہنسی اُڑائی اور بغلیں بجائیں کہ جب بڑے بڑے معمر ہماری چالوں کے سامنے نہ ٹھہر سکے تو یہ بچہ بھلا کہاں ٹھہر سکے گا۔ ان لوگوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ گورنر کوفہ کے نزدیک پہنچ جائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤساء اور امراء اُس کے استقبال کے لئے باہر نکلیں۔ تجویز یہ ہوئی کہ سب سے پہلے ان رؤساء میں سے جو سب سے بوڑھا رئیس ہے وہ آگے بڑھے اور اس کو تعظیم دے اور پوچھے کہ حضور کی عمر کیا ہے؟ اور جب وہ کہے گا اُنیس سال ہے تو سب ہنس دیں گے اور تمسخر اُڑائیں گے۔ غرض وہ ایک بہت بڑا جلوس بنا کر شہر سے باہر پہنچے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو آتے دیکھا تو وہ اس طرف چل پڑے۔ اس بوڑھے نے جس کو عمر پوچھنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا آگے بڑھ کر پوچھا حضور کی عمر کیا ہے؟ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے جواب دیا میری عمر؟ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہؓ کو دس ہزار صحابہ کے لشکر پر جن میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے جرنیل بنا کر روم والوں کے ساتھ لڑائی کرنے کے لئے بھیجا تھا تو اُس وقت جو عمر اُن کی تھی اُس سے میری ایک سال بڑی ہے۱؎ یہ جواب سن کر کوفہ کے رؤساء ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ ہنسی یا تمسخر کا کوئی لفظ منہ سے نکال سکے اور وہ اتنی سی بات سے ہی اس قدر مرعوب ہوئے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ چالیس پچاس سال تک وہاں کے گورنر رہے مگر انہی لوگوں میں سے جو آپ سے پہلے ہر گورنر کے ساتھ شرارت کرتے رہے اور ہر گورنر کے خلاف شکایات بھیجا کرتے تھے کسی ایک کو بھی اس قسم کی جرأت نہ ہوئی اور وہ لوگ کبھی شرارت کے لئے نہ اُٹھے اور سارے کوفہ پر حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا ایسا رُعب طاری ہوا کہ وہ حکومت یا انتظام کے اندر کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ کر سکے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ چیزیں ایک بہت بڑے تعلق اور عشق کے نتیجہ میں ملتی ہیں۔ جو شخص خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اور اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کردیتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ نور اور روشنی عطا ہوتی ہے جس کو پا کر انسان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ دنیا کی کسی طاقت سے خائف نہیں ہوتا۔ جس کے متعلق حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا تھا کہ میری عمر اسامہ کی عمر سے ایک سال بڑی ہے یہ وہ اسامہؓ تھا جس نے روما کی سلطنت کو تہہ وبالا کر دیا تھا، کفار کے لشکر کے پرخچے اُڑا دیئے تھے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان انگلستان سے اڑھائی گنا ہیں، اٹلی سے اڑھائی گنا ہیں، سپین سے اڑھائی گنا ہیں، فرانس سے اڑھائی گنا ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے تقریباً برابر ہیں تو دل میں تھوڑا بہت حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے مگر جب ہم مسلمانوں کی تنظیم کو دیکھتے ہیں تو خون جوش مارنے لگتا ہے کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ مسلمانوں کی پے درپے غلطیاں انہیں دن بدن نیچے کو لئے جا رہی ہیں وہ خود ہی اپنے آپ کو مُردہ تصور کر رہے ہیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان اتنے مرے ہوئے نہیں جتنا کہ وہ سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اب بھی اپنے اندر بیداری پیدا کرلیں، اگر اب بھی وہ اپنے آپ کو شناخت کر لیں، اگر اب بھی وہ خدا تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنا شروع کر دیں، اگر اب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جائیں اور اگر اب بھی وہ اپنے آپ کو مُردہ نہیں بلکہ زندہ سمجھنے لگ جائیں تو ہندوستان تو ہندوستان رہا دنیا کی کوئی طاقت اور دنیا کی کوئی قوم ان کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی۔ مسلمانوں کو اِس قدر ذلّت اس لئے نصیب ہو ئی کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے احکام سے پہلو تہی اختیار کی۔
ہماری جماعت کو تھوڑے ہو کر بھی اپنے آپ کو زیادہ سمجھنا چاہئے، اس وقت ہندوستان میں انگریز اتنے نہیں جتنی ہماری جماعت ہے مگر انگریز صرف تنظیم کر کے اپنے آپ کو بڑا بنا لیتے ہیں۔ اِس وقت انگلستان تمام دنیا پر حکومت کر رہا ہے اور تجارت اِس کے ہاتھ میں ہے، دولت اس کے ہاتھ میں ہے اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوںنے شروع میں تنظیم کے ماتحت قربانیاں کیں۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی ۲؎ ہندوستان میں آئی اس وقت انگلستان کے لوگوں کی تنخواہیں نہایت قلیل ہوا کرتی تھیں پانچ یا چھ شلنگ ماہوار تنخواہ کارکنوں کو ملتی تھی جو چار چار یا تین تین روپے کے برابرا ہوتی تھی کیونکہ ایک شلنگ کی قیمت کا اندازہ اگر دس آنے کیا جائے تو چھ شلنگ کی قیمت پونے چار روپے بنتی ہے اور پانچ شلنگ کی قیمت تین روپے سے تھوڑی زیادہ بنتی ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے ابتدائی حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت انگلستان کے لوگوں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ ان میں سے اکثر کے پاس پورے کپڑے تک نہ ہوتے تھے مگر ان لوگوں نے باہر نکل کر دنیا سے تجارت کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ہر شخص نے اپنا پیٹ کاٹ کر ایسٹ انڈیا کمپنی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ لوگ ان پر طرح طرح کے آوازے کستے تھے مگر وہ ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے نکال دیتے۔ جس طرح کھیت میں بیج ڈالنے والے کو اس کے ضائع ہونے کا احتمال نہیں ہوتا اسی طرح اگر کسی شخص کے پاس دس پندرہ روپے ہوں اور وہ انہیں تجارت میں نہیں لگاتا اور اسے محفوظ کر کے کہیں رکھ دیتا ہے یا زمین میں دبا دیتا ہے تو یقینا اس کا یہ سرمایہ ضائع تو نہ ہو گا مگر اس سرمایہ سے اس کو کوئی نفع نہیں پہنچ سکے گا اگر وہ اس روپے کو تجارت یا کسی اور کام میں لگادے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے اپنے اخراجات بھی اس سرمایہ سے چلتے رہیں گے اور وہ روپیہ بھی اپنی اصلی حالت میں موجود رہے گا اور اگر اس نے وہ روپے تجارت میں نہیں لگائے ہوں گے تو ان کے ضائع ہو جانے یا چوری ہو جانے کا بھی اندیشہ رہے گا یا اگر وہ شخص مسلمان ہے اور اسلام کے احکام کی پابندی کرتا ہے تو اگر وہ اس روپیہ میں سے صدقہ و خیرات یا زکوٰۃ دیتا رہے گا تو وہ روپیہ خرچ ہو جائے گا اور اگر وہ پکا مسلمان نہیں اور زکوٰۃ و صدقات وغیرہ نہیں دیتا تو وہ روپیہ اس کو دوزخ میں لے جائے گا۔ اگر شریعت پر عمل کرتا ہے اور زکوٰۃ دیتا ہے تو بھی اور اگر شریعت پر عمل نہ کر کے زکوٰۃنہیں دیتا تو بھی وہ ورپیہ خرچ ضرور ہو جائے گا اس کے محفوظ رکھنے اور اس سے منافع اُٹھانے کا صرف یہی ایک طریق ہو گا کہ اسے تجارت میں لگا دیا جائے۔ یہی احساسات ایسٹ انڈیا کمپنی والوں کے دلوں میں تھے اور کمپنی کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود یکہ دو دفعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دیوالہ نکلا تیسری دفعہ جا کر بڑی مشکل سے انہوں نے کامیابی کا منہ دیکھا اور آہستہ آہستہ اپنی تجارت کو فروغ دیا اور پھر تھوڑے عرصہ کے بعدوہ وقت آیا کہ وہی لوگ ہندوستان کے حاکم بن بیٹھے تو یہ صرف تجارت، تنظیم اور استقلال کے نتیجہ میں تھا۔ اب لوگ حیران ہو کر کہا کرتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کا حق صرف انگریزوں کو ہی حاصل ہے یہ لوگ سینکڑوں سال سے یہاں تسلّط جما کر بیٹھے ہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے گویا انہیں کسی کی کچھ پروا ہی نہیں مگر یہ سب کچھ اسی قربانی کا نتیجہ ہے جو پُرانے زمانہ میں انگریزوں نے کی۔ اُنہوںنے تکلیفیں دیکھیں مگر قدم پیچھے نہ ہٹایا ،اُنہوں نے قلیل سے قلیل تنخواہوں پر گذر اوقات کی اور ننگے سر اور ننگے پاؤں کام میں برابرلگے رہے یہی وہ قربانی تھی جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو کامیاب بنا دیا، یہی وہ قربانی تھی جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا ورنہ یہ وہی کنگال تھے جو ننگے سر اور ننگے پاؤں سٹرکوں پر اور بازاروں میں چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔
پس اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر قربانی ترقی کرتی ہے اور جو قربانی بیج کے طور پر کی جائے وہ کبھی ضائع نہیں جاتی بلکہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہی قربانی جو بیج کے طور پر کی گئی تھی ایک تنا ور درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر ہزاروں اور لاکھوں انسان اس کا پھل کھاتے اور اُس کے سائے میں بیٹھتے ہیں۔ جماعت دہلی کومیں خاص طور پر ان کی تنظیم کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ میرا سفر ان کے لئے مبارک ثابت ہوگا کیونکہ مجھے ان دنوں پھر نہایت مبارک نظارے دکھائے گئے ہیں ایک یہ کہ میں نے دیکھا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے متعلق تقریر کر رہا ہوں اور بار بار میری زبان پر ۳؎ کے الفاظ آتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق میں سب کچھ بیان کرتا ہوں مگر میری تقریر کے گرد چکر لگاتی ہے۔ میں کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا ایک پہلو بیان کرتا ہوں کبھی دوسرا پہلو بیان کرتا ہوں ،کبھی تیسرا پہلو بیان کرتا ہوں، غرض ساری رات سونے سے اُٹھنے تک بار بار یہی نظارہ آنکھوں کے سامنے آتا رہا مگر ہر دفعہ کے الفاظ بے اختیار میری زبان پر جاری ہو جاتے۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک ہماری جماعت کا ہر آدمی چھوٹا محمد (ﷺ) نہیں بن جاتا اسلام ترقی نہیں کر سکتا اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر ہماری جماعت ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے کا نمونہ بننا پڑے گا۔
دوسری مبارک رؤیا میں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے سامنے ایک نوجوان کی شکل میں موجود ہیں سر کے بال لمبے لمبے ہیں جیسا کہ حدیثوں میں ذکر آتا ہے اور سر پر چھوٹی سی پگڑی ہے جیسا کہ عربوں اور پٹھانوں میں عام طور پر رواج ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نوجوان نظر آتے ہیں اور نہایت خوبصورت ہیں آپ کا رنگ سفید ہے جب یہ نظارہ میں نے دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ زندہ ہیں اور مدینہ میں ان کی خلافت ہے اور جہاں میں کھڑا ہوں وہ جگہ مکہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کچھ مشکلات پیش آئی تھیں اور آپ مشورہ لینے کے لئے مدینہ تشریف لے گئے تھے حضرت ابوبکرؓ سے مشورہ کرنے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً ہی تمام مشکلات کو دُور کر دیا۔ چنانچہ میں اسی مضمون پر لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہوں۔ حضور علیہ السلام میرے سامنے کچھ دُور کھڑے ہیں میں آپ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں کہ دیکھو وہ بات جو حضرت ابوبکرؓ کو سالوں سے معلوم تھی اور ان کے ذہن میں تیس پینتیس سال سے موجود تھی اس سے انہوں نے وہ نتیجہ نہ نکالالیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابو بکرؓسے مشورہ کیا اور باتوں باتوں میں وہ بات حضرت ابوبکرؓ نے آپ سے بیان کی تو آپ نے فوراً اس بات سے ایک عظیم الشان نتیجہ نکال لیا اور اس پر عمل کر کے سب مشکلات کو دور کر لیا۔
اس کا مطلب جو میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ صداقیتں تو پہلے سے موجود تھیں مگر لوگوں نے ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مثیل اور بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے مسلمانوں کے پاس ہر قسم کی مکمل ہدایات موجود تھیں مگر انہوں نے بد قسمتی سے ان چیزوں کو استعمال نہ کیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تو آپ نے انہی چیزوں سے دنیا کے نقشہ کو بدل دیا۔ چنانچہ دیکھو قرآن کریم سینکڑوں سال سے مسلمانوں میں موجود تھا مگر ان لوگوں نے اس کو غور وفکر اور تدبر سے نہ پڑھا اس لئے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اسی قرآن کریم کو دنیا کے سامنے پیش کیا تو ایسے اعلیٰ مطالب بیان کئے کہ آج دنیا ان کو سن کر سر دھنتی ہے اور کہتی ہے کہ قرآن کریم میں کس قدر کمالات ہیں اور کس قدر حقائق و معارف ہیں۔ اس علاقہ کی خوش قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا رسول ان میں خود آیا ظاہر میں ہو یا خواب میں بہرحال یہ تو ایک واضح امر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہوا۔
اس کے بعد میں جماعت کو بعض اور اہم فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جن میں سے پہلا یہ ہے کہ تبلیغ پر خاص طور پر زور دیا جائے۔ اس دفعہ یہاں دہلی میں میرے لئے ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی ہے کہ اب دلی والوں نے کج بحثی کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس سے پہلے جب کبھی مجھے یہاں آنے کا اتفاق ہوا دہلی کے ہر قسم کے لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آیا کرتے تھے اور عجیب عجیب قسم کی بحث شروع کر دیا کرتے تھے اور کسی نے بھی کبھی کوئی معقول بات نہ کی تھی۔ مجھے یاد ہے میں اُس وقت چھوٹا سا تھا میں یہاں آیا اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا حیدر آباد کے ایک رشتہ کے بھائی بھی ہماری رشتے کی اس نانی کے پاس ملنے آئے تھے جن کے پاس حضرت اماں جان ٹھہری ہوئی تھیں انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ لڑکا کون ہے؟ نانی نے کہا کہ فلاں کا لڑکا ہے یعنی حضرت اماں جان کا نام لیا۔ حضرت اماں جان کا نام سن کر وہ مجھے کہنے لگے تمہارے ابا نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف کئی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی مگر بجائے اس کے کہ میں گھبراؤں چونکہ مجھے وفاتِ مسیح کی بحث اچھی طرح یاد تھی میں نے وفاتِ مسیح کے متعلق بات شروع کر دی۔ میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور اس زمانہ میں جو مسیح موعود اور مہدی آنے والا ہے وہ اسی اُمت میں سے آئے گا۔ مجھے قرآن کریم کی ان آیات میں سے جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے۔ ۴؎ والی آیت یاد تھی گو میں نے اس کے متعلق سارے مضمون کو اچھی طرح کھول کر بیان کیا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگے واقعی اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں مگر یہ مولوی لوگ کیوں شور مچاتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بات تو پھر اُن مولویوں ہی سے پوچھئے۔ اس پر ہماری نانی نے شور مچا دیا کہ توبہ کرو توبہ کرو، اس بچہ کا دماغ پہلے ہی ان باتوں کو سن کر خرا ب ہوا ہوا تھاتم تصدیق کر کے اسے کفر پر پکا کرتے ہو۔
ہم لوگوں سے اس قسم کے کفر کے فتوے سنا کرتے تھے مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ میرے عزیز رشتہ دار اور دوسرے ملنے والے لوگ جن میں ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں مجھ سے ملنے آتے ہیں مگر بہت کم کج بحثی کرتے ہیں اور اب دہلی والوں میں کیا چھوٹے اور کیا بڑے، کیا وکلاء اور کیا ڈاکٹر، کیا آفیسرز اور کیا کلرک سب کی کایا پلٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ دہلی والوں کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۵؎ اب جو کچھ میرے تجربہ میں آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی والوں کے دلوں پر جو تالے لگے ہوئے تھے وہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے کھل رہے ہیں پس جماعت دہلی کو تبلیغ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔ جب تک تم میں سے ہر احمدی اپنے اندر ایک جنون کی سی کیفیت نہ پیداکرے اور جب تک تم میں سے ہر احمدی دین کے کام کو خود اپنا کام نہ سمجھے تم مؤمن کامل نہیں بن سکتے۔ تمہارے ذمہ قلوب کو فتح کرنے کا کام ہے اور قلوب فتح نہیں ہوا کرتے جب تک انسان دیوانہ وار اس کام کے پیچھے نہ لگ جائے اور یہ نہ سمجھ لے کہ اس کام کو میں نے ہی کرنا ہے۔
پس مؤمن وہی ہے جو یہ سمجھے کہ اس کام کا سرانجام دینا صرف میرے ہی ذمہ ہے۔ ایک جلسہ سالانہ پر بھی میں نے کہا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ سب مؤمن یہ عہد کر لیں کہ وہ چھوٹا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بننے کی کوشش کریں گے۔ جب تک تمام مؤمن چھوٹے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نہیں بن جاتے ان کی زندگی دین کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتی۔ چھوٹا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بننے کے یہ معنی ہیں کہ تم میں سے ہر شخص اپنے متعلق یہ سمجھ لے کہ ساری دنیا کو تبلیغِ اسلام پہنچانے کی ذمہ داری صرف اور صرف مجھ پر عائد ہوتی ہے اور ساری دنیا کو ہدایت دینا مجھ پر فرض ہے۔ میری عمر انیس سال کی تھی اور میری تعلیم بھی بہت کم تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے اُس وقت میں نے کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات بے وقت ہوئی ہے ابھی تو فلاں فلاں پیشگوئی بھی پوری نہیں ہوئی اس سے کمزور ایمان والے لوگوں کو ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہے اور کئی لوگوں کے ایمان خراب ہو جائیں گے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی مخالف فلاںفلاں پیشگوئی کے متعلق اعتراض کرے گا تو ہم اسے کیا جواب دے سکیں گے۔ ان سب باتوں کو سن کر میں نے اندازہ لگایا کہ جماعت میں سے بعض کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں پس میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے سرہانے جا کھڑا ہوا اور خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے میں نے عہد کیا کہ اے خدا! اگر ساری جماعت بھی احمدیت سے پھر جائے گی تو تیرے ہی فضل سے اور تیری ہی مدد سے میں اکیلا اس تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤں گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تو نے ہمیں عطا کی ہے۔ یہ عہد کیا تھا یہ عہد میرا نہ تھا بلکہ یہ عہد محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا تھا کیونکہ ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہے اور میں بھی اُس وقت محمد ؐ کے تصرف میں تھا۔ پس جب تک تم میں سے ہر احمدی چھوٹا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں بن جاتا تم کامیابی کا منہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے ہر شخص یہ عہد کرے کہ میں چھوٹا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بننے کی کوشش کروں گا۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ جب لوگ دوسرے کو دیکھ کر یہ کہتے ہیں فلاں یہ کام نہیں کرتا ہم کیوں کریں لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے کپڑوں میں آگ لگ جائے اور اس کا بدن جلنے لگ جائے تو دیکھنے والے لوگ اسے دیکھ کر جلنے لگ جائیں گے اس لئے کہ یہ جو جل رہا ہے ہم بھی جلتے ہیں مگر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ لوگ دوسروں کی اچھی باتیں تو لے لیتے ہیں مگر بُری باتیں لینا پسند نہیں کرتے۔ کتنا ہی بدقسمت وہ شخص ہے جو یہ کہے کہ فلاں چونکہ دین کی خدمت نہیں کر رہا اس لئے میں بھی نہیںکرتا اس لحاظ سے تو اسے چاہئے کہ جب وہ کسی دوسرے کے مکان میں آگ لگتی دیکھے تو گھر آکر اپنے مکان کو جلاڈالے یا وہ کسی دوسرے کوکنویں میں گرتا دیکھے تو اس کے پیچھے ہی وہ اپنے آپ کو کنویں میں گرا لے مگر وہ کبھی ایسا کرنے کو تیار نہیں ہوگا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مکان کو جلاڈالنے سے نقصان ہو گا اور کنویں میں گرنے سے جان جانے کا اندیشہ ہے۔ کاش! ایسا آدمی سمجھ سکتا کہ جس شخص کو وہ دین کے کاموں میں مُردہ دیکھ رہا ہے اُس کی نقل کرنے سے وہ خود بھی مردہ ہو جائے گا۔ پس اگر تم لوگوں میں ایمان ہے تو یہ سمجھ لو کہ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دنیا میں تمہارے سِوا کوئی بھی قائم مقام نہیں، اگر تم چھوٹے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بن جاؤ تو عمر وزید اور بکر کا تمہیں خیال بھی نہیں آسکتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور میں کیا کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاظب کر کے فرماتا ہے کہ صرف تو دین اسلام کے پھیلانے کاذمہ وار ہے یہ نہیں فرمایا کہ باقی مسلمان بھی ذمہ دار ہیں اِس کا مطلب یہی ہے کہ اسلام کا پھیلانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہے۔ پس جو شخص اپنے آپ کو محمد رسول اللہ کا عاشق سمجھتا ہے اُس کے ذمہ بھی یہ کام ہے ہاں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ نہیں کرتا اور اپنے آپ کو غیر سمجھتا ہے اُس پر کوئی دعویٰ نہ ہمیں ہے نہ اسلام کو۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۶؎ کہ اے محمد!(ﷺ) ان لوگوں پر یہ بات واضح کر دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو تم محمد(ﷺ) کے متبع بن جاؤ یعنی چھوٹے محمد(ﷺ) بن جاؤ جب ایسا کرو گے تو سمجھ لو کہ تم کامیاب ہو گئے۔ پس اصل ایمان یہ ہے کہ ہر شخص یہی سمجھے کہ میں ذمہ دار ہوں اور اگر وہ اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھتا تو وہ بے ایمان ہے اور وہ مؤمن کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا۔ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ محمد(ﷺ)جہاد سے انکار کر دیا کرتے تھے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم دین کی خدمت سے انکار کر دیا کرتے تھے، کیا تم کہہ سکتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغِ اسلام نہیں کیا کرتے تھے اِس عذر پر کہ عتبہ یا شیبہ یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ عتبہ اور شیبہ نے تو خدا تعالیٰ کی باتیں نہیں سنی تھیں لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی تھیں اس لئے ان کے دل میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ فلاں شخص دین کی خدمت نہیں کرتا اس لئے مجھے بھی نہیں کرنی چاہئے یا فلاں شخص جہاد میں شامل نہیں ہوتا مجھے بھی جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔
غزوہ حنین میں رسول کریمﷺ اکیلے رہ گئے مگر پھر بھی آپ دشمن کی طرف آگے بڑھتے چلے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے آپ کو دشمن کی طرف بڑھتے دیکھا تو اس خیال سے کہ کہیں دشمن کی طرف سے آپ کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے دَوڑ کر رسول کریمﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کے خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ﷺ آپ پیچھے ہٹ جائیں کیونکہ خطرہ ہے کہ دشمن کی طرف سے کہیں آپ کو کوئی آنچ نہ پہنچ جائے لیکن آپ نے کہا میرے خچر کی باگ چھوڑ دو یہ کہہ کر رسول کریم ﷺ آگے بڑھے اور زور سے کہا
اَنَاالنَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا ابُنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ۷؎
اور فرمایا اس وقت میرا یہ کام نہیں کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں کیونکہ میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں اور یہ خیال کر کے کہ لوگ مجھے خدا نہ سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں مبتلانہ ہو جائیں اس لئے فرمایا اَنَا ابُنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْیعنی میری اپنی ذات پر کچھ نہیں یہ تو سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں بھی تمہاری طرح خدا تعالیٰ کی مخلوق ہوں۔ یہ وہ ایمان ہے جس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں ہوتی اگر کسی شخص کے دل میں ایک منٹ کے سینکڑویں حصہ کے لئے بھی یہ خیال پیدا ہو جائے کہ جو کچھ میرے اندر ہے وہ میری اپنی لیاقت سے ہے اور (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) خدا کا اس میں کچھ دخل نہیں تو وہ شخص بے ایمان ہے اسے چاہئے کہ توبہ کرے اور خدا تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو ورنہ وہ کفر کی حالت میں ہوگا۔ جب تک کوئی شخص ایماناً واحتساباً کام نہ کرے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کوپورا کرنے کی کوشش نہ کرے وہ مؤمن کہلانے کا مستحق نہیں۔ ایمانًا تو اس طرح کہ وہ مؤمن ہونے کی حیثیت میں ہر کام خدا کے لئے کرے اور خدا تعالیٰ کے ہر حکم کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور احتساباً اس طرح کہ وہ دل میں پختہ یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ جب تک یہ دونوں باتیں نہ ہوں ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔
اگر کوئی کہے کہ باقی لوگ جو نہیں کرتے اس لئے مجھے بھی نہیں کرنا چاہئے تو ایسے شخص کا ایمان مٹ گیا اور وہ سیدھا جہنم میں جائے گا۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایسا نہیں کہہ سکتے تھے، حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کوئی بھی تو ایسا نہیں کہہ سکتے تھے رسول کریمﷺ کے بعد جب زکوٰۃ کے مسئلہ کے اختلاف کی وجہ سے عرب کے ہزاروں لوگ مرتد ہو گئے اور مسیلمہ مدینہ پر حملہ آور ہوا تو حضرت ابو بکرؓ کو جو اُس وقت خلیفہ تھے اطلاع پہنچی کہ مسیلمہ ایک لاکھ کی فوج لیکر حملہ آور ہو رہا ہے اُس وقت کچھ لوگوں نے حضرت ابو بکرؓ کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ اس وقت ہم ایک نازک دور میں سے گزر رہے ہیں اور زکوٰۃ کے مسئلہ پر اختلاف کی وجہ سے لوگ ارتداد اختیار کرتے جارہے ہیں اور اِدھر مسیلمہ ایک بہت بھاری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے اس لئے ان حالات کے پیش نظر قرین مصلحت یہی ہے کہ آپ زکوٰۃ کا مطالبہ سرِ دست نہ کریں اور ان لوگوں سے صلح کر لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان خدشات کی ذرا بھی پروا نہ کرتے ہوئے ان مشورہ دینے والوں سے کہا کیا تم مجھے وہ بات منوانا چاہتے ہو جو خدا تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے صریح خلاف ہے۔ زکوٰۃ کا حکم خدا تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں خدا اور اس کے رسولﷺ کے احکام کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش کروں۔ صحابہؓ نے پھر کہا کہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ صلح کر لی جائے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا اگر آپ نہیں لڑنا چاہتے اور دشمن کے مقابلہ کی تاب نہیں لاسکتے تو آپ لوگ جائیںاور اپنے گھروں میں جا کر بیٹھیں خدا کی قسم! میں دشمن سے اُس وقت تک اکیلا لڑوں گا جب تک وہ اونٹ کے گھٹنے باندھنے کی رسّی بھی اگر زکوٰۃ میں دینی تھی اسے ادا نہیںکردیتے اور جب تک میں ان لوگوں کو زکوٰۃ دینے کا قائل نہ کر لوں گا ان سے کبھی صلح نہ کروں گا۔۸؎ پس حقیقی ایمان کی یہی علامت ہوا کرتی ہے۔
جب کسی شخص کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ یہ کام خود میرا ہی ہے وہ اپنے دائیںبائیں والوں کی طرف نہ دیکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، وہ اپنے ساتھی کی طرف نہ دیکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے، وہ اپنے کسی عزیز اور رشتہ دار کو نہ دیکھے کہ وہ کیا کر رہا ہے تب جا کر وہ حقیقی مؤمن کہلانے کا حقدار ہو گا ورنہ اس سے گھٹیا ایمان کسی کام کا نہیں۔ قیامت کے دن خدا تعالیٰ ایسے گھٹیا ایمان والوں کا ایمان ان کے منہ پر مارے گا اور کہے گا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دین کا اکیلا ذمہ دار ہے امیراور سیکرٹری وغیرہ تو دنیا کے انتظام کے ماتحت ہیں قرآن کریم کا انتظام تو یہی ہے کہ تم خود ہی مربی ہو، تم خود ہی معلّم ہو، تم خود ہی قاضی ہو، تم خود ہی تعلیم دینے والے ہو ،تم خود ہی نماز پڑھانے والے ہو اور تم خود ہی فرداً فرداً دین کے ہر قسم کے کاموں کے ذمہ دار ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال تمہارے سامنے موجود ہے انہوں نے کمزوری دکھائی اور اللہ تعالیٰ سے مدد کے طور پر ایک آدمی مانگ لیا۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے یہ دعا آتی ہے کہ ۹؎ اے اللہ تعالیٰ! میں اکیلا اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتا مجھے میرے ہی اہل میں سے ایک وزیر عطا فرما۔موسیٰ علیہ السلام نے تو کمزوری دکھائی اور اپنی مددکے لئے ایک آدمی مانگ لیا مگر محمد رسول اللہﷺ نے تو ایک بھی نہ مانگا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو کہا تھا مجھے ایک وزیر چاہئے مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے کہا میں خدا تعالیٰ کے رستہ میں جان دے دوں گا مگر قدم پیچھے نہ ہٹاؤں گا۔ میری جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لئے ہر وقت حاضر ہے۔
جنگ تبوک کے لئے جب رسول کریمﷺ باہر نکلے رومی قوم سے جنگ تھی رومی بہت طاقتور قوم تھی اور وہ بہت بڑے لشکر کے ساتھ اور اس وقت کے جنگ کے ہر قسم کے سازو سامان سے آراستہ وپیراستہ ہو کر مکمل تیاری کرکے آئے تھے۔ صحابہؓ ڈرتے تھے کہ کہیں رسول کریمﷺ کو دشمن کے ہاتھوں سے کوئی آنچ نہ آجائے کیونکہ پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ رومیوں کے مقابلہ میں صرف ایک ایک مسلمان تھا اور پھررومی لشکر اُس زمانے کے لحاظ سے پورے طور پر مسلح تھا اُس کے پاس تیر بھی تھے، نیزے بھی تھے اور پتھر برسانے والی منجنیقیں اور دوسرے گولہ باری کے بھی سامان تھے، اِدھر مسلمانوں کے پاس تیر، نیزے اور تلواریں بھی پوری نہ تھیں، پھر مسلمانوں کی تعداد بھی نہایت قلیل تھی مگر باوجود اس بے سروسامانی کے اور قلیل التعداد ہونے کے صحابہ دشمن سے بالکل مرعوب نہ تھے اور وہ اپنی زندگی کا واحد مقصد ایک ہی سمجھتے تھے وہ یہ کہ وہ رسول کریمﷺ کے دائیں اور بائیں، آگے اور پیچھے لڑتے ہوئے اپنی جانوںکو قربان کر دیں گے مگر رسول کریمﷺ کو ہر گز دشمن کی طرف سے کوئی آنچ نہ آنے دیں گے۔ مسلمانوںکی بے سرو سامانی کی حالت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری جو کچھ نو مسلموں کو ساتھ لیکر شام سے آئے تھے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!ﷺ ہمیں آپ کوئی ایسی چیز دیں جس سے ہم میدانِ جنگ میں پہنچ سکیں۔ بعض مفسرین اس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سواری کے لئے اونٹ مانگے تھے مگر ابو موسیٰ اشعریؓ جو مانگنے گئے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ رسول کریم ﷺ کے پاس اونٹ مانگنے گئے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں ہم نے رسول کریم ﷺ سے یہ عرض کیا تھا کہ ہمارے پاس سواریاں تو ہیں نہیں اس لئے لشکر کے ساتھ چلنے کے لئے آپ ہمیں چپلیاں دے دیں تا کہ سنگلاخ زمین پر ہم بھاگ سکیں۔ ہم نے سواریاں نہیں بلکہ چپلیاں مانگی تھیں لیکن اُس وقت اسلام پر اسقدر غربت کے دن تھے کہ رسول کریمﷺ ان کو چپلیاں بھی نہ دے سکے۱۰؎ قرآن کریم نے ان کی اس حالت کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ جب وہ رسول کریمﷺ کے پاس سے نکلے تو اُن کی آنکھوںسے آنسو بہتے تھے۔ ۱۰؎تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثال ابو موسیٰ اشعری کی طرح ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ایک آدمی مدد کے لئے مانگ لیا اور ابو موسیٰ اشعریؓ نے اپنے ساتھیوں کے لئے چپلیاں مانگ لیں مگر رسول کریمﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا تو آپ نے کوئی ساتھی نہیں مانگا تھا اور جب خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ جاؤ اور مخالفت دین کی آگ میں کود جاؤ آپ کود گئے۔
پس حقیقی محمدیت یہی ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور جب بھی اسے کوئی بوجھ دین کے لئے اُٹھانا پڑے اُسے اکیلا ہی اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے اور اس کے لئے کسی کی مدد کا خواہاں نہ ہو۔ اور یہ بھی خیال نہ کرے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور میں کیا کر رہا ہوں۔ جو شخص یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے وہ ایمان دار کہلانے کا مستحق ہوتا ہے اور جو شخص یہ فیصلہ نہیں کرتا وہ سمجھ لے کہ ابھی اس کے اندر ایمان پیدا ہی نہیں ہوا اُسے چاہئے کہ اپنے ایمان کی فکر کرے۔ اگر ہماری جماعت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ہم میں سے ہر شخص چھوٹا محمد ﷺ بننے کی کوشش کرے تب جا کر ہم کسی کامیابی کا منہ دیکھ سکیں گے۔ یاد رکھو ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بننا چاہئے موسیٰ علیہ السلام نہیں بننا چاہئے کیونکہ ہمیں موسیٰ علیہ السلام کی نقل سے کیا کام ہمیں تو صرف اور صرف محمد ﷺ کی نقل سے کام ہے۔ وہ لوگ جو دائیں بائیں دیکھتے ہیں وہ کمزور ایمان والے بلکہ بے ایمان ہو تے ہیںتم ان کی پیروی مت کروتمہیں چاہئے کہ جہاں کہیں خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت ہو تم خود وہاں پہنچو اور اکیلے کام کرو۔ جب تم میں یہ جذبہ ایثار پیدا ہو جائے گا تو یادرکھو اگر تم اکیلے کام کر رہے ہو گے تو خدا تعالیٰ خود تمہاری مدد کرے گا اور پھر بڑے سے بڑا کام بھی تمہارے لئے مشکل نہ رہے گا۔ تم جہاں جاؤگے فتح ونصرت تمہارے قدم چومے گی اور تم ہرجگہ سے کامیاب اور کامران واپس لوٹو گے، اس کے ساتھ ہی تمہارے درجات بلند ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا قرب تمہیں حاصل ہو گا۔ یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے کہ اگر دوسرے مزدور کسی کام کو مل کر کریں تو اس کام کی مزدوری بٹ جائے گی اور اگر کوئی شخص اکیلا اس کام کو کرے تو مزدوری بڑھ جائے گی اور جو نصف مزدوری اس کے ساتھی کو ملتی وہ اس اکیلے کو مل جائے گی۔ کیا تم چاہتے ہو کہ وہ ثواب جو سارے کا سارا تمہیں ملنے والا ہو وہ کئی حصوں میںتقسیم ہو جائے اور تمہارے حصہ میں بالکل تھوڑا ساآئے۔
اس کے علاوہ جماعت کو چاہئے کہ وہ تجارتی اور صنعتی اور فنی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے کیونکہ یہ چیزیں بھی قومی یاجماعتی ترقیات میں ممد ہوا کرتی ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ یہاں دہلی کے ہر محلہ میں ایک احمدی کی دُکان ہونی چاہئے یہ ضروری نہیں کہ بہت بڑی دُکان ہو کام چلانے کے لئے معمولی سرمایہ سے بھی دکان کھولی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو مل کر تھوڑے سے تھوڑے روپیہ سے کمپنیاں کھولنی چاہئیں ان کا یہ فائدہ ہو گا کہ مضافات کے مزدور پیشہ لوگ تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ اگر ان دونوں تجاویز پر عمل ہو جائے کہ ہر محلہ میں ایک احمدی دُکان کھول لے اور کچھ لوگ تھوڑے تھوڑے روپیہ سے کمپنیاں کھول لیں تو تبلیغ کا میدان نہایت وسیع ہو جائے گا کیونکہ دُکان بھی ایک ایسی چیز ہے جہاں ہر قسم کے گاہک آتے ہیں اور اُن کو کسی نہ کسی رنگ میں تبلیغ کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کمپنیاں اس سے بھی زیادہ مفید ہیں کیونکہ وہاں مزدور بھی آئیں گے اور رئیس بھی آئیں گے، اَن پڑھ بھی آئیں گے اور پڑھے ہوئے بھی آئیں گے، غرباء کام کرنے کے لئے آئیں گے اور امراء سامان خریدنے کے لئے، اسی طرح ہر طبقہ کے لوگوں سے تعلقات بڑھ جائیں گے اور اس طرح تم گھر بیٹھے فریضہ تبلیغ کو سر انجام دے سکو گے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جتنی جلدی غرباء صداقت کو تسلیم کرتے ہیں اتنی جلدی امراء کبھی نہیں کرتے کیونکہ امراء کے اندر خودی، تکبر اور رعونت پایاجاتا ہے، وہ کبھی خلوصِ دل سے صداقت کی باتوں کو نہیں سنتے۔ اس کے برعکس غرباء میں تکبر نہیں ہوتا اِس لئے وہ ہر بات سُن کر اُس پر ٹھنڈے دل سے غور کرلیتے ہیں اور اگر ان کو کسی بات میں ذرا سی سچائی بھی نظر آجائے تو وہ اسی پر گرہ باندھ لیتے ہیں کوئی ہزار اُن کو ورغلانے کی کوشش کرے وہ سچائی کو کبھی نہیں چھوڑتے۔پس کمپنیوں کا قیام نہایت ضروری چیز ہے ُدنیوی فوائد کے ساتھ ہی ساتھ بہت سے دینی فوائد بھی اِس میں مضمر ہیں۔ آجکل جو حالات پیش آرہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہاں دہلی کے اِردگرد کے دیہات کے مسلمانوں کو جو نہایت ہی غریب ہیں اپنے گاؤں میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور وہ سب بڑے شہروں کا رُخ کریں گے اس وقت تمہارا فرض ہو گا کہ ان کے لئے جگہ پیدا کردو جس طرح مدینہ والوںنے مہاجرین مکہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا ہم اپنی آدھی جائدادیں تم کو دے دیتے ہیں اور آدھی اپنے پاس رکھتے ہیں تمہیں کس بات کا غم ہے ہم اور تم مل جل کر گزارہ کریں گے۔اُدھر مہاجرین بھی قربانی کرنے والے لوگ تھے وہ بھی انصار کوزیادہ تنگ نہ کیا کرتے تھے بلکہ رات کو مسجدوں میں سو کر گزارہ کر لیا کرتے تھے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ ہم ایک ایک وقت میں سَو سَو آدمی مسجدوں میں رہتے تھے ادھر مدینہ والوں نے بھی اپنے مہمانوں کی خاطر اپنے گھروںکو سرائیں بنادیا تھا۔ ان لوگوں میں اُس وقت ایک ہی حس کام کر رہی تھی اور وہ یہ کہ جس طرح ہو سکے رسول کریمﷺ اور اسلام کی حفاظت کی جائے اور اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے کر کے دکھا دی۔ کیا یہ چھوٹی سی قربانی ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو جو نہ اس کا حقیقی رشتہ دار ہو نہ اس کا دوست ہو اور نہ اس کاکوئی دورکا بھی تعلق یا واسطہ اُس کے ساتھ ہو صرف اور صرف اسلام کی خاطر اپنی جائداد بانٹ کر نصف اُس کو دے دے۔ یہاں دہلی کے اَردگرد مسلمانوں کی حالت بھی نہایت نازک ہے تمہیں چاہئے کہ ان میں وسیع پیمانے پر تبلیغ کرو۔ انہیں کام اور محنت کرنے کی ترغیب دی جائے اور انہیں یہاں لا کر کام پر لگاؤ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہاں ہر گلی میں ہر قسم کے شعبوں کے سیکرٹری مقرر کئے جائیں۔ ہر گلی میں اشاعت کا سیکرٹری ہو، ہر گلی میں تجارت کا سیکرٹری ہو اور ہر گلی میں امورعامہ کا سیکرٹری ہو اسی طرح باقی تمام شعبوں کے سیکرٹری مقرر کئے جانے ضروری ہیں اور ہر گلی میں ان شعبوں کے دفاتر کھل جائیں تاکہ وہ لوگ فرداً فرداً اپنے اپنے حلقہ کی نگرانی کر سکیں۔ چونکہ مجھ پر آپ لوگوں کی خدمات اور محبت کا بہت اثر پڑا ہے اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو سال میں آٹھ یا دس دن ہر سال یہاں آجایا کروںکیونکہ یہ مرکزی شہر ہے لیکن تبھی ممکن ہو گا جب کہ یہاں کے لوگ اپنے آپ کو اس فضل کا مستحق ثابت کرتے رہیں۔
یاد رکھیں ہمارا مقام پیروں جیسا نہیں ہے اور کسی کا ہمیں اپنے پاس بلانا ہم پر احسان نہ ہوگا بلکہ جہاں اور جن کے پاس ہم جائیںگے ہمارا ان پر احسان ہو گا۔ خدا کرے کہ یہ سب باتیں جو میں نے ابھی کی ہیں آپ کو ان پر چلنے کی توفیق ملے۔ اگر آپ کا عمل ان نصائح کے مطابق نہ ہوگا، اگر آپ لوگ سُست ہو جائیں گے اور ہماری نصائح کو بھول جائیں گے، پھر خدا تعالیٰ کسی اور شہر کو اس عزت افزائی کے لئے چن لے گا۔ یاد رکھو ہر کام کے لئے قربانی کرنی پڑتی ہے اگر لوگ قربانیاں کرنی شروع کردیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے انعامات کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے بہت جلد اِس تنظیم کے ماتحت کام شروع کر دیا جائے اور ہر محلہ میں سیکرٹری اور صدر محلہ مقرر کرکے مجھے اطلاع دیں تاکہ مرکز کی طرف سے بھی دفتاً فوفتاً نگرانی کی جاسکے اور جس طریق پر میں نے بتایا ہے اُس طریق پر کام شروع کیا جائے تاکہ جس طرح دہلی مرکزی حیثیت سے سارے ہندوستان کا صدر مقام ہے اسی طرح تبلیغ کے لحاظ سے بھی صدر مقام بن جائے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی شخض کے دل میں ثواب کے لفظ سے اتنی گدگدی نہیں ہوتی جتنی ایک لاکھ یا ایک کروڑ روپیہ کا نام سنکر ہوتی ہے حالانکہ ثواب کے مقابلہ میں ایک کروڑروپیہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔وہ شخص روپیہ کو ثواب پر کیوں ترجیح دیتا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ثواب ایک پوشیدہ چیز ہے اور اس شخص کو خدا تعالیٰ کے قرب کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور اس نے وہ لذّت چکھی ہی نہیں ہوتی جوخداتعالیٰ کا قرب حاصل ہو جانے سے ملتی ہے جس کو خدا تعالیٰ کے قرب کی حقیقت معلوم ہو جائے اور وہ اس لذّت کو چکھ لے وہ اس کے مقابلہ میں کروڑوں تو الگ رہا اربوں ارب روپیہ کو بھی ہیچ سمجھنے لگ جائے گا اور اس روپے کی طرف کبھی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھے گاکیونکہ خدا تعالیٰ کا قرب اور وصال اُس کی نظروں کے سامنے ہو گا اور وہ خدا تعالیٰ کی تحویل اور حفاظت میں ہو گا۔
۱۹۳۴ء میں جب کہ احرار کی مخالفت زوروں پر تھی گورنمنٹ نے پورا زور لگایا کہ مجھے کسی بات کے متعلق پکڑے۔ سی ۔آئی۔ ڈی کے آفیسر ہر وقت پیچھے لگے رہتے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے کی توفیق ہی نہ دی۔سی۔آئی۔ڈی کا ایک چوٹی کا افسر اُن دنوں مجھے لاہور میں ملا اُس نے مجھ سے کہا حد ہوگئی حکومت کے آفیسرز اور گورنر ہر روز مشورہ کرتے ہیں کہ کسی طرح آپ کو کوئی چھوٹی سی بات بنا کر ہی پکڑ لیں مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ میں نے کہا اِس میں ہماری اپنی کوئی خوبی یا بہادری نہیں یہ سب کچھ ہمارا خدا کر رہا ہے، کوئی بندہ کچھ نہیں کر رہا۔تو اصل بات یہ ہے کہ جب بندہ اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اُس کی پشت پناہ بن جاتا ہے بندہ دشمن کی طرف سے غافل ہوتا ہے مگر اس کا خدا اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور میرے عبدکی حفاظت کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینے والوں نے تو صلیب پر چڑھا دیا مگر اس کے بعد جانتے ہو کیا ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اُسی دن سے اس کا بدلہ لینا شروع کیا۔ روم کے کتنے گورنر مارے گئے، کتنے قیصر تباہ ہوئے۔ اسی طرح مسیح علیہ السلام کو صلیب دینے والے یہودی آج تک مارے جاتے ہیںوہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، ہر جگہ ان کی بے عزتی ہو رہی ہے، یورپ میں اس قوم کا جو حشر ہو ا وہ نہایت سبق آموز ہے۔ مسیح علیہ السلام تو زندہ صلیب سے اُترآئے تھے مگر خدا تعالیٰ ان کی ہتک کا بدلہ آج تک یہودی قوم سے لے رہا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے چھوٹے سے چھوٹے انعام کو تم اپنی نظروں میں چھوٹا نہ سمجھو۔ رسول کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو نصیحت کی۔فرمایا اے علیؓ! اگر تیری تبلیغ سے ایک آدمی بھی ایمان لے آئے تو یہ تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ دو پہاڑوں کے درمیان تیری بھیڑوں اور بکریوں کا ایک بڑا بھاری گلہ جارہا ہو اور تو اُسے دیکھ کر خوش ہو۔۱۱؎
پس ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہیں اپنے اندر فوری اور نیک تبدیلی پیدا کرنی چاہئے۔ آجکل قربانی اور اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہ جو کچھ ابھی تک ہو رہا ہے یہ تو صرف رسم ہے حقیقت نہیں ہے اب رسموں کو چھوڑ دو اور حقیقت کی شاہراہ پر گامزن ہو جاؤ۔ کہتے ہیں کوئی شخص صرف رسمی طور پر عبادات بجالاتا تھا جیسا کہ کئی لوگ صرف ریاء کے طور پر نماز وغیرہ ادا کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں نمازی کہیں یا وہ صدقہ کر دیتے ہیں کہ لوگ ہمیں مخیّر کہیں اُس شخص کی بھی یہی حالت تھی مگر خدا تعالیٰ اس پر احسان کرنا چاہتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا کوئی نیک کام تھا جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ اس پر احسان کرنا چاہتا تھا وہ شخص جہاں سے بھی گزرتا لوگ اس پر اعتراض کرتے تھے۔ کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آرہا تھا کہ گلی میں چند لڑکوں نے اسے دیکھ کر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہادیکھو! یہ شخص فریبی ہے۔ بچوں کے منہ سے یہ الفاظ سن کر اُس کے دل پر سخت چوٹ لگی وہ وہاں سے سیدھا ایک مسجد میں جا گُھسا اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدے میں گر گیا اور کہا اے خدا! میں آج سچے دل سے توبہ کرتا ہوں اور آج سے میں تیرا ہوں۔ دوسرے دن جب وہ باہر نکلا تو ہر شخص اُس کی طرف اُنگلی اُٹھاتا تھا اور سب یہی کہتے تھے کہ یہ شخص ولی ہے۔ پس ظاہری چیزیں کچھ نہیں ہوتیں جب تک باطن میں تبدیلی نہ پیدا کی جائے مؤمن کے لئے کوئی چیز بھی چھوٹی نہیں ہونی چاہئے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے عرض کیا کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگ داڑھیاںمُنڈواتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اصل چیز تو محبت الٰہی ہے جب ان لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی تب خود بخود یہ لوگ ہماری نقل کرنے لگ جائیں گے۔۱۲؎
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا قاعدہ تھا کہ وہ ہمیشہ حج کو جاتے ہوئے رستہ میں ایک مقام پر قافلہ ٹھہرا کر ایک طرف جنگل میں چلے جاتے اور ایک جگہ کچھ دیر کھڑے ہو کر آجاتے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے اُن سے پوچھا کہ آپ ہر دفعہ اسی مقام پر قافلہ ٹھہراتے ہیں اور جنگل میں اس طرف کو چلے جاتے ہیں اس کا کیا سبب ہے؟ آپ نے فرمایا جب میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ حج کو گیا تھا تو رسول کریم ﷺ نے اپنے قافلہ کو اِس جگہ روکا تھا اور اِس جگہ پیشاب کیا تھا۔ میں بھی اس لئے ہمیشہ ایسا کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے اس عمل کی نقل ہی کر لوں۱۳؎ چنانچہ جہاں رسول کریمﷺ نے پیشاب کیا تھا وہاں تھوڑا بہت کھڑا ہو کر واپس آجاتا ہوں۔ یہ وہ محبت تھی جس نے صحابہؓ کو کہیں کا کہیں پہنـچا دیا اوریہی وہ چیز ہے جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔
اس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ یہ خیال بھی کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے۔ جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لو گے تو دنیا بھر میں کوئی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ تم جہاں جاؤ گے تمہارے رستہ سے رُکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی۔مثل مشہور ہے ’’ہر فرعونے راموسیٰ‘‘۔ جس طرح ہر موسیٰ کا مقابلہ ہر فرعون نہیں کر سکتا اسی طرح ہر محمدﷺ کا مقابلہ بھی ہر ابوجہل نہیں کر سکتا تم اگر چھوٹے محمد (ﷺ) بن جاؤ گے تو کتنے بھی ابو جہل تمہارے مقابلہ کے لئے اُٹھیں مارے جائیں گے۔ پس آج آپ سب لوگ عہد کریں کہ اسی دہلی میں جہاں سے پہلے پہل اسلام پھیلا اور دور دراز تک پہنچ گیا تھا آپ بھی اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کر دیں گے اِس وقت تمام مسلمان کہلانے والے تبلیغ سے بالکل غافل پڑے ہیں اگر تبلیغ جاری رہتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اسلام پر زوال آسکتا ۔پہلی پانچ صدیوں میں مسلمانوں نے ہندوستان میں تبلیغ پر زور دیا مگر پچھلی پانچ صدیوں والے سست ہو گئے مگر اب خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ پھر تمام دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے۔ ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مولد ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں اِس وقت چالیس کروڑ آدمی بستے ہیں ان میں سے دس کروڑ مسلمان ہیں گویا ۴؍۱ حصہ کی آبادی کو حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگان نے مسلمان کیا۔ اب تمہارے لئے موقع ہے کہ ا س کام کو سبنھال لو۔ تین چوتھائی کام تمہارے حصہ میں آیا ہے اس کا پورا کرنا تمہارے ذمہ ہے خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(الفضل ۱۶؍نومبر ۱۹۴۶ء)
۱؎
۲؎ ایسٹ انڈیا کمپنی: ۱۶۰۰ء میں لندن کے چند سوداگروں نے پارلیمنٹ میں مشرقی ممالک کے ساتھ تجارتی اجارہ داری کا منشور حاصل کیا۔ ابتداء میں گرم مصالحے کے جزیروں پر قبضہ کرنا چاہا مگر ناکامی ہوئی۔ ۱۶۰۸ء میں کیپٹن ہاکنزے نے جہانگیر سے سورت (ہندوستان) میں تجارتی کوٹھی بنانے کی اجازت لی۔ ۱۶۱۵ء میں سرٹامس رو نے کمپنی کے لئے تجارتی حقوق حاصل کئے۔ ۱۶۵۰ء میں بنگال میں بِلا محصول تجارت اور تجارتی کوٹھیاں کھولنے کی اجازت ملی۔ ۱۶۶۸ء میں بمبئی کا جزیرہ دس پونڈ سالانہ کرائے پر کمپنی کو مل گیا۔ ۱۶۹۰ء میں کلکۃ میں فورٹ ولیم نامی قلعہ بنوایا۔ ۱۶۹۸ء میں انگلستان کے تاجروں نے نئی ایسٹ انڈیا کمپنی بنالی لیکن ۱۷۰۸ء میں دونوں کمپنیاں متحد ہو گئیں۔ اسی متحدہ کمپنی نے ہندوستان میں انگریزی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ ۱۸۵۸ء میں کمپنی کا راج ختم ہو گیا اور ہندوستان کی حکومت براہِ راست ملکہ وکٹوریہ نے سنبھالی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۱۷۵،۱۷۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۳؎ الانعام: ۱۶۳ ۴؎ آل عمران: ۵۶
۵؎ تذکرہ صفحہ ۵۷۴۔ایڈیشن چہارم
۶؎ آل عمران: ۳۲
۷؎ بخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالیٰ ویوم حنین… (الخ)
۸؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱ مطبوعہ لاہور ۱۸۹۲ء
۹؎ طٰہٰ: ۳۰
۱۰؎ تفسیر فتح البیان الجزء الرابع صفحہ ۱۴۷ مطبوعہ مصر ۱۳۰۱ھ
۱۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب دعاء النبیﷺ الی الاسلام… (الخ)
۱۲؎
۱۳؎
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
عمل کے بغیر کامیابی حاصل
نہیں ہو سکتی




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عمل کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی
(فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۴۶ء بمقام قادیان برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ )
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
مجبوریاں اور پابندیاں ہمارے ملک کا خاصہ ہوگئی ہیں ہمارا کوئی پروگرام ایسا نہیں ہوتا جس کا خاتمہ مجبوریوں اور پابندیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا کر نہیں ہوتا۔ دنیا کے پردہ پر باقی اقوام کے پروگرام میں بہت ہی کم پروگرام ایسے ہوتے ہیں جن میں مجبوریوں اور پابندیوں کا ذکر کیا جائے لیکن ہمارے ملک کے افراد کی زبان پر آخری الفاظ مجبوری اور پابندی کے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانے کہ یہ *** کا طوق ہمارے ملک کی گردن سے کب دور ہو گا اور کب مجبوری اور پابندی بجائے قاعدہ کے استثناء بن جائے گا یہ کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ کسی کام میں مجبوری اور پابندی نہیں ہوتی۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم ۱؎ بعض دفعہ بڑے بڑے پختہ عزائم کرنے کے باوجود مجھے پیچھے ہٹنا پڑا اور مجھے معلوم ہوا کہ میرے اوپر ایک خدا بھی ہے لیکن یہ استثناء ہے اور اس استثنا کا قاعدہ کی جگہ پر استعمال اس سے بھی زیادہ حماقت ہے جیسے یہ خیال کرلینا ایک احمقانہ امر ہے کہ کسی قاعدہ میں استثناء نہیں ہوا کرتا۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے مذہب میں بھی بعض استثنائی صورتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاًہمارے مذہب میں یہ اجازت پائی جاتی ہے کہ اگر کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکو تو بیٹھ کر نماز پڑھ لو، اگربیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکو تو لیٹ کر نماز پڑھ لو، اگر لیٹ کر نماز نہ پڑھ سکو تو سر کی جنبش سے نماز پڑھ لو، اگر سر کی جنبش سے نماز نہ پڑھ سکو تو محض انگلی کی جنبش سے نماز پڑھ لو،اگر انگلی کی جنبش سے بھی نماز نہ پڑھ سکو تو آنکھوں کے اشاروں سے نماز پڑھ لو اور اگر آنکھوں کے اشاروں سے بھی نماز نہ پڑھ سکو تو پھر دل میں ہی نماز پڑھ لو۔ اگر ہمارے مذہب میں یہ حکم نہ ہوتا تو سینکڑوں نہیں ہزاروں ہزار آدمی نماز سے محروم ہو جاتے۔ مسلمان اِس وقت چالیس پچاس کروڑ ہیں اور اِن چالیس پچاس کروڑ میں سے دو تین کروڑ ہر وقت ایسے بیمار ہو سکتے ہیں کہ ان کے لئے حرکت کرنا یا کھڑا ہونا مشکل ہو ایسے لوگوں کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی سبیل نہ رکھی ہوتی اور کوئی راستہ ان کے لئے تجویز نہ کیا ہوتا تو وہ نماز سے محروم ہو جاتے۔ پس اسلام کی یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے ہر قسم کی طبائع کا لحاظ رکھا اور اپنے احکام کے ساتھ استثنائی صورتوں کے جواز کا بھی راستہ کھول دیا۔ جب ہم دشمن کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے مذہب میں یہ جائز ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر نماز پڑھ لے، اگر بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر نماز پڑھ لے، اگر لیٹ کر نمازنہ پڑھ سکے تو انگلی کے اشارہ سے نماز پڑھ لے، اگر انگلی کے اشارہ سے نماز نہ پڑھ سکے تو اپنی آنکھوں کی جنبش سے نماز پڑھ لے اور اگر اپنی آنکھوں کی جنبش سے بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل میں ہی نماز کے کلمات ادا کر لیا کرے۔ اور ہم یہ بات ایک عیسائی کے سامنے بیان کرتے ہیں یا ایک ہندو کے سامنے بیان کرتے ہیں یا ایک زرتشتی کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس کا وہ مذہب جو رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے اِس قسم کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا تو اُس کا سر جھک جاتا ہے، اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں اور ہماری گردن فخر سے تن جاتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم نے بہادری کا کام کیا بلکہ اس لئے کہ ہمیں خدا نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو اپنے اندر استثناء بھی رکھتی ہے۔ یہ چیز تو یقینا شاندار ہے اور دشمن پر اس کا اثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا لیکن اگر ہم مساجد میں جائیں اور دیکھیں کہ تمام نمازی لیٹے ہوئے ہیں کوئی انگلی کے اشارہ سے نماز پڑھ رہا ہے، کوئی سر کی جنبش سے نماز پڑھ رہا ہے، کوئی محض آنکھوں کو حرکت دے کر ہی فریضہ نماز ادا کر رہا ہے اور کوئی دل میں نماز کے کلمات پڑھ رہا ہے تو کیا اس نظارہ کے بعد تم دنیا کی کسی قوم کے سامنے بھی اپناسر اونچا کر سکتے ہو کیا تمہارا سینہ اس نظارہ کو دیکھ کر فخر سے تن سکتا ہے یا کیا دشمن کے سامنے تم اپنی گردن اور اونچی کر سکتے ہو؟ ہر شخص تمہاری طرف حقارت کی نگاہ سے دیکھے گا اور کہے گا تمہاری قوم مریضوں کی قوم ہے، تمہاری قوم’’ قدم درگور‘‘ لوگوں کی قوم ہے یہ آج مری یا کل اِس نے بَھلا دنیامیں کیا تغیر پیدا کرنا ہے۔ اب دیکھ لو وہی چیز جو استثنائی صورت میں ہمارے لئے عزت کا موجب ہو سکتی ہے عام حالات میں ہمارے لئے نہایت ہی ذلّت اور شرمندگی کا موجب بن جائے گی اور ہم آنکھیں اُٹھا کر چلنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ پس یہ صحیح ہے کہ عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم ہم نے اپنے ربّ کو فسخ عزائم سے ہی دیکھا ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے فسخ عزائم کی اب اتنی کثرت ہوگئی ہے کہ حضرت علیؓ نے تو کہا تھا عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم لیکن ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نَسِیْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِمِ میں نے اپنے عزائم کو توڑ توڑ کر اپنے خدا کو بالکل بھلا دیا ہے اگر میرے اندر اپنے عزم کو پورا کرنے کی کوئی بھی نیت ہوتی تو میں اپنے ارادوں کو اتنا نہ توڑتا بلکہ خداتعالیٰ کے خوف اور اس کے تقویٰ سے متأثر ہو کر کچھ نہ کچھ اپنے عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کرتا۔ میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شخص اپنا پورا زور لگا کر کسی بات پر عمل کرتا ہے تب بے شک اُس کا حق ہوتا ہے کہ وہ کہے مجبوری اور پابندی فلاں کام میں روک بن گئی ہے لیکن ابھی تک ایسا کام کرتے ہم نے خدام کو نہیں دیکھا کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کے بعد واقعہ میں ان کے مزید کام کرنے میں کوئی مجبوری اور معذوری حائل تھی۔ میں سمجھتا ہوں یہاں کوئی ایک شخص بھی کھڑے ہو کر نہیں کہہ سکتا کہ اس نے ایک ہفتہ بھی خدام کو ایسے رنگ میں کام کرتے دیکھا ہے کہ اس کے بعد ان سے کسی اور کام کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اور اگر کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں۔ اِس وقت تمہارے ماں باپ یہاں بیٹھے ہیں، تمہارے بڑے بھائی یہاں بیٹھے ہیں، تمہارے بزرگ اور رشتہ دار یہاں بیٹھے ہیں کیا وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں کو اتنا کام کرتے دیکھا ہے کہ اس سے زیادہ کام کرنے کی ان سے امید کرنا حماقت اور نادانی ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر بے شک فسخ عزائم بھی تمہارے لئے ایک زیور بن جائے گا جو تمہارے لئے زینت اور حضرت علیؓکے قول کے مطابق خدا تعالیٰ کی شناخت کا ایک ذریعہ ہو گا۔ لیکن اگر تم نے وہ جدوجہد نہیں کی جو تمہیں کرنی چاہئے بلکہ اگر تم نے اتنی جدوجہد بھی نہیں کی جتنی جدوجہد یورپین اقوام اپنے دُنیوی مقاصد کے لئے کر رہی ہیں تو تمہارا فسخ عزائم کو پابندی اور مجبوری کا نتیجہ سمجھنا اللہ تعالیٰ کے قانون کی ہتک ہے۔ لوگ کہتے ہیں اس ملک میں ملیریا بہت ہے اور اسی کے زہر کا یہ نتیجہ ہے کہ طبائع میں جمود اور تکاسل پایا جاتا ہے لیکن اگر یہ درست ہو تب بھی اس حالت کو بدلنا ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم نے دنیا میں کوئی نیک تبدیلی پیدا کرنی ہے تو یقینا ہمارا فرض ہے کہ ہم اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کہ وہ چیز جو ہمارے بڑوں کے لئے سُستی کا موجب ہوئی تھی وہ آئندہ نئی نسل میں پیدا نہ ہو۔ اگر نئی نسل میں پہلوں سے زیادہ سُستی پیدا ہوتی ہے تو یقینا یہ چیز ہمارے لئے فخر کا موجب نہیں ہوسکتی نہ اس سُستی کے نتیجہ میں ہمارا کام صحیح طورپر ہو سکتا ہے اور نہ ہم اپنی تنظیم کے اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں کیونکہ تنظیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس کی اگلی کڑی پہلی کڑی سے زیادہ مضبوط ہو اور جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل پہلوں سے زیادہ فرض شناس اور کام کرنے والی ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ملیریا زدہ ہندوستان کے اندر فاقہ میں اپنے اوقات بسر کرنے والے اور بہت کم خوراک استعمال کرنے والے لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے مگر ان کے اخلاص اور ان کی قربانی اور ان کی مستعدی اور ان کی جانفشانی کی یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے کوئی حکم سنتے تو وہ راتوں رات بٹالہ یا گورداسپور یا امرتسرپہنچ جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی تعمیل کر کے واپس آتے۔ اب بجائے اس کے کہ ہمیں ترقی حاصل ہوتی ہمیں اس میں تنزّل کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ پہلے اگر سلسلہ کا کام پیش آنے پر ہماری جماعت کے لوگ پیدل بٹالہ، امرتسر اور گورداسپور پہنچ جاتے تھے آجکل کے خدام لاہور، گجرات اور پشاور جانے کے لئے تیار ہو جاتے تب ہم سمجھتے کہ یہ چیز ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے اور ہماری بیماری کوآئندہ نسل نے اپنے جسم میںسے دور کر دیا ہے۔آئندہ نسل پہلے سے بہتر پیدا ہو رہی ہے، اگلی اس سے بہتر پیدا ہوگی اور پھر اگلی اس سے بہتر پیدا ہوگی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ہم کام کی صلاحیت کے لحاظ سے یورپین اقوام کا مقابلہ کر سکیں گے۔ لیکن اگر یہ بات ہمیں نصیب نہیں اور اگر ہم کم سے کم کام کر سکتے ہیں تو یہ ہمارے لئے موت کی علامت ہے، ہمارے لئے رونے کا مقام ہے خوشی اور مسرت کا نہیں۔ یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ باقی جلسے کرنا، تقریریں کرنا اور کچھ شعر وغیرہ پڑھ دینا کوئی چیز نہیں جیسے ثاقب صاحب نے ابھی نظم پڑھی ہے مگر نہ اس سے ثاقب صاحب کا دل ہلا، نہ سننے والوں کا دل ہلا اور نہ واہ وا اور سُبْحَانَ اللّٰہ کا شور بلند ہوا۔ پُرانے زمانے میں کم سے کم اتنی بات تو تھی کہ خواہ بناوٹ اور تکلف سے ہی سہی بہر حال جب ایک شاعر اپنے شعر سناتا تو لوگ حال کھیلنے اور ناچنے اور سر مارنے لگ جاتے۔ تم اِس کو بناوٹ ہی کہو مگر وہ اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ ہمارے شعروں میں یہ اثر ہے کہ لوگ ناچنے اور سر مارنے لگ جاتے ہیں لیکن آجکل شعروں میں کیا ہوتا ہے صرف لفاظی اور لفاظی اور لفاظی اور لفاظی۔
میں نے پچھلی دفعہ سب سے زیادہ زور اس امر پر دیا تھا کہ تم عملی رنگ میں کام کرو اور دنیا کے سامنے اپنے کام کا نمونہ پیش کرو اِس وقت یورپ تو الگ رہا ہندوؤں میں بھی تم سے بہت زیادہ چستی اور بیداری پائی جاتی ہے اوروہ بہت زیادہ اپنی تنظیم کی طرف متوجہ ہیں مگر تم نے اس طرف توجہ نہیں کی حالانکہ عمل کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی قوم کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ میرے پاس رپورٹ کی گئی ہے کہ خدام الاحمدیہ کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اَنڈر نرشد Under nourished یعنی اس میں سے بہت سے نوجوان مناسب غذا نہ ملنے کی وجہ سے کمزور ہیں مگر اَنڈرنرشد (Under nourished) کے یہ معنی نہیں کہ انہیں غذا کافی نہیں ملتی بلکہ درحقیقت اس کے یہ معنی ہیں کہ ان کی غذا صحیح طور پر ہضم نہیں ہوتی۔ میں نے بہت مطالعہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اکثر موٹے آدمی بہت ہی کم غذا کھایا کرتے ہیں۔ جب بھی میں نے تحقیق کی ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ دُبلے آدمی زیادہ کھاتے ہیںاور موٹے آدمی کم۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹے آدمی کے معدہ میں ایسا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب غذا اندر جاتی ہے تو انسانی جسم کی مشینری اُس غذا کو شکر میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس طرح اسے دوسروں کی نسبت بہت کم غذا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پس کمزوری کی اصل وجہ غذا کی قلت نہیں بلکہ اس کا بہت بڑا تعلق انسان کی قوتِ ہاضمہ کے ساتھ ہے۔ اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ روٹی چاہے کس قدر کھائے فضلہ زیادہ پیدا ہوتا ہے تو وہ دس روٹیوں سے اتنا فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا جتنا دوسرا شخص صرف ایک روٹی کھا کر اُٹھا لے گا۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کا انسان کی قوتِ ہاضمہ کے ساتھ تعلق ہے پھر بہت کچھ نشاط اور عزم سے بھی یہ امور تعلق رکھتے ہیں اور تھوڑی تھوڑی غذا سے بھی انسان میں نہایت اعلیٰ درجہ کی قوتِ عملیہ پیدا ہوتی ہے اگرغذا کے ساتھ ورزش رکھی جائے اور پھر غذا کے استعمال کے وقت بشاشت اور نشاط کو قائم رکھا جائے تو غذا ایسے طور پر جزوبدن ہوتی ہے کہ انسان کے تمام قویٰ میں ایک طاقت محسوس ہونے لگتی ہے۔ جسے ہمارے ملک میں اَنگ لگنا کہتے ہیں اور یہ چیز اس کی ترقی اور راحت کا موجب ہوتی ہے۔ پس غذا کے صحیح نہ ملنے کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو غذا کی کمی کی شکایت ہے بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ انہیں غذا کے استعمال کا صحیح طریق معلوم نہیں اگر صحیح طور پر غذا کھائی جائے تو تھوڑی سے تھوڑی غذا بھی انسان کے اندر بہت بڑی قوتِ عملیہ پیدا کر دیتی اور اُس کے قلب میں نئی اُمنگ اور نیا جوش بھر دیتی ہے۔ صحابہؓ کو کونسی غذا ملتی تھی؟ بہت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہمیں کبھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملی۔ اس کے مقابلہ میں دیکھ لو یہاں کتنے لوگ ہیں جن کو پیٹ بھر کر کھانا میسر نہیں آتا یہاں شاید چند گھر ایسے ہوں تو ہوں جو کبھی ناواقفی کی وجہ سے بھوکے رہ جائیں لیکن صحابہؓ میں تو اکثر ایسے تھے جن کو پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنے کام اتنی علوہمتی سے سر انجام دئیے ہیں کہ دین تو دین رہا دنیا کے کاموں میں بھی وہ ایک نمونہ قائم کر گئے ہیں۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ اِن کے اندر ایک غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیںاور یہ تغیر ہمارے ہاتھوں سے پیدا ہو کر رہے گا۔ یہ چیز تھی جو اِن کی اُمنگوں کو قائم رکھتی تھی۔ یہ چیز تھی جو اِن کی ہمتوں کو بلند رکھتی تھی، یہ چیز تھی جو عزم اور ان کے ارادہ کو کبھی متزلزل نہیں ہونے دیتی تھی اور یہ چیز تھی جو انہیں ترقی کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھانے پر مجبور کرتی تھی۔ تمہارے جسم پر کبھی پھٹا ہوا کپڑا ہو تو تم رونے لگ جاتے ہو اور کہتے ہو ہماری قسمت کیسی پھوٹ گئی کہ ہمیں پہننے کے لئے پھٹا ہوا کپڑا ملا۔ مگر صحابہؓ کوپھٹاہوا کپڑا ملتا تو ان کا سر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتا، ان کی زبان اس کے احسان کے ذکر سے تر ہو جاتی اور وہ کہتے کتنا اچھا کپڑا ہے جو ہمارے خدا نے ہمیں دیا۔ انہیں اگر ایک سُوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑا بھی چار دن کے بعد ملتا تو خوشی سے اُن کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی اور وہ کہتے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ خدا نے ہمیں اپنے انعام سے نوازا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیںجو فائدہ سوکھی روٹی کے ٹکڑوں نے دیاوہ تمہیں پلاؤ اور قورمہ بھی نہیں دیتے۔ آج جسے پلاؤ ملتا ہے وہ پلاؤ تو کھاتا جاتا ہے مگر ساتھ ہی اِس حسرت سے اُس کا دل کباب ہو رہا ہوتا ہے کہ پلاؤ کے ساتھ زردہ نہیں،جسے پلاؤ اور زردہ میسر آئے وہ پلاؤ اور زردہ کھاتے ہوئے خون کے آنسو بہا رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے پلاؤ اور زردے کو میں کیا کروں فرنی تو اس کے ساتھ نہیں۔ جسے دال ملتی ہے وہ گوشت کے لئے روتا ہے، جسے گوشت ملتا ہے وہ چاولوں کے لئے تڑپتا ہے، جسے کھانے کے لئے چار روٹیاں ملتی ہیں وہ کہتا ہے چار روٹیوں سے کیا بنتا ہے ملتیں تو چھ ملتیں، جسے دو ملتی ہیں وہ ایک ایک لقمہ زہر مار کر رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے دو روٹیاں بھی کوئی روٹیاں ہیں ملتی تو چار ملتیں اور جس کو ایک روٹی ملتی ہے وہ روٹی بھی کھاتا جاتا ہے مگر ساتھ ہی اُس کا خون کھول رہا ہوتا ہے کہ میں کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگیا مجھے کھانے کے لئے صرف ایک روٹی مل رہی ہے۔ وہاں روکھی سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی ملتا تھا تو صحابہؓ کہتے کہ ہم تو اس ٹکڑے کے بھی مستحق نہ تھے یہ تو خدا کا فضل ہے کہ اس نے یہ ٹکڑا ہمیں عنایت کیا۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ روکھی روٹی کا ٹکڑااُن کے انگ لگ جاتا تھا، ان کے اندر علوہمتی پیدا کرتا تھا اور ان کے جذبۂ شکر گزاری کواور بھی بڑھا دیتا تھا۔
فتح مکہ کے دن جس دن عرب کا مقام امارت ختم ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے، مکہ کے بڑے بڑے صنادید جن کی ساری زندگی اسلام کی دشمنی میں گزری تھی گردن جھکائے آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ نے ان کے سامنے یہ اعلان کیا کہ جاؤ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا تم سب میری طرف سے آزاد ہو۔۲؎ یہ اعلان کرنے کے بعد آپ اپنی پھوپھی کے پاس گئے اور فرمایا پھوپھی کچھ کھانے کو ہے؟ پھوپھی نے کہا میرے عزیز بچے! اگر میرے پاس کچھ کھانے کو ہوتا تو میں تمہیں خود ہی بُلا کر کھلا دیتی میرے گھر میں تو سوائے ایک سوکھی روٹی کے جو کئی دن سے پڑی ہوئی ہے اور کچھ نہیں۔ آپ نے کہا دیکھائیں تو سہی وہ کونسی روٹی ہے؟ جب وہ سوکھی روٹی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں لائیں تو آپ نے فرمایا پھو پھی یہ تو بہت ہی اچھی روٹی ہے اس کے سوا اور کیا چاہئے کہ آپ افسردہ ہو رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔ پھر فرمایا پانی ہے؟ آپ کی پھوپھی پانی لائیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ روٹی پانی میں بھگو دی۔ اس کے بعد فرمایا سالن ہے؟ پھوپھی نے کہا سالن ہمارے گھر میں کہاں سے آیا اگر ہوتا تو میں پہلے نہ لے آتی میرے پاس تو صرف تھوڑا سا کھٹا سِرکہ پڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا سرکہ سے اچھا سالن اور کیا ہو گا لائیں اس سے روٹی کھا لوں۔ چنانچہ سرکہ لایا گیا اور آپ نے اس سے بھگوئی ہوئی روٹی کھائی۳؎ یہ انگ لگنے والا کھانا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سرکہ کو بھی خدا کی نعمت سمجھا اور سوکھی روٹی اس کے ساتھ کھا کر اس کے فضل کا شکر ادا کیا۔ پس درحقیقت ہاضمہ انسان کی اس بشاشت سے پیدا ہوتا ہے جو دل میں پیدا ہوتی ہے اگر خوشی سے ایک معمولی چیز بھی کھائی جائے تو وہ بہت زیادہ قوت پیدا کرتی ہے لیکن اگر رنج سے اچھی سے اچھی چیز بھی کھائی جائے تو وہ انسان کے اندر کوئی قوت پیدا نہیں کرتی۔ تم لوگ ہر چیز کے متعلق یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں زیادہ ملنی چاہئے تھی مگر کم ملی۔ مگر وہ ہر چیز کے متعلق یہ سمجھتے تھے کہ ہمیں کم ملنی چاہئے تھی مگر زیادہ ملی اس وجہ سے ان کی ایک ایک روٹی انہیں وہ فائدہ پہنچا دیتی تھی جو تمہیں دس دس روٹیاں بھی فائدہ نہیں پہنچاتیں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ تم کمئی غذا کا شکار ہو لیکن میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں تمہیں بیس بیس روٹیاں بھی اپنے سامنے کھلاؤں تو تم پہلے سے زیادہ دُبلے ہوتے چلے جاؤ کیونکہ تمہیں اُمنگ نہیں اور تم میں سے بعض نے ابھی ایمان کی حلاوت نہیں چکھی تمہارے دل اس حقیقت سے قطعی طور پر بے خبر ہیں کہ تمہیں خدا نے ایک عظیم الشان روحانی کام کے لئے پیدا کیا ہے اور جسے خدا روحانی اِنقلاب اور تغیر کے لئے پیدا کرے اس کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی ہیچ ہوتاہے مگر بجائے اس کے کہ تم اپنے مقام کو سمجھو اور اپنے فرائض کا صحیح احساس پیدا کرو تم نہایت ادنیٰ اور ذلیل چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہو اور کہتے ہو مجھے یہ نہیں ملامجھے وہ نہیں ملا جب تک تمہارے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو کہ تمہیں خدا نے کس غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جب تک تم اپنے درجہ کو نہ پہچانو اُس وقت تک تم نے کام کیا کرنا ہے۔ تم کو تو خدا نے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ تمہارا دل خوشی کی لہروں سے ہر وقت پُر رہنا چاہئے اور تمہارے اندر ہر وقت بیداری اور ہوشیاری نظر آنی چاہئے۔ اگر یہ چیز تمہارے اندر پیدا ہو جائے تو فوری طور پر تم میں ایسی قوت پیدا ہو جائے کہ قلیل سے قلیل خوراک بھی تمہیں کام کرنے کے قابل بنا دے۔
میں نے دیکھا ہے آجکل کے نوجوانوں سے بڈھے زیادہ کام کر لیتے ہیں ڈلہوزی جاتے ہوئے مجھے ہمیشہ اس کا تجربہ ہوتا ہے میرے ساتھ چونکہ دفتر کے علاوہ انجمن کے کلرکوں میں سے بھی ایک کلرک کا جانا ضروری ہوتا ہے اور میں کام کسی قدر سختی سے لیتا ہوں اس لئے ایک دو مہینہ کام کرنے کے بعد ہی ان کی طرف سے انجمن میں درخواستیں جانی شروع ہو جاتی ہیں کہ ہمیں اس دفتر سے بدلا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام اتنا ہی ہے کہ سو رہیں اور مہینہ کے بعد تنخواہ لے لیں۔میرے نزدیک اس صورت حالات کی وجہ سے ناظروں پر بھی حرف آتا ہے۔ اگر ناظر اپنے کارکنوں سے صحیح طور پر کام لیتے تو ان میں یہ احساس ہی کیوں پیدا ہوتا کہ ہمیں اس دفتر سے فلاں دفتر میں بدل دیا جائے یہاں کام زیادہ ہے اور وہاں کام تھوڑا ہے، پھر تو وہ سمجھتے کہ بَلا ہر جگہ مسلّط ہے اور ہمارے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم محنت سے کام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ کام سے بھاگنا اور گریز کرنا یہ ایک عام عادت ہمیں نوجوانوں میں نظر آتی ہے جب تک اِس عادت کو دور نہیں کیا جائے گا، جب تک اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نہیں سمجھا جائے گا، جب تک اپنے مقام کے احساس کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کیا جائے گا تب تک ہماری جدوجہد کبھی اعلیٰ نتائج پیدا نہیں کر سکتی۔ لیکن جب یہ چیزیں پیدا ہوگئیں تو دینی تغیر تو پیدا ہوگا ہی دُنیوی حالتیں بھی خود بخود بدلنی شروع ہو جائیں گی۔
یہ امر یاد رکھو کہ نکمی قوم دنیا کے پردہ پر بھی کوئی عزت حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ چیز جس کی عام طور پر لوگ خواہش رکھتے ہیں یعنی دُنیوی شان وشوکت ان کا چاہنا عیب ہے لیکن یہ امر قطعی طور پر ناممکن ہے کہ اگر اسلام کی تعلیم پر صحیح طورپر عمل کیا جائے تو وہ چیز تمہیں میسر نہ آئے بیشک اس کا چاہنا عیب ہے مگر اس کا ملنا لازمی ہے۔ آج تک کسی نبی کی قوم نے بھی یہ نہیں چاہا کہ اسے دُنیوی شان و شوکت مل جائے لیکن اگر وہ قوم صحیح طور پر نبی کی قوم بن جائے تو اسے یہ چیزبھی ضرور مل جاتی ہے۔ بیشک ایک قوم اُس وقت گنہگار ہوگی جب وہ خود اپنی زبان سے دنیا کی بادشاہت طلب کرے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتی اور اپنے سارے وسائل اُس کی راہ میں قربان کردیتی ہے تو خداتعالیٰ یہ دکھانے کے لئے کہ میں قادر خدا ہوں دنیا کی بادشاہتیں بھی ان کے سپرد کر دیتا ہے ۔
سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ آپ اچھے کھانے کھاتے اور اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! میری ذات ہی کی قسم ہے تو یہ کھانا کھا اور میں اچھے کپڑے نہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر !تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے تو یہ کپڑا پہن۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو وہ چیز جو اس نے خدا کے لئے چھوڑی ہوتی ہے اُسے خدا کی طرف سے عطا کی جاتی ہے اور اس وقت اس کا چھوڑنا گناہ ہوتا ہے جیسے پہلے اس کا مانگنا گناہ ہوتا ہے۔ اگر تم اس چیز کو چھوڑنا چاہتے ہوتو یہ ایک نقص ہو گا کیونکہ خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ تمہیں یہ چیز خلعت کے طور پر عطا کرے اور یقینا وہ دن آئے گا اور ضرور آئے گا جب ہر چیز تمہارے ہاتھ میں ہو گی خواہ یہ دن تمہارے لئے آئے یا تمہاری نسلوں کے لئے مگر تم تو درخت بونے میں آتے ہی نہیں کہ تم اس کا پھل کھا سکو۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ ایک بڈھے کے پاس سے گزرا اور اس نے دیکھا کہ وہ ایک ایسا درخت لگا رہا ہے جو بہت دیر سے پھل لاتا ہے بادشاہ حیران ہوا اور اس نے بڈھے سے مخاطب ہو کر کہا۔ میاں بڈھے! تم کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو تمہاری ستّر اسّی سال عمر ہے تم آج نہ مرے کل مرے زیادہ سے زیادہ جئے بھی تو پانچ سات سال زندہ رہو گے مگر یہ درخت تو بہت دیر کے بعد پھل لائے گا اور تم اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکو گے پھر ایسا درخت تم کیوں بو رہے ہو؟ بڈھے نے کہا بادشاہ سلامت! آپ نے یہ کیا کہہ دیا آپ تو بڑے عقلمند اور دوراندیش انسان ہیں اگر پہلے لوگ بھی اسی خیال میں مبتلا رہتے کہ جب ہم نے پھل نہیں کھانا تو ہم درخت کیوں لگائیں اور وہ اس خیال کے ماتحت درخت نہ لگاتے تو آج ہم کہاں سے پھل کھاتے انہوں نے درخت لگائے تو ہم نے پھل کھائے اب ہم درخت لگائیں گے اور ہماری آئندہ نسلیں اِس کا پھل کھائیں گی۔ بادشاہ کو اُس کی یہ بات بہت پسند آئی اور اُس نے کہا زِہ یعنی کیا ہی خوب بات کہی ہے۔ بادشاہ نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی کی بات پر خوش ہو کر زِہ کہوں تو اسے فوراً تین ہزار کی تھیلی انعام دی جایا کرے۔ جب بادشاہ نے زِہ کہا تو خزانچی نے فوراًتین ہزار کی ایک تھیلی بڈھے کے سامنے رکھ دی۔ بڈھے نے تھیلی اُٹھا ئی اور کہا بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے کہ تو اُس درخت کا پھل نہیں کھائے گا دیکھئے لوگ درخت لگاتے ہیں تو کہیں دیر کے بعد اس کا پھل کھانا نصیب ہوتا ہے لیکن میں درخت لگا ہی رہا ہوں کہ میں نے اِس کا پھل کھا لیا۔ بادشاہ نے یہ سن کر پھر زِہ کہا اور خزانچی نے تین ہزار کی ایک اور تھیلی اس کے سامنے رکھ دی۔ اس پروہ بڈھا پھر بولا اور اُس نے کہا بادشاہ سلامت! لوگ تو سال میں صرف ایک دفعہ پھل کھاتے ہیں لیکن میں نے تو ابھی لگاتے لگاتے اِس کا دو دفعہ پھل کھا لیا ہے۔ اِس پر بادشاہ کے منہ سے پھر نکلا زِہ اور خزانچی نے فوراً تین ہزار کی ایک تیسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی۔ یہ دیکھ کر بادشاہ ہنس پڑا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا چلو یہاں سے ورنہ یہ بڈھا ہمارا سارا خزانہ لوٹ لے گا۔بات یہ ہے کہ تم بیج لگاؤ گے تو پھل کھاؤ گے مگر تم تو بیج لگانے میں آتے ہی نہیں۔ تم میں سے بعض کی ذہنیتیں وہی ہیں جو لیبر یا لبرل پارٹیوں کی ہیں یعنی یہ کہ پہلے خدا ہمیں دے پھر ہم سے کام لے حالانکہ خدا اس قوم کو اپنے انعامات دیا کرتا ہے جو اپنے نفوس کو اس کی راہ میں قربان کردیا کرتی ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کیا کرتی کہ اسے کیا ملا۔
مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ کشمیر گیا کشمیری ایک خاص فن میں مشہور ہیں جس کی میں اس وقت مذمت کر رہا ہوں یعنی یہ بات ان کی عادت میں داخل ہے کہ ان کا دستِ سوال ہمیشہ دراز رہتا ہے، اُن دنوں موٹریں نہیں ہوتی تھیں کشمیر تک یکّوں میں سفر کیا جاتا تھا۔ ایک منزل پر ہم ٹھہرے تو بارش آگئی او رہمیں اسباب کو اندر رکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مولوی سید سرورشاہ صاحب بطوراتالیق ہمارے ہمراہ تھے اور میر محمد اسحٰق صاحب، میاں بشیر احمد صاحب اور مَیں تینوں ان کی اتالیقی میں کشمیر کی سیر کے لئے گئے تھے۔ یہ حضرت خلیفہ اوّل کی خلافت کے دوسرے سال کا واقعہ ہے۔ جب بارش آئی تو ہم نے ایک کشمیری مزدور کو بلایا اور اُسے کہا سامان یہاں سے اُٹھاکر برآمدہ میںرکھ دو، وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ ایک ایک چیز کا ایک ایک پیسہ لوں گا لیکن پہلے پیسہ لوں گا اور پھر کوئی چیز اُٹھاؤں گا۔ بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس وقت ہمیں مذاق سوجھا، ہم ایک پیسہ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیتے اور وہ ایک چیز اُٹھا کر برآمدہ میں رکھ دیتا۔ پھر واپس آتا اور ایک پیسہ لے کر دوسری چیز اُٹھاتا اور اُسے برآمدہ میں رکھ آتا اسی طرح ہر دفعہ ایک ایک پیسہ لیتا جاتا اور چیزیں اُٹھا اُٹھا کر اندر رکھتا جاتا آخر جب تمام چیزیں رکھ چکا تو مجھے ایک اور مذاق سوجھا۔ ہم سے گز بھر ایک کونہ میں چھتری پڑی تھی میں نے بچپن کی شرارت میں جان کر اُسے کہا کہ وہ چھتری تو پکڑا دو، اس پر فوراً اُس نے ہاتھ آگے کر دیا اور کہا لاؤ پونسہ ہم نے پیسہ اُس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور وہ چھتری اُٹھا کر برآمدہ میں لے گیا۔ یوں تو ہم خود بھی چھتری اُٹھا سکتے تھے مگر اس وقت ہم نے مذاقاً اسے چھتری اُٹھانے کو بھی کہہ دیا جس پر اس نے نہایت بے تکلفی سے کہا کہ لاؤ پونسہ اور جب ہم نے پیسہ دیا تو تب اس نے چھتری کو ہاتھ لگایا۔تمہارامعاملہ بھی خدا تعالیٰ سے اسی قسم کا ہے اگر تم بھی ہر بات پر یہی کہتے رہو کہ ’’لاپونسہ‘‘ اور تم ایک کشمیری مزدور کی طرح لا پونسہ کہنے کے عادی بن جاؤتو وہ بھی تمہیں مزدور ہی رکھے گا کیونکہ تم بات تو کشمیری مزدور والی کرتے ہو اور امید یہ رکھتے ہو کہ تم سے خدا تعالیٰ وہ سلوک کرے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ کیا حالانکہ ’’لاپونسہ‘‘ کہنے والے سے تو مزدور کا ہی سلوک کیا جائے گا بادشاہ کا سلوک اسی سے کیا جاتا ہے، جو اپنی ہر چیز قربان کر دیتا ہے جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے راہ میں کُلّی طور پر فنا کر دیتا ہے اور اس سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کرتا تب اس کا آقا کہتا ہے اس نے اپنے آپ کو میرے لئے فنا کر دیا ہے اب یہ مجھ سے جدا نہیں رہا تب جیسے بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی دنیا اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ کام ہے جو تم نے کرنا ہے۔ جب تک تم یہ کام نہیں کرتے، جب تک تمہارے اندر ایسی خلش پیدا نہیں ہوتی جو رات اور دن تمہیں بے تاب رکھے اور تمہیں کسی پہلو پر بھی قرار نہ آنے دے اُس وقت تک تم اس مقام کو حاصل نہیں کرسکتے جو صحابہؓ نے حاصل کیا۔ ابھی ہماری ترقی ہے ہی کیا تین چار ہزار آدمیوں کا سال بھر میں ہم میں شامل ہو جانا اور ہر سال دس بیس لاکھ روپے کا آجانا سرِدست ہماری ترقی صرف اسی حدتک ہے مگر کیا اتنے سے کام سے دنیا میں وہ روحانی تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے جس تغیر کو پیدا کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ یہ تغیر اُس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک لاکھوں لاکھ آدمی ہماری جماعت میں شامل نہیں ہو تے مگر سوال یہ ہے کہ آخر لاکھوں لاکھ آدمی کیوں ہماری جماعت میں شامل نہیں ہوتا اسی لئے کہ دنیا تمہاری طرف دیکھ کر کہتی ہے کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں اور چونکہ دشمن اپنے مخالف کو ہر بات میں نیچا بتانے کا عادی ہوتا ہے جب اسے تم میں اور ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تو کچھ شریف الطبع لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہم میں اور ان میں کوئی فرق نہیں اور کچھ لوگ جو غیرشریفانہ رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ لوگ ہم سے بھی زیادہ گندے ہیں اور اس طرح دشمن برابری کو بھی نچلا درجہ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جو چیزیں تمہیں ملی ہیں وہ اُن کو نہیں ملیں۔ اگر ان کے ہوتے ہوئے تم ان سے فائدہ نہیں اُٹھاتے تو یقینا تم ان سے نچلے درجہ پر ہو۔ایک شخص جس کے پاس ہزار روپیہ ہے وہ اگر خست سے روٹی کھاتا ہے اور ایک دوسرا شخص جسے صرف ایک وقت کی روٹی ملتی ہے وہ بغیر خست کے اسے استعمال کرتا ہے تو وہ اگر یہ کہے کہ ہزار روپیہ رکھنے والا مجھ سے زیادہ ذلیل ہے تو وہ ایسا کہنے میں حق بجانب ہو گا کیونکہ اُس کا فاقہ مجبوری کی وجہ سے ہوگا اور اُس کا فاقہ خسانت اور دنایت کی وجہ سے ہوگا۔ پس جب تک تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے وہ نئی زندگی حاصل نہیں کرتے جو صحابہؓ نے حاصل کی اُس وقت تک ہم نہ ترقی کرسکتے ہیں اور نہ ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے خاص منعم علیہ گروہ میں شامل ہو جائیں گے۔
خدا اِس وقت دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے اور ایک بہت بڑا تغیر اس کے حضور مقدر ہے مگر وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اور افسوس ہے کہ ہماری جماعت نے اس کا ایک حصہ سونے میں گزار دیا ہے۔ ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے چھپن سال گزر چکے ہیں اور چھپن سال میں انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے بیشک بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے ستّرپچھہتر سال کی عمر میں بھی مضبوط قویٰ ہو تے ہیں لیکن گورنمنٹ پچپن سال کی عمر پر اپنے ملازموں کو پنشن دے دیا کرتی ہے پس تم پر اب اتنی عمر گزر چکی ہے کہ جس عمر پر گورنمنٹ لوگوں کو پنشن دے دیا کرتی ہے مگر باوجود اِس کے کہ تم پنشن کی عمر کو پہنچ چکے ہو تم نے ابھی پہلا گریڈ بھی حاصل نہیں کیا ۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے، یہ کتنے رنج کی بات ہے، یہ کتنے غم اور فکر کی بات ہے پس اپنے اندر تغیر پیدا کرو اور اپنے دماغوں میں ایک نیک تبدیلی رونما کرو۔ جس طرح سان پر چاقو چڑھایاجاتا ہے اسی طرح جب تک خدا تعالیٰ کی خشیت کی سان پر تم اپنے دماغوں کو نہ چڑھاؤ گے، جب تک تم اپنی زندگی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے بسر نہیں کرو گے اور جب تک تم مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ۴؎کا کامل نمونہ نہیں بنوگے اُس وقت تک تم سے کسی کام کی امید رکھنا یا خیال کرلیناکہ اسلام یورپین اقوام کے مقابلہ میں جیت جائے گا، ایک حماقت اور جنون کی بات ہوگی۔ یورپین اقوام کے مقابلہ میں تم کس طرح جیت سکتے ہو جب کہ یورپین اقوام تم سے دس گنے زیادہ کام کرتی ہیں اور جرمن تم سے بیس گنے زیادہ کام کرتے ہیں یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت اور بہت زیادہ جفاکشی سے کام لینے کی عادی ہیں اور جرمنوں اور امریکیوں اور انگریزوں کے مقابلہ میں تمہارے کاموں اور قربانیوں کی کوئی نسبت ہی نہیں بلکہ عیسائی آج دُنیوی اغراض کے لئے جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ تم خدا کے لئے نہیں کر رہے پس تمہارا اور ان کا مقابلہ ہی کیا ؟
بسا اوقات لوگ سوال کیا کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے نیک نتائج کیوں پیدا نہیں ہوتے اور کیوں اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر نہیں آجاتا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ محض ذہنی باتیں ہوتی ہیں اور لوگوں کے دل ذہنی باتوں سے تسلی نہیں پاسکتے۔ یورپ میں جو لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ صرف اس تعلیم کی وجہ سے قبول کرتے ہیں جو قرآن کریم اور احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں درج ہے اور جس کے محاسن کو پیش کر کے ہم لوگوں کے قلوب کو فتح کر نے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ ہزاروں ہزار آدمی جو اسلام کے محاسن کو دیکھ کر فریفتہ ہو جاتے ہیں جب ہماری جماعت کے اعمال پر نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ان کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، ان کی خوشی سرد ہو جاتی ہے اور وہ وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔ پہلے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ شاید آسمان سے ہمارے لئے ایک ایسا علاج نازل ہوا ہے جس سے ہمارے مزمن امراض دور ہو جائیں گے اور ہم بھی خوشی اور مسرت کی زندگی بسر کر سکیں گے۔مگر جب وہ ہماری طرف نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ان کے تمام ولولے دَب جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں افسوس ابھی ہماری بیماری کے جانے کا وقت نہیں آیا وہ پھر کفرستان میں چلے جاتے ہیں۔ پھر خدا کا خانہ خالی رہ جاتا ہے پھر شیطان کی حکومت دلوں پر قائم ہو جاتی ہے اور پھر رحمانی فوجوں کو شیطان سے بر سر پیکار ہونا پڑتا ہے۔ پس جب تک تم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرتے، جب تک تم اپنے اعمال سے یہ بتا نہیں دیتے کہ اب تم وہ نہیں رہے جو پہلے ہوا کرتے تھے بلکہ تم تمام محنت کرنے والوں سے زیادہ محنت کرنے والے اور تمام قربانی کرنے والوں سے بڑھ کر قربانی کرنے والے ہو تم زمین کے نہیں بلکہ آسمان کی مخلوق ہو اُس وقت تک تم دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے لیکن اگر تم میں یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تب اور صرف تب دنیا کے لوگ تمہاری طرف متوجہ ہوں گے، وہ تمہاری طرف پیاسوں کی طرح دوڑتے چلے آئیں گے، وہ تم سے علاج اور مداویٰ کے طلبگار ہوں گے کیونکہ وہ تمہارے چہروں پر وہ چیز دیکھیں گے جس کے دیکھنے کے وہ دیر سے متمنی اور خواہشمند ہیں اور تمہارے ذریعہ اُنہیں وہ چیز ملے گی جو دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی۔ تمہارے ذریعہ سے وہ گرم گرم ہوائیں چلیں گی جو کفر کی سردیوں کو بالکل دور کر دیں گی اور تمہارے قلب میں سے تسکین کی وہ شعائیں نکلیں گی جو گناہوں کی آگ کو بالکل سرد کر دیں گی۔
یہ لازمی بات ہے کہ جس کی ضرورت جس دُکان سے پوری ہو جائے وہ اُسی دُکان پر جاتا ہے۔ جب تک دنیا کے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ضرورتیں تمہارے ذریعہ سے پوری نہیں ہو رہیں اُس وقت تک انہیں تمہاری طرف توجہ پیدا نہیں ہو سکتی۔ وہ کہتے ہیں اگر ہم عیسائی ہیں تو عیسائی ہی مریں گے ، ہندو ہیں تو ہندؤ ہی مریں گے، سکھ ہیں تو سکھ ہی مریں گے ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا نہیں ہوتی کہ وہ تمہارے پاس آئیںاور اپنی ضرورت کی چیز تم سے حاصل کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ تمہاری دُکان بھی دوسری دُکانوں کی طرح خالی پڑی ہے اور تمہاری دُکان ان کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن جس دن ان کے کانشس تسلّی پاجائیں گے اور وہ کامل یقین کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ جس چیز کی انہیں تلاش ہے وہ صرف اور صرف تمہارے پاس ہے اور وہ تمہارے چہروں سے اس نور کا مشاہدہ کریں گے جس نور کی تلاش میں وہ سرگردان پھر رہے ہیں تو تم دیکھو گے کہ دنیا کی کوئی بندش اُن کو روک نہیں سکتی، کوئی قید اُن کو ڈرا نہیں سکتی، کوئی طاقت اُن کو متزلزل نہیں کر سکتی، نہ اُن پر اپنے بھائیوں کا اثر ہو گا نہ بہنوں کا ،نہ ماں باپ کا اثر ہوگا نہ دوسرے عزیزو اقارب کا، خاوند اپنی بیویوں کو چھوڑ کر، بیویاں اپنے خاوندوں کو چھوڑ کر، بیٹے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر، ماں باپ اپنے بیٹوں کو چھوڑ کر، دوست اپنے دوست کو چھوڑ کر اور رشتہ دار اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر دیوانہ وار تمہاری طرف دوڑتے چلے آئیں گے اور کہیں گے ہم تو اس دن کو ترس گئے مدتوں کی تلاش اور جستجو کے بعد ہمیں آج پتہ لگا کہ وہ قیمتی متاع جس کی ہمیں تلاش تھی وہ تمہارے پاس ہے۔ ہم اس کے حصول کے لئے اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ ہمارے دلوں کی آگ سرد ہو جائے، ہمارے قلوب کی خلش دور ہو جائے اور ہماری بے تابی راحت اور سکون میں تبدیل ہو جائے۔ یہی اور یہی ذریعہ ہے اسلام کے دنیا پر غالب آنے کا، جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک ساری امیدیں مجنونانہ اور سارے خیالات پاگلانہ ہیں۔ پس میں تمہیں صرف اسی بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔
نوٹ تو مَیں نے اور باتیں بھی کی ہوئی تھیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے لئے یہی ایک بات کافی ہے جب تک تم پابندیوں اور مجبوریوں کی جکڑبندیوں سے نہیں نکلوگے جب تک تم یہ طوق اپنی گردن سے دور نہیں کرو گے، جب تک تم یہ زنجیریں اپنے پاؤں سے نہیں کھولو گے اُس وقت تک تمہاری ساری کوششیں عبث اور رائیگاں ہیں۔ ایک اور صرف ایک ہی چیز ہے جو تمہیں کامیاب کر سکتی ہے کہ یہ *** کا طوق، یہ مجبوری کا طوق، یہ معذوری کا طوق اپنی گردنوں سے دُور کرو اور وہ زنجیریں جو ہمیشہ ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں پڑی رہتی ہیں اور وہ بیڑیاں جو ان کے پاؤں کو چلنے نہیں دیتیں ان سب کو توڑ دو اور اُن بندھنوں اور قیود سے آزاد ہو جاؤ تب مشکل کام بھی تمہارے لئے آسان ہو جائے گا اور تم فخر سے اپنی گردن اونچی کر کے دنیاکی اقوم کے مقابلہ میں کھڑے ہو سکو گے۔
اب میں دعا کردیتا ہوں چونکہ دلوں کا بدلنا خدا کے اختیار میں ہے میرے اختیار میں نہیں اِس لئے میں خدا تعالیٰ سے ہی دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر حقیقی عزم اور پختہ ارادہ پیدا کرے جس سے تم سچے مسلمان بن کر ایسے کام کرو جو دنیا کو بدل ڈالنے والے اور خداتعالیٰ کی بادشاہت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے والے ہوں۔ (الفضل ۲؍نومبر ۱۹۶۰ء )
۱؎ طبقات ابن سعد۔ نھج البلاغۃ
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۵۵ مطبوعہ۱۹۳۶ء
۳؎
۴؎


دائیں کو بائیں پر فوقیت حاصل ہے





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
دائیں کو بائیں پر فوقیت حاصل ہے
( تقریر فرمودہ ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
شریعت کے بعض احکام بظاہر چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو ان میں اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ ان کا ترک کرنا قومی کیریکٹر کو خراب کر دیتا ہے مثلاً اسلام کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کام میں دائیں کو بائیں پر ترجیح دی ہے۔ ۱؎ پانی پیتے وقت دائیں کو ترجیح دی ہے کھانا کھاتے وقت دائیں کو ترجیح دی ہے، وضوکرتے وقت دائیں کو ترجیح دی ہے نہاتے وقت دائیں کو ترجیح دی۔ غرض جتنے اہم کام ہیں ان میں آپ نے دائیں کو ترجیح دی ہے سوائے ایسے کاموں کے جن کے اندر ناپاکی کا کچھ پہلو ہو اِن میں بائیں کو رکھا ہے مثلاً طہارت بائیں ہاتھ سے کرنی چاہئے ۔ یہ جو دائیں کو فوقیت حاصل ہے یہ صرف انسانوں ہی میں نہیں بلکہ اکثر جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے ان میں سے بھی اکثر دائیں ہاتھ سے ہی کام کرتے ہیں۔ گو وہ انسان کی طرح تو نہیں کرتے مگردائیں سے کام کرنے کی رغبت ان میں بھی پائی ضرور جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو گھوڑا اگر کھڑا ہو اور اُس کو چلانا چاہو تو وہ پہلے اپنا دایاں پیر استعمال کرتا ہے، بعض اور جانور بھی دائیں کو استعمال کرتے ہیں، شیر جب بھی پنجہ مارتا ہے دائیں ہاتھ کا مارتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جانور بھی انسان ہی کی طرح کرتے ہوں بلکہ اکثریت دایاں ہاتھ استعمال کرنے والے جانوروں کی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح عوام الناس میں بھی خواہ وہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں کثرت دائیںکے استعمال کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے ہی دائیں کو اہمیت دی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے تحت دائیں ہاتھ سے کام شروع کرنے کو ترجیح دی ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے دائیں بائیں کے لئے یمین و شمال۱؎ کے الفاظ رکھے ہیں۔ ۔۔۲؎ یعنی اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کردیتا تو ہم یقینا اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ یہاں بھی یمین کا لفظ بولا گیا ہے غرض اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سب کے سب یمین کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تو اس بات کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ کی مجلس میں بہت سے صحابہؓ بیٹھے تھے کوئی شخص آپ کے لئے کچھ دودھ لے کر آیا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ دودھ لے لیں۔ آپ نے اُس سے دودھ لے لیا اس میں سے تھوڑا سا پینے کے بعد آپ نے دائیں بائیں دیکھا، ممکن ہے کہ اس وقت تنگیِ رزق ہو یا آپ کو خیال آیا ہو کہ حضرت ابوبکرؓ کو کچھ تکلیف ہے کیونکہ اُن دنوں ان کی صحت کچھ کمزور تھی، آپ نے چاہا کہ وہ دودھ حضرت ابوبکرؓ کو دے دیا جائے مگر حضرت ابوبکرؓ آپ کے بائیں طرف بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک چھوٹا سا لڑکا بیٹھا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس لڑکے کو دیکھ کر فرمایاکہ حق تو دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے تمہارا ہے مگر مَیں یہ دودھ حضرت ابوبکرؓ کو دینا چاہتا ہوں اور وہ بائیں بیٹھے ہیں اگر تم اجازت دو تو یہ دودھ مَیں حضرت ابوبکرؓ کو دے دوں۔ وہ لڑکا کہنے لگا اگر حق دائیں والے کا ہے تو مَیں یہ تبرک نہ دوں گا۔۳؎
یہ ایک عشقیہ رنگ ہے اُس وقت اس لڑکے کو دودھ نظر نہیں آتا تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبرک نظر آتا تھا جب اس لڑکے نے یہ کہا کہ میں یہ تبرک نہیں چھوڑ تا تو آپ نے وہ دودھ اسی لڑکے کو دے دیا۔ عام طور پر اتنے چھوٹے لڑکوں کو مجلس میں دُور بٹھایا جاتا تھا مگر اُس دن وہ لڑکا اتفاقاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھا تھا۔ اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چاہتا تھا کہ دووھ حضرت ابوبکرؓ کو دے دیں مگر آپ نے دائیں کو ملحوظ رکھا اور دودھ انہیں نہ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خاص طور پر دائیں کا خیال تھا مگر اس زمانے میں ان باتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جیسا کہ مَیں دعوتوں میں عرصہ سے یہ نظارہ دیکھ رہا ہوں کہ لوگ بائیں طرف سے کھانا تقسیم کرنا شروع کرتے ہیں حالانکہ یہ چیز اسلام کی خصوصیات اور رسول کریم صلی اللہ وسلم کے طرزِ عمل کے بالکل خلاف ہے۔ پھر بھی لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ مثلاً آجکل شمس صاحب آئے ہوئے ہیں اور سارے قادیان میں ان کی دعوتیں ہو رہی ہیں مجھے بھی بُلا لیا جاتا ہے دعوت کرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے خلیفہ کے سامنے چائے یا کھانا رکھا جائے۔ اُن کی یہ خواہش تو درست ہے مگر میرے سامنے کھانا رکھنے کے بعد وہ بائیں طرف کھانا رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں( یعنی شمس صاحب اور سید منیر الحصنی)کو انہوں نے میرے بائیں طرف بٹھایا ہوتا ہے اور چونکہ خلیفہ کے بعد ان مہمانوں کا حق سمجھا جاتا ہے اس لئے مجبوراً ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا پڑتا ہے مگر یادر کھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اعزاز کسی اور کا نہیں ہو سکتا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ سب کام دائیں سے شروع کرنے چاہئیں تو دوسرا کون ہو سکتا ہے جو کہے کہ بائیں سے شروع کرو اس لئے اگر مہمان کو میرے بائیں بٹھاتے ہیں تو چاہئے کہ خواہ مہمان بائیں بیٹھے رہیں کھانا دائیں سے شروع کیا جائے تاکہ غلطی کرنے والے کو سزا ملے اور اس نے جن مہمانوں کی دعوت کی ہے اُن کو سب سے بعد میں کھانا ملے ۔اگر وہ غلطی سے کھانا بائیں ہی کو پھیر دے گا تو دوسری دفعہ اُس کو یاد نہیں آسکے گا اس لئے ضروری ہے کہ بائیں طرف مہمان بٹھانے والا دائیں سے شروع کرے تاکہ اُس کو اس غلطی کی سزا ملے۔ آجکل بہت سے لوگ غلطی کی سزا کو صرف سزا ہی سمجھتے ہیں اصلاح نہیں سمجھتے حالانکہ سزا کی اصل غرض اصلاح ہوتی ہے۔ہمارے اکثرآئمہ اپنے نفس کو خود سزا دیا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت جب تک ان کے متبعین میں رہی ان کی قوم کے بزرگ بھی اپنے نفس کی اصلاح کے لئے اپنے آپ کو کئی قسم کی سزائیں دیا کرتے تھے۔
ایک بزرگ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ ساری رات اپنے آپ کو کوڑے مارتے رہتے تھے تو دیکھو وہ اپنے نفس کو خود سزا دیتے تھے۔ یہ ایک اعلیٰ نکتہ اصلاح کا ہوتا ہے۔ پس سزا ٹلانے کے قابل نہیں ہوتی بلکہ وہ ضرور لینی چاہئے تاکہ نفس کی اصلاح ہو۔ یہ تصوف کی بات ہے اور صلحاء میں نفس کی سزادینا اصولی نکتہ سمجھا جاتا ہے اور ہمیشہ سے اس پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔
ایک دفعہ مَیں نے فیصلہ کیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ میری فلاں بات نہ مانے گا مَیں چارپائی پر نہ سوئوں گا بلکہ زمین پر سوؤں گا اور اس طرح اپنے نفس کو سزا دوں گا مگر پہلی ہی رات اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے کہہ دیا کہ تمہاری وہ بات منظور کی جاتی ہے جاؤ چارپائی پر سوؤ۔ تو بات یہ ہے کہ اگر سزا اصولی ہو اور اُس میں نمائش کا دخل نہ ہو تو تصوف کا حصہ ہے۔ بعض لوگ اپنے آپ کو بھوکا رکھنے کی سزا دیتے ہیں اور کئی کئی دن فاقوں میں گزار دیتے ہیں، بعض لوگ اپنے آپ کو جاگتے رہنے کی سزا دیتے ہیں اور متواتر کئی کئی دن نہیں سوتے اور اس رنگ میں اپنی غلطی کا کفارہ کرتے ہیں۔ ان دعوتیں کرنے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ مہمان کو میرے پاس دائیں بٹھائیں تاکہ وہ دائیں سے کھانا یا چائے شروع کر سکیں ورنہ اگر وہ مہمان کو بائیں بٹھاتے ہیں تو اپنے اوپر یہ سزا لیں کہ مہمان کے سامنے بعد میں کھانارکھیںمگر ہر حالت میں شروع دائیں طرف سے ہی کیا جائے اور ہمیشہ دائیںکو سب کاموں میں ملحوظ رکھا جائے۔ اب خداتعالیٰ نے غیر اسلامی لوگوں میں بھی اس کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ یورپین قومیں تو کیپ لیفٹ (KEEP LEFT) پر عمل کرتی ہیں مگر امریکہ والے کیپ رائٹ (KEEP RIGHT) پر عمل کرتے ہیں اور وہ سٹرک کے دائیں طرف چلتے ہیں وہ کہتے ہیں دائیںچلنے سے بائیںطرف سٹرک پر نظرہوگی اور دوسری طرف سٹرک کی دیوار ہوگی اس لئے ٹریفک(TRAFFICE) میں حادثات کا زیادہ خطرہ نہ ہوگا اس لئے وہ موٹر دائیں طرف چلاتے ہیں اور ڈرائیور کی سیٹ موٹر میں بائیں طرف ہوتی ہے۔
میں جب سفرِ یورپ پر گیا تو فلسطین کے ہائی کمشنر نے میری دعوت کی جب کھانا شروع ہوا تو میں نے چھری کانٹا دائیں ہاتھ سے پکڑا۔ جب انہوں نے مجھے دائیں ہاتھ میں چھری کانٹا پکڑے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور دائیں ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا حالانکہ وہ بائیں ہاتھ میں چھری کانٹاپکڑنے کے عادی تھے اور یورپین قومیں اسی طرح کرتی ہیں۔ ان کی دوباتیں مَیں نے بہت زیادہ محسوس کیں۔ ایک تو یہ کہ جب انہوں نے دعوت کے لئے کہلا بھیجا تو مَیں نے انہیں پہلے سے اطلاع کر دی تھی کہ مَیں عورتوں سے مصافحہ نہیں کروں گا۔ جب ان کے مکان پر دعوت کے لئے گئے تو چونکہ مَیں نے پہلے سے کہلا بھیجا تھا کہ عورت سے مصافحہ نہیں کرنا انہوں نے سمجھا کہ عورت کو پاس بھی نہیں بٹھائیں گے جب ان کا پرائیویٹ سیکرٹری اُن کی بیوی کو میرے پاس کی کرسی پر بٹھانے لگا تو انہوں نے منع کر دیا کہ ان کے پاس نہ بٹھاؤ۔ یہ مَیں نے ان کی دو باتیں نوٹ کیں ایک تو یہ کہ انہوں نے ہمارے جذبات کا خیال رکھا اور دوسرے یہ کہ مہمان کے احترام کے لئے انہوں نے بائیں ہاتھ سے نہ کھایا بلکہ دائیں سے کھایا۔ جب غیر اتنا لحاظ کرتے ہیں تو کیا مسلمان کہلانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لحاظ نہیں کریں گے۔ وہ ایک عیسائی تھا اور اس جگہ کا حاکم تھا اس کے مقابلہ میں مَیں رعایا تھا مگر اس نے میرا احترام کیا اور جب مجھے دائیں ہاتھ سے کھاتے دیکھا تو اس نے بھی دائیں سے کھانا شروع کر دیا بعد میں اس کے متعلق ان سے بات چیت ہوئی اور مَیں نے ان پر ظاہر کیا کہ ’’اسلام‘‘ کا حکم ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاؤ تو وہ کہنے لگے ہاں ہاں بڑی اچھی بات ہے اور فطرت کے بھی مطابق ہے۔ پس مؤمن کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بہت زیادہ احترام ہونا چاہئے۔ جو لوگ چھوٹی باتوںمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا احترام نہیں کرتے وہ بڑی باتوں میں تو بالکل ہی نہیں کرسکتے۔
(الفضل ۸؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء)
۱؎ المعارج:۳۸
۲؎ الحاقۃ: ۴۵،۴۶
۳؎ ترمذی ابواب الاشربۃ باب ماجاء ان الایمنین احق بالشرب


زمین کی عمر





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
زمین کی عمر
(تقریر فرمودہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام بیت اقصیٰ)
تشہد، تعوّّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
معلوم ہوتا ہے کہ دوست سوال کرنا ہی نہیں چاہتے۔اس سے قبل جب ڈاکٹر کچلو صاحب نے اٹامک انرجی کے متعلق تقریر کی تھی تو ان پر تو بہت سے سوالات کئے گئے تھے لیکن اب زمین کی عمر کے متعلق تقریر کی گئی ہے تو اِس کو سُن کر دوست خاموش ہوگئے ہیں اور سوائے ڈاکٹر عبدالاحد صاحب کے کسی نے سوال نہیں کیا۔ علم النفس کی رو سے اِس کی دو وجوہات ہیں یا انسان مرعوب ہو کر بولنا شروع کردیتا ہے اور یا بالکل خاموش ہو جاتا ہے اب کوئی سائیکا لوجی کا ماہر ہی معلوم کر سکتا ہے کہ اِس خاموشی کی کیا وجہ ہے۔
سائنس کا نقطئہ نگاہ جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے وہ دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ہمیں اِس نقطہ ٔنگاہ سے اختلاف کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم اس کے صحیح ماننے پر مجبور ہیں۔
مذہبی لحاظ سے یہ تحقیق ہمارے لئے پریشانی اور گھبراہٹ کا موجب نہیں بن سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ مذہبی کُتب میںتو دنیا کی عمر چھ ہزار سال بیان کی گئی ہے اور اب سائنس کروڑوں اور اربوں سال بیان کرتی ہے۔ اس کے متعلق دو باتیں یاد رکھنی چاہئیں ۔
پہلی یہ کہ چھ ہزار سال اس مادی دنیا کی عمر نہیں جو مٹی اور مختلف دھاتوں سے بنی ہے اس کی عمر بے شک کروڑوں اربوں بلکہ اس سے زیادہ ہو ہمیں اس سے تعلق نہیں۔ چھ ہزار سال جن کا مذہبی کُتب میں ذکر ہے وہ آدم سے لے کر موجودہ حالت تک چھ ہزار سال بنتے ہیں اس لحاظ سے ان دونوں عمروں میں کوئی ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔ ہم جو دنیا کی عمر چھ ہزار سال کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وہ آدمؑ جس سے ہمار ی تہذیب و تمدّن کی ابتداء ہوئی اس پر چھ ہزار سال گزرے ہیں ورنہ ہمارا اِس سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے اس آدم سے پہلے کوئی آدم نہیں تھا۔ اس کی مثال تم یوں سمجھو کہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں وقت میں ہمارا پر دادا ہندوستان میں آیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ پڑدادا سے پہلے اس کے باپ دادا کوئی نہ تھے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ تاریخی شخص فلاں وقت میں ہندوستان میں آیا ورنہ اس کا خاندان تو پہلے سے موجود تھا۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدم جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ انسانی ابتدا والا آدم نہیں بلکہ وہ اس تہذیب و تمدّن کی ابتدا کرنے والا ہے جو ہوتے ہوتے چھ ہزار سال میں ہم تک پہنچی۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخلوق جس میںآدم مبعوث کیا گیا ترقی یافتہ نہ تھی، اس میںتہذیب و تمدّن نام کو نہ تھا، وہ جنّ تھے غاروں میں رہتے تھے اورسطح زمین پر گاؤں بناکر نہیں رہتے تھے اور ابھی انسانی دماغ کا ارتقاء ایسا نہیں ہوا تھا کہ وہ سوسائٹی بنائیں اور اپنے اندر تقسیم عمل کریںبلکہ جس طرح شیر، چیتے اور بھیڑیے جنگل میں پھرتے ہیں اور سوسائٹی بنا کر نہیں رہتے یہی حال ان لوگوں کا تھا وہ بالکل الگ الگ طور پر غاروں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ حضرت آدمؑ کی آواز پر جن لوگوں نے اس تہذیب و تمدّن کو قبول کر لیا وہ انسان کہلائے اور جن لوگوں نے آپ کی باتیں ماننے سے انکار کیا قرآن کریم نے ان کا نام جنّ رکھا ہے کیونکہ وہ مخفی طور پر غاروں میں رہنے کو زیادہ پسند کرتے تھے اور جو لوگ حضرت آدمؑ کی پیروی میں سطح زمین پر گاؤں کی صورت میں رہنے لگے وہ بشر اور انسان کہلانے لگے۔
قرآن کریم کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں کہ حضرت آدمؑ سے پہلے مخلوقات نہ تھی اور جو جنوں اور انسانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد دو قسم کی مخلوقات نہیں بلکہ دوقسم کے تمدنوں اور اخلاقی حالتوں کا ذکر ہے ۔ حضرت آدمؑ کے زمانہ میں سیدھا سادہ قانون تھا کہ مل کر رہو، ایک دوسرے کی امداد کرو، گاؤں کی صورت میں زندگی بسر کرو، اگر تم ایساکر و گے تو تم کو بھوک، پیاس اور لباس وغیرہ کی دِقتیں نہ رہیں گی۔ وہ قانون بہت ہی آسان تھا اور اس میں کسی قسم کی باریکی اور پیچیدگی نہ تھی۔ اُس وقت کے دماغ کے لحاظ سے وہی قانون رائج ہو سکتا تھا۔ جب حضرت آدمؑ نے یہ قانون لوگوںکے سامنے پیش کیا تو کچھ کے دماغ مان گئے اور انہوں نے حضرت آدمؑ کی پیروی کرنا منظور کر لیا وہ لوگ حضرت آدمؑ کی اولاد بن کر آدمی کہلائے اور نہ ماننے والے جنات کہلائے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسانوں اور جنوں دونوں کی نسل ایک وقت دنیا میں جاری رہے گی اور اس لئے نبی کے وقت اس پر ایمان لانے یا نہ لانے سے ان کی حالت بدلتی رہے گی۔
پس جب بھی کوئی نیا نبی آتا ہے کچھ لوگ اس نبی پر ایمان لا کر آدمی بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ انکار کرکے جنوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پس دنیا کی چھ ہزار سال کی عمر سے مراد یہ تہذیب و تمدّن کا سلسلہ ہے اور اس سے آگے تفصیل کے متعلق مذہب خاموش ہے یا کم سے کم اِس وقت تک ہمیں اس کی تفصیل مذہب سے معلوم نہیںہے۔ جب سے انسان کسی شریعت کا پابند ہو ا وہ چھ ہزار سال کازمانہ ہے اس سے پہلے کا انسان شریعت کا حامل نہ تھا ۔ پس مذہب کو اس زمانہ سے کوئی واسطہ نہیں۔
سائنسدان اور علمِ حساب والے اور جغرافیہ والے بے شک تحقیقات کرتے رہیں کیونکہ مذہب کا تعلق تو روحانیت کے ساتھ ہے اور روحانی دنیا کے لئے مادی چیزوں کا عالم ہونا ضروری نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے مذہب میں سائنس اور جغرافیہ اور حساب نہیںسکھایا بلکہ ان کے متعلق انسان کو اختیار دے دیا کہ تم خود اپنی کوشش سے ان علوم کو حاصل کرو۔ پس مذہب کے دائرہ میں ان علوم کو کوئی اہمیت حاصل نہیں یہ ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلیٰ تعلق قائم کرنے کے لئے اعلیٰ درجہ کی فزکس یا کیمسٹری جاننا بھی ضروری ہو۔ اگر یہ ہوتا تو بہت ہی محدود اشخاص اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا اور اپنا رستہ ایسا آسان کر دیا ہے کہ معمولی عقل کا انسان بھی ان عبادات پر کار بند ہو کر اور ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کر کے اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے جو مذہب نے سکھائے ہیں۔ پس مذہب نے تو اپنے روحانی دَور کی ابتدا بیان کی ہے اس سے آگے کیا تھا مذہب کو اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ اس سے پہلے کا دماغ شریعت کا حامل نہ تھا اس لئے یہ بحث مذہب کے دائرہ سے خارج ہے۔ اگر ایک مادی صورت کا انسان پاگل ہو جائے تو کیا لوگ اُس کے سامنے قرآن کریم پیش کرتے ہیں اور اسے تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ اس شریعت کو مانتا ہے یا نہیں؟ کوئی عقلمند اس کے سامنے قرآن کریم پیش نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا دماغ اب ایسی حالت میں ہے کہ وہ شریعت کا متحمل نہیں ہو سکتا حالانکہ وہ انسان چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، سانس لیتا ہے لیکن اس کو لوگ انسانیت سے خارج سمجھتے ہیں۔ڈاکٹری حکومت کے دائرہ میں تو وہ شامل ہو گا لیکن روحانی دنیا کی حکومت میں شامل نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس کے دائرہ علم سے باہر ہے۔ اسی طرح آدمؑ سے پہلے کا انسان ناقص تھا۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ وہ آدمؑ جو ہمارا آدمؑ ہے اسی سے نسل انسانی چلی ہے اس سے پہلے کوئی مخلوق نہ تھی۔ حضرت محی الدین صاحب ابن عربیؒ نے کشف میں دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کررہا ہوں اور بھی بہت سے لوگ طواف کر رہے ہیں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ حضرت آدمؑ بھی خانہ کعبہ کاطواف کر رہے ہیں۔ میں نے کشف میں ایک نوجوان آدمی سے پوچھا کہ حضرت آدمؑ کہاں ہیں؟ میں اِن سے ملنا چاہتا ہوں۔ جس شخص سے میں نے سوال کیا اس نے کہا آپ کس آدم کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ کا آدم کونسا ہے یہاں تو کئی ہزار آدم ہیں۔۱؎ اب دیکھو اگر کئی سمجھے جائیں اور پھر ایک آدم کا زمانہ کئی ہزار سال کا سمجھا جائے تو دنیا کی عمر کروڑوں اور اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پس مذہب کو تو اُس وقت سے تعلق ہے جس وقت سے انسانی دماغ ارتقاء کی طرف مائل ہوا۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ کئی ہزار آدم کروڑوں اور اربوں سالوں میں پیدا ہوئے تو بھی ضروری نہیں کہ دنیا کی عمر وہی ہو کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جس دن پہلا آدم پیدا ہوا اُسی دن زمین و آسمان پیدا ہوئے ہوں بلکہ اس سے زمین و آسمان بہرحال پہلے ہوںگے۔ پھر یہ معلوم کرنا کہ زمین و آسمان اس سے کتنی دیر پہلے بنے بالکل اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارنے کے مترادف ہے۔
پس ہمارے نقطۂ نگاہ اور ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ نقطۂ نگاہ میں بالکل ٹکراؤ نہیں۔ بعض سوالات مَیں بھی ڈاکٹر صاحب سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن پھر کسی دوسری ملاقات میں پوچھوں گا۔ بہرحال یہ بات غلط ہے کہ سائنس کا اور مذہب کا آپس میں ٹکراؤ ہو جاتا ہے مذہب خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سائنس خدا تعالیٰ کا فعل ہے ان دونوں میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ مثلاً اب ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا ہے کہ ہم تحقیقات کر تے کرتے یہاں تک پہنچے ہیں کہ دنیا کی عمر بیس ارب ہے ہمیں اس میں اللہ تعالیٰ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نظر نہیں آتالیکن اگر کوئی مقام ایسا آجائے جہاں یہ معلوم ہو کہ خداتعالیٰ کے قول سے اس کا فعل متضاد ہے تو ہم یہی سمجھیں گے کہ یا ہم مذہب والوںنے سمجھنے میں غلطی کھائی ہے یا سائنس والوں نے غلطی کھائی ہے اور نئی تحقیق یا نیاالہام اس پر روشنی ڈال کر اس اُلجھن کو دُور کر دے گا۔
دوسرے ہمار ے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم سائنس کی ہر تھیوری کو صحیح مان لیں۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ میں لاہور گیا تھا اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ وہ لاہور جاسکتا تھا لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ وہ لاہور گیا ہو ممکن ہے کہ وہ لاہور نہ گیا ہو اور جھوٹ بول رہا ہو۔ پس اس کے یہ کہہ دینے سے کہ میں لاہور گیا تھا یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اس کی بات ضرور مان لیں۔اسی طرح سائنس کی بہت سی باتیں تھیوریاں ہوتی ہیں۔ یعنی عقلی نظریات سے زیادہ نہیں ہوتیں ۔ اس کاعقلاً ممکن ہونا بے شک ثابت ہو لیکن اس کے یہ معنی نہیںکہ حقیقتاً واقعات بھی اسی طرح گزرے ہیں۔پس جو بات مذہب کے خلاف ہو اور دلائل عقلیہ سے اُس کا امکان ثابت ہو ہم اس کے متعلق یہ کہنے کا حق رکھتے ہوں کہ یہ بات ہم اس وقت تک ماننے کے لئے تیار نہیں جب تک قطعیت الدلالت امور سے ثابت ہو یا مذہب اس کی تائید کرے۔
الغرض دنیا کی عمر تین کروڑ سال ہو یا تین ارب سال ہو وہ مذہب کے پیش کردہ نقطۂ نگاہ کے خلاف نہیں کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت محدود نہیں۔اللہ تعالیٰ ازلی ابدی ہے اور وہ ہمیشہ سے خالق ہے اور ایک ایسے عرصہ سے اسی کی صفتِ خالقیت کام کر رہی ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم یہ بھی کہیں کہ دنیا بیس ارب سال سے ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت محدود ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیس ارب سال ازل کے مقابلہ میںاتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے جتنی سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت ازل سے کام کر رہی ہے تو تم دنیا کی پیدائش کی تاریخ معلوم نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اتنے لمبے حساب کی چیز ہے کہ یہاں اربوں اور کھربوں کا تو سوال ہی نہیں اگر ایک حساب دان اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک یہی حساب لگاتا رہے تو بھی وہ صحیح تاریخ نہیں نکال سکتا۔ میرے نزدیک ازل کے مقابلہ میں حساب لگانا وقت ضائع کرنا ہے کیونکہ ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے اور اس کی مخلوق بھی اس کے ساتھ ازل سے ہے کیونکہ اگر ہم یہ مانیں کہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ جب خداتعالیٰ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہا تو یہ اللہ تعالیٰ کی شان کے منافی ہوگا اور بے کار خدا، خدا نہیں ہو سکتا۔
(الفضل ۲۵ ؍جنوری ۱۹۴۷ء)
۱؎ فتوحات مکیہ جلد۳ صفحہ۵۳۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء


خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتاہے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کیلئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتاہے
(فرمودہ ۱۹؍ دسمبر ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب۔ قادیان)
دنیا کی ہدایت اور اس کو سچا راستہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ اس کے انبیاء مبعوث ہوتے رہتے ہیں۔ درحقیقت انسان کا تعلق خدا سے اس تعلق سے بہت زیادہ ہے جو اُس کا اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں سے اس لئے محبت ہوتی ہے کہ انہوں نے بچوں کی خدمت کی ہوئی ہوتی ہے اور بچوں کو اپنے ماں باپ سے اس لئے محبت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ہاتھوں سے لگائے ہوئے درختوں کے پھل کھاتے ہیں۔ جس شخص نے اپنے ہاتھ سے کوئی درخت لگایا ہو اور اُس کی خدمت کر رہا ہو اُس کو بسا اوقات اتنی بھی امید نہیں ہوتی کہ وہ اس درخت کا پھل کھا سکے مگر چونکہ اُس نے وہ درخت خود لگایا ہوتا ہے اور اُس کی خدمت کی ہوتی ہے اس لئے اسے اس کے ساتھ گہری محبت ہوتی ہے۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک بڈھا جس کی عمر ستر اسّی کے قریب تھی وہ ایک ایسا درخت لگا رہا تھا جو کئی سال کے بعد پھل دینے والا تھا۔ اتنے میں اُس علاقہ کے بادشاہ کا اُدھر سے گزر ہوا۔ اس نے جب بڈھے کو اِس قسم کا درخت لگاتے دیکھا تو وہ بڈھے سے مخاطب ہو کر کہنے لگا میاں بڈھے! تم تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہو اور تمہاری عمر نہایت قلیل رہ چکی ہے مگر تم درخت اِس قسم کا لگا رہے ہو جو ایک لمبے عرصہ کے بعد پھل لائے گا۔ بڈھے نے عرض کیا بادشاہ سلامت! اگر ہمارے باپ دادے بھی اِس قسم کے خیالات رکھتے کہ ہم جو درخت لگائیں گے ان کے پھل نہ کھا سکیں گے تو آج ہمارے لئے کوئی پھل دار درخت نہ ہوتا یہ سلسلہ تو اسی طرح چلا آتا ہے اور چلا جائے گا کہ ایک نسل درخت لگاتی ہے اور دوسری اس سے پھل حاصل کرتی ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ’’زِہ‘‘ بادشاہ نے حکم دے رکھا تھا کہ جب میں کسی کی بات پر خوش ہو کر ’’زِہ‘‘ کا لفظ استعمال کروں تو اس شخص کو تین ہزار روپے کی تھیلی انعام کے طور پر دے دی جایا کرے چنانچہ جب بادشاہ نے بڈھے کی بات سن کر اور خوش ہو کر ’’زِہ‘‘ کہا تو جھٹ وزیر نے ایک تھیلی بڈھے کو دے دی۔ بڈھے نے تھیلی لے کر کہا بادشاہ سلامت! آپ نے تو ابھی فرمایا تھا کہ تم اس قدر بوڑھے ہو کہ تم اس درخت کے پھل لانے تک زندہ بھی نہ رہ سکو گے مگر میں نے تو اِدھر درخت لگایا اور اُدھر اس کا پھل بھی کھالیا۔ بادشاہ بڈھے کی یہ بات سن کر پھر خوش ہوا اور کہنے لگا ’’زِہ‘‘ اس پر وزیر نے ایک اور تھیلی تین ہزار کی بڈھے کو دے دی۔ بڈھے نے دوسری تھیلی اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا بادشاہ سلامت! لوگ تو پھل دار درختوں کا سال میں صرف ایک پھل حاصل کرتے ہیں مگر میں نے تو درخت لگاتے ہی اس کا دو دفعہ پھل کھا لیا۔ بادشاہ یہ سن کر پھر خوش ہوا اور کہنے لگا ’’زِہ‘‘ اس پر وزیر نے ایک تیسری تھیلی بھی بڈھے کے حوالے کر دی۔ اس کے بعد بادشاہ نے کہا یہاں سے جلدی چلو ورنہ یہ بڈھا تو ہمارا سارا خزانہ لوٹ لے گا۔ اب دیکھو وہ بڈھا جو درخت لگا رہا تھا وہ بہت دیر کے بعد پھل لانے والا تھا اور بڈھے کی عمر ایسی نہ تھی کہ اس کے پھل لانے تک زندہ رہ سکے مگر وہ اس درخت کی خدمت کرتا رہا اور اس کو اپنے لگائے ہوئے درخت کے ساتھ محبت تھی۔ وہ اس کو پانی بھی دیتا تھا اور اس کی حفاظت بھی کرتا تھا۔ اسی طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا بلکہ ماں باپ اس کی خدمت کرتے ہیں، اس کے آرام کا انہیں فکر ہوتا ہے، اس کے لئے وہ کھانا اور کپڑا مہیا کرتے ہیں۔ پس محبت احسان کے بدلہ میں ہی نہیں ہو تی بلکہ احسان کرنے سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے مگر ماں باپ سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے محبت ہوتی ہے۔ ایک ماں تو صرف نو مہینے اپنے بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے اور اس کے بعد دو سال تک دودھ پلاتی اور تھوڑے عرصہ تک اس کی نگہداشت کرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہمیشہ ہمیش اپنے بندے کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ ماں نے تو بچے کو صرف نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا مگر اللہ تعالیٰ نے ایک لمبا عرصہ پہلے اس کے لئے اپنی زمین میں طرح طرح کے پھل اور ترکاریاں پیدا کیں، اس کے لئے چاند، سورج اور ستارے پیدا کئے، اس کے لئے کپڑا اور کھانا پیدا کیا غرض اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے لئے ہر طرح کی نعمتیں پیدا کیں اور جب اتنی لمبی تیاری کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا تو اس کی محبت ماں باپ کی محبت سے کسی صورت میں کم نہیں ہو سکتی بلکہ بہت زیادہ ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماں باپ کی محبت کو خدا کی محبت سے کچھ نسبت ہی نہیں ہے۔ ایک بچہ جب بیمار ہوتا ہے تو اس کے ماں باپ کو اس کے علاج کی فکر ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ حکیموں اور ڈاکٹروں کے پاس سرگرداں پھرتے ہیں اور اس کی صحت کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بنی نوع انسان کسی روحانی بیماری میں مبتلا ہوں تو خدا کو ان کے علاج کی فکر نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کے دل میں محبت نہ ہو اور وہ اپنے بندوں کی روحانی بیماریوں کے علاج کی فکر نہ کرے اور ان کے لئے کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہ بھیجے۔ یعنی اپنے بندوں کی راہ نمائی کے لئے اپنا کوئی مأمور نہ بھیجے۔ ایک بچہ اگر کہیں گم ہو جائے تو اس کے ماں باپ کو اتنی فکر ہوتی ہے کہ وہ کھانا پینا تک بھول جاتے ہیں اور کسی کی منت سماجت کر کے اسے ایک طرف ڈھونڈنے کیلئے روانہ کر دیتے ہیں اور کسی کو دوسری سمت روانہ کر دیتے ہیں اور ان کو اُس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ان کا بچہ اپنے گھر واپس نہیں پہنچ جاتا۔ کسی ماں کا بچہ اگر گھر سے ناراض ہو کر نکل جائے تو وہ بے چین ہو کر اِدھر اُدھر بھاگتی ہے اور جو شخص بھی اس کو رستہ میں مل جائے اس سے پوچھتی ہے کہ کہیں میرا بچہ تو نہیں دیکھا پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کے بندے راہ گم کر دیں اور صحیح راستے سے بھٹک جائیں اور خدا ان کی راہنمائی نہ کرے۔ وہ ضرور کرتا ہے اور ہمیشہ سے کرتا چلا آیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ یعنی کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے اپنا نذیر نہ بھیجا ہو۔
دنیا میں تمام مذاہب والے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے ہیں۔ ایک کہتا ہے ہمارا نبی سچا تھا اور باقی تمام جھوٹے تھے اور دوسرا کہتا ہے ہمارا نبی سچا تھا اور دوسرے تمام جھوٹے تھے مگر اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے صرف اسلام کی راہنمائی فرمائی یہ کہہ کر کہ ہم نے سب قوموں کی طرف نبی بھیجے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو جسے کسی قوم نے برگزیدہ تسلیم کیا ہو جھوٹا نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کی عزت کرتے ہیں اور جن ہستیوں کو دوسرے مذاہب والوں نے نبی تسلیم کیا ہے ہم بھی ان کو نبی تسلیم کرتے ہیںکیونکہ ہم پر ایمان لاتے ہیں۔ ایک مسلمان کو یہ سن کر کبھی فکر پیدا نہیں ہوتا کہ فلاںقوم میں نبی گزرا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب قومیں کسی نہ کسی نبی کے وجود کو تسلیم کرتی ہوں تا کہ قرآن کریم کی سچائی ثابت ہو۔ جب ہم چین میں جاتے ہیں تو ہم چینی لوگوں کی زبانی سنتے ہیں کہ ان میں ایک نبی کنفیوشس نامی گزرا ہے ہم یہ سن کر فور اً کہتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ قرآن کریم میں بھی لکھا ہے کہ ہر قوم میں نبی آتے رہے ہیں، جب ہم ایران میں جاتے ہیں تو پارسی کہتے ہیں ہم میں زرتشت نبی گزرا ہے ہم کہتے ہیں خدا کا شکر ہے قرآن کریم میں بھی ایسا ہی لکھا ہے، جب ہم یونان میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوںکی زبانی سنتے ہیں کہ سقراط کہتا تھا کہ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور میرے پاس فرشتے آتے ہیں ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ قرآن کریم کی بات سچ ثابت ہوئی، اسی طرح ہم جہاں بھی چلے جائیں اور ان لوگوں سے سنیں کہ ہمارا ایک نبی گزرا ہے تو ہم سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں کہ قرآن کریم کی سچائی ثابت ہوگئی۔ پس ہم کسی قوم کے برگزیدہ کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے بلکہ ہم قرآن کریم کی رو سے مجبور ہیں کہ اس کی سچائی کو قبول کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی راہنمائی کے لئے اپنے انبیاء بھیجے ہیں جو مختلف زمانوں میں مختلف قوموں کو ہدایت دیتے رہے مگر بدقسمتی سے ہر قوم یہی سمجھ بیٹھی کہ اب ہمارے اس نبی کے بعد کوئی بنی نہیں آسکتا۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب فوت ہوئے تو اُن کی قوم نے سمجھا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا کیونکہ ان کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اب خدا کا خزانہ ختم ہو چکا ہے اسی طرح باقی سب قومیں بھی اپنے اپنے انبیاء یا اوتاروں کی وفات کے بعد سمجھ بیٹھیں کہ اب کوئی نیا نبی یا مامور نہیں آئے گا حالانکہ لوگ صبح کا پکا ہوا کھانا شام کو نہیں کھاتے اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ باسی ہو گیا ہے بلکہ اگر ایک دن کے پکے ہوئے کھانے میں سے کچھ بچ جائے تو اس کو باسی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب ان کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں تو وہ نئے سِلوا کر پہنتے ہیںپھر کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں کر سکتا کہ جب دنیا پر ظلمت اور تاریکی چھا جائے اور دنیا کے لوگ صحیح راستہ سے بھٹک کر غلط راستہ پر گامزن ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی راہ نمائی کے سامان پیدا کرے۔ غرض اللہ تعالیٰ اپنے بھولے بھٹکے بندوں کے لئے ہدایت کا ضرور سامان پیدا کرتا ہے اور دنیا پر چھائی ہوئی گناہوں کی تاریکی اپنے انبیاء اور مامورین کے ذریعہ سے دُور فرماتا ہے اور اس کی یہ سنت ہمیشہ سے چلی آئی ہے۔پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے اس زمانہ میں وہ کوئی مامور نہ بھیجتا۔ یہ تو صرف لوگوں کا اپنا وہم ہے کہ وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب کوئی مامور نہیں آئے گا جس شخص کا خزانہ محدود ہو وہ تو اس قسم کا خیال کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا خزانہ محدود نہیں اس لئے وہ دنیا کی ضرورت کے وقت ضرور اپنے انعام نازل فرماتا ہے مثلاً یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی کو ہزار روپیہ عطاء فرمائے تو اس کے پاس باقی کچھ نہ بچے وہ اگر ایک ہزار روپیہ دیتا ہے تو اس کی جگہ ہزاروں اور لاکھوں روپے نئے پیدا کر سکتا ہے۔
پس ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں پیدا کیا کیونکہ جس قدر لڑائی، جھگڑا، فساد اور گند لوگوں میں اس زمانہ میں رونما ہوا ہے اس کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں مل سکتی۔پہلے زمانہ میں جب کو رو کشیتر وغیرہ کی جنگیں ہوئیں تو ساری جنگ میں زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار آدمی مارے گئے ہوں گے مگر اِس زمانہ کی جنگوں کودیکھ لو لاکھوں اور کروڑوں انسان مارے گئے اور لوگ ظلم، چوری، ڈاکہ اور فریب وغیرہ میں مبتلا ہوگئے۔ پہلے زمانے میں تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھاکہ کوئی دُکاندار فریب دے کر ایک کیلا یا کوئی معمولی سی چیز فروخت کر دیا کرتا تھا مگر آجکل تجارت میں لاکھوں کروڑوں روپیہ کا فریب چلتا ہے۔ اس قسم کے زمانہ میں تو خدا کے مأمور کا آنا بہت ہی ضروری تھا اور ہمارے عقیدہ کے مطابق وہ آگیا گو یہ فرق ضرور ہے کہ پہلے جو مامور آتے تھے وہ براہِ راست آتے تھے اور اپنے سے پہلے کی تعلیمات کو منسوخ قرار دیتے تھے لیکن اب چونکہ اسلام کامل مذہب ہے اور اب قیامت تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دَور جاری رہنا ہے اس لئے اس زمانہ میں جو مامور آیا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آیا اور اسلام ہی کے ذریعے دنیا کی اصلاح کرنے کے لئے آیا۔ پس جس شخص کو خدا سے محبت ہو اُسے چاہئے کہ ان باتوں کے متعلق غور کرے کیونکہ اس شخص سے زیادہ بد قسمت اور کون ہو سکتاہے جو دریا کے کنارے بیٹھا رہے اور اپنے ہاتھ نہ دھوئے۔
میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ایک دفعہ لاہور سے امرتسر کی طرف ریل میں آرہا تھا اُس ڈبے میں صرف ایک بڈھا بیٹھا تھا اور باقی سب نوجوان تھے۔ ایک نوجوان نے اس بڈھے سے کہا آپ کی جوانی کے زمانے میں لوگ کیسے ہوتے تھے اُس نے کہا اُس زمانہ کے لوگ تو بہت اچھے ہوا کرتے تھے مگر آجکل کے لوگ بہت خراب ہوگئے ہیں ۔ نوجوان نے کہا کوئی بات ہی سناؤ۔ بڈھے نے کہا جب میں ریل کے محکمہ میں ملازم ہوا تو اُس وقت میری تنخواہ پندرہ روپے ماہوار تھی جس میں سے میں دس روپے اپنے والدین کو بھیج دیتا تھا اور باقی پانچ میں خود گزارہ کرتا تھا اور کھدر کے کپڑے پہن لیتا اور بازار سے روٹی کھا لیا کرتا تھا۔ ایک دن امرتسر کا اسٹیشن ماسٹر میرے پاس آیا جو انگریز تھا کہنے لگا کہ بابو! تم اپنے میلے کچیلے اور پھٹے پُرانے کپڑے کیوں پہنے ہوئے ہو کیا تم نئے نہیں سلا سکتے؟ میں نے کہا میں اپنی تنخواہ میں سے دس روپے تو اپنے والدین کو بھیج دیتا ہوں اور باقی پانچ سے بمشکل گزارہ کرتا ہوں کپڑے کیسے بنواؤں۔ اس پر وہ سٹیشن ماسٹر مجھ پر ناراض ہوا اور کہنے لگا تم تو بے وقوف ہو۔ یہ ریل تو ایسی چیز ہے جیسے کوئی دریا بہہ رہا ہو اور تم ہر روز اس سے دو تین روپے زائد کما سکتے ہو گویا ا س سٹیشن ماسٹر نے اس شخص کو خود بددیانتی سکھائی اور کہا اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دریا میں سے ایک قطرہ پانی کالے لیا جائے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ زمیندار لوگ دانے وغیرہ چھکڑوں میں لا د کر لے جاتے ہیں تو ان کے دانے رستہ میں گرتے جاتے ہیں مگر وہ ان دانوں کو گرتے دیکھ کر اس کی پرواہ تک نہیں کرتے مگر ایک غیر زمیندار شخص ان دانوں کو گرتا دیکھے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنے دانے گرتے جارہے ہیں۔ پھر زمیندار جب گندم کی فصل کاٹتا ہے تو غرباء کو کہہ دیتا ہے کہ جوسٹے گِرے ہوئے ہیں تم اُن کو چن لو۔ اسی طرح وہ بڈھا کہنے لگا کہ اس وقت کے افسر بہت ہی شریف ہوتے تھے حالانکہ وہ افسر اس کو شرافت کی بات نہیں بتا رہا تھا بلکہ بددیانتی کا سبق دے رہا تھا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل بھی دریا کی طرح ہوتے ہیں اور دریا میں سے ایک قطرہ پانی کالے لیا جائے تو اس میں کیا کمی آسکتی ہے مگر بندہ ہی ایسا بد قسمت ہے کہ وہ خود خدا کے انعامات سے اپنے آپ کو محروم کر لیتا ہے اور ان کی طرف سے منہ موڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور جب کوئی مامور آتا ہے تو لوگ اس کو حقیر سمجھ کر اس کا انکار کرنا شروع کردیتے ہیں۔
حضرت باوانانکؒ کے ماں باپ بھی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس نے ہماری دُکانداری خراب کر دی ہے اور ہمارے گھر میں یہ بچہ نکمّا پیدا ہوا ہے۔ اگر ان کے ماں باپ زندہ ہو کر آج دنیا میں آجائیں اور دیکھیں کہ وہی بچہ جسے ہم حقیر سمجھتے تھے اب لاکھوں آدمی اس پر فدا ہیں اور اُس کے نام پر جان دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور ان میں کئی کروڑ پتی موجود ہیں تو وہ حیران رہ جائیں مگر لوگ بے وقوفی سے سمجھ لیا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا آدمی ہے اسے ہم نے مان کر کیا کرنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایسے ہی آدمیوں کو بھیجتا ہے جو بظاہر چھوٹے معلوم ہوتے ہیں اور ایک زمانہ آتا ہے کہ اس کے نام پر مر مٹنے والے لاکھوں لوگ پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسی طرح قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا قادیان میں نہ تو پہلے ریل تھی نہ ڈاکخانہ تھا، نہ کوئی دینی یا دُنیوی علوم کا مدرسہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی کوئی دُینوی وجاہت نہ رکھتے تھے اور بظاہر آپ نے جو تعلیم حاصل کی تھی وہ بھی معمولی تھی اس لئے جب آپ نے مسیحّیت اور مہدویت کا دعویٰ کیا تو لوگوں نے شور مچا دیا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ یہ شخص جاہل ہے یہ شخص کیسے مہدی ہو سکتا ہے۔ پھر لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کیسے مأمور آسکتا ہے اگر مأمور آناہی تھا تو لاہور، امرتسر یا اسی طرح کے کسی بڑے شہر میں آنا چاہئے تھا۔ غرض لوگوں نے زبردست مخالفت شروع کی اور جو لوگ آپ کے دعویٰ کو سن کر آپ کی زیارت کے لئے قادیان آنے کا ارادہ کرتے تھے اُن کو بھی روکا جاتا تھا اور اگر وہ نہ رُکتے تھے تو انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں، ان کو قسم قسم کی مصیبتوں اور دُکھوں میں مبتلا کر دیا جاتا تھا مگر ان تمام حالات کی موجودگی میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔۲؎
یہ الہام آپ کو اس وقت ہوا جب آپ کو ایک آدمی بھی نہ مانتا تھا پھر یہ الہام ہوا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ ۳؎ اس زمانہ میں مخالفت کا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک نوکر پیرا نامی جو اتنا بے وقوف تھا کہ وہ سالن میں مٹی کا تیل ملا کر پی جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کو کبھی کبھی کسی کام کے لئے بٹالہ بھیج دیا کرتے تھے ایک دفعہ اس کو بٹالہ بھیجا گیا تو وہاں اس کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ملے جو اہلِ حدیث کے لیڈر مانے جاتے تھے اور بڑے بھاری مولوی سمجھے جاتے تھے۔ ان کا کام ہی یہی تھا کہ وہ ہر اُس شخص کو جو بٹالہ سے قادیان آنے والا ہوتا تھا ملتے اور کہتے کہ اس شخص(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) نے دُکان بنائی ہوئی ہے اور جھوٹا ہے تم قادیان جا کر کیا کرو گے مگر اِس کے باوجود لوگ قادیان آجاتے تھے اور مولوی صاحب کے روکنے سے نہ رُکتے تھے۔ اس دن مولوی صاحب کو اور تو کوئی آدمی نہ ملا پیرا ہی مل گیا اس کے پاس جا کر وہ کہنے لگے کہ پیرے! تمہیں اس شخص کے پاس نہیں رہنا چاہئے توکیوں اپنا ایمان خراب کرتا ہے۔ وہ بے چارہ ان کی اس قسم کی باتیں تو نہ سمجھ سکا لیکن اس نے اتنا ضرور سمجھا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے پاس رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب مولوی صاحب ساری بات کر چکے تو وہ کہنے لگا مولوی صاحب! میں تو بالکل جاہل ہوں اور اِس قسم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ آپ نے کہا ہے کہ مرزا صاحب بُرے ہیں مگر ایک بات تو مجھے بھی نظر آتی ہے کہ آپ ہر روز بٹالہ میں چکر لگا لگا کر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی شخص قادیان نہ جایا کرے اور دوسرے علاقوں سے آنے والے آدمیوں کو بھی روکتے ہیں اور ورغلاتے رہتے ہیں مگر مجھے تو صاف نظر آتا ہے کہ خدا اُن کے ساتھ ہے آپ کے ساتھ نہیں کیونکہ آپ کی ساری کوششوں کے باوجود لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے ہیں مگر آپ کے پاس کبھی کوئی نہیں آیا۔
پس اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے بندے شروع میں چھوٹے ہی نظر آیا کرتے ہیں اور دنیا کے ظاہر بین لوگ انہیں حقیر سمجھتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی سمجھا گیا۔ مگر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور کجا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ سالانہ پر سات سَو آدمی آئے تھے اور کجا یہ کہ جمعہ کے دن مسجد اقصیٰ میں چار ہزار سے بھی زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ آپ کے زمانہ میں ہندوستان کی ساری قوموں نے آپ کے خلاف شور مچایا اور شدید مخالفت کی مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود ہندوستان میں بھی ہمارے سلسلہ نے ترقی کی اور بیرونی ممالک میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہوئیں چنانچہ آج ہمارے مشن دنیا کے تمام ممالک میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ انگلینڈ، امریکہ، افریقہ، چین، جاپان، جاوا،سماٹرا اور یورپ کے تمام ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں اور تبلیغ کا کام جاری ہے۔ افریقہ کے حبشی تعلیم پارہے ہیں امریکہ اور یورپ کے شرک کرنے والے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا نے اپنے مامور کے ذریعہ ایک نیا ایمان پیدا کر دیا ہے جس سے دوسرے لوگ محروم ہیں۔ وہ اگر لوگوں سے روپیہ مانگتے ہیں تو وہ اور بھی زور سے اپنے روپے کو گرہ دیتے ہیں مگر جب ہم اپنے آدمیوں سے مانگتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ اُن سے اور زیادہ مانگا جائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ ضائع نہیں جائے گا۔ ویسے تو غیر قوموں کے مقابلہ میں ہماری کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ان میں بڑے بڑے امراء اور کروڑ پتی موجود ہیں اور ہماری جماعت میں تو زیادہ تر غرباء ہی ہیں لیکن پھر بھی ہماری جماعت کے اندرقربانی کی روح بہت زیادہ موجود ہے۔ ہم نے جب بہِار کے مظلوموں کی امداد کے لئے تحریک کی توایک احمدی عورت نے مجھے دو سَو روپے کا چیک بھیج دیا۔ اس نے لکھا کہ ہمارے ہمسائے میں ایک کرنیل کی بیوی رہتی ہے وہ کہنے لگی بات تو تب ہے کہ کوئی ہماری طرح قربانی کر کے دکھائے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ تم نے کتنا چندہ دیا ہے؟ کہنے لگی سَوا سَو روپیہ حالانکہ وہ ایک کرنیل کی بیوی تھی جو سَوا سَو روپے پر فخر کر رہی تھے اور وہ احمدی عورت جس نے دو سَو روپیہ کا چیک بھیجا وہ ایک معمولی افسر کی بیوی ہے۔ اسی طرح تحریک جدید کے چندوں میں ہماری جماعت کے لوگ بڑھ چڑھ کر قربانیاں کر رہے ہیں اور بعض لوگ تو اِس قسم کے ہیں کہ وہ اپنی آمد کا ۳؍۱اور بعض لوگ اپنی آمد کا نصف تک دے دیتے ہیں اور بعض اس سے بھی زیادہ قربانی کرنا چاہتے ہیں مگر ہم ان کو روک دیتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کے لوگ تو اس قسم کے ہیں کہ ہم انہیں روکتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم ضرور دیں گے اور دوسرے لوگ اس قسم کے ہیں کہ اُن سے لوگ چندہ مانگتے ہیں اور وہ دیتے نہیں۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت کی ایک آگ ہے اور وہ دین کے لئے سر دھٹر کی بازی لگا رہے ہیں۔
ہماری جماعت کے ایک معزز شخص صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے وہ حج کیلئے گھر سے نکلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت سُن کر قادیان آگئے اور بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد واپس گھر گئے تو افغانستان کے بادشاہ نے اُن کو سنگساری کی سزا دی صرف اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر چکے تھے لوگوں نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ اپنے عقیدہ کو بدل لیں مگر وہ نہ مانے کیونکہ ان پر صداقت کھل چکی تھی۔ آخر بادشاہ نے اُن کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کرا دیا اور نہایت بے رحمی سے شہید کیا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی اور خدا کی راہ میں اپنی جان دے دی۔ سنگساری سے پہلے ایک وزیر اُن کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم اپنے دل میں بے شک وہی عقائد رکھو مگر صرف زبان سے ہی انکار کردو مگر انہوں نے فرمایا میں جھوٹ نہیں بول سکتا پس اُن کو شہید کر دیا گیا مگر ان کے شہید ہونے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی افغانستان میں ہیضہ پھوٹا اور ہزاروں لوگ مر گئے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جب لوگوں نے مقابلہ کیا تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ ملک میں سخت طاعون پھوٹے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کا لقمہ بن گئے مگر اس طاعون کے وقت بھی باوجودیکہ طاعون کاپھوٹنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی تائید میں تھا آپ نے مجسم رحم بن کر خدا کے حضور اس عذاب کو ٹلانے کے لئے نہایت گڑ گڑا کر دعائیں کیں اور اِس قدر گریہ و زاری کی کہ مولوی عبدالکریم صاحب جو مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ میں رہتے تھے فرماتے تھے کہ ایک دن مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی اور وہ آواز اتنی دردناک تھی جیسے کوئی عورت دردِ زِہ کی تکلیف میں مبتلا ہو۔ میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رو رو کر خدا کے حضور میں دعا فرما رہے ہیں کے اے اللہ! اگر تیرے سارے بندے مر گئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا۔ یہ چیز بھی آپ کی صداقت کیلئے نہایت زبردست دلیل ہے یہ آپ ہی کی تائید کیلئے اللہ تعالیٰ نے طاعون بھیجی اور آپ کے دل میں ہی رحم آگیا اور دعائیں کرنا شروع کر دیں۔
(الفضل ۲۳؍ مارچ ۱۹۶۱ء
۱؎ فاطر: ۲۵
۲؎ تذکرہ صفحہ۱۰۴۔ایڈیشن چہارم
۳؎ تذکرہ صفحہ۳۱۲۔ ایڈیشن چہارم


اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام دنیا پر غالب آ کر رہے گا
(فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۶ء برموقع جلسہ سالانہ۔ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے ہم پھر اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بلند کرنے کے لئے اور اس کے رسولوں کی عظمت و اقتدار قائم کرنے کے لئے، شیطان اور اس کی ذریت کے شر سے خدا ہی کی پناہ مانگتے ہوئے اور اپنی حقیر کو ششوں سے کامیاب ہونے کے لئے اسی کے بلند نام کی مدد طلب کرتے ہوئے جمع ہوئے ہیں۔ یہ دنیا اِس قدر تیزی کے ساتھ ایک تباہی کے گڑھے کی طرف جارہی ہے کہ جہاں تک دنیا داروں کی عقل کا سوال ہے اِس تباہی کے گڑھے سے اسے بچانا بالکل نا ممکن نظر آتا ہے انسان ترقی کی دوڑ میں اور اپنی ترقی کے شوق میں ایسی ایسی ایجادات کی طرف قدم بڑھاتا ہے کہ خود وہی اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ جس چیز کو میں اپنی ترقی سمجھتا تھا اور جسے میں اپنی کامیابی خیال کرتا تھا وہ درحقیقت میری تباہی کا رستہ تھا اور میری ہلاکت کی تدبیریں تھیں۔ قرآن کریم نے کیا ہی وضاحت سے اس امر کو بیان فرمایا ہوا ہے۔ فرماتا ہے انسان بہت دفعہ اپنی کامیابی کی امیدیں لگائے ہوئے نبیوں اور صداقتوں کی مخالفت کرتے ہوئے ایک جگہ پہنچتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا مگر جس وقت وہ اپنے آخری نکتہ پر پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ خدا اور اُس کے فرشتے اسے پکڑنے اور اسے ہلاک کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔۱؎ یہی حالت اب دنیا کی ہو رہی ہے۔ وہ چیزیں جنہیں دنیا نے اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھا تھا یا وہ چیزیں جنہیں اس نے دشمن کی تباہی کا ذریعہ سمجھا تھا آج خود اس کے لئے ہلاکت اور تباہی کا پیغام لارہی ہیں اور جہاں تک سائنسدانوں کا تعلق ہے وہ اقرار کرتے ہیں کہ ان تباہیوں سے بچنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔ جب بھی کسی شخص نے ان ذرائع سے کام لیا دنیا کی وہ تہذیب جس کا نام وہ تہذیب رکھتے ہیں اس کی ہلاکت اور تباہی میں کوئی شبہ نہیں رہے گا۔مگر۲؎ جب انہوں نے اپنے ذہن میں ایک تدبیر کی اور سمجھا کہ ان ذرائع کے ذریعہ ہم کامیابی کا منہ دیکھ لیں گے تو خدا نے بھی ایک تدبیر کی اور انہیں دکھا دیا کہ وہ کامیابی کی طرف نہیں بلکہ ہلاکت کی طرف جارہے ہیں اس کے ساتھ ہی خدا نے ایک اور تدبیر کی اور اس کے ذریعہ دنیا کو بچانے کا سامان پیدا کر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے بتا یا ہے کہ تین سَو سال کے عرصہ میں ہماری جماعت ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے گی کہ دنیا کے تمام مذاہب پر غالب آجائے گی اور وہ اقوام جو احمدیت میں شامل نہیں ہوں گی وہ ایسی ہی بے حیثیت رہ جائیں گی جیسے اچھوت اقوام اِس وقت بے دست و پا اور حقیر ہیں۔۳؎ اگر ایٹم بم اور اسی قسم کی ایجادوں نے دنیا کو پندرہ بیس سال میں تباہ کر دینا ہے تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی اور اگر اس پیشگوئی نے پورا ہونا ہے تو سائنسدانوں کے تمام خیالات غلط ثابت ہوں گے اور خدا کوئی نہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا جس کے نتیجہ میں جس طرح ان کی امیدیں غلط ہوتی ہیں اسی طرح ان کے خطرے بھی غلط ثابت ہوں گے۔ دنیا نے ابھی قائم رہنا ہے اور دنیا میں پھر اسلام نے سر اُٹھانا ہے۔ عیسائیت نے سر اُٹھایا اور ایک لمبے عرصہ تک اس نے حکومت کی مگر اب عیسائیت کی حکومت اور اس کے غلبہ کا خاتمہ ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا خاتمہ ہو جائے تاوہ کہہ سکیں کہ دنیا پر جو آخری جھنڈا لہرایا وہ عیسائیت کا تھا مگر ہمارا خدا اِس امر کوبرداشت نہیں کر سکتا۔ ہمارا خدا یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا پرآخری جھنڈا عیسائیت کا لہرایا جائے دنیا میں آخری جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گاڑا جائے گا اور یقینا یہ دنیا تباہ نہیں ہوگی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں لہرائے گا۔ انہوں نے اپنی کوششوں اور تدبیر وں کے ساتھ موت کے ذریعہ کو معلوم کر لیا ہے مگر اسلام کو قائم کرنے والا وہ خدا ہے جس کے ہاتھ میں موت بھی ہے اور حیات بھی ہے۔ یہ موت کے ذریعہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر حاکم ہوگئے ہیں حالانکہ اصل حاکم وہ ہے جس کے قبضہ میں موت اور حیات دونوں ہیں۔اگر یہ ساری دنیا کو مار بھی دینگے تب بھی وہ خدا جس کے قبضہ میں حیات ہے اسی طرح اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کردے گا جس طرح آدمؑ ؑکے ذریعہ اُس نے نسل انسانی کو قائم کیا۔
بہرحال دنیا پر قیامت کا دن نہیں آسکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر نہیں لہرایا جاتا۔ مگر یہ تو خدا کی باتیں ہیں اور خدا اپنی باتوں کا آپ ذمہ دار ہے ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور اپنی جانوں کو خدا کے لئے قربان کر دیں اور اپنے نفوس کو ہمیشہ اس کی اطاعت کے لئے تیار رکھیں تاکہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہم پر نازل ہواور ہم اس کے حقیر ہتھیار بن کر دنیا میں عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائیں۔پس ہمارا ذہن اور ہماری ذمہ داری ہمیں اِس طرف بلاتی ہے کہ باوجود اس کے وعدوں کے ہم اپنی کمزوریوں اور اپنی بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے ۔ خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اُسی سے التجا کریں کہ اے ہمارے ربّ! اے ہمارے ربّ! تو نے ہمیں ایک کام کے لئے کھڑا کیا ہے جس کے کرنے کی کروڑواں اور اربواں حصہ بھی ہم میں طاقت نہیں، اے ہمارے ربّ! تو نے اپنے رسول کے ذریعہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لو جو اُس کی طاقت سے باہر ہو تو تم خود اس کے ساتھ مل کر کام کرو ورنہ اُس سے ایسا کام نہ لو جو اس کی طاقت سے باہر ہو،اے ہمارے ربّ! تو نے جب اپنے بندوں کو جن کی طاقتیں محدود ہیں یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے سپرد کوئی ایسا کام نہ کرو جو اُس کی طاقت سے بالا ہو تواے ہمارے ربّ! تیری شان اور تیرے فضل اور تیر ی رحمت سے ہم کب یہ امید کرسکتے ہیں کہ تو ایک ایسا کام ہمارے سپرد کر دے گا جو ہماری طاقت سے بالا ہوگا لیکن خود ہماری مدد کے لئے آسمان سے نہیں اُترے گایقینا اُترے گا اور ہماری مدد کر ے گا اور ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فضلوں کو بڑھاتا جا، اپنی رحمتوں کو بڑھاتا جا، اپنی برکتوں کو بڑھاتا جا یہاں تک کہ ہماری ساری کمزوریوں کو تیرے فضل ڈھانپ لیں اور ہمارے سارے کام تیرے فضل سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائیں تاکہ تیرے احسانوں میں سے ایک یہ بھی احسان ہو کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اُسے تو نے خود ہی سر انجام دے دیا۔کام تیرا ہو اور نام ہمارا ہو آمین۔ یہ تیری شان سے بعید نہیں۔
پس آؤ ہم اپنے ربّ سے یہ دعا کرکے اس جلسہ کو شروع کریں کہ خدا اپنی رحمتوں اور اپنے فضلوں اور اپنی برکتوں کے دروازے ہم پر کھول دے، یہ جلسہ عظیم الشان برکتوں کے ساتھ شروع ہو، عظیم الشان برکتوں کے ساتھ ختم ہو اور عظیم الشان برکتوں کے ساتھ نئے سال کا ہمارے لئے آغاز ہو تا کہ وہ دن جو اسلام کی فتح کا دن ہے قریب سے قریب تر آجائے اور ہماری آنکھیں اس نظارہ کو دیکھ لیں کہ دنیا لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَکہتے ہوئے خدا کے دروازہ پر حاضر ہو رہی ہے۔
(اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی) دعا کے بعد فرمایااللہ تعالیٰ کے فضل سے جو اِس وقت جماعت کی حاضری ہے وہ بتاتی ہے کہ یا تو جماعت کے دوستوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا ہے اوروہ شروع وقت میں ہی جلسہ گاہ میں آتے جاتے ہیں اور یا اس سال پہلے سالوں سے زیادہ لوگ آئے ہیں ۔ کیونکہ اِس وقت پہلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ لوگ نظر آ رہے ہیں اور اتنے آدمی اس سے پہلے کبھی دعا کے وقت جلسہ گاہ میں مَیں نے نہیں دیکھے حالانکہ اِس سال جلسہ گاہ میں قریباًہزار ڈیڑھ ہزار کی زیادتی کا بھی سامان تھا۔ اچھا اب میں جاتا ہوں۔ اب جلسہ کی کارروائی شروع ہوگی۔ السَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَۃٗ
(الفضل ۲۷؍دسمبر۱۹۴۶ء)
۱؎
۲؎ آل عمران: ۵۵
۳؎ تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۶۶۔۶۷


متفرق امور
(تقریر۲۷؍دسمبر۱۹۴۶ء برموقع جلسہ سالانہ)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
متفرق امور
(تقریر فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۶ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میں سب سے پہلے مولوی محمد علی صاحب کے حلف کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں۔ اس حلف کا سلسلہ اِس طرح شروع ہوا کہ محمد اسلم صاحب ایک غیر مبائع دوست اور فیض الرحمن صاحب فیضی نے مجھے لکھا کہ کیا آپ مولوی محمد علی صاحب کے مطالبۂ حلف کے جو اب میں حلف اُٹھانے کے لئے تیارہیں؟ اِس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ جب مولوی صاحب مجھ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں تو لازماً ہماری طرف سے بھی اِس قسم کا مطالبہ ہو گا۔ ہاں یہ جائزنہ ہوگا کہ فریق مخالف دوسرے فریق کی طرف خود ساختہ عقائذ منسوب کر کے حلف کا مطالبہ کرے۔ ہر فریق اپنے اپنے عقائد کاخود اعلان کر ے گا،ہاں ایک فریق دوسرے کی تبدیلی عقائد کو ثابت کرنے کا مجاز ہوگا۔
مسئلہ متنازعہ فیہ یہ ہے کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۹۰۱ء سے قبل نبوت کی اور تعریف کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس تعریف کے رو سے آپ کی نبوت ناقص ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے آپ کو بار بار نبی کے نام سے موسوم کیا تب آپ کو تفہیم ہوئی کہ نبی کی اور بھی تعریف کی جاسکتی ہے جس کی رو سے آپ نبی ہیںلیکن مولوی محمد علی صاحب کا عقیدہ اس سے مختلف ہے۔ مولوی صاحب نے اس جلسہ سالانہ پر قسم کھانے کا اعلان کیا تھا۔ اگر فی الواقع وہ حلف کے لئے تیار ہیں تو اس کے لئے میں ایک آسان راہ بتاتا ہوں کہ اخبارات کی بحث کوچھوڑ کر ہم اپنا ایک ایک نمائندہ بنائیں۔ مثلاً میں اپنی طرف سے چوہدری سر محمد ظفراللہ خاں صاحب کو پیش کرتا ہوںوہ بھی ایک نمائندہ منتخب کر کے اپنی باتیں اس کے سامنے بیان کر دیں اور میںبھی اپنی باتیں اپنے نمائندہ کو بتا دوں گا۔ پھر وہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہم نے کن باتوں پر حلف اُٹھانی ہے۔ اس طرح ممکن ہے کوئی صورت نکل آئے وگرنہ جن مباحث میں مولوی صاحب پڑے ہوئے ہیں ان سے کبھی بھی تصفیہ کی کوئی راہ نکل نہیں سکتی۔
اس کے بعد حضور نے سال بھر میں سب سے اچھا کام کرنے والی مجلس خدام الاحمدیہ یعنی جماعت کراچی کوا نعامی جھنڈا دینے کا اعلان فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے جماعت کے قائد کو جھنڈا عطا فرمایا۔ پھر تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔
میں جماعت کو یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے تیسویں پارہ کی تفسیر کا دوسرا حصہ شائع ہو گیا ہے چند سورتیں باقی رہ گئی ہیں ان کو بھی جلد سے جلد شائع کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر پہلے پارہ سے علی الترتیب یہ تفسیر جماعت کے سامنے آتی رہے گی احباب جلد سے جلد اسے خرید لیں ورنہ انہیں پہلے حصوں کی طرح پچھتانا پڑے گا اور زیادہ سے زیادہ قیمت خرچ کرنے کے باوجود بھی دستیاب نہ ہو سکے گی۔ میں نے دفتر کو ہدایت کی ہے کہ وہ تاجروں کودینے کی بجائے افراد کو زیادہ تقسیم کریں۔ پس جماعت کو اس موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
انگریزی قرآن کریم بھی تقریباً مکمل ہو چکا ہے اور اس کی پہلی جلد جو دس بارہ سَو صفحات پر مشتمل ہوگی بہت جلد جماعت کے سامنے آجائے گی۔ میں اِس کا دیباچہ لکھ رہا ہوں جو دو اڑھائی سَو صفحوں پر ممتد ہوگااور اس کا ایک کثیر حصہ سیرت رسول کریم صلی اللہ وآلہٖ وسلم ایسے اہم مضمون پر مشتمل ہے۔ اس مضمون کی وضاحت ضروری تھی تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح عکس اور آپ کا حسین چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کے لئے جاذبیت کا سامان مہیا کیا جائے۔ اس کے گور مکھی اور ہندی تراجم بھی ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں جو جلد شائع کئے جائیں گے اور خداتعالیٰ کے فضل سے خو ش کن نتائج کا موجب بنیں گے۔ـ
قرآن کریم کے سات مختلف زبانوں میں جو تراجم ہورہے تھے وہ خداتعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوگئے ہیں اور ان کی ایک ایک نقل بنک میں بھی محفوظ کر دی گئی ہے۔ صرف اِس بات کی انتظار ہے کہ ہمارے مبلغین ان زبانوں کو سیکھ کر ان پر نظر ثانی کر لیںتاکہ غلطی کاکوئی امکان نہ رہے۔ تراجم کے لئے ۶۰۰۰۰،۲روپیہ کے وعدے ہوئے تھے جن میں سے ۴۰۰۰۰،۲ روپے وصول ہوئے ہیں اس میں سے ۳۵۰۰۰روپیہ صرف تراجم پر خرچ آیا ہے باقی روپیہ جمع ہے۔
امسال تحریک جدید کو رجسٹرڈ کر وا دیا گیا ہے تاکہ اس کے اموال محفوظ رہیں چونکہ رجسٹرڈ باڈی گورنمنٹ کی نگرانی میں رہتی ہے اِس لئے قانونی طور پر حقوق طلب کرنے میں سہولت رہے گی۔ نیز اس کو رجسٹرڈ کرانے کی ایک یہ وجہ بھی تھی کہ خدانخواستہ اگر ایک انجمن کوکوئی زد آئے تو دوسری اس کی جگہ پر سلسلہ کا کام چلاتی رہے۔علاوہ ازیں میں دیکھتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ میں لمبی سستی کی وجہ سے جمود طاری ہے اور وہ اتنی ہوشیاری سے کام نہیں کر رہی جتنی کہ ضرورت ہے۔
تحریک جدید میں مَیں نے مختلف محکمے بنائے ہیں اور ہر محکمہ کے انچارج کو ناظر کی بجائے وکیل کا نام دیا ہے۔ اِس وقت حسب ذیل محکمے کام کر رہے ہیں ۔ مال، صنعت و حرفت، تجارت،تبشیر اور وکالت دیوان۔ وکالت دیوان کا کام سب محکموں میں باہمی تعاون اور رابطہ قائم رکھنا ہے ان کے علاوہ کچھ اور محکموں کا قیام بھی نہایت ضروری ہے۔ مثلاً آئندہ ایک وکالت ارتقائی کے قیام کا خیال ہے جس کا کام اِس بات کا محاسبہ کرنا ہوگا کہ جماعت کس رفتار سے ترقی پر گامزن ہے اور اس کی ترقی میں کوئی روک تو نہیںیا وہ کسی مقام پر رُک تو نہیں گئی، پھر وکالتِ زراعت کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں ۸۰ فی صد ی لوگوں کا مدارزراعت پر ہے۔ پھر اپنی جماعت کے زمینداروں کی ترقی اور تنظیم کے لئے اس طرف تو جہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ پھر وکالت تصنیف ہوگی جو اشاعت کاکام کرے گی، پھر وکالت تعلیم ہو گی جو جماعت کے تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرے گی۔ وکالتِ تجنید ہو گی جس کا کام سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے کارکن مہیا کرنا ہوگا۔ صدر انجمن احمدیہ نے تجنید کی طرف بالکل تو جہ نہیں کی اور اس کا نتیجہ آج وہ بُھگت رہی ہے کہ اب اسے کارکن میسر نہیں آتے۔
بیرونی مشنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ:۔
سب سے اہم مشن انگلستان میں ہے کیونکہ انگلستان سیاسیات کامرکز ہے اِس وقت ہمارے چھ آدمی وہاں موجود ہیں اور عنقریب تین اور چلے جائیں گے۔ ان میں سے دو امریکہ چلے جائیں گے پھر بھی وہاں سات آدمی موجود رہیں گے گو یہ تعداد انگلستان کے لحاظ سے نا کافی ہے لیکن پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ پہلے صرف ایک مبلغ تھا۔
دوسرا مشن سپین کا ہے سپین وہ ملک ہے جس میں مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے جلد بعد ہی یعنی تقریباً ۷۰ سال کے اندر اندر اس ملک پر قبضہ کر لیا اور آٹھ سَو سال تک وہاں اسلام کا جھنڈا لہراتا رہا۔سپین نے بڑے بڑے مسلمان عالم پیدا کئے۔ مثلاً ابن رشد، ابن خلدون اور تفسیر بحرمحیط کے مصنف مگر جب مسلمانوں پر زوال آنا شروع ہوا تو یہ ملک عیسائیوں کے قبضہ میں چلا گیا اور انہوں نے اسلام کا نام و نشان ہی مٹا دیا۔آجکل وہاں ایسے لوگ ملتے ہیں جن کے نام مسلمانوں کے سے ہیں مگر اسلام کا ان کوکوئی علم نہیں کیونکہ ان کو زبر دستی عیسائی بنالیا گیا۔ میں ابھی بچہ ہی تھا اور کوئی طاقت مجھے حاصل نہ تھی اُس وقت میرے دل میں یہ ولولہ پیدا ہوا کہ خدا نے جب بھی مجھے طاقت بخشی میں پھر سپین میں اسلام کا جھنڈا گاڑوں گا۔ اِس وقت ہمارے دو مبلغ میڈرڈ میں کام کر رہے ہیں اور وہاں چھ مہینہ میں دو احمدی ہو چکے ہیں۔
تیسرا ملک فرانس ہے۔اس کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ کچھ عرصہ مسلمان وہاں رہے اور دوسرے سپین کی تباہی میں اس کا بہت دخل تھا۔ تیسرے بہت سے اسلامی ممالک اس کے ماتحت ہیں وہ بہت عیاش ملک ہے اور مذہب سے بہت کم دلچسپی رکھتا ہے اس لئے وہاں کامیابی میں دیر لگے گی۔
اٹلی وہ ملک ہے جو عیسائیب کا مرکز ہے جہاں سے اسلام کے خلاف جنگ کی صداہمیشہ بلند ہو تی رہی ہے۔ مسلمان بھی اس پر حملہ آور ہوئے اور سینکڑوں برس تک اس پر قابض رہے۔ یہ ملک ہمیشہ ہی اسلام کے لئے خطرہ کا موجب رہا ہے اس لئے یہ خاص توجہ کا مستحق ہے۔ اِس وقت ہمارے تین مبلغ وہاں کام کر رہے ہیں تھوڑے ہی عرصہ میں آٹھ دس افراد احمدیت میں داخل ہو چکے ہیں۔
سوئٹز رلینڈ میری سکیم میں شامل نہ تھا لیکن جرمنی میں داخلہ کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے مبلغین نے وہاں کام شروع کر دیا ہے اور جرمنی کیلئے راستہ صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شگاگو میں ہمارا مرکز قائم ہے خلیل احمد صاحب ناصر اور مرزا منور احمد صاحب نئے مبلغ وہاں بھیجے گئے ہیں جن کے کام سے نہائت خوشکن نتائج نکلنے کی امیدہے اور ایک مبلغ غلام یٰسین صاحب کو بھی بھیجا گیا ہے اور امید ہے کہ یہ ملک بھی بہت جلد احمدیت سے ہمکنار ہو جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اگر اس ملک پر دھاوا بول دیا جائے تو بہت جلد دوتین کروڑ افراد احمدی ہو سکتے ہیں۔
جنوبی امریکہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک ہے وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں جن کے حاکموں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے یہ ملک ترقی نہیںکر رہاوگرنہ اس میں ترقی کے غیرمعمولی اسباب موجود ہیں۔ وہاں بھی ایک مبلغ کام کر رہا ہے ایک اور بھی بھیجاجارہا ہے۔
افریقہ کے مختلف حصوں کا ذکرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔
وہاں احمدیت کو خداتعالیٰ کے فضل سے مقبولیت حاصل ہوئی ہے جہاں پہلے ہمارے چند مبلغ کام کر رہے تھے وہاں اب سینکڑوں کی ضرورت ہے اور ہزاروں لوگ احمدیت قبول کر چکے ہیں۔
ممالک عربیہ ان ممالک میں بھی ہمارا کام بہت وسیع ہو رہا ہے۔ اس وقت تین مبلغ وہاں کام کر رہے ہیں اور ابھی مزید ضرورت ہے۔ وہاں کے ایک مخلص اورسرگرم بھائی سید منیر الحصنی صاحب آجکل یہاں آئے ہوئے ہیں اور تبلیغ کے لئے ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ مصر میں بھی احمدیت کی رَو چل پڑی ہے اس سال چھ افراد نے بیعت کی ہے ان میں سے بعض جامعہ ازہر کے طالب علم ہیں۔
ایران میں بھی ایک مبلغ کام کر رہے ہیں اور لٹریچر کی اشاعت وغیرہ کا انتظام اس وقت کر رہے ہیں۔
انڈونیشیا کے مختلف حصوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے وہاں کے مبلغین کی عدیم المثال قربانیوں کی تعریف کی اور بتایا کہ وہاں بعض علاقوں میں ہمارے مبلغین کو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اقتدار حاصل ہو گیا ہے اور احمدیت کی ترقی کے غیر معمولی سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ وہاں انہی دنوں کئی مبلغ بھیجے گئے ہیں۔
جماعت میں تجارت کی روح پیدا کرنے کے لئے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ایجنسیاں قائم کی گئی ہیں اور اس محکمہ کے ذریعہ سے احمدی تاجروں کی تنظیم کاکام کیا جارہا ہے تاکہ جماعت کی تجارت بہت بلند معیار پر پہنچ جائے۔جماعت کو اس کے ساتھ تعاون کر کے خود بھی فائدہ اُٹھانا چاہئے اور سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا چاہئے غیر ممالک میں بھی ایسی ایجنسیاں قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
صنعت و حرفت
اِسی طرح صنعت و حرفت کو ترقی دینے کا بھی سوال پیشِ نظر ہے اور جماعت کے صنعتی معیار کو بلند کرنے کی بہت ضرورت ہے اس کے لئے
دوستوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے اور ہمیشہ اپنی مصنوعات کو خریدنا اور ان کو فروغ دینا چاہئے۔ اس محکمہ کی طرف سے ایک ڈائرکٹری شائع کی گئی ہے جو نہایت ہی مفید عنوانات پر مشتمل ہے اور اس میں تجارت کے متعلق بہت سی قیمتی معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں جن کی تاجروں کو ہر وقت ضرورت رہتی ہے دوستوں کو فوراً خرید لینی چاہئے۔
فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ
صنعت کو بڑھانے اور جماعت کو علمی ترقی دینے کے لئے یہ ریسرچ قائم کی گئی ہے اس میں چھ آدمی
کام کر رہے ہیں اور باقی تعلیم حاصل کر رہے ہیں سرِ دست اِس کے لئے ۲۵ آدمیوں کی ضرورت ہے اور فی الحال ان سے کام چلانے کی کوشش کی جائے گی وگرنہ میرا خیال ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ دینی میدان میں ہمیں کامیابی بخش رہا ہے اسی طرح اس میدان میں بھی فوقیت بخشے اور سائنس کی رو سے بھی ان کو شکست دینے کی توفیق بخشے۔
یہ وہ سارے کام ہیں جن کو تحریک جدید کر رہی ہے مگر ان کاموں کے مقابلہ میں تحریک جدید کے چندوں کو دیکھا جائے تو وہ بہت ہی حقیر ہیں اور اس کام کو وسیع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور موجودہ اخراجات سے بہت زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے اس لئے جماعت کو ان ضروریات کے مطابق قربانی کرنی چاہئے۔ بے شک کام زیادہ ہے اور ہم کمزور ہیں اور نادار ہیں مگر خدا نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے بہرحال ہم نے کرنا ہے اور خوبی یہی ہے کہ ان مخالف حالات میں اسے کیا جائے اور اس کے دو طریق ہیں کہ اوّل تو جماعت غیر معمولی قربانی کر کے بہت زیادہ رقوم پیش کرے۔ دوسرے نوجوان بہت زیادہ زندگیاں وقف کریں ۔
آخرمیں حضور نے دیہاتی مبلغین کی سکیم کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:۔
یہ سکیم دیہات میں تبلیغ کرنے کے لئے بہت مفید ہے۔ پچھلے سال پندرہ مبلغ تیار ہوئے تھے اور امسا ل پچاس مبلغین تیار ہوئے ہیں اور آئندہ سال کم از کم ۷۵ کی ضرورت ہو گی اور خداتعالیٰ کے فضل سے ہر سال اِس سکیم کو بڑھانے کی ضرورت رہے گی۔پس اس قدر اہم امور کی انجام دہی غیر معمولی قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے ہر ممکن قربانی کریں اور دنیا اور آخرت میں سر خروئی حاصل کریں۔
(الفضل ۲۸؍دسمبر۱۹۴۶ء)


جماعت کو چارچیزوں کی طرف زور
دینا چاہئے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
جماعت کو چارچیزوں کی طرف زور دینا چاہئے
(تقریر فرمودہ ۲۸؍دسمبر ۱۹۴۶ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے یاشاید عمرہ کے لئے تشریف لے گئے تو اُس وقت بھی بارش ہو رہی تھی رسول کریم صلی علیہ وآلہٖ وسلم نے سواری سے خطبہ پڑھا اور صحابہ نے کھڑے ہو کر سنا آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی اِس مثال پر عمل کرنے کی توفیق اور موقع عطا فرمادیا ۔ مَیں نے کل جمعہ میں ددستوں کو اس بات کی طرف تو جہ دلائی تھی کہ اب کام کا وقت آرہا ہے ہمیں باتیں کم کرنی چاہئیں اور کام زیادہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے آج بارش نازل فرما کر میری اس نصیحت کی تصدیق کر دی ہے اور اپنے قانونِ قدرت کو بھی اس بات کے اشارہ کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ اب تمہارے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کاوقت آرہا ہے۔ اس لئے باتوں کی طرف کم توجہ کرو اور اپنے عمل کی اصلاح اور دوسرے لوگوں کے عمل کی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کرو۔ میرا ارادہ کل تو یہ تھا کہ میں آج علمی مضمون پر تقریر کروں گا لیکن اس ارادہ سے پہلے متواتر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اس دفعہ زیادہ تر جماعت کو اپنی عملی اصلاح اور اسلام کی آئندہ جنگ کے لئے تیاری کی طرف تو جہ دلاؤں۔ کل جب تقریر کرنے کے بعد میں واپس گیا تو رات کو پھر متواتر میرے دل میںخیال آیا کہ بجائے علمی مضمون پر تقریر کرنے کے میں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاؤںکہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اس جنگ کے لئے تیار رہیں جو قریب سے قریب تر آرہی ہے یہ جو میری خلش اور تڑپ تھی اس کی طرف بھی خداتعالیٰ نے بارش کے ذریعہ سے توجہ دلائی ہے۔
پس میں چند مختصر الفاظ میں جماعت کے مردوں اور عورتوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں اپنا نمونہ ایسا بنانے کی کوشش کرنی چاہئے جیسے خدا کے نبیوں کی جماعتوں کا نمونہ ہوتا رہا ہے اور ہونا چاہئے۔ دنیا کی نگاہیں ہم پر ہیں اور دنیا کی امیدیں بھی ہمارے ساتھ وابستہ ہیں ایک طرف دنیا اس نقطہ نگاہ سے ہمیں دیکھ رہی ہے اگر ہم میں کوئی کمزوری پائی جائے تو وہ ہم پر اعتراض کرے اور ہمارے سلسلہ کو بدنام کرے اور دوسری طرف وہ اس نقطۂ نگاہ سے ہمیں دیکھ رہی ہے کہ شاید اس کی کامیابی کے اور سارے ذرائع ناکام رہیں گے اور شاید اس کی امیدیں بھی انہی پاگلوں کے دعویٰ سے وابستہ ہیں جو آج جماعت احمدیہ میں شامل ہیں۔ وہ ہماری کمزوریوں پر اعتراض بھی کرتے ہیں اور وہ اس امید میں ہماری طرف باربار دیکھتے بھی ہیں کہ اگر یہ حقیر اور مظلوم جماعت کامیاب ہو گئی تو ہم بچ جائیں گے اور اگر یہ جماعت تباہ ہو گئی تو ہم بھی تباہ ہو جائیں گے۔
غرض دو مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور ہم سے دوسرے لوگ بھی اور ہمارے اپنے بھائی بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم اپنی قربانیوں سے ایک طرف تو خداتعالیٰ کے تخت کو دنیا میںقائم کریں او ردوسری طرف لوگوں کو ان مصائب سے بچائیں جو منہ کھولے کھڑے ہیں اور انہیں کھا جانے کے لئے بالکل تیار نظر آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اور مقدم فرض جو ایک مسلمان کا ہے وہ خداتعالیٰ کی عبادت ہے۔ قرآن کریم نے عبادت کے لئے ہر جگہ اقامۃ صلٰوۃ کے الفاظ رکھے ہیں جن میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ اقامتِ صلوٰۃ کے بغیر درحقیقت کوئی عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی۔ جب تک نماز باجماعت ادا نہ کی جائے سوائے اُس کے کہ انسان بیمار یا معذور ہو اس وقت تک اس کی نماز اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہو سکتی، میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی اس طرف پوری توجہ نہیں۔
پس دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اپنا پورا زور اس بات کے لئے صرف کر دیں کہ ہم میں سے ہر شخص نماز باجماعت کا پابند ہو۔ میں نے پہلے بھی چند سال ہوئے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس پر کچھ عرصہ عمل بھی ہوا مگر پھر سستی واقع ہو گئی۔ میں نے کہا تھا کہ جہاں مسجدیں قریب ہوں وہاں مسجدوں میں نماز باجماعت ادا کی جائے اور جہاں مسجدیں نہ ہوں وہاں جماعت کے دوست محلہ میں کسی کے گھر پر جمع ہو کر نماز باجماعت پڑھ لیا کریں اور جہاں اس قسم کا انتظام بھی نہ ہو سکے وہاں گھروں میں نماز باجماعت ادا کی جائے اور مرد اپنے بیوی بچوں کو پیچھے کھڑا کر کے جماعت کرا لیا کریں۔ آج میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں خصوصاًعہدیداروں کو، انہیں چاہئے کہ وہ ہر ماہ مجھے لکھتے رہاکریں کہ انہوں نے اس بارہ میں کیا کارروائی کی ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف مَیں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ محنت کی عادت ہے میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بہت سے نوجوانوں میں محنت کی عادت نہیں پائی جاتی۔ ذرا بھی محنت کا کام ان کے سامنے آجائے تو وہ گھبرا جاتے اور اپنے فرض کو ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لینے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک نقص ہے جو اِن میں پایا جاتا ہے اس کانتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ اگر وہ موقع آگیا جس میں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں تو اس قسم کے لوگ خواہ اس وقت قربانی بھی کریں ان کی قربانی چنداں مفیدنہیں ہو گی کیونکہ محنت سے گھبرانے والے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی نسبت آرام زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پس ہر جگہ کی جماعت کو خصوصاً خدام الاحمدیہ کو میں اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصار اللہ سے مل کر ایسی کوشش کریں کہ ہر احمدی اپنے اوقات کوصحیح طورپر صرف کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرے اور جو کام اس کے سپرد کیا جائے اس کے متعلق وہ کوئی بہانہ نہ بنائے۔ بہانہ بنانا ایک خطرناک چیز ہے جس سے قوم تباہ ہو جاتی ہے ہمیں یہ عادت اس سال ڈالنی چاہئے کہ جس شخص کو کسی کام پر مقرر کیا جائے اس کا فرض ہے کہ یاتو وہ کام پوری دیانتداری سے کرے یا اس کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس کے ختم ہونے پر اس کی لاش وہاں نظر آئے۔ اس کی زبان چلتی ہوئی یہ عذر نہ کرے کہ میں فلاں وجہ سے یہ کام نہیں کر سکا۔ جب تک یہ روح ہماری جماعت کے نوجوانوں میں پیدا نہ ہو اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی پیش نہیں کر سکتے۔ اس طرح مردوں کو چاہئے کہ جہاں لجنہ اماء اللہ قائم نہیں وہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریں۔ میرے پاس بہت سی عورتوں نے شکایت کی ہے کہ مرد اِن کے ساتھ تعاون نہیں کرتے بعض تو انہیں روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لجنہ کے جلسوں میں نہ جایا کرواور بعض ایسے ہیں کہ اگر عورتیں لجنہ امائِ اللہ قائم کرنا چاہیں تو وہ اس میں روک بن جاتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک بات ہے جب تک عورتیں بھی دین کی خدمت کے لئے مردوں کے پہلو بہ پہلو کام نہیں کرتیں اس وقت تک ہم صحیح طور پر ترقی نہیں کر سکتے۔ اسلام کی جو عمارت ہم باہر تیار کرتے ہیں اگر اس عمارت کی تیاری میں عورت ہمارے ساتھ شریک نہیں تو وہ گھر میں اس عمارت کو تباہ کر دیتی ہے۔ تم بچے کو مجلس میں اپنے ساتھ لاؤ اُسے وعظ و نصیحت کی باتیں سناؤ، دین کی باتیں اس کے کان میں ڈالو لیکن گھر جانے پر اگر تمہاری عورت میں وہ روح نہیں جو اسلام عورتوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ بچے سے کہے گی کہ بچے! تمہارے باپ کی عقل ماری ہوئی ہے، وہ تمہیں یونہی مسجدوں میں لئے پھرتا ہے، تمہاری صحت اس سے تباہ ہو جائے گی، تم ایسا نہ کیا کرو۔ باپ اپنے بچے کو اقتصادی زندگی۱؎ بسر کرنے کی ترغیب دے تو ماں کہنے لگ جائے گی کہ بیٹا تمہارا باپ محض بُخل کی وجہ سے تمہیں نصیحت کر رہا ہے اور نام اس کا دین رکھ رہا ہے ورنہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا دل تمہاری ضروریات کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نہیں چاہتا۔ تم بے شک اپنے دل کے حوصلے نکال لو میں تمہاری مدد کرنے کیلئے تیار ہوں۔ دیکھواگر کسی گھر میں ایسا ہو تو ایک ہی وقت میں دو تلواریں چل رہی ہوں گی ایک سامنے سے اور ایک پیچھے سے اور یہ لازمی بات ہے کہ جہاں دو تلواریں چل رہی ہوں وہاں امن نہیں ہو سکتا۔
پس اوّل ہماری جماعت کو نماز باجماعت کی پابندی کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ دوسرے جماعت کو خصوصیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے محنت کی عادت اختیار کرنی چاہئے اور جس کام کے لئے کسی کو مقرر کیا جائے اس کے متعلق وہ اِس اصول کو اپنے مد نظر رکھے کہ میں نے اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہے میری جان چلی جائے۔ جب تک اس قسم کی روح اپنے اندر پیدا نہیں کی جائے گی جماعت پوری طرح ترقی نہیں کر سکتی۔ تیسرے ہر جگہ لجنہ اماء اللہ قائم کی جائے اور عورتوں کی تعلیم اور اُن کی اصلاح کا خیال رکھا جائے۔ چوتھے جماعت کے اندر سچائی کو قائم کیا جائے۔ جب تک کسی قوم میں سچائی قائم رہتی ہے وہ ہارا نہیں کرتی۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ابھی اس پہلوکے لحاظ سے بھی کمزوری پائی جاتی ہے۔مقدمات پیش ہوتے ہیں تو ان میں گواہی دیتے وقت بعض لوگ ایسی ایچا پیچی سے کام لیتے ہیں کہ قاضی حیران رہ جاتا ہے کہ میں اس طرح فیصلہ کروں یا اُس طرح حالانکہ مؤمنوں کے مقدمات کا بڑی آسانی سے فیصلہ ہوجانا چاہئے۔ قرآن کریم نے ہر مؤمن کو سچائی سے کام لینے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ قرآن کریم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تمہیں صرف سچ سے ہی نہیں بلکہ سداد سے بھی کام لینا چاہئے یعنی تمہاری طرف سے جو بات پیش ہو وہ صرف سچی ہی نہ ہو بلکہ اس میں کسی قسم کا پیچ بھی نہ ہو۔ کئی باتیں سچی تو ہوتی ہیں مگر پیچ کے ساتھ جھوٹ بنا دی جاتی ہیں اسی لئے قرآن کریم نے صدق اور سداد دونوں سے کام لینے کی نصیحت فرمائی ہے۔
یہ چار نصیحتیں آپ لوگوں کو کرنے کے بعد میں دعا کے ساتھ آپ سب کو رخصت کرتا ہوںاگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کر لیں گے تو پھر خدا تعالیٰ آپ لوگوںکی تبلیغ میں بھی برکت پیدا کردے گا،آپ کے کاموں میں بھی برکت پیدا کر دے گا اور اسلام کی فتح کو قریب سے قریب تر لے آئے گا۔ یہ چار دیواریں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔
اب میں دعاکر کے آپ کو رخصت کرتا ہوں دعامیں اس امر کا خیال رکھا جائے کہ جہاں اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے دعائیں کی جائیں وہاں اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے اور ان مبلغین کی کامیابی کے لئے بھی دعائیں کی جائیںجو اسلام کی خدمت کے لئے دور دراز ملکوں میں گئے ہوئے ہیں،ایسے ایسے ملکوں میں جہاں انہیں کسی قسم کی راحت اور آرام کے سامان میسر نہیں، ان کی باتیں سننے والا کوئی نہیں، ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں، ان کے بوجھ کو بٹانے والا کوئی نہیں مگر پھر بھی وہ رات دن اسلام کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔ حکومتیں ان کی دشمن ہیں، پبلک ان کی مخالف ہے، سوسائٹی ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی غرض ہر طبقہ کے لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں مگر وہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم برابر لوگوں تک پہنچاتے چلے جاتے ہیں۔ پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جہاں آپ اسلام کی ترقی کے لئے جو کچھ کر سکتے ہوں ان سے دریغ نہ کریں وہاں ان زیادہ قربانی کرنے والے مبلغین کے لئے بھی دعائیں کریں۔
اس اجتماع کے موقع پر مجھے دعا کے لئے بہت سی تاریں موصول ہوئی ہیں مگر میں وہ تاریں اب سنا نہیں سکتا صرف اسی قدر کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ ان سب دوستوں کے لئے دعائیں کی جائیں بالخصوص مبلغین کے لئے کہ وہ خاص دعاؤں کے محتاج ہیں بلکہ انہیں دعاؤں کا محتاج کہنا بھی درست نہیں درحقیقت ان کے لئے دعا کرنا ہمارا اپنا فرض ہے کیونکہ وہ ہمارا کام کرنے کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر گئے ہوئے ہیں اور ہم پر ان کا ایک ایسا حق قائم ہو چکا ہے جو کامل طور پر دعائیں اور التجائیں کرکے ہی ہم ادا کر سکتے ہیں اس کے سِوا ہمارے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں جس سے ان کا حق ادا ہو سکے۔اب میں دعا کروں گا آپ لوگوں کے لئے، اسلام اور احمدیت کے لئے۔ آپ میرے لئے بھی اور سلسلہ کے مبلغین کے لئے بھی دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو بار آور فرمائے۔ پھر خاص طور پر اس امر کے لئے دعائیں کی جائیں کہ جو چار باتیں میں نے اِس وقت بیان کی ہیں ہماری جماعت کو اس پر قائم ہونے کی توفیق مل جائیـ۔یعنی نماز باجماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کر کے جماعت کرالی جائے یا اگر بچے نہ ہوں تو بیوی کو ہی اپنے ساتھ کھڑا کر کے نماز باجماعت اوا کی جائے۔ دوسرے سچائی پر قیام ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے۔ تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تن دہی سے سر انجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے۔ چوتھے عورتوں کی اصلاح، ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش۔ یہ چارچیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اِس وقت تو جہ دلائی ہے آپ لوگ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں تو آپ میں سے ہر شخص اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکے کہ اس نے ان باتوں پر عمل کر لیا ہے بلکہ دل پر ہاتھ رکھنے کا سوال ہی نہیں حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کر لیں گے تو خود بخود ایسے تغیرات پیدا ہوں گے کہ آپ لوگوں کو کسی گواہی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی خدا اور اس کے فرشتے خود گواہی دیں گے کہ آپ نے ان باتوں پر عمل کیا ہے اب میں دعا کرتاہوں۔
(الفضل ۱۶؍ جنوری ۱۹۴۷ء)
۱؎ اقتصادی زندگی: میانہ روی کی زندگی

وحشی اور غیر متمدن اقوام میں بیداری کی ایک زبردست لہر




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وحشی اور غیر متمدن اقوام میں بیداری کی ایک زبردست لہر
(فرمودہ ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۷ء بمقام قادیان)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ۔
قرآن کریم میں مسیح موعود کی بعثت کی خبر دیتے ہوئے جو علامات اس زمانہ کی بتائی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ ۱؎ اُس وقت وحشی قومیں، غیر تعلیم یا فتہ اور غیر مہذب قومیں وہ قومیں جن کا متمدن دنیا کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں تھا ان میں بھی خداتعالیٰ بیداری کے سامان پیدا کر دے گا۔ دنیا میں ہمیشہ ہی ایسے زمانے چلے آئے جبکہ مختلف وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ مثلاً وہ قوم جس میں خود میرا تعلق ہے اس کے افراد بھی ایک زمانہ میں بالکل وحشی اور بربریت کی زندگی بسر کرتے تھے مگر پھر ایک دَور اُن پر ایسا آیا جب اُن میں بیداری پیدا ہوئی اور وہ ایک طرف جاپان کی حدوں تک اور دوسری طرف آسٹریا کی حدوں تک ملکوں کو فتح کرتے ہوئے چلے گئے۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عربوں میں بھی جو ایک وحشی قوم تھی بیداری پیدا ہوئی اور عرب ساری دنیا میں پھیل گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب بھی وحشی کہلاتے تھے۔ وحشی کے معنی ہیں وہ لوگ جو شہروں میں نہیں رہتے۔ عرب اقوام بھی اس لئے وحشی کہلاتی تھیں کہ تمدن کی زندگی کے سامانوں سے وہ دور بھاگتی تھیں۔چنانچہ بائبل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو پیشگوئی آتی ہے اس میں آپ کا اور آپ کی قوم کا نام وحشی ہی رکھا گیا ہے۔ غرض ایسے حالات تو ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں کہ کوئی ادنیٰ قوم بیدا ر ہوگئی مگر قرآن کریم کہتا ہے۔ ایک زمانہ میں تمام غیر متمدن اقوام میں بیداری کے سامان پیدا کئے جائیں گے۔ یہ ایسی ہی خبر ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری خبر دی کہ مہدی کی علامت میں سے ایک یہ بھی علامت ہے کہ اُس کے زمانہ میں سورج اور چاند کو معین تاریخوں میں گرہن لگے گا اور آپ نے فرمایا جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سورج اور چاند دونوں کو ایک معیّن مہینہ اور معیّن تاریخوں میں گرہن ہوا۔۲؎ اسی طرح یہ بھی ایک ایسی علامت ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی نبی یا غیر نبی کے زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تمام کی تمام وحشی اقوام میںبیداری پیدا ہوگئی ہو۔ تاریخ میں بے شک اس قسم کی مثالیں تو ملتی ہیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف اقوام میں بیداری پیدا ہوئی۔ کسی وقت سامی اقوام میں بیداری پیدا ہوئی، کسی وقت بربر قوم میں بیداری پیدا ہوئی اور وہ لوگ دنیا میں ترقی کر گئے۔ یہ مثالیں تو ملیں گی مگر ہر زمانہ میں ہزاروں ہزار قومیں ایسی بھی ملیں گی جن میں بیداری پیدا نہیں ہوئی اور وہ جہالت اور تاریکی میں ہی اپنی زندگی کے ایام بسر کرگئیں اور بیداری کا دَور جو دوسری قوموں پر آیا تھا اُس میں سے اُنہوں نے کچھ بھی حصہ نہ لیا لیکن مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق یہ خبر دی گئی تھی اُس زمانہ میں تمام وحشی اقوام میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔
پس یہ علامت صرف موجودہ زمانہ کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں ادنیٰ اقوام بھی بیدار نظر آتی ہیں چنانچہ چوہڑے، سانسی اور آدی باسی وہ اقوام ہیں جن میں ہمیشہ سے جمود پایا جاتا تھا اور جب سے دنیا کو ہندوستان کی تاریخ کا علم ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں کبھی بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ ہندوستان کی ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ دنیا کے سامنے ہے مگر اتنے لمبے عرصہ میں ان میں کبھی بیداری پیدا نہیں ہوئی لیکن اب دیکھ لو ان میں کیسی بیداری نظر آرہی ہے۔ کجا تو یہ حالت تھی کہ انہیں اپنے حقوق کا کچھ علم ہی نہیں تھا اور کجا یہ حالت ہے کہ ان کے اندر اِس قسم کی زندگی پیدا ہوگئی ہے کہ لوگوں نے ان کا سَودا شروع کر دیا ہے۔ ہندوکہتے ہیں کہ ہمارے بھائی ہیں، مسلمان کہتے ہیں یہ ہمارے بھائی ہیں، عیسائی کہتے ہیں یہ ہمارے بھائی ہیں غرض وہ قومیں جن کی طرف کوئی توجہ بھی نہیں کرتا تھا آج ساری قومیں ان کی طرف توجہ کر رہی اور انہیں اپنا بھائی قرار دے رہی ہیں ۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کسی شہر میں میونسپل کمیٹی کے الیکشن کے موقع پر ایک معزز زمیندار کو اس کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ بھی الیکشن کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلے تو اُس نے انکار کیا اور کہا کہ میں کھڑا نہیں ہوتا مگر آخر دوستوں کے اصرار پر کھڑا ہوگیا اور چونکہ وہ رئیس تھا سمجھتا تھا کہ مجھے کامیابی میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی جب وہ الیکشن کے لئے کھڑا ہوا تو مخالفوں نے اُس کے مقابلہ میں ایک اور امیدوار کھڑا کر دیا اور آخر اسے اپنے مخالف کی طاقت بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی اس زمیندار کے دوست اس کے پاس آئے اور کہا کہ یہ تو ذلّت کی بات ہے کہ آپ رہ جائیں اور مخالف کامیاب ہوجائے۔ اُس نے کہا کہ میں تو پہلے ہی کھڑا نہیں ہونا چاہتا تھا تمہارے زور دینے پر کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے کہا چاہے کچھ ہو اَب تو عزت کی بات ہے ہمیں اپنا سارا زور صرف کر دینا چاہئے کہ مخالف کامیاب نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے خوب کوشش کی اور ووٹ حاصل کئے مگر پھر بھی دس پندرہ ووٹوں کی کمی محسوس ہوئی آخر انہیں معلوم ہوا کہ ۱۸ ووٹ چوہڑوں کے رہتے ہیں اگر وہ ہمیں مل جائیں تو ہماری کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ اتفاق کی بات ہے اُس زمیندار کے ہاں جو چوڑھا کام کرتا تھا وہی چوہڑوں کانمبر دار تھا جب اُس کے دوستوں نے کہا کہ یہ چوڑھوں کے اَٹھارہ ووٹ کسی طرح حاصل کر لیں تو زمیندار کہنے لگایہ تو کوئی مشکل بات ہی نہیں میں ابھی نمبردار کو بلاتا ہوں۔ چنانچہ اُس نے بلانے کے لئے آدمی بھجوایا اُس نے کہہ بھیجا کہ چوہدری صاحب میری طبیعت خراب ہے میں اِس وقت آ نہیں سکتا حالانکہ واقعہ یہ تھاکہ دوسری پارٹی اُس سے سَودا کر رہی تھی۔ آخر پھر اُس کے دوست آئے اور کہا کہ جس طرح بھی ہو یہ ووٹ حاصل کریں ورنہ ہماری کوئی عزت نہیں رہے گی اُس نے پھر پیغام بھیجا کہ مجھے ایک ضروری کام ہے جلدی آؤ اور مجھ سے مل جاؤ مگر چوہڑوں کے نمبردار نے پھر اپنے گھر سے ہی کہلا بھیجا کہ میری طبیعت اچھی نہیں میں نہیں آسکتا۔ جب اسی طرح کئی بار ہوا تو دوستوں نے کہا اب بلانے کا وقت نہیں آپ خود اُس کے پاس پہنچیں۔ چنانچہ چوہدری صاحب اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر پنڈورے پہنچے دیکھا تو وہ اندر چارپائی پر لیٹا ہوا تھا اور اُس نے لحاف اوڑھا ہوا تھا۔ چوہدری صاحب گئے اور منتیں کرنے لگے کہ اِس وقت میں بڑی مشکل میں گرفتار ہو گیا ہوں تم پنڈور ے کے سارے ووٹ مجھے دلوا ؤ۔ وہ کہنے لگا چوہدری صاحب! دیکھئے میں تو بیمار پڑا ہوں میں یہ کام کس طرح کر سکتا ہوں۔ پیچھے سے اس کے دوست اُسے چٹکیاں کاٹیں کہ جس قدر خوشامد کر سکتے ہیں کریں ورنہ ناک کٹ جائے گی اور دوسری پارٹی جیت جائے گی۔ اس پر چوہدری صاحب پھر منتیں کرنے لگے کہ دیکھو اِس وقت میری عزت صرف تمہارے ہاتھ میں ہے میں جو کچھ کہتا ہوں اسے مان لو۔ اُس نے کہا چوہدری صاحب! آپ بزرگ آدمی ہیں اور آپ کی عزت میرے دل میں بہت ہے مگر دیکھئے مجھے تپ چڑھا ہوا ہے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں وہ پھر اس کی خوشامدیں منتیں کرنے لگے دوست بھی اسے باربار اشارہ کریں کہ جو کچھ لجاجت ہو سکتی ہے کر لو ورنہ کام خراب ہو جائے گا۔ اس بے چارے نے پھر خوشامدیں شروع کر دیں آخر نمبردار کہنے لگا رات کو میں اپنے ساتھیوں کو بلاؤں گا اور آپ کی بات پر غور کروں گا اس وقت تو میں کچھ نہیں کر سکتا اس کے دوست کہنے لگے یہ رات کا مشورہ محض بہانہ ہے دوسری پارٹی سے ان کا سَودا ہو رہا ہے اس لئے جو کچھ طے کرنا ہے ابھی طے کر لو چنانچہ تنگ آکر چوہدری صاحب نے اُس چوہڑے کے پیردبانے شروع کر دیئے اور باربار کہیں چوہدری صاحب! یہ کام آپ نے ہی کرنا ہے پانچ سات منٹ اپنے پاؤں دبوا کر وہ چوڑھا کہنے لگا اچھا پھر آپ کی خاطر میں یہ بات مان لیتا ہوں ووٹ آپ کو ہی دیئے جائیں گے تو دیکھو کی پیشگوئی کس شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوئی ہے کہ وہ اقوام جن کا سٹرکوں پر چلنا بھی دشوار تھا آج ان کے افراد حکومت کے کاموں میں شریک ہو رہے ہیں ۔ یہی معنیٰ اس آیت کے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جس میں تمام کی تمام وحشی اور ادنیٰ اقوام بیدار ہو جائیں گی اور ان میں بھی زندگی کے آثار نظرآنے لگ جائیںگے۔ یہ تو ہندوستان کا حال ہے۔
بیرونی ممالک میں سے افریقہ کے باشندے ایسے ہیں جوتہذیب و تمدن سے کوسوںدور تھے اور جن میں ہزاروں سال سے کوئی بیداری نہیں پائی جاتی تھی۔ تہذیب کا لہریں مارتا ہوا دریا جب افریقہ کی سنگلاخ زمین تک پہنچتا تو یوں معلوم ہو تاکہ وہ دریا اُس کی ریت میں غائب ہو گیا ہے۔ چنانچہ ۱۸۷۲ء تک مسلمان پہلو بہ پہلو رہتے ہوئے اس میں داخل نہ ہو سکے اور انہوں نے یہاں کی جہالت اور تاریکی کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہ کی، بیشک عیسائیت نے اس طرف رُخ کیا مگر عیسائیوں نے اِس لئے رُخ نہیں کیا کہ وہ ان اقوام میں اپنے حقوق کے حصول کے متعلق بیداری پیدا کر یں بلکہ اس لئے کہ وہ اقوام عیسائیوں کے پیچھے چلتی چلی جائیں یہی وجہ ہے کہ عیسائیت کے ماتحت سَو سال میں بھی افریقن لوگوں میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ یہ حالات اسی طرح چلتے چلے آرہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کی پیشگوئی پورا کرنے کے لئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے مبلغ افریقہ میں بھجوائیں چنانچہ نائیجریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں مبلغ بھجوائے جائیں گے۔ اسی طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا چرچ آف انگلینڈ نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ یہ تحقیق کر ے کہ کیا وجہ ہے افریقہ میں عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے۔ اس کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی اس میں چالیس جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عیسائیت کی ترقی کا رُکنا محض اِس وجہ سے ہے کہ افریقہ میں احمدیہ مشن کثرت سے پھیل گئے ہیں اور ان کا مقابلہ عیسائیت سے نہیں ہو سکتا۔
پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے کی پیشگوئی کو پورا کرنے کا ہمیں بھی ایک ذریعہ بنا لیا اور ایسے زمانہ میں بنایا جب کہ ہماری تعداد صرف چند لاکھ ہے ہمارے مقابلہ میں دوسرے مسلمانوں کی تعداد چالیس کروڑ ہے۔ چالیس کروڑ ـبدھ ہیں، تیس کروڑ ہندو ہیں اور یہ لوگ اگر چاہتے تو اس طرف توجہ کر سکتے تھے مگر نہ چالیس کروڑ مسلمانوں کو اس امر کی توفیق ملی کہ وہ افریقہ کی اقوام کو تہذیب و شائستگی سے آشنا کریں، نہ چالیس کروڑ بدھوں کو اِس امر کی توفیق ملی، نہ تیس کروڑ ہندوؤں کواس امر کی توفیق ملی کہ وہ ان ادنیٰ اقوام کو اُٹھانے کی کوشش کریں، تو فیق ملی تو ہماری جماعت کو۔ چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے افریقہ میں متعد د مدارس کھل چکے ہیں اور افریقن لوگوں میںبیداری کے آثارنظر آرہے ہیں۔ بہرحال کی پیشگوئی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کے ظہور کی مثال اس سے پہلے اور کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر ایک زائد بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِس بات کی توفیق عطاء فرمائی کہ ہم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنیں۔ اس طرح وہ تمام مبلغ جو افرایقہ میں کام کر رہے ہیں درحقیقت اس پیشگوئی میں شریک ہیں اور ان کے لئے یہ ایک بہت بڑی فضیلت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عمارت کی ایک اینٹ بننے کی توفیق عطا فرمائی جو افریقہ میں اس پیشگوئی کی صداقت کے سلسلہ میں تعمیر ہو رہی ہے ابھی ان علاقوں میں ہمیں اپنی تبلیغ کو وسیع کرنے کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ سیرالیون، نائیجیریا، اور گولڈ کوسٹ کی مجموعی آبادی تین کروڑ کے قریب ہے۔ اگر تین ہزار افراد پر ہم ایک مبلغ رکھیں حالانکہ تین ہزار پر ایک مبلغ قطعاً کافی نہیں ہو سکتا تب بھی دس ہزار مبلغین کی ہمیں ضرورت ہو گی ابھی تک وہاں ہمارے صرف پندرہ سولہ مبلغ ہیں سترہ کے قریب مقامی مبلغ ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مبلغین کی تعداد سَو ڈیڑھ سَو تک پہنچا دیں تاکہ ایک ایک، دو دو مبلغ مختلف علاقوں میں کام کرتے رہیں اور تبلیغ کا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے وسیع سے وسیع تر ہو جائے۔
اس موقع پر میں ایک بار پھر جماعت کے نوجوانوں کو تحریک کرتاہوں کہ وہ اس عظیم الشان کام میں حصہ لینے کے لئے جس کا قرآن کریم کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے اور ان برکات اور فیوض سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں اپنی زندگیاں وقف کریں تا کہ افریقہ کی مختلف اقوام میں بھی بیداری پیدا ہو اور قرآن کریم کی وہ پیشگوئی جو کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہو۔
مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اُٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کر ے گا۔۳؎ جب میں نے یہ حدیث پڑھی اُسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رؤیا آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے اِسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں۔ بے شک خدا تعالیٰ نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دیئے جن سے افریقہ میں تبلیغِ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی کہ افریقہ سے ایک شخص اُٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا۔ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ) میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اُس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنا لیں اوراس طرح یہ پیشگوئی آپ ہی ٹل جائے اور بجائے اِس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اُس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔
بہرحال ایک بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے سارے افریقہ کی آبادی تیس کروڑ کے قریب ہے اس تیس کروڑ میں سے پچیس کروڑ کے قریب حبشی ہیں، کچھ عربوں اور حبشیوں کی مخلوط نسلیں ہیں اور کچھ خالص حبشی ہیںجو مغربی ساحل سے مشرقی ساحل تک پھیلے ہوئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کے پاس آئے اور انہیں ہدایت کا رستہ بتائے۔ عیسائی بے شک اُن میں تبلیغ کرتے ہیں مگر عیسائیوں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کو غلام بنا ئیں اور ہماری غرض یہ کہ وہ ترقی کریں اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو فائدہ پہنچائیں۔ وہاں اگر عربی مدارس قائم کئے جائیں اور لوگوں کو عربی زبان سکھلائی جائے تو وہ بہت خوش ہوتے اور بڑے شوق کے ساتھ عربی سیکھنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، عربی زبان کے وہ ایسے عاشق ہیں کہ اگر وہ عربی پڑھ لیں تو سمجھتے ہیں کہ جادو اُن کے ہاتھ آگیا ہے چنانچہ ہمارے مبلغین کی طرف سے جو رپورٹیں آتی ہیں اُن میں باربار یہ ذکر آتا ہے کہ جہاں ہم عربی مدارس قائم کرتے ہیں وہاں لڑکے انگریزی سکولوں کو چھوڑ چھوڑ کر ہمارے مدارس میں داخل ہونے لگ جاتے ہیں اور جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں مدرسہ کو چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہو تو کہتے ہیں اس لئے کہ عربی پڑھ لیں وہاں عربی نہیں پڑھاتے اس لئے ہم اُسے چھوڑ کر آگئے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے افریقن لوگوں کے قلوب میں عربی زبان سے ایسی موانست پیدا کر دی ہے کہ وہ دوسرے سکولوں کو چھوڑ چھوڑ کر ہمارے سکولوں میں داخل ہونے کے لئے دَوڑے چلے آتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں، کوئی مال نہیں، کوئی اور چیز نہیں جو اِن کے لئے دلکشی کا باعث ہوہم انہیں اپنی طرف کس طرح متوجہ کر سکتے تھے بظاہر ہمارے پاس اُن کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا کوئی ایسا سامان نہیں تھا، کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جو ان کے لئے دلکشی کا باعث ہو لیکن اللہ تعالیٰ جو دلوں کے حالات کو جاننے والا ہے اُس نے افریقن لوگوں کے لئے عربی مدارس کے اجراء کو ہی بہت بڑی دلکشی کا باعث بنا دیا اور وہ محض ہمارے عربی سکولوں کی وجہ سے اپنے سکولوں کو چھوڑ چھوڑ کر ہمارے پاس آجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس نے عربی پڑھ لی جادو اُس کے قبضہ میں آگیا جس کے ذریعہ وہ ہر قسم کی مصیبتیںاپنے آپ سے دور کر سکتا ہے یہ سامان ہے جو اللہ تعالیٰ نے افریقن لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس سامان سے فائدہ اُٹھائیں اور افریقہ میں علم اور تہذیب اور شائستگی نہایت وسیع طور پر پھیلادیں۔
دنیا میں ہر نیک سے نیک کام کی توجیہہ ہو سکتی ہے لیکن اگر ہم افریقہ میں تہذیب و تمدن قائم کر دیں، اگر ہم افریقہ میں علوم وفنون کے چشمے جاری کر دیں، اگر ہم افریقہ میں ایک نئی روح اور نئی زندگی پیدا کر دیں تو دنیا ہمارے اس کام کی سوائے اس کے اور کوئی توجیہہ نہیں کر سکے گی کہ افریقہ میں کام کرنے والی ایک مؤمن جماعت تھی جس نے اپنے نفسوں کو فدا کرکے ایک نئی دنیا پیدا کر دی۔ غرض افریقہ ہمارے لئے تبلیغ کا ایک بہت بڑا میدان ہے اور بھی مختلف ممالک مختلف حیثیتوں سے ہمارے لئے نہایت اہمیت رکھتے ہیں مثلاً عرب ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے اس نقطئہ نگاہ سے کہ عرب ہمارا مربی اور ہمارا ہادی ہے۔ ہم نے عرب سے ہدایت پائی، ہمیں عرب سے قرآن پہنچا اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں تک احمدیت کا نام پہنچا ئیں مگر اس نقطئہ نگا ہ سے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا برِّاعظم خالی پڑا تھا اور اس پر تہذیب وتمدّن کا دور کبھی نہیں آیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اُس براعظم میں بھی تہذیب وتمدن کا دور قائم کرے۔
افریقہ میں تبلیغِ اسلام کوئی معمولی مسئلہ نہیں بلکہ بہت بڑی اہمیت رکھنے والا مسئلہ ہے اگر ہماری جماعت اپنیـ کوششوں میں کامیاب ہو جائے تو کم سے کم اس دلیل کے آگے دشمن بول نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے زیا دہ سے زیادہ نوجوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی توقیق عطا فرمائے اور پھر کام کرنے والوں کو ایسے رنگ میں کام کرنے کی ہمت بخشے کہ وہ اپنا گزارہ بھی آپ ہی پیدا کر سکیں ۔وہ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں جو اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُ ن کے پاس خرچ کے لئے کس قدر رقم ہے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کا گزارہ اُس کے دماغ میں پیدا کیا ہے اگر وہ اس خزانہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو کامیاب ہو جاتا ہے اور اگر وہ اس خزانہ کی طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھاتا تو ناکام رہتا ہے۔ اس کے گھر میں سامان موجود ہوتا ہے مگر وہ اپنی نادانی سے اِدھر اُدھر بھاگتا پھرتا ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو اس بات کی توفیق عطافرمائے کہ نہ صرف وہ اپنے گزارے چلاسکیں بلکہ دوسرے ممالک کے مبلغین کی بھی امداد کرسکیں اور ان کے تبلیغی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ آمین
(الفضل ۲۵؍مارچ ۱۹۶۰ء )
۱؎ التکویر: ۶
۲؎ سنن الدارقطنی الجزء الثانی صفحہ۴۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
کتاب العیدین باب صفۃ صلاۃ الخسوف والکسوف … الخ
۳؎ مسند احمد بن حنبل جلد۲ صفحہ۳۱۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء


ہندوستانی اُلجھنوں کا آسان ترین حل





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہندوستانی اُلجھنوں کا آسان ترین حل
(فرمودہ یکم مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب )
کل صبح کی نماز کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ عربی کا مصرع جاری ہوا کہ
فَاِنْ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ حَقٌّ فَاَظْھِرٖ
فَاَظْھِرٖ اصل میں فَاظَْھِرْ ہے جو بوجہ الف کے متحرک کیا گیا ہے اور فَاَظْھِرْکے معنی ہیں غالب کر کیونکہ اَظْھَرَعَلٰی عَدُوِّہٖکے معنی دشمن پر غالب کرنے کے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فَاِنْ کَانَ فِی الْاِسْلَامِ حَقٌّ کو نکر ہ بیان فرمایا۔ تنوین کے کئی معنی ہوتے ہیں، تنوین تعظیم کے لئے بھی آتی ہے اور تحقیر کے لئے بھی۔ پس حق کے معنی کچھ حق بھی ہو سکتے ہیں اور بہت بڑے حق کے بھی۔ اگر حق کے معنی تحقیر کے لئے جائیں تو اسلام سے اشارہ اِس وقت کے مسلمانوں کے اسلام کی طرف ہو گا اور مراد یہ ہو گی کہ مسلمان خواہ اسلام سے کتنے دور جا پڑے ہیں مگر دعوٰی اسلام میں ذرا بھی صداقت ہو تو اس کی صداقت کی خاطر ان کوغلبہ دے اور ان کے مغلوب ہونے سے اسلام کو مغلوب ہونے کا جوخطرہ ہے اُس سے اِسے محفوظ رکھ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںخود اِس دعا کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اے خدا! اسلام کو لوگوں نے خواہ کتنا ہی بگاڑدیا ہے اور اسلام کے مسائل کو کتنا ہی توڑ مروڑ دیا ہے اور اسلام کے اندر کتنے ہی رخنے واقع ہو چکے ہیں پھر بھی اے خدا !اگر اسلام کے اندر کچھ بھی سچائی موجود ہے تو یہ مستحق ہے اس بات کا کہ اس کو دوسرے تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمایا جائے اور اسلام کے خلاف دوسرے ادیانِ باطلہ کی جو جدوجہد شروع ہے اس کو ناکام فرمایا جائے اور اسلام کی فوقیت کو ظاہر فرمایا جائے۔ خدا تعالیٰ جب خود کوئی دعا سکھاتا ہے اور رؤیا یا الہام میں اپنے بندوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے تو اس میں یہ بھید ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو ضرور قبول فرمانا چاہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی ہے اور امید دلائی گئی ہے کہ اگر ہم خداتعالیٰ کے حضور اِس قسم کی دعائیں مانگیں گے تووہ ضرور پوری ہوں گی۔
آج جو جمعرات کا روزہ گزرا ہے یہ سات روزوں میں سے آخری تھا اور جن لوگوں نے پورے روزے رکھے ہیں ان کے روزے آج ختم ہوگئے ہیں۔ بعض مجبوریوں کی وجہ سے رہ بھی گئے ہوں گے، میرے بھی کچھ روزے سفر کی وجہ سے رہ گئے ہیں بہرحال جماعت کے جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے انہوں نے ساتوں روزے پورے رکھے ہیں اور دعائیں بھی کرتے رہے ہیں،اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کے بدلے میں اپنے فضل نازل فرمائے گا۔
ہندوستان کے موجودہ حالات اس قسم کے ہیں کہ لوگوں کے دلوں میں سکینت اور طمانیت نہیں اور عوام کے اندر سخت بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ میں نے جہاں تک ہندوستان کی آزادی کے مسئلہ پر غور کیا ہے میں اِس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندوستانیوں کے ساتھ بھیڑاور بکری کا سا سلوک ہو رہا ہے۔ جو شخص اُٹھتا ہے خواہ یورپین مدبر ہو یا ہندوستانی لیڈر وہ سمجھتا ہے کہ وہی ایک عقلمند ہے عام ہندوستانیوں کے دماغ معطل ہو چکے ہیں اور پھر ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے ہندوستانیوں کو اُسے بِلا پس و پیش مان لینا چاہئے اور اُس کے ساتھ ذرا بھی اختلافاتِ رائے رکھنے کی جرأت نہ کریں اور وہ یہاں تک دعویٰ رکھتا ہے کہ اُس کا فیصلہ ہندوستانیوں کو ضرور قبول کرنا چاہئے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جہاں تک حُریّت کا سوال ہے اس میں تمام دنیا کے انسان برابر ہیں اور حُریّت ہر شخص کا پیدائشی حق ہے۔ جتنا احساس حُریّت کا ایک انگریز یا فرانسیسی کو ہے اور جتنا احساس حُریّت کا ایک جرمن یا امریکن کو ہے اور جتنا احساس حُریّت کا مسٹر گاندھی اور پنڈت نہرو کو ہے اُتناہی احساس ایک عام ہندوستانی کو بھی ہے اور جب ایک عام ہندوستانی کے دل میں بھی اتناہی احساس موجود ہے جتنا کہ انگریز، جرمن، فرانسیسی یا امریکن کے دل میں یا ایک مقبولِ عوام ہندوستانی لیڈر کے دل میں تو پھر ان ممالک کے کسی زید اور بکر کو یا ہندوستان کے کسی بڑے لیڈر کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے حقوق کے متعلق فیصلہ کرنے بیٹھ جائے اور ہندوستان کی آزادی کے مسئلہ پر بحث کرنے لگ جائے کہ فلاں بات یوں نہیں بلکہ یوں ہونی چاہئے ۔ مگر آجکل ہندوستانیوں کی آئندہ قسمت کا فیصلہ اکثر دوسری اقوام کرنا چاہتی ہیں اور گھر بیٹھے اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہی ہیں گویا وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ہندوستانی آزادی کی قدر وقیمت کو نہیں سمجھتے یا ان کے دلوں سے حریت کے متعلق جتنے احساسات اور جذبات ہیں وہ معطل یا مفقود ہو چکے ہیں۔ انگریزکہہ رہے ہیں کہ ہم نے ہندوستانیوں کے مسئلہ کے حل کے لئے ایک بڑا جری، بڑا دلیر، بڑا مدبر، بہت بڑا سیاستدان اور بہت ہی دیانتدار آدمی بھیجا ہے۔ یہ سب کچھ درست ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ کیا انگلستان کے عوام الناس اِس بات کو برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کی آزادی کے مسائل کے حل کے لئے کوئی مدبر بھیج دیا جائے۔ وہ یہی کہیں گے کہ ہم خود آزادی کی قدرو قیمت کو سمجھتے ہیں اور ہمارے اندر اتنی اہلیت موجو د ہے کہ ہم ان مسائل کو حل کر سکیں جاؤ تم اپنا کام کرو۔ پس جہاں تک آزاد قوموں کا سوال ہے وہ اِس قسم کی باتوں کو برداشت کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہو سکتیں کہ اُن کا فیصلہ کوئی اور کرتا پھرے مگر آج ہندوستانیوں کے متعلق وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ایک جری ،دلیر، مدبر، دیانتداراور سیاستدان جرنیل کو بھیجا ہے جو ہندوستانی لیڈروں سے مل کر ہندوستان کے متعلق فیصلہ کرے گا۔مگر سوال تو یہ ہے کہ ہندوستان کی قسمت کے فیصلہ میں خود ہندوستانی عوام کا کیا دخل ہوگا؟ کیا انگلستان کی عورتیں اس بات کو تسلیم کر لیں گی کہ بڑے بڑے مدبر اور سیاستدان لوگ ان کے متعلق یہ فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں کہ فلاں عورت فلاں شخص کو اپنا خاوند بنائے گی اور فلاں عورت فلاں کو اپنا خاوند تسلیم کرے گی؟ کیا انگلستان کے مرد اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ مدبر،جری اور دلیر لوگ ان کے متعلق یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص صرف فلاں عورت سے شادی کر سکتا ہے؟ اس کا جواب کبھی مثبت میں نہیں ہوسکتا۔ پھر جب انگلستان، فرانس، جرمن اور امریکہ کی عورتیں یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ دوسرے عُقَلاء اور مدبّر اِن کے لئے خاوند تجویز کریں اور خاوند اِس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ دوسرے عُقَلاء اور مدبّرین ان کے لئے بیویاں تجویز کریں تو وہ ہندوستان کے لوگوں کے متعلق یہ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ وہ حریت کے مسئلہ میں ان کی رائے سے متفق ہو جائیں گے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ایسا ہو رہا ہے اور اس طرح ہو رہا ہے کہ ساتھ ہی ہندوستانیوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم نے بڑی شفقت، ہمدردی اور عنایت تم پر کی ہے کہ ایک مدبراور دیانتدار جرنیل تمہارے مسئلہ کے حل کے لئے بھیجا ہے اور یہ دعویٰ کرنے والی وہ قوم ہے جو دن رات حریت اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہے۔ کیا حریت اور جمہوریت کے یہی معنٰی ہیں کہ چالیس کروڑ ہندوستانیوں کی قسمت کو ایک غیر ملکی کے سپرد کیا جائے؟ جو چند خود ساختہ لیڈروں سے مل کر ایک فیصلہ کر دے، کیا ہندوستانی سیاست کے مسائل کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟ کیا ہندوستانی عقل اور دماغ نہیں رکھتے؟کیا ہندوستانی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کر سکیں؟ کیا ایک جمہوریت پسند قوم کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ ہندوستانیوں کے ساتھ بھیڑ یا بکری کا سا سلوک کرے؟
قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جس ملک یا علاقہ کی آواز کا صحیح طور پر پتہ لگ سکے وہاں کے ہر ضلع اور ہر تحصیل کے لوگوں سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور جہاں شبہ والی بات ہو وہاں ریفرنڈم کر لیا جائے۔ میرے نزدیک ایسا ہونا چاہئے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مسلمان اپنے حقوق مانگنے میں حق پر ہیں تو ان کو اُن کے حقوق دیئے جائیں اور اگر ہندوؤں کے مطالبات جائز ہیں تو ان کے مطالبات تسلیم کرلئے جائیں لیکن کسی قوم کے حقوق کے متعلق کسی دوسرے کو فیصلہ کرنے کا حق کہاں سے پہنچتا ہے اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ کس طرح روا ہو سکتا ہے۔ جب مسلمانوں کے کان ہیں، آنکھیں ہیں، دماغ ہیں، عقل رکھتے ہیں،سوچ اور سمجھ سکتے ہیں اور ان تمام باتوں میں وہ کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں اور یہی حال ہندوؤں، سکھوں کا ہے پھر کیوں عوام سے اہم امور میں رائے طلب کرکے فیصلہ نہ کیا جائے۔
پنجاب کا سوال ہی لے لو ۔پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت ایک مسلّمہ امر ہے اور و ہ پنجاب کے جن اضلاع میں اپنی اکثریت کے لحاظ سے حقوق مانگ رہے ہیںان کے مطالبات بالکل جائز اور درست ہیں پھر کیاوجہ ہے کہ ان کو حقوق دینے میں تأمل سے کام لیا جاتا ہے؟ پنجاب کے جن اضلاع میں مسلمان اکثریت رکھتے ہیںان کے پاس اپنے حقوق کو منوانے کے لئے کافی وجوہ موجود ہیں۔ہاں پنجاب کے بعض اضلاع ایسے بھی ہیں جن میں سے بعض میں ہندو اکثریت میں ہیں۔پنجاب میں لاہور کے مغرب کی طرف جتنے اضلاع ہیں ان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لاہور کے مشرق کی طرف علاوہ گورداسپور کے پانچ تحصیلیں ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور بعض تحصیلیں ایسی ہیں کہ مسلمان، ہندو اور سکھوں کی مجموعی تعداد سے تو زیادہ ہیںلیکن غیر مسلم آبادی میں مسلمان تھوڑے ہیں کیونکہ اچھوت اگر ہندوؤں کے ساتھ ہوں تو ہندوؤں کی اکثریت ہوگی اور اگر اچھوت مسلمانوں کے ساتھ ہوں تو اکثریت مسلمانوں کی ہوگی اس صورت میں اچھوتوں سے پوچھا جانا ضروری ہے کہ تم کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہو؟ اگر وہ کہیں کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندوؤں کے اکثریت والے علاقہ میں بھیج دیا جائے اور اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ ملنا چاہیں تو انہیں مسلمانوں کے علاقہ میں بھیج دیا جائے۔ اچھوت اِس وقت شاملاتِ دیہہ کی حیثیت میں سمجھے جا رہے ہیں اور ان کو ان کی مرضی پوچھے بغیر ہندوؤں یا مسلمانوں کی اکثریت والے علاقہ میںبھیجا جا رہا ہے حالانکہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔ کیا وجہ ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کیا جائے اور اچھوتوں یا عیسائیوں سے ان کی مرضی نہ پوچھی جائے۔ آخر وہ کونسا قانون ہے جو اِسے جائز قرار دیتا ہو کہ مسلمان خواہ ہندو، سکھ سے زیادہ ہو اسے اس لئے اقلیت قرار دے دیا جائے کہ اچھوت جن کی مرضی بالکل نہیں دریافت کی گئی سکھ، ہندو سے ملکر انہیں مسلمانوں سے زیادہ کردیتے ہیں حالانکہ قاعدہ یہ ہونا چاہئے کہ جہاں ہندو، سکھ اور مسلمانوں کی آبادی قطعی اکثریت نہ رکھتی ہو وہاں اقلیتوں سے پوچھا جائے کہ وہ کس سے ملنا چاہتی ہیں۔ یہ ایسی سیدھی سادی بات ہے جس کے لئے نہ کسی انگریز مدبر کی ضرورت ہے، نہ فرانسیسی کی اور نہ جرمن سیاستدان کی ضرورت ہے اور نہ امریکن کی۔ مگر حالت یہ ہے کہ دوسرے لوگ ہندوستان کے متعلق اپنی اپنی رائیں قائم کر رہے ہیں اور پوشیدہ مشورے ہو رہے ہیں جیسے پُرانے زمانہ میں گھوڑوں کے سَودے ہوا کرتے تھے کہ چادر ڈال کر دو آدمی ایک دوسرے کی ہاتھ کی انگلیاں چھوتے تھے اورسَودا پردے کے اندر ہی طے ہو جاتا تھا اِس طرح ہندوستان کے متعلق بھی چادر ڈال کر پردے کے اندر سَودے ہو رہے ہیں۔ ان لوگوں سے کوئی پوچھے بھلا تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس طرح کے سَودے کرتے پھرو اور لال بجھکڑ کی طرح اپنی کاریگری دکھاتے پھرو۔
آجکل سرحد کے مسئلہ پر گرم گرم بحثیں ہو رہی ہیں ایک فریق کہتا ہے ہم مسلم لیگ کی فوقیت چاہتے ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے ہم کانگرس کی فوقیت کے خواہاں ہیں، پچھلے دنوں سرحد میں جتنے الیکشن ہوئے ہیں ان میں اصول کا سوال نہ تھا بلکہ پس پردہ شخصیتوں کا سوال تھا یعنی گو ظاہر میں کچھ بھی تھا اصل میں لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ ہم سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ تم خان عبدالغفار خان کو ووٹ دو گے یا خان عبدالقیوم خاںکو مگر سرحد کے معاملہ کی نوعیت بالکل بدل چکی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا صوبہ سرحد ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہناچاہتا ہے یا مسلمانوں کے ساتھ مل کر۔ اب اس بات کا علم ریفرنڈم کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے اگر ایسا ہو تو سرحد کی اکثریت یہی کہے گی کہ ہم مسلمان علاقوں سے مل کر رہنا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ اور خدائی خدمت گار کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑا جائے تو شاید اب بھی پٹھان اپنے عندیہ کو صحیح طور پر بیان نہ کر سکے گا کیونکہ ایک جزوی اور غیر اہم سوال سمجھ کر وہ اپنے سابق لیڈروں یعنی خان برادران کو چھوڑنے کو تیار نہ ہو۔ درحقیقت جب تک کہ سوال اسلامی علاقوں سے ملاپ یا ہندو علاقوں سے ملاپ کا نہ ہو ووٹ آدمیوں کے حق میں ہوں گے نہ کہ حکومت کے حق میں اور جب کبھی احسان کا معاملہ ہوگاووٹ محسن کے حق میں دیا جائے گا لیکن جب سوال اصول کا ہوگا توووٹ کا رنگ اور ہوگا۔
حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ خودحنبلی تھے مگر حنفی ان کے اتنے معتقد ہیں کہ ان کو خدا کا درجہ دیتے ہیں اور ان کے نام کی نیازیں دیتے ہیں۔ ہمارے نانا جان مرحوم کا واقعہ ہے اُنہوں نے کسی حنفی سے جو بڑے اہتمام اور التزام کے ساتھ گیارھویں کی نیاز دیا کرتا تھا پوچھا تم سید عبدالقادر جیلانیؒ کے اتنے عاشق بنتے ہو اور اُن کے نام کی گیارھویں دیتے ہو مگر ان کا مذہب تو حنبلی تھا اور تمہارا مذہب حنفی؟ کہنے لگا ان کا مذہب اپنا اور میرا مذہب اپنا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ سیدعبدالقادر جیلانیؒ کے پاس اُن کا کوئی مرید آیا اور کہا میرا بیٹا سخت بیمارہے آپ اس کی صحت کے لئے دعا کریں لیکن آخر اس کا بیٹا مر گیا تو وہ شکایت لے کر آپ کے پاس آیا اور کہا حضوراتنے دن آپ سے دعائیں کرائیں اور میرا بیٹا پھر بھی نہ بچ سکا۔سید صاحب کو غصہ آیا اور کہا اچھا یہ بات ہے لاؤ میرا سوٹا۔ سوٹا لیا اور آسمان کی طرف چڑھ گئے۔عزرائیل نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا کہ سید صاحب میرے تعاقب میں آرہے ہیں تو اُس نے بے تحاشہ بھاگنا شروع کر دیا مگر ابھی عزرائیل خدا کے پاس پہنچ نہ پایا تھا کہ سید صاحب نے جا لیااور اِس زور سے سوٹا مارا کہ عزرائیل کا ٹخنہ ٹوٹ گیا اور اس سے زنبیل چھین کر سب مُردہ روحوں کو آزاد کر دیا۔ وہ گرتا پڑتا خدا کے پاس پہنچ گیا اور شکایت کی کہ حضور میرے ساتھ ایسا ایسا معاملہ ہوا ہے کیونکہ میں نے فلاں لڑکے کی روح قبض کی تھی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا چپ چپ! اگر عبدالقادر نے سن لیا اور اُس نے آج تک کی تمام روحیںزندہ کر دیں تو پھر میں نے اور تم نے کیا کر لینا ہے ۔غرض سید عبدالقادر اُس لڑکے کی روح کو لے کر واپس آئے اور لڑکے کو زندہ کر دیا۔ اب اس قسم کے من گھڑت قصے سیدعبدالقادرصاحب جیلانیؒ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں کہ سن کر حیرت آتی ہے۔
اس طرح کا ایک اور قصہ بھی ہے ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی مولویوں نے جلسہ کیا اور اس جلسہ میں ایک غیر احمدی مولوی نے بڑے جوش اور زور شور کے ساتھ ایک تقریر کی اور کہا مرزا صاحب نبی بنے پھرتے ہیں مرزا صاحب کے معجزے بھی بھلا کوئی معجزے ہیں معجزہ تو یہ ہوا کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے پاس کوئی شخص مرغ پکا کر لایا تو آپ نے کھا کر اس سے کہا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تم نے مجھ پر احسان کیا ہے مگر ہم تمہیں بھی تمہارے احسان کا بدلہ دیتے ہیں یہ کہہ کر انہوں نے مرغ کی ہڈیاں لیں اور ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبائیں اِس پر وہی مرغ کڑ کڑ کڑکڑ کر کے اپنی اصلی حالت پر آگیا۔ معجزہ تو اس کو کہتے ہیںمرزا صاحب کے معجزے بھی کوئی معجزے ہیں؟ اب اندازہ لگاؤ کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانیؒ کا مذہب حنبلی تھا اور ان کو خدا سمجھنے والوں کا اپنا مذہب حنفی ہے اگر ان سے کوئی کہے کہ سیدعبدالقادر صاحب کے عقائد اور تھے اور تمہارے عقائد اور ہیں تو وہ کہتے ہیں عقائد اور چیز ہیں اور اعتقاد اور چیز ہے اسی طرح اب تک سرحد کا فیصلہ شخصیتوں اور احسان پر ہوتا رہا، کبھی اس مسئلہ پر بحث نہیں کی گئی کہ تم لوگ ہندوؤں کے ساتھ رہنا چاہتے ہو یا مسلمانوں کے ساتھ؟ اگر آدمیوں کے نام پر ووٹ لئے جائیں تو وہ عبدالغفار خاںکی شخصیت اور اس کے احسانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دیں گے یا عبدالقیوم خاں کے احسانات اور تعلقات کی بناء پر لیکن اگر ان کے سامنے ہندو اور مسلم کے نام رکھے جائیں تو یقینا اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو مسلم علاقہ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں گے۔ احسان ایک ایسی شَے ہے جو آدمی کی آنکھیں نیچی کر دیتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب خانہ کعبہ کے طواف کے لئے تشریف لے گئے توکفار مکہ نے خبر پاکر اپنے ایک سردار کو آپ کی طرف روانہ کیا کہ وہ جا کر کہے کہ اس سال آپ طواف کے لئے نہ آئیں ۔ وہ سردار آپ کے پاس پہنچا اور بات چیت کرنے لگا۔ بات کرتے وقت اس نے آپ کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگایا کہ آپ اس دفعہ طواف نہ کریں اور کسی اگلے سال پرملتوی کر دیں، ایشیاء کے لوگوں میں دستور ہے کہ جب وہ کسی سے بات منوانا چاہتے ہوں تو منت کے طور پر دوسرے کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگاتے ہیں یا اپنی ڈاڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے ہیں کہ دیکھو! میں بزرگ ہوں اور قوم کاسردار ہوں میری بات مان جاؤ، چنانچہ اس سردار نے بھی منت کے طور پر آپ کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگایا۔ یہ دیکھ کر ایک صحابی آگے بڑھے اور اپنی تلوار کاہتھہ مار کر سردار سے کہا اپنے ناپاک ہاتھ پیچھے ہٹاؤ۔ سردار نے تلوار کا ہتھہ مارنے والے کو پہچان کر کہا تم وہی ہو جس پر میں نے فلاں موقع پر احسان کیا تھا یہ سن کر وہ صحابی خاموش ہوگئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ سردار نے پھر منت کے طور پر آپ کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگایا صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سردار کے اس طرح ہاتھ لگانے پر سخت غصہ آرہا تھا مگر اُس وقت ہمیں کوئی ایسا شخص نظر نہ آتا تھا جس پر اُس سردار کا احسان نہ ہو اور اُس وقت ہمارا دل چاہتا تھا کہ کاش ! ہم میں سے کوئی ایسا شخص ہوتا جس پر اس سردار کا کوئی احسان نہ ہو۔ اتنے میں ایک شخص ہم میں سے آگے بڑھا جو سر سے پاؤں تک خوداور زِرہ میں لپٹا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ سردار سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ہٹا لو اپنا ناپاک ہاتھ۔ یہ حضرت ابوبکر ؓ تھے سردار نے جب اُن کو پہچانا تو کہا ہاں میں تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم پر میرا کوئی احسان نہیں ہے۔۱؎
پس جب احسان کا سوال ہو تو ووٹ ہمیشہ محسن کی طرف ہی جائے گا لیکن جب مسئلہ کا سوال ہو تو لوگ دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم فلاں طرف نہیں جانا چاہتے بلکہ فلاں طرف جانا چاہتے ہیں۔ اگر سرحد کے لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ تم مسلمانوں کے ساتھ رہو گییا ہندوؤں کے ساتھ؟ تو وہ یقینا یہی کہیں گے کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ کیوں رہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ رہیں گے۔ لیکن جب عبدالغفار خاں اور عبدالقیوم خاں کا نام آجائے تو چاہے وہ دل میں عبدالقیوم خاں کا ساتھ دینا چاہتے ہوں لیکن عبدالغفار خاں کے احسانات کے پیش نظر وہ عبدالغفار خاں کا ساتھ دیں گے اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ صرف ایک ہی سوال پر حل ہو سکتا ہے اور اس کے لئے کسی لمبی چوڑی جدوجہد کی ضرورت ہی نہیں۔ اسی طرح وہ علاقے جن میں مسلمان اقلیت میں ہیں ان میں بھی اگر دیانتداری کے ساتھ جھگڑوں کو نپٹانے کی کوشش کی جائے توتمام جھگڑے مٹ سکتے ہیں۔ اس غرض کیلئے اگر انتقالِ آبادی کی ضرورت ہو تو اس پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے اور یہ اتنی سیدھی سی بات ہے کہ ایک ہل چلانے والا زمیندار بھی بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے مگر یہ مسئلہ صرف اس لئے حل نہیں ہو رہاکہ اسے نفسیاتی رنگ میں حل نہیں کیا جاتا اور اس کیلئے علمی فارمولے ڈھونڈے جارہے ہیں اور لمبی چوڑی تجاویز اس کے متعلق ہو رہی ہیں۔
مجھے جو یہ الہام ہوا کہ فَاِنْ کَانَ فِی الْاِ سْلَامِ حَقٌّ فَاَظْھِرٖ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ خطرات اسلام کو درپیش ہوں گے مگر ایک حد تک مسلمانوں کے حقوق انہیں ضرور مل جائیں گے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے خدا! اگر اسلام فی الواقعہ تیرا سچا مذہب ہے اور ضرور ہے تو یہ مستحق ہے اِس بات کا کہ اسے تو دوسروں پر غلبہ عطا فرما۔
(الفضل ۱۱ ؍جون ۱۹۴۷ء)
۱؎ بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد … (الخ)


نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
نیکی کی تحریک پر فوراً عمل کرو
(فرمودہ ۷ ؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
انسانی قلب کی حالت اور انسانی مقدرتیںہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔ ایک وقت انسان پر ایسا آتا ہے کہ اس کے اندر قبض کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایک وقت اُس پر ایسا آتا ہے کہ اس پر بسط کی حالت ہوتی ہے اور یہ قبض اور بسط کی حالتو ں کے دَور بدلتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ حالتیں الٰہی حکمت اور تدبیر کے ماتحت آتی ہیں اور بعض اوقات انسان ان حالتوں کو خود اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے اور یہ اس کے اپنے پیدا کئے ہوئے ماحول کے مطابق ہوتی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے دماغ کو حساس بنایا ہے اور وہ خوف اور محبت کے جذبات کو اپنے اوپر اس طرح طاری کرلیتا ہے کہ اس کے ذرہ ذرہ میں بجلی کی سی لہر دَوڑ جاتی ہے اور یہ دونوں جذبات اُس کے اندر ایسے مدغم ہو جاتے ہیں اور ان جذبات کی اتنی شدت ہوتی ہے کہ بعض اوقات تو وہ غم کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اور بعض اوقات شادیٔ مرگ ہونے کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوایسا بنا دیا ہے کہ اس پر کوئی حالت بھی دائمی نہیں رہ سکتی کبھی وہ غم کے دَور میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور کبھی خوشی اور محبت کے دَور میں سے۔ اگر انسان کی ان حالتوں میں تغیر اور انقلاب نہ ہوتا رہے تو وہ ان دونوںقسم کے جذبات میں سے کسی ایک شدت کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔شدتِ غم بھی ہلاکت کا موجب ہوتی ہے اور شدتِ خوشی بھی موت کا موجب۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی آئے اور انہوں نے بے اختیار رو کرعرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں تو منافق ہوں آپ نے فرمایا کس طرح؟ تم تو مؤمن ہو۔صحابی نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب میں آپ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے ایک طرف جنت ہے اور دوسری طرف دوزخ اور میں جب بھی کوئی ارادہ کرتا ہوں تو چونکہ میں جنت اور دوزح دونوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہوں اس لئے میرا ارادہ ہمیشہ نیکی کی طرف جاتا ہے اور آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے سامنے سے تمام حجاب اٹھ گئے ہیں اور میں وراء الورا ء دنیا کا مشاہدہ کر رہا ہوں لیکن جب میں آپ کی مجلس سے واپس جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی نہ مجھے جنت نظر آتی ہے اور نہ دوزح اس لئے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ تو منافقت کی علامت نہیں اگر تم پر ہر وقت یہی حالت طاری رہے تو تم مر جاؤ۔۱؎ پس اللہ تعالیٰ نے انسانی قلب کو اس طرح بنایا ہے کہ اس پر مختلف دَور آتے رہتے ہیں کبھی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے متعلق غور کر رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے تو اس کے دل میں خیال آتا ہے کہ تمام تعریفوں کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اُس کے سِوا اورکسی کی پرستش یا کسی سے مدد مانگنا درست نہیں ہے۔ پھر جب وہ کہتا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے تمام جہانوں کا پالنے والا صرف خدا ہی ہے جب وہ کہتا ہے تووہ یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بن مانگے دینے والا اور سچی محنتوں کو ضائع کرنے والا نہیں،جب وہ کہتاہے تو وہ سوچتا ہے کہ اعمال کی جزاء و سزا کے لئے اُسی کے دربار میں حاضر ہونا ہے، جب وہ پر پہنچتا ہے تو اس کے تمام خیالات میں نیکی کی رَو پھیل جاتی ہے اور وہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے خدا! ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور جب وہ پر غور کرتا ہے تو کہہ اُٹھتا ہے کہ اے ہمارے ربّ! بیشک ہم تیری عبادت کرتے ہیں مگر اس کے لئے ہم تیری ہی مدد اور اعانت کے محتاج ہیں۔ اسی طرح جب وہ تک پہنچتا ہے تو وہ نیکی کے تمام مراحل طے کر چکا ہوتا ہے اور نیکی کے جذبات اس پر پوری طرح جاوی ہو جاتے ہیں لیکن وہی شخص جب بازار میں جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کسی جگہ آلو فروخت ہو رہے ہیں، کسی جگہ دوسری اجناس فروخت ہو رہی ہیں تو اُس کے دماغ سے وغیرہ کے نقوش ہٹ جاتے ہیں اور وہ سوچتا ہے کہ اگر میں اتنے سیر آلو خریدلوں تو مجھے اس بھاؤ بیچنے میں اتنا نفع ہوگا یا مَیں اتنے من گندم خریدلوں تو مجھے ایک ماہ کے بعد اتنے نفع کی امید ہو سکتی ہے۔ یا کوئی شخص ملازمت میں ہوتا ہے تووہ دفتر کی فائلوں کی چھان بین میں گم ہو جاتا ہے یا کوئی پیشہ ور ہوتا ہے تو وہ اپنے کارخانہ میں پہنچ کر اپنے کام میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ نیکی کے جذبات اس کے دماغ سے نکل جاتے ہیں۔ انسانی حالت کے یہ دَور طبعی دَور ہیں۔ گو ان پر خداتعالیٰ کا قانون حاوی ہوتا ہیـ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر انسان پر چوبیس گھنٹے ایک ہی حالت رہی اور ایک ہی قسم کے جذبات کا دباؤ رہا تو وہ مر جائے گا۔ لیکن ہم اِن اَدوار کا نام طبعی اس لئے رکھتے ہیں کہ یہ انسان کے اپنے پیدا کئے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کے اپنے ماحول کی وجہ سے یہ حالتیں اُس پرآتی ہیں کیونکہ جس شخص نے کوئی ملازمت کی ہوئی ہے وہ اس کی اپنی تجویز کردہ ہے اور پیشہ ور کا پیشہ اس کا اپنا اختیار کردہ ہے۔ اسی طرح دُکاندار کی دُکانداری اس کی اپنی پیدا کردہ ہے ان دَوروں میں پڑ کر انسان کبھی تو نیکی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور کبھی بدی کی طرف۔ کوئی شخص ایسا ہوتا ہے کہ وہ نیکی کا دَور پاکر اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے اور اس کو غنیمت سمجھتے ہوئے بڑے شوق سے نیکیا ں بجا لاتا ہے مگر کوئی ایسا ہوتاہے جس پر نیکی کا دَور تو بے شک آتا ہے مگر وہ اپنے تساہل کی وجہ سے اس موقع کو ضائع کر دیتاہے کیونکہ وہ ایسے دَور کے آنے پر یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ ابھی بڑا موقع ہے کر ہی لیں گے۔پہلے چل کر آٹھ آنے کے آلو لے لوں تاکہ کل بارہ آنے بن سکیںیا اپنا فلاں کام کر لوں بعد میں نیکی کر لوں گا۔ اِس وقت کے گزر جانے پر اس کی نیکی کی حالت بے شک وہی رہے گی مگر حالات بدل جانے کی وجہ سے یہ توفیق اس سے چھن جائے گی۔ مثلاً ایک شخص پر نیکی کا دَور آیا اور اس نے اپنی غفلت اور سُستی سے اُس کو ملتوی کر دیا تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ نیکی کی خواہش کے باوجود نیکی نہ کر سکے کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی ملازمت جاتی رہے یا اس کی تجارت تباہ ہو جائے۔ پھر بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر نیکی کا دَور آتا تو ہے مگر نیکی کرنے سے پہلے ان کی نیت میں فرق آجاتا ہے اور وہ نیکی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی پٹھان ایسے علاقہ میں چلا گیا جہاں کھجوروں کے درخت تھے اس کے اپنے ملک میں تو کھجور ہوتی نہ تھی دوسرے پھل ہوتے تھے اُس نے کسی باغ میںکھجوروں کے درخت اور ان پر کھجوریں پکی ہوئی دیکھیں تو دل میں خیال آیا کہ یہاں جو کھجوریں کافی ہیں خریدنے کی کیا ضرورت ہے یہیں سے کیوں نہ کھا لوں۔ یہ سوچ کر وہ باغ کے اندر گھس گیا اورکھجور کے درخت پر چڑھ گیا اور چڑھ کر کھجوریں کھاتا رہا۔ جب سیر ہوگیاتو نیچے اُترنے کا ارادہ کیا مگر مشکل یہ پیش آئی کہ کھجور پر چڑھنا تو آسان ہوتا ہے اُترنا بہت دشوار ہوتا ہے جب اُس نے اُترنے کا ارادہ کیا اور نیچے دیکھا تو ہوش اُڑ گئے کیونکہ زمین بہت دور نظر آتی تھی، کاپننے لگ گیا اور گھبرا کر نیت کی کہ اگر میں صحیح سلامت نیچے اُترگیا توخدا کی راہ میں ایک اونٹ قربان کروں گا۔ یہ نیت کر کے آنکھیں بند کر لیں اور اُترنا شروع کر دیا جب وہ تھوڑاسا اُتر چکا آنکھیں کھول کر دیکھا تو زمین پہلے سے ذرا نزدیک نظر آئی۔ اِس پر دل میں کہنے لگا میں نے اونٹ کی قربانی کا وعدہ کرنے میں سخت غلطی سے کام لیا ہے اور اونٹ کی قربانی ہے بھی بہت زیادہ اس لئے میں قربانی تو ضرور دوں گا لیکن اونٹ کی بجائے گائے کی قربانی دوں گا۔ یہ کہہ کر پھر آنکھیں بند کیں اور اُترنا شروع کیا۔ تھوڑا اور اُتر کر نیچے دیکھا تو زمین اور بھی نزدیک نظر آئی کہنے لگا بات یہ ہے کہ گائے کی قربانی بھی زیادہ ہے اس لئے گائے تو نہیں بکری ضرور دوں گا۔ یہ کہہ کر تھوڑا اور نیچے اُترا، اب وہ دو تہائی کے قریب اُترچکا تھا اس نے نیچے دیکھا جب زمین بالکل قریب نظر آئی تو ڈھارس بند گئی اور کہنے گلا دراصل اتنی سی بات کے لئے بکری کی قربانی بھی زیادہ ہے اِس لئے میں بکری تونہیں مرغی ضرور دوں گا یہ کہہ کر پھر اُترنا شروع کیا تھوڑا اُتر کر جو نیچے دیکھاتو معلوم ہوا کہ اب زمین تو ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئی ہے اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہنے لگا بھلا اتنی سی بات کے لئے کوئی مرغی قربان کرتاپھرتا ہے۔ قربانی ہی کرنا ہے تو ایک انڈا کافی ہے یہ کہہ کر پھر اُترنے لگا اور جب اُس کے قدم زمین پر آلگے تو اسے انڈے کی قربانی بھی بوجھل معلوم ہوئی۔ سرحد کے پٹھان قصبات میں نہیں رہتے بلکہ پہاڑوں کے اندر ان کے جھونپڑے ہوتے ہیں اور چونکہ پانی کی قلت ہوتی ہے اس لئے ایک دفعہ جو شلوار پہنی گئی تو وہ اُس وقت اُترتی ہے جب اُس کا تانابانا الگ الگ ہو جاتا ہے اور جوؤں کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ شلوار کے اندرسر کے بالوں سے بھی ان کی آبادی گنجان ہوتی ہے چنانچہ پٹھان نے اپنے نیفے سے ایک جوں نکالی اور مار کر کہنے لگا جان کے بدلے جان چلو قربانی ہو گئی۔
یہ لطیفہ ہے تو احمقانہ مگر اِس کے اندر ایک حد تک صداقت بھی موجود ہے او ر وہ اس طرح کہ ایک وقت انسان پر ایسا آتا ہے کہ وہ اونٹ قربا ن کرنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن کوئی وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ جوں بھی قربان نہیں کر سکتا۔ یہ دَور کم و بیش ہر انسان پر ضرور آتے ہیں اور شاید ہی کوئی انسان ہو جو ان حالتوں میں سے نہ گزرا ہو۔ ایک وقت انسان حیرت انگیز قربانی کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے مگر دوسرے وقت ایک پیسہ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا دوبھر سمجھتا ہے اور کبھی انسان کے حالات میں ایسا تغیر آجاتا ہے کہ اُسے قربانی کرنے کی توفیق ہی نہیں رہتی۔ مثلاً ایک شخص کے پاس سَو روپیہ موجود ہے اور اس کے دل میں نیکی کا ارادہ بھی ہے مگر وہ اپنے دل میں کہتا ہے چلو پھر نیکی کر لوں گا اِس وقت فلاں سَودا کر لوں مگر بعد میں اُس پر ایسا وقت آتا ہے کہ چاہے وہ نیکی کرناچاہے اُس کے حالات اِس قسم کے ہوتے ہیںکہ وہ نیکی کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ پہلی مثال تو دل کی کیفیات بدلنے کی تھی مگر یہ مثال حالات بدلنے کی ہے کہ اس نے نیکی کے موقع کو ضائع کر دیا اور التوا ہو جانے سے اُس کے حالات بدل گئے اور وہ مفلس اور کنگال ہو گیا۔اُسے چاہئے تھا کہ جب اس پر نیکی کا دَور آیا تھا اُسے قبول کرتا اور اُس سے فائدہ اُٹھاتا اور دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اِس بات کو سوچتا کہ ممکن ہے کہ کل یہ دَور بدل جائے اور میرے اندر نیکی کرنے کی استعداد نہ رہے۔ پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے قلوب میںنیکی تو ہوتی ہے مگر وہ اپنے خیالات کے ماتحت کھجور سے اُترنے والے پٹھان کی طرح اُس کے دَور کو توجیہات سے ملا دیتے ہیں مگر مؤمن کا کام ہے کہ جب اس کونیکی کا دَور ملے وہ اس سے جتنی جلد ہو سکے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے تاکہ التواء ہونے کی وجہ سے نیکی سے محروم نہ رہ جائے۔ مؤمن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ بسا اوقات وہ اپنے حالات کے ماتحت ایک ادنیٰ نیکی کا ارادہ کرتا ہے مگر بعد میں اس کے حالات بدل جاتے ہیں اور اُسے اعلیٰ نیکی کی توفیق مل جاتی ہے تو وہ اعلیٰ قسم کی نیکی کرتا ہے اور جس نیکی کا اس نے پہلے ارادہ کیا تھا اُس کو ادنیٰ ہونے کی وجہ سے ترک کر دیتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب غزوہ تبوک ہوا تو اُس وقت یہ خبر مشہور ہوئی تھی کہ قیصر کی فوجیں جمع ہو رہی ہیں جو مدینہ پر حملہ کر یں گی ۔ اُس وقت یہ حالت تھی کہ ایک طرف شاہی لشکر تھا اور دوسری طرف مؤمنین کی ایک چھوٹی سی جماعت۔ گویا جسمانی اور ظاہری طاقت کے لحاظ سے مدینہ کو قیصر کی فوجوں سے کوئی نسبت ہی نہ تھی اور روحانی لحاظ سے قیصر کی فوجوں کو مدینہ سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اُس زمانہ میں قیصر کی سلطنت بہت وسیع تھی اور یورپ سے ایران تک کا سارا علاقہ اس کے ماتحت تھا۔ ادھر افریقہ میں ایبے سینیا اور مصر وغیرہ اس کے باج گزار۲؎ تھے اور قیصر کی اپنی فوجیں تو الگ رہیں اس کے ماتحتوں کے پاس بھی چالیس چالیس، پچاس پچاس ہزار فوج تھی اور سامانِ جنگ بھی بہت زیادہ تعداد میں تھا ۔ اِدھر مسلمانوں کی فوج کو کیا بلحاظ تعدا د اور کیا بلحاظ سامانِ جنگ ان فوجوں سے کوئی نسبت نہ تھی۔ قیصر کے مدینہ پر حملہ کی خبر سن کر کمزور مسلمان تو ڈر رہے تھے لیکن مؤمن اپنے دلوں میں یہ کہہ رہے تھے کہ اِس خطرے کے وقت جو قربانیاں کرنے کا مزہ آئے گا وہ اور کہاں آسکتا ہے اسی موقع پر حضرت ابو موسیٰ اشعریٰ ؓ بھی ہجرت کر کے پاپیادہ جوشِ ایمان کی وجہ سے آگئے تھے ان کے پاس نہ سواری تھی اور نہ دولت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہمیں بھی ثواب کا موقع مل جائے ہم بھی جنگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس تو سواریاں نہیں اس لئے ہمیں کوئی چیز دی جائے جس کے ذریعہ ـآسانی کے ساتھ ہم سفر کر سکیں۔ ان کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سواری ہی مانگی تھی لیکن بعد میں جب کسی شخص نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓسے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سواری نہیں بلکہ چپلیاں مانگی تھیں تاکہ ہم سنگلاخ راستوں پر سفر کر سکیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے مانگی تو چپلیںہوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا ہو کہ یہ سواری مانگ رہے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے انہوں نے سواری ہی مانگی ہو مگر ان کے ذہن میں جو اقل ترین مطالبہ ہووہ چپلوں ہی کا ہو۔ غرض اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمیں سفر کی سہولت کے لئے کوئی چیز دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی سواری نہ تھی ۔آپ نے فرمایا میرے پاس سواری کا کوئی انتظام نہیں انہوں نے پھر اصرار کیا مگر آپ نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں۔ اُنہوں نے پھر عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہمیں کیوں ثواب سے محروم کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا میرے پاس سواری ہے ہی نہیں تو دوں کہاں سے مگر انہوں نے پھر بھی اصرار کیا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!آپ تو بادشاہ ہیں بھلا آپ کے پاس سواری کیوں نہ ہوگی۔ آپ نے جب دیکھا کہ یہ ٹلنے والے نہیں ہیںتو فرمایا خدا کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دوں گا۔ اِس پر ابو موسیٰ اشعریٰؓ مایوس ہو کر واپس آگئے مگر تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کسی مخلص نے لڑائی کے لئے دو اونٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںپیش کئے اور عرض کیا کہ کئی ایسے مسلمان ہیں جن کے پاس سواریاں نہیں ہیں ایسے آدمیوں کو یہ اونٹ دے دیں۔ آپ نے پھر ابو موسیٰ اشعری اور ان کے ساتھیوں کو بُلایا اور وہ دونوں اونٹ انہیں دے کر فرمایا باری باری سے ان پر سوار ہوتے جانا۔ وہ اونٹ لے کر چلے گئے مگر تھوڑی دیرکے بعد انہیں خیال آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم کھائی تھی کہ میں تمہیں سواری نہیں دوں گااور اب دے دی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بُھول گئے ہیں اور آپ کی قسم ٹوٹ گئی ہے اور اگر آپ کی بھول سے ہم نے فائدہ اُٹھایا تو ہمارا انجام خراب ہو گا اس لئے ہمیں سواریاں واپس کرنی چاہئیں۔ چنانچہ وہ واپس آپ کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! آپ نے قسم کھائی تھی کہ میَں تمہیں سواری نہیں دوگا مگر اب آپ نے دے دی ہے اِس لئے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھول گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا مجھے قسم تو یاد ہے مگر بات یہ ہے کہ میں قسم کھاؤں یا قسم کے بغیر کوئی ارادہ کروں جب زیادہ ثواب کا موقع آجائے تو مَیں اپنے ارادہ میں تبدیلی کر لیتا ہوںمیں اپنی قسم کی وجہ سے کسی کو ثواب سے محروم نہیں کرنا چاہتا میں جب کوئی ارادہ کرتا ہوں تو جب اس سے زیادہ بہتر ارادہ میرے دل میں آجائے تو اُسی پر عمل کرتا ہوں کیونکہ اصل غرض تو نیکی ہے جب زائد نیکی کا موقع مل جائے تو اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔۳؎
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس سواری تھی ہی نہیں تو آپ نے یہ قسم کیوں کھائی کہ خدا کی قسم! میں تمہیںسواری نہیں دوں گا۔قرآن کریم ، احادیث اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت آپ کے پاس سواری تھی ہی نہیں اور قسم کے معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز موجود ہو اور دینے سے انکار کر دیا جائے۔اب کیا کوئی یہ قسم کھا سکتا ہے کہ میں چاند کے پاس نہیں جاؤں گا یا میں سورج کے پاس نہیں جاؤں گا یا کوئی یہ قسم کھاتا ہے کہ مَیں ایک ہی دفعہ ہاتھی نہیں نگلوں گا۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ جب آپ کے پاس سواری ہی نہ تھی تو آپ نے قسم کیوں کھائی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ غیر متمدن اور غیر مہذب لوگ دوسرے کی بات کا اعتبار نہیں کرتے جب تک قسم نہ کھائی جائے۔ ہمارے پاس بعض اوقات ایسے لوگ آتے رہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا فلاں کام کرادیں۔ ہم کہتے ہیں یہ کام ہم نہیں کر سکتے۔ وہ کہتے ہیں آپ سب کچھ کر سکتے ہیں گویا ہم کام تو کرسکتے ہیں مگر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی غیر متمدن اور غیر مہذب تھے وہ نئے نئے آئے تھے اور اُن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، وقار، عظمت اور اعلیٰ اخلاق کا پتہ نہ تھا جب آپ نے اُن سے فرمایا کہ میرے پاس سواری نہیں ہے تو انہوں نے سمجھا کہ سواری تو ہے مگر آپ انکار کر رہے ہیں اس لئے اصرار کیا کہ آپ تو بادشاہ ہیں آپ کے پاس سواریاں کیوں نہ ہوں گی۔ مزید یہ کہ عرب لوگوں کی عادت ہے کہ ان کی کسی بات پر تسلی نہیں ہو سکتی جب تک قسم نہ کھائی جائے معمولی معمولی باتوں پر وہ وَاللّٰہِ بِاللّٰہِ ثُمَّ تَاللّٰہِ کہتے رہتے ہیں اس لئے ان کے سواری مانگنے کے اصرار کا ایک ہی جوا ب تھا کہ آپ قسم کھاتے۔ چونکہ ان لوگوں نے آپ کے جواب کو عُذر اور بہانہ سمجھا تھا اس لئے آپ نے اُن کی تسلی کے لئے اور پیچھا چھڑانے کے لئے قسم کھائی وہ چلے گئے تو سواری بھی آگئی اور آپ نے دوبارہ ان کوبُلا کر سواری دے دی۔ پس وہ قسم اس لئے تھی کہ میرا وقت ضائع نہ کرو اور اصرار نہ کرو اور سواری آپ نے اس لئے دی کہ یہ نیکی کا موقع تھا اور آپ اُس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
پس جب کسی انسان کے دل میں نیکی کرنے کا ارادہ پیدا ہو تو اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے کیونکہ ممکن ہے وہ موقع گزر جائے اور پھر توفیق نہ مل سکے۔ پس میں دوستو ں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب نیکی کا دَور تم پر آئے تو اس سے فائدہ اُٹھاؤ جب تم نیکی کے ایک دَور سے فائدہ اُٹھاؤ گے تو تمہارے لئے نیکی کا اگلا دَور بہت سہل ہو جائے گا۔
(الفضل ۱۷؍ مارچ۱۹۶۵ء)
۱؎ مسلم کتاب التوبۃ۔ باب فضل دوام الذکر و الفکر فی امور الآخرۃ… (الخ)
۲؎ باج گزار: ریاست کو محصول دینے والا، خراج گزار، مطیع
۳؎ بخاری کتاب الایمان والنذور باب قول اللّٰہ تعالٰی لایؤاخذکم اللّٰہ باللغو فی ایمانکم


ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دُکھ پہنچائیں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں
(فرمودہ ۱۶ ؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب)
آج مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ دلّی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اِس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیاہے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بُرے سلوک کئے تھے۔ جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اُس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کر لو۔ کہنے والے کی اِس بات کو کئی پہلوؤںسے دیکھا جا سکتا ہے اِس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے وہی سلوک ہو گا جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر افغانستان میں ہوا تھا اور فرض کرو ایسا ہی ہو جائے پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب، اخلاق اور انصاف پر ہے کیا وہ اس کے متعلق اِس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ میرا اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امرمیں دوسرے کا حق کیا ہے؟ یقینا وہ ایسے معاملہ میں مؤخر الذ کر نقطۂ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی مثلاً ایک مجسٹریٹ ایسے علاقہ میں عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے جس میں اس کے بعض قریبی رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور اس کے ان رشتہ داروں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تنازعات بھی ہیں اس کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں اس کے رشتہ داروں کا ایک دشمن مدعی ہے اگر اس کے پاس روپیہ ہو تو وہ اس کے رشتہ داروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر یہ مجسٹریٹ اسی مدعی کے حق میں فیصلہ کردے تو اس مدعی کے پاس روپیہ آجاتاہے اور پھر وہ اس مجسٹریٹ کے رشتہ داروں کو دِق کر سکتا ہے تو کیا ایک دیانتدار مجسٹریٹ اس ڈر سے کہ کل کو یہ روپیہ ہمارے خلاف استعمال کرے گااس حقدار مدعی کے خلاف فیصلہ کر دے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کی صریح نا انصافی ہوگی اور اگر وہ حق پر قائم رہتے ہوئے شہادات کو دیکھتے ہوئے اور موادِ مسل کی روشنی میں مدعی کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو کیا کوئی دیانتدار دنیا میں ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اس کے فیصلہ پر یہ کہے کہ اس نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا اور اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر ظلم کیا ہے۔ کوئی شریف اور دیانتدار مجسٹریٹ یہ نہیں کر سکتا کہ وہ کسی مقدمہ کا حصر اپنے آئندہ فوائد پر رکھے۔ اور کوئی دیانتدار مجسٹریٹ ایسا نہیں ہو سکتا جو موادِمسل کو نظر انداز کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے فیصلہ دیدے بلکہ ایمانداری اور دیانتداری متقاضی ہے اس بات کی کہ وہ حق اور انصاف اور غیرجنبہ داری سے کام لے کر مقدمہ کا فیصلہ سنائے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ جس شخص کے حق میںمَیں ڈگری دے رہا ہوں یہ طاقت پکڑ کر کل کو میرے ہی خاندان کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرے گا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر نظر انداز کر دے اِس بات کو کہ میں کس کے خلاف اور کس کے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں، وہ نظر انداز کر دے اس بات کو کہ جس روپیہ کے متعلق میں ڈگری دے رہا ہوں وہ روپیہ کل کو کہاں خرچ ہو گا اور وہ بھول جائے اس بات کو کہ فریقین مقدمہ کون ہیںکیونکہ انصاف اور ایمانداری اسی کا نام ہے۔ پس قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اِس سے بھی بدتر معاملہ کریں گے اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون ؟
آخر یہ بات آج کی تو ہے نہیں یہ تو ایک لمبا اور پرانا جھگڑا ہے جو بیسیوں سال سے ان کے درمیان چلا آتا ہے ہم نے با ر بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں یہ امر ٹھیک نہیں ہے، ہم نے بار بار ہندوؤں کو متنبہہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے، ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا۔ ہندو سختی سے اپنے اِس عمل پر قائم رہے انہوں نے اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کے حقوق کا گلا گھونٹا ،انہوں نے حکومت کے غرور میں اقلیت کی گردنوں پر چھری چلائی اور انہوں نے تعصب اور ہندوانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کا خون کیا اور ہندو لیڈروں کو با ر بار توجہ دلانے کے باوجود نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا۔ ایک مسلمان جب کسی ملازمت کے لئے درخواست دیتا تو چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہوتا اُس کی درخواست پر اس لئے غور نہ کیا جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندو چاہے کتنا ہی نالائق ہوتا اس کو ملازمت میں لے لیا جاتا۔ اِسی طرح گورنمنٹ کے تمام ٹھیکے مسلمانوں کی لیاقت قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوؤں کو دے دئیے جاتے، تجارتی کاموں میں جہاں حکومت کا دخل ہوتا ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی سوائے قادیان کے کہ یہاں بھی ہم نے کافی کوشش کر کے اپنا یہ حق حاصل کیا ہے باقی تمام جگہوں میں مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کے خلاف ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی رہی اور آخر یہ حالت پہنچ گئی جو آج سب کی آنکھوں کے سامنے ہے یہ صورتِ حال کس نے پیدا کی؟ جس نے یہ صورت حال پیدا کی وہی موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی ہے یہ سب کچھ ہندوؤں کے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا ہے اور یہ فسادات کا تنا ور درخت وہی ہے جس کا بیج ہندوؤں نے بویا تھا اور اسے آج تک پانی دیتے رہے اور آج جبکہ اس درخت کی شاخیں سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہیں ہندوؤں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ ہندوؤں کو اُس وقت اس بات کا کیوں خیال نہ آیاکہ ہم مسلمانوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں اور ہر محکمہ میںاور ہر شعبہ میں ان کے ساتھ بے انصافی کر رہے ہیں۔
مجھے ۲۵ سال شور مچاتے اور ہندوؤں کو توجہ دلاتے ہوگئے ہیں کہ تمہارا یہ طریق آخر رنگ لائے بغیر نہ رہے گا لیکن افسوس کہ میری آواز پر کسی نے کان نہ دھرا اور اپنی مَن مانی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ہمارا احرار سے جھگڑا تھا تو ہندوؤں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور حتی الوسع ان کی امداد کرتے رہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جھگڑا تو ہمارے اور احرار کے درمیان مذہبی مسائل کے متعلق تھا تمہیں اِس معاملہ میں کسی فریق کی طرفداری کی کیا ضرورت تھی اور تمہیں ختمِ نبوت یا وفاتِ مسیح کے مسائل کے ساتھ کیا تعلق تھا ؟کیا تم محمد رسول اللہﷺ کے بعد نبوت کو بندمانتے تھے کہ ہمارے اجرائے نبوت کے عقیدہ پر تم برہم ہوئے تھے؟ کیا تم حیاتِ مسیح کے قائل تھے کہ ہماری طرف سے وفاتِ مسیح کا مسئلہ پیش ہونے پر تم چراغ پا ہو گئے تھے؟ ہندوؤں کا ان مسائل کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ تھا احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے رہے۔ میںنے اِس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب جن لوگوں کی ذہنیت اس قسم کی ہو اس سے بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے۔ یہ جو کچھ آجکل ہو رہا ہے یہ سب گاندھی جی، پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا ان کو بھی بار باراس امر کے متعلق توجہ دلائی گئی کہ ہندوستان کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جا رہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے لیکن انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور باوجود یہ جاننے کے ہوتا رہا کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہو رہے ہیں اور باوجود اس علم کے کہ مسلمانوں سے ناانصافی ہو رہی ہے مسلمان ایک مدت تک ان باتوں کو برداشت کرتے رہے مگر جب یہ پانی سر سے گزرنے لگا تو وہ اُٹھے اور انہوں نے اپنے لمبے اور تلخ تجربہ کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ ہندوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے حقوق خطرے میں ہیں تو انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور آرام اور چین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے الگ علاقہ کا مطالبہ پیش کر دیا۔ کیا وہ یہ مطالبہ نہ کرتے اور ہندوؤں کی ابدی غلامی میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتے؟ کیا وہ اتنی ٹھوکروں کے باوجود بھی نہ جاگتے؟ پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان اتنے طویل اور تلخ تجربات کے بعد ہندوؤں پر اعتبار کر سکتے تھے؟ ایک دو باتیں ہوتیں تو نظر انداز کی جاسکتی تھیں، ایک دو واقعات ہوتے تو بُھلائے جا سکتے تھے، ایک دو چوٹیں ہوتیں تو اُن کو نظر انداز کیا جا سکتا تھا، ایک آدھ صوبہ میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچاہوتا تو اُس کو بھی بھلایا جا سکتا تھا لیکن متواتر سَو سال سے ہر گاؤں میں، ہر شہر میں، ہرضلع میں اور ہر صوبہ میں اور ہر محکمہ میں، ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دُکھ دیا گیا،ان کے حقوق کو تلف کیا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو زر خر ید غلام کیساتھ بھی کوئی انصاف پسند آقا نہیں رکھ سکتا۔ کیا اب بھی وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجا نب تھے؟ کیا اب بھی وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تگ ودو نہ کرتے؟ کیا اب بھی وہ اپنی عزت کی رکھوالی نہ کرتے؟اور کیا اب بھی وہ ہندوؤں کی بد ترین غلامی میں اپنے آپ کو پیش کرسکتے تھے؟ مسلمانوں کو ہمیشہ باوجود لائق ہونے کے نالائق قرار دیا جاتا رہا، ان کو با وجود اہل ہونے کے نا اہل کہا جاتا رہا اور ان کو باوجود قابل ہونے کے نا قابل کہا جاتا رہا، ہزاروں اور لاکھوں دفعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا، لاکھوں مرتبہ ان کے احساسات کو کچلا گیا اور متعدد مرتبہ ان کی امیدوں اور اُمنگوں کا خون کیا گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور وہ چپ رہے، یہ سب کچھ ان پر بیتا اور وہ خاموش رہے، انہوں نے خاموشی کے ساتھ ظلم سہے اور صبر کیا، کیا اب بھی ان کے خاموش رہنے کا موقع تھا؟ یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ اپنا الگ اور بلا شرکتِ غیرے حق مانگنے پر مجبور نہیں ہوئے بلکہ مجبور کئے گئے یہ حق انہوں نے خود نہ مانگا بلکہ ان سے منگوایا گیا۔ یہ علیحدگی انہوں نے خود نہ چاہی بلکہ ان کو ایسا چاہنے کے لئے مجبور کیا گیا۔ اس معاملہ میں وہ بالکل معذور تھے جب انہوں نے دیکھا کہ باوجود لیاقت رکھنے کے، باوجود اہلیت کے اور باوجود قابلیت کے انہیں نالائق اور نا قابل کہا جا رہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس نا انصافی کے انسداد کا سوائے اِس کے اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ان سے بالکل علیحدہ ہو جائیں۔ میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان فی الواقعہ نالائق، نا قابل اور نہ اہل تھے؟ ان کو جب کسی کام کا موقع ملا انہوں نے اسے بأحسن سر انجام دیا۔ مثلاً سندھ اور بنگال میں ان کو حکومت کا موقع ملا ہے انہوں نے اس کو اچھی طرح سنبھال لیا ہے اور جہاں تک حکومت کا سوال ہے ہندوؤں نے ان سے بڑھ کر کونسا تیر مار لیا ہے جو انہوں نے نہیں مارا۔ مدراس ،بمبئی، یوپی اور بہار وغیرہ میں ہندوؤں کی حکومت ہے جس قسم کی گورنمنٹ ان کی ان علاقوں میں ہے اسی قسم کی گورنمنٹ سندھ اور بنگال میں بھی ہے۔ اگر لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ کی وجہ سے کسی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینا جائز ہے تو لڑائی تو بمبئی میں بھی ہو رہی ہے، یوپی میں بھی ہو رہی ہے اور بہار میں بھی ہو رہی ہے۔ اگر نالائقی اور نا اہلی کی یہی دلیل ہو تو بمبئی ،یوپی اور بہار وغیرہ کی گورنمنٹوں کو کس طرح لائق اور اہل کہا جا سکتا ہے؟ اور اگر کسی جگہ قتل و غارت کا ہونا ہی وہاں کی گورنمنٹ کو نا اہل قرار دینے کا موجب ہو سکتا ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے بمبئی اور بہار کی گورنمنٹوں کو نا اہل کہا جائے۔ ایک ہی دلیل کو ایک جگہ استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا سخت نا انصافی اور بددیانتی ہے۔ اگر یہی قاعدہ کلیہ ہو تو سب جگہ یکساں چسپاں کیا جانا چاہئے نہ کہ جب اپنے گھر کی باری آئے تو اس کو نظرانداز کر دیا جائے۔ کسی علاقہ میں قتل و غارت اور فسادات کا ہونا ضروری نہیں کہ حاکم کی غلطی ہی سے ہو۔
میں پچھلے سال اکتوبر نومبر میں اس نیت سے دہلی گیا تھا کہ کوشش کر کے کانگرس اور مسلم لیگ کی صلح کرادوں۔ میں ہر لیڈر کے دروازہ پر خود پہنچا اور اس میں میں نے اپنی ذرا بھی ہتک محسوس نہ کی اور کسی کے پاس جانے کو عار نہ سمجھا صرف اس لئے کہ کانگرس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، ان کے درمیان انشقاق اور افتراق رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد ہونے نہ پائے۔ میں مسٹر گاندھی کے پاس گیا اور کہا کہ اس جھگڑے کو ختم کراؤ لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا اور کہا میں تو صرف ایک گاندھی ہوں، آپ لیڈر ہیں آپ کچھ کریں مگر میں کہتا ہوں کہ کیا واقعہ میں گاندھی ایک آدمی ہے اور اس کا اپنی قوم اور ملک کے اندر کچھ رُعب نہیں اگر وہ صرف ایک گاندھی ہے تو سیاسیات کے معاملات میں دخل ہی کیوں دیتا ہے۔ وہ صرف اس لئے دخل دیتا ہے کہ ملک کا اکثر حصہ اس کی بات کومانتا ہے مگر میری بات کو ہنس کر ٹلا دیا گیا اور کہہ دیا گیا میں تو صرف گاندھی ہوں اور ایک آدمی ہوں حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تیس کروڑ کے لیڈر ہیں اور میں ہندوستان کے صرف پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں کیا میرے کوئی بات کہنے اور ۳۰ کروڑ کے لیڈر کے کوئی بات کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ بے شک میں ۵ لاکھ کا لیڈر ہوں اور میری جماعت میں مخلصین بھی ہیں جو میری ہر بات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مجھے واجب الاطاعت تسلیم کرتے ہیں لیکن بہرحال وہ پانچ لاکھ ہیں اور پانچ لاکھ کے لیڈراور تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ایک سی نہیں ہو سکتی۔ تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ضرور اثر رکھتی ہے اور ملک کے ایک معتدبہ حصہ پر رکھتی ہے لیکن افسوس کہ وہی گاندھی جو ہمیشہ سیاسیات میں حصہ لیتے رہتے ہیں میری بات سننے پر تیار نہ ہوئے۔ اسی طرح میں پنڈت نہرو کے دروازہ پر گیا اور کہا کا نگرس اور مسلم لیگ کے درمیان صلح نہایت ضروری ہے لیکن انہوں نے بھی صرف یہ کہہ دیا کہ یہ ٹھیک تو ہے، ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر اب کیا ہو سکتا ہے کیا بن سکتا ہے۔ اسی طرح میں نے تمام لیڈروں سے ملاقاتیں کر کے سارا زورلگایا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے مگر افسوس کہ کسی نے میری بات نہ سنی اور صرف اس لئے نہ سنی کہ میں پانچ لاکھ کا لیڈر تھا اور وہ کروڑوں کے لیڈر تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ملک کے اندر جگہ جگہ فسادات ہو رہے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ اگر یہ لوگ اُس وقت میری بات کو مان جاتے اور صلح صفائی کی کوشش کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا مگر میری بات کو نہ مانا گیا اور صلح سے پہلوتہی اختیار کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد بہار اور گڑھ مکتیسرکا واقعہ ہوا اور اب پنجاب میں ہو رہا ہے اگر اب بھی ان لوگوں کی ذہنیتیں نہ بدلیں تو یہ فسادات اور بھی بڑھ جائیں گے اور ایسی صورت اختیار کر لیں گے کہ باوجود ہزار کوششوں کے بھی نہ رُک سکیں گے۔
اس وقت ضرورت صرف ذہنیتیں تبدیل کرنے کی ہے اگر آج بھی ہندو اقرار کر لیں کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی آؤ مسلمانو ہم سے زیادہ سے زیادہ حقوق لے لوتو آج ہی صلح ہو سکتی اوریہ تمام جھگڑے رفع دفع ہو سکتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بُغض پر بُغض، بُغض پر بُغض کی بنیادیں رکھتے چلے جاتے ہیں اور انجام سے بالکل غافل بیٹھے ہیں۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں اگر وہ پنپنا چاہیںاور اگر وہ گلے ملنا چاہیں تو یہ سب کچھ آج ہی ہو سکتا ہے مگر اس کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ذہنیتوں میں تبدیلی۔
پس آج یہ سوال نہیں رہا کہ ہمارے ساتھ پاکستان بن جانے کی صورت میں کیا ہوگا؟ سوال تو یہ ہے کہ اتنے لمبے تجربہ کے بعد جبکہ ہندو حاکم تھے گوہندو خودتو حاکم نہ تھے بلکہ انگریز حاکم تھے لیکن ہندو حکومت پر چھائے ہوئے تھے جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ملازمت دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے، جب ہندو اس لئے ایک ہندو کو ٹھیکہ دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے اور جب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوؤں کو صرف اس لئے قابل اور اہل قرار دیتے تھے کہ وہ ہندو ہیں اور جب ہندو انگریز کی نہیں بلکہ اپنی حکومت سمجھتے ہوئے ہندوؤں سے امتیازی سلوک کرتے تھے اور جب وہ نوکری میں ہندوکو ایک مسلمان پر صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ہندو ہے فوقیت دیتے تھے اُس وقت کے ستائے ہوئے، دُکھائے ہوئے اورتنگ آئے ہوئے مسلمان اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو کیا ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے؟ کیا یہ ایک روشن حقیقت نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا جو نہایت نا واجب، نہایت ناروا اور نہایت نامنصفانہ تھا۔
حال کا ایک واقعہ ہے ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے باوجود یکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے۔ اس سکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو گرا دیا گیا۔ جب وہ احمدی انگریز کمانڈو کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا واقعی آپ کے ساتھ ظلم ہوا تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کر انگریز آفیسر کے پاس پہنچا تو اُس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھجوایا۔ کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایانہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس حکم کے خلاف اوپر نہ بھجوائی جائے۔ جس قوم کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ یہ انصاف برتا گیا ہوکیا وہ اس امر کا مطالبہ نہ کرے گی کہ اسے الگ حکومت دے دی جائے؟ ان حالات کے پیش نظران کا حق ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے۔
پس ایک نقطۂ نگاہ تو یہ ہے جس سے ہم اس اخبار کے متعلقہ مضمون پر غور کر سکتے ہیں دوسرا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے لیکن میں ہندوؤں سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سُکھ دیا تھا ؟تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھااور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی؟ کیا بہار میں بے گناہ احمدی مارے گئے یا نہیں؟ کیا ان کی جائدادیں تم لوگوں نے تباہ کیں یا نہیں؟ کیا ان کو بیجا دُکھ پہنچایا یا نہیں؟ کیا گڑھ مکتیسر میں شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کا لڑکا تمہارے مظالم کا شکار ہوا یا نہیں؟ حالانکہ وہ ہیلتھ آفیسرتھا اور وہ تمہارے میلے میں اس لئے گیا تھا کہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرے، اگر تم میں سے کسی کو زخم لگ جائے تو اس پر مرہم پٹی کرے اور اگر تم میں سے کوئی بخار سے مر رہا ہو تو اسے کو نین کھلائے، وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری ایک ایساپیشہ ہے جس کو فرقہ وارانہ حیثیت نہیں دی جا سکتی وہ بے چارہ تمہارے علاج معالجہ کے لئے گیا تھا اُس کو تم نے کیوں قتل کر دیا؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی شقاوتِ قلبی کی کوئی اور مثال ہو سکتی ہے؟ کیا اس سے آگے بھی ظلم کی کوئی حد ہے؟ پھر اُس کی بیوی نے خود مجھے اپنے درد ناک حالات سنائے اُس نے بتایا کہ غنڈوں نے اُس کے منہ میں مٹی ڈالی، اُسے مار مار کر ادھ مؤا کر دیا، اُس کے کپڑے اُتار لئے اور اسے دریا میں پھینک دیا اور پھر اِسی پر بس نہیں بلکہ دریا میں پھینک کر سوٹیوں کے ساتھ دباتے رہے تاکہ اُس کے مرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ یہ اُس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ یترنا جانتی تھی اور وہ ہمت کر کے ہاتھ پاؤں مار کردریا سے نکل آئی اور پھر کسی کی مدد سے ہسپتال پہنچی۔ کیا اِس سے بڑھ کر بے دردی کی کوئی مثال ہو سکتی ہے کہ ایک ناکردہ گناہ شخص اور پھر عورت پر اس قسم کے مظالم توڑے جائیں؟ کیا اِس قسم کی حرکات سفاکانہ نہیں ہیں؟ان حالات کی موجودگی میں اگر ہمارے لئے دونوں طرف ہی موت ہے تو ہم ان لوگوں کے حق میں کیوں رائے نہ دیں جن کا دعویٰ حق پر ہے۔
پھر تیسرا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اگر ہم ان تمام حالات کی موجودگی میں جو اوپر ذکر ہو چکے ہیںانصاف کی طرفداری کریں گے تو کیا خدا تعالیٰ ہمارے اس فعل کو نہ جانتا ہو گا کہ ہم نے انصاف سے کام کیا ہے جب وہ جانتا ہوگا تو وہ خود انصاف پر قائم ہونے والوں کی پشت پناہ ہوگا۔ لکھنے والے نے تو لکھ دیا کہ احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہاں ہے امان اللہ؟ اگر اس نے احمدیوں پر ظلم کیا تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے اس کے اسی جرم کی پاداش میں اس کی دھجیاں نہ اُڑا دیں؟ کیا خدا تعالیٰ نے اُس کی حکومت کو تباہ نہ کر دیا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اُس کی حکومت کے تاروپود کو بکھیر کر نہ رکھ دیا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اُس کو اُس کی ذریت سمیت ذلیل اور رسوائے عالَم نہ کر دیا ؟ کیا خدا تعالیٰ نے مظلوموں پر بے جا ظلم ہوتے دیکھ کر ظالموں کو کیفرکردار تک نہ پہنچایا؟ اور کیا اللہ تعالیٰ نے امان اللہ کے اس ظلم کا اس سے کما حقہٗ بدلہ نہ لیا؟ ہاں کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی شان وشوکت ،رُعب اور دبدبہ کو خاک میں نہ ملا دیا؟ پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارا وہ خدا جس نے اِس سے پیشتر ہر موقع پر ہم پر ظلم کرنے والوں کو سزائیں دیں کیا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اب وہ مر چکا ہے؟ وہ ہمارا خدا اب بھی زندہ ہے اور اپنی ساری طاقتوں کے ساتھ اب بھی موجود ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم انصاف کا پہلو اختیار کریں گے اور اس کے باوجود ہم پر ظلم کیا جائے گا تو وہ ظالموں کا وہی حشر کرے گا جو امان اللہ کا ہوا تھا۔ اگر ہم پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے تو کیا اب چھوڑ دیں گے؟ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے وہ انصاف کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور ظالموں کو سزا دیتا ہے وہ اب بھی اسی طرح کرے گا جس طرح اس سے پیشتر وہ ہر موقع پر ہماری نصرت اور اعانت فرماتا رہا۔ اُس کی پکڑ، اُس کی گرفت اور اُس کی بطش اب بھی شدید ہے جس طرح کہ پہلے تھی۔ کیا ہم نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ سمجھ لیں گے کہ ہمارے انصاف پر قائم ہو جانے سے وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے گا؟ہر گز نہیں۔ احمدیت کا پودا کوئی معمولی پودا نہیں یہ اُس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور وہ خود اِس کی حفاظت کر ے گا اور مخالف حالات کے باوجود کرے گا دشمن پہلے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے مگر یہ پودا ان کی حسرت بھری نگاہوں کے سامنے بڑھتا رہا۔ تاریکی کے فرزندوں نے پہلے بھی حق کو دبانے کی کوشش کی مگر حق ہمیشہ ہی اُبھرتا رہا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح ہو گا۔ یہ چراغ وہ نہیں جسے دشمن کی پھونکیں بجھا سکیں، یہ درخت وہ نہیں جسے عداوت کی آندھیاں اُکھاڑ سکیں،مخالف ہوائیں چلیں گی، طوفان آئیں گے،مخالفت کا سمندر ٹھاٹھیں ماریگا اور لہریں اُچھا لے گا مگر یہ جہاز جس کا ناخدا خود خدا ہے پار لگ کر ہی رہے گا۔
امان اللہ کا واقعہ یاد دلانے سے کیا فائدہ؟ کیا تمہیں صرف امان اللہ کا ظلم ہی یاد رہ گیا اور تم نے اس کے انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ تمہیں وہ واقعہ یاد رہ گیا ہے مگر اس واقعہ کا نتیجہ تم بھول گئے۔ کیا امان اللہ کی ذلت اور رُسوائی کی کوئی مثال تمہارے پاس موجود ہے؟ تم نے وہ واقعہ یاد دلایا تھا تو تم اس کا انجام بھی دیکھتے۔ جب وہ یورپ روانہ ہوا تھا توخود اُس کے ایک درباری نے خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ یہ جو کچھ ہماری ذلّت ہوئی ہے وہ اسی ظلم کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے احمدیوں کے ساتھ کیا تھا۔ امید ہے کہ اب جبکہ ہمیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے لئے بد دعا نہ کریں گے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اُس کے درباریوں کو یقین تھا کہ اُس کی ذلت کا سبب اس کا ظلم ہے آج وہی امان اللہ جو ایک بڑی شان وشوکت، رُعب و جلال اور دبدبہ کا مالک تھا اپنے ظلم کی وجہ سے اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ وہ اٹلی میں بیٹھا اپنی ذلت کے دن گذار رہا ہے۔ وہ کتنا ہو شیار اور چالاک بادشاہ تھا کہ اُس نے اپنی باج گزار۱؎ ریاست کو آزاد بنا دیا مگر جب اس نے غریب احمدیوں پر ظلم کیا تو اس کی ساری طاقت اور قوت مٹا دی گئی اور اس نے اپنے ظلم کا نتیجہ پا لیا اور ایسا پایا کہ آج تک اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایک طالبِ حق اور انصاف پسند آدمی کے لئے یہی ایک نشان کافی ہے۔ کاش!لوگ اِس پر غور کرتے۔
شاید یہاں کوئی شخص یہ اعتراض کر دے کہ امان اللہ کے باپ نے بھی تو احمدی مروائے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے ناواقفی سے ایسا کیا تھا اور امان اللہ نے جان بوجھ کر کیونکہ ہمارے استفسار پر اس کی حکومت کی طرف سے لکھا گیا کہ بیشک احمدی مبلغ بھجوادئیے جائیں اب وہ وحشت کا زمانہ نہیں رہا ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی لیکن جب ہمارے مبلغ وہاں پہنچے تو اُس نے اُنہیں قتل کرادیا ۔پھر یہ بھی نہیںکہ حبیب اللہ کو سزا نہیں ملی وہ بھی اس سزا سے باہر نہیں رہا کیونکہ اس کی ساری نسل تباہ ہوگئی۔ یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف امان اللہ کا بدلہ نہیں لیابلکہ اس بدلہ میں حبیب اللہ اور عبدالرحمن بھی شامل ہیں۔ پس یہ ہے ہمارا تیسرا نقطۂ نگاہ ان تینوں نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ ہم نے تو اس معاملہ کو انصاف کی نظروں سے دیکھنا ہے اور انصاف کے ترازو پر تولنا ہے۔
ہندوؤں کے ہاں انصاف کا یہ حال ہے کہ برابر سَو سال سے ہندو مسلمانوں کو تباہ کرتے چلے آرہے تھے اور صرف ہندو کا نام دیکھ کر ملازمت میں رکھ لیتے رہے اور مسلمان کا نام آنے پر اُس کی درخواست کو مسترد کر دیتے رہے۔ جب درخواست پر دُلارام کا نام لکھا ہوتا تو درخواست کو منظور کر لیا جاتا رہا اور جب درخواست پر عبدالرحمن کا نام آ جاتا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا۔ اس بات کا خیال نہ رکھا جاتا رہا کہ دُلارام اور عبدالرحمن میں سے کون قابل ہے۔ اور کون نا قابل ہے، اور اس امر کو پیش نظر نہ رکھا جاتا رہا کہ دُلارام اور عبدالرحمن میں سے کون لائق ہے اور کون نالائق۔ صرف ہندوانہ نام کی وجہ سے اسے رکھ لیا جاتا اور صرف اسلامی نام کی وجہ سے اِسے ردّ کر دیا جاتا۔ ہم نے ان حالات کی وجہ سے باربار شور مچایا، لیڈروں سے اس ظلم کے انسداد کی کوشش کے لئے کہا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور رینگتی بھی کیسے وہ اپنی اکثریت کے نشے میں چور تھے، وہ اپنی حکومت کے رُعب میں مدہوش تھے اور وہ اپنی طاقت کی وجہ سے بد مست تھے اُنہوں نے مسلمانوں کو ہرجہت سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں، اُنہوں نے مسلمانوں کی ہر ترقی کی راہ میں رُکاوٹیں ڈالیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہر ممکن سازشیں کیں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریںچاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں۔ ہمیں تو ہر قوم نے ستایا اور دکھ دیا ہے لیکن ہم نے انصاف نہیں چھوڑا۔ جب ہندوؤں پر مسلمانوں نے ظلم کیا ہم نے ہندوؤں کا ساتھ دیا، جب مسلمانوں پر ہندوؤں نے ظلم کیا ہم نے مسلمانوں کا ساتھ دیا، جب لوگوں نے بغاوت کی ہم نے حکومت کا ساتھ دیا اور جب حکومت نے ناواجب سختی کی ہم نے رعایا کی تائید میں آواز اُٹھائی اور ہم اسی طرح کرتے جائیں گے خواہ اس انصاف کی تائید میں ہمیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اُٹھانی پڑے۔ ہمیں سب قوموں کے سلوک یاد ہیں۔ کیا ہمیں وہ دن بھول گئے ہیں جب چوہدری کھڑک سنگھ صاحب نے تقریر کی تھی ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور قادیان کے ملبہ کو دریابرد کردیں گے۔
پھر کیا لیکھرام ہندوتھا یا نہیں؟ وہ لوگ جنہوں نے احراریوں کا ساتھ دیا تھا وہ ہندو تھے یا نہیں؟ مگر ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ جو شخص یا جماعت خدا تعالیٰ کا پیغام لے کر کھڑی ہو اس کی ساری دنیا دشمن ہوتی ہے اس لئے لوگوں کی ہمارے حق کے ساتھ دشمنی ایک طبعی امر ہے ۔ہم نے ملکانا میں جہاں لاکھوں مسلمانوں کو آریوں نے مرتد کر دیا تھا اور شدھ بنا لیا تھا جا کر تبلیغ کی اور انہیں پھر حلقہ بگوشِ اسلام کیا اور جب وہاں اسلام کو غلبہ نصیب ہو گیا اور آریہ مغلوب ہو گئے تو وہی لوگ جو ملکانوں کے ارتداد کے وقت شور مچاتے تھے کہ احمدی کہاں گئے اور کہتے تھے وہ اب کیوں تبلیغ نہیں کرتے وہی شور مچانے والے ملکانوںکے دوبارہ اسلام لانے پر ان کے گھر گھر گئے اور کہتے پھرے تم آریہ ہو جاؤ مگر مرزائی نہ بنو۔ اِدھر ہندوریاستوں نے ظلم پر ظلم کئے، الور والوں نے بھی ظلم کیا اور بھرت پور میں بھی یہی حال ہوا۔ جب ہمارے آدمی وہاں جاتے تو راجہ کا حکم پہنچ جاتا کہ تمہاری وجہ سے امن شِکنی ہو رہی ہے جلدازجلد اِس علاقے سے نکل جاؤ۔ ملکانا کے ایک گاؤں میں ایک بڑھیا مائی جمیّا شدھ ہونے سے بچی تھی۔ باقی اس کے تین چار بیٹے آریوں نے مرتد کر لئے تھے اور بیٹوں نے اس بڑھیا ماں سے کہا تھا کہ ماں ہم دیکھیں گے کہ اب مولوی ہی آکر تمہاری فصل کاٹیں گے۔ کسی نے مجھے لکھا کہ ایک بڑھیا کو اس قسم کا طعنہ دیا گیا ہے اور اب اُس کی فصل پک کر تیار کھڑی ہے۔ میں نے کہا اسلام اور احمدیت کی غیرت چاہتی ہے کہ اب مولوی اور تعلیم یافتہ لوگ ہی جا کر اس بڑھیا کا کھیت کاٹیںچنانچہ میں نے اس کے لئے تحریک کی تو بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ جن میں جج بھی تھے اور بیرسٹر بھی، وکلاء بھی تھے اور ڈاکٹر بھی مولوی بھی تھے اور مدرّس بھی اور انہی میںچوہدری ظفراللہ خان صاحب کے والد مرحوم بھی گئے اور خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب سیشن جج بھی گئے ان سب تعلیم یافتہ لوگوں نے اُس بڑھیا کا کھیت کاٹا۔ ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے مگر اس بات کا اتنا رُعب ہوا کہ اس سارے علاقہ میں احمدیوں کی دھاک بیٹھ گئی مگر وہاں کے راجہ نے اتنا ظلم کیا کہ یہ لوگ چار پانچ میل گرمی میں جاتے تھے تو رات کو واپس سٹیشن پر آکر سوتے تھے۔ چوہدری نصراللہ خان صاحب باوجو د یکہ بڈھے آدمی تھے اُن کو بھی مجبوراً روزانہ گرمی میں چار میل جانا اور چار میل آنا پڑتا تھا۔ آخر مَیں نے اپنا ایک آدمی گورنمنٹ ہند کے پولییٹکل سیکرٹری کی طرف بھجوایا کہ اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ اس ریاست میں جو چار پانچ لاکھ ہندو ہے وہ فساد نہیں کرتا اورہمارے چند آدمیوں کے داخلہ سے فساد کا اندیشہ ہے۔ اُس وقت پولیٹیکل سیکرٹری سر تھا مسن تھے اُنہوں نے جواب دیا میں اِس میں کیا کر سکتا ہوں میں راجہ سے کہوں گا اگر وہ مان جائے تو بہتر ہے۔ سرتھامسن نے ہمدردی کی مگر ساتھ ہی معذوری کا اظہار بھی کیا لیکن ابھی اس پر پندرہ دن بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ راجہ پاگل ہو گیا اور اُس کو ریاست سے باہر نکال دیا گیا اور پاگل ہونے کی حالت میں ہی وہ مرا۔ اِسی طرح اُس وقت کے الور والے راجہ کو بھی بعد میں سیاسی جرائم کی وجہ سے نکال دیا گیا۔
پس ہمارا خدا جو علیم اور خبیر ہے وہ اب بھی موجود ہے اگر ہم انصاف سے کام لیں گے اور پھر بھی ہم پر ظلم ہو گا تو وہ ضرور ظالموں کو گرفت کئے بغیر نہ چھوڑیگا۔ ظلم تو ہمیشہ سے نبیوں کی جماعتوں پر ہوتا آیا ہے مگر یہ نہایت ذلیل احساسات ہیں جو اِس اخبار نے پیش کئے ہیں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی ہم پر ہمیشہ ظلم کیا۔ شروع شروع میں جب احمدی تالاب سے مٹی لینے جاتے تھے تو یہاں کے سکھ وغیرہ ڈنڈے لے کر آجاتے تھے۔ آخرہمارے ساتھ کس نے کمی کی مگر ہر موقع پر خدا ہماری مدد کرتا رہا۔ ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے اور جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے خدا ہمارا ساتھ نہیں دے گا۔ پس ہم دیکھیں گے کہ حق کس کا ہے ہندو کا ہوگا تو اُس کی مدد کریں گے، سکھ کا ہوگا تو اُس کی مدد کریں گے، مسلمان کا ہو گا تو اُس کی مدد کریں گے ہم کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اس معاملہ کو انصاف کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور جب انصاف پر قائم ہونے کے باوجود ہم پر ظلم ہو گا تو خدا کہے گا اِنہوں نے دشمن کے ساتھ انصاف کیا تھا کیا میں اِن کا دوست ہو کر ان سے انصاف نہ کروں گا؟ اور اس کی غیرت ہمارے حق میں بھڑکے گی جو ہمیشہ ہمارے کام آئے گی۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ
(اخبار الفضل قادیان ۲۱؍ مئی ۱۹۴۷ء)
۱؎ باج گزار: ریاست کو محصول دینے والا


انصاف پر قائم ہو جاؤ





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
انصاف پر قائم ہو جاؤ
( فرمودہ ۱۷؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نمار مغرب)
قرآن کریم ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ اس میں ہر قسم کے سوال کا جواب پایا جاتا ہے کوئی پہلو انسانی سوالات اور جذبات کا ایسا نہیں جس کا جواب قرآن کریم نے نہ دیا ہو۔ کل ہی میں نے جس امر کے متعلق کچھ باتیں بیان کی تھیں قرآن کریم نے بھی اس سوال کو اُٹھایا ہے اور اس کا جواب دیا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے تمام فیصلے یا تو اپنی ضرورت کے مطابق ہوتے ہیں یا دوسرے کے رویہ کے مطابق اور یا پھر حقائق کے مطابق ہوتے ہیں یہ تین ہی پہلو کسی فیصلہ کے متعلق اختیار کئے جاسکتے ہیں۔یا تو انسان یہ دیکھتا ہے کہ مجھے خود کس بات میںفائدہ ہے یا انسا ن یہ دیکھتا ہے کہ میرے دشمن کو کس طرح نقصان پہنچ سکتا ہے یا پھر انسان یہ دیکھتا ہے کہ دشمن کو نقصان پہنچے یا نہ پہنچے، مجھے فائدہ پہنچے یانہ پہنچے، سچائی اور حق کیا ہے؟ ہر فیصلہ کے متعلق ان تین ہی پہلوؤں میں سے ایک پہلو اختیار کیا جاسکتا ہے اس کے سِوااور کوئی پہلو نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قرآن کریم نے بھی اِس سوال کو اُٹھایا ہے اور اِس کا جواب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱؎ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مومنو! انسان چونکہ مختلف اغراض کے ماتحت کام کرتا ہے کبھی وہ کام کرتے وقت اپنے نفس کا فائدہ سوچتا ہے، کبھی وہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے متعلق سوچتا ہے اور کبھی اس کے مد نظرصداقت ہوتی ہے اس لئے تم اے مومنو! جب کوئی کام کرو توتمہارے مد نظر یہ نہ ہونا چاہئے کہ تمہارا کس پہلو پر عمل کرتے ہوئے فائدہ ہے، نہ ہی تمہارے پیش نظر یہ بات ہو کہ تم دشمن کو کونسے پہلو پر عمل کرتے ہوئے نقصان پہنچا سکتے ہو بلکہ تمہارے مدنظر صرف یہ بات ہو کہ ایسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے میں قوام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو مبالغہ پر دلالت کرتا ہے قائم نہیں فرمایا گویا مطلب یہ ہے کہ تم پورے طورپر مستعد ہو کر اور کمرِہمت باندھ کر کھڑے ہو جاؤ لیکن صرف اللہ تعالیٰ کے لئے۔ تم یہ نہ سوچنا کہ تمہارا کس بات میں فائدہ ہے اور تمہارے دشمن کا کس بات میںنقصان ہے بلکہ تم صرف یہ دیکھنا کہ تمہارا خدا اس بارہ میں تمہیں کیا حکم دیتا ہے۔ پھر فرمایا تمہاری حالت یہ ہو کہ تم باقی تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف انصاف پر قائم ہو جاؤ اور جو بات بھی تمہارے منہ سے نکلے انصاف اور حق پرمبنی ہو ممکن ہے جو بات تم انصاف اور حق کے لئے کر رہے ہو وہ تمہارے لئے نقصان دِہ ہو یا دشمن کے لئے فائدہ مند ہو لیکن تم اِن باتوں کی مطلقاً پر واہ نہ کرو بلکہ تم مستعدی، ہوشیاری اور دلیری کے ساتھ انصاف پر قائم ہو۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکم تو عام حالات کے لئے ہے اگر دشمن زیادتی کرے اور اس کی دشمنی، زیادتی اور شرارت اور دکھ اس حد تک پہنچ جائے کہ انسان اس کا جواب بھی دشمنی اور شرارت سے دینے کے لئے مجبور ہو جائے اور ایسا پہلو اختیار کرنا پڑ جائے جو دشمن کو اس کی شرارت کا مزا چکھانے کے لئے ضروری ہوتو پھر کیا کیاجائے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ یعنی ہو سکتا ہے کہ دشمن تم پر اتنی سختی کرے، اتنا ظلم کرے اور تمہیں اتنے دکھ دے کہ اس کا ظلم تمہاری حدِّ برداشت سے باہرہو جائے اور تم چاہو کہ دشمن کو اس کی شرارتوں کی سزا دو لیکن تم ایک بات کو ضرور مدنظر رکھو کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم عدل کو چھوڑ دو تمہارا کام یہی ہے کہ تم عدل اور انصاف سے کام لو پھر فرمایا تمہارا عدل سے کام لینا تمہیںتقویٰ کے قریب کردے گاگویا عدل اور انصاف سے کام لینا تقویٰ نہیں بلکہ صرف کے مقام تک انسان کو لے جاسکتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کسی چیز کے قریب ہو جانا اور بات ہے اور خود وہی مقام حاصل کر لینا اور چیز ہے۔ تقویٰ کے قریب ہو جانے سے تقویٰ کا اصل مقام حاصل نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گوتم عدل اور انصاف سے کام لینے کے نتیجہ میں تقویٰ کے قریب پہنچ جاؤ گے مگر تم اس سے تقویٰ کے اصل مقام کو حاصل نہیں کر سکتے اور چونکہ ہم تمہیں صرف یہی نہیں کہتے کہ تم تقویٰ کے قریب ہو جاؤ بلکہ ہم تمہیں تقویٰ کے اصل مقام پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اس لئے تم سے آگے بڑھ کر پر عمل کرو جب تم اس پر پوری طرح عمل کر لوگے تو تم تقویٰ کے اصل مقام پر پہنچ جاؤ گے۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو نہایت صراحت اور وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ جب تم نے دشمن کی شرارتوں، اس کی تدبیروں، اس کے مکروں اور اس کی چالاکیوں کو بھلا دیا اور تم نے اس کے ساتھ عدل کیا تو یہ تو ہو گیا لیکن تَقْوٰی نہ ہوا اس کے دکھ کو بُھلا دینا، اُس کے مظالم کو بُھلا دینا اور اس کے ساتھ عدل کرنا تمہیں تقویٰ کے اصل مقام پر نہیں پہنچا سکے گا حالانکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم تقویٰ کے اصل مقام تک پہنچ جاؤ اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو۔
اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب دشمن کی شرارتوں اور اس کے مظالم کے باوجود اس سے عدل و انصاف کا سلو ک کرنا بھی تقویٰ بلکہ صرف تقویٰ کے قریب کرنے والی چیز ہے تو پھر تقویٰ کیا ہوا؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عدل صرف تقویٰ کے قریب کرنے والی چیز ہوا تو ظاہر ہے کہ تقویٰ وہ ہوگا جو اس سے بھی بڑھ کر ہو ۔ اور عدل سے بڑھ کر جوچیز ہے وہ احسان اور حسن سلوک ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دشمن کے مظالم اور اس کی جفا کاریوں کے مقابلہ میں تم نہ صرف عدل سے کام لو بلکہ اس سے احسان اور حسن سلوک کا بھی معاملہ کرو۔ اگر تم صرف عدل سے کام لو گے تو گویہ چیز اَقْرَبُ اِلَی التّقْوٰیہوگی مگر تقویٰ نہیں ہو گی۔ تقویٰ یہ ہے کہ تم دشمن سے احسان کا سلوک کرو اور اس کے مظالم کو بالکل بھول جاؤ۔
اس جگہ پھر انسانی طبیعت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میں نے دشمن کی ہر شرارت اور اس کے ہر ظلم کے بدلہ میں درگذر سے کام لیا تو مجھے نقصان پہنچ جائے گا سو اِس خطرہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔۲؎ اگر تم دشمن کی دشمنی اور ظلم کے باوجود اس کے ساتھ عدل اور انصاف سے کام لو گے اور پھر اس سے احسان کا سلوک کرتے ہوئے تقویٰ کی راہوں پر گامزن ہو جاؤ گے تو تمہیں اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہئے کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچ جائے گا کیونکہ جب تم تقویٰ اختیار کر لو گے تو میں موجود ہوں اگر تم میرے حکم پر عمل کرنے کے باوجو کسی تکلیف میں مبتلا ہو جاؤ گے تو میں خود تمہاری مدد کو پہنچوں گا۔
ایک شریف انسان اگر کسی شخص کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کر ے جہاں اس کی جان جانے کا خطرہ ہو اور پھر اس کی خبر نہ لے تو یہ اس کی شرافت سے بعید بات ہوتی ہے۔ ایک شریف انسان یہ کر ہی نہیں سکتا کہ کسی کو خطرہ کے مقام پر کھڑا کر کے پھر اُس کی خبر نہ لے تو جب ایک شریف انسان یہ نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ یہ کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ خود اپنے بندوں کو کوئی ایسا حکم دے جس میں انہیں خطرہ لاحق ہو مگر خطرہ کے وقت ان کی امداد کے لئے نہ پہنچے۔ وہ جب اپنے بندوں کو اس قسم کا حکم دیتا ہے تو ان کی خبر گیری بھی کرتا ہے۔ قرآن کریم کی اس تعلیم کے بعد جب ہم رسول کریم ﷺ کے عمل کو دیکھتے ہیں تو وہ بھی اسی کے مطابق نظر آتا ہے چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ جنگ اُحد میں مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا تھا۔ یہاں تک کہ بعض دشمنوں نے مسلمانوں کے کلیجے نکال کر چاٹے تھے، بعض کے ناک اور کان کاٹ دیئے تھے اور اِس طرح دشمنوں نے کئی مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کر دیا تھا۔ جن مسلمانوں پر اِس قسم کے مظالم ڈھائے گئے تھے ان میں رسول کریمﷺ کے ایک چچا بھی تھے آپ کی طبیعت پر دشمن کے ان مظالم کا نہایت گہرا اثر ہوا چنانچہ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ دشمن نے اس قسم کے مظالم میں پہل کی ہے اب میں بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا اور جس قسم کا معاملہ دشمن نے ہمارے ساتھ روا رکھاہے اسی قسم کامعاملہ ان کے ساتھ بھی روا رکھا جائے گا اس پر مَعاً آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ آپ کا یہ مقام نہیں کہ آپ دشمن کی کمینہ حرکات کا جواب اُسی طرح دیں اور اُن کی نقل کریں۔ چنانچہ آپ نے صحابہؓ کو اپنا یہ الہام سنایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات سے منع فرما دیا ہے۔۳؎ اب چاہے یہ لوگ ہمارے ساتھ کچھ کرتے رہیں ہم ان سے نرمی سے ہی پیش آئیں گے چنانچہ آپؐ نے ہمیشہ اس پر عمل کیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ اور موجودہ فسادات کے دوران میں عورتوں اور بچوں کو بے رحمی سے قتل کیا جاتا رہا، بہار اور گڑھ مکتسیر وغیرہ میں ہندوؤں نے اور نواکھائی ملتان اور راولپنڈی میں مسلمانوں نے ایک دوسرے پر جی بھر کر ظلم کیا یہاں تک کہ کلکتہ میں مسلمان عورتوں کے پستان کاٹے گئے، بچوں کو نیزے مارمار کر ماردیا گیا اِن حالات کو دیکھ کر طبائع میں جوش تو آجاتا ہے اور انسان چاہتا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے مگر رسول کریمﷺ نے فرمایا ہے جہاں تک ظلم کا تعلق ہے اس کا مقابلہ کرنا تو جائز ہے لیکن کمینگی کا مقابلہ جائز نہیں۔ رسول کریم ﷺ نے کبھی کسی دشمن کا مثلہ نہیں کیا بلکہ آپ ہمیشہ صحابہؓ کو اس سے منع فرماتے رہے یہاںتک کہ عربوں کے دستور کے مطابق بعض اوقات عورتیں بھی جنگوں میں آجاتی تھیں۔ ایک دفعہ کوئی عورت مسلمانوں کے ہاتھ سے اتفاقاً ماری گئی،آپ نے جب عورت کی لاش دیکھی تو آپ کوسخت تکلیف ہوئی ۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اُس وقت غصہ کی وجہ سے آپ کا چہرہ اتنا متغیر تھا کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا آپ نے فرمایا یہ ظلم کس نے کیا ہے؟۴؎ اس بات کا صحابہؓ پر اتنا اثر تھا کہ ایک جنگ میں ایک صحابیؓ لڑتے لڑتے ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ ایک ہی حملہ سے دشمن کو شکست دے سکتے تھے لیکن جونہی آپ نے حملہ کرنا چاہا سامنے سے ایک عورت آگئی انہوں نے جھٹ اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اِس بات کی پرواہ نہ کی کہ اس میں میرا نقصان ہو جائے گا۔ کسی نے ان سے پوچھا یہ آپؐ نے کیا کیا کہ ایسے اچھے موقع پر پہنچ کر آپ حملہ کرنے سے باز رہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ عورت پر ہاتھ اُٹھانا سخت ظلم ہے۔۵؎
اسی طرح رسول کریمﷺ جب فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو مکہ میں تمام لوگ موجود تھے جنہوں نے متواتر تیرہ سال تک آپ کوا تنہائی دُکھوں میں مبتلا رکھا تھا بلکہ آپ کی مکی زندگی کے بعد جب مدنی زندگی شروع ہوئی تو بھی ان لوگوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تھا، غرض مکہ کے اندر وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ کو ہر قسم کی تکالیف پہنچائی تھیں، آپ کے صحابہؓ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے، آپ کے خویش و اقارب پر جو آپ پر ایمان لائے تھے اتنی سختیاں کی تھیں جن کی حد ہی نہیں ان مظالم ہی کی وجہ سے بعض مسلمانوں کو بے چارگی اور بے کسی کی حالت میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنی پڑی۔ حبشہ ان کے لئے بالکل اجنبی جگہ تھی وہاں کی آب و ہوا اور تھی، زبان اور تھی، وہاں کے لوگوں کا مذہب اور تھا، قومیت اور تھی مگر مسلمانوں کو وہاں مجبوراً جانا پڑا صرف اِس خیال سے کہ شاید وہاں اِن کو امن مل سکے مگر کفار مکہ کے ظلم کا یہ حال تھا کہ وہ ہجرت بھی آسانی کے ساتھ نہ کر سکتے تھے۔ ان کو جبراً ہجرت سے روک دیا جاتا تھا اس لئے جومسلمان ہجرت کے لئے نکلتے تھے وہ منہ اندھیرے پوپھٹنے سے قبل نکل جاتے تھے تا کہ دشمن دیکھنے نہ پائے۔ حضرت عمرؓ ابھی تک ایمان نہ لائے تھے اُن کو کہیں سے بھنک پڑ گئی کہ آج کچھ مسلمان حبشہ کی طرف جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں چنانچہ وہ گئے اور دیکھا کہ ایک صحابی اور اُس کی بیوی ایک اونٹ پر سامان باندھ رہے ہیں اور ہجرت کی تیاری کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہاں کی تیاریاں ہیں؟ اُس صحابی کی بیوی نے جواب دیا عمر! تیاریاں کہاں کی ہوں گی یہ ہمارا اپنا وطن تھا اور ہمیں بہت عزیز تھا لیکن عمرؓ! تم نے اور تمہارے بھائیوں نے ہمارے لئے اِس وطن میں امن نہیں چھوڑا۔ وہ صحابیہ بیان کرتی ہیں کہ جب میںنے یہ الفاظ کہے تو عمرؓ نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور کہا جاؤ تمہارا خدا حافظ۔ خاوند نے بیوی سے پوچھا عمر کیا کہہ رہا تھا ؟بیوی نے جواب دیا عمر کے دل پر میری بات سن کر چوٹ لگی ہے۔ خاوند نے حیران ہو کر کہا اِس سنگدل کے دل پر بھلا چوٹ لگ سکتی ہے؟ بیوی نے کہا جب میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ عمر! ہمارا یہ وطن ہمیں بہت عزیز تھا مگر تم نے اور تمہارے بھائیوں نے ہمارے لئے اس وطن میں امن نہیں چھوڑا تو واقعی اُس کی آنکھوں سے آنسورواں ہو گئے تھے۔۶؎ غرض کفار مکہ نے مسلمانوں پر اتنے شدید مظالم کئے تھے کہ وہ اپنے عزیز وطن کو چھوڑ کر ایسی جگہ جانے کے لئے مجبور ہو گئے جہاں کی ہر چیز اُن کے لئے اجنبی تھی۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان جس کی عمر سَترہ اٹھارہ سال کی تھی جب رسول کریمﷺ پر ایمان لایاتو اُس کے ماں باپ نے اور بھائیوں نے اُس کے ساتھ اتنی دشمنی کی کہ اُس کا مقاطعہ کر دیا اور اُس کے برتن الگ کر دئیے تا کہ ان کے برتن نجس نہ ہو جائیں مگر نوجوان نے اِس مقاطعہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیا۔ جب اُس کے گھروالوں نے دیکھا کہ اس نے مقاطعہ تو برداشت کر لیا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اِس کے ساتھ بولنا بند کر دیا جائے چنانچہ انہوں نے سختی سے اس پر عمل کیا مگر نوجوان نے اپنی قوتِ ایمانی سے اس سختی کو بھی برداشت کر لیا۔ جب اس کے گھروالوںنے دیکھا کہ اس بات کا بھی اس پر کچھ اثر نہیں ہوا تو انہوں نے ایک اور قدم اُٹھایا کہ اس کے سامنے رسول کریمﷺ کو گالیاں دینی شروع کیں آخر اس نوجوان نے اس بات سے تنگ آکر اپنے والدین اور بھائیوں سے کہا تم رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتے ہو یہ بات ٹھیک نہیں ہے اور میں اس کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتا اس کے علاوہ جو دُکھ تم جی چاہے دے لو مگر میرے سامنے آپ کو گالیاں نہ دیا کرو۔ اس پر ماں نے اسے کہہ دیا تو میرا بیٹا نہیں اور میں تیری ماں نہیں اس لئے تو ہمارے گھر سے نکل جا ۔ چنانچہ وہ نوجوان حبشہ چلا گیا۔ ایک عرصہ گزرنے کے بعد واپس گھر آیا اُس کا خیال تھا کہ اب میرے گھر والوں کے دلوں میں جدائی کی وجہ سے نرمی پیدا ہو چکی ہو گی اور وہ جب گھر پہنچا تو ماں کی مامتا کو جوش آیا اور بڑے پیار سے بیٹے کو گلے سے لگایا اور کہا بیٹا! اب تو امید ہے کہ تو اُس صابی(خاکش بدہن،کفار مکہ رسول کریمﷺ کو صابی کہتے تھے) کے پاس نہ جائے گا۔ یہ سن کر نوجوان ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور کہا ماں! میں نے سمجھا تھا کہ میرے دور جانے کی وجہ سے تمہارابُغض دور ہو گیا ہو گا اگر تو یہ چاہتی ہے کہ میں محمد رسول اللہﷺ کے پاس نہ جاؤں تو یہ مجھ سے نہ ہو سکے گا بیشک تو میری ماں ہے مگر رسول اللہ مجھے تم سے زیادہ پیارے ہیں یہ کہہ کر وہ اُسی وقت گھر سے نکل گیا اور پھر اُس نے ساری عمر اپنے گھر کا رُخ نہیں کیا۔۷؎
اسی طرح ایک جنگ میںجب مسلمانوں کو فتح ہوئی تو دشمن کے قیدی پکڑے ہوئے آپ کے پاس آئے ان میں آپ کا داماد ابوالعاص بھی قید ہو کر آیا تھا جب دوسرے قیدیوں کو فدیہ وغیرہ کے بدلے رہا کیا گیا تو ابوالعاص سے آپ نے یہ وعدہ لے کر چھوڑ دیا کہ مکہ واپس جا کر وہ آپ کی صاحبزادی حضرت زینب کو مدینہ بھجوادے گا۔ جب آپ کی وہ صاحبزادی مدینہ واپس آنے لگیں تو مکہ کے قریش نے انہیں بزور روکنا چاہا اور جب حضرت زینب نے انکار کیا تو ایک بدبخت نے نہایت وحشیانہ طریق پر ان کے پالان کی رسیاں کاٹ دیں جس کے نتیجہ میں وہ نیچے گر گئیں اور انہیں اِسقاط ہو گیا اور پھر اِسی صدمہ کی وجہ سے وہ چند دن بعد انتقال فرما گئیں۔
ابو سفیان کی بیوی ہندہ جس نے مسلمانوں کے کلیجے نکال نکال کر چبائے تھے اور جو سخت بغیض عورت تھی وہ ایک مجلس میں تھی کہ وہی شخص جس نے حضرت زینبؓ پر حملہ کیا تھا وہاں پہنچا اور بڑے فخر کے ساتھ اپنی اس بہادری کو بیان کرنے لگا کہ میں نے محمد(ﷺ) کی بیٹی کے ساتھ یہ کیا ہے۔ ہندہ نے جب اس کی یہ بات سنی تو وہ نہایت جوش کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اُس نے کہا عربو! تمہاری شجاعت اور بہادری کدھر گئی؟ کیا تم نے اتنی کمینہ اور ذلیل حرکات شروع کر دی ہیں کہ تم ایک عورت پرہاتھ اُٹھاتے بھی نہیں جھجکتے؟۸؎ پس اس قسم کے مظالم تھے جو کفار کی طرف سے مسلمانوں پر روا رکھے گئے اور انہوں نے برداشت کئے مگر یہی وہ مظالم تھے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہر میدان میں مسلمانوں کی امداد کی۔
جنگ بدر کے موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ جب دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں اور لڑائی ابھی شروع نہیں ہوئی تھی تو میں نے خیال کیا کہ آج میں کفار کے مظالم کا بدلہ لوں گا مگر چونکہ ایک ماہر جنگجو کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لڑتے وقت اُس کے دونوں پہلو مضبوط ہوں اس لئے میں نے دیکھا کہ مدینہ کے دو کم سِن انصاری لڑکے میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں اُن کو دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا کیونکہ میں نے سمجھا کہ یہ کم عمر لڑکے اور وہ بھی انصار کے جن کو جنگ کرنی آتی ہی نہیں میرے پہلوؤں کو کیا محفوظ رکھ سکیں گے۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں اپنے ارمانوں کو جی بھر کر نکال نہ سکوں گا مگر میرے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ مجھے ایک طرف سے کہنی لگی میں نے اُدھر دیکھا تو اُس طرف والے لڑکے نے مجھے اشارہ سے جھکنے کے لئے کہا میں جب جھکا تو اُس لڑکے نے آہستہ سے مجھ سے پوچھا چچا! یہ تو بتاؤ وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسول کریمﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا آج میں اُس سے اُس کی شرارتوں کا بدلہ لوں گا۔ حضرت عبدالرحمن ؓ بن عوف کہتے ہیں کہ ابھی میں اُس کی بات کا جواب دینے نہ پایا تھا کہ مجھے دوسری طرف سے کہنی لگی اور اُس طرف کے لڑکے نے بھی اشارہ سے کہا کہ جھک کر میری بات سنو۔ جب میں جھکا تو اُس نے بھی مجھ سے وہی سوال کیا جو پہلے لڑکے نے کیا تھا کہ چچا! وہ ابو جہل کونسا ہے جو رسول کریم ﷺ کو دکھ دیا کرتا تھا میرا جی چاہتا ہے کہ آج اُس سے بدلہ لوں گا۔ میں اُن کی اِس جرأت پر سخت حیران ہوا کیونکہ میرے دل میں یہ خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ یہ کم سن اور نا تجربہ کار لڑکے دشمن کے سب سے بڑے جرنیل پر حملہ کرنے کا ارادہ کر سکتے ہیں۔ میںنے اُن دونوں کو اشارہ سے بتایا کہ وہ جوفولادی خود کے اندر چھپا ہوا ہے اور اُس کے آس پاس دوپہرہ دار کھڑے ہیں وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ابھی میری انگلی نیچے نہ ہونے پائی تھی کہ جس طرح باز ایک چڑیا پر حملہ کرتا ہے اِس طرح وہ دونوں لڑکے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ دشمن کی صفوں کو کاٹتے ہوئے آنِ واحد میں ابو جہل کے پاس پہنچ گئے۔ پہریداروں کو اس بات کا گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص اتنی صفوں کو چیر کر اور پہریداروں کی موجودگی میں ابو جہل تک پہنچ سکتا ہے۔ ان دونوں لڑکوں نے بیشتر اس کے کہ کوئی سپاہی ان پرحملہ کرے ابوجہل پر حملہ کر دیا اور اس کو پہلے ہی حملے میں زمین پر گرادیا۹؎ عکرمہ بن ابوجہل جو اُس وقت اپنے باپ کے ساتھ کھڑا تھا وہ اپنے باپ کو تو نہ بچاسکا مگر اُس نے ایک لڑکے پر ایسا وار کیا کہ اُس کا ایک بازو کٹ گیا اور جسم کے ساتھ لٹکنے لگا۔ لٹکتا ہوا بازو چونکہ لڑنے میں مزاحم ہوتا تھا اس لئے اس نے جھک کر بازو کو پاؤں کے نیچے رکھ کر زور سے الگ کر دیا۔
غرض دشمن کے مظالم مسلمانوں پر اِس قدر تھے کہ صحابہؓ کے دل پک گئے تھے مگر جب مکہ فتح ہوا اور رسول کریمﷺ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحا نہ حیثیت سے داخل ہوئے تو جیسا کہ میں نے بارہا بیان کیا ہے ایک جگہ ابوسفیان کھڑا اسلامی فوجوں کے مارچ کا نظارہ دیکھ رہا تھا کہ ایک انصاری جوایک قبیلہ کی فوج کو مارچ کراتے ہوئے ابوسفیان کے پاس سے گزرے اور اُنہوں نے ابوسفیان کو مخاطب کر کے کہا آج ہم مکے کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اورمکہ والوں کو ذلیل کر دیں گے۔ ابوسفیان یہ سن کر گھبرایا ہوا رسول کریمﷺ کے پاس پہنچا اور کہا آپ نے سنا مدینہ کا ایک انصاری مجھے کیا کہتا تھا؟ آپ نے فرمایا تم ہی بتاؤ۔ اُس نے کہا وہ کہتا تھا کہ آج ہم مکّے کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔ آپؐ نے فرمایا آج کے دن تو اللہ تعالیٰ مکہ کی عزت کو قائم کرنا چاہتا ہے ذلیل کرنا نہیںچاہتا۔ آپؐ نے اُسی وقت یہ بات کہنے والے اسلامی فوج کے کمانڈر کو بُلوایا اور اُسے معزول کرکے اُس کی جگہ اُس کے بیٹے کو کمانڈر بنا دیا۔۱۰؎ جب مکہ فتح ہوا تو آپ نے مکّے کے تمام قبائل کو جمع کیا اور فرمایا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ تم نے میرے ساتھ میرے اعزہ واقرباء کے ساتھ اور میرے صحابہؓ کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ اب میں فاتح ہوں اور تم مفتوح؟ اب میں بااختیار ہوں اور تم بے اختیار، اب بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ اُنہوں نے عرض کیا جو سلوک حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا وہی سلوک آپ ہمارے ساتھ کریں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہاں! میں بھی تمہارے ساتھ وہی سلوک کروں گا اور آپ نے انہیںلَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ کر معاف فرمایا دیا ۔۱۱؎ پس رسول کریمﷺ کا عمل بھی یہی ہے کہ آپ نے باوجود دشمن کے انتہائی مظالم کے ان کو معاف فرمادیا۔
پس مؤمن جہاں دلیر اور بہادر ہوتا ہے وہاں وہ عد ل، انصاف اور اس سے بڑھ کر احسان کو نہیں چھوڑتا۔ لڑائیاں ہوتی ہیں، مرنے والے مرتے ہیں، قتل ہونے والے قتل ہوتے ہیں اور قتل کرنے والے قتل کرتے ہیں لیکن اِن باتوں کو لوگ بھول جاتے ہیں مگر احسان ایک ایسی چیز ہے جو تاریخوں میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ پس ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عربوں کے ان مظالم سے جو انہوں نے مسلمانوں پر کئے صرف وہی لوگ واقف ہیں جو تاریخ دان ہیں یا جنہوں نے تواریخ کا مطالعہ کیا ہے لیکن آپ کے اس احسان والے فعل کو ساری دنیا جانتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ نے تقویٰ رکھا ہے، صرف عدل تقویٰ کے قریب تو ہو جاتا ہے مگر تقویٰ نہیں کہلا سکتا۔ حضرت امام حسنؓ کے متعلق آتا ہے کہ آپ کا ایک نوکر ہمیشہ بے احتیاطیاں کرتا تھا اور کئی چیزیں توڑ پھوڑ دیتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ کے پاس کوئی شخص تحفۃً ایک شیشے کا نہایت ہی خوبصورت برتن لایا جو اس نوکر نے توڑدیا اُنہوں نے خشمگیں نگاہوں سے نوکر کی طرف دیکھا تو اُس نے جھٹ کہا وَالْکَا ظِمِیْنَ الْغَیْظَ آپ نے سنتے ہی کہا اچھا میں تمہیں کچھ نہیں کہتا۔ نوکر نے کہا کہ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ آپ نے کہا اچھا میں تمہیں معاف بھی کرتا ہوں۔ نوکر نے پھر کہا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ آپ نے فرمایا اچھا میں تمہیں آزاد کر تا ہوں۔۱۲؎ پس مؤمن وہی ہے جو خداتعالیٰ کے احکام پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کرے ورنہ خدا تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کر سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںمیں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑی خندق ہے اُس پرفرشتوں نے بھیڑیں لٹائی ہوئی ہیں، فرشتوں کے ہاتھوں میں چھریاں ہیں اور وہ انہیں ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ بھیڑیں بڑا شور مچا رہی ہیں مگر فرشتے حکم کے انتظار میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اتنے میں آسمانی حکم آگیا اور فرشتوں نے چھریاں پھیر دیں جب بھیڑیں تڑپنے لگیں تو فرشتوں نے بڑی سختی سے اُنہیں کہا کہ تم گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو اور کیا ہو۔ پھر آپ کو الہام ہوا قُلْ مَایَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَائُ کُمْ یعنی اگر تم دعا نہ کروتو اللہ تعالیٰ کو تمہاری کیا پروا ہے پس جب انسان تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتاتو وہ گوہ کھانے والی بھیڑوں سے زیادہ کیا حیثیت رکھتا ہے۔۱۳؎ خدا تعالیٰ نے انسان کو عقل اور دماغ دیا ہے اور قوتِ متفکرہ عطا فرمائی ہے تا کہ ان سے صحیح معنوں میں کام لیکر وہ دنیا میں عد ل و انصاف، نیکی اور تقویٰ کو قائم کر سکے۔
پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ عدل و انصاف اور تقویٰ کی راہ ہی ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی مدد کی جاذب ہو سکتی ہے ہمیں چاہئے کہ اگر ہم ہندوؤں کو مظلوم پائیں تو انکا ساتھ دیں کیونکہ ہم ان کے بندے نہیں ہیں بلکہ ہم خدا کے بندے ہیں اس لئے ہر بات کا فیصلہ کرتے وقت ہمیں اِس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس بارہ میں ہمارا خدا ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔
کہتے ہیں کسی راجہ نے بینگن کھائے جو اس کو بہت مزیدار معلوم ہوئے، دوسرے دن اس نے دربار میں آکر بینگن کی تعریف کرنی شروع کی کہ بینگن بہت اعلیٰ قسم کی ترکاری ہے، بہت مزیدار ہے یہ سن کر ایک درباری کھڑا ہوا اس نے بینگن کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے۔ کہا حضور! واقعی بینگن بڑی اعلیٰ درجہ کی ترکاری ہے اس کے اندر یہ صفت ہے اور اس کے یہ خواص ہیں غرضیکہ اُس نے بینگن کے صحت والے حصہ کو جو طب میں بیان ہوا تھا بتمام و کمال بیان کر دیا اور پھر کہا حضور! دیکھئے تو بینگن کی شکل بھی کیسی اعلیٰ ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک صوفی سیاہ لباس زیب تن کئے سر پر سبز عمامہ پہنے عبادتِ الٰہی میں مصروف ہے۔ اس کے بعد راجہ نے چند دن متواتر بینگن کھا ئے اور چونکہ بینگن گرم ہوتا ہے اِس لئے راجہ کو بواسیرکی شکایت ہوگئی اِس پر راجہ نے دربار میں آکر ایک دن بینگن کی بُرائیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہہم نے سمجھا تھا کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ سخت نقصان دہ ہے اس سے بواسیر ہو جاتی ہے۔ یہ سن کر وہی درباری جس نے دوچار روز پیشتر بینگن کی خوبیاں بیان کرکے زمین وآسمان کے قلابے ملا دئیے تھے کھڑا ہوا اور بینگن کی بُرائیاں بیان کرنی شروع کر دیں اور کہا حضور واقعی بینگن سخت نقصان دہ چیز ہے، اس کے کھانے سے فلاں بیماری پیدا ہوتی ہے اور اس کے استعمال سے فلاں مرض کے لاحق ہونے کا احتمال ہوتا ہے غرضیکہ علِم طب کی رو سے بینگن کی تمام بُرائیاں بیان کر ڈالیں اور پھر راجہ سے کہا حضور دیکھئے تو اِس کی شکل بھی کیسی منحوس ہے، بیل پر لٹکا ہوا یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کا منہ کالا کر کے اسے پھانسی پر لٹکا یا ہوا ہے۔ جب دربار برخاست ہوا تو کسی نے اس درباری سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا ابھی کل کی بات ہے کہ تم نے بینگن کی تعریفیں کی تھیں اور آج تم اس کی بُرائیاں بیان کرتے رہے؟ درباری نے کہا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں۔ اُس دن راجہ بینگن کی تعریف کر رہا تھا میں نے بھی تعریف کر دی اور آج راجہ نے اس کی بُرائی کی تو میں نے بھی اس کے تمام بُرے پہلو گنوا دیئے۔ پس جب کہ راجہ کے درباری کو اس بات کا احساس تھا کہ میں راجہ کا ملازم ہوں تو کیا ایک مؤمن کو اس بات کااحساس نہ ہو گا کہ وہ خدا کا درباری ہے۔
مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر کام میں یہ دیکھے کہ اس کے بارہ میں میرا خدا مجھے کیا حکم دیتا ہے اور اپنے دل میں عہد کر لے کہ جو کچھ میرا خدا مجھے کہے گا وہی کروں گا چاہے ساری دنیا مجھ سے ناراض ہو جائے کیونکہ خدا کی دوستی کے مقابلہ میں انسانوں کی دشمنی کیا حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسی قوم کا کوئی لیڈر غلط راستہ اختیار کرتا ہے تو ہم اس پر تنقید کرتے ہیں کبھی ہم سکھوں کے کسی لیڈر پر اس کے کسی غلط رویہ کی وجہ سے تنقید کرتے ہیں اور کبھی ہندوؤں کے کسی لیڈر پر اور کبھی مسلمانوں کے کسی لیڈر پر۔ اگر ہم کسی معاملہ میں سکھوں یا ہندوؤں کے کسی لیڈر پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو مسلمان ہم پر خوش ہو جاتے ہیںاور ہندو سکھ ناراض ہو جاتے ہیں، پھر ہم کسی مسلمان کی نا انصافی پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو ہندو سکھ ہم پر خوش ہوتے ہیں اور مسلمان ناراض ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آرہا ہے۔ کبھی یہ ہمارے مخالف ہو جاتے ہیں اور کبھی وہ پھر ہمیں ان پر تعجب بھی آتا ہے کہ جب ہم وہ بات کرتے ہیں جس کے لئے ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ان کے لئے اس میں ناراضگی کاکونسا موقع ہے۔ مگر ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ کون ہم پر راضی ہوتاہے اور کو ن ناراض بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے خداکو کس طرح راضی رکھ سکتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد مرحوم بہت مدبّر اور لائق آدمی تھے مگر دنیا دار انہ رنگ رکھتے تھے جب آپ جوان تھے تو آپ کے والدصاحب مرحوم کو ہمیشہ آپ کے متعلق یہ فکر رہتی تھی کہ یہ لڑکا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے اور کتابیں پڑھتا رہتا ہے یہ بڑا ہو کر کیا کرے گا اور کس طرح اپنی روزی کماسکے گا؟ آپ کے والد صاحب مرحوم آپ کو کئی کاموں کی انجام دہی کے لئے بھیجتے مگر آپ چھوڑ کر چلے آتے یہاں تک کہ زمین کے مقدمات کے بارہ میں ان کو آپ کے خلاف شکایت رہتی تھی کہ وقت پر نہیں پہنچتے۔ ایک دفعہ آپ کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے تو عین پیشی کے وقت آپ نے نماز شروع کر دی۔ جب آپ نماز ختم کر چکے تو کسی نے آکر کہا آپ کامقدمہ تو آپ کی غیرحاضری کی وجہ سے خارج ہو گیا ہے آپ نے فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اِس سے بھی جان چھوٹی۔ جب آپ گھر پہنچے تو والد صاحب مرحوم نے ڈانٹا اور کہا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مقدمہ کی پیشی کے وقت عدالت میں حاضر رہو۔ آپ نے فرمایا نماز مقدمہ سے زیادہ ضروری تھی (گو مقدمہ کے متعلق میں نے سنا ہے کہ بعد میں معلوم ہواکہ مقدمہ آپ کے حق میں ہی ہوگیا تھا)
کاہنو وان کے دو بھائی جو سکھ تھے ان کو آپ کے ساتھ عشق تھا وہ ہمیشہ آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور باوجو د سکھ ہونے کے وہ آپ کے بہت زیادہ معتقد تھے آپ کی وفات کے بعد ایک دفعہ مَیں نماز پڑھا کر اندر جانے لگا تو انہی دونوں بھائیوں میں سے ایک نے مجھے روک لیا اور کہا خدا کے لئے آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو روکیں کہ وہ ہم پر ظلم نہ کریں۔ میں حیران ہوا کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے آپ پر کیا ظلم کیا ہے؟ میں نے اُسے تسلی دی اور کہا کہ اگر کسی نے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو میں اُسے سزادوں گا تم بتاؤ کہ کس نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر گیا تھا اور میں نے وہاں سجدہ کرنا چاہا لیکن آپ کے آدمیوں نے روک دیا۔ میں نے کہا یہ چیز تو ہمارے مذہب میں ناجائز ہے اسی لئے انہوں نے آپ کو روکا ہے۔ وہ کہنے لگا آپ کے مذہب میں بیشک ناجائز ہے مگر ہمارے مذہب میں تو ناجائز نہیں۔ اس سے ان کی محبت کا پتہ لگتا ہے ان بھائیوں نے خود مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک واقعہ سنایا اور کہا کہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہماری دوستی تھی اور ہم اکثر ان کے پاس آیا جایا کرتے تھے ایک دفعہ آپ کے دادا نے جب ہم اپنے باپ کے ساتھ آئے ہمیں کہا کہ میں نے تو غلام احمد(مسیح موعود) کو بہت سمجھایا ہے مگر اس کی اصلاح نہیں ہوتی یہ سارا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ کیا یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر جئے گا؟ میرا خیال ہے کہ تم اس کے ہمجولی ہو اور ہم عمر ہو تم جا کر اس کو سمجھاؤ شاید تمہارے کہنے سے سمجھ جائے۔ چنانچہ ہم آپ کے پاس گئے اور ان کو سمجھانا شروع کیا جب ہم بات ختم کر چکے تو آپ نے کہا والد صاحب تو یونہی گھبراتے ہیں میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ہے۔ وہ سکھ سنایا کرتے تھے کہ ہم نے جب آپ کا یہ جواب آپ کے والد صاحب کو جا کر سنایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا غلام احمد کبھی جھوٹ نہیں بولتا اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے تو وہ ضرور سچ کہتا ہوگا۔
پس مؤمن صرف اللہ کی نوکری کرتا ہے عام طور پر لوگ سَترہ اٹھارہ روپیہ پر فوجوں میں بھرتی ہوتے ہیں اور اِسی حقیر رقم کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں تو کیا ایک مؤمن اسلام کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار نہ ہوگا؟ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ مؤمن جانتا ہے کہ وہ خدا کا مینار ہے جس کی روشنی میں دنیا کی تمام تاریکیاں اور ظلمتیں دُور ہو جاتی ہیں۔
(الفضل ۲۳؍مئی۱۹۴۷ء)
۱،۲؎ المائدۃ: ۹
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۱،۱۰۲۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴؎
۵؎ تاریخ طبری جلد۳ صفحہ۱۳۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۶۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۷؎
۸؎
۹؎ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شہد بدرا
۱۰؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۲۸۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۱۱؎ سیرت الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۲؎
۱۳؎ تذکرہ صفحہ۱۸،۱۹۔ ایڈیشن چہارم


ایک آیت کی پُر معار ف تفسیر





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ایک آیت کی پُر معارف تفسیر
(فرمودہ ۲۰؍مئی ۱۹۴۷ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)
آج میں قرآن کریم کی ایک ایسی آیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہیں جو قرآن کریم کی مشکل آیتوں میں سے سمجھی جاتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس آیت کوپہلے مفسرین حل ہی نہیں کر سکے انہوں نے اس کو حل کرنے کی کوشش تو بہت کی ہے مگر ایک حد تک چل کررہ گئے ہیں اور ان کے بیان کردہ معنی ناقص ہو گئے ہیں اور ان ناقص معنوں کی وجہ سے قرآن کریم کی اس آیت پر یا یوں کہنا چاہئے کہ صحابہؓ پر حرف آتا ہے یوں تو میں نے اس آیت کے معنی پہلے بھی بیان کئے ہوئے ہیں اور ۱۹۲۲ء کے درس میں یہ آیت میرے درس میں آچکی ہے اور میں نے اس کی تشریح کی ہوئی ہے مگر چونکہ ۱۹۲۲ء اور آج کے زمانہ میں بہت سا فرق ہے اور میرے وہ درس جن میں مَیں نے اس آیت کو بیان کیا تھا شائع بھی نہیں ہوئے صرف جن دوستوں نے میرے درس کے نوٹ لئے تھے انہوں نے ان معنوں سے فائدہ اُٹھایا ہو گا مگر نئی پود کو اس آیت کے معنی کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت جو آجکل کے حالات سے تعلق رکھتی ہے اس کے متعلق میں دوستوں کے سامنے کچھ بیان کر دوں تا کہ نوجوانوں کو جو مشکل اس آیت کے معنی کرنے میں پیش آتی ہے وہ حل ہو جائے۔
ایک عجیب بات جو میں نے قرآن کریم کی تفسیر کے بارے میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ تفسیر میں جو مشکلات مفسرین کو پیش آتی رہیں ان کا جرأت کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جاتا رہا اس لئے جو اُلجھنیں انہیں پیش آتی رہیں وہ جوں کی توں قائم رہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مفسرین کسی سوال کو اُٹھائے بغیر خاموشی کے ساتھ اس پر سے گذر جاتے ہیں اور جو معنی ان کے دماغ میں آتے ہیں وہ کر دیتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ جو اُلجھن اور مشکل پیدا ہوئی تھی وہ حل ہوئی ہے یا نہیں یا پھر اس طرح کرتے ہیں کہ ایسی آیت کا جس میں انہیں کسی مشکل کا سامنا ہو ایک ٹکڑا لے لیتے ہیں اوراس کے معنی کر دیتے ہیں اور اس پر خوش ہو جاتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ آیت کے ایک حصہ کے معنی کر دینے سے اُلجھن دور نہیں ہو سکتی جب تک ساری آیت کو حل نہ کیا جائے مگر وہ اپنی سمجھ کے مطابق آیت کے ایک ٹکرے کے معنی کر دیتے ہیں اورجو ٹکڑا اُن کے لئے مشکل پیش کرتا ہو اُس کو چھوڑ کر گزر جاتے ہیں۔ ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے ایک لطیفہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی شخص اپنے باغ میں گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک شخص انگوروں کاٹوکرا سر پر رکھے اس کے باغ میں سے نکل رہا ہے، باغ کا مالک اس کے پاس پہنچا اور کہا تمہارا کیا حق ہے کہ انگوروں کا ٹوکرا بھر کر میرے باغ سے لئے جارہے ہو ۔ٹوکرے والے نے کہا پہلے تم میری بات اچھی طرح سُن لوپھر اگر تم نے کچھ کہنا ہو تو کہہ لینا۔ مالک نے کہا اچھا بتاؤ۔ اس نے کہا دراصل بات یہ ہے کہ میں سٹرک پر سے گزررہا تھا کہ ایک بگولا بڑے زور سے آیا میں نے اس بگولے سے بچنے کی بہت کوشش کی ہاتھ پاؤں مارے مگر میں بچ نہ سکا او ربگولا نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ایک ہی لمحہ میں اُس نے مجھے باغ کے اندر پھینک دیا اب تم ہی بتاؤ اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ مالک نے کہا اس میں تو تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ٹوکرے والے نے پھر کہنا شروع کیا جب میں آپ کے باغ میں گرا تو میں باغ سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا مگر دوبارہ ایک بگولا جو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا آیا اور اس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے کر انگور کی بیل پر گرادیا میں نے اس سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے کیونکہ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ جان سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی اور جان بچانے کے لئے انسان بہت کچھ کر گزرتا ہے میں نے جب بگولا سے بچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تو انگور گرنے شروع ہو گئے نیچے ٹوکرا پڑا تھا انگور اس میں جمع ہو گئے، اب تم ہی بتاؤ اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ مالک نے کہا اس میںتو تمہارا کوئی قصور نہیں مگر تم یہ بتاؤ کہ تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ انگوروں کا ٹوکرا اپنے سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل پڑو۔ اس نے کہا بس یہی بات میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر یہ کیا ہوا کہ انگوروں کا ٹوکرا اپنے سر پر رکھ کر میں گھر کی طرف جا رہا ہوں۔ اب دیکھو دو مشکلات تو اس نے حل کر دیں کہ وہ باغ میں کس طرح پہنچا اور ان کے خوشے کس طرح ٹوٹے مگر وہ اگلا اور اصل سوال حل نہ کر سکا کہ ٹوکرا اپنے سر پر رکھ کر وہ گھر کی طرف کیوں جا رہا تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن کو مفسرین نے حل کرنے کی کوشش تو کی ہے مگر اصل مشکل کو اور اصل سوال کو حل کئے بغیر اس پر سے گزر جاتے رہے اور آیت کے جس ٹکڑے کو وہ حل کرلیتے رہے اسی پر خوش ہو جاتے رہے کہ ہم نے اس حصے کو حل کر لیا ہے حالانکہ اصل سوال جواب کے بغیر رہ جاتا رہا اور پڑھنے والے بھی اسی ایک ٹکڑے کے معنوں سے ہی خوش ہو جاتے اور واہ واہ کہتے رہے۔
اس آیت کے متعلق بھی جس کو میں ابھی بیان کرنے لگا ہوں مفسرین کو اسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوا اور ان کے دل میں اس کے متعلق شبہات پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اس کے کچھ حصہ کو حل کرنے کی کوشش کی اور باقی سے یونہی گزر گئے اور انہوں نے اس امر کو ملحوظ نہیں رکھا کہ اس آیت کے سارے پہلوؤں پر جتنے شبہات پیدا ہو سکتے تھے یا جتنے اعتراضات اس پر وارد ہو سکتے تھے ان سب کا کوئی حل سوچا جائے۔
یہ آیتیں سورئہ انفال کی ہیں اور جنگ بدر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱؎ فرماتاہے کہ چونکہ تیرے ربّ نے تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکالا تھا اور مؤمنوں میں سے ایک فریق اسے ناپسند کرتا تھا وہ تجھ سے حق کے معاملہ میں بحث کرتے ہیں بعد اس کے کہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے اور اس بحث میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے۔ ان آیات کے متعلق جوسوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہؓ حق کے کھل جانے کے بعد کس طرح بحث کر سکتے تھے اور ان کو حق کی طرف جانا موت کیوں معلوم ہوتا تھا اور کیوں یہ کہا گیا ہے کہ ان کو اپنے سامنے موت نظر آرہی تھی۔ یہ معنے تو صحابہؓ کی شان کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ صحابہ نے دین کے لئے جو قربانیاں کیں اور اپنی جان ،مال اور عزت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کیں ان کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحابہؓ حق کو قبول کرنے سے جی چراتے تھے اور حق کی طرف جانا ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا نَعُوْذُ بِاللّٰہ وہ موت کی طرف دھکیلے جار ہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے، اسی طرح یہ کہنا کہ صحابہؓ جنگ کو ناپسند کرتے اور اس سے جی چراتے تھے یہ معنی بھی ایسے ہیں جو صحابہؓ کی تنقیص کرنے والے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تک ناپسندیدگی کا سوال ہے ایک مؤمن کبھی جنگ اور کشت وخون کو پسند نہیں کرتا بلکہ چاہتا ہے کہ جنگ وجدال اور شرارت اور فساد کو چھوڑ کر صلح کر لے لیکن اگر کوئی ایسا موقع آجائے کہ جنگ ناگزیر ہو جائے تو مؤمن جیسا بہادر اور نڈر بھی کوئی نہیں ہوتا اور وہ موت کی کبھی پرواہ نہیں کرتا بلکہ وہ موت کو اپنے لئے خوشی کا موجب سمجھتا ہے اور یہی حالت صحابہؓ کی تھی۔
ہمیں تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ جنگوں میں اس طرح جاتے تھے کہ ان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں شہید ہونا ان کے لئے عین راحت اور خوشی کا موجب ہے اور اگر ان کو لڑائی میں کوئی دکھ پہنچتا تھا تو وہ اس کو دکھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ سُکھ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہؓ کے کثرت کے ساتھ اس قسم کے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ انہوں نے خدا کی راہ میں مارے جانے کو ہی اپنے لئے عین راحت محسوس کیا۔ مثلاً وہ حفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وسطِ عرب کے ایک قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لئے بھیجے تھے ان میں سے حرام بن ملحان اسلام کا پیغام لیکر قبیلۂ عامر کے رئیس عامر بن طفیل کے پاس گئے اور باقی صحابہؓ پیچھے رہے۔ شروع میں تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھیوں نے منافقانہ طور پر ان کی آؤ بھگت کی لیکن جب وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور تبلیغ کرنے لگے تو ان میں سے بعض شریروں نے ایک خبیث کو اشارہ کیا اور اس نے اشارہ پاتے ہی حرام بن ملحان پر پیچھے سے نیزہ کا وار کیا اور وہ گرگئے۔ گرتے وقت ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ ۲؎ یعنی مجھے کعبہ کے ربّ کی قسم میں نجات پا گیا۔ پھر ان شریروں نے باقی صحابہؓ کا محاصرہ کیا اور ان پر حملہ آور ہو گئے اس موقع پر حضرت ابو بکر ؓ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہؓ جو ہجرت کے سفر میں رسول کریمﷺ کے ساتھ تھے ان کے متعلق ذکرآتا ہے بلکہ خود ان کا قاتل جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ ہی یہ بیان کرتا تھا کہ جب میں نے عامر بن فہیرہ ؓ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ یعنی خدا کی قسم! میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔۳؎ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ صحابہؓ کے لئے موت بجائے رنج کے خوشی کا موجب ہوتی تھی۔
اسی طرح ایک اور صحابیؓ کا واقعہ تاریخوں میں آتا ہے ان کا نام ضرار تھا رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جو جنگیں ہوئیں ان میں سے ایک جنگ میں یہ صحابی شریک ہوئے ۔ عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ تھا ایک عیسائی جرنیل جو بڑا بہادر اور جنگجومشہور تھا اس نے مبارز طلبی میں مسلمانوں کے دو آدمی مار دئیے تھے۔ اُس وقت لڑائی میں یہ رواج تھا کہ فریقین کے بہادر فرداً فرداً نکلتے تھے اور مقابلہ کرتے تھے اس مقابلہ کو مبارز طلبی کہا جاتا ہے یعنی ایک فریق کا کوئی آدمی میدان میں آجاتا تھا اور وہ دوسرے فریق کے کسی نامی بہادر کو چیلنج دیتا تھا ان دونوں میں سے جو شخص جیت جاتا تھا اس کی قوم خوشی کے نعرے لگاتی تھی۔ جب عیسائی جرنیل کے ہاتھوں مبارز طلبی میں دو آدمی شہید ہو چکے تو حضرت ضرارؓ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے۔ یہ چوٹی کے جرنیلوں میں سے تھے اور بڑے دلیر اور بہادر تھے جب یہ مقابلہ کے لئے نکلے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب یہ عیسائی جرنیل سے بدلہ لے لیں گے اور عیسائی جرنیل کا جو رُعب قائم ہو چکا ہے وہ جاتا رہے گا۔ مگر جب ضرارؓ اس عیسائی کے سامنے پہنچے تو ابھی مقابلہ شروع نہیں ہوا تھا کہ بھاگ کر اپنے خیمے میں آگئے وہ چونکہ مسلمانوں کے چوٹی کے جرنیل تھے اور بڑے بہادر اور آزمودہ کارتھے ان کے اس طرح بھاگنے سے مسلمانوں کو بڑی ذلّت محسوس ہوئی اور وہ حیران وششد ر رہ گئے کہ اتنا بڑا بہادر بغیر مقابلہ کے بھاگ آیا یہ دیکھ کر مسلمانوں کے کمانڈر نے ایک شخص کو دَوڑایاکہ جا کر ان سے پوچھے کہ ان کے بھاگنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ شخص جب خیمہ کے پاس پہنچا تو حضرت ضرارؓ خیمہ سے نکل رہے تھے اس شخص نے جاتے ہی ان سے کہا یہ آپ نے کیا کیا کہ اس طرح بغیر لڑائی کے بھاگ آئے تمام اسلامی لشکر پر سکتہ عالَم طاری ہے اور آپ کے اس طرح بھاگ نکلنے نے مسلمانوں کو سخت بے چینی اور اضطراب میں مبتلاکر دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ضرارؓ مسکرائے اور انہوں نے کہا شاید تم لوگوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ میں موت سے ڈر کر بھاگاہوں خدا کی قسم! ہر گز نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ یہ عیسائی جرنیل جو بڑا جری اور بہادر مشہور ہے اس نے ہمارے دو آدمی ماردئیے ہیں اس کے بعد میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلا اور اس کے سامنے پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ میں نے زرہ پہنی ہوئی ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے نفس کو ملامت کی کہ تو نے زرہ پہن رکھی ہے تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دے گا جب خداتعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ ضرار کیا تم موت سے اتنے ڈرتے تھے کہ تم نے زرہ پہن لی تھی تو اُس وقت میں کیا جواب دوں گا اس لئے میں وہاں سے بھاگا کہ جاکر زرہ اُتار آؤں چنانچہ اب میں زرہ اُتار کر مقابلہ کے لئے جا رہا ہوں تاکہ اگر میں مارا جاؤں تو خدا تعالیٰ کو کہہ سکوں کہ مجھے آپ سے ملنے کا اِس قدر شوق تھا کہ میں نے جنگ میں مقابلہ کے وقت زرہ بھی اُتار دی تھی۔
اسی طرح حضرت خالدبن ولید کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب وہ فوت ہونے لگے تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ زارزار رورہے تھے۔ کسی نے ان سے کہا خالد! یہ آپ کے لئے رونے کا کونسا موقع ہے؟ آپ نے اسلام کی بیش بہا خدمات سر انجام دی ہیں اور قابل قدر قربانیاں کی ہیں اس لئے یہ موقع آپ کے رونے کا نہیں بلکہ اِس وقت تو آپ خدا کے پاس جا رہے ہیں آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ آپ خدا تعالیٰ سے انعامات پائیں گے۔حضرت خالدؓ نے یہ سُن کر جواب دیا میں اس لئے نہیں رورہا کہ میں اس دنیا کو چھوڑنے لگا ہوں یا موت سے ڈر رہا ہوں بلکہ میرے رونے کی اور ہی وجہ ہے، ذرا میری دائیں ٹانگ سے پاجامہ اُٹھا کر دیکھو کیا کوئی جگہ ایسی نظر آتی ہے جہاں تلواروں کے نشان نہ ہوں، اس شخص نے پاجامہ اُٹھا کر دیکھا اور کہا آپ کی ساری ٹانگ پر زخموں کے نشان ہیں، خالدؓنے کہا اب میری بائیں ٹانگ بھی دیکھو کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جہاں تلوار کے نشان نہ ہوں۔ اس نے پاجامہ اُٹھایا اور دیکھ کر کہا واقعی اس ٹانگ پر بھی کوئی جگہ زخموں سے خالی نہیں ہے۔ خالدؓ نے کہا اچھا اب تم میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو کہ کیا کوئی جگہ زخموں سے خالی نظر آتی ہے؟ اس نے پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دیکھ کر کہا نہیں کوئی جگہ خالی نہیں۔ خالدؓ نے کہا اب میری چھاتی پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھو کہ کیا کوئی جگہ زخموں سے خالی ہے؟ اس نے کپڑا ہٹایا اور دیکھ کر کہا نہیں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاںتلوار کے نشان نہ ہوں۔ اس پر خالدؓ اور بھی زیادہ زور سے رونے لگ گئے اور پھر انہوں نے اسی حالت میں روتے ہوئے کہا کہ میں نے شہادت کے شوق میں اپنے آ پ کو اسلامی جنگوں میں ہر خطرناک مقام پر کھڑا کیا، جس جگہ بھی زورکا رَن پڑتا میں دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ جاتا اور میری ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ میں لڑتے لڑتے اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو جاؤں مگر نہ معلوم میری کون سی شامتِ اعمال تھی کہ جس کے نتیجہ میں مَیں شہادت سے محروم رہا۔ میرے جسم پر ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں تلواروں کے نشان نہ ہوں مگر باوجود اس کے کہ میں ایسی بے جگری سے لڑا اور باوجود اِس کے کہ میری خواہش تھی کہ میں شہید ہو جاؤں آج یہ حالت ہے کہ بجائے میدانِ جنگ کے میں بستر پر پڑا جان دے رہا ہوں اور یہی چیز ہے جو مجھے رُلا رہی ہے۵؎ ان واقعات کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی شخص یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ صحابہؓ موت سے ڈرتے تھے۔
پھر یہ سوال کہ بدر کی جنگ کے وقت صحابہؓ حق کے کھل جانے پر آپ کے ساتھ بحث کرتے تھے اور وہ یوں سمجھتے تھے کہ گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آرہی ہے ایک ایسی بات ہے جو صحابہؓ کی طرف قطعاً منسوب نہیں ہو سکتی۔ بدر کی جنگ کے متعلق تو متواتر حدیثوں سے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور تمام حدیثیں اس پر متفق ہیں کہ صحابہؓ جب مدینہ سے نکلے تو ان کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ کوئی جنگ پیش آنے والی ہے وہ تو اس قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلے تھے جو ابو سفیان کی سرداری میں شام کی طرف سے واپس مکہ آرہا تھا اور اس قسم کے قافلوں کی روک تھام اس لئے ضروری تھی کہ یہ قافلے مسلح ہوتے تھے اور مدینہ سے بالکل قریب ہو کر گزرتے تھے اور وہ مسلمانوں کے خلاف قبائلِ عرب میں سخت اشتعال انگیزی کرتے اور اردگرد کے علاقہ کو مرعوب کرتے تھے۔ اس دفعہ ابوسفیان چونکہ ایک بڑے قافلہ کے ساتھ گیا تھا اور بہت بڑی تجارت کر کے کافی نفع حاصل کر کے واپس آرہا تھا اس کے متعلق خبریں پہنچ رہی تھیں کہ وہ کوئی شرارت کرے گا اس لئے صحابہؓ جنگ کے خیال سے نہیں بلکہ اس قافلہ کی شرارتوں کی روک تھام کے لئے مدینہ سے نکلے تھے اور پھر سارے صحابہؓ مدینہ سے نکلے بھی نہ تھے بلکہ وہی تعداد جس کو بعد میں لشکرِ قریش کا مقابلہ کرنا پڑا نکلی تھی اور باقی صحابہؓ مدینہ میں ہی رہ گئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ قافلہ کی روک تھام کے لئے اسی قدر تعدادکافی ہے۔ تمام تاریخیں اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہؓ جنگ کے خیال سے نہیں نکلے تھے بلکہ جنگ کی خبر انہیں اس وقت ہوئی جب رسول کریم ﷺ نے ان کو بتایا کہ ہمیں قافلہ کانہیں بلکہ لشکر کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یا تو مدینہ میں ہی اور یا مدینہ سے نکلتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہاماً بتا دیا تھا کہ جنگ پیش آنے والی ہے مگر صحابہؓ کو اِس کے متعلق کوئی علم نہ تھا۔ غرض جب تاریخ کہتی ہے کہ صحابہؓ کو جنگ کے متعلق کوئی علم ہی نہ تھا، احادیث کہتی ہیں کہ صحابہؓ کوجنگ کا کوئی علم نہ تھا تو اس آیت میں کٰرِھُوْنَ کا کیا مطلب ہوا۔ عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ صحابہؓ مدینہ سے اس لئے نکلے تھے کہ وہ قافلہ کو لوٹیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ قافلہ کو لوٹنے کے خیال سے نکلے تھے تو ان کوخوشی ہونی چاہئے تھی نہ کہ رنج اور اس آیت میں کٰرِھُوْنَ نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ فٰرِھُوْنَ ہونا چاہئے تھا کٰرِھُوْنَ کا لفظ بتاتا ہے کہ عیسائی مؤرخین کا یہ خیال کہ صحابہؓ نَعُوْذُ بِاللّٰہ اس لئے گئے تھے کہ قافلہ کو لوٹیں گے بالکل غلط ثابت ہوتا ہے۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ یہاں جو کٰرِھُوْنَ کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمایاہے اس کا کیا مطلب ہے اور اس کی ضمیر کس طرف جاتی ہے؟ یہ کہنا بالکل غلط اور خلافِ واقعہ بات ہے کہ صحابہؓ لڑائی سے گھبراتے تھے اور اس کو ناپسند کرتے تھے کیونکہ اُس وقت لڑائی کا تو کوئی سوال ہی نہ تھاوہ تو قافلہ کی روک تھام کے لئے نکلے تھے کیونکہ قافلہ والے ہمیشہ مدینہ کے قریب پہنچ کر بہت بڑا جشن منایا کرتے اور قبائل کے اندر اشتعال پھیلاتے تھے اورکہتے تھے مدینہ والے ہمارے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتے۔ پس یہاں کَرْھًا کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ حق کے بارے میں جبکہ حق کھل چکا تھا اس طرح جھگڑتے اور بحث کرتے تھے کہ گویاوہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور موت اُن کو سامنے نظر آ رہی تھی حالانکہ تاریخ سے جو کچھ پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ نہ صحابہؓ نے کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مجادلہ کیا اور نہ وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے تھے بلکہ وہ تو ایک قافلہ کی روک تھام کے لئے گئے تھے۔ یہ ساری مشکلات ایسی ہیں جو اس آیت کے معنی کرنے میں اُلجھن پیدا کر دیتی ہیں۔ مفسرین کو اس آیت کے معنی کرتے وقت بھی یہ مشکلات پیش آئیں اور ان کے دل میں اِس آیت پر سوالات بھی پیدا ہوئے مگر انہوں نے اس مشکل کا حل باوجود کوشش کے کوئی نہ نکالا۔ ابن حیان نے اس پر بڑا غور کیا ہے وہ نیک آدمی تھے اور ان کی تفسیر رطب ویابس سے پاک ہے، وہ فطرت کے مطابق چلتے تھے۔جب وہ اِس آیت پر پہنچے تو اُن کو یہ آیت چبھی اور اُنہوں نے اس پرغور کیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ آخر انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں کہ اے اللہ !یہ مشکل مجھ سے تو حل نہیں ہو سکتی اب تو ہی بتا کہ اس آیت کا کیا مفہوم ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کیں تو مجھے رؤیا میں بتایا گیا کہ یہاں نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے اور انہوںنے اسی کے مطابق معنی کر دیئے ۶؎ لیکن چونکہ اُس زمانہ میںاسلام غالب تھا اور اسلام پر دشمنوں کی طرف سے اعتراضات نہ ہوتے تھے اس لئے انہوں نے اس تھوڑے سے حل پر ہی اکتفا کر لیا اور سمجھنے لگ گئے کہ اب یہ مشکل حل ہوگئی ہے۔ مگر اب ہمارے سامنے دشمن کے اعتراضات کے انبار لگے ہیں اور دشمنوں نے قرآن کریم کے ہر ایسے مقام پر جہاں پُرانے مفسرین کو معنی کرنے میں مشکل پیش آتی تھی اعتراض کر دیئے ہیں ۔پُرانے زمانہ کے عیسائی تو قرآن کریم نہ پڑھتے تھے اس لئے وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے لیکن اب بیسیوں عیسائیوں نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور تفسیریں لکھی ہیں اور وہ ایسے مقامات پر جی بھر کے اعتراض کرتے ہیں اس لئے جس رنگ میں آجکل اسلام کے خلاف اعتراضات ہوتے ہیں اُس زمانہ میں نہ تھے اسی لئے ان مفسرین کے لئے یہ دقتیں بھی نہ تھیں جو ہم کو اس زمانہ میں پیش آرہی ہیں۔ پُرانے مفسرین کے سامنے چونکہ اعتراضات نہ ہوتے تھے اس لئے وہ لفظی ترجمہ کر کے یا کسی آیت کے متعلق دقت پیش آنے پر اس کے ایک ٹکڑے کو حل کر کے گزر جاتے تھے مگر اِس زمانہ میں جب عیسائیوں نے قرآن کریم کو پڑھا اور اس کے ترجمے کئے تو انہوں نے اس قسم کے مقامات پر پہنچ کر بے شمار اعتراضات کر ڈالے اور بال کی کھال اُتار لی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے بلکہ قرآن کریم کے عربی زبان میں نازل ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اس کے اندر بہت سے الفاظ محذوف ہیں اور اس اختصار کی وجہ سے تھوڑی سی عبارت میں بہت بڑے مضامین بیان کر دئیے گئے ہیں۔ اگر انسان محذوف عبارت کی طرف توجہ نہ کرے تو وہ سخت مشکل میں پڑجاتا ہے ۔مثلاً کا ترجمہ ’’جس طرح‘‘ بھی ہے اور ’’چونکہ‘‘ بھی اور ’’ جس طرح اور چونکہ‘‘ ایسے الفاظ ہیں کہ اگر ان کا جواب نہ آئے تو دوسرا فقرہ چل ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ہم اگر یہ کہیں کہ جس طرح تمہارے ساتھ فلاں معاملہ گزرا تھا اور اتنا کہہ کر ہم چپ ہو جائیں تو یہ فقرہ نامکمل رہے گا۔ پھر’’ چونکہ ‘‘کا لفظ بھی اسی طرح کا ہے اور جس فقرہ میں یہ لفظ استعمال ہوگا اس کے آگے اسی فقرہ میں اس کا جواب بھی ہونا چاہئے۔ مثلاً کوئی شخص کہے کہ چونکہ میرے پاس روپیہ نہ تھا اور اس کے بعد وہ چپ ہو جائے تو اس فقرہ کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے اس لئے یہ فقرے اس طرح ہوںگے کہ جس طرح تمہارے ساتھ فلاں معاملہ گزرا تھا اسی طرح زید کے ساتھ بھی یہ معاملہ گزرا یاچونکہ میرے پاس روپیہ نہ تھا اس لئے میں سامان نہ خرید سکا۔ پس جس فقرہ کے اندر ’’جس طرح‘‘ اور ’’چونکہ‘‘ کے الفاظ آجائیں ان کا جواب بھی ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ فقرہ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔
ابن حیان بڑے نحوی آدمی تھے ان کا ذہن اس آیت کے معنوں میں مشکل پیش آنے پر اس طرف گیا کہ اس میں کچھ حصہ محذوف ہے اور اس کیلئے جب انہوں نے دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نَصْرَکَ کا لفظ بتایا اور انہوں نے اسی کے مطابق معنی کردیئے لیکن اپنے زمانہ کی کم مشکلات اور شدتِ اعتراض نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اِس پر زیادہ غور نہ کیا اس لئے اُنہوں نے نَصْرَکَ کو ہُمْ یَنْظُرُوْنَ کے بعدلگایا ہے یعنی ہُمْ یَنْظُرُوْنَ نَصْرَکَ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صرف اتنا بتایا تھا کہ نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ کونسے مقام پر چسپاں ہوتاہے مگر انہوں نے نَصْرَکَ کو کے بعد رکھ دیا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہر زمانے کے لوگوں پر اپنے فضل نازل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علامہ ابن حیان کو تو بتایا کہ اس آیت میں نَصْرَکَ کا لفظ محذوف ہے مگر میں نے جب اس آیت پر غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ انکشاف فرمایاکہ یہاں خالی نَصْرَکَ محذوف نہیں بلکہ اس کے ساتھ عَلٰی اَعْدَآئِکَ بھی ہے یعنی تیرے دشمنوں پر تیرا غلبہ۔ ان الفاظ کو اس آیت میں لگانے سے یہ مشکل حل ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ یعنی چونکہ تیرے رَبّ نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا تھا اس لئے ضروری تھا کہ وہی تجھے تیرے دشمنوں پر غلبہ بھی عطا فرماتا۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ جس نے گھر سے آپ کو نکالا تھا اُسی پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی کہ وہ آپ کو دشمنوں پر غلبہ عطا فرماتا۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں جب تم کوئی ایسا کام اپنے غلام کے سپرد کرو جو اُس کی طاقت سے باہر ہو تو تمہارا فرض ہے کہ اس کی مدد کرو اور اس کام میں اس کا ہاتھ بٹاؤ۔ اگر ایک انسان پر یہ فرض ہے جو محدود طاقت رکھتا ہے کہ وہ اگر اپنے غلام کو کوئی ایسا کام سپرد کرے جو اُس کی طاقت سے بالا ہو تو اُس کام میں اس کا ہاتھ بٹائے تو خدا جو بہت بڑی اور بے شمار طاقتوں کا مالک ہے اُس پر اِس بات کی کیوں ذمہ داری عائد نہیں ہوگی۔ اگر وہ کوئی ایسا کام اپنے بندے کے سپرد کرے جو اُس کی طاقت سے بالا تر ہو تو اس کی مدد بھی فرمائے۔ اس طرح اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ چونکہ تیرے ربّ نے تجھے دشمنوں کے مقابلہ کے لئے تیرے گھر سے نکالا اس لئے لازمی تھا کہ وہ تیری مدد بھی کرتا اور تجھے دشمن پر غلبہ عطا کرتا۔ ان معنوں میں کسی قسم کی اُلجھن نہیں رہ جاتی اور مطلب بالکل صاف اور واضح ہو جاتا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بدر کے موقع پر صحابہ ۳۱۳ کی تعداد میںنکلے تھے اگر وہ بجائے ۳۱۳ کے چھ یا سات سَو کی تعداد میں نکلتے اور وہ صحابہ بھی شامل ہو جاتے جو مدینہ میں ٹھہر گئے تھے تو لڑائی ان کے لئے زیادہ آسان ہو جاتی مگر خدا تعالیٰ نے محمدرسول اللہﷺ کو تو اس جنگ کے متعلق بتا دیا لیکن ساتھ ہی منع بھی فرما دیا کہ جنگ کے متعلق کسی کو بتانا نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا مثلاً صحابہؓ کی تعداد تین سَو تیرہ تھی اور بائبل میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ جو واقعہ جدعون کے ساتھ ہوا تھا وہی واقعہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو پیش آئے گا اور جب جدعون نبی اپنے دشمن سے لڑے تھے تو ان کی جماعت کی تعداد ۳۱۳ تھی۔ اب اگر صحابہؓ کو معلوم ہو جاتا کہ ہم جنگ کے لئے مدینہ سے نکل رہے ہیں تو وہ سارے کے سارے نکل آتے اور ان کی تعداد ۳۱۳ سے زیادہ ہو جاتی۔ اِسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مخفی رکھا تا کہ صحابہؓ کی تعداد ۳۱۳ سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ ۳۱۳ صحابہؓ کا جانا ہی پیشگوئی کو پورا کر سکتا تھا اس لئے ضروری تھا کہ جنگ کی خبر کو مخفی رکھا جاتا اور میدانِ جنگ میں پہنچ کر صحابہؓ کوبتایا گیا کہ تمہارا مقابلہ لشکرِ قریش سے ہو گا۔ اللہ نے اِس آیت میں کہہ کر بتا دیا کہ رسول کریم ﷺ کا مدینہ سے نکلنا خدا کے حکم کے ماتحت تھا نہ کہ اپنے طور پر۔ اب آگے جو کے الفاظ آئے ہیں اس کے لئے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہر مضمون کا تعلق پہلے مضمون کے ساتھ ہوتا ہے اب ہم سارے مضمون کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کٰرِھُوْنَ کا تعلق کے ساتھ ہے کیونکہ میں کُمْ کی ضمیر نہیں بلکہ کَ کی ضمیر ہے اس لئے کٰرِھُوْنَ کو کے ساتھ چسپاں کیا جائے گا اور یہ اس طرح بن جائے گا کٰرِھُوْنَ عَلٰی خُرُوْجِکَ۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جہاںعشق ہوتا ہے وہاں کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ میرے محبوب کو کوئی تکلیف پہنچے اور کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کا محبوب لڑائی میں جائے بلکہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ محبوب لڑائی سے بچ جائے۔ اسی طرح صحابہؓ بھی اِس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ آپؐ لڑائی پر جائیں۔ صحابہؓ اِس بات کو نا پسند نہیں کرتے کہ ہم لڑائی پر کیوں جائیں بلکہ ان کو رسول کریمﷺ کا لڑائی پر جانا ناپسند تھا اور یہ ان کی طبعی خواہش تھی جو ہر محب کو اپنے محبوب کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ جب رسول کریمﷺ بدر کے قریب پہنچے تو آپ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارا مقابلہ قافلہ سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ ہوگا۔ پھر آپ نے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا کہ بتاؤ تمہاری کیا صلاح ہے؟ جب اکابرصحابہؓ نے آپ کی یہ بات سُنی تو انہوں نے باری باری اُٹھ اُٹھ کر نہایت جان نثار انہ تقریریں کیں اور عرض کیا ہم ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں۔ ایک اٹھتا ہے اور تقریر کر کے بیٹھ جاتا۔ پھر دوسرا اُٹھتا اور مشورہ دے کر بیٹھ جاتا غرض جتنے بھی اُٹھے انہوں نے یہی کہا کہ اگر ہمارا خدا ہمیں حکم دیتا ہے تو ہم ضرور لڑیں گے مگر جب کوئی مشورہ دے کر بیٹھ جاتا تو رسول کریم ﷺ فرماتے مجھے مشورہ دو اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک جتنے صحابہؓ نے اُٹھ اُٹھ کر تقریریں کی تھیں اور مشورے دئیے تھے وہ سب مہاجرین میں سے تھے مگر جب آپ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے مشورہ دیا جائے تو سعد بن معاذؓ رئیسِ اوس نے آپ کا منشاء سمجھا اور انصار کی طرف سے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ آپ کی خدمت میں مشورہ تو عرض کیا جا رہا ہے مگر آپ پھر بھی یہی فرماتے ہیں کہ مجھے مشورہ دد۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ انصار کی رائے پوچھنا چاہتے ہیں اِس وقت تک اگر ہم خاموش تھے تو صرف اس لئے کہ اگر ہم لڑنے کی تائید کریں گے تو شاید مہاجرین یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہماری قوم اور ہمارے بھائیوں سے لڑنا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !شاید آپ کا بیعت عقبہ کے اس معاہدہ کے متعلق کچھ خیال ہے جس میں ہماری طرف سے یہ شرط پیش کی گئی تھی کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو ہم اس کا دفاع کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ سعدبن معاذؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ اُس وقت جب کہ ہم آپ کو مدینہ لائے تھے ہمیں آپ کے بلند مقام اور مرتبہ کا علم نہیں تھا اب تو ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کی حقیقت کو دیکھ لیا ہے اب اس معاہدے کی ہماری نظروں میں کچھ بھی حقیقت نہیں۔ اس لئے آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور خدا کی قسم! اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں تو ہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا۔۷؎ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ ۸؎
ان حالات کی موجودگی میں کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ کے متعلق ھُمْ کٰرِھُوْنَ کا لفظ آیا ہے وہ لڑائی کے متعلق ہے ہر گز نہیں بلکہ ان کو جو چیز نا پسند تھی وہ یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ تک کوئی دشمن نہ پہنچ جائے۔پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب جنگ بدر کے شروع ہونے سے پہلے قریش مکہ نے عمیر بن وہب کو بھیجا کہ جا کر پتہ لگائے کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کیا ہے اور وہ اندازہ لگاکر واپس گیا تو اس نے کہا اے قوم! میں تم لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرو۔ اُس کے الفاظ یہ تھے کہ اے معشرِ قریش! میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوںکے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کو اُٹھایا ہوا ہے اس لئے میں تم کو مشورہ دیتا ہوں کہ ان سے لڑائی نہ کرو میں نے جتنے مسلمانوں کو دیکھا ہے ان کے چہروں سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ وہ مرنے کی نیت سے آئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا چہرہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہم نے مرجانا ہے مگر میدان سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ ۹؎یہ سن کر لوگوں کے دلوں میں تذبذب پیدا ہو گیا اور انہوں نے چاہا کہ لڑائی کا ارادہ ترک کر دیں مگر ابو جہل کے دل میں چونکہ مسلمانوں کے خلاف سخت بغض تھا اس لئے اس نے عمرو حضرمی جو مسلمانوں کے ہاتھوں ایک غزوہ میں قتل ہوا تھا اس کے بھائی عامر حضرمی کو بُلایا اور نہایت اشتعال انگیز الفاظ میں اس کو کہا اب جبکہ تمہارے مقتول بھائی کے بدلہ کا موقع آیا ہے تو لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ لڑنا نہیں چاہئے۔ یہ سُن کر عامر حضرمی کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور اس نے عرب کے قدیم دستور کے مطابق اپنے کپڑے پھاڑ کر اور ننگا ہو کر رونا اور چِلانا شروع کر دیا کہ ہائے افسوس! میرا بھائی بغیر انتقام کے رہا جاتا ہے۔ پھر عامر نے اپنے بھائی کا نام لے کر کہا ۔ہائے افسوس! تو نے اپنی زندگی میں قوم کے لئے اتنی قربانیاں کی تھیں مگر آج کوئی نہیں جو تیرے قتل کا بدلہ لے۔ جب عامر نے اِس قسم کا نوحہ کیا تو لشکرِ قریش کو غیرت آگئی اور انتقام کی آگ کے شعلے اُن کے سینوں میں بھڑک اُٹھے۔ اس کے علاوہ لڑائی سے پیشتر عتبہ بن ربیع نے بھی قریش کو نصیحت کی کہ یہ مسلمان اور ہم آخر بھائی بھائی ہیں اور پھر دیکھو تو ان کے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ مرنے کے لئے آئے ہیں اور اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ تم بھی ان کے برابر ہی آدمی مارلو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار سب مارے جائیں گے۔ اب کیا ان حالات کی موجودگی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کٰرِھُوْنَ کی ضمیر لڑائی کی طرف جاتی ہے، جہاں تک واقعات کا تعلق ہے یہ بات اس کے بالکل اُلٹ نظر آتی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب لڑائی کے لئے جگہ کا انتخاب ہو چکا تو وہی سعد بن معاذؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم آپ کے لئے ایک عرشہ بنا دیں اور اپنی تیز تر سواریاں وہاں باندھ دیں یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ہم نہیں چاہتے کہ آپ میدانِ جنگ میں خود بنفس نفیس تشریف لے جائیں۔ ہم خدا کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں اگر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے اور اگر ہم مارے گئے تو آپ سواری لیکر جس طرح بھی ہوسکے مدینہ پہنچ جائیں وہاں ہمارے ایسے بھائی موجود ہیں جو گو لڑائی میں تو شریک نہیں ہو سکے مگر محبت اور اخلاص میں ہم سے کسی طرح کم نہیں ہیں اور وہ لڑائی میں صرف اس لئے نہیں آئے کہ اُن کو لڑائی کے متعلق علم نہ تھا ورنہ وہ ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وہ آپ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں تک لڑا دیں گے۔ ۱۰؎پس یہ تھا خوف جو صحابہؓ کو تھا۔ یعنی رسول کریم ﷺ جنگ میں شریک نہ ہوں اور کٰرِھُوْنَ کا لفظ صَراحتاً عَلٰی خُرُوْجِکَ پر دلالت کرتا ہے یعنی صحابہؓ اِس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آپ لڑائی میں شریک ہوں اور وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں آپ کو کوئی گزند نہ پہنچ جاے۔
میں نے ایک واقعہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے کہ جنگِ اُحد میں ایک موقع پر ابی بن خلف نے جو کہ مکہ کا بہت بڑا رئیس تھا جب آواز دی کہ کہاں ہے محمد(ﷺ )؟ وہ شخص بہت بڑا جرنیل تھا اور ساتھ ہی وہ تیر انداز بھی اعلیٰ درجہ کا تھا جب اس نے پکارا کہ کہاں ہے محمد؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف بڑھنا چاہا مہاجرین چونکہ ابی بن خلف کی طاقت کو جانتے تھے اس لئے وہ آپ کے سامنے آگئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ ہماری موجودگی میں آپ آگے نہ جائیں آپ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے راستہ سے ہٹ جاؤ مہاجرین نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ِ وہ بڑا تجربہ کار جنگجو ہے آپ نے فرمایا مجھے اس کی پرواہ نہیں تم میرے رستہ سے ہٹ جاؤ۔ اس واقعہ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ صحابہؓ کے لئے کٰرِھُوْنَ کے لفظ کا مطلب کیا ہے؟ غرض آپ ابی بن خلف کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنے نیزہ کی اَنِّی اس کے جسم میں چبھو دی جس سے اسے تھوڑا سا زخم ہو گیا اور وہ اتنے زخم سے ہی بھاگ نکلا۔ لوگوں نے کہا تم تو بڑے بہادر بنتے تھے اور یہ چھوٹا سا زخم کھا کر بھاگ رہے ہو اس نے کہا زخم تو چھوٹا ہے مگر مجھے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ اس میں دنیا جہان کی آگ بھر دی گئی ہے۔۱۱؎ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہؓ کس بات کو نا پسند کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت طلحہؓ کا واقعہ ہے کہ جب جنگِ اُحد میں دشمن کی طرف سے تیر برسنے لگے تو انہوں نے رسول کریمﷺ کے چہرہ مبارک کے سامنے اپنا ہاتھ رکھ دیا تا کہ آپ کے چہرہ پر کوئی تیر نہ لگنے پائے۔ ان کے ہاتھ پر اتنے تیرلگے کہ آخر ان کا ہاتھ شل ہو کر ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد خوارج انہیں ٹنڈا کہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت طلحہؓ سے کسی نے پوچھا کہ جب آپ کے ہاتھ پر تیر لگتے تھے تو کیا آپ کے منہ سے سی نہ نکلتی تھی کیونکہ زخم سے درد تو ضرور ہوتی ہے؟ حضرت طلحہؓ نے جواب دیا سی نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہ دیتا تھا تاکہ میری ذرا سی حرکت سے بھی رسول کریمﷺ کے چہرہ پر کوئی تیر نہ لگ جائے۔۱۲؎
اب کیا ان صحابہؓکے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ ان کو لڑائی کے بارہ میں انقباض تھا۔ جب ہم ان واقعات کو اچھی طرح جانتے ہیں تو کیا خدا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ ان واقعات کو نہ جانتا تھا وہ جانتا تھا اور یقینا جانتا تھا اور اس نے کٰرِھُوْنَ ان معنوں میں استعمال نہیں فرمایا جن میں بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کٰرِھُوْنَ کی ضمیر کی طرف جاتی ہے یعنی صحابہؓ آپ کے لڑائی پر جانے سے ڈرتے اور گھبراتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان یا تو اپنے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے اور یا اپنے ساتھیوں کے ارادہ اور مشورہ سے کوئی کام کرتا ہے جب وہ خود اپنے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ اپنے ارادہ سے فلاں کام کر رہا ہے اور اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ارادہ سے کوئی کام کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اس نے ساتھیوں کے مشورہ سے فلاں کام کیا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس وقت حالت یہ تھی کہ تمہارا اپنا بھی مدینہ سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور تمہارے ساتھی بھی تمہیں مشورہ دیتے تھے کہ تم خطرہ میں نہ پڑو اور تمہارا مدینہ سے نکلنا صرف ہمارے حکم کے ماتحت تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب تمہارا اپنا بھی نکلنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور تمہارے ساتھیوں کا بھی مشورہ یہی تھا کہ تم مدینہ سے نہ نکلو تا کہ آپ کو کوئی گزنذ نہ پہنچ جائے تو کیا میں جو قادر مطلق خدا ہوں تم کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا جب کہ مَیں نے تمہارے ارادہ کے خلاف اور تمہارے ساتھیوں کے مشورہ کے خلاف تمہیں باہر نکلنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب جیسا کہ علامہ ابوحیان نے بھی لکھا ہے کہ یہاں نَصْرُکَ محذوف ہے تو یہ نَصْرُکَ کی ضمیردشمن کی طرف ہی جائے گی دوست کی طرف نہیں جاسکتی۔ کیا ہم نَصْرُکَکے یہ معنی لیں گے کہ صحابہؓ پر غلبہ؟ غلبہ تو ہمیشہ دشمن پر ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارا تم کو غلبہ عطاء کرنا دو وجوہ سے تھا۔ ایک تو یہ کہ ہم نے چونکہ خود تم کو نکلنے کا حکم دیا تھا اس لئے ہمارے لئے ضروری تھا کہ تمہیں دشمن پر غلبہ دیتے، دوسرے چونکہ تمہارے ساتھی یعنی صحابہؓ اس بات میں راضی نہ تھے کہ تو لڑائی کے لئے نکلے اس لئے ہم ان کو بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اگر میں کسی خطرناک کام کا حکم دیتا ہو ںتو بچاتا بھی ہوںاور اِدھر تیرا دشمن وہ تھا جو کا مصداق تھایعنی اُس کو تیرے کسی اپنے کام کی وجہ سے تجھ سے دشمنی نہ تھی بلکہ وہ صرف اس لئے تیرا دشمن تھا کہ تو ہمارا حکم اُن کو پہنچاتا ہے اور ہماری طرف اُن کو بلاتا ہے اور دشمن کو تیرے ساتھ اتنی زیادہ دشمنی تھی کہ وہ حق کے غلبہ کو اپنی موت کے مترادف سمجھتا تھایعنی وہ ہماری خاطر تجھ سے دشمنی کر رہا تھا اور اسلام اُس کو موت نظر آتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان حالات کی موجودگی میں ہم کیوں نہ تمہاری مدد کرتے یہ معنی کرنے سے یہ آیت کتنی واضح اور صاف ہو جاتی ہے اور اس پر ان معنوں کی رو سے کوئی اعتراض بھی وارد نہیں ہو سکتا۔ علامہ ابوحیان کی خواب تو ٹھیک ہے مگر نَصْرُکَ عَلٰی اَعْدآئِکَ ہونا چاہئے تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا اپنا کوئی ارادہ نکلنے کا نہ تھا، دوست تمہیں نکلنے سے روکنا چاہتے تھے اور دشمن تم کو میری وجہ سے تباہ کرنا چاہتا تھا اس لئے میری ذمہ داری تم کو غلبہ دینے کی بحیثیت ایک دوست کے بھی تھی اور دشمن کی دشمنی کی وجہ سے بھی ہم نے یہ ذمہ داری پوری کر دی ہم تجھے خطرہ کے مقام پر لے بھی گئے اور صحیح سلامت واپس لا کر اور تجھے دشمن پر غلبہ دے کر اپنی ذمہ داری بھی پوری کر دی۔
میں نے شروع میں کہا تھا کہ ان آیات کا تعلق اِس زمانہ سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کس طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے جہاں ایک مؤمن پُرامن ہوتا ہے اور وہ لڑائی اور فسادات سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہے وہاں وہ دلیر بھی اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔ یہی دو چیزیں ہیں جو مؤمن کو دوسروں سے ممتاز کر دیتی ہیں یعنی اول یہ کہ وہ لڑائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ لڑائی اور فساد نہ ہونے پائے بلکہ امن وامان رہے۔ دوسرے اس کی لڑائی سے بچنے کی تمام کوششوں کے باوجود اگر اس کے لئے جنگ ناگزیر ہو جائے تو اس جیسا بہادر، نڈر اور دلیر بھی کوئی نہیں ہوتا مگر یادرکھنا چاہئے کہ دلیری کے یہ معنی نہیں کہ مؤمن تہور پر عمل پیرا ہو جائے۔ تہور ایسے حملہ کو کہتے ہیں جیسے سؤر حملہ کرتا ہے اِس کو جرأت نہیں کہہ سکتے جرأت یہ ہوتی ہے کہ مؤمن لڑائی سے حتی الامکان گریز کرے، جھگڑا اور فساد نہ ہونے دے لیکن اگر دشمن اس کو لڑائی کے لئے مجبور کر دے تو وہ اس شان سے لڑے کہ سَو سَو میل تک لوگ اس سے کانپنے لگ جائیں۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ یعنی میری اللہ تعالیٰ نے رُعب سے نصرت فرمائی ہے اسی طرح آپ نے فرمایامجھے اللہ تعالیٰ نے ایک مہینے کے سفر تک رُعب عطا فرمایا۱۳؎ ہے پہلے زمانہ کے لحاظ سے ایک مہینہ کا سفر ۲۷۰ میل بنتا ہے کیونکہ عام طور پر اس زمانہ میں ایک منزل ۹ میل کی شمار کی جاتی تھی درحقیقت مکہ مکرمہ مدینہ سے اتنے ہی فاصلہ پر ہے اور رسول کریم ﷺ کے اس قول کا یہ مطلب ہے کہ میں مدینہ میں بیٹھا ہوا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا رُعب عطا فرمایا ہے کہ مکہ والے گھر بیٹھے مجھ سے کانپ رہے ہیں مگر چونکہ نبیوں کی پیشگوئیاں ہر زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں اور یہ الہام حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہوا ہے اس لئے پُرانے زمانہ میں تو اس سے مراد بے شک ۲۷۰میل ہی تھے مگر آجکل تیز رفتار سواریاں آئی ہیں جو ایک ایک دن بلکہ ایک ایک گھنٹہ میں سینکڑوں میل کا سفر طے کرلیتی ہیں اس لئے آجکل تو ایک ماہ کا سفر ساری دنیا پر حاوی ہو گا اب ہم اس کو دوسرے رنگ میں لیں گے کہ اللہ تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا رُعب دینے والا ہے کہ ساری دنیا آپ کے رُعب کی وجہ سے کانپے گی اور آپ کے انہی غلاموں کے ہاتھ سے جن کو اِس وقت لوگ چڑیا سمجھ رہے ہیں کیا انگلستان اور کیا امریکہ، کیا روس اور کیا جرمنی، کیا افریقہ اور کیا چین اور جاپان سب ممالک فتح ہوں گے اور تمام ملک ان سے اس طرح کانپیں گے جیسے گھاس ہوا سے کانپتا ہے۔ ہم تو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کر رہے ہیں اور شاگرد کی چیز اپنی نہیں ہوتی بلکہ استاد کی ہوتی ہے اس لئے ہماری فتح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح ہوگی۔ آج تو یہ حالت ہے کہ لوگ اسلام پر حملہ کرنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں لیکن ایک زمانہ ایساآنے والا ہے بلکہ ابھی آپ لوگوں میں سے کئی زندہ ہوں گے کہ لوگ دیکھیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ساری دنیا پر قائم ہو رہی ہے اور اسلام کے مخالف دم مارنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے مگر اس کے لئے ہمیں صحابہؓ والی قربانیاں بھی کرنی ہوں گی۔ پس ہماری جماعت کے دلوں سے موت کاڈر بالکل اُٹھ جانا چاہئے ایک مؤمن کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ پہلے وہ خود کسی پر ہاتھ نہ اُٹھائے اور حتی الوسع جنگ اور فسادات سے بچنے کی کوشش کرے وہاں اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اگر حالات اِس قسم کے پیدا ہو جائیں کہ اس کے لئے لڑائی کے سِوا اور کوئی چارہ نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی مشیّت وہ وقت لے آئے تو مؤمن کو یوں معلوم ہونا چاہئے جیسے عید کا چاند نکل آیا۔ ان آیات میں مؤمن کا مقام بیان کیا گیا ہے کہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ ساری بَلا،ساری تکلیفیں اور ساری مصیبتیں مجھ پر وارد ہو جائیں لیکن میرا محبوب کسی طرح ان سے بچ رہے۔ اب چونکہ ہمارا محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں نہیں ہے اس لئے ہمارے محبوب کا قائم مقام اسلام ہمارے پاس موجود ہے۔ مؤمن چاہتا ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان، اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جس طرح بھی ہو سکے اسلام کو کسی قسم کی گزندنہ پہنچنے دے۔
(الفضل ۲۷،۲۹،۳۰،۳۱؍ اگست اوریکم ستمبر۱۹۶۱ء)
۱؎ الانفال: ۶،۷
۲؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من ینکب اویطفن فی سبیل اللّٰہ
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۹۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴؎ تفسیر بحر محیط جلد۴ صفحہ ۴۵۹۔ مطبوعہ ریاض ۱۳۲۹ھ
۵؎ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد۲ صفحہ۱۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
۶؎ تفسیر بحر محیط جلد۴ صفحہ۴۵۹۔ مطبوعہ ریاض ۱۳۲۹ھ
۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۶۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۸؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوہ بدر
۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۴مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ھ
۱۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۲۔۲۷۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ھ
۱۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ اُحد
۱۳؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبیﷺ جعلت لی الارض مسجدا
 
Top