• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 23

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 23








خدام کو نصائح




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خدام کو نصائح

(فرمودہ 5اپریل 1952ء برموقع افتتاح دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت مَیں نے تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اﷲ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں۔ چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی۔ بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ 65 ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے۔ مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اَور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے۔ 65 ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے 25 ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے بلکہ 15،15 فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں۔ پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ پھر پاس ہی انصار اﷲ کا دفتر ہو گا۔ اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو 24 کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے۔ پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے۔ خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی’’۔
اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدّام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ پتھروں کی چار دیواری بارہ سَو روپیہ میں بن جاتی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا:-
‘‘میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے۔ اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی’’۔
صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اُونچی چاردیواری بنے گی۔حضور نے فرمایا:-
‘‘ہاں اگر چار فٹ اُونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے لیکن چار فٹ اُونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا۔ عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ (Spirit)زیادہ ہونی چاہئے۔ جب سالانہ اجتماع ہو گا۔ خدّام باہر سے آئیں گے اور چاردیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا۔ دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا۔ اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صَرف ہوتا ہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتاہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہوتا ہے اور کسی چیز پر نہیں۔ مثلاً وہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہؤا ہے، غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا۔ اگرچہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہؤا ہے تو اس کے اسی حصّہ پر ہؤا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہؤا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے۔ پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدّام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جائیں۔ چونکہ اس جگہ پرتمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا۔ پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گرد بھی پھُول لگائے جاسکتے ہیں۔ جب خدّام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صحیح طور پر استعمال ہؤا ہے۔
اس کے بعد مَیں آپ لوگوں کے لئے دُعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ انصار اﷲ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ دُنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بُڈھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں اس لئے انصار اﷲ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں۔ قادیان میں بھی انصار اﷲ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصاراﷲ کام نہیں کرتے۔ شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں۔ بہرحال انصار اﷲ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے لیکن اُنہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ واپس گئے؟ ہم تو یہ اُمید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ سے مدینہ چلے گئے تو مکّہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکّہ فتح ہو گیا تھا۔ آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں۔ پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام ارد گرد پھیلنے لگا۔ مکّہ صرف حج کے لئے رہ گیا مکّہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیا ں وقف کر کے مکّہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپؐ فوت ہوئے۔ خداتعالیٰ کیا کرے گا؟ آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے ہمیں اس کا علم نہیں۔ پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اَور شکل میں پورا کیا تھا۔ ہم یہ خیال کرلیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں۔ اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کرلیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی۔ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکّہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکّہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم واپس مکّہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے۔ صرف آپؐ حج کے لئے مکّہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے۔ پھر حضرت ابو بکر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ حضرت عمر ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت عثمان ؓ واپس مکّہ نہیں گئے، حضرت علیؓ واپس مکّہ نہیں گئے۔ یہ سب حج کے لئے مکّہ جاتے تھے اور واپس آجاتے تھے۔ حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام ارد گرد کے علاقوں میں پھیلا۔ پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی حماقت ہے۔ چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اُسے اب رکھا ہے اُسی میں وہ راضی رہے۔
خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے۔ ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا۔ پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگاتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے وہ پھر سیندھ لگائے گا۔پس خداتعالیٰ باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اُسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا اُسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (STRUGGLE) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ اگرخداتعالیٰ توبہ قبول کرنے سے انکار کر دے توکوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے۔ توبہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے توبہ توڑ دینی ہے، باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے گویا خدا تعالیٰ باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ جُرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجود علم غیب نہ ہونے کے خداتعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہو گی۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہئیے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہیے اور اپنا کام کرتے چلے جاناچاہیے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہؤا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دُور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے۔ خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکر کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اُسے موت آجاتی ہے۔ گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہے۔
آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اﷲ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکّہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ مکّہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فتح کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے مکّہ واپس نہیں گئے۔ قادیان مکّہ سے بڑھ کر نہیں۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگرچہ ہم بھی اُمید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ ہمیں واپس ملے گا اور وہیں ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے۔ پس ہمیں اس نکتہ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے۔ ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نوکر نہیں۔ اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اُسے عزّت دی ہے۔ پس مومن کو اپنے کاموں میں سُست نہیں ہونا چاہئے۔ پھر نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چُست رہنا چاہئے’’۔
(الفضل ربوہ ۔ فضل عمر نمبر 1966ء)









سب کا فرض ہے کہ
وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہؤا کریں

( فرمودہ 23جون 1952ء بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آپ لوگ جو اس وقت یہاں دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں تو کسی ایسی دُعاکے لئے جمع نہیں ہوئے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہو یا سُنت سے ملتا ہو یا احادیث سے ملتاہو بلکہ ایک ایسی دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں جو ہم میں صرف رسماً پیدا ہو گئی ہے یعنی قرآن کریم کے درس کے اختتام پر کی جانے والی دُعا۔ جس دُعا کا ہمیں قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے وہ دُعا وہ ہے جو تہجد کے وقت کی جاتی ہے یا ایک روزہ دار سحری کھانے سے پہلے کرتا ہے۔ ہماری یہ دُعا بالکل ایسی ہی ہے جیسے پُرانے مسلمانوں کی رسم تراویح تھی اُنہوں نے تراویح کو اختیار کر لیا اور تہجد کو چھوڑ دیا۔ تم نے بھی رمضان کے ایک دن جمع ہو کر دُعا کرنا اختیار کر لیا اور رمضان کی تیس دنوں کی دُعا کو چھوڑ دیا۔ گویا اُنہوں نے بھی جادو اور ٹونے کا راستہ نکال لیا اور تم بھی جادو اور ٹونہ کا رستہ نکال رہے ہو۔ اگر یہ دُعا زائد ہوتی تو پھر یہ ایک عمدہ چیز تھی جیسے فرض خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں، سُنتیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ملا لیں، نفل ہر انسان جتنا دل چاہتا ہے پڑھ لیتا ہے۔ جب سُنتیں فرض کے ساتھ ادا ہوتی ہیں تو وہ نیکی کو زیادہ کرتی ہیں۔ جب نفل سُنتوں کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں تو نیکی کو زیادہ کرتے ہیں لیکن فرض کو چھوڑ کر سُنتیں ادا کرنا یا سُنتوں کو چھوڑ کر نفل ادا کرنا انسان کو گنہگار بناتا ہے۔ اس وقت جتنے لوگ یہاں جمع ہیں اگر اتنے ہی لوگ ہر روز درس کے لئے آیا کرتے تھے تو ان کا آج کا آنا ان کے ثواب کو بڑھانے والا ہے لیکن اگر آج کا اجتماع روزانہ کے اجتماع کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ اگر جتنے لوگ اب جمع ہوئے ہیں ان کا بیسواں حصّہ بھی روزانہ درس میں جمع نہیں ہوتے تھے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے بھی ایک رسم کو اختیار کر لیا ہے جیسے دوسرے لوگوں نے تراویح کو تہجد کا قائمقام بنا لیا۔ آخر کیا فائدہ ہے اس دُعا کا اور کیا نتیجہ ہے جو ایسی دُعا سے نکل سکتا ہے۔ آخر ہمارا خدا کوئی بھولا بھالا بچہ تو نہیں۔ تم ایک بچہ کو بعض دفعہ پیسہ دے کر کہتے ہو کہ یہ روپیہ ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ تم بعض دفعہ اپنی خالی انگلیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ مٹھائی ہے تووہ ہنس دیتا ہے۔ کیا اسی طرح تم بھی یہ خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اس دھوکا میں آجائے گا تم اسے پیسہ دے کر کہو گے کہ یہ روپیہ ہے اور وہ دھوکا کھا جائے گا۔ تم اس کے ہاتھ میں خالی انگلیاں رکھ دو گے اور کہو گے یہ مٹھائی ہے تو وہ ہنس دے گا۔ آخر یہ قرآن کریم کے کس پارہ اور کس سورۃ میں آتا ہے کہ رمضان میں قرآن کریم کے ختم ہونے پر سب مل کر دُعا کرو تو وہ قبول ہو جاتی ہے۔ یا کونسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آخری روزہ کو عصر کے وقت دُعا کرو تو اﷲ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے۔ صحاح ستّہ تو کیا کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی اس دُعا کا ذکر نہیں۔ حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس میں جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے، 1حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان میں لیلۃ القدر آتی ہے اس رات جو دُعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے۔2 اسی طرح قرآن کریم میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں خصوصاً لیلۃ القدر میں دُعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن مَیں نے نہ قرآن میں، نہ حدیث میں اور نہ اسلام میں کسی اور جگہ یہ دیکھا ہے کہ رمضان کے آخری دن تم اکٹھے ہو جایا کرو تو اس دن تم جو دُعا کرو گے وہ قبول ہو جائے گی۔ مَیں خود درس دیا کرتا تھا تو آخر میں دُعا بھی کر لیا کرتا تھا کیونکہ اُس وقت میرا دُعا کرنا رسم نہیں تھا لیکن اب جبکہ مَیں درس نہیں دیتا جب مجھے دُعا کے لئے بُلایا جاتا ہے تو میری طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ دُعا محض ایک رسم کے اختیار کر لی گئی ہے۔ جو لوگ درس دیتے رہے ہیں یا جو روزانہ درس سُنتے رہے ہیں وہ تو کچھ نہ کچھ حق بھی رکھتے تھے کہ دُعا میں حصّہ لیں لیکن وہ لوگ جو آج سینکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں وہ یقیناً ایک رسم کے ماتحت آئے ہیں۔ جس شخص نے درس دیا ہے یا جن لوگوں نے روزانہ درس سُنا ہے ان کے لئے تو دُعا کا موقع ہے لیکن باقی لوگوں کے لئے یہ محض ایک رسم ہے دُعا کا کوئی موقع نہیں اور رسم پر چلنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا۔
اگر چہ وقت کم ہے اور لوگوں نے روزہ افطار کرنا ہے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ دس بارہ منٹ روزہ افطار ہونے سے قبل دعا کر دی جائے لیکن تاہم مَیں نے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا مناسب سمجھا۔ میری طبیعت پر ہمیشہ گرانی سی رہتی ہے اور مَیں چَٹی سمجھ کر دُعا کے لئے آتا رہا ہوں کیونکہ مَیں ابھی تک اس اجتماع کی حکمت کو نہیں سمجھ سکا۔ نہ قرآن کریم کی کوئی آیت مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے اور نہ کوئی حدیث مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے ۔ہاں جنہوں نے قرآن کریم پڑھایا ہے یا قرآن کریم کا درس سُنا ہے ان کی دُعا تبرکاً قبول ہو سکتی ہے۔ یوں پڑھنے والے گھروں پر قرآن پڑھتے ہی ہیں مثلاً ہم نے بھی قرآن کریم ختم کئے ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ مَیں نے دیکھا ہے کہ رمضان میں پانچ سات بلکہ آٹھ نو دفعہ قرآن کریم ختم ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی بیماری اور ضُعف کے باوجود میں نے پانچ دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے اور مجھے حق ہے کہ اس موقع پر مَیں دُعا کروں لیکن اس مجلس میں نہیں کیونکہ مَیں نے اس مجلس میں قرآن کریم نہیں سُنا۔ مَیں نے گھر میں قرآن کریم پڑھا ہے اور گھر میں دُعائیں بھی کرتا ہوں اور اﷲ تعالیٰ انہیں قبول بھی فرماتا ہے لیکن تم میں بہت سے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے نہ تو روزہ رکھنے کی کوشش کی اور نہ یہاں آکر قرآن کریم سُننے کی کوشش کی۔ خود تو ان میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم سمجھ سکتے ان کے لئے موقع تھا کہ وہ یہاں آتے اور قرآن کریم سُنتے لیکن وہ یہاں نہیں آئے۔ جو میرے پاس رپورٹیں آتی رہی ہیں ان میں یہی لکھا ہوتا تھا کہ دو تین سو آدمی درس سننے کے لئے آتے ہیں لیکن اس وقت دو تین ہزار کا مجمع ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہر دس میں سے نو آدمی یہاں کیوں آئے ہیں اور آخر اُنہوں نے کیا کام کیا ہے کہ آج خدا تعالیٰ اُن کی دُعا سُنے۔ ہاں جنہوں نے قرآن کریم سُنا ہے وہ اگر کہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے نشانات دیکھے ، تیری آیات پڑھیں، تیرا کلام سُنا۔ اب ہم قرآن کریم ختم کرنے لگے ہیں، اے خدا! تو ایک اور نشان ہمارے لئے دکھا جس سے ہمارے ایمان تازہ ہوں تو یہ معقول بات ہو گی۔ جس شخص نے قرآن سُنایا ہے وہ اگر کہے کہ اے اﷲ! مَیں سُنی سنائی باتیں سُناتا رہا ہوں تُو اب ایک زندہ نشان میرے لئے بھی ظاہر فرما تو یہ معقول بات ہو گی لیکن جو درس میں آتا ہی نہیں رہا وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! سارا مہینہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نشانات سُنائے جاتے رہے، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے نشانات سُنائے جاتے رہے لیکن مَیں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ آج اور لوگ آئے ہیں تو مَیں بھی آگیا ہوں تُو میری دُعا بھی سُن لے۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے شخص کی دُعا قبول ہو سکتی ہے؟ یہ تو ویسا ہی لطیفہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک زمیندار تھا جس نے ابھی شہر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بیوی اسے روز کہتی کہ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرے خاوند نے ابھی شہر بھی نہیں دیکھا۔ پانچ میل پر تو شہر ہے کسی دن جا اور جاکر شہر دیکھ آ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تُو ہر روز مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تُو نے ابھی تک شہر نہیں دیکھا تُو مجھے آٹا گوندھ دے مَیں شہر دیکھ آتا ہوں۔ بیوی نے آٹا گوندھ کر دے دیا اور وہ شہر کو چل پڑا۔ چادر اس نے کندھے پر ڈال لی اور بازار میں پھرتا رہا۔ دیہات میں اگر کوئی آئے تو وہ کسی گھر میں چلا جاتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے میری روٹی بھی پکا دو اور وہ اسے روٹی پکا دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں آٹے کی کیا ضرورت ہے روٹی ہم نے پکا ئی ہی ہے تم یہاں آکر روٹی کھا لینا لیکن شہروں میں یہ رواج نہیں ہوتا وہاں تو نفسا نفسی ہوتی ہے۔ وہ زمیندار کسی گھر میں گھُسا اور کہا آٹا لے لو اور میری روٹی پکا دو۔ گھر والوں نے کہا نکلو باہر تم ہمارے مکان میں کیوں گھُسے ہو۔ وہ دوسرے گھر گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا، تیسرے گھر گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہؤا، یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور عصر کا وقت آگیا کسی نے اسے روٹی پکا کر نہ دی۔ وہ اب ایک جگہ حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پاس ہی ایک حلوائی پوریاں تَل رہا تھا۔ اس نے حلوائی سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں لچیاں تَل رہا ہوں۔ زمیندار نے دیکھا کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی ٹکیاں بنا کر تَل رہا ہے اور انہیں لُچیاں کہتا ہے۔ اس نے آٹا کی گرہ کھولی جو چادر کے ایک طرف باندھا ہؤا تھا اور آٹے کا ایک بڑا سا پیڑا بنا کر زور سے کڑاہی میں دے مارا اور کہا میرا بھی لُچ تل دے۔ حلوائی کا گھی کڑاہی سے باہر جا پڑا اور وہ شور مچانے لگ گیا۔ تمہاری دُعا بھی ایسی ہی ہے ۔ کچھ تو سارا ماہ لُچیاں تلتے رہے یعنی درس دیتے رہے۔ کچھ لُچیاں خریدتے رہے یعنی درس سُنتے رہے لیکن جب آخری دن آیا تو تم نے بھی اپنا آٹا کڑاہی میں دے مارا کہ میرا بھی لُچ تَل دو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ یہی ہو گا کہ تمہیں جیل خانہ بھیج دیا جائے گا۔
غرض رسموں کا طریق مردہ قوموں کا طریق ہوتا ہے ہمارا طریق نہیں ۔ اگر تمہارے اندر جرأت ہوتی تو جیسے تم پہلے نہیں آئے آج بھی نہ آتے۔ اگر تیس دن گناہ میں تم نے اپنے آپ کو منافق نہیں بنایاتو آج تم اپنے آپ کو کیوں منافق بناتے ہو۔ آج بھی تم میں جرأت ہونی چاہئے تھی کہ اگر سارا ماہ تم نہیں آئے تو آج بھی تم یہاں نہ آتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو یہ بات تمہارے لئے زیادہ نیکی کا موجب ہوتی۔ اگر تم ایسا کرتے تو اگلے سال تمہیں خیال آتا کہ میں بھی درس میں جاؤں تا دُعا میں شریک ہوسکوں۔ اگر تم چھ دن مسجد میں نہیں آتے لیکن جمعہ کے دن آجاتے ہو تو ہم کہیں گے تم نے ایک دن تو نیکی کر لی ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن کریم میں ہے لیکن اس دُعا کا حکم قرآن کریم میں نہیں، اس دُعا کا حکم حدیث میں نہیں۔ یہ دُعا تبھی دُعا کہلا سکتی ہے جب تم تیس دن قرآن کریم سُنتے ، پڑھتے اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنے لئے رحم طلب کرتے۔ اگر تم ایسا کرتے تو تمہاری یہ بات طبعی ہوتی۔ اگر تم روٹی پکاتے ہو تو تمہارا حق ہے کہ تم روٹی کھاؤ لیکن یہ نہیں کہ تم روٹی تو نہ پکاؤ لیکن اپنے ہمسائے کی روٹی لے کر کھالو۔ اگر تم روٹی پکاتے تو تمہارا حق تھا کہ آج آتے اور روٹی کھاتے لیکن یہ نہیں کہ آٹا کسی نے گوندھا ، روٹی تو کسی نے پکائی اور روٹی کھانے کے لئے تم آجاؤ یعنی درس کسی نے دیا، گلا کسی نے بٹھایا، سُنا کسی نے لیکن آج جب قرآن کریم ختم کرنے کا وقت آیا تو تم بھی آگئے کہ ہماری دُعا قبول ہو جائے۔ آج ہر دس آدمیوں میں سے نو آدمی ایسے ہیں جو دوسرے کا مال کھانے کے لئے آگئے ہیں اُنہوں نے سارا ماہ دُعا نہیں کی لیکن آج یہاں آگئے ہیں تا دُعا میں شریک ہو جائیں لیکن ہمارا خدا دھوکا میں نہیں آتا ممکن ہے کوئی دل آج اپنے فعل پر افسردہ ہو، شرمندہ ہو اور پھر یہاں آ گیا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی دُعا سُن لے کیونکہ ہمارا خُدارحیم و کریم ہے لیکن جو لوگ آج رسماً یہاں آگئے ہیں خدا تعالیٰ ان کی دُعائیں نہیں سُنے گا کیونکہ یہ دُعا نہیں بلکہ محض ایک تمسخر ہے۔باقی وہ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف تھا اور اُنہوں نے سارا ماہ قرآن کریم سُنا ، قرآن پڑھا اور روزے رکھے ان کے لئے بے شک یہ دُعا کا موقع ہے ۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! رمضان جارہا ہے، برکت کی گھڑیاں جو تُو نے ہمیں دی تھیں وہ اب جا رہی ہیں۔ لگے ہاتھوں اب میری دُعا بھی سُن لے۔
صرف ایسے ہی لوگوں کو مَیں کہتا ہوں کہ ہمارا خدا نہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے۔وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سُننے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ مومن کا دل دیکھتا ہے اور اس کے دل کے درد کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے۔ بچہ جب سوتے سوتے رات کو درد کے ساتھ کراہتا ہے تو ماں اس کی طرف دوڑ پڑتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ چلّاتا ہے یا نہیں وہ اس کے رونے کا انتظار نہیں کرتی۔ سو دُکھ کی نکلی ہوئی آواز خدا تعالیٰ سُنتا ہے۔ اگر ہمیں دُکھ ہے تو تمہاری دُعائیں اسی طرح سُنی جائیں گی جس طرح تم سے پہلی جماعتوں کی دُعائیں سُنی گئیں اور خدا تعالیٰ تمہاری طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح وہ پہلے انبیاء کی جماعتوں کی طرف دَوڑا۔ پس مَیں ایسے دلوں سے کہتا ہوں کہ تم دُعائیں کرو۔ کسی لمبی دُعا کی ضرورت نہیں۔درد سے نکلا ہؤا ایک فقرہ بھی خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتا ہے۔
تم دُعائیں کرو اُن مبلّغوں کے لئے جو دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور دین کا کام کررہے ہیں۔ وہ صرف اپنا فرض ہی ادا نہیں کر رہے بلکہ تمہاری نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ دُعائیں کرو ان جماعتوں کے لئے جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور نہ آپ کے خلفاء کو دیکھا لیکن اسلام کی فتح کے لئے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ برابر کی شریک ہیں اور وہ ایمان بالغیب لے آئی ہیں۔ دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جو اس مُلک کے رہنے والے ہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھے لیکن اُنہوں نے آنکھیں بند کر لیں خدا تعالیٰ انہیں آنکھیں دے اور ہدایت پانے کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان فتنوں کے لئے جو احمدیت کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا جس کے ''کُن'' کہنے سے ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور فنا ہوتی ہے وہ ان فتنوں کو مٹا دے اور اپنا خاص نشان دکھائے۔ دُعائیں کرو اپنے لئے کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں دُعا کی توفیق دے۔ دُعائیں کرو ان مُردہ دلوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں وہ ایمان کا جبّہ پہنے ہوئے ہیں لیکن درحقیقت وہ بھیڑیئے ہیں جنہوں نے بھیڑوں کی کھال پہنی ہوئی ہے اﷲ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے اور انہیں صحیح ایمان بخشے۔ پھر دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جنہوں نے پارٹیشن کے موقع پر اپنے ایمان کو کھو دیا اور وہ چوری، بے ایمانی، بد دیانتی ، جھوٹ، فریب اور دوسری ناجائز حرکات کے مرتکب ہوئے کہ خدا تعالیٰ ان کو سمجھ دے، ان کو توبہ کی توفیق دے اور ان کو اس ذلیل حالت سے بچائے جو اُن کو دوزخ سے ورے نہیں رکھ سکتی۔ پھر دُعائیں کرو اپنے بیوی بچوں کے لئے، اپنے قریبیوں اور دوستوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس موقع پر یہاں حاضر نہیں ہو سکے لیکن اُنہوں نے دُعا کی تحریک کی ہے کہ اﷲتعالیٰ سب پر فضل کرے، سب کے کاموں میں برکت دے، ان کی مُشکلات اور تنگیاں دُور کرکے ان کے لئے فراخی کے سامان پیدا کرے اور یہ کہ اﷲ تعالیٰ تمہاری زبانوں اور تحریروں میں برکت ڈالے اور لوگ زیادہ سے زیادہ احمدیت میں داخل ہوں مگر اس احمدیت میں نہیں جس کا نمونہ تم میں سے بعض پیش کر رہے ہیں بلکہ اُس احمدیت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دُنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے’’۔
(الفضل ربوہ 23مارچ 1960ء)
1: بخاری کتاب الجُمُعَۃِ باب السَّاعَۃ الَّتِیْ فی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ









پاکستان میں قانون کا مستقبل




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

پاکستان میں قانون کا مستقبل

(محررہ جولائی 1952ء)

سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ ''پاکستان لاء ریویو'' کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست 1952ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود کا رقم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپردِ اشاعت ہؤا۔
‘‘مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرّت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کے لئے جاری کر رہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوصاً راہنمائی کر سکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تاکہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عُہدہ برآ ہو سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کر سکے لیکن بد قسمتی سے ایشیا کے باشندے کئی صدیوں سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ کم از کم ایشیا پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہوچکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ لیا ہے یہ امر اَور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں۔ دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کے لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کے لئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہرا علم رکھنے والے ماہرین قانون موجود ہیں جو اپنے لوگوں کے پُرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دُشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ایشیائی لوگوں کے لئے بہرحال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں نئے قوانین بنانے میں مدد مل سکے۔ پس ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قابو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرضِ وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گا ورنہ اس کو اس بات کا بجا طور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا۔ جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابلِ تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے۔ تُرکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا ردِّ عمل تھا۔ اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دُور لے جانے کا باعث بن جائیں گے۔
ہمارے رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مکّہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکّہ جانے کا پورا اختیار ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کے لئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کے لئے تذبذب میں پڑ گئے۔ ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابو جندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہؤا بمشکل تمام اس مجلس میں آپہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکّہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔ سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو مکّہ واپس کیا جائے۔ مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابو جندل کی حفاظت میں فوراً تلواریں کھینچ لیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:-
‘‘خدا کے رسول اپنا عہد کبھی توڑا نہیں کرتے’’۔ 1
اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو جندل کو اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔ اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی ٔ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے اور رسولِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ درحقیقت اسلام سے دُور جاتا ہے۔
پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ:-
الف: تعلیم اسلام کی رُوح ہمیشہ ہمارے مدِّنظر رہے۔
ب: ہمارے قوانین فطرتِ انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں۔
ج: ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتاہے۔ 2 اب اگر حضورؐ کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہو سکتی ہے۔ پس ہمارا یہ ایک مقدّس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے۔ اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصّہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعی انسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی رُوح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح طور پر سمجھا ہے تو فطرتِ انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتی اور یقینا کہیں پر ہماری ہی غلطی ہو گی۔ اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں۔ اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقینا بہت جلد صداقت کو پا لیں گے اور اپنے ملک کے لئے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں، مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں، غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقینا انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اور ان پر عمل کرانے والوں کو ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارِحین کو اﷲ تعالیٰ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفیدرسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک مفید آلہ ثابت ہو’’۔
(روزنامہ الفضل لاہور مورخہ 20ستمبر 1952 صفحہ 5)
1: سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 332،333۔ مطبوعہ مصر 1936ء
2: بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِیْلَ فی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْن










احرار کو چیلنج




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ

احرار کو چیلنج

(محررہ3 اکتوبر 1952ء)

‘‘آزاد’’ مؤرخہ 19ستمبر 1952ء میں ایک مضمون شائع ہؤا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ:
‘‘مرزا بشیر الدین محمود نے مُلک میں جاگیرداروں کے خلاف بڑھتی ہوئی مُہم سے خوفزدہ ہو کر اپنی تمام زمین فروخت کرنا شروع کردی ہے’’۔‘‘معلوم ہؤا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔‘‘تازہ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ مرزا محمود سندھ کی اراضی کو پہلے اس لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ نے سندھ سے جاگیرداریاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مرزا محمود کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اُنہوں نے ایسے حالات سے پہلے اپنی زمین فروخت نہ کی تو وہ تمام اراضی ضبط کر لی جائے گی۔’’
پھر لکھا ہے:-
‘‘یہ اراضی تحریک جدید کے نام پر جمع شُدہ چندہ سے خریدی گئی تھی لیکن کاغذات میں مرزا محمود نے اسے اپنی ذاتی ملکیت بنا لیا’’۔ ‘‘مرزائی چندہ دہندگان نے آواز بُلند کی کہ جماعتی اراضی کو فروخت کر کے اس کی رقم جماعتی خزانہ میں جمع کی جائے’’۔‘‘مرزامحمود یہ رقم اپنے ذاتی خزانہ میں جمع کرنے کے لئے اس اراضی کو دجّالانہ طریق پر فروخت کرنا چاہتے ہیں’’۔
اس مضمون کے شائع ہونے کے چند دن بعد 26ستمبر کے ''آزاد'' میں اس خط کا چربہ بھی شائع کیا گیا جو میری اراضیات کے دفتر کے کلرک نے ''الفضل'' کو لکھا تھا اور جس میں مذکورہ بالا اراضی کی فروخت کا اعلان کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس خط کے چربہ کے اوپر ایک نوٹ بھی ادارۂ آزاد کی طرف سے شائع ہؤا ہے کہ ہمارے اعلان پر ''بعض مرزائی سیخ پا ہوئے اور خبر کو بے بنیاد بتانے لگے'' ۔
اس لئے ہم اس خط کا چربہ شائع کرتے ہیں۔
اگر احرار کی شُہرۂ آفاق غلط بیانیوں کا علم نہ ہوتا تو میرے لئے یہ مضمون اور اس چربہ کی اشاعت حیرت انگیز ہوتی کیونکہ اصل بنیاد اس مضمون کی یہ ہے کہ کوئی زمین میرے پاس ہے جسے مَیں فروخت کر رہا ہوں اور کسی کے پاس زمین کاہونا کسی اسلامی حکم کے خلاف نہیں۔ صحابہ ؓ کے پاس زمینیں تھیں، خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے خاندان کے پاس باغ فدک تھا اور پھر زمینوں کا فروخت کرنا بھی قابلِ تعجب نہیں۔ حدیثوں میں صحابہ ؓ اور تابعین کا اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ذکر آتا ہے۔ پس یقیناً کسی صحیح الدّماغ انسان نے ''آزاد'' سے اس امر کا ثبوت نہیں مانگا ہو گا کہ کیا امام جماعت احمدیہ کے پاس کوئی زمین ہے یا یہ کہ کیا وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ثبوت مانگا ہو گا تو اس بات کا مانگا ہو گا کہ آیا جماعت احمدیہ کے روپیہ سے خریدی ہوئی کسی زمین کو وہ اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ بات یقیناً قابلِ اعتراض ہے اور اگر ایسا ثابت ہو جائے تو خلافت تو الگ رہی مَیں ایک شریف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں رہتا لیکن یہ خیال کرنا کہ لوگوں نے ''آزاد'' سے اس بات کا مطالبہ شروع کر دیا کہ تم نے کیوں امام جماعت احمدیہ پر یہ اعتراض کیا کہ ان کے پاس کوئی زمین ہے اور وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس امر کو تو کوئی عقلمند باور نہیں کر سکتا اور جو اعتراض معقول ہے اور جو مَیں نے اوپر لکھا ہے اگر وہ کسی نے کیا ہے تو اس خط کے چربہ سے اس کا جواب نہیں ملتا کیونکہ اعتراض تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کو اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا ناجائز ہے اور اس خط میں جس کا چربہ شائع کیا گیا ہے نہ تو یہ ذکر ہے کہ وہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے اور نہ یہ کہیں ذکر ہے کہ وہ روپیہ مَیں اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے والا ہوں۔ پس اس چربہ سے کیا نتیجہ نکلا؟ کچھ بھی نہیں۔
جہاں تک اس خط کے شائع ہونے کا سوال ہے یہ تو میرے دفتر کے کلرک کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے یا ''آزاد'' اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے کہ آیا اس نے ٹرین پوسٹل سروس کی مدد سے خط چُرایا ہے یا پولیس سنسر نے اسے یہ خط دیا ہے یا خود میرے کلرک سے مل کر یہ خط چُرایا گیا ہے۔ جہاں تک میری عزت کا سوال ہے مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ نہ تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ جس زمین کا اس خط میں ذکر ہے وہ میرے پاس نہیں ہے اور نہ مَیں اس بات کا انکار کرتا ہوں کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔ جہاں تک اس خط کے مضمون کی اشاعت کا تعلق ہے مجھے اس خط کے چَھپنے سے نہ کوئی تکلیف ہوئی ہے نہ فکر کیونکہ زمین کا مالک ہونا یا اسے فروخت کرنے کی کوشش کرنا کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سیاسی جُرم نہیں ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ خواہ کتنا ہی بے ضررمضمون ہو میرے دفتر کا ایک خط چُرایا گیا ہے۔ خواہ ٹرین پوسٹل سروس کے ذریعہ سے یا سنسر کے ذریعہ سے یا میرے دفتر کے کسی غدار کے ذریعہ سے۔ مجھے اس خط کے شائع ہونے کے بارہ میں ضرور دلچسپی ہے اور مَیں اس کی ضرور تحقیقات کروں گا۔ مجھے بعض وجوہ سے غالب خیال ہے کہ یہ چوری ایک خاص ذریعہ سے ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ صرف عقلی خیال ہے اس کے اوپر مَیں اپنے عمل کی بنیاد رکھنے کو تیار نہیں۔
اب مَیں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو ''آزاد'' نے شائع کیا ہے۔ ''آزاد'' نے لکھا ہے کہ:-
اوّل کوئی زمین میرے قبضہ میں ہے جو کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے۔
دوم یہ کہ مَیں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں۔
سوم یہ کہ جماعت کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے۔
چہارم یہ کہ میری فروخت کا بڑا محرک جاگیرداری کے منسوخ ہونے کا قانون ہے۔
پنجم یہ کہ انجمن کی زمین کی قیمت کو مَیں اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔
مَیں نمبر وار ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں۔
نمبر اوّل کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض انجمن کی زمینیں میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بعض میری زمینیں انجمن کے نام پر خریدی ہوئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جو زمینیں انجمن کی میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں ان کا رقبہ اُن زمینوں کی نسبت جو میری ہیں اور انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں قریباً نصف یا ساٹھ فی صدی کے قریب ہے۔ پس اگر مَیں انجمن کی زمینیں فروخت کروں تو اس سے قریباً دو گنا رقبہ میرا انجمن کے پاس ہے اوروہ مجھے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس گڑ بڑ کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت سندھ میں جو زمینیں خریدی گئی ہیں وہ ایک احمدیہ کمپنی نے خریدی تھیں جس کا ذکر اُس زمانہ کے ''الفضل'' کے فائلوں میں ملتا ہے اور جس کا ذکر انجمن کے ریزولیوشنوں میں بھی آتا ہے۔ اس کمپنی کا ایک بڑا حصّہ دارمَیں تھا اور مجھ سے بھی بڑی حصّہ دار انجمن تھی۔ کچھ اور حصّہ دار بھی تھے لیکن شروع میں چونکہ آمدن پیدا نہ ہوئی اور زمینوں کی قسط ادا کرنے کے لئے لوگوں کو اپنے پاس سے روپے دینے پڑے اس لئے سوائے تین حصّہ داروں کے باقی سب حصّہ داروں نے اپنی زمینیں دوسرے حصّہ داروں کے پاس فروخت کر دیں اور اب اس کمپنی کی زمین صرف تین حصّہ داروں کے پاس رہ گئی ہے اور وہ یہ ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ ، مَیں اور میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب۔ اسی دوران میں جبکہ ابھی زمینیں تقسیم نہیں ہوئی تھیں، کچھ اَور زمینیں معلوم ہوئیں جو خریدی جاسکتی تھیں۔ چنانچہ تحریک جدید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے ریزرو فنڈ کو انہی زمینوں کی خرید میں لگا لے لیکن تحریک جدید اُس وقت تک رجسٹرڈ نہیں تھی اِس لئے اس کی ساری زمینیں صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں چونکہ وہ کمپنی جس نے زمین خریدی تھی وہ بھی رجسٹرڈ نہیں تھی اس لئے اس کی تمام زمینیں بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں۔ اس وجہ سے لازماً میراحصّہ بھی اور میرے بھائی کا حصّہ بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدا گیا کیونکہ ہماری خرید براہ راست نہ تھی بلکہ اس کمپنی کے حصّہ دار کی حیثیت سے تھی۔ اسی دوران میں مَیں نے خود کچھ زمین براہِ راست خریدی جس کے نتیجہ میں مجھے بھی اپنے آدمی وہاں رکھنے پڑے۔ جب کبھی کسی نئی زمین کا پتہ لگتا تھا کہ وہ خریدی جاسکتی ہے اور انتظام کے لحاظ سے مفید ہے تو اسے خرید لیا جاتا تھا لیکن کبھی ایسا ہوتا تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کا مختارنامہ یا مختار موجود نہ ہوتا تھا تو میرا مختار میرے مختار نامہ پر زمین خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی صدر انجمن احمدیہ کی اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کوئی زمین مَیں نے خریدنی ہوتی تھی لیکن میرا مختار نامہ یا میرا مختار موجود نہیں ہوتا تھا تو انجمن کا مختار اس زمین کو انجمن کے نام پر خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی میری۔ اس کی موٹی علامت یہ ہوتی تھی کہ زمینوں کے حلقے تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ نبی سر روڈ کے پاس کی زمینیں صدر انجمن احمدیہ کی تھیں اور ٹاہلی اسٹیشن سے پاس کی زمینیں تحریک جدید کی تھیں اور ٹنڈو الٰہ یا رکے علاقہ کی زمینوں میں تھوڑا سا حصّہ میرا تھا۔ باقی تحریک جدید کا تھا۔ اس کے مقابلہ میں کُنری اسٹیشن کے پاس کی زمین ان حصّہ داروں کو ملی جو کہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ زمین خریدنے والی کمپنی کے ممبر تھے۔ جنہوں نے آگے جاکر اپنی زمینیں میرے اور میرے بھائی کے پاس فروخت کر دیں۔ پس وہاں جو زمین خریدی جاتی تھی وہ میرے لئے خریدی جاتی تھی۔ اسی طرح کنجے جی اسٹیشن کے پاس زمینیں سب سے پہلے مَیں نے ہی خریدی تھیں۔ اس لئے وہاں اگر کوئی زمین نکلتی تھی تو مَیں ہی خریدتا تھا اور جس کی زمین ہوتی تھی وہ اس کے مینجروں کے سپرد ہو جاتی تھی اور شروع دن سے وہی اس پر کام کرتے تھے اور ان کے بینک اکاؤنٹ اس پر شاہد ہوتے تھے مثلاً انجمن کے نام پر جو انجمن کی زمین خریدی گئی اس کی قیمت یا انجمن کے ریزولیوشنوں میں درج ہے یا انجمن کے بینک اکاؤنٹس سے ادا ہوئی اور آئندہ اس کی قسطیں بھی اسی طرح ادا ہوتی رہیں۔ ہر شخص فوراً دیکھ سکتا ہے کہ یہ زمین گو کسی اور کے نام سے خریدی گئی مگر اس کی ابتدائی رقمیں بھی انجمن نے دیں اور پھر اس کی قسطیں بھی شروع سے لے کر آخر تک انجمن نے ہی دیں۔ اسی طرح تحریک جدید کی جو زمین خریدی گئی گو وہ انجمن کے نام پر ہے لیکن بینکوں کے اکاؤنٹ شاہد ہیں کہ اس کی قیمت انجمن نے ادا نہیں کی۔ اس کی قیمت تحریک جدید نے ادا کی اور پندرہ سال کی متواتر بینکوں کی شہادتیں اس بات پر ہیں کہ وہ زمین تحریک جدید کی ہے۔ اسی طرح جو میری زمین ہے۔ زمین خریدنے والی کمپنی اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہیں کہ اس کی قیمتیں مَیں نے دی ہیں۔ اسی طرح بینک اکاؤنٹ گواہ ہے کہ اس کی قسطیں برابر میرے کھاتہ سے جاتی رہیں۔ انجمن یا تحریک نے وہ ادا نہیں کیں اور اس کا انتظام میرے مینجر کرتے چلے آئے۔
پس یہ ٹھیک ہے کہ انجمن کی بعض زمینیں میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ زمینیں گو میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن انجمن کی اسٹیٹ میں شامل ہیں٭ اور انجمن کے کارکن اس پر قابض ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ تحریک جدید کی زمین انجمن کے نام پر خریدی گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شروع دن سے اس زمین پر تحریک جدید کے کارکن کام کر رہے ہیں اور وہ تحریک جدید کے قبضہ میں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ میری زمین انجمن کے
٭ یہاں یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان سندھ کی زمینوں کو بعض دفعہ ہمارے اخبارات میں اسٹیٹس لکھا جاتا ہے جس کے معنے انگریزی میں زمینداری کے ہیں یا ایک کوٹھی اور اس کے اردگرد کی زمینداری کے لیکن احرار جہلاء ہمیشہ اسی لفظ پر شور مچاتے رہے ہیں کہ احمدیوں نے ریاستیں قائم کر لی ہیں۔ چنانچہ مذکورہ بالا مضمون میں بھی اسٹیٹ کا ترجمہ ریاست کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ اس مُلک کی کتنی بد قسمتی ہے جس کے علماء جہلاء ہوں یا دوسرے کو بدنام کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہوں۔ مرزا محمود احمد
نام پر خریدی گئی ہے لیکن شروع دن سے اس کے اُوپر میرے کارکن کام کر رہے ہیں اور میرے بینک اکاؤنٹ اس بات کے شاہد ہیں کہ بینکوں کے ذریعہ سے میرے حساب سے اس کی قیمت ادا ہوئی ہے۔ پس یہ کوئی جھگڑے والا سوال ہی نہیں۔ پاکستان کے چار زبردست بینک اس بات کے گواہ موجود ہیں۔ ان بینکوں میں میرے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، صدر انجمن احمدیہ کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، تحریک جدید کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں اور ان کھاتوں سے وہ قیمتیں ادا ہوئی ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ضرور ہؤا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک دوسرے کے کھاتے سے قرض لے لیا گیا ہے لیکن یہ ثبوت بھی بینکوں سے مل سکتا ہے کہ اگر ضرورت کے موقع پر مَیں نے دس روپے لئے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ضرورت کے موقع پر تحریک جدید یا انجمن کومَیں نے سو روپیہ دیا ہے۔ یعنی قرض کے معاملہ میں بھی میرا پہلو بھاری ہے اور تحریک جدید اور انجمن کا پہلو کمزور ہے۔مَیں ان کا مقروض نہیں رہا وہ میرے مقروض رہے ہیں۔
یہ بات مَیں زمینوں کے متعلق لکھ رہا ہوں ورنہ یوں انجمن مجھے قرض کے طور پر پچھلے سال تک ماہوار رقم گزارہ کے لئے دیتی رہی ہے اور وہ رقم برابر جماعت کے بجٹ میں پڑتی رہی ہے اور حساب میں موجود ہے۔ (ڈیڑھ سال سے مَیں نے وہ رقم لینی بند کر دی ہے اور سابق قرض اُتارنے کی فکر میں ہوں)
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک فروخت کرنے کا سوال ہے یہ ٹھیک ہے کہ مَیں کچھ زمین فروخت کر رہا ہوں لیکن وہ زمین انجمن کی نہیں ہے۔ نہ وہ ان زمینوں میں سے ہے جو میری ہیں لیکن انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں۔ پس اس کے متعلق نہ کوئی حقیقی اعتراض پیدا ہو سکتا ہے نہ کوئی غلط فہمی۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ کوئی انجمن کی زمین میرے قبضہ میں ہے۔ مَیں بتا چُکا ہوں کہ انجمن کی کچھ زمین میرے نام پر خریدی ہوئی ضرور ہے لیکن میرے قبضہ میں وہ نہیں ہے۔ وہ انجمن ہی کے قبضہ میں ہے اور اس کے مینیجر اس پر کام کر رہے ہیں اس لئے کسی شخص کو اس پر اعتراض کی گنجائش نہ ہو سکتی ہے اور نہ کبھی ہوئی ہے۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جاگیرداری کے قانون سے ڈر کر مَیں یہ زمین فروخت کر رہا ہوں۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جاگیر داری کے قانون سے ڈر کر فروخت کرنا نہ شرعاً جُرم ہے نہ قانوناً جُرم ہے۔ جس دن تک وہ قانون پاس ہو۔ اس دن تک ہر جاگیردار اپنی جاگیر فروخت کر سکتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت کا اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز مناہی سے پہلے فروخت کر سکے۔ باقی ''آزاد'' اور احرار کے دماغ تو ہیں بالکل کُند کیونکہ جو شخص غلط بیانی پر اُتر آتا ہے وہ سوچنے کا عادی نہیں رہتا۔ ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ سندھ میں میری کوئی جاگیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مَیں پنجابی ہوں مجھے سندھ میں کیوں جاگیر ملنی تھی۔ جاگیر نام ہے اس زمین کا جو حکومتِ وقت کی طرف سے بطور عطیہ کے ملی ہو۔ خصوصاً وہ جس کا لینڈریونیو معاف ہو۔لوگ محض فخر کے طور پر ایسی زمین کو بھی جاگیر کہہ دیتے ہیں جو گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف نہ ہو لیکن اصل اصطلاح یہی ہے کہ جو زمین گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف کر دیا ہووہ جاگیر ہے۔ مَیں اپنی کتاب ''اسلام اور ملکیت زمین'' میں خود لکھ چُکا ہوں کہ جاگیرداری اسلام میں ناجائز ہے کیونکہ لینڈ ریونیو، زکوٰۃ کا قائم مقام ہے اور زکوٰۃ حکومت معاف نہیں کر سکتی۔ نیز امراء کے لئے زکوٰۃ لینی جائز نہیں اور مَیں نے اس کتاب میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جاگیروں کو اُڑا دے اور جاگیرداروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود اس حق کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ آمد اسلام کے خلاف ہے اور امراء کو زکوٰۃ میں سے حصّہ نہیں لینا چاہئے ۔ پس یہ کیونکر خیال کیا جاسکتا ہے کہ میرے پاس کوئی جاگیر ہے۔ نہ مَیں سندھ کا باشندہ ہوں اور نہ مَیں سندھ کی حکومت کا کبھی ملازم رہا، نہ مَیں جاگیر کا قائل۔ میرے پاس جاگیر آہی کس طرح سکتی تھی اور جو چیز آ نہیں سکتی تھی اس کی فروخت کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔
پانچواں اعتراض یہ ہے کہ مَیں انجمن کی زمین کی قیمت کو اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں اُوپر لکھ چُکا ہوں انجمن کی کوئی زمین میرے قبضہ میں نہیں۔ انجمن کی جو زمین میرے نام پر خریدی گئی ہے وہ بھی انجمن کے قبضہ میں ہے اور اس پر نہ کسی نے اعتراض کیا ہے کہ مَیں انجمن کی خریدی ہوئی جائداد پر قبضہ کر رہا ہوں۔ نہ اس اعتراض میں کوئی وقعت ہے اور نہ مَیں اس اعتراض سے ڈرتا ہوں۔ انجمن کے ریکارڈ میں تمام وہ زمینیں درج ہیں جو اُس نے خریدیں ،انجمن کے خزانے میں وہ رقوم درج ہیں جو اس نے اس زمین پر خرچ کیں اور انجمن کے بینک اکاؤنٹ میں بھی وہ آمدنیں درج ہیں جو اِن زمینوں سے ہوئی ہیں اور وہ خرچ بھی درج ہیں جو ان زمینوں پر ہوئے ۔ اسی طرح جو زمینیں مَیں نے خریدی ہیں اُن کی پہلی قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ اُن کی دوسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے اور اُن کی تیسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ یہاں تک کہ آخری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے۔ پس کوئی صحیح الدّماغ آدمی اعتراض ہی کس طرح کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جوشِ جنون میں اعتراض کرے تو مجھے اس سے گھبراہٹ ہی کیا ہو سکتی ہے۔ ریکارڈ موجود ہے ۔ مَیں جماعت کے سامنے رکھ دوں گا۔
ان حالات کے بیان کرنے کے بعد اب مَیں احرار کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اُن کے اندر کوئی تخمِ دیانت ہے تو وہ مندرجہ ذیل طریقہ سے مجھ سے اس اعتراض کا تصفیہ کر لیں۔
اوّل یہ کہ ایک نمائندہ جو مستقل طور پر دیوانی کی ججی پر کام کر چُکا ہو یا کام کر رہا ہو مَیں مقرر کردوں گا اور ایک اسی قابلیت کا آدمی وہ مقرر کر دیں۔ یہ دونوں آدمی مل کر ایک تیسرا ثالث اپنے ساتھ ملا لیں جس میں یہی صفات پائی جائیں۔ یعنی وہ مستقل طور پر سب ججی یا اس سے اُوپر کے کسی عُہدہ پر رہ چُکا ہو یا اس وقت اس عُہدہ پر ہو۔ مَیں تین کاپیاں ان تینوں ثالثوں کو دے دوں گا۔ جس میں یہ عبارت درج ہو گی کہ :-
‘‘مَیں مرزا بشیر الدین محمود احمد اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ یہ زمین جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور جس کے لئے دو تین گاہک بھی آچکے ہیں اور وہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے یہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی نہیں۔ انجمن نے کبھی اس زمین کو اپنی نہیں سمجھا اور کبھی کسی واقفِ حالات شخص نے اس زمین کو انجمن کی قرار نہیں دیا۔ اگر مَیں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو خدا کی *** مجھ پرہو’’۔
اسی قسم کی ایک تحریر جماعت احرار لکھ کر دے دے اور اس پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ تاج الدین صاحب کے دستخط ہوں۔ کیونکہ وہی احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں کہ:-
‘‘ہم جو جماعت احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ وہ زمین جو مرزا محمود احمد سابق قادیانی حال ربوہ فروخت کر رہے تھے اور جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور آزاد نے جس کا چربہ شائع کیا ہے یہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین تھی اور وہ اس زمین کو اپنی ذاتی اغراض پر خرچ کرنے کے لئے فروخت کر رہے تھے۔ اگر ہم اس اعلان میں جھوٹے ہوں تو خدا کی ہم پر *** ہو۔’’
جب تینوں ججوں کی طرف سے میرے پاس یہ تحریر آجائے گی کہ ہمارے پاس دونوں فریق کی تحریریں پہنچ گئی ہیں تو میں دس دس ہزار روپیہ بینک میں ان تینوں ثالثوں کے نام جمع کر ادوں گا کہ اگر احرار کا دعویٰ ثابت ہو جائے تو علاوہ میری تحریر کے وہ دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں۔ اس طرح احرار کو کھالوں کی اٹھنیاں اور روپے جمع کرنے سے بھی بہت کچھ نجات ہو جائے گی۔ مَیں ان سے کسی روپیہ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مَیں صرف اس تحریر کامطالبہ کرتا ہوں۔ اِس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے دلائل لکھ کر مقرر کردہ ثالثوں کو دے دیں اور وہ لوگ کثرت رائے سے اپنا فیصلہ صادر کر دیں کہ آیا میرا دعویٰ صحیح ہے یا احرار کا دعویٰ صحیح ہے۔ اگر وہ احرار کا دعویٰ صحیح قرار دیں تو دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں اور اپنا فیصلہ جس کے ساتھ میری *** والی تحریر نتھی ہو وہ بھی ان کے حوالہ کر دیں۔ احرار کو اس طرح میرے خلاف پروپیگنڈے کا بھی ایک بڑا موقع مل جائے گا اور روپیہ بھی بہت کافی مل جائے گا لیکن اگر ثالثوں پر یہ ثابت ہو کہ میرا دعویٰ ٹھیک ہے اور احرار نے جھوٹ کی نجاست پر مُنہ مارا ہے تو وہ اپنا فیصلہ لکھ کر اس کے ساتھ احرار کی تحریر لگا کر مجھے بھجوا دیں اور میرا روپیہ مجھے واپس کر دیں۔ ہاں یہ ضروری ہو گا کہ ثالث اپنے فیصلوں میں دونوں فریق کی تحریرات شامل کریں اور فیصلہ با دلائل دیں کیونکہ اس نے بہرحال شائع ہونا ہے۔ اختلاف کی صورت میں کسی ثالث کا اختلافی نوٹ ساتھ شامل کرنا ضروری ہو گا۔ یہ امر بھی یاد رہے کہ جس طرح لعنتوں والی تحریر کی تین کاپیاں تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی اسی طرح دلائل والی کاپیاں بھی تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی جن پر میری طرف سے میرے دستخط ہوں گے اور اگر احرار اصرار کریں تو صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ کے بھی مَیں اُس پر دستخط کروا دوں گا۔ اسی طرح تحریک جدید کے صدر کے بھی دستخط کروا دوں گا۔ گو چونکہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اس لئے اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر وہ چاہیں تو مَیں اس کا بھی ذمّہ لے لیتا ہوں۔ دوسری طرف احرار کی تینوں کاپیوں پر مولوی عطاء اﷲ شاہ صاحب، مولوی محمدعلی صاحب جالندھری اور شیخ تاج الدین صاحب لدھیانوی کے دستخط ہونے ضروری ہوں گے۔ مَیں تین کاپیوں کے تینوں ثالثوں کو الگ الگ دیئے جانے پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اگر میرا نمائندہ شرارت کرے تو احرار کے پاس ریکارڈ محفوظ رہے اور اگر اُن کا نمائندہ شرارت کرے تو ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ رہے۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت احرار اس غیبی دس ہزار روپیہ کو لینے کے لئے بے تابی سے آگے بڑھے گی۔ لعنتیں کھانے کے تو وہ عادی ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں اور اگر وہ سچے ہیں تو پھر تو بالکل گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ چنانچہ مَیں بالکل نہیں گھبرایا بلکہ مَیں لعنتوں کی تحریر کے علاوہ دس ہزار روپیہ بھی دینے کے لئے تیار ہوں۔ یہ روپیہ بینک کے پاس تین ماہ کی میعاد تک کے لئے ثالثوں کے پاس جمع رہے گا۔ اگر اس عرصہ میں اُنہوں نے فیصلہ نہ کیا اور نہ مزید مہلت مجھ سے طلب کی تو مجھے واپس مل جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ ثالث کسی وجہ سے فیصلہ دینے کے لئے تیار نہیں اور اس صورت میں دونوں فریق کو اجازت ہو گی کہ اپنے نمائندے سے فریقین کی تحریریں لے کر خود شائع کر دیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
1952ء03-10-’’
(الفضل 4 اکتوبر 1952ء)







اخبار ‘‘پیغام صلح’’
کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
اخبار ‘‘پیغام صلح’’ کے اس بیان کی تردید کہ
مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں

(محررہ24اکتوبر 1952ء)

‘‘اخبارپیغام صلح مؤرخہ 15اکتوبر 1952ء میں ایک مضمون میاں محمدصاحب پریذیڈنٹ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور کی طرف سے شائع ہؤا ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ:-
‘‘اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہ قادیانی جماعت کے امام جناب مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب نے آخر کار حضرت صاحب کی نبوت کے عقیدہ سے بہت کچھ رجوع کر لیا ہے اور اب وہ اپنی تحریرات کا وہی مفہوم لیتے ہیں جن کی طرف حضرت امیر مرحوم انہیں دعوت دیتے تھے’’۔
مجھے اس عبارت کو پڑھ کر تعجب ہؤا اور بے اختیار آنکھوں کے سامنے یہ فقرہ آگیا کہ سخن فہمی ٔ عالَم بالا معلوم شُد۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
تعجب ہے کہ میاں محمد صاحب اخبارمیں تو یہ شائع کرتے ہیں کہ میں نے اپنے عقیدے بدل لئے ہیں اور وہی عقائد اختیار کر لئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب رکھتے تھے مگر مجھے بار بار خط لکھتے ہیں کہ مَیں اپنے عقائد کی وضاحت کروں تاکہ دنیا میں جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے۔ اگر مَیں نے اپنے خیالات کی اصلاح کر لی ہے تو دُنیا میں غلط فہمی کون سی رہ گئی ہے۔ باقی رہا یہ کہ میرے متعلق آپ کو یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ مَیں نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں تو اس وہم کا ازالہ میرے اختیار میں نہیں۔ جو مَیں نے نہیں لکھا آپ اپنے خطوں میں میری طرف منسوب کرتے ہیں اور اب اخبار میں بھی شائع کر رہے ہیں۔ اس مرض کا علاج میرے پاس نہیں ہے۔ میرے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق وہی ہیں جو آپ کی زندگی میں تھے، جو آپ کے بعد آج تک رہے اور آئندہ اِنْشَاءَ ﷲ رہیں گے۔ میں نے جو آخری خط میاں محمدصاحب کو لکھا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔ اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔میرے خط کی عبارت یہ ہے:-
‘‘مکرمی میاں صاحب!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ ﷲِ وَبَرَکَاتُہٗ
آپ کا خط ملا۔ میری تحریر سے کچھ مترشح ہوتا ہے یا نہیں یہ تو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مَیں نے تو جو کچھ لکھا تھا سادہ عبارت میں ایک مفہوم ادا کیا تھا۔ اصل میں ایسے مسائل خط و کتابت سے طے نہیں ہوتے۔ یا کتابوں سے یا ملاقاتوں سے یا پھر اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دینے سے طے ہوتے ہیں۔ یعنی جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب ملاقات یا کتابوں کا مطالعہ بے فائدہ چیز ہے۔
آپ نے میرے ایک حوالہ کا ذکر کیا ہے مگر کتاب یا اخبار کا نام اور صفحہ وغیرہ درج نہیں کیا۔ آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ مجھے یاد نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ اخباروں میں اس حوالہ کا ذکر آچکا ہے۔ یہ درست ہو گا مگر وہ اخبار آپ نے پڑھے ہیں، میں نے نہیں پڑھے۔ اس لئے جب تک حوالہ آپ نہ لکھیں میرے لئے اسے دیکھنا مُشکل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے 1901ء سے پہلے کے حوالوں کو اگر مَیں نے کسی جگہ منسوخ قرار دیا ہے تو اسی جگہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مَیں نے کون سی چیز منسوخ قرار دی ہے؟ جو چیز منسوخ ہوئی وہ صرف نبوت ٭کی تعریف ہے۔
٭ یہ فقرہ جو مَیں نے لکھا ہے بعینہٖ یہی مضمون حقیقۃ النبوۃ میں بھی بیان ہے۔ چنانچہ
پس جو بات نبوت کی اس تعریف کے خلاف ہو گی، جو 1901ء کے بعد آپ نے فرمائی وہ منسوخ ہو گئی اور جو خلاف نہیں ہو گی وہ منسوخ نہیں ہو گی۔ حوالہ جات منسوخ نہیں صرف پہلی تعریفِ نبوت منسوخ ہے ورنہ ان حوالوں کا مضمون قائم ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ مَیں نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ مَیں نے اپنا خط نکال کر پھر پڑھا ہے اس میں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بے شک لکھا ہے کہ امتی نبی کا نام ایک نیا نام ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملا اور یہی ہم کہتے ہیں، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ۔
ہالینڈ میں مسجد ہم بنا رہے ہیں اور نقشہ بن رہا ہے۔ کل ہی اس کا پلین (PLAN) ہالینڈ کے ایک آرکیٹیکچر (ARCHITECTURE)کی طرف سے آیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے آپ کو یہ غلط رپورٹ دی ہے کہ ہم مسجد نہیں بنا رہے۔ والسلام خدا حافظ
خاکسار۔ مرزا محمود احمد’’
اِس خط سے ظاہر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امتی نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن امتی نبی کوئی ایسا درجہ نہیں جو مجددیت اور نبوت کے درمیان ہو بلکہ
(بقیہ حاشیہ:)اس کے بعض فقرات یہ ہیں:
‘‘یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کی وجہ سے 1901ء سے پہلے آپ اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص قرار دیتے رہے’’۔ 1
‘‘خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے۔ ’’ 2
‘‘پس اس تعریف نے پہلی تعریف کو بدلا دیا اور 1901ء سے پہلے جس قدر تحریرات سے نبی ہونے کا انکار پایا جاتا تھا ان کے معنے بھی بدل دیئے اور اس کے صرف یہ معنے رہ گئے کہ آپ نے شریعتِ جدیدہ لانے یا براہ راست نبوت پانے سے انکار کیا ہے’’۔3
امتی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہمیشہ سے نبی مانتے آئے ہیں اور اب بھی مانتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی شریعت لائے تھے یا انہوں نے کوئی نیا دین نکالا تھا یا انہوں نے کوئی نیا کلمہ بنایا تھا یا انہوں نے کوئی نیا قبلہ تجویز کیا تھا۔ ہمارا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ آپؑ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبع تھے اور امتی تھے اور آپؑ کی طرح آپؑ کی سب جماعت بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت سے ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایک ہی امت چلے گی اور وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت ہو گی مسیح موعود ؑ یا اور کوئی جو مصلح آئے وہ کسی نئی امت کا بانی نہیں ہو گا بلکہ خود امتی ہو گا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اور تابع ہو گا نبی مکّی کا صلی اﷲ علیہ وسلم۔
پس جو کچھ آپؑ نے پایا وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیضان سے پایا اورآپؑ کی تمام عزت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت سے خفیف سے خفیف سرتابی کو بھی آپ کفر سمجھتے تھے بلکہ حقیقتاً یہی عقیدہ بِناء تھا اس عقیدہ کی کہ عام مسلمانوں میں اب حقیقتِ اسلام باقی نہیں رہی کیونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور تعلیم سے وہ سرتابی کرتے ہیں۔
پس جو کچھ مَیں نے کہا ہے اور جو ہمیشہ مَیں کہتا چلا آیا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عُہدہ نبوت مستقلہ شرعیہ اور مجدد کے درمیان کا عُہدہ ہے لیکن ہے وہ نبوت ہی کی ایک قسم اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے اور ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ایک وقت تھا کہ جماعت غیر مبائعین اس قسم کی بحثوں میں پڑ کر یہ خوشی محسوس کیا کرتی تھی کہ اس قسم کی بحث میں جب مبائعین کو پھنسایا جائے گا تو غیراحمدیوں میں ان کی بدنامی ہو گی لیکن واقعات نے ان کی اس پالیسی کو غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ باوجود ان حیلوں کے بڑھی ہماری ہی جماعت۔ وہ اسی طرح کے اسی طرح رہے اور اب تو وہ زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس وقت غیر احمدی ہمارے حوالوں سے واقف نہیں تھے۔ جب وہ ''پیغام صلح'' میں وہ حوالے پڑھتے تھے تو بوجہ نیا علم ہونے کے ان کے دلوں میں شُبہ پیدا ہوتا تھا اور بعض کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا تھا۔
اب جماعت احرار نے خود مطالعہ کر کے غیر مبائعین سے بھی زیادہ ہمارے حوالے نکال لئے ہیں اور ایک ایک حوالہ کے ساتھ دس دس جھوٹ بھی ملالئے ہیں۔ اب پیغام صلح میں اس قسم کی بحث چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اس کی تردید کریں گے، تو وہ اس کو اچھالیں گے لیکن وہ ہمارے جن حوالوں کو اچھالیں گے ایک ایک حوالے میں دس دس جھوٹ ملا کر احرار اس کو خوب پھیلا چکے ہیں اور ہمارے حوالے بگڑی ہوئی خطرناک صورت میں عوام الناس غیراحمدیوں کے سامنے آچکے ہیں اس لئے اب یہ کھیل پرانا ہو چکا ہے اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم ممنون ہیں عقلمند غیر مبائعین کے کہ انہوں نے موجودہ جھگڑے میں اس بات کو خوب محسوس کیا کہ یہ تلوار صرف مبائعین پر ہی نہیں چل رہی غیر مبائعین پر بھی چل رہی ہے۔ غیر احمدی علماء نے صاف فتویٰ دے دیا ہے کہ اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ مرزا صاحب مجدّد تھے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب مرتد تھے اور کافر تھے۔ چنانچہ مولوی عبدالحامد صاحب بدیوانی کا خط ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کو اس مضمون کا آچکا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جناب مرزا کے دعاوی وبیانات پر نظر رکھنے والے افراد کی آپ حضرات کے بارے میں جو رائے ہے، وہ ظاہر ہے جس شخص نے حضرات انبیاءِ کرام کی اہانت کی ہو حضرات اہلِ بیت اطہار سے اپنے مقام کو بڑھایا ہو، صفاتِ احدیت کو خود اپنی ذات میں جمع کیا ہو، ان کے مجدد یا مسیح موعود ماننے والوں کو بھی ہم قادیانیوں جیسا ہی سمجھتے ہیں’’۔
غرض سب عقلمند غیر مبائعین نے سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں تبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پڑ رہا ہے کسی ایک جماعت پر نہیں پڑ رہا۔ اور مخالفت کسی ایک حصہ کی نہیں بلکہ ساری احمدیت کی ہے اور بقول زمیندؔار صرف دمشقی اور اندلسی کا فرق ہے، ورنہ بات ایک ہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عقلمند فرقہ آئندہ بھی اپنے رویّہ پر قائم رہے گا، ورنہ بہرحال یہ ان کا اپنا کام ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے عقائد میں کچھ فرق آگیا ہے کیونکہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے حال ہی میں انگلستان سے مجھے رپورٹ بھیجی ہے کہ اب ووکنگ مشن کے ذریعہ سے انگریز احمدی بھی ہونے لگ گئے ہیں۔ گویا وہی تعلیم جس کو پہلے زہر قرار دیا جاتا تھا اب تریاق قرار دے دی گئی ہے۔ چنانچہ ووکنگ مشن کے ذریعہ سے ایک احمدی ہونے والی عورت ہمارے مشن میں بھی آئی اور ہمارے مشنری سے اس نے باتیں کیں۔ پس ہم تو یہ امید رکھ رہے ہیں کہ جلد ہی احمدیت کی تبلیغ ایک ضروری چیز قرار دے دی جائے گی اور غیرمبائعین بھی انگلستان اور امریکہ میں کھلے بندوں احمدیت کی تبلیغ کرنے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ دونوں فریق کو اس بات کی توفیق دے گا کہ وہ احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
24۔اکتوبر1952ء’’
(الفضل 29 اکتوبر1952ء)
1: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ451
2: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ379
3: حقیقۃ النبوۃ۔ انوار العلوم جلد2 صفحہ455








خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں
افتتاحی خطاب

(فرمودہ 30اکتوبر 1952ء)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ خدّام الاحمدیہ کا یہ بارہواں سالانہ اجلاس ہو رہا ہے۔ بارہواں سال ایک بلوغت کا سال سمجھا جاتا ہے۔ بلوغت کے جو پانچ زمانے شمار کئے جاتے ہیں ان میں سے پہلا زمانہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور دوسرا 15 سال کی عمر میں جبکہ جہاد میں شمولیت کی اجازت مل سکتی ہے۔ تیسرا 18 سال کی عمر میں جبکہ جہاد واجب ہو جاتا ہے۔ چوتھا 21 برس کا ہونے پر جبکہ شریعت انسان کو پورے طور پر اپنے اموال کا مالک قرار دیتی ہے اور پانچواں دَور بلوغت کا 40 برس کا ہونے پر شروع ہوتا ہے جو کہ عام مدّت خدا تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہے۔
یہ سال جو تمہارے لئے بلوغت کا پہلا سال ہے جماعت کے لئے بہت سے فساد اور مشکلات لایا ہے۔ سلسلے پر جو نازک ترین زمانے گزرے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں سال کا یہ درمیانی عرصہ ان سے بھی زیادہ خطرناک حالات تمہارے لئے لایا ہے۔ اِس سے پہلے بھی جماعت پر ظلم و تعدّی کے کئی دَور آئے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا تھا جبکہ بعض لوگوں نے ظلم اور جبر سے ڈر کر کچھ کمزوری دکھائی۔ گو مخالفین نے تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت ظاہر کی ہے مگر میرے علم کے مطابق ان کی تعداد کسی صورت میں بھی پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر بعد میں جلد ہی سنبھل گئے اور شاید ہی کوئی ایسا رہا ہو گا جس نے ندامت کا اظہار نہ کیا ہو مگر بہرحال مومنوں کی جماعت کے لئے اتنی کمزوری بھی معمولی نہیں ہے۔ ان کی جماعت تو اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسی کمزوری نہ دکھلائے۔
خدّام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض یہی تھی کہ اگر کسی موقع پر قربانی کا موقع آئے تو سو میں سے ننانوے نہیں بلکہ سوکے سو ہی اس قربانی پر پورے اُتریں۔ یہ روح اگر تم میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی قوم تم پر ظلم نہیں کر سکتی۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تمہاری اکثریت ایسے مُلک میں ہے جہاں کی حکومت جمہوریت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے حتّی الامکان ظلم و ستم ہونے نہیں دیتی لیکن تم نے صرف ایک مُلک تک محدود نہیں رہنا تم نے ساری دُنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے مُلک موجود ہیں جہاں پر مذہب کے نام پر ظلم ہوتا ہے۔ جہاں تلوار کے زور سے عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پس تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے ممالک کے حالات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو تاکہ وقت آنے پر تم کمزوری نہ دکھلا سکو۔
گو پاکستان کے حُکام کو اﷲ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہیں اور ظلم نہیں ہونے دیتے اور ہم اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مُلک کو اس روزِ بد سے ہمیشہ ہی محفوظ رکھے جبکہ یہاں بھی ظلم ہو لیکن ایک حد تک یہاں بھی مُشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض دیگر ممالک میں تو یقیناً ہوں گی۔ پس تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھے جبکہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف تلوار۔ ویسے تو اِس وقت تم میں سے ہرایک جذباتی طور پر کہہ دے گا کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر اپنے ایمان پر قائم رہیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز تیاری اور وقت چاہتی ہے۔ اس سال جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے تمہاری پہلی بلوغت کے ساتھ ہی تمہیں ہوشیار کر دیا ہے تاکہ تم آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکو۔
خدّام الاحمدیہ کے متعلق جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں ان سے معلو م ہوتا ہے کہ گزشتہ خطرات کے ایّام میں احمدیوں کی مدد کرنے، عورتوں اور بچوں کو خطرات سے نکالنے اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت کے سلسلے میں انہیں خدا تعالیٰ نے اچھا کام کرنے کی توفیق دی ہے۔ یہ ایک خوشکن علامت ہے لیکن ایسی نہیں جس پر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گو جیسا کہ مَیں نے کہا ہے یہ تمہاری بلوغت کا پہلا زمانہ ہے لیکن سب بالغ ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ بعض بیس سال کی عمر میں بھی عادتوں کے لحاظ سے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بعض بہت چھوٹی عمر میں ہی بڑے بڑے کارنامے کر کے دکھاتے ہیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بارہ سال کی اس بلوغت تک پہنچنے کے بعد کیا تمہاری عقلیں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ تم ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کر سکو۔ یوں تو مومن خدا کے حکم کے ماتحت اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن اگر ایک طرف تمہاری جان ہو اور دوسری طرف ایمان تو کیا تم میں سے ہر ایک کی روح بِلا تردّد، بِلا تأمل اور فوری طور پر اپنی جان کو خدا اور اپنے درمیان حائل سمجھتے ہوئے اسے قربان کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
خدا تعالیٰ نے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے اب تم اپنے دلوں کو مضبوط کرو اور آنے والے خطرات کے لئے تیاری کرو۔ وہ تیاری اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تم اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گزارو، زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو، زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرو۔ خدمتِ خلق کے متعلق تمہارا کام ابھی نمایاں نہیں ہے۔ زلزلہ اور اسی طرح کی دیگر مصیبتوں کے پڑنے پر یا جلسوں اور جلوسوں کے مواقع پر تمہیں کم از کم بوائے سکاؤٹس یا ریڈ کراس جتنا نمونہ تو دکھانا چاہئے حالانکہ اصل میں تو ان سے سینکڑوں گُنا زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے۔ واضح رہے کہ خدمتِ خلق سے میری مراد محض احمدیوں یا مسلمانوں کی خدمت نہیں بلکہ بِلاامتیاز مذہب و ملت، خدا کی ساری ہی مخلوق کی خدمت مراد ہے۔ حتّٰی کہ اگر دُشمن بھی مصیبت میں ہو تو اس کی بھی مدد کرو۔ یہ ہے خدمتِ خلق کا صحیح جذبہ۔
اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہر گز بُزدلی نہیں دکھاؤ گے۔ اس کے لئے تیاری کرو مگر یہ تیاری اسلامی طریق کے مطابق ہونی چاہئے۔ ایسی تیاری کرنے کے دُنیا میں دو ہی طریق ہیں ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے۔ اس کی مثال نپولین، ہٹلر، چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب سے روشن اور اعلیٰ و ارفع مثال دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس وجود میں دیکھ چُکی ہے۔ پس تم ہٹلر، نپولین یا چنگیز خاں اور تیمور کی بجائے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو لیکن یہ نمونہ دُنیوی خوشیوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گُنا بالا ہے بلکہ اتنا بالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں’’۔
(الفضل لاہور یکم نومبر 1952ء)









وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ
(اختتامی خطاب فرمودہ یکم نومبر 1952ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الا احمدیہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘1- جو خادم انعام لینے آئے وہ پہلے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے۔ انعام دائیں ہاتھ سے لے اور پھر اسے بائیں ہاتھ میں تھام کر مصافحہ کرے۔ انعام لے کر جَزَاکُمُ ﷲ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہے۔ اس موقع پر حاضرین مجلس کو بھی انعامات تقسیم کرنے والے کی اتباع میں بَارَکَ ﷲ لَکَ کہنا چاہئے۔
2- میری تقریر کے وقت اطفال کو بھی یہاں لانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے شور سے تقریر میں مُخِلّ نہ ہوں اور ان کے کانوں میں بھی نیکی کی باتیں پڑتی رہیں۔
3- مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے احکام کی تعمیل کرانے کے لئے مختلف مقامات پر والنٹیرز متعین کریں اور خدّام کا فرض ہے کہ جونہی وہ کوئی حکم سنیں فوراً اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس کی تعمیل شروع کر دیں۔ اس روح کے بغیر کبھی بھی نظم و ضبط کا حقیقی تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔
4- خدّام کو اپنے اپنے مقامات پر اے آر پی کی ٹریننگ لینی چاہئے اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ لوکل انتظامات میں حصّہ لینا چاہئے۔
ان ہدایات کے بعد فرمایا:-
‘‘مَیں ایک اور نہایت ضروری بات کی طرف بھی توجّہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو عموماً اور خدّام کو خصوصاً یاد رہے کہ رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ۔1 اس ارشاد نبوی ؐ سے معلوم ہوتا ہے کہ حُبّ الوطنی بھی اسلام کا ایک حصّہ ہے۔ ایمان بڑی اہم چیز ہے اور چونکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وطن کی محبت بھی ایمان ہی کا ایک حصّہ ہے اس لئے یہ بھی ایک اہم چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پس ہمارے نوجوانوں میں حُبّ الوطنی کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہونا چاہئے اور اس کے عملی ثبوت کے طور پر انہیں اپنی قومی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قومی حکومت کو مضبوط کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ تم خواہ حکومت کے ملازم ہو یا کوئی اور کام کرتے ہو بہرحال دوسروں سے زیادہ محنت اور سنجیدگی سے اپنے فرائض کو سرانجام دو۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چند مقررہ گھنٹے کام کر کے ذمّہ داری ختم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ اصل کام وہ ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلے۔ اگر نہیں نکلتا تو تم سمجھ لو کہ تمہارے کام میں کوئی نقص رہ گیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نتیجہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے مگر اس فقرہ کا جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا تو یہ قانون ہے کہ وہ صحیح طور پر محنت کرنے کا ضرور صحیح نتیجہ نکالتا ہے۔ پس اگر صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو تم کیوں اسے خدا کی طرف منسوب کرتے ہو اور کیوں نہیں اسے اپنی کسی غلطی کا نتیجہ قرار دیتے۔حقیقت یہ ہے کہ جب یہ وہم ہو جائے کہ مَیں تو کام ٹھیک کرتا ہوں مگر خدا غلط نتیجہ نکال دیتا ہے تو پھر انسان اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے۔
اپنے مُلک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کر ہماری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی مُلک کے حقیقی خیر خواہ اور وفا دار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں مُلک کی خدمت میں کمزور ہو جانا چاہئے یا پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصّہ لینا چاہئے۔ جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہؤا کرتا ہے نہ کہ کم۔ پس اگر تم مُلک کے سچے خیر خواہ ہو اور تمہاری مخالفت کرنے والے مُلک کے دُشمن ہیں تو تم پہلے سے بھی بڑھ کر مُلک کی خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ۔ تا دُشمن ہمارے مُلک کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ تم اگر حکومت کے ملازم ہو تو حکومت کا کام پوری محنت عقل اور دیانت داری سے کرو۔ اگر کوئی اور کاروبار کرتے ہو تو اسے محنت سے سرانجام دو۔ اگر سلسلے کا کام کرتے ہو تو اسے محنت اور دیانت داری سے کرو۔ غرض اگر تم واقع میں مُلک کے وفادار اور خیر خواہ ہو تو ہر کام اس جذبہ سے کرو اور اپنا یہ مطمح نظر بنا لو کہ تم نے کسی بھی شعبے اور کام میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے کیونکہ اس میں مُلک کا بھی فائدہ ہے اور دین کا بھی۔جب تک ہر احمدی ڈاکٹر، وکیل، تاجر، کلرک، زمینداراور مزدور اپنے اپنے شُعبہ میں اپنا یہ مطمح نظر نہیں بناتا اس وقت تک ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنا قومی فرض ادا کر رہا ہے’’۔
حضور نے خدمتِ خلق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کے مختلف طریق بیان فرمائے مثلاً سٹیشنوں پر مسافروں کی خدمت، جلسوں کے موقع پر انتظام، دیہات میں جاکر جہاں طبی امداد نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹی چھوٹی اور معمولی بیماریوں کا علاج وغیرہ۔اس کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘ اس وقت تک خدّام نے خدمتِ خلق کے شعبے میں کوئی قابلِ ذکر اور نمایاں کام نہیں کیا۔ حالانکہ تمہیں چاہئے کہ تم اپنے افادے کو خلقِ خدا کی سچی اور بے لوث خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع کرو’’۔
آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ:-
‘‘ تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکرِ الٰہی یا مراقبے کے لئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ ذکرِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتدا میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے۔ مثلاً سُبْحَانَ اللہ ، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، اَللہُ اَکْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفاتِ الٰہیہ کا وِرد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے۔
مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سر زد ہوگئی ہیں۔آیا وہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں ۔ اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں۔ اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے۔ تبلیغ کے کیا مؤثّرذرائع ہیں۔ کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے۔
اگر اس رنگ میں ذکرِ الٰہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقینا اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبّر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا۔
پس چاہئے کہ ہمارے چہروں پر رونق ہو۔ جسم اور ہماری روحیں دونوں مضبوط ہوں تا دیکھنے والا سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ آسان نہیں۔ اس وقت گو تم دنیا کی نظر میں ذلیل ہو اور وہ تم کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا نے بہرحال تمہیں بہت بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں۔ اس نے ایک نہ ایک دن تمہیں دنیا کا راہنما بنانا ہے۔ پس تم اپنی حقیقت کو سمجھو تم کیوں اپنے وقتوں کو رائیگاں کرتے ہو۔ اگلی نسلوں نے کام کیا اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ اب تمہیں چاہئے کہ مراقبے، ذکر الٰہی اور غور و فکر کے ذریعے اس کام کو ترقی دو۔ ایک بہت بڑا کام اور بہت بڑا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں حصہ دار بنو۔ یاد رکھو کہ خدا اپنے کمزور بندوں کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کام لیا کرتا ہے۔ عزّت بندے کی ہوتی ہے اور محنت خدا کی ہوتی ہے’’۔
(الفضل لاہور 4نومبر 1952ء)
1: موضوعات کبیر۔ مؤلفہ ملّا علی قاری صفحہ35۔ مطبوعہ دھلی1315ھ








نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے

(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ فرمودہ 26 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘پہلے مَیں اس جلسہ کے افتتاح کے لئے دُعا کر دیتا ہوں تاکہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو ان اغراض کے مطابق بنائے جن اغراض کے لئے اس نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی تھی اور تاکہ اﷲ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے فضل اور رحمت سے ان دروازوں کو کھولے جن دروازوں کو کھولنا اِس جلسہ کے قیام کے ساتھ اس نے مقدر کیا تھا اور جس طرح اس نے اُن کو اس دُنیا کی باتیں سُننے کے لئے کان عطا فرمائے ہیں اسی طرح وہ ان کو دین کی باتیں سُننے کے لئے روحانی اور دل کے کان بھی عطا فرمائے اور قوتِ عملیہ جس کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں وہ ان کو عطا ہو اور ان کی زندگیاں خداتعالیٰ کے منشاء اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں۔
بعض جماعتوں کی طرف سے باہر سے تاریں آئی ہیں جن میں اُنہوں نے درخواست کی ہے کہ جلسہ سالانہ کی دُعا کے موقع پر ان کے لئے بھی دُعا کی جائے۔ چنانچہ بورنیو کے شہر جیلٹن سے وہاں کی جماعت کی تار آئی ہے کہ یہاں نئی جماعت بن رہی ہے۔ دوست دُعا فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری امداد فرمائے۔ اسی طرح شیخ ناصر احمد صاحب کی سوئٹزرلینڈ سے تار آئی ہے، سیّد عبدالرحمن صاحب کی امریکہ سے تار آئی ہے، چوہدری عبدالرحمن صاحب کی لنڈن سے تار آئی ہے، حافظ بشیر الدین صاحب کی ماریشس سے تار آئی ہے، یہاں کی مقامی جماعتوں کی طرف سے بھی مختلف جگہوں سے تاریں آئی ہیں جن کے نام لینے کی ضرورت نہیں۔ احباب اجمالی طور پر ان سب کو اپنی دُعاؤں میں شامل کر لیں۔ دُعا کے بعد مَیں چند الفاظ کہہ کر اس جلسہ کا افتتاح کروں گا اور پھر باقی پروگرام شروع ہو گا۔’’
اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دُعا کروائی۔ دُعا سے فارغ ہونے پر فرمایا:-
‘‘مَیں صرف چند منٹ بعض باتیں کہہ کر چلا جاؤں گا۔ ایک تو مَیں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ پچھلے کچھ دنوں سے شدید سردی اور خشک سردی کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ دردیں پھر شروع ہو گئی ہیں اور اسی طرح نزلہ کی شکایت ہو گئی ہے۔ دردوں کی وجہ سے مجھے ملاقاتوں میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مَیں بیٹھ نہیں سکتا اور نزلہ کی وجہ سے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے مَیں بول نہیں سکتا۔ پس ایک تو ملاقاتوں کے وقت احباب احتیاط سے چل کر آیا کریں تاکہ گرد نہ اُڑے۔ دوسرے دُعا بھی کریں کہ اﷲ تعالیٰ ان دنوں میں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ مَیں اپنے خیالات آپ تک پہنچا سکوں۔ باقی دوائیں جو درد کی وجہ سے مَیں نے شروع کی ہیں ان سے کچھ افاقہ بھی ہے چنانچہ آج پون گھنٹہ مَیں نے ملاقات کی اور مَیں اس غرض کے لئے بیٹھ سکا لیکن بعض دفعہ لمبی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ دوائیں جو دردوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ان سے دل میں ضُعف پیدا ہوتا ہے اور اس وجہ سے مَیں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا لیکن بہرحال درد کی شدت کی وجہ سے چونکہ نہ مَیں بول سکتا ہوں اور نہ بیٹھ سکتا ہوں اس لئے دوائیں استعمال کرنی ہی پڑتی ہیں۔
اس کے بعد دو تین باتیں مَیں جلسہ کے متعلق اور کچھ منتظمین کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔ آپ سے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ اخبار میں مَیں نے اعلان کروا دیا تھا۔ آجکل خشک سردی پڑ رہی ہے اور اس سے نمونیہ وغیرہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنے اوقات کو اس طرح خرچ کریں اور یہاں اس طرح اپنے دن گزاریں کہ آپ کو بلا وجہ موسم کی شدت کا مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ مومن کی جان بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے۔ آپ کو تو خود تجربہ ہے کہ ایک ایک احمدی بنانے میں کتنے مہینے لگ جاتے ہیں۔ پس ایک احمدی کا اپنی جان بچانا کوئی معمولی بات نہیں۔ کیونکہ وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ بڑی قربانی سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ میں بعض قیود بڑھائی گئی ہیں کیونکہ اخراجات کے متعلق ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ پر خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ پس مَیں نے منتظمین کو تاکید کی کہ چونکہ قحط کا موسم ہے اس لئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ اخراجات اتنے زیادہ ہو جائیں کہ سلسلہ ان کو برداشت نہ کر سکے۔ بڑھنے والی جماعتوں کے متعلق ہمیشہ ترقی اور اصلاح کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے لیکن اس خیال میں بعض غلطیاں بھی ہوئیں۔ چونکہ نیا تجربہ ہے اس لئے دوستوں کو غلطیوں کی اصلاح کی تو کوشش کرنی چاہئے لیکن ان غلطیوں پر چِڑنا نہیں چاہئے ور نہ جماعت کی تنظیم اور اس کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ ترقی ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے کہ اصلاحات جاری کی جائیں اور پھر غلطیاں دیکھی جائیں اور ان غلطیوں کی اصلاح کر کے آئندہ کے لئے کوئی معیّن اور صحیح قدم اُٹھایا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لوگوں کے ڈر کے مارے کوئی نیا قدم نہیں اُٹھایا جاسکتا اور نظام کی مضبوطی کے لئے کوئی نیا طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ پس جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ جماعت میں ہمیشہ نئی نئی اصلاحات کی جائیں۔ بے شک ان اصلاحات میں غلطیاں بھی ہوں گی دوست ان غلطیوں کو پکڑیں لیکن ان غلطیوں پر گھبرانا نہیں چاہئے ورنہ کام کرنے والے نئے قدم اُٹھانے سے گھبرائیں گے اور قوم ترقی نہیں کر سکے گی۔ پس آپ جرح ضرور کریں اور جب کوئی غلطی دیکھیں تو منتظمین کو توجّہ دلائیں تاکہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے لیکن ساتھ ہی خوشی سے نئی قیود اور اصلاحات کو برداشت کریں کیونکہ ان قیود کا بڑھانا جماعت کی ترقی کی علامت ہے تنزل کی نہیں۔ اسی طرح کام کرنے والوں کو توجّہ دلانا بھی ضروری ہے اگرچہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ توجّہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح نہیں کی جاتی۔ ابھی ایک دوست نے جو کراچی سے آئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے صرف چند دن ہوئے بیعت کی ہے کھانے کے متعلق شکایت کی۔ مَیں نے اس شکایت اور بعض دوسری شکایتوں کے لئے ایک کمیٹی بنا دی کہ وہ نگرانی کرے اور کارکن مہمانوں کی ہر ضرورت کو پورا کر دیا کریں۔ اس کمیٹی کی طرف سے مجھے رپورٹ آئی کہ انتظام ہو گیا ہے لیکن پھر دوبارہ اسی دوست کی طرف سے شکایت آئی کہ ابھی تک انتظام نہیں ہؤا۔ اس پر پھر توجہ دلائی گئی تو اُنہوں نے پھر رپورٹ کی کہ انتظام ہو گیا ہے۔ مگر ابھی مَیں تقریر کے لئے آرہا تھا تو پھر ان کی طرف سے شکایت آئی کہ کوئی بھی انتظام نہیں ہؤا۔ اسی طرح جلسہ گاہ کے متعلق خود مَیں نے اس نقشہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں۔ یہ احتیاط سے گزر کر غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے مَیں پسند نہیں کرتا۔ اسلام ہمیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ہی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُذُوْا حِذْرَکُمْ 1لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہ اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو دُور دُور بٹھادیا جاتا ہے۔ اتنا لمبافاصلہ میرے نزدیک ہرگز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔
پہلوؤں کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو۔ اسی طرح سامنے والے حصّہ کے متعلق مَیں نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو۔ جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہو گا گزشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حملہ جس کی آجکل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کار کر سکتے ہیں۔ پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہو سکتا۔ اِلَّا مَا شَاءَ ﷲ۔ لیکن ایسا تو کبھی کبھی ہوتا ہے اور عزرائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے۔ پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیرمعمولی احتیاط کی جائے۔ اب جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے اتنے دُور دُور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر دُور بیٹھنا طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور زیادہ تو افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے اصلاح نہیں کی گئی۔ پس مَیں منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی مَیں کل تقریر نہیں کروں گا۔ اگلی صف آگے آنی چاہئے اور پہلوؤں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہئے۔ اب تو ایسی شکل بنی ہوئی ہے جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھادیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ احتیاط ضروری چیز ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے۔ مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا۔ شاید اُنہوں نے پہرہ مقرر نہیں کیا تھا جیسے آجکل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اس زمانہ میں لوگ اعتراض کرتے ہوں گے۔ چونکہ نیا مُلک فتح ہؤا تھا اس لئے اُنہوں نے اس خیال سے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نماز کے وقت بھی یہ پہرہ رکھتے ہیں اپنے لئے پہرہ مقرر نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ دُشمن نے نماز کی حالت میں کئی صفیں قتل کر دیں اور پھر کہیں جاکر اگلی صف والوں کو پتہ لگا کہ دُشمن نے حملہ کر دیا ہے۔ بیسیوں صحابہ ؓ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے۔ پس پہرہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکل بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہو جائے یہ بھی ایک لغو بات ہے۔ آخر ہر ایک نے مرنا ہے پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہت کا رنگ دے دے یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز بنا دے یہ نہ تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے۔ اصل حفاظت خداتعالیٰ کرتا ہے بندے نہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہو گئی ہے۔ لوگ اتنی دُور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاید مجھے دیکھ رہے ہوں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذو نادر ہی کسی کی شکل نظر آرہی ہے۔ پس ان کو بھی قریب آنے کا موقع دینا چاہئے۔ باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں۔ بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے، اسے اُٹھاتا ہے، نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت وہ نظر آتا ہے ،نہ رائفل اُٹھاتے وقت نظر آتا ہے ، نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آتا ہے ، نہ اِرد گرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص رائفل چلانے لگا ہے حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو وہ دُور جا پڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے۔ پس رائفل کا سوال نہیں سوال پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے۔ اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کُہنی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ کُہنی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے۔ اگر کسی کو پتہ لگے کہ کوئی شخص پستول چلانے لگا ہے اور وہ ذرا اپنی کہنی اسے مار دے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے۔ پس یہ کھیل مَیں پسند نہیں کرتا اس کی فوراً اصلاح کی جائے۔ جلسہ کے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ راتوں رات اس کی اصلاح ہو جانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آؤں گا اور دوستوں کو خلافت کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقع دوں گا اور کہہ دوں گا کہ مُجھ سے مصافحہ کر لو اور چلے جاؤ۔ ایسے ماحول میں تقریر کرنے کےلئے مَیں نہیں آسکتا۔ ہماری جماعت ایک مخلصین کی جماعت ہے اور دُور دُور سے لوگ جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں۔ ان کو مُجرم کے طور پر بٹھادینا اور ڈربہ کے طور پر بند کر دینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی۔ وہ مُجھ سے محبت کرتے ہیں اور مَیں اُن سے محبت کرتا ہوں۔ پھر ہم میں اتنی دُوری کیوں ہو؟
دوسری طرف پہرہ کا انتظام بہت ناقص ہے۔ پہلے بہت سے آدمی ہؤا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے۔ جلسہ گاہ کے متعلق مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ بیس فٹ پرے جگہ بنا دی جائے تو غالباً کافی ہو گا۔ بے شک نگرانوں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شریر آدمی تو اندر نہیں آگیا۔ مگر یہ بھی نا مناسب امر ہے کہ کسی ایک شریر کی وجہ سے سارے مُحّبوں کو دُور بٹھادیا جائے۔
اِسی طرح مَیں کارکنوں کو توجّہ دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں۔ درست رپورٹیں کیا کریں۔ بے شک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو۔ مگر ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ مہمانوں کی ہتک ہو۔ اب مَیں جلسہ کا افتتاح کر کے جاتا ہوں۔ اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہو گی۔’’
(الفضل 11جنوری 1953ء)
1: النسآء :72








حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی
کی اہمیت،تعمیر ربوہ اور مخالفین




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی کی اہمیت،
تعمیر ربوہ اور مخالفین

(فرمودہ 27دسمبر 1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
علالتِ طبع
‘‘جلسے سے کچھ ایّام پہلے میری طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہو گئی تھی۔ جسم کے مختلف حصّوں میں دردیں ظاہر ہونے لگیں اور نزلہ
کی طرف بھی طبیعت مائل ہو گئی جس کی وجہ سے گلا اتنا ماؤف ہو گیا کہ کل رات جب مَیں کھانا کھا رہا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ لقمہ گلے کو چیرتا ہؤا اندر جارہا ہے۔ کچھ تکلیف تو پہلے ہی تھی لیکن آج عورتوں کی بیعت کے موقع پر بد انتظامی اور شور کی وجہ سے اس میں اَور اضافہ ہو گیا ہے ۔ مگر چونکہ دوست بڑی تعداد میں آئے ہیں اِس لئے مَیں تقریر کو چھوڑ بھی نہیں سکتا۔
مستورات سے خطاب
عام تقریر شروع کرنے سے قبل مَیں مستورات کو توجّہ دلاتا ہوں کہ تمہارے ذمّہ مسجد ہالینڈ کی تعمیر کا
چندہ ہے، اسی طرح لجنہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی قرضہ ابھی باقی ہے، تمہیں اس بوجھ کو اُتارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی ہی کی جنس بنایا ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں محنت اور قربانی کے جو نظارے عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ تو انسانی دل کو کپکپادیتے ہیں۔ مرد بھی بے شک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح فدائیت کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے۔ پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہئے اور اپنے ذمّے جو چندے اور فرائض ہیں انہیں پورا کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ تمہیں اپنے اندر انتظام کی عادت بھی ڈالنی چاہئے۔ لجنہ کا فائدہ کیا ہؤا اگر ہماری مستورات میں بھی بد نظمی جاری رہے۔ اصل میں تو انتظام کا شعبہ خدا نے تمہارے ہی سپرد کیا ہؤا ہے۔ اگر تم اس کو نہ کرو تو اور کس نے کرنا ہے؟
جلسہ سالانہ کے انتظامات
بے شک اگر انتظامات میں کوئی خامی دیکھو تو اس کی اصلاح کی خاطر اس کی رپورٹ کرو مگر اس قدر
نہ بڑھ جاؤ کہ منتظمین کو انتظام قائم رکھنے میں ہی دقّت ہو جائے۔دراصل ایسے موقع پر ایک حد تک تکلیف ضرور ہوتی ہے اور اسی میں مزہ ہوتا ہے۔ خدا کی راہ میں جو لُطف تکلیف اُٹھانے میں ہوتا ہے وہ آرام میں نہیں ہوتا اور یہاں تو دراصل کوئی مہمان ہوتا ہی نہیں۔ ربوہ کی آبادی ابھی اتنی کم ہے کہ اس کے لئے اتنے مہمانوں کا انتظام کرنا ناممکن ہے اس لئے تمہیں اپنے آپ کو خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان سمجھنا چاہئے۔ دوسری طرف منتظمین کو بھی چاہئے کہ کمزور طبائع کے ساتھ نرمی اور درگزر کا سلوک کریں۔
الفضل اور ریویو کی اشاعت بڑھانے کی تحریک
مَیں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں۔ اس سال الفضل کا خاتم النّبیین نمبر شائع ہؤا تھا
اور وہ فتنے کے ایّام میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا۔ اس کا مضمون ایک تھا مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کو جمع کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ ایک باغیچہ تھا جس میں مختلف پھل اور پھول جمع کر دیئے گئے تھے مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے۔ چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریریں، قرآن مجید کی آیات، احادیث نبویہ اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل سکے۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے۔ اِن میں سے متعدد نے بعد میں اِس خیال کا اظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلافِ اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہؤا کہ احمدی اسلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے۔ متعدد جماعتوں نے خاتم النّبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رَو بدل گئی۔ پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔ سالہاسال سے اس کی اشاعت 20 اور 25 کے درمیان ہی گھوم رہی ہے حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبار ہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو دو دو، تین تین، چار چار مل کر خرید سکتے ہیں۔ پس مَیں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو۔
اسی طرح انگریزی کا رسالہ ریویو ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے زمانہ کی جماعت کے لحاظ سے اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو اب اس کے لاکھوں تک خریدار ہونے چاہئیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو تو پورا کرنے کی کوشش کرو۔ باہر سے جو خطوط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ممالک میں لوگ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اسی طرح خدّا م اور لجنہ کے رسالوں کی اشاعت بڑھانے کی بھی مَیں تحریک کرتا ہوں۔ لجنہ کو شکایت ہے کہ اس کے رسالہ سے عورتیں پورا تعاون نہیں کرتیں۔ مگر مجھے اس پر تعجب ہے کہ عورتیں اپنے رسالہ کی پرورش نہ کریں کیونکہ اگر انہیں یقین ہو کہ یہ چیز اپنی ہے تو پھر ان سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کی پرورش اور نگرانی نہ کریں اور خدّام کے رسالہ کے متعلق تو مجھے کچھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ان کی جوانی کا زمانہ ہے ہمت اور طاقت کے ایّام میں ان کا تو یہ کام ہے کہ وہ بوڑھوں کی بھی مدد کریں اور الفضل کی اشاعت بھی بڑھائیں۔ کجا یہ کہ اپنے رسالہ کو نہ چلا سکیں۔
پاکستان کے بنیادی اصولوں
کے متعلق سفارشات
تفصیلی طور پر تو ابھی مجھے اس کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا مگر دو باتوں کے متعلق عام طور پر اخبارات میں احتجاج کیا جارہا ہے ایک تو
اس امر پر کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں برابری کا اصول کیوں رکھا گیا ہے اور دوسرا فیڈرل سسٹم پر۔ میرے نزدیک اصل پوائنٹ جو مُلک کے لئے بہت مُضر ہے یہ ہے کہ مولویوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جس امر پر چاہیں اعتراض کریں اور قانون سازی میں رکاوٹ ڈالیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ مولویوں کے صرف ایڈ وائز ری بورڈ بنائے گئے ہیں انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے۔ میرے نزدیک ایسا سمجھنے والے مولویوں کی ذہنیت سے ناواقف ہیں۔ ترکی میں جب مولویوں کو حکومت میں اقتدار حاصل ہؤا تو وہاں یہ حالت ہو گئی کہ اُنہوں نے بات بات پر فتویٰ بازی شروع کر دی اور قوم کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا۔ اگر یہاں بھی ان لوگوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا تو یہی حالت ہو جائے گی۔
مجھے تعجب ہے کہ یہ عالم اور مولوی کہلانے والے ایڈوائز ری بورڈ کے راستہ کی بجائے انتخاب کے راستے سے کیوں حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کرتے۔ اگر وہ واقعی قوم کے نمائندے ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو پھر انہیں اسمبلی کا ممبر ہونا چاہئے نہ کہ ایڈوائزری بورڈ کا اور اگر وہ اسمبلی کے ذریعہ قوم کے نمائندے نہیں بنتے تو پھر دوباتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی۔یا تو یہ کہ قوم ان کی مزعومہ ''اسلامی حکومت'' نہیں چاہتی اور یا یہ کہ وہ قوم کے نمائندے نہیں ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں صاف ظاہر ہے کہ ان کے ایڈوائزری بورڈ کی کیا حیثیت ہو گی۔
مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان میں برابری
دوسرا اعتراض یہ کیا جاتاہے کہ مشرقی بنگال کو
مغربی پاکستان کے مساوی نمائندگی کیوں دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے تمام مسلمان برابر ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا مغربی پاکستان میں صوبائی عصبیت موجود نہیں ہے؟ کیا سرحد، بلوچستان اور سندھ میں یہ روح نہیں پائی جاتی ؟ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ بنگال مستحق مبارکباد ہے جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برابری پر راضی ہو گیا۔ پس میرے نزدیک بے شک اس برابری پر اعتراض کیا جائے مگر اس وقت جب خود مغربی پاکستان کے صوبوں میں عصبیت کی روح نہ رہے اور جب مغربی پاکستان خود اپنے اندر اسلامی روح پیدا کر کے مشرقی بنگال کے دل کو موہ لے اور عملی قربانی کا نمونہ پیش کرے، جب دل صاف ہو جائیں گے تو پھر بے شک بنگال والوں کی بد گمانی کو نا مناسب قرار دینا مگر خود ایسا تعصّب کرنا اور پھر اس برابری پر اعتراض کرنا ہمارے مُنہ سے زیب نہیں دیتا۔
میرے نزدیک ایک بڑی بھاری کوتاہی ان سفارشات میں یہ ہوئی ہے کہ کشمیر کے پاکستان میں داخل ہونے کے متعلق کوئی دفعہ نہیں رکھی گئی حالانکہ سفارشات میں یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر کوئی نیا مُلک یا رقبہ پاکستان میں شامل ہو تو اسے کن اصولوں کے ماتحت نمائندگی دی جائے گی۔’’(الفضل 31دسمبر 1952ء)
‘‘یہ تو ابتدائی باتیں تھیں اب میں اصل تقریر کو لیتا ہوں۔
وفات حضرت امّاں جان
میرے نزدیک اس سال کا بلکہ ہماری جماعت کی تاریخ میں سے ایک خاص عرصہ کا اہم واقعہ
وفات حضرت امّاں جان ہے ۔حضرت امّاں جان ایک زنجیر تھیں ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نام اولاد کے ذریعہ چلتا ہے لیکن اولاد پھل تو ہے، درخت کا اپنا حصّہ نہیں۔ ہاں ایسی بیوی جس کے متعلق خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حصّہ ہو گی وہ بے شک حصّہ حقیقی معنوں سے ہی ہو گی، گو ہر بیوی میں یہ قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کا حصّہ ہونے کا حق ادا کرے۔ تم آم کے درخت کے آدھے حصّہ کو کہتے ہو کہ یہ درخت کا ایک حصّہ ہے۔ یعنی تمہارے سامنے کیسے ہی عمدہ لنگڑے آم رکھ دیئے جائیں تم انہیں آم کے درخت کا حصّہ نہیں کہہ سکتے۔ تو حضرت امّاں جان کی وفات کے ساتھ وہ مادی زنجیر جو ہم نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی ٹوٹ گئی ہے۔ آپ کی وفات کے ساتھ وہ مادی واسطہ جو ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تھا جاتا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ عام حالات سے زیادہ جو ان کے متعلق بات تھی وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات میں آدم کا نام دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تمام انبیاء میں سے خصوصیت کے ساتھ جس نبی کے کاموں میں اس کی بیوی کو شریک کیا گیا ہے وہ حضرت آدم ؑ ہیں جو باقی انبیاء آتے رہے یہ نہیں کہ ان کی بیویاں ادنیٰ درجہ کی تھیں۔ بے شک وہ بھی بڑے اعلیٰ درجہ کی تھیں لیکن الٰہی حکمت کے ماتحت جس طرح حضرت آدم ؑ کی شریک حال حضرت حوّا کو بنایا گیا اس طرح دوسرے انبیاء کی بیویوں کو نہیں بنایا گیا۔ پس حضرت مسیح موعود ؑ کا نام جو آدم رکھا گیا ہے اور آپ کی بعثت کو جو آدم ؑ کی بعثتِ ثانیہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ کی بیوی کو آپ کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے۔ مگر اس حد تک بات ہوتی تو یہ صرف ایک منطقی نتیجہ ہوتا لیکن میں اب بتاتا ہوں کہ اس کا ایک معیّن ثبوت ملتا ہے۔ احادیث میں آیا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مسیح موعود ؑ کے متعلق فرماتے ہیں یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ1 کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ ظاہر ہے کہ شادی تو سارے انبیاء نے کی تھی سوائے حضرت مسیح علیہ السلام کے۔ جن کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے شادی نہیں کی لیکن قرآن کریم سے جو کچھ ثابت ہے یہی ہے کہ سب نبیوں کی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔ کیونکہ فرماتا ہے۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّيَّةً 2 یعنی ہم تجھ سے پہلے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیویاں اور بچے عطا فرمائے تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب رسولوں کی بیویاں تھیں اور ان کے ہاں اولاد بھی تھی۔ پس حضرت مسیح ناصری اس گروہ سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اس کے باوجود جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہو گی تو اس کا کیا مطلب تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ سب سابق مامورین ایسا ہی کر چکے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں خصوصیت کے ساتھ ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپؑ کی بیوی آپؑ کی شریکِ حال بننے والی تھی اور چونکہ یہ ایک خصوصیت تھی جس میں سب سابق مامور شامل نہ تھے سوائے چند کے جن میں سے نمایاں مثال حضرت آدم ؑ کی تھی۔ پس یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗکے الفاظ سے آنے والے موعود کی بیوی کی اہمیت ظاہر کی گئی تھی۔ پھر ہم اس زمانہ سے نیچے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُمتِ محمدیہ کے بعض اور بزرگوں نے بھی اپنی پیشگوئیوں میں یہ بات بیان کی ہے۔ حضرت امّاں جان دہلی کی رہنے والی تھیں۔ آپ کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ خواجہ محمد ناصر تھے۔ آپ کے والد بادشاہِ وقت کے خاص درباریوں میں سے تھے اور نواب کا خطاب رکھتے تھے اور خواجہ محمد ناصر بھی فوجی افسر تھے۔ آپ کے وقت کا بادشاہ محمد شاہ تھا۔ ایک دن الٰہی منشاء معلوم کر کے آپ نے محمد شاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ آپ کو اس نے بہت سمجھایا کہ استعفیٰ واپس لے لو۔ آپ کا مستقبل بہت روشن ہے لیکن آپ نے کہا میری خدا تعالیٰ سے لَو لگ گئی ہے۔ اب مَیں یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ گھر آگئے اور عبادت میں لگ گئے۔
ایک دن آپ دروازے بند کر کے عبادت کر رہے تھے اور حجرہ میں بیٹھے بیٹھے کئی دن اور کئی راتیں گزر گئیں تھیں کہ آپ کو کشف میں امام حسن علیہ السلام نظر آئے۔ حضرت امام حسن نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ مجھے میرے نانا نے بھیجا ہے کہ مَیں تم کو آپ ؐ کی طرف سے روحانیت کی خلعت دے آؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ خواجہ محمد ناصر سے کہہ دینا کہ یہ تحفہ جو تمہیں ملتا ہے ایسا ہے جس میں تجھے مخصوص کیا گیا ہے اس لئے تم اپنے طریقہ کو طریقۂ محمدیہ کہو اور فرمایا:
‘‘یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادۂ نبوت نے تیرے واسطے مخصوص رکھی تھی اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدیٔ موعودؑپر ہو گا۔3 گویا خواجہ محمدناصر جو خواجہ میر درد کے والد اور حضرت امّاں جان کے پڑنانا تھے کو دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تمہارا سلسلہ مہدیٔ موعود ؑ سے مل جائے گا۔ اب ملنے کے دو ہی معنے ہیں۔ یا تو خواجہ صاحب خود حضرت مہدیٔ موعود کے مرید ہوتے لیکن مرید تو خواجہ صاحب ہوئے نہیں کیونکہ آپ مہدی موعود کے ظہور سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو گئے اور یا پھر آپ کے خاندان کا رشتہ آنے والے مہدی کے خاندان کے ساتھ ہو جاتا اور خدا تعالیٰ نے یہی دوسرا طریق اختیار کیا۔ یعنی آپ کی نواسی کی شادی مہدی موعود ؑ سے ہوئی اور اس طرح خواجہ صاحب کا سلسلہ محمدیہ اور حضرت مہدی موعود ؑ کا سلسلہ دونوں مل گئے۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ میخانہ ٔ درد میں لکھا ہے کہ گدّی پر بیٹھنے کا کسی اور خاندان کا حق تھا لیکن الٰہی منشاء یہ تھا کہ وہ اس نسل کو بدل دے۔ سیّد محمد نصیر صاحب جو اپنے ماموں محمد بخش کے لا ولد فوت ہو جانے کی وجہ سے ان کی گدّی پر بیٹھے تھے ان کی وفات پر خلافت کا جھگڑا اُٹھا تو خاندان کی ایک بڑھیا عورت سے مشورہ کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس کو وہ کہے اسے گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ چنانچہ اس بڑھیا نے مشورہ دیا کہ اپنے بزرگوں کا ہم پلّہ خاندان میں تو کوئی نظر نہیں آتااس لئے میرے نزدیک میاں ناصرمیر جو خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ ہیں انہیں گدّی پر بٹھا دیا جائے۔ میاں ناصر میر کے خلیفہ منتخب ہو جانے کے بعد سلسلہ محمدیہ منتقل ہو کر ایک دوسرے خاندان میں آ گیا۔ جو ماں کی طرف سے خواجہ میر درد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خاندوران خان4 کا خاندان تھا۔ یہ گویا دوسری پیشگوئی تھی کہ سلسلہ محمدیہ اب مہدی موعود ؑ کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے:
''اور یہ نسبت محمدیہ الخالصہ حضرت امام موعودؑکی ذات پاک پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نورسے روشن ہو گا اور اس نیّرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی ''۔ 5
یعنی خصوصیت سے جو یہ سلسلہ بنایا جا رہا ہے یہ حضرت مہدی معہود ؑ پر ختم ہو جائے گا پھر ایک نیا سلسلہ قائم ہو گا۔ اس میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے دو ہی معنے تھے کہ یا تو آپ کی اولاد میں سے مہدی ہو یا ان کی بیٹی مہدی موعود کے ساتھ بیاہی جائے۔ یہ دونوں اقتباسات میخانہ ٔ درد کے ہیں جو ناصر خلیق ابن ناصر نذیر فراق کی تصنیف ہے۔
پھر حضرت امّاں جان کے وجود کی اہمیت کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑ کو الہام ہؤا جو تذکرہ کے صفحہ 29 پر درج ہے۔ یہ الہام شادی سے تین سال قبل ہؤا کہ اُشْکُرْ نِعْمَتِیْ رَأیْتَ خَدِیْجَتِیْ6 تُو میری نعمت کا شکر کر کہ جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مددگار کے طور پر حضرت خدیجہ ؓ ملی تھیں اسی طرح تجھ کو بھی خدیجہ ملنے والی ہے۔ یہ الہام اس وقت ہؤا جب ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی یہ بھی نہیں تھا کہ شادی ہو جانے کی وجہ سے حضرت امّاں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی خدمت کی ہوجس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی ہو بلکہ ابھی تک شادی کا نام بھی نہیں تھا۔ یہ الہام 1881ء میں ہؤا اور شادی 1884ء میں ہوئی۔
پھر اس الہام کے قریب ایک اور الہام ہؤا جو تذکرہ صفحہ 36پر درج ہے اور وہ یہ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَ وَ النَّسَبَ 7
خدا تعالیٰ ہی کو سب تعریف حاصل ہے جس نے تمہارے لئے سسرال بھی بڑے اعلیٰ درجہ کے تجویز کئے اور تم کو بھی ایک اعلیٰ خاندان سے پیدا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر اس الہام کو بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ الہام بھی شادی سے تین سال پہلے کا ہے۔ یہ جو سسرال کی تعریف کی گئی ہے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں خواجہ محمد ناصر کی پیشگوئی کی طرف اشارہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا سلسلہ محمدیہ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل جائے گا۔ مہدی معہود ؑ خواجہ محمد ناصر کی اولاد میں سے تو نہ ہوئے۔ ہاں آپ کی ایک نواسی ان سے بیاہی گئی اور اس طرح یہ سلسلہ محمدیہ ، مہدی معہود ؑ کے سلسلہ سے مل گیا اور وہ پیشگوئی ظاہری طور پر بھی پوری ہو گئی۔
پھر شادی سے ایک سال پہلے یہ الہام ہؤا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ 8 کہ اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں اکٹھے رہو۔ یہ الہام تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے اور 1883ء کا ہے۔ ابھی بیوی آئی نہیں کسی کو یہ پتہ نہیں کہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتاتا ہے کہ بیوی آرہی ہے تُو اور تیری بیوی ایک جنت میں رہو۔ اب دیکھو ان پیشگوئیوں کا آپس میں کیسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ پہلے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ مہدی معہود ؑ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی۔ پھر حضرت خواجہ میر ناصر پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ان کا سلسلہ محمدیہ مہدی معہود ؑ کے سلسلہ کے ساتھ مل جائے کا۔ یعنی میرا مہدی معہود سے ایسا رشتہ ہو جائے گا کہ میرا سلسلہ اس کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے شادی سے تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا ہے کہ ایک عورت ایسی آنے والی ہے جو تیرے کاموں میں اسی طرح مددگار ہو گی جیسے حضرت خدیجہ ؓ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کاموں میں مددگار تھیں۔ پھر فرماتا ہے تو اور تیری بیوی دونوں اکٹھے جنت میں رہو گے۔ تمہاری زندگی خوشی کی زندگی ہو گی۔ تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ تمہاری مقامِ قُرب میں وفات ہو گی اور تم دونوں کا جنت میں اکٹھا مقام ہو گا۔ یہ الہام 1883ء کا ہے جو تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے۔
پھر ساتھ ہی الہام ہؤا یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ9 اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو۔ بعض متشکک طبائع ہوتی ہیں وہ کہہ سکتی ہیں کہ یہاں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہے۔ حضرت مرزا صاحب کا نہیں اس لئے ایک طرف تو یہ الہام کیا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور دوسری طرف یہ الہام کیا کہ یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔ گویا یہ بتایا کہ جب ہم نے آدم کا لفظ کہا ہے تُو اس سے مراد تُو ہے یعنی اس الہام میں نام لے کر بتا دیا کہ تو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو۔
اب لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ الہام سنا دیا ہمیں اس سے خوشی ہوئی لیکن یہاں یہ شُبہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو کہا تھا اے آدم اور اے احمد! تُو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں دفن ہیں اور حضرت امّاں جان ربوہ میں دفن ہوئیں۔ یہ اکٹھے کیسے ہوئے۔ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام میں یہ نہیں کہا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ فِی الْمَقْبَرَۃِ الْجَنَّۃِ۔ کہ اے آدم! تُو اور تیری بیوی دونوں بہشتی مقبرہ میں رہو بلکہ یہ کہا ہے کہ تُو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو۔ اب جنت میں تو سب اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس سے دُنیوی زندگی مراد ہے تو آپ دونوں اکٹھے رہے اور اگر اس سے اُخروی زندگی مراد ہے تو جنت میں آپ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ جنت کے لئے یہ سوال نہیں ہوتا کہ کوئی شخص مکّہ میں فوت ہو یا مدینہ میں، عرب میں فوت ہو یا جاپان میں فوت ہو، یا امریکہ میں فوت ہو۔ جنت میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت دی گئی ہے۔ اس الہام کے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنا مضمون بھی پورا کر جاتے ہیں اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ بشارت یہ ہے کہ اگر یہاں جنت کے معنی مقبرہ بہشتی کے لئے جائیں تو یہ پیشگوئی بن جاتی ہے کہ اے احمد! تُو اور تیری بیوی اس مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گے۔ یعنی تمہارے لئے یہ مقدر تھا کہ قادیان سے ہجرت ہوگی تم قادیان سے نکالے جاؤ گے۔ تمہارے دل زخمی ہوں گے سو تم گھبرا کر کہو گے کہ یا الٰہی اب کیا کریں۔ ہم نے حضرت امّاں جان کو قادیان سے باہر دفن کیا ہے لیکن تو نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی تو اس الہام میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ مَیں انہیں قادیان پہنچاؤں گا۔ گویا مومنوں کو یہ امیددلائی گئی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ مَیں تمہیں قادیان ضرور دوں گا اور حضرت امّاں جان مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی۔ پس خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ پیشگوئی کر دی اور بتا دیا کہ حضرت امّاں جان کا یہاں آنا تمہارے لئے تسلی کا موجب ہے کہ تم ضرور قادیان واپس جاؤ گے۔
تیسرے خدا تعالیٰ نے تمام پیشگوئیوں میں مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئیوں کا متمم قرار دیا ہے۔ متعدد پیشگوئیاں پچھلے انبیاء کی بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے۔ جیسے مصلح موعود کی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے بھی کئی دفعہ اس کے متعلق اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ مَیں مامور نہیں ہوں اِس لئے مَیں ان باتوں پر زور نہیں دیتا۔ مامور اپنے الہامات کو دُہراتا رہتا ہے اور اس کے الہامات لوگوں کے کانوں میں بار بار پڑتے رہتے ہیں اس لئے وہ باتیں پکّی ہو جاتی ہیں۔ مَیں اپنی رؤیا کا ذکر تو کر دیتا ہوں لیکن یہ ذکر برسبیلِ تذکرہ ہوتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ان کی ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بار بار لوگوں کے کانوں میں کوئی بات نہ ڈالی جائے متشکک طبائع کو شُبہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کا مُنہ بند کرنے کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو زندگی دی اور آپ کو ربوہ میں میرے ساتھ لایا اس لئے کہ مسیح اوّل نے جب ہجرت کی تھی تو اُن کی والدہ اُن کے ساتھ آئی تھیں اور وہیں دفن ہوئی تھیں جہاں حضرت مسیح ؑ ہجرت کر کے گئے تھے۔ تو اﷲ تعالیٰ حضرت امّاں جان کو میرے ساتھ لایا تا متشکک لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو مشابہت مسیح اوّل سے تھی وہ آپ کے وجود پر پوری نہیں ہوئی آپ کے بیٹے پر پوری ہوئی۔ جماعت کے بعض منافق لوگ جن کا مجھے علم ہے اور جن کی باتیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے بعض دلیری سے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ربوہ کا بہشتی مقبرہ بنا تو ایسے لوگ اپنی مجالس میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ بات تو عجیب ہے کہ جہاں چاہا مقبرہ بہشتی بنا لیا۔ وہ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ بعض لوگ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کے مقبرہ بہشتی بنانے سے مقبرہ بہشتی بن جاتا ہے۔ تمہارا اس میں کیا اختیار ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں اس لئے یہ بات بار بار دُہرا نہیں سکتا لیکن منافق اپنی مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی بہشتی مقبرہ بن گیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کروادیا ہے۔ ایسا کیوں ہؤا۔ اب یہ لوگ بتائیں کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی غلط ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔
کیونکہ آپ خود تو قادیان میں دفن ہوئے اور حضرت امّاں جان یہاں ربوہ میں دفن ہوئیں اور یا اس الہام نے یہ بتادیا ہے کہ یہ مقبرہ بھی بہشتی مقبرہ ہے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصّہ ہے۔ گویا اس بہشتی مقبرہ کے بنانے میں جو مُشکل میرے سامنے آئی تھی الٰہی فعل نے اسے حل کر دیا۔ مَیں مامور نہیں تھا، میری زبان بند تھی، مَیں ایسے مقام پر نہیں تھا کہ اس اعتراض کا جواب دے سکوں۔ سو خدا تعالیٰ نے حضرت امّاں جان کو یہاں دفن کر کے ان لوگوں کا مُنہ بند کر دیا۔ اب انہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ اور یَآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ جھوٹا تھا کیونکہ آدم وہاں دفن ہیں اور حوّا یہاں۔ احمد وہاں دفن ہیں اور ان کی بیوی یہاں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ جگہ بھی بہشتی مقبرہ ہے۔ غرض اس الہام نے یہ واضح کر دیا کہ میرا قدم خدا تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق تھا۔ اسی طرح وہ پہلی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابق تھا۔ اس مقبرہ کو بِلا کم و کاست وہی پوزیشن حاصل ہے جو مقبرہ بہشتی قادیان کو حاصل ہے۔ پورے سو فیصدی سو میں سے ایک حصّہ بھی کم نہیں ورنہ یَآاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ والی بات نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹی تھی۔
اُوپر کے الہامات کے علاوہ ایک اور الہام بھی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہؤا اور وہ یہ ہے إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔10 یہ الہام 20ستمبر 1907ء کو ہؤا اور تذکرہ صفحہ677 پر درج ہے یعنی مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور اہل میں سے سب سے مقدم بیوی ہوتی ہے۔ پھر یہی الہام 21ستمبر 1907ء کو بھی ہؤا۔ 5نومبر 1907ء کو بھی ہؤا پھر 2دسمبر 1907ء کو بھی یہ الہام ہؤا۔ گویا ایک سال کی آخری چہار ماہی میں یہ الہام چار دفعہ ہؤا۔
اب عجیب بات یہ ہے کہ ایک تو شادی سے پہلے یہ الہامات ہوئے جن میں حضرت امّاں جان کا ذکر تھا، پھر شادی کے قریب الہام ہؤا، پھر یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک بند رہا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہونے والی تھی تو بیوی کا ذکر دوبارہ شروع ہو گیا۔ یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو توارد کون کہہ سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں پیدا کیا جو ایک گمنام بستی تھی۔ آپ کو ایک ایسے خاندان میں پیدا کیا جو اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے خاندانوں میں سے ایک تھا پھر ایک پیر خاندان میں رشتہ کیا جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمیں وہ کمال ملا ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اَور کسی کو نہیں ملا۔ پھر بڑی مُشکل یہ تھی کہ حضرت امّاں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب اہل حدیث تھے اور حضرت مسیح موعود ؑ اہل حدیث کے نام سے گھبراتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں روحانیت نہیں ہوتی یہ لوگ متشکک ہوتے ہیں اس خاندان میں آپ کی شادی ہوئی۔ شادی سے پہلے بیوی کا ذکر الہامات میں آتا ہے لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو یہ ذکر ختم ہو جاتا ہے۔ پھر عین تیس سال کے بعد جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر الہامات میں بیوی کا ذکر آجاتا ہے۔ یہ کون سے اتفاق کی بات ہے۔ یہ تو ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ غیب کی طاقت نے یہ خبر دی۔
پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ اب واقعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین قریب بیوی کا ذکر آتا ہے یعنی إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ۔
إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ کے الہامات بار بار ہوتے ہیں۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جارہی تھی تو ساتھ ہی آپ کو یہ تسلّی دی جارہی تھی کہ تمہارے بعد تمہاری بیوی کے ہم خود کفیل ہوں گے اور حضرت امّاں جان کو بھی یہ تسلّی دی کہ گو تم سے تمہارا خاوند جُدا ہو گا مگر ہم جُدا نہیں ہوں گے۔ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے خود کفیل ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے پہلے تو آپ کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد جو فقرہ حضرت امّاں جان کی زبان پر بار بار آیا وہ یہی تھا کہ اے خدا! انہوں نے تو مجھے چھوڑ دیا ہے مگر تو مجھے نہ چھوڑنا۔ یہ وہی مفہوم تھا جو الہام إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ میں بیان کیا گیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گے اور پھر حضرت امّاں جان کی زبان سے بھی کہلوادیا۔ پھر 19جنوری 1908ء کو یہ الہام ہوتا ہے کہ إِنِّیْ مَعَکَ وَ مَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ 11 بعض متشککین جو ہمیشہ کریدتے رہتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم کہا ہے۔ اب جس طرح اس سے مراد اصل آدم نہیں اسی طرح اہل سے مراد بھی اصل بیوی نہیں بلکہ یہاں جماعت مراد ہے۔ پس اس الہام کے ذریعہ ایسے لوگوں کی تسلی کر دی اور الہام میں بتا دیا کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے یعنی اس بیوی کے ساتھ ہوں۔ جماعت تو ایک تھی دو نہیں تھیں۔ اس لئے ھٰذہٖ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بیویاں دو تھیں اس لئے ھٰذہٖ کہہ کر یہ بات پکّی کر دی کہ یہ وعدے خاص حضرت امّاں جان کے ساتھ ہیں۔
پھر 19مارچ 1907ء کو خواب میں دیکھا حضرت امّاں جان آئی ہیں اور آپ کہتی ہیں کہ ''مَیں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے'' یہ بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ تم وفات پاؤ گے اور یہ صبر کا پورا نمونہ دکھائیں گی۔ آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان کو جواب میں کہا ''اس سے تو تم پر حُسن چڑھا ہے'' 12یعنی اﷲ تعالیٰ نے تمہارے اس فعل کو پسند کر کے تمہیں درجہ اور زینت عطا کی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ ''اسّی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم''13 اِس الہام پر بعض غیر احمدی مَلنٹے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں۔ خدا تعالیٰ کو تو شک نہیں پڑتا۔ کیا خدا تعالیٰ کو 85 یا 75 اور 76 کے ہندسے نہیں آتے۔ یہ کیا الہام ہے کہ ''اسّی یا اسّی پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم'' یہ خداتعالیٰ کا کلام نہیں لیکن یہ مولوی بھُول جاتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ یہ غلطی خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی کی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت یونس ؑ کی نسبت فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ 14 یونس کو ہم نے لاکھ یا شاید لاکھ سے کچھ زیادہ کی طرف بھیجا۔ اب کیا خدا تعالیٰ کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا تھا۔ جس خدا کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا اس کو اسّی کا ہندسہ بھی بھُول سکتا ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اصل سوال تو بھُول چُوک ہے۔ جب بھُول چُوک ثابت ہو گئی تو اسّی اور لاکھ کا کیا سوال ہے۔
دراصل یہ حماقت کی بات ہے۔ یہاں کلام میں تحسین پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے۔ حسن کلام کے لئے ڈیفینیٹ (DEFINITE) بات پہلے بیان نہیں کی بلکہ الفاظ سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تم اسے لاکھ کہہ لو یا لاکھ سے زیادہ کہہ لو۔ مطلب یہ ہے کہ ہیں زیادہ۔ تو ایسے موقع پر اعداد کو بیان نہیں کیا جاتا۔ اگر خدا تعالیٰ یہاں لاکھ کہہ دیتا تو لوگ کہتے اس کا ثبوت دو کہ وہ واقعی ایک لاکھ تھے۔ پس ایک طرف لاکھ یا کچھ زیادہ کہہ کر کلام میں حُسن پیدا کر دیا اور دوسرے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اندازہ ہے اور اندازہ پر کوئی کیا اعتراض کرے گا۔
پس اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حُسنِ کلام کے لئے قرآن کریم میں مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْیَزِیْدُوْنَ لاکھ یا لاکھ سے کچھ زیادہ کہا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی حُسنِ کلام کے لئے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کا ایک دوسرا جواب بھی ہے جو یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے یٰآاَحْمُدُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان کو ایک قبر میں دفن کیا ہے اور دونوں کو ایک جگہ رکھا ہے گویا دونوں وجودوں کو ایک وجود قرار دیا ہے اور عمر کے الہام میں دونوں ہی کی عمر بتائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے یعنی اسّی سے پانچ سال کم اور حضرت امّاں جان85 سال کی عمر میں فوت ہوئیں یعنی اسّی سے پانچ سال زیادہ۔ گویا الہام میں جو وحدتِ وجود بتائی گئی تھی اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جان دونوں کے وجود ہیں۔ ایک اسّی سال سے پانچ سال پہلے فوت ہو جاتا ہے اور ایک اسّی سے پانچ سال بعد فوت ہوتا ہے گویا الہام میں جس وجود کو ‘‘ تُو’’ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم میں فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر پاکر فوت ہو گیا اب یہ کتنی زبردست پیشگوئی بن جاتی ہے اور کس طرح اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ دو پیشگوئیاں ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وجود کو ہم نے ایک قرارد یا تھا اس کا ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال کم عمر پاکر فوت ہو گیا اور ایک حصّہ اسّی سے پانچ سال زیادہ عمر میں فوت ہو گیا۔ اب یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور آپ کی بیوی جو مریض تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا لٹریچر آپ کی مرض سے بھرا پڑا ہے وہ تو 85 سال کی عمر میں فوت ہوں۔ اس الہام کے یقینا یہی معنے ہیں کہ اس کے ایک حصّہ میں ایک کی موت کی خبر دی گئی ہے اور دوسرے حصّہ میں دوسرے کی موت کی خبر دی گئی ہے۔
حضرت امّاں جان کو ایک پُرانی خواب آئی تھی۔ جب حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد آپ کی طبیعت گھبرانے لگتی تو آپ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے گھر چلی جاتیں۔ میر صاحب کو آپ نے نہایت محبت اور اخلاص سے پالا تھا اور میر صاحب کو بھی اپنی بہن کا بہت احترام تھا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے آپ جب گھبرا جاتیں تو میرصاحب کے ہاں چلی جاتیں۔ مجھے یہ بات بُری لگتی لیکن مَیں آپ کے ادب کی وجہ سے بولتا نہیں تھا۔ مَیں سمجھتا تھا کہ آپ کو مرکز میں رہنا چاہئے۔ ایک دن آپ میرصاحب کے ہاں سے تشریف لائیں تو آپ نے بتایا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں صَفر میں فوت ہوئی ہوں۔ میرا ذہن فوراً اس طرف گیا کہ چلو اب موقع ہے انہیں مرکز میں ہی مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے کہہ دوں۔ مَیں نے کہا۔امّاں جان! صفر ص سے کیوں، س سے کیوں نہیں۔ میرے نزدیک تو اس خواب میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ سفر میں فوت ہوں گی اس لئے آپ سفروں سے پرہیز کریں۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے کوئی سفر نہیں کیا۔ میرے ساتھ سفر میں جاتی تھیں۔ یوں نہیں جاتی تھیں۔ جب آپ بیمار ہوتیں تو میری یہ کوشش تھی کہ مَیں انہیں پکّے مکانوں میں لے جاؤں تا سفرِ ہجرت کی حالت ختم ہو جائے۔ ابھی ہم کچے مکانوں میں ہی رہتے تھے۔ مَیں ڈاکٹروں سے کہتا اُن میں سے ایک حصّہ مان جاتا اور کہتا اچھی بات ہے وہاں کھلی ہوا ہو گی لیکن جب میں پکّے مکانوں میں جانے کی تیاری کرتا تو ڈاکٹروں کا دوسرا حصّہ پہلے حصّہ کو منا لیتا کہ ابھی انہیں وہاں لے جانا اچھا نہیں اور ان کی رائے بدل جاتی۔ اس طرح آپ کی وہ خواب پوری ہو گئی۔ ہم قادیان سے نکلے اور پیشتر اس کے کہ ہم اپنے مستقل گھروں میں آئے۔ سفرِ ہجرت میں ہی مستقل مکانوں میں آنے سے پہلے آپ وفات پاگئیں۔
مَیں نے ایک ماہ پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ میرا ایک بڑا دانت جو دو دانت کے برابر تھا نکل گیا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ میرے لئے ماں اور باپ دونوں کی جگہ تھیں۔ پس آپ کی وفات کے ساتھ مَیں نے ان دونوں کو کھویا۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ۔
ایک عرصہ پہلے مَیں نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو الفضل میں شائع ہو گئی ہے وہ اس طرح تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار ہیں اور آپ نے بعض دیسی دواؤں کے نام لئے ہیں (یہ رؤیا الفضل 7اکتوبر 1951ء میں شائع ہو چکی ہے) شاید اس کا یہ مطلب تھا کہ طبیبوں کا علاج کیا جائے ڈاکٹروں کا علاج چھوڑ دیا جائے لیکن اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ آپ کی وفات کی وجہ سے طبیعت پر ایسا اثر پڑا ہے کہ تین ماہ تو بخار چڑھتا رہا اور بائیں طرف نیم فالج کے دَورے بھی ہوتے رہے ہیں اور ابھی تک میں کام میں محنت نہیں کر سکتا اور جب سردی کا موسم آیا تو میری صحت اچھی ہونے لگی۔ جلسہ سے بیس دن پہلے میری طبیعت اچھی تھی۔ مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں اچھا ہو گیا ہوں لیکن جب خشک سردی زیادہ ہو گئی تو میری طبیعت خراب ہو گئی اور جلسہ سے قبل دو دفعہ ضُعف کے دورے بھی ہو گئے۔ اس کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بھی دیر ہو گئی ہے لیکن اب مَیں نے تفسیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ میری آنکھوں میں چونکہ بچپن سے ہی ککرے ہیں اس لئے مَیں معمولی روشنی میں کام نہیں کر سکتا۔ بجلی آجائے گی تو مَیں راتوں کو زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کر سکوں گا۔ جلسہ کے دنوں میں دو دن رات کام کرنے بیٹھا تو آنکھوں میں خارش شروع ہو گئی۔
ربوہ کی تعمیر
دوسری بات مَیں تعمیر ربوہ کے متعلق لیتا ہوں۔ربوہ کی تعمیر اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے یعنی یہ ایک مثال ہے جو پاکستان
اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے کہ اتنی جلدی ایک اُکھڑی ہوئی قوم نے اپنا مرکز بنا لیا۔ جہاں تمہیں اَور فضائل دوسرے لوگوں پر حاصل ہیں وہاں یہ کیا کم فضیلت ہے۔ یہ ایک زندہ اور نمایاں فضیلت ہے جو تمہیں حاصل ہے۔ لوگ شور مچاتے ہیں کہ گورنمنٹ نے انہیں لاکھوں کی زمین کوڑیوں میں دے دی۔ زمین کیا دے دی۔ حکومت نے ایک اعلان شائع کیا تھا اور گورنمنٹ گزٹ میں یہ بات شائع ہوئی تھی کہ ہم یہ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیا کوئی گاہک ہے جو یہ زمین خریدے۔ ہم نے کہا چلو ہم یہ زمین لے لیتے ہیں۔ جب کوئی اور گاہک نہ آیا تو حکومت نے ہمیں یہ زمین دے دی۔ بعد میں اگر کسی کو حسد ہو جائے تو اس کا کون ذمہ دار ہے۔
دو سال کا عرصہ ہؤا ''زمیندار'' نے یہ بات شائع کی کہ حکومت نے پچاس لاکھ کی زمین احمدیوں کو کوڑیوں میں دے دی۔ مَیں نے اسی وقت اسے ایک تار دیا کہ زمین حاضر ہے تم وہ گاہک لاؤ جو اس زمین کے بدلہ میں پچاس لاکھ روپیہ دے گا مَیں اسے زمین دے دوں گا اور پھر زائد رقم جو ملے گی وہ مَیں خود نہیں رکھوں گا بلکہ زائد رقم مَیں گورنمنٹ کے خزانہ میں جمع کروا دوں گا۔ میری تار کا اُس نے جواب نہ دیا اور وہ چُپ ہو گیا۔ اگر واقعہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپیہ دیتا تھا تو چاہئے تھا کہ ''زمیندار'' کا ایڈیٹر اسے آگے لاتا، اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ تو کیا ہمیں اب پچاس کروڑ ملے گا لیکن یہ پچاس کروڑ روپیہ ملے گا اس مدرسہ کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس کالج کی وجہ سے جو آئندہ یہاں بنے گا، یہ روپیہ ملے گا ہسپتال کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس زنانہ کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس دینیات کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا ان دینی تعلیموں کی وجہ سے جو اس جگہ دی جارہی ہیں۔ یہ روپیہ ربوہ کی زمین کی وجہ سے کسی کو نہیں ملے گا۔ اب اس زمین کو لے کر دیکھ لو۔
عمرو بن معدی کربؓ ایک مشہور سپاہی تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کی بہادری اور شمشیرزنی کے واقعات سُنتے رہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر ؓ بھی بہت بہادر تھے اور دلیر تھے لیکن عمرو بن معدی کربؓ کی طرح شمشیر زن نہیں تھے۔ ایک دفعہ عمرو بن معدی کربؓ حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو آپ ؓ نے ان کی تلوار لے لی۔ آپؓ کو یہ شوق تھا کہ عمرو بن معدی کربؓ کی تلوار دیکھیں۔ آپؓ نے وہ تلوار ایک درخت پر ماری تو اس سے اس درخت کا بہت تھوڑا حصّہ کٹا۔ آپؓ نے فرمایا عمرو ؓ! مَیں تو سُنا کرتا تھا کہ تو ایک تلوار مارتا ہے تو اُونٹ کی چاروں ٹانگیں کاٹ دیتا ہے، تو تلوار مارتا ہے تو ایک ہی ضرب میں درخت کاٹ دیتا ہے مگر مَیں نے تلوار ماری ہے تو یہ درخت نہیں کٹا۔ یونہی معمولی نشان پڑا ہے۔ کیا یہی تلوار ہے جس کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ عمرو بن معدی کربؓ نے کہا یا امیرالمؤمنین! تلوار کا کام اونٹ کی چاروں ٹانگیں نہیں کاٹنا بلکہ وہ ہاتھ کاٹنا ہے جس میں یہ تلوار ہوتی ہے۔
پس زمین اب بھی گورنمنٹ کے پاس ہے۔ یہاں سے سرگودھا تک ربوہ کی زمین سے دس گنا زمین خالی پڑی ہے۔ اس زمین میں چار پانچ بڑے بڑے شہر بن سکتے ہیں۔ ایک جگہ تو قریباً سات ہزار ایکڑ زمین خالی پڑی ہے۔ جہاں سرگودھا کے لوگ اب چاندماری کرتے ہیں۔ جب ہم اس زمین کو دیکھنے گئے تو میرے ساتھیوں نے کہا یہ زمین پسند کر لیں یہ کھلی ہے۔ مَیں نے کہا ہمیں کھلی زمین کون دیتا ہے۔ تنگ زمین ہی لے لو۔ اب ان کو یہ تنگ زمین بھی نہیں پچتی۔
تو بہرحال گورنمنٹ کے پاس ابھی ایسی زمینیں موجود ہیں جس کو اس زمین پر اعتراض ہے وہ اب لے کر دیکھ لے۔ وہ ٹکڑا پسند کرے اور قیمت دے جائے اور شہر بنا لے مگر شرطیں وہی ہوں جو ہمارے ساتھ کی گئی ہیں کہ زمین صدر انجمن احمدیہ لے اور وہ آگے افراد کو دے پھر وہ وعدے کرے کہ اس میں سکول، کالج، ہسپتال اور دوسرے ضروری ادارے بنائے گی۔ پس جس طرح ہم نے گورنمنٹ کو لکھ کر دیا ہے وہ بھی لکھ کر دے دیں اور وہ سب کچھ بنائیں جو ہم بنا رہے ہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ شہر کتنی جلدی آباد ہوتا ہے۔ ہم نے حکومت سے زمین لے کر ربوہ آباد کر دیا ہے لیکن حکومت جوہرآباد اور لیاقت آباد کے شہر آباد نہیں کر سکی۔ کیا مُلک کی ساری طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی، کیا مُلک کا سارا روپیہ اس کے پیچھے نہیں تھا، پھر کیا حکومت نے وہ شہر آباد کر لئے ہیں؟ ربوہ روپے سے آباد نہیں ہؤا۔ ربوہ اس وجہ سے آباد نہیں ہؤا کہ حکومت نے ہمیں سستے داموں زمین دے دی تھی۔ ربوہ آباد ہؤا ہے ان گُدڑی پوشوں اور کھدّر پہننے والے لوگوں کے ایمانوں سے۔ یہ ایمان جو اِن پھٹے پُرانے کپڑے پہننے والوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ اگر دُنیا میں کہیں اور جگہ پایا جاتا ہو تو ایک ربوہ کیا ایک کروڑ ربوہ سال میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ ایمان نہ ہو تو چاہے ہزار سال تک بھی احراری شور مچاتے رہیں وہ ہزار سال کے بعد بھی ربوہ جیسا شہر آباد نہیں کر سکیں گے۔ ان کی مثال وہی ہو گی جیسے کہتے ہیں ہتھ پُرانے کھونسڑے بسنتے ہوری آئے۔
ایک اخبار نویس نے جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک دفعہ کہیں لاہور کی نئی آبادی کی سیر کی۔ حکومت لاہور کے قریب نئی آبادی کر رہی ہے۔ مَیں اُس وقت کوئٹہ میں تھا۔ اس اخبار نویس نے یہ لکھا کہ مَیں نے ربوہ بھی دیکھا ہے۔ وہ بھی کوشش کر رہے ہیں اور ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں اور مَیں نے لاہور کی آبادی کی نئی سکیمیں بھی دیکھی ہیں۔ لاہور افسر بھی نہایت مستعد معلوم ہوتے ہیں۔ وہ خوب زور سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ربوہ کے لوگوں کے بھی بڑے بڑے ارادے ہیں۔ اب دیکھیں کون پہلے شہر بنا لیتا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی سکیم پہلے مکمل ہوتی ہے یا ربوہ پہلے تیار ہوتا ہے۔ اس سفر میں درد صاحب بھی میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے انہیں کہا۔ آپ اس اخبار نویس کو ایک چٹھی لکھیں اور اس پر صرف ربوہ کا لفظ بریکٹ میں ڈال کر بھیج دیں۔ اب دیکھ لو کون سا شہر پہلے آباد ہؤا ہے۔ لاہور کی نئی آبادی کی جو سکیمیں بن رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کچھ مکان بن گئے ہیں لیکن وہ بات نہیں جو یہاں ہے۔ ہمیں تو سامان بھی نہیں ملتا تھا۔ ہمیں اینٹیں نہیں ملتی تھیں، لکڑی نہیں ملتی تھی، لوہانہیں ملتا تھا۔ اینٹیں اب بنی ہیں لیکن وہ اتنی جلدی ختم ہوئی ہیں کہ دو بھٹوں کی اینٹیں ختم ہو گئی ہیں لیکن باوجود اس کو تاہ دامنی کے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دیا کہ سڑک پرسے گزرنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا شہر بن چُکا ہے۔ اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں گے تو ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ جلسہ گاہ کہاں بنائیں کیونکہ یہ جگہ زنانہ سکول کی ہے۔ لڑکیوں کا سکول یہاں بنے گا۔ اگر اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی اور اگلے سال یہ سکول بن گیا تو یہاں تقریریں نہیں ہو سکیں گی۔
پس حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہؤا ہے اﷲ تعالیٰ کی برکتوں سے ہی ہؤا ہے۔ ہم قادیان سے نکل کر آئے تو یہاں دینیات کالج بھی بن گیا، ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ کالج بھی بن گیا، لڑکوں کا کالج ابھی نہیں بنا۔ اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی تو وہ بھی بن جائے گا۔ بھلا وہ کون سے مہاجر ہیں جن کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زنانہ کالج نہیں تھا مگر اُنہوں نے یہاں آکر بنا لیا ہو۔ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی برکتیں ہیں۔ پھر یہاں آکر ہسپتال بنا لیا۔ پہلے چھپّر بنے ہوئے تھے اور چھت پر بانس ڈالے ہوئے تھے۔ انہی چھپّروں میں ہسپتال بھی تھا اور ڈاکٹر وہیں کام کرتے تھے۔ اُدھر گورنمنٹ اعلان کر رہی تھی کہ تم اتنی اتنی تنخواہیں لے لو لیکن کوئی ڈاکٹر کام کے لئے آگے نہیں آتا تھا۔ اِدھر چھپّروں میں اور معمولی تنخواہوں پر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے اگر دوسرے لوگوں نے بھی ربوہ جیسے شہر بنانے ہیں تو اس کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے حضور سجدوں میں گر جائیں۔ اُسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور کہیں۔اے اﷲ! تُو ہی مدد فرما۔ تو دیکھیں کتنے ربوہ بنانے کی انہیں توفیق ملتی ہے۔
بہرحال یہاں بہت سے مکان بن چکے ہیں اور بہت سے مکانات ابھی بننے والے ہیں۔ کئی دوست تو ایسے ہیں جنہوں نے سُنا کہ وہ زمین جو ہم نے سَو میں خریدی تھی اب دو ہزار روپیہ میں بک رہی ہے تو اُنہوں نے زمین بیچنی شروع کر دی اور کئی لوگ جنہوں نے پہلے زمین نہیں خریدی تھی وہ اب دو دو ہزار میں زمین خرید رہے ہیں۔ ان لوگوں سے تو مَیں کہتا ہوں کہ تم نے ایک سو روپے میں زمین نہیں خریدی تھی اب دو ہزار میں خریدو۔ اﷲ تعالیٰ نے تم پر اُنیس سو روپے جرمانہ کیا ہے۔ مگر جو لوگ بیچ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے بعض معذور ہیں اور معذوری کی وجہ سے وہ زمین بیچ رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف دو ہزار روپیہ کے لالچ کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔
مجھے ایک قصہ یاد آ گیا۔ کوئی ماسٹر تھے وہ کہیں ملازم تھے دس بیس سال تک گھر نہ آئے اُن کی بیوی نے اُنہیں لکھا کہ تم اپنی ان بیٹیوں کا تو خیال کرو۔ میری زندگی تو برباد ہوئی ان کی زندگی تو برباد نہ کرو۔ ان کے دوستوں نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ گاؤں ضرور جائیں۔ چنانچہ وہ گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ دس بیس میل پر ان کا گاؤں تھا۔ انہوں نے رتھ والے کو د س روپے دیئے اور اس میں بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے۔ جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو وہ رتھ والے سے پوچھنے لگے کہ اب تم خالی جاؤگے۔ تمہیں بڑا نقصان ہو گا۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے آپ سے اسی لئے دس روپے لئے تھے اب مَیں خالی بھی واپس چلا جاؤں تو مجھے کوئی نقصان نہیں۔ ماسٹر صاحب نے کہا اگر واپس جاتے ہوئے کوئی سواری مل جائے تو تم اس سے کیا لو گے۔ رتھ والے نے کہا مَیں نے دونوں طرف کا کرایہ آپ سے وصول کر لیا ہے۔ اب اگر کوئی مجھے ایک روپیہ بھی دے تو مَیں اُسے لے جاؤں گا۔ ماسٹر صاحب نے کہا تب ایک روپیہ مجھ سے لے لو اور مجھے واپس لے جاؤ۔ چنانچہ وہ اسی لالچ کی وجہ سے کہ رتھ والا انہیں اب ایک روپیہ میں واپس لے جار ہا ہے وہیں سے واپس چلے گئے۔
پس مَیں جب اُن لوگوں کو دیکھتا ہوں جو دو ہزار روپے کی لالچ میں زمین بیچ رہے ہیں تو مجھے یہ قصّہ یاد آجاتا ہے۔ تم نے سو روپے خرچ نہیں کئے تھے بلکہ اس کی زمین خریدی تھی۔ بہرحال یہ بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ پیغامی اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جماعت پر قبضہ کر لیا ہے۔ احراری بھی سُبْحَانَ ﷲِکیا کیا باتیں بناتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ان کو یہ موقع نصیب نہیں ہؤا کہ وہ ربوہ جیسا شہر آباد کر سکیں۔ گورنمنٹ کے گزٹ میں لکھا ہؤا موجود ہے کہ پچھلے ہزار سال سے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی بلکہ یہاں تک لکھاہے کہ یہ زمین ایری گیشن (IRRIGATION)کے ناقابل ہے اور نان کلٹی ایبل (NON CULTIABLE)ہے یعنی اس زمین کے متعلق ہے کہ یہاں آب پاشی اور زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہ زمین دوسری زمین سے 23 فٹ بلندہے۔ پانی چڑھے کہاں اور پھر پانی نمکین ہے۔ سوائے اس کے کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہاں میٹھا پانی نکلے گا تو یہاں میٹھا پانی نکلنا شروع ہؤا اور وہ بھی ابھی کچھ حصّہ سے نکلنا شروع ہؤا ہے۔ ایسے کوردیہہ میں دو سال کے بعد دو دو ہزار کو زمین بِکنی شروع ہو گئی۔ آخر کسی کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ اس شخص کے پاس کون سا جادو ہے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تووہ سونا بن جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پیرا نامی ایک نوکر تھا جو بالکل جاہل تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ان لوگوں سے بھی بعض دفعہ بے تکلفی کا اظہار کر لیا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے پیرے سے کہا۔ کیا تمہیں بھی دین کا کچھ پتہ ہے؟ پیرے نے جواب دیا کہ اَور تو مجھے کچھ پتہ نہیں۔ ہاں مَیں نے ایک دن مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا اچھا تم نے مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی۔ پھر انہوں نے کیا کہا؟ پیرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ملازم تھا۔ آپ اسے بلٹیاں دے دیتے تھے اور وہ اسے بٹالہ سے لانی پڑتی تھیں۔ اس نے کہا کہ مَیں جب بِلٹیاں لینے جایا کرتا تھا تو روزانہ مولوی محمد حسین کو دیکھتا کہ وہ اسٹیشن پر آتے اور اگر کوئی آدمی قادیان آنے والا دیکھتے تو اُسے کہتے مَیں مرزا صاحب کا پُرانا دوست ہوں، میرے ان سے تعلقات ہیں، مَیں جانتا ہوں کہ اُنہوں نے دکان بنائی ہوئی ہے اور کچھ نہیں۔ ان کی ان باتوں سے متاثر ہو کر کوئی تو واپس چلا جاتا اور کوئی ان کی باتوں سے اثر لئے بغیر قادیان آجاتا۔ پیرا کہنے لگا مَیں اسی طرح مولوی محمد حسین کو روزانہ اسٹیشن پر دیکھتا۔ ایک دن اتفاقاً مولوی صاحب کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا۔ وہ میرے پاس آئے اور کہا پیریا تُو نے کیوں اپنا ایمان خراب کر لیا ہے؟ کیا تو نے سوچا بھی ہے آخر مَیں اتنا بڑا عالم ہوں۔ مولوی صاحب کو یہ بڑا شوق تھا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ مَیں بڑا عالم ہوں اور اہل حدیث کا لیڈر ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا مَیں اتنا بڑا عالم اور اہلِ حدیث کا لیڈر بھلا مرزا صاحب کو میرے مقابلہ میں کیا حیثیت حاصل ہے۔ کیا تو نے کبھی سوچا نہیں کہ اتنے بڑے عالم کو چھوڑ کر تو نے قادیان جاکر اپنا ایمان کیوں خراب کر لیا ہے؟ پیرا جاہلِ مطلق تھا۔ اُسے دین کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ وہ کہنے لگا۔ مولوی صاحب مَیں جاہل ہوں، مجھے دین کا کچھ بھی علم نہیں۔ یہاں تک کہ مجھے نماز بھی نہیں آتی۔ مَیں صرف ایک بات جانتا ہوں۔ علم والی بات تو مجھے نہیں آتی۔ مَیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مَیں اتنے سالوں سے مرزا صاحب کی بِلٹیاں چھڑانے کے لئے بٹالہ آرہا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو اسٹیشن کے قریب ٹہلتے دیکھتا ہوں۔ آپ روزانہ ایسے آدمی کی تلاش میں رہتے ہیں جو قادیان جانے کا ارادہ رکھتا ہو تا آپ اسے قادیان جانے سے باز رکھ سکیں۔ خبر نہیں آپ کی یہاں آتے آتے کتنی جوتیاں گھِس گئی ہیں۔ اُدھر مَیں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب کوٹھری میں گھُسے ہوئے ہیں۔ چھ چھ گھنٹے لوگ دروازے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نکلیں تو وہ آپؑ کی زیارت کریں۔ لوگ یہاں سے یکّوں میں جاتے ہیں، پیدل جاتے ہیں، راستہ میں دھکّے کھاتے ہیں اور پھر وہاں گھنٹوں دروازہ کے آگے بیٹھے رہتے ہیں۔ تب کہیں مرزا صاحب کوٹھری سے باہر نکلتے ہیں اور وہ لوگ آپؑ کی زیارت کرتے ہیں اور خوش خوش وہاں سے واپس آتے ہیں لیکن مَیں کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی کئی جوتیاں بھی گھِس گئی ہوں گی لیکن آپ لوگوں کو قادیان جانے سے باز نہیں رکھ سکے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوتی۔ آخر ان علماء کہلانے والوں کو کیا اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے اس نے نہ کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ دنیوی تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کی صحت خراب ہے۔ وہ کمزور ہے۔ جب وہ خلیفہ ہؤا تو جماعت کے امیر اور بڑے بڑے لوگ اس سے بگڑ گئے اور لاہور جاکر اُنہوں نے ایک علیحدہ انجمن بنا لی اور پھر بھی خدا تعالیٰ اُسے نہ صرف پاکستان میں کامیاب کرتا جارہا ہے بلکہ ساری دُنیا میں اُسے کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے جھنڈے ساری دُنیا میں گاڑ دیئے ہیں۔ اس کے ذریعہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بادشاہت قائم ہورہی ہے۔ مگر پھر وہی زندیق اور کافر ہے۔ اگر زندیق اور کافر اسی کا نام ہے تو خدا تعالیٰ اس قسم کے زندیق اور کافر اسلام میں آئندہ بھی جاری رکھے تو اس میں اُمّت کا کتنا بچاؤ ہے۔
یہ یاد رکھو کہ یہاں جو مکان تم بناؤ گے اور جتنی جلدی تم بناؤ گے تو تمہیں اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اگر تم یہاں اپنے بیوی بچوں کو رکھو گے تو وہ تعلیم حاصل کریں گے اور اگر تم خود نہیں آؤ گے اور بیوی بچوں کو یہاں نہیں رکھ سکو گے تو مکان کا کرایہ ہی تمہیں ملے گا اور اس طرح روپیہ محفوظ رہے گا۔ بہرحال مکان ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر کوئی آباد قصبہ ہو تو آج اگر دوہزار روپیہ کا مکان ہے تو کل وہ دس ہزار روپیہ کا ہو گا لیکن جو لوگ یہاں مکان نہیں بنا سکے اور اُنہوں نے یہاں زمین نہیں خریدی اور وہ اب یہاں خریدنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے نام دفتر آبادی ربوہ میں نوٹ کرا دیں۔ ہمیں قوی اُمید ہے کہ پانچ چھ سو مکانات کی جگہ مل جائے گی۔ تین سو کے قریب دوستوں نے اپنے نام لکھوا دیئے ہیں۔ جنہوں نے ابھی تک اپنے نام نہیں لکھوائے وہ اب لکھوا دیں۔ انہیں پانچ چھ ماہ کے بعد زمین مل سکے گی۔ اس کے بعد انہیں ربوہ کی حدود میں زمین نہیں مل سکے گی۔ سوائے اس کے کہ وہ ان لوگوں سے جنہوں نے پہلے زمین خرید کر لی تھی پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ پر زمین خرید لیں مگر جو لوگ مکان نہیں بنا سکتے انہیں مَیں تحریک کرتا ہوں کہ قومی کاموں میں زندگی کے آثار ہونے چاہئیں۔ جب تم اور جگہوں پر جاتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم یہاں نہیں آتے۔ یورپ میں ایک مزدور کو بھی سال میں چودہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں وہ دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔ تم بھی چودہ چودہ پندرہ پندرہ دن کے لئے یہاں آؤ اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کرو۔ اگر اس طرح دس دس آدمی پندرہ پندرہ دن کے لئے سال بھر آتے رہیں تو سلسلہ دس آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ اگر 24 آدمی آتے ہیں تو سلسلہ 24 آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا۔ 24 آدمی ایک افسر کا قائمقام ہو جاتے ہیں اور اگر 240 آدمی آجائیں تو وہ دس افسروں کے قائمقام ہو جاتے ہیں۔ دوسرے نئے آدمیوں کے آنے سے نئے ارادے اور نئے خیالات آتے رہتے ہیں۔
پھر ربوہ کی آبادی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پنشنر دوست یہاں آئیں۔ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پنشنر دوست پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ جب کسی کی اولاد جوان ہو گئی ہے اور کام کے قابل ہو گئی ہے تو اب انہیں آرام کرنا چاہئے اور جو دو چار سال زندگی کے باقی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے کام میں لگانے چاہئیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دو سو، چار سو روپیہ ماہوار حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں چلو نوکری تو ملتی ہے کرلو۔ مَیں پھر ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تو اپنی زندگی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔ آخر تم خداتعالیٰ کو کیا جواب دو گے؟ اﷲ تعالیٰ کہے گا تم نے 55 سال نوکری کی اور جو زندگی کے دو چار سال باقی تھے وہ بھی تم نے دنیوی لالچ کے لئے خرچ کر دیئے۔ اگر تم نے مجھے پس خوردہ کھانا بھی نہیں دیا تو مَیں کیا سمجھوں کہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔ یہ تو وہی بات ہو گی کہ کہتے ہیں کسی شخص کے دوست کی کُتیا نے بچے دیئے اُس نے اس سے کہا۔ مجھے کُتیا کا ایک بچہ دینا۔ اس نے کہا چھ بچے تھے وہ سارے مر گئے لیکن اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو تمہیں کوئی بچہ نہ دیتا۔ یہ بھی وہی بات ہے کہ ساری زندگی تو مَیں نے دی نہیں۔ نوکری میں 55 سال خرچ کر دیئے ہیں لیکن اب جو دو چار سال زندگی کے پنشن لینے کے بعد باقی ہیں وہ بھی تمہیں نہیں دینے۔ تمہیں پنشن مل گئی ہے اولاد تمہاری جوان ہو گئی ہے وہ ملازم ہو گئی ہے اور انہیں تنخواہ ملنے لگ گئی ہے یا وہ اپنے کاموں میں لگ گئی ہے۔ اگر چار پانچ سَو تمہاری تنخواہ تھی اور اب تمہارے پاس ایک دو بچے رہ گئے ہیں تو دو اڑھائی سو روپیہ پنشن میں گزارہ ہو سکتا ہے۔ اگر پنشن میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو پچاس روپے اور لے لو۔ تمہیں بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی مدد ملے گی۔
پس مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ پنشنر دوست یہاں آئیں اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کردیں۔ پنشنر کو تو دوبارہ ملازمت کرنا گناہ سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ اب اس قابل ہو چُکا ہے کہ دین کی خدمت میں لگا رہے۔ جن کو اس سے زیادہ توفیق ملتی ہے وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ پہلے یہ سلسلہ شروع ہؤا تھا لیکن درمیان میں رُک گیا۔ اب پھر دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے ایک رَو چلی ہے بعض خطوط آئے ہیں جن میں بعض لوگوں کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ درمیان میں بھاگنے کی رَو زیادہ تھی اور مَیں نے بھی ڈھیل دے دی تھی کہ اچھا بھاگنا ہے تو بھاگ جاؤ۔ حالانکہ دین کے لئے زندگی پیش کرنے کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ساری زندگی دین کو دے دیتا ہے اور اسے اس پر اختیار نہیں رہتا۔ تم یہی کہو گے کہ اس نے زندگی تباہ کر دی لیکن کیا دوسری قوموں نے مُلک کی خاطر اور قوم کی خاطر اپنی زندگیاں پیش نہیں کیں۔ کیا پچھلی جنگ کے موقع پر لاکھوں جرمنوں، انگریزوں، امریکیوں اور فرانسیسیوں نے اپنی جانیں پیش نہیں کی تھیں۔ تم میں سے دس بیس نے اگر دین کی خاطر اپنی زندگیاں پیش کر دیں تو تمہیں ان پر کوئی زائد فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔ یہی چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بھی اپنی زندگیاں قوم اور مُلک کو دیں اور تم نے بھی اپنی زندگیاں دین کی خاطر دیں۔ پس نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تاکہ ان کی خدمات دین کے لئے مفید ہوں''۔ (غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
احرار کا فتنہ
‘‘اس سال احراریوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فتنہ برپا کیا حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فتنہ گزشتہ دوسال سے
جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ مُلک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں مُلک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا۔ اس ایجی ٹیشن کی ابتدا تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اور مسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے۔ چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظِ ختم نبوّت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی ختم نبوّت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی ختم نبوّت کا محافظ تو خود اﷲ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہی مفہوم صحابہ کرام اور اُمت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا۔ پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے۔ پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اور ایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جاسکے۔ بہرحال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ حتّٰی کہ حکومت کے بعض ذمّہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے۔
ذمّہ دار افراد پر اظہار حقیقت
جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مُشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور
پر بعض احمدیوں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوئے۔ چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہؤا کہ مُلک کے جن ذمّہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعے جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جارہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے کا اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے بعد میں برملا کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے۔ احمدی بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف ہے اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جاسکتا ہے۔
بیرونی ممالک کے نمائندوں پر اس کا اثر
دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ
کے جلسہ میں چودھری ظفراﷲ خاں صاحب نے ''اسلام زندہ مذہب ہے'' پر تقریر کی۔ یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے۔ انہوں نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی۔ کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجود ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہؤا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے مُلک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور مذہبی تعصّب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر مُلک بنانا چاہتا ہے۔ ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا مُلک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی مُلک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جزو تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کا دل اور ہے۔ بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر مُلک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بُلند کرتے ہیں۔ پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہؤا کہ غیرممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
بنگالی نمائندوں کی رائے
ایک اثر اس فتنے کا یہ ہؤا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ
اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے ہر گز بنگال میں نہیں آنے دیں گے۔
حکومت کی دھمکیاں
کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہؤا کہ مُلک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا
شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متأثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا۔ پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے محسوس کیا جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت بھی مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے برملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں''۔
اس موقع پر حضور نے اخبار آزاد اور زمیندار میں سے متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمّہ دار راہنماؤں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے، بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح حکومت کا تختہ اُلٹا دیں گے۔ اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر مُلک میں بدامنی پیدا کریں۔فرمایا:-
‘‘ہمارے خلاف اِن فسادات کے ایّام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی۔ اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے۔ گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی’’۔
صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
مجھے خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا اس نے اپنے ہر اجلاس میں دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا۔پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھایا بالخصوص سرحد کے وزیراعظم نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا۔ اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہورہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے۔
بعض صریحاً غلط الزامات
جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے
وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے (گو نام نہیں لیا مگر اشارہ ہماری ہی طرف تھا)کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک ذمّہ دار افسر نے کہا کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے۔ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کا مرتکب نہ ہوتی۔ کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مُشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقینا یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں۔
اسلامی حکومت کافرض ہے کہ وہ مُلک
کےہر فرد کی عزت کی حفاظت کرے
اسلامی حکومت کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اپنے مُلک کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کی عزت
کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں ظفراﷲ خاں کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے اگر یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا تو یقینا ایسا الزام لگانا ظفراﷲ خاں پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں۔
اس کے بالمقابل مودودی جماعت کے کئی آدمی اس جُرم میں پکڑے بھی گئے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں۔ کوئی فائننشل کمشنر احمدی نہیں ہے، کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے۔ مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے۔ پھر یہ ناجائز الاٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے؟
پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر ناجائز الاٹمنٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کے کاغذات ابھی ادھر اُدھر ہی پھر رہے ہیں گو احراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے۔
انصاف کا طریق
یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے یہ الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے
کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے۔ اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو بے شک اسے سخت سے سخت سزا دے لیکن اگر یہ غلط ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے۔
گو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں احمدیوں سے تعصّب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے اُلٹا احمدیوں پر الزام لگایا جارہا ہے۔ ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم ، تجربہ، قابلیت اور گزشتہ ریکارڈاُن کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم ، قابلیت، محنت، دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں۔ اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی۔
ذمّہ دار پریس نے اپنے فرض کو ادا کیا
مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس فتنے کے دوران میں ہمارے مُلک
کے ذمّہ دار پریس نے جو مُلک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ سب سے پہلے ''ڈان'' نے بڑی جرأت سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی۔ پنجاب میں سِول اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا۔ اُردو کے پریس کے ایک حصّہ کا رویّہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا۔ گو افسوس ہے کہ مسلم لیگی پریس کے ایک حصّہ نے اس موقع پر بہت بُرا نمونہ دکھایا۔ بہرحال جس قوم کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ بہت جلد پروپیگنڈا سے متاثر ہو جاتی ہے اس قوم کے پریس کا پروپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت اُمید افزا بات ہے۔
ہندوستان کے مُسلم پریس کا احتجاج
دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقع پر ہندوستان کے مسلم پریس
نے بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی۔ حتّٰی کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دُشمن تھے اُنہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی۔ ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کرہمارے سرندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے۔ انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے۔ ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی۔
اب اس فتنے نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو اِنْشَاءَ ﷲ بہت جلد خود ہی ختم ہو جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کام کا ارادہ کرنا اور چیز ہوتی ہے اَور کام کرلینا اور چیز ہوتی ہے۔
سراسر جھوٹے الزامات
اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی مہم
شروع کی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا ۔ اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کر لے تو یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ مثلاً
(1) پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقان فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا۔ مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود وغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے۔ یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اوّل تو وہی اس الزام کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی۔ دوسرے ہمارے پاس فوجی حُکام کی باقاعدہ رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار اور وردیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی۔ ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے۔ اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے وہ کوئی احراریوں کا لیا ہؤا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اس کی جیب میں چلا گیا۔
(2) حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اسے احمدی مشہور کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(3) کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کر ربوہ لے آتے ہیں۔ یہ الزام بھی صریحاً جھوٹ ہے۔ چنانچہ حال ہی میں جب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اس نے اسے بالکل بے بنیاد پایا۔
(4) احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں چنانچہ جن لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو مَیں اس وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہؤا دیکھ رہا ہوں۔ بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے۔ چند ایک کمزور لوگوں نے اگر تشدد اور ظلم سے ڈر کر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پروہ نادم ہوئے اور واپس آگئے اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں۔
(5) کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو توجّہ دلائی ہے جن میںرسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے۔ لہٰذا ہم نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی توہین کی۔ حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو وہ کتابیں کیوں نہیں قابلِ ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ ہتک کی گئی ہے۔ کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتابیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں مگر کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پرچہ ضبط کر لو جن میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بشرطیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تاکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت قائم ہو۔
سات روزے رکھنے کی تحریک
احباب 1953ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں
کریں کہ اﷲ تعالیٰ مُلک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے۔ یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنے کی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے۔ یہ سات روزے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں۔ جنوری میں یہ روزے 5،12،19 اور26 تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں 2، 9 اور 16 تاریخ کو۔
اسلامی مُمالک کو فلسطین کے متعلق
کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے
‘‘مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مُشکلات پیدا ہو رہی ہیں مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا،
عراق اور اُردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں۔ تیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اسلامی مُمالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دُعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کارروائی کرنی چاہئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ۔ یہود مسلمانوں کے شدید دُشمن ہیں اور اُنہوں نے ایک ایسے مُلک میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے۔ ان کے ارادے یقینا بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی مُلک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سدِّباب کر سکتے ہیں۔ اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق مَیں نے پہلے بھی توجّہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں۔ مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اُٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے۔ جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی اُمید نہ کرنی چاہئے۔ بہرحال دُعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے۔ کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر گز محفوظ نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے۔
بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت
مَیں نے اس سال شوریٰ کے موقع پر بیرونی ممالک میں
مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی اور اس کے لئے ایسے طریق تجویز کئے تھے جن پر عمل کر کے ہر شخص بغیر کسی خاص بوجھ کے بڑی آسانی سے اس میں حصّہ لے سکتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تحریک پر پوری طرح عمل کیا جائے تو دو لاکھ روپیہ سالانہ بڑی آسانی سے ہم جمع کر سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ بیرونی ممالک میں جب تک ہم مساجد تعمیر نہ کریں گے وہاں پر تبلیغ اسلام کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہو گی کیونکہ مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے۔ لوگوں کے قلعے توپوں اور بندوقوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور انہی سے وہ مُلک فتح کرتے ہیں۔مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے مساجد ہوتے ہیں۔ جہاں سے اَللہُ اَکْبَرُ کی آواز سے دلوں کو فتح کیا جاتاہے وہاں سے رات دن اذان کی گولہ باری ہوتی ہے جو کفرو ظلمت کی خندقوں کو پاٹ کر دلوں کو دلوں سے ملا دیتی ہے۔ دُنیوی قلعوں سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔ دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی دوسری حکومت کو اپنے مُلک میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قلعہ ایسا ہے جو ہم ہر مُلک اور ہر علاقہ میں آسانی سے تعمیر کر سکتے ہیں اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا سامان پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ ہماری کوتاہی ہو گی۔
پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیرونی مُمالک میں تعمیرِمساجد کی اہمیت کو سمجھے اور اس فنڈ میں مقررہ طریق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصّہ لے تاکہ ہم جلد سے جلد دُنیا کے ہر مُلک میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلعے تعمیر کر سکیں۔
چندہ تحریک جدید
یہ ایک جہاد ہے اس لئے ہر احمدی کو اس میں حصّہ لینا چاہئے تم کوشش کرو کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو اس میں
حصّہ نہ لے رہاہو۔اب یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر سال اپنے چندہ میں اضافہ ہی کیا جائے اگر تمہاری آمدنی میں کمی واقع ہو گئی ہے تو بے شک چندے میں کمی کردو لیکن حصّہ لینے سے محروم نہ رہو۔
صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت آجکل اس حد تک کمزور ہے کہ ماہوار تنخواہیں کارکنوں کو قرض لے کر دی جارہی ہیں۔ گو اس میں انجمن کا اپنا بھی قصور ہے مگر بہرحال دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس کا طریق یہ ہے کہ تمام دوست اپنا چندہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ادا کریں اور جو لوگ چندہ نہیں دیتے ان سے وصول کریں۔ ابھی جماعتوں میں ایک خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو نادہند ہے۔ اگر ان کو توجّہ دلائی جائے اور ان سے چندہ وصول کیا جائے تو یقیناً ہمارے چندے میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور انجمن کی مالی حالت مضبوط ہو سکتی ہے۔
اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت
مُلک کی اقتصادی حالت کا بھی چندے سے گہرا تعلق
ہے۔ اگر اقتصادی حالات بہتر ہوں تو یقیناً چندوں میں زیادتی ہو جاتی ہے۔ مَیں نے اس دفعہ شوریٰ پر یہ نصیحت کی تھی کہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے احمدی تاجروں ، زمینداروں اور پیشہ وروں کی الگ الگ تنظیم ہونی چاہئے اور ان کے وقتاً فوقتاً اجلاس ہونے چاہئیں تاکہ وہ مل کر اپنی مُشکلات پر غور کر سکیں اور مَیں بھی انہیں ایسے طریق بتا سکوں جن سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں۔ اس وقت تک تو اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا مگر آئندہ سال ضرور اس پر عمل ہونا چاہئے۔ کیونکہ اقتصادی حالت کی مضبوطی کا ہمارے چندوں اور ہماری تبلیغ سے گہرا تعلق ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب یہ اجلاس بلائے جائیں تو اپنے اچھے سے اچھے نمائندے اس میں بھیجیں تاکہ آپ کی
اقتصادی حالت درست ہو سکے''۔ (الفضل یکم و دو جنوری1952ء)
1: مشکوٰة المصابیح صفحہ480مطبوعہ کراچی1368ھ
2: الرعد :39
3: میخانہ دردصفحہ26 مطبوعہ1344ھ
4: میخانہ دردصفحہ17مطبوعہ 1344ھ میں ان کا مکمل نام ''نواب خاندوران خان صمصام الدولہ'' لکھا ہے۔
5: میخانہ دردصفحہ 127،128 مطبوعہ 1344ھ
6: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
7: تذکرہ صفحہ 37۔ ایڈیشن چہارم
8: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
9: تذکرہ صفحہ 70۔ ایڈیشن چہارم
10: تذکرہ صفحہ 731۔ ایڈیشن چہارم
11: تذکرہ صفحہ 749۔ ایڈیشن چہارم
12: تذکرہ صفحہ 707۔ ایڈیشن چہارم
13: تذکرہ صفحہ 653۔ ایڈیشن چہارم
14: الصَّفّٰت :148









تعلق باﷲ




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تعلق باﷲ

(فرمودہ 28دسمبر1952ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل تقریر ‘‘تعلق باﷲ’’ سے قبل بعض ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :-
کونسی مجلس علم انعامی کی مستحق ہے
‘‘خدام الاحمدیہ نے اس سال دس معیار مقرر کئے تھے یہ دیکھنے کے
لئے کہ کونسی مجلس عَلمِ انعامی کی مستحق ہے اس ہدایت کے مطابق خدا م الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر تمام مجالس کا معائنہ کروایا اور انسپکٹر صاحب کی رپورٹ موصول ہونے پر مجلس عاملہ مرکزیہ نے ایک سب کمیٹی مقرر کی جس نے ہر شق پر تفصیلی غور کرنے کے بعد مجلس عاملہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ مجلس عاملہ مرکزیہ نے سب کمیٹی کی رپورٹ پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ امسال مقرر کردہ معیاروں کے مطابق مجلس خدا م الاحمدیہ راولپنڈی تمام مجالس میں سے اوّل رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے اڑسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ چک نمبر 121 گوکھووال دوم رہی ہے اور اس نے 67½/100 نمبر حاصل کئے ہیں۔ مجلس کراچی سوم رہی ہے اس مجلس نے سَو میں سے چونسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اوّل رہنے والی مجلس کو انعامی جھنڈا دیا جاتا ہے مگر اس دفعہ مَیں نے جلسہ میں جھنڈا دینا روک دیا ہے کیونکہ اس طرح تقریر میں حرج واقع ہوتا ہے۔ بہرحال جماعت کی ترغیب اور تحریص کے لئے مَیں نے اعلان کر دیا ہے کہ خدا م الاحمدیہ کی تین جماعتوں کا کام بہت اچھا رہا ہے۔ اوّل جماعت راولپنڈی ، دوم مجلس چک نمبر 121 گوکھووال اور سوم نمبر پر کراچی۔ اس کے علاوہ تمام جماعتوں کی طرف سے خبریں پہنچتی رہی ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر بالعموم خدام نے اچھا کام کیا ہے اور یہی نوجوانوں کا فرض ہوتا ہے۔ بوڑھے یہ کام نہیں کر سکتے جب یہ لوگ بوڑھے ہو جائیں گے تو اس وقت اگلی نسل آجائے گی اور پھر اس کے بوڑھا ہونے پر اس سے اگلی نسل آجائے گی۔ مجھے جو رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں اکثر جماعتوں نے خدام کی تعریف کی ہے۔ بے شک بعض نے کمزوری بھی دکھائی ہے مگر یہ نہیں کہ سب نے ایسا کیا ہو۔ ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی کچھ کمزور لوگ پائے جاتے ہیں۔ حرف تب آتا ہے جب کام کے وقت سارے خاموش رہیں۔
مقبرۂ بہشتی ربوہ کا مقام
مَیں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے
سوال کیا ہے کہ جب حضرت امّاں جان کی نعشِ مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی مگر پھر بھی مَیں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقامِ ابراہیم ؑ مکّہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم ؑ مکّہ سے چلے گئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانۂ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقامِ ابراہیم ؑ بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی مَیں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اﷲ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اُس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے۔ باپ بڑا نیک ہو اور بیٹا بُرا ہو تو برکت مٹ جائے گی۔ مگر جس مقام پر دُعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں۔ آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا۔ وَ مَا يَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ1 خدا تعالیٰ کے فضل تو اس قدر ہیں کہ اگر زمین کا چَپّہ چَپّہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچا ہی رہے گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی۔ مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہو رہی ہیں۔ آخررسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں۔ پس جو خدا مکّہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی بابرکت کر دیا اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابرکت کر دیا۔ اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا بھی غریب ہے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امراء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دو سَو اشرفی انعام دے دی۔ چونکہ دو سَو اشرفی کی تھیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتا رہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائیے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بد قسمت ہو گا جس کے پاس دو سَو اشرفی بھی نہ ہو۔ چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تھیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکا لی۔ اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا کہ امراء اُسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا۔ آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا۔ جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھُوکا مَر رہا ہے۔ آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھُوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو۔ پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو۔
خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل اور خادم پیدا ہوں۔ خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقامِ ابراہیم پیدا کر دیں، خداتعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں مدینے قائم کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں اور تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں۔ حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصّہ لو۔ روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقامِ ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصّہ پایا۔ پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی۔ تم خود پیچھے ہٹتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہو سکتا اور وہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مؤمن کو ایک چھوٹا محمد بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس پر مخالفین نے شور مچا دیا کہ ہتک ہو گئی، ہتک ہو گئی۔ حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا۔شیطان کا نام تو نہیں لیا جائے گا۔ پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں؟ اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنو تب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مثیل بنو تب مصیبت ہے۔ یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نِکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا۔ ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی اور چھت ٹپکنے لگ گئی۔ میراثی نے کہیں سے چارپائی لی، چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پائنتی پر بیٹھ گیا۔ چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چار پائی پر بیٹھتا ہے۔ آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک کَسی لایا اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا، اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ مَیں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے۔ شیطان کہو تب غصّہ آتا ہے، محمد رسول اﷲ کہو تب غصّہ آتا ہے۔ حالانکہ انسان یامحمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مثیل بنے گا یا شیطان کا۔ پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا۔ غرض اﷲ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے اور کہتا ہے یہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں ہو سکتا۔ پس مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائے گی، جائے گی اور ضرورجائے گی مگر جو برکتیں یہاں نازل ہو رہی ہیں وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی۔ دیکھو صحابہ ؓ اِس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دُعا تو الگ رہی وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی پیشاب کیا ہو۔
حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ جب بھی حج کے لئے جاتے تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کے لئے بیٹھ جاتے۔ اُنہوں نے دو تین حج کئے تھے۔ ایک صحابی ؓ کہتے ہیں مَیں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی۔ مَیں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا۔ اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں،آپ یہاں بیٹھے کس لئے ؟ وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حج کیا تو مَیں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا۔ پس مَیں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں مَیں کہتا ہوں کہ موقع جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو مَیں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں۔2 تو صحابہ ؓ یہ سمجھتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا مؤجب ہے اور درحقیقت یہ بات ہے بھی درست ۔ جہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بیٹھے اور جہاں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دیکھو، آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ :
''بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے''۔3
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے اور وہ بابرکت ہو گئے۔ پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی۔
ایک افسوسناک واقعہ
آج رات کو ایک افسوس ناک واقعہ ہؤا کہ عورتوں کی پانچ بیرکیں جل گئیں اور ہزاروں روپیہ کا نقصان ہؤا۔
بیس سے زیادہ بستر ہی جل گئے اور بہت سی عورتوں کے بُرقعے جل گئے اور بہت سی عورتوں کی جوتیاں جل گئیں یا غائب ہو گئیں۔ بعض کی ایک جل گئی اور ایک رہ گئی۔ اس طرح ہزار ہا کا نقصان ہو گیا۔ زیورات بھی بڑی مقدار میں ضائع ہوئے ہیں۔ کچھ تو مل رہے ہیں مگر کچھ ابھی تک نہیں ملے۔ ایک عورت کا کئی ہزار کا زیور گم ہو گیا ہے۔ یہ نقصان کچھ تو آگ لگنے کی وجہ سے ہؤا اور کچھ آگ کو پھیلنے سے بچانے کے لئے بعض اور بیرکیں ہمیں خود بھی گرانی پڑیں۔ بڑی وجہ اس نقصان کی یہ تھی کہ عورتوں کی بیرکیں الگ تھیں، ان کا رستہ بہت محدود تھا اور اس وجہ سے فوری طور پر زیادہ امداد نہیں پہنچ سکتی تھی''
اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:-
''الحمدﷲ ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس عورت کا آٹھ تولہ کا ہار مل گیا ہے۔ بہرحال زیورات انشاء اﷲ مل جائیں گے۔ اس عورت کے کڑے بھی تھے وہ بھی امید ہے مل جائیں گے''۔
سلسلۂ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
'' مَیں اس موقع پر پہلی نصیحت مستورات کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور ہمت سے کام لیں۔ بعض عورتیں اس حادثہ کی وجہ سے سخت گھبرا گئیں اور وہ صبح سے ہی بستر باندھ کر بیٹھ گئیں کہ ہم تو جاتی ہیں۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عورتیں چاہتی ہیں ان کے اچھے کپڑے ہوں اور اگر معمولی کپڑے بھی ہوں تو میلے نہ ہوں ۔ کیونکہ بہرحال کچھ نہ کچھ زینت کا احساس عورت میں پایا جاتا ہے لیکن ایسے وقت میں اپنے جذبات اور احساسات کو دبا لینا چاہئے۔ ایسے وقت میں غیرت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان کہہ دے کہ کرلو جو کچھ کرنا ہے مَیں اپنے مذہب اور عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہی تو غیرت دکھانے کا وقت ہوتا ہے۔ اور کونسا وقت ہے جس میں انسان اس قسم کی غیرت دکھا سکے۔
امورِ عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جیسے مردوں کی بیرکوں میں اتفاقی طور پر آگ لگ گئی تھی اسی طرح عورتوں کی بیرکوں میں بھی اتفاقی طور پر آگ لگ گئی ہے لیکن مَیں ان کی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا۔ مردوں کی بیرکوں کے متعلق ان کی رپورٹ مَیں نے تسلیم کر لی تھی مگر اس رپورٹ کو میں غلط سمجھتا ہوں اور اس کی میرے پاس وجوہ موجود ہیں۔ مَیں یہ تو نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مجھ پر یا میرے محکمہ پر الزام نہ آئے۔ میرے نزدیک اسی اثر کے ماتحت ان کی یہ رپورٹ ہے مگر ہمارے پاس اس رپورٹ کے غلط ہونے کی وجہ موجود ہے۔ ہم نے دوذرائع سے اس حادثہ کی تحقیقات کرائی ہے۔ ایک تحقیق تو ناظم جلسہ نے اسی وقت کی۔ مَیں نے انہیں حکم دیا کہ فوراً تحقیقات کرو اور مجھے اپنی تحقیق کے نتائج سے اطلاع دو۔ دراصل جلسہ سے جانے کے بعد مجھے کافی عرصہ تک نیند نہیں آئی۔ نمازوں اور ملاقاتوں کے بعد بھی مَیں دیر تک جاگتا رہا۔ اس کے بعد میں لیٹا ہی تھا کہ یکدم شور کی آواز آئی اور معلوم ہؤا کہ عورتوں کی بیرکوں میں آگ لگ گئی ہے۔ مَیں نے فوراً آدمی دوڑائے اور کہا کہ مجھے اطلاع دو کہ کیسے آگ لگی ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ بجے رات انہوں نے مجھے اطلاع دی جس میں انہوں نے نقشہ بھی دیا ہؤا تھا۔ مَیں نے جو پہرے دار بھجوائے تھے اُنہوں نے بتایا کہ ایک عورت نے یہ کہا ہے کہ مَیں نے خود بعض آدمی جاتے ہوئے دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ رستہ نہیں ملتا ، رستہ نہیں ملتا۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک عورت کہتی ہے کہ یہ آگ باہر سے آتے ہوئے مَیں نے دیکھی ہے۔ اس کے بعد ناظم جلسہ کی رپورٹ بھی پہنچ گئی۔ اس میں وضاحت سے ذکر تھا کہ فلاں عورت سے مَیں نے بیان لئے ہیں وہ کہتی ہے کہ مَیں اپنی بیرک میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے چھت کے اوپر سے گرمی لگی اور پھر مَیں نے اوپر سے نیچے آگ آتی ہوئی دیکھی جو پھیل گئی اور پھر مَیں نے شور مچا دیا کہ آگ لگ گئی ہے۔ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ دو تین اَور عورتوں نے بھی یہی بیان کیا کہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو تین جگہ باہر سے آگ آتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔ اس کے بعد صبح لجنہ نے تحقیقات کی۔ لجنہ کی تحقیقات بھی قریباً اسی طرح ہے جس طرح یہاں ناظم جلسہ کی تحقیق تھی۔ وہ بھی کہتی ہیں کہ عورتوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے خود آگ لگتے دیکھی جو اوپر سے نیچے کی طرف آئی۔ پس امورِ عامہ کی رپورٹ میرے نزدیک درست نہیں۔ انہوں نے صرف اپنی بدنامی سے ڈر کر کہ ان کے محکمہ پر الزام آئے گا اس طرح کی رپورٹ کر دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ باہر سے لگی ہے۔ بلکہ اب تو مجھے یہ بھی شُبہ پیدا ہو گیا ہے کہ مردوں والی آگ بھی کسی نے دانستہ نہ لگائی ہو۔ بالکل ممکن ہے کہ کوئی دوست بن کر آگیا ہو اور اس نے لیمپ کی بتی اس طرح اونچی کر دی ہو کہ گھانس پھونس کو آگ لگ گئی ہو۔ یہ پرانا دستور ہے جو الٰہی جماعتوں کے مخالف ہمیشہ اختیار کیا کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو دیکھ کر مؤمن کا ایمان اور بھی بڑھ جایا کرتا ہے۔ مؤمن کی مثال درحقیقت ربڑ کے گیند کی سی ہوتی ہے کہ اسے جتنا دباؤ اتنا ہی اُچھلتا ہے۔ پس مؤمنوں کے ارادوں کو پَست کرنے کی بجائے یہ چیزیں اُن کے ایمانوں کو اور بھی بڑھانے والی ہیں اور انہیں کہنا چاہئے کہ اچھا اگلی دفعہ ہم اور زیادہ آئیں گے۔ آخر جب مشرقی پنجاب سے لوگ آئے تو ان کا کتنا نقصان ہؤا تھا۔ یہاں زیورات والی عورتیں تو صرف پانچ سات ہوں گی باقی اکثر غرباء تھیں لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سامان پیدا کرتا ہے۔
ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے کہ عورتوں کے لئے بستروں کا کیا انتظام کریں۔
خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پرسوں ہی ایشین افریقن کمپنی جس میں سلسلہ کے بھی حصّے ہیں اور میرے اور میری اولاد کے بھی حصّے ہیں ۔ کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے نام پر کچھ حصّہ نکالا کرتی ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے اُن کی چِٹھی آئی کہ ہم پچاس اطالین کمبل غرباء کے لئے بھجوا رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر پہنچے کہ ابھی کمبلوں کا بنڈل بند کا بند ہی پڑا تھا۔ جس وقت ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے تو مَیں نے کہا وہ بنڈل ان کے حوالے کر دو۔ یوں بھی وہ ہم نے غریبوں اور حاجتمندوں میں ہی تقسیم کرنے تھے مگر مَیں سمجھتا ہو ں کہ اس دفعہ کمپنی کو زیادہ ثواب اور اجر ملے گا۔ یوں تو وہ کمبل پہلے بھی بھیجتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے اس دفعہ انہوں نے زیادہ اخلاص سے بھیجے ہیں کیونکہ وہ ایسے موقع پر کام آئے جبکہ سلسلہ کو ان کی سخت ضرورت تھی''۔ (الفضل7دسمبر1960ء)
اِسکے بعد اصل موضوع تعلق باللہ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:-
''میری آج کی تقریر کا موضوع تعلق بِاللہ ہے میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کریں بیٹا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری بیوی اچھی ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے کوئی بیوی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میرا اپنی بیوی سے ایک جھگڑا چل رہا ہے اُس میں صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے نوکری مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے اپنی ملازمت میں ترقی مل جائے۔ کوئی کہتا ہے دعا کریں میری فلاں جگہ سے تبدیلی ہو جائے۔ اسی طرح عورتیں میرے پاس آتی ہیں تو کوئی کہتی ہے میرے ہاں صرف لڑکیاں ہیں دعا کریں کہ کوئی لڑکا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں دعا کریں کہ اُس کا سلوک اچھا ہو جائے۔ کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک تو اچھا ہے لیکن دعا کریں کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھا سلوک کرے۔ کوئی کہتی ہے میرے ماں باپ اور خاوند کے درمیان کوئی جھگڑا ہے دعا کریں کہ اُن کی آپس میں صلح ہو جائے۔ غرض جتنی ضرورتیں بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہوتی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں حالانکہ سب سے مقدّم دعا اگر کوئی ہو سکتی ہے تو یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو جائے اور سب سے مقدم سوال اگر کوئی شخص کر سکتا ہے تو یہی ہے کہ میری اِس بارہ میں راہنمائی کی جائے کہ مجھے تعلق بِاللہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے۔ اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہو جائے تو باقی سب چیزیں اِسی میں آ جاتی ہیں جیسے کہتے ہیں کہ ''ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں''۔
تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں کوئی امیر شخص رہتا تھا جو رات دن ناچ گانے کی مجالس گرم رکھتا تھا اور ہر وقت شور و غوغا ہوتا رہتا تھا چونکہ اس طرح اُن کی عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا ایک دن اُنہوں نے اُسے سمجھایا اور کہا کہ تم رات کو باجے بجاتے اور اُونچا اُونچا گاتے ہو اس طرح میری عبادت میں خلل آتا ہے مناسب یہ ہے کہ تم اِس قسم کی مجلسوں کو بند کر دو۔ وہ امیر آدمی بادشاہ کا مصاحب تھا اُسے یہ بات بُری لگی اور اُس نے بادشاہ کے پاس شکایت کر دی کہ اِس طرح بعض لوگ ہمارے گانے بجانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اُس کے مکان پر بھجوا دیا۔ جب شاہی فوج آ گئی تو اُس نے اُس بزرگ کو کہلا بھجوایا کہ میری حفاظت کے لئے فوج آ گئی ہے اگر طاقت ہے تو مقابلہ کرلو۔ اُس بزرگ نے جواب دیا کہ اِن سامانوں سے تو مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن لڑائی ہم نے بھی نہیں چھوڑنی۔ اگر ہم تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں تو نہ معلوم ہمارا تیر نشانہ پر پڑے یا نہ پڑے اِس لئے ظاہری تیر اور تلوار کی بجائے ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے۔ جب یہ پیغام اُسے پہنچا تو معلوم ہوتا ہے اُس کے اندر تھوڑی بہت نیکی تھی پہلے تو وہ خاموش رہا لیکن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے کہا مجھے معاف کیا جائے آج سے باجا گانا سب بند ہو جائے گا کیونکہ رات کے تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ملنا اور اُس سے انسان کا تعلق پیدا ہو جانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اور اگر خدا مل سکتا ہے تو پھر اس میں کوئی شُبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر لیں۔
اِس مضمون کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلا سوال انسان کے دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا ہے یا نہیں؟ اور پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا مل سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے اور اگر وہ خدا ہمیں مل سکتا ہے تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ پھر سب سے مقدم چیز وہی ہے۔ بعض لوگ مُرغا کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں اُنہیں مُرغے کی ٹانگ بڑی پسند ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی ایک دوست جو فوت ہو گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مُرغے کی ٹانگ ملتی رہے تو اُسے اَور کیا چاہیے لیکن مجھے پسند نہیں کیونکہ اُس کی بوٹی میرے دانت میں پھنس جاتی ہے۔ بہرحال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیزیں اُنہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں لیکن وہ چیزیں بہت ادنیٰ اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر اُن چیزوں کے حصول کے بعد بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اگر خداتعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو اور اگر خدا ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اَور چیز کی کیا ضرورت ہے۔ انبیاء بڑے قیمتی وجود ہیں اور اُن کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو خدا مل جائے اور اُسے انبیاء نہ ملیں۔ انبیاء تو اُسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں۔
مذاہبِ عالَم پر نظر ڈالنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مل سکتا ہے گو اُس کے ملنے کی شکلیں اُن کے نزدیک الگ الگ ہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں۔ یہودی مذہب کے مطالعہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا مل سکتا ہے۔ حضرت نوحؑ کے ایک دادا تھے جن کا نام حنوک تھا۔ اُن کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ تین سَو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔4
اور یہودی حدیثوں میں لکھا ہے کہ:-
''لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے زمین کو چھوڑ دیا اور حنوک کو آسمان پر اُٹھا لیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران اور فرشتوں کا سردار مقرر کر دیا اور خدا کے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا۔ اُس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اُس کی پشت پر ہیں اور وہ خدا کا منہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتا ہے''۔ 5
پھر بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کو گرا لیا یعنی خدا ہار بھی گیا6 اور یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ دراصل یہ ایک کشفی واقعہ ہے کوئی لغو اور بیہودہ قصہ نہیں۔ بچوں کے ساتھ گھروں میں روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ ہنسی مذاق میں اُن کے ساتھ کشتی کرتے ہیں اور پھر کشتی کرتے کرتے خود گر جاتے ہیں اور بچہ اُن کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ میں نے ان کو گرا لیا۔ اسی طرح اللہ میاں نے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ضرور کشتی کی ہوگی اور پھر خداتعالیٰ محبت اور پیار کے انداز میں خود ہی گر گیا ہوگا اور یعقوب علیہ السلام نے قہقہے مارے ہوں گے کہ میں نے خدا کو بھی گرا لیا۔
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے۔ اُن کی زندگی کی تاریخ جو انجیل میں ہے اُس سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ خدا سے ملے۔ چنانچہ اُن کا خدا کو باپ کہنا اور اپنے آپ کو اُس کا بیٹا کہنا صاف بتاتا ہے کہ اُن کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق تھا جیسے دنیا میں ماں باپ اور بیٹوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہندوؤں نے خداتعالیٰ کو زیادہ تر ماتا کی شکل میں پیش کیا ہے مگر بہرحال ہندو مذہب بھی خدا تعالیٰ کے تعلق اور اُس کے پیار کا قائل ہے۔ اسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو ماں اور باپ کی محبت سے مشابہت دی ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں اور باپ کا بھی اپنے بچہ سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسی طرح زرتشتی مذہب لے لو، بدھ مذہب لے لو، سب میں یہی نظر آئے گا کہ انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا خدا تعالیٰ سے براہِ راست تعلق ہو جاتا ہے۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت بدھ ایک جگہ بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور یہ عبادت اُنہوں نے اتنے انہماک سے کی کہ ایک بانس کا درخت اُن کے نیچے سے اُگا اور اُنہیں چیر کر اُن کے سر سے نکل گیا مگر اُن کو خبر تک نہ ہوئی اور پھر اُنہیں خدا مل گیا۔ اِس قصہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ دنیا سے اتنے بیزار اور متنفر ہوئے کہ آخر انہیں خدا کا وصال حاصل ہو گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہو سکنے کا جہاں تک امکان ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا نہیں مل سکتا۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خداتعالیٰ کی کتاب کو اپنا راہنما سمجھتے ہیں اور اُس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو یہی یقین رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ مل سکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی عملی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں رکھتے وہ بے شک منکر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں میں سے جو متکلمین یا فلسفی لوگ ہیں یعنی وہ لوگ جو خالص ظاہری علوم کے دِلدادہ ہوتے ہیں یا جنہیں ہم زیادہ سے زیادہ کتابی کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ اُس سے تعلق پیدا کرنے کا صرف اتنا ہی مفہوم ہے کہ انسان کو اس امر کا یقین ہو جائے کہ وہ اُس کے حکم کے مطابق نماز، روزہ اور ذکرِ الٰہی وغیرہ میں مشغول ہے۔ گویا عبادت و امتثال ہی اُس سے تعلق ہے اور اُس کا احسان وانعام ہی اُس تعلق کے اظہار کا ایک ثبوت ہے۔ اِن متکلمین کو چھوڑ کر مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور اسی طرح ہندو اور بدھ مذہب کے پیرو سب یہی کہتے ہیں کہ خدا مل سکتا ہے اور یہی نہیں کہ وہ مل سکتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے نبیوں اور دوسرے صلحاء وغیرہ کو ملا ہے اور اُس نے اُن کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وہ انہیں ملا ہے بلکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ ہم کو بھی ملا ہے اور اُس نے ایسے ایسے رنگ میں ہم سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ملنا اُس سے کم ملنا نہیں جس طرح کوئی اپنے ماں باپ یا کسی اور عزیز سے ملتا ہے۔ پس متکلمین کا یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ انسان کو نہیں ملتا۔ اگر ہم نے اُس کی اطاعت کی تو یہ اُس کا ملنا ہو گیا اور اگر اُس نے ہم پر فضل اور احسان کیا تو یہ اُس کے تعلق کا ایک ثبوت ہو گیا۔ یہ محض فلسفیانہ رنگ کا ایک دعویٰ ہے جو خداتعالیٰ سے دوری اور اُس کی محبت کے کرشموں کو نہ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔اگر تو اتنا ہی ہوتا کہ مثلاً مجھے ایک ضرورت ہوتی اور وہ پوری ہو جاتی تو گو اس سے مجھے یہ تسلی ہو جاتی کہ میری ضرورت پوری ہوگئی ہے لیکن میرے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا نہ ہوتی لیکن میرا یہ احساس کہ میرے خدا نے میری فلاں ضرورت پوری کی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے خدا تعالیٰ کی محبت میں گداز کر دیتی ہے۔
مجھے یاد ہے میری جوانی کا زمانہ تھا۔ ابھی میری خلافت پر دو تین سال ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک مشکل پیش آگئی اور میں نے اُس کام کے لئے دعائیں شروع کر دیں مگر میرا وہ کام نہ ہؤا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک میرا یہ کام نہیں ہو جائے گا میں چارپائی پر نہیں سوؤں گا۔ میرے اندر بھی اُس وقت گاندھی کی کوئی رگ تھی اور میں نے بھی ایک رنگ میں ستیہ گرہ کر دی اور زمین پر لیٹ گیا۔ امۃ الحی مرحومہ اُن دنوں زندہ تھیں اور اُنہی کے ہاں اُس دن باری تھی۔ ہم دونوں کے لئے ایک بڑی سی چارپائی ہوتی تھی اور اُس پر ہم سویا کرتے تھے مگر اُس رات میں نے امۃ الحی سے کہا کہ تم اپنا بستر اُوپر کر لو۔ میرا بستر نیچے ہی رہے گا۔ کہنے لگیں کیوں؟ میں نے کہا کوئی بات ہے۔ چنانچہ میں فرش پر بستر کر کے لیٹ گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ مجھے لیٹے ہوئے ابھی گھنٹہ گزرا تھا یا دو گھنٹے۔ بہرحال نصف رات سے کم وقت ہی تھا کہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے آیا ہے مگر وہ اُس وقت حضرت اماں جان کی شکل میں تھا (حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی کو بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ اُن کی والدہ کی شکل میں ملا تھا۔ پس خشک مُلاّ غصہ میں نہ آئے کہ وہ جو کچھ مجھے کہے گا وہی سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بھی کہنا پڑے گا) اُس کے ہاتھ میں ایک نہایت نرم اور نازک لمبی سی چھڑی تھی وہ تازہ شاخ کی معلوم ہوتی تھی اور چھڑی کے ساتھ کچھ سبز پتے بھی لگے ہوئے تھے۔ چھڑی بہت نازک اور ہلکی اور باریک سی تھی اور قریباً سوا گز لمبی تھی۔ میں اُس وقت رؤیا میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے جو میرے سامنے ظاہر ہؤا ہے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان (جو درحقیقت وجود باری کا ظہور تھا) میرے پاس آئیں اور جس طرح ماں بعض دفعہ بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت اُس غصہ کے پیچھے محبت ہوتی ہے اِسی طرح اُنہوں نے بھی وہ چھڑی مجھے مارنے کے لئے اُٹھائی اور کہا ''محمود! لیٹتا ہے کہ نہیں چارپائی پر'' اور میں نے دیکھا کہ اِن الفاظ کے ساتھ ہی اُنہوں نے وہ چھڑی نہایت نرمی سے میرے جسم کے ساتھ چُھو دی۔ اِدھر میں نے یہ نظارہ دیکھا اور اُدھر میں نے سمجھا کہ گو اللہ تعالیٰ نے چارپائی پر لیٹنے کا ہی حکم دیا ہے لیکن اگر ذرا بھی اس حکم کے ماننے میں دیر ہوئی تو میرے ایمان میں خلل آ جائے گا۔ چنانچہ جونہی اُن کا ہاتھ پیچھے ہٹا میں رؤیا کی حالت میں ہی چھلانگ لگا کر چارپائی پر آ گیا اور جب آنکھ کھلی تو میں چارپائی پر لیٹا ہؤا تھا۔
اب فرض کرو میرا وہ کام ہو جاتا تو مجھے اِس میں کیا مزا آتا۔ مگر وہ لطف جو اُس رؤیا سے مجھے آیا اُس کا مزہ میرے دل میں آج تک باقی ہے اور اس کا خیال کر کے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتی ہے اور ایسا ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ہوا ہے اور کئی کئی رنگ میں ہم نے خداتعالیٰ کے فضل کے مشاہدات کئے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ محبت اور پیار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں جو لُطف ہے وہ باقی کیفیات میں کہاں ہے۔ بس ان دونوں کا ایسا ہی فرق سمجھ لو جیسے ایک ماں اپنے بچہ کو جب چھاتی سے دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو جو اطمینان اُس بچہ کے چہرے پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے جس بے تکلّفی اور محبت سے وہ اپنی آنکھیں کبھی بند کرتا ہے اور کبھی کھولتا ہے، کبھی منہ مچکاتا اور کبھی مسکراتا ہے اُس کی کیفیت بالکل اور ہوتی ہے۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مجھے دودھ پلا رہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھے اپنی محبت اور پیار سے حصہ دے رہی ہے۔ اس کے مقابلہ میں تم نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ دروازہ پر فقیر آیا تو عورت نے اُسے روٹی دے دی۔ اُس نے ایک مانگی تو عورت نے دو دے دیں۔ اُس نے خالی روٹی مانگی مگر عورت نے روٹی کے ساتھ سالن بھی دے دیا۔ مگر فقیر کو وہ مزا کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ایک بچہ کو اپنی ماں کا دودھ پیتے وقت حاصل ہوتا ہے کیونکہ ماں کا اپنے بچہ کو دودھ پلانا محبت کے جذبات سے تعلق رکھتا ہے اور فقیر کے مانگنے پر عورت کا اُسے روٹی یا سالن دے دینا محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ پس وہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور یہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اِسی طرح بے شک فلسفی طبقہ کہتا ہے کہ عبادت و امتثالِ امر میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا پیدا ہونا ہے اور اُس کا احسان اور انعام ہی اس کے تعلق کا اظہار ہے اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملنا بھی اُس کے فضل پر منحصر ہے اور اس کے احکام کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے احسان سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ لیکن جو مزا اُس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جسے پتہ ہو کہ میرا خدا مجھے ملا ہے۔ میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے اور اُس نے اپنی محبت اور پیار کا اظہار فلاں فلاں نعمتوں کے علاوہ براہِ راست بھی کیا ہے تو وہ مزا اُس شخص کو کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ان نشانوں سے محروم ہو۔ اِن دونوں کی تو آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی۔
تعلق بِاللہ کا مفہوم
اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جب سارے انبیاء و صلحاء یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا
ہے تو تعلق کے معنی کیا ہیں؟سو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلق کے معنی عربی زبان میں لٹکنے کے ہوتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں تَعَلَّقَ الْمَرْأَۃَ 7 فلاں شخص فلاں عورت کے ساتھ معلّق ہو گیا۔ یا کبھی ب کے ساتھ بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے یعنی کہتے ہیں تَعَلَّقَ بِالْاِمْرَأَۃِ 8 فلاں عورت کے ساتھ فلاں شخص کا تعلق قائم ہو گیا اور اس کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے یہ ہوتے ہیں کہ مَالَ قَلْبُہٗ اِلَیْھَا9 اُس شخص کا دل شوق اور محبت کے ساتھ اُس عورت کی طرف جھکا۔ اِسی طرح کہتے ہیں تَعَلَّقَ الشَّوْکَ بِالثَّوْبِ۔ اور اس کے معنی ہوتے ہیں نَشَبَ فِیْہِ وَ اسْتَمْسَکَ۔10 کہیں راستہ میں سے گزرتے ہوئے اگر کانٹے پڑے ہوئے ہوں اور تمہارا کپڑا لمبا ہو تو کانٹے تمہارے کپڑوں کے ساتھ چمٹ جائیں گے اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ گھسٹتے جائیں گے اس کو بھی عربی زبان میں تعلق کہتے ہیں۔ گویا جب کوئی چیز اس طرح لٹک جائے کہ کوشش کے ساتھ اُسے ہٹانا پڑے وہ آپ نہ ہٹے تو اُسے تعلق کہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے علق کے معنی محبت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں عَلِقَہٗ وَبِہٖ عُلُوْقًا ھَوَاہُ وَاَحَبَّہٗ یَعْنِیْ عَلِقَہٗ 11 جس کے لفظی معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے ساتھ لٹک گیا۔ اِس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی۔ ہمارے ہاں بھی ایک اِسی قسم کا محاورہ ہے۔ کہتے ہیں فلاں کے ساتھ دل اٹکا ہؤا ہے۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ لٹک جانا اور ایسا تعلق قائم کر لینا کہ کوئی دوسرا پرے کرے تو کرے آپ نہ ہٹے۔ مثلاً اِس وقت میری سوٹی میرے ساتھ پڑی ہے اگر میں علیحدہ ہوں گا تو یہ گر جائے گی لیکن اگر کانٹے لگ جائیں تو میں اُنہیں اُتاروں گا تو وہ اُتریں گے یا کوئی اور شخص اُنہیں ہٹائے گا تو وہ ہٹیں گے خودبخود علیحدہ نہیں ہوں گے۔ پس تعلق ایسے گہرے ربط کو کہتے ہیں جو آپ ہی آپ نہیں ٹوٹ سکتا اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں۔ پس تعلق بِاللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ سے لٹک جانا اور اُس سے نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کرلینا۔
قرآن کریم میں بھی اس تعلق کا ذکر آتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور بہت بڑی نعمتوں میں سے قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ12 خداتعالیٰ نے انسان کو عَلَق سے پیدا کیا ہے یا یہ کہ اُس نے انسان میں عَلَق کا مادہ پیدا کیا ہے۔ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ13 کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اُس کو اُس چیز سے پیدا کیا گیا ہے لیکن کبھی اِس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس کی فطرت میں ہی داخل ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ انسان کے متعلق فرماتا ہے کہ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ 14 اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی مٹی منبع تھی انسان کی پیدائش کا۔ لیکن دوسری جگہ آتا ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ 15اُس نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس کی طبیعت میں جلدی کا مادہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اُس نے انسان کی فطرت میں عَلَق کا مادہ رکھا ہے اور یہ معنی بھی ہیں کہ عَلَق کی حالت سے ترقی دے کر اُسے پیدا کیا ہے کیونکہ عَلَق کے معنی اُس خون کے بھی ہوتے ہیں جو ماں کے رحم میں نُطفہ سے ترقی کر کے پیدا ہوتا ہے اور رحم سے چمٹا ہؤا ہوتا ہے اور پھر بچہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پس ظاہری معنی اس کے ایک یہ بھی ہیں کہ اُس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔
یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خَلَقَ الْاِنْسَانَ فرمایا ہے انسان کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں عربی زبان کے لحاظ سے مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے مُلک کی زبان میں انسان کا ترجمہ آدمی کیا جاتا ہے اور جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد صرف مرد لئے جاتے ہیں عورتیں مراد نہیں لی جاتیں۔ عورتوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ جب آدمی کا لفظ استعمال کریں گی تو اپنے آپ کو نکال لیں گی اور صرف مردوں کو آدمی قرار دیں گی۔ بعض عورتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ اُنہیں خواہ کتنا بھی سمجھاؤ آخر وہ یہی کہتی ہیں کہ ''آخر مرد آدمی ہیں تو اُنہیں ہم آدمی ہی کہیں گی''۔ پس یاد رکھو کہ یہاں پنجابی زبان کے لحاظ سے انسان یا آدمی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ عربی انسان ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ہم نے مرد اور عورت دونوں کو عَلَق سے پیدا کیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان عَلَقسے پیدا ہوا ہے؟ ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ مرد عورت ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور اُن کے ماں باپ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور آخر یہ سلسلہ آدم پر جا کر ختم ہو گیا جس کے ماں باپ کوئی نہ تھے مگر خدا تعالیٰ نے تو خَلَقَ الْاِنْسَانَ میں الْاِنْسَانَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سارے انسان۔ اب جبکہ سارے انسان عَلَقسے پیدا ہوئے ہیں تو اگر ہم یہ سلسلہ آدم پر ختم کر دیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم انسان تھے یا نہیں؟ حوّا انسان تھیں یا نہیں؟ اگر تھیں تو پھر اُن کی مائیں اور اُن کے باپ بھی ماننے چاہئیں۔ ورنہ یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر اُن کی مائیں تھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ اگر کہو کہ اپنی ماؤں سے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ غرض اس طرح اس سلسلہ کو چاہے دس کروڑ سال تک لے جاؤ تمہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نسلِ انسانی کا آغاز جس آدم و حوّا سے ہوا وہ عَلَق کے بغیر پیدا ہوئے تھے اور یا پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس تسلسل میں عَلَق دو معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔ آدم تک اور معنی ہیں اور آدم و حوّا کے متعلق یا جو بھی پہلا جوڑا تھا اس کے متعلق کچھ اور معنے ہیں اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ رحمِ مادر میں جمے ہوئے خون سے انسان کو پیدا کیا اور دوسرے یہ کہ انسان کو اسی طرح پیدا کیا کہ اُس کی فطرت میں محبت الٰہی رکھی گئی۔ تمام انسانوں کیلئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ جمے ہوئے خون سے پیدا ہوئے لیکن انسانِ اوّل یا پہلے جوڑے کے متعلق اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں تعلق باللہ کے مادہ کے ساتھ پیدا کیا۔ پس یہ آیت اپنے ایک مفہوم کے لحاظ سے آدم کی تمام نسل پر چسپاں ہوتی ہے اور دوسرے مفہوم کی رو سے پہلے جوڑے اور اُس کی نسل سب پر چسپاں ہوتی ہے۔ اور نسل انسانی کا کوئی نکاح نہیں جس پر یہ آیت چسپاں نہ ہو سکتی ہو۔ گویا آدمِ اوّل کی ماں خدا تھا جس کی محبت اُس کے دل میں پیدا کی گئی تھی۔ ایک تیسرے معنی بھی اِس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عَلَق کا تعلق انسان سے نہیں خدا تعالیٰ سے قرار دیا جائے اور معنی یہ لئے جائیں کہ انسان کی پیدائش کی وجہ وہ علاقہ تھا جو اُلوہیت کو انسانیت سے تھا۔ یعنی اُلوہیت ایک ایسے وجود کو چاہتی تھی جو اُس کی صفات کو ظاہر کرے۔ پس اُلوہیت کی یہ تڑپ انسان کے پیدا کرنے کا موجب ہوئی اور گویا خدا تعالیٰ انسان کے لئے بمنزلہ ماں بن گیا اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ ماں کو بچہ سے اور بچہ کو ماں سے شدید تعلق ہوتا ہے۔ قرآن اور احادیث سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تعلق ماں سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس آدمِ اوّل تک تو سب لوگ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے لیکن آگے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آدم و حوّا خدا سے پیدا ہوئے۔ یہ نہیں کہ آدم خدا میں سے نکلا بلکہ یہ کہ اُس کے پیدا کرنے کے عام ذرائع ذاتِ باری میں مرکوز ہوگئے۔ اگر خدا اپنی تقدیر خاص سے آدم کو پیدا نہ کرتا تو نسل انسانی کا سلسلہ اس دنیا میں جاری نہ ہوتا۔ پس بعد میں آنے والے انسان اپنی ماؤں سے پیدا ہوئے اور آدم و حوّا ذاتِ باری سے۔ یعنی كُنْ فَيَكُوْنُ16سے پیدا ہوئے۔
عَلَق کے دوسرے معنی کُلُّ مَا عُلِّقَ17 کے ہیں یعنی جو چیز لٹکائی جائے اُسے عَلَق کہتے ہیں اور عَلَق کے معنی اَلطِّیْنُ الَّذِیْ یُعَلَّقُ بِالْیَدِ18کے بھی ہیں یعنی وہ گُندھی ہوئی مٹی جس میں اتنی چپک اور لزوجت پیدا ہو جائے کہ اگر اُسے ہاتھ لگاؤ تو وہ ہاتھوں سے چمٹ جائے۔ بعض مٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ہاتھوں سے نہیں چمٹتیں لیکن جب ایسی مٹی ہو جو ہاتھوں سے چمٹ جائے تو اُسے عَلَقکہیں گے۔ اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ طِیْن ہی سے انسان پیدا ہؤا ہے۔ یوں تو ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جس میں پانی زیادہ ہو اور وہ ہاتھوں سے نہ چمٹے یا ایسی طِیْن بھی ہو سکتی ہے جو خمیر کی طرح اُبھری ہوئی ہو لیکن انسان ایسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں چمٹنے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ گوندھنے والے یا بنانے والے کے ہاتھوں سے چپک جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا یہ قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جا یا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے۔ یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے اور یہی طین سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے۔ یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اُس کے دل میں گد گدیاں پیدا کرنے لگتا ہے۔ بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں یہ میرا گڈا ہے اور وہ تیری گڑیا ہے۔ آؤ ہم گڈے گڑیا کا بیاہ رچائیں۔ میرے گڈے کے ساتھ تیری گڑیا کی شادی ہوگی اور فلاں کے گڈے کی شادی کرتی ہیں اور بڑی خوشی مناتی ہیں کہ ہمارے گڈے کی شادی ہوگئی یا ہماری گڑیا کا فلاں کے گڈے سے بیاہ ہو گیا۔ پھر وہ ماؤں کی نقلیں کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اُٹھائے پھرتی ہیں، اُنہیں پیار کرتی ہیں اور جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دُودھ پلاتی ہیں اسی طرح وہ اُن کو اپنے سینوں سے لگائے رکھتی ہیں کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے۔ اِسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو جب تک بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں لیکن جب بیاہ ہو جائے تو کہتے ہیں ماں تو جائے چولہے میں ہماری بیوی جو ہے وہ ایسی ہے اور ایسی ہے اور دن رات اُس کی تعریفوں میں گزر جاتے ہیں تو اللہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ اِس کے بغیر اُس کے دل کو تسلّی نہیں ہوتی۔
پھر عَلَق کے معنی خصومت اور جھگڑے کے بھی ہوتے ہیں لیکن میرے مضمون کے ساتھ ان معنوں کا تعلق نہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے انسان کے اندر جھگڑنے کا مادہ رکھا ہے۔ اِسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 19 جھگڑا بھی انسان تبھی کرتا ہے جب وہ کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ اس لحاظ سے اس میں بھی تعلق کا مفہوم پایا جاتا ہے اور وہ تضاد جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دور ہو جاتا ہے۔
غرض جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عَلَق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف انسان خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے بلکہ یہ کہ ہم نے خود انسان کے اندر محبت کا مادہ پیدا کیا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کسبی ہوتی ہیں اور بعض چیزیں کسبی نہیں بلکہ فطرتی ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کی محبت بھی کوئی کسبی چیز نہیں بلکہ وہ ایک فطرتی مادہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ جب تم ان ساری چیزوں پر غور کرو گے تو آخر تم اسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہوسکتی ہے۔
پس اسلام تعلق بِاللہ کو نہ صرف ممکن بلکہ انسان کی اغراضِ پیدائش میں سے قرار دیتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے۔ عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلّٰہِ اَشَدُّ فَرْحًا بِتَوْبَۃِ اَحَدِکُمْ مِنْ اَحَدِکُمْ بِضَالَّتِہٖ اِذَا وَجَدَھَا20یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ خدا اپنے بندہ کی توبہ پر اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری سفر میں گم ہو جائے اور پھر وہ اُسے مل جائے۔ عرب جیسے مُلک میں سفر کی حالت میں اگر کسی شخص کی سواری گم ہو جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ میلوں میل پر ایسے شخص کو نہ پانی مل سکتا ہے نہ کھانے کیلئے کوئی چیز مل سکتی ہے اور نہ کوئی اَور ایسا شخص مل سکتا ہے جو اُسے منزلِ مقصود پر پہنچنے میں مدد دے۔ ایسی حالت میں اگر اُس کی گمشدہ سواری اُسے مل جائے تو جو خوشی ایسے شخص کو ہو سکتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کا کوئی بندہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہے۔ دیکھو اس میں بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو خداتعالیٰ کی طرف رجوع ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ ایک زائد بات بھی اس میں بتائی گئی ہے اور وہ زائد بات یہ ہے کہ ضَالَّۃٌ 21 گمشدہ سواری کو کہتے ہیں۔ اور بندے کے توبہ کی مثال گمشدہ سواری سے دینا اپنے اندر یہ حکمت رکھتا ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی سواری ہے جس سے وہ سفر کرتا ہے یعنی اپنی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے۔ اگر یہ حکمت مدنظر نہ ہوتی تو گمشدہ سواری کی مثال دینے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ خداتعالیٰ کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کسی شخص کو اپنی کھوئی ہوئی دولت کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔ مثال کے لئے سواری کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سواری ہے۔ سواری کے معنی اُس چیز کے ہوتے ہیں جس کے ذریعہ سے اُس کا سوار اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے۔ پس جس طرح گدھے اور گھوڑے اور اونٹ کا انسان محتاج ہے اور وہ اُن پر سواری کرتا ہے تا کہ وہ جلد منزلِ مقصود پر پہنچ سکے۔ اِسی طرح خدا بھی اپنے ظہور کے لئے کسی نیک بندے کا محتاج ہوتا ہے۔ وہ انسان اونٹنی بنتا ہے اور خدا اس پر سوار ہوتا ہے اور جس طرح اُسی سواری سے سفر اچھا ہوتا ہے جو سِدھی ہوئی ہو اِسی طرح انسان بھی وہی کام کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سِدھ جائے اور اُس کے اشاروں کو سمجھنے لگے۔ گویا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے کی مثال ایک سواری کی سی ہے جو خدا تعالیٰ کے کام آتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو اس دنیا سے خداتعالیٰ روشناس بھی نہ ہو۔ تمثیلی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اپنے آپ کو اس بات کا محتاج قرار دیا ہے کہ انسان اُس کی سواری بنے تا کہ دنیا میں اُس کا ظہور ہو اور اُس کی صفات اس عالَم میں ظاہر ہوں۔
غرض قرآن کریم و حدیث سے ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش تعلق بِاللہ کے لئے ہے اور یہ کہ تعلق بِاللہ دونوں طرح کا ہوتا ہے۔ بندے کا خدا سے اور خدا کا بندے سے۔ جیسا کہ حدیث بالا میں توبہ پر خدا کی خوشی کا ذکر ہے اور انسان کو خداتعالیٰ کی سواری قرار دیا گیاہے۔ نیز اُس حدیث میں بھی اس کا ذکر آتا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے۔ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے22 اور یہ مقام جس کا ذکر کیا گیا ہے یعنی خداتعالیٰ سے انسان کا ایسا گہرا تعلق قائم ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خداتعالیٰ کا اپنے بندے کو اس قدر قریب کرنا کہ اُس کے کان اور اُس کی آنکھیں اور اُس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں اُس کے نہ رہیں بلکہ خداتعالیٰ کے بن جائیں۔ یہ خالی اطاعت و امتثال اور انعام نہیں ہو سکتے کیونکہ اِن امور کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ اطاعت ایک فلسفیانہ چیز ہے اور خداتعالیٰ کا ملنا ایک حِسّیاتی چیز ہے۔ اطاعت اور امتثال محض دماغی کیفیات سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور خداتعالیٰ کا اس قدر قریب ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خدا اُس کے ہاتھ پاؤں بن جائے یہ دل کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور ظاہر ہے کہ حِسّ و جذبات ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق دائمی ہوتا ہے اور دماغ ایسی چیز ہے جس کا تعلق عارضی ہوتا ہے تم جاگ رہے ہو تو مکھی جب تمہارے جسم پر بیٹھنے کے لئے آتی ہے تو تم ہاتھ مارتے ہو تا کہ مکھی تم سے دور ہو جائے لیکن سوتے ہوئے اگر مکھی تمہارے قریب آتی ہے تو تمہیں رعشہ کا مرض ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ نہیں ہوتا کہ سونے کی حالت میں اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کو ہٹانے کی کوشش کرو۔ یا دشمن آتا ہے اور تم پر حملہ کرتا ہے اور پھر تم سو جاتے ہو تو یہ کہ تم سوتے سوتے یہ سوچتے رہو کہ اگر پھر دشمن تم پر حملہ کر دے تو تم اس کا کس طرح مقابلہ کرو گے۔ بلکہ اگر تمہارے سوتے ہوئے گھر میں کوئی دشمن آ جائے اور تمہاری بیوی یا بیٹا اُس کا مقابلہ کر کے اُسے بھگا دیں تو تم بعد میں شکوہ کرتے ہو اپنے بیٹے سے یا شکوہ کرتے ہو اپنی بیوی سے کہ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں ورنہ مجھے بھی پتہ لگ جاتا اور میں بھی تمہاری مدد کرتا۔ تو عقلی تعلق صرف جاگتے ہوئے چلتا ہے اور سونے کی حالت میں وہ اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ صرف تحتَ الشعور ہی میں اُس تعلق کا احساس رہتا ہے اور وہ بھی بہت محدود رنگ میں لیکن جذباتی اور قلبی تعلق ایسا نمایاں ہوتا ہے کہ جاگتے ہوئے بھی اُس کا خیال رہتا ہے اور سوتے ہوئے بھی اُسی کا خیال رہتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو ماں سوتے سوتے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹائے رہتی ہے اور سونے کی حالت میں ہی کبھی وہ اسے پیار کرتی ہے کبھی پچکارتی ہے اور کبھی اُسے سینہ سے لگاتی ہے۔ اگر اُسی حالت میں کوئی چور اُس کا مال اُٹھا کر لے جائے تو اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کیونکہ مال کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں۔ لیکن بچہ کی محبت سونے کی حالت میں بھی قائم رہتی ہے۔ اِدھر ماں بچہ کو پیار کر رہی ہوتی ہے اور بچہ اپنی ماں کی چھاتیاں منہ میں ڈالے چوس رہا ہوتا ہے اور وہ دونوں سو رہے ہوتے ہیں تو جذبات ہر وقت قائم رہتے ہیں۔ جب یہ پیدا ہو جائیں تو اُن کے لئے جاگنا اور سونا برابر ہوتا ہے لیکن دماغی کیفیتیں جاگتے وقت نمایاں ہوتی ہیں اور سوتے وقت غائب ہو جاتی ہیں اور جب جگاؤ تو اُن کیفیات کو دماغ میں مستحضر کرنے کے لئے ایک فاصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ماں کی آنکھ کھلے تو بچہ کی محبت آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی آ جائے گی لیکن گھر میں سانپ نکل آئے اور کسی سوئے ہوئے آدمی کو جگایا جائے تو آنکھ کھلنے پر فوری طور پر اُس کا ذہن خطرہ کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ اُسے درمیان کا فاصلہ طَے کرنے کے لئے کچھ وقفہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جذبات میں ایک تسلسل چلتا ہے جو سوتے جاگتے ہر وقت قائم رہتا ہے۔
اس تعلق کے اظہار کے لئے عربی زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں مثلاً رغبت، شوق، اُنس، وُدْ، محبت، خُلّۃ، عشق۔ اِن کے سوا بعض اَور بھی الفاظ ہیں مگر یہ چند موٹے موٹے الفاظ ہیں جو میں نے چن لئے ہیں۔
شوق اَور عشق
شوق اور عشق کا لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہؤا، نہ بندے کے خدا سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور نہ خدا کے
بندے سے تعلق کے متعلق استعمال ہؤا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے شوق میں وسعت کا مادّہ نہیں پایا جاتا لیکن جو شوق کے معنی ہیں وہ رغبت کے معنوں میں بھی آ جاتے ہیں اور پھر رغبت کے لفظ میں عربی زبان کے لحاظ سے وسعت بھی پائی جاتی ہے چونکہ جس شخص سے بھی خدا تعالیٰ کو محبت ہوگی لازماً وہ محبت انسانی محبت سے زیادہ ہوگی اور جس شخص کے دل میں بھی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا خیال پیدا ہوگا وہ یہی چاہے گا کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کروں۔ یہ نہیں کہ وہ کہے گا میں اتنی محبت کروں گا جتنی مجھے مثلاً اپنی بکری سے ہے یا جتنی محبت مجھے اپنے گھوڑے سے ہے اور شوق میں وسعت نہیں پاتی جاتی اِس لئے نہ بندے کے اُس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے اس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ شوق کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ چیز ابھی ملی نہیں جس کی ہمارے دل میں خواہش پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے لحاظ سے خداتعالیٰ کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا۔ ورنہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کہنا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کو بھی بعض چیزوں کی خواہش ہوتی ہے مگر وہ اُسے ملتی نہیں۔ اسی طرح عشق کا لفظ بھی نہ قرآن کریم میں استعمال ہؤا ہے اور نہ جہاں تک مجھے علم ہے حدیثوں میں استعمال ہوا ہے۔ نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جو بندے کا خدا سے ہوتا ہے اور نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جوخدا کا اپنے بندے سے ہوتا ہے۔ حالانکہ عشق بڑی شدید محبت کو کہتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ نہایت شدید محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پھر بھی خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم مجھ سے عشق کرو اور نہ یہ کہتا ہے کہ فلاں بندے کو مجھ سے عشق تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنی لغت کی وضع کے لحاظ سے کچھ پسندیدہ معنے نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفیاء نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور میں جو تردید کر رہا ہوں خود میرے شعروںمیں بھی کئی جگہ عشق کا لفظ آیا ہے مگر وہ استعمال اُردو شاعری کے لحاظ سے ہے بحیثیت عربی دان ہونے کے نہیں۔ عربی میں اس لفظ کا استعمال خدا تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایسی محبت ہو جو انسان کو ہلاکت تک پہنچا دے اور یہ بات ایسی ہے جو نہ اُس انسان کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کر رہا ہو اور نہ خدا تعالیٰ کے متعلق کہی جا سکتی ہے جو اپنے کسی بندے سے محبت کر رہا ہو۔ خداتعالیٰ جو منبعِ حیات ہے اُس کے لئے اگر کوئی شخص شدید محبت رکھے گا تو اُس کی محبت بڑھے گی اور ترقی کرے گی اور اُسے ایک نئی زندگی عطا ہوگی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی محبت اُسے ہلاک کر دے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کی اُس محبت پر بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ تو خود منبع حیات ہے اور جو فنا نہیں ہو سکتا اُس کے متعلق یہ کہنا کہ محبت اُسے ہلاکت تک پہنچا دے گی بالکل غلط ہوگا۔ پس چونکہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس سے عقل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ایسی محبت کرنے والا ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور یہ چیزیں خداتعالیٰ کی محبت میں انسان کے اندر پیدا نہیں ہوتیں اور نہ خدا تعالیٰ کی اُس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے۔ اِس لئے نہ قرآن میں اور نہ کسی حدیث صحیح میں بندے اور خدا کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ ہمارے مُلک میں عشق کا لفظ انتہائی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن اور حدیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اور اِس کی وجہ میں نے بتا دی ہے کہ عربی لغت کے لحاظ سے عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جو ہلاکت اور بربادی تک پہنچا دے۔ پس گو عام محاورہ کے لحاظ سے ہم اپنی زبان میں کبھی کہہ بھی دیتے ہیں فلاں شخص خداتعالیٰ سے عشق رکھتا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ کوئی انسان عقل صحیح سے کام لیتے ہوئے خداتعالیٰ سے عشق کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے عشق کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتی ہے ہلاکت اور بربادی تک لے جاتی نہیں۔
اب باقی رہ گئے رغبت، اُنس، وُدْ، محبت اور خُلّۃ کے الفاظ۔ یہ الفاظ کسی جگہ پر بندے کے خدا سے تعلق کی نسبت اور کسی جگہ پر خدا تعالیٰ کے بندے سے تعلق کی نسبت قرآن و حدیث میں استعمال کئے گئے ہیں۔ آگے چل کر میں بیان کروں گا کہ اِن مختلف الفاظ میں کیا حکمت ہے اور ہر لفظ محبت کے کس رنگ یا کس درجہ کو ظاہر کرتا ہے۔
رغبت
سب سے پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ رغبت کے عربی زبان میں کیا معنی ہیں رَغِبَہٗ کے معنی ہوتے ہیں اَرَادَہٗ بِالْحِرْصِ عَلَیْہِ وَ اَحَبَّہٗ 23 اُس نے ارادہ
کیا حرص کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ایسی محبت کے ساتھ جس میں وسعت پائی جاتی ہے۔ گویا جب ہم کسی کے متعلق یہ کہیں کہ وہ کسی سے رغبت رکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس سے محبت رکھتا ہے۔ اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس سے ملے۔ اُس کی چاہت اُس کے دل میں پائی جاتی ہے اور چاہت بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی وسیع ہے۔ اب اُردو کے لحاظ سے تو لوگ کہیں گے کہ خوب مضمون ہے جو اِس چھوٹے سے لفظ کے اندر آگیا۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے محبت کا یہ سب سے چھوٹا مضمون ہے جو اس لفظ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔
غرض رغبت کے معنی ہیں ملاقات کا ارادہ کرنا اور ارادہ بھی کسی اور غرض کے لئے نہ ہو بلکہ محض پیار کے لئے ہو اور وہ ارادہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ بہت تیز ہو۔
پھر رَغِبَ اِلَیْہِ کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ اِبْتَھَلَ24یعنی عجز کرنا اور بہت ہی منکسرانہ طور پر اخلاص اور تضرع سے دعا کرنا۔ گویا رغبت کے یہ معنی ہوئے کہ مومنوں کا اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ عجز و انکسار سے اُس کے حضور دعائیں کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی مومنوں کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا25 مؤمن بندے ہمیں عجز اور انکسار کے ساتھ پکارتے ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں ہماری شدید محبت ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کا محب ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ اور وہ ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ عجز اور انکسار کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ26 ہم اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہیں۔ پہلے تھی خدا کی گواہی کہ دنیا میں میرے ایسے بندے موجود ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور محبت بھی تیز اور محبت بھی معرفت والی اور عجز اور انکسار والی۔ اب فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اُنہیں کہا جائے کہ تم کون ہو؟ تو وہ دھڑلّے سے چیلنج کرتے ہیں لوگوں کو، اور کہتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں۔ جب لوگ اُن کو اپنی طرف بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دنیا میں مال دیں گے۔ بڑی بڑی نعمتیں دیں گے تو وہ جواب میں کہتے ہیں تم اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھو ہمارا محبوب تو وہ بیٹھا ہے۔بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اِس قسم کا دعویٰ کرنا گستاخی اور بے ادبی ہے۔ حالانکہ یہ خیال مذہب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے۔ قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جوشیلے احمدی تھے۔ میرا خیال ہے وہ اہلحدیث رہ چکے تھے کیونکہ اُن کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی۔ وہ ایک دفعہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں خداتعالیٰ کی خشیت کی باتیں شروع ہو گئیں۔ کسی شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت بڑی ہے ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں پتہ نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہماری زکوٰۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ یہ باتیں سنتے ہی اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں؟ اُس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں۔ حافظ محمد صاحب کہنے لگے اچھا اگر یہ بات ہے تو آج سے میں نے تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی۔ باقیوں نے کہا حافظ صاحب! اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت ہی بلند ہے۔ کہنے لگے اچھا پھر تم سب کے پیچھے نماز بند۔ جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے۔ غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی۔ جب پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں۔ آخر جب فساد بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں مگر یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ اُنہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے۔ ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے۔ جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے۔ مگر یہ کہ مومن ہونے سے ہی انکار کر دے یہ غلط طریق ہے۔ پس مسئلہ اُن کا ٹھیک ہے لیکن فعل اُن کا غلط ہے۔ انہیں اپنے دوستوں کے پیچھے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ صوفیاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو ٹٹولتا ہوں تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُس میں ایمان پایا جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ مومن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوْنَ۔ ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں۔ پس مومنوں کو سب سے پہلے اپنے آپ پر اعتبار کرنا چاہئے۔ یہ اَور بات ہے کہ وہ اپنے نفس میں کمزوریاں محسوس کریں اور سمجھیں کہ ابھی اُنہیں اَور زیادہ ترقی کی ضرورت ہے مگر اِس کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو بدلیں۔ اُس کی اصلاح کریں اور کمزوریوں پر غالب آنے کی کوشش کریں۔ اِسی طرح دوسروں سے بھی کہیں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں مزید ترقیات عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالے لیکن جب واقع میں اُن کی سمجھ میں آگیا کہ خداتعالیٰ ہے اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اُن کا فرض ہے تو اُن کے مؤمن ہونے میں کیا شُبہ رہا۔
اِسی طرح سورۃ قلم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن کہتے ہیں اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ 27 ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رغبت رکھتے ہیں۔
مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی ایک پُرانی لغت کی کتاب ہے علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ اَصْلُ الرَّغْبَۃِ اَلسَّعَۃُ فِی الشَّيْ ءِ۔28 یعنی رغبت کے اصل معنی کسی چیز میں وُسعت پیدا ہو جانے کے ہیں یُقَالُ رَغُبَ الشَّيْءُ اتَّسَعَ۔29 عرب کہتے ہیں فلاں چیز رغیب ہوگئی یعنی فلاں چیز بہت وسیع ہوگئی30 اور کہتے ہیں حَوْضٌ رَغِیْبٌ31 فلاں حوض بڑا وسیع ہے اور کہتے ہیں فَرَسٌ رَغِیْبُ الْعَدَدِ فلاں گھوڑا بڑے لمبے قدم مار کر چلتا ہے۔ گویا عربی میں رغبت کے اصل معنی وسعت کے ہیں۔ پھر کہتے ہیں اَلرَّغْبَۃُ اَلسَّعَۃُ فِی الْاِرَادَۃِ۔32 ارادہ کی وسعت پر بھی رغبت کا لفظ بولا جاتا ہے اور رَغِبَ فِیْہِ وَاِلَیْہِ کے معنی ہیں یَقْتَضِی الْحِرْصَ عَلَیْہِ۔33 وہ شدتِ حرص کے ساتھ اس چیز کو طلب کرتا ہے۔ گویا کسی چیز کی طلب کی وُسعت اور اس کے حصول کے لئے خواہش کی شدت کو رغبت کہا جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کی رغبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ملنے کی زبردست اور وسیع خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو جائے۔
دوسرا لفظ اُنس ہے۔ اَنِسَ یَأْنَسُ کے معنی ہوتے ہیں اَلِفَہٗ 34 اُس چیز سے اُلفت ہوگئی وَسَکَنَ قَلْبُہٗ بِہٖ35 اور اُس چیز کے ملنے سے دل کو تسکین ہوگئی گویا اُنس کے معنی ہیں وہ چیز جس کی جستجو تھی مل جائے اور اُس کے ملنے سے دل کی گھبراہٹ دور ہو جائے۔ وَلَمْ یَنْفَرْمِنْہُ 36 اور جس کے پاس آنے سے وحشت پیدا نہ ہو۔ جیسے اگر کوئی غیر آ کر بیٹھ جائے تو انسان چاہتا ہے کہ وہ جلدی اُٹھ جائے لیکن اگر کوئی بے تکلف دوست آ بیٹھے یا بیوی کام کرتے ہوئے آجائے یا بچہ ملنے کے لئے آ جائے اور تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو انسان کہتا ہے کہ ابھی کچھ اور بیٹھو اتنی جلدی کیوں چلے ہو۔ یہ اُنس کی علامت ہوتی ہے لیکن جس سے وحشت ہوتی ہے انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ جلدی علیحدہ ہو جائے۔ اِسی لئے لغت میں لکھا ہے۔ اَلْاُنْسُ ضِدُّ الْوَحْشَۃِ۔37 اُنس وحشت کی ضد کو کہتے ہیں۔ پھر لکھا ہے اِلْاِنْسُ خِلَافَ الْجِنِّ۔38 اِنس جن کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ وَالْاُنْسُ خِلَافَ النُّفُوْرِ 39 اور اُنس، نفور کے خلاف چیز ہے۔ کہتے ہیں مجھے فلاں سے اُنس ہے یعنی مجھے اُس سے نفرت نہیں۔ وَالْاِنْسِیُّ مَنْسُوْبٌ اِلَی الْاُنْسِ یُقَالُ ذٰلِکَ لِمَنْ کَثُرَاُنْسُہٗ40 اور اِنْسِیٌّ کے معنی ہوتے ہیں انسانوں سے تعلق رکھنے والی چیز خصوصاً جس چیز کا زیادہ اُنس ہو یا جو چیز زیادہ اُنس کرے اُسے اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِکُلِّ مَایُوْنَسُ بِہٖ41 اور جس کے ساتھ تعلق ہو اُسے بھی اِنْسِیٌّ کہتے ہیں۔ وَلِھٰذَا قِیْلَ اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ لِلْجَانِبِ الَّذِیْ یَلِی الرَّاکِب42 اسی لئے گھوڑے کی وہ جانب جو سوار کی طرف ہو اُسے اِنْسِیُّ الدَّابَّۃِ کہیں گے۔ مثلاً اِس وقت میرے سامنے لاؤڈ سپیکر پڑا ہے اِس کا ایک حصہ میری طرف ہے اور دوسرا حصہ آپ لوگوں کی طرف۔ یہ حصہ میرا اِنْسِی ہے اور وہ حصہ آپ لوگوں کا اِنْسِی ہے۔ گویا جو حصہ کسی کی طرف جھکتا ہو اور اس سے ملتا ہو اُسے اِنْسِی کہیں گے وَالْاِنْسِیُّ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَایَلِی الْاِنْسَان43 اور ہر وہ چیز جس کا انسان کی طرف منہ ہوتا ہے اُسے اِنْسِی کہتے ہیں۔
اس تشریح سے ظاہر ہے کہ جہاں رغبت کے معنی وُسعتِ تعلق کے ہیں وہاں اُنس کے معنی صرف رغبت کے نہیں بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ چیز قریب بھی آ گئی ہے اور اُس نے اپنا منہ اِدھر کر لیا ہے۔ پس اُنس دل کی تسلی اور قرب پر دلالت کرتا ہے۔ خالی شوق سے نہ دل کی تسلی ہوتی ہے اور نہ اپنے محبوب کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح رغبت صرف یہ دلالت کرتی تھی کہ مجھے اُس کے ساتھ محبت ہے لیکن اُنس اس پر دلالت کرتا ہے کہ میری محبت نے اُس کا منہ بھی میری طرف پھیر دیا ہے اور چونکہ اُس کا منہ میری طرف ہو گیا ہے اِس لئے میرے دل کو تسلی ہوگئی ہے اور گھبراہٹ جاتی رہی ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جا رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک آگ دیکھی اور اپنے اہل سے کہا کہ اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارًا44 ایک آگ کو دیکھ کر میرے دل نے تسلی پائی ہے۔ چونکہ اٰنَسَ کے اصلی معنی قرب اور تسلی کے ہیں۔ ایناس دیکھنے اور سننے کے معنوں میں بھی آتا ہے کیونکہ دیکھی اور سنی وہی چیز جاتی ہے جو قریب ہو جاتی ہے۔ پس اٰنَسْتُ ناراً کے معنی یہ ہیں کہ مجھے آگ کی تلاش تھی اب ایک قسم کی آگ مجھے نظر آئی ہے اور میرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ میری ضرورت پوری ہو گئی۔
تیسرا لفظ وُدْ ہے۔ وُدْ اُس محبت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تمنّی بھی ہو یعنی صرف محبت ہی نہ ہو بلکہ اُس کے ساتھ تمنّی اور خواہش بھی پائی جاتی ہو کہ وہ چیز مجھے مل جائے۔ گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ لَو لگ جائے۔ یہ لفظ وَدْ کی شکل میں بھی استعمال ہوتا ہے، وِدْ کی شکل میں بھی اور وُدْ کی شکل میں بھی۔ اور تینوں شکلوں میں محبت کے معنوں میں ہی آتا ہے۔ اِس کے معنی محبت کے بھی ہیں اور بہت محبت کے بھی ہیں۔ اِس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وَدْ عربی زبان میں وَتَدٌ45 یعنی میخ کو بھی کہتے ہیں۔ اِس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ سے جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ گویا وُدْ ایسی محبت کا نام ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑ دیتی ہے جیسے کِیلا گاڑ کر جانور کو باندھ دیتے ہیں اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے۔ رغبت کے معنی یہ تھے کہ میرے دل میں شوق پیدا ہو گیا ہے اگلے کا پتہ نہیں کہ اُس کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہؤا ہے یا نہیں۔ اُنس کے یہ معنی تھے کہ میرے دل میں بھی شوق پیدا ہو گیا ہے اور اگلے کے دل پر بھی میری محبت کا اتنا اثر ہو چکا ہے کہ اُس نے اپنا منہ میری طرف کر لیا ہے اور وُدْ کے یہ معنی ہیں کہ صرف اُس نے منہ ہی نہیں کیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے۔ پس وُدْ وہ محبت ہے جو گہرا اور مضبوط تعلق پیدا کر دے اور ایک کو دوسرے سے وابستہ کر دے۔
رغبت اور اُنس کے الفاظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں آتے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب ملنے کی خواہش کرے گا تو وہ پوری بھی ہو جائے گی اور رغبت کا لفظ خواہش کے پورا ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اِسی طرح اُنس کا لفظ بھی اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہوتا کیونکہ اُنس کے یہ معنی ہیں کہ محبت ہے اور دیدار بھی ہو گیا لیکن اُسے قریب نہیں لاسکا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں بندے کے الگ رہنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے خود اپنے قرب میں کھینچ لیتا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پس چونکہ خدا اپنے مقربین کو خود اپنی طرف کھینچتا ہے اِس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق اُنس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ اُنس صرف بندے کے اندر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں جو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں اُن میں سے ایک بت کا نام وُدْ 46 بھی آیا ہے۔ کیونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ اِس بُت کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے کیلے کا زمین سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح مؤمنوں کے متعلق فرماتا ہے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا 47 خدا اُن کے لئے وُدْ پیدا کر دے گا قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کو چکر دے کر کئی کئی مضامین نکل آتے ہیں۔ یہاں بھی اسی قسم کا طریق اختیار کیا گیا ہے۔ اِس جگہ لَهُمْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں اُن کے فائدہ کے لئے کیونکہ لام فائدہ کے لئے آتا ہے مگر یہ کہ کس کس امر کے متعلق وُدْ پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تا کہ جتنے معانی پیدا ہو سکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پیدا ہو جائیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے ایک تو یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے اُن کے دلوں میں وُدْ پیدا کرے گا یعنی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کا جذبہ اُن کے دلوں میں پیدا ہوگا اور وہ مخلوق کی ہمدردی اور اُن کی بہتری اور ترقی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اُن کی خدمت میں مشغول ہو جائیں گے۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر دے گا۔
پھر انسان یہ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو بلکہ خدا بھی اپنی محبت کا اُسے مورد بنا لے اور اُسے اپنے خاص فضلوں میں سے حصہ دے۔ اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نفس میں اُن کی محبت پیدا کر دے گا اور اُن کو اپنی محبت کا مورد بنا لے گا۔
پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں میں اُس کی عزت ہو۔ اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے شہر اور مُلک والوں میں اُسے نیک نامی حاصل ہو۔ انسان کی اس خواہش کو بھی سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا میں پورا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں بھی اُن کی محبت ڈالے گا۔ گویا ہر پہلو کے لحاظ سے اس محبت کو کامل کیا گیا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا سے مجھ کو محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ خدا کواُس سے محبت ہو جائے۔ انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان اُس سے محبت کرنے لگیں اور انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت اُس کے دل میں پیدا ہو جائے اور یہ چاروں محبتیں سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کی آیت کی رُو سے مومنوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ اِن الفاظ کی بجائے صرف اتنا فرماتا کہ میں اُن سے محبت کروں گا تو ایک معنی تو آ جاتے مگر تین معنی رہ جاتے۔ اگر یہ فرماتا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کریں گے اور میں بھی اُن سے محبت کروں گا تو دو معنی آجاتے اور دو رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت دوں گا تو ایک معنی آ جاتے اور تین رہ جاتے۔ اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت بھی دوں گا، اُن کے دلوں میں اپنی محبت بھی پیدا کروں گا اور اپنی محبت کا بھی اُنہیں مورِد بناؤں گا تب بھی تین معنی آ جاتے اور چوتھے معنی جو شفقت علی النّاس سے تعلق رکھتے ہیں وہ رہ جاتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آیت ایک رکھی ہے مگر معنی چاروں کے چاروں اس میں آ گئے ہیں۔ یہ معنی بھی اِس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنی محبت کا مورد بنائے گا۔ یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا کرے گا اور یہ معنی بھی اس میں آ گئے ہیں کہ بنی نوع انسان کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر دے گا یعنی شفقت علی الناس کے لحاظ سے بھی اُنہیں ایک نمونہ بنا دے گا۔ گویا وہ دنیا میں بھی مقبول ہوں گے اور آخرت میں بھی مقبول ہوں گے۔ وہ محبوب ہوں گے بنی نوع انسان کی نگاہ میں اور محبوب ہوں گے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں۔ یہ چار مطالب ایک چھوٹے سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیئے ہیں۔
اِسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ رَبِّيْ رَحِيْمٌ وَّدُوْدٌ 48میرا رَبّ رحیم اور ودُود ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے خدا راغب نہیں ہوتا کیونکہ رغبت میں ناقص محبت ہوتی ہے۔ خدا انیس نہیں ہوتا کیونکہ انیس بھی محبت کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے۔ خدا ودُود ہوتا ہے۔ وَدُوْد کے معنی ہیں بہت محبت کرنے والا۔ گویا خدا یہ بتاتا ہے کہ میں خالی وَادٌّ (وَادِدْ) نہیں بلکہ وَدُوْد ہوں۔ میں بہت محبت کرنے والا نہیں بلکہ بہت بہت محبت کرنے والا ہوں۔
پھرسورۃ بروج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ 49 خدا بڑا غفور اور وَدُود ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے راغب اور اٰنِسْ کا لفظ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا کیونکہ رغبت اور اُنس کمزور یا معمولی تعلق پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تعلق کمزور یا معمولی نہیں ہؤا کرتا۔ بندے کا تعلق تو کمزور ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خداتعالیٰ کا تعلق کمزور ہو جیسے ماں کا تعلق اولاد سے ہمیشہ شدید ہوتا ہے لیکن اولاد اکثر بے پرواہ ہوتی ہے اور کچھ ہی ہوتے ہیں جو اپنی ماں کا حق ادا کرتے ہیں۔ بہرحال خدا تعالیٰ کے متعلق رغبت اور اُنس کے لفظ استعمال نہیں ہوتے۔ صرف وُدْ کا لفظ استعمال ہؤا ہے جو اِن دو سے زیادہ طاقتور ہے اور وُدْ کا بھی صیغہ فاعل استعمال نہیں ہوا۔ صیغہ فعول استعمال ہؤا ہے جو شدت اور وسعت پر دلالت کرتا ہے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ لفظ ناقص ہیں تو انسان کی نسبت کیوں استعمال ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان خود ناقص ہے اور ناقص محبت کر سکتا ہے بلکہ عام طور پر اُس کے دل میں ناقص صورت میں ہی محبت پیدا ہوتی ہے اس لئے انسان کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ خداتعالیٰ کامل ہے اور وہ جب کرے گا کامل محبت ہی کرے گا اس لئے وہ الفاظ جو ناقص محبت پر دلالت کرتے ہیں خداتعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے۔ خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ سے محبت شروع کرے گا اُس کا پہلا درجہ وُدْ سے شروع ہوگا۔ یعنی اگر کسی میں خداتعالیٰ کی طرف رغبت پائی جاتی ہے تو خداتعالیٰ اُس کی محبت کا جواب رغبت کی شکل میں نہیں بلکہ وُدْ کی شکل میں دے گا۔ اِسی طرح اگر کسی شخص میں خدا تعالیٰ کی طرف اُنس پایا جائے گا تو خدا تعالیٰ اُنس کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب نہیں دے گا بلکہ وُدْ کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب دے گا۔ جیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک روپیہ دے اور وہ ایک روپیہ کی بجائے چار روپے دے دے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ کی محبت کا جواب دے گا تو وُدْ کی صورت میں دے گا۔ انسان محبت شروع کرے گا تو رغبت سے شروع کرے گا پھر اُنس کرے گا اور پھر وُدْ کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب بھی اپنی محبت کا اظہار شروع کرے گا تو وُدْ سے شروع کرے گا اور وُدْ کی صورت میں واد ہو کر نہیں وَدُود کی صورت میں محبت کرے گا۔ انسان کی نسبت جو وُدْ کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس میں ایک رنگ کی تربیت پائی جاتی ہے یعنی وُدْ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے ایسا گہرا تعلق ہو جائے کہ وہ اُس کی چیز کہلانے لگ جائے۔ جیسے کہتے ہیں کہ یہ فلاں طویلے 50 کی بکری ہے یہ فلاں طویلے کا گھوڑا ہے۔ وُدْ کا مقام بھی اُس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان خداتعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور جب وہ اُس کی طرف منسوب ہونے لگے تو وہ اُس کی تربیت شروع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تَزَوَّجُوا الْوَلُوْ دَالْوَدُوْدَ فَاِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمْ51 تم ایسی عورتوں سے شادیاں کرو جو بہت بچے جننے والی اور ودُود ہوں۔ کیوں ایسا کرو؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس لئے کہ قیامت کے دن مَیں دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا کہ میری اُمت سب سے زیادہ ہے اور وہ زیادہ تبھی ہو سکتے ہیں۔ جب عورتیں زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہوں اور فخر تبھی کر سکتا ہوں جب وہ بچے اعلیٰ اخلاق اور روحانیت والے ہوں۔ پس تم وَلُوْد عورتوں سے شادیاں کرو جو زیادہ بچے جنیں اور ودُود عورتوں سے شادیاں کرو جو ہر وقت محبت اور پیار سے اولاد کی نگرانی کرنے والیاں ہوں تا کہ قیامت کے دن میں فخر کر سکوں کہ میری اُمت تم سب سے اچھی ہے بلحاظ تعدادِ افراد کے بھی اور بلحاظ تربیت افراد کے بھی۔ اس سے معلوم ہؤا کہ ودُود میں تربیت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر تربیت کے معنی اس میں نہ پائے جاتے ہوں تو قیامت کے دن دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی۔ فخر تو اِسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اُمت محمدیہ کے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو اور اُن کی تربیت بھی اچھی ہو اور وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں۔ غرض وَدُوْداً کے معنی دائمی محبت سے پُر اور گہرا تعلق رکھنے والے کے ہیں جس کا لازمی نتیجہ عمدہ تربیت ہوتی ہے۔
حُبّ
چوتھا لفظ حُبّ ہے۔ اصل میں یہ حَبَبَ، یَحْبِبُ ہے جو مدغم ہو کر حَبَّ یَحِبُّ ہو گیا۔ اِس کے معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے کے یا اپنے اندر لے لینے کے
ہیں۔ انہی معنوں میں اَحَبَّ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ محبت کامل کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ اُس کے دل میں داخل ہو جائے اور وہ اس کے دل میں داخل ہو جائے۔ اس لئے اِسی کیفیت کے لئے حَبَّ یا اَحَبَّ کا لفظ عربی میں استعمال کیا جانے لگا اور یہ لفظ وُدْ سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ وُدْ میں صرف ایک وجود کے دوسرے کے اندر گھسنے کا مفہوم ہے جیسا کہ کِیلا زمین میں گھس گیا لیکن حَبَّ میں دونوں وجودوں کے ایک دوسرے کے اندر گھس جانے کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ نیز اس کے معنوں میں پھولنے اور بڑھنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں گو عربی میں اس کیفیت کے لئے حَبَّ اور اَحَبَّ دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن اسمِ فاعل کے لئے عام طور پر مُحِبّ کا لفظ ہی مستعمل ہے جو اَحَبَّ سے بنا ہے۔
چونکہ حُبّ کے اصل معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے یا اُسے اپنے اندر لے لینے کے ہوتے ہیں اِس لئے بُلبلہ جو پانی میں اُٹھتا ہے اُسے بھی حُبَابٌ کہتے ہیں کیونکہ اُس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے۔ گویا پانی جب ہوا کو اپنے اندر لے لیتا ہے تو وہ حُبَابٌ کہلانے لگتا ہے اور جب اُگنے والے مادہ کو کوئی چھلکا اپنے اندر لے لیتا ہے تو اُسے حَبْ کہتے ہیں کیونکہ پودا اُس میں چھپا ہؤا ہوتا ہے۔ اسی طرح حُبّ عربی زبان میں اُس گھڑے کو بھی کہتے ہیں جس میں چیزیں بھرتے ہیں۔ اب تو ہر جگہ ٹرنکوں وغیرہ کا رواج ہے لیکن پُرانے زمانہ میں گھڑوں میں مختلف چیزیں رکھی جاتی تھیں کسی میں شکر ڈال دی جاتی۔ کسی میں گڑ ڈال دیا جاتا۔ کسی میں دانے ڈال دیئے جاتے۔ کسی میں دالیں وغیرہ رکھ لی جاتیں بلکہ بعض زمینداروں کے گھروں میں تو کپڑے بھی گھڑوں میں ہی رکھے ہوئے ہوتے تھے۔ ایسے گھڑوں کے لئے بھی عربی زبان میں حُبّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی وہ مٹی کے برتن جن میں عورتیں اپنا سامان رکھتی ہیں۔ پس جب وہ جذبہ انسان کے اندر پیدا ہو جو دوسرے کو اپنے دل میں لے لے یا آپ اُس میں گھس جائے تو اُسے حُبّ کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اُردو زبان میں اِس قسم کا کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ہماری زبان میں دو ہی لفظ ہیں یا محبت یا عشق۔ حالانکہ اگر وُدْ کی جگہ محبت بولو تو غلط ہوگا اور اگر اُنس کی جگہ محبت کا لفظ بولو تب بھی غلط ہوگا اور اگر رغبت کو محبت کا مترادف قرار دو تب بھی غلط ہوگا کیونکہ عربی زبان کے لحاظ سے حُبّ اُس جذبہ محبت کا نام ہے جس میں انسان کے اس جذبہ کو اتنی تقویت حاصل ہو جائے کہ جس وجود سے وہ محبت کرتا ہے وہ اس کے دل میں گھس جائے اور یہ اس کے دل میں گھس جائے۔ رغبت کے معنی صرف یہ تھے کہ یہ اُدھر جانا چاہتا ہے لیکن ممکن ہے یہ اُدھر جانا چاہے اور وہ مطلوب وجود اور آگے چلا جائے۔ اُنس کے معنی یہ تھے کہ اِس نے ایک وجود کی طرف توجہ کی اور اُس پر بھی اثر ہؤا اور وہ اس کی طرف مُڑا۔ لیکن ابھی دونوں قریب نہیں آئے بلکہ جیسے ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا قطب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اِسی طرح وہ آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔ پھر وُدْ کا مقام آیا اِس مقام میں یہ اُس کے اندر اور وہ اس کے اندر نہیں گھسا لیکن اِس کا اُس کے ساتھ ایک واسطہ ہو گیا جیسے کِیلا زمین میں گاڑ کر گھوڑے کو اُس کے ساتھ باندھ دیا جائے تو گھوڑا زمین میں نہیں گھستا نہ زمین گھوڑے میں گھستی ہے لیکن کیلے کے واسطہ سے اُس کا زمین کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے۔ اِس کے بعد حُبّ کا مقام آتا ہے۔ وُدْ میں ایک واسطہ اور تعلق تو ہو چکا تھا لیکن ابھی وہ دُور دُور تھے حُبّ کے مقام پر پہنچ کر یہ اُس وجود میں گھس گیا اور وہ وجود اِس میں گھس گیا۔
دوسرے محبت اُس تعلق کو کہتے ہیں جو نتیجہ خیز ہو اور ایک کھیتی پیدا کر دے کیونکہ حَبّ کے معنی اُس بیج کے ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے درخت اور کھیتیاں پیداہو جائیں گویا محبت حقیقی بھی وہی ہے جو دانے کی طرح ہو۔ جس طرح دانے سے درخت پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح محبت بھی اپنے پھل پیدا کئے بغیر نہیں رہتی۔ گویا یوں کہو کہ بندے اور خدا کا تعلق ایسا ہوتا ہے جیسے مرد اور عورت کا ہوتا ہے۔ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی روحانی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور لوگ اُس پر ایمان لانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی آتا ہے اور مومنوں کی نسبت بھی آتا ہے جس طرح وُدْ کا لفظ بھی دونوں کے متعلق استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ52 اے مومنو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا۔ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍتو اس کے بعداللہ تعالیٰ ضرور کسی دوسری قوم کے افراد کو آگے لے آئے گا۔ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤاللہ تعالیٰ اُن سے محبت کرے گا اور وہ خدا سے محبت کریں گے۔ پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ فلاں شخص خدا سے محبت کرتا ہے اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ فلاں سے خدا محبت کرتا ہے کیونکہ مذکورہ بالا مومنوں کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کریں گے اور خدا اُن سے محبت کرے گا۔
اِسی طرح فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ۠ كَحُبِّ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ١ؕ 53 یعنی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض غیر از خدا وجودوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے اِن شریکوں سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے لیکن مومنوں کی جماعت سب چیزوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہے۔ اِس آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ ایسے مومن لوگ فِی الواقع موجود ہیں جو خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ پہلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ ایک ایسی قوم کو آگے لے آئے گا جو خداتعالیٰ سے محبت کرنے والی ہوگی اور خداتعالیٰ اُس سے محبت کرنے والا ہوگا اور ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص یہ بات سُن کر کہہ دے کہ یہ تو ایک خیالی بات ہے مرتد ہونے والے مرتد ہوگئے اور اب اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ہماری طرف لے آئے گا۔ پس چونکہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک خیالی بات ہے ہم اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اِس لئے اِسی آیت میں موجودہ مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ کافر و مشرک تو خدا تعالیٰ کے شریک قرار دے کر اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے کرنی چاہیے لیکن ہمارے مؤمن بندے ایسے ہیں جو فِی الواقع سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ واقعات سے بھی ثابت ہے کہ صحابہؓ میں ایسے لوگ موجود تھے جو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے تھے۔ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ54 کہہ دے اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے قبیلہ کے لوگ اور تمہاری قوم کے لوگ اور تمہارے مال جو تم محنت سے کماتے ہو اور تمہاری تجارتیں جو خطرہ کی حالت میں ہوتی ہیں اور اگر تم ذرا بھی توجہ ہٹاؤ تو اُن تجارتوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے (تاجر پر بعض دن ایسے آتے ہیں کہ اگر وہ سارا کام نوکروں پر چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائے یا ذرا بھی غفلت سے کام لے تو ساری تجارت تباہ ہو جاتی ہے) اور وہ مکان جو تم کو بہت بھاتے ہیں تم کو خدا اور اُس کے رسول سے زیادہ پسند ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آ جائے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہؓکی جماعت عملاً خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والی تھی اور محبت بھی ایسی کامل رکھتی تھی کہ اُس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ بیٹوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بھائیوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بیویوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ مال اور تجارت کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ جائدادوں اور مکانوں کی محبت ٹھہرتی تھی۔ حدیثوں میں آتا ہے لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا55 کوئی تم میں سے ایمان والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اللہ اور اُس کا رسول اُس کو باقی سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔
اِسی طرح بعض اور حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کتنی؟ اُس نے کہا جتنی مجھے اپنے بچوں سے محبت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم مومن نہیں ہو سکتے۔ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان جتنی محبت رکھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب بھی تم مومن نہیں ہو سکتے کیونکہ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میں آپ سے اپنی جان اور اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم مومن ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایمان اور کفر کو جانے دو تو محبت خالص خود بھی اپنی ذات میں ایک مذہب ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کس کی طرف منسوب ہوتا ہے اور کسے پسند کرتا ہے۔ اِس وقت ساری دنیا میں ناول پڑھے جاتے ہیں اور ناولوں میں بِالعموم یہی عشق و محبت کے ہی قصے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمارے مُلک میں یوسف زلیخا کا قصہ مشہور ہے اور بڑے مزے سے پڑھا جاتاہے۔ لیلیٰ مجنوں کے قصے بڑے شوق سے سُنے جاتے ہیں حالانکہ مجنوں کون تھا؟ عرب کا ایک بدو تھا اور لیلیٰ عرب کی ایک عورت تھی جو ممکن ہے ہماری نوکرانیوں سے بھی گھٹیا قسم کی ہو لیکن اس لئے کہ مجنوں کو اُس سے عشق ہو گیا ساری دنیا لیلیٰ مجنوں کے قصوں کو بڑے شوق سے پڑھتی ہے حالانکہ فلسفیانہ طور پر اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی عجوبہ نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ ایک فلسفی نے عشق کی حقیقت اسی طرح کھینچی ہے کہ یوسف اور زلیخا کا قصہ کیا ہے بس یہی کہ ایک عورت مرد کے لئے لٹو ہوگئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ خواہ فلسفیانہ رنگ میں کچھ کہا جائے عشقیہ کتابیں ہر جگہ پسند کی جاتی ہیں اور بڑے شوق کے ساتھ اُن کو خریدا جاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی اِن کتابوں کی بڑی قدر ہے۔ اِسی طرح بڑے بڑے بادشاہوں کے حالاتِ زندگی دیکھے جائیں تو وہ بھی اِن چیزوں کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ نپولین کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ رُوس کے بادشاہ پیٹر کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو۔ اِسی طرح بڑے بڑے جرنیلوں کے حالات پڑھ کر دیکھ لو تمہیں یہی معلوم ہوگا کہ وہ اِسی قسم کی کتابوں کو بڑا پسند کرتے تھے بلکہ بعض جرنیل لڑائی کے لئے جاتے تو اپنے ساتھ ایسی کتابیں رکھ لیتے جو عشق و محبت کے افسانوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ تو عشق ایسی حسین چیز ہے کہ خواہ ادنیٰ مخلوق سے ہو تب بھی وہ پیارا لگتا ہے۔ پھر اگر خدا سے عشق ہو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنا پیارا لگے گا۔
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِذَا اَحَبَّ اللہُ عَبْدَہٗ لَمْ یَضُرَّہٗ ذَنْبٌ56 کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرے (اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ نہ صرف بندہ خدا سے محبت کرتا ہے بلکہ خدا بھی بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے) تو کوئی گناہ اُسے ضرر نہیں پہنچاتا۔ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ کوئی گناہ اُس سے سرزد نہیں ہو سکتا اور یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ گناہ تو اُس سے سرزد ہوتا ہے لیکن وہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ پہلے معنی اِس حدیث کے اِس لئے نہیں ہو سکتے کہ یہاں ذَنْب کا لفظ ہے جس کا صدور ہر انسان کے لئے ممکن ہے۔ پس ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرنے لگ جائے تو اُس سے ذَنْب سرزد ہی نہیں ہو سکتے۔ ہم اگر معنی کر سکتے ہیں تو یہی کہ ذَنْب تو اس سے صادر ہو سکتا ہے لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ ذَنْب کا لفظ گناہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بشری کمزوری کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس یہ مراد نہیں کہ ذَنْب اُس سے صادر ہی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر ذَنْب اُس سے صادر ہو جائے تو اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ اگر گناہ کے معنی کئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ایسے انسان کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جو مرضی ہے کرے۔ خواہ ڈاکہ مارے، خواہ چوری کرے، خواہ بدکاری کرے، خواہ جھوٹ بولے لیکن یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ دوسرے معنی اس کے یہ ہو سکتے ہیں کہ اگر وہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کو جھٹ توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اور اس طرح گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور یہی اس کے حقیقی معنی ہیں۔ چنانچہ اس حدیث کے اگلے ٹکڑہ میں اس کی وضاحت آ جاتی ہے چنانچہ مذکورہ بالاعبارت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ 57 یعنی اُسے گناہ سے نقصان اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ضرور توبہ کر لیتا ہے اور جو گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ غرض اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جب خدا اُس سے پیار کرنے لگ جائے تو اُس کا کوئی گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا۔ یہ معنی نہیں کہ وہ کوئی ادنیٰ غلطی بھی نہیں کرتا۔ یہ معنی بھی نہیں کہ وہ کوئی بڑی غلطی نہیں کرتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو ایسی خشیت کے مقام پر لے جاتا ہے کہ اِدھر وہ غلطی کرتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور وہ گناہ اُسے معاف ہو جاتا ہے۔ یہی آدم کے قصہ کی حقیقت ہے کہ وہ بھول گیا تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَسِیَ58 آدم بھول گیا اور اُس سے غلطی سرزد ہوگئی۔ اس کے بعد وہ گھبرایا تو ہم نے کہا گھبراتے کیوں ہو دعا کرو ہم تمہیں معاف کر دیں گے۔ چنانچہ آپ ہی اُسے دعا سکھلائی اور پھر اُسی دعا کے کرنے پر اُنہیں معاف کر دیا۔ چنانچہ فرماتا ہے فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ59اس پر آدم نے اپنے ربّ سے کچھ دعائیں سیکھیں فَتَابَ عَلَیْہِ 60 جن کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔غرض محبت کا تعلق بندہ اور اللہ تعالیٰ میں دونوں طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی بندے سے محبت کرتا ہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔
اِس سے اُوپر خُلّۃ کا مقام ہے۔ خُلّۃ کا لفظ خلل سے نکلا ہے اور یہ لفظ ہمارے مُلک میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارے دماغ میں خلل ہے۔ ہمارے مُلک میں خلل ہے۔ ہماری جماعت میں خلل ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ لغت کے لحاظ سے اُس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے ہوتے ہیں اور یہ ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بعض لفظ عربی زبان میں ایسے ہیں جو ایک معنی ہی نہیں دیتے بلکہ اُس کے اُلٹ معنی بھی دے دیتے ہیں یعنی اُسی میں شر کے معنی شامل ہوں گے اور اُسی میں خیر کے معنی بھی شامل ہوں گے۔ اسی میں فاصلہ کے معنی شامل ہوں گے اور اسی میں قرب کے معنی شامل ہوں گے۔ اِسی قسم کا یہ لفظ بھی ہے جس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے بھی ہیں اور ایسی محبت اور دوستی کے بھی ہیں جس میں کوئی خلل نہ ہو ۔ گویا خُلّۃ کے معنی اُس محبت کے ہیں جو تمام اختلافات کو دور کر دے اور جذبات اور خیالات میں یکجہتی پیدا کر دے۔ یہ معنی تو اقرب الموارد والے نے کئے ہیں لیکن مفردات والا کہتا ہے کہ خلل کے معنی شگاف کے ہیں اور جسم کے شگاف اُس کے مسام اور سوراخ ہیں جن سے پسینہ نکلتا اور زہریلے مواد خارج ہوتے رہتے ہیں اور مساموں کے راستہ ہی باہر کی کئی چیزیں جسم میں داخل ہوتی رہتی ہیں۔پس خُلّۃ کے معنی یہ ہیں کہ ایسی محبت جو خلل کے اندر گھس جائے یعنی خالی دل ہی میں نہ گھسے بلکہ جسم کے سُوراخ سُوراخ میں داخل ہو جائے اور پھیل جائے۔ محبت اُس کو کہتے ہیں جو صرف ایک مقام یعنی دل میں داخل ہو جائے لیکن خُلّۃ اُس دوستی کو کہتے ہیں جو جسم کے تمام مساموں میں داخل ہو جائے اور کوئی حصۂ بدن بھی اُس سے خالی نہ ہو۔ نہ ہاتھ اُس سے خالی ہوں نہ پاؤں اُس سے خالی ہوں نہ کان اُس سے خالی ہوں نہ آنکھ اُس سے خالی ہو نہ دل اُس سے خالی ہو نہ دماغ اُس سے خالی ہو۔ گویا وہ انسانی جسم اور روح اور دل اور دماغ پر اتنی حاوی ہو جائے کہ ہاتھ ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں۔ پاؤں ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں اور غیریت کا سوال ہی باقی نہ رہے۔ حُبّ باہر سے حکم لاتی ہے لیکن خُلّۃ باہر سے نہیں بلکہ نیچرل اور طبعی طور پر کام کرتی ہے۔ یہ معنی جو مفردات والوں نے کئے ہیں زیادہ اچھے اور زیادہ صحیح ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا 61 ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کی وفات کی خبر آئی تو آپؐ نے صحابہؓ کو جمع کیا اور اُن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ایک بندہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے میرے بندے! اگر تو چاہے تو میں تجھے اپنے پاس بُلالوں اور اگر تو دنیا میں اَور رہنا چاہے تو میں تیری عمر کو اَور لمبا کر دوں۔ اُس بندے نے کہا اے میرے خدا! میں دنیا میں نہیں رہنا چاہتا تو مجھے اپنے پاس ہی بُلا لے۔ صحابہؓ نے یہ بات سنی تو اُنہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دی ہے اور وہ دل میں خوش ہوئے کہ آج ہمیں ایک بڑا اچھا نکتہ ملا ہے۔ مگر حضرت ابوبکرؓ یہ سنتے ہی رونے لگ گئے اور اتنے روئے اتنے روئے کہ اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! ابوبکر مجھے اتنا پیارا ہے کہ اگر خدا کے سِوا میں کسی اور کو خلیل بنا سکتا تو ابوبکر کو بنا لیتا۔ 62 معلوم ہؤا کہ اسلام میں کسی انسان سے محبت کرنا تو جائز ہے لیکن خُلّۃ صرف خداتعالیٰ کے لئے جائز ہے۔ گو استعارہ کے طور پر انسانوں کیلئے بھی کبھی کبھی بول لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے مگر اُنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے اُنہوں نے ہزاروں حدیثیں بیان کی ہیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے اُن کی درایت ایسی اعلیٰ نہیں تھی وہ ہمیشہ نئے آنے والوں پر جب اپنے فخر کا اظہار کیا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ خلیلی نے یہ فرمایا ہے۔ خلیلی نے یہ فرمایا ہے اور مراد یہ ہؤا کرتی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے۔ گویا اپنا تعلق جتانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض دفعہ خلیل کا لفظ استعمال کر لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ ایک دفعہ کہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اِسی طرح کہنا شروع کیا کہ خلیلی نے یوں کہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ نے سنا تو اُنہیں بُرا معلوم ہوا اور اُنہوں نے ڈانٹا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو کیا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھے اور کیا ہم دیکھا نہیں کرتے تھے کہ تمہارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا تعلق تھا؟ معلوم ہوتا ہے جوش میں حضرت ابوہریرہؓ اس طرح کہہ لیتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا اور بندے کے انتہائی تعلق پرہی خُلّۃ کا لفظ بولا جا سکتا ہے۔ اگر اس لفظ کو کسی اور مفہوم یا مقام پر استعمال کیا جائے گا تو وہ بہرحال استعارہ کہلائے گا۔ پس خُلّۃ کا لفظ مقاماتِ محبت میں سب سے بلند ہے چونکہ عام لفظ محبت ہے ہم اُسی کو آسانی کے ساتھ استعمال کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کے مختلف درجے ہیں۔ (١) رغبت (٢)اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت (٥) خُلّۃ۔ اوریہ پانچوں درجے وہ ہیں جن کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے۔
محبت کے اظہار کے لئے الفاظ تو بعض اَور بھی ہیں مگر وہ لمبے فقروں میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے میں نے اُن کو چھوڑ دیا ہے اور دو لفظ ایسے ہیں جن کو میں نے لیا ہی نہیں یعنی شوق اور عشق۔ ان پانچ الفاظ میں دو تو صرف بندوں کی محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور تین ایسے ہیں جو بندے اور خدا دونوں میں شریک ہیں یعنی بندے کے خدا سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور خدا کے بندے سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یہ جو میں نے کہا تھا کہ عشق کے معنی ہلاکت کے ہیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے متعلق قرآن کریم یا احادیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس کا حدیثوں سے بھی ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَہِیْدًا63 یعنی اگر کسی شخص کو عشق ہو جائے اور پھر وہ اپنا تقویٰ قائم رکھے اور مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے۔ اِس سے پتہ لگا کہ عشق کا لفظ صرف شہوت یا ایسی مُفرط محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو صحت کو برباد کر دیتی اور دماغ کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی محبت کو عشق کہا جا سکتا ہے تو پھر اِس سے روکنے کے کیا معنی تھے۔ ایسی ہی روایت ابن عساکرؔ نے بھی ابن عباسؓ سے کی ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ محبت جسمانی جو انتہاء کو پہنچ جائے اور جب صبر بظاہر ناممکن ہو جائے تو اُس کے مفہوم میں عشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور چونکہ یہ بُرے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے یعنی شہوت یا ایسی مفرط محبت کے معنوں میں جو دماغ کو خراب کر دیتی ہے اور اسلام ایسے کسی فعل کو پسند نہیں کرتا خواہ خدا تعالیٰ ہی کے متعلق ہو۔ اس لئے گو عشق بھی محبت کے معنی رکھتا ہے مگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صحیح حدیث یا قرآن میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے متعلق قرآن یا حدیث میں صرف (١) رغبت (٢) اُنس (٣) وُدْ (٤) محبت اور (٥) خُلّۃکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پہلے دو صرف ایسی محبت کی نسبت استعمال ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے اور دوسرے تین اُس محبت کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو دونوں طرف سے ممکن ہے اور ہوتی ہے۔ رغبت اور اُنس کے لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوئے کہ اوّل یہ ادنیٰ درجہ کی محبتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ادنیٰ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے اس لئے کہ دونوں میں دوری سے نزدیکی اور وحشت سے قرب کے معنی پائے جاتے ہیں اور یہ باتیں انسان میں تو ہوتی ہیں کہ وہ پہلے دور ہوتا ہے اور پھر نزدیک ہونے کی خواہش کرتا ہے یا پہلے وحشت رکھتا ہے اور پھر قرب کا کوئی موقع مل جائے تو اُسے سکون محسوس ہوتا ہے اور وہ بار بار اس کی خواہش کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایسا صرف انسان سے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں کیونکہ وہ انسان کی ہر حالت سے ہر وقت واقف ہے اور اُس کی طرف جانے کی خواہش یا اُس سے کسی وقت ملاقات کے نتیجہ میں اُس سے سکون کا حصول اُس کی شان اور درجہ کے منافی ہے۔ پس بندے کی محبت، رغبت اور اُنس سے ترقی کرنا شروع کرتی ہے اور وُدْ کے مقام پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مدغم ہو جاتی ہے اور پھر دونوں محبتیں مل کر خُلّۃ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر بندے سے اونچا ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان راغب ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ انسان انیس ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَدُوْد۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ یہ وادِدْ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ودُود ہو جاتا ہے جو وَادِدْ سے زیادہ شدید ہے۔ اِس کے بعد یہ مُحِبّ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محبت پھر بھی اِس کی محبت پر فائق رہتی ہے۔ بظاہر چونکہ لفظ ایک ہے اس لئے بادی النظر میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح بندہ محبت کرتا ہے اِسی طرح شاید خداتعالیٰ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہوگا۔ حالانکہ یہ درست نہیں محبت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے ماں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، باپ کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، بیوی بچوں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے۔ پس یہ غلط ہے کہ بندہ کی محبت اور خداتعالیٰ کی محبت ایک جیسی ہے۔ بندہ جب مقاماتِ محبت میں ترقی کرتے کرتے مُحبّ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اَحَبُّ مِنَ الاُمِّ ہو جاتا ہے یعنی ماں سے بھی زیادہ اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا ثبوت ہمیں ایک حدیث سے ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَبِیٌّ فَاِذَا اِمْرَأَۃٌ مِنَ السَّبٰی تَبْتَغِیْ اِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبٰی اَخَذَتْہُ فَاَلْصَقَتْہُ بِبَطَنِھَا وَاَرْضَعَتْہُ فَقَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَرَوْنَ ھٰذِہِ الْمَرْأَۃَ طَارِحَۃً وَلَدَھَا فِی النَّارِ؟ قُلْنَا لَاوَاللہِ وَھِیَ تَقْدِرُ عَلٰی اَلَّاتَطْرَحُہٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللہُ اَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ھٰذِہِ بِوَلَدِھَا64 یعنی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی جب وہ قیدیوں میں کسی بچہ کو دیکھتی تو اُسے اُٹھاتی، اپنے سینہ سے لگاتی اور پھر اُسے دودھ پلاتی۔ اِس روایت میں تو ذکر نہیں آتا مگر دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتی رہی یہاں تک کہ اُس کا اپنا بچہ اُسے مل گیا اور وہ اُسے گود میں لے کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عورت کو دیکھا اور پھر صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ اپنے بچہ کو آگ میں پھینک دے تو کیا یہ اُسے پھینک دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا خدا کی قسم! اگر اس کا بس چلے تو وہ کبھی اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے جو اس عورت کی محبت کا نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اِس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے۔ ماں سے تو دس آدمی مل کر اُس کا بچہ چھین سکتے ہیں مگر وہ کون ماں کا بچہ ہے جو خدا کی گود سے کسی کو چھین سکے۔ اِس لئے خدا کی محبت زیادہ شاندار اور زیادہ پائیدار اور زیادہ اثر رکھنے والی ہے۔
اِس حدیث میں رحم کا لفظ محبت کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے کیونکہ ماں بچہ پر رحم نہیں کرتی اُس سے محبت کرتی ہے۔ پس مثال نے اِس کے معنی متعین کر دیئے ہیں۔
پھر اس سے اوپر ترقی کر کے بندہ خُلّۃ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں خلیل کہلاتے ہیں۔ لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ محبت میں زیادہ ہوتا ہے اِسی طرح خُلّۃ میں بھی زیادہ ہوتا ہے۔ لفظ ایک ہے مگر بندے کی خُلّۃ اورخدا تعالیٰ کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے کیونکہ گو جذباتِ محبت ہر وقت زندہ رہتے ہیں لیکن سونے اور جاگنے کی حالت میں اُن میں فرق ہو جاتا ہے۔ سوتے وقت جذبات زندہ تو ہوتے ہیں مگر وہ دَب جاتے ہیں اور اُن پر ایک طرح کا پردہ پڑ جاتا ہے پس چونکہ انسان پر سِنَةٌ اور نَوْمٌآتے ہیں اور اُس وقت خُلّۃ تو ہوتی ہے مگر اُونگھ اور نیند کی وجہ سے اُس طرح کی نہیں ہوتی جس طرح جاگتے وقت کی ہوتی ہے۔ اِس لئے خدا اور بندے کی خُلّۃ میں بڑا بھاری فرق ہے۔ خداتعالیٰ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ65 کا مصداق ہے۔ پس یہ جاگتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اِس سے اُسی طرح محبت کرتا ہے اور یہ سوتا ہے تب بھی اُس کی خُلّۃ اُسی طرح جاری رہتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ایک تحریر میں بھی اشارہ کیا ہے جو میں تشحیذالاذہان اور بدر میں شائع کروا چکا ہوں۔ اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
''دنیا کہتی ہے تُو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے اگر ہو تو اُس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں، جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اُس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت اور پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولیٰ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میں تجھے چھوڑ دوں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں''۔66
تو دیکھو سوتے وقت جب انسان کا جسم اور روح بھی اُسے ایک طرح چھوڑ جاتے ہیں اُس وقت بھی خداتعالیٰ اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا۔ اِس لئے خداتعالیٰ کا مقامِ خُلّۃ انسان کے مقامِ خُلّۃ سے بہت بالا ہے۔ نام دونوں محبتوں کا ایک ہے مگر دونوں کی کیفیت میں بہت فرق ہے۔
پس محبت کے تمام مقاموں میں سے جو ادنیٰ ہیں وہ صرف انسان سے مخصوص ہیں۔ خداتعالیٰ اُن کے مقابل پر اُن سے اعلیٰ مقام کی محبت دکھاتا ہے اور جو اعلیٰ مقام ہیں اور بندہ اور خدا میں مشترک ہیں اُن میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیشہ بندے سے آگے رہتا ہے۔ اِسی نکتہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں بیان فرماتے ہیں:عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّوَجَلَّ اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَامَعَہٗ حَیْثُ یَذْکُرُنِیْ۔ وَاللہِ لِلّٰہِ اَفْرَحُ بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ اَحَدِکُمْ یَجِدُضَالَّتَہٗ بِالْفُلَاۃِ وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا وَاِذَا اَقْبَلَ اِلَیَّ یَمْشِیْ اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْوِلُ 67 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خدا نے مجھے الہام سے فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے یقین کے مطابق اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہوں اور جب کبھی بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں فوراً اُس کے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ پھر اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا کی قسم ہے! کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس شخص سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جس نے سخت جنگل میں اپنی اونٹنی کھوئی اور پھر وہ اُسے مل گئی۔ اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ جو شخص میرے پاس ایک بالشت بھر چل کر آتا ہے میں اُس کے پاس ایک ہاتھ چل کر آتا ہوں۔ (ذراع اُنگلیوں سے لے کر کُہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں) اور جو شخص ایک ہاتھ چل کر میرے پاس آتا ہے میں اُس کی طرف ایک باع (یعنی دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کے برابر) چل کر جاتا ہوں۔ اور جب بندہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو اَقْبَلْتُ اِلَیْہِ اُھَرْ وِلُ میں اُس کی طرف دَوڑنا شروع کر دیتا ہوں۔ غرض ہر مقام پر اللہ تعالیٰ بندے سے اونچے مقام پر رہتا ہے بندہ ایک بالشت چلتا ہے تو خداتعالیٰ ایک ہاتھ چلتا ہے۔ بندہ ایک ہاتھ چلتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک باع چل کر آتا ہے۔ بندہ اس کی طرف چل پڑتا ہے تو خداتعالیٰ اپنی محبت کے جوش میں اُس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ بندہ جس جس حد تک کام کرے اللہ تعالیٰ اُس سے زیادہ کام کرتا ہے وہاں اُس نے محبت کے کچھ قانون بھی بنائے ہیں جب کوئی شخص محبت الٰہی کے میدان میں قدم رکھنا چاہے تو اُسے اِن قانونوں کو مدنظر رکھنا چاہیے چنانچہ پہلا قانون یہ ہے کہ جب بندہ رغبت، اُنس اور وُدْ کے مقام سے ترقی کرکے حُبّ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس مقام کے لئے یہ شرط ہے کہ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِيْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَیعنی رغبت کے مقام تک اگر انسان میں کمزوری ہو اور بیوی بچوں کی محبت اُس کے دل پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ سمجھتا ہے کہ یہ کمزور ہے۔ ایسا مضبوط نہیں کہ اس جذبہ پر غالب آسکے۔ جب انسان اُنس کے مقام پر آتا ہے تو وہ زیادہ قربانیاں چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ وہ سب کچھ بھول جائے۔ جب اِنسان وُدْ کے مقام پر آتا ہے تو وہ اپنے بندہ سے اُنس کے مقام سے بھی زیادہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کی کمزوریوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو چونکہ اب ترقی کرتے کرتے محبت کے بہت سے اسرار اُس پر کھل چکے ہوتے ہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اب بندہ یہ فیصلہ کر لے کہ میں نے خداتعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اَور کو منہ نہیں لگانا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے حُبّ کے متعلق رکھا ہے رغبت کے متعلق نہیں رکھا۔ اُنس کے متعلق نہیں رکھا۔ وُدْ کے متعلق نہیں رکھا۔ رغبت جس میں کچھ خدا کی محبت ہو اور کچھ دنیا کی محبت، انسان کو خدا کا مقرب بنا سکتی ہے۔ اُنس جس میں خدا کی بھی محبت ہو اور دنیا کی بھی محبت ہو اللہ تعالیٰ کے قرب میں انسان کو کچھ نہ کچھ بڑھا دیتا ہے۔ اگر رغبت یا اُنس کے مقام پر انسان سے کچھ غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جانے دو میرا یہ بندہ ابھی پورے طور پر ہوش میں نہیں آیا اس کی غلطیاں نظر انداز کرنے کے قابل ہیں پھر وہ وُدْ کے مقام پر بھی پہنچ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی غلطیوں کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ نہ وہ خدا میں فنا ہو گیا ہوگا اور نہ خدا اُس کے دل میں جا بسا ہوگا۔ اُس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی نابالغ بچہ لڑائی میں شامل ہوا اور اس نے کمزوری دکھائی اور وہ میدان سے بھاگ گیا لیکن جب حُبّ کے مقام پر انسان پہنچ جائے تو اُس وقت وہ اپنے باپ کو یا اپنے بیٹے کو یا اپنے بھائی کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے قبیلہ کو یا اپنے خاندان کو یا اپنے مال کو یا اپنی شہرت کو یا اپنے علم کو یا اپنی نیک نامی کو یا اپنے مکانوں اور جائدادوں کو خداتعالیٰ پر ترجیح دے تو وہ خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیا جائے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ تم نے ہمارے مقامِ محبت کی ہتک کی ہے۔ پس بے شک یہ مقام اعلیٰ ہے مگر اس مقام کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ جو پہلی رعائتیں تھیں وہ اس مقام پر آ کر ختم ہو جاتی ہیں۔ مقامِ رغبت تک وہ مزے میں تھا اور اِدھر اُدھر جا سکتا تھا۔ اُنس کے مقام تک بھی اگر اُس سے غلطی ہو جاتی اور فرشتے کہتے کہ ہم اسے سزا دیں تو اللہ تعالیٰ کہتا کہ سزا کیسی؟ ابھی اِس نے ہوش تھوڑی سنبھالی ہے۔ پھر وُدْ کا مقام آیا تو اس مقام میں بھی یہ خطرے سے باہر تھا کیونکہ گو وہ بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ابھی بالغ کے احکام اُس پر جاری نہیں ہو سکتے تھے لیکن جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچا تو بالغ ہو گیا اور اس پر تمام احکام جاری ہونے لگ گئے۔ جب تک یہ بالغ نہیں ہؤا تھا اس کی گرفت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا جیسے لڑائی ہو رہی ہو تو کوئی شخص بچوں کو نہیں پکڑتا کہ تم لڑائی پر کیوں نہیں جاتے بلکہ اگر کوئی نابالغ بچوں کو پیش بھی کرے تو ذمہ دار افسر ہنس پڑتے ہیں کہ کس کو پیش کیا جا رہا ہے چنانچہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ بارہ بارہ برس کے لڑکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور کہتے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ ہمیں بھی جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے۔ مگر آپ فرماتے کہ جاؤ ابھی تم پر جہاد فرض نہیں۔تو رغبت کے مقام پر اور اُنس کے مقام پر اور وُدْ کے مقام پر گناہوں سے معافی زیادہ ملتی ہے۔ مگر جب انسان حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو گناہوں کی معافی کم ہو جاتی ہے۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور توبہ کے ساتھ خواہ کیسے ہی گناہ ہوں معاف ہو جاتے ہیں لیکن بہرحال پہلے مقام وہ تھے جن میں معافی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ جیسے چھوٹا بچہ دودھ پیتے پیتے بعض دفعہ اپنی ماں کا پستان کاٹ لیتا ہے مگر ماں اُسے کبھی نہیں کہتی کہ مجھ سے معافی مانگو۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ بچہ ہے اور اس سے نادانی میں یہ حرکت ہوگئی ہے۔ اِسی طرح رغبت اور اُنس اور وُدْ کے مقام پر معافی کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ وہ چاہے مانگے یا نہ مانگے۔ اللہ تعالیٰ اُسے بچے کی طرح سمجھتا ہے گویا نیکی تو اُس میں موجود ہوتی ہے لیکن توبہ کا مقام اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ اِس کے بعد جب وہ حُبّ کے مقام پر پہنچتا ہے اور پھر کوئی غلطی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اب یہ معافی مانگے گا تو ہم معاف کریں گے یوں ہم اسے معاف نہیں کر سکتے۔ جب یہ توازن قائم نہیں رہتا تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور وہ رغبت اور اُنس کے مقام پر بعض دفعہ محبت الٰہی کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم محبوبِ خدا ہوگئے ہیں حالانکہ جب تک وہ ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ان راہوں سے زیادہ واقف نہیں میری حیثیت ایک بچہ کی سی ہے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو پھر بالغ کی ذمہ داریاں سمجھے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی چیز کو ترجیح نہ دے۔
(2) دوسری شرط یہ ہے کہ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچے تو پھر خداتعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ جو شخص اس مقام سے گرتا ہے وہ خداتعالیٰ کی طرف سے سخت سزا پاتا ہے۔ رغبت کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ اُنس کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں۔ وُدْ کے مقام پر اگر اس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں لیکن جب محبت کے مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس مقام کو مضبوطی سے پکڑ لے اور اللہ تعالیٰ کو ایک آن کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اُن کے دشمن آئے اور اُنہوں نے کہا کہ کیا ستاروں کی پرستش کرنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ذرا ٹھہرو۔ جب ستارے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ 68 وہ چیز جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائے میں اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ خدا ہیں تو پھر اوجھل کیوں ہوگئے۔ محبت تو اُس سے ہو سکتی ہے جو آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ پس کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ کیا تم نے کبھی کوئی ماں ایسی دیکھی ہے جسے یہ یاد کرانے کی ضرورت ہو کہ اپنے بچہ سے محبت کر۔ بچہ کہیں بیٹھا ہو اس کے دل میں محبت کی چنگاری سُلگ رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے اُس کے منہ سے آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی خاوند آپس میں محبت کرتے ہیں تو خواہ خاوند کتنی دور چلا جائے جب بھی اُس کا ذہن خالی ہوگا وہ اپنی بیوی کو ضرور یاد کرے گا۔ بعض دفعہ ایک سپاہی لڑائی میں شامل ہوتا ہے۔ میدانِ جنگ میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ بندوقیں چل رہی ہوتی ہیں اور موت کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن اُس وقت بھی اگر اُسے اپنی بیوی یاد آ جائے تو اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ بیوی بعض دفعہ پھلکے پکا رہی ہوتی ہے کہ اپنے میاں اُسے یاد آ جاتے ہیں اور پھلکے پکاتے پکاتے اُس کی آہ نکل جاتی ہے۔ تو فرماتا ہے لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ اگر تمہارا خداتعالیٰ سے تعلق ہو اور کبھی اُس کی محبت تمہارے دل میں آ جاتی ہو اور کبھی نہ آتی ہو تو تم مت کہو کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے رغبت ہے، تم کہو کہ ہمیں اُس سے اُنس ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے وُدْ ہے مگر یہ مت کہو کہ ہمیں اُس سے محبت ہے کیونکہ محبت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب محبوب کی یاد دل سے جدا نہ ہو۔ خیال تو دوسری طرف جا سکتا ہے جیسے کھیل کے وقت کھیل کا ہی خیال رہے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ محبت کا جذبہ بالکل جاتا رہے۔ بلکہ جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کا خیال کرے گا اُسی وقت اُس کی محبت بھی آ جائے گی۔ جو شخص کبھی محبت کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا اُس کی محبت کبھی قبول نہیں ہوتی یا یوں کہو کہ وہ محبت ہی نہیں ہوتی لیکن توبہ واستغفار قبول ہو جاتا ہے حالانکہ توبہ و استغفار بھی انسان کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ محبت جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور توبہ و استغفار دماغ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ محبت ہمیشہ یکساں چلتی چلی جائے گی چاہے انسان خوشی میں ہو یا رنج میں۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ محبت کی لہر کبھی اونچی چلی جائے اور کبھی نیچے آ جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ کبھی غائب ہی ہو جائے۔ اِس کے مقابلہ میں توبہ و استغفار میں یہ ہوگا کہ کبھی ہم توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے اور کبھی نہیں کر رہے ہوں گے۔ پس الٰہی محبت وہی ہو سکتی ہے جو سب سے زیادہ ہو اور اُس میں دوام پایا جائے۔
قرآن کریم کی رُو سے محبت کی دو اقسام ثابت ہوتی ہیں۔ اوّل محبت کسبی جو انسان کسب سے حاصل کرتا ہے یعنی پہلے وہ رغبت کرتا ہے پھر اُنس کرتا ہے پھر وُدْ کرتا ہے اور پھر محبت کرتا ہے۔ یہ محبت بندے کی طرف سے آتی ہے۔ گویا کسبی چیز وہ ہے جو بندہ کرتا ہے اور وہبی وہ ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ محبت سے ہی شروع ہو جائے۔ بہرحال کسبی محبت میں کوشش بندے کو کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 69 یعنی اگر تمہارے دلوں میں خداتعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مقابل میں بھی محبت کا پیدا ہونا ایک ضروری امر ہے کیونکہ سچی محبت دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں ''دل را بہ دل رہسیت''۔ جب کوئی شخص سچے دل سے کسی سے محبت کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال خداتعالیٰ سے کوئی ایسی محبت نہیں ہو سکتی جس میں دونوں طرف جوڑ اور اِتصال نہ ہو۔ جیسے ماں اور بچہ اور خاوند اور بیوی میں محبت ہوتی ہے کہ ایک طرف ماں کے دل میں محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بچہ کے دل میں۔ ایک طرف خاوند اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے تو دوسری طرف بیوی اپنے خاوند پر جان دیتی ہے۔ اِسی طرح بندے اور خدا کی محبت میں بھی ایک جوڑ اور تعلق ہوتا ہے۔ فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری یہ محبت تب ثابت ہوگی جب تم ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق محبت کرو گے اگر تم اُس طریق کے مطابق چلو گے تب ہم مانیں گے کہ تم ہم سے محبت کرتے ہو ورنہ نہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے دل کی تو یہی خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کریں مگر ہم کریں کس طرح اس کا جواب یہ دیا کہ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع بن جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ یہ محبت کسبی ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے مگراُس کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے۔ تب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یوں محبت کرو۔ پس ایک محبت وہ ہے جو بندے کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور بعض ذرائع اختیار کر کے حاصل ہوتی ہے اور آخر اللہ تعالیٰ بھی اُس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ محبت کسبی کہلاتی ہے۔
یاد رہے کہ اس آیت میں فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ فرمایا ہے فَاَحِبُّوْنِیْ نہیں فرمایا کیونکہ محبت جذبات سے تعلق رکھتی ہے اور جذبات اپنی مرضی سے پیدا نہیں کئے جا سکتے۔ جبر اور زور سے اعمال کئے جا سکتے ہیں۔ اِس لئے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو جو جبر سے کی جا سکتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور اس محبت کے بدلہ میں تمہاری محبت جو خدا تعالیٰ سے ہے بڑھنے لگے گی۔
دوسری محبت موہبت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بندہ کو گھیرلیتی ہے۔ اس محبت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ١ٞيُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآىِٕمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ 70اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے مومنو! اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جس سے وہ محبت کرے گا اور جو اُس سے محبت کرے گی یعنی پہلے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور پھر وہ کریں گے گویا اُن کی محبت موہبت والی محبت ہوگی۔
یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ جو مومن تھے اُن کی نسبت تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ پہلے تم اتباعِ رسول کرو پھر تم خداتعالیٰ کے محبوب ہوگے اور مرتدوں کے بدلہ میں جو کفار سے آنے والے تھے اُن کے متعلق یہ کہا کہ خدا اُن سے پہلے محبت کرے گا اور پھر وہ اس سے محبت کریں گے۔ اِس فرق کی وجہ کیا ہے اور کیوں مومنوں کی محبت کو کسبی اور مرتدوں کے بدلہ میں کفار میں سے آنے والوں کی محبت کو وہبی قرار دیا ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کو شرمندہ کرنے کے لئے دوسرے کو حق سے زیادہ انعام دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ دوست کی ناشکری پر غیر پر زیادہ احسان کر دیا جاتا ہے تا کہ روٹھنے والے کو شرمندہ کیا جائے اور اپنا استغناء ظاہر کیا جائے۔ بعض دفعہ ہم اپنے کسی بچے کو بُلاتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ ہم تمہیں مٹھائی دیں اگر وہ نہیں آتا تو پاس اگر غیر کا بچہ کھڑا ہو تو اُسے دوگنی مٹھائی دے دیتے ہیں تا کہ اپنا بچہ جو نہیں آیا وہ شرمندہ ہو۔ اسی طرح بعض دفعہ مومن مرتد ہوتا ہے اور چلاجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم خود کافروں میں سے چن چن کر بعض لوگوں کو لائیں گے اور پھر تمہیں دکھائیں گے کہ ہم اُن سے کیسا پیار کرتے ہیں۔ گویا اس میں اصل مضمون مومنوں کو غیرت دلانا ہے۔ ورنہ خود مومنوں کے لئے بھی یہ مقام ہوتا ہے اور رسول تو سب کے سب اس دوسرے گروہ میں شامل ہوتے ہیں اور خدا کی خاص تربیت کے نیچے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اُن کا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ لوگوں نے حماقت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اُن کو الف۔ ب پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق بِاللہ کے بنیادی اصول وہ کسی پیر اُستاد سے نہیں سیکھتے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے دل میں یہ اصول خود ودیعت کرتا ہے اور خود اُنہیں روحانیت کے اسرار سے واقف کرتا ہے۔ پس نبی کا استاد نہ ہونے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ اُن کو روحانی علوم سکھانے والا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ باقی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ سکھاتے ہیں جیسے میں اِس وقت لیکچر دے رہا ہوں اور آپ لوگ سن رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے سکھایا تھا۔ ولید وغیرہ تو سب مشرک تھے اُن سے آپ نے محبت الٰہی کا کیا سبق سیکھنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ سیکھا براہِ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ کوئی دُنیوی اُستاد ایسا نہیں تھا جس نے آپ کو روحانیت کے اِن رازوں سے آشنا کیا ہو۔ پس یہ درست ہے کہ نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اُن کو محبت الٰہی کے راز سکھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ خدا خود اُن سے براہِ راست محبت کرتا اور براہِ راست اپنے علوم سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں اور معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بلوغت سے پہلے ہی وہ معصوم ہوں کیونکہ عصمتِ کاملہ جو نبی کو حاصل ہوتی ہے وہ اُس وقت تک اُسے حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تقویٰ اور محبت الٰہی اُس کے بلوغ بلکہ ہوش سے پہلے ہی موجود نہ ہو۔ جو اُسے بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْکَانَ نَبِیًّا71 تو اس کے معنی صرف بچپن کے کھیل کود کے ہیں نہ کہ بغاوت و شرارت کے۔
اب میں قرآن کریم سے بتاتا ہوں کہ خداتعالیٰ کن لوگوں سے محبت نہیں کرتا تا کہ انسان کوشش کرے کہ میں ویسا نہ بنوں۔ جب خداتعالیٰ کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں سے محبت نہیں کرتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ پس جن لوگوں میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ اِن امور کی موجودگی میں خداتعالیٰ سے کبھی محبت نہیں کر سکتے اور نہ اُن کا یہ دعویٰ تسلیم کیا جا سکتا ہے (اگر وہ کہیں) کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم کی آیات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا لیکن چونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ بندہ ایک قدم بڑھے تو خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے اِس لئے اگر یہ ممکن ہو تا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتے تو یہ جواب غلط ہو جاتا کہ ایک قدم کے بدلہ میں خداتعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے۔ پس نتیجہ یہی نکلا کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دس قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ دس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(1، 2) اوّل مختال سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور دوسرے فَخُوْرَا سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا72جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اور جس شخص کے اندر فخر کی عادت پائی جاتی ہے اُس سے خدا محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ جس شخص کے اندر تکبر پایا جاتا ہے یا جس شخص کے اندر فخر کا مادہ پایا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مختال اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی اِتنی بڑی شان سمجھے کہ گویا سب مصائب سے محفوظ ہے اور فَخُوْرَا اُسے کہتے ہیں جسے یہ خیال ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو دوسروں میں نہیں اور انہیں طعنہ دے کہ میرے جیسی خوبیاں دوسروں میں کہاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے بلکہ درحقیقت کسی انسان سے بھی محبت نہیں کر سکتے جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر خداتعالیٰ کی کبریائی کا اُسے کبھی خیال آتا تو کیا وہ تکبر کر سکتا؟ جس کے سامنے بادشاہ کھڑا ہو کیا وہ اپنا سر اُونچا کر سکتا ہے؟ معمولی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی سامنے کھڑا ہو تو سپاہی ایسا مؤدب اور شریف بن کر کھڑا ہوتا ہے کہ گویا اُس کے منہ میں زبان ہی نہیں۔ پھر جو شخص خداتعالیٰ کی کبریائی کا بھی خیال نہیں رکھتا اُس نے خداتعالیٰ سے محبت کیا کرنی ہے۔ محبت یا تو حُسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے۔ جب یہ اپنے آپ کو اتنی بڑی شان کا مالک خیال کرتا ہے کہ سمجھتا ہے میں سب مصائب سے محفوظ ہوں تو ذاتِ باری کا حسن یا اُس کا احسان اسے کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ پس مختال سے خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا اور نہ ایسا شخص خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
اِسی طرح فخر بھی وہی کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں میں نہیں اور وہ اُن خوبیوں کو اپنا ذاتی وصف قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں حاصل ہیں یہ ہم نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہیں۔پس فخر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرے اور کہے کہ اِن نعمتوں کا حصول میرا ذاتی وصف ہے اور جو شخص بھی ایسا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن کا انکار کرتا ہے اور ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔
(3)جس شخص کو اپنے کاموں میں حد سے گزر جانے کی عادت ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ 73 حد سے گزر جانے والوں سے خدا محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں وہ کبھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص بھی طبعی طور پر خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہؤا ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کو غصہ آ گیا اور اُس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا۔ اب یہ ایک غلطی ہے جس کی سزا اُسے ملنی چاہیے مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اُسے بُلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سرزد ہؤا ہو جب تک وہ اُس کا قیمہ نہ کر لیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ ہمارے پاس بھی مختلف قسم کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں اور ہم اُنہیں اُن کے قصور کے مطابق سزا دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی سے غلطی ہو تو اُسے مثلاً ڈانٹ دیا جاتا ہے یا معمولی جرمانہ یا مسجد میں بیٹھ کر ذکرالٰہی کرنے کی سزا دے دی جاتی ہے۔ مگر جو اپنے کاموں میں حد کے اندر رہنے کے عادی نہ ہوں اُن کی اس سے تسلی ہی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں یہ بھی کیا سزا ہے کہ چار آنے جرمانہ کر دیا۔ اُن کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سر پر آرہ رکھ کر چلائیں۔ پھر اُس کی ہڈیاں جلا کر اُنہیں سِل پر پیسیں اور پھر کسی پاخانہ کے گڑھے میں اُس کی راکھ ڈال دیں اور پھر اُس پر ایک کتبہ لگا دیں جس میں اُس کو اور اُس کے باپ دادا کو گالیاں دی گئی ہوں اور پھر یہیں تک بس نہیں جب وہ اگلے جہان میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اُس کو دوزخ میں ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیا ہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے۔ وہ حد سے زیادہ گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گزرنے والا خداتعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے۔
(4)جو شخص خوّان ہو یعنی طبیعت میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِيْمًا74 محبت کہتے ہیں معاملہ کی درستی کو اور خوّان کے معنی ہیں بہت بڑا خائن۔ محبت کے معاملہ میں تو ایک چھوٹی سی خیانت بھی برداشت نہیں کی جا سکتی کُجا یہ کہ کوئی شخص خوّان ہو اور پھر اُس سے محبت کی جا سکے۔ جو شخص بڑا خائن ہے وہ کسی صورت میں بھی محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ خدا سے محبت کرے گا یاخدا اُس سے محبت کرے گا بالکل عقل کے خلاف ہے۔
(5)اِسی طرح جو شخص اثیم ہو یعنی گناہ کی طرف کمال رغبت رکھتا ہو اُس سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ اثیم کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بڑا قانون شکن ہو اور جس شخص کو قانون شکنی کی عادت پڑی ہوئی ہو وہ جس طرح دنیا کے قانون توڑے گا اِسی طرح خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑے گا۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللہَ۔75 جو شخص یہ سوچتا رہے گا کہ میں نے اِس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے، اُس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے وہ خداتعالیٰ کے قانون بھی توڑتا چلا جائے گا اور اُن کی اطاعت سے ہمیشہ گریز کرے گا۔
ہماری جماعت میں ایک شخص ہؤا کرتا تھا جسے لوگ فلاسفر فلاسفر کہا کرتے تھے اب وہ فوت ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمائے۔ اُسے بات بات میں لطیفے سوجھ جاتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہؤا کرتے تھے۔ فلاسفر اُسے اِسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا۔ ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا۔ کہنے لگا مولویوں نے یہ محض ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا۔ بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اُس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہؤا۔ مولوی جھٹ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اُس کا روزہ ضائع ہو گیا۔ غرض اُس نے اِس پر خوب بحث کی۔ صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس آیا۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا تھا مگر چونکہ حضرت خلیفہ اوّل ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آیا جایا کرتے تھے۔ آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی ہے۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا رات کو میں یہ بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہؤا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اُس کا روزہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے۔ اِس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں نے تانی لگائی ہوئی ہے (فلاسفر جولاہا تھا اِس لئے خواب بھی اُسے اپنے پیشہ کے مطابق ہی آئی) دونوں طرف میں نے کِیلے گاڑ دیئے ہیں اور تانی کو پہلے ایک کِیلے سے باندھا اور پھر میں اُسے دوسرے کِیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا۔ جب کِیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی وَرے سے تانی ختم ہوگئی۔ میں بار بار کھینچتا تھا کہ کسی طرح اسے کِیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہوسکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی پر گِر کر تباہ ہو جائے گا چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی۔ اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی۔ جب میں جاگا تو میں نے سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو اُنگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو سکتی ہے تو روزہ میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو اُس کے ہوتے ہوئے کسی کا روزہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔
وہ تو فلاسفر کا لطیفہ تھا جس نے یہ کہا تھا کہ اگر پانچ منٹ بعد سحری کھائی جائے تو کیا حرج ہے۔ راولپنڈی کے ایک مولوی کا قصہ مشہور ہے کہ اُس کا ایک شاگرد اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور! میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں۔ اگر نماز پڑھتے ہوئے تھوڑی سی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضو قائم رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے؟ اُس نے کہا وضو تو ٹوٹ جائے گا۔ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر بہت تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب نے کہا تھوڑی کیا اور بہت کیا، ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اُس نے کہا مولوی صاحب آپ پھر بھی نہیں سمجھے اگر بہت ہی تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا ایک دفعہ تو کہا ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کیا کہوں۔ اِس پر اُس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ اگر اتنی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب کو غصہ آ گیا اور اُنہوں نے کہا کمبخت! تیرا تو پاخانہ بھی نکل جائے تو وضو نہیں ٹوٹ سکتا۔ تو خوّان اور اثیم نے محبت کیا کرنی ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ ایک فلسفی کہلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔
جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انسان دلیلیں نہیں سوچتا بلکہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر فرما رہے تھے کہ آپؐ نے دیکھا کہ کناروں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں آپؐ نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اُس وقت مسجد کی طرف آ رہے تھے ابھی آپ گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپ وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ کسی شخص نے آپ کو دیکھا تو کہا عبداللہ بن مسعودؓ! تم ایسے عقلمند ہو کر یہ کیا حرکت کر رہے ہو کہ گلی میں بچوں کی طرح گھسٹ رہے ہو۔ اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ مجھے ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اِس لئے میں بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو اُن لوگوں کے لئے تھا جو تقریر کے وقت کھڑے تھے۔ اُنہوں نے کہا مطلب تو میں بھی سمجھتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ ابھی میری جان نکل جائے تو میں خداتعالیٰ کے حضور شرمندہ ہوں گا کہ ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا بھی تھا جس پر میں نے عمل نہیں کیا۔76 پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے حکم تو سنا ہے لیکن اس کا یہ مفہوم ہے وہ مفہوم ہے وہ فلسفی تو کہلا سکتا ہے لیکن محب نہیں۔ اِسی طرح اثیم جو کھلے بندوں قانون شکنی کرتا ہے اور جو گناہ کی طرف میل رکھتا ہے وہ بھی اچھے دوست کے ساتھ اپنے تعلقات کو نباہ نہیں سکتا۔ اور بُرے دوست سے حقیقی محبت یوں بھی مشکل ہوتی ہے۔ پس خوّان اور اثیم سے بھی خداتعالیٰ محبت نہیں رکھتا یا یوں کہہ لو کہ خوّان اور اثیم بھی خداتعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے۔
(6)جو فرح ہو یعنی عارضی لذات پر کمال لذت محسوس کرتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ 77 جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی محبت کا مورد نہیں بنا سکتا۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی تھی میں تھانیدار بن گیا۔ میں نے فلاں تجارت کی اور اُس میں بڑا نفع ہؤا اور اس خوشی میں اکڑا پھرتا ہے اور پتلون کے شکن ہر وقت درست کرتا رہتا ہے اُس نے خدا تعالیٰ کی محبت کیا حاصل کرنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں ہر خوشی اور ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن انسان اتنا پست ہمت کیوں بنے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر قانع ہو جائے اور بڑی کامیابیوں کا خیال اُس کے دل سے اُتر جائے۔ اُسے تو آسمان کے تارے توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے عزم کو اتنا بلند رکھنا چاہیے کہ ہر مطمح نظر اُسے نیچا دکھائی دے اور وہ سمجھے کہ ابھی میں نے اور اونچا اُڑنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب براہین احمدیہ لکھی اور مولوی بُرہان الدین صاحب کو پہنچی تو اُنہوں نے آپ سے ملنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ وہ جہلم سے قادیان آئے۔ اتفاقاً اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے گئے تھے شاید ہوشیار پور چلّہ کرنے کے لئے یا کسی اور جگہ۔ مولوی بُرہان الدین صاحب چونکہ اسی ارادہ سے آئے تھے کہ آپ سے ملیں گے اِس لئے وہ اُسی جگہ جا پہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قیام تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع کیا ہؤا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے ملنے کیلئے نہ آئے۔ وہ شیخ حامد علی صاحب کے پاس پہنچے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُرانے خادم تھے اور سفروں میں آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ مولوی صاحب بعد میں خود ہی سنایا کرتے تھے کہ میں نے شیخ حامد علی صاحب کی بڑی منتیں کیں کہ کسی طرح میری ملاقات کرا دو مگر اُنہوں نے کہا میں کس طرح ملاقات کروا سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ملاقاتیں بند کی ہوئی ہیں۔ مگر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں اِتنی دُور سے آیا ہوں اب میں بغیر آپ کو دیکھے کے واپس نہیں جاؤں گا چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی صاحب کسی کام کے لئے گئے تو میں دَوڑ کر آپ کے کمرہ کی طرف چلا گیا اور دروازہ کے آگے جو پردہ لٹکا ہؤا تھا اُس کو ہٹا کر دیکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ لکھتے ہوئے بھی ٹہلا کرتے تھے اُس وقت بھی آپ کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور اِدھر سے اُدھر تیزی کے ساتھ ٹہلتے جاتے اور ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے۔ میں نے جونہی آپ پر نظر ڈالی مجھے دیکھ کر اتنا ڈر آیا کہ پردہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ لوگوں نے مجھے دیکھا تو کہا ہمیں بھی کچھ بتائیے مرزا صاحب آپ سے ملے یا نہیں؟ میں نے کہا میں نے مرزا صاحب کو دیکھ لیا ہے بات تو میں نے آپ سے کوئی نہیں کی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے اندر بھی اتنی جلدی جلدی ٹہل رہے تھے جیسے کسی نے بڑی دور جانا ہو اور وہ اپنے کام کو تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہو۔ اِس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی منزل بہت دور ہے اور کوئی عظیم الشان مقصد ہے جو آپ کے سامنے ہے لیکن فَرِحَ یعنی تھوڑی تھوڑی چیز پر تسلی پا جانے والا دور کی کامیابیوں کو اپنا مقصد قرار ہی نہیں دے سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مومن پر اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی احسان کرے گا وہ کہے گا ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ مگر ساتھ ہی کہے گا اِس انعام پر تو اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ مگر میری منزل ابھی دور ہے پھر دوسرا انعام آئے گا تو کہے گا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۔ خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اِس انعام سے سرفراز فرمایا مگر میں نے تو آپ کو لینا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میرا مقصود نہیں ہیں۔ اِس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر وہ خداتعالیٰ کو پا لیتا ہے۔
(7) جو شخص مفسد ہو اللہ تعالیٰ اُس سے بھی محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ 78 مفسد سے میں محبت نہیں کرتا۔ سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق اور اُس کا ربّ ہے۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرے گا تو اُس مخلوق کا خالق اور ربّ فساد کرنے والے سے کس طرح محبت کرے گا۔ اگر کسی بچہ سے انسان کو نفرت ہو تو اُس کی ماں کبھی نفرت کرنے والے سے پیار نہیں کر سکتی۔ جب تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص فساد ڈلواتا ہے اور لوگوں کی آپس میں لڑائیاں کرواتا رہتا ہے خدا تعالیٰ اُسے کبھی پسند نہیں کرسکتا۔
انگریزی میں ایک حکایت مشہور ہے کہ کسی شخص کو ایک عورت سے عشق ہو گیا۔ وہ عورت بیوہ تھی اور وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر یوروپین طریق کے مطابق خالی پیغام سلام سے شادی نہیں ہو سکتی تھی ضروری تھا کہ پہلے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ یورپ کے لوگوں میں مرد و عورت کی دوستی کے بعد شادی ہوتی ہے پہلے نہیں۔ پس وہ اُسے اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی کوشش کرتا مگر اُسے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ آخر اُس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے اِس اِس طرح فلاں عورت سے عشق ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میری طرف توجہ ہی نہیں کرتی۔ اُس نے کہا عورت کا کوئی بچہ ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا کہ بچہ تو ہے۔ اُس نے کہا تو پھر محبت میں کونسی مشکل ہے بچہ کو اُٹھا کر اُس سے چند دن پیار کرو عورت تم سے خودبخود بے تکلّف ہو جائے گی۔ تو جس سے کسی کو محبت ہو اُس سے نفرت رکھنے سے کبھی اُس شخص کی محبت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمد است
اب آلِ محمدؐ میں سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ مگر اس وجہ سے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان اُن سے محبت کرے۔ یہ خیال کرنا کہ آلِ محمدؐ سے بے شک محبت نہ ہو لیکن محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے حاصل ہو جائے گی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ ۔ اگر تم فساد کرو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تم سے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پیارے ہیں۔ جو اُن سے محبت نہ کرے اور اُن کا بدخواہ ہو، نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ سے۔
(8) جو شخص ناشکرا ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے کیونکہ محبت کا ایک ذریعہ احسان ہے۔ جو شخص شکرگزار نہیں اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احسان کو نہیں دیکھ سکتا اور جو احسان کو نہیں دیکھ سکتا وہ خدا تعالیٰ سے محبت بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس سے محبت کا پہلا دروازہ احسان ہی ہے۔ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ 79 خوّان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ كَفُوْر کے معنی ہیں ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اُس کے اندر شکرگزاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ گویا احسان شناسی کا مادہ اُس کے اندر ہوتا ہی نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا ہی نہیں۔ کہتا ہے مجھے کچھ نہیں ملا اُسے اور کیا مل سکتا ہے۔ اُس سے تو اللہ تعالیٰ اگر محبت بھی کرے گا تو وہ کہہ دے گا کہ مجھے کچھ نہیں ملا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ80 تم جتناجتنا شکر کرو گے میں اُتنا ہی اپنے انعامات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا اور جتنی جتنی ناشکری کرو گے اتنی ہی میں اپنے انعامات میں کمی کر دوں گا۔
(9) جو شخص مُسرف ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ81 مُسرف سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں رکھتا کیونکہ مسرف اپنے اور اپنے نفس کی لذات کو دوسرے کی تکلیف اور آرام پر ترجیح دیتا ہے اور جو شخص خداتعالیٰ کے بندوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اپنے نفس پر بِلاوجہ خرچ کرتا چلا جاتا ہے اُسے کون پسند کر سکتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میں تم پر اپنے انعامات نازل کروں کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ تب بندے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ خدایا! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور بیمار ہو۔ ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا جب دنیا میں میرے غریب بندوں میں سے کسی بھوکے کو تم نے کھانا کھلایا تو تم نے اُسے کھانا نہیں کھلایا، مجھے کھلایا۔ اور جب تم نے کسی پیاسے کو پانی پلایا تو تم نے اُسے پانی نہیں پلایا بلکہ مجھے پانی پلایا اور جب تم نے کسی ننگے کو کپڑے دیئے تو تم نے اُس کو کپڑے نہیں دیئے بلکہ مجھے کپڑے دیئے اور جب تم نے میرے بیمار بندوں کی عیادت کی تو تم نے اُن کی عیادت نہیں بلکہ میری عیادت کی۔ اِس کے بعد وہ دوسری طرف کے لوگوں سے مخاطب ہوگا اور کہے گا میں بھوکا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ میں پیاسا تھا مگر تم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ میں ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی تب وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ خدایا! تو تو زمین و آسمان کا مالک اور سب کا خالق ہے تو بھلا کب بیمار ہو سکتا ہے، کب بھوکا اور پیاسا اور ننگا ہو سکتا ہے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا کہ دنیا میں میرے کچھ ایسے بندے تھے جو بھوکے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو پیاسے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو ننگے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو بیمار تھے مگر تم نے اُن کی پرواہ نہ کی۔ نہ تم نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، نہ پیاسوں کو پانی پلایا، نہ ننگوں کو کپڑا دیا، نہ بیماروں کی عیادت کی۔ پس تم نے اُن بندوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کیونکہ وہ میرے بندے تھے۔82 تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کے لئے ہمیں روپیہ دیتا ہے، ہمیں علم دیتا ہے، ہمیں عزت اور شہرت دیتا ہے اگر ہم اپنے روپیہ اور علم اور عزت اور شہرت سے اُن کی مدد نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے نفس کی لذات میں ہی منہمک رہتے ہیں تو ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے محبت کرے گا اور جب وہ ہم سے محبت نہیں کرے گا تو ہم اُس سے کس طرح محبت کر سکتے ہیں۔
(10) جو شخص ظالم ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ فرماتا ہے وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ83 ظالموں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔گویا ظلم اور محبت جمع نہیں ہو سکتے۔ جو شخص ظلم کرتا ہے اُسے درحقیقت اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہو وہ دوسرے سے محبت نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بندوں پر تو ظلم کرے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محبت جذبہ ہے نرمی کا اور ظلم جذبہ ہے سختی کا۔ محبت کہتی ہے اپنی چیز قربان کر اور ظلم کہتا ہے دوسرے کی چیز قربان کر۔ پس یہ دو مخالف جذبات ہیں اِس لئے جو شخص ظالم ہے نہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے اور نہ خداتعالیٰ اُس سے محبت کرتا ہے۔
یہ دس عدد اخلاق اور بُرائیاں جس شخص میں ہوں فرداً فرداً یا مجتمع طور پر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے ناقابل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ سے ضرور محبت کرتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی قابلیت ہوتی ہے۔ پس اِن باتوں کے یہ معنی نہیں کہ جن لوگوں میں یہ باتیں نہ ہوںوہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں۔ بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ باتیں ہوں وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے اور نہ خداتعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اگر اُن میں یہ باتیں نہ ہوں تو اُن کے لئے اِمکان ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے محبت کر سکیں۔ یہ معنی نہیں کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ مثلاً جو شخص ظالم ہے وہ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا۔ مگر جو ظالم نہیں ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو۔ ممکن ہے وہ سخت دل ہو یا پاگل ہو اور اُس کے اندر محبت پیدا ہی نہ ہو سکی ہو۔ پس نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے ہوتے ہوئے محبت نہیں ہو سکتی۔ یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ظلم نہ ہو تو محبت ضرور ہوگی۔ ایک شخص جو مسرف نہیں اُس میں قابلیت ہے محبت کرنے کی مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ اِسی طرح وہ شخص جو خوّان اور اثیم نہیں اُس میں قابلیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرلے مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے۔ جب تک وہ خوّان اور اثیم تھا اس کے لئے محبت کرنا ناممکن تھا جب وہ خوّان اور اثیم نہ رہا تو محبت کرنا اس کے لئے ممکن ہو گیا۔ گویا ان صفات میں منفی کی طاقت ہے اِن کے عدم میں مثبت طاقت نہیں۔
اب میں بتاتا ہوں کہ محبت الٰہی پیدا کرنے کے لئے کن ذرائع کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ
اوّل صفاتِ الٰہی کا ورد کرنے سے، جسے ذکر کہتے ہیں محبت پیدا ہوتی ہے یعنی سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ اَللہُ اَکْبَرُ اور اِسی طرح یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا سَتَّارُ یَا غَفَّارُ وغیرہ وغیرہ۔ ننانوے اسمائے الٰہیہ عام طور پر قرار دیئے جاتے ہیں۔ بعض نے سَو یا ایک سَو ایک نام بھی لکھے ہیں مگر ہیں وہ بہت زیادہ۔ بہرحال صفاتِ الٰہیہ کے ذکر کرنے سے محبت الٰہیہ پیدا ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ سب سے پہلا درجہ ہے اِس لئے کہ یہ تکلّف کا درجہ ہے۔ ہم کہتے ہیں سُبْحَانَ اللہِ۔ ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ۔ ہم کہتے ہیں اَللہُ اَکْبَرُ۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام لیتے اور اُس کی صفات کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن نام لینے سے یقین اور ایمان میں ترقی نہیں ہوتی۔ ہم ایک مضمون تو اپنے سامنے لاتے ہیں مگر یہ کہ ہمارا قلب بھی اُس مضمون کو تسلیم کر لیتاہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے۔ ہم ایمان لے آئے خدا کی باتوں پر۔ ہم ایمان لے آئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر اور ہم نے کہا خدا بڑا غفار ہے۔ خدا بڑا ستار ہے یا خدا بڑی شان کا مالک ہے۔ یہ ہمارے دماغ کی تسلی کا تو ثبوت ہے لیکن ہمارے دل کی تسلی کا ثبوت نہیں۔ ہم جب سُبْحَانَ اللہِ کہتے ہیں یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہیں یا سَتَّار اور غَفَّار کہتے ہیں تو ایک عقلی چیز اپنے سامنے لاتے ہیں اور عقلی چیز کا لازمی نتیجہ محبت نہیں ہوتی۔ مثلاً ہم شیر کو مانتے ہیں مگر شیر کے ماننے سے محبت پیدا نہیں ہو جاتی۔ اِسی طرح ہم انگلینڈ اور امریکہ کا باربار ذکر سنتے ہیں تو انگلینڈ اور امریکہ سے محبت نہیں کرنے لگ جاتے۔ اِسی لئے اِس کو ذِکر کہتے ہیں یعنی یہ تکلّف اور بناوٹ کی محبت ہے۔ جیسے اقلیدس والا کہتا ہے کہ فرض کرو یہ لکیر فلاں لکیر کے برابر ہے۔ اِس طرح وہ فرض سے شروع کرتا ہے اور سچائی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ ایک شخص مصنوعی طور پر رونا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سچ مچ رونے لگ جاتا ہے۔ کئی مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے لگتی ہیں تو بعد میں وہ خود بھی ڈرنے لگ جاتی ہیں۔
عربوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی لڑکا تھا جسے باقی لڑکے سخت تنگ کرتے اور اُسے مارتے رہتے تھے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہتا کہ تمہیں کچھ پتہ بھی ہے آج فلاں رئیس کے ہاں ولیمہ کی دعوت ہے۔ یہ سنتے ہی بچے اُس طرف دَوڑ پڑتے اور اِسے چھوڑ دیتے۔ اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال آتا کہ شاید وہاں سچ مچ دعوت ہو اور یہ لڑکے کھا آئیں اور میں محروم رہ جاؤں۔ اس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف بھاگ پڑتا۔ ابھی وہ نصف راستہ میں ہی ہوتا کہ لڑکے ناکام واپس آ رہے ہوتے اور وہ غصہ میں اُسے پھر پکڑ لیتے اور خوب مارتے۔ جب وہ بہت ہی تنگ آ جاتا تو پھر اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے چاہتا کہ اُنہیں کوئی دھوکا دے۔ چنانچہ وہ اُن سے کہتا کہ اصل میں مَیں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ دعوت اُس رئیس کے ہاں نہیں تھی بلکہ فلاں رئیس کے ہاں تھی۔ یہ سن کر لڑکے اُس دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے۔ مگر اُن کے جانے کے بعد پھر اُس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ گو میں نے دھوکا دیا ہے مگر شاید اُس رئیس کے ہاں دعوت ہی ہو۔ اِس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف دَوڑ پڑتا اور خود بھی دھوکا کھا جاتا۔
تو بسا اوقات بناوٹ سے بھی یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی نماز میں رونے والی شکل بنائے تو آہستہ آہستہ اُسے رونا آجاتا ہے۔ پس ذکرِ الٰہی تصنع والی محبت کا مقام ہے۔ اصل میں اِس کا دماغ خدا کو سُبْحان مانتا ہے۔ اِس کا دماغ خدا کو ستار اور غفار مانتا ہے۔ اس کا اپنا جوڑ خداتعالیٰ سے نہیں ہوتا لیکن جب یہ کہنا شروع کرتا ہے کہ یا ستار یا غفار تو محبت الٰہی کا کوئی نہ کوئی چھینٹا اِس پر بھی آ پڑتا ہے۔ جیسے کیچڑ اُچھالا جائے تو کچھ کیچڑ اپنے اوپر بھی آ پڑتا ہے یا شکر کی بوری بھرتے ہیں تو شکر کے چند دانے بوری بھرنے والے کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔ غرض اِسی طرح ہوتے ہوتے یہ مصنوعی محبت حقیقی محبت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ فَاذْكُرُوْنِيْۤ۠ اَذْكُرْكُمْ84 تم میرا ذکر کیا کرو گے تو ہوتے ہوتے ایسا مقام تمہیں حاصل ہو جائے گا کہ میں تمہیں یاد کرنے لگ جاؤں گا۔
(2) دوسرا ذریعہ صفاتِ الٰہیہ پر غور کرنا ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں فکر کہا جاتا ہے۔ ایک ہے سُبْحَانَ اللہِ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور اَللہُ اَکْبَرُ کہنا اور ایک ہے سوچنااور غور کرنا کہ خدا سُبْحَان کس طرح ہے۔ خدا اَکْبَر کس طرح ہے، خدا تمام تعریفوں اور محامد کا مستحق کس طرح ہے۔ یہ جو دماغ میں صفاتِ الٰہیہ کا دَور کیا جاتا اور اُن کا ایک رنگ میں آپریشن کیا جاتا ہے اِس کو فکر کہتے ہیں۔ خالی اَللہُ اَکْبَرُ کہنا ذکر ہے لیکن اَکْبَرُ پر بحث شروع کر دینی کہ اللہ کس طرح بڑا ہے یہ فکر ہے۔ جب انسان فکر کرے گا تو اس کے سامنے سوال آئے گا کہ اللہ کس طرح بڑا ہوا؟ آج تو امریکہ سب سے بڑا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی امریکہ کرتا ہے وہی ساری دنیا کرنے لگ جاتی ہے اور مسلمان اپنی حکومتوں کے باوجود اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ جب وہ سوچے گا تو اُسے خود ہی یہ جواب سمجھ آئے گا کہ امریکہ کو جو بڑائی ملی ہے یہ اُسے کس نے دی ہے اور کیوں دی ہے۔ جب وہ غور کرے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ امریکہ کو خدا نے ہی بڑائی دی ہے اور اس لئے بڑائی دی ہے کہ اُس نے فلاں فلاں اعمال کئے اور مسلمان اس لئے گر گئے کہ اُنہوں نے اُن اعمال کو ترک کر دیا۔ غرض اس طرح جب وہ سوچے گا تو اس کا دل اِس یقین اور ایمان سے لبریز ہو جائے گا کہ اَکْبَراللہ ہے امریکہ نہیں۔ اِس غور اور تدبر کو فکر کہتے ہیں اور یہ مقام تفصیل کا مقام ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔85 اے مومنو! یاد کرو میرے ناموں کو نہیں، میری صفات کو نہیں بلکہ نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ جو انعام میں نے تم پر اپنی کسی خاص صفت کے ماتحت کئے ہیں اُن کی تفصیلات پر غور کرو۔ یہ نہ سوچو کہ میں نے تمہیں کھانا دیا اور کپڑے دیئے بلکہ یہ سوچو کہ دنیا تمہارے لئے کیا کر رہی تھی اور میں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ کس طرح ایک قوم تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھی اور اُس نے اپنی ساری قوتیں تمہارے خلاف جمع کر لیں۔ کیا کیا قدرتیں تھیں جو اُس کو حاصل تھیں فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے منصوبوں میں اُس کے ہاتھ روک دیئے اور تمہیں اُس کے حملوں سے محفوظ کر دیا۔ یہ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے یعنی خالی زبان سے رحمٰن یا رحیم نہ کہا جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ تم بیماری سے مرنے لگے تھے، سارے حالات تمہارے خلاف جمع تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا اور تمہیں صحت عطا کر دی۔ فرض کرو کوئی شخص جنگل میں جا رہا ہے اور وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس میں آپریشن ضروری ہے تو ایسی حالت میں اگر اچانک گھوڑے پر سوار کوئی ڈاکٹر اُس کے پاس آ جاتا ہے اور وہ اُس کا علاج کرتا ہے جس سے وہ اچھا ہو جاتا ہے تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ ڈاکٹر نہیں آیا بلکہ خدا اپنے بندہ کے پاس چل کر آیا ہے۔ ایسے ہی نشانات ہوتے ہیں جو انسان کو کھینچ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اور اُسے فرش سے اُٹھا کر عرش تک پہنچا دیتے ہیں اور انہی نشانات پر غور انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں اِسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم غور کرو اور سوچو کہ آیا تمہارے ساتھ، تمہارے دوستوں کے ساتھ یا تمہارے بزرگوں اور عزیزوں کے ساتھ ایسے واقعات گزرے ہیں یا نہیں جن میں اُس کی قدرت کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا۔ جب تم ایسے واقعات پر غور کرو گے تو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی۔ یہ پہلے مقام سے اونچا مقام ہے۔ ذکر میں تکلّف پایا جاتا ہے لیکن فکر میں تکلّف نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے۔
(3) تیسرے مخلوقِ الٰہی کی خیر خواہی اور اُس سے محبت کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ وہ طریق ہے جس میں انسان خداتعالیٰ کو ایک رنگ میں مجبور کرتا ہے کہ میرے دل میں اپنی محبت ڈال۔ جیسے تم خدمت اور محبت سے دوسرے کے دل میں محبت پیدا کر دیتے ہو۔ تم ریل میں سفر کرتے ہو کمرہ میں سخت بھیڑ ہوتی ہے تمہارے لئے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ کمبخت یہ ریل ہے یا ڈربہ۔ جو آتا ہے اِسی ڈبہ میں آ جاتا ہے۔ اُس وقت اگر تم ایک کیلا نکال کر اُس شخص کے بچہ کو دے دو تو اُسی وقت اُس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ کہے گا تشریف رکھئے اور پھر وہ تم سے محبت کے ساتھ باتیں کرنے لگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے مخلوقِ الٰہی سے اگر نیک سلوک کرو تو اللہ میاں تم سے آپ کہیں گے کہ آؤ میاں میرے پاس بیٹھو۔ اصلی صوفیاء نے اِسی کا نام عشق مجازی رکھا تھا لیکن جھوٹے صوفیاء نے افراد کی محبت اور اُن سے عشق کا نام عشق مجازی رکھ لیا۔ حالانکہ جب صوفیاء نے یہ کہا تھا کہ عشق حقیقی پیدا کرنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے تو اُن کا مطلب صرف یہ تھا کہ بندوں کی حقیقی محبت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو سکتی۔ نہ یہ کہ کسی حسین لڑکے یا حسین عورت سے جب تک محبت نہ کی جائے اللہ تعالیٰ بھی انسان سے محبت نہیں کر سکتا۔ یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نکتہ تھا جسے گندی شکل دے کر جاہلوں اور اوباشوں نے دین کی ہتک کی اور اپنی ہوس رانی کی راہ نکال لی۔ درحقیقت یہ محبت بسیط ہے یعنی کسی خاص شخص کی محبت نہیں بلکہ بنی نوع انسان بلکہ مخلوقات کا تصور کر کے یہ خیال کرنا کہ یہ میرے خدا کے پیارے ہیں مجھے خدا تعالیٰ تو نہیں ملتا چلو میں اِن سے محبت کروں اس محبت کا سرچشمہ ہے۔ ایسی محبت کرتے کرتے یکدم محبت الٰہی شُعلہ مار کر تیز ہو جاتی ہے۔ پس بے شک یہ درست ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی پیدا نہیں ہو سکتا لیکن عشق مجازی کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ جب تک انسان بنی نوع انسان کی محبت اور اُن کے لئے قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اُس وقت تک خداتعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا۔ اِس لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان خدا کے عیال ہیں جس طرح تمہیں اپنے بچوں سے محبت ہے اِسی طرح خدا کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہے۔ پس مخلوق سے محبت کر کے خدا کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی محبت سے مخلوق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔
حدیثوں میں آتا ہے کہ جب بارش نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن میں تشریف لاتے اور اپنی زبان نکال کر اُس پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے ربّ کی طرف سے تازہ نعمت آئی ہے86(اس موقع پر حضور نے اپنی زبان باہر نکالی اور فرمایا۔ اس طرح۔ پھر فرمایا) میرے زبان نکالنے پر ممکن ہے تم میں سے بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ میں نے تہذیب کے خلاف حرکت کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان نکالی تھی تو اُس وقت بھی بعض ایسے ہی خیالات رکھنے والے لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ کیسی تہذیب کے خلاف بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کی اور فرمایا میرے ربّ کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے میں کیوں نہ اِسے اپنی زبان پر لے لوں۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کا قطرہ اپنی زبان پر نہیں لیا بلکہ درحقیقت خدا کی نعمت لی اور میں نے بھی اپنی زبان نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہہ ایک فعل کیا ہے تا کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی کس طرح قدر کیا کرتے تھے۔ اِسی مفہوم پر وہ آیت دلالت کرتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتی ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ 87 اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا تُو اپنے آپ کو اِس غم میں ہلاک کرلے گا کہ میرے یہ بندے ایمان نہیں لائے؟ گویا خیال کر کے کہ یہ مجھ سے دور ہیں اور میرے لئے ناخوشی کا موجب ہیں تُو آپ مرا جا رہا ہے۔ اس طرح سے بین السطور اِس آیت کا یہ ہے کہ جب تو میری مخلوق کے غم میں مرا جا رہا ہے تو میں تجھ سے پیار کیوں نہ کروں۔ دنیا میں اور لوگ بھی لوگوں کے مومن نہ ہونے پر غم کرتے ہیں مگر اُن کا غم اُن کے ہدایت نہ پانے پر نہیں ہوتا بلکہ اپنی بات کی ناکامی پر ہوتا ہے اور دونوں غموں میں بڑا بھاری فرق ہے۔ ایک میں غصہ ہوتا ہے اور ایک میں رنج۔
پھر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث قدسی میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے کہے گا کہ جب میں بھوکا تھا تو تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ جب میں پیاسا تھا تو تم نے مجھے پانی پلایا اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت کی۔ بندے کہیں گے کہ خدایا! تو کب بھوکا ہؤا کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے۔ تو کب پیاسا ہوا کہ ہم تجھے پانی پلاتے۔ تو کب ننگا ہؤا کہ ہم تجھے کپڑے پہناتے۔ تُو کب بیمار ہؤا کہ ہم تیری عیادت کرتے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے کچھ بندے دنیا میں ایسے تھے جو بھوکے اور پیاسے اور ننگے اور بیمار تھے اور تم نے اُن کی خدمت کی۔ پس گو تم نے میرے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیا مگر یہ ایسا ہی تھا کہ گویا تم نے مجھ سے یہ سلوک کیا ہے۔
اِس مثال سے بھی ظاہر ہے کہ مخلوق کی محبت سے خالق کی محبت ملتی ہے۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ وَ اللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ88 جب کوئی شخص محسن ہو جاتا ہے اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔ جب تم کسی سے محبت کرنے لگو تو بتاؤ کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم تو اُس سے محبت کرو لیکن وہ تم سے محبت نہ کرے۔ جب تم کسی سے محبت کرو گے تو لازماً تمہارا دل چاہے گا کہ وہ بھی تم سے محبت کرے لیکن دنیا میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم زید سے محبت کرو اور زید تم سے محبت نہ کرے۔ تم ایک شخص کو چاہو اور وہ تمہیں نہ چاہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک بات چاہے اور وہ نہ ہو۔ جب خدا کہتا ہے کہ جو شخص محسن ہو جاتا ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ تم محسن بنو اور خدا تم سے محبت نہ کرے اور اس کی محبت کے نتیجہ میں تمہارے دل میں بھی ضرور محبت پیدا ہوگی اور تم بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاؤ گے۔ یہ تو عام قاعدہ بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی تو یہ شان ہے کہ اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ۔89
(4) گناہ پر ندامت کی عادت ڈالنا یعنی کوئی گناہ ایسا نہ ہو جس کے بعدندامت نہ ہو۔ اِس سے بھی محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جو شخص گناہ پرنادم ہو اُس کے اندر آہستہ آہستہ حُسن کے دیکھنے اور قدر کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جو شخص گناہ کرتا ہے اور پھر اُس کے اندر ندامت پیدا نہیں ہوتی اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے بُری تصویردیکھی مگر اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ یہ بُری تصویر ہے اور جس میں ندامت پیدا ہوتی ہے اُس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ اُس میں یہ احساس ہے کہ وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھتا ہے اور جب وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھے گا تو لازماً اچھی چیز دیکھ کر اُسے اچھی سمجھے گا۔ جب یہ مادّہ کسی شخص کے اندر پیدا ہو جائے اور وہ حسن کو دیکھنے لگے تو پھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ آپ ہی کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سب سے بڑا محسن اور سب سے بڑا حسین ہے۔ اِسی لئے فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ 90 اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(5) جو انسان اپنے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے کہ دعا کے بغیر میرے کام نہیں ہو سکتے۔ اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اِس خیال کو اپنے دل میں مرکوز کرلے گا وہ لازماً دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کرے گا۔ کہے گا فلاں کا کام دعا سے ہوا ہے آؤ میں بھی اُس سے دعا کروں اور اس طرح خداتعالیٰ کا احسان اُس کے زیادہ قریب آ جائے گا۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے ہی سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور دوسری ہزاروں ہزار چیزیں پیدا کی ہیں اور انسان جانتا ہے کہ یہ سب خداتعالیٰ کی عطا کردہ ہیں لیکن جب یہ بات نظر کے سامنے آئے کہ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی۔ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی تو جو اثر یہ چیزیں پیدا کرتی ہیں وہ سورج اور چاند اور ستارے پیدا نہیں کرتے۔ پس دعا کی طرف توجہ کرنا بھی محبت الٰہی پیدا کرتا ہے۔ بے شک شروع میں تکلّف والا حصہ آئے گا لیکن جب یہ بار بار دعائیں مانگے گا تو لازماً اس کی دعائیں قبول بھی ہوں گی اور بعض دفعہ معجزانہ رنگ میں قبول ہوں گی اور اس کی وجہ سے احسان جس سے محبت پیدا ہوتی ہے ننگا ہو کر اس کے سامنے آ جائے گا اور اس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی۔ اِس کی طرف بھی اوپر کی آیت اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ کے دوسرے معنوں نے اشارہ کیا ہے۔
تَوَّابِیْنَ کے دو معنی ہیں۔ ایک توبہ کرنے والوں کے اور دوسرے تَوَّاب اُس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے۔ پس جو شخص بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے اُس کے دل میں بھی خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بات بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے کہ جب انسان مانگتا ہے تو عجز کرتا ہے اور جب عجز کرتا ہے تو اُس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ اِس طرح بھی توّاب خداتعالیٰ کی محبت کا جاذب بن جاتا ہے۔
(6) جو شخص خداتعالیٰ پر اپنے کاموں کو چھوڑ دے یعنی تدبیریں سب کرے لیکن یہ یقین کرے کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی نے نکالنا ہے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص اپنے کام کو اُس پر چھوڑتا ہے وہ کم سے کم تکلّف سے اُس کی طاقتوں اور اُس کے احسان کا اقرار کرتا ہے اور یہ تکلّف آخر حقیقت بن جاتا ہے جیسا کہ اکثر دنیا کے کاموں میں ہوتا ہے۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ 91 جوشخص خداتعالیٰ پر اپنے کام چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ مجھ سے نہیں ہو سکتے آپ ہی یہ کام کیجئے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔
(7) جو شخص دنیا میں خداتعالیٰ کے لئے انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اُس کے دل میں بھی محبت الٰہی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ انصاف کا ترک اپنے یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور عزیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انسان اِسی لئے انصاف چھوڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے انصاف سے کام لیا تو میری ماں کو نقصان پہنچے گا یا میرے باپ کو نقصان پہنچے گا یامیرے رشتہ داروں کو نقصان پہنچے گا۔ پس انصاف کے ترک کی ایک بڑی وجہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت ہوتی ہے اور یا پھر انصاف کا ترک دشمن کے بُغض کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہی دو وجوہ نا انصافی کے ہؤا کرتے ہیں یعنی دونوں فریق میں سے ایک کی دوستی یا ایک کا بُغض۔ ظاہر ہے کہ جو نہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کرے گا نہ دشمن کا بُغض اُسے انصاف سے پھیرے گا کوئی اُس محبت سے بڑی محبت یا اُس بُغض سے بڑا خوف ضرور اُس کے دل میں ہوگا۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اگر فلاں مقدمہ کا میں یوں فیصلہ کر دوں تو میرے بچہ کو فائدہ ہوگا یا میرے دوست کو فائدہ ہوگا یا ماں باپ کو فائدہ ہوگا مگر اس کے باوجود وہ نہیں کرتا تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور بڑی محبت اُس کے پیچھے ہے اِس لئے وہ انصاف کو ترک نہیں کرتا یا اگر کوئی بڑا دشمن اس کے قابو آ گیا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ اُس سے بدلہ لے سکتا ہے پھر بھی یہ انصاف سے کام لیتا ہے اور دشمنی کی پروا ہ نہیں کرتا تو صاف ظاہر ہے کہ اُس بُغض کا بدلہ لینے کے پیچھے کوئی ڈر اور خوف ہے جو اُسے ترکِ انصاف سے روکتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے بدلہ لیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ یہ بڑی محبت یابڑا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے جو خواہ معیّن طور پر اللہ کے نام سے ہو یا غیر معیّن کسی بالا اور اعلیٰ طاقت کی وجہ سے ہو۔ بہرحال اُس کی فطرت میں محبت یا خوف پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ انصاف سے کام لیتا ہے اور یہ محبت یا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے۔ اور جس کے دل میں یہ بات نہیں لازماً اُس کا یہ فعل اِس لئے ہوگا کہ گویا وہ کسی بڑی طاقت کو مانتا ہے یا اُس کے قریب ہونا چاہتا ہے اور جب ایسا مقام کسی کو حاصل ہو جائے تو لازماً وہ خداتعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائے گا اور جب وہ خداتعالیٰ سے محبت کرے گا تو خدا بھی اُس سے محبت کرنا شروع کر دے گا۔ چنانچہ اِس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ 92 اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
(8)ایک طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر امر میں خداتعالیٰ کو ڈھال بنانے کی کوشش کرے۔ یعنی بدی کو خدا کے لئے چھوڑے بدی کو بدی کے لئے نہ چھوڑے۔ یہی وہ چیز ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں۔ جب انسان کو کسی ہستی کی خاطر کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اُس سے محبت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بادشاہوں، نوابوں اور رؤساء سے پُرانے خاندانی خدام اور رعایا کی محبت اِسی لئے ہوتی ہے کہ اُنہیں اُن کی خاطر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے اُن کی محبت ترقی کرتی رہتی ہے۔ اِسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے خداتعالیٰ کی رضا کے لئے کرے۔ مثلاً اگر وہ صدقہ دیتا ہے تو کہے کہ میں یہ صدقہ اس لئے نہیں دیتا کہ میری نیک نامی اور شہرت ہو بلکہ اِس لئے دیتا ہوں کہ خدا نے صدقہ دینے کا حکم دیا ہے یا فلاں پر میں ظلم نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا سے ڈرتا ہوں۔ جب اِس طرح اُسے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی وابستگی ہو جائے گی۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 93 جو بُرے کاموں سے میرے لئے بچتے ہیں اور جو نیکی کا کام میرے لئے کرتے ہیں اُن سے میں محبت کرتا ہوں اور اسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدایت دیتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی شخص نیک کام کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اِحْتِسَابًا کرے۔94 اِحْتِسَابًا کے معنی ہیں خداتعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی جزاء کے لئے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مقام ادنیٰ ہے حالانکہ یہ بہت اعلیٰ مقام ہے اور اِس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے۔
(9) محبت کا ایک ذریعہ ہم جنس بننا ہے۔ جتنا جتنا کوئی ہم جنس بنے اِس کی محبت اُسے اور اُس کی اِسے پیدا ہو جاتی ہے۔ انسانوں کو دیکھ لو سب ہم جنس سے محبت کرنے کے عادی ہیں۔ مُلکی مُلکیوں سے اور ایک زبان والے اپنی زبان والوں سے اسی وجہ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ہم جنس ہوتے ہیں بلکہ انسان تو الگ رہے جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے۔ کوّے سب اکٹھے رہیں گے، قاز95 سب اکٹھے رہیں گے، مرغ، گھوڑے اور گدھے اپنی اپنی جنس میں رہیں گے۔ ایک طرف آدمی ہوں اور دوسری طرف گھوڑے اور تم کسی گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو تو وہ فوراً گھوڑوں کی طرف چلا جائے گا۔ اِسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں اِن الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے کہ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ خداتعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اُس کے ہم جنس بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تم اُن کی نقل کرنے کی کوشش کرو۔ تم حيّ نہیں بن سکتے لیکن تم بیمار کا علاج کر کے یا بیمار کی خدمت کر کے حيّ کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم مُمِیْت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خاتمہ کر کے مُمِیْت کی نقل تو کر سکتے ہو۔ تم خالق نہیں بن سکتے لیکن تم اچھی اولاد پیدا کر کے خالق کی نقل تو کر سکتے ہو۔ مُتَطَہِّر کے معنی ہیں تکلّف کے ساتھ پاکیزگی اختیار کرنا۔ پس اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ میں اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم میری نقلیں کرنی شروع کر دوتو میں تم سے محبت کرنے لگ جاؤں گا۔ پس صفاتِ الٰہیہ کو جو شخص اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُسے مشابہت ہوتی جاتی ہے اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کو اُس کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے خدا بننے کی کوشش کرو۔ جب تم چھوٹے خدا بن جاؤ گے تو بڑا خدا تم سے آپ ہی محبت کرنے لگ جائے گا۔
(10) ایک ذریعہ محبت کا فطرت کا مطالعہ اور محبت کے طریقوں پر غور کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا96 اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کچھ جذبات رکھے ہیں جو خود اُس نے پیدا کئے ہیں۔ اِن میں صفاتِ الٰہیہ کی جھلک رکھی گئی ہے یعنی انسان کے اندر اُس نے ایسے مادے رکھ دئے ہیں جن سے خدا اور بندے میں ہم جنسیت ہو جاتی ہے۔
اب ہم قانونِ قدرت سے وہ امور تلاش کرتے ہیں جو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تا کہ ان پر غور کر کے ایک طالبِ صادق محبت الٰہی پیدا کر سکے۔
(1) سب سے پہلی محبت ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ اور اولاد کی ہوتی ہے اِس محبت میں حسن اور احسان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کسی ماں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اپنے بچہ سے اِس لئے محبت نہیں کرتی کہ وہ خوبصورت نہیں۔ نہ کوئی ماں یہ کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں سے اس لئے محبت کرتی ہوں کہ اُنہوں نے ہم پر احسان کئے ہوئے ہیں۔ نہ بچے نے ماں باپ پر احسان کئے ہوتے ہیں اور نہ وہ اُس کی شکل دیکھتے ہیں بلکہ باوجود بدصورت ہونے کے اُنہیں اپنا بچہ ہی سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ آج ہی ایک عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اُس نے گود میں اپنا بچہ اُٹھایا ہوا تھا۔ اُس بچہ کو دیکھ کر گھن آتی تھی۔ ناک بہہ رہا تھا اور بہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر گِر رہا تھا مگر ماں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ اُس کی رینٹھ کو غالباً مشک اور عنبر سے بھی زیادہ اچھا سمجھتی تھی۔ تو ماں باپ کی محبت کسی ظاہری دلیل کی وجہ سے نہیں ہوتی۔
کتابوں میں قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُس نے ایک حبشی کو بُلایا اور اُسے ایک خوبصورت ٹوپی دے کر کہا کہ تمہیں اِس دربار میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ دکھائی دے اُس کے سر پر جا کر یہ ٹوپی رکھ دو۔ وہ سیدھا اپنے بیٹے کی طرف گیا جو نہایت کالا کلوٹا اور بھدی شکل کا تھا اور جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے ناک بیٹھا ہوا تھا اور ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دی۔ یہ دیکھ کر سارا دربار ہنس پڑا۔ بادشاہ نے اُس سے کہا کہ میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ سب سے خوبصورت بچہ کے سر پر یہ ٹوپی جا کر رکھ دو اور تم نے اِس بچہ کے سر پر رکھ دی۔ اُس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ تو ماں باپ کی اپنے بچوں سے محبت اُن کی اچھی شکل و صورت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ بعض اور چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کو میں آگے چل کر بیان کروں گا اور جن کو ماں باپ بھی نہیں جانتے۔ چنانچہ کسی ماں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ تم اپنے بچے سے کیوں محبت کرتی ہو تو بجائے جواب دینے کے وہ ہنس کے کہہ دے گی کہ سودائی کہیں کا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے حالانکہ بچہ ماں باپ کے لئے موجب تکلیف اور خرچ ہوتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اُس کی رات دن نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ دایہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کپڑے تیار کرنے پڑتے ہیں۔ پھر اگر بچہ کو رات کے وقت پیٹ میں کوئی تکلیف ہو جائے تو ماں ساری ساری رات اُسے لے کر پھرتی رہتی ہے اور جب وہ درد کی وجہ سے روتا اور چلاتا ہے تو وہ کہتی ہے ''میں مَر جاؤں''، ''میں مَر جاؤں''۔ پس ماں باپ سے پوچھنے کی بجائے ہمیں فلسفیانہ طور پر غور کرنا چاہیے کہ آخر بچہ سے ماں باپ کیوں محبت کرتے ہیں۔ اِس نقطۂ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کی پانچ وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔
پہلی وجہ اِس محبت کی مقامِ خالقیت ہے۔ یعنی ماں باپ اپنے بچوں سے اِس لئے محبت کرتے ہیں کہ وہ ایک رنگ میں اُن کے خالق ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں ایک نیا وجود پیدا کرتے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لئے بنائی ہے کہ یہ ترقی کرے اور پھیلے اور چونکہ پیدائش عالَم کی ایک بڑی غرض یہ تھی جیسا کہ وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً 97 سے ظاہر ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اِس لئے نہیں بنائی تھی کہ صرف آدم و حوا پیدا ہو جائیں بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اُن کی نسل کو پھیلائے اور ترقی دے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہرحال اِس سلسلہ کو جاری رکھنا تھا اِس لئے اُس نے ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کر دی۔ پس ماں باپ کی محبت کی ایک بڑی وجہ خالقیت ہے اور جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا تو اِس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب خدا کہتا ہے کہ میں سب سے زیادہ محبت رکھتا ہوں تو ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے۔ جب انسان خالقیت کے ایک ادنیٰ پرتَو کی وجہ سے اپنے بچوں سے اتنی محبت رکھتا ہے تو اصل خالق کو اپنی مخلوق سے جس قدر محبت ہو سکتی ہے اُس کا تو اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت اور قوت سے باہر ہے۔
(2) ماں باپ کی محبت کی دوسری وجہ وحدتِ جسمانی ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے جسم کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تم اچانک اپنے کسی دوست کی آنکھ کی طرف زور سے انگلی لے جاؤ تو وہ فوراً اپنی آنکھ جھپک لے گا کیونکہ یہ فطرتی چیز ہے اور اِس میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں میری ایک نواسی جو ابھی چھوٹی بچی ہی ہے اور اُس کا والد سیّد ہے میرے پاس آئی اور میں نے مذاق کے طور پر اپنی سوٹی اُس کی طرف اِس انداز میں کی کہ گویا ابھی میں اُسے مارنے لگا ہوں۔ میری سوٹی کے آگے نوکدار پھَل بھی لگا ہوا ہے چونکہ میں نے اچانک ایسا کیا تھا اِس لئے اُس نے ڈر کر چیخ ماری۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گئی تو میں نے اُسے ہنس کر کہا سیّد بزدل ہوتے ہیں، مغل بہادر ہوتے ہیں۔ کہنے لگی نہیں نہیں سیّد بہادر ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُس کے ذہن سے یہ بات اُتر گئی تو میں نے پھر اُسے ڈرانے کے لئے اِسی طرح کیا اور وہ پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ میں نے کہا دیکھا سیّد ڈر جاتے ہیں۔ خیر وہ چلی گئی اور چند دن مشق کرتی رہی۔ اِس کے بعد وہ پھر میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب دیکھیں میں ڈرتی ہوں یا نہیں؟ چنانچہ میں نے اُسے ڈرایا تو وہ نہیں ڈری لیکن دو چار دن کے بعد جب وہ پھر میرے پاس آئی تو غیر متوقع طور پر میں نے پھر اُسے ڈرا دیا اور میں نے دیکھا کہ اس دفعہ بھی وہ ڈر گئی کیونکہ وہ اِس کے لئے تیار نہیں تھی تو فطرت کے اندر خداتعالیٰ نے اپنے جسم کی حفاظت کا مادہ رکھا ہے چونکہ بچہ ماں باپ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اِس لئے اپنے جسم کو بچانے کا جو مادہ فطرت میں ہوتا ہے وہ اِدھر منتقل ہو جاتا ہے اور ماں باپ اپنے بچہ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
(3) ماں باپ کی محبت کی تیسری وجہ اپنائیت ہوتی ہے جس طرح وحدتِ جسمانی ایک طبعی محبت پیدا کرتی ہے اِسی طرح تعلق کے لحاظ سے بھی ایک ہو جانے کا خیال محبت پیدا کر دیتا ہے۔ تمہارا کوٹ پھٹ جائے تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ کوٹ کے ساتھ اپنایت کا تعلق نہیں ہوتا۔ تم سمجھتے ہو کہ ایک کوٹ پھٹا تو دوسرا لے لیں گے لیکن جہاں تمہارا تعلق ہوتا ہے وہاں اُس چیز کے ضائع ہونے سے تمہیں درد ہوتا ہے۔ پس وحدتِ جسمانی کی طرح اپنائیت بھی محبت پیدا کرتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اِس دنیا کا سلسلہ ایسا بنایا ہے کہ ہر بچہ اپنے ماں باپ کے پاس رہتا ہے اور ماں باپ اُس بچہ کو کوئی غیر چیز نہیں بلکہ اپنی چیز سمجھتے ہیں اِس لئے اُس سے محبت رکھتے ہیں۔ گورنمنٹ لوگوں پر ٹیکس لگا سکتی ہے لیکن اگر گورنمنٹ یہ چاہے کہ وہ کسی کا بچہ لے لے تو وہ بچہ نہیں لے سکتی۔ پس اپنایت کی انتہاء بھی محبت پیدا کرتی ہے۔
(4) بقائے ذات کی خواہش بھی محبت پیدا کرتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان چاہتا ہے میں ہزار سال زندہ رہوں مگر ظاہر ہے کہ انسان اِس دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتا۔98 لیکن دوسری طرف بقائے ذات کی خواہش بھی ہر انسان میں پائی جاتی ہے جس کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس کے نام کو زندہ رکھتی ہے اور اِس طرح بقائے ذات کی خواہش ایک رنگ میں پوری ہو جاتی ہے۔ پس چونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں اگر زندہ رہ سکتا ہوں تو بچہ کی طرف سے، اس لئے اُسے اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے۔
(5) ماں باپ کی محبت کی پانچویں وجہ مظہریت ہوتی ہے۔ بقائے ذات کی خواہش تو یہ تھی کہ انسان چاہتا ہے میں خود زندہ رہوں اور مظہریت کے معنی یہ ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ جو چیزیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں وہ بھی ہمیشہ قائم رہیں۔ ایک شخص جوانی میں خوب چل پھر سکتا ہے، گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور میلوں میل تک سفر کرتا چلا جاتا ہے اب جہاں طبعی طور پر اُس کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں وہاں اس کے اندر یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں۔ یہ نہیں چاہتا کہ میں بُڈھا ہو جاؤں اور لوگ میرے منہ میں لقمے ڈالا کریں۔ گویا اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ میری مظہریت دنیا میں قائم رہے اور چونکہ انسان کی مظہریت اُس کی اولاد کے ذریعہ ہی قائم رہ سکتی ہے اِس لئے فطرتی طور پر ہر شخص اپنے بچوں سے محبت رکھتا ہے۔
یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی دلیل کے ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور یہ ایسے گہرے موجبات ہیں کہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں حتی کہ اُسے اِن کے بارہ میں سوچنے کی بھی ضرورت نہیں جس طرح انسان کا اپنا جسم دماغ پر خودبخود اثر کرتا ہے یہ موجبات بھی اُس کے دماغ پر تصرف کرتے ہیں حتّٰی کہ وہ بغیر موجبات کو سوچنے کے مُوجَبْ کو محسوس کرتے لگتا ہے۔
شاید کوئی کہے کہ پہلی محبت تو بچہ کو ماں باپ کی ہوتی ہے آپ نے یہ کیوں کہا کہ پہلی محبت ماں باپ کو بچہ کی ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی نسل کو اگر اس اصول پر مانا جائے کہ آدم و حوا سے نسل انسانی چلنی شروع ہوئی تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محسوس محبت آدم و حوا کو ہوئی کیونکہ آدمِ اوّل خواہ یکدم پیدا ہؤا خواہ غیر محسوس دَور سے گزر کر محسوس دَور میں داخل ہؤا۔ اُس نے ماں باپ کی محبت کو نہیں دیکھا یا نہیں سمجھا لیکن اُس نے اپنی اولاد کی محبت کو پہلی دفعہ دیکھا اور سمجھا اور یہی حق ہے۔ پس آدم و حوا کی پیدائش کی تھیوری کو دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محبت ماں باپ کی بچہ سے تھی پہلی محبت بچہ کی ماں باپ سے نہیں تھی۔ یا یوں کہو کہ پہلے اِس محبت کو محسوس کرنے والے ماں باپ تھے بچے نہیں تھے۔ یوں تو لوگ ہمیشہ بحث کیا کرتے ہیں کہ پہلے انڈا تھا یا مرغی؟ اور یہ بحث ہمیشہ جاری رہے گی کہ پہلے آدم ہؤا یا بچہ۔ لیکن بہرحال کوئی نہ کوئی تھیوری ماننی پڑے گی۔ ڈارون کہتا ہے کہ نسل انسانی نے آہستہ آہستہ ارتقائی صورت اختیار کی ہے پہلے وہ بعض جانوروں کی شکل میں تھا لیکن ارتقائی دَور میں سے گزرتے گزرتے آخر وہ انسانی شکل میں نمودار ہؤا۔ قرآن کریم اِس تھیوری کو غلط قرار دیتا ہے لیکن بہرحال اگر ڈارون کی تھیوری لو تب بھی پہلا وجود جو محسوس محبت کرنے والا تھا وہ ماں باپ کا ماننا پڑے گا بچے کا نہیں اور اگر قرآن کریم کی تھیوری لو تب بھی ماں باپ کی محبت کو پہلی محبت ماننا پڑے گا بچے کی محبت کو پہلی محبت نہیں ماننا پڑے گا۔ دینی لحاظ سے بھی یہی اصل ہے کیونکہ خالق و مخلوق کے تعلق میں خالقیت کا تعلق مقدم ہے اور مخلوقیت کا تعلق مَابَعْد۔ پس ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنی محبت کے لئے پیدا کیا تو پہلے محبت اللہ تعالیٰ کے دل میں آئی اور اس کے بعد مخلوق میں۔ جس طرح پہلے محبت ماں باپ کے دل میں آتی ہے اور بعد میں بچہ میں جب وہ محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ماں جنتے ہی بچہ سے محبت کرتی ہے بلکہ جننے سے بھی پہلے۔ لیکن بچہ کی ماں ولادت کے وقت فوت ہو جائے تو وہ پالنے والی عورت ہی کو ماں سمجھنے لگتا ہے اور اصل ماں باپ کو بھول جاتا ہے۔
اِس سوال کا جواب دینے کے بعد اَب میں اُن موجبات کو لیتا ہوں جو ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کرنے والے ہیں لیکن جن کو وہ خود نہیں جانتے صرف ان کے نتیجہ کو جانتے ہیں اور اُن کو انسان اور خداتعالیٰ کے رشتہ پر چسپاں کرتے ہیں۔
(الف) پہلا موجب میں نے خالقیت کا بتایا ہے یہ ہمیں فطرتِ انسانی سے معلوم ہوتا ہے۔ بچے گڑیاں بنانے کے شوقین ہوتے ہیں، مکان بنانے کے شوقین ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقیت کا ایک زبردست تقاضا انسان و حیوان میں ہے اور پھر وہ اپنی مخلوق سے طبعاً محبت کرتا ہے۔ پس یہ جذبہ سب سے پہلے ماں باپ کے دل میں بچہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو اصل خالق ہے اُس کی محبت اپنی مخلوق سے بہت زیادہ شدید ہونی چاہیے اور سچ پوچھو تو اس کی موٹی مثال موجود ہے۔ ماں باپ کے جتنے قصور بچے کرتے ہیں وہ کب تک اُن کو معاف کرتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایک بات نہ ماننے پر ہی اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ بیسیوں واقعات سننے میں آتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو عاق کر دیا اور جب پوچھا گیا کہ آپ نے عاق کیوں کیا ہے تو اُنہوں نے جواب یہ دیا کہ ہم نے کہا تھا فلاں جگہ شادی کر لو مگر اُس نے ہماری بات نہ مانی اور فلاں جگہ شادی کر لی۔ اب کوئی اُن سے پوچھے کہ یہ بھی کوئی عاق کرنے والی بات تھی۔ عمر اُس نے بسر کرنی تھی یا تم نے؟ مگر وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اُنہیں عاق کر دیتے ہیں۔ اِس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حال ہے کہ رات دن دنیا کی چھاتی پر انسان گناہ کر رہا ہے اور خداتعالیٰ کی بات کو ردّ کر رہا ہے مگر وہ ہے کہ اوّل تو عذاب نہیں دیتا اور پھر باوجود جاننے کے کہ کل یہی شخص توبہ توڑ دے گا اُس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے اور فرماتا ہے اگر کل اِس نے توبہ توڑی تو دیکھا جائے گا آج تو یہ توبہ کر رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى 99 اگر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو ظلم اور گناہ کرتے ہیں پکڑنا چاہے تو انسان کیا حیوان بھی اِس دنیا کے پردہ پر نہ رہیں اور انسان کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے مگر وہ ٹلاتا جاتا ہے اور کہتا ہے معاف کر دو۔ کیا دنیا میں کوئی ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو اتنا معاف کرتے ہوں۔ اپنے نفس پر غور کر کے دیکھ لو ہم میں سے ہر شخص خدا کی جس قدر نافرمانیاں کرتا ہے اور جس قدر ہزاروں ہزار قصور اُس سے سرزد ہوتے ہیں کیا اِس قدر نافرمانیاں وہ اپنے ماں باپ کی کر سکتے ہیں؟ وہ تو مار مار کر دھجیاں اُڑا دیں۔
(ب) دوسری وجہ ماں باپ کی محبت کی میں نے وحدتِ وجود بتائی ہے خدا تعالیٰ کو انسان سے یہ تعلق تو نہیں لیکن وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے کیونکہ انسان اپنی ساری طاقتیں اُس سے لیتا ہے۔ ماں باپ چھوٹے قد کے ہوں تو بچہ بعض دفعہ لمبے قد کا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی نظر کمزور ہو تو بچے کی نظر تیز ہوتی ہے۔ ماں باپ کُند ذہن ہوں تو بچہ بعض دفعہ بڑا ذہین ہوتا ہے۔ یاماں باپ بہادر ہوں تو بچہ بُزدل ہوتا ہے۔ غرض ہزاروں ہزار چیزیں ایسی ہیں کہ باوجود وحدتِ وجود کے بچے ماں باپ سے نہیں لیتے لیکن خداتعالیٰ کو انسان سے چونکہ وحدتِ مرکزیت کا تعلق ہے اور انسان کُلّی طور پر اپنی طاقتیں اُسی سے لیتا ہے اِس لئے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کو خدا سے حاصل نہ ہو گویا خداتعالیٰ اِنجن ہے اور وہ کَلْ اور یہ تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔
(ج) تیسری وجہ ماں باپ کی محبت کی اپنائیت ہے کہ یہ شَے میری ہے۔ یہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کا اِنسان سے ماں باپ سے زیادہ ہے کیونکہ ان کا اپنائیت کا احساس ابتدا کے لحاظ سے بھی محدود ہے اور انتہاء کے لحاظ سے بھی محدود ہے۔ ماں باپ کی اپنائیت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب بچہ رحمِ مادر میں آتا ہے اور جب وہ مَر جاتا ہے تو یہ احساس ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احساس یا تعلق دونوں لحاظ سے غیر محدود ہے۔ میں خواہ آج پیدا ہؤا یا پچھلی صدی میں پیدا ہؤا۔ خداتعالیٰ ازل سے یہ جانتا تھا کہ میں اُس کا ہوں اور ازل سے یہ جانتا ہے کہ میں مَرنے کے بعد بھی اُسی کا ہوں پس ماں باپ کی اپنائیت محدود دائرہ کے لئے ہے اور خداتعالیٰ کی اپنائیت غیر محدود دائرہ کے لئے ہے۔
(د) چوتھی وجہ ماں باپ کی محبت کی بقائے ذات کا احساس ہے چونکہ اُنہوں نے فنا ہونا ہے اس لئے وہ ایک ایسے وجود کو چاہتے ہیں جن میں اُن کا وجود زندہ رہے۔ خداتعالیٰ فنا سے پاک ہے مگر اس کا تعلق اس جہت سے بھی انسان سے ہے۔ ماں باپ کا بقائے ذات کا تعلق زمانہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یعنی ماں باپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب ہم مَر جائیں گے تو اُس زمانہ میں یہ بچہ ہمارا قائم مقام ہوگا لیکن خدا تعالیٰ کا بقائے ذات کا تعلق مقام کے لحاظ سے ہے یعنی چونکہ وہ وراء الوراء ہے وہ انسان کے ذریعہ سے اپنے وجود کو دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صرف اپنے بندے کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہو سکتا ہوں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اِسی طرح بڑے بڑے اولیاء جو اُمتِ محمدیہ میں آئے اگر وہ نہ آئے ہوتے تو اُس زمانہ کے لوگ خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اِسی طرح اِس زمانہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ آتے تو دنیا خداتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پس ماں باپ کو مدنظر رکھتے ہوئے بقائے ذات کا تعلق وقت کے لحاظ سے ہے اور خداتعالیٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا بقائے ذات کا مقام کے لحاظ سے ہے۔ خدا اِس مجلس میں اِن آنکھوں سے نظر نہیں آ رہا لیکن اُس کے بندے نظر آ رہے ہیں جو اُس کے وجود کو دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اور درحقیقت یہی قسم بقائے ذات کی اصل بقاء ہے۔ وہ بقاء ایک شکی سی چیز ہے اور یہ بقاء ایک یقینی اور قطعی چیز ہے۔ آخر سوچنا چاہیے کہ جسمانی بیٹا ماں باپ کی بقاء کا کس طرح موجب بنتا ہے۔ وہ صرف ورثہ لیتا ہے اِس کے سوا والدین کی حیات کا وہ اَور کیا موجب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے خداتعالیٰ کے وجود کو دنیا میں زندہ کرتے اور زندہ رکھتے ہیں اور جسمانی بیٹوں کے مقابلہ میں خداتعالیٰ سے اُن کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو بقائے ذات کی خواہش رکھنے والے ماں باپ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بعض دفعہ محتاج بھی ہوتے ہیں تو بچہ اُن کی مدد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماں باپ کا وفادار ہونے کی بجائے اپنی اولاد کا زیادہ وفادار ہوتا ہے لیکن وفادار روحانی بیٹے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو ابراہیم ؑ جو اپنی اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء کا محتاج تھا وہ اِس خواب کے آتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور اُس نے کہا جب میرا خدا مجھ سے یہ قربانی چاہتا ہے تو میں اپنا قدم پیچھے کیوں ہٹاؤں۔ پس وفادار جسمانی بیٹے اور وفادار روحانی بیٹے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح ابراہیم خدا نما تھا کوئی بیٹا بھی باپ نما نہیں ہو سکتا۔
(ھ) پانچویں وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لئے علاوہ جسمانی حیات کے روحانی حیات بھی چاہتا ہے۔ سب سے زیادہ موقع تربیت کا اُسے اپنی اولاد کے متعلق ملتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا رہے چنانچہ دیکھ لو والدین ہمیشہ یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں خوبیاں ہماری اولاد ظاہر کرے یا ہمارے فلاں مطمح نظر اُس کے ذریعہ سے پورے ہوں لیکن عملاً کم ہوتا ہے۔ پھر بھی ایسی خواہش کے پورا ہونے کا وجود اولاد ہی ہو سکتی ہے اِس لئے وہ اُن سے محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی انسان اِس رنگ میں مظہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہےاِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاۙ۔لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ١ؕ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا۔اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ100 اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے لئے بطور گواہ ہیں اور گواہ کے ذریعہ ہمیشہ فریق مقدمہ کی سچائی ظاہر ہوتی ہے۔ پس آپ کو گواہ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خداتعالیٰ کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور آپؐ کی ذات سے خداتعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت ہے۔ پھر فرماتا ہے یہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بھی خدا کا ہاتھ ہے اِس لئے کہ یہ ہاتھ مجھے دکھا رہا ہے اور چونکہ یہ میرا چہرہ دکھا رہا ہے اِس لئے اُس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے۔ گویا پہلی آیت يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے مظہرکامل ہیں اور آپؐ کے ذریعہ خداتعالیٰ کا وجود اِس دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے اِس لئے آپؐ کی بیعت خدا کی بیعت اور آپؐ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح اعلیٰ مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ میں اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہوں، پاؤں ہو جاتا ہوں، زبان ہو جاتا ہوں یعنی وہ میری صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اولاد سے جن امور کی بناء پر محبت کی جاتی ہے وہ سب کے سب خداتعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اِس لئے وہ لازماً اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بعض سے عام جیسا کہ ہر ماں باپ اپنے ہر قسم کے بچے سے پیار کرتے ہیں اور بعض سے خاص۔ جیسا کہ ماں باپ اُن بچوں سے جن میں زیادہ اوصاف جمع ہو جائیں دوسرے بچوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
یہ ایک ضمنی حصہ ہے اور درحقیقت الگ باب ہے اس امر کے متعلق کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں سے کیوں اور کس قسم کی محبت ہوتی ہے مگر چونکہ میں محبت کا فلسفہ بیان کر رہا تھا یہ بھی درمیان میں آگیا۔
(2) دوسرا موجب محبت کا احسان ہوتا ہے اِس جذبہ کے ماتحت بچہ ماں باپ سے محبت کرتا ہے (ماں باپ کی محبت اِس کے برخلاف فطرتی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے) کیونکہ ماں باپ اُس کے اخراجات برداشت کرتے اور اُس کے لئے ہر رنگ میں اپنے نفس پر تکالیف وارد کرتے ہیں۔ شاگرد اُستاد سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے سکھاتا اور تعلیم دیتا ہے۔ محتاج محسن سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہوتا ہے۔ مرید شیخ سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے روحانی تعلیم دیتا ہے۔ یہ وجہ بھی اللہ تعالیٰ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور قرآن کریم نے اِس وجہ کی طرف خاص طور پر توجہ بھی دلائی ہے چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ رَبّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِہے، غفور ہے، ستارہے، جبار ہے، وارث ہے، حفیظ ہے، بصیر ہے، رزّاق ہے، سمیع ہے، مجیب الدعا ہے۔ یہ صفات بتا کر اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ تم اِن صفاتِ الٰہیہ پر غور کرو اور سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کس قدر احسانات کئے ہیں اور یہ تو صرف چند نام بطور مثال میں نے لئے ہیں ورنہ بہت سے نام اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں جو اُس کی صفاتِ حسنہ پر دلالت کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نظر نہیں آتا اور ماں باپ، استاد، محسن اور پیر کا ہاتھ نظر آ جاتا ہے۔ بندوں کے احسانات ظاہر ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کے احسانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور درحقیقت اِن احسانات کو پوشیدہ رکھنا ہی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس احسان مندی کا بڑا بدلہ مقرر ہے جو انسانوں کی احسان مندی کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا بدلہ زیادہ ملتا ہے اور شیخ اور پیر کی محبت کا بدلہ اُتنا نہیں ملتا۔ جو چیز ظاہر ہو وہ چونکہ طبعی ہو جاتی ہے اور مزید بدلہ کا راستہ بند کر دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کو مخفی رکھا ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اُس کے احسانات کو تلاش کرکر کے اپنی محبت کو بڑھائے اور اُستوار کرلے۔
(3) تیسری وجہ محبت کی حسن ہے۔ اِس کے مظہر میاں بیوی، عمدہ نظارے، عمدہ آواز، عمدہ قاعدے اور قانون وغیرہ ہوتے ہیں۔ یہ درجہ مادی محبت کے لحاظ سے احسان والی محبت سے ادنیٰ ہے۔ احسان والی محبت کا درجہ مادی لحاظ سے حسن والی محبت سے اعلیٰ ہے کیونکہ احسان والی محبت میں اخلاق کا دخل ہوتا ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلانات بلکہ پس پردہ لذّاتِ جسمانی کا حصول اِس کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے ماں باپ کی محبت بیوی کی محبت سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اوّل الذکر کی بنیاد اخلاق پر اور ثانی الذکر کی لذاتِ جسمانی پر ہوتی ہے۔ لیکن روحانی محبتوں میں یہ بات اُلٹ جاتی ہے مثلاً خداتعالیٰ کی محبت کا موجب احسان کی یاد ہو تو یہ محبت درجہ کے لحاظ سے ادنیٰ سمجھی جائے گی لیکن حسن باری محبت کا موجب ہو تو یہ محبت اعلیٰ سمجھی جائے گی گویا دنیا کی محبتوں اور خداتعالیٰ کی محبت میں یہ فرق ہے کہ دُنیوی محبت میں حسن والی محبت کا درجہ احسان والی محبت کے درجہ سے کم ہے کیونکہ احسان کی محبت میں اخلاق کا دخل ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلان کا بلکہ پس پردہ لذتِ جسمانی کے حصول کی خواہش کا۔ لیکن روحانی محبت میں حقیقت اُلٹ جاتی ہے اور احسان کی وجہ سے جو محبت ہو وہ حسن کی وجہ سے محبت سے ادنیٰ سمجھی جاتی ہے۔ انسان میں حسن پہلے نظر آتا ہے اور احسان بعد میں۔ گویا حسن ظاہر ہے اور احسان مخفی اور اس وجہ سے احسان حسن سے اعلیٰ مقام پر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے لحاظ سے احسان پہلے نظر آتا ہے اور حسن بعد میں۔ یعنی حسن الٰہی، احسانِ الٰہی سے زیادہ مخفی ہے۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ١ٞ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ١ۚ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ 101 تمہاری آنکھیں اُس کو نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ وہ لطیف ہستی ہے لیکن وہ خود چل کر تمہارے پاس آ جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے دل میں اُس کی محبت کی تپش پائی جاتی ہے اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا آپ نے کبھی خدا کو بھی دیکھا ہے؟ آپؐ نے فرمایا نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ102 وہ تو ایک نور ہے اُس کو کس طرح دیکھا جا سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رؤیت جسمانی نہیں ہوتی۔ پس حسن الٰہی ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو محبت میں ترقی کرتے کرتے انسانوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے برخلاف انسانی حسن سب سے پہلے نظر آنے والی شَے ہے اور اس کے دیکھنے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن احسان بعد میں نظر آتا ہے اور اس کے لئے عقل اور فکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی دیا ہے، روٹی دی ہے، ہوا دی ہے، سورج دیا ہے، چاند دیا ہے، سیارے اور ستارے دیئے ہیں، زمین بنائی ہے، آسمان بنایا ہے یہ سب اُس کے احسانات ہیں جو بالکل ظاہر ہیں لیکن (حسن الٰہی ایک مخفی چیز ہے جس کے لئے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اِس لئے خدا کے معاملہ میں حسن کا مقام زیادہ بلند ہے اور یہ حسن الٰہی ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو احسان کے بعد آہستہ آہستہ ترقی پاتی ہے اور محبت کے اعلیٰ مدارج میں سے ہے اور احسان کی محبت سے بہت بالا ہے کیونکہ اس کے لئے آنکھیں بھی پیدا کرنی پڑتی ہیں اُس سے بہت اعلیٰ آنکھیں جو احسان دیکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ کر یہ حسن نشوونما پاتا ہے اور قلب کی ایک نئی طاقت خداتعالیٰ کے حسن کو دیکھنے اور چھونے پر قادر ہو جاتی ہے جو ہر انسان کو نہیں مل سکتی)اِسی کا ایک حصہ کانوں سے حسن کو معلوم کرنے کا ہے جو الہام کے ذریعہ سے انسان کو موہبت کے رنگ میں عطا ہوتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ جس کے ساتھ اُسے محبت ہے اُس کی آواز بھی سنے تا کہ اُس کے کان بھی اپنے محبوب کی آواز سے لُطف اندوز ہوں اور یہی خواہش اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی شیریں آواز اُن کے کان میں آئے اور وہ اپنے محبوب سے راز و نیاز کی باتیں کریں لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے یہ جسمانی کان خداتعالیٰ کی آواز کو نہیں سُن سکتے۔ وہ تبھی سُنتے ہیں جب ایک نئی طاقت ہمارے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ دنیا میں تو جس طرح حسن اِن مادی آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے اِسی طرح محبوب کی آواز بھی ہمارے یہ مادی کان سُن لیتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے معاملہ میں جس طرح حسن الٰہی ایک نئی حِسّ سے نظر آتا ہے اِسی طرح حسن آواز کے لئے نئے کان پیدا کرنے پڑتے ہیں جو گویا احسان کی قدر کے بعد ایک موہبت کے رنگ میں عطا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں حسن کی وجہ سے محبت کا مقام زیادہ بلند ہے اور احسان کی وجہ سے محبت کا مقام اُس سے نیچے ہے۔
چوتھا ذریعہ محبت کا اقتضائے حاجات و رفع شہوات ہے۔ جیسے میاں بیوی کی محبت ہے یا مال کی محبت بھی اِسی قسم کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی بہت ہی تھوڑی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور پھر جو ضرورتیں پوری کرتے ہیں اُن کے تمام سامان خداتعالیٰ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ پس قضائے حاجات کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے۔
پانچواں ذریعہ محبت کا رفاقت و مصاحبت ہے۔ اس کی مثال دوستوں کی محبت اور میاں بیوی کی محبت ہے۔ بیویاں نہ سب کی حسین ہو سکتی ہیں نہ ہمیشہ حسین رہ سکتی ہیں۔ خوبصورت سے خوبصورت بیوی بھی ہو تو بعض دفعہ بیماریوں کی وجہ سے وہ نہایت بدصورت ہو جاتی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ بیوی بدصورت ہو جائے تو خاوند اُسے چھوڑ دے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ گو ابتدا میں اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے اقتضائے حاجات اور حسن کی وجہ سے محبت کرتے ہیں یعنی وہ ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اِس لئے وہ آپس میں محبت رکھتے ہیں لیکن بعد میں حسن اور شہوت، رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل جاتے ہیں اور حسن بھول جاتا ہے گویا چونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اِس لئے اُن کی محبت ایک نیا چولہ بدلتی ہے جو بڑھاپے تک قائم رہتی ہے۔ اُس وقت وہ عورت جس پر وہ کسی زمانہ میں اُس کے حسن کی وجہ سے جان چھڑک رہا تھا اپنے سارے حسن کو کھو بیٹھتی ہے مگر مرد اُس سے پھر بھی محبت کر رہا ہوتا ہے۔ اگر اُس عورت کی کوئی تصویر کھینچ کر دوسرے کے پاس لے جائے اور کہے بتاؤ کیا تم اِس عورت سے محبت کر سکتے ہو؟ تو وہ دیکھتے ہی کہے گا کہ کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو کیا یہ اِس قابل ہے کہ اِس کے ساتھ محبت کی جائے۔ اِس کی بھویں لٹکی ہوئی ہیں، چہرہ سُوکھا ہؤا ہے، دانت کوئی ہے نہیں، کمر کبڑی ہو چکی ہے اور تم کہتے ہو کہ میں اِس کے ساتھ محبت کروں لیکن اُس کا خاوند اب بھی اُس پر جان دیتا ہے کیونکہ اُس کی حسن اور قضائے حاجت والی محبت رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل چکی ہوتی ہے۔ اِس رفاقت اور مصاحبت کو لو تو یہ بھی خداتعالیٰ میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا103 یعنی تمہاری محبتیں شکلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں آپس میں اس طرح سمو دیا ہے کہ تمہیں شکلیں یاد ہی نہیں رہیں بلکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہوگئے ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے سَو میں اسّی میاں بیوی جن کی زندگی آرام سے گزرتی ہے اور وہ آپس میں محبت کرتے ہیں۔ اُن کی زندگی اِسی رفاقت اور مصاحبت کی وجہ سے اچھی ہوتی ہے۔ اگر حسن اور قضائے حاجت کا سوال ہوتا تو شاید وہ اس طرح محبت نہ کر سکتے۔
(6) کبھی محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے بھی محبت ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ بعض خاص کلبوں سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جن سے اُنہیں لگاؤ ہوتا ہے۔ بعض خاص قسم کی سوسائٹیوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ آتے ہیں جن سے مل کر اُنہیں حظّ اور سرور حاصل ہوتا ہے۔ وطن کی محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہاں اُن سے تعلقاتِ محبت رکھنے والے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح شہروں اور محلّوں کی محبت کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے اِس محلّہ میں میرا چچا اور ماموں یا دوسرے رشتہ دار موجود ہیں۔ جب کسی شخص کو وطن سے باہر بھجوایا جائے تو چونکہ وہ جگہ ایسی ہوتی ہے جو اُس کے محبوبوں کو جمع نہیں کرتی اِس لئے اس کی طبیعت میں بے چینی رہتی ہے۔ پھر جس طرح بعض خاص کلبیں، مجالس، شہر اور محلّے مختلف محبتوں کو یکجا کرنے کی وجہ سے انسان کو محبوب ہوتے ہیں اِسی قسم کی محبت بعض رشتہ داروں سے بھی ہوتی ہے اور انسان کہتا ہے فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے کیونکہ وہ میرے چچا کا بھی بیٹا ہے اور میری خالہ کا بھی بیٹا ہے تو دو رشتے اُس میں بھی ہوگئے ہیں۔ کئی خاوند اپنی بیویوں سے اِس لئے محبت کرتے جاتے ہیں کہ اُن سے نیک اولاد اُنہیں حاصل ہوئی ہوتی ہے۔ غرض دنیا میں یہ ایک عام نظارہ نظر آتا ہے کہ محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے انسان کو محبت ہوتی ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اِس محبت کا بھی مرکز ہے کیونکہ جو اچھا آدمی ہوگا وہ لازماً خدا سے بھی تعلق رکھتا ہوگا۔ اِس لئے خدا سے تعلق رکھ کر ہر اچھے آدمی سے تعلق پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں۔ غرض جتنے حسین اور قابلِ محبت وجود خدا تعالیٰ میں جمع ہوتے ہیں اور کہیں جمع نہیں ہوتے۔ اُس کی جنت میں تمام نیک جمع ہو جاتے ہیں اور تمام محب اور محبوب اُس کی طاقت سے محب اور محبوب بنتے ہیں۔ پس اس نقطۂ نگاہ سے بھی خداتعالیٰ کا وجود ہی اِس قابل ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی جائے اور اِسی امر پر غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھا سکتا ہے۔
(7) طویل تعلق اور آئندہ ترقیات کی وابستگی کے احساس سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ بادشاہوں سے یا وطن سے یا سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے اِسی جہت سے محبت ہوتی ہے۔ بعض لوگ جو سینکڑوں سال سے حنفی چلے آ رہے ہیں اُنہیں طبعی طور پر حنفیوں سے ہی محبت ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا خاندان تو سات پشت سے حنفی ہے یا ہمارا خاندان سات پشت سے وہابی ہے۔ اِسی طرح وہ سیاسی پارٹیاں جو ایک لمبے عرصہ تک برسرِاقتدار رہتی ہیں اُن کے ساتھ بھی لوگوں کو محبت ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑی مضبوط پارٹی ہے۔ اگر ہم اُس پارٹی کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے تو ہمیں فائدہ ہوگا۔ غرض سابق لمبا تعلق یا آئندہ کے لمبے تعلق کی امید بھی انسان کے دل میں محبت پیدا کر دیتی ہے عادات سے محبت بھی اِسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اُن کے ساتھ ایک لمبا تعلق رہ چکا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے یہ وجہ بھی بڑی قوی ہے کیونکہ آئندہ ترقیات جتنی اُس سے وابستہ ہو سکتی ہیں اور کسی سے نہیں اور طویل تعلق زمانۂ سابق یا مستقبل کے لحاظ سے بھی جتنا اُس سے ہے اور کسی سے نہیں۔
(8) آٹھویں وجہ محبت کی سکون کا حاصل ہونا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی سکون سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ محب کے وصال سے سکون اور حصولِ سکون سے محبت پیدا ہوتی ہے گویا اِن دونوں کا آپس میں خالق و مخلوق کا تعلق ہے۔ کبھی یہ خالق اور وہ مخلوق اور کبھی یہ مخلوق اور وہ خالق ہوتا ہے۔ یہ سکون کبھی عقلی ہوتا ہے اور کبھی جذباتی۔ عقلی جیسے کھانے پینے اور پہننے سے سکون حاصل ہوتا ہے اور جذباتی جیسے تعلقاتِ مرد و زن سے۔ کبھی تسکین کی امید کی وجہ سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی امید ہو کہ اُس سے تسکین حاصل ہوگی جیسے سیاسی یا مذہبی پروگرام وغیرہ جن سے مُلکی ترقی یا اُخروی زندگی کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ امر بھی سب سے زیادہ چسپاں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جس سکون کے ملنے کا امکان ہو سکتا ہے غیر سے نہیں کیونکہ غیر کی نعمت ٹوٹ سکتی ہے لیکن خداتعالیٰ کی نعمت جاری ہے اور ترقیات وہ بہت زیادہ دے سکتا ہے۔
غرض جتنے موجباتِ محبت ہیں وہ سارے کے سارے نہایت شدت سے اللہ تعالیٰ کے وجود میں پائے جاتے ہیں۔ اِس لئے جب ایک ایک وجہ شدید محبت پیدا کر سکتی ہے تو جس میں وہ سب وجوہ پائی جائیں اور شدت سے پائی جائیں اُس سے کیوں محبت نہ ہوگی۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ذکر و فکر سے اِن اُمور کا احساس غائب سے حاضر میں لایا جائے اور عدم سے وجود میں اُن کو تبدیل کیا جائے۔
(9) ایک ذریعہ محبت کا تحریک و تحریص بھی ہوتا ہے۔ جب بار بار کسی حسین چیز کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کو سُن سُن کر بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ عربوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اُستادوں سے دوستانہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ بے وقوف ہوتے ہیں۔ اُس کے ایک استاد سے بڑے اچھے تعلقات تھے جو ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ استاد تو بڑے اچھے ہوتے ہیں معلوم نہیں لکھنے والے نے یہ کس طرح لکھ دیا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ وہ اُن سے کچھ عرصہ کے بعد ملنے کے لئے گیا تو اُسے معلوم ہؤا کہ استاد صاحب بیمار ہیں۔ اُس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کب سے بیمار ہیں۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ مدت ہوگئی وہ تو گھر سے نکلتے ہی نہیں۔ وہ بہت پریشان ہؤا اور آخر دریافت حالات کے لئے اُن کے مکان پر پہنچا۔ بیوی نے اُن سے کہا کہ آپ اُن کے اچھے دوست ہیں آپ نے خبر بھی نہیں لی کہ اُن کا کیا حال ہے وہ تو مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اِسے سن کر بہت افسوس ہؤا اور اس نے کہا کہ پردہ کروا دیں تا کہ میں خود اُن سے حال دریافت کر سکوں۔ چنانچہ وہ اندر گیا دیکھا تو واقع میں استاد صاحب بڑے مضمحل اور کمزور ہو چکے تھے اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے۔ اُس نے پوچھا کہ آپ کو بیماری کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آئی بہت علاج کروایا ہے مگر کوئی افاقہ نہیں ہؤا۔ اس نے کہا آخر کچھ تو بتائیے کہ یہ بیماری آپ کو شروع کس طرح ہوئی ہے؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں کتابیں پڑھتا اور اُن میں محبت اور عشق کے واقعات دیکھتا تھا تو میرے دل میں بھی بار بار خیال آتا تھا کہ مجھے بھی محبت کرنی چاہیے مگر میں سمجھتا تھا کہ میری محبت کسی معمولی عورت سے نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں جو سب سے زیادہ حسین عورت ہوگی اُس سے میں محبت کروں گا۔ چنانچہ ایک دن میں اپنی گلی میں بیٹھا ہؤا تھا کہ ایک شخص میرے پاس سے گزرا اور اُس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اُمِّ عمرو ایسی حسین عورت ہے کہ ساری دنیا اُس پر عاشق ہے۔ میں نے کہا کہ بس عشق کرنا ہے تو اُمِّ عمرو سے ہی کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے اُس سے محبت کرنی شروع کر دی۔ اُس نے کہا یہ تو فرمائیے آپ نے اُمِّ عمرو کبھی دیکھی بھی تھی یا نہیں؟ کہنے لگا میں نے دیکھی تو نہیں لیکن جب ساری دنیا اُس سے محبت کرتی تھی تو میں نے سمجھا کہ میں بھی اُس سے کیوں نہ محبت کروں۔ چنانچہ میں اپنی محبت اور عشق میں ترقی کرتا چلا گیا اور دل میں باربار حسرت پیدا ہوتی تھی کہ اُمِّ عمرو کا مجھے وصال حاصل ہو مگر مدتیں گزر گئیں اور اُمِّ عمرو کا کچھ پتہ نہ چلا۔ ایک دن میں پھر اپنی گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص گزرا اور اُس نے یہ شعر پڑھا کہ
لَقَدْ مَرَّا لْحِمَارُ بِاُمِّ عَمْرٍو
فَمَا رَجَعَتْ وَمَا رَجَعَ الْحِمَارُ
کہ اُمِّ عمرو کو گدھا لے کر چلا گیا اور اِس کے بعد نہ وہ لَوٹی اور نہ گدھا لَوٹا۔ میں نے سمجھ لیا کہ وہ جو لَوٹی نہیں تو ضرور مَر چکی ہے۔ چنانچہ اُس دن سے میں چارپائی پر پڑا ہوں اور حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ جب محبوب ہی نہ رہا تو اِس دنیا میں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے۔ وہ یہ قصہ سُن کر لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا کتاب میں سچ لکھا تھا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ بار بار کسی چیز کا ذکر سننے سے بھی محبت ہو جاتی ہے۔ بار بار یہ کہنا کہ خدا بڑا پیارا ہے، خدا بڑا محسن ہے، خدا بڑا مہربان ہے، خدا ہم سب کی ضروریات پوری کرتا ہے، خدا ہم سب کو روزی دیتا ہے، خدا ہماری دعائیں سنتا ہے، خدا ہماری مشکلات دور کرتا ہے۔ اِسی طرح وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کرنا اور خداتعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دلانا۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو رفتہ رفتہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتی ہیں چنانچہ دیکھ لو جہاں سخاوت کا ذکر آئے گا لوگ فوراً کہہ اُٹھیں گے کہ حاتم بڑا سخی تھا حالانکہ نہ اُنہوں نے حاتم کو دیکھا نہ اُس کے حالات پڑھے محض اس لئے کہ لوگوں کی زبان پر حاتم کا بار بار ذکر آتا ہے ہر شخص حاتم سے محبت کرتا ہے۔ اِسی طرح ایک پنجابی جو نہ یونان کا نام جانتا ہے نہ اُس مُلک کے حالات سے واقفیت رکھتا ہے فوراً کہہ دے گا کہ تو بڑا افلاطون آیا ہے یا جب کوئی شخص اپنی بہادری کی ڈینگیں مارے تو لوگ کہتے ہیں بڑا رُستم بنا پھرتا ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ رُستم کوئی حقیقی وجود نہیں تھا محض قصہ کہانیوں میں بہادری کے ذکر کے لئے ایک نام تجویز کر لیا گیا ہے۔ پھر اور باتوں کو جانے دو زلیخا کے حسن کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں۔ اچھے معقول اور تعلیم یافتہ آدمیوں نے بعض دفعہ مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ زلیخا اتنی حسین تھی کہ اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین عورت نہیں تھی؟ اب زلیخا مَر کے مٹی بھی ہوگئی مگر اُس کے حسن کا چرچا باقی ہے کیونکہ لوگوں میں اُس کا بار بار ذکر آتا ہے۔ اِسی طرح لیلیٰ ضرور اچھی ہوگی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کئی نوکرانیاں اُس سے اچھی ہوں مگر اِس وجہ سے کہ بار بار لیلیٰ کا ذکر آتا ہے اُس کا دماغوں پر ایسا نقشہ کھنچ گیا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ لیلیٰ سے بڑھ کر کوئی خوبصورت عورت ہو ہی نہیں سکتی۔ پس کسی کا اچھا ذکرسن سن کر بھی اُس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب ہماری عقل بتاتی ہے کہ خدا سب سے اچھا ہے تو اگر قوم میں اِس امر کو جاری کیا جائے کہ محبت الٰہی کا ذکر بار بار ہو اور لوگوں کو تحریک کی جائے کہ وہ خود بھی ذکر و فکر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اِس ذکر کو عام کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کی جائیں اور بچوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، بیویوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، ماں باپ کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں تو غیر شعوری طور پر لوگوں کے دلوں میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے گی اور قوم میں ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نظر آنے لگیں گے جو خدا کے نام پر سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔
دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ مگر اس وجہ سے کہ عیسائی بچپن سے ہی اپنی قوم کے افراد کے دلوں میں یہ نقش کرتے رہتے ہیں کہ عیسیٰ بڑا ہے کوئی عیسائی بھی خواہ وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسیٰ پر فضیلت دی جائے۔ میں جب انگلستان گیا تو ایک عیسائی ڈاکٹر جو دہریہ تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے مذہبی گفتگو شروع کر دی مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی بے باقی کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا۔ تین چار دفعہ تو میں نے برداشت کیا مگر جب بار بار اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو میں نے کہا کیا تم جانتے نہیں عیسیٰ میں فلاں فلاں نقص تھے جن کو انجیل سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ جب میں نے عیسیٰ کا نام لیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا عیسیٰ کا نام نہ لیں یہاں عیسیٰ کا کیا ذکر ہے میں عیسیٰ کے متعلق کوئی بات سن نہیں سکتا۔ میں نے کہا تم اگر عیسیٰ کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتا۔ وہ دہریہ تھا مگر اس وجہ سے کہ بچپن سے اُس کے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی تھی کہ عیسیٰ سب سے بڑا ہے باوجود دہریہ ہونے کے وہ اِس بات کو برداشت نہ کر سکا کہ عیسیٰ پر اعتراض کیا جائے۔
اِسی طرح جب میں حج کے لئے گیا تو جس جہاز میں میں نے سفر کیا اُسی میں تین بیرسٹر بھی سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو تھا اور دو مسلمان مگر وہ دونوں دہریہ تھے۔ خداتعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے تھے چنانچہ میرے ساتھ اُن کی لمبی بحث رہی۔ وہ خداتعالیٰ کی ہستی پر بار بار مذاق اُڑاتے اور بعض دفعہ ایک تنکا نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اگر تمہارے خدا میں طاقت ہے تو وہ یہ تنکا ہِلا کر دکھائے۔ ہندو بیرسٹر بھی اُن اعتراضات میں اُن کا شریک ہؤا کرتا تھا۔ ایک دن اس بحث کے دوران میں جب کہ ہندو بیرسٹر بات کر رہا تھا اُس نے مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گستاخی سے ذکر کر دیا۔ بس اُس کا یہ ذکر کرنا تھا کہ وہ دونوں بیرسٹر جو خدا کی ہستی پر رات دن مذاق اُڑاتے رہتے تھے یکدم غصہ کے ساتھ اُس سے کہنے لگے کہ دیکھو میاں! اب اِس کے بعد تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لینا ورنہ ہماری اور تمہاری دوستی بالکل ٹوٹ جائے گی۔ اُس نے کہا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو رسول کے ماننے کا سوال کیسا؟ وہ کہنے لگے کچھ ہو خدا کو جو مرضی ہے کہہ لو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے۔ اب اِس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے ''تحفظِ ختم نبوت'' کی تلقین کی ہوئی ہوتی ہے اور چونکہ بچپن سے وہ سنتے چلے آتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں سے بڑے ہیں اِس لئے وہ یہ بحث تو کر لیں گے کہ خدا ہے یا نہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ تو بار بار سننے سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حَبِّبُوا اللہَ اِلٰی عِبَادِہٖ یُحْبِبْکُمُ اللہُ104 یعنی لوگوں کے اندر تم ایسی باتیں کیا کرو جن سے خدا کی محبت پیدا ہو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اگر تم اپنے بچوں کو اور بڑوں کو، دوستوں کو اور رشتہ داروں کو محبت الٰہی کی ضرورت اور اُس کے حصول کی اہمیت بتاؤ اور محبت پیدا کرنے والے افعال کا ذکر بار بار اپنی مجالس میں محبت اور پیار سے کرتے رہو تو تمہاری محبت بھی بڑھے گی اور اُن کی بھی۔
(10) دسواں طریقہ محبت الٰہی کے حصول کا دعا ہے جو ساری کامیابیوں کی جڑ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اٰخِرُالدَّوَاءِ اَلْکَیُّ105 کہ آخری علاج داغ دینا ہوتا ہے۔ اِسی طرح سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اُس سے کہے کہ الٰہی! تیرا وجود مخفی ہے میری عقل سخت ناقص اور ناتمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے بیتاب ہے میں چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں۔ مگر اے میرے رَبّ! میری کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک تیرے فضل میرے شاملِ حال نہ ہوں۔ پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیرے مُحِبّین کے پاک گروہ میں شامل ہیں۔ چنانچہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ۔106
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ یعنی اے میرے خدا! مجھے اپنی محبت عطا فرما وَحُبَّ مَنْ اَحَبَّکَ اور اے خدا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں میرے دل میں تو اُن کی محبت بھی ڈال دے وَحُبَّ مَا یُقَرِّبُنِیْ اِلَیْکَ اور ان کاموں کی اور ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی اور ان قربانیوں اورنیکیوں کی بھی میرے دل میں محبت ڈال دے جن سے تیری محبت پیدا ہوتی ہے وَاجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اوراے میرے رَبّ! اپنی محبت میرے دل میں اُس سے بھی زیادہ پیدا کر دے جتنی شدید گرمی کے موسم میں انسان کو ٹھنڈے پانی کی محبت ہوتی ہے۔ الْمَاءِ الْبَارِدِ کے معنی ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں اور ماء کو حیات کا مرکز بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ 107 ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا ہے۔ پس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الْمَاءِ الْبَارِدِ سے یہاں صرف جسمانی پانی مراد نہ ہو بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہو کہ تیری محبت اِتنی پیاری ہو کہ مرکز حیات کی محبت بھی میرے دل میں اِس قدر نہ ہو۔ بہرحال یہ دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے اور جس پر دوام انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔
وقت کم تھا لیکن پھر بھی میں نے جلدی جلدی اپنے مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوستوں کو چاہیے کہ اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ جسمانی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے ہم میں سے ہر شخص کے دل میں محبت الٰہی پیدا ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور اپنے مَاسِوَا کی محبت ہمارے دلوں سے سرد کردے اور جن سے محبت کرنا اُس کے منشاء کے مطابق ہو اُن سے اِس قسم کی اور اتنی محبت ہمیں ہو کہ جس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھے اور اُس کا تعلق زیادہ ہو حتیّٰ کہ ہماری محبت اُس کی محبت کو کھینچ لے اور وہ ہمارا چاہنے والاہو جائے اور ہم اُس کے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔’’
1: المدثر:32
2:
3: تذکرہ صفحہ 10۔ ایڈیشن چہارم
4: پیدائش باب5 آیت22۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
5: جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد5 صفحہ178 تا 181 (ترجمہ مفہوماً)
6: پیدائش باب 32۔ آیت 24 تا28۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
7تا 9: اقرب الموارد جلد2 صفحہ821۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
10: المنجد صفحہ526۔ مطبوعہ بیروت 1960ء
11:
12: العلق: 3
13:
14: اٰل عمران: 60 15: الانبیاء: 38 16: البقرۃ: 118
17 ، 18: اقرب الموارد جلد2 صفحہ822۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
19: الکھف: 55
20: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ (الخ)
21: اقرب الموارد جلد١ صفحہ689 مطبوعہ بیروت 1889ء
22: بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
23 ، 24: اقرب الموارد جلد1 صفحہ415۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
25: الانبیاء: 91 26: التوبۃ: 59 27: القلم: 33
28 تا 31: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197۔ مطبوعہ مصر 1324ھ
32 ، 33: المفردات فی غریب القرآن صفحہ197،198 مطبوعہ مصر 1324ھ
34تا37: اقرب الموارد جلد1 صفحہ20۔ مطبوعہ بیروت 1889ء
38تا41: المفردات فی غریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ مصر 1324ھ
42 ، 43: المفردات فی الغریب القرآن صفحہ27 مطبوعہ 1324ھ
44: طہٰ: 11
45: اقرب الموارد جلد2 صفحہ1437مطبوعہ بیروت 1889ء
46: نوح: 24 47: مریم: 97 48: ھود: 91
49: البروج: 15
50: طویلہ: گھوڑوں کا تھان۔ گھوڑوں کے باندھنے کی جگہ
51: النسائی کتاب النکاح باب کراہیۃ تزویج العقیم
52: المائدہ: 55 53: البقرۃ: 166 54: التوبۃ: 24
55: مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ207۔ مطبوعہ بیروت 1978ء
56 ، 57: تفسیر درمنثور للسیوطی جلد١ صفحہ261۔ مطبوعہ بیروت 1314ھ
58: طٰہٰ: 116 59، 60: البقرۃ: 38 61: النساء: 126
62: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم سدّوا الا بواب (الخ)
63: کنز العمال جلد3 صفحہ372 مطبوعہ حلب 1970ء
64: مسلم کتاب التوبۃ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ (الخ)
65: البقرۃ: 256
66: بدر ١١ جنوری 1912ء صفحہ6
67: مسلم کتاب التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ
68: الانعام: 77
69:اٰلِ عمران: 32 70: المائدہ: 55
71:
72: النساء: 37
73: البقرۃ: 191 74: النساء: 108
75: ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی الشکر (الخ)
76: اسد الغابۃ جلد3 صفحہ157مطبوعہ ریاض 1286ھ
77: القصص: 77 78: القصص: 78 79: الحج: 39
80: ابراہیم: 8 81: الانعام: 142،الاعراف: 32
82: مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل عیادۃ المریض
83: ال عمران: 141 84: البقرۃ: 153 85: المائدۃ: 12
86: ابوداؤد کتاب الادب باب فی المطر
87: الشعراء: 4 88: اٰلِ عمران: 149 89: یٰسٓ: 83
90: البقرۃ: 223 91: ال عمران: 160 92: المائدۃ: 43
93: اٰل عمران: 77
94: بخاری کتاب الصوم باب من صَام رمضان ایمانًا واحتسابًا (الخ)
95: قاز: راج ہنس، ایک قسم کی مرغابی
96: الروم: 31 97: النساء: 2
98: یَوَدُّاَحَدُھُمْ لَو یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ (البقرۃ:97)
99: النحل: 62 100: الفتح: 9 تا 11 101: الانعام: 104
102: مسلم کتاب الایمان باب فی قولہ علیہ السلام نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہٗ (الخ)
103: النحل: 73
104: المعجم الکبیر للطبرانی جلد8 صفحہ91 مطبوعہ قاہرہ 1985ء
105:
106:
107: الانبیاء: 31








مشرقی افریقہ کے باشندوں کو
دعوتِ اسلام



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوتِ اسلام

(محررہ18جنوری1953ء )

سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے مضمون کے متعلق مختصر نوٹ شائع کئے جارہے ہیں۔ افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ خصوصاً شمال مشرقی افریقہ کو اسلام کے ابتدائی ایّام میں جب مکّہ والوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے اور مکّہ میں مسلمانوں کی رہائش ناممکن ہو گئی تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ارشاد سے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی۔ حبشہ یعنی ایبے سینیا وہ ملک ہے جو کہ کینیا کالونی کے ساتھ لگا ہؤا ہے۔ چنانچہ جب مسلمان اس مُلک میں پہنچے اور وہاں کے بادشاہ کے قانون کے ماتحت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی گئی اور امن کا سانس انہوں نے لینا شروع کیا تو مکّہ والوں سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی قوم کے دو لیڈروں کو بادشاہ اور اس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر بھجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بادشاہ سے درخواست کریں کہ وہ مہاجرینِ مکّہ کو مکّہ کی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ ان سے اپنے خیالات اور عقائد کے مطابق سلوک کریں اور اگر بادشاہ نہ مانے تو پھر درباریوں کو تحفے دے کر ان سے بادشاہ پر زور ڈلوائیں اور مسلمان مہاجرین مکّہ کو جس طرح بھی ہو واپس مکّہ لائیں۔ چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا اور درباریوں خصوصًا پادریوں کے ذریعہ سے بادشاہ سے ملا جو اُس زمانہ میں نیگس کہلاتا تھا۔ جسے عرب لوگ نجاشی کہتے تھے۔ یہ اُس بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ اُس زمانہ کے حبشی بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ چنانچہ بادشاہ کے سامنے اُنہوں نے شکایت کی کہ اُن کے مُلک کے کچھ باغی بھاگ کر حبشہ آگئے ہیں اور انہیں مکّہ والوں نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان باغیوں کو مکّہ کی حکومت کے حوالہ کر دیا جائے۔ بادشاہ نے ان لوگوں کی باتیں سُن کر مسلمانوں کو بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ وہ کس طرح آئے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا کہ اُن پر اُن کی قوم ظلم کر رہی تھی اور چونکہ افریقن بادشاہ کا انصاف اور اس کا عدل مشہور تھا وہ اس کے مُلک میں پناہ لینے کے لئے آگئے۔ اس پر بادشاہ نے مکّہ کے وفد کو جواب دیا کہ چونکہ اِن کے خلاف کوئی سیاسی جُرم ثابت نہیں صرف مذہبی اختلاف ثابت ہے اس لئے وہ ان کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں۔ مکّہ کا وفد جب دربار سے ناکام لَوٹا تو اس نے درباریوں اور پادریوں کو بھی تحفے تقسیم کئے اور اُنہیں اُ کسایا کہ یہ مسلمان لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں اس لئے مسیحیوں کو بھی مکّہ والوں کے ساتھ مِل کر ان پر سختی کرنی چاہئے۔ چنانچہ دوسرے دن پھر درباریوں نے بادشاہ پر زور دیا کہ یہ لوگ تو مسیح کی بھی ہتک کرتے ہیں۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ مسیح ؑ کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ مسلمانوں نے سورة مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر اس کو سنائیں جن میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے اور پھر کہا کہ ہم مسیح کو نبی اﷲ مانتے ہیں۔ ہاں انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ اس پر پادریوں نے شور مچا دیا کہ دیکھو انہوں نے مسیح کی ہتک کی ہے مگر افریقن بادشاہ منصف مزاج اور عادل تھا۔ اُس نے سمجھ لیا کہ یہ الزام ان پر غلط لگایا جارہا ہے۔ یہ لوگ مسیح کا ادب کرتے ہیں مگر اُس کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے۔ چنانچہ اس نے بڑے جوش سے ایک تنکا فرش پر سے اُٹھایا اور کہا کہ خدا کی قسم! مَیں بھی مسیح کو وہی کچھ مانتا ہوں جو یہ کہتے ہیں اور مَیں اس درجہ سے جو انہوں نے مسیح کا بیان کیا ہے اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔
پادریوں نے بادشاہ کے خلاف بھی آوازے کسنے شروع کئے کہ تُو بھی مُرتد ہو گیا ہے لیکن نجاشی نے کہا کہ مَیں تمہارے اس شورو شغب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جب میرا باپ مَرا تھا تو مَیں چھوٹا بچہ تھا اور میری جگہ پر میرا چچا قائمقام مقرر کیا گیا تھا اور تم لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھ کو تخت سے محروم کر دو۔ جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو باوجود اس کے کہ مَیں چھوٹا تھا مَیں نے اپنا حق لینا چاہا اور نوجوان میرے ساتھ مل گئے اور میرے چچا نے ڈر کر دستبرداری دے دی اور تخت میرے حوالے کر دیا۔ تو میری بادشاہت تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے باوجود تمہاری مخالف کوششوں کے مجھے دی ہے۔ کیا مَیں اب تم سے ڈر کر خدا کو چھوڑ دوں گا اور ظلم اور تعدّی کروں گا؟ نہ تم نے یہ بادشاہت مجھے دی ہے نہ مَیں تمہاری مدد کا محتاج ہوں۔ مَیں کسی صورت میں ظلم نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ آزادی سے میرے مُلک میں رہیں گے اور کوئی ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔1 پس اے اہلِ افریقہ! جن کی زبان سواحیلی ہے مَیں یہ ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرنے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کتاب کے ابتدائی ایام میں اس کتاب کے ماننے والوں کو آپ کے برّاعظم نے پناہ دی تھی اور ظلم و تعدّی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انصاف اور عدل قائم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔ آج قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم اُسی طرح مظلوم ہے جس طرح کسی زمانہ میں قرآن کریم کے ماننے والے مظلوم ہؤا کرتے تھے۔ آج اس قرآن کریم کو دُنیا میں لانے والا نبی فوت ہو چُکا ہے لیکن اس کا روحانی وجود آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے جتنا کہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے وہ اپنی دنیوی زندگی میں مظلوم تھا۔ اس پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں ، اس کی لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ کر دُنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اس کے ماننے والوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ واقعہ یہ نہیں۔ خدا کی نظروں میں سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے جن پر قرآن نازل ہؤا تھا اور سب سے زیادہ سچی تعلیم وہ ہے جو اس کتاب یعنی قرآن کریم میں موجود ہے۔ جیسا کہ آپ خود دیکھ لیں گے۔ دُنیا صرف اپنی طاقت اور اپنی قوت کے گھمنڈ پر اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کو ذلیل کر رہی ہے لیکن اے اہلِ افریقہ! آج آپ کا بھی یہی حال ہے۔ آپ کو غیر مُلکوں میں تو الگ رہا اپنے مُلک میں بھی ذلیل سمجھا جا رہا ہے۔ پس وہ تعلیم جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک وحشی اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو دُنیا کی ترقیات کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا لیکن جو آج مظلوم ہے اور گھر سے بے گھر کر دی گئی ہے مَیں اُسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جبکہ آپ لوگوں کی حالت بھی اسی قسم کی ہے اور آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور اسی عدل و انصاف کی نگاہ سے اسے دیکھیں جس نگاہ سے نجاشی نے مکّہ کے مسلم مہاجرین کو دیکھا تھا اور پھر اپنی عقل اور اپنی بصیرت سے نہ کہ لوگوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزاموں کے اثر کے نیچے اور لوگوں کی بنائی ہوئی رنگین عینکوں کے ذریعہ سے اسے دیکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس لاثانی جوہر کی حقیقت معلوم ہو جائے گی اور اُس رسّے کو آپ پکڑ لیں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ سے آسمان سے پھینکا ہے تاکہ اس کے بندے اسے پکڑ کر اس تک پہنچ جائیں۔
اے اہلِ افریقہ! ایک دفعہ پھر اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو۔ جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے۔ جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آزاد نہیں ہو سکتیں، مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پاسکتے۔ قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے۔ امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچاتا ہوں۔ یہ پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ زمین آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے۔ آؤ اور ہزاروں کی تعداد میں آؤ، لاکھوں کی تعداد میں آؤ، کروڑوں کی تعداد میں آؤ اور سچائی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ تاکہ ہم سب مِل کر دُنیا میں ازسرِ نو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دیں اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اخوت اور خدا تعالیٰ کے ہمہ گیر عدل و انصاف کو دُنیا میں قائم کر دیں۔ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور مَیں وہ دن دیکھوں جبکہ آپ لوگ میرے دوش بدوش دُنیا میں امن و سلامتی اور ترقی اور رفاہیت کے قائم کرنے میں کوشش کر رہے ہوں اور پھر یہ کوششیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوں۔
خاکسار۔ مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی’’
(الفضل 26فروری 1958ء)
1: سیرت ابن ھشام جلد 1 صفحہ 356تا362۔ مطبوعہ مصر 1936ء









مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق
اِسلامی نظریہ


(اسلامک آئیڈیالوجی)

از
افاضات
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
‘‘ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ھُوَ النَّاصِرُ
اسلام کا بنیادی نظریہ متعلق مسئلہ نبوّت
(از افاضات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ۔ یہ اس دستاویز کا ابتدائی حصہ ہے جو تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953ء میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل کی گئی تھی)
اسلام ایک کلیاتی مذہب ہے یعنی وہ صرف متفرق احکام نہیں دیتا بلکہ وہ دُنیا کی پیدائش کے مقصد اور شریعت کی ضرورت اور انسانی ذمّہ داریوں کی حد بندیوں اور انسانی پیدائش کی غرض اور اُس کی فطرت کی حقیقت اور سوسائٹی کے مقابلہ میں اُس کا مقام اور اُس کے مقابلہ میں سوسائٹی کا مقام اور اُس کے آخری انجام کو بھی بیان کرتا ہے۔ وہ اس پر بحث کرتا ہے کہ دُنیا بِلا وجہ اور بِلا مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ کائنات کی پیدائش ایک بشرکامل کی پیدائش کے لئے تھی۔
بشر کامل سے مُراد
اور بشر کامل سے مُراد ایسا وجود تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنے والا ہو اور جو خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور
خدا جس کی طرف جھکے اور اس طرح دو محبتوں کی وجہ سے وہ انسان کہلائے جو اصل میں ‘‘اُنْسَانِ’’ ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ۔ اوّل اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس سے ۔ دوم اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرتا ہے اور اُس کی مخلوق سے بھی۔ پھر وہ یہ بتاتا ہے کہ کمال کے معنے یہ نہیں کہ اُس سے قصور نہیں ہو سکتا کیونکہ قائم وَحَیّ بِالذَّات تو ان معنوں میں بے عیب ہو کر بھی کامل کہلا سکتا ہے مگر مخلوق اِن معنوں میں بے عیب ہو کر کامل نہیں کہلا سکتی بلکہ بوجہ مخلوق ہونے کے مجبور کہلائے گی اور مجبوری حسنِ کمال سے محروم کر دیتی ہے۔ پس اس کے کامل کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ایک اَور طریق اختیار کیا کہ اُس کے اندر خیر و شر کے دونوں مادے پیدا کر دیئے اور اس کی راہنمائی کے لئے اُسے دو مددگار طبعی اور دو مددگار فوق الطبعیات عطا فرمائے تا وہ اُن کی مدد سے خداتعالیٰ تک پہنچے اور اپنے اخلاق کو کامل کرے اور اپنی ذمّہ داری کو ادا کرے۔ پہلا طبعی مددگار وہ معائنہ اور فکر کو قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ1یعنی زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت سے نشانات مخفی ہیں۔ اُن لوگوں کے لئے جو اﷲ تعالیٰ کو کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔ یعنی طبعیات پر غور اور اُس کے تغیرو تبدل پر فکر کرنا بھی ہدایت اور صحیح علم کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا ذریعہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا2یعنی انسان کے اندر اُس نے ایک ایسا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرتا اور ہدایت کی راہیں معلوم کرتا ہے یعنی انسان کے اندر شعور اور تمیز پیدا کی گئی ہے جس سے وہ صدق و باطل میں فرق کر سکتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں کہ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا١ؕ 3اﷲ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی فطرت وہی ہے جسے لے کر انسان پیدا ہوتا ہے جو بعد میں اس پر رنگ آمیزی کی جاتی ہے اور اُس پر تعصب کا رنگ چڑھایا جاتا ہے وہ خدا کی دین نہیں۔ صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے صرف بیرونی اثرات سے خالی اور آزاد دماغ ہی کام دیتا ہے جسے لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔
دو مافوق الطبعیات ذرائع اُس نے الہام اور نبوت پیدا کئے ہیں یعنی انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہوجاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے راہنمائی ملتی ہے۔ جیسے فرمایا وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ۔4جو لوگ سچے طور پر ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم اُن کے لئے اپنی طرف راہنمائی کرنے والے اسباب پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفصیلی راہنمائی کے لئے نبوت کا مقام جاری کیا جس کے ذریعہ سے وہ شریعتیں اور قانون ملتے ہیں یا شریعت اور قانون کے راز معلوم ہوتے ہیں جو کسی مخصوص زمانے کے لئے ضروری ہوں۔ اِسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔5 اگر تمہاری طرف تم میں سے ہی رسول آئیں جو تم کو میرے نشانات بتائیں تو جو شخص تقویٰ اور اصلاح سے کام لے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف لاحق ہو گا نہ ماضی کا غم۔
قرآن کریم یہ چار ذرائع انسان کی تکمیل کے لئے بتاتا ہے جن میں سے دو طبعی ہیں اور دو فوق الطبعیات۔ اور غور کر کے دیکھا جائے تو دنیا کی ترقی انہیں چاروں ذریعوں سے وابستہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے یہ چار راستے تو انسان کے لئے کھولے ہیں لیکن اُن پر چلنے کے لئے اُسے مجبور نہیں کیا صرف اُسے قبول کرنے یا ردّ کرنے کی مقدرت دی ہے۔ اور محبتِ الٰہی کے پیدا کرنے کے لئے شریعت کی بنیاد انسان کے فائدہ پر رکھی ہے جبر اور زور پر نہیں رکھی۔ چونکہ انسانی فطرت اپنے کمال کے لئے تین سہاروں کی محتاج ہے ایک صحیح عمل پر اور ایک صحیح فکر پر اور ایک شوق و رغبت پر اس لئے صحیح عمل کے لئے اُس نے شریعت نازل کی۔ صحیح فکر کے لئے تمیز اور معائنہ قدرت کے سامان پیدا کئے۔ اور شوق اور رغبت کی تکمیل کے لئے الہام و وحی کا دروازہ کھولا۔ مگر چونکہ شریعت کا مکمل ہو جانا انسانی دماغ کے مکمل ہونے پر موقوف تھا اِس لئے شریعت کو محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ مکمل کر دیا لیکن محبتِ الٰہی کی خواہش کمالِ ذہنی سے بڑھتی ہے۔ اس لئے دوسرا راستہ الہام و رضا کا محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ پہلے سے بھی زیادہ کھول دیا۔ اگر پہلے نبیوں کے ذریعہ سے ایک مُلک اور قوم میں محدود لوگ اُس مرتبہ کو پاتے تھے تو آپ کے بعد آپ کے ذریعہ سے یہ فیض اور بھی بڑھ گیا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رَسُوْلکَ الْخَاتمُ لِمَا سَبَقَ وَالْفَاتِحُ لِمَا انْغَلَقَ۔6 یعنی اے خدا تیرا رسول ؐ ایسا ہے کہ سابق انعامات کو اُس نے کمال تک پہنچا دیا اور وہ دروازے رحمتِ الٰہی کے جو پہلے بند تھے اُس نے کھول دیئے۔ یہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی ہے جسے مَیں تمہید کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اسی پس منظر میں یہ امر سمجھ میں آسکتا ہے کہ آیا احمدیت نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی ہے یا اُس آئیڈیالوجی کی تشریح کی ہے۔ اَب میں اُوپر کے مختصر بیان کی تصدیق میں قرآن کریم اور احادیث اور اقوالِ اولیاء و صلحاء بیان کر کے کسی قدر تفصیل سے اس مضمون کو بیان کرتاہوں۔
مذکورہ بالا مختصر بیان کی تصدیق قرآن مجید سے
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
کہ وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ۔ 7 یعنی زمین و آسمان بِلا وجہ نہیں پیدا کئے گئے بلکہ اُن کی پیدائش میں حکمت تھی اور وہ اعلیٰ درجہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے تھے۔
پھر فرماتا ہے اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا 8آسمان اور زمین یقیناً پہلے بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ تمام عالم پہلے ایک واحد شکل میں تھا پھر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف وجود بنائے گئے۔ جیسا علم ہیئت اور علم تخلیقِ ارض سے ثابت ہوتا ہے کہ دُنیا بننے سے پہلے ہیولائی حالت میں ہوتی ہے، پھر وہ پہلے تو زیادہ گھنی ہوتی جاتی ہے اور پھر بعض دفعہ اندرونی تغیّرات سے متاثر ہو کر وہ جھٹکا کھاتی ہے اور اس کے کچھ حصّے الگ ہو کر ایک نظامِ شمسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ دُنیا بغیر ہدایت اور رہنمائی کے ہوتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کلام کے نزول کا راستہ کھول دیتا ہے اور تاریکیوں میں سے نکل کر مخلوق روشنی کی طرف آجاتی ہے۔
پھر انسان کی طرف متوجّہ ہوتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا۔9 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی مُدعا کے پیدا کیا تھا۔ پھر اس اشارہ سے وضاحت کی طرف رجوع کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۔ 10ہم نے تمام بڑے لوگوں اور عوام النّاس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مہذب بنائیں اور قُربِ الٰہی حاصل کریں۔ دوسری جگہ اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١ٞ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ۔11یعنی اﷲ تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اﷲ تعالیٰ سے بہتر رنگ کون دے سکتا ہے۔
حدیث میں اس رنگ کی تشریح یوں آئی ہے خَلَقَ اللہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ12 اﷲ تعالیٰ نے آدم کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ الٰہی صفات کو ظاہر کر سکے۔
بائبل میں ہے کہ ‘‘خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا’’۔13 پھر اس مقصد کے پورا کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ14اور یاد کرو جب کہ تمہارے ربّ نے ملائکہ سے کہا کہ مَیں دُنیا میں اپنی صفات کو ظاہر کرنے والا ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ گویا وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ میں جو غرض انسان کی پیدائش کی بتائی گئی تھی اِس آیت میں اُس غرض کے پورا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پھر انسان کو اس غرض کے پورا کرنے کے لئے چننے کی وجہ یہ بتائی کہ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ۔15 یعنی شریعت کا حامل انسان کے سوا اَور کوئی وجود مخلوقات میں سے نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اُس کے اندر اپنے ارادہ سے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اُسے مجبور کر کے کام لینے اور عواقب کو بُھلا کر کام کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے۔
امانت کا لفظ جو اس جگہ آیا ہے اس کی تشریح ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا۔16 یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت اُن لوگوں کے سپرد کرو جو اس کے اہل ہیں۔ ایک اور آیت میں انسان کی اس طاقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا17 ہم نے انسان میں یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو شکر گزار بندہ بن جائے اور چاہے تو نافرمان بن جائے۔ یعنی اس پر جبر نہیں کیا صرف اسے مقدرت بخشی ہے تاکہ وہ انعام کا مستحق بنے اور جبر کی وجہ سے ایک آلۂ بے جان قرار نہ پائے۔ اسی طرح فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِۙ۔وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِۙ۔وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِۚ۔ 18 کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں دیکھنے کو نہیں بنائیں؟اور زبان اور ہونٹ اپنی شبہات کے اظہار کے لئے نہیں بنائے؟ اور اُس کو نیکی اور بدی دونوں کا راستہ نہیں دکھایا؟
پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۔ 19 انسان کے اندر بُری باتوں اور نیک باتوں کے سمجھنے کا مادہ رکھا گیا ہے۔
پیدائشِ عالَم کا ایک مقصد
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم اور اسلام کی رُو سے پیدائشِ عالَم ایک مقصد کے مطابق ہے
اور وہ ہے ایک ایسے وجود کو ظاہر کرنا جو صفاتِ الٰہیہ کامظہر ہو۔ اور اس کے لئے انسان چُنا گیا ہے جس میں بِالارادہ خیر و شر کو اختیار کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے اور انسان کے وجود کو ظاہر کرنا پھر ایک مقصد کے مطابق ہے اور اُسے آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل اور فہم سے کام لے کر ان دونوں طریق میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
پھر اس کے بعد فرماتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۔وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۔20 جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو پاک رکھے گا اور اسے خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچائے گا وہ اپنے مقصد اور مُدعا کو پا لے گا۔ اور جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو خاک اور مٹی میں مسل دے گا وہ اپنی پیدائش کے مقصد اور مدعا میں ناکام رہے گا۔ یعنی صفاتِ الٰہیہ کا ظہور اُس کے ذریعہ سے نہیں ہو گا اور وہ ایک سڑے ہوئے پھل کی طرح ہو جائے گا جس کا نام تو پھل ہے لیکن وہ کام نہیں آسکتا۔
اس فطرتی راہنمائی کے علاوہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی راہنمائی کے لئے ہم نے یہ طریق بھی جاری کیا ہے کہ ہم انسانوں میں سے بعض لوگوں کو چُن لیتے ہیں اور اُن پر اپنا کلام نازل کرتے ہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔21اﷲ تعالیٰ ملائکہ اور انسانوں میں سے رسول چُن لیتا ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ دُعاؤں کا سُننے والا اور انسانوں کی حالتوں کو دیکھنے والا ہے۔ یعنی انسانوں کی حالتوں میں جب کبھی خرابی پیدا ہوتی اور اُن کی حالت اصلاح طلب ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کچھ فرشتوں کواصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے جو آگے اپنے جیسے وجودوں پر خدا تعالیٰ کی مرضی کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں۔
اسی طرح فرماتا ہے فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔22 یعنی اے بنی آدم! جب تمہاری طرف ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ خوف اور غم سے محفوظ رہے گا۔ اس جگہ ہدایت کا ذکر ہے رسالت کا نہیں جس میں رسالت اور عام الہام دونوں شامل ہیں۔ اور حضرت آدم ؑ کے زمانے میں ہی قیامت تک کے لئے انزالِ وحی کا جو کبھی رسالت کی شکل میں ہو گی ، کبھی بغیر رسالت کے ہو گی وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ مومنون میں اس بات کا ذکر فرماتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو اپنی ہدایت کا وارث بنایا اور نوح ؑ اور اس کے بعد دوسرے رسول پے در پے بھیجے۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا۔ اور سورۂ حدید میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِيْمَ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ۔23 اور ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کو رسول بنا کر بھیجا اور اُن کی اولاد میں بھی نبوّت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا۔ اُن میں سے کچھ تو ہدایت یافتہ ہو گئے اور اکثر اُن میں سے نافرمان ہو گئے۔ اس کے بعد موسیٰ ؑ کے زمانے کا ذکر یوں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١ٞ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ١ؕ اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ١ۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ١ٞ وَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۔وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۔وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ١ۙ وَ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ۠ عَلَى الَّذِيْنَ كَفَرُوْا١ۖۚ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ١ٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ۔24 یعنی موسیٰ ؑ کو بھی کتاب ملی اور اُن کے بعد بھی خداتعالیٰ نے پے در پے رسول بھیجے یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم دُنیا میں ظاہر ہوئے اور اُن کے بعد خدا تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جن پر قرآن کریم نازل ہؤا جس نے پہلی کتابوں کی تصدیق کر دی۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم ؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک انبیاء کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور بغیر کسی معتدبہ وقفہ کے اﷲ تعالیٰ کی طرف بُلانے والے لوگ آتے رہے۔
بے شک قرآن کریم میں صرف ان نبیوں کے نام لئے گئے ہیں جن سے عرب واقف تھے لیکن دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔25
اسی طرح فرماتا ہے وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔26 یعنی دُنیا کی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے رسول اور ہادی گزرے ہیں۔ پس بنی نوع انسان کا اس کے ساتھ تعلق بذریعہ الہام آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود تک برابر چلا آیا ہے۔
خدا تعالیٰ کے وجود اور قیامِ نبوّت کے متعلق اسلامی نظریہ کے مقابل دوسرے مذاہب کا نظریہ
اِس اسلامی نظریہ کے خلاف دوسرے مذاہب اور دوسری
اقوام میں خدا تعالیٰ کا وجود اور نبوّت کا قیام صرف اپنی اپنی قوم کے دائرہ میں محصور کیا گیا ہے۔ ہندو مذہب غیر اقوام میں مرسلانِ الٰہی کے متعلق بالکل خاموش ہے بلکہ اپنے نسلی نظریہ کے لحاظ سے اُس کے خلاف ہے۔ مشرقی ایشیائی اقوام بھی اس نظریہ سے بالکل کوری نظر آتی ہیں اور یہی حال بُدھوں کا ہے۔ ایرانی، بابلی اور یونانی بھی مذہبی نظر سے اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں بلکہ جو شہادت ملتی ہے وہ اس کے خلاف ملتی ہے۔ بنی اسرائیل بھی خدا کو ایک قومی خدا قرار دیتے ہیں اور نبوت کو ابراہیم کی نسل کا ورثہ سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ ۔27 یعنی ہم نے نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں نبوت رکھ دی ہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی ذرّیت میں سے نبی آتے رہے اور اُن کا سلسلہ بند نہیں ہؤا۔ یہ معنے نہیں کہ دوسری قوموں میں نبی نہیں آئے کیونکہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ۔وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔اور اﷲ تعالیٰ اس کو کسی زمانے سے مخصوص نہیں کرتا بلکہ ان آیات کے مدِّنظر وَ جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتے کہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کی اولاد میں نبوت جاری رہی اور یہ معنے نہیں نکالے جاسکتے کہ اُن کی قوموں کے سوا باہر کوئی نبی کبھی نہیں آیا۔ جو قومیں کسی نبی کو نہیں مانتیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ اِذْ قَالُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰى بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ ۔28 یعنی اُن لوگوں نے خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے پر کوئی وحی نازل نہیں کی۔ گویا وہ لوگ الہامِ الٰہی کے قطعاً منکر تھے۔
دوسرا گروہ وہ تھا جو نبوت کا تو قائل تھا لیکن ہر قوم پر اسے یہ خیال ہوتا تھا کہ نبوت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور آئندہ کسی قسم کا کوئی پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آنا چاہئے۔ ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا۔29 پھر فرماتا ہے قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا ۔30 یعنی جو کچھ ہمارے باپ دادوں کے پاس تعلیم تھی وہی ہمارے لئے کافی ہے کسی نئی تعلیم کی ضرورت نہیں۔
ہندو قوم کے عقیدہ کی بنیاد اِسی پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ویدوں کے رِشیوں پر اُتارا۔ اُس کے بعد دُنیا میں اُس کا کلام آنا بند ہو گیا اور اس تعلیم کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں۔ بعض لوگ اس بات کے تو قائل نہیں تھے کہ ابتدائے عالَم میں جو وحی نازل ہوئی وہی کافی تھی لیکن وہ وحی کے تسلسل کو بند کرنے والے ضرور تھے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ اُن لوگوں کے متعلق فرماتا ہے وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا١ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ۔31 اور تمہارے پاس یقیناً یوسفؑ بھی اس سے پہلے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا تھا لیکن اُس کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق متواتر شُبہ میں رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم یوں کہنے لگ گئے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ حدّ سے بڑھنے والوں اور شک میں پڑنے والوں کو گمراہ قرار دیا کرتا ہے۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنے زمانے میں نبوّت کے اجراء کو روکنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ حتّٰی کہ یوسف علیہ السلام بھی جو نہ کسی سلسلے کے بانی تھے نہ کسی سلسلہ کے خاتم، نبوت کے روکنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔
اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا۔ چنانچہ سورۂ جنّ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن جِنّوں نے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی سُننے کے لئے آئے تھے (ہمارے نزدیک وہ نصیبین کے یہودی تھے اور جِنّ کا لفظ غیر قوموں کے لئے اور باغی قوموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔) واپس جاکر اپنی قوم سے کہا کہ اَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ يَّبْعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا۔32 کہ جس مُلک سے ہم آئے ہیں وہ لوگ بھی تمہاری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو نبی بنا کر نہیں بھیجے گا۔ چونکہ سورۂ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موسیٰ ؑپر ایمان لانے والے لوگ تھے۔33 پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح ؑ کے نزول کے بعد عیسائی لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ گو عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے لیکن آئندہ کوئی اَور نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ 34
ان دونوں نظریوں کو مقابل میں رکھ کر یہ نتائج نکلتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک تو تمام بنی نوع انسان روحانی ترقی اور قُربِ الٰہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیشہ اﷲ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرتا رہے گا کہ انسان کو قُربِ الٰہی کے اعلیٰ درجے کے مقامات حاصل ہوتے رہیں لیکن اس کے مقابل پر باقی دُنیا اس نظریہ کی قائل رہی ہے کہ خدا تعالیٰ ساری دُنیا کا خدا نہیں بلکہ وہ مخصوص قوموں کا خدا ہے۔ گویا اُن کے نظریہ میں خدا تعالیٰ کی حیثیت ایک بُت کی حیثیت تھی جسے ہر ایک قوم نے اپنے لئے خدا ٹھہرا لیا تھا اور پھر یا تو وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے قُربِ الٰہی کے حصول کے لئے کوئی آسمانی ذریعہ کبھی پیدا ہی نہیں کیا اور یا یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ پیدا تو کیا مگر صرف انہی کی قوم کے لئے پیداکیا۔ اور پھر بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی ذرائع کو ایک زمانے تک پیدا کیا اور آئندہ آسمانی برکتوں کے رستے بند کر دیئے۔ کسی نے تو یہ رستہ حضرت یوسفؑ تک بند کر دیا، کسی نے حضرت موسیٰ ؑ تک اور کسی نے حضرت عیسیٰ ؑ تک اور قرآن کریم ان میں سے ہر ایک کو ملامت کرتا اور جھوٹا قرار دیتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت دُنیا کا یہ روحانی نقشہ مکمل ہو گیا۔ قرآن کے رُو سے ابتدائے آفرینش میں ایک نبی تھا یعنی حضرت آدم ؑ۔ نسلِ انسانی اُس وقت محدود تھی اور سب کی سب حضرت آدم ؑ پر ایمان لانے کے لئے مدعو۔ حضرت نوح ؑ تک یہ سلسلہ چلا۔ آپ کے بعد بنی نوع انسان کثرت سے ہو گئے اور دُنیا میں پھیل گئے۔اُس وقت سے الگ الگ قوموں میں الگ الگ نبی آتے رہے۔لیکن جب انسانی ذہن ارتقاء کو پہنچ گیا اور وہ زمانہ قریب آگیا جس میں بنی نوع انسان کے آپس میں ملنے اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کے سامان کثرت سے پیدا ہو جانے والے تھے تو خدا تعالیٰ نے پھر بنی نوع انسان کی وحدت کے لئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام بنی نوع انسان کو دعوتِ حقّہ دیں۔ چنانچہ فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ 35 ہم نے تجھے صرف اِس غرض سے بھیجا ہے کہ تُو تمام بنی نوع انسان کو ایک مذہب اور ایک عقیدہ پر جمع کر دے۔ اور پھر فرماتا ہے قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا 36 اے لوگو! مَیں تم سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اِسی طرح فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا 37 ہم نے تجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمام دُنیا کے لئے کیوں مبعوث کئے گئے
یہاں سوال ہوتا تھا کہ آپ ساری دُنیا اور سب زمانوں کے لوگوں کی طرف کیوں مبعوث کئے گئے ہیں؟
اس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا 38 یعنی آج سے مَیں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے چُن لیا۔ یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تو انسانی حالات اور زمانی کیفیات ایسی تھیں کہ مختلف علاقوں کے لئے مختلف قسم کے اصولی احکام دئیے جائیں لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت دُنیا اِس حد تک ترقی کر چکی تھی اور آپس میں میل جول کے ذرائع اِس حد تک پیدا ہو گئے تھے کہ اب تمام دُنیا کے لئے ایک ہی قسم کے اصولی احکام دینا ضروری ہو گیا تھا۔ اسی طرح آپ کے زمانہ سے پہلے انسانی دماغ نے اس قدر نشوونما نہیں پائی تھی کہ وہ شریعت کی تمام باریکیوں سے واقفیت کا متحمل ہو سکے مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں انسانی دماغ اتنا کامل ہو چکا تھا کہ شریعت کے رازوں اور حکمتوں سے واقفیت حاصل کر سکے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ کتاب دی جو شریعت کے تمام ضروری احکام پر مشتمل تھی اور وہ ایسے الفاظ میں تھی جو شریعت کے رازوں اور حکمتوں کو تفصیل کے ساتھ واضح کر دینے پر کَمَاحَقُّہٗ حاوی تھی۔ اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِيْ عَلَيْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ۔ كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَ يُزَكِّيْكُمْ وَ يُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔39 فرماتا ہے (تم میرا خوف کرو) تا مَیں تم پر اپنی نعمت کامل کر دوں اور تم ہدایت پا جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے تمہاری طرف وہ رسول بھیجا ہے جو تم میں سے ہی ہے، جو تمہیں میرے نشان پڑھ کر سُناتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تمہیں شریعت بھی سکھاتا ہے اور اُس کی حکمتیں بھی تم پر واضح کرتا ہے۔
اس آیت میں اُوپر والی آیت کی تشریح کر دی ہے کہ اتمامِ نعمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت کی حکمتیں بیان کی جائیں کیونکہ شریعت کا کامل ہونا انسانی دماغ کے تنوّر کے لئے ضروری نہیں۔ شریعت صرف ہمارے خیال، ہمارے افکار اور ہمارے اعمال کو درست کرتی ہے مگر ہمارے ذہن کو بُلندی تبھی حاصل ہوتی ہے جب کہ اُس شریعت کے بیان کرنے کا پسِ منظر بھی ہمارے سامنے کھولا جائے اور اُس کی حکمتیں بھی ہم پر ظاہر کی جائیں۔ تب ہمیں صرف ایک قانون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم ایک رنگ میں اُس قانون کے بنانے والے ہو جاتے ہیں کیونکہ جب اُس قانون کے بنانے کی حکمتیں ہم پر ظاہر کر دی جاتی ہیں اور ہم ان سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہمارا دِل یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر یہ علم ہمیں حاصل ہوتا اور ہم پر قانون بنانے کی ذمّہ داری ڈال دی جاتی تو ہم بھی یہی قانون بناتے۔ پس گو قانون بنا بنایا ہمیں مِلا ہے لیکن جو علم اُس کے ساتھ دیا گیا ہے اُس کے ساتھ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم قانون بناتے تو یہی قانون بناتے اور یہی ہمارے لئے بہتر ہوتا۔ جب تک شریعت اس مقام پر نہ پہنچے اُس وقت تک وہ عالمگیر شریعت نہیں بن سکتی اور نہ ہمیشگی کی شریعت بن سکتی ہے۔ پس ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ گزشتہ زمانے میں بنی نوع انسان کے متفرق ہو جانے کے بعد پھر آدم کی طرح تمام دُنیا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کیوں جمع کر دی گئی ہے اور کیوں اس سے پہلے جمع نہیں کی گئی۔
اُوپر کی تمہید سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کمالِ انسانی ظاہر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ایک ایسی شریعت آپ کو دی گئی جو تمام اصولی و ضروری احکام پر مشتمل تھی جو تمام بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کرنے والی تھی اور جس کے ساتھ اُن احکام کا پس منظر بھی دے دیا گیا جو اُن احکام کے دینے کی وجہ تھا تا بنی نوع انسان بشاشت کے ساتھ اُن احکام پر عمل کر سکے۔ حضرت مسیح ناصری ؑ بھی اپنے اِس قول میں اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اَب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا’’۔40
قرآن مجید ہر حکم کی حکمت بیان کرتا ہے
قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ نہ صرف ضروری تعلیم
بیان کرتا ہے بلکہ تعلیم کی غرض و غایت اور موجبات اور اس کا پس منظر بھی بیان کرتا ہے۔ اس نے مذہب کی تاریخ بالکل بدل دی۔ قرآن کریم سے پہلے شرائع تو آئی تھیں مگر ہر حکم کی حکمت نہیں بیان کی جاتی تھی۔ اس وجہ سے انسان اطاعت تو کرتاتھا مگر خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دِل میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک غلام محسوس کرتا تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اُس کا باپ یا اُس کی ماں اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کو نفع پہنچانے اور ترقی دینے کے لئے اُس کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایک جابر آقا اُس پر اپنی حکومت جتانے کے لئے اُسے اندھا دُھند حکم دے رہا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اِس اصول کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بھی بِلا وجہ کوئی حکم نہیں دیتا اور ہر حکم کی کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جس میں خود انسان کا فائدہ مضمر ہوتا ہے اور وہ اس کی ترقی کو مدِّنظر رکھ کر دیا جاتا ہے۔ پس گو اسلام سے پہلے بھی بعض مذاہب نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کی بناء پر ہونا چاہئے لیکن انہوں نے محبت پیدا کرنے کے لئے سمجھ میں نہ آنے والے صرف چند احسانات گنا دینے پر بس کیا ہے۔ محبت پیدا کرنے کے حقیقی ذرائع مہیا نہیں کئے۔ صرف اسلام ہی ہے جس ے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیتا جس میں انسان کے لئے مضرّت ہو۔ وہ فرماتا ہے طٰهٰۚ۔مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى۔ 41 ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تُو شریعت کے احکام کے نیچے دَب جائے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ دِلوں کے وساوس دُور ہو جائیں اور اُن کے شبہات کا ازالہ ہو جائے اور شریعت کی حکمتیں اُن پر ظاہر ہو جائیں۔ یہاں تک کہ قرآن کریم ماننے والوں کے لئے رحمت کا موجب ہو جائے۔ تکلیف، دُکھ یا دباؤ کا مؤجب نہ بنے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۔42 اور ہم قرآن مجید کی وہ تعلیم بھی نازل کرتے ہیں جو دِلوں اور رُوحوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے اور شبہات کو دُور کرتی ہے اور اسی طرح نہ صرف مسلمانوں کے لئے یا موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے رحمت اور فضل ہے۔ قرآن کریم کی یہ خوبی ایسی ظاہر ہے کہ آخر قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ۔رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔43 اس کتاب میں شریعت کے احکام بیان کئے گئے ہیں بلکہ احکام اس طرح کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں اور اُن کی حکمت اس طرح واضح کی گئی ہے کہ کئی دفعہ کفّار بھی ان حکمتوں کو سُن کر دِل میں خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے اور اُس شریعت پر عمل کرنے والے ہوتے جو انسانوں کے لئے رحمت و برکت اور ترقی کا موجب ہے نہ کہ جبر اور سختی کا موجب۔ غرض اسلام نے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد عقل اور محبت پر رکھی۔ قرآن کے بعد انسان خدا کو ایک غضب کا دیوتا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اُس کو ایک رُوحانی باپ اور رُوحانی ماں کے طور پر سمجھتا ہے جو اُس کے فائدے کے لئے اور اُس کے آرام کے لئے اور اُس کی ترقیات کے لئے اُس کو ایسی نصیحتیں دیتا ہے کہ جن پر چل کر وہ سُکھ اور آرام دیکھ سکتا ہے۔ اس کی تشریح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک جنگ میں ایک کافر عورت جس کا بچہ کھو گیا تھا جب وہ مِل گیا تو وہ دُنیا و مافیہا سے غافل ہو کر اُسے پیار کرنے لگ گئی۔ آپ نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تم اس عورت کو دیکھتے ہو کہ یہ کتنی خوش ہے،کیونکہ اس کا بچہ اسے مل گیا ہے۔ اِسی طرح جب خدا کا کوئی بندہ ہدایت پاکر اُس کی طرف لَوٹتا ہے تو وہ اُس ماں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پالیا ہو۔ 44
اور اِسی مضمون کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ 45 تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے تو تم میری شریعت پر عمل کرو کیونکہ یہی شریعت سچی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ تم اگر اس شریعت پر عمل کرو گے تو وہ تمہاری محبت کو اتنا بڑھادے گی کہ اُس کے نتیجہ میں خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تم مُحِبّ سے محبوب بن جاؤ گے۔
افسوس دُنیا نے اِس پُر حکمت تعلیم کی قدر نہ کی۔ مسلمان علماء میں سے غزالی ؒ نے پردہ اُٹھا کر ایک جھلک اُس کی دیکھی۔ شاہ ولی اﷲ صاحب نے اس سے زیادہ اس کی جلوت کا معائنہ کیا۔ اور احمدیت نے اِس خوبی کو ایسے کامل طور پر واضح کیا کہ دُنیا کے دلوں کی پھر ایک دفعہ یہ حالت ہو گئی کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ۔46
مگر ایسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم کے آنے کے ہر گز یہ معنے نہ تھے کہ اُس کے نزول کے بعد جو خیر و شر کے قبول کرنے کا مادہ انسان میں رکھا گیا تھا وہ باطل کر دیا جائے۔ کیونکہ قرآن کریم سے واضح ہے کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح دینے کی اور کلامِ الٰہی کا حامل بنانے کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ انسان اپنے نفس پر جبر کر کے اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کر سکتا تھا اور اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے اس کو چھوڑ بھی سکتا تھا۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد انسان میں خیر و شر کی مقدرت نہیں رہی تھی اور وہ ایک مقررہ رستہ پر چلنے پر مجبور تھا تو پھر اُسی دن سے انسان اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھا تھا اور اب وہ نہ کسی انعام کا مستحق تھا نہ کسی سزا کا مستوجب۔ لیکن ایسا نہیں۔ قرآن کریم تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی انسان کو سزا اور جزا کا مستحق قرار دیتا ہے اور جب تک انسان خیر و شر پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جب تک اُس کا ارادہ آزاد ہے اُس وقت تک جہاں اُس کے نیکی میں بڑھنے کا امکان موجود ہے وہاں اُس کے شرارت میں ترقی کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں اور اگر اُس کے اندر تغیّر و تبدیلی کی طاقت موجود ہے، اگر وہ بدعت نکال سکتا ہے، اگر وہ تحریفِ معانی کر سکتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمیوں کے آنے کا بھی رستہ کھلا رہے گا جو ان باتوں سے اُسے روکیں اور صحیح رستہ کی طرف لائیں۔ اگر ایسا ہونا نہیں تھا تو قرآن کریم یہ نہ فرماتا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا۔47 یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کُفر کیا پھر ایمان لائے پھر کُفر کیا اور پھر کُفر میں اَور بھی بڑھ گئے۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا اور وہ انہیں سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بھی کُفر کا دروازہ کھلا ہے۔
مسلمانوں کے بگڑنے کے متعلق پیشگوئیاں
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں
کہ قیامت کے دن مَیں دیکھوں گا کہ بعض لوگ حوضِ کوثر سے ہٹا کر دوسری طرف لے جائے جائیں گے۔ اُس وقت مَیں کہوں گا کہ أُصَیْحَابِیْ۔ یہ تو میری جماعت کے لوگ ہیں۔ اِس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا ‘‘اِنَّکَ لَا تَدْ رِیْ مَا اَحْدَ ثُوْا بَعْدَکَ’’۔ 48 تجھے کیا معلوم کہ تیرے بعد ان لوگوں نے کیا کیا ہے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ‘‘یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ’’۔ 49 یعنی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بظاہر نمازیں بھی پڑھیں گے، قرآن بھی پڑھیں گے اور بظاہر دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی نمازیں بھی پڑھیں گے لیکن پھر بھی وہ دینِ اسلام سے اِسی طرح نِکل جائیں گے جس طرح تیر نشان گاہ سے باہر نِکل جاتا ہے۔
کثرت سے احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں اور بگڑیں گے اور آہستہ آہستہ اُن کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے یہود اور نصاریٰ کی ہوئی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ”لَتَتْبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْدَخَلُوْا فِیْ جُحْرِ ضَبٍّ لَا تَّبَعْتُمُوْھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ اَلْیَھُوْدُ وَ النَّصَارٰی؟ قَالَ فَمَنْ’’۔50 یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تم لوگ گزشتہ اقوام کے قدم بقدم چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر انہوں نے گوہ کے سوراخ میں بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہو گا تو تم بھی ویسا ہی کرو گے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں ہم نے پوچھا یا رسول اﷲ! کیا ان پہلے لوگوں سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا اور کون۔ گویا آخر میں مسلمانوں میں یہود اور نصاریٰ والی غلطیاں پیدا ہو جائیں گی۔
قرآن کریم بھی اس کے متعلق فرماتا ہے يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔51 اﷲ تعالیٰ اس امر کو یعنی اسلام کو آسمان سے زمین کی طرف لائے گا اور مضبوطی سے قائم کرے گا۔ پھر ایک مدّت کے بعد وہ آسمان کی طرف چڑھنا شروع ہو جائے گا۔ اتنے لمبے زمانے میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال ہو گی۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کچھ عرصہ تک اسلام کی خوبیاں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حقیقی معنوں میں دُنیا میں قائم ہوتی چلی جائے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی اور ایک ہزار سال تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس کی یہی تشریح فرماتے ہیں جو ہم نے اس وقت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُوالْکَذِبُ۔52 یعنی سب سے بہتر تو وہ صدی ہے جس میں مَیں ہوں۔ پھر اس کے بعد دوسری صدی اچھی ہو گی، پھر تیسری صدی اچھی ہو گی، پھر جھوٹ ،فریب اور خرابیاں دُنیا میں پھیل جائیں گی۔ اور آخری زمانہ کا نقشہ بھی آپ اس آیت کے مطابق کھینچتے ہیں اور فرماتے ہیں لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام إِلَّا اسْمُہٗ وَ لَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ۔53 کہ اُس زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف حرف باقی رہ جائیں گے۔ یعنی قرآن تو نہیں بدلے گا۔ قرآن تو موجود رہے گا لیکن قرآن کے سمجھنے والے مِٹ جائیں گے۔ اور اسلام تو نہیں بدلے گا اسلام تو موجود رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے مِٹ جائیں گے۔ یہی سورۂ سجدہ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام اُس وقت سمٹ کر آسمان پر چلا جائے گا۔
پھر اس سے بڑھ کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمآءِ۔ 54 یعنی عوام الناس تو الگ رہے علماء بھی اُس زمانے میں ایسے گر جائیں گے کہ آسمان کے نیچے اُن سے بدتر اور کوئی مخلوق نہ ہو گی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلام گرتے گرتے ایسی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا اور اس کے دُشمن اتنی قوت پکڑ جائیں گے کہ حضرت نوح ؑ سے لے کر آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اس فتنہ سے لوگوں کو نہ ڈرایا ہو۔55 اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایمان اس قدر متزلزل ہو جائیں گے کہ یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَیُمْسِیْ کَافِراً اَوْ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِراً۔56 انسان صبح کے وقت اُٹھے گا تو مومن ہو گا اور شام کے وقت سوئے گا تو کافر ہو گا اور شام کو مومن سوئے گا اور صبح کے وقت کافر اُٹھے گا۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے صاف ثابت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ اور آپ کی تعلیمِ کاملہ کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ اِس کی موجودگی میں انسان بگڑ نہیں سکتے بلکہ قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اِس کی موجودگی میں لوگ بگڑ سکتے ہیں بلکہ وہ بگڑیں گے اور ایسے بگڑیں گے کہ اسلام کی عمارت متزلزل ہو جائے گی اور اسلام کا نام ہی دُنیا میں باقی رہ جائے گا اور قرآن کے حروف ہی دُنیا میں باقی رہ جائیں گے۔ حقیقت بالکل غائب ہو جائے گی حتّٰی کہ علماء عوام الناس سے بھی بد تر ہوں گے اور وہ دین کی حفاظت کی بجائے دین کو تباہ کرنے والے بن جائیں گے۔ اور جب یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی ۔ یا تو یہ کہ اسلام کے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ قیامت تک جائے گا غلط ہے اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایسی غلطیوں کو دُور کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو کہ اسلام کی عمارت پھر مرمّت کریں اور پھر اُس کو اپنی اصل شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کریں۔ پہلا خیال تو قرآن اور حدیث کی رُو سے بالکل باطل اور غلط ہے۔ قرآن و حدیث اِس پر شاہد ہیں اور گواہ ہیں اور پہلی کتب بھی کہ قرآن کریم کی تعلیم قیامت تک ہے۔
مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مَردانِ خدا کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
پس صرف ایک ہی رستہ کھلا رہتا ہے اور وہ یہ تسلیم کر لینا کہ جب کبھی مسلمانوں میں خرابی
پیدا ہو گی اور وہ اسلام سے دُور چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمی آئیں گے جو اسلام کو اُس کی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر کریں گے۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ سَاعَةً وَّ لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ۠۔يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔57 اے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو اپنے لوگوں سے کہہ دے کہ میرے خدا نے اسلام کے ذریعہ سے تمام وہ باتیں جن کی بُرائی فطرت پر گراں ہے خواہ وہ نمایاں طور پر بُری ہوں یا اُن کی بُرائی کسی قدر مخفی ہو اُن سب کو حرام کر دیا ہے اور اِسی طرح اُس نے انتہائی درجہ کے گناہوں کو بھی حرام کر دیا ہے اور ایک دوسرے پر ظلم کو بھی حرام کر دیا ہے جو بغیر کسی قانونی یا اخلاقی وجہ کے ہو۔ اور اس سے بھی اُس نے منع کیا ہے کہ کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے جس کے لئے کوئی آسمانی دلیل موجود نہیں۔ اور اس سے بھی اُس نے منع فرمایا کہ تم اﷲ تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جس کو تم نہیں جانتے۔ اور اے لوگو! ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آتا ہے تو وہ ایک گھڑی بھی مقررہ میعاد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ایک گھڑی بھی اُس مقررہ میعاد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔اے آدم کی اولاد! اگر تمہاری طرف کوئی رسول آئیں جو تمہیں میرے نشانات پڑھ کر سُنائیں تو یاد رکھو کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور اصلاح کو مدِّ نظر رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ آئندہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر کسی قسم کا غم پہنچے گا۔
یہ آیت قطعی طور پر مسلمانوں کے متعلق ہے۔ اس سے پہلے کی آیتیں بھی اور بعد کی آیتیں بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کے متعلق ہیں اور اس آیت میں صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی خرابی کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جاتے رہیں گے جو اُن کو خدا تعالیٰ کی باتیں سُنائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور فساد اور فتنہ کی باتوں کو ترک کریں گے اور تقویٰ اور اصلاح کے رستوں کو اختیار کریں گے اُن کے لئے خدا کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور خدا اُن کا خود محافظ ہو گا۔ اسی کی تصدیق میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ ﷲ یَبْعَثُ لِھٰذہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّ دُلَھَادِیْنَھَا۔58 اﷲ تعالیٰ اِس اُمّت میں ہر صدی کے سر پر ایسا آدمی مبعوث کرے گا جو اُمّت کی خاطر اور اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کے دین کو پھر نئے سرے سے اُجاگر اور روشن اور غلطیوں سے پاک کردے گا۔
اِس حدیث کے ہم نے دو حوالے لکھے ہیں۔ شیعوں اور سُنیوں دونوں کی کُتب سے جس سے ہمارا منشاء یہ ہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے۔
مصلحین اور مجددین کی مخالفت
یہ ظاہر ہے کہ جو شخص بھی تجدیدِ دین کرے گا وہ زیادہ یا کم رائج الوقت
خیالات یا عقائدکے خلاف باتیں کرے گا تو اُس وقت کے تمام وہ علماء جو اُس کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے اس کی تردید اور تکذیب کریں گے۔ چنانچہ اس اُمّت میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ حضرت جُنید ؒ بغدادی پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ 59
حضرت محی الدین ابن عربی کو علماء نے کافر اور زندیق کہا۔ آپ خود تحریر فرماتے ہیں ‘‘لَقَدْ وَقَعَ لَنَا وَ لِلْعَارِفِیْنَ اُمُوْرٌ وَ مِحَنٌ بِوَاسِطَۃِ اِظْہَارِنَا الْمَعَارِفَ وَ الْاَسْرَارَ وَ شَھِدُ وْافِیْنَا بِالزَّنْدَ قَةِ وَ اٰذُوْنَا اَشَدَّ الْاَ ذٰی وَ صِرْنَا کَرَ سُوْلٍ کَذَّبَہٗ قَوْمُہٗ وَ مَا اٰمَنَ مَعَہٗ اِلَّا قَلِیْلٌ وَ اَعْدٰی عَدُوٌّ لَّنَا الْمُقَلِّدُوْنَ لِاَ فْکَارِھِمْ۔ 60 یعنی ہمیں اور خدا کے دوسرے عارف بندوں کو دین کے معارف اور اسرار کے ظاہر کرنے پر بڑی بھاری مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لوگوں نے ہمیں کافر اور زندیق قرار دیا ہے اور اُنہوں نے ہمیں شدید ترین تکالیف پہنچائی ہیں۔ اور ہم اُس رسول کی طرح ہو گئے ہیں جسے اس کی قوم نے جھٹلا دیا ہے اور جس پر صرف چند لوگ ایمان لائے۔ اور اِس بارہ میں ہمارے شدید ترین دُشمن وہ لوگ ہیں جو اپنے خیالات اور افکار کے مقلّد ہیں۔
اسی طرح حضرت امام غزالی ؒ پر کُفر کا فتویٰ لگایا گیا اور اُن کی کتابوں کو جلا دینا اور اُن پر *** کرنا ثواب سمجھا گیا۔ 61
حضرت امام ابو حنیفہؒ کو کافر، زندیق اور بدعتی کہا گیا۔ ان پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں اور انہیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔
حضرت امام شافعی ؒ کو لوگوں نے رافضی کہہ کر قید کروا دیا۔62
حضرت امام مالک ؒ پر کئی قسم کی سختیاں کی گئیں۔ ایک دفعہ اُن کی ایسی بے دردی سے مُشکیں باندھی گئیں کہ اُن کا بازو اُکھڑ گیا۔ پھر اُنہیں کوڑے مارے گئے اور وہ قید میں ڈالے گئے۔
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ بھی قید کئے گئے اور اُن کے پاؤں میں بھاری بھاری بیڑیاں ڈالی گئیں۔ انہیں ذلیل کرنے کے لئے لوگ اُن کو تھپڑ مارتے اور اُن کے مُنہ پر تھوکتے تھے۔ حضرت امام بخاری وطن سے نکالے گئے۔ 63
حضرت بایزید بسطامی ؒ سات دفعہ اپنے شہر سے نکالے گئے۔ حضرت ذوالنون مصری ؒ مشکیں باندھ کر بغداد بھیجے گئے اور علماء کی ایک جماعت اُن کے کُفر کی گواہی دینے کے لئے اُن کے ساتھ گئی۔ 64
حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ پر اُس وقت کے علماء و فقہاء نے کُفر کا فتویٰ لگایا۔65 حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے ساتھ یہ سلوک ہؤا کہ کافر ٹھہرائے گئے اور قید میں ڈالے گئے۔ 66
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ محدّث دہلوی نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے زمانے میں بھی اُن کے ساتھ بہت کچھ سختیاں کی گئیں اور انہیں بدعتی اور گمراہ کہا گیا۔ پھر حضرت سیّداحمد بریلوی ؒ نے مجدّدیت کا دعویٰ کیا اور خود مسلمانوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر اُن کو قتل کرا دیا۔ 67
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح بغیر تجدید کے نہیں ہو سکتی اور تجدید پر اُس وقت کے علماء میں انقباض پیدا ہونا طبعی امر ہے۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠۔68 اے افسوس انسانوں پر کہ کبھی کوئی رسول اُن کی طرف نہیں آیا جس کے ساتھ اُنہوں نے ہنسی اور تمسخر کا سلوک نہ کیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے سارے طریقوں کو بند کر دیا۔اب تمام روحانی طریقے آپ ہی سے جاری ہو سکتے تھے اور ہونے والے تھے۔ اسی طرح پہلے زمانوں میں جو مختلف نبیوں کے زمانہ میں خرابیاں ہوئیں وہ بھی مجموعی طور پر آپ کی اُمّت میں پیدا ہونی تھیں کیونکہ اَب خدا اور وسواس دونوں کی جولانگاہ صرف ایک ہی اُمّت ہو گئی تھی۔ اس قاعدہ کُلّیہ کے ماتحت جو ہم نے اُوپر لکھا ہے اور جس کی تصدیق قرآن اور حدیث سے ہوتی ہے یہ لازمی بات تھی کہ حضرت مرزا صاحب ؑ کے دعوے کی بھی مخالفت ہوتی اور علماء آپ کے خلاف کھڑے ہو جاتے لیکن دیکھنے والی بات یہ نہیں کہ علماء ان کے خلاف کھڑے ہیں دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ :۔
(1) کیا مسلمان کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(2) کیا علماء کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟
(3) کیا مسلمانوں کے بگڑنے کی کوئی خبر قرآن نے دی ہے یا نہیں؟
(4) کیا علماء کے بگڑنے کی کوئی خبر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
(5) کیا اسلام سے غافل ہو جانے اور اس کی تعلیم کو چھوڑ دینے کی کوئی خبر قرآن اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟
اگر یہ خبریں قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب ؑ یا اور کسی گزشتہ بزرگ کی مخالفت اسلامی اصول سے جائز نہیں ہو سکتی اور نہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ایسی تحریکوں کو بزور منع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہم یہ قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے لئے مختلف زمانوں میں بگڑنا ضروری تھا اور اس حد تک بگڑنا ضروری تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی تعلیم سے بالکل غافل ہو جائیں۔ اور یہ بھی ضروری تھا کہ اِس زمانے کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کوئی شخص کھڑا کیا جائے۔ اِن دونوں صورتوں کی موجودگی میں کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اکثریت اُس شخص کے خلاف نہیں ہو گی جو اصلاح کے لئے کھڑا کیا جائے گا۔
اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مذہب کو زور سے منوا لے اور اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مخالف کو مٹانے کا اختیار رکھتی ہے اور وہ اس بات کی مجاز ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام ایک ہی مُنہ سے تو یہ کہتا ہے کہ مسلمان بگڑیں گے اور اُن کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے آدمی آئیں گے اور اُسی مُنہ سے وہ یہ کہتا ہے کہ اکثریت کو اختیار ہے کہ وہ ایسی اقلّیت کو کچل ڈالے اور اس کو تباہ کر دے۔ گویا خدا تعالیٰ خود اپنے بنائے ہوئے گھر کے گرانے کا سامان کرتا ہے۔ آخر وہ کونسی آسمانی طاقت آئے گی جو یہ بتائے گی کہ یہ اصلاح کا مُدعی سچّا ہے یا جھوٹا ہے۔ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کو تو اُن کے مخالف تکلیف دینے پر قادر ہو سکے اور اُن کو طرح طرح کے دکھوں میں مُبتلا کیا گیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ يٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ۠ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ سب سے زیادہ مشکلات اور مصائب خداتعالیٰ کے انبیاء پر آیا کرتے ہیں اور پھر اُن سے نیچے اُتر کر جتنا جتنا کوئی شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہوتا ہے اُتنی ہی اُس پر مشکلات آتی ہیں۔ 69
لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جو مصلح اور مجدّد آئیں گے آسمان سے فرشتے اُن کی مدد کے لئے اُتر کر سب مسلمانوں کو بتادیں گے کہ یہ شخص سچّا ہے تم اس کی مخالفت نہ کرو۔ جو بات سارے رسولوں کو حاصل نہیں ہوئی حتّٰی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہوئی وہ آپ کے ایک خادم اور تابع کو حاصل ہو جائے گی۔ یہ بات نہ صرف عقلاً غلط ہے بلکہ نقلاً بھی غلط ہے کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَاتَ بِغَیْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔70 یعنی وہ شخص جس نے اپنے زمانہ کے امام کو قبول نہ کیا اور اُسی حالت میں مَر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یعنی اماموں کے آنے کے بعد کچھ لوگ انہیں مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے۔ اگر لوگوں کو زبردستی ایمان لے آنا تھا اور ہدایت سب پر کھل جانی تھی تو پھر اس حدیث کے معنے ہی کیا رہ جاتے ہیں۔ اور اگر مخالفت ہونی تھی تو پھر لازماً ایک طرف اکثریت کا ہونا ضروری تھا اور ایک طرف مصلح اور اس کی چھوٹی سی جماعت کا ہونا۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اُن کی قبولیت کو دُنیا میں پھیلا دے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقلّیت کو دبانے کا اکثریت کو حق حاصل ہے ، اُس کو قید کرنے اور قتل کرنے کا بھی حق ہے، اُس کو جبراً مذہب بدلوانے کا بھی حق ہے، اُس کو اُس کے ضمیر کے خلاف مجبور کر کے اپنے اندر شامل کر لینے کا بھی حق ہے اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اُمّتِ محمدیہ میں جتنے مصلح اور جتنے مجدّد آئیں گے اُن سب کی گردنیں اور اُن سب کی جماعت کی گردنیں علماءِ سُوء کے ہاتھ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھیں گے کہ جس وقت چاہیں اُن کی گردن مروڑ دیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو گا جس کی تائید کے لئے وہ مصلح کھڑے ہوں گے اور جس نے اُن کی بعثت کی خبر دی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مُلک کی اکثریت نے حضرت محی الدین ابن عربی ؒ ، حضرت امام غزالیؒ، حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبل ؒ ، حضرت مجدّد الف ثانی ؒ، حضرت مولانا شاہ ولی اﷲؒاورحضرت سیّد احمد بریلوی ؒ وغیرہ بیسیوں صلحاءِ اُمّت کی سخت مخالفت کی۔ اُس وقت کے اجماع کا فیصلہ آج کیوں باطل ہو گیا ہے اور اُس وقت کی اقلّیت آج حق پر کیو ں سمجھی جاتی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب ؑ کی مخالفت کی یہ وجہ ہے کہ اُنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اِس قسم کا دعویٰ خدا کی طرف سے خبر پاکر کرے تو کیا لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اس کی جماعت کو دُنیا سے مٹانے کی کوشش کریں؟ اگر یہ درست ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انسانی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان مجرم نہیں بلکہ تعریف کے قابل ہے لیکن خدا کی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان کُشتنی اور گردن زَدنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِيْنَۙ۔ وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَ خَافَ وَعِيْدِ۔71 اور نہ ماننے والے ہمیشہ اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم یقینا تم کو اپنے مُلک سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف واپس لَوٹ آؤ گے۔ اس موقع پر رسولوں کا ربّ بھی اُن کی طرف وحی کرتا رہا ہے کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔ کیا جو بات قرآن کے رُو سے ہمیشہ نبیوں کے دُشمن کرتے چلے آئے تھے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب اس کو اسلام کی تصدیق حاصل ہو گئی ہے اور کیا اب وہ علماء جو اپنے آپ کو ورثہ انبیاء کہتے ہیں کفّار کی اس دیرینہ رسم کا پورا کرنے کے ذمّہ دار بن گئے ہیں؟ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جو کام ظلم تھا اب وہ انصاف اور عدل ہو گیا ہے؟
اسی طرح سورۂ یٰس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی سابق زمانے میں خدا تعالیٰ کے کچھ مُرسل آئے (ان کو مفسرین نے حضرت مسیح ؑ کے حواری قرار دیا ہے۔72)تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ لَىِٕنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَمَسَّنَّكُمْ۠ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73 اگر تم اپنے خیالات کی تبلیغ سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کر کے قتل کر دیں گے اور تم کو درد ناک عذاب پہنچائیں گے۔ کیا ان آیات سے یہ ظاہر نہیں کہ نبیوں اور ولیوں کے دُشمن ہمیشہ نبیوں اور اُن کے ماننے والوں کو قتل کرنے، عذاب پہنچانے اور مُلک سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کیا یہی وہ دھمکیاں نہیں تھیں جو اس زمانہ کے علماء نے احمدیوں کو دیں؟ کیا انہوں نے نہیں کہا کہ ان لوگوں کو اس مُلک سے نکال دینا چاہئے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کو بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ باز نہ آئیں تو ان کو قتل کر دینا چاہئے ؟ اور یہی تین باتیں ہیں جو قرآن کریم کے رُو سے انبیاء کے دُشمن کہتے چلے آئے ہیں۔
اسی طرح ایک اَور جگہ قرآن کریم میں آتا ہے قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِيْ مِلَّتِنَا١ؕ قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِيْنَ74 یعنی شعیب کی قوم کے ان سرداروں نے جو سخت متکبر تھے شعیب ؑ سے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو اپنے علاقہ سے نکال دیں گے اور ان کو بھی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ یا تجھے ہمارے مذہب میں واپس لَوٹنا ہو گا۔ شعیب ؑ نے جواب میں کہا کیا اگر ہم تمہارے دین کو نا پسند کرتے ہوں تب بھی تم ہم کو لَوٹا دو گے؟
اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت شعیب ؑ نے اس بات کو حیرت سے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دوسرے عقیدہ کے اظہار پر مجبور کیا جائے اور خدا تعالیٰ نے اُن کے اس استدلال کو درست تسلیم فرمایا ہے کیونکہ اس نے ان کے استدلال کو قرآن کریم میں درج فرما کر اس کی ہمیشہ کے لئے تصدیق کر دی ہے۔ یہ تو قبل از زمانۂ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور الٰہی تصدیق کے بعد ہمارے لئے قابلِ عمل ہیں اور ضروری ہیں اور سچے مذہب کی آئیڈیالوجی کو ظاہر کرتی ہیں۔ مگر قرآن کریم نے بھی اسلامی تعلیم میں ان باتوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ 75 اے اسلام کے منکرو! تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ 76 دین میں کسی قسم کا جبر نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم میں منافقوں کو متواتر بُرا کہا ہے۔ فرماتا ہے يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ۔77 یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں اور اﷲ تعالیٰ اس کو جانتا ہے جس کو وہ چھپا رہے ہیں اور آج جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلسِ احرار کہتی ہیں کہ ہم احمدیوں کو مجبور کریں گے کہ وہ وہ باتیں کہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں۔ یعنی وہ دل سے تو حضرت مرزا صاحب ؑ کو مامور مِنَ اﷲ مانیں گے لیکن مُنہ سے اُن کو ان عقائد کا اقرار کرنا پڑے گا جو مولانا مودودی یا مجلسِ احرار یا علماءِ دیوبند بیان کرتے ہیں۔ گویا جس چیز کو قرآن کریم ناپاک اور مردود قرار دیتا ہے اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور قابلِ نفرت فعل ٹھہراتا ہے مولانا مودودی، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات اور علماء دیو بند اِسی فعل کے ارتکاب پر احمدیوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ آخر وہ کونسی منطق ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ احمدیوں کو تین دن قید کرنے کے بعد ان کے عقائد وہ نہیں رہیں گے جو تین دن پہلے تھے اور وہ دل سے اور ضمیر کی تائید سے اُن عقائد کے قائل ہو جائیں گے جو مولانامودودی ، مولانا عطاء اﷲ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات بیان کرتے ہیں۔ جن کے احمدی پہلے مُنکر تھے۔ تین ہی دن کی مدّت فقہا اس فاقہ شُدہ کے لئے بھی مقرر کرتے ہیں جسے سؤر کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ شاید مُرتد کو تین دن قید کرنے کی بھی یہی حکمت ہے کہ اتنے ظلم کے بعد اسے جھوٹ بولنا جو سؤر کھانے کے برابر ہے جائز ہو جائے گا۔ مگر کیا قید سے یقین پیدا ہؤا کرتا ہے؟ کیا قید اطمینانِ قلب پیدا کر دیتی ہے؟ کیا قید انسان کے خیالات کو درست کر دیتی ہے؟ کیا موت کا ڈر انسان کے خیالات کو صاف کر دیتا ہے؟ کیا موت کا ڈر منافق بنا دیتا ہے مومن نہیں بناتا؟ اور منافقت تو ایک ایسی *** ہے کہ جس قوم میں بھی آئی وہ تباہ ہو گئی۔
یہ تو ہم مان سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دیدۂ و دانستہ اپنے فوائد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مسلمان ہونے کے لئے آئے تو ہمارا حق نہیں کہ ہم اُس کو مسلمان کرنے سے انکار کریں کیونکہ ہمیں قلوب کا علم نہیں۔ جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ابو سفیان نے مُنہ سے تو یہ کہا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہوں مگر بیعت کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور آپؐ نے اس کی بیعت لے لی۔ 78 کیونکہ کسی شخص کا اس خیال سے بیعت کر لینا کہ میرا ایمان ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ شاید کچھ دنوں تک بعض ایسے مسائل جو اَب تک میری سمجھ میں نہیں آئے حل ہو جائیں گے یہ اس کے اختیار کی بات ہے مگر کسی شخص کا اس پر جبر کرنا اور یہ کہنا کہ تو اُن عقائد کا اظہار کر جن کے خلاف تیرا دل کہتا ہے یہ نہایت ظالمانہ، نہایت ناپاک اور نہایت مکروہ فعل ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کوئی شخص دوسرے عقائد رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے الگ ہو جائے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جماعت کے اصل عقیدے وہی ہیں جن پر وہ ایمان رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ مَیں جن عقائد پر قائم ہوں وہی اس مذہب کے عقائد ہیں اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ جو اُن کے عقائد ہیں وہی ان کا مذہب انہیں سکھلاتا ہے۔ آگے دُنیا فیصلہ کر لے گی کہ کس کی بات ٹھیک ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک سے بھی یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ جس مذہب کو مانتا ہے اُس مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا چھوڑ دے۔ آخر یہ دُنیا نے کیا پلٹا کھایا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جس بات کے مرتکب کفّار ہوتے تھے، جس بات کو قرآن کریم باربار ردّ کرتا، ناجائز ٹھہراتا اور ظلم قرار دیتا ہے وہی مردود بات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اُن علماء کا جو نائبِ رسول ؐ سمجھے جاتے ہیں، حق بن گئی اور ان کا خاص کام قرار پاگئی۔ کیا کُفر اسلام بن سکتا ہے؟ کیا خدا کی جگہ شیطان لے سکتا ہے؟ مَعَاذَ ﷲ۔
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جن چیزوں پر ان علماء نے شورش کی اور جن پر شورش کرنا اپنا حق قرار دیا ہے وہ ابتدائے اسلام سے مسلمانوں میں موجود رہی ہیں اور ابتدائے اسلام سے مسلمانوں کے علماء اور اولیاء اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ ان کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں بلکہ اُن میں سے بعض اسلامی آئیڈیالوجی کا حصّہ ہیں اور وہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ اگر وہ غلط بھی سمجھی جائیں تو اُن پر شورش اور فساد کرنے کا کسی کو حق ہو۔
جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات کا خلاصہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے
متعلق جو باتیں شورش کا موجب قرار دی گئی ہیں وہ خلاصۃً مندرجہ ذیل ہیں:
اوّل۔ احمدیوں نے اسلام میں اُمّتیوں پر نزولِ وحی اور نزولِ جبرئیل تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہو سکتی ہے نہ بعد رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جبرئیل نازل ہو سکتا ہے۔ ایسے عقیدہ والا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے۔
دوم۔ انہوں نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کی ہتک کی ہے۔
سوم۔ انہوں نے (مرزا صاحب ؑکے) مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تسلیم کیا ہے اور حضرت مسیح ناصری ؑ کی وفات کا اعلان کر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے۔
چہارم۔ انہوں نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ازاسلام کیا ہے۔
پنجم۔ انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے، اُن کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور اُن کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے۔
ششم۔ انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اُن کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے۔
ہفتم۔ انہوں نے مسلمان حکومتوں سے اور مسلمان تحریکوں سے کوئی ہمدردی نہیں کی۔
ہشتم۔ انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاً سخت گالیاں دیں۔
نہم۔ انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں۔ مثلاً ربوہ بنایا۔
دہم۔ ایک بات احمدیوں کے متعلق یہ بھی کہی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
سوال نمبر1۔ متعلق اجرائے وحی و نزولِ جبرئیل
کہاگیا ہے کہ یہ فسادات احمدیوں کے عقائد اور اُن کے طرزِ عمل کا طبعی نتیجہ تھے کیونکہ احمدیوں کا نبوّت اور نزولِ وحی کے متعلق نظریہ اپنی ذات میں اتنا اشتعال انگیز ہے کہ کوئی مسلمان اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے اور مسلمانوں کو اِس پر غصّہ آنا لازمی ہے۔ اور علماء نے لوگوں کو نہیں اُ کسایا بلکہ لوگ خود اِن باتوں کو سُن کر جوش سے اندھے ہو گئے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے عقائد آج پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے نہیں آئے بلکہ آج سے ستّر سال پہلے سے سامنے آرہے ہیں۔ اگر ان سے واقع میں طبائع میں جوش پیدا ہو سکتا تھا تو وہ ستّر سال پہلے پیدا ہونا چاہئے تھا نہ کہ آج۔
کہا گیا ہے کہ:
‘‘پہلے انگریزی حکومت تھی جس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اب قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع میسر آیا ہے’’۔
اِس کے جواب میں معزّز عدالت کی توجہ کے لئے مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں:۔
(1) انگریزی دَورِ حکومت میں ہندو مسلم اور شیعہ سُنّی فسادات ہوتے رہے۔ انفرادی طور پر مذہبی اختلافات کی بناء پر بھی قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں مثلاً راجپال، شردھانند وغیرہ قتل ہوئے۔ سیاسی اختلافات کی بناء پر انگریز گورنر جنرل (لارڈ منٹو) قتل ہوئے۔ بعض انگریز گورنروں اور انگریز افسروں پر قاتلانہ حملے ہوئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برِّعظیم ہندوپاکستان میں گزشتہ ستّر سال میں کبھی احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے اور نہ مذہبی اختلافات کی بناء پر کبھی کوئی احمدی قتل ہؤا۔ پس اگر احمدیہ عقائد ، احمدیہ لٹریچر اور دوسرے مسلمانوں سے ان کی نمازوں اور جنازوں میں علیحدگی ، باہمی تکفیر اور مسئلہ ختمِ نبوّت مسلمانوں کے لئے فِی الحقیقت ناقابلِ برداشت ہوتا تو کبھی ممکن نہ تھا کہ باہم فسادات نہ ہوتے اور کوئی احمدی کبھی کسی غیر احمدی کے ہاتھ سے مارا نہ جاتا۔
(2) پھر قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1947 ء سے لے کر 1953 ء تک چھ سال یہ فسادات کیوں رُکے رہے؟ کہا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد چونکہ مسئلہ مہاجرین اور مسئلہ کشمیر اور مسئلہ خوراک کی طرف سب کو توجّہ تھی اس لئے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کا جوش دبا رہا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جملہ مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے اور اب بھی اسی طرح مسلمانوں کی توجّہ کا مرکز ہیں جس طرح پہلے تھے۔ دوسرے یہ کہ باوجود اِن مسائل کے قیامِ پاکستان کے بعد 1953 ء کے فسادات سے قبل پاکستان میں چار مقامات پر (نارووال ضلع سیالکوٹ، ضلع لاہور، ضلع سرگودھا اور ضلع میانوالی میں) شیعہ سُنّی فسادات ہوئے لیکن کسی جگہ احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے۔ اس سے بھی ثابت ہے کہ ابتداءً عام مسلمانوں کے دل میں احمدیوں کے خلاف ہر گز وہ جوش اور اشتعال نہیں تھا جو اُن کے دلوں میں شیعوں کے خلاف تھا۔ احمدیوں کے خلاف تو جوش و اشتعال ایک لمبی مُدّت کی مسلسل کوششوں کے بعد پیدا ہؤا ہے۔
(3) قیامِ پاکستان سے پہلے اور مابعد احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین مسئلہ ختمِ نبوّت اور صداقت حضرت مرزا صاحب ؑ اور وفاتِ مسیح ؑ کے مسائل پر گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے مناظرے ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان کے ہر بڑے شہر اور پنجاب کے قصبوں اور قریوں تک میں ایسے مناظرے ہوئے اور ہزاروں ہزار مسلمان نہایت شوق کے ساتھ یہ مناظرے سُنتے رہے لیکن ہمیشہ پُر امن رہے کبھی کسی جگہ کوئی فساد نہیں ہؤا۔ یہ امرواقعہ بذاتِ خود اِس خود ساختہ نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ فسادات طبعی تھے۔
(4) پھر یہ کہنا کہ مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی وحی یا نبوت کا تصوّر برداشت ہی نہیں کر سکتا، اِس وجہ سے بھی غلط ہے کہ احمدی جماعت کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ قریباً تمام احمدی یہاں کے مسلمانوں ہی میں سے جماعت میں آئے ہیں۔ ان میں علماء بھی ہیں، صوفیاء اور گدّی نشین بھی اور مذہبی اور دُنیاوی لحاظ سے تعلیم یافتہ بھی۔
مشہور علماء جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا اقرار کیا
حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی، حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی،
حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی،حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہی، حضرت مولانا سیّد محمد سرور شاہ صاحب (سابق مدرّس دارالعلوم دیو بند و مظاہر العلوم سہارنپور)، حضرت مولانا قاضی سیّد امیر حسین صاحب سابق مدرّس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور، حضرت مولانا فضل الدین صاحب کھاریاں، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب میرٹھی، حضرت مولانا انوار حسین خاں صاحب شاہ آباد ضلع ہردوئی، حضرت مولانا حافظ سیّد علی میاں صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا قاضی خلیل الدین احمد صاحب رازی تلہری، حضرت مولانا غلام حسین صاحب لاہوری گمٹی والے، حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ (جنہوں نے تمام ہندوستان میں دورہ کر کے تبلیغِ اسلام کا فریضہ ادا کیا، جن کی تبلیغی سرگرمیاں تمام ہندوستان میں مشہور ہیں۔)، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا امام الدین صاحب گولیکی ضلع گجرات، حضرت مولانا محمداسماعیل صاحب فاضل جلالپوری، حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیروی (مشہور پنجابی شاعر) حضرت میاں ہدایت اﷲ صاحب لاہوری(پنجابی شاعر سہ حرفی والے) ، حضرت مولانا عبدالقادر صاحب لدھیانوی حنفی، حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری، حضرت مولانا عبدالواحد صاحب آف براہمن بڑیہ بنگال، حضرت مولانا فضل الدین صاحب بھیروی وغیرہ مشہور و مسلّم علماء۔
پِیر اور گدّی نشین
پِیرانِ عِظام اور گدی نشینوں میں سے حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (جو سابق ہِز ہائینس نواب
صاحب بہاولپورکے پِیر تھے اور جن کے لاکھوں مُرید ریاست بہاولپور اور سندھ میں موجود ہیں)، حضرت پِیر صاحب کوٹھے والے (صوبہ سرحد)، حضرت پیر صاحبُ العَلَم (صوبہ سندھ)، حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرسہ شریف (یو۔پی)، حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی، حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت پِیر برکت علی صاحب نوشاہی (آف رنمل شریف ضلع گجرات)۔
مسلم مشاہیر جنہوں نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تعریف کی یا اُن کی مخالفت نہیں کی
مولانا شبلی نعمانی، مولانا عبدالحلیم شرر، شمس العلماء مولانا
سیّد میر حسن صاحب سیالکوٹی، شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب، خواجہ حسن نظامی دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبدالماجد دریا بادی، مولانا غلام مرشد صاحب (خطیب شاہی مسجد لاہور)، حکیم برہم مدیر شرق گورکھپور، مولانا عبداﷲالعمادی، چوہدری سر شہاب الدین ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، خلیفہ محمد حسین صاحب وزیر اعظم پٹیالہ، سیّد ریاض احمد صاحب ریاض خیر آبادی مدیر ریاض الاخبار گورکھپور، شمس العلماء مولانا الطاف حسین صاحب حالی، مولانا اکبر الٰہ آبادی۔
والیٔ قلات
اس سلسلہ میں ہم موجودہ نواب صاحب بلوچستان کے دادا جناب معلّٰی القاب میر خداداد خان صاحب سابق والیٔ قلات کا نام خاص طور پر پیش کرنا
چاہتے ہیں۔ انہوں نے بھی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی تصدیق فرمائی تھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس معزّز عدالت کے رو برو اپنے بیان میں اس امر کا ذکر فرمایا تھا تو اس کے بعد موجودہ نواب صاحب نے اس کی صحت سے انکار کیا اور اخبارات میں بھی تردید شائع کرائی۔ حقیقتِ حال کو واضح کرنے کے لئے ہم جناب میر خدا داد خان صاحب مرحوم سابق والیٔ قلات کا اصل خط معززعدالت کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں جس سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔





















علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال
اس سلسلہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر
صاحب موصوف نے اپنی وفات کے قریب (34،1933ء کے بعد)احمدیت کی مخالفت کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے وہ تمام عمر احمدیت کے مدّاح اور مؤیّد رہے۔
(الف) عدالت کے سامنے خواجہ نذیر احمد صاحب کے بیان اور مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری کی تصدیق سے یہ ثابت ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
(ب) ڈاکٹر صاحب موصوف نے سعد اﷲ نَو مسلم لدھیانوی کی ایک نہایت گندی اور فحش نظم کے جواب میں (جو اُس نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ہجو میں لکھی تھی) ایک نظم لکھی تھی جو کتاب ‘‘آئینہ حق نما’’ میں شائع ہو چکی ہے جو عدالت کے سامنے پڑھی جا چکی ہے۔
(ج) ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مشہور لیکچر ‘‘ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر’’ میں (جو آپ نے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات کے دو سال بعد ١٩١٠ء میں آسٹریحی ہال ایم۔او کالج علیگڑھ میں بزبان انگریزی دیا تھا اور مولانا ظفر علی خان صاحب نے جس کا ترجمہ مئی ١٩١١ء میں خود ڈاکٹر سر محمد اقبال کی موجودگی میں برکت علی محمڈن ہال لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کے سامنے پڑھ کر سُنایا تھا) فرماتے ہیں:
‘‘میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اُسے پیشِ نظر رکھیں...... پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اُس جماعت کی شکل میں ظاہر ہؤا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں’’۔79
ڈاکٹر صاحب موصوف کا 1910ء میں یہ اظہارِ خیال بتاتا ہے کہ آج جو یہ بات کہی گئی ہے کہ احمدیت کی تعلیم اور نبوّت کے بارے میں نظریہ بذاتِ خود مسلمانوں کے لئے طبعی طور پر اشتعال انگیز تھا ایک بے بنیاد اور بے حقیقت الزام ہے۔
مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
اِس ضمن میں ہم مفکرِ احرار چوہدری افضل حق صاحب
مرحوم کا ایک مضمون بھی معزّز عدالت کے ملاحظہ کے لئے نقل کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر سر محمداقبال صاحب کی طرح چوہدری افضل حق صاحب نے بھی بعد میں بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر احمدیت کی مخالفت کی لیکن اُن کا یہ ابتدائی اظہارِ خیال پورے طور پر اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ احمدیت کی تعلیم مسلمانوں کے لئے بذاتِ خود طبعی طور پر اشتعال انگیز ہے۔ چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب موسومہ بہ ‘‘فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘آریہ سماج کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی حِسّ مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہبِ اسلام کے متعلق بد ظنّی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنّا کر دیا مگر حسبِ معمول جلدی خوابِ گراں طاری ہو گئی۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشرواشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہؤا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابلِ تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے’’۔80
(ب) پھر اِسی کتاب کے صفحہ 41 پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیراقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا۔ کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں’’۔
جناب مولانا عبدالحلیم صاحب شرر لکھنوی
مولانا عبدالحلیم صاحب شرر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘احمدی مسلک شریعتِ محمدیہ کو اُسی وقعت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُرجوش خدمت ادا کرتا ہے جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے’’۔ 81
یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ مولانا عبدالحلیم صاحب شرر احمدی جماعت میں شامل نہیں تھے۔
جناب مولانا محمد علی صاحب جوہر(برادر مولانا شوکت علی صاحب مرحوم)
‘‘ناشکر گزاری ہو گی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکران سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجّہات بِلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اِس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم اور تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بِالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بِالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کی بلند بانگ و باطن ہیچ ، دعاوی کے خوگر ہیں۔ مشعلِ راہ ثابت ہو گا’’۔82
مولانا ظفر علی خان مدیر ‘‘زمیندار’’
باوجود اس حقیقت کے کہ مولوی ظفر علی صاحب احمدیت کے شدید
مخالفوں میں سے ہیں انہوں نے فتنہ ارتداد (یو۔پی) 1923ء کے موقع پر جماعت احمدیہ کی خدماتِ اسلامی کو سراہتے ہوئے اخبار ‘‘زمیندار’’ میں متعدد مقالے لکھے جن کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:
(الف)‘‘مسلمانانِ جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار، کمر بستگی، نیک نیتی اور توکّل علی اﷲ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھادی’’۔83
(ب) ‘‘احمدی بھائیوں نے جس اخلاص، جس ایثار، جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصّہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے’’۔
(ج) ‘‘گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں۔ کیا ندوۃ العلماء دیوبند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغِ اشاعتِ حق کی سعادت میں حصّہ لیں؟ کیا ہندوستان میں ایسے متموّل مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بِلا دِقّت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گِرہ سے دے سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے۔ فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چُکا ہے’’۔84
مولانا ابو الکلام آزاد کے برادرِ اکبر مولانا ابو النصرآہ
مولانا ابو النصر آہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں 1905ء میں قادیان آئے اور حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ سے ملاقات کے بعد
انہوں نے اپنے تأثرات اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر میں شائع کرائے۔ لکھتے ہیں:-
‘‘چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولانا عبدالکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر ‘‘بدر’’ جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں، جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خُسر ہیں ، مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے ۔ ایل۔ایل۔ بی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم، جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پر لے درجے کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے’’۔
‘‘مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے۔ آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے۔ طبیعت منکسر مگر حکومت خیز، مزاج ٹھنڈا مگردلوں کو گرما دینے والا، بُرد باری شان میں انکساری، کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے۔ گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا متبسّم ہیں ..... مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثناءِ قیام کے متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا۔ ‘‘ہم آپ کو اِس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں’’۔ اُس وقت کا تبسّم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے۔ مَیں جس شوق کو لے کے گیا تھا ساتھ لایا ہوں اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے۔’’ 85
(5) پھر یہ امر بھی اس معزز عدالت کی توجّہ کے لائق ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں باوجود اس امر کے کہ آپ کے دعاوی کے ساتھ علماء نے اختلاف کیا، آپ کے خلاف کُفر کے فتوے لگائے۔ نمازوں اور جنازوں اور رشتوں ناطوں سے علیحدگی ہوئی لیکن جب 26مئی 1908ء کو آپ نے وفات پائی تو مسلم پریس نے آپ کی تعریف اور آپ کی اسلامی خدمات کی ستائش سے بھر پور مضامین لکھے جس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنواؤں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ احمدیہ جماعت کے نظریات بالطبع مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز اور جماعت احمدیہ کو مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ثابت کرنے والے ہیں۔ ذیل میں ہم چند اقتباسات درج کرتے ہیں:
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پر مشہور اخبارات کی آراء
(الف) مولانا عبداﷲ العمادی مدیر اخبار ‘‘وکیل’’ امرتسر نے اخبار ‘‘وکیل’’ میں شائع فرمایا:-
‘‘وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں ..... خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا ..... مرزاغلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اِس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے دکھا جاتے ہیں۔
مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اُس شاندار مدافعت کا جُؤا اُس کی ذات سے وابستہ تھا، خاتمہ ہوگیا۔ اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے بر خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے ..... مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چُکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدروعظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چُکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لَوحِ قلب سے نَسْیًا مَّنْسِیًّا نہیں ہو سکتا۔ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھِر چُکا ہے .....
غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صفِ اوّل میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ ان کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا’’۔ 86
(ب) علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے لکھا:
‘‘مرحوم ایک مانے ہوئے مصنّف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے..... کئی دفعہ آپ کو کافر قرار دیا گیا اور آپ پر اکثر مقدمات کئے گئے ..... بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا’’۔87
(ج) تہذیبِ نسواں لاہور کے مدیر شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب لکھتے ہیں:
‘‘مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی۔ وہ نہایت باخبر عالم، بُلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے’’۔88
(د) اخبار زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج دین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
‘‘مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 26مئی کی صبح کو لاہور میں انتقال فرمایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ ..... مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرّر تھے۔ اُس وقت آپ کی عمر بائیس چوبیس سال کی ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صَرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ 1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی۔ اُن دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محو و مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے۔ 1881ء یا 1882ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا اعلان دیا اور ہم اس کتاب کے اوّل خریداروں میں سے تھے’’۔89
(ح) ایڈیٹر ‘‘صادق الاخبار’’ ریواڑی مولوی بشیر الدین صاحب جو سرسیّد احمد خان صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور مسلمانوں کے لیڈروں میں شامل تھے آپ ؑ کی وفات پر تحریر فرماتے ہیں:
‘‘چونکہ مرزا صاحب نے اپنی پُر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفینِ اسلام کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایتِ اسلام کما حقہ، ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامئ اسلام اور مُعِینُ المسلمین، فاضلِ اجلّ، عالمِ بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے’’۔
یہ سب اقتباسات اس امرکے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف 1953ء کے حالیہ فسادات احمدیت کی تعلیم اور نظریات کے اشتعال انگیز ہونے کے باعث نہ تھے بلکہ اُس اشتعال انگیز اور منافرت خیز پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے جو مجلسِ احرار اور مجلسِ عمل کے اراکین نے قیامِ پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف کیا۔
(6) اس امر کا ایک اور ثبوت کہ یہ تحریک کسی طبعی جذبے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ انجینئرڈ تھی یہ بھی ہے کہ اگر یہ تحریک احمدیت کے نظریات کے باعث اشتعال ہونے کی وجہ سے ہوتی تو سب سے پہلے بہائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھتی جو پاکستان میں بکثرت موجودہیں اور ایک زبردست تنظیم کے ساتھ پاکستان میں منظم پروپیگنڈا کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھا رہے ہیں۔
(7) اس تحریک کے غیر مذہبی اور غیر طبعی ہونے کا ایک زبردست ثبوت یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں تحفّظ ختم نبوّت کے نام پر احرارؔ نے پنجاب کے عیسائیوں کو بھی شامل کیا۔ حالانکہ عیسائیوں کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیین تو کُجا نَعُوذُ بِاﷲ نبی بھی نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کے نزدیک مسیح ناصری خاتم النّبیین ہیں ۔ چنانچہ پنجاب ریلیجس بُک سوسائٹی لاہور نے 1953ء میں ایک رسالہ موسومہ بہ ‘‘خاتم النّبیین’’ شائع کیا جس کے صفحہ 21 پر درج ہے:
توریت اور نبیوں کی اُن خبروں کو بعض محمدی عالموں نے حضرت محمد ؐ عربی پر عائد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس بحث میں علماءِ محمدیہ نے سخت ندامت اُٹھائی اور بڑی شکست اُٹھا کر خاموش رہ گئے اور انجیل میں مسیح کے یہ الفاظ پڑھ کر مسلمان بڑے خوش ہوئے کہ ‘‘دُنیا کا سردار آتا ہے’’۔90
‘‘مگر جب ان کو معلوم ہؤا کہ یہ خبر شیطان کے بارہ میں ہے تو چُپ کر گئے’’۔ 91
‘‘آخری نبی کی خبروں کے متعلق مسلمان عالموں کی ملمع سازیوں کی حقیقت بے نقاب ہو گئی اور اس بحث کا نہایت عمدہ نتیجہ نِکلا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی کتابوں میں محمد ؐ صاحب کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ محمد ؐ صاحب پچھلے چھ صد سال پہلے مسیح خداوند کا اپنا دعویٰ تھا کہ تورات اور نبیوں کا سابقہ سارا بیان میرے حق میں ہے اور آئندہ کے لئے اس کا تاکیدی فرمان ہے کہ جھوٹے نبیوں سے خبردار رہیں۔ (متی 7:150) مسیح کے قول کی صداقت کے سامنے کسی اور انسان کا کیا اعتبار ہے۔ کیونکہ وہی صادق القول اور سچا گواہ ہیں۔ مکاشفہ 15:1 و14:13 و 11:19 و6:22 ۔ اور اس کے مقدس حواریوں نے اس کے سچّے قول کی تصدیق میں یہودی قوم کے سرداروں کے سامنے اس حقیقت کا اعلانیہ اقرار اور اظہار کیا کہ مسیح ناصری ہی خاتم النّبیّین ہے۔ اعمال 30:3 و اعمال 42:10و پطرس 9:1-11 ۔ پس ہماری تحریک نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم دُنیا میں اس بات کا اعلانیہ اظہار کریں کہ توریت اور نبیوں اور انجیل مقدس میں مسیح خداوند اور اس کے حواریوں کے بعد کی سچّے نبی کی آمد کی کوئی خبر نہیں۔ اس لئے مسیح اور اس کے حواریوں کے بعد کسی کا دعویٰ ئ نبوت حق اور قابلِ وثوق نہیں ہے۔ پس ساری باتوں کو آزماؤ اور بہتر کو اختیار کرو۔ 1۔تِھسلُنیکیوں 21:5’’۔ 92
اب اس کے بعد ہم معزز عدالت کی توجّہ کے لئے اخبار آزاد 27فروری 1953ء پنجاب کے عیسائی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر کا اعلان نقل کرتے ہیں۔ احراری اخبار آزاد ‘‘عیسائی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’ کے زیر عنوان رقمطراز ہے:
‘‘لاہور 25فروری۔ مسیحی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر نے اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا:
مَیں برادرانِ ملّت سے پُر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس دھوکے اور فریب میں نہ آئیں اور مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں۔ مرزائی اسلام اور پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ہم اس تحریک میں برادرانِ ملّت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی اور مالی قُربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے’’۔ 93
مندرجہ بالا اقتباس میں ‘‘برادرانِ ملّت’’ کے الفاظ خاص طور پر قابلِ توجّہ ہیں۔ گویا مجلسِ عمل کے اراکین اور عیسائی تو ایک ملّت ہیں لیکن جماعت احمدیہ خارج از ملّت ہے۔
احرار اور عیسائیوں کے اس اتحاد سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریک درحقیقت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔
(٨) اگر یہ تحریک طبعی ہوتی اور اس کا باعث احمدیت کے مخصوص عقائد و نظریات کا عام مسلمانوں کے لئے طبعاً اشتعال ہونا ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تحریک بجائے سیاسی لیڈروں کی طرف سے اُٹھائے جانے کے خود عوام کی طرف سے اُٹھتی۔ علماء کو اس کے بھڑکانے کی کیا ضرورت تھی؟
اگر مسلمان جانتے ہوں کہ فلاں جگہ پر ان کو سُؤر کھلایا جاتا ہے تو کسی عالم کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہو گی کہ تم وہاں نہ جاؤ۔ اگر واقع میں لوگوں میں ایسی تعلیمات پر غم اور غصّہ پایا جاتا تھا تو پھر کسی شخص کے اشتعال دلانے اور تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہزار ہا جھوٹ بولنے کی ضرورت تھی۔ وہ علماءِ کرام جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار ہیں برابر پانچ سال تک بولتے رہے ہیں، اُن کا جلسے کرنا اور اُن کا لٹریچر شائع کرنا، اُن کا نوٹ بنابنا کر بیچنے کی کوشش کرنا، اُن کا بکروں کی کھالیں طلب کرنا تاکہ لوگوں کو اِن باتوں سے واقف کیا جائے بتاتا ہے کہ یہ عوام الناس کی تحریک نہیں تھی بلکہ علماء اِسے عوام الناس میں پھیلانا چاہتے تھے تاکہ اِس زور اور دباؤ کے ذریعہ سے وہ گورنمنٹ کو مجبور کریں۔ اور علماء اس مسئلہ میں غیر جانبدار پارٹی نہیں تھے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اسلام میں وحی کا سلسلہ جاری ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام میں مولویوں کی کوئی حیثیت نہیں وہ محض ایک مدرّس اور قانون کی تشریح کرنے والے لوگ کہلائیں گے اِس سے زیادہ اِن کو لوگوں پر کوئی حکومت حاصل نہیں۔ خدا رسیدہ اور اﷲ تعالیٰ سے وحی پانے والے لوگ اگر دُنیا میں آتے رہیں تو PRIESTHOOD کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ PRIESTHOOD اُسی وقت رہتی ہے جب کہ وحی کا زمانہ دُور ہو جاتا ہے اور لوگ نقل اور تقلید پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام سے لے کر عزرا ؑ نبی تک کوئی مُلّا اِزم نہیں تھا کیونکہ متواتر نبی آتے رہے تھے۔ عزرا ؑ کے بعد جب نبیوں کے آنے میں وقفہ پڑا تب سے احبار اور رِبّی وغیرہ پیدا ہونے شروع ہوئے۔ جیسا کہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تاریخ سے ثابت ہے۔ پس علماء کا اس معاملہ میں جوش دکھانا اُن کی ذاتی اغراض کے ماتحت تھا عوام النّاس کو اِس تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام النّاس تو جھوٹ بول بول کر اور دھوکے دے دے کر فساد پر آمادہ کئے گئے ۔ ہمارے مُلک کے اکثر افراد تو پِیروں کے ماننے والے ہیں۔ اہلِ حدیث تو بہت ہی کم ہیں۔ پھر اہلِ حدیث کا ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو کہ وحی و الہام کا قائل ہے اور بزرگوں کو مانتا ہے اور اُن کی بیعت کرتا ہے جیسا کہ مولانا داؤد صاحب غزنوی کے دادا کا عقیدہ تھا اور اُن کے والد مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی نے اپنی کتاب ‘‘اِثْبَاتُ الْاِلْہَامِ وَ الْبَیْعَۃِ’’ میں لکھا ہے کہ:
‘‘مسئلہ الہام کا حلّت و حرمت کا مسئلہ نہیں جو اِس کا ثبوت صحابہ اور تابعین سے ضرور ہونا چاہئے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اِس دم تک اگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا ہو اور آج ایک شخص متقی صالح دعویٰ کرے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور مجھے غیب سے آواز آتی ہے تو بھی اُس کو سچّا جانیں گے اور بحکمِ شریعت تمام اہلِ اسلام پر لازم ہے کہ اُس کو سچّا سمجھیں’’۔ 94
جس مُلک کی اکثریت وحی اور الہام کی قائل ہو ایسے مُلک میں اِس بات پر شور مچانا کہ مرزا صاحب وحی کے مُدعی ہیں کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے؟ سامعین تو اکثر وہ لوگ ہوتے تھے جو کہ اُن لوگوں کے ماننے والے ہیں جو وحی و الہام کے مُدعی ہیں۔ ہمارے مُلک میں کتنے عوام ہیں جو کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو نبی نہیں مانتے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ صاف طور پر کہتے ہیں کہ ؎
دمبدم رُوح القدس اندر معینے مے د مد
من نمے دانم مگر من عیسیٰ ثانی شدم95
یعنی ہر لحظہ اور ہر گھڑی جبرئیل ؑ معین ؒ کے اندر آکر یہ بات پھُونکتا ہے اس لئے مَیں نہیں کہتا، مگر حقیقت یہی ہے کہ مَیں عیسیٰ ثانی ہو گیا ہوں۔ یہاں صاف طور پر وحی کا دعویٰ ہے جبرئیل ؑ کے اُترنے کا دعویٰ ہے مسیح ثانی ہونے کا دعویٰ ہے اور پاکستان کے اسّی فیصدی مسلمان حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کو اپنا مقتدا اور زمانہ کا بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں۔ اگر وحی کا دعویٰ کرنا انسان کو کافر اور گمراہ بنا دیتا ہے تو کیا یہی مولوی جرأت کر سکتے ہیں کہ پبلک میں کھڑے ہو کر کہیں کہ مرزا صاحب ؑ کا وہی دعویٰ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا ہے اور ایسا دعویٰ کرنے والے کافر اور گمراہ ہوتے ہیں۔
مسلمانوں میں سے اکثر صوفیاء حضرت محی الدین ابن عربی کو صوفیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور محی الدین ابنِ عربی ؒ بھی اجراءِ وحی کے قائل ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
‘‘فَاِنْ قُلْتَ قَدْ ذَکَرَا لْغَزَالِی فِیْ بَعْضِ کُتُبِہٖ اِنَّ مِنَ الْفَرَقِ بَیْنَ تَنَزُّلِ الْوَحْیِ عَلٰی قَلْبِ الْاَنْبِیَاءِ وَ تَنَزُّلِہٖ عَلٰی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاءِ نُزُوْلُ الْمَلَکِ۔ فَاِنَّ الْوَلِیَّ یُلْھَمُ وَ لَا یَنْزِلُ عَلَیْہِ مَلَکٌ قَطُّ وَ النَّبِیّ لَا بُدَّ لَہٗ فِی الْوَحْیِ مِنْ نُزُوْلِ الْمَلَکِ بِہٖ فَھَلْ ذٰلِکَ صَحِیْحٌ فَالْجَوَابُ کَمَا قَالَہُ الشَّیْخُ فِی الْبَابِ الرَّابِعِ وَ السِتِّیْنَ وَ الثَلَاثِ مِائَۃ اِنَّ ذٰلِکَ غَلَطٌ وَ الْحَقّ اَنَّ الْکَلَامَ فِی الْفَرقِ بَیْنَھُمَا اِنَّمَا ھُوَ فِیْ کَیْفِیَّۃٍ مَا یَنْزِلُ بِہِ الْمَلَکُ لَا فِی نُزُوْلِ الْمَلَکِ’’۔ 96
یعنی اگر تُو کہے کہ غزالی ؒ نے اپنی بعض کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ انبیاء کے دلوں پر وحی کے نزول اور اولیاء کے دلوں پر وحی کے نزول میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز فرشتہ کا نزول ہے۔ اﷲ تعالیٰ ولیوں پر وحی تو کرتا ہے مگر اُن پر فرشتہ کبھی نہیں اُترتا اور نبی کے لئے ضروری ہے کہ فرشتہ اُس پر وحی لے کر نازل ہو۔ تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کا جواب وہی ہے جو کہ حضرت محی الدین ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب (فتوحات مکیہ) کے 364 ویں باب میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ غلط ہے اور سچی بات یہ ہے کہ نبیوں اور ولیوں کی وحی میں فرق صرف وحی کے مضمون میں ہوتا ہے نہ کہ فرشتہ کے نازل ہونے یا نہ نازل ہونے کا فرق۔
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک بھی جو سردارِ صوفیاء کہلاتے ہیں۔97اور حضرت امام غزالی ؒ کے نزدیک بھی وحی نہ صرف نبیوں پر اُترتی ہے بلکہ ولیوں پر بھی اُترتی ہے۔ امام غزالی ؒ کے نزدیک تو نبیوں پر وحی فرشتوں کے ذریعہ اُترتی ہے اور ولیوں پر بغیر فرشتوں کے۔ مگر حضرت محی الدین ابنِ عربی ؒ کے نزدیک ان کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ولیوں پر بھی فرشتوں ہی کے ذریعہ وحی اُترتی ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ نبیوں کی وحی میں اَور قسم کے امور ہوتے ہیں اور ولیوں کی وحی میں اَور قسم کے اُمور۔ یعنی نبیوں کی وحی شریعت وغیرہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اور ولیوں کی وحی میں یہ بات نہیں ہوتی۔ پس وحی کا نزول یا فرشتہ کے نزول کا عقیدہ کوئی نئی چیز نہیں۔
خود قرآن کریم بھی اس بات کا مُدعی ہے کہاِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ۔نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ۔98وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اﷲ ہمارا ربّ ہے پھر عمل کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں فرشتے اُن پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں نہ تو آئندہ کا کوئی خوف دل میں رکھو اور نہ کسی گزشتہ نقصان پر غم کھاؤ اور خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس جنّت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے خبر سُن لو۔ ہم اِس دُنیا میں بھی (خدا کے حُکم کے ساتھ) تمہارے ساتھ رہیں گے اور اسی طرح بعد میں آنے والی دُنیا میں بھی۔ اور تم کو اِس دُنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جو کچھ تم چاہتے ہو اور جو کچھ مانگتے ہو ملے گا۔ یہ خدائے بخشندہ اور مہربان کی طرف سے تمہارے لئے بطور اعزاز ظاہر ہو گا۔
اِس آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں خدا کا پیغام پہنچائیں گے۔ چنانچہ اِس آیت کے ماتحت تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ‘‘ نُلْھِمُکُمُ الْحَقَّ وَ نَحْمِلُکُمْ عَلَی الْخَیْرِ بَدَل مَا کَانَتِ الشَّیٰطیْنُ تَفْعَلُ بِالْکَفَرَۃِ۔99 یعنی جس طرح شیطان کفار کے دلوں میں بُرے خیالات پیدا کرتے ہیں ہم مسلمانوں کو سچی باتوں کا الہام کریں گے اور نیک باتوں پر عمل کرنے کی اُن کو تحریص کریں گے۔
اِسی طرح قرآن کریم میں مخلص مسلمانوں کی وفات کے وقت بھی فرشتوں کے ذریعہ وحی نازل ہونے کا ذکر موجود ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔100 یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے اعمال نیک کی وجہ سے اب موعودہ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اور یہ آیت تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔101 اے بنی آدم! (یہ آیت مسلمانوںکو مخاطب کر کے کہی گئی ہے۔) اگر تمہاری طرف ہمارے رسول آئیں اور تم کو ہمارے نشانات و احکام سنائیں تو جو اصلاح سے کام لے گا اور تقویٰ کرے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف ہو گا نہ گزشتہ کا غم۔
خود حدیثوں میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی وحی صحابہؓ پر نازل ہوئی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداﷲ بن زیدؓ ایک صحابی تھے اﷲ تعالیٰ نے اُن کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا۔ بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر بیس دن تک مَیں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اَور شخص رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چُکا ہے۔ 102
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور مَیں اُس وقت پوری طرح سویا ہؤا نہیں تھا کچھ کچھ جاگ رہا تھا۔ 103
پھر نہ صرف یہ کہ بعض صحابہ پر فرشتہ نازل ہؤا بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود دُعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ بعض صحابہ پر فرشتے نازل کرے۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت حسان ؓ بن ثابت جب کفّار کے بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔ 104 اے خدا! تُو جبرئیل کے ذریعہ سے اس کی مدد کر۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی۔ اگر میری اُمّت میں بھی ایسے لوگ ہوئے تو عمر بن الخطاب ان لوگوں میں سے ایک ہو گا۔105 اس پر حاشیہ میں لکھا ہے کہ محدّث سے مراد وہ شخص ہے جو کہ عظیم الشّان مرتبہ پر ہو اور صادق الکلام ہو۔ اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اِس سے وہ شخص مراد ہے جس کے دل میں خداتعالیٰ کوئی بات ڈالتا ہے پھر وہ اپنی عقل سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ بات خداکی طرف سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے لئے مخصوص کر دیتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرشتے ان سے بولتے ہیں۔
حضرت مولانا روم ؒ فرماتے ہیں ؎
نَے نجوم است و نہ رمل است و نہ خواب
وحی حق وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ
از پئے روپوش عامہ در بیان
وحی دل گویند آں را صوفیان 106
وحی الٰہی نہ نجو م ہے نہ رمل ہے نہ خواب ہے لیکن عوام النّاس سے چُھپانے کے لئے صوفی اسے وحی دل کہہ دیتے ہیں۔
اِسی طرح وہ اپنی مثنوی کے دفتر سوم صفحہ 5پر کہتے ہیں کہ ؎
خلق نفس از وسوسہ خالی شود
مہمان وحی اِجلالی شود
کامل انسانوں کا نفس خدا تعالیٰ نے وسوسہ سے پاک بنایا اور اُن کے اُوپر وحی اجلالی نازل ہوتی رہتی ہے۔
تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَاكَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا ۔107 اس میں خدا تعالیٰ نے عام ذکر کیا ہے نبی کا ذکر نہیں کیااس لئے نبیوں کے ساتھ وحی مخصوص نہیں بلکہ سابق زمانے میں مریم اور اُمِّ موسیٰ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبیّہ نہیں تھیں اور اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کلام کیا اور ہماری اُمّت میں محدّثینِ اُمّت سے بھی یہی سلوک ہو گا اور اُن پر وحی نازل ہو گی۔108
لفظِ الہام اور وحی کے معنے
بعض لوگوں نے الہام اور وحی میں فرق کیا ہے لیکن لُغت والوں نے اس فرق کو تسلیم نہیں کیا۔
چنانچہ منتہی الادب میں لکھا ہے کہ اَوْحَی ﷲ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی طرف فرشتہ بھیجا اور اس پر الہام کیا۔
لِسان العرب والے کہتے ہیں کہ وضع کے لحاظ سے وحی کا لفظ عام تھا۔ مگر ثُمَّ قصر الْوَحْی لِلْاِلْہَامِ ہوتے ہوتے وحی کے معنے الہام کے ہو گئے۔109
تاج العروس والے لکھتے ہیں کہ اَوْحٰی إِلَیْہِ کے معنی ہیں أَلْھَمَہٗ۔ اس پر خدا نے الہام نازل کیا۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ وحی کے اصل معنی مخفی طور پر کسی بات کے بتانے کے ہیں اور اِسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں۔ 110
حدیث کی مشہور لغت نہایہ ابن الاثیر میں ہے کہ الہام کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی تحریک ڈالے اور وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اﷲ تعالیٰ اِس کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔111
حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ یہ مقربینِ الٰہی کی علامت ہے اور اس قُرب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو پُکارتے ہیں جس طرح کہ مریم کو پُکارا تھا۔112
پھر فرماتے ہیں کہ اُمّت فرشتہ کی معرفت وحی اور اس کے دیکھنے کے حصّہ سے محروم نہیں ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کس طرح مریم نے جبرئیل کو دیکھا اور ایک مضبوط اور تندرست آدمی کی شکل میں دیکھا اور کس طرح فرشتوں نے اس کو پُکارا۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن اپنے ایک بھائی سے ملنے کے لئے ایک گاؤں کی طرف گیا۔ رستہ میں ایک فرشتہ اُس پر ظاہر ہؤا اور فرشتے نے اُس سے کہا کہ مَیں خدا کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہوں۔ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ایمان کی ایک حالت رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں۔ ایسی حالت میں کہ تم اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے ہو اور حدیث میں آتا ہے کہ اسید بن حضیر نے ملائکہ کو لیمپوں کی شکل میں دیکھا۔113
اور اپنے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی اور فرمایا مَیں تجھے وہ طریقہ دوں گا جو اِن تمام طریقوں میں جو اِس وقت رائج ہیں سب سے زیادہ خداتعالیٰ تک پہنچانے میں قریب ہو گا اور سب سے زیادہ مضبوط ہو گا۔ 114
امام رازی ؒ اپنی کتاب تفسیر کبیر کی جلد ٧ صفحہ 371,370 پر فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘ملائکہ انسان کی رُوحوںمیں الہاموں کے ذریعہ سے اپنی تاثیر نازل کرتے ہیں اور یقینی کشفوں کے ذریعہ سے اُن پر اپنے کمالات ظاہر کرتے ہیں۔ تفسیر عرائس البیان میں لکھا ہے میری اُمّت میں محدّث اور مکلّم ہوں گے اور عمر ؓ ان میں سے ہو گا۔ پس محدث وہ ہوتے ہیں جن سے فرشتے بولتے ہیں اور مکلّم وہ ہوتا ہے جن سے اﷲ تعالیٰ کلام کرتا ہے’’۔ 115
حضرت مولانا محمد اسمٰعیل شہید ؒ جو حضرت مولانا شاہ ولی اﷲ ؒ کے پوتے اور حضرات دیوبند کے اُستاد اوّل ہیں فرماتے ہیں کہ:۔
‘‘یہ جان لینا چاہئے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے۔ وہ الہام کہ جو نبیوں پر اُترنا ثابت ہے اُسے وحی کہتے ہیں اور اگر وہ غیر نبیوں پر اُترے تو اُسے محدّثیت کہہ دیتے ہیں اور قرآن کریم میں الہام کو ہی خواہ وہ انبیاء پر اُترے یا غیر انبیاء پر وحی کہا گیا ہے’’۔ 116
نواب صدیق حسن خان صاحب جو ہندوستان کے اہلِ حدیث کے مسلّمہ لیڈر تھے فرماتے ہیں:-
‘‘حدیث لَا وَحْیَ بَعْدَ مَوْتِیْ بے اصل ہے۔ ہاں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ آیا ہے۔ اس کے معنے نزدیک اہلِ علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔ سُبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اِس بات کی کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے۔ قرآن و حدیث کی رُو سے اس سے یہ امر راجح سمجھا جاتا ہے کہ وہ سُنت کو جناب نبوّت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی و الہام کے حاصل کریں گے......
ہاں یہ بات اور ہے کہ اُن کو وحی آئے گی جس طرح حدیث نواس بن سمعان میں نزدیک مسلم وغیرہ کے آیا ہے..... ظاہر یہی ہے کہ لانے والے اس وحی کے جبرئیل علیہ السلام ہوں گے بلکہ اسی کا ہم کو یقین ہے۔ اس میں کچھ تردّد نہیں کیونکہ اُن (جبرئیل) کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ درمیان خدا و انبیاء کے سفیر ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی دوسرے فرشتہ کے لئے معلوم نہیں۔ ابو حاتم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ اِنَّہٗ وُکِّلَ جِبْرَئِیْلُ بِالْکُتُبِ وَ بِالْوَحْیِ اِلَی الْاَنْبِیَاءِ (انبیاء کی طرف وحی لانا اور کتابیں لانا جبرئیل ؑ کے سپرد ہے).....یہ حدیث کہ اِنَّ جِبْرَئِیْلَ لَایَنْزِلُ اِلَی الْاَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِیِّ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بے اصل ہے۔ حالانکہ کئی احادیث میں آنا جبرئیل ؑ کا آیا ہے۔جیسے وقت مرنے کے طہارت پر۔ شب قدر میں۔ دجّال کے روکنے کو مکّے، مدینے سے۔ اِلٰی غَیْرِ ذَالِکَ۔117
غرض قرآن کریم، احادیث اور اولیاء اﷲ کے کلام سے ثابت ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں وحی کا سلسلہ جاری ہے اور اُمّتِ محمدیہ کے بہت سے افراد نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے اور آنے والے مسیح کے متعلق تو معیّن صورت میں وحی کے نزول کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت نواس بن سمعان ؓ کی روایت میں جو مسلم نے بیان کی ہے صاف کہا گیا ہے کہ أَوْحَی ﷲ اِلٰی عِیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِنِّیْ قَدْ اَخْرَجْتُ عِبَاداً لِیْ لَا یَدَانِ لِاَ حَدٍ بِقَتَالِھِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِیْ اِلَی الطُّوْرِ۔118 یعنی اﷲ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب وہ دُنیا میں آئیں گے تو وحی نازل کرے گا کہ مَیں نے ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں۔ پس میرے بندوں کو طُور پر لے جا۔
رُوح المعانی والے لکھتے ہیں کہ ‘‘یُوْحٰی اِلَیْہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَحْیٌ حَقِیْقِیٌّ’’۔119
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی حقیقی نازل ہو گی۔ علامہ محمد الحبّان اپنی کتاب اسعاف الراغبین، جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اور اہلِ بیت کے فضائل کے متعلق لکھی گئی ہے لکھتے ہیں:
‘‘مہدی آئے گا تو اکثر مسائل میں علماء کے مذہب کے خلاف حکم دے گا اور اُس پر وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ وہ یقین کریں گے کہ جو اُن کے بڑے بزرگ تھے اُن کے بعد اﷲ تعالیٰ کسی کو ایسی اجتہادی باتیں نہیں بتائے گا’’۔ 120
اِسی طرح وہ اپنی کتاب کے صفحہ 144پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘مہدی کی جماعت سب غیر عربیوں پر مشتمل ہو گی۔ ان میں سے ایک بھی عربی نہیں ہو گا’’۔
اِسی طرح صفحہ 145پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘حضرت محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ مہدی الہام کے ذریعہ سے شریعت کی باریکیاں سمجھ کے لوگوں تک پہنچائے گا۔ اور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی میرا متّبع ہو گا متبوع نہیں ہو گا۔ یعنی ایسے فتوے دے گا جو اُس وقت کے علماء کو نئے معلوم ہوں گے مگر وہ اپنے فیصلہ میں غلطی کریں گے۔ درحقیقت مہدی وہی فتوے دے گا جو مَیں نے لکھے ہیں اور وہ میرا متّبع ہو گا اور اپنے حکم میں معصوم ہوگا’’۔
اِسی طرح پر صفحہ 147 پر وہ مسیح کے متعلق لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی نے اپنی کتاب اعلام میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ اور اس پر اجماع ہے کہ مسیح اپنے احکام میں کسی رائج مذہب کا مقلّد نہیں ہو گا بلکہ وہ تمام شریعت کے احکام قرآن سے اخذ کرے گا جس طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اخذ کرتے تھے اور جبرئیل اُن پر وحی حقیقی لے کر نازل ہو گا’’۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘امام سیوطی ؒ نے اس کی تائید میں بڑے دلائل دئے ہیں اور جو اس کو ردّ کرتے ہیں، اُن کو انہوں نے غلطی پر قرار دیا ہے’’۔121
غرض قرآن کریم اور احادیث کے حوالوں سے اور خدا ترس علماء کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی الٰہی کا نزول اسلامی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کا ایک حصّہ ہے۔ وحی الٰہی صرف شریعت میں محصور نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی اغراض ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ مومنوں کو تسلّی دینے اور ان کا خوف دُور کرنے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے اظہار کے لئے بھی وحی آتی ہے اور حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ نے فرمایا کہ وحی الٰہی قُربِ الٰہی کے اظہار کے لئے اور شریعت کے باریک اسرار کو ظاہر کرنے کے لئے اولیاء اﷲ پر نازل ہوتی رہتی ہے۔ پس مذہب کی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) عموماً اور اسلام کی آئیڈیالوجی خصوصاً جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان اِس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا قُرب حاصل کرے اور اُس کی معرفت تامہ اُس کو ملے اور اس چیز کا ذریعہ وحی الٰہی کو تجویز کیا گیا تھا اس بات کی تائید میں ہے کہ شریعت کے ختم ہو جانے کے بعد وحی کو آتے رہنا چاہئے اور جو شخص وحی الٰہی کو بند کرتا ہے وہ نہ صرف قرآن، حدیث اور اولیاءِ اسلام کی تردید کرتا ہے بلکہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی پر حملہ کرتا ہے اور اُس امتیازی فرق کو مٹا دیتا ہے جو کہ خدائی مذہبوں اور فلسفی مذہبوں میں مَابِہِ الْاِمْتِیَاز ہے۔ اسلام کا فخر تو اس بات میں ہے کہ اُس نے جیسا کہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں مذہب کی بنیاد محبت پر قائم کر دی ہے اور ذہنی غلامی سے انسان کو بچا لیا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت یہی ہوتی ہے کہ محبوب کا قُرب نصیب ہو اور اُس کے مُنہ سے ہمیں یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ ہمارے کاموں سے راضی ہے اور ہم سے خوش ہے اور مصیبت کے وقت ہم سے ہمدردی کرے اور ہمارا ساتھ دے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اسلام تو کہتا ہے کہ پہلے زمانے میں چند نبیوں کو خدا کا محبوب قرار دیا جاتا تھا مگر اُمّتِ محمدیہ میں محبت کا دروازہ اتنا وسیع کر دیا گیا ہے اور شریعتِ اسلام نے احکامِ اسلامی کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ انسان کے دل سے جبروغلامی کا احساس مِٹ جاتا ہے اور وہ اسلامی تعلیم پر اپنا ذوق اور شوق اور علم اور معرفت کے ساتھ نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ عمل کرنا چاہتا ہے اور عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے نیک نتائج کو دیکھ کر اس کا دل خدا کی محبت سے بھر جاتا ہے کہ اُس نے مجھے ایسا رستہ دکھایا کہ جو میری کامیابی کا ہے اور مجھے تباہی سے بچانے والا ہے۔ لیکن آجکل کے علماء اسلام کی خدمت اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ وہ اس آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کو مٹا دیں اور خدا اور بندے کے درمیان ایک دیوار حائل کر دیں تا ایک مسلمان اور ایک فلسفی کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے۔ قرآن تو سامری کے بُت کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا 122 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بُت اُن کی باتوں کا جواب نہیں دیتا۔ لیکن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گدّی پر بیٹھنے کے دعویدار اور اسلام کی خدمت کے مُدعی علماء آج یہ کہتے ہیں کہ جو اسلام کے خدا کو سامری کے بُت جیسا نہیں سمجھتا وہ اسلام سے خارج ہے۔ حالانکہ خود اُن کے علماء مذکورہ بالا آیت اَفَلَا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ اِلَيْهِمْ قَوْلًا سے یہ استدلال کر چکے ہیں کہ’’لَمْ یَخْطُرْ بِبَالِھِمْ اَنَّ مَنْ لَّا یَتَکَلَّمُ وَ لَا یَضُرُّوَ لَا یَنْفَعُ لَا یَکُوْنُ اِلٰھًا’’۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کیا اُن کے دلوں میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ جو وجود کلام نہیں کرتا اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔123
اس کے ہم معنے ایک اور آیت سورۂ اعراف میں بھی ہے۔ وہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَ لَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا 124 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بُت اُن سے کلام نہیں کرتا اور نہ انہیں کوئی یہ ہدایت بھجواتا ہے (اور یہ بھی کلام الٰہی کی ہی ایک شاخ ہے۔) اس پر بھی امام رازی فرماتے ہیں کہ ‘‘مَنْ لَا یَکُوْنُ مُتَکَلِّمًا وَ لَا ھَادِیًا اِلَی السَّبِیْلِ لَمْ یَکُنْ اِلٰھاً ’’۔ 125جو ہستی بولتی نہیں اور سچّا راستہ نہیں دکھاتی وہ خدا نہیں ہو سکتی۔
ہمارا خدا یقیناً بولنے والا خدا ہے اور سامری کے بُت جیسا نہیں ہے کہ اپنے سے پیار کرنے والے کو جواب بھی نہ دے۔ ہم اس عقیدہ میں خدا کے سابق نبیوں کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں قرآن اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے عقیدہ کے مطابق ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں اُمّتِ اسلامیہ کے روحانی پیشواؤں کے ہم عقیدہ ہیں۔ ہم اس عقیدہ میں خدائے واحد و قہّار کی عزت کے قائم کرنے والے ہیں۔ اگر اسلام کی آئیڈیالوجی(IDEOLOGY) کو قائم کرنے، اگر بتوں پر خدا کی برتری ثابت کرنے کے نتیجہ میں ہم قابلِ دار ہیں، ہم کُشتنی و سوختنی ہیں تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہماری گردنیں حاضر ہیں۔ یہ علماء جو چاہیں ہم سے سلوک کریں۔ ہم اس عقیدہ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارا توکّل خدا پر ہے اور وہی ہمارا حافظ و ناصر ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ خدا اور غیر خدا میں کیا فرق ہے؟ اور حضرت ابراہیم ؑ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِيْرُهُمْ هٰذَا فَسْـَٔلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ۔فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ۔ثُمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِمْ١ۚ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰۤؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ۔قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ۠ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَا يَضُرُّكُمْ۔126جب حضرت ابراہیم ؑ نے چند بُت توڑ دیئے (وہ بُت حضرت ابراہیم ؑ کے خاندان کے ہی ملکیت تھے) اور لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہاں! کسی نے تو یہ کام کیا ہی ہے۔ یہ ان میں سے بڑا بُت ہے اِس سے اور دوسروں سے پوچھو، اگر بُت بولتے ہیں کہ انہیں کس نے توڑا ہے؟ اِس پر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجّہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگ شرک کر کے بڑے ظلم میں مُبتلا ہو۔ پھر شرمندگی سے انہوں نے سر ڈال دیئے اور حضرت ابراہیم ؑ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ باتیں نہیں کر سکتے۔ اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ کیا تم اﷲ کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ نفع پہنچاتے ہیں اور نہ ضرر پہنچاتے ہیں؟ پس حضرت ابراہیم ؑ کے وقت میں بھی تو خدا کے بولنے اور نہ بولنے کا جھگڑا ہؤا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا بُت پرستوں پر یہی الزام تھا کہ میرا خدا بولتا ہے اور تمہارا خدا نہیں بولتا۔ اگر کسی گزشتہ وقت میں خدا کا بولنا بھی اُس کی خدائی کو ثابت کر دیتا ہے تو پھر ہندوؤں کا یہ دعویٰ کہ ابتدائے عالَم میں خدا نے وید نازل کئے اور پھر چُپ ہو گیا درست ہونا چاہئے! مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جو خدا پہلے سُنتا تھا اَب بھی سُنتا ہے۔ جو پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے۔ اِسی طرح جو پہلے بولتا تھا وہ اب بھی ضرور بولتا ہے۔
سوال نمبر2: مسئلۂ ختمِ نبوّت
دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدۂ ختمِ نبوت کی ہتک کی ہے۔ یہ الزام بھی مذہبی آئیڈیالوجی اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور خود خاتم النّبیّین کی آیت کے بھی خلاف ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ بیانِ قرآنِ کریم کے مطابق ختمِ نبوت کے ان معنوں کو متواتر مختلف قومیں پیش کرتی رہی ہیں کہ اُن کے نبی کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی بعض لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کے بعد تو سارے عیسائی کہہ رہے ہیں کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ 127
اب حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ پس جس خیال اور فلسفہ کی قرآن کریم تردید کرتا ہے اسی خیال اور فلسفہ کے مطابق وہ کس طرح حکم دے سکتا ہے۔ قرآن کریم بالنص اِس بات کا اظہار کرتا ہے کہ آخری اور کامل شریعت نازل ہو سکتی ہے مگر اِس خیال کی کہ کوئی نبی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے نبی کے بھی آنے کی اجازت نہ ہو اس نے متواتر تردید کی ہے اِسے بالکل غلط قرار دیا ہے۔
آیت خاتم النّبّیین کی تشریح
آج کل کے علماء جس آیت سے مزعومہ عقیدہ ختمِ نبوت نکالتے ہیں۔ خود وہ آیت
اِس عقیدی کی تردید کرنے والی ہے۔اِس آیت کے الفاظ یہ ہیں مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ۔128 محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیّین ہیں۔ کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہونا، اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اِس عقیدہ کا استثناء بیان کیا گیا ہے یا اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوّت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُن کے ہاں اولاد تھی کیونکہ اُن کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پس اِس آیت کے معنی کیا ہوئے کہ محمد ؐ تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں لازماً اِس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی ہے۔ اِس اظہار کے بعد کہ وہ متبنّٰی نہیں اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر اس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ کی ختمِ نبوّت کا ذکر کیا جاتا۔کیا اگر زید رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختمِ نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا؟ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہؤا کرتے ہیں؟
اِس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کسی مَرد کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوّت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر آپ بالغ مَردوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو آپ کا نبی ہونا مشتبہ ہو جائے ۔ کیونکہ لٰکِنْ کا لفظ عربی زبان میں اور اِس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہرزبان میں کسی شُبہ کے دُور کرنے کے لئے آتا ہے۔ اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۔اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۔129 ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے۔ پس تُو اﷲ تعالیٰ کی عبادتیں کر اور قُربانیاں کر۔ یقینا تیرا دُشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تُو نہیں۔ یہ آیت جو مکّہ میں نازل ہوئی تھی اِس میں اُن مُشرکینِ مکّہ کا ردّ کیا گیا تھا جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو کوئی نرینہ اولاد نہیں۔ آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ 130
اِس سورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہؤا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ تو اُن کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دُشمنوں کے متعلق هُوَ الْاَبْتَرُ کہا گیا تھا اُن کی اولاد نرینہ زندہ رہی۔ چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاصی کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر اُن کی اولاد مسلمان ہو گئی اور اُس میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید ؓ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہات پیدا ہوئے کہ زید ؓ کی مطلّقہ سے جو آپ کا متبنّٰی تھا، آپ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اﷲ عنہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے۔ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تو کسی بالغ جوان مَرد کے باپ ہیں ہی نہیں۔ اور ‘‘مَا كَانَ ‘‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اِس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے كَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا 131 یعنی خدا تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اِس اعلان پر قدرتاً لوگوں کے دلوں میں ایک شُبہ پیدا ہونا تھا کہ مکّہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دُشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اﷲ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مَرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اِس کے یہ معنی ہوئے کہ سورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باﷲ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت مشکوک ہے؟ اِس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ پیدا ہؤا ہے کہ یہ اعلان تو (نَعُوْذُ بِاللّٰہ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اِس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ باوجود اِس اعلان کے محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النّبیّین ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوّت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مُہر اُس پر نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اُمّت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابر مکّہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ سورۂ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ ابوجہل اور عاصی اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ کی روحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر بھی لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی۔ یعنی نبوّت کا مقام جو صرف مَردوں کے لئے مخصوص ہے۔ پس سورۂ کوثر کو سورۂ احزاب کے سامنے رکھ کر اِن معنوں کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر خاتم النّبیّین کی آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ محمدرسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اِس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفّار کا وہ اعتراض جس کا سورۂ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے اور اِس کا کوئی جواب مسلمانوں کے پاس باقی نہیں رہتا۔
نبوّت کے متعلق دوسری آیات
اِسی سلسلہ میں ہم قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیا ت بھی پیش کرتے ہیں:
(١) سورۂ حج میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔132 اﷲ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد کو رسول بنانے کے لئے چُن لیتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ یقیناً دُعاؤں کو سُنتا اور حالات کو دیکھتا ہے۔ اِس آیت سے پہلے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے۔ آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے اور چنتا رہے گا۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ سُننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں یعنی آپ کے زمانۂ نبوّت میں اَور انسان بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کا نام پانے والے کھڑے ہوں گے۔
(2) سورۂ فاتحہ میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۔صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ۔133 یا اﷲ تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا اُن لوگوں کا رستہ جن پر تیرے انعام ہوتے ہیں۔ یہ دُعا پانچ وقت فرضاً اور اِس کے علاوہ کئی اور وقت نفلاً مسلمان پڑھتے ہیں۔ یہ منعم علیہ گروہ کا رستہ کیا ہے؟ قرآن کریم نے خود اِس کی تشریح فرمائی ہے۔ وَ لَهَدَيْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا۔134 اگر مسلمان رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلوں پر عمل کریں اور بشاشت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کریں تو ہم ان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دیں گے۔ پھر اس صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینے کا طریقہ یہ بیان کیا ہے وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًاؕ۔ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِ١ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ عَلِيْمًا۔135 اور جو شخص بھی اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ تو وہ اُن لوگوں کے گروہ میں شامل کئے جائیں گے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ یعنی نبیوں کے گروہ میں اور صدیقوں کے گروہ اور شہیدوں کے گروہ میں اور صالحین کے گروہ میں۔ اور یہ لوگ سب سے بہتر ساتھی ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے اور اﷲ تعالیٰ تمام اُمور کو بہتر سے بہتر جانتا ہے۔
اِس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ منعم علیہ گروہ کا رستہ وہ رستہ ہے جس پر چل کر انسان نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں شامل ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں ‘‘مَعَ’’ کا لفظ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے۔ خود منعم علیہ گروہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِس صورت میں اِس آیت کے یہ معنی بن جائیں گے کہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے لیکن اس گروہ میں شامل نہیں ہوں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن نبیوں میں شامل نہیں ہوں گے۔صدیقوں کے ساتھ ہو ں گے مگر صدیقوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ شہیدوں کے ساتھ ہوں گے لیکن شہیدوں میں شامل نہیں ہوں گے اور صالحین کے ساتھ ہوں گے لیکن صالحین میں شامل نہیں ہوں گے۔ گویا اِن معنوں کی رُو سے اُمّتِ محمدیہ صرف نبوّت سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ صدیقیت سے بھی محروم ہو گئی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ابو بکر ؓ صدیق ہے وہ نعوذباﷲ غلط ہے اور شہداء کے درجہ سے بھی محروم ہو گئی۔ قرآن کریم میں جو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم شہداء کے مقام پر ہیں وہ بھی غلط ہے (شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ 136) اور صالحین میں بھی اِس اُمّت کا کوئی آدمی داخل نہیں ہوتا۔ اور یہ جو خیال ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں بہت سے صلحاء گزرے ہیں، یہ بھی بالکل غلط ہے۔ کیا کوئی عقلمند آدمی جس کو قرآن اور حدیث پر عبور ہو اِن معنوں کو مان سکتا ہے؟ ‘‘مع’’ کے معنی خالی ساتھ کے نہیں ہوتے۔ ‘‘مَعَ’’ کے معنی شمولیّت کے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں مومنوں کو دُعا سکھلائی گئی ہے۔ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ۔137 اے اﷲ! ہم کو ابرار کے ساتھ موت دے۔ اور ہر مسلمان اس کے یہی معنی کرتا ہے کہ اے اﷲ! مجھے ابرار میں شامل کر کے موت دے۔ یہ معنی کوئی نہیں کرتا کہ یا اﷲ! جس دن کوئی نیک آدمی مَرے اُسی دن مَیں بھی مرجاؤں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ہے اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ١ۚ وَ لَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًاۙ۔اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰهِ وَ اَخْلَصُوْا دِيْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ وَ سَوْفَ يُؤْتِ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۔138 یعنی منافق جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے اور تُو کسی کو ان کا مددگار نہ دیکھے گا۔ ہاں جو توبہ کرے اور اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت مخصوص کر دے تو وہ مومنوں میں شامل کئے جائیں گے اور اﷲ تعالیٰ جلد مؤمنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔ اس جگہ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ کے الفاظ ہیں مگر مَعَ۔ مِنْ کے معنوں میں استعمال ہؤا ہے۔
اِسی طرح سورۂ حجر میں آیا ہے مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ۔139 اے ابلیس! کیوں تُو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہؤا مگر سورۂ اعراف میں ہے لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ 140 ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔ پس ‘‘مَعَ’’ قرآن کریم میں ‘‘مِنْ’’ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم کی مشہور لغت ‘‘مفردات القرآن’’ مصنّفہ امام راغب میں بھی لکھا ہے ‘‘وَ قَوْلُہٗ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ۔ اَیْ اِجْعَلْنَا فِیْ زُمْرَتِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلٰی قَوْلِہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ ﷲ عَلَیْھِمْ’’۔141 یعنی فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ میں مَعَ کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو زُمرۃ الشاہدین میں داخل فرما۔ جس طرح کہ آیت فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ میں ‘‘مَعَ’’ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منعم علیہم کے زُمرہ میں شامل ہوں گے۔
نیز تفسیر بحر محیط میں امام راغب کے اِس قول کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
‘‘قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ اَنْعَمَ عَلَیْھِمْ مِنَ الْفرقِ الْاَرْبَعِ فِی الْمَنْزِلَۃِ وَ الثَّوَابِ اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَ الصِّدِّیْقُ بِالصِّدِّیْقِ وَالشَّہِیْدُ بِالشَّھِیْدِ وَ الصَّالِحُ بِالصَّالِحِ’’۔ 142
یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحون میں شامل کئے جائیں گے۔ یعنی اِس اُمّت کا نبی، نبی کے ساتھ۔ صدیق، صدیق کے ساتھ۔ شہید، شہید کے ساتھ۔ صالح، صالح کے ساتھ۔
اِسی طرح مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ١ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ۔143 اے بنی آدم! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سُنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق کو اختیار کریں گے اُن کو آئندہ کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر اُنہیں کسی قسم کا غم ہو گا۔ اِس آیت میں بھی صاف بتایا گیا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے۔ اِسی طرح قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ ۔144 اور جب رسول ایک وقت مقررہ پر لائے جائیں گے یعنی آخری زمانہ میں اﷲ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا۔
شیعہ لوگ اِسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے اور وہ اُن کی اتباع کریں گے۔ چنانچہ تفسیر قُمّی میں لکھا ہے ‘‘مَا بَعَثَ ﷲ نَبِیًّا مِن لَّدُنْ اٰدَمَ اِلَّا وَ یَرْجِعُ اِلَی الدُّنْیَا فَیَنْصُرُ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ’’۔ 145اﷲ تعالیٰ نے آدم سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دُنیا میں واپس آئیں گے اور امیرالمؤمنین مہدی کی مدد کریں گے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ کی ختمِ نبوّت نہیں ٹوٹے گی۔ یہ تو قرآنِ کریم کی آیتوں میں سے چند آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی اُمّتِ محمدیہ میں نبوّت کا سلسلہ جاری ہے۔
اَب ہم حدیثوں کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان میں اِس مسئلہ کے متعلق کیا لکھا ہے۔ جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ نبی اﷲ ہو گا۔ 146گویا خود آپ اِس آیت کے یہ معنی نہیں کرتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
بعض لوگوں نے ختمِ نبوّت کی آیت سے ڈر کر یہ معنی کئے ہیں کہ آنے والا مسیح نبی نہیں ہو گا بلکہ وہ اُمّتی ہو کر آئے گا لیکن ائمہ نے سختی سے اس کو ردّ کیا ہے۔ چنانچہ حجج الکرامۃ میں نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ‘‘فَھُوَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَ اِنْ کَانَ خَلِیْفَۃٌ فِی الْاُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ فَھُوَ رَسُوْلٌ وَ نَبِیٌ کَرِیْمٌ عَلٰی حَالِہٖ’’۔ 147
یعنی عیسیٰ علیہ السلام گو اُمّتِ محمدیہ میں سے ایک خلیفہ ہوں گے مگر وہ رسول بھی ہوں گے اور نبی بھی ہوں گے۔پھر لکھتے ہیں کہ ‘‘لَا کَمَا یَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ اَنَّہٗ یَأْتِیْ وَاحِدًا مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ بِدُوْنِ نُبُوَّۃٍ وَ رِسَالَۃٍ’’۔ 148وہ اپنی اسی نبوت کی شان کے ساتھ آئیں گے جس طرح وہ پہلے نبی تھے نہ کہ جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اِس اُمّت کا ایک فرد بن کر آئیں گے۔ نبی اور رسول نہیں ہوں گے۔
پھر وہ لکھتے ہیں جو شخص اُن کی نبوّت کے سلب ہونے کا اعلان کرتا ہے، وہ پورے طور پر کافر ہو گیا۔ جیسا کہ سیوطی نے ثابت کیا ہے کیونکہ وہ نبی ہیں اور اُن کا وصفِ نبوّت نہ اُن کی زندگی میں زائل ہؤا اور نہ موت کے بعد زائل ہو گا۔149
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر فرمایا ‘‘لَوعَاشَ اِبْرَھِیْمُ لَکَانَ صِدِّ یْقًا نَبِیًّا’’۔ 150 یعنی اگر ابراہیم میرا فرزند زندہ رہتا تو نہ صرف یہ کہ وہ نبی ہوتا بلکہ صدیق نبی ہوتا۔ جیسا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام صدیق نبی تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں ‘‘اَمَا وَ اللہِ اِنَّہٗ لَنَبِیُّ ابْنُ نَبِیٍّ’’۔ 151 خدا کی قسم! میرا بیٹا ابراہیم نبی ابن نبی ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ‘‘اِنِّیْ عِنْدَ اللہِ لَخَاتَمُ النَّبِیّٖنَ وَ اِنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمُنْجَدلٌ فِیْ طِیْنَتِہٖ’’۔152 یعنی مَیں خاتم النّبیّین تھا جب کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
اِسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ‘‘قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّۃُ قَالَ وَ اٰدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ’’۔ 153 یعنی لوگوں نے پوچھا یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ کی نبوت کب سے قائم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اِس مقام پر فائز کیا تھا۔
یہ وہ احادیث ہیں جن کو جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور مجلس احرار سب صحیح مانتے ہیں۔ اِن سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختمِ نبوت کا عُہدہ ملنے کے بعد تشریعی نبی بھی آتے رہے۔ یعنی نوح علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔ پھر اگر جماعت احمدیہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ خاتم النّبّیین کے بعد غیر تشریعی اُمّتی نبی آسکتا ہے تو اِس پر کیا اعتراض۔ اِس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی بھی ایک روایت ہے جو ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے۔ اس نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بعض لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم خاتم النّبّیین تو بے شک کہا کرو مگر لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو۔154
اِس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے نزدیک خاتم النّبیّین اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ میں فرق تھا۔ یعنی خاتم النّبیّین کے پورے معنی لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ سے ادا نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا لَا نَبِیَّ بَعْدِی فرماناتو خود احادیث سے ثابت ہے۔ پس یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کی منکر تھیں اور اس کو ردّ فرماتی تھیں بلکہ ان کے اِس قول سے یہی ماننا پڑے گا کہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ سے کوئی دھوکا لگ سکتا تھا لیکن خاتم النّبیّین کے لفظ سے وہ دھوکا نہیں لگ سکتا۔ اِسی لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم النّبیّین کا لفظ جو قرآنِ کریم میں آیا ہے وہ استعمال کیا کرو کیونکہ اِس سے کوئی دھوکا نہیں لگتا۔ لیکن لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ جو حدیثوں میں آئے ہیں وہ استعمال نہ کیا کرو کیونکہ ان سے دھوکا لگتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ دھوکا وہی ہے جس کا ازالہ احمدی جماعت کرتی ہے۔ کیونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ نہ شرعی نہ غیرشرعی، نہ بروزی نہ مستقل، نہ اُمّتی نہ غیر اُمّتی۔ حالانکہ یہ غلط ہے لیکن خاتم النّبیّین کے الفاظ سے یہ دھوکا نہیں لگتا۔ اگر جیسا کہ علماء کہتے ہیں، خاتم النّبیّین کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا یہ کہنا کہ تم خاتم النّبیّین کہا کرو لَانَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو اِس کے معنی کیا ہیں؟ یہ تو ایک بالکل ہی بے معنی کلام ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت بھی اس بارہ میں ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے اور امام سیوطیؒ کی کتاب درّ منثور میں درج ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص مغیرہ بن شعبہ ؓ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ محمد خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ پر اپنا درود بھیجے۔ اِس پر مغیرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ اگر تُو خاتم الانبیاء کہہ کر ہی ختم کر دے تو یہ کافی ہے کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں باتیں کیا کرتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں اگر وہ آئے تو آپ سے پہلے بھی وہ نبی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی وہ نبی ہوں گے۔ 155
اِس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کے نزدیک یہ خیال کرنا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، غلط ہے اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے سے اِس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن خاتم النّبیّین سے یہ خیال ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نہیں تھے کیونکہ وہ کہتے ہیں ‘‘جب وہ نکلیں گے’’۔ شاید اُن کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ زمین پر ہی کہیں چھُپے بیٹھے ہیں۔ جیسا کہ شیعہ صاحبان کا مہدی کے متعلق خیال ہے۔
اِسی طرح ابن الانباری نے کتاب المصاحف میں لکھا ہے کہ عبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت حسن ؓ اور حسینؓ کو قرآن پڑھانے پر مقرر کیا ہؤا تھا۔ ایک دن مَیں قرآنِ کریم پڑھا رہا تھا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ پاس سے گزرے۔ اُس وقت مَیں خاتم النّبیّین کی آیت پڑھا رہا تھا۔ اِس پر آپ نے فرمایا اﷲ تجھے توفیق دے۔ تو میرے بچوں کو خاتَم النّبیّین ت کی زبر سے پڑھا۔ 156
اِس سے ظاہر ہے کہ خاتم النّبیّین میں ت کی زیر سے یہ شُبہ پیدا ہوتا تھا کہ اِس کے معنی یہ ہیں کہ سب قسم کے نبی ختم ہو گئے۔ پس گویہ قراءت موجود ہے مگر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے یہ پسند نہ کیا کہ اُن کے بیٹے اِس دھوکے میں پڑ جائیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آئے گا اور اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے اُستاد کو منع کر دیا کہ انہیں خَاتِم ت کی زیر سے نہ پڑھاؤ بلکہ خَاتَم ت کی زبر سے پڑھاؤ۔
حضرت شیخ محی الدین ابنِ عربی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3 میں لکھتے ہیں کہ وہ نبوّت جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظاہر ہونے سے ختم ہو گئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے۔ اُس کا دُنیا میں کوئی مقام نہیں۔ پس اَب کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کو موقوف کرے اور کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے۔ اور یہی معنے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے پس میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہیں ہے۔ یعنی کوئی ایسا نبی میرے بعد نہیں جو کسی ایسی شریعت پر قائم ہو جو میری شریعت کے مخالف ہے بلکہ جب کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا اور کوئی رسول میرے بعد نہیں ہو گا۔ یعنی کوئی شخص مخلوقُ اﷲ میں ایسا نہیں ہو گا جو کوئی نئی شرع لائے اور اُس کی طرف لوگوں کو بُلائے۔ یہی وہ چیز ہے جو ختم ہو ئی ہے اور جس کا دروازہ بند ہؤا ہے نہ کہ نبوّت کا مقام بند ہؤا ہے۔
اِسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی ؒ لکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ نبوتِ مستقلہ کے ساتھ نہیں اُتریں گے بلکہ وہ نبوت مطلقہ والے ولی ہوکر اُتریں گے اور یہ وہ نبوت ہے جس میں محمدی اولیاء بھی اُن کے ساتھ شریک ہیں۔157
اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ نبوت مخلوقات میں قیامت تک جاری ہے گو کہ شریعت کے لحاظ سے وہ ختم ہو چکی ہے اور شریعت نبوّت کے حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا الہام دُنیا میں سے بند ہو جاوے کیونکہ اگر وہ بند ہو جاوے تو دُنیا کی رُوحانی غذا ختم ہو جاتی ہے اور رُوحانی وجودوں کے زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا۔ 158
پھر وہ فرماتے ہیں نبوّت عامہ یعنی جو شریعت سے خالی ہے وہ اِس اُمّت کے بڑے لوگوں میں قیامت تک جاری ہے۔ 159
پھر وہ لکھتے ہیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ رسالت اور نبوّت بند ہو گئی ہے اِس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا۔ پس اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لے۔ 160
پھر وہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر نبوّت عامہ اُن میں باقی رکھی یعنی وہ نبوّت جس کے ساتھ شریعت نہیں ہوتی۔ 161
سیّد عبدالکریم جیلانی جو قدوۃ الاولیاء کہلاتے ہیں لکھتے ہیں نبوت تشریعی کا حُکم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بند ہو گیا اور اِسی وجہ سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیّین کہلائے کیونکہ وہ کامل تعلیم لے کر آئے تھے۔ 162
حضرت مُلّا علی قاری ؒ (جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اور جو حنفیوں کے عقائد کے مدوّن ہیں یعنی جنہوں نے اُن کے عقائد کو ایڈٹ کیا ہے) وہ اپنی کتاب ‘‘موضوعاتِ کبیر’’ میں تحریر فرماتے ہیں:
‘‘قُلْتُ وَ مَعَ ھٰذَا لَوْعَاشَ اِبْرَاھِیْمُ وَ صَارَنَبِیًّا وَ کَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَعِیْسٰی وَ الْخضْرَ وَ اِلْیَاسَ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ۔ فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالٰی خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ اِذَا الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَایَأْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یُنْسِخُ مِلَّتَہٗ وَ لَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ فَیُقَوِّیْ حَدِیْث لَوْکَانَ مُوْسٰی علیہ السلام حَیًّا لَمَا وَسِعَہٗ اِلَّا اتِّبَاعِیْ’’۔163
ترجمہ: ‘‘مَیں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اِسی طرح اگر حضرت عمر بھی نبی ہو جاتے تو دونوں آنحضرت صلعم کے تابعین میں سے ہوتے۔ جس طرح عیسیٰ ؑ خضر ؑ اور الیاس ؑ (کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے۔) یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچّا نبی ہوتا آیت خاتم النّبیّین کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النّبیّین کے معنی صرف اِس قدر ہیں کہ آپ ؐ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملّت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمّت میں سے نہ ہو۔ اِسی عقیدہ کی تقویت اِس حدیث سے ہوتی ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر اُنہیں کوئی چارہ نہ ہوتا’’۔
حضرت ملّا علی قاری ؒ کا یہ قول ہم خاص طور پر عدالت کی توجّہ کے لئے پیش کرتے ہیں کیونکہ اِس میں خاتم النّبیّین اور عقیدۂ ختمِ نبوّت کے بارے میں بعینہٖ وہی بات کہی گئی ہے جو اِس وقت جماعت احمدیہ کہتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم آیت خاتم النّبیّین کے نزول (5 ھ ) کے قریب تین سال بعد پیدا ہوئے اور نو ہجری میں (آیت خاتم النّبیّین کے نزول کے چار سال بعد) فوت ہوئے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی وفات کے موقع پر فرمایا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتاتو سچّا نبی ہوتا۔164
حضرت مُلّا علی قاری ؒ مندرجہ بالا اقتباس میں فرماتے ہیں کہ آیت خاتَم النّبیّین کے نزول کے بعد پَیدا ہونے والے صاحبزادہ ابراہیم اگر فی الواقع نبی ہو جاتے تب بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النّبیّین ہونے میں کوئی فرق نہ آتا اور نہ ہی آپ کی خاتمیّت کے منافی ہوتا کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی متبع یا اُمّتی کا نبی ہونا آیت خاتَم النّبیّین کے مخالف نہیں۔ اُن کے نزدیک خاتَم النّبیّین کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمّت سے باہر کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ یا ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے۔
ہم اِس حوالے کی طرف خاص طور پر معزّز عدالت کی توجّہ اِس لئے مبذول کرا رہے ہیں کہ اِس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام (جو سابق نبی ہیں) کے واپس آنے کے لئے وجہ جواز نہیں نکالی گئی بلکہ خود اُمّتِ محمدیہ میں سے غیر تشریعی اور اُمّتی نبی کا پیدا ہونا بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اِس سے ختمِ نبوّت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک آیت خاتم النّبیّین کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں ہے جو حضرت مُلّا علی قاری ؒ کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کیا گیا ہے۔ اگر مجلسِ عمل کا یہ خیال درست ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کی یہ تاویل کرنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت اور آپ کی اتباع اور پَیروی میں غیر تشریعی نبی ہو سکتا ہے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے تو پھر حضرت مُلّا علی قاری ؒ جیسے عظیم الشّان بزرگ پر بھی اُن کو یہی فتویٰ لگانا پڑے گا۔ لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ وہ بزرگ ہیں جن کو تمام اہلِ سُنت خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی اور تمام اہلِ حدیث جن میں مولانا داؤد غزنوی بھی شامل ہیں، واجب الاحترام بزرگ خیال کرتے ہیں۔ 165
حضرت مُلّا علی قاری ؒ بیک وقت امامِ فقہ بھی ہیں اور امامِ حدیث بھی۔
ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالاحوالہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے کہ حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں:
(الف) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نہ ہونے والا نبی نہیں آسکتا۔
(ب) اگر اُمّت محمدیہ میں کوئی تابع نبی پیدا ہو تو خاتمیّت کے منافی نہیں۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضرت مُلّا علی قاری ؒ کے نزدیک ایسا کوئی اُمّتی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الواقع پیدا ہونے والا تھا یا نہیں؟ تو اِس کی یہاں بحث نہیں بلکہ بحث صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النّبیّین کے جو معنی جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ نئے نہیں بلکہ گزشتہ علماء، فقہاء اور محدثین یہی معنے بیان فرماتے رہے ہیں۔
امام عبدالوہاب شعرانی ؒجو دسویں صدی ہجری میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھو کہ نبوّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کُلّی طور پر بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت آپ کے بعد بند ہوئی ہے۔ پس رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول کہ نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول ہے، اس کے یہ معنے ہیں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت نہیں۔ اور یہ قول آپ کا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ‘‘اِذَاھَلَکَ کِسْرٰی فَلَا کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَر فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ’’ جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا۔ حالانکہ اس قیصر کے بعد اور کئی قیصر ہوئے۔ مطلب یہ تھا کہ اِس شان کا کوئی قیصر نہیں ہو گا’’۔ 166
شیعوں کے نزدیک بھی خاتم النّبیّین کے یہی معنی ہیں چنانچہ تفسیر صافی کے صفحہ111 پر آیت خاتم النّبیّین کے ماتحت لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے علی ؓ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتَ یَا عَلِیُّ خَاتَمُ الْاَوْلِیَاءِ۔ مَیں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی ؓ! تُو خاتم الاولیاء ہے۔ حالانکہ حضرت علی ؓ کے بعد اور کئی اولیاء ہوئے اور شیعوں کے نزدیک تو گیارہ امام بھی ہوئے۔ اس کے صاف یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے خاتم الانبیاء کے معنی افضل الانبیاء کے کئے ہیں اور بتایا ہے کہ مَیں افضل الانبیاء ہوں اور تُو افضل الاولیاء ہے۔
اسی طرح حضرت علیؓ کی ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ سے فیضان جاری رہنے کا ارشاد فرمایا ہے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں ‘‘وَ رَسُوْلُکَ الْخَاتَمُ لِمَا سَبَقَ وَ الْفَاتِحُِ لِمَا انْغَلَقَ’’۔ 167اے خدا تیرا رسول ایسا ہے کہ جو کمالات پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے تھے اُن کے انتہائی درجہ کو پہنچا ہؤا تھا اور جو کمالات پہلے لوگوں سے ہم کو نہیں ملے اُن کا دروازہ اس نے ہمارے لئے کھول دیا ہے۔
علامہ زرقانی ؒ جو بارہویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں شرح مواہب اللّدنیہ کی جلد 3 صفحہ 163پر لکھتے ہیں کہ ختم کے معنی اعلیٰ درجے کے کمال کے ہوتے ہیں اور زینت کے ہوتے ہیں۔ پس خاتم النّبیّین کے یہ معنی ہیں کہ آپ انبیاء میں سے سب سے بہتر تھے۔ جسمانی اور رُوحانی طور پر اسی طرح آپ انبیاء کے لئے حُسن کا موجب تھے جس طرح انسان کے لئے انگوٹھی حُسن کا موجب ہوتی ہے۔
شیعوں کی تفسیر مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ تاء کی زبر کے ساتھ خاتم النّبیّین کا جولفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے زینت تھے۔168
تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحہ 286پر لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کے لئے بطور انگوٹھی کے تھے جس سے وہ زینت حاصل کرتے تھے۔ یہ لفظ ان معنوں میں صلحاءِ اُمّت نے بھی استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ جو چھٹی صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ‘‘فَحِیْنَئِذٍ تَکُوْنُ وَارِثَ کُلِّ رَسُوْلٍ وَ نَبِیٍّ وَ صِدِّیْقٍ وَ بِکَ تَخْتُمُ الْوِلَایَۃُ’’۔ 169یعنی اے مجھ سے عقیدت رکھنے والے جب تُو مخلوقات سے اُمیدیں چھوڑ دے گا اور اپنی خواہشات اور ارادے ترک کر دے گا تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک نئی زندگی ملے گی اور نیا علم اور نیا قُرب اور نئی عزت تجھے بخشی جائے گی اور تُو وارث ہو جائے گا ہر رسول اور ہر نبی اور صدیق کا اور ولایت تجھ پر ختم ہو جائے گی۔
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اُمّتِ محمدیہ کے اعلیٰ لوگ تو الگ رہے اُن کے شاگرد بھی نبیوں، رسولوں اور صدیقوں کے وارث اور خاتم الولایت کے مقام پر پہنچ جائیں گے۔ اگر حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے نزدیک خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہوں تو لازماً اس حوالہ کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کے شاگردوں پر ولایت ختم ہو جائے گی اور مہدی اور مسیح اِس شکل میں ظاہر ہوں گے کہ خدا کی ولایت اُنہیں حاصل نہ ہو گی۔ چونکہ اِس حوالے کے یہ معنی بِالبداہت باطل ہیں اِس لئے یہ بھی باطل ہے کہ حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ نے خاتم کے معنی ‘‘ختم کرنے والا’’ کے لئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی بھی جو بارہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ :۔
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو خاتم النبیّٖن کہا گیا ہے اِس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص دُنیا میں ایسا نہیں ہو گا جس کو خدا تعالیٰ نئی شریعت دے کر لوگوں کی طرف بھیجے ‘‘۔ 170
مَولانا محمد قاسم بانیٔ مدرسۃ العلوم دیوبند جو تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ
‘‘عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتَم ہونا بایں معنٰی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخرِ زمانی میں بالذّات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقامِ مدح میں وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ فرمانا اِس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصافِ مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخّر زمانی صحیح ہو سکتی ہے’’۔171
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر بِالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوتو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’۔ 172
ہم نے اُوپر خاتم النبیّٖن والی آیت کے جو معنی کئے ہیں اُن کی تصدیق بھی حضرت مولانا محمد قاسم ؒ کے اِس قول سے ہو جاتی ہے :
‘‘حاصل مطلب آیت کریمہ اِس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوّتِ معروفہ تو رسولِ اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّتِ معنوی اُمّتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے۔ انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّٖن شاہد ہے’’۔ 173
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ بہت بڑے فاضل اور جیسا کہ اُوپر عرض کیا جاچکا ہے مدرسۃ العلوم دیوبند کے بانی تھے اور تمام دیوبندی علماء ان کو اپنا واجب الاحترام بزرگ اور مقتداء تسلیم کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو بیان مولوی محمد علی صاحب کاندھلوی) مولانا موصوف کی عبارت جو نمبر (ب) پر تحذیر الناس صفحہ 28 کے حوالہ سے درج کی گئی ہے وہ نہایت واضح اور صاف ہے اور اس میں الفاظ ‘‘پیدا ہو’’ خاص طور پر اِس معزّز عدالت کی توجّہ کے قابل ہیں۔ ان الفاظ نے اِس احتمال کی گنجائش بالکل باقی نہیں رکھی کہ نزولِ مسیح کے عقیدہ کے پیشِ نظر ایسا لکھا گیا ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا نہ تو خاتمیت کے منافی ہے اور نہ ہی عقیدۂ ختم نبوّت کے لئے باعثِ خطر۔ بشرطیکہ اس پیدا ہونے والے نبی کی نبوّت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت سے مستفاض ہو یعنی بِالعرض ہو، بالذّات نہ ہو۔ ہم حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ کے الفاظ‘‘اگر بِالفرض بعد زمانۂ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا’’ موجودہ دیوبندی علماء کے سامنے پیش کر کے اُن سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے جو مولانا محمد قاسم رحمۃ اﷲ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے؟
ہمیں یقین ہے کہ اُن کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا کیونکہ موجودہ غیر احمدی علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہو (خواہ وہ آپ کا غلام اور اُمّتی اور آپ کی پیروی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔) تو اس کی آمد سے عقیدۂ ختمِ نبوّت کو سخت خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مندرجہ بالا حوالہ جات محض یہ دکھانے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ لفظ خاتَم النبیّٖن میں ‘‘ختمیّت’’ بمعنی تأخّرِزمانی مُراد نہیں لی گئی۔
باقی رہا یہ سوال کہ آیا مولانا محمد قاسم ؒ کے اپنے خیال میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد فِی الْواقع کوئی نبی آسکتا تھا یا نہیں؟ تو اس کی نہ یہاں کوئی بحث ہے اور نہ ہم نے ایسا کوئی خیال مولانا موصوف کی طرف منسوب کیا ہے۔ اِس جگہ تو ہماری بحث صرف لفظ ‘‘خاتَم’’ کی تشریح و تأویل کے بارہ میں ہے نہ کہ اجرائے نبوّت کے متعلق عقیدۂ حضرت مولانا محمد قاسم ؒ نانوتوی کے بارہ میں۔ اور مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ لفظ ‘‘خاتَم’’ کے جو معنی جماعت احمدیہ بیان کرتی ہے وہ نئے نہیں پہلے بزرگوں نے بھی کئے ہیں۔
پھر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے ایک نامور اور شُہرۂ آفاق معاصر حضرت مولانا عبدالحیٔ لکھنوی فرنگی محلی رحمۃ اﷲ علیہ کا بھی یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرتؐ کے عصر میں کوئی نبی صاحبِ شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متّبع شریعتِ محمدیہ کا ہو گا’’174
اِسی طرح حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی ؒ لکھنوی اپنے رسالہ دافع الوسواس میں لکھتے ہیں کہ :۔
‘‘آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت کے مجرّد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحبِ شرعِ جدید ہونا البتہ ممتنع ہے’’۔ 175
حضرت مولانا رومی ؒ جو ساتویں صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ؎
مکر کُن در راہ نیکو خدمتے
تا نبوّت یا بی اندر اُمّتے176
یعنی تُو بنی نوع انسان کی خدمت اور بہتری کے لئے کوشش کرتاکہ اُمّت میں رہتے ہوئے نبوّت پاجائے۔
اسی طرح فرماتے ہیں:
چون بدا دی دست خود دردست پیر
پیر حکمت کو علیمست و خبیر
کو نبی وقت خویش ست اے مرید
زاں کہ زو نُورِ نبیؐ آید پدید177
جب تُو اپنا ہاتھ اپنے پیر کے ہاتھ میں دیتا ہے اِس لئے کہ وہ دینِ اسلام کو خوب جاننے والا اور سمجھنے والا ہے اور اس لئے کہ اے مُرید! وہ اپنے وقت کا نبی ہے تا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور اُس کے ذریعہ سے ظاہر ہو۔
اس سے واضح ہے کہ مولانا رومی ؒ کے نزدیک بھی اِس اُمّت میں سے کمال درجہ پر پہنچنے والا انسان نبی کہلاتا ہے۔
(ج)پھر مولانا رومی ؒ نے اپنی مثنوی میں لفظ خاتم کے معنی بھی بیان کئے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
معنیٔ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ
تاز را ہے خاتم پیغمبراں
ختم ہائے کانبیاء بگذاشتند
قفلہائے ناکشودہ ماندہ بود
او شفیع است ایں جہاں وآں جہاں
پیشہ اش اندر ظہور و در کمون
باز گشتہ از دمِ اوہر دو باب
بہر ایں خاتم شد است او کہ بجود
چونکہ در صنعت برد استاد دست
درکشادے ختم ہا تو خاتمی
ہست اشارات محمدؐ المراد
ایں شناس ، ایں است رہ رورا مہم
بوکہ بر خیزد زلب ختم گراں
آں بدینِ احمدی برداشتند
از کف إِنَّا فَتَحْنَا برکشود
ایں جہاں دردین و آں جہاں درجناں
اِھْدِ قَوْمِیْ اِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
در دو عالم دعوتِ اومستجاب
مثلِ اونے بود و نے خواہند بود
نی تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست
درجہان رُوح بخشاں حاتمی
کل کشاد اندر کشاد اندر کشاد178
یعنی نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِہِمْ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرو۔ کیونکہ یہ راہ رَو کے لئے ایک مشکل ہے تاکہ لب ہلانے سے خاتم النبیّٖن کے رستے سے ایک بھاری ختم اُٹھ جائے۔ ایسے بہت سے ختم جو پہلے نبی باقی چھوڑ گئے تھے وہ دینِ محمدی میں اُٹھائے گئے۔ بہت سے تالے بند پڑے تھے مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّا فَتَحْنَا کے ہاتھ سے وہ سب کھول دیئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے شفیع ہیں اِس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں جنّت کے۔ ظاہر و باطن میں آپ کا وِرد یہی تھا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ اُنہیں علم نہیں ہے۔ آپ کے فیض سے دونوں دروازے کھُل گئے اور دونوں جہانوں میں آپ کی دُعا مستجاب ہو گی۔ آپ ان معنوں میں خاتَم ہیں کہ فیض رسانی میں آپ کے برابر نہ کوئی پہلے ہؤا نہ کوئی آئندہ ہو گا۔ جس طرح جب کوئی استاد صنعت میں اپنا کمال دکھاتا ہے تو کیا تُو یہ نہیں کہتا کہ اے اُستاد ! تُجھ پر صنعت ختم ہے۔ اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم! تُو ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے خاتم ہے اور رُوح پھُونکنے والوں میں تُو خاتم ہے۔ غرضیکہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صدا یہی ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں اور کوئی بند نہیں ہے۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ کوئی کمال براہ راست حاصل ہونے والی نبوّت کے سوا ختم نہیں ہؤا اور اﷲتعالیٰ جو تمام فیوض کا مبدا ہے اُس کے متعلق بخل اور دریغ کا خیال کرنا نا ممکن ہے’’۔179
حضرت امام ربّانی مجدّد الف ثانی ؒ جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:-
‘‘کمالاتِ نبوت اُمّتیوں کو تبعیت اور وراثت کے طریق پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملنا آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے اور اس بات میں تُو ہر گز شک نہ کر’’۔ 180
خود احادیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ شرح بخاری میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ میرے اور مسیح ابن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے اور اُن کے درمیان کوئی شریعتِ مستقلہ والا نبی نہیں کیونکہ خود حدیثوں سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان جرجیس اور خالد بن سنان دو نبی گزرے ہیں’’۔ 181
قسطلانی شرح بخاری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ مَیں آخری اینٹ ہوں اور مَیں خاتم النبیّٖن ہوں۔ اس کے معنی ہیں مکمل شرائع الدین۔ مَیں دین کی شرائع کو مکمل کرنے والا ہوں’’۔ 182
اسی طرح قسطلانی شرح بخاری جلد 6 صفحہ 21 مطبوعہ مصر1304؁ ھ پر لکھا ہے:-
‘‘عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ختمِ نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ آپ کے دین پر ہوں گے’’۔
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘ کہ چونکہ وہ آپ کے اتباع میں سے ہوں گے اس لئے ان کا وجود ختم نبوّت کے مخالف نہیں ہو گا’’۔
شیعہ لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ اُمّتِ محمدیہ میں کسی نبی کا آنا ختم نبوت کے خلاف نہیں۔ چنانچہ رسالہ غایۃ المقصود مصنّفہ علامہ علی حائری میں لکھا ہے کہ :-
‘‘هُوَ الَّذِيْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ میں مہدی موعود کی پیشگوئی ہے اور رسول سے مراد مہدی موعود ہیں’’۔ 183
اِسی طرح تفسیر صافی میں بھی لکھا ہے کہ اِس آیت میں رسول سے مراد مہدی موعود ہیں۔ شیعہ صاحبان مہدی کو نہ صرف عام رسول قرار دیتے ہیں بلکہ اہم درجہ کا رسول قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ علامہ حائری لکھتے ہیں کہ :-
‘‘مہدی علیہ السلام کی افضلیت حضرت مسیح ناصری پر ثابت اور واضح ہے’’۔ 184
شیعوں کی کتاب اکمال الدین صفحہ 375پر لکھا ہے کہ:-
‘‘انبیاء اور اولیاء میں سے ہادیوں کے آنے کی بندش ہر گز جائز نہیں۔ جب تک انسان خدا کے حکموں کا مکلّف ہے یہ لوگ بھی آتے رہیں گے’’۔
اِسی طرح ایک حدیث میں جو شیعوں کی تفسیر القُمّی کے صفحہ٣٣ پر لکھی ہے آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پانی کو لیا اور اُسے مخاطب کر کے کہا کہ مَیں تجھ سے نبی پیدا کرتا رہوں گا، رسول پیدا کرتا رہوں گا، صالحین پیدا کرتا رہوں گا، ہدایت دینے والے ائمہ پیدا کرتا رہوں گا اور جنّت کی طرف بُلانے والے پیدا کرتا رہوں گا اور قیامت تک ایسا ہی کرتا چلا جاؤں گا اور ہر گز کسی کے اعتراض کی پرواہ نہیں کروں گا۔ یعنی خدا نے جس دن دُنیا پیدا کی تھی اُسی دن اُس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حافظ کفایت حسین صاحب اور شمسی صاحب کچھ کہتے رہیں، مَیں پھر بھی ارسالِ رُسُل اور ارسالِ مہدِیّین سے دست کش نہ ہوں گا۔
بحث کا خلاصہ
مذکورہ بالاآیات اور احادیث اور اقوالِ صلحاء و اولیاء سے مندرجہ ذیل باتیں روزِ روشن کی طرح ثابت ہیں۔
اوّل: قرآن کریم کی رُو سے ایک قسم کی نبوّت کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اِس قسم کے انبیاء رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد بھی آتے رہیں گے۔
دوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ختمِ نبوّت کے مقام پر اپنی بعثت کے بعد فائز نہیں ہوئے بلکہ کائنات کی ابتداء میں ہی آپ کو مقامِ نبوّت عطا کیا گیا تھا اور جتنے نبی دُنیا میں آئے گو آپ کی پیدائش کے لحاظ سے وہ آپ سے پہلے گزرے ہیں لیکن ختمِ نبوّت کے لحاظ سے وہ ختمِ نبوّت کے بعد ہوئے ہیں۔
سوم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی جو نئی شریعت لانے والا ہو یا آپ کی اطاعت سے باہر ہو ظاہر نہیں ہو گا۔
چہارم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد باوجود ختمِ نبوّت کے اعلان کے مسلمانوں کے نزدیک نبی ظاہر ہو سکتا تھا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم اور بعض صلحاءِ اُمّت کا یہ خیال تھا کہ مسیحِ ناصری دوبارہ دُنیا میں آئیں گے اور نبی کی حیثیت میں آئیں گے۔
پنجم: آیت خاتم النبیّٖن کے معنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور بہت سے صلحاء کے نزدیک قطعی طور پر یہ ہیں کہ ہر قسم کا بابِ نبوّت اس آیت سے مسدود نہیں۔
ششم: رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم معیّن صورت میں فرماتے ہیں کہ اس اُمّت میں سے کسی تابع نبی کا ہونا ناممکن نہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم ؑ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔
ہفتم: صلحاءِ اُمّت میں سے بعض اکابر زمانۂ صحابہ سے لے کر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ تک اِس بات کے قائل رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایسے لوگ ظاہر ہوتے رہیں گے جو نبوتِ عامہ یعنی بغیر شریعت کے نبوّت پائیں گے۔
ہشتم: کئی اکابر علماءِ اُمّت خصوصاً دیو بندیوں اور اس زمانہ کے حنفیوں کے رہنما اِس بات کے قائل ہیں کہ گو اُمّتِ محمدیہ میں سے نبی کا آنا ثابت نہیں لیکن اگر کوئی اُمّت میں سے نبی آئے تو یہ ختمِ نبوّت کی آیت کے خلاف نہ ہو گا اور اسلام کے لئے کسی خرابی یا ذلّت کا موجب نہیں ہو گا۔
اَب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا اختلاف صرف اِسی بات میں ہے کہ آیا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اُمّت میں سے ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں۔ درحقیقت جمہور مسلمان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک سابق نبی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہو گا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نبی آیا تو وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی ہو گا اور آپ ؐ کے بعد بھی نبی ہو گا۔ اس لئے لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خاتم النّبیّٖن کہنا چاہئے۔ پس ختمِ نبوّت کے بعد کسی نبی کے آنے کے متعلق اختلاف نہیں بلکہ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ نبی باہر سے آئے گا یا اُمّت میں سے آئے گا۔ ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ باہر سے آنے والا نبی یقیناً رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اس طرح ممنون نہیں ہو گا جس طرح کہ وہ اُمّتی جو آپ کی فرمانبرداری سے مقامِ نبوّت پائے، آپ کا ممنون ہو سکتا ہے۔
پس احمدی جماعت کا عقیدہ اسلام کے عین مطابق اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے۔ اور کم سے کم یہ ماننا پڑے گا کہ وہ اسلامی رُوح کے ہر گز خلاف نہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے بعد کسی نہ کسی رنگ کے نبی کے آنے کا دروازہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کھلا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا ‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان
اب ہم بتاتے ہیں کہ
بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے
ختمِ نبوّت کے متعلق کس شدّت سے اظہار کیا ہے اور اگر اپنے متعلق نبی کا لفظ بولا ہے تو اِس میں کتنی احتیاط برتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں مفصّلہ ذیل اُمور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اِس خانۂ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ مَیں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوّت کا مُنکر ہو اُس کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں’’۔185
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘ہم اِس آیت پر سچّا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِيّٖنَ’’۔186
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے’’۔ 187
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اگر مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دُنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرفِ مکالمہ مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اَب بجز محمدی نبوّت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو’’۔188
‘‘ختمِ نبوّت’’ پر ایمان احمدی ہونے کی ایک شرط ہے
اِن حوالجات سے ظاہر ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ختمِ نبوّت پر پورا ایمان رکھتے تھے اور ہرگز اِس کا انکار نہیں کرتے تھے۔ موجودہ
امام جماعت احمدیہ کا عقیدہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی خلافت کے شروع سے ختمِ نبوّت پر ایمان لانے کو اپنی شرائطِ بیعت میں شامل کیا ہے اور آپ کی بیعت کے فقروں میں سے ایک فقرہ یہ ہے کہ ‘‘ مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن یقین کروں گا’’۔ اِس بات کے بعد علماءِ کرام یہ تو حق رکھتے تھے کہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی یہی لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النبیّٖن مانتے ہیں لیکن اِن کے دلوں میں یہ عقیدہ نہیں یہ جھوٹ بول کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ مگر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت پر ایمان کا اقرار نہیں کرتے۔ علماءِ کرام کا لوگوں کے سامنے یہ بات کہنا بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر فساد پیدا کرنا چاہتے تھے اور اُن کی تقریروں کی غرض مذہبی نہیں تھی کیونکہ مذہب جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اُن کی اغراض محض پولیٹیکل تھیں اور وہ صرف اپنے مخالف کو زیر کرنا چاہتے تھے۔ اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں تھی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے۔ وہ انصاف کے مطابق ہے یا اس میں ظلم اور تعدّی سے کام لیا گیا ہے۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ کن معنوں میں نبی ہیں
بے شک بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کہا ہے کہ مَیں ایک
رنگ میں نبی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اُمّت میں سے ہو کر آیا ہوں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے۔ مَیں بار بار لکھ چُکا ہوں کہ یہ وہ نبوّت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوّت کہلاتی ہے۔ کوئی مستقل نبی اُمّتی نہیں کہلا سکتا مگر مَیں اُمّتی ہوں’’۔ 189
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اتباعِ کامل کی وجہ سے میرا نام اُمّتی ہؤا اور پورا عکسِ نبوّت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا۔ پس اِس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے’’۔ 190
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چِڑ جاتے ہیں۔ جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ پھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہؤا۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی کا نام اُمّتی بھی تو رکھا گیا ہے اور اُمّتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں۔ پس یہ مرکّب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسٰیؑ اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار اُمّتی کر کے بھی پُکارا ہے اور نبی کر کے بھی پُکارا ہے اور اِن دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دِل میں نہایت لذّت پیدا ہوتی ہے اور مَیں شُکر کرتا ہوں کہ اِس مُرکّب نام سے مجھے عزّت دی گئی۔ اوراس مرکّب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسٰی بن مریم کو خدا بناتے ہو مگر ہمارانبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اُمّتی ہے’’۔ 191
پھر اِس نبوّت کی تعریف فرماتے ہوئے جس کا دعویٰ آپ نے کیا ہے تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘میری مُراد نبوّت سے یہ نہیں ہے کہ مَیں نعوذ باﷲآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پرکھڑا ہو کر نبوّت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مُراد میری نبوّت سے کثرتِ مکالمت و مخاطبتِ الٰہیہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں۔ مَیں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکمِ الٰہی نبوّت رکھتا ہوں۔ وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ’’۔192
اِسی طرح اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے آپ نے فرمایا:-
‘‘اصل یہ نزاع لفظی ہے۔ خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوّت تشریعی نہیں جو کتاب اﷲ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم کُفر سمجھتے ہیں’’۔ 193
آپ نے یہ جو تعریف فرمائی ہے وہ قرآن کریم میں بھی آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا۔اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ ۔194 یعنی اﷲ تعالیٰ ہی علمِ غیب جاننے والا ہے اور وہ غیب کی خبریں کثرت سے کسی شخص کو نہیں دیتا سوائے ان کے جن کو اپنا رسول بنانے کے لئے پسند کر لیتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں۔ مَیں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں۔ ہاں مَیں اِس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ ٔ نبوّت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے۔ مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اِسی بناء پر خدا نے بار بار میرا نام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں۔ میرا نفس درمیان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ اسی لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہؤا۔ پس نبوّت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد ؐ کی چیز محمدؐ کے پاس ہی رہی۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام’’۔195
لفظ نبی کے بکثرت استعمال میں احتیاط
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کے استعمال میں تو
اس قدر احتیاط برتی ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ عام بول چال میں میری نسبت نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لُغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزمِ کُفر نہیں۔ مگر مَیں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اِس میں عام مسلمانوں کو دھوکا لگ جانے کا احتمال ہے’’۔196
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی نبوّت کی یہی تعریف کی ہے۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ‘‘حقیقۃ النبوۃ’’ میں تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘یہ سب جھگڑا جو نبوّت کے متعلق پیدا ہؤا ہے وہ صرف نبوّت کی دو مختلف تعریفوں کے باعث ہے۔ ہمارا مخالف گروہ نبی کی اَور تعریف کرتا ہے اور ہم اَور تعریف کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک نبی کی تعریف یہ ہے کہ (1) وہ کثرت سے امورِ غیبیہ پر اطلاع پائے۔ (2)وہ غیب کی خبریں انذار و تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہوں (3)خداتعالیٰ اُس شخص کا نام نبی رکھے۔ جن لوگوں میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں، وہ ہمارے نزدیک نبی ہوں گے’’۔ 197
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘بعض لوگ ان تین شرائط کے پائے جانے کا نام نبوّت نہیں رکھتے اور ان کے علاوہ اَور شرائط مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کے لئے یاتو شریعتِ جدیدہ لانا ضروری ہے یا بلا واسطہ نبوّت پانا۔ اور اگر ان دونوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی لگاتے ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں۔ اور چونکہ یہ شرائط حضرتِ مسیح موعود میں نہیں پائی جاتیں، اس لئے ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ نبی نہیں بلکہ صرف محدّث ہیں۔ اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر نبوّت کی تعریف یہی ہے تو بیشک حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے اور جن کے نزدیک یہ تعریف درست ہے اگر وہ مسیح موعود کو نبی کہیں تو یہ ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ شریعتِ جدیدہ کا آنا قرآن کریم کے بعد ممتنع ہے اور بِلا واسطہ نبوّت کا دروازہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مسدود ہے’’۔ 198
انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے عام بول چال میں نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب ایک شخص نے آپ سے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو عام بول چال میں اس لفظ کا استعمال منع فرمایا ہے اور آجکل اس لفظ پر خاص زور دیا جارہا ہے تو اُنہوں نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ:-
‘‘نبوّت کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سب احمدی حضرت مسیح موعود کو نبی ظلّی ہی مانتے ہیں لیکن چونکہ حضرت صاحب کے درجہ کو اِس وقت بہت گھٹا کر لکھا جاتا ہے، اس لئے مصلحتِ وقت مجبور کرتی ہے کہ آپ کے اصل درجہ سے جماعت کو آگاہ کیا جاوے، ورنہ اِس طرح کے لفظِ نبی کے استعمال کو مَیں خود بھی پسند نہیں کرتا۔ نہ اس لئے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ اس لئے کہ ایسا نہ ہو کچھ مدّت بعد بعض لوگ اِس سے نبوتِ مستقلہ کا مفہوم نکال لیں ۔ مگر یہ صرف چند روزہ بات ہے اور بطور علاج کے ہے کیونکہ اِس وقت بہت سے احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے درجہ سے ناواقف ہیں اور اخبار میں یہ بھی بار بار لکھ دیا جاتا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کے لئے آئے تھے’’۔ 199
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اِن علماء کی خاطر یا دوسرے مسلمانوں کی خاطر یہ لفظ زیرِبحث نہیں آتا رہا بلکہ احمدی جماعت کے ایک حصّہ نے جب اس لفظ کو کُلّی طور پر ترک کرنے پر زور دیا اور اس طرح جماعت کی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا تو موجودہ امام جماعت کو اس مسئلہ پر تفصیلاً بحث کرنی پڑی۔ اِسی وجہ سے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اِس وقت اس لفظ پر مصلحتاً زور دیا جاتا ہے۔ یعنی عام حالات میں اس لفظ پر زور دینے کی ہمارے لئے کوئی وجہ نہیں مگر چونکہ اِس وقت خود جماعت کا ایک حصّہ اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اور جماعت کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اس لئے ہم اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ گویا یہ تمام بحثیں نہ تو مسلمانوں کے چِڑانے کے لئے تھیں نہ ان کے لئے تھیں صرف جماعت احمدیہ کے ایک حصّہ کے فتنہ کو دُور کرنے کے لئے جس سے جماعت میں کمزوری پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتاتھا اِس بحث کو چھیڑا گیا تھا۔ اس کے بعد مختلف مواقع پر موجودہ امام جماعت نے اِس کی تشریح کی ہے کہ نبوّت کے لفظ سے اس سے زیادہ کچھ بھی مراد نہیں ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے الہام ہوتے تھے اور خدا تعالیٰ کے الہاموں میں ان کا نام نبی آتا تھا۔ ورنہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابل پر ان کو کوئی مقام بھی حاصل نہیں۔
امام جماعت احمدیہ کے ایک اور حوالہ سے بھی ثابت ہے کہ وہ اُمّتِ محمدیہ کا اصل نبی حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آپ کا ایک اعلان الفضل20مئی 1950ء میں شائع ہؤا ہے کہ کسی شخص نے آپ کو توجّہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق خاندانِ نبوّت کا لفظ اخبار میں لکھا جاتا ہے، یہ نہیں چاہئے۔ اِس تسلسل میں آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘متواتر خط و کتابت میں اِن صاحب نے ایک بات لکھی جس نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندانِ نبوّت سے یہ دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندانِ نبوت ہے۔ اور مَیں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں۔ اصل نبوّت تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و اٰلہٖ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت تو ظلّی ہے۔ پس اصل ‘‘خاندانِ نبوّت’’ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاندان ہے جس نے اپنی قُربانیوں سے اور اپنے ایثار سے اور اپنی خدمتِ اسلام سے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے دل میں جو اِس فضل اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں پیدا کر کے کیاہے۔پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شُبہ پیدا ہو جائے کہ کسی اَور خاندان کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں۔ اس لئے مَیں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ‘‘الفضل’’ میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کو خاندانِ نبوّت کی بجائے خاندانِ مسیح موعود لکھا جایا کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعود کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کا حاوی نام ہے۔ پس خاندانِ مسیح موعود ؑ کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اُس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خدا تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے۔ اگر ان میں سے ہی بعض دُنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خداتعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندانِ نبوّت کہا جائے یا خانوادۂ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہہ دیا جائے ہر تعریف اُن کے لئے ہتک کا ہی موجب ہو گی کسی عزّت کا موجب نہیں ہو گی۔ بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ سے پِھرانا چاہتے ہیں’’۔ 200
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی لفظِ نبی کا ایسا استعمال جس سے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے توجّہ ہٹتی ہو احمدی جماعت کے لئے جائز نہیں۔ پس اِس بارہ میں جن خیالات کا بھی اظہار ہؤا ہے محض اپنی جماعت کے ایک کمزور حصّہ کی اصلاح کے لئے ہؤا ہے اور ہر گز دوسرے فرقۂ اسلام کو مدّ نظر رکھ کر اس لفظ پر زور نہیں دیا گیا۔ جہاں جہاں بھی یہ بات بحث میں آئی ہے یا تو کسی معترض کے جواب میں آئی ہے یا اپنی جماعت کے کمزور لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی ہے۔ اور اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ احمدی جماعت کسی مستقل نبوّت کی قائل نہیں بلکہ وہ اس اُمّت کا نبی محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں اور قیامت تک انہیں کی نبوّت کو جاری سمجھتے ہیں۔
آخر میں ہم ایک حوالہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا درج کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نبوّت کے متعلق خواہ کوئی بھی اختلاف کیا جائے بہرحال احرار اور اُن کے ساتھیوں نے یہ سوال مذہب کی وجہ سے نہیں اُٹھایا بلکہ سیاست کی وجہ سے اُٹھایا ہے۔ چنانچہ سیّدعطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا:-
‘‘یہ الگ بات ہے کہ سچا تھا، یا جھوٹا۔ یہ تو چیز ہی بالکل بے معنی ہے۔ فرض کر لو اگر وہ سچا ہوتا اور نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم مان لیتے؟’’201
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب کی مخالفت مذہبی نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب سچے بھی ہوتے تو بھی ہم اُن کو مان نہیں سکتے تھے۔ جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ بنتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کے ماننے کا خدا بھی حکم دیتا تو بھی ہم نہ مانتے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ یہ مذہبی مخالفت نہیں۔ اگر مذہبی مخالفت ہوتی تو خدا اور اُس کے رسول کی تائید میں ہوتی۔ عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری فرماتے ہیں ‘‘ کہ خدا بھی کہے تو ہم نہیں مانیں گے’’جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے سیاسی فوائد اُن کے نہ ماننے میں ہیں۔ اس لئے ہم مذہب کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے۔
دوسرا حوالہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا ہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:-
‘‘اگر نبی ہی ماننا ہے تو خدا کی قسم! جناح کو نبی مان لو۔ اگر اُسے نہیں ماننا تو مجھے ہی مان لو۔ ارے! کوئی آدمی تو ہو ..... اگر مسلمانو! تم تیرہ سَو سال کی نبوّت سے تنگ آگئے ہو تو قائداعظم ہی کو نبی مان لو’’۔202
اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ ایمان کو سیاست کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ایمان کو سچائی اور مذہب کا ذریعہ نہیں قرار دیا جاتا۔ اور بہ تکرار یہ کہنے والا مذہبی آدمی کبھی نہیں کہلا سکتا، سیاسی آدمی کہلا سکتا ہے۔
ایک تیسرا حوالہ بھی بتاتا ہے کہ یہ محض سیاسی جوش تھا۔ یہ بھی سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کا حوالہ ہے۔ اس کے لئے ہم ایک اشتہار کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:-
‘‘میرا مجلس احرار سے کوئی تعلق نہیں۔ مَیں مجلسِ احرار کا دو آنہ کا ممبر بھی نہیں ہوں۔ مَیں پکّا مُسلم لیگی ہوں۔ مسلم لیگ اور پاکستان کا سچا وفادار ہوں۔ مَیں ممتاز صاحب دولتانہ کو اِس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ وہ ایک تو صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوّت پر ایمان لے آؤ تو مَیں اُس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفۃ المسیح مان لوں گا’’۔203
سوال نمبر 3 متعلق دعویٰ ٔ مسیحیت و متعلقہ اُمور
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شُبہ نہیں۔ حضرت مرزا صاحب بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اِسی سے لازم آتا ہے کہ مسیح ناصری کو وفات یافتہ سمجھا جائے لیکن اس دعویٰ سے مسلمانوں کی کوئی دل شکنی نہیں ہوتی۔ نہ عیسائیوں کی کوئی دل شکنی ہوتی ہے۔ عیسائی تو مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اُن کی اس دعویٰ سے دل شکنی نہیں ہوتی۔ بہت سے عیسائی ممالک میں احمدی مشنری ہیں اور وہ احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان ممالک کے لوگ عیسائیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ کروڑوں کروڑ روپیہ مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے چندہ دیتے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت کی محبت اور اُس پر ایمان اُن کے دلوں میں موجود ہے مگر پھر بھی وہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح موعود سے نہیں چِڑتے اور انہیں غصّہ نہیں آتا۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ انسانی اخلاق کی قیمت کو سمجھتے ہیں۔ ہمارے علماء انسانی اخلاق اور حُریتِ ضمیر کی قیمت نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے تنگ مذاہب کے باوجود وسعتِ حوصلہ رکھتے ہیں لیکن یہ علماء اسلام کی وسیع اور پُر محبت تعلیم کے باوجود اپنے اندر وسعتِ حوصلہ نہیں رکھتے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں۔ اگر اس اُمّت میں سے کسی کو مسیح موعود ہونا تھا تو یہ دعویٰ حضرت مرزاصاحب کریں یا کوئی اور اِس میں چڑنے کی کوئی بات نہیں۔ صرف یہ دیکھا جائے گا کہ مُدعی سچا ہے یا جھوٹا۔ باقی رہا یہ سوال کہ تمام مسلمان مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں اور اُسی مسیح کی آمد کے قائل ہیں، یہ درست نہیں۔ مسلمانوں میں سب سے پہلا اجماع اِسی بات پر ہؤا تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں۔ چنانچہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات پر جب مسلمان گھبرا گئے اور یہ صدمہ اُن کے لئے ناقابلِ برداشت ہو گیا تو حضرت عمر ؓ نے اسی گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں تو مَیں اُس کی گردن کاٹ دُوں گا۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خدا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے۔204 گویا اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپ کی وفات تک موجود تھے اِس لئے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں۔ حضرت ابو بکر ؓ جو اُس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے۔ وہ سیدھے گھر میں گئے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا جسم مبارک دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ واقع میں وفات پا چکے ہیں۔ اِس پر آپ باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اﷲ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موتیں نہیں دے گا۔ یعنی ایک موت جسمانی دوسری موت رُوحانی کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان بگڑ جائیں۔ پھر آپ سیدھے صحابہ ؓ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت عمر ؓتلوار لئے کھڑے تھے اور یہ اِرادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اعلان کیا تو مَیں اُس کو قتل کر دوں گا۔ حضرت ابو بکر ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا۔ اے لوگو! ‘‘مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ ﷲ فَإِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَمُوْتُ’’۔ جو شخص محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سُن لے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اﷲ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔
پھر فرمایا وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی آیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور مَیں زمین پر گِر گیا۔ 205
یہ ایک ہی اجماع صحابہ ؓ کا ہے۔ کیونکہ اُس وقت سارے صحابہ ؓ موجود تھے اور درحقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اِس طرح جمع نہیں ہوئے۔ اِس اجتماع میں حضرت ابو بکر ؓ نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صرف اﷲ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر اﷲتعالیٰ کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں۔ پس آپ کا فوت ہونا بھی کوئی قابلِ تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ ؓ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا۔ حضرت عمر ؓ جو پہلے مخالف تھے اِس آیت کو سُن کر وہ بھی موافق ہو گئے۔ اگر واقع میں مسلمانوں کے نزدیک حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود تھے تو حضرت عمر ؓ نے یہ کیوں نہ کہا کہ اَے ابو بکر ؓ آپ کیوں غلط بیانی کرتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں پھر محمد رسول اﷲ کس طرح فوت ہو سکتے ہیں۔ مگر حضرت عمر ؓ نے تو غم کی حالت میں حضرت عیسیٰ کا نام بھی نہیں لیا حضرت موسیٰ ؑ کے خدا کے پاس جانے کا ذکر کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے کان میں یہ بات کبھی نہیں پڑی تھی کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں۔ نہ غلط طور پر نہ صحیح طور پر۔ بعض روایتوں میں حضرت موسیٰ ؑ کی بجائے حضرت عیسیٰ ؑ کا نام آتا ہے۔ اگر یہ روایتیں بھی درست تسلیم کر لی جائیں تب بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت ہے۔ قرآنِ کریم میں متعدد دیگر آیات بھی ہیں جو حضرتِ عیسیٰ ؑ کی وفات پر دلالت کرتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ 206 اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دُوں گا اور پھر تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے کفّار کے اُن سارے اعتراضات سے بچاؤں گا جو وہ تجھ پر کرتے ہیں اور تیری جماعت کو قیامت تک دوسرے لوگوں پر غلبہ دُوں گا۔ اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے وفات کا ذکر کیا ہے اور پھر رفع کا ذکر کیا ہے اور وفات کے بعد رفع تو سب مومنوں کا ہؤا کرتاہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اُمّت کے لوگوں کو دُعا سکھاتے ہیں کہ اَللّٰھُمَّ ارْفَعْنِیْ۔ اے اﷲ تُو مجھے اُونچا کر۔ 207
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مومن مَر جاتا ہے تو اُس کی رُوح کو اُٹھا کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں۔ 208
کہا جاتا ہے کہ توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے نہیں لیکن ہماری طرف سے ایک لمبے عرصہ سے یہ چیلنج دیا جارہا ہے اور آج پھر ہم اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ اﷲ تعالیٰ فاعل ہو، ذی رُوح مفعول ہو اور توفّی کے معنی قبضِ رُوح کے سوا کچھ اور ہوں تو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام تو رکھا تھا مگر آج تک کسی لغت میں سے ایسا حوالہ نکال کر کوئی مولوی صاحب یہ انعام نہیں لے سکے ہیں۔ ہم اِس وقت پھر اِس چیلنج کو دُہراتے ہیں۔ یہ علماء بیٹھے ہیں۔ یہ اب بھی کسی لُغت میں سے یا کسی مشہور شاعر اور ادیب کے کلام میں سے کوئی ایسا حوالہ نکال کر دکھادیں۔
بعض دفعہ یہ علماء علم کی کمی کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیتیں (ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ 209 وغیرہ)پیش کر دیتے ہیں کہ ان میں قبضِ رُوح کے معنی نہیں ہیں۔ حالانکہ اُن آیتوں کے الفاظ بابِ تفعّل میں سے نہیں بلکہ بابِ تفعیل میں سے ہوتے ہیں اور عربی زبان میں اکثر بابوں کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ اسی طرح سورۂ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۔مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِيْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔ 210 یعنی یاد کرو جب اﷲ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا دو معبود بنا لو۔ اِس پر عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آپ پاک ہیں، میرا کیا حق تھا کہ مَیں وہ بات کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا۔ اگر مَیں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کو اس کا علم ہوتا۔ آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں مگر مَیں آپ کی بات کا پس منظر نہیں جانتا۔ آپ تو سب غیبوں کو جاننے والے ہیں۔ مَیں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا اور وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اَور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک مَیں اُن میں رہا اُن پر گواہ تھا پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے مَیں نہ تھا اور آپ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اِس آیت میں حضرت مسیح کا صاف طور پر یہ فرمانا موجود ہے کہ میری وفات تک عیسائی نہیں بگڑے لیکن اب بگڑے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ اگر یہ کہا جاوے کہ یہ گفتگو قیامت کے دن ہو گی تو پھر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد عیسائی بگڑیں گے۔ اگر یہ گفتگو قیامت کے دن ہو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی واپسی تک عیسائی نہیں بگڑے تھے بلکہ اُن کی وفات کے بعد بگڑے۔ حالانکہ مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ اُتریں گے تو عیسائی بگڑ چکے ہوں گے اور وہ سب کفّار کا خاتمہ کریں گے اور توحید کو قائم کریں گے یا سب کو مسلمان بنا لیں گے۔ پس خواہ یہ گفتگو کسی پہلے زمانہ کی طرف منسوب کی جائے یا قیامت کی طرف اِس سے بہرحال اُن کی وفات ثابت ہے۔ پھر اگر یہ گفتگو قیامت ہی کے دن کی مانی جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ حضرت عیسیٰ ؑ اِس دُنیا میں آئیں گے، عیسائیوں کو سمجھائیں گے، توحید کی طرف لائیں گے اور اسلام کو قائم فرمائیں گے لیکن پھر بھی قیامت کے دن اُن سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تُو نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی تھی اور اُن سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو۔ اُن کی اِس عظیم خدمت کے بعد یہ سوال کیا جانا کتنا حیران کُن ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا اِس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہئے کہ اے اﷲ! مَیں نے تو اپنی قوم کو مارا، اُن کے شرک کو دُور کیا اور توحید دُنیا میں قائم کی۔ پھر بھی مجھ پر یہ الزام ہے کہ گویا مَیں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے رفع و نزولِ جسمانی کا عقیدہ صحیح ہونے کی حالت میں تو ان کی طرف سے یہی جواب ہونا چاہئے مگر اس جواب کا تو کوئی ذکر نہیں بلکہ بر خلاف اس کے قرآن شریف بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح ؑ قیامت کے دن یہ جواب دیں گے کہ جب تک مَیں اُن میں موجود رہا وہ توحید پر قائم رہے، جب مَیں فوت ہو گیا تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ اُنہوں نے کیا کِیا۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اس آیت کے وہی معنی کرتے ہیں جو ہم نے کئے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میرے کچھ اَ تْباع کو فرشتے سزا کے لئے لے جاویں گے اور مَیں اِس پر فریاد کروں گا کہ یہ تو میرے اَ تْباع ہیں۔ اِس پر مجھ سے کہا جائے گا کہ تجھے کیا خبر کہ تیرے بعد اُنہوں نے کیا کِیا۔ فَأَ قُوْلُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔211 کہ جس طرح خدا کے نیک بندے یعنی حضرت عیسیٰ ؑنے کہا ہے مَیں بھی کہوں گا کہ مَیں اپنی زندگی میں اپنی قوم پر گواہ تھا جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے۔ بخاری کی اس حدیث سے یہ امور ظاہر ہیں۔
(1) یہ سوال بعثتِ نبوی ؐ سے پہلے ہو چُکا تھا۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح عیسیٰ ؑ کہہ چکے ہیں اِسی طرح میں بھی کہوں گا۔
(2) مسیحی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بگڑ چکے تھے اور اس سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑکی وفات ہو چکی تھی۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے جواب میں اپنے وفات پانے اور مسیحیوں کے بگڑ جانے کا اقرار ہے۔
(3) توفّی کے معنے یقیناً اِس جگہ موت کے ہی ہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت مسیح ناصری ؑ کا حوالہ دے کر اپنی نسبت توفّی کا لفظ استعمال فرماتے ہیں اور آپ ؐ کی وفات کے متعلق کوئی دو رائیں مسلمانوں میں نہیں ہیں۔
بعض لوگ غلطی سے توفّی کے معنی وفات کے سوا کچھ اور کرناچاہتے ہیں۔ ایک حصّہ کا جواب ہم دے چکے ہیں دوسرا حصّہ اب بیان کریں گے اور وہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک اس لفظ کے معنی وفات کے سوا اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اس کے لئے ہم جامعہ از ہر کے ایک بہت بڑے عالم علّامہ محمود شلتوت کا فتویٰ پیش کرتے ہیں جس میں اُنہوں نے وضاحت سے اس بات کااقرار کیا ہے کہ عربی زبان بولنے والے توفّی کے معنی موت کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔ آپ اپنے شائع شُدہ فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ تَوَفَّیْتَنِیْ کا لفظ جو آیتِ قرآنیہ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت استعمال ہؤا ہے۔ اِس کا حق ہے کہ ہم اس کے وہی معنی کریں جو عربوں کے ذہن میں فوراً آتے ہیں اور وہ طبعی مَوت کے ہیں جسے سب لوگ جانتے ہیں اور جو تمام عربی زبان بولنے والے اِس لفظ اور اِس کے استعمال سے سمجھتے ہیں اور اگر اس آیت میں اپنی طرف سے کوئی اَور بات نہ ملائی جائے تو اس قول کو ہر گز صحیح نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ ؑزندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے۔ 212 ہم اس فتوے کی ایک مطبوعہ نقل معہ ترجمہ کے پیش کرتے ہیں ۔ اصل مصری فتویٰ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مادری زبان عربی رکھنے والا جامعہ ازہر کا ایک ممتاز پروفیسر تو یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کے معنی مَوت کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارے علماء جو عربی زبان کے دو فقرے بھی بولنے کی طاقت نہیں رکھتے پاکستان میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ توفّٰی کے معنی یہاں پر کچھ اَور ہیں۔
صحابہ ؓ نے بھی توفّی کے معنی مَوت کے ہی کئے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی مُمِیْتُکَ کے ہیں۔ 213 اور امام مالک کا بھی قول ہے کہ مَاتَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ۔ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم فوت ہو گئے ہیں۔ 214
اِسی طرح علّامہ ابن حزم کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ وفات پا چکے ہیں۔215
معراج کی حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے معراج کی رات تمام وفات یافتہ انبیاء کے ساتھ حضرت عیسیٰؑ کو بھی دیکھا۔ 216 پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پچھلے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور آنے والے مسیح کا بھی حُلیہ بیان کیا ہے اور دونوں حُلیوں میں اختلاف ہے۔ پہلے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَاَمَّا عِیْسٰی فَأَحْمَرُجَعْدٌ۔ 217 یعنی مسیح ابن مریم کا رنگ سُرخ تھا اور اُن کے بال گھنگھر والے تھے۔اور آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ۔218 اُس کا رنگ گندم گوں ہو گا اور اُس کے بال سیدھے ہوں گے۔
اِس سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے نزدیک ایک مثیلِ مسیح آنے والا ہے۔ پہلا مسیح فوت ہو چُکا ہے اور اُس کے رنگ اور اخلاق اور کمالات کو لے کر ایک دُوسرا شخص اس اُمّت میں پیدا ہو گا۔
چونکہ مسیح کی آمد کا عقیدہ متواتر احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور قرآنِ کریم میں بھی اِس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ۔219
جب مسیح ابن مریم کا ذکر تمثیلی طور پر کیا جاتا ہے تو تیری قوم بُرا مناتی ہے۔ اِس میں اِسی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں مسیح کی دوبارہ آمد تمثیلی طور پر بیان کی جاتی تھی اور کُفّار اِس پر چِڑتے تھے کہ مسیح کو تو اتنی اہمیت دے دی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آئے گا اور ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور چونکہ ابنِ عباس ؓ اور امام مالکؓ کا قول ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ فوت ہو چکے ہیں اس لئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہو گا اور یہ صرف ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ اِس کا ثبوت تاریخ سے بھی ملتا ہے۔ چنانچہ خریدۃ العجائب جو سراج الدین ابی حفص عمرو بن الوردی کی کتاب ہے اور جس کے متعلق علّامہ احمد بن مصطفٰی المعروف بطاش کُبریٰ زادہ نے جو جیو گریفی کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اپنی کتاب مفتاح السعادہ جلد اوّل صفحہ 322 پر لکھا ہے:
‘‘کہ یہ کتاب علّامہ قزوینی کی کتاب عجائب المخلوقات سے بھی زیادہ اچھی ہے’’۔
اِس کتاب کے صفحہ 214 پر لکھا ہے کہ :-
‘‘قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اُٹھا لیا اِس بارہ میں مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر تو یہ کہتے ہیں اور اُنہی کی بات زیادہ سچی ہے کہ عیسٰی علیہ السلام بعینہٖ دوبارہ آئیں گے لیکن ایک اور جماعت مسلمانوں کی یہ کہتی ہے کہ عیسیٰ ؑ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جو حضرت عیسیٰ ؑ سے اپنی بزرگی اور اپنے کمالات میں مشابہہ ہو گا۔ جس طرح کہ ایک نیک آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہے اور شریر آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ شیطان ہے۔ اِن دونوں کو بطور تمثیل کے یہ نام دیئے جاتے ہیں اور یہ مراد نہیں ہوتی کہ سچ مچ شیطان آگیا یا فرشتہ آ گیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک تیسرا گروہ بھی مسلمانوں میں ہے جن کا یہ خیال ہے کہ اس پیشگوئی سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑدوبارہ دُنیا میں آئیں گے بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ عیسیٰ نامی کوئی شخص رسولِ کریم ؐ کی اُمّت میں سے ہو گا۔ اس میں مسیح کی رُوح داخل کر دی جائے گی لیکن یہ دونوں خیال اہمیت نہیں رکھتے مگر اصل حقیقت اﷲ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے’’۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ایسے رہے ہیں جن کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح فوت ہو چُکا ہے اور دوبارہ جو شخص آئے گا وہ اِسی اُمّت میں سے ہو گا۔ اُن میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ ایک اُمّتی شخص مسیح کے اخلاق اور آپ کے کمالات کو حاصل کر کے عیسیٰ بن مریم کہلائے گا۔ جس طرح احمدی کہتے ہیں اور دوسرے گروہ کا یہ خیال تھا کہ ہو گا تو وہ کوئی اُمّتی شخص مگر اُس کا نام بھی عیسیٰ ہو گا مگر اُس کے اندر مسیح کی رُوح داخل کر دی جاوے گی۔ مسیح کا جسم بہرحال واپس نہیں آئے گا۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ لکھا ہے کہ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ واپس آئیں گے اور اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں عقیدے کہ مسیح دوبارہ نہیں آئیں گے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مگر اس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ صاحبِ کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ قطعیت کے ساتھ کسی بات کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت اﷲ ہی کو معلوم ہے۔ گویا اس زمانہ میں جب تک مسیح موعود ظاہر نہیں ہوئے تھے اُن کے نزدیک مسیح کے دوبارہ نازل ہونے کے عقیدہ کو ترجیح تو دی جاسکتی تھی مگر اُسے جزوِ ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ ورنہ وہ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ نہ لکھتے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اﷲ ایک ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اﷲ ؐ اﷲ کے رسول ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن خدا کی کتا ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ فرشتے حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قیامت حق ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قدرِ خیر و شر حق ہیں۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اُنہیں چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے جن میں اختلاف ممکن ہو اور جائز ہو اور جو جُزوِ ایمان نہ ہوں۔ ابی حفص عمرو بن الوردی کے اس بیان سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں سینکڑوں سال سے رائج ہے۔ یہ صاحب آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ پس کم سے کم ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ آٹھ نو سَو سال سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ اِسی اُمّت میں سے ایک شخص آپ کے کمالات کو لے کر دُنیا میں ظاہر ہو گا اور جو لوگ اِس عقیدے کے قائل نہیں تھے بلکہ مسیح کے آسمان سے اُترنے کے قائل تھے وہ بھی مسیح کے آسمان سے اُترنے کے عقیدہ کو جُزوِ ایمان نہیں سمجھتے تھے بلکہ اِس بات کا احتمال رکھتے تھے کہ شاید وہ اِسی اُمّت میں سے ظاہر ہو جائے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مسیح کی آمد ثانی کے منتظر تھے کیونکہ اُنہوں نے کوئی ایسا فرقہ نہیں لکھا جو مسیح کی آمد کا ہی مُنکر ہو۔
سوال نمبر 4متعلق اعتراض نئی اُمّت و مسئلہ کفر و اسلام
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک نئی اُمّت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے۔ اِس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ مرزا صاحب ؑ نے کوئی نئی اُمّت بنائی بلکہ بار بار آپ نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ مَیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہوں اور ہماری جماعت کی طرف سے ہمیشہ ہی اِس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اُمّتِ محمدیہ ایک ہی ہے اور آپ بھی اس کے ایک فرد ہیں۔ چانچہ آپ کے الہاموں میں سے ایک الہام یہ ہے کہ رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ 220 کہ اے میرے ربّ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح فرما۔ اگر آپ نے اپنی کوئی علیحدہ اُمّت بنائی ہوتی تو پھر اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کے لئے دُعا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تو آپ یہ کہتے کہ ‘‘میری اُمّت کی اصلاح کر’’۔
پھر آپ اپنی کتاب ‘‘نزول المسیح’’ میں لکھتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب انبیاء کے نام دیئے ہیں اور الفاظ یہ ہیں:
‘‘اِس صورت میں گویا تمام انبیاءِ گزشتہ اِس امت میں دوبارہ پیدا ہوگئے’’۔ 221
اگر آپ اپنی کوئی الگ اُمّت مانتے تو اِس فقرہ کے معنی کیا بن سکتے ہیں؟
پھر اِسی کتاب کے صفحہ 34 پر آپ فرماتے ہیں کہ سُورۃ نور اور سورۃ فاتحہ پر نظرِ غائر کر کے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس اُمّت کے کُل خلفاء اِسی اُمّت میں سے ہوں گے اور یہ بات اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اِس طرح اپنے آپ کو اِس اُمّت میں شامل کرتے ہیں۔
پھر اپنے ملہم مِنَ اﷲ ہونے کے ثبوت میں آپ فرماتے ہیں کہ
‘‘اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دُعا اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۔ انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اِس اُمّت کو بھی شریک کرے۔ تو اُس نے کیوں یہ دُعا سکھلائی’’۔222
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اِسی اُمّت میں سے آئے گا’’۔223
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے’’۔ 224
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘اسلامی تعلیم کا اِن دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمّت کو سکھلایا گیا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ’’۔225
اَور آپ خود بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِکہتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی یہی پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے۔ اِسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ:
‘‘احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہلائے گا’’۔ 226
اِسی طرح فرماتے ہیں کہ :-
‘‘جَعَلَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ کَأَنْبِیَاءِ الْاُمَمِ السَّابِقَۃِ۔ اَلَسْنَا بِخَیْرِالْأُمَمِ فِی الْقُرْآن’’ 227
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اِس اُمّت میں پہلی اُمّتوں کے انبیاء کی طرح کے بعض لوگ پیدا کئے ہیں۔ کیا قرآنِ کریم میں ہم کو خیرِ الْاُمم نہیں قرار دیا گیا؟ ایسا ہی فرماتے ہیں:
ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رُسُل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 228
جماعتِ احمدیہ کے موجودہ امام کی طرف سے اِس عقیدہ کا اظہار
ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی متواتر اِس عقیدہ کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ 8جولائی 1952ء کے ‘‘المصلح’’ میں
ایک خط اور اُس کا جواب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہؤا۔ اِس خط کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص نے امام جماعت احمدیہ کو لکھا کہ خواب میں مجھے مرزا صاحب نظر آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ‘‘میری اُمّت کا مبلّغ بن’’۔ پھر خط لکھنے والے نے لکھا کہ ‘‘بوجہ قلّت و کمزوریٔ مال بندہ غیر مِلّت میں پھنسا ہؤا ہے۔ اِس لئے زیارت و فیض سے محروم ہے’’۔
اِس خط کا جو جواب امام جماعت احمدیہ نے دیا اور جو اسی اخبار میں شائع ہؤا ہے وہ یہ ہے:
‘‘خواب میں غلطی لگی ہے۔ مرزا صاحب کی کوئی اُمّت نہیں۔ اُمّت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہے اور مرزا صاحب خود بھی اُن کی اُمّت میں سے ہیں۔ اِس لئے یہ خواب شیطانی ہے’’۔ 229
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی حضرت مرزاصاحب ؑ کی کوئی اُمّت نہیں۔ وہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے ہیں اور اگر کسی شخص کو خواب میں بھی معلوم ہو کہ مرزا صاحب کی اُمّت ہے تو اُس خواب کو شیطانی سمجھا جائے گا، خدائی نہیں۔
حضرت مرزا صاحب نے کسی کو ‘‘کافر’’ اور ‘‘خارج از اسلام’’ نہیں کہا
دوسرا حصّہ اِس سوال کا یہ تھا کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر اور خارج از اسلام
کہا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر کہا بلکہ مرزا صاحب کے مخالفین نے مرزا صاحب ؑ کو اور اُن کی جماعت کو کافر کہا۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے 1892ء میں فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا (کادیانی) کافر ہے، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ملحد ہے، دجّال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا..... لَا شَکَّ اَنَّ مِرْزَا مُرْتَدٌّ کَافِرٌ ۔ زِنْدِیْقٌ ۔ ضَالٌّ ۔ مُضِلٌّ ۔ مُلْحِدٌ ۔ دَجَّالٌ ۔ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ’’۔230
مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ:
‘‘مرزا غلام احمد ساکن قصبہ قادیان اور اس کے جملہ معتقدین گروہ اہل سنت و الجماعت سے اور اسلام سے بالکل خارج ہیں۔ معتقدینِ مرزا کے ساتھ کوئی معاملہ شرعاً درست نہیں۔ مسلمانوں کو ضروری اور لازم ہے کہ مرزائیوں کو نہ اسلامی سلام کریں اور نہ اُن سے رشتہ و قرابت رکھیں اور نہ اُن کا ذبیحہ کھائیں نہ اُن سے محبت اور نہ اُلفت رکھیں اور نہ اُن کو اپنے اسلامی مجمعوں میں شریک ہونے دیں اور نہ اُن کی مجلسوں میں اہلِ اسلام شریک ہوں ۔ جس طرح ہندو، نصاریٰ ، یہود سے اہلِ اسلام علیحدہ رہتے ہیں اس سے زیادہ مرزائیوں سے الگ رہیں۔ جس طرح سے بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے’’۔ 231
اِسی طرح دیکھیں فتویٰ مولوی نذیر حسین دہلوی المعروف شیخ الکُل232
فتویٰ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی 233
فتویٰ مولوی عبدالحق صاحب مؤلف و مفسر حقانی 234
فتویٰ مولوی محمد اسماعیل صاحب 235
فتویٰ مولوی فقیر اللہ صاحب 236
فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی 237
مرزا صاحب کا مؤقف
ان تمام ایّام میں جب کہ علمائے کرام مرزا صاحب ؑ پر کافر اور خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ لگا رہے تھے۔
مرزا صاحب ؑ کی طرف سے بار بار درخواست کی جاتی تھی کہ مَیں مسلمان ہوں، مجھے کافر نہ کہو۔ آپ نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ‘‘اے بزرگو! ، اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے۔ غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو……… خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مَیں ایک مسلمان ہوں۔ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْبَعْثِ بَعْدَالْمَوْتِ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ حْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ فَا تَّقُوااللہَ وَ لَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُسْلِمًا وَ اتَّقُوا الْمَلِکَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔238
ترجمہ: مَیں اﷲ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتا ہوں اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ صرف ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔ پس اے لوگو! اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور مجھے یہ مت کہو کہ تُو مسلمان نہیں اور اُس خدا سے ڈرو کہ جس کے سامنے ایک دن تم نے پیش ہونا ہے’’۔
اِسی طرح فرمایا:-
‘‘یاد رہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھہراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص مع اس کی تمام جماعت کے عقائدِ اسلام اور اصولِ دین سے برگشتہ ہے۔ یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ اختراع ہیں کہ جب تک کسی دِل میں ایک ذرہ بھی تقویٰ ہو ایسے اختراع نہیں کر سکتا۔ جن پانچ چیزوں پراسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے۔ ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اﷲ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حَسْبُنَا کِتَابُ ﷲہے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشرِ اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اﷲ جلّ شانہ، نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالاحق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اوراباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے ..... اور ہم آسمان اور زمین کو اِس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعویٰ ہے کہ کب اُس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے اُن اقوال کے مخالف ہیں۔ اَلَا اِنَّ لَعْنَۃَ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ وَ الْمُفْتِرِیْنَ’’۔239
کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے
اِس قسم کی بہت سی تحریریں شائع کی گئیں لیکن علمائے کرام
کا دل نہ پسیجا اور وہ اپنے فتوؤں پر مُصِر رہے۔ جب تواتر اور تکرار کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے کُفر کے فتوے جاری رکھے تو پھر بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خیال کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ماتحت کہ جو شخص کسی کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔ کُفر کا فتویٰ لگانے والوں کو بھی کافر کہا جائے تا اُنہیں معلوم ہو کہ اس لفظ کے استعمال سے دُکھ پہنچتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اَیَّمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ کَفَّرَ رَجُلًا مُسْلِمًافَإِنْ کَانَ کَافِرًا وَ اِلَّاکَانَ ھُوَالْکَافِرُ’’۔ 240
اس انکوائری میں مولانا مودودی صاحب نے یہ بات دیکھتے ہوئے کہ فتویٰ تو ہم پر ہی اُلٹ پڑا ہے اپنے جوابات میں یہ ظاہر کیا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو کافر کہنے کی سزا ملتی ہے لیکن جس وقت اُنہوں نے یہ جواب دیا اُن کے ذہن میں غالباً یہ حدیث نہیں تھی جو ہم نے لکھی ہے۔ اُنہوں نے ایک دوسری حدیث کے الفاظ سے جس میں یہ ذکر ہے کہ کُفر دونوں میں سے ایک پر اُلٹ پڑتا ہے فائدہ اُٹھاکر یہ خیال کر لیا کہ اس جواب سے وہ اپنے فعل پر پردہ ڈال دیں گے لیکن جو حدیث ہم نے اُوپر بیان کی ہے اس میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ بھی حدیث لے لی جائے جس پر جماعتِ اسلامی نے اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھی ہے تو پھر بھی اُن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ جب کافر کہنے سے بھی انسان کافر نہیں بنتا بلکہ اُسے صرف سزا ملتی ہے تو اس سے غیر احمدی علماء کے لئے راستہ نہیں کھلتا احمدیوں کے لئے راستہ کھل جاتاہے۔
غرض احمدیوں نے کافر نہیں کہا۔ احمدیوں نے کافر کہنے والوں کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے فعل کے مناسب حال جواب دیا ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو یہ علماء اب کہہ دیں کہ کیا اُنہوں نے مرزا صاحب کے کافر کہنے سے پہلے آپ کو کافر کہا تھا یا نہیں یا کم سے کم اَب کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ جن علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا اُنہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے۔
لفظِ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ یہ علماء جب کُفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس سے مُراد بالکل اَور ہوتی ہے اور احمدیوں نے
جب کافرکہا ہے تو اس سے مُراد اُن کی وہ نہیں تھی جو کہ اِن لوگوں کی ہوتی ہے۔ احمدیوں کے نزدیک اسلام اور کُفر دونوں نسبتی الفاظ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے اسلام کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے اور کُفر کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی ایمان اور کفر کے الفاظ مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ اسلام کی ایک یہ تعریف فرماتا ہے کہ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۔241اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ تُو اُن سے کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں۔ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہؤا۔
اِس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام کے اُوپر ہوتا ہے اَور خواہ انسان کی روحانیت اعلیٰ ہو، یا نہ ہو وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے اور یہی اسلام کی جامع مانع تعریف ہے اور اس درجے کے مسلمان کہلانے والے کے لئے یہ بحث فضول ہوتی ہے کہ اس کا ایمان کس حد تک پختہ ہے اور کس حد تک پختہ نہیں۔
اِسی طرح قرآن کریم میں ایک اَور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ٞ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۔242اے مومنو! جب تم سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو۔ اور جو شخص تم کو سلام کہے اُس کو یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں۔ اگر تم ایسا کہو گے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم دُنیا کا مال چاہتے ہو۔ حالانکہ اﷲ کے پاس بہت سے اموال ہیں اور تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور تم کو ایمان کے درجے عطا کر دئے ہیں۔ تم تحقیقات کر لیا کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دِل تو الگ رہا اگر کوئی شخص اسلام کی تفصیلات سے ناواقف ہو اُس نے اسلام کے صرف ظاہری آداب سیکھے ہوں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے ظاہر کرے تب بھی اُس کو یہ کہنا کہ تُو مسلمان نہیں، جائز نہیں اور فرماتا ہے کہ جو شخص ایسے شخص کو غیر مسلم کہتا ہے وہ درحقیقت اُس کو لوٹنے کی خاطر راستہ کھولتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ نئے نئے مذہب میں داخل ہوتے ہیں اُن کی معلومات ہمیشہ کم ہؤا کرتی ہیں۔ پس جن کی معلومات زیادہ ہوں اُن کو اپنی معلومات پر فخر کر کے تھوڑی معلومات والوں پر طعنہ نہیں کرنا چاہئے۔
‘‘اسلام’’ اور ‘‘ایمان’’ کے مراتب
غرض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ایک درجہ ایمان
سے چھوٹا ہے اور ایمان کا درجہ اُس سے بڑا ہے لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسری آیات بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قسم کے اسلام کا درجہ ایمان سے بھی بڑا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسْلِمْ١ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔243جب اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ سے کہا کہ تُو اسلام لے آ۔ تو اُس نے کہا کہ مَیں ربّ العالمین کے لئے اسلام لاتا ہوں۔ حالانکہ ابراہیم ؑ نبی تھے۔ پس یہ اسلام عام اسلام سے بلکہ عام ایمان سے بھی اونچا ہے۔
اِسی طرح فرماتا ہے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا ۔244 کہ بنی اسرائیل میں بعض نبی ایسے تھے جو شریعت نہیں لاتے تھے، وہ مسلمان ہوتے تھے اور یہودیوں کو تو رات کے احکام پر چلاتے تھے۔ اِس جگہ پر بھی نبیوں کا نام مسلم رکھا گیا ہے۔ پس معلوم ہؤا کہ قرآن کے نزدیک اسلام کے دو درجے ہیں۔ ایک ایمان سے کم، ایک ایمان سے زیادہ۔ جو ایمان سے زیادہ اسلام ہے اُس سے خارج ہو کر بھی انسان ایمان کے درجے پر ہو سکتا ہے اور مسلم کہلانے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کے جامع مانع دائرہ سے باہر نہیں لیکن اس کے بر خلاف جو ایمان سے کم اسلام ہے اُس اسلام میں داخل ہو کر بھی انسان ایمان سے محروم ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں صراحتاً ذکر ہے۔
علمائے اسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے۔ چنانچہ علامہ اصفہانی لکھتے ہیں:-
‘‘اَلْاِسْلَامُ فِی الشَّرْعِ عَلٰی ضَرْبَیْنِ اَحَدُ ھُمَا دُوْنَ الْإِ یْمَانِ وَ ھُوَ الْإِعْتِرَافُ بِاللِّسَانِ وَ بِہٖ یُحْقَنُ الدَّمُ حَصَلَ مَعَہُ الْاِعْتِقَادُ اَوَلَمْ یَحْصُلْ وَ اِیَّاہُ قُصِدَ بِقولِہٖ قَالَتِ الأَ عْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا ولٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا۔والثَّانِی فَوْقَ الْاِیْمَانِ وَھُوَ اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ الْاِعْتِرَافِ اِعْتِقَادٌ بِالْقَلْبِ وَ وَفَاءٌ بِالْفِعْلِ وَ اسْتِسْلَامُ لِلّٰہِ فِیْ جَمِیْعِ مَا قَضٰی وَ قَدَّرَ کَمَا ذُکِرَ عَنْ إِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ قَوْلِہٖ اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ ﷲِ الْاِسْلَامُ وَ قَوْلُہٗ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا أَیْ إِجْعَلْنِیْ مِمَّنِ اسْتَسْلَمَ لِرِضَاکَ’’۔ 245
یعنی اسلام دینِ محمدی کی رُو سے دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلمہ پڑھنا۔ اور جان کی حفاظت اتنے سے ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے کہ قَالَتِ الْأعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا اس سے اسی طرح کے اسلام کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اُوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے علاوہ دِل میں بھی اس کا اعتقاد ہو اور عملاً بھی ایسا شخص وفاداری کا اظہار کرے اور خدا تعالیٰ کی تمام قضاؤں کے سامنے اپنے آپ کو جُھکادے۔ اسی قسم کے اسلام کی طرف حضرت ابراہیم ؑ کے اُس ذکر میں اشارہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اُن سے کہا کہ تُو اِسلام لا تو اُنہوں نے کہا مَیں رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ خدا کے لئے ایمان لاتا ہوں اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ دین اﷲ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اسی طرف اشارہ ہے اس دُعا میں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ الٰہی! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
اسلامی لٹریچر سے اِس کی تصدیق
لُغت کی اِس تشریح کے علاوہ اسلامی دینی لٹریچر سے بھی اِس اصطلاح کی
تصدیق ہوتی ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ صَلّٰے صَلٰوتَنَا وَ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ ﷲ وَ ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ فَلَا تَخْفَرُوا اللہَ فِیْ ذِمَّتِہٖ۔ 246جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے۔ ہمارے قبلے کی طرف مُنہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے اور اﷲ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے۔ پس اے مسلمانو! اُس کوکسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اُس کے عہد میں جھوٹا نہ بناؤ۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثَلَاثٌ مِنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ أَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا الٰہ اِلَّا ﷲ لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَّ لَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ۔ 247 ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تُو اُس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر، اُس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں أَلْاِسْلَامُ عَشَرَۃُ أَسْھُمٍ وَقَدْ خَابَ مَنْ لَا سَھْمَ لَہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اللہُ وَھِیَ الْمِلَّۃُ۔ 248اسلام کے دس حصّے ہیں جس شخص کے حصّے میں ایک حصّہ بھی نہ آیا ہو وہ تباہ ہو گیا۔ پہلا حصّہ یہ ہے کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی دے۔ یعنی جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہہ دیتا ہے وہ ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے۔
اِسی طرح بخاری کتاب الایمان میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے دریافت فرمایا کہ أَتَعْلَمُوْنَ مَا الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَ حْدَہٗ ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کی کیا تعریف ہے؟اُنہوں نے کہا کہ اﷲ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا شَھَادَۃُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔ ایمان یہ ہے کہ انسان اپنے مُنہ سے لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کہہ دے۔
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ مَنِ انْتَقَصَ مِنْھُنَّ شَیْئًا فَھُوَ سَھْمٌ مِنْ سِھَامِ الْاِسْلَامِ تُرِکَ وَمَنْ تَرَکَھُنَّ کُلَّھُنَّ فَقَدْ تَرَکَ الْاِسْلَامَ 249 کہ اسلام کے کئی حصّے ہیں جس نے ان حصّوں میں سے کوئی حصّہ کھو دیا اُس نے اسلام کے حصّوں میں سے ایک حصّہ کھو دیا اور جس نے سارے حصّے کھو دیئے اُس نے سارا اسلام کھو دیا۔
ان حدیثوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک اسلام محض لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور ملت اسلامیہ اسی کا نام ہے جو شخص لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہہ دے وہ ملت اسلامیہ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جو شخص اسے ملتِ اسلامیہ ے خارج قرار دے وہ خدا اور رسول پر ظلم کرتا ہے اور انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے۔ ان معنوں میں ہم نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا بلکہ سارے کے سارے مسلمان فرقوں کو ہم ملتِ اسلامی کا جزو قرار دیتے رہے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کا قول ہے کہ ‘‘إِنْکَارٌ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ ھُوَ بِہٖ کُفْرٌ وَلَیْسَ کَمَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۔ 250اﷲ تعالیٰ کی کسی وحی یا الہام کا انکار کفر تو ہے لیکن وہ ایسا کفر نہیں جیسے اﷲ، ملائکہ، کتب اور رسل کا کفر ہوتا ہے۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اَلْکُفْرُ کُفْرَانِ أَحَدُ ھُمَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ وَالْآخَرُلَا یَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّۃِ۔ 251 یعنی کفر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک کفر ملت سے نکال دیتا ہے اور دوسرا کفر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ وَحَقِیْقَۃُ الْاَمْرِ انْ منْ لَمْ یَکُنْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ حَقًّا یُقَالُ فِیہِ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ وَ مَعَہٗ اِیْمَانٌ یَمْنَعُہُ الْخُلُوْدُ فِی النَّارِ۔ وَھٰذَا مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ اَھْلِ السُّنَّۃ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پورا مومن نہ ہو مگر پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ وہ مسلم ہے اور تمام اہل سنت اس پر متفق ہیں۔ لٰکِنْ ھَلْ یُطْلَقُ عَلَیْہِ اِسْمُ الْاِیْمَانِ ھٰذَا ھُوَالَّذِیْ تَنَازَعُوْا فِیْہِ فَقِیْلَ یُقَالُ مُسْلِمٌ وَلَا یُقَالُ مُؤْمِنٌ۔ 252لیکن یہ سوال کہ کیا اس پر لفظ ایمان بھی بولا جائے گا یا نہیں اور اسے ہم مومن بھی کہیں گے یا نہیں؟ یہ بات ایسی ہے جس میں علماء میں اختلاف ہوتے رہے۔ چنانچہ بعض نے کہا ہے کہ اسے مسلم تو کہیں گے مگر مومن نہیں کہیں گے۔
‘‘ملّتِ اسلامیہ’’ میں شامِل ہونے کے لئے صرف کلمہ ضروری ہے
اِن تمام حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لئے صرف کلمے کا پڑھنا کافی
ہے۔ باقی کوئی امر ایسا نہیں ہے کہ جو ملّتِ اسلامی میں شمولیت کے لئے ضروری ہو۔ اگر باقی ضروری اُمور کا کوئی انکار کرتا ہے تو ہم اُسے غیر مؤمن کہہ لیں گے، ناقص الایمان کہہ لیں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ ان اُمور کی وجہ سے وہ ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہو گیا ہے۔ ہاں چونکہ ایک اسلام ایمان سے بھی اُوپر ہے اِس کے لحاظ سے ایک شخص کو جس میں کوئی بڑا دینی نقص پایا جائے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص اسلام سے خارج ہو گیا ہے مگر اس سے مراد ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہونا نہیں ہو گا۔ اِس سے صرف یہ مراد ہو گا کہ وہ ایمان کے بڑے درجوں سے محروم ہے۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہٗ وَھُوَ یَعْلَمُ أَنَّہٗ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ’’۔ 253 جو شخص ظالم کی جانتے بوجھتے ہوئے مدد کی کوشش کرے اور اُسے علم ہو کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
اس حدیث میں ایسے شخص کو جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے خارج عَنِ الْاِسْلَام قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ متعدد مواقع پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماچکے ہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُکہنے سے انسان ملّتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی اور گُناہ اُسے ملّتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔ ان حدیثوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام قرار دیا تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ ایمان کے بعض مدارج سے یہ شخص محروم ہے اور جب کسی شخص کو ملّتِ اسلامیہ میں داخل قرار دیا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اُس کے اندر ایمان کے تمام مدارج کامل طور پر پائے جاتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلامک باڈی پولٹکس (ISLAMIC BODY POLITICS) کا ممبر ہو گیا ہے اور اگر ہم نے کسی شخص کو مؤمن یا کافر کہا ہے تو انہی معنوں کی رُو سے کہا ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا عقیدہ
حضرت ابو حنیفہ ؒ بھی اسی عقیدہ پر قائم تھے جو ہم نے اُوپر بیان کیا ہے۔ چنانچہ کتاب
معین الحکام مصنفہ ابو الحسن طرابلسی میں جو جماعتِ اسلامی کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور جس کے حاشیہ والی کتاب سے انہوں نے سند لی ہے اس کے صفحہ202 پر امام طحاوی، حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور ان کے ساتھیوں سے روایت کرتے ہیں کہ لَا یَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَ الْاِیْمَانِ إِلَّا جُحُوْد مَا أَدْخَلَہٗ فِیْہِ۔254 یعنی حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ مذہب تھا کہ ایمان سے کوئی چیز کسی کو خارج نہیں کرتی سوائے اُس چیز کے دیدہ دانستہ انکار کے جس نے اُس کو اسلام میں داخل کیا تھا۔ یعنی کلمہ شہادت، مطلب یہ ہے کہ جب تک کلمہ شہادت کا کوئی شخص دیدہ دانستہ انکار نہ کرے اُس وقت تک کوئی چیز اس کو اسلام سے خارج نہیں کرتی۔ پھر امام طحاوی کا جو حنفیوں میں مجتہد المذہب کی حیثیت رکھتے ہیں یہ مذہب بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں نہ تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس قسم کا مرتد ہو گیا ہے کہ اس پر مرتدین کے احکام جاری کر دیئے جائیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایسے احکام جاری نہیں ہو سکتے کیونکہ کلمہ پڑھنے سے اس کا اسلام ثابت ہو چُکا تھا۔ اب کسی شک کی وجہ سے اس کو اسلام سے نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ اسلام ہمیشہ غالب رہتا ہے اور وہ عالم جس کے پاس ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا جائے اس کو چاہئے کہ کسی مسلمان پر جو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ چُکا ہے کُفر کا فتویٰ لگانے میں جلدی نہ کرے لیکن کُفّار میں سے اگر کوئی شخص کلمہ پڑھے تو اُس کے اسلام کا فتویٰ دے۔
ہمیں تعجب ہے کہ اُنہوں نے اس کتاب کے حاشیہ پر چھپی ہوئی ایک کتاب سے حوالہ درج کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ مذہب تھا کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اُس سے جو شخص معجزہ مانگے وہ کافر ہو جاتا ہے۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس حوالہ کے پیش کرنے میں اُنہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ یہ مذہب مصنف کتاب کا بیان کیا گیا ہے، امام ابو حنیفہ ؒ کا بیان نہیں کیا گیا اور پھر مصنف کتاب کے نزدیک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے سوال کرے کہ اگر وہ معجزہ نہ دکھاسکے گا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر نہیں ہوتا۔ 255
جس سے یہ احتمال نظر آتا ہے کہ اگر وہ معجزہ دکھا دے گا تو اس کی نبوت ثابت ہو جائے گی اس لئے اس کے کُفر کا سوال ہی نہیں رہے گا۔ اِسی مصنفِ کتاب کا مذہب صفحہ205 پر بیان کیا گیا ہے کہ إِذَا کَانَ فِی الْمَسْئَلَۃِ وُجُوْہٌ تُوْجِبُ التَّکْفِیْرَ وَوَجْہٌ وَاحِدٌ یَمْنَعُ فَعَلَی الْمُفْتِیْ أَنْ یَّمِیْلَ اِلٰی ذٰلِکَ الْوَجْہِ۔یعنی اگر کسی شخص کے کافر بنانے میں بہت سی وجوہ پائی جاتی ہوں لیکن ایک وجہ تکفیر سے روکتی ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ اس ایک وجہ کی طرف مائل ہو جو اُس کو کافر بنانے سے روکتی ہے اور اُن وجوہ کی طرف توجہ نہ کرے جو اُسے کافر بنانے کی تائید کرتی ہیں۔
ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا یہ مذہب ہے کہ جو چیز کسی کو اسلام میں داخل کرتی ہے وہی اُس کو اسلام میں قائم رکھتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص شک کی وجہ سے انکار بھی کر دے تب بھی وہ اس کے ہوتے ہوئے اسلام سے نہیں نکلتا۔ اس کی تشریح لسان الحکام میں جس سے جماعت اسلامی نے حوالہ لیا ہے یہ کی گئی ہے کہ:-
‘‘قدوری کتاب کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دہریہ ہو یا بُت پرست ہو یا خدا کو مانتا ہو لیکن ساتھ اس کے اور بھی خدا مانتا ہو تو ایسا شخص اگر صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہہ دے تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے یا کہہ دے کہ میں محمد صاحب کو اﷲ کا رسول مانتا ہوں تو وہ اسلا م میں داخل ہو جاتا ہے کیونکہ اسلام کے منکر اِن کلموں کے کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔ پس جب ان دونوں حکموں میں سے کسی ایک کلمہ کا بھی وہ اظہار کر دے تو پھر اُس کو غیر مسلم نام سے نکالا جائے گا اور اُسے مسلمان قرار دے دیا جائے گا’’۔ 256
غیر احمدی علماء کے نزدیک لفظ ‘‘ کافر’’ کا مفہوم
غیر احمدی علماء تو جب ہم کو کافر کہتے
ہیں تو اس کے یہ معنے بھی کرتے رہے ہیں کہ ہم جہنمی ہیں لیکن ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہنم اُن لوگوں کو ملے گی جو کہ دیدہ دانستہ شرارت سے سچائیوں کا انکار کرتے ہیں۔ کلمہ کا مُنہ سے پڑھنا تو انسان کو صداقت سے بہت کچھ قریب کر دیتا ہے ۔ جو شخص انبیاء و کتب کا بھی مُنکر ہے اُس کا انکار بھی اگر دیانتداری کے ساتھ ہے اور اُس پر خدا کی حجت تمام نہیں ہوئی تو ہمارے نزدیک تو وہ شحص رحم کا مستحق ہے اور جو اسلامی آئیڈیالوجی ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 257 میری رحمت ہر چیز کو ڈھانپے ہوئے ہے اور فرماتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 258 مَیں نے سارے انسانوں کو اپنا مثیل ہونے کے لئے بنایا ہے اور اپنا عبد ہونے کے لئے بنایا ہے اور اﷲ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْۙ۔وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ۔259 جو میرے عبد ہوںوہ میری جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مسلمان اس دُنیا میں باقی مذاہب کے مقابلہ میں تیسرا یا چوتھا حصّہ ہیں۔ پھر ان میں سے ہزار میں سے ایک یا اس سے بھی کم بقولِ مودودی صاحب اسلام سے قطعی طور پر ناواقف ہیں اور رسوماتِ کُفر میں مُبتلا ہیں۔ 260
تو گویا دُنیا کی کُل آبادی میں سے چالیس ہزار آدمی اسلام سے واقف ہے۔ پھر ان میں سے بھی معلوم نہیں سچے مسلمان کتنے ہیں اور دکھاوے کے کتنے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا میں اسلام پر عمل کرنے والے لوگ ہزار میں سے کوئی ایک ہے۔ اگر ان سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جانا ہے تو رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے کیا معنے ہیں اور مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ کے کیا معنے ہیں۔ پھر تو خدا ہارا اور شیطان جیتا اور مقصدِ پیدائشِ عالم باطل ہو گیا۔ اِسلام کی رُو سے تو درحقیقت دُنیا کے مختلف تغیرات اور زمانہ برزخ اور یوم حشر اور زمانہ دوزخ یہ سب کے سب انسان کو صفائی اور پاکیزگی اور نجات کی طرف لے جارہے ہیں اور تمام کے تمام انسان ہی خدائی رحمت کے نیچے آجائیں گے اور خدا کی بات پوری ہو جائے گی کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ اور رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ یَاْ تِیْ عَلٰی جَہَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ وَ نَسِیْمُ الصَّبَاتُحَرِّکُ اَبْوَابَھَا۔261 یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہوائیں اس کے دروازے ہلا رہی ہوں گی اور اس جیل خانے کے دروازے کھول دئیے جائیں گے کیونکہ اس کے اندر کوئی قیدی باقی نہیں رہے گا۔
ہم نے کبھی کُفر کا لفظ اُن معنوں میں استعمال نہیں کیا جن معنوں میں مولوی استعمال کرتے ہیں۔ ہم تو خدا کو رحیم و کریم سمجھتے ہیں۔ اس کی بخششوں کو روکنے والا کون انسان ہے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے چند اور حوالے
ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے اُس کی تائید میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے
چند حوالے پیش کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کُفر سے پہلے شائع ہؤا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے’’۔ 262
اِسی طرح آپ فرماتے ہیں:-
‘‘یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے۔ پھر جبکہ قریباً دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور اُنہی کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مؤمن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے۔ تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخمِ دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ اِن مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا۔ تب مَیں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا’’۔ 263
یہ حوالہ بالکل اس حدیث کے مطابق ہے جو کہ اُوپر نقل کی جاچکی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘کُفر دو قسم پر ہے۔ (اوّل)ایک یہ کُفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم)دوسرے یہ کُفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمامِ حُجّت کے جھوٹا جانتا ہے’’۔ 264
اسلام کی تعریف
اِسی طرح اسلام کی تعریف بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِن الفاظ میں فرمائی ہے کہ :-
‘‘عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے’’۔ 265
اِسی طرح جزا و سزا کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحکیم میرے متعلق لکھتا ہے کہ گویا مَیں نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شخص جو میرے نام سے بھی بے خبر ہو گا اور گو وہ ایسے مُلک میں ہو گا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا۔ آپ فرماتے ہیں یہ سرا سر افتراء ہے۔ مَیں نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا اور پھر فرماتے ہیں کہ :-
‘‘یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی۔ جو شخص بکلّی نام سے بھی بے خبر ہے اُس پر مؤاخذہ کیوں کر ہو سکتا ہے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ مَیں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں۔ پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمامِ حجّت ہو چُکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چُکا ہے وہ قابلِ مؤاخذہ ہو گا’’۔ 266
اِسی طرح آپ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ماسوا اِس کے اگر فرض کے طور پر کوئی ایسا شخص دُنیا میں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اور ایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دُنیا کے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اُس کا حساب خدا کے پاس ہے’’۔ 267
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے وضاحت
موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ نے بھی اِس کے متعلق وضاحت کی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘باقی ہم میں اور اُن میں تو کُفر کی تعریف میں اختلاف بھی بہت سا پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ کُفر کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا انکار حالانکہ ہم یہ معنے نہیں کرتے اور نہ کُفر کی یہ تعریف کرتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اسلام کے ایک حد تک پائے جانے کے بعد انسان مسلمان کے نام سے پُکارے جانے کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے لیکن جب وہ اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے مگر کامل مسلم اُسے نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ تعریف ہے جو ہم کُفر و اسلام کی کرتے ہیں اور پھر اس تعریف کی بناء پر ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہر کافر دائمی جہنمی ہوتاہے’’۔ 268
آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:-
‘‘اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے۔ اُن کا کُفر تو ایسا ہے جیسے سُرمے والا سُرمہ پیستا ہے۔ وہ بھی جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُس کا مطلب یہ ہؤا کرتا ہے اُسے پیس کر رکھ دیں۔ کہتے ہیں کہ وہ جہنمی ہے اور ابدی دوزخ میں پڑے گا ..... پس ہماری کُفر کی اصطلاح ہی اَور ہے اور اُن کے کُفر کی اصطلاح اَور۔ ہمارا کُفر تو اُن کے کفر کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سُورج کے مقابل پر ذرّہ ہو۔ پس اِس پر اُنہیں غُصّہ کیوں آتا ہے۔ آجکل بڑے زور سے کہا جاتا ہے کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں۔ اگر وہ سچّے ہیں تو ثابت کریں کہ پہلے ہم نے اُنہیں کافر کہا ہو۔ اگر وہ ذرا بھی غور کریں گے تو اُنہیں معلوم ہو گا کہ پہلے اُنہوں نے ہی ہمیں کافر کہا ہم نے کافر نہیں کہا۔ گو اِس رنگ میں بھی اُن کے کُفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے لیکن بہرحال اُن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ دیکھیں۔ پہلے اُنہوں نے ہمیں کافر کہا اور ہم پر کُفر کے فتوے لگائے یا ہم نے اُن کو کافر کہا؟’’۔269
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعتِ احمدیہ کے نزدیک بھی کُفر دوقسم کا ہے۔ ایک کُفر کے باوجود انسان مسلمان کہلاتا ہے اور وہ ملّتِ اسلامیہ میں شامل ہوتا ہے اور دوسرے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے جو کچھ کہا جواب میں کہا ہے۔ اصل ذمہ دار علماء ہیں جنہوں نے ہم کو پہلے کافر کہا۔ لفظِ کُفر کی حقیقت احمدیہ جماعت کے نزدیک محض حجت اور عدمِ حجت کے متعلق ہے۔ کُفر کے عواقب خدا تعالیٰ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جو غیر احمدی علماء بتاتے ہیں اُن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدا دو ہیں۔ ایک مؤمنوں کا خدا اور ایک کافروں کا خدا۔ حالانکہ خدا تو ایک ہی ہے۔ ایک باپ کے دوبیٹوں میں سے ایک فرمانبردار ہوتا ہے اور ایک نافرمان لیکن ہوتا بیٹا ہی ہے۔ نافرمان ہو جانے سے باپ کے دل سے اُس کی محبت نہیں جاسکتی اور وہ اُس کی بہتری کے لئے کوشش کرنے سے باز نہیں رہتا۔ اگر خدا مسلمانوں اور کافروں کا ایک ہی ہے تو یہی کیفیت اُس کی بھی ہونی چاہئے۔ کافر کے معنے محض اتنے ہیں کہ وہ اُس کا بیمار بندہ ہے جس کے دل میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ مگر ‘‘اُس’’ کا ہونے اور اُس کا ‘‘بندہ’’ ہونے میں تو کوئی فرق نہیں آتا۔ پس کسی مذہب میں کسی شخص کو کافر کہنے کے بعد جو اُس کے لئے سزا اور جزا تجویز کی گئی ہے اُس کو مدِّ نظر رکھے بغیر ہم اُس قوم کے کُفر کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اِس بات کا پتہ کہ اسلام کے کون سے فرقے پیدائشِ عالم کی غرض کو مدِّنظر رکھتے ہیں اِسی سے مِل سکتا ہے کہ کُفر کی جو تشریح وہ کرتے ہیں آیا وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے مطابق ہے یا اُس کے مخالف ہے۔ پس اِس بات کو واضح کرنے کے لئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے کُفر کی سزا کے متعلق یوں لکھا ہے:-
‘‘اِسلام اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کافر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے آخر جنت کو پا لے گا۔ قرآن نجات کے بارہ میں وزنِ اعمال پر زور دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اُس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص سچی کوشش کرتا ہؤا مَر جاتا ہے وہ اُس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے ..... اگر ایک شخص نیکی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مَر جاتا ہے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا مستحق ہے سزا کا مستوجب نہیں۔ کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اِس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے’’۔ 270
پھر وہ لکھتے ہیں:-
‘‘بات یہ ہے کہ اصل چیز محبتِ الٰہی ہے اور یہ رستہ شریعت نے اُسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اﷲ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی محبت سے لبریز ہو گا....... یہ انعام اُسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اﷲتعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا اور جو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود محبتِ الٰہی کی آگ اپنے اندر رکھتا ہو گا اور یقینا جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اُسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اُس کی نجات کا سامان پیدا کردے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کر کے اُسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا’’۔271
اِسی طرح امامِ جماعتِ احمدیہ لکھتے ہیں کہ:-
‘‘جنت صرف مُنہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں۔ جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ اِسی طرح دوزخ صرف مُنہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں۔ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اُس پر حُجّت تمام نہ ہو۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا ہی مُنکر کیوں نہ ہو۔ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مَر جانے والے یا بُلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڈھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں اِن لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہوگابلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن اِن لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا’’۔ 272
اِس حوالہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی اُس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو رُوح المعانی میں مروی ہے۔ 273
پھر لکھا ہے:-
‘‘نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اُس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اُسے ماننی نہ پڑے۔ یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ مؤاخذہ ہے’’۔ 274
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ موجودہ امامِ جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان ایسے کافر نہیں جو ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہوں اور اُن کے نزدیک نجات کا تعلق محبتِ الٰہی پر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اندر محبتِ الٰہی رکھتا ہے تو اگر اُس کے اندر کچھ غلطیاں بھی ہیں اور بعض قسم کا کُفر بھی پایا جاتا ہے تب بھی اﷲ تعالیٰ اُس کی نیک نیتی کو دیکھ کر اور اُس کی محبت کے جذبات کو دیکھ کر اُس کی بخشش کے کوئی نہ کوئی سامان کر دے گا۔
جماعتِ احمدیہ کی طرف سے لفظِ کافر کا کم سے کم استعمال
اِس جگہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب کہ احمدی جماعت کُفر کے معنے بھی اور کرتی تھی اور ان الفاظ کو صرف جواباً استعمال کرتی تھی تو
پھر کیوں اُن کی طرف سے کوشش نہیں ہوئی کہ ان الفاظ کا استعمال کم کیا جائے یا روکا جائے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایسی کوشش ہوتی رہی ہے۔ چنانچہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب ‘‘انجام آتھم’’ میں اِس تحریک کو پیش کیا تھا کہ:-
‘‘نہ ہمیں غیر احمدی علماء گالیاں دیں نہ ہم اُن کا جواب دیں اور اس طرح سات سال تک خاموشی سے گزار دیں۔ اِس عرصہ میں خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے اور ان دنوں میں مجھے اسلام کے دُشمنوں سے مقابلہ کرنے کی مُہلت دی جائے۔ اگر مَیں اِن ایّام میں اسلام کی کوئی عظیم الشان خدمت کر لوں تو خود مسلمانوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ مَیں اسلام کا خادم ہوں، دُشمن نہیں اور اگر مَیں ایسا نہ کر سکوں تو پھر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مَیں اسلام کا خیر خواہ نہیں’’۔275
اِسی طرح 26فروری 1899ء کو آپ نے ایک اعلان اپنی جماعت کے نام شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ:-
‘‘کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں کہ یہ کافر ہے یا دجّال ہے یا کذّاب ہے یا مُفتری ہے...... ہم نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ٢٧ میں شیخ محمد حسین اور اُس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صُلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے مُنہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اُس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجّال کہنے سے باز آجائیں۔ یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑاجس کو ہم صلحکاری کے طور سے چاہتے تھے’’۔276
یہ دوسری کوشش تھی۔ مگر اس کے باوجود غیر احمدی علماء اپنی کُفر بازی سے باز نہ آئے۔ اِس کے بعد 1910ء میں جماعت احمدیہ میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا اور کچھ احمدیوں نے غیر احمدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مرزا صاحب کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہا کہ اُن کا وجود اور عدمِ وجود برابر ثابت ہوتا تھا۔ تب جماعت احمدیہ کے اُس حصّہ نے جو کہ مرزا صاحب کی آمد کو اہم قرار دیتا تھا اُن اصطلاحات کے مطابق جو کہ احمدیوں میں پائی جاتی ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا جاچُکا ہے اِس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن اُس وقت اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی وقت یہ باہمی گُفت و شُنید پبلک میں افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ بنائی جائیگی لیکن یہ گفت و شنید بھی 1922ء تک ختم ہوگئی۔ 1922ء کے بعد کوئی کتاب امامِ جماعت احمدیہ کی طرف سے ایسی نہیں نکلی جس میں اس مضمون کے متعلق اظہارِ خیالات کیا گیا ہو۔ اگر کوئی تحریر شائع ہوئی ہے تو وہ صلح کی تائید میں شائع ہوئی ہے۔ چنانچہ امامِ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ایک تحریر ‘‘ریویو آف ریلیجنز اُردو’’ جولائی 1922ء میں شائع ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:-
‘‘جو شخص غیر احمدیوں کو کافر، یہودی اور جاہل بِلا ضرورت کہتا پھرتا ہے وہ درحقیقت شریعت کا مجرم اور فتنہ انگیز ہے۔ اگر غیراحمدی اُس کے نزدیک کافر ہیں تو اُس کو یہ کہاں سے حق حاصل ہو گیا کہ وہ اُن کو کافر کہتا پھرے..... بِلا وجہ اور بے ضرورت اِس قسم کے مضامین اخبار میں نکالنا اور زبانی کہتے پھرنا واقع میں فتنہ کا مؤجب ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو مَیں اُس کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق کو درست کرے ورنہ وہ خدا کے نزدیک گنہگار ہے’’۔
اِسی طرح یکم مئی 1935ء کو آپ کا ایک خطبہ الفضل میں چَھپا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ:-
‘‘اب بھی ہمیں کس طرح بار بار اُن کی طرف سے کافر کہا جاتا ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے۔ کیا ہمارے اخبارات میں بھی لکھا جاتا ہے کہ احراری کافر ہیں؟ ہم تو کہتے ہیں جو کسی کو بِلا وجہ کافر کہتا ہے وہ اُس کی دِل آزاری کرتا ہے’’۔
پس ہماری طرف سے برابر یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ ان الفاظ کو استعمال نہ کیا جائے لیکن احرار اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے ان الفاظ کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ الفاظ جو کسی زمانہ میں صرف جواباً استعمال کئے گئے تھے اور جو گزشتہ پچاس برس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی استعمال نہیں کئے گئے اشتعال دلانے کے لئے اُن کا باربار ذکر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی کو پیٹھ پیچھے گالی دی اور دوسرے شخص نے وہ گالی اُس کو پہنچا دی تو اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کسی شخص کو تیر مارا اور وہ لگا نہیں لیکن دوسرے شخص نے وہ تیر اُٹھایا اور اُس کے سینہ میں گھونپ دیا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
علماء کا شغلِ تکفیر
اسلام اور کُفر کے بارہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صرف یہی بات نہیں کہ غیر احمدیوں نے احمدیوں کو کافر کہا
جس کے نتیجہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد احمدیوں کو جواب دینا پڑا اور اس جواب میں بھی وہ بہت محتاط رہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کو کافر کہنے کی رسم علماء میں بہت دیر سے چلی آتی ہے۔ چنانچہ اسلامی بنیادی اصول کے مضمون میں ہم بتا چکے ہیں کہ شروعِ زمانۂ اسلام سے علماء بزرگانِ اسلام کو کافر کہتے آئے ہیں۔ اب ہم چند حوالے اس بارہ میں دیتے ہیں کہ زمانۂ قریب میں بھی سُنّیوں نے شیعوں کو خارج از اسلام قرار دیا ہے اور اُن کے ساتھ مناکحت حرام، اُن کا ذبیحہ حرام، اُن کا جنازہ حرام بلکہ اُن کا سُنّی کے لئے جنازہ پڑھنا بھی حرام قرار دیا ہے۔ 277
اِسی طرح شیعہ حضرات کا فتویٰ سُنّیوں کے متعلق ہے کہ وہ سب غیر ناجی ہیں۔ خواہ شہید ہی کیوں نہ ہوں۔ 278
تمام سُنّی جو آئمہ ٔ اہلِ بیت پر ایمان نہیں لاتے کافر ہیں۔ 279
دیو بندی علماء نے مولوی ابو الحسنات صاحب کے والد اور ان کے پیر مولوی احمد رضا خان صاحب کی نسبت یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ اور اُن کے اتباع کافر ہیں۔ اور جو انہیں کافر نہ کہے یا اُن کے کافر کہنے میں کسی وجہ سے بھی شک کرے وہ بھی بِلا شُبہ قطعی کافر ہے۔280
اب مولانا میکش خود بتائیں کہ اُن کے پیر مولوی احمد رضا خان صاحب اور اُن کے ماننے والوں کے کُفر میں آیا اُن کو کوئی شک ہے یا نہیں اور اسی فتویٰ میں وہ دیو بندیوں کو سچّا سمجھتے ہیں یا جھُوٹا؟
بریلوی علماء نے بھی کمی نہیں کی۔ وہ فتویٰ دیتے ہیں کہ دیو بندی علماء سب مسلمانوں کے اجتماعی فتویٰ سے کافر ہیں۔ مرتد اور اسلام سے خارج ہیں۔ 281
اِس فتویٰ میں حرمین کے علماء بھی شامل ہیں۔ نہ معلوم میکش صاحب اِس فتویٰ کے بعد جو اجماعی ہے اپنے پہلو میں بیٹھنے والے دیو بندی علماء کی نسبت کیا فتویٰ دیتے ہیں اور اجماع کی کیا قیمت لگاتے ہیں۔
مولانا ابو الحسنات اور میکش صاحب تو آج کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں پر کُفر کا فتویٰ اصلی ہے اور باقی فرقوں پر رسمی۔ مگر احمد رضا خان صاحب بریلوی اور علماء حرمین اپنے فتویٰ میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اور دیو بندی علماء کا نام اکٹھا لکھتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں کہ یہ وہابی یعنی دیوبندی اُوپر کے گنائے ہوئے لوگوں میں سے سب سے بڑے کافر ہیں۔ 282
اہلِ حدیث کے بارہ میں سُنّی علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ مُرتد ہیں اور باجماعِ اُمّت اسلام سے خارج ہیں۔ 283
اہلِ حدیث نے مقلدین کی نسبت لکھا ہے حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی، چشتیہ، قادریہ، نقشبندیہ، مجدّدیہ سب لوگ مُشرک اور کافر ہیں۔ 284
لیکن باوجود اِس کے اِس کُفر کے نتیجہ میں کبھی بھی کسی کو اقلیت قرار دینے یا مسلمانوں کے جائز حقوق سے محروم قرار دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ چنانچہ سب سے پہلی مثال تو اُن مرتدین کی ہے جن کو خود قرآن کریم نے کافر قرار دیا ہے۔ منافقوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا۔285یعنی منافق پہلے ایمان لائے پھر کافر ہو گئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے اور پھر کُفر میں اَور بھی بڑھ گئے لیکن باوجود اِن صریح الفاظ کے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں منافقوں کو اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ وہ آخر تک مسلمانوں میں شامل رکھے گئے، ان سے مشورے لئے جاتے رہے اور اُن کو تمام اسلامی کاموں میں شریک رکھا گیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ خدا کسی کو کافر کہتا تو وہ محض کلمہ پڑھنے کی وجہ سے باوجود خدا کے حُکم کے اسلامی حقوق سے محروم نہیں رکھا جاتا لیکن یہ علماء جس کو کافر کہیں وہ باوجود کلمہ پڑھنے کے اور قسمیں کھانے کے کہ مَیں مسلمان ہوں، اِسلامی حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔
دوسری مثال اس امر کے متعلق خوارج کی ہے۔ خوارج کے متعلق رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں قَوْمٌ یُحْسِنُوْنَ الْقِیْلَ وَ یُسِیْئُوْنَ الْفِعْلَ یَقْرَءُ وْنَ الْقُرْاٰنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیْھِمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ مَرُوْقَ السَّھْمِ مِنَ الرَّمِیَّۃِ’’۔ 286 یعنی مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی پیدا ہو گی جو باتیں کرنے میں تو بڑی اچھی نظر آئے گی لیکن اُن کے افعال نہایت نا پسندیدہ ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن اُن کے گلے سے نہیں اُترے گا اور وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانہ سے نِکل جاتا ہے۔
تاریخ سے ظاہر ہے کہ تمام صحابہ رضی اﷲ عنہم اس پر متفق تھے کہ یہ حدیث خوارج کے متعلق ہے لیکن باوجود اس کے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو کافر کہا پھر بھی اُن کو اسلامی حقوق سے محروم نہیں رکھا گیا۔ اُنہوں نے حضرت علی رضی اﷲعنہ سے جنگ کی اور لازماً سیاسی طور پر اُن سے جنگ کرنی پڑی لیکن جب ان کو شکست ہوئی اور اُن کے آدمی قید ہوئے تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اُن کے ساتھ کافر جنگ کرنے والوں کا سلوک نہیں کیا بلکہ مسلمانوں والا کیا۔ چنانچہ ابن قتیبہ’’ کتاب الامامت و السیاست’’ میں لکھتے ہیں: اَخَذَ عَلِیٌّ مَا کَانَ فِیْ عَسْکَرِھِمْ مِنْ کُلِّ شَیْ ءٍ فَاَمَّا السِّلَاحَ وَالدَّوَابَّ فَقَسَّمَہٗ عَلِیٌّ بَیْنَنَا وَ اَمَّا الْمَتَاعَ وَالْعَبِیْدَ وَالْاِ مَاءَ فَاِنَّہٗ حِیْنَ قَدِمَ الْکُوْفَۃَ رَدَّہٗ عَلٰی اَھْلِہٖ۔ 287 حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے خوارج کے لشکر کی تمام چیزوں پر قبضہ کر لیا۔ ہتھیار اور جنگی سواریاں تو لوگوں میں تقسیم کروائے لیکن سامان و غلام اور لونڈیوں کو کُوفہ واپس آنے پر اُن کے مالکوں کو لَوٹا دیا۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اُن کے قیدیوں کو غلام نہیں بنایا گیا۔ نہ مَردوں کو، نہ عورتوں کو، نہ بچوں کو اور اُن کی جائدادیں ضبط نہیں کی گئیں، حالانکہ وہ باغی تھے۔ صرف اسلام کے نام کی وجہ سے اور کلمہ پڑھنے کی وجہ سے حضرت علی رضی اﷲعنہ نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اُن کو کافر قرار دینے کے باوجود اُن کے قیدیوں کو آزاد کر دیا، عورتوں کو آزاد کر دیا، بچوں کو آزاد کر دیا اور اُن کے سامان اُن کو واپس کر دیئے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہو تو اُس پر کُفر کا فتویٰ لگنے کے باوجود اُسے اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔288
علماء کا ایک اَور اعتراض اور اُس کا جواب
علماء کہتے ہیں کہ احمدی جھُوٹ بولتے ہیں۔ اُن
کے دِل میں کچھ اَور ہے اور ظاہر کچھ اَور کرتے ہیں۔ اندر سے یہ اسلام کے مخالف ہیں۔ یہ مسئلہ بھی نیا نہیں۔ یہ مسئلہ بھی اسلام میں زیر بحث آچُکا ہے۔ سب سے پہلا جواب تو اِس اعتراض کا یہ ہے کہ رسُول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُسامہ رضی اﷲ عنہ سے جنہوں نے ایک شخص کو باوجود لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ کہنے کے لڑائی میں قتل کر دیا تھا۔ ناراض ہو کر کہا کہ اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ اَقَالَھَا اَمْ لَا۔ 289 تُو نے اُس شخص کا دِل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا کہ آیا اُس نے دھوکا دینے کے لئے یہ کلمہ کہا تھا یا سچّے دل سے۔
دوسرا جواب اِس کا یہ ہے کہ انسان تو انسان ہیں اﷲ تعالیٰ نے بھی جو دِلوں کے راز جاننے والا ہے جب منافقوں کو کافر کہا اور بتایا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اُن کے دلوں میں وہ بات نہیں جو وہ مُنہ سے کہتے ہیں تو بھی منافق لوگ اسلامی حقوق سے محروم نہیں کئے گئے۔ اسلام کا یہ فتویٰ ہے کہ جب کوئی شخص مُنہ سے کہہ دے کہ مَیں مسلمان ہوں تو وہ اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ امام شافعی ؒ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ایک شخص کے متعلق حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ یہ شخص دل سے مسلمان نہیں صرف ظاہر میں مسلمان ہے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ تم ظاہر میں مسلمان ہوئے ہو اور اصل میں مسلمان نہیں ہو۔ تمہاری غرض اسلام لانے سے صرف یہ ہے کہ تم اسلامی حقوق حاصل کرو۔ اُس نے اس کے جواب میں حضرت عمرؓ سے سوال کیا کہ حضور کیا اسلام ان لوگوں کو حقوق سے محروم کرتا ہے جو ظاہر میں اسلام قبول کریں اور کیا اُن کے لئے اسلام نے کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا کہ اسلام نے ان لوگوں کے لئے بھی رستہ کھلا رکھا ہے اور پھر خاموش ہو گئے’’۔ 290
اِسی طرح جو آیت ہم نے منافقوں کے متعلق پہلے لکھی ہے اس مضمون کی ایک دوسری آیت یعنی يَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا ؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ291 وہ اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فقرات نہیں کہے۔ حالانکہ وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہو چکے ہیں۔
امام شافعی ؒ نے تفصیلی بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص مُنہ سے کلمہ پڑھتا ہے خواہ دل میں اسلام پر ایمان نہ لایا ہو اُسے مُرتد قرار نہیں دیا جاسکتا۔292
بحث کا خلاصہ
ان حوالوں سے جو ہم اُوپر درج کر چکے ہیں مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں:-
اوّل: ایک اسلام بمعنٰی کامل ایمان ہوتا ہے اور سب مسلمان ہر گز اِس میں شامل نہیں۔ دوسرا اسلام کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے۔ اِس مُسلم کے لئے یہ کوئی شرط نہیں کہ اِس کو پورا ایمان نصیب ہو بلکہ بغیر کسی قسم کے ایمان کے بھی ایسا شخص مسلمان ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی سوائے نصیحت اور وعظ اور دُعا کے۔
دوم: احمدیوں نے خارج از اسلام اور کافر ہونے کا فتویٰ غیر احمدیوں کے متعلق پہلے نہیں دیا بلکہ پہلے اُنہوں نے احمدیوں پر ایسا فتویٰ لگایا۔
سوم: غیر احمدیوں نے احمدیوں ہی پر یہ فتویٰ نہیں لگایا بلکہ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے پر فتویٰ لگاتے چلے آئے ہیں۔
چہارم: جب غیر احمدیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر فتویٰ لگایا اور احمدیوں پر فتویٰ لگایا تو اُنہوں نے اس کے یہ معنٰی لئے کہ وہ اسلام کی جامع و مانع تعریف سے بھی باہر ہیں۔
پنجم: جب احمدیوں نے جواباً اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق غیراحمدیوں پر کوئی فتویٰ لگایا تو اس فتوے میں اُنہوں نے یہ احتیاط کی کہ اُن کو ایمانِ کامل سے تو محروم قرار دیا لیکن اسلام کی جامع و مانع تعریف سے باہر نہیں کیا اور مختلف مواقع پر واضح کر دیا کہ وہ انہیں اسلام کی جامع و مانع تعریف کے اندر شامل رکھتے ہیں۔
ششم: غیر احمدیوں نے جب احمدیوں پر فتویٰ لگایا تو اُنہوں نے انہیں دائمی جہنمی قرار دیا لیکن احمدیوں نے جب کسی پر فتویٰ لگایا تو ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اوّل تو اس فتویٰ کے یہ معنٰی نہیں کہ اسلام کی جامع و مانع تعریف سے وہ نکل گئے ہیں۔ دوم لفظِ کُفر کا اگر کسی معنوں میں بھی اُن پر اطلاق ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی قابلِ مؤاخذہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا مؤاخذہ محض بد نیتی اَور اتمامِ حجت پر ہؤا کرتا ہے۔ اگر اُن کی نیت نیک ہے اور اگر اُن پر اتمامِ حجت نہیں ہؤا تو وہ کسی سزا کے مستحق نہیں۔
ہفتم: احمدیوں نے متواتر اِس بات کا اعلان کیا کہ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اگر غیر احمدی اپنے فتوؤں کو واپس لے لیں تو ہم بھی اپنے فتوے واپس لینے کے لئے تیار ہیں اور جماعت کو روکا کہ اَیسے الفاظ دوسروں کے متعلق استعمال نہ کیا کرو لیکن غیراحمدیوں نے فتوؤں میں ابتدا بھی کی اور پھر احمدیوں کی امن کی اپیلوں پر کان بھی نہ دھرا اور شروع دن سے آج تک متواتر اُن فتوؤں کو دُہراتے اور پھیلاتے چلے آرہے ہیں۔
سوال نمبر5 متعلق مسائلِ نماز و جنازہ و رِشتہ ناطہ
پنجم: پانچویں یہ کہا گیا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اس بناء پر اور غیر احمدیوں کو جوش اور اشتعال اِس وجہ سے ہے کہ احمدی جماعت اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھتی، ان کے جنازے نہیں پڑھتی اور اُن کو لڑکیاں دینے سے اجتناب کرتی ہے۔ یہ باتیں اوّل تو خالص مذہبی نہیں۔ خوجہ قوم اور بوہرہ قوم کے لوگ اپنی لڑکیاں دوسری قوم کو نہیں دیتے، مہدوی لوگ اپنی لڑکیاں دوسری قوم کو نہیں دیتے۔ بلوچستان کا بڑا حصّہ مہدوی ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی اپنی لڑکیاں غیروں کو نہیں دیتا۔ کراچی کی تجارت خوجہ قوم اور بوہرہ قوم کے پاس ہے وہ کبھی اپنی لڑکیاں غیروں کو نہیں دیتے لیکن باوجود اس کے علماء نے کبھی ان لوگوں کے خلاف شور نہیں مچایا بلکہ ان لوگوں کی دعوتیں اُڑاتے ہیں۔ حیدر آباد کے رہنے والے مسلمانوں کی طرف سے جو ریاستوں کی آزادی کی تحریک اُٹھی تھی مہدوی قوم کے لیڈر نواب بہادر یار جنگ اس کے صدر تھے اور قائدِاعظم نے اُن کو اپنا نائب بنا رکھا تھا مگر باوجود اس کے ان علماء نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی کہ یہ تو اپنی لڑکیاں دوسروں کو نہیں دیتے۔ یہ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سیّد محمد صاحب جونپوری کو خدا تعالیٰ کا رسول مانتے ہیں۔ یہ تو اپنے عقیدہ کی رُو سے دُوسروں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے اُن کو لیڈر کیوں بنایا گیا ہے اور جیسا کہ مہدوی لٹریچر سے ظاہر ہے بلوچستانی مہدویوں میں سے بعض نے تو اپنا نعرہ یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ ہم ایسے سمندر میں داخل ہو گئے ہیں جس کے کنارے پر نبی بیٹھا کرتے تھے اور اُن لوگوں میں تین نمازیں پڑھنے کا حُکم ہے، زائد معاف ہیں۔ عجیب عجیب قسم کے اُن میں ذکر ہیں اور بعض تو اُن میں سے یہاں تک کہتے ہیں کہ لِوَائِیْ اَرْفَعُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ293 میرا جھنڈا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے جھنڈے سے اُونچا ہے۔
اور وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب تو بلوچستان میں ہیں۔ اس کے علاوہ پالم پور میں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں مگریہی مولانا مودودی جو حیدر آباد میں ملازم رہے ہیں اُنہوں نے کبھی ان کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔ حالانکہ وہ جو الزام ہم پر لگاتے ہیں، ان سے زیادہ سخت الزام ان پر لگتے ہیں۔ اس کے یہ معنٰی نہیں کہ ہم ان باتوں کو جائز سمجھتے ہیں ہم صرف یہ بتاتے ہیں کہ جب یہ مولوی ہم پر الزام لگاتے ہیں تو اِن کی نیّت ٹھیک نہیں ہوتی۔ جو لوگ ان کا سرپھوڑنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں اُن کے سامنے تو یہ نظریں نیچی کر لیتے ہیں اور جو لوگ امن پسند شہری ہیں اُن پر ان کا سارا غصّہ نکلتا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ اگر آغا خان کے خلاف کچھ کہا تو گورنمنٹ بھی گردن مروڑے گی اور بہت سارے چندوں اور امدادوں سے بھی محروم ہو جانا پڑے گا۔
احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ پہلے غیر احمدی مولویوں نے ہی دیا ہے
اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن میں پہل انہیں لوگوں نے کی ہے۔
مثلاً احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے پہلے انہیں نے روکا ہے۔چنانچہ 1892ء میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتویٰ دیا کہ:-
‘‘نہ اس کو ابتداءً سلام کریں ..... اَور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں’’۔ 294
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘قادیانی کے مُرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدین ہیں۔ یہ جمع نہیں ہو سکتیں’’۔ 295
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے’’۔ 296
مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کے خلف نماز جائز نہیں’’۔ 297
مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘کسی مرزائی کے پیچھے نماز ہر گز جائز نہیں۔ مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا ہندوؤں اور یہود و نصاریٰ کے پیچھے۔ مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کے لئے اہلِ سُنت و الجماعت اور اہلِ اسلام اپنی مسجدوں میں ہر گز نہ آنے دیں’’۔298
مولوی عبدالرحمٰن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردود ہے ..... ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت’’۔299
مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہر گز درست نہیں’’۔300
مولوی عبدالجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے ..... ہر گز امامت کے لائق نہیں’’۔ 301
مولوی عزیز الرحمٰن صاحب مفتی دیوبند نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امامِ صلوٰۃ بنانا حرام ہے’’۔ 302
مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘مرزا اور اُس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعتِ اسلام سے جُدا ہے۔ اور اس کو امام بنانا ناجائز ہے’’۔ 303
مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کے پیچھے نماز پڑھنے..... کا حکم بعینہٖ وہی ہے جو مرتد کا ہے’’۔304
مولوی محمد کفایت اللہ صاحب شاہجہانپوری نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘ان کے کافر ہونے میں شک و شُبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہر گز جائز نہیں’’۔ 305
جنازے کے متعلق ان حضرات کے فتوے یہ ہیں
مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی
نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘ایسے دجّال، کذّاب سے احتراز اختیار کریں ..... نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں’’۔ 306
مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے’’۔ 307
قاضی عبید اﷲ بن صبغۃ اﷲ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے ..... اور مرتد بغیر توبہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا’’۔ 308
مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جس نے دیدہ و دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اُس کو اعلانیہ توبہ کرنی چاہئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدیدِ نکاح کرے’’۔309
پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ اِن لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے۔ چنانچہ مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے ۔تاکہ :-
‘‘اہلِ قبور اس سے ایذاء نہ پاویں’’۔ 310
قاضی عبید اﷲ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو :-
‘‘مقابرِ اہلِ اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے کُتّے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا’’۔ 311
اِسی طرح اُنہوں نے یہ بھی فتوے دیئے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو لڑکیاں دینا جائز نہیں۔ چنانچہ ‘‘شرعی فیصلہ’’ لکھا گیا کہ:-
‘‘جو شخص ثابت ہو کہ واقعی وہ قادیانی کا مُرید ہے۔ اُس سے رشتۂ مناکحت کا رکھنا ناجائز ہے’’۔ 312
بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ:-
‘‘جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں’’313 اور اُن کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے اُن کی عورتوں سے نکاح کر لے۔
گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبراً نکاح کر لینا بھی علماء کے نزدیک عین اسلام تھا۔ اِسی طرح یہ فتویٰ دیا گیا کہ:-
‘‘جس نے اُس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اُس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد کہ پیدا ہوتے ہیں وہ ولد الزنا ہوں گے’’۔ 314
احمدیوں کی طرف سے محض جوابی فتویٰ
ان فتوؤں سے ظاہر ہے کہ نماز پیچھے نہ پڑھنے اور نماز
جنازہ نہ پڑھنے کے فتوے بھی پہلے انہیں لوگوں نے دیئے۔ ہم نے کئی سال کے صبر کے بعد یہ فتوے دیئے ہیں۔ باقی یہ ظاہر بات ہے کہ انسان نماز میں جس کو امام بناتا ہے اُس کے تقویٰ کی بناء پر ہی بناتا ہے۔ جب ہم بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو خدا کا بھیجا ہؤا مانتے ہیں تو اُن کو کافر قرار دینے اور ردّ کرنے والوں کو مُتقی کِس طرح سمجھ سکتے ہیں۔لڑکیاں دینے سے انسان اِس لئے رُکتا ہے کہ تمدن اور خیالات میں جب فرق ہوتا ہے تو ایسے معاملات میں بعض دفعہ سختی سے کام لیا جاتا ہے ورنہ یہ نہیں کہ شرعی طور پر دوسرے آدمی کو پلید سمجھا جاتا ہے۔ اگر نجاست کا سوال ہوتا تو پھر اہلِ کتاب کی لڑکیاں لینے کی کیوں اجازت دی جاتی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ‘‘شادی کفو میں کرو’’۔ 315
اِس لئے یہ بھی ایک کفو ہے کہ انسان ایک امام کو مانتا ہے اور دوسرا اُسے کافر کہتا ہے تو کفو تو آپ ہی بدل جاتا ہے۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود ابو جہل کے خاندان کے مسلمان ہو جانے کے ابو جہل کی بیٹی لینے سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو منع فرمایا اور یہاں تک فرما دیا کہ خدا کے دُشمن اَور خدا کے رسول کی بیٹیاں ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ حالانکہ وہ لوگ مسلمان تھے’’۔ 316
شادی کے لئے کفو کی شرط
پس شادی کے لئے صرف مسلمان ہونے کی شرط نہیں کفو کی بھی شرط ہے۔ اگر کوئی شخص
اپنی ایم۔اےلڑکی کو ایک جاہل مَرد سے نہیں بیاہتا تو اس کے یہ معنٰی تو نہیں ہوتے کہ وہ اسے خارج ازمِلّت اسلامیہ سمجھتا ہے یا ایک امیر آدمی اپنی لڑکی ایک غریب سے نہیں بیاہتا تو اس کے یہ معنے کہاں ہوتے ہیں کہ وہ اُسے خارج از مِلّت اسلامیہ سمجھتا ہے۔ ہاں یہ سمجھتا ہے کہ کفو نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کا میل آپس میں مناسب نہیں۔ اس سے نہ غیر قومّیت ثابت ہوتی ہے، نہ غیر مذہب ثابت ہوتا ہے صرف سوشل تعلقات کی دِقّت اِس کا باعث ہوتی ہے۔
سوال نمبر6 شِقِّ اوّل متعلق خوشامدِ انگریز وغیرہ
ششم۔ یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کی تعلیم دی ہے اور اس کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے اور اس کی خوشامد کی ہے۔
اس کے متعلق یاد رہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی پیدائش سکھوں کے زمانہ میں ہوئی تھی اور اُنہوں نے اپنے بچپن کے زمانہ میں سکھوں کے مظالم دیکھے تھے جو مسجدوں کو گراتے تھے اور مسجدوں کو گرا کر اصطبل بناتے تھے، مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جاتے تھے، مسلمانوں کے مال لوٹ لیتے تھے، اذان نہیں دینے دیتے تھے۔ اس کے بعد انگریزی حکومت آئی اور اس نے ان سب مظالم کو ختم کر دیا۔ اُن کے اس نیک سلوک کو دیکھنے کے بعد اگر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ان کی تعریف کی اور اُن کا مذہب میں دست اندازی نہ کرنا پسند کیا تو یہ کون سی عجیب بات ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرعونِ مصر کی نوکری کی تھی اور قرآن میں صاف آتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو اس لئے نہیں روک سکتے تھے کہ قانونِ ملک اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ 317 گویا یوسف علیہ السلام قانونِ ملک کے پابند تھے اور پابند رہنا چاہتے تھے۔
اِسی طرح مسیح علیہ السلام کے متعلق انجیل میں لکھا ہے کہ جب کچھ لوگوں نے منصوبہ کر کے اُن سے سوال کیا کہ کیا قیصر کو ہمیں ٹیکس دینا چاہئے یا نہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ تم مجھے ٹیکس کا سکّہ دکھاؤ اور اس کو دیکھ کر کہا کہ اس پر تو قیصر کی تصویر ہے۔ پس جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو۔ 318
خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو حبشہ میں بھجوا دیا۔ ان لوگوں نے کئی سال تک اس حکومت کی اطاعت کی اور اس دوران میں جب حبشہ کے بادشاہ کو ایک دُشمن سے لڑائی پیش آئی تو مسلمانوں نے اُس سے درخواست کی کہ ہمیں بھی جنگ میں شامل ہونے دیا جائے کیونکہ ہم پر آپ کے احسانات ہیں اور اُنہوں نے اس کی کامیابی کے لئے دُعائیں کیں۔319
سیّد احمد صاحب بریلوی سے جب لوگوں نے پوچھا کہ آپ اتنی دُور سکھوں سے جہاد کرنے کیوں جاتے ہیں؟ انگریز جو اس مُلک پر حاکم ہیں کیا وہ اسلام کے منکر نہیں۔ پھر آپ یہیں جہاد کیوں نہیں شروع کر دیتے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ انگریز مذہب میں دخل اندازی نہیں کرتے اس لئے اُن سے جہاد جائز نہیں لیکن سِکھ چونکہ مذہب میں دخل اندازی کرتے ہیں اِس لئے مَیں اُن سے لڑتا ہوں۔ 320
پس اگر مرزا صاحب نے بھی انگریزوں کی تعریف کی اور اُن کی اطاعت کی تعلیم دی تو اس میں حرج کیا ہؤا۔ اُنہوں نے وہی کچھ کیا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا تھا، جو حضرت مسیح علیہ السلام نے کیا تھا، جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اﷲ عنہم نے کیا تھا اور جو سیّد احمد صاحب بریلوی ؒ نے کیا تھا بلکہ وہی کچھ کیا جو ان علماء نے کیا تھا جو آج احمدیت پر اعتراض کر رہے ہیں۔ دیو بند کو مختلف ریاستوں سے مدد ملتی تھی۔ کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ انگریزوں کی تعریف نہ کرتے تو وہ ریاستیں ان کو مدد دیتیں؟ بے شک بعض بعض اوقات میں بعض مولویوں نے گورنمنٹ کی مخالفت بھی کی لیکن وہ مولوی بھی موجود ہیں جو گورنمنٹ کی تعریفیں کر کر کے مربعے وصول کیا کرتے تھے لیکن مرزا صاحب نے تو کبھی کوئی مربع نہیں لیا، نہ کوئی خطاب لیا۔ پس اگر آپ نے ایک ایسی حکومت کی وفاداری کی تعلیم دی جو مسلمانوں کو اُن کے مذہبی فرائض ادا کرنے سے نہیں روکتی تھی تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ اِس پالیسی کا مخالف اِسے غلط قرار دے سکتا ہے مگر نیت پر حملہ کرنے کا اسے کوئی حق نہیں۔
انگریزی حکومت کی اطاعت اور خوشامد کا الزام
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ
اسلامی تعلیم کی رُو سے تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ بغاوت اور فساد کے تمام طریقوں سے بکلّی مجتنب رہ کر امن پسند زندگی بسر کریں اور حکومتِ وقت کی اُس وقت تک کامل اطاعت کریں جب تک کہ وہ حکومت مذہب میں مداخلت نہ کرے۔ جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ صرف انگریزی حکومت کے بارے میں نہیں بلکہ ہر مُلک اور ہر حکومت کے بارے میں ہے۔ جماعت احمدیہ کے نزدیک اسلامی تعلیم یہی ہے۔ امنِ عالم کے قیام کے لئے اِس تعلیم کے سوا کوئی تعلیم نہیں جو قابلِ قبول ہو۔اِسی اُصول کے ماتحت آج بھارت کے مسلمان ہندو حکومت کے ماتحت وفاداری سے زندگی بسر کر سکتے ہیں اور اسی اصول کے ماتحت چین، برما، سیلون، افریقہ، امریکہ، جاپان اور فرانس وغیرہ ممالک کے مسلمان اپنے اپنے ملکوں کی غیر اسلامی حکومتوں کے ماتحت وفادارشہری کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔اور اِسی اصول کے ماتحت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام نے حضور علیہ السلام کے ارشاد کے ماتحت حبشہ کی عیسائی حکومت کے زیر سایہ وفادار شہریوں کی حیثیت سے برسوں امن پسندانہ زندگی بسر کی۔ اُن مسلمان صحابہ میں حضرت عثمان ؓ ، حضرت جعفرؓ، (جو حضرت علیؓ کے بھائی تھے) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رُقیہ ؓ، حضرت اُمّ المؤمنین اُمِّ سلمہ ؓ، حضرت اسماء زوجہ حضرت جعفر ؓ، حضرت عبدالرحمٰن ؓ ابن عوف، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات شامل ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے اِن صحابہ ؓ کو پانچویں سال نبوت میں ارشاد فرمایا:-
‘‘تم ملکِ حبش میں چلے جاؤ تو بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی کی سر زمین ہے’’۔ 321
غرض کہ ایسی حکومت کی اطاعت کرنا جو مذہبی آزادی میں مداخلت نہ کرتی ہو مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے۔
اندریں حالات اِسی اصول کے ماتحت مسلمانانِ ہند کا بھی یہی مذہبی فرض تھا کہ وہ حکومتِ انگریزی کی اطاعت کرتے۔ جب تک کہ وہ حکومت اُن کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مزاحم نہ ہوتی۔ پس جماعت احمدیہ نے اگر اِس اسلامی تعلیم پر عمل کیا تو یہ کیونکر محلِّ اعتراض ٹھہر سکتا ہے؟
ایک سوال
لیکن یہاں پر ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت کی اطاعت تو مسلمانانِ ہند نے بھی کی جن میں مجلسِ عمل
کے ارکان بھی شامل تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کا یہ عمل اُن کے نزدیک اسلامی تعلیم کے مطابق تھا یا مخالف؟ اگر اسلامی تعلیم کے مخالف تھا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اُن کی زندگی انگریزی حکومت کے صد سالہ دَور میں منافقانہ زندگی تھی اور اگر اسلامی تعلیم کے مطابق تھا اور یہی درست ہے تو پھر جماعتِ احمدیہ پر اعتراض بے معنیٰ ہے۔
بطور اعتراض پیش کردہ عبارتیں
اِس سلسلہ میں تبلیغِ رسالت جلد 7 صفحہ 7 اور ضمیمہ کتاب البریّہ صفحہ 9
اور تبلیغِ رسالت جلد 7صفحہ17 کے حوالے سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے۔
‘‘خود کاشتہ پودا کا جواب’’
سب سے پہلے تبلیغِ رسالت جلد 7 صفحہ 19 کے حوالہ سے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی
عبارت پیش کی گئی ہے جس میں ‘‘خود کاشتہ پودا’’ کا فقرہ استعمال ہؤا ہے۔ چونکہ یہ حوالہ مجلِس عمل کی طرف سے عدالت میں پیش کرنے کے علاوہ بکثرت شائع بھی کیا گیا ہے اور ہر جلسہ میں اِسے پیش کر کے بہ شدّو مد یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا ‘‘خود کاشتہ پودا’’ ہے اور اُنہوں نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ انگریزوں کے ایماء پر کیا تھا۔چونکہ یہ پروپیگنڈا بہت وسیع پیمانہ پر کیا گیا ہے اِس لئے ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس موقع پر اِس کا کسی قدر تفصیلی جواب عرض کریں۔
نقِل عبارت میں تحریف
سب سے پہلی بات جس کی طرف ہم معزّز عدالت کو توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اِس
عبارت کو پیش کرنے میں ذمہ داری سے کام نہیں لیا گیا اَور اصل عبارت کے ابتدائی الفاظ جن سے حقیقتِ حال پر روشنی پڑتی تھی حذف کر دئے گئے ہیں۔ اصل عبارت یوں ہے:-
‘‘مجھے متواتر اِس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلافِ عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بُغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دُشمن ہیں۔ میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلافِ واقعہ اُمور گورنمنٹ کے معزّز حُکام تک پہنچاتے ہیں اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بد گمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ اور میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سر لیپل گریفن کی کتاب ‘‘تاریخ رئیسانِ پنجاب’’ میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میری اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضائع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سرکار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدّرِ خاطر اپنے دل میں پیدا کرے۔ اِس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا مُنہ بند کیا جائے کہ جو اختلافِ مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بُغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ صرف یہ التماس ہے کہ سرکار دولتمدار.....’’322
اِس کے آگے وہ عبارت شروع ہو تی ہے جو عدالت میں پڑھ کر سُنائی گئی ہے۔ اِس عبارت سے مندرجہ ذیل اُمور مستنبط ہوتے ہیں:-
(الف) بعض دُشمنوں نے جن میں بعض حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے ذاتی اور خاندانی دُشمن بھی تھے انگریزی حکومت میں یہ مخبری کی کہ آپ گورنمنٹ کے باغی ہیں۔
(ب) آپ کو یہ خطرہ لاحق ہؤا کہ اِن جھوٹی مخبریوں کو گورنمنٹ انگریزی بھی درست تسلیم کر کے سچ مچ آپ کو باغی نہ سمجھ لے۔
(ج) چونکہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد تھا۔ اِس لئے آپ نے اِس کی پُر زور الفاظ میں تردید فرمائی اور اپنے خاندان کی حکومت انگریزی سے وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔
(د) ‘‘خود کاشتہ پودا’’ کے الفاظ آپ نے اپنی جماعت کی نسبت نہیں بلکہ اپنے خاندان کی نسبت استعمال فرمائے۔
علاوہ ازیں اشتہار جس کی عبارت کانٹ چھانٹ کر پیش کی گئی ہے۔ مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے:-
‘‘بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دُشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں۔ پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اِس لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پیدا کرے یا بد ظنی کی طرف مائل ہوجائے۔ لہٰذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری اُمور ذیل میں لکھتا ہوں’’۔323
پس اِن اقتباسات سے مندرجہ بالا چاروں اُمور ..... ثابت ہیں۔ اب معزز عدالت یہ خیال فرما سکتی ہے کہ اگر گورنمنٹ انگریزی نے خود ہی حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو ایک سازش کی بناء پر دعویٰ کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا اور آپ گورنمنٹ کے ایک کارکن یا ملازم کی حیثیت سے یہ کام سرانجام دے رہے تھے تو پھر آپ کو اس قسم کی مفتریانہ مخبریوں کی تردید کے لئے یہ اشتہارات شائع کرنے اور اس اشتہار کے ذریعہ سے گورنمنٹ کے سامنے اپنی بریّت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ عبارت جہاں سے نقل کی گئی ہے وہ کوئی خفیہ دستاویز نہیں جو مجلس عمل یا احرار کے ہاتھ لگ گئی ہے بلکہ یہ ایک شائع شُدہ مطبوعہ اشتہار ہے جو حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے خود شائع کر کے پبلک میں تقسیم کیا تھا۔ پھر اِس عبارت میں جماعتِ احمدیہ کی بجائے ‘‘خاندان’’ کا لفظ ہے اور صرف جماعتی دُشمنوں کا ہی نہیں بلکہ ذاتی اور خاندانی دُشمنوں کی مخبریوں کا بھی ذکر ہے۔ پس آپ نے جماعت احمدیہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا ‘‘خود کاشتہ پودا’’ قرار نہیں دیا بلکہ یہ لفظ اپنے خاندان کی گزشتہ خدمات کے متعلق استعمال فرمایا۔ ورنہ اپنے دعاوی کی نسبت تو آپ نے اِسی اشتہار میں صفحہ 10 سطر 6 پر تحریر فرمایا ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ خدا کے حکم اور اُس کی وحی کی بناء پر ہے۔
خاندان کی نسبت اِس لفظ کے استعمال کی وجہ
جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا ہے اِس اشتہار
میں ‘‘خود کاشتہ پودا’’کے الفاظ آپ نے اپنے خاندان کی نسبت استعمال فرمائے ہیں۔ اِن الفاظ کے استعمال کی اصل وجہ بھی اِسی اشتہار میں بدیں الفاظ بیان کی گئی ہے:-
‘‘ہمارا خاندان سکّھوں کے ایّام میں ایک سخت عذاب میں تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ اُنہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صدہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا۔ ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کا اندیشہ تھا۔ چہ جائیکہ اور رسُومِ عبادت آزادی سے بجالاسکتے۔ پس یہ اِس گورنمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اِس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی’’۔ 324
اِس عبارت میں آپ نے سکھّوں کے دَورِ حکومت میں اپنے خاندان کی تباہ شُدہ جاگیر اَور پھر انگریزی دَور میں اِس کے ایک قلیل حصّہ کی واگزاری کی طرف اشارہ کیاہے نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف۔ آپ کے خاندان کی بہت بڑی جاگیر کی واپسی حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے والد صاحب کی زندگی میں ہوئی تھی۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس کا ذکر بطور حُسنِ بیان کے کیا ہے ورنہ درحقیقت یہ حکومت کا کوئی قابلِ ذکر احسان ہرگزنہ تھا۔
کتاب البریہ کی عبارت
دوسری عبارت کتاب البریہ سے پیش کی گئی ہے۔ اِس کے جواب میں بھی یہی گزارش ہے کہ یہ عبارت
بھی حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے بطورمدح کے تحریر نہیں فرمائی بلکہ بطور ذبّ یعنی بغرض رفعِ التباس اِس الزام کی تردید کے لئے تحریر فرمائی ہے کہ آپ در پردہ انگریزی حکومت کے دُشمن اور اُس کے باغی ہیں۔ جیسا کہ کتاب البریہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے:-
‘‘یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارۃً اور کہیں صراحتاً میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے’’۔ 325
پادری مارٹن کلارک نے جو ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اُس کی عزت کرتے تھے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر اقدامِ قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا۔ اِس مقدمہ کے دَوران میں اُس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اُس میں یہ کہا تھا کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ انگریزوں کا باغی ہے اور اُس کا وجود انگریزوں کے لئے خطرناک ہے۔ آپ نے اِس الزام کی تردید کتاب البریّہ کی اس عبارت میں فرمائی ہے جس کا بطور اعتراض حوالہ دیا گیا ہے۔
تریاق القلوب کی عبارت
اِسی طرح تریاق القلوب صفحہ 15 کے حوالہ سے جو عبارت پیش کی گئی ہے اُس میں بھی تحریف کی
گئی ہے اور وہ سیاق سباق سے الگ کر کے پیش کی گئی ہے۔ پیش کردہ عبارت سے معاً پہلے یہ الفاظ ہیں جو حذف کر دئے گئے ہیں:-
‘‘تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اِس کوشش میں ہیں کہ مجھے اِس محسن سلطنت کا باغی ٹھہراویں۔ مَیں سُنتا ہوں کہ ہمیشہ خلافِ واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرف سے کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ مَیں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں’’۔ 326
اِس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جو بطور اعتراض پیش کی گئی ہے۔
مندرجہ بالا اقتباس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ یہ عبارت بھی انگریزی حکومت کی مدح کے طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ محض بطور ذبّ یعنی بغرض رفعِ التباس اِس الزام کی تردید کے لئے لکھی گئی ہے کہ آپ گورنمنٹ کے باغی ہیں۔

مدح اور ذبّ میں فرق
اُوپر عرض کیا گیا ہے کہ تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور ‘‘ذبّ’’ یعنی بغرض رفعِ الزام تھے۔
اِس کی مثال قرآن مجید میں موجود ہے قرآن مجید میں حضرت مریم کی عفّت اور عصمت بار بار اور زور دار الفاظ میں بیان کی گئی ہے لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ اورحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کی عفّت اور عصمت کا قرآنِ مجید میں کہیں ذِکر نہیں کیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی عفّت اور عصمت کے لحاظ سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں بلکہ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ تو اپنے مدارجِ عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم سے افضل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ 327 سے ظاہر ہے۔قرآن مجید میں حضرت مریم کی پاکیزگی اور عفّت و عصمت کا بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور اُن کے مقابل پر حضرت فاطمۃ الزہراء اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہر گز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریم کو اُن پر کوئی فضیلت حاصل تھی کیونکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ حضرت مریم پر زنا اور بدکاری کی تہمت لگائی گئی تھی۔ اس لئے اُن کی بریّت اور رفع الزام کے لئے بطور ‘‘ذبّ’’ اُن کی تعریف کی ضرورت تھی مگر چونکہ حضرت فاطمۃ الزَہراء اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا اس لئے باوجود اُن کی عظمت و شان کے اُن کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی۔ بعینہٖ اِسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے حکومت کا باغی ہونے اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں میں مصروف ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اظہارِحقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں الزامات کی تردید کی جاتی۔
پس منظر
پھر حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی ان تحریرات پر غور کرنے کے لئے اِس پس منظر کو بھی مدِّنظر رکھنا ضروری ہے جس میں یہ عبارتیں لکھی گئیں۔
حضرت مرزاصاحب کی پیدائش کے قریب زمانہ میں اور آپ کے دعویٰ سے قریباً چالیس سال قبل حکومت انگریزی کا تسلّط پنجاب پر ہو چُکا تھا۔ اس سے پہلے پنجاب پر سکّھوں کی حکومت تھی جن سے انگریزوں نے قبضہ حاصل کیا تھا۔ سِکھ دَور کے جبرواستبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے۔ مسلمانوں کو اُس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات میں سے گزرنا پڑا۔ اُنہیں جبراً مُرتد بنایا گیا، اذانیں حکماً ممنوع قرار دی گئیں، مسجدیں اصطبل بنا لی گئیں، مسلمان عورتوں کی عصمت دری، مسلمانوں کا قتل اور لُوٹ مار سکّھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔ یہ تو پنجاب کی حالت تھی۔ ہندوستان میں 1857ء کے سانحہ عظیم کے بعد کا زمانہ مسلمانوں کے لئے ابتلاء اور مصیبت کا زمانہ تھا۔ وہ تحریک ہندوؤں کی اُٹھائی ہوئی تھی لیکن اِس کو ‘‘جنگ آزادی’’ کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان مِن حیث القوم پس پردہ شامل ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اِس لئے نئی حکومت کے دِل میں متقدم حکومت کے ہم مذہب لوگوں کے بارہ میں شکوک و شُبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔ اس پر 1857ء کا سانحہ مستزاد تھا۔ دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت، صنعت و حرفت، سیاست و اقتصاد غرضیکہ ہر شُعبہ میں مسلمانوں کے بالمقابل ترقی یافتہ تھی۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے۔ یہ دَور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک ترین دَور تھا۔ پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں،مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، مسلمانوں پر ان کا علمی، سیاسی اور اقتصادی تفوق اور اُن کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے تھے اور دوسری طرف سکّھوں کے جبرواستبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات۔
اِن حالات میں انگریزی دَورِ حکومت شروع ہؤا۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اِس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت خود مداخلت نہیں کرے گی بلکہ دُوسری قوموں کی طرف بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایسے قوانین بنا دئے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل و انصاف سے ہونے لگا۔ ہندوؤں اور سکّھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہو گئی۔ بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو سکّھوں کے اس جبر و استبداد سے اس طرح نجات مل گئی کہ گویا وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے۔
قرآن مجید کی واضح ہدایت
ایک طرف دو مشرک قومیں (ہندو اور سکھ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں تو دوسری طرف
ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدمِ تعاون کا مسلمانوں کو فیصلہ کرنا تھا۔ اِن حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اِس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى ۔328 یقیناً یقیناً تُو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بد ترین دُشمن یہودی اور مُشرک ہیں اور یقیناً یقیناً تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلوانے والے ہیں۔
اِس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودّۃ کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں۔ چنانچہ عملاً مسلمانوں نے یہی کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعلِ راہ نہ بھی ہوتی تو بھی مسلمانوں کا مفاد اِسی میں تھا اور حالات کا اقتضاء یہی تھا کہ وہ ہندوؤں اور سکّھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر پُر امن تبلیغی مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے۔ بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھی لیکن انگریزوں کے انخلاء 1947ء کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی۔ گویا تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دَوران میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد تھی صرف ایک صدی سے بھی کم زمانہ میں اس سے دس گنا بڑھ گئی۔ چنانچہ سر سیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر، نواب وقار الملک بہادر، نواب صدیق حسن خان اور دوسری عظیم شخصیتوں نے دَورِ اوّل میں اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے دَورِ آخر میں ہندوؤں کی غلامی پر انگریزوں کے تعاون کو ترجیح دی اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دستِ تعاون بڑھایا۔ سرسیّد مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب و رسائل تصنیف کئے۔ مسلمانوں کی مغربی تعلیم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علی گڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے۔ چنانچہ احمدیت کا شدید ترین معاند اخبار ‘‘زمیندار’’ لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے:-
‘‘ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی جاتی’’۔329
مہدی سُوڈانی
پھر یہ بات مدِّ نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک 1879ء اور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے
باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہو چکی تھی کہ ہر مہدویت کے علم بردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ و سنان ہاتھ میں لے کر غیرمسلموں کو قتل کرے۔
(ت) حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی اسلامی حکومت نہ تھی۔ پاکستان کا آئیڈیا (Idea) بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہؤا تھا۔ اگر انگریز اُس وقت چلا جاتا تو اُس کی جگہ وہی حکومت قائم ہوتی جو آج ہندوستان میں قائم ہے۔ پاکستان کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ کیا بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا یہی جُرم ہے کہ وہ اس قسم کی حکومت کے مقابلہ میں انگریزی حکومت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ تو مستقبل کا حال تھا اور ماضی قریب کا حال یہ تھا کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے مُلک میں سکھّوں کی حکومت تھی جنہوں نے مسجدوں کے اصطبل بنا دئے تھے۔ جو زبر دستی مسلمان لڑکیوں کو چھین لے جاتے تھے، جنہوں نے اذان کو جُرم قرار دے رکھا تھا، جن کی ساری حکومت میں تین چار مسلمان ملازم تھے، جن کے حالاتِ مظالم کو معلوم کر کے حضرت سیّد احمد ؒ بریلوی جیسے بے سروسامان بزرگ جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اپنے لڑکپن میں ان دِل خراش واقعات کو سُننے اور دیکھنے والا شخص اگر انگریزی حکومت کو خدا کی رحمت نہ قرار دیتا تو کیا کہتا۔ کیا کوئی عقلمند انسان ایسا ہو سکتا ہے جو اِن حالات میں پلنے کے بعد انگریزی حکومت کے طرزِ عمل کی تعریف نہ کرتا اور حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جو رائے گورنمنٹ برطانیہ کی وفاداری کے متعلق ظاہر کی ہے وہ ظاہر نہ کرتا۔ ہم اِس کی تائید میں معزّز عدالت کے سامنے غیر احمدی عالموں اور لیڈروں کے چند اقوال پیش کرتے ہیں۔
گورنمنٹ برطانیہ سے وفاداری کے متعلق
غیر احمدی علماء اور لیڈروں کے اقوال
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو سردارِ اہلِ حدیث کہلاتے ہیں۔ اپنے رسالہ
اشاعۃ السنۃ نمبر 10جلد6 صفحہ 287 میں لکھتے ہیں:-
‘‘مسلمان رعایا کو اپنے گورنمنٹ سے (خواہ وہ کسی مذہب یہودی عیسائی وغیرہ پر ہو اور اس کے امن و عہد میں وہ آزادی کے ساتھ شعائر مذہبی ادا کرتی ہو) لڑنا یا اس سے لڑنے والوں کی جان و مال سے اعانت کرنا جائز نہیں ہے۔ وَبِنَاءً عَلَیہِ اہلِ اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے’’۔
اور لکھتے ہیں:-
‘‘مولانا سیّد محمد نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے اصل معنے جہاد کے لحاظ سے بغاوت 1857ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کر کے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا’’۔ 330
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘سلطان (روم) ایک اسلامی بادشاہ لیکن امنِ عام و حُسنِ انتظام کی نظر سے (مذہب سے قطع نظر) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا مؤجب نہیں ہے اور خاص کر گروہِ اہلِ حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم، ایران، خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے’’۔331
اور لکھتے ہیں:-
‘‘اِس امن و آزادی ٔ عام و حسنِ انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہلِ حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں اور جہاں کہیں وہ رہیں یا جائیں (عرب میں، خواہ روم میں، خواہ اور کہیں) کسی اور ریاست کا محکوم و رعایا ہونا نہیں چاہتے’’۔ 332
اسی طرح سر سیّد احمد خان نے بھی اپنی کتاب رسالہ ‘‘اسبابِ بغاوتِ ہند’’ برٹش گورنمٹ کی وفاداری کی تلقین کی ہے اور اِس کے خلاف کھڑے ہونے کو ‘‘بغاوت’’ قرار دیا ہے اور حضرت سیّد احمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ اِس انگریزی آزاد عملداری کو اپنی عملداری خیال کرتے تھے کیونکہ اس میں حکومتِ برطانیہ نے پوری مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔
مولانا محمد جعفر تھانیسری لکھتے ہیں:-
‘‘سیّد صاحب (حضرت سیّد احمد رائے بریلوی) کا سرکارانگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا اور وہ اس آزاد عملداری کو اپنی ہی عملداری سمجھتے تھے’’۔ 333

مولانا ظفر علی خان صاحب کا ارشاد
مولانا ظفر علی خاں ہندوستان کو دار الاسلام قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:-
‘‘مسلمان ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی بد بخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان مسلمان نہیں’’۔334
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایۂ خدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایتِ شاہانہ و انصافِ خسروانہ کو اپنی دلی ارادت ، قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالتِ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے’’۔ 335
اِس قسم کے اتنے حوالے موجود ہیں جو کئی جلدوں میں بھی نہیں سما سکتے۔ ان میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کسی الزام و اتہام کو دُور کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ صرف انگریزی حکومت کے طریقۂ عمل کی پسندیدگی کی وجہ سے ہے۔
اور حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو گورنمنٹ انگریزی کے بارہ میں جو بار بار لکھنا پڑا وہ بمقابلۂ سکھ حکومت کے انگریزی حکومت کی بہتری کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ مسلمان مولوی اور دوسرے مذاہب والے خصوصاً عیسائی پادری آپ کے خلاف گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ آپ بباطن گورنمنٹ انگریزی کے دُشمن ہیں اور موقع پاکر اُس کے خلاف جنگ کا اعلان کریں گے۔
اور گورنمنٹ انگریزی بھی آپ کو اس وجہ سے شُبہ کی نظر سے دیکھتی تھی کہ آپ کا دعویٰ مسیحِ موعود اور مہدی موعود ہونے کا تھا اور انگریزی حکومت اِس قسم کے دعوے کی وجہ سے ان کی شکایت کو توجہ کی نظر سے دیکھتی تھی کیونکہ قریب ہی کے زمانہ میں مہدی سوڈانی کے دعویٰ نے جو جنگ کی حالت پیدا کر دی تھی وہ انگریزوں کو بھُولی نہیں تھی اور اِس وجہ سے بھی کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جب مہدی موعود آئے گا تو ہندوستان کے بادشاہوں سے جنگ کرے گا اور وہ اُس کے سامنے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پیش کئے جائیں گے اور اِسی طرح وہ مسیح موعود کے متعلق یہ خیال بھی کرتے تھے کہ مسیح موعود اہلِ کتاب سے جزیہ قبول نہیں کرے گا بلکہ صرف اسلام قبول کرے گا اور جو اسلام نہیں قبول کرے گا اُسے قتل کر دے گا۔ مسلمانوں کے یہ عقائد اقتراب الساعۃ ، حجج الکرامہ مؤلفہ نواب صدیق حسن خان میں موجود ہیں۔ اِس لئے ضروری تھا کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ان عقائد کی تردید کرتے اور انگریزی گورنمنٹ کو یقین دلاتے کہ آپ کے خلاف مولویوں کی جو شکایات حکومت کو پہنچائی جاتی ہیں وہ غلط ہیں اور میرے نزدیک ایسی حکومت کی جس نے مذہبی آزادی دے رکھی ہو اور جو مذہبِ اسلام کے قبول کرنے سے نہ روکتی ہو، اطاعت کرنا ضروری ہے۔ ایسی شکایات کا ذکر فرماتے ہوئے آپ اپنی کتاب ‘‘انجام آتھم’’ میں مولویوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ:-
‘‘بعض ان کے اپنی بدگوہری کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکائتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے رہے اور کر رہے ہیں.....یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے اور گورنمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بد خواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے’’۔ 336
نیز اپنی کتاب ‘‘نور الحق’’ مطبوعہ 1893ء میں پادریوں کا ذکر کرتے ہوئے خصوصاً پادری عماد الدین کا جس نے اپنی کتاب توزین الاقوال میں حکومت کو آپ کے خلاف اکسایا تھا۔ لکھا:-
‘‘اس میں ایک خالص افترا کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دُشمن ہے اور مجھے اِس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور مخالفوں میں سے ہے’’۔ 337
پس حکومت سے مخالفین کی یہ شکایتیں اِس امر کا مؤجب ہوئیں کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ ان کو ردّ کریں اور انگریزی حکومت کا مذہبی آزادی دینے کی وجہ سے بار بار شکریہ ادا کریں۔
سوال نمبر6 شِق دوئم متعلق مسئلۂ جہاد
اِس کے بعد ہم جہاد کے مسئلہ کو لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اِس رنگ میں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کو خوش کرنے یا اُن کی مدد کے لئے اِس کو پیش کیا تھا۔
سو اِس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے دعویٰ کیا تھا اُس وقت جہاد کا مسئلہ صرف انگریزوں کے لئے ہی مفید نہیں تھا بلکہ فرانس،سپین، روس اور جرمنی کے لئے بھی مفید تھا جن کے ماتحت بہت سے اسلامی علاقے تھے۔ اُس وقت انگریزوں اور اُن قوموں کا آپس میں اختلاف تھا۔ پس یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ انگریز کسی شخص سے ایسی بات کہلواتے جو صرف اُن کو فائدہ نہ پہنچاتی ہو بلکہ اُن کے دُشمنوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہو۔
اگر انہیں اپنی تائید کروانی ہوتی تو وہ محض اس رنگ میں ہونی چاہئے تھی کہ انگریزوں کے ہمارے مُلک پر بڑے احسانات ہیں اِس لئے انگریزوں سے جہاد نہیں کرنا چاہئے لیکن حضرت مرزا صاحب نے تو اپنی کتابوں میں اِس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ ساری دُنیا میں اب مذہب کے لئے جنگیں نہیں کی جاتیں جس طرح کہ پہلے کی جاتی تھیں اس لئے اس زمانہ میں جہاد جائز نہیں اور انگریز یہ بات کبھی کہلوا ہی نہیں سکتے تھے۔ اُن کا فائدہ تو اِس بات میں تھا کہ روسیوں یا جرمنوں یا فرانسیسیوں یا سپینش سے تو جہاد جائز ہوتا لیکن اُن سے جہاد جائز نہ ہوتا۔
جہاد کی حقیقت
اِس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جہاد کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ چودہ سال تک رسولِ کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ نے قِسم قِسم کے ظلم سہے لیکن پھر بھی مخالفوں کی سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا۔ اِسی دَوران میں تیرہ سال کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہجرت کرنی پڑی لیکن مدینہؔ جانے کے بعد بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیچھا نہیں چھوڑا گیا اور مدینہؔ کے اِرد گِرد حملے کر کے لوگوں پر زور ڈالا گیا کہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقاطعہ کریں اور آپ سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں۔ تب کہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دفاع کی اجازت دی گئی اور لڑائی کا حکم اِن الفاظ میں نازل ہؤا:اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۙ۔ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا١ؕ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۔اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۔338یعنی اُن لوگوں کو جن پر حملہ کیا جاتا ہے حملہ کا جواب دینے کی اِس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کی مدد پر قادر ہے۔ یہ لوگ جن کو اجازت دی گئی ہے وہ ہیں جو اپنے گھروں سے بغیر کسی قصور کے نکالے گئے۔ اُن کا قصور صرف اِتنا تھا کہ وہ کہتے تھے اﷲ ہمارا ربّ ہے اور اگر اﷲ تعالیٰ بعض انسانوں کے حملہ کو دوسرے انسانوں کے ذریعہ سے نہ روکے تو عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور راہبوں کی خلوت گاہیں اور مساجد جن سب میں اﷲ تعالیٰ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے گرا دی جائیں اور اﷲ تعالیٰ یقیناً اُن لوگوں کی مدد کرے گا جوخدا کی مدد کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ یقیناً طاقتور اور غالب ہے۔ وہ لوگ کہ اگر ہم اُن کو زمین میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور سب باتوں کا انجام اﷲ کے ہاتھ میں ہی ہونا چاہئے۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ اسلام میں جہاد کا حکم اِسی وجہ سے دیا گیا کہ مسلمانوں کو رَبُّنَا اللّٰهُ کہنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور محض دین کی وجہ سے وہ مُلک سے نکالے جاتے تھے اور اُن پر طرح طرح کے ظلم کئے جاتے تھے اور اِس حکم میں یہ شرط لگائی گئی کہ اُن لوگوں سے لڑیں جنہوں نے اُن پر حملہ کیا ہے، دوسروں سے نہیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ مذہب میں دخل اندازی کی رُوح اگر پھیل جائے تو اس میں صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں اور صرف اُنہی کی مسجدیں نہیں گرائی جائیں گی بلکہ اس کے نتیجہ میں عیسائیوں کے گرجے بھی گرائے جائیں گے، یہودیوں کے معبد بھی گرائے جائیں گے اور راہبوں کے خلوت خانے بھی گرائے جائیں گے اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ وہ لوگ جو اِس نیت کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ کے نام کو دُنیا میں آزادی حاصل ہو اور مذہبی اُمور میں دست اندازی نہ کی جائے اُن لوگوں سے لڑیں گے جو کہ مذہبی دست اندازی کی خاطر اُن سے لڑتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے دُشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے گا اور جو لوگ اِن وجوہ سے جنگ کریں گے وہ یقینا جب غالب آئیں گے تو خدا کی عبادتوں کو قائم کریں گے، غریبوں کے لئے اپنے مال خرچ کریں گے ہر ایک کو نیک بات کی تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور مذہبی اُمور میں اپنا اختیار نہیں جتائیں گے بلکہ اِن باتوں کو خدا پر چھوڑ دیں گے۔
یہ حکم کتنا واضح ہے۔ جہاد صرف اُن لوگوں سے ہے جو کہ مسلمانوں کے خلاف دین کے لئے لڑتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی اُس عبادت سے روکتے ہیں جو اُن کے طریق کے خلاف ہے اور جو اپنے سے مخالف لوگوں کی عبادت گاہوں کو گرانا جائز سمجھتے ہیں ایسے لوگوں سے جنگ جائز کی گئی اور اِس قسم کی جنگ کے متعلق یہ بھی پیش گوئی کی گئی کہ جو شخص اِس نیت کے ساتھ اور اِن حالات میں جنگ کرے گا وہ ضرور کامیاب ہو گا۔
سورۂ بقرہ میں بھی یہ مضمون دوبارہ بیان کیا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا ہے:-وَ قَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۔وَ اقْتُلُوْهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ۠ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ١ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ١ۚ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ١ؕ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ۔ فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ١ؕ فَاِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَى الظّٰلِمِيْنَ۔339اور اﷲ تعالیٰ کے رستہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن دفاعی جنگ میں بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ اﷲ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں سے پیار نہیں کرتا اور تم جہاں بھی اُن کو پاؤ اُن سے جنگ کرو اور جن علاقوں سے اُنہوں نے تم کو نکال دیا ہے تم بھی اُن کو وہاں سے نکال دو اور دین کے معاملہ میں ظلم کرنا قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اور تم اُن سے کبھی بھی مسجد حرام کے علاقہ میں نہ لڑو۔ سوائے اس کے کہ وہ اس علاقہ میں تم سے لڑائی کریں۔ اگر وہ تم سے اس علاقہ میں لڑائی کریں تو تم کو بھی اجازت ہے کہ تم بھی اس علاقہ میں اُن سے لڑو۔ الٰہی احکام کا انکار کرنے والوں کو یہی سزا ہوتی ہے لیکن اگر وہ لڑائی سے باز آجائیں تو اﷲ تعالیٰ ہر ایک کی غلطیوں کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ دین کے معاملہ میں ظلم کرنا بند ہو جائے اور اطاعت اور فرمانبرداری صرف اﷲ کے لئے باقی رہے۔ (لوگ اپنے خیالات اور اپنے عقیدوں کو جبراً لوگوں پر نہ ٹھونسیں) اگر وہ لوگ اِن باتوں سے باز آجائیں تو سختی اور مقابلہ صرف اُن لوگوں کے لئے جائز ہے جو ظلم کرتے ہوں، دوسروں کے لئے نہیں۔
یہ آیت بھی کتنی واضح ہے۔ اِس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ صرف اُن لوگوں سے جنگ جائز ہے جو کہ لڑتے ہیں اور اُن سے بھی حدود اور مطالباتِ انسانیت کے ماتحت جنگ جائز ہے۔ اِس سے آگے گزرنا جائز نہیں اور انہی علاقوں میں جنگ جائز ہے جن علاقوں میں دُشمن جنگ کریں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دُشمن کے لئے جائز ہے نہ مؤمن کے لئے جائز ہے اور مسلمان کو جنگ میں اتنی احتیاط کرنی چاہئے کہ مقدس مقامات کے قریب جنگ نہ کرے۔ سوائے اس کے کہ دُشمن اُسے مجبور کر دے اور جب دُشمن جنگ سے رُکے تو پھر مسلمانوں کو بھی رُک جاناچاہئے اور یہ کہ اسلامی جنگ محض اس لئے ہوتی ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی کو دُکھ میں ڈالنے سے روکا جائے اور دین کے معاملہ کو صرف اﷲ پر چھوڑ دیا جائے۔ اپنا دین لوگوں سے نہ منوائیں اور جو بھی اِن باتوں پر عمل کرے اُس کے ساتھ لڑائی جائز نہیں۔
اِسی طرح ایک دوسری سورۃ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اسلامی جہاد صرف اُن لوگوں سے ہوتا ہے جو کہ دین میں دخل دینا چاہیں۔ چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:-لَايَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ لَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۔اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ اَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظٰهَرُوْا عَلٰۤى اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ١ۚ وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔340اﷲ تعالیٰ تمہیں اُن لوگوں سے دوستی اور سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کیونکہ اﷲ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں صرف اُن لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے متعلق تم سے لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا یا تم کو گھروں سے نکالنے والوں کی مدد کی۔ ایسے لوگوں سے جو دوستی اور پیار رکھتا ہے وہ ظالم ہے (اور اپنی قوم کا دُشمن ہے)۔
اِس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جہاد صرف دینی جنگ کا نام ہے کیونکہ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف اُن سے دوستی ناجائز ہے جو کہ دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی کرتے ہیں۔ اگر ہر جنگ جہاد ہے تو پھر اِس کے تو یہ معنے ہوں گے کہ جو دینی اُمور کی وجہ سے مسلمان قوم سے لڑائی کرے اُن کے ساتھ ریشہ دوانیاں اور تعلق جائز ہے۔ حالانکہ کوئی عقلمند اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ پس یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ جنگیں دوقسم کی ہوں گی۔ ایک وہ جنگ جو کہ دینی جنگ ہو گی اور اسلام کو اسی جنگ سے تعلق ہے وہ جہاد کہلائے گی۔ اِس کے علاوہ دینی جنگیں بھی انصاف اور عدل کے قوانین کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کی جاسکتی ہیں مگر وہ جہاد فی سبیل اﷲ نہیں کہلائیں گی۔
خلاصہ یہ کہ قرآنِ کریم کی رُو سے جہاد فی سبیل اﷲ وہی ہے جو
(1) دین کی خاطر ہو اور
(2) ایسے لوگوں کے ساتھ کیا جائے جو کہ دین بدلوانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ کریں یا دین کی وجہ سے اُن کو گھروں سے نکالیں۔
(3) جہاد میں بھی اس حد تک دُشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جس حد تک وہ خود کرتا ہے۔ اگر وہ گھروں سے مسلمانوں کو نکالے تو مسلمان بھی اُن کو گھروں سے نکال سکتے ہیں۔ اگر وہ مقدس مقامات کے قریب جنگ کریں تو وہ بھی وہاں جنگ کر سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ معابد کی حفاظت کریں اور مذہب میں دخل اندازی نہ کریں۔
(4) اور اگر دُشمن ایسی جنگ سے رُک جائے تو پھر یہ بھی اس قسم کی جنگ کو ختم کر دیں۔
(5) قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جو شخص ان شرطوں کے مطابق جنگ کرے گا چاہے وہ کمزور بھی ہو اﷲ تعالیٰ اُس کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا۔
جہاد کے لئے امام کی شرط
ایک اَور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہاد صرف منظم صورت میں جائز ہے۔ چنانچہ
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً 341 یعنی تم کو چاہئے کہ سب مسلمان جہاد میں شریک ہوں۔ جس طرح کہ کفّار سارے کے سارے جہاد میں شریک ہیں کیونکہ وہ اِس کو مذہبی جنگ بنا رہے ہیں۔
اب سب کے سب مسلمان تبھی شامل ہو سکتے ہیں جب کوئی امام اُن کو جمع کرنے والا ہو۔ چنانچہ اِس آیت کی تشریح میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّ رَائِہٖ۔342 امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اِس لئے سب مسلمانوں کو اُس کے پیچھے لڑائی کرنی چاہئے۔
یعنی جہاد کے لئے شرط ہے کہ ایک امام اس کا اعلان کرے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کے ساتھ مل کر دینی جنگ میں شامل ہوں اور امام کا فرض ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے زیادہ اس جنگ میں شریک ہو۔
اِن آیتوں اور حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں اِس قسم کے جہاد کی کوئی صورت پیدا نہیں تھی۔ نہ تو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے یا اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانے پر کسی شخص کو مُلک سے نِکالا جاتا تھا ،نہ اس لئے کسی قوم پر حملہ کیا جاتا تھا کہ وہ کیوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے، نہ لوگوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کر لیں اور نہ کوئی امام موجود تھا جو مسلمانوں کو منظم کرتا اور جو مسلمانوں کے آگے ہو کر لڑتا جس سے یہ پتہ لگ جاتا کہ وہ شخص لڑائی کروانے میں دیانتدار ہے۔ صرف دوسروں کا خون کرواکے تماشا نہیں دیکھ رہا۔ پس نہ تو مسلمانوں پر اس قسم کے حملے ہو رہے تھے نہ مسلمان منظم تھے۔ مولوی جہاد پر لوگوں کو اُکسادیتے تھے اور آپ مسجدوں میں بیٹھے رہتے تھے اور دوسرے مسلمان طاقتور غیرحکومتوں کی بندوقوں کا شکار ہوتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی کوئی مدد اُن کو نہیں مِل رہی تھی۔ حالانکہ اس آیت میں جنگ کرنے والوں سے خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ اُن کو مدد دی جائے گی۔ حضرت مرزاصاحب نے اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔ یہی جو قرآن کا حُکم ہے آپ نے اس کی تشریح کی ہے۔ چنانچہ آپ نے اس کے متعلق ایک رسالہ ‘‘جہاد’’ لکھا ہے جو بائیس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘جاننا چاہئے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے۔ جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا’’۔343
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مُشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دُشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اُس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور باہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دِلوں میں ضرور ایک قسم کا بُغض اور حسد پیدا ہو جایا کرتا ہے’’۔344
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں مُشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا۔ لہٰذا وہ اِس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحۂ دُنیا سے مِٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اِس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اُس تکبّر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دِل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں، مال میں، کثرتِ جماعت میں، عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ ؓ سے سخت دُشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودا زمین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا’’۔ 345
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اُنہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدّت تھی، اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوعِ انسان کے فخر، اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اورعاجز اور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے۔ اِس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شرکا ہر گز مقابلہ نہ کرو’’۔ 346
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘اِن صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے، اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے مَیں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور مَیں خدائے قادر ہوں، ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اِس حُکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۙ۔ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ۔ یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور نا حق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور اُن کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے......مگر یہ حکم مختص الزمان و الوقت تھا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اُس زمانہ کے متعلق تھا جب کہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے’’۔347
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت۔ یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اُس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی اور اس کا نام جہاد رکھا۔ غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی اور اِس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق اِن دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا اور اِس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں اور اگرچہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اِس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اُس خطرناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مرتکب ہے بلکہ ہم اِس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر مُتنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے’’۔ 348
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روارکھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہےکہ اَب حرام ہو جائے۔ اِس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے۔ یعنی دلیل کی بنیاد ایسی چیز پر قائم کی گئی ہے جس کا اس سے جوڑ نہیں ہے۔ اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اُٹھائی بجز اُن لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اُٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پرہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے درد انگیز طریقوں سے مارا کہ اَب بھی اُن قصّوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تا ہم اِس زمانہ میں وہ حُکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اُٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دُعا اُس کا حربہ ہو گا اور اُس کی عقدِ ہمت اُس کی تلوار ہو گی۔ وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اُس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہو گا۔ ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مُنہ سے کلمۂ یَضَعُ الْحَرْبَ جاری ہو چُکا ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کردے گا’’۔349
پھر لکھتے ہیں:-
‘‘جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترکِ شر اور اخلاقِ فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دُنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بدبختی اور شامتِ اعمال ہے جو اَب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھوکے دئے ہیں اور بہشت کی کنجی اِسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے بر خلاف ہے۔ کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اُس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اُس پر چھوڑ دیا ہے۔ کیا یہی دینداری ہے؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجالانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں۔ سُبحان اﷲ وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکّہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ۔ پس وہ اِس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے۔ گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت’’۔ 350
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ، بے جُرم، بے تبلیغ، خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ۔ اِس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے’’۔ 351
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اُٹھائی وہ اُس وقت اُٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کافروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے۔ آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں۔ خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب کہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حُکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں کیوں اُن کے مولوی اِن بے جا حرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے’’۔352
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں۔ یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت ہے’’۔353
پھر اسی صفحہ پر فرماتے ہیں کہ چونکہ مسلمانوں میں یہ عادت راسخ ہو گئی ہے اس لئے کسی مسلمان بادشاہ کو چاہئے کہ وہ ان امور کی طرف توجہ کرے اور اس کے لئے اُنہوں نے امیرِ افغانستان کو منتخب کر کے اُسے نصیحت کی کہ وہ ایسا کرے۔
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان راہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانے سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں’’۔354
پھر فرماتے ہیں:-
جہاد کا حکم بادشاہ کے بغیر نہیں۔ اِس لئے امیر صاحب افغانستان کو چاہئے کہ وہ علماء کو سمجھائیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ علماء اس حکم کو دیکھ کر کہ امیر کے بغیر جہاد نہیں اور پھر یہ دیکھ کر کہ امیر صاحب جہاد کا اعلان نہیں کرتے اُن کو بھی دائرۂ اسلام سے خارج کر دیں۔ پس امیر صاحب کو اسلام کے حقوق کی حفاظت کے لئے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا چاہئے۔355
پھر فرماتے ہیں:-
‘‘مسئلہ جہاد کے متعلق جو غلط فہمی ہوئی ہے اُس کے ذمہ دار صرف مولوی نہیں بلکہ پادری بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اِس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے۔ میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی۔ یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا۔ میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اُس وقت تک ایسی وارداتیں بہت ہی کم سُنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اِس مُلک سے اُٹھ گئی اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے۔ پھر جب پادری فنڈل صاحب نے 1849ء میں کتاب میزان الحق تالیف کر کے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی مُلکوں میں شائع کی اور نہ فقط اِسلام اور پیغمبرِ اسلام علیہ السلام کی نسبت توہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شُہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے اِن باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ درحقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے۔ مَیں نے غور کر کے سوچا ہے کہ اکثر سرحدی وارداتیں اور جوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گزر گئے۔ یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شُہرت اور اُس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو 1867ء میں ایکٹ نمبر 6723 سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا۔ یہ قانون سرحد کی چھ قوموں کے لئے شائع ہؤا تھا اور بڑی اُمید تھی کہ اِس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اِس کے پادری عماد الدین امرتسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دِلوں میں عداوت کا تخم بونے میں کمی نہیں کی۔ غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے بہت حارج ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابلِ تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا’’۔ 356
پھر ان فتنوں کو روکنے کے لئے تحریر فرماتے ہیں کہ:-
‘‘میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رُومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہر گزہر گز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر نہ کرے۔ ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اِس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پُرانے قصّے بھُول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے’’۔ 357
ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو قرآن کریم نے دی ہے اور آپ کے زمانہ میں جو جہاد کو روکا گیا ہے اُس کی تین وجہیں آپ نے بتائی ہیں۔
ایک تو یہ کہ یہ حکم دَوری ہے یعنی جب جب وہ حالات پیدا ہوں جن حالات میں اِس حکم کو جاری کیا گیا تھا اُس وقت یہ حکم جاری ہو گا نہ کہ ہر زمانہ میں اور وہ حالات اِس زمانہ میں پیدا نہیں۔
دوسرے یہ کہ جو تعریف جہاد کی اس وقت کے علماء کر رہے ہیں اور جس پر عمل کرنے کے لئے مسلمان کو بھڑکا رہے ہیں وہ تعریف اسلام سے ثابت نہیں۔ اس میں وحشت کی تعلیم دی گئی ہے اور اسلام کے خلاف ہے۔
تیسرے یہ کہ اِس حکم کو اس زمانہ میں روکنے کا فیصلہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے نہیں کیا بلکہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمادی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دینی جنگیں ختم ہو جائیں گی لیکن اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس جہاد سے آپ نے روکا ہے وہ جہاد بالسَّیف ہے اور جہاد بالسَّیف سے زیادہ تاکیدی حکم جہاد بالقرآن کا ہے جس میں آپ ساری عمر مشغول رہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا۔358 یعنی قرآنِ کریم کے ساتھ تم غیر مسلموں کا مقابلہ کرو اور یہی بڑا جہاد ہے۔
چنانچہ اس آیت کے ماتحت تفسیر رُوح المعانی جلد 6 صفحہ 162 پر لکھا ہے:-
أَیْ بِالْقُرْاٰنِ وَ ذٰلِکَ بِتِلَاوَۃٍ مَا فِیْہِ مِنَ الْبَرَاہِیْنَ وَالْقَوَارِعِ وَ الزَّوَاجِرِوَالْمَوَاعِظِ وَ تَذْکِیْرِ اَحْوَالِ الْاُمَمِ الْمُکَذَّبَۃِ فاِنَّ دَعْوَۃَ کُلِّ الْعَالَمِیْنَ عَلَی الْوَجْہِ الْمَذْکُورِ جِہَادٌ کَبِیْرٌ۔ یعنی اِس جگہ پر جہاد سے مراد قرآنِ کریم کے ذریعہ سے جہاد کرنا ہے اور یہ اِس طرح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جو براہین اور کُفر کے خلاف باتیں ہیں اسی طرح جن خلافِ اخلاق اُمور پر زجر کیا گیا ہے اور جو جو نصائح کی گئی ہیں اُن سب کو پڑھا جائے اور نبیوں کی مُنکر اُمّتوں کے احوال بیان کر کر کے لوگوں کو نصیحت کی جائے کیونکہ دُنیا کے تمام انسانوں کو اِس طریق سے اِسلام کی طرف بُلانا ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی تائید میں علماء اسلام کے حوالے
یہ مذہب جو آپ کا جہاد کے متعلق ہے اِس میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ منفرد نہیں بلکہ دیگر علماءِ اسلام بھی اسی قسم کا مذہب رکھتے تھے۔ چنانچہ
مفرداتِ راغب والے لکھتے ہیں:اَلْجِہَادُ ثَلَاثَۃُ اضْرَبٍ مُجَاھَدَۃُ الْعَدُوِّ الظَّاھِرِ وَ مُجَاھَدَۃُ الشَّیْطَانِ وَ مُجَاھَدَۃُ النَّفْسِ۔ 359یعنی جہاد تین قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جہاد ہے جو اُس کھلے دُشمن سے کیا جائے جو مسلمانوں سے لڑائی کرے۔ ایک وہ جہاد ہے جو شیطان سے کیا جائے اور ایک وہ جہاد ہے جو اپنے نفس سے کیا جائے۔
حنفیوں کی کتاب ھدایہ جلد 2 صفحہ 291، 292میں لکھا ہے:-
اِنَّمَا فُرِضَ لِاِ عْزَازِ دِیْنِ ﷲِ وَ دَفْعِ الشَّرِّ عَنِ الْعِبَادِ’’۔
کہ جہاد دینِ الٰہی کو معزز بنانے کے لئے اور خدا کے بندوں کو شر اور فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے فرض کیا گیا ہے۔
اور پھر اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کی طرح قرآن کریم کی اِس آیت میں اشارہ ہے کہ وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ۔ 360
مولانا سیّد نذیر حسین صاحب دہلوی امیر اہلِ حدیث نے بھی جہاد کی وہی تعریف کی ہے جو حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کی۔ آپ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے
‘‘اصل معنی ٔ جہاد کے لحاظ سے بغاوت 1857ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اُس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کر کے اُس میں شمولیت اور اُس کی معاونت کو معصیت قرار دیا’’۔ 361
اِس طرح حنفیوں کی طرف سے یہ فتویٰ شائع ہؤا ہے کہ:-
‘‘جو حکومت مسلمانوں کے مذہبی شعائر میں پوری آزادی دیتی ہے اُن کے جان و مال و آبرو کی محافظ ہے۔ قرآن اور رسُول کی بے حُرمتی کو قانوناً جُرم قرار دیتی ہے۔ بیت اﷲ اور بیت الرسول کی زیارت سے نہیں روکتی اُس کے ساتھ ترکِ تعلقات کیسے واجب ہو سکتا ہے’’۔362
شیعہ صاحبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ:-
‘‘برطانیۂ عظمیٰ کی برکات کا اعتراف کرتے ہوئے شیعانِ ہندوستان کی طرف سے دِلی خلوص اور وفاداری کا اظہار کرتا ہوں اور اعلیٰ حضرت شہنشاہِ معظم جارج پنجم خَلَّدَ ﷲ سُلْطَانَہٗ و ملکہ کی سلامتی اور اقبال کی دُعا پر اِس مبارک جلسہ کو برخاست کرتا ہوں’’۔ 363
سر سیّد احمد خان لکھتے ہیں:-
‘‘مسلمانوں کا بہت روزوں سے آپس میں سازش اور مشورہ کرنا اِس ارادہ سے کہ ہم باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے لوگوں پر جہاد کریں اور اُن کو حکومت سے آزاد ہو جائیں، نہایت بے بنیاد بات ہے۔ جبکہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مست امن تھے۔ کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے۔ بیس تیس برس پیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسمٰعیل نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کہا اور آدمیوں کو جہاد کی ترغیب دی۔ اُس وقت اُس نے صاف بیان کیا کہ ہندوستان کے رہنے والے جو سرکارِ انگریزی کے امن میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہزاروں آدمی جہادی ہرایک ضلع ہندوستان میں جمع ہوئے اور سرکار کی عملداری میں کسی طرح کا فساد نہیں کیا اور غربی سرحد پنجاب پر جاکر لڑائی کی اور یہ جو ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہؤا اگر اس کو ہم جہاد ہی فرض کریں تو بھی اس کی سازش اور صلاح قبل دسویں مئی 1857ء مطلق نہ تھی’’۔ 364
علّامہ سیّد رشید رضا صاحب شامی ثم مصری اپنی تفسیر المنار جلد 10 مطبوعہ قاہرہ صفحہ 307 پر لکھتے ہیں:-
‘‘ہم نے یہ دلیلیں اِس لئے کثرت سے دی ہیں کہ یورپین لوگ اور اُن کے مقلد اور اُن کے شاگرد مشرقی عیسائیوں میں سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جہاد کے معنے یہ ہیں کہ مسلمان ہر اُس شخص سے لڑے جو کہ مسلمان نہیں تاکہ اُس کو مجبور کر کے اسلام میں داخل کرے۔ خواہ غیرمسلموں نے اُن پر زیادتی نہ کی ہو اور اُن سے دُشمنی نہ کی ہو اور اے پڑھنے والے تُجھ پر روشن ہو چُکا ہو گا اُن دلیلوں سے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور اُن دلیلوں سے جو ہم آئندہ بیان کریں گے اور بھی روشن ہو جائے گا کہ اسلام پر غیر مسلموں کا یہ الزام جھوٹ اور افتراء ہے’’۔
اِسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘وہ تفصیل جو ہم نے اوپر لکھی ہے اُس سے یہ ثابت ہو چُکا ہے کہ جہاد بالسیف کے مسئلہ میں مسلمانوں کا اجماع صرف اِس بات پر ہے کہ جب مسلمانوں پرکوئی قوم حملہ کرے تو یہ جہاد فرض ہوتا ہے اور اُس وقت بھی اسی صورت میں فرض ہوتا ہے کہ جب کہ امام واجب الطاعت جنگِ عام کا حُکم دے لیکن اگر وہ صرف کچھ لوگوں کو اس لڑائی کا حُکم دے تو پھر اُنہی لوگوں پر یہ جنگ فرض ہو گی باقی لوگوں پر یہ جنگ فرض نہیں ہو گی’’۔ 365
مولانا ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر ‘‘زمیندار’’ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ:-
‘‘اگر خدانخواستہ گورنمنٹ انگلشیہ کی کسی مسلمان طاقت سے اَن بَن ہو جائے تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو اسی طرح سرکار کی جلتی آگ میں کُود کر اپنی عقیدت مندی کا ثبوت دینا چاہئے جس طرح سرحدی علاقہ اور سمالی لینڈ کی لڑائیوں میں مسلمان فوجی سپاہیوں نے اپنے مذہبی اور قومی بھائیوں کے خلاف جنگ کر کے اِس بات کا بار ہا ثبوت دیا ہے کہ اطاعتِ اولی الامر کے حکم کے وہ کِس درجہ پابند ہیں۔ مسلمانوں کا سر پھرا ہؤا نہیں ہے کہ وہ اِس مہربان و عادل گورنمنٹ سے سرکشی اختیار کریں’’۔ 366
جہاد قیامت تک کے لئے ہے
غرض بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے نہ تو جہاد کے اسلامی حکم کو منسوخ کیا ہے اور نہ ملتوی کیا
ہےبلکہ اُس جہاد کو منسوخ کیا ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف موجودہ زمانہ کے علماء نے سمجھا تھا اور اِس کے خلاف بھی اپنی مرضی سے فتویٰ نہیں دیا بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے آپ ؐ کے منشاء کے مطابق ایک اعلان کیا ہے۔ یہ حکمِ جہاد قیامت تک کے لئے جاری ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ جن وجوہ سے یہ حکم جاری کیا جاتا ہے وہ وجوہ پیدا ہو جائیں۔ اگر کسی جگہ پر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے نسخ یا حرام کا لفظ جہاد کے لئے استعمال کیا ہے تو اس کے معنے محض اتنے ہی ہیں کہ اِس حکم کے لئے جو شرائط ہیں وہ اِس زمانہ میں پوری نہیں ہیں یا یہ کہ اِس زمانہ میں جو معنے اِس حکم کے کئے جارہے ہیں اِس معنوں کے رُو سے وہ ناجائز ہے کیونکہ وہ معنے غلط اور احکامِ قرآن کے خلاف ہیں۔ یہ امر کہ جہاں کہیں حرام یا منسوخ کا لفظ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے لکھا ہے اس کے معنے حقیقی نسخ کے یعنی واقعی اور دائمی نسخ کے نہیں ہو سکتے۔ اِسی بات سے ثابت ہے کہ آپ اُصولی طور پر یہ عقیدہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآنِ کریم کا کوئی حکم قیامت تک نہیں بدل سکتا۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘میری گردن اُس جُوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شُعشہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے’’۔ 367
نسخ کے یہ محدود معنے کہ عارضی طور پر کسی شئے کو روک دیا جائے، عربی زبان میں عام مستعمل ہیں۔ چنانچہ مفرداتِ راغب جیسی زبردست لُغتِ قرآن میں لکھا ہے کہ:-
‘‘اَلنَّسْخُ اِزَالَۃُ شَیْ ءٍ بِشَیْ ءٍ یَتَعَقَّبُہٗ کَنَسْخِ الشَّمْسِ الظِّلَّ وَ الظِّلِّ الشَّمْسَ وَ الشَّیْبِ الشَّبَابَ’’۔368 یعنی نسخ کا لفظ سُورج کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ سائے کو دُور کر دیتا ہے اور سائے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ سورج کو چُھپا دیتا ہے اور بڑھاپے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جب وہ جوانی کو دُور کر دیتا ہے یعنی کبھی تو نسخ عارضی ازالہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ سورج کے سایہ کو مٹادینے کے متعلق جو عارضی ہوتا ہے اور کبھی مستقل ازالہ کے لئے اِس کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے بڑھاپے کے جوانی کو مٹا دینے کے متعلق جو کہ مستقل ہوتا ہے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے صاف لکھا ہے کہ
‘‘فرما چُکا ہے سیّد کونَینِ مصطفیٰ ؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا اِلتواء’’
جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے جو کچھ بھی اس بارہ میں لکھا ہے وہ صرف اِلتواء کے معنوں میں ہے۔ مستقل طور پر اِس حکم کو منسوخ کرنے کے معنوں میں نہیں اور اِس عارضی اِلتواء کے متعلق بھی آپ نے یہی تشریح کی ہے کہ جہاد کے اِلتواء کے متعلق بھی مَیں نہیں کہہ رہا بلکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کی ایک تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ہو سکتا ہے آئندہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کے لئے لڑائی کرنا ضروری ہو اور دینی جنگوں کی ضرورت پیدا ہو جائے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:-
‘‘ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اِس دُنیا کی حکومت اَور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔ درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت اُن کی یہ مُراد بھی پوری ہوجائے’’۔ 369
علماء کا جہاد کے متعلق غلط نظریہ
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ حال کے علماء بھی اسی جہاد کے قائل تھے اور ہیں
جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔سو اس شُبہ کے ازالہ کے لئے ہم ذیل کے حوالے درج کرتے ہیں:-
(1) ‘‘خلیفہ وقت کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا یعنی خدا اور اُس کے رسول کا مقدس پیغام خدا کی مخلوق تک پہنچانا اور اُنہیں دعوتِ اسلام دینا۔ جب کسی حُکمران کو دعوتِ اسلام دی جاتی ہے تو دو شرطیں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ اگر مسلمان نہیں ہوتے تو جزیہ دو اور یہ دونوں شرطیں نہ مانی جاتیں تو پھر مجاہدینِ اسلام کو ان سرکشوں کا بھر کس نکالنے کا حُکم ملتا اور اس کا نام جہاد ہے’’۔ 370
(2) ‘‘واضح ہو کہ اہلِ اسلام کے ہاں کُتب احادیث اور فقہ میں جہاد کی صورت یوں لکھی ہے کہ پہلے کفّار کو موعظہ حسنہ سُنا کر اسلام کی طرف دعوت کی جائے ۔ اگر مان گئے تو بہتر نہیں تو کفّارِ عرب سے بباعثِ شدّتِ کُفر اور بُت پرستی اُن کے ایمان یا قتل کے سوا کچھ نہ مانا جائے’’۔371
(3) سابق علماء تو الگ رہے ۔ اب تک مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اِس بیسویں صدی کے نصفِ آخر میں بھی یہی عقیدہ رکھتے اَور اِسی کی اشاعت کر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:-
‘‘یہی پالیسی تھی جس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدینؓ نے عمل کیا۔ عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیرنگیں کیا گیا۔ اِس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی .....آنحضرتؐ کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو اُنہوں نے روم اَور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا ‘‘۔ 372
اِن حوالوں سے ظاہر ہے کہ اسلام کے نہایت پاک اور ضروری حکمِ جہاد کو جو موجودہ مہذّب دُنیا کی تعلیمات و اُصولِ جنگ سے بھی بہتر اور نہایت منصفانہ اور عادلانہ تھا اور ہے ان علماء نے نہایت مکروہ اور ظالمانہ اور وحشیانہ شکل دے دی تھی۔ اِس زمانہ کا مامور تو الگ رہا ہر محبِّ اسلام کا فرض تھا اور ہے کہ اِس کی تردید کرے اور اِس تردید کو تمام عالم میں پھیلائے تاکہ اسلام کے چہرہ سے یہ بدنما داغ دُور ہو جائے۔
چونکہ اس مضمون پر خاص زور دیا گیا ہے اور بعض زائد حوالے دونوں طرف سے عدالت عالیہ میں پیش ہوئے ہیں اس لئے ہم ایک ضمیمہ ساتھ لگا رہے ہیں جو جہاد کے متعلق دوسرے حوالوں سے بحث کرتا ہے۔
اِس اعتراض کا جواب کہ جماعتِ احمدیہ کو اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں
آخر میں ہم یہ لکھ دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ رسالہ ‘‘جہاد’’ چونکہ جہاد کے متعلق
جماعتِ احمدیہ کےمسلک کو نہایت واضح کر دیتا ہے اِس لئے ہم اِس رسالہ کی ایک کاپی اپنے بیان کے ساتھ شامل کئے دیتے ہیں۔ اگر آنریبل ججز اِس رسالہ پر نظر ڈالیں گے تو ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی۔ اِس اعتراض کا پس منظر اصل میں یہ ہے کہ احمدیہ جماعت انگریزوں کی قائم کردہ ہے اور اِس کو اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں۔
ہم اِس کے جواب میں وہ نوٹ پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں جو ہندوستان کے ایک مانے ہوئے عالم اور اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹر مولانا عبداﷲ العمادی نے 1908ء میں حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پر شائع کیا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جو مسلمان لیڈروں میں بڑی حیثیت رکھتا تھا اور جو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا ہمعصر تھا اور جس کے سامنے اُن کی زندگی کے حالات گزرے تھے۔ اس کے مقابلہ میں بعد کو آنے والے لوگوں کے بیان کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ وہ نوٹ یہ ہے :-
‘‘وہ شخص، بہت بڑا شخص ۔ جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا۔ جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی۔ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دونوں مُٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں۔ وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیئیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شورِ قیامت ہو کر خفتگان خوابِ ہستی کو بیدار کرتا تھا۔ خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا۔ یہ تلخ موت، یہ زہر کا پیالہ موت جس نے مَرنے والے کی ہستی تہِ خاکِ پنہاں کی۔ ہزاروں لاکھوں زمانوں پر۔ تلخ ناکامیاں بن کر رہے گی۔ اور قضاء کے حملہ نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتلِ عام کیا ہے۔ صدائے ماتم مدتوں اس کی یاد گار تازہ رکھے گی۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اِس قابل نہیں کہ اِس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے۔ ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے۔ یہ نازشِ فرزندانِ تاریخ بہت کم منظرِ عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے دکھلا جاتے ہیں۔
مرزا صاحب کی اِس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو، ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفینِ اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اُس کی ذات سے وابستہ تھی، خاتمہ ہو گیا۔ اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے، ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تاکہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دُشمنوں کو عرصہ تک پست و پائمال بنائے رکھا، آئندہ بھی جاری رہے ..... مرزا صاحب اِس پہلی صفِ عشاق میں نمودار ہوئے تھے جس نے اسلام کے لئے یہ ایثار گوارا کیا کہ ساعتِ مہد سے لے کر بہار و خزاں کے سارے نظارے ایک مقصد پر ہاں ایک شاہدِ رعنا کے پیمانِ وفا پر قربان کر دیئے۔ سیّد احمد ؒ ، غلام احمد ، رحمت اﷲؒ، آل حسنؒ، وزیر خاں ؒ، ابو المنصورؒ۔ یہ سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے زمرہ کے لوگ تھے جنہوں نے بابِ مدافعت کا افتتاح کیا اور آخر وقت تک مصروفِ سعی رہے۔
اختلافِ طبائع اور اختلافِ مدارجِ قابلیت کے ساتھ ان کے رازِخدمت بھی جُداگانہ تھے اور اِسی لئے اثر اور کامیابی کے لحاظ سے اُن کے درجے بھی الگ الگ ہیں۔ تاہم اِس نتیجہ کا اعتراف بالکل ناگزیر ہے کہ مخالفینِ اسلام کی صفیں سب سے پہلے انہی حضرات نے برہم کیں۔ مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چُکا ہے اور اِس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اِس لٹریچر کی قدروعظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چُکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہر گز لوحِ قلب سے نَسْیاً مَّنْسِیًّا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھِر چُکا تھا اور مسلمان جو حافظِ حقیقی کی طرف سے عالمِ اسباب و وسائط میں اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قُصوروں کی پاداش میں پڑے سِسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے۔ ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دُنیا اسلام کی شمعِ عرفانِ حقیقی کو سرِ راہِ منزل مزاحمت سمجھ کے مِٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبردست طاقتیں اِس حملہ آور کی نسبت گرمی کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعفِ مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا۔ چونکہ خلافِ اصلیت محض شامتِ اعمال سے مفسدہ 1857ء کا نفسِ ناطقہ مسلمان ہی قرار دیئے گئے تھے۔ اِس لئے مسیحی آبادیوں اور خاص کر انگلستان میں مسلمانوں کے خلاف پولیٹیکل جوش کا ایک طوفان برپا تھا اور اِس سے پادریوں نے صلیبی لڑائیوں کے داعیان راہ سے کم فائدہ نہ اُٹھایا۔ قریب تھا کہ خوفناک مذہبی جذبے ان حضرات کے میراثی عارضۂ قلب کا جو اسلام کی خود رو سر سبزی کے سبب بارہ تیرہ صدیوں سے ان میں نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا چلا آیا تھا درمان ہو جائے کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصّہ مرزا صاحب کو حاصل ہؤا۔ اِس مدافعت نے نہ صرف عیسائی مذہب کے اس ابتدائی اثر کے پرخچے اُڑادیئے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھؤاں ہو کر اُڑنے لگا ........ غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گران بارِاحسان رکھے گی کہ اُنہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے وہ فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسالٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمان کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایتِ اسلام کا جذبہ اُن کے شعارِ قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا۔ اِس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے ..... ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں ....... مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ مَیں ان سب کے لئے حکم و عدَل ہوں لیکن اِس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اِسلام کو نمایاں کر دینے کی اُن میں مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھا اُن کی فطری استعداد کا، ذوقِ مطالعہ اور کثرتِ مشق کا۔ آئندہ اُمید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دُنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اِس طرح مذہب کے مطالعہ میں صَرف کر دے’’۔
اِس بیان کے علاوہ ہم جماعتِ احرار کے لئے ہم اُن کے لیڈر چوہدری افضل حق صاحب کی ایک رائے بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جس سے احراریوں کے دعویٰ کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:-
‘‘آریہ سماج کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی حِس مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہبِ اسلام کے متعلق بد ظنّی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنّا کر دیا مگر حسبِ معمول جلدی خوابِ گراں طاری ہو گئی۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دِل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا۔ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اِسلام کی نشرو اشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہؤا۔ تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابلِ تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے’’۔373
سوال نمبر7 متعلق اعتراض عَدم ہمدردِیٔ مسلمانان
ہفتم یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی۔
افسوس ہے کہ جماعتِ اسلامی، مجلسِ عمل اور احرار نے اس معاملہ میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ ہمارے زمانے کی بڑی بڑی مشہور اسلامی حکومتیں تُرکی، عرب، مصر، ایران، افغانستان اور انڈونیشیا ہیں۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف تُرکی کی حکومت تھی جو مسلمانوں کے سامنے آئی تھی۔ ایران تو بالکل نظر انداز تھا اور افغانستان ایک رنگ میں انگریزوں کے ماتحت حکومت تھی۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ترکی اور یورپ کی بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنا پڑا ہو۔ سوائے اس جنگ کے جو کہ یونان کے ساتھ ہوئی تھی اور بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس معاملہ میں ترکی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے ترکی حکومت کی تائید
آپ کے بعد دوسری جنگ ترکی
اور اٹلی کے درمیان ہوئی جس میں جماعتِ احمدیہ نے ترکی سے ہمدردی ظاہر کی اور اٹلی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا۔
تیسری جنگ ترکی اور اتحادی قوموں کے ساتھ ہوئی جس میں ترکی اپنی اغراض کے لئے نہیں کھڑا ہؤا تھا بلکہ جرمن کی تائید کے لئے کھڑا ہؤا تھا۔ لازماً اتحادی قوموں نے اپنی اپنی حکومتوں کی مدد کی۔ وہ وقت کسی ہمدردی کے اظہار کا تھا ہی نہیں۔ تمام مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ترکی کی شکست کے بعد تحریکِ خلافت پیدا ہوئی لیکن اپنے ہاتھوں سے ترکی کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد خلافت کا شور مچانا یہ تو کوئی پسندیدہ طریق نہیں تھا مگر اُس وقت بھی موجودہ امام جماعت احمدیہ نے ترکی کی تائید میں دو ٹریکٹ لکھے جن میں سے ایک کا نام ‘‘ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض’’ ہے اور دوسرے کا نام ‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ’’ ہے۔
عربوں کی امداد
پھر جب عربوں کے ساتھ یورپین لوگوں نے معاہدہ کیا تو اس پر بھی امام جماعت احمدیہ نے سختی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا
اور کہا کہ عربوں کے ساتھ انگریزوں نے ظلم کیا ہے اور ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔374
انڈونیشیا کی آزادی
پھر انڈونیشیا کی آزادی کا سوال پیدا ہؤا تو اس میں بھی احمدی جماعت نے انڈونیشیا کی آزادی کی پوری طرح تائید
کی اور انڈونیشیا کی زمین اسی طرح احمدی محبّانِ وطن کے خون سے رنگین ہے جس طرح کہ غیر احمدی محبّانِ وطن کے خون سے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انڈونیشیین ایمبیسیڈر (سفیر) نے اپنی حکومت کی طرف سے گزشتہ فسادات کے موقع پر حکومتِ پاکستان کے فارن منسٹر کے خلاف شورش پیدا ہونے پر انڈونیشین حکومت کی ناپسندیدگی کو ظاہر کیا۔ یہ انڈونیشین ایمبیسیڈر احمدی نہیں تھا اور اب تک وہی ایمبیسیڈر ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ مجلسِ عمل کے نمائندہ شمسی صاحب نے اس کو (اپنی ناجائز اغراض پوری کرنے کے لئے) احمدی قرار دیا ہے حالانکہ جس شخص کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ احمدی ہے وہ کبھی بھی ایمبیسیڈر نہیں ہؤا۔ وہ موجودہ فسادات سے پہلے اور موجودہ ایمبیسیڈر سے پہلے انچارج کی حیثیت میں پاکستان میں رہا ہے اور ان فسادات سے پہلے بدل کر عراق میں بطور منسٹر کے چلا گیا تھا مگر یہ بتانے کے لئے کہ گویا بیرونی دُنیا میں اِن مظالم پر کوئی نفرت نہیں پیدا ہوئی تھی اگر کسی نے دلچسپی بھی لی تھی تو وہ صرف ایک احمدی تھا۔ یہ جھوٹ بولا گیا کہ انڈونیشین ایمبیسیڈر فساد کے وقت میں احمدی تھا۔ فسادات کے وقت میں جو ایمبیسیڈر تھا وہ آج بھی ہے اور وہ نہ اُس وقت احمدی تھا اور نہ اِس وقت تک ہے۔
شُدھی کا مقابلہ
ہندوستان میں جب ملکانہ میں آریوں نے لوگوں کو شُدھ کرنا شروع کیا تو اُس وقت احمدی ہی تھے جو مقابلہ کرنے کے لئے
آگے بڑھے اور اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ اِس معاملہ کے دَوران میں ہم احمدیت کی تبلیغ نہیں کریں گے۔375
چنانچہ بیس ہزار کے قریب آدمیوں کو وہ واپس لائے اور وہ آج تک بھی حنفی ہیں احمدی نہیں اور اس وقت ملکانہ لیڈروں نے ہمارے اس کام کا اقرار کیا اور اس کی پبلک میں گواہی دی۔376
سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ اور وَرتمان کی شرارت کا جواب
1927ء میں جب لاہور میں مسجد سے نکلتے ہوئے چند مسلمانوں پر سکھوں نے بِلاوجہ حملہ کر دیا تو اُس وقت بھی احمدی ہی اس مقابلہ
کے لئے آگےآئے۔377 اور ورتمان کی شرارت کا جواب بھی احمدیوں نے ہی دیا۔378 چنانچہ ان ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں 53 الف کا قانون بنا۔ ورتمان کے ایڈیٹر کو سزا ملی اور یہ وہی زمانہ ہے جبکہ احرار معرضِ وجود میں آرہے تھے مگر ابھی اُنہوں نے اپنا نام احرار اختیار نہیں کیا تھا۔
بہار اور کلکتہ کے فسادات
پھر جب بمبئی، بہار اور کلکتہ کے فسادات ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کی تائید میں امام جماعتِ احمدیہ
نے انگریزی میں ٹریکٹ لکھ کر انگلستان میں شائع کیا اور انگلستان کے کئی اخبارات نے ان سے متاثر ہو کر مسلمانوں کی تائید میں نوٹ لکھے۔
بہار کے فسادات
جب بہار کے فسادات ہوئے اور بہت سے مسلمان مارے گئے تو قائدِ اعظم کی چندہ کی تحریک کا سب سے پہلے جماعت
احمدیہ نے خیر مقدم کیا اور یہ پیش کیا کہ وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ چندہ دیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے چندہ دیا اور نہ صرف قائدِ اعظم کے فنڈ میں چندہ دیا بلکہ خود وہاں وفد بھیجے جو مسلمانوں کو اُن کی جگہوں میں بسائیں اور اُن کے حقوق اُن کو دِلائیں۔ 379
کشمیر کمیٹی
جب کشمیریوں پر ظلم ہؤا تو اُس وقت بھی آگے آنے والی جماعت، جماعتِ احمدیہ ہی تھی۔ خود علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کا صدر امام
جماعت احمدیہ کو بنوایا۔دو سال تک احمدی وکیل مُفت کشمیر کے مقدمے لڑتے رہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جتنے مقدمے اُن دِنوں میں مسلمانوں پر کئے گئے اور جتنی گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں اُن میں سے پچانوے فیصدی مقدمے احمدیوں نے لڑے اور گرفتار شُدگان کی تعداد میں سے اَسّی فیصدی کو رہا کرایا۔ حالانکہ احمدی وکیلوں کی تعداد غیر احمدی وکیلوں کے مقابلہ میں شاید ایک فیصدی ہو گی۔380
باؤنڈری کمیشن
باؤنڈری کمیشن کے موقع پر قائدِ اعظم کی نظر باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے صرف چوہدری ظفراﷲ خاں
پر پڑی اور جب لیگ نے دیکھا کہ کانگرس شرارت کر کے سکھوں اور بعض اور قوموں کو آگے لا رہی ہے یہ بتانے کے لئے کہ ساری قومیں مسلمانوں کے خلاف ہیں تو لیگ کے کہنے پر جماعتِ احمدیہ نے بھی اپنا وفد باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ضلع جس میں اُن کا سنٹر ہے وہ پاکستان میں جائے۔ ضلع گورداسپور کی ساری آبادی میں مسلمان ساڑھے اکاون فیصدی تھے۔ اگر احمدی کافر قرار دے کے اس میں سے نکال دیئے جاتے جیسا کہ احراریوں کا تقاضا تھا تو ضلع گورداسپور کی کل مسلمان آبادی چھیالیس فیصدی رہ جاتی تھی۔ اِس ضرورت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے لیگ نے چاہا کہ احمدی وفد پیش ہو اور اس ضرورت کے ماتحت احمدی وفد پیش ہؤا اور اُس نے صفائی سے کہہ دیا کہ ہم مسلمانوں کا حصّہ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی صرف لیگ یا کانگرس کو اجازت تھی اور دوسری کوئی جماعت انہی کی اجازت سے پیش ہو سکتی تھی۔
کشمیر کی جنگ میں حصّہ
جب پارٹیشن ہوئی اور کشمیر میں لڑائی شروع ہوئی تو احمدی جماعت ہی تھی جو کہ منظم طور پر اس جنگ
میں شرکت کے لئے گئی اور انہوں نے تین سال تک برابر اس محاذ کو سنبھالے رکھا جو کہ کشمیر کا سخت ترین محاذ تھا۔ یہاں تک کہ فوجی حُکّام کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس لڑائی کے لمبے عرصے میں احمدی فوج نے ایک انچ زمین بھی دُشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دی۔381
اُس وقت مولانا مودودی یہ اعلان کر رہے تھے کہ کشمیر کا جہاد ناجائز ہے۔ 382
ہم اُن کے فتویٰ سے متفق ہیں کہ یہ مذہبی جہاد نہ تھا مگر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ جو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے لڑتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔ پس یہ جنگ اسلام کی تعلیم کے مطابق منع نہ تھی بلکہ پسندیدہ تھی۔
اور یہ احراری علماء احمدیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہے تھے اور احمدی فوج کی بدنامی کے لئے پورا زور لگا رہے تھے۔
تقسیم پنجاب کے وقت مسلمانوں سے تعاون
پھر گزشتہ تقسیم پنجاب کے فسادات کے موقع
پر جماعتِ احمدیہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جو تعاون کیا ہے اُس کے متعلق ہم مندرجہ ذیل شہادتیں اپنے حال کے مخالفین کی ہی پیش کرتے ہیں۔ اخبار ‘‘زمیندار’’ 3/اکتوبر 1947ء کے اداریہ میں لکھتا ہے:-
‘‘اِس میں شک نہیں مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابلِ شکریہ طریقہ پر کی’’۔
20ستمبر 1947ء کا اخبار زمیندار لکھتا ہے:-
‘‘قادیان میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ پناہ گزین موجود ہیں’’۔
11اکتوبر 1947ء کے اخبار زمیندار نے لکھا:-
‘‘کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے تین بریگیڈیئرز کے ہمراہ قادیان کا دَورہ کیا۔ اس پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصّے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں، ہر جگہ ہُو کا عالم ہے۔ البتہ تین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائی دیئے جو کفّار کے مقابلہ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صمیم کر چکے ہیں۔ ان لوگوں کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہے..... پناہ گزینوں کی حالت بہت ابتر ہے۔ مقامی مِلٹری نے انہیں خوراک دینے سے اِنکار کر دیا اور احمدیہ انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت زدوں کے لئے خوراک کا انتظام کرے۔ چنانچہ انجمن اپنا راشن کم کر کے اِن پناہ گزینوں کو خوراک دے رہی ہے’’۔383
مولانا محمد علی جوہر کی تصدیق
اِس سوال کے جواب کے آخر میں ہم جماعتِ احمدیہ کے متعلق مولانا محمد علی جوہر
مرحوم کی رائے بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔مولانا محمد علی ایسے بڑے لیڈر تھے کہ قائدِ اعظم اور مولانا محمد علی کے مقابلہ میں اور کوئی سیاسی لیڈر نہیں ٹھہر سکتا اور اسلام کی اتنی غیرت رکھتے تھے کہ دُشمن بھی اُن کی اِس خوبی کو تسلیم کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے اخبار ‘‘ہمدرد’’ دہلی مؤرخہ 24ستمبر 1927ء میں لکھا:-
‘‘ناشکرگزاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر اِن سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بِلا اختلافِ عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت تک اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دُور نہیں جبکہ اسلام کے اِس منظم فرقہ کا طرزِ عمل سوادِاعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اﷲ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بُلند بانگ و در باطن ہیچ دعاوی کے خوگر ہیں۔ مشعلِ راہ ثابت ہو گا’’۔ 384
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمد علی جوہرؔ کے نزدیک نہ صرف جماعت احمدیہ کُلّی طور پر مسلمانوں کی بہبودی میں لگی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی تنظیم اور جماعت کی ترقی کے لئے کوشش کر رہی تھی بلکہ اُن کے نزدیک مسلمان علماء کے لئے ضروری تھا کہ وہ جماعتِ احمدیہ کے کاموں میں اس کی تردید نہیں بلکہ تائید کریں اور تائید ہی نہیں اُس کے نقشِ قدم پر چلیں۔
سوال نمبر8 دربارہ اعتراض دُشنام دہی
ہشتم: کہا گیا ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاً سخت گالیاں دی ہیں۔
یہ اعتراض بھی بالکل غلط ہے۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جو کچھ کہا ہے جواباً کہا ہے۔ جب یہ لوگ ایک لمبے عرصے تک گالیوں سے باز نہ آئے تو اُنہوں نے کچھ الفاظ استعمال کئے تاکہ اُن کو احساس ہو جائے کہ ان الفاظ کا استعمال مناسب نہیں۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے حق میں غیراحمدی علماء کے سخت الفاظ
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے متعلق جو سخت الفاظ استعمال کئے گئے اُن کی ایک مختصر سی لِسٹ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ ان علماء نے لکھا:-
‘‘مرزا (کادیانی) کافر ہے۔ چھُپا مُرتد ہے۔ گمراہ ہے۔ گمراہ کُنندہ مُلحد ہے۔ دجّال ہے۔ وسوسہ ڈالنے والا۔ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا۔ لَا شَکَّ اَنَّ مِرْزَا کَافِرٌ۔ مُرْتَدٌ ۔ زِنْدِیْقٌ۔ ضَالٌّ۔ مُضِلٌّ۔ مُلْحِدٌ۔ دَجَّالٌ ۔ وَسْوَاسٌ۔ خَنَّاسٌ’’۔ 385
‘‘مرزا قادیان اہلِ اسلام سے خارج ہے اور سخت مُلحد اور ایک دجّال دجالون مخبر عنہا سے ہے اور پَیرو اُس کے گمراہ ہیں’’۔386
‘‘حقیقت میں ایسا شخص منجملہ اُن دجّالوں کے ایک دجّال مگر بڑا بھاری دجّال بلکہ اُس کا عمّ و خال ہے’’۔ 387
‘‘وہ کافر ہے۔ بدکردار شریعتِ محمدیہ کا مخالف۔ اس کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ خدا اس کا مُنہ کالا کرے’’۔ 388
‘‘غلام احمد قادیانی کج رو۔ پلید۔ جس کا عقیدہ فاسد ہے اور رائے کھوٹی گمراہ ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنے والا۔ چھپا مُرتد ہے بلکہ وہ اپنے اس شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اُس سے کھیل رہا ہے’’۔ 389
‘‘اسلام کا چھپا دُشمن۔ مسیلمۂ ثانی۔ دجّالِ زمانی نجومی۔ رملی۔ جوتشی۔ اٹکل باز جفری بھنگڑ بھکڑ۔ اَرڑپوپو۔ مکّار۔ جھوٹا۔ فریبی۔ ملعون۔ شوخ۔ گستاخ۔ مثیلِ دجّال۔ اعورالدجال۔ غدّار۔ کاذب۔ کذّاب۔ ذلیل و خوار۔ مردود۔ بے ایمان۔ روسیاہ۔ رہبر ملاحدہ۔ عبدالدراہم والدنانیر تمغاتِ *** کا مستحق۔ موردِ ہزار ***۔ ظلّام افّاک۔ مفتری عَلَی ﷲ جس کا الہام احتلام۔ بے حیا۔ دھوکا باز۔ حیلہ باز۔ بھنگیوں اور بازاری شُہدوں کا سرگروہ۔ دہریہ جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق۔ جس کا خدا شیطان۔ یہودی۔ ڈاکو۔ خون ریز۔ بے شرم۔ مکّار۔ طرار۔ جس کی جماعت بدمعاش بدکردار۔ زانی۔ شرابی۔ مالِ مردم خور۔ اس کے پیرو خرانِ بے تمیز’’۔390
‘‘دجّال ۔ ملحد۔ کافر۔ رُوسیاہ۔ بدکار۔ شیطان۔ ***۔ بے ایمان۔ ذلیل و خوار۔ خستہ خراب۔ کاذب۔ شقی سرمدی۔ *** کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے۔ لعن طعن کا جُوت اس کے سر پر پڑا۔ اﷲ کی *** ہو۔ اس کی سب باتیں بکواس ہیں’’۔ 391
کیا ان الفاظ کے کہنے کا ان علماء کا حق تھا لیکن اس کے جواب میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو کوئی بات کہنے کا حق نہیں تھا؟ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ بعض الفاظ جو زیادہ سخت نظر آتے ہیں اصل میں عربی زبان میں ہیں اور ان کا غلط ترجمہ کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 547 کا حوالہ ہے۔
آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 457 کا حوالہ
1- کہا گیا ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے
آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ457پر تمام غیر احمدی مسلمانوں کو ‘‘کنجریوں کی اولاد’’ قرار دیا ہے۔ اِس کے جواب میں عرض ہے کہ آئینہ کمالاتِ اسلام پہلی مرتبہ 1893ء میں شائع ہوئی اور اس کا دوسرا ایڈیشن 1924ء میں (یعنی آج سے تیس سال قبل) شائع ہؤا۔ جو عبارت مجلسِ عمل نے پیش کی ہے وہ عربی زبان میں ہے اور اس کے نیچے عربی عبارت کا کوئی ترجمہ اصل کتاب میں نہیں ہے جو ترجمہ مجلس عمل نے کیا ہے جماعت احمدیہ نے کبھی بھی درست تسلیم نہیں کیا بلکہ 1933ء و1934ء سے لے کر آج تک متواتر بیس سال سے ہماری طرف سے یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ یہ ترجمہ غلط ہے بلکہ ذرّیۃ البغایا کے معنے ‘‘ہدایت سے دُور’’ اور ‘‘حد سے بڑھ جانے’’ کے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ عبارت غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت نہیں ہے بلکہ متعصب اور بدزبان پادریوں اور پنڈتوں کی نسبت ہے۔ اندریں حالات اگر اس تحریر یا اس کے اس ترجمہ کی اشاعت سے اشتعال پیدا ہؤا تو اس کی ذمّہ داری ان علماء پر ہے جنہوں نے باربار عوام میں اس عبارت کا خود ساختہ ترجمہ شائع کر کے ان کو اشتعال دلایا۔
2- ذُرّیۃ البغایا جس کا ترجمہ کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد کیا گیا ہے اس کی تفسیر حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ نے اِس عبارت میں خود ہی فرما دی ہے۔ ‘‘اَلَّذِیْنَ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ’’۔ یعنی ذرّیۃ البغایا وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اﷲ تعالیٰ نے مُہر کر دی ہے۔ وہ قبول نہیں کریں گے یعنی رُشد و ہدایت سے محروم لوگ۔
3- کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام کی اشاعت 1893ء کے وقت آپ کے ماننے والوں کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ ابھی تک جماعت احمدیہ کا نام (‘‘مسلمان فرقہ احمدیہ’’ جو 1900ء میں رکھا گیا) بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ نمازوں اور جنازوں میں بھی علیحدگی واقع نہیں ہوئی تھی اس کتاب کے ضمیمہ میں اس سال جلسہ سالانہ قادیان میں باہر سے شامل ہونے والوں کی تعداد تین سو بیس لکھی ہے اور اُس وقت زیادہ سے زیادہ دو تین ہزار آدمی آپ کو ماننے والے تھے۔ اگر مجلسِ عمل کا ترجمہ درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کو ماننے والوں کے سوا تمام لوگ ذرّیۃ البغایا ہیں اور وہ آپ کو ہر گز نہیں مانیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ مفہوم بالبداہت غلط اور باطل ہے۔ کیونکہ آپ کے ماننے والوں کی تعداد 1893ء کے بعد ہی بڑھی اور بڑھتے بڑھتے لکھو کھہا تک پہنچ گئی۔ پس پیش کردہ ترجمہ یقیناً غلط ہے۔
4- ایک اور ثبوت اِس عمل کا کہ محوّلہ عبارت میں عام غیر احمدی مسلمان مراد نہیں ہیں، یہ ہے کہ اسی کتاب کے صفحہ 530 پر (مجلسِ عمل کی پیش کردہ عبارت سے چند صفحات پہلے) حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے عام مسلمانوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے:-
‘‘اے قیصرہ محترمہ آنچہ انجامکارو اہم جمیع امورمے خواہم۔ نصحاً درخدمت بہ تقدیم رسانم آنست کہ مسلماناں عضد خاص سلطنت و جناحِ دولتِ تومے باشند و نیز آنہارا در ملکِ تو خصوصیت ممتازے و جلیلے است کہ از نظر دور بینت پوشیدہ نیست۔ بایددرآنہامخصوصاً بہ نظر مرحمت و شفقت و لطف فوق العادت نگاہے بکنی و راحت و آرام و تالیف قلوب آنہارا نصب عین صحت خود سازی و بسیاری رااز آنہا بر منازلِ عالیہ و مدارجِ قرب مشرف و سرفراز بفرمائی۔ آنچہ من بینم۔ تفضیل و تخصیص و ترجیح آنہابر جمیع اقوام ازلوازمات و منبع مصالح و برکات است۔ خدا رادلِ مسلماناں را خوش و کشت اُمید آنہارا سر سبز بکُن زیراکہ حق تعالیٰ ترا نزولِ اجلال در زمین آنہا مرحمت فرمودہ و مالکِ مُلک گردانیدہ کہ مسلماناں قریب ہزار سال عنانِ امرو نہیش دردست داشتہ اند’’۔
یعنی اے قیصرہ! میں آپ کو محض ﷲ نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند تیرے خاص بازو ہیں اور ان کو تیری مملکت میں ایک خصوصیت حاصل ہے۔ اِس لئے تجھے چاہئے کہ مسلمانوں پر خاص نظر عنایت رکھے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور ان کی تالیف قلوب کرے اور ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ مُلکی مناصب اور عہدوں پر سرفراز کرے۔ وہ اس مُلک پر ایک ہزار سال تک حکومت کر چکے ہیں اور اُن کو اِس مُلک میں ایک خاص شان حاصل تھی اور وہ ہندوؤں پر حاکم رہے ہیں۔ اِس لئے تجھے یہی مناسب ہے کہ تو اُن کی عزت و تکریم کرے اور بڑے سے بڑے عُہدے ان کے سُپرد کرے۔
(ب) پھر اِسی آئینہ کمالاتِ اسلام کے صفحہ 265، 266 حاشیہ بر حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ تکفیر کرنے والے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے عام مسلمانوں کے ساتھ بدیں الفاظ شامل فرماتے ہیں:-
‘‘مولوی لوگ اپنے نفسانی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور دعوتِ اسلام کی نہ لیاقت رکھتے ہیں اور نہ اس کا کچھ جوش، نہ اس کی کچھ پرواہ۔ اگر ان سے کچھ ہو سکتا ہے تو صرف اسی قدر کہ اپنی ہی قوم اور اپنے ہی بھائیوں اور اپنے جیسے مسلمانوں اور اپنے جیسے کلمہ گویوں اور اپنے جیسے اہلِ قبلہ (حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اور آپ کے ماننے والوں۔ ناقل) کو کافر قرار دیں۔ دجّال کہیں اور بے ایمان نام رکھیں اور فتویٰ لکھیں کہ اُن سے ملنا جائز نہیں اور اُن کا جنازہ پڑھنا روا نہیں’’۔
(ج) پھر صفحہ339 پر تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘مسیح موعود کا دعویٰ اس حالت میں گراں اور قابلِ احتیاط ہوتا کہ جب اس دعویٰ کے ساتھ نعوذ باﷲ کچھ دین کے احکام کی کمی و بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ صرف مابہ النزاع حیاتِ مسیح اور وفاتِ مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعویٰ اس مسئلہ کی درحقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اور نہ اسلامی اعتقادات پر اس کا کچھ مخالفانہ اثر ہے تو کیا کوئی اس دعویٰ کے قبول کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کرامت کی حاجت ہے؟’’
(د) پھر صفحہ ٤١٩ پر عرب کے مشائخ کو اِن الفاظ میں مخاطب فرماتے ہیں:-
‘‘اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَیُّھَا الْاَ تْقِیَاءُ الْاَصْفِیَاءُ مِنَ الْعَرَبِ الْعُرَبَآءِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ اَرْضِ النُّبُوَّۃِ وَجِیْرَانَ بَیْتِ اللہِ الْعُظْمٰی اَنْتُمْ خَیْرَ اُمَمِ الْاِسْلَامِ وَ خَیْرَ حِزْبِ ﷲِ الْاَعْلٰی’’۔
ترجمہ فارسی: ‘‘بنام مشائخ و صلحائے عرب۔ السلام علیکم اے اتقیائے برگزیدہ ہا از عرب عرباء۔ السلام علیکم اے ساکنانِ زمینِ نبوت و ہمسایہ گانِ خانہ ٔ بزرگِ خدا وندجّل و علا۔ شمابہترینِ امت ہائے اسلام و گروہِ برگزیدہ خدائے بزرگ ہستید’’۔392
(ر) پھر اسی کتاب کے آخر میں آخری ضمیمہ کے صفحہ ٤ پر زیر عنوان اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولاد اور اسلام کے شرفاء کی ذرّیت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں اِس کتاب (آئینہ کمالاتِ اسلام۔ ناقل) کو دیکھیں۔ اگر مجھے وُسعت ہوتی تو مَیں تمام جلدوں کو مُفت ﷲ تقسیم کرتا’’۔
مندرجہ بالا سب عبارتیں اُسی آئینہ کمالاتِ اسلام کی ہیں جس کے صفحہ 547 کا حوالہ مجلسِ عمل نے دیا ہے اور یہ الزام لگایا ہے کہ اِس عبارت میں نَعُوْذُ بِاللّٰہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے غیر احمدی مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد قرار دیا ہے۔ جو شخص اس کتاب میں دوسرے تمام مسلمانوں کو اپنی طرح کا مسلمان قرار دیتا ہے اور اُن کو ‘‘مسلمانوں کی اولاد’’ اور ‘‘اسلام کے شرفاء کی ذرّیت’’ قرار دیتا ہے اور اُن مشائخ کو جو آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے، اپنے پاکیزہ الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ وہ اس کتاب میں اِن کو نَعُوْذُ بِاللّٰہ ‘‘کنجریوں کی اولاد’’ قرار دے؟
5- ایک اور ثبوت اس امر کا کہ پیش کردہ الفاظ غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت نہیں ہیں، خود پیش کردہ عبارت کا سیاق و سباق ہے جو درج ذیل ہے:-
‘‘جب مَیں بیس سال کی عمر کو پہنچا تبھی سے میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ اسلام کی نصرت کروں اور آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں۔ چنانچہ اِس غرض سے مَیں نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں سے ایک براہین احمدیہ ہے .....نیز اور بھی کتابیں ہیں جن میں سے سُرمہ چشم آریہ، توضیح مرام، فتح اسلام، ازالہ اوہام ہیں۔ نیز ایک اور کتاب بھی جو مَیں نے انہی دنوں لکھی ہے۔ اس کا نام دافع الوساوس (آئینہ کمالاتِ اسلام) ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو دین اسلام کا حسن دیکھنا اور دشمنانِ اسلام کو لا جواب کرنا چاہتے ہیں یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ یہ کتابیں ایسی ہیں کہ سب کے سب مسلمان ان کو محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف اور مطالب سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور میری تائید کرتے اور جو میری دعوت (یعنی دعوتِ اسلام) کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہاں وہ ذُرّیۃ البغایا جن کے دِلوں پر اﷲ تعالیٰ نے مُہر کر دی ہوئی ہے، وہ قبول نہیں کرتے’’۔393
ظاہر ہے کہ اس عبارت میں حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنے مخصوص دعاوی کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ اپنے دعویٰ سے پہلے بیس سالہ عمر کی زندگی کا ذِکر فرمایا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ میں آپ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کامل رسول ہونا اور قرآنِ مجید کا کامل کتاب ہوناثابت کیا ہے اور تمام مسلمان فی الواقع اب تک اِس کے مدّاح ہیں۔ حتّٰی کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی (جنہوں نے سب سے پہلے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر کُفر کا فتویٰ لگایا) اِس پر تعریف و ستائش سے بھرا ہؤا شاندار ریویو لکھا اور اُسے فی زماننا بے نظیر کتاب اور اس کے مؤلف کو بے نظیر مؤیدِ اسلام قرار دیا اور کتاب سُرمہ چشم آریہ جس کا ذکر اس جگہ حضور نے کیا ہے ‘‘مسلم بُک ڈپو’’ لاہور نے اپنے خرچ پر شائع کی۔
عبارت پیش کردہ میں ‘‘دعوت’’ سے مراد اپنے مخصوص مَابِہِ النَّزَاع دعاوی نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا ذکر حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے مندرجہ بالا عبارت کے بعد بالفاظ ذیل فرمایا ہے:-
‘‘اور جب مَیں اپنی پختگی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر ہوئی تو نسیمِ وحی میرے پاس میرے ربّ کی عنایات لائی تا میری معرفت اور یقین میں اضافہ کرے’’۔
پیش کردہ عبارت میں جو ‘‘دعوت’’ کا لفظ ہے اس سے مراد ‘‘دعوتِ اسلام’’ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت از صفحہ 547 کے ساتھ کامل مطابقت رکھنے والی اور مضمونِ واحد پر مشتمل عبارت اِس آئینہ کمالاتِ اسلام کے صفحہ 388 پر موجود ہے:-‘‘وَﷲ یَعْلَمُ اِنِّیْ عَاشِقُ الْاِسْلَامِ وَ فِدَاءٌ حَضْرَةِ خَیْرِالْاَنَامِ وَ غُلَامُ اَحْمَدَ نِالْمُصْطَفٰی حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُصَبَوْتُ اِلَی الشَّبَابِ وَ قَادَنِی التَّوْفِیْقُ اِلٰی تَأْلِیْفِ الْکِتَابِ اَنْ اَدْعُوا الْمُخَالِفِیْنَ اِلٰی دِیْنِ ﷲ الْاَجْلٰی فَاَرْسَلْتُ اِلٰی کُلِّ مُخَالِفٍ کِتَابًا وَ دَعَوْتُ اِلَی الْاِسْلَامِ شَیْخاً وَّ شَابًّا’’۔ 394
اِس عربی عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالاتِ اسلام کے صفحہ 392 ،393 حاشیہ میں بدیں الفاظ درج ہے:-
‘‘خدا تعالیٰ خوب میداند کہ من عاشقِ اسلام و فدائے سیّد الانام و غلامِ احمد المصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم مے باشم۔ از عنفوان وقتے کہ بالغ بسنّ شباب و موفق بتالیف کتاب شدہ ام دوست دار آں بُودہ ام کہ مخالفین رابسُوئے دین روشن خدا دعوت کنم۔ بنا برآں بسُوئے ہر مخالفے مکتوبے فرستادم و جوان و پِیر رانِدائے قبولِ اسلام دا دہ ام’’۔
مجلسِ عمل کی پیش کردہ اور مندرجہ بالا دونوں عبارتوں کا یکجائی طور پر مطالعہ کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ اوّل الذکر عبارت میں لفظ ‘‘دعوت’’ سے مراد ‘‘دعوتِ اسلام’’ ہی ہے نہ کہ اپنے مخصوص مَابِہِ النَّزَاع دعاوی کو قبول کرنے کی دعوت۔
ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کا صحیح مطلب
6- جیسا کہ اُوپر عرض کیا جا چُکا ہے ‘‘ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا’’ کے معنی ‘‘ہدایت سے دُور’’ اور ‘‘سرکش
انسان کے ہیں۔
(الف) خود حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اِس کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ آپ کا ایک شعر ہے ؎
اٰذَیْتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ
إِنْ لَّمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَا بْنَ بغَاءٖ
اِس شعر میں ابن بغاء کا لفظ اِستعمال ہؤا ہے۔ آپ اپنے اِس شعر کا مندرجہ ذیل ترجمہ کرتے ہیں:-
‘‘خباثت سے تُو نے مجھے ایذا دی ہے۔ پس اگر تُو اب رُسوائی سے ہلاک نہ ہؤا تو مَیں اپنے دعویٰ میں سچّا نہ ٹھہروں گا۔ اے سرکش انسان’’۔ 395
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ترجمہ خود حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا اپنا کیا ہؤا ہے جو بہرحال حُجّت ہے۔ کتاب آئینہ کمالاتِ اسلام کی عربی عبارت کا ترجمہ خود حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا کیا ہؤا نہیں بلکہ مولانا عبدالکریم سیالکوٹی کا ہے۔ اِس لئے وہ بطور سند کے پیش نہیں ہو سکتا۔ پس حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے نزدیک ‘‘ذرّیۃ البغایا’’ کا مطلب ‘‘سرکش انسان’’ ہو گا، نہ کہ کنجریوں کی اولاد۔
(ب) تاج العروس میں جو عربی لُغت کی مشہور کتاب ہے لکھا ہے کہ اَلْبَغْیُ مطلق باندی کو کہتے ہیں چاہے وہ بدکار نہ ہو۔ یعنی اِس لفظ میں بدکاری کا مفہوم داخل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اِس تاج العروس میں بَغْیٌ کے معنی متکبّر انسان کے بھی ہیں۔ پھر قاموس اور صراح میں جو عربی لُغت کی کتابیں ہیں لکھا ہے:-
‘‘یُقَالُ لِلْاُمَّۃِ بَغْیٌ وَ لَا یُرَادُبِہِ الشَّتَمُ وَ الْبَغَایَا اَیْضاً الطَّلَائِعُ الَّتِیْ تَکُوْنُ قَبْلَ وُرُوْدِ الْجَیْشِ’’۔
یعنی جب باندی کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اِس سے مُراد گالی نہیں ہوتی اور بغایا اُس ہراول دستے کو کہتے ہیں جو مقدمۃ الجیش یعنی لشکر کے آگے ہو آتے ہیں۔
اندریں صورت ‘‘ذرّیۃ البغایا’’ کے معنے ایسے لوگ ہوں گے جو گالی گلوچ اور تکفیربازی اور معاندت میں عام لوگوں سے پیش پیش ہیں۔
(ج) تاج العروس میں ہے کہ ‘‘بغی’’ کا لفظ بدکار اور غیر بدکار دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اندریں صورت کیا ضرور ہے کہ اِس کا ترجمہ ‘‘بدکار’’ ہی لیا جائے۔ خصوصاً جبکہ بزرگانِ سلف کا یہ طریق رہا ہے اور یہی طریقہ از راہِ احتیاط بھی مناسب ہے کہ اگر ایک لفظ کے دو معنے ہو سکتے ہوں تو انسب یہی ہے کہ وہ معنی لئے جائیں جو نرمی کے زیادہ قریب ہوں۔
مثال کے طور پر قرآن مجید کی آیت وَ لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍۙ۔هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِيْمٍۙ۔مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍۙ۔عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ۔396 پس دُشمنِ اسلام کے لئے لفظ زنیم استعمال ہؤا ہے۔ اِس لفظ کے معنی حرا مزادہ بھی ہیں اور اُس شخص کے بھی جو اُس کی طرف منسوب ہوتا ہو جس میں سے وہ درحقیقت نہ ہو۔
1- چنانچہ لُغت کی کتاب الفرائد الدریّہ میں زنیم کے معنی لکھے ہیں ‘‘Ignoble’’ ۔
2- ‘‘المنجد’’ (لُغت کی کتاب) میں اِس کے معنی ‘‘الدنی الاصل’’ یعنی بد اصل لکھے ہیں۔
3- تفسیر کبیر مصنفہ حضرت امام رازی ؒ جلد 8 صفحہ 265 مطبوعہ مصر میں لکھا ہے:-
‘‘فَالْحَاصِلُ اَنَّ الزَّنِیْمَ ھُوَ وَلَدُ الزّنَاءِ’’۔ یعنی زنیم کے معنی ‘‘ولدالزنا’’ کے ہیں۔397
4- تفسیر حسینی مترجم اُردو موسومہ بہ تفسیر قادری جلد 2 صفحہ 564 میں لکھا ہے:-
‘‘زنیم۔ حرا مزادہ۔ نطفہ نا تحقیق کہ اُس کا باپ معلوم نہیں’’۔
لیکن عام طور پر علماء اور مفسرین نے اِس کے معنی بد فطرت اور شریر انسان یا ایسی قوم کی طرف منسوب ہونے والا جس میں سے وہ درحقیقت نہ ہو ہی کئے ہیں جو احتیاط کے پہلو سے نرمی کے زیادہ قریب ہیں۔ 398
ذرّیۃ البغایا کے متعلق حضرت امام باقر ؒ کا حوالہ
پس انصاف اور امن پسندی کا اقتضاء
یہ تھا کہ مخالفین اِس ذرّیۃ البغایا کا ایسا مفہوم نہ لیتے جو منشائے متکلّم کے بھی خلاف ہے، عبارت کے سیاق و سباق کے بھی خلاف ہے، واقعات کے بھی خلاف ہے اور جماعتِ احمدیہ کے مؤقف کے بھی بر خلاف ہے۔ شیعوں کے مشہور امام حضرت امام محمد باقر ؒ فرماتے ہیں:-
‘‘اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ اَوْلَادُ بَغَایَا مَا خَلَا شِیْعَتُنَا’’۔ 399
اے ابو حمزہ! خدا کی قسم ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ ‘‘اولادِ بغایا’’ ہیں۔
اِس عبارت میں بعینہٖ وہی لفظ اولادِ بغایا غیر شیعوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو آئینہ کمالاتِ اسلام کی عبارتِ زیر بحث میں ہے۔
حضرت امام باقر ؒ کی مندرجہ بالا عبارت جب ذرّیۃ البغایا کے بارے میں اعتراض کے جواب میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے احرار کے سامنے پیش کی گئی تو مجلس احرار کے ترجمان اخبار ‘‘مجاہد’’ نے اِس کا مندرجہ ذیل جواب دیا:-
‘‘ولد البغایا، ابن الحرام اور ولد الحرام۔ ابن الحلال اور بنت الحلال وغیرہ سب عرب کا اور ساری دُنیا کا محاورہ ہے جو شخص نیکی کو ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اُس کو باوجودیکہ اُس کا حسب نسب درست ہو۔ صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام، ولد الحرام کہتے ہیں۔ اِس کے خلاف جو نیکو کار ہوتے ہیں اُن کو ابن الحلال کہتے ہیں۔ اندریں حالات امام ؑ کا اپنے مخالفین کو اَولادِ بغایا کہنا بجا اور درست ہے’’۔400
لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مجلس احرار اور اُس کے ہمنواؤں کو جماعتِ احمدیہ کی مخالفت میں یہ ‘‘عرب کا، ساری دُنیا کا محاورہ’’ یاد نہ رہا اور اُنہوں نے ممبروں پر، اسٹیج پر، اخبارات میں، رسائل میں، کتابوں میں غرضیکہ ہر جگہ پھر پھر کر یہ پروپیگنڈا جاری رکھا کہ نعوذ باﷲ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اور جماعتِ احمدیہ کے نزدیک تمام غیر احمدی مسلمان نعوذباﷲ کنجریوں کی اولاد ہیں۔ حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اُن کا یہ بیان کردہ ترجمہ جماعت احمدیہ کو مسلّم نہیں اور نہ یہ مسلّم ہے کہ یہ عبارت غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جن لوگوں کو وہ یہ عبارت سُنا سُنا کر اور اِس عبارت کا مخاطب بتا بتا کر اشتعال دلا رہے ہیں وہ اِس عبارت کی تحریر کے وقت (1893ء میں) پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ اس سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اِس اشتعال انگیزی اور اِس کے نتیجہ میں فسادات کی تمام ذمّہ داری خود اُن علماء پر ہے۔
9- پھر شیعہ صاحبان کے مستند امام حضرت جعفر صادق علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:-
‘‘مَنْ أَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَۃُ الْعَبْدِ وَ مَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَۃُ الشَّیْطَان’’۔401
یعنی جو شخص ہم سے محبت رکھتا ہے وہ بندے کا نطفہ ہے۔ مگر وہ جو ہم سے بُغض رکھتا ہے وہ نطفۂ شیطان ہے۔
کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق ؒ اور حضرت امام باقر ؒ ایسے جلیل القدر اماموں نے شیعوں کے علاوہ تمام مسلمانوں کو اَولادِ بغایا اور نطفۂ شیطان قرار دیا تھا کیونکہ اِس قسم کے الفاظ سے صرف اظہارِ ناراضگی مقصود ہوتا ہے اور اُن کی حقیقتِ لغوی مُراد نہیں ہوتی۔ نیز کیا غیر شیعہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیں۔ اُن کے گھروں کو آگ لگا دیں اور اُن کا سازو سامان لُوٹ لیں اور جب اِس فساد کے اسباب کے بارہ میں تحقیقات شروع ہو تو مجلسِ عمل کی طرح یہ تحریری بیان داخل کر دیں کہ چونکہ شیعوں کے اماموں نے تمام غیر شیعہ مسلمانوں کو ‘‘اولادِ بغایا’’ اور ‘‘نطفۂ شیطان’’ قرار دیا تھا۔ اِس لئے اشتعال انگیزی اور فسادات کی ذمّہ داری خود شیعوں پرہے۔
10- حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں:-
‘‘مَنْ شَھِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَا فَھُوَ وَلَدُالزِّنَاءِ’’۔402 یعنی جو شخص حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ ولدالزنا ہے۔
اِس عبارت میں بھی حضرت امام اعظم ؒ کا منشاء محض اظہارِ ناراضگی ہے نہ کہ معترض کے نسب پر اعتراض۔
خلاصہ کلام یہ کہ آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 547 کی عبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کے بارے میں کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ جن لوگوں کی نسبت وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ معدودے چند مخصوص افراد تھے جو فوت ہو چکے ۔ موجودہ زمانہ کے لوگوں کا اِس عبارت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور اِس لفظ کے معنی صرف ہدایت سے دُور سرکش اور متکبّر انسانوں کے ہیں، نہ کہ کنجریوں کی اَولاد۔
اِس سلسلہ میں آخری گزارش یہ ہے کہ آئینہ کمالاتِ اسلام 1893ء میں شائع ہوئی۔ یہ عبارت عربی زبان میں ہے جس کو عام مسلمان سمجھ ہی نہیں سکتے۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اِس کی اشاعت کے 18 سال بعد تک زندہ رہے۔ آپ کی زندگی میں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی غالباً 1933ء یا 1934ء تک کسی غیر احمدی عالم نے اِس عبارت کا مخاطب غیراحمدی مسلمانوں کو قرار نہیں دیا۔ سب سے پہلے 1933ء یا 1934ء میں مجلسِ احرار نے اِس عبارت کا خود ساختہ ترجمہ شائع کیا تو اُسی وقت جماعتِ احمدیہ نے بذریعہ اشتہارات و اخبارات و کُتب و رسائل یہ اعلان کر دیا تھا کہ ‘‘ذرّیۃ البغایا’’ کے مخاطب غیر احمدی نہیں ہیں اور اس کا درست ترجمہ بھی وہ نہیں ہے جو مجلس احرار پیش کرتی ہے بلکہ اِس کا ترجمہ ہدایت سے دُور اور سرکش انسان ہے۔
چنانچہ لاہور سے احمدیہ فیلو شپ آف یوتھ نے ‘‘گالی اور اظہار واقعہ میں فرق’’ نامی ایک اشتہار 34-1933ء میں شائع کیا جو الفضلؔ میں بھی شائع ہؤا۔ احمدیہ پاکٹ بُک ایڈیشن دسمبر1934ء کے صفحہ 672 پر مفصل طور پر و ایڈیشن 1945ء کے صفحہ 962 و ایڈیشن 1952ء کے صفحہ 904 پر یہی اعلان کیا گیا۔
الفضلؔ میں شائع ہؤا۔ پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ‘‘قادیانی مذہب’’ کا جواب 35-1934ء میں شائع ہؤا۔ اس میں بھی صفحہ 322 پر یہی تحریر کیا گیا۔ چنانچہ پروفیسر الیاس برنی صاحب نے اپنی کتاب ‘‘قادیانی مذہب’’ کے بعد کے ایڈیشنوں میں ‘‘قادیانی حساب’’ صفحہ 24 تا صفحہ 27 پر جو سب کے سب فسادات سے پہلے شائع ہو چکے تھے خود یہ تحریر کیا کہ:-
‘‘جماعت احمدیہ کا جواب یہ ہے کہ اِس لفظ کا ترجمہ ‘‘ہدایت سے دُور اور سرکش انسان’’ ہے۔ کنجریوں کی اَولاد نہیں’’۔
پس باوجود اِس قدر متواتر اور بار بار تردید کے اگر احرارؔ اور اُن کے ہمنواؤں نے اپنی اشتعال انگیزی کی مہم کو تیز کرنے کے لئے اِس حوالہ کو استعمال کیا تو اس سے فسادات کی ذمّہ داری اُن پر ہے۔
نجم الھُدیٰ صفحہ 10 کا حوالہ
اِسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے نجمُ الھُدیٰ صفحہ 10 پر تمام غیر احمدی
مسلمانوں کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ میرے دُشمن خنزیر ہیں اور اُن کی عورتیں کُتیاں ہیں۔ خِنْزیْرکا لفظ قرآنِ کریم میں بھی اپنے مخالفوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ 403
علاوہ ازیں مجلس عمل کی طرف سے نجم الھدیٰ صفحہ 10 میں جو حوالہ دیا گیا ہے وہ نامکمل ہے۔ اُنہوں نے اگلی سطر نقل نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی پیش کردہ عبارت میں اُن کے نہ ماننے والوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف اُن لوگوں کا ذِکر ہے جو گالیاں دینے والے تھے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:-
‘‘اُنہوں نے گالیاں دیں اور مَیں نہیں جانتا کیوں دیں۔ کیا ہم اُس دوست کی مخالفت کریں یا اُس سے کنارہ کریں’’۔404
اس عبارت میں حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے اُن دُشمنوں کا ذکر فرمایا ہے جو آپ کے محبوب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی اور بد گوئی سے کام لیتے تھے اور حضور کو گندی گالی دینے سے اُن کا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کو حضورؐ کی محبت سے دُور کر دیں مگر حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ ہم ان دُشمنوں کی غلیظ گالیوں کے باعث اپنے محبوب سے کبھی کنارہ کش نہیں ہو سکتے۔
یہ گالیاں دینے والے کون تھے؟ اِس کی تفصیل بھی اسی کتاب نجم الھدیٰ کے صفحہ 12 پر پیش کردہ عبارت کے آگے تفصیل سے موجود ہے۔ حضور عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:-
(الف)’’سو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اُونچا ہو گیا اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اُٹھا نہیں رکھا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دُشمنی کی ..... اور تھوڑی مدّت سے ایک لاکھ کتاب اُنہوں نے ایسی تالیف کی ہے جس میں ہمارے دین اور رسُول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تہمت کے اور کچھ نہیں اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیں پُر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی اُن کو دیکھ نہیں سکتے اور تم دیکھتے ہو کہ اُن کے فریب ایک سخت آندھی کی طرح چل رہے ہیں اور اُن کے دِل حیا سے خالی ہیں اور تم مشاہدہ کرتے ہو کہ اُن کا وجود تمام مسلمانوں پر ایک موت کھڑی ہے اور کمینہ طبع آدمی خس و خاشاک کی طرح اُن کی طرف کھینچےجارہے ہیں ..... پھر ان کی اپنی عورتیں اِسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروں میں بھیجیں..... ان کے مذہب باطل نے ہمارے مُلک کی نیکیوں کو دُور کر دیااور کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں یہ مذہب باطل داخل نہ ہو ..... اسلام پر وہ مصیبتیں پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ہے۔ پس وہ اُس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہو جائے اور اُس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے’’۔ 405
(ب) ‘‘ہم صرف اُن لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں اور ہم اُن پادری صاحبوں کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے اور ایسے دلوں کو جو اِس پلیدی سے پاک ہیں ہم قابلِ تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ اُن کا نام لیتے ہیں اور ہمارے کسی بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو اُن بزرگوں کی کسرِشان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی اُن کے مُنہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا اُن کے افتراء کی پاداش ہو’’۔ 406
(ج) ‘‘آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا مسلمان مُرتد ہو کر دین اسلام کو چھوڑ گئے ہیں۔ پس سوچ لو کہ کیا یہ نہایت بڑی مصیبت ہمارے دین محمدی پر نہیں ہے؟ اور پھر اُنہوں نے علاوہ بد مذہبی پھیلانے کے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں بھی دیں اور ہمارے دین اسلام پر اعتراض کئے اور ہجو کی اور بات کو انتہا تک پہنچا دیا۔ کیا خدا نے ان کو ہمیں دُکھ دینے کیلئے موقع دیا اور ہمیں نہ دیا؟’’407
(د) ‘‘اس زمانہ میں فسادِ عظیم صلیبی کارروائیوں کا فساد ہے۔ اسی فساد نے بہت سے بیابانی اور شہری لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ پس یہ امر واجب ہے کہ مجدد اس صدی کا اس اصلاح کے لئے آوے اوربموجب منشاءِ احادیث کے کسرِ صلیب اور قتلِ خنازیر کرے’’۔408
مندرجہ بالا عبارتوں سے (جو سب کی سب نجم الھدیٰ کی ہیں اور مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت سے آگے درج ہیں) صاف ظاہر ہے کہ مجلسِ عمل کی پیش کردہ عبارت میں ‘‘دُشمن’’ کے لفظ سے بھی گالیاں دینے والے بد زبان پادری اور اُن کی وہ عورتیں تھیں جن کا عبارت ‘‘الف’’ میں ذکر ہے۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو گندی اور پلیدگالیاں دیں اور مسلمانوں کے دلوں کو دُکھایا اور ‘‘ینا بیع الاسلام اور امہات المسلمین’’ نامی فحش سے بھری ہوئی کتابیں شائع کر کے کئی مسلمانوں کو مرتد کیا۔
پس مجلسِ عمل نے اِس عبارت کو پیش کر کے اور عوام الناس کو یہ بتا بتا کر کہ اے مسلمانو! تم کو مرزا صاحب نے سؤر اور تمہاری عورتوں کو کُتیاں قرار دیا ہے۔ ناحق اشتعال دلایا اور فساد برپا کیا۔
حالانکہ غیر احمدی مسلمانوں کو اِس کتاب میں اور مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت از صفحہ10سے چند سطریں پہلے صفحہ 9 و صفحہ11 پر تمام مسلمانوں کو اپنے بھائی قرار دیا ہے اور صفحہ 4 پر لکھا ہے:-
‘‘اور میں خادموں کی طرح اس کام کے لئے اسلامی جماعت کے کمزوروں کے لئے کھڑا ہوں’’۔
گویا اپنے آپ کو مسلمانوں کا خادم قرار دیا ہے۔ پس یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ آپ نے عام مسلمانوں کو نَعُوذُ بِاللّٰہ۔ خنزیر وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے بلکہ اِس پروپیگنڈا کی ایک اور واضح مثال ہے جو مجلسِ عمل اور مجلس احرار کے ممبران عام ناواقف مسلمانوں میں کرتے رہے اور جس کے نتیجہ میں یہ فسادات رُونما ہوئے۔
(ذ) اب آخری گزارش یہ ہے کہ اگرچہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ اِس عبارت میں صرف بد زبان عیسائی پادریوں اور اُن کی مبلّغہ عورتوں کا ذکر ہے لیکن اگر نجم الھدیٰ میں ان کا بالصراحت ذکر نہ بھی ہوتا تب بھی کم از کم اتنا تو خود اس عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں بلکہ اُن ‘‘گالیاں’’ دینے والے ‘‘دُشمنوں’’ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بوقت تحریر کتاب نجم الھدیٰ (1898ء میں) آپ کو گالیاں دینے والے معدودے چند مولوی ہی تھے نہ کہ عام مسلمان۔ تو اِس صورت میں بھی یہی سمجھا جاسکتا تھا کہ خطاب اُن چند مخصوص ‘‘دُشمنوں’’ سے ہے نہ کہ عام مسلمانوں سے۔
وہ ‘‘دُشمن’’ جو آپ کو 1898ء میں گالیاں دیتے تھے فوت بھی ہو چکے اور اَب اُن میں سے ایک بھی زندہ نہیں لیکن سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری اور دوسرے احرار لیڈروں نے عام جلسوں میں یہاں تک کہا کہ ‘‘مرزا صاحب نے خواجہ ناظم الدین اور ممتاز دولتانہ اور دوسرے تمام مسلمانوں کو خنزیر اور اُن کی عورتوں کو کُتیاں قرار دیا ہے’’۔ حالانکہ عبارت پیش کردہ میں مسلمانوں کا نام نہیں ہے بلکہ صرف گالیاں دینے والے دُشمنوں کا ذکر ہے۔
ہم یہ صورتِ حال معزز عدالت کے نوٹس میں لاکر نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اِس قسم کے اشتعال انگیز اور بے بنیاد پروپیگنڈا کے نتیجہ میں جو فسادات رُونما ہوئے احرارؔ اور ان کے ہمنوا اس کی ذمّہ داری سے کسی طرح بچ نہیں سکتے۔
غرضیکہ یہ حوالہ عیسائیوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق ہے ہی نہیں۔ یہ علماء خواہ مخواہ اپنے آپ کو عیسائی قرار دے کر اِسے اپنے پر چسپاں کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں بول چال میں جب کسی جانور کا نام انسانوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اُس کی معروف صفت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ خنزیر کی معروف صفت یہ ہے کہ وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا، سیدھا حملہ کرتا ہے۔ انہیں معنوں میں قرآنِ کریم نے یہودیوں کو خنزیر کہا ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ یہود کو گالی دی ہے بلکہ اُن کی صفت بتائی ہے کہ بندروں کی طرح یہ لوگ بدکار ہو گئے اور سؤروں کی طرح دائیں بائیں نہیں دیکھتے، سوچتے نہیں اور یونہی اسلام پر حملہ کر دیتے ہیں۔ یہی معنی حضرت مسیح موعود ؑ کے مندرجہ بالا کلام کے ہیں جو عیسائیوں کے متعلق اُن کے ہزاروں حملوں کے جواب میں کہے گئے ہیں۔ اگر قرآن کریم نے یہ الفاظ استعمال کر کے گالی نہیں دی تو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے وہی الفاظ استعمال کر کے کس طرح گالیاں دی ہیں۔
پس بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا وہ شعر جو عام طور پر مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔
اوّل اُن بد زبان عیسائیوں کے متعلق ہے۔ مسلمانوں کے متعلق نہیں۔
دوم وہ گالی نہیں قرآنِ کریم کی اتباع میں عیسائیوں کے ناواجب حملوں کی تشریح کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے جو الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اُن سے بہت زیادہ سخت الفاظ ہزاروں نہیں لاکھوں دفعہ یہ لوگ استعمال کر چکے ہیں۔ گزشتہ فسادات کے موقع پر بھی جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے ہیں اور جو عدالتِ عالیہ کے سامنے پیش ہوئے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی اندرونی کیفیت کیا ہے۔
انوار الاسلام کا حوالہ
انوار الاسلام صفحہ 20 کے حوالہ سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اِس میں حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے عام
مسلمانوں کو(نَعُوْذُ بِاللّٰہ)’’ولد الحرام’’قرار دیا ہے کہ ‘‘جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہو گا، یہ سمجھا جائے گا کہ اُسے ولد الحرام بننے کا شوق ہے’’۔
ہمیں افسوس ہے کہ اصل عبارت میں قطع و برید کی گئی ہے جس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اِس جگہ ‘‘فتح’’ سے کیا مُراد ہے؟
اصل واقعہ یہ ہے کہ اِس عبارت میں رُوئے سخن مولوی عبدالحق غزنوی کی طرف ہے۔ اِس جگہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے پادری عبداﷲ آتھم کے متعلق اپنی پیشگوئی پر مولوی عبدالحق غزنوی کی نکتہ چینی کا جواب دیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ آتھم مُدّتِ معیّنہ کے اندر اس لئے نہیں مَرا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہاماً بتایا تھا کہ اُس نے پیشگوئی کی شرط ‘‘بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے’’ سے فائدہ اُٹھایا ہے لیکن مولوی عبدالحق مذکور نے اس کی تکذیب کی اور آپ کو گالیاں دیں اور عیسائیوں کو غالب اور فاتح قرار دیا تو آپ نے انوارالاسلام میں لکھا:-
‘‘ہاں اگر یہ دعویٰ کرو کہ عبداﷲ آتھم نے ایک ذرّہ حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ ڈرا تو اِس وہم کی بیخ کنی کے لئے یہ سیدھا اور صاف معیار ہے کہ ہم عبداﷲ آتھم کو دو ہزار روپیہ نقد دیتے ہیں۔ وہ تین مرتبہ قسم کھا کر یہ اقرار کر دے کہ میں نے ایک ذرّہ بھی اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت میرے دل میں سمائی بلکہ برابر سخت دِل اور دُشمنِ اسلام رہا اور مسیح کو برابر خدا ہی کہتا رہا۔ پھر اگر ہم اسی وقت بِلا توقف دو ہزار روپیہ نہ دیں تو ہم پر *** اور ہم جھوٹے اور ہمارا الہام جھوٹا اور اگر عبداﷲ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر نہ دیکھ لے تو ہم سچّے اور ہمارا الہام سچّا۔ پھر بھی اگر کوئی تحکّم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو اور نا حق سچائی پر پَردہ ڈالنا چاہے تو بیشک وہ ولد الحلال اور نیک ذات نہیں ہو گا کہ خواہ نخواہ حق سے رُو گردان ہوتا ہے اور اپنی شیطنت سے کوشش کرتا ہے کہ سچّے جھوٹے ہو جائیں’’۔ 409
اِسی طرح صفحہ 27 پر یہ ذکر کر کے کہ آتھم کے قسم کی طرف رُخ نہ کرنے اور انعام نہ لینے سے صاف ثابت ہے کہ اُس نے خوف کے دنوں میں در پردہ اسلام کی طرف رجوع کیا تھا۔ فرماتے ہیں:-
‘‘اِس سے بتمامتر صفائی ثابت ہے کہ ہماری فتح ہوئی اور دینِ اسلام غالب رہا۔ پھر بھی اگر کوئی عیسائیوں کی فتح کا گیت گاتا رہے تو اسے اﷲ تعالیٰ کی قسم ہے کہ آتھم کو قسم کھانے پر مستعد کرے اور ہم سے تین ہزار روپیہ دلاوے اور میعاد گزرنے کے بعد ہم کو بیشک مُنہ کالا دجّال کہے۔ اگر ہم نے اِس میں افتراء کیا ہے تو بیشک ہمارے آگے آجائے گا اور ہماری ذِلّت ظاہر ہو گی لیکن اے میاں عبدالحق! اگر اس تقریر کو سُن کر چُپ ہو جاؤ تو بتلا کہ سچّی *** کس پر پڑی اور واقعی طور پر مُنہ کِس کا کالا ہؤا؟’’ 410
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس تحریر کے مخاطب عام مسلمان نہیں ہیں بلکہ خاص طور پر میاں عبدالحق ہیں جنہوں نے اسلام کے بالمقابل عیسائیوں کی حمایت کی تھی۔
(ب) ہم قبل ازیں ‘‘ذرّیۃ البغایا’’ کی تشریح کے ضمن میں زیر عنوان ‘‘آئینہ کمالات اسلام کا حوالہ’’ احرار کے اخبار ‘‘مجاہد’’ 4مارچ 1936ء سے شیعوں کے امام حضرت امام جعفر صادق ؒ اور اہلِ سُنت کے امام حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے حوالوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ لفظ ‘‘ولد الحرام’’ سے مُراد محض کج فطرت اور شریر لوگ ہوتے ہیں۔ اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے۔
(ج) مولوی عبدالحق غزنوی نے انوار الاسلام کی اشاعت سے قبل حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو نہایت گندی اور غلیظ گالیاں دی تھیں۔411
پس حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے یہ الفاظ بطور جواب کے تھے۔
(د) ‘‘انوار الاسلام’’ 1898ء میں شائع ہوئی تھی۔ مولوی عبدالحق غزنوی چالیس سال سے فوت ہو چکے ہیں۔ پس اِس حوالہ کی بناء پر عام مسلمانوں کو اشتعال کیونکر آسکتا تھا۔ اگر مجلس احرار کے لیکچرار اور اخبار نے اِسے پیش کر کے اور مسلمانوں کو اس کا مخاطب قرار دے کر اشتعال پیدا کیا اور پھیلایا تو اس سے فساد کی ذمّہ داری احرارؔ اور اُن کے ہمنواؤں پر ثابت ہوتی ہے یا کسی اَور پر۔
پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ مرزا صاحب نے تو کسی زمانہ میں کوئی لفظ جوابی طور پر کہا تھا مگر یہ لوگ آج تک برابر اُن الفاظ کو دُہراتے چلے جارہے ہیں۔ حالانکہ وہ الفاظ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے پچھلے پچاس سال سے دُہرائے نہیں گئے۔ ظالم وہ ہوتا ہے جو حملہ کو لمبا لئے چلا جاتا ہے یا ظالم وہ ہوتا ہے جو جواب دیتا ہے اور پھر چُپ ہو جاتا ہے؟ آخر اِن الفاظ کے بعد وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے مخالفوں کو جواب دیا جاسکتا اور پھر اِس جواب کے بعد گزشتہ پچاس برس کے لمبے زمانے میں کسی ذمّہ دار احمدی نے اس قسم کے الفاظ غیروں کے متعلق کبھی استعمال نہیں کئے۔
ایک اور اعتراض اور اُس کا جواب
کہا جاتا ہے کہ موجودہ امامِ جماعتِ احمدیہ نے ان کو ابو جہل کہا ہے۔ مگر
یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے ان کو ہر گز ابو جہل نہیں کہا۔ امامِ جماعتِ احمدیہ نے تو ابوجہل کے ایک فعل کو بطور مثال کے پیش کیا ہے اور وہ بھی آفاقؔ کے ایڈیٹر کا جواب دینے اور اُس کے ایک بے جا و ناروا خیال کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے نہ کہ سارے مسلمانوں کے متعلق۔ ‘‘آفاق’’ کے ایڈیٹر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زمینوں کی ملکیت کے متعلق امام جماعت احمدیہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان خیالات کے اظہار کا اُنہیں کوئی حق نہیں کیونکہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ ہیں۔ اس پر اُنہوں نے مثال دی تھی کہ اگر تھوڑے ہونا کسی شخص کی زبان بندی کر دیئے جانے کے لئے کافی ہے تو پھر ابوجہل کا بھی یہ دعویٰ صحیح ہو گا کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان بندی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ ہیں۔ پس وہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ تمہارا دعویٰ غلط ہے۔ یہ بتانا مقصود نہیں تھا کہ تم ابوجہل ہو اور باوجود اس کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ تم جو کچھ چاہو کرو ہم تو تمہارے ساتھ محبت اور پیار ہی کا سلوک کریں گے۔412
اور اِس اعتراض کا جواب خود بانی ٔ سلسلہ احمدیہ بھی اپنی کتابوں میں دے چکے ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے:-
‘‘لَیْسَ کَلَامُنَا ھٰذَا فِیْ اَخْیَارِ ھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ’’۔ 413
ہم نے جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ غیر احمدیوں میں سے نیک لوگوں کے متعلق نہیں بلکہ وہ ان میں سے شرارتی لوگوں کے متعلق ہیں۔
اور آپ نے فرمایا ہے:-
‘‘غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصارِ دین کے دُشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں مگر ہمارا یہ قول کُلّی نہیں ہے۔ راستباز علماء اِس سے باہر ہیں۔ صرف خاص مولویوں کی نسبت یہ لکھا گیا ہے’’۔414
پھر آپ نے فرمایا:-
‘‘وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ھَتْکِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِیْنَ وَ قَدْحِ الشُّرَفَاءِ الْمُہَذَّبِیْنَ سَوَاءً کانُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَوِ الْمَسِیْحِیِّیْنَ اَوِالْاٰرَیَۃَ بَلْ لَا نَذْکُرُ مِنْ سُفَہَاءِ ھٰذِہِ الْاَقْوَامِ اِلَّا الَّذِیْنَ اشْتَھَرُوْا فِیْ فُضُوْلِ الْھَذْرِ وَ الْاِعْلَانِ بِالسَّیِّئَۃِ وَالَّذِیْ کَانَ ھُوَ نَقِیُّ الْعِرْضِ عَفِیْفُ اللِّسَانِ فَلَا نَذْکُرُہٗ اِلَّا بِالْخَیْرِ وَ نُکْرِمُہٗ وَ نُعِزُّہٗ وَنُحِبُّہٗ کَالْاِخْوَانِ’’۔415
یعنی ہم اﷲ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم نیک علماء کی ہتک اور مہذّب شرفاء کی عیب چینی کریں۔ خواہ وہ مسلمان ہوں یا مسیحی ہوں یا ہندو ہوں بلکہ ہم اُن اقوام میں سے جو بیوقوف ہیں، اُن کے لئے بھی سخت کلامی نہیں کرتے۔ ہم صرف اُن کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں جو بیہودہ گوئی میں مشہور ہیں اور بدکلامی کی اشاعت جن کا کام ہے لیکن وہ جو اِن باتوں سے پاک ہیں اور اُن کی زبان گند سے آلودہ نہیں ہم ایسے لوگوں کا ذِکر ہمیشہ نیکی سے کرتے ہیں اور اُن کی عزّت کرتے ہیں اور اُن کو بُلند درجہ پر بٹھاتے ہیں اور اُن سے اپنے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں۔
پھر لکھا ہے:-
‘‘ہماری اِس کتاب میں اور رسالہ ‘‘فریادِ درد’’ میں وہ نیک چلن پادری اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافتِ ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بدگوئی سے کنارہ کرتے ہیں اور دِل دُکھانے والے لفظوں سے ہمیں دُکھ نہیں دیتے اور نہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور نہ اُن کی کتابیں سخت گوئی اور توہین سے بھری ہوئی ہیں۔ ایسے لوگوں کو بِلا شُبہ ہم عزّت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ہماری کسی تحریر کے مخاطب نہیں ہیں بلکہ صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں، خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حدِّاعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شانِ بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں۔ سو ہماری اِس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزّز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے’’۔416
سوال نمبر9 متعلق اعتراض کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کودوسرے مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے؟
نہم: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوشش کی ہے مثلاً ربوہ بنایا ہے۔
اِس کا جواب یہ ہے کہ ربوہ بنانا مسلمانوں سے الگ رہنے کے لئے نہیں ہے بلکہ مرکزی انتظام کی درستی کے لئے ہے۔ جہاں یونیورسٹیاں بنتی ہیں یونیورسٹی کے تمام متعلقات وہاں اکٹھے کر دیئے جاتے ہیں۔ انگلستان میں آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیوں کو آکسفورڈ اور کیمرج کے شہروں کے معاملات میں دخل دینے کے مواقع بہم پہنچائے گئے ہیں اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس سے یونیورسٹی زیادہ آسانی سے چل سکے۔ اس کے یہ معنے تو نہیں کہ وہ ایک الگ گورنمنٹ ہے اور انگلستان کے خلاف منصوبے کر رہی ہے۔ چونکہ احمدی بعض باتوں میں دوسرے مسلمانوں سے گو عقیدۃً یا شرعاً نہیں لیکن عملاً اختلاف رکھتے ہیں مثلاً سُود کو جائز نہیں قرار دیتے، سینما دیکھنا پسند نہیں کرتے، ناچ گانے پسند نہیں کرتے۔ اگر وہ اپنا مرکز ایسی جگہ بنائیں جہاں سینما بھی ہوں، ناچ گانے بھی ہوں، سُود کے سامان بھی ہوں تو وہ اپنے نوجوانوں اور اپنے کمزوروں کی عادتوں کی اصلاح میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح جو بیرونی مقامات سے لوگ آتے ہیں اگر ہر قسم کی عیّاشی کے سامان جو دوسرے شہروں میں پائے جاتے ہیں اُن کے مرکز میں بھی پائے جائیں تو باہر سے آنے والے لوگوں کے وقت کو پوری طرح دین میں مشغول نہیں رکھا جاسکتا۔ کوئی شخص ایک دن کے لئے آتا ہے کوئی دو دن کے لئے آتا ہے۔ اگر وہ اس وقت میں سے بھی کچھ بچا کر سیر اور تماشے میں لگا دے تو اُس کے آنے سے پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ اِسی لئے احمدیوں نے اپنا الگ مرکز بنایا ہے۔ اِس سے کوئی سیاسی غرض یا مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی غرض کہاں سے نکلی۔
جماعتِ اسلامی کا مجوزہ مرکز
سب سے زیادہ معترض اِس پر مولانا مودودی ہیں لیکن مولانا مودودی نے خود
بھی ایسا ہی مرکزبنایا ہے اور اس میں بھی یہی شرط رکھی ہے کہ اس میں صرف جماعتِ اسلامی کے لوگ ہی زمین خرید سکتے ہیں۔ ہم ان کا اعلان ذیل میں درج کرتے ہیں۔ طفیل محمد قیم جماعتِ اسلامی لکھتے ہیں:-
‘‘تمام وہ لوگ جنہوں نے مرکزِ جماعتِ اسلامی میں اراضی کی خرید کے لئے رقوم جمع کرائی تھیں مطلع ہوں کہ کیمل پور سٹیشن سے دوفرلانگ کے فاصلہ پر راولپنڈی کیمل پور کی پختہ سڑک کے اُوپر جماعت نے ایک سَو ایکڑ زمین خرید لی ہے۔ یہ زمین ہمیں چار سو روپے ایکڑ کے حساب سے مِل گئی ہے لیکن خرید اراضی کے اس وقت تک کے اور آئندہ پلاٹ بنا کر تقسیم تک کے مصارف مِلا کر غالباً پانچ سو روپے یا اس سے کم و بیش فی ایکڑ تک قیمت چڑھ جائے گی۔ زمین بارانی مگر مزروعہ ہے اور پانی بہت زیادہ گہرائی میں ہے۔ اِس لئے ٹیوب ویل لگائے بغیر چارہ نہیں اور اِس پر بھی شاید کثیر رقم صرف ہو گی۔ تعمیر کا کچھ سامان خریدا جا چُکا ہے اور بھٹے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اِس وقت ہمارے پاس ساٹھ ایکڑ اراضی قابلِ فروخت ہے لیکن مجلسِ شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ اَب صرف ارکانِ جماعت کو ہی مرکز میں اراضی خریدنے کی اجازت دی جائے اور وہ بھی صرف دو کنال فِی کس کے حساب سے۔ جس میں سے ایک کنال حسب قاعدہ جماعت لے لے گی اور ایک کنال خریدار کے پاس رہ جائے گی۔ جو لوگ پہلے سے خریدار بنے ہوئے ہیں اور اُن کی رقمیں مرکز میں موجود ہیں اُن کے حقوق پر یہ فیصلہ اثر انداز نہ ہو گا۔ بجز اس کے کہ غیر ارکان کے بارے میں یہ تحقیقات کی جائے گی کہ آیا فی الواقع وہ ہمدردوں کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں اور اُن کو نظامِ جماعت سے موجودہ علیحدگی محض کسی مجبوری یا صرف جماعت کے عدمِ اطمینان کی بناء پر ہے یا کسی اور وجہ سے۔ جو لوگ فی الواقع ہمدرد ثابت ہوں گے اُن کی خریداری کو باقی رکھا جائے گا اور دوسرے احباب سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنی رقوم واپس لے لیں اور اس طرح دارُالاسلام کی بستی کو خالصۃً ایک نمونہ کی بستی بنانے میں مدد دیں ۔
(خاکسار طفیل محمد قیم جماعتِ اسلامی ذیلدار پارک اچھرہ لاہور)’’۔417
سوال نمبر10 متعلق مخالفتِ پاکستان
دہم: یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اِس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں۔
امام اور سیاست
اس کا جواب یہ ہے کہ امام کو ماننا تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ
جو شخص امام کی بیعت میں نہ ہو وہ اپنی زندگی رائیگان کر دیتا ہے۔ 418اور امام کا ہونا بڑی اچھی بات ہے۔ اِس کے بغیر تو کوئی انتظام ہو ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ امام کو سیاست کا حق دیتے ہیں اُن پر تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے امام کو سیاست کا حق نہیں دیتے اُن پر یہ اعتراض کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کا تو اعتقاد یہ ہے کہ جس حکومت کے تحت میں رہو اُس حکومت کی اطاعت کرو۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انگریز کے وقت میں تو اس امر پر زور دیا جاتا اور بڑے شدّو مد سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا کہ احمدی اسلام کے غدّار ہیں کیونکہ انگریز کی اطاعت کرتے ہیں اور پاکستان میں آکر اس کے بالکل برخلاف یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی پاکستان کے خلاف متوازی حکومت بنا رہے ہیں۔ ایک ہی تعلیم دو جگہ پر دو مختلف نتیجے کس طرح پیدا کر سکتی ہے۔ احمدی تعلیم کی رُو سے تو صرف احمدی جماعت ہی نہیں بلکہ احمدی جماعت کا امام بھی پاکستان کی حکومت کے تابع ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ پاکستان کی حکومت کے تابع رہیں ۔ باقی رہا یہ بے وقوفی کا سوال کہ اگر کسی وقت امام حکومت کے خلاف حکم دے تو پھر احمدی کیا کریں گے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ہم اُس شخص کو امام تسلیم کرتے ہیں جو سب سے زیادہ شریعت کی پابندی کرنے والا اور دوسروں کو پابند بنانے والا ہو۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف حُکم دے۔ کل کو اگر کوئی کہے کہ اگر تمہارا مذہب چوری اور ڈاکہ ڈالنے کا حُکم دے تو تم کیا کرو گے؟ تو ہم اس کو بھی یہی جواب دیں گے کہ ہمارا مذہب چوری اور ڈاکہ کا حُکم دے ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اُس کی رُوح کے خلاف ہے۔ اگر یہ اعتراض پڑتاہے تو مودودی صاحب پر البتہ پڑتا ہے جو امیر بھی ہیں اور سیاست بھی اُن کے مقاصد میں داخل ہے۔ اُن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہوئے تو اُن کی جماعت کیا کرے گی۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلمِیْنَ’’۔(الناشر الشرکة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ)
1: آل عمران: 191، 192 2: الشمس: 9 3: الروم: 31
4: العنکبوت: 70 5: الاعراف :36
6: نہج البلاغہ صفحہ 101 مطبوعہ بیروت لبنان،الطبعۃ الاولیٰ 1967ء
7: الانبیاء: 17 8: الانبیاء: 31 9: المؤمنون:116
10: الذاریات:57 11: البقرۃ:139
12: بخاری کتاب الاِسْتِئْذَان باب بدء السَّلام
13: پیدائش باب 1 آیت 27
14: البقرۃ:31 15: الاحزاب: 73
16: النساء:59 17: الدھر: 4 18: البلد: 9تا11
19: الشمس: 9 20: الشمس:11,10 21: الحج: 76
22: البقرۃ: 39 23: الحدید :27
24: البقرۃ: 88تا90 25: فاطر: 25 26: الرعد: 8
27: الحدید: 27 28: الانعام: 92 29: البقرۃ: 171
30: المائدہ: 105 31: المومن:35 32: الجن: 8
33: قَالُوْا يٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍ (الاحقاف: 31)
34: رسالہ خاتم النبیین شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی صفحہ 41
35: سبا: 29 36: الاعراف: 159 37: النساء: 80
38: المائدۃ: 4 39: البقرۃ: 151، 152
40: یوحنا باب 16 ، آیت 12، 13
41: طٰہٰ: 2، 3 42: بنی اسرائیل :83 43: الحجر: 2،3
44: بخاری کتاب الادب۔ باب رَحمۃ الْوَلَد وَ تَقْبِیْلِہٖ وَ مُعَانَقَتِہٖ
45: آل عمران: 32 46: الحجر: 3 47: النساء: 138
48: بخاری کتاب التفسیر باب وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا (الخ)
49: بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
50: بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسُّنّۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لتتبعن سُنَنَ مَنْ کَان قبلکم (مفہوماً)
51: السجدۃ: 6
52: ترمذی ابواب الشہادۃ باب مَا جاء فی شَھَادۃ الزُّوْر
53، 54: کنز العمال جلد11 صفحہ181 مطبوعہ حلب 1974ء
55: سنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال
56: صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علیٰ المبادرۃ بالأعمال
57: الاعراف: 34 تا 36
58: سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائۃَ
59: افضل الاعمال فی جواب نتائج الاعمال صفحہ 25
60: الیواقیت والجواہر جلد 1 صفحہ25 مطبوعہ مصر 1321ھ
61: الطبقات للشعرانی صفحہ 17تا 19
62: تاریخ الاسلام للذھبی جزو 9 صفحہ 311 مطبع دارالکتب العربی بیروت لبنان ، الطبعۃ الاولیٰ 1987ء
63: الیواقیت والجواہر جلد 1 صفحہ14 مطبوعہ مصر 1321ھ
64: الیواقیت والجواہر جلد 1 صفحہ14 مطبوعہ مصر 1321ھ
65: تاریخ الاسلام للذھبی جزو 14 صفحہ 338 مطبوعہ دارالکتب العربی بیروت لبنان، الطبعۃ الاولیٰ 1987ء
66: انوار احمدیہ صفحہ 3
67: سوانح عمری مؤلفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ 134۔ نیز ملاحظہ ہو
The Indian Musalmans by W.W. Hunter page 10.
68: یٰس: 31
69: ابن ماجہ ابواب الفتن باب الصبر علی البلاء
70: مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ61 مطبوعہ بیروت 1994ء
71: ابراہیم: 15,14
72: فتح البیان جلد 11 صفحہ 280 مطبوعہ بیروت 1992ء
73: یٰس: 19 74: الاعراف: 89 75: الکافرون: 7
76: البقرۃ: 257 77: آل عمران: 168
78: السیرۃ الحلبیۃجلد 3صفحہ 92مطبوعہ مصر1935ء
79: ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر، صفحہ 17، 18مطبوعہ اقبال اکیڈمی لاہور
80: فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں از چوہدری افضل حق صفحہ 46سٹیم پریس وطن بلڈنگز لاہور
81: رسالہ دلگداز بابت ماہ جون 1906ء
82: اخبار ''ہمدرد'' دہلی 26ستمبر 1927ء
83: زمیندار 24جون 1923ء
84: زمیندار 7دسمبر 1926ء
85: بحوالہ اخبار ''وکیل'' از ''بدر'' 25مئی 1905ء صفحہ8
86: اخبار ''وکیل'' امرتسر
87: علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بحوالہ تشحیذ الاذہان 1908ء جلد8 نمبر3 صفحہ332، 333
88: تہذیب نسواں بحوالہ تشحیذ الاذہان 1908ء جلد3 نمبر10 صفحہ383
89: زمیندار 8جون 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء صفحہ13
90: یوحنا باب 14 آیت30
91: یوحنا باب 12 آیت 31
92: رسالہ خاتم النّبیّین صفحہ 21، 22
93: آزاد 27فروری 1953ء صفحہ 5 کالم 2
94: اثبات الالہام والبیعۃ صفحہ 148
95: دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ صفحہ 56مطبوعہ نولکشور نومبر 1868ء
96: الیواقیت و الجواہر جلد 2 صفحہ 84، 85 مصنفہ امام عبدالوہاب شعرانی مطبوعہ مصر 1351ھ
97: تفہیمات الٰہیہ ۔ از حضرت شاہ ولی اﷲجلد 2 صفحہ32 مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء
98: حٰمۤ السجدۃ: 31تا 33
99: تفسیر بیضاوی جلد 7 صفحہ 399 مطبوعہ بیروت 1383ھ
100: النحل : 33 101: الاعراف: 36
102: سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب بدء الاذان
103: بذل الجہود فی حل ابو داؤد جلد ١ مطبوعہ میرٹھ صفحہ 279، 280
104: صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ (الخ)
105: بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم باب مناقب عمر بن الخطاب (الخ)
106: مثنوی مولانا روم دفتر چہارم صفحہ 46 مطبع کانپور
107: الشوریٰ: 52
108: تفسیر روح المعانی زیر آیت ما کان لبشرٍ ان یکلّمہ ﷲ الّا و حیًا جلد13 صفحہ 54 مطبوعہ بیروت 2005ء
109: لسان العرب جلد15 صفحہ 240 زیر لفظ وحی مطبوعہ بیروت1988ء
110: تاج العروس جلد 10 صفحہ 385
111: نہایہ لابن الاثیر جلد 4 صفحہ 72 مطبوعہ مصر1311ھ
112: تفہیماتِ الٰہیہ جلد 2 صفحہ 148 مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء
113: تفہیماتِ الٰہیہ مصنّفہ حضرت شاہ ولی اﷲ جلد 2صفحہ161مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء
114: تفہیماتِ الٰہیہ جلد 1 صفحہ60، 61مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء
115: تفسیر عرائس البیان زیر آیت ینزل الملائکۃ بروح من امرہ علٰی من یشاء من عبادہ جلد1صفحہ 521
116: منصب امامت اُردو ترجمہ صفحہ39، 40 مطبوعہ لاہور 1949ء (مفہوماً)
117: اقتراب الساعۃ صفحہ 162، 163مطبوعہ آگرہ۔1301ھ
118: مسلم کتاب الفتن وأشراط الساعۃ باب ذکر الدجال
119: روح المعانی جلد 11صفحہ219 مطبوعہبیروت 2005ء
120: اسعاف الراغبین صفحہ 143
121: اسعاف الراغبین بر حاشیہ نور الابصار صفحہ 142
122: طٰہٰ : 90
123: تفسیر کبیر للامام رازی جلد 22 صفحہ 104 زیر آیت افلا یرون اَلَّا یرجع الیھم مطبوعہ طھران
124: الاعراف: 149
125: تفسیرکبیر للامام رازیجلد 15 صفحہ 7زیر آیت واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ من حلیھم مطبوعہ طھران
126: الانبیاء: 64تا 67
127: رسالہ خا تم النّبیّین شائع کردہ پنجاب ریلیجس بُک سوسائٹی لاہور
128: الاحزاب: 41 129: الکوثر: 2 تا 4
130: تفسیرالبحرالمحیط الجزء الثامن صفحہ519 مطبوعہ ریاض1329ھ
131: النساء : 159 132: الحج: 76 133: الفاتحۃ: 6 ، 7
134: النساء: 69 135: النساء:70، 71 136: البقرۃ: 144
137: آل عمران: 194 138: النساء: 146، 147
139: الحجر: 33 140: الاعراف: 12
141: مفردات راغب صفحہ442زیر لفظ کتب مطبوعہ بیروت2002ء
142: تفسیر بحر محیط جلد 3 صفحہ 387مطبوعہ مصر
143: الاعراف: 36 144: المرسلات: 12
145: تفسیر القُمّی صفحہ 23 مطبوعہ ایران 1313ھ
146: مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر الدجال
147: حجج الکرامہ صفحہ 426مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال
148: حجج الکرامہ صفحہ 426مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال
149: حجج الکرامہ صفحہ 431مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال
150: ابن ماجہ ابواب ما جاء فی الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
151: کنز العمال جلد11صفحہ 472کتاب الفضائل من قسم الافعال الفصل الثالث باب فی فضائل المتفرقہ ذکر ولد ابراہیم مطبوعہ حلب 1974ء
152: مسند احمد بن حنبل صفحہ1216 مطبوعہ لبنان2004ء حدیث17280
153: ترمذی اَبْوَاب المناقب عَنْ رَسُوْلِ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ باب مَا جَاء فی فَضْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
154: در منثور جلد 5 صفحہ386 مطبع دارالکتب العلمیۃ ،بیروت لبنان ، الطبعۃ الاولیٰ 1990ء
155: در منثور جلد 5 صفحہ386زیر آیت خاتم النّبیّین مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ، الطبعۃ الاولیٰ 1990ء
156: در منثور جلد 5 صفحہ386 زیر آیت خاتم النّبیّین مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ، الطبعۃ الاولیٰ 1990ء
157: فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3مطبوعہ بیروت
158: فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73صفحہ90مطبع دار صادر بیروت
159: فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 90سوال نمبر 83مطبع دار صادر بیروت
160: فتوحات مکیہ جلد 2باب 188صفحہ 376مطبع دار صادر بیروت
161: شرح فصوص الحکم فصل حکمۃ قدریہ صفحہ 167، 168 مطبوعہ مصر1321ھ
162: الانسان الکامل باب السادس و الثلاثون فی التوراۃِجلد 1صفحہ 69مطبع الازھریۃ مصریۃ مطبوعہ 1316ھ
163: موضوعاتِ کبیر ملا علی قاری صفحہ 58، 59 مطبوعہ دھلی 1346ھ
164: ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلوٰۃ علیٰ ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الخ)
165: ملاحظہ ہو بیان مولانا داؤد غزنوی صاحب، رُو برو عدالت ہذا مورخہ 15اکتوبر 1953ء گواہ نمبر 67 آخری سطر
166: الیواقیت و الجواہر جلد2صفحہ 39مطبوعہ مصر 1321ھ
167: نہج البلاغۃ صفحہ 101مطبوعہ بیروت ، الطبعۃ الاولیٰ1967ء
168: مجمع البحرین زیر لفظ ختم صفحہ514
169: فتوح الغیب مقالہ نمبر 4 صفحہ 7 ناشر محمد تقی اردو بازار جامع مسجد دہلی 1348ھ
170: تفہیماتِ الٰہیہ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ تفہیم نمبر 54جلد نمبر 2 صفحہ 85 مطبع حیدری مغربی پاکستان 1967ء
171: تحذیر الناس مولانامحمدقاسم نانوتوی صفحہ 3 مطبع خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور1309ھ
172: تحذیر الناس مولانامحمدقاسم نانوتوی صفحہ 28مطبع خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور1309ھ
173: تحذیر الناس مولانامحمدقاسم نانوتوی صفحہ 10مطبع خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور1309ھ
174: تحذیر الناس مولانامحمدقاسم نانوتوی صفحہ 43مطبع خیر خواہ سرکار پریس سہارن پور1309ھ
175: رسالہ دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ 16 مطبوعہ لکھنو باردوم
176: مثنوی مولانا روم دفتر پنجم صفحہ13مطبوعہ کانپور
177: مثنوی مولانا روم ؒ دفتر پنجم صفحہ20مطبوعہ کانپور
178: مثنوی مولانا روم ؒ دفتر ششم صفحہ 5، 6مطبوعہ کانپور
179: مقالات مظہری صفحہ 88
180: مکتوبات امام ربّانی مکتوب نمبر 301 صفحہ141مطبوعہ لاہور1331ھ
181: عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 16صفحہ 36مطبوعہ مصر
182: ارشاد الساری قسطلانی جلد 6 صفحہ 22باب مطبوعہ مصر1304ھ
183: غایۃ المقصود جلد 2 صفحہ 123مطبع شمس الہند لاہور 1318ھ
184: غایۃ المقصود جلد 2 صفحہ 38مطبع شمس الہند لاہور 1318ھ
185: مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 232
186: ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 207
187: کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15، 16
188: تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ411، 412
189: حاشیہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ360
190: براہین احمدیہ حصّہ ،پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ360
191: براہین احمدیہ حصّہ ،پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ355
192: تتمہ حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ503
193: اخبار بدر مورخہ 5مارچ 1908ء صفحہ 2
194: الجن: 27، 28
195: ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد18صفحہ216
196: انجام آتھم ،روحانی خزائن جلد 11صفحہ27حاشیہ
197: حقیقۃ النبوۃ ،انوارالعلوم جلد 2صفحہ 459
198: حقیقۃ النبوۃ،انوارالعلوم جلد 2 صفحہ 460
199: ضمیمہ الفضل 2۔اگست 1914ء نمبر 2جلد 2صفحہ ج
200: الفضل 20 مئی 1950ء صفحہ 3
201: آزاد 17جنوری 1950ء صفحہ آخری کالم 4
202: حوالہ از تعمیر نو گجرات 5دسمبر 1949ء صفحہ 8 کالم 3
203: بیان سیّد زین العابدین گیلانی سابق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان میونسپل کمشنر 30جولائی 1952ء مندرجہ پوسٹر بعنوان سیّد عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری کی سیاسی قلابازی ملتان میں کشت و خون اور حسب معمول احراری لیڈروں کی بے وفائی۔ مطبوعہ پاکستان پبلسٹی پرنٹنگ ورکس چوک شہیداں ملتان شہر
204: سیرۃ عمر بن الخطاب لا بن جوزی صفحہ 41مطبوعہازھر 1331ھ
205: بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم
206: آل عمران: 56
207: مستدرک حاکمجلد 1 صفحہ 405 کتاب الامامہ والصلوٰۃ الجماعۃ۔ باب التأمین مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء
208: مشکوٰۃ کتاب الجنائزباب مَایُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَہُ الْمَوْتُ
209: البقرۃ:282 210: المائدۃ: 117، 118
211: بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ المائدہ باب وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَھِیْدًا
212: الفتاوٰی محمود شلتوت صفحہ 50تا58مطبوعہ قاہرہ
213: بخاری کتاب التفسیرباب تفسیر سورۃ المائدۃ
214: مجمع بحار الانوار جلد 1 صفحہ286مطبوعہ نولکشور1314ھ(قَالَ مَالِکٌ مَاتَ)
215: المحلٰی جز اول صفحہ 23 مطبع النھضۃ بمصر مطبوعہ :1347ھ
216: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ذکر ادریس علیہ السلام(الخ)
217، 218: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَ اذْکُرْ فی الکتاب مریم (الخ)
219: الزخرف: 58
220: تذکرہ صفحہ 47، 241 ۔ایڈیشن چہارم
221: نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 382 حاشیہ
222: نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 487
223: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ153
224: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ152
225: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ114
226: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22صفحہ406
227: استفتاء، روحانی خزائن جلد 22صفحہ676
228: آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 226۔درثمین اُردو صفحہ17
229: المصلح کراچی 8جولائی 1953ء صفحہ3
230: فتویٰ 1892ء از اشاعۃ السنہ جلد 13نمبر7 صفحہ204
231: رسالہ صاعقہ ربّانی بر فتنہ قادیانی مؤلفہ عبدالسمیع فاروقی بدایوانی مطبوعہ روہتک صفحہ9
232: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر6صفحہ186
233: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7صفحہ201
234: اشاعۃ السنہ جلد 13نمبر6صفحہ 190
235: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6صفحہ191، 192
236: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر6 فتویٰ 1892ء
237: اشاعۃ السنہ جلد 14 نمبر 1 تا 6
238: ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ102
239: ایّام الصلح ، روحانی خزائن جلد14صفحہ322تا 324
240: ابو داؤد کتاب السنۃ باب الدلیل علٰی زیادۃ الایمان و نقصانہ میں کَفَّرَ کی بجائے اَکْفَرَ ہے۔
241: الحجرات: 15 242: النساء: 95 243: البقرۃ: 132
244: المائدۃ: 45
245: المفردات فی غریب الْقرآن صفحہ 248 مطبوعہ بیروت 2002ء
246: بخاری کتاب الصلوٰۃ باب فضل استقبال القبلۃ
247: سنن ابی داؤد کتاب الجھاد باب فی الغزو مع آئمۃ الجور
248: کنز العمال جلد 1 صفحہ 32کتاب الایمان والاسلام الفصل الاول فی حقیقۃ الایمان مطبوعہ بیروت1998ء
249: کنز العمال جلد ١ صفحہ 31 کتاب الایمان والاسلام مطبوعہ بیروت1998ء
250: کتاب الایمان صفحہ17 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی۔ 1311ھ
251: کتاب الایمان صفحہ171 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی۔ 1311ھ
252: کتاب الایمان صفحہ 125 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی۔ 1311ھ
253: مشکاۃ المصابیحجزء3صفحہ113کتاب الآداب باب السلام۔ الفصل الاول الناشر المکتب الاسلامی بیروت 1985ء
254: لسان الحکام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 202
255: لسان الحکام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 206
256: لسان الحکام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 254
257: الاعراف: 157 258: الذاریات: 57 259: الفجر: 30، 31
260: مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ایڈیشن سوم صفحہ107
261: تفسیر معالم التنزیل تفسیر سورۃ ہود الجزء الثانی عشر صفحہ263مطبوعہ بیروت1985ء (لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی جَہَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَا اَحَدٌ)
262: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 123
263: حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ168، 169
264: حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185
265: کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد 19صفحہ15،16
266: حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ184
267: حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ180
268: ، 269:الفضل یکم مئی 1935ء صفحہ 7
270: دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد20صفحہ 456، 457
271: تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ471(سورۂ زلزال)مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ
272: احمدیت کا پیغام، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 569
273: دیکھو رُوح المعانی جلد8 صفحہ 41۔ زیر آیت مَا کُنَّا مُعَذِّ بِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (سورۃ اسراء) مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
274: احمدیت کا پیغام، انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 569
275: ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد ١١ صفحہ 311 تا 319 (مفہوماً)
276: مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 299 و 300
277: فتویٰ شائع کردہ النجم لکھنؤ ۔ فتاویٰ عالمگیریہ جلد 2 صفحہ 283 و فتاوٰی عزیزی از خاندان شاہ ولی اﷲ صاحب صفحہ 191، 192
278: حدیقۂ شہداء صفحہ 65
279: شرح اصولِ کافی جلد 3 صفحہ 61
280: رد التکفیر علی الفحاش الشنظیرصفحہ 11مطبوعہ1910ء
281: حسام الحرمین صفحہ73تا78فتویٰ احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ بریلی
282: حسام الحرمین صفحہ78فتویٰ احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ بریلی(مفہوماً)
283: فتوائے علماء اسلام مشتہرہ مہر محمد قادری لکھنؤ
284: مجموعہ فتاویٰ صفحہ 54، 55
285: النساء: 138
286: سنن ابی داؤدکتاب السنۃ باب فی قتال الخوارج
287: کتاب الامامۃ و السیاسۃ لا بن قُتَیبہ الجزء الاولصفحہ 149 مطبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر مطبوعہ 1969ء
288: کتاب الایمان صفحہ 115 مطبوعہ 1311ھ
289: مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بَعْدَ قولہٖ لَا اِلٰہَ اِلَّا ﷲ
290: کتاب الاُم للشافعی جلد 6 صفحہ 159
291: التوبۃ: 74
292: کتاب الاُمْ للشافعی جلد 6 صفحہ 147، 148
293: رسالہ ذکرِ صوت یا عبادتِ شہداء جکیگور بلوچستان
294: اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 85
295: ،296: شرعی فیصلہ صفحہ 31
297: فتویٰ شریعت غرّاء صفحہ 9
298: صاعقہ ء ربّانی بر فتنہ قادیانی مؤلفہ عبدالسمیع فاروقی بدایوانی صفحہ 9مطبوعہ روہتک
299: فتویٰ شریعتِ غرّاء صفحہ 4
300: شرعی فیصلہ صفحہ 25
301: شرعی فیصلہ صفحہ 20
302: شرعی فیصلہ صفحہ 31
303: شرعی فیصلہ صفحہ 24
304: حسام الحرمین صفحہ81تا83 فتویٰ احمد رضا خان بریلوی مطبوعہ بریلی
305: فتویٰ شریعتِ غرّاء صفحہ 6
306: اشاعۃ السنۃ جلد 13نمبر 6 صفحہ 185
307: اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201
308: فتویٰ در تکفیرِ منکرِ عروج جسمی و نزولِ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام
309: فتویٰ شریعتِ غرّاء صفحہ 12
310: اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201
311: فتویٰ 1893ء منقول از فتویٰ در تکفیر منکرِ عروج جسمی و نزول عیسیٰ علیہ السلام
312: شرعی فیصلہ صفحہ 31
313: فتویٰ مولوی عبداﷲ و مولوی عبدالعزیز صاحبان لدھیانہ از اشاعۃ السنۃ جلد13نمبر 12صفحہ 381
314: فتویٰ در تکفیر منکر عروجِ جسمی و نزولِ عیسیٰ علیہ السلام مطبوعہ 1311ھ
315: ابن ماجہ کتاب النکاح باب الاکفاء
316: بخاری کتاب النکاح باب ذب الرجل عن ابنتہ فی الغیرۃ والانصاف
317: مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ ……(یوسف:77)
318: متی باب 22 آیت 17 تا 21
319: مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ332تا334 حدیث نمبر1742 مطبوعہ دارالاحیاء التراث العربی بیروت لبنان مطبوعہ 1994ء
320: سوانح احمدی کلاں صفحہ71 مؤلفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری اسلامیہ سٹیم پریس لاہور (مفہوماً)
321: تاریخ الاسلام للامام الذھبی جزو 1 صفحہ 184ناشر دارالکتب العربی بیروت لبنان مطبوعہ 1987ء
322: مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 197، 198
323: مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 188
324: مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 191
325: کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد13صفحہ 3
326: تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 155
327: بخاری کتاب فضائل اَصْحَاب النَّبیّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ با ب مناقب فَاطِمَۃَؓ
328: المائدۃ: 83
329: اخبار زمیندار مورخہ 27نومبر 1952ء صفحہ 3کالم 5
330: رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر10جلد 6صفحہ 288
331: رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر 10جلد 6صفحہ 292
332: رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر 10جلد 6صفحہ 293
333: سوانح احمدی مؤلفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ 139
334: زمیندار 11نومبر 1908ء
335: زمیندار 9نومبر 1911ء
336: انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 68
337: نور الحق ، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 33 و 34
338: الحج : 40 تا 42 339: البقرۃ: 191 تا 194
340: الممتحنہ:9، 10 341: التوبۃ :36
342: بخاری کتاب الجہاد والسیر باب یُقَاتَلُ مِن وراء الامام
343: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 3
344: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 3،4
345: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ 4 و 5
346: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ 5
347: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ5 و 6
348: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ6 و 7
349: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ 8
350: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ 11و 12
351: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ12
352: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ13
353: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ17
354: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ18
355: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ18 (مفہوما ً)
356: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ20 و 21
357: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد17 صفحہ22
358: الفرقان:53
359: مفرداتِ امام راغب صفحہ106 زیر لفظ جھدمطبوعہ بیروت 2002ء
360: البقرۃ: 194
361: رسالہ اشاعۃ السُنّۃ جلد 6 نمبر 10 صفحہ 288
362: کلمۂ حق صفحہ 21، 22 شائع کردہ مرکزی خلافت کمیٹی بمبئی
363: رسالہ موعظۂ حسنہ صفحہ 68
364: ''اسبابِ بغاوتِ ہند''صفحہ31، 32 مصنفہ سر سید احمد خان مطبع سنگ میل پبلیکیشنز لاہور1997ء
365: تفسیر المنار جلد 10 صفحہ307، 309 مطبوعہ بیروت1931ء
366: زمیندار مورخہ 11نومبر 1911ء
367: اخبار عام لاہور 26مئی 1908ء
368: المفردات فی غریب القرآن صفحہ512 مطبوعہ بیروت2002ء‘‘نسخ’’
369: ازالۂ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197 و 198
370: ''ضربِ مجاہد'' مؤلفہ ایم اسلم صاحب صفحہ 35
371: صیانۃ الانسان۔ مصنفہ ولی اﷲ صاحب لاہوری صفحہ 232 مطبوعہ مطبع مصطفائی لاہور 1873ء
372: رسالہ ''جہاد فی سبیل ﷲ'' مصنفہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صفحہ30، 31مطبوعہ1964ء
373: فتنۂ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں از چوہدری افضل حق صفحہ46سٹیم پریس وطن بلڈنگز لاہور
374: یہ مضامین الفضل مورخہ 9جون 1920ء صفحہ 3 تا 4 و 20جون 1925ء صفحہ 3 تا6 میں شائع ہوئے ہیں۔
375: الفضل 26 مارچ 1923 ء والفضل 26 اپریل 1923 ء
376: الفضل 9اپریل 1923ء و الفضل 12اپریل 1923ء
377: الفضل 13مئی 1927ء صفحہ 5 تا 8
378: الفضل 10جون 1927ء صفحہ 6 تا 9
379: الفضل مورخہ 4مئی 1947ء
380: الفضل 12جولائی 1932ء و الفضل 24جولائی 1932ء و الفضل 23اگست 1932ء و الفضل 8ستمبر 1932ء و الفضل 18ستمبر 1932ء صفحہ 1، الفضل 25جون 1933ء صفحہ 9
381: اعلان کمانڈر انچیف افواج پاکستان از الفضل23جون 1950ء صفحہ 8
382: ترجمان القرآن جون 1948ء صفحہ 119
383: زمیندار 11اکتوبر 1947ء صفحہ8
384: اخبار ہمدرد دہلی 24ستمبر 1927ء
385: فتویٰ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204
386: فتویٰ مولوی مسعود صاحب دہلوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 189
387: فتویٰ مولوی عبدالحق صاحب از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 189
388: فتویٰ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 191
389: فتویٰ مولوی عبدالصمد غزنوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13نمبر 7 صفحہ 201
390: از مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اشاعۃ السنۃ جلد 14 نمبر 1 تا 6
391: اشتہار ضرب النِعال علیٰ وجہ الدجّال از مولوی عبدالحق صاحب غزنوی
392: آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ429، 430
393: آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ547، 548(عربی عبارت کا ترجمہ)
394: آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 388، 389
395: الحکم جلد 11 نمبر 7 بابت 24فروری 1907ء صفحہ 12 کالم نمبر 2
396: القلم: 11 تا 14
397: تفسیر کبیر جلد 30 صفحہ 85زیر آیت عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ(سورۃ القلم) مطبوعہ طہران
398: تفسیر حسینی صفحہ382تفسیر سورۃ القلم مطبوعہ1274ھ
399: الفروع الکافی جلدسوئم کتاب الروضہ صفحہ 135 مطبوعہ نولکشور لکھنؤ1886ء
400: اخبار مجاہد لاہور 14مارچ 1936ء
401: فروع کافی جلد 2 صفحہ 216 کتاب النکاح مطبوعہ نولکشور1886ء
402: کتاب الوصیت صفحہ 39 مطبوعہ حیدر آباد دکن
403: قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَ غَضِبَ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِيْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّ اَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ: 61)
404: نجم الہدیٰ ،روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 54
405: نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ63 تا 67
406: نجم الہدیٰ،روحانی خزائن جلد 14 حاشیہ صفحہ79، 80
407: نجم الہدیٰ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 88
408: نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 86 حاشیہ
409: انوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 30 و 31
410: انوار الاسلام ،روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 38
411: رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 13 صفحہ 185 مطبوعہ 1892ء
412: الفضل 3جنوری 1952ء صفحہ3، 4 (مفہوماً)
413: الہدیٰ ، روحانی خزائن جلد18صفحہ 314حاشیہ
414: اشتہار بعنوان قیامت کی نشانی ملحقہ آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 610
415: لُجّۃُ النور، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 409
416: ٹائیٹل پیج ''ایّام الصلح'' روحانی خزائن جلد 14صفحہ 228
417: ''کوثر'' لاہور 9مارچ 1948ء
418: کنز العمال جلد6 صفحہ 26 مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان مطبوعہ 1998ء








قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں
سائنس کی بنیاد ہیں



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی بنیاد ہیں

(فرمودہ25جون 1953ء برموقع افتتاح فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آٹھ سال ہوئے مَیں نے قادیان میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بُنیاد رکھی تھی۔ وہاں پر اس کا کام شروع ہو گیا تھا لیکن 1947ء کے انقلاب کے بعد ہمارے پاس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ مَیں نے ایک دوست کو تحریک کی کہ وہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ربوہ میں بنانے کے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کریں۔ ایک لاکھ مَیں جمع کروں گا۔ ابھی تک مَیں تو اِس بارے میں تحریک نہیں کر سکا کیونکہ جماعت کے سامنے اور بہت سی تحریکات ہیں لیکن اس دوست نے باون ہزار روپیہ کے قریب جمع کر دیا ہے جس سے یہ عمارت تیار کی گئی ہے۔ اگر بقیہ رقم بھی جمع ہو گئی تو انشاء اﷲ العزیز وسیع پیمانے پر کام جاری ہو جائے گا اور بلڈنگ بھی مکمل ہو جائے گی۔ سرِ دست اِس انسٹیٹیوٹ میں پانچ ریسرچ سکالر کام کر رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس آسمانی کتاب نے کائناتِ عالَم پر غور کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دلائی ہے وہ قرآن کریم ہے۔ دُنیا کی کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جس نے انسان کو کائناتِ عالَم پر غور کرنے کا اِس طرح واضح حکم دیا ہو جس طرح قرآن کریم نے دیا ہے۔ قرآن مجید نے اِس بارے میں تین بُنیادی امور بیان فرمائے ہیں:
اوّل ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِس دُنیا کی تمام چیزیں مرکّب ہیں کوئی چیز مفرد نہیں ہے۔ سب اشیاء میں ترکیب پائی جاتی ہے۔ فرمایا وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ ۔1
دوم۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اشیاء کی وہ ترکیب ہر وقت عمل (work) کر رہی ہے۔ یعنی اس کے نتائج کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ 2 کہ اﷲ تعالیٰ ہر وقت نئی شان اور ترکیب کے ساتھ تجلّی فرماتا ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ کائناتِ عالَم کی تمام چیزیں اُس کی اس تجلّی سے متاثر ہوتی ہیں اور ان مرکب اشیاء کا سلسلہ کسی جگہ پر ٹھہر نہیں جاتا بلکہ آگے ہی آگے چلتا ہے۔ گویا ہر وقت نئے نتائج پیدا ہو رہے ہیں۔ الفؔ اور بؔ کے ملنے سے جؔ پیدا ہوتا ہے۔ پھر جؔ اور دؔ کے ملنے سے سؔ پیدا ہوتا ہے۔ غرض اسی طرح ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔
سوم۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اِن تمام اشیاء اور ان کی ترکیب اور اُس ترکیب سے پیدا ہونے والے نتائج کے اسرار کو معلوم کرنا تمہارا کام ہے۔ اس کام کو سر انجام دینے والے ہی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک عقلمند ہیں۔ الَّذِيْنَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔3 وہ لوگ جو آسمان و زمین کی پیدائش کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بالآخر اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اے خدا! تُو نے اِس کارخانہ کو بے حکمت پیدا نہیں کیا۔ تُو پاک ہے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔ پھر قرآن مجید بھی وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ قوانینِ الٰہی میں غور کریں گے اور کائناتِ عالم کی حکمتوں کو سوچیں گے ان پر ان کے اسرار ضرور کھولے جائیں گے اور دُنیا کے ذرّہ سے لے کر خود خدا تعالیٰ تک اُن لوگوں کے لئے کامیابی کا راستہ کھلے گا۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۔4 کہ جو لوگ ہمارے پیدا کردہ عالم کے متعلق اور ہم تک پہنچنے کے لئے صحیح طریق سے کوشش کریں گے ہم اُن پر کامیابی کے راستے ضرور کھولیں گے۔
یہ تین اہم صداقتیں ہیں جن کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی تین امور سائنس کی بُنیاد ہیں۔ اِن حالات میں کس قدر تعجب کی بات ہو گی کہ مسلمان کائناتِ عالم سے غفلت اختیار کریں۔
دُنیا میں مختلف خیال کے لوگ بستے ہیں بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیا کی طرف توجہ کرنا مذہب کا کوئی حصّہ نہیں۔ بلکہ اُن کے نزدیک دُنیا سے بے توجہ رہنا مذہبی آدمی کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ بُدّھوں کا خیال ہے یا عیسائیوں کے بعض فرقے سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ دُنیا کو صرف دُنیا کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُس کو ہی اپنا منتہائے مقصود سمجھتے ہیں۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ کائناتِ عالَم پر غور کرتے ہیں اور بعض ایجادات بھی ایجاد کرتے ہیں لیکن ان کے مذہب نے انہیں اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی۔ ان کے مذہب اِس پہلو سے سراسر خاموش ہیں۔ انہوں نے یہ طریق اپنے لئے از خود ایجاد کر لیا ہے لیکن قرآن کریم تو مسلمانوں کو نہ صرف کائناتِ عالم پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ وہ اِس کام کو مذہب کا ایک حصّہ قرار دیتا ہے اور اس کوشش کے نتیجہ میں ثواب اور روحانی بدلے کی اُمید دلاتا ہے۔ اگر مسلمان اِس پہلو سے غفلت اور سُستی کریں تو وہ صریح طور پر قرآن کریم کے احکام سے مُنہ پھیرنے والے قرار پائیں گے۔
جو لوگ صحیح طور پر کائناتِ عالم پر غور کرنے والے ہیں وہ بڑی محنت سے کام کرتے ہیں۔ مَیں نے بہت سے سائنسدانوں کے حالات پڑھے ہیں۔ وہ بڑے انہماک سے بارہ بارہ گھنٹے تک کام کرتے ہیں اور پھر شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں لیکن مسلمان بالعموم پانچ چھ گھنٹے کے کام کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگ اسی لئے اپنے کام کی رپورٹ کرنے اور ڈائری لکھنے سے گھبراتے ہیں ۔ تبلیغی کام کرنے والے اور ریسرچ میں کام کرنے والے اگر اپنے کام کی ڈائری لکھیں تو اس سے انہیں صحیح طور پر احساس ہو جائے کہ اُنہیں کتنا کام کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کتنا کیا ہے۔ سُست لوگ اِس بارے میں یہ عُذر کیا کرتے ہیں کہ ہم نے کام کرنا ہے یا ڈائری لکھنا ہے۔ ڈائری لکھنے اور رپورٹ کرنے میں وقت ضائع ہوتا ہے۔ یہ عُذر درحقیقت نفس کا دھوکا ہوتا ہے۔ ڈائری وہی لکھ سکتا ہے جو صحیح طور پر کام کرتا ہے اور جو شخص کام نہیں کرتا وہ ڈائری لکھنے سے گریز کرتا ہے۔ ہمارا دُنیا سے بہت بڑا مقابلہ ہے۔ ہماری یہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ دُنیا کی لیبارٹریوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹوں کے مقابلہ میں بلحاظ اپنے سامان اور کارکنوں کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اصل کام یہ ہے کہ انسان میں اپنی ذمّہ داری کو ادا کرنے کی روح پیدا ہو جائے اور یہ روح محنت اور ایثار سے پیداہوتی ہے۔ جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نے بہت بڑے دُشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمارے اندر کام کرنے کی رُوح بڑھ جائے گی۔ ہمارے اس مقابلہ کی بنیاد روپے پر نہیں ہے۔ دُنیا کے مقابلہ میں ہمارے پاس روپیہ ہے ہی نہیں۔
نپولین کا قول ہے کہ ناممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے۔ اس کے یہی معنی تھے کہ نپولین کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھتا تھا۔ ہاں وہ اُسے مشکل ضرور سمجھتا تھا اور پھر ہمت سے اُس کام کو سرانجام دیتا تھا۔ دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنی اولوالعزمی سے سامانوں کے مفقود ہونے کے باوجود کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت مسلمانوں پر جو غفلت اور جمود کی حالت طاری تھی اُس کو بیداری سے بدلنا ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن آپ ؑ نے مسلمانوں کے اندر اُمید کی کرن پیدا کر دی اور اُنہیں بیدار کر دیا۔ یورپین مصنّفین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے کے ہندوستانی مسلمان لیڈروں یعنی سرسیّد احمد خاں، امیر علی وغیرہ کو اپالوجسٹ (APALOGIST) یعنی معذرت کرنے والے قرار دیتے تھے لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا طریق اسلام کی طرف سے معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ حملے کا طریق ہے۔ ابھی ایک مشہور مغربی مصنّف نے تحریکِ احمدیت کا ذکر اسی انداز میں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مستقبل کے متعلق ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جہاں پر مؤرخ کو خاموش ہونا پڑتا ہے۔ تحریکِ احمدیت کے مستقبل کے ذکر میں اُس نے لکھا ہے کہ بہت سے گھوڑے جو گھوڑ دوڑ کی ابتداء میں کمزور نظر آتے ہیں وہی بسا اوقات اوّل نکلتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت مذہبی دُنیا میں جو تغیرّات پیدا ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں جس قدر بیداری نظر آتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے نتیجہ میں ہے۔ اب مسلمانوں میں سے ننانوے فیصدی لوگ وفاتِ مسیح ؑ کے عقیدہ کو ماننے لگ گئے ہیں، عصمتِ انبیاء ؑ کو ماننے لگ گئے، عدمِ نسخِ قرآن کے نظریے کو بھی ننانوے فیصدی لوگ ماننے لگ گئے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ بارہ سو سال میں علمائے اسلام قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا عقیدہ رکھتے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت لطیف رنگ میں انہی آیات سے بہت سی حکمتیں بیان فرمائیں جنہیں لوگ منسوخ سمجھتے تھے۔ اس طرح مسئلہ نسخِ قرآن کی بنیاد کو آپ نے توڑ کر رکھ دیا۔ تمام وہ مسائل جو باقی دنیا اور مسلمانوں کے لئے مشکوک بلکہ مخالفانہ طور پر تسلیم کئے جاتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کو بدل دیا۔ پس ناممکن بات کو خدا تعالیٰ کے فضل سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو خود جماعت کا ایک بڑا حصّہ کہتا تھا کہ اب ہمارے پاؤں کس طرح جمیں گے لیکن دیکھ لو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارا بجٹ پہلے سے زیادہ ہے اور مخالفت کے باوجود جماعت کی ترقی ہو رہی ہے۔ اقتصادی حالت بھی پہلے سے بہتر ہے۔ اگر جماعت کی صحیح تربیت کی جائے تو چندے دُگنے ہو سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ریسرچ سکالر کو یہ کبھی نہیں سوچنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات بھی ہے جو نہیں ہو سکتی۔ اس کو اپنی تحقیقات کے سلسلہ کو پھیلانے میں یہ بھی نہ ماننا چاہئے کہ مَیں دُنیا کو پیدا نہیں کر سکتا۔ (گویہ پیدا کرنا مجازی رنگ میں ہی ہو گا) یہ تو درست ہے کہ جن چیزوں کو اﷲ تعالیٰ نے ناممکن قرار دے دیا ہے وہ بہرحال ناممکن ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ جن چیزوں کو انسان کسی وقت ناممکن کہہ دیں وہ فِی الواقع ناممکن ہوتی ہیں۔ ابھی جب ایٹم بم ایجاد ہؤا تو وہ سائنسدان جو کہتے تھے کہ دُنیا کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ کہنے لگ گئے کہ اِس ایجاد سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دُنیا ختم ہو سکتی ہے۔ چار پانچ ماہ تک وہ لوگ CHAIN REACTION (تسلسلِ ردِّعمل) کے نظریہ کے ماتحت دُنیا کے خاتمہ کے قائل رہے ہیں۔ بہرحال ریسرچ کرنے والے انسان کے لئے بہت بڑی وسعت ہے۔ دُنیا میں ایک وقت میں ایک چیز ناممکن سمجھی جاتی ہے اور پھر وہ ممکن ہو جاتی ہے۔ گویا قدرت بھی اپنے دائرہ کو لمبا کرتی رہتی ہے۔ پہلے لوگ دُنیا کی لمبائی کا اندازہ روشنی کے تین ہزار سال سمجھتے تھے۔ جنگ کے بعد یہ اندازہ چھ ہزار سال تک پہنچ گیا اور اب نیا نظریہ یہ ہے کہ دُنیا کی لمبائی روشنی کے چھتیس ہزار سال کے برابر ہے۔
اِس وقت محقّقین کے دو نظریے ہیں۔ بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ دُنیا EXPAND ہو رہی ہے۔ جوں جوں ہم علمی طور پر آگے بڑھتے ہیں دُنیا کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ درحقیقت ابھی تک ہم نے صحیح اندازہ ہی نہیں کیا۔ ہمارے سارے اندازے ناقص اور کم ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھٰھَا5 کہ ہر چیز کی اُلجھنیں اﷲ ہی حل کر سکتا ہے اور ہر چیز انجامکار تیرے رب کی طرف پہنچتی ہے۔ گویا ہمارے سامنے UNLIMITED SOURCES (غیر محدود خزانے) موجود ہیں جن کی ریسرچ ہم نے کرنی ہے لیکن ہمارے پاس سامان نہیں۔ ایٹم بم کے متعلق پانچ ہزار ورکر کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہاں صرف پانچ کارکن ہیں۔ پھر ان کے سامانوں کی فراوانی سے بھی ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ اُن لوگوں کا بجٹ دو دو ارب کا ہوتا ہے۔ ہمارے ریسرچ کے بجٹ کو اُن کے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب سامان تھوڑے ہوں اور کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہوں تو کام کی نسبت زیادہ ہونی ضروری ہے۔ کم ہمت آدمی کام کی زیادتی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ بہت کام ہے مجھ سے تو یہ ہو ہی نہیں سکے گا۔ اس لئے وہ کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور مختلف جھوٹے عذرات پیش کرتا ہے لیکن اچھا آدمی کام کی زیادتی کی وجہ سے گھبراتا نہیں بلکہ کہتا ہے کہ مَیں کام کے لئے وقت کی مقدار کو بڑھا کر اور محنت میں اضافہ کر کے اِس کام کو کروں گا۔ سوچ لو کہ جب دُنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح طور پر پیش ہو کہ ایک شخص ایسا ہے کہ زیادہ کام کو دیکھ کر اُس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور دوسرا ایسا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس نے زیادہ محنت اور زیادہ ہمت سے کام کو سرانجام دیا تو دُنیا اُن میں سے کس کو اچھا سمجھے گی اور کس کو بُرا قرار دے گی۔صحابہ ؓ کی کامیابی تو خاص خدائی نصرت کا نتیجہ تھی۔ دُنیوی طور پر بھی بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو ممکن کر دکھایا ہے۔ سکندر، چنگیز خاں، تیمور، بابر اور ہٹلر وغیرہ ایسے ہی لوگ تھے۔ ان کے علاوہ اَور بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قربانی اور ایثار سے بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں۔
ترکی کی گزشتہ جنگ میں ایک کرنیل کا واقعہ مَیں نے پڑھا ہے کہ ایک قلعے کے فتح کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ درمیان میں اُسے گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا۔ اُس کے سپاہی محبت کی وجہ سے اُس کی خبر گیری کے لئے بڑھے مگر اُس نے کہا کہ تم لوگ مجھے ہاتھ مت لگاؤ، وہ سامنے قلعہ ہے جس کا فتح کرنا ہمارا مقصد ہے جاؤ اور اُس قلعہ کو فتح کرو۔ اگر فتح کر لو تو اس قلعے کے اوپر میری لاش کو دفن کرنا ورنہ اُسے کُتّوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دینا۔ اُس کے اِس جذبہ کا اس کے ساتھیوں میں وہ اثر ہؤا کہ سب نے نہایت ہمت کے ساتھ جنگ کی اور قلعے کو فتح کر لیا۔
پس دُنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں۔ صرف وہی کام ناممکن قرار دیا جائے گا جسے ہمارا خدا ناممکن قرار دے لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے قرآنِ کریم نے کائناتِ عالم کے رازوں کو جاننے کی طرف خود توجہ دلائی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ صحیح رُوح سے اِس راستے میں کام کریں گے وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔
پس مَیں اِس انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے وقت توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر قرآنی رُوح پیدا کرو۔ زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کام کرنے کی عادت ڈالو۔ تب بہت سی چیزیں جو دُنیا کے لئے ناممکن ہیں تمہارے لئے ممکن ہو جائیں گی۔ تمہارے سامنے کائناتِ عالم کی کوئی دیوار بند نہیں۔ تم جس طرح بڑھنا چاہو اﷲ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے دروازہ کھول دے گی۔ تمہارا یہ کام کوئی دنیوی کام نہیں بلکہ حقیقتاً دینی کام ہے۔ قرآنِ مجید کے حکم کی تعمیل ہے اور پھر اس ریسرچ میں حقیقی طور پر کام کرنے والے کارکن سلسلہ کے لئے مالی طور پر بہت مُمِد ہو سکتے ہیں اور اخلاقی طور پر بھی۔ اُن کے زیادہ محنت سے کام کرنے کو دیکھ کر ان کے اِس کریکٹر کا اثر باقی افراد اور خصوصاً تبلیغی کام کرنے والوں پر بھی پڑے گا اور اسی میں ہماری کامیابی کا راز ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ پر توکّل کر کے ہمت اور عزم کے ساتھ زیادہ وقت لگا کر اور زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں خداتعالیٰ کی نصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی۔ اﷲتعالیٰ ہمیں توفیق بخشے۔ آمین’’۔ (الفرقان جولائی 1953ء)
1: الذّٰریٰت :50 2: الرحمٰن :30 3:آل عمران: 192
4: العنکبوت :70 5: النّٰزعت : 45









جو خاتم النّبیّین ؐ کا منکر ہے
وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

جو خاتم النّبیّین ؐ کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
(محررہ21جولائی 1953ء )

اے عزیزو! آجکل احمدی احراری جھگڑے میں ایک طوفان بے تمیزی اُٹھ رہا ہے اور جن لوگوں کا اس اختلاف سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی سُنی سُنائی باتوں پر کان دھر کے اشتعال میں آرہے ہیں اور غلط رائے قائم کر رہے ہیں لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں کہ صرف اظہارِ غضب سے اسے حل کیا جاسکے۔
جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احترام کا سوال ہو تو کم سے کم اس وقت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص آپ ؐ کے احترام کے لئے جان دینے کا دعویٰ کرتا ہو لیکن اس غرض کے لئے وہ کام کرتا ہو جنہیں آپ ؐ نے منع فرمایا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ بات کرتے ہیں تو غلط بیانی کرتے ہیں اور جب کسی سے اختلاف ہوتا ہے تو گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ مگر مومنوں کو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
اب آپ لوگ خود ہی دیکھ لیں کہ کیا احمدیت کے خلاف تقریریں کرنے والے جن کی تقریریں آپ نے سُنی ہیں اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ نہیں؟ کیا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ فساد نہ کرو تو کیا آپ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ فساد نہ کرو؟ یا اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے اور چند نوجوان فوراً جلوس بناتے اور گلیوں میں احمدیوں کے خلاف شور مچاتے پھرتے ہیں اور بعض پرائیویٹ مجالس میں احمدیوں کے قتل اور بائیکاٹ کے منصوبے کرنے لگ جاتے ہیں۔ اگر یہ مقرر واقع میں امن کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا الٹا اثر کیوں ہوتا ہے کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سامعین بَینَ السُّطُور مطلب ان تقریروں کا یہی سمجھتے ہیں کہ مقرر کہتا ہے کہ ہمیں قانون کی زد سے آزاد رہنے دو اور خود جاکر جو نقصان احمدیوں کا ہو سکتا ہے کرو۔ اسی طرح جو الفاظ وہ میری نسبت یا چوہدری ظفراﷲ خان کی نسبت یا باقی جماعت احمدیہ کے متعلق بولتے ہیں کیا وہ گالی گلوچ کی حد میں نہیں آتے اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان لوگوں کی طرف سے جو جلوس مختلف جگہوں پر نکالے گئے ان میں چوہدری ظفراﷲ خاں کو نہایت ناپسندیدہ طور پر پیش کیا گیا اور ایک کُتّا پکڑ کر اسے ظفراﷲ خاں ظاہر کیا گیا اور اس پر جوتیاں لگائی گئیں۔ کیا یہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق نہیں کہ جب وہ جھگڑتا اور مخالفت کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اُتر آتا ہے۔
اے اسلام کی غیرت رکھنے والو! اور اے وہ لوگو جن کے دل میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذرا بھی عشق ہے، مَیں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ان مجالس اور ان جلوسوں کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پسند کر سکتے تھے؟ کیا اگر کوئی دشمن ایسے جلوس کا نقشہ کھینچ کر یہ کہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے کسی جلوس کو پسند فرمایا تھا تو کیا آپ کے جسم پر لرزہ طاری نہ ہو جائے گا؟ کیا آپ اسے غلط بیانی کرنے والا نہ کہیں گے؟ پھر آپ یہ کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی تقریریں کرنے والے اور ایسے جلوس نکلوانے والے احترام رسول ؐ کی خاطر ایسا کر رہے ہیں۔ کیا سچ جھوٹ سے قائم ہوتا ہے؟ کیا احترام اور اعزاز گالی گلوچ کے ذریعہ سے قائم کیا جاتا ہے؟ کیا یہ مظاہرات دُنیا کی نگاہ میں اسلام کی عزت کو بڑھانے والے ہیں یا گھٹانے والے؟ کیا اگر اﷲ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ نظارہ دکھادے تو آپ فخر کریں گے کہ ان کے نام پر تقریریں کرنے والے امن کا نام لے کر فساد کی تعلیم دے رہے ہیں؟ کیا وہ اس جلوس کو دیکھ کر خوش ہوں گے جس میں گالیاں دی جاتی ہیں؟ جس میں ماتم کیا جاتا ہے؟ جس میں کُتّوں کو جُوتیاں مار کر اپنے مُلک کا وزیرخارجہ قرار دیا جاتا ہے؟ کیا اگر صحابہؓ یہ نظارہ دیکھیں تو وہ خوش ہو کر ایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ ہیں ہمارے سچے پیرو؟ یہ وہی کام کر رہے ہیں جس کا کرنا ہم پسند کرتے تھے؟ اگر ایسا نہیں بلکہ آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ نہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ کام پسند کر سکتے تھے نہ صحابہؓ ان کاموں کا کرنا پسند کر سکتے تھے تو بتائیں کہ حرمتِ رسول ؐ کا دعویٰ کرنے والے اگر سچے ہیں تو یہ کام کیوں کرتے ہیں۔
اے عزیزو! عقیدہ وہی ہوتا ہے جو ایک شخص بیان کرتا ہے، نہ وہ جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ پس اچھی طرح سُن لو کہ بانئ سلسلہ احمدیہ کا ایمان تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبیّین تھے اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘مَیں مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانۂ خدا میں کرتا ہوں کہ مَیں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں’’۔1
اسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی ؐ کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو’’۔ 2
پھر آگے لکھتے ہیں:-
‘‘آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اورنہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ؐ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے’’۔3
ان الفاظ کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّین نہ مانتے تھے تو وہ یاد رکھے کہ وہ خدا کی گرفت تلے ہے۔ اسے ایک ناکردہ گناہ پر اتہام لگانے کی خدا تعالیٰ سزا دے گا اور ہر شخص جو اس امر سے واقف ہو کر محض اس لئے اس الزام لگانے والے کے پیچھے چلے گا کہ وہ اس کا مولوی ہے یا وہ قومی یا شہری جدوجہد میں اس کی مدد کرے گا اور اس کا رفیقِ کار ہو گا تو اسے یاد رہے کہ اتنے بڑے اتہام پر خاموش رہنے والا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ پس چاہئے کہ وہ عاقبت کو سنوارے اور اس دنیا کے کاموں اور اس کی ترقیوں میں بھی اﷲ تعالیٰ پر توکل کرے نہ کہ ان لوگوں پر جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نام لے کر یہ اخلاق سوز جلوس نکلواتے ہیں اور قتل اور فساد کی سازشیں کرتے ہیں۔
اے عزیزو! بانیٔ سلسلہ ہی نے ختم نبوت کے عقیدہ پر اتنا زور نہیں دیا بلکہ مَیں نے بھی اسے بیعت کی شرائط میں قرار دیا ہے اور ہر بیعت کرنے والے سے اقرار لیتا ہوں کہ مَیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّین یقین کروں گا۔ اب بتاؤ کہ اس سے زیادہ زور اس عقیدہ پر کیا ہو سکتا ہے۔ اب بھی جو نہ سمجھے قیامت کے دن ہمارا ہاتھ ہو گا اور اس کا دامن۔
باقی رہا یہ کہ ہم یہ سب کچھ دل سے نہیں کہتے بلکہ جھوٹ بولتے ہیں۔ تو یہ دلیل تو دونوں طرف چل سکتی ہے۔ ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر الزام لگانے والے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبیّین نہیں مانتے۔ اگر ہم ایسا کہیں تو کیا آپ ہماری بات مان لیں گے اور وہی غیرت جس کا مظاہرہ ہمارے متعلق کرتے ہیں ان کے متعلق بھی دکھائیں گے؟
اے عزیزو! ایک دن ہم سب نے مَرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ آپ کے آباء بھی مرے اور آپ بھی مریں گے اور آپ کی اولاد بھی مرے گی اور یہی حال میرا اور میرے ساتھیوں کا ہے۔ پس چاہئے کہ ہم اس دن کے لئے تیاری کریں جو آنے والا ہے۔ یہ دُنیا چند روزہ ہے یہ لاف گزاف اور کثرت پر ناز اور پھکڑ بازی اور گالی گلوچ مَالِکُ الْمُلْکِ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ کے سامنے ہر گز کام نہ دیں گے۔ پس چاہئے کہ جس نے ایسی غلطی نہیں کی وہ اپنے بھائی کو سمجھائے اور جس نے کی ہے وہ توبہ کرے کہ اسی کی جان محفوظ ہے جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اخلاق پر چلتا ہے نہ وہ کہ مُنہ سے آپ کے احترام کا دعویٰ کرتا ہے مگر عمل اس کے خلاف کرتا ہے۔ جو لوگ ایسے ہیں کہ ہمیں مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بے شک اس کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے ہیں مگر وہ اُس دن کو بھی یاد رکھیں جس دن ہم سب خداتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ جس دن محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مُنہ دکھانا ہو گا۔ جو اُس دن خوش ہو گا وہی کامیاب ہے اور جو اُس دن آنکھ اونچی نہ کر سکے گا اُس کی زندگی رائیگاں گئی۔ کاش! وہ پیدا نہ ہوتا، کاش! اسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غضب ناک آنکھ نہ دیکھنی پڑتی۔ ’’ (الناشر انجمن ترقئ اسلام ربوہ۔ پاکستان)
1 تقریر جامع مسجد دہلی 1893ء
2 کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 13مطبوعہ2008ء
3 کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ 14مطبوعہ2008ء









نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت

(خلاصہ خطاب فرمودہ 24۔اگست 1953ء بمقام احمدیہ ہال کراچی)

کارگزاری کی رپورٹ
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کی کارگزاری کے متعلق قائد صاحب
کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے اراکین مجلس سے فرمایا:-
‘‘ کام کا اندازہ آپ لوگ زیادہ لگا سکتے ہیں کہ جنہوں نے خود اس کی سرانجام دہی میں حصّہ لیا ہے۔ اگر رپورٹ مبالغہ سے خالی ہے اور پوری احتیاط سے لکھی گئی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس میں سے بہت کم مجالس ایسی عملی رپورٹ پیش کر سکی ہیں۔ چونکہ پاکستان میں یہ مقام بہت اہمیت رکھتا ہے اور ویسے بھی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے غیر ممالک کی اس پر نظریں رہتی ہیں۔ اس لئے یہاں کی مجلس کا اچھا کام ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے۔ اگر سارے خدام اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں کہ ہم نے صرف مجلس ہی قائم نہیں کرنی بلکہ کام کرنا ہے تو یقینا اس سے جماعت میں بہت بیداری پیدا ہو سکتی ہے۔
نوجوانوں کی ذمہ داری
ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس دنیا میں زندگی کے ساتھ ساتھ موت کا سلسلہ بھی قائم کیا ہؤا ہے۔
لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ تک زندگی گزارنے کے بعد مَر جاتے ہیں۔ موت سے جو ایک خلا پیدا ہوتا ہے اسے پورا کرنا نوجوانوں کا کام ہے۔ اگر نوجوانوں کی حالت پہلے لوگوں کی مانند ہو یا ان سے بہتر ہو تو قوم تنزّل سے محفوظ رہتے ہوئے ترقی کے راستے پر بدستور گامزن رہتی ہے لیکن اگر نوجوان ہی قومی کردار کے اعتبار سے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں تو پھر قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ سو قوم کی آئندہ ترقی کا دارومدار نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ جس فوج کا ہر سپاہی سمجھ لے کہ شاید آگے چل کر میں ہی کمانڈر انچیف بن جاؤں تو وہ یقینا اس احساس کے تحت اپنے عمل و کردار کو ایسے طریق پر ڈھا لے گا جو بالآخر اسے اس عہدے کا اہل بنا دے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فوج کے تمام سپاہیوں میں کمانڈر انچیف بننے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی لیکن اگر فوج کا ہر سپاہی یہ سمجھ بیٹھے کہ میں تو کمانڈر انچیف نہیں بن سکتا تو وہ فوج گرتے گرتے اس حالت کو پہنچ جائے گی کہ اس میں ڈھونڈے بھی کوئی شخص ایسا نہ ملے گا کہ جو اس عُہدے کی ذمہ داری سنبھال سکے ۔ پس جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو کہ بڑے سے بڑا کوئی عُہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جس کی ذمہ داریوں کو مَیں کماحقہ ادا نہ کر سکوں۔ جب تک ہر فرد اس احساس کے ماتحت آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے اُس وقت تک قومی اعتبار سے وہ صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی جس کا پیدا ہونا تحفظ و بقاء اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ پس تم میں سے ہرشخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وقت پڑنے پر وہ بڑے سے بڑا عُہدہ سنبھالنے کا اہل ثابت ہو سکے۔
کامل علم اور کامل عمل
اس کوشش اور جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ علمِ کامل اور عملِ کامل۔
علمِ کامل اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ اس جماعت یا مذہب یا سیاست کا بغور مطالعہ کرتا رہے جس سے وہ منسلک ہے۔ اسی طرح عملِ کامل کے لئے ضروری ہے کہ نظم و ضبط اور جماعتی پابندی کو لازم پکڑا جائے۔ دوسرے اپنے اندر خیال آرائی اور بلند پروازی پیدا کی جائے۔ کیونکہ جب تک انسان اِس صفت سے متصف نہ ہو اس وقت تک آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی۔
ترقی کا سلسلہ لا متناہی ہے
قومی اعتبار سے ترقی کا کوئی مقام ایسا نہیں ہوتا جسے انتہائی منزل سے تعبیر کیا جاسکے۔ دُنیا میں کوئی
قوم بھی ایسی نہیں گزری کہ جو یہ دعویٰ کر چکی ہو کہ وہ ترقی کے اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اﷲ تعالیٰ کی یہ شان بیان فرمائی ہے کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ1 کہ وہ ہر روز ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔ شَأْنٍ اسی چیز کو کہیں گے جو غیر متوقع اور غیرمعمولی ہو۔ تو کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَأْنٍ کا مطلب یہ ہؤا کہ خدا تعالیٰ کی صفات ایسی ہیں کہ ان کے مطابق وہ ہر روز دُنیا میں تبدیلیاں پیدا کررہا ہے لیکن وہ تبدیلیاں غیرمعمولی ہوتی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ پس انسان بھی جسے اس نے دنیا میں امور کی سرانجام دہی کے لئے ایک واسطہ بنایاہے۔ جُہدِ مسلسل کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ کوئی مقام ایسا نہیں آسکتا جس کے بعد وہ اپنے آپ کو جدوجہد اور عمل وکوشش سے بے نیاز سمجھنے لگے۔ اسی امر کے لئے کہ اس کی جدوجہد اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پر منتج ہو۔ ضروری ہے کہ وہ خیال آرائی اور بلند پروازی سے کام لے۔ جب بھی وہ بلند پروازی اور خیال آرائی سے کام لینا چھوڑ دے گا اس کی سب کوششیں بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
بُلند پروازی کی تعریف
غلام قوم میں سب سے بڑی بُرائی یہی ہوتی ہے کہ وہ غورو فکر کی عادت کھو بیٹھتی ہے۔ اس کے افراد
صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک حال میں ہی محو رہتے ہیں اورمستقبل کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے اور اگر کبھی اس طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو بے حقیقت اور خیالی باتوں سے آگے نہیں جاتے۔ کوئی پروگرام اور کوئی سکیم ان کے مدِّنظر نہیں ہوتی۔ محض ایک خیال دل میں پیدا ہوتا ہے جسے عملی جامہ پہننا کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ حالانکہ سکیم اس کو کہتے ہیں کہ فلاں چیز ملنی ممکن ہے اسے حاصل کرنے کے لئے فلاں فلاں ذرائع کی ضرورت ہے اور وہ ذرائع فلاں فلاں نوعیت کی کوشش کے بغیر مہیّا نہیں ہو سکتے۔ تو گویا ذرائع معلوم کرنے کے بعد یہ سوچنا کہ ان ذرائع کو کیونکر فراہم کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بُلند پروازی کہلاتی ہے۔
بلند پروازی اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت سے اوپر ایک مقصد معیّن کرے۔ پھر یہ سوچے کہ یہ مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جب ذرائع اپنی معیّن صورت میں سامنے آجائیں تو پھر اس امر پر غور کرے کہ کن طریقوں سے یہ ذرائع فراہم ہو سکتے ہیں۔ جب کوئی شخص یہ طریقے معلوم کر کے مصروفِ عمل ہو جاتا ہے تو ذرائع خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ مقصد مل جاتا ہے جس کے لئے یہ سب کوشش ہو رہی تھی۔ اگر ایسا ظہور میں نہیں آتا تو وہ بلند پروازی نہیں خام خیالی یا واہمہ ہے۔ ایسا شخص ہمیشہ خوابوں کی دُنیا میں اُلجھا رہتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور و فکر اور بُلندپروازی کی عادت ڈالنی چاہئے’’۔
غورو فکر کی عادت سے کام لینے کا طریق
اس مرحلہ پر حضور نے مثالیں دے دے کر واضح کیا
کہ غوروفکرسے کیونکر کام لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا:-
‘‘مثلاً آپ ‘‘المصلح’’ میں امریکہ یا ہالینڈ کے مشن کی رپورٹ پڑھتے ہیں۔ آپ کے لئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ آپ اسے پڑھ کر وہاں کے حالات سے باخبر ہو جائیں بلکہ رپورٹ میں نو مسلموں کی تعداد پڑھتے ہی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اس مُلک میں بیعت کی رفتار کیا ہے؟ وہاں کب سے مشن قائم ہے اور اس عرصہ میں کتنے آدمیوں نے بیعت کی؟ بیعت کی رفتار نکالنے کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ اس حساب سے وہ مُلک کتنے عرصہ میں جاکر مسلمان ہو گا اور اسی طرح ہم کتنے عرصہ میں توقّع کر سکتے ہیں کہ ساری دُنیا اسلام کو قبول کر لے گی۔ اگر بیعت کی رفتار کے مطابق آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس مُلک کے مسلمان ہونے میں سینکڑوں کیا ہزار سال لگ جائیں گے جیسا کہ بظاہر حالات نظر بھی آرہے ہیں تو پھر آپ کو سوچنا چاہئے کہ تبلیغی مساعی کو کیونکر مثمر بثمرات بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ کہہ کر آپ اپنے دل کو تسلّی نہیں دے سکتے کہ کوشش کرنا ہمارا کام ہے نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس میں ہمارا کیا دخل ہے؟ اس میں شک نہیں نتیجہ پیدا کرنا اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن خدا ظالم نہیں کہ وہ کسی کی کوششوں کو رائیگاں جانے دے۔ سوال پیدا ہو گا خدا نے ابراہیم علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے نوح علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے بدھ کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے رامچندر کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ صاف بات ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو اس طرح ادا کیا کہ جو ادا کرنے کا حق تھا۔ پس ایسی صورت میں آپ کو اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہئے نہ یہ کہ آپ دل کو تسلّی دے کر بیٹھے رہیں۔ یہ کہنا کہ ہم اس لئے ناکام رہ گئے کہ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں تھا بالکل غلط ہے۔ ایسا کہنے والا شرارتی ہے۔ اگرچہ یہ بات صحیح ہے کہ نتیجہ خدا کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن خدا بھی کسی وجہ سے نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ ہمارا خدا بھی آئینی خدا ہے۔ وہ ڈکٹیٹر نہیں۔ وہ ہر چیز حکمت کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم دیں نہ دیں ہماری مرضی۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم استحقاق پیدا کر لو تو ہم انعام ضرور دیں گے اور اگر نہ دیں تو ہم ظالم۔ صحیح طریق پر کام لو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم انعام نہ دیں۔ نتیجہ بے شک خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس نے نتیجے کو ہمارے تابع کرنے کے لئے کچھ قانون بنا دیئے ہیں۔ خود فیصلہ کرنا بندے کے اختیار میں نہیں لیکن خدا کے ہاتھ کو پکڑ کر فیصلہ کروانا بندے کے ہاتھ میں ہے’’۔
ایک اَور مثال
غور و فکر کی عادت سے کام لینے کے طریق واضح کرتے ہوئے حضور نے ایک اَور مثال دی۔ فرمایا :-
‘‘اگر تم یہ سوچو کہ دُنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ دُنیا مخالفت کیوں کرتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ سچی تحریکوں کی مخالفت ہوتی ہی آئی ہے۔ یہ ہے صحیح لیکن ساتھ ہی تمہیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ مخالفتیں ہمیشہ ہمیش جاری رہتی ہیں؟ کیا پہلوں نے ان مخالفتوں کو دبانے اور کم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں نکالا تھا؟ کیا آدم ؑ ، نوح ؑ ، ابراہیم ؑ اور موسیٰ و عیسی ؑ نے ان مخالفتوں سے ہار مان لی تھی؟ اگر اُنہوں نے ہار نہیں مانی تھی تو ہم کیوں ہار مانیں؟ اور کیوں نہ ایسا رستہ نکالیں کہ جس سے یہ مخالفتیں آپ ہی ختم ہو جائیں۔ اگر تم سوچتے تو تمہارے سامنے خود راستے کھل جاتے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ غوروفکر کی عادت ڈالے اور محض دوسروں کے غورو فکر پر تکیہ نہ کرے۔’’
حواس کی بیداری
غوروفکر کی عادت پیدا کرنے کے طریقوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بچپن ہی سے تربیت کرنے اور
بِالخصوص حواس کو بیدار رکھنے کی اہمیت پر بہت زور دیا اور اس ضمن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زرّیں ہدایات نیز آئمہ کرام اور شاہانِ اسلام کے سبق آموز واقعات پیش کرنے کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ اگر حواس بیدار ہوں تو انسان بہت سے خطرات سے بچ کر اپنے لئے ترقی کے راستے پیدا کر سکتا ہے۔
اس ضمن میں حضور نے سوچنے کی عادت ڈالنے کی طرف پھر توجہ دلائی اور فرمایا:۔
‘‘باوقار طریق پر سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو تاکہ تم میں ایسی روح اور جذبہ پیدا ہو جائے کہ تم وقت آنے پر بڑی سے بڑی ذمہ داری اُٹھا سکو۔ کام کرنے کا جذبہ قوم کو اُبھار دیتا ہے۔ پھر کسی کے مَرنے یا فوت ہونے سے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ ؓ میں غوروفکر کی عادت پیدا کر کے ان میں جذبۂ عمل بھر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کسی کے مَرنے یا فوت ہونے سے کبھی خلا پیدا نہیں ہؤا۔ ہر موقع پر کوئی نہ کوئی لیڈر آگے آتا رہا اور مسلمان اس کی قیادت میں منزل بہ منزل کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھتے رہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے آگے آکر خلاء کو پورا کر دیا اور قوم میں پست ہمتی قطعاً پیدا نہ ہونے دی۔ آپؓ نے اس موقع پر صحابہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر کوئی شخص محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) کو خدا سمجھتا تھا تو وہ سُن لے کہ اُس کا خدا فوت ہو گیا لیکن جو اسی حیّ و قیوم ہستی کو خدا مانتا ہے کہ جس نے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو مبعوث کیا تھا تو اس کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی۔ 2
پس کام فکر اور سمجھ کے مطابق کرنے چاہئیں۔ اگر ایسا کرنے لگ جاؤ گے تو تم میں سے ہر شخص کمان کے قابل ہو جائے گا۔ یہی چیز قوم کو خطرات سے بچانے والی ہوتی ہے کہ اس کے ہر فرد کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیت موجود ہو۔ جب یہ صلاحیت قوم میں عام ہو جائے تو پھر لیڈر ڈھونڈنے یا مقرر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ایسی حالت میں وقت پڑنے پر لیڈر شپ خود بخود اُبھر کر آگے آجاتی ہے اور قوم پر ہراساں یا پریشان ہونے کا کبھی موقع نہیں آتا۔ اس میں شک نہیں قوموں پر مصائب آسکتے ہیں، انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے، انہیں گھروں سے بھی نکالا جاسکتا ہے لیکن اگر سوچنے کی عادت ہو تو ان سے بچنے کی راہیں بھی نکل سکتی ہیں’’۔
(المصلح مؤرخہ 25اگست 1953ء)
1: الرحمٰن : 30
2: بخاری کتاب المغازی باب مَرَض النَّبِیِّ صلی ﷲ علیہ وسلم وَوَفَاتِہ










موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو

(خلاصہ خطاب فرمودہ 26اگست 1953ء بمقام کراچی)

‘‘سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 26اگست کو صبح لجنہ اماء اﷲ کے اجلاس میں احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے انہیں حالات کے مطابق اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرنے اور اپنے فرائض کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائی۔ حضور نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ آجکل سوسائٹی میں ظاہری طور پر عورتوں کا اثر بڑھ گیا ہے۔ انہیں تلقین کی کہ وہ ا س سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور اپنے اپنے حلقے میں دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات بڑھا کر ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں کہ جو احمدیت کے خلاف بکثرت پھیلی ہوئی ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اگر احمدی خواتین نے اس امر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کیا تو اس کا نہایت خوشگوار اثر ظاہر ہو گا۔
دوران تقریر حضور نے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ہمارے خلاف غلط فہمیاں پھیلتی کیوں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دینی کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ حقیقی اسلام کے پیش ہونے سے ان مخالف مولویوں پر اس کا کیا اثر پڑا جنہوں نے دین پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور معمولی معمولی مسائل میں اختلافات کے نت نئے پہلو نکال کر مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو مجبور کر رکھا تھا کہ وہ ان کے ساتھ چمٹے رہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں یہ عقیدہ پھیلا ہؤا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے آکر تمام کافروں کو تہہ تیغ کر دیں گے اور دنیا کے خزانے مسلمانوں میں بانٹ دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ اب جو کچھ کرنا ہو گا خود مسلمانوں ہی کو کرنا ہو گا، ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح رفع یدین اور اٰمین بالجہر وغیرہ کے جھگڑے عبث ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے مختلف حالات اور مختلف مزاجوں کے لحاظ سے مسائل سمجھانے میں مختلف طریق اختیار فرمائے تھے۔ تمہیں جس میں آسانی ہو اسی طریق پر عمل کرو۔ لوگوں کو ایسے مولویوں کی محتاجی سے نجات دلا دی۔
پھر مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف چلا آرہا تھا کہ قرآن مجید کی کتنی آیات منسوخ ہیں۔ مختلف لوگ پانچ سے لے کے سات سو آیات تک مختلف تعداد کے قائل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اعلان کر دیا کہ قرآن کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہے۔ یہ سارے کا سارا قابلِ عمل ہے اور اس طرح لوگ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مولویوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔ ایسی صورت میں ان مولویوں کا سیخ پا ہونا لازمی تھا کیونکہ اسی طرح ان کی اجارہ داری ختم ہوتی تھی ۔ انہیں اس کے سوا اور کوئی راہ نہ سوجھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو بدظن کر دیا جائے۔ چنانچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو وسیع کریں، اپنے اپنے حلقہ میں میل جول بڑھائیں۔ ہمارے ملنے جلنے سے ہی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی کیونکہ ہم سے مل کر دوسروں کو معلوم ہو گا کہ ہم تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کی اُمت ہیں۔ ہمارا کلمہ، ہماری نماز، ہمارا روزہ، ہمارا حج ، ہماری زکوٰۃ سب وہی ہے اور مولوی صاحبان جو کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے لیکن اگر یہ غلط فہمیاں اسی طرح پھیلی رہیں تو اس سے ہماری مشکلات میں بے حد اضافہ ہو جائے گا۔ پس احمدی خواتین کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے اور دوسری خواتین سے میل جول بڑھا کر یہ غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں۔’’
(روزنامہ المصلح 27اگست 1953ء)









تحقیقاتی کمیشن کے
سات سوالوں کے جوابات



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات

(محررہ29۔ اکتوبر1953ء )

سوال نمبر1: جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنی ملہم اور مامور من اﷲ نہیں مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟
جواب: ‘‘مسلم’’ اور ‘‘مومن’’ قرآن مجید کے محاورات کو دیکھتے ہوئے دو الگ الگ معنے رکھتے ہیں۔ ‘‘مسلم’’ نام اُمّتِ محمدیہ کے افراد کا ہے اور ‘‘ایمان’’ دراصل اس روحانی اور قلبی کیفیت کا نام ہے جس کو کوئی دوسرا جان نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ ہی اس سے واقف ہوتاہے۔
جہاں تک لفظ ‘‘مسلم’’ کا تعلق ہے قرآن کریم کی آیت هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ1کے مطابق امّتِ محمدیہ کا ہر فرد مسلم کہلانے کا مستحق ہے۔ اس تعریف کی تاکید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے کہ ‘‘مَنْ صَلّٰی صَلٰوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذَالِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِیْ لَہٗ ذِمَّۃُ ﷲِ وَ ذِمَّۃُ رَسُوْلِہٖ’’۔2 یعنی جو شخص بھی ہمارے قبلہ (یعنی کعبہ) کی طرف مُنہ کر کے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی حفاظت حاصل ہے۔
باقی رہا ‘‘مومن’’ سو کسی کو مومن قرار دینا درحقیقت صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ عام اصطلاح میں ‘‘مسلم’’ اور ‘‘مومن’’ ایک معنوں میں استعمال ہو جاتے ہیں لیکن درحقیقت ‘‘مومن’’ خاص ہے اور ‘‘مسلم’’ عام۔ پس ہر مومن ‘‘مسلم’’ ضرور ہو گا لیکن ہر مسلم کا ‘‘مومن’’ ہونا ضروری نہیں۔
مندرجہ بالا تشریح کے مطابق جو شخص رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانتا ہے اور آپ کی ‘‘اُمّت’’ میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ اپنے کسی عقیدہ یا عمل کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی کی وجہ سے اس نام سے محروم نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس تشریح کے مطابق اور قرآن کریم کی آیت ‘‘هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ’’ کے تحت کسی شخص کو حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے غیر مسلم نہیں کہا جاسکتا۔
ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے متعلق ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ان بعض سابقہ تحریرات میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری مخصوص ہیں۔ عام محاورہ کو جو مسلمانوں میں رائج ہے استعمال نہیں کیا گیا۔ کیونکہ ہم نے اس مسئلہ پر یہ کتابیں غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے شائع نہیں کیں بلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصّہ کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں اس لئے ان تحریرات میں ان اصطلاحات کو مدِّنظر رکھنا ضروری نہیں تھا جو دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں۔
ہمارے اس عقیدہ کی تائید کی کہ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے والا مسلمان ‘‘مسلمان’’ ہی کہلائے گا حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کے الہامات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو آپ کا الہام ‘‘مسلماں را مسلماں باز کردند’’3یعنی آپ کی بعثت کی غرض مسلمانوں کی حقیقی مسلمان بنانا ہے ایک دوسرے الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کو یہ دُعا سکھلائی ہے‘‘رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ’’4حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے اپنی تمام کتابوں میں ان تمام مسلمانوں کو جو آپ کی جماعت میں داخل نہیں ‘‘مسلمان’’ کہہ کر ہی خطاب کیا ہے 5 کیونکہ وہ اسلام کی عمومی تعریف کے مطابق کلمہ طیبہ پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں۔ اسی طرح موجودہ امام جماعتِ احمدیہ بھی اُن کو مسلمان کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں۔ 6
ہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے ‘‘یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَّا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ’’7 یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ یہ حدیث اِسی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ چنانچہ جماعتِ اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بھی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو جو اِن کی جماعت میں شامل نہیں ہیں صرف رسمی اور اِسمی مسلمان قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی دوقسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘دُنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو حصّوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔ ایک قسم کے مسلمان وہ جو خدا اور رسول کا اقرار کر کے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کُلّی زندگی کا محض ایک جزو اور ایک شعبہ ہی بناکررکھیں۔ اس مخصوص جُزو اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو ۔لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجود کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں۔ ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں ..... یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو’’۔8
ایک اَور مقام پر فرماتے ہیں:-
‘‘یہ انبوہِ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں، نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں، نہ ان کا اخلاقی نقطۂ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہؤا ہے۔ باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے’’۔9
اسی طرح موجودہ دَور کے مسلمانوں کے متعلق اہلحدیث کا خیال بھی ملاحظہ فرمایا جاوے۔ نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی اپنی کتاب اقتراب الساعۃ کے صفحہ12 پر تحریر فرماتے ہیں:-
‘‘اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں۔ علماء اس اُمّت کے بدتراُن کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں۔ انہی میں سے فتنے نکلتے ہیں، اِنہی کے اندر پھر کر جاتے ہیں’’۔10
پھر جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے موجودہ مسلمانوں کے متعلق اپنا خیال ان اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ ؎
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ 11
پھر صرف نام کے طور پر اسلام کے باقی رہنے کے متعلق مولانا حالی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمایا جاوے ؎
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اِک اسلام کا رہ گیا نام باقی12
پھر سیّد عطاء اﷲ صاحب بخاری کمیونزم اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق حسب ذیل بیان دیتے ہیں:
‘‘مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجودبھی ہو۔ ہمارا اسلام؟ ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے۔ ہمارے دل دین کی محبت سے عاری ،ہماری آنکھیں بصیرت سے ناآشنا اور کان سچی بات سُننے سے گریزاں
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہمارا اسلام؟
بُتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھایا تھا؟ کیا ہماری رفتار، گفتار کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا ہے ..... یہ روزے، یہ نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صَرف کر رہے ہیں؟ جو مصلّے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سُنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا سُن رہے ہیں اور باقی 23 گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟ مَیں کہتا ہوں گورنری سے گدا گری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہے؟ ہمارا تو سارا نظام کُفر ہے۔ قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے۔ قرآن صرف تعویذ کے لئے، قسم کھانے کے لئے ہے’’۔13
مندرجہ بالا حوالجات سے کفر و اسلام کے مسئلہ کے متعلق جماعتِ احمدیہ کا مسلک اور اس کے مقابلہ پر موجودہ زمانے کے دوسرے مسلمان فرقوں کا طریق واضع اور عیاں ہے۔
سوال نمبر2: کیا ایسے شخص کافر ہیں؟
جواب: ‘‘کافر’’ کے معنے عربی زبان میں نہ ماننے والے کے ہیں۔ پس جو شخص کسی چیز کو نہیں مانتا اس کے لئے عربی زبان میں ‘‘کافر’’ کا لفظ ہی استعمال ہو گا۔ پس ایسے شخص کو جب تک وہ یہ کہتا ہے کہ مَیں فلاں چیز کو نہیں مانتا اس کو اس چیز کا کافر ہی سمجھا جائے گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آئمہ اہلِ بیت کا انکار کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘مَنْ عَرَفَنَا کَانَ مُؤْمِنًا۔ مَنْ أَنْکَرَنَا کَانَ کَافِراً۔ مَنْ لَّمْ یَعْرِفْنَا وَلَمْ یُنْکِرْنَا کَانَ ضَآلاًّ ’’ 14
یعنی جس نے ہم آئمہ اہلِ بیت کو شناخت کر لیا وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ ضالّ ہے۔
اس ارشاد سے حضرت امام صاحب کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ ایسا شخص اُمّتِ محمدیہ سے خارج ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے یہی مُراد ہو سکتی ہے کہ آئمہ اہلِ بیت کے درجہ کا منکر ہے ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی مأمور من اﷲ کے انکار کے ہر گز یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ایسے لوگ اﷲ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکر ہو کر اُمّتِ محمدیہ سے خارج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کے معاشرہ سے خارج کر دیئے گئے ہیں۔
حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:-
‘‘اوّل: ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔
دوم: دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارہ میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے’’۔15
یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے فتوؤں میں بھی حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ابتدا نہیں ہوئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غیراحمدی علماء نے اپنے فتوؤں میں حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو آپ کے ابتدائے دعویٰ1890ء ، 1891ء سے ہی نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ مرتد، زندیق، ملحد، ابلیس، دجّال، کذّاب وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے اور اس قسم کے اور بہت سے گندے ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا۔ اس قسم کے فقرے لکھے گئے اور کتابیں چھاپی گئیں۔ اشتہارات اور پمفلٹوں کے ذریعہ سے ان فتوؤں کو لوگوں میں پھیلا دیا گیا اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر اس طرح پہلے حملہ کرتا ہے وہ پھر اس قسم کے جواب کا مستحق بھی ہو جاتا ہے اور اس صورت میں اسے اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہئے دوسرے کو الزام دینے کا اسے کوئی حق نہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
(الف) اَیّمَارَ جُلٌ قَالَ لِاَ خِیْہِ کَافِرٌ فَقَدْ بَاءَ بِہٖ اَحَدُ ھُمَا 16
(ب) اِذَا اَکْفَرَ الرَّجُلُ اَخَاہُ فَقَدْ بَاءَ بِھَا اَحَدُ ھُمَا17
یعنی جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے ایک ضرور کافر ہو گا ۔ اگر وہ شخص جسے کافر کہا گیا ہے کافر نہیں ہے تو کہنے والا کافر ہو گا۔
(ج) مَا اَکْفَرَ رَجُلٌ رَجُلًا قَطُّ اِلَّا بَاءَ بِھَا اَحَدُ ھُمَا18
یعنی دو (مسلمان) آدمیوں میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کو کافر قرار دے تو لازمی ہے کہ ان میں سے ایک ضرور کافر ہو جائے گا۔
غرضیکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے اس قسم کے فتوؤں میں کبھی ابتدا نہیں ہوئی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
‘‘پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمّہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتوؤں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گُناہ ہو گیا ۔ کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا؟ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے شائع ہؤا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہے۔ اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دلآزار ہے ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتوؤں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو کُفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہی کے اقرار کے ہم ان کو کافر کہتے’’۔19
پھر اس بات کے ثبوت میں کہ فتویٰ کفر کی ابتدا علماء کی طرف سے ہوئی نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ذیل کے چند فتوے بطور مثال درج ہیں:-
(الف) مولوی عبدالحق صاحب غزنوی (جو مولانا داؤد غزنوی صاحب کے عَمّ بزرگوار تھے)نے لکھا ہے کہ:
‘‘اس میں شک نہیں کہ مرزا (کادیانی)قادیانی کافر ہے۔ چُھپا مُرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ملحد ہے، دجال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا’’۔20
اس قسم کا فتویٰ پنجاب و ہند کے قریباً دو صد مولویوں سے لے کر شائع کیا گیا۔
(ب) اس فتوے سے بھی کئی سال پہلے علمائے لدھیانہ نے 1884ء میں تکفیر کا مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کیا۔ جس کا ذکر قاضی فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے اپنی کتاب کلمہ فضل رحمانی (مطبوعہ دہلی پنچ پریس لاہور 1314ھ صفحہ 148) میں کیا ہے۔
باہمی تکفیر کے بارے میں علماء کے چند فتوے درج ذیل ہیں:
‘‘مَنْ أَنْکَرَ إِمَامَۃَ اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِّ یْقِ فَھُوَکَافِرٌ وَکَذَالِکَ مَنْ اَنْکَرَخِلَافَۃَ عُمُرَؓ’’۔21
یعنی جو شخص حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی امامت اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
اسی طرح جماعتِ اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے بے علم و بے عمل مسلمان کو جس کا علم و عمل کافر جیسا ہو اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو کافر ہی قرار دیا ہے اور اس کا حشر بھی کافروں والا بتایاہے یعنی اس کو نجات سے محروم اور قابلِ مؤاخذہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
‘‘ہرشخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہؤا ہے جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان درحقیقت صرف وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتا ہو۔ ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداﷲ ہے اس لئے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان’’۔22
اسی طرح دوسرے مسلمان فرقوں کے علماء ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق علماء اہلسنت و الجماعت اور علماء دیوبند متّفقہ طور پر مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کرتے ہیں:
‘‘شیعہ اثناعشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں۔ شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیحہ حرام۔ ان کا چندہ مسجد میں دینا ناروا ہے۔ ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں’’۔23
(نوٹ) اس فتویٰ میں دیگر علماء کے علاوہ دیوبند کی تصدیق بھی شامل ہے جس کی شہادت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دیوبند سے لی جاسکتی ہے۔
مندرجہ بالا فتویٰ کی عبارت سے خالص مذہبی اختلافات ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ شیعہ فرقہ کے خلاف شدید غیظ و غضب کا اظہار پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اہلسنت و الجماعت کے مسلّمہ گزشتہ بزرگان و اولیاء نے بھی حضرات شیعہ کے بارے میں فتویٰ کُفر دیا ہے حوالہ جات ذیل ملاحظہ ہوں۔
(الف) حضرت مجدد الف ثانی سر ہندی رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ کفر بر خلاف اصحاب شیعہ اثنا عشریہ۔24
(ب) حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کا فتویٰ25
اسی طرح اہلسنت و الجماعت کے بریلوی فرقہ کے علماء مندرجہ ذیل فتویٰ علمائے دیوبند کے خلاف صادر کر چکے ہیں۔
(الف) حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور علمائے حرمین شریفین کے دستخطوں سے یہ فتویٰ شائع ہوا ہے:
‘‘وَ بِالْجُمْلَۃِ ھٰؤُلَاءِ الطَّوَائِف کُلُّھُمْ کُفَّارٌّ مُرْتَدُّوْنَ خَارِجُوْنَ عَنِ الْاِسْلَامِ بِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ’’۔26
یعنی یہ سب گروہ (یعنی گنگوھیہ، تھانویہ، نانوتویہ، دیوبندیہ وغیرہ) مسلمانوں کے اجماع کی رو سے کفار مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر لکھا ہے:
‘‘جس (رسالہ ہذا) میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روشن کر دکھایا کہ طائفہ قادیانیہ، گنگوھیہ، تھانویہ، نانوتویہ و دیوبند یہ وامثالہم نے خدا اور رسول ؐ کی شان کو کیا کچھ گھٹایا علمائے حرمین شریفین نے باجماعِ امت ان سب کو زندیق و مُرتد فرمایاان کو مولوی درکنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے، ان سے بات کرنے زہر و حرام و تباہ کُن اسلام بتلایا’’۔
(ب) پھر اسی کتاب میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند، مولوی اشرف علی صاحب تھانوی ، مولوی محمود الحسن صاحب و دیگر دیوبندی خیال کے علماء کی نسبت یہ فتویٰ درج ہے کہ:
یہ قطعاً مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے انہیں نماز نہ پڑھنے دیں ۔۔۔۔۔۔ جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہو جائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی’’۔
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب آف بریلی کا شائع کردہ ہے جو فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی اور مولانا ابو الحسنات صاحب صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان و صدر مجلس عمل نیز ان کے والد مولوی دیدار علی صاحب کے پیر و مُرشد تھے۔ اس فتویٰ کے بارے میں مولانا ابو الحسنات صاحب سے دریافت کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی پوچھاجاسکتا ہے کہ ان کے پیرو مُرشد کے اس فتویٰ کے بعد کہ دیوبندی بالا جماع کافر ہیں انہیں کیا شُبہ ہے؟ آیا یہ کہ ان کے پیر نے غلطی کی تھی یا یہ کہ اجماع کوئی دلیل نہیں ہوتا؟
(ج) ‘‘وہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتّٰی کہ حضرت سیّد الاوّلین و الآخرین صلی اﷲ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری تعالیٰ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مُرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کُفر سخت، سخت، سخت اشد درجہ تک پہنچ چُکا ہے۔ ایسا کہ جو اِن مُرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کُفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مُرتد و کافر ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محترز مجتنب رہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں گھسنے دیں۔ نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ہی ان کی شادی و غمی میں شریک ہوں نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں۔ یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں، مَریں تو گاڑنے توپنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دیں۔’’ 27
اسی پر بس نہیں بلکہ علماءِ کرام و مفتیانِ اہلسنت و الجماعت نے اہلحدیث مسلمانوں کے متعلق بھی اسی قسم کا فتویٰ دیا ہے کہ:
‘‘بدعت کفر والے شقی ان کے کفر پر آگاہی لازم ہے۔ اسلام کے نام کو پردہ بناتے ہیں، مُرتد ہیں۔ با جماع اُمت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کا معتقد ہو گا کافر و گمراہ ہو گا۔ کچھ شک نہیں کہ یہ خارجی ہیں اور ان کے کُفر میں کوئی شُبہ نہیں ..... ان کے پیچھے نماز پڑھنا، ان کے جنازہ کی نماز پڑھنا، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہٖ وہی ہے جو مُرتد کا’’۔28
سوال نمبر3: ایسے کافر ہونے کے دُنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟
جواب: اسلامی شریعت کی رُو سے ایسے کافر کی کوئی دُنیوی سزا مقرر نہیں۔ وہ اسلامی حکومت میں ویسے ہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ عام معاشرہ کے معاملہ میں بھی وہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہیں۔ ہاں خالص اسلامی حکومت میں وہ حکومت کا ہیڈ نہیں ہو سکتا۔ باقی رہے اُخروی نتائج سو اُن نتائج کا حقیقی علم صرف اﷲتعالیٰ کو ہے بالکل ممکن ہے کہ کسی حکومت کی وجہ سے ایک مسلمان کہلانے والے انسان کو تو خدا تعالیٰ سزا دے دے اور کافر کہلانے والے انسان کو اﷲ تعالیٰ بخش دے۔ اگر ‘‘کافر’’ کے لئے یقینی طور پر دائمی جہنمی ہونا لازمی ہے تو پھر کسی کو کافر قرار دینا صرف اﷲ تعالیٰ کا حق ہے۔
سوال نمبر4: کیا مرزا صاحب کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا تھا؟
جواب: ہمارے نزدیک حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ بہرحال رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خادم تھے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اصل وحی قرآن مجید ہے۔ قرآن کریم کی وحی کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت کے خاص سامان کئے جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی وحی بھی اس رنگ کی نہیں ہوتی تھی اور حضرت بانئ جماعت احمدیہ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خادم تھے۔ آپ کی وحی بھی قرآن کریم کے تابع تھی۔ بہرحال وہ ذرائع جو اﷲ تعالیٰ اس وحی کے بھیجنے کے لئے استعمال کرتا تھا وہ ان ذرائع سے نیچے ہوں گے جو قرآن کریم کے لئے استعمال کئے جاتے تھے لیکن یہ محض ایک عقلی بات ہے واقعاتی بات نہیں جس کے متعلق ہم شہادت دے سکیں۔ بعض قرآنی آیات اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درجہ پر قیاس کر کے یہ جواب دے رہے ہیں۔ حقیقت کو پوری طرح معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں البتہ ہم ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت بانئ سلسلہ احمدیہ پر وحی الٰہی ہوتی تھی اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وحی الٰہی نہ صرف ماموروں بلکہ غیرماموروں کو بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی نازل ہونے کا ذکر آیا ہے 29اور حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ملائکہ ان کے پاس خداتعالیٰ کا کلام لے کر آئے۔ 30
پس وحی اور فرشتوں کا اُترنا مامور من اﷲکے علاوہ غیر ماموروں کے لئے بھی ثابت ہے۔ ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے اور اس کی بنیاد قائم کرنے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
دمبدم روح القدس اندر معینے می دمد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم31
یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ مسلمانوں کی اصطلاح میں ‘‘روح القدس’’ حضرت جبرئیل کا نام ہے۔32
ان کے علاوہ اسلام میں سینکڑوں اولیاء اﷲ مثلاً سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت سیّد احمد صاحب سرہندی مجدّد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہم علیٰ قدرِ مراتب ملہم مِنَ اﷲ تھے۔
وحی تین طریقوں سے ہوتی ہے ان کا ذکر قرآن کریم کی آیت مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَآءُ۔33 میں بیان ہؤا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور تمام انبیاء و اولیاء پر انہی طریقوں سے وحی نازل ہوتی ہے البتہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی اور حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کی وحی میں ایک فرق تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی شریعت جدیدہ والی نازل ہوتی تھی اور حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کی وحی غیر تشریعی اور ظلّی ہے یعنی یہ نعمت آپ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے فیض سے ملی ہے ماسوا اِس کے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قرآنی وحی کے ماننے کے لئے بانی ٔسلسلہ احمدیہ کی تصدیق کی ضرورت نہیں بلکہ اگر قرآن مجید حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کی تصدیق نہ کرتا ہو تو ہم ہر گز ان پر ایمان نہ لاتے۔ حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ نے اپنی وحی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی وحی میں بلحاظ مرتبہ فرق کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
‘‘سُنو! خدا کی *** ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لا سکتے ہیں۔ قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی اِنس و جنّ نہیں لاسکتا اوراس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں۔اگرچہ رحمان کی طرف سے اس کے بعد اور کوئی وحی بھی ہو اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلّیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ہے ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ کبھی پیچھے ہو گی’’۔34
سوال نمبر5: (الف) کیا احمدیہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے INFRUCTUOUS 35ہے؟
(ب) کیا احمدیہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود ہے؟
جواب: (الف) احمدیہ کریڈ (CREED)میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو شخص حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کو نہیں مانتا اس کے حق میں نماز جنازہ ‘‘INFRUCTUOUS’’ ہے۔
(ب) دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ گو اِس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہا ہے کہ غیرازجماعت لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے لیکن اب اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ہوئی ملی ہے جس کا حوالہ ایک مرتبہ 1917ء میں دیا گیا تھا اور حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کے متعلق اسی وقت اعلان فرمادیا تھا کہ اصل تحریر کے ملنے پر اس کے متعلق غور کیا جائے گا لیکن وہ اصل خط اس وقت نہ مِل سکا۔ اب ایک صاحب ٭نے اطلاع دی ہے کہ ان کے والد مرحوم کے کاغذات میں سے اصل خط مِل گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کا مکفّر یا مکذّب نہ ہو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دُعا ہے۔
لیکن باوجود جنازے کے بارے میں جماعت کے سابق طریقہ کے غیر احمدی مرحومین کے لئے دُعائیں کرنے میں جماعت نے کبھی اجتناب نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور اکابرینِ جماعتِ احمدیہ نے بعض غیر احمدی وفات یافتہ اصحاب کے لئے دُعا کی ہے۔ چنانچہ جی معین الدین سیکرٹری حکومت پاکستان کے والد صاحب (جو احمدی نہ تھے) کی وفات پر حضرت امام جماعت احمدیہ ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور ان سے میاں معین الدین کے ماموں صاحب نے ‘‘فاتحہ’’ کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا کہ فاتحہ میں تو دُعا مانگنے والا اپنے لئے دُعا کرتا ہے۔ یہ موقع تو وفات یافتہ کے لئے دُعا کرنے کا ہوتا ہے اس پر متوفی کے رشتہ داروں نے کہا کہ ہمارے یہی غرض ہے فاتحہ کا لفظ رسماً بول دیا ہے تو آپ نے متوفی کے رشتہ داروں سے مِل کر متوفی کے لئے دُعا فرمائی۔ اسی طرح سر عبدالقادر مرحوم کی وفات پر جب حضرت امام جماعت احمدیہ تعزیت کے واسطے ان کی کوٹھی پر تشریف لے گئے تو ان کے حق میں بھی دُعا فرمائی۔
اس جگہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ممانعتِ جنازہ کے بارے میں بھی سبقت ہمارے مخالفین نے ہی کی چنانچہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ 1890ء
میں بایں الفاظ اشاعۃ السُّنہ میں شائع ہو چُکا ہے:
٭ ڈاکٹر میجر محمد شاہنواز خان صاحب
‘‘اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجّال کذّاب سے احتراز اختیارکریں.....اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ اُس کی نماز جنازہ پڑھیں’’۔36
اسی طرح 1901ء میں مولانا عبدالاحد صاحب خانپوری لکھتے ہیں:
‘‘جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روک دیئے گئے تو نہایت تنگ ہو کر مرزائے قادیان سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں۔ تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو! مَیں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر صلح ہو گئی تو مسجد بنانے کی حاجت نہیں اور نیز اور بہت سی ذلتیں اُٹھائیں معاملہ و برتاؤ مسلمان سے بند ہو گیا۔ عورتیں منکوحہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چِھن گئیں۔ مُردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے’’۔37
اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ احمدیوں نے مسجدیں نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو مسجدوں سے نکالا گیا، احمدیوں نے نکاح سے نہیں روکا بلکہ ان کے نکاح توڑے گئے، احمدیوں نے جنازہ سے نہیں روکا بلکہ ان کو جنازہ سے باز رکھا گیا لیکن باوجود اس کے حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ نے آخری کوشش یہی کی کہ باقی مسلمانوں سے صلح ہو جائے لیکن جب باوجود ان تمام کوششوں کے ناکامی ہوئی تو جیسا کہ مولوی عبدالاحد صاحب کی مندرجہ بالا عبارت میں اقرار کیا گیا ہے تب بامر مجبوری فتنے سے بچنے کے لئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جوابی کارروائی کرنی پڑی۔
پھر اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دیگر فرقوں نے بھی ایک دوسرے فرقہ والوں کے جنازہ کی حُرمت و امتناع کے فتوے دیئے ہیں۔ چنانچہ علمائے اہلسنت و الجماعت و علمائے دیوبند نے شیعہ فرقہ والوں کے جنازہ کو نہ صرف حرام اور ناجائز قرار دیا ہے بلکہ ان کو اپنے جنازہ میں شریک ہونے کی بھی ممانعت کی ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالشکور صاحب مدیر ‘‘النجم’’ کا فتویٰ ملاحظہ ہو۔ آپ لکھتے ہیں:
‘‘ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سُنّیوں کے جنازہ میں شریک ہو کر یہ دُعا کرنی چاہئے کہ یا اﷲ! اس قبر کو آگ سے بھر دے، اس پر عذاب نازل کر’’۔38
(ب) نیز مولانا ریاض الدین صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:
‘‘شادی ، غمی، جنازہ کی شرکت ہر گز نہ کی جائے۔ ایسے عقیدہ کے شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ اکفر ہیں’’۔39
(ج) اس کے بالمقابل شیعہ صاحبان کے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے شیعہ صاحبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر کسی غیر شیعہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونا پڑ جائے تو متوفی کے لئے مندرجہ ذیل دُعا کرے:
‘‘قَالَ اِنْ کَانَ جَاحِدًا لِّلْحَقِّ فَقُلْ اَللّٰھُمَّ اِمْلَاْ جَوْفَہٗ نَارَاً وَ قَبْرَہٗ نَارًا وَسَلِّطْ عَلَیْہِ الْحَیَّاتَ وَالْعَقَارِبَ وَذٰلِکَ قَالَہٗ اَبُوْجَعْفرٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ لِإمْرَأَۃٍ سوءٍ مِنْ بَنِیْ اُمَیَّۃَ صَلّٰی عَلَیْھَا’’۔40
اے اﷲ! اس کاپیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلّط کر یہی وہ دُعا ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بنو اُمیّہ کی ایک غیر شیعہ عورت کے بارے میں کی تھی۔
سوال نمبر6: (الف) کیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے؟
(ب) کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟
جواب: کسی احمدی مَرد کی غیر احمدی لڑکی سے شادی کو کوئی ممانعت نہیں البتہ احمدی لڑکی کے غیر احمدی مَرد سے نکاح کو ضرور روکا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے اگر کسی احمدی لڑکی اور غیر احمدی مَرد کا نکاح ہو جائے تو اُسے کالعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔
اس تعلق میں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہماری طرف سے ممانعت کی ابتدا نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی غیر احمدی علماء نے ہی سبقت کی اور اس میں شدّت اختیار کی۔
(الف) چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد عبداﷲ صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب مشہور مفتیانِ لدھیانہ نے یہ فتویٰ دیا:
‘‘خلاصہ مطلب ہماری تحریرات قدیمہ اور جدیدہ کا یہی ہے کہ یہ شخص مُرتد ہے اور اہلِ اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے.....اسی طرح جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں’’۔41
(ب) جب عقیدت فرقہ قادیانی بسبب کفر و الحادو زندقہ و ارتداد ہؤا تو بمجرّد اس عقیدت مندی ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے باہر ہو گئیں اور جب تک وہ توبہ نصوح نہ کریں تب تک ان کی اولادیں سب ّ*** ہوں گی’’۔42
علاوہ ازیں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دراصل غیر احمدیوں سے ممانعت نکاح کی بناء احمدیت سے بُغض اور عداوت رکھنے والوں کے اثر سے لڑکیوں کو بچانا تھا کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ وہ احمدی لڑکیاں جو غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں ان کو احمدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا، احمدی تحریکوں میں چندے دینے سے روکا جاتا ہے اور بعض گھرانے تو اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ لڑکی پر اس وجہ سے سختی کرتے ہیں کہ وہ نماز کیوں پڑھتی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم پر جادو کرتی ہے۔ حقیقتاً نکاح کا مسئلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ہے ایسے مسائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو کہاں آرام رہے گا اور کہاں اسے مذہبی امور میں ضمیر کی آزادی ہو گی اور اس پر ناجائز دباؤ تو نہیں ڈالا جائے گا جس سے اس کے عقائد دینیہ خطرے میں پڑ جائیں لیکن باوجود مخالفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیر احمدی مَرد سے کر دے تو اس کے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا۔
پھر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسئلہ میں بھی ہماری جماعت اپنے طرزِ عمل میں منفرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور جماعتیں بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو آپس میں ایسی شدّت اختیار کر چکے ہیں وہ دوسرے کے آدمی سے ازدواجی تعلق کو ‘‘حرام’’ اور اولاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اہلسنت و الجماعت نے شیعہ اثنا عشریہ سے مناکحت کو حرام قرار دیا ہے۔
(الف) علماء دیوبند اور علماء اہلحدیث کا فتویٰ ملاحظہ ہو:
‘‘سُنّی لڑکی شیعہ کے گھر پہنچتے ہی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر مجبور ہو جاتی ہے کہ شیعہ ہو جائے۔ یہ خرابی علاوہ اس ارتکاب حرام کے ہے جو ناجائز نکاح کے سبب ہوتا ہے ..... لہٰذا شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز ،ان کا ذبیحہ حرام، ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے، ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں’’۔43
(ب) نیز بریلوی فرقہ جس کے ساتھ مولانا ابو الحسنات صاحب صدر مجلس عمل کا تعلق ہے کے نزدیک بھی شیعہ سے مناکحت ‘‘زنا’’ سے مترادف ہے۔ چنانچہ ردّ الرّفضہ میں لکھاہے:
‘‘ بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حُکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے..... اگر مَرد سُنّی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہر گز نکاح نہ ہو گا۔ محض ‘‘زنا’’ ہو گا اولاد ‘‘ولد الزنا’’ ہو گی’’۔44
ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اس فتویٰ میں جو کہ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بانی فرقہ بریلویہ کا ہے، شیعہ حضرات کو نہ صرف کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے کتابیہ عورت کے ساتھ مسلم مَرد کا نکاح جائز ہے لیکن حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کے نزدیک شیعہ عورت کے ساتھ سُنّی مَرد کا نکاح قطعاً حرام اور ناجائز ہے۔
(ج) اسی طرح اہلِ شیعہ کے نزدیک اہلسنت و الجماعت سے مناکحت ناجائز ہے۔ چنانچہ حضرات شیعہ کی حدیث کی نہایت مستند کتاب الفروع الکافی میں لکھا ہے:
‘‘عَنِ الْفَضْلِ بْنِ یَسَارٍقَالَ قُلْتُ لِاَ بِیْ عَبْدِﷲِ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِنَّ لِاِمْرَأَتِی أُخْتاً عَارِفَۃً عَلٰی رَأْیِنَا وَ لَیْسَ عَلٰی رَأْیِنَا بِالْبَصْرَۃِ اِلَّاقَلِیْلٌ فَاُزَ وِّجُھَا مِمَّنْ لَا یَرٰی رَأْیَنَا قَالَ لَا’’۔ 45
یعنی فضل بن یسار سے روایت ہے کہ مَیں نے حضرت امام ابو عبداﷲ سے عرض کیا کہ میری اہلیہ کی ایک بہن ہے جو ہماری ہم خیال ہے لیکن بصرہ میں جہاں ہم رہتے ہیں شیعہ لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ کیا مَیں اس کا کسی غیر شیعہ سے بیاہ کر دوں؟ حضرت امام نے فرمایا: نہیں۔
(د) اسی طرح ‘‘امیر جماعت اسلامی’’ کے نزدیک ایسے لوگوں کے لئے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں جو اپنی لڑکی یا لڑکے کی شادی کرتے وقت دین کا خیال نہ رکھیں۔46
سوال نمبر 7: احمدیہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی SIGNIFICANCE کیا ہے؟
جواب: ہمارے امام کے عہدے کا اصل نام ‘‘امام جماعت احمدیہ’’ اور ‘‘خلیفۃ المسیح’’ ہے لیکن بعض لوگ انہیں ‘‘امیر المومنین’’ بھی لکھتے ہیں اور ایسا ہی ہے جیسا کہ مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ‘‘امیر جماعت اسلامی’’ کہلاتے ہیں یا سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری ‘‘امیرِ شریعت’’ کہلاتے ہیں۔ غالباً مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے یہ مراد نہیں لی ہو گی کہ باقی لوگ اسلامی جماعت سے باہر ہیں یا کافر ہیں۔ نہ سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری کے ماننے والوں نے یہ مراد لی ہو گی کہ سیّد عطاء اﷲ شاہ بخاری شریعت پر حاکم ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی شریعت ہوتی ہے۔
جب کوئی احمدی حضرت امام جماعت احمدیہ کے لئے ‘‘امیر المومنین’’ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ آپ ان لوگوں کے جو بانئ سلسلہ احمدیہ کو مانتے ہیں ‘‘امیر’’ ہیں۔ لوگ اپنی عقیدت میں اپنے لیڈروں کے کئی نام رکھ لیتے ہیں۔ بعض تو کُلّی طور پر غلط ہوتے ہیں، بعض جزوی طور پر صحیح ہوتے ہیں بعض کلّی طور پر صحیح ہوتے ہیں اور کوئی معقول آدمی ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا جب تک کہ ایسی بات کو ایمان کا جزو قرار دے کر اس کے لئے دلائل اور براہین نہ پیش کئے جائیں۔ سابق مسلمانوں نے بھی بعض آئمہ کو ‘‘امیر المومنین’’ کے الفاظ سے یاد کیا ہے چنانچہ مولانا محمدزکریا شیخ اہلحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور اپنی کتاب (موسومہ مقدمہ اوجزالمسالک شرح مؤطا امام مالک) کے صفحہ 14 مطبوعہ یحیویہ سہارنپور 1348 ھ میں امام قطان اور یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘مَالِک اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الْحَدِیْثِ’’
یعنی امام مالک فنّ حدیث میں امیر المومنین ہیں۔
اسی طرح حضرت سفیان ثوری کے متعلق حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی، امام شعبہ اور امام ابن علقمہ اور امام ابن معین اور بہت سے علماء کی سند پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں:
‘‘سُفْیَان اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الْحَدِیْثِ’’
یعنی حضرت سفیان ثوری فنِّ حدیث میں امیر المومنین ہیں۔47
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سابق امیر مولانا محمد علی صاحب مرحوم کو بھی ان کے بعض اتباع ‘‘امیر المومنین’’ لکھتے ہیں۔ پروفیسر الیاس برنی صاحب نے اپنی کتاب ‘‘قادیانی مذہب’’ مطبوعہ اشرف پرنٹنگ پریس لاہور بار ششم صفحہ 3 تمہید اوّل میں موجودہ نظام صاحب دکن کو ‘‘امیر المومنین’’ لکھا ہے۔
مزید برآں بعض لوگ اس قسم کے نام رکھ لیتے ہیں جیسے ‘‘ابو الاعلیٰ’’ حالانکہ ‘‘الاعلیٰ’’ اﷲ تعالیٰ کا نام ہے۔’’
1: الحج : 79
2: بخاری کتاب الصَّلٰوۃ باب فَضْل اسْتِقْبَال الْقِبْلَۃِ
3: تذکرہ صفحہ 601 ۔ ایڈیشن چہارم
4: تذکرہ صفحہ 47۔ ایڈیشن چہارم
5: پیغام صلح ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439 مطبوعہ 2008
6: الفضل 19 مئی 1947ء ۔ الفضل 18 ستمبر 1947ء
7: مشکٰوۃ کتاب العلم ۔ الفصل الثالث جلد 73 مطبوعہ لاہور 1993ء
8: روداد جماعت اسلامی حصّہ سوم صفحہ 78 تا 80۔ مطبوعہ لاہور 1948ء
9: مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصّہ سوم صفحہ 107 ۔ ایڈیشن سوم
10: اقتراب السَّاعۃ صفحہ 12 مطبوعہ 1301ھ
11: بانگِ درا صفحہ 226۔ مطبوعہ لاہور 1968ء
12: مسدس حالی صفحہ 26 مطبوعہ تاج کمپنی
13: تقریر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ۔ آزاد 9 دسمبر 1949ء
14: الصافی شرح الاصول الکافی باب فرض الطَّاعۃ الائمۃ
15: حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185
16: ترمذی ابواب الایمان باب مَاجَاء فِی مَنْ رَمٰی اَخَاہُ بِکُفْرٍ
17: مسلم کتاب الایمان باب بیان حَال اِیْمَان (الخ)
18: صحیح ابن حبان کتاب الایمان باب مَا جاء فی صفات المومنین
19: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 123، 124 مطبوعہ 2008ء
20: فتوٰی عبد الحق غزنوی۔ اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204مطبوعہ 1890ء
21: فتاوٰی عالمگیریہ جلد 2 صفحہ 283 مطبع مجید کانپور
22: خطبات مودودی صفحہ 21 مطبوعہ لاہور 1965ء
23: فتوٰی شائع کردہ مولوی عبدالشکور صاحب مدیر النجم لکھنؤ
24: مکتوبات امام ربانی جلد 1 صفحہ 71 مکتوب پنجاہ و چہارم
25: غنیۃ الطالبین مع زبدَۃ السالکین صفحہ 157 و تحفہ دستگیریہ اُردو ترجمہ غنیة الطالبین مطبوعہ لاہور صفحہ 120، 141
26: حسام الحرمین علٰی منحرالْکُفْر وَالمین مع سلیس ترجمہ اُردو مسمّٰی بنام تاریخ بین احکام و تصدیقات اعلام 1325ھ مطبع اہل سنت و الجماعة بریلی 1326ھ بار اوّل صفحہ 24 مصنفہ مولوی احمد رضا خان بریلوی
27: تین سو علمائے اہل سنت و الجماعت کا متفقہ فتوٰی مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر 63 ہیو روڈ لکھنو
28: فتوٰی علماء کرام مشتہرہ در اشتہار شیخ مہر محمد قادری باغ مولوی انوار لکھنؤ۔ 3 شوال 1354ھ
29: وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى (القصص :8)
30: وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِيْنَ۔(آل عمران:43)
31: دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ
32: مفرداتِ امام راغب صفحہ 205 مطبوعہ کراچی 1961ء
33: الشورٰی : 52
34: اَلْھُدٰی وَالتَّبْصِرَۃُ لِمَنْ یَّرٰی۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 275، 276۔ مطبوعہ 2008ء
35: INFRUCTUOUS : لاحاصل
36: اشاعة السُّنَّۃ نمبر 6 جلد 13 صفحہ 183
37: اظہارِ مخادعہ مسیلمہ قادیانی بجواب اشتہار مصالحت پولوس ثانی صفحہ 2 مولفہ مولوی عبدالاحد خانپوری مطبوعہ مطبع چودھویں صدی راولپنڈی 1901ء
38: رسالہ موسومہ بہ علمائے کرام کا فتوٰی درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ صفحہ 4
39: فتوٰی علمائے کرام صفحہ 4
40: فروع الکافی کتاب الجنائز جلد 1 صفحہ 100 باب الصَّلٰوۃ علی الناصب مصنفہ حضرت محمد یعقوب کلینی مطبوعہ نولکشور 1302ھ
41: اشاعۃ السنۃ جلد 13نمبر12 صفحہ 381
42: مہرِ صداقت المعروف باحکام شریعت صفحہ 10مطبوعہ 1335ھ
43: علمائے کرام کا فتوٰی درباب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ شائع کردہ مولانا محمد عبدالشکور مدیر النجم صفحہ 1، 3
44: رد الرفضۃ۔ مصنفہ احمد رضا خان بریلوی صفحہ 30، 31 مطبوعہ 1320ھ
45: الفروع الکافی مِنْ جامع الکافی جلد 2 کتاب النکاح صفحہ 142 مطبوعہ نولکشور 1886ء
46: روداد جماعتِ اسلامی حصہ سوم صفحہ 103 مطبوعہ لاہور 1948ء
47: تہذیب التہذیب جلد 4 صفحہ 100۔ مطبوعہ لاہور 1403ھ









حقیقی اسلام




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
حقیقی اسلام

(فرمودہ 29اگست 1953ء بمقام بیچ لگثری (BEACH LUXURY )ہوٹل کراچی)
(غیر مطبوعہ)

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘اسلام کا لفظ قرآن کریم میں صرف اُس دین کے لئے نہیں بولا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہؤا تھا بلکہ آپ سے پہلے جو ادیان گزرے ہیں اُن کے اتباع کو بھی یا اُن کے سچّے اتباع کو بھی خدا تعالیٰ نے مسلم کے نام سے یاد فرمایا ہے اور یہ اتباع کسی قلیل زمانہ کے لئے نہیں تھے بلکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں جو لوگ آپ پر ایمان لائے یا بعد میں آنے والے انبیاء پر ایمان لاتے رہے اُن کے متعلق بھی قرآن کریم یہی فیصلہ فرماتا ہے کہ وہ مسلم تھے ۔ قرآن کریم کے اس محاورہ سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جہاں تک ایک قومی اصطلاح کاسوال ہے اسلام کا لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتاہے،قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے ، حشر ونشر پر ایمان لاتا ہے ، تقدیر پر ایمان لاتاہے ایسا انسان مسلم ہے۔ لیکن آگے ایک فرق پیدا ہو جاتاہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان تو آپ کی بعثت کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آپ سے پہلے گزرے ہیں اور جو آپ کا نام تک بھی نہیں جانتے تھے وہ مسلم کس طرح کہلائے؟ہمارا عقیدہ مسیحیوں کی طرح یہ نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو لوگ تھے وہ بھی آپ پر ایمان لائے ہوئے تھے یہ صرف مسیحیوں کاعقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے جتنے انبیاء گزرے ہیں وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے۔
مجھے ایک دفعہ ایک بڑے پادری سے جو ایک مذہبی کالج کا پرنسپل تھا بحث کرنے کا موقع ملا ۔ میں نے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک کوئی شخص کفارہ پر ایمان لائے بغیر نجات حاصل نہیں کرسکتا اور کفارہ کا مسئلہ صرف اُنیس سو سال سے جاری ہؤا ہے اس سے ہزاروں سال پہلے مذہبی روایات کے مطابق دنیا بس رہی تھی اور کروڑوں بلکہ اربوں سال پہلے سائنس کی تحقیق کے مطابق بس رہی تھی اتنے سال تک دنیا نے کس سے نجات حاصل کی؟ یا تو تم یہ کہو کہ انہوں نے نجات حاصل نہیں کی اس صورت میں آد م علیہ السلام بھی اور نوح علیہ السلام بھی اور ابراہیم علیہ السلام بھی اور زکریا علیہ السلام بھی اور حزقیلؑ بھی جن کا بائبل میں ذکر آتا ہے سب کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ نعوذ باللہ نجات یافتہ نہیں تھے۔ اور اگروہ نجات یافتہ تھے تو ماننا پڑے گا کہ نجات بغیر مسیح کے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ اس پر اُس نے تعجب سے کہا کہ کون کہتا ہے وہ مسیح پر ایمان لائے بغیر نجات پاگئے وہ سارے کے سارےمسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ میں نے جواب دیا کہ بائبل کی وہ کو ن سی آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے صرف قیاس سے تو ایسی بات نہیں کہی جا سکتی ۔
میں نے کہا کہ اگر اُن کا ایمان لانا ضروری تھا تو مسیح کو آدم کے زمانہ میں کیوں نہ بھیجا گیا اور اتنے لمبے انتظار کے بعد کیوں مبعوث کیاگیا؟ اُس نے کہا کہ چونکہ دنیا کے دماغ ابھی اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے کہ وہ کفارہ کا مسئلہ سمجھ سکیں اس لئے خدا تعالیٰ نےحضرت مسیح کو ابتداء میں نہ بھیجا بلکہ اُس وقت بھیجا جب وہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے قابل ہو گئے۔میں نے کہا کہ جب وہ اس مسئلہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے تو انہوں نے نجات کس طرح پائی؟ اور اگر وہ سمجھ سکتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ؑ کوپہلے کیوں نہ بھیجا؟ غرض مسیحیوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء بھی حضرت مسیح ؑ پر ایمان رکھتے تھے لیکن مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ۔بے شک قرآن کریم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کی بعثت کی خبر پُرانے انبیاء سے ملتی چلی آئی ہے مگر یہ محض اجمالی خبر ہوتی ہے کہ ایک نبی آئے گا۔یہ نہیں ہوتا کہ خبر دینے والا آنے والے نبی کی نبوت پر بھی ایمان لے آ تا ہو۔مگر قرآن کریم نے اُن تمام قسم کے انبیاء اوراُن کی جماعتوں کو مسلم قراد دیا ہے۔
پس معلوم ہؤا کہ مسلم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اُس شخص کے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہے اور دوسرے لفظ مسلم کے جو معنے ہیں اُن معنوں کا جس شخص پر اطلاق ہو گا وہ قرآنی اصطلا ح میں مسلم قرار پائے گا۔مسلم کے معنے ہیں مطیع ، فرمانبردار اور خدا تعالیٰ کے حکموں کو ماننے والا اب چاہے وہ اُس تعلیم کو مانے جو مسیح ؑ پر نازل ہوئی تھی چاہے وہ اس تعلیم کو مانے جو داودؑ پر نازل ہوئی تھی اور چاہے وہ اس تعلیم کو مانے جو ابراہیمؑ پر نازل ہوئی تھی۔ وہ مسلم قرار پائے گا ان معنوں میں کہ وہ خدائی احکام کا کامل فرمانبردار ہے۔ پس نوحؑ کے زمانے میں اس کے یہ معنے تھے کہ خدا کا کلام جو نوحؑ پر نازل ہؤا اُس کی جس شخص نے اتباع اور فرمانبرداری کی وہ مسلم ہے۔اور ابراہیمؑ کے زمانہ میں اس کے یہ معنے تھے کہ جو شخص ابراہیمؑ کے احکام کو مانتا ہے وہ مسلم ہے اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کے زمانہ میں اس کے یہ معنے تھے کہ جوشخص موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کے احکام کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلم ہے۔ لیکن اِس زمانہ میں ایک تو مسلم نام ہو گا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے کی وجہ سے۔ گو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے اندر اسلام کی حقیقت نہ پائی جاتی ہو جیسے بعض لوگو ں کا نام حاتم خان رکھ دیا جاتا ہے لیکن و ہ ہوتے بخیل ہیں۔ یا عبدالرحمن نام رکھ دیا جاتا ہے لیکن وہ ہوتے شیطان کے غلام ہیں۔ اور ایک مسلم نام ہو گا اُس کی حقیقت کےلحاظ سے۔ یعنی ایک تو نام کا اسلام ہوگا جیسے بعض لوگ اپنے آ پ کو نصاریٰ کہتے ہیں، بعض یہودی کہتے ہیں اِسی طرح ہم اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں۔ لیکن ایک وہ تعریف ہے جس کے ماتحت عیسیٰؑ کے ماننے والے مسلم کہلائے یا موسیٰ ؑکے ماننے والے مسلم کہلائے یا ابراہیم ؑکے ماننے والے مسلم کہلائے یعنی ہم محمدرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی پوری اطاعت کریں۔ گویا ہماری فضیلت یہ ہے کہ ہم دہرے مسلم ہیں ۔ ایک اس لحاظ سے جس لحاظ سے سارے انبیاء کی جماعتیں مسلم قرار پائیں اور ایک اس لحاظ سے کہ ہماری قوم کا نام بھی مسلم رکھ دیا گیا ہے۔1 بے شک یہ نام ایک تفاول کے طور پر رکھا گیا ہے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کا نام رکھ دیتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک زائد بات یہ ہے کہ ماں باپ نام رکھتے ہیں تو اپنے بچوں میں ویسی صفات پید ا نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے بچے کا نام بہادر خان رکھتے ہیں لیکن وہ اتنا بزدل ہوتا ہے کہ ایک چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے ۔ وہ اپنے بچے کا نام حاتم خان رکھتے ہیں لیکن وہ ہوتا سخت بخیل ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کا نام رکھتا ہے تو چونکہ خدا تعالیٰ میں طاقت ہے کہ وہ ویسی ہی صفات پیدا کر دے اس لئے وہ صرف تفاؤل ہی نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہوتا ہے کہ اسے اس نام کا مستحق بنا دے ۔
پس ہمارا نام جو مسلم رکھا گیا ہے یہ ہے تو ایک نام ہی لیکن اس میں یہ وعدہ بھی پوشیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اگر کوشش کریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق مل جائے گی ۔پس ‘‘حقیقی اسلام’’ کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام کو سن کر ان کی اطاعت کریں اور کامل فرمانبرداری کا مظاہر ہ کریں۔ یوں تو ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلْوَلَدُ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے آگے اُس کے ماں باپ اُسے سکھا کر یہودی بنا دیتے ہیں یا اگر ماں باپ عیسائی ہو ں تو وہ اسے عیسائی بنا دیتے ہیں یا مجوسی ہوں تو وہ اسے مجوسی بنا دیتے ہیں2 لیکن پیدائشی لحاظ سے وہ فطرت صحیحہ لے کرہی پیدا ہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا خوف اور اُس کی محبت کا مادہ اس کے دل میں ہوتا ہے۔
غرض ترقی کرنے کے جس قدر سامان ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مہیا فرما دیئے ہیں ۔ایک طرف اُس نے ہر بچہ کو فطرت صحیحہ دے کر پیدا کیا اور دوسری طرف اُس نے مسلمانوں کا ایسا ماحول بنا دیا اور دین کو اُن کے سامنے ایسے رنگ میں رکھا کہ اگر وہ چاہیں تو آسانی سے اس کی اتباع کرکے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن سکتے ہیں۔ مثلاً پہلی چیز تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فیصلہ کیا کہ امت محمدیہ میں شامل ہونے والے افراد مسلمان کہلائیں گے جس کے معنے یہ تھے کہ وہ جب چاہیں گے حقیقی مسلمان بن سکیں گے۔ تو اس کے لئے ایک سامان تو اس نے یہ پیدا کیا کہ اس نے قرآن کریم کوہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا ۔عیسائیت کے متعلق خود عیسائیوں کی لکھی ہوئی سینکڑوں کتابیں ایسی موجود ہیں جن میں اُنہوں نے تسلیم کیا ہے کہ انجیل ایک محرف و مبدل کتاب ہے لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے شدید ترین دشمن بھی مانتے ہیں کہ جس رنگ میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا بعینہٖ اسی رنگ میں یہ کتاب آج بھی موجود ہے۔ سرولیم میور جیسا شدید دشمن اسلام قرآن کریم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ ہم اسے جھوٹا سمجھتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ہم اس کتاب کے لانے والے کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے یہ باتیں پیش کی ہیں لیکن اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ جس صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے قرآن کریم پیش کیا تھا اُسی صورت میں وہ آج بھی موجود ہے ۔3 آخر دشمن تو یہی کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری باتیں اپنی طرف سے بناکر پیش کی ہیں لیکن ہمارے لئے یہ کتنا شاندار سرٹیفکیٹ ہے کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآن دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُسی شکل میں وہ آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ وہ قرآن کے متعلق یہ الفاظ کہتے ہیں لیکن انجیل کےمتعلق نہیں کہتے بلکہ بعض عیسائی کہتے ہیں کہ ہمیں حسرت ہے کہ کاش! ہم انجیل کے متعلق بھی ویسی بات کہہ سکتے جو ہم قرآن کریم کے متعلق کہتے ہیں۔ اب یہ کتنی بڑی فضیلت اور برتری کی بات ہے۔ ہر پڑھا لکھا عیسائی جب انجیل پڑھتا ہے تو اُس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مسیح نے یہی بات کہی تھی یا کچھ اَور کہا تھا لیکن قرآن کریم کا پڑھنے والا شروع سے آخر تک یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ اُسی شکل میں ہے جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا یہ ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان مرتد ہو جائے لیکن جب تک وہ قرآن کریم کو مانتا ہے وہ قرآن کریم کے صحیح ہونے میں شبہ نہیں کر سکتا ۔
بعض فرقے مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کچھ حصے غائب ہیں لیکن اُن میں سے بھی یہ کوئی نہیں مانتا کہ جو قرآن کریم موجود ہے اس میں بعض حصے غلط ہیں لیکن عیسائیت تو یہ کہتی ہے کہ جو چیز موجود ہے اس میں بھی کئی آئتیں غلط ہیں۔ چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے جب اعتراضات کئے گئے تو کئی آیات عیسائیوں نے انجیل میں سے نکال ڈالیں بلکہ اب امریکہ میں ایک نئی بائیبل شائع ہوئی ہے جس میں سے وہ تمام آیات انہوں نے نکال دی ہیں جن پر ہماری طرف سے اعترض کیا جاتا تھا اور لکھا ہے کہ یہ بعد میں بعض مفسرین نے زائد کر دی تھیں اصل نسخوں میں یہ آیات نہیں پائی جاتیں ۔ہم کہتے ہیں کہ خواہ کچھ کہو ۔ بہر حال فتح ہماری ہے کیونکہ تمہیں آج پتہ لگا کہ یہ آیتیں غلط ہیں لیکن ہمیں قرآن کریم کی روشنی میں پہلے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ یہ غلط ہیں ۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہم نے اس کتاب کو عمل کے لئے آسان بنا دیا ہے ۔4اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کی عقل اور اس کے فہم اور اس کی فراست کو صدمہ پہنچانے والی ہو ۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی آیت کے معنے نہ سمجھے یا غلط مفہوم سمجھ کر شکوک میں مبتلا ہو جائے لیکن جب بھی وہ کسی واقف شخص کے پاس جائے گا اسے پتہ لگ جائے گا کہ غلطی میری ہی تھی قرآن کریم میں کوئی غلطی نہیں۔ نولڈ کے جرمن مستشرق اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں، اس کی آیات مضمون کے لحاظ سے بالکل بے جوڑ ہیں لیکن آخری عمر میں پہنچ کر وہ لکھتا ہے کہ میں نے قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق جو رائے ظاہر کی تھی وہ غلط تھی میں نے جب قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا تو مجھے اس میں بڑی زبر دست ترتیب نظر آئی۔ یہ محض ہماری نا واقفیت ہے کہ ہم اپنی نا سمجھی کی وجہ سے قرآن کریم پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں ۔غرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی کتا ب عطا فرمائی ہے جس نے غیروں سے بھی خراج تحسین حاصل کیا ہے اور جس پر عمل بڑا آسان ہے ۔
پس حقیقی اسلا م کے یہ معنے نہیں کہ ہم سنی ہیں یا ہم خارجی ہیں۔ حقیقی اسلام کے یہ معنے نہیں کہ ہم اہلحدیث ہیں ۔حقیقی اسلام کے یہ معنے نہیں کہ ہم شافعی یا حنفی ہیں یا کسی اَور گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ حقیقی اسلام کے یہ معنے ہیں کہ ہم اپنے د ل میں یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار رہیں گے اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی اطاعت کریں گے کیونکہ اسلام کے معنے اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں۔بیشک ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو گیا اپنے نام کے لحاظ سے مسلم ہےچاہے وہ سنی ہو ،شیعہ ہو، چکڑ الوی ہو، اہل حدیث ہولیکن جہاں تک حقیقتِ اسلامی کا سوال ہےہم اُس وقت مسلم کہلا سکتے ہیں جب ہمارے اندر خدائی احکام پر عمل کرنے کی روح موجود ہو۔ جیسے قرآن کریم نے ابراہیم ؑ پر ایمان لانے والوں کو بھی مسلمان کہا۔ موسیٰ ؑپر ایمان لانے والوں کو بھی مسلمان کہا حالانکہ ان کے سامنے قرآن نہیں تھا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کا یہ فیصلہ کہ ہم خداتعالیٰ کی اطاعت کریں گے اس سپرٹ کا نام اسلام ہے۔ جب یہ سپرٹ پیدا ہو جائے تو چاہے وہ دوسروں سے کتنا ہی اختلاف رکھتا ہووہ مسلمان ہےکیونکہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا ہےکہ میں خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کے آگے اپنا سرنہیں جھکاؤں گا۔
صحابہؓ نے جب ایران پر حملہ کیا تو ایرانی بادشاہ نے سوچا کہ یہ عرب ذلیل اور ادنٰی قسم کے لوگ ہیں اگر ان کو کچھ لالچ دے دیا جائے تو یہ واپس چلے جائیں گے۔ چنانچہ اس نے اسلامی کمانڈر کو لکھا کہ میں آپ لوگوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں آپ اپنے نمائندے میری ملاقات کے لئے بھجوادیں۔ اُس نے چند صحابہؓ کو بھجوا دیا۔ وہ وہاں پہنچے تو لوگ تو بادشاہوں کے سامنےسر جھکانے کےعادی ہوتے ہیں مسلمان خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کے آگے اپنا سر نیچا ہی نہیں کرتے تھےوہ ملاقات کے لئے گئے تو دربار کے قالینوں پر اپنے نیزے مارتے ہوئے اندر گھس گئے اور جاتے ہی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ وہ حیران ہؤا کہ یہ کیسے لوگ ہیں مگر بہرحال چونکہ اس نے خود بلایا تھااِس لئے اُس نے انہیں بٹھایا اورکہاکہ میں نے تم لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ تم لوگ گوہیں کھانے والےمہذب دنیا کی ٖغذاؤں سے ناآشنا، شادی بیاہ کے قوانین سے ناواقف بالکل اجڈ اور جاہل لوگ ہو۔ تم باپ کے مرنے کے بعد ماؤں کو ورثہ میں لے لیتے ہو،تمہارا جہاں بانی اور حکمرانی سے کیا واسطہ۔ میں نے تمہاری غربت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں۔ بس تم یہ روپیہ لواور واپس چلے جاؤ۔ اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اُس نے ان کی کیا حیثیت سمجھی تھی۔ ایک چھوٹی سے چھوٹی ریاست بھی یہ پیشکش نہیں کر سکتی کہ ہر سپاہی کو پونے دس روپے اور افسر کو بیس روپے دے دیئے جائیں اور ان سے غداری کروائی جائے۔ اگر آج کسی لیفٹیننٹ کے پاس کوئی شخص جائے اور اسے کہے کہ بیس روپے لے لو اور فلاں کی غداری کرو تو وہ اسے تھپڑ مارے گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ غداری نہیں کر سکتا بلکہ اس لئے کہ کیا تم نے مجھے ایسا ہی ذلیل سمجھا ہے کہ میں بیس روپے کے بدلے غداری کا ارتکاب کرلوں گا ۔مگر اس نے اسلامی لشکر کے سامنے یہی پیشکش کی۔ صحابہؓ نے اس کی یہ بات سنی تو انہوں نے جواب دیاکہ آپ جو کچھ فرمارہے ہیں درست ہے۔ ہماری حالت ویسی ہی تھی جیسا کہ ابھی آپ نے ذکر کیا ہے ہم اس سے انکار نہیں کرتے لیکن اب خداتعالیٰ نے ہم میں ایک نبی بھیج دیا ہےاور ہماری حالت بالکل بدل چکی ہے۔ اب خدا کا وعدہ ہے کہ ظلم اور فساد کو دنیا سےمٹایا جائے گا۔پس جب تک ظلم اور فساد قائم ہے ہم لڑیں گےاور اُس وقت تک لڑتے چلے جائیں گے جب تک خدا ئی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی۔ بادشاہ کو اس جواب پر غصہ آیا اور اُس نے حکم دیا کہ ایک مٹی کا بورا بھر کر لاؤ اور اُن کے افسر کے سر پر رکھ دو۔ گویا جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ ‘‘تیرے سِرتے کھہ’’ یعنی تیرے سر پر خاک پڑے۔ اِسی طرح اُس نے کہا کہ اب تمہارے سروں پر خاک ڈالی جاتی ہے۔جاؤ جو کچھ تم نے کرنا ہے کر لو۔ اس صحابیؓ نے بڑے آرام سے اپنا سر جھکایا اور مٹی کا بورا اپنے سر پر اٹھا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہاچلو ایران کے بادشاہ نے خود اپنے ملک کی مٹی ہمارے حوالے کر دی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تیزی کے ساتھ نکل آئے۔ بادشاہ نے جب یہ سناتو اُس نے کہاان لوگوں کو کسی طرح پکڑو اور ان سے یہ مٹی واپس لو مگر وہ اُس وقت تک گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہیں کے کہیں نکل چکے تھے۔5
یہ ہے اسلام کی صحیح سپرٹ۔ وہ لوگ خدا کے سوا اور کسی کو نہیں جانتے تھےاور اسی کی بادشاہت زمین اور آسمان میں تسلیم کرتے تھے۔مسیح ناصریؑ صرف اِس نکتہ تک پہنچا کہ آسمان پر تو خدا کی بادشاہت ہےلیکن زمین پر ابھی اس کی بادشاہت قائم نہیں ہوئی۔ چنانچہ اُس نے اپنے حواریوں کو یہ دعا سکھلائی کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی آئے6لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر ہےاسی طرح زمین پر بھی ہے۔ اس سے دونوں نبیوں کی شان اور رفعت کا کیسا امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ مسیح نے سمجھا کہ خداتعالیٰ کی بادشاہت زمین پر آسکتی ہے لیکن ابھی نہیں آئی۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی موجود ہے7بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی بادشاہت کے سوااور کسی کی بادشاہت ہے ہی نہیں۔ یہ چیز ایسی تھی جس نے صحابہؓ کو بالکل نڈر بنا دیا تھاکیونکہ جب کوئی شخص صرف خدا کو اپنا بادشاہ مانے گا تو وہ کسی اور سے ڈرے گا کیوں؟ اسے تو ہر چیز مٹی کا بت نظر آئے گی۔ چاہے اسے حکم دینے والاجرنیل ہوکرنیل ہویا کوئی اَور ہو۔ وہ کہے گا کہ میرا خدا میرا حاکم ہے اور وہ میرے ساتھ ہے۔ اسی روح اور اس جذبے کانام حقیقی اسلام ہے۔ حقیقی اسلام فقہ کی ان باریکیوں کا نام نہیں جو کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ حقیقی اسلام اس تفصیل کا نام نہیں جو حدیثوں میں موجود ہے۔ حقیقی اسلام اس تشریح کا نام نہیں جو علم الکلام والوں نے کی ہے۔ حقیقی اسلام اس سپرٹ کا نام ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اپنے دل پر قائم کرلے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے سامنے اپنا سر نہ جھکائےاور اللہ کو زندہ اور قادروتوانا خدا سمجھے۔ اگر یہ بات نہیں تونوح علیہ السلام کے ماننے والےکس طرح مسلم کہلائے،ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے کس طرح مسلم کہلائے۔ان کے سامنے نہ قرآن تھا، نہ حدیث تھی مگر پھر بھی وہ مسلم تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اُنہوں نےیہ فیصلہ کر لیا کہ جو کچھ خدا کہے گاوہ ہم نے کرنا ہے۔ اور جب کوئی قوم یہ فیصلہ کرلیتی ہے کہ میں نے وہی کچھ کرنا ہےجو خدا کہے گا اس کے دل میں خدا آکر بس جاتا ہے۔ اور جس کے دل میں خدا بس جائےاسے دنیا کی کوئی قوم مٹانے کی طاقت نہیں رکھتی کیونکہ جو اُس پر حملہ کرتاہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے اور خداکو مارنے کی کسی میں طاقت نہیں۔
بہرحال میں دوستوں کو مختصراً اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کو ایک نام تو خداتعالیٰ نے بخش دیا ہے اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں۔ جس دن آپ کےباپ دادا آج سے ہزاریا نوسَوسال پہلے مسلمان ہوئے تھے اُسی دن آپ کو یہ نام مل گیا تھا لیکن اس نام کے باوجودجیساکہ آپ لوگ خود جانتے ہیں کئی دوست جب علیحدہ اپنے دوستوں میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں اِس دنیا کا کوئی خدا نہیں، کئی قیامت کا انکار کر دیتے ہیں، کئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق اپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کومسلمان بھی کہتے ہیں۔
میں جب حج کے لئے گیا تو دو مسلمان اور ہندو بیرسٹر بھی اس جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ وہ تینوں سارا دن خدا اور مذہب پر ہنسی اُڑاتے رہتے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ہندو بیرسٹر نےرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا لفظ کہہ دیا۔ اِس پر ان دونوں کے چہرے سرخ ہو گئے اور انہوں نے کہا خبردار! آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ میں چونکہ روزانہ ان کے اعتراضات کاتختۂ مشق بنا رہتا تھا اِس لئے میں نے ہنس کر کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے نائب تھے۔ آپ تو خداتعالیٰ کے وجود کے ہی قائل نہیں۔ اگراس دنیا کا کوئی خدا نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کہاں سے آ گئے؟ و ہ کہنے لگےٹھیک ہے ہم خدا کو نہیں مانتے لیکن ہم محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا لفظ نہیں سن سکتے۔
اِسی طرح 1924ء میں جب مَیں یورپ گیا تو ایک انگریز دہریہ مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور مذہب پر گفتگو شروع ہوئی۔ باتیں کرتے کرتے اس نے اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے دی۔ میری عادت ہے کہ میں مخالف سے ہمیشہ تحمل اورنرمی کے ساتھ گفتگو کیا کرتا ہوں کیونکہ اگر ہم نرمی سے کام نہ لیں توہم تبلیغ نہیں کرسکتے۔ اسی رنگ میں مَیں بھی اس سے محبت کے ساتھ باتیں کررہا تھا مگر اس نے بغیر اس کے کہ میری طرف سے کوئی سختی ہوتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوگالی دے دی۔ اس پر جواب دیتے وقت میں نے اُلٹ کر وہی بات مسیح علیہ السلام کے متعلق کہہ دی ۔ یہ سنتے ہی اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور اس نے کہا مسیح کا اس سے کیا تعلق ہے؟ میں نے کہا تم خدا کے متعلق بحث کر رہے تھے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ذکر تھا کہ تم نے انہیں بُرا بھلا کہہ دیا۔ اب جب بھی تم بُرے طور پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لو گےمَیں وہی بات تمہارے مسیح کے متعلق کہوں گا۔’’
(از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1: هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ(الحج : 79)
2: بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِیْلَ فی اَوْلَادِ الْمُشْرِ کِیْنَ میں ‘‘کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃ ..... ’’کے الفاظ آئے ہیں۔
3: The Life of Mahomet BX William Muir P. 559 Published in London 1877.
4: وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(القمر:31)
5: تاریخ طبری جلد 4 صفحہ 322 تا 325 مطبوعہ بیروت 1987ء
6: متی باب 6 آیت 9، 10
7: اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ(التوبۃ: 116)






مجلس خدّام الاحمدیہ کے
سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر روح پرور خطاب



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس خدّام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء
کے موقع پر روح پرور خطاب

(فرمودہ 24/اکتوبر1953ء )

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
''جو خدّام یہاں بیٹھے ہیں وہ خدّام کی اصل تعداد کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہیں جو مجھے بتائی گئی ہے۔ خدّا م الاحمدیہ کا یہ اجتماع تربیتی اور تعلیمی ہوتا ہے۔ کھیلیں وغیرہ تو ایک زائد چیز ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین نے کھیلوں کو اصل چیز سمجھ لیا ہے اور وعظ و نصیحت اور تربیت کو ایک ضمنی اور غیر ضروری چیز فرض کر لیا ہے۔ اس لئے انہوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ جبکہ میں خدّام الاحمدیہ کو خطاب کرنا چاہتا تھا تو وہ انہیں پورے طور پر یہاں حاضر کرتے اور انہیں میری باتیں سُننے کا موقع دیتے۔ چونکہ ایسے موقع پر باہر سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے اگر انہیں نکال دیا جائے تو مَیں سمجھتا ہوں کہ اس مجلس میں چار سَو یا ساڑھے چار سَو سے زیادہ خدّام نہیں۔ پرسوں خدّام الاحمدیہ کی جو تعداد مجھے بتائی گئی تھی وہ ساڑھے دس سَو یا گیارہ سَو تھی جو آج لازماً بارہ تیرہ سَو ہونی چاہئے تھی''۔
حضور نے دفتر والوں سے دریافت فرمایاکہ:-
'' اس سال کتنے خدّام اجتماع میں شامل ہوئے ہیں اور پچھلے سال اجتماع میں شامل ہونے والے خدّام کی کیا تعداد تھی؟''
اس پر دفتر کی طرف سے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے وہ یہ تھے:
سالِ گزشتہ 876 موجودہ سال 1062
حضور نے فرمایا:-
''اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال پونے دو سَو خدّام زیادہ آئے ہیں لیکن جہاں تک میرا تأثر ہے دفتر مرکزیہ اعداد و شمار کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ حالانکہ اس سے کئی نتائج نکالے جاسکتے ہیں۔ ہر دفعہ سوال کرنے پر ہانپتے کانپتے اور لرزتے ہوئے اعدادو شمار پیش کئے جاتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعداد و شمار کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کبڈی اور فٹ بال کے میچوں کو دی جاتی ہے ورنہ تمام اعداد و شمار ہر وقت اپنے پاس رکھے جاتے اور منتظمین سوال کرنے پر دلیری سے جواب دیتے۔ اور پھر صرف ایک سال کے ہی نہیں دفتر کے پاس ہر سال کا ریکارڈ ہونا چاہئے یعنی انہیں سوال کرنے پر فوری طور پر بتانا چاہئے کہ 1952ء میں کتنے خدّام آئے،1951ء میں کتنے آئے، 1950ء میں کتنے آئے،1949ء میں کتنے آئے،1948ء میں کتنے آئے۔ اعدادوشمار ہی کسی قوم کا اصل ٹمپریچر ہیں۔ آجکل بیماریوں کی تشخیص ٹمپریچر دیکھ کر کی جاتی ہے۔ جب ٹمپریچر معلوم ہو جائے تو انسان کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ مرض کی یہ شکل ہے۔ ٹمپریچر ہی بتاتا ہے کہ مریض کو ٹائیفائڈ ہے یا ملیریا ہے۔ پھر ٹمپریچر ہی بتاتا ہے کہ مرض خراب ہو رہا ہے یا مریض شفا کی طرف جا رہا ہے۔ پھر ٹمپریچر ہی بتاتا ہے کہ سوزش یا خرابی زہریلی طرف جارہی ہے یا شفاء کی طرف جارہی ہے۔ غرض اعداد و شمار نہایت ہی اہم چیز ہیں جس کی طرف مجلس خدّام الاحمدیہ نے کبھی توجّہ نہیں کی اور مجھے ہر سال ہی اسے تنبیہ کرنی پڑتی ہے۔ حالانکہ ان کے پاس ہر سال کا نہیں ایک ایک دن کا بلکہ ہر صبح و شام کے اعداد و شمار کا ریکارڈ ہونا چاہئے کیونکہ اعداد و شمار ہی تفصیلی ٹمپریچر ہیں کسی قوم یا جماعت کی صحت تندرستی کا۔ اس کے بغیر کسی قوم کی مرض یا صحت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔
مَیں نے خدّام الاحمدیہ کو پہلے بھی کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجّہ دلاتا ہوں کہ اِس اجتماع کا مقصد خالی کھیل کُود نہیں بلکہ اس کی غرض نوجوانوں کے اندر وہ قربانی اور اخلاص پیدا کرنا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدّام الاحمدیہ نے ابھی تک اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہوں پر نوجوانوں کی اس الگ تنظیم کی وجہ سے ان میں اعتراض کرنے کی عادت پیدا ہو گئی ہے۔ آج ہی ایک خادم مجھے ملنے آئے تو وہ کہنے لگے ہماری جماعت میں یہ یہ خرابی ہے۔ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ایک وقت میں سلسلہ کی اعلیٰ خدمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کی روایات اعلیٰ تھیں تو اُنہوں نے اپنے آپ کو کیوں اس رنگ میں منظم نہ کیا کہ جماعت انہیں آگے لے آتی اور جب لوگ امیر بناتے تو انہی میں سے کسی کو بناتے۔ اگر جماعت کے لوگوں نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تو اس کے یہی معنے ہیں کہ اب ان کے سلسلہ کے ساتھ پہلے کی طرح اچھے تعلقات نہیں ورنہ جماعت کے لوگوں کو ان سے کوئی دُشمنی تھی کہ وہ انہیں نظر انداز کر دیں؟ اگر مقامی جماعت نے انہیں آگے نہیں آنے دیاتوان میں کوئی خرابی ضرور تھی۔ خالی شکایات کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس کے تو یہ معنے ہیں کہ کام کرنے والوں کو ہٹا دیا جائے اور نکمّوں کو آگے لایا جائے اور جماعت کو آوارہ چھوڑ دیا جائے۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔
ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک غیر مُلک سے مجھے شکایت آئی کہ جماعت فلاں شخص سے کام لے رہی ہے حالانکہ وہ منافق ہے۔ مَیں نے اُسے جواب میں یہی لکھا کہ آپ کے نزدیک جماعت کا کچھ حصّہ تو منافق ہے اور کچھ حصّہ جماعت میں شامل تو ہے لیکن کام سے غافل ہے اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کے نزدیک جو لوگ غافل ہیں اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتے وہ تو مومن ہیں اور جو خدمت کر رہے ہیں وہ منافق ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ سلسلہ ان لوگوں سے کوئی کام نہیں لے سکتا جو کام نہیں کرتے۔ اس لئے اب سوائے اس کے اَور کیا چارہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے کام لے جو کام کرنا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ تو سلسلہ سے بے غرض ہوئے وہ آپ سے کام کیسے لے۔ اگرکسی نے کام کرنا ہے تو اُسے اُنگلی ہلانی پڑے گی بغیر اُنگلی ہلانے کے کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ بہرحال ہم اُس سے کام کرنے کے لئے کہیں گے جو کام کرے۔
اﷲ تعالیٰ کراچی کی جماعت کو ہر نظرِبد سے بچائے۔ اُنہوں نے فسادات کے ایّام میں نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ،ایسی قابلیت کا مظاہرہ کیا کہ وہ نائب مرکز بن گئے۔ یہی وجہ تھی کہ مَیں نے اعلان کیا کہ کراچی میں بھی ایک صدر انجمن احمدیہ ہو گی تا اگر جماعت کا کام کسی وقت معطّل ہو جائے تو وہ کام سنبھال سکے کیونکہ مجھے اُمید تھی کہ جب اُنہوں نے بغیر ذمّہ داری کے اتنا کام کیا ہے تو اگر ان پر ذمّہ داری ڈال دی جائے گی تو وہ کام کو وقت پر سنبھال سکے گی۔ پنجاب کی جماعتوں کو میرا یہ فعل بُرا لگا اور اُنہوں نے احتجاج کیا کہ کراچی میں بھی صدر انجمن بن گئی ہے۔ اب تو دو عملی پیدا ہو جائے گی۔ مَیں نے انہیں یہی جواب دیا کہ یہ تو حسد ہے۔ جو لوگ کام کریں گے بہرحال وہی آگے لائے جائیں گے اور جو لوگ کام نہیں کریں گے وہ بہرحال گِریں گے۔ اگر کسی خاندان نے کسی وقت کام کیا ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں لیکن اگر اب وہ کام نہیں کرتے تو سلسلہ انہیں کیوں آگے لائے؟ سلسلہ تو انہیں لوگوں کو آگے لائے گا جو ایثار اور قُربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں گے دوسری جماعتوں اور خاندانوں کو اپنا وقار رکھنا مقصود ہے تو وہ کام کریں اور پھر کام بھی دیانت اور تقویٰ سے کریں لیکن اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ان کے باپ دادوں نے کام کیا تھا اس لئے انہیں عزت ملنی چاہئے تو یہ غلط ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔جماعت نے اگر زندہ رہنا ہے تو وہ ایسے وجودوں کو الگ پھینک دے گی۔ یہ بے حیائی کی علامت ہے کہ جو کام نہ کرے اُسے لیڈر بنا لیا جائے۔ اگر کسی خاندان نے کسی وقت خدمت کی ہے اور اب ان کی اولاد کام کرنا نہیں چاہتی تو ان خاندانوں کو آگے آنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ان کی اولاد اب کام کرنا نہیں چاہتی بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ انہیں محض اس لئے عزت دی جائے کہ ان کے باپ دادوں نے کسی وقت کام کیا تھا۔ اب جو کام کریں گے بہرحال وہی آگے آئیں گے اور جو کام نہیں کریں گے وہ آگے نہیں آئیں گے۔
مَیں نے شروع میں بتایا تھا کہ مجلس خدّام الاحمدیہ کو قائم کرنے کی غرض ہی یہی تھی کہ نوجوان دین میں ترقی کریں اور اس قابل ہو جائیں کہ انہیں عزت دی جائے مگر گزشتہ حالات سے خدّام الاحمدیہ نے کوئی زیادہ فائدہ نہیں اُٹھایا۔ تمہاری غلطیوں کی وجہ سے یا ہماری غلطیوں کی وجہ سے، بعض ایسی دیواریں قائم ہو گئی ہیں کہ اب سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی انہیں توڑ نہیں سکتا۔ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ ہم تدبیر سے انہیں توڑ لیں گے تو یہ غلط ہے۔ خدا تعالیٰ ہی انہیں توڑے تو توڑے اور اس کی یہی صورت ہے کہ تم دُعائیں کرو، تہجد پڑھو اور ذکرالٰہی کرو۔ یہی ذرائع ہیں جن سے یہ دیواریں ٹوٹ سکتی ہیں اور کامیابی ہو سکتی ہے لیکن افسوس ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ نوجوانوں میں نماز اور دُعا کی اتنی عادت نہیں رہی جتنی پُرانے لوگوں میں تھی اور یہ نہایت خطرناک بات ہے۔ تمہارے لئے تو پُرانے لوگوں سے زیادہ فتنے ہیں اس لئے پہلوں کے مقابلہ میں تمہارے سامنے بہت زیادہ مشکلات ہیں اور ان کو دور کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا تمہارے بس اور قابو میں نہیں۔ اس کا مقابلہ تو وہی کرے گا جو خدا تعالیٰ تک پہنچ سکے اور جب خدا تعالیٰ کسی بات میں دخل دیتا ہے تو وہ آپ ہی آپ حل ہو جاتی ہے۔ پس اگر تم نے موجودہ مُشکلات کا مقابلہ کرنا ہے تو تمہیں اپنے اندر اصلاح پیدا کرنی چاہئے۔
مَیں نے پہلے بھی جماعت کو توجّہ دلائی ہے اور اب پھر توجّہ دلاتا ہوں کہ تمہاری غرض نعرے اور کبڈیاں نہیں۔ نعرے اور کبڈیاں بالکل بیکار ہیں۔ یہ نعرے اور کبڈیاں تو محض ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص کپڑے پہنے تو ان پر فیتے سے اپنا نام بھی لکھوالے۔ یہ بیکار چیزیں ہیں۔ تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو اور نہ صرف خود ترقی کرو بلکہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کو دیکھے اور اس کی نگرانی کرے تاکہ ساری جماعت اس کام میں لگ جائے۔ تم حسد کی عادت پیدا نہ کرو بلکہ آپس میں تعاون کی روح پیدا کرو۔خدّام الاحمدیہ کی تنظیم تمہارے لئے ٹریننگ کے طور پر ہے تاکہ جب تمہیں خدمت کا موقع ملے تو تم میں اتنی قابلیت ہو کہ تم امیر بن جاؤ یا سیکرٹری بن جاؤ۔ اس لئے تمہیں جماعت کے عہدیداروں سے بجائے ٹکراؤ کے تعاون سے کام لینا چاہئے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہ خدّام الاحمدیہ کی تنظیم اور جماعت کی دوسری تنظیموں میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا۔ پھر جو لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کا امیر اچھا نہیں خود ان کے متعلق رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ ان کی دینی حالت گر رہی ہے۔
پس تم اپنی ذکر الٰہی کی عادت اور اخلاص اور نمازوں کو درست کرو۔ جب یہ چیزیں درست ہو جائیں گی تو خود بخود لوگ تمہیں آگے لے آئیں گے اور یہ شکوے سب ختم ہو جائیں گے۔ تم اپنے اندر نماز کی پابندی کی عادت پیدا کرو اور جھوٹ سے بکلّی پرہیز کرو۔ جھوٹ ایسی چیز ہے کہ اگر انسان اس کو چھوڑ دے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ جھوٹ کو انسان سب سے زیادہ چھپاتا ہے لیکن سب سے زیادہ وہی ظاہر ہوتا ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بدی ہے کہ عام لوگ اس کو جلدی سمجھ لیتے ہیں اور اگر انہیں دوسرے کو جھوٹا کہنے کی جرأت نہ ہو تو وہ کم از کم اپنے دلوں میں یہ بات ضرور لے جاتے ہیں کہ فلاں شخص جھوٹا ہے۔ اور سچ ایک ایسی نیکی ہے کہ مُنہ پر کوئی شخص سچّے انسان کو سچّا کہے نہ کہے وہ اپنے دل پر یہ اثر لے کر جاتا ہے کہ فلاں شخص سچّا اور راست باز ہے۔ اگر خدّام الاحمدیہ یہ کام کر لیں کہ ان کے اندر سچائی کا جذبہ پیدا ہو جائے تو ان کی اخلاقی برتری ثابت ہو جائے گی اور کسی شخص کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ ہر شخص یہی سمجھے گا کہ انہیں ذلیل کرنا سچّے کو ذلیل کرنا ہے اور کوئی قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ سچ کو ذلیل کیا جائے۔
پھر محنت کی عادت ہے۔ دُنیا میں تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو رعایتاً عُہدے مِل جاتے ہیں۔ اگر تم کام میں سُست ہو گے تو سُننے والوں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ انہیں عُہدے محض رعایت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ان میں کام کرنے کی قابلیت موجود نہیں لیکن اگر وہ دیکھیں کہ احمدی جان مار کر کام کرتے ہیں اور حکومت اور مُلک کو اتنا فائدہ پہنچاتے ہیں جتنا فائدہ دوسرے لوگ نہیں پہنچاتے تو ہر ایک شخص کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو عُہدے رعایتاً دے دیئے جاتے ہیں غلط ہے۔ ہم اس اعتراض کا یہی جواب دیتے ہیں کہ تم وہ آدمی لاؤ جس کو بطور رعایت کوئی عُہدہ ملا ہو۔
فرض کرو کوئی احمدی دیانت سے کام کر رہا ہے وہ مُلک اور قوم کی خیر خواہی کر رہا ہے اور اس کا طریقِ عمل اور اس کی مِسل اور اس کے کاغذات اس بات کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہم جلیسوں، ہم عمروں اور ہم عہدوں میں سب سے بہتر کام کرنے والا ہے اور مخالف اس کا نام لے کر کہے کہ فلاں کو عُہدہ بطور رعایت مِلا ہے تو اس کا ریکارڈ اس اعتراض کو دُور کر دے گا لیکن اگر تمہارے کام کا ریکارڈ اچھا نہیں اور معترض تمہارا نام لے تو ہمارے لئے اس اعتراض کا جواب دینا مُشکل ہو جائے گا۔
پس تم اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرو تاکہ تم پر کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے کہ تمہیں رعایتی ترقی دی گئی ہے بلکہ مَیں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر تم میں سے کسی کو یہ نظر آتا ہو کہ اسے رعایت سے ترقی دی گئی ہے تو وہ اُس عُہدہ سے استعفیٰ دے دے کیونکہ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان کسی اور شخص کی سفارش سے ترقی حاصل کرے۔ شیخ سعدی ؒنے کہا ہے ؎
حقّا کہ باعقوبت دوزخ برابر است
رفتن بپائے مرئی ہمسایہ در بہشت
خدا کی قسم ایسی جنت دوزخ کے برابر ہے جس میں انسان کسی ہمسایہ کی سفارش سے داخل ہؤا ہو۔ اگر کسی شخص میں اس کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی جو اس کے سپرد کیا گیا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس عُہدہ کے لئے اس کی سفارش رعایتی طور پر کی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ اگر اس کے اندر غیرت پائی جاتی ہو تو وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جائے۔ پس تم اپنی عقل، محنت اور قربانی سے یہ بات ثابت کر دو کہ تم اپنے اقران، ہم جلیسوں اور ہم عمروں سے بہتر ہو۔ اگر تم اس مقام کو حاصل کر لو تو لازمی طور پر تم اس الزام سے بچ جاؤ گے کہ تمہیں کسی رعایت کی وجہ سے ترقی دی گئی ہے۔
مَیں کراچی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک احمدی کے متعلق لکھا گیا کہ اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے کیونکہ وہ نااہل ثابت ہؤا ہے لیکن حکومت نے بعض انصاف کے قواعد بھی بنائے ہوئے ہیں تاکہ لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں۔ ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت کے متعلق اس قسم کے ریمارک کرے تو اس کارکن کو اس محکمہ سے تبدیل کر کے کسی دوسری جگہ مقرر کیا جائے اور اگر وہاں بھی اس کا افسر اسی قسم کے ریمارک کرے تو اسے نکال دیا جائے۔ چنانچہ اس احمدی کے متعلق جب افسر نے یہ سفارش کی کہ اسے نکال دیا جائے یہ نااہل ہے تو حکومت نے اُسے ایک اَور محکمہ میں بھیج دیا۔ یہ ایک مرکزی ادارہ تھا۔ 6 ماہ یا سال کے بعد جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق کیا کیا جائے تو اتفاقی طور پر اس کی تبدیلی کے احکام بھی جاری ہو گئے اور اس پر ادارے نے لکھا کہ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا اسے تبدیل نہ کیا جائے۔ اعلیٰ افسروں نے لکھا کہ عجیب بات ہے کہ اس کا ایک افسر تو کہتا ہے کہ یہ نااہل ہے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے اور دوسرا افسر کہہ رہا ہے کہ اسی نے آکر ہمارا کام سنبھالا ہے۔ بہرحال چونکہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ شخص اہل ہے یا نا اہل اس لئے اس کی تبدیلی کے احکام رُک نہیں سکتے۔ چنانچہ اسے وہاں سے تبدیل کر دیا گیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس تیسرے افسر سے اس کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی۔ اس نے لکھا کہ میں نے اپنی پاکستان کی پانچ سالہ سروس میں اس قابلیت اور ذہانت کا آدمی نہیں دیکھا چنانچہ اعلیٰ افسروں نے پہلے افسر کے ریمارک بدلے اور کہا کہ یہ شخص ترقی دیئے جانے کے قابل ہے۔ غرض یہ بالکل غلط ہے کہ احمدیوں کو رعایتی طور پر عُہدے دیئے جاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کسی نے اہل سمجھ کر بھرتی کر لیا ہے اور وہ بھرتی کرنے والا احمدی ہے یا غیر احمدی اور اس پرالزام لگ رہا ہو کہ اس نے تمہاری ناجائز حمایت کی ہے تو کیا تم میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ اُس نے تم پر جو احسان کیا ہے تم اس کا بدلہ اُتار دو اور اس کی عزت کو بچاؤ۔ اس کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تم مُلک اور قوم کی اتنی خدمت کرو، اتنی قُربانی اور ایثار کرو کہ ہر ایک شخص یہی کہے کہ تم سے کوئی رعایت نہیں کی گئی بلکہ سفارش کرنے والے نے تمہاری سفارش کر کے اپنی دانائی کا ثبوت دیا ہے۔ کیونکہ اُس نے اس شخص کو چُنا ہے جس کے سِوا اور کوئی مستحق ہی نہیں تھا۔
پھر مَیں کہوں گا کہ اگر تم خدمتِ خلق کرتے ہو تو تمہیں اس کے مفید طریق اختیار کرنے چاہئیں۔ مَیں نے کراچی کی رپورٹ سُنی ہے وہ نہایت معقول رپورٹ تھی۔ میرے نزدیک وہ رپورٹ تمام مجالس تک پہنچانی چاہئے تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کریں۔ یہاں رپورٹوں میں عام طور پر یہ درج ہوتا ہے کہ اتنے لوگوں کو رستہ بتایا گیا۔ حالانکہ یہ نہایت ادنیٰ اور معمولی نیکی ہے اور ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کسی نے اپنی ماں کو پنکھا جھلنے پر ایک ریچھ کو مقرر کیا۔ اس کی ماں بیمار تھی۔ مریضہ پر ایک مکھی بیٹھ گئی۔ ریچھ نے ایک پتھر اُٹھا کر اس مکھی پر دے مارا جس سے وہ مکھی تو شاید نہ مَری لیکن اس کی ماں مَر گئی۔یہ کوئی خدمت نہیں جسے بڑے فخر کے ساتھ خدمتِ خلق کا کام قرار دیا جاتا ہے۔ تم وہ کام کرو جو ٹھوس اور نتیجہ خیز ہو۔ اور اس کے لئے خدّام الاحمدیہ کراچی کی رپورٹ بہترین رپورٹ ہےجو تمام مجالس میں پھیلانی چاہئے تا انہیں معلوم ہو کہ انہوں نے کس طرح خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دیا۔ مَیں تمہیں اس کا چھوٹا سا طریق بتاتا ہوں۔ اگر تم میں جوش پایا جاتا ہے کہ تم مُلک اور قوم کے مفید وجود بنو تو تم اس پر عمل کرو۔ اس وقت جو خدّام حاضر ہیں ان میں سے جو لوگ تجارت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں''۔
حضور کے اس ارشاد پر 40خدّام کھڑے ہوئے۔ فرمایا :-
''جو خدام صنعت و حرفت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں''۔
حضور کے اس ارشاد پر 49خدام کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا:-
''وہ ذریعہ جو مَیں تمہیں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تم ارادہ اور عزم کر لو کہ تم میں سے ہر ایک نے اس سال کسی ایک شخص کو تجارت پر لگانا ہے۔ چاہے وہ تمہارے رشتہ داروں میں سے ہو یا کوئی غیر ہو۔ اِسی طرح پر صنّاع یہ عہد کرے کہ اس نے اس سال کسی نہ کسی شخص کو اپنا کام سکھانا ہے۔ ایک سال میں وہ شخص ماہر کاریگر تو نہیں بن سکتا لیکن اگر وہ کام میں لگ جائے گا تو اگلے سال مہارت حاصل کر لے گا۔ لوہار کسی ایک شخص کو لوہارے کا کام سکھا دے، معمار کسی ایک شخص کو معماری کا کام سکھا دے، ترکھان کسی شخص کو ترکھانے کا کام سکھادے، موچی کسی ایک شخص کو موچی کا کام سکھا دے۔ اسی طرح دوسرے لوگ اپنے اپنے فن ایک ایک شخص کو سکھادیں۔ مرکزی ادارہ کو چاہئے کہ وہ ان خدّام کے نام لکھ لے۔ اگلے سال ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اس ہدایت پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ اگر تم اس کام کو شروع کر دو تو دو چار سال میں تم دیکھو گے کہ اس طریق پر عمل کر کے تم مذہب ، مُلک اور قوم کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکو گے۔ مگر یاد رکھو تم یہ سوچنے میں نہ لگ جانا کہ جس کو کام پر لگایا جائے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو۔ چاہے وہ غیر ہی ہو تم نے بہرحال اسے کام سکھانا ہے۔ دوسرے یہ بھی یاد رکھو کہ بعد میں کسی صِلہ کی اُمید نہ رکھنا۔ احسان کرنے کے بعد اس کے صِلہ کی اُمید رکھنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ تم احسان کر کے بدلہ کی اُمید نہ رکھو۔ تمہارا ایسی اُمید کرنا تمہارے اس کام کو باطل کر دے گا۔ تم یہ نیت کر کے کام سکھاؤ کہ تم اس کے بدلہ کی کسی انسان سے خواہش نہیں رکھتے''۔
(الفضل 18اکتوبر 1961ء)










مسئلہ ء خلافت









از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مسئلہ ء خلافت
(فرمودہ 25اکتوبر1953ء برموقع سالانہ اجتماع خدّام الاحمدیہ بمقام ربوہ)

تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘مَیں کل تھوڑی دیر ہی بولا تھا لیکن گھر جاتے ہی میری طبیعت خراب ہو گئی اور سارا دن پسینے آتے رہے۔ آج بھی گلے میں تکلیف ہے، کھانسی آرہی ہے، بخار ہے اور جسم ٹوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے میں شاید کل جتنا بھی نہ بول سکوں لیکن چونکہ خدّام الاحمدیہ کے اجتماع کا یہ آخری اجلاس ہے اس لئے چند منٹ کے لئے یہاں آ گیا ہوں۔ چند منٹ بات کر کے مَیں چلا جاؤں گا اور اس کے بعد باقی پروگرام جاری رہے گا۔
انسان دُنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مَرتے بھی ہیں کوئی انسان ایسا نہیں ہؤا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو لیکن قومیں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں۔ یہی اُمید دلانے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ:-
‘‘مَیں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے’’۔ 1
اِس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ چونکہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے اس لئے میں بھی تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چاہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو۔ انسان اگر چاہے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن قومیں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مَر جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ:-
‘‘تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی''۔ 2
اس جگہ ہمیشہ کے یہی معنے ہیں کہ جب تک تم چاہو گے تم زندہ رہ سکو گے لیکن اگر تم سارے مِل کر بھی چاہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام زندہ رہتے تو زندہ نہیں رہ سکتے تھے ہاں اگر تم یہ چاہو کہ قدرتِ ثانیہ تم میں زندہ رہے تو زندہ رہ سکتی ہے۔
قدرتِ ثانیہ کے دو مظاہر ہیں۔ اوّل تائیدِ الٰہی اور دوم خلافت۔اگر قوم چاہے اور اپنے آپ کو مستحق بنائے تو تائید الٰہی بھی اس کے شامل حال رہ سکتی ہے اور خلافت بھی اس میں زندہ رہ سکتی ہے۔ خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے۔ قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ3 یعنی اﷲتعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدا نہ کر لے۔ یہ چیز ایسی ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ کوئی جاہل سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں ہو گا جسے مَیں یہ بات بتاؤں اور وہ کہے کہ مَیں اسے نہیں سمجھ سکا۔ یا اگر ایک دفعہ سمجھانے پر نہ سمجھ سکے تو دوبارہ سمجھانے پر بھی وہ کہے کہ مَیں نہیں سمجھا لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قومیں فراموش کر دیتی ہیں۔ انسان کا مَرنا تو ضروری ہے اگر وہ مَر جائے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا لیکن قوم کے لئے مَرنا ضروری نہیں۔ قومیں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ اپنی ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ صحابہ کو ایک ایسی تعلیم دی تھی جس پر اگر ان کی آئندہ نسلیں عمل کرتیں تو ہمیشہ زندہ رہتیں لیکن قوم نے عمل چھوڑ دیا اور وہ مَر گئی۔ دُنیا یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مُشکلات کا علاج تھا اور پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر وہ تعلیم گئی کہاں اور 33 سال ہی میں وہ کیوں ختم ہو گئی؟ عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آرہا ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور اُنہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اُٹھائے ہیں لیکن مسلمانوں میں 33 سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی۔ اسلام کا سوشل نظام 33 سال تک قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا۔ نہ جمہوریت باقی رہی نہ غربا پروری رہی۔ نہ لوگوں کی تعلیم اور غذا اور لباس اور مکان کی ضروریات کا کوئی احساس رہا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری باتیں کیوں ختم ہو گئیں؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی تھی۔ اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت ان کے ہاتھ سے چلی جاتی۔
پس تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی۔ خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اِس لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ مَیں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا۔ اگر تم چاہتے تو یہ چیز ہمیشہ تم میں قائم رہتی۔ اگر اﷲ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو مَیں بھی اسے قائم رکھوں گا۔ گویا اس نے تمہارے مُنہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے۔ اب اگر تم اپنا مُنہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مدِّنظر نہ رکھو مثلاً تم ایسے شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لو جو خلافت کے قابل نہیں تو تم یقیناً اس نعمت کو کھو بیٹھو گے۔
مجھے اس طرف زیادہ تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ آج رات دو بجے کے قریب مَیں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنّف یا مؤرخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں پنسل بھی Copying یا Blue رنگ کی ہے۔ نوٹ صاف طورپر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشّان احسانات ان پر تھے۔ اعلیٰ تمدّن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا۔ پھر بھی وہ گِر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی۔ یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی۔ لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا گو وہ خراب سی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے۔ بہرحال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا۔ اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ:
There were two reasons for it. There temperament becoming (1) Morbid (2) Anarchical.
یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی۔ اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں۔ ایک یہ کہ وہ ماربڈ (Morbid) یعنی اَن نیچرل (UNNATURAL) اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈنسیز (Tendancies) انارکیکل (Anarchical) ہو گئی تھیں۔ مَیں نے سوچا کہ واقع میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں۔ مسلمانوں نے یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں مول لی تھی۔ ماربڈ (Morbid)کے لحاظ سے یہ تباہی اس لئے واقع ہوئی کہ جو ترقیات انہیں ملیں وہ اسلام کی خاطر ملی تھیں، رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں، ان کی ذاتی کمائی نہیں تھی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں پیدا ہوئے اور مکّہ والوں کی ایسی حالت تھی کہ لوگوں میں انہیں کوئی عزت حاصل نہیں تھی۔ لوگ صرف مجاور سمجھ کر ادب کیا کرتے تھے اور جب وہ غیرقوموں میں جاتے تھے تو وہ بھی ان کی مجاور یا زیادہ سے زیادہ تاجر سمجھ کر عزت کرتی تھیں۔ وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں ان سے جبراً ٹیکس وصول کرنا جائز سمجھتی تھیں۔ جیسے یمن کے بادشاہ نے مکّہ پر حملہ کیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو تیرہ سال تک آپ مکّہ میں رہے۔ اس عرصہ میں چند سَو آدمی آپ پر ایمان لائے۔ تیرہ سال کے بعد آپ نے ہجرت کی اور ہجرت کے آٹھویں سال سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آ گیا اور اس کے بعد اُسے ایک ایسی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی کہ اس سے بڑی بڑی حکومتیں ڈرنے لگیں۔ اس وقت دُنیا حکومت کے لحاظ سے دو بڑے حصّوں میں منقسم تھی۔ اوّل۔ رومی سلطنت۔ دوم۔ ایرانی سلطنت۔ رومی سلطنت کے ماتحت مشرقی یورپ، ترکی ، ایبے سینیا، یونان، مصر، شام اور اناطولیہ تھا اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران، رشین ٹری ٹوری (TERRITORY)کے بہت سے علاقے، افغانستان، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے۔ اُس وقت یہی دو بڑی حکومتیں تھیں۔ ان کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے تابع ہو گیا۔ اس کے بعد جب سرحدوں پر عیسائی قبائل نے شرارت کی تو پہلے آپ خود وہاں تشریف لے گئے۔ اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے فتنہ ٹل گیا لیکن تھوڑے عرصہ بعد قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے لشکر بھجوایا۔ اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدہ سے تابع کیا۔ پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ میں سارا عرب اسلامی حکومت کے ماتحت آگیا بلکہ یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی۔ فتح مکّہ کے پانچ سال کے بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہو گئی تھیں۔ اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشّان تغیّر کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔ تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعداد اور قوت میں اس سے زیادہ ہو۔ جرمنی کا مُلک تھا مگر وہ اس وقت 14 چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا۔ اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی۔ ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمنی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا ایک شیر ہے، دو تین لومڑ ہیں اور کچھ چُوہے ہیں۔ شیر سے مراد رشیا تھا۔ لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں اور چُوہوں سے مراد جرمن تھے۔ گویا جرمنی اُس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا۔ روس ایک بڑی طاقت تھی مگر وہ روس کے ساتھ ٹکرایا اور وہاں سے ناکام واپس لَوٹا۔ اس طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہؤا کہ وہ قید ہو گیا۔ پھر دوسرا بڑا شخص ہٹلر آیا بلکہ دو بڑے آدمی دو مُلکوں میں ہوئے۔ ہٹلر اور مسولینی دونوں نے بے شک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہؤا۔ مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا۔ اس کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ بیشک دُنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دُنیا فتح کر لے پورا نہ کر سکا۔ مثلاً چین کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کر سکا اور جب وہ مَرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر رہے ہیں۔ پس صرف رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فردِ واحد سے ترقی کی۔ تھوڑے سے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کر لئے۔یہ تغیر جو واقع ہؤا خدائی تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا۔
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکّہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابوبکر ؓ کے والد ابو قحافہ ؓ بھی بیٹھے تھے جب پیغامبر نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم کی کیفیت طاری ہو گئی اور سب نے یہی سمجھا کہ اب مُلکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اُنہوں نے کہا کہ اب کیا ہو گا؟ پیغامبر نے کہا آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہو گئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنا لیا گیا ہے۔ اُنہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ مقرر ہؤا ہے؟ پیغامبر نے کہا ابوبکرؓ۔ ابو قحافہ نے حیران ہو کر پوچھا کون ابوبکر؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو سارا عرب بادشاہ تسلیم کر لے گا۔ پیغامبر نے کہاابوبکر جو فلاں قبیلہ سے ہے۔ ابو قحافہ نے کہا وہ کس خاندان سے ہے؟ پیغامبر نے کہا فلاں خاندان سے۔ اِس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا وہ کس کا بیٹا ہے؟ پیغامبر نے کہا ابو قحافہ کا بیٹا۔ اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور کہا۔ آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے۔ ابو قحافہ پہلے صرف نام کے طور پر مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد اُنہوں نے سچّے دل سے سمجھ لیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دعویٰ میں راستباز تھے کیونکہ حضرت ابو بکر ؓ کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے۔ یہ الٰہی دین تھی مگر بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ اُنہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں۔ کسی نے کہنا شروع کیا کہ عرب کی اصل طاقت بنو امیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے، کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں، کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں، کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی۔ گویا تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان ماربِڈ(Morbid)ہو گئے اور ان کے دماغ بگڑ گئے۔ ان میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش کی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کرلے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ خلافت ختم ہو گئی۔
پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسرا سبب انارکی تھی۔ اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیدا کی تھی لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنے یہ ہیں کہ ایک آرگنائزیشن ہو۔ اس کے بغیر مساوات قائم نہیں ہو سکتی۔ اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک آرگنائزیشن اور ڈسپلن قائم کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ یہ ڈسپلن ظالمانہ نہ ہو اور افراد اپنے نفسوں کو دبا کر رکھیں تاکہ قوم جیتے۔ لیکن چند ہی سالوں میں مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حُکام نے ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالی تو اُنہوں نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ حکومت الٰہیہ ہے اور اسے خداتعالیٰ نے قائم کیا ہے۔ اس لئے اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ اﷲ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں۔ اور جب اُنہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا اچھا! اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ۔ چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کا مارا ہؤا شکار یعنی حضرت ابو بکر ؓ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کا مارا ہؤا شکار کھاتے رہے لیکن مَرا ہؤا شکار ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ زندہ بکرا، زندہ بکری، زندہ مُرغا اور زندہ مُرغیاں تو ہمیں ہمیشہ گوشت اور انڈے کھلائیں گی لیکن ذبح کی ہوئی بکری یا مرغی زیادہ دیر تک نہیں جاسکتی۔ کچھ وقت کے بعد وہ خراب ہو جائے گی۔ حضرت ابو بکر ؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ ، علی ؓ کے زمانہ میں مسلمان تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن بے وقوفی سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز ہماری ہے اس طرح اُنہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا اور مرغیاں اور بکریاں مُردہ ہو گئیں۔ آخر تم ایک ذبح کی ہوئی بکری کو کتنے دن کھالوگے۔ ایک بکری میں دس بارہ سیر یا پچیس تیس سیر گوشت ہو گا اور آخر وہ ختم ہو جائے گا۔ پس وہ بکریاں مُردہ ہو گئیں اور مسلمانوں نے کھا پی کر انہیں ختم کر دیا۔ پھر وہی حال ہؤا کہ ''ہتھ پرانے کھونسڑے بسنتے ہوری آئے'' وہ ہر جگہ ذلیل ہونے شروع ہوئے۔ انہیں ماریں پڑیں اور خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہؤا۔ عیسائیوں نے تو اپنی مُردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہؤا ہے لیکن اِن بد بختوں نے زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں گاڑ دیا اور یہ محض عارضی خواہشات، دُنیوی ترقیات کی تمنّا اور وقتی جوشوں کا نتیجہ تھا۔
خدا تعالیٰ نے جو عدے پہلے مسلمانوں سے کئے تھے وہ وعدے اب بھی ہیں۔ اس نے جب وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 4 فرمایا تو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓ سے نہیں فرمایا، حضرت عمر ؓ سے نہیں فرمایا، حضرت عثمان ؓ سے نہیں فرمایا، حضرت علی ؓ سے نہیں فرمایا۔ پھر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ صرف پہلے مسلمانوں سے کیا تھا یا پہلی صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا یا دوسری صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا بلکہ یہ وعدہ سارے مسلمانوں سے ہے چاہے وہ آج سے پہلے ہوئے ہوں یا200 یا 400 سال کے بعد آئیں۔ وہ جب بھی اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کے مصداق ہو جائیں گے، وہ اپنی نفسانی خواہشات کو مار دیں گے ، وہ اسلام کی ترقی کو اپنا اصل مقصد بنا لیں گے، شخصیات، جماعتوں، پارٹیوں، جتھوں، شہروں اور مُلکوں کو بھُول جائیں گے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ قائم رہے گا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ یہ وعدہ اﷲتعالیٰ نے تمام لوگوں سے چاہے وہ عرب کے ہوں، عراق کے ہوں، شام کے ہوں،مصر کے ہوں، یورپ کے ہوں، ایشیا کے ہوں، امریکہ کے ہوں، جزائر کے ہوں، افریقہ کے ہوں، کیا ہے کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ وہ انہیں اس دنیا میں اپنا نائب اور قائمقام مقرر کرے گا۔اب اس دُنیا میں شام، عرب اور نائیجیریا، کینیا، ہندوستان، چین اور انڈونیشیا ہی شامل نہیں بلکہ اَور ممالک بھی ہیں۔ پس اس سے مراد دُنیا کے سب ممالک ہیں۔ گویا وہ موعود خلافت ساری دُنیا کے لئے ہے۔ فرماتا ہے وہ تمہیں ساری دُنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ اُسی طرح جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ مقرر کیا۔ اس آیت میں پہلے لوگوں کی مشابہت اَرْض میں نہیں بلکہ استخلاف میں ہے۔گویا فرمایا ہم انہیں اُسی طرح خلیفہ مقرر کریں گے جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ مقرر کیا اور پھر اس قسم کے خلیفے مقرر کریں گے جن کا اثر تمام دُنیا پر ہو گا۔
پس اﷲ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو اور خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو۔ تم نوجوان ہو، تمہارے حوصلے بُلند ہونے چاہئیں اور تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں تاکہ تم اس کشتی کو ڈوبنے اور غرق نہ ہونے دو۔ تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رُخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ تم وہ چینل (Channal) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے۔ تم ایک ٹنل ہو جس کا یہ کام ہے کہ وہ فیضانِ الٰہی جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہؤا ہے تم اسے آگے چلاتے چلے جاؤ۔ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضانِ الٰہی کے رستہ میں روک بن گئے، اس کے رستے میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے اور تم نے اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت اسے اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور قریبیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہا تو یاد رکھو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہو گا۔ پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہو گی اور تم اس طرح مَر جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں مَریں۔ لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قوم کی ترقی کا رستہ بند نہیں۔ انسان بے شک دُنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہتا لیکن قومیں زندہ رہ سکتی ہیں۔ پس جو آگے بڑھے گا وہ انعام لے جائے گا اور جو آگے نہیں بڑھتا وہ اپنی موت آپ مَرتا ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے اسے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا۔’’
(روزنامہ الفضل ربوہ خلافت نمبر مئی 1961ء)
1: یوحنا باب 14 آیت16۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء
2: رسالہ الوصیت صفحہ 7۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 305
3: الرعد: 12
4: النور :56








اپنی روایات زندہ رکھو اور
مستقل ماٹو تجویز کرو








از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل ماٹو تجویز کرو

(فرمودہ7نومبر1953ء )

7نومبر1953ء کو لجنہ اماء اﷲ مرکزیہ کے ہال میں جامعہ نصرت کا سالانہ جلسۂ تقسیم انعامات و اسناد منعقد ہوا۔جس میں تشہّد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘یہ ہال عورتوں کا اپنا بنایا ہؤا ہے اور میرا خیال ہے کہ سارے پاکستان میں عورتوں کا اتنا بڑا ہال اَور کوئی نہیں۔ بیشک بعض ہال ایسے ہیں جو عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً وائی۔ ایم۔سی۔ اے ہال لاہور لیکن یہ ہال اُس سے بھی بڑا ہے۔ بہرحال عورتوں کے جو پاکستان میں ہال ہیں یہ ہال ان سب سے بڑا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی عورتوں کو ہر رنگ میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
مسلمانوں کی روایات
اسلام کی تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس امر پر خصوصیت سے
زور دیا ہے کہ جو اچھی بات ہے وہ لے لواور جو بُری ہے اُسے چھوڑ دو یعنی ہر ایسی چیز جو تمہارے سامنے آئے اُسے تم محض اس تعصب کی وجہ سے کہ وہ چیز تمہاری نہیں کسی اَور کی ہے اُسے بالکل نہ چھوڑ دیا کرو بلکہ تم یہ دیکھا کرو کہ اس کا کونسا حصّہ اچھا ہے اور کونسا حصّہ بُرا ہے۔ پھر اچھے حصّے کو لے لیا کرو اور بُرے حصّے کو چھوڑ دیا کرو۔ اس قسم کی تقریبات بھی یا تو مسلمانوں نے جاری ہی نہیں کیں اور یا اگر جاری کی ہیں تو محض دوسرے لوگوں کی نقل کرتے ہوئے جاری کی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے (اور وہ زمانہ چھوٹا نہیں بلکہ صدیوں کا ہے) کہ انہوں نے اپنے ماضی کے واقعات کو یاد نہ رکھا۔ اُنہوں نے یہ یا دنہ رکھا کہ وہ کن باپ دادا کی اولاد ہیں اور پھر ان باپ دادوں کے کیا اطوارتھے۔ وہ بالکل وحشیوں اور جانوروں کی طرح ہو گئے جو اپنے آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ چنانچہ دیکھ لو جانوروں کا کوئی ماضی نہیں ہوتا اُنہیں پتہ نہیں ہوتا کہ اُن کا باپ کون تھا، اُن کا دادا کون تھا، اُن کا پڑدادا کون تھا لیکن انسان اپنے باپ دادوں کا نام یاد رکھتا ہے۔ مگر مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیا جب وہ اپنے ماضی کو بھُول چکے تھے اور وہ اُن جانوروں کی طرح ہو گئے تھے جو اپنے آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یا پھر وہ غیر لوگوں کے نقّال ہو گئے اور اُنہوں نے اپنے ماضی کی تاریخ کو حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا۔ انہیں جو کچھ حصّہ ماضی کی تاریخ کا ملتا تھا اُنہوں نے اُسے بھی نظر انداز کر دیا اور سمجھ لیا کہ ہمیں اپنی سابقہ روایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُن میں انتشار پیدا ہو گیا۔ جیسے دریامیں بہت سی کشتیوں کو آپس میں رسّوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تو اُن پر بچّے بھی چلتے ہیں، جوان بھی چلتے ہیں، مرد بھی چلتے ہیں اور عورتیں بھی چلتی ہیں، گائے، بیل، اُونٹ، گھوڑے اور بکریاں بھی چلتی ہیں لیکن جب کسی جگہ کشتیوں کے رسّے ٹوٹ جاتے ہیں اُن کے بندھن کھل جاتے ہیں تو پھر کوئی کشتی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کوئی کسی طرف۔ ایسی کشتیوں سے کوئی مُلک یا کوئی قوم فائدہ نہیں اُٹھا سکتی کیونکہ بندھن ٹوٹ جانے کے بعد کشتیوں میں فاصلہ ہو جاتا ہے اور ہر ایک کی جہت بدل جاتی ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے جو قومیں اپنی روایات کو قائم رکھتی ہیں اور اپنے ماضی کو بھُلا نہیں دیتیں اُن کی مثال اُن کشتیوں کی سی ہوتی ہے جنہیں درمیان سے باندھ دیا جاتا ہے اور وہ دریا پر ایک پُل بنا دیتی ہیں اس طرح لوگ اُن سے بہت کچھ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ اور جو قومیں اپنے ماضی کو بھُول جاتی ہیں اور اپنی سابقہ روایات کو ترک کر دیتی ہیں اُن کی مثال ان کشتیوں کی سی ہوتی ہے جن کے درمیان کوئی بندھن نہیں ہوتا اور نہ اُن پر ملّاح سوار ہوتے ہیں بلکہ وہ پانی کی رَو کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہیں۔ ایسی کشتیوں سے کوئی انسان، کوئی قوم اور کوئی مُلک فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔
پس سابقہ روایات یا باپ دادوں کی حکایات اور اُن کا طور و طریق راہ نمائی کے لئے نہایت ضروری ہیں لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے اُسے نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے اگر آج ہم اپنے باپ دادوں کا طور و طریق اور اُن کی عادات اور روایات معلوم کرنا چاہیں تو ہمارے لئے مُشکل پیش آجاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحابہ ؓ سے نیچے اُتر کر ہم اپنے باپ دادا کے حالات کو نہیں جانتے۔ حالانکہ مُلک کے مختلف حالات جو کسی متمدّن قوم پر گزرتے ہیں وہ مسلمانوں کے درمیانی عرصہ میں گزرے صحابہ ؓ پر نہیں گزرے۔ صحابہ ؓ چند غریب اور سادہ طبع لوگ تھے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو وہ آپ پر ایمان لے آئے اور پھر اﷲ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کو پھیلاتے رہے۔ صحابہ ؓ کے وقت نہ تو متمدّن حکومتیں تھیں، نہ اُن کے وقت میں وہ دفاتر تھے جن کی متمدّن حکومتوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ نہ اُن کے زمانہ میں کوئی تمدّنی ترقی ہو ئی یعنی نہ اُن کے زمانہ میں سڑکیں بنائی گئیں، نہ نہریں کھودی گئیں، نہ پُل بنائے گئے۔ اس کے لئے انہیں فرصت ہی نہیں تھی۔ بنو اُمّیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کو اس قسم کے کاموں کے لئے فرصت ملی اور اُنہوں نے بہت سا کام بھی کیا لیکن افسوس کہ اس زمانہ کے تمدّنی حالات محفوظ نہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے شاندار ماضی سے کٹ گئے ہیں لیکن پھر بھی جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُسے قائم رکھیں اور اس کے ساتھ رشتہ و تعلق قائم کریں تاکہ ہماری مثال ایک پُل کی سی ہو جائے نہ کہ اُن کشتیوں کی سی جو کسی رسّہ سے بندھی ہوئی نہ ہوں اور پانی کی رَو کے ساتھ ساتھ بہتی چلی جارہی ہوں کیونکہ اُن کا کوئی مصرف نہیں ہوتا۔
مَیں بتا رہا تھا کہ مسلمانوں میں اس قسم کی تقریبات نہیں تھیں یا موجود تھیں تو اُنہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا لیکن یوروپین لوگوں میں ان تقریبات کا رواج ہے اور اُنہوں نے اُن سے بہت فوائد اُٹھائے ہیں۔ یوروپین قومیں ایسی تقریبات مناتی ہیں اور ایسے مواقع پر سٹوڈنٹس کے علاوہ ماں باپ یا سٹوڈنٹس کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کو بھی بُلا لیتی ہیں۔ ان میں چونکہ پردہ کا رواج نہیں اس لئے اس قسم کی تقریبات پر سٹوڈنٹس کی مائیں بھی آجاتی ہیں اور اُن کے باپ بھی آجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں پردہ کا رواج ہے اس لئے یہاں خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَاکَدِرَ کے ماتحت لڑکیوں کے ادارے ماؤں کو بُلا لیں اور لڑکوں کے ادارے باپوں کو بُلا لیں۔ اسی طرح ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کو اپنے بچوں اور عزیزوں کی سکول کی دیواروں کے پیچھے کی زندگی کا علم ہو جاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں چونکہ ایسا کوئی فنکشن (Function) نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کو اپنے بچوں اور عزیزوں کی سکول لائف دیکھنے کا موقع مِل سکے۔ اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دس پندرہ سال تک اپنے بچوں کی سکول لائف سے اس طرح غافل رہتے ہیں جیسے کوئی مَرد ایک پردہ دار عورت کی زندگی سے ناواقف ہوتا ہے۔ اس طرح باپ بیٹے کے درمیان جو اصلاح کا باہمی تعلق ہے وہ کٹ جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم سے ماؤں کو اتنی ناواقفیت ہوتی ہے جتنی انہیں ایک غیر مُلک کی عورت سے ہوتی ہے باوجود اس کے کہ سکول ان کے پاس ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ سکول عورتوں کا ہوتا ہے جس میں وہ بآسانی جاسکتی ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کی لڑکیوں کی تعلیم کیا ہے، ان کے کیا حالات ہیں، انہیں کس طرح پڑھایا جاتا ہے۔ اس مغائرت کو دُور کرنے کے لئے یوروپین قوموں نے بعض تقریبات مقرر کر رکھی ہیں وہ سال میں ایک یا دو دفعہ ماؤں کو سکول یا کالج میں بُلا لیتی ہیں اور مائیں اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں کہ اُن کی لڑکیاں پڑھ رہی ہیں، کھانا پکا رہی ہیں۔ یا مثلاً ایسے موقع پر کسی لڑکی نے انعام حاصل کیا ہو تو ماؤں کو اس طرح توجہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کی لڑکی بھی محنت کرے اور انعام حاصل کرے۔ یا وہ دیکھتی ہیں کہ سکول یا کالج کی لڑکیاں مہذّب اور شائستہ ہیں اور ان کی لڑکی اکّھڑ مزاج ہے، اس کا طوروطریق ان کا سا نہیں تو وہ ادارے سے تعاون کر کے اپنی لڑکی کی اصلاح کی کوشش کرتی ہیں۔
اپنی ماؤں کو بھی اس تقریب میں لاؤ
پس ایک تو اس تقریب کو اس بات کا ذریعہ بناؤ کہ
لڑکیوں کی ماؤں اور ان کی دوسری بزرگ عورتوں کو ان تقریبات میں بلاؤ تاکہ وہ اپنی لڑکیوں کی سکول لائف سے واقف ہوں اور تا وہ تمہارے ادارہ سے تعاون کرتے ہوئے اپنی لڑکیوں کی مناسب اصلاح کر سکیں۔ مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس وقت غالباً کالج کی لڑکیوں کے علاوہ سکول کی لڑکیوں کو بُلا لیا گیا ہے یا ان کے علاوہ بعض ان لحاظ والی عورتوں کو بُلا لیا گیا ہے جن کا بُلانا مناسب سمجھا گیا ہے۔ حالانکہ چاہئے تھا کہ لڑکیوں کی ماؤں یا بڑی عورتوں کو اِس موقع پر خصوصیت سے دعوت دی جاتی کہ وہ یہاں آئیں اور اس تقریب میں شامل ہو کر اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت، اُن کے کام اور طَور و طریق کو خود دیکھیں اور معلوم کریں کہ کیا اُن کی لڑکیاں تعلیمی لحاظ سے ترقی کر رہی ہیں؟
دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح لڑکیوں کے رشتہ داروں کو سکول یا کالج سے محبت ہو جاتی ہے۔ تیسرے جب انہیں اپنی لڑکیوں کی تعلیمی زندگی سے واقفیت ہو جاتی ہے تو اُن میں غیریّت اور اجنبیّت کا احساس باقی نہیں رہتا اور باوجود اس کے کہ اُن کی لڑکیاں سکول کی دیواروں کے پیچھے ہوتی ہیں وہ انہیں اِن دیواروں کے پیچھے سے بھی نظر آتی رہتی ہیں۔
اس تمہید کے بعد مَیں کالج کی منتظمات اور طالبات کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ مَیں نے ابھی بتایا ہے ٹریڈیشنز (Traditions) نہایت ضروری چیز ہیں۔ ٹریڈیشنز یعنی روایاتِ سابقہ انسان کے مستقبل کے بنانے میں بڑی مُمدّ ہوتی ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ دُنیا کے تمام انسان ایک شخص یعنی آدم ؑ کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں اور سائنس کی تھیوری کو لے لیا جائے تب بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تمام قبائل اور قومیں کسی نہ کسی کی نسل سے چلی ہیں۔ پس ساری دُنیا نہ سہی تم قبائل اور قوموں کو ہی لے لو، اُن پر نظر دوڑانے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ بعض قبیلے بہادر ہوتے ہیں اور بعض بُزدل ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی بہادر اور کوئی بُزدل کیوں ہوتا ہے مثلاً قوموں میں سے بنگالیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑائی کے قابل نہیں، کشمیریوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑائی کے قابل نہیں۔ حالانکہ وہ بھی آدم ؑ کی نسل سے ہیں۔ بنگالی اور کشمیری بھی اُسی آدم کی اَولاد ہیں جس طرح دوسری قومیں پٹھان، راجپوت اور مُغل وغیرہ۔ کشمیری اور پٹھان تو ایک ہی نسل سے ہیں لیکن ایک نسل کی دو شاخوں میں سے ایک شاخ یعنی پٹھان بہادر ہوتے ہیں اور ایک شاخ یعنی کشمیری بُزدل ہوتے ہیں۔ بنگال میں بھی بعض ایسے قبائل ہیں جو لڑائی کے لحاظ سے اچھے ہیں۔ اب اگر ایک نسل کو بھی لیا جائے تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ بنگالیوں میں سے بعض لوگ بُزدل ہوتے ہیں اور بعض بہادر ہوتے ہیں۔
پس تم ان چیزوں سے یہ نتیجہ نکال سکتی ہو کہ اخلاق قوموں میں بدلتے رہتے ہیں۔ اخلاق صرف نسل کے ساتھ نہیں چلتے جاتے بلکہ بعض اَور ذرائع بھی ہوتے ہیں جن سے اخلاق ترقی کرتے ہیں۔ اگر اخلاق نسل سے چلتے تو اُس نسل کے سارے حصّوں میں ایک ہی خُلق ہوتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک حصّے میں کوئی خُلق ہوتا ہے اور دوسرے حصّہ میں کوئی خُلق ہوتا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ نسل کے علاوہ اَور بھی بعض فیکٹرز، موجبات اور ذرائع ایسے ہیں جو اخلاق پیدا کرتے ہیں۔ وہ فیکٹرز، موجبات اور ذرائع کیا ہیں؟ ان میں سے ایک موجب اور ایک فیکٹر صحبت ہے۔ جس قسم کی صحبت میں انسان رہتا ہے اُسی قسم کے اخلاق کو وہ قبول کر لیتا ہے۔ پھر ایک فیکٹر اور موجب تعلیم ہوتی ہے جیسی تعلیم کسی کو دی جاتی ہے اسی قسم کے اخلاق کو وہ قبول کر لیتا ہے۔پھر ایک بڑا فیکٹر اور موجب اخلاق کا روایت ہوتی ہے جسے انگریز ٹریڈیشنز (Traditions) کہتے ہیں یعنی ماضی کی روایات کہ فلاں کا باپ ایسا تھا، دادا ایسا تھا، پڑدادا ایسا تھا۔ جب یہ باتیں کسی کے ذہن میں ڈالی جاتی ہیں تو انسان آہستہ آہستہ اُن کو اپنا لیتا ہے اور وہ اس کی طبیعت کا ایک جُزو بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب کا کنٹرول اور قبضہ نسل کی نسبت لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی بڑے آدمی سے چلے۔ ممکن ہے کہ کوئی نسل اور خاندان کسی ایسے فرد سے چلا ہو جو اچھے کیریکٹر کا مالک نہ ہو اور تم اس کے حالات کو سامنے رکھ کر کوئی اچھا نتیجہ اخذ نہ کر سکتی ہو۔ لیکن مذہب جب بھی چلے گا کسی بڑے آدمی سے چلے گا۔ خاندان اور نسل کسی چھوٹے اور ذلیل انسان سے بھی چل پڑتی ہے۔ ایک بُزدل آدمی کے بھی 12بچّے ہو سکتے ہیں اور پھر ان 12بچوں میں سے بھی ہر ایک کے 12،12بچے ہو سکتے ہیں اور پھر ان کے آگے بچے ہو سکتے ہیں اور جب سَو سال میں وہ دس بیس ہزار افراد تک جا پہنچتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ جب دس، پندرہ، بیس یا پچاس افراد ہوتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی شناخت ہوتی ہے تو وہ ایک خاندان کہلانے لگ جاتا ہے اور جب جانے بوجھے لو گوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے تو وہ قبیلہ بن جاتا ہے اور جب اُن کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے تو وہ ایک قوم بن جاتی ہے۔
پس قوم کسی خاص چیز کا نام نہیں۔ قوم محض نام ہے آپس میں تعلق رکھنے والے اور ایک دوسرے کو شناخت کرنے والے لوگوں کے گروہ کا۔ جب جانے بوجھے لوگوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک الگ قوم شمار کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنا ایک نام رکھ دیتے ہیں۔ جب اس نام کی قوم کا آدمی دوسرے کو چلتا پھرتا مِل جاتا ہے تو وہ اس سے چمٹ جاتا ہے کہ اچھا آپ بھی فلاں قوم میں سے ہیں! مَیں بھی اسی قوم میں سے ہوں۔ مثلاً ایک پٹھان کو کوئی اَور پٹھان مِل جائے تو وہ کہے گا اچھا آپ پٹھان ہیں! مَیں بھی پٹھان ہوں۔ یہی دوسری قوموں کا حال ہے۔ غرض اسی طرح لوگ اکٹھے ہوتے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک الگ قوم کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس ضروری نہیں کہ کسی قوم کی ابتداء کسی بڑے آدمی سے ہوئی ہو۔
مسلمانوں اور ہندوؤں کی بعض قومیں ایسی دیکھی گئی ہیں جو ابتداء میں بعض معمولی آدمیوں سے چلی ہیں بلکہ بعض قومیں ڈاکوؤں سے چلی ہیں۔ سرگودھا اور جھنگ کے ضلعوں کے بعض قبیلے ایسے ہیں کہ اگر اُن کے ناموں کی تحقیق کی جائے تو پتہ لگتا ہے کہ کسی وقت ان کا مورثِ اعلیٰ ڈاکو تھا۔ اب اگرکسی ڈاکو کی اولاد سینکڑوں یا ہزاروں تک پہنچ جائے اور وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں تو گو انہیں ایک قوم کہا جائے گا لیکن ایسی قوم کی کوئی ٹریڈیشن یا روایت نہیں ہوتی کہ آئندہ آنے والے ان پر فخر کریں۔ اب یہ بات کہ فلاں قوم کا مورثِ اعلیٰ ڈاکو تھا، اس نے فلاں کی گردن کا ٹ لی تھی، فلاں کو اس نے لُوٹ لیا تھا، یہ ایسی بات نہیں جن پر اخلاق کی بنیاد رکھی جائے۔ لیکن مذہب ہمیشہ اچھوں سے چلتا ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آدمی ڈاکہ مارنے والے، فریب کرنے والے ، ظلم کرنے والے، دوسروں کے اموال کھانے والے اور دغا باز نہیں ہوتے۔ وہ عدل و انصاف اور سچائی کو پھیلانے والے ہوتے ہیں۔
مذہب کا ایک فائدہ
پس جہاں مذہب کے اور فوائد بھی ہیں وہاں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اُس کی طرف منسوب ہونے والا
بجائے اپنے باپ دادوں سے ٹریڈیشن لینے کے مذہب سے ٹریڈیشن لے لیتا ہے کیونکہ اس کے باپ دادوں کی روایات ایسی نہیں ہوتیں کہ وہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کا موجب ہو سکیں۔ اس بارہ میں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جب گھوڑے سے گِرے تو آپ کی صحت کو سخت دھکّا لگا اور آپ بیہوش ہو گئے۔ لوگوں کو پتہ لگا تو وہ آپ کی خبر لینے آجاتے اور پھر سوال بھی کرتے۔ بیہوشی میں اس قسم کے سوالات کرنے مُضِر ہوتے ہیں اِس لئے ڈاکٹروں نے منع کیا ہؤا تھا کہ آپ کے کمرہ میں کوئی نہ جائے۔ چنانچہ مَیں نے آپ کے کمرہ کے دروازے بند کر دیئے اور نیک محمد خاں صاحب افغان کو مقرر کیا کہ وہ کسی کو اندر نہ جانے دیں۔ نیک محمد خاں احمدیت میں نئے نئے آئے تھے اور افغانستان کے اچھے شریف خاندان میں سے تھے۔ اُن کا باپ ایک صوبہ کا گورنر تھا۔ جب احمدیت قبول کر لینے کی وجہ سے اُن کی مخالفت شدّت اختیار کر گئی اور حالات بگڑ گئے تو وہ قادیان آگئے۔ اُس وقت اُن کی عمر 16،17 سال کی تھی۔ اس کے بعد وہ قادیان میں ہی رہے۔ نیک محمد خاں صاحب بہت چُست اور ہوشیار تھے۔ اس لئے مَیں نے انہیں پہرہ پر مقرر کیا اور ہدایت کی کہ وہ کسی شخص کو اندر نہ جانے دیں اور انہیں خاص طور پر بتایا کہ دیکھو بعض دفعہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے کوئی بڑا آدمی آجاتا ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید وہ حکم اس کے لئے نہ ہو۔ اس لئے یاد رکھو کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سوائے ڈاکٹروں اور ہم لوگوں کے جو خدمت پر مامور ہیں تم کسی شخص کو اندر نہ جانے دو۔ وہ کہنے لگے بہت اچھا۔ شام کے وقت مَیں آیا تو دیکھا کہ بعض لوگ چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ نیک محمد خاں نوجوان تھے۔ سولہ سترہ سال کی عُمر میں قادیان آئے تھے اور ایک شریف خاندان سے تھے۔ اُن کا باپ ایک معزّز آدمی تھا۔ اس وجہ سے اُن کے پٹھان ہونے میں کوئی شُبہ نہیں تھا لیکن ایک اَور قسم کے پٹھان بھی ہمارے مُلک میں ہوتے ہیں جن کے باپ دادے چار پانچ سَو سال ہوئے اس مُلک میں آئے وہ بھی اپنے آپ کو پٹھان کہتے ہیں لیکن چونکہ ایک لمبا عرصہ گزر جاتا ہے اس لئے یہ پتہ لگانا ذرا مُشکل ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت کون ہیں۔ ممکن ہے وہ پٹھان ہوں یا ممکن ہے کسی اَور قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور پٹھانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے پٹھان کہلانے لگ گئے ہوں لیکن کہتے وہ یہی ہیں کہ وہ پٹھان ہیں۔
ہماری جماعت کے ایک دوست اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی ہؤا کرتے تھے۔ اُن کی قوم بھی پٹھان کہلاتی تھی۔ اُن کے باپ دادا کئی سَو سال ہوئے ہندوستان میں آئے تھے لیکن انہیں اپنے پٹھان ہونے پر بہت فخر تھا۔ وہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی تیمارداری کے لئے آئے۔ معلوم نہیں اُن کے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی کتنی محبت تھی لیکن ظاہر وہ یہی کیا کرتے تھے کہ اُنہیں آپ سے بہت بڑی عقیدت ہے۔ جب اُنہوں نے سُنا کہ حضور گھوڑے سے گِر پڑے ہیں اور بیہوش ہو گئے ہیں تو وہ گھبرا کر آئے اور اُنہوں نے اندر جانا چاہا۔ دروازہ پر نیک محمد خاں صاحب کھڑے تھے اُنہوں نے اندر جانے سے روکا۔ بعض لوگوں کو اپنی قومیت پر حد سے زیادہ غرور ہوتا ہے۔ اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو بھی اپنی قومیت پر فخر تھا۔ حالانکہ اُن کے باپ دادا کئی سَو سال ہوئے ہندوستان آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا مطلب؟ نیک محمد خاں صاحب نے کہا۔ اندر جانا منع ہے۔ اُنہوں نے کہا۔ مَیں نہیں جانتا کس نے اندر جانا منع کیا ہے۔ مَیں ضرور جاؤں گا۔ چنانچہ وہ پھر آگے بڑھے۔ اس پر نیک محمد خاں صاحب نے انہیں دھکّا دے دیا۔ اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی کو غصّہ آیا اور اُنہوں نے کہا تم نہیں جانتے مَیں کون ہوں؟ مَیں پٹھان ہوں۔ گویا وہ چار پانچ سَو سال کی پٹھانی کا رُعب ایک نئے آئے ہوئے پٹھان پر ڈالنے لگے۔ نیک محمد خاں صاحب نئے نئے احمدیت میں آئے تھے اور احمدیت کی وجہ سے اُنہوں نے دُکھ اور تکالیف برداشت کی تھیں اس لئے اُن کا جوش تازہ تھا۔ جس وقت اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی نے کہا کہ تمہیں پتہ ہے مَیں کون ہوں؟ مَیں پٹھان ہوں۔ تو نیک محمد خاں صاحب نے کہا تمہیں پتہ نہیں مَیں کون ہوں؟ مَیں احمدی ہوں۔
اب دیکھ لو جس کی پٹھانیت مشتبہ تھی وہ تو یہ کہتا ہے کہ مَیں پٹھان ہوں لیکن جس کی پٹھانی میں کوئی شُبہ نہیں تھا وہ کہتا ہے مَیں احمدی ہوں۔ حالانکہ ممکن ہے کہ اکبر شاہ خاں صاحب کسی اَور قوم سے ہوں لیکن پٹھانوں میں رہنے کی وجہ سے پٹھان کہلانے لگ گئے ہوں۔ جیسے ایک میراثی کا لطیفہ مشہور ہے۔ جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی تو بعض قوموں کو زمین خریدنے کی اجازت نہ تھی اور بعض کو خریدنے کی اجازت تھی۔ بعض علاقوں میں سیّد زمین خرید سکتے تھے اور بعض علاقوں میں وہ زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ بعض علاقوں میں انہیں زمیندار سمجھا جاتا تھا اور زمین خریدنے کی انہیں اجازت تھی لیکن بعض علاقوں میں انہیں غیر زمیندار سمجھا جاتا تھا اس لئے وہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ میراثیوں کا ایک خاندان تھا جس کے بڑے بڑے افسروں سے تعلقات تھے۔ اُنہوں نے روپیہ جمع کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب وہ بہت مالدار ہو گئے۔ اب اُنہوں نے خیال کیا کہ یہ اُن کی بے عزتی ہے کہ لوگ اُنہیں میراثی کہیں۔ میراثیوں کے نزدیک ''میراثی'' دراصل میرآثی ہے یعنی اصل میں وہ ہیں تو سیّد لیکن کسی وقت اُن کے سردار کا کسی گناہ کی وجہ سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا۔ اس لئے لوگوں نے انہیں میراثی کہنا شروع کر دیا۔ بہرحال وہ سیّد بن گئے۔ روپیہ جمع تھا ہی اس لئے اُنہوں نے زمین خریدلی۔ جن لوگوں سے اُنہوں نے زمین خریدی تھی اُن کا ہمسایہ ایک زمیندار تھا۔ وہ مالدار تو نہیں تھا لیکن تھا عقلمند اور حوصلہ والا۔ اس نے اُن کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور کہا وارث ہم ہیں یہ لوگ زمین نہیں خرید سکتے اور دلیل یہ دی کہ یہ سیّد نہیں ہیں میراثی ہیں اور چونکہ یہ سیّد نہیں اس لئے یہ زمین نہیں خرید سکتے۔ میراثیوں کا رسُوخ تھا اس لئے اُنہوں نے روپیہ دے کر گواہ پیش کرنے شروع کئے۔ ان گواہوں میں ایک عورت بھی تھی جو زمیندار تھی لیکن تھی غریب۔ میراثی اُس کے پاس بھی گئے اور کہا تم ایک سَو روپیہ لے لو اور یہ گواہی دو کہ ہم واقع میں سیّد ہیں۔ اس عورت نے روپیہ تو لے لیا اور بظاہر گواہی کا وعدہ بھی کر لیا لیکن دل میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اُن کے خلاف گواہی دے گی اور عدالت میں کہے گی کہ یہ لوگ سیّد نہیں میراثی ہیں۔ چنانچہ وہ عورت عدالت میں گئی۔ مجسٹریٹ نے اس سے دریافت کیا تم بتاؤ کیا یہ لوگ فی الواقع سیّد ہیں؟ اس نے کہا ان لوگوں کے سیّد ہونے میں کوئی شُبہ نہیں یہ تو پکّے سیّد ہیں۔ مجسٹریٹ کو قدرتی طور پر شُبہ ہؤا کہ اُس نے پکّے کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے۔ اُس نے دریافت کیا تمہارے پکّے سیّد کہنے کا کیا مطلب ہے؟ اس عورت نے کہا باقی لوگ تو چار چار پانچ پانچ سَو سال سے اس علاقے میں آئے ہوئے ہیں ان کے متعلق تو صحیح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سیّد ہیں یا نہیں لیکن یہ لوگ تو پکّے سیّد ہیں۔ مَیں ذاتی طور پر اِن کے سیّد ہونے کی گواہ ہوں کیونکہ یہ میراثی تھے اور ہمارے سامنے سیّد بنے ہیں۔ اس لئے اِن کے سیّد ہونے میں کوئی شُبہ نہیں۔ چنانچہ زمین اُن سے چھین لی گئی۔
پس اگر روایات محفوظ ہوں تو قبائل اور اقوام کے متعلق تحقیقات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک یہودی سے پوچھو تو چونکہ اس کی نسل محفوظ ہے اس لئے وہ فوراً یہ کہہ دے گا کہ اتنے سَو سال پہلے میرے دادا کا نام ابراہیم (علیہ السلام) تھا لیکن ایک دوسری قوم والے سے پوچھو تو وہ یہ بھی نہیں بتا سکے گا کہ اُن کا پڑدادا کون تھا۔ غرض کسی قوم کا پُرانا ہونا اور اس کی روایات کا محفوظ ہونا افراد کے اندر بہادری اور جرأت کی صفات پیدا کر دیتا ہے۔ مثلاً راجپوت ہیں۔ راجپوت ایک لڑنے والی قوم ہے۔ اگر ہوشیار والدین ہوں گے تو وہ اپنے بچّے سے ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ دیکھو! تمہارے باپ دادا بڑے بہادر تھے، وہ ایسے لڑنے والے تھے، وہ ایسی قربانی کرنے والے تھے، ان باتوں کا اُس پر اتنا اثر ہو گا کہ جب بھی لڑنے کا موقع آئے گا سُنی ہوئی باتیں اُسے یاد آجائیں گی۔ وہ جان کی پرواہ نہیں کرے گا اور کہے گا کہ جب میرے ماں باپ نے قُربانیاں کی تھیں تو مَیں کیوں نہ قربانی کروں۔ گویا ایک آدمی کو قُربانی کے وقت اس کے ماں باپ پیچھے سے دھکّا نہیں دیتے اور ایک کو چار پانچ سَو سال کے باپ دادے جن کی روایات اُسے معلوم ہوتی ہیں قُربانی کے وقت اُسے آگے کی طرف دھکّا دیتے ہیں۔ اس لئے وہ قربانی اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے اور وہ اُسے کر گزرتا ہے۔
مُغلوں کو دیکھ لو قریباً گیارہ سَو سال سے یہ معروف ہیں۔ اس سے پہلے یہ لوگ منگولیا کے علاقے میں رہتے تھے جو ایک برفانی علاقہ ہے۔ اس لئے کسی کو یہ علم نہیں کہ اُن کی وہاں کیا شان تھی۔ تاریخ اس پر بہت کم روشنی ڈالتی ہے۔ گیارہ سَو سال ہوئے یہ لوگ فاتح ہوئے۔ اب ہوشیار مُغل ماں باپ اپنے بچوں پر یہ اثر ڈالتے رہتے ہیں کہ تمہارے باپ دادوں کے یہ کیریکٹر تھے، وہ جنگجو تھے، اُنہوں نے کئی مُلک فتح کئے، اُنہوں نے ایک طرف یورپ کو فتح کیا تو دوسری طرف ہندوستان اور چین تک وہ چلے گئے اور سینکڑوں سال تک اُنہوں نے ان علاقوں کو قبضہ میں رکھا۔ اس لئے تم بھی آگے بڑھو اور دُنیا کو فتح کرنے کی کوشش کرو۔ اِن خیالات کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وقت آنے پر وہ پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ آگے بڑھے گا اور پھر وہ اکیلا نہیں لڑرہا ہو گا بلکہ اُس کے باپ دادے اُسے پیچھے سے دھکّا دے رہے ہوں گے۔ لیکن ایک ایسی قوم کا آدمی جس کی ہسٹری اور تاریخ محفوظ نہیں، اُسے یہ پتہ ہی نہیں کہ اُس کے باپ دادے شریف تھے یا بدمعاش تھے، بہادر تھے یا بُزدل تھے، وہ میدانِ جنگ میں اکیلا لڑرہا ہو گا اور اکثر اوقات وہ بُزدلی دکھا جائے گا۔
غرض روایات ایک جتھا بنا دیتی ہیں۔ اس لئے روایتوں کا محفوظ رکھنا قوم کی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لئے یورپ میں سکولوں اور کالجوں نے اپنے اپنے ماٹو مقرر کئے ہوئے ہیں اور طلباء اور پروفیسروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے اخلاق کو اپنے اندر پیدا کریں اور پھر انہیں دوسروں کے اندر بھی جاری کرنے کی کوشش کریں۔
ہندوستان میں صرف علی گڑھ کالج تھا جس نے اپنی روایات کو قائم رکھنے کی بنیاد ڈالی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء ہمیشہ دوسروں سے ممتاز رہے ہیں اور اُنہوں نے بڑی وسیع الحوصلگی دکھائی ہے اور اچھے کام کئے ہیں۔ اسی طرح آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل طالب علم بھی اپنی ٹریڈیشنز اور روایات کو قائم رکھتے ہیں۔ یورپ میں ہر کالج نے اپنا اپنا ماٹو بنایا ہؤا ہے۔ یہاں بھی کالج کو اپنا کوئی نہ کوئی ماٹو، مطمح نظر اور مقصد قرار دینا چاہئے اور اُسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ مثلاً سچائی اور قُربانی ہے۔ اگر یہ ماٹو بنا دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کالج کی سٹوڈنٹس کے اندر یہ اخلاق نمایاں طور پر پیدا ہوں تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں بھی لڑکی جائے گی یہ ماٹو اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اس کو پھیلانے کی پوری کوشش کرے گی۔
پھر ماٹو مقرر کرنے کے بعد کالجوں کے منتظمین کتابوں اور کاپیوں پر اس کی مُہریں لگا دیتے ہیں۔ قمیصوں پر گلے کے قریب ویسے نشان لگا دیتے ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ کالج سے نِکل کر ایک نسل تیار ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہ پہلے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں پھر اُن کی اولاد ہوتی ہے، پھر اُن کے پوتے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے چلتا چلا جاتا ہے اور انہیں یگانگت اور وحدانیت کا احساس ہوتا جاتا ہے۔ جس طرح خاندان چلتا ہے اسی طرح اس خاندان میں ایک رِیت چلتی چلی جاتی ہے مثلاً آکسفورڈ کا ایک فارغ التحصیل طالب علم جب دوسرے شخص کے کپڑے پر آکسفورڈ کا نشان دیکھے گا تو وہ اس کی طرف دَوڑپڑے گا اور خوشی سے کہے گا اچھا! تم آکسفورڈ میں پڑھتے رہے ہو۔ چاہے وہ فرانس کا ہو، جرمنی کا ہو یا کسی اَور مُلک کا جب بھی وہ آکسفورڈ کے دوسرے طالب علم کو دیکھے گا وہ اس کی طرف بڑھے گا اور اُسے تپاک سے ملے گا۔ اسی طرح کیمبرج یونیورسٹی کے طلباء کا حال ہے۔
اپنا ماٹو بناؤ
پس تمہیں بھی اپنی ٹریڈیشنز اور روایات قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تم بھی اپنا ماٹو بناؤ۔ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ غور کر کے دو تین
اخلاق کو لے لیاجاتا ہےاور انہیں ہر چیز پر لِکھ لیا جاتا ہے۔ کمروں اور ہال میں اُسے لِکھ کر لگا دیا جاتا ہے۔ کتابوں اور کاپیوں پر اس کی مُہریں لگا دی جاتی ہیں۔ اس سے طالب علم کو وہ باتیں یاد آتی رہتی ہیں اور وہ انہیں ہر وقت اپنے سامنے رکھتا ہے۔ پروفیسر بھی اس کا خیال رکھتے ہیں اور طالب علموں کا بھی کام ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ خود انہیں اپنے سامنے رکھیں بلکہ اپنے ساتھیوں میں بھی ان اخلاق کے پیدا کرنے کی تحریک کرتے رہیں۔ پہلے وہ اخلاق ایک مخصوص طبقہ میں ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ اس سے ایک خاندان بن جاتا ہے۔
پس تم بھی اپنا ایک ماٹو بناؤ۔ شریعت کے بعض ایسے احکام کو لے لیا جائے جن کے نتیجہ میں بعض خاص قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔ یا بعض نقائص مدِّ نظر رکھ لو اور انہیں دُور کرنا اپنا مقصد بنا لو۔ مثلاً ہمارے مُلک میں محنت کی عادت نہیں جس کی وجہ سے ہمارے سارے کام خراب ہو جاتے ہیں۔ تم اپنے ایک صنّاع کے پاس جاؤ اور اُسے ایک چیز بنانے کو کہو تو وہ مثلاً اُسے آٹھ آنے میں بنائے گا لیکن ایک یوروپین کاریگر کے پاس جاؤ تو وہ وہی چیز ایک آنہ میں بنا دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اُنہوں نے محنت کی عادت ڈال کر اپنے ہاتھ کو تیز بنا لیا ہے اس لئے اُن کا مزدور جلدی کام کر لیتا ہے اور ہمارا مزدور دیر میں کام کرتا ہے۔
مَیں جب انگلینڈ گیا تو میرے ساتھ حافظ روشن علی صاحب بھی تھے۔ حافظ صاحب کی طبیعت میں مذاق تھا۔ ایک دن وہ سنجیدگی سے مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ نے یہاں کوئی آدی چلتے بھی دیکھا ہے؟ اب بظاہر اس کا جواب یہی ہو سکتا تھا کہ چلتے تو سارے ہی ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کے متعلق یہ سوال آپ کو کیوں پیدا ہؤا لیکن مَیں اُن کا مطلب سمجھ گیا اور مَیں نے کہا کہ واقع میں مَیں نے یہاں کوئی آدمی چلتے نہیں دیکھا۔ حافظ صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے مَیں نے یہاں ہر ایک آدمی کو دوڑتے دیکھا ہے۔ اگرچہ وہ بھاگتے تو نہیں لیکن جب وہ چلتے ہیں تو اُن کے پاؤں ہم سے تیز پڑتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کوئی رستہ سے گزرتا ہے اور وہاں بِھیڑ ہوتی ہے تو کہتا ہے ''رستہ چھڈو اسیں اگّے لنگھنا اے''۔ لیکن ان میں سے ہر ایک گزرتا جاتا ہے اور کسی کو اپنے راستہ سے ہٹانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ہم نے ایک عمارت پر مزدوروں کو کام کرتے دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آگ لگی ہوئی ہے اور یہ لوگ اُسے بجھا رہے ہیں۔ مزدور بڑی تیزی سے لوہا اور لکڑی لے جارہے تھے لیکن یہاں مزدُور اپنی سُستی کی وجہ سے اس کام کو گراں کر دیتے ہیں۔ مَیں تو اِس کا نقشہ اس طرح کھینچا کرتا ہوں کہ اگر کوئی مزدور کوئی چیز لینے جاتا ہے تو وہ اس طرح ٹوکری اُٹھاتا ہے جیسے کسی کی کمر ٹوٹی ہوئی ہو،وہ ہائے کہہ کر ٹوکری اُٹھاتا ہے اور پھر رینگتے رینگتے معمار تک پہنچتا ہے۔ اگر کوئی مزدور اینٹ اُٹھاتا ہے تو پہلے پھَوں پھَوں کرتا ہے۔ پھر دس گیارہ اینٹیں اکٹھی کرتا ہے۔ پھر آرام کرتا اور سستاتا ہے پھر اُٹھاتا ہے اور جُوں کی طرح چلتا ہے اور دس بارہ منٹ میں مِستری تک پہنچتا ہے۔ پھر مستری بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ لیکن ایک یوروپین اتنے ہی عرصہ میں دس دفعہ مستری تک چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک مزدور کو بہت زیادہ مزدوری دے دیتے ہیں۔
اسی طرح زمیندار ہیں۔ ہمارے ہاں جو پیداوار ہوتی ہے مَیں نے اُس کا یورپ کی پیداوار سے مقابلہ کیا ہے۔ ہمارے مُلک کی پیداوار میں اور یورپ کی پیداوار میں زیادہ فرق نہیں لیکن وہ مزدور کو دس روپے روزانہ دیتے ہیں اور ہمارے ہاں مزدور کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ روپیہ روزانہ ملتا ہے۔ گویا ایک یوروپین مزدور ہمارے مزدور سے چھ گُنے سے بھی زیادہ کما لیتا ہے لیکن اتنی زیادہ اُجرت دے کر بھی اُن ممالک میں ہمارے مُلک سے غلّہ زیادہ سَستا بکتا ہے۔ ماہرینِ زراعت سے مَیں نے اس کے متعلق گفتگو کی ہے کہ ان ممالک کی پیداوار ہمارے مُلک کی پیداوار سے ڈیوڑھی ہے لیکن وہ اپنے مزدور کو دس روپے روزانہ دیتے ہیں اور ہم مزدور کو سوا روپیہ یا ڈیڑھ روپیہ دیتے ہیں اتنا فرق کیوں ہے؟ لیکن ان میں سے اکثر مجھے یہ مُعمّہ نہیں سمجھا سکے۔ اس کی اصل وجہ درحقیقت یہی ہے کہ وہاں مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔ اگر یہاں ہم سَو ایکڑ پر دس مزدور رکھنے پر مجبور ہیں تو وہاں ایک مزدور ہی کام دے جاتا ہے۔ اس لئے ہمارے مُلک میں تین چار گُنا تنخواہ زیادہ لینے کے باوجود وہ ہمارے مُلک کے مزدور سے سَستا رہتا ہے۔ یہ سب باتیں محنت کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ جب تم اپنا ماٹو مقرر کروگی تو اس پر غور بھی کرو گی مثلاً یوروپین ممالک میں کھانا کھڑے ہو کر پکایا جاتا ہے ہمارے ہاں عورتیں بیٹھ کر کھانا پکاتی ہیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کھانا پکانے کا جو طریق ہے اس سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ پھر اتنی پھرتی سے کام نہیں ہو سکتا جتنی پھرتی سے کھڑے ہو کر کام ہوسکتا ہے اس لئے یوروپین ممالک میں کھڑے ہو کر کھانا پکایا جاتا ہے۔ اسی طرح کپڑے بھی کھڑے ہو کر دھوئے جاتے ہیں۔ اس طرح بہت کم وقت میں کام ختم ہو جاتا ہے اور پھر اعضاء میں جو ڈھیلا پن بیٹھنے سے پیدا ہو جاتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح کاڑھنے وغیرہ کا کام ہے۔ یوروپین لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی چیز کتنی خوبصورت کاڑھی ہوئی ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز کتنے وقت میں کاڑھی گئی ہے۔ ان کے ہاں محنت اصل چیز ہے۔ اگر ایک عورت نے چار گھنٹے میں ایک اچھا پھُول کاڑھا ہو اور دوسری عورت نے چارمنٹ میں اس سے ادنیٰ پھُول کاڑھا ہو تو وہ اس عورت کو ترجیح دیں گے جس نے وہ کام چار منٹ میں ختم کر لیا دوسری عورت سے جس نے چار گھنٹہ میں کام کیا۔
پس محنت ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر زور دینا اور اس کی عادت ڈالنا کیریکٹر میں ایک خصوصیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ شریعت کے احکام پر غور کر کے بعض اور اخلاق بھی نکالے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے دو تین اخلاق کو لے لو اور انہیں اپنا ماٹو قرار دے لو۔ پھر ہال میں، کمروں میں، لائبریری کی کُتب پر، سکول کے رجسٹروں پر سب پر ان کی مُہریں لگا لو۔ لباس پر بھی اُسے بطور بیج لگا لو، گلے کے بٹن والے حصّہ پر یا بازو پر کوئی جگہ متعیّن کر لی جائے اور وہاں اُسے لگا لیا جائے تاکہ آہستہ آہستہ یہ کالج کا ایک مخصوص کیریکٹر بن جائے۔ اگر تم اس طرح کام کرو تو تم عملی طور پر بہت کچھ کر لو گی۔
مَیں نے جو کچھ بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنی پچھلی ٹریڈیشنز کو قائم کرو اور دوسری قوموں کی نقل کم کرو۔ دوسرے اس قسم کی تقریبات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے طالبات کی ماؤں کو شامل کرو تا انہیں پتہ لگے کہ ان کی لڑکیاں کالج میں کس قسم کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ تیسرے بعض اخلاق کو اپنا ماٹو قرار دے لو تا وہ تمہارے کالج کی مخصوص روایت بن جائے۔ پھر ہر طالبۂ علم اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تاکہ دیکھنے والے اُسے ایک نمایاں حیثیت دیں’’۔
(‘‘مصباح’’بابت ماہ نومبر 1955ء)








صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے
دفاتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب







از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے
افتتاح کے موقع پر خطاب

(فرمودہ 19نومبر 1953ء )

تشہد، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘مایوسیاں اور ناکامیاں اُن لوگوں کو زیادہ شاق گزرتی اور اُنہیں زیادہ صدمہ پہنچانے والی ہوتی ہیں جو کامیابی کے زمانہ میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی مایوسی نہیں آئے گی۔ اس وجہ سے ہجرت کا جو صدمہ ہماری جماعت کو پہنچ سکتا تھا اور پہنچا اس میں کوئی دوسری جماعت ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی ،شریک نہیں اور شریک نہیں ہو سکتی تھی۔ میری توجّہ تو اﷲ تعالیٰ نے 1934ء سے ہی اِدھر پھیر دی تھی کہ ہمارے لئے اس قسم کا کوئی صدمہ مقدر ہے۔ چنانچہ یہ بات میرے 1934ء کے خطبات میں موجود ہے جن میں یہ مضمون بڑے زور سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد اس کی تکرار رہی ہے لیکن ہماری جماعت نے اس طرف کوئی توجّہ نہ کی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ان کی کسی غلطی یا کمزورئ ایمان کی وجہ سے تھا بلکہ یہ ان کی مضبوطیٔ ایمان کی وجہ سے تھا۔ ہاں یہ الٰہی کلاموں کی تشریح میں کوتاہی اور غفلت کا ثبوت ضرور تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں میں یہ بات موجود تھی کہ قادیان ترقی کرے گا، بڑھے گا، پُھولے گا اور پھلے گا اور احمدیت اس جگہ راسخ ہو گی۔ اس لئے جماعت احمدیہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں اور پیشگوئیوں پر پورا یقین تھا اس میں شُبہ کرنے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں تھی اور یہ ماننے پر آمادہ نہیں تھی کہ قادیان سے انہیں ہجرت کرنا پڑے گی۔ پس ان کا اس بنیاد پر یہ یقین رکھنا کہ چاہے کتنے ہی حوادث ہوں یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے نہیں جائے گی ان کے ایمان کا ثبوت ہے لیکن ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ الٰہی کلاموں اور ان کی تشریحوں میں جو کبھی کبھی تعطل واقع ہو جایا کرتا ہے اور کبھی کبھی ان کی تعبیر وقتی طور پر ٹل بھی جایا کرتی ہے اس کے سمجھنے میں ان کی طرف سے کوتاہی واقع ہوئی۔
جن دنوں قادیان پر حملے ہو رہے تھے اور ہم سب دعاؤں میں مشغول تھے مَیں ایک دن بہت ہی زور سے دُعا کر رہا تھا کہ مجھے الہام ہؤا ‘‘اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأْتِ بِکُمُ اللہُ جَمِیْعًا’’ مَیں نے اُس وقت سمجھ لیا کہ ہمارے لئے عارضی طور پر پراگندگی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی جاؤ مَیں کسی دن برکت اور یُمن کے ساتھ تم سب کو واپس لے آؤں گا۔ یہ آیت قرآن کریم میں ہے اور درحقیقت یہ مسلمانوں کے ہجرت کے بعد مکّہ واپس آنے پر دلالت کرتی ہے اور اس میں دونوں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ ہجرت کی بھی اور ہجرت کے بعد مکّہ واپس آنے کی بھی۔ یعنی پہلے ہجرت ہو گی اور پھر اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو کامیابی کے ساتھ مکّہ واپس لائے گا۔
نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ ہم قادیان واپس جانا چاہتے ہیں اس لئے ہم ہندوستان کے ساتھ سازش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ حب الوطنی کے خلاف تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ اعتراض ایسا ہی بے ہودہ اور ناپاک ہے جیسے کوئی کہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نعوذ باﷲ کفّارِمکّہ سے سازش کر کے مکّہ واپس آنا چاہتے تھے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب خدا نے کہا تھا کہ میں تمہیں مکّہ واپس لاؤں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تم سازش کے ساتھ یا منت سماجت کر کے اور ذلیل ہو کر جاؤ گے بلکہ یہ کہا تھا کہ تم کامیاب و کامران ہو کر مکّہ واپس جاؤ گے۔ پس اگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مکّہ واپس جانا آپ کی کامیابی و کامرانی اور عزت کی دلیل ہے تو یہی بات آپ کے خادموں کے لئے بھی عزت اور ان کے مقرب ہونے کی دلیل ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں اس طرح قادیان واپس نہیں لے جائے گا کہ ہم دیانت اور امانت اور حب الوطنی کے جذبات کو ترک کر کے وہاں جائیں بلکہ وہ ہمیں اس طرح وہاں لے جائے گا کہ ہم دین اور وطن اور حکومت کے لئے عزت کا موجب ہو کر وہاں جائیں گے۔ اس قسم کے معترض محض تنگدلی،عناد اور تعصّب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں اور ان حقائق کے ماننے سے انکار کرتے ہیں جو ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ الٰہی جماعتوں کے ذریعہ دُنیا میں پیش کئے جا چکے ہیں اور جب یہ حقائق کئی دفعہ الٰہی جماعتوں کے ذریعہ دُنیا میں پیش کئے جا چکے ہیں تو ان کے بارہ میں دھوکا نہیں کھایا جاسکتا۔ پس یہ ایک دھکّا تھا جو ہماری جماعت کے لئے پہلے سے مقرر تھا۔ اُس وقت جماعت کے بعض لوگ ان لوگوں کو جنہیں میں قادیان سے باہر بھجوا رہا تھا مل کر یہ کہتے تھے یہ تو چند دن کی بات ہے، تھوڑے دنوں میں یہ حالت دُور ہو جائے گی ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ قادیان ہمارے ہاتھ سے چلا جائے۔ پھر اِن چند دنوں کے لئے اس قدر پریشانی کی کیا ضرورت ہے۔ قادیان کو چھوڑ کر جانا ایمان کی کمی کی علامت ہے مگر آج یہاں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو نظام کے ماتحت قادیان سے باہر آنے والوں پر معترض تھے۔ وہ اُس وقت قادیان سے باہر آنا کمئ ایمان کی علامت قرار دیتے تھے اور اب وہ خود بھی یہاں موجود ہیں۔ گویا جو بات میں نے بتائی تھی وہ صحیح تھی اور جس امر کی طرف ان کا ذہن جارہا تھا وہ غلط تھا۔ لازمی طور پر وہ لوگ جو آنے والوں کو کہتے تھے کہ تم کہاں جارہے ہو یہ تو چند دن کی پریشانی ہے قادیان ہمارے ہاتھ سے نہیں جاسکتا غلطی پر تھے اور ان کی یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں کی تشریح کو نہ سمجھنے اور ان سے اغماض کرنے کی دلیل تھی۔ اب جب وہ اُن لوگوں کے سامنے یہاں بیٹھے ہیں جنہیں وہ قادیان سے آنے پر ملامت کرتے تھے تو انہیں کس قدر شرم آرہی ہو گی اور ان کی طبیعت پر یہ بات کس قدر گراں گزر رہی ہو گی کہ وہ لوگ جنہیں وہ کہتے تھے کہ تم بیوقوف ہو کہ قادیان سے باہر جارہے ہو اب وہ انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ آپ کہاں آگئے۔ بہرحال جس طرح یہ صدمہ جماعت احمدیہ کو پہنچا ہندوستان اور پاکستان کی کسی اَور جماعت کو نہیں پہنچا۔
پھر ہم نے یہ تجویز کی کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں۔ مجھے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ ہمیں نئے مرکز کی ضرورت ہو گی اور ایک رؤیا میں مجھے صاف طور پر نظر آیا تھا کہ ہم ایک نئی جگہ پر اپنا مرکز بنا رہے ہیں۔ اُس وقت بھی اسی اثر کے نیچے یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ ہمیں نئے مرکز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ لوگ ہمارے ساتھ قادیان سے نِکل تو آئے تھے لیکن ابھی ان کے اندر یہ خیال باقی تھا کہ یہ چار پانچ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کی بات ہے اس کے بعد ہم قادیان واپس چلے جائیں گے۔ لیکن میرا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ چاہے چار ماہ کے لئے ہو یا چار دن کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ایک مرکز قائم کرنا چاہئے۔ تم ریل کے تین چار گھنٹے کے سفر میں بھی آرام چاہتے ہو اور سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دین کی اشاعت اور دین کے آرام کا خیال نہ رکھا جائے۔ اس کے لئے مرکز کی تلاش کیوں نہ کی جائے۔ ایک پراگندہ جماعت اشاعتِ دین کا کام نہیں کر سکتی۔ جو جماعت یہ خیال کرتی ہے کہ دس بارہ ماہ اشاعتِ دین کا کام نہ ہؤا تو کیا ہؤا؟ وہ جماعت جیتنے والی نہیں ہوتی شکست خوردہ ذہنیت کی مالک ہوتی ہے۔ کام کرنے والی اور اپنے مقصد کو پورا کرنے والی جماعت وہ ہوتی ہے جو کہے کہ ہمارا ایک دن بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
پھر مَیں نے ان لوگوں کو بتایا کہ دیکھو اتنی بڑی مصیبت ایک دو دن کے لئے نازل نہیں ہؤا کرتی۔ یہ ایک وقت چاہتی ہے۔ جب کبھی خدا تعالیٰ نے کسی مصیبت کو جلدی سے ٹلا دینا ہو تو وہ اسی نسبت سے مصیبت کو نازل کرتا ہے۔ دیکھو جب کسی کاباپ مَرتا ہے، ماں مرتی ہے یا کوئی اور رشتہ دار مرتا ہے جو خاندان کا نگران ہوتا ہے تو کتنی آفت آجاتی ہے۔ اب خدا تعالیٰ نے یہ قانون نہیں بنایا کہ کوئی صبح مَرے تو شام کو جی اُٹھے بلکہ اس کا یہ قانون ہے کہ وہ اگلے جہان میں زندگی پاتا ہے اور اس کے وہ رشتہ دار جو اس سے ملنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد وفات پا کر اس سے ملتے ہیں پہلے نہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو سات آٹھ سال کے بعد مکّہ فتح ہؤا اور اس کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے کہ آپ مکّہ میں نہیں بسے بلکہ صحابہ ؓ نے تو نبوت کے پانچویں سال ہی حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی جس کے معنے یہ تھے کہ وہ 16 سال تک وطن سے الگ رہے پھر کہیں جاکر مکّہ فتح ہؤا۔ مگر جب مکّہ فتح ہؤا تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر بھی مدینہ کو ہی اپنا مرکز بنائے رکھا۔ گویا ان کے لئے ہمیشہ کی ہجرت ہو گئی۔ تو مَیں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تین چار ماہ کی بات نہیں اور اگر یہ تین چار ماہ کی بات بھی ہو تب بھی جب تم تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے لئے آرام چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کے دین اور اشاعت کے لئے سالوں انتظار کیوں کیا جائے۔ بہرحال ایک طبقہ کی مخالفت کے باوجود جماعت نے یہی فیصلہ کیا کہ میری رائے ہی ٹھیک ہے اور ہمیں مرکز بنانا چاہئے۔ چنانچہ یہ جگہ جو میری بعض پُرانی خوابوں سے مطابقت رکھتی تھی مرکز کے لئے تجویز کی گئی۔ جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں تھوڑے ہی ہیں جنہوں نے اس جگہ کو ابتدائی حالات میں دیکھا۔ اکثر نے اسے ابتدائی حالت میں نہیں دیکھا۔ابتدائی حالت میں یہاں بسنے والے غالباً 35 آدمی تھے۔ ان کے لئے سڑک کے کنارے خیمے لگائے گئے تھے۔ جہاں اب بھی بعض کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں ابتداءً لنگر بنا تھا۔ اب وہ سٹور کا کام دیتے ہیں۔ ایک سال کے قریب وہاں گزارا۔ پھر لاکھوں روپیہ خرچ کر کے ہم نے عارضی مکان بنائے تا ان میں وہ لوگ بسیں جنہوں نے شہر آباد کرنا ہے۔ پھر لاکھوں روپیہ خرچ کر کے یہ بلڈنگس بنیں جو اَب تمہیں نظر آتی ہیں۔ اس عظیم الشان صدمہ کے بعد جماعت نے اتنی جلدی یہ جگہ اس لئے بنائی تاکہ وہ مِل کر رہ سکیں۔ اکٹھے رہ کر مشورے کر سکیں۔ سکول اور کالج بنائیں تاکہ اُن کی اولاد تعلیم حاصل کرے۔ اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کو اتنا صدمہ نہیں پہنچا ان میں سے کوئی جماعت بھی اپنا مرکز نہیں بنا سکی۔
بعض معترض کہتے ہیں کہ ہمارا یہاں ایک علیحدہ جگہ بس جانا مُلک سے بیوفائی کی علامت ہے۔ یہ نہایت ہی احمقانہ خیال ہے کیونکہ ایک قسم کے کام کرنے والوں کے لئے اکٹھا رہنا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ حبّ الوطنی میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے کیوں نہ ہوں۔ دوسرے شہروں میں جاؤ وہاں تم دیکھو گے کہ تمام نیچہ بند 1 اکٹھے رہتے ہیں، نائی اکٹھے رہتے ہیں، دھوبی اکٹھے رہتے ہیں، موچی اکٹھے رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنے کام کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ اکٹھے نہ رہیں تو بہت سی مُشکلات کا سامنا ہو۔ مثلاً اگر ایک نائی بیمار ہو جائے اور اس کا قائمقام وہاں موجود نہ ہو تو لوگوں کو کتنی دقّت کا سامنا ہو۔ ایک دھوبی کا مسالہ ختم ہو جائے تو وہ اپنے ساتھیوں سے مانگتا ہے۔ اگر اس کے قریب دوسرے دھوبی نہ ہوں تو اس کے کام میں روک پیدا ہو جائے۔ نیچہ بندی کے سلسلہ میں بھی بعض چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو نیچہ بند اپنے ہمسایوں اور اپنے قریب رہنے والوں سے مانگ لیتے ہیں۔ اگر ایک نیچہ بند ایک شہر میں رہتا ہو اور دوسرا دوسرے شہر میں تو وقتی ضرورت کے وقت کیا وہ دوسرے شہروں میں جاکر وہاں کے نیچہ بندوں سے وہ چیزیں مانگے گا؟
غرض ایک ہی کام کرنے والوں یا ایک ہی قسم کے پیشہ وروں کا اکٹھا رہنا ضروری ہے اور یہ معاشرتی اور اقتصادی حالت کا نتیجہ ہے، حبّ الوطنی کی کمی کا نتیجہ نہیں۔ کراچی اور لاہور کے شہروں میں دیکھ لو کیا ایک ہی پیشہ والے لوگ اکٹھے نہیں رہتے؟ ہم تو اب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جو لوگ مشرقی پنجاب سے آئے ہیں ان میں سے جن کے آپس میں تعلقات تھے انہیں یہاں آکر الگ الگ قصبات بسانے چاہئے تھے۔ مَیں نے تو 1947ء میں یہاں تک کہا تھا کہ اُردو دانوں کی بھی الگ بستی ہونی چاہئے تاکہ ان کی زبان خراب نہ ہو۔ اب اگر میری تجویز کے مطابق اُردو دان الگ شہر آباد کر لیں تو کیا یہ لوگ کہیں گے کہ ان کا ایسا کرنا حُبُّ الْوطنی کی کمی کی وجہ سے ہے؟ حالانکہ اُنہوں نے الگ شہر اس لئے آباد کیا ہو گا تاکہ زبان کی سی قیمتی چیز ضائع نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں اُردو زبان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ اُردو دان پنجابیوں میں بس رہے ہیں اور ان کی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں۔ ہمارے اپنے رشتہ داروں کی یہی حالت ہے۔ وہ دہلی میں رہتے تھے تو اُن کی زبان ٹکسالی زبان سمجھی جاتی تھی۔ ان میں کثرت سے ادیب پائے جاتے تھے۔ وہ ماہرینِ زبان تھے مگر اب وہ اِدھر آگئے ہیں اور ان میں سے دس بیس گھرانے لاہور میں بس گئے ہیں۔ بعض جیل روڈ پر آباد ہیں، بعض شیرانوالہ گیٹ میں ہیں اور بعض میو روڈ پر ہیں یعنی وہ دس بیس گھرانے بھی لاہور کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ پنجابی ماحول کی وجہ سے ان کی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں۔ اگر کسی بچے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے ''اماں میرے ڈِڈھ وچ پِیڑ ہوندی اے'' اور مائیں انہیں پنجابی زبان بولتے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور ہنس کر کہتی ہیں دیکھیں! یہ بچہ کس طرح آسانی کے ساتھ پنجابی بولتا ہے۔ گویا خواجہ میر دردؔ کا نواسہ مرزاغالب اور مومن خان کا بھانجا ''میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے'' کی بجائے ''میرے ڈِڈھ وچ پیڑ ہوندی اے'' کہتا ہے اور ماں ہنس کر کہتی ہے دیکھیں! ہمیں تو پنجابی بولنی نہیں آتی مگر یہ بچہ خوب پنجابی بول سکتا ہے۔
پس مَیں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ گورنمنٹ تھل کا علاقہ آباد کرنا چاہتی ہے اسے چاہئے کہ وہ مظفر گڑھ کے علاقہ میں چالیس میل کا علاقہ صرف اُردو دانوں کے لئے وقف کر دے تاکہ جو لوگ قُربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں، آباد ہو جائیں اور اس طرح اُردوزبان محفوظ ہو جائے لیکن شاید وہ اُردو دان مجھ سے زیادہ عقلمند تھے کہ وہ اکٹھے ایک جگہ آباد نہ ہوئے تا کل کوئی معترض یہ نہ کہہ سکے کہ ان کا ایک علاقہ میں آباد ہونا حُبُّ الْوطنی کے خلاف ہے۔ حالانکہ ایک خاص قسم کی تنظیم اور خاص مقصد کو سامنے رکھنے والے لوگ بالعموم ایک ہی جگہ پر اکٹھے رہتے ہیں اور ان کا ایسا کرنا معاشرتی اور اقتصادی حالت کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ کوئی جماعت اخلاق کی تعلیم دیتی ہے ، کوئی جماعت تصوّف کی طرف مائل ہوتی ہے، کوئی جماعت احادیث کو رواج دینا چاہتی ہے اور اسے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اہلِ حدیث کی ایک شاخ نے دیوبند آباد کیا تھا۔ اسی طرح بعض جگہیں دوسرے اہلِ حدیث نے بنائی ہیں مثلاً حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی ؒ کے مریدوں نے بعض جگہیں بنائی ہیں کیونکہ ان کا اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھے رہنا ضروری تھا۔ اگر وہ لوگ الگ الگ جگہوں پر پھیلے ہوئے ہوں تو وہ سکول اور کالج کس طرح چلا سکتے ہیں۔ اگر وہ لاہور ، گوجرانوالہ ، گجرات اور لائل پور میں پھیلے ہوئے ہوں اور اُن کا کالج لاہور میں ہو تو کیا ان کے لڑکے ان تمام ضلعوں سے لاہور جائیں گے تاکہ وہ اپنے کالج میں تعلیم حاصل کر سکیں؟ یا اگر ایک ہی مقصد رکھنے والے لوگ ضلع لاہور کے مختلف شہروں میں آباد ہوں تو کیا ان کے بچے کسی ایک پرائمری سکول میں اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ اور اگر وہ ایک شہر میں رہتے ہوں تو ان کا کالج چل سکتا ہے۔ اگر وہ ایک محلہ میں رہتے ہوں تو ان کا پرائمری سکول چل سکتا ہے لیکن اتنی چھوٹی سی بات بھی ہمارے مُلک کے بعض افراد کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم نے تو اُس وقت شور مچایا تھا کہ امرتسر والوں کو بھی الگ شہر آباد کرنا چاہئے کیونکہ اُنہوں نے ایک خاص قسم کا ماحول بنا لیا تھا اور بعض خاص قسم کی تجارتیں اس شہر میں چل رہی تھیں۔ ہم نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ جالندھر، پانی پت اور لدھیانہ والوں کو بھی الگ الگ قصبات آباد کرنے چاہئیں تاکہ خاص قسم کی تجارتیں اور صنعتیں جو ان شہروں میں چل رہی تھیں دوبارہ جاری کی جاسکیں۔ اگر انہیں الگ الگ جگہوں پر نہ بسایا گیا تو وہ مخصوص تجارتیں اور صنعتیں تباہ ہو جائیں گی۔ ہم نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ زبان اُردو کو زندہ رکھنے کے لئے اس کے بولنے والوں کو ایک علیحدہ علاقہ میں آباد کیا جائے اور پھر جو لوگ قربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں آباد ہو جائیں۔ وہاں وہ اپنے سکول بنائیں، کالج بنائیں تاکہ زبان صاف رہے۔ مَیں نے کہا تھا کہ اس کے لئے چالیس میل کے رقبہ کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ قریب کا علاقہ زبان پر اثر ڈالتا ہے۔ اگر بیچ میں شہر آباد ہو اور اردگرد بھی اس زبان کے بولنے والے آباد ہوں تو شہر کی زبان محفوظ رہے گی بلکہ ممکن تھا کہ اردگرد کے علاقہ میں بھی اُردو زبان پھیل جاتی اور آہستہ آہستہ اکتالیسویں میل کے علاقہ کے لوگ بھی اُردو بولنے لگ جاتے۔ پھر بیالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اُردو بولنے لگ جاتے۔ پھر تینتالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اُردو بولنے لگ جاتے کیونکہ اُردو ایک علمی زبان ہے اور علمی زبان جلد پھیل جاتی ہے۔
غرض ہم تو یہ تحریک کر رہے تھے کہ ہر تجارت ،صنعت اور پیشہ سے تعلق رکھنے والے لوگ الگ الگ قصبات آباد کریں بلکہ اُردو دان بھی ایک الگ علاقہ میں آباد ہوں مگر اُلٹا ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم حکومت کے خیر خواہ نہیں اور اس وجہ سے الگ آباد ہونا چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شہروں کا بسانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ تغلق بادشاہ نے اپنے نام پر تغلق آباد بسانا چاہا لیکن باوجود اس کے کہ وہ سارے ہندوستان کا بادشاہ تھا وہ یہ شہر آباد نہ کر سکا۔ پس نئی جگہوں پر شہر بسانا اور پھر کسی سکیم کے ماتحت شہر بسانا آسان کام نہیں ہوتا۔ بعض شہر اتفاقی طور پر بس جاتے ہیں لیکن ارادہ کے ساتھ شہر بسانا ہو تو وہ نہیں بستا۔لوگوں نے ہزاروں شہر بسائے جن میں سے صرف بیسیوں رہ گئے ہیں باقی سب اُجڑ گئے۔ صرف بغداد ایسا شہر ہے جسے مسلمانوں نے ارادہ کے ساتھ بسایا تھا اور وہ بس گیا لیکن جو رونق اس کی پہلے زمانہ میں تھی اب نہیں رہی۔ کسی زمانہ میں اس کی آبادی چالیس لاکھ تھی اب دو لاکھ ہے۔ اسی طرح بعض اَور شہر بھی تھے جو بسائے گئے لیکن ان میں سے اکثر اُجڑ گئے اور ان کی جگہ ایسے شہر ترقی کر گئے جو اقتصادی وجوہ سے یا پبلک میں ایک خاص رَو چل جانے کی وجہ سے خود بخود آباد ہو گئے تھے۔
پس ہمارا کام ایسا تھا کہ حکومت کو پبلک میں اسے بطور نمونہ پیش کرنا چاہئے تھا اور ہمیں اس کارنامہ پر شاباش دینی چاہئے تھی بلکہ چاہئے تھا کہ وہ فخر کرتی کہ اس غریب جماعت نے جو اپنا سب کچھ لُٹا کر یہاں آئی تھی ایک الگ شہر آباد کر لیا۔ کئی سو سائٹیاں اپنے ارادہ میں ناکام رہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا کہ ہم نے باوجود کم مائیگی اور سامان اور ذرائع کے محدود ہونے کے شہر بسا لیا۔ یہ کتنی بڑی خدمت تھی مُلک کی کہ اتنی بڑی تعداد انسانوں کی جو لاہور میں بس رہی تھی ہم نے اسے یہاں آباد کر دیا اور لاہور کی Congestion کو دور کر دیا۔چھ سات ہزار نفوس کو ہم لاہور سے نکال لائے۔ آخر شہری طور پر یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہم نے لاہور کو پہنچایا۔ چاہئے تھا کہ دوسری جماعتیں بھی ہم سے نمونہ لیتیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ہماری نقل میں قصبات تعمیر کرتے چونکہ وہ یہ کام نہ کر سکے اس لئے اُنہوں نے ہم پر بغاوت کا الزام لگا دیا اور کہا ربوہ جو اڑھائی تین میل کا علاقہ ہے اور ہر قسم کے سامانوں سے محروم ہے مُلک کے لئے خطرناک قسم کی سُرنگ بن گیا ہے۔ یہ غلط اور کمزور ذہنیت کا مظاہرہ تھا جو کیا گیا۔ تعلیم یافتہ طبقہ کو چاہئے تھا کہ وہ ایسے معترضین کو اس بات کی وجہ سے ملامت کرتا اور کہتا تم کیوں بِلا وجہ شک کرتے ہو اور ہمیں دھوکا دیتے ہو یہ تو اﷲ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے ان لوگوں کو ایک ایسے کام کی توفیق دی جو قوم اور مُلک کے لئے باعثِ صد فخر ہے۔ ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ کام کرنے والوں سے حوصلہ پکڑتی ہیں اور ان سے نمونہ لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ مُلک اور قوم کے لئے ترقی کی ایک صورت پیدا کی گئی ہے لیکن ان معترضین نے یہ نمونہ دکھا کر اور یہ کہہ کر کہ اِس قصبہ کی وجہ سے مُلک کا امن خطرہ میں پڑ گیا ہے ایک خطرناک کذب بیانی سے کام لیا۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں زور نہیں تھا، طاقت نہیں تھی ہم بھی ویسے ہی تھے جیسے ہمارے دوسرے مہاجر بھائی ہیں ہمارے سامان بھی کم تھے لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اپنے آپ کو دُکھ میں ڈالیں اور یہاں آکر مکان بنائیں اور نہ صرف یہاں مکانات بنائیں بلکہ اپنے چندوں کو بھی قائم رکھیں۔
ناظر صاحب اعلیٰ نے ایڈریس میں کہا ہے کہ ہمارے چندے کم ہو گئے ہیں یہ بات درست نہیں۔ہمارے چندے کم نہیں ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے برابر بڑھ رہے ہیں اگر قادیان کے چندوں کو مِلا لیا جائے جہاں دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب سالانہ جمع ہوتا ہے تو چندے پہلے سے زیادہ ہیں اور اگر تحریک جدید کے چندوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اَور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں۔
بہرحال یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی دی ہوئی نعمت ہے۔ چاہئے کہ اس پر جماعت کے اندر شکریہ کا احساس پیدا ہو۔ ہمیں افسوس ہے کہ دوسرے لوگوں نے ہمارے اس کام کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اگر وہ ہماری نقل کرتے اور بیس گاؤں اور آباد کر لیتے تو ہم خوش ہوتے کہ انہوں نے پاکستان کی مضبوطی کا ثبوت دیا ہے اور فاتحانہ سپرٹ کا اظہار کیا ہے لیکن کام کرنے کی بجائے دوسروں پر دباؤ ڈالنا شکست کی علامت ہوتی ہے۔ یہ ایک قابلِ فخر کارنامہ تھا کہ اُجڑے ہوئے لوگوں نے ایک شہر بسا لیا اور ہمارا مُلک اس کارنامہ پر دوسرے مُلکوں میں فخر کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ آؤ دیکھو ہمارے مہاجروں نے کیسا شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان لوگوں نے مصائب پر ہنسنے کی توفیق پائی ہے۔
بہرحال جماعت کو چاہئے کہ وہ دُعا کرے کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اﷲ تعالیٰ اسے پورا کرنے کی توفیق بخشے۔ہمارا مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام بُلند ہو، اﷲ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ وسیع ہو، دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور وہ یہاں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں ۔ ذکرِ الٰہی، نماز اور روزہ کا چرچا ہو، بُری رسومات سے بچنے کی توفیق ملے۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان نیتوں اور ارادوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اس شر سے بھی جو ماحول کی وجہ سے پیدا ہو سکتا ہے یعنی اﷲ تعالیٰ ہمیں نظرِ بد سے بچائے اور اس شر سے بھی جو خود ہمارے نفس کے اندر پیدا ہو سکتا ہے۔ ہمیں بیرونی نظر بھی نہ لگے اور اندرونی طور پر بھی ہماری اصلاح ہو اور اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو کَمَا حَقُّہٗ پورا کرنے کی توفیق دے جو ہمارے ذمّہ لگائے گئے ہیں۔ اسلام اُس وقت ترقی کرے گا جب ہم ان فرائض کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کئے گئے ہیں۔ اگر ہم ان کے مطابق زندگی بسر نہیں کریں گے تو اسلام ترقی نہیں کر سکتا۔ اور اگر ہم نے اشاعتِ دین کی طرف توجّہ نہ کی تب بھی اسلام ترقی نہیں کر سکتا۔
پس تم دعائیں کرو، ذکر الٰہی کرو اور اپنے اعمال کی اصلاح کرو تا خدا تعالیٰ تمہیں اشاعتِ دین کی توفیق بخشے جو تمہارے ذمّہ لگائی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں حاسدوں کے حسد اور کینہ وروں کے کینے سے محفوظ رکھے۔ وہ تمہارا خود حافظ و ناصر ہو اور تمہیں ان دُشمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم جانتے ہو اور ان دُشمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم نہیں
جانتے۔’’ (روزنامہ الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر دسمبر 1955ء)
1: نیچہ بند: نیچہ باندھنے والا۔ حُقّہ کے نیچے بنانے والا
 
Top