• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 24

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 24







مولانا مودودی صاحب کے رسالہ
‘‘قادیانی مسئلہ’’ کا جواب



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَ النَّاصِرُ
مولانا مودودی صاحب کے رسالہ
‘‘قادیانی مسئلہ’’ کا جواب
(تحریر کردہ نومبر 1953ء)

مولانا مودودی صاحب نے ایک رسالہ ‘‘قادیانی مسئلہ’’ مارچ 1953ء میں شائع کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب اِس وقت تک ایک لاکھ کے قریب مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ چونکہ مُلک کے حالات ایسے تھے کہ لوگوں کی طبائع میں بہت کچھ جوش تھا اور مودودی صاحب نے ظلم سے کام لیتے ہوئے ایسے رنگ میں احمدیوں کے خلاف مضمون شائع کیا تھا کہ جس سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جائے اس لئے جماعت احمدیہ نے خیال کیا کہ کچھ عرصہ تک اس مضمون کا جواب نہ دیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس خاموشی کا کیا اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ اس خاموشی کا کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑا اور چونکہ اب تک جماعت احمدیہ کی نظارت دعوۃ وتبلیغ کی طرف سے کوئی جواب اس رسالہ کا شائع نہیں ہؤا اس لئے ہم مزید انتظار نہ کرتے ہوئے اس کتاب کا جواب شائع کرتے ہیں۔
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے
31 علماء (یا 33علماء) نے فیصلہ کیا
(الف) سب سے اوّل مودودی صاحب نے کہا ہے کہ قادیانیوں کو جُدا گانہ
اقلیت قرار دینے کا مطالبہ33 سربرآوردہ علماء نے کیا۔ مودودی صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ علماء کی جو مجلس 16جنوری 1953ء کو کراچی میں ہوئی تھی اس میں 31 علماء تھے اور کراچی کے بعض دوسرے علماء نے شور مچایا تھا کہ اَور علماء کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے لیکن ان 31 علماء نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ گزشتہ اجتماع میں جو علماء شریک ہوئے تھے وہی شریک کئے جائیں زیادہ نہیں اور اس خبر کا ہیڈنگ یہ دیا گیا کہ:-
‘‘31 علماء کے اجتماع میں مزید علماء کو شریک نہیں کیا جائے گا’’۔1
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ 31 علماء کا ایک بورڈ بنا تھا 33 کا نہیں اور جب بعض دوسرے علماء نے اس بورڈ میں شمولیت کا مطالبہ کیا تو اُنہیں جواب دیا گیا کہ 31 سے زائد کوئی شخص شامل نہیں کیا جاسکتا لیکن لطیفہ یہ ہے کہ اسلامی جماعت کے ‘‘تسنیم’’ اخبار نے 17جنوری کی اشاعت میں تو یہ بات شائع کی اور اسی جماعت کے دوسرے اخبار ‘‘کوثر’’ نے 25جنوری کو یہ خبر شائع کی کہ:-
‘‘دستوری سفارشات پر غور کرنے کے لئے پاکستان بھر کے 33 علماء کا جو اجتماع کراچی میں 10جنوری سے ہو رہا تھا اس نے مسلسل آٹھ روز غور کے بعد دستوری سفارشات کے متعلق اپنی مفصّل رائے پیش کر دی ہے’’۔
اور آخر میں لکھا کہ 22دسمبر 1952ء کو جب دوبارہ اس مجلس کا اجلاس بلائے جانے کا فیصلہ ہؤا تھا تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہی احباب کو دعوت دی جائے جو جنوری 1951ء کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے۔ 2
ترجمان القرآن جلد 35 عدد4,3 1951ء میں بھی جنوری 1951ء میں منعقد ہونے والے اجلاس کی تشریح شائع ہو چکی ہے اور اس میں بھی 31 علماء کے اجتماع کا ذکر ہے۔ گویا ترجمان القرآن جنوری ، فروری 1951ء 31 علماء کے اجتماع کا دعویٰ کرتا ہے اور جماعتِ اسلامی کا اخبار ‘‘تسنیم’’ بھی اپنی 17جنوری 1953ء کی اشاعت میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ 31 علماء ہی اس اجتماع میں شریک تھے اور انہی کو آئندہ شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ‘‘کوثر’’ (25جنوری 1953ء) بھی یہی تسلیم کرتا ہے کہ جنوری 1951ء میں جو علماء بلوائے گئے تھے انہی کو آئندہ بلوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن باوجود اس کے ‘‘کوثر’’ یہ لکھتا ہے کہ بلوائے جانے والے علماء 33 تھے۔ قطع نظر اس کے کہ 31 یا 33 جو تعداد بھی تھی آیا سارے پاکستان میں اتنے ہی علماء ہیں اور اگر اس سے زائد تعداد علماء کی ہے تو صرف ان 31 یا 33 کو کس بنیاد پر منتخب کیا گیا تھا۔ ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب جنوری 1951ء میں 31 علماء کا اجتماع ہؤا تھا اور جب جنوری 1953ء میں یہ فیصلہ کر دیا گیا تھا کہ ان 31 علماء سے زائد کوئی آدمی نہیں لیا جائے گا تو پھر یہ 31 کا عدد 33 کس طرح ہو گیا؟ آیا علماء اس چودھویں صدی میں بھی حساب سے اتنے ناواقف ہیں کہ وہ 31 اور 33 میں فرق نہیں سمجھ سکتے یا اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کی اکثریت تقویٰ سے اتنی عاری تھی کہ جن علماء نے اس میں شمولیت کا مطالبہ کیا تھا ان کو تو اس نے یہ جواب دے دیا کہ 31 علماء سے زائد کسی اور کو نہیں بلایا جائے گا اس لئے آپ کو نہیں بلایا جاسکتا اور بعد میں اپنی کسی ذاتی غرض کے ماتحت دو اَور علماء بیچ میں شامل کر لئے لیکن یہ بھی ہو تب بھی یہ اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ وہ علماء جو انتخاب کی باریکیوں پر اپنی رپورٹ میں اتنا زور دیتے ہیں اُنہوں نے علماء کے بورڈ کے انتخاب کے وقت کیوں کسی قاعدہ کو ملحوظ نہیں رکھا اور کیوں آپ ہی آپ ایک جماعت نے اپنے آپ کو لیڈر بنا کر گورنمنٹ کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔
یہ مطالبہ اکثر تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے اور پاکستان کے اکثر صوبوں
کے عوام کی رائے کے خلاف تھا
(2) دوسری بات مولانا مودودی صاحب نے یہ لکھی ہے کہ باوجوداس کے کہ یہ مطالبہ قادیانی مسئلہ کا بہترین حل ہے۔
‘‘تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعدادابھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام النّاس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے’’۔ 3
جب یہ بات ہے تو یہ عوام الناس کا مطالبہ کس طرح ہو گیا؟ کیا یہ ظلم اور خلافِ حقیقت بات نہیں کہ ایک طرف تو مودودی صاحب خود لکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ گروہ کا کثیر حصّہ اس مطالبہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتا اور سندھ، بنگال، بلوچستان، صوبہ سرحد، کراچی اور خیرپور کے عوام النّاس کا اکثر حصّہ بھی اس کی اہمیت سے واقف نہیں مگر باوجود اس کے وہ وزارت کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ:-
‘‘انہیں دیکھنا یہ چاہئے کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں اور اس کی پُشت پر رائے عام کی طاقت ہے یا نہیں اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو پھر جمہوری نظام میں کسی منطق سے ان کو ردّ نہیں کیا جاسکتا’’۔ 4
مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اور کسی منطق سے یہ مطالبہ ردّ ہو سکے یا نہ ہو سکے خود مودودی صاحب کی منطق سے وہ ردّ ہو جاتا ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے ان کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ یہ مطالبہ ایسا ہے کہ:-
‘‘تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام النّاس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے’’۔
اور یہ بات خود مودودی صاحب کو تسلیم ہے اس لئے ہم اس مطالبہ کو قبول نہیں کر سکتے۔ اب بتائیے کہ حکومت کے اس جواب کا آپ کے پاس کیا منطقی ردّ ہو گا۔ کیا یہ جواب جمہوریت کے اصول کے عین مطابق ہو گا یا نہیں اور کیا یہ جواب سچّا ہو گا یا نہیں اور اگر یہ جواب جھوٹا ہے تو آپ نے یہ جھوٹ اپنی کتاب میں کیوں درج کیا؟
قادیانیوں نے ختم نبوت کی نئی تفسیر
کر کے سواد اعظم سے قطع تعلق کر لیا
(3) مولانا مودودی صاحب اس کے بعد یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا
اس پوزیشن کا لازمی نتیجہ ہے جو خود احمدیوں نے اختیار کر رکھی ہے اور وہ پوزیشن یہ ہے کہ:-
(3-الف) ختم نبوت کی اُنہوں نے نئی تفسیر کی ہے جو مسلمانوں کی متفق علیہ تفسیر سے علیحدہ ہے اور اس مسلمانوں کی تفسیر سے صحابہ کرام بھی متفق تھے اور اسی وجہ سے اُنہوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دعویٔ نبوت کیا اور بعد کے مسلمان بھی یہی تعریف سمجھتے آئے ہیں لیکن احمدیوں نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں اور آئندہ جو نبی آئے گا وہ آپ کی تصدیق سے آئے گا۔
(3- ب) اس تفسیر کا نتیجہ یہ نِکلا کہ احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد متعدد نبی آسکتے ہیں۔
(3- ج) اور یہ کہ شریعتِ اسلامی نے نبی کی جو تعریف کی ہے ان معنوں کے رُو سے حضرت مرزا صاحب مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں اور
(4) اس کے بعد اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب کو جو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے۔
(5) اور پھر اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کا اسلام اَور ہے اور مسلمانوں کا اسلام اَور ہے۔ ان کا خدا اَور ہے اور مسلمانوں کا خدا اَور ہے۔ ان کا قرآن اَور ہے اور مسلمانوں کا قرآن اَور ہے۔ ان کا حج اَور ہے اور مسلمانوں کا حج اَور ہے۔
(6) اور اس اختلاف کو مزید کھینچ کر
(6- الف) انہوں نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز قرار دے دیا۔
(6- ب) ان کا جنازہ پڑھنا ناجائز قرار دے دیا۔
(6- ج) ان کو لڑکی دینا ناجائز قرار دے دیا۔
(7) اور عملاً بھی وہ مسلمانوں سے کٹ گئے اور یہ کام اُنہوں نے ترک کر دیئے۔ پس جبکہ خود اپنے فعل کی وجہ سے وہ اقلیت بن گئے ہیں تو ان کو اقلیت قرار دے دینا چاہئے۔
اب ہم ان اعتراضات کا نمبر وار جواب دیتے ہیں۔
صحابۂ کرام ؓ اور ائمہ سلف نے خاتم النّبییّن کے کیا معنی سمجھے!
(الف) مولانا مودودی صاحب نے جو یہ لکھا ہے کہ ختم نبوت کی احمدیوں نے نئی تفسیر کی ہے جو صحابہ کرام کی تفسیر اور بعد
کے مسلمانوں کی تفسیرکے خلاف ہے یہ ایک بے دلیل دعویٰ ہی نہیں بلکہ خلافِ حقیقت دعویٰ بھی ہے۔صحابہ کرام ؓ میں سے ایک مقتدر ہستی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ آپ فرماتی ہیں:-قُوْلُوْا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ 5 یعنی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو خاتم النّبییّن تو ضرور کہو مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
ان الفاظ سے صاف ثابت ہے کہ :
(الف) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا خاتم النّبیّین کے معنی اور سمجھتی تھیں اور لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے معنی اور سمجھتی تھیں۔
(ب) وہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کے الفاظ کو ذوالمعانی خیال فرماتی تھیں کیونکہ باوجود اس کے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وہ فرماتی ہیں کہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ نہ کہا کرو۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے یہ تو اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمانوں کو یہ نصیحت فرماتی ہوں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ نہ کہا کرو۔ پس ان کا مطلب یہی ہو سکتا تھا کہ اس فقرہ کے کئی معنے ہیں ایک معنوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اس فقرہ کو استعمال نہ کیا کرو۔ وہ غلط فہمی یہی ہو سکتی تھی کہ کلیۃً بغیر کسی شرط کے ہر قسم کی نبوت کا انکار بھی اس فقرہ سے نِکل سکتا تھا مگر وہ اس خیال کو درست نہیں سمجھتی تھیں اس لئے وہ اس فقرہ کے استعمال سے منع فرماتی تھیں۔ یہ ایسی ہی بات تھی جیسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے فرمایا کہ جاؤ اور اعلان کر دو کہ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہا وہ داخل جنت ہو گیا۔ جب حضرت ابو ہریرہ ؓ یہ اعلان لے کر باہر نکلے تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ان سے ملے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات سُن کر زور سے تھپڑ مارا اور وہ زمین پر گِر گئے۔ زمین سے اُٹھ کر وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف شکایت کرنے کے لئے بھاگے۔ حضرت عمر ؓ بھی ان کے پیچھے پیچھے آئے اور اُنہوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! کیا آپ نے یہ پیغام ابو ہریرہ ؓ کو دیا تھا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہاں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔ یارسول اﷲ! ایسا نہ کیجئے ورنہ لوگوں کو غلط فہمی ہو گی اور وہ عمل ترک کر بیٹھیں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بہت اچھا۔6
اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات کو حضرت عمرؓ ردّ نہیں کرتے بلکہ یہ ڈرتے ہیں کہ اس بات کے غلط معنی لے لئے جائیں گے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اپنے شُبہ کا اظہار فرماتے ہیں اور آپ اس شُبہ کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ یہی مؤقف حضرت عائشہ ؓ اور احمدیوں کا ہے۔ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان حدیثوں کو مانتے ہیں جن میں آپؐ نے فرمایا ہے کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ لیکن وہ ان معنوں کو نہیں مانتے جو اس ذومعانی فقرہ سے لوگ نکال لیتے ہیں اور اس غلط مفہوم کو لوگوں میں پھیلانے سے منع کرتے ہیں۔ نہ حضرت عائشہ ؓ کا منشاء تھاکہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فقرہ غلط بیان فرمایا ہے نہ حضرت عمر ؓ کا یہ منشاء تھا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات غلط ہے۔ اگر وہ ایسا سمجھتے تو ان کا ایمان کہاں باقی رہتا اور پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کی تصدیق کیوں فرما دیتے اور انہی کے طریق کو احمدیوں نے اختیار کیا ہے۔
دُنیا میں یہ بات عام ہے کہ بعض فقرے سیاق وسباق سے مل کر صحیح معنے دیتے ہیں۔ سیاق وسباق سے علیحدہ ہو کر صحیح معنے نہیں دیتے۔ مثلاً یہی لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کا فقرہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اَور موقع پر حضرت علی ؓ کے متعلق استعمال فرمایا ہے۔ اس سیاق وسباق کو دیکھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس فقرہ کا وہ مفہوم نہیں ہے جو اس کو وسیع کرنے والے لیتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اَنتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی اِلَّا اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ 7 یعنی اے علی مَیں تجھے اس غزوہ پر جاتے ہوئے (آپ اس وقت غزوۂ تبوک پر جا رہے تھے) اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کر چلا ہوں اور تیری حیثیت میرے پیچھے ایسے ہی ہو گی جیسے ہارون علیہ السلام کی موسیٰ ؑ کے پیچھے تھی لیکن اے لوگو! یہ امر یاد رکھو کہ علی ؓ میرے بعد نبی نہ ہو گا یعنی ہارونؑ موسیٰؑ کی غَیبت میں نبی تھے مگر علی رضی اﷲ عنہ آپ کے عرصۂ غیبت میں نبی نہیں ہوں گے۔ (قرآن کریم میں بھی انتشارِ ضمائر کا اصول استعمال ہؤا ہے اس لئے یہ اعتراض کی بات نہیں)
پھر پُرانے بزرگوں نے بھی لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے وہی معنی سمجھے ہیں جو احمدی بیان کرتے ہیں۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین صاحب ابن عربی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:-
‘‘وہ نبوت جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ منقطع ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے مقامِ نبوت نہیں۔ پس اب کوئی ایسی شریعت نہیں آئے گی جو آپ کی شریعت کی ناسخ ہو یا آپ کے احکام میں کوئی نیا حکم زائد کرے اور آپ کا یہ فرمان کہ رسالت اور نبوت ختم ہو گئی۔ پس اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا نہ نبی۔ اس کے بھی یہی معنی ہیں’’۔ 8
پس مودودی صاحب احمدیوں پر فتویٰ لگانے سے پہلے حضرت عائشہ ؓ اور امام اکبر حضرت محی الدین صاحب ابن عربی پر بھی تو فتویٰ لگا دیکھیں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہ وہ بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے ان کے متعلق بھی ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے (جسے درمنثور نے نقل کیا ہے) کہ کسی شخص نے ان کے سامنے کہا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس پر مغیرہ نے کہا تیرے لئے یہ کافی ہے کہ تو یہ کہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں (یعنی لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہنے کی ضرورت نہیں) کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ظاہر ہوں گے۔ اگر وہ ظاہر ہوئے تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی تھے اور آپ ؐ کے بعد بھی نبی ہوں گے۔9
یہ روایت بتاتی ہے کہ خاتم النّبییّن کے جو معنی ہم کرتے ہیں وہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے نزدیک بھی اور حضرت مغیرہ ؓ بن شعبہ کے نزدیک بھی درست تھے اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ بغیر شرط اور قید کے ہر قسم کی نبوت کے انقطاع کا عقیدہ رکھنا اسلام کی رو سے جائز نہیں۔ باقی رہا یہ کہ پھر کس قسم کا نبی آسکتا ہے۔ تو پُرانے بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ ایسا نبی آسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت نہ لائے اور کوئی نیا حُکم نہ لائے مگر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف یہ دو شرطیں ضروری ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُمّتی ہو اور تمام فیض اس نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہو اور اسے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کے لئے اور قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کے احیاء کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔ گویا آپ نے اس دروازہ کو کھولا نہیں بلکہ پہلے بزرگوں کی نسبت اور زیادہ تنگ کر دیا ہے۔ اب ایسا آدمی اُمّت محمدیّہ کو توڑنے والا کس طرح کہلا سکتا ہے۔ وہ تو جوڑنے والا ہے۔ مکان کی مرمت کرنے والا اُسے توڑتا نہیں جوڑتا ہے۔
مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی وغیرہ سے ان کی بغاوت کی وجہ سے جنگ کی گئی تھی
ہمارے اس بیان سے ظاہر ہے کہ جس قسم کے نبی کے آنے کو احمدی جائز سمجھتے
ہیں اس کے خلاف صحابہ جنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے عقیدہ کی تائید کرتے تھے۔ پس مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہ ؓ نے ہر اُس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ ؓ کے اقوال کے خلاف ہے۔
مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا اور جن سے صحابہ ؓ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔ مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت دعویٰ ہے۔ کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو اُنہیں معلوم ہو جاتا کہ مسیلمہ کذّاب ، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور طلیحہ بن خویلد اسدی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا۔ مولانا اگر تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 65 کو کھول کر پڑھنے کی تکلیف گوارا فرمائیں تو انہیں وہاں یہ عبارت نظر آئے گی کہ:-
‘‘تمام عرب خواہ وہ عام ہوں یا خاص ہوں ان کے ارتداد کی خبریں مدینہ میں پہنچیں صرف قریش اور ثقیف دو قبیلے تھے جو ارتداد سے بچے اور مسیلمہ کا معاملہ بہت قوت پکڑ گیا اور طَے اور اسد قوم نے طلیحہ بن خویلد کی اطاعت قبول کر لی اور غلفان نے بھی ارتداد قبول کر لیا اور ہوازن نے بھی زکوٰۃ روک لی اور بنی سلیم کے امراء بھی مرتد ہو گئے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء یمن اور یمامہ اور بنی اسد اور (دوسرے ہر علاقہ اور) شہر سے واپس لوٹے اور اُنہوں نے کہا کہ عرب کے بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی سب کے سب نے اطاعت سے انکار کر دیا ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے انتظار کیا کہ اسامہ واپس آئے تو پھر اُن کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن عیس اور ذبیان کے قبیلوں نے جلدی کی اور مدینہ کے پاس ابرق مقام پر آکر ڈیرے ڈال دیئے اور کچھ اور لوگوں نے ذوالقصّہ میں آکر ڈیرے ڈال دیئے ان کے ساتھ بنی اسد کے معاہد بھی تھے اور بنی کنانہ میں سے بھی کچھ لوگ ان سے مِل گئے تھے ان سب نے ابو بکرؓ کی طرف وفد بھیجا اور مطالبہ کیا کہ نماز تک تو ہم آپ کی بات ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے ہم تیار نہیں لیکن حضرت ابو بکر ؓ نے ان کی اس بات کو ردّ کر دیا’’۔ 10
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے۔ اُنہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا۔ مسیلمہ نے تو خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ ؐ کو لکھا تھا کہ:-
‘‘مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا مُلک عرب کا ہمارے لئے ہے اور آدھا مُلک قریش کے لئے ہے’’۔11
اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی ثمامہ بن آثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا۔ 12 اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زید اور عبداﷲ بن وہب کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی۔ عبداﷲ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حبیب بن زید ؓ نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر مسیلمہ نے اس کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا۔13
اسی طرح یمن میں بھی جو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بُلند کیا تھا اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوٰۃ چھین لینے کا حکم دیا تھا۔ 14
پھر اس نے صنعاء میں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکمِ شہر بن باذان پر حملہ کر دیا۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبراً نکاح کر لیا۔ 15
بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور اُنہوں نے دو صحابہ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو علاقہ سے نکال دیا۔16
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیان نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے مُدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ اُنہوں نے صحابہ کو قتل کیا۔ اسلامی مُلکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شُدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ ان واقعات کے ہوتے ہوئے مولانا مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے مُدعیانِ نبوت کا مقابلہ کیا۔ یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ کرام انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تو کیا یہ محض اس وجہ سے ٹھیک ہو جائے گا کہ مسیلمہ کذّاب بھی انسان تھا اور اسود عنسی بھی انسان تھا۔ ہم مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی سے بادب درخواست کرتے ہیں کہ اگر ان کے مدِنظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کُلّی طور پر احتراز کیا کریں۔ اﷲ تعالیٰ ان کو اس بات کی توفیق دے تاکہ وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچّے متبعین میں شامل ہونے کا موقع پا سکیں۔
اکابرین اُمّت کی شہادت کہ ‘‘خاتم’’ کے معنی مُہر کے ہیں
باقی رہا یہ کہ احمدیوں نے خاتم النّبییّن میں ‘‘خَاتَم’’ کے معنی مُہر کے کر دیئے ہیں حالانکہ پہلے لوگ یہ معنے کرتے تھے۔ یہ
ایک اتنی بڑی جہالت کا فقرہ ہے کہ مولانا مودودی جیسے آدمی سے اس کی اُمید نہیں تھی۔ علامہ الوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ لفظ ‘‘خَاتَم’’ (جو خاتم النّبییّن میں استعمال ہؤا ہے) اس چیز کو کہتے ہیں جس سے مُہر لگائی جاتی ہے ۔پس خاتم النبیین کے معنے ہیں جس سے نبیوں پر مُہر لگائی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ آخری نبی تھے۔ 17
علامہ الوسی کی تفسیر مسلمانوں کی مشہور ترین تفسیروں میں سے ہے اور وہ مفسرین اور علماء میں بڑے پایہ کے آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسا شخص اپنی کتاب میں صدیوں پہلے لکھ چُکا ہے کہ خَاتَم النّبییّن میں ‘‘خاتم’’ کے معنے مُہر کے ہیں۔
اِسی طرح تفسیر فتح البیان جو درحقیقت علامہ شوکانی کی تفسیر فتح القدیر ہے لیکن نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنے نام سے شائع کروائی ہے اس میں لکھا ہے کہ ‘‘خاتم’’ میں ت کے نیچے زیر بھی بعض قراء توں میں آئی ہے اور بعض قراء توں میں زبر بھی آئی ہے۔ زیر کی صورت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کے آخر میں آئے ہیں اور زبر کی صورت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کی مُہر بن گئے جس سے وہ مُہریں لگاتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی ہم میں سے ہیں۔
مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی پرنسپل جامعہ دیوبند فرماتے ہیں:-
‘‘محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اﷲ کا اور مُہر سب نبیوں کی اور ہے اﷲ سب چیزوں کو جاننے والا’’۔ 18
مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی ٔ مدرسہ دیوبند فرماتے ہیں کہ:-
‘‘جیسے خَاتَم بفتحِ التّاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذّات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے۔ حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوّت معروفہ تو رسول اﷲ صلعم کو کسی مَرد کی نسبت حاصل نہیں۔ یہ ابوّت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے’’۔ 19
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک خَاتَم کا لفظ بمعنی مُہر استعمال ہؤا ہے۔
علامہ ابن خلدون بھی فرماتے ہیں کہ صوفیاء ولایت کو اپنے مراتب کے فرق کے لحاظ سے نبوت سے مشابہت دیتے ہیں اور جس کو ولایت میں کمال حاصل ہو اُسے ‘‘خَاتَمُ الولایۃ’’ کہتے ہیں۔ یعنی وہ اس مقام کو پاگیا جس میں ولایت کے سارے کمالات آجاتے ہیں جس طرح خَاتَمُ الانْبِیاء اس مقام کو پاگئے تھے جس میں نبوت کے تمام کمالات آجاتے ہیں’’۔20
ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ خَاتَم النّبییّن بمعنے نبیوں کی مُہر احمدیوں کے کئے ہوئے معنے نہیں بلکہ شروع زمانہ سے علماء اسلام یہ معنے کرتے آئے ہیں اور اگر یہ معنے کُفر ہیں۔ اگر ان معنوں کے رُو سے انسان اُمّتِ محمدیہ سے نِکل جاتا ہے اگر وہ اسلامی حکومت کے شہری حقوق سے محروم ہو جاتا ہے تو پھر علامہ الوسی، علامہ شوکانی، مولانا محمدقاسم صاحب نانوتوی، مولانا محمود الحسن صاحب استاذ علماء دیوبند ان سب کو اُمّتِ محمدیہ سے نِکلا ہؤا اور حکومت اسلامی کے شہری حقوق سے محروم قرار دیا جائے گا۔
اُمّتِ محمدیہ کے روحانی علماء کا بُلند ترین مقام
(3-ب)پھرمولانامودودی صاحب فرماتے ہیں کہ
اس تفسیر کا نتیجہ یہ نِکلا کہ احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد متعدد نبی آسکتے ہیں۔
مولانا مودودی صاحب اور ان کے اَتباع کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ہم ہی نہیں کہتے۔ یہ بات بہت سے گزشتہ صلحاء بھی کہہ چکے ہیں بلکہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی فرما چکے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اَلْعُلَمَاءُ مَصَابِیْحُ الْاَرْضِ وَ خُلَفَاءُ الْاَنْبِیَاءِ وَ وَرَثَتِیْ وَوَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ۔21 یعنی علماء زمین کے چراغ ہیں نبیوں کے خلفاء ہیں، میرے وارث ہیں اور سب انبیاء کے وارث ہیں ۔
اِسی طرح رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف بعض صوفیاء نے یہ حدیث منسوب کی ہے کہ ‘‘عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ’’ 22 یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔
ایک دوسری جگہ مجدّد الف ثانی صاحب یوں فرماتے ہیں کہ:-
‘‘کمل تابعان انبیاء علیہم الصَّلَوَات وَالتسلیمات بجہت کمال متابعت و فرطِ محبت بلکہ بمحض عنایت و موہبت جمیع کمالات انبیاء متبوعہ خود را جذب مے نمائندو بکلیت برنگ ایشاں منصبغ مے گردند حتی کہ فرق نمے ما ند درمیان متبوعان و تابعان الابالاصالۃ و التبعیۃ والاولیۃ والآخریۃ’’۔23
یعنی انبیاء کے جو کامل متبعین ہوتے ہیں وہ ان کی انتہائی متابعت اور محبت کی وجہ سے بلکہ محض اﷲ تعالیٰ کی عنایت اور موہبت سے انبیاء کے تمام کمالات اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور انہیں کے رنگ میں کامل طور پر رنگین ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ تابع اور متبوع میں سوائے اصالت اور متابعت اور اوّل اور آخر ہونے کے اور کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔
ختم نبوت کی تشریح بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں
ان علماء اور صلحاء نے جو
مفہوم ختم نبوت کا بیان کیا ہے بالکل وہی مفہوم بلکہ اس سے زیادہ پابندیوں کے ساتھ بانی ٔ سلسلہ احمدیّہ نے ختمِ نبوت کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔چنانچہ ہم آپ کے چند حوالہ جات ذیل میں درج کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘وہ خاتم الانبیاء ہے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتم ہے بجز اس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہو گا اور بجز اس کے کوئی نبی صاحبِ خاتم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مِل سکتی ہے جس کے لئے اُمتی ہونا لازمی ہے’’۔24
‘‘خاتم النّبییّن کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مُہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النّبیّین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اس خاتم النّبیّین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفئ غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمدؐ ہے گو ظلّی طور پر۔ پس باوجود اس شخص کے دعویٰ ٔ نبوت کے جس کا نام ظلّی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیّدنا محمد خاتم النّبییّن ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے’’۔ 25
‘‘عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس کو بروزی طور پر محمدیّت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جُدا نہیں اور نہ شاخ اپنے بیج سے جُدا ہے’’۔ 26
‘‘اگر مَیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دُنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے اُمّتی ہو’’۔ 27
‘‘خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے ان صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الٰہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے ..... اب کمالِ نبوت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبی کی مُہر رکھتا ہو گا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا’’۔28
‘‘اﷲ جلّ شأنہٗ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضۂ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النّبییّن ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ علماء امّتی کانبیاء بنی اسرائیل۔ یعنی میری اُمّت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیری کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا۔ اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہؤا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصبِ نبوت مِلا’’۔ 29
مذکورہ بالا تشریح حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ختم نبوت کی کی ہے اور ہر دیانتدار آدمی کو ماننا ہو گا کہ اس تشریح میں آپ کُلّی طور پر صحابہ اور اولیاء و فقہاء اُمّت سے متفق ہیں اور آپ پر حملہ کرنا صحابہ اور اولیاء اُمّت پر حملہ کرنا ہے لیکن ہم اپنا آخری نوٹ اس بارہ میں لکھنے سے پہلے یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اجمالاً بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ختم نبوت کے بارہ میں تمام مسلمانوں کے مطابق تھا۔ آپ لکھتے ہیں :-
‘‘دوسرے الزامات جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں کہ یہ شخص لیلۃ القدر کا مُنکر ہے اور معجزات کا انکاری اور معراج کا مُنکر اور نیز نبوت کا مُدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں۔ ان تمام امور میں میرا وہی مذہب ہے جو دیگر اہلِ سُنت و جماعت کا مذہب ہے ..... اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا میں کرتا ہوں کہ مَیں جناب خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ایسا ہی ملائکہ اور معجزات اور لیلۃ القدر وغیرہ کا قائل ہوں’’۔ 30
اُمّتِ محمدیہ میں ہزاروں انسان کمالاتِ نبوت حاصل کرنے والے آسکتے ہیں
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ اوراولیاءِ سابق کا عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں
بیان کرنے کے بعداور یہ بتانے کے بعد کہ خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اُمّتِ محمدیہ کے باصفا علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کا وارث اور اپنا وارث قرار دیا ہے ہم مودودی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اصل سوال حقیقت کا ہوتا ہے یا ناموں کا؟ جب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی اُمّت کے باصفا علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کا جانشین قرار دیتے ہیں۔ جب ایسے علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں جو اس منصب کے دعویدار رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو نبیوں کے قائمقام ہوں گے۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وارث ہوں گے اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے تو اور کیا چیز باقی رہ گئی۔ یہ سچ ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث میں مولانا مودودی اور ان کی طرح کے علماء مراد نہیں جن کی نظریں ہمیشہ زمین اور حکومت کی طرف رہتی ہیں آسمان اور عرش کی طرف کبھی نہیں اُٹھتیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے یہی فضل نازل ہو سکتا ہے کہ انہیں کسی مُلک کی گورنری یا بادشاہت مِل جائے مگر وہ علماء جو خلفاءِ انبیاء ہوتے ہیں اور وارثِ انبیاء ہوتے ہیں وہ ان چیزوں کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں ان کی نظر دُنیا کی اصلاح اور اپنے نفس کی اصلاح اور اسلام کی اشاعت پر ہوتی ہے وہ زمین کی بادشاہتوں کو نہیں دیکھتے وہ آسمان کی بادشاہتوں کو دیکھتے ہیں۔کراچی کا گورنر جنرل ہاؤس ان کی نظروں میں نہیں ہوتا۔ نہ قاہرہ کا شاہی قلعہ ان کے ذہنوں میں ہوتا ہے۔ وہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی، حضرت شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی، حضرت جنید بغدادی، حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی، شیخ شہاب الدین صاحب سہروردی، شیخ بہاؤالدین صاحب نقشبندی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام مالک، حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی، حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی کی طرح خدا اور اس کے عرش کی طرف دیکھتے ہیں اور اس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کا ہاتھ انہیں اُٹھائے اور اپنے تخت پر دائیں اور بائیں انہیں بٹھادے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زبانوں سے جھوٹ نہیں نکلتا اور جو دُنیوی لالچوں سے بالکل آزاد ہوتے ہیں جو تنگ نظری سے محفوظ ہوتے ہیں جو خدا کی مخلوق کو کچلنے اور مسلنے کی نیتیں نہیں کرتے بلکہ ان کو سنوارنے اور سدھارنے کے ارادے رکھتے ہیں وہ اسلام کو ایسی بھیانک شکل میں پیش نہیں کرتے کہ دُنیا اس کو دیکھ کر مُنہ پھیر لے بلکہ وہ اسلام کو ایسی خوش شکل میں پیش کرتے ہیں کہ شدید سے شدید مخالف بھی رغبت اور محبت سے اس کی طرف مائل ہو اور ایک مسلمان سچّے طور پر یہ کہہ سکے کہ میرا دین وہ ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ 31 اسلام کے احکام کو دیکھ کر اور اس کے حُسنِ سلوک اور اس کی تعلیم کے جمال کو دیکھ کر کافر بھی بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتا اور اسلامی تعلیم اس کو حاصل ہوتی تاکہ وہ بھی اپنے ہم مجلسوں میں فخر کے ساتھ اپنی گردن اُٹھا سکتا اور کسی دُشمن کے سامنے اسے شرمندہ نہ ہونا پڑتا۔
کیا مودودی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ نے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ بنی اسرائیل کے چھوٹے چھوٹے نبیوں سے بھی کم تھا جو بعض دفعہ دس دس گاؤں یا بیس بیس گاؤں کی طرف مبعوث ہوتے تھے۔ کیا ابوبکر ؓ، عمر ؓ، عثمان ؓ اور علی ؓ کے اخلاق فاضلہ، معرفتِ تامہ یقین ما بعد، توکّل علی اﷲ اور خدا کی راہ میں قُربانی اور ایثار کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کے ان سینکڑوں نبیوں کے بھی جن کے نام تک آج محفوظ نہیں ہیں ویسے ہی کارنامے پیش کئے جاسکتے ہیں؟ اُمّتِ محمدیہ میں جس قسم کے روشن ستارے پیدا ہوئے ہیں اور جس قسم کے شاندار وجود پیدا ہوئے ہیں ہم تو دیکھتے ہیں کہ موسوی اُمّت اور دوسری بہت سی اُمتوں میں وہ لوگ جو کہ انبیاء کے نام سے پُکارے جاتے ہیں ان سے ان کی شان کم نہیں تھی بلکہ بعض لحاظ سے بڑی تھی۔ مولانا مودودی صاحب کو احمدیوں کا غم کھائے جارہا ہے لیکن اسلام کا غم ان کے پاس تک نہیں پھٹکتا۔ اپنی عظمت کے حصول کی تمنّا انہیں جلائے جارہی ہے لیکن عظمائے اسلام کی عظمت کے قیام کا خیال تک ان کے پاس نہیں پھٹکتا۔ ان کے نزدیک وہ سب کے سب نہایت گھٹیا قسم کے لوگ تھے اور نبوت کے کمالات سے محروم تھے جبکہ نہایت چھوٹے چھوٹے آدمی بنی اسرائیل کے اس مقام کو پا گئے۔ جب احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہزاروں آدمی اس اُمّت میں کمالاتِ نبوت حاصل کرنے والے آسکتے ہیں تو وہ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عُلَمَاءُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَاءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل۔ باقی رہا یہ کہ خدا کی حکمت بعض مصلحتوں کی بناء پر اور بعض فتنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی وقت کسی کو نبی کا نام نہیں دیتی تو یہ کوئی بات نہیں۔ اصل بات تو حقیقت کا پایا جانا ہے۔ جب حقیقت کسی میں پائی جاتی ہے تو خواہ ہم اس کا نام وہ نہ رکھیں یہ تو ہم ضرور کہیں گے کہ اس مقام کے لوگ اُمّتِ محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے کوئی حسدسے جل جائے کوئی بُغض سے مَر جائے ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام سب نبیوں سے بالا ہے۔ آپ ؐ کی شان سب نبیوں سے ارفع ہے۔ آپ ؐ کے شاگرد پہلے نبیوں کے شاگردوں سے ارفع ہیں۔ جو جلتا ہے جلے۔ اس صداقت کے اعلان سے ہم باز نہیں رہ سکتے۔
تعریفِ نبوت اور بانی ٔ سلسلہ احمدیہ
(3-ج) اس کے بعد مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے
موجودہ خلیفہ نے لکھا ہے کہ شریعتِ اسلامی جو معنے کرتی ہے ان معنوں کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب ہر گز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔ یہ سخت غضب ہو گیا ہے۔ نہ معلوم مولانا کو اس پر کیوں غصّہ آیا۔ جماعت احمدیہ کے موجودہ خلیفہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آجکل کے مسلمان جو تعریف نبی کی سمجھتے ہیں اس کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب ہرگز نبی نہیں اُن کو اسلام کی تعریف سے کیا غرض ہے اُن کی اپنی تعریف کی رُو سے حضرت مرزا صاحب نبی نہیں ہیں اور اس میں احمدی بھی ان سے متفق ہیں اور اسلام کی بیان کردہ اقسامِ نبوت میں سے ایک قسم جس کے کھلا رہنے کا ثبوت قرآن و حدیث سے ملتا ہے اگر اس کے کھلا رہنے کا احمدی دعویٰ کریں تو ان پر کیا اعتراض ہے؟ کیا اسلام یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ بعض لوگوں کو نبی کے نام سے پُکار لیتا ہے۔ (رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کا قول ہے کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا۔32 اور کیا اسلام یہ نہیں کہتا کہ اولیاءِ اُمّت پر خدا تعالیٰ کا الہام ہمیشہ اُترتا رہے گا۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔33) اور کیا حدیث یہ نہیں کہتی کہ کوئی شخص اپنے نفس کو اس بات سے محروم نہ سمجھے کہ کسی دن اﷲ تعالیٰ کے حُکم کو وہ اپنے نفس میں محسوس کرے لیکن اس کے بعد وہ اس حُکم کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے۔ اﷲ تعالیٰ اس سے ایک دن پوچھے گا کہ کیوں تو نے میری بات لوگوں کو نہیں بتائی؟ اس پر وہ شخص کہے گا کہ اے خدا! مَیں لوگوں سے ڈرتا تھا کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ مَیں زیادہ حقدار تھا کہ تُو مجھ سے ڈرتا۔ 34
اسی طرح کیا اولیاءِ اسلام میں سے مولانا روم یہ نہیں فرماتے کہ
چوں بدادی دستِ خود در دست پیر
بہر حکمت کو علیم است و خبیر
کو نبیٔ وقت خویش است اے مرید
زانکہ او نورِ نبی آمد پدید! 35
یعنی جب تو اپنا ہاتھ اپنے پِیر کے ہاتھ میں دیتاہے اس غرض سے کہ وہ دین اسلام کو خوب جاننے والا اور واقف ہے اور اس لئے کہ اے مرید! وہ اپنے وقت کا نبی ہے۔اس لئے نبی ہے کہ نبی کا نور اس کے ذریعہ سے ظاہر ہو گیا۔
(مولانا روم وہ ہیں جن کی شاگردی اور نقل کا دعویٰ ڈاکٹر اقبال کو ہے اور اقبال وہ ہیں جن کو آجکل کے علماء کا طبقہ قائداعظم سے بڑھانے کی کوشش میں لگا ہؤا ہے۔ مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ یہ مولانا روم بھی اسلام سے خارج اور کُشتنی اور گردن زنی تھے یا ان کا یہ دعویٰ صحیح تھا؟)
مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت
(4) آگے چل کر مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ نبوت کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ احمدیوں
نے یہ اعلان کر دیا کہ جو مرزا صاحب کو نہیں مانتا وہ کافر ہے۔مولانا مودودی صاحب اور ان کے اتباع کو یاد رکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب تو خدا کی طرف سے مامور تھے۔ حدیثوں میں تو یہ بھی آتا ہے کہ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ کَفَرَ جِھَارًا۔ 36 یعنی جو شخص جانتے بوجھتے ہوئے نماز کو چھوڑتا ہے وہ اپنے کُفر کا خود اعلان کر دیتا ہے۔
اب مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ کتنے مسلمان آجکل نماز پڑھتے ہیں؟ ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ مولانا مودودی صاحب پوری طرح صحیح واقعہ بیان کرنے کے عادی نہیں ہیں لیکن یہ اتنی کھلی بات ہے کہ ہم اس میں مولانا مودودی صاحب کی گواہی ہی ماننے کے لئے تیار ہیں۔ وہ بتا دیں کہ سَو میں سے ایک نماز پڑھتا ہے یا ہزارمیں سے ایک نماز پڑھتا ہے یا کتنے پڑھتے ہیں اور آیا وہ جان بوجھ کر نماز کے تارک ہیں یا نماز کے وقت کوئی شخص انہیں پکڑ لیتا ہے۔
مولانا مودودی صاحب اس گواہی کے دینے سے پہلے مہربانی فرما کر اپنا یہ بیان ضرور پڑھ لیں:-
‘‘مَیں پہلے بیان کر چُکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو وہ بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے۔ کافر نہیں جانتا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے۔ اگر مسلمان بھی اسی طرح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہؤا۔ کافر خدا کی مرضی پر چلنے کی بجائے اپنی مرضی پر چلتا ہے۔ مسلمان بھی اگر اسی طرح خود سراور آزاد ہو، اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو، اسی کی طرح خدا سے بے پرواہ اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو مسلمان (خدا کا فرمانبردار) کہنے کا کیا حق ہے۔کافر حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ بالذّات دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے چاہے خدا کے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام۔ یہی روّیہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہؤا؟ غرض یہ کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کورا ہے جتنا کافر ہوتا ہے اور جب مسلمان بھی وہی سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلہ میں کیوں فضیلت حاصل ہو اور اس کا حشر بھی کافر جیسا کیوں نہ ہو’’۔ 37
اب مولانا صاحب فرمائیں کہ وہ کون سے مسلمان ہیں جن کو احمدیوں نے کافر قرار دیا ہے۔ وہ اوپر کے حوالہ میں اشارتاً فیصلہ کر چکے ہیں کہ سوائے ان کی جماعت کے اور کوئی مسلمان ہی نہیں اور جب یہ بات ہے تو پھر ان کا غصہ صرف اسی بات پر ہے نہ کہ ان کے اتباع کو کیوں کافر قرار دے دیا گیا۔ باقی مسلمانوں کو تو وہ خود بھی کافر کہہ چکے ہیں۔
لیکن ہم یہاں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کے نزدیک کافر کی بھی تعریف اور ہے جس طرح نبی کی تعریف اور ہے۔ کفر کے جو معنے آجکل کے علماء کرتے ہیں احمدیوں کے نزدیک مسلمان تو خیر مسلمان ہیں ہی، یہودی اور عیسائی اور ہندو بھی اس تعریف کی رو سے کافر نہیں کہلا سکتے کیونکہ کفر کی وہ تعریف نہایت ظالمانہ ہے۔
احمدی تمام مسلمان کہلانے والوں کو اُمّتِ محمدیہ میں ہی سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں
پھر مولانا مودودی صاحب کو یہ بھی یاد رہے کہ احمدی
تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں کو اُمّتِ محمدیہ میں سمجھتے ہیں اور اگر انہوں نے کسی جگہ پر کافر کا لفظ استعمال بھی کیا ہے تو اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ وہ مرزا صاحب کی صداقت کے مُنکر ہیں یہ معنے نہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں نہیں یا اصولِ اسلام کو نہیں مانتے۔ کافر کے معنے عربی زبان میں مُنکر کے ہیں۔ جب کوئی شخص مرزا صاحب کو نہیں مانتا تو عربی زبان اس کے لئے کافر کا لفظ ہی استعمال کیا جائے گا لیکن اگر کوئی یہ لفظ بولے تو اس کے معنے کھینچ تان کر یہ کر لیں کہ وہ اسے خدا اور رسول کا مُنکر کہتا ہے یہ سخت ظلم کی بات ہے۔ کبھی احمدیوں نے مسلمانوں کو اُمّتِ محمدیہ سے خارج نہیں سمجھا۔ کبھی احمدیوں نے مسلمان کہلانے والوں کو کلمہ کا مُنکر قرار نہیں دیا، کبھی احمدیوں نے مسلمانوں کو خدا اور قرآن اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور حشر و نشر اور تقدیر کا مُنکر قرار نہیں دیا۔ جب بھی کہا یہی کہا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے ایک بڑی بھاری صداقت کا انکار کیا ہے۔ یعنی حضرت مرزا صاحب کو جو خدمتِ دین اور اشاعت کے لئے آئے تھے نہیں مانا اور اس طرح اسلام کی ترقی میں روک بنے۔
مرزا صاحب کے الہامات میں یہ صاف طور پر واضح ہے کہ تمام مسلمان کہلانے والے اُمّتِ محمدیہ میں شامل ہیں۔ آپ کا ایک الہام ہے رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ 38 یعنی اے میرے خدا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت کی اصلاح فرما۔ اسی طرح آپ کا الہام ہے کہ ‘‘سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ’’۔ 39
مودودی صاحب اس بات کو بھی تو نہ بھولیں کہ مرزا صاحب نے کسی شخص کو کافر کہنے میں ابتدا نہیں کی۔ آپ صاف فرماتے ہیں:-
‘‘اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمّہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کُفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان کے فتوؤں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے مُنہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک ایک گناہ ہو گیا۔ کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا’’۔ 40
اسی طرح فرماتے ہیں:-
‘‘اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ اُنہوں نے مجھ کو کافر کہا۔ میرے لئے فتویٰ تیار کیا مَیں نے سبقت کر کے ان کے لئے کوئی فتویٰ تیار نہیں کیا’’۔41
بانی ٔ سلسلہ کے متعلق علماء کا فتویٔ کُفر
مولانا یہ بھُول گئے ہیں کہ بارہ سال تک بانی ٔ سلسلہ احمدیہ
مسلمانوں کی منّت سماجت کرتے رہے کہ یہ تعدّی نہ کرو اور مجھے غیر مسلم نہ کہو اور بارہ سال تک ان کی مسجدوں میں احمدی نمازیں پڑھتے رہے بلکہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے بھی بعض دفعہ ان کی مسجدوں میں جاکر نماز پڑھی لیکن علماء اسلام کا دل نہ پسیجنا تھا نہ پسیجا ۔ وہ برابر آپ کے متعلق یہی لکھتے چلے گئے کہ:-
‘‘مرزا (کادیانی) کافر ہے ، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ہے، ملحد ہے، دجال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا۔ لَا شَکَّ اَنَّ مِرْزَا کَافِرٌ مُرْتَدٌ زنْدِیْقٌ ضَالٌّ مُضِلٌّ مُلْحِدٌ دَجَالٌ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ’’۔ 42
‘‘مرزا قادیانی اہلِ اسلام سے خارج ہے اور سخت ملحد اور ایک دجّال دجالون مخبر عنہا سے ہے اور پیرواس کے گمراہ ہیں’’۔ 43
‘‘حقیقت میں ایسا شخص منجملہ ان دجالوں کے ایک دجّال مگر بڑا بھاری دجال بلکہ اس کا عمّ و خال ہے’’۔44
‘‘میرے نزدیک اس کے کُفر میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ کافر ہے، بد ہے اور شریعتِ محمدیہ کا مخالف۔ اس کو باطل کرنا چاہتا ہے۔ خدا اُس کا مُنہ کالاکرے’’۔ 45
‘‘وہ خود گمراہ ہے اور وں کو گمراہ کرنے والا کذّاب ہے۔ دنیا میں فساد ڈالنے والا۔ اس کے چھپے مرتد ہونے اور کُفر میں کوئی گفتگو نہیں۔ خدا اس کو ہلاک کرے’’۔ 46
‘‘وہ بے شک دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور ملحد و زندیق ہے۔ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِہٖ’’۔ 47
‘‘مرزا قادیانی پابندی اسلام خصوصاً مذہب اہلِ سُنت سے خارج ہے ..... اس کا دعویٰ ٔ نبوت اور اشاعت اکاذیب اور اس ملحدانہ طریق کی نظر سے اس کو ان تیس دجّالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے ایک دجّال کہہ سکتے ہیں اور اس کے پیروان اور ہم مشربوں کو ذرّیاتِ دجّال’’۔ 48
‘‘غلام احمد قادیانی کج رو وپلید جس کا عقیدہ فاسد ہے اور رائے کھوٹی گمراہ ہے لوگوں کو گمراہ کرنے والا چھپا مرتد ہے بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے’’۔ 49
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپ کے متعلق لکھا:-
‘‘اسلام کا چھپا دُشمن، مسیلمہ ثانی، دجّال زمانی، نجومی، رملی، جوتشی، اٹکل باز، جفری، بھنگڑ، ارڑپوپو، مکّار، جھوٹا، فریبی، ملعون، شوخ، گستاخ، مثیل الدّجال، اعورالدجّال، غدّار، کاذب، کذّاب ذلیل و خوار، مردود، بے ایمان، روسیاہ، رہبر ملاحدہ، عبدالدّراہم والدّینار، تمغات *** کا مستحق، مورد ہزار ***، ظلام، افّاک، مفتری علی اﷲ، بے حیا، دھوکا باز، حیلہ باز، بھنگیوں اور بازاری شُہدوں کا سرگروہ، دہریہ، جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق، جس کا خدا شیطان، یہودی، ڈاکو، خونریز، بے شرم، مکّار، طرار ، جس کی جماعت بدمعاش، بدکردار، زانی، شرابی، حرام خور، اس کے پیرو خرانِ بے تمیز’’۔50
مولوی عبدالحق صاحب غزنوی عم بزرگوار مولانا داؤد غزنوی نے اشتہار ضَرْبُ النِّعَالِ عَلٰی وَجْہِ الدَّجَال میں جو 1896ء میں شائع ہؤا آپ کے متعلق لکھا:-
‘‘دجّال، ملحد، کافر، روسیاہ، بدکار، شیطان، ***، بے ایمان، ذلیل و خوار، خستہ، خراب، کاذب، شقی سرمدی،*** کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا، اﷲ کی *** ہو، اس کی سب باتیں بکواس ہیں’’۔
بارہ سال تک برابر ان فتوؤں کو سُننے کے بعد اگر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے یہ فتوے دیئے تھے یا ان لوگوں کے خلاف جو ان فتوؤں سے متفق تھے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق کہ اِذَاکَفَرَالرَّجُلُ أَخَاہُ فَقَدْ بَاءَ بِھَا اَحَدُ ھُمَا51 یعنی اگر کوئی اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں فریق میں سے ایک ضرور کافر ہو گا۔ کوئی فتویٰ دیا تو کیا غضب کیا اور کس طرح اس فتویٰ کی وجہ سے آپ اُمّتِ محمدیہ سے الگ ہو گئے۔ مولانا مودودی اور ان کے ہمنوا بزرگ تو بارہ سال تک مرزا صاحب پر فتویٰ لگانے کے بعد اُمّتِ محمدیہ میں افتراق پیدا کرنے والے نہ بنے لیکن بارہ سال کے بعد مرزا صاحب ان فتوؤں کا جواب دینے کی وجہ سے اشتقاق اور افتراق پیدا کرنے کا موجب بن گئے۔ کیوں؟ کیا اس لئے کہ مرزا صاحب کی حمایت تھوڑی تھی اور ان علماء کی باتوں کی تصدیق کرنے والے بہت تھے۔
پھر ہم پوچھتے ہیں مودودی صاحب کو جانے دیجئے باقی علماء اسلام نے ایک دوسرے کے متعلق کیا کہا ہے۔ مودودی صاحب نے اپنی جماعت کے سوا جوباقی سب کو کافر کہا ہے اس کا حوالہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ اب سُنیئے باقی لوگ مودودی صاحب کی جماعت کے متعلق کیا کہتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے کُفر کے متعلق دوسرے علماء کا فتویٰ
مولانا اعزاز علی صاحب امروہی جماعتِ اسلامی کے متعلق لکھتے ہیں:-
‘‘میرے نزدیک یہ جماعت
اپنے اسلاف (یعنی مرزائی) سے بھی مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ ضرر رساں ہے’’۔ 52
(سُنا آپ نے۔ آپ کے ایک ہم مشرب احمدیوں کو آپ کا بزرگ قرار دیتے ہیں)
مولانا فخر الحسن صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی ہے۔
سیّد سیدی حسن صاحب صدر مفتی دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:-
‘‘مسلمانوں کو اس تحریک میں ہر گز شریک نہیں ہونا چاہئے ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ لوگوں کو اس میں شریک ہونے سے روکنا چاہئے۔ ورنہ گمراہ ہوں گے بجائے فائدہ کے نقصان ہو گا۔ شرعاً اس تحریک میں حصّہ لینا ہر گز جائز نہیں’’۔ 53
مولانا حسین احمد صاحب مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:-
‘‘مودودی صاحب اور ان کے اتباع کے اصول دینِ حنیف کی جڑوں پر کاری ضرب لگانے والے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے دین اسلام کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے’’۔ 54
مولوی ابو المظفر صاحب اپنے ٹریکٹ مودودیت اور مرزائیت میں لکھتے ہیں:-
‘‘بلا ریب و شک یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ مرزائیت کی طرح مودودیت بھی ایک نہایت خطرناک عظیم فتنہ ہے جس کا فرو کرنا ہربہی خواہ اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے’’۔ 55
مولانا راغب احسن ایم۔ اے لکھتے ہیں:-
‘‘جماعت مودودیت دراصل اسلام کے نام پر ایک بالکل جدید تخلیق اور جدید مذہب کی تعمیر کر رہی ہے’’۔ 56
مولوی حامد علی خان صاحب مفسر مدرسہ عالیہ رامپور لکھتے ہیں کہ:-
‘‘وہ ایک بالکل نیا بدعتی فرقہ ہے اس کا اندازِ تبلیغ غلط اور گمراہ کن ہے اور تفریق بین المسلمین کا باعث ہے’’۔ 57
پھر جماعت اسلامی پر ہی بس نہیں آپس میں بھی یہ علماء ایک دوسرے کو ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ سُنّی علماء کا فتویٰ شیعوں کے متعلق ذیل میں درج ہے:-
سُنّی علماء کا فتویٰ شیعوں کے متعلق
(1): ‘‘شیعہ اثنا عشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں شیعوں
کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیحہ حرام ، ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے۔ ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے’’۔ 58
(نوٹ: اس پر علماء دیوبند کے علاوہ دیگر علماء کے اسماء گرامی بھی درج ہیں)
(2) : ‘‘روافض صرف مرتد اور کافر اور خارج از اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دُشمن بھی’’۔ 59
(3): مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں:-
‘‘ان رافضیوں، تیرائیوں کے باب میں حُکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفّار مرتدین ہیں’’۔ 60
(4) حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی فتاویٰ عزیزی میں تحریر فرماتے ہیں کہ:-
‘‘فرقہ امامیہ منکر خلافت حضرت صدیق اند و درکتب فقہ مسطور است کہ ہر کہ انکار خلافت حضرت صدیق اکبر کند منکر اجماع قطعی شدہ و کافر گشت۔ یعنی شیعہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے منکر ہیں اور فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ جو شخص حضرت صدیق کی خلافت کا انکار کرے اس نے اجماع کا انکار کیا اور کافر ہو گیا’’۔ 61
(5) فتاویٰ عالمگیر یہ میں لکھا ہے کہ
‘‘مَنْ اَنْکَرَاِمَامَۃَ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ فَھُوَ کَافِرٌ وَ کَذَالِکَ مَنْ اَنْکَرَ خِلَافَۃَ عُمَرَ’’۔62
یعنی جو لوگ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ کی امامت اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے منکر ہیں وہ سب کافر ہیں۔
شیعہ علماء کا فتویٰ سُنّیوں کے متعلق
شیعہ صاحبان کا فتویٰ سُنّیوں کے متعلق ذیل میں درج ہے:-
(1) حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:-
‘‘مَنْ عَرَفَنَا کَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ اَنْکَرَنَا کَانَ کَافِراً وَ مَنْ لَّمْ یَعْرِفْنَا وَ مَنْ لَّمْ یُنْکِرْ نَا کَانَ ضَالًّا’’۔ 63
یعنی جس نے ہم ائمہ کو شناخت کر لیا وہ مؤمن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ ضالّ ہے۔
(2) حدیقۂ شہداء میں یہ فتویٰ درج ہے کہ:-
‘‘سوائے فرقہ اثنا عشریہ امامیہ کے ناجی نیست کشتہ شود خواہ بموت بمیرد’’۔ یعنی سوائے شیعوں کے اور کوئی بھی ناجی نہیں خواہ وہ مارا جائے یا اپنی آپ موت مرے۔ یعنی سُنّی شہید بھی کافر ہے’’۔ 64
(3) حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ:-
‘‘اگر کسی شیعہ کو سُنّی کی نماز جنازہ میں شریک ہونا پڑے تو وہ یہ دُعا کرے۔ اَللّٰھُمَّ اِمْلَأْ جَوْفَہٗ نَاراً وَ قَبْرَہٗ نَاراً وَ سَلِّطْ عَلَیْہِ الْحَیَّات وَ الْعَقَارِبَ۔65 یعنی اے خدا! تُو اس کے پیٹ میں آگ بھر دے اور اس کی قبر میں بھی آگ بھر دے اور اس پر عذاب کے لئے سانپ اور بچھو مسلّط فرما۔
دیوبندی علماء کا فتویٰ بریلویوں کے متعلق
دیوبندیوں کا فتویٰ بریلویوں کے متعلق ذیل میں درج
ہے:-
‘‘مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی مع ازناب و اتباع کے کافر اور جو انہیں کافر نہ کہے اور ان کو کافر کہنے میں کسی وجہ سے بھی شک و شُبہ کرے وہ بھی بِلا شُبہ قطعی کافر ہے’’۔ 66
بریلوی علماء کا فتویٰ دیوبندیوں کے متعلق
بریلویوں کا فتویٰ دیوبندیوں کے متعلق ذیل
میں درج ہے:-
(1) ‘‘مولوی احمد رضا خان صاحب اپنی کتاب ‘‘حسام الحرمین’’ میں لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ھٰؤُلَاءِ الطَّوَائِفُ کُلُّھُمْ کُفَّارٌ مُرْتَدُّوْنَ خَارِجُوْنَ عَنِ الْاِسْلَامِ بِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ’’۔ 67
یعنی یہ سب کے سب اسلام کے اجماعی فتویٰ کی رو سے کافر، مرتد اور اسلام سے خارج ہیں۔
(2) اسی طرح تین سو علماء نے دیو بندیوں کے متعلق یہ متفقہ فتویٰ دیا کہ:-
‘‘وہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتّٰی کہ حضرت سیّد الاوّلین و الآخرین صلی اﷲ علیہ وسلم کی اور خاص ذات باری تعالیٰجَلّ شانُہٗ کی اہانت و ہتک کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کُفر سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چُکا ہے۔ ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کُفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے اور اس شک کرنے والے کے کُفر میں شک کرے وہ بھی مرتد وکافر ہے’’۔ 68
مقلّد علماء کا فتویٰ اہلحدیث کے متعلق
(1) مقلّدین کا فتویٰ اہلِ حدیث کے متعلق ذیل میں درج ہے:-
‘‘مرتد ہیں باجماع امّت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کا معتقد ہو گا کافر اور گمراہ ہو گا۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے، ان کے ہاتھ کاذبیحہ کھانے اور تمام معاملات میں ان کا حکم بِجِنْسِہٖ وہی ہے جو مرتد کا ہے’’۔69
(نوٹ: اس فتویٰ پر77 علماء کے دستخط ہیں۔)
(2) ‘‘فرقہ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہری اس ملک میں آمین بالجہر اور رفع یدین اور نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہے اہل سُنّت سے خارج ہیں اور مثل دیگر فِرَق ضالّہ رافضی خارجی وَغَیْرَھُمَا کے ہیں’’۔ 70
(نوٹ: اس فتویٰ کے نیچے قریباً 70علماء کی مہریں ثبت ہیں۔)
اہلحدیث علماء کا فتویٰ مقلدین کے متعلق
اہلحدیث کا فتویٰ مقلدین کے متعلق ذیل میں درج
ہے:-
جامع الشواہد صفحہ 2 پر بحوالہ کتاب اعتصام السنہ مطبوعہ کانپور یہ فتویٰ درج ہے کہ:-
‘‘چاروں اماموں کے پیرو اور چاروں طریقوں کے متبع یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور چشتیہ اور قادریہ و نقشبندیہ و مجددیہ سب لوگ مشرک اور کافر ہیں’’۔ 71
مولانا مودودی صاحب ان فتوؤں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ رسم آج کی نہیں بلکہ بہت دیر سے چلی آرہی ہے ؎
ایں گنا ہیست کہ در شہر شمانیز کنند
صحابہ کے زمانہ میں خوارج نے یہ اعلان کیا تھا کہ جوشخص کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور وہ اس فتویٰ کو اس حد تک پہنچاتے تھے کہ لوگوں سے پوچھتے تھے بولو تمہاری رائے علی ؓ کی خلافت کے متعلق کیا ہے اور اگر کوئی تصدیق کرتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے’’۔72
کیا جماعت احمدیہ کا اسلام اَور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا اسلام اَور؟
(5) مولانا مودودی صاحب نے آگے چل کر لکھا ہے کہ احمدی لوگ خود بیان کرتے ہیں کہ ان
کا اسلام اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا اسلام اَور ہے۔ ان کا قرآن اَور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا قرآن اَور ہے، ان کا خدا اَور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا خدا اَور ہے، ان کا حج اَور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا حج اَور ہے اور اسی طرح ہر بات میں وہ ان سے مختلف ہیں۔73
جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے مولانا مودودی صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے۔ بیشک موجودہ امام جماعت احمدیہ نے ایک دو جگہ پر یہ لکھا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کا اسلام اَور ہے اور ہمارا اسلام اَور ہے، دوسرے مسلمانوں کا قرآن اَور ہے اور ہمارا قرآن اَور ہے، دوسرے مسلمانوں کا خدا اَور ہے اور ہمارا خدا اَور ہے لیکن معنوں کے لحاظ سے اُنہوں نے ہر گز وہ مفہوم نہیں لیاجو مولانا مودودی صاحب دُنیا پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات تو نظر نہیں آتی لیکن قرآن نظر آتا ہے۔ کیا دُنیا کا کوئی شخص ہے جو خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکے کہ احمدی مروّجہ قرآن کے سوا کوئی اور قرآن پڑھتے ہیں یا مسلمانوں میں جو اس وقت قرآن محفوظ سمجھا جاتا ہے اس میں وہ ایک زیر یا زبر کی تبدیلی بھی جائز سمجھتے ہیں؟ یا کوئی شخص قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ احمدی خانہ کعبہ کے حج کے لئے نہیں جاتے بلکہ ہر دوار یا کسی اور جگہ پر حج کے لئے جاتے ہیں۔ کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ احمدی کلمۂ اسلامی نہیں پڑھتے بلکہ کوئی اَور کلمہ پڑھتے ہیں۔ اگر احمدی بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سکھایا ہے، وہی قرآن پڑھتے ہیں جو حنفیوں اور اہلحدیثوں کے مطبعوں میں چھپا ہوتا ہے، اسی خانۂ کعبہ کا حج کرتے ہیں جو مکّہ مکرمہ میں ہے اور نجدی حکومت کے ماتحت ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس جگہ پر تمثیلی زبان میں کلام کیا گیا ہے نہ کہ زبان کے اصلی مفہوم کے مطابق۔ اگر تو احمدیوں کے پاس واقعی کوئی اور قرآن ہوتا، اگر احمدی واقع میں مکّہ مکرمہ میں حج کے لئے نہ جاتے (جماعت احمدیہ کے خلیفہ اوّل بھی مکّہ مکرمہ میں حج کر کے آئے تھے اور خلیفۂ ثانی بھی مکّہ مکرمہ میں حج کر کے آئے ہیں) تب تو مودودی صاحب کو اس عبارت سے استدلال کرنے اور جوش دلانے کا کوئی موقع تھا لیکن جب واقعہ یہ نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ‘‘اسلام اَور ہے’’ سے صرف اتنا ہی مُراد ہے کہ دوسرے لوگ اسلام کی پوری پابندی نہیں کرتے اور ‘‘قرآن اَور ہے’’ سے مصرف یہ مراد ہے کہ دوسرے لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اور ‘‘خدا اَور ہے’’ سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور ‘‘حج اَور’’ سے صرف یہ مراد ہے کہ حج کی شرائط کو وہ پورا نہیں کرتے اور کیا یہ واقعہ نہیں۔ یہ واقعہ نہیں تو اس شخص کے متعلق کیا فتویٰ ہے جس نے یہ لکھا کہ:-
‘‘مَیں پہلے بیان کر چُکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو بالکل جھوٹ کہتا ہے۔ کافر قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے۔ کافر نہیں جانتا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپ ؐ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے۔ اگر مسلمان بھی اسی طرح ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہؤا؟’’ 74
مولانا غور کریں کہ کیا اس جگہ انہوں نے اپنا اسلام اور دوسرے لوگوں کا اسلام اور نہیں قرار دیا؟
اسی طرح مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اس شخص کے متعلق جس نے یہ تحریر کیا ہے کہ:-
‘‘اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی جو مختلف جماعتیں اسلام کے نام سے کام کر رہی ہیں۔ اگر فی الواقع اسلام کے معیار پر ان کے نظریات، مقاصد اور کارناموں کو پرکھا جائے تو سب کی سب جنسِ کاسد نکلیں گی خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین و مفتیان شرع متین’’۔ 75
مولانا مودودی صاحب بتائیں کہ اس عبارت کا لکھنے والا شخص علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین تک کے اسلام کو اور اپنے اسلام کو اَور اور اپنے اسلام کو اَور قرار دے رہا ہے یا نہیں۔ اور کیا وہ شخص بھی اسی سلوک کا مستحق ہے جس سلوک کا مطالبہ مولانا مودودی صاحب احمدیوں کے متعلق کر رہے ہیں۔
(6) پھر مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ اس اختلاف کو احمدیوں نے اور زیادہ کھینچا اور کہا کہ:-
(6-الف) غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔
(6-ب) ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔
(6-ج) ان کو لڑکی دینا جائز نہیں۔
(7) اور یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عملاً بھی احمدی مسلمانوں سے کٹ گئے ہیں۔ نہ نماز میں شریک نہ جنازہ میں شریک نہ شادی بیاہ میں شریک۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ان کو زبر دستی مسلمانوں کے ساتھ ایک اُمّت میں شامل کیا جائے۔76
غیر احمدی علماء کے فتوے کہ احمدیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں
(6-الف) یہ درست ہے کہ احمدیوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں لیکن احمدیوں
نے یہ فتویٰ 1900ء میں دیا ہے۔ 77
اس سے پہلے غیر احمدیوں نے 1892ء میں یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔ مولانا مودودی صاحب فرمائیں افتراق کس نے پیدا کیا؟ اس نے جس نے 1892ء میں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا تھا یا اُس نے جس نے آٹھ سال صبر کرنے کے بعد یہ اعلان کیا کہ بہت اچھا، غیر احمدی علماء نے جو فتویٰ دیا ہے اُس کو مان لو اور اب ان کے پیچھے نماز نہ پڑھو کیونکہ ان کے نزدیک تمہارے مسجدوں میں جانے سے ان کی مساجد ناپاک ہو جاتی ہیں۔ غیر احمدی علماء نے اس بارہ میں جو فتوے دیئے ہیں ان میں سے صرف چند فتوے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:-
(الف) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی ٔ سلسلہ اور ان کے اَتباع کے متعلق لکھا ہے:-
‘‘نہ اس کو ابتداءً سلام کریں اور نہ اس کو دعوتِ مسنون میں بلائیں اور نہ اس کی دعوت قبول کریں اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں’’۔ 78
(2) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا:-
‘‘قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدیں ہیں یہ جمع نہیں ہو سکتیں’’۔ 79
(3) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا :-
‘‘جس کے یہ عقائد ہیں اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے’’۔ 80
(4) مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا :-
‘‘مرزا قادیانی جو کچھ کرتا ہے سب دُنیا سازی کے لئے کرتا ہے۔ پس اس کے خلف نماز جائز نہیں’’۔ 81
(5) مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہر گز درست نہیں ہے’’۔82
(6) مولوی عبدالرحمن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا:-
‘‘مرزا قادیانی کافر مرتد ہے۔ اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردود ہے۔ فرض سر پر ویسا ہی رہے گا اور سخت گناہِ عظیم اس کے علاوہ۔ ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت’’۔83
(7) خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے فتویٰ دیا:-
‘‘وہ کتاب اﷲ کا مکذّب دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کی اور اس کے اتباع کی امامت اور بیعت و محبت ناجائز اور حرام ہے’’۔84
(8) محمد کفایت اﷲ صاحب شاہجہانپوری نے فتویٰ دیا:-
‘‘ان کے کافر ہونے میں شک و شُبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہر گز جائز نہیں’’۔ 85
(9) محمد حفیظ اﷲ صاحب مدرس مدرسہ دارالعلوم لکھنؤ نے فتویٰ دیا:-
‘‘بیعت اور امامت ایسے شخص کی درست نہیں’’۔ 86
(١٠) محمد امانت اﷲ صاحب علی گڑھی نے فتویٰ دیا:-
‘‘ایسے شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھیں’’۔ 87
(11) عبدالجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا:-
‘‘مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے اس کی اتباع کرنے والا بھی اسلام سے خارج۔ ہر گز امامت کے لائق نہیں’’۔ 88
(12) مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا:-
‘‘مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعتِ اسلام سے جُدا ہے اور اس کو امام بنانا ناجائز ہے’’۔ 89
(13) محمد علی صاحب واعظ نے فتویٰ دیا:-
‘‘جو مرزا کے مرید ہیں سب قرآن و حدیث کے مخالف ہیں ایسے خبیث کی امامت جائز نہیں’’۔ 90
(14) مولوی عزیز الرحمن صاحب دیوبندی نے فتویٰ دیا:-
‘‘جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام بنانا حرام ہے’’۔91
(15) اسلام الدین صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا:-
‘‘ایسے شخص کے خلف اقتداء درست نہیں’’۔ 92
(16) مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے حسام الحرمین میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر ایمان لانے والے کو کافر اور مرتد قرار دے کر لکھا کہ:-
‘‘اس کے پیچھے نماز پڑھنی اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھنی اور اس کے ساتھ شادی بیاہ کرنے اور اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور اس کے پاس بیٹھنے اور اس سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں اس کا حُکم بعینہٖ وہی ہے جو مرتدوں کا حکم ہے’’۔ 93
ان فتوؤں کی دس سالہ اشاعت کے بعد علماء کے اس فتویٰ کی کہ احمدیوں کو امام نہیں بنانا چاہئے اگر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے تصدیق کر دی تو ان پر کیا الزام؟ کیا ان کے کُفر اور فتنہ پردازی کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے علماء اسلام کا فتویٰ کیوں تسلیم
کر لیا؟٭
٭ ‘‘فتویٰ شریعت غرّا ‘‘اور ‘‘شرعی فیصلہ’’یہ دو ٹریکٹ ہیں جن میں غیراحمدی علماء کے جماعت احمدیہ کے متعلق فتاویٰ درج ہیں مگر کسی فتویٰ پر تاریخ درج نہیں۔
غیر احمدی علماء کے فتوے کہ احمدیوں کے جنازے جائز نہیں
(6-ب) اب رہا یہ سوال کہ احمدیوں نے ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھا۔ سو یہ فتویٰ بھی پہلے غیر احمدی علماء نے دیا
تھا کہ احمدیوں کا جنازہ پڑھنا ناجائز ہے بلکہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دینا بھی ناجائز ہے۔ جب دس سال تک متواتر منت سماجت کرنے کے بعد بھی باصطلاح مودودی صاحب ‘‘علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین’’ نے اپنے ان فتوؤں میں اصلاح نہ کی تو مجبوراً احمدیوں کو بھی یہ اعلان کرنا پڑا کہ احمدی جماعت کے لوگ ایسے شدید معاندین اور مخالفین کا جنازہ نہ پڑھیں جو جماعت احمدیہ اور اس کے بانی کو کافر کہتے ہیں، ملحد کہتے ہیں، دجّال کہتے ہیں اور جو اپنے مقبروں میں ان کے دفن ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ مولانا فرمائیں افتراق کا دروازہ ان کے اسلاف ‘‘مفتیانِ دین اور علماء شرعِ متین’’ نے کھولا یااحمدیوں نے کھولا۔ کیا 1892ء میں ایسا فتویٰ دینے والوں نے اختلاف اور افتراق پیدا کیا یا 1902ء میں مجبور ہو کر ان کا جواب دینے والے نے اختلاف اور افتراق کا دروازہ کھولا؟ اگر مولانا کو اپنے ‘‘علماء دین اور مفتیانِ شرع متین’’ کے فتوے دیکھنے کا موقع نہ مِلا ہو تو وہ ذیل کے فتوؤں کو مدِّنظر رکھ لیں:-
(1) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا:-
‘‘مسلمانوں کو چاہئے ایسے دجّال، کذّاب سے احتراز اختیار کریں .....نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں’’۔ 94
(2) مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا:-
‘‘یہ شخص اسی اعتقاد پر مَر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے’’۔95
(3) قاضی عبید اﷲ بن صبغۃ اﷲ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا:-
‘‘جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے .....اور مرتد بغیر توبہ کے مَر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا’’۔ 96
(4) مفتی محمد عبداﷲ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو اعلانیہ توبہ کرنی چاہئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے اور حسب طاقت کھانا کھلائے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اہلِ سُنّت و الجماعت کو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئے۔ ایسے منافق کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی’’۔ 97
اس فتویٰ پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بھی مہر تصدیق ثبت ہے اور یہی فتویٰ ‘‘اَلْاَعْلَام مِنَ الْعُلَمَاءِ الرَّبَّانِیِّیْنَ فِیْ عَدْمِ جَوَازِ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ الْقَادِیَانِیِّیْنَ’’ شائع کردہ مولوی محمد شمس الدین صاحب جالندھری کے صفحہ 4 پر بھی درج کیا گیا ہے۔
(5) مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بھی حسام الحرمین صفحہ 95 پر احمدیوں کے جنازہ کی نماز پڑھنی ممنوع قرار دی ہے۔
پھر یہیں تک بس نہیں انہوں نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ ہونے دیا جائے چنانچہ
(1) مولوی عبدالصمد صاحب غزنوی نے لکھا:-
‘‘یہ شخص اسی اعتقاد پر مَر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ یہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے تاکہ وہ اہل قبور اِس سے ایذاء نہ پائیں’’۔ 98
(2) قاضی عبید اﷲ بن صبغۃ اﷲ صاحب مدراسی نے ١٨٩٣ء میں فتویٰ دیا کہ جب کوئی احمدی مَر جائے تو:-
‘‘اس کو مقابر اہلِ اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے کتّے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا۔ اشباہ و النظائر میں ہے وَاِذَامَاتَ اَوْ قُتِلَ عَلٰی رَدَّتِہٖ لَمْ یُدْفَنْ فِیْ مَقَابِرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَا اَھْلِ مِلَّۃِ فَاِنَّمَا یُلْقٰی فِیْ حُفْرَۃٍ کَالْکَلْبِ اور بحرالرائق میں ہے۔ اَمَّاالْمُرْتَدَّفَلَایُغْسَلُ وَلَایُکَفَّنُ وَاِنَّمَایُلْقٰی فِیْ حُفْرَۃٍ کَالْکَلْبِ’’۔99
(3) مجموعہ کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سیّد محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپور میں لکھا ہے:-
‘‘ایسے شخص کو بعد موت کے غسل دینا یا اس کا جنازہ پڑھنا اور کفن دینا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں بلکہ ایک کپڑے کے پارچہ میں لپیٹ کر کسی اور جگہ گڑھے میں گاڑدینا چاہئے’’۔100
(4) فتویٰ درباب تکفیر مرزا غلام احمد قادیانی شائع کردہ مولوی محمد ریاست علی صاحب شاہجہانپوری میں بھی یہی فتویٰ درج کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ:-
‘‘یہ جو مَر جائیں تو ان کو مسلمان لوگ اپنے قبرستان میں نہ دفن ہونے دیں’’٭۔ 101
غیر از جماعت افراد کے جنازوں کے متعلق بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا فتویٰ
اب اس کے جواب میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا بھی فتویٰ پڑھ لیں۔ ایک احمدی دوست
چودھری مولا بخش صاحب سیالکوٹ کے استفسار کے جواب میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے فروری 1902ء میں تحریر فرمایا کہ:-
‘‘جو شخص صریح گالیاں دینے والا، کافر کہنے والا اور سخت مکذّب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے۔ گویا منافقوں کے رنگ میں ہے اس کے لئے کچھ بظاہر حرج
نہیں کیونکہ جنازہ صرف دُعا ہے اور انقطاع بہرحال بہتر ہے’’۔
اِس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ہرگز جنازہ کے روکنے میں پہل نہیں کی بلکہ مولانا مودودی صاحب کے بزرگوں اور بزرگوں کے
٭ فتویٰ نمبر 3 اور 4 پر کوئی تاریخ درج نہیں اور نہ ٹریکٹوں پر سن اشاعت درج ہے
اسلاف نے یہ فتویٰ دیا کہ احمدیوں کی نماز جنازہ جائز نہیں بلکہ انہیں اپنے مقبروں میں دفن ہونے کی اجازت دینا بھی ناجائز ہے۔ تب بانی ٔ سلسلہ احمدیہ مجبور ہو گئے کہ فتنے سے بچنے کے لئے ایسے جنازوں میں شرکت سے اپنی جماعت کو روک دیں۔
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ نے کچھ عرصہ سے یہ طریق اختیار کیا ہؤا ہے کہ وہ کسی غیر احمدی کا بھی جنازہ نہیں پڑھتے لیکن اب بھی ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ غیراحمدیوں کے ساتھ دفن ہونے سے ان کے مُردے خراب ہو جاتے ہیں یا اگر کوئی غیر احمدی مُردہ ان کے عام قبرستان میں دفن ہو جائے تو اس کی لاش کو نکال کر باہر پھینک دینا چاہئے۔ قادیان میں بھی غیر احمدی مُردے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے باپ دادا کے دیئے ہوئے قبرستان میں دفن ہوتے تھے اور ربوہ میں بھی احمدیوں نے غیر احمدیوں کے قبرستان کے لئے کچھ جگہ دی ہے۔ حالانکہ یہاں کوئی آبادی غیر احمدیوں کی نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ربوہ کی زمین میں پرانے زمانہ سے ارد گرد کے گاؤں کے کچھ لوگ اپنے مُردوں کو لا کر دفن کر دیتے تھے۔ یہ زمین چونکہ کم ہو گئی جماعت احمدیہ نے ان لوگوں کی خاطر دو کنال زمین اپنا مقبرہ وسیع کرنے کے لئے دے دی۔ اسی کے ساتھ ملحق احمدیوں کا اپنا مقبرہ بھی ہے ۔ مولانا مودودی صاحب بتائیں کہ فساد کس نے کیا؟ جنہوں نے ساتھ دفن سے بھی انکار کیا یا جنہوں نے دفن ہونے کے لئے اپنی زمینیں دیں اور جو عملاً ان کے ساتھ پُرانے مقبروں میں دفن ہو رہے ہیں اور وہیں دفن ہونا چاہتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا مذکورہ بالا فتویٰ حال ہی میں مِلا ہے اور امام جماعت احمدیہ نے اس کے بارہ میں علم حاصل کر کے آج سے سالہا سال پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر اس فتویٰ کی مصدقہ تحریر مِل گئی تو پھر احمدیہ جماعت کے موجودہ طریق عمل پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔ چنانچہ اب جبکہ وہ تحریر مِل گئی ہے احمدی جماعت کے علماء بیٹھیں گے اور جہاں تک قیاس کیا جاتا ہے اس بارہ میں جو پہلا طریق عمل ہے اس میں ایک حد تک تبدیلی کی جائے گی۔
غیر احمدیوں کا احمدیوں کی لاشوں اور ان کی دفن کی ہوئی میّتوں سے شرمناک سلوک
مولانا مودودی صاحب کے بزرگوں اور چودھویں صدی کے
‘‘علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین’’نے تو یہاں تک بھی عمل کیا ہے کہ عملاً اُنہوں نے احمدیوں کی لاشوں کو اپنے قبرستانوں میں دفن نہیں ہونے دیا بلکہ احمدیوں کی دفن کی ہوئی لاشوں کونکال کر باہر پھینک دیا۔ اس دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل واقعات پیش کئے جاتے ہیں:-
(1) 20اگست 1915ء کو کنانور (مالابار) کے ایک احمدی کے۔ایس۔حسن کا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا۔ ریاست کے راجہ صاحب نے حُکم دے دیا کہ چونکہ قاضی صاحب نے احمدیوں کے متعلق کُفر کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے ان کی نعش مسلمانوں کے کسی قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ وہ بچہ اس دن دفن نہ ہؤا۔ دوسرے دن شام کے قریب مسلمانوں کے قبرستان سے دو میل دور اس کی نعش کو دفن کیا گیا۔102
(2) دسمبر 1918ء میں کٹک (صوبہ بہار) کے ایک احمدی دوست کی اہلیہ فوت ہو گئیں اُنہوں نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا۔ جب مسلمانوں کو معلوم ہؤا کہ ایک احمدی خاتون کی لاش ان کے قبرستان میں دفن کی گئی ہے تو اُنہوں نے قبر اُکھیڑ کر اس لاش کو نکالا اور اس احمدی دوست کے دروازہ پر جاکر پھینک دیا۔103
یہ تو ایک مخالف اخبار ‘‘اہلحدیث’’ کی خبر ہے۔ ہماری اطلاعات یہ تھیں کہ لاش کو غیراحمدیوں نے قبر سے نکال کر کتّوں کے آگے ڈال دیا اور احمدیوں کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ کوئی نکلے تو سہی کس طرح نکلتا ہے اور لاش کو دفن کرتا ہے۔ قریب تھا کہ کُتّے لاش کو پھاڑ ڈالیں کہ پولیس کو کسی بھلے مانس نے اطلاع دی اور پولیس نے آکر لاش دفن کروائی۔ مقدمہ ہؤا تو کسی شخص نے گواہی نہ دی اور صاف کہہ دیا کہ ہم موجود نہ تھے۔104
کٹک میں اس سے پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہوتا رہا ہے اس کے لئے اخبار اہلحدیث کی ہی ایک گواہی پیش کی جاتی ہے۔ یکم فروری 1918ء کے اخبار اہلحدیث میں ‘‘کٹک میں قادیانیوں کی خاطر’’ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہؤا جس میں لکھا گیا کہ:-
‘‘وہ جو کہاوت ہے کہ موئے پر سو دُرّے۔ سو وہ بھی یہاں واجب التعمیل ہو رہی ہے۔ مرزائیوں کی میّت کا پوچھئے مت۔ شہر میں اگر کسی میّت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستانوں میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے ، کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میّت کی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ کھوجتے تابوت نہیں ملتی، بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکاسا جواب دے دیتے ہیں،بانس اور لکڑی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے۔ دفن کے واسطے جگہ تلاش کرتے کرتے پھُول کا زمانہ بھی گزر جاتا ہے۔ ہر صورت سے نااُمید ہو کر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کرگاڑ دیں تو ہاتفِ غیبی افسرانِ میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ غڑپ سے آموجود ہو کر خرمنِ امید پر کڑکتی بجلی گرادیتے ہیں’’۔105
مودودی صاحب اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہیں کہ اسلامی تعلیم کا کیسا شاندار نمونہ ان کے ہمنوا دکھاتے رہے ہیں۔ افسوس خود مودودی صاحب کو اس جہاد کی توفیق نہیں ملی۔
(3) اپریل 1928ء میں کٹک میں ایک چھوٹے بچے کی لاش کو مخالفین نے اُس قبرستان میں بھی دفن ہونے سے روک دیا جو گورنمنٹ سے احمدیوں نے اپنے لئے حاصل کیا ہؤا تھا اور مقامی حکام نے بھی اس میں احمدیوں کی کوئی مدد نہ کی۔ 106
(4) 16مارچ 1928ء کو بھدرک (اڑیسہ) میں ایک احمدی شیخ شیر محمد صاحب کی لڑکی فوت ہو گئی۔ غیر احمدیوں نے اس کی لاش قبرستان میں دفن نہ ہونے دی اور بڑے بھاری جتھہ سے مارنے پیٹنے پر آمادہ ہو گئے۔ آخر اُنہوں نے میّت کو صندوق میں بند کر کے اپنے گھر کے احاطہ کے اندر دفن کر دیا۔ 107
(5) 29جنوری 1934ء کی شام کو کالی کٹ (مالا بار) میں ایک احمدی دوست فوت ہو گئے۔ مخالفین نے سارے شہر میں پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دینا چاہئے۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فوت شدہ احمدی کے مکان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور وہاں اُنہوں نے گالیوں، دھمکیوں اور شور و شر سے ایسا طوفان برپا کیا کہ احمدیوں کے لئے مکان کے اندر باہر جانا مُشکل ہو گیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مُشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا مگر اس نے دیکھا کہ وہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاٹھیاں وغیرہ لے کر جمع ہیں اور اُنہوں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ فوت شُدہ احمدی کو کسی صورت میں بھی اس قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے۔ ذمّہ دار حُکام کو توجّہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے بھی اپنی بے بسی ظاہر کی۔ آخر دوسرے دن رات کے ساڑھے دس بجے ایک ایسی جگہ جو شہر سے بہت دُور تھی اور جو موسمِ برسات میں بالکل زیر آب رہتی تھی احمدیوں نے اپنی لاش دفن کی۔ 108
(6) 12مارچ 1936ء کو بمبئی کے ایک احمدی دوست کا خورد سال بچہ فوت ہو گیا۔ جب اسے دفن کرنے کے لئے قبرستان لے گئے تو مخالفین نے جھگڑا شروع کر دیا اور کہا کہ ‘‘قبرستان سُنّی مسلمانوں کا ہے قادیانیوں کا نہیں ہے۔ یہاں قادیانی دفن نہیں ہو سکتے’’۔ احمدیوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں مگر اُنہوں نے پھر کہا کہ ‘‘ہم اس لاش کو یہاں دفن ہونے نہیں دیں گے کیونکہ قادیانی کافر ہیں’’۔ پولیس کے ذمّہ دار احکام نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو اُنہوں نے بمبئی میونسپلٹی کے توسط سے ایک الگ قطعہ زمین میں اسے دفن کرا دیا مگر میّت کو دفن کرنے کے لئے جو جگہ دی گئی وہ شہر سے بہت دور اور اچھوت اقوام کا مرگھٹ تھی۔ روزنامہ ‘‘ہلال’’ بمبئی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب مسلمانوں نے یہ خبر سُنی کہ احمدی میّت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو
‘‘اس اطلاع کے سُنتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ہر شخص مسرّت سے شادماں نظر آتا تھا’’۔ 109
مولانا مودودی صاحب کو بھی یہ واقعہ٭پڑھ کر اپنے ساتھیوں سمیت اسلام زندہ باد کا نعرہ لگانا چاہئے۔
اِسی طرح اس نے لکھا کہ:-
‘‘ہم مسلمان ہیں اسلام کی عظمت اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حرمت پر مِٹ جانا ہمارا فرض ہے۔ ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں اس وقت تک کوئی طاقت مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانی میّت کو دفن نہیں کر سکتی’’۔ 110
(7) 29اپریل 1939ء کو بٹالہ میں ایک احمدی لڑکی وفات پاگئی اس پر احرار نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ اس کی نعش کو اس خاندانی قبرستان میں بھی دفن کرنے سے انکار کر دیاجہاں کئی احمدی مدفون تھے اور چند احمدیوں کو ساری رات محاصرہ میں رکھا۔ حکام کو توجّہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے کوئی کارروائی نہ کی۔ آخر نعش کو ایک اور قبرستان میں جو میونسپل کمیٹی کا تھا لے گئے مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ جمع ہو کر مزاحم ہوئے۔ آخرمتواتر چوبیس گھنٹہ کی جدوجہد کے بعد ایک بیرونی نشیب جگہ میں اس نعش کو دفن کیا گیا۔111
(8) 1942ء میں شیموگہ (ریاست میسور) میں ایک احمدی عبدالرزاق صاحب کی اہلیہ فوت ہو گئیں اور مسلمانوں نے میّت کو قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا۔ چنانچہ تین دن تک میّت پڑی رہی آخر حکومت کی طرف سے ایک علیحدہ جگہ میں لاش کو دفن کرنے کا انتظام کیا گیا۔ 112
(9) اگست 1943ء میں ڈلہوزی میں ایک احمدی دوست خان صاحب عبدالمجید صاحب کی لڑکی کی وفات ہو گئی اس موقع پر بھی غیر احمدیوں نے اسے اپنے مقبرہ میں دفن کرنے
سے روکا اور مقابلہ کیا۔ 113
٭یہ واقعہ الفضل جلد 23 نمبر 220 و نمبر 221 مورخہ 24،25مارچ 1936ء صفحہ3 و صفحہ1 نیز الفضل 10اپریل1936ء صفحہ 3 سے ماخوذ ہے۔
(10) صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سندھ کی بہو 20جولائی 1944ء کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں وفات پاگئی۔ مخالفین نے اس کی تدفین میں مزاحمت شروع کر دی۔ 43 گھنٹوں کی مزاحمت کے بعد پولیس نے اپنی حفاظت میں نعش کو قبرستان میں دفن کر وایا مگر چند دنوں کے بعد 4،3اگست کی درمیانی رات مسلمانوں نے قبر کو اُکھاڑ ڈالا۔ نعش جس صندوق میں بند تھی اس کے اوپر کے تختوں کو توڑ ڈالا اور تابوت میں خشک ٹہنیاں اور کھجور کی ایک بوسیدہ چٹائی ڈال کر آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں کفن اور میّت کے بعض اعضاء جل گئے۔ صبح کو جب مرحومہ کے شوہر کو اس بات کا علم ہؤا تو پھر پولیس کو اطلاع دی گئی اور 5اگست کو میّت دوبارہ دفن کی گئی۔ 114
(11) 1946ء میں جماعت احمدیہ کے ایک معزز فرد مکرم قاسم علی خان صاحب قادیانی اپنے وطن رام پور میں وفات پا گئے۔ ان کے اعزّہ نے انہیں قبرستان میں دفن کر دیا مگر غیر احمدیوں نے ان کی نعش قبر سے نکال کر باہر پھینک دی اور کفن اُتار کر جسم کو عریاں کر دیا۔ پھر پولیس نے انہیں دوسری جگہ دفن کرنے کا انتظام کیا تو وہاں بھی یہی سلوک کیا گیا۔ اس واقعہ کے متعلق اخبار ‘‘زمیندار’’ میں جو حلفیہ رپورٹ شائع ہوئی وہ ذیل میں ملاحظہ ہو:
محمد مظہر علی خان صاحب رامپوری اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
‘‘میرے مکان کے پیچھے جو کہ شاہ آباد گیٹ میں واقع ہے محلہ کا قبرستان تھا۔ صبح کو مجھے اطلاع ملی کہ قبرستان میں لا تعداد مخلوق جمع ہے اور قاسم علی کی لاش جو اس کے اعزّہ رات کے وقت چپکے سے مسلمانوں کے اس قبرستان میں دفن کر گئے تھے لوگوں نے باہر نکال پھینکی ہے۔ مَیں فوراً اس ہجوم میں جا داخل ہؤا اور بخدا جو کچھ مَیں نے دیکھا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ لاش اوندھی پڑی تھی، منہ کعبہ سے پھر کر مشرق کی طرف ہو گیا تھا، کفن اُتار پھینکنے کے باعث متوفی کے جسم کا ہرعضو عریاں تھا اور لوگ شور مچا رہے تھے کہ اس نجس لاش کو ہمارے قبرستان سے باہر پھینک دو۔ جائے وقوعہ پر مرحوم کے پسماندگان میں سے کوئی بھی پرسانِ حال نہ تھا۔ لفٹیننٹ کرنل محمد ضمیر کی خوشامدانہ التجا پر نواب صاحب نے فوج اور پولیس کو صورتِ حال پر قابو پانے کے لئے موقع پر بھیجا۔ کوتوال شہر خان عبدالرحمن خان اور سپرنٹنڈنٹ پولیس خان بہادر اکرام حسین نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لاش دوبارہ دفن کرانے پر مجبور کیا لیکن اس جابرانہ حُکم کی خبر شہر کے ہر کونہ میں بجلی کی طرح پہنچ گئی اور غازیانِ اسلام مسلح ہو کر مذہب و دین کی حفاظت کے لئے جائے وقوعہ پر آگئے۔ حکومت چونکہ ایک مقتدر آدمی کی ذاتی عزت کی حفاظت کے لئے عوام کا قتل و غارت گوارا نہیں کر سکتی تھی اس لئے پولیس نے لاش کو کفن میں لپیٹ کر خفیہ طور پر شہر سے باہر بھنگیوں کے قبرستان میں دفنا دیا۔ چونکہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب تھے اس لئے اُنہوں نے بھنگیوں کو اس بات کی اطلاع کر دی اور بھنگیوں نے بھی اس متعفن لاش کا وہی حشر کیا جو پہلے ہو چُکا تھا۔ پولیس نے یہاں بھی دست درازی کرنی چاہی لیکن بھنگیوں نے شہر بھر میں ہڑتال کر دینے کی دھمکی دی۔ بالآخر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور کوتوال شہر کی بروقت مداخلت سے لاش کو دریائے کوسی کے ویران میدان میں دفن کر دینے کی ہدایات کی گئیں۔ سپاہی جو لاش کے تعفن اور بوجھ سے پریشان ہو چکے تھے کچھ دور تک لاش کو اُٹھا کر لے جاسکے اور شام ہو جانے کے باعث اسے دریائے کوسی کے کنارے صرف ریت کے نیچے چھپا کر واپس آگئے۔ دوسرے دن صبح کو شہر میں یہ خبر اُڑ گئی کہ قاسم علی کی لاش کو گیدڑوں نے باہر نکال کر گوشت کھا لیا ہے اور ڈھانچ باہر پڑا ہے۔ یہ سُن کر شہرکے ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق وہاں جمع ہوگئے۔ مَیں بھی موقع پر جا پہنچا لیکن میری آنکھیں اس آخری منظر کی تاب نہ لاسکیں اور مَیں ایک پھریری لے کر ایک شخص کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔ قاسم علی کی لاش کھلے میدان میں ریت پر پڑی تھی۔ اسے گیدڑوں نے باہر نکال لیا تھا اور وہ جسم کا گوشت مکمل طور پر نہیں کھا سکے تھے ..... مُنہ اور گھٹنوں پر گوشت ہنوز موجود تھا۔ باقی جسم سفید ہڈیوں کا ڈھانچ تھا۔ آنکھوں کی بجائے دھنسے ہوئے غار اور مُنہ پر ڈاڑھی کے اکثر بال ایک دردناک منظر پیش کر رہے تھے۔ آخر کار پولیس نے لاش کو مزدوروں سے اُٹھوا کر دریائے کوسی کے سپرد کر دیا اور اس طرح ایک امیر جماعت مرزائیہ کا انجام ہؤا’’۔ 115
احمدی ان افعال کو ناجائز سمجھتے ہیں اور کبھی بھی اس بات پر مُصر نہیں ہیں کہ کسی ایک مقبرہ میں غیر احمدیوں کےساتھ دفن نہ ہوں یہ ‘‘اتحاد اور اتفاق کی روح’’ صرف دورِ حاضر کے غیر احمدی ‘‘علماء دین اور مفتیانِ شرعِ متین’’ میں ہی پائی جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک عامۃ المسلمین بھی اس روح سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بچے ہوئے ہیں اور جہاں کہیں بھی اس قسم کے مظاہرے ہوئے ہیں مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی شرافت کا ثبوت دیا ہے اور اس قسم کے کاموں پر *** اور نفرین کا اظہار کیا ہے۔
غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کی ممانعت
(6-ج) یہ کہ احمدیوں نے غیراحمدیوں کو لڑکی دینا ناجائز
قرار دے دیا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے لیکن یہ بات ضروری بھی ہے کیونکہ لڑکی اپنے خاوند کے تابع ہوتی ہے اور اکثر لوگ اپنا مذہب عورت پر زبردستی ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ قرآن کریم نے بھی اگر بعض جگہ لڑکی دینے سے روکا ہے تو اسی حکمت سے روکا ہے۔ ورنہ یہ وجہ نہیں ہے کہ بعض عقائد میں اختلاف کی وجہ سے انسان پلید ہو جاتا ہے۔ اگر پلید اور گندگی اس کی وجہ ہوتی تو اسلام یہ کیوں اجازت دیتا کہ اہلِ کتاب کی لڑکیاں لے لینا جائز ہے۔اہلِ کتاب کی لڑکیاں لینے کی اجازت دینا اور لڑکیاں دینے سے روکنا صاف بتاتا ہے کہ یہاں مذہبی یا روحانی پلیدی اور گندگی باعث نہیں بلکہ صرف یہ باعث ہے کہ لڑکیاں چونکہ کمزور ہوتی ہیں ان پر ظلم نہ ہو اور یہ مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ احمدی لڑکیاں جب دوسرے گھروں میں گئی ہیں تو بعض جگہ وہ اتنے جاہل نکلے ہیں کہ اُنہوں نے لڑکیوں کو نماز اور قرآن پڑھنے سے بھی روکا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ ہم پر جادو کرتی اور ٹونے کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں لڑکی کو ان کے ساتھ بیاہ دینا اسے تباہ کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر لڑکیاں دینے کا اختلاف مذہب کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتا۔ کیا خوجہ برادری کے لوگ غیروں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں؟ کیا بوہرہ برادری کے لوگ غیروںکو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں؟ ہمیں معلوم ہؤا ہے کہ حال ہی میں کراچی کی ایک نہایت واجب التکریم خاتون نے ایک مجلس میں کہا کہ ہماری قوم میں تو اتنی سختی ہے کہ اگر ہماری قوم کا کوئی فرد اپنی لڑکی دوسری قوم کے فرد کو دے دے تو لوگ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور یہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں۔ قومی جتھہ بندیوں میں یہ باتیں عام ہو رہی ہیں۔ اگر عورتوں کی جان بچانے کے لئے اور ان کی آزادی کو خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے حکم دیئے جائیں تو یہ اختلاف اور افتراق کا موجب کس طرح ہو گئے؟ اس وقت ننانوے فیصدی جاٹ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، ننانوے فیصدی ارائیں اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، ننانوے فیصدی راجپوت بلکہ شاید سو فیصدی راجپوت ہی اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، اسی طرح سو فیصدی خوجہ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، سو فیصدی بوہرہ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا اور ننانوے فیصدی میمن اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا۔ تو کیا یہ سب اختلاف اور افتراق پیدا کرتے ہیں اور کیا وہ اسی فتویٰ کے مستحق ہیں جو احمدیوں پر لگائے جاتے ہیں؟
مولانا نے آگے چل کر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ زبانی فتوے تو الگ رہے احمدیوں نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک عمل کا مقام فتوے سے اونچا ہوتا ہے لیکن جب مسلمانوں کی ہر قوم اور ہر قبیلہ عملاً ایسا کر رہا ہے تو پھر اگر احمدیوں نے ایسا کر لیا تو اس پر کیا اعتراض ہے؟
احمدیوں کو رشتے نہ دینے کا فتویٰ پہلے خود غیر احمدی علماء نے دیا
پھر کیا مولانا یہ بھُول گئے ہیں کہ اس میں بھی ابتداء باصطلاح مودودی صاحب ‘‘علماءِ دین و مفتیانِ شرعِ متین’’ نے
کی ہے۔ اگرمولانا مودودی صاحب کو دوسروں کا لٹریچر پڑھنے کا موقع نہیں مِلا تو ہم ان کے علم کی زیادتی کے لئے ذیل میں چند حوالہ جات درج کرتے ہیں:-
(1) مولوی عبداﷲ صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب مشہور مفتیانِ لدھیانہ نے اپنے اشتہار مورخہ 29رمضان 91-1890ء میں یہ فتویٰ شائع کیا کہ:-
‘‘یہ شخص (یعنی بانی ٔ سلسلہ احمدیہ) مرتد ہے اور اہلِ اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے۔ اسی طرح جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کر لے’’۔ 116
یعنی احمدیوں کی بیویوں کو جبراً دوسری جگہ بیاہ دینا بھی عین ثواب ہے۔
(2) قاضی عبیدا ﷲا بن صبغۃ اﷲ صاحب نے 1893ء میں فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد کہ پیدا ہوتے ہیں وہ ولد الزنا ہوں گے’’۔ 117
(3) مجموعہ کفریات مرزا غلام احمد قادیانی میں لکھا گیا کہ:-
‘‘اگر ایسے شخص کے نکاح میں مسلمان عورت ہو تو اس کا نکاح فسخ ہے اور اُس کی اولاد ولد الزنا ہے۔ اس کی عورتِ مُسلمہ کا دوسرے شخص کے ساتھ بِلا عدّت نکاح کرنا جائز ہے’’۔ 118
(4) مولوی احمد اﷲ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ:-
‘‘جو شخص ثابت ہو کہ واقعی وہ قادیانی کا مرید ہے اس سے رشتۂ مناکحت کا رکھنا ناجائز ہے’’۔ 119
اِسی قسم کے بیسیوں فتوے بعد میں استنکاف المسلمین عن مخالطۃ المرزائیین، سیف الرحمن علی رأس الشیطان، القول الصحیح فی مکائد المسیح، مہر صداقت مصنفہ حاجی محمد اسمٰعیل صاحب لکھنوی، فتویٰ شرعیہ شائع کردہ دفتر الاسلام لاہور، صاعقہ ربّانی بر فتنہ قادیانی مصنفہ مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی، واقعات بھدروا شاہی جاگیر مصنفہ قاضی فضل احمد صاحب لدھیانوی اور متفقہ فتاویٰ علماء دیوبند بابت فرقۂ قادیانی وغیرہ میں بار بار شائع کئے گئے ہیں۔
انہی فتوؤں کا یہ نتیجہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد مسجدوں سے نکالے گئے، ان کی عورتیں چھینی گئیں اور ان کے مُردے تجہیز و تکفین اور جنازہ کے بغیر گڑھوں میں دبائے گئے۔ چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں ایک غیر احمدی عالم مولوی عبدالواحد صاحب خانپوری کا بیان پیش کرتے ہیں جو اُنہوں نے 1901ء میں شائع کیا۔ وہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے اشتہار ‘‘الصلح خیر’’ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
‘‘مخفی نہ رہے کہ باعث اس صلح نامہ کا یہ ہے کہ جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے۔ جمعہ و جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکماً روکے گئے تو نہایت تنگ ہو کر مرزا قادیانی سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو مَیں لوگوں سے صلح کرتا ہوں۔ اگر صلح ہو گئی تو مسجد بنانے کی کچھ حاجت نہیں اور نیز اور بہت قسم کی ذلتیں اُٹھائیں۔ معاملہ و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا، عورتیں منکوحہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں، مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے وغیرہ وغیرہ۔ توکذّاب قادیانی نے یہ اشتہار مصالحت کا دیا’’۔ 120
اِسی طرح لکھا:-
‘‘معاملہ و برتاؤ تم سے روکا گیا، عورتیں چھینی گئیں، مردے خراب و بے جنازہ پھینکے گئے، مال و آبرو کا نقصان، روپوؤں کی آمدنی میں خلل آگیا ..... نہ مسجدوں میں جاسکو نہ مجلسوں میں.....تو اب آگے تم کیا کر سکتے ہو’’۔ 121
اب مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ ان فتوؤں اور ان پر متواتر تعامل کے بعد اگر احمدیوں نے بھی بالمقابل اپنی لڑکیوں کی جان اور عزت محفوظ کرنے کے لئے کوئی طریق اختیار کیا تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ احمدیوں کا جو بھی فیصلہ اس بارہ میں ہے 1898ء اور اس کے بعد کا ہے اور مولانا مودودی صاحب کے ‘‘علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین’’ کا فتویٰ 1892ء کا ہے ۔ مولانا فرمائیں کہ أَلْبَادِی أَظْلَمُ (جو ابتدا کرے وہ زیادہ ظالم ہوتا ہے) کا کلمۂ حکمت اپنے اندر کوئی معنے رکھتا ہے یا نہیں یا مولانا کے نزدیک کچھ جماعتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ جو بد سلوکی بھی کریں جائز ہے اور کچھ جماعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ جواب میں بھی زبان کھولنے کا حق نہیں رکھتیں۔ اگر ان کے نزدیک اسلام کی یہ تعریف ہے تو دُنیا کے سامنے اس تعریف کا اعلان تو کر دیکھیں پھر دیکھیں کہ مسلمانوں میں سے ہی تعلیم یافتہ طبقہ ان کی اس رائے کے متعلق کیا خیال ظاہر کرتا ہے۔
کیا غیر احمدی علماء کے فتوے صرف زبان تک محدود رہے تھے؟
(7) اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ احمدیوں کا یہ فتویٰ صرف زبان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عملاً بھی
اُنہوں نے ایسا ہی کیاہے۔مولانا کی خدمت میں ہم عرض کرتے ہیں کہ احمدیوں کا ہی یہ فتویٰ زبان تک نہیں رہا بلکہ اس سے دس سال پہلے کے دیئے ہوئے فتوے ‘‘علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین’’ کے بھی زبان تک محدود نہیں رہے بلکہ عملاً احمدیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا گیا، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا، ان کو لڑکیاں دینے سے روکا گیا، ان کی لڑکیاں لینے سے روکا گیا، ان کو قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دینے سے روکا گیا۔
اب مولانا مودودی صاحب کے دلائل میں صرف ایک ہی طاقت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم زیادہ ہیں ہمیں سب کچھ کرنے کا حق ہے، تم تھوڑے ہو تمہیں احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں۔ اس دلیل کا جواب احمدی جماعت کے پاس کوئی نہیں سوائے اس کے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں میں سے اکثریت نے اس ظلم کو ناپسند کیا ہے اور اُنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی تعلیم کی جلائی ہوئی چنگاری اب تک مسلمان کے دل میں کبھی کبھی شعلہ بار ہو جاتی ہے، کبھی کبھی وہ اپنا وجود ظاہر کر دیا کرتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو نہ معلوم مولانا مودودی صاحب کے ‘‘علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین’’ احمدیوں کوزندہ دیواروں میں گاڑ کے مار دیتے اور اس پر احتجاج کرنے والوں کی زبان ان کی گُدّی سے نکال کر پھینک دیتے۔
حفاظتِ دین تلوار کے ساتھ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ہؤا کرتی ہے
(8) اس کے بعد مولانا لکھتے ہیں اگر مسلمانوں سے ان احمدیوں کو الگ کر دیا جائے تو
پھر دوسروں کو یہ ہمّت نہیں ہو گی کہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں اور مسلمانوں میں افتراق پیدا کریں۔ 122
مولانا ! بازی بازی باریش بابا ہم بازی۔ آپ سمجھتے نہیں کہ آپ کی یہ بات کس طرح صحابہ ؓ اور رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وسلم پر چوٹ کرتی ہے۔ اگر یہی دلیل مکّہ کے لوگ دیتے بلکہ حق تو یہ ہے کہ وہ دیا کرتے تھے تو کیا ان کے وہ مظالم جن کو سُن کر اور جن کو پڑھ کر ایک شریف ہندو اور ایک شریف عیسائی کا دل بھی دہل جاتا ہے وہ جائزاور درست نہیں ہو جائیں گے؟ مولانا دنیا میں حفاظتِ دین تلوار کے ساتھ نہیں ہؤا کرتی۔ حفاظتِ دین تعلیم اور تربیت کے ساتھ ہؤا کرتی ہے۔ جب تک اسلام دلوں میں زندہ ہے دس ہزار نبوت کا جھوٹا مُدعی بھی اس ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتا اور جب تک سچائی کا اعلان کرنے والے لوگ دُنیا میں موجود ہیں کوئی تلوار، کوئی بندوق، کوئی خنجر اور کوئی شعلۂ نار سچائی کا اظہار کرنے والوں کی زبان بندی نہیں کر سکتا۔ سچ ماریں کھا کربھی اُٹھے گا اور سچائی کا اعلان کرنے والے قتل ہوتے ہوئے بھی اپنی بات کو دُہراتے چلے جائیں گے اور جھوٹے مُدعیانِ نبوت خواہ کتنے بھی طاقتور ہوں اور خواہ ان کے مقابلہ میں کوئی تلوار بھی نہ اُٹھے اور کوئی مقابلہ بھی نہ ہو وہ ناکام رہیں گے اور نامراد مَریں گے۔
مولانا غالباً اپنے لٹریچر کے علاوہ دوسری کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بچتے رہتے ہیں۔ اگر وہ قرآن کریم کو پڑھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ حضرت موسیٰ ؑجب فرعون کے پاس گئے اور فرعون نے ان پر ظلم کرنا چاہا تو فرعون کے ایک درباری نے اس کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہاِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ١ۚ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ۔123 اے میری قوم! اگر موسیٰ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسے تباہ کر دے گا اور اگر وہ سچا ہے تواس کی پیشگوئیوں کا ایک حصّہ تمہارے حق میں پورا ہو کر رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ کبھی بھی حد سے بڑھنے والے اور جھوٹے کو کامیاب نہیں کرتا۔ پس تم موسیٰ کو کیوں قتل کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ اس آیت میں کتنی زبردست سچائی کو بیان کیا گیا ہے کہ دین خدا کی طرف سے آتا ہے۔ دین سیاست نہیں جس کے لئے خدا کی مدد کاسوال پیدا نہ ہو۔ دین خدا کا رستہ ہے جس کی حفاظت خدا تعالیٰ خود کرتا ہے۔ جھوٹے نبیوں کی طاقت کیا ہے کہ وہ سچ کو مِٹا سکیں۔ خدا کی تلوار جھوٹے نبیوں کو مارتی ہے ۔ کیا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ نہیں کہا کہ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلۙ۔لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِۙ۔ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ۔124 یعنی اگر یہ شخص ہم پر کوئی افتراء کرتا اور کوئی بات ہماری طرف منسوب کردیتا جو ہم نے نہیں کہی تو ہم اس کا دایاں بازو پکڑ لیتے اور اس کی رگِ جان کاٹ دیتے۔
مولانا جھوٹے نبی کی رگِ جان کاٹنے کے لئے خدا آپ تیار رہتا ہے آپ کی تلوار کی وہاں ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ کی تلوار تو اسلام کی سچائیوں کو مُشتبہ کر دیتی ہے اور وہ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف لانے سے روکتی ہے کیونکہ وہ اسلام کو ایک خونریزی کا مذہب سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی صلح اور آشتی کی تعلیم آپ کے تیار کردہ غلافوں میں چھپ جاتی ہے۔ کاش آپ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور اسلام کی صداقت اور اس کی خوبیوں کو روشن اور اُجاگر ہونے دیتے۔
غیر احمدی علماء کا باہم مل کر اسلامی دستور کے اصول مرتّب کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہیں
(9) پھر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ بے شک دوسرے مسلمان بھی کُفر بازی کے مرض میں مُبتلا ہیں لیکن اس دلیل کی وجہ سے احمدیوں کو کافر قرار دینے سے رُکنا جائز نہیں کیونکہ اگر ذرا ذرا سے اختلاف پر تکفیر کر دینا غلط ہے تو دین کی بنیادی حقیقتوں سے کھلے کھلے انحراف پر تکفیر نہ کرنا بھی سخت غلطی ہے اور اس کی مزید دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جب علماء اسلام نے بالاتفاق اسلامی دستور کے اصول مرتّب کئے تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ کام کیا۔125
مولانا مودودی صاحب کی یہ دلیل ہر گز معقول نہیں۔ یہ دلیل تبھی معقول ہو سکتی تھی جب یہ کہا جاتا کہ کُفر کے فتوے دینے والے علماء اوّل درجہ کے جاہل، بے ایمان اور بددیانت تھے۔ اس وجہ سے اب ان کی اولاد ان کی اتباع کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہ ان کے فتوؤں کے باوجود آپس میں مِل کر بیٹھنے کے لئے تیار رہے۔ جب دیو بندیوں کے بزرگوں نے بریلویوں پر کُفر صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے، جب بریلویوں نے دیوبندیوں اور اہلحدیث پر کُفر صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے، جب اہلحدیث نے اہلسنت پر کُفرِ صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے، جب اہلسنت نے اہلحدیث پر کفر صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے، جب شیعوں نے سُنّیوں پر اور سُنّیوں نے شیعوں پر کُفرِ صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے اور جب اسلامی جماعت والوں نے دوسرے فرقوں پر اور دوسرے فرقوں نے اسلامی جماعت پر کُفرِ صریح کا فتویٰ دیا ہؤا ہے تو ان فتوؤں کے بعد فتویٰ دینے والے لوگوں کایا ان کے شاگردوں کا مل بیٹھنا ان کی مداہنت اور بے ایمانی کی دلیل تو ہو سکتا ہے اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ ان کے نزدیک دوسرے فریق مسلمان ہیں اور یا پھر اسلام کی کوئی ایسی تعریف کرنی پڑے گی جو باوجود کُفر کے فتوؤں کے بھی ایک کافر کو دائرۂ اسلام سے باہر نہیں نکالتی اور جب آپ وہ تعریف کریں گے تو جس طرح سُنّی اور شیعہ اور خارجی اور اہلحدیث اور دیوبندی اور بریلوی اسلام میں شامل ہو جائے گا احمدی بھی اسلام میں شامل ہو جائے گا۔
جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی سے مولانا مودودی کو خوف
(10) آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ احمدیوں کے علاوہ اور گروہ بھی مسلمانوں میں ایسے ہیں جو کانفرنس والے
مسلمانوں سے گہرا اختلاف رکھتے ہیں۔ ان سے کیوں یہی معاملہ نہیں کیا جاتا؟ آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ بے شک ‘‘مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ بعض اَور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو اسلام کی بنیادی حقیقتوں میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور مذہبی و معاشرتی تعلقات منقطع کر کے اپنی جُداگانہ تنظیم کر چکے ہیں لیکن چند وجوہ ایسے ہیں جن کی بناء پر ان کا معاملہ قادیانیوں سے بالکل مختلف ہے۔ وہ مسلمانوں سے کٹ کر بس الگ تھلگ ہو بیٹھے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے چند چھوٹی چھوٹی چٹانیں ہوں جو سرحد پر پڑی ہوئی ہوں اس لئے ان کے وجود پر صبر کیا جاسکتا ہے لیکن قادیانی مسلمانوں کے اندر مسلمان بن کر گھستے ہیں، اسلام کے نام سے اپنے مسلک کی اشاعت کرتے ہیں، مناظر بازی اور جارحانہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں ..... جس کی وجہ سے ان کے معاملہ میں ہمارے لئے وہ صبر ممکن نہیں ہے جو دوسرے گروہوں کے معاملہ میں کیا جاسکتا ہے ..... اس پر مزید یہ کہ قادیانیوں کی جتھہ بندی، سرکاری دفتروں میں، تجارت میں، صنعت میں، زراعت میں غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ہے’’۔126
کہتے ہیں ‘‘جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے’’۔ مولانا مانتے ہیں کہ جہاں تک خدا اور رسول اور قرآن کا سوال ہے احمدیوں کی طرح اور فرقے بھی ہیں جو مسلمانوں سے ان اصول میں مختلف عقائد رکھتے ہیں اور عملاً مسلمانوں سے منقطع ہو جانے کے معاملہ میں بھی وہ ایسے ہی ہیں جیسے احمدی لیکن پھر بھی ان کے ساتھ احمدیوں والا معاملہ کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ وہ تبلیغ نہیں کرتے۔ یعنی جو مسلمان مودودی صاحب نے تیار کئے ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ کوئی شخص ان میں تبلیغ کرے گا تو ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ مودودی اسلام کو اس حملہ آور شیر کا درجہ حاصل نہیں ہے جو کہ دُشمنوں کی صفوں میں سے چھین کر اپنا شکار لایا کرتا ہے بلکہ مودودی اسلام ایک محصور شُدہ اور شکست یافتہ فوج ہے کہ جو چاہے اس کے ایمان کو بگاڑلے اور جو چاہے اس کے دین کو خراب کر لے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو اس کے پاس نہ آنے دیا جائے جو تبلیغ کرتے ہیں۔ مولانا مودودی کو اسلام پر کتنا پُختہ ایمان حاصل ہے؟ مولانا مودودی کو مسلمان پر کتنی حُسنِ ظنّی ہے! اور مسلمان اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوں اگر وہ صداقت اسلام معلوم کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو ان نیک خیالات کو سُن کر کتنا خوش ہو گا اور مولانا مودودی کی خیر خواہی کی کتنی تعریف کرے گا اور باقی دُنیا یہ سُن کر کہ سب مُلکوں اور سب قوموں میں مسلمانوں کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے لیکن مسلمانوں میں کسی غیر قوم کو تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں کس قدر اسلام کے دلدادہ ہوں گے اور کس قدر اسلام کی محبت ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی!!!
مولانا! مسلمان کہلانے میں تو احمدی بھی شریک ہیں اور آپ بھی شریک ہیں ۔ اگر مسلمان کہلانے کی وجہ سے احمدیوں کی تبلیغ آپ کی جماعت پر مؤثر ہو جاتی ہے تو آپ کی تبلیغ احمدیوں پر کیوں مؤثر نہیں ہوتی۔ کبھی احمدیوں نے بھی شکایت کی ہے کہ آپ احمدیوں میں کیوں تبلیغ کرتے ہیں؟ آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں ہزار ہزار غیر احمدی ہیں۔ اگر ہزار ہزار غیر احمدی ایک ایک احمدی کو تبلیغ کرنے نکلے تو نتیجہ ظاہر ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ منٹوں میں اس کو خاموش کر لیں گے اور اسے حق کی طرح کھینچ لیں گے مگر باوجود اس کے کہ روپیہ آپ کے پاس ہے، جتھہ آپ کے پاس ہے، طاقت آپ کے پاس ہے، علماء آپ کے پاس ہیں پھر بھی آپ لرزہ براندام ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ احمدی ہم میں تبلیغ کریں گے تو کیا ہو جائے گا۔اگر آپ میں جرأت ہوتی تو آپ کہتے آئیں اور احمدی ہمیں تبلیغ کریں۔ کبھی آپ نے وہ واقعہ نہیں سُنا جو موجودہ امام جماعت احمدیہ کے ساتھ قادیان میں پیش آیا تھا۔ ایک دفعہ ہر دوار سے آریوں کے مذہبی کالج کے کچھ پروفیسر طالب علموں کے ساتھ قادیان آئے اور اُنہوں نے اسلام کے خلاف تقریریں کرنی شروع کر دیں۔ اُنہوں نے اپنے زعم میں امام جماعت احمدیہ کو شرمندہ کرنے کے لئے اپنے کچھ شاگردوں کو سوالات سکھا کر ان سے ملنے کے لئے بھیجا۔ اُنہوں نے آکر درخواست کی کہ ہم امام جماعت احمدیہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ امام جماعت احمدیہ نے مسجد میں ان کو بُلوالیا اور ان سے ملاقات کی۔ لڑکوں نے سکھلائے ہوئے سولات پیش کرنے شروع کر دیئے۔ امام جماعت احمدیہ نے جواب دیا کہ تم دس گیارہ لڑکے ہو ہر ایک کے دل میں نہ معلوم کتنے کتنے سوالات اسلام کے خلاف بھرے ہوئے ہوں گے۔ آخر مَیں محدود وقت دے سکتا ہوں۔ تمہارا اصرار یہ ہے کہ میرے ہی مُنہ سے جواب سُنو کسی دوسرے احمدی عالم کے مُنہ سے جواب سُننے کے لئے تم تیار نہیں اور مَیں اوّل تو دنوں اور ہفتوں بیٹھ کر تمہارے ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا۔ دوسرے مَیں جو بھی جواب دوں گا اگر وہ حقیقی جواب ہو گا اور قرآن کریم میں سے ہو گا تو تمہارے دل میں شُبہ ہو گا کہ معلوم نہیں قرآن میں یہ بات لکھی ہے یا نہیں لکھی کیونکہ تم عربی نہیں جانتے اور اگر مَیں الزامی جواب دوں گا اور وہ ویدوں سے ہو گا یا دوسری ہندو کُتب سے ہو گا تو تم فوراً کہو گے کہ آپ تو سنسکرت جانتے ہی نہیں، آپ کیا جانتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ پس کوئی ایسا ذریعہ ہمارے درمیان مشترک نہیں جس کے ساتھ اس جھگڑے کا تصفیہ کیا جاسکے۔ اس لئے میں تمہیں ایک آسان راہ بتاتا ہوں۔ تم اپنے اساتذہ سے جاکر کہو کہ وہ چار لڑکے جو مَیں اُنہیں دوں اُنہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور دو تین سال رکھ کر اُنہیں وید پڑھائیں اور جو اعتراضات ان کے دل میں قرآن کے متعلق ہیں وہ ان کے کانوں میں ڈالیں۔ ان لڑکوں کا خرچ زمانۂ تعلیم سے آخر تک مَیں ادا کروں گا اگر اس عرصۂ تعلیم میں سنسکرت پڑھ لینے اور ویدوں کا مطالعہ کر لینے کے بعد وہ لڑکے ہندو مذہب کی فوقیت اور اسلام کی کمزوری کے قائل ہو جائیں گے تو چار مبلغ ہندوؤں کو میرے خرچ سے تیار شُدہ مِل جائیں گے اور اگر وہ واپس میرے پاس آجائیں گے تو آئندہ مجھ سے کوئی سوال کرے گا تو مَیں ایسے لوگوں کو پیش کر سکوں گا جو ہندو لٹریچر خود پڑھ سکیں۔ اسی طرح چار لڑکے خود منتخب کر کے وہ پروفیسر میرے پاس بھیج دیں مَیں اُنہیں عربی زبان اور قرآن پڑھاؤں گا اور اسلام کی خوبیاں اُن کو بتاؤں گا اور جتنی دیر وہ یہاں تعلیم حاصل کریں گے ان کی تعلیم کا خرچ مَیں دوں گا اور کبھی ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ مسلمان ہو جائیں۔ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں اور خود محسوس کریں کہ اسلام سچّا ہے تو بے شک اپنی مرضی سے مسلمان ہو جائیں اور اگر ان پر اسلام کی صداقت واضح نہ ہو تو میرے خرچ پر قرآن سے واقف ہو کر وہ ہندوؤں کے مبلّغ بن جائیں گے اور اسلام کے خلاف محاذ قائم کریں گے۔ غرض دونوںطرف کا خرچ مَیں دوں گا اور کوئی بوجھ ہندو قوم پر نہیں پڑے گا۔ امام جماعت احمدیہ کی اس بات کو سُن کر وہ لڑکے کچھ جھجک سے گئے اور اُنہوں نے سوال کرنے بند کر دیئے اورتھوڑی دیر کے بعد اُٹھ کر چلے گئے۔ کوئی مہینہ دو مہینے گزرے تھے کہ ایک ہندو نوجوان قادیان میں آیا اور امام جماعت احمدیہ سے مِل کر اُس نے کہا کہ آپ کو یاد ہے کہ کچھ لڑکے اس قسم کے آپ کے پاس آئے تھے اور آپ نے ان سے یہ یہ باتیں کی تھیں۔ آپ نے کہا ہاں مجھے خوب یاد ہے۔ اس نے کہا مَیں اُن لڑکوں میں سے ایک ہوں۔ ہمارے اساتذہ نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ ڈر گئے مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ بات معقول ہے۔ مَیں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ مجھے اپنے خرچ پر قرآن اور عربی پڑھائیں مگر کبھی مجھے مسلمان ہونے کے لئے نہ کہیں۔ تعلیم کے بعد مَیں آپ فیصلہ کر لوں گا کہ مجھے مسلمان ہونا چاہئے یا نہیں۔ آپ نے اس شرط کو منظور کیا اور اس نوجوان کو اسلام کی تعلیم دلوائی۔ وہ گوروکل کانگڑی کا جو ہندوستان کا بہترین ہندوسنسکرت کالج ہے طالب علم تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد جب اُس نے قرآن کریم کو خود اپنی آنکھوں سے پڑھا اور خود اس کا مطلب سمجھنے کے قابل ہؤا تو ایک دن خود آکر خواہش کی کہ مَیں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے مولوی فاضل پاس کیا اور اب وہ اسلام کا ایک مبلغ ہے اور اسلام کی تائید میں کتابیں لکھتا ہے۔
مولانا!یہ سچ کی طاقت ہوتی ہے۔ راستبازوں کے یہ حوصلے ہوتے ہیں جس کا نمونہ امام جماعت احمدیہ نے دکھایا۔ آپ اگر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ سمجھتے ہیں وہ سچ ہے تو دوسرے مسلمان فرقوں کو اس سے واقف کیجئے اور احمدیوں میں تبلیغ کیجئے۔ پھر اگر دوسرے مسلمان آپ کی باتوں کو سچّا سمجھیں گے تو وہ اپنے فرقہ کو چھوڑ کر آپ میں آملیں گے۔ یہی طریق ہے جو سب نبیوں نے اختیار کیا اور اسی طریق سے دُنیا میں سچّائی قائم ہوتی رہی ہے۔ ڈنڈوں اور تلواروں نے نہ کبھی پہلے سچ کی مدد کی ہے اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔
مولانا! آپ نے تو اپنے اس بیان میں حقیقت کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ آپ کے اس بیان کا مطلب تو یہ ہے کہ خدا کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں، قرآن کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں۔ ایسے مسلمان فرقے بے شک موجود ہیں جو ان باتوں میں ہم سے احمدیوں کی طرح اختلاف کرتے ہیں۔پھر معمولی اختلاف نہیں ‘‘بنیادی حقیقتوں’’ میں اختلاف کرتے ہیں اور معاشرتی تعلقات ہم سے منقطع کر رہے ہیں لیکن ہم کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا، ہم کو قرآن سے کیا، ہم کو اسلام سے کیا۔ وہ خدا اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے کیونکہ وہ تبلیغ نہیں کرتے۔ پس جب مودودی جماعت ان کے فتنہ سے محفوظ ہے تو خدا اور اس کا رسول جائیں اور اپنی حفاظت آپ کریں ہم کو تو احمدیوں سے غرض ہے کہ وہ مودودی اور دیوبندی بھیڑوں میں سے کچھ نہ کچھ بھیڑیں اُٹھا کر ہر سال لے جاتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کے متعلق مخالفین کی کِذب بیانیاں
پھرمولانا فرماتے ہیں کہقادیانیوں
کی وجہ سے تو سرکاری دفاتر میں، تجارت میں،صنعت میں، زراعت میں غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے ساتھ لڑائی ہو جاتی ہے۔
مولانا! یہ لڑائی کون کرتا ہے؟ یہ جھوٹ کب تک بولا جائے گا کہ سرکاری دفاتر پر احمدی قابض ہیں۔ کسی ایک محکمہ کے اعدادوشمار تو پیش کیجئے کہ اس میں کل ملازم اتنے ہیں اور احمدی اتنے ہیں۔ کب تک یہ جھوٹ بولا جائے گا کہ فوج میں پچاس فیصدی احمدی ہیں، اعداد و شمار کے ساتھ ہی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ اور پھر تجارت اور زراعت اور صنعت میں احمدی ہیں کتنے؟ پچاس ہزار کے قریب پاکستان میں تاجر ہو گا مگر ان میں سے بمشکل ڈیڑھ دو سو احمدی ہو گا اور زراعت میں تو آدمی اپنے ماں باپ کا ورثہ لیتا ہے۔ اس میں کسی احمدی نے کسی کا بگاڑ کیا لینا ہے۔ کوئی احمدی اگر اپنے ماں باپ کی زمین لے لیتا ہے تو اس میں دوسرے مسلمانوں سے لڑائی کا کیا سوال ہے۔ غیراحمدی بھی تو اپنے ماں باپ کا ورثہ لیتے ہیں۔ صنعتی کارخانے شاید احمدیوں کے پاس ہزار میں سے ایک ہو گا۔ پھر اس سے کیا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ محض ایک غلط بات کو دُہراتے جانے سے تو وہ سچی نہیں بن جاتی۔ اعدادو شمار پیش کیجئے۔ دُنیا خود فیصلہ کر لے گی کہ حقیقت کیا ہے اور خدا گواہ ہے کہ آپ کبھی اپنے دعویٰ کی تائید میں اعداد و شمار پیش نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور قیامت تک اپنی بات کو ثابت نہیں کر سکیں گے خواہ فیصلہ کرنے والے آپ کے ہم مذہب جج ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ کے ساتھیوں کا تو یہ حال ہے کہ ائرکموڈور جنجوعہ کے متعلق بھی اُنہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہوائی جہازوں کے یہ افسرِ اعلیٰ احمدی ہیں۔ 127
حالانکہ جنجوعہ کبھی احمدیت کے قریب بھی نہیں گیا۔ اس طرح جہاں کوئی شخص احمدیت کی تائید میں کچھ کہہ بیٹھتا ہے آپ لوگ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اصل میں یہ احمدی ہے۔ حالانکہ احمدیت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور آپ کی طاقت صرف یہ ہوتی ہے کہ آپ جھوٹ بولنے سے ڈرتے نہیں۔
چودھری محمد ظفراﷲ خان صاحب کو نہ ہٹا کر ہمارے مدبرین عقلمندی کا ثبوت دے رہے ہیں یا کوڑمغزی کا
پھر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ چودھری محمد ظفراﷲ خان صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نہ ہٹانے کی حکومت پاکستان یہ دلیل
دیتی ہے کہ اس کے توسّط سے ہی چونکہ ہم غیر مُلکوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اس لئے ہم اس کو نہیں ہٹا سکتے اور مودودی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ اور انگلستان کے مدبرین ہمارے مدبرین کی طرح کوڑ مغز نہیں ہیں کہ وہ ایک شخص کے ہٹنے پر مُلک بھر سے رُوٹھ جائیں۔128
مولانا اِس بات کو بھُول جاتے ہیں کہ چودھری محمد ظفراﷲ خان صاحب کو ہٹانے کے لئے کیوں زور دیا جاتا ہے۔ مخالفت یا تو مذہبی ہے یا عُہدوں کے حصول کے لئے ہے لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ چونکہ ظفراﷲ خاں احمدی ہے اور احمدی انگریزوں اور امریکنوں کی تائید کرتے ہیں اس لئے ان کو ہٹایا جائے۔ یہ اعتراض تو جھوٹا ہے اور مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں کی ایجاد ہے لیکن بہرحال امریکن اور انگریز نمائندے اس مُلک میں موجود ہیں اور ہمارے اخباروں کے خلاصے ضرور ان کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہوں گے اور وہ ان خلاصوں کو اپنی حکومتوں کی طرف بھجواتے بھی رہتے ہوں گے۔ مولانا سمجھ لیں کہ امریکہ اور انگلستان کے مدبرین بیشک کوڑ مغز نہیں ہیں کہ وہ ایک شخص کے ہٹنے پر مُلک بھر سے روٹھ جائیں مگر وہ اتنے بیوقوف بھی نہیں ہیں کہ جب ایک حکومت کسی شخص کو اس لئے ہٹائے کہ وہ امریکہ اور انگلستان کے ساتھ نیک تعلقات کی خواہش رکھتا ہے تو پھر بھی وہ اس مُلک کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھیں۔ پس پاکستان کی حکومت اس بات سے خائف نہیں کہ ظفراﷲ خاں کے ہٹانے کی وجہ سے امریکہ اور انگلستان مخالف ہو جائیں گے۔ وہ اس بات سے خائف ہے کہ ظفراﷲ خاں کو جب اس وجہ سے ہٹایا جائے گا کہ وہ انگلستان اور امریکہ سے بِلا وجہ الجھنے کا قائل نہیں اور غیرمسلموں سے بھی نیک سلوک قائم رکھنا چاہتا ہے تو اس کے ہٹانے سے لازماً انگلستان اور امریکہ کے لوگ اور وہاں کی حکومتیں یہ سمجھیں گی کہ پاکستان کے عوام الناس اور پاکستان کی حکومت کسی ایسے شخص کو برسرِ اقتدار نہیں آنے دیں گے جو کہ انگلستان اور امریکہ سے صلح رکھنے کی تائید میں ہو یا غیر مذاہب والوں سے صلح رکھنا چاہتا ہو۔ مولانا! بتائیے یہ کوڑ مغزی ہو گی یا عقلمندی اور آپ کے اس شور و شر کے نتیجہ میں ظفراﷲ خاں کو نہ ہٹا کر ہمارے مدبرین عقلمندی کا ثبوت دے رہے ہیں یا کوڑ مغزی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
جماعت احمدیہ کی تبلیغِ اسلام مولانا مودودی کی نگاہ میں
(12) پھر مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدی تو تبلیغ اسلام کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں
چاہئے۔ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ان کی تبلیغ تبلیغ نہیں تھی بلکہ انگریزوں کو خوش کرنے کا ایک طریق تھا اور اس کی دلیل میں اُنہوں نے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کا یہ حوالہ تبلیغِ رسالت سے پیش کیا ہے کہ:-
‘‘جیسے جیسے میرے مُرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لیناہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے’’۔ 129
دوسری دلیل اُنہوں نے ایک اٹیلین انجینئر کی کتاب سے پیش کی ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اس لئے ان کو شہید کیا گیا۔
تیسری دلیل کے طور پر اُنہوں نے ‘‘الفضل’’ کا ایک حوالہ پیش کیا ہے جس میں ‘‘امان افغان’’ 3مارچ 1925ء کی عبارت درج کی گئی ہے اور وہ بقول مودودی صاحب کے یہ ہے:-
‘‘افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا ہے۔ کابل کے دو اشخاص ملّا عبدالحلیم چہار آسیانی و ملّا نور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے ..... ان کے خلاف مُدّت سے ایک اور دعویٰ دائر ہو چُکا تھا اور مملکتِ افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر مُلکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دُشمنوں کے ہاتھ بِک چکے تھے’’۔ 130
چوتھی دلیل کے طور پر اُنہوں نے میاں محمد امین صاحب قادیانی مبلّغ کا ایک حوالہ پیش کیا ہے کہ چونکہ سلسلہ احمدیہ اور برٹش حکومت کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لئے میں روس میں جہاں تبلیغ کرتا تھا وہاں گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری بھی مجھے کرنی پڑتی تھی۔ 131
پانچویں دلیل کے طور پر اُنہوں نے ‘‘الفضل’’ کا ایک اَور حوالہ دیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ایک جرمن وزیر نے جب احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کی تو وہاں کی گورنمنٹ نے اس سے باز پُر س کی کہ احمدی تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں کیوں شامل ہوئے ہو۔ 132
مسئلہ جہاد کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک
(12-الف) مودودی صاحب کے پہلے حوالہ
سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بانی ٔسلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا کہ:-
‘‘جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے چلے جائیں گے’’۔
مولانا مودودی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس جگہ جہاد کے وہ معنے نہیں ہیں جو قرآن کریم کی آیات اور رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ملفوظات سے ثابت ہیں۔ اس جگہ پر جہاد سے مُراد وہ غلط عقیدہ ہے جو کہ آجکل کے مسلمانوں میں پھیل گیا ہے۔ ورنہ جہاد کا مسئلہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے اور کوئی احمدی اس کا مُنکر نہیں ہو سکتا اور نہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اس کے مُنکر تھے۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ ہی جہاد کی اس تعریف کی تائید کی ہے جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے یعنی اگر کوئی قوم اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملے کرے تو سب مسلمانوں پر جو کسی ایک امام کے تابع ہوں فرض ہوتا ہے کہ وہ مِل کر ان دُشمنوں کا مقابلہ کریں اور اسلام کو اس مصیبت سے بچائیں۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ صرف اس بات کے خلاف تھے کہ اکّا دُکّا مسلمان اُٹھ کر ایک ایسی حکومت کے افراد کو قتل کرنا شروع کر دے جس کے مُلک میں مسلمان امن سے رہ رہے ہوں اور جن کے ساتھ ان کی کوئی لڑائی نہ ہو یا کسی مُلک کے لوگ دوسری معاہد حکومت سے جنگ شروع کر دیں اور اس کا نام جہاد رکھیں۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے ان عقائد سے خود مودودی صاحب کو بھی اتفاق ہے اور تمام علماءِ ہندوستان کو بھی اتفاق تھا اور اب بھی پاکستان کے علماء کو اتفاق ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو مودودی صاحب بتائیں کہ اُنہوں نے کتنے انگریز مارے تھے۔ کیا جہاد ان پر فرض نہیں تھا یا دوسرے علماء احراری یا دیوبندی یا بریلوی بتائیں کہ اُنہوں نے کتنے انگریز مارے تھے۔ کیا ان پر جہاد فرض نہیں تھا؟ پس حضرت مرزا صاحب نے اگر وہی بات کہی جو عملاً ہر مسلمان عالم کر رہا تھا تو ان پر کیا اعتراض ہے۔ خود مودودی صاحب اپنی کتاب ‘‘سود’’ حصہ اوّل کے صفحہ 77، 78 پر لکھتے ہیں کہ:-
‘‘ہندوستان اس وقت بِلاشُبہ دارالحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے، انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ مُلک دارالحرب نہیں رہا۔ اس لئے کہ یہاں اسلامی قوانین منسوخ نہیں کئے گئے ہیں۔ نہ مسلمانوں کو سب احکام شریعت کے اتباع سے روکا جاتا ہے، نہ ان کو اپنی شخصی اور اجتماعی زندگی میں شریعت اسلامی کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے مُلک کو دارالحرب ٹھہرانا اور ان رخصتوں کو نافذ کرنا جو محض دارالحرب کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر دی گئی ہیں اصولِ قانونِ اسلامی کے قطعاً خلاف ہے اور نہایت خطرناک بھی’’۔
یہی وہ بات تھی جو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کہتے تھے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی مسیح آسمان سے نازل ہو گا جو تمام نا مسلموں کو مارنے کی مہم جاری کر دے گا اور جو شخص اسلام کی تسلیم نہ کرے گا اُسے قتل کر دے گا۔ ایک غلط عقیدہ ہے۔ ایسا جہاد اسلام میں جائز نہیں ہے۔ آنے والا مسیح صرف دلائل اور براہین سے لوگوں کو اسلام کی طرف لائے گا اور بِلا وجہ لوگوں سے جنگ کا اعلان نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ حوالہ جس کی ایک سطر مودودی صاحب نے لکھ دی ہے مکمل یوں ہے:-
‘‘مَیں کسی ایسے مہدی ہاشمی قریشی خونی کا قائل نہیں ہوں جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور زمین کو کفّار کے خون سے بھر دے گا۔ مَیں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیرۂ موضوعات جانتا ہوں۔ ہاں مَیں اپنے نفس کے لئے اُس مسیح موعود کا ادعا کرتا ہوں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہو گا اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے۔ میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے’’۔ 133
مودودی صاحب کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ چنانچہ گو اس مسئلہ کا اُنہوں نے غلط استعمال کیا ہے لیکن اسی مسئلہ کی بناء پر اُنہوں نے کشمیر کی لڑائی میں شمولیت کو ناجائز قراردیا۔ 134
ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جہاد کئی ہیں۔ ایک جہاد وہ ہے کہ جب کوئی قوم دین مٹانے کے لئے حملہ کرے تو دین کی حفاظت کے لئے اس سے لڑا جائے۔ یہ جہادِ کبیر ہے اور ایک جہاد یہ ہے کہ کوئی قوم اپنے مُلک کی آزادی کے لئے لڑے یہ جہادِ صغیر ہے۔ ایسے جہاد کے متعلق بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَّ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَّ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِیْنِہٖ فَھُوَ شَھِیْدٌ وَّ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ أَھْلِہٖ فَھُوَ شَھَیْدٌ۔ 135 یعنی جو شخص اپنے مال یا اپنی جان یا اپنے دین یا اپنے اہل کے بچانے کے لئے لڑتا ہؤا مارا جائے، وہ شہید ہے۔ چونکہ شہید اسی کو کہتے ہیں جو جہاد میں مارا جائے اس لئے ماننا پڑے گا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس قسم کی لڑائی کو بھی ایک قسم کا جہاد قرار دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جہاد کبیر تو سارے مسلمانوں پر فرض ہو جاتا ہے اور جہاد صغیر صرف ان لوگوں پر فرض ہوتا ہے جن کے مُلک کی آزادی خطرہ میں پڑے۔ مودودی صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ کشمیر کے متعلق ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا کوئی معاہدہ نہیں تھا۔ جب پارٹیشن ہوئی ہے اس وقت تینوں اقوام یعنی انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مجلس میں یہ فیصلہ ہؤا تھا کہ جن علاقوں میں کسی قوم کی اکثریت ہو اور وہ آزادی حاصل کرنے والے ہم مذہب علاقہ کے ساتھ لگتے ہوں تو وہ علاقے اپنے ہم مذہبوں کی حکومت میں شامل کئے جائیں گے اور کشمیر کے متعلق خاص طور پر فیصلہ ہؤا تھا کہ یہ مُلک ہندوستان اور پاکستان سے مشورہ کرنے کے بعد اپنا فیصلہ کرے گا لیکن کشمیر نے ایسا نہیں کیا اور اس عام قانون کے خلاف کہ ساتھ ملتی ہوئی مذہبی اکثریت کو اپنی مذہبی اکثریت والی حکومت میں شامل ہونے کا حق ہو گا توڑ دیا اور بغیر پاکستان سے مشورہ کرنے کے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر دیا اور ہندوستان نے اس کو تسلیم کر لیا۔ پس کشمیر کے متعلق کوئی معاہدہ نہ تھا بلکہ جو اقوامِ ثلاثہ کا فیصلہ تھا اس کو ہندوستان نے توڑدیا۔ پھر لڑائی کشمیر میں ہو رہی تھی ہندوستان میں نہیں ہو رہی تھی اور کشمیر کوئی معاہد حکومت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہندوستان کے بعض حصّوں پر حملہ کر کے کشمیر کے مسئلہ کو حل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان نے اسلامی قانون اور بین الاقوامی قانون کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہندوستان پر حملہ نہیں کیا۔ پس بجائے اس کے کہ مولانا مودودی پاکستان کی تعریف کرتے کہ اس نے بہت حوصلہ سے کام لیا ہے اور قانونِ اسلام کی پابندی اور قانون بین الاقوامی کی پابندی میں اپنے فوائد کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے اُلٹا پاکستان پر حملہ اور جنگِ کشمیر کے خلاف اعلان کر دیا لیکن بہرحال جو مسئلہ انہوں نے جنگِ کشمیر کے خلاف پیش کیا وہ وہی ہے جس کو بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے غیر مسلم اقوام سے لڑنے کے متعلق پیش کیا ہے اگر وہ مسئلہ غلط ہے تو مولانا مودودی نے اس کو کیوں استعمال کیا اور اگر وہ مسئلہ ٹھیک ہے تو مولانا مودودی نے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر کیوں اعتراض کیا؟
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کی وجہ
(12-ب)باقی رہا یہ کہ ایک
اٹیلین انجینئر نے لکھا ہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اس سے بھی مراد وہی جہاد کی غلط تعلیم ہے جس کی غلطی کا خود مولانا مودودی صاحب کو اقرار ہے۔ اگر وہ تعلیم ٹھیک ہے تو مولانا مودودی صاحب اعلان کر دیں کہ پاکستان میں ان کی اکثریت ہونے پر وہ روس پر اور امریکہ پر اور انگلستان پر اور ہندوستان پر حملہ کر دیں گے۔ اگر نہیں تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہر کافر قوم سے ہر وقت لڑائی جائز نہیں بلکہ ان کافر اقوام سے لڑائی جائز ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے اسلامی ممالک پر حملہ کریں یا سیاسی نفوذ کے لئے کسی اسلامی مُلک پر حملہ کریں یا پھر ایسی قوموں کے ساتھ لڑائی جائز ہے کہ وہ خود تو ہم پر حملہ نہ کریں لیکن اُنہوں نے کسی وقت ہمارے بعض حقوق پر قبضہ کر لیا ہو اور اس کے بعد ہماری ان سے صلح نہ ہو گئی ہو۔ اس سے ایک شوشہ کم یا زیادہ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کبھی نہیں کہتے تھے۔ محض فتنہ انگیزی کے لئے مولانا مودودی اور ان کے ساتھی اس مسئلہ کو غلط طور پر پھیلا رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ جہاد کے خلاف ہے اگر آج کوئی حکومت کسی مُلک پر اسلام کے مٹانے کے لئے حملہ کرے گی تو جماعت احمدیہ یقینا اپنے ان بھائیوں کے ساتھ ہو گی جن پر حملہ کیا جائے گا اور یہ پرواہ نہیں کرے گی کہ اس مُلک کے باشندے جس پر حملہ کیا گیا ہے سُنّی ہیں، شیعہ ہیں، خارجی ہیں، حنفی ہیں یا کون ہیں اور اگر کسی اسلامی مُلک پر کوئی غیر اسلامی حکومت حملہ کرے گی تاکہ اس کی آزادی کو سلب کرے تو احمدی جماعت یقینا اس اسلامی مُلک سے ہمدردی رکھے گی خواہ وہ کسی فرقہ کے قبضہ میں ہو۔
شہداءِ افغانستان کے متعلق ایک حوالہ میں بددیانتی
(12-ج)ہمیں نہایت افسوس ہے کا جو حوالہ احمدی شہداء کے واقعہ کے متعلق لکھا ہے اور جس میں حکومتِ افغانستان نے ان پر یہ الزام
لگایا ہے کہ بعض غیر ملکی لوگوں سے ان کی خط و کتابت تھی (اور غیر مُلکی لوگوں سے خط و کتابت رکھنا جُرم نہیں۔ خود مودودی صاحب بھی غیر مُلکی لوگوں سے خط و کتابت کرتے ہیں) اس حوالہ کا آخری فقرہ یہ ہے کہ:-
‘‘اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی’’۔
لیکن مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں اس فقرہ کو چھوڑ دیا ہے یہ فقرہ صاف بتاتا ہے کہ حکومت افغانستان اپنے اس الزام پر پُختہ نہیں وہ ابھی مزید تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے بعد تفصیل شائع کی جائے گی مگر مولانا مودودی صاحب اس ٹکڑہ کو کاٹ کر صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ افغانستان کے چند احمدی چند غیر مُلکیوں سے خط و کتابت کرتے تھے (جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ دُشمنانِ افغانستان سے خط و کتابت کرتے تھے) کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا یہ تقویٰ ہے؟ وہ حکومت جس نے احمدیوں کو سنگسار کیا وہ تو یہ کہتی ہے کہ ابھی اس واقعہ کی تفصیلات کی تفتیش نہیں ہوئی اور وہ بعد میں شائع کی جائے گی اور الفضل اس کے اس فقرہ کو لکھتا ہے اور پھر اس کی تردید بھی کرتا ہے لیکن مودودی صاحب حکومت افغانستان کے بیان کے اس حصّہ کوبھی ترک کر دیتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابھی یہ واقعہ زیر تحقیق ہے اور الفضل کی تردید کو بھی چھوڑ دیتے ہیں اور اس امر کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جن لوگوں کو قتل کیا گیا تھا ان کو عدالت نے مذہبی اختلاف کی بناء پر قتل کرنے کا حُکم دیا تھا۔ سیاسی سازش کی بناء پر قتل کرنے کا حُکم نہ دیا تھا۔ اگر کوئی سیاسی سازش تھی تو حکومت نے کیوں اس کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا اور پھر اگر کوئی خطوط پکڑے گئے تھے اور حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ‘‘اس واقعہ کی تفصیل تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی’’ تو وہ تفصیل بعد میں کیوں شائع نہیں ہوئی۔ کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے اس بیان کے مطابق بعد میں تفتیش کے نتائج بھی شائع کرتی مگر حکومتِ افغانستان نے ایسا کبھی نہیں کیا۔
مولانا مودودی صاحب نے یہ ٹکڑا جو نقل کیا ہے الفضل سے نقل نہیں کیا برنی صاحب کی کتاب سے نقل کیا ہے بلکہ اُنہوں نے قریباً سب حوالے بغیر دیکھے برنی صاحب کی کتاب سے نقل کئے ہیں چنانچہ ہم نے ان کے حوالے برنی صاحب کی کتاب سے مِلا کر دیکھے ہیں۔ پانچ حوالوں کا ہمیں اب تک ثبوت نہیں مِل سکا مگر باقی سارے کے سارے حوالے برنی صاحب کی کتاب سے نقل کئے گئے ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ برنی صاحب نے جس جگہ پر حوالہ نقل کرنے میں غلطی کی ہے اسی جگہ پر مودودی صاحب نے بھی غلطی کی ہے مگر ہم یہ کہنے سے رُک نہیں سکتے کہ برنی صاحب نے اس حوالہ کو پورا نقل کیا ہے مگر مودودی صاحب نے وہ فقرہ جو بتاتا تھا کہ یہ الزام پختہ نہیں بلکہ شکی ہے اس کو حذف کر دیا ہے اور اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ صالحیت کا وہ معیار جس کو وہ پیش کر رہے ہیں وہ برنی صاحب کے معیار سے بھی نیچے ہی ہے کیونکہ برنی صاحب باوجود مذہبی لیڈر نہ ہونے کے اور کسی صالح جماعت کے قائم کرنے کے مُدعی نہ ہونے کے اس فقرہ کو درج کرتے ہیں لیکن مودودی صاحب اس فقرہ کو حذف کر جاتے ہیں۔
میاں محمد امین خان صاحب مبلغ بخارا کا ایک خط
(12-د) میاں محمد امین صاحب قادیانی مبلغ کےخط کا جو حوالہ اُنہوں نے دیا ہے وہ روس اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کے متعلق ہے
اس پر مسلمانوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ وہ یہ لکھتے ہیں کہ روس اور انگریزوں کے تعلقات کے لحاظ سے میں انگریزی فوائد کو روسی فوائد پر ترجیح دیتا تھا۔ یہ بڑی اچھی بات ہے اس پر کیااعتراض ہے؟ اور اس سے مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا؟ وہ یہ ثابت کریں کہ کسی جنگ میں انگریزوں نے ابتدا کی ہو؟ خود کسی اسلامی مُلک پر حملہ کیا ہو؟ اور پھر بھی بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تائید کی ہو یا احمدیہ جماعت نے انگریزوں کی تائید کی ہو۔ جب انگریزوں نے عرب میں رسوخ بڑھانا چاہا تو جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ جب انگریزوں نے شریف حسین والی ٔ مکّہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اس معاہدہ کو توڑا اور عرب کے متحد کرنے میں اس کی مدد نہ کی تو اس کے خلاف امام جماعت احمدیہ نے آواز بُلند کی جس سے صاف ثابت ہے کہ جب کبھی انگریز نے مسلمان کے ساتھ دھوکہ بازی کی اور اس کے حقوق میں دخل اندازی کی تو جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن جب کسی مسلمان حکومت نے آپ ہی آپ غیر قوموں سے لڑائی شروع کر دی جیسا کہ ترکی نے کیا تھا تو احمدی جماعت نے ہندوستان کی تمام دوسری اسلامی جماعتوں سمیت اس اسلامی حکومت کے اس فعل کو بُرا منایا۔ چنانچہ عراق کے فتح کرنے میں ہندوستانی فوجوں کا بہت کچھ دخل تھا اور اس میں ایک بڑی تعداد مسلمان فوجیوں کی تھی۔ ممکن ہے کہ احمدی چالیس پچاس یا سو ڈیڑھ سو ہوں لیکن ہزاروں ہزار دیوبندی تھے یا بریلوی تھے یا سُنّی تھے یا اہلحدیث تھے۔ اسی طرح اہلحدیث کے لیڈر سلطان ابن سعود انگریزوں کی پشت پر ریاض میں برسرحکومت تھے۔ انہوں نے ایک گولی بھی انگریز کے خلاف نہیں چلائی بلکہ فوراً ترکی کے علاقہ پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضہ میں کرنا شروع کر دیا۔ ادھر مکّہ میں شریف حسین اور فلسطین اور شام اور لبنان کے مسلمانوں نے فوراً ہی ترکی سے بغاوت کا اعلان کر دیا اور انگریزوں سے مل کر ان کے ساتھ لڑائی کرنی شروع کر دی۔ بتائیے ان سارے مُلکوں میں کون سے احمدی بستے تھے۔ کیا سلطان ابنِ سعود احمدی تھے؟ کیا شریف حسین والی ٔ مکّہ احمدی تھے؟ کیا رؤسائے شام و لبنان احمدی تھے یا احمدی ہیں؟یہ سارے لوگ ترکی سے لڑے اور ان کی لڑائی کی بنیاد یہی تھی کہ ترکی نے خود اعلانِ جنگ کیا ہے اور ان لوگوں کو اپنے مُلک کے آزاد کرانے کا موقع مِل گیا ہے۔ اگر پانچ سات لاکھ غیر احمدیوں نے ترکی پر حملہ کرنے کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہو گئے، وہ جہاد کے مُنکر نہیں ہو گئے اور اگر یہ سب علماء جو ہم پر فتویٰ لگا رہے ہیں اس وقت خاموش رہے بلکہ سلطان ابن سعود یا شریف حسین کی مدح کرنے کے باوجود کافر نہیں ہو گئے اور کشتنی اور گردن زدنی نہیں ہو گئے تو چالیس پچاس یا سو ڈیڑھ سو احمدیوں کے اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے احمدی کیوں کشتنی و گردن زدنی ہو گئے۔ وہ کیوں جہاد کے منکر ہو گئے، وہ کیوں اسلام سے منحرف ہو گئے۔ کیا سَو دو سَو احمدی عراق سے ترکوں کو نکال سکتے تھے۔ کیا سَو دو سَو احمدی ابن سعود کو اس بات پر مجبور کر سکتے تھے کہ وہ ترکی کے علاقوں پر حملہ کر کے کچھ علاقے اس سے چھین لیں۔ کیا سَو دو سَو احمدی جو اس لڑائی میں شریک ہوئے وہ شریف حسین کو مجبور کر کے سارے حجاز کو ترکی کے خلاف کھڑا کر سکتے تھے۔ کیا ان سودو سو احمدی سپاہیوں کا فلسطین اور شام اور لبنان کے مسلمانوں پر ایسا قبضہ تھا کہ وہ ان کو ترکی کے خلاف عَلمِ بغاوت بُلند کرنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ اگر یہ نہیں ہے اور ہر گز نہیں ہے تو خدا را جھوٹ بول بول کر اسلام کو بدنام نہ کرو اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دو کہ اسلام کے علماء بھی اتنا سچ نہیں بول سکتے جتنا غیرقوموں کے عامی سچ بول سکتے ہیں۔ اگر سودو سو کے اس فعل سے احمدی واجب القتل ہیں تو پہلے ان سارے علماء کو قتل کرو، ان سارے امراء کو قتل کرو، ان سارے رؤساء کو قتل کرو جنہوں نے خود لڑائی کی یا جن کی قوم غیر احمدیوں میں سے اس لڑائی میں ترکی کے خلاف لڑی۔ ہر موقع پر خود گھروں میں جاچھپنا اور اسلام کی تائید میں انگلی تک نہ اُٹھانا لیکن جب وہ طوفان ختم ہو جائے تو احمدیوں پر اعتراض کرنا کیا یہ شیوۂ بہادری ہے یا یہ شیوۂ حیا ہے؟
معاملات عرب کے متعلق امامِ جماعت احمدیہ کی غیرت
اِس موقع پر امام جماعتِ احمدیہ کا مندرجہ ذیل حوالہ پیش کرنا یقینا اس احمدیہ پالیسی کو واضح کر دیتا ہے جو مسلمانوں کے متعلق
احمدیہ جماعت نے اختیار کر رکھی تھی۔آپ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:-
‘‘آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے۔ مسلمانوں میں شور پیدا ہؤا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی مدد دے کر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں۔ یہ شور جب زیادہ بُلند ہؤا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رؤسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے۔ مسلمان اس پر خوش ہو گئے کہ چلو خبر کی تردید ہو گئی لیکن مَیں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہؤا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رؤساء کو مالی مدد نہیں دیتی مگر حکومتِ برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے۔ چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو مِلا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی۔ جب مجھے اس کا علم ہؤا تو مَیں نے لارڈ چیمسفورڈ کو لکھا کہ گو لفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہو مگر حقیقی طور پر صحیح نہیں کیونکہ حکومتِ برطانیہ کی طرف سے ابنِ سعود اور شریف حسین کو اس اس قدر مالی مدد ملتی ہے اور اس میں ذرّہ بھر بھی شُبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کر سکتے۔ اس کے جواب میں ان کا خط آیا۔ (وہ بہت ہی شریف طبیعت رکھتے تھے) کہ یہ واقعہ صحیح ہے مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے۔ ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیرِ اثر لائے۔ پس ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے۔ جب تُرک عرب پر حاکم تھے تو اس وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا۔ جب شریف حسین حاکم ہوئے تو گو لوگوں نے ان کی سخت مخالفت کی مگر ہم نے کہا اب فتنہ و فساد کو پھیلانا مناسب نہیں۔ جس شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے تاکہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے۔ اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو باوجود اس کے کہ لوگوں نے بہت شور مچایا کہ انہوں نے قبےّ گرا دیئے اور شعائر کی ہتک کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے سب سے بڑے مخالف اہلحدیث ہی ہیں ہم نے سلطان ابن سعود کی تائید کی، صرف اس لئے کہ مکّہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں۔ حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دُکھ دیا گیا۔ حج کے لئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بُلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان علاقوں میں فساد ہوں۔ مجھے یاد ہے مولانا محمد علی صاحب جوہرؔ جب مکّہ مکرمہ کی موتمر سے واپس آئے تو وہ ابنِ سعود سے سخت نالاں تھے۔ شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری رکھی۔ وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا مولانا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنا دیا ہے تو مَیں یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورّہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تاکہ ان مقدس مقامات کے امن میں کوئی خلل واقع نہ ہو’’۔ 136

غیر اسلامی ممالک میں جماعت احمدیہ کے افراد کس جذبۂ جہاد کو کم کرنے کے لئے تبلیغ کر رہے ہیں
مودودی صاحب کے اس اعتراض کو کہ احمدی جماعت انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے تبلیغ کرتی تھی۔ اس طرح پر حل کیا جاسکتا ہے
کہ اگر احمدی جماعت جہاد کی تعلیم کو کمزور کرنے کے لئے اسلامی ممالک میں تبلیغ کرتی تھی تو مغربی اور مشرقی افریقہ اور امریکہ اور انگلستان اور جرمنی میں کس جذبۂ جہاد کو کم کرنے کے لئے احمدی تبلیغ کر رہے تھے اور کر رہے ہیں۔ کیا وہاں بھی جہاد کی تعلیم رائج ہے جس کو کم کرنے کے لئے احمدی تبلیغ کر رہے ہیں یا وہ قومیں بھی انگریزوں کی تائید میں ہیں کہ ان کی مدد حاصل کرنے کے لئے احمدی وہاں تبلیغ کر رہے ہیں۔
جرمن گورنمنٹ کی ایک وزیر سے جواب طلبی
(12-ہ)اگر مولانا مودودی کی قسم کے
علماء کی تحریک پر جرمن گورنمنٹ کو غلطی لگی اور اس نے جرمن وزیر سے جواب طلبی کی کہ وہ احمدیوں کی مجلس میں کیوں شامل ہؤاجو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو یہ جرمن گورنمنٹ کے علم کی کمی اور عقل کو کوتاہی تھی۔ اس کی غلطی سے احمدیوں کے خلاف کس طرح حجت پکڑی جاسکتی ہے۔
مولانا مودودی سے مؤکّد بعذاب حلف کا مطالبہ
ہم عملاً ثابت کر چکے ہیں کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے مفاد پر انگریزوں نے اثر ڈالنے کی کوشش کی ہے احمدیوں نے ان کی اس بات کو
ناپسند کیا ہے اور احمدیوں نے ایسے مُلکوں میں جاکر تبلیغ کی ہے اور لوگوں کو اسلام میں داخل کیا ہے جہاں جہاد کا کوئی سوال ہی نہیں تھا بلکہ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں مسلمانوں کی تنظیم احمدیوں کے ہاتھ سے ہوئی یا ان کی تنظیم میں احمدیوں نے بڑا حصّہ لیا اور ان کو عیسائی اثر سے بچانے میں بڑی مدد کی۔
ہمارے اس دعویٰ کے سچ یا جھوٹ کے پرکھنے کے دو ہی طریق ہیں۔
اوّل یہ کہ ایک کمیشن ان علاقوں میں جائے اور وہاں کے لوگوں سے گواہیاں لے۔
دوم یہ کہ مولانامودودی اور ان کے ساتھی مؤکد بعذاب قسم کھائیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور انگریزوں کے اشارہ پر کام کر رہے تھے اور یہ کہ اگر مودودی صاحب اور ان کے ساتھی اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو خدا ان پر اور ان کی اولادوں پر اور ان کی بیویوں پر اپنا غضب نازل کرے اور اپنی *** نازل کرے۔ اس کے مقابل پر احمدی جماعت کے لیڈر یہ قسم کھائیں کہ احمدی جماعت ہمیشہ ہی اسلامی تعلیم کی معترف رہی ہے قرآن اور حدیث کے پیش کردہ جہاد کو صحیح سمجھتی رہی ہے اور صحیح سمجھتی ہے اور اس کی تبلیغِ اسلام نہ انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے تھی، نہ ان کے اشارہ پر تھی بلکہ عیسائی مذہب کی طاقت کو توڑنے کے لئے تھی اور اسلام کو شوکت دینے کے لئے تھی اور اگر وہ اس بیان میں جھوٹے ہیں تو خدا کی *** ان پر اور ان کی اولادوں پر اور ان کی بیویوں پر ہو۔ کیا مولانا مودودی اپنے ساتھیوں اور دیگر فرقوں کے علماء کو اس قسم کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ مولانا مودودی اور ان کی جماعت اور ان کے ساتھی علماء اس قسم کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اگر ہوئے تو خدا کا عذاب ان پر نازل ہو گا اور احمدی اس قسم کے لئے فوراً تیار ہو جائیں گے۔ (کیونکہ ان کے امام کی طرف سے ایسا اعلان ہو چُکا ہے) اور اگر وہ ایسی قسم کھائیں گے تو خدا کی مدد ان کو حاصل ہو گی کیونکہ وہ سچّی قسم کھائیں گے۔
کیا بانیٔ سلسلہ احمدیہ یہ چاہتے تھے کہ آزاد مسلمان قومیں بھی انگریزوں کی غلام ہو جائیں؟
(13) آخر میں مولانامودودی صاحب بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے
کچھ حوالے درج کرتے ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ انگریزوں کے خیر خواہ تھے اور عیسائیوں کے مؤیّد تھے اور بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی غرض دعویٰ نبوت سے یہ تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا کیا جائے اور چونکہ وہ جانتے تھے کہ اس اختلاف کے پیدا کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کو پناہ نہیں ملے گی اس لئے وہ کوشش کرتے رہے کہ آزاد مسلمان قومیں بھی انگریزوں کی غلام ہو جائیں۔ 137
جماعت احمدیہ نے ہمیشہ مسلمان حکومتوں کا ساتھ دیا ہے
مولانا کا یہ دعویٰ سراسر باطل ہے۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ کبھی بھی احمدیہ جماعت نے یہ تعلیم نہیں دی کہ آزاد
اسلامی حکومتیں انگریزوں کے تابع ہو جائیں بلکہ جب کبھی بھی انگریزی حکومت نے حملہ میں ابتدا کی اور مسلمان حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی تو احمدی جماعت نے مسلمان حکومتوں کا ساتھ دیا اور ان کی تائید کی چنانچہ ترکی کے مغلوب ہو جانے کے بعد جب اس مُلک میں ناواجب نفوذ پیدا کرنے کی انگریزوں نے کوشش کی تو اس وقت بھی احمدیہ جماعت نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ چنانچہ امام جماعت احمدیہ کے ایک رسالہ کے چند فقرات درج ذیل ہیں۔ آپ نے ترکی کے مستقبل کے متعلق مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے تحریر فرمایا:-
‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام عالم اسلامی ترکوں کے مستقبل کی طرف افسوس اور شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی حکومت کا مٹا دینا یا ان کے اختیارات کو محدود کر دینا ان کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچائے گا مگر اس کی یہ وجہ بیان کرنا کہ سلطان ترکی خلیفۃ المسلمین ہیں درست نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ان کو خلیفۃ المسلمین نہیں مانتے مگر پھر بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں میرے نزدیک ایسے نازک وقت میں جبکہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرہ میں ہے اس مسئلہ کو ایسے طور پر پیش کرنا کہ صرف ایک ہی خیال اور ایک ہی مذاق کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں سیاسی اصول کے بھی خلاف ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک معتدبہ حصّہ شیعہ مذہب کے لوگوں کا ہے اور ان میں سے سوائے بعض نہایت متعصّب لوگوں کے باقی سب تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ ترکوں سے ہمدردی رکھتا ہے مگر وہ کسی طرح بھی سلطان ترکی کو خلیفۃ المسلمین ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح اہلِ حدیث میں سے گو بعض خلافتِ عثمانیہ کے ماننے والے ہوں مگر اپنے اصول کے مطابق وہ لوگ بھی صحیح معنوں میں خلیفۃ المسلمین سلطان کو نہیں مانتے (اس اعلان کے بعد اہلحدیث کی طرف سے اعلان ہؤا کہ وہ ترکی کے بادشاہ کو خلیفۃ المسلمین نہیں مانتے۔ناقل) ہماری احمدیہ جماعت تو کسی صورت میں بھی اس اصل کو قبول نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبل از وقت دی ہوئی اطلاعوں کے ماتحت آپ کی صداقت کے قائم کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اس زمانہ کے لئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر مسلمانوں کی ترقی اور استحکام کے لئے مبعوث فرمایا تھا اور اس وقت وہی شخص خلافت کی مسند پر متمکن ہو سکتا ہے جو آپ کا متبع ہو ..... ان تینوں فرقوں کے علاوہ اور فرقے بھی ہیں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں لیکن خلافتِ عثمانیہ کے قائل نہیں بلکہ خود اہلسنت و الجماعت کہلانے والے لوگوں میں سے بھی ایک فریق ایسا ہے جو خلافتِ عثمانیہ کو نہیں مانتا ورنہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ ایک شخص کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا صحیح جانشین تسلیم کر کے وہ اس کے خلاف تلوار اٹھاتے۔ پس اندریں حالات ایسے جلسہ کی بنیاد جس میں ترکوں کے مستقبل کے متعلق تمام عالم اسلامی کی رائے کا اظہار مدِّنظر ہو۔ ایسے اصول پر رکھنی جنہیں سب فرقے تسلیم نہیں کر سکتے درست نہیں۔ کیونکہ اس سے سوائے ضعف و اختلال کے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو جس کے سلطان کو مسلمانوں کا ایک حصّہ خلیفہ بھی تسلیم کرتا ہے مٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے نا پسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے اس صورت میں تمام فرقہ ہائے اسلام اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے قائل نہ ہوں بلکہ باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سمجھتے ہوں اس اصل پر متحد ہو کر یک زبان ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں کیونکہ گو ایک فریق دوسرے فریق کو کافر سمجھتا ہو مگر کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دُنیا کی نظروں میں اسلام کے نام میں سب فرقے شریک ہیں اور اسلام کی ظاہری شان و شوکت کی ترقی یا اس کو صدمہ پہنچنا سب پر یکساں اثر ڈالتا ہے۔
ضروری بات یہ ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد اس غرض کے لئے ایک کونسل مقرر کی جائے جس کا کام ترکی حکومت کی ہمدردی کو عملی جامہ پہنانا ہو صرف جلسوں اور لیکچروں سے کام نہیں چل سکتا، نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے، نہ انگلستان کی کمیٹی کو روپیہ بھیجنے سے بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دُنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لئے کی جائے’’۔
‘‘اگر کسی کامیابی کی اُمید کی جاسکتی ہے تو اسی طرح کہ چند آدمی اسلام کے واقف فرانس میں رکھے جائیں ..... کچھ لوگ امریکہ جائیں اور وہاں اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کرنے کے علاوہ تمام مُلک کے وسیع دورے کریں ..... اور ساتھ اس امر کی طرف بھی توجّہ دلائیں کہ ترکوں سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ درست نہیں ..... اگر آپ لوگ اسلام کی عزت اور مسلمانوں کے بقاء کے لئے اس بات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو مجھے اس کام کے اہل لوگ مہیا کر دینے میں کوئی عذر نہیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ امریکہ میں کام کریں اور کچھ فرانس میں اوراس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ترکوں سے معاہدہ طے ہو’’۔138
پھر جب ترکوں سے انگریزوں کا معاہدہ ہو گیا تو شرائط صلح پر پھر امام جماعت احمدیہ نے تبصرہ کیا اور تحریر فرمایا کہ:-
‘‘ترکوں کے متعلق شرائط صلح کا فیصلہ کرتے وقت ان اصول کی پابندی نہیں کی گئی جن کی پابندی یورپ کے مدبّر انصاف کے لئے ضروری قرار دے چکے ہیں۔ عراق کی آبادی کو ایسے طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جیسا کہ جرمن کے بعض حصّوں کو۔ ان سے باقاعدہ طور پر دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے لئے کس حکومت یا کس طریق حکومت کو پسند کرتے ہیں۔ شام کی آبادی کو باوجود اس کے صاف صاف کہہ دینے کے کہ وہ آزاد رہنا چاہتی ہے ، فرانس کے زیراقتدار کر دیا گیا ہے۔ فلسطین کو جس کی آبادی کا2/3 حصّہ مسلمان ہے ایک یہودی نو آبادی قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقہ میں1/4 کے قریب ہے اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے 1878ء سے ہوئی ہے .....یہی حال لبنان کا ہے اس کو فرانس کے زیرِ اقتدار کر دینا بالکل کوئی سبب نہیں رکھتا اور آرمینیا کا آزاد کرنا بھی بے سبب ہے .....اسی طرح سمرنا کو یونان کے حوالہ کرنا بھی خلافِ انصاف ہے کیونکہ کسی مُلک کے صرف ایک شہر میں کسی قوم کی کثرتِ آبادی اسے اس شہر کی حکومت کا حقدار نہیں بنا دیتی .....تھریس جو ترکوں سے لے کر یونان کو دیا گیا ہے۔ اس کا سبب بھی معلوم نہیں ہوتا .....غرض میرے نزدیک اس معاہدہ کی کئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہؤا ہے اس لئے جس قدر جلد یورپ اس میں تبدیلی کرے اسی قدر یہ بات اس کی شُہرت اور اس کے اچھے نام کے قیام کا موجب ہوگی’’۔139
حجاز کی آزادی کے متعلق جماعت احمدیہ کا مطالبہ
اسی طرح جب انگریزوں نے حجاز کی آزادی میں روکیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی امام جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف آواز بُلند کی
چنانچہ 23جون 1921ء کو شملہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کو جو ایڈریس دیا گیا اس میں حجاز کی آزادی کا مسئلہ خاص طور پر پیش کیا گیا۔ اس ایڈریس کے بعض فقرات یہ ہیں:-
‘‘ہمارے نزدیک اس سے بھی زیادہ یہ سوال اہم ہے کہ حجاز کی آزادی میں کسی قسم کا خلل نہیں آنا چاہئے۔ جب حجاز کی آزادی کا سوال پیدا ہؤا تو اُس وقت یہی سوال ہر ایک شخص کے دل میں کھٹک رہا تھا کہ کیا ترکوں سے اس مُلک کو آزاد کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بوجہ بنجر علاقہ ہونے کے وہاں کی آمد کم ہو گی اور حکومت کے چلانے کے لئے ان کو غیر اقوام سے مدد لینی پڑے گی اور اس طرح کوئی یورپین حکومت اس کو مدد دے کر اس کو اپنے حلقۂ اثر میں لے آئے گی۔
نئی خبریں اس شُبہ کو بہت تقویت دینے لگی ہیں ریوٹر نے پچھلے دنوں مسٹرچرچل جو وزیر نو آبادی ہیں ان کی ایک سکیم کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حجاز گورنمنٹ اپنے بیرونی تعلقات کو برٹش گورنمنٹ کی نگرانی میں دے دے اور اندرون مُلک کے امن کا ذمّہ لے تو گورنمنٹ برطانیہ اس کو سالانہ مالی امداد دیا کرے گی۔ اس سے تین شبے پیدا ہوتے ہیں جن کے ازالہ کی طرف جناب کو فوراً ہوم گورنمنٹ کو توجّہ دلانی چاہئے۔
اوّل۔ یہ سکیم وزیر نو آبادی نے تیار کی ہے جس کا آزاد ممالک سے کوئی تعلق نہیں۔ (2) فارن تعلقات کا کسی حکومت کے سپرد کر دینا آزادی کے صریح منافی ہے۔ (3) اندرونِ مُلک میں امن کے قیام کی شرط آزادی کے مفہوم کو اَور بھی باطل کر دیتی ہے۔ یہ تو گورنمنٹ کے اصلی کاموں میں سے ہے۔ اس شرط کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے کہ اگر کسی وقت مُلک میں فساد ہو گا تو برطانیہ کی حکومت کا حق ہو گا کہ وہاں کی حکومت کو بدل دے یا وہاں کے انتظام میں دخل دے یا فوجی دخل اندازی کرے اور یقینا اس قسم کی آزادی کوئی آزادی نہیں یہ پوری ماتحتی ہے اور فرق صرف یہ ہے کہ حکومتِ برطانیہ حجاز پر براہِ راست حکومت نہ کرے گی بلکہ ایک مسلمان سردار کی معرفت حکومت کرے گی اگر حجاز کی حکومت اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتی تو اس کو ترکوں کو اُنہی شرائط پر واپس کر دینا چاہئے جن شرائط پر کہ مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ جناب اس غلط قدم کے اُٹھانے کے خطرناک نتائج پر ہوم گورنمنٹ کو فوراً توجّہ دلائیں گے اور اس کے نتائج کو جلد شائع فرمائیں گے’’۔140
اسی طرح امام جماعت احمدیہ نے 1921ء میں اپنی ایک تقریر میں ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:-
‘‘ہم نے باوجود بے تعلق اور علیحدہ ہونے کے پھر بھی معاہدۂ ترکی کے بارہ میں اتحادیوں سے جو غلطیاں ہوئی تھیں ان کے متعلق گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ ان کی اصلاح ہونی چاہئے۔ چنانچہ ان مشوروں کے مطابق ایک حد تک تھریس اور سمرنا کے معاملہ میں پچھلے معاہدہ میں اصلاح بھی کی گئی ہے۔ ہم نے عربوں کے معاملہ میں لکھا کہ وہ غیر قوم اور غیر زبان رکھتے ہیں وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ نہ ان کو ترکوں کے ماتحت رکھا جائے نہ اتحادی ان کو اپنے ماتحت رکھیں ..... پس ہم سے جس قدر ہو سکتا تھا ہم نے کیا۔ رسالے ہم نے لکھ کر شائع کئے، چٹھیاں میں نے گورنمنٹ کو لکھیں اور جو غلطیاں میں نے گورنمنٹ کو بتائیں گورنمنٹ نے فراخ حوصلگی سے ان میں سے بعض کو تسلیم کیا اور ان کی اصلاح کے متعلق کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم نے ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو میموریل بھیجا۔ ہم نے گورنر جنرل کو بھی لکھا۔ ولایت میں اپنے مبلّغین کو ترکوں سے ہمدردی اور انصاف کرنے کے متعلق تحریک کرنے کے لئے ہدایت کی، امریکہ میں اپنا مبلغ بھیجا کہ علاوہ تبلیغِ اسلام کے ترکوں کے متعلق جو غلط فہمیاں ان لوگوں میں مشہور ہیں ان کو دُور کرے۔ چنانچہ وہ وہاں علاوہ تبلیغِ اسلام کے یہ کام بھی کر رہا ہے اور کئی اخبارات میں ترکوں کی تائید میں آرٹیکل لکھے گئے ہیں۔ غرض ہماری طرف سے باوجود ترکوں سے بے تعلق ہونے کے محض اسلام کے نام میں شرکت رکھنے کے باعث ان کے لئے اس قدر جدوجہد کی گئی ہے مگر ترکوں نے ہمارے لئے کیا کیا۔ جب ہمارے بعض آدمی ان کے علاقہ میں گئے تو ان کو گرفتار کر لیا گیا’’۔ 141
پھر جب شریفِ مکّہ پر ابن سعود نے حملہ کیا تو اس وقت بھی امام جماعت احمدیہ نے ‘‘حج بیت اﷲ اور فتنہ حجاز’’ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین شائع فرمایا اس مضمون کے چند فقرات یہ ہیں۔آپ نے تحریر فرمایا:-
‘‘چونکہ ترکی حکومت کے دور جدید میں عربوں پر سخت ظلم کئے جاتے تھے ان کو اچھے عہدے نہیں دیئے جاتے تھے۔ عربی زبان کو مٹایا جاتا تھا اور عرب قبائل کو جو مدد سلطان عبدالحمید خان کی طرف سے ملتی تھی وہ بند کر دی گئی۔ اس لئے عرب بددل تو پہلے ہی سے ہو رہے تھے بعض شامی امراء اور شریفِ مکّہ کے نمائندوں کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے بعد عرب لوگ اس شرط پر اتحادیوں کے ساتھ ملنے کے لئے تیار ہو گئے کہ کُل عرب کی ایک حکومت بنا کر عربوں کو پھر متحد کر دیا جائے گا۔ چونکہ شریفِ مکّہ ہی اس وقت کھلے طور پر لڑسکتے تھے اس لئے انہی کو امید دلائی گئی اور انہی کو امید پیدا بھی ہوئی کہ وہ سب عرب کے بادشاہ مقرر کر دیئے جائیں گے۔ اس معاہدہ کے بعد شریف حسین شریفِ مکّہ نے اپنے آپ کو اتحادیوں سے ملا دیا اور ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ یہ جون 1916ء میں ہؤا ..... عربوں کا اس وقت اتحادیوں کی مدد کے لئے کھڑا ہونا بتاتا ہے کہ وہ نہایت سنجیدگی سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے در پے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اتحادیوں کو ان کا مدد دینا انتہائی درجہ کی قُربانی پر مشتمل تھا اور ان کا شکریہ اتحادیوں پر لازم ..... غرض کہ جون 1916ء میں شریف نے ترکوں کے خلاف جنگ شروع کی اور جنگ کے بعد شام کی حکومت امیر فیصل بن شریف حسین کو دے دی گئی۔ فلسطین اور عراق کے درمیان کا علاقہ عبداﷲ بن شریف حسین کو اور حجاز کی حکومت خود شریف کے ہاتھ میں آئی۔ اس عرصہ میں فرانس نے شام کا مطالبہ کیا اور انگریزوں نے وہ علاقہ اس کے سپرد کر دیا۔ چونکہ فرانس نہیں چاہتا تھا کہ شام آزادی حاصل کرے اور امیر فیصل کے ارادے اس وقت بہت بُلند تھے۔ وہ ایک متحدہ عرب حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے۔ فرانس کے نمائندوں اور ان میں اختلاف ہؤا اور امیر فیصل کو شام چھوڑنا پڑا۔ انگریزوں نے اس کے بدلہ میں ان کو عراق کا بادشاہ بنادیا۔ سیاسی طور پر عرب کی آئندہ امیدوں پر یہ ایک بہت بڑا حربہ تھا کیونکہ شام کی آزادی کا سوال بالکل پیچھے جا پڑا اور شام کی شمولیت کے بغیر عرب کبھی متحد نہیں ہو سکتا تھا ..... اس عرصہ میں بعض نئے امور پیدا ہونے شروع ہوئے۔ انگریزی نمائندہ مصر نے شریف مکّہ سے وعدہ کیا تھا کہ عرب کو آزاد ہونے کے بعد ایک حکومت بنا دیا جائے گا۔ وہ اس وعدہ کے پورا کرنے پر زور دیتے تھے۔ ادھر عرب تین طاقتوں کے اثر کے نیچے تقسیم ہو چُکا تھا ..... شریف کو غصّہ تھا کہ مجھ سے وعدہ خلافی کی گئی ہے ..... شریف نے جب دیکھا کہ ادھر انگریز ان کی اس خواہش کو پورا کرنے سے گریز کر رہے ہیں کہ عرب کو ایک حکومت کر دیا جائے ..... اور اُدھر عالمِ اسلام ان کے رویّہ کے خلاف ہے تو چونکہ ان کی دیرینہ خواب پوری ہوتی نظر نہ آتی تھی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انگریزوں کو ناراض کر لیں گے اور عالم اسلامی کو خوش ..... یہ فیصلہ کر کے اُنہوں نے انگریزی معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ ان کو انگریزوں سے مدد ملنی بند ہو گئی ..... امیر ابن سعود نے یہ دیکھ کر کہ اس سے عمدہ موقع کوئی نہ ملے گا حجاز سے ایک علاقہ کا مطالبہ کیا۔ شریف حسین نے اس علاقے کے دینے سے انکار کر دیا اور وہ جنگ شروع ہو گئی جو اب شروع ہے’’۔
آخر میں آپ نے تحریر فرمایا کہ:-
‘‘اگر شریف آئندہ کو اپنی اصلاح کر لیں، ترکوں سے اپنے تعلقات درست کر لیں، وہابیوں پر ظلم چھوڑ دیں بلکہ ان کو کامل مذہبی آزادی دیں، عالمِ اسلام کی ہمدردی کو حاصل کریں اور عالمِ اسلام بھی ان سے جاہلانہ مطالبات نہ کرے تو ان کے ہاتھ پر عرب کا جمع ہو جانا نسبتاً بہت آسان ہو گا’’۔ 142
ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ، جب کبھی بھی اسلامی حکومتوں اور اسلامی مفاد کا ٹکراؤ انگریزوں سے ہؤا ہے، اسلامی مُلکوں اور مسلمانوں کی تائید کرتی رہی ہے اور بہت سے کافر کہنے والے علماء اور ان کی جماعتوں سے بھی پیش پیش رہی ہے اس کے باوجود بھی احمدیوں کو مسلمانوں کا دُشمن قرار دینا حد درجہ کا ظلم اور حد درجہ کی بے ایمانی اور حد درجہ کی ڈھٹائی ہے اور یہ کہنا کہ احمدی یہ چاہتے تھے کہ اسلامی مُلک انگریزوں کے قبضے میں آجائیں ایک خطرناک افتراء ہے۔ وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی کیوں تعریف کی؟
گو مذکورہ بالا تحریر سے جماعتِ احمدیہ کا رویّہ مسلمانوں کے متعلق عموماً اور مسلم حکومتوں کے متعلق خصوصاً واضح ہو جاتا
ہے اور درحقیقت کسی مزید تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن پھر بھی ہم ایک امر کو بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب کو یہ شکوہ ہے کہ بانئ سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف بہت جگہ پر کی ہے۔ انگریز کی تعریف کرنا یا کسی اور کی تعریف کرنا اسلامی شریعت کے خلاف نہیں۔ اسلامی شریعت کے خلاف یہ ہے کہ انسان جھوٹ بولے۔ سو جیسا کہ اوپر بیان ہو چُکا ہے جھوٹ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے نہیں بولا بلکہ ان کے مخالفین نے بولا ہے۔ جس زمانہ میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پیدا ہوئے اس زمانہ سے پہلے پنجاب میں سکھّوں کی حکومت تھی۔ ان کے زمانہ میں انگریزوں کی حکومت تھی اور ان کی وفات کے چالیس سال بعد ہندوستان کے ایک حصّہ میں پاکستان قائم ہؤا اور ایک حصّہ میں ہندوستانی حکومت قائم ہوئی۔ پس بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جو کچھ انگریزی حکومت کے متعلق لکھا ہے اس کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ ان کے سامنے کون سے حالات تھے جن پر اُنہوں نے اپنا نظریہ قائم کیا۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی تو ان کے سامنے یہ تھا کہ ان کے مُلک میں سکھّوں کی حکومت تھی جو اذانوں سے روکتے تھے، نمازوں سے روکتے تھے، دینی تعلیم کے حصول سے روکتے تھے، مسلمانوں کی جائدادوں پر زبردستی قبضہ کر لیتے تھے، ان کی حکومت میں سوائے اکّا دُکّا مسلمانوں کے جن کو ضرورتاً رکھا گیا تھا عام طور پر مسلمانوں کو ملازمتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا اور مسلمانوں کی لڑکیاں بعض دفعہ زبردستی چھین لی جاتی تھیں اور ان کے ساتھ حیا سوز سلوک کئے جاتے تھے۔ جب انگریزوں نے سکھّوں کی جگہ لی تو اس وقت انگریزوں نے کسی مسلمانوں کی حکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ سکھّوں کی حکومت پر قبضہ کیا۔ پنجاب کے مسلمان کسی اسلامی حکومت کے ماتحت نہیں تھے بلکہ سکھّوں کی حکومت کے ماتحت تھے جن کا سلوک اوپر گزر چُکا ہے۔ اس کے مقابلہ میں انگریزوں نے جہاں تک پرسنل لاء کا سوال ہے مسلمانوں کو آزادی دی اور گو پوری طرح انصاف نہیں کیا لیکن پھر بھی ہزاروں مسجدیں جو سکھّوں نے چھین لی تھیں واگزار کر دیں۔ ہزاروں ہزار مسلمانوں کے مکانات اُن کو واپس دلائے اور نوکریوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے۔ مسجدوں میں اذانوں اور نمازوں کی آزادی حاصل ہوئی اور دینی تعلیم پر سے تمام بندشیں اُٹھا لی گئیں۔ مودودی صاحب بتائیں کہ ان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آیا بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو انگریزوں کی تعریف کرنی چاہئے تھی یا کہ مذمت کرنی چاہئے تھی؟ اگر وہ انگریزوں کی حکومت کی مذمت کرتے تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ سکھ راج کی تائید کرتے ہیں کیونکہ پنجاب میں سکھ راج تھا مسلمانوں کی حکومت نہیں تھی اور اس کے معنے یہ تھے کہ وہ اس بات کو پسند کرتے کہ اذانوں کو بند کر دیا جائے، مسجدوں کو توڑ دیا جائے یا ان میں اصطبل بنا دیئے جائیں۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم بند کر دی جائے ، جہاں بس چلے ان کی لڑکیاں زبرستی چھین لی جائیں اور معمولی معمولی الزاموں پر ان کو قتل کر دیا جائے۔ کیا اگر بانئ سلسلہ احمدیہ ایسا کرتے تو مولانا مودودی کے دل کو ٹھنڈک نصیب ہو جاتی۔ کیا ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ایسے ہی واقعات سے ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے۔ اگر نہیں تو مودودی صاحب اور ان کے ساتھی بتائیں کہ اگر بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ایسے ماضی کو دیکھ کر انگریزوں کے زمانہ کی تعریف کی تو قصور کیا کیا؟
اب رہا مستقبل کا سوال۔ مستقبل بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف یہ تھا کہ ہندو لوگ ہندوستان کو آزادی دلوانے کی جدوجہد کر رہے تھے اور کسی آئندہ حکومت میں مسلمانوں کے جدا گانہ انتخاب کے لئے بھی کوئی تحفظ موجود نہیں تھا۔ یا مسلمان سیاست سے بالکل الگ تھے اور یا پھر کانگریس کے ساتھ شامل تھے۔ اگر وہ حقیقت پوری ہو جاتی تو کیا سارے ہندوستان میں ایسی حکومت نہ قائم ہو جاتی جو موجودہ بھارت حکومت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی کیونکہ موجودہ بھارت حکومت کے اوپر کئی پابندیاں ہیں۔ اوّل اس معاہدہ کی پابندی جو انہوں نے تقسیم ہندوستان کے وقت مسلمانوں سے کیا۔ دوم ان کے پہلو میں ایک آزاد مسلم حکومت کا وجود مگر باوجود ان پابندیوں کے بھارت میں مسلمانوں پر کئی سختیاں گزر جاتی ہیں۔ گومولانا مودودی صاحب کی جماعت ان سختیوں کو کڑوا گھونٹ کر کے نہیں بلکہ شربت قرار دے کر پی رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں کئی قسم کی سختیاں مسلمانوں پر ہو رہی ہیں اور مسلمان آج تک پوری طرح اپنے آپ کو آزاد محسوس نہیں کرتا۔ اگر باہمی کوئی سمجھوتہ نہ ہوتا، اگر بھارت کے پہلو میں پاکستان نہ ہوتا تو مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ گزرنی تھی اس کا خیال کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا مودودی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ایسے مستقبل کی تائید بانیٔ سلسلہ احمدیہ کرتے۔ بانی ٔ سلسلہ احمدیہ 1908ء میں فوت ہوئے اور پاکستان کا خیال 1930ء ، 1931ء میں پیدا ہؤا۔ 1908ء میں فوت ہونے والے انسان پر یہ جُرم لگانا کہ پاکستان کے ذریعہ سے مسلمانوں کا جو مستقبل ہونے والا تھا اس نے اس کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کیوں انگریزی حکومت کے زوال کی خواہش نہ کی کتنا مضحکہ خیز ہے اور پاکستان بننے کا فیصلہ چونکہ 1947ء کے شروع میں ہؤا تھا اس لئے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ پر مودودی صاحب یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے خیال کے مجسّم ہونے سے پورے چالیس سال پہلے کیوں پاکستان کے وجود کا اندازہ لگاتے ہوئے اس کی تائید نہ کی اور انگریزوں کی مذمت نہ کی۔ حالانکہ خود مودودی صاحب کا یہ حال ہے کہ وہ 1947ء تک پاکستان کے مخالف رہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ارادہ ہی پاکستان آنے کا نہیں تھا۔ وہ جانا چاہتے تھے کلکتہ مگر ایسے حادثات پیش آگئے کہ مجبوراً انہیں یہاں آنا پڑا اور اس وقت بھی ان کی جو جماعت ہندوستان میں ہے وہ ہندوستانی حکومت کی تعریف اور توصیف میں مشغول ہے مگر مودودی صاحب پاکستان میں آکر پاکستانی حکومت کی مذمت میں مشغول ہیں۔ ایسے حقائق کی موجودگی میں مودودی صاحب کو یہ جرأت کس طرح ہوئی کہ وہ اس قسم کی باتوں کو پیش کر سکیں۔ کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو عقل سے بالکل کورا سمجھتے ہیں؟
بلوچستان کے لوگوں کو احمدی بنانے کاارادہ
(14) ایک اعتراض اُنہوں نے یہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ BASE
کے بغیر تبلیغ نہیں پھیلتی۔ 143
نہ معلوم مولانا کو اس پر کیا اعتراض نظر آیا؟ احمدی جماعت ضروریہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم نے تبلیغ کرنی ہے جس طرح آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کرنی ہے۔ آپ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ آپ کی نیّت ہے یا نہیں کہ سارے مسلمانوں کو جماعتِ اسلامی کا فرد اور صالح بنالیا جائے۔ اگر آپ کی نیّت یہ نہیں تو آپ کا ایمان ظاہر ہے اور اگر آپ کی یہ نیّت ہے تو پھر وہی بات اگر احمدی چاہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟
احمدیوں کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ کونسی سیاسی انجیل کا ہے
(15) پھر وہ لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ احمدی تو اپنے آپ کو اقلیت نہیں بنوانا چاہتے۔ پھر ان کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ
کیوں کیا جاتا ہے اور اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ کون سی سیاسی انجیل کا ہے جب یہ مطالبہ معقول ہے تو پھر اس پر اعتراض کیا۔144
مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ معقولیت ہی کا نام سیاسی انجیل ہے جس معقولیت کی بناء پر وہ اپنا مطالبہ پیش کرتے ہیں وہی معقولیت ان کی بات کو ردّ کرتی ہے۔ مولانا مودودی صاحب اپنے اس رسالہ میں اور ان کے ساتھی بعض دوسری تحریروں میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ صرف پنجاب اور بہاولپور میں ہی مقبول ہے باقی علاقوں میں اس مطالبہ کی اہمیت عوام پر روشن نہیں ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت نہ پنجاب اور بہاولپور میں اور نہ دوسرے صوبوں میں اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ مطالبہ اکثریت کا نہیں اور اکثریت یہ نہیں چاہتی کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے۔ کسی قوم کو اقلیت قرار دینے کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو یہ کہ اکثریت اقلیت سے خائف ہو یا اقلیت اکثریت سے خائف ہو۔ تیسری وجہ ایک مُلک کے باشندوں کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی کوئی نہیں ہو سکتی۔ پس جب کہ خود مودودی صاحب کے نزدیک اکثریت احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی خواہش مند نہیں اور دوسری طرف احمدیوں کی طرف سے یہ مطالبہ پیش نہیں کہ ان کو اقلیت بنایا جائے کیونکہ ان کو مسلمانوں کی اکثریت سے خوف ہے بلکہ احمدی سمجھتے ہیں کہ اگر کونسلوں میں ان کے نمائندے نہ بھی آئیں تو چونکہ حکومت نے سیاسی امور کا فیصلہ کرنا ہے اور سیاسی امور سارے مُلک کے مشترک ہوتے ہیں اس نے اگر باقی لوگوں سے مِل کر وہ اپنے آپ کو منتخب نہیں کروا سکتے تو نہ سہی۔ کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے لئے کونسل نشستوں کا علیحدہ مطالبہ کریں تو بتائیے کہ کونسی وجہ معقول احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی رہ جائے گی۔ پس مودودی صاحب کا حق نہیں کہ وہ یہ سوال کریں کہ احمدیوں کو اقلیت نہ قرار دینے کا مسئلہ کونسی سیاسی انجیل کا ہے بلکہ باشندگانِ پاکستان کا حق ہے کہ وہ مودودی صاحب سے مطالبہ کریں کہ احمدیوں کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ کونسی سیاسی انجیل کا ہے؟
یہ بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں کا حصّہ قرار
پانے کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلی
(16) آخر میں مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا حصّہ قرار پانے
کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلتی چلی گئی۔ 145
یعنی چونکہ احمدی مسلمان کہلاتے تھے اس لئے ان کی تبلیغ پھیلتی گئی۔ یہ بھی سخت خلافِ واقعہ امر ہے۔ ہندوستان میں چالیس لاکھ عیسائی ہیں جن میں سے چار پانچ لاکھ مسلمان سے عیسائی ہؤا ہے۔ اسی طرح مصر، شام، فلپائن، انڈونیشیا، برٹش، بورنیو اور افریقہ میں پچاس لاکھ کے قریب مسلمان عیسائی ہؤا ہے۔ جماعت احمدیہ کی تو ساری تعداد چار پانچ لاکھ ہے۔ اگر احمدیوں کے مسلمانوں کا حصّہ قرار پانے کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلتی چلی گئی تو یہ جو پونے کروڑ کے قریب مسلمان عیسائی ہو چُکا ہے کیا وہ بھی عیسائیوں کے مسلمان کہلانے کی وجہ سے ہؤا تھا؟ مودودی صاحب مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کہلا کر ان کے عقائد بگاڑے تو وہ بگڑ سکتے ہیں لیکن اگر اسی مبلغ کو زبردستی غیر مسلم کہا جائے تو پھر مسلمان محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو بہائیوں کے دعویٰ کے مطابق پندرہ بیس لاکھ ایرانی اور عرب بہائی ہو چُکا ہے۔ وہ کیوں بہائی ہو گئے تھے؟ بہائیوں کو تو اسلام کا لیبل نہیں لگا ہؤا۔ پھر افریقہ اور ایشیا کے مختلف مُلکوں میں پونے کروڑ کے قریب مسلمان عیسائی ہو گیا ہے، وہ کیوں عیسائی ہو گیا ہے؟ عیسائیت پر تو اسلام کا لیبل نہیں لگا ہؤا۔ صاف بات ہے کہ وہ لوگ اس لئے عیسائی ہو گئے اور اس لئے بہائی ہوئے کہ ان کی صحیح تربیت نہیں کی گئی تھی۔ ان کو اسلام کی صحیح تعلیم نہیں بتائی گئی تھی اور جب تک کسی قوم کی صحیح تربیت نہ ہو اور ان کو اپنے مذہب کی صحیح تعلیم نہ دی جائے۔ وہ دوسرے مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ احمدیت کے یورپ میں پھیلنے میں بڑی روک یہی ہے کہ احمدی مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے دلوں میں سخت جذبۂ نفرت پیدا کیا گیا ہے۔ جماعت احمدیہ کو متواتر یورپین مستشرقین نے کہا ہے کہ تم اسلام کا نام چھوڑ دو پھر دیکھو کہ تمہاری تبلیغ عیسائیوں میں کثرت سے پھیلنے لگ جائے گی جس طرح بہائیوں کی تبلیغ ان میں پھیل رہی ہے مگر ہم نے کبھی اس کو برداشت نہیں کیا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور اسلام میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں۔ پس یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسلمان کہلانے کی وجہ سے احمدیہ جماعت پھیلی۔ احمدیوں سے بیسیوں گُنے زیادہ مسلمان غیر مسلم کہلانے والی قوموں میں شامل ہوئے اور غیر مسلم اقوام میں احمدیہ اشاعت کے راستہ میں یہی روک رہی کہ وہ احمدی مسلمان کہلاتے ہیں۔
فوج، پولیس اور عدالت میں احمدیوں کی بھرتی کے متعلق غلط بیانی
(17) اس کے بعد مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ انگریزی حکومت کی منظورِ نظر بن کر جماعت احمدیہ
فوج، پولیس اور عدالت میں اپنے آدمی دھڑا دھڑ بھرتی کراتی چلی گئی اور یہ سب کچھ اس نے مسلمان بن کر مسلمانوں کی ملازمت کے کوٹہ سے حاصل کیا۔ 146
یہ سرا سر غلط بیانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ ہی انگریزی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے احمدیوں پر ظلم ہؤا ہے۔ چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں دو واقعات شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو امام جماعت احمدیہ اپنے بعض خطبات میں بھی بیان فرما چکے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:-
‘‘1917ء کا واقعہ ہے۔ مَیں نے شملہ یا دہلی میں چودھری سرظفراﷲ خاں صاحب کو ایڈجوئینٹ جنرل یا ایسے ہی کسی اور بڑے افسر کے پاس ایک کیس کے سلسلہ میں بھیجا۔ کیس یہ تھا کہ ایک احمدی پر فوج میں سختی کی گئی اور پھر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ قصور اس کا نہیں اسے فوج سے بِلا وجہ نکال دیا گیا تھا۔ اس کیس کے متعلق بات کرنے کے لئے مَیں نے چوہدری صاحب کو اس افسر کے پاس بھیجا۔ چوہدری صاحب نے اس سے جاکر کہا کہ دیکھئے کتنے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور مظلوم ہے اس کو بِلا وجہ فوج سے نکال دیا گیا ہے۔ حالانکہ ہماری جماعت ایسی ہے جو مُلک کی خدمت کے لئے کام کرتی ہے ، روپیہ کی غرض سے نہیں۔ وہ فوجی افسر ساری بات سُننے کے بعد کہنے لگا کہ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت مُلک کی خدمت کی خاطر فوج میں کام کرتی ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اس جماعت کے اندر حُب الوطنی کا جذبہ پایا جاتاہے اور اسی جذبہ کے ماتحت یہ جماعت کام کرتی ہے، روپیہ کی خاطر کام نہیں کرتی ..... اور مَیں اس بات کو بھی سمجھتا ہوں کہ دوسروں پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جتنا کہ آپ کی جماعت پر ہمیں اعتماد ہے لیکن ایک بات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں اور وہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کی حفاظت کے لئے اس وقت اڑھائی تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے۔ اگر ہم آپ کے ایک آدمی کی خاطر اور اس کے حق بجانب ہونے کی بناء پر دوسروں کو خفا کر لیں اور وہ ناراض ہو کر کہہ دیں کہ ہم فوج میں کام نہیں کرتے ہمیں فارغ کر دیں تو کیا آپ کی جماعت اڑھائی تین لاکھ فوج مُلک کی حفاظت کے لئے مہیّا کرکے دے سکتی ہے۔ اگر یہ ممکن ہے تو پھر آپ کی بات پر غور کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی ناممکن ہے تو بتائیے ہم آپ کی جماعت کی دلداری کی خاطر سارے ہندوستان کی حفاظت کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں؟ ..... پس ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے اپنے مُلک میں بھی ہماری بات کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی۔ حکومت جو تمام رعایا سے یکساں سلوک کا دعویٰ کرتی ہے وہ بھی بعض دفعہ افسروں کی مخالفت کی وجہ سے اور بسا اوقات اس وجہ سے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے کہ ہمارا ساتھ دینا حکومت کے لئے ضعف کا موجب ہو گا اور وہ نہیں چاہتی کہ جماعت کی بات کو مان کر مُلک کی اکثریت کو ناراض کرے’’۔ 147
اسی قسم کا ایک واقعہ 1947ء میں بھی ہؤا۔ یہ واقعہ بھی حضرت امام جماعت احمدیہ اپنی ایک تقریر میں بیان فرما چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا:-
‘‘ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے۔ باوجودیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے۔ اس سکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو نیچے گرا دیا گیا۔ جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اُس نے کہا واقعی تمہارے ساتھ ظلم ہؤا ہے تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کرانگریز افسر کے پاس پہنچا تو اُس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اُسے اوپر نہ بھجوایا۔ کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اُوپر بھجوایا نہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس کے خلاف اُوپر نہ بھجوائی جائے’’۔148
مولانا مودودی صاحب نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے واقعات کو دیکھا تک نہیں کیونکہ شاید صالحین کے لئے واقعات کی جانچ پڑتال ضروری نہیں ہے۔ وہ بتائیں تو سہی کہ کتنے احمدی کس کس ملازمت میں ہیں اور وہ کس بناء پر ہیں یعنی آیا وہ انتخاب میں آئے ہیں۔ امتحان میں پاس ہوئے ہیں یا رعایت سے لئے گئے ہیں۔ اگر ثابت ہو جائے کہ احمدی باوجود نالائق ہونے کے رعایتاً کسی ملازمت میں لے لئے گئے ہیں یا مسلمانوں کی ملازمتوں کے معتدبہ حصّہ پر قابض ہیں تو پھر تو کوئی بات اعتراض کی بنتی ہے اور اگر یہ دونوں باتیں جھوٹی ہیں تو جھوٹ سے اسلام کی تائید نہیں ہو سکتی۔ اسلام بد نام ضرور ہو سکتا ہے۔
مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کار علماء کو چیلنج
ابھی گزشتہ دنوں مولانا مودودی کے
ساتھی علماء نے شور مچایا تھا کہ احمدی پاکستان کی فوج پر قابض ہو گئے ہیں۔ ہم مولانا اور ان کے رفقاء کار علماء کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ یہی ثابت کر دیں کہ احمدی پانچ فیصدی ملازمتوں پر قابض ہیں۔ چلو ہم اس سے اُتر کر مولانا کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ثابت کر دیں کہ احمدی ایک فیصدی ملازمتوں پر قابض ہیں کسی ادارے میں وہ کسی وجہ سے زیادہ آگئے ہیں اور کسی ادارے میں وہ بالکل نہیں ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دیکھنا تو مجموعی تعداد کو چاہئے اور ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ مجموعی تعداد کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد ہر گز اتنی زیادہ نہیں جو قابلِ اعتراض ہو یا ہر گز احمدی قابلِ اعتراض ذرائع سے ملازمتوں میں نہیں آئے۔
مولانا مودودی کے مزعومہ مسلم اکابر اور علماء کے جھوٹ
مولانا کے مزعومہ مسلم اکابر اور علماء تو اتنا جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ فرقان فورس جو احمدیوں نے کشمیر کی لڑائی میں شامل ہونے
کے لئے بنائی تھی اس کے متعلق پبلک میں اور اخباروں کے ذریعے سے وہ یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ کروڑوں روپیہ کا سامانِ جنگ چرا کر لے گئی ہے چنانچہ اخبار ‘‘آزاد’’ (11ستمبر 1952ء صفحہ6) اور رسالہ ‘‘نمک حراموں کے کارنامے’’ میں لکھا گیا کہ مکمل فوجی وردیاں ادنیٰ سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسروں تک کی چھ سو، تھری ناٹ تھری کی رائفلیں 599، مشین گن 20، مارٹر بمبز 226، گولیاں (21110) اکیس ہزار ایک سو دس، چھتیس سائز کے بہتّر گرنیڈ بمب اور ‘‘اس کے علاوہ گولی بارود، دستی بمب، سنگینیں اور بہت سا دوسرا نہایت قیمتی اور اہم سامان مثلاً وائرلیس سیٹ بمعہ چارجنگ انجن چارجنگ سیٹ اور بیٹری وغیرہ نیز بے شمار وردیاں اور دیگر سامان جو کروڑوں روپے کی مالیت کا ہوتا ہے یہ ہضم کئے بیٹھے ہیں’’۔
حالانکہ جو سامانِ جنگ چرایا جانا بیان کیا جاتا ہے اس کا چوتھا حصّہ بھی کبھی احمدیہ کمپنی (یعنی فرقان بٹالین)کو نہیں دیا گیااور پھر احمدیوں کے پاس فوجی افسروں کی تحریر موجود ہے کہ سارا سامانِ جنگ جو ہم نے ان کو دیا تھا واپس لے لیا ہے۔ چنانچہ اس رسید کے الفاظ یہ ہیں:-
‘‘تمام چیزیں جو آرڈی نینس سٹور سے دی گئی تھیں یعنی ہتھیار، بارود، خیمے، سامانِ دیگر اور بستر وغیرہ وغیرہ سب کا سب K.A.21 بٹیلین یعنی فرقان سے واپس لے لیا گیا اور راولپنڈی سنٹرل ڈپو کو واپس کیا گیا۔ اب سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کی کوئی چیز اب فرقان فورس سے قابلِ وصول نہیں۔ دستخط D.A.D.O.S.A.K میجر Co-ord Dated 20 june 1950’’۔
کیا مولانا اس رسید کو پڑھ کر لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہہ کر جھوٹ بولنے والے کے لئے دُعا کریں گے؟
پھر مولوی عطاء اﷲ صاحب بخاری نے 11مئی 1952ء کو لائل پور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ:-
‘‘مرزائیوں کے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے بھارت کی سرحد پر ریاست بہاولپور میں اسّی ہزار مربع زمین حاصل کر رکھی ہے اور اسی طرح سر محمد ظفراﷲ نے اسّی ہزار ایکڑ زمین بہاولپور کی ہندوستانی سرحد پر حاصل کر رکھی ہے جس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا ہے’’۔ 149
حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور افتراء ہے۔ ایک فیصدی بھی اس میں سچ نہیں۔ کیا اس قسم کے جھوٹ بول کر اسلام کی تائید کرنا مدِّنظر ہے؟ کیا اسلام بغیر جھوٹ کے ترقی نہیں کر سکتا۔
مولانا مودودی اور ان کے ساتھی اگر سچے ہیں تو میدان میں آئیں اور اپنے الزامات ثابت کریں۔
مولانا مودودی نے بھی اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ قادیانیوں کی جتھہ بندی سرکاری دفاتر کے علاوہ تجارت، صنعت اور زراعت میں بھی مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ہے۔ 150
زراعت اور تجارت و صنعت میں تفرقہ پیدا کرنا ایک معمہ ہے جسے مولانا ہی حل کر سکتے ہیں۔ صرف اس کے یہ معنے ہماری سمجھ میں آسکتے ہیں کہ دوسروں کے حصّہ پر اُنہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ہم مولانا کو قسم دیتے ہیں اس خدائے وحدہٗ لاشریک کی جس کے ہاتھ میں اُن کی جان ہے کہ اگر وہ اور اُن کے ساتھی ان الزاموں میں سچے ہیں تو وہ میدان میں آئیں اور اپنے ثبوت پیش کریں ورنہ کم سے کم لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ کہتے ہوئے اعلان کر یں کہ احمدیوں نے دوسرے فرقوں کی زمینوں، تجارتوں اور کارخانوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ہم بھی اسی وحدہٗ لاشریک کی قسم کھا کر کہیں گے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے کہ یہ الزامات بالکل جھوٹے ہیں اور اگر ہم ان میں جھوٹ بول رہے ہیں تو خدا کی *** ہم پر اور ہماری اولادوں پر ہو۔ اس کے سوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ اگر اس کے باوجود کوئی شخص ان الزامات سے باز نہیں آتا تو ہم اس کا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں اور اس سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ حق اور انصاف کی تائید کرے اور جھوٹے اشتعال دلانے والوں اور غلط بیانیوں سے بدنام کرنے والوں کا خود ہی علاج ہو۔
آخری خطاب
مولانا مودودی صاحب نے ‘‘قادیانی مسئلہ’’ لکھ کر مُلک میں خطرناک تفرقہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک
مولانا مودودی صاحب کے اپنے مفاد کا سوال ہے اس کے مطابق تو یہ کوشش بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف لکھ چکے ہیں کہ صالح جماعت کا یہ فرض ہے کہ ہر ذریعہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر کوئی پروگرام مُلک میں جاری نہیں ہو سکتا لیکن جہاں تک مسلمانوں کے مفاد اور اُمّتِ مسلمہ کے مفاد کا سوال ہے یقینا یہ کوشش نہایت ناپسندیدہ اور خلافِ عقل ہے۔ مسلمان جن خطرناک حالات میں سے اس وقت گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متحد کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی ضرورتوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ بغیر اتحاد کے اس وقت مسلمان سیاسی دُنیا میں سر نہیں اُٹھا سکتا۔ اس وقت بیسیوں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی آبادی مسلمان ہے، جو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ آزاد نہیں۔ وہ غیر مسلموں کے قبضہ میں ہیں اور بیسیوں ایسے ممالک اور علاقے موجود ہیں جہاں کے مسلمان موجودہ حالات میں علیحدہ سیاسی وجود بننے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہیں ایسی آزادی بھی حاصل نہیں جو کسی مُلک کے اچھے شہری کو حاصل ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے بلکہ ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معزز شہریوں کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور جو علاقے مسلمانوں کے آزاد ہیں اُنہوں نے بھی ابھی پوری طاقت حاصل نہیں کی بلکہ وہ تیسرے درجہ کی طاقتیں کہلا سکتے ہیں۔ دُنیا کی زبردست طاقتوں کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان ساری دُنیا پر حاکم تھا۔ جب مسلمان پر ظلم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مسلمان پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ساری دُنیا میں شور پڑ جاتا تھا لیکن آج عیسائی پر ظلم کرنے سے تو ساری دُنیا میں شور پڑ سکتا ہے مسلمان پر ظلم کرنے سے ساری دُنیا میں شور نہیں پڑ سکتا۔ عیسائی کسی مُلک میں بھی رہتا ہو اگر اس پر ظلم کیا جائے تو عیسائی حکومتیں اس میں دخل دینا اپنا سیاسی حق قرار دیتی ہیں لیکن اگر کسی مسلمان پر غیر مسلم حکومت ظلم کرتی ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ غیر ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا جاسکتا۔ گویا عیسائیت کی طاقت کی وجہ سے عیسائیوں کے لئے اَور سیاسی اصول کارفرما ہیں لیکن مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے سیاسی دُنیا ان کے لئے اَور اصول تجویز کرتی ہے۔ ایسے زمانہ میں مسلمانوں کا متفق اور متحد ہونا نہایت ضروری ہے اور چھوٹی اور بڑی جماعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ الیکشن میں ممبر کو اپنے جیتنے کی سچی خواہش ہوتی ہے اور وہ ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلمان حکومتوں کا معاملہ الیکشن جیتنے کی خواہش سے کم نہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم کو اس معاملہ میں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں وہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلامی حکومتوں کے طاقتور بنانے کی اتنی بھی خواہش نہیں جتنی ایک الیکشن لڑنے والے کو اپنے جیتنے کی خواہش ہوتی ہے۔ پس وہ سچی خیر خواہی کا نہ مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اس کو مسلمانوں سے سچی خیر خواہی ہے۔پس مودودی صاحب نے ‘‘قادیانی مسئلہ’’ لکھ کر قادیانی جماعت کا بھانڈا نہیں پھوڑا اپنی اسلامی محبت کا بھانڈا پھوڑا ہے اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا پردہ فاش کیا ہے ۔ کاش وہ اسلام کی گزشتہ ہزار سال کی تاریخ دیکھتے اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس طرح مسلمانوں کو پھاڑپھاڑ کر اسلام کو تباہ کیا گیا ہے اور پھاڑنے کے یہ معنے نہیں تھے کہ ان میں اختلافِ عقیدہ پیدا کیا گیا تھا کیونکہ اختلافِ عقیدہ کبھی بھی فتنہ پردازوں نے پیدا نہیں کیا بلکہ اختلافِ عقیدہ علماء و فقہاء کی دیدہ ریزیوں کا نتیجہ تھا۔ پھاڑنے کے معنے یہ تھے کہ اختلافِ عقیدہ کی بناء پر بعض جماعتوں کو الگ کر کے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تاریخ موجود ہے ہر آدمی اس کی ورق گردانی کر کے اس نتیجہ کی صحت کو سمجھ سکتا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کا حل اس طرح نہیں کیا جاسکتا جو مولانا مودودی صاحب نے تجویز کیا ہے۔ یعنی پہلے تو احمدیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلّیت قرار دے دیا جائے اور پھر وہ سلسلہ شروع ہو جائے جو ایک ہزار سال سے اسلام میں چلا آیا ہے یعنی پھر آغاخانیوں کو اسلام سے خراج کیاجائے، پھر بوہروں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر شیعوں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر اہلحدیث کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر بریلویوں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر دیوبندیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے اور پھر مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت قائم کی جائے۔ مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اﷲ تعالیٰ کے فضل سے یقینا نہیں بنے گی لیکن پھر ایک دفعہ دُنیا میں وہی تباہی کا دور شروع ہو جائے گا جو گزشتہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں میں جاری رہا اور وہ طاقت جو پچھلے پچیس سال میں مسلمانوں نے حاصل کی ہے بالکل جاتی رہے گی اور مسلمان پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے اور جماعت اسلامی کے پیرو اپنے دل میں خوش ہوں گے کہ ہماری حکومت قائم ہو رہی ہے لیکن ایسا تو نہ ہو گا۔ ہاں اسلامی حکومتیں کمزور ہو کر پھر ایک ترلقمہ کی صورت میں یا تو روس کے حلق میں جا پڑیں گی یا مغربی حکومتوں کے گلے میں جا پڑیں گی۔ خدا اسلام کے بد خواہوں کا مُنہ کالا کرے اور اسلام کو اس روزِ بند کے دیکھنے سے محفوظ رکھے۔
مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بجائے صحیح طریقہ مُلک میں امن قائم کرنے کا یہ ہے کہ:-
(1) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مختلف فرقے خواہ اپنے اپنے مخصوص نظریات کے ماتحت دوسرے فرقوں کے متعلق مذہبی لحاظ سے کچھ ہی خیال رکھتے ہوں یعنی خواہ اُنہیں سچّا مسلمان سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں مسلمانوں کے ملّی اتحاد کی خاطر اور اسلام کو فرقہ وارانہ انتشار سے بچانے کی غرض سے ان سب کو کلمۂ طیبہ کی ظاہری حد بندی کے ماتحت بِلا استثناء مسلمان تسلیم کیا جائے اور اس میں شیعہ، سُنّی، اہلِ حدیث، اہلِ قرآن، اہلِ ظاہر، اہلِ باطن، حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی، احمدی اور غیر احمدی میں کوئی فرق نہ کیا جائے۔
(2) اگر اس ایک ہی صحیح طریق کو استعمال نہیں کرنا جس کے بغیر مسلمانوں کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر احمدیوں کو اقلیت قرار دینے سے کچھ نہیں بنتا کیونکہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دُشمن ہو رہا ہے اور اسلام کی خیرخواہی دلوں میں نہیں ہے۔ صرف اپنے فرقوں کی خیر خواہی دلوں میں ہے۔ اس لئے یہ آپریشن صرف احمدیت پر ختم نہیں ہو جائے گا۔ احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آزما ئے گا پس ایک ہی دفعہ یہ فیصلہ کر دینا چاہئے کہ اس اسلامی حکومت میں فلاں فرقہ کے لوگ رہ سکتے ہیں دوسروں کے لئے گنجائش نہیں تاکہ باقی سب فرقے ابھی سے اپنے مستقبل کے متعلق غور کر لیں اور دُنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ علماءِ پاکستان کس قسم کی حکومت یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں۔
(3) اور اگر یہ نہیں کرنا اور واقع میں یہ ایک خطرناک بات ہے تو پھر ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کریں گے کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے مولوی صاحبان کے دل میں تقویٰ اور خشیت اﷲ کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کو یہ سبق سکھائیں کہ عدل اور انصاف اور رواداری کا طریق سب سے بہتر طریق ہے اور اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جب ان کے استاد علماء کی حالت خراب ہو گئی ہے تو شاگرد ہی استادی کی کرسی پر بیٹھیں اور اپنے سابق اساتذہ کو ان کے فرائض کی طرف توجّہ دلائیں کہ اسلام مزید ضُعف اور تباہی سے بچ جائے اور اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کا ہاتھ پکڑ لے اور ان کی اسی طرح مدد کرے جس طرح ابتدائی تین سو سال میں اس نے مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(شائع کردہ دارالتجلید نمبر 14ملکانی محل فرئیر روڈ پوسٹ بکس نمبر 7215کراچی)
1: رپورٹ مطبوعہ 17جنوری 1953ء اخبار ‘‘تسنیم’’ متعلق جماعت اسلامی
2: کوثر 25جنوری 1953ء
3: قادیانی مسئلہ صفحہ 21مطبوعہ 1992ءدار الاشاعت اسلامی لاہور
4: قادیانی مسئلہ صفحہ 54 مطبوعہ 1992ء مطبوعہ دارالاشاعت اسلامی لاہور
5: درمنثور جلد 5 صفحہ 386 الطبعۃ الاولیٰ 1990ء مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
6: مسلم کتاب الایمان باب من مات لا یشرک باللّٰہ شیئًا دخل الجنۃ
7: مسلم کتاب فضائل الصحابہ باب من فضائل علی ابن ابی طالب
8: فتوحات مکیہ جلد2 باب 73 صفحہ 6 مطبوعہ بیروت 1998ء
9: الدرالمنثور زیر آیت خاتم النّبییّن صفحہ 386 الطبعۃ الاولٰی 1990 ء مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
10: تاریخ ابن خلدون الجزء الثانی صفحہ 65 زیر عنوان خَبْرُ الثَقِیْفَۃ
11: طبری جلد 4 صفحہ 1749۔ مطبوعہ بیروت 1965ء
12: تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ177
13: تاریخ الخمیس جلد2 صفحہ 217 ۔ مطبوعہ بیروت 1283ھ
14: طبری جلد 4 صفحہ 1853، 1854 ۔ مطبوعہ بیروت 1965ء
15: طبری جلد 4 صفحہ 1854، 1855۔ مطبوعہ بیروت 1965ء
16: تاریخ الکامل جلد 2 صفحہ 140
17: تفسیر روح المعانی زیر آیت خاتم النّبییّن جلد 12 صفحہ 34 ۔ مکتبہ امدادیہ ملتان 1267ھ
18: قرآن مجید مترجم و محشی مطبوعہ مدینہ پریس بجنور صفحہ 549۔ 1369ھ
19: تحذیر الناس صفحہ 10۔ مطبوعہ سہارنپور 1309ھ
20: مقدمہ ابن خلدون صفحہ271، 272 مطبوعہ مصر 1930ء
21: الجامع الصغیر صفحہ 352 مطبوعہ بیروت 1423ھ
22: مکتوبات امام ربّانی دفتر اوّل حصّہ چہارم صفحہ 138۔ مطبوعہ 1330ھ
23: مکتوبات امام ربّانی دفتر اوّل حصّہ چہارم مکتوب 248صفحہ 49 مطبوعہ لاہور 1330ھ
24: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 29، 30
25: ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209
26: کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15، 16
27: تجلیات الٰہیہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 411، 412
28: ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 213 ، 214
29: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100حاشیہ
30: تقریر واجب الاعلان متعلق واقعات جلسہ بحث منعقدہ جامع مسجد دہلی مورخہ 20 اکتوبر 1891ء
31: الحجر :3
32: ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم و ذکر وفاتہٖ
33: حٰمۤ السجدہ : 31
34: ابن ماجہ کتاب الفتن باب الْاَمْرُ بالْمَعْرُوْفِ وَ النَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ
35: مثنوی مولانا روم دفتر پنجم صفحہ 67
36: مجمع الزوائد کتاب الصلوٰۃ باب فی تارک الصلوٰۃ حدیث نمبر 1634 جز 2 صفحہ 26 مطبوعہ 1994ء
37: خطبات از مودودی صاحب صفحہ 32 ، 33 مطبوعہ مارچ 1935ء
38: تذکرہ صفحہ 47۔ ایڈیشن چہارم
39: تذکرہ صفحہ 577 ۔ ایڈیشن چہارم
40: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 123
41: تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 433
42: فتوی 1892ء از مولوی عبدالحق غزنوی منقول ازاشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر7 صفحہ 204
43: فتویٰ 1892ء از مسعود دہلوی سجادہ نشین رتہڑ چھتّڑ منقول از اشاعۃ السنہ جلد13 نمبر6 صفحہ189
44: فتویٰ 1892ء از مولوی عبد الحق مؤلّف تفسیر حقانی منقول از اشاعة السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 89
45: فتویٰ 1892ء از مولوی محمد اسمٰعیل منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13نمبر 6 صفحہ 191
46: فتویٰ 1892ء از مولوی فقیر اﷲ منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 187
47: فتویٰ 1892ء از مولوی محمد لطیف اﷲ منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ190
48: فتویٰ 1892ء ازمولوی نذیر حسین صاحب دہلوی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر5
49: فتویٰ 1892ء از مولوی عبدالصمد غزنوی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7 صفحہ201
50: اشاعۃ السنہ 1893ء جلد 18 نمبر 1 تا 6
51: مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لأ خیہ المسلم …..
52: استفتائے ضروری صفحہ 37
53: استفتائے ضروری صفحہ 40
54: استفتائے ضروری صفحہ 9
55: ٹریکٹ ‘‘مودودیت اور مرزائیت’’ صفحہ 2
56: نوائے وقت 28ستمبر 1948ء
57: استفتائے ضروری صفحہ 23
58: فتویٰ شائع کردہ محمد عبدالشکور مدیر ‘‘النجم’’لکھنؤ
59: محمد مرتضیٰ حسن ناظم شعبہ تعلیمات دارالعلوم دیوبند۔ منقول از فتویٰ شائع کردہ مدیر’’النجم’’ لکھنؤ
60: ردّالرفضہ صفحہ 30 مطبوعہ ملتان
61: اردو ترجمہ فتاوٰی عزیزی صفحہ 377 مطبوعہ کراچی 1969ء
62: فتاویٰ عالمگیریہ جلد 2 صفحہ 283 مطبوعہ مطبع مجیدی کانپور
63: الصافی فی شرح الاصول الکافی جزو سوم باب فرض الطاعۃ الائمہ صفحہ 61 مطبوعہ نولکشور
64: حدیقۂ شہداء صفحہ 65
65: فروع الکافی کتاب الجنائز جلد اوّل صفحہ 100۔ مطبوعہ 1302ھ
66: ردّ التکفیر صفحہ 11
67: حسام الحرمین صفحہ 122۔ مطبوعہ نظامی پریس بدایوں 1371ھ
68: تین سَو علماء کا متفقہ فتویٰ مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل لکھنؤ
69: فتویٰ علماء کرام مشتہرہ دراشتہار شیخ مہر محمد قادری لکھنؤ
70: جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد صفحہ 1
71: مجموعہ فتاویٰ صفحہ 54، 55
72: تاریخ الخوارج تالیف الشیخ محمد شریف سلیم صفحہ 14
73: قادیانی مسئلہ صفحہ 26، 27
74: خطبات از مودودی صاحب صفحہ 32 مطبوعہ مارچ 1965ء
75: مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ایڈیشن سوم صفحہ 80
76: قادیانی مسئلہ صفحہ 15
77: حاشیہ اربعین ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 417
78: فتویٰ مطبوعہ 1892ء منقول از اشاعۃ السنہ جلد13 نمبر6 صفحہ 185
79 ، 80: شرعی فیصلہ صفحہ 31
81: فتویٰ شریعت غرّا صفحہ 9
82: شرعی فیصلہ صفحہ 25
83: فتوی شریعت غرّا صفحہ 2
84: فتویٰ شریعت غرّا صفحہ 5
85: فتویٰ شریعت غرّا صفحہ 4، 5
86: شرعی فیصلہ صفحہ 22
87: شریعت غرّا صفحہ 3
88: شرعی فیصلہ صفحہ 20
89: شرعی فیصلہ صفحہ 24
90 ، 91: شرعی فیصلہ صفحہ 31
92: شرعی فیصلہ صفحہ 24
93: حسام الحرمین صفحہ 95
94: فتویٰ 1892ء منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر6 صفحہ 185
95: فتویٰ 1892ء از اشاعۃ السنہ جلد 13نمبر 6 صفحہ 201
96: فتویٰ 1893ء منقول از فتویٰ درتکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام
97: فتویٰ شریعت غرّا صفحہ 12
98: فتویٰ مطبوعہ 1892ء از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201
99: فتویٰ در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ شائع شُدہ 1311 ھ در مطبع محمدی واقعہ مدراس
100: مجموعہ کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سید محمد غلام صاحب احمدپور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپورصفحہ 5 ، 6
101: مجموعہ کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سید محمد غلام صاحب احمدپور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپورصفحہ 11
102: الفضل19اکتوبر 1915ء صفحہ 6 و تاریخ مالابار صفحہ 35
103: الفضل 14دسمبر 1918ء بحوالہ اہلحدیث 6دسمبر 1918ء صفحہ 4، 5
104: الفضل جلد 8 نمبر 76، 77 مورخہ 11، 14اپریل 1921ء صفحہ 7
105: الفضل جلد 5 نمبر 64 مورخہ 9فروری 1918ء صفحہ 3
106: الفضل جلد 15 نمبر 81 مورخہ 13اپریل 1928ء صفحہ 5
107: الفضل جلد 15 نمبر 85 مورخہ 27اپریل 1928ء صفحہ 8
108: الفضل جلد 21 نمبر 102 مورخہ 25فروری 1934ء صفحہ 6
109: ہلال بمبئی 14مارچ 1936ء
110: روزنامہ ہلال بمبئی 13مارچ 1936ء
111: الفضل جلد 27 نمبر 105 مورخہ 9مئی 1939ء صفحہ 5
112: الفضل جلد 31 نمبر 179 مورخہ یکم اگست 1943ء
113: الفضل جلد 31 نمبر224 مورخہ 23ستمبر 1943ء صفحہ 1
114: الفضل جلد 33 نمبر 189 مورخہ 13اگست 1944ء صفحہ 2
115: زمیندار 21جنوری 1951ء صفحہ 9
116: منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 5
117: فتویٰ در تکفیر عروج جسمی ونزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام مطبوعہ مدراس 1311ھ
118: مجموعہ کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سیّد محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ صفحہ 5
119: شرعی فیصلہ صفحہ 31
120: اشتہار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحہ 2
121: اشتہار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحہ 14
122: قادیانی مسئلہ صفحہ 30۔ مطبوعہ مارچ 1992ء
123: المؤمن: 29
124: الحاقہ :45 تا 47
125: قادیانی مسئلہ صفحہ 34 ، مطبوعہ مارچ 1992ء
126: قادیانی مسئلہ صفحہ 34، 35 ۔ مطبوعہ مارچ 1992ء
127: آزاد 11مئی 1951ء و زمیندار 28مئی 1951ء
128: قادیانی مسئلہ صفحہ 32مطبوعہ 1992ء
129: تبلیغِ رسالت جلد 7صفحہ 17
130: قادیانی مسئلہ صفحہ124مطبوعہ 1992ء
131: قادیانی مسئلہ صفحہ 49 مطبوعہ 1992ء
132: قادیانی مسئلہ صفحہ 49 مطبوعہ 1992ء
133: تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 17
134: ترجمان القرآن جون 1948ء صفحہ 119
135: ترمذی ابواب الدیات باب ماجاء فیمن قتل دون مالہٖ فھو شھید میں الفاظ کی ترتیب میں صرف فرق ہے۔
136: الفضل جلد 23 نمبر 55 مورخہ 3ستمبر 1935ء صفحہ 9، 10
137: قادیانی مسئلہ صفحہ 51 مطبوعہ 1992ء
138: ‘‘ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض’’ بحوالہ الفضل 27ستمبر 1919ء صفحہ 3تا 11
139: ‘‘معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ’’بحوالہ الفضل 7جون 1920ء صفحہ 4 ، 5
140: الفضل جلد 9 نمبر 1 مورخہ 4جولائی 1921ء صفحہ 6
141: الفضل جلد 8 نمبر 76، 77 مورخہ 11، 14 اپریل1921ء صفحہ 5
142: الفضل جلد 12 نمبر 135، 140 مورخہ 9جون 1925ء و20جون 1925ء
143: قادیانی مسئلہ صفحہ 40۔ مطبوعہ 1992ء
144: قادیانی مسئلہ صفحہ 41 ،42 ۔ مطبوعہ 1992ء
145: قادیانی مسئلہ صفحہ 52 ۔ مطبوعہ 1992ء
146: قادیانی مسئلہ صفحہ 52۔ مطبوعہ 1992ء
147: الفضل جلد 32 صفحہ 233 مورخہ 5اکتوبر 1944ء صفحہ 3
148: الفضل جلد 35 نمبر120مورخہ 21مئی 1947ء صفحہ 4
149: اخبار ‘‘غریب’’ و اخبار ‘‘عوام’’ لائل پور مورخہ 13 مئی 1952ء بحوالہ الفضل 24مئی 1952ء صفحہ 6
150: قادیانی مسئلہ صفحہ 35 مطبوعہ 1992ء









افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء
(26 دسمبر 1953ء)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء
(فرمودہ 26 دسمبر 1953ء بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے پهر ایک دفعہ ہم کو اپنے دین کی خدمت کے لئے جمع ہونے اور اپنا ذکر بلند کرنے کا موقع عطا فرمایا۔بہت سے لوگ ہیں جو ان برکات سے ناواقف ہوتے ہیں جو ایسی مجالس پر خداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو ایسی جگہوں پر آ کر بهی فائدہ اٹهانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ میرے نزدیک آٹھ دس دفعہ ایسا ہؤا ہوگا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جلسہ سے پہلےجلسہ سالانہ کا نظارہ دکهایا اور سوائے ایک دفعہ کے جہاں تک کہ مجھے یاد پڑتا ہے عام طور پر میں نے دیکها کہ آدمی تهوڑے ہیں اور بعض دفعہ تو میں نے یوں دیکها کہ کچھ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور پهر غائب ہو گئے ہیں پهر کچھ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ غائب ہو گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ میں نے بہت بڑا ہجوم دیکها۔ شروع میں جب مجھے ایسی رؤیا آتیں تو میں سمجھتا کہ اب کے لوگ تهوڑے آئیں گے مگر جب لوگ آتے تو پہلے سے زیادہ ہوتے تهے تب مجھ پر تعبیر کھلی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ دکهایا ہے کہ ظاہری طور پر آنے والے بہت ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں کم دکهائے جاتے ہیں کیونکہ وہ آ کر فائدہ نہیں اٹهاتے اور اُن برکات میں سے حصہ نہیں لیتے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے موقع پر نازل کی جاتی ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہؤا ہے اور بعض دفعہ تو میں نے ذکر بهی کیا ہے کہ جلسہ کے اوقات میں مجھے نظر آیا کہ جیسےآسمان پر سے فرشتے اتر رہے ہیں اور نورنازل کر رہے ہیں اور کئی دفعہ میں نے تیز روشنیاں آسمان سے اترتی ہوئی دیکھیں لیکن عام نظروں میں وہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع ہوتی ہے تو آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں ان کی تلاش کرتے پهرتے ہیں اور جب وہ اس گروہ کے پاس پہنچتے ہیں جو ذکرِ الٰہی کے لئے جمع ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو آوازیں دیتے ہیں کہ آ جاو تمہاری جگہ یہ ہے۔اور پهر وہ سارے کے سارے اُن کےگرد گهیرا ڈال لیتے ہیں اور اُن سب کو آسمان کی طرف اٹهانا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں۔1 اس میں یہی اشارہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں خدا بهی ان کے ذکر کو بلند کرتا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک محدود طاقت کا انسان تو خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرے اور وہ جس کی طاقتیں غیر محدود ہیں وہ ان کو بدلہ نہ دے۔ لازمی بات ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کا ذکر بلند کرتے ہیں خدا بهی ان کے ذکر کو بلند کرتا ہے مگر بسا اوقات جیسا کہ ابهی ماسٹر فقیراللہ صاحب نے تلاوت کرتے ہوئے جو آیتیں پڑهی ہیں ان میں سے ایک کا مضمون یہی ہے الٰہی نصرت اور تائید بعض دفعہ اتنی مخفی آ رہی ہوتی ہے کہ خدائی جماعتیں بهی یہ سمجھتی ہیں کہ کثرت تو ہمیں جهوٹا سمجھے گی کیونکہ اتنا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک خدا تعالیٰ کی مدد نہیں آئی جب یہ مایوسی کا مقام آ جاتا ہے تب یکدم اللہ کی طرف سے مدد آ جاتی ہے اور ان کی مایوسی یقین اور امید سے بدل جاتی ہے۔
غرض اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو وہ عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے جو شاید آج دنیا میں اَور کسی کو حاصل نہیں۔ ممکن ہے منفرد طور پر اور بهی کسی کو یہ بات حاصل ہو کیونکہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کلی طور پرکوئی مذہب یا کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت رکهنے والے ان میں بهی پائے جاتے ہیں مگر ان میں اتنی کثرت نہیں ہوتی جتنی کثرت الٰہی جماعتوں میں پائی جاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں دس ہزار میں سے ایک شخص ایسا ہو جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہو لیکن تمہارے سَو میں سے دس ایسے نکل آئیں گے اور یہ بڑا بهاری فرق ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری طاقت ان کی نسبت ہزار گُنا زیادہ ہے اور اگر تمہارے سو میں سے بیس ایسے نکل آئیں تو تم ان سے دو ہزار گُنا زیادہ طاقتور ہو جاؤ گے اور اگر تیس نکل آئیں تو تین ہزار گُنا طاقتور ہو جاؤ گے۔ بہرحال الٰہی جماعتوں اور غیر الٰہی جماعتوں میں کثرت اور قلّت کا فرق ہی ہوتا ہے۔
لوگ بعض دفعہ نادانی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ الٰہی جماعت وہ ہوتی ہے جس کے سارے کے سارے افراد جنتی ہوں اور غیر الٰہی جماعتیں وہ ہوتی ہیں جن کے سارے کے سارے افراد جہنمی ہوں حالانکہ نہ غیر الٰہی جماعتیں ساری کی ساری خدائی انعامات سے محروم ہوتی ہیں اور نہ الٰہی جماعتیں ساری کی ساری ان انعامات کی مستحق ہوتی ہیں صرف قلّت اور کثرت کا فرق ہوتا ہے۔ جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہے انبیا کی جماعتوں میں کثرت سے خدائی فضلوں سے حصہ لینے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور باقی مذاہب اور جماعتوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور چونکہ اکثریت پر فیصلہ ہوتا ہے اس لئےسمجھا جاتا ہے کہ وہ لوگ خدائی محبت اور اس کے انعامات سے محروم ہیں جیسے ہندوستان میں بهی کروڑ پتی موجود ہیں لیکن اسے غریب ملک سمجھا جاتا ہے اس کے مقابلہ میں یورپ اور امریکہ میں بهی کروڑ پتی ہیں لیکن انہیں امیر ملک سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں جو مالدار پائے جاتے ہیں ان میں سے بعض وہاں کے بڑے سے بڑے مالدار کی ٹکر کے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کو غریب سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ یہاں پر اِکّا دُکّا امیر ہیں اور وہاں ہزاروں ہزار مالدار لوگ موجود ہیں۔ پس باوجود اس کے کہ کروڑ پتی یہاں بهی پائے جاتے ہیں یہ ملک غریب سمجھا جاتا ہے اور وہ امیر سمجھےجاتے ہیں کیونکہ ان میں امیروں کی کثرت پائی جاتی ہے تو اصل ترقی اسی میں ہؤا کرتی ہے کہ جماعتی طور پر اپنے اندر نیکی اور تقوٰی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور خدا تعالیٰ کے جو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹهانے کی کوشش کی جائے۔ جتنا جتنا کوئی شخص دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنا ایک الگ حلقہ بنا لے گا اسی قدر اس کے لئے خدائی قُرب میں بڑهنا آسان ہوتا جائے گا جیسے وہ شخص جس نےہلکا بوجھ اٹهایا ہؤا ہو وہ تیز تیز چلتا ہے اور جس نے زیادہ بوجھ اٹهایا ہؤا ہو وہ آہستہ آہستہ چلتا ہے اسی طرح جس کے دنیا سے زیادہ تعلقات ہوتے ہیں وہ بوجھل ہو جاتا ہے فرشتہ اسے تهوڑی دور تک تو اٹها کر لے جا سکتا ہے لیکن زیادہ دور تک نہیں لے جا سکتا۔ پس اپنے دل کو اس طرح صاف کرو کہ تمہارے دنیا سے تعلقات بہت تهوڑے رہ جائیں کیونکہ جس کا وجود بہت ہلکا ہو فرشتے اسے بہت اونچا لے جاتے ہیں غرض زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رغبت اور محبت ان دنوں میں پیدا کرنی چاہئے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل کرنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی برکات حاصل ہوں۔
آج رات کو بارش کی وجہ سے کچھ تندوروں کو بهی نقصان پہنچا ہے اور کچھ مہمانوں کو بهی۔ بہرحال مقامی طور پر جو کچھ ہو سکا وہ کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ درحقیقت یہ ساری باتیں مومن کے لئے ایک کهیل کے طور پر ہوتی ہیں۔ جیسے کرکٹ اور ہاکی کهیلتے وقت لڑکے گرتے ہیں اور انہیں چوٹ آتی ہے تو بجائے رونےکے وہ ہنستے ہیں اسی طرح دینی خدمات میں جو تکلیفیں ہوتی ہیں وہ بهی دینی خدمات کا ہی حصہ ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بدر کے موقع پر تشریف لے گئے تو چونکہ وہ جنگل تها اس لئے صحابہؓ کو تکلیف ہوئی۔ ان کے پاس خیمے بهی نہیں تهے۔ پهر رات کو بارش ہو گئی جس سے صحابہؓ گهبرا گئے۔ صبح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اس نے آج رات ہم پر اپنی رحمت نازل کی۔ اس پر سب کے دل کهل گئے۔ چنانچہ جنگ کے موقع پر وہ بارش واقع میں رحمت ثابت ہوئی کیونکہ مسلمانوں کے قدم ر یتلے میدان میں جم گئے اور کفار کے قدم چکنی مٹی پر پھسلنے لگ گئے۔ پس یہ تکلیفیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں اس بارش کا اس لحاظ سے فائدہ ہو گیا کہ یہاں ربوہ میں مٹی بہت اڑا کرتی ہے جس کی وجہ سے میرا گلا ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ خراب ہو جایا کرتا ہے۔ لاہور تک تو گلا ٹهیک رہا مگر یہاں یہ حال ہے کہ پچهلے ڈیڑه مہینہ سے میرے گلے سے اتنا بلغم نکلا ہے کہ مجھے حیرت ہوتی تهی۔ عجیب بات یہ ہےکہ مجھے کهانسی نہیں تهی لیکن اس کے باوجود گلے سے بلغم نکلتا تها اور وہ اتنا لمبا ہوتا تها کہ بالشت بهر باہر لگا ہوا ہوتا تها اور ابهی گلے میں اس کا تارباقی ہوتا تها۔ پہلے طب کی کتابوں میں مَیں اس کا ذکر پڑها کرتا تها تو سمجھتا تها کہ اس میں مبالغہ کیا گیا ہے لیکن اب میرے ساتھ یہ واقعہ ہؤا تو میں نے سمجھا کہ انہوں نے ٹهیک لکها تها۔ انسان کا اندرونہ بهی مداری کا تهیلا معلوم ہوتا ہے چهوٹا سا گلا ہے مگر سارا سارا دن بلغم نکلتا رہتا تها اور وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تها۔ شاید اللہ تعالیٰ نے گردوغبار کو دور کرنے کے لئے ہی یہ بارش برسائی ہو۔ بیشک اس سے کچھ نقصان بهی ہؤا اور مہمانوں کو تکلیف بهی ہوئی لیکن شاید اس گرد کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کی ہو۔ اب کم از کم ایک دو دن اس بارش کا نتیجہ اچھا رہے گا اور گَرد نہیں اُڑے گی۔
اس موقع پر باہر کے دوستوں کی طرف سے بهی کچھ تاریں آئی ہوئی ہیں۔ ایک تو جرمنی کی جماعت کی طرف سے تار آئی ہے۔ انہوں نے احباب جماعت کو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے اور دعا کے لئے لکها ہے۔ اسی طرح ملایا کی جماعت کی طرف سے تار آیا ہے۔ انہوں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے اور ساتھ ہی خوشخبری دی ہے کہ ملائی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ جاکرتا کی جماعت کی طرف سے بهی تار آیا ہے جو انڈونیشیا کا صدر مقام ہے انہوں نے بهی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے اسی طرح جوگ جاکرتا جو انڈونیشیا کا پہلا صدرمقام تها وہاں کی جماعت کی طرف سے بهی تار آیا ہے انہوں نے بهی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے۔ اسی طرح بوگر جو انڈونیشیا کا ایک شہر ہے وہاں ہمارے انڈونیشین بهائیوں کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے ان کی طرف سے بهی تار آیا ہے کہ ہمارا اجلاس کامیابی سے ہو رہا ہے۔ دوستوں کو ہمارا بهی سلام پہنچا دیا جائے اور دعا کی درخواست کی جائے۔ اسی طرح بعض اور جماعتوں کی طرف سے بهی تاریں آئی ہیں اور افراد کی طرف سے بهی آئی ہیں۔ زیادہ تر لوگ آخری دعا سے پہلے تاریں دیتے ہیں اب بهی چونکہ افتتاحی دعا ہوگی اس لئے میں نے ان کا سلام پہنچا دیا ہے اور ان کے لئے دعا کی بھی تحریک کر دی ہے۔
اس کے بعد میں دعا کروں گا۔ دوستوں کو سب سے پہلے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہاں آنے کو ان کے اخلاص اور ایمان کی ترقی کا موجب بنائے اور وہ خدمت اسلام کے جن جذبات کو لے کر یہاں آئے ہیں وہ ڈهیلے نہ ہوں اور ان میں سستی اور غفلت پیدا نہ ہو تاکہ وہ اس عظیم الشان موقع سے فائدہ اٹهانے سے محروم نہ رہ جائیں جو سینکڑوں سال کے بعد خداتعالیٰ نے اُن کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے۔ خصوصاً تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے دعائیں کریں جو غیر ممالک میں ہو رہا ہے کیونکہ دنیا میں چاروں طرف اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچہ پر صرف چند احمدی مبلغ کهڑے ہیں۔ چاروں طرف سے اُن کی مخالفتیں ہو رہی ہے۔ ان سے دشمنیاں کی جا رہی ہیں اور ان کو نیچا دکهانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے فوج کے لئے اسلحہ اور بارود تیار کرنے والا کارخانہ ہوتا ہے۔ ان کے لئے سامان خورونوش بھیجنا اور ان کے لئے لٹریچر مہیا کرنا آپ لوگوں کا فرض ہے اگر آپ لوگوں کی طرف سے اس میں کوتاہی ہو اور انہیں وہ سامان نہ پہنچے جس کی انہیں ضرورت ہے تو ان کی زندگیاں بالکل بیکار ہو کر رہ جائیں گی۔
مدت کی بات ہے جب ٹرکی اور بلقان میں جنگ ہوئی اور یورپین لوگوں نے بلقان کی رہاستوں کو بهڑکا کر ترکی سے لڑوا دیا اور ترکی کو بہت بڑی شکست ہوئی اور کئی علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے تو اس زمانہ میں مَیں ولایت سے ایک اخبار ‘‘ڈیلی نیوز’’ منگوایا کرتا تها۔ ‘‘ڈیلی نیوز’’ کے اپنے نمائندے جنگ میں تهے اور وہ اسے وہاں کے حالات باقاعدہ بهجواتے رہتے تهے۔ ‘‘ڈیلی نیوز’’ کے نگران اور ذمہ دار کارکن مسٹرلائڈجارج تهے جو انگلستان کے وزیراعظم تهے۔ اس اخبار میں جنگ کی تصویریں بهی چھپتی تهیں اور وہاں کے حالات بهی شائع ہؤا کرتے تهے۔ ایک دفعہ اس اخبار میں سالونیکا کی جنگ کے حالات شائع ہوئے جو ‘‘ڈیلی نیوز’’ کے اپنےنمائندہ نے بهجوائے تهے۔ وہ نمائندہ ان واقعات سے بڑا متاثر معلوم ہوتا تها۔ اس نے لکها کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا دردناک نظارہ کبهی نہیں دیکها تها پهر اس نے لکها کہ ترک سپاہی اپنے ملک کے لئے جان دینے میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں مگر ان سے اتنی بڑی غداری کی گئی ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں۔ انہوں نے جب اپنی توپوں میں گولے ڈالے تو انہیں پتہ لگا کہ وہ گولے سب جھوٹے ہیں یعنی ان کے اوپر تو کوَر لپٹا ہوا تها مگر اندر بارود نہیں تهانتیجہ یہ ہؤا کہ ان کی توپیں دشمن کی توپوں کے مقابلہ میں بالکل بےکار ہو گئیں اور وہ شکست کها گئے۔ پهر اس نے ایک تصویر دی ہوئی تهی جس میں اس نے دکهایا کہ ترکی کمانڈر ایک پتهر پر بیٹھا سر پکڑ کر رو رہا ہے۔ اس نے لکها کہ یہ ایک بہت بڑا بہادر جرنیل ہے جب اس کی قوم پیچھے ہٹی ہے تو اس کی حالت یہ تهی کہ وہ بچوں کی طرح رو رہا تها اور بار بار کہہ رہا تها کہ اگر میری قوم میرے ساتھ یہ غداری نہ کرتی تو میں دشمن کو دهکیل کر سمندر تک پہنچا دیتا۔
میری آنکهوں کے سامنے آج تک اس ترکی کمانڈر کی تصویر ہے کہ اس نے سر پکڑا ہؤا ہے اور وہ رو رہا ہے۔ یہی تمہارے مبلغوں کا حال ہوگا اگر تم اپنے فرائض کو ادا نہیں کروگے اور انہیں پورا سامان بہم نہیں پہنچاؤ گے۔ ان میں سے ایک ایک آدمی ہزاروں ہزار اور لاکهوں لاکھ کا کام کر رہا ہے۔ کروڑوں کروڑ کی آبادی میں کسی جگہ ہمارا ایک آدمی کام کر رہا ہے اور کسی جگہ دو اور وہ سامان جو انہیں ہماری طرف سے مہیا کیا جا رہا ہے اور جس سے وہ اردگرد کے علاقوں میں سفر کر سکتے اور لٹریچر پهیلا سکتے ہیں بہت ہی کم ہے مگر اس میں اب اور بهی کوتاہی واقع ہو رہی ہے۔
اس دفعہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کچھ دنوں کی ڈاک میں نے نہیں دیکهی۔ ممکن ہے کچھ وعدے اُس میں بهی ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ تحریکِ جدید کے وعدے پوری طرح نہیں پہنچ رہے۔ ہو سکتا ہے کہ میرے پاس جو ڈاک پڑی ہے اس میں بهی کچھ وعدے ہوں اور ممکن ہے ڈاک کی خرابی کی وجہ سے کچھ وعدے ابهی تک نہ پہنچے ہوں۔ اس لئے جہاں دوست اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خدمتِ دین میں آگے بڑهنے کی توفیق عطا فرمائے وہاں دفتر تحریکِ جدید میں بهی جا کر اپنے وعدوں کو دیکھ لیں اور اگر آپ کے وعدوں کی اطلاع وہاں نہ پہنچی ہو تو دفتر میں اپنے وعدوں کا اندراج کروا دیں تاکہ دفتر کو جو پریشانی ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے اور تبلیغ اسلام کے کام کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
پهرا للہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے یہاں آنے کی توفیق دی ہے اللہ تعالیٰ اُن پر بهی رحم فرمائے اور جوبظاہر نہیں آ سکے لیکن اُن کے دل ہمارے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر بهی رحم کرے کیونکہ ہمارا نگران اور وارث سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں۔ دنیا میں کوئی قوم اتنی لاوارث نہیں جتنی ہم ہیں اور کوئی قوم اتنی پشت پناہ بهی نہیں رکھتی جتنی ہم رکهتے ہیں۔ ہماری مثال اس بچہ کی سی ہے جو اپنےماں باپ سے جدا ہو کر جنگل میں آ پڑتا ہے جہاں اس کے اردگرد کہیں بهیڑیئے ہوتے ہیں کہیں چیتے ہوتے ہیں کہیں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوتےہیں لیکن ساتھ ہی جیسے اس بچہ کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ شیروں کے دلوں میں محبت پیدا کر دیتا ہے اور وہ اس کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں یہی ہماری حالت ہے۔ خدا کے فرشتے آتے ہیں اور ہماری حفاظت کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ جو باہر ہمارے بهائی ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بهی حفاظت کرے اور انہیں خدمتِ دین کی توفیق بخشے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو یہاں نہیں آئے ان میں سے بعض کے اخلاص ہم سے زیادہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے بعض کی آہیں اور دعائیں ہمارے لئے زیادہ کارآمد ہو رہی ہوں بہ نسبت اُن کے جو یہاں آئے ہوئے ہیں۔ پس وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم جو مرکز میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی برکتیں حاصل کر رہے ہیں اُن کے لئے بهی دعائیں کریں تاکہ اُن کی دعائیں زیادہ سے زیادہ ہم کو حاصل ہوں۔ اس کے بعد مَیں دعا کر کے گهر چلا جاؤں گا اور جلسہ کی کارروائی شروع ہو گی۔’’
(از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1: مسلم کتاب الذکر باب فضل مجالس الذکر۔









متفرق امور
(فرمودہ 27 دسمبر 1953ء)
(غیر مطبوعہ)



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
متفرق امور

(فرمودہ 27دسمبر1953ء بمقام جلسہ سالانہ ربوہ)

تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘جیسا کہ میں دوستوں کو بتا چکا ہوں مجھے کئی مہینے سے گلے کی تکلیف چل رہی ہے اورآواز تدریجاً بیٹھتی جارہی ہے لیکن کل سے کچھ ہلکا سا فرق نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہی میرے دل میں ڈالا گو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ مستقل فرق ہے یا عارضی بہرحال میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ تکلیف نزلہ کی وجہ سے ہے اگر نزلہ ناک کی طرف سے بہے تو شاید زور کم ہوجائے۔ چنانچہ میں نے ایک سٹک پر کاسٹک لگا کر ناک میں دونوں طرف دور تک چھؤا۔اِس سے کچھ نزلہ بہا تو ایک خفیف سا فرق پیدا ہؤا اور گلے کی طرف جو تکلیف کا زور تھا اُس میں کمی ہوگئی۔آواز کے بھرانے میں تو فرق نہیں آیا لیکن ساتھ جودرد ہوتی تھی اُس میں کچھ فرق محسوس ہؤا۔
احباب کی خواہش کا احساس
بہرحال یہ تقریب ہمارے لئے سال میں ایک دفعہ آتی ہے اور کئی دوست ایسے ہیں جو
اِسی تقریب پر یہاں آتے ہیں اور بعض تو چھ چھ سات سات سال کے بعد آتے ہیں۔ملاقات کے وقت کہتے ہیں کہ ہم تو سات سال کے بعد آئے، ہم چھ سال کے بعد آئے۔ اِسی طرح مستورات بھی آتی ہیں تو وہ چھ چھ سات سات سال کاعرصہ بتاتی ہیں۔ تو جو لوگ چھ سات سال کے بعد آئیں اُن کو کچھ نہ کچھ سننے کا موقع نہ ملے تو یقیناً اُن کے دلوں میں افسوس پیدا ہوگا اور اُن کے افسوس سے ہمیں بھی افسوس ہوگا۔ اِس لئے بہرحال میں نے ارادہ کیا کہ باوجود اس کے کہ مجھے تکلیف ہے میں تقریر کروں۔ گو کوشش یہ ہو کہ مختصر تقریر ہو۔ چنانچہ اِس دفعہ میں نے نوٹ لئے ہیں مختصر لکھے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختصرلکھے ہوئے نوٹ لمبے ہوجاتے ہیں اور لمبا لکھا ہؤا مضمون چھوٹا ہوجاتاہے۔ اور میں نے خیال کیا کہ میرا تجربہ یہی ہے کہ بسا اوقات جب میں بولنے کے لئے کھڑا ہوں اور خداتعالیٰ کی رضا کے لئے کوشش کروں تو خدائی نصرت میرے شاملِ حال ہوجاتی ہے اور وہ کام کامیابی سے ختم ہوجاتا ہے ۔
مجھے یاد ہے مولوی ابوالفضل محمود صاحب جب غیر احمدی تھے تو تین چار سال پہلے غیرا حمدیت میں قادیان آیا کرتے تھے۔ آدمی بے تکلف سے ہیں اور ایسی طرز کے ہیں کہ وہ بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کرلیتے ہیں جن کو لوگ گستاخانہ سمجھتے ہیں۔ اُس وقت وہ تھے ہی غیر احمدی۔اتفاق کی بات ہے کہ وہ جو احمدیت سے پہلے دو تین سال آئے تو ہر سال مجھے کچھ نزلہ کی شکایت اور کھانسی ہوتی تھی۔نزلہ کی شکایت تو چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر جو ہوشیار آدمی ہے وہ تو پہچانتا ہے کہ میری آواز بھرائی ہوئی ہے۔ عام آدمی کو خیال بھی نہیں آتا اور بھرائی ہوئی اور غیر بھرائی ہوئی میں وہ فرق بھی نہیں سمجھتا لیکن کھانسی ایسی تکلیف ہے جو سب کو پتہ لگ جاتی ہے۔ تو شدید کھانسی مجھے اُن دنوں میں ہوجاتی تھی دوسال تو وہ آتے ہی رہے تیسرے سال ملاقات ہورہی تھی کہ اس میں مجھے کہنے لگے کیوں صاحب! یہ کوئی معجزہ ہے یا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کھانسی اور پھر تقریر ہوجاتی ہے۔میں نے کہا میں جھوٹ تو نہیں بولا کرتا۔اس کو معجزہ کہہ لو، خدا کا فضل کہہ لو جو تمہاری مرضی ہے کہہ لو۔خیر اس کے بعد وہ احمدی ہوگئے۔واقعہ میں اس قدر شدید اُن دنوں مجھے کھانسی ہوتی تھی کہ خداتعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد پھر جلسہ کے ایام میں اتنی کھانسی مجھے نہیں ہوئی۔برابر تین چار سال تک یہ تکلیف چلی۔ملاقات کرتا تھا تو کھانستا رہتا تھا،باتیں کرتا تھا تو کھانستا تھا،تقریرکرتا تھا تو شروع میں کھانسی آتی تھی اس کے بعد گلا ایسا گرم ہوجاتا تھا کہ اس میں کھانسی بند ہوجاتی تھی اور دیکھنے والا یہی سمجھتا تھا کہ خبر نہیں بناوٹ سے کھانس رہے ہیں۔تو اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھتے ہوئے میں نے جرأت کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مدد کرتاآیا ہے شاید اُس کا فضل اب بھی جوش میں آجائے اور اب بھی اتنے دُور سے آنے والے لوگ اور اتنی امیدوں کے ساتھ اور مایوسیوں کے بعد آنے والے لوگ اپنی اُمنگیں اور اپنے ارادے اور اپنی خواہشیں پورے ہوئے بغیرنہ چلے جائیں۔’’
اس کے بعد حضور نے بعض جماعتوں کی تاریں پڑھ کر سنائیں جن میں جلسہ سالانہ کی مبارکباد اور درخواستِ دعا تھی۔پھر فرمایا:-
متفرق امور
‘‘اس کے بعد میں اپنی آج کی تقریر شروع کرتا ہوں۔اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو کل انشاء اللہ علمی تقریر جو میں کیا کرتا ہوں وہ
کروں گا۔آج متفرق امور کے متعلق میں بعض باتیں کہوں گا۔
احمدی مستورات سے خطاب
تین سال سے عورتوں میں میری تقریر نہیں ہورہی۔یہ تیسرا سال جارہا ہے اور باہر
سے آنے والی عورتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اُن کے سامنے بھی کچھ باتیں کروں کیونکہ عورتوں کے سامنے جو تقریر ہوتی ہے اُس میں عورتوں کی ضرورتوں کو اور اُن کے حقوق کو زیادہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔مردوں کی تقریر میں زیادہ تر ایسی باتیں ہوتی ہیں جواصولی ہوں یامردوں سے تعلق رکھنے والی ہوں۔پھر اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی باتیں بھی کہی جائیں جو اُن سے خاص تعلق رکھتی ہیں اوراُن کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا جائے۔میری نیّت اِس دفعہ یہی تھی کہ میں دو سال کے وقفہ کے بعد اِس دفعہ پھر عورتوں میں تقریر کروں لیکن لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے بڑے اصرار سے یہ خواہش کی کہ ہم سمجھتی ہیں ابھی ایسے خطرات کے دن ہیں کہ ہم اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتیں کہ حفاظت کا سامان کرسکیں۔ کیونکہ عورتیں برقعوں میں ہوتی ہیں اگر کوئی مسلّح شخص برقع میں آجائے تو ہم اُس کی نگرانی نہیں کرسکتیں اِس لئے ہمارا مشورہ یہی ہے اور اصرار کے ساتھ مشورہ ہے کہ آپ اس دفعہ بھی جلسہ سالانہ پر مستورات میں تقریر نہ کریں۔اُن کے اِس اصرار کی وجہ سے گو دو دن تو میں اَڑا رہا۔میں نے کہا کہ کئی سال ہوگئے ہیں لیکن اُن کے بار بار کے اصرار کی وجہ سے مجھے اُن کی بات ماننی پڑی اور میں نے ارادہ چھوڑ دیا لیکن میں نے کہابہت اچھا میں مردوں کی تقریر کا ایک حصہ عورتوں کے لئے وقف کردوں گا سو جبکہ عورتوں کی قربانی کی وجہ سے میرا گلا آج کچھ اچھا ہے اگر میں عورتوں میں تقریر کرکے آتا تو میرا گلا کچھ اَور بیٹھا ہؤا ہوتا۔بیٹھا ہؤا تو اب بھی ہے لیکن شروع میں گلے کی جو کیفیت ہے یہ عورتوں کی قربانی کی وجہ سے ہے اِس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ اِس حق کو تسلیم کریں گے کہ شروع کے کچھ منٹ میں عورتوں کے متعلق وقف کردوں۔ جو باتیں مردوں میں کی جاتی ہیں وہ بھی بیشتر طور پر عورتوں سے ہی متعلق ہوتی ہیں کیونکہ اسلام کے احکام مردوں اور عورتوں کے لئے برابر ہیں اِس لئے سوائے چند ایک باتوں کے جو کہ عورتوں میں کسی نیکی کی تحریک کرنے کے متعلق ہوں باقی جس قدر امور ہیں اُن میں مردوں کی تقریر سے عورتیں ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتی ہیں جیسا کہ وہ اپنی مخصوص تقریر سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
جو باتیں عورتوں سے مخصوص ہیں اور خصوصاً اس سال مخصوص ہیں اُن میں سے سب سے پہلی بات تو میں اُن کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اُن کی طرف سے ایک چندہ جرمن میں مسجد بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔جرمن کی مسجد میں کچھ ایسی روکیں پیدا ہوگئیں کہ وہ نہ بن سکی اِس لئے اُن کے روپیہ سے لنڈن میں مسجد بنادی گئی۔اب جو لنڈن میں مسجد ہے وہ درحقیقت عورتوں کے روپیہ سے بنی ہوئی ہے۔
اِس کے بعد میں نے دوسری تحریک کی کہ جرمن زبان کا ترجمہ قرآن عورتوں کے روپیہ سے چھپے۔تراجم کا ذکر میں بعدمیں کروں گا لیکن میں اُن کو یہ خبر بتانی چاہتا ہوں جیسے تار بھی میں نے پڑھی ہے کہ جرمن زبان کا ترجمہ ریوائزہوگیا ہے۔ دواعلیٰ درجہ کے جرمن پروفیسر اُس کو دیکھ چکے ہیں اور ہمارے مبلغ بھی دیکھ چکے ہیں اوراب وہ پریس میں جا چکا ہے اور شائد تین چار مہینہ تک خداتعالیٰ چاہے یا اِس سے بھی پہلے وہ چھپ کر تیار ہوجائے گا۔ اِس لئے عورتوں کا ترجمۂ قرآن جو جرمن زبان کا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اِس سال مکمل ہوجائے گا۔
چندہ تعمیر مسجد ہالینڈ
تیسری تحریک میں نے عورتوں میں یہ کی تھی کہ اُن کی طرف سے ہالینڈ میں مشن بنایا جائے اور مسجد بنائی جائے۔
چنانچہ انہوں نے اس کے لئے بڑے شوق سے چندہ دیا اور باوجود اِس کے کہ عورتوں کی آمد بہت کم ہوتی ہے پھر بھی اُن کا چندہ پہلے سال مردوں سے بڑھا رہا۔دوسرے سال جب مردوں کے چندوں کی ایک خاص نوعیت قرار دی گئی تو پھر عورتوں کا چندہ بہت گِرگیا کیونکہ اُن کے لئے ایسی شرطیں کی گئیں کہ ملازم سالانہ ترقی دیویں۔عورتوں کی تو ترقی ہوتی ہی نہیں۔پھر یہ کہ تجارت والے پہلے دن کا نفع دیں۔جو چھوٹے تاجر ہیں ہر ہفتہ کے پہلے دن کا نفع دیں یا مزدور پیشہ جو ہیں وہ مہینہ کے پہلے دن کی آمد دیں یا جو ڈاکٹراور وکیل پریکٹس کرنے والے ہیں اُن کی سالانہ آمدن کا جو ڈفرنس (DIFFERENCE)اگلے سال بڑھ جائے اُس کا دسواں حصہ دیں اور اِس طرح کچھ اَور بھی شرائط تھیں۔ زمیندار کے متعلق اپنے کھیت پر دوآنے فی ایکڑ سالانہ چندہ مقرر کیا گیا تھا اور چونکہ ان چیزوں میں عورتیں شامل نہیں ہوسکتیں نتیجہ یہ ہؤا کہ مردوں کا چندہ جاری رہا اور عورتوں کا چندہ باون ہزار پر آکر رُک گیا اور اس میں بھی ہزار بارہ سو کی میری مدد ہے۔مجھے بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم آپ کو بھیج رہے ہیں جہاں چاہیں دے دیں تو میں نے پچھلے سال یہ طریق رکھا کہ جو عورتوں کی طرف سے آمد ہوتی تھی اُس کے متعلق میں کہتا تھا کہ مسجد ہالینڈمیں اس کو داخل کردو۔ اِس طرح بھی کچھ رقم آگئی۔ میں عورتوں کو اِس میں حصہ لینے کے لئے پہلے اِس لئے زور نہیں دیتا تھا کہ عورتوں نے ہمت کرکے سب سے پہلے اپنا ہال بنوایا ہے ابھی تک مرد بھی اس ہال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور شوریٰ کی مجلس بھی اِسی ہال میں منعقدہوتی ہے۔مردوں کو ابھی توفیق نہیں ملی کہ وہ اپنا ہال بنوا سکیں۔ تو چونکہ اُس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ ہؤا اس لئے میں نے سمجھا کہ پہلے اُن کایہ بوجھ اُتر جائے۔ اب کوئی پانچ ہزار روپیہ کے قریب اس کا قرضہ رہ گیا ہے امید ہے وہ پانچ چھ مہینہ میں اُتار ڈالیں گی۔ پس اب وقت آ گیا ہے کہ میں مسجد کے لئے اُن میں تحریک کروں۔ اِس وقت جیسا کہ میں نے بتایا ہے باون ہزار روپیہ کے قریب چندہ آیا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ زمین اور مسجد اور مکان پر خرچ ہوگا۔اِس وقت تک تیس ہزار روپیہ پرزمین خریدی گئی ہے باقی کوئی پچاسی ہزارمکان اور کچھ فرنشنگ پر خرچ ہوگا۔جو ہمارے پاس اندازہ آیا ہے وہ ستّر ہزار ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ گورنمنٹ اس کی اجازت نہیں دے رہی۔ وہ کہتے ہیں یہ مکان اُس شان کا نہیں ہے جس شان کا علاقہ ہے اِس سے ہم بڑا بنوانا چاہتے ہیں۔ بہرحال وہ بحث شروع ہے۔ اِسی طرح جب مکان بن جائے گا تو اس کے لئے کچھ سامان وغیرہ بھی چاہئے۔ اگر گورنمنٹ کی زیادتی کے بعد ستّر کی بجائے اسّی سمجھ لیا جائے اور پانچ ہزار روپیہ فرنیچر کے لئے سمجھ لیا جائے تو پچاسی ہزار ہوگیا ۔تیس ہزار مل کر ایک لاکھ پندرہ ہزار ہوجائے گا۔ اِس میں سے باون ہزارآچکاہے اور تریسٹھ ہزارباقی ہے۔ اِس تریسٹھ ہزار کے لئے اب میں عورتوں میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ ہمت کرکے جلد سے جلد اِس تریسٹھ ہزار کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔اُن سے امید تو یہی ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں وہ انشاء اللہ اس کو پورا کرلیں گی۔ آخرا نہوں نے لجنہ کا چندہ بھی ڈیڑھ سال کے قریب کیا اور ساتھ اس کے مسجد کو بھی دیا۔ اور جب عورت کوئی ارادہ کرلیتی ہے تو بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ عورت کا عزم جو ہے وہ مرد سے بڑھ جایا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے ہی کاموں کے لئے بنایا ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے اور قربانی کرکے مردوں کے لئے نمونہ دکھاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یعنی اُن کو جدا کرکے مکہ میں چھوڑ دیا تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابراہیمؑ کو حکم ملا تھا اور انہوں نے اپنی مرضی سے یہ کیا لیکن ہاجرہ کو جواُس وقت قربانی کرنی پڑی میں سمجھتاہوں وہ ابراہیمؑ سے بعض لحاظ سے زیادہ تھی۔ کیونکہ حضرت ابراہیمؑ اِس بچے کی تکلیف نہ دیکھنے کے خیال سے وہاں سے چلے گئے۔لیکن ہاجرہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اکلوتے بیٹے کوتڑپتے دیکھااور پھر بھی خداتعالیٰ کی مشیت پر صبر کیااورہاجرہ ہی کی دعا تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا۔اور فرشتہ نے ہاجرہ کو آوازدی اور کہا کہ جاؤ تمہارے بیٹے کے لئے خدا تعالیٰ نے پانی نکال دیا ہے۔ تو عورت کو جہاں شریعت نے ضیعف قرار دیاہے کیونکہ کئی باتوں میں وہ کمزور ہوتی ہے، اُسکی طاقت بوجھ اٹھانے کی یا لڑائیوں میں کوئی بڑا کام کرنے کی اتنی نہیں جتنی مرد کی ہوتی ہے لیکن جس رنگ میں وہ متواتر اور مستقل طور پر بوجھ اٹھاسکتی ہے وہ مرد میں کم ہوتی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی اِس مسجد کو مکمل کرنے کے لئے جلد سے جلدچندہ پورا کریں گی اور اِس عرصہ میں ہم کوشش کریں گے کہ روپیہ کہیں سے قرض لے کر مسجد بنوا دیں۔ جیسے لجنہ کے لئے میں نے قرض کا انتظام کرادیاتھا لجنہ نے اپنا ہال بنایا پھر سال ڈیڑھ سال میں اتار دیا۔کوئی پانچ ہزار روپیہ باقی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ جب گورنمنٹ سے نقشہ منظور ہوجائے(شاید تین چار مہینے اس پر لگیں گے)اتنے عرصہ میں پچھلے روپیہ میں سے کوئی بائیس چوبیس ہزار روپیہ کے قریب باقی ہے۔ کوئی پانچ سات ہزار یاآٹھ دس ہزار روپیہ اَور آجائے گا اورہم باقی رقم قرضہ لے کے اُن کو دے دیں گے پچاس ہزار کے قریب۔ اور ان کو کہیں گے کہ مکان شروع کردیں بن گیا تو پھر آہستہ آہستہ عورتیں اتار دیں گی۔
مردوں میں مَیں نے یہ کمزوری دیکھی ہے (مردوں میں جو تحریک ہوئی ہے اگر انہوں نے پہلے پوری کردی تو )آج تک انہوں نے کبھی اس رقم کو پورا نہیں کیا مثلاً جلسہ سالانہ کا چندہ ہوتا ہے جلسہ سالانہ سے پہلے جو جماعتیں دے دیں پیچھے وہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ قرضہ ہی چلاجاتا ہے لیکن یہ عورتوں کی ہی مثال ہے کہ میں نے قرض لے کے اُن کا ہال بنوا دیا اور وہ رقم اس وقت تک باقاعدہ ادا کرتی رہیں اب صرف پانچ ہزار روپیہ باقی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جیسا کہ اُن کی پچھلی سنت اور طریقہ ہے وہ مردوں سے زیادہ ہمت کے ساتھ کام لیں گی اور اپنے قرضہ کو ادا کردینگی۔
کم از کم ایک یا دو عورتوں کو تعلیم دینے کا عہد کرو
دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قادیان میں اور ربوہ میں عورتوں کی تعلیم مردوں سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔
قادیان میں کئی دفعہ میں نے عورتوں کی تعلیم کو سو فیصدی تک پہنچا دیا تھا یعنی سو کی سو عورت پڑھی ہوئی تھی لیکن مرد کبھی بھی اسّی فیصدی سے اوپر نہیں جاسکے۔زیادہ سے زیادہ وہ اسّی تک گئے ہیں پھر گِر گئے ہیں۔ اور عورتیں کئی دفعہ سو تک پہنچیں پھر اس میں گر گئیں کہ باہر سے اور عورتیں آگئیں۔وہاں تو ہجرت ہوتی تھی یہاں بھی ہے تو باہر سے اَور عورتیں آگئیں پھر سو نہ رہا۔پھر کوشش کی پھر سو کرلیا پھر نیچے گریں۔بہرحال مردوں سے بیس فیصدی وہ زیادہ تعلیم یافتہ رہی تھیں حالانکہ پاکستان میں عورتوں کو تعلیم مردوں سے نصف سے بھی کم ہے یعنی اگر مرد پندرہ فیصدی تعلیم یافتہ ہیں تو عورت ساڑھے سات فیصدی تک تعلیم یافتہ ہے۔ تو ربوہ میں بھی یہی خداتعالیٰ کے فضل سے حال ہے یہاں بھی عورتیں تعلیم کی طرف نمایاں راغب ہیں یعنی ایک بھی لڑکی ربوہ میں ایسی نہیں ملتی جو پڑھ نہ رہی ہو لیکن بیسیوں لڑکے ایسے مل جاتے ہیں جو نہیں پڑھ رہے اور اگر اُنہیں تعلیم کی طرف توجہ دلائی جائے تو ماں باپ لڑتے ہیں کہ ہمارے لڑکے کام کریں یا پڑھیں۔
اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ملک کے کسی شخص سے متعلق مشہور ہے کہ وہ دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ پاس سے ایک شخص گذرا اور اُس نے کہا میاں! دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو؟پاس ہی سایہ ہے وہاں بیٹھ رہو۔وہ کہنے لگا اگر میں سایہ میں بیٹھ جاؤں تو مجھے کیا دو گے؟یہی ان لوگوں کا حال ہے۔ ہم کہتے ہیں پڑھو آخر تمہارے لئے ہی میں نے سکول جاری کئے ہیں ،استاد مقرر کئے ہیں اور ہر قسم کی سہولتیں ہمیں حاصل ہیں اور ماں باپ کہتے ہیں کہ یہ لڑکے ہمیں پڑھ کر کیا دیں گے ہم ان سے کام نہ لیں۔ چنانچہ ربوہ میں بیسیوں ایسے لڑکے مل جائیں گے جو اَن پڑھ ہوں گے مگر کوئی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جو پڑھتی نہ ہو بلکہ اب یہ ایک معمّہ بن گیاہے کہ جن گھروں میں عام طور پر کام کاج کے لئے لڑکیا ں رکھی جاتی ہیں اُنہیں اب کام کروانے کے لئے کوئی لڑکی نہیں ملتی کیونکہ غریب سے غریب لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں اور پھر وہ معمولی پڑھائی پر خوش نہیں ہوتیں بلکہ اُن کا اصرار ہوتا ہے کہ ہم نے انٹرنسن تک پڑھنا ہے اور پھر کالج میں داخل ہونا ہے۔ پس وہ پڑھتی ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے خوب ترقی کررہی ہیں۔ لیکن باہر کی جماعتوں میں یہ حال نہیں۔ اور سب سے بڑی خرابی یہ جو کالج کے کھلنے کے بعد ہم کو معلوم ہوئی کہ بعض نہایت مخلص گھرانے جن کی تیسری پُشت احمدیت میں جارہی ہے اُن کی بیٹیاں یہاں پڑھنے کے لئے آئیں اور سورۂ فاتحہ بھی نہیں پڑھ سکیں۔نہ اُن کو نماز آتی تھی نہ اُن کو قرآن آتا تھا نہ عربی کا کوئی تلفظ آتا تھا۔حیرت ہوگئی کہ خالی ربوہ نے کیا کرلینا ہے یا خالی قادیان نے کیا کرلینا ہے۔جماعت میں جب تک ہر جگہ پر تعلیم نہیں پائی جاتی،جب تک ساری جماعت کی عورتیں جو ہیں وہ دین سے واقف نہیں ہوتیں تو اِن قادیان یاربوہ کی تعلیم یافتہ عورتوں سے بن کیاسکتا ہے۔ تو میں نے اِس حالت کو دیکھ کر یہ ارادہ کیا ہوا تھا کہ اِس جلسہ پر بلکہ میرا ایک یہ بھی محرک تھا کہ میں عورتوں میں تحریک کروں۔ایک چندہ اور ایک یہ کہ تم باہر کی بھی اصلاح کی کوشش کرو اور یہ کام بغیر ایک سکیم بنانے کے نہیں ہوسکتا۔یہاں تو جو چیز ہمارے سامنے ہوتی ہے ہم اُسکی نگرانی کرلیتے ہیں کچھ یہ ہے کہ میرے وعظوں سے،خطبوں سے، اردگرد کے محلہ کی دوسری لڑکیوں کودیکھ کر وہ تعلیم پارہی ہیں۔کچھ ہم اُن کی اس طرح بھی امداد کرتے ہیں کہ لڑکیاں جو ہیں اُن کی فیسیں معاف ہورہی ہیں،اُن کو کتابیں مل رہی ہیں۔ اگر وہ درخواست امداد کی دیویں اپنی پڑھائی وغیرہ کے لئے۔تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے جو فنڈ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے میں اُس سے کوشش کرتا ہوں کہ لڑکیوں کو امداد ملتی چلی جائے اور اُن کا اِسطرف میلان زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے اور رغبت زیادہ ہوتی جاتی ہے باہر یہ بات نہیں۔تو باہر تعلیم کو رائج کرنے کے لئے تین چار ترکیبیں کرنی پڑیں گی۔
پہلے تو یہ کہ جو مرد ہیں پہلا قدم مردوں کے لئے اٹھانا ضروری ہوتا ہے وہ اس کام میں لجنہ کے ساتھ مل کرایسا انتظام کریں کہ ہرلڑکی جو ہے وہ پڑھی ہوئی ہو۔ہر جگہ کی جماعتیں اس کا انتظام کریں کہ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ کی جائے ۔
تعلیم سے کیا مراد ہے
اور اس کے لئے یہ مدنظر رکھا جائے کہ تعلیم کےلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ باقاعدہ مدرستی تعلیم اُن کو آتی ہو
بلکہ صرف اتنا ضروری ہے کہ اُن کو اردو پڑھنااور اردو لکھنا اور قرآن شریف پڑھنا آجائے۔یہ دو باتیں جو ہیں ان کے لئے کسی خاص سکول کی ضرورت نہیں۔پرائیویٹ کلاسز بھی ایسی ہوسکتی ہیں۔اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت اپنے دل میں یہ عہد کرلے کہ میں نے اپنے وطن میں جاکر ایک یا دو لڑکیوں کو ضرور پڑھا دینا ہے۔میرا اندازہ ہے کہ ہمارے اِس وقت جلسہ گاہ میں جیسا کہ عام سالوں میں ہوتا ہے سات آٹھ ہزار یانو ہزار عورت ہوگی تو سات آٹھ ہزار یا نوہزار عورتوں سے دوتین ہزار ربوہ کی ہوگی پانچ چھ ہزار عورت باہر کی آئی ہوئی ہے اگر ان میں سے ہر عورت یہ عہد کرلیوے کہ میں واپس جا کر اور باقی اردگرد جو احمدی ہیں اُن کی مستورات یا لڑکیاں کوئی ہوں دونوں کی تعلیم ضروری ہے اُن کو اردو لکھنا اور پڑھنا سکھا دوں گی تو اگر وہ دو دو کو پڑھنا سکھائیں تو میں سمجھتا ہوں تین چار سال میں ہم سارے ملک میں عورتوں کی تعلیم پیدا کرسکتے ہیں۔گورنمنٹ نے ووٹ کے لئے اب تو نہیں پتہ کیا شرط ہے مگر پہلے پری پارٹیشن(Prepartition)انگریزوں کے زمانہ میں تو یہ تھا کہ جو عورت اپنا نام لکھ لیوے اُس کو کہتے تھے تعلیم یافتہ ہے۔تو اگر ایک عورت اردو پڑھ سکتی ہواور نام بھی لکھنا جانتی ہو تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ پھر وہ دین سے بھی واقف ہوسکے گی اور سلسلہ کا اخبار بھی پڑھ سکے گی ۔میں نے دیکھا ہے کہ جن لڑکیوں کو پڑھنا آتا ہے وہ تو چھوٹی چھوٹی تعلیم والی ایسی اخباروں کے پیچھے پڑتی ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ہمارے گھر میں بعض لڑکیاں جو ملازمہ وغیرہ ہیں یا ملازمات کی لڑکیاں ہیں اُن سے ہمارے لئے اخبار چُھپانا مشکل ہوجاتا ہے۔اِدھر ‘‘المصلح’’ آیا اور اُدھر غائب۔کیا ہوا کہ فلاں لڑکی اٹھا کر لے گئی ہے بس وہ بیٹھ کر پڑھتی رہتی ہیں اُن کو ایک عجوبہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے او رہمیں پتہ لگ رہا ہے اور مائیں جو ہیں وہ اُن کے اوپر لٹّوہوئی چلی جاتی ہیں۔
لڑکوں کی تعلیم پر جُہّال میں یہاں تک حالت ہے کہ سیالکوٹ کے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے۔پچھلے سال کی بات ہے کہنے لگے سیالکوٹ سے آیا ہوں۔میں نے کہا بہت اچھا۔پھر کہنے لگے آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟میں نے کہا میں نے نہیں پہچانا۔کہنے لگے میں عبدالکریم کا باپ ہوں۔ اگر مولوی عبدالکریم کے باپ کے ہوتے تو بات بھی تھی میں سمجھ جاتا پر کسی عبدالکریم کا باپ مجھے کیا پتہ ہے۔کوئی سینکڑوں ہزاروں عبدالکریم کے باپ ہیں۔پھر چہرہ دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟میں نے کہا نہیں۔کہنے لگے میں عبدالکریم کا باپ ہوں جو ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے خیر پھر تو پہچانا۔میں نے کہا اب تو میں نے ایسا پہچانا ہے کہ ساری عمر یاد رکھوں گا جس کے ساتویں جماعت پڑھنے والے باپ کی بھی ایسی شان ہوگی کہ ا ب اس کوہرایک کو پہچاننا چاہئے تو بھلا مجال ہے ہماری کہ ہم بھول جائیں۔تو لڑکے بھی اگر ساتویں میں اتنی عزت دے دیتے ہیں تو سمجھو عورتیں ساتویں میں تو پھر کیا چار چاند لگا دیں گی۔جس وقت قاعدہ ہی پکڑ کر ماں کے سامنے بیٹھتی ہیں۔جو ماں نہیں پڑھی ہوئی تو وہ تو یہ سمجھتی ہے کہ میری بیٹی اتنی بڑی عالمہ فاضلہ ہوگئی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔تو بہت تھوڑی سی کوشش کے ساتھ اِس میں تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے او رچونکہ اُن کے اندر نئی روح ہوگی،نئی تعلیم ہوگی اس لئے وہ خود بخود پیچھے پڑ کر کتابیں پڑھا کریں گی اور کتابیں پڑھ کے آپ ہی آپ اُن کے علم کی ترقی ہوتی چلی جائے گی۔تو میں دوسری تحریک اُن میں یہ کرتا ہوں کہ وہ تعلیم کو رائج کریں اور ہر ایک پڑھی ہوئی عورت یہاں سے یہ عہد کرکے جائے کہ میں اگلے سال کم سے کم دو عورتوں یا لڑکیوں کو پڑھا دونگی۔ اور جو ہیں جماعت والے مرد وہ یہ عہد کرکے جائیں کہ کسی نہ کسی تعلیم یافتہ عورت کو نیکی کی تحریک کرکے اس سکیم کو جاری کرنے کی کوشش کریں گے۔ جماعت والے مثلاً قاعدے خرید دیویں یا اِس قسم کی مدد دیویں جو غرباء کے لئے تعلیمی سہولت پیدا کرنے والی ہو۔ اور پھر باقاعدہ سکول کی ضرورت نہیں صرف آدھا گھنٹہ اگر لڑکیاں اکٹھی ہوکر پڑھنا شروع کردیں تو ایک سال میں وہ کہیں کی کہیں پہنچ جائیں گی۔
ہاتھ سے کام کرکے زائد آمدنی پیدا کرو
تیسری بات میں عورتوں سے یہ کہنی چاہتا ہوں
(مردوں کو تو میں یہ کہونگالیکن اپنے وقت پر)عورتوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب وہ ایک فیصلہ کرلیں۔ایک نیا نظام مَیں کرنا چاہتا ہوں۔ جیسے تحریک جدید کا نظام تھا اور اب وہ خداتعالیٰ کے فضل سے مستقل ہوجائے گا اِ س کا میں آئندہ ذکر کروں گا لیکن اِ س طرح میں سمجھتا ہوں کہ ایک نئے نظام کی ہم کو ضرورت ہے۔تحریک جدید کی اشاعت کے وقت میں مَیں نے جو شرطیں رکھی تھیں علاوہ چندہ کے ان میں وہ شامل تھا لیکن اُس وقت ہم نے خصوصیت کے ساتھ اس کو آگے نہیں کیا تھا اب میں اس کو آگے کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرکے علاوہ اُس پیشہ کے جو اُس کا ہے کوئی رقم مہینہ میں پیدا کرے۔ اگر وہ غریب ہے تو اُس کا کچھ حصہ چندہ میں دے دیوے اگر امیر ہے تو اس کا سارا حصہ دے دے۔مثلاً ایک شخص ڈاکٹر ہے وہ اپنی ڈاکٹری کی کمائی سے جو کچھ دیتا ہے یہ قاعدہ اس پر حاوی نہیں ہوگا بلکہ ڈاکٹری کے علاوہ کوئی ہاتھ کا پیشہ وہ اختیار کرکے اس کی آمدن پیدا کرے۔ جیسے گاندھی جی نے مثلاً یہ کیا تھا کہ چرخہ ایجاد کیا وہ آپ چرخہ کاتا کرتے تھے اور اِس طرح انہوں نے سب کو تحریک کردی کہ چرخہ کا تو۔اور چرخہ کات کے جو میرے پاس لائے میں اصل کانگرس کا چندہ اُس سُوت کو سمجھونگا جو تم کات کے لاتے ہو۔ابھی ہم چرخہ کاتنے کی شرط نہیں کرتے لیکن ہم کہتے ہیں کہ کوئی کام کرلو۔ مثلاً ایک لکھا پڑھا آدمی ہے وہ یہی کرلے کہ کسی دن جاکے محلّے میں بیٹھ جائے اور کہے پیسہ پیسہ میں خط کسی نے لکھوانا ہے تو پیسہ پیسہ مجھے دیتے جاؤ اور خط لکھوالو وہی پیسے جمع کئے او رکہا جی! علاوہ میرے چندہ کی آمدن کے یہ میرے ہاتھ کی کمائی کے ہیں۔
اورنگزیب کے متعلق مشہور ہے اِسی طرح اور کئی بادشاہوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہاتھ سے قرآن لکھ کے بیچا کرتے تھے اور ہمارے اچھے اچھے پڑھے لکھے عالم فاضل جاہل جو ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اورنگ زیب اُسکی روٹی کھاتا تھا حالانکہ اُس کی تصویریں دیکھتے ہیں کہ دو دو تین لاکھ کاہار اُس نے پہنا ہوا ہے اگر وہ اسکی روٹی کھاتا تھا تو ہار کیوں یہ خزانے سے لیتا تھا۔جو شخص روٹی کھانی حرام سمجھتا تھا خزانے کی وہ ہار اور کپڑے کہاں سے لیتا تھا۔ ریشمی کپڑے بھی پہنے ہوتے ہیں،اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے بھی ہیں اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ قرآن بیچ کر وہ گذارہ کیا کرتا تھا۔قرآن اُس نے ساری عمر مثلاً سات یا آٹھ،دس یا بیس لکھے تھے ان سے ساری عمر اس نے گذارہ بھی کیا ااور ان میں گھوڑے بھی خریدے اور اس نے موتی بھی خریدے او رکھانا بھی کھایا او رخاندان کوبھی کھلایا۔ یہ پاگلوں والی بات ہے۔لیکن اچھے معقول آدمی یہ کہتے ہیں۔ حالانکہ بات یہ ہے کہ ہمارے پرانے زمانہ میں یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ انسان کو اپنے اُس پیشہ کے علاوہ جو اُس کا پروفیشن ہے اپنے ہاتھ کی کچھ کمائی بھی پیدا کرنی چاہئے تاکہ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ اُس کا جوڑ رہے۔تو اس لئے کرتے تھے یہ نہیں کہ وہ اس سے گذارہ کرتے تھے۔ پھر جوآیا اُس کی کوئی چیز لے کر کسی غریب کو دے دی۔ہمارے بڑے بڑے بزرگ اور صوفیاء کے متعلق آتا ہے کہ کوئی رسّی بٹتا تھا۔کوئی دوسرے کام کرتا تھا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسی سے گذارے کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی پیشہ اپنا ایسا رکھنا چاہتے تھے ہاتھ کاجس کی وجہ سے غریب او رامیر کا امتیاز مٹتا چلا جائے۔
تو عورتوں میں میں یہ تحریک کرتا ہوں اور لجنہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس پر غور کرکے سب سے پہلے تو وہ قادیان میں شروع کرے(دوبارہ فرمایا ربوہ میں شروع کرے)قادیان میں کیوں نہیں؟قادیان میں بھی جانا ہے۔تو ربوہ میں کریں،قادیان میں کریں۔ اور اس کے بعد پھر اِس کا انتظام کریں کہ ایک ایک گاؤں دو دو گاؤں تقسیم کرکے پھر وہاں جائیں اور وہاں جاکے وہاں کی عورتوں کو ٹرینڈ کرکے اُن کو کسی کام پر لگائیں۔عورتوں کے لئے بڑے اچھے کام جو ہوتے ہیں جو بڑی آسانی سے کئے جاسکتے ہیں وہی یہی ہیں سُوت کاتنا۔پراندے بنانا۔ازار بند بنانا۔چھوٹی دریاں بنانا۔قالین بنانا۔ یہ ایسے کام ہیں۔قالین تو ہمارے قادیان میں میرے پاس ہوا کرتی تھی اور اکثر ملاقاتیں دوست اس کے اوپر کیا کرتے تھے وہ ایک نابیناعورت نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنا کردی تھی۔ وہ نابینا تھی لیکن خوب خانے بھی بنے ہوئے تھے اور رنگ بھی دیئے ہوئے تھے۔ تو قالین ایک نابینا بنا سکتا ہے تو دوسرے لوگ کیوں نہیں بناسکتے۔ایسے ہی اور کئی کام نکل سکتے ہیں لیکن ہاتھ سے کرکے۔اس سے کمائی بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً یہی ہے جیسے مرمرے بنانے ہیں۔ستّو بنانے ہیں اِ س قسم کی چیزیں بنا کربچوں کو دیں۔ پھر ہمسایہ میں کہہ دیا کہ بھئی! تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ستّو ہم سے خرید لینا اور وہ ہم نے خدا کے نام پر دینے ہیں تو اس طرز پر کام کی عادت ڈالی جائے۔ علاوہ اس چندہ کے جو اُن کو گھر کی آمد سے خاوند کی طرف سے ملتا ہے یا باپ کی طرف سے ملتا ہے کچھ نہ کچھ چندہ چاہے وہ کتنا ہی قلیل شروع میں ہو،چاہے سال میں پیسے ہی دے لیکن اپنے ہاتھ کی محنت سے کیاہؤا وہ دیں۔ چاہے وہ کسی نواب کی بیٹی ہو،چاہے وہ کسی رئیس کی بیٹی ہو چاہے وہ کسی ڈاکٹر کی بیٹی ہو،چاہے کسی بیرسٹر کی بیٹی ہو چاہے، کسی بڑے سرکاری افسر کی بیٹی ہو ہاتھ کی محنت کی کمائی چاہے چکّی پیس کے وہ کہے کہ جی! میں نے سیر چکّی پیسی تھی اپنے ہمسایہ کی۔لو میں یہ آنہ دیتی ہوں نتیجہ اِس کا یہ ہوگا کہ کام کی عادت بھی ان میں پیدا ہو جائے گی اور یہ جوغریب امیر کا امتیاز ہے یہ بھی کم ہوجائے گا۔
میری پہلی تقریر1934ء میں جو ہوئی ہے اُس میں میں نے یہ مضمون رکھا ہوا تھا لیکن اب اِس پہلے دور کے ختم ہونے کے اوپر میں آج پھر اس کو لیتا ہوں کہ اِس چیز کو ہم انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں رائج کریں گے اور سب سے پہلا حق عورتوں کا ہے کہ وہ اس کو شروع کریں۔
ربوہ کی زمین
اب میں مردوں کو مخاطب ہو کے یہ کہناچاہتا ہوں کہ ربوہ میں325کنال کے قریب زمین باقی ہے۔340کنال انہوں نے
لکھی ہے لیکن انجمن زور دے رہی ہے کہ کچھ زمین اُس کو الگ کردی جائے تاکہ یہ لنگر وغیرہ جو بنتے ہیں ان کے لئے مختلف محلّوں میں وہ محفوظ رہے۔اس جگہ پر وہ پکّی بیرکیں بنالیں گے تاکہ آئندہ بارش وغیرہ میں وہ کام خراب نہ ہوا کرے۔اس کے لئے پندرہ کنال۔وہ تو چالیس مانگ رہے تھے لیکن میرے نزدیک یہ غلط ہے چالیس بہت زیادہ ہے۔یہاں کی زمین کی قیمت کے متعلق پچھلے سال ہم نے تین ہزار روپیہ کنال کا اعلان کیا تھا اور بڑی کثرت سے لوگوں کی درخواستیں آگئی تھیں مگر پھر مجھے جب یہ پتہ لگا (یعنی کیا تھا کمیٹی ربوہ نے۔ مجھے پتہ لگا) تو میں نے کہا اتنی قیمتیں میں بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پھر جو اچھی سے اچھی جگہ تھی اُس کی قیمت دوہزار کی گئی باقی پندرہ سو ہزار پرلائی گئی۔ اور ساتھ ہی او ربھی میں نے کہا کہ آئندہ یہ رکھو کہ کچھ عرصہ مدت مقرر کرکے تحریک کی تحریک بھی ہوتی ہے اور لوگوں کو رعائت بھی مل جاتی ہے یہ اعلان کردو کہ مثلاً اتنے عرصہ میں جو قیمت دیدے اُس کو ہم مثلاً دس فیصدی کمیشن دے دیں گے۔ اب انہوں نے 340کنال کے متعلق کیا ہے ہمارے پاس اتنی زمین باقی ہے میں نے کہا ہے کہ پندرہ کنال کے قریب ہم دوسری ضروریات کے لئے رکھ لیں گے۔میری اپنی رائے میں تو آٹھ کنال زیادہ سے زیادہ کافی ہے لنگر خانہ وغیرہ کے لئے۔چار کنال ایک جگہ پر۔ اور دو دو کنال دوسری جگہ پر لیکن باقی سکول وغیرہ کے لئے بھی ضرورتیں ہوتی ہیں15کنال میرے نزدیک ہم کو فارغ رکھنی چاہئے باقی325رہ گئی قیمت اس وقت غالباً دوہزار پندرہ سو یا ہزار ہے۔’’
اس موقع پر حضور نے دفتر والوں سے دریافت فرمایا تو ان کے جواب پر ارشاد فرمایا:-
‘‘پندرہ سو ہزار اور ساڑھے سات سو ہے یعنی پچھلے سال سے نصف کردی گئی ہے اور اس کے لئے بھی وہ یہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص 31 مارچ تک رقم ادا کردے تو ہم دس فیصدی اُس کو ری بیٹ1 (REBATE) دے دیں گے مثلاً پندرہ سو روپیہ پر وہ خریدتا ہے اگر وہ اس مارچ تک دے دے گا تو اُس کو ساڑھے تیرہ سو میں ہم دے دیں گے۔اگر ہزار روپیہ میں ایک ٹکڑہ خریدتا ہے تو اُس کو 31 مارچ تک اگر وہ قیمت ادا کردے تو ہم اُس کو 9سو میں دے دیں گے۔اگر ساڑھے سات سو میں وہ خریدتا ہے تو اُس کو ہم پونے سات سو میں دے دیں گے اگر وہ 31 کو دیدے۔میں اس کے ساتھ ایک زائد بات بھی کردیتا ہوں کہ وہ اسکے ساتھ یہ بھی رعایت کردیں کہ 31 مارچ تک جتنی رقم وہ دیدے اُس پر بھی وہ ری بیٹ دے دیں مثلاً پندرہ سو والے نے 31 مارچ تک ہزار دے دیا500رہ گیا تو ہزار پر تو سو روپیہ ری بیٹ اُس کو دے دیں باقی پانچ سواپنا پورا وصول کرلیں۔ اِس طرح کرکے اُن کو زیادہ سے زیادہ ادا کرنے کی بھی ہمت ہوگی اور ساتھ اسکے وہ ادا کرنے میں جو قربانی کریں گے اس کا ان کو فائدہ بھی پہنچ جائے گا۔اگر وہ500ادا کریں گے تو پچاس روپے بچ جائیں اگر ہزار ادا کریں گے تو سو روپیہ بچ جائے گا۔اگردو سو ادا کریں گے تو بیس روپے بچ جائیں گے۔تین سو ادا کریں گے تو تیس روپے بچ جائیں گے۔تو31 مارچ تک جو رقم وصول ہو خواہ وہ ساری نہ ہو اتنے حصہ پر ری بیٹ پھر بھی وہ دے دیں تاکہ اُن کی اس قربانی اور محنت کا نتیجہ کچھ نکلے۔
تو جو دوست یہاں ربوہ میں مکان بنوانا چاہتے ہیں یا زمین لینا چاہتے ہیں اُن کو معلوم ہوجائے کہ اب ربوہ میں صرف325کنال زمین باقی ہے اور اس کی قیمت بھی پچھلے سال سے قریباً آدھی کردی گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ ری بیٹ بھی رکھ دیا گیا ہے اِس لئے یہ سہولت ہے اگر وہ نہ لیں گے تو مجھے پتہ ہے کہ پیچھے لوگوں نے تین تین ہزار روپیہ کنال یہاں خریدی ہے اور میں نے سختی کرکے بیچ میں دخل دیا تو پھر دو دو ہزار تک تو ہمیں بھی ماننا پڑا کہ دو ہزار روپیہ تک زمین دے دو حالانکہ انہوں نے ساڑھے سات سو کو زمین خریدی تھی بلکہ بعض تو ایسے تھے کہ انہوں نے سو کو خریدی اور دوہزار کو بیچی۔کیونکہ ہم نے اجازت دے دی تھی کہ دوہزارتک آدمی بیچ سکتا ہے اِس سے زیادہ لوگوں پر سختی ہوجائیگی اور ربوہ کی آبادی میں دقت ہو جائیگی۔ پس یہی قیمتیں جو آج دو گے کسی وقت میں بہت چڑھ جائیں گی۔شہر نے آخر بڑھنا ہے اور پھر یہاں تو ساتھ اس کے تبرک بھی ہے، دین کی خدمت بھی ہے، دین کی باتیں سننے کے مواقع بھی ہیں اور دین کے لئے اکٹھے بیٹھنے کے مواقع بھی ہیں گویا شہر کا شہر بھی ہے اور امن بھی ہے باہر تو یہ باتیں نصیب نہیں۔ لیکن باہر جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو یہ تو لازمی بات ہے کہ یہاں بھی بڑھ جائے گی۔قادیان گو شہر کے لحاظ سے چھوٹاسا تھالیکن بیس بیس ہزار روپیہ کنال تو خود ہم نے خریدی ہے حالانکہ ہم مالک بھی تھے۔بیچتے بھی تھے لیکن بیس ہزار روپیہ کنال تک بھی بعض چھوٹے ٹکڑے ہم کو لینے پڑے اور بیس ہزار روپیہ کنال کے حساب سے ہمیں دینے پڑے حالانکہ بڑے بڑے شہروں میں بلکہ لاہور جیسے شہر میں بھی بڑی بڑی خاص جگہوں پر بیس ہزار روپیہ پر زمین بکتی ہے ورنہ وہاں بھی چار پانچ بلکہ دس ہزار روپیہ پر زمین مل جاتی ہے۔ پس یہ قیمتیں پیچھے بڑھیں گی اور کرائے تو اب بھی اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ مجھے تو ظلم ہی نظر آتا ہے۔تین چار کمرے کا مکان ہوتا ہے اور کہتے ہیں ساٹھ روپے، ستّر روپے، اسّی روپے کرایہ ہے۔ اور پھر اَور زیادہ ظلم یہ ہے کہ میرے پاس بعض لوگوں نے یہ شکایت کی ہے کہ ہم اپنے بچے یہاں رکھنا چاہتے ہیں۔ تیس پنتیس مکان خالی پڑے ہیں ہم گئے ہیں اُن کی منتیں کی ہیں کہ ہم کو کسی کرایہ پر دے دو مگر کہتے ہیں دینا نہیں۔اگر ہم کو کوئی مشکل پیش آئی اور ہمیں یہاں آنا پڑا تو کیا کریں گےمکان ہم نہیں دیتے۔ تو کرایہ کے لحاظ سے بھی یہ بڑی آمد والی چیز ہے اور اگر آئندہ فروخت ہو تو اِ س میں بھی بڑی آمدن ہے۔ کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مثلاً دو سو یا تین سو کو ٹکڑہ خریدا تھا اور پھر اُن کے اوپر کچھ چندے بڑھ گئے یا یہ کہ وصیت کی تھی تو اب انہوں نے تین تین ہزار روپیہ میں انجمن کی معرفت بیچ کر اپنا ستائیس سو روپیہ کا قرضہ اتار دیا ہے حالانکہ انہوں نے دوسو یا تین سو دے کر وہ ٹکڑہ خریدا تھا۔پس میرے نزدیک یہ بہترین سودا اور مفید سودا ہے۔
مکان بنانے کے متعلق بھی ربوہ کمیٹی جو سختی کررہی ہے اُس کے متعلق میرے پاس شکائتیں آتی ہیں۔ انفرادی طور پر تو میں جواب دیتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اجتماعی طور پر مجھے جماعت کو ہوشیار کردینا چاہیے کہ اس میں میرے پاس لکھنا درحقیقت بیکار ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ حکومت سے جب یہ زمین لی گئی ہے تو اُن کو یہ کہا گیا تھا کہ مہاجرین بہت سارے ایسے ہیں کہ جن کے پاس جگہ نہیں اور وہ اپنا ٹھکانہ بنانے کے لئے یہاں مکان بنانا چاہتے ہیں۔یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ چونکہ ہماری جماعت کا مرکز ہوگا۔کالج ہونگے۔سکول ہونگے کچھ دوسرے بھی آجائیں گے لیکن زیادہ تر مہاجرین مدنظر ہیں اور اُن کے لئے فوراً ٹھکانے کی ضرورت ہے تو یہ اعتراض لوگ حکومت کے اوپر کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا اگر فوراً ٹھکانے کی ضرورت تھی تو پھر یہ بناتے کیوں نہیں۔ چنانچہ کئی آنے بہانے سے بعض افسررپورٹیں کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے وعدہ نہیں پورا کیا،زمین آباد نہیں ہوئی اِن سے لے لی جائے تاکہ دوسرے لوگ اِس میں آباد ہوسکیں۔ حالانکہ دوسروں نے اگر لینی تھی تو ہم سے پہلے کیوں نہ لے لی۔ اب تو اگر کوئی آباد ہوتا ہے تو ہمارے سکول کی وجہ سے ہوتا ہے، ہمارے کالج کی وجہ سے ہوتا ہے،ہمارے ہسپتال کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن بہرحال زبردست کا ٹھینگا سر پر۔جو طاقت والے ہوتے ہیں اُن کی بات زیادہ مؤثر ہوجاتی ہے اور ہمیشہ یہ مشکلات ہیں خریدنے والی انجمن ہے (صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید۔) اُن کے لئے پیش آتی رہتی ہیں اور حکام کی منتّیں ترلے،اُن کی دھمکیاں سننی پڑتی ہیں اس کے لئے وہ بھی مجبور ہوکے آپ کو نوٹس دیتے ہیں کہ جلدی مکان بنائیے تاکہ ہماری جان چُھوٹے۔جن دوستوں کو ان حالات کا علم نہیں وہ سمجھتے ہیں بیٹھے بیٹھے ربوہ میں ان کو جوش اٹھتا ہے ہماری حالت کو نہیں دیکھتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں۔ہم بنالیں گے ایک دوسال میں۔وہ یہ نہیں جانتے کہ اِس کا سلسلہ کوبھی نقصان ہوتا ہے اور ان لوگوں کو الگ پریشانی ہوتی ہے۔ ہر افسر جو آتا ہے تو اِن بیچاروں کو آگے پیچھے اُسکے دوڑنا پڑتا ہے کہ کسی طرح وہ رپورٹ خلاف نہ کردے۔ تو اِن حالات سے مجبور ہو کر وہ آپ کو کہہ رہے ہیں کہ مکان جلدی بنوائیے تا کہ اس میں آبادی ہوجائے اور لوگ جو خواہ مخواہ دق کرنے کے لئے اعتراض کرتے ہیں اور پھر افسروں کو بھی ستاتے ہیں، ہمیں بھی ستاتے ہیں اُن کا منہ بند ہوجائے۔اَور بھی کئی وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ جو ہے وہ یہی ہے۔ اور پھر اقتصادی طور پر اگر شہر آبادنہیں ہوگا تو یہاں کے دوکاندار بھی نہیں بس سکتے،یہاں کے سکول بھی نہیں آباد ہوسکتے، کالج بھی نہیں آباد ہو سکتے۔شہر کی آبادی کے ساتھ کالج اور سکول یہاں مضبوط ہوجائیں گے تو اداروں کی مضبوطی کے لئے بھی یہ ضروری ہے اورکالجوں کی مضبوطی کے لئے بھی ضروری ہے اور سلسلہ کے کام کے لئے بھی ضروری ہے اور پھر جس کام کے لئے میں نے زمین کی تھی اُس شرط کے جلدی سے جلدی پوراکرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔گو ہم گورنمنٹ کو تو یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ ہم ربوہ میں اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں غریب آدمی،مہاجر۔تم ہم پر یہ اعتراض کررہے ہو۔تو تم نے جوجوہرآباد وغیرہ بنائے ہیں وہ تو اب تک اُجڑے پڑے ہیں کروڑ کروڑ روپیہ سرکار نے اپنا خرچ کیا تو ان کو بسا نہیں سکے تو ہم غریبوں نے تو تم سے تین گنے چار گنے زیادہ آباد کرلیا ہے لیکن مُنہ تو ہم بند کردیتے ہیں ان کا مگر یہ کہ جب شور پڑے اور لوگ زور دینا شروع کریں تو پھر معقولیت بات کی نہیں رہا کرتی پھر تو یہی ہوجاتا ہے کہ جس کاہاتھ زیادہ زور سے چل سکتا ہے وہی جیت جاتا ہے۔
جلسہ سالانہ پر ملاقاتوں کے سلسلہ میں ضروری ہدایات
ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں ملاقاتوں کی نسبت۔آج سے بیس پچیس سال پہلے میں نے ملاقاتوں کے متعلق کچھ نصیحتیں کی تھیں۔کچھ
مدت تک اس پر خوب اچھا عمل ہوا اور ملاقاتیں بڑی اچھی ہوجاتی تھیں اور مفید ہوتی تھیں آہستہ آہستہ وہ اثر جانا شروع ہوا۔کچھ تو یہ وجہ ہوئی کہ جن لوگوں کو نصیحت کی تھی اُن کے علاوہ بہت سارے لوگ آنے شروع ہوئے نئے احمدی۔اُن کو یہ نصیحتیں معلوم نہیں تھیں۔ کچھ یہ ہوا کہ وہ جوان جنہوں نے وہ نصیحتیں سنی تھیں اور اُن کے اندر جوش تھاا ُن پر عمل کرنے کا، وہ اب ہوگئے بڈّھے۔اب بڑھاپے میں اُن کے اندر وہ جوش نہ رہا اُن پر عمل کرنے کا۔کچھ یہ نقص ہوا کہ جو لوگ اُس وقت منتظم تھے وہ آج نہیں ہیں۔آج دوسرے نوجوان ہیں انہوں نے وہ نصیحتیں نہیں سنی ہوئی۔ او رکچھ انسانی ضد اورہٹ دھرمی ہوتی ہے کہ کئی باتیں تو سالہا سال سے میں منتظمین کو کہتا آتا ہوں پھر بھی وہ اِس کان سنتے ہیں اُس کان سے نکال دیتے ہیں اور پھروہی کی وہی باتیں ہیں۔پس میں پھر جماعت کے دوستوں کو اِس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اِس میں اُن کا بھی فائدہ ہے میرا بھی فائدہ ہے اور کئی رنگ کے روحانی فائدے ہیں۔
ایک تو میں نے یہ کہا تھا کہ جب جماعتیں ملنے آئیں تو اُن کا کوئی لیڈر ساتھ ہو جو ساروں کو پہچانتا ہو اور وہ ملاتے وقت اُن کا نام بھی بتاتا جائے۔ پہلے گاؤں کا نام بتائے پھر اس کے بعد اُس آدمی کا نام بتائے نتیجہ اِس کا یہ تھا کہ اُس زمانہ میں دو تین سال میں ہزاروں ہزار احمدی سے میں واقف ہوگیا تھا۔وہ نام بتاتا تھا میں فوراً پہچان لیتا تھا کہ یہ وہ شخص ہے۔ لیکن اب یہ ہوتا ہے کہ بیٹھنے والا صرف اس لئے بیٹھتا ہے کہ میں سامنے ذرا دیر تک بیٹھا رہونگا۔اُس کا کوئی حق نہیں ہوتا نہ وہ جماعت کو جانتا ہے نہ کسی کا نام جانتا ہے اُس سے پوچھو تو کہتا ہے ‘‘دسدے جان گے آپے ہی’’اُس کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ میں پاس بیٹھ جاؤںاور اِس سے زیادہ کوئی کام کرنا اُس کا مقصود نہیں ہوتا۔ اور جب نام پوچھو تو کہتا ہے یاد نہیں رہے۔ ‘‘آپے دسن گے’’پھر وہ جو آتے ہیں تو اُن کو پیچھے سے ملاقات کرانے والا جیسے بیل کو مار مار کے ٹھکور کے آگے کرتے ہیں نا،وہ دھکے دے رہاہوتا ہے اور وہ بیچارہ اِسی میں غنیمت سمجھتا ہے کہ مصافحہ ہوگیا وہ بھاگتا ہے۔اگر میں اُس کو پوچھ بھی لوں کہ تمہاراکیا نام ہے؟ تو بیچارہ بعض دفعہ ایسا گھبرایا ہوا ہوتا ہے کہ میں کہتا ہوں آپ کا نام کیا ہے؟ تو وہ کہتا ہے’’گوجرانوالہ’’۔کبھی میں کہتا ہوں آئے کہاں سے ہو؟ تو کہتا ہے محمد دین۔تو اُس کی انہوں نے مت ماری ہوتی ہے۔پیچھے سے دھکے دے رہے ہوتے ہیں نکل،نکل،نکل۔اگر وہ اِ س صورت کے ساتھ ملنے کے لئے آویں اور وہ بیٹھنے والا ذمہ دار شخص اپنے فرض کو ادا کرے اور وہ بیٹھ کے کہے صاحب! یہ فلاں شخص ہیں۔میری جماعت کے ہیں تو کتنا فائدہ ہو۔ آج صبح بھی اور شام کی ملاقات میں بھی میں نے دیکھا کہ اکثر بیٹھنے والے وہ تھے سوائے ایک جماعت کے یعنی سرحد کی جماعت کے اکثر پٹھانوںمیں میں نے دیکھا ہے چونکہ سیاسی لوگ ہیں اس لئے وہ زیادہ ہوشیاری سے کام کرتے ہیں اُن کی جماعت کو ہمیشہ ہی میں نے دیکھا ہے یعنی کوئی تو بھول جاتا ہے آدمی۔قاضی صاحب کی عمر میرے خیال میں شائد ستّر سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ وہ مجھ سے بڑے ہوا کرتے تھے میری اب65کو پہنچ رہی ہے۔میرے خیال میں ستّر سے زیادہ ہی ہونگے۔’’
اس موقع پر بعض دوستوں نے بتایا کہ اُن کی عمر75سال کی ہے۔فرمایا:-
‘‘لیکن یہ کہ اب بھی اُن کا حافظہ خداتعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا چلتا ہے۔ میرے خیال میں کوئی نوّے فیصدی آدمی کو وہ جانتے ہیں حالانکہ سارے صوبہ کی جماعت ہوتی ہے کہتے چلے جاتے ہیں اور پتہ لگتا چلا جاتا ہے۔بعض میرے واقف ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ شکل مَیں نہیں پہچانتا۔اندھیرا ہوتا ہے۔ سایہ پڑتا ہے تو نام لیتے ہی میں پہچان جاتا ہوں۔ اُس سے بات پوچھتا ہوں، کوئی حال پوچھتا ہوں اور واقفیت ہوتی جاتی ہے لیکن باقی ضلع جو ہیں میں نے دیکھا ہے اُن میں یہی چال چلتی ہے وہ آگے بیٹھ گئے اور اس کے بعد ملاقات کرنے والے چلنے شروع ہوئے۔بیچارے کو کچھ دھّکے پچھلے دے رہے ہیں کچھ اگلے دے رہے ہیں وہ اپنا بیٹھا ہے کہ میں تو بیٹھا دیکھ رہاہوں اور باتیں کررہا ہوں یہ جہنم میں جاتے ہیں توجائیں۔تو یہ بڑا غلط طریقہ ہے اس کے ساتھ ملاقات کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا۔ اور یہ جو غرض ہے کہ وہ شخص واقف ہوجائے پوری نہیں ہوسکتی۔ مثلاًبعد میں اگر میرا واقف ہوتا ہے اور دعا کے لئے تحریک ہوتی ہے تو ناواقف کی نسبت واقف کے لئے دعا کی تحریک زیادہ ہوتی ہے۔ وہ جب کہہ جاتا ہے مجھے یاد آجاتا ہے مثلاًا ُس کی شکل یا مثلاً اُس نے کہا میرے اولاد نہیں ہوتی۔ میں نے اُس سے حال بھی پوچھا کہ تمہاری شادی کب کی ہوئی ہوئی ہے؟ تو اُس نے کہا جی بیس سال ہوگئے ہیں دوسری بھی شادی کی مگر اولاد نہیں ہوئی۔ اب یہ نقشہ میرے ذہن میں ہوتا ہے جب اُس کا نام میرے سامنے آتا ہے میں سمجھتا ہوں اِس شخص کے بیس سال ہوگئے ہیں دو شادیاں بھی کیں پھر بھی اولاد نہیں ہوئی پس جو اس کے لئے درد پیدا ہوتا ہے دوسرے کے لئے نہیں۔خالی یہ کہ وہ شخص آ گیا جس کے مَیں حالات نہیں جانتا اس سے کیا فائدہ۔ میں بعض دفعہ سمجھتا ہوں خیر ہے دو سال ہوئے ہوں شادی پر اور گھبرایا پھر رہا ہے تو کوئی تحریک بھی اس کے لئے دعا کی نہیں ہوتی یا سرسری دعا کی جاتی ہے۔ تو واقفیتِ حالات کے ساتھ دعا کی تحریک جو ہے وہ بہت زیادہ پیدا ہوتی ہے۔تو اُس زمانہ میں یہ بڑا فائدہ اٹھایا جاتا تھا لیکن اب وہ بات بھول گئی ہے اور ایسا نہیں ہوتا۔پس میں دوستوں کو اصرار کرتا ہوں کہ جب وہ آئیں تو اپنے لیڈر کو پہلے پکڑ لیویں کہ یا تو ہمارا نام بتاؤ نہیں تو ہم وہیں کہہ دیں گے کہ یہ ہمیں نہیں پہچانتا اس کو اٹھا دو تو ہم اس کو اٹھا دیں گے مگر ہمارے لئے ذرا مشکل ہے کہ تم ا س کو لیڈر بنا کے لاؤ تم چپ کررہو اور ہم کہیں کہ اٹھ جاؤ تو یہ ٹھیک نہیں لگتا تم اپنے لیڈر کو پہلے کہہ کر لایا کرو کہ یا تو ہمیں پہچان اور ہمارا انٹرڈیوس کروائے اگر نہیں پہچانتا اور نہیں انٹرڈیوس کرانا تو ہم نے وہاں کہہ دینا ہے کہ یہ آدمی ہمارا لیڈر نہیں پھر دیکھو کہ کس طرح سیدھے ہوجاتے ہیں۔
دوسرے یہ ہے کہ آتے وقت نوجوانوں کو بھی واقف کردینا چاہئے۔ نئے نئے آدمی آتے ہیں کئی نئے احمدی آتے ہیں۔بعض تو اُن میں سے بھی ایسے ذہین ہوتے ہیں کہ بغیر اس کے کہ پتہ ہو وہ خود اپنے آپ ہی ساری کیفیت بتادیتے ہیں کہ فلانی جگہ سے ہیں، نئے احمدی ہیں، ہماری یہ مشکلات ہیں،ہمارے بھائی بند مخالف ہیں۔بعض عورتیں آج مجھے ملی ہیں بیعت کے وقت۔انہوں نے مثلاً اپنا بتایا۔ایک عورت نے مجھے کہا کہ میں وعدہ کرگئی تھی آپ سے کہ میں ایک آدمی کو بیعت کرواؤنگی۔میں نے اپنی ماں کو بیعت کرایا ہے اور اپنے باقی سارے ٹبّر کوکرایا ہے صرف میرا بھائی رہ گیا ہے میں وعدہ کرتی ہوں کہ اُس کو بھی بیعت کراؤنگی تو اُن میں بڑی بڑی ہوشیار اور ذہین ہوتی ہیں۔کوئی وجہ نہیں ہے کہ مردوں میں وہ ذہانت نہ ہو لیکن صرف یہ ہے کہ قابل لیڈر نہیں بنائے جاتے۔ اِسی طرح جو کام کرنے والے ہیں اُن کو میں نے بہت سمجھایا ہے لیکن وہ سنتے نہیں جب وہ ملواتے ہیں۔ عید کی ہمارے یہاں ملاقاتیں ہوتی تھیں تو اس میں بھی یہی غلطی کرتے تھے مگر وہ چونکہ باربار میر سامنے آتے ہیں۔یہاں ربوہ کے رہنے والے ہوتے ہیں میں نے اُن کو سکھالیا مگر یہ جو ملاقات والے ہیں یہ نہیں سیکھتے۔ہر سال میں کہتا ہوں ملاقات کروانے والا میرے منہ کے آگے کھڑا ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس شخص کو جو اُس وقت میرے سامنے آتا ہے جس وقت اُس کی پیٹھ لیمپ کی طرف ہوچکتی ہے جب وہ اندھیرے میں آجاتا ہے میں اُس کی شکل اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا۔اگر وہ ایک طرف کھڑا ہو کے ڈیڑھ گز پر ہٹ کے وہاں سے آوے تو اس گز کے اندر میں اس کی شکل بھی پہچان لوں گا اور اگر میں اس کو جانتا ہوں تب بھی پہچان لوں گا۔تو باربار سمجھانے کے باوجود بس ایک فٹ پر آکے کھڑا ہوجائے گا آدمی اور آپ میرے منہ کے آگے کھڑا ہوجائے گا او راُس کو یوں پکڑ کے سامنے کرے گا۔جس وقت آگے کرے گااندھیرا آجائے گا۔ اندھیرا آجائے گا تو مجھے نظر نہیں آئے گا۔ اور دوسرا آدمی پھر اُس کو دھکّا دے کر باہر نکال دےگا۔تو یہ بھی اُس فائدے اور غرض کو دور کردیتا ہے۔ یہ تو ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات ہیں۔
مَیں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم دعا کے لئے اگر خط لکھو نہ بھی پہنچے مجھے تب بھی تمہارے لئے دعا ہوجائے گی کیونکہ دعا تو اللہ تعالیٰ سے میں نے کرنی ہے اللہ کو پتہ ہے کہ فلاں نے خط لکھا ہے۔بیشک لوگ اسے غائب کردیں۔چُرانے والے چُرالیں تمہارے لئے دعا ہوجائے گی۔ اور پھر ہم یوں مجمل دعا ہی کرتے رہتے ہیں کہ الٰہی جو ہمیں دعا کے لکھ رہا ہے یا لکھتا ہے یا جس نے لکھا ہے اُس کے اوپر تُو فضل کر۔ تو وہ پھر اس کے اند رآہی جائے گا۔ تو اِس طرح جو شخص ملتا ہے چاہے اُس کی شکل بھی ہم نہ پہچانیں۔کچھ ہو دعا کاحصہ تو اسے مل جائے گا لیکن یہ کہ پورا حصہ لینا چاہئے اُس کو۔وہ پورا نہیں دیا جاتا اُس کو۔اِس لئے ملنے والوں کو ہمیشہ ذرا فاصلے پرکھڑا ہونا چاہئے۔ حفاظت کے لئے ایسی احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسا کون آدمی ہے جس نے ہوا میں اڑ کے نقصان پہنچانا ہے ایک گز کا تو فاصلہ ہوتا ہے ایک گز میں انسان تیز قدم میں ایک گز سے آگے نکل جاتا ہے تو ملاقات کرانے والوں کو ذرا فاصلہ پر کھڑا ہونا چاہئے۔ ساتھ منہ کے نہیں کھڑا ہونا چاہئے اور ذرا پہلو سے ہٹ کے کھڑا ہونا چاہئے کوئی زیادہ دُور نہیں اگر ایک قدم بھی وہ ایک طرف ہٹ جائیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تین گز سے وہ آدمی آتا ہو ا مجھے نظر آجائے گا اِس لئے اُس کے منہ پر روشنی پڑرہی ہوگی۔ اُ س کی شکل میں پہچان لوں گا۔ اگر وہ پرانا واقف ہے تو میں اُس کو جان لوں گا لیکن یوں آتے ہی جس وقت میں اُس کو بعض دفعہ پہچاننے لگتا ہوں تو اتنے میں وہ اُس کو گھسیٹتے ہوئے پرلے سرے پر پہنچادیتا ہے تو میرے ذہن میں جو بات ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اتنے میں دوسرا آدمی آچکا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ تو ملاقات کرانے والےمیں نے دیکھا ہے کہ نام جانتے بھی ہیں۔مجھے بعض دفعہ ہنسی آجاتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ملاقات میں ہوا کہ ایک شخص کہنے لگا یہ فلاں صاحب ہیں اور وہ میں جانتا تھا وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے۔جس وقت انہوں نے بولنے کا ارادہ کیا اتنے میں ہمارے آدمیوں نے گھسیٹا او رتین گز پرے پھینک دیا۔ اس کے بعد اب دوسرا شخص کھڑا ہوا تھا اوراُس کو وہ کہہ رہے تھے یہ فلاں صاحب ہیں۔میں چونکہ جانتا تھا اُس کو میں مسکرا پڑا کہ فلاں صاحب تو وہ کھڑے ہوئے ہیں۔ لیکن بات یہی تھی کہ یہ لفظ زبان پر آتے آتے بیچارے کو کھینچ کر لے گئے اور وہ اس زور میں بول گئے یہ ساری باتیں دُور ہوجاتی ہیں اگر احتیاط کے ساتھ کام لیا جائے او راِس میں فوائد زیادہ ہوتے ہیں۔جماعت سے جتنی واقفیت ہوجائے اتنا ہی انسان کام زیادہ اچھا کرسکتا ہے۔ باتوں باتوں میں ہم اُس کا کیریکٹر معلوم کرلیتے ہیں۔ہم یہ جان لیتے ہیں کہ وہ کتنی قربانی کرسکتا ہے، کس قسم کی خدمت کرسکتا ہے۔ یہ چیزیں اگر ہم ناواقف ہوں تو ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
مسلمان ایک نہایت نازک دور میں سے گزر رہے ہیں
چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اِس وقت مسلمانوں کی حالت نہایت نازک ہے مسلمانوں پر یہ ایساسخت دور گزر رہا ہے کہ درحقیقت
اِس شکل میں تین سو سال سے ایسا نازک دور نہیں آیا یعنی پہلے نزاکت یہ تھی کہ چوٹی سے وہ نیچے گر رہے تھے اور ہر دن وہ نیچے کی طرف گرتے چلے جاتے تھے۔ اُن کی حالت اِس قسم کی تھی کہ وہ اپنے گرنے میں کچھ تکلیف نہیں محسوس کرتے تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کے گرانے میں لذت محسوس کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ گویا اگر ہم نے اس کو مار دیا اور ہم مرگئے تو چلو پرائے شگون میں ناک کٹوالی کوئی حرج نہیں ہے اُس کو تو نقصان پہنچادیا ہے۔ اس لئے وہ دَور تکلیف کا تو تھا مگر احساس کم تھا اِس کے بعد اللہ تعالیٰ وہ دن لایا کہ جبکہ مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا ہونی شروع ہوئی،احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی دشمن طاقتیں تھیں اُن کے اندر تفرقہ پیدا کردیا۔اُن کے اندر حسد پیدا کردیا۔اُن کے اندر اختلاف پیدا کردیا جس کے نتیجہ میں مسلمان قوموں نے آزاد ہوناشروع کیا۔پہلے ماتحت تھیں غلام تھیں ان کو کچھ نہ کچھ آزادی ملنی شروع ہوئی مثلاً ایران قریباً قریباً روس اور انگریزوں کے قبضہ میں تھا اُس نے کچھ آزادی حاصل کی۔ مصر پہلے فرانس کے قبضہ میں تھا پھر انگریزوں کے قبضہ میں رہا اُس نے آزادی حاصل کی۔ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں تھا سارا تو نہیں ملا مسلمانوں کو پرخیر کچھ مغرب سے کچھ مشر ق سے تھوڑا بہت مل کے فیملی سی مل گئی اُن کو۔اِسی طرح انڈونیشیا آزاد ہوگیا۔لیبیا آزاد ہوگیا۔شام،فلسطین،عراق آزاد ہوگئے۔ عراق جو تھا پہلے ٹرکی کے ماتحت تھا اُس کو تو کوئی خاص آزادی نہیں ملی لیکن شام اور فلسطین فرانسیسیوں کے ماتحت تھے ان کو آہستہ آہستہ آزادی ملی۔تو اِس آزادی کے ملنے کی وجہ سے طبیعت میں ایک احساس پیدا ہوگیا جیسے بچہ ہوتا ہے پیٹ میں نو مہینے بغیر سانس کے گذار دیتا ہے پر پیدا ہوتے ہی وہ سانس لیتا ہے۔سانس کے بعد پھر نہیں چھوڑ سکتا اُس کو۔ وہاں تو 9مہینے بغیر سانس سے گذار لیتا ہے اوریہاں9منٹ بغیر سانس کے نہیں گذار سکتا۔کیونکہ اب پھیپھڑے جو ہیں اُن میں ہلنے کی عادت پیدا ہوگئی ہے وہ نہیں ہلیں گے تو ساتھ ہی قلب بند ہوجائے گا۔تو یہی حالت اُس قوم کی ہوتی ہے جو کہ عادی طو رپر سُست ہوتی ہے۔گری ہوئی ہوتی ہے جب اُسے ذرا ہوا آزادی کی ملے،جب ذرا طاقت کی روح پیدا ہو اُس وقت پھر اُس کو خطرہ پیدا ہوتو وہ زیادہ خطرناک اور زیادہ مایوسی پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔
اِس وقت مختلف مسلمان ممالک جو ہیں وہ مختلف مصائب میں سے گذر رہے ہیں مثلاً مصر ہے اُس میں سویز کا جھگڑا پیدا ہے اور بعض جھگڑے ایسی الجھنوں کے ساتھ ہیں کہ سمجھ بھی نہیں آتی کہ اُس کا بنے گا کیا۔مثلاً طبعی طور پر میں کمیونزم کا مخالف ہوں بہت سے مسلمان نہیں بھی مخالف۔بہت سے مسلمان کمیونسٹ بھی ہیں لیکن میں کمیونزم کا مخالف ہوں۔جب میں کسی جگہ پر ایسی حالت دیکھوں کہ کسی جگہ پر مسلمانوں کو اِدھر آزادی ملتی ہے اُدھر کمیونسٹ کو بھی طاقت ملتی ہے تو میرادل گھبرا جاتا ہے میں کہتا ہوں یہ بھی بلاء وہ بھی بلاء۔یہی مثال ہوجاتی ہے کہ کہتے ہیں نہ بولوں تو باپ کتّا کھائے بولوں تو ماں ماری جائے۔اگر ہم مسلمان کی آزادی چاہتے ہیں تو کمیونسٹ کو طاقت ملتی ہے اگر ہم کمیونسٹ کو نقصان پہنچاتے ہیں تو مسلمان کی آزادی چلی جاتی ہے یہ دو بلائیں ایسی ہیں کہ ہم ان کو لے نہیں سکتے۔کیا کریں۔ توپھر طبیعت میں بڑی گھبراہٹ پیدا ہوجاتی ہے۔یہی حال مصر کے متعلق پیداہے۔ مصر میں انگریزوں نے فوج مصر کی خاطر نہیں رکھی بلکہ انہوں نے اِس لئے رکھی ہوئی ہے کہ اُن کی معلومات یہ بتاتی ہیں اور مذہب کی جو خبریں اور پیشگوئیاں ہیں وہ بھی بتاتی ہے کہ روس نے مڈل ایسٹ پر حملہ کرنا ہے۔تو رات میں یہ خبریں ہیں،حدیثوں میں یہ خبریں موجود ہیں۔قرآن کریم میں یہ خبریں موجود ہیں، اِن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مڈل ایسٹ پر کمیونزم نے حملہ کرنا ہے اور مڈل ایسٹ بچانے کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ کہیں قریب میں ہماری فوجیں ہوں اِس کے لئے انہوں نے اردن سے فیصلہ کیا اور مصر کے ساتھ انہوں نے سمجھوتہ کرلیا کہ اچھا ہم قاہرہ سے فوجیں نکال لیتے ہیں سویز پر رکھتے ہیں تا کہ ہم سویز کو بچا سکیں۔سویز کے بچانے کا بہانہ درحقیقت معمولی ہے اصل چیز یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوجیں اتنی قریب ہوں کہ اگر روس کی فوجیں داخل ہوں تو جھٹ پٹ اُنہیں آگے سے روک سکیں اور یہی دلچسپی امریکہ کو بھی ہے اس کے ساتھ۔لیکن اِدھر اس کا بھی کوئی انکار نہیں ہوسکتا کہ کسی ملک میں اُس کی مرضی کے بغیر کوئی فوج رکھی ہوئی ہو تو اُس کو ہم آزاد کہہ ہی نہیں سکتے۔لازماً مصر والوں کا بھی دل چاہتا ہے اور ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ مصر آزاد ہو۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان حکومت آزاد نہ ہو۔ لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ اگر انگریزی فوج سویز میں بیٹھی ہوئی ہے تو ہم مصر کو آزاد نہیں کہہ سکتے کیونکہ چاہے وہ روس کے لئے بیٹھی ہوئی ہو پر مصر کو بھی ہر وقت دھمکی کا خیال رہے گا کہ ہمارے ہاں ذرا سی بات ہوگی تو فوج کی دھمکی دیں گے اور اپنی فوجیں اندر داخل کرلیں گے۔ چنانچہ پیچھے بعض جھگڑوں پر ایسا ہی ہوا ہے کہ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اورانہوں نے کئی مصری گاؤں تباہ کردئیے تو ملک کی آزادی قائم نہیں رہ سکتی جب تک غیر فوج جو ہے وہ وہاں سے نکل نہ جائے۔تو یہ ایک ایسی الجھن ہے جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کررہی ہے یعنی یوں تو ہم نہیں کچھ کرسکتے لیکن انسان کوئی نہ کوئی ارادہ تو پیدا کرتا ہے اپنے دل میں۔وہ ارادہ بھی ہمارے لئے مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اِدھر بھی مشکل اُدھر بھی مشکل۔
مسئلہ فلسطین
اِسی طرح فلسطین کا جھگڑا ہے۔فلسطین کا جھگڑا سویز کے جھگڑے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ملک ایسی جگہ پر ہے
جہاں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن مبارک قریب ہے مدینہ منورہ فلسطین کی زد میں ہے۔اگر کسی وقت فلسطین کی کمبخت حکومت کی بدنیتی ہوجائے تو اُس کی ہوائی طاقت اور اس کی دوسری طاقت اتنی بڑی ہے کہ باوجود اِس کے کہ ابن سعود کی طاقت اچھی خاصی ہے پھر بھی خوف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کو آگے لیتا چلا جائے تو اُن کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ اور فلسطین کا معاملہ کچھ ایسا پیچیدہ ہوگیا ہے یعنی اُن کے پاس روپیہ بہت تھا انہوں نے اِس طرح کرکے قابو کیا ہوا ہے امریکن حکومت اور دوسری حکومتوں کو کہ وہ حکومتیں بالکل غلاموں کی طرح ان کی تائید کررہی ہیں۔جو معاہدہ انہوں نے کرکے جس وقت فلسطین قائم کیا ہے تو جو علاقے انہوں نے عربوں کو دئیے تھے آج وہ عربوں کے قبضہ میں نہیں ہیں وہ فلسطین کے یہودیوں نے چھین لئے ہیں اور جو علاقے ان کودئیے تھے اُن میں سے قریباً سارے پر وہ قابض ہیں ۔جوعربوں کو دئیے گئے تھے اُن پر بھی قابض ہیں۔ عرب تو یہ چاہتے ہیں کہ اچھا اور نہ سہی۔ہم تو مانتے نہیں ان کی حکومت۔لیکن کم سےکم جوتم نے لیکر دئیے تھے وہ تو ہم کو دو لیکن اب امریکہ اور انگلستان کہتے ہیں کہ خیرا ب جو ہوگیا سو ہوگیا اب چلو بس کرو۔تو یہ ایک ناقابل برداشت صورت ہے کہ اول تو خود اپنا معاہدہ بھی نہیں پورا کراسکتے۔پھر غیر قوم کے ملک میں، غیرقوم کی حکومت میں لاکے ایک دوسرے لوگوں کو داخل کردیا جو شدید ترین دشمن ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ سب سے بڑا دشمن یہودی ہے مسلمانوں کا۔ اور یہودیوں کو ایسے مقام پر لے آنایہ ایک بڑے بھاری ابتلاء کی بات ہے اور بڑی بھاری مصیبت یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں یکجہتی نہیں پیدا ہورہی۔ مصر میں ابن سعود ہے، شام ہے،لبنان ہے،اُردن ہے،عراق ہے یہ چھ مسلمان حکومتیں ہیں لیکن کسی موقع پر بھی یہ اکٹھی ہوکر نہیں لڑسکیں یہودیوں سے۔
ایک وفد مصر سے آیا اُس میں ایک تو ہائیکورٹ کا جج تھا اور ایک جو انجمن اخوان ہے اُس کا نائب صدر تھا یہ لاہور میں مجھے ملنے آئے تو باتیں ہوئیں۔میں نے کہا قصور تو آپ لوگوں کا ہے۔ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم آپ کی مدد پوری نہیں کرسکے اور نہیں کرتے لیکن آپ کا بہت ساقصور ہے۔ کہنے لگے کیا؟ میں نے کہاآپ لوگ اُن کا مقابلہ کے لئے کیا کررہے ہیں؟ کہنے لگے ہم سارے ملکوں نے تیاری کی ہوئی ہے۔ہر ملک نے اعلان کیا ہے جنگ کا۔میں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے ایک جنگ بتادیجئے کہ مصر پر یہودیوں نے حملہ کیا اور اُس وقت ابن سعود اور عراق کی حکومتوں نے ساتھ ہی حملہ کردیا ہویہودیوں پر۔ یا شرق اردن کی فوجوں پر یہودیوں نے حملہ کیا ہو اور اُسی وقت سلطان ابن سعود نے اور شام نے اور مصریوں نے حملہ کردیا ہو۔میں نے کہا فوجی TACTICS تو یہ ہوا کرتی ہے کہ جو لشکر ایک سا تعلق رکھتے ہیں جب ایک مورچہ پر حملہ کریں تو وہ دوسرے پہلوؤں سے حملہ کرکے اُس کی طاقت کمزور کردیتے ہیں۔توایک مثال دے دو۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ کہنے لگے یہ سچی بات ہے ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے آپس کی رقابت کی وجہ سے تعاون نہیں کیا۔جب مصر پر حملہ ہوا تو مُنہ سے تو کہتا رہا عراق اور ابن سعود اور شامی کہ ہم آتے ہیں لیکن آئے نہیں۔جب شام پر حملہ ہوا تو عراق اور مصر وغیرہ مُنہ سے تو کہتے رہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن اُس وقت حملہ نہیں کیا۔ابھی مثلاً پیچھے مصر پر حملہ ہوا ہے تو ریزولیوشن پاس ہورہے ہیں حملہ نہیں ہوا۔اردن پر حملہ ہوا۔ریزولیوشن پاس ہورہے ہیں باقی ملکوں نے حملے نہیں کئے۔ شام پر پیچھے خطرناک حملہ ہوا(پیچھے دوسال پہلے)لیکن شرقِ اردن اور عراق اور مصراور ابن سعود یہ بیٹھے رہے۔ہم سمجھتے ہیں ان کو مجبوریاں ہوں گی لیکن یہ کہ ان مجبوریوں کی وجہ سے نتیجہ تو خراب ہی نکلے گا۔تو فلسطین کا معاملہ ایک قیامت تھی تکلیف دہ معاملہ ہے اِسی طرح مثلاً لیبیا ہے انگریزوں نے لیبیا کے ساتھ سمجھوتہ کیاہے کہ ہم اپنی فوجیں رکھیں گے اب مصر یہ سمجھتا ہے کہ یہ صرف سویز کی طاقت کو بڑھانے کے لئے انگریزیہاں فوجیں رکھ رہا ہے کیونکہ مصر کے پہلو میں ہے لیبیا۔اُ ن کی منشاء یہ ہے کہ اگر ہم سویز پر حملہ کریں تو یہ پیٹھ پر سے ہم پر حملہ کردیں تو وہ لیبیا سے معاہدہ کے خلاف ہیں۔ لیکن اِدھر لیبیا کے لئے مصیبت یہ ہے کہ اُن کے پاس پیسہ نہیں وہ جنگل ہے جب تک دس پندرہ لاکھ روپیہ سالانہ انگلستان نہ دیوے وہ نہ تو وزیروں کو تنخواہ دے سکتے ہیں نہ تحصیلداروں کو دے سکتے ہیں نہ ڈپٹی کمشنروں کو دے سکتے ہیں اُن کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔فوج بھی نہیں رکھ سکتے۔ وہ مصر کے اعتراض کو سنتے ہیں اور اُس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں ہمارے پاس پیسہ ہی نہیں بغیر اس روپیہ کے ہماراگذارہ ہی نہیں ہے۔ اب یہ بھی ایک مصیبت ہوئی کہ لیبیاکو اگر تباہ ہونے دیں تو تب مصیبت۔مصر کو تباہ ہونے دیں تو تب مصیبت۔یہ کوئی ایسے متضاد سوالات پیدا ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے دونوں طرف سے آدمی اِدھر جائے تو وہ ننگا ہوجاتا ہے اُدھر جاتے تو وہ ننگا ہوجاتا ہے۔
عراق کی بھی یہی حالت ہے۔عراق کی بھی مالی حالت انگریزوں کے ساتھ استوار ہے۔دوسرے عراق جو ہے روسی سرحد پر ہے۔عراق جانتا ہے کہ اگر روس نے کسی وقت بھی مجھ پر حملہ کیا اور ضرور کرے گا تو میرے پاس تو طاقت روس کے مقابلہ کی نہیں ہے۔ اگر انگریزی فوجیں ہوں گی،انگریزی ہوائی جہاز ہوں گے،انگریزی اڈّے ہوں گے تو یہ فوراً لڑنے لگ جائیں گے اس کے بغیر میرا چارہ نہیں۔کچھ عراق میں ایسی طاقتیں پیدا ہورہی ہیں اور ایسی پارٹیاں پیدا ہورہی ہیں جو کہتی ہیں کہ انگریز چلے جائیں لیکن حکومتِ وقت اور اکثریت نہیں چاہتی کہ انگریز جائیں۔ یوں ہیں وہ مصر کے خیرخواہ لیکن اپنے حالات کی وجہ سے وہ انگریزوں سے بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
ایران کے تیل کا سوال بڑا اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔عراق بھی سمجھتا ہے کہ انگریز کی مدد سے ہی اُس کا تیل چل رہا ہے اور ابن سعود کی تو ساری آمد ہی اس پر ہے۔اُس کی تین چوتھائی آمد تیل کی وجہ سے ہے اگر انگریزوں سے وہ اپنے تعلقات منقطع کرلیں تو اُن کی ساری آمد جاتی رہے۔یہ خطرات ہیں جو مسلمانوں کو درپیش ہیں مگر اِن خطرات کا کوئی علاج نظر نہیں آتا۔
اِسی طرح انڈونیشیا ہے یہ ملک خداتعالیٰ کے فضل سے مشرق میں مسلمانوں کی چھاؤنی ہے اِس کی آبادی بھی آٹھ کروڑ ہے۔ملک بھی بڑا وسیع ہے اور آدمی بھی اُن کے اِس قدر شریف ہیں کہ جس کی حد کوئی نہیں۔مجھے بعض دفعہ یہ خیال آیا کرتا ہے کہ پاکستان میں جب کبھی سُستی پیدا ہوتی ہے احمدیوں میں تو میں سمجھتا ہوں خبر نہیں انڈونیشیا والوں نے آگے نکل جانا ہے۔ وہاں کے لوگوں میں شرافت اور قربانی اور ایثاراور وسعتِ حوصلہ دوسرے ملکوں سے کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے۔اب بھی پیچھے چودھری صاحب کے خلاف جب بعض لوگوں نے باتیں کیں تو انڈونیشیا کی حکومت نے یہ پروٹیسٹ کیا پاکستان کے پاس کہ ہم اس کو نہایت ناپسند کرتے ہیں۔تو اِن لوگوں کے اندر مذہبی تعصّب بہت کم ہے۔ملّانے ہیں اور میں نے شاہ محمد صاحب سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں چند مُلّانے ایسے ہی کٹر ہیں جیسے یہاں کے ہوتے ہیں لیکن عام نہیں۔عام لوگوں میں وسعتِ حوصلہ زیادہ ہے ہمارے دوسرے ملکوں کی نسبت۔لیکن آپس میں لڑرہے ہیں۔ یہ عجب بات ہے کہ ہماری برداشت کرلیتے ہیں گو ہم غیرملکی ہیں لیکن آپس میں لڑائی ہورہی ہے سب کی۔اِ س کی وجہ سے انڈونیشیا کو طاقت نہیں مل رہی اورخونریزی ہوتی رہتی ہے۔آئے دن خبریں آتی ہیں۔ ہمارے آدمی بھی بعض مارے جاتے ہیں۔ہمارے دوست پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ شاید احمدیوں کو مارا ہے۔وہ احمدیوں کو نہیں مارا ہوتا آپس میں جو قبائل آکر حملہ کرتے ہیں ایک دوسرے پر تو بیچ میں جو احمدی ہوتے ہیں وہ بھی مارے جاتے ہیں۔پچھلے چھ مہینے سال کے اندر شاید تین واقعات ہوئے ہیں اور شاید پندرہ بیس احمدی مارے گئے ہیں اور شاید پچاس ساٹھ یا سو گھر لُوٹا گیا ہے۔پس جب انہوں نے آکر دو تین گاؤں لُوٹے۔بیچ میں جو احمدی تھے وہ بھی پکڑے گئے، مارے گئے لیکن احمدیت کی دشمنی اصل غرض نہیں۔اصل دشمنی اُن کی یہی ہوتی ہے پارٹی بازی۔ایک پارٹی جو ہے وہ دوسری پارٹی کے خلاف ہے۔ تو یہ ایک بڑا بھاری مورچہ ہے جو محض اِس اختلاف کی وجہ سے کمزور ہورہا ہے۔
پاکستان کی نازک اقتصادی حالت
پھر ہم قریب پہنچتے ہیں پاکستان میں تو یہاں بھی حالات ہم کونہایت نازک
نظر آتے ہیں۔پاکستان کی اقتصادی حالت اول تو نہایت خراب ہے وہ اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے لیکن بڑی مصیبت ہمارے لئے یہ ہے کہ جہاں باقی دنیا میں جب کوئی ایسی مصیبت آتی ہے تو سارا ملک کہتا ہے کہ اس قربانی میں ہم حصہ لیں گے وہاں ہمارے ملک کا باوا آدم کچھ ایسا نرالا ہے کہ یہ بڑے آرام سے گھر میں بیٹھ کے کہیں گے کہ وہی کچھ کھائیں گے،وہی کچھ پہنیں گے۔وہی کچھ لُٹائیں گے اور حکومت کریں گے ہم۔حالانکہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں بہرحال انتظام اِسی طرح کرے گی کہ کچھ ہمارا کھانا کم کرے گی،کچھ ہمارا لباس کم کرے گی،کچھ ہمارے اَور کام کم کرے گی،کچھ ہم پر ٹیکس زیادہ کرے گی لیکن ہمارے ملک میں اِس کو بڑا بُرا سمجھا جاتا ہے۔حکومت کے خلاف اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کیوں کرتی ہے؟ اور اِدھر ساتھ ہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ انتظام کیوں نہیں کرتی؟ تو اس کی وجہ سے اِس مشکل کو دبانا مشکل ہوجاتا ہے اور وزارتیں ڈرتی ہیں کام کرنے سے کہ اگر ہم نے کوئی قدم اٹھایا ملک میں ہمارے خلاف رائے پیدا کی جائے گی او رفوراً جو مخالف پارٹی ہوتی ہے وہ شور مچا دیتی ہے کہ ہم ایسا کریں گے۔ہم یہ سب کچھ دیں گے یہ غلط کررہے ہیں حالانکہ کرتے سارے وہی ہیں۔انگریزوں کے زمانہ میں کانگرس والے کہتے تھے یہ انگریز کی ساری شرارت اِس لئے چل رہی ہے کہ جوڈیشل اور ایگزیکٹو اختیارات الگ الگ نہیں کئے ہوئے اور یہی مسلم لیگ کہتی تھی۔ لیکن آٹھ سال ہوگئے ہندوستان کو آزاد ہوئے۔ آٹھ سال ہوگئے پاکستان کو آزاد ہوئے آج بھی ایگزیکٹو او رجوڈیشل وہی چلی آرہی ہے۔جب اپنے پاس حکومت آئی تو کہتے ہیں نہیں انتظام خراب ہوتا ہے جب انگریز کا زمانہ تھا تو کہتے تھے یہ سارا ظلم اسِ وجہ سے ہور ہا ہے کہ جوڈیشل او رایگزیکٹو اکٹھے ہیں ان کو الگ کریں۔ تو پارٹیاں دوسرے کو ذلیل کرنے کے لئے کہہ دیتی ہیں کہ ہم آئیں گے تو ٹیکس معاف کردیں گے۔اگر تم ٹیکس معاف کردو گے تو ملک کی فوجوں کو تنخواہ کہاں سے دو گے؟تم افسروں کو تنخواہیں کہاں سے دو گے؟جھوٹ ہوتا ہے سارامگر ہمارے عوام الناس تعلیم یافتہ نہیں وہ اس کو سن کر کہ ٹیکس معاف کردیں گے کہتے ہیں آؤچلو ہم ووٹ انہیں کو دیں گے انہوں نے ٹیکس معاف کردینا ہے،ہم ووٹ انہیں کو دیں گے انہوں نے تو فلانی سہولت ہم کو دینی ہے حالانکہ سب بات غلط ہوتی ہے۔ وہ آئیں گے تو وہ بھی اسی طرح کریں گے۔پہلے آئیں گے تو وہ بھی اسی طرح کریں گے ملک اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا تو اقتصادی حالت کا جب تک علاج نہ ہو اُس وقت تک کچھ نہیں بن سکتا۔
اِس طرح اقتصادی مشکلات کے دور ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کی مصنوعات کو زیادہ استعمال کیا جائے لیکن جو ہندوستان سے ہمارے احمدی آتے ہیں میں ان سے ہمیشہ یہ بحث کرتا ہوں۔وہ کہتے ہیں دلّی میں،آگرہ میں،الٰہ آباد میں، کلکتہ میں،بمبئی میں ہر جگہ پر ہم گئے ہیں اور جب وہ چیز جو ہم کو عادت تھی انگلستان اورامریکہ کی خریدنے کی۔ہم بازار میں گئے ہیں تو انہوں نے کہا ہے وہ نہیں مل سکتی۔ہندوستان کی ہے۔اور انہوں نے کہا یہاں آکے پوچھ تو پاکستان کی بھی نہیں ملتی۔ اور انگلستان کی بھی نہیں ملتی او رمیں نے یہاں تاجروں سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں اگر اُس کو کہہ دیں کہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے تو پھر وہ ناک چڑھا کر چلا جاتا ہے کہ یہ تو نہیں لینی اور پھر کہتے ہیں ملک ترقی کرجائے۔ جب تک ملی مصنوعات کو فروغ نہ دیا جائے گا۔جب تک ملکی مصنوعات کو نقصان اٹھا کر بھی استعمال نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک نہ ہمارے کارخانے مضبوط ہوں گے نہ ہماری تجارتیں مضبوط ہوں گی،نہ ہماری صنعتیں مضبوط ہوں گی اور نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہوگی۔ سال میں دوارب چار ارب ہم نے غیرملکوں سے سَودا منگوایا تو ہم اُن کے مقروض رہیں گے اُن کے برابرکس طرح جائیں گے۔جو ہماری دولت ہے،ہماری کپاس ہے،ہماری جیوٹ ہے وہ تو ساری قرضوں کے ادا کرنے پر لگ جاتی ہے اُن عیاشیوں کے بدلہ میں جو باہر سے آتی ہیں لیکن جتنے آزاد ممالک ہیں اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یا تو اپنی مصنوعات استعمال کریں گے یا نیم مصنوعات استعمال کریں گے۔یہ ایک اقتصادی اصطلاح ہے یعنی بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ملک پوری نہیں بناسکتا تو اس کے لئے انہوں نے نیم مصنوعات کا طریقہ رکھا ہے کہ پھر ہم اُس کو ترجیح دیں گے جس کا کچھ نہ کچھ حصہ ہمارے پاس بناہوا ہوگا۔ مثلاً ایک ٹنکچر ہے ٹنکچر بنتا ہے کچھ دوائی کو ایک خاص مقدار میں سپرٹ میں ڈال کے کچھ دن رکھنے سے۔ ہلانے سے جب وہ اُس کے اندر اتنا رچ جاتا ہے جتنا کہ وہ سپرٹ برداشت کرسکتا ہے تو وہ ٹنکچر کہلاتا ہے۔ تو اب بنایا ہوا ٹنکچر وہاں سے آئے گا تو وہ بھی ایک مصنوعہ ہے اور یہاں ہم دوائی منگالیں اور سپرٹ اپنے ملک کا لے کر بنا لیں تو یہ اپنے ملک کی نیم مصنوعات ہوگی۔سپرٹ ہم نے اپنالے لیا، کیمیکل وہاں سے لے لیا او ران کو ہلایا۔جو مزدوری ہوئی وہ ہماری ہوئی۔اس کے نتیجے دو ہوں گے ایک تو یہ کہ دوائی کا نفع ہمارے ملک میں رہے گا۔دوسرے دوائی بنانے میں اُن کو اکٹھا کرنے میں جو مزدوری تھی وہ ہمارے ملک کی ہوگی اِس طرح آدھا نفع ہم لیں گےآدھا باہر کے لیں گے۔ تو جو نیم مصنوعات کہلاتی ہیں وہ بھی ہمارے ملک میں لوگ بنا لیں کہ یہ بھی ہمارے ملک کی نیم مصنوعات میں سے ہیں توچھوڑدیں گے فوراً اور پھر شکایت ہوگی کہ ہمارا ملک غریب ہوگیا،غریب ہوگیا۔ امیر کس طرح ہوجائے؟تم دولت دوسروں کو دینا چاہتے ہو،تم اپنے گھر کا مال باہر لُٹا دو تو تمہارا مال ختم کیوں نہ ہوگا۔
تو پاکستان کی کمزوری میں سب سے بڑا دخل اِس کا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ پاکستان کی مصنوعات کو استعمال نہیں کرتے۔اپنے بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔اپنی ضرورتوں کو اس طرح پھیلانا چاہتے ہیں جس طرح فراوانیٔ دولت کے وقت میں پھیلائی جاتی ہیں اور پھر الزام حکومت پر لگانا چاہتے ہیں۔یہ ساری باتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔ جب تک یہ جمع رہیں گی پاکستان کمزور رہے گا،جب تک یہ جمع رہیں گی پاکستان کی حکومت اَن سٹیبل(UN-STABLE) رہے گی اُس میں طاقت نہیں آئے گی اور جب یہ سب کچھ سہہ کے ان کو گالیاں دیں گے تو وہ اور زیادہ گھبرا جائیں گے۔جب ایک شخص دیکھتا ہے کہ کام انہوں نے جو کرناتھا کرتے نہیں ہمیں گالیاں دے رہے ہیں تو وہ اور زیادہ نروس ہوجاتا ہے اور گھبرا کے کام اور خراب کردیتاہے۔
بُری باتوں کی اشاعت کو روکو
ایک مصیبت پاکستان پر یہ ہے کہ دوسرے مذاہب میں تو وہ تعلیم موجودنہیں لیکن پھر
بھی وہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ ہمارے اسلام میں وہ تعلیم موجود ہے لیکن مسلمانوں نے اس تعلیم کو بھلا دیا ہے۔اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر زید کو تم چوری کرتے ہوئے دیکھو تو کہو زید نے چوری کی یہ نہ کہو اس قبیلہ نے چوری کی ہے۔اُس قبیلہ نے نہیں کی زید نے کی ہے۔تمہارا حق ہے کہہ دو زید نے چوری کی ہے۔ اوّل تو وہ اِس کے لئے بھی شرطیں لگاتا ہے کہ تم کو کہنے کا فلاں فلاں صورتوں میں حق ہے ورنہ اِس کا بھی حق نہیں تم چوری کرتے ہوئے دیکھو پھر بھی نہیں کہہ سکتے لیکن ہمارے ملک میں یہ دستور ہے کہ اگر کسی شخص سے دو افسروں نے رشوت لے لی تواَب وہ جہاں بیٹھے گا کہے گا۔ پاکستان کا افسر کیا ہرآدمی رشوت لیتا ہے جی۔وزیراعظم چھوڑ، گورنر جنرل چھوڑ، دوسرے وزیر چھوڑ، ڈپٹی کمشنر،کمشنر یہ سارے کے سارے ہی رشوت لیتے ہیں۔اب اس سے پوچھو کہ کتنی دفعہ تیرا معاملہ گورنر جنرل سے پڑا تھا؟کتنی دفعہ تیرا معاملہ وزیروں سے پڑا تھا؟کتنی دفعہ گورنرکی صحبت میں تُو گیا تھا؟کتنی دفعہ فنانشل کمشنر کے ساتھ تیرا واسطہ پڑا تھا؟کتنی دفعہ کمشنروں کے ساتھ تیرا واسطہ پڑا تھا؟کتنی دفعہ انسپکٹر جنرل کے ساتھ پڑا تھا؟ تُو نے تو شکل بھی نہیں دیکھی اُن کی نہ اُن سے ملنے والوں کا تُو واقف ہے تجھے کس طرح پتہ ہے کہ سارے رشوت لیتے ہیں۔بس ہر مجلس میں بیٹھے ہوئے یہ کہا اور باقی ساری کی ساری مجلس کہے گی بس ٹھیک ٹھیک۔تم نے ٹھیک کہا ہے۔ٹھیک ہے، یہی بات ہے۔اب سارے کے سارے گالیاں دے رہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ 2جو شخص یہ کہے کہ اس قوم میں یہ خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں توقوم تو نہیں تباہ ہوئی اِس نے اُن کو تباہ کیا ہے یعنی اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تباہ ہوجائیں گی۔تو باوجود اِس علم کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے پھر اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہر مجلس میں بیٹھے ہوئے ساروں کے ساروں کو بدنام کرنا شروع کردیتے ہیں کہ سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت تو یہ بھی جائز نہیں قرار دیتی کہ جس سے تمہیں نقصان پہنچا ہے اُس کے متعلق بھی تم آزادانہ اور اونچی آواز سے بولو سوائے خاص حالات کے۔ اور نتیجہ اِس کا یہ ہوتا ہے کہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ سب حکومت سے بدظن ہوجاتے ہیں۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ جو نوجوان یہ باتیں سنتے ہیں وہ کہتے ہیں جب ہمارے سارے ہی بزرگ بے ایمان ہیں تو ہم کیوں بے ایمان نہ رہیں ہم اُن سے بڑھ کر بے ایمان بنیں گے۔تو ساری قوم کا کیریکٹر تباہ ہوجاتا ہے۔جو بے ایمان نہیں اُن کے اوپر غلط الزام لگائے جاتے ہیں اور دوسروں کو اُن سے بدظن کیا جاتا ہے اور جو ابھی اس بے ایمانی کے مقام پرنہیں پہنچے اُن کو اِسی وقت سے سکھایا جاتا ہے کہ بے ایمانی اتنی عام ہے کہ اس میں تم بھی ہاتھ دھوؤ تو کوئی بڑی بات نہیں۔
مجھے یاد ہے میں جوان تھا جب میں ایک دفعہ حضرت خلیفۂ اوّل کے زمانہ میں لاہور سے قادیان ریل میں جارہا تھا۔بٹالہ تک ریل تھی ۔اُس وقت اتفاق کی بات ہے اُس کمرہ میں تین چارریلوے کے افسر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک میں تھا او رکوئی بھی نہیں تھا۔ایک اُن میں سے رٹیائرڈ افسر تھا جس کو وہ سارے جانتے تھے باقی سارے سروس میں تھے وہ اس کو جانتے تھے تو کہنے لگے آپ کو بڑا موقع خدا نے دیا ہے۔(ہندو تھے وہ)۔خدا نے بڑا اچھاموقع دیا ہے آپ سے ملاقات کا،آپ کے تجربہ سے ہم کو فائدہ اٹھانا چاہے۔آپ ہمیں کوئی مشورہ دیجئے کہ کس طرح ہمارے پیشہ میں اور ہمارے اِس کام میں ترقی ہوسکتی ہے؟کہنے لگے جی بات تو اصل میں یہ ہے کہ زمانے زمانے کی بات ہوتی ہے ہمارے زمانہ کا افسر ہوتا تھا بڑا شریف۔اب تو بڑے گندے لوگ ہوگئے ہیں اب تو وہ بات ہی نہیں رہی جو اُس وقت ترقی کے مواقع تھے وہ اب نہیں ملتے۔کہنے لگے اچھا جی کیافرق تھا؟کہنے لگے دیکھو میں تمہیں بتاؤں فرق۔تمہاری تنخواہیں شروع ہوتی ہیں اب پچاس ساٹھ سے۔ہماری تنخواہیں شروع ہوتی تھیں پندرہ روپیہ سے۔تو جب میں نوکر ہوا ہوں پندرہ روپے مجھے ملتے تھے۔میری ماں بڑھیا تھی باپ میرا ہے نہیں تھا تو میں دس روپے ماں کو بھیج دیتا تھااور پانچ روپے میں آپ گذارہ کرتا تھا تو تم سمجھ سکتے ہو سستا تو سماں تھا پر پانچ روپے میں آخر کیا گذارہ ہوتا ہے۔ جو میں نے کوٹ پہنا ہوا تھا وہ پیچھے سے پھٹ گیا اور اُس میں سوراخ ہوگئے۔تو سٹیشن ماسٹر انگریز ہوتا تھا امرتسرکا۔(امرتسر میں مَیں تھا)وہ آیا اور مجھے دیکھ کے کہنے لگا اِدھر آؤ لڑکے تم نے یہ کوٹ پھٹا ہوا کیوں پہنا ہے؟ میں نے کہا صاحب میرے پاس توفیق نہیں نئے کوٹ کی۔پندرہ روپے تو مجھے تنخواہ ملتی ہے۔ میری ماں بیوہ ہے دس روپے میں اُس کو بھیجتا ہوں پانچ روپے میں گذارہ کرتا ہوں۔روٹی بھی اس میں کھانی، کپڑے بھی ۔کوٹ کہاں سے بنواؤں؟ کہنے لگا وہ بڑی حقارت سے مجھے دیکھ کر کہنے لگا میرے تمہارے متعلق بڑے اچھے خیالات تھے اور میں سمجھتا تھا تمہاری رپورٹ کروں ترقی کی۔لیکن معلوم ہوا تم بڑے جاہل آدمی ہو،بڑے احمق ہو۔ میں نے کہا کیوں صاحب! میرا اس میں کیا قصور ہے؟کہنے لگا بولو یہاں امرتسر سے کتنا مال روزانہ گذرتا ہے؟ میں نے کہا جی پچاس ساٹھ لاکھ کا گذر جاتا ہوگا۔ کہنے لگا نہیں اِس سے بھی زیادہ گذرتا ہے۔کہنے لگا تم نے کبھی دیکھا ہے دریاؤں پر تم ہندو جاتے ہو جمنا اور گنگا میں جاکے اشنان کرتے ہو کہ پاپ جھڑتے ہیں اور برکتیں ملتی ہیں تو جب تم اس میں ہاتھ دھوتے ہویا نہاتے ہو گنگاکا پانی کم ہوجاتا ہے؟اُس نے کہا نہیں جی۔کہنے لگا اگر تمہارے نہانے سے گنگا کا پانی کم نہیں ہوتا تو یہ جو ایک کروڑ روپیہ کا روز مال گذرتا ہے اِس میں سے اگر تم پچاس روپے نکال لوگے تو کوئی مال میں کمی آجائے گی۔تو میں تو سمجھتا تھا تم عقلمند ہو۔معلوم ہوا تم بڑے جاہل آدمی ہو گنگا بہہ رہی ہے اور تم اپنا کوٹ پھٹا ہوا پہنے ہو۔کہنے لگا جی بس۔جب افسر نے یہ کہا تو پھر ہم نے ہاتھ رنگنے شروع کئے۔ تو اُس وقت کا افسراتنا شریف ہوتا تھا پر اب تو ذرا ذرا سی بات پر پکڑ لیتے ہیں۔ یہی کچھ حالت آجکل کی بن گئی ہے یعنی شرافت جو ہے وہ نام ہوگیا ہے بے ایمانی کا۔بیوقوفی نام ہوگئی ہے شرافت کا اور ایمانداری کا۔
تو اگر یہ طریقہ لوگ اختیار کریں کہ اپنے ملک کی مصنوعات لیں،اپنے حکام کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ہماری جماعت میں تو خیر غریبوں کی جماعت زیادہ ہے مگر ٹیکس دینے والا کوئی بھی دیکھو۔احمدی بھی دیکھو دوسرا بھی دیکھو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ ٹیکس مجھ پر نہ لگے۔ حالانکہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم نے ٹیکس نہ دیا تو حکومت چلے گی کہاں سے۔بڑے بڑے آدمی ایسا کرتے ہیں۔
مجھے ایک شخص کے متعلق جس کا احمدیت سے تو کچھ تعلق تھا لیکن ہمارے ساتھ نہیں تھا ایک شخص نے بتایا کہ اُس کے اوپر ٹیکس کے لگنے کا سوال ہوا تو اُس نے کہامیں نہیں کتابیں دکھاتا۔تو کہنے لگا افسر نے کہا مجھے پھر اختیار ہے کہ جو چاہوں ٹیکس لگالوں۔میں نے کہا تمہاری مرضی۔ تو اُس نے اپنی طرف سے بڑا ٹیکس لگادیا یعنی ایک لاکھ روپیہ لگادیا۔ وہ کہنے لگاتاجر سے میں ملا تو اُس نے کہا ہمیں پانچ لاکھ کا نفع ہوا ہے۔ اُس نے لاکھ لگایا پر فائدہ ہی رہا۔تو اب بھلا جب ملک کی یہ منٹیلٹی (MENTALITY) ہو، یہ دماغ ہو اُس کاکہ وہ ٹیکسوں سے بچنا چاہے۔ریل کے کرائے بچائیں گے اور قسما قسم کی کوششیں کریں گے۔راشن کارڈ جھوٹے بنائیں گے غرض جس طرح بھی ہوسکے حکومت کو نقصان پہنچائیں گے او رپھر حکومت پر اعتراض کریں گے۔یہ چیز ایسی ہے جس سے پاکستان کو بڑا سخت نقصان پہنچ رہا ہے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
پھر افغانستان نے بھی اپنا معاہدہ جو انگریزی زمانہ میں تھا سب توڑ ڈالا ہے اب خطرہ ہے کہ نئے سرے سے معاہدہ میں وہ نئی نئی شرطیں لگائیں گے کہ یہ ملک ہم کو دے دو ،یہ علاقہ دے دو۔ انہوں نے دیکھا کہ ہندوستان کے ساتھ آجکل ان کا کچھ بگاڑ ہورہا ہے تو انہوں نے سمجھاکہ ہمارا بیچ میں فائدہ ہے۔چلتے چلتے ہم بھی اِس جگہ سے فائدہ اٹھالیں۔یہ ایک اَور مصیبت ہمارے ملک کے لئے پیدا ہوگئی ہے۔اِدھر ہندوستان نے اس خبر سے جو پتہ نہیں ملے گا کہ کچھ نہیں ملے گا وہ پہلے ہی پہل ابھی ملاہے نہیں اور ہندوستان میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں پاکستان کے خلاف کہ امریکہ سے انہوں نے مدد لینی ہے اور اعلان یہ ہوا ہے کہ تین کروڑ کی ابھی تازہ مدد انہوں نے اِسی پندرہ روز کے اندر لی ہے تو آپ تین کروڑ لے کے بھی ان کو کوئی حرج نہیں ہوا۔ لیکن امریکہ کے وعدے پر کہ ان کو مدد ملنی ہے وہاں جلسے ہورہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جوش پیدا کیا جارہا ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو جوش میں پاکستان سے لڑائی کر بیٹھیں گے اور یا پھر وہاں کے مسلمانوں کو لُوٹنا شروع کردینگے۔ وہاں کے مسلمانوں کی حالت نہایت خطرناک ہے لوگ جوش میں آتے ہیں تو کوئی پوچھتا نہیں۔ ابھی وہاں کیس ہوا الٰہ آباد میں۔ ایک ہندو اخبار نے نہایت گندی گالیاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیں اور جب اس کے اوپر مسلمانوں نے مظاہرہ کیا اور جلوس نکالا تو اُن کو پکڑ کے جیل خانہ میں ڈال دیا گیا۔وہ گالیاں دینے والے سب آزاد پھر رہے ہیں۔ تو اِس قسم کے حالات جو مسلمانوں پر گذر رہے ہیں وہاں ۔ان کے لحاظ سے ڈر پیدا ہوتا ہے کہ یہ حالات جو ہیں یہ کسی وقت تصادم کا موجب بن جائیں اور خرابیاں پید کردیں۔
اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کیلئے دُعائیں کرو
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ ان میں سے کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ جن کے متعلق ہم کچھ
نہیں کرسکتے اُن کےمتعلق ہماری دعا کا خانہ خالی ہے۔ہمارے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کم سے کم ہم دعا تو خداتعالیٰ سے کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دوسرے مسلمانوں کی مصیبت دور کرے۔ مثلاً ہماری یہ تو طاقت نہیں کہ سویز سے افواج اٹھا کے انگریزوں کو باہر پھینک دیں،ہماری یہ تو طاقت نہیں کہ عراق کو روس کے حملہ سے بچا لیں لیکن ہماری یہ تو طاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے فریاد کریں کہ خدایا !یہ مسلمان ممالک ہیں تین سو سال کی غلامی کے بعد تُو نے ان کو آزادی کا سانس دینا شروع کیا تھا او رساتھ ہی ہماراگلا گھونٹنا شروع ہوگیا ہے تُو ہماری مدد کراوران ملکوں کوبچا۔ہمیں نہیں اِن چیزوں کا علاج نظر آتا لیکن خدا کو تو علاج نظر آتا ہے، وہ تو غیب کو جانتا ہے۔ اُس کو تو پتہ ہے کہ آگے کو کیا ہونے والا ہے۔ ہمیں چونکہ نہیں پتہ ہم اپنے موجودہ حالات سے قیاس کرکے کہتے ہیں یہ لاعلاج چیز ہے مگر وہ آئندہ کے حالات کو جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے بیسیوں قسم کے علاج پیدا ہوجانے والے ہیں وہ اُن کو کرسکتا ہے۔ تو ہماری جماعت کو اپنی دعاؤں میں اسلامی ممالک کی مصیبتیں اور جو پاکستان کی مصیبتیں ہیں اُن کو یاد رکھنا چاہئے۔
مجھے یاد ہے1948ء میں مَیں نے کشمیر کے لئے ایک سفر کیا۔پشاور تک گیا۔پشاور میں مَیں نے یہ ارادہ کیا کہ میں ڈاکٹر خان اور غفار خان سے ملوں کیونکہ اُن کے تعلقات شیخ عبداللہ شیر کشمیر سے بہت زیادہ ہیں۔ میرے بھی تعلقات تھے تو میں نے درد صاحب کو بھیجا عبدالغفار خان کے پاس کہ میں نے آپ سے ملنا ہے۔ تو اُس نے کہا کہ جس وقت مجھے کہیں میں آجاتا ہوں۔اُس کی چونکہ پوزیشن زیادہ تھی چاہے وہ وزیر نہیں تھا لیکن پہلے میں نے اپنا آدمی اُس کے پاس بھیجا۔جب درد صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ غفار نے کہا ہے کہ جہاں چاہیں او رجس وقت کہیں میں آجاتا ہوں تو پھر میں نے ڈاکٹرخان کے پاس آدمی بھیجا۔میں نے سمجھا یہ تو اُس سے چھوٹا ہے اِس کو بعد میں کہنے میں کوئی حرج نہیں۔اُس کو کہلا کے بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور غفار خاں نے بھی کہا ہے کہ جس وقت چاہیں میں آجاؤں گا تو آپ بتائیے آپ اگر آسکیں تو کوئی وقت مقرر کردیں لیکن پتہ لگاکہ ڈاکٹر خان ذرازیادہ ہوشیار آدمی ہے۔ وہ سن کے کہنے لگا(میں سمجھتا تھا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی وزارت کی وجہ سے وہ سمجھتاہے میری ہتک ہے مگر عذر اُس نے یہ کیا کہ کہا)دیکھئے درد صاحب! میں تو خود شائق ہوں،ملنے کا شوقین ہوں پر آپ جانتے ہیں پٹھانی روح جو ہوتی ہے ہمارے کچھ قواعد ہیں اُن کے خلاف ہوجائے تو قوم میں میری تو ناک کٹ جائے گی۔اب میں اُن کے پاس جاؤ ں گاتو وہ میری مہمان نوازی میں کچھ قہوہ میرے آگے رکھ دینگے۔میری ساری قوم کہے گی بے شرم! مہمان وہ تیرے تھے تو قہوہ تم اُن کے گھر پی کے آئے اِس لئے میرے لئے مجبوری ہے میری ذلت ہوجاتی ہے اور اگر وہ تکلیف اٹھا کے یہاں آجائیں او رمیں قہوہ کی اُن کے آگے پیالی رکھوں تو پھر میں قوم سے آکے کہونگا میں نے مہمان کی عزت کی اور اُس کو قہوہ پلایا۔ خیر درد صاحب تو مایوس ہوگئے میں نے کہا کوئی حرج نہیں میں نے کام کرنا ہے کوئی بات نہیں میں چلا جاؤ نگا چنانچہ میں نے کہا کہ اب غفار کی دقت ہے کہ وہ بھی آجائے گا کہ نہیں کیونکہ وہ تو اب اصل لیڈر اپنے آپ کو سمجھتا تھا مگر اِس معاملہ میں وہ خان سے زیادہ اچھا ثابت ہوا۔ اُس نے کہاکوئی پروا نہیں۔آجکل میری لڑائی ہے بھائی سے۔مگر میں آجاؤں گا۔چنانچہ موٹر ہم نے بھیجا وہ کوئی پندرہ میل پرے پر تھا وہاں سے وہ آگیا۔ میں اِدھر سے چلاگیا۔ کوئی چھ سات میل پر ڈاکٹرخان کی کوٹھی تھی وہاں پہنچے۔دونوں بھائی اور میں بیٹھ گئے۔میں نے اُن کے آگے یہ سوال رکھا کہ خان صاحب! آپ بتائیے۔ڈاکٹر خان کو مخاطب کرکے میں نے کہا آپ یہ بتائیے کہ پاکستان پر جو یہ مصیبت آئی ہوئی ہے کشمیر کی وجہ سے ہےکیا اب کشمیر اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائےتو پاکستان بچ سکتا ہے؟ کہنے لگے نہیں۔میں نے کہا تو پھر ہمیں کچھ کرنا چاہئے۔ڈاکٹر خان نے کہا ٹھیک ہے ہمیں کچھ کرنا چاہئے مگر وہ جو تھے عبدالغفار خان وہ چُپ رہے۔ میں نے پھر سمجھا کہ اصل کُنجی تو ان کے پاس ہے اگر یہ نہیں بولتے توکوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر میں اُن سے منہ پھیر کے عبدالغفارخان کی طرف مخاطب ہوا۔ میں نے کہا غفار خاں صاحب! آپ نہیں بولے!کہنے لگے آپ جو بات کررہے ہیں ٹھیک ہے۔ میں نے کہا نہیں آپ کی رائے کے بغیر تو کچھ نہیں بن سکتا۔یہاں اِس ملک میں تو آپ کا رسوخ ہے۔ کہنے لگے تو پھر میری رائے تو یہی ہے کہ کشمیر نکل گیا تو مسلمان مارے گئے۔ باقی رہا کرنے کا سوال سو میں نے کیا کرنا ہے مجھے تو پاکستان گورنمنٹ اپنا باغی سمجھتی ہے تو باغی نے کیا کرنا ہے۔میں نے کہا یہ تو بات نہیں اگر آپ واقع میں خدمت کریں گے تو اگر آپ کو وہ باغی سمجھتی ہے تو نہیں سمجھے گی پھر کہے گی مجھ سے غلطی ہوگئی ہے تو یہ تواُس وقت تک کی بات ہے نا جب تک آپ کچھ کرتے نہیں۔ اگر آپ نیک کام کریں گےپاکستان کو اس سے فائدہ پہنچے گا تو سارے آپ کو سر پر اٹھائیں گے۔کہنے لگے نہیں آپ کو نہیں پتہ جو میرے ساتھ انہوں نے کیا ہے۔میں نے خود تجویز کی جس وقت یہ اختلاف ہوا تو میں نے کہا کہ میں عبداللہ کو پکڑ کر لاسکتا ہوں اور اُس کو ٹھیک کرسکتا ہوں۔ میں کننگھم صاحب سے ملا اور کہا کہ قائداعظم سے یہ بات کرو تو انہوں نے اس کے بعد مجھے یہ جواب دیا کہ ابھی کچھ ضرورت نہیں ہے جب ہوگا پھر دیکھا جائے گا او رپھر میرے پیچھے ہروقت پولیس لگی ہوئی ہے اور مجھے ذلیل کیاجاتا ہے اور خراب کیا جاتا ہے مجھے کیا ضرورت ہے۔میں نے کہا خان صاحب! آپ نے یہ تو مانا ہے کہ اگر لڑائی ہوگئی او رکشمیر ہاتھ میں نہ ہوا تو پاکستان کے لئے مشکل ہے۔میں نے کہا آپ کو پتہ ہے پاکستان بالکل چھوٹی گہرائی کا ملک ہے جو لمبا چلاگیا ہے اور حملہ ہمیشہ گہرائی پر ہوا کرتا ہے۔ہماری گہرائی بعض جگہ پر صرف چالیس پچاس میل ہے۔چالیس پچاس میل فوج ایک دن دو دن میں بھی نکل جاتی ہے۔ اگر ریتی کے پاس،روہڑی کے پاس ان علاقوں میں ہندوستانی فوجیں داخل ہوں تو پچاس ساٹھ میل میں وہ جاکے دریا کواور ریل کو کاٹ دیتی ہیں پھر کراچی اِدھر رہ جاتا ہے پنجاب اُدھر رہ جاتا ہے دونوں طرف سے کٹ جاتے ہیں۔ سپاہی ایک طرف کھڑا ہوا ہے دماغ ایک طرف پڑا ہوا ہے،روپیہ ایک جگہ پر پڑا ہوا ہے، ہتھیار ایک جگہ پر پڑے ہوئے ہیں سب کام ختم ہوجاتے ہیں۔ کہنے لگے ہاں ٹھیک۔میں نے کہا تو پھر ایسی خطرناک حالت میں تو یہ بات تو نہیں کرنی چاہئے کہ فلاں میرا مخالف ہے فلاں مخالف ہے۔میں نے کہاآپ یہ تو بتائیے کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ لیگ مخالفت کرتی ہے یا دوسرے لوگ مخالفت کرتے ہیں آپ یہ بتائیں کہ اگر خدانخواستہ ہندوستانی فوج پاکستان میں داخل ہوجائے تو وہ لیگ کے آدمیوں کو مارے گی یا عوام الناس کو مارے گی ؟یا مارے گی کہ نہیں؟تو اِس پر بے ساختہ ہو کر ہو کہنے لگے کہ اب کے وہ داخل ہوئی تو ایسا مارے گی کہ مشرق پنجاب بھول جائے گا۔میں نے کہا کس کو مارے گی؟کہنے لگے یہ تو صاف بات ہے کہ عوام الناس کو مارے گی۔ بڑے آدمی تو بھاگ جائیں گے اِدھر اُدھر،روپے والے لوگ ہیں کوئی ہوائی جہاز میں بھاگے گاکوئی کسی طرح بھاگ جائے گا۔عوام الناس مارے جائیں گے۔میں نے کہا اب آپ یہ بتائیے کہ پندرہ سال تک آپ کو مسلمان ہار پہناتے رہے ہیں، آپ کو بادشاہ کہتے رہے ہیں،آپ کو اپنا سردار کہتے رہے ہیں وہ عوام الناس تھے یا یہ بڑے بڑے لوگ تھے جو آپ کے مخالف ہیں؟کہنے لگے نہیں عوام الناس تھے۔میں نے کہا تو پھرپندرہ سال انہوں نے آپ کو ہار پہنائے آج آپ اُن کے قصور کی وجہ سے نہیں لیگ کے کچھ لیڈروں کی وجہ سے کہتے ہیں ان کومرنے دو اور اُن کی عورتوں کو مرنے دو اور اُن کے بچوں کو مرنے دو یہ انصاف ہے؟کہنے لگے انصاف تو نہیں ہے مگر انہوں نے مجھے بڑا دِق کیا ہے اِس لئے میں نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا ایک اَورنقطہ نگاہ سے میں آپ کو سمجھاتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جو کہ چالیس سال سے پتھر کھارہی ہے میں نے آپ کئی دفعہ پتھر کھائے،آپ ہی کے وطن میں پٹھانوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا۔میں نے کہا مجھے تو پتھر پڑے اور آپ کو پھول پڑے۔میں اِس نازک وقت میں اُن پتھروں کو بھی بھولنے کے لئے تیار ہوں اور آپ اِس نازک وقت میں اپنے پھول بھی یاد کرنے کے لئے تیار نہیں!! بتائیے یہ انصاف ہے؟ پھر دو منٹ خاموش رہا اور اس کے بعد کہنے لگا میں اپنے دل میں اِس وقت کوئی کام کرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ میں نے کہاپھر آپ کا اور میرا اتنا اختلاف ہے کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم آگے بڑھ نہیں سکتے اور میں اٹھ کر چلاآیا۔ توحقیقت یہ ہے کہ اس نازک دور میں ہمارے لئے ایسے سخت حالات ہیں کہ اُن کا قیاس کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس روپیہ کم ہے سامان کم ہے۔ہمارے پاس آدمی کم ہیں اگر خدانخواستہ کوئی صورت اختلاف کی پیدا ہوجائے تو اس میں بڑے نقائص ہیں لیکن کم سے کم ہم دعائیں تو کرسکتے ہیں۔یہ نہ سمجھو کہ کسی اَورپر مصیبت آئے گی۔ جب اِدھر کوئی مصیبت پیدا ہو تو وہ بھی تم پر آئے گی اُدھر ہو وہ بھی تم پر آئے گی کیونکہ تم نکّو ہو۔وہ ہندوستانی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ساری خرابی انہی کی ہے۔ یہ پاکستان بنوایا تو احمدیوں نے بنوایا۔اگر پاکستان کو مضبوط کرتے ہیں تو احمدی کرتے ہیں۔اگر پاکستان کو طاقت دیتے ہیں تو یہی دیتے ہیں۔ ان کو بھی یہی خیال ہے۔تم یہ نہ خیال کرلینا کہ تمہاری اِدھر کی مخالف کی وجہ سے وہ تم کو بھول جائیں گے وہ سب سے پہلے تم پر ہی حملہ کریں گے اِس لئے تمہارا فرض یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بچائے، ساتھ اس کے ہم کو بھی بچائے تاکہ شرسے مسلمان محفوظ رہ کے وہ جو خدا تعالیٰ نے عزت اور ترقی کی طرف مسلمانوں کا قدم اٹھایا ہے وہ آگے بڑھتا چلاجائے اور اس میں کوئی خلل نہ پیدا ہو۔
صحیح مشورہ دیا کرو
دوسرا علاج صحیح مشورہ ہے اور یقینا اس کا اثرہوجاتا ہے۔ دیکھو حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں لڑائی تھی کوئی
معمولی لڑائی تو نہیں تھی۔اسلام کے اتنے قرب کے باوجود دونوں لشکرلئے ہوئے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے تیار پھرتے ہیں مگر جب روما کے بادشاہ نے یہ لڑائی دیکھ کرفیصلہ کیاکہ وہ آپ ان پر حملہ کرے تو اُس نے اپنے افسروں سے مشورہ کیا۔ سارے جرنیلوں نے کہاکہ بڑا عمدہ موقع ہے۔ان میں لڑائی ہے حملہ کردو۔اُن کا جو بڑا بشپ (پادری) تھا وہ بڑا ہوشیار تھااُس نے کہا بادشاہ! میں تمہیں ایک سبق دیتا ہوں اِس کو دیکھ لو اور پھر خیال کرلینا۔کہنے لگا ذرا دو کُتّے منگوائیے بڑے تیز تیز اور شیر منگوائیے۔کُتّے منگوا کر کہنے لگا ان کو ذرا فاقہ دیجئے اور کل میرے سامنے ان کو لایا جائے۔کُتّے بلوائے،فاقے دے کر اُن کے آگے پھینکا گوشت۔پس گوشت پھینکا تو دونوں کُتّے اُس پر جھپٹے۔ ایک اُس کو مارے اور دوسرا س کو کاٹے اور بہت بُری طرح لہولہان کردیا۔اُس نے کہا اب شیر چھوڑ دو۔ شیر جو پنجرے میں سے اُس جگہ پرسے گذرا تو معاً آتے ہی اُن کی لڑائی چَھٹ گئی اور دونوں کُتّے ایک دائیں ہوگیااور ایک بائیں ہوگیا۔ وہ اِدھر جھپٹے۔جب وہ اِدھر منہ کرے تو پیچھے سے وہ کاٹ لے۔ جب وہ اُدھر منہ کرے تو وہ کاٹ لے۔بُرا حال شیر کا کردیا۔تو وہ تو خیر دشمن تھا اُس نے مسلمانوں کی گندی مثال دینی تھی۔کہنے لگا علیؓ اور معاویہؓ والی یہی مثال ہے۔ یہ لڑ تو رہے ہیں پر آپ گئے نا تو انہوں نے اکٹھے ہوجانا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ مسلمان کیریکٹرا ُس وقت تک اتنا مضبوط تھا کہ وہ اسلام کی خاطر اپنے بڑے سے بڑے اختلاف کو بُھول سکتا تھا۔لیکن بادشاہ نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اورفوج کو موبے لائز(MOBILIZE)کرنے کا حکم دے دیا۔ جب رومی فوج کے موبے لائز(MOBILIZE)ہونے کی اطلاع اسلامی ملک میں پہنچی تو حضرت معاویہ ؓنے اُس کو خط لکھا۔انہوں نے لکھا میں نے سنا ہے کہ تم اسلامی ملک پر حملہ کرنا چاہتے ہو اور یہ جرأت تم کو اِس وجہ سے ہوئی ہے کہ میں علیؓ سے لڑرہا ہوں لیکن میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری فوجوں نے اسلامی ملک کا رُخ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علیؓ کی طرف سے تم سے لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا۔3 اُسی وقت مَیں اختلاف چھوڑ کر علیؓ کی اطاعت کرلو ں گاا ور اُس کی طرف سے لڑنے کے لئے نکلوں گا۔بادشاہ ڈر گیا اُس نے کہا بطریق والی بات ٹھیک ہے۔
تو ہمارے لئے اِس قسم کے مصائب اور مشکلات پیش آرہے ہیں اور اُس کی حفاظت جو ہے وہ خداتعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائی ہے۔ دردِ اسلام کی ہمارے دلوں میں اُس نے جگہ رکھی ہے۔ پس اسلام کا درد تمہیں پیدا کرنا چاہئے او رہمیں اِس کا ہمیشہ لحاظ کرنا چاہئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہم دیکھتے ہیں اُن کے دل میں ہمیشہ دردِ اسلام تھا۔ایسی باتوں پر بڑی نرمی اور بڑی محبت سے کام لیتے تھے۔یہاں ایک غیراحمدی صاحب کچھ تحقیقات کے لئے پٹھانوں کی طرف سے آئے۔کوئی پانچ سات دن ہوئے مجھے ملے تو کہنے لگے مجھے یہاں بعض احمدی نوجوان ملے اور انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لوگ تو یہودی ہیں اِس سے ہمارے دل کو بڑی تکلیف ہوئی ہے۔ میں نے کہا بات اصل میں یہ ہے کہ آپ بھی اپنے بھائی سے کبھی لڑتے ہیں تو اُسے کہہ دیتے ہیں چل دیّوث! چل یہودی! انہوں نے تو ہمارے پانچ آدمی مارے ہیں۔اگر کسی نوجوان نے غصّہ میں کہہ دیا تو آپ کو یہ بھی تو خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے تو پانچ مرے ہوئے تھے تو اُس نے اگر کہہ دیا تھا توتھا تو وہ بیوقوف ہی۔آپ مہمان تھے آپ کا ادب چاہئے تھا۔ پھر اُس کو یہ خیال ہونا چاہئے تھا کہ اِس طرح یہودی کہنے سے کیا بنتا ہے؟ کیا یہودی کہنے سے افغانستان تباہ ہوجائے گا؟صرف یہی ہوگا نا کہ جو افغانستان سے آیا ہوا ہے اُس کا دل دُکھے گا افغانستان کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔صرف بیوقوف نوجوان تھا آپ کو اُس کی بات کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ دیکھنا آپ کو یہ چاہئے کہ جو ذمہ وار جماعت کے ہیں وہ تو ساروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔کسی نوجوان نے اگر کوئی بیوقوفی کی بات کی تو پھر بیوقوف ہوا ہی کرتے ہیں قوم میں۔کہنے لگا ہاں میں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ یہ نوجوانوں نے کہا ہے۔ میں نے کہا تو بس پھر آپ کو اس کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں مجھ سے آکر پوچھئے میں تو دیکھو سب سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ جماعت کے لیڈروں سے ملئے وہ ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ تونہیں اِس طرح کے لفظ بولیں گے۔تو ہمارے دل میں ہر ایک شخص کی ہمدردی ہونی چاہئے اور اس ہمدردی کا نتیجہ سب سے پہلے یہ ہے کہ ہم دعاؤں میں لگے رہیں اورخداتعالیٰ سے اس کی امداد چاہیں اور جب موقع ہو تو صحیح مشورہ دیں اور صحیح مشورہ یقیناً اثر انداز ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نصیحت کرنی ہمیشہ ہی فائدہ بخش ہوتی ہے فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى4 نصیحت کر۔ یہاں اِنْ کے معنے قَدْ کے ہیں کیونکہ نصیحت سے ہمیشہ ہی فائدہ ہوتا رہا ہے۔
ملک کی حفاظت وبقاء کیلئے تیار ہوجاؤ
دوسرا ذریعہ جو ہے وہ موقع کے لئے تیار رہنے کا ہے۔ہمیں موقع
کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ہماری جماعت کو عزم کرلینا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان پر کوئی مصیبت آئی تو پھر ہم اُس وقت یہ نہیں دیکھیں گے کہ ہماری زمینیں ہیں،ہمارے کھیت ہیں،ہمارے کام ہیں،کچھ بھی ہو ہر شخص خواہ بوڑھا ہے جوان ہے وہ سارے اپنے ملک کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہونگے۔اِس طرح بظاہر تو یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے لیکن ہے یہ بڑی بات۔کیونکہ جب انسان پہلے سے ارادہ کرکے بیٹھتا ہے تو پھر اُس کو موقع پر کام کرنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ لیکن اگر موقع پر ارادہ کرنا چاہے تو ارادے او رکام میں فاصلہ ہوتا ہے لازماًوہ اتنی دیر تک وقفہ کرتا ہے جتنی دیر میں کام خراب ہوچکا ہوتا ہے۔ مسلمان ارادے کرکے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسلام کی مدد کرنی ہے ذرا سا اشارہ ہوتا تھا تو فوراً کھڑے ہوجاتے تھے لیکن آج کا مسلمان جو ہے پندرہ سال اُن کے سامنے کھڑے ہوکر تقریریں کرنی پڑتی ہیں کہ اٹھو۔شاباش۔ہمت کرو تمہارے لئے مصیبت آئی ہے اِ س کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے اندر ارادہ پیدا نہیں ہؤا۔اگر ارادے ہوتے تو نہ کسی تقریر کی ضرورت ہوتی نہ جلسے کی ضرورت ہوتی ایک اعلان ہوتا سارے نکل کھڑے ہوتے۔تو ارادہ رکھنا چاہئے اپنے دلوں میں کہ مصیبت کے وقت ہم اپنے ملک کی حفاظت کریں گے۔
اِسی طرح کشمیر کے متعلق بھی جو حالات ہے وہ ایسے سنجیدہ ہوچکے ہیں اور ایسے اہم ہو چکے ہیں کہ میرے نزدیک اُس کا زیادہ انتظارنہیں کیا جاسکتا۔حکومت کی طرف سے تو بار بار یہ اعلان ہورہاہے کہ کشمیر کا مسئلہ قریب آگیا ہے لیکن ابھی مجھے نہیں نظر آتا کہ وہ قریب آیا ہوا ہو۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ علم النفس کے ماتحت عمل کررہے ہیں اور ہم علم الاخلاق پر اپنی بنیاد رکھ رہے ہیں۔علم الاخلاق کا اثر ایماندار پر ہوتا ہے اور علم النفس کا اثر ہر بے ایمان پر بھی ہوتا ہے۔اگر کسی بات پر غصہ آتا ہے تو بے ایمان کو بھی آئے گا لیکن غصہ کو روکنا بے ایمان کے قبضہ میں نہیں وہ ایماندار ہی رو کے گا۔تو ہماری حکومت علم الاخلاق پر اپنی بات کی بنیاد رکھ رہی ہے۔یہ کہتے ہیں ہم نے اتنی لمبی قربانی کی تو اس کا اثر نہیں ہوگا؟کیانہرو صاحب مانیں گے نہیں کہ ہم نے دیکھو ایسی شرافت دکھائی۔اور وہ بنیاد علم النفس پر رکھ رہے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ایک مظلوم قوم ہے، غریب قوم ہے، غریب قوم کو جب ایک لمبے عرصہ تک آزادی نہیں ملے گی تو آہستہ آہستہ مایوس ہوجائے گی۔پھر کہے گی چلو جو اِن سے ملتا ہے وہ تو لے لو۔ تو وہ جو ترکیب اختیار کررہے ہیں وہ کامیابی کے زیادہ قریب ہے۔جو ہم طریق اختیار کررہے ہیں وہ کامیابی سے بہت بعید ہے۔ہم دوسرے کے اُن اخلاق پر بھروسہ کررہے ہیں جو اُس کو حاصل نہیں۔وہ اُن امیدوں اور اُن آرزؤوں پر بھروسہ کررہا ہے جو اُس کو حاصل ہیں تو لازمی بات یہ ہے کہ جو چیز حاصل ہے وہ مل جائے گی او رجونہیں حاصل وہ نہیں ملے گی۔
وہ تو جانے دو کشمیری تو بیچارہ ظلم میں ہے اُس کی تو بات سب جانتے ہیں۔میں بتاتا ہوں کہ اِس ملک پر بھی اس کا بُرا اثر پڑرہا ہے۔میں کوئی تین سال کی بات ہے کوئٹہ گیا۔مجھے کوئی تین چار فوجی افسر ملنے آئے۔وہ سارے کرنیل تھے خیر رسمی باتیں انہوں نےکیں کچھ اِدھر اُدھر کی کچھ کشمیر کی بھی ہوئیں۔ میں نے کہاہاں کشمیر ضرور ملنا چاہئے مسلمانوں کو۔اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔چلے گئے۔دوسرے دن پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے الگ بات کرنی ہے۔میں نے اُن کو لکھا کہ کوئی غلطی تو نہیں آپ کو لگی۔یہ کل مجھے مل کے گئے ہیں۔مجھے تین چار آدمی ملے تھے اُن میں یہ بھی شامل تھے انہوں نے کہا یہ ہیں تو وہی لیکن وہ کہتے ہیں میں اُن کے سامنے ایک بات نہیں کرسکا میں نے پرائیویٹ بات کرنی ہے۔ میں نے کہا لے آؤ چنانچہ وہ آگئے۔وہ ایک پاکستانی فوج کے اچھے ممتاز عہدیدار ہیں۔بیٹھ گئے۔میں نے کہا فرمائے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی۔کہنے لگے ہاں کل آپ کے لحاظ سے میں نے بات کی نہیں جب آپ نے کشمیر کے متعلق ہمیں توجہ دلائی لیکن میں چاہتا تھا کہ آپ سے الگ ہوکر بات کروں۔میں نے کہا فرمائیے۔انہوں نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کشمیر ہم کو لینا چاہئے اور کشمیر کے لئے ہم کو قربانی کرنی چاہئے اِس کے لئے ہمیں ہمت کرنی چاہئے یہ آپ نے کس بناء پر کہا ہے؟کیا آپ یہ بات نہیں سمجھتے کہ فوج ہندوستان کے پاس زیادہ ہے؟ میں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی فوج زیادہ ہے۔ کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی بندوقیں اُن کے پاس ہیں۔انگریز والی بندوق ہے وہی رائفل ہمارے پاس ہے۔ وہی اُن کے پاس ہےمیں نے کہا ٹھیک ہے۔کہنے لگے کیا آپ کو معلوم ہے کہ نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے اتنی بڑی جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیار کرکے دیتی ہےہمارے پاس کوئی فیکٹری نہیں؟ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ کہنے لگے کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اُن کے پاس اتنا گولہ بارود ہے جو ہمارا تھا وہ بھی انہوں نے رکھا ہواہے آٹھ کروڑ کا گولہ بارود ہم کو نہیں دیا او راُن کے پاس تو تھا ہی زائد نسبت سے؟میں نے کہا ٹھیک۔ کہنے لگے آپ کو پتہ ہے ان کے ہاں چھ سکوارڈن ہیں او رہمارے ہاں دو سکوارڈن ہیں ہوائی جہازوں کے؟میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔ کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے ہماری آمد اتنی ہے؟ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے ۔کہنے لگے جن کا لجوں میں وہ پڑھے ہیں اُنہی کالجوں میں ہم پڑھے ہیں۔ہم کسی اور کالج میں نہیں پڑھے؟میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔کہنے لگے پھر یہ بتائیے فوج ہماری کم اُن کی زیادہ، گولہ بارود اُن کا زیادہ ہمارا کم،توپیں اُن کی زیادہ ہماری کم،ہوائی جہاز اُن کے زیادہ ہمارے کم،ہم بھی اُنہی کالجوں کے پڑھے ہوئے ہیں جن کے وہ، ہمارے پاس کوئی خاص لیاقت نہیں، روپیہ اُن کے پاس زیادہ ہے ہمارے پاس کم، تو کس بناء پر آپ ہم کو کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے؟میں نے کہا آپ سے تو مجھے یہ امید نہیں تھی آپ تو اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کشمیرکے معاملہ میں بڑاا چھاکام کیا ہے۔مجھے پتہ ہے اِس کے متعلق۔آپ نے بڑا اعلیٰ کام کیا ہے اور ہمارے جو والنٹیر وہاں کام کرتے تھے اور جو آپ کے ماتحت رہے ہیں وہ تو بڑی آپ کی تعریفیں کیاکرتے تھے تو یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟اتنے مایوس ہیں آپ؟کہنے لگا ٹھیک ہے پر آپ سے پوچھتا ہوں نا کہ آپ نے کس معقولیت کی بناء پر یہ مشورہ ہمیں دیا تھا؟حالات یہ ہیں تو کوئی معقولیت ہونی چاہئے نا کہ آپ نے کیوں حکم دیا؟میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۔5 آپ مسلمان ہیں اورقرآن کہتا ہے کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں۔تو جب خداتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں تواِسی لئے کہا ہے نا کہ چھوٹے ہوکر ڈرا نہ کرو خدا کی طاقت میں ہے کہ تمہیں بڑے پر غلبہ دے دے تو اِس لئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیئے آپ تھوڑے ہیں خداتعالیٰ آپ کو طاقت دے دے گا۔ تو مسکرا پڑا مسکر ا کر کہنے لگا دینیات کی باتیں تو یہ ٹھیک ہوئیں پر دنیا میں اِس کا کیا تعلق ہے۔میں نے سمجھا یہ اس حد سے گذرا ہوا ہے۔پھر میں نے اُس کو ایک اَور جواب دیامگر وہ میرے کل کے مضمون کے ساتھ غالباً تعلق رکھتا ہے وہ اُدھر آجائے گا۔ جب میں نے دیکھا یہ دین سے تو بالکل مایوس ہؤا ہے تو میں نے کہا مجھے بڑا ہی تعجب ہے آپ پر۔ آپ کی تو اتنی تعریف میرا لڑکا کیا کرتا تھا اور دوسرے ہمارے احمدی افسر کیا کرتے تھے کہ آپ کے ساتھ ہم نے مل کر کام کیا ہے اس قدر آپ ہمت والے تھے کہ خطرے میں اِس طرح گرتے تھے جا کے کہ جس کی حد کوئی نہیں تو آپ آج اتنے مایوس ہیں؟ کہنے لگاپھر واقعات سے مایوس ہوجاتاہے انسان۔تب میں نے یہ سمجھا کہ مذہب کی دلیل تو ان پر اثر نہیں کرتی اب ان کو کوئی دوسری دلیل دینی چاہئے ۔میں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ کتنا ہی بہادر آدمی ہو اگر اُس پر دباؤ ڈال کر کچھ دیر اُس کا غصہ ٹھنڈا رکھاجائے تو ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔چونکہ پاکستان گورنمنٹ لڑنا نہیں چاہتی وہ چاہتی ہے صلح کے ساتھ کام ہوجائے تو وہ اپنے افسروں کو ٹھنڈاکرتی رہتی ہے کہ دیکھنا! جوش میں نہ آنا،جوش میں نہ آنا۔تو آپ کی روح ماری گئی اِس وجہ سے آپ کمزور ہیں ورنہ جس وقت لڑائی شروع ہوگئی تو دو چار دن میں آپ کا خون اتنا گرم ہوگا کہ جوش میں آجائیں گے۔میں نے کہاجب یہ پاریٹشن ہؤا ہے ایک دن رات کے وقت ایک فوجی افسر چھاؤنی سے میرے پاس آپہنچا نو بجے کے قریب۔مجھے بتایا گیا کہ ایک لفٹیننٹ ملنے آیا ہے۔ میں نیچے گیا رتن باغ میں۔میں نے کہا آپ کس طرح ملنے آرہے ہیں؟آپ احمدی تو نہیں ہیں؟ کہنے لگا ہاں میں احمدی نہیں ہوں۔ میں نے کہا تو یہ رات کے وقت آپ بھاگے ہوئے کہاں سے آئے ہیں؟کہنے لگا جنرل نذیر یہاں آپ کا احمدی افسر ہے اُس کو کہیں کہ مجھے فارغ کردے میں کشمیر میں لڑنا چاہتا ہوں۔میں نے کہا جنرل نذیر پاکستان کا جرنیل ہے یا میں نے اُسے مقرر کیا ہے؟میں اُسے کس طرح کہہ دوں کہ فارغ کردو؟کانپ رہا تھا اُس نے کہا اور کون سا موقع آئے گا ہمیں اپنی جانیں دینے کا۔وہاں جو اِن لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا ہے ہم فوجی دیکھ کے آئے ہیں۔اب یہی موقع ہے ہمارے لئے ہم فوجی ہیں کس لئے؟ہمیں جانیں دینے کے لئے رکھا گیاہے تو جان دینی نہیں تو ہمیں رکھنے کا کیا مطلب۔وہ بیشک فوجی افسر ہے پاکستان کا لیکن آپ اُسے کہیں وہ آپ کی بات مان لے گا آپ اُس کو کہیئے میں بھاگ جاؤں گا میرے خلاف کوئی کیس نہ چلائے پھر مرگیا تو میں مرگیا نہیں تو میں پھرآجاؤں گا مجھے صرف کشمیر جانے دیں۔میں نے کہا یہ غلط بات ہے بے اصولاپن ہے میں سرکاری افسرکو کوئی مشورہ نہیں دےسکتا۔ بس وہ کانپتا تھا،آنکھوں میں اُس کے آنسو آگئے اور کہنے لگا میں تو بڑی امید سے رات کو بھاگ کے آپ کے پاس پہنچا تھا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے بے اصولی بات میں نہیں کرسکتا۔حکومت کے انتظام میں بھی یہ بات خلل ڈالتی ہے او رہے بھی یہ عقل کے خلاف بات۔
میں نے کہا اِسی طرح میرے پاس ایک فوجی افسر آیا تھا، وہ نوجوان آدمی تھا آپ تو بڑے تجربہ کار ہیں۔کرنیل ہیں۔تو بات اصل میں یہ ہے کہ اُس وقت تو ابھی کٹی کٹی لڑائی ہورہی تھی اس کے اوپر کوئی دباؤ نہیں تھاا ِس لئے اُس کا خون جوش میں آیا ہوا تھا آپ کو ایک لمبے عرصہ تک کہا گیا تھا کہ بیٹھو بھی،ٹھہرو بھی،صبر بھی کرو۔ تو ہوتے ہوتے صبر کراتے کراتے آپ کا پارہ حرارت زیرو پر جاپہنچا۔میں نے اس کے بعد کہا میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔میں نے کہا لاہور میں ایک دعوت تھی ایک بڑا فوجی افسر مجھے ملا اور مجھے اُس نے کہا کہ میں آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہاکیا؟کہنے لگا کوئی ترکیب ایسی آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ بغیر اِس کے کہ کوئی ایک سپاہی بھی مارا جائے میں کشمیر فتح کرلوں؟میں ہنس پڑا کہ یہ کیا آپ عقل کے خلاف بات کررہے ہیں۔ جب لڑائی ہوگی تو کچھ مریں گے بھی کچھ بچیں گے بھی۔ اِس کا کیا مطلب کہ بغیر ایک سپاہی مرنے کے کشمیر فتح کرلیں؟کہنے لگا میں اِس لئے کہتا ہوں کہ میں ایک مورچے پر مقرر ہوں وہاں ایک پہاڑی اونچی تھی جس پر کہ ہندوستانی فوج تھی۔اُس وقت پاکستان اعلان کرچکا تھا کہ ہماری فوجیں آگے داخل ہورہی ہیں تو مجھے حفاظت کے لئے حکم تھا کہ اِس سے آگے ان کو نہیں بڑھنے دینا۔تو میں نے دیکھا کہ اونچی پہاڑی پر وہ قابض ہیں اور ہم ہیں نیچے اور ہر وقت اُن کے گولے پڑتے ہیں تو ہم نے فیصلہ یہ کیا کہ اس پہاڑی سے ان کو اُتارنا چاہئے ورنہ یہ آگے آجائیں گے اورہم روک نہیں سکیں گے۔چنانچہ میں نے اپنے فوجی افسروں کوبُلا کر مشورہ کیا اور ایک ہوشیار کرنیل کے سپرد کمان کی اور اندازے لگائے کہ اُس پہاڑی کے سامنے اور اُس کے اوپر کتنی فوج ہوگی۔ہوائی جہاز استعمال کرنے کی تو ہم کو اجازت نہیں تھی ہم دیکھ سکتے تھے یا فوجی سپاہیوں کو بھیج کر معلوم کرسکتے تھے۔ تو جب میں نے معلوم کیا تو جو اندازہ ہم نے لگایا تھا کہ اتنی فوج ہوگی اتنی توپیں ہوں گی اُس کے اوپر ہم نے فوج بھیج دی۔وہ آدمی بڑا اچھا ہوشیار تھا اُس نے جاکر حملہ کیا لیکن جب حملہ کیا تومعلوم ہوا کہ اُس کی پشت پر بہت زیادہ فوج پڑی ہوئی تھی او ربہت زیادہ سامان بندوق اور توپیں وغیرہ تھیں۔ بہرحال انہوں نے حملہ کردیا چوٹی کے قریب پہنچے اور بہت بُری طرح اُن کو انہوں نے دبایا اور بڑی بہادری سے حملہ کرتے ہوئے نکلے اور فائدہ یہ ہوا کہ ہماری ایک فوج جو پھنسی ہوئی تھی وہ بچ کے آگئی۔تو کہنے لگے ہندوستانی ریڈیو نے بہت شور مچایا کہ سات سَو آدمی مارا گیا ہے اور تین ہزار قید ہوگیا ہے اور یہ ہے اور وہ ہے۔کہنے لگے ہماری تو صرف ایک بٹالین تھی ہزار آدمی کی اِس میں سے سات سو مارا گیا تو زخمی ہونے اور قیدی ہونے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔کہنے لگے آرڈر آگئے۔ کمانڈر انچیف نے مجھ سے جواب طلبی کی کہ تم نے سات سو آدمی مروا دیا ہے او راتنا آدمی قید کروا دیا ہے اور رپورٹ کوئی نہیں۔میں نے جواب یہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے وہ تو روز جھوٹ بولتے ہیں اُن کی توغرض یہ ہے کہ اپنے آدمیوں کے حوصلے بڑھائیں اور ہمارے حوصلے گرائیں۔اتنی فوج نے حملہ کیا ہے اور سات آدمی کُل مرے ہیں اور قید خبر نہیں اُس نے تین چار بتائے یا کہا کوئی نہیں ہوا۔اور ہمارافائدہ یہ ہوا کہ ہماری ایک رجمنٹ جو پھنسی ہوئی تھی وہ بچ کے آگئی اوردوسرے ہم نے اُن کا بڑا سخت نقصان کیا اور اُن پر رعب قائم کیا۔چوٹی پر ہماری فوج پہنچ گئی۔ہم نے تو بڑا اچھا کام کیا ہے۔ تو کہنے لگے پھر دوبارہ اس کے اوپر مجھ سے جواب طلبی ہوئی کہ یہ بتاؤ سات آدمی کیوں مرے ہیں؟ تو اِس لئے میں پوچھتا ہوں کہ آپ وہ ترکیب بتائیے کہ کشمیر میں فتح کرلوں اورایک آدمی بھی نہ مرے۔میں نے کہا پھر یہ گورنمنٹ سے ہی پوچھومجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ تو جب میں نے یہ مثال سنائی اُس کرنیل کا چہر ہ روشن ہوگیا کہنے لگا میری تسلی ہوگئی،میں سمجھ گیا۔میں نے کہا اچھا۔اب میں حیران کہ قرآن کی آیت سے تسلّی نہیں ہوئی۔تو اِ س بات سے تسلی ہوگئی ہے۔ میں نے کہا آپ کی تسلی کس طرح ہوگئی ہے؟ کہنے لگا وہ کرنیل جس نے حملہ کیا تھا وہ میں ہی تھا او راِسی کا بُرا اثر میری طبیعت پر ہے۔تو کہنے لگا میں ہی تھا وہ حملہ کرنے والا۔ اور جب افسر کو پوچھا گیا تو مجھے بہت زجر ہوئی اور میرا حوصلہ بالکل ہی مرگیا۔میں نے کہا یہ چند دن کی بات ہے جب تک پاکستان نہیں لڑنا چاہتا وہ تم کو روکے گا۔لازماً اُس نے روکنا ہے وہ روکے گا تو سپاہیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے کہ لڑنے تو کوئی دیتا نہیں آہستہ آہستہ مایوسی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی۔
تو تیار رہنے اور ایمان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ تیار رہنے اور وقت پرجاکر ارادہ کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔تم کو اپنے نفسوں میں یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ ہماری اور عالَم اسلام کی حالت اِس وقت ایسی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے۔اگر اِس وقت فلسطین پر کوئی مصیبت آجائے یا عراق پر آجائے یا ایران پر آجائے تو اب حالت ایسی ہے کہ یا مسلمان اکٹھے مریں گے یا اکٹھے بچیں گے۔یہ وہ وقت نہیں کہ فلسطین اورایران او رمصر کو الگ الگ دیکھا جائے یا پاکستان ہے اِس کو الگ دیکھا جائے۔اگر کوئی ملک بیوقوفی کرتا ہے تو اُس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔فرض کرو وہ کہہ دیتا ہے مجھے تمہاری ضرورت نہیں تو اُس کو بِکنے دو جو بِکتا ہے تجھے ضرورت ہے ہماری اور ہمیں تیری ضرورت ہے بہرحال ہم نے اتحاد سے ہی کام کرنا ہے۔ اس ارادہ کے ساتھ جب دیکھو گے علاوہ نیک مشورہ او ردعاؤں کے تو پھر تمہارے اندر وہ صحیح عزم پیدا ہوجائے گا کہ موقع کے اوپر فوراً قربانی کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ گے۔
اِسی طرح یہ جو لوگ افسروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں تم یہ ذمہ داری اپنے اوپر لے لو کہ جہاں لاری اور ریل میں کوئی شخص بولے فوراًاُسے پکڑو او راِس طرح اُس سے سوال کرو کہ تُو بتا تُو غلام محمد گورنر جنرل کو جانتا ہے؟ تُو محمد علی وزیر اعظم کو جانتا ہے؟ تُو محمد علی فائنائنس منسٹر کو جانتا ہے؟ تُو گرمانی وزیر داخلہ کو جانتا ہے؟ تُو محمد علی وزیراعظم کو جانتا ہے؟تُو محمد علی فائنانس منسٹر کو جانتا ہے؟تُو گورمانی وزیر داخلہ کو جانتا ہے؟تُو اشتیاق قریشی کو جانتا ہے؟ تُو فیروز خان کو جانتا ہے؟ تُو مظفر خان کو جانتا ہے؟ تُو امین الدین صاحب گورنر کو جانتا ہے؟یہ کیوں کہتا ہے کہ سارے کے سارے بے ایمان ہیں؟کتنوں سے تیرا واسطہ پڑا ہے؟ کسی ایک یا دو یا چار سے تیرا واسطہ پڑا ہے تُو سارے ملک کے افسروں کو بدنام کرتا ہے؟دیکھو اتنے میں ہی یکدم پانچ سات نوجوان تمہاری تائید میں کھڑے ہوجائیں گے کہیں گے یہ بالکل ٹھیک بات ہے اور آہستہ آہستہ یہ رَو بدل جائے گی اور کسی کو جرأت نہیں ہوگی کہ ریلوں اور سڑکوں اور لاریوں میں گورنمنٹ کے خلاف اِ س قسم کا پروپیگنڈا کرے۔ اور جس وقت یہ رو بدلے گی ملک میں امن بھی پیدا ہونا شروع ہوجائے گا او رحکومت کے ساتھ تعاون کی روح بھی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
جماعت کے اخبار اور رسائل کی اشاعت بڑھانے کی تحریک
پانچویں بات میں احمدیہ لٹریچر کے متعلق کہنا چاہتا ہوں۔انسانی علم یا فیضِ صحبت سے بڑھتا ہے یا مطالعہ سے بڑھتا ہے۔
فیضِ صحبت کا زمانہ تو اب بہت ہی کم ہوگیا ہے۔پرانے زمانہ میں تو دروازوں کے آگے لوگ بیٹھ جاتے تھے اور وہ ہلتے نہیں تھے۔کہتے تھے چاہے ایک بات کان میں پڑجائے چاہے دو پڑ جائیں علم بہرحال قیمتی چیز ہے ہم بیٹھے رہیں گے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قریباً تین سال پہلے حضرت ابوہریرہؓ ایمان لائے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بڑی دیر میں ایمان لایا ہوں۔بیس بیس سال پہلے مجھ سے ایمان لائے ہوئے آدمی روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتے تھے تو مجھے یہ موقع نہیں ملا اب میں جلدی جلدی کچھ حاصل کروں۔ وہ کہتے ہیں میں نے قسم کھالی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کو نہیں چھوڑونگا۔چنانچہ میں رات اور دن بیٹھا رہتا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے تھے میں فوراً آپ کی بات سن لیتا تھا اِ س وجہ سے باقی سب صحابہؓ نے مل کر بھی اتنی باتیں نہیں سنیں جتنی اکیلے میں نے سنی ہیں۔6 تو ایک تو یہ رنگ اور شوق ہوتا ہے۔ مگر یہ رنگ اور شوق لوگوں میں کم ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صحیح مطالعہ کرے اور مطالعہ کرکے اپنے علوم کو بڑھائے یہ آجکل زیادہ آسان ہے کیونکہ مطبع نکل آئے ہیں۔ اخباریں نکل آئی ہیں ،رسالے نکل آئے ہیں، علوم کثرت کے ساتھ باہر کرتے ہیں اُن کے مطالعہ سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ آگے مطالعہ کے لئے دو قسم کا لٹریچر ہوتا ہے ایک مؤقت الشیوع او رایک انفرادی حیثیت میں شائع ہونے والا۔مؤقت الشیوع رسالے جو ہمارے ہیں اُن میں ‘‘الفضل ہے، ریویو آف ریلیجنز ہے،فرقان ہے،مصباح ہے،خالد ہے۔یہ وہ مؤقت الشیوع رسالے ہیں جن سے جماعت کے لوگوں تک سلسلہ کی آواز پہنچتی رہتی ہے لیکن باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے ابھی اِن اخباروں اور رسالوں کی وہ خریداری نہیں ہے اور اتنی اشاعت نہیں جتنی ہونی چاہئے۔ مثلاً جلسہ پر تیس ہزار کے قریب آدمی آجاتا ہے بعض دفعہ پینتیس یا چالیس ہزار تک بھی آگیا ہے۔بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا ہے لیکن‘‘المصلح’’کی خریداری بائیس سو کے قریب ہے۔ اب یہ خریداری اُس تعداد سے جو جلسہ پر آجاتے ہیں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی او رپھر جو ہزاروں ہزار آدمی باہر بیٹھا ہے،لاکھوں آدمی باہر بیٹھا ہوا ہے وہ تو اَور زیادہ ہے۔جو لوگ غیر مُلکی ہیں اُن کی زبان اور ہے اُن کو جانے دو۔جو ہمارے ملکی ہیں وہ بھی لاکھوں آدمی باہر رہ جاتا ہے تو یہ اُس نسبت سے کم ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ المصلح مثلاً روزانہ اخبارہے اِسکی قیمت زیادہ ہے۔یہ ٹھیک ہے لیکن اگر پانچ پانچ چھ چھ مل کر خرید لیں تو آپ ہی قیمت تھوڑی ہوجاتی ہے۔ فرض کرو چوبیس روپیہ قیمت رکھی ہے چھ آدمی مل گئے تو چار چار روپے ہوگیا۔چار روپے تو آجکل ہفتہ واری اخبار کے نہیں ہوتے۔پہلے بدر وغیرہ چھپتے تھے ہفتہ واری تھے اُن کی اِس چار سے زیادہ قیمت ہوتی تھی تو جماعتیں مل کے لے لیں۔چھوٹی جماعتیں آپس میں مل کے چندہ کریں اور مل کے خرید لیا کریں۔ مگر باوجود باربار توجہ دلانے کے جماعت کوپوری طرح آواز پہنچتی نہیں اور اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی نیک تحریکیں رہ جاتی ہیں۔بعض دفعہ تو میں نے یہ بھی چِڑکے کہا ہے کہ تم اخبار کسی کو دکھایا نہ کروتا کہ وہ خریدے۔ مگرکئی دفعہ میں نے یہ بھی نصیحت کی ہے مایوس ہوکر کہ اچھا تم پکڑ پکڑ کے لوگوں کو اپنا اخبار پڑھایا کرو کیونکہ دونوں دَور انسان پر آتے ہیں کبھی چِڑتا ہے انسان کہ کہتا ہے خرید لو۔ نہیں خریدتے تو نہ دو اُن کو اخبار۔پھر کبھی یہ خیال آتا ہے کہ نہ دو تو بالکل محروم رہ جاتے ہیں۔پھر میں کہتا ہوں پکڑ کے پڑھاؤ۔ تو درحقیقت مختلف دَور ہیں انسانی قلب کی کیفیت کے۔ بہرحال اِن اخباروں کاپھیلنا اور ان کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔
ریویو آف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی جب جماعت صرف چند ہزار تھی کہ دس ہزار شائع ہو مگر افسوس ہے ہم اتنی بڑی جماعت ہوگئے ہیں اور اب بھی ہم دس ہزار نہیں شائع کرسکے۔اگر دس ہزار وہ شائع ہو(ریویو آف ریلیجنز)تو اس کے اوپر ایک لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔درحقیقت اتنی بڑی ہماری جماعت کے لئے ایک لاکھ کونسی مشکل ہے۔میرے نزدیک تو سَو آدمی جماعت میں یقیناً ایسا موجود ہے جو ہزار ہزارروپیہ سالانہ دے سکتا ہے حضرت صاحب کی اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے۔لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔دس ہزار رسالہ تمام دنیا کی لائبریریوں میں جانا شروع ہو تو ایک سال میں کتنا شور پڑ جاتا ہے۔ابھی حضرت صاحب کی کتاب’’اسلامی اصول کی فلاسفی’’امریکہ میں شائع کی گئی ہے اور اس کا اثر اتنا گہرا پڑرہاہے کہ کل ہی میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ کوئی اٹھارہ بیس یونیورسٹیوں کی طرف سے اُس کے آرڈر آئے ہیں کہ ہماری لائبریریوں کے لئے بھیج دو۔دس بارہ پبلشرز کی طرف سے اسکی کچھ کاپیاں منگوائی گئی ہیں کہ ہم آپ کے ایجنٹ بننا چاہتے ہیں اس کو شائع کرنا چاہتے ہیں۔بعض بڑے بڑے پایہ کے آدمی مثلاًیونیورسٹیوں کے چانسلروں نے لکھا ہے کہ اِس قسم کی دیدہ زیب او ر اعلیٰ مضمون والی کتاب ہمارے لئے حیرت انگیز ہے۔ایک نے لکھا ہے کہ میں اپنی شیلف پر اس کو نمایاں جگہ پر رکھنے میں فخر محسوس کروں گا۔اگر ریویو آف ریلیجنز دس ہزار دنیا کی دس ہزار لائبریریوںمیں جائے اور فرض کرو پانچ آدمی بھی اس کو پڑھ لیا کریں تو پچاس ہزار آدمیوں کو ہماری تبلیغ سارے عیسائیوں اور ہندوؤں وغیرہ کو مہینہ میں پہنچ جاتی ہے کہ نہیں؟تو لاکھ روپیہ میں ہے کیا رکھا ہوا۔ہماری اِ س جماعت کے لئے اب لاکھ کچھ چیز نہیں ہے۔دو تین ہزار دینے والا سَو آدمی یقیناً ہمارے پاس موجود ہے اگر وہ ہمت کرے۔ اور اس کو اور بھی گِرادو دُگنے آدمی کردو۔ چلو کچھ ہزار ہزار دینے والے رکھو مثلاً ڈیڑھ سَو کردو۔پانچ پانچ سَو دینے والے سَو آدمی ہوں اور ہزار ہزار دینے والے پچاس آدمی ہوں۔ اِسی طرح اوربھی گرایا جاسکتا ہے زیادہ سے زیادہ پانچ سو آدمیوں پر پھیلاؤ تب بھی ایک لاکھ روپیہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش آج تک بھی تشنۂ تکمیل رہی ہے۔ ہم نے اِس خواہش کو ایک سال بھی تو پورا نہیں کیا کہ دس ہزار ریویوآف ریلیجنز دنیا میں شائع کیا جائے۔بہرحال ان اخباروں کا مطالعہ رکھنا چاہئے اور اخباروں کو بھی اپنے آپ کو مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اخبارات اور رسائل کو زیادہ سے زیادہ مفید بناؤ
ہمارے اخباروں کو خواہ مخواہ دوسروں سے الجھنا نہیں چاہئے۔میں دیکھتا ہوں بعض دفعہ بلاوجہ الجھ جاتے ہیں کوئی فائدہ نہیں اُس کاہوتا۔آخر ہر شخص
کو اپنا مقام سمجھنا چاہئے۔اپنا کام سمجھنا چاہئے۔ہمیں کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے پھریں۔ رسو ل کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا واقعہ آتا ہے نہایت دردناک۔ کسی مسئلہ کو سوچنے کے لئے آپ صفا میں باہر نکلے او رایک چٹان کے اوپر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے۔صبح کا وقت تھا ابوجہل نکلا۔ابھی لوگ چلتے پھرتے کم تھے اِدھر آپ کو اُس نے دیکھا کہ سر لٹکائے ہوئے بیٹھے ہیں اکیلے۔تواُس نے کہا یہ موقع اچھا ہے ان کو ذلیل کرنے کا۔ سیدھا آپ کی طرف آیا اور زور سے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا۔جب آپ کے منہ پر اُس نے تھپڑ ماراتو آپ نے سر اوپر اٹھایااور فرمایا اے لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم بیٹھے بٹھائے بلاوجہ مجھے مارتے ہو؟اور پھر آپ نے اس طرح سر جھکا لیا۔حضرت حمزہؓ اُس وقت تک مسلما ن نہیں ہوئے تھے۔چچا تھے آپ کے۔بڑے بہادر تھے۔سپاہی تھے۔شکار کو جاتے تھے۔سارا دن اِدھر اُدھر پھرتے تھے۔مسلمان نہیں ہوئے تھے۔حمزہؓ کا گھر سامنے تھا ایک پرانی لونڈی جس کے ہاتھوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے اور اُس نے آپ کو بڑا اور جوان ہوتے ہوئے دیکھا تھا(اور لونڈیوں کو بھی ماں جیسی محبت ہوجاتی ہے)وہ کھڑی تھی دروازہ کے آگے۔اُس نے یہ سارا نظارہ دیکھا۔ اُس کے دل کو بہت تکلیف پہنچی او روہ روئی۔حمزؓ تو تھے نہیں سارا دن کہتے ہیں کام کرتی جاتی او ریہ فقیرہ دہراتی جاتی تھی کہ میری آمنہ کے بچے کو لوگ بلاوجہ مارتے ہیں۔شام کے وقت حضرت حمزہؓ آئے، ہتھیار لگائے ہوئے تھے، بڑی شان کے ساتھ، اپنے فخر کے ساتھ کمان لٹکائی ہوئی گھر میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں وہ لونڈی اُن کے پیچھے پڑگئی۔کہنے لگی شرم نہیں آتی سپاہی بنا پھرتا ہے یہ کوئی سپاہی ہونا ہے کہ تم شکار مارتے پھرتے ہو۔تم کو پتہ ہے کہ آج تمہارے بھتیجے کے ساتھ کیا ہوا؟حمزہؓ نے پوچھا کیاہوا؟کہنے لگی میں دروازہ کے آگے کھڑی تھی اور رسول اللہؐ کا نام لے کر کہا کہ وہ ایک پتھر پر بیٹھا ہوا تھا او رکچھ سوچ رہاتھا کہ اتنے میں ابوالحکم(ابوجہل کا نام ابوالحکم تھا)آیا اور بغیر اِس کے کہ اس نے اُس کی طرف آنکھ بھی اٹھائی ہو جاکر بڑے زور سے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا او رخدا کی قسم اُس نے کچھ بھی نہیں کہا۔اُس نے صرف یہی کہا کہ اے لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ مجھے یونہی مارتے ہو؟ تو اگر تم سپاہی ہو تو جاکے غیرت دکھاؤ اور بدلہ لو۔یہ سپاہ گری تمہاری کون سی عزت ہے۔لونڈی کے منہ سے بات سن کے حمزہ ؓ کو بھی غیرت آگئی۔ اُسی طرح لَوٹے۔ ابوجہل خانہ کعبہ میں بیٹھا ہوا تھا۔اردگرد رؤسا بیٹھے تھے لوگ بیٹھے تھے اور فخر میں وہ یہی واقعہ سنا رہا تھا کہ آج میں اِس طرح گذرا۔محمدؐ یوں بیٹھاہو اتھا۔میں نے یوں مارا چانٹا زور سے۔ منہ ہلادیااُس کا۔اتنے میں حضرت حمزہؓ پہنچے۔ ہاتھ میں کمان تھی۔ کمان اٹھا کے زور سے اُس کے منہ پر ماری اور کہا تُو بہادر بنتا پھرتا ہے محمد تیرے آگے جواب نہیں دیتا اِس لئے تُو اُس کے آگے بہادر بنتا ہے۔میں آیا ہوں میرے ساتھ لڑ اگر تیرے اندر طاقت ہے۔ وہ لوگ کھڑے ہوگئے اِردگِرد۔اُس کے جوساتھی تھے، دوست تھے اور جھپٹے حضرت حمزہؓ پر۔ لیکن حضرت حمزہؓ کی بھی قوم بڑی تھی۔ابوجہل سمجھ گیا کہ یہاں تو آج مکہ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔اُس نے کہا نہیں۔خیر مجھ سے ہی غلطی ہوگئی تھی جانے دو۔7
تو دوسروں سے الجھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔حمزہؓ اِس بات کے اوپر سیدھے گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے وہاں گئے۔دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ نے ایک صحابیؓ سے کہا پوچھو کون ہیں؟کہنے لگے حمزہ۔ آپ نے فرمایا حمزہ شکار چھوڑ کے کدھر کو آنکلے؟انہوں نے کہاشکار چُھٹ گیا اب میں آپ کا شکار بن کے آ گیا ہوں اور اُسی وقت کلمہ پڑھ کے وہ مسلمان ہوگئے او رپھر کہا یا رسول اللہ! کب تک آپ اِس گھر میں بیٹھیں گے اوراِن سے ڈریں گے خدا کی قسم! میں خانہ کعبہ میں خون کی ندیاں بہادونگا اگرکچھ کہیں۔چلئے مسجد میں چل کر نماز پڑھئیے۔آپ نے فرمایا نہیں ابھی وقت نہیں آیا۔ تو یہ چیز کتنا اخلاق پیدا کرتی ہے۔حمزہؓ کا اسلام اور بعد میں عمرؓ کا اسلام درحقیقت اُس قربانی کا نتیجہ تھا،اُس صبر کا نتیجہ تھا جو مسلمانوں نے دکھایا۔ہمارے اخباروں کو بھی چاہئے کہ ایسے موقع پر صبر سے کام لیں۔ اگرکوئی سختی کرتا ہے تو چپ کر رہیں۔آخر گالی سے ہمارے خلاف تو کوئی نتیجہ نکلتا نہیں لیکن گالی کوبرداشت کرنے سے ہمارے تائید اُن میں ضرور پید اہوگی۔ تو بلاوجہ ہمارے اخباروں کو دوسروں سے الجھنا نہیں چاہئے۔میں بعض دفعہ دیکھتا ہوں۔ابھی میں نے اخبار ڈان کے خلاف’’المصلح’’ کا مضمون پڑھاتو مجھے معلوم ہوا یونہی چِڑایا گیا ہے۔بھلا ہمیں ڈان کے جھگڑے میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے۔ خواہ مخواہ اُس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر ہم نے کچھ کہاہی ہو تو نصیحت کے رنگ میں کہنا کافی ہے۔دوسروں کے اوپرسختی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ہماری سختی سے تو اُس پر اثر نہیں ہوتا۔ وہ پچاس ہزار شائع ہونے والا اخبار اور ہر قسم کے فرقوں میں شائع ہونے والا اخبار۔ہمارا اخباراردومیں چھپنے والا۔ایک محدود قوم کے پاس جانے والا۔بھلا اس جواب کو پڑھتا ہی کون ہے اور سنتا ہی کون ہے۔ یہ چِڑانے والی بات ہے او رکیا ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ8 کوئی ہم پر سختی بھی کرلے تو ہم کو اُس کے مقابلہ میں نرمی سے کام لینا چاہئے۔
علمی رنگ کے نئے نئے مضامین لکھنے کی ضرورت
ہمیں چاہئے کہ ہمارے اخبار اور ہمارے رسالے لکھنے والے اور ہمارے جو تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ زیادہ سے زیادہ علمی مضامین کی طرف توجہ کریں
اسلام کے بہت سے حصہ تشنۂ تحقیق ہیں۔اُن پر صدیوں تک ابھی نئے مضمون لکھے جاسکتے ہیں اور اِس عرصہ میں ہزاروں مسائل پیدا ہوتے جائیں گے۔ غرض صرف تحریص وترغیب پر نہ رہا جائے یہ خلیفہ کا کام ہے۔خطبے چھپتے رہتے ہیں اُن میں تحریص وترغیب ہوجاتی ہے۔زیادہ علمی امور کی طرف تحقیق کے ساتھ توجہ کی جائے اور نیا علم پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ہرپرانے مسئلہ کے متعلق نئے نئے دلائل نکالے جاسکتے ہیں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جس کے متعلق نئی دلیلیں نہ لائیں اور نئے زاویۂ نگاہ نہ پیدا کئے جائیں۔جتنے مسلئے آج تک ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں اُن پر نئے نئے مضمون نکل رہے ہیں۔آخر مسلمانوں نے عصمتِ انبیاء کے متعلق بہت کچھ لکھا تھا حضرت صاحب نے آکے نیا ہی مضمون کھول دیا۔مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بڑے قصائد لکھے تھے مگر حضرت صاحب کے قصائد نے بالکل ہی مضمون بدل دیا۔لوگوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے کیریکٹر کو بڑے بڑے عمدہ رنگ میں پیش کیا تھا پر حضرت صاحب نے آ کے اُس کو ایسا رنگ دے دیا کہ معلوم ہوا دنیا نے ابھی توجہ ہی نہیں کی تھی۔ تو یہ خیال کرلیا کہ یہ پامال9 مضمون ہے،یہ پرانے مضمون ہیں یہ غلط ہے۔ اگر تحقیق سے دیکھا جائے تو ہر مضمون میں ایک جدّت پیدا کی جاسکتی ہے اور نئے نئے رنگ میں اُس مضمون کو سامنے لایا جاسکتا ہے۔ مثلاًمسیحؑ کا واقعہ ہےمسیح ؑ کی وفات کے ہم قائل ہیں ہم نے قرآن سے اس پر بحث کی ہے اور ابھی قرآن کی بیسیوں آیتیں او رنکل آئیں گی جن سے وفاتِ مسیحؑ ثابت ہوتی ہے۔ہم نے حدیث سے بحث کی ہے پر حدیثیں بیسیوں اور نکل آئیں گی جن سے وفاتِ مسیحؑ ثابت ہوتی ہے۔ہم نے علماء کے اقوال پر غور کیا پر علماء تو لاکھوں گذرے ہیں اور لاکھوں کتابیں ہم تک نہیں پہنچیں۔لاکھوں میں سے سینکڑوں کتابیں اور نکل آئیں گی جن میں وفاتِ مسیحؑ پر لوگوں نے لکھا ہے مگر ان کے علاوہ غیر قوموں میں بھی اِس کا علم موجود ہے مثلاً مسیحؑ کی صلیب کا واقعہ رومی حکومت کے ماتحت گذرا ہے اور رومی حکومت کوئی قبیلہ نہیں تھا۔رومی حکومت آدھی دنیا پر حاکم تھی۔اِس تاریخ میں اُس کے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔مسیحؑ کے واقعات بھی اُس کے جو مختلف گزٹ ہیں یا مختلف تاریخیں ہیں اُن میں وہ درج ہیں لیکن ہمارے ہاں کسی نے کبھی بھی توجہ نہیں کی کہ مسیحؑ کے واقعات کو اُس زمانہ کی تاریخ میں سے نکال کردیکھے۔انہوں نے مسیحؑ کی ولادت کو کس طرح ثابت کیا ہے اگر وہ نکالیں تو بیسیوں قسم کی روشنیاں اُس پر پڑجائیں گی۔ مثلاًمسیح ؑ کے واقعہ میں بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یوسف کی حضرت مریم سے شادی ہوئی اور وہ یوسف کے ہی بیٹے تھے لیکن جب رومی تاریخوں میں ہم نے پڑھا تو وہاں یہ نکلا کہ مریم پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ اُس کا یہ حرام کا بچہ ہے۔ اب اگر واقع میں خاوند ہوتا اور خاوند کا بچہ ہوتا تو لوگ خاوندوں والی بیوی کو کبھی کہا کرتے ہیں تیرا حرام کا بچہ ہے ؟یہ ایک تصدیق مل گئی حضرت صاحب کے خیال کی یا پرانے محققین کے خیال کی۔اس میں حضرت صاحب بھی متفق ہیں پرانے محققین سے۔ اور پرانے محققین ہمارے ساتھ متفق ہیں۔ تو اگر اِن حوالوں کو نکالا جائے تو بیسیوں چیزیں اِس میں نکل آئیں گی۔ مثلاً وقت جو ہے صلیب کا وہ بھی نکل آئے گا۔ افسروں کا رویہ بھی نکل آئے گا۔یہ بھی نکل آئے گا کہ صلیب پر کتنے وقت میں موت ہوتی ہے۔ہم نے چند حوالے نکالے ہیں لیکن اس میں تفصیلاً ہزاروں ہزار واقعات پھانسی کے درج ہوں گے۔اُس میں بعض شائد ایسے بھی واقعات مل جائیں کہ بعضوں کو جلدی اتارا تو وہ زندہ تھے۔ تو اگر رومی تاریخوں کو ہمارے آدمی پڑھنا شروع کریں اور اُن میں سے ایسے واقعات جمع کرنا شروع کریں تو ایک نیا مضمون پیدا ہونا شروع ہوجائے گا او رپھر یہ ہے کہ جب انسان ان تاریخوں کوپڑھتا ہے تو بیسیوں اَو رمضمون بھی نکل آتے ہیں۔رومی حکومت ایک منظم حکومت تھی۔آج تک یوروپین قانون جوبن رہا ہے تو وہ رومن لاء پربنتا ہے بعض اصولِ قانون وہ ہوتے ہیں جو روما میں قانون جاری تھا۔اِسی طرح جو گورنمنٹیں باہر کالونیز بناتی ہیں اور دوسرے ملکوں میں جاکر حکومتیں کرتی ہیں اِس میں بھی رومن طریق کو اختیار کرتے ہیں کہ رومی اپنی کالونیز کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے او رکس طرح انہوں نے سینکڑوں سال تک کالونیز کو اپنے قبضہ میں رکھا۔پھر یہ ڈیماکرسی جو کہلاتی ہے یہ بھی رومن طریقے پر ہے کیونکہ روما میں ہی یہ آزادی تھی کہ لوگ الیکشن کرتے تھے گو اُس کی نوعیت اور قسم کی تھی۔ اور اپنا ایک بڑا افسر چنتے تھے او روہ حکومت کرتا تھا تو سینکڑوں سبق ہم اُس سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً اُس میں انتخاب کا جو طریقہ ہوتا تھا وہ خلافت سے بہت ملتا ہے۔ ہم اُس کا موازنہ خلافت سے کرکے ایک بڑا عمدہ مضمون پیدا کرسکتے ہیں۔پھر اُس میں دنیا سے ایک نرالی بات ہے کہ بعض دفعہ ایک وقت میں دو دو بادشاہ مقرر ہوتے تھے۔ اب یہ ہماری عقل میں نہیں آتا۔ قرآن شریف کہتا ہے دو بادشاہ ہوجائیں تو فساد ہوجائے گا لیکن اُن کے بیسیوںواقعات ایسے ہیں۔بیسیوں تو میں نہیں کہہ سکتا متعدد واقعات ایسے موجود ہیں کہ ایک وقت میں انہوں نے دو دو بادشاہ مقرر کئے ہیں۔یہ بھی اب دیکھنے والی بات ہے کہ انہوں نے اُن دو کو ایک کس طرح بنا لیا تھا۔ آخر بہرحال قرآن تو کہتا ہے دو میں فساد ہوتا ہے اگر دو رہتے تھے اور فساد نہیں ہوتا تھا تو انہوں نے ضرورکوئی ایسے طریقے ایجاد کئے ہونگے کہ باوجود دو کے پھر ایک حکومت بن جائے۔ یہ بھی ایک بڑا لطیف مضمون ہے۔ اِدھر قرآن کی آیت کو پیش کیا جائے کہ قرآن تو کہتا ہے دوسے فساد وہوتا ہے۔اگر خدا زیادہ ہوتے ایک سے تو فساد ہوجاتا۔تو خدا زیادہ ہوجائیں تو فساد ہوجائے تو بادشاہ زیادہ ہوجائیں تو کیوں نہیں فساد ہوجائے گا۔ مگر وہاں نہیں ہوتا تھا۔ تو یا تو یہ تاریخ سے ثابت کریں آیا یہ ناکام ہوا تھا تجربہ اور فساد ہوجاتا تھا یا یہ ثابت کریں کہ دو اصل میں دو رہتے ہی نہیں تھے انہوں نے ایسا قانون بنایا ہوا تھا کہ دو ایک بن جاتے تھے۔ تو پھر یہ ایک نیا نتیجہ نکل آئے گا کہ قرآن کی بات ٹھیک ہے کہ ایک سے زیادہ فساد پیدا کرتا ہے تو کئی قسم کے دلچسپ مضامین اِن سے نکل سکتے ہیں۔یہ جو نیابت کا طریقہ ہے اب یوروپین نیابت کا اور طریقہ ہے، اسلامی نیابت کا اور طریقہ تھا، رومی نیابت کا اور طریقہ تھا۔ اِس پر لمبی بحث کی جائے کہ کیا کیا طریقے تھے نیابت کے اور پھر اُن کے کیا فوائدحاصل ہوئے اور کیا نقصان پہنچے؟غرض غیرملکوں پر حکومت کرنے کا اُن کا طریقہ تھا۔قانون سازی کااُن کا طریقہ تھا۔آج تک دنیا اُن کے قانون کی اتباع کرتی ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ پرانی قانون سازی اور اُن کی اصول سازی میں کیا فرق ہے؟ کیوں اسلامی قانون کو ہم برتری دیویں رومن قانون پر؟ اُس کے اندر فرق کیاہے؟کیا انسانی حقوق یا انسانی امن کی حفاظت کے لئے اُس میں کوئی بہترین تجویز کی گئی ہے؟ پھر اُن کے قانون کے پس منظر کے متعلق باتیں نکل سکتی ہیں۔ اِسی طرح اَور بہت سارے مضامین نکل سکتے ہیں جن سے صرف رومی کتابیں پڑھنے والا آدمی ہمارے لٹریچر کو اتنا مالدار بنا سکتا ہے کہ ساری دنیا نقلیں کرے اور آکے کہے یہ بڑی مفید باتیں نکل رہی ہیں جو ہمارے ذہن میں نہیں تھیں۔ہمارے اکثر دوست اِ س علمی رجحان سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہم مستقل علمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں اپنے خالص دائرہ کے باہر۔ دوسرے علماء ہم سے آگے ہیں۔ مثلاًشبلی تاریخ کے معاملہ میں ہم سے آگے ہیں اور اِسی طرح نانوتوی صاحب جو ہیں وہ بعض تحقیقاتوں میں یقیناً ہمارے علماء سے آگے ہیں۔مولانا چراغ الدین صاحب چڑیا کوٹی عیسائی او ریہودی لٹریچر کے معاملہ میں ہمارے آدمیوں سے آگے ہیں۔مولوی خدابخش کلکتوی جو ہیں وہ اسلامی تمدن کے متعلق تحقیقات میں ہمارے علماء سے آگے ہیں۔مولوی عبدالحی فرنگی محلی جو ہیں فقہ کے متعلق بعض بحثیں انہوں نے اس طرز پر کی ہیں کہ وہ ہمارے علماء سے آگے ہیں۔بلگرامی صاحب اسلامی تاریخ کے متعلق ہمارے علماء سے آگے ہیں حالانکہ یہ بعد میں آئے ہیں۔ان کو بہت زیادہ فراغت حاصل ہے۔ان کو بہت زیادہ لٹریچر پڑھنے کا موقع ہے۔ان کو جماعت کی امدادزیادہ حاصل ہے۔اِن کے لئے وہ مشکلات نہیں ہیں جو اُن لوگوں کے لئے تھیں۔سوال صرف یہ ہے کہ یہ لوگ کتاب پڑھتے ہیں کسی مقصد کو سامنے نہیں رکھتے۔اگرمقصد مدنظر رکھیں کہ فلاں نقطۂ نگاہ کی میں نے تحقیقات کرجانی ہے اور اس کے لئے اتنا لٹریچر میں نے ضرور پڑھ جانا ہے تو پھر اُن کا حوصلہ بڑھ جائے گا۔تو ہمارے انگریزی دان اور علماء بھی اسے سے بہترکام کرسکتے ہیں جو انہوں نے کیا لیکن کرتے نہیں۔اِس کی وجہ اول مطالعہ کے شوق کی کمی ہے دوسرے مطالعہ کی لائن مقرر نہیں کرتے۔ حالانکہ ہر شخص اپنے لئے ایک طریق مقررکرلیتی ہے کہ میں نے فلانی لائن پر چلنا ہے اور وہ اس میں تحقیقات کرتا رہتا ہے۔
میں نے دیکھا ہے بعض اسلامی مسائل ایسے ہیں کہ جن میں ہمارے علماء نے وہ بحث نہیں کی جوعیسائیوں کمبختوں نے کی ہے جو عربی نہیں جانتے۔ مثلاً ہمارے علماء قرآن کے متعلق تیرہ سوسال سے یہی کہتے چلے آئے ہیں قرآن میں کوئی ترتیب نہیں اوریوروپین اس کو نقل کرکے ہم پر اعتراض کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن بعض یوروپین محقق ایسے ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے جب قرآن پر غور کیا تو ہمیں اُس کی ترتیب نظر آگئی۔ تو دیکھو عیسائی ہوکے اُن کا ذہن ادھر چلا گیا اور مسلمان مفسرین میں ایک بھی نہیں ہے جو ترتیبِ کامل کا قائل ہو سوائے ابن حیّان کے کہ وہ ترتیب کا قائل ہے مگر وہ ادھوری ترتیب کا قائل ہے۔ باقی سارے مفسرین جو ہیں وہ بے ترتیب ہی قرآن کو لئے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یورپ کا دشمن عیسائی لکھتا ہے کہ پہلے میرا خیال تھا کہ قرآن کے اندر ترتیب نہیں مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اُس میں ترتیب ہے۔ اور پھر یہ بھی لکھتا ہے کہ ہماراعلم کامل نہیں اگر عربی علوم کا ذخیرہ جو ہے اُس کو پورے طور پر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔تو اب وجہ اِس کی یہ ہے کہ ساری عمر وہ ایک بات میں لگادیتے ہیں۔اُس بات میں لگانے کی وجہ سے وہ باریک در باریک ،باریک در باریک باتیں نکالتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً خدا بخش صاحب ہیں جواُن کوکمال حاصل ہے وہ اِسی وجہ سے ہے کہ وہ جرمن زبان جانتے تھے اور جرمنوں نے اس کے متعلق بڑی تحقیقات کی تھی۔وہ جرمن زبان سے ان چیزوں کو اخذ کرکے ہمارے ملک کے سامنے پیش کردیتے تھے اور ہمارے علماء کو ان باتوں کا پتہ نہیں تھا۔ایسی تفصیل سے انہوں نے اسلامی جنگوں کے قواعد نکالے ہیں،اسلامی فوجوں کی تشکیل کا اندازہ لگایا ہے۔اُن کے اندر جو ڈسپلن قائم تھا اُس کا اندازہ کیا ہے،جس رنگ میں وہ فوجی پریکٹس کرنے تھے اُس کی تشریحیں لکھی ہیں کہ ہمیں حیرت آجاتی ہے کہ ہماری تاریخوں میں وہ نہیں پائی جاتیں۔انہوں نے کوئی ٹکڑہ کہیں سے لیا،کوئی ٹکڑہ کہیں سے لیا ساری عمر لگا کر پھر ایک کتاب لکھ دی کہ اسلامی ابتدائی زمانہ میں اُن کا فوجی انتظام یوں تھا۔اُن کے خزانہ کا انتظام یوں تھا اُن کے قانون کا انتظام یہ تھا۔
اِسی طرح ہمارے لوگوں نے خاص موضوع کو منتخب کرکے اُس کے پیچھے پڑجانے کی عادت نہیں ڈالی۔حالانکہ مطالعہ کے وقت کسی خاص امر کو چُن لینا یا کسی گُتھی کو چُن لینا تحقیق کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پس چاہئے کہ ہر تعلیم یافتہ آدمی ہماری بحث میں چاہے انگریزی دان ہو یا عربی دان ہو اپنے لئے ایک فیصلہ کرلے کہ میں نے فلاں مضمون کے متعلق تحقیقات کرنی ہے۔پہلا کام وہ یہ کرے کہ جس کو اُس مضمون کا واقف سمجھے اُس سے ملے ۔مثلاً میرے پاس آجائے۔ایک فوجی ہے وہ کہتا ہے میں نے فوجی امور کی تحقیقات کرنی ہے میرے پاس آجائے او رکہے جی مجھے یہ شوق پیدا ہوا ہے کوئی آپ کتاب بتاسکتے ہیں جس کے پڑھنے سے مجھے علم حاصل ہوسکے؟کوئی دو کتابیں میں نے بتادیں دوکسی اَور نے بتا دیں دو کسی اَور نے بتادیں اُن کو جمع کرنا شروع کیا۔اُن کو پڑھنا شروع کیا۔ آگے پھر اُن میں سوالات پیدا ہوئے اُن کو لکھا۔غرض تھوڑے سے مطالعہ کے بعدا یک مکمل مضمون پیدا ہوجائے گا جودنیا کے لئے بالکل نرالا ہوگا۔
پس چاہئے کہ ہر تعلیم یافتہ کسی زبان اور کسی علم کی چند کتابیں اپنے لئے مقرر کرلے کہ سال میں اتنی کتب ضرور پڑھنی ہیں دوسرے اُن کو غور سے پڑھے اور حاشیہ پر تین قسم کے نوٹ کرے۔ ایک وہ باتیں جو نئی اور اچھی ہوں یا پرانی بات ہو لیکن اچھے پیرایہ میں بیان کی گئی ہو۔ دوسرے وہ غلط باتیں جو اُس کو غلط تو نظر آتی ہیں لیکن اس کو اُن کا جواب معلوم نہیں تحقیق طلب ہیں۔ تیسرے وہ باتیں جو غلط ہیں۔
مطالعہ کے لئے تین مفید باتیں
ہمارے پرانے زمانہ کے علماء نے اِس کے لئے ایک طریقہ اختیار کیا ہوا تھا وہ
حاشیہ پر تین نوٹ لکھا کرتے تھے۔کتاب پڑھی جب کوئی اچھی بات نکلی کہ جس سے مفید سبق حاصل ہوتے ہیں یا وہ وعظ میں استعمال ہوسکتی ہے یا تصنیف میں ہوسکتی ہے تو اُس کے حاشیہ پر لکھتے تھے ‘‘ف ف’’ جس کے معنے ہوتے تھے یہ فائدہ بخش چیز ہے نفع رساں بات ہے۔ اور جب کوئی ایسی بات آتی تھی جس کو وہ سمجھتے تھے غلط ہے اور اس سے اسلام پر کوئی حملہ ہوتا ہے یا قرآن پر حملہ ہوتا ہے یا ہمارے تمدن پر حملہ ہوتا ہے یا ہماری حکومت پر حملہ ہوتا ہے یا ہماری تاریخ پر حملہ ہوتا ہے یا ہمارے اخلاق پر ہوتا ہے تو اُس کے حاشیہ پر لکھتے تھے ‘‘قِفْ’’ یعنی یہاں ٹھہر جا یہ گندی بات ہے۔’’قِفْ’’ کے معنے ہیں ٹھہر، یہ خراب ہے۔ اور جہاں کوئی ایسی بات ہوتی تھی جس کو وہ سمجھتے تھے کہ ٹھیک نہیں پر میرے پاس ابھی جواب نہیں اس کا۔میں اس کو غلط نہیں کہہ سکتا تو اس کے اوپر ‘‘؟’’ ڈال دیتے تھے۔تو یہ تین چیزیں اُن کو علم میں راہنمائی کرتی تھیں۔ وہ کتاب جب پڑھتے تھے تو اس کتاب پر حاشیہ لکھا جاتا تھا۔کتاب کو پڑھ کے پھر دوبارہ دیکھتے تھے تو ‘‘ف’’ والی الگ نکال لیتے تھے، ‘‘قِفْ’’والی الگ نکال لیتے تھے ‘‘؟’’(سوال) والی الگ نکال لیتے تھے۔ ‘‘ف’’ والیوں کو اپنے وقت پر استعمال کرلیتے تھے،‘‘قِفْ’’والیوں کا جواب اپنے شاگردوں کو یااپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ یہ غلط باتیں اِس میں لکھی ہوئی ہیں۔ اور ‘‘؟’’(سوالیہ )والوں کے لئے اور کتابیں پڑھتے تھے تاکہ تحقیقات ہوجائے یہ مسئلہ اصل کیا ہے۔ تو اِس رنگ میں اُن کے علم بڑھتے رہتے تھے۔یہ تین چیزیں انہوں نے بنائی ہوئی تھیں ‘‘ف۔قِفْ۔؟’’(سوال)۔ ‘‘ف’’ کے معنے ہیں مفید چیزیں۔‘‘قِفْ’’کے معنے ہیں غلط چیزیں اور ‘‘؟’’(سوال) کے معنے ہیں تحقیقات اَور کرو۔ اِس کے متعلق مزید روشنی کی ضرورت ہے۔
جن لوگوں کو مطالعہ کی عادت ہے وہ بعض دفعہ بڑی عجیب چیز نکال لیتے ہیں۔تین دن ہی کا واقعہ ہے کہ المصلح اخبار آیا۔یوں تو اخبار کو میرے لئے پڑھنا عا م طور پر دستور نہیں ہے کیونکہ میں نظر مارتا ہوں اکثر مضمون ایسے ہوتے ہیں کہ مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن ایک مضمون تھا میں نے اُس کو پڑھا اور جب میں نے پڑھا تو میری حالت ایسی ہوگئی جیسے خواب کی ہوتی ہے یعنی اُس کے اندر ایک ایسا مضمون تھا کہ اگر وہ واقعہ صحیح ہےمیں ا س کی تحقیقات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر وہ واقعہ صحیح ہے تو احمدیت کی تاریخ میں گویا وہ ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ اتنا اہم حوالہ اس میں درج تھا اور لکھنے والا کوئی خاص ماہر آدمی نہیں تھاایک کلرک ہے لائل پور کا شیخ عبدالقادر،اُس کا تھا۔ وہ پہلے بھی اچھے مضمون لکھا کرتا ہے۔ اُس کو شوق ہے مضمون کا۔بائیبل کے متعلق بھی اُس کی تحقیقاتیں بعض دفعہ اچھی اچھی ہوتی ہیں۔ لیکن خیر وہ معمولی باتیں تھیں لیکن یہ تو ایسا حوالہ اُس نے نکالا ہے، خداتعالیٰ نے اُس کو دے دیا کہ حیرت ہوگئی۔ کیونکہ ہماری نظروں سے یہ بات کبھی نہیں گذری تھی اُس نے بالکل ہی آکے ہماری بحث کے زاویے ہی بدل ڈالے ہیں۔دیکھنا صرف یہ ہے کہ اُس نے کہیں درج کرنے میں غلطی تو نہیں کردی۔ تو اب ایک کلرک آدمی اگر اِس قسم کے مطالعہ سے یہ باتیں نکال سکتا ہے تو ایک گریجویٹ،ایک مولوی فاضل، ایک وکیل یا ڈاکٹر اگر اِ س قسم کی اپنے اپنے شعبہ میں باتیں کریں تو کیوں نہیں نکال سکتے۔ یا کسی قدر ہمارے یہ ڈاکٹر شاہ نوازسامنے بیٹھے ہیں ان کو بھی شوق ہے وہ نکالتے ہیں علم النفس کے متعلق لیکن کوئی DETAILED EFFORTنہیں ہوتی اِن کی۔کبھی کبھی ان کو جوش آیا کرتا ہے۔ تو یہ حوالہ بتاتا ہے کہ درحقیقت ہمارے لئے اور مصالحہ ابھی پڑا ہے او رحیرت انگیز طور پر ہماری کتابوں میں چیزیں موجود ہیں جو احمدیت کی تائید میں حاصل ہوسکتی ہیں۔
لٹریچر کی اشاعت کیلئے دو کمپنیوں کا قیام
میں نے لٹریچر کی اشاعت کے لئے دو کمپنیاں بنوائی
تھیں ایک کا نام ہے ‘‘دی اورینٹل اینڈ ریلجس پبلشنگ کارپوریشن’’اور ایک کا نا م ہے‘‘الشرکۃ الاسلامیہ’’۔ الشرکۃ الاسلامیہ زیادہ تر اردو کی کتابوں کے لئے ہے۔ اور یہ اورینٹل اینڈ ریلجس پبلشنگ کارپوریشن’’جو ہے یہ یوروپین زبانوں کی اشاعت یا عربی زبان کی اشاعت کےلئے ہے۔پیچھے میں نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی دوست حصہ نہ خریدیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس بعض احمدیوں کی شکایت آئی تھی کہ ہم نے روپے دیئے ہیں تو ہم کو رسید نہیں ملتی۔دوسرے یہ شکایت آئی تھی کہ انہوں نے جو ایجنٹ مقرر کیا اُس نے یہ کہا کہ مجھ سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جو سلسلہ حصہ خرید چکا ہے(وہ آدھی رقم یعنی اڑھائی لاکھ کے سلسلہ خرید چکا تھا)اُس پر بھی اُسے کمیشن دیا جائے گا۔ تو یہ مجھے بڑا ظلم معلوم ہو اکہ ہم نے جو کمپنی بنائی ہے تو بنانے سے پہلے حصے دئیے ہیں وہ ایک دن میں آکے ہم سے چھ ہزار روپیہ لے جائے۔ تو اِس وجہ سے میں نے اس کو روک دیا تھا مگر بعد میں مجھے تسلّی دلائی گئی ہے کہ وہ غلط فہمی تھی یہ کوئی وعدہ نہیں ہے کہ اُس کو اُن حصوں پر جو پہلے ہمارے فیصل شدہ تھے کوئی کمیشن دیا جائے گا لیکن جو کوشش سے وہ لائے یا کوشش کے دوران میں اگر کوئی نئے حصے آئیں تو بیشک یہ قاعدہ مقرر ہے کہ اُن میں اسے کمیشن مل جائے۔ اور اس کے متعلق میں نے ہدایت دی ہے کہ جب کوئی شخص لے تو وہ روپیہ براہ راست بھجوائے اور یہاں سے فوراً رسید چلی جائے چاہے وہ کچی رسید ہو بعد میں پکی ہوجائے خزانہ میں ایساعام ہوتا ہے ۔تو یہ وعدہ لے لیا ہے اِس لئے جو دوست ثواب میں حصہ لینا چاہیں وہ شامل ہوجائیں۔یہ الشرکۃ الاسلامیہ جو ہے یہ ساڑھے تین لاکھ کی ہے جو اورینٹل ہے وہ پانچ لاکھ کی ہے ۔اِس پانچ لاکھ میں سے اڑھائی لاکھ کی رقم سلسلہ خریدے گا اور اِس ساڑھے تین لاکھ میں سے ایک لاکھ پچھتر ہزار کے حصے سلسلہ خریدے گا باقی ایک لاکھ پچھتر ہزار کے حصے لوگوں کے لئے کُھلے ہوں گے اور اُدھر سے اڑھائی لاکھ کے حصے کُھلے ہوئے ہیں۔کچھ کم۔کیونکہ کچھ اَور صدرانجمن احمدیہ نے حصے لینے ہیں۔ اُدھر تحریک نے کچھ لینے ہیں۔ بہرحال انہوں نے کچھ کتابیں شائع کی ہیں گو وہ بے اصولی ہیں اِس لئے کہ جب تک کمپنی نہیں بن جاتی اُس کی طرف سے کتاب شائع کرنی ٹھیک نہیں ہوتی۔ ممکن ہے اگلے حصہ دار آکے کہیں کہ ہم اس کو تجارتی رنگ میں مفید نہیں سمجھتے ان کو Waitکرنا چاہیے تھا مگر کچھ تو ایسی چیزیں ہیں کہ جو شائع ہونے کے بعد بھی چونکہ سلسلہ کے مال سے ہی چھپی ہیں اِس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔مثلاً:-
(1) ڈچ کا ترجمہ قرآن شریف کا چھپا ہے،
(2) Message of Ahmadiyyatچھپا ہے۔
(3) Charactristics of Quranic teachingsچھپا ہے۔
(4) Islam versus Communismچھپا ہے۔
(5) Existance of Godچھپی ہے۔
(6) Why I believe in Islamچھپی ہے۔
(7) Mohammad The Librator of Woman چھپی ہے۔
(8) The Sillness Prophetچھپی ہے۔
(9) Jesus In Quranچھپی ہے۔’’
اس موقع پر حضور نے دریافت فرمایا کہJesus in Quranکس کی ہے؟ اِس پر وکالت تصنیف کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ شیخ ناصر احمد صاحب نے لکھی ہے۔ حضور نے فرمایا:-
‘‘میں کہہ سکتا ہوں کہJesus in Quranمیں نے دیکھی نہیں پر میں جانتا ہوں نامکمل کتاب ہوگی اِس لئے کہ میں نے سورۃ مریم کا درس دیا ہے اور اُس میں Jesus in Quranپر جو میں نے بحث کی ہے میں جانتا ہوں اُس کا دسواں بیسواں حصہ بھی کسی کتاب میں آج تک نہیں آیا۔تو جتنی زیادہ تحقیقات کی جائے بڑے مفاد نکل آتے ہیں۔ وہ انگریزی ترجمہ کے لئے میں نے نوٹ لکھوائے ہیں۔مثلاً میں مثال کے طور پر بتاتا ہوں کہ تم سارے قرآن پڑھتے ہو، تمہارا ذہن کبھی اِدھر نہیں گیا اس لئے کہ تم نے دوسرا لٹریچر نہیں پڑھا۔انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح پیدا ہوئے دسمبر میں۔ اور یہ جو بڑا دن منایا جاتا ہے 23، 24، 25 دسمبرکو وہ اسی بڑے دن کی یاد سمجھی جاتی ہے کہ مسیحؑ اِس میں پیدا ہوا۔
ہمارے مفسرین کو قرآن پر بحث کرتے ہوئے کبھی خیال نہیں آیا کہ قرآن میں یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہونے والاتھا تو خدا نے کہا کھجور کا درخت ہِلا اِس سے کھجوریں گریں گی اور کھجور دسمبر میں ہوتی نہیں۔کھجور ہوتی ہے اگست ستمبر میں۔سو قرآن کے رو سے مسیحؑ پیدا ہوا اگست ستمبر میں اورانجیل کی رو سے پیدا ہوا25دسمبر کو۔اب اِدھر تو یہ اختلاف کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا۔پھر یہ ثابت کرنا کہ قرآن سچا ہے اور انجیل جھوٹی ہے یہ بڑا مشکل کام ہے۔تو میں نے انجیل کی شہادتوں کو لے کر پھر یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل میں جو بعض مظالم کی طرف اشارہ ہے اُن کے لحاظ سے لازماً یہی ماننا پڑتا ہے کہ وہ اگست ستمبر میں پیدا ہوا تھا اور جھوٹ بول کے ایک اَور مصلحت کے لئے اس کی پیدائش دسمبر میں بتائی گئی۔اِس طرح اَور کئی نئے مسائل اِس بحث میں آئے ہیں۔ چونکہ سوائے مریم میں حضرت مسیحؑ کا واقعہ آتا ہے اس میں کئی نئے مطالب نکلے اور بیان کئے گئے ہیں۔
غرض ہمارے علماء کو چاہئے کہ کتبِ فقہ،حدیث،فلسفہ،فلسفۂ فقہ،قضاء، فلسفۂ قضاء،اسلامی معیشت،پہلی صدی کی معیشت،مسلمانوں کے تنزّل کے اسباب وغیرہ ایسے مضامین پر کتابیں لکھیں اور اُن کو شائع کریں تاکہ لوگوں میں بھی اُن کی علمیت کی قدر ہو کہ یہ کام اچھا کررہے ہیں اور جماعت کا بھی علم بڑھے۔
چودہ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم
اِسی سلسلہ میں ہم نے سات تراجم کروائے ہیں۔1944ء
میں مَیں نے سا ت قرآن شریف کے ترجموں کے لئے جماعت میں تحریک کی تھی۔ جرمن کے لئے میں نے عورتوں کے کام سپرد کیا تھا کہ جرمن کا ترجمہ عورتوں کے خرچ سے چھپے۔ اٹھائیس اٹھائیس ہزار کی میں نے تحریک کی تھی جس کو بعدمیں 33،33ہزار میں بدل دیا گیا تھا۔جرمن کاترجمہ عورتوں کے سپرد کیا گیاتھا۔ اور ڈچ وغیرہ کا ترجمہ بنگال اور اس کے نواحی کے لئے مقرر کیا گیا تھا یعنی بہار وغیرہ کے لئے۔ اور فرانس کا ترجمہ جو تھا وہ دہلی اور یوپی وغیرہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اورسپینش کا ترجمہ سرحد اور مغربی اور شمالی پنجاب کے ضلعوں کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اورپرتگیزی ترجمہ حیدرآباد اور بمبئی اور مدراس کے سپرد کیا گیا تھا۔ اور روسی زبان کا ترجمہ لاہور، سیالکوٹ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے سپرد کیا گیا تھا۔ اور اٹالین زبان کا ترجمہ قادیان اور یوروپین ممالک کے جو تھوڑے بہت احمدی ہیں اُن کے سپرد کیا گیا تھا۔ تو یہ سات زبانوں کے لئے خداتعالیٰ کے فضل سے تحریک ہوئی او رجماعت نے بڑے اخلاص سے اور بڑے جوش سے چندہ دیا حالانکہ آج سے بہت تھوڑی جماعت تھی۔دولاکھ پینتالیس ہزار روپیہ کے قریب رقم اِس میں جمع ہوئی گویا جو مانگی گئی تھی اُس سے بھی زیادہ۔اٹھائیس اٹھائیس ہزار قرآن کریم کے لئے تھا اور پانچ پانچ ہزار’’اسلامی اصول کی فلاسفی’’اور ایسی کتابوں کی اشاعت کے لئے۔تو سات کے حساب سے دو لاکھ اکتیس ہزار بنتا ہے لیکن جمع غالباً دو لاکھ پنتالیس یا چالیس ہزار ہوگیا تھا جو مانگے سے بھی زیادہ تھا۔اب اِن سات ترجموں میں سے دوشائع ہورہے ہیں۔ایک تو شائع ہوگیا ہے ڈچ زبان کا اور چونکہ ڈچ کی حکومت انڈونیشیا میں تھی اور انڈونیشیا میں خدا کے فضل سے ہماری بڑی معزز جماعت ہے اِس لئے جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ میرے پاس ترجمہ بھیجیں گے تو میں نے کہا ایک ڈچ کا ترجمہ جو پریذیڈنٹ ہے انڈونیشیا کا،بادشاہ کا قائم مقام اُس کو بھی تحفہ کے لئے بھیجو۔اُن کے ملک کو اِس زبان کے ساتھ اُنس ہے۔انہوں نے انگلستان میں دو ترجمے کتاب کے بھیجے او راُن کو کہا کہ آپ یہ آگے بھجوا دیں۔انہوں نے ڈچ کے لحاظ سے جو ڈچ کی کمپنی ہوائی جہاز کی تھی اُس سے جاکر ذکر کیا کہ ہم اِس طرح قرآن بھجوانا چاہتے ہیں اور ساتھ قصہ بھی بتادیا کہ یہ چھپوایا ہے ہم نے۔اور ایک ہم اپنے امام کے پاس بھجوانا چاہتے ہیں او رایک پریذیڈنٹ سکارنو کو پیش کرنے کے لئے اپنی جماعت کو دینا چاہتے ہیں کہ وہ سکارنو کو پیش کرے۔اُن پر تو اِس کاایسا اثر ہوا کہ انہوں کہا یہ تو ہمارے لئے ایک بڑا تاریخی واقعہ ہے او رعزت کی بات ہے اِس میں کوئی سوال تجارت کا ہے ہی نہیں۔ہم آپ کے امام کو بھی خود پہنچائیں گے اور وہاں بھی پہنچائیں گے۔آپ ہمارے پاس لائیے ہم آپ اس کی پیکنگ کریں گے او رآپ اس کو پہنچائیں گے آپ صرف اُن کو اطلاع دے دیں کہ اِ ن کے نمائندے کراچی میں آکے لے لیں او راُن کے نمائندے آکے ہم سے انڈونیشیا میں لے لیں۔ چنانچہ انہوں نے کہا پیکنگ آپ نہ کریں ہم اپنے طریق پر خود کریں گے اُس کی شان کے مطابق۔ چنانچہ اِنہوں نے قرآن دے دئیے۔پیکنگ اُنہوں نے کی۔ہم نے کراچی کو تار دے دیا ہماری جماعت والے وہاں گئے۔جس وقت ڈچ ہوائی جہاز آیا انہوں نے اِن کے حوالے کردیا اور وہ میرے پاس پہنچ گیا۔میرا ارادہ ہے کہ اگر گورنر جنرل اس کو منظور کریں تو چونکہ پاکستان سے روپیہ کا پرمٹ لیا تھا وہ جو میری کاپی آئی ہے وہ اُن کو پیش کردی جائے۔دوسری کاپی انڈونیشیا پہنچی۔ چنانچہ پرسوں سید شاہ محمد صاحب جو امیر ہیں وہاں کے اور رئیس التبلیغ ہیں اور یہاں آئے ہوئے ہیں اُن کو وہاں سے اخبارات پہنچ گئے ہیں۔اس کے اوپر انہوں نے بہت اعزاز کیا ہے فوراً انہوں نے وہاں کے پریذیڈنٹ کو دعوت دی کہ ہم پیش کرنا چاہتے ہیں اور اُس نے بھی فوراً منظور کیا۔تصویریں بھی چھپی ہوئی آئی ہیں کہ پریذیڈنٹ بڑے ادب سے کھڑا ہؤا ہے لینے کے لئے اور ہمارا آدمی اُن کو قرآن دے رہا ہے۔ اور پھر انہوں نے ریڈیو پر دو دفعہ اعلان کروایا۔ پھر تمام بڑے بڑے اخباروں نے اُس پر مضمون لکھے جن میں کہا گیا کہ یہ بڑا عظیم الشان اور اہم کام ہے۔
جرمن میں چھپ رہا ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے۔وہ چونکہ ریوائز ہوچکا ہے اور وہ چھاپتے بڑی جلدی ہیں کیونکہ ڈچ قرآن کے متعلق ابھی دو مہینے ہوئے اطلاع آئی تھی کہ پریس میں گیا ہے اور اب چھپ کے کاپیاں بھی پہنچ گئی ہیں۔پریس کے معلوم ہوتا ہے کہ بہت بڑے انتظام ہیں وہ بھی امید ہے کہ اور تین مہینے میں شائع ہوجائیگا گویا اب ہمارے صرف پانچ ترجمے باقی ہیں۔ہاں انگریزی کا ترجمہ بھی اب خالی چھپ رہاہے یعنی پہلے تو ایک تفسیر چھپ رہی ہے۔اِس کے ساتھ صرف دیباچۂ قرآن ہوگا اور انگریزی کا ترجمہ ہوگا۔اِس کے علاوہ اِسی سال ہمارا سواحیلی کا ترجمہ(جو افریقن زبان ہے اُس میں) شائع ہوا ہے او راُس کی وہاں خدا کے فضل سے بہت شُہرت ہورہی ہے۔ مولویوں نے فتوے دئیے کہ یہ کافروں کا ہے اِس کو نہیں چھُونا۔لیکن عجیب بات ہے یہ ہے کہ سب سے زیادہ چندہ غیراحمدیوں نے دیا ہے اور کثرت کے ساتھ وہ خرید رہے ہیں اورلوگوں میں تقسیم کررہے ہیں یعنی ایک خاندان نے ساڑھے بارہ ہزار روپیہ چندہ دیا ہے اِس کے لئے۔ اور کوئی پچاس جلدیں خرید رہا ہے،کوئی25خرید رہا ہے، کوئی10خرید رہا ہے،کوئی 12 خرید رہا ہے۔مولویوں کو انہوں نے جواب دے دیا کہ یہ تو خدمتِ اسلام ہے اِس میں ہم اُن کے ساتھ ملنے کے لئے تیار نہیں۔
ملائی زبان کے متعلق میں شائد کل پرسوں کہہ چکا ہوں کہ تار پرسوں ہی آئی ہے کہ خدا کے فضل سے ملائی زبان کا ترجمہ مکمل ہوگیا ہے اب اس کے چھپنے کا انتظام کیا جائے گا۔بنگالی میں ہم ترجمہ کروا رہے ہیں۔انڈونیشین زبان میں بھی ہم ترجمہ کروا رہے ہیں۔گورمکھی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہورہا تھا شائد مکمل بھی ہوگیا ہے(گورمکھی مکمل ہوچکا ہے)
اور پھر اردو میں بھی ترجمہ انشاء اللہ تعالیٰ جلدی ہوجائے گا کیونکہ میری بڑے عرصہ کے بعد یہ رائے قائم ہوئی ہے کہ اردو کے ترجمہ پر ہم کو خاص زور دینا چاہئے۔ کیونکہ تعلیم کا اثر دل پر نہیں ہوتا جب تک اپنی زبان میں نہ پڑھی جائے۔ میں اس پر مدتوں سے غور کررہا تھاکہ عیسائیوں میں باوجود دہریت کے عیسائیت کے ساتھ محبت ہے اور مسلمانوں میں مومن ہوکے بھی اتنی محبت نہیں۔ تو میں آخر اِس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم نے ایک ضروری چیز پر زوردیا اور ایک اَور ضروری چیز کو ترک کردیا۔قرآن کامتن پڑھنا بیشک ایک ضروری چیز ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے ورنہ تحریف پیدا ہوجاتی ہے لیکن ساتھ یہ بھی زور دینا چاہئے تھا کہ اردو جاننے والے اردو میں ترجمہ پڑھا کریں۔قرآن کی تلاوت کریں۔ ایک رکوع وہ پڑھ لیا پھر یہ ایک رکوع اردو میں پڑھ لیا۔جب تک وہ اردو میں نہیں پڑھتے اُس وقت تک تھوڑی عربی جاننے والا اُس کے مضمون کو کہیں اخذ نہیں کرے گا۔طوطے کی طرح رٹا د و اِس کا وہ اثر نہیں ہوگا جتنا کہ اپنی زبان میں پڑھنے سے۔ جب بائبل کے پڑھنے سے عیسائی پر اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ انگریزی میں یا جرمن میں پڑھتا ہے اور وہ اس کے دل میں داخل ہوتی چلی جاتی ہے تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بامحاورہ اردو زبان میں ترجمہ جلد شائع کیا جائے اور پھر ساری جماعت سے اصرار کیا جائے کہ تم روزانہ اِس اردو کی تلاوت کیا کرو علاوہ عربی کے۔تاکہ یہ مضامین تمہارے دل میں داخل ہوجائیں۔اِس طرح گویا ہماری جماعت کے چودہ تراجم کی انشاء اللہ تعالیٰ تکمیل ہوجائے گی جن میں سے سات ہوچکے ہیں(انگریزی کا بھی ہوچکا ہے اِس لئے آٹھ ہوچکے ہیں)اور باقی جو ہیں(چھپے ہوؤں کو میں نے نکال دیا تھا)وہ چھپ چکے ہیں اُن کو ملایا جائے تو یہ گیارہ ہوگئے۔دو تین اَور ہیں جو کہ ہونے والے ہیں۔ لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہماری جماعت پھر اُن کو پھیلائے۔ اگر وہ ترجمے پڑے رہیں تو پھر فائدہ کیا۔قربانی کرنی چاہئے اور اپنے بجٹوں میں سے ایک حصہ ایسا ضرور رکھنا چاہئے کہ جس کے ذریعہ سے لٹریچر کو شائع کیا جائے۔
اب عیسائی ہے عیسائی کو ہماری تبلیغ وہ اثر نہیں کرسکتی جتنا کہ قرآن اثر کرسکتا ہے۔ ہم اُس عیسائی کے سامنے آدھا گھنٹہ بات کریں گے تو ایسا ہی ہے جیسے کہ حسین عورت کا کان دکھا دیا۔کسی وقت ہم نے حسین عورت کی بھوں دکھا دی۔کسی وقت ایک حسین عورت کے ہم نے بال دکھا دیئے۔ کسی وقت ایک حسین عورت کی ایک ہم نے چھنگلیا دکھا دی۔کسی وقت ہم نے ایک حسین عورت کی دوسری انگلی دکھا دی۔کسی وقت ایک حسین عورت کا ہم نے انگوٹھا دکھا دیا۔کسی وقت ذرا سا برقع اتار کے اُس کا رنگ دکھا دیا۔اس سے تو کوئی عاشق نہیں ہوتا لیکن وہ سامنے آجاتی ہے جب ننگی ہو کر پھر ہر ایک فریفتہ ہوجاتاہے۔تو قرآن تو ایسا ہے جیسے اسلام کی ہم نے پوری شکل اُس کو دکھا دی اور ہماری تبلیغ ایسی ہے جیسے اس کو کوئی کان دکھا دیا،ناک دکھا دیا،آنکھ دکھا دی۔تو عشق کے پیدا کرنے کے لئے اُس کی ساری صورت کا پیش کرنا ضروری ہے۔پس قرآن جیسی تبلیغ دنیا میں اور کوئی نہیں۔ دوسری ساری باتیں اِس کی مُمد ہیں او روہ ایسی ہی ہیں جیسے ایک حسین عورت کے ساتھ ایک اچھا دوست مل جاتا ہے۔کسی کی بیٹی ہے اُس کی شادی کرنی ہے تو اسلام نے جائز رکھاہے شادی ہونی ہو تو دیکھ لے۔10 اِدھر وہ دکھاتا بھی ہے پھر ساتھ زبانی بھی تعریف شروع کردیتا ہے کہ یہ ایسی اچھی ہے، ایسی نیک ہے، ایسی بھلی مانس ہے تو ہماری تبلیغ تو ایسی ہی ہے جیسے کہ دیکھی ہوئی خوبصورت عورت کے آگے کوئی کہہ دے بڑی شریف ہے،بڑی نیک عورت ہے،تمہارے گھر میں برکت آجائیگی۔تو اصل تو یہی چیز ہے جب ایک انسان عورت کو دیکھے گا، اُس کی عقل کو دیکھے گا،اُس کے علم کو دیکھے گا تو ہ فیصلہ خود کرے گا شریعت نے اُس کے اختیار میں رکھا ہے فیصلہ کرے۔ لوگوں کی باتوں پر تو نہیں رکھا۔ اِس لئے اصل اسلام لانا جو ہے تو قرآن کے اوپر ہے۔ ہماری باتوں سے تو صرف ایک ضمنی تائید ہوتی ہے ورنہ اصل خوبصورتی اسلام کی قرآن سے ہی پتہ لگتی ہے۔
ایسے اخبار اور رسائل خریدو جو شریف اور تمہاری تائید کرنے والے ہوں
اِن کے علاوہ یہ بھی جماعت کو چاہئے میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ
بعض اخبارات ہوتے ہیں شریر دشمن۔ اور بعض ہوتے ہیں جو شرافت کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔میں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی زبان کے چسکہ کو نہ دیکھا کرو۔جو شریف اخبار ہیں اُن کو خریدو تاکہ اُن کو مدد پہنچے لیکن مجھے افسوس ہے کہ باہر کی جماعت تو الگ رہی یہاں بھی جب میں پوچھتا ہوں ربوہ میں کون سے اخبار بکتے ہیں؟ تواکثر جو ہمارے مخالف ہیں وہ بکتے ہیں او رجوتائید میں ہیں وہ نہیں بکتے۔ یہ تو گویا اپنی قوم کی آپ دشمنی ہے او راپنی ناک کٹوانے والی بات ہے۔ اصل غرض تو ہماری خبروں کی ہوتی ہے۔جب ہمیں خبریں کسی اخبار سے مل جاتی ہیں تو چسکے کی خاطر ہم اپنے دشمن کی گودکیوں بھریں۔ مثلاً پچھلے دنوں میں‘‘ڈان’’نے کراچی میں اچھی تائید ہماری زور سے کی ‘‘سول اینڈ ملٹری’’ نے لاہور میں کی۔‘‘ملت’’ نے لاہومیں کی۔‘‘نوائے وقت’’نے بعض دفعہ تائید بھی کی۔کم سے کم شر میں جب اس نے مخالف بھی لکھا تو اصولی بات پر لکھا جماعتی اختلاف پر نہیں لکھا۔پھر’’لاہور’’اخبار ہے اِس میں بھی احمدی نقطہ نگاہ جو ہے اُس کی تائید ہی ہوتی ہے خلاف تو نہیں ہوتا۔ہمارے بعض اپنے آدمی اُس کے اخبار میں ایڈیٹر ہیں،تعلق والے ہیں۔ تو میں نے دیکھا ہےجب لیں گے تو’’زمیندار’’لیں گے۔ کیا ہے کہ ذرا گالیاں چسکے کی ہیں۔یہ نہیں کبھی میں نے سنا کہ فلانا جوتی زیادہ اچھی مارتا ہے تو میں اپنی بیٹی یا بیوی کو لے جاؤں کہ ذرا سر پر جوتیاں لگادے۔اِ س میں تو تم یہ کہتے ہو کہ میں کیوں اپنی ذلّت کراؤں او ریہ بڑا مشغلہ ہورہا ہے کہ حضرت صاحب کو گالیاں دے رہا ہے،مجھے گالیاں دے رہا ہے،سلسلہ کو گالیاں دے رہا ہے اور تم لے کر خرید رہے ہو۔اس کو پڑھ رہے ہو،یہ بڑا اچھا اخبار ہے، بڑا مزا آتا ہے۔میرے خیال میں تو یہ صفرا کی زیادتی ہے صفرا میں میٹھا بُرا لگنے لگ جاتا ہے۔ہر چیز کڑوی لگنے جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسے آنکھوں کے اندھے ہوتے ہیں کہ زرد کو سرخ دیکھتے ہیں او رسرخ کوسُبتی 11 دیکھ لیتے ہیں۔ ایسے ہی اُس شخص کی مرض ہے کہ اپنی مفید چیز کو تو پسند نہیں کرتا اور غیر مفید کو پسند کرتا ہے۔
تو یہ اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ جو تمہاری مخالفت کرتا ہے بلاوجہ اور دشمنی کرتا ہے تم نے وہ اخبار نہیں خریدنا۔جب دو اخبار ہیں اور دونوں غیر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تم اُس غیر کے پاس نہیں جاتے جو شریف ہے تاکہ اُسکی حوصلہ افزائی ہو اور اُس غیر کو نہیں چھوڑتے جو کہ شرارتی ہے اور تمہیں بدنام کرتا ہے۔ تو جب سلسلہ کے باہر اخبار لینا پڑے تو ہمیشہ ہی ایسے رسائل اور اخبار لو جو تمہاری مخالفت نہیں کرتے یا تمہاری تائید کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے ہوسکتے ہیں۔مثلاً’’نوائے وقت’’ہے اس نے خاص طور پر کبھی مخالفت نہیں کی۔پہلے بھی مَیں اس کی تائید کرچکا ہوں کہ جب وہ اصولی بات لکھتا ہے احمدیت کی کچھ تائید ہی کرجاتا ہے۔ مثلاً ظفراللہ خان کے خلاف اُس نے لکھا مگر بنیاد یہی رکھی کہ جب ساری قوم کہتی ہے ہٹ جائیں تو ظفر اللہ خان کیوں نہیں ہٹ جاتے۔یہ نہیں کہا کہ ظفر اللہ خان چونکہ احمدی ہے ہٹ جاتے۔یہ کہا کہ قوم میں خواہ مخواہ شور پڑا ہوا ہے ظفر اللہ خان کیوں نہیں چھوڑ دیتے وزارت۔ تو یہ بالکل اَور مسلک ہے اِس میں ہماری مخالفت نہیں ہے اِس میں ایک کامن سنس کی بات ہے جو ہماری سمجھ میں نہ آوے اُس کی سمجھ میں آگئی’’۔ (غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
تحریک جدیداپنے اہم ترین دَور میں سے گزر رہی ہے
‘‘اب میں اس ضروری امر کو لیتا ہوں کہ تحریک جدید ایک اہم ترین دَور میں سے گزر رہی ہے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسے
اچھی طرح ذہن نشین کر لے اور اپنے آپ کو اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے تیار کرے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دَور اوّل کے بدلنے کے ساتھ جو ایک قسم کا تغیر ہؤا ہے اس کی وجہ سے جیسے گاڑی کا کانٹا بدلتا ہے تو انسان کو دھکّا لگتا ہے اِسی طرح اس تغیر کا نتیجہ یہ نِکلا ہے کہ اِس دفعہ چالیس فیصدی وعدے کم آئے ہیں ۔ چالیس فیصدی جب زیادہ آتے تھے تب بھی خرچ پورا نہیں ہوتا تھا لیکن چالیس فیصدی کم آنے کے تو یہ معنے ہیں کہ سب مشن بند کر دیئے جائیں اور مشنریوں کو خالی بٹھا رکھا جائے۔ یہ نتیجہ محض اس بات کا ہے کہ باوجود میرے کہنے کے کہ یہ تحریک صرف چند سالوں کے لئے نہیں لوگ اِسے وقتی تحریک سمجھتے رہے ۔
میر اتجربہ ہے کہ باوجود اِس کے کہ لوگوں کو سمجھا تے چلے جا ؤ کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن قادیان میں مَیں کہہ رہا تھا کہ دیکھو تم نے قادیان سے نکلنا ہے تو سارے ہنس کے کہتے تھے ہمیں یونہی جوش دلا رہے ہیں مگر قادیان سے پھر نکل آئے۔ پھر مَیں نے کہنا شروع کیا دیکھو ابھی تم نے یہاں زیادہ دیر رہنا ہے لیکن یہیں ہمارے آدمی لوگوں کو کہتے پھرے کہ میاں کیا مکان بنانا ہے اب تو ہم قادیان جانے والے ہیں۔ یہاں بے چارے ایک دوست تھے جو فوت ہو گئے وہ جب کوئی مکان بنوانے لگتاتو اُسے جا کے کہتے کیا کر رہے ہو مارچ میں تو ہم نے وہاں جانا ہے اب کے گندم وہاں کاٹنی ہے ۔اس عرصہ میں وہ آپ فوت ہوگئے اور سات سال کے بعد یہیں دفن ہوئے۔ تو وقت پر سمجھا تے رہو دلوں پر کچھ ایسی گِرہ پڑجاتی ہے کہ سمجھنے میں ہی نہیں آتے ۔مَیں جماعت کے لوگوں کو باربار کہتا رہا کہ تمہیں اسلام کے لئے دائمی طور پر قربانیا ں کرنی پڑیں گی مگر اِس کو سُنتے ہوئے بھی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تو ہؤ ا مذاق۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ صرف چند سالوں کی بات ہے اور اب جبکہ مَیں نے کھول کر بتا دیا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ کے لئے ہے تو بس خاموش کھڑے ہیں وعدہ ان کے مُنہ سے نہیں نکلتا لیکن سوچ لو اِس کا نتیجہ کیسا خطرنا ک ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو ہمیں اپنے سارے مشن بند کرنے پڑیں گے اور کہنا پڑے گا کہ جماعت چندہ نہیں دیتی مگر کیا ایسی صورت میں ہم دُنیا کو اپنا مُنہ دکھا نے کے قابل رہیں گے؟ پس اِس غفلت کو دُور کرو اور اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو ہما ر افرض ہے کہ ہم اپنے اس کا م کو بڑھا تے چلے جائیں اور اِتنا بڑھائیں کہ دُنیا کے کو نے کونے میں اسلام کی تبلیغ پہنچ جائے یہ چیز ہے جو ہم کو ساری دُنیا پر ممتاز کرتی ہے ۔
تمہارا ایک ایسا فخر جسے کوئی چھین نہیں سکتا
‘‘ الفتح ’’ اخبار مصر کا ایک شدید مخالف اخبار
ہے پچیس تیس سال سے وہ ہماری مخالفت کرتا آتا ہے لیکن تبلیغ کے سلسلہ میں اُسے لکھنا پڑا کہ احمدیوں کے مقابلہ میں ہماری شرم سے گردنیں جھک جاتی ہیں ہمارا روپیہ ان سے سینکڑوں گُنے زیادہ ہے، ہمارے آدمی ان سے سینکڑوں گُنے زیادہ ہیں، ہماری طاقت ان سے سینکڑوں گُنے زیادہ ہے لیکن تبلیغِ اسلام کے لئے غیر ملکوں میں جا کر جو یہ لوگ کام کررہے ہیں اس کے مقابلہ میں ہمارے پاس صفر ہے۔ حالانکہ وہ شدید دُشمن ہے لیکن کہتا ہے اس بات میں ہم کو ماننا پڑتا ہے سچائی کا ہم کس طرح انکا ر کر دیں۔ تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں خدا تعالیٰ نے تم کو ایسا فخر دیا ہے کہ سوائے اس کے کہ کوئی ڈھیٹھ بن کے انکار کر دے اس کے لئے اور کوئی صورت ہی نہیں ہے؟ جیسا کہ روپیہ کسی کے ہاتھ پر رکھ دو تو وہ کہتا جائے کہ کچھ بھی نہیں ہے یا چھوٹے بچے بعض دفعہ کھیلتے ہیں تو یونہی ماں یا باپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ میں نے روپیہ دیا ہے مٹھی بند کر لو۔ وہی بات ہے اگر کوئی شخص ہماری تبلیغ دیکھ کر بھی کہتا ہے کہ کوئی تبلیغ نہیں تو ساری دُنیا اس پر ہنستی ہے کہ احمق آدمی ہے تبلیغ ہو رہی ہے، لوگ مسلمان ہو رہے ہیں یہ کس طرح کہتا ہے کہ تبلیغ نہیں ہو رہی۔ غرض ایک ہی چیز ہے جس کا کوئی بھی انکا ر نہیں کر سکتا۔ اگر اِس خوبی کو جس کا کوئی بھی دُنیا میں انکار نہیں کر سکتا،جس کو دُشمن بھی مانتا ہے تم تلف کر دیتے ہو تو پھر مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اور کونسی دلیل ہے جس سے مَیں تمہیں سمجھا سکوں ۔
مسیحیت کو تم بُرا کہتے ہو، کہتے ہو یہ دجّال ہیں لیکن مسیحیت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سَوسال پہلے کی آئی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ کو تیرہ سو پچیس سال کے قریب اور مسیح کے زمانہ کو 1953ء سال گزرے ہیں لیکن باوجود سَوا چھ سَو سال اُوپر ہونے کے اُن کی یہ حالت ہے کہ آج بھی ساری دُنیا میں عیسائی مبلغ پِھر رہا ہے۔ اور مسلمانوں کو تبلیغ چھوڑے ہوئے بارہ سَو سال گزر چکے ہیں بس پہلی صدی کے بعد مسلمانوں نے کہا بہت ہو گیا اب نہیں ضرورت۔ مگر خیر ان کی تو کچھ بات بھی تھی وہ چند کروڑ ہو گئے تھے مگر تم تو نہ تین میں ہو نہ تیرہ میں۔ ابھی بہت ہوئے ہی نہیں۔ تم کس طرح تھکے بیٹھے جا رہے ہو ۔اگر تمہاری تعداد بھی کروڑوں کروڑ ہو چکی ہوتی،اگر تم بھی دُنیا میں کوئی غلبہ حا صل کر چکے ہوتے،اگر تم کو دُنیا میں تجارتیں مِل جاتیں، تم کو حکومتیں مل جاتیں اور پھر تم سُست ہو جاتے تو سمجھ میں آ سکتی تھی کہ تھک گئے۔ بے وقوفی سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے لیکن تم نے تو ا بھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا ۔ ایک آدمی جس نے روٹی کھا لی ہو، پیٹ بھرا ہؤ ا ہو وہ اگر کہہ دے کہ شام کا کھانا نہیں کھائیں گے پیٹ بھرا ہؤ ا ہے تو اُس کو بھی ہم بے وقوف ہی سمجھیں گے اور کہیں گے کہ شام کو پتہ لگے گا۔ لیکن ایک آدمی جو فاقے بیٹھا ہے وہ اگر کہے ہم نہیں پکاتے پیٹ بھرا ہؤ ا ہے اُس کو سوائے پاگل کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ تو تمہارے سامنے تو ایسا کام پڑا ہؤا ہے کہ جس میں سے کوئی حصّہ تم نے کیا ہی نہیں۔ تم خدا کے سامنے بھی جوابدہ ہو، تم انسانوں کے سامنے بھی جوابدہ ہو، تم اپنے نفس کے سامنے بھی جوابدہ ہو، تم اپنی اولادوں کے سامنے بھی جوابدہ ہو ۔ تمہاری آنے والی اولادیں کہیں گی کہ میرا باپ کتنا بے وقوف تھا کہ اس نے میرے لئے کانٹے بوئے ،کتنا قریب کا زمانہ اس کو ملا، اسے وہ دلائل اسلام کی تائید میں ملے جن کو مسیح موعود ؑ نے پیش کیا تھا وہ دلائل سے جو قرآن کریم کی نئی تفسیروں سے اس کے سامنے آ گئے تھے۔ وہ ذرائع ملے کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے آگے آرہے تھے لیکن پھر بھی اس بے وقو ف نے اُس وقت قربانی نہ کی اور آج ہمارے لئے یہ امر تباہی اور ذلّت کا موجب بنا ہؤ ا ہے۔پس تمہارا فرض ہے تمہاری اولادوں کے لئے، تمہارا فرض ہے خدا کے سامنے، تمہارا فرض ہے اپنے نفس کے سامنے، تمہارا فرض ہے اپنی قوم کے سامنے، تمہارا فرض ہے اسلام کے سامنے، تمہارا فرض ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہ تم اپنی اس ذمّہ داری کو ادا کرو اور اسلام کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پہنچاؤ ۔
پس اس کام میں کسی قسم کی کوئی سُستی اور اُنیس بیس کاسوال نہیں ۔زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ لو گے کہ یہ ہمارا پِیر بنا بیٹھا ہے مگر اس کونہیں پتہ لگا کہ یہ تحریک دائمی ہے۔ تم بے شک کہہ لو کیا حرج ہے۔ مَیں تو اس کی حکمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اگر اُس وقت پتہ لگ جاتا تو تم نے اِتنی دُور نہیں چلنا تھا۔ یہ تو خدا نے جیسا جانور کو گھاس دِکھا دِکھا کر آگے لے جاتے ہیں اِسی طرح کیا ہے کہ گھا س دِکھایاتھوڑا سا چلایا۔ پھر گھاس دکھایا پھر آگے چلایا۔ پھر گھاس دکھایا پھر آگے چلایا لیکن ایک وقت آ گیا کہ اس نے کہا چھوڑو اس مخول کو سیدھی طرح ظاہر کرو کہ تمہیں قیامت تک یہ کام کرنا پڑے گا ۔
دیکھو اسلام باوجود اپنے سارے دلائل کے اِس وقت دُنیا کی آبادی کا زیادہ سے زیادہ ¼ حصّہ ہے اور عیسائیت اپنی ساری نا معقولیوں کے تعداد کے لحاظ سے دنیا کے3/1حصّہ سے زیادہ ہے اور طاقت کے لحاظ سے تو ساری طاقت اس کے پاس ہے ۔نوّے فیصد ی طاقت اس کے پاس ہے دس فیصدی لوگوں کے پاس ہے ۔یہ نتیجہ ہے ان کے تبلیغ کرنے کا انہوں نے باطل کی تائید کی اور اس کو غالب کردیا ۔مسلمانوں نے سچ کی تائید نہ کی اور سچ مغلوب ہو گیا ۔
خدا نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص کسی مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرے گا وہ جیتے گا جو نہیں کرے گا وہ مغلوب ہو جائے گا۔ اور جو عیسائیت کا لوگوں کے دماغ پر اثر ہے اس کو اگر دیکھیں تو وہ سَو فیصدی ہے۔ یعنی اب جو مسلمان کہلانے والے ہیں اگر تم ان سے باتیں کرو تو ان کے خیالات، ان کا فلسفہ، ان کی آراء، ان کے فیصلے سارے عیسائیت کے ماتحت ہیں ۔اسلام والی کونسی بات ہے۔ صرف یہ کہہ دیں گے ‘‘اسلام زندہ باد ‘‘ اور اس کے بعد ساری عیسائیت کی باتیں شروع کریں گے ۔
اسلام زندہ باد، اسلام میں ڈیمو کریسی ہے حالانکہ ڈیمو کریسی تو ہے ہی امریکہ اور انگلستان کا لفظ۔ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سُنا بھی نہیں تھا ۔ڈیمو کریسی کہاں سے آ گئی۔ تم یہ کہو کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کو اصل شکل میں پیش کرو پھر آپ دنیا فیصلہ کرے گی کہ یہ تعلیم ڈیمو کریسی سے کتنی ملتی ہے اور کتنی نہیں ملتی۔ یا کہہ دیں گے اسلام میں روٹی کپڑے کا انتظام مسلمانوں نے کیا تھا ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں کمیو نزم ہے۔ غرض وہ نام جس کو سَو سال پہلے بھی ہمارا باپ نہیں جانتا تھا وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیں گے حالانکہ کہنا یہ چاہئے کہ اسلام روٹی کپڑے کا انتظام کرتا ہے پھر آپ ہی آپ لوگ فیصلہ کر لیں گے کہ کمیو نزم سے اِس کا کتنا جوڑ ہے اور کتنا نہیں لیکن دماغ پر چونکہ عیسائیت کے خیالات غالب ہیں اِس لئے نقل کرنی جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم کہیں گے کہ اسلام کمیونزم ہے تو پھر بہت سے لوگ کہیں گے واہ واہ بڑی اچھی بات ہے ۔حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اسلام کمیونزم نہیں لیکن ہم کو بے وقوف بنانے کےلئے کمیونسٹ بھی کہتے ہیں۔ ہاہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے اسلام کمیونزم ہے۔ اور جب کوئی کہہ دیتاہے کہ اسلام ڈیمو کریسی ہے تو خوب جانتے ہیں کہ اسلام وہ ڈیمو کریسی نہیں سکھاتا جو یورپ سکھاتاہے لیکن وہ ہم کو اُلّو بنانے کے لئے کہتے ہیں ہاں ! بالکل ٹھیک ہے ۔
قرآن کریم میں ڈیمو کریسی ہے تاکہ مسلمان ان کی تائید کرتے رہیں۔ غرض آدھے ایک عقیدہ کے غلام بنے ہوئے ہیں اور آدھے دوسرے کے۔ ہمارا دماغ ان کے ماتحت ہے، ہمارے افکار ان کے ماتحت ہیں، ہمارے ذہن ان کے ماتحت ہیں اور سَو فیصدی ہم ان کے ماتحت ہیں۔ مذہب کو لے لو حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں اور ہم ان کی عزت کرتے ہیں مگر سچا ہونا اَور چیز ہے اور کسی کو اپنا لیڈر تسلیم کرنا اَور بات ہے ۔
ہمارے لیڈر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سب مانتے ہیں کہ آپ فوت ہوچکے ہیں لیکن یہ کہہ دو کہ عیسیٰ مر گیا ہے تو دوسرے کے مُنہ میں جھاگ آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ کیو ں ہے؟ یہ محض عیسائیت کے اثر کی وجہ سے ہے ۔
عیسائی کہتے ہیں مسلمان ایسے روا دار ہیں کہ عیسیٰ ؑ جو اُن کا نبی نہیں تھا اس کو بھی وہ زندہ مانتے ہیں اور ہم نے کہا سبحان اللہ !اب تو عیسائی بھی ہماری تعریف کر رہے ہیں اِس لئے جتنا ہم اس کو آسمان پرچڑھائیں گے اُتنا ہی عیسائی ہم پر خوش ہو جائیں گے۔ غرض تم کو ان سب کا مقابلہ کرنے کے لئے اور پھر دوسری رَو جو کمیونزم کی ہے اِس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔مسیحیت تم کو اخلاق اور تعلیم کے نام پر دھوکا دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرسچین سویلائزیشن(CHRISTIAN CIVILIZATION)۔ اور مسلمان بھی اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ کرسچین سویلائزیشن۔ حالانکہ کوئی کرسچین سویلائزیشن دُنیا میں نہیں ہے ۔اگر کوئی سویلزیشن ہے تو محض اسلام کی سویلزیشن ہے مگر مسلمان اسلامک سویلائزیشن کی موجودگی میں بولے گا تو کہے گا کرسچین سویلائزیشن کیونکہ یورپ کے لوگوں سے اُس نے یہ لفظ سیکھا ہؤ ا ہے۔ عیسائیت کے ساتھ اخلاق کا کوئی تعلق نہیں بھلا یہ بھی کوئی تعلیم کہلا سکتی ہے کہ تیرے ایک گال پر اگر کوئی شخص تھپڑمارے تو تُو دوسرا اُس کی طرف پھیر دے 12 یہ بد اخلاقی اور بزدلی ہے یا بے غیرتی کی تعلیم ہے ۔
اخلاقی تعلیم وہ ہے جو قرآن سکھاتا ہے کہ اگر مار کھانے میں فائدہ ہو تو مار کھا اوراگر مارنے میں فائدہ ہو تو مار۔ بہر حال جس سے دُنیا کو فائدہ پہنچتاہو، جس سے لوگوں میں امن قائم ہوتا ہو، جس سے دوسرے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہو وہ کام کر ۔نہ مار کھانا اچھا ہے اور نہ مارنا اچھا ہے ۔ دونوں بُرے ہیں ہا ںوہ چیز اچھی ہے جو اپنے موقع پر کی جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لطیفہ سُنا یا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ کہیں شیر اور بھیڑیا میں بحث ہو گئی کہ سردی پوہ میں ہوتی ہے یا ماگھ میں۔ خوب لڑے۔ شیر کہے پوہ میں ہوتی ہے بھیڑیا کہے ماگھ میں ہوتی ہے ۔آخر بڑی دیر بحث کرنے کے بعد اُنہوں نے کہا گیدڑ کو بلاؤ اور اُس سے فیصلہ چاہو۔ گیدڑ بے چارہ آیا اُس کے لئے وہ بھی مارکھنڈ13 تھا اور یہ بھی مارکھنڈ ۔اِس کی بات کہے تو وہ مارے، اُس کی بات کہے تو یہ مارے۔ آخر کہنے لگا ٹھہر جاؤ ذرا سوچ لوں ۔سوچ سوچ کر کہنے لگا
سنو سنگھ سردار بگھیاڑراجی
نہ پالاپوہ نہ پالا ماگھ پالا واجی
یعنی ٹھنڈی ہو ا چلتی ہے تو سردی ہو جاتی ہے ورنہ سردی نہ پوہ میں ہے نہ ماگھ میں۔
ربوہ میں تو یہی ہوتا ہے کہ ہوا چلتی ہے تو ہم ٹھٹھرنے لگ جاتے ہیں اور ہوا بند ہوتی ہے تو رات کے وقت دروازے کھول دیتے ہیں۔ تو اصل چیز یہی ہے کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مُنہ پر جب تک تھپڑ نہ ماریں اُس کی اصلاح نہیں ہوتی اور کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ مارنا اس کے لئے مُضر ہو جاتا ہے ۔
مَیں نے کئی دفعہ قصّہ سُنایا ہے بچپن میں میرے پاس ایک کشتی تھی اس کو لڑکے چھیڑا کرتے تھے، لے جاتے تھے اور پھر اس پر کُودتے تھے ۔اپنی طرف سے گویا کھیلتے تھے مگر در حقیقت توڑتے تھے۔ آٹھ اِدھر بیٹھ گئے آٹھ اُدھر بیٹھ گئے اور پانی میں غوطہ دے دیا۔ مَیں جاؤں تو ہر روز دیکھوں کہ کشتی خراب ہو گئی ہے ۔میرے جو دوست سکول میں پڑھتے تھے مَیں نے ان سے کہا کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ اُنہوں نے کہا آپ کو پتہ نہیں اسے تو دوپہر کے وقت لڑکے لے جاتے ہیں اور اسے خوب خراب کرتے ہیں ۔مَیں نے کہا تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تم اب مجھے بتانا۔ اُنہوں نے کہا اچھا۔ دوسرے تیسرے دن عصر کے قریب بھاگا بھاگا ایک لڑکا آیا کہنے لگا چلو اب وہ کشتی لے گئے ہیں۔ مَیں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کشتی ڈھاب میں لے گئے ہیں، دس دس لڑکے اس پر سوار ہیں اور کچھ بیچ میں لٹکے ہوئے ہیں اور اس پر چھلانگیں لگاتے ہیں ۔ کوئی مٹی ڈالتا ہے، کوئی پانی پھینکتا ہے غرض ایک کھیل مچائی ہوئی ہے جیسے فٹ بال ہوتا ہے ۔مجھے سخت غصّہ آیا مَیں نے اُن کو آواز دی کہ اِدھر آؤ چونکہ ان میں سے کوئی قصائی تھا، کوئی نائی اور گاؤ ں میں ہما ری حکومت تھی وہ مجھ سے ڈر کر بھاگے حالانکہ وہ میرے قابو میں نہیں آسکتے تھے وہ مجھ سے دوسری طرف تھے لیکن میری اس آواز کا رُعب ایسا پڑا کہ وہ بے چا رے چپکے سے کشتی لے آئے اور کچھ بھاگ گئے۔ جُوں جُوں وہ آتے چلے جائیں انہیں ڈر آتا جائے کہ اب ہمیں مار پڑے گی ۔آخر کُود پڑے اور تیر کر نکل گئے۔ صرف ایک لڑکا رہ گیا اور وہی لیڈر تھا اُن کا ۔ وہ جس وقت کنا رے پر کشتی لایا تو میں غصّے میں اس کی طرف گیا وہ زیادہ مضبوط تھا اور مجھے غرور تھا اپنے مالک ہونے کا۔ مَیں نے زور سے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ اِس پر اُس نے اپنا مُنہ بچانے کے لئے ہاتھ آگے رکھ دیا۔ جب اُس نے ہاتھ رکھا تو مجھے اَور غصّہ چڑھا اور مَیں اُسے مارنے کے لئے ہاتھ پیچھے لے گیا۔ جب میں تھوڑی دُور تک لے گیا تو اُس نے ہاتھ نیچے کر لیا اور کہنے لگا کہ مار لو ۔بس اُس کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ وہیں میرا ہاتھ گر گیا اور اُس وقت یہ حالت ہوئی شرم کے مارے کہ مجھ سے واپس نہیں ہؤا جاتا تھا۔ تو کوئی وقت مارنے کاہوتا ہے اور کوئی معاف کرنے کا ہوتا ہے ۔ کسی وقت انسان مار کے اصلاح کرتا ہے اور کسی وقت معاف کر کے اصلاح کرتا ہے۔یہ بے وقوفی کی بات ہوتی ہے کہ ایک ہی چیز کو انسان لے لے اور کہے کہ اِسی طرح کرنا ہے۔
اسلام نے ہم کو درمیا نی تعلیم دی ہے۔ تو سویلائزیشن تو ہے ہی اسلام میں۔ سویلائزیشن اور کسی مذہب میں ہے کہا ں کہ اِس کا نام ہم کرسچن سویلائزیشن رکھیں سوائے اسلام کے کوئی سویلائزیشن نہیں مگر چونکہ عیسائیت غالب ہے اس لئے ہم اس کے پیچھے ناچتے ہیں ۔پس تم کو ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے اور اسلامی تہذیب کو دُنیا میں پھیلانا ہے۔ دُنیا کے پاس جو کچھ ہے بے شک وہ بعض جگہ پُرامن بھی ہے لیکن اس امن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دُنیااندھیر ے میں ہے جب تک اسلام کا نور اِن لوگوں تک نہیں پہنچے گا اُس وقت تک دُنیا کا اندھیرا دُور نہیں ہو سکتا۔ سورج صرف اسلام ہے جو شخص اِس سورج کے چڑھا نے میں مدد نہیں کرتا وہ دُنیا کو ہمیشہ کے لئے تا ریکی میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا انسا ن کبھی دُنیا کا خیر خواہ یا اپنی نسل کا خیر خوا ہ نہیں کہلاسکتا۔
ہر احمدی تہیّا کرلے کہ اُس نے بہرحال تحریک جدید میں حصّہ لینا ہے
اِس وقت تک تحریک کے ذریعہ سے جو تبلیغ ہوئی ہے اِس کے نتیجہ میں تیس چالیس ہزار آدمی
عیسائیوں سے مسلمان ہو چکا ہے اور یہ طاقت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اِسے مضبوط کرنا ہر احمدی کا فرض ہے بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ احمدی نہ ہو اُس کا بھی فرض ہے کہ اِس کا کا م میں مدد دے۔ اب چھوٹا کا م ہونے کی وجہ سے مرکزی خرچ تبلیغ سے نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اگر کام پھیل جائے تو یہ نسبت کم ہو جائے گی۔ پس:-
اوّل تو یہ ضرورت ہے کہ ہر مبلغ کو اِدھر اُدھر چلنے اور لیکچر دینے کے لئے اور ہال لینے کے لئے اور لٹریچر تقسیم کرنے کے لئے زیادہ امداد یہاں سے پہنچے۔
دوسرے یہ ضرورت ہے کہ باہر کے ملکوں سے مزید طالب علم یہاں بلوائے جائیں اور مرکز میں تیا ر کئے جائیں ۔
تیسرے یہ ضروری لٹریچر وسیع پیمانہ پر تیار کیا جائے اور جماعت اِسے خود پڑھے اور مستحق لوگوں میں تقسیم کرے۔
چوتھے یہ کہ چندہ کو مضبوط کیا جائے اور کسی دَور کے اختتام کو اختتام نہ سمجھا جائے بلکہ یوں سمجھا جائے کہ ہم نے ایک چورن کھایا ہے تاکہ ہمارا ہاضمہ دین کے ہضم کرنے کے لئے زیادہ مضبوط ہو جائے۔ اور یہ دَور ہم کو اس لئے ملا تھا تاکہ ہم آئندہ قر با نیا ں زیادہ شوق سے کر سکیں۔ اب اس چندے کو لازمی کر دیا گیا ہے اب ہر مرد اور ہر عورت کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصّہ لے لیکن ہماری پانچ روپے کی شرط موجود ہے۔ جو پانچ روپے تک اکٹھا نہیں دے سکتا وہ دو مِل کے پانچ دے دیں، تین مِل کے پانچ دے دیں، چا ر مِل کے پانچ دے دیں، پانچ مِل کے پانچ دے دیں، سارا خاندان مِل کے پانچ دے دے لیکن حساب کی سہولت کے لئے وہ قائم ہے کہ کم سے کم پانچ کی رقم ہو چاہے وہ کئی آدمی مل کر دیں ۔
مَیں جیسا کہ بتا چکا ہوں اِس وقت تک کے وعدے گزشتہ سالوں سے چالیس فیصدی کم ہیں اور یہ خطرنا ک بات ہے۔ خرچ اِس وقت پچیس فیصدی زیادہ ہو چکا ہے اور اَور بڑھتا چلاجائے گا اس کا علاج یہی ہو سکتا ہے کہ:-
(1) ہر احمدی مرد اور عور ت اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے اور ¼ سے ایک ماہ کی پوری آمد تک حسب حال چندہ دے یعنی کم سے کم چندہ۔ ہر شخص کوشش کرے کہ اپنی ماہوار آمدن کا ¼ ایک دفعہ دے دے یعنی اڑتا لیسواں حصّہ سال کی آمدن کا۔ یا دو فیصدی سمجھ لو اور آٹھ فیصدی تک جو زیادہ تو فیق رکھتے ہیں۔ مثلاً تنخواہ زیادہ ہے، شادی نہیں ہوئی یا بیوی ہے بچے نہیں یا بچے ہیں لیکن خرچ ایسے مقام پر ہے جہاں خرچ کم ہوتاہے یا تنخواہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے باوجود روپیہ بچ جاتا ہے تو ایسا آدمی کوشش کرے کہ مہینہ کی ایک تنخواہ کے برابر دے دے لیکن چونکہ پہلے بعض لوگ اِس سے بھی زیادہ دیتے رہے ہیں مَیں نے کہا ہے کہ وہ فی الحال دس فیصدی کم کرنا شروع کر دیں۔ جو لوگ ایسے ہیں وہ میرے خیال میں دس پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے وہ اِس سال مثلاً دس فیصدی کم کر دیں لیکن دوسرے آدمی جو اپنا چندہ بڑھائیں گے تو اِس سے یہ کمی انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور دوتین سال میں چندہADJUSTہو جائے گا۔
(2) دوسرے باہر کے مبلغ بیرونی مشنوں کو خود اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل بنائیں۔
(3) تیسرے مرکز، مرکزی خرچ کو بیرونی خرچ کے مقابل پر کم کرنے کی کوشش کرے اور ہر 19سا ل کے بعداس انیس سا ل میں حصّہ لینے والوں کی فہرست شائع کی جائے جو ہر جماعت کے پاس جائے،ہر چندہ دینے والے کے پاس جائے اور جماعت کی ہر لائبریری میں رکھی جائے تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے وہ نشان رہے کہ ہمارے دادانے اِتنے سال دین کی خدمت کے لئے اپنی آمد میں سے اِتنا حصّہ دیا تھا ۔جیسے لوگ یہ یاد رکھتے ہیں کہ ہمارا پڑدادا فلاں جگہ لڑا، فلاں لڑائی میں گیا اِسی طرح یہ جو دینی لڑائی ہے اِس کا اُن کے پاس ریکا رڈ رہے گا۔کتا بیں نکال نکال کے دوسروں کو دکھائیں گے کہ ہمارے باپ دادا نے یہ خدمتیں کی ہیں۔ پھر اِس طرح جو نئے آنے والے احمدی ہیں ان میں بھی جوش پیدا ہو گا کہ ہم بھی اِس ریکارڈ میں اپنا نام لکھوائیں۔ مرحومین کے متعلق ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کوئی ایک دو سال چندہ دے کر فوت ہو گیا ہو اگر وہ اپنی زندگی میں باقاعدہ چندہ دیتا رہا ہے تو اُس کے اُنیس سال مکمل سمجھے جائیں گے۔ اور یہ جو مَیں نے کہا ہے کہ بعض لوگ اپنا چندہ دس فیصدی کم کر سکتے ہیں اِس کمی کو پور ا کرنے کے لئے دوسرے لوگ اپنا چندہ بڑھائیں اور اِسے ایک مہینہ کی آمد تلک لے آئیں۔ اِسی طرح وہ لوگ جو اَب تک تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے اُن کو شامل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارے چندہ دینے والوں کی لسٹ صدر انجمن کے لحاظ سے کوئی 35ہزار ہے لیکن تحریک جدید میں حصّہ لینے والے صرف نو یادس ہزار ہیں۔ گویا ابھی اِس سے ڈھا ئی گنے اَور آدمی موجود ہیں جو اِس چندے میں شامل نہیں ۔اگریہ سارے کے سارے شامل ہو جائیں تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جو بعض پر بہت زیادہ بوجھ ہے وہ اگر ہم کم کریں گے تو اِس کے نتیجہ میں کمی نہیں آئے گی بلکہ پھر بھی چندہ میں زیادتی ہوتی چلی جائے گی ۔اب آپ لوگوں میں سے ہر شخص کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ چاہے دو دو مِل کر،تین تین مل کر کم سے کم رقم جو چندہ تحریک جدید کی ہے اِس کا دینا اپنے اوپر واجب کر لیویں اور کوئی جماعت ایسی نہ رہے جس کے تمام افراد شامل نہ ہوجائیں۔ مثلاً بچوں کی طرف سے بھی بے شک پیسہ پیسہ دو پر ہر بچے کا نام لکھاؤ ،ہر بیوی کا نام لکھاؤ اور پھر جو مل کے ٹوٹل ہو جائے اگر پانچ نہیں بنتا تو پھر کسی اَور خاندان کو ساتھ شامل کر لو اور اُن کو ملا کے پانچ کرلو یا پانچ سے زیا دہ کر لو۔ اِسی طرح جو غیر ملکی جماعتیں ہیں اُن کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر اپنے بوجھ اُٹھانے کے لئے خود تیا ر ہوں تاکہ اُن کے روپیہ سے دوسری جگہ مشن کھولے جا سکیں ’’۔ (الفضل 4 مئی 1960ء)
زمیندار احباب پیداوار بڑھانے کی کوشش کریں
‘‘جماعتِ پاکستان کو اپنی آمد بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ہمارے ملک کا زمیندار یقیناً اپنی آمد تین چار گُنے بڑھا سکتا ہے۔جاپان میں
ہماری گورنمنٹ نے ایک وفد بھیجا تھا جس نے آکر یہ رپورٹ کی کہ جاپان کی اوسط زمین تین ایکڑ فی خاندان ہے۔او ر اُن کی اوسط آمدن چھ ہزار روپیہ ہے گویا دوہزار روپیہ فی ایکٹر جاپان میں آمد پیدا کی جاتی ہے۔ اِس کے مقابلے میں ہماری دوہزارچھوڑ دو سو بھی نہیں ہے سو بھی نہیں ہے بلکہ عام طور پر تو پچیس تیس روپے فی ایکڑ نکلتی ہے۔ اگر اُس کی مزدوری اِس میں شامل بھی کرلی جائے تو ساٹھ ستّر اسّی روپے آجاتی ہے۔مربع والوں کی بیشک سو سوا سو بلکہ ڈیڑھ دوسو تک بھی بعض کی آمد ہوجاتی ہے لیکن کُجا دوہزاراور کُجا دو سو۔ اور کُجا اوسط پچیس تیس ہونا اور کُجا اوسط دوہزار کی۔دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک محنت کی عادت نہیں۔ہمارا آدمی کم سے کم چیز پر جس سے اُس کی روٹی چل سکے خوش ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ زیادہ آمد پیدا کریں کیونکہ ہم نے صرف روٹی نہیں کھانی بلکہ اولاد کو تعلیم بھی دلانی ہے اور اس نے دین کی خدمت بھی کرنی ہے۔اگر ہمارا ہر زمیندار اِس خیال سے محنت کرے کہ میں نے اپنی اولاد کو تعلیم دلانی ہے، اگر اس خیال سے محنت کرے کہ میں نے دین کی اشاعت کرنی ہے تو اُس کی زمینداری بھی ثواب بن جاتی ہے اور وہ بھی اُس کے لئے نماز ہوجائے گی۔مگر اس کے لئے وہ پوری کوشش نہیں کرتا۔پوری کوشش وہ تبھی کرے گا جبکہ اُس کو دل میں یقین ہوجائے کہ میری اِس محنت کے نتیجہ میں دینِ اسلام پھیل جائے گا، میری اِس محنت کے نتیجہ میں میرے بچے تعلیم پاجائیں گے او رپڑھ جائیں گے۔ اگر اس پر آئے تو دنیا کے باقی ملک جو ترقی کررہے ہیں ہم کیوں نہ کریں۔ ہمارا مبلغ ایک اٹلی میں تھا وہ آیا۔ہم نے اُسے بعد میں ہٹا دیا تھا بعض تخفیفیں ہوئی تھیں مبلغین کی۔تو میں نے کہا تمہارا گذارہ کس طرح ہوتا ہے؟ کہنے لگا میں نے انگریز عورت سے شادی کی تھی میرا خُسر دیتا ہے خرچ۔میں نے کہا وہ کہاں سے لیتا ہے؟کہنے لگا اُس کا باپ تھاقنصل انگریزی۔چودہ ایکڑ اُس نے اٹلی میں زمین خرید لی تھی وہ اُس نے مرتے وقت چونکہ بیٹے پر ناراض تھا اپنی بیٹی کو دے دی۔بیٹی آگے کسی امیر خاندان میں بیاہی گئی اُس کو اس کی ضرورت نہیں تھی تواُس نے مینجر بنایا ہوا تھا اپنے بھائی کو۔تو وہ میرا خسر ہے وہ مجھے خرچ دیتا ہے اور اُس میں ہمارا گذارہ ہوتا ہے۔میں نے کہا کتنی زمین ہے؟ کہنے لگا چودہ ایکڑ۔ میں نے کہا چودہ ایکٹر خود کاشت کرتا ہے؟ کہنے لگا نہیں۔ وہ آگے اُس نے اپنے پانچ کہ چھ مزارع بتائے کہ اُن کواس نے دی ہوئی ہے۔میں نے کہا تو پانچ چھ مزارع بھی اُس پر خرچ کرتے ہیں؟ اُس نے کہا ہاں۔ پھر اس میں وہ بھی خرچ کرتا ہے؟ کہنے لگا ہاں۔میں نے کہا پھر تمہیں بھی خرچ دیتا ہے۔ کہنے لگا ہاں۔میں نے کہا اُس بہن کو بھی دیتا ہے؟ کہنے لگا ہاں۔جو بچتا ہے اُس کو بھی بیچ دیتا ہے میں نے کہا یہ چودہ ایکڑ ہے یا چودہ ہزار ایکڑ ہے آخر یہ کیا بات ہے؟اُن کے گزارے ہم سے مہنگے ہیں، ہمارا زمیندار بیچارہ پندرہ بیس میں گذارہ کرلیتا ہے وہ ڈیڑھ دوسو سے کم میں گذارہ نہیں کرتا ماہوار۔تو چھ خاندان وہ پل رہے ہیں، ہزار روپیہ مہینہ تو وہ کھا رہے ہیں تیرا وہ انگریز بھی پانچ چھ سو خرچ کرتا ہوگا، تیرے اوپر بھی تین چار سو خرچ ہوتا ہوگا،کوئی ڈیڑھ دوسو اپنی بہن کو بھی بھیجتا ہوگا یہ جو تم دوہزار روپیہ مہینہ کمارہے ہو یہ کس طرح کمارہے ہو؟کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ وہاں کے زمیندار ے او ریہاں کے زمیندار ے میں فرق ہے۔کہنے لگا وہاں کا زمیندار چھوٹے سے چھوٹادنیا کی ہر چیز کررہا ہوتا ہے۔کہنے لگا چودہ کا کھیت ہے اِس میں چھ مزارع بیٹھے ہیں ہر مزارع اِس طرح کاشت کرتا ہے کہ اُس میں چارہ کافی پیدا ہوجائے جس میں دو تین بھینسیں وہ رکھے۔اُن کا دودھ بیچتا ہے۔ہر مزارع نے اپنے ٹکڑے میں درخت لگائے ہوئے ہیں اُن کے اندر اُس نے شہد کی مکھیاں رکھی ہوئی ہیں اُن سے وہ شہد بیچتا ہے۔ہر مزارع نے باڑ کے اردگرد پھول لگائے ہیں وہ مختلف وقتوںمیں پھول ہوتے ہیں اُن کے پھول بیچتا ہے۔ہر مزارع کے درخت پھل دار ہیں وہ اُن سے آپ بھی کھاتا ہے اور اپنے پھل بیچتا ہے۔ پھر اُن کے ہاں سؤر زیادہ پالتے ہیں ہر مزارع نے سؤر او رمرغیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں وہ اُن سے سؤر او رمرغیاں بیچتا ہے۔ غرض اتنے لمبے اُس نے کام گِنے او رکہا کہ وہ تین چار ایکڑ اس طرح استعمال کرتا ہے او ررات دن اِس طرح اُن میں محنت کرتا ہے کہ اُس میں وہ سینکڑوں روپے کماتا ہے ایک ایکڑ میں ۔
تو آخر ہماری زمینیں اُن سے ادنیٰ نہیں ہیں ہماری مشکل یہی ہے کہ ہمارا زمیندار یہ کہتا ہے پیٹ کو روٹی مل جائے تو بس پھر اور کوئی بات نہیں ہے۔ آگے بیٹے پڑھیں نہ پڑھیں،دین کی مدد ہو یا نہ ہو۔ اگر چندہ ہم مانگتے ہیں تو اپنی زمین پر محنت کرکے وہ چندہ نہیں دیتا اپنی قربانی کرتا ہے کہ اچھا دس روپے میں کماتا ہوں چلو وصیت کر دی روپیہ اُس میں سے دے دونگا۔اپنے آپ کو فاقہ مار کے چندہ دیتا ہے محنت کرکے گیارہ روپے کی آمد نہیں پیدا کرتا کہ ایک روپیہ ہم کو دیدے بلکہ اُسی دس روپے میں سے ایک روپیہ ہم کو دیتا ہے حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ہم اُس سے چندہ مانگنے جائیں تو وہ کہے اب میں زیادہ محنت کروں گا مجھ سے چندہ مانگ رہے ہیں اب میں دس کی آمد نہیں پیداکروں گا اب میں بارہ روپے مہینہ کروں گا۔ ان کو ایک روپیہ دو آنے دو نگا تو میری آمد دس روپے چودہ آنے ہوجائے گی۔ہم روز چندہ مانگیں تو کہے اچھا اب میں اَور محنت کرکے پندرہ روپے مہینہ کماؤں گا۔میں ان کو دو روپے دے دوں گا تیرہ روپے آپ رکھوں گا۔غرض جتنا اُس سے چندہ مانگیں اُتنا ہی وہ اپنی آمد کو بڑھائے تب جا کے اُس کے اندر بشاشت بھی رہ سکتی ہے۔تب جاکے اُس کے بچوں کی تعلیم بھی ہوسکتی ہے اور تب جاکے اسلام کی عظمت اور طاقت بھی پیداہوسکتی ہے۔
تو ہمارے زمینداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عزم کریں بلکہ میں تو ایک تجویز اور بتاتا ہوں کہ زمیندار تبلیغ کے لئے یہ اپنے اوپر فرض کریں اور اگر وہ مثلاً آٹھ کنال بوتے ہیں یافرض کروآٹھ ایکڑ بوتے ہیں تو وہ یہ کہیں کہ ہم محنت کرکے اب کی دفعہ 9ایکڑ بوئیں گے اور ایک ایکڑ کی آمدن ہم دین کی اشاعت میں دیں گے اِس طرح اُن کے مال میں برکت ہوگی۔ اگرو ہ واقع میں دیانت سے کام لیں گے تو اِس آٹھ کی جو آمد اُن کو ہوتی تھی اُس کی جگہ بارہ کی پیدائش ہوگی او روہ جو ایک زائد ہے وہ بغیر کسی اپنے پاس سے قربانی کرنے کے وہ دین میں دیں گے۔تو ہر زمیندار اپنے اوپر یہ فرض کرلے کہ وہ پانچ فیصدی حصہ اپنی کاشت کا دے دیا کرے۔چندہ کے لئے زائد کاشت کرے اپنی پہلی آمد میں سے نہ دے بلکہ زائد کاشت کرے او روہ رقم چندہ تحریک میں دے دے۔
ہمارا اندازہ یہ ہے کہ دو لاکھ ایکڑ کے قریب ہماری جماعت کے پاس زمین ہے تو دولاکھ میں دس ہزار ایکڑ سالانہ بن جاتی ہے اگر صحیح محنت کے ساتھ اُس پر کاشت کی جائے۔ اور اگر فرض کرو دو تہائی بھی لیا جائے کاشت میں سے نسبت کاٹ کر تو پھر بھی اِس کے معنے ہیں کہ چھ ہزار ایکڑ کاشت بنتی ہے۔ اگر25روپے رکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی صرف زمینداروں کی آمدن تحریک کے چندہ میں ہوجاتی ہے لیکن اِس سے تو زیادہ آمدن ہوجاتی ہے۔
میں مثال دینے لگا تھا کہ دیکھو غیر ملکوں نے اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے کتنی کوششیں کی ہیں۔ہمارے اِس علاقہ میں مکئی د س بارہ من ہوتی ہے سرگودھا۔لائل پور وغیرہ سنا ہے اچھی مکئی25-30من ہوجاتی ہے اور عام طور پر20-21سندھ میں یا اِدھر دوسرے علاقوں بہاولپور وغیرہ میں ہوتی ہے۔ لیکن میں نے امریکہ سے پتہ لگایا تو انہوں نے کہا ہمارے ہاں پچاس سے سو من تک فی ایکڑ مکئی پیدا ہوتی ہے۔ اب تم اِس سے اندازاً یہ سمجھ لو کہ اگر چھ روپے پر بھی قیمت آجائے آجکل تو دس بارہ پر بِکتی ہے لیکن اگر چھ روپیہ پر بھی قیمت آجائے تو چھ سَو روپیہ کی فی ایکڑمکئی نکل آئی۔تو انہوں نے بیج نکال لئے ہیں ایسے جن بیجوںمیں بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے۔میں نے ان بیجوں کے لئے خط وکتابت شروع کی کہ ہم یہاں تجربہ کریں تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے مختلف زمینوں کا حساب لگا کے کہ فلانی قسم کی زمین میں فلانا بیج لگتا ہے فلانی قسم کا نہیں ہوتا ایک ہزار سے زیادہ قسم کا بیج نکالاہے تم بتاؤ تمہاری زمینیں کون سی ہیں کہ ہم بیج دیں۔ ہم تو اِس پر حیران ہوگئے کہ ہم یہ ہزار واں حصہ کہاں سے نکالیں۔ہم نے کہا یہ تو ہمارے لئے مجبوری ہے اُس نے کہا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنا کوئی آدمی بھیجو جس کو ہم یہاں طریقہ سکھادیں وہ جائے پھر وہاں تمہاری زمینوں کو ٹیسٹ کرے تو پھر یہاں سے بیج بھیج دیا کریں گے۔ہم نے کہایہ بھی ہمارے ساتھ مشکل ہے۔ انہوں نے کہا پھر یہ طریقہ ہے کہ ہم اپنا آدمی تمہارے پاس بھیجتے ہیں وہ وہاں ٹیسٹ کرےگا اس کے لئے تم ہم کو چھ ہزار ڈالر دے دو(18ہزار روپیہ)ہم نے اِس کی بھی معذرت کی کہ ابھی تو ہمیں پتہ نہیں کہ کیا ہوجائے گا یہ بھی مشکل ہے۔ آخر ایک فرم نے کہا تم دینی خدمت کرتے ہو ہم تم کو سَوامن اندازہ لگا کے تمہارے ملک کی زمین کا بیج بھیج دیں گے چنانچہ اب وہ بیج آرہا ہے اگر وہ آگیا تو ہم اُس کا تجربہ کریں گے ممکن ہے وہ ہماری زمینوں کے ساتھ فِٹ کرے یا نہ کرے۔میں نے کہا دوسرا بیج ہم کو بھیج دو۔ انہوں نے کہا وہ تو اب ہم نے چھوڑ ہی دیاہے پچاس من یا سو من جب پیدا ہوتی ہے تو ہم نے پندرہ بیس من کیوں پیدا کرنی ہے۔ہماری عقل ماری ہوئی ہے تو ہم نے وہ بیج چھوڑ دیئے ہیں یہ نئے بیج شروع کردئے ہیں۔ تو دیکھو اِ س طریقے پر کتنی آمدنیں بڑھ جاتی ہیں۔
اِسی طرح گنّا ہے۔ گنّا بہت زیادہ آمدن والی چیز ہے۔ ماریشس وغیرہ میں تین سو من فی ایکڑ گُڑ نکلتا ہے۔ سرگودھا میں بعض نہایت اچھے ٹکڑوں میں ایک سو پچاس من تک گُڑ بعضوں نے نکالا ہے لیکن ہماری عام اوسط جو ہے وہ تیس چالیس من تک ہے تو اَب تیس چالیس من والے اور تین سو من والے کی نسبت ہی کیا ہوسکتی ہے آپس میں۔اگر فرض کرو آٹھ روپے کھانڈ ہے تو تم یہ سمجھو کہ تمہارا پانچواں حصہ رہ جائیگی۔یعنی چھ من رہ گئی۔تمہاری قیمت بنے گی اڑتالیس روپے او راُن کی قیمت بنے گی 480روپے۔ اس سے تو 480یعنی دس گُنے قیمت لینے والا جو ہے۔ تمہارا کیا مقابلہ ہے۔وہ دس ایکڑ پر کام کرے گا اور اُس کی پانچ سو روپیہ کی مہینہ کی آمدن ہوگی تم دس ایکڑ کرو گے او ر35روپے مہینہ کی آمدن ہوگی۔دونوں کی کوئی نسبت نہیں۔
اِسی طرح مثلاً تمباکو ہے۔ مجھے ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خان کہنے لگے کہ اپنی اسٹیٹوں پر تمباکوکا تجربہ کروائیں۔میں نے کہا چوہدری صاحب! ہم نے تمباکوتو پینا نہیں تو یہ تجربہ کس طرح آجائے گا؟ تو ہنس پڑے کہنے لگے ایک شخص ریل میں مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا تمباکو بوائیں۔ہم نے مدراس میں اس کا تجربہ کیا ہے چار ہزار فی ایکڑ نفع آرہا ہے تو آپ کے پاس اتنی زمینیں ہیں اور زمینیں ایسے علاقہ کی ہیں جن میں تمباکواچھا ہوسکتا ہے تو کہنے لگے میں نے بیساختہ وہی بات کہی جو آپ نے کہی ہے۔ میں نے کہا ہم نہیں تمباکو پیتے تو ہم نے تمباکو کیا بونا ہے۔ تو کہنے لگا چوہدری صاحب! آپ میری طرف دیکھئے۔ (وہ سکھ تھا) ہم پیتے ہیں؟کہنے لگا ہم نے آمدن لینی ہے۔پینے والے پیتے ہیں چاہے ہم بوئیں یا وہ بوئیں۔جب دوسرے لوگ پیتے ہیں تو پھر ہمارا کیا نقصان ہے۔میں بوتا ہوں میں نے تو پیسے لینے ہیں۔کہنے لگا چار ہزار ایکڑ ہم کو نفع ہورہا ہے مدراس میں انگریزوں کے ساتھ مل کر مَیں کررہا ہوں تو اگر آپ بوئیں تو آپکی تو پچاس ساٹھ لاکھ کی آمدن ہوسکتی ہے بجائے اِس کے کہ ڈیڑھ لاکھ کی ہو۔
پھر آلوہیں یا ایسی او رکئی ترکاریاں ہیں،چیزیں ہیں جن کی بڑی بڑی قیمتیں آتی ہیں لیکن ہمارے لوگ کوشش اُن کے متعلق نہیں کرتے۔اب مجھے تجربہ کا پتہ نہیں لیکن میں سندھ گیا تو اب کے ہمارا ایک نوجوان جس نے فرقان فورس میں کام کیا ہوا تھا وہ بھی تحریک کی زمینوں پر ایک حصّے کا منیجر تھا اُس نے مجھے اپنا باغ لگایا ہوا دکھایا۔اپنے شوق پر اُس نے لگایاہوا تھا۔تواُس نے اُس میں جاکر ہلدی یا شائد ادرک دکھایا۔ میں نے کہا یہ تم نے کس طرح بوئی؟کہنے لگا میں نے اُدھر فوج میں دیکھا تھا اُدھر بوتے ہیں او روہاں اُن کو ہزار ہزار روپے کی فی ایکڑ آمدن ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔تو میں نے یہاں تجربہ کے لئے لگائی ہے او ریہ درخت بڑے اچھے نکل رہے ہیں اب تین مہینے کو پتہ لگے گا کہ پھل کیسا نکلتا ہے۔ بہرحال وہ درخت بڑے اچھے شاندار تھے اگر پھل لگ گیاہوگا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اِس تجربہ میں بجائے پچاس یا سو کی آمدن کے ہزار یا ڈیڑھ ہزار کی فی ایکڑ نکل آئے گی جتنی وہ بو لیں گے۔
تو اچھے بیج کو تلاش کرنا او رایسی چیزوں کو تلاش کرنا جو زیادہ نفع لانے والی ہوں نہایت ضروری ہوتا ہے مثلاً مکھیر ہے سارا یورپ او رامریکہ اپنے کھیتوں میں مکھیر لگاتا ہے مگر ہمارا ہندوستانی نہیں لگاتا حالانکہ مکھیر سے پیداوار بڑھ جاتی ہے۔بہترا ہم نے زمینداروں کو بتایا ہے کہ بھئی! یہ دیکھو خداتعالیٰ نے قانون ایسا بنایا ہے، قرآن میں صاف لکھا ہوا موجود ہے تمہاری پھر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر چیز میں نر او رمادہ ہیں۔ گندم میں بھی نرمادہ ہیں۔پھلوں میں بھی نر مادہ ہیں اِن نر اور مادہ کا مادہ جو ہے اُس کو مکھی اُڑا کے جاکے دوسری جگہ پر ڈالتی ہے جیسے ہمارے ہاں شادی کردیتے ہیں نا۔اُن کی شادی مکھی کرتی ہے۔مکھی ایک نر پر بیٹھتی ہے اور وہاں سے لے کر بیج جاکے مادہ پرلگادیتی ہے اُس کی فصل دوگنی ہوجاتی ہے۔ اگر نر کا مادہ نہ ملے تو جیسے کُکڑی خاکی انڈے دیتی ہے نا۔تو تھوڑے دیتی ہے۔تو خاکی انڈے دیتی ہے فصل لیکن جس وقت نر اُس کو جا کے مل جائے تو وہ فصل زیادہ دیتی ہے اِس لئے یورپ والے فصل کے بڑھانے کے لئے خصوصاً اُن فصلوں کے بڑھانے کے لئے جن میں نر اور مادہ کا زیادہ تعلق ہے مکھیر ضرور رکھتے ہیں۔ وہ مکھیر جاکے بیج دوسری جگہ پر لگا تا ہے اور اس کی وجہ سے فصلیں بڑھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ تو شہد کا شہد نکلتا ہے اور اس سے آمدن الگ بڑھتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں گورنمنٹ کی طرف سے بھی اعلان ہوچکے ہیں ایک محکمہ بھی ایک دفعہ بنا تھا پری پارٹیشن(PRE PARTION)کے زمانہ میں۔ لیکن پھر بھی لوگ ادھر توجہ نہیں کرتے حالانکہ اپنی قومی حالت کے درست کرنے کے لئے اور اپنے دین کی حالت کو درست کرنے کے لئے اِن چیزوں کے تجربے نہایت ضروری اور مفید ہیں۔
صناع اپنی صنعتوں کو ترقی دیں
اِسی طرح صناعوں کو میں کہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ اچھا
بنانے کی کوشش کریں۔وہی ہماری چیزیں ہیں جن کو یورپ والوں نے کہیں کا کہیں پہنچادیا ہے۔مختلف قسم کے وہ بناتے ہیں پُرزے ایسے جنکی وجہ سے اُس کی بناوٹ میں بڑی زیادتی ہوجاتی ہے۔ مثلاً کوئی چیز ہم ہاتھ سے پکڑکے بناتے ہیں اُس کی حرکت کی وجہ سے اُس کی لرزش کی وجہ سے وہ دیر میں بنتی ہے۔انہوں نے اس کے لئے پُرزہ ایسا بنالیا مثلاًپھنسا دیا۔ اُس میں پھنسا کے پھر وہ بڑی آسانی سے کام کرتے چلے جاتے ہیں۔ جس میں ہمارا آدمی ایک بنا تا ہے وہ دس بناتے ہیں تو ہمارے صناعوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایجاد کی طرف توجہ کریں۔گاندھی جی نے جب چرخہ کی تحریک کی تو پانچ سو چرخہ اُن کے اتباع نے ایجاد کیا تھا اور ایسے ایسے اچھے چرخے تھے کہ جنہوں نے ہمارے ملک کے کھدر کی بناوٹ کو چارچاند لگا دئیے تھے اِسی طرح اگر ہمارے آدمی اس بات میں لگیں کہ ترقی کرنی ہے۔پُرزے ایجاد کرنے ہیں۔نئی نئی مشینیں ایجاد کرنی ہیں تو پھر ہمارے صنّاع جو ہیں ترقی کرجائیں گے۔
تاجر اپنی تجارت بڑھائیں
اِسی طرح تاجروں کو بھی اپنی تجارت کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کا طریقہ یہی ہے
دیکھو ہماری شریعت کا حکم ہے۔چھوٹا چھوٹا حکم ہوتا ہے بڑی برکت والا ہوتا ہے۔میں نے دیکھا ہے جتنے میرے پاس تاجر دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں مرگئے،مرگئے ۔ ایک ہی وجہ نکلتی ہے کہ مال لیا پھر روک لیا اب بیٹھے ہیں کہ قیمت بڑھ جائے گی قیمتیں۔ یہ کس طرح پتہ لگا کہ بڑھ جائیں گی؟ یہ کیوں نہیں پتہ لگا گھٹ جائیں گی۔
ہماری چونکہ سندھ میں کپاس بڑے پیمانہ پر ہوتی تھی اور وہاں ہیجنگ (HEDGING) کرتے ہیں یعنی پیشگی بیچ لیتے ہیں۔اِس پیشگی بیچنے میں بعض دفعہ تھوڑے سے روپیہ سے اپنی پیداوار سے زیادہ بھی بیچ سکتے ہیں اور اِس میں بعض دفعہ بڑا نفع آجاتا ہے۔ مجھے ایک وقت خیال آیا۔میں نے دیکھا کہ اِس میں شریعت کی کوئی حرمت نہیں ہے جائز ہے بیع سلم ہے تومیں نے حکم دے دیا ایک انگریزی فرم کو کہ میری طرف سے اتنی خرید لو۔میں نے کہا نقصان ہوگا تو اِدھراُدھر سے پُر کر لیں گے۔مہینہ کے بعد ریٹ اتنے بڑھے کہ میں نے اس کو تاردی کہ اس کو بیچ ڈالو۔ اُس نے بیچ دی اور تیس ہزار روپیہ نفع آیا۔پھر میں نے اس سے دُگنی اُس کو تار دے دی کہ اتنی خرید لو۔پھر اُس نے خرید لی۔ مہینہ کے بعد وہ اتنی بڑھ گئی کہ میں نے اُس کو تاردی کہ بیچ ڈالو۔ اِ س میں مجھے کوئی ستّر ہزار کا نفع آگیا۔پھر میں نے اُسے کہا کہ اَور اتنی خرید لو تین مہینے کے اندر اندر دو لاکھ بیس ہزار کا نفع آیا۔ اس کے بعد میں نے سمجھا کہ یہ کام تو بڑا اچھا ہے یہ خیال نہ آیا کہ اس میں گھاٹا بھی ہے،نقصان بھی ہے۔میں نے کہا اور خرید لو۔ پھر گرنی شروع ہوگئی۔میں نے دو آدمی اپنے مقرر کئے وہاں۔ جب گرنی شروع ہوئی تو چالیس ہزار کا نقصان ہوا۔ میں نے کہا چلو ڈیڑھ لاکھ بچتا ہے لیکن میں نے کہا اب تم ختم کردو۔اب وہ جنہوں نے روپیہ دیا ہوا تھا وہ تو چاہتے تھے کہ ہم سے واپس لیں اِس لئے میں کہوں ختم کردواور وہ کہیں اب بڑھنی ہے قیمت۔اب اِس وقت نقصان ہوجائے گا اِس وقت روک لو پھر بڑھنی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اَور چالیس ہزار کا گھاٹا پڑگیا۔مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں نے کہا میں نے تو تمہیں کہا تھا بیچ ڈالو۔ کہنے لگے انہوں نے کہا تھا بڑھنی ہے قیمت۔میں نے کہا اچھا اب تو بیچ دو۔ پھر وہ اُن کو کہیں کہ دیکھو جتنی گرنی تھی گر چکی ہے اب اس نے بڑھنا ہے اِس طرح وہ لیتے چلے گئے2لاکھ8ہزار کا گھاٹا ہوا۔مجھے تو اب مزا آیا میں نے کہا دیکھو اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ سلوک کہ پہلے میرے گھر میں روپیہ بھیجا پھر نقصان کیا۔جو پہلے نقصان ہوتا تو میرا دیوالہ نکل جانا تھا۔
ہمارا ایک عزیز میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں آپ کو کہنے آیا ہوں بات۔میں نے حضرت صاحب کو خواب میں دیکھا ہے حضرت صاحب آئے او رکہنے لگے دیکھو(اُسکی بھی زمینداری تھی)خواہ مخواہ کا غم اور مصیبت لینے کا کیا فائدہ ہے۔ آئندہ یہ مت کام کرو، توبہ کرو۔ اور پھر انہوں نے آپ کا نام لیا کہ اُن کو بھی میرا یہ پیغام پہنچا دینا اورپھر فلاں عزیز کا نام لیا کہ اُس کو بھی یہ پیغام پہنچا دینا۔تو میں یہ خواب پوری کرنے آیا ہوں اور حضرت صاحب کا حکم آپ تک پہنچاتا ہوں۔ میں نے ہنس کر کہا میں تو پہلے ہی کانوں کو ہاتھ لگا چکا ہوں۔میں نے بھی نہیں کرنی اوردوسرے آدمی نے بھی نہیں کرنی، پر تُو یاد رکھ تُو نے ضرور کرنی ہے۔ چنانچہ کچھ دنوں کے بعد میں نے اُس سے پوچھا۔ کہنے لگا ہاں تھوڑی سی کیاکرتا ہوں۔میں نے کہا وہی ہوگئی نا بات کہ ہم نے تو حضرت صاحب کا حکم مان لیا تم نے نہیں مانا۔تو بہرحال روکنا مال کا شریعت میں منع ہے۔ یہ جو بھی لوگ کرتے ہیں کہ روکتے ہیں مال کہ قیمت بڑھ جائے گی تو بیچیں گے ہمیشہ نقصان اٹھا تے ہیں۔جو آتا جائے بیچتے جاؤ۔ پھر نئے بھاؤ پر خرید لو پھر بیچ ڈالو تمہیں بہرحال فائدہ ہے۔تو جتنے نقصان لوگ اٹھاتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِ س حکم کی خلاف ورزی سے اٹھاتے ہیں۔تم اِس بات کو مدنظر رکھو۔ بیع سلم کا طریقہ اختیار کرو کہ پیشگی دو زمینداروں کو اور اُن سے فصل کا بھاؤ اچھا مقرر کرو اور اُس کی وصولی زیادہ ہوشیاری کے ساتھ کرو۔ سارے خوجے جو ہیں کروڑوں کروڑ کی تجارت کرتے ہیں کبھی اُن کو نقصان نہیں ہوتا۔ وہ ایسا قبضہ رکھتے ہیں اِن لوگوں کے ہاتھ پر کہ ان سے کوئی دھوکا نہیں کرتا۔دوسرے ناواقف ہوتے ہیں اُن سے لوگ دھوکا کرتے ہیں۔ ہوشیاری کے ساتھ اگر کام کیا جائے۔دیانتداروں سے مل کر کیا جائے تو لاکھوں لاکھ رستہ کھلا ہے تجارت کا جس میں ترقی کی جاسکتی ہے۔
زندگی وقف کرنے کی عظمت او راہمیت
پھر اِس کام کے بڑھانے کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو
وقفِ زندگی کی تحریک میں کرتا ہوں۔وقف کے راستہ میں اِس وقت بہت سی مشکلات ہیں۔ بعض ملک بالکل غافل ہیں۔دوسرے جو وقف میں آرہے ہیں اُن کا استقلال اورعزم اِس وقت کمزور پڑرہا ہے۔ تیسرے کچھ لوگ غداری دکھا رہے ہیں۔بھاگ کر یا مال چُرا کر۔ یہ امور خطرناک ہیں یہ تبھی دور ہوسکتے ہیں جبکہ:-
اوّل مخلص واقفین وقت کی عظمت کا پھر تکرار سے اظہار کریں او راپنے عمل سے اس کی خوبی کا یقین دلائیں۔
(ب) جماعت، واقفین کو خاص عظمت دے اور وقف سے بھاگنے والوں کو ذلیل اور ناقابلِ التفات سمجھے۔اب میں نے دیکھا ہے کہ روپیہ کھا گئے سلسلہ کا۔آجاتے ہیں کہ یہ وقف کیا ہے جی لڑکا۔تو ہمارے اندر توفیق نہیں آپ اس کو بی اے ایم اے کرائیں اور اپنی خدمت پر لگائیں۔اُس کے اوپر آٹھ دس ہزار روپیہ خرچ کرکے ہم تعلیم دلاتے ہیں پھر جس وقت ایم اے ہوگیا بھاگ جاتا ہے۔کہتے ہیں جاؤ نالش کرکے وصول کرو۔دس روپیہ مہینہ دے دیں گے۔ اِس قسم کے ٹھگ اور پھر جماعت اُن کو سروں پر بٹھاتی ہے۔ جماعت کے پریڈیڈنٹ ہمارے پاس آتے ہیں سفارشیں لے لے کے امیر لکھتے ہیں ہوگئی غلطی اب جانے دیجئے۔ تو اگر یہ خزانے تمہارے پاس ہیں کہ لاکھوں لاکھ روپیہ تم لوگوں کو دو اور حرام مال کھلاؤ تو تب بھی حرام مال کھانے کی تو جماعت میں عادت پڑجائے گی چاہے روپیہ تمہارا بچ جائے۔نہ آوے وہ تو الگ رہا مگر حرام خوری کی جب کسی قوم میں عادت پڑی تو پھر اُس کا کوئی ازالہ نہیں ہوسکتا اِس لئے جماعت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب تم میں سے کوئی حرام خوری کرتا ہے تو تمہارے اندر غیرت ہونی چاہئے کہ تم نے پھر اُس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔
تعمیر مساجد کی تحریک
پھر میں مساجد کی طرف توجہ دلاتاہوں یہ نہایت اہم مسئلہ ہے۔ مساجد اور مراکز باہر کے ملکوں میں ہونے
ضروری ہیں۔ان کے بغیرتبلیغ عام نہیں ہوسکتی۔افسوس ہے کہ اِس طرف توجہ کم ہے۔جو تجاویز مقرر کی گئی تھیں بہت ہی آسان تھیں مگر اُن پر ابھی تیس فیصدی بھی عمل نہیں ہوا۔زمیندار،مکان بنانے والے،پیشہ ور،تاجر،ملازم سبھی کا اکثر حصہ غافل ہے حالانکہ یہ قربانی مشکل نہ تھی آسانی سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ چندہ ہوسکتا ہے او رکسی ایک ملک میں مسجد اور مکان بن سکتا ہے مگر اب تک مسجد امریکہ کی زمین جو خریدی گئی ہے اُس کا بھی قرضہ نہیں اترا۔ہالینڈ میں عورتوں نے جو مسجد بنائی ہے اُس کا کچھ روپیہ جمع ہے۔مکان، زمین خریدی جاچکی ہے باقی کی میں آج اُن میں تحریک کرچکا ہوں۔
مردوں کو سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ جو ہم نے چندہ مقرر کیا ہے اُس کی ادائیگی کی طرف وہ توجہ کریں۔ مثلاً ہفتے میں پہلے دن کی تجارت کا وہ نفع دے دیں یا جو بڑے تاجر ہیں وہ مہینے کے پہلے سودے کا دے دیں جو ملازم ہیں وہ جو سالانہ ترقی ملے وہ پہلی ترقی اُدھر دے دیا کریں جب کوئی بچہ ہوتو کچھ مسجد کے لئے دیویں۔مکان بنادیں تو کچھ مسجد کے لئے دیویں۔شادی کریں تو کچھ مسجد کے لئے دیویں زمیندار کے پاس جتنی زمین ہے اُس کی دو آنے فی ایکڑ شائد کاشت پر مقرر ہے یا ساری زمین پر مجھے اِس وقت یاد نہیں وہ چندہ دے دیا کریں۔ مسجد کے لئے۔اور اِسی طرح جو وکلاء اور ڈاکٹر ہیں اُن کے لئے بھی مجھے اِس وقت پورا قاعدہ یاد نہیں مگر غالباً یہ ہے کہ جو اُن کی آمد پہلے سال کی تھی اُس کے بعد جو ترقی ہو اُس کا دسواں حصہ دے دیں او راِسی طرح مہینہ کی یاسال کا ایک دن مقرر ہے کہ اُس کی جو آمد پریکٹس کی ہو یا فیس کی ہو وہ دے دیا کریں۔ تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اتنی معمولی بات ہے کہ اِس قربانی کا کوئی پتہ بھی نہیں لگتا۔اب جس کو آج ترقی ملی ہے پانچ وہ اُس کو۔ پندرہ سال کی ملازمت ہے تواُس کو پندرہ سال ملنی ہے۔ ساٹھ روپے ایک سال میں بنتے ہیں پندرہ سال میں نو سَو اُس کو ترقی ملنی ہے اِس نو سَو میں سے اُس نے صرف پانچ دینے ہیں خدا کے رستہ میں۔تو کتنی چھوٹی سی قربانی ہے۔ اِسی طرح ایک شخص نے 360دن کمائی کرنی ہے۔ اِن 360دنوں میں سے بارہ دن کی کمائی کا اُس نے صرف ایک سَودے کا نفع دینا ہے۔یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے۔زمیندار کا دو آنے فی ایکڑ اگر کاشت پر ہے تو اَو ربھی کم ہوگیا۔ قریباً1فی ایکڑ سمجھو۔ تو یہ کتنی چھوٹی سی قربانی ہے۔
اِسی طرح شادی بیاہ وغیرہ پر لوگ خرچ کرتے ہیں پانچ سو،چار سو، دو سو، سو، پچاس، ہزار ،دو ہزار۔ اُس وقت اگر پانچ یا دس روپے سلسلہ کے نام پر بھی دے دئیے جائیں تو کون سی بات ہے۔میں نے یہ کہاتھا کہ کم سے کم تم جو مجھ سے نکاح پڑھاتے ہو تو مسجد میں کچھ دے دیا کرو۔ آخر فائدہ اٹھاتے ہو۔کچھ ان لوگوں نے دینا شروع کیا تھا اب تو میرے سامنے کسی نے نہیں دیا معلوم ہوتا ہے بھول گئے ہیں۔ اب کل نکاح ہونگے تو کل سارے چاہے روپیہ دو، اٹھنّی دو،دو روپے دو، پر دے دینا وہاں مسجد کے لئے ۔
سچ،محنت تعلیم اورنماز
سب سے آخر میں میں یہ کہتا ہوں کہ چند اخلاق ہیں اُن کی طرف توجہ کرو۔سچ،محنت کی عادت یہ دو اخلاق
ہیں اورفعل میں تعلیم اور نماز۔قوموں کا وقار سچ او رمحنت سے بنتا ہے اور تعلیم اور نماز قوموں کو خداتعالیٰ کے قریب کردیتی ہے اور بنی نوع انسان کے لئے مفید بنادیتی ہے۔ تمام نوجوان نماز باجماعت اورتہجد کی عادت ڈالیں اور تمام عورتوں اور مردوں کو تعلیم دی جائے۔جس طرح میں نے عورتوں میں کہا تھا اِسی طرح میں مردوں کو کہتا ہوں کہ وہ بھی انتظام کریں کہ کوئی احمدی اَن پڑھ نہ رہ جائے اردو اُس کو پڑھائی جائے۔
اردو زبان سیکھاؤ
دیکھو ساری دنیا کی قوموں میں لوگ اپنی زبان سیکھتے ہیں اور اپنی زبانوں سے سارے علم حاصل کرلیتے ہیں۔ہمارا کام یہ
ہے کہ ہر علم اردو میں لے آئیں۔تمہارا کام یہ ہے کہ ہر آدمی کواردو سکھا دو بس وہ پھر سارے علم سیکھ جائے گا اوروہی اپنے گھر میں بیٹھا ہوئے افلاطون اور سقراط بن جائے گا۔پس ہر پڑھا لکھا آدمی کم سے کم ایک یا دو آدمی کو سال میں پڑھانے کا وعدہ کرے۔اب یہ سٹیج پر تو سارے پڑھے لکھے بیٹھے ہیں بولو! سارے وعدہ کرتے ہو جاکر پڑھانے کا؟’’۔
سٹیج پربیٹھنے والے سب دوستوں نے حضور کے اِس ارشاد پروعدہ کیا کہ وہ سال میں ایک یا دو آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں گے اِس کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘اب سٹیج کے باہر والو! جو تمہارے امیر وغیرہ یہاں بیٹھے ہیں وہ وعدہ کرتے ہیں؟ اب باہر کے جلسہ گاہ والو! بولو! کہ جو پڑھنے والے ہو کوشش کر وگے کہ اپنے میں سے اپنے گاؤں اور آس پاس کے کسی ایک احمدی مرد یا عورت کسی کو پڑھانا لکھانا اور اردو سکھا دو گے’’؟۔
اِس پر بھی سب دوستوں نے وعدہ کیا۔آخر میں حضور نے فرمایا:-
‘‘اللہ تعالیٰ تم کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اتنی دیر بول گیا ہوں۔ اب کل میری علمی تقریر ہوگی اگر خدا نے میری صحت قائم رکھی اور مجھے بولنے کی توفیق ملی۔وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔’’
(از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
1: ری بیٹ : REBATE
2: مسلم کتاب البر وَالصلۃ۔ باب النَّھْیُ عَنْ قَوْل ھلک النَّاس میں یہ الفاظ ہیں اِذَاقَالَ الرَّجُلُ ھَلَکَ النَّاسُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ
3: البدایة وَالنِّھَایَۃ جلد 8 صفحہ 126 مطبوعہ بیروت 2001ء
4: اَلاَعْلٰی : 10 5: البقرۃ : 250
6:
7:
8: اَلْاَعْرَاف : 200
9: پامال مضمون:
10: بخاری کتاب النِّکَاحِ۔ باب النَّظر اِلٰی الْمَرْأَۃ قَبْلَ التَّزْوِیْجِ
11: سُبتی:
12:
13: مارکھنڈ:










سیر روحانی (7)
(28دسمبر 1953ء)



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سیر روحانی (7)
(تقریر فرمودہ مورخہ 28دسمبر 1953ء برموقع جلسہ سا لانہ ربوہ)

عا لَمِ رُوحانی کا نو بت خانہ
تشہد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ایسے الفاظ میں اُتاری ہے کہ عُسر ہو یا یُسر ہو مؤمن کے لئے یہ سورۃ ہمیشہ ہی ایک مستقل صداقت ،ایک نہ ِمٹنے والی حقیقت اور ایک محبت کا گہرا راز بنی رہتی ہے۔انسانوں پر توکّل کرنے والے اور ظاہر ی طاقت وشان کو دیکھنے والے لوگ کبھی کبھی باوجود بڑی بڑی تیاریوں کے ،باوجود بڑے بڑے ارادوں کے ،باوجود بڑی بڑی امدادوں کے ،باوجود بڑے بڑے سامانوں کے نا کا می اور نامرادی کا مُنہ دیکھ لیتے ہیں ۔ ہٹلر اپنی تمام شان کے باوجودمشرقی جرمنی کی جنگ میں ہار جاتاہے۔نپولین اپنے عظیم الشان تجربہ اور عزم کے باوجود واٹرلو میں شکست کھا جاتاہے۔ لیکن خدا کے بندے اور خدا کے پر ستاراور خدا کے موعود صبح بھی اور شام بھی اور رات بھی اور دن بھی سچے دل سے بغیر منافقت کے، بغیر جھوٹ کے خدا کے حضور یہ کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔1 اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔اُن کی نا کامیاں عارضی ہوتی ہیں ،اُن کی تکلیفیں محض چند لمحات کی اور اُن کی مشکلات با لکل بے حقیقت ہوتی ہیں جن کے ساتھ خدا کھڑا ہوتا ہے اُن کو کسی دوسری چیز کا ڈر ہی کیا ہو سکتاہے۔
چند تمہید ی امور
مَیں نے ذکر کیا تھا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ میں حسب طریقِ سابق ایک علمی مضمون کے متعلق کچھ خیا لات ظاہر کرونگا۔
اِس دفعہ مَیں نے اِس مضمون کے لئے پھر ''سیر روحانی'' کو چُنا ہے''سیر روحانی'' کی تقریر 1938ء سے شروع ہوئی تھی او ر اب1953ء آگیا ہے اور ابھی تک وہ سارا مضمون ختم نہیں ہؤا ۔سولہ چیزیں تھیں جو مَیں نے منتخب کی تھیں اور جن کے متعلق مَیں متشابہہ قرآنی دعوے اور قرآنی تعلیم پیش کرنا چا ہتا تھا ان میں سے اِس وقت تک دس کے متعلق تقریریں ہو چکی ہیں۔ 1938ء میں جنتر منتر ،وسیع سمندر اور آثارِقدیمہ کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔1940ء میں مساجد اور قلعوں کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔ 1941ء میں مُردہ بادشاہوں کے مقابر اور مینا بازار کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔پھر اس کے بعد 1942ء، 1943ء، 1945ء، 1946ء اور 1947ء میں اِس موضوع پر کو ئی تقریر نہیں ہوئی۔ 1948ء میں ایک وسیع اور بلند مینا ر کے متعلق تقریر ہوئی تھی۔پھر 1950ء کے جلسہ میں دیوانِ عام کے متعلق تقریر ہوئی تھی اور 1951ء کے جلسہ میں دیوانِ خاص کے متعلق تقریر ہوئی ۔ اس طرح گویا دس مضامین اِن میں سے ہو گئے چو نکہ اِس مضمون کے بیا ن ہونے میں لمبا فا صلہ ہو گیا ہے اِس لئے میرا منشاء تھا کہ مَیں مختصر کر کے باقی چھ مضامین اکٹھے بیان کردوں اور کتاب مکمل ہوجائے لیکن جیسا کہ مَیں کَل بتا چکا ہوں چند مہینوں سے جو مجھے گلے کی تکلیف شروع ہوئی تو اِس کی وجہ سے مَیں نے محسوس کیا کہ میں لمبا مضمون بیان نہیں کر سکوں گا اور چھ مضا مین بیان کرنے کے لئے غا لباً پانچ چھ گھنٹے لگ جائیں گے اس لئے او ر کچھ اس وجہ سے بھی کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مَیں رات کے وقت لیمپ سے کام نہیں کر سکتا اور بجلی ابھی یہاں آئی نہیں محکمہ دو سال سے ہم سے وعدے کررہا ہے مگر اب تک اُسے ایفا ئے عہد کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ جب وہ آجائے تو مجھے امید ہے کہ بیماری میں بھی کچھ نہ کچھ کا م مَیں رات کو کر سکوں گا لیکن روشنی اگر کافی نہ ہو تو اب میری نظر رات کو زیادہ کا م نہیں کر سکتی۔ دوسرے تیل کی بُو کی وجہ سے مجھے نزلہ بھی جلدی ہوجاتا ہے اور تیل کے لیمپ سے کام کرنا میرے لئے مشکل ہوجاتا ہے اس لئے مَیں زیادہ وقت نوٹ لکھنے پر بھی نہیں لگا سکتا تھااو رکچھ میری بیماری کی وجہ سے لاہور کے ڈا کٹروں نے جو نُسخے تجویز کئے وہ ایسے مُضْعِفْ2 تھے کہ درحقیقت یہ پچھلا سا را مہینہ ایسا گزرا ہے کہ اکثر حصّہ مجھے چارپائی پر لیٹ کر گزارنا پڑتا تھا اور بیٹھنا بھی میرے لئے مشکل ہوتا تھا اور دوائی بھی ایسی تھی جو کہ خواب آور تھی اسلئے اکثر وقت مجھے اونگھ ہی آتی رہتی تھی او رمَیں کام نہیں کر سکتا تھا۔پس اِن مجبو ریوں کی وجہ سے مَیں نے صرف ایک مضمون پر ہی اِکتفاء کیا اور آج اُسی مضمون کے متعلق مَیں کچھ باتیں کہوں گا۔ بعض دفعہ الٰہی تصرّ ف ایسا ہوتاہے کہ چھو ٹی سی باتوں کو اللہ تعالیٰ لمبا کر دیتا ہے ۔اور بعض دفعہ طبیعت پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ لمبی لمبی باتیں بھی مختصر ہو جاتی ہیں اِس لئے میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ نوٹ جو درحقیقت ایک ہی مضمون کے متعلق ہیں اور اپنے خیال میں مَیں نے انہیں مختصر کیا ہے آیا تقریر کے وقت بھی وہ لمبے ہو جا تے ہیں یا چھو ٹے ہو جا تے ہیں۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے فعل پر منحصر ہے مجھے بھی نہیں معلوم اور آپ کو بھی نہیں معلوم ۔
نئے لوگوں کی واقفیت کیلئے بعض پُرانی باتیں
بعض لوگ جو نئے آئے ہیں اُن کی اِطلاع
کے لئے مَیں یہ بتاتا ہوں کہ 1938ء میں مَیں نے ایک سفر کیا تھا ۔ اُس سفر میں مختلف جگہوں پر جب مَیں نے مختلف چیزیں پُرانے آثار کی یا نیچر کی دیکھیں تو اُن کا میری طبیعت پر ایک گہرا اثر پڑا ۔انسانی مصنوعات اور انسانی شان وشوکت کو دیکھ کر اور اسلام کے نشانوں کو مٹا ہؤا دیکھ کر اور اُس کی جگہ کفر اور ضلالت کو غالب دیکھ کر میر ی طبیعت سخت غمزدہ ہوئی اور مجھے بہت رنج پہنچا۔
اِس سفر میں ہم پہلے بمبئی گئے تھے ،بمبئی سے حیدر آباد گئے، حیدر آباد سے پھر آگرہ آئے، آگرے سے دِلّی آئے اور دلّی میں ایک دن سیر کرتے ہوئے ہم غیاث الدین تغلق کے قلعہ پر چڑھے وہاں سے ہمیں دلّی کے تمام مناظر نظر آرہے تھے۔ دلّی کا پُرانا شہر بھی نظر آتا تھا،نیا شہر بھی نظر آتا تھا، قطب صاحب کی لاٹ بھی نظر آتی تھی، نظام الدینؒ صاحب اولیاء کا مقبرہ بھی نظر آتا تھا،لو ہے کی لا ٹ بھی نظر آتی تھی اور لودھیوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ،سُوریوں کے قلعے بھی نظر آرہے تھے، مغلوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ،باغات بھی نظر آتے تھے ،غرض عجیب قسم کا وہ نظارہ تھا جو نظر آرہاتھا۔ایک طرف وہ شان وشوکت ایک ایک کرکے سامنے آرہی تھی کہ کِس طرح مسلمان یہاں آئے ،کس طرح اُنکو غلبہ حا صل ہؤا ،کتنی کتنی بڑی انہوں نے عمارتیں بنا ئیں اور اس کے بعد وہ خاندان تباہ ہؤا،پھر دوسرا آیا تو وہ تباہ ہؤا،پھر تیسرا آیا اور وہ تباہ ہؤا اور اب آخر میں یہ نشانا ت انگریزوں کی سیر گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ اِس نظارہ کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایک غیر معمولی اثر پیدا ہؤا اورمَیں نے کہا۔ کیا ہے یہ دنیا جس میں اتنی شاندار ترقی کے بعد بھی انسان اتنا گِر جاتا اور تباہ ہو جاتا ہے۔ میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں یعنی ہمشیروں میں سے بڑی ورنہ یوں وہ مجھ سے چھوٹی ہیں۔ اِسی طرح میر ی لڑکی امتہ القیوم بیگم بھی تھی اور میری بیوی اُمِ متین بھی تھیں، مَیں وہاں کھڑا ہو گیا اور مَیں اس نظارہ میں محو ہو گیا ۔ ایک ایک چیز کو مَیں دیکھتا تھا اورمیرے دل میں خنجر چبھتا تھا کہ کسِی وقت اسلام کی یہ شان تھی مگر آج مسلمان انگریز کا ٹکٹ لئے بغیر اِن عمارتوں کے اندر جا بھی نہیں سکتے ۔ یہ عمارتیں جو مسلمانوں نے بنا ئی تھیں آج یہاں سر کاری دفتر بنے ہوئے ہیں اور اس کو سیرگاہ بنا دیا گیا ہے۔جن خاندانوں کے یہ مکان تھے اُن کی نسلیں چپڑاسی بنی ہوئی ہیں،کلرک بنی ہوئی ہیں،ادنیٰ ادنیٰ کام کر رہی ہیں اوریوروپین لوگوں کے ٹُھڈّے کھا رہی ہیں۔ غرض میں اِس بات سے اتنا متاثر ہؤا کہ مَیں کھڑے ہوئے انہی خیالات میں محو ہو گیا اور انہوں نے مجھے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔مگر مَیں چوٹی پر کھڑا اِس کو سوچ رہا تھا اور دنیا وَمَافِیْہَاسے غافل تھا۔ سوچتے سوچتے یکدم اللہ تعالیٰ نے میرے دل پر القاء کیا کہ ہم نے جو اسلام کو قائم کیا تھا تو قرآن کریم کے لئے قائم کیا تھااِن عمارتوں کے لئے قائم نہیں کیا تھا۔ہم نے جو تم سے وعدے کئے تھے وہ قرآن کریم میں بیان ہیں، وہ یہ وعدے نہیں تھے جو تُغلقوں اور سُوریوں نے سمجھے تھے بلکہ وہ وعدے وہ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے تھے اور یہ چیزیں جوتم دیکھ رہے ہو ان کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں اوراِن سے بہت زیادہ اعلیٰ اور شاندار ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گی تم اِن کو دیکھ کرکیا غم کرتے ہو جبکہ اِن سے زیادہ شاندار چیزیں تمہارے پاس موجود ہیں۔ جس وقت تم چاہو قرآن اُٹھاؤ اُس میں سے تمہیں یہ ساری چیزیں نظر آ جائیں گی۔
غرض بجلی کی طرح یہ مضمون میر ے نفس میں کُو ندا اَور مَیں نے وہاں سے حرکت کی اور نیچے کی طرف اُترنا شروع کیا اور مَیں نے کہا۔
''مَیں نے پا لیا ۔مَیں نے پا لیا''
جس طرح بُدھ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خدا کے متعلق غور کر رہا تھا کہ سا لہا سال غور کرنے کے بعد یہ انکشاف اُس پر ہؤا اور بے اختیا رہو کر اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا:
''مَیں نے پالیا۔مَیں نے پالیا''
اِس طرح اُس وقت بے اختیا ر میری زبان پر بھی یہ الفاظ جا ری ہو گئے کہ:
''مَیں نے پا لیا۔مَیں نے پا لیا''
میری بیٹی امة القیوم بیگم نے مجھ سے کہا ۔'' ابّا جا ن!آپ نے کیا پا لیا؟'' مَیں اُس وقت اِس دنیا میں واپس آچکا تھا ۔مَیں نے اُسے کہا ۔بیٹی!مَیں نے پا تو لیا ہے لیکن اب مَیں وہ تم کو نہیں بتا سکتا بلکہ ساری جماعت کو اکٹھا بتاؤں گا۔ چنانچہ اِس پر مَیں نے تقریر شروع کی جو ابھی تک جا ری ہے اور جس کا ایک حصّہ مَیں آج بیان کر نے والا ہوں۔
نوبت خانوں کی پہلی غرض
جو چیزیں مَیں نے وہاں دیکھی تھیں اور جنہوں نے میرے قلب پر خا ص اثر کیا تھااُن میں سے
ایک چیز یہ تھی کہ مَیں نے وہا ں نوبت خانے دیکھے ۔یعنی ایسی عمارتیں دیکھیں جن میں وہ جگہیں بنی ہوئی تھیں جن میں بڑی بڑی نو بتیں رکھی جاتی تھیں اور وہ خاص خاص مواقع پر بجا ئی جاتی تھیں۔ مَیں نے تحقیقات کی کہ یہ نوبت خانے کیوں بنوائے گئے تھے اور اِن کی کیا غرض تھی؟اِس پر مجھے معلوم ہؤا کہ کچھ نوبتیں تو اس طرح رکھی گئی تھیں کہ وہ سرحدوں سے چلتی تھیں اور دلّی تک آتی تھیں ۔مثلاً جنوبی ہندوستان میں چند حکومتیں ایسی تھیں جو شروع زمانہ میں مغلوں کے ماتحت نہیں آئیں وہ ہمیشہ مغل بادشاہوں سے لڑتی رہتی تھیں اور جب بھی موقع پا تیں مُغلیہ چھاؤنیوں پر حملہ کر دیتی تھیں ۔اِس غرض کے لئے انہوں نے تین تین چارچار میل پر جہا ں سے وہ سمجھتے تھے کہ اُن کی آواز جا سکتی ہے نوبت خانے بنائے ہوئے تھے جو چلتے ہوئے دلّی تک آتے تھے۔ جس وقت سرحدات پر حملہ ہو تا تھا تو نوبت خانہ پر جو افسر مقرر ہوتے تھے وہ زور سے نوبت بجاتے تھے اُن کی آواز سُن کر اگلا نوبت خانہ نوبت بجانا شروع کر دیتا تھا،اُس کی آواز تیسرے نوبت خانہ تک پہنچتی تو وہ نو بت بجا نا شروع کر دیتا اِس طرح دکّن سے دلّی تک چند گھنٹوں میں خبر پہنچ جاتی تھی۔گویا یہ ایک تا ر کا طریق نکا لا گیا تھا اور اِس سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ملک پر حملہ ہو گیا ہے تو جس جہت سے نوبت خانوں کی آواز آتی تھی اُس جہت کا بھی پتہ لگ جاتا تھا۔ بادشاہ فوراًلام بندی3 کا حکم دے دیتا تھا اور کسی جرنیل کو مقابلہ کے لئے مقرر کر دیتا تھا اورگھوڑ سوار فوراًچلے جا تے تھے جو جا کر خبر دیتے تھے کہ تم مقابلہ کرو۔ اگر بھاگنا پڑے تو فلاں جگہ تک آجاؤپھر ہماری اَور فوج آجائے گی۔چنانچہ پھر فوج پہنچ جاتی تھی اور دشمن کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا۔یہ نوبت خانے اِدھر بنگال سے چلتے تھے اور دلّی تک جاتے تھے اور اُدھر پشاور سے چلتے تھے اور دلّی تک آتے تھے۔جب کوئی حملہ آور ایران کی طرف سے آتا تھا تو پشاور کے پاس سے نوبت خانے بجنے شروع ہو جا تے تھے اور چند گھنٹوں میں دلّی میں خبر پہنچ جاتی تھی کہ اِدھر سے حملہ ہو گیا ہے۔اُن دنوں ملتان میں بڑی چھاؤنی تھی، پھر لاہورؔ میں بڑی چھا ؤنی تھی اور دلّی تو خود مرکزِ حکومت تھا۔اِن بڑی بڑی فوجی چھا ؤنیوں کو حکم پہنچ جاتا تھا کہ اپنی فوجیں پشاور کی طرف بڑھانی شروع کردو اور پھر دلّی سے دوسرے جرنیل بھی پہنچ جاتے تھے۔
غرض نو بت خانوں کی غرض ایک تو یہ ہؤا کرتی تھی کہ مرکز میں یہ خبر پہنچ جائے کہ دشمن حملہ آور ہؤا ہے۔یہ ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں ا بھی تار نہیں نکلی تھی یہ طریق بڑا مفید تھا جو حکومت کی ہوشیاری اور اپنے فرض کے ادا کرنے پر تیا ر ہو نے کی ایک علامت تھی ۔کُجا حیدر آباد دکّن کا علاقہ جوہزار میل یااُ س سے بھی زیادہ فاصلہ پر ہے اور کُجا یہ کہ چند گھنٹوںمیں خبریں پہنچ جاتی تھیں۔ اِسی طرح پشاور سے دلّی تک خبریں پہنچ جاتی تھیں اور بنگال سے دلّی تک خبریں پہنچ جاتیں۔
نوبت خا نو ں کی دوسری غرض
نوبت خانوں کی دوسریؔ غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ جب بادشاہ کسی علاقہ پر حملہ
کرنے کیلئے اپنے لشکرکو لیکر مرکز سے روانہ ہوتو اُس جہت میں رہنے والی تمام رعایا کو علم ہوجا ئے کہ شاہی لشکرآرہا ہے اور وہ بھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے۔چنانچہ جب بادشاہ کسی طرف حملہ کرتا تھا تو اُس طرف اُلٹی نوبت بجنی شروع ہو جاتی تھی۔مثلاً دِلّی سے بادشاہی لشکر نے روانہ ہونا ہے اور فرض کرو کہ حملہ اتنی وسیع جگہ پر ہو گیا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ بادشاہی فوجوں کا وہاں فوری طور پر پہنچناضروری ہے تو دِلّی میں نوبت پڑتی تھی اور پھر جس طرف آگے جانا ہوتا تھا اُس طرف کے نوبت خانے بجنے شروع ہوجاتے تھے ۔ غرض جس لائن پر نوبت خانے بجتے چلے جاتے تھے لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اِس لائن پر لشکر نے جانا ہے۔اگر حیدر آباد کی طرف بادشاہ کا لشکر جا رہا ہے تو پہلے ایک پڑاؤ پر نو بت بجے گی ، پھر دوسرے پر بجے گی، پھر تیسرے پر بجے گی اور پھر بجتی چلی جائے گی اور جہا ں تک نوبت بجے گی لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ بادشاہ نے کہاں تک آنا ہے۔اگر بنگال کی طرف شاہی لشکر نے جا نا ہے تو پہلے مرکز میں نوبت پڑے گی او رپھر آگے نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی، پھر پڑتے پڑتے بنگال والوں کو اِطلاع ہو جائے گی کہ دِلّی سے بادشاہ کا لشکر چل پڑا ہے۔پشاور کی طرف حملہ ہؤا ہو تو اُدھر خبر پہنچ جائے گی کہ دِلّی سے بادشاہ فوج لے کر چل پڑا ہے۔
یہ ظاہر ہے کہ جیسے تاریں آجاتی ہیں کہ ہوائی جہازوں پر ایک دستہ آرہا ہے، اِتنی فوج چل پڑی ہے اور فلاں جرنیل مقرر کیا گیا ہے تو اِس سے فوج کے حو صلے بڑھ جاتے ہیں۔ اور اگر ایک فوج اپنے آپ کوکمزور بھی سمجھتی ہے اور وہ خیال کرتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتی توجب اُسے یہ خبر پہنچ جائے کہ دو تین دن تک ہماری تازہ دم فوج اُس کی مدد کے لئے پہنچ جائے گی تو اُس کے حو صلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ لڑکر مرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم نے یہاں سے ہِلنا نہیں۔ دوتین دن میں ہماری اَور فوج آپہنچے گی ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر یہ پتہ نہ ہو کہ ہماری فوجیں کب آئیں گی تو وہ کہتی ہیں یونہی جان کیوں ضائع کرنی ہے چلو لوٹ جائیں اِس طرح اِن نوبت خانوں کی وجہ سے فوج بڑی مضبوط رہتی ہے۔
نوبت خانوں کی تیسری غرض
تیسری غرض نوبت خانوں کی یہ ہؤا کرتی تھی کہ بادشاہ کبھی کبھی لوگوں کو اپنا چہرہ
دکھانے کے لئے اوراپنی باتیں سُنانے کے لئے جھروکوں میں بیٹھتے تھے اور اعلان کر دیا جاتا تھا کہ بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں جس نے آنا ہے آجا ئے یہ دربارِ عام ہوتاتھا ۔اُس وقت بھی نوبت بجائی جاتی تھی اور نوبت کے بجنے سے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ آج بادشاہ نے باہر آنا ہے۔جو قریب ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بات کرنے کا موقع مِل جائے گا، جو اُن سے بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں دیکھنے کا موقع مِل جائے گا،جو اُن سے بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک جھلک دیکھنے کا موقع مِل جائے گا اور جو اَور بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہم کوشش توکر یں گے نظر آ گیا تو آ گیا ورنہ ہجوم ہی دیکھ لیں گے اِس طرح ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے تھے۔دِلّی کے بادشاہوں نے اپنے عہدِحکومت میں ایسا طریق رکھا ہؤا تھا کہ علاوہ جھروکوں کے وہ بعض دفعہ ایسی جگہ بیٹھتے تھے کہ دریا پار کے لوگ بھی جمع ہو جاتے تھے۔ بیچ میں جمنا ؔآتی تھی اور جمنا کے کنا رے پر لوگ آکر جمع ہو جا تے تھے اور سمجھتے تھے کہ اِتنی دُور سے بھی اگر ہم نے بادشاہ کو دیکھ لیا تو یہ بھی ہماری عزّت افزائی ہے۔
1911ء میں جب جا رج پنجم دِلّی میں آئے اور دربار لگا تو مِیلوں مِیل تک لوگ کھڑے ہوتے تھے اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ کھڑے کیوں ہیں ۔بعض دفعہ آدھ آدھ مِیل پر بادشاہ کی سواری گزرتی تھی مگر لوگ کھڑے ہوتے تھے صرف اِتنا دیکھنے کے لئے کہ تالیاں ِپٹی ہیں اور بادشاہ وہاں سے گزرا ہے ۔بس اِتنی اطلاع آئی تو خوش خوش وہاں سے آگئے کہ ہم بادشاہ کا جلوس دیکھنے کیلئے گئے تھے۔ غرض یہ تین اغراض اِن نوبت خانوں کی ہؤا کرتی تھیں۔
اوّل :سرحدات کی طرف سے مرکز کو اطلاع دینا کہ دشمن حملہ آور ہے۔
دوم :مرکز کی طرف سے علاقہ کو اطلاع پہنچانا کہ بادشاہ یا اس کا ولیعہد بنفسِ نفیس اپنی فوج کے ساتھ کنا روں کی فوجوں کی مدد کے لئے چل پڑا ہے۔
تیسرے :یہ اطلاع دینا کہ بادشاہ سلامت آج دربارِ عام منعقد کررہے ہیں اور عام اجازت ہے کہ لوگ آئیں اور بادشاہ کی زیارت کرلیں اور اگر قریب پہنچ جائیں تو اپنی عرضیاں بھی پیش کرلیں بلکہ بعض جگہوں پر انہوں نے بکس لگائے ہوئے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور بعض جگہ چھینکے 4 لٹکا دیتے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور پھر بادشاہ انہیں پڑھ لیتا تھا۔
گویا یہ تین باتیں تھیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے نوبت خانے بنائے جا تے تھے۔ اور واقع میں اِس نظارہ کا خیا ل کر کے خصو صاً انگریزوں کی کارونیشن (CORONATION) دیکھ کر دیکھنے والوں کو خیا ل آتا تھا کہ کِس طرح ہمارے مسلمان بادشاہ نکلتے ہونگے۔ اور جس طرح ہمارے ہندوستانی دُور دُور دھکّے کھا تے پھر تے ہیں اِسی طرح اُس وقت انگریز سیّاح آتے ہونگے تو دو دومِیل پر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہونگے اورکہتے ہونگے ہم نے بھی بادشاہ کودیکھنا ہے۔مگر آج یہ حالت ہے کہ انگریز تخت پر بیٹھتا ہے اور اُن پٹھا ن یا مغل بادشاہوں کی اولادیں دُور دُور تک دھکّے کھاتی پِھر تی ہیں بلکہ ہم نے دہلی میں دیکھاہے کہ شہزادے پانی پلاتے پھر تے تھے اِس طرح دل کو ایک شدیدصدمہ ہو تا تھا۔
قرآنی نوبت خانہ کا کمال
لیکن جب خدا تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی کہ اِن چیزوں کو تم کیا دیکھ رہے ہو ہم تم کو اِس سے بھی
ایک بڑا نوبت خانہ دکھاتے ہیں جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اِس سے زیادہ شاندار ہے۔ تب مَیں نے سوچا کہ یہ جو نو بت خانہ بجا کرتا تھا اور جس سے وہ کنا روں کواطلاع دیا کرتے تھے کہ دشمن داخل ہو گیا ہے اِس کے مقابلہ میں قرآن کا نوبت خانہ کیا کہتا ہے۔ اِس پر مَیں نے اِن نَوبت خانوں کے متعلق تو یہ دیکھا کہ جب دشمن کی فوجیں ملکی سرحدوں میں گُھس آتی تھیں یا کم سے کم سرحدات تک آپہنچتی تھیں تو اُس وقت نوبتیوں کو پتہ لگتا تھااب دشمن آرہا ہے او روہ نو بتیں بجانی شروع کر دیتے تھے۔مگراِس کانتیجہ یہ ہوتا تھا کہ دشمن احتیاط سے اور اپنی فوجو ں کو چُھپا کر لا تا تو بعض دفعہ وہ سَوسَومِیل اندر گُھس آتا تھاپھر کہیں پتہ لگتا تھا کہ حملہ آور دشمن اندر گُھس آیا ہے اورپھر اطلاع ہونی شروع ہوتی تھی۔اِس طرح عام طور پر حملہ آور کچھ نہ کچھ حصّے پر قابض ہو جاتا تھا اور پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کس وقت آیا ہے ۔داخل ہونے کے بعد معلوم ہو تا تھا کہ دشمن اندر گُھس آیا ہے مگراِس نوبت خانہ کومَیں نے دیکھا کہ اسلامی حکومت کا ایک نا ئب اور خدا کا خلیفہ مکّہ مکرّمہ میں پھر رہا ہے،معمولی سادہ لباس ہے ،اُس کے ساتھی نہایت غریب اور بے کس لوگ ہیں، حکومت کا کوئی واہمہ بھی اُن کے ذہن میں نہیں ہے، ماریں کھا تے ہیں ،پِٹتے ہیں،بائیکاٹ ہو تا ہے،فاقے رہتے ہیں، جا ئیدادیں او رمکان چھینے جا رہے ہیں ،غلاموں کو پکڑکر زمین پر لِٹایا جاتا ہے اور اُن کے سینوں پر لوگ چڑھتے ہیں، کِیلوں والے بُوٹ پہن کر اُن کی چھا تی پرکُودتے ہیں۔ او ر نہ مکّہ والوں کے ذہن میں خیا ل آتا ہے کہ یہ کبھی بادشاہ ہو جائیں گے ،نہ اُن کے ذہن میں کبھی خیا ل آتا ہے کہ ہم کبھی بادشاہ ہو جائیں گے۔ غرض ابھی بادشاہت کے قیا م کا کوئی واہمہ بھی نہیں لیکن بادشاہت کے بننے سے بھی پہلے دشمن کے آنے کی خبر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے تمہارے ملک پر حملہ ہونے والا ہے۔فرماتا ہےوَ لَقَدْ جَآءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُۚ۔كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كُلِّهَا فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ۔اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِۚ۔اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ۔5ہم نے مُوسٰی ؑ کے ذریعہ سے فرعون کو جو کہ مصر کا بادشاہ تھا اوربنی اسرائیل پر ظلم کیا کرتا تھا ڈرایا کہ دیکھو تم ہمارے بندے کے رُوحانی لشکر سے مقابلہ مت کرو ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا لیکن اُس نے رسول کی پرواہ نہ کی۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ اُس کی بے اعتنائی اور اُسکے انکا ر اور تکذیب کی وجہ سے ہم نے اُس کو پکڑ لیا اور معمولی طور پر نہیں پکڑا بلکہ ایک غالب اور قادر کی حیثیت سے اُسکو پکڑا یعنی بعض گرفتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان بہانے بنا کر اُس سے نکل جاتا ہے مگر ہماری گرفت ایسی تھی کہ ایک تو اُس گرفت سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا دوسرے سزاا یسی تھی کہ اُس سے وہ بچ نہیں سکتا تھا ۔ گورنمنٹیں بھی سزائیں دیتی ہیں لیکن بسا اوقات ایسا ہو تا ہے کہ وہ پھانسی کی سزا ئیں دیتی ہیں تو لوگ جیل والوں سے مِل جاتے ہیں اِدھر رشتہ داروں کے ساتھ سمجھو تہ کر لیتے ہیں اور وقت سے پہلے پہلے وہ زہر کھا کر مر جا تے ہیں اور گورنمنٹ کے ججوں نے جو پھانسی کا حکم دیا ہوتا ہے وہ یو نہی رہ جاتا ہے ۔گزشتہ جنگِ عظیم میں جو جر من لیڈر پکڑے گئے تھے اُن میں سے گو ئرنگ کے لئے امریکنوں نے بڑی تیا ریاں کیں کہ اُس کو پھانسی پر لٹکا ئیں گے جس کا لوگوں پر بڑا اثر ہو گا کہ دیکھو گوئرنگ جیسے آدمیوں کو امریکنوں نے سزادی ہے اور جرمن بڑے ذلیل ہوتے ہیں لیکن جس وقت پھا نسی دینے کیلئے و ہ اُ س کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ مر ا پڑا تھا ۔معلوم ہؤا کہ کسی نہ کسی طرح جرمنوں نے اندر زہر پہنچا دیا اور وہ کھا کر مرگیا۔اب انہوں نے پکڑا تو سہی لیکن جو سزا دینے کا ارادہ تھا اس میں وہ کامیاب نہ ہوئے۔گویا اَخْذَ عَزِيْزٍ تو تھا مگر اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ نہیں تھا یعنی پکڑ تو لیا وہ نکلا نہیں مگر جو چاہتے تھے کہ سزا دیں اُس میں وہ کا میا ب نہ ہوئے ۔
پھر بسا اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ مجرم ان کی سزا سے بھی پہلے نکل جاتا ہے جیسے کئی مجرم جیل خانوں سے بھاگ جاتے ہیں ،کئی مقدموں سے پہلے بھاگ جاتے ہیں، کئی پولیس کی ہتھکڑیوں سے نکل جاتے ہیں، بعض دفعہ اطلاع ملنے سے پہلے ہی بھا گ جاتے ہیں اور پھر ساری عمر نہیں پکڑے جا تے ۔بعض دفعہ پولیس اُن کے پیچھے تیس تیس سال تک ماری ماری پھرتی ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دُنیوی حکومتوں میں تو یہ دو باتیں ہؤا کر تی ہیں یعنی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ مجرم بھا گ جاتا ہے لیکن ہم ایسا پکڑیں گے کہ وہ بھاگ نہیں سکے گا۔ پھر کبھی کبھی ایسابھی ہو تا ہے کہ حکومت پکڑ تو لیتی ہے مگر جو سزا اُس کے لئے تجویز کرتی ہے وہ اُس کو نہیں دے سکتی۔ پھا نسی دینا چاہتی ہے تو اتفاقیہ طور پرمُجرم مر جاتا ہے ،ہارٹ فیل ہو کر مر جاتا ہے ،زہر کھا کر مر جاتا ہے، کسی نہ کسی طرح اُن کے قبضہ سے نکل جاتا ہے مگر ہم اَخْذَ عَزِيْزٍ مُّقْتَدِرٍ کی طرح انہیں پکڑ یں گے، ہم اس طرح پکڑیں گے کہ وہ بھاگ بھی نہیں سکیں گے اورپھر جو سزا تجویز کریں گے وہی اُن کو ملے گی۔
پھر فرماتاہے اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِي الزُّبُرِ۔اے مکّہ والو!تم بتاؤ تو سہی کہ وہ جو موسٰی ؑ کے منکر تھے کیا تم اُن سے بہتر ہو؟ اگر موسٰی ؑ کے منکروں کو یہ سزا ئیں ملی تھیں تو تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ آیا یہ کہ تمہیں وہ سزائیں نہیں مِل سکتیں یا نہیں دی جا سکتیں جو موسٰی ؑ کی قوم کو دی گئیں؟ یا خدا تعا لیٰ کی کتابوں میں تمہا رے لئے کوئی ضمانت آئی ہو ئی ہے کہ ہم نے مکّہ والوں کو کچھ نہیں کہنا ؟مکّہ والے کہتے تھے کہ خانہ کعبہ ہماری حفاظت کا سامان ہے۔ فرماتاہے وہ تو خانہ کعبہ کی حفاظت کا وعدہ تھا تمھارے لئے تو کوئی وعدہ نہ تھا۔ خدا نے یہ تو وعدہ کیا کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کرے گا مگر یہ تو وعدہ نہیں کہ تم کو بھی سزا نہیں دے گا۔ اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌ۔ کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑا جتھہ رکھتے ہیں اور ہم اِن مسلمانوں سے سخت بدلہ لینے والے ہیں ہم اِنکو تباہ کر کے چھو ڑیں گے۔ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔فرمایا ٹھیک ہے یہ حملے کریں گے اور قوموں کی قومیں اکٹھی ہو جائیں گی ،سارا ملک جمع ہو جائے گااور جمع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملک پر حملہ کریں گے لیکن سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ۔اُن کے لشکر جو اکٹھے ہو نگے اُنکو شکست دے دی جا ئے گی اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ جائیں گے۔
دشمن کے حملہ کی بارہ سال پہلے خبر
گویا ابھی کوئی حملہ نہیں ہؤا،کوئی حکومت نہیں بنی، کوئی فوج نہیں آئی
اور بارہ سال پہلے سے خبر دے دی جاتی ہے کہ یہ لوگ حملہ کے لئے آئیں گے لیکن جب اِدھر سے یہ جمع ہو رہے ہونگے اُدھر سے خدا اپنے گورنر کی مدد کے لئے دَوڑا چلا آرہا ہو گا اور اُسے دیکھ کر دشمن کی فوج حواس باختہ ہو جا ئے گی اور اُسے بھاگنا پڑے گا۔ یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے ضرورت اِس بات کی ہو تی ہے کہ انسان خدا کا بن جائے ۔جب وہ خدا کا بن جاتا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ وہ کسی جگہ پر ہو اور خدا وہا ں نہ ہو ۔ جب بھی دنیا میں لوگ ایسے شخص کے پاس پہنچیں گے اُسے اکیلا نہیں پائیں گے بلکہ خداکو اُس کے پاس کھڑا پائیں گے اور انسان کا لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں خدا کا نہیں کر سکتے ۔ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ۔فرماتا ہے وہ جو گھڑی ہو گی وہ فرعون کی گھڑی سے بھی زیادہ خطر نا ک ہو گی۔ بظاہر یہ نظر آتاہے کہ فرعون کی گھڑی زیادہ سخت تھی اس لئے کہ وہ ڈوب کر مر گیا اور اُس کی فوج تباہ ہو گئی لیکن واقع میں دیکھیں تو کفار کو جو سزا ملی وہ فرعون کی سزا سے زیادہ سخت تھی۔ فرعون کا لشکر تباہ ہؤا لیکن موسٰی ؑ کو مصر کا قبضہ نہیں مِلا ۔موسٰی ؑ آگے چلے گئے اور کنعان پر جا کر قابض ہو ئے لیکن محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں جو دشمن آیا اُس کو صرف شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کے ملک پر بھی قبضہ ہوگیا ۔ یہ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّتھا کہ موسٰی ؑ کے دشمن فرعون کو جو سزا ملی اُس سے اِن کی سزا زیادہ سخت تھی کیو نکہ یہ قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ما تحت آگئے۔
مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت
اَب جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ خبرایسے وقت میں دی گئی تھی جبکہ
اسلامی حکومت ابھی بنی بھی نہیں تھی ۔اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکّہ سے نکلنا پڑا ۔پہلے تو یہ ہؤا کہ مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے۔کسِی کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ مدینہ کے لوگوں میں اسلام پھیل جائے گا۔ وہ تین چار سَو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جن کے مکّہ والوں کے ساتھ کو ئی ایسے تعلّقات بھی نہیں تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ چونکہ مدینہ والوں کی نواسی تھیں اس لئے صرف اتنا تعلق تھا اِس سے زیادہ نہیں تھا لیکن حج کے مو قع پر مدینہ سے کچھ لوگ آئے تو وہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے بھی آگئے۔آپؐ نے فرمایا ۔اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو مَیں آپ لوگوں کو کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں ۔ مکّہ کے لوگ آگے سے مارنے پیٹنے اور گالیا ں دینے لگ جاتے تھے اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ پیچھے نہیں پڑ تے تھے بلکہ پہلے آپ ان لوگوں سے اجازت مانگتے تھے اِسی طریق کے مطابق آپؐ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو مَیں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں کو معلوم تھا کہ آپؐ ہمارے نواسے ہیں اِس لئے انہوں نے کہا تم تو ہمارے نواسے ہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو مگر تمہاری قوم کے لوگ تو کہتے ہیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو۔ آپؐ نے فرمایا تم میری باتیں سُن لو اور پھر بیٹھ کر انہیں اسلام کی تعلیم دی ۔ انہوں نے کہا یہ باتیں تو بڑی معقول ہیں مگر تمہا ری قوم کے لوگ تو یہی کہتے تھے کہ تم پا گل ہو لیکن بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں بڑی جتھہ بندی ہو تی ہے اِس لئے اگر آپؐ اجا زت دیں تو ہم اِس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں ہم واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو یہ باتیں سُنائیں گے اگر قوم کو توجہ پیدا ہوئی تو ہم پھر دوبارہ آئیں گے چنانچہ وہ واپس گئے او رانہوں نے مدینہ میں اسلام کی تعلیم پھیلانی شروع کی۔ لوگوں نے سُنا تو اُن میں سے درجنوں آدمی آپؐ کو قبول کرنے کے لئے تیا ر ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ باتیں سچّی ہیں۔6
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے
متعلق اسرائیلی انبیاء واولیاء کی پیشگوئیاں
ایک بڑا ذریعہ اُن کے لئے یہ بن گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ سے پہلے
یہودی لوگ اپنے بزرگوں کی پیشگوئیاں سُنا یا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہؤاہے کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اور ہمیں یقین ہے کہ چونکہ نبی ہم میں سے ہی ہو سکتا ہے اس لئے وہ ہماری قوم میں سے ہو گا بلکہ مدینہ کے جو یہودی تھے وہ اِسی لئے ہجرت کرکے وہاں آبسے تھے کہ کسی نے کتابوں میں سے اُن کو یہ پیشگوئیاں سُنا ئیں تو انہوں نے کہا وہ نبی ہم میں سے آجائے اِس لئے ہم عرب میں چلے جا تے ہیں ۔غرض اُن میں یہ پیشگوئیاں تھیں کہ آنے والا نبی عرب میں ظاہر ہو گا اِس لئے انہوں نے خیا ل کیا کہ وہ نبی ان یہودیوں میں سے ہو گا جو مدینہ جاکر رہیں گے اِسی وجہ سے وہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ انہوں نے جب یہ بات سُنی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ وہ جو یہودی کہا کرتے تھے کہ نبیؔ ہم میں سے آئے گا وہ تو جھوٹی بات ہے نبی ہم میں سے آنا تھا جو آگیا اِس لئے بہتر ہے کہ ہم پہلے اس کو قبول کر لیں ۔ وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہودی پہلے اس کو قبول کر لیں ۔یہ تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہودی اس کی مخالفت کریں گے ۔چنا نچہ انہوں نے ایک بڑا وفد بنایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رات کو آپؐ سے ملے اور آپؐ کی باتیں سُنیں اور کہا ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
مدینہ تشریف لانے کی دعوت
پھر انہوں نے کہا یَارَسُولَ اللہِ! ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپؐ ہجرت کرکے ہمارے پاس آجائیں کیو نکہ آپؐ کے
شہر کے لوگ آپؐ سے اچّھا سلوک نہیں کرتے۔ حضرت عباسؓ آپؐ کے ساتھ تھے، انہوں نے یہ باتیں سُنیں تو اُن سے ایک عہد لیا ۔ انہوں نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے لئے کچھ شرطیں ہوں گی ۔ اُن میں سے ایک شرط یہ بھی ہو گی کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ کرے تو تم لوگ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کروگے۔ ہاں اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑائی کرنی پڑے تو پھر مدینہ والوں کی ذمہ واری نہیں ہوگی7 چنا نچہ یہ عہد ہو گیا ۔اِس کے کچھ عرصہ بعد حکم بھی ہو گیا کہ ہجرت کرجاؤ۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔مدینہ پہنچتے ہی کو ئی ایسی رَو چلی کہ وہا ں عرب کے جو قبائل تھے وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے اور وہاں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرکے اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔
قبائلِ عرب کی بَر افروختگی
جب یہ خبرمشہور ہوئی تو عربوں نے یہ دیکھ کر کہ اَب تو اِن کے پاؤ ں جمنے لگے ہیں اُن قبائل
پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور دوستی رکھنا چاہتے تھے مکّہ سے حملے کرنے شروع کر دیئے ۔اور وہ مسلمان جو اِکّا دُکّا سفر کررہے ہوتے تھے اُن کو لُوٹنا اور ما رنا شروع کر دیا ۔اِس کے بعد پھر بدر کے مو قع پر ایک باقاعدہ حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی مگر اس واقعہ کی ہجرت سے چار سال قبل آپؐ کو خبر دی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ تمہیں حکومت ملے گی، تمہارے شہر میں لشکر داخل ہو گا اور سارے عرب کی فوجیں اکٹھی ہو کر آئیں گی مگر باوجود اس کے کہ وہ اکٹھے ہو نگے تمہا را مقابلہ اُن سے ہو گا اور وہ شکست کھائیں گے۔ اَب دیکھو احزاب کی جنگ تو کہیں نَو دس سال بعد ہوئی مگر نَو دس سال پہلے بلکہ حکومت بننے سے بھی چار سال پہلے خبر دی گئی کہ اِسطرح دشمن داخل ہو گا ۔ اَب کُجا یہ نوبت خانہ اور کُجا وہ نوبت خانہ کہ دشمن اندر داخل ہو جا ئے تو بادشاہ کو خبر ہو تی تھی اور اِتنی دیر میں وہ سَو دو سَو میل تک ملک پر قابض بھی ہو جاتا تھا۔کتنا بڑا زمین وآسمان کا فرق ہے جو اِن دونوں نوبت خانوں میں پا یا جاتا ہے ۔چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ احزاب کے مو قع پر جب سارا عرب اکٹھا ہو گیا اور اُس نے مدینہ پر حملہ کیا تو بجا ئے اِس کے کہ مسلمانوں کے دلوں میں تکلیف اور گھبراہٹ پیدا ہو تی یا ڈر پیدا ہوتا اُن کے ایمان بڑھنے شروع ہو ئے کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ خبر پہلے سے دی ہوئی تھی ۔ جب خدا نے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے تو اِن کے داخل ہونے سے ہمیں کیا ڈر ہے۔خدا نے کہا تھا کہ لوگ اکٹھے ہو کر حملہ کے لئے آئیں گے اور ہمیں اُمید بھی تھی کہ آئیں گے اور جب وہ بات پوری ہو گئی تو اگلی کیو ں نہ پوری ہو گی۔ یہ ایک بڑا بھاری نشان ہو تا ہے۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں مسلمانوں کی تباہی اور اُن کی خرابیوں کے متعلق خبریں دیں اور پھر بتایا کہ اِس کے بعد خداتعالیٰ ایک ایسا زمانہ پیدا کرے گا کہ مسلمانوں کی تباہی دُور ہو جا ئے گی اور مسلمان پھر ترقی کرنا شروع کر دیں گے۔
ایک دوست کی بیعت کا دلچسپ واقعہ
چنا نچہ مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنا یا ہے کہ مَیں دِلّی میں تھا ، اِس
سفر میں نہیں بلکہ اِس سے پہلے ایک سفر میں ہم قلعہ میں گئے تو وہا ں جو شاہی مسجد ہے اُس کو دیکھنے کے لئے چلے گئے میرے ساتھ سارہ بیگم مرحومہ اور میر ی لڑکی نا صرہ بیگم تھیں۔مَیں نے کہا اس مسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھتا چلو نماز پڑھ چلیں کبھی نہ کبھی کو ئی نماز پڑھنے والا یہاں بھی آجا نا چاہئے ۔چنانچہ مَیں نے اُنکو ساتھ لیا اور وہا ں نماز پڑھنی شروع کی۔چنا نچہ ہما ری نماز اور غیر احمدیوں کی نماز میں فرق ہو تا ہے وہ تو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے جس طرح مُر غا دانے چُنتا ہے اسی طرح وہ کرتے ہیں او رہمیں یہ حکم ہے کہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھو۔ غرض ہم جو نماز پڑھنے لگے تو ہم نے نصف یا پون گھنٹہ نمازوں میں لگا دیا ۔مَیں ابھی نماز سے فارغ نہیں ہؤا تھا کہ مَیں نے دیکھا کہ جیسے کو ئی جلدی جلدی جاتا ہے اِس طرح میری بیوی اور میر ی بچّی دونوں جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے پیچھے ہٹ گئیں۔مَیں نے نماز سے سلام پھیرا اور باہر آیا تو سارہ بیگم مرحومہ سے مَیں نے کہا کہ تم کیوں آگئی تھیں ؟انہوں نے کہا یہاں کو ئی اور مسافر عورتیں آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہمیں اشارہ کر کے بُلایا تھا جِس پر ہم چلی گئیں۔پھر انہوں نے بتایا کہ ایک انجینئر ہیں ،وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر ولایت جا رہے ہیں اوریہ جو بیٹی ہے یہ ایک احمدی سے بیاہی جانے والی ہے۔منگنی اِس کی ہو چکی ہے اور لڑکا احمدی ہے۔ ماں نے کہا کہ میر ی یہ بیٹی احمدیوں میں بیا ہی جا نے والی ہے اور ان کے امام یہاں آئے ہوئے ہیں اگر اِن سے میرا خاوند مِل لے تو ذراتعلّق پیدا ہو جائے گاکیو نکہ آئندہ احمدیوں کے گھروں میں ہم نے جانا ہے اِس لئے انہوں نے بلا یا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ آپ سے بات کرلیں ۔مَیں نے کہا آجائیں۔ اِس کے بعد ہم ذرا آگے کوئی جگہ دیکھنے کے لئے چل پڑے تو پھر چلتے چلتے یکدم مَیں نے دیکھا کہ میر ی بیوی اوربیٹی دونوں غائب ہیں ۔مَیں نے مُڑکر جو دیکھا تو معلوم ہؤ ا کہ پھر وہ عورتیں انہیں اشارہ کر کے لے گئی ہیں اور دومرد کچھ قدم آگے آگئے ۔مَیں نے سمجھا کہ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے مِلنا ہے۔پاس پہنچے تو انہوں نے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ۔مَیں نے وَعَلَیْکُمُ السَّـلَامُ کہا ۔ اورپو چھا کہ فرمایئے کیا بات ہے ؟اُن میں سے ایک نے کہا کہ اِس اِس طرح میری بیوی کو پتہ لگا تو اُس نے ہمیں اطلاع دی۔ میری لڑکی میرے بھا ئی کے بیٹے سے بیا ہی جانے والی ہے اور میرا بھا ئی احمدی ہے تو چونکہ لڑکی احمدیوں میں جانی ہے اور میر ا بھائی بھی احمدی ہے اِس لئے مَیں نے خواہش کی کہ مَیں آپ سے مِل لوں ۔مَیں نے کہا بڑی اچھی بات ہے۔ پھر مَیں نے کہا آپ کا کونسا بھائی احمدی ہے؟انہوں نے نام بتایا۔ مَیں نے کہا وہ تو ہماری جماعت کے وہا ں امیر ہیں ۔کہنے لگا جی ہا ں ۔ایک میرا وہ بھائی ہے وہ تو بیچارے بعد میں فوت ہو گئے لیکن دوسرے بھائی موجود ہیں غلام سرور اُن کا نام ہے اور چار سدّہ کے رہنے والے ہیں تو کہنے لگے غلام سرور جو میرابھائی ہے وہ احمدی ہے اور مَیں اور میر ا یہ بھائی دونوں غیر احمدی ہیں ۔مَیں نے کہا آپ کیوں نہیں احمدی ہوئے کیا آپ نے ہما را لٹریچر نہیں پڑھا؟کہنے لگے نہیں مَیں نے نہیں پڑھا۔ پھر کہنے لگے دیکھیئے ہم نے تو انصاف کر دیا ہے آپ کا اور ان کا جھگڑا ہے۔ہم نے دو بھائی آپ کو دے دئیے ہیں اور دو بھا ئی ان کو دے دئیے ہیں اِس طرح ان کو تقسیم کر دیا ہے گویا اٹھنّی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنّی اُن کو دے دی ہے۔انہوں نے مذاق کے رنگ میں یہ بات کہی۔مَیں نے بھی آگے مذاق کے رنگ میں کہا کہ آپ کوہما را پتہ نہیں ہم اِس معاملہ میں بڑے حریص ہیں اور ہم سارا روپیہ لے کر راضی ہؤا کرتے ہیں اٹھنّی لے کر راضی نہیں ہؤا کرتے۔کہنے لگے لے لیجئیے۔مَیں نے کہا دیکھیں گے۔پھر مَیں نے کہا آپ نے کبھی لٹریچر نہیں پڑھا؟ کہنے لگے مَیں نے کبھی نہیں پڑھا اورنہ مجھے فُرصت ہے۔اَب جو مَیں ولایت جانے کے لئے چلنے لگا تو میرے بھا ئی نے جن سے مجھے بہت محبت ہے اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں جب مَیں کپڑے وغیرہ بھر رہا تھا تو میری بیوی کو مجبور کر کے کچھ کتابیں لا کے ٹرنک میں ڈال دیں اور کہنے لگے یہ پڑھنا ۔مَیں نے کہا بھائی! پڑھنے کی کس کوفُرصت ہے۔کہنے لگے ۔جہاز پر اُن کو فُرصت کے موقع پر پڑھتے رہنا۔مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے آپ کا لحاظ ہے اس لئے رکھ دیں ورنہ مَیں نے کہا ں پڑھنی ہیں۔ تو بس اتنی بات ہے ورنہ مَیں نے پڑھا پڑھا یا کچھ نہیں ۔مَیں نے کہا اچھا اٹھنّی پر تو ہم راضی نہیں ہؤا کرتے ہم تو پورا روپیہ ہی لیاکرتے ہیں ۔ اِس کے بعد وہ چلے گئے ۔تین چار مہینے ہوئے مجھے لندن سے ایک خط مِلا۔ اس خط کا مضمون ان الفاظ سے شروع ہو تا تھا کہ مَیں وہ شخص ہوں جو دہلی کے قلعہ میں آپ سے ملا تھا اور مَیں نے آپ سے مذاقاً کہا تھاکہ ہم نے احمدیوں اور غیراحمدیوں میں پورا انصاف کر دیا ہے۔اٹھنّی ہم نے آپ کو دیدی ہے اور اٹھنّی ہم نے اِنکو دے دی ہے اور آپ نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنّی پر راضی نہیں ہؤا کرتے ہم تو پورا روپیہ لے کر راضی ہؤا کرتے ہیں ۔آپ حیران ہو نگے کہ مَیں لنڈن سے ایک چونّی آپ کو بھیج رہا ہوں ،ایک چونّی باقی رہ گئی ہے اورمیری بیعت کا یہ خط ہے۔آگے انہوں نے تفصیل لکھی اور اُس میں انہوں نے لکھا کہ مَیں جس وقت یہاں آیا تو آپ جا نتے ہیں ہم پٹھان لوگ ہیں اور ہمیشہ نعروں پر ہماری زندگی ہوتی ہے۔کہ انگریز ہم کویوں قتل کریں گے انگریز ہم کویوں ماریں گے، یہ ہوتے کون ہیں ہم پستول یا رائفل سے ڈَز کریں گے اور وہ بھا گ نکلیں گے ۔یہ تو کبھی سو چا نہیں تھا کہ ہمارے پاس کیا سامان ہیں اور اِن کے پا س کیا سامان ہیں ۔صرف اتنا ہم جا نتے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے اور اِن کو ما ر ڈالیں گے۔یہی خیا لات میرے بھی تھے اورمیر ا خیال تھا کہ اِن کی دُنیوی ترقی اور کالج وغیرہ دیکھو نگا۔مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ اِن کے سامانِ جنگ ایسے ہیں کہ ہم اِن کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔جب مَیں یورپ میں آیاتو مَیں اٹلی میں گیا، فرانس میں گیا ،جرمنی میں گیا، انگلینڈ میں آیا اور مَیں نے اِن کی فوجیں دیکھیں ۔توپ خانے دیکھے ،ہوا ئی جہاز دیکھے، اِن کے گولہ بارود کے کا رخانے دیکھے تو مَیں نے کہا یہ تو ایسی بات ہے جیسے چڑیا کہے کہ مَیں باز کو مارلو نگی ہمارے اندر اس کے لئے کو ئی طاقت ہی نہیں اوراِس کو دیکھ کر میں بالکل مایوس ہو گیا ۔پہلے توہم خیا ل کرتے تھے کہ ہم اتفاقاًانگریز کے ماتحت آگئے ہیں جس دن پٹھان نے رائفل سنبھالی سارے یورپ کو ختم کر دے گا مگر اب تو یہاں آکر معلوم ہؤا کہ یوروپین لوگوں کو ختم کر نیکا کو ئی سوال ہی نہیں یہ تو قیامت تک باقی رہیں گے ہم انہیں دُنیا سے نہیں مٹا سکتے۔ پھر میرے دل میں اسلام کے متعلق شُبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ جب اسلام کا یہ انجام ہونا تھا اور عیسائیت نے اسے کُچل کر رکھ دینا تھا تو پھر عیسائیت ٹھیک ہے۔ درمیان میں بے شک اسلام آیا اور اُس کو کچھ غلبہ مِلا مگر اب پھر عیسائیت غالب آگئی ہے۔ غرض اسقدر میرے دل میں مایوسی اور شُبہات پیدا ہونے شروع ہوئے کہ آج شام کو مَیں نے کہا میرے بھائی نے ٹرنک میں کچھ کتابیں رکھی تھیں انہیں میں سے کوئی کتاب لاؤ تاکہ مَیں اُسے پڑھوں۔ شاید اُس میں کوئی بات بتائی گئی ہو۔کہنے لگے مَیں نے آپ کی کتاب ''دَعْوَۃُ الْاَمِیْر'' نکالی اُس کتاب میں یہی مضمون ہے کہ اسلام کی تباہی کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ خبریں دی ہیں اور بتایا ہے کہ مسلمان اس طرح ذلیل ہو جائیں گے،تجا رتیں جاتی رہیں گی او ر سب قسم کی ترقیاں مٹ جائیں گی۔بھلا آج سے تیرہ سَو سال پہلے کون کہہ سکتا تھاکہ مسلمان کی یہ حالت ہو گی اُس وقت تو یہ حالت تھی کہ سات سَو مسلمان ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مردم شُماری کرو ۔ مسلمانوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! آپؐ نے مردم شماری کرائی ہے اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں ۔کیا آپؐ ڈرتے ہیں کہ اب ہم تباہ ہو جائیں گے؟ اب ہمیں کون مار سکتا ہے۔اب یا تو اُن کی یہ شان تھی اور یا یہ کہ چالیس کروڑ یا ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں اور اُن کی جانیں لرز رہی ہیں ۔تو یہ حالت آج سے تیرہ سَوسال پہلے کون شخص بتا سکتا تھا نا ممکن تھا کہ کوئی شخص کہے کہ مسلمان ایسا کمزور ہو جائے گالیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا وہ بات پوری ہو گئی ۔پس اے مسلمانو!جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناممکن خبر پوری ہو گئی ہے تو تم کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ دوسری خبر جو اَب مَیں بتا تا ہوں وہ پوری ہو گی۔پھر مَیں نے وہ پیشگوئیاں لکھی ہیں جو اسلام کی ترقی کے متعلق تھیں ۔ اور مَیں نے کہا اِن کو دیکھ لو او ر سمجھ لو کہ اسلام پھر ترقی کرے گا ۔کہنے لگے ۔جب مَیں نے یہ پڑھا تومیرے دل کو تسلّی ہو گئی کہ واقع میں مَیں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ وہی تھا جو آپ نے بتایا تھاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور جب یہ بات پوری ہو گئی جس کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ پوری ہو گی تو آپ کی یہ دوسری بات بھی ضرور پوری ہو گی اور مَیں نے سمجھا کہ جس شخص نے دنیا میں آکر ہماری یہ راہنمائی کی ہے اُس سے علیحدہ رہنا بالکل غلط ہے چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہو گئے۔
مسلمانوں کی کمزوری پر منافقین کی طعنہ زنی
غرض جب یہ باتیں پوری ہو ئیں تو منافقوں
کیلئے یہ بڑی تباہ کن چیز تھی۔انہوں نے خیا ل کیا اب تومارے گئے۔ اِدھر سے یہودی چلے آرہے ہیں اُدھر سے عرب قبائل چلے آرہے ہیں ،اُدھر مکّہ کے لشکر چلے آرہے ہیں ۔غرض دس بارہ ہزار کا لشکر آرہا ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے مقابلہ میں اتنا سپاہی تو کُجا ،اِن کے پاس اِس سے نصف بھی سپاہی نہیں وہ مقابلہ کہا ں کریں گے۔ اور یہ حالت پہنچ گئی کہ وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰۤاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا 8منافق جو ڈر کے مارے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اُن کو بھی اِتنی دلیری پیدا ہو گئی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیاکہ ارے میاں!اب بھی یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی اب تو سارا عرب اکٹھا ہوکر تمہارے خلاف جمع ہو گیا ہے اسلئے اب چھوڑو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو یہ آپ بُھگتتا پھرے گا اور جا ؤ اپنے گھر وں میں اب اِس لڑائی میں مقابلہ کا کوئی فائدہ نہیں۔
مخالف لشکروں کو دیکھ کر صحابہؓ
کے ایمان اَور بھی بڑھ گئے
لیکن مسلمانوں نے اُسوقت وہی دیکھاجو خان فقیر محمد صاحب چار سدّہ والوں نے دیکھا تھا کہ خدا کی یہ بات پوری ہو گئی ہے
اور وہ بات بھی پوری ہو گی ۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اِس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ١ۙ قَالُوْا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ٞ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًاؕ۔9یعنی جب مؤمنو ں نے دیکھا کہ اُدھر سے شمالی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں اِدھر سے جنوبی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ،اُدھر سے مشرقی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں اِدھر سے مغربی عرب کے لشکرچلے آرہے ہیں،اُدھر سے مکّہ کا لشکر چلا آرہا ہے اِدھر سے یہودی قبائل اِردگِردسے جمع ہو کر چلے آرہے ہیں ،اُدھر سے اندر کے یہودی مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں اور اِدھر منافقوں کی بات بھی سُنی کہ اب تو تمہارا کچھ نہیں بن سکتاچھوڑو اِس دین کو، تو مسلمانوں نے کہا تم تو کہتے ہو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں۔ ارے! مکّہ میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لشکر جمع ہونگے ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا طاقت تھی کہ اس کیلئے دس آدمی بھی جمع ہوتے ۔ایک ابوجہل کا فی تھا جو کہتا تھا مَیں اِسے مار دونگا یہ اتنے بڑے لشکر اکٹھے ہوکر اس لئے آگئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اب اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ سارا عرب ان کو مِل کر ہی مار سکتا ہے اور یہ خبر جو دس سال پہلے دی گئی تھی کہ مسلمان اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ سارا عرب جمع ہو کر اُن کے مقابلہ کے لئے آئے گایہ بڑا بھا ری نشان ہے یا نہیں؟تو هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ ۔دیکھو یہ وعدہ قرآن میں پہلے سے موجود تھا کہ عرب اکٹھے ہوکر آئیں گے۔ہمارے توایمان تازہ ہوگئے کہ جس وقت یہ خبر دی گئی تھی کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے اُس وقت کوئی امکان ہی نہیں تھا ،خیا ل بھی نہیں آسکتا تھا،وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا مگر آج آگئے تو سُبْحَانَ اللہ !یہ تو وہی بات ہوئی جو خدا تعالیٰ نے کہی تھی اور خدا اور اس کا رسول سچے ثابت ہوگئے۔پس ہمیں کیا ڈر ہے اب تو ہم ان کے ساتھ چمٹیں گے۔ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًاؕ ۔اور اِس آواز کے آنے سے اُن کے ایمان اَور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی پیشگوئی تھی جو پوری ہوگئی ۔انہوں نے توکہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دو وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًاؕ ۔مگر مسلمانوں نے کہا کہ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی ہمیں اپنی نجات نظر آتی ہے۔جس شخص کی یہ خبر سچی ہو گئی ہے اُس کے ساتھ مِل کرہم نے کام نہیں کرنا تو اَورکِس کے ساتھ کرنا ہے۔پس وہ اپنے عمل او رقربانی میں اَور بھی زیادہ ترقی کر گئے۔
غرض یہ وہ جنگ تھی جو کہ پانچویں سال ہجرت میں ہوئی لیکن چارسال کے قریب ہجرت سے بھی پہلے مکّہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا تھا کہ اِس طرح تمام لشکر اکٹھے ہو کر آئیں گے اور حملہ کریں گے تم اُن کا مقابلہ کرو گے اور اُن کو شکست ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ تمہاری مدد کیلئے آئے گا۔

قرآنی نوبت خانہ کی ایک اَور
خبر جو بڑی شان سے پوری ہوئی
اِسی طرح دوسری خبر جو اِس نوبت خانہ سے دی گئی وہ یہ ہے کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ
آپؐ مکّہ گئے ہیں اور وہاں عمرہ کر رہے ہیں۔آپؐ نے صحابہؓ کو دیکھا کہ کسی نے سرمُنڈایا ہؤا ہے اور کسی نے بال تراشے ہوئے ہیں اور عمرہ ہو رہا ہے۔آپؐ نے صحابہؓ سے کہا کہ چونکہ خواب آئی ہے،چلو ہم عمرہ کر آئیں ۔جب آپؐ حدیبیہ مقام پر پہنچے تو مکّہ والوں کو پتہ لگ گیا وہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی کِس نے اجازت دی ہے؟انہوں نے کہا ہم لڑنے کیلئے تو نہیں آئے صرف اِس لئے آئے ہیں کہ عمرہ کر لیں یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے او رہمارے نزدیک بھی ۔ہم اس کی زیارت کے لئے آئے ہیں لڑائی کے لئے نہیں آئے۔انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں۔ ہماری تمہاری لڑائی ہے اگر تم مکّہ آئے اور طواف کر گئے توتمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے ۔ہم ساری دُنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد بھیجے ،رؤسائے عرب کی طرف توجہ کی،اُن کو سمجھایا مگر وہ سارے متفق ہو گئے کہ ہم عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے آخر یہ فیصلہ ہؤا کہ صلح نامہ لکھاجائے۔
صلح نامہ حدیبیہ کی بعض شرائط
اِس معاہدہ میں انہوں نے کہا کہ اَب کے تم واپس چلے جا ؤ تا سارے عرب کو پتہ
لگ جائے کہ تم پُوچھے بغیرآئے تھے اِس لئے ہم نے تم کو طواف نہیں کرنے دیا ۔پھر اگلے سال آجانا تو ہم تمہیں تین دن کے لئے طواف کرنے کی اجا زت دے دیں گے۔ معاہدہ کرتے وقت جو بڑے بڑے سردار اِن لڑائیوں کو نا پسند کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ پھر آپس میں کچھ صلح کی شرطیں بھی ہو جائیں تا کہ لڑائیاں ختم ہو جائیں۔ آپؐ نے منظور فرما لیا ۔چنا نچہ شرطیں یہ طے ہوئیں کہ اگلے سال مسلمان آکر طواف کر جائیں اور یہ معاہدہ ہو جا ئے کہ آئندہ دس سال کے لئے لڑائی بند کر دی جا ئے اِس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کردے تو وہ جس کی تائید کرے گا اُس کو فائدہ پہنچ جا ئے گا ورنہ ملک میں امن پیدا ہو جا ئے گا۔ پھر ایک شرط یہ بھی کی گئی کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرلے اور جو چاہے مکّہ والوں سے معاہدہ کرلے۔ اِردِگرد کے جو قبائل تھے اُن کو یہ آفر(OFFER)کیا گیا کہ تم جس سے چاہو معاہدہ کرلو چنا نچہ بنو خزاعہ نے کہا ہم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کریں گے اُن کی مکّہ والوں سے لڑائیاں تھیں اور بنو بکر جو ایک بڑا قبیلہ تھا اور مکّہ والوںکا دوست تھا اُس نے کہا کہ ہم مکّہ والوں سے معاہدہ کریں گے۔غرض قبائلِ عرب بھی تقسیم ہو گئے ۔اُن میں سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے حق میں ہو گئے اور بنو بکر مکّہ والوں کے حق میں ہو گئے اور فیصلہ یہ ہؤا کہ آپس میں لڑنا نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی معاہدہ توڑے ۔اگر کوئی معاہدہ تو ڑ کر اپنے مدّ مقابل سے یا اُس کے حلیف سے مقابلہ کرے تو پھر اُس سے لڑائی کی اجازت ہو گی اِسی طرح کچھ اور شرطیں طے ہوئیں۔10
دشمن کی معاہدہ شکنی کی خبر
جب یہ شرطیں طے ہو گئیں تو اب گویا آئندہ دس سال کیلئے جنگ بند ہو گئی۔اب جنگ کی
صرف ایک ہی صورت باقی تھی اور وہ یہ کہ مکّہ والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کے حلیفوں پر حملہ کردیں کیونکہ مسلمان کو تو حکم ہے کہ بہر حال تم نے اپنا عہد پورا کرنا ہے۔اِس معاہد ہ کے بعد نا ممکن تھا کہ مسلمان لڑائی کر سکیں ۔صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ مکّہ والے محمد رسول اللہؐ پرحملہ کر دیں یا آپؐ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں اِسکے بغیر لڑائی نہیں ہو سکتی تھی۔گویا اب لڑائی کا اختیا ر دشمن کے ہا تھ میں چلا گیا مومنوں کے ہا تھ میں نہ رہا ۔ایسی صورت میں جب لڑائی کا اختیا ر دشمن کے ہا تھ میں تھا جب یہ پتہ لگنے کی کو ئی صورت ہی نہیں تھی کہ دشمن کی فوجیں اسلامی نظام کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گی کیو نکہ فیصلہ تو اُس نے کرنا تھا مسلمانوں نے نہیں کر نا تھا اُس وقت جب صلح حدیبیہ کر کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم واپس آرہے تھے اللہ تعا لیٰ کی طرف سے آپؐ کو خبر دی گئی کہ دشمن معاہدہ توڑے گااور ہم تم کو اُن پر قبضہ دیں گے۔گویا پھر قریباً ڈیڑھ سال پہلے خبر مل گئی کہ دشمن کی فوجیں تمہا رے ملک میں داخل ہو جا ئینگی چنا نچہ آپؐ کو الہام ہؤا !اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙ۔لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاۙ۔وَّ يَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِيْزًا۔11یعنی اے محمدؐ رسول اللہ!ہم تجھ کو ایک عظیم الشان فتح کی خبر دے رہے ہیں ۔وہ ایک ایسی فتح ہوگی جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہ ہو گی کہ تُوسچا ہے اور پھر وہ فتح مبین ہو گی ۔ بعض نشانات تو ہوتے ہیں مگر اُن سے نتیجہ نکالنا اور استنباط کرنا پڑتاہے لیکن وہ فتح ایسی ہو گی کہ استنباط کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ خود اپنی ذات میں تیری صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہوگی۔لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَاور یہ فتح ہم تجھے اِس لئے دیں گے تاکہ تیری جنگ جو عربوں سے چلی آرہی ہے اُس میں بعض باتیں کرنے والی تھیں جو تونے نہیں کیں اور بعض غلطیاں تم سے ایسی ہوئیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں اور تم نے کر لیں ۔مثلاً بعض جگہ عفو نہیں کرنا چاہئے تھا مگر عفو کر دیا۔ بعض جگہ معاف کرنا چا ہئے تھا مگر صحابہؓ کو خیا ل نہیں آیا اور انہوں نے معاف نہیں کیا مثلاً محرم الحرام میں جا کر مسلمان لڑ پڑے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے کہ اِس مہینہ میں تو لڑنا جائز ہی نہیں ۔ وَ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَ يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا اور وہ تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے اور تجھے وہ راستہ دکھا ئے جس کے ذریعہ سے تجھے کامیابی نصیب ہوجائے۔ وَّ يَنْصُرَكَ اللّٰهُ نَصْرًا عَزِيْزًا اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا اور مدد بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی غالب مدد ۔اِس میں اِس طرف اشارہ کیا گیا کہ چونکہ مسلمان حملہ نہیں کر سکتے اِس لئے تیرے ہاتھ سے تو لڑائی نکل گئی اب ہم ایسا طریق اختیا ر کریں گے جس سے لڑائی جائز ہو جائے اور وہ طریق یہی ہو سکتا تھا کہ کفّا ر حملہ کر دیں ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم خود ایسے سامان کریں گے کہ کفّا ر تجھ پر حملہ کر دیں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں وہ تباہ ہو جائیں گے۔ يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ، سے بھی یہی مراد ہے کہ عرب شکست کھا جائیں گے اوراسلامی حکومت قائم ہو جائے گی۔ کیو نکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا۔12یعنی موسٰی ؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کر و کہ اس نے تم میں اپنے انبیا ء مبعوث فرمائے اور اُس نے تمہیں دُنیوی بادشاہت کی نعمت سے بھی نوازا۔اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نعمت کی تعریف بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ نعمتِ الٰہی اوراس کا اتمام الٰہی جماعتوں سے دو طرح ہو تاہے ۔اگر ان کا سیاسی مقابلہ ہو تو حصو لِ ملوکیت سے اور اگر خالص مذہبی ہو تو تکمیلِ نبوت سے۔یعنی دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتاہے تو اگر اس سے صرف سیاسی لڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے بادشاہ بنا دیتا ہے او ر اگر مذہبی لڑائی ہو تو اس کے دین کو غالب کر دیتا ہے اور اگر سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا مقابلہ ہو تو دونوں قسم کے انعام عطا کئے جا تے ہیں ۔یعنی نبوت بھی قائم کی جاتی ہے اور بادشاہت بھی عطا کی جاتی ہے پس یہاں ہم يُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ سے یہی مراد لیں گے کہ اس حملہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عرب کی حکومت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کی حکومت قائم کردی جائے گی اور يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا میں بتایا کہ تم کو غدّاری نہیں کرنی پڑے گی۔اللہ تعالیٰ خود ایسا راستہ نکالے گا جس کے نتیجہ میں لڑائی کرنا تمہارے لئے جا ئز ہو جا ئے گا اور ہر شخص تمہا رے حملہ کو جائز اور معقول قرار دے گا۔
فَتْحًا مُّبِیْنًا سے مُراد صلح حدیبیہ نہیں بلکہ فتح مکّہ ہے
اِس آیت کے متعلق
مفسّرین میں اختلاف پایا جاتا ہےبعض کہتے ہیں کہ فتح سے مُراد صلح حدیبیہ ہے لیکن کچھ اَور مفسّرین اور صحابہؓ کہتے ہیں کہ اِس سے مراد فتح مکّہ ہے اور اُن کے اِس خیا ل کی تائید اِس سے ہو تی ہے کہ ابنِ مردویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں مَیں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا میں جس فتح کا ذکر ہے اُس سے مراد فتح مکّہ ہے۔13 گویا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ ہے کہ اس جگہ فتح سے مراد فتح مکّہ ہے لیکن اگر صلح حدیبیہ لو تب بھی فتح مکّہ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ہی ہو ئی اگر صلح حدیبیہ نہ ہو تی تو فتح مکّہ بھی نہ ہوتی۔
خدائی نوبت خانہ کی ایک اَور خبر
اب یہ جو اطلاع مِلی تھی کہ دشمن آئے گا اور حملہ کرے گا اور مسلمانوں کو فتح
نصیب ہو گی اِس کے واقعات کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کسِ طرح ہوئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو قریباً ڈیڑھ سال پہلے نوبت خانہ نے اطلاع دی کہ دشمن آئے گا، اس کے بعد جب یہ وقت قریب آگیا تو خدائی نوبت خانہ نے پھر دشمن کے حملہ کی خبر دی ۔چنانچہ جب دشمن کے آنے کا وقت قریب آگیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میری باری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہا ں سو رہے تھے۔ جب آپ تہجّد کے لئے اُٹھے تو آپؐ وضو فرماتے ہوئے بولے اور مجھے آواز آئی کہ آپؐ فرما رہے ہیں۔لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔ اِس کے بعد آپؐ نے فرمایا۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔وہ کہتی ہیں ۔جب آپؐ باہر تشریف لائے تو مَیں نے کہا ۔یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپؐ اس سے باتیں کررہے تھے ؟آپؐ نے فرمایا ۔ہا ں !میرے سامنے کشفی طورپر خزاعہ کا ایک وفد پیش ہؤا اور وہ شور مچاتے چلے آرہے تھے کہ ہم محمدؐ کو اس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اورہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں مگر قریش نے ہمارے ساتھ بدعہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جبکہ ہم میں سے کو ئی سجدہ میں تھا او ر کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اَب ہم تیری مدد حا صل کرنے کیلئے آئے ہیں ۔غرض مَیں نے دیکھا کہ خزاعہ کا آدمی کھڑا ہے۔ جب کشفی طور پر وہ آدمی مجھے نظر آیا تو مَیں نے کہا ۔ لَبَّیْکَ۔لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں مَیں تمہاری مددکے لئے حاضر ہوں، مَیں تمہاری مددکےلئے حاضرہوں، پھر مَیں نے کہا۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔ نُصِرْتَ۔14 تجھے مدد دی جائے گی ،تجھے مدد دی جا ئے گی ،تجھے مدد دی جائے گی۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُسی دن صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میر ے گھر تشریف لائے اور آپؐ نے فرمایا ۔خزاعہ کے ساتھ ایک خطر ناک واقعہ پیش آیا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے سمجھ لیا کہ خزاعہ کے ساتھ خطرناک واقعہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مکّہ کی سرحد پر ہیں اور مکّہ والے جن کا خزاعہ کے ساتھ معاہدہ ہے وہ خزاعہ پر حملہ کردیں۔مَیں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قسموں کے بعد قریش معاہدہ توڑ دیں اور وہ خزاعہ پر حملہ کر دیں؟آپؐ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کے ماتحت وہ اس معاہدہ کو توڑ رہے ہیں اور وہ حکمت یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کی اجا زت نہیں تھی ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں مَیں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ! کیا اِس کانتیجہ اچھا نکلے گا؟آپؐ نے فرمایا ہاں !نتیجہ اچھا ہی نکلے گا۔15 غرض اُس دن پھر نوبت خانہ بجتاہے ۔ اور اُدھر وہ واقعہ ہو تاہے جومَیں ابھی بیان کرونگا اور اِدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اطلاع مل جاتی ہے۔
بنوخزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی
اب واقعہ یُوں ہؤا کہ خزاعہ اور بنو بکر میں آپس میں لڑائی تھی اور بنو بکر ہمیشہ مکّہ والوں کی مدد
کر تے تھے۔خزاعہ نے عملی طورپر مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے اُن کے معاہدے تھے،اُن کی مدد کیا کرتے تھے ۔یو ں مسلمانوں کو یہ ہمدردی تھی کہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے تعلقات تھے ۔ جب یہ معاہدہ ہؤا تو یوں تو وہ لڑائی کے لئے ہر وقت تیا ر رہتے تھے لیکن معاہدہ کے بعد بنو بکر نے سمجھا کہ اب تو یہ غافل رہیں گے اب موقع ہے ان کو مارنے کا ۔چنانچہ وہ مکّہ کے لوگوں کے پاس گئے او راُن سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے معاہدہ ہو گیا ہے،اِن کوتو خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کو ماریں گے اگر اِس وقت آپ ہماری مدد کریں تو ہم اِن کو تباہ کر سکتے ہیں ۔مکّہ والوں نے کہا بڑی اچھی بات ہے تم ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہے ہو ہم تمہاری مدد کریں گے چنانچہ باہمی مشورہ کے بعد ایک اندھیری رات انہوں نے تجویز کی اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت حملہ کریں گے۔مکّہ کے لشکر ہمارے ساتھ آجائیں کسی نے کیا پہچاننا ہے کہ مکّہ والے بیچ میں موجود ہیں یہی کہیں گے کہ بنوبکر کے لوگ ہیں اور پھر چوری چوری اُن کو ما ر کر آجائیں گے اُن کو وہم بھی نہیں ہو گا۔ چنانچہ رات جو مقرر تھی اِس رات وقتِ مقررہ پر بنو بکر کا لشکر اور قریش کا لشکر مِل کر وہاں گیا اور انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا ۔اِسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم سجدے کررہے تھے اور رکوع میں گئے ہوئے تھے حالانکہ وہ سب مسلمان نہیں تھے صرف کچھ لوگ مسلمان تھے انہوں نے مبالغہ سے کہا کہ ہم کو سجدے او ر رکوع کرتے ہوئے مار دیا ہے۔وہ تواس امید میں بیٹھے تھے کہ آپس میں دس سال کا معاہدہ ہو چکا ہے اب ہمیں حملہ کا کوئی خطرہ نہیں کوئی کسی کو نہیں چھیڑ ے گا مگر اچانک قریش اور بنو بکر مِل کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے خزاعہ کو مارنا شروع کر دیا جو بھاگ سکے بھاگ گئے اور باقی جو اپنے ڈیروں پر رہے وہ مارے گئے لیکن رات کے وقت کسی کی آواز تو نکل جاتی ہے بعض لوگوں کے منہ سے آوازیں نکلیں تو بنو خزاعہ کو پتہ لگ گیا کہ قریش اُن کے ساتھ شامل ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے صبح شور مچادیا کہ قریش نے بنوبکر سے مل کر ہم پر حملہ کیا ہے۔صرف بنوبکرنے نہیں کیا اور اِردگِرد کے لوگوں کو بھی یقین ہو گیا کہ بنوبکر کبھی جرأت نہیں کر سکتے تھے جب تک قریش کی مدد ان کو حا صل نہ ہو تی اِس لئے ضرور قریش حملہ میں شامل ہیں ۔اِس طرح سارے علاقہ میں باتیں شروع ہو گئیں کہ قریش نے معاہدہ توڑ دیا ہے۔ چنانچہ مکّہ کے رؤ سا ء اکٹھے ہو ئے او رانہوں نے کہا یہ تو بڑے فکر کی بات ہے معاہدہ ٹوٹ گیا ہے اب محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مو قع مِل گیا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کر دیں اِس کو کسی طرح سنبھالنا چاہئے۔
بنوخزاعہ کا وفد رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں
اِدھر بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمیوں کا ایک وفد تیا ر کیا انہیں اونٹوں پر سوار کیا اور انہیں کہا کہ
رات دن منزلیں طے کرتے ہوئے جاؤ اور مدینہ جا کر خبر دو ۔چنانچہ وہ تین دن میں مارامار کرکے مدینہ پہنچے اورجس طرح آپ کو الہا ماً بتایا گیا تھا اُسی طرح فریاد کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ ہم رسول اللہؐ کو اُس کے خدا کی قسم دلاتے ہیں اور اُسی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہا رے ساتھ اور تمہا رے باپ دادوں کے ساتھ ہمیشہ معاہدے کئے اور تمہارے ساتھ وفاداری کی لیکن قریش نے تمہاری دوستی کی وجہ سے رات کو حملہ کرکے ہمارے آدمیوں کو مارا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسوقت مسجد میں بیٹھے تھے اور تین دن پہلے الہا می طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو اس کی خبر بھی مِل چکی تھی۔ جب آپؐ نے سُناتو عمروبن سالم جو اُن کا لیڈر تھا ، آپؐ نے اُسے فرمایا گھبراؤ نہیں تمہاری مدد کی جا ئے گی۔ پھر آپؐ نے فرمایا اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری کبھی مدد نہ کرے۔
پھر آپؐ نے فرمایا جس طرح مَیں اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی جانو ں کی حفاظت کرتاہوں ۔اسی طرح تمہاری جانوں اور تمہارے بیوی بچوں کی جانوں کی بھی حفاظت کرونگا۔16
پھر آپؐ نے انہیں تسلّی دی اَور کہا کہ مکّہ والوں کو پتہ لگے گا اور وہ تمہا ری تلاش میں ہونگے تم جا ؤ لیکن چالیس آدمیوں کا قافلہ چونکہ آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اِس لئے تم واپس جاتے وقت دودوتین تین آدمی مِل کر جاؤ۔قافلہ کی صورت میں اکٹھے نہ جا ؤ تا پتہ نہ لگے کہ تم میرے پاس پہنچے ہو۔ چنانچہ انہوں نے قافلہ کو دودو،تین تین، چارچار کی پارٹیوں میں تقسیم کر دیا اور واپس چلے گئے۔ 17
ابو سفیان کا معاہدہ کی تجدید کیلئے مدینہ پہنچنا
اِدھر مکّہ والوں کو جب فکر ہوئی کہ ہم نے
معاہدہ توڑ دیا ہے اور اب مسلمانوں کے لئے راستہ کھل گیا ہے ہم الزام نہیں لگا سکتے اوروہ حملہ کر سکتے ہیں اور اِدھر دیکھا کہ مکّہ میں جو معاہدہ کیاجائے لوگ اُس کی بڑی عزّت کرتے تھے حَرم میں کئے ہوئے معاہدہ کی وجہ سے سارے لوگ کہیں گے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں اور وہ ہم سے نفرت کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے مقدس مقام کی ہتک کی ہے اِدھر اِنہوں نے معاہدہ کیا اور اُدھر اُسے توڑ ڈالا۔پس جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سے غلطی بھی ہوئی ہے اور ارد گرد کے قبائل میں بھی ہماری بد نا می ہوئی ہے اور اب اِس کے نتیجہ میں بالکل ممکن ہے کہ مسلمان ہم پر حملہ کردیں تو انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اِس لڑائی کو ٹلا دیا جا ئے ۔جس وقت حدیبیہ کی صلح ہوئی ہے اُس وقت ابو سفیان جو اُن کا لیڈر تھا مکّہ میں موجو د نہیں تھا وہ باہر تھا مگر اس واقعہ کے وقت ابو سفیان موجو د تھا ۔مکّہ کے رؤ سا ء آخر پر یشان ہوکر ابو سفیان کے پاس آئے اور اُس سے کہا کہ اِس اِس طرح واقعہ ہو گیا ہے۔وہ کہنے لگا واقعہ کیا ہے؟ مَیں نے تو سُنا ہے کہ تم خود وہاں گئے تھے اور خزاعہ پر تم نے حملہ کیا ۔وہ کہنے لگے جو ہو گیا سو ہوگیا تم لیڈر ہو تمہا ر اکا م ہے کہ اِس کو سنبھالو۔تم مدینہ جاؤ اور وہا ں جا کر دوبارہ معاہدہ کرو اور یہ بہانہ بنالو کہ دس سال تھوڑی مدت ہے ہم پندرہ سال تک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کیوں کررہے ہیں ۔نیا معاہد ہ ہو جا ئے گا اور ہم کہیں گے کہ اَب پچھلی غلطی پر کو ئی لڑائی نہیں ہو سکتی۔ ابوسفیان نے کہا بہت اچھّاچنا نچہ وہ چل پڑا۔
ابو سفیان کی بہانہ سازی
جب وہ مدینہ پہنچا تو اُس نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا آپؐ جا نتے
ہیں مَیں مکّہ کا سردار ہوں۔فرمایاٹھیک ہے ۔ اُس نے کہا آپؐ کو معلوم ہے جب صلح حد یبیہ ہو ئی تھی مَیں مکّہ میں مو جو د نہیں تھا اُسوقت معاہد ہ ہو گیا ۔آپ میر ی پنا ہ دیئے بغیر کسی کو کیو ں پنا ہ دے سکتے ہیں۔مَیں معاہدہ کر وں تو معاہد ہ مکّہ کی طرف سے ہو سکتا ہے میں نہ کروں تو کیسے ہو سکتا ہے؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی بات سُن کر خاموش رہے۔پھر اُس نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ معا ہدہ نئے سِرے سے کیا جائے اور مَیں اُس پر دستخط کروں اور دوسرے دس سال تھو ڑے ہیں قوم لڑتے لڑتے تھک گئی ہے میرا خیال ہے اِس مدّت کو پندرہ یا بیس سال کر دیا جا ئے۔ اِس طرح اُس نے بہا نہ بنا یا کہ گویا ایک معقول وجہ بھی موجود ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ابو سفیان کیا کوئی معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ وہ کہنے لگا مَعَاذَاللہِ مَعَاذَاللہِ یہ کس طرح ہو سکتاہے معاہدہ ہم نے خدا سے کیا ہے اُسے کو ئی توڑ سکتا ہے۔ہم اپنے معا ہدہ پر قائم ہیں ہم اُسے نہیں توڑ سکتے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تم معا ہدہ توڑنے والے نہیں تو ہم بھی توڑنے والے نہیں کسی نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے۔اب گھبراگیا کیو نکہ بات تو بنی نہیں تھی ۔وہ کہنے لگا زیادہ منا سب یہی ہے کہ مَیں بڑا آدمی ہوں معاہدہ پر میرے دستخط نہیں اگر میرے دستخط ہو جائیں تو معاہدہ محفوظ ہو جائےگا اِس سے زیادہ کو ئی بات نہیں ۔آپؐ نے فرمایا کوئی ضرورت نہیں۔ اَب ابو سفیان کو فکر پڑی تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور جا کر کہنے لگا ابوبکر ؓ! تم جا نتے ہو میری کتنی بڑی پوزیشن ہے میرے دستخط معاہدہ پر نہ ہوں تو مکّہ والوں پر وہ کیسے حجت ہو سکتاہے میرے دستخط ہونے چاہئیں اور مَیں پھر کہتا ہوں کہ مدت بھی بڑھادی جائے۔تم محمد رسول اللہ سے کہو وہ تمہاری بات بڑی مانتے ہیں تم اُن سے کہو کہ معاہدہ پھر سے ہو جائے اور اُس پر میرے دستخط بھی ہو جائیں۔آپ نے فرمایا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا؟ اُس نے کہا۔ ہا ں مَیں نے کہا تو تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو پھر نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ۔ابو سفیان !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں میری پنا ہ بھی شامل ہے اِس لئے کسی نئی پناہ کی ضرورت نہیں ۔ اِس کے بعد وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مِلا اور اُن سے بھی یہی کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نیامعاہدہ کریں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا ۔مَیں تو تمہا را سر پھو ڑنے کے لئے بیٹھا ہوں کسی نئے معاہدہ کا سوال ہی کیا ہے۔پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اورانہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میاں کیا بیو قوفی کی باتیں کرتے ہو تمہارے ہو نگے دو دو آدمی ہمارا تو ایک ہی آدمی ہے جسے اُس نے پناہ دی اُسے ہم نے بھی پنا ہ دی اور جس سے وہ لڑپڑے اُس سے ہم بھی لڑپڑے ہمارا بیچ میں کیا دخل ہے۔ پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ۔انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔پھر وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور جا کر کہا مرد تو سمجھتے نہیں یہ لڑاکے ہوتے ہیں ان کو شکار کا شوق ہوتا ہے، عورتیں بڑی رقیق القلب ہو تی ہیں مَیں تمہارے پاس اِس لئے آیا ہوں کہ قوم کے خون ہو جائیں گے، فساد ہو جائے گا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔تم جا نتی ہو ۔مَیں سردار ہوں جب میرے دستخط نہیں ہوئے تودوسرے اس کو کیسے مان لیں گے؟ مَیں تکلیف اُٹھا کے آیا ہوں کہ کسی طرح معاہدہ ہو جا ئے اور میرے دستخط ہو جائیں۔ تم ذرا اپنے ابّا سے چل کے کہو کہ مَیں نے انہیں پنا ہ دے دی ہے۔تمہارے ساتھ ان کو پیا ر ہے بات ہو جائے گی حضرت فاطمہ ؓ کہنے لگیں ہمارے ہاں عورتیں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیا کرتیں میرا اس معا ملہ سے کیا تعلق ہے مردوں سے جا کر کہو۔کہنے لگا اچھا! عورتیں دخل نہیں دیتیں تو حسنؓ اور حسینؓ کو بھیجدو اِنکو سِکھا دو کہ وہ جا کر یہ بات کہہ دیں کہ نانا! ہم نے پناہ دے دی ہے۔حضرت فاطمہ ؓ نے کہا ہمارے ہاں دنیا کے تمام کاموںمیں بلوغت کی شرط ہوتی ہے۔ یہ بچے ہیں اِن کو کیا پتہ کہ پناہ کیا ہو تی ہے۔پھر وہ مہاجرین کے پاس گیا انصار کے پا س گیا اور اِس میں اس کے دو تین دن لگ گئے آخر اُسے گھبراہٹ پیدا ہو نی شروع ہو گئی کہ ہو گا کیا؟
ابو سفیان کا مسجد ِنبوی میں اعلان
آخر وہ سو چ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دوبار ہ گیااور حضرت علی ؓ
کو جا کر کہنے لگامَیں ساری جگہوں پر گیا ہوں مگر میری کوئی نہیں سُنتا ۔محمد رسول اللہؐ سے بات کی وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔ اب تم مجھے بتاؤ کوئی ترکیب نکل سکتی ہے یا نہیں ؟ قوم کا درد تمہارے اندر بھی ہونا چاہئے۔ حضرت علیؓ کہنے لگے یہی تجویز میری سمجھ میں آتی ہے کہ تم مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کردو کہ مَیں چونکہ اپنی قوم کا سردار ہوں اور مَیں نے دستخط نہیں کئے ہوئے اسلئے مَیں اپنی طرف سے اُسے اِس رنگ میں پختہ کرنے آیا ہوں کہ آج نئے سرے سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کی اتنی مدّت بھی بڑھا تاہوں اُس نے کہا ۔ اِس کا کو ئی فائدہ ہو گا؟ حضرت علیؓ نے کہا۔ بظاہر تو نظر نہیں آتا مگر آخر تم کہتے ہو کہ مجھے کو ئی تجویز بتاؤ مَیں نے تمہیں بتائی ہے تم کرکے دیکھ لو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ابو سفیان وہاں پہنچا اور کھڑے ہو کر کہنے لگاکہ اے مدینہ کے لوگو!سنو!معاہدہ تم نے ان لوگوں سے کر لیا جن کی ذمہ داری نہیں ہے ذمہ داری میری ہے اور مَیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہتا ہوں ۔جو کچھ مَیں نے سُنا ہے وہ اچھی بات ہے مگر مَیں چاہتا ہوں معاہدہ کی مدّت بھی بڑھ جا ئے اور میرے دستخط بھی ہو جائیں۔ مَیں اعلان کرتاہوں کہ معاہدہ آج سے شروع ہوتا ہے او رمیری اِس پر تصدیق ہے اور اتنے سال بڑھا دیئے گئے ہیں۔یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ سارے صحابہؓ سُن کر ہنس پڑے اور اُس کو سخت ذلّت محسوس ہوئی کہ اِتنے لوگوں میں مَیں اُلّو بن گیا ہوں کیونکہ معاہدہ دونوں فریق سے ہو تا ہے ایک فریق سے کیا ہوتاہے۔بڑے غصّہ سے کہنے لگا اے ابنائے ہا شم !تم لوگ ہمیشہ ہمارے دشمن رہے۔ پھر حضرت علی ؓ کو مخا طب کر کے کہنے لگا تم نے مجھے جان کے ذلیل کروایا ہے تم ہمیشہ ہماری دشمنی کرتے ہواور یہ کہہ کر غصّہ میں واپس آگیا ۔
حضرت اُمّ حبیبہؓ کی ایمانی غیرت
اِسی دوران میں اُس کو ایک اَور بھی زک اللہ تعالیٰ نے پہنچائی۔اُس کی بیٹی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں یعنی اُم المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا۔ جب وہ مدینہ آیا تو اُس نے کہا مَیں بیٹی کو مِل آؤں ۔جب بیٹی کے پاس گیا تو اُن کے پاس ایک فراش18 پڑا ہؤاتھا انہوں نے جلدی سے اس کو لپیٹ کر رکھ لیا۔ اُس کی یہ حرکت اس کو عجیب معلوم ہوئی کہنے لگا بیٹی! یہ فراش تم نے کس لئے تہہ کیا ہے؟ کیا اِس لئے کیا ہے کہ یہ فراش میرے لائق نہیں حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے باپ! بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ فراش ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے ہیں اور تُو مشرک نجس اور ناپاک ہے۔ مَیں کسِ طرح برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے فراش کو تُوہا تھ لگائے اِس لئے مَیں نے اس کو تہہ کیا ہے۔ اُس کو حیرت ہوئی کہ میری بیٹی نے یہ کیا کہا ہے۔ کہنے لگا۔ بیٹی!معلوم ہو تا ہے جب سے تو مجھ سے جُدا ہوئی ہے تیری طبیعت میں کچھ فرق پڑ گیا ہے۔ میرا ادب تیرے اندر اِس قدر کم تونہیں ہؤا کرتا تھا۔ اُس نے کہا ۔ باپ یہ فرق پڑگیا ہے کہ جب مَیں تجھ سے جُدا ہوئی تھی مَیں کافر تھی اب مجھے خدا نے اسلام دیا ہے، اب مجھے پتہ ہے کہ رسول اللہؐ کی کیا حیثیت ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تُو عرب کا سردار بنا پھر تا ہے اور پتھروں کے آگے ناک رگڑتا پھر تا ہے تیری کیا حیثیت ہے اور اُس شخص کی کیا حیثیت ہے جو خدا کا رسول ہے۔ غرض وہ مایوس ہو کر وہاں سے آیا ۔
ابو سفیان کی ناکام واپسی
جب مسجد میں بھی اُس کو ذلّت پہنچی تو وہ قافلہ کو لے کے واپس چلا آیا۔ اُس کو راستہ میں خزاعہ کے بھی
دو تین آدمی جاتے ہوئے مل گئے تھے۔ اُس نے سمجھا اِدھر سے آئے ہیں توضرور یہ رسول اللہ ؐ سے مِل کے آئے ہیں۔ کہنے لگا سُنا ؤ مدینہ کا کیا حال ہے؟یہ نہ پوچھا کہ تم خبر دینے گئے تھے بلکہ پوچھا سناؤ مدینہ کا کیا حال ہے؟ وہ مسلمان تو تھے ہی نہیں نہ انکو دینِ اسلام سے کوئی واقفیت تھی اُنکو جھوٹ بولنے سے کیا پرہیز تھا۔ کہنے لگے مدینہ کیسا۔ ہم کیا جانتے ہیں مدینہ کو۔ہماری تو قوم کے بعض آدمیوں میں یہاں لڑائی ہو گئی تھی ہم صلح کرانے آئے تھے۔ لیکن ابو سفیان بڑا ہو شیا ر تھا۔ اُس نے سمجھا کہ یہ میرے ساتھ چالاکی کر رہے ہیں اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا جس وقت یہ آگے جائیں ذرا اونٹوں کی لید دیکھو۔ مدینہ میں اونٹوں کو کھجور کی گُٹھلیاں کھِلا یا کرتے ہیں اگر لید میں گُٹھلیاں نکلیں تو جھو ٹ بول رہے ہیں یہ مدینہ سے آئے ہیں۔ اگر لید سے گُٹھلیاں نہ نکلیں تو یہ کہیں اَور سے آرہے ہیں۔ جب وہ قافلہ گیا او ر انہوں نے لید دیکھی تو گُٹھلیاں نکلیں۔کہنے لگے یہ وہا ں ہو آئے ہیں۔ خیراب یہ وہاں سے واپس مکّہ پہنچے۔ مکّہ پہنچنے پر سارے مکّہ والے آئے اور پوچھا۔ سُناؤ کچھ کر آئے ہو؟ کہنے لگا صرف اتنا کیا ہے کہ مَیں نے مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا تھاکہ میرے بغیر معاہدہ نہیں ہو سکتا۔اب مَیں نیا معاہدہ کرتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتاہوں اور اس کی مدت بھی بڑھا تا ہوں۔کہنے لگے تم ہمارے سردار ہو پھر تم نے ایسی احمقانہ بات کیوں کی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نہ مانیں اور تم اعلان کردو۔پھر معاہدہ کیسے ہؤا! کہنے لگا۔ کہتے تو وہ بھی یہی تھے۔ کہنے لگے پھر تم نے کیا کِیا؟ کہنے لگا پھر اَور مَیں کیا کرتا۔ تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ۔ مَیں نے رسول اللہؐ کو باربار کہا، صحابہؓ کے آگے ناک رگڑے کسی نے میری نہیں سُنی پھر مَیں اَور کیا کر سکتا تھا۔ کہنے لگے بھلا اِس کا کو ئی فا ئدہ بھی تھا ذلیل ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ اُس نے کہا۔ مَیں تو بس یہی کرکے آیا ہوں۔ خیر ساری طرف سے اُس کی ملامت شروع ہوئی۔19
مکّہ والوں کی طرف سے
ابو سفیان پر غداری کا الزام
لوگوں نے اُس کے متعلق کہا کہ یہ مسلمانوں سے مِل گیاہے۔ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کسی پر ایسا الزام لگے تو جا کر خانہ کعبہ کے
سامنے قربانی کرتا تھا اور اُس قربانی کا خون اپنے ماتھے پر ملتا تھا اور پھر قوم کے آگے اعلان کرتا تھا کہ مَیں نے کوئی غداری نہیں کی۔ وہ اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اب یہ جھو ٹ نہیں بول سکتا اور وہ اس کو بڑا عذاب سمجھتے تھے۔ اِسی دستور کے مطابق اس نے بھی خانہ کعبہ کے آگے قربانی کی اُس کا خون لے کر اپنے ماتھے کو ملا اور پھر قوم کے آگے جا کر کہا کہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ ہو سکا کیا ہے۔ مَیں نے اُن کے ساتھ اور کوئی معاہدہ نہیں کیا۔20 چنا نچہ اِسپر لوگوں کو تسلّی ہو گئی۔مگر اب اُن میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے حملہ ہو جائے تو کیا بنے گا؟
رؤسائے مکّہ میں گھبراہٹ
کچھ دنوں تک مدینہ سے خبریں نہ پہنچیں۔ جب کو ئی خبر نہ پہنچی تو اُن کی گھبراہٹ اَور بھی
زیادہ بڑھتی چلی گئی کہ اگر خزاعہ والے وہاں گئے ہیں تو محمدؐرسول اللہ نے کچھ نہ کچھ تو ضرور کہا ہو گا۔یا تو یہ کہا ہو گا کہ ہم نہیں کر سکتے یا یہ کہا ہو گا ہم کرتے ہیں۔ کچھ تو پتہ لگتا یہ خاموشی کیسی ہے؟تین چار روز کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے کہا کہ تم روز جا یا کرو اور جاکے چکر لگا کر دیکھا کروکہ مسلمانوں کا کوئی لشکر تو نہیں آرہا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکّہ کےلئے تیاری
بہر حال اِدھر ابو سفیا ن مکّہ کی طرف روانہ ہؤا اُدھررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میر ا سامانِ سفر
باندھنا شروع کرو۔ انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔ میرے لئے ستّو وغیر ہ یا دانے وغیرہ بُھون کر تیا ر کرو۔اِسی قسم کی غذائیں اُن دنوں میں ہو تی تھیں۔ چنا نچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکا لنی شروع کی۔ حضرت ابو بکرؓ گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہؓ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا رسول اللہ ؐ کے کسی سفر کی تیاری ہے؟کہنے لگیں سفر کی تیا ری ہی معلوم ہو تی ہے آپؐ نے سفر کی تیا ری کیلئے کہا ہے۔ کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے۔انہوں نے کہا۔ کچھ پتہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میر ا سامانِ سفر تیا ر کرواور ہم ایسا کر رہے ہیں۔ دوتین دن کے بعد آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو بلا یا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہؤا ہے اور مجھے خدا نے اِس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غدّاری کی ہے اور ہم نے اُن سے معاہدہ کیا ہؤا ہے اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکّہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر اُن کے مقابلہ کے لئے تیا ر نہ ہو جائیں۔ تو ہم نے وہا ں جا نا ہے تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ! آپؐ نے تو اُن سے معا ہدہ کیا ہؤا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کیا آپؐ اپنی قوم کو ما ریں گے ؟فرمایا۔ ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے معاہدہ شکنوں کو ما ریں گے پھر حضرت عمرؓ سے پو چھا۔ توانہوں نے کہا۔ بِسْمِ اللہِ ! مَیں تو روز دُعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسو ل اللہ ؐ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکرؓ بڑا نرم طبیعت کاہے مگر قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے۔ فرمایا کرو تیا ری۔21 پھر آپؐ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایاکہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتاہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جا ئے۔ چنا نچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیا ر ہو گیا اور آپؐ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے۔
خدائی نو بت خانہ اور کفا ر کے
نوبت خانہ میں ایک بہت بڑا فرق
اب دیکھو یہ نوبت خانہ کتنازبردست ہے کہ اُسوقت جب معا ہدہ یہ ہو تا ہے کہ لڑائی نہیں ہو گی، جب قسم کھا کھا
کے کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے دل سے یہ عہد کرتے ہیں اور خداکی لعنتیں ہم پر ہوں اگرہم اس عہد کو توڑیں۔ وہا ں ابھی ایک رات ہی گزرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ لڑائی ہو گی۔ گویا نو بت خانہ بج جاتا ہے اور خبر آتی ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے۔ اُدھر کفار کے نوبت خانہ کا یہ حال ہے کہ ابو سفیان تین دن مدینہ میں رہ کر آتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں لگتا کہ لڑائی ہو گی۔ واپس جا کر قوم کو کہتا ہے کہ مَیں یہ کر آیا ہوں۔ انہوں نے کہا لڑائی تو نہیں ہوگی؟اُس نے کہا لڑائی نہیں ہو گی۔مگر اِدھروہ مکّہ میں پہنچتاہے اور اُدھر دس ہزار کا لشکر تیار ہو تا ہے۔احزاب کی تاریخ کے سِوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیا ر نہیں ہؤا۔ احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا۔ گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی۔ لیکن مدینہ سے اتنا بڑا لشکر نکلتاہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اورپھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر یہ دکھاتا ہے کہ مَیں اس نوبت خانہ کو بجاتا ہوں جو میر ا ہے اور اُس نوبت خانہ کو توڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے۔چنا نچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپؐ نے فرمایا۔ اے میرے خدا!مَیں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تُو مکّہ والوں کے کانوں کو بہرہ کردے اور اُن کے جاسوسوں کو اندھا کردے۔ نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کا نو ں تک ہماری کو ئی بات پہنچے۔22 چنا نچہ آپؐ نکلے۔ مدینہ میں سینکڑوں منا فق موجود تھا لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتاہے اور کوئی اِطلاع مکّہ میں نہیں پہنچتی۔
ایک صحابیؓ کا کفّار ِ مکّہ کی طرف خط اور اُس کا پکڑا جانا
صرف ایک کمزور صحابیؓ
نے مکّہ والوںکو خط لکھ دیاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں آپؐ کہاں جارہے ہیں لیکن مَیں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ مکّہ کی طرف آرہے ہیں۔ میرے مکّہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں اُن کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے۔یہ خط ابھی مکّہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علیؓ کو بُلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جا ؤ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اُس کے پاس ایک خط ہو گا جووہ مکّہ والوں کی طرف لے جا رہی ہے تم وہ خط اُس عورت سے لے لینا اور فوراً میرے پاس آجا نا۔ جب وہ جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا۔ دیکھنا وہ عورت ہے اُس پر سختی نہ کرنا، اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سما جتیں بھی کا م نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اُسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جا نے دینا۔23 چنانچہ حضرت علیؓ وہا ں پہنچ گئے۔ عورت موجود تھی وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھا نے لگ گئی کہ کیا مَیں غدّار ہوں ، دھو کے باز ہوں، آخر کیا ہے تم تلاشی لے لو چنا نچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اُس کی جیبیں ٹٹو لیں، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا۔صحابہؓ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اِس کے پاس نہیں۔ حضرت علیؓ کو جوش آگیا آپ نے کہا تم چُپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم! رسول کبھی جھو ٹ نہیں بول سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اُس عورت سے کہا کہ محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! مَیں جھو ٹ نہیں بول رہا۔ پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا۔ یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دیدے ورنہ یاد رکھ اگر تجھے ننگا کر کے بھی تلا شی لینی پڑی تو مَیں تجھے ننگا کرونگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اورتُو جھوٹ بول رہی ہے۔ چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اُسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اُ س نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھو لیں اُن مینڈھیوں میں اُس نے خط رکھا ہؤا تھا جو اُس نے نکال کر دے دیا۔ یہ ایک صحابی ؓ حاطب کاخط تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آرہے ہیں پتہ نہیں چلتا کہ کِدھر جا رہے ہیں لیکن اتنا بڑا لشکر مکّہ کے سِوا اَور کہیں جاتا معلوم نہیں ہو تا اِس لئے مَیں تم کو خبر دے رہا ہوں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خط پہنچا تو آپؐ نے حاطبؓ کو بُلوایا اور فرمایا۔ یہ خط تمہا را ہے ؟ انہوں نے کہا۔ ہاں میرا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔تم نے یہ خط کیوں لکھا تھا۔ انہوں نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللہِ! بات اصل میں یہ ہے کہ سارے مہا جر جو آپؐ کے ساتھ ہیں، یہ مکّہ کے رہنے والے ہیں۔ مَیں مکّہ میں باہر سے آکے بسا ہو ں۔ میرا کوئی رشتہ دار نہیں، میر ابیٹا وہا ں ہے، میری بیوی وہاں ہے،جس وقت اُن پر حملہ ہؤا انہوں نے ہمارے جتنے رشتہ دار ہیں اُن کو ما ر ڈالنا ہے۔ سوائے اُن کے جن کے بچانے والے مو جو د ہونگے۔پس چونکہ میرے بیوی بچّوں کو کوئی بچانے والا نہیں اِس لئے مَیں نے یہ خط لکھدیا۔ مَیں جا نتا ہوں کہ خدا نے آپؐ کی مدد کرنی ہے۔ جب انہوں نے تباہ ہو جا نا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ہو جا نا ہے تو وہ تباہ ہی ہو جائیں گے چاہے مَیں اُنکو ہزار خط لکھوں مگر اِس طرح میرے بیوی بچّے بچ جاتے تھے اور آپؐ کو کوئی نقصان نہیں ہو تا تھاورنہ مَیں بے ایمان نہیں۔ حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے تھے انہوں نے تلوار نکال لی کہ کمبخت! رات دن ہم چھپاتے چلے آرہے ہیں کہ بات کسی طرح نکلے نہیں اور تو اُن کو خط لکھتا ہے۔ یَارَسُوْلَ اللہِ!مجھے اجازت دیجئیے کہ مَیں اس کی گردن اُڑا دوں۔ آپؐ نے فرما یا کہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے یہ مؤمن ہے اِس نے صرف ڈر کے مارے یہ بات کی ہے۔24 بہر حال یہ رپورٹ کسی کو نہیں پہنچتی۔نوبت خانہ بجتا بھی ہے تو اُس کی آواز وہیں روک دی جاتی ہے۔ اِدھر سے نوبت خانہ ڈیڑھ سال پہلے بجتا ہے کہ دشمن آگیا دشمن آگیا۔
ابو سفیان کی سرا سیمگی
اب جس وقت وہاں مسلمان پہنچے تو جب تک مسلمان حرم میں نہیں پہنچ گئے مکّہ والوں کو خبر نہیں پہنچی۔
جب وہاں پہنچے تو ابوسفیان اوراُس کے ساتھیوں کا مکّہ والوں کی طرف سے پہرہ مقرر تھا۔ گویا اب یہ صورت ہو گئی کہ جب وہاں پہنچے تو اُن کو خبر ہو گئی کہ اسلامی لشکر آگیا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ اِس کا بھی علاج کر لیتا ہے۔آپؐ نے وہا ں جا کر فرمایا کہ اَب ہمیں ان پر ظاہرکر دینا چاہئے کہ ہم آگئے ہیں۔چنا نچہ آپؐ نے حکم دیا کہ ہر سپاہی روٹی کے لئے علیحدہ آگ جلائے تاکہ دس ہزار روشنی ہو جائے۔چنانچہ سب خیموں کے آگے دس ہزار روشنی دکھائی دینے لگی۔ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں نے آگ کو روشن دیکھا تو وہ گھبرا گئے۔ اِتنا بڑالشکر اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ اِسی گھبراہٹ میں ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ کس کا لشکر ہے؟ پہلے تو اُن کا خزاعہ کی طرف خیال گیا اور انہوں نے کہا کہ شاید خزاعہ والے ہونگے جو اپنا بدلہ لینے آئے ہیں۔ ابوسفیا ن نے کہا خُدا کا خوف کرو خزاعہ تو اِس کا دسواں حصّہ بھی نہیں یہ اتنی بڑی روشنی ہے اور اتنا بڑا لشکر ہے کہ خزاعہ کی اِس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ عام طور پر فی خیمہ ایک روشنی ہؤاکرتی ہے۔ اس لحاظ سے دس ہزار خیمہ بن گیا مگر خزاعہ کی ساری تعداد دوچار سَو ہے۔ پس وہ کِس طرح ہو سکتاہے اُنکی تعداد تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں۔ انہوں نے کہا فلاں قبیلہ ہو گا کہنے لگا آخر وہ کیو ں آئے اور پھر یہ کہ اُن کی تعداد بھی اتنی نہیں۔ غرض اِسی طرح پانچ سات قبائل کے نام لیتے گئے کہ فلاں ہو گا ،فلاں ہوگااور ہر بار ابوسفیان نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ آخر انہوں نے کہا۔ یہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)کا لشکر ہو گا اور کِس کا ہو گا۔ کہنے لگا بالکل جھوٹ۔ مَیں تو انہیں مدینہ میں سوتا چھوڑ کر آیا ہوں اُن کو پتہ بھی نہیں وہ بڑے آرام سے بیٹھے تھے۔
ابو سفیان اور اُس کے ساتھی
اسلامی پہرہ داروں کے نرغہ میں
یہ باتیں ابھی ہو ہی رہی تھیں کہ اسلامی لشکر کے چند سپاہی جو پہرہ پر متعیّن تھے وہ پہرہ دیتے ہوئے قریب پہنچ گئے اور
ابو سفیان کی آواز انہوں نے سُنی اُن میں حضرت عباسؓ بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور ابو سفیان کے بڑے گہرے دوست تھے۔اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سوار تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سفر میں خچر دی تھی کہ وہ اس کو استعمال کریں۔ انہوں نے آواز سُنی تو کہنے لگے۔ ابوسفیان! ابوسفیان نے کہا۔ عباسؓ !تم کہا ں؟حضرت عباس ؓ نے کہا او کمبخت !تیرا بیڑا غرق ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آگئے ہیں۔ اب شہر کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ اَب تُو چل اور چڑھ جا میرے پیچھے اور خدا کے نام پر اُن کی منّتیں کر اور اپنی قوم کی معافی کے لئے درخواست کر ورنہ تباہی آجائے گی۔ چڑھ جا میرے پیچھے۔ انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور خچر کے پیچھے بٹھا لیا اور دوڑائی خچر۔اب لشکر میں جگہ جگہ پہرے ہوتے ہیں۔ جہاں بھی یہ پہنچے پہریدار فوراً آگے آکر روکنے لگے۔جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ ؐ کی خچر ہے اور آگے حضرت عباس ؓ بیٹھے ہیں تو کہنے لگے چلو چھوڑو۔خیر وہ پہروں میں سے نکل کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے خیمہ کے پاس پہنچے۔
حضرت عباسؓ کی ابوسفیان کو بچانے کی کوشش
حضرت عمر ؓ نے دیکھا تو تلوار نکال
کر بھا گے اور کہنے لگے خدا کا کتناشُکر ہے کہ بغیر عہد شکنی کئے مجھے آج اِس کی جان نکالنے کی تو فیق مِلی اور آپ ہی آپ خدا نے دشمن میرے ہاتھ میں دے دیا ہے۔حضرت عباسؓ نے دیکھا تو وہ آگے بھا گے۔ حضرت عمرؓ پیچھے پیچھے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچے تو حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کو د ّھکا دیکر نیچے پھینکا اور کہا۔ اُتر۔ پھر آپ کُو دے اور کُود کر اُس کا ہاتھ پکڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں پہنچے اور کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!ابوسفیان مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے۔اب ابوسفیان حیران کہ یہ کیا بن گیا۔ یا تو مَیں پہرہ دے رہا تھااور یا اب مجھے مسلمان ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے کیو نکہ اس کی شکل سے پتہ لگتا تھا کہ یہ مسلمان ہونے نہیں آیا۔ اتنے میں حضرت عمرؓ بھی داخل ہوئے او رکہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اِس خبیث اور بے ایمان دشمنِ خدا اور رسولؐ کو اُس نے بغیر اس کے کہ مَیں عہد شکنی کروں اور معاہدہ توڑوں آپ میرے حوالے کردیا ہے۔آپؐ مجھے اجازت دیجیئے کہ مَیں اِس کی گردن اُڑا دوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے لیکن حضرت عباسؓ کو غصّہ آگیا کیو نکہ وہ ان کا بہت دوست تھا۔ انہوں نے عمرؓ سے کہا۔ عمرؓ !دیکھو یہ میرے خاندان کا آدمی ہے اِس لئے تم اس کو مارنا چاہتے ہو۔ اگر تمہا رے خاندان کا آدمی ہو تا توتم کبھی اس کے مارنے کی خواہش نہ کرتے۔ حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگے۔ عباسؓ! تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے۔خدا کی قسم! جب تم مسلمان ہوئے تھے تو مجھے اِتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میرا باپ بھی مسلمان ہوتا تو مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہو تی۔ اور اِس کی صرف یہ وجہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ تمہا رے مسلمان ہونے سے رسول اللہ کو جو خوشی پہنچ سکتی ہے وہ میرے باپ کے اسلام لانے سے نہیں پہنچ سکتی تھی۔ یعنی ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو بھی چھوڑ دیا اب رشتہ دار ی کا کیا سوال ہے۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا۔ عباسؓ! ابوسفیان کو اپنے خیمہ میں لے جا ؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو۔ صبح اسے میرے سامنے پیش کرو۔حضرت عباسؓ لے گئے اور رات اپنے پاس رکھا۔
مسلمانوں کی اجتماعی عبادت کا ابوسفیان پر گہرا اثر
اب دیکھو ابوسفیان پہرہ دے رہے تھے
اور انہوں نے واپس جا کر خبر دینی تھی لیکن وہ خود پکڑے گئے۔اُدھر باقی مسلمان سپاہی دوسرے آدمیوں کو بھی پکڑ لائے۔یہ چار پانچ رئیس تھے۔پکڑے ہوئے وہا ں پہنچے اور رات وہاں رہے۔ صبح نماز کے وقت حضرت عباسؓ ابوسفیان کو پکڑ کر لے گئے۔ جب اذان ہوئی اور نماز کے لئے لوگ کھڑے ہوئے تو اُسے ایک عجیب نظارہ نظر آیا۔ یہیں جلسہ سالانہ پر دیکھ لو کہ جب ہمارے تیس چالیس ہزار آدمی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کیا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔وہاں بھی صفوں پر صفیں بننی شروع ہو گئیں اور ہر ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ ہما رے ہا ں تو پھر کچھ آدمی نماز کے وقت پکوڑے کھا رہے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ پکّے نمازی تھے۔ بہر حال ابوسفیان نے جو ان کو دیکھا تو لرز گیا۔ابوسفیان بادشاہوں کے دربار میں آیا جا یا کرتا تھا اور اُس کو پتہ تھا کہ جب بڑے آدمیوں کو مروا نا ہو تا تھا تو فوجیں کھڑی کی جاتی تھیں اور اُن کے سامنے اُس کی گردن کا ٹی جاتی اِس خیال کے ما تحت اُس نے پو چھا کہ عباسؓ! کیا رات کو میرے متعلّق کو ئی نیا حکم جا ری ہؤا ہے؟ حضرت عباسؓ نے کہا۔ تمہا رے متعلق توکوئی نیا حکم جاری نہیں ہؤا۔ وہ کہنے لگا پھر یہ اتنے آدمی کھڑے کیوں ہیں؟حضرت عباسؓ نے کہا یہ عبادت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارے ہا ں عبادت کا یہی طریق ہے۔تھو ڑی دیر کے بعد وہ رکوع میں گئے۔ کہنے لگا۔ یہ جُھکے کیوں ہیں؟ عباسؓ نے کہا۔ یہ عبادت ہے۔ پھر سجدہ میں گئے تو کہنے لگا اب یہ کیا ہؤا کہ سارے کے سارے زمین پر گِر گئے ہیں؟ انہوں نے کہا دیکھتے نہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کررہے ہیں۔ بس جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان کرتے ہیں۔ کہنے لگا عجیب طریق ہے محمد رسول اللہ ؐ جھکتے ہیں تو وہ جُھک جا تے ہیں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ کہنے لگے مسلمان اِسی طرح کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت کی نقل کیا کرتے ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا مَیں تو قیصر کے پاس بھی گیا اور اَور بادشاہوں کے پاس بھی گیا ہوں اُن کو تو مَیں نے اس طرح عبادت کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا قیصر کیا چیز ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ روٹی کو ہا تھ نہیں لگا نا ،پانی کو ہا تھ نہیں لگانا تو وہ بھو کے مر جائیں گے، پیا سے مرجائیں گے مگر روٹی نہیں کھا ئیں گے اور پانی نہیں پیئیں گے۔
ابو سفیان کی رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم سے درخواست
جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس
میں حاضر ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا۔تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے۔ ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا۔ اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہماری مدد نہ کرتا؟آپؐ نے فرمایا۔ تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے۔ کہنے لگا۔ ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہؤا۔ حضرت عباسؓ نے کہا۔کمبخت! کر لو بیعت۔ اِس وقت تیری اور تیری قوم کی جا ن بچتی ہے۔ کہنے لگا اچھا! کر لیتا ہوں۔ وہاں تو اُس نے یو نہی بیعت کرلی لیکن بعد میں جاکر سچّا مسلمان ہو گیا۔ خیر بیعت کر لی تو عباسؓ کہنے لگے اب مانگ اپنی قوم کے لئے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کیلئے تباہ ہو جائے گی۔ مہا جرین کا دل اُس وقت ڈر رہا تھا۔ وہ تومکّہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکّہ کی عزّت ختم ہوئی تو پھر مکّہ کی عزّت باقی نہیں رہے گی۔ وہ باوجود اِس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم بر داشت کئے تھے پھر بھی وہ دُعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ لیکن انصار اُن کے مقابلہ میں بڑے جوش میں تھے۔ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ مانگو۔ کہنے لگا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!کیا آپؐ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے۔ آپؐ تو بڑے رحیم کریم ہیں اور پھر مَیں آپکا رشتہ دار ہوں، بھائی ہوں، میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہئے مَیں مسلمان ہؤا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ اچھا جاؤ او ر مکّہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اُسے پناہ دی جائےگی۔کہنے لگا یَارَسُوْلَ اللہِ!میراگھر ہے کتنا اور اُس میں کتنے آدمی آسکتے ہیں۔اتنابڑا شہر ہے اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو سکتا ہے۔آپؐ نے فرمایا۔اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گااُسے امان دی جائے گی۔ ابوسفیان نے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ!پھر بھی لوگ بچ رہیں گے آپؐ نے فرمایا۔اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جا ئے گا۔ کہنے لگا یَارَسُوْلَ اللہِ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا۔ اچھّا جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے گا۔ اُسے بھی پنا ہ دی جا ئے گی۔ اُس نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ !گلیوں والے تو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا۔ بہت اچھا لاؤ ایک جھنڈا بلالؓ کا تیار کرو۔ ابی رویحہؓ ایک صحابی ؓ تھے۔ آپؐ نے جب مدینہ میں مہا جرین اور انصار کو آپس میں بھا ئی بھا ئی بنایا تھا تو ابی رویحہ ؓ کو بلا ل ؓ کا بھائی بنا یا تھا۔ شاید اُس وقت بلالؓ تھے نہیں یاکوئی اَور مصلحت تھی بہر حال آپؐ نے بلالؓ کا جھنڈا بنا یا اور ابی رویحہؓ کو دیا اور فرمایا۔ یہ بلالؓ کا جھنڈا ہے یہ اسے لیکر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اُس کو نجا ت دی جائے گی۔ ابو سفیان کہنے لگا۔ بس اب کافی ہو گیا اَب مکّہ بچ جائے گا۔ کہنے لگا اَب مجھے اجازت دیجیئے کہ مَیں جا ؤں۔ آپؐ نے فرمایا جا۔25
ابوسفیان کا مکّہ میں اعلان
اب تو سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا۔ خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ گھبرایا ہؤا
مکّہ میں داخل ہؤا اور یہ کہتاجاتا تھا لوگو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلو۔ لوگو! اپنے اپنے ہتھیار پھینک دو۔ لوگو! خانہ کعبہ میں چلے جاؤ۔بلال ؓ کا جھنڈا کھڑا ہؤا ہے اُس کے نیچے کھڑے ہو جا نا۔ اِتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے اور بعض نے خانہ کعبہ میں گھُسنا شروع کیا۔ لوگوں نے ہتھیا ر باہر لالا کر پھینکنے شروع کئے۔ اِتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہؤا اور لوگ بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔26
حضرت بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرنے میں حکمت
اِس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان
بات ہے وہ بلالؓ کاجھنڈا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلالؓ کا جھنڈا بنا تے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو پنا ہ دی جا ئے گی حالانکہ سردار تو محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکر ؓتھے مگر ابوبکرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا،اُ ن کے بعد مسلمان ہو نے والے رئیس عمرؓ تھے مگر عمرؓ کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا،اُن کے بعد عثمانؓ مقبول تھے اور آپؐ کے داماد تھے مگر عثمان ؓکا بھی کو ئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد علیؓ تھے جو آپؐ کے بھا ئی بھی تھے اور آپؐ کے داماد بھی تھے مگرعلیؓ کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، پھر عبدالرحمن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبد الرحمن ؓ کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا، پھر عباسؓ آپؐ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گُستاخی بھی کر لیتے تو آپؐ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا، پھر سارے رؤ ساء اور چوٹی کے آدمی موجو د تھے، خالد بن ولید ؓجو ایک سردار کا بیٹا خود بڑا نامور انسان تھا موجود تھا، عمرو بن عاصؓ ایک سردار کا بیٹا تھا اِسی طرح اور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کا بھی جھنڈا نہیں بنا یا جاتا۔ جھنڈا بنا یا جاتاہے تو بلال ؓ کا بنا یا جاتا ہے کیو ں؟ اِسکی کیا وجہ تھی؟ اِس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا ابو بکر ؓ دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اُس کے بھائی بند ہیں اور اُس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ یَارَسُوْلَ اللہِ ؐ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے۔ وہ ظلموں کو بُھو ل چکا تھا اور جا نتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں۔ عمرؓ بھی کہتے تو یہی تھے کہ یَارَسُوْلَ اللہِ! اِن کافروں کو ماریئے مگر پھر بھی جب آپؐ اُن کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہو نگے کہ اچّھا ہؤا ہمارے بھا ئی بخشے گئے، عثمانؓ اور علی ؓ بھی کہتے ہونگے کہ ہمارے بھا ئی بخشے گئے اِنہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہؤا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہو نگے کہ اُن میں میرے چچا بھی تھے بھائی بھی تھے ،اِن میں میرے داماد ،عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اگر مَیں نے اِن کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہؤا میرے اپنے رشتہ دار بچ گئے۔ صرف ایک شخص تھا جس کی مکّہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی، جس کی مکّہ میں کوئی طاقت نہ تھی، جس کا مکّہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اُس کی بیکسی کی حالت میں اُس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابوبکر ؓ پرہؤا،نہ علیؓ پر ہؤا، نہ عثمانؓ پر ہؤا، نہ عمرؓ پر ہؤا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی نہیں ہؤا۔ جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلال ؓننگا لٹا دیا جاتا تھا۔ تم دیکھو !ننگے پاؤ ں بھی مئی اور جون میں نہیں چل سکتے۔ اُس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر ِلٹا دیا جاتا تھا، پھر کیلوں والے ُجو تے پہن کر نوجوان اُس کے سینے پر نا چتے تھے اور کہتے تھے کہو خد اکے سِوا اور معبود ہیں، کہو محمدؐرسول اللہ جھو ٹا ہے اور بلالؓ آگے سے اپنی حبشی زبا ن میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔ اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو مَیں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دوکس طرح کہہ دوں۔اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللّٰہ خدا کے سچّے رسول ہیں تو مَیں انہیں جھو ٹا کِس طرح کہہ دوں۔ اِس پر وہ اور مارنا شروع کر دیتے تھے۔ مہینوں گرمیوں کے موسم میں اُس کے ساتھ یہی حال ہو تا تھا۔ اِسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ اُن کے پیروں میں رسّی ڈال کر انہیں مکّہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے۔ چمڑا اُن کا زخمی ہو جاتا تھا۔ وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمدؐ(صلی اللہ علیہ وسلم) کہو خدا کے سِوا اَور معبود ہیں۔ تو وہ کہتے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔ اب جب کہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کیلئے آیا۔ بلالؓ کے دل میں خیا ل آیا ہو گا کہ آج اُن بو ٹو ں کا بدلہ لیا جائے گا۔ آج اُن ماروں کا معاوضہ مجھے مِلے گا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف، جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے وہ معاف، جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لئے وہ معاف۔ تو بلالؓ کے دل میں خیا ل آتا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں او راچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلالؓ ہے کہ جن کو مَیں معاف کر رہا ہوں وہ اُس کے بھائی نہیں۔ جو اُس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اَو رکسی کو نہیں دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا مَیں اس کا بدلہ لونگااور اِس طرح لو نگا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلالؓ کا دل بھی خوش ہو جائے۔آپؐ نے فرمایا بلالؓ کا جھنڈا کھڑا کرو او راُن مکّہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اُس کے سینہ پر ناچا کرتے تھے، جو اُس کے پاؤں میں رسّی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے، جو اُسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہدو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچّوں کی جان بچانی ہے تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آجا ؤ۔ مَیں سمجھتا ہوں جب سے دُنیا پید ا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیا ر ہؤا ہے اور اُس کو طاقت ملی ہے اِس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا۔ جب بلال ؓ کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑ ا گیا ہو گا، جب عرب کے وہ رؤ ساء جو اُسکو پیروں سے مَسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھو ٹا ہے جب وہ دَوڑ دَوڑ کر اور اپنے بیوی بچوں کے ہا تھ پکڑ پکڑ کر اور لا لا کے بلا لؓ کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہو نگے کہ ہماری جان بچ جائے تو اُس وقت بلالؓ کا دل او راُس کی جان کسِ طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی۔وہ کہتا ہو گا مَیں نے تو خبر نہیں اِن کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی ُجو تیاں میرے سینہ پر پڑتی تھیں اُس کے سَر کو میری جُوتی پر ُجھکا دیا گیا ہے۔
حضرت یوسف ؑ کے بدلہ سے زیادہ شاندار بدلہ
یہ وہ بدلہ تھا جو یُوسف ؑ کے بدلہ سے
بھی زیا دہ شاندار تھا اِس لئے کہ یو سف ؑنے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھا ئیوں کو معاف کیا تھا۔ جس کی خاطر کیاوہ اُس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اُسکے بھائی تھے او ر محمدؐ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچوں اور بھا ئیوں کو ایک غلام کی ُجوتیوں کے طفیل معاف کیا۔ بھلا یوسفؑ کا بدلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔
غرض یہ دوسری خبر تھی نوبت خانہ کی اور پھر کیسی عظیم الشان خبر دی کہ دو سال پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ یہ یہ حالات پید ا ہونے والے ہیں۔ کفا ر کی طرف سے معاہدہ شکنی ہو گی ۔تم حملہ کیلئے جا ؤ گے اور انہیں تباہ کر کے اسلامی حکو مت کو قائم کردوگے۔
قرآنی نوبت خانہ کی تیسری خبر
اب تیسری خبر مَیں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ عرب کا ملک ایسا ویران
تھا اور ایسا بنجر اور ناقص تھا کہ اُس کی طرف کوئی نظر اُ ٹھا کے نہیں دیکھتا تھا۔ مؤرخین نے بحث کی ہے کہ سکندر نے ساری دنیا فتح کی لیکن عرب فتح نہیں کیا اِس کی کیا وجہ تھی؟وہ کہتے ہیں اُس نے اِسکو اِس لئے نہیں چھوڑا کہ عرب کوئی طاقتور ملک تھا بلکہ اِس لئے چھوڑا تھا کہ یہ ہڈی کُتّے کے قابل تھی سکندر کے قابل نہیں تھی۔ اِس میں کوئی چیزہی نہیں تھی پھر سکندر نے وہاں کیوں جا نا تھا، یہ ہڈی اُس کے کھانے کے قابل ہی نہیں تھی۔ پھر قیصر وکسریٰ اِدھر بھی لڑتے تھے اُدھر بھی لڑتے تھے مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے۔ یمن کو لے لیتے تھے کیو نکہ وہ ذرا آباد ملک تھا مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے ہم نے اس صحرا کو لے کر کیا کرنا ہے۔ غرض ہزاروں سال سے عرب کے قبائل آزاد چلے آتے تھے اِس لئے نہیں کہ اُن میں دم خم تھا بلکہ اس لئے آزاد چلے آتے تھے کہ عرب کے اندر کچھ رکھا ہی نہیں تھا کہ کو ئی وہا ں جا ئے اور اُسے فتح کرے۔ ایسے زمانہ میں جبکہ عرب دنیا میں نہا یت ذلیل ترین سمجھا جا رہا تھا ،الٰہی نوبت خانہ میں نو بت بجتی ہے اور وہاں سے آواز آتی ہے قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ۔27 وَّ اُخْرٰى لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰهُ بِهَا۔28
قیصرو کسرٰی کی لڑائیوں میں غلبہ
اور کا میا بی حا صل کرنے کی پیشگوئی
اُس وقت جبکہ مسلمان ناکام ہو کر آتے ہیں، جب مکّہ والے عمرہ کی بھی اجا زت نہیں دیتے اُس وقت
جبکہ وہ ایسا معاہدہ کرکے آتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری نا ک کٹ گئی اور کہتے ہیں یَارَسُوْلَ اللہِ! ہم تو کہیں منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہے اُسوقت اللہ تعالیٰ ایک تو یہ خبر دیتا ہے کہ یہ معا ہدہ تو ڑیں گے اور تم انہیں فتح کرو گے۔ پھر یہ خبر دیتا ہے کہ دیکھو! کچھ لوگ آج ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے اُن کو بتا دو کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی،یہ ملک تو ہم نے فتح کر لیا مگر اس کے بعد باہر سے اَور قومیں آئینگی جو اِن سے بھی زیا دہ لڑنے والی ہیں اُن سے تمہا ر امقابلہ ہو گا اوراُن کے مقابلہ میں بھی یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب تم لڑو گے تو اُس وقت تک تمہا ری لڑائی جا ری رہے گی جب تک کہ وہ ہتھیا ر پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔ یہ قیصر اور کسریٰ کی جنگوں کی خبر دی گئی ہے اور تمام صحابہؓ اور مسلمان مفسرین اِس پر متفق ہیں کہ یہ خبر اِس بات کے متعلق تھی کہ آئندہ ان سے لڑائی ہونے والی ہے۔اب اِن ملکوں کو اُسوقت تک عرب کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا وہ تو سمجھتے تھے کہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم اس کو فتح کریں۔ اِردگرد کے تمام سر سبز وشادا ب علاقے پہلے سے اُن کے قبضہ میں تھے اور بیچ کا صحراء اُن کے لئے کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا مگر فرماتا ہے ہم تم سے اُن کی جنگ کروائیں گے اور وہ ہتھیا ر ڈالنے پر مجبور ہونگے۔ اِسی طرح اس میں یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ عرب مالی طور پر اتنا ترقی کر جا ئے گا کہ جو قومیں پہلے اُسے ذلیل سمجھتی تھیں وہ اُس کی اہمیت کو محسوس کرنے لگ جائیں گی۔
اب یہ عجیب خبر دیکھ لو کہ آٹھ سالہ جنگوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں قیصر نے حملہ کرنا شروع کیا اور حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں کسریٰ نے حملہ کرنا شروع کیا اِس کے بعد جنگیں اِتنی بڑھیں کہ قیصر بھی تباہ ہو گیا اور کسریٰ بھی تباہ ہو گیا اور وہ خبر پوری ہو گئی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے آگے بیا ن فرمائی تھی کہ قَدْ اَحَاطَ اللہُ بِھَا یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کرنے کی پہلے سے خبردے رکھی ہے۔
اِسلامی نَوبت خانہ کی ایک امتیازی خصو صیّت
یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی نوبت خانہ کا کمال
اتنا بڑھا ہؤا تھاکہ آٹھ سالہ جنگوںمیں چھ سات جنگوں میں کفار نے مکّہ سے حملہ کیا اور بڑی بڑی احتیاطوں کے ساتھ حملہ کیا لیکن ایک بھی ایسا حملہ ثابت نہیں جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ مِل چکی تھی اور بیس تیس حملے محمدؐرسول اللہ نے اُن کے علاقہ پر کئے اور اُن میں سے ایک بھی حملہ ایسا نہیں جسکی خبر انہیں پہلے سے ملِی ہو۔ یہ کتنا بڑا شاندار نشان ہے۔ اِن کا نوبت خانہ کتنا شاندارہے کہ فورًا خبر پہنچا دیتا ہے اور اُن کا نوبت خانہ کس طرح تباہ کر دیا جاتا ہے اور کمزورکر دیا جاتا ہے کہ ایک لڑائی کی خبر بھی تو مکّہ والوں کو پہلے نہیں مِلتی کہ حملہ ہو جائے گا۔ بلکہ اسلامی لشکر اُن کے سروں پر جا پہنچتا تھا اور بعض دفعہ وہ گھروں میں اِدھر اُدھر پھر رہے ہوتے تھے کہ پتہ لگتا اسلامی لشکر پہنچ گیا ہے پہلے پتہ ہی نہیں لگتا تھا۔
نوبت خانوں کی دوسری غرض
دوسراکا م نوبت خانہ سے یہ لیا جاتا تھا کہ خبر دی جاتی تھی کہ شاہی فوج آرہی
ہے۔ نوبت خانے اس لئے بجا ئے جا تے تھے کہ والنٹیئر اکٹھے ہو جائیں اور دوسرے نَوبت خانے اسلئے بجائے جا تے تھے کہ دھم دھم کی آواز جوش پیدا کرتی ہے اور گھوڑے بھی ہنہنا نے لگ جاتے ہیں۔ جیسے انگریز ی فوجوں میں نَوبت خانوں کی بجا ئے بینڈ بجایا جاتا ہے اور اُس کی غرض یہ ہو تی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ قربانی کے لئے تیار ہو جائیں۔ بعض جگہ باجے بھی ہوتے ہیں یا نفیریاں29 بھی ہو تی ہیں اور پُرانے زمانہ میں تو ڈھول استعمال ہوتے تھے یا نفیریا ں استعمال ہو تی تھیں اور اب بینڈ استعمال ہو تا ہے۔
مَیں نے دیکھا کہ واقع میں یہ ایک بڑی شاندار کیفیت ہو تی ہو گی جب دِلّی کا لشکر حیدر آباد کی طرف چلتا ہو گا تو جب وہ بڑی بڑی دَفیں بجتی ہو نگی اور آواز پہنچتی ہو گی تو تمام ملک میں ایک شور مچ جاتا ہو گا اور ہر شخص دیکھتا ہو گا کہ اُن کے گھوڑے پَیر مارتے ہوئے اور آگ نکالتے ہوئے سڑکو ں پر سے چلے آرہے ہیں اور انتظار کرتا ہو گا کہ اکبریا شاہ جہا ن یا چنگیز کی فوجیں روانہ ہوتی ہوں گی اور پھر ہزاروں ہزار کا ریلا چلتاہو گا۔
ظالمانہ خو نریزی
لیکن جب مَیں نے غور کرکے دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ نوبت خانوں کی یہ بات بڑی مصنوعی چیز تھی۔ ایک تو مَیں نے
دیکھا کہ لڑائی میں انسانوں کا خون بہنا معمولی چیز نہیں اِس کے لئے انسا ن کوئی حکمت بتاتا ہے ،غرض بتاتا ہے، اِس کے فوائد بتاتا ہے،اِسکے جواز کی دلیلیں بتاتا ہے لیکن یہاں محض ڈھول پِیٹ کر خونریزی کو جا ئز قرار دیا جاتا تھا حالانکہ محض ڈھول پیٹنے سے اور دھم دھم دھم سے کیا بنتا ہے۔
غلط پروپیگنڈا
پھر مَیں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بڑے بینڈ بجتے تھے اور فوجیں بازاروں میں پریڈ کرتی تھیں اور لوگ نعرے لگاتے تھے کہ سپاہیو !
شاباش !ملک کی حفاظت کے لئے مر جاؤ۔ اور یہ سارا دھوکا ہوتا تھا کیو نکہ جس کو مارنے کیلئے وہ جا رہے ہوتے تھے وہ ایک معمولی سی حکومت ہو تی تھی اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ ہماری فوج نکلے گی اور قتلِ عام کرتی چلی جائے گی اور اُسے فتح کرے گی اور یوں اپنی بہادری اور دلیری کا سکّہ بٹھا دے گی۔ مثلا ً جرمنی میں اعلان ہو رہا ہے کہ اے جرمن والو!تم نے اپنے ملک کی حفاظت کرنی ہے اور لڑنے چلے ہیں پولینڈ سے جو ایک تھپڑ کی مار ہے۔انگلستان میں اعلان ہو رہاہے کہ آجا ؤ انگلستان والو!تم بڑے بہا در ہو، تمہا ری روایتیں بڑی مشہو ر ہیں اور جارہے ہیں شیر شاہ سے لڑنے کے لئے اور کہا جا رہا ہے کہ شاباش انگریزو!تم اتنے بہا در ہو حالانکہ مقابل میں چند ہزار آدمی ہیں اور جا رہا ہے اتنے بڑے ملک کا لشکر۔ پھر اُس کے پاس ایک گولی ہو تی تھی تو اِن کے پاس سَو گولی ہو تی تھی لیکن ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہماری قوم او ر ملک خطرہ میں ہیں پس اے بہا در و! اپنے ملک کی عزّت کو بچاؤ حالانکہ عزّت بچانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ جائیں گے تو یو نہی ختم کر دیں گے۔ جیسے مَیں نے بتایا ہے انگریزوں نے ٹرانسوال پر حملہ کیا یا جرمنوں نے زیکوسلوا کیا اور پولینڈ پر حملہ کیا اور ظاہر یہ کیا کہ ہماری عزّت خطرہ میں ہے ہماری عزّت برباد ہو گئی ہے حکومتیں ہمارے خلاف بڑے منصوبے کر رہی ہیں۔ یا روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا نقشہ پر بھی دیکھو تو یو ں معلوم ہو تاہے جیسے باز کے منہ میں پدّی۔ مگر فن لینڈ پر حملہ کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ فلاں جرنیل کو مارشل بنا یا جاتا ہے او ر وہ فن لینڈ کی لڑائی کے لئے جا رہا ہے۔ فلاں جرنیل کو بھیجا جا رہا ہے اور وہ اِتنا مشہور ہے۔ لا کھوں کی فوج بھجوائی جا رہی ہے حالانکہ فن لینڈ بیچارے کے سارے سپاہی دس ہزار سے زیادہ نہیں اور دس لاکھ کا لشکر بھجوایا جا رہا ہے اور سارے ملک میں اعلان ہو رہا ہے کہ اُٹھو! اُٹھو! مارو! مارو! وہ ہمیں مار چلا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ اُس کا مقابلہ کریں۔غرض اس قسم کے اعلانات میں کوئی عقل نظر نہیں آتی تھی۔
پس یہ نوبت خانہ کیاہے یہ لوگوں سے ایک تمسخر ہے اور محض ایک کھیل بنائی گئی ہے یا ایک دھوکا ہے جو دیا جا رہا ہے۔
نا جا ئز حملے
اور بعض دفعہ مَیں نے دیکھا کہ ظالمانہ حملے ہوتے تھے۔ لوگوں کا کوئی قصور ہی نہیں ہو تا تھا یو نہی حملہ کر دیا جاتا تھا لیکن کہا یہ جاتا تھا کہ ہم
مظلوم ہیں اور ہوتا تھا دوسرا مظلوم۔مثلاً انگریزوں نے ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا حالانکہ ٹیپو نے اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا انہوں نے میسور کو ہضم کرنا چاہا۔ گویا اُن کی بھیڑیا اور بکری والی مثال تھی۔ کہتے ہیں ایک نہر سے بکر ی اور بھیڑیا پانی پی رہے تھے بکر ی نیچے کی طرف پی رہی تھی اور بھیڑیا اوپر کی طرف پی رہا تھا۔ اُس کا جو بکری کھانے کو دل چاہا تو بکری سے کہنے لگا دیکھو! میرا پانی گدلا کرتی ہو شرم نہیں آتی اِس قدر گستاخی کرتی ہو۔ بکری نے کہا جناب! میں پانی گدلا کیسے کر سکتی ہوں آپ اوپر پانی پی رہے ہیں اور مَیں نیچے پی رہی ہوں آپ کا پِیا ہؤا میری طرف آرہا ہے میرا پِیا ہؤا آپ کی طرف نہیں جا رہا۔ اِس پر جھٹ اُسے پنجہ ما ر کر کہنے لگا گستاخ! بے ادب! آگے سے جواب دیتی ہے اور پھا ڑ کر کھا لیا۔ وہی حالت یہاں تھی۔ انگریزوں نے بھی بہانہ بنا کر ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا۔ یا بنگال کا بادشاہ سراج الدولہ تھااُس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ انگریزی تاریخیں خود بھی مانتی ہیں کہ ایک ہندو سے جھوٹے خط لکھوائے گئے اور اُن خطوں کی بناء پر سراج الدولہ پر حملہ کردیاگیا۔ نہ بیچارے کے پاس کوئی طاقت تھی نہ حکومت تھی۔ انگریزوں کے پاس ہر قسم کے سامان تھے توپیں بھی تھیں ،گولہ بارود بھی تھا ،منظم فوج بھی تھی یونہی بہا نہ بنا کے لے لیا۔پھر غدرکی لڑائی کو دیکھ لو۔ مسلمان بادشاہ کی تو قلعہ سے باہر حکومت ہی نہیں اور یہ سارے ہندوستان کے بادشاہ اُس پر چڑھ کر گئے۔ بھلا اُس کے پاس کونسی حکومت تھی لیکن غدرکا حال پڑھو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان روس کی لڑائی ہو رہی ہے اور اِس کو اتنا شاندار دکھایا جاتا ہے کہ وہ مصائب انگریزوں پرپڑے اور ایسی ایسی مشکلات پیش آئیں اور انگریزوں نے وہ وہ قربانیاں کیں حالانکہ وہ بیچارہ ایک شطرنج کا بادشاہ تھا ،دوچار دن اُس کا محاصرہ رکھا اور پھر اُسے پکڑ کرلے گئے اور اس کے بچّوں کو پھا نسیاں دے دیں۔ تومَیں نے دیکھا کہ بہت کچھ اِس میں مبالغہ آرائی کی جاتی تھی۔
خلافِ امید شکست
پھر مَیں نے دیکھا کہ باوجود اِس کے کہ مدِّ مقابل چھوٹا ہوتا تھا مظلوم ہو تا تھا پھر بھی بعض دفعہ نتائج اُن کے
خلاف نکل آتے تھے۔جیسے پو لینڈ پر جرمن نے حملہ کیا اور اُن کی مدد کے لئے انگریزاور فرانس آگئے ،آخر جرمن تباہ ہو گیا۔ فن لینڈ پر رُوس نے حملہ کیا اور انگلستان اور فرانس نے اس کو مدد دینی شروع کردی چنانچہ باوجود اس کے کہ فوج اُس کے پاس تھوڑی تھی اُس کو اِتنا سامانِ جنگ مِل گیا کہ رُوس نے اُس سے صلح کرلی۔ تو کئی دفعہ مَیں نے دیکھا کہ نوبت خانوں کے نتائج کچھ او ر نکلتے ہیں۔ ظاہر تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم یُوں کر دیں گے اور وُوں کر دیں گے لیکن جب جا تے ہیں تو درمیان میں کوئی روک پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں با وجود اِس کے پِدّی ہو نے کے وہ بھی اُس کے ہا تھ سے نکل جاتی ہے۔غرض اِن حملوں میں:
(1) بسا اوقات ظلم کا پہلو ہو تا تھا۔
(2) بعض اوقات محض نمائش ہو تی تھی ،بالمقابل کوئی طاقت ہو تی ہی نہیں تھی۔ ایک کمزور سی ہستی کو چُن کر دنیا پر رعب ڈالنے کے لئے ظاہر کیا جاتا تھا کہ گویا ایک بہت بڑے دشمن کی سر کو بی کے لئے تیا ر ی کی گئی ہے۔
(3) لیکن پھر بھی نتیجہ قطعی نہ ہو تا تھا۔ بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دوسرا فریق چھوٹا اور کمزور ہو تاتھا اِس وجہ سے کہ وہ مظلوم ہو تا تھا دوسری زبردست طاقتیں کمزورکی مدد کو آجاتیں او ر ساری نمائش دھری کی دھری رہ جاتی۔
نوبت خانوں کی بعض اور خامیاں
(4)چوتھی بات مَیں نے یہ دیکھی کہ یہ نوبت خانے صرف دُنیوی کشمکش
کیلئے بجا ئے جاتے تھے اخلاقی اور رُوحانی قدروں کے بچانے کی اُس میں کوئی صورت نہیں ہو تی تھی۔ لڑائیاں محض دُنیوی فوائد اور دُنیوی اغراض کے لئے ہو تی تھیں۔
(5)مَیں نے دیکھا کہ یہ نوبت خانے جو بجتے تھے ذاتی اغراض کے لئے بجا ئے جاتے تھے۔ دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے حقوق کا بالکل لحاظ نہ ہو تا تھااور نفسانیت کے علاوہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اِس سے کوئی تعلق نہ ہو تا تھا۔
(6)مَیں نے دیکھا کہ اگر واقعہ میں کو ئی خرابی بھی اِن حملوں کا باعث ہو تی تھی یعنی واقع میں اُس قوم نے کوئی ظلم کیا ہو تا تھا تو فتح کے بعد اس ظلم کی اصلاح نہیں ہو تی تھی صرف اُس کا رنگ بدل جاتا تھا۔ فرض کرو ہند وستان کی کسی ریاست نے انگریزوں پر ظلم بھی کیا ہوتا تھا اور اس جنگ کے بعد یہ نہیں ہوتا تھا کہ ظلم مٹ گیا بلکہ یہ ہو تا تھا کہ پہلے انگریزوں پر ظلم ہو تا تھا پھر ہندوستانیوں پر ظلم شروع ہو جاتا تھا۔ ظلم بہرحال قائم رہتا تھا۔
(7)اِن نو بت خانوں سے بعض دفعہ اپنے لوگوں کو ہمّت دلا نے کیلئے یہ بھی اعلان کئے جاتے تھے کہ مثلاً فرانس لڑائی کا اعلا ن کر تا تو کہتا انگریز بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے فلاں ملک بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے۔ ایران اعلان کرتا تو کہتا چین کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ ہندوستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ افغانستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں۔ غرض دُنیوی مدد او ر تائید پر بڑا بھروسہ ظاہر کیا جاتا گویا اقرار کیا جاتا تھا کہ بغیر اِ ن دُنیا کی تائیدوں کے ہم فتح نہیں پا سکتے۔
دُنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ
میں اسلام کا شاندار نوبت خانہ
اب مَیں نے دیکھا کہ کیا اسلام نے بھی اِسکے مقابلہ میں کوئی نوبت خانہ بجا یا ہے جس نے بتایا ہو کہ اَب اسلامی لشکر آگے
بڑھتا ہے اپنے آدمیوں کو کہو کہ تیا ر ہو جا ؤ۔ تو مَیں نے دیکھا کہ قرآن میں یہ نوبت خانہ بج رہاہےاُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۙ۔ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيْرًا١ؕ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۔اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۔30
یہ نوبت خانہ ڈھم ڈھم ڈھم سے نہیں بجا یا جاتایہ ایسے الفاظ کے ساتھ بجا یا گیا ہے جن میں حقائق بیان کئے گئے ہیں۔
اِسلام کا اعلانِ جنگ اور اُس کی اہم اغراض
اِس میں بتایا گیا ہے کہ:-
اوّل یہ اعلانِ جنگ جو کیا جا رہا ہے جا رحانہ نہیں ہے بلکہ مدافعانہ ہے۔ہم کسی قوم پر خود حملہ کرنا جا ئز نہیں سمجھتے ہمیں جب مجبور کیا جا ئے اور ہم پر حملہ کیا جائے تو ہم اپنی جان اورمال اور عزّت اور دین کے بچانے کے لئے اُس سے لڑنا جا ئز سمجھتے ہیں اس لئے وہ لوگ جن پر حملہ کیا گیا، جن کو دُکھ دیئے گئے ،اُن کو اجا زت دی جاتی ہے کہ وہ نکلیں او ردشمن کا مقابلہ کریں۔
دوم اِس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ دشمن زبر دست ہے اُس نے ان لوگوں کو جن کے لئے طبلِ جنگ بجا یا گیا ہے گھروں سے نکال کر ملک بدر کر دیا تھا اور یہ لوگ اُن کے خلاف ایک انگلی تک نہیں ہلا سکتے تھے چنانچہ ان کی کمزوری کی مثال دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکّہ میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو آپؐ نے صحابہؓ کو بلایا او رفرمایا تم لوگ یہ تکلیفیں برداشت نہیں کرسکتے مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں تم ہجرت کر جاؤ۔ صحابہؓ نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ! ہمیں کون ملک پنا ہ دے گا؟ آپؐ نے فرمایا سمندر پار حبشہ کا ایک ملک ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بادشاہ مقرر کیا ہے جو انصاف پسند ہے اُس میں چلے جاؤ۔ چنا نچہ بعض صحابہ ؓ نے فیصلہ کر لیا کہ اس ملک میں ہجرت کر کے چلے جائیں۔ اُن میں ایک صحابیؓ اور اُن کی بیوی بھی تھیں۔ وہ جا نتے تھے کہ انہوں نے ہمیں ہجرت بھی نہیں کرنے دینی جیسے پارٹیشن کے موقع پر ہؤا تھا کہ جو لوگ ہجرت کر کے آنا چاہتے تھے اُن کو بھی ہندو اور سِکھ نہیں آنے دیتے تھے۔ اِسی طرح وہ لوگ جا نتے تھے کہ مکّہ والوں نے ہمیں ہجرت کرکے نہیں جانے دینا اِس لئے رات کے وقت وہاں سے بھا گتے تھے تاکہ کسی طرح بچ کے نکل جائیں۔ ایک دن ایک مسلمان اور ان کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ہجرت کر جائیں اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت ہم دونوں اونٹ پر سوار ہو کر چلے جائیں گے۔ حضرت عمرؓ اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ وہ چونکہ حفا ظتِ مکّہ پر مقرر تھے وہ رات کو مکّہ کا پہرہ دیا کرتے تھے کہ دیکھیں کیا حالت ہے شہر میں کو ئی مخالفانہ رویہ تو نہیں۔ وہ گشت لگاتے لگاتے پہنچے تویہ لوگ اونٹ پر اسباب لاد رہے تھے حضرت عمرؓ اُس وقت تک اسلام کے سخت مخالف تھے انہیں شبہ ہؤا کہ یہ بھا گنا چاہتے ہیں۔ چنا نچہ اُس عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگے کیو ں بی بی! کیا نیّتیں ہیں اور کدھر کے ارادے ہیں ؟ خاوند نے ٹلا کر کچھ اَور بات کہنی چاہی مگر عورت کے دل کو زیادہ چوٹ لگی۔ وہ آگے سے غصہ سے کہنے لگی عمرؓ!یہ بھی کو ئی انصاف ہے کہ ہم تمہارے شہر میں تمہا را کچھ بگاڑتے نہیں، کو ئی شرارت نہیں کرتے، تمہا رے ساتھ لڑائی نہیں کرتے، دنگا نہیں کرتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تم وہ بھی نہیں کرنے دیتے اور ہم یہاں سے جا نا چاہتے ہیں تو تم ہمیں جانے بھی نہیں دیتے، ظلم کی بھی کو ئی حد ہوتی ہے۔آدھی رات کو ایک عورت کو اونٹ پر سامان لادتے دیکھ کر حضرت عمرؓکے دِل کو چوٹ لگی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور منہ پھیر لیا۔ پھر پیٹھ پھیر کر اُن کا نام لیا اور کہنے لگے بی بی! اللہ تمہارے ساتھ ہو جاؤ۔31 گویا یہ حالت تھی اُن لوگوں کی کہ اُن کو نکلنے بھی نہیں دیا جاتا تھا او راُن کے لئے ملک چھوڑنے کے لئے بھی کوئی آزادی نہیں تھی اور جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں چلے گئے تووہاں بھی حملہ کیا۔ حبشہ گئے تووہا ں اُن کو لینے کے لئے آدمی پہنچے۔ مدینہ گئے تو وہاں حملہ شروع کردیا۔
سوم اِن لوگو ں کو جو گھر سے نکا لا گیا تھا تو اُن کے کسی جُرم کی وجہ سے نہیں بلکہ بِلاسبب مگر پھر بھی یہ لوگ اُف نہیں کر سکے اور پھر اُن کو نکال کربس نہیں کی گئی بلکہ جس غیر ملک میں انہوں نے پنا ہ لی وہاں بھی جا کر حملہ کر دیا گیا۔
چہارم یہ اعلان کیا گیا کہ ان پر جو ظلم کئے جا رہے ہیں یہ کسِی سیاسی وجہ سے نہیں کئے جا رہے کسی ملک یا علاقہ کا یہ لوگ مطالبہ نہیں کررہے بلکہ صرف اس لئے ان پر ظلم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم او رحکومت کو کہہ دیا ہے کہ ہم سیا سی آدمی نہیں ہیں۔ آپ جو کچھ ہمیں حکم دیں گے ہم آپ کی مانیں گے مگر جن امور کا تعلق مَا بَعْدَ الْمَوْت سے ہے اُنکی تیا ری کے لئے ہم کو آزاد چھوڑ دیا جا ئے کیو نکہ جسموں کی بادشاہت حکومت کے پاس ہے مگر رُوح کی حکومت خداتعالیٰ کے قبضہ میں ہے اِس لئے حکومت ہمارے جسموں پر تو حکومت کر ے مگر ہماری رُوحوں کو آزاد چھوڑ دے کہ ہم اپنے اللہ سے صلح کر لیں۔ مگرحکومت نے کہا نہیں ہم تمہارے جسموں پر بھی حکومت کریں گے اور تمہارے عقیدہ اور مذہب پر بھی حکومت کریں گے۔
پنجم اِس اعلانِ جنگ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگ ہم صرف ضمیر کی آزادی کیلئے نہیں کر رہے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان کلمہ پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان نماز پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کررہے کہ مسلمان روزے رکھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان حج کر سکے، صرف اِس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان زکوٰۃ دے سکے بلکہ ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ عیسائی ،یہودی او ر مجوسی سب کو ان کے مذہب کی آزادی حا صل ہو جا ئے کیو نکہ حُریّتِ ضمیر سب کا حق ہے صرف مسلمانوں کا حق نہیں۔ کسی قوم کا حق نہیں کہ ضمیر کو وہ اپنے لئے مخصوص کرلے اور باقیوں کو حُریّت دینے سے انکا ر کردے۔
ششم اس اعلانِ جنگ میں یہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ گودشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور ہیں لیکن فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہو گی اور دشمن کو شکست ہو گی۔
مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی
اِس سِلسلہ میں اَور اعلان بھی کئے گئے اور کہا گیا کہ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ32
چلو تم لوگ خدا کی خاطر مرنے کیلئے تیا ر ہو گئے ہو اور خدا تعالیٰ اپنی خاطر مرنے والوں کو خالی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ اُن کو مدد دے گا اور کا میا ب کرے گا۔ پھر فرمایا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ33یقیناً خدا کاگروہ جو خدا کی خاطر لڑنے والا ہے وہی غالب آئے گا۔ مگر چونکہ اِس طرح آپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم کمزور ہیں۔ آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی طاقت نہیں اور آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان کوملکوں سے نکال دیاگیا ہے پھر بھی یہ نہیں بول سکے گویا ان کی ہمّت گرا دی گئی تھی کہ تم ہو تو بالکل ہی گھٹیا طرز کے غریب اور بے سامان لیکن ہم تم کو لڑائی کا حکم دیتے ہیں اسلئے اُ ن کے دلوں میں ایک مایوسی سی پیدا ہو سکتی تھی ہم تھوڑے بھی ہیں اور سامان بھی نہیں توکیا بنے گا اس لئے فرمایا کہ بے شک جو باتیں ہم نے بتائی ہیں وہ تمہارے ظاہری حالات ہیں لیکنكَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ34 یاد رکھو! بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔مگرکَب؟جب اللہ تعالیٰ کا اُن کو حکم ہو تا ہے۔ گویا اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ تم یہ سمجھو کہ تم اپنی طرف سے لڑنے نہیں جا رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لڑنے جا رہے ہو اور جب خدا کسی لڑائی کا حکم دیتا ہے تو چھوٹی جماعت ہمیشہ بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہے۔ اَب مَیں اِس آیت کے ٹکڑے ٹکڑے لے کربتاتا ہوں کہ اِس میں کیا مضمون بتایا گیا ہے۔پہلے بتایا گیا ہے کہا اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۔وہ لوگ جن سے لوگ بِلا وجہ لڑائی کرتے ہیں اُن کو حکم دیا جاتا ہے کہ چونکہ اُن پر حملہ کیا گیا ہے اِس لئے وہ لڑائی کے لئے نکلیں۔ وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ اور ہم اُن کو بتا دیتے ہیں کہ باوجود اِس کے کہ اُن میں لڑائی کی طاقت نہیں ہے مگر خدا میں طاقت ہے اور وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے۔ ا۟لَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بغیرکسی قصور کے نکالے گئے اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ۔ ہاں ان کا ایک ہی قصور تھاکہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا ربّ ہے وہ اپنے زمانہ کے مَامور کی بات کو مانتے تھے اور خدا کی بات کہتے تھے۔ صرف اِس بات پر لوگ کہتے تھے اِن کو مارو۔ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ اور اس لئے اُن کو اجا زت دی جاتی ہے کہ یہ صرف اپنے خدا کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور اس زمانہ کی حکومت اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو راضی نہیں کرنے دیں گے تم ہم کو راضی کرو۔ دوسرے اِس لئے کہ اگر یہ طریقِ ظُلم جا ری ہو جا ئے تو پھر قوموں میں ہمیشہ ہی لڑائی رہے گی۔عیسائی یہو دی پر حملہ کرے گا اور کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا اور یہودی عیسائی کو کہے گا مَیں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا مسلمان کا فر کو کہے گا مَیں نہیں تم کوتیری عبادت کرنے دیتاکافر مسلمان کو کہے گا مَیں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا پھر خدا کا نام دنیا میں کوئی بھی نہ لے گا اور خدا کا خانہ خالی ہوجائے گا۔ آخر خدا کا نام مختلف قوموں نے لینا ہے مسلمان نے اپنے طورپر لینا ہے،یہودی نے اپنے طور پر لینا ہے ،مجو سی نے اپنے طور پر لینا ہے ،ہندو نے اپنے طور پر لینا ہے اور اگر دوسرے کو خدا کا نام نہیں لینے دیں گے تو بات ختم ہو ئی، کو ئی بھی اُسکا نام نہیں لے گا۔ تو فرماتا ہے اگر ہم یہ طریق اختیا ر نہ کریں کہ ایسے موقع پر لڑائی کی اجا زت دے د یں تو لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ ۔ صَوَامِعُ اُن جگہوں کو کہتے ہیں جہا ں لوگ عبادت کے لئے بیٹھتے ہیں جیسے ہمارے ہاں تکیے ہوتے ہیں۔ بِيَعٌ ۔بیعؔ نصاریٰ کی عبادت گاہوں کو کہتے ہیں۔ وَّ صَلَوٰتٌ ۔ صلوٰۃ یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں۔ عبرانی میں اُسے صلوٰۃ کہتے ہیں۔ اور مسلمانوں کی مسا جد جن میں خدا کا نام لیا جاتا ہے یہ سب توڑی جاتیں۔ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ او ر جو لوگ خدا کا نام لینے والے ہیں وہ گویا خدا کے نام کو دنیا میں زندہ رکھ رہے ہیں او ر جو خدا کے نام کو زندہ رکھے گا اُس کی خدا بھی مدد کریگا۔ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ اور یقینا خدا بڑا زبردست اور غالب ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو دنیا میں حکومت دی جا ئے تو یہ نمازیں قائم کریں گے اور زکوٰتیں دیں گے اور امر باِلمعروف کریں گے اور بُری باتوں سے لوگوں کو روکیں گے۔ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ اور چونکہ یہ دنیا میں پھر خدا کی حکومت قائم کریں گے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اِن کو لڑائی کی اجازت دے دی جائے۔
اسلام آزادئ ضمیر کو کُچلنے کی اجا زت نہیں دیتا
یہ قرآن کریم نے ہمیں آئندہ کے لئے
سبق دیا ہے صرف اُس زمانہ کی بات نہیں بلکہ قرآن شریف نے پیشگوئی بیان کی ہے اور اِس میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمان سچّے طور پر مسلمان بنیں اور اِس تعلیم پر عمل کریں جو خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے اگر لوگوں کے ظلم برداشت کریں اور آپ ظالم نہ بنیں، حُریّتِ ضمیر دیں حُریّتِ ضمیر چھینیں نہیں، مسجدوں کو گِرائیں نہیں، معبدوں کو بند نہ کریں بلکہ ہر ایک کو مذہب کی آزادی دیں دُنیا میں انصاف اور امن کو قائم رکھیں اور ہر ایک کو اس کا حق دیں تو كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ایسی قوم کو اللہ تعالیٰ تھوڑے ہو نے اور بے سامان ہونے کے باوجود زیادہ تعداد والوں اور سامان والوں پر غلبہ دے دیا کرتا ہے۔ گویا اگر پاکستانی اِس قسم کے مسلمان بن جائیں تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ١ۚ وَ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْۤا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ35 یعنی اگر تم میں سے بیس صابرہوں تو وہ دو سَو آدمی پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک سَو ایسا ہو تو وہ ایک ہزار پر غا لب آجائے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں تم سمجھتے ہو (مَیں آگے چل کر بتاؤ نگا کہ سمجھنے او رنہ سمجھنے کا مطلب کیا ہے) اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بتادیا ہے۔ کہ دس گُنا طاقت پر مسلمان غالب آسکتے ہیں۔ اب پاکستان کی آبادی کہتے ہیں سات کروڑ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر پا کستانی ایسے مسلمان بن جائیں تو 70 کروڑ کے ملک پر یہ غالب آسکتے ہیں اور دنیا میں ٧٠ کروڑ کا کوئی ملک نہیں۔ بڑے سے بڑاملک چین ہے اُسکی بھی پچاس کروڑ کی آبادی ہے۔ دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے اُس کی تیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن قرآن کریم کے حکم کے ماتحت اگر پا کستان کے مسلمان اس قسم کے مسلمان بن جائیں جیسے قرآن کہتا ہے کہ بن جاؤ یعنی نہ وہ لوگوں پر ظلم کریں ،نہ حریّتِ ضمیر میں دخل دیں، نہ وہ غیر مذاہب کو اپنے مذہب پر جبراً لانے کی کو شش کریں اور نہ کسی کا حق ماریں بلکہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں، بُری باتوں سے روکیں اور لوگوں پر اس طرح روپیہ خرچ کریں کہ ملک ترقی کرے۔زکوٰۃ کے معنے ترقی کے بھی ہوتے ہیں پس زکوٰۃ دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنے آپکو بنا دیں تو فرماتاہے تمہا رے دس، سَو پر غالب آسکتے ہیں گویا سات کروڑ پاکستانی مسلمان 70 کروڑ پر غالب آسکتے ہیں اور70 کروڑ کی حکومت دنیا میں کوئی نہیں۔ بڑی سے بڑی حکومت پچاس کروڑ کی ہے تو گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر صرف پا کستان کے مسلمان ہی ایسے بن جائیں تو وہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت کو شکست دے سکتے ہیں اور ساری دنیا کے مسلمان، عیسائی کہتے ہیں کہ چالیس کروڑ ہیں اور مسلمان کہتے ہیں ساٹھ کروڑ ہیں۔ اس حساب سے اگر چالیس کروڑ بھی تسلیم کریں تو چار ارب پر یہ مسلمان غالب آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ اُ س قسم کے مسلمان بن جائیں جس قسم کے مسلمان بننے کے لئے قرآن کہتا ہے۔ اور اگر وہ ساٹھ کروڑ ہوں جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں تو اِس صورت میں چھ ارب پر غالب آسکتے ہیں لیکن دنیا کی ساری آبادی سَوا دو ارب ہے۔ گویا اگرمسلمان ساری دنیا سے بھی لڑیں تو قرآنی وعدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اگر دُگنی بھی ہو جائے تب بھی وہ اُن پر غالب آسکتے ہیں۔ یہ کتنی عظیم الشان بات ہے لیکن اِس کے باوجود مسلمان کیوں کمزور ہیں ؟ اِس لئے کہ وہ اُن شرطوں کو پورا نہیں کرتے۔ اِن شرطوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری مدد تمہیں تب حاصل ہو گی جبکہ تم میرے لئے لوگوں کی دشمنی سہیڑو، میرے نام کو روکنے کے لئے لوگوں کی دشمنی نہ کرو بلکہ میری خا طر لوگوں کی دشمنی سہیڑو۔لوگوں کے ظلم سہو اور دنیا میں جو لوگ میرا نام لینے والے ہیں چاہے وہ عیسائی ہو کے میرا نام لیں، چاہے وہ یہودی ہو کے میرا نام لیں یا مجوسی ہو کر میرا نام لیں جب بھی کوئی میرا نام لے تو کہو ہاں یہ تو ہمارے خدا کا نام لے رہا ہے۔گویا نمایا ں چیز بتادی ہے کہ کونسے اخلاق کے بعد خداکی مدد آتی ہے اور فرماتا ہے تم اس لئے غالب آؤ گے کہ وہ نہیں سمجھتے یعنی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے اس کے خلاف وہ غیراسلامی تعلیم پر عامل ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر ظلم نہ کرو لیکن غیراسلام کہتا ہے کہ سب پر ظلم کرو اِس میں تمہا رافائدہ ہے، اسلام کہتا ہے کہ تم کسی کی حُریّتِ ضمیر میں دخل نہ دو اور غیر مذاہب یہ کہتے ہیں کہ بے شک حُریّتِ ضمیر میں دخل دو،اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے تو چاہے وہ ہندوہو ،عیسائی ہو ،یہودی ہوکسی قوم کا ہو اُسکو موقع دو اور کہو کہ تُو بے شک نام لے لیکن غیر اسلامی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ِگرجے میں خدا کا نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے، اگر ہما رے صلوٰۃ میں نام لیتاہے تو ٹھیک ہے،اگرہمارے مندر میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم نہیں لینے دیں گے۔ آج مسلمان بھی یہی کہتا ہے چنانچہ دیکھ لو کیا اِن میں سے کوئی بات بھی ہے جو مسلمان نہیں کررہا؟کیا آج کا مسلمان یہ نہیں کہہ رہا کہ یا تو ہماری طرح کی نماز پڑھو ورنہ ہم نہیں پڑھنے دیں گے، یا تو ہماری طرح فتوے دو ورنہ تمہیں فتویٰ نہیں دینے دیں گے، یا تو ہماری طرح کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزادیں گے۔ کیا آج ہماری فقہ میں نہیں لکھا ہؤا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو نئے معبد بنانے کی اجا زت نہیں دی جائے گی یا ِگرجے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن یہ کہتا ہے کہ ہم اس لئے لڑتے ہیں تاکہ گِرجوں کو بچائیں۔ قرآن کہتا ہے کہ محمدؐرسول اللہ کو لڑنے کی اجازت اِس لئے دی گئی ہے کہ یہودیوں کے عبادت خانوں کو گِرنے سے بچایا جائے، قرآن کہتا ہے کہ محمدؐرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنے کی اِس لئے اجازت دی گئی ہے کہ مانک(MONK) یا راہب وغیرہ جو بیٹھے عبادت کر رہے ہیں اُ ن کو نقصان نہ پہنچے لیکن اب ہر ایک بات کے خلاف کرنے کے لئے مسلمان یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے معبد توڑنے جا ئز ہیں، لوگو ں سے لڑائی بھی جا ئز ہے، لوگوں کے مذاہب میں دخل دینا بھی جا ئز ہے، لوگوں سے جبراً اپنی مرضی منوانا بھی جا ئز ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ تمہیں اس طر ح فتح نصیب نہیں ہو گی۔ تمہیں فتح تب نصیب ہو گی جبکہ تم لوگوں کو آزادی دوگے، جبکہ تم لوگوں کو حُریّتِ ضمیر دوگے، جبکہ تم لوگوں کے مذہب میں دخل نہیں دو گے اور کہو گے کہ بیشک یہ مذہب رکھویہ خدا کا معاملہ ہے۔ اب یہ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے ہی آخرجیت کا موجب بنتی ہے۔ہٹلر نے لڑائی کی اور بڑی منظّم لڑائی لڑا مگر آخر وہ ہا را اِسلئے کہ دنیا کی جو آزاد رائے تھی وہ ساری کی ساری امریکہ اور انگلستان کے ساتھ تھی۔ روس اور جا پان لڑے، روس کتنی بڑی طاقت ہے مگر وہ ہا را اِس لئے کہ دنیا کی ساری کی ساری آزاد رائے جاپان کی ہمدردتھی اس ہمدردی کی وجہ سے جہاں بھی کسی کا بس چلتا تھا وہ جا پان کی تائید میں تھوڑ ا بہت کام کرتا تھا نتیجہ یہ ہؤا کہ روس ہارگیا۔ تو جب کوئی قوم ایسا طریق اختیا ر کرتی ہے کہ ہر مذہب و ملّت کے لئے وہ انصاف کرنے کے لئے تیا ر ہوتی ہے توخود دوسروں کے گھروں میں اُن کے جا سوس پیدا ہو جا تے ہیں اور ہر جگہ اُسے مدد ملنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ جیتنے شروع ہو جاتے ہیں۔
یروشلم کے عیسائیوں پر اسلامی
حکومت کا غیر معمولی اثر
جب یر وشلم پر مسلمان گئے توعیسائی لشکر حملہ آور ہؤااُس وقت مسلمانو ں نے فیصلہ کیا کہ ہم مقابلہ کی طاقت نہیں
رکھتے ہم پیچھے ہٹیں گے۔جب پیچھے ہٹنے لگے تو یر وشلم کے لوگ بلکہ پادری بھی روتے ہوئے آتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو ہمارے ملک میں پھر لائے کیونکہ ہم نے امن تمہا رے ذریعہ سے ہی دیکھا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی عیسائی حکومت تھی اور قیصر کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ گویا پوپ کا قائم مقام ہے اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ مذہبی طور پر بھی لیڈر ہے مگر وہ اُس کی حکومت کو توڑنے والی حکومت کے لئے باہر نکلے تھے۔ اگر مسلمان مذہبی معاملات میں دخل دیتے، اگر وہ اُن کے گِر جوں میں دخل دیتے اور اگر وہ اُن پر سختیا ں کرتے جو ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں تو اُن کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ روتے ہوئے نکلتے کہ تم ہمارے گھروں میں آؤ، ہمارے گِرجے گراؤ اور ہمارے مذہب میں دخل دو وہ لازماً اُن کی مخالفت کرتے اور رومن ایمپائر کی مدد کرتے لیکن حالت یہ تھی کہ وہ روتے تھے۔ پس جب مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو وہ جانتے تھے کہ یروشلم سے اسلامی لشکر کو تو نکال لائے ہیں لیکن یروشلم میں بیس ہزار جا سوس چھوڑ آئے ہیں جو ہمیں رومیوں کی خبر یں دیں گے اور اُن کے ذریعہ ہم پھر واپس آجائیں گے۔ تو یروشلم کا ہر عیسا ئی مسلمانوں کا جا سوس بن گیا تھا اور اُن کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ اگر یہی سلوک مسلمان قومیں دوسروں کے ساتھ کرنا شروع کردیں تو دیکھو فوراً یہ صورت شروع ہو جائے گی کہ غیر ملکوں میں ہمارے ہمدرد پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور وہ ہماری مدد کرنی شروع کردیں گے۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے کامیا بی کے لئے صابر ہونے کی شرط لگائی ہے اور صابر کے معنے (1)مصیبت کو برداشت کرنے(2)استقلال سے نیک کاموں میں لگے رہنے اور اختلافات کو نظرانداز کردینے کے ہوتے ہیں۔ پس اگر مسلمان باہمی اختلاف چھوڑ کر موت یا نقصانِ مال اور نقصانِ آرام کا ڈر دُور کردیں۔ حصولِ مدعا کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے لئے استقلال کے ساتھ بغیر وقفہ او ر سُستی اور تزلزل کے لگ جائیں تو دنیا کی ہر طاقت پر وہ غالب آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ مظلوم ہو ں ،کسی کے حق پر دست اندازی نہ کریں اور حُریّتِ ضمیر کو قائم کرنے کے ذمہ دار ہوں نہ کہ ڈنڈے سے اپنا مذہب منوانے پر تُل جائیں جس سے منافقت بڑھتی ہے اور صفوں میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ اُن ممالک میں پیدا ہو جا تے ہیں۔
ہفتم دوسری حکومتوں کے نوبت خانوں سے تویہ اعلان کئے جا تے ہیں کہ فلاں حکومت کی فوجیں ہمارے ساتھ ہیں لیکن اِس نوبت خانہ سے تو یہ اطلاع دی جاتی تھی کہ سب دنیا کی حکومتیں ہمارے خلاف ہیں اور کسی کی حمایت ہم کو حا صل نہیں۔ چنانچہ فرمایا اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ36 مسلمانوں کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ اَب تو ساری دنیا تمہا رے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ گو ساری دنیا تمہارے خلاف ہو گی مگر چونکہ تم مظلومیت میں ہو اور مظلو میّت کی وجہ سے تم اپنے دفاع کے لئے جنگ کرتے ہو اور چونکہ تم اخلاق اور حُریّتِ ضمیر کے لئے جنگ کرنے لگے ہو اس لئے گو تمام زمینی حکومتوں نے تمہا رے خلاف اجتماع کر لیا ہے لیکن آسمانی حکومت نے تمہا ری تائید کا فیصلہ کردیا ہے۔ وَ لَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ اور خدا اُس کی تائید کرے گا جو اُس کی مدد کرے گا۔ جو لوگ اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں انسان جبر نہ کریں بلکہ دین کامعاملہ صرف خدا اور بندے پر چھوڑ دیا جا ئے وہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں۔اِس لئے اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو کر جنگ کرے گا۔
پھر فرمایا اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَؕ۔ بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ يَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ۔37 مؤمنو ں کو کہدو کہ تم تھوڑے بھی ہو دشمن کے پاس سامان بھی زیا دہ ہے لیکن کیا تمہارے لئے یہ کا فی نہیں کہ خد ا تمہا ری مدد کے لئے تین ہزار فرشتے اُتار دے۔ بلکہ اگرتم صبر کرو اور تقویٰ سے کام لو اور دشمن تم پر فوری حملہ بھی کردے تو خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ پانچ ہز ار فرشتے بھیجے گا جو مُسَوِّمْ ہونگے۔ یعنی نڈر ہو کر اپنے گھوڑے دشمن کی صفوں میں پھینک دیں گے اور اُسے غارت کردیں گے۔ اِس فقرہ میں تو دراصل الٰہی مددکا ذکر تھا مگر کچھ لوگ رسمی مؤمن ہوتے ہیں وہ ہر چیز کے لئے جسمانی نسخہ تلاش کرتے ہیں پس ڈر ہو سکتا تھا کہ کچھ بیوقوف ایسے بھی ہوں کہ جو سچ مچ فرشتوں کو لائیں اور سچ مچ اُن کو دَوڑائیں اور لڑائیاں کروائیں اِس لئے فرمایا وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى لَكُمْ وَ لِتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُكُمْ بِهٖ١ؕ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ38 یعنی ہم نے جو کہا ہے کہ فرشتے اُتارنے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے آدمی بن کر آئیں گے اور تلواریں لے کر لڑیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ خو شخبری دی گئی ہے کہ وہ تمہا رے دلوں کو مضبوط کریں گئے اور دشمنوں کے دلوں میں تمہا را رُعب پیدا کردیں گے اور اصل مدد خدا کی طرف سے آتی ہے فرشتے انسانی جسم میں نہیں آیا کرتے۔
دنیا میں خدائی حکومت قائم کئے جا نے کا اعلان
ہشتم۔ دوسری حکومتیں جب حملہ
کرتی ہیں تو بڑے زور سے اعلان کرتی ہیں کہ ہم آزادی دینے کے لئے آئے ہیں جیسے انگریزوں نے عربوں سے کیا۔ پچھلی جنگ میں انہوں نے عربوں سے کہا کہ ہم تمہیں آزاد کرنے آئے ہیں اور کِیا کیا ؟ کِیا یہ کہ شام اور لبنان فرانس کو دیدیا عراق پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا ،اِسی طرح اُردن بھی لے لیا، فلسطین پر بھی آپ قبضہ کر لیا او ر اِس طرح ملک کو بانٹ لیا۔ لیکن لڑائی ہو ئی تو کہا۔ اُٹھو!اُٹھو!!شاباش!ہم تمہاری آزادی کے لئے آئے ہیں۔ یا جرمنی نے ہا لینڈاوربیلجیئم میں اپنی فوج داخل کردی بغیر اس کے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوتے اور اعلان کر دیا کہ چونکہ ہا لینڈ اوربیلجیئم کی آزادی انگریزوں اور فرانسیسیوں کی وجہ سے خطرہ میں ہے اور وہ اِن ملکوں پر قبضہ کرلیں گے اس لئے ہم انہیں بچانے کے لئے آرہے ہیں۔ اِسی طرح ڈنمارک پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ ہم ڈنمارک کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ اب پیچھے ہندوستان نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ پولیس ایکشن ہے اِن لوگوں میں امن قائم کرنے کے لئے ہماری فوجیں داخل ہوئی ہیں۔ یا روس نے لیتھونیا اور استھو نیا اور لٹویا پر حملہ کر دیا اورکہا ہم اِن تینوں ملکوں کو آزاد کروانے کے لئے آئے ہیں۔ اِس آزادی کے بعد یہ تینوں ممالک ضلع بن کررہ گئے اور روس کے اند ر شامل ہیں۔ صرف فرق یہ ہو تا تھاکہ فساد کا دھارا بدل جاتا تھا یعنی پہلے فساد اِس طرف ہوتا تھا پھر اس کا رُخ اُس طرف ہو جاتا تھا لیکن اسلامی نوبت خانہ میں جو وعدہ کِیا گیا ہے وہا ں یہ فرماتا ہے کہ ہم نے اِن کو فتح ہی اِس شرط سے دینی ہے کہ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ یہ نہیں ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسا کر یں گے بلکہ فرماتا ہے جب ہم ان کو حکومت بخشیں گے تو:-
(1) وہ عبادتِ الٰہی کریں گے اور عبادتِ الٰہی کی آزادی دیں گے۔
(2) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تووہ غرباء کی مدد کریں گے اورگِرے ہوؤں کو اُٹھائیں گے۔
(3)جب ہم ان کوحکومت دیں گے تو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو حُسنِ سلوک اور اخلاق اور انصاف کی نصیحت کریں گے۔
(4)یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو تمام نا پسند یدہ امور سے خواہ دُنیوی ہوں یا دینی، اخلاقی ہوں یا معاشی یا اقتصادی یا علمی روکیں گے۔
(5) اور اُن کا رویہّ ایسا منصفانہ ہو گا کہ یہ معلوم نہیں ہو گا کہ انسان حکومت کر رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہوگاکہ خداتعالیٰ زمین پر اُترآیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔ اُس وقت یوں معلوم ہو گا کہ خدا آسمان سے اُتراہے۔
اَب دیکھو جن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ تھا وہ ایسے ہی ثابت ہوئے کیو نکہ ان کے ساتھ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ ہم تمہیں اس لئے حکومت دے رہے ہیں کہ تم نے یہ یہ کا م کرنا ہے۔
مساواتِ اسلامی کی ایک شاندار مثال
چنانچہ دیکھ لو۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ
ہے آپ مکّہ مکرّمہ میں حج کےلئے گئے۔ اُن دِنوں عرب کا ایک عیسائی بادشاہ بھی مسلمان ہو چکا تھا و ہ بھی مکّہ میں حج کے لئے آیا تو کسی مجلس میں بیٹھا ہؤا باتیں کر رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جو بے چارہ کو ئی مزدور تھا پاس سے گزرا اور اتفاقاً اُس کا پیَر اُس کے کپڑے پر پڑ گیا۔ وہ تو اپنے آپ کو بادشا ہ سمجھتا تھا اور بادشاہ بھی وہ کہ کب برداشت کر سکتا تھاکہ کوئی شخص اتنی بے احتیاطی سے چلے کہ پاؤں اُس کے کو ٹ پر پڑجائے۔اُس نے زور سے اُسے تھپڑ مارا او رکہا بے شرم! تیری کیا حیثیت ہے کہ تُو اِس طرح بے احتیاطی سے چلے کہ تیرا پیَر میرے کو ٹ پر پڑ جا ئے وہ بیچارہ صبر کر کے چلا گیا۔ اُسی مجلس میں کوئی صحابی ؓ بیٹھا تھا اُس نے کہا تم نے بڑی غلطی کی ہے۔ اُس نے کہا کیوں؟ مَیں بادشاہ نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگا اِسلام میں بادشاہت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی تم کو تھپڑ مارنے کا کیا حق تھا۔اگر اُس نے کو ئی قصور کیا تھا تو تم قضاء میں جاتے اور اُس پر دعویٰ کرتے، تمہارااُس کو مارنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ کہنے لگا تو کیا اسلام میں بادشاہ او ر غیر بادشاہ کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا؟ انہوں نے کہا کو ئی فرق نہیں کیا جاتا۔ وہ کہنے لگا اچھّا مَیں عمرؓ کے پاس جاتا ہوں۔ اُٹھ کے عمرؓ کے پاس گیا دربارلگا ہؤا تھا سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جا کر حضرت عمرؓ سے کہنے لگا کہ کیو ں جی!کیا اسلام میں بد تہذیبی ہوتی ہے کہ اگر کو ئی شخص کسی بادشاہ یا بڑے آدمی کی ہتک کربیٹھے تو وہ اُس کو مار نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ نے اُس کی طرف دیکھا او ر کہا۔ (جبلہ اُس کا نام تھا) جبلہ! تم کسی مسلمان کو ما ر بیٹھے ہو؟ خدا کی قسم! اگر مجھے پتہ لگا تو مَیں تمہیں اُسی طرح مرواؤں گا۔اُس نے اُس وقت تو بہا نہ بنا یا او ر کہا۔ نہیں نہیں! مَیں نے تو کچھ نہیں کیا۔ مگر یہ کہہ کر واپس گیا اور اُسی وقت گھوڑے پر سوارہؤا اور اپنے ملک کو واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مرتد ہو گیا۔39 غور کرو! کتنی بڑی طاقت تھی ایک مزدور کے لئے۔ ایک بادشاہ جاتا ہے اور کہتا ہے اِس نے میری ہتک کی ہے تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ تم نے اِسے مارا ہے تو مَیں ضرور سزا دونگا۔
خلافتِ راشدہ کے عہد میں راشن سسِٹم کا اجراء
یہ وہ چیز تھی جو مسلمانوں نے اپنی
حکومت میں کی۔ راشن اور کپڑے کا سسٹم جاری ہؤا، امیر اور غریب سب کے لئے حکم ہؤا کہ اُن کو کپڑے مِلا کریں گے اور کھا نا مِلا کرے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا حکم دیا کہ جو راشن اورکپڑا مِلا کرے گا اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہ کیا جائے ہر مذہب وملّت کے آدمی کو اُس کا راشن دیا جا ئے۔ ایک بادشاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہؤا تو اُس نے کہلا بھیجا کہ میرے پاس ایسے لوگ ہیں جو غیر مذاہب کے ہیں مَیں اُن کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا اُن کے ساتھ انصاف کا سلوک کروپیا ر کا سلوک کرو اور اگر تمہارے پاس ایسے لوگ ہو ں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہ اُن کے پاس کا فی زمین وغیرہ نہ ہو اور کافی غلّہ نہ پیدا کر سکتے ہوں تو پھر سرکاری خزانہ سے انہیں غلّہ مہیّا کرو۔40
ایک غلام کے معاہدہ کا احترام
اِسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دشمن فوج گھِر گئی اور اُس
نے سمجھ لیا کہ اَب ہماری نجات نہیں ہے اِسلامی کمانڈر دباؤسے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے اگر اُس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا۔ ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا۔ مفتو ح کے لئے تو عام اسلامی قانون جاری ہوتا تھا اور صلح میں جو بھی وہ لوگ شرط کرلیں یا جتنے زائد حقوق لے لیں لے سکتے تھے۔انہوں نے سوچا کہ کوئی ایساطریق اختیا ر کرنا چاہئے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جا ئے۔ چنا نچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھااُس کے پاس جا کر انہوں نے کہا کیوں بھئی ! اگر صلح ہوجائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں ؟ اُس نے کہا ہا ں! اچھی ہے۔ وہ حبشی غیر تعلیم یافتہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اِس شرط پر صلح ہوجائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جا ئے ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور تمہا رے مال تمہارے پا س رہیں۔ وہ کہنے لگا با لکل ٹھیک ہے۔ انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ اب اسلامی لشکر آیا تو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہد ہ ہو گیا ہے۔ وہ کہنے لگے معاہدہ کہاں ہؤا ہے اور کِس افسر نے کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جا نتے ہمیں کیا پتہ ہے کہ تمہارے کو ن افسر ہیں اور کون نہیں۔ ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اُس سے ہم نے یہ بات کی اور اُس نے ہمیں یہ کہہ دیا تھا۔ مسلمانوں نے کہادیکھو ایک غلام نکلا تھا اُس سے پوچھو کیا ہؤا؟ اُس نے کہا ہاں! مجھ سے یہ بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا وہ تو غلام تھا اُسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا انہوں نے کہا ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ تمہا را افسر ہے یا نہیں۔ ہم اجنبی لوگ ہیں، ہم نے سمجھا یہی تمہا را جرنیل ہے۔اُس افسر نے کہا مَیں تو نہیں مان سکتا لیکن مَیں یہ واقعہ حضرت عمرؓ کو لکھتاہو ں۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ خط مِلا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے لئے یہ اعلان کردو کہ کمانڈر اِنچیف کے بغیر کوئی معا ہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو مَیں اُس کو جھو ٹا کردوں اب وہ حبشی جو معاہدہ کرچکاہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ ہاں آئندہ کے لئے اعلان کردو کہ سوائے کمانڈر اِنچیف کے اَور کوئی کسی قوم سے معا ہدہ نہیں کر سکتا۔41
غیر مسلموں کے جذبات کا پاس
پھر غیر مذاہب کے جذبات کا لحاظ اِس حد تک کیا کہ رسو ل کر یم صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس ایک یہودی نے آکر شکا یت کی کہ مجھے ابو بکر ؓ نے مارا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابو بکرؓ کو بلایا اَو رفرمایا تم نے اِس کو ما را ہے ؟کہنے لگے ہاں! یَارَسُوْلَ اللہِ! اِس نے بڑی گستاخی کی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کیا گستاخی کی تھی؟ انہوں نے کہا اِس نے کہا تھا مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے موسٰی ؑ کو سارے رسولوں سے افضل بنا یا ہے۔ تو اِس نے آپؐ کی ہتک کی او ر حضرت موسٰی ؑ کو سب رسولوں سے افضل قرار دیا۔ مجھے غصّہ آگیا اورر مَیں نے تھپّڑ مارا۔ آپؐ کا چہرہ سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا۔ لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی۔42 تمہارا کیا حق ہے کہ لوگوں کے جذبات کو مجروح کرو۔ تم مجھے یہودیوں کے سامنے موسٰی ؑ پر فضیلت نہ دیا کرو۔کتنا انصاف ہے۔ کیا دُنیا کا کوئی اَور انسان ہے جس نے باوجود اِس کے کہ وہ خود دعویدار ہو کہ مَیں بڑا ہوں کہا ہو کہ دوسروں کے سامنے تم نے مجھ کو موسٰی ؑ پر کیوں فضیلت دی اِس کا یہی حق ہے کہ وہ کہے موسٰی ؑ مجھ سے بڑا ہے۔پھر فرمایا۔ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ43 دیکھو جن بُتوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں یا جن انسانو ں کی لوگ پوجا کرتے ہیں، اُن کے متعلق کبھی کوئی بُر ا لفظ نہیں بولنا ورنہ پھر اُن کا بھی حق ہو جائے گا کہ وہ مقابل میں تمہارے خدا کو بھی گالیا ں دیں اِس طرح تم اپنے خدا کو گالیا ں دینے کا موجب بنو گے۔ گویا قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی جذبات کے لحاظ سے برابر ہیں، سچے مذہب والا اور جھو ٹے مذہب والا دونوں برابر ہیں اگر اِس کو حق ہے کہ اُسکے جذبات کو تلف کرے تو اُس کا بھی حق ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اگر یہ چاہتا ہے کہ اسکے جذبات کی ہتک نہ کی جائے تو پھر اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے جذبات کی بھی ہتک نہ کرے۔
جوشِ انتقام میں بھی عدل و انصاف
کو ملحوظ رکھنے کی تاکید
پھر جو ش اور غضب میں انتقام کی طرف منتقل نہ ہونے کے لئے فرمایا يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ
شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١ٞ وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ١ٞ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔44 یعنی اے مؤمنو!تم اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ یعنی صرف خداکی خاطر ہر کا م کرو اور خداتعالیٰ کے لئے تم گواہی دو کہ وہ منصف ہے۔ یعنی اپنے عمل سے ثابت کرو کہ اگر تم منصف ہو تو پتہ لگ جا ئے کہ خدا نے تم کو انصاف کی تعلیم دی ہے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم کسی سے بے انصافی کر بیٹھو۔ دشمن بھی ہو تو پھر بھی انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیا ر کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جا نتا ہے۔تقویٰ اختیا ر نہ کرو گے تو سزا ملے گی گویا اِس میں یہ نصیحت کی کہ :-
اوّل ہرکام اللہ تعالیٰ کے لئے کرو کسی اَور غرض کے لئے نہیں کہ اُس غرض کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر راستہ بدل لو۔
دوم خدا تعالیٰ نے جو معیا رِانصاف مقرر کیا ہے اُس کا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرو اگر وہ نمونہ پیش نہ کرو گے تو لوگ کہیں گے اِن کو خدا کی یہ تعلیم نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں بلکہ اَور تعلیم ہے۔
ایک ہندو سے حسنِ سلوک کا شاندار نمونہ
سوم اگر کوئی ظلم بھی کرے تو جوش میں آکر
ظلم نہیں کرنا بلکہ عدل کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا۔ مجھے اِس پر اپنا ایک واقعہ یا د آگیا۔ رتن باغ (لاہور) میں ہم رہتے تھے اُس کا مالک چونکہ ایک بارسوخ شخص تھا اور اُس کا بھا ئی ڈپٹی کمشنر تھا وہ گورنمنٹ کی چٹھی لکھوا کے لا یا کہ اُن کا سامان اُن کو دے دیا جائے۔ یہاں کے افسر اُسوقت بہت زیادہ لحاظ کرتے تھے انہوں نے فوراً لکھدیا کہ ان کو یہ سامان دے دو۔ ہم جب گئے ہیں تو اُس وقت تک وہ لُوٹا جاچکا تھا دروازے توڑے ہوئے تھے اور بہت سا سامان غا ئب تھا او ر پو لیس اُس زمانہ میں ایک لِسٹ بنا لیا کرتی تھی کہ یہ یہ اِس مکا ن میں پا یا گیا ہے اور چونکہ اُن دنوں ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے تھے وہ بہت رعایت کرتے تھے۔ لِسٹیں عام طو رپر نا قص بنا تے تھے مثلاً اگر پچاس چیزیں ہو ئیں تو چالیس لکھ لیں اور دس رہنے دیں اور کہہ دیا تم لے لو یہ طریق یہاں عام تھا۔ جب ہم وہاں گئے تو مَیں نے حُکم دیاکہ جتنی چیزیں لِسٹ سے زائد ہیں وہ جمع کر کے ایک طرف رکھ دو۔ چنانچہ وہ سب چیزیں رکھ دی گئیں۔جب وہ حکم لا یا تو وہ چیزیں جو لکھی ہوئی تھیں وہ دے دی گئیں۔ پاس سرکاری افسر بھی تھے اور پولیس بھی تھی۔ اِس کے بعد مَیں نے اپنے لڑکوں کو بُلا کر کہا کہ جو چیزیں میں نے الگ رکھوائی تھیں وہ بھی اس کو دیدو۔وہ مسلمان تھا نیدار جو اُن کے ساتھ آیا تھا وہ یہ دیکھ کر میرے ایک لڑکے سے لڑ پڑا اور کہنے لگا آپ لوگ یہ کیا غضب کر رہے ہیں اِن لوگوں نے ہم پر کیا کیا ظلم کئے ہیں اور آپ اِن کی ایک ایک چیز ان کو واپس کر رہے ہیں یہ تو بہت بُری بات ہے مگر اس کے روکنے کے باوجود ہم نے تمام چیزیں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں۔ اُنہی چیزوں میں کچھ زیورات بھی تھے وہ مَیں نے رومال میں باندھ کر ایک الماری میں رکھ چھوڑے جب مَیں نے دیکھا کہ یہ لوگ اُسے چیزیں دینے میں روک بنتے ہیں تو مَیں نے سمجھا کہ زیورات اِن لوگو ں کے سامنے دینا درست نہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اُس سے زیور چھین لیں۔ یہ لِسٹوں میں تو ہیں نہیں چنا نچہ مَیں نے وہ رومال رکھ لیا او ر اُسے کہلا بھیجا کہ جاتی دفعہ مجھ سے ملاقات کرتا جا ئے۔ میری غرض یہ تھی کہ جب وہ آئے گا تو مَیں علیحدگی میں اُس کے زیورات اُس کے حوالے کر دونگا۔ چنا نچہ جب وہ آیا تو مَیں نے رومال نکالا اور کہا یہ تمہارے زیورات تھے جو اِس مکان سے ہمیں ملے اَب مَیں یہ زیورات تم کو واپس دیتا ہوں اور مَیں نے بلا یا ہی اِسی غرض کیلئے تھا کیو نکہ مَیں سمجھتا تھا کہ اگرمَیں نے لوگوں کے سامنے زیورات واپس کئے تو ممکن ہے سپاہی او رتھانیدار وغیرہ تم سے زیور چھین لیں۔ وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ جو ہماری اپنی لِسٹیں ہیں اُن میں بھی ان زیوروں کا کہیں ذکر نہیں۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے نہیں ہو گا مگر یہ زیور ہمیں تمہارے مکان سے ہی ملے ہیں اِس لئے خواہ لِسٹوں میں اِن کا ذکر نہ ہو بہر حال یہ تمہا رے ہی ہیں۔ اُس پر اِس کا اتنا اثر ہؤا کہ اُس نے وہاں جا کر اخباروں میں اعلان کرایا کہ ہماری لِسٹوں سے بھی زائد سامان ہمیں دیا گیا ہے۔ حکومت کی جو لِسٹیں تھیں اس سے ہی زائد سامان نہیں دیا گیا بلکہ جو ہماری لِسٹیں تھیں اُن سے بھی زائد سامان دیا گیا۔ دوسرے دن وہی تھا نیدار جو علاقہ کا تھا پھر آیا اور کہنے لگا مَیں نے ملنا ہے۔ مَیں نے اُسے بلوا لیا او ر پوچھا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا مجھے تو رات نیند نہیں آئی، میرا خون کھولتا رہا ہے۔ مَیں نے کہا۔ کیوں ؟کہنے لگا آپ کے آدمیوں نے بڑا بھا ری ظلم کیا ہے۔اِن کم بختوں نے ہمیں لوٹ کر تباہ کر دیا ہے او رآپ ان سے یہ سلوک کر رہے ہیں۔ کہنے لگا مَیں بھی گورداسپور کاہی ہوں۔ہمارے گھر انہوں نے لُوٹ لئے، تباہ کر دیئے وہ تو خیر سرکاری ظلم تھا کہ اس کو لِسٹوں کے مطابق مال د ے رہے تھے آخر ساروں کو کب مِل رہا ہے۔ مگر ان لوگوں نے تو جو مال لسٹوں میں نہیں لکھا وہ بھی انہیں لا کر دیا گیا ہے۔مَیں نے کہا مَیں آپ کو ایک نئی بات بتاؤں اِن لوگوں کا کچھ زیورمیرے پاس پڑا تھا وہ بھی مَیں نے ان کو دیدیا ہے وہ اُن کی لسٹ میں بھی نہیں تھا۔ کہنے لگا یہ تو بڑا ظلم ہے۔ اتنے ظلم کے بعد آپ کا اِن سے یہ معاملہ میری عقل میں نہیں آتا۔ مَیں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے آخر مَیں نے اِن کا مال کیوں رکھ لینا تھا؟ کہنے لگا انہوں نے ہمارا مال وہاں رکھا ہے۔ مَیں نے کہا اگر تم ثابت کر دوکہ میری کوٹھی کا مال اِس نے رکھا ہے تو مجھے بڑا افسوس ہو گا کہ مَیں نے اُس کو اُس کا مال واپس دے دیا ہے۔لیکن اگراُس نے نہیں رکھا کسی اَور نے رکھا ہے تو یہ تو بتاؤ کہ کرے کوئی اَور بھرے کوئی ،مارے کوئی اور سزا کسی کو دی جا ئے۔ مَیں نے کہا تم عدالت میں یہی کیا کرتے ہو۔ وہ کہنے لگا ہم اس طرح تو نہیں کیا کرتے لیکن یہ تو بُری بات ہے کہ یہ اپنا مال لے جائیں۔ مَیں نے کہا لے جائیں۔ یہ تو خدائی مصیبتیں ہیں جو آتی رہتی ہیں۔ انسان گِر کے بھی مر جاتا ہے اور زلزلے آتے ہیں تو بھی تباہ ہو جا تے ہیں کسی انسان پر الزام نہیں آتا۔ بہرحال اِس نے میر ا مال نہیں لیا۔ جس نے لیا ہے اُس کا ما ل میرے پاس لا ؤ پھر مَیں سوچوں گا کہ رکھ لینا چاہئے یا نہیں چونکہ اِس نے ہما را مال نہیں رکھا اِسلئے ہم نے بھی اس کا مال نہیں رکھا۔
ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کیلئے آیا۔ اُس نے کہا میرے دل میں سخت جلن تھی او ر مجھے مسلمانوں کے افعال دیکھ کر سخت تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ مگرمَیں نے لاہو ر میں آکر آپ کی تقریر سُنی آپ نے یہ بات بتائی تھی کہ ان لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے انہوں نے کیا قصور کیا ہے۔اُس دن سے میرے دل کو تسلّی ہو گئی۔ مَیں نے کہا۔ خیر کوئی معقول او رشرعی آدمی بھی میرے اس خیا ل کی تصدیق کر رہا ہے۔
غرض اسلام جو ہمیں تعلیم دیتا ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ سے دشمن سے دشمن انسان کی گردن بھی شرم سے جُھک جاتی ہے لیکن ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم اس تعلیم پر عمل کرو کہ جس سے دوست بھی دوست کو ذلیل سمجھنے لگ جا ئے۔ ہا ں اسلا م میں یہ بات جا ئز ہے کہ اگر کوئی جُرم قبیلہ یا علاقہ میں ایسا ہو رہا ہو کہ ثابت ہو جائے کہ علاقہ کے لوگ اُس پر پر دہ ڈال رہے ہیں تو سارے علاقہ پر جُرمانہ کر دیا جائے۔
ظلم انسان کو اُخروی سزا کا بھی مستحق بناتا ہے
چہارم یہ حکم گو دُینوی اور سیاسی معلوم
ہوتا ہے مگر فرماتا ہے یاد رکھوکہ تمام اعمال اخلاقی پہلو سے رُوح پر اثر ڈالتے ہیں۔ پس اگر غلطی کرو گے تو تقویٰ کو اور دین کو نقصان پہنچے گا۔ پس دشمن کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دین کے بچانے کے لئے احتیا ط برتو اور کسی پر ظلم نہ کرو۔ اور چونکہ یہ امر تقویٰ پر بھی اثرانداز ہو تا ہے اس لئے فرمایا کہ اِس غلطی کی سزا سیاسی نہیں بلکہ دینی بھی ملے گی اور خدا تعالیٰ اُخروی زندگی میں اِن غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ تم اگر کسی ہندو پر ظلم کرتے ہو یا کسی عیسائی پر ظلم کرتے ہو یا کسی اپنے عقیدہ سے اختلاف کرنے والے پر ظلم کرتے ہو توتم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مَیں نے اِس دنیا میں ظلم کیا ہے مجھے اِسی جگہ کوئی سزامِل جائے گی قیامت کے دن خدا نہیں کہے گا کہ تم ظلم کرنے والے مسلمان ہو اور جس پر ظلم کیا جاتا ہے وہ تمہا رے نزدیک مسلمان نہیں وہ ہندو کہلاتا ہے یا عیسائی کہلا تا ہے بلکہ خدا کہے گا کہ چونکہ تم نے ضمیر کی حُریّت کو ُکچلا اِس لئے مَیں تمہیں سزادونگا۔
ہر اخلاقی کمزوری مذہب اور
روحانیت پر اثر انداز ہو تی ہے
مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنےاعمال کو اکثر اخلاق سے جُدا کر کے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ایک اچھا نمازی تجا رت میں
دھوکا کر لیتا ہے۔ بڑا نمازی ہو تا ہے خوب وظیفے کرتا ہے لیکن تجا رت میں آکر پھٹا ہؤاتھان اَور تھانوں میں ملا کر دے دے گا کپڑا نا پے گا تو چند گِرہ کم دے گا او ر اُسکا ضمیر اُسے بالکل ملامت نہیں کرے گا۔
حضرت خلیفہ اوّل فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ڈپٹی صاحب تھے جو تہجد بڑی باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کر تے تھے اور رشوت کے لئے انہوں نے نو کروں کو کہا ہؤا تھاکہ اگرکوئی رشوت لایا کرے تو تہجد کے وقت اُس کو لانے کے لئے کہا کرو دن کو لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے۔غرض انہوں نے تہجد باقاعدہ پڑھنی او ر نو کر نے بھی اُس کو باقاعدہ لا کر بٹھا دینا۔ جب انہوں نے سلام پھیرنا تو اُس نے کہنا جناب میر ا فلاں مقدمہ ہے۔ وہ بڑے غصّے سے کہتے او خبیث بے ایمان! ُتو میرا ایمان خراب کرتا ہے۔ تجھے پتہ نہیں کہ یہ رشوت ہے جو حرام ہے اور اسلام میں منع ہے۔ وہ کہتا حضور! آپ ہی میرے ماں باپ ہیں اگر میرے بچّوں کو اور بھا ئی کو نہیں بچائیں گے تو اَور کون بچائے گا۔ اِس پر وہ کہتے تُو بڑا بے ایمان ہے تو لوگوں کے ایمان خراب کرتا ہے۔وہ کہتا جی مَیں آپ کے سِو ا کس کے پاس گیا ہوں۔ وہ کہتے او خبیث! رکھ مصلّٰی کے نیچے اور جا دُور ہو جا میرے آگے سے۔ پس مصلّٰی کے نیچے رشوت رکھ لینی او ر سمجھ لینا کہ اب مصلّٰی کی برکت سے یہ مال پاک ہو گیا ہے اور پھر اُٹھا کے رکھ لینا۔ تو اکثر لوگ اخلاق اور مذہب کو الگ الگ سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اخلاقی کمزوریا ں ہو ں تو اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر نماز ہم نے پڑھ لی تو اس کے بعد اگر کسی کو تھپّڑ ما ر لیا یا کسی کا روپیہ لو ٹ لیا یا کسی سے رشوت لے لی یا کسی پر ظلم کر لیا، کسی پر سختی کر لی تو کیا ہے ہم نے نما ز تو پڑھ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کا فی رشوت دے دی ہے اللہ میاں اور ہم سے کیا چاہتا ہے۔ مگر اسلام اِس پر زور دیتا ہے کہ خواہ سیاسی امور ہوں خواہ اقتصادی اپنے محر کا ت کے لحاظ سے سب کے سب دین کا ہی حصّہ ہوتے ہیں اور دین کو بڑھا تے یا کم کرتے ہیں عبادت کو اچھا یا خراب بناتے ہیں اور قومی کام بھی اِسی طرح اخلاق کی حکومت کے نیچے ہیں جس طرح انفرادی احکام۔
اخلاق کا دائرہ صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ
قومیں اور حکومتیں بھی اِس میں شامل ہیں!
یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اصل ہے جس میں اِسلام
دوسری قوموں سے بالکل ممتاز ہے اور اسی امر پر عمل کر نے سے دُنیا میں صلح اور امان پیدا ہو تی ہے۔ باوجود اِس کے کہ یورپ انفرادی لحاظ سے انصاف اور آزادی میں ہمارے ملکوں سے بہت بڑھا ہؤا ہے۔ انگلستان میں جو سلوک ایک چور سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک بدمعاش سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک ڈاکو سے کیا جاتاہے، ہم ایک راستباز اور نیک آدمی سے بھی حکومت میں نہیں کرتے۔ غرض انفرادی طورپر وہ لوگ امن اور چَین دینے میں بہت بڑھے ہوئے ہیں لیکن جب حکومت کا معاملہ آتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو ڈپلو میسی تھی اِس سے جھو ٹ کا کیا تعلّق ہے یہ تو اپنے ملک کی خاطر ایسا کیا گیا ہے۔ اُنکی تاریخوں میں صفحے کے صفحے ایسے نکلیں گے جن میں یہ ذکر ہو گا کہ مَیں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا ،مَیں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا اور اس پر فخر کریں گے۔ غرض وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاق صرف افراد کیلئے ہیں حکومت کیلئے نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ قوموں کے لئے بھی اخلاق ہیں، حکومت کیلئے بھی اخلاق ہیں اور افراد کیلئے بھی اخلاق ہیں۔ اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُنکے اخلاق درست رہیں، اگر قوم چاہتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو تو اُسے قومی اور سیا سی طور پر بھی سچ بولنا پڑے گا۔ اُسے قومی اور سیا سی طور پر بھی انصاف کرنا پڑے گا، اُسے قومی او ر سیا سی طور پر بھی قوموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا پڑے گا۔ اور اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک محفوظ رہیں اور اُن کی عزّت قائم رہے تو انہیں انفرادی حقوق کے علاوہ قومی طور پر بھی حقوق اداکرنے پڑیں گے۔ تو یہ نمایا ں فرق ہے اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں۔ دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں ۔ ابھی حال میں ایک سیاسی لیڈر نے کسی جگہ پر بیان دیا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ سیا سی لیڈروں کو جھوٹ بولنے کا حق ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے تو علماء کو بھی یہ حق کیو ں نہیں دیا جاتا۔
اسلام کے لڑائیوں کے بارہ میں تفصیلی احکام
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس تعلیم
کی جو تشریح فرمائی ہے وہ اُن احکام سے ظاہر ہے جو آپؐ اُسوقت دیتے تھے جب آپؐ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کوجنگ پر بھیجتے تھے تو آپؐ اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ تقویٰ اللہ اختیا ر کر و اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور فرماتے تھے اُغْزُوْا بِاسْمِ اللّٰہِ وفِیْ سَبِیْلِ اللہِ45 اللہ کا نام لیکر اللہ کی خاطر جنگ کیلئے جا ؤ قَاتِلُوْا مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ 46 جو شخص اللہ کا کفر کرتا ہے اُس سے لڑو۔ اِس کے یہ معنے نہیں جس طرح بعض علماء غلط طور پر لیتے ہیں کہ تم کا فروں سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے تم سے لڑائی کی ہے اگر وہ مسلمان ہو جا ئے تو اُس سے لڑائی جا ئز نہیں۔ لڑائی کیلئے تو حکم ہے کہ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ یعنی جنگ کے لئے نکلنے کی تب اجازت دی گئی ہے جب تم سے پہلے لڑائی کی جائے۔ اس لئے کَفَرَ بِاللّٰہِ اس کے بعد جا کر لگے گا۔ اگر کسی شخص نے لڑائی شروع کردی مگر جب تمہا را لشکر پہنچا تو اُس نے اسلام کا اعلان کر دیا تو وہ ظلم ختم ہو گیا اب تم کو اُس سے لڑنے کی اجا زت نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ کا فر ہے اور اُس نے لڑائی نہیں کی تو اُس سے جا کر لڑپڑو۔
وَلَا تَغُلُّوْا47 اور قطعی طور پر مالِ غنیمت میں خیا نت یا سرقہ سے کام نہ لو۔
وَلَاتَغْدِرُوْا48 اور بد عہدی نہ کرو ،کسی کو دھو کا مت دو۔
اوّل تو مال غنیمت میں کسی قسم کی ناجائز دست اندازی نہ کرو اور پھر جو سزا دو یا اُن سے وعدے کرو اُن کو کسی بہا نے سے توڑنا نہیں۔ انگریزی حکومت سب جگہ اِسی طرح پھیلی ہے۔ پہلے چھوٹا سا معاہدہ کر لینا کہ چھاؤنی رہے گی اور ایک افسر رہے گا۔ پھر کہا کہ ہمارے فلاں سپاہی کو تمہا رے آدمیوں نے چھیڑا ہے اِس لئے اِرد گِرد بھی سات آٹھ گاؤں پر ہم اپنا قبضہ رکھیں گے تاتمہا رے لوگ ہمارے آدمیوں کو کچھ کہیں نہیں۔ پھر اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہمارے آدمی جو اِرد گِرد رکھے گئے تھے اُنکے ساتھ تمہارے آدمی لڑ پڑے ہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ دارالخلافہ پر اپنا قبضہ رکھیں تا فساد نہ ہو۔ پھر کہہ دیا تم نے فلاں حُکم دیدیا ہے اِس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت کا ہم پر بھی بُرااثر پڑتا ہے اِس لئے آئندہ جو حُکم دیا کریں ہم سے پوچھ کر دیا کریں۔
وَلَا تَمْثِلُوْا49 او ر مُثلہ کے معنے ہوتے ہیں مرے ہوئے کے ناک کان کاٹ ڈالنا۔ فرماتا ہے کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کا ٹ دیں تو تم اُنکے مُردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کرو۔
وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْداً۔50 اور کسی نا بالغ بچّے کو مت مارا کرو۔ یعنی صرف جنگی اور سیاسی سپاہی کو مارو جو لڑنے کے قابل نہیں ابھی نابالغ ہے اُسے نہیں مارنا کیو نکہ وہ بِالبداہت جنگ میں شامل نہیں ہؤا اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اُسی کے ساتھ لڑائی کی جا سکتی ہے جو لڑائی میں شامل ہؤا ہو۔
اب اِس کے مقابل پر جو کچھ پا رٹیشن میں ہؤا وہ کیا ہؤا کسِ طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچہ مارا گیا۔ یہ ایک انتہاء درجہ کا ظلم تھا جو۔ کیا گیا۔ اِس طرف کم اور اُدھر زیادہ مگر ہؤا دونوں طرف۔مجھے یا د ہے لاہور میں ایک رات کو آوازیں آئیں مَیں نے اپنے دفتر کا ایک آدمی بُلوایا اَور کہا جاؤ پتہ کرو معلوم ہو تا ہے کسی پر ظلم ہو رہا ہے۔ وہ دَوڑ کر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا کہنے لگا ایک ہندو تھا جسے مسلمانوں نے گھیر لیا تھا اور اُس کو مارنے لگے تھے۔ مَیں نے کہا پھرتم نے اُس کو بچایا کیوں نہیں؟ اُس نے کہا میں آپ کو خبر دینے آیا ہوں میں نے کہا وہ تو اب تک اُسے ما ر چکے ہونگے جا ؤ جلدی۔ چنانچہ جب وہ واپس گیا تو اُس نے کہا کہ وہ سڑک پر مَرا ہؤ ا پڑا تھا مگر اُس طرف اِس سے کئی گُنا زیادہ ظلم ہؤا ہے۔ہم جس زمانہ میں اُدھر تھے اور یہ لڑائیاں ہو رہی تھیں تو ہمیں پتہ لگتا رہتا تھا کہ کس طرح سے مسلمان مارے جا رہے ہیں، لڑکے مارے جا تے تھے، عورتیں ماری جاتی تھیں اورقسم قسم کے مظالم کئے جا تے تھے۔
پنڈت نہروسے ملاقات کا واقعہ
چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو مَیں جو پہلے اِس طرف آیا ہو ں تو اِسی غرض سے آیا تھا
کہ پنڈت نہرو صاحب یہاں آئے ہوئے تھے۔ مَیں نے سمجھا کہ اُس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہو رہاہے۔ سردار شوکت حیا ت صاحب کے ہاں وہ ٹھہر ے تھے مَیں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا۔مَیں نے اُن سے کہا ہم قادیان میں ہیں گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان یہ سمجھو تا ہؤا ہے کہ جو ہندو اِدھر رہے گا وہ پا کستانی ہے اور جو مسلمان اُدھر رہ جا ئے وہ ہندوستانی ہے اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے اور وہ لوگ حکومت کے وفادار رہیں۔ قائد اعظم اور گاندھی جی کے اِس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آرہے ہیں اِس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیا ر ہیں بشرطیکہ آپ ہمیں ہندوستانی بنائیں اوررکھیں۔ وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ آپ کیا رکھ رہے ہیں فسادات ہو رہے ہیں، لوگ ماررہے ہیں قادیان کے اِرد گِرد جمع ہورہے ہیں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے۔ کہنے لگے آ پ نہیں دیکھتے اِدھر کیا ہو رہا ہے؟ مَیں نے کہا اِدھر جو ہو رہا ہے وہ تو مَیں نہیں دیکھ رہا مَیں تو اُدھر سے آیا ہوں۔ لیکن فرض کیجیئے اِدھر جو کچھ ہو رہا ہے ویسا ہی ہو رہا ہے تب بھی مَیں آپ سے پو چھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اُس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہئے ہم ہیں ہند وستانی، آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہئے اِس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہا ں کے مسلمانوں پر سختی کریں گے؟ کہنے لگے آپ جا نتے نہیں لوگوں میں کتنا جوش پھیلا ہؤا ہے۔ مَیں نے کہا آپ کا کام ہے کہ آپ اِس جوش کو دبائیں۔ بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اُنکی حفاظت کرنی پڑیگی۔ وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو جوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیا ر ہیں آپ انہیں کہیں کہ جو ہتھیار ناجائز ہیں وہ چھوڑدیں۔ مَیں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے مَیں اُن کا لیڈر ہو ں اور مَیں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ جُرم نہ کرو، شرارتیں نہ کرو، فساد نہ کرو، اگرکسی نے ناجائز ہتھیار رکھا ہؤا ہے توکیا وہ مجھے بتا کر رکھے گا۔ مَیں تو انہیں کہتا ہوں جُرم نہ کرو پس وہ تو مجھ سے چھپائے گا او رجب اُس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہؤا ہے تو مَیں اُسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے۔ کہنے لگے آپ اعلان کردیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے۔ مَیں نے کہا اگر مَیں ایسا کہوں تو میری جماعت تو مجھے لیڈر اِسی لئے مانتی ہے کہ مَیں معقول آدمی ہوں۔ وہ مجھے کہیں گے صاحب! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کے اپنا لیڈر بنایا تھا یہ کیا بیوقوفی کررہے ہیں کہ چاروں طرف سے ہندواور سکھ حملہ کر رہے ہیں اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچائیں گے؟ کہنے لگے۔ کہئیے ہم بچائیں گے،حکومت بچائے گی۔ جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو مَیں نے کہا بہت اچّھا۔ مَیں اُسوقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ لے کر گیا تھا۔ مَیں نے کہا قادیان کے گِرد 80 گاؤں پر حملہ ہو چکا ہے جو ہندؤوں اور سکھوں نے جلا دیئے ہیں اور لوگ ماردئیے ہیں۔ مَیں یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب مَیں اُن سے کہوں گا کہ دیکھو! اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیو نکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گاؤں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہؤا توکیا گورنمنٹ نے اُسے بچایا۔ مَیں کہوں گا ارے گورنمنٹ خدا تھو ڑی ہی ہے۔اُسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کرو دوچار دن میں گورنمنٹ آجائے گی۔ پھروہ اگلے گاؤں پر ہا تھ رکھیں گے تین دن ہوئے یہ گاؤں جلا تھا کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی؟ مَیں کہوں گا خیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے مگر اس گاؤں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا۔ مَیں نے کہا یہ 80گاؤں ہیں۔ 80 گاؤں پر پہنچ کر وہ مجھے فاترالعقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں کہ جتنے گاؤ ں ہم پیش کر رہے ہیں اُن میں سے کسی پر بھی حملہ ہؤا تو حکومت نہیں آئی۔ شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم رکھوں گا۔ مَیں نے کہا کتنی دیر میں؟ کہنے لگے پندرہ دن میں۔ پندرہ دن میں ریلیں بھی چلا دیں گے تار یں بھی کھل جائیں گی، ڈاکخانے بھی کھل جائیں گے اور ٹیلیفون بھی جا ری ہو جائے گا۔ آپ چند دن صبر کریں۔ مَیں نے کہا۔ بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے توآخری حملہ قادیان پر ہؤا۔ جس میں سب لوگوں کو نکال دیا گیا۔ پھر ان حملوں میں بچّے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچّوں کے پیٹوں میں نیزے مار ما ر کے انہیں قتل کیاگیا۔ ہم نے اُسوقت تصویریں لی تھیں جن سے ظاہر ہو تا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں کا ن چِرے ہوئے ہیں پیٹ چِرا ہؤا ہے انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں۔چھوٹے چھوٹے بچّے چھ چھ مہینہ کے اور سال سال کے تھے جن پر یہ ظلم کیا گیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاتَقْتُلُوْا وَلِیْدًا اِ ن لوگوں نے تمہا رے بچوں کو ما را ہے اِن لوگوں نے تمہا ری عورتوں کو مارا ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک مسلمان عورت کا ایک پیَر ایک اونٹ سے باندھ دیا اور دوسرا پاؤں دوسرے سے باندھ دیا اور پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف چلا دیا تھا اور پھر چِیر کے ما ر ڈالا تھا،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمان عورتوں کی شرمگا ہوں میں نیزے مار مار کر اُن کو مارا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی پر جب کہ وہ مدینہ جانے لگیں اور وہ حاملہ تھی حملہ کیا اور اونٹ کی رسّی کاٹ دی جس سے وہ زمین پر گِر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا اور پھر وہ مدینہ میں فوت ہو گئیں، یہ وہ لوگ تھے جن سے بدلہ لینے کے لئے مسلمان نکلے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک انہوں نے بچّوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا، انہوں نے غیر لڑنے والوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا۔
سیرۃحلبیہ میں اِس کے علاوہ یہ نصیحت بھی درج ہے کہ آپ نے فرمایا۔ لَا تَقْتُلُوْا امْرَاَۃً 51 عورت کو بھی نہیں مارنا۔ پھر فرما یا وَلَا کَبِیْرًا فَانِـیًا52 کسی بڈھے کو نہیں مارنا۔ پھر فرمایا وَلَا مُعْتَزِلاً بِصَوْمَعَۃٍ53 کو ئی عبادت گذار ہو مسجد وں یا تکیوں میں بیٹھا ہؤا ہو اُس کو بھی نہیں مارنا۔ اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو نہ ما رنے کا حکم دیا ہے مگر یہاں گیا نی چُن چُن کر مارے گئے اور وہاں مولوی چُن چُن کر مارے گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کو نہیں چھیڑنا یہ تو خدا کا نام لے رہے ہیں۔ کیا تم خدا کا نام مٹانا چاہتے ہو؟ چاہے کسی طرح لیتے ہیں لیکن لیتے تو خدا کا نام ہیں اسلئے اِن کو نہیں چھیڑنا۔
پھر فرماتے ہیں۔ وَلَا تَقْرَبُوْ ا نَخْلاً۔54 کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی اُنکو نہ کا ٹ دینا کہ کسِی طرح دشمن کو تباہ کریں کیو نکہ تم اُن کو تباہ کرنے نہیں جا رہے صرف اُن کے ضرر کو دُور کرنے کے لئے جا رہے ہو تمہا را یہ کا م نہیں کہ اُن کی روزی بند کردو۔ پھر فرمایا وَلَاتَقْطَعُوْا شَجَرًا55 بلکہ کوئی درخت بھی نہ کا ٹو۔ کیو نکہ مسافر بیچارہ اس کے نیچے پناہ لیتاہے، غریب بے چارے اُس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں اور تم لوگ لڑنے والوں سے لڑنے کے لئے جارہے ہو۔ اِس لئے نہیں جارہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے اِس لئے اُن کو نہیں کا ٹنا۔ پھر فرمایا۔ وَلَا تَھْدِمُوْابِنَاءً 56 کوئی عمارت نہ گراناکیو نکہ ان کے گرانے سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ان کو تکلیف ہو گی۔
اب دیکھو پچھلے فسادات میں کتنے مکان جلائے گئے۔ لاہو ر میں ہزاروں مکان جلا ئے گئے، امرتسر میں ہزاروں مکان مسلمانوں کے جلائے گئے، بلکہ کوئی شہر بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے مکانات دس بیس یا تیس فیصدی نہ جلائے گئے ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ لَا تَھْدِمُوْابِنَاءً۔ایک مکان بھی تم کو گِرانے کی اجازت نہیں کیو نکہ تم اس لئے نہیں جا رہے کہ لوگو ں کو بے گھر کردو بلکہ اسلئے جا رہے ہو کہ ظلم کا ازالہ کرو اس سے آگے تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھا نا۔
اِسی طرح آپؐ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور خوف پیدا نہ کرنا۔ فوجیں جاتی ہیں تو اُن کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہ اتنا ڈرائیں کہ اُن کی جان نکل جائے۔
جنر ل ڈائر کے ہندوستانیوں پر مظالم
چنانچہ20-1919ء میں امرتسر میں ایک جگہ پر کسی عیسائی عورت
کو کسی ہندوستانی نے ذرا سا مذاق کردیا۔ اُس وقت انگریزی حکومت نے جنرل ڈائر کو مقرر کیا اور اُس نے حکم دیا کہ ہر شریف سے شریف اور بڑے سے بڑا آدمی یہا ں سے گزرے تو گھسٹتا ہؤا جا ئے۔ بڑے بڑے لیڈروں کو سپاہی پکڑ کر گِرا دیتے تھے اور اُسے کہتے تھے کہ یہاں سے گھسٹتا ہؤا چل۔ پھر مُجرم پیش ہوتے تھے تو انہیں بغیر کسی تحقیق کے بڑی بڑی سزائیں دی جاتیں تالوگوں میں خوف پیدا ہو۔
ایک انگریز مجسٹریٹ کا واقعہ
ہما رے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا۔ ایک شخص نے انگریز آفیسر سے لڑائی کی تھی۔
مسٹر ما نٹیگوجو پہلے وزیرِ ہند تھے انہوں نے خود ذکر کیا کہ یہاں ایک انگریز افسر تھا وہ کسی سے ذرا تُرش کلامی سے بولا تھا تو ہم نے اُ سے پہلی سزادی تھی۔اِس سے پہلے کسی افسر کو سزا نہیں دی تھی۔ وہی اُن دنو ں بدل کے وزیر آباد میں لگا تھا۔ حا فظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی شہر میں اچھا رسوخ رکھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا حُسنِ سلوک تھا۔ مسلمانو ں میں سے اکثر اُن کے شا گرد تھے اور ہندو بھی اُن کا بڑا ادب کرتے تھے۔ وہ گلی میں سے گزر رہے تھے اور اُس دن رولٹ ایکٹ کے خلاف جلسہ ہو رہا تھا۔ ہندو مسلمان اکٹھے ہو کر کہہ رہے تھے کہ بائیکاٹ کرو، ہڑ تالیں کرو، یہ کرو وہ کرو۔پاس سے یہ گزرے تو لوگوں نے کہا۔ آئیے آئیے مولوی صاحب !آپ نے نہیں تقریر کرنی۔ انہوں نے کہا مَیں نے تو تمہا رے خلاف تقریر کرنی ہے اگر تم نے وہ تقریر سُن لینی ہے تو چلو۔انہوں نے کہا۔ ہمیں یہ بھی منظور ہے آپ خدا کے لئے ضرور تشریف لے چلیں۔ وہاں کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا۔ تم ہڑتال کا وعظ کر رہے ہو لیکن تم نے سال سال کا غلّہ گھر میں رکھا ہؤا ہے، ہڑتال کر کے تمہا را کیا نقصان ؟روٹی تمہارے گھر میں موجو د ہے، ایندھن تمہارے گھر میں موجود ہے ،بھینسیں تمہا رے گھروں میں ہیں، گھی تمہارے گھر میں موجود ہے، مصالحہ تمہارے گھروں میں ہے، دالیں تمہا رے پا س موجود ہیں تین دن بھی ہڑتال ہو ئی تو تمہیں پتہ نہیں لگے گا۔ لیکن وہ بیوہ عورت جو چکّی پِیس کر شام کو کھانا کھاتی ہے اُس کا کیا بنے گا تمہا ری اس ہڑتال سے وہ مرے گی تمہا را تو نقصان نہیں۔ یہ کہہ کے بیٹھ گئے۔ انہوں نے اِس کو برداشت کر لیا اور کہا اچھی بات ہے ہم ہڑتال نہیں کریں گے۔ جب رولٹ ایکٹ کے بعد ہر جگہ مجسٹریٹ مقرر کئے گئے اور مُجرم پکڑے گئے تو اُن کا نام بھی پولیس نے ڈائریوں میں بھیجا کہ انہوں نے تقریر کی تھی لیکن آگے لکھا کہ انہوں نے تقریر یہ کی کہ ہڑتال نہیں کرنی چاہئے اِس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ حافظ صاحب بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ اُس نے کہا۔ آپ نے تقریر کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو حکومت کی تائید میں ہیں حافظ صاحب نے کہا۔ مَیں نے تقریر کی تھی مگر.....اُس نے کہا ہم مگر وگر نہیں جانتے چھ مہینے قید۔ انہوں نے کہا۔ مَیں تو...... کہنے لگا۔ مَیں مَیں کو ئی نہیں۔ تم نے تقریر کی چھ مہینے قید۔ مجھے پتہ لگا تو مَیں نے گورنر کے پاس اپنا آدمی بھجوایا اور مَیں نے کہا۔ ایسے احمق تم لوگ ہو کہ وہ تو یہ تقریر کرتے ہیں کہ ہڑتال نہ کرو اور لوگوں کو سمجھاتا ہے اور تم اُس کو بجائے انعام دینے کے سزادیتے ہو۔ خیر یہ ایسی حیرت انگیز بات تھی کہ آدمی نے مجھے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے اُسی وقت تار کے ذریعہ پولیس کی ڈائری منگوائی۔مسل میں دیکھا تو لکھا تھا کہ تقریر یہ کی کہ تم کیو ں ہڑتالیں کرتے ہو اِس سے بیوائیں اور غریب مارے جاتے ہیں۔ اِس پر اُس نے تار کے ذریعہ احکا م دیئے کہ مو لوی صاحب کو چھوڑ دیا جا ئے اور سمتھ کو اُس نے ڈسمس کردیا کہ تم انگلینڈ واپس چلے جا ؤ۔ تو یہ حال تھا کہ یہ پوچھنا بھی پسند نہ کیا تقریر کی کیا؟ بس تقریر کرنا کافی ہے چھ مہینے قید۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ ڈرانا نہیں۔
ایامِ غدر میں انگریز افسروں کی بربریّت
غدر کے واقعات دیکھ لو وہا ں بھی تخویف ہی نظر آتی ہے۔
ہما ری نانی اماں سنایاکرتی تھیں کہ غدر کے وقت مَیں چھوٹی تھی۔ میرے والد بیمار ہو گئے فوج میں ملازم تھے لیکن اُن دنوں بیمار تھے اور ڈیڑھ ما ہ سے چارپائی سے نہیں اُٹھے تھے میری پانچ چھ سال کی عمر تھی، ہلدی کی طرح اُن کی شکل ہو گئی تھی چارپائی پر پڑے تھے۔ جب انگریز فوج آئی یکدم سپاہی اور انگریز افسر اندر آئے او روہ اسی طرح گھروں میں گھستے تھے ساتھ کچھ ہندوستانی جاسوس لئے ہوئے تھے افسر نے کہا یہاں کو ئی ہے؟ انہوں نے میرے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھائی کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھا۔ انہوں نے کہا مَیں تو بیمار پڑا ہوں کہیں گیا ہی نہیں اِس پر افسر نے پستول نکالا اور اُسی وقت انہیں گولی مار کر ہلا ک کردیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ایک صحابیؓ پر شدید نا راضگی
لیکن وہاں یہ حکم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عزیز اور آپؐ کا ایک مقرّب صحابیؓ ایک جنگ پر جاتا ہے اور جب
وہ ایک شخص کو مارنے لگتا ہے تو وہ کہتا ہے صَبَوْتُ مَیں صابی ہو گیا ہوں۔وہ لوگ اسلام کا نام نہیں جا نتے تھے اور مسلمانوں کو صابی کہتے تھے۔ صَبَوْتُ کا یہ مطلب تھا کہ مَیں مسلمان ہو تا ہوں۔ غرض وہ اسلام سے اتنا ناواقف تھا کہ نام بھی نہیں جا نتا تھا۔ کہنے لگا صَبَوْتُ۔ مگر انہوں نے اُس کو ما ر ڈالا۔ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا۔ تم نے اُسے کیوں مارا۔ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ!اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسلام کیا ہو تا ہے۔ اُس نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ صَبَوْتُ۔ آپؐ نے فرمایا تم نے اس کا دل چِیر کر دیکھا تھا اس کو نہیں پتہ تھا کہ اسلام کا نام کیا ہے لیکن اس کا مطلب تو یہی تھا کہ مَیں اسلام میں داخل ہوتا ہوں۔ تم نے اس کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللہِ! مَیں نے مارا اِس لئے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔ آپؐ نے فرمایا۔ نہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا تُو قیامت کے دن کیا کرے گاجب خدا تجھ سے کہے گا کہ اِس شخص نے یہ کہا اور پھر بھی تُو نے اُسے قتل کردیا۔ اسامہؓ آپ کے نہا یت ہی محبوب تھے۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس نا راضگی کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا۔اے کا ش!مَیں اس سے پہلے کا فر ہوتا او رآج مَیں نے اسلام قبول کیا ہوتا تاکہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا راضگی کا مورد نہ بنتا۔57 اب کُجا یہ احتیا ط کا حکم اور کُجا یہ کہ یونہی مارے چلے جا تے ہیں تاکہ سارے ملک میں خوف اور ڈر پیدا کردیا جائے۔
اسلام کی طرف سے مفتوحہ ممالک
کے لئے سہولتیں مہیّاکرنے کاحکم
اِسی طرح فرماتے ہیں کہ جب مفتوحہ ممالک میں جا ؤ تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی
ہو تکلیف نہ ہو ۔ اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اِس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رُکے۔ ایک صحابیؓ کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اِس طرح نکلا کہ لوگوں کے لئے گھروں سے نکلنا اورراستہ پر چلنا مشکل ہو گیا۔ اِس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا یا راستہ کو روکا اُس کا جہا د جہاد ہی نہیں ہؤا۔ 58
دُنیوی نوبت خانوں کے ذریعہ سپاہیوں
میں جنونِ جنگ پیداکرنے کی کو شش
دنیا کے نوبت خانے جنونِ جنگ پیدا کرنے کیلئے اور سپا ہ میں جوش پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔
اِس لئے کبھی دشمن کے مظالم سُنائے جا تے ہیں کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ گویا اس سے ملک کو سخت خطرہ لا حق ہو گیا ہے۔کہیں اپنی سپاہ کی تعریف کے پُل باندھے جاتے ہیں کہ وہ یوں ملک کے ملک تسخیر کرے گی۔ کبھی فتح کے وقت سپاہیوں کو لو ٹ مار کی تلقین کی جاتی ہے تا کہ اُن کے حوصلے بڑھیں۔ کبھی اُن کے ظلم پر پر دہ ڈالا جاتا ہے غرض ایک دیو انگی پیدا کی جاتی ہے۔
اِسلام جنون اور وحشت کو دُور کرتاہے
مگر اسلامی نو بت خانہ جیسا کہ میں نے بتایاہے وہ ایسے
اعلا ن کرتا ہے کہ جس سے جنون کم ہو اور وحشت دُور ہو۔ مگر باوجود اس کے وہ ایسے اخلاقی معیا روں پر انہیں لے جاتا ہے کہ اُن کے حوصلے شیروں اور بازوں سے بڑھ جاتے تھے۔چنانچہ اسلام کہتا ہے تم کو مکا ن روکنے کی اجازت نہیں، تم کو سڑکیں روکنے کی اجازت نہیں، تم کو سختی کی اجازت نہیں، تم کو عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بڈّھوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو عام شہریوں کو مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بد عہدی کرنے کی اجازت نہیں، تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کومارنے کی اجازت نہیں ،تم کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں۔ گویا اُس کو ہیجڑا بنا کے رکھ دیتا ہے اور پھر اُمید رکھتا ہے کہ جا اور دشمن کو فتح کر اور پھر اُسکا نقشہ کھینچتا ہے کہ چونکہ ہم نے اُس کو جن باتوں سے روکا ہے وہ سب غیر اخلا قی ہیں اور اُس کی ذہنیت ہم نے اخلاقی بنا دی ہے اس لئے باوجود اسے غیر اخلاقی باتوں سے روکنے کے اُسکی بہادری میں فرق نہیں پڑا۔چنانچہ فرماتا ہے۔ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ59 اُن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے شہید ہو کر اپنے گوہرِ مقصود کو پا لیا اور وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی اِس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب انہیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونے کی سعادت حاصل ہو تی ہے۔ دیکھو !تم کہتے ہو کہ شرابیں ہم اس لئے پلاتے ہیں تا ہمارا سپاہی پاگل ہو جائے۔ تم کہتے ہو ہم اُسے لُوٹنے کی اس لئے اجازت دیتے ہیں کہ اُس کے اندر جوشِ جنون پیدا ہو اور رغبت پیدا ہو ہم اس لئے جھوٹی خبریں مشہور کرتے ہیں تا دشمن بدنام ہو۔
جنگِ عظیم میں جرمنوں کے خلاف
انگریزوں کا جھوٹا پروپیگنڈا
مثلاًانگلستان میں مشہور کیاگیاکہ جرمن میں جو صابن استعمال ہوتا ہے وہ سب انگریز مُردوں کی چربی
سے تیا ر کیا گیا ہے۔بعد میں مَیں نے انگریزوں کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں لکھا تھا کہ یہ جھوٹ ہم نے اِس لئے بولا کہ تا لوگوں میں جوش پیدا ہو۔ اِسی طرح کہا گیا کہ جرمن والے جو جہاز ڈبوتے ہیں اُن میں ڈوبنے والے سپاہیوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں اور انہیں مارتے ہیں اور اس خبر کو بھی خوب پھیلا یا گیا۔ جب جنگ ختم ہوگئی تو انگریزی نیوی نے ایک ڈھال تحفہ کے طور پر جرمن آبدوز کشتیوں کے افسر کو بھجوائی اور لکھا کہ ہم اس یادگار میں یہ تحفہ تم کو بھجواتے ہیں کہ جنگ کے دِنوں میں تم نے ہم سے نہا یت شریفانہ سلوک کیا۔ تو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے بعدمیں انہوں نے خود مانا کہ ہم نے یہ جھوٹ اس لئے بولا تھا کہ قوم میں جرمنی کے خلاف غم و غصّہ پیدا ہو۔ مگر اسلام سچائی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِ لُوْا اِعْدِ لُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ کوئی قوم کتنی ہی دشمنی کرے تم نے اُس پر جھوٹ نہیں بولنا ،تم نے اُس پر افتراء نہیں کرنا ، تم نے اُس پر الزام نہیں لگا نا بلکہ سچ بولنا ہے۔ہا ں زیادہ سے زیادہ تم اتنا کر سکتے ہو کہ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کر لو ،اِس سے زیا دہ نہیں لیکن اس صورت میں بھی اگر وہ مثلاً تمہارے ناک کان کاٹتے ہیں ،تمہا ری عزّت پر حرف لاتے ہیں توتم مارنے کے توجنگ میں مجاز ہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں کہ مُردہ کی ناک کان کاٹو کیو نکہ مُردہ کی زندگی اب ختم ہو چکی ہے۔تم زندہ سے اپنا بدلہ لے سکتے ہو مُردہ سے بدلہ لینے کی تم کو اجازت نہیں۔
حضرت مالکؓ کی غیر معمولی
شجاعت اور اُن کا واقعہ شہا دت
پھر فرماتا ہے چونکہ ہم نےاخلا قی بنیا دوں پر مسلمانوں کو قائم کردیا ہے اس لئے مسلمان سپاہی ایسا ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ
قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ کوئی تو ایسا ہے کہ اُس نے اپنے وعدے پورے کر دیئے ہیں اورکوئی ابھی انتظار میں ہے کہ جب بھی موقع ملے گامَیں اپنا سب کچھ قربان کرکے پھینک دونگا۔ چنا نچہ مشہور واقعہ ہے کہ بدرکی جنگ کے بعد جب صحابہؓ نے آکر بیان کیا کہ لڑائی ہوئی تو ہم ُیوں لڑے او ر ہم نے یوں بہادری دکھا ئی تو ایک صحابی ؓ جن کا نام مالکؓ تھا وہ اتفاقاً لڑائی میں نہیں گئے تھے کیو نکہ بدر کی جنگ میں جا نے کا سب کو حکم نہیں تھا۔ جب وہ یہ باتیں سنتے تھے تو انہیں غصّہ آجاتا تھا اور وہ مجلس میں ٹہلنے لگ جا تے تھے اور کہتے تھے کیا ہے یہ لڑائی جس پر تم فخر کرتے پھرتے ہو موقع مِلا تو ہم دکھائیں گے کہ کس طرح لڑا جاتا ہے۔ اَب بظاہر غرور کرنے والا آدمی بُز دل ہؤا کرتا ہے مگر وہ اخلاص سے کہتے تھے۔ جب اُحد کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی لڑنے کا موقع دے دیا جب فتح ہو گئی تو چونکہ وہ بھوکے تھے کھا نا انہوں نے نہیں کھا یا تھا چند کھجوریں اُن کے پاس تھیں جنگ کے میدان سے پیچھے آکر انہوں نے ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھا نی شروع کیں۔ اتنے میں پیچھے سے خالد نے آکر حملہ کیا اور اسلامی لشکر اس اچانک حملہ سے تِتّر بِتّر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر مشہو ر ہو گئی کہ آپؐ شہید ہو گئے ہیں۔ حضرت عمرؓ پیچھے آکے ایک پتّھر پر بیٹھ کر رونے لگ گئے۔مالک ٹہلتے ٹہلتے جو وہاں پہنچے تو کہنے لگے عمرؓ!تمہا ری عقل ماری گئی ہے خدا نے اسلام کو فتح دی ،دشمنوں کو شکست دی اور آپ ابھی رو رہے ہیں۔ عمرؓ کہنے لگے مالکؓ !تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہؤا؟ انہوں نے کہا کیا ہؤا؟ کہنے لگے پہاڑ کے پیچھے سے یکدم دشمن نے حملہ کیا، مسلمان بِالکل غافل تھے حملہ میں لشکر بالکل تِتّر بِتّر ہو گیا اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ چند کھجوریں جو اُن کے پاس تھیں اُن میں سے ایک اُن کے ہا تھ میں باقی تھی وہ کھجور انہوں نے اُٹھائی اور اُٹھا کر زمین پر ماری اور مار کے کہنے لگے۔ میرے اور جنّت کے درمیا ن
اِس کھجو ر کے سوا اَور کیا روک ہے۔ غرض وہ کھجو ر انہوں نے پھینک دی اورپھر کہنے لگے عمرؓ!اگر یہ بات ہے تو پھر بھی اِس میں رونے کی کونسی بات ہے جدھر ہمارا محبوب گیا اُدھر ہی ہم بھی جائیں گے۔ یہ کہا اور تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کر دیا اور اس بے جِگری سے لڑے جب ایک ہا تھ کاٹا گیا تو دوسرے ہا تھ سے تلوار پکڑ لی، دوسرا ہاتھ کاٹا گیا تو منُہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرنی شروع کی۔جب انہوں نے مُنہ بھی زخمی کر کےخَود وغیرہ کاٹ دی تو لاتیں ہی مارنی شروع کردیں، آخر انہوں نے ٹا نگیں بھی کاٹ دیں۔ جنگ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی بہن سے پتہ لگا کہ وہ رہ گئے ہیں تو آپؐ نے فرما یا اُن کی تلا ش کرو۔ صحابہؓ تلا ش کرنے گئے تو انہوں نے کہا ہم نے کہیں اُن کی لاش نہیں دیکھی۔ بہن نے کہا وہ وہاں گئے ہیں اور اِس نیت سے گئے ہیں کہ مَیں وہاں شہادت حاصل کرونگا اَور کہیں وہ نہیں دیکھے گئے ضرور وہیں ہو نگے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ضرور ہونگے تم جا ؤ اور تلا ش کرو۔ چنا نچہ وہ پھر گئے او ر سب جگہ تلاش کرتے رہے کہنے لگے۔ یَارَسُوْلَ اللہِ ! اور تو کہیں پتہ نہیں لگتا ایک لا ش کے ستّر ٹکڑے ہم کو ملے ہیں وہ اگر ہو تو ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بہن کو کہا کہ جا ؤ اور دیکھو۔ اُن کی ایک اُنگلی پر نشان تھا۔ بہن نے اُسے پہچان کر کہا ہاں! یہ میرے بھائی کی لا ش ہے۔60 یہ کتنا عظیم الشان بہادری کا مقام ہے اور کتنی بڑی قربانی ہے۔ کیا دنیا کی کوئی تاریخ اس قسم کی مثال پیش کر سکتی ہے۔ لشکر شکست کھاتے ہیں تو بھا گتے ہوئے سانس بھی نہیں لیتے پھر ہار تے ہیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے مگر عمرؓ جیسا بہادر روتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ کیا بیہودہ بات ہے۔ کیا تم اِس لئے روتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیا لینا ہے۔
سورۃ العٰدیٰت کی لطیف تفسیر
پھر نوبت بجا کر سوار تو سوار گھوڑوںمیں بھی جوش پیداکیا جاتا تھا۔ اِسی طرح اِس
نوبت خانہ سے بھی کام لیا گیا ہے۔فرماتا ہے وَ الْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاۙ۔فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاۙ۔ فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاۙ۔فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًاۙ۔فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًاۙ۔61
اِن آیا ت میں اللہ تعالیٰ اسلامی لشکر کے متعلق یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کس شکل اور شان سے مخالفین کے مقابل پر نکلے گا۔فرماتا ہے۔ وَ الْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا ۔عادی کے معنے ہوتے ہیں دَوڑنے والا اور ضَبْحٌ گھوڑے کی دَوڑوں میں سے ایک خاص دَوڑ کانام ہے جس میں گھوڑا سرپٹ دَوڑ پڑتا ہےپس وَ الْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دَوڑتے وقت ضَبح چال اختیار کرتے ہیں۔ یعنی شدّتِ جوش سے سر پٹ دَوڑپڑتے ہیں اور یہ طریق ہمیشہ فخر اور اظہارِ بہادری کے لئے اختیا ر کیا جاتا ہے۔ ضَبْحٌ کے دوسرے معنے گھوڑے کا اگلے پاؤں لمبے کرکے ما رنا ہوتا ہے جس سے اُس کے بازوؤں اور بغلوں میں فا صلہ ہو جا ئے۔ پس دوسرے معنے اس کے یہ ہو نگے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہا دت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اگلے پاؤں لمبے کر کے مارتے او ر اُچھل کر دَوڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں اُن کی بغلوں اور بازوؤں میں لمبا فاصلہ ہو جاتا ہے۔ یہ چیز شدّتِ شوق پر دلا لت کر تی ہے اوریہ ظاہر ہے کہ گھوڑے کے اندر تو کوئی شدّتِ شوق نہیں ہوتی گھوڑے میں شدّتِ شوق اپنے سوار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ میرے سوار کے اند ر جوش پایا جاتا ہے تو گھو ڑا بھی اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے۔
تیسرے معنے دَوڑتے وقت گھوڑے کے سینہ سے آواز نکلنے کے ہیں جو عزمِ مُقبلانہ پر دلالت کر تی ہے۔ جب نہ سوار کو موت سے دریغ ہو تا ہے نہ گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کرتاہے۔ گو بظاہر اس جگہ گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مُراد سواروں کی حالت کا بتانا ہے کیونکہ گھوڑا اپنے سوار کی قلبی حالت سے متأ ثر ہوتا ہے اور یہ اُسی وقت ہو تا ہے جبکہ سوار کی دِلی حالت اُس کے تمام جوارح سے ظاہر ہونے لگے۔ مثلاً دَوڑتے ہوئے سوار شوق کی شدّت کی وجہ سے ایک ہی وقت میں ایڑیاں مارنے لگے منہ سے سیٹی بجا نے لگے یا اُسے شاباش کہنے لگے۔ اِسی طرح باگ کو کھینچ کھینچ کر چھوڑے آگے کو جُھک جا ئے تو گھو ڑا سمجھ جاتا ہے کہ میرے سوار کی حالت
والہانہ ہو رہی ہے او ر مجھے بھی ویسا ہی بننا چاہئے تب وہ خود بھی اُس کے دل کی کیفیت کے مطابق دَوڑنا شروع کردیتا ہے۔ پس اِس آیت میں مسلمان سواروں کے دل کی کیفیت کی شدت گھوڑوں کی حالت سے بتائی ہے کہ ان کے جذبات اِس قدر بھڑک رہے ہو نگے کہ اُس کا اثر خود گھوڑوں پر بھی جا پڑے گا اور وہ اپنے سوار کی قلبی کیفیت کے مطابق قابو سے باہرہو جائیں گے او ر کودیں گے او رلڑائی میں جاتے ہوئے گلے سے اُن کی آوازیں نکلیں گی او ر لمبے لمبے ڈگ62 بھرتے ہوئے لڑائی کے میدان میں اِس طرح جائیں گے کہ گویا کسی بڑی شادی میں شامل ہونے کے لئے جا رہے ہیں۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان مجا ہد کثیر التعداد دشمن سے ڈرے گا نہیں بلکہ جنگ کو ایک نعمت غیر متر قبہ سمجھے گا او ر یقین رکھے گا کہ اگر مَیں ما را گیا تو جنت میں جاؤنگا او ر اگر زندہ رہا تو فتح حاصل کرونگا کیونکہ اِن دو کے سِوااَور کوئی تیسری صورت مسلمان کے لئے نہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار سے کہو کہ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ 63 یعنی تم جو ہم سے دشمنی کرتے ہو اور ہم پر حملے کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہیں ہمارے متعلق کیا امید ہے؟ دو ہی چیزیں ہماری ہیں تیسری تو ہو نہیں سکتی۔ یا تو یہ کہ ہم زندہ رہیں تو جیت جائیں اور یا ہم ما رے جائیں اور ّجنت میں چلے جائیں۔ اِن دونوں میں سے کونسی چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہے۔ آیا ہمارا جیت جا نا ہمارے لئے نقصان دہ ہے یا ہمارا جنت میں چلے جا نا، دونوں ہمارے لئے برابر ہیں۔ ہم زندہ رہے تو فتح حاصل کریں گے اور اگر مَر گئے تو جنت میں جائیں گے۔ پس تم تو جو بھی ہمارے متعلق خواہش رکھتے ہو وہ ہمارے لئے اچھی ہے۔ تم کہتے ہو مر جا ؤ حالانکہ اگر ہم مر گئے تو ہم جنّت میں چلے جائیں گے۔
ایک صحابیؓ کا بیان کہ اُسے اِسلام
قبول کرنے کی کیسے تحریک ہوئی؟
چنانچہ ایک صحابیؓ کے متعلق آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں آخر میں مسلمان ہؤا تھا اور میرے مسلمان ہونے کی
وجہ یہ تھی کہ میں ایک جگہ ایک قبیلہ میں مہمان تھا۔انہوں نے کہا ہم نے کچھ مسلمان گھیرے ہیں چلو تم بھی لڑائی میں شامل ہو جاؤ۔ مجھے اُس وقت مسلمانوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ مَیں اپنے دوستوں کی خاطر چلا گیا۔ وہاں انہوں نے ایک صحابیؓ کو نیچے اُتارا اوراُس کے سینہ میں نیزہ مارا۔ جب نیزہ مارا گیا تو اُس نے کہا فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ۔64 مجھے کعبہ کے ربّ کی قسم مَیں کامیاب ہو گیا۔ کہنے لگا مَیں سخت حیران ہؤا۔ مجھے مسلمانوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا۔ مَیں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ کوئی پاگل تھا کہ تم نے اس کو نیزہ مارا اور یہ گھر سے دُور بے وطنی میں اوراپنے رشتہ داروں سے الگ بجا ئے اِس کے کہ روتا چِلّاتا یہ کہتا ہے کہ مَیں کا میا ب ہو گیا۔ کامیابی اِس نے کونسی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہامسلمان پاگل ہی ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ موت میں بڑی خوبی ہے۔ جب انہیں مارا جا ئے تو کہتے ہیں ہم کا میا ب ہو گئے۔ وہ کہتا ہے میرے دل میں یہ خیا ل پیداہؤا کہ ایسی قوم کو تو دیکھنا چاہئے چنانچہ مَیں چوری چوری نکلا اور مدینہ گیا۔ وہاں دوتین دن رہنے کے بعد اسلام کی صداقت ثابت ہو گئی اور مَیں مسلمان ہو گیا۔ پھر انہوں نے کُرتا اُٹھا یا اور کہنے لگا دیکھو! میرے بال کھڑے ہیں مَیں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو بال کھڑے ہو جا تے ہیں کیونکہ وہ ایسا نظّارہ تھا کہ جنگل میں ایک شخص اپنے وطن سے دُور فریب اور دھو کا بازی سے مارا گیا مگر بجائے اس کے کہ وہ غم کرتا روتا اور اپنے بیوی بچوں کو یاد کرتا وطن کو یا د کرتا وہ کہتا ہے فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃ۔ کعبہ کے ربّ کی قسم! مَیں کا میا ب ہو گیا۔
اِس کے مقابلہ میں کا فر کو کیا اُمید ہو سکتی ہے اُس کے لئے بھا گنا تو جُرم ہے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ بھا گو گے تو جہنم میں جاؤ گے اِس لئے مسلمان تو بھا گ سکتا ہی نہیں وہ آخر وقت تک کھڑا رہے گا۔ اس کے لئے صرف دو ہی صورتیں ہیں تیسری کوئی صورت نہیں۔ یا تو وہ مر جائے گا او ر یا جیت جائے گا اور دونوں اُس کے لئے اچھی باتیں ہیں۔ جیتے گا تو جیت گیا اور مرے گا تو جنت میں جا ئے گا۔ اور کافر یا تو مر گیا اور دوزخ جائے گا اور یا بھا گے گا اور شکست کھائے گا۔ اور جسے ایک طرف اپنی شکست کا خطرہ ہو اور دوسری طرف موت کا اُ س سے بہادری کب ظاہر ہو سکتی ہے۔
کوئٹہ میں ایک فوجی افسر سے ملاقات
تین چار سال کی بات ہے مَیں کوئٹہ گیا تو وہاں مجھے کچھ فوجی افسر
ملنے آئے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اِسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا مَیں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے ورنہ اس کے بغیر پا کستان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ دوسرے دن میرے پر ائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صا حب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے الگ بات کرنی ہے۔ مَیں نے اُن کو لکھا کہ آپ کو کو ئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو کَل مجھے مِل کر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک پر ائیویٹ بات کرنی ہے۔ مَیں نے کہا لے آؤ چنا نچہ وہ آگئے۔ مَیں نے کہا فرمائیے آپ نے کو ئی الگ بات کرنی تھی۔ کہنے لگے جی ہاں۔ مَیں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے او ر اِس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے یہ بات آ پ نے کِس بنا ء پر کہی تھی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے؟ مَیں نے کہا مَیں خوب جا نتا ہوں کہ اُس کے پاس فوج زیادہ ہے۔ کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جا نتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی اُن کے پاس ہیں؟ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔ کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیا ر کر کے دے دیتی ہے؟ مَیں نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پا س اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود جو ہمارا حصّہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے ہا ں ہوائی جہاز وں کے چھ سکوارڈن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے۔مَیں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے۔کہنے لگے جن کا لجوں میں وہ پڑھے ہیں اُنہی کالجو ں میں ہم بھی پڑھے ہیں ہمیں اُن پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں۔ مَیں نے کہایہ بھی ٹھیک ہے۔ کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور اُنکی زیادہ ہے، گولہ بارود اُن کے پاس زیادہ ہے، توپیں اُن کے پاس زیادہ ہیں، ہو ائی جہا ز اُن کے پاس زیادہ ہیں، آمد اُن کی زیادہ ہے اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے ہیں، ہمارے اند ر کوئی خاص لیا قت نہیں تو پھر آپ نے کس بنا ء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے؟ میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللہِ کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجا یا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اِسی لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہو کر ڈرا نہ کرو۔ خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اسلئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر توکّل رکھیئے۔ بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کوطاقت دےگا۔ پھر مَیں نے کہا۔ مَیں تم کو ایک موٹی بات بتاتا ہوں۔تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے گئے تو جنت میں جا ؤ گئے۔ کہنے لگا۔ جی ہاں! مَیں نے کہا اب دو ہی صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہوگے تو جیت جاؤ گے اور اگر مارے جاؤ گے تو جنت میں چلے جا ؤ گے اب بتاؤ کیا تمہا رے اند ر مرنے کا کوئی ڈر ہو سکتا ہے؟ کیو نکہ تم سمجھتے ہو کہ اگرمَیں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور لڑتا رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جیت جا ؤں گا یا ّجنت میں چلا جا ؤنگا۔ پس تمہا ری بہادری کا ہندو کسِ طرح مقابلہ کر سکتا ہے وہ تویہ جا نتا ہے کہ اگر مَیں مر گیا تو بندربن جاؤنگا یا سؤر بن جا ؤنگا یا کُتّا بن جاؤنگا۔ یہ اُس کا تناسخ ہے۔ تم تو یہ جانتے ہو کہ مر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مرکے کُتّا بن جاؤنگا ،سؤر بن جاؤنگا، بندر بن جاؤنگا۔ تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اُسے تو کُتّا یا سؤر بننے کا ڈر لگا ہؤا ہے اور تم میں جنت جا نے کا شوق ہے تمہا را اور اُس کا مقابلہ کیسے ہو سکتاہے۔تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کیلئے دلیری کے اتنے مواقع پیدا کردیئے گئے ہیں کہ اُسکو کو ئی گزند آہی نہیں سکتی۔
اِس کے بعد فرما تا ہے۔ فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا ۔ مُوْرِیْ کے معنے آگ نکالنے کے ہوتے ہیں اور قَدْحًا کے معنے ہوتے ہیں ما رکر۔پس فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًاکے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایک چیز کو دوسری سے ما ر کر آگ جلا تے ہیں۔ جیسا کہ پہلے زمانہ میں لوگ چقماق سے آگ جلایا کرتے تھے۔ اِس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ گھوڑوں کے سُموں سے تیز دَوڑنے کی وجہ سے جو آگ پیدا ہو۔ لیکن اس جگہ پر سُموں کے معنے اس لئے نہیں کئے جا سکتے کہ وَالْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا میں اِس کا ذکر آچکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ گھوڑے دَوڑتے ہیں اور انہیں سانس چڑھ جاتا ہے اورجس کو سانس چڑھے گا اُس کے سُموں سے آپ ہی آگ نکلے گی۔ پس یہاں آگ جلانے کا ذکر ہے اور حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اُترتے ہیں اور کھا نے وغیر ہ پکا تے ہیں اور آگ جلاتے ہیں۔ اِس میں سواروں کی بہا دری اور اطمینا ن کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دشمنوں سے ڈریں گے نہیں، ُکھلے کیمپ لگائیں گے اور آگ روشن کریں گے۔ دشمن سے ڈر کر روشنیاں بُجھائیں گے نہیں۔ جیسے فتح مکّہ کے وقت ابو سفیا ن کا روشنیوں سے پریشان ہو جا نا اسکی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ جب لشکر اپنے دشمن سے ڈرتا ہے تو شبخون سے بچنے کے لئے اپنے پڑاؤ کا نشان نہیں دیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان خوب روشنی کرکے پڑاؤ کریں گے اور دشمن سے ڈریں گے نہیں کیو نکہ کہیں گے کہ اُس نے ہمیں مارنا ہی ہے نا تو مر کر جنت میں چلے جائیں گے ہمیں ڈر کس بات کاہو۔
حضرت ضرارؓ کا واقعہ
تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی جرنیل نے بہت سے سپاہی مار دیئے اسلامی کمانڈر انچیف نے
ضرار بن اَزورؓ کوبلایااو رکہا۔تم جاؤ تم بڑے بہادر آدمی ہو اور اُس سے جاکر لڑو۔ بہت سے مسلمان مارے گئے ہیں اور بد دلی پھیل رہی ہے۔ وہ لڑنے کے لئے گئے جب اُس کے سامنے کھڑے ہوئے تو یکدم واپس بھا گے۔ مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہوئی اور انہوں نے بہت تعجب کیا کہ ایک صحابیؓ ہے اور وہ اِس طرح بھا گا ہے۔ کمانڈر نے ایک شخص سے کہا تم اس کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو کیا بات ہے؟ جب وہ پہنچا تو ضرارؓ اپنے خیمہ سے نکل رہے تھے۔ انہوں نے کہا ضرارؓ!آج تم نے بڑی بد نامی کرائی ہے۔ تمہا رے دوست افسوس کررہے ہیں کہ تم نے اِس طرح اسلام کو ذلیل کیا، تم کیوں بھا گے تھے؟ انہوں نے کہا مَیں بھا گا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مَیں نے صبح اتفاقاً زِرہ پہنی تھی جب مَیں اس کے سامنے گیا تو میرے دل میں خیا ل آیا کہ اتنا بڑا بہادر ہے کہ اِس نے کئی آدمی مارے ہیں مَیں نے زِرہ پہنی ہو ئی ہے۔فرض کرو اگر اُس نے مجھے ما ر لیا تو اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ضرار کیا تم میرے ملنے سے اتنا گھبراتے تھے کہ زِرہیں پہن پہن کر جاتے تھے۔ تو مَیں نے خیا ل کیا کہ اگر مَیں مر گیا تو ایمان پر نہیں مروں گا۔ چنانچہ میں بھا گا ہؤا اندر گیا اور مَیں نے وہ زِرہ اُتار دی۔ چنانچہ دیکھ لو اب مَیں صرف کُرتہ پہن کر اس کے مقابلہ کیلئے جا رہا ہوں۔ تو اِسقدر اُن کے اندر مرنے کا شوق ہو تا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرنا ایک بہت بڑی سعادت اور نعمت ہے۔
پھر فرماتا ہے فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا ۔یہ سپاہی باوجود دیوانگی سے کلّی طورپر روکے جانے کے اور شراب کے حرام ہونے کے اور لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکے جانے کے اتنے دلیر ہونگے کہ دشمن کے پاس پہنچ کر ڈیرے ڈال دیں گے اور رات کو حملہ نہیں کریں گے بلکہ صبح ہونے پر حملہ کریں گے تا کہ بے خبر اور سوتے ہوئے دشمن پر حملہ نہ ہو اور اُسے لڑنے کا موقع ملے۔گویا چونکہ شہا دت کے دِلدادہ ہو نگے ،دشمن کو مقابلہ کا موقع دیں گے۔ دوسرےؔ براء ت اور توبہ کا موقع دیں گے کہ اگر وہ چاہے تو اسلام کا اظہار کرے۔ تیسرےؔ غلط فہمی سے بچیں گے کہ غلطی سے کسی اَور پر حملہ نہ ہو جائے۔
فَاَثَرْنَ بِهٖ نَقْعًا ۔ اِس میں یہ بتایا ہے کہ رات کو ڈیرے اس لئے نہیں ڈالیں گے کہ دشمن کے قریب آکر جوش ٹھنڈا ہو گیا ہے بلکہ مَردانگی اور بہا دری کے اظہا ر کے لئے ایسا کریں گے ورنہ صبح ہونے پر جب دشمن ہو شیا ر ہو جائے گا اُن کی روشنیوں کو رات کو دیکھے گا صبح اُنکی اذانیں سُنے گا اور لڑنے کے لئے آمادہ ہو جائے گا اور پھر یہ والہا نہ طور پر اُس کی طرف گھوڑے دَوڑائیں گے حتّٰی کہ صبح کے وقت جب شبنم کی وجہ سے غبار دباہؤا ہو تا ہے اُن کے تیز دَوڑنے کی وجہ سے اُس صبح کے وقت بھی زمین سے گردوغبار اُٹھے گا۔
پھر فرماتا ہے فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا ۔جس وقت وہ دَوڑتے ہوئے اور گرد اُڑاتے ہوئے پہنچیں گے بغیر تھمے دشمن کی صفوں میں ُگھس جائیں گے۔ بِہٖ میں صبح کی طرف بھی ضمیر پھیری جا سکتی ہے۔اگر صبح کی طرف ضمیر پھیر یں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ بہادر رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ صبح کی روشنی میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے اس کی صفوں میں گُھس جائیں گے۔اور اِس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دشمن کے پراگندہ ہونے کی حالت میں خوا ہ دن ہو یا رات حملہ نہیں کریں گے بلکہ جب وہ صف آرا ہو جا ئے تب اس پر حملہ کریں گے۔
اِس آیت میں اُن کی بہا دری کی طرف دو اشارے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ سامنے کھڑے ہو کر پہلو بچاتے ہوئے حملہ نہیں کریں گے بلکہ جوش کی فراوانی میں دشمن کی صفوں کے اندر گُھس جائیں گے حالانکہ جب خطرہ بڑھ جاتا ہے دشمن نرغہ میں لینے کے قابل ہو جاتا ہے۔
دوسرا اشارہ یہ ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو چِیر دیں گے۔یعنی اُن کا حملہ اتنا شدید ہو گا کہ سورج نکلنے کے بعد حملہ کرنے کے باوجود دھوپ نہیں آنے پائے گی کہ دوپہر سے پہلے پہلے وہ دشمن کو کا ٹ کر رکھ دیں گے اور اُس کے اوپر غالب آجائیں گے۔
دشمن کی صفوں کو چِیرتے ہوئے دو
نوجوان لڑکوں کا ابو جہل کو مار ِ گرانا
فَوَسَطْنَ بِهٖ جَمْعًا کے نظارے صحابہؓ میں نہایت شاندار ملتے ہیں۔ بدر کی جنگ میں حضرت
عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ مَیں کھڑا تھا اور ابو جہل ہم سے تین گُنا لشکر لے کر کھڑا تھا، پھر اُن کے پاس زِرہیں اور سامانِ جنگ بھی زیادہ تھا اور وہ خَود پہنے ہوئے تھے۔دل میں خیا ل پیدا ہؤا کہ آج میں اچھی طرح لڑوں گامگر پھر مَیں نے اپنے اِدھر اُدھر جو دیکھا تو میں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو انصار ی لڑکے کھڑے ہیں جن کی پندرہ پندرہ سال کی عمر تھی۔ دل میں خیا ل آیا کہ آج تو بڑی بُری ہوئی آج تو لڑنے کا موقع تھا اوراِردگِرد لڑکے کھڑے ہیں انہوں نے کیا کرنا ہے؟ دل میں یہ خیا ل آرہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کُہنی ماری۔ مَیں نے اُس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا۔ چچا نیچے ہو کر میری بات سنو۔ مَیں نے اپنا کا ن اس کی طرف کیا تو اُس نے کہاچچا! مَیں نے سنا ہے کہ ابو جہل خبیث، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیفیں دیا کرتا ہے میرے دل میں اُس کے متعلق غصّہ ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ اُسے ما ر وں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں مَیں حیرت زدہ ہو گیا کیو نکہ باوجود اتنا تجربہ کا ر جرنیل ہونے کے میرے اندر بھی یہ خیا ل نہیں آتا تھا کہ مَیں ابو جہل کو مار سکتا ہوں کیو نکہ سامنے دشمن کی ساری صفیں کھڑی تھیں،دوتجربہ کا ر جرنیل اُس کے سامنے پہرہ دے رہے تھے اور وہ بیچ میں گھرا ہؤا تھا۔ لیکن میری حیرت ابھی دُور نہیں ہوئی تھی کہ دوسری طرف سے مجھے کُہنی لگی۔ مَیں اُس طرف متوجہ ہؤا تودوسرا نوجوان مجھے کہنے لگا چچا! ذراکان نیچے کر کے میری بات سُنیں تا دوسرا نہ سُنے کیونکہ رقابت تھی۔ کہنے لگے مَیں نے کان نیچے کیا تو اُس نے بھی یہی کہا کہ چچا! مَیں نے سُنا ہے ابوجہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دُکھ دیا کرتا ہے ،میرا دل چاہتا ہے کہ مَیں اُس کو ماروں مجھے بتاؤ وہ کو ن ہے؟وہ کہتے ہیں تب تو میری حیرت کی کو ئی انتہاء نہ رہی۔ مَیں نے سمجھا بچّے ہیں جوش میں کہہ رہے ہیں۔ مَیں نے اُنگلی اُٹھا ئی اور کہا یہ دیکھو دشمن کی صفیں کھڑی ہیں اِن کے پیچھے وہ شخص جس کے آگے دو آدمی ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے۔ وہ کہتے ہیں میری اُنگلی ابھی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ وہ لڑکے باز کی طرح کُودے اور صفوں کو چِیرتے ہوئے اُس تک جا پہنچے۔جا تے ہی ایک پر ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے وار کیا اور اُس کا ہا تھ کا ٹ دیا لیکن اُس کا دوسرا ساتھی پہنچ گیا۔ جس کا ہاتھ کاٹاگیا تھا اُس نے جلدی سے اپنے کٹے ہوئے ہا تھ پر پا ؤں رکھا اور زور سے جھٹک کر اُسے جسم سے الگ کر دیا اور پھر دوسرے کے ساتھ شریک ہو کر ابوجہل پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گِرادیا۔ غرض لڑائی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے ابوجہل کو جا کر ختم کر دیا۔ یہ تھا مسلمانوں کا جوش کہ چھوٹے بچّے بھی جا نتے تھے اور وہ اپنے سے تین گُنا لشکر کی صفوں میں گُھس جا تے تھے اوراپنی جا نو ں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور منٹوں میں لڑائی ختم ہو جاتی تھی۔یہ عجیب بات ہے کہ صحابہؓ نے جتنی جنگیں کی ہیں وہ صرف چند گھنٹوں میں ہی ختم ہو گئیں۔ بدر چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ،اُحدچند گھنٹوں میں ختم ہوگئی اور حُنین چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ،مکّہ کی لڑا ئی چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی۔ غرض ایک دو گھنٹہ کے اندر دشمن بھاگ جاتا تھا۔ سوائے تین لڑائیوں کے اور وہ تینوں قلعہ بند لڑائیاں تھیں۔ مثلاً احزاب کی لڑائی تھی اس میں صرف دفاع کا حُکم تھا اور بیچ میں خندق بنا ئی ہو ئی تھی اس میں دیر لگی یا بنو قریظہ کا محاصرہ ہؤا تو قلعہ میں تھے او رقلعہ توڑنے میں دیر لگی یا خیبر پر جب حملہ ہؤا تو اُس میں دیر لگی۔ کیو نکہ خیبر میں بھی وہ قلعہ میں تھے لیکن اِن کے علاوہ جب بھی کوئی لڑائی ہوئی چند گھنٹوں کے اندر ختم ہو گئی او رچند گھنٹوں میں دشمن تباہ ہو گیا۔
غرض اِن آیا ت میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں جوش دلانے کے لئے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کبھی شراب پلا ئی جاتی ہے، کبھی لو ٹ مار کی اجا زت دی جاتی ہے، کبھی شبخون مارنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اِن سب کو منع کرنے کے باوجود اسلامی جنگ کے لئے جب نوبت بجے گی تو اسلام کے سپاہی دیوانہ وار آگے بڑھیں گے اور گھنٹوں میں دشمن کی صفوں کو توڑ دیں گے اور قطعی طور پر اُن کو موت کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔
دُنیوی نوبت خانوں کی تیسری غرض
تیسری غرض نوبت خانہ کی یہ ہؤا کرتی ہے کہ خوشی کی تقریبات
کے موقع پر مثلا ً بادشاہ دربارکرے یا اُس کا جلوس نکلے تو نوبتیں بجا کر تی تھیں اور اِسی طرح بادشاہ کی آمد یا کسی بڑی تقریب کی خبر لوگوں کو دی جاتی اور بادشاہی اعلان سے لوگوں کو واقف کیا جاتا تھا۔
اِسلامی نوبت خانہ رات دن میں پانچ دفعہ بجتا ہے
مَیں نے دیکھا کہ اسلام نے یہ بھی
نوبت خانہ پیش کیا ہےاور اس کیلئے بھی ایک اسلامی نَوبت مقرر کی ہے مگر اسلامی نوبت خانہ اور دُنیوی نو بت خانوں میں ایک عظیم الشان فرق ہے۔ دوسری حکومتیں اور بادشاہ جہاں نو بتیں بجا تے تھے اُن کی نوبت کبھی ساتویں دن بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہوتا تھا، کسی کی مہینہ میں بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہو تا تھا، کوئی اپنی تخت نشینی کے دِنوں میں دو تین دن دربار لگا یا کرتاتھا اور پھر جب اُن کی نوبت بجتی تھی تو لوگوں کو اپنے گھروں سے نکل کر بادشاہی قلعوں میں جا نا پڑتا تھا یا بہت دُور دُور سینکڑوں میل سے چل کر وہاں جا نا پڑتا تھا۔ لیکن اسلامی نو بت خانہ جو ہما رے بادشاہ کا دیدار کرانے کے لئے بجتا ہے وہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں دن رات میں پا نچ وقت بجتا ہے۔ پانچ دفعہ نوبت بجتی ہے کہ آؤ اور اپنے بادشاہ کی زیا رت کرلو ،آؤ اور خدا کا دیدا ر کرو۔ ابھی ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی ہے پا کستان تک سے لوگ وہا ں دیکھنے کے لئے گئے حالانکہ ملکہ الز بتھ کیا، انگلستان آج ایک سیکنڈ گریڈ پا ور بنا ہؤا ہے۔ لیکن ملکہ الزبتھ کے دیکھنے کے لئے ہندوستان سے آدمی گئے، امریکہ سے گئے ،جر من سے گئے، انڈونیشیا سے گئے ،چین سے گئے اور ہمارے بادشاہ کی زیارت کے لئے کہ جس کے سامنے آنکھ اُٹھا نے کی بھی ملکہ الز بتھ کو طاقت نہیں روزانہ پانچ وقت بُلایا جاتا ہے کہ آؤ کر لو زیارت مگر لوگ ہیں کہ نہیں آتے۔ دو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ بادشاہ پا نچ وقت آتا ہے، پا نچ گھرکا گاؤں ہوتو وہا ں بھی بادشاہ لوگو ں کو اپنی زیارت کرانے کے لئے پانچ وقت آتا ہے، اگر سَو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ زیارت کرانے کے لئے آتا ہے، اگر لاکھ گھر کا شہر ہو تو ہر محلہ میں وہ آجاتا ہے کہ آؤ اور زیارت کر لو اور اگر دس لا کھ گھر کا شہر ہو تو اُس میں وہ دس ہزار جگہوں میں آجاتا ہے اور پانچ وقت آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ اور میر ی زیارت کرلو۔ یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے دُنیوی نوبت خانوں اور اسلامی نوبت خانہ میں کہ پانچ وقت زیارت ہو تی ہے اور جہا ں بیٹھیں وہیں ہو جاتی ہے اور بادشاہ آپ ہمارے گھروںمیں آجاتا ہے۔
اسلامی نوبت خانہ کا پُر ہیبت اِعلان
اَب ذرا اِس نو بت خانہ کا اِعلان بھی سُن لو۔ وہا ں تو یہ ہو تا ہے کہ
دَھم دَھم دَھم دَھم ہو رہاہے یا پِیں پِیں ہو رہا ہے اور جب ُپوچھا جاتا ہے کہ یہ دَھم دَھم دَھم اور پِیں پِیں پِیں کیا ہے؟ توکہتے ہیں اِس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ آرہا ہے حالانکہ دَھم دَھم دَھم اور پِیں پِیں پِیں سے بادشاہ کا کیا تعلق ہے۔تم بندر کا تما شہ کرو تو اُس کے لئے بھی پِیں پِیں کر سکتے ہو۔کُتّے کا کھیل کھیلو تو اُس کے لئے بھی پِیں پِیں کر سکتے ہو ،بادشاہ اور دَھم دَھم اور پِیں پِیں کا کیا جوڑ ہے۔مگر یہاں جو نوبت خانہ بجتا ہے اُس میں با دشاہ کے دیدار کی بشارت دیتے ہوئے اُس کی حیثیت بھی پیش کی جاتی ہے اور ایک عجیب شاندار پیغام دُنیا کو پہنچایا جاتا ہے۔ مؤمنوں کو الگ اور مُنکروں کو الگ۔پھر اس نو بت خانہ کی چوٹ مُردہ چمڑہ پر نہیں پڑتی زندہ گوشت کے پردوں پر پڑتی ہے۔ اور پانچ وقت اِس نوبت خانہ میں نوبت بجتی ہے کہ آجا ؤ اپنے بادشاہ یعنی خدا کی زیارت کے لئے او راعلان کرنے والا کھڑا ہو تا ہے اور کہتا ہے۔
اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔
اے لوگو!اپنے بادشاہ کی زیا رت کے لئے آجا ؤ۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دُنیا میں لوگ اپنے بادشاہوں اور حا کموں کی زیا رت کے لئے جا تے ہیں مگر اُن میں سے کو ئی پچاس گاؤ ں کا مالک ہو تا ہے، کو ئی سَو گاؤں کا مالک ہو تا ہے،کو ئی ہزار گاؤ ں کا مالک ہو تا ہے،کوئی ایک صوبہ کا مالک ہو تا ہے، کو ئی ایک ملک کا مالک ہو تا ہے، کو ئی پانچ ملک کا مالک ہو تا ہے، کو ئی دس ملک کا مالک ہو تا ہے، پھر اُن میں سے کوئی ایسا ہو تا ہے کہ بڑے ملک کا مالک ہو تا ہے لیکن چھوٹے ملک کے بادشاہ اُس پر فا تح ہو جا تے ہیں۔ جیسے سکندر یو نا ن کا مالک تھا مگرکسرٰی کو آکے اُس نے شکست دیدی۔ نادر شاہ ایک معمولی قبیلے کا بادشاہ تھا مگراُس نے ہندوستان کی بادشاہت کو شکست دےدی۔تواوّل تو اُس کی حکومتیں بہت چھوٹی ہو تی ہیں اور پھر حکومتوں کے مطابق اس کی طاقت بھی نہیں ہو تی۔ اُن کی زیا رت عمر میں کبھی ایک دفعہ نصیب ہو تی ہے مثلاً تاجپوشی ہو تی ہے اور وہ باہر نکلتے ہیں تو لوگ اُن کی زیا رت کرتے ہیں۔ مگر ہم تمہیں جس بادشاہ کی زیارت کے لئے بُلاتے ہیں وہ سب سے بڑا ہے اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے مقابل میں بِالکل ہیچ ہو جاتا ہے کسی کی طاقت نہیں کہ اُ س کے آگے بول سکے۔
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
گرفتاری کیلئے کسرٰی کا ظالمانہ حکم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ میں دنیا کی حکومت دو حصوں میں تقسیم
تھی آدھی حکومت قیصرؔ کے پا س تھی اور آدھی حکومت کسرٰی کے پاس تھی۔مغرب پر قیصر حاکم تھا اورمشرق پر کسرٰی حاکم تھا۔ یہودیوں نے ایک دفعہ کسرٰی کے پاس رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہؤا ہے اور وہ طاقت پکڑرہا ہے کسی وقت وہ تمہا رے خلا ف جنگ کرے گا۔ وہ کچھ پا گل ساتھا۔یمن اُس وقت کسرٰی کے ما تحت تھا اُس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح عرب میں ایک مدعی پیدا ہؤا ہے تم اُسے گرفتار کرکے میرے پاس بھجو ا دو۔چونکہ یمن کا گورنر عرب کے لوگوں سے واقف تھا اُس نے خیا ل کیا کہ اِن لوگوں نے کیا بغاوت کرنی ہے بادشاہ کو دھوکا لگا ہے۔اُس نے بادشاہ کے دو سفیروں کو بھیجا اور ساتھ وصیّت کی کہ تم کوئی سختی نہ کرنا۔ بادشاہ کو کوئی دھو کا لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ انہوں نے کسرٰی کا مقابلہ کرنا ہے۔تم جانا اور سمجھانا اور میری طرف سے پیغام دینا کہ آپ مقابلہ نہ کریں آجائیں۔ مَیں سفارش کرونگا تو کسرٰی انہیں کچھ نہیں کہے گا۔چنا نچہ یہ لوگ مدینہ پہنچے اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپؐ نے فرمایا کس طرح آنا ہؤا؟ انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے بھجوایا ہے۔ اُس کے پاس کچھ شکایتیں آئی ہیں جن کی بنا ء پر اُس نے کہا ہے کہ آپؐ کو اُس کے سامنے پیش کیا جائے اور ہم گورنر یمن کی طرف سے آئے ہیں کیونکہ وہ یہاں کے حالات کا واقف ہے۔اُس نے ہم کو نصیحت کی تھی کہ ہم آپؐ کو تسلّی دلائیں کہ کسی نے بادشاہ کے پاس غلط رپورٹ کی ہے ورنہ ہمیں تسلّی ہے کہ آپؐ نے کوئی شرارت نہیں کی۔ مَیں بادشاہ کی طرف ساتھ چِٹھی لکھدونگا کہ یہ غلط رپورٹ ہے اس کوکچھ نہ کہا جا ئے اور واپس کردیا جائے اِس لئے آپ ہمارے ساتھ چلیں وہاں سے آپ کو گورنر یمن کی سفارش مِل جا ئےگی اور اُمید ہے کہ وہ درگزر سے کام لے گا۔
آپؐ نے فرمایا اچھا دوتین دن ٹھہرو پھر مَیں جواب دونگا۔ انہوں نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے۔گورنر نے کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ غلط فہمی میں رہیں اور جواب نہ دیں جس سے بادشاہ چڑجائے اگر ایسا ہؤا تو عرب کی خیر نہیں ، وہ اِس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا آپ چلے چلیئے۔ آپؐ نے فرمایا کوئی بات نہیں تم دو تین دن ٹھہرو۔ پھر وہ دوسرے دن آئے۔ تیسرے دن آئے۔ لیکن آپؐ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہرو۔ ابھی ٹھہرو۔ تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب ہماری میعاد ختم ہو رہی ہے، بادشاہ ہم سے بھی خفا ہو گاآپؐ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپؐ نے فرمایا ُسنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو ما ر ڈالا ہے جاؤ یہاں سے چلے جا ؤ اور گورنرکو اطلا ع دے دو۔ اُن کو تو خدائی کلام کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ گپ ماری ہے۔ انہوں نے سمجھا نا شروع کیا کہ یہ نہ کریں۔ دیکھیں آپ گورنر کی سفارش سے چُھوٹ کر آجائیں گے ورنہ عرب تباہ ہو جائے گا آپ ایسا کیو ں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔مَیں نے تمہیں بتادیا ہے جا ؤ اور اُسکو جواب دیدو۔ خیر وہ یمن میں آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں ایسا جواب دیا ہے۔ یمن کا گورنر سمجھدار تھا۔ اُس نے کہا اگر اس شخص نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہو گی۔اسلئے تم انتظار کرو چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے۔
کسرٰی قتل کردیا گیا
دس بارہ دن گزرے تھے کہ ایک جہا ز وہا ں پہنچا۔ اُس نے آدمی مقرر کئے ہو ئے تھے کہ اگر کوئی خبر آئے تو
جلدی اطلاع دو۔انہوں نے اطلاع دی کہ ایک جہا ز آیا ہے اور اُ س پر جو جھنڈا ہے وہ نئے بادشاہ کا ہے۔اُس نے کہا جلدی اُن سفیروں کو لے کر آؤ۔ جب وہ گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے ایک خط آپ کو پہنچانے کے لئے دیا ہے۔ اُس نے خط دیکھا تو اس پر مہُر ایک اور بادشاہ کی تھی۔ اُسنے اپنے دستور کے مطابق خط کو سر پر رکھا، آنکھو ں پر رکھا اور اُسے ُچوما اور پھر اُسکو کھولا تو وہ بادشاہ کی چِٹھی تھی جس میں لکھا تھا کہ پہلے بادشاہ کے ظلم اور سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اِس لئے فلاں رات ہم نے اُس کو قتل کر دیا ہے اور ہم اُس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں۔ اور یہ وہی رات تھی جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہا رے خدا کو ما ر دیا ہے۔ اِس کے بعد اس نے لکھا کہ تم ہماری اطاعت کا سب سے وعدہ لو۔ اور یہ بھی یا د رکھو کہ اُس نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے جو حکم بھیجا تھا تم اُس کو منسوخ کر دو۔65 یہ وہ چیز تھی کہ جس کو دیکھ کر یمن کا گورنر اُس دن سے دل سے مسلمان ہو گیا اور بعد میں دوسرے لوگ بھی اسلام میں داخل ہو گئے۔
غرض اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔میں اِسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم کس کے پیچھے چل رہے ہو۔ جن کو تم بڑے سے بڑا سمجھتے ہو حکومتِ امریکہ کو سمجھ لو، حکومتِ روس کو سمجھ لو خدا کے مقابلہ میں اُن کی کیا حیثیت ہے۔جو خدا کا بندہ ہو تا ہے وہ کہتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کچھ کرلو خدا میرا محافظ ہے تم کیا کر لوگے۔ حکومتیں کچھ نہیں کرسکتیں ،بادشاہتیں کچھ نہیں کر سکتیں، وہ اپنے رُعب جتائیں، ڈرائیں جو کچھ مرضی ہے کر لیں، وہ خدا ہی کا بندہ ہے اور وہی جیتے گا۔آخر جو سب سے بڑا بادشاہ ہے اُس کے ساتھ جو لگے گا اُس کو بڑائی ہی ملے گی چھوٹا ئی نہیں ملے گی۔
خدا کے شیرپر کو ن ہا تھ ڈال سکتاہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایک دفعہ شرارتاً
مقدمہ کر دیا گیا۔ مقدمہ کےدَوران میں خواجہ کمال الدین صاحب کو اطلاع ملی کہ آریوں نے مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ اِن کو ضرور سزا دے دو۔گو مہینہ قید کرو مگر ایک دفعہ ذلیل کر دو تاکہ انہیں پتہ لگ جا ئے۔ مجسٹریٹ نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا۔ خواجہ صاحب کو پتہ لگا تو گھبرائے ہوئے آئے مولوی محمد علی صاحب کو ساتھ لیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے۔ کہنے لگے حضور!بڑی برُی خبر لائے ہیں۔ اِس اِس طرح مجھے یقینی طورپر پتہ لگا ہے کہ آریہ سماج کا اجلاس ہؤا ہے اور چونکہ وہ مجسٹریٹ آریہ ہے اُس سے انہوں نے وعدہ لیا ہے کہ وہ تھوڑی بہت سزا ضرور دے دے ،پیچھے دیکھا جائے گا انہوں نے کہا ہے کہ اوّل تو چھوٹی بڑی سزا پر کوئی پکڑتا کیا ہے اور پھرا گرگرفت ہو گی بھی تو کیا ہے تم نے قوم کی خاطر یہ کام کرنا ہے اسلئے کوئی تدبیر اِسکی ہونی چاہئے اور پھر کہا کہ آپ کسی طرح قادیان چلے جائیں اور ایسی تجویز کی جا ئے کہ مجسٹریٹ کا تبادلہ ہو جائے۔ حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ یہ سُنتے ہی اُٹھے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیا باتیں کرتے ہیں۔ کیا خدا کے شیر پر بھی کوئی ہا تھ ڈال سکتا ہے تو اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔ اَللہُ اَکْبَرُ۔کہنا بڑا بھاری دعویٰ ہے۔ آج امریکہ کی کتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی روس سے ڈر رہی ہے۔ روس کتنا طاقتور ہے پھر بھی امریکہ سے ڈر رہا ہے۔یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ اِس نوبت خانہ میں پانچ وقت ہر گاؤں، ہر شہر، ہر قصبہ، ہر پہاڑی اور ہر میدان سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا ہے۔گویا اِس پیغام میں کافروں کو بھی اور مؤمنوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے۔ کفّا ر کو کہا گیا ہے کہ تمہا رے سرداروں، تمہا رے بادشاہوں اور تمہارے افسروں کی کیا حیثیت ہے سب سے بڑھ کر اسلام کے خدا کا وجود ہے۔ تم اپنے غرور اور اپنے جتھے کے فخر میں یہ سمجھتے ہو کہ ہم حق کی آواز کو دبا دیں گے مگر ایسا نہیں ہو گا۔ ہمارے نام لیوا غریب اور بے کس ہیں مگر ہم اُن کے ساتھ ہیں اور ہم سب سے بڑے ہیں۔
پھر وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوتا ہے اور فرماتا ہے اے مؤمنو!انتظام کے لئے ہم نے تمہا رے لئے بادشاہ مقرر کئے ہیں۔ حاکم مقرر کئے ہیں مگر تمہا را اصل بادشاہ اللہ ہے۔ تم نے کسی انسان کے آگے گردن نہیں جُھکانی۔ تمہارے دلوں پر رُعب اور حکومت صرف خدا کی ہونی چاہئے۔66
اِسلامی نوبت خانہ کی دوسری آواز
پھر اِس نوبت خانہ سے دوسری آواز اُٹھتی ہے اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔مَیں منادی کرنے والا اعلان کرتا ہوں اور کسی سے چُھپا تا نہیں کہ مَیں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اُس کے ِسوا کسی کے آگے سر جُھکا نے کے لئے تیا ر نہیں خواہ وہ دُنیا کا بادشاہ ہو یا دُنیا کا بڑا حاکم ہو،خواہ دنیا کا بڑا پِیر ہو خواہ دنیا کا کوئی بڑا عالِم ہو میرے لئے وہ سارے کے سارے خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور اُن کی کوئی ہستی میرے نزدیک نہیں ہے۔ مَیں تو صرف ایک ہی ہے جس کے آگے سر جُھکانا جائز سمجھتا ہوں اور وہ خدا کی ذات ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی زبان ہیں
پھر کہتا ہے اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا
رَّسُوْلُ اللہِ ۔ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔ اور سُنو! کہ مَیں یہ بھی عَلَی الْاِعْلَان کہتا ہوں کہ محمد کے ِسوا آج خدا تعالیٰ کے احکام دُنیا کو کوئی نہیں سُنا سکتا۔ وہ خدا کی زبان ہے،وہ خدا کی نفیری ہے۔مَیں اُس کی زبان پر کان دھرتاہوں۔ مَیں اُس کی نفیری کی آواز پر رقص کرتا ہوں۔ تم خواہ کسی کے پیچھے چلو مَیں اللہ کے سوا کسی کے پیچھے نہیں چل سکتا اور اُس کے پیچھے چلنے کا رستہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا سکتے ہیں۔
خدائی دیدار کی دعوتِ عام
پھر کہتا ہے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔آؤ !آؤ !خدا کے سامنے جھکنے میں
میرے شریک بنو۔آؤ ہم سب مِل کر خدا ئے واحد کی عبادت کریں اور اپنے جسم کے ہرذرّہ کو اس کی اطاعت میں لگا دیں۔
دُنیا کے لوگ نوبت خانے بجا تے ہیں اور بجا کے کہتے ہیں آؤ اور بادشاہ کی زیا رت کر کے چلے جا ؤ۔ جو انعام پانے والے ہوتے ہیں وہ تو چند ہی ہوتے ہیں۔ باقی تو صرف مٹی اور غُبار کھا کے چلے جا تے ہیں۔ یہاں جو بادشاہ کی تاجپوشی ہوئی تھی یا لنڈن میں تاجپوشی کی رسم ہوئی ہے تو بادشاہ کے پاس جانےوالے یا اُس سے کوئی بات کرنے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سَو یا ہزار ہونگے۔ حالانکہ یہ بھی کوئی خاص انعام نہیں ہے مگر جمع وہاں تیس لاکھ ہوئے تھے۔باقی تیس لاکھ صرف گَرد ہی کھا کے آگئے اَو ر کیا ہؤا۔ پھر کچھ ایسے تھے جن کو سواری بھی نظر نہیں آئی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے سواری دیکھی اور شکل نہیں پہچانی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے تیز گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا۔ مگر یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ۔دَوڑ کے آؤ۔ دیکھو خدا کے سامنے تمہا ری حاضری کرائی جائے گی۔ یہ دربار وہ نہیں کہ جہا ں سے دُور دُور سے جھانک کرجا نا پڑے گا۔ یہ دربار وہ نہیں جہا ں تم آؤ گے تو بعض دفعہ تم کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ یہاں تم کو سپاہی دھتکاریں گے نہیں۔ یہاں تم مسجد کے قریب آؤ گے تو فرشتے تم کو پکڑ کے خدا کے سامنے پیش کریں گے اور خدا کو تم زندہ دیکھ لو گے۔ اس سے زیادہ اچھا موقع تمہیں اور کہاں مِل سکتا ہے۔
فلاح اور کامیا بی کی بشارت
پھر فرماتاہے حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ آؤ ! آؤ! کامیا بی کی طرف آؤ!دَوڑ کر
کا میا بی کی طرف آؤ کہ کامیابی تمہیں ملنے کے لئے تیا ر بیٹھی ہے۔دیر نہ کرو و ہ تڑپ رہی ہے تمہاری جیبوں میں پڑنے کے لئے۔
دنیا کے بادشاہوں کے حضور میں لوگ نذرانے گزارنے جاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے سَواشرفیاں پیش کی گئی ہیں۔ بیشک پُرانے زمانہ میں بادشاہ کہہ دیتے تھے کہ ان کو بھی دو لیکن بادشاہ کوبہر حال دینا پڑتا تھا۔ نظام حیدر آباد تو اس کو لے کے جیب میں ڈال لیتے تھے۔ انگلستان وغیرہ کے بادشاہوں کے سامنے بھی نذرانے پیش کئے جا تے ہیں اور جن کے ہاں نذرانوں کا رواج نہیں اُن کے ہا ں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں مثلاً پریذیڈنٹ کہیں جائے گا تو بڑی دعوت کی جائے گی بڑے بڑے آدمیوں کو بُلایا جائے گا اور لاکھوں روپیہ خرچ کیا جائے گا۔ مگر یہاں وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو!تمہیں صرف زیارت ہی نہیں ہو گی بلکہ تم میں سے ہر فردِواحد امیر ہو یا غریب، کنگال ہو یا حیثیت والا سب کے سب کی گودیاں بھر دی جائیں گی اور یہاں سے تمہیں انعام دے کر واپس کیا جائے گا۔
حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ
غرض اِس دربار میں جانے والا چاہے وہ کتنا ذلیل اور کنگال ہو کہ
اُس کی شکل دیکھ کر لوگوں کو گھِن آتی ہو جب اُس دربار میں چلا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے آگے سر ُجھکا نے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
ایک کریہہ المنظر صحابیؓ سے پیار
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ تھے بہت بدصورت، نہایت کریہہ اور جسم پر بڑے بڑے بال جیسے
بکری کے ہوتے ہیں اور آنکھیں بھی خراب۔غرض اُن کے جسم کی حالت ایسی تھی جسے دیکھ کر گھِن آتی تھی اور لوگ انہیں مزدوری پر لگانے سے بھی گھِن کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزر ے اور اُسکو دیکھا۔ کسی نے اُن کو گندم کے ڈھیر کے پاس کھڑا کر دیا تھا کہ تم ذرا حساب کرو۔اسے بیچنا ہے اور وہ کھڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کسی نے گندم لینی ہو تو لے لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو دیکھا۔ اُسوقت اُن کی حالت ایسی تھی کہ پسینہ اُن کو آرہا تھا ،دھوپ میں کھڑے تھے، مزدوری بھی شاید اُن کو بہت تھوڑی ملنی تھی، غرض تکلیف کی بہت سی علامات تھیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دیکھ کر احساس ہؤا کہ دیکھواِن کو سخت تکلیف ہو رہی ہے۔ آپؐ پیچھے پیچھے آہستہ قدم چلتے گئے اور اُن کی آنکھوں پر جیسے بچّے کھیلتے ہیں ہا تھ رکھ دیئے۔اُس نے اِدھر اُدھر ہا تھ ما ر کر دیکھا اور خیا ل کیا کہ میرے جیسے آدمی سے پیار کون کر سکتا ہے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ،گھِن کھا تے ہیں لیکن یہ کون میرا دوست اور خیر خواہ آگیا جو مجھے پیا ر کرنے لگا ہے۔اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے شروع کئے، آخر اُن کے ہا تھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی پر پڑے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں یہ خوبی تھی کہ آپؐ کے بال بہت کم تھے اور مشہور تھا کہ آپؐ کا جسم بہت ملائم ہے۔ اُس نے ہا تھ ملے تو سمجھ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پیار کر رہے ہیں تو مَیں بھی نخرے کروں۔ اُس کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی، پسینہ آیا ہؤا تھا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب میل مَلنی شروع کردی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ پہچان گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا لوگو! مَیں ایک غلام بیچتا ہوں کسی نے خریدنا ہے؟جب آپؐ نے یہ فرمایا تو اس کو اپنی حالت پھر یا د آگئی اور اُس نے بڑی ہی افسردگی سے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ!میراخریدار دنیا میں کو ن ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ایسا نہ کہو تمہارا خریدار تو خود خدا ہے۔67
تو دیکھو !وہ شخص جس کو دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار بھی گھِن کھا تے تھے۔اُس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ یہ خدا کا پیا را ہے۔یہی بات حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ میں بیان کی گئی ہے کہ دنیا کی ساری کا میا بی تمہیں یہاں آنے سے ہی حاصل ہوگی۔تم سب جگہ دھتکارے جا سکتے ہو، تم سب جگہ حقیر سمجھے جا سکتے ہو مگر میرے رب کی عبادت اورغلامی ہر مقصد ومدّعا میں انسان کو کا میاب بنا دیتی ہے۔جو اُس کے ہو جاتے ہیں اُن پر کوئی ہا تھ نہیں ڈا ل سکتا۔ جو اُس کے غلاموں پر ہا تھ ڈالے خواہ ساری دُنیا کا بادشاہ کیوں نہ ہو اُس کے ہاتھ شل کردیئے جا تے ہیں، اُس کی رگِ جا ن کا ٹ دی جاتی ہے، اُسے ذلیل اوررُ سوا کردیا جاتا ہے کیو نکہ خدا کے غلام دنیا کے بادشاہوں سے زیادہ معزز ہیں اور اُن کے محافظ فرشتے ہوتے ہیں جو دُنیوی سپا ہیوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اُس کی
وحدانیت کا ایک بار پھر اقرار
یہاں پہنچ کر وہ نوبتی ایک بار پھر کہتا ہے اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔ یعنی اب تک جو کچھ میں نے کہا تھا وہ صرف میرے عقیدہ کا
اظہا ر تھا مگر اب جب کہ میری گودی بھر گئی ہے اور مجھے وہ چیزیں ملی ہیں جو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہیں اورمیر ا خیا ل حقیقت اور میر ا عقیدہ واقعہ بن چکا ہے میں دوبارہ اس امر کا اظہا ر کرتاہوں کہ اللہ واقع میں سب سے بڑا ہے کیو نکہ مَیں نے بیکس اور بے بس ہونے کے باوجود فلاح پا لی ،میرا عقیدہ ٹھیک نکلا اور میرا ایمان حقیقت بن گیا اِس لئے اب مَیں یقین اور تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑاہے۔پھر وہ آخر میں کہتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہ خدا کی بڑائی کے اظہار سے تو صرف یہ ثابت ہوتا تھا کہ کئی طاقتوں میں سے خدا کی طاقت سب سے بڑی ہے مگر اُس کے نشان دیکھ کر اب تو مَیں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں خدا کی حکومت کے سِوا کسی کی حکومت ہی باقی نہیں رہے گی صرف وہی پُوجا جائے گا اور اس کا حکم دنیا میں چلے گا۔
مسجدِ نبویؐ میں بیٹھ کر تمام
دنیا کو فتح کرنے کے عزائم
دیکھو !مسلمانوں نے سچے دل سے یہ نو بت بجا ئی تھی پھر کس طرح وہ مدینہ سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئے۔دُنیا میں اُس وقت دو ہی حقیقی
حکومتیں تھیں ایک قیصر کی حکومت تھی جو مغرب پر حاکم تھی اور ایک کسرٰی کی حکومت تھی جو مشرق کی مالک تھی۔ مگر اس نوبت خانہ میں جو بظاہر اتنا حقیر تھا کہ کھجور کی ٹہنیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی، پا نی برستا تھا تو زمین گیلی ہو جاتی تھی اور اُس کے نوبت بجا نے والے جب اُس میں جا کر اپنے آقا کے سامنے جُھکتے تھے تو اُن کے گُھٹنے کیچڑ سے بھر جا تے تھے اور اُن کے ماتھے مٹی سے بھر جا تے تھے۔ یہ لوگ تھے جو قیصر اور کسریٰ کی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے آئے تھے۔ یو رپ کا ایک مصنف اپنے انصاف اور قلبی عدل کی وجہ سے لکھتا ہے کہ مَیں اسلام کو نہیں مانتا،مَیں عیسائی پا دریوں کی باتوں سے سمجھتا ہو ں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں اسلام جھوٹا ہی ہو گا لیکن مَیں جب تاریخ پڑھتا ہوں تو تیرہ سَوسال کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتاہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ایک کچّامکان ہے، اُس کے اوپر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے، بارش ہو تی ہے تو اُس میں پانی آجاتا ہے (حدیثوں میں یہ واقعات آئے ہیں کہ بار ش ہوتی تو پانی ٹپکنے لگ جاتا) اور جب وہ نمازوں کے لئے کھڑے ہوتے تو ُگھٹنو ں تک کیچڑلگا ہو تا تھا اور کوئی خشک جگہ اُن کو بیٹھنے کے لئے نہیں مِلتی، جب عبادت کر کے پھر وہ اکٹھے ہو کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو مَیں عالَمِ خیال میں قریب سے اُن کی باتیں سُنتا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ اُن کے پھٹے ہوئے کپڑے ہیں، کسی کے پا س کُرتہ ہے تو تہہ بند نہیں ہے، کسی کے پا س تہہ بند ہے تو کُرتہ نہیں ہے، کسی کے سر پر ٹوپی ہے تو ُجو تی نہیں ہے، کسی کے پاس پھٹی ہوئی ُجوتی ہے تو ٹوپی نہیں اور وہ سر گوشیا ں کررہے ہیں اور مَیں قریب ہو کر اُن کی باتیں ُسنتا ہوں کہ وہ کیاکہہ رہے تھے۔ جب مَیں قریب پہنچتا ہوں تو وہ یہ کہتے سُنا ئی دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی بادشاہت عطا کر دی ہے۔ ہم مشرق پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم مغرب پر بھی قابض ہو جائیں گے، ہم شمال پر بھی قابض ہو جائیں گے اورہم جنوب پر بھی قابض ہو جائیں گے۔ اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ اَب بتاؤ کہ مَیں اسلام کو کس طرح جھوٹا کہوں؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ایسی تھی کہ بعض غریب گاؤں کے لوگ جب میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے مسجد بنانی ہے تو مَیں کہتا ہوں کہ ایسی ہی بنا لو۔ وہ کہتے ہیں نہیں جی !کچھ تو اچھی ہو۔ تو کسی گاؤں کے پا نچ آدمی بھی اس مسجد کی طرح مسجد بنانے کو تیار نہیں ہوتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی لیکن ان مسجدوں میں جو نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ہمسائیوں سے ڈر رہے ہوتے ہیں مگر اُس کھجور کی ٹہنیوں کی چھت والی مسجد جس میں پانی ٹپکتا رہتا تھا نماز پڑھنے والے یُوں بیٹھے ہوتے تھے کہ گویا اُنہوں نے دُنیا کو فتح کرنا ہے اور وہ واقع میں دنیا کو فتح کر لیتے ہیں۔ ایک ایک گوشہ اُن کے قدموں کے نیچے آتا ہے اور اُن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے بڑے بڑے بادشاہوں کی کھوپڑیاں تڑپتی جاتی ہیں۔
اِسلام کے ذریعہ دُنیا میں ایک
بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا
غرض اِس نوبت خانہ میں اس اعلان کی دیرتھی کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ دنیا میں اَب خدا کی بادشاہت کے سِوا ہم کسی کو نہیں چھو ڑیں
گے کہ ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا۔خدا کی بادشاہت آسمان سے زمین پر آگئی اور ظلم اور جَور کی دُنیا عدل اور انصاف سے بھر گئی۔ اِس سے چھ سَو سال پہلے ایک اَور شخص جو برگزیدہ تھا، ایک اور شخص جس کو خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے، ایک اور شخص جس کی اطاعت کا آج دُنیا کی اکثریت اقرار کر رہی ہے ،ایک اَور شخص جس کی حکومت میں انگلستان کی حکومت، فرانس کی حکومت، سپین کی حکومت، جرمن کی حکومت، پولینڈ کی حکومت، فلپائن کی حکومت، امریکہ کی ساری حکومتیں اور ریاستیں اُس کی خدائی کی اقراری ہیں اور اُس کے آگے سر جُھکاتی ہیں۔ وہ بھی کہتا ہے کہ:-
‘‘اے خدا!جس طرح آسمان پر تیری بادشاہت ہے اُسی طرح زمین پر بھی ہو۔’’68
مگر آج اُنیس سَو سال گزر گئے اُس کے ذریعہ سے خداکی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر قائم نہیں ہوئی۔ لیکن یہ شخص جو ایک ایسے کچّے مکان میں رہ کے اور اِس نوبت خانہ میں آکے خدا تعالیٰ کا پیغام سُنا تا ہے ،وہ ابھی مرنے نہیں پاتا کہ خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوجاتی ہے۔ اور اُس کی وفات کے نو سال کے اندر اندر سارے عرب پر بادشاہت قائم ہوجاتی ہے۔وہ کھڑا ہو تا ہے اور ایسے وقت میں جب دشمن کی فوجیں اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے کھڑی ہیں ،مدینہ سے باہر نکل کر پا خانہ کوئی پھر نہیں سکتا ،خندق کھو دی جاتی ہے تا دشمن کے حملہ سے بچائے۔ ایک پتھر نہیں ٹوٹتا۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں یَارَسُوْلَ اللہِ! پتھر نہیں ٹوٹتا۔ فرماتے ہیں لاؤ ہتھوڑا مجھے دو مَیں توڑتا ہوں۔ آخر پتّھر پر ہتھو ڑا مارتے ہیں۔ وہ پتّھر بڑا سخت ہے۔ اُس پر ہتھو ڑا مارتے ہیں تو اُس میں سے شُعلہ نکلتا ہے۔ پھر مارتے ہیں پھر شُعلہ نکلتا ہے۔ آپؐ ہر دفعہ کہتے ہیں اَللہُ اَکْبَرُ۔ اَللہُ اَکْبَرُ ۔پھر تیسری دفعہ مارتے ہیں۔ جب شُعلہ نکلتا ہے پھر اَللہُ اَکْبَرُکہتے ہیں۔صحابہؓ بھی اَللہُ اَکْبَرُ کہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایاتم نے کیوں اَللہُ اَکْبَرُ کہا؟ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ!آپ ؐ نے کیو ں کہا ؟آپؐ نے فرمایا۔ مَیں نے پہلی دفعہ پتّھر پر ہتھوڑا مارا تو اُس میں سے شُعلہ نکلا اور اُس شُعلہ میں سے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا کہ قیصر کی حکومت توڑ دی گئی۔ اور مَیں نے کہا اَللہُ اَکْبَرُ ۔ جب مَیں نے دوسرا ہتھوڑا مارا تو پھر اُس میں دوسرا شُعلہ نکلا اور مجھے یہ نظارہ دیکھا یا گیا کہ کسرٰی کی حکومت توڑ دی گئی پھر مَیں نے اَللہُ اَکْبَرُ کہا۔ جب مَیں نے تیسر ا ہتھو ڑا مارا ،مجھے دکھایا گیا کہ حمیر کی حکومت توڑ دی گئی۔ اِس پر پھر مَیں نے اَللہُ اَکْبَرُ کا نعرہ مارا۔صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللہِ! ہمارے بھی نعرے اِسی طرح سمجھ لیجیئے۔69
قیصر وکسرٰی کی حکومتوں کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کردی گئی
پھر آپؐ نے فرمایا اِذَا ھَلَکَ کِسْرٰی فَلاَ کِسْرٰی بَعْدَہٗ وَ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔70 خدا قیصر کو میرے سپا ہیوں کے مقابلہ میں شکست دے گااور ایسی شکست دے گا کہ اِس کے بعد دنیا میں کوئی قیصر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ میرے آدمیوں کے ذریعہ سے کسرٰی کو شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ دنیا میں اس کے بعد کوئی کسرٰی نہیں کہلائے گا۔
جس وقت اِس نو بت خانہ سے نو بت بجی اُس وقت کہا گیا کہ دُنیا میں خدا کی حکومت قائم کی جائے گی۔ دیکھ لینا کہ اِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلاَ قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔ دنیا میں ایک طرف مغرب میں قیصر حاکم ہے لیکن قیصر ہلا ک کیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں کھڑا ہو گا بس خداکی حکومت وہاں ہو گی۔ دوسری طرف مشرق میں کسرٰی کی حکومت ہے کسرٰی کو تباہ کیا جائے گا اور اُس کے بعد کوئی کسرٰی نہیں کھڑا ہو گا اُس کی جگہ بھی خُدا کی بادشاہت قائم ہوگی۔ اور مشرق ومغرب میں میرے ما ننے والوں، میرے مریدوں اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت زمین پر آکر قائم ہو گی۔
غرض اِس َنو بت خانہ سے جو یہ نو بت بجی ،یہ کیا شاندار نو بت ہے۔ پھر کیسی معقول نوبت ہے۔ وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں۔ٹوں،ٹوں،ٹوں۔ ٹیں،ٹیں،ٹیں۔ اوریہ کہتاہے اَللہُ اَکْبَرُ۔اَللہُ اَکْبَرُ۔اَشْھَدُ اَنْ لَّااِلٰـہَ اِلَّا اللہُ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ۔ حَیَّ عَلَی الصَّلٰو ۃِ۔حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ۔کیا معقول باتیں ہیں۔ کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں۔ بچّہ بھی سُنے تو وجد کرنے لگ جا ئے اور اِن کے متعلق کو ئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جا ئے بھَلا یہ کیا بات ہو ئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں۔ مگرافسوس!کہ اِس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا۔ یہ نو بت خانہ حکومت کی آوا ز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اِس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہؤا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور اُن میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جا تے ہیں۔ تب اِس نو بت خانہ کی آواز کا رُعب جاتا رہا، اسلام کا سایہ ِکھنچنے لگ گیا، خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دُنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی۔
اَب خداکی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو !ہاں تم کو!ہاں تم کو! خداتعالیٰ نے پھر اِس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے۔ اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اِس زور سے بجاؤ کہ دُنیا کے کا ن پھٹ جائیں۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو۔ ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اِس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لَرز جائیں اور فرشتے بھی کا نپ اُٹھیں تاکہ تمہا ری دردناک آواز یں اور تمہارے نعرہائے تکبیر اور نعرہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجا ئے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اِس زمین پر قائم ہو جا ئے۔ اِسی غرض کیلئے مَیں نے تحریک جدید کو جا ری کیا ہے اور اِسی غرض کیلئے مَیں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں۔ سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جا ؤ۔ محمدؐ رسول اللہ کا تخت آج مسیحؑ نے چھینا ہؤا ہے۔تم نے مسیحؑ سے چھین کرپھر وہ تخت محمدؐ رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسو ل اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو نی ہے۔ پس میری سنو اورمیری بات کے پیچھے چلو کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے۔میری آواز نہیں ہے، مَیں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں۔ تم میری مانو!خدا تمہا رے ساتھ ہو، خدا تمہا رے ساتھ ہو، خدا تمہا رے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عزّت پا ؤ او ر آخرت میں بھی عزت پاؤ۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا کہ دنیا میں خدا اور
اُس کے رسول ؐ کی بادشاہت قائم ہو
اِس کے بعد مَیں جلسہ کو دُعا کے بعد ختم کرتاہوں اور پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ مبلّغین کی جو با ہر سے
تاریں آئی ہیں اُن کیلئے بھی دُعا کرو، اپنے لئے بھی دُعا کرو،اپنے گھر والوں کیلئے بھی دُعا کرو جو احمدی پیچھے رہ گئے ہیں اُن کے لئے بھی اللہ سے دُعا کرو اور سب سے زیادہ تو یہ دُعا مانگو کہ ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ سچا عبد اور اپنے دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ہم سے کوئی ایسی کمزوری ظاہر نہ ہو جس کی وجہ سے اسلام کو، قرآن کو، رسول اللہؐ کے دین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو دین کی خدمت کی ایسی توفیق دے کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام پھر طاقت پکڑ ے اور قوّت پکڑے او ر ہم اپنی آنکھو ں سے خدا اور اُس کے رسولؐ کی بادشاہت اِس دُنیا میں دیکھ لیں۔ اور جس طرح ہماری پیدائشیں ایک افسردہ دنیا میں ہوتی ہیں ہماری موتیں خوش دنیا میں ہوں۔ اور ہم اپنے پیچھے اُس دنیا کو چھوڑ کر جائیں جس پر ہمارے خدا ئے واحد کا قبضہ ہو اور شیطان اُس میں سے نکال دیا گیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دے دی ورنہ جس قسم کی بیماریوں میں سے مَیں گزرا تھا اور اب تک بھی مَیں کمزوری محسوس کرتا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اب کی دفعہ مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہؤا تھا کہ شاید آپ لوگوں میں یہ میر ا آخری جلسہ ہو گا۔ کیونکہ اب میراجسم میری طاقت کو زیا دہ دیر برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے اُمید بھی نہیں تھی کہ خداتعالیٰ مجھے اِتنی دیر بولنے کی توفیق دے دے گا مگر اُس نے توفیق دے دی ہے۔ خدا تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں۔ جہا ں اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دی ہے وہاں وہ ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق دے دے اور ہمیں اسلام کو اُس کی اصلی شان وشوکت میں لانے کی توفیق بخشے۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔’’
1 الفاتحۃ : 2
2 مُضْعِفْ : کمزور کرنے والا۔
3 لام بندی : لام باندھنا۔ چاروں طرف سے لشکر جمع کرنا۔
4 چھینکے : وہ جالی یا لٹکن جو کھانا وغیرہ رکھنے کیلئے چھت میں لٹکا دیتے ہیں۔
5 القمر : 42 تا 47
6 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ147 مطبوعہ مصر 1295ھ
7 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 155 مطبوعہ مصر 1295ھ
8 الاحزاب : 14 9 الاحزاب:23
10 سیرت ابن ہشام جلد ١ صفحہ 180مطبوعہ مصر 1295ھ
11 الفتح : 2 تا 4 12 المائدۃ : 21
13 تفسیر درمنثور للسیوطی جلد 6 صفحہ 69 مطبوعہ بیروت 1314ھ
14 تا16 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 83 مطبوعہ مصر 1935ء
17 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 84 مطبوعہ مصر1935ء
18 فراش : بچھونا
19 سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 211، 212 مطبوعہ مصر 1295ھ
20 السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 73، 74 مطبوعہ بیروت 1320ھ
21 السیرۃ الحلبیۃ جلد3صفحہ 74 مطبوعہ بیروت 1320ھ
22 سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ 212 مطبوعہ مصر 1295ھ
23،24 سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ213 مطبوعہ مصر 1295ھ
25، 26 السیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ93، 94 مطبوعہ مصر 1935ء
27 الفتح:17 28 الفتح : 22
29 نفیریاں : شہنائیاں
30 الحج : 40 تا 42
31 السیرۃ الحلبیۃ جلد1صفحہ 361 مطبوعہ مصر 1932ء
32 المجادلۃ : 23 33 المائدۃ : 57 34 البقرۃ : 250
35 الانفال : 66 36 اٰل عمران : 174 37 اٰل عمران : 125، 126
38 اٰل عمران: 127
39 فتوح البلدان صفحہ 142مطبوعہ مصر 1319ھ
40
41 تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 72 مطبوعہ بیروت 1987ء
42 مسلم کتاب الفضائل باب من فَضَائِل مُوْسٰی
43 الانعام : 109 44 المائدۃ : 9
45 تا 50 ابوداؤد کتاب الجھاد باب فی دُعَاءِ الْمُشْرِکِیْن، السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء
51 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء (مفہومًا)
52 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء
53
54تا56 مؤطا امام مالک کتاب الجھاد۔ باب النَّھْیُ عن قَتْلِ النِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزْوِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکرؓ کی طرف منسوب ہیں۔
57 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 207
58 ابوداؤد کتاب الجھاد باب مَا یُؤمَرُ من انضمام العسکر و سعتہٖ
59 الاحزاب : 24
60 سیرت ابن ہشام جلد ١ صفحہ 85 مطبوعہ مصر 1295ھ
61 العٰدیٰت : 2 تا 6
62 ڈگ بھرنا : لمبے قدم اُٹھانا ۔ تیز چلنا
63 التوبۃ : 52
64 بخاری کتاب الجھاد والسیر باب مَنْ یَنْکُبُ اَوْ یُطْعن فِیْ سَبِیْلِ اللہ۔
65 تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ 247تا 249 بیروت 1987ء
66 الانعام : 57، 58
67 شمائل الترمذی باب مَاجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
68 متی باب 6 آیت 9، 10 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء (مفہوماً)
69 السیرۃ الحلبیۃ الجزء الثانی صفحہ 334مطبوعہ مصر 1935ء
70 بخاری کتاب المناقب باب علامات النّبوَّۃِ فی الاسلام










مولانا شوکت علی کی یاد میں








از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مولانا شوکت علی کی یاد میں

(تحریر کردہ جنوری 1954ء)

‘‘......مولانا شوکت علی صاحب مرحوم اپنی ذات میں بھی بڑے کارکن تھے لیکن ان کی عزت زیادہ تر اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی صاحب مرحوم کی وجہ سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد علی صاحب دماغ تھے اور مولانا شوکت علی ہاتھ تھے۔کام کرنے کی جو طاقت اور ہمت مولانا شوکت علی مرحوم میں تھی وہ مولانا محمد علی مرحوم میں نہ تھی اور سوچنے اور قوم کی خاطرقربانی کی جو طاقت اور ہمت مولانا محمد علی میں تھی وہ مولانا شوکت علی میں نہ تھی۔ گو یہ نہیں کہا جا سکتا جو طاقتیں ایک میں تھیں وہ دوسرے میں نہیں تھیں میرا مطلب صرف یہ ہے کہ دونوں بھائیوں میں ایک ایک قسم کی طاقتیں زیادہ نمایاں تھیں۔
مَیں دونوں بھائیوں سے روشناس 1920ء کے بعد ہؤا۔ نام ان کے دیر سے جانتا تھا کیونکہ دونوں مولانا صاحبان کے بڑے بھائی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب ہماری جماعت میں 19ویں صدی کی ابتدا میں شامل تھے۔ مولانا شوکت علی مرحوم کا جوش اتنا بڑھا ہؤا تھا کہ میں نے دیکھا ہے مولانا محمد علی بھی ان کے جوش کی زیادتی کی وجہ سے ان سے خائف رہتے تھے لیکن شوکت علی صاحب کے اندر میں نے یہ خوبی محسوس کی کہ وہ مولانا محمدعلی کی قابلیت کے ہمیشہ معترف رہتے تھے۔ جب سوچنے کا مسئلہ آتا تو ہمیشہ ہی اپنے چھوٹے بھائی کو آگے کرتے تھے اور خود ان کے پیچھے چلنے کی کوشش کرتے تھے۔
اسلام کی محبت اور درد
اسلام کی محبت اور اسلام کادرد مولانا شوکت علی مرحوم میں بے انتہا تھا کوئی بات جو ان کے خلاف ہو
وہ سُننا برداشت کر لیتے تھے۔ وفاداری کا جذبہ ان میں کمال کا پایا جاتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا تھا سب سے پہلی ملاقات میری دونوں بھائیوں سے بمبئی میں ہوئی۔ جب کہ مسٹر گاندھی نے میری ملاقات میں سہولت پیدا کرنے کے لئے کانگریس کا جلسہ دہلی سے ملتوی کر کے بمبئی میں بلوایا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں یورپ کے تبلیغی دورے سے واپس آ رہا تھا اور پروگرام کے مطابق میں نے مسٹر گاندھی سے دہلی میں ملاقات کرنی تھی جہاں کانگریس کا جلسہ ہو رہا تھا لیکن جہاز میں وائرلیس کے ذریعہ مجھے خبر ملی کہ میرے گھر میں بچہ پیدا ہؤا ہے اوراس سلسلہ میں میری بیوی کی صحت خراب ہو گئی ہے اور زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں نے وائرلیس کے ذریعے مسٹر گاندھی کو اطلاع دی کہ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم بمبئی میں مل لیں۔ انہوں نے مہربانی فرما کر دہلی کے جلسہ کو ملتوی کر کے بمبئی میں مقرر کر دیا اور خود بمبئی آگئے۔ میں جب ان سے ملنے گیا تو کانگرس کا جلسہ ہو رہا تھا۔ وہ جلسے سے اٹھ کر ایک علیحدہ کمرے میں مجھے ملاقات کے لئے لے گئے اور انہوں نے مولانا شوکت علی اور مولانا محمدعلی صاحبان کو بھی گفتگو کے لئے بلا لیا۔ گفتگو اس موضوع پر شروع ہوئی کہ کیوں جماعت احمدیہ کانگرس میں شامل نہیں ہوتی؟ میں نے جواب دیا۔ مولانا شوکت علی صاحب مرحوم کی نظر میں وہ جواب مسٹر گاندھی کی پالیسی پر حملہ تھا اور وہ ایسی بات کا سننا برداشت نہیں کر سکے۔ مولانا محمد علی صاحب کو میں نے دیکھا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے رہے لیکن مولانا شوکت علی صاحب بیچ میں بول پڑے اور انہوں نے میری تردید کرنی چاہی لیکن مسٹر گاندھی نے فوراً ان کو روک دیا اور کہا کہ شوکت علی صاحب آپ شاید بات نہیں سمجھے انہوں نے جو اعتراض کیا ہے وہ سوچنے کے قابل ضرور ہے۔
میں نے یہ با ت کہی تھی کہ مسٹر جناح جیسا قومی خادم اور کانگرس کا پرانا ورکر اگر مسٹرگاندھی کے بعض فیصلوں کو جبر اور زیادتی قرار دے کر کانگرس کی باقاعدہ ممبری سے الگ ہو گیا ہے تو میرے جیسے لوگ جو مسلمانوں کے حقوق کی تائید میں پہلے ہی سے کانگر س سے اختلاف رکھتے ہیں اُس وقت تک کانگرس میں کس طرح آ سکتے ہیں جب تک ان کی برابری اور آزادی کے ساتھ کانگرس میں آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ میں نے کھدر پوشی کی ہی مثال پیش کی اور کہا کہ مسٹر جناح نے اس جبری حکم کو ناجائز قرار دیا ہے کہ لوگوں کو کھدر پوشی پر مجبور کیا جائے(اُس وقت تک مسٹر جناح کانگرس کے ساتھ متفق تھے اور پاکستان کا خیال ابھی پیدا نہ ہؤا تھا) یہ تھی غالباً ہماری پہلی ملاقات۔ اس کے بعد دہلی اور شملہ میں ہمیں متواتر ملنے کا موقع ملا اور ایک دن وہ آ گیا کہ مولانا شوکت علی مرحوم اور مولانا محمد علی مرحوم کانگرس سے جدا ہو کر اسلامی تنظیم کے قیام میں مشغول ہو گئے اور اب مولانا شوکت علی کا رویہ بھی مختلف تھا وہ رات دن مسلمانوں کی تنظیم میں لگے رہتے تھے اور بسا اوقات شملہ میں ایسے مواقع پر بجائے مختلف کیمپوں میں ہونے کے ہم ایک رائے کے ہوتے تھے اور مل کر یہ تجویزیں سوچا کرتے تھے کہ کس طرح مسلمانوں کو متحد کیا جا سکتا ہے اور متحد رکھا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی سیاسی تحریکوں میں اور خصوصاً مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی مفاہمت کے متعلق مولانا شوکت علی مولانا محمد علی کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔
شملہ میٹنگ
مجھے خوب یادہے کہ مولانا محمد علی صاحب جب کانگرس سے بے زار ہوئے تو سب سے پہلی میٹنگ انہوں نے شملہ میں بلوائی۔
میں بھی وہاں تھا اور اس میٹنگ میں شامل ہؤا۔ یہ میٹنگ اسمبلی کے ایک کمرہ میں منعقد کی گئی۔ مولانا محمدعلی نے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس میں واضح کیا کہ مسلمانوں کے حقوق ہندوؤں کے ہاتھوںمحفوظ نہیں اور بڑے پُر زور دلائل سے مسلمانوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے منظم ہونے کی تحریک کی۔ میٹنگ ہو رہی تھی کہ ایک نوجوان پشاور کا (جو علی گڑھ سے قانونی تعلیم حاصل کر کے نکلا تھا مجلس میں آکر شامل ہؤا) مجھے اس کانام یاد نہیں لیکن میرے دل میں شبہ ہے کہ وہ موجودہ پاکستانی لیڈروں میں سے ایک ہے۔ مولانا محمد علی کی تقریر کے بعد کھڑے ہوکر اس نے بڑے لطیف پیرائے میں یہ بات بیان کرنا شروع کی کہ کچھ سال پہلے ایک مسلم لیڈر نے علی گڑھ کالج میں تقریر کی تھی اور اس نے یہ بتایا تھا کہ بعض لوگ یہ دلائل مسلمانوں کو ہندوؤں سے بگاڑنے کے لئے دیتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آج میں یہی دلائل مولانا محمد علی کے مُنہ سے سن رہا ہوں۔ مولانا محمد علی ان کی یہ تقریر سنتے رہے اور مسکراتے رہے کیونکہ جس بزرگ کی علی گڑھ والی تقریر کا اس نے ذکر کیا تھا وہ خود مولانا محمد علی تھے۔ مگر مولانا شوکت علی برداشت نہ کر سکے اور کھڑے ہو گئے بڑے زور سے اس کے خیالات کی تردید کی اور بتایا کہ انسان خیالات بدلتا رہتا ہے کیونکہ بعض دفعہ اس کو کئی راز ایسے معلوم ہو جاتے ہیں جو اس کو پہلے سے معلوم نہ تھے۔ اگر ایک وقت ہم نے قوم کا فائدہ کانگریس سے ملنے سے دیکھا تو ہم نے وہی بات کہہ دی کیونکہ ملک کے لئے وہی رائے مناسب تھی لیکن جب ہم نے دیکھا کہ ہندو قوم مسلمانوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں ہے تو ہم نے اپنی قوم کی قربانی پیش کرنے سے انکار کر دیا اور کانگرس سے الگ ہو گئے۔ اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے۔ مولانا محمد علی برابر مسکراتے رہے چونکہ اصل حالات کا علم نہیں تھا۔ میں کچھ حیران سا ہؤا۔ بعض نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ بات کیا تھی؟ انہوں نے کہا یہ مولانا محمد علی کی تقریر تھی جس پر یہ اعتراض کر رہا تھا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اندھا دھند ایک راستے کو اختیار کرتے جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ راستہ کس طرف بند ہوتا ہے اور کس طرف کھلتاہے۔ بہرحال میرے لئے وہ نہایت لطیف نظارہ تھاکہ خود وہ شخص جس پر اعتراض ہو رہا تھا مسکرا رہا تھا اور جس کا کوئی ذکر نہ تھا وہ جوش میں آر ہا تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں مولانا محمد علی مرحوم کو غصہ نہ آیا کرتا تھا۔ غصہ ان کو بھی آتا تھا لیکن ان باتوں کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں۔
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مخلصانہ خدمات کو جو انہوں نے مسلمانوں کے لئے کی تھیں قبول فرمائے اور انہیں مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے اور مسلمانوں کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے طریقِ عمل سے سبق حاصل کریں اور وہ سچی اور بے لوث خدمت پاکستان، عالمِ اسلام اور مسلمانوں کی کر سکیں۔ آمین ’’
(ماہنامہ‘‘ریاض’’ کراچی، جنوری 1954ء صفحہ 23تا 25،
‘‘شوکت علی نمبر’’ مدیر سید رئیس احمد جعفری)
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تحقیقاتی عدالت میں
حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان







از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان

(بیان فرمودہ 13 تا 15جنوری1954ء)

ذیل میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا وہ بیان درج کیا جاتا ہے جو تحقیقاتی عدالت میں بتاریخ 13،14،15 جنوری1954ء بصورت شہادت قلم بند ہؤا۔ اصل بیان املا کر دہ عدالت عالیہ انگریزی میں ہے اور ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔
بجواب سوالات عدالت بتاریخ 13جنوری1954ء
سوال:کیا وہ تحریری بیان جو 22جولائی 1953ء کو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اِس عدالت میں پیش کیا گیا اور جس کی تصدیق مرزا عزیز احمد نے کی اور جس پر مسٹر بشیراحمد، مسٹر اسداللہ خاں اور مسٹر غلام مرتضیٰ کے دستخط ہیں وہ صحیح طور پر آپ کی جماعت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے؟
جواب: جی ہاں۔ ایسی امکانی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو سہواً رہ گئی ہو۔
سوال:تحقیقاتی عدالت نے آپ کی انجمن سے کچھ سوالات پوچھے تھے جن کا جواب اگزبٹ نمبر 322 کی صورت میں موجود ہے۔ کیا یہ جواب بھی صحیح طور پر آپ کی جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے؟
جواب: جی ہاں۔ یہ جواب مجھے دکھایا گیا تھا اور یہ میری جماعت کے نظریات کی صحیح طور پر ترجمانی کرتا ہے لیکن اِس دستاویز کے بارہ میں بھی کسی امکانی سہوِ نظر کے متعلق وہی رعایت ملحوظ رکھی جانی چاہئے۔
سوال:مولاناابوالاعلیٰ مودودی کے بیان کے جواب میں بھی اِس عدالت کے سامنے ایک بیان دستاویز 323پیش کیا گیا تھا۔ کیا آپ نے اُس بیان کو دیکھ لیا تھا؟
جواب: یہ بیان مجھ سے مشورہ لینے کے بعد تیا رکیا گیا تھا اور غالباً مَیں نے اس کو پڑھا بھی تھا۔ اس کے متعلق بھی وہی رعایت مدِّنظر رکھتے ہوئے جن کا مَیں نے دوسری دو دستاویزات کے متعلق ذکر کیا ہے یہ سمجھا جانا چاہئے کہ یہ اس جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے جس کا مَیں امیر ہوں۔
سوال: رسول کون ہوتا ہے؟
جواب: رسول اُسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کیلئے انسانوں کی راہنمائی کی غرض سے مامور کیا ہو۔
سوال: کیا نبی اور رسول میں کوئی فرق ہے؟
جواب: صفات کے لحاظ سے دونوںمیں کوئی خاص فرق نہیں۔وہی شخص اس لحاظ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتا ہے رسول کہلائے گا لیکن اُن لوگوں کے لحاظ سے جن کی طرف وہ خدائی پیغام لاتا ہے وہ نبی کہلائے گا۔ اِس طرح وہی ایک شخص رسول بھی ہوگا اور نبی بھی۔
سوال: آپ کے نزدیک آدم سے لے کر اب تک کتنے رسول یا نبی گزرے ہیں؟
جواب:غالباً اس بارہ میں کوئی بات قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی احادیث میں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان ہوئی ہے۔1
سوال: کیا آدمؑ،نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑرسول تھے؟
جواب: آدمؑ کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اُن کو بعض لوگ صرف نبی یقین کرتے ہیں اور رسول نہیں سمجھتے مگر میرے نزدیک یہ سب رسول بھی تھے اور نبی بھی۔
سوال: ولی کس کو کہتے ہیں؟
جواب: وہ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے۔
سوال: اور محدث کون ہوتا ہے؟
جواب: وہ جس سے اللہ کلام کرتا ہے۔
سوال:اور مجدّد کس کو کہتے ہیں؟
جواب: وہ جو اصلاح اور تجدید کرتا ہے۔ محدث ہی کا دوسرا نام مجدّد ہے۔
سوال: کیا ولی،محدث یا مجدّد کو وحی ہو سکتی ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: اُن پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے؟
جواب:وحی کے معنے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو وحی پانے والے پر مختلف طریق سے نازل ہو سکتا ہے۔ وحی کے نازل ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس پر وحی نازل ہوتی ہے اُس کے سامنے ایک فرشتہ ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ جس شخص پر وحی نازل ہوتی ہے وہ بعض الفاظ سنتا ہے لیکن کلام کرنے والے کو نہیں دیکھتا۔ وحی کا تیسرا طریق مِنْ وَّرَاءِ حِجَاب ہے(پردے کے پیچھے سے) یعنی رؤیا کے ذریعہ سے۔
سوال: کیا فرشتوں کے سردار حضرت جبریل کسی ولی،محدث یا مجدد پروحی لا سکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں۔ بلکہ متذکرہ بالا اشخاص کے علاوہ دیگر افرادپر بھی ۔
سوال: ایک ولی،محدث یا مجدّد پر نازل ہونے والی وحی کا کیا موضوع ہو سکتا ہے؟
جواب:جس پر وحی نازل ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار یا آئندہ آنے والے واقعات کی خبر یا کسی پہلی نازل شدہ کتاب کے متن کی وضاحت ۔
سوال: کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف جبریل کے ذریعہ ہی وحی نازل ہوتی تھی؟
جواب: یہ درست نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وحی حضرت جبریل ہی لاتے تھے۔ ہاں یہ درست ہے کہ وحی خواہ ایک نبی یا ولی یا محدّث یا مجدّد پر نازل ہو وہ حضرت جبریل کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے۔
سوال: وحی اور الہام میں کیا فرق ہے؟
جواب: کوئی فرق نہیں۔
سوال : کیا مرزاغلام احمد صاحب پر حضرت جبریل وحی لاتے تھے؟
جواب: میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہر وحی حضرت جبریل کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے ایک الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبریل ایک دفعہ اُن پر نظر آنے والی صورت میں ظاہر ہوئے تھے۔
سوال: کیا مرزا صاحب اصطلاحی (Dogmatic)معنوں میں نبی تھے؟
جواب: مَیں نبی کی کوئی اصطلاحی(Dogmatic)تعریف نہیں جانتا۔ مَیں اُس شخص کو نبی سمجھتا ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی کہا ہو۔
سوال: کیا اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو نبی کہا ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: مرزا صاحب نے پہلی مرتبہ کب کہا کہ وہ نبی ہیں؟ مہربانی فرما کر اس کی تاریخ بتلائیے اور اس بارہ میں اُن کی کسی تحریر کا حوالہ دیجئے۔
جواب: جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے 1891ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔
سوال:کیا ایک نبی کے ظہور سے ایک نئی اُمت پیدا ہوتی ہے؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا اُس کے آنے سے ایک نئی جماعت پیدا ہوتی ہے؟
جواب: جی ہاں ۔
سوال: کیا ایک نئے نبی پر ایمان لانا دوسرے لوگوں کے متعلق اُس کے ماننے والوں کے رویہ پر اثر انداز نہیں ہوتا؟
جواب: اگر تو آنے والا نبی صاحبِ شریعت ہے تو اِس سوال کا جواب اثبات میں ہے لیکن اگر وہ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا تو دوسروں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ کا انحصار اُس سلوک پر ہوگا جو دوسرے لوگ اُن کے ساتھ کرتے ہیں۔
سوال: کیا دوسرے مفہوم کے لحاظ سے احمدی ایک جداگانہ کلاس نہیں ہیں؟
جواب: ہم کوئی نئی اُمت نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں۔
سوال: کیا ایک احمدی کی اوّلین وفاداری اپنی مملکت کے ساتھ ہوتی ہے یا کہ اپنی جماعت کے امیر کے ساتھ؟
جواب: یہ بات ہمارے عقیدہ کا حصّہ ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہوں اُس کی حکومت کی اطاعت کریں۔
سوال: کیا 1891ء سے پہلے مرزا غلام احمد صاحب نے باربار نہیں کہا تھا کہ وہ نبی نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی وحی وحی ِ نبوت نہیں بلکہ وحیِ ولایت ہے؟
جواب: اُنہوں نے 1900ء میں لکھا تھا کہ اُس وقت تک اُن کا یہ خیال تھا کہ ایک شخص صرف اُس صورت میں ہی نبی ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اُنہیں بتلایا کہ نبی ہونے کے لئے شریعت کا لانا ضروری شرط نہیں اور یہ کہ ایک شخص نئی شریعت لائے بغیر بھی نبی ہو سکتا ہے۔
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب معصوم تھے؟
جواب: اگر تو لفظ معصوم کے معنے یہ ہیں کہ نبی کبھی بھی کوئی غلطی نہیں کر سکتا تو ان معنوں کے لحاظ سے کوئی فرد بشر بھی معصوم نہیں حتیٰ کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِن معنوں کے لحاظ سے معصوم نہ تھے۔ جب معصوم کا لفظ نبی کے متعلق بولا جاتا ہے تو اِس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اُس شریعت کے کسی حکم کی جس کا وہ پابند ہو خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے گناہ کا خواہ وہ کبیرہ ہو یا صغیرہ مرتکب نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مکروہات کا بھی مرتکب نہیں ہو سکتا۔ کئی نبی ایسے گزرے ہیں جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے۔ وہ امور جو شریعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں اُن کے بارہ میں نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے مثلاً دو فریق مقدمہ کے درمیان تنازعہ کے بارہ میں اُس سے غلط فیصلہ کا صادر ہونا ناممکن نہیں ہے۔
سوال: آپ اس سوال کا جواب کس رنگ میں دے سکتے ہیں کہ آیا مرزا غلام احمد صاحب کسی مفہوم کے مطابق معصوم تھے؟
جواب: وہ ان معنوں میں معصوم تھے کہ وہ کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ نہیں کر سکتے تھے۔
سوال: کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی روزِ حساب اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہوں گے؟
جواب: قیاس یہی ہے کہ اُنہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ آپ کی اُمت میں کثیر التعداد ایسے لوگ ہیں جو نبی نہیں ہیں مگر وہ یوم الحساب کو حساب سے مستثنیٰ ہوں گے۔
سوال: موت کے بعد انبیاء پر کیا گزرتی ہے؟ کیا وہ دوسرے انسانوں کی طرح یوم الحساب تک قبروں میں رہتے ہیں یا کہ سیدھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں؟
جواب: میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ انبیاء موت کے بعد سیدھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ درست ہے کہ وہ اللہ کے قریب تر ایک خاص مقام پر پہنچائے جاتے ہیں۔ چونکہ مرزا غلام احمد صاحب نبی تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن سے بھی عام احمدیوں کی طرح نہیں بلکہ خاص سلوک کیا ہوگا۔
سوال: کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ جب آدمی مَر جاتا ہے تو مُنکر و نکیر قبر میں اُس کے پاس آتے ہیں؟
جواب: مُنکر و نکیر دو فرشتے ہیں لیکن میرا یہ عقیدہ نہیں کہ وہ قبر میں مُردوں سے سوالات کرنے کے لئے جسمانی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
سوال: منکرونکیر قبر میں کیوں آتے ہیں؟
جواب: مرنے والے کو اُس کے گزشتہ اعمال کی خبر دینے کے لئے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں مُنکرونکیر مرزاغلام احمد صاحب کی قبر میں بھی آئے تھے؟
جواب: میرے پاس اِس بات کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔
سوال: کیا وہ نُور جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو معاف کرنے کے بعد اُس میں داخل کیا تھا مرزاصاحب کو بھی ورثہ میں مِلا ہے؟
جواب: مجھے کسی ایسی تھیوری کا علم نہیں۔ قرآن کریم یا کسی صحیح حدیث میں کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں۔
سوال: کیا قرآن کریم میں مسیح یا مہدی کے متعلق کوئی واضح پیشگوئی موجود ہے؟
جواب: ان کا ذکر قرآن کریم میں نام لے کر موجود نہیں۔
سوال: کیااحادیث مسیح اور مہدی کے ظہور پر متفق ہیں؟
جواب: ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کوئی مسیح ظاہر نہیں ہوگا۔ جہاں تک مہدی کا تعلق ہے بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور مسیح ایک ہی ہیں۔
سوال: کیا تمام مسلمان متفقہ طور پر اِن احادیث کو مانتے ہیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا اس احادیث سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیح اور مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخص ہوں گے؟
جواب: ہاں ! بعض احادیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے۔
سوال:اِن احادیث کے مطابق جن میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی کی گئی ہے دجّال کے قتل اور یاجوج و ماجوج کی تباہی کے کتنا عرصہ بعد اسرافیل اپنا پہلا صور پھونکے گا؟
جواب: مَیں اِن احادیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
سوال: کیا آپ اِن احادیث کو مانتے ہیں جن میں دجّال اور یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے؟
جواب:اِس سوال کا جواب دینے کے لئے مجھے اِن احادیث کی پڑتال کرنا ہوگی، دجّال، یاجوج ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔
سوال: کیا مسیح یا مہدی کو نبی کا رُتبہ حاصل ہوگا؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: کیا وہ دُنیوی بادشاہ ہوں گے؟
جواب: میرے نزدیک نہیں۔
سوال: کیا اِس مفہوم کی کوئی حدیث ہے کہ مسیح جہاد یا جزیہ کے متعلق قانون منسوخ کردے گا؟
جواب: ایک حدیث ''جزیہ '' کے متعلق ہے اور دوسری ''حرب'' کے متعلق۔ ہم جزیہ کے متعلق حدیث کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسری کو اُس کی وضاحت سمجھتے ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ جو الفاظ یعنی یَضَعُ حدیث میں استعمال ہوئے ہیں ان کے معنے منسوخ کرنے کے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس لفظ کے معنے التواء کے ہیں۔
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: کیا مسیح یا مہدی کے ظہور پر اس پر ایمان لانا مسلمانوں کے عقیدہ کا ضروری جزو ہے؟
جواب: جی ہاں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہے تو اِسے ماننا اُس پر فرض ہو جاتا ہے۔
سوال: کیا دینِ اسلام ایک سیاسی مذہبی نظام ہے؟
جواب: یہ ایک مذہبی نظام ہے مگر اِس میں کچھ سیاسی احکام بھی ہیں جو اِس مذہبی نظام کا حصّہ ہیں اور جن کا ماننا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسرے احکام کا۔
سوال: اِس نظام میں کفّار کی کیا حیثیت ہے؟
جواب: کفّار کو وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مسلمانوں کو۔
سوال: کافر کسے کہتے ہیں؟
جواب: کافر اور مؤمن اور مسلم نسبتی الفاظ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ معلّق ہیں ان کا کوئی جداگانہ معیّن مفہوم نہیں۔قرآن کریم میں کافر کا لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بھی استعمال ہؤا ہے اور طاغوت کے تعلق میں بھی۔ اِسی طرح مؤمن کا لفظ طاغوت کے تعلق میں بھی استعمال ہؤا ہے۔
سوال: کیا اسلامی نظام میں کفّار یعنی غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون سازی اور قانون کے نفاذ میں حصّہ لیں اور کیا وہ اعلیٰ انتظامی ذمّہ داری کے عُہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں؟
جواب: میرے نزدیک قرآن نے جس حکومت کو خالص اسلامی حکومت کہا ہے اُس کا قیام موجودہ حالات میں ناممکن ہے۔ اسلامی حکومت کی اِس تعریف کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دُنیا کے تمام مسلمان ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوں۔ مگر موجودہ حالات میں یہ صورت بالکل ناقابلِ عمل ہے۔
سوال: کیا کبھی اسلامی حکومت قائم رہی بھی ہے؟
جواب: جی ہاں۔ خلفائے راشدین کی اسلامی جمہوریت کے زمانہ میں۔
سوال: اس جمہوریہ میں کفّار کی کیا حیثیت تھی؟ کیا وہ قانون سازی اور نفاذِ قانون میں حصّہ لے سکتے تھے اور کیا وہ انتظامیہ کی اعلیٰ ذمّہ داریوں کے عُہدوں پر متمکن ہو سکتے تھے؟
جواب: یہ سوال اُس وقت پیدا ہی نہیں ہؤا تھا کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے دَور میں مسلمانوں اور کفّار میں مسلسل جنگ جاری رہی اور جو کفّار مفتوح ہو جاتے تھے اسلامی مملکت میں اُنہیں وہی حقوق حاصل ہوجاتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل ہوتے تھے۔ اُن دنوں آجکل جیسی منتخب شُدہ اسمبلیاں موجود نہ تھیں۔
سوال: کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عدلیہ علیحدہ ہوتی تھی؟
جواب: اُن دنوں سب سے بڑی عدلیہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
سوال: کیا اسلامی طرز کی حکومت میں ایک کافر کو حق حاصل ہے کہ وہ کُھلے طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: اسلامی مملکت میں اگر کوئی مسلمان مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے بعد دیانتداری کے ساتھ اسلام کو ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے مثلاً عیسائی یا دہریہ ہو جاتا ہے تو کیاوہ اُس مملکت کی رعایا کے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے؟
جواب: میرے نزدیک تو ایسا نہیں لیکن اسلام میں دوسرے ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کاعقیدہ رکھتے ہیں۔
سوال: اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر واجبی غور کرنے کے بعد دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعویٰ غلط تھا تو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا؟
جواب: جی ہاں۔ عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔
سوال: کیاآپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو سزا دے گا جو غلط مذہبی خیالات یا عقائد رکھتے ہوں لیکن دیانتداری سے ایسا کرتے ہوں؟
جواب: میرے نزدیک سزاء جزاء کا اصول دیانتداری اور نیک نیتی پر مبنی ہے نہ کہ عقیدہ کی صداقت پر۔
سوال: کیا ایک اسلامی حکومت کا یہ مذہبی فرض ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے قرآن اور سُنت کے تمام احکام کی جن میں حقوق اللہ کے متعلق قوانین بھی شامل ہیں پابندی کرائے؟
جواب: اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ گناہ کی ذمّہ داری انفرادی ہے اور ایک شخص صرف اُن ہی گناہوں کا ذمّہ دار ہوتا ہے جن کا وہ خود مرتکب ہوتا ہے۔ اس لئے اگر اسلامی مملکت میں کوئی شخص قرآن و سُنت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُس کا وہ خود ہی جواب دہ ہے۔
بجواب سوالات عدالت بتاریخ 14جنوری1954ء
سوال: کل آپ نے کہا تھا کہ گناہ کی ذمّہ داری انفرادی ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ مَیں ایک مُسلم حکومت کا مسلمان شہری ہوں اور مَیں ایک دوسرے شخص کو قرآن و سُنت کی کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ کیا میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ مَیں اُسے اِس خلاف ورزی سے روکوں؟ مذہبی فرض کا مطلب یہ ہے کہ اگر مَیں اُسے ایسا کرنے سے نہ روکوں تو مَیں خود بھی گنہگار ہوں گا؟
جواب: آپ کا فرض صرف اُس شخص کو نصیحت کرنا ہے۔
سوال: اگر مَیں صاحبِ امر ہوں تو کیا پھر بھی یہی صورت ہوگی؟
جواب: پھر بھی آپ کا یہ مذہبی فرض نہیں کہ آپ اُس شخص کو ایسا کرنے سے جبراً روکیں۔
سوال: اگر مَیں صاحبِ امر ہوں تو کیا میرا یہ فرض ہوگا کہ مَیں ایسا دُنیاوی قانون بناؤں جو اِس قسم کی خلاف ورزیوں کو قابلِ سزا قرار دے؟
جواب: جی نہیں، ایسا کرنا آپ کا مذہبی فرض نہیں ہوگا لیکن ایسا قانون بنانے کا آپ کو اختیار حاصل ہوگا۔
سوال: کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں؟
جواب: ہاں یہ کفر ہے لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جس سے کوئی شخص ملّت سے خارج ہو جاتا ہے۔ دوسرا وہ جس سے وہ ملّت سے خارج نہیں ہوتا۔ کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے۔ دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجے کی بدعقیدگیوں سے پیدا ہوتا ہے۔
سوال: کیا ایسا شخص جو ایسے نبی کو نہیں مانتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آیا ہو اگلے جہان میں سزا کا مستوجب ہوگا؟
جواب: ہم ایسے شخص کو گنہگار تو سمجھتے ہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سزا دے گا یا نہیں اس کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔
سوال: کیا آپ خاتم النّبِیّین میں خاتم کو ''ت'' کی فتح سے پڑھتے ہیں یا کسرہ سے؟
جواب: دونوں درست ہیں۔
سوال: اِس اصطلاح کے صحیح معنے کیا ہیں؟
جواب: اگر اِسے ''ت'' کی زبر سے پڑھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نبیوں کی زینت ہیں جس طرح انگوٹھی انسان کے لئے زینت ہوتی ہے۔ اگر اسے کسرہ سے پڑھا جائے تو لغت کہتی ہے کہ اس صورت میں بھی اس کا یہی مفہوم ہوگا مگر اِس سے وہ شخص بھی مراد ہوگا جو کسی چیز کو اختتام تک پہنچا دے۔ اِس مفہوم کے مطابق اِس کا یہ مطلب ہوگا کہ خاتم النبیین آخری نبی ہیں مگر اِس صورت میں لفظ النبیین سے مراد وہ نبی ہوں گے جن کے ساتھ شریعت نازل ہو یعنی تشریعی نبی۔
سوال: مرزا غلام احمد صاحب کن معنوں میں نبی تھے؟
جواب: مَیں اِس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ وہ اِس لئے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں ان کا نام نبی رکھا ہے۔
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی درجہ کا کوئی اور شخص آئندہ آسکتا ہے؟
جواب: اِس کا امکان ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا اللہ تعالیٰ آئندہ ایسے اشخاص مبعوث کرے گا یا نہیں۔
سوال: کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟
جواب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی۔
سوال: کیا آپ کی جماعت میں کسی عورت نے اس منصب پر ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب: میرے علم کے مطابق نہیں۔
سوال: کیا جہنّم ابدی ہے؟
جواب:نہیں۔
سوال: کیا جہنّم کوئی جانور ہے یا متحرک شَے یا کوئی مقررہ مقام؟
جواب: جہنّم صرف ایک روح سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے۔
سوال:امام غزالی نے جہنم کو ایک جانور سے تشبیہہ دی ہے۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مجازاً استعمال کیا گیا ہے۔
سوال: اسلام کے بعض نکتہ چین کہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ ایک معمولی عالمِ دین اسے سمجھتا ہے ذہنی غلامی کو دائمی شکل دیتا ہے کیونکہ وہ دیانتداری سے مخالفت کرنے والوں کو چاہے وہ کتنے ہی دیانتدار ہوں ہمیشہ کے لئے جہنمی قراردیتا ہے۔
جواب: میری رائے میں اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو جہنم کو ابدی نہیں سمجھتا۔
سوال: کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اُن لوگوں تک بھی وسیع ہوگی جو مسلمان نہیں ہیں؟
جواب: یقیناً۔
سوال: کیا قوم کا موجودہ نظریہ کہ ایک ریاست کے مختلف مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو مساوی سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اسلام میں پایا جاتا ہے؟
جواب: یقیناً
سوال: ایک غیر مسلم حکومت میں ایک مسلمان کا اس صورت میں کیا فرض ہے اگر یہ حکومت کوئی ایسا قانون بنائے جو قرآن و سُنت کے خلاف ہو؟
جواب:اگر حکومت قانون بناتے وقت وہ اختیارات استعمال کرے جو وہ بحیثیت حکومت استعمال کر سکتی ہے تو مسلمانوں کو اُس قانون کی تعمیل کرنی چاہئے لیکن اگر یہ قانون پرسنل ہو مثلاً اگر یہ قانون مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکے تو چونکہ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس لئے مسلمانوں کو ایسا ملک چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن اگر سوال معمولی نوعیت کا ہو مثلاً وراثت، شادی وغیرہ کا معاملہ ہو تو مسلمان کو اس قانون کو تسلیم کر لینا چاہئے۔
سوال: کیا ایک مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہو سکتا ہے؟
جواب: یقیناً۔
سوال: اگر وہ ایک غیر مسلم حکومت کی فوج میں ہو اور اُسے ایک مسلم حکومت کے ساتھ لڑنے کیلئے کہا جائے تواس صورت میں اس کا کیا فرض ہوگا؟
جواب:یہ اس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا مسلم مملکت حق پر ہے یا نہیں؟ اگروہ سمجھے کہ مسلم حکومت حق پر ہے تب اس کا فرض ہے کہ وہ استعفیٰ دے دے یا جیسا کہ بعض دوسرے ممالک میں دستور ہے یہ اعلان کر دے کہ ایسی جنگ میں شمولیت میری ضمیر کے خلاف ہے۔
سوال: کیا آپ کا یہ ایمان ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب بھی انہی معنوں میں شفیع ہوں گے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شفیع سمجھا جاتا ہے؟
جواب:جی نہیں۔
چودھری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی
کی جرح کے جواب میں
سوال: آپ کی جماعت میں الفضل کو کیا حیثیت حاصل ہے؟ اور آپ کا اِس سے کیا تعلق ہے؟
جواب: یہ صحیح ہے کہ اس اخبار کو مَیں نے جاری کیا تھا لیکن مَیں نے دو تین سال بعد اپنا تعلق اِس سے منقطع کر لیا تھا۔ غالباً ایسا میں نے 1915ء یا 1916ء میں کیا تھا۔ یہ اب صدرانجمن احمدیہ ربوہ کی ملکیت ہے۔
سوال: کیا 1915،1916ء کے بعد آپ کے اختیار میں یہ بات تھی کہ آپ اس کی اشاعت کو روک دیں؟
جواب: جی ہاں۔ اس اعتبار سے کہ جماعت میری وفادار ہے اور اگر مَیں انہیں کہوں کہ وہ اس پرچہ کو نہ خریدیں تو اس کی اشاعت خود بخود بند ہو جائے گی۔
عدالت کا سوال: کیا آپ انجمن کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی اشاعت کو بند کردے؟
جواب: مَیں انجمن کو بھی مشورہ دے سکتا ہوں جو اس کی مالک ہے کہ وہ اس کی اشاعت کو روک دے۔
وکیل کے سوال: کیا آپ مؤمن اور مسلم کی اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہیں جو صدرانجمن احمدیہ ربوہ نے عدالت کے ایک سوال کے جواب میں دی تھی؟
جواب: ہاں۔
سوال: کیا آپ اپریل 1911ء میں تشحیذ الاذہان کے ایڈیٹر تھے؟
جواب: ہاں۔
سوال: کیا آپ نے جن خیالات کا آج یا کل اظہار کیا ہے ان خیالات سے کسی رنگ میں مختلف ہیں جو آپ نے اپریل 1911ء میں تشحیذالاذہان کے دیباچہ میں ظاہر کئے تھے؟
جواب: نہیں۔
سوال: کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ 35 پر ظاہر کیا تھا یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کانام بھی نہ سُنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج؟
جواب: یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ مَیں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں۔پس جب مَیں ''کافر'' کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی مَیں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملّت سے خارج نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ 240پر کیا گیا ہے۔ جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ایک دُونَ الایمان اور دوسرے فَوْقَ الایمان۔دُونَ الایمان میں وہ مسلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے۔ فَوْقَ الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں۔ اِس لئے جب مَیں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فَوْقَ الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اُس کی حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔2
سوال: موجودہ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے پہلے کیا آپ ان مسلمانوں کو جو مرزاغلام احمد صاحب کو نہیں مانتے کافر اوردائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتے رہے؟
جواب: ہاں مَیں یہ کہتا رہا ہوں اور ساتھ ہی میں ''کافر'' اور ''خارج ازدائرہ اسلام'' کی اصطلاحوں کے اس مفہوم کی بھی وضاحت کرتا رہا ہوں جس میں یہ اصطلاحیں استعمال کی گئیں۔
سوال:کیا یہ صحیح نہیں کہ موجودہ ایجی ٹیشن شروع ہونے سے قبل آپ اپنی جماعت کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھیں اور غیر احمدیوں سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہ کریں؟
جواب: مَیں یہ سب کچھ غیر احمدی علماء کے اسی قسم کے فتوؤں کے جواب میں کہتا رہا ہوں بلکہ مَیں نے اُن سے کم کہا ہے کیونکہ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا۔3
سوال: آپ نے اب اپنی شہادت میں کہا ہے کہ جو شخص نیک نیتی کے ساتھ مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتا وہ پھر بھی مسلمان رہتا ہے۔ کیا شروع سے آپ کا یہی نظریہ رہا ہے؟
جواب: ہاں
سوال: کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلافات بنیادی ہیں؟
جواب:اگر لفظ بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس لفظ کا لیا ہے تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں۔
سوال: اگر لفظ ''بنیادی'' عام معنوں میں لیا جائے تو پھر؟
جواب: عام معنوں میں اس کا مطلب ''اہم'' ہے لیکن اِس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلافات بنیادی نہیں ہیں بلکہ فروعی ہیں۔
عدالت کا سوال: احمدیوں کی تعداد پاکستان میں کتنی ہے؟
جواب: دو اور تین لاکھ کے درمیان۔
وکیل کے سوال: کیا کتاب تحفہ گولڑویہ جو ستمبر 1902ء میں شائع ہوئی تھی مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف ہے؟
جواب:جی ہاں۔
سوال: کیا آپ کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ جس عقیدہ کا ذیل کے پیرا میں ذکر ہے وہ عامۃ المسلمین کا عقیدہ ہے:
‘‘جیسا کہ مؤمن کے لئے دوسرے احکام الٰہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں۔ ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے۔ دوسرا بعثِ احمدی جو کہ جمالی رنگ میں ہے۔’’
جواب: عامۃ المسلمین کے نزدیک اس کا اطلاق صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے لیکن ظلّی طورپر مرزا غلام احمد صاحب پر بھی ہوتا ہے۔
سوال: ازراہ کرم 21 اگست1917ء کے الفضل کے صفحہ نمبر٧ کے کالم نمبر ١ کو ملاحظہ فرمائیے جہاں آپ نے اپنی جماعت اور غیر احمدیوں میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
‘‘ورنہ حضرت مسیح موعودؑ نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اَور ہے اور ہمارا اَور، اُن کا خدا اَور ہے اور ہمارا اَور، ہمارا حج اَور ہے اور ان کا حج اَور اِسی طرح اُن سے ہر بات میں اختلاف ہے۔’’
کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: اُس وقت جب یہ عبارت شائع ہوئی تھی میرا کوئی ڈائری نویس نہیں تھا اِس لئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو صحیح طور پر رپورٹ کیا گیا ہے یا نہیں۔ تاہم اس کا مجازی رنگ میں مطلب لینا چاہئے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم زیادہ خلوص سے عمل کرتے ہیں۔
سوال: کیا آپ نے انوار خلافت کے صفحہ 93 پر کہا ہے کہ:
‘‘اب ایک اَور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اِس لئے اُن کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے لیکن اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اُس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا مُکَفِّر نہیں۔ مَیں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟’’
جواب: ہاں۔ لیکن یہ بات مَیں نے اس لئے کہی تھی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اُکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں۔ چونکہ اُن کا فتویٰ اب تک قائم ہے اِس لئے میرا فتویٰ بھی قائم ہے البتہ اب ہمیں بانی سلسلہ کا ایک فتویٰ ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور وخوض کے بعد پہلے فتویٰ میں ترمیم کر دی جائے۔
سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب نے حقیقۃ الوحی کے صفحہ 163 پر لکھا ہے کہ:
‘‘علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔’’
جواب: ہاں۔ یہ الفاظ اپنے عام معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔
سوال: 1944ء میں قیام پاکستان کے متعلق آپ کا طرزِ عمل کیا تھا؟کیا یہ صحیح ہے کہ 11جون 1944ء کو آپ نے ملفوظات میں کہا تھا کہ:
‘‘پاکستان اور آزاد حکومت کا مطالبہ ہندوستان کی غلامی کو مضبوط کرنے والی زنجیریں ہیں۔’’
جواب: ہاں۔ لیکن مَیں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ میرے اور مولانا مودودی سمیت کئی سرکردہ مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ قیام پاکستان کا مطالبہ ہندوستان کی آزادی کو مشکل بنا دے گا۔ ان دنوں پاکستان کے قیام کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ انگریز ایسی مملکت کے قیام کے خلاف تھے۔
سوال:کیا جیسا کہ الفضل مورخہ5۔اپریل1947ء میں شائع ہؤا تھا آپ نے یہ کہا تھا کہ:
(الف) ‘‘اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہندو مسلم سوال اُٹھ جائے اور ساری قومیں شیروشکر ہو کر رہیں ملک کے حصّے بخرے نہ ہوں۔بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں۔’’
(ب) ‘‘ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دُور ہو جائے’’
(ج) ‘‘بہر حال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیرو شکرہو کر رہیں۔’’
جواب: الفضل مورخہ 5۔اپریل 1947ء میں میری تقریر صحیح طور پر رپورٹ نہیں ہوئی۔ صحیح رپورٹ 12 اپریل 1947ء میں شائع ہوئی ہے۔
سوال : کیا آپ کی جماعت میں کوئی مُلّا بھی ہے؟
جواب: ''مُلّا '' کا لفظ ''مولوی'' کا مترادف ہے اور یہ لفظ تحقیر کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ مُلّا علی قاری، مُلّا شور بازار اور مُلّا باقر جو تمام معروف شخصیتیں ہیں مُلّا کہلاتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
سوال: کیا آپ نے سندھ سے واپسی پر کوئی پریس انٹرویو دیا تھا جو ١٢/اپریل 1947ء کے الفضل میں شائع ہؤا اور جس میں آپ سے ایک اخباری نمائندہ نے ایک سوال کیا اور آپ نے اُس کا جواب دیا؟
سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟
جس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس سوال کو دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصّے بخرے کرنے کی ضرورت نہیں۔
جواب: یہ صحیح ہے کہ ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا مذکورہ بالا الفاظ اس کا ایک اقتباس ہے جو کچھ اس میں کہا گیا وہ تقسیم کے سوال پر میری ذاتی رائے تھی۔
سوال: کیا آپ نے 14 مئی 1947ء کو نماز مغرب کے بعد اپنی مجلس علم و عرفان میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے جو 16مئی 1947ء کے الفضل میں شائع ہوئے۔
‘‘میں قبل ازیں بتا چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیرمعمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی ہونا پڑے تو یہ اَور بات ہے۔ بسا اوقات عضوماؤف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا بھی مشورہ دیتے ہیں لیکن یہ خوشی سے نہیں ہوتا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالَم میں۔ اور صرف اُسی وقت جب اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور اگر پھر یہ معلوم ہو جائے کہ اس ماؤف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے تو کونسا جاہل انسان اس کے لئے کوشش نہیں کرے گا۔ اِسی طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح جلد تر متحد ہو جائے۔’’
جواب: نہیں۔ مَیں نے بالکل انہی الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیاتھا۔ جو کچھ مَیں نے کہا اُسے بہت حد تک غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جس شخص نے میری تقریر کی رپورٹ مرتب کی یعنی منیر احمد وہ کبھی میرا ڈائری نویس نہیں رہا۔ اس بارے میں میرے صحیح خیالات الفضل مورخہ 21مئی1947ء میں شائع ہوئے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں:
''ان حالات کے پیش نظر ان (مسلمانوں) کا حق ہے کہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اِس میں اُس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے ..... بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے لیکن مَیں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سُکھ دیا تھا؟ تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھا اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی؟’’
سوال: کیا آپ نے جو کچھ 16مئی1947ء کے الفضل میں شائع ہؤا اُس کی تردید کی؟
جواب: جو کچھ اس میں بیان ہؤا تھا21مئی 1947ء کے الفضل میں عملاً اُس کی تردید کردی گئی تھی۔
سوال: الفضل پر شائع شدہ الفاظ 14 ہجرت کا کیا مطلب ہے؟
جواب: اس سے 14مئی مراد ہے۔
عدالت کا سوال: آپ اس مہینے کو ہجرت کیوں کہتے ہیں؟
جواب: کیونکہ تاریخ بتلاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ماہ مئی میں ہوئی تھی۔
وکیل کے سوال: کیا آپ سن ہجری استعمال کرتے ہیں یا کہ عیسوی کیلنڈر؟
جواب: ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ شمسی مہینوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کے اعتبار سے مختلف نام دے دیئے ہیں۔
سوال: کیا آپ نے جیسا کہ 12نومبر 1946ء کے الفضل میں درج ہے اپنے آپ کو اقلیت قرار دیا جانے کا مطالبہ کیا تھا؟
جواب: نہیں ۔اصل واقعات یہ ہیں کہ جب 1946ء میں ہندوؤں او رمسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حکومت نے مختلف فرقہ وارانہ پارٹیوں سے استفسارات کئے اور تمام مسلمانوں کو ایک جماعت قرار دیا۔ اس پر بعض مسلم لیگیوں کی طرف سے ہمیں کہا گیا کہ یہ انگریز کی ایک چال ہے جس نے اس طرح غیر مسلم جماعتوں کی تعداد بڑھادی ہے اور مسلمانوں کو صرف ایک پارٹی ہی تصور کیا ہے۔ اس پر ہم نے گورنمنٹ سے احتجاج کیا کہ کیوں احمدیوں سے بھی ایک پارٹی کی حیثیت میں استفسار نہیں کیا گیا؟ حکومت نے جواب دیا کہ ہم ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک مذہبی جماعت ہیں۔
سوال: کیا مارچ 1919ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک اجلاس میں آپ نے وہ بیان دیا تھا جس کا ذکر رسالہ‘‘عرفان الٰہی’’ کے صفحہ 93 پر ‘‘انتقام لینے کا زمانہ’’کے زیر عنوان کیا گیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ:
‘‘اب زمانہ بدل گیا ہے۔ دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا مگر اب مسیح اس لئے آیا تا اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارے۔؟’’
جواب:ہاں۔ مگر اقتباس والے اس فقرے کی تشریح کتاب کے صفحہ 101، 102پرکی گئی ہے۔ جہاں مَیں نے کہا ہے کہ:
‘‘لیکن کیا ہمیں اس کا کچھ جواب نہیں دینا چاہئے اور اس خون کا بدلہ نہیں لینا چاہئے؟ لیکن اُسی طریق سے جو حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں بتا دیا ہے اور جو یہ ہے کہ کابل کی سرزمین سے اگر احمدیت کا ایک پودا کاٹا گیا ہے تو اب خدا تعالیٰ اس کی بجائے ہزاروں پودے وہاں لگائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے قتل کا بدلہ یہ نہیں رکھا گیا کہ ہم ان کے قاتلوں کو قتل کریں اور ان کے خون بہائیں کیونکہ قتل کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمیں خدا نے پُرامن ذرائع سے کام کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے نہ کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے۔ پس ہمارا انتقام یہ ہے کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے دلوں میں احمدیت کا بیج بوئیں اور انہیں احمدی بنائیں اور جس چیز کو وہ مٹانا چاہتے ہیں اس کو ہم قائم کر دیں .....مگر اب ہمارا یہ کام ہے کہ ان کے خون کا بدلہ لیں اور ان کے قاتل جس چیز کو مٹانا چاہتے ہیں اسے قائم کردیں اور چونکہ خدا کی برگزیدہ جماعتوں میں شامل ہونے والے اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں کہ اپنے دشمنوں پر احسان کرتے ہیں اس لئے ہمارا بھی یہ کام نہیں ہے کہ سید عبداللطیف صاحب کے قتل کرنے والوں کو دنیا سے مٹادیں اور قتل کر دیں بلکہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے قائم کردیں اور ابدی زندگی کے مالک بنا دیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ انہیں احمدی بنائیں۔’’
عدالت کا سوال: اس سیاق و سباق میں ''احمدیت'' سے کیا مراد ہے؟
جواب:احمدیت سے مراد اسلام کی وہ تشریح ہے جو احمدیہ جماعت کے بانی نے کی۔
وکیل کے سوال:کیا آپ نے الفضل کے 15جولائی 1952ء کے شمارہ میں ایک مقالہ افتتاحیہ جو ‘‘خونی مُلّا کے آخری دن’’ کے عنوان سے شائع ہؤا دیکھا ہے جس میں مندرجہ ذیل الفاظ آتے ہیں:
‘‘ہاں آخری وقت آن پہنچا ہے ان تمام علماءِ حق کے خون کا بدلہ لینے کا جن کو شروع سے یہ خونی مُلّا قتل کرواتے آئے ہیں۔ ان سب کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔(1)عطاء اللہ شاہ بخاری سے (2)مُلّابدایونی سے (3) مُلّااحتشام الحق سے(4)مُلّا محمد شفیع سے (5)مُلّا مودودی (پانچویں سوار) سے۔’’
جواب:ہاں ۔ اس تحریر کے متعلق منٹگمری کے ایک آدمی کی طرف سے ایک شکایت میرے پاس پہنچی تھی او رمَیں نے اس کے متعلق متعلقہ ناظر سے جواب طلبی کی تھی اس نے مجھے بتلایا تھا کہ اس نے ایڈیٹر کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اس کی تردید کرے۔
سوال:کیا وہ تردید آپ کے علم میں آئی؟
جواب: نہیں۔ لیکن ابھی ابھی مجھے 7 اگست 1952ء کے الفضل کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان ''ایک غلطی کا ازالہ'' ہے دکھایا گیا ہے جس میں مذکورہ بالا تحریر کی تشریح کر دی گئی تھی۔
عدالت کا سوال:اس ادارتی مقالہ میں جن مولویوں کومُلّا کہا گیا ہے کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ احمدی مرتد اور واجب القتل ہیں؟
جواب:مَیں صرف یہ جانتا ہوں کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ رائے ظاہر کی تھی۔
وکیل کے سوال: کیا آپ نے جون 1919ء کے تشحیذ الاذہان کے صفحہ نمبر 38پر مندرجہ ذیل عبارت کہی تھی؟
‘‘خلیفہ ہو تو جو پہلا ہو اُس کی بیعت ہو۔ جو بعد میں دوسرا پہلے کے مقابل پر کھڑا ہو جائے جیسے لاہور میں ہے تو اُسے قتل کردو۔ مگر یہ قتل کا حکم تب ہے کہ جب سلطنت اپنی ہو۔ اب اس حکومت میں ہم ایسا نہیں کر سکتے۔’’
جواب: جی نہیں۔ ڈائری نویس نَو آموز تھا۔ مَیں نے جو کچھ کہا اُسے اُس نے غلط طور پر پیش کیا۔ درحقیقت جو کچھ مَیں نے کہا تھا مَیں نے اُس کی توضیح اُس وقت کر دی تھی جب احمدیوں کی لاہوری پارٹی نے حکومت سے شکایت کی تھی اورحکومت نے مجھ سے اس کی وضاحت چاہی تھی۔
سوال: کیا آپ کی جماعت خالص مذہبی جماعت ہے یا کہ سیاسی بھی؟
جواب: اصل میں تو یہ مذہبی جماعت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ بیکار نہیں رہ سکتا۔
سوال:کیا آپ نے کوئٹہ میں اپنے خطبہ جمعہ میں وہ تقریر (اگزبٹ ڈی۔ ای۔324) کی تھی جو الفضل کے 13اگست 1948ء کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے؟
جواب: جی ہاں
سوال: آپ نے جب اپنی تقریر میں ذیل کے الفاظ کہے تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟
‘‘یاد رکھو تبلیغ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ہماری baseمضبوط نہ ہو۔ پہلے baseمضبوط ہو تو تبلیغ ہو سکتی ہے۔’’
جواب: یہ الفاظ اپنی تشریح آپ کرتے ہیں۔
سوال: اور آپ نے جب یہ کہا تھا کہ بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تاکہ ہم کم از کم ایک صوبہ کو تو اپنا کہہ سکیں۔ تو اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟
جواب: میرے ایساکہنے کے دوسبب تھے (1) موجودہ نواب قلات کے دادا احمدی تھے اور (2)بلوچستان ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔
سوال: کیا آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے جو الفضل 22۔اکتوبر 1948ء (دستاویز ڈی۔ای210) میں شائع ہوئے ہیں؟
‘‘مَیں یہ جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ یہ ہمارا ہی شکار ہوگا۔ دُنیا کی ساری قومیں مِل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں۔’’
جواب:جی ہاں۔ لیکن اس عبارت کو اس کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔ یہاں مستقبل کا ذکر ہے۔ مَیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ چونکہ اس صوبہ میں ایک احمدی فوجی افسر قتل ہؤا ہے اس لئے یہ صوبہ لازماً احمدی ہو کر رہے گا۔
سوال: کیا ربوہ ایک خالص احمدی نو آبادی ہے؟
جواب: یہ زمین صدر انجمن احمدیہ نے خریدی تھی اور اسی کی ملکیت ہے۔ انجمن کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق جو چاہے انتظام کرے لیکن بعض غیر احمدیوں نے بھی زمین خریدنے کے لئے درخواست دی تھی۔ اس پر انجمن نے کہا کہ اسے اچھے ہمسائیوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں۔
سوال: کیا کسی غیر احمدی نے زمین خریدی؟
جواب: مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک غیر احمدی نے زمین خریدی ہے لیکن مجھے اس کا کوئی ذاتی علم نہیں۔
سوال: فسادات کے دوران میں آپ کہاں تھے؟
جواب: ربوہ میں۔
سوال: کیا جو واقعات لاہور میں پیش آئے ایسے کوئی واقعات ربوہ میں بھی ہوئے؟
جواب: نہیں۔
سوال: کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ بات متواتر کہتے رہے ہیں کہ ان کا اصل وطن قادیان ہے؟ اور بِالآخر انہوں نے وہاں ہی جانا ہے؟
جواب: ہر مسلمان کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے وطن کو واپس حاصل کرے۔
سوال: کیا ہندوستان میں بھی احمدیہ جماعت ہے؟
جواب:ہاں۔
سوال: برطانوی حکومت کے متعلق احمدیہ جماعت کے بانی کا کیا رویہ تھا؟
جواب: مَیں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق انسان جس ملک میں رہے اُن شرائط کے ماتحت جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے۔
سوال: کیا یہ امرِ واقع ہے کہ بغداد پر انگریزوں کے قبضہ ہونے پر قادیان میں خوشیاں منائی گئیں؟
جواب: یہ قطعاً غلط ہے۔
سوال: کیا آپ کے نظریہ کے مطابق قائم شدہ اسلامی سلطنت میں کوئی غیر احمدی اس مملکت کا رئیس ہو سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں۔پاکستان، مصر وغیرہ جیسی حکومت میں ہو سکتا ہے۔
سوال: فرض کیجئے کہ پاکستان ایک مذہبی مملکت نہیں تو کیا آپ کے نزدیک ایک غیر مسلم یہاں رئیس مملکت ہو سکتا ہے؟
جواب: یہ تو قانون ساز اسمبلی کی اکثریت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ رئیس مملکت مسلمان ہو یا غیر مسلم۔
سوال: کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا معاشرہ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہونا چاہئے؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا آپ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان میں سرکاری عُہدوں پر قبضہ کر لیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال:کیا جنگی لحاظ سے ربوہ کے جائے وقوع کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہے؟
جواب: جی ہاں۔ حکومت پاکستان کے ہاتھوں میں یہ ایک جنگی اہمیت والا مقام ہوگا۔
سوال: کیا آپ نے جیسا کہ الفضل مورخہ 9نومبر 1948ء صفحہ نمبر 2پر چھپا ہے ربوہ میں ایک پریس کانفرنس میں یہ بیان دیا تھا کہ:
‘‘گو یہ زمین موجودہ حالت میں واقعی مہنگی ہے اور اس میں کوئی جاذبیت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اسے ایک نہایت شاندار شہر کی صورت میں تبدیل کرنے کا تہیّہ کر چکے ہیں جو دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان میں محفوظ ترین مقام ہوگا۔’’
جواب:میں پانچ سال کے عرصہ کے بعد اِس وقت بتا نہیں سکتا کہ کانفرنس میں میرے اصل الفاظ کیا تھے۔
عدالت کا سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ربوہ کو جنگی لحاظ سے کوئی اہمیت حاصل ہے؟
جواب: ربوہ کے درمیان سے موٹر سڑک اور ریل دونوں گزرتی ہیں اس لئے اسے حکومت پاکستان کے خلاف جنگی اہمیت رکھنے والا مقام خیال نہیں کیا جا سکتا لیکن دوسرے لوگوں کے لحاظ سے اسے ہمارے لئے خاص اہمیت ضرور حاصل ہے کیونکہ چنیوٹ کی طرف سے جو دریا کے دوسری جانب واقع ہے اس پر حملہ نہیں ہو سکتا۔
مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکش نمائندہ مجلس عمل
کی جرح کے جواب میں
سوال: مسیلمہ بن الحبیب کے دعویٰ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: اس کا دعویٰ جھوٹا تھا۔
سوال: کیا وہ کلمہ پڑھتا تھا؟
جواب: نہیں۔
سوال: کیا وہ مسلمان تھا؟.
جواب: نہیں۔
سوال: حقیقۃ الوحی کے صفحہ نمبر124 پر لکھا ہؤا ہے کہ:
‘‘پھر ماسوائے اس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ جس میں سے یہ مرتد خارج ہؤا حق نہیں ہے۔کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بدبخت حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ان سے مرتد ہوگئے۔ پھر کئی لوگ حضرت عیسیٰ سے مرتد ہوئے اور پھر کئی بدبخت اور بدقسمت ہمارے نبی صلعم کے عہد میں آپ سے مرتد ہوگئے۔ چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا۔’’
کیاآپ کی رائے میں مسیلمہ مرتد تھا؟
جواب: ہاں۔ جب مَیں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں تھا اس سے میری مراد یہ تھی کہ دعوئ نبوت کے بعد وہ مسلمان نہیں رہا تھا۔
سوال:کیا آپ نے اسودعنسی، سجاح نبیہ کا ذبہ، طلیحہ اسدی کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے؟
جواب: ہاں۔
سوال: کیا ان تمام اشخاص نے جن میں ایک عورت بھی تھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا؟
جواب:نہیں۔ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان اشخاص نے جن میں سے ہرایک نے دعویٰ نبوت کیا مسلمانوں پر حملے کئے جس پر مسلمانوں نے اس کے جواب میں ان کو شکست دی۔
سوال: کیا حسب ذیل اشخاص نے وقتاً فوقتاً نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟
(1)حارث دمشقی 685-705ء نے خلیفہ عبد الملک کے زمانہ میں
(2) مغیرہ بن سعید الاجلی724-741ء
(3) ابو منصور الاجلی 724-741ء
(4)اسحاق الاخر اس المغربی 750-754ء
(5) ابوعیسیٰ اسحاق اصفہانی 754-775ء
(6)علی محمد خارجی 869ء
(7)حامین من اللہ ماعکاسی
(8)محمود واحد گیلانی1528-1586ء
(9)محمد علی باب 1850ء
جواب: محمد علی باب کے سوا دوسرے لوگوں کے متعلق وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ محمد علی باب نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا تھا بلکہ مہدی موعود کہا تھا۔
سوال: آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق تو بیان فرما دیا۔ مہربانی کر کے ظلّی نبی اور بروزی نبی کی بھی تعریف کر دیجئے۔
جواب: ان اصطلاحات سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جس کے متعلق ان اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے وہ خود بعض مخصوص صفات نہیں رکھتا بلکہ یہ صفات اس میں منعکس رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟
جواب: نہیں
سوال: کیا مرزاغلام احمد صاحب نے اربعین حصّہ چہارم کے صفحہ 83، 84میں یہ نہیں لکھا کہ:
‘‘ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند اوامر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں اوامر بھی ہیں نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔4یہ الہام براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔ اور اس پر تیئیس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی ابتک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی۔ اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى ۙ۔صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰىؒ۔ 5 یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔ اور اگریہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہے تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی۔ غرض یہ سب خیالات فضول اور کوتاہ اندیشیاں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربّانی کتابوں کا خاتم ہے۔ تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اَور مامور کے ذریعے سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا شریعت ہے جو مسیح موعودکا بھی کام ہے۔ پھر وہ دلیل تمہاری کیسی گاؤخورد ہو گئی کہ اگر کوئی شریعت لاوے اور مفتری ہو تو تیئیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔ چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے او رنہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فُلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے جیسا کہ ایک الہام الٰہی کی یہ عبارت ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا۔اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُاللہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ۔6 یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا۔ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھوں پر ہے۔
اب دیکھو خدا نے میری وحی اور تعلیم اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے مدارِ نجات ٹھہرایا۔ جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان ہوں وہ سنے۔’’
جواب: ہاں۔ لیکن انہوں نے ایک بعد کی کتاب میں اس کی تشریح کی ہے (گواہ نے ایک کتاب سے پڑھ کر سنایا)
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے ان لوگوں کو مرتد کہاہے جو احمدی بننے کے بعد اپنے عقیدے سے پھر گئے؟
جواب: مرتد کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا شخص جو واپس لَوٹ جائے۔مولانامودودی صاحب نے بھی یہ اصطلاح استعمال کی ہے۔
سوال: کیا آپ مرزا غلام احمد صاحب کو ان مامورین میں شمار کرتے ہیں جن کا ماننا مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے؟
جواب: مَیں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں۔ کوئی شخص جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان نہیں لاتا دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں؟
جواب:مَیں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ کی اُمت کے علماء تک میں آپؐ کی عظمت اور شان کا انعکاس ہوتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں ہو چکے ہوں گے۔
سوال: کیا آپ اس حدیث کو سچا تسلیم کرتے ہیں؟
جواب:ہاں۔
سوال: کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا سب انبیاء سے افضل تھے؟
جواب: ہم ان کے متعلق صرف حضرت مسیح ناصری سے افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
مولانا میکش کی جرح بتاریخ 15جنوری 1954ء
سوال: یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم (مسیح ناصری) قیامت سے پہلے پھر دوبارہ ظاہر ہوں گے۔ اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے؟
جواب: یہ بات غلط ہے کہ یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔ مسلمانوں کا ایک حصّہ ایسا بھی ہے جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری طبعی موت سے وفات پا گئے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم خود دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرا شخص جو اُن سے مشابہت رکھتا ہوگا اور ان کی صفات کا حامل ہوگا آئے گا۔
عدالت کا سوال: کیا حضرت عیسیٰ کے زمانے میں یہودی کسی مسیح کے منتظر تھے؟
جواب: جی ہاں۔ وہ ایک مسیح کی آمد کے منتظر تھے مگر اس سے پہلے الیاس نے آنا تھا جس نے آسمان سے اسی خاکی جسم کے ساتھ نازل ہونا تھا۔
سوال: کیا حضرت عیسیٰ ہی یہ مسیح تھے؟
جواب: ہمارے عقیدہ کے مطابق وہی مسیح تھے لیکن یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں۔
سوال: کیا حضرت عیسیٰ ناصری نے کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: یہودیوں نے خدا کو ایک تاجر کی شکل میں پیش کیا تھا اور یہ کہہ کر اس کے واحد اجارہ دار بن گئے تھے کہ خدا نے ابراہیم سے عہد کیا تھا کہ وہ کنعان کی زمین دوبارہ انہیں دے گا۔ اِسی طرح پولوس کو ماننے والے عیسائیوں نے خدا پر اپنا پہلا حقِ رہن جتایا اور اس حقِ رہن کی وجہ گال گوتھا کی پہاڑی پر حضرت مسیح کاپھانسی پاناقرار دی۔ اب مولانا مرتضیٰ احمد میکش اور ان کے ساتھ دوسرے علمائے دین دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا پر پہلا حق رہن ان کا ہے اور اس رہن کی قیمت یہ قرار دی گئی ہے کہ ذہنی غلامی اختیار کر لی جائے۔ کیا آپ بھی مرزاغلام احمد صاحب کی نبوت پر ایمان لانے کی وجہ سے خدا پر کسی مخصوص اور علیحدہ حقِ رہن کا دعویٰ رکھتے ہیں؟
جواب: ہم نہ تو کسی ایسے حقِ رہن کو مانتے ہیں اور نہ اس کے دعویدار ہیں۔
مولانا میکش کے سوال: آپ نے کل فرمایا تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب نے صرف عیسیٰ بن مریم پر اپنے آپ کو فضیلت دی ہے مگر 4و6۔اپریل 1915ء کے الفضل (دستاویز ڈی۔ ای 325) میں مرزا صاحب کی 17 اپریل1902ء کی ڈائری سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے:
‘‘کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں وہ سب حضرت رسول کریمؐ میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریمؐ سے ظلّی طور پر ہم کو عطا کئے گئے۔ او ر اس لئے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، داؤد، یوسف، سلیمان، یحیٰ،عیسیٰ وغیرہ ہے۔ چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے.....’’
کیا اس عبارت سے ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ آپ ان تمام انبیاء سے جن کا اس عبارت میں ذکر ہے افضل ہیں؟
جواب:اُن دنوں مرزا صاحب کوئی باقاعدہ ڈائری نہ رکھتے تھے۔ یہ اقتباس تو کسی رپورٹر کا لکھا ہؤا ہے۔ لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ رپورٹ صحیح ہے اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فضیلت دی ہے۔ اس کا مطلب تو صرف اُن صفات کو گنوانا ہے جو مرزا صاحب اور دوسرے انبیاء میں مشترک تھیں۔
سوال:عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لئے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ احمدی جو غیر احمدیوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہے جس کاآپ قبل ازیں اظہار کر چکے ہیں کہ آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر یہ طریق اختیار کیا ہے؟
جواب: بڑا سبب تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں یہ ہے کہ ہم غیر احمدیوں کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے دعویٰ کے دس سال بعد تک نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب نے احمدیوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے پڑھیں بلکہ خود بھی ایسی نماز جنازہ میں شریک ہوتے رہے۔ اور دوسرا سبب جو اصل میں پہلے سبب کا حصّہ ہی ہے یہ ہے کہ ایک متفقہ اور مسلّمہ حدیث کے مطابق جو شخص دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔
سوال: کیا غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرنے پر بھی آپ کے سابقہ جواب کا اطلاق ہوتا ہے؟
جواب: ہاں۔
سوال:ازراہ کرم القول الفضل کے صفحہ 45 کو ملاحظہ فرمائیے جس میں حسب ذیل عبارت ہے:
‘‘اس کے بعد خدا تعالیٰ کا حکم آیا۔ جس کے بعد نماز غیروں کے پیچھے حرام کی گئی اور اب صرف منع نہ تھی بلکہ حرام تھی اور حقیقی حرمت صرف خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔’’
کیا اس عبارت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ احمدیوں کو غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ کچھ اَور ہے؟
جواب:اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس وجہ سے احمدیوں کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا اس کی بعد میں وحی کے ذریعہ بھی تصدیق کر دی گئی۔
سوال:آپ نے انوار خلافت کے صفحہ نمبر 90 پر اس ممانعت کی ایک مختلف وجہ بیان کی ہے۔ متعلقہ عبارت یہ ہے:
‘‘ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں۔ یہ دین کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں۔’’
جواب: میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کفر کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو ایک شخص کو ملّت سے خارج نہیں کرتی۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمیں ایسے شخص کو اپنا امام بنانا چاہئے جو دوسروں سے زیادہ نیک اور صالح ہو۔7 ایک نبی کے انکار سے انسان کی نیکی کمزور ہو جاتی ہے۔
سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام اضافی الفاظ ہیں۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ الفاظ کفر، کافر، کافروں، کافرین،کفّار، الکفرۃ قرآن کریم میں ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی ایسے اشخاص کے متعلق جو اُمت سے باہر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟
جواب: مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ایک ہی معنوں میں استعمال نہیں ہؤا۔ کل مَیں نے قرآن کریم سے ہی اس کی ایک مثال پیش کی تھی۔
سوال: ازراہ کرم ذکر الٰہی کے صفحہ نمبر 22 کو دیکھئے جس میں حسب ذیل عبارت آتی ہے:
‘‘میرا تویہ عقیدہ ہے کہ دُنیا میں دو گروہ ہیں۔ ایک مؤمن۔ دوسرے کافر۔ پس جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے والے ہیں وہ مؤمن ہیں اور جو ایمان نہیں لائے خواہ ان کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ ہو وہ کافر ہیں۔’’
کیا یہاں لفظ ‘‘ کافر’’ مؤمن کے مقابل پہ استعمال نہیں ہؤا؟
جواب:اس عبارت میں مؤمن سے مراد وہ شخص ہے جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لاتا ہے اور کافر سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے۔
عدالت کا سوال:تو کیا مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانا جزو ایمان ہے؟
جواب: جی نہیں۔ یہاں پر لفظ مؤمن صرف مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانے کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اسلام کے بنیادی عقیدوں پرایمان لانے کے مفہوم میں۔
سوال: کیا جب ‘‘کفر’’ کے لفظ کے استعمال سے غلط فہمی اور تلخی پیدا ہونے کا احتمال ہے تو یہ بہتر نہیں ہوگا کہ یا تو اس کے استعمال کو قطعی طور پر ترک کر دیا جائے یا اس کے استعمال میں بہت احتیاط برتی جائے؟
جواب: ہم 1922ء سے اس سے اجتناب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
مولانا میکش کے سوال: کیا آپ نے اپنی جماعت کے متعلق کبھی اُمت کا لفظ استعمال کیاہے؟
جواب: میرا عقیدہ ہے کہ احمدی علیحدہ اُمت نہیں ہیں اور اگر کہیں اُمت کا لفظ احمدیوں کے متعلق استعمال ہؤا ہے تو بے توجہی سے ہؤا ہوگا اور اس سے اصل مراد جماعت ہے۔
سوال: 13۔اگست 1948ء کا الفضل دیکھئے۔اس میں حسب ذیل عبارت ہے:
‘‘اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا وہ کسی اور اُمت کے سپرد نہیں کیا۔ پہلے انبیاء میں سے کوئی نبی ایک لاکھ کی طرف آیا، کوئی نبی دو لاکھ کی طرف آیا اور کوئی دس لاکھ کی طرف آیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سوا لاکھ تھی یا ہو سکتا ہے کہ عرب کی آبادی آپ کے زمانہ میں دو تین لاکھ ہو۔ بس یہی آپ کے پہلے مخاطب تھے لیکن ہمارے چھٹتے ہی چالیس کروڑ مخاطب ہیں۔’’
یہاں کن معنوں میں آپ نے لفظ ''اُمت'' استعمال کیا ہے؟
جواب: یہاں میں نے لفظ اُمت ''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت'' کے لئے استعمال کیا ہے۔
سوال: کیا آپ انگریزوں کے اس لئے ممنونِ احسان نہیں ہیں کہ ان کے عہدِ حکومت میں آپ کے مخصوص عقائد پُھولے پھلے اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے شکر گزار نہ رہیں؟
جواب:شکر گزاری ایک اخلاقی فرض ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم ان کے احسان مند ہیں اور یہ اس منصفانہ سلوک کی وجہ سے ہے جو انہوں نے ہرایک کے ساتھ کیا۔ جن میں ہم بھی شامل ہیں۔
سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے انگریزوں کو ممنون کرنے کے لئے بلادِ اسلامیہ میں اشاعت کی غرض سے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں نہیں لکھیں جن سے کم وبیش پچاس الماریاں بھر جائیں؟
جواب: مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا اس غرض سے لکھا کہ اس سے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف دوسرے مذاہب میں پائی جاتی تھیں۔ یہ تصانیف کئی موضوعات و مضامین پر مشتمل ہیں جن کے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں۔ ضمناً ان میں مسئلہ جہاد بھی شامل تھا لیکن اس مخصوص مسئلہ پر انہوں نے صرف چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا تھا۔
سوال: کیا مندرجہ ذیل شعر میں مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت نہیں دی؟
لَہٗ خَسْفُ الْقَمرِ الْمُنِیْرِ وَ اِنَّ لِیْ
خَسَا الْقَمرَانِ الْمشْرِقَانِ أَتُنْکِرٗ
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف چاند کو گرہن لگا لیکن میرے لئے سورج اور چاند دونوں گہناگئے۔الخ
جواب: اس شعر میں صرف اُس حدیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا۔
سوال: کیا آپ نے کبھی عام مسلمانوں کو ابوجہل کہا اور اپنی جماعت کو اقلّیت قرار دیا؟
جواب: یہ صحیح نہیں ہے کہ میں عام مسلمانوں کو ابوجہل کی پارٹی قرار دیتا ہوں لیکن یہ امرواقع ہے کہ ہماری جماعت تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے۔
عدالت کا سوال:پاکستان میں کتنے احمدی کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں؟
جواب:میرے نزدیک تو چوہدری ظفر اللہ خاں کے علاوہ کوئی احمدی ایسی آسامی پر فائز نہیں جسے کلیدی کہا جاسکے۔
سوال:فضائیہ،بحریہ،برّی فوج میں احمدی افسروں کی تعداد کیا ہے؟
جواب: برّی فوج ڈیڑھ یا دو فیصدی ہوں گے، ہوائی فوج میں کوئی پانچ فیصدی اور بحری فوجیں دس فیصدی۔
سوال: کیا مسٹر لال شاہ بخاری احمدی ہیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا جنرل حیاء الدین احمدی ہیں؟
جواب: وہ کبھی احمدی تھے لیکن مَیں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی احمدی ہیں یا نہیں۔
سوال: کیا مسٹر غلام احمد پر نسپل گورنمنٹ کالج راولپنڈی احمدی ہیں؟
جواب: جی نہیں۔
سوال: کیا پاکستان میں موجودہ انڈونیشین سفیر کے پیشرو احمدی تھے؟
جواب: وہ احمدیوں کی قادیانی جماعت سے تو یقیناً تعلق نہ رکھتے تھے مگر مَیں نہیں کہہ سکتا کہ وہ لاہوری جماعت سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں۔ بہر حال1953ء میں انڈونیشن سفیر یقیناً احمدی نہ تھے۔
مولانا میکش کے سوال: کیا آپ نے اپنے ایک خطبہ میں وہ الفاظ کہے جن کی رپورٹ الفضل مورخہ 3جنوری 1952ء (دستاویز ڈی۔ای 326) میں شائع ہوئی ہے؟
جواب: مَیں رپورٹ کے الفاظ کے متعلق تو وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ رپورٹ بہت حد تک اُن الفاظ کے مفہوم کی آئینہ دار ہے جو مَیں نے کہے۔ مَیں نے یہ سب کچھ آفاق مورخہ 6 دسمبر 1951ء کے ایک مقالہ کے جواب میں کہا تھا۔
سوال: اس رپورٹ میں آپ یا آپ کے کسی جانشین کے پاکستان کے فاتح ہونے کی طرف اشارہ ہے؟
جواب: آپ رپورٹ کو غلط طور پر پیش کر رہے ہیں اِس میں ایسی کوئی بات نہیں۔
عدالت کا نوٹ:اِس یقین دلانے کے باوجود کہ مرزا غلام احمد صاحب یا گواہ کی کہی ہوئی کوئی بات یا جماعت احمدیہ کے شائع کردہ لٹریچر کو عدالت ایک مستقل شہادت کی صورت میں تسلیم کرے گی۔ اِس وقت تک جو بھی سوالات کئے گئے ہیں وہ تقریباً سب کے سب ایسی ہی تحریروں سے متعلق ہیں۔ یہ محض تضیع اوقات ہے اور ہم اِس بارہ میں مزید سوالات کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔
مسٹر نذیر احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ کے
مزید سوالات عدالت کی اجازت سے
سوال: سول وملٹری گزٹ کے 23فروری 1953ء کے پرچہ میں آپ کا ایک بیان شائع ہؤا تھا۔ کیا خواجہ نذیر احمد ایڈووکیٹ اس بیان کے شائع ہونے سے قبل یا بعد آپ سے ملے تھے؟
جواب: ہاں۔ وہ اس بیان کی اشاعت سے ایک یا دو دن قبل مجھ سے ملے تھے۔
سوال: کیاخواجہ نذیر احمد نے دوبارہ کسی وقت مارچ کے مہینہ میں آپ سے ملاقات کی؟
جواب: ہاں۔ وہ دوبارہ بھی مجھ سے ملے تھے لیکن مجھے تاریخ یاد نہیں وہ پہلی ملاقات کے ایک یا دو ماہ بعد ملے ہوں گے۔
سوال: کیا اُنہوں نے آپ کو خواجہ ناظم الدین کا کوئی پیغام دیا تھا؟
جواب:نہیں۔ اُنہوں نے خواجہ ناظم الدین کا کوئی ذکر نہیں کیا اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ کراچی میں ان کی گفتگو بعض اہم شخصیتوں سے ہوئی ہے۔ میرا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ گورنرجنرل سے ملے تھے۔
سوال: کیا اُنہوں نے مولانا مودودی کا نام لیا تھا؟
جواب: نہیں۔
تحریری درخواست جو منجانب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب
امام جماعت احمدیہ عدالت میں داخل کی گئی
جناب عالی!
مظہر کے بیان روبرو عدالت مورخہ 14جنوری 1954ء میں چند جوابات چونکہ ایسے اصطلاحی الفاظ پر مشتمل تھے جو عام استعمال میں نہیں آتے اس لئے ان کا ترجمہ شاید پورے طور پر مظہر کے مفہوم کا حامل نہ ہو۔ یا بصورت دیگر فریقین غلط تعبیر کی کوشش نہ کر سکیں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مظہر اپنے اصلی الفاظ کو دُہرادے اور اپنا منشاء واضح کر دے۔
اس لئے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل جوابات بعد تصدیق صحت شامل مثل فرمائے جاویں۔
سوال برصفحہ 13 یہ ہے:
سوال:اگر لفظ بنیادی عام معنی میں استعمال ہو تو پھر؟
جواب: عام مفہوم کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی ''اہم '' کے ہیں۔ لیکن اس مفہوم کی رو سے بھی یہ اختلافات حقیقتاً ''بنیادی'' نہیں اور انہیں فروعی کہا جا سکتا ہے۔
سوال برصفحہ 32 و33 یہ ہے:
سوال: آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق بیان کر دیا ہے۔ اب کیا آپ مہربانی کرکے ظلّی اور بروزی نبی کی تشریح فرمائیں گے؟
جواب:ان اصطلاحات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی نسبت یہ اصطلاحات استعمال کی جائیں وہ بعض مخصوص صفات کا براہ راست حامل نہیں ہوتا بلکہ اپنے متبوع سے روحانی ورثہ پاتے ہوئے انعکاسی رنگ میں یہ صفات حاصل کرتا ہے۔
سوال برصفحہ 31 یہ ہے:
سوال: کیا آپ کے خیال میں مسیلمہ کذّاب مرتد تھا؟
جواب: ہاں۔ جب مَیں نے یہ کہا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ وہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کے بعد مسلمان نہیں رہا تھا۔
دوسری تحریری درخواست مورخہ 14جنوری 1954ء
جو منجانب حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب
امام جماعت احمدیہ عدالت میں داخل کی گئی
جناب عالی!
مَیں نے کل جو بیان عصمت انبیاء کے متعلق دیا تھا میرے دل میں شک تھا کہ شاید میں پوری طرح اپنے مافی الضمیر کو واضح نہیں کر سکا۔ عدالت کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے وکلاء سے مشورہ کرنے پر انہوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا۔ اس لئے میں آج اس سوال کے متعلق اپنا اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کر کے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیان میں کل کے درج شدہ الفاظ کی جگہ ان الفاظ کو درج کیا جائے۔
‘‘بانی سلسلہ احمدیہ نے متواتر اور شدت سے اپنی جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ تمام انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور صغیرہ اور کبیرہ کسی قسم کا گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ سردار انبیاء ہونے کے سب نبیوں سے زیادہ معصوم تھے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخری انسان تک کوئی شخص آپ کی معصومیت کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچا نہ پہنچ سکے گا۔قرآن کریم نے آپ کی معصومیت کی یہ اَرْفَعْ شان بتائی ہے کہ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے کہلَّا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠8 (پاک لوگوں کے سوا اس کتاب کے مضامین تک کوئی نہیں پہنچ سکتا)یعنی قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے بھی ایک درجہ معصومیت کی ضرورت ہے۔ پس کیا شان ہوگی اُس ذات والا کی جس کے دل پر ایسی عظیم القدر کتاب نازل ہوئی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہی اس لئے فرمایا تھا کہ آپ اپنے ساتھ ملنے والوں کو پاک کریں۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ يُزَكِّيْهِمْ9 (اور یہ رسول اپنے مخاطبوں کو پاک کرے گا) اور آپ کے اہل بیت و آل مطہرہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم ان کی طرف برائی منسوب کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک ثابت کریں گے اور ان کی پاکیزگی کو ظاہر کریں گے۔ اور وہ دو حدیثیں بخاری اور مسلم کی جو میں نے بیان کی تھیں (جن میں سے ایک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَا کُمْ 10 یعنی تم لوگ اپنے دنیوی امور کو بہتر سمجھ سکتے ہو اور دوسری میں یہ ذکر ہے کہ آپؐ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص مجھے دھوکا دے کر اپنے حق میں فیصلہ کروالے تو اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے کا حق لینا چاہے گا تو وہ آگ کھائے گا11) وہ اس بات کے اظہار کیلئے بیان کی گئی تھیں کہ جو غیر مسلم مصنّفین اس قسم کی حدیثوں سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرتے ہیں وہ حق پر نہیں۔ ان احادیث میں آپ نے صرف اپنی بشریت کا اظہار کیا ہے ان سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرنا درست نہیں۔ اور جس شخص کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ رَمٰی 12 (جب تُو نے پھینکا تو تُو نے نہیں پھینکا بلکہ خود خدا ہی نے پھینکا) اس کا اپنی بشریت کا عَلَی الْاِعْلَان اقرار اس کے درجہ کے بلند ہونے اور اس کے اخلاق کے بے عیب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ کسی عیب یا نقص پر دلالت نہیں کرتا۔’’تمّت
(ناشر سندھ ساگراکادمی۔ کراچی نمبر3۔ پرنٹر سعید آرٹ پریس حیدرآباد پرمٹ نمبر 333۔ اگست 1953ء)
1 کنزالعمال جلد16 صفحہ132۔ مطبوعہ حلب 1977ء
2 مشکوٰۃ مترجم جلد3 صفحہ44 مطبوعہ لاہور 1993ء
3 الشوریٰ : 41
4 تذکرہ صفحہ80 ایڈیشن چہارم
5 الاعلیٰ : 19 ، 20
6 تذکرہ صفحہ 168 ایڈیشن چہارم
7
8 الواقعہ :80
9 الجمعہ: 3
10 مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَا قَالَہٗ شَرْعًا
11 ابو داؤد کتاب القضاء باب فی قضاءِ القاضی اِذَا اَخْطَأ
12 الانفال:18










تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب

(تحریر کردہ 28جنوری 1954ء )

‘‘اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ

سوالات:
(1) وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا۔
(2)صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے آیا وہ کافی تھے یا نہیں؟
(3)صوبہ جاتی حکومت نے (جب یہ فساد ظاہر ہو گئے تو) ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں؟
جوابات:
مارشل لاء کے جاری کرنے کی ضرورت جن امور کی وجہ سے پیش آئی وہ وہ واقعات تھے جو فروری کے آخر ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں لاہور میں ظاہر ہوئے اور جنہیں صوبہ جاتی حکومت مؤثر طور پر دبانہ سکی۔ اگر یہ واقعات ظاہر نہ ہوتے یا اگر صوبہ جاتی حکومت ان کو دبانے میں کامیاب ہو جاتی تو مارشل لاء کے جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اس سوال کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ ذکر حکومت کا بھی آجاتا ہے کیونکہ ایسے بڑے پیمانہ پر فسادات جن کو پولیس نہ دبا سکے او رانتظامی عملہ ناکام ہو جائے دو ہی وجہ سے پیدا ہوا کرتے ہیں یا تو صیغۂ خبررسانی کی شدید غفلت اور ناقابلیت کیوجہ سے یا عملۂ انتظام کی عدم توجہ سے۔ کیونکہ ایسے موقع پر جب کہ سِول اور پولیس ناکام ہو جائے اور فوج کو دخل دینا پڑے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آبادی کی ایک کثیر تعداد اس میں شامل تھی یا آبادی کی ایک معقول تعداد ایسی منظم صورت میں فساد پر آمادہ تھی کہ فساد کی وسعت کی وجہ سے عام قانون کے ذریعہ سے اسے دبایا نہیں جا سکتا تھا اور یہ دونوں حالتیں یکدم نہیں پیدا ہو سکتیں۔ ایک لمبے عرصہ کی تیاری کے بعد پیدا ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کے اشتعال کے بعد ہی رونما ہوسکتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی سِول معاملات میں فوج کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جب تک کہ معاملہ ہاتھوں سے نہیں نکل جاتا اور یہ ہمیشہ ہی عرصہ درازتک نفرت کے جذبات کے سُلگتے رہنے اور ایک عرصہ تک مخفی تنظیم کے بعد ہی ہوتا ہے۔
تیسری صورت وہ ہؤا کرتی ہے جبکہ کوئی ظالم شخص اپنے اشتعال سے مجبور ہو کر بِلاضرورت فوج کو استعمال کرتا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں لیکن موجودہ مارشل لاء اس تیسری قسم میں شامل نہیں اس لئے لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ دار پنجاب حکومت تھی اورپنجاب حکومت نے 5 اور 6 (مارچ ) کو یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب ہم امن کو اپنے ذرائع سے قائم نہیں رکھ سکتے اور مرکز کو دخل دینے کی ضرورت ہے پس چونکہ اس فیصلہ کی بنیاد صوبائی حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ مرکزی یا فوجی افسروں نے فوری اشتعال کے ماتحت ایک کام کر لیا حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔ پس لازماً یہی ماننا پڑے گا کہ وہ حالات جو فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں ظاہر ہوئے ایک لمبی انگیخت کے نتیجہ میں تھے اور ایک باضابطہ تنظیم کے ماتحت تھے جس کی وجہ سے باوجود اس کے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی، سینکڑوں کی تعداد میں انتظامی افسر موجود تھے پھر بھی وہ لاہور کے فسادات کو روکنے کے قابل نہیں ہوئے۔
یہ بھی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے لاہور میں فسادات میں حصہ لینے والے صرف لاہور کے باشندے نہیں تھے بلکہ زیادہ تر حملے کرنے والے لوگ وہ تھے جو کہ باہر سے منگوائے گئے تھے پس اس بات کو دیکھ کر لاہور کے مارشل لاء کے جاری کرنے کے موجبات کو صرف لاہور تک محدودنہیں کیاجائے گا بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں پر بھی نظر ڈالنی پڑے گی۔ اگر بیرونجات سے سینکڑوں کی تعداد میں جتّھے نہ آتے تو پولیس کے لئے انتظام مشکل نہ ہوتا۔ پولیس کا انتظام زیادہ تر اس بات پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ لوکل آدمیوں کی طبیعتوں او راُن کے چال چلن کو جانتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ کسی محلہ میں کون کون سے لوگ اس قسم کی شرارت کر سکتے ہیں اور پھیلا سکتے ہیں۔ پس وہ ان کو گرفتار کر لیتی ہے اور اس طرح شورش کی جڑ کو کچل دیتی ہے۔ لیکن گزشتہ فسادات میں پارٹیشن کے زمانہ کے فسادات سے سبق سیکھتے ہوئے ان فسادات کے بانیوں نے جہاں جہاں بھی فساد ہؤا وہاں باہر سے آدمی لا کر جمع کر دیئے تھے تاکہ پولیس ان سے معاملہ کرتے وقت صحیح اندازہ نہ کر سکے اور مقامی شورش پسند لوگ جن کو وہ جانتی ہے ان کی گرفتاری سے شورش کو دبا نہ سکے۔ پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں جہاں شورش کی گئی اسی رنگ میں کام کیا گیا کہ جس گاؤں میں شورش کرنی ہوتی تھی وہاں اِرد گرد کے گاؤں سے آدمی لائے جاتے تھے اور مقامی گاؤں والے بظاہر خاموش بیٹھے رہتے تھے پس جو کچھ لاہور میں ہوا وہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا اگر اضلاع میں اس کی بنیاد نہ رکھی جاتی اور اگر حکومت اس فتنہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تعاون پیدا کر دیتی تو یہ فسادات یا تو رونما نہ ہوتے یا ظاہر ہوتے ہی دبا دئیے جاتے۔
ہم اس بات میں نہیں پڑنا چاہتے کہ زید یا بکر کس پر ان فسادات کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ اس طرح ہمارے مقتول واپس لائے جاسکتے ہیں، نہ ہمارے جلائے ہوئے مکان بنائے جا سکتے ہیں، نہ ہمارے لوٹے ہوئے مال ہم کو واپس دیئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فساد کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جن کا فساد میں فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ فساد میں شامل ہیں تو وہ اس فائدے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ فساد کروانا چاہتے ہیں اور فساد کروانے کی عزّت خود حاصل کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا نام آگے آئے اور لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں۔اگر گورنمنٹ کا کوئی براہ راست دخل ان فسادات میں تھا تو گورنمنٹ پہلے گروہ میں آجاتی ہے۔ اگر کسی وقت بھی یہ ظاہر ہو جاتا کہ وہ ان فسادات کو انگیخت کر رہی ہے تو جس غرض سے وہ ان فسادات میں حصہ لے سکتی تھی وہ اس غرض سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوجاتی تھی۔ اس لئے لازماً اگر حکومت بحیثیت حکومت یا اسکے کچھ افسران فسادات میں حصہ لینا چاہتے تھے تو وہ یقیناً اسے مخفی رکھتے تھے اور جو بات مخفی رکھی جاتی ہے اس کا پتہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ فسادات کے دنوں میں ہماری جماعت کو مختلف قسم کی رپورٹیں ملتی تھیں کبھی ایک افسر کے متعلق کبھی دوسرے افسر کے متعلق، کبھی صوبہ جاتی حکومت کے متعلق کبھی مرکزی حکومت کے متعلق۔کبھی ہمیں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ فلاں افسر یا صوبہ جاتی حکومت اس کی ذمہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذمہ دار ہے (چونکہ ہمارے آدمی حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر فائز نہیں تھے اس لئے) ہمیں حقیقت حال کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ہماری جماعت کا طریقہ یہی تھا کہ ہر قسم کے افسروں سے تعاون کرنا اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہوئے بھی کہ وہ ان فسادات میں حصہ لیتے ہیں ان کے پاس اپنی شکایت لے جانا اور اگر کسی کے مُنہ سے کوئی بات انصاف کی نکل جائے تو اس کی تعریف کر دینا تاکہ شاید اسی تعریف کے ذریعہ سے آئندہ اس کے شر سے نجات مل جائے۔ ہماری مثال تو اُس جانور کی سی تھی جس کے پیچھے چارں طرف سے شکاری کُتّے لگ جاتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہم معیّن صورت میں کسی شخص پر الزام نہیں لگا سکتے۔ مارشل لاء سے پہلے بھی ہم پر سختیاں کی گئیں اور ہمارے لئے یہ نتیجہ نکالنا بالکل ممکن تھا کہ اس کا اصل موجب کون شخص تھا۔ہاں ہم شہادتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبہ جاتی حکومت میں قطعی طور پر بے عملی پائی جاتی تھی۔
ہمیں یہ سن کر نہایت ہی تعجب ہؤا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کا صرف یہی خیال تھا کہ :
(اوّل) ان کو اس امر کے متعلق وہی کارروائی کرنی چاہیئے جس کے متعلق ان کے ماتحت رپورٹ کریں۔
(ب) جب کوئی معاملہ زیر بحث آئے تو ان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اپنے افسروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کے بعد درست یا غلط کوئی حکم دے دیں ان کے نزدیک اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ وہ حکم نافذ بھی ہوا ہے یا نہیں۔
(ج) ان کے نزدیک انصاف کا تقاضا اس سے پورا ہو جاتا تھا کہ اگر ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک کشتی میں سوار کر دیا جائے اور اس طرح دنیاپر ظاہر کیا جائے کہ وہ سب قسم کے لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اور یہی کیفیت ہم کو لاہور کے انتظامیہ حکّام میں نظر آتی ہے اور یہیں فساد سب سے زیادہ ہؤا ہے۔ گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت لاہور میں جو ذمہ دار افسر تھا اُس کے نزدیک بھی اوپر کے ہی اصول قابل عمل تھے اور انہی پر وہ عمل کرتا رہا ہے۔ شاید جرمنی کے مشہور چانسلر پرنس بسمارک کا یہ قول ہے کہ ''افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ دیکھتے رہیں کہ اُن کا ماتحت عملہ قواعد اور احکام کی پابندی کرتا ہے'' مگر ان شہادتوں کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک فیصلہ کریں اور پھر کبھی نہ دیکھیں کہ اس پر عمل ہؤا ہے یا اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس انتظار میں رہیں کہ ان کے ماتحت افسر کوئی کارروائی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ کارروائی کرناچاہیں تو پھر مناسب طور پر وہ اس کارروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشش کریں اور اگر وہ کوئی کارروائی نہ کروانا چاہیں تو وہ اس انتظار میں رہیں کہ کبھی وہ عمل کی طرف متوجہ ہوں گے یا نہیں۔ جہاں تک ہماری عقل کام دیتی ہے دنیا کی ادنیٰ سے ادنیٰ حکومت بھی ان اصول کے ماتحت نہیں چل سکتی۔
پس ہمارے نزدیک حکومت کی بے حسّی او رعدمِ توجہی اور عدمِ تنظیم ان فسادات کی ذمہ دار ہے لیکن اصل ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو کہ اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے تھے، لوگوں کو فساد کے لئے اکساتے تھے اور اس بارہ میں تنظیم کر رہے تھے۔ یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص ایسے الفاظ نہیں بولتا تھا جن سے وہ قانون کی زد میں آئے درست نہیں کیونکہ اول تو اخباروں کے کٹنگز اور تقریروں کے بعض حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ بولے جاتے تھے۔ دوسرے ایسے مواقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ الفاظ کیا بولے جاتے تھے دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس ماحول میں وہ بولے جاتے تھے اور کیا ذہنیت وہ لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے تھے۔ اگریہ ثابت ہو جائے کہ ایک خاص ذہنیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خاص سکیم کے ماتحت جو فتنہ و فساد کو پیدا کرنے میں مُمِد ہو سکتی ہے کچھ الفاظ بولے جاتے تھے جن میں رائج الوقت قانون سے بچنے کی بھی کوشش کی جاتی تھی تو یقیناً الفاظ خواہ کچھ ہی ہوں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ فساد کے لئے لوگوں کو تیار کیا گیا اورمتواتر تیار کیا گیا۔ اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ عین فساد کے دنوں میں جلسوں کی حد سے نکل کر ایک مقررہ تنظیم کے ماتحت سارا فساد آگیا تو ماننا پڑتا ہے کہ جو لوگ جلسوں میں محتاط الفاظ استعمال کرتے بھی تھے اپنی خلوت میں دوسرے کام کرتے تھے۔ اگرایسا نہیں تھا تو اچانک شورش ایک انتظام کے ماتحت کس طرح آگئی اور اس کو باقاعدہ لیڈر کہاں سے مل گئے۔ آخر وہ کیا بات تھی کہ جلسوں میں تو محض لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت بتائی جاتی تھی لیکن فسادات کے شروع ہوتے ہی جتّھے لاہور کی طرف بڑھنے شروع ہوئے۔ ایک شخص نے آکر مسجد وزیرخان میں راہنمائی اور راہبری سنبھال لی اور لوگ اس کا حکم ماننے لگ گئے اور دوسروں نے دوسرے علاقوں میں باگ ڈور سنبھال لی۔ جس دن شورش کرنی ہوتی تھی مختلف طرف سے جتّھے نکلتے تھے لیکن شورش ایک یا دو مقامات پر کی جاتی تھی۔ جب گرفتاریاں ہوتی تھیں تو شورش پسند لیڈروہاں سے بھاگتے تھے اور ان کو پناہ دینے کے لئے پہلے سے جگہیں موجود ہوتی تھیں۔ حکومت کو بیکار بنانے کے لئے ریلوں او رلاریوں پر خصوصیت کے ساتھ حملے کئے جاتے تھے۔ تمام بڑے شہروں میں گاؤں کی طرف سے جتّھے آتے تھے جیسے لائلپور میں گوجرہ اور سمندری وغیرہ سے اور سرگودہا میں میانوالی اور سکیسر کے علاقوں سے اور لاہور میں راولپنڈی،لائلپور اور دوسرے شہروں سے۔ گویا لاہور میں تو لائلپور، راولپنڈی، سرگودہا اور ملتان کے شہروں کو استعمال کیا جا رہا تھا اور لائلپور ،سرگودہا،راولپنڈی، ملتان وغیرہ میں اردگرد کے دیہات کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ کیا یہ بات بغیر کسی تنظیم کے ہو سکتی تھی اور کیا یہ تنظیم بغیر کسی منظِّم کے ہو سکتی تھی؟ پس یہ حالات صاف بتاتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ اور کہا جاتا تھا گو جوش کی حالت میں وہ بھی اصل حقیقت کی غمّازی کر جاتی تھیں لیکن پرائیویٹ طور پر اور رنگ میں تیاری کی جارہی تھی۔
پس فسادات کی اصل ذمہ دار جماعت اسلامی، جماعت احرار اور مجلس عمل تھی ان کے کارکنوں نے متواتر لوگوں میں جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو تباہ کر رہے ہیں، پاکستان کے غدّار ہیں، غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں گویا وہ دو ہی چیزیں جو پاکستانی مسلمانوں کو پیاری ہو سکتی ہیں یعنی اسلام اور پاکستان دونوں کی عزّت اور دونوں کی ذات کو احمدیوں سے خطرہ میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ان تقریروں کے نتیجہ میں عوام النّاس میں اتنا اشتعال پیدا ہو جانا ضروری تھا کہ وہ اپنی دونوں پیاری چیزوں کے بچانے کے لئے اُس دشمن کو مٹا دیتے جس کے ہاتھوں سے ان دونوں چیزوں کو خطرہ بتایا جاتا تھا۔ ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ اَنڈرگراؤنڈ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی مقرر کئے جاتے جو اس طوفان کو ایک خاص انتظام کے ماتحت اور ایک خاص لائن پر چلا دیتے۔ جب طبائع میں اشتعال پیدا ہو جائے تو وہ لیڈر کی اطاعت کے لئے پوری طرح آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تنظیم کے لئے رستہ کھول دیا گیا تھا۔ ان لوگوں کو یہ اتفاقی سہولت میسّر آگئی کہ پنجاب کے صوبہ کی حکومت دانستہ یا نادانستہ ایسے طریقِ عمل کو اختیار کرنے لگی جو دنیا کی کسی مہذب حکومت میں بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں۔ اس دوران میں بدقسمتی سے پاکستان کی مرکزی حکومت میں ایک ایسا وزیر اعظم آگیا جو مذہبی جوش رکھتا تھا اور علماء کا حد سے زیادہ احترام اس کے دل میں تھا اور انتہاء درجہ کا سادہ اور طبیعت کا شریف تھا۔ اتفاقی طور پر کچھ علماء اس کے پاس پہنچے اور اس کے ادب اور احترام کو دیکھ کر انہوں نے محسوس کیا کہ کامیابی کا ایک اَور راستہ بھی ان کے سامنے کُھل سکتا ہے۔ ہمیں ان فسادات کے دنوں میں جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں یا ہو سکتی تھیں خواہ مخالفوں کے کیمپ سے یا اپنے وفود سے جو کہ پاکستان کے وزیر اعظم سے ملے یہی معلوم ہو سکا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم سادہ اور شریف آدمی تھے۔ ہمیں کبھی بھی ان کے متعلق یہ محسوس نہیں ہؤا کہ وہ شرارت یا فساد کے لئے کوئی کام کرتے تھے مگر علماء کا ادب اور احترام اور ان کی سادگی اور دوسری طرف علماء کا فساد پر آمادہ ہو جانا ان کو دھکیل کر ایسے مقام پر لے گیا جبکہ وہ نادانستہ طور پر اس فساد کو آگ دینے والے بن گئے۔ پاکستان میں اس وزیراعظم کے آنے سے پہلے علماء کے دل میں یہ طمع کبھی نہیں پیدا ہؤا کہ آئندہ حکومت ان سے ڈر کر ان کی پالیسیاں چلائے گی لیکن اس وزیراعظم کے زمانہ میں یہ طمع علماء کے دل میں پیدا ہو گیا۔ مولانا مودودی جو کہ پہلے کانگرسی تھے پھر ہندونواز تھے اور پاکستان بننے کے وقت پاکستان کے مخالف تھے آخری دن تک ان کی پاکستان میں آنے کی تجویز نہیں تھی۔ وہ پاکستان کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے ان کی جماعت کی بنیاد سِرے سے ہی سیاسی ہے اور ان کا نظریہ یہی ہے کہ جس طرح ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے سمجھے ہوئے اسلامی نظام کو چلایا جائے۔ ان کے اس نظریہ کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے مایوس شدہ سیاسی آدمی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی جو جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی رسوخ حاصل ہو جائے گا اور چونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد میں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا اس لئے مذہب کی طرف مائل ہونے والے لوگ بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ان کا انجمن اخوان المسلمین کے ساتھ تعلق بھی ظاہر کرتا ہے کہ درحقیقت ان کا مطلوب بھی سیاست ہے ان کا طریق عمل بھی بالکل اسی رنگ کا ہے۔ مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مودودی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ فساد تو مذہبی تھا اور ان کی جماعت اسلامی یہ کہتی ہے کہ اس فساد کے موجبات سیاسی تھے۔ یہ اختلاف دیانتداری کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ اگر تو جماعت اسلامی پہلے ہوتی اور مولانا مودودی بعد میں آکر اس کے پریذیڈنٹ بن جاتے تب تو نفسیاتی طور پر اس اختلاف کو حل کیا جاسکتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانامودودی ہی نے جماعت اسلامی بنائی ہے اور اب بھی گو انہیں ایکس امیر (Ex-AMEER)کہا جاتا ہے لیکن جیل خانہ میں بھی انہی سے مشورے کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کو ''مزاج شناس رسول'' کا درجہ دیا جاتا ہے (بیان امین احسن اصلاحی) اگر اتنا اہم اختلاف پیداہو گیا تھا تو یہ تعاون باہمی کیسے جاری ہے۔ جماعت اخوان المسلمین نے بھی مصر میں یہی طریقہ اختیار کیا ہؤا ہے۔ جنرل نجیب کے برسراقتدار آنے پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ان کی جماعت مذہبی جماعت ہے لیکن ایک حصہ اسے سیاسی قرار دیتا رہا اور اب ساری جماعت ہی سیاسیات میں اُلجھ کر مصر کی قائم شدہ حکومت جس کے ذریعہ سے اس کے لئے آزادی کا حصول ممکن ہو گیا ہے اس کے خلاف کھڑی ہو گئی اور جماعت اسلامی کے صدر صاحب جنرل نجیب کو تار دیتے ہیں کہ جو الزام تم اخوان المسلمین پر لگاتے ہو وہ غلط ہے۔ عجیب بات ہے کہ مصر کی حکومت مصر کے بعض لوگوں پر ایک الزام لگاتی ہے اور واقعات کی بناء پر الزام لگاتی ہے لیکن پاکستان کی جماعت اسلامی بغیر اس کے کہ ان لوگوں سے واقف ہو، بغیر اس کے کہ کام سے واقف ہو،صدرِ مصر کو تار دیتی ہے کہ تمہاری غلطی ہے یہ لوگ ایسے نہیں ہیں۔ یہ صاف بتاتا ہے کہ دونوں تحریکیں سیاسی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا بازو ہیں۔ مذہب کا صرف نام رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے جب اس تحریکِ فسادات نے زور پکڑا اور جماعت اسلامی نے یہ محسوس کیا کہ اس ذریعہ سے وہ حکومت کے کچھ لوگوں کی نظر میں بھی پسندیدہ ہو جائیں گے اور عوام النّاس میں بھی ان کو قبولیت حاصل کرنے کا موقع میسر آجائے گا تو وہ اس تحریک میں شامل ہو گئے۔
ہمیں تعجب ہے کہ مسٹر انور علی صاحب آئی جی پولیس،مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ لائلپور کی تقریر میں ان کا یہ کہنا کہ اس اس رنگ میں فساد ظاہر ہوں گے یہ بتاتا ہے کہ وہ ان فسادات کی سکیم میں شامل تھے۔لیکن مولانا مودودی صاحب کی لاہور کی تقریر جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ باتیں نہ مانیں تو جس رنگ میں پارٹیشن کے وقت فسادات ہوئے تھے اُسی رنگ میں فسادات ہوں گے اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق مجھے یہ شبہ نہیں تھا کہ وہ کوئی سیاسی کام گورنمنٹ کے خلاف کرتے ہیں۔ تعجب ہے ایک ہی قسم کی تقریریں دو شخص کرتے ہیں اور ایک سے اَور نتیجہ نکالا جاتا ہے اور دوسری سے اَور ۔حالانکہ مولانا مودودی نے جس قسم کے فسادات کی طرف اشارہ کیا تھا فسادات تفصیلاً اُسی رنگ میں پیش آئے۔ یا تو وہ الہام کے مدعی ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا بتایا ہے تب ہم اس امر کی تحقیقات کرتے مگر وہ تو الہام کے منکر ہیں۔ آخر انہیں کیونکر پتہ لگا تھا کہ اُسی رنگ میں فسادات ہوں گے جس رنگ میں پارٹیشن کے زمانہ میں فسادات ہوئے تھے۔ فسادات کے مختلف پیٹرن(Pettern)ہوتے ہیں اور ہر وقت اور ہر ملک میں ایک قسم کے فسادات ظاہر نہیں ہوتے۔ گزشتہ پارٹیشن کے زمانہ میں فساد کا ایک معیّن طریق تھا جو ہندوؤں اور سکھوں نے مقرر کیا تھا۔ مغربی پنجاب میں بھی فسادات ہوئے مگر وہ اس رنگ میں نہیں ہوئے ان کا رنگ بالکل اور تھا مگر جو فسادات پچھلے دنوں میں ہوئے ان کا پیٹرن وہی تھا جو کہ مشرقی پنجاب میں استعمال کیا گیا تھا اور اس کی طرف مولانا مودودی صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ باوجود 1950ء ،1951ء اور 1952ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے متواتر پروٹسٹ کرنے کے حکومت نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا۔ اس نے روم کے بادشاہ نیرو کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ
Rome burns but Nero plays with his fiddle
آخر وجہ کیا ہے کہ جبکہ جماعت احمدیہ متواتر فسادات کے پیدا ہونے کے امکان کی طرف حکومت کو توجہ دلاتی رہی۔ حکومت انہیں یہ طفل تسلیاں دیتی رہی کہ فسادات کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ کہ جب کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا ہم اسے پکڑ لیں گے۔ لیکن جب فساد کی صریح انگیخت بعض لوگ کرتے تھے تو کبھی لوکل افسروں کے توجہ دلانے پر یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ یہ آدمی اہم نہیں حالانکہ فسادات کے لئے ملکی اہمیت نہیں دیکھی جاتی علاقائی اہمیت دیکھی جاتی ہے۔ اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ اگر اس وقت کسی کو پکڑا گیا تو شورش بڑھ جائے گی حالانکہ شورش کے بڑھنے کا خطرہ تو زمانہ کی لمبائی کے ساتھ لمبا ہوتا ہے۔ اس وقت خاموش رہنے کے یہ معنی تھے کہ شورش کے بڑھنے کو اور موقع دیا جائے حالانکہ شہادتوں سے صاف ثابت ہے کہ مرکزی حکومت سے دو ٹوک فیصلہ چاہنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ چونکہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اصل مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اس لئے ہمارا دخل دینا مناسب نہیں۔کبھی انسپکٹر جنرل پولیس توجہ دلاتا تو خاموشی اختیار کی جاتی اور سمجھ لیا جاتا کہ ہم ایک دفعہ فیصلہ کر چکے ہیں اب مزید اظہار رائے کی ضرورت نہیں۔ کبھی مقامی حکام یا پولیس اگر بعض لوگوں کو پکڑ لیتی تو ہماری حکومت ان کو اس لئے رہا کرنے کا آرڈر دے دیتی کہ وہ لوگ اب پچھلے کام پر پشیمان ہیں۔حالانکہ گزشتہ تاریخ احرار کی اس کے خلاف تھی جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے اور مستقبل نے بھی اس خیال کو غلط ثابت کر دیا۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان لوگوں نے اصلاح کی۔ شہادتیں اور لٹریچر اس کے خلاف ہے۔ گویا ایک لاکھ یا دو لاکھ پاکستانیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی، اس کے لئے حکومت کو کسی قدم کے اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ آخر اگر کسی نے ملک میں کوئی غیر آئینی تقریر نہیں کی تھی، اگر تمام لیڈر لوگوں کو امن سے رہنے اور احمدیوں کی جان کی حفاظت کرنے کا وعدہ کر رہے تھے اور حکومت کو ان کے وعدوں پر اعتبار تھا تو یہ کس طرح ہؤا کہ احمدی قتل کئے گئے اور ان کی جائیدادیں تباہ کردی گئیں، ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور کئی جگہ پر انہیں مجبور کر کے ان سے احمدیت ترک کروائی گئی۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی احمدی اپنے عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتا۔ دنیا میں ہمیشہ سے ہی لوگ اپنے عقائد چھوڑتے آئے ہیں اگر کوئی احمدی بھی اپنا عقیدہ چھوڑ دے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن وجہ کیا ہے کہ احمدیت کو ترک کرنے کا خیال ان دنوں میں پیدا ہونا شروع ہؤا جن دنوں میں چاروں طرف سے احمدیت کے خلاف قتل اور غارت کا بازار گرم تھا۔ ہم مثال کے طور پر راولپنڈی، سیالکوٹ، اوکاڑہ، ملتان، گوجرانوالہ، شاہدرہ، لاہور اور لائلپور کے واقعات کو پیش کرتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ انہی فسادات کے ایام میں جماعت اسلامی جوامن و امان کے قیام کی واحد ٹھیکیدار اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اس کے سیکرٹری نے مندرجہ ذیل خط امام جماعت احمدیہ کو لکھا۔
امیر جماعت اسلامی تاریخ 9مارچ 1953ء شمارہ نمبر 1039
مکرمی۔ اَلسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ عَلَی الْھُدٰی
مندرجہ ذیل حضرات نے قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کیا ہے انہوں نے تحریری طور پر دفتر ہذا کو اطلاع دی ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی کسی ڈر اور خوف سے انہوں نے توبہ کی ہے بلکہ برضا ورغبت اور پوری طرح سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے۔
1
فضل الرحمٰن صاحب سپروائزر
G.H.O
مکان نمبر 5436/
کالج روڈ راولپنڈی
2
چودھری احمد علی خان
//
//
//
3
حفظ الرحمٰن صاحب
//
//
//
4
عطاء الرحمٰن صاحب
//
//
//
5
سمیع الرّحمٰن صاحب
//
//
//
6
مطیع الرّحمٰن صاحب
//
//
//
7
ساجدہ خانم بنت فضل الرحمٰن صاحب
//
//
//
8
ممتاز بیگم زوجہ فضل الرحمٰن صاحب
//
//
//
9
سردار بیگم زوجہ احمد علی خانصاحب
//
//
//
10
غیاث بیگم بنت احمدعلی خانصاحب
//
//
//
( دستخط) صدیق الحسن گیلانی قیم حلقہ راولپنڈی
اس خط سے ظاہر ہے کہ عین ان فسادات کے ایام میں یہ امر ان آدمیوں پر ظاہر ہؤا کہ احمدی عقائد غلط ہیں اور جماعت اسلامی کے عقائد درست ہیں اور جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے سیکرٹری صاحب نے غیر معمولی طور پر یہ ضرورت بھی محسوس کی کہ امام جماعت احمدیہ کو اطلاع دیں کہ بغیر جبر و اکراہ کے ایام میں اس قدر آدمی جماعت احمدیہ سے بیزار ہو کر اسلامی جماعت کے سیکرٹری کے پاس توبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس خط سے خوب واضح ہے کہ جبرواِکراہ بالکل استعمال نہیں کیا گیا اور جبرواِکراہ کے ساتھ اسلامی جماعت کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا۔ اتفاقی طور پر جبرواِکراہ کے دنوں میں بغیر جبرواکراہ کے بارہ آدمیوں پر راتوں رات احمدیت کی غلطی ثابت ہوگئی اور بغیر اس کے کہ جماعت اسلامی کا کوئی بھی ان فسادات سے تعلق ہو وہ لوگ دوڑ کر جماعت اسلامی کے سیکرٹری کے پاس پہنچے اور ان کو ایک تحریر دے دی۔
جماعت احمدیہ کے اوپر صرف یہ الزام ہے کہ بعض موقعوں پر اس نے حملوں کا جواب کیوں دیا حالانکہ جواب دینا تو انسان کو اپنی جان بچانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اگر جواب نہ دیں تو لوگوں پر حقیقت روشن کس طرح ہو۔ مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مرتضیٰ صاحب میکش نے امام جماعت احمدیہ سے سوال کیا کہ ہم تو آپ کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ آپ کافر ہیں آپ ہمیں کس لئے کافر کہتے ہیں؟ ان کی غرض یہ تھی کہ احمدی چونکہ دوسروں کو کافر کہتے ہیں اس لئے لوگوں کے دلوں میں اشتعال آتاہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ کفر کی ایک ایسی تشریح پیش کی گئی جس پر وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کو اپنا سوال اس رنگ میں ڈھالنا پڑا کہ ہم تو آپ کو کافر سمجھ کر کافر کہتے ہیں آپ ہمیں کافر کیوں کہتے ہیں؟ گویا ان کے نزدیک علماءِ احرار ومجلس عمل وجماعت اسلامی بیشک احمدیوں کو کافر سمجھیں اور کہیں اس سے فساد کا کوئی احتمال نہیں لیکن اگر احمدی جماعت جوابی طور پر بھی انہیں کافر کہے تو اس سے فساد کا احتمال پیدا ہوجاتا ہے۔
ان فسادات کے سیاسی ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹ بولا جاتا تھا۔ اگر جماعت احمدیہ کے عقائد غلط تھے تو ان کو بیان کرناکافی تھا جھوٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ مثلاً متواتر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے حالانکہ یہ سراسر افتراء تھا۔ احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے تھے،اور مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے۔ کیونکہ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور احمدی قرآن کریم کو مانتے تھے ،مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے اور بیعت میں بھی ختمِنبوت کا اقرار لیا جاتا ہے۔اس جھوٹ کے بنانے کی وجہ یہی تھی کہ علماء جانتے تھے کہ اس کے بغیر لوگوں کو غصہ نہیں دلایا جاسکتا۔ اسی طرح لوگوں کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی غیراحمدی کو کافر کہتے ہیں اور یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا تھا کہ ہم نے دس سال تک ان کو کافر کہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں کافر کہنا شروع کیا ہے۔ اور نہ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ کفر کے جو معنی ہم کرتے ہیں احمدی وہ معنے نہیں کرتے احمدی فلاں معنے کرتے ہیں (جو حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبہ مطبوعہ الفضل 3مئی 1935ء میں بیان کیے گئے ہیں) جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ مذہب کا دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر ایک فتنہ پیدا کرنا مقصود تھا۔ ورنہ کیا خدا جھوٹ کا محتاج ہوتا ہے؟ کیا خدا دھوکابازی کا محتاج ہوتا ہے؟ اسی طرح یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی جماعت مسلمانوں کی سیاست سے کٹ گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے جنازے نہیں پڑھتی اور یہ کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم نے احمدیوں کو سیاست سے کاٹ دیا ہے کیونکہ ہم نے ان کے جنازے پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا ہے۔ اگر وہ ان باتوں کو ظاہر کرتے تو لوگوں کو یہ معلوم ہوجاتا کہ علماء کا مقام یہ ہے کہ کثیر التعداد جماعت جو چاہے کرے اسے جائز ہے اور قلیل التعداد جماعت کو صحیح طور پر اپنے دفاع کرنے کی بھی اجازت نہیں اورعقل مند لوگ سمجھ جاتے کہ یہ مذہبی جھگڑا نہیں سیاسی جھگڑا ہے۔ ہم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو دور کرنے کا ایک آسان ذریعہ یہ ہے کہ وہ علماء کو بھی مجبور کرے اور ہمیں بھی مجبور کرے کہ جو فتاویٰ ان کے ہمارے بارے میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور جو فتاویٰ ہمارے ان کے بارہ میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور ان کی وہ شائع شدہ تشریحات بھی شامل کی جائیں جو دونوں فریق آج سے پہلے کر چکے ہیں اور پھر ان فتووں کو جماعت احرار،مجلس عمل جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کے خرچ پر شائع کیا جائے اور آئندہ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ سوائے اس مجموعی کتاب کے ان فتووں کے مضمون کے متعلق اور کوئی بات کسی کو کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہم خود اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ہم اس کتاب کا آدھا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ مولوی صاحبان جو جماعت احرار،جماعت اسلامی اور جماعت عمل کے نمائندے ہیں کبھی اس بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
غرض کُلّی طور پر ان فسادات کی ذمہ داری جماعت اسلامی، مجلس احرار اور مجلس عمل پر ہے۔ جماعت احرار نے ابتداء کی، مجلس عمل نے اس کو عالمگیر بنانے کی کوشش کی اور جماعت اسلامی لُوٹ کی امید میں آگے آگے چلنے لگ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی ایام کی سستی اور غفلت نے حکومت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیا کہ اگر وہ چاہتی بھی تو ان فسادات سے بچ نہیں سکتی تھی پہلے انہوں نے غفلت برتی پھر انہوں نے اس فساد کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور آخر میں انہوں نے سمجھا کہ اگر علماء کو کچھ بھی کہا گیا تو عوامی لیگ وغیرہ مسلم لیگ کو کُچل دیں گی اور طاقت ور ہو جائیں گی۔ یہ علماء قائداعظم کے زمانہ میں بھی موجود تھے مگر انہوں نے ان کو مُنہ نہیں لگایا۔ باربار عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اپنی تقریروں میں بیان کرتے رہے ہیں کہ میں نے اپنی داڑھی قائداعظم کے بُوٹ پر ملی مگر پھر بھی اس کا دل نہ پسیجا۔ وہی عطاء اللہ شاہ بخاری اب بھی تھے اور وہی قائداعظم والی حکومت اب بھی تھی۔ صرف قائداعظم فوت ہوگئے تھے اور ان کے نمائندے کام کر رہے تھے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ مردِ دلیر نہ ڈرا اور یہ علماء اس کے ڈر کے مارے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے رہے لیکن اس کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی یہ اسی شخص کے کام کو تباہ کرنے کے لئے آگے نکل آئے جس کے بُوٹ پریہ داڑھیاں رگڑا کرتے تھے۔ درحقیقت یہ جو کچھ کیا گیا ہمارے نزدیک تو دانستہ تھا۔ لیکن اگر کوئی ہمارے ساتھ اتفاق نہ کرے تو اسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ نادانستہ طور پر ہندو کے ہاتھ کو مضبوط کرنے کے لئے کیاگیا۔ اس کا ثبوت تیج کا حوالہ ہے۔1 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت غیر احمدی بھی احمدیت کی تائید کرنے لگے تھے اور اس کا علاج کرنے کے لئے ہندوؤں کو پکارا گیا تھا۔ اس کے معاً بعد جماعت احرار پیدا ہوئی اور پھر چند سال میں جماعت اسلامی۔ تیج کے مضمون، اس کے وقت اور ان دونوں جماعتوں کے ظہور کے وقت اور ان کے طریق عمل سے ظاہر ہے کہ یہ ہندوؤں کا خود کاشتہ پودا ہے۔
نیز جس رنگ میں یہ کوشش پاکستان بننے کے بعد کی گئی اس سے بھی ظاہر ہے کہ متعصب ہندوؤں کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ایسا کیا گیا کیونکہ تمام فساد کی جڑ یہ اصل ہے کہ ایک مینارٹی کو کیا حق ہے کہ وہ ایک میجارٹی کے مقابلہ میں اپنی رائے ظاہر کرے۔ (آفاق کی مثال2) اور اسلام کو ایسی بھیانک صورت میں پیش کیا گیا کہ کوئی منصف مزاج آدمی اس کی معقولیت کا قائل نہیں ہو سکتا۔ اور ہندوستان اور پاکستان میں ایک ایسا مواد پیدا کر دیا گیا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چِھڑ جائے تو ہندوستان کا مسلمان ہمارے خلاف ہوگا کیونکہ ہندو پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق وہ اس کا وفادار نہیں ہوسکتا اور اسے اس الزام کو دور کرنے کے لئے ضرورت سے بھی زیادہ وفاداری کا اظہار کرنا پڑے گا ورنہ وہ تباہ ہو جائے گا۔ ادھر پاکستان کا ہندو ان خیالات کے سُننے کے بعد جو ایک اسلامی حکومت کے متعلق ان علماء نے ظاہر کئے ہیں پاکستان کی وفاداری کے جذبات اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے گا۔ درحقیقت پاکستان کو مضبوط کرنے والی اور پاکستان کے ہندو کو سچا پاکستانی بنانے والی اور ہندوستان کے مسلمان کو خونریزی سے بچانے والی اور بُزدل بنانے سے محفوظ رکھنے والی پالیسی وہی ہے جو کہ اسلام کی اس تشریح سے ثابت ہوتی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اورجس کو قائداعظم بھی اپنی زندگی میں بیان کرتے رہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں کسی اقلیت یا غیر اقلیت کو کوئی خوف نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے یکساں آزادی اور یکساں کاروبار کے مواقع نصیب ہیں اور غیر اسلامی حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون اور اس کی فرمانبرداری کریں۔
مودودی صاحب اپنے بیان میں یہ لکھتے ہیں کہ احمدیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے حالانکہ انہوں نے اس کا کوئی ثبوت بہم نہیں پہنچایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَاسَمِعَ۔3 جو شخص سُنی سنائی بات کو پیش کر دیتا ہے اس کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے سو فیصد غلط ہے لیکن اگر صحیح بھی ہو تو ملازمتیں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ سے ملتی ہیں۔ اور پبلک سروس کمیشن میں آج تک ایک بھی احمدی ممبر نہیں ہؤا۔ نہ صوبہ جاتی پبلک سروس کمیشن میں اور نہ مرکزی پبلک سروس کمیشن میں۔ اگر اسلام ساری قوموں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو جبکہ پاکستانی حکومت امتحانوں اور انٹرویو کے ذریعہ سے ملازم رکھتی ہے تو فرض کرو اگر کسی محکمہ میں احمدی اپنی تعداد سے دس یا پندرہ یا بیس فیصدی یا پچاس فیصدی زائد بھی ہو جاتے ہیں تو یہ اعتراض کی کونسی بات ہے۔ خود پاکستان کی گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے اور اس قانون کے بنائے ہوئے رستہ سے اگر احمدی طلبہ سینما اور تماشوں اور تاش اور شطرنج سے اجتناب کرتے ہوئے محنت اور کوشش سے آگے نکل جاتے ہیں تو اس کو پولیٹیکل سٹنٹ بنانے اور شور مچانے کی کیا وجہ ہے؟ اور جھوٹ بول کر ایک کو سَوبتا دینا صاف بتاتا ہے کہ مذہب اس کا باعث نہیں سیاست اس کاباعث ہے کیونکہ خدا کو جھوٹ کی ضرورت نہیں۔
پھر مولانا مودودی صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تجارت پر احمدی قابض ہوچکے ہیں، زراعت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں، صنعت و حرفت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں یہ بات بھی سراسر جھوٹ ہے۔ ایک مذہبی جماعت کا لیڈر ہوتے ہوئے،اس قدر جھوٹ سے کام لینا ہماری عقل سے باہر ہے۔ لاہور ہمارے صوبہ کا مرکز ہے اگر پولیس کو حکم دیا جائے کہ بازاروں میں سے دکانوں کی اعداد شماری کرے اور دیکھے کہ ان میں سے احمدی کتنے ہیں تو کورٹ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس جماعت اسلامی کے لیڈر نے شرمناک غیر اسلامی حرکت کی ہے۔’’
(مندرجہ بالا قیمتی مضمون کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ ربوہ نے اپنا بیان انگریزی میں ترجمہ کراکر تحقیقاتی عدالت میں داخل کرایا۔)
1 تیج 25 جولائی 1927ء
2 جماعت اسلامی اور احرار وغیرہ کا طرز عمل
3 مسلم مقدمۃ الکتاب باب النَّھْیُ عَنِ الحدیث بِکُلِّ مَا سَمِعَ







اپنے اندر یک جہتی پیدا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

اپنے اندر یک جہتی پیدا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ
جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو

(افتتاحی تقریر فرمودہ 5نومبر1954ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
‘‘غالباً پچھلے سال یا پچھلے سے پچھلے سال میں نے خدام کو نصیحت کی تھی کہ یک جہتی اور یک رنگی بھی طبائع پر نیک اثر ڈالتی ہے اور اسکی اہمیت کو اسلام نے اتنا نمایاں کیا ہے کہ نماز جو ایک عبادت ہے اس میں بھی یک رنگی اور یک جہتی کا حکم دیا ہے۔ سب کے سب نمازی ایک طرف مُنہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں، سیدھی صفوں کا حکم ہوتا ہے اور تمام کے تمام نمازیوں کو ایک خاص شکل پر کھڑے ہونے کا ارشاد ہوتا ہے۔ میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدّام جو کھڑے ہوتے ہیں تو مختلف شکلوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور میں نے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ اُس وقت تو تقریر کے بعد ایک دو دن تو اصلاح نظر آئی مگر پھر وہ اصلاح نظر نہیں آئی۔ چنانچہ اب میں دیکھتا ہوں کہ سارے کے سارے اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، کچھ تم میں سے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں، کچھ تم میں سے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں، کچھ تم میں سے ہاتھ کُھلے چھوڑ کر کھڑے ہیں۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے کوئی ایک طریقہ اپنے لئے پسند نہیں کیا اور تمہارے افسروں اور کارکنوں نے تمہیں ایک رنگ اختیار کرنے کی ہدایت نہیں دی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ باتیں معمولی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان باتوں کا قلوب پر اثر پڑتا ہے۔ مثلاً صف میں کسی کا پیر اگر ذرا آگے ہو جائے یا پیچھے ہو جائے تو یہ ایک معمولی بات ہے اور جہاں تک عبادت سے تعلق ہے اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس قوم کی صفیں ٹیڑھی ہوگئیں اس کے دل بھی ٹیڑھے کر دیئے جاتے ہیں۔1 تو دیکھو ایک چھوٹی سی بات کا کتنا عظیم الشّان نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے۔ پھر دیکھنے والوں پر بھی اس کا اثر ہوتاہے چنانچہ ہم فوجوں کو دیکھتے ہیں تو سب فوجی ایک ہی شکل میں نظر آتے ہیں۔ یورپ میں فوجوں کو مارچنگ کے وقت خاص طور پر ہدایت ہوتی ہے کہ سارے فوجی ایک طرح سے چلیں۔ پیروں کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح پیر مارنا ہے ۔سینہ کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح سینہ تاننا ہے۔ گردن کے متعلق ہدیات ہوتی ہے کہ اس طرح گردن رکھنی ہے اور اس کا دیکھنے والوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان آیا تو اس نے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اسلام اپنے جوبن پر ہے پھر تُو اس طرح اپنی مُردہ شکل کیوں بنائے ہوئے ہے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ظاہری شکل اس کے باطن پر دلالت کرتی ہے اور اس کی باطنی حالت کا اس کے ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمَ فَھُوَ أَھْلَکَھُمْ2جس شخص نے یہ کہا کہ قوم ہلاک ہوگئی وہی ہے جس نے قوم کو ہلاک کیا کیونکہ اس کی بات کا ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے۔ جب ایک شخص کہتا ہے کہ سارے بے ایمان ہو گئے، سارے بددیانت ہوگئے تو بیسیوں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو صرف اس کی بات پر اعتبار کر لیتے ہیں حقیقت نہیں دیکھتے وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے کہا ہے کہ سب بے ایمان ہو گئے ہیں یا فلاں نے کہا ہے کہ سب بددیانت ہوگئے ہیں اور چونکہ فلاں نے یہ بات کہہ دی ہے۔ اس لئے اب اس کے ماننے میں کیا روک ہے۔ ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے مشہور ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے بہت دیر غائب رہا اس کے بیوی بچے اسے خط لکھتے کہ آکر ہمیں مل جاؤ مگر وہ نہ آتا وہ سمجھتا تھا کہ اگر میں گیا تو میری تنخواہ کٹ جائے گی۔ وہ تھا بے وقوف آخر جب لمبا عرصہ گزر گیا تو لوگوں نے اس کے بیوی بچوں کو سمجھایا کہ یہ طریق درست نہیں ہم اسے بلواتے ہیں۔ چنانچہ پنچوں نے اسے خط لکھا کہ تمہاری بیوی بیوہ ہوگئی ہے اور تمہارے بچے یتیم ہوگئے ہیں اس لئے تم جلدی گھر پہنچو۔ وہ عدالت کا چپڑاسی تھا۔ خط ملتے ہی روتا ہؤاعدالت میں گیا اور کہنے لگا حضور مجھے چھٹی دیں۔انہوں نے کہا کیا ہؤا؟ کہنے لگا کہ خط آیا ہے میری بیوی بیوہ ہوگئی ہے اور بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ وہ کہنے لگے احمق! تُو تو زندہ موجود ہے پھر تیری بیوی کس طرح بیوہ ہوگئی اور تیرے بچے کس طرح یتیم ہوگئے؟ وہ خط نکال کر کہنے لگا کہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن دیکھئے پانچ پنچوں کے اس پر دستخط ہیں پھر یہ بات جھوٹی کس طرح ہوگئی۔
تو ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں اور درحقیقت یہی قوم کو تباہ کرنے کا موجب ہوتے ہیں۔کہتے ہیں دس نے یہ کہا اور یہ نہیں دیکھتے کہ حقیقت کیا ہے۔ اگر دس نے کہا کہ قوم بے ایمان ہو گئی ہے ، اگر دس نے کہا اپنی قوم دیانت کھوبیٹھی ہے تو وہ اس پر فوراًیقین کر لیں گے اور کہنا شروع کر دیں گے کہ واقع میں قوم بے ایمان ہوگئی ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے چیز موجود ہوگی مگر وہ اسے دیکھیں گے نہیں۔ تو جب ایک شخص کی حالت بگڑتی ہے اس کے ہمسایہ کی بھی بگڑ جاتی ہے۔ اوّل تو جس کے دل کی حالت بگڑتی ہے اس کی زبان پر بھی کچھ نہ کچھ آجاتا ہے اور سننے والوں میں سے کمزور لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ انسان کے قلب سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں کہ جو ارد گرد بیٹھنے والوں پر اثر کرتی ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم کہتا ہے کہكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ3 تم صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت میں رہا کرو اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نماز باجماعت مقرر کی ہے تا دلی اثرات ایک دوسرے پر پڑیں۔ یوں تو نیک کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور بد کے بھی اثرات ہوتے ہیں مگر جب قوم میں نیکی ہوتی ہے تو نیک اثرات کا غلبہ ہوتا ہے اور جب قوم میں بدی ہوتی ہے تو بد اثرات کا غلبہ ہوتا ہے۔گو بدی میں چونکہ اتنا جوش نہیں ہوتا جتنا ایسی نیکی میں ہوتا ہے جو زمانۂ انبیاء و مامورین میں ہوتی ہے اس لئے جتنا وہ نیکی اپنے اثر کو پھیلاتی ہے بدی اپنا اثر نہیں پھیلا سکتی لیکن پھر بھی اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔
حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ جمّوں سے قادیان آرہا تھا کہ ایک سکھ لڑکا جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت اخلاص اور محبت رکھتا تھا لاہور میں مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا کہ آپ قادیان چلے ہیں حضرت مرزا صاحب کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ میں نے جب سے آپ سے ملنا شروع کیا تھا میرے اندر خدا تعالیٰ کی محبت،ذکرِ الٰہی کی عادت اور دعاؤں کی طرف رغبت پیدا ہوگئی تھی مگر اب کچھ عرصہ سے آپ ہی آپ دہریت کے خیالات میرے اندر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ میں نے بہتیرا زور لگایا کہ وہ خیالات نکلیں مگر نکلتے نہیں ان کے ازالہ کے لئے مجھے کوئی تدبیر بتائیں تاکہ میں ان خیالات کی خرابیوں سے بچ سکوں۔ آپ فرماتے تھے کہ میں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ذکر کیا کہ مجھے اس طرح فلاں لڑکا ملا تھا۔ آپ نے فرمایا ہاں وہ ہم سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر آپ نے کہا اس نے مجھے کہا تھا کہ حضور کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچا دیں کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہو رہے ہیں، معلوم نہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ آپ نے فرمایا جب اس کے اندر عقلی طور پر شبہات پیدا نہیں ہوئے تو یہ شبہات کسی اَور کے اثر کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا میری طرف سے اُسے پیغام دے دیں کہ کالج میں جن لڑکوں کے درمیان تمہاری سیٹ ہے معلوم ہوتا ہے وہ دہریہ خیالات کے ہیں اور ان کا اثر تم پر پڑ رہا ہے اس لئے تم اپنی سیٹ بدل لو۔ چنانچہ آپ نے اسے یہ پیغام پہنچا دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ اول دوسری دفعہ جمّوں سے قادیان تشریف لا رہے تھےکہ پھر وہی لڑکا آپ کو ملا۔ آپ نے فرمایا سناؤ اب کیا حال ہے؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اب میرے خیالات درست ہیں میں نے پیغام پہنچتے ہی سیٹ بدلوالی اور اُسی دن سے میرے خیالات بھی درست ہوگئے۔
تو یہ ایک مجرّب حقیقت ہے جس کا انکار کوئی جاہل ہی کرے تو کرے ورنہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس تجربہ کی صداقت میں مسمریزم کا علم جاری ہؤا۔ اس کی تائید میں ہپناٹزم نکلا، اسی کے ساتھ وضو کا مسئلہ تعلق رکھتا ہے غرض یہ سارے علوم اس امر کے گرد چکر لگا رہے ہیں کہ انسان کے دل سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جو دوسرے کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پس اگر کھڑے ہونے میں تم احتیاط نہیں کرو گے اور یکجہتی اور اتحاد سے کام نہیں لو گے تو لازماً اس کا تمہارے قلوب پر اثر پڑے گا پس چاہئے کہ جن کو میں نے ماتحت عہدیدار مقرر کیا ہؤا ہے وہ ا س طرف توجہ کریں۔ آخر مَیں تو اتنا کام نہیں کر سکتا۔ میں اگر صدر بنا ہوں تو اس لئے کہ تم میں یہ جوش اور امنگ قائم رہے کہ تمہارا خلیفہ صدر ہے ورنہ کام سارا ماتحتوں نے کرنا ہے اور انہی کو کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو سہارے کا محتاج ہے وہ سہارا نہ لے اگر کوئی کمزور یا بیمار ہو تو وہ لاٹھی کا سہارا لے سکتا ہے بلکہ اگر زیادہ تکلیف ہو تو وہ بیٹھ بھی سکتا ہے۔ جو طاقتور ہیں وہ سارے کے سارے ایک شکل میں کھڑے ہوں۔ اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ کھول دیں تو سب ہاتھ کھول دیں اور اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ باندھ لیں تو سب کا فرض ہے کہ ہاتھ باندھ لیں۔ اگر کوئی بیماریا کمزور ہے تو بے شک بیٹھ جائے۔ اگر نماز بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے اور اس سے صف میں کوئی خلل نہیں آسکتا تو خدام کے اجتماع میں بھی اس سے کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا۔ صرف اس یکجہتی سے یہ پتہ لگ جائے گا کہ خدّام میں کوئی نظام موجود ہے۔ اب موجودہ حالت میں کچھ پتہ نہیں لگتا کوئی ہاتھ باندھے کھڑا ہے اور کوئی ہاتھ لٹکائے۔ اگر سب ایک طرح کھڑے ہوں تو خواہ بیمار اور کمزور بیٹھے ہوئے ہوں تب بھی دیکھنے والا یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کا نظام خراب ہے بلکہ وہ ان کے بیٹھنے کو ان کی معذوری پر محمول کرے گا۔ میں سمجھتا ہوں اگر کوئی فیصلہ ہو جائے تو بیٹھنے والا بھی وہی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مثلاً اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ ہاتھ لٹکانے ہیں تو وہ بھی ہاتھ لٹکا کر بیٹھ سکتا ہے۔ اگر ہاتھ پیچھے کرنے کا فیصلہ ہو جائے گو یہ نامعقول بات ہے تو بیٹھنے والا بھی ایساکر سکتا ہے۔ پس اپنا ایک نظام مقرر کرو اور اِسی جلسہ میں اِس کا فیصلہ کرو اور سب کو سکھاؤ کہ جب بھی تم نے کھڑا ہوناہو اس شکل میں کھڑے ہو اور پھر نوجوانوں کو آزادی دو اور انہیں بتا دو کہ اگر تم میں سے بعض کھڑے نہیں ہو سکتے۔ تو وہ بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر نماز میں بیٹھنے کی اجازت ہے تو خدّام کا جلسہ نماز سے زیادہ اہم نہیں کہ اس میں بیٹھا نہیں جا سکتا۔ اگر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اسے آرام آجائے تو وہ دو بارہ کھڑا ہو جائے۔اور اگر کھڑا ہونے والا تکلیف محسوس کرے تو وہ بیٹھ جائے۔ اس طرح بیٹھنے والے دیکھنے والوں پر یہ اثر نہیں ڈالیں گے کہ ان کا کوئی نظام نہیں بلکہ صرف یہ اثر پیدا ہوگا کہ وہ بیمار اور کمزور ہیں۔
اس کے بعد میں خدّام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ خدّام نے طوفان وغیرہ کے موقع پر نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے۔ اب انہیں اپنے اجلاس میں اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اس جذبہ کو جو نہایت مبارک جذبہ ہے اور زیادہ کس طرح ابھارا جائے۔ کوئی ایسی خدمت جو صرف رسمی طورپر کی جائے حقیقی خدمت نہیں کہلاسکتی مثلاً بعض لوگ اپنی رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی کا بوجھ اٹھایا۔ اب اگر تو کسی مجلس کے تمام نوجوان یا بارہ پندرہ خدام سارا دن لوگوں کے بوجھ اٹھاتے پھرتے ہوں یا کسی ایک وقت مثلاً عصر کے بعد روزانہ ایسا کرتے ہوں یا گھنٹہ دو گھنٹہ ہر روز اس کام پر خرچ کرتے ہوں تب تو یہ خدمت کہلا سکتی ہے لیکن اس قسم کی رپورٹ کو میں کبھی نہیں سمجھا کہ اس مہینہ میں ہمارے نوجوانوں نے کسی کا بوجھ اٹھایا۔ یہ وہ خدمت نہیں جس کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت تم سے تقاضا کیا جاتا ہے بلکہ یہ وہ خدمت ہے جس کا بجا لانا ہر انسان کے لئے اس کی انسانیت کے لحاظ سے ضروری ہے۔
درحقیقت مختلف خدمات مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوتی ہیں مثلاً جو شخص پاکستان میں رہتا ہے اس پر کچھ فرائض پاکستانی ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، کچھ فرائض ایک انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی سرکاری ملازم ہے تو کچھ فرائض اس پر سرکاری ملازم ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ فرائض اس پر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں، اگر کوئی پولیس مَین ہے تو کچھ فرائض اس پر پولیس مَین ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں۔ایک حیثیت کے کام کو اپنی دوسری حیثیت کے ثبوت میں پیش کرنا محض تمسخر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر کا یہ لکھنا کہ میں نے بیس مریضوں کا علاج کیا تمسخر ہے کیونکہ اس نے جو کام کیا ہے اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کیا ہے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا۔ یا پاکستان کی تائید میں اگر کوئی جلسہ ہوتا ہے یا جلوس نکلتا ہے اور تم اس میں حصہ لیتے ہو اور پھر اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہو تو یہ تمسخر ہے کیونکہ یہ خدمت تم نے ایک پاکستانی ہونے کے لحاظ سے کی ہے۔ برکت تمہیں تبھی حاصل ہوگی جب تم اپنی ساری حیثیتوں کو نمایاں کرکے کام کرو گے۔ جب تمہیں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم پاکستانی حیثیت کو نمایاں کرو، جب تمہیں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم اپنی انسانیت کو نمایاں کرو۔ مثلاً اگر کوئی چلتے ہوئے گرجاتا ہے تو یہ انسانیت کا حق ہے کہ اسے اٹھایا جاے اس میں خدّام کا کیا سوال ہے۔ ایک ہندوستانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک پنجابی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک چینی اور ایک جاپانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک سرحدی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے۔ پس اگر اتفاقی طور پر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے تو یہ خدام الاحمدیہ والی خدمتِ خلق نہیں کہلا سکتی بلکہ یہ وہ خدمت ہوگی جو ہر انسان پر انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ ان فرائض کو ادا نہیں کرتا تو وہ انسانیت سے بھی گر جاتا ہے۔
پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لاہور کے خدام نے خصوصیت سے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے۔ اسی طرح ربوہ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے، سیالکوٹ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے، ملتان کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے اور کراچی کے خدام نے بھی بعض اچھے کام کئے ہیں گو وہ نمایاں نظر آنے والے نہیں۔ پس متواترا پنے جلسوں اور مجلسوں میں اس امر کو لاؤ کہ تم نے زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرنی ہے اور ایک پروگرام کے ماتحت کرنی ہے تاکہ ہر شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو۔
تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے، تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نمائش ہے مگر کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے اگر تمہارے دل کی خوبی نیکی کا اقرار دنیا نہیں کرتی تو تم مجبور ہو کہ تم لوگوں کو دکھا کر کام کرو تم نے بہت نیکی کی ہے مگر دنیا نے تمہاری نیکی کا کبھی اقرار نہیں کیا۔ پہلے بھی لوگوں کی مصیبت کے وقت ہم کام کرتے رہے ہیں مگر مخالف یہی کہتا چلا گیا کہ احمدی احمدی کا ہی کام کرتا ہے کسی دوسرے کا نہیں کرتا۔ یہ بالکل جھوٹ تھا جو مخالف بولتا تھا۔ ہم خدمت خلق کا کام کرتے تھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے۔ ہمیں اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے۔ مگر جب تمہاری اس نیکی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں، جب تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم اپنی قوم کی خدمت کے لئے تیار نہیں تو پھر وہی نیکی بدی بن جائے گی اگر ہم اس کو چھپائیں۔ پس اس نیکی کا ہم عَلَی الْاِعْلَان اظہار کریں گے اس لئے نہیں کہ ہم بدلہ لیں بلکہ اس لئے کہ وہ کذّاب اور مفتری جو ہم پر الزام لگاتے ہیں ان کا مُنہ بند ہو۔ پس مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہم اپنے کاموں کا اظہار کرتے ورنہ پہلے بھی ہمارے آدمی ہر مصیبت میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور ہر مشکل میں ہم نے ان کی مدد کی ہے یہ کوئی نیا کام نہیں جو ہم نے شروع کیا ہے۔
جب ہم قادیان میں تھے تو اس وقت بھی ہم خدمت خلق کرتے تھے۔ 1918ء میں جب انفلوئنزا پھیلا ہے تو مجھے خلیفہ ہوئے ابھی چار سال ہی ہوئے تھے اور جماعت بہت تھوڑی تھی مگر اس وقت ہم نے قادیان کے اردگرد سات سات میل کے حلقہ میں ہر گھر تک اپنے آدمی بھیجے اور دوائیاں پہنچائیں اور تمام علاقہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ اس موقع پر نہ گورنمنٹ نے ان کی خبر لی ہے اور نہ ان کے ہم قوموں نے ان کی خدمت کی ہے اگر خدمت کی ہے تو صرف جماعت احمدیہ نے۔ میں نے اس وقت طبیبوں کو بھی بلوایا اور ڈاکٹروں کو بھی بلوالیا۔ دنیا میں عام طورپر ڈاکٹر بلواؤ تو طبیب اٹھ کر چلا جاتا ہے اور طبیب بلاؤ تو ڈاکٹر اٹھ کر چلا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ بات نہیں ہوئی اور پھر اخلاص کی وجہ سے ہمارا ان پر رُعب بھی ہوتا ہے۔ غرض میں نے ڈاکٹر بھی بلوائے، حکیم بھی بلوائے اور ہومیوپیتھ بھی بلوائے، اُس وقت مرض نئی نئی پیدا ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اس مرض کا علاج تو کریں گے مگر ہماری طب میں ابھی اس کی تشخیص نہیں ہوئی اور لٹریچر بہت ناقص ہے اطباء کے اصولِ علاج چونکہ کلّیات پر مبنی ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلغمی بخار ہے اور ہم اس کا علاج کر لیں گے میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ یہ جھوٹ بولیں یا سچ بولیں، غلط کہیں یا درست کہیں بہرحال یہ کہتے ہیں کہ ہماری طب میں اس کا علاج موجود ہے اس لئے انہیں بھی علاج کا موقع دینا چاہئے۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹروں اور حکیموں کو اردگرد کے دیہات میں بھجوادیا۔ ساتھ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم کردیئے وہ سات سات میل تک گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ گئی۔
تو ہم خدمت خلق کرتے ہیں اور ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں مگر ہم ڈھنڈورا نہیں پیٹتے کہ ہم نے یہ کیا ہے ہم نے وہ کیا ہے۔ مثلاً ملکانوں کی جو ہم نے خدمت کی اس کے متعلق ہم نے کچھ نہیں کہا لیکن دوسرے لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم نے غیر معمولی کام کیا ہے۔ مگر ہمارے ان سارے کاموں کے باوجود دشمن نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ شروع سے مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ بعض عدالتوں نے بھی اس کو تسلیم کر لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ تمام مصیبتوں کے وقت ہمیشہ احمدیوں نے ہی اپنی گردنیں آگے کی ہیں۔ میں جب دلی میں جایا کرتا تھا تو اکثر یو۔پی کا کوئی نہ کوئی رئیس مجھے ملتا اورکہتا کہ میں تو آپ کا اُس دن سے مدّاح ہوں جس دن آپ کے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے ایک مسلمان عورت کی کھیتی کاٹ کر اسلام کی لاج رکھ لی تھی اور مسلمانوں کی عظمت قائم کر دی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ الورؔیا بھرتؔ پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آریہ ہوگئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی مائی جمیا اس کا نام تھا۔ خان بہادر محمد حسین صاحب سیشن جج اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے مقرر تھے ان کا بیٹا نہایت مخلص احمدی ہے وہ آجکل کچھ ابتلاؤں میں ہے اور مالی مشکلات اُس پر آئی ہوئی ہیں دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسکی مشکلات کو دور فرمائے۔ بہر حال جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو چونکہ سب گاؤں جو بڑا بھاری تھا آریہ ہو چکا تھا اور اس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے اور وہ عورت اکیلی اسلام پر قائم تھی اس لئے کوئی شخص اسکی کھیتی کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ انہوں نے اسے طعنہ دیا اور کہا کہ مائی! تیری کھیتی تو اب مولوی ہی کاٹیں گے۔ احمدیوں کو دیہات میں مولوی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث کی باتیں کرتے ہیں شروع میں ملکانہ میں بھی ہمارے آدمیوں کو مولوی کہا جاتا تھا۔ جس طرح یہاں ہمیں مرزائی کہتے ہیں اسی طرح وہاں مولوی کہا جاتا تھا۔ سرحد اور یو۔پی میں عام طور پر قادیانی کہتے ہیں ۔جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے کہا اب اسلام کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ مولوی ہی اس کی کھیتی کاٹیں چنانچہ جتنے گریجوایٹ اور بیرسٹر اور وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے میں نے ان سے کہاکہ وہ سب کے سب جمع ہوں اور اس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جا کر کاٹیں۔ چنانچہ درجن یا دودرجن کے قریب آدمی جمع ہوئے جن میں وکلاء بھی تھے، ڈاکٹر بھی تھے، گریجوایٹس بھی تھے، علماء بھی تھے اور انہوں نے کھیتی کاٹنی شروع کر دی۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے اور تمام علاقہ میں ایک شور مچ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ جج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں۔انہوں نے چونکہ یہ کام کبھی نہیں کیا تھا اس لئے ان کے ہاتھوں سے خون بہنے لگا مگر وہ اُس وقت تک نہیں ہٹے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے کاٹ نہ لی۔ یوپی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی اور کئی رئیس متواتر مجھے دلّی میں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اُس دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا اور ایک مسلمان عورت کے لئے آپ کی جماعت نے یہ غیرت دکھائی کہ جب لوگوں نے اسے کہا کہ اب مولوی ہی تیری کھیتی آکر کاٹیں گے تو آپ نے کہا کہ اب دکھاوے کا مولوی نہیں سچ مچ کا مولوی جائے گا اور اس کی کھیتی کاٹے گا۔
تو ہمیشہ ہی ہم مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں مگر ہمیشہ ہم ان خدمات کو چھپاتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ان خدمات کے اظہار کا کیا فائدہ ہم نے جو کچھ کیا ہے خد اکے لئے کیا ہے انسانوں کے لئے نہیں کیا مگرآج کہا جا رہا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے دشمن ہیں یہ مسلمانوں کی کبھی خدمت نہیں کرتے۔ غرض اتنے بڑے جھوٹ اور افتراء سے کام لیا جاتا ہے کہ اب ہم اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جماعت کے دوستوں سے یہ کہیں کہ اچھاتم بھی اپنی خدمات کو ظاہر کرو۔ چنانچہ اب جبکہ ہم نے اپنی خدمات ظاہر کرنی شروع کیں مسلمانوں کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے اپنے بِلوں میں گُھس گئے اور کوٹھیوں میں بیٹھے رہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے جو اسلامی جماعت کے دفتر کے قریب ہی رہتے تھے اقرار کیا کہ اسلامی جماعت والوں نے تو ہماری خبر بھی نہیں لی اور یہ دودوچارچار میل سے آئے اور انہوں نے ہماری مدد کی۔
لطیفہ یہ ہے کہ کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں بڑے زور سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ لاہور میں جماعت اسلامی نے سیلاب کے دنوں میں بڑی بھاری خدمت کی ہے اوروہاں اس قدر چرچا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لاہور کو بچایا ہی اسلامی جماعت والوں نے ہے اور لاہور کے لوگوں کو اس کی خبر بھی نہیں۔اگر وہ جھوٹا پروپیگنڈا کر سکتے ہیں تو ہم سچا پروپیگنڈا کیوں نہیں کر سکتے۔
اسی طرح بنگال سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں جماعت اسلامی والے گھر گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جماعت اسلامی نے آپ کے لئے چندہ بھجوایا ہے۔ وہ لُنگی اور تہبند دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں یہ جماعت اسلامی نے چندہ دیا ہے آپ ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دیں۔ حالانکہ وہ یہاں کہیں سُنیوں سے چندہ لیتے ہیں، کہیں شیعوں سے لیکر بھجواتے ہیں مگر نام جمات اسلامی کا مشہور کرتے ہیں۔
غرض اِس زمانہ میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو جھوٹ اور افتراء سے تم کو بدنام کرنا چاہتا ہے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اَور زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو اور اِس خدمت کو ظاہر بھی کرو اور دنیا کو بتا دو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مگر چونکہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خدمات کو ظاہر کریں اس لئے ہم ان کو ظاہر کرتے ہیں ور نہ ہمارے دل اس اظہار پر شرماتے ہیں۔
پس اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایسے امور پر غور کرو اور ایسی تجاویز سوچو جن کے نتیجہ میں تم ملک او رقوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت بجا لاؤ’’۔
(روزنامہ الفضل لاہور 7دسمبر 1954ء )
1 بخاری کتاب الاذان باب تَسْوِیَّۃ الصُّفُوْفِ عِنْدَالْاقَامَۃِ وَبَعْدَھَا، مسلم کتاب الصَّلٰوۃ باب تَسْوِیۃ الصُّفُوْف
2 مسلم کتاب البروالصلۃ باب النہی عَن قول ھلَکَ النَّاس میں یہ الفاظ ہیں: اِذَا قَالَ الرَّجُلُ ھَلَکَ النَّاسُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ
3 التوبۃ: 199








مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات سے متصف ہونا
ضروری ہے






از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا
کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے
بجٹ کا ایک حصّہ ہمیشہ خدمتِ خلق کے لئے ریزرو رکھو

(فرمودہ 7نومبر 1954ء بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘سب سے پہلے تو میں خدّام الاحمدیہ کے عہدیداروں سے ہی پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے خدّام کے کھڑے ہونے کی کونسی پوزیشن مقرر کی ہے کیونکہ میں نے پرسوں انہیں ہدایت کی تھی کہ یک جہتی پیدا کرنے کے لئے خدّام کے کھڑا ہونے کی پوزیشن مقرر کریں اور فیصلہ کریں کہ آئندہ خدّام جب بھی کسی موقع پر کھڑے ہوں تو ان کی پوزیشن ایک ہی ہو’’۔
اس پر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے بتایا کہ شوریٰ نے اس بارہ میں کیا تجویز کی ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا :-
‘‘مجھے بتایا گیا ہے کہ عہد دُہراتے وقت خدّام اٹنشن(ATIENTION) کی پوزیشن میں کھڑے ہوں گے او راس کے بعد ان کی پوزیشن سٹینڈ ایٹ ایز (STAND AT EASE) کی ہوگی لیکن ہاتھ بجائے پیچھے باندھنے کے سامنے اور ناف کے نیچے اس طرح باندھنے ہوں گے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو اور ساتھ ہی یہ تجویز پاس کی گئی ہے کہ خدام ننگے سر نہ ہوں۔ ننگے سر کھڑا ہونا اسلامی طریق نہیں ۔ یورپ میں احترام کے طور پر ٹوپی اتارنے کا رواج ہے وہی رواج ان کی نقل میں مسلمانوں میں آگیا ہے حالانکہ اسلام میں بجائے ٹوپی اتارنے کے ٹوپی سر پر رکھنے کا رواج ہے۔ اسلام نے یہ پسند کیا ہے کہ نماز وغیرہ کے مواقع پر سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھی جائے سرننگا نہ ہو۔ عورتوں کے متعلق علماء میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر ان کے سر کے اگلے بال ننگے ہوں تو آیا ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں اکثر کا یہی خیال ہے کہ اگر اگلے بال ننگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی لیکن اس کے برخلاف یورپ میں سر ننگا رکھنے کا رواج ہے۔
ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے مواقع پر ننگے سر کھڑے نہ ہوں اگر ان کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تو وہ اپنے سر پر رومال یا کوئی کپڑا رکھ لیں۔ پرانے فقہاء کا خیال ہے کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد چونکہ احادیث پر ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض صحابہؓ نے ننگے سر نماز پڑھی اس لئے ہم اس تشدد کے قائل نہیں کہ ننگے سر نماز ہوتی ہی نہیں۔ ہمارے نزدیک اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو، اسی طرح سر ڈھانکنے کے لئے کوئی رومال وغیرہ بھی اس کے پاس نہ ہو تو ننگے سر نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن ہر عالم چاہے وہ کتنا بڑا ہو بعض دفعہ مسائل میں دھوکا کھا جاتا ہے ، بعض دفعہ ایجاد بندہ کہہ کر غلو تک بھی چلا جاتا ہے۔ حافظ روشن علی صاحب نے جب حدیث میں یہ پڑھا کہ بعض مواقع پربعض صحابہؓ نے ننگے سر نماز پڑھی تو انہوں نے یہ پرچار کرنا شروع کر دیا کہ ننگے سر نماز پڑھنا نہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن امر ہے۔ میں نے ان سے اس کے متعلق کئی دفعہ بحث کی ۔ میں نے انہیں بتایا کہ جس زمانہ میں صحابہؓ ننگے سر نماز پڑھتے تھے اُس زمانہ میں کپڑے نہیں ملتے تھے۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک جگہ کے مسلمانوں کو امام میسر نہ آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو جو 8، 9سال کا تھا اور اسے بعض سورتیں یاد تھیں ان کا امام مقرر کر دیا وہ لڑکا غریب تھا اس کے پاس کُرتا تھا پاجامہ نہیں تھا کُرتا بھی کچھ اونچا تھا اس لئے جب وہ سجدہ میں جاتا تھا کُرتا اونچا ہو جاتا تھا اور وہ ننگا ہو جاتا تھا۔ عورتوں نے شور مچا دیا اور کہا ارے مسلمانو!تم چندہ کر کے اپنے امام کا ننگ تو ڈھانکو۔1 اب اگر اس حدیث کو پڑھ کر کوئی شخص یہ کہنا شروع کر دے کہ امام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پاجامہ نہ پہنے صرف کُرتا پہنے اور کُرتا بھی اتنا چھوٹا ہو کہ وہ سجدہ میں جائے تو ننگا ہو جائے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ بہرحال یورپین اثر کے نتیجہ میں احتراماً سر ننگا رکھنے کی بدعت پیدا ہوئی اور انگریزی حکومت کے دوران میں یہ مرض بڑھتی چلی گئی حالانکہ اسلامی لحاظ سے یہ غلط طریق ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام ایسی کوئی پابندی نہیں لگاتا جو انسانی طاقت سے بڑھ کر ہو لیکن جو بات انسانی طاقت میں ہو اُسے حقیقی عُذر کے بغیر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ہو سکتا۔
اسلامی طریق کار یہ ہے کہ ادب کے طور پر انسان اپنا سر ڈھانکے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول درس وتدریس کے دوران میں بعض اوقات سر سے پگڑی اتاردیتے تھے لیکن اگر اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ والسلام تشریف لے آتے تو آپ فوراً پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لیتے۔ پس ایسے کاموں کے موقع پر اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تو وہ سر پر رومال ہی باندھ لے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اس کے لئے کوئی پابندی نہیں۔ اگر اس لڑکے کی طرح کسی کے پاس صرف کُرتا ہی ہو پاجامہ نہ ہو تو اسے بغیر پاجامہ کے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی یا رومال نہ ہو تو وہ ننگے سر کھڑا ہو سکتا ہے ساتھ والے یا تو اسے معذور سمجھیں گے اور یا چندہ کر کے ٹوپی یا پگڑی وغیرہ خرید دیں گے۔ جو کام انسانی طاقت سے بالا ہو اسلام اس کا حکم نہیں دیتا۔ لیکن جس کام کی انسان میں طاقت ہو یا جس کا ازالہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو اُس کا بعض دفعہ حکم دے دیتا ہے اور بعض دفعہ کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل کرنا عمل نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم اس کے خلاف کرو گے تو تمہارا فعل آداب کے خلاف ہوگا۔
باقی رہا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا میرے نزدیک ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونااس سے زیادہ آسان ہے۔ میں اس پر بعد میں بھی غور کروں گا۔ اس لئے ابھی میں اس حصہ کو لازمی قرار نہیں دیتا گو جب تک مجوّزہ طریق کو تبدیل نہ کیا جائے اس پر عمل کیا جائے گا۔ میں بعض فوجیوں سے بھی مشورہ کروں گا کہ سہولت کس صورت میں ہے ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے میں یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے میں؟ اگر ہاتھ چھوڑ کرکھڑا ہونے میں سہولت ہوئی تو میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر دوں گا ورنہ مجوّزہ طریق کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر دونگا۔ ''اٹنشن'' کی پوزیشن دو تین منٹ تک تو برقرار رکھی جاسکتی ہے اس سے زیادہ نہیں کیونکہ اس پوزیشن میں جسم کو زیادہ سخت رکھنا پڑتا ہے لیکن ‘‘سٹینڈ ایٹ ایز’’ کی پوزیشن میں یہ مدّ نظر رکھا جاتا ہے کہ انسان سیدھا کھڑا ہو اور اعصاب پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ بہرحال میں اس کا فیصلہ بعد میں کروں گا۔ فوجی احباب اس بارہ میں مشورہ دیں۔ فوجی احباب سے مراد وہ احباب ہیں جو لڑنے والے فوجی ہیں ڈاکٹر وغیرہ نہیں۔
ایک بات میں یہ کہناچاہتا ہوں کہ نائب صدر کے انتخاب کے سلسلہ میں جو لسٹ ووٹنگ کی مجھے پہنچی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ کُل 450 کے قریب ووٹ گزرے ہیں حالانکہ 184 نمائندے یہاں موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک کو چھ چھ ووٹ دینے کا اختیار تھا۔ گویا 1104 ووٹ تھے لیکن گزرے صرف450 ہیں یا یوں کہو کہ 1104 افراد میں سے صرف 450 افراد نے ووٹ دیئے ہیں دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ صرف چالیس فی صدی ووٹ گزرا ہے اور یہ نہایت غفلت اور سُستی کی علامت ہے۔صدر کا انتخاب ایسی چیز نہیں کہ یہ کہا جائے میں نے کوئی رائے قائم نہیں کی۔ کسی نہ کسی رائے پر پہنچنا ضروری امر ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ رائے نہ دینے کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص یا تو سوتا رہا ہے اور اس طرح اس نے اپنے فرض کو ادا نہیں کیا اور یا پھر اس نے اپنے درجہ اور رُتبہ کو اتنا بلند سمجھا ہے کہ اس نے خیال کیا کہ وہ اتنے حقیر کام میں حصہ نہیں لے سکتا اور یہ دونوں باتیں افسوس ناک ہیں اور خدّام کی مُرد نی پر دلالت کرتی ہیں اس لئے آئندہ کے لئے مَیں یہ قانون بناتا ہوں کہ نائب صدر کی ووٹنگ کے وقت ہرشخص کو ووٹ دینا ہوگا۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی۔ وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب نام پیش ہوئے تو میں اس بات کو سمجھ نہیں سکا کہ ان میں سے کون زیادہ اہل ہے لیکن اسے یہ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کون شخص اس کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے اس کی مثال تم یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کا کوئی رشتہ دار مر گیا ہواور اس کے دفن کرنے کے لئے تین چار جگہیں بتائی گئی ہوں لیکن وہ ساری جگہیں اسے ناپسند ہوں تو تم ہی بتاؤ کہ کیا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لا ش ان چاروں جگہوں میں سے کسی جگہ بھی دفن نہ کی جائے بلکہ اسے کُتوں کے آگے پھینک دیا جائے یا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لاش کو دفن کردو چاہے کسی جگہ کردو۔ پس اگر نائب صدر کے انتخاب کے وقت کسی فرد کو کسی پر سو فیصدی تسلی نہ ہو تب بھی اسے کچھ نہ کچھ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا مثلاً وہ کہہ سکتا ہے کہ ان امیدواروں پر مجھے سو فیصدی تسلی نہیں۔ ہاں فلاں شخص پر مجھے سب سے زیادہ تسلی ہے یا وہ کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں پر مجھے 60 فیصدی تسلی ہے باقی پر 60 فیصدی تسلی بھی نہیں اور اگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا تو وہ کوئی اور نام پیش کردے اور کہے مجھے اس پر تسلی ہے چاہے اسے ایک ہی ووٹ ملے۔ آگے مرکزی دفتر کا یہ فرض ہے کہ وہ خدّام کو یہ امر ذہن نشین کراتا رہے کہ انہیں کس قسم کے شخص پر تسلی ہونی چاہئے۔
مثلاً لوگ شادیاں کرتے ہیں تو کوئی یہ دیکھ کر شادی کرتا ہے کہ لڑکی خوش شکل ہے،کوئی کہتا ہے اس عورت کا خاندان زیادہ معزز ہے، کوئی کہتا ہے سُبحَانَ اللہ فلاں عورت بہت پڑھی ہوئی ہے وہ پی۔ایچ ۔ڈی ہے اور آجکل لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں عورت اَپوا کی عہدیدار ہے یا لیگ میں کسی اچھے عُہدہ پر ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر کوئی عورت لیگ میں کام کرتی ہے تو اسے ہم نے کیا کرنا ہے۔ اس کے پاس روپیہ پیسہ تو ہے ہی نہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں تو عزت کی ضرورت ہے۔ کوئی کہتا ہے۔ اس کے پاس اتنی بڑی ڈگری ہے اس سے بہتر اور کون ہو سکتی ہے۔ کوئی کہتا ہے چھوڑو ان سب باتوں کو عورت نے ہروقت نظر کے سامنے رہنا ہوتا ہے اگر اس کی شکل ہی پسند نہ آئی تو اسے کیا کرنا ہے۔ غرض مختلف وجوہ کو پیش نظر رکھ کر لوگ شادیاں کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان تمام وجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی نسب کی وجہ سے شادی کرتا ہے یعنی وہ سمجھتا ہے کہ اس عورت کا خاندان بہت معزز ہے اس لئے میں اس سے شادی کروں گا۔ کوئی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے اور کوئی جمال کی وجہ سے شادی کرتا ہے پھر آپؐ اپنا مشورہ دیتے ہیں عَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے تو جب شادی کا فیصلہ کرے تو دیندار عورت تلاش کراگر تمہارے پیش نظر ایک سے زیادہ عورتیں ہوں اور ان میں سے ایک نیک ہو،دیندار،ہو اس کا ماحول ٹھیک ہو تو اسے دوسری سب عورتوں پر ترجیح دو۔ 2
اسی طرح مرکز کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا مشورہ دے دے کہ نائب صدر کے لئے کونسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے مثلاً میرے نزدیک ضروری ہے کہ وہ صاحب تجربہ ہو، صاحب الرائے ، اور صاحب الدّین ہو۔ صاحب الرائے کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود یہ طاقت رکھتا ہو کہ کسی بات کا صحیح اندازہ لگا سکے ۔ وہ کسی دوسرے شخص کی بات سے متاثر نہ ہو یا کسی کی غلطی سے متاثر نہ ہو۔ وہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ اس کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً ایک شخص اس کا بہنوئی ہے، وہ نمازی ہے، سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور ہر کام میں سمجھ سے کام لیتا ہے۔ اب اگر یہ اس کے خلاف صرف اس وجہ سے ووٹ دے کہ اس کی اپنی بیوی سے جو اس کی بہن ہے لڑائی ہے تو ہم کہیں گے کہ وہ صاحب الرائے نہیں۔ اس نے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی تعلقات کو مدنظر رکھا ہے یا اس کی کسی سے دوستی تھی مگر وہ دیندار نہیں تھا، سمجھدار نہیں تھا، سلسلہ کے کاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اب اگر یہ اسے محض دوستی کی وجہ سے ووٹ دے دیتا ہے تو ہم کہیں گے یہ صاحب الرائے نہیں۔ صاحب الرائے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے اندر قابلیت رکھتا ہو کہ غیر متعلق باتوں کو اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دے مثلاً امامت کا سوال ہو تو یہ نہ دیکھے کہ کوئی اس کا بھائی ہے باپ ہے یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہے بلکہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ صرف یہ دیکھے کہ وہ نمازی ہے، دیندار ہے، اسے قرآن کریم کا علم دوسروں سے زیادہ ہے۔ دیندار ہونا،نمازی ہونا اور قرآن کریم کا علم رکھنا یہ سب باتیں امامت سے تعلق رکھتی ہیں۔ عہدیداری یا رشتہ داری کا امامت سے کوئی تعلق نہیں بیرونی جماعتوں میں بھی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی تربیت کریں۔ ایک جگہ سے مجھے لکھا گیا کہ فلاں شخص ہماری جماعت میں صاحبِ رسوخ ہے اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا لیکن دقت یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ جماعت سے خارج ہو چکا ہے اور اس کی دینی حالت بھی ٹھیک نہیں۔ اب کوئی بھلا مانس ان سے یہ پوچھے کہ کیا وہ روزویلٹ، ٹرومین،آئزن ہاور یا چیانگ کائی شیک سے بھی بڑا ہے اگر تم ان کے بغیر گزارہ کر رہے ہو تو اس کے بغیر کیوں نہیں کر سکتے۔ لیکن جماعتیں ہمیں چٹھیاں لکھتی رہتی ہیں اور بعض اوقات ہم بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کی منظوری دے دیں۔ ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا تم جَھک مارنا چاہتے ہو تو مارو تم اپنے لئے موت قبول کرتے ہو تو ہم کیا کریں۔پس عہدیدار کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر پابندی کرانے کا مادہ ہو، وہ ڈرپوک نہ ہو۔
ایک دفعہ میں راولپنڈی گیا1933ء کی بات ہے اس سال میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئی تھیں راولپنڈی میں میرے سالے ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بھی تھے جو اس وقت فوج میں غالباً میجر تھے اور راجہ علی محمد صاحب بھی تھے جو اس وقت افسر مال تھے اور جماعت کا امیر ایک کلرک تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس امیر نے ایسا انتظام رکھا تھا کہ اگر وہ کہتا کھڑے ہو جاؤ تو یہ لوگ کھڑے ہو جاتے اگر کہتا کہ بیٹھ جاؤ تو بیٹھ جاتے گو اس کا انتخاب بطور امیر اتفاقاً ہوگیا تھا۔ وہ پہلے امیر منتخب ہو چکا تھا اور راجہ علی محمد صاحب اور ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بعد میں راولپنڈی گئے بہر حال اس نے اپنے انتخاب کی عزت کو قائم رکھا اور اپنے سے بڑے درجہ کے لوگوں کو بھی پابند نظام بنا لیا۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہماری جماعت میں احمدیت صرف کرنیلی تک جاتی ہے۔ جب کوئی احمدی کرنیل ہو جاتا ہے تو اس کے خاندان کی عورتیں پردہ چھوڑ دیتی ہیں او رمردوں سے میل جول شروع کر دیتی ہیں۔ بعض احمدی کرنیلی کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد شراب بھی پی لیتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کرنیلوں میں سے بہت کم تعداد ایسی ہے جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت پر قائم ہے۔ اب اگر صرف یہ دیکھ کر کہ کوئی شخص فوج میں کرنیل ہے اسے امیر بنا دیا جائے تو درست امر نہیں۔ اگر ایک چپڑاسی اس سے زیادہ دیندار ہو تو جماعت کی خوبی ہوگی کہ وہ کرنیل کی بجائے اس چپڑاسی کو اپنا امیر بنائے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نظم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو اگر وہ چپڑاسی ایسا ہو کہ جب کوئی کرنیل آئے تو اسے سلیوٹ کرنے لگ جائے تو پھر وہ بھی اس عہدہ کے مناسب نہیں ہوگا کیونکہ خدّام کے دفتر یا جلسہ میں کرنیل کو سلام کرنے کا سرکاری حکم نہیں ہے۔ہونا یہ چاہئے کہ فوج اور چھاؤنی میں وہ سپاہی یا چپڑاسی سلیوٹ کرے اور خدام کے دفتر میں کرنیل آئے تو چپڑاسی کو سلام کرے جو دیندار چپڑاسی اپنے عہدہ کا وقار قائم رکھ سکے وہ کرنیل کی نسبت امیر بننے کا زیادہ مستحق ہے۔ یہ رنگ نظم کا تمہارے اندر آنا چاہئے۔ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہئے اور صحیح طور پر دینا چاہئے۔
جو انتخاب تم نے کیا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آیااس لئے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ تم نے بغیر سوچے سمجھے اپنا ووٹ دے دیا ہے۔ سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 31 اکتوبر کے بعد جو سال شروع ہوتا ہے اس میں مرزا ناصر احمد مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی عمر زیادہ ہو چکی ہے اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہے میں نے انہیں دوسال کے لئے نائب صدر مقرر کیا تھا تاکہ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ باقی جو انتخاب کیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے:
(1)مرزا منوراحمد صاحب 112
(2)مرزا طاہر احمد صاحب 109
(3)مولوی غلام باری صاحب سیف 70
(4) میر داؤد احمد صاحب 80
(5) چودھری شبیر احمد صاحب 63
(6)قریشی عبدالرشید صاحب 49
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ووٹنگ عقل اور سمجھ پر کس طرح مبنی ہے۔ اس میں یا تو جنبہ داری سے کام لیا گیا ہے اور یا بھیڑ چال اختیار کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہو لیکن میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ طاہر احمد شاگرد ہے اور مولوی غلام باری صاحب سیف استاد ہیں۔ استاد کو بہت کم ووٹ ملے ہیں اور شاگرد کو زیادہ۔ اور یہ استاد کی کنڈمنیشن(CONDEMNATION)ہے۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ استاد نالائق ہے اور شاگرد اچھا ہے۔ ممکن ہے میرے ذہن میں بھی ان کے خلاف بعض باتیں ہوں لیکن تمہارے نقطہ نگاہ سے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ استاد کے مقابلہ میں شاگرد کو زیادہ ووٹ تم نے کس طرح دے دیئے۔ جب طاہر احمد کے مقابلہ میں اُس کا استاد موجود تھا تو اس کو کم ووٹ کیوں دیئے۔ پھر قریشی عبدالرشید صاحب ہیں۔ قریشی صاحب خدّام الاحمدیہ کے پرانے ورکر ہیں ان کو بھی انتخاب میں دوسروں سے نیچے گرادیا گیا ہے۔ میں گراتا تو اس کی کوئی وجہ ہوتی۔ جو وجوہات میرے پاس ہیں وہ تمہارے پاس نہیں۔ یہ لوگ میرے ساتھ کام کرتے ہیں اس لئے مجھے ان کے نقائص اور خوبیوں کا علم ہے لیکن تمہارے گرانے کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تم نے طاہر احمدکو محض صاحبزادہ سمجھ کر ووٹ دے دیئے ہیں اور اگر ایسے اہم معاملات میں محض صاحبزادگی کی بناء پر کسی کو ترجیح دے دی جائے تو قوم تو ختم ہوگئی۔ انتخاب کے لئے کام اور قابلیت دیکھی جاتی ہے صاحبزادگی نہیں دیکھی جاتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحیح طور پر وہی لوگ کام کر سکتے ہیں جو میرے قریب ہوں اور اگر تم نے یہ دیکھا ہے کہ کسی کو مجھ سے ملنے کا موقع زیادہ مل سکتا ہے تو یہ بات اچھی ہے لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اس عہدہ پر کام کرے۔ اگر ایک شخص کو مجھ سے ملاقات کا موقع زیادہ ملتا ہے اور دوسرا اس سے زیادہ قابل ہو تو ترجیح اس شخص کو دی جائے گی جو قابل ہوگا۔ پس یہ انتخاب یا تو جنبہ داری کی وجہ سے ہؤا ہے اور یا اس میں بھیڑ چال سے کام لیا گیا ہے۔ اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو اس سے محبت کرنے کے اَور ذرائع استعمال کرو۔ اسے تحفے دو، اس سے باتیں کرو، اس سے تعلقات بڑھاؤ لیکن اسلام تمہیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ تم محض محبت اور پیار کی وجہ سے کسی کا حق دوسرے کو دے دو۔ جو مال سلسلہ کا ہے وہ چاہے کوئی رشتہ دار ہو یا دوست تم محض دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے کسی کو نہیں دے سکتے۔ پچھلی دفعہ بھی تم نے ایسا ہی کیا۔ تم نے مرزا خلیل احمد کو منتخب کر لیا اور وہ آج تک امتحان میں فیل ہو رہا ہے۔ کلاس سے نہیں نکلا۔ اور تم نے اسے آج سے چار سال قبل اپنا صدر منتخب کر لیا تھا اور میں نے وہ انتخاب ردّ کر دیا تھا۔ اس لئے کہ انتخاب میں جنبہ داری اور پارٹی بازی سے کام لیا گیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ آج سے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں خود ہوں گا۔ تا تمہیں اس بات کی تحریک ہو کہ تم صحیح اسلامی روح اپنے اندر پیدا کرو۔ اگر صحیح اسلامی روح کسی کے انتخاب کے خلاف جاتی ہے تو تم اُس کے خلاف جاؤ۔ مَیں مناسب نہیں سمجھتا کہ تم میں سے ہر ایک کو کھڑا کر کے دریافت کروں کہ اسے کسی اور نے کسی شخص کو ووٹ دینے کے لئے کہا تھا یا نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس قسم کے انتخابات عقل کے خلاف ہوتے ہیں۔ انتخاب کے وقت ہمیشہ قابلیت دیکھنی چاہئے۔میں جانتا ہوں کہ مرزا ناصر احمد میں پہلے کئی نقائص تھے جو بعد میں دور ہو گئے لیکن منور احمد میں وہ قابلیت نہیں جو ناصر احمد میں تھی لیکن بہر حال چونکہ اس کو اس کام میں ایک حد تک تجربہ ہے اگر وہ اپنی اصلاح کرلے گا تو اس کام کو کر لے گا۔ اس لئے میں اس کا نام نائب صدر کے لئے منظور کرتاہوں مگر یاد رہے کہ کام کو لٹکایانہ جائے۔ کام کو لٹکانا قوم کو ذلت کی طرف لے جاتاہے۔
انگریزوں میں ایک اصطلاح مشہور ہے اور وہ ہے ریڈٹیپ ازم۔ جب کسی سوال کا جواب فوری طور پر نہ دینا ہو یا ایک چیز پہلے ایک شخص کے پاس جائے پھر دوسرے کے پاس جائے پھر تیسرے کے پاس جائے اور اس طرح اس کا جو اب آنے میں پانچ چھ ماہ کا عرصہ لگ جائے تو اس کا نام انہوں نے ریڈ ٹیپ ازم رکھا ہے لیکن اس *** سے بھی بڑی *** ہمارے حصہ میں آئی ہے۔ ہمارے مقابلہ میں انگریز کی نسبت جوں کے مقابلہ میں گاڑی کی ہے۔ جو رفتار ایک جوں کی گاڑی کے مقابلہ میں ہوتی ہے وہی انگریز کے مقابلہ میں ہماری رفتار ہے۔جس تیزی اور تندہی سے انگریز کام کرتے ہیں ہم نہیں کرتے اگر انگریزوں کا ریڈٹیپ ازم ہم میں آجائے تو پتہ نہیں ہم میں کس قدر تیزی آجائے ایک واقعہ مشہور ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں جس قدر سستی اور غفلت سے کام لیتے ہیں۔ راجپوتانہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں کسی گھر میں آگ لگ گئی۔ پانچ سات میل پر کوئی قصبہ تھا جہاں فائر بریگیڈ تھا۔ اس نے وہاں فون کیا کہ میرے گھر کو آگ لگ گئی ہے فائر بریگیڈ بھجواؤ تا آگ بجھائی جا سکے۔ اسے جواب ملا کہ فائربریگیڈ کو روانگی کا حکم مل چکا ہے اور وہ تمہارے پاس بہت جلد پہنچ جائے گا لیکن یہ جواب تب دیا گیا تھا جب اس کا مکان جل کر دوبارہ بھی تعمیر ہو چکا تھا۔ اس نے اس جواب کے جواب میں لکھاکہ آپ کا شکریہ مگر اب تو مکان جل کر دوبارہ بھی تعمیر ہو چکا ہے اب فائر بریگیڈ کی ضرورت نہیں۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ میں ایک دفعہ قادیان کے قریب ایک گاؤں پھیروچیچی گیا۔ وہاں میں اکثر دفعہ جایا کرتا تھا وہاں میری کچھ زمین بھی تھی شروع میں ہم وہاں خیمے لگا کر رہتے تھے ایک دفعہ باورچی نے مجھے اطلاع دی کہ آٹاختم ہوگیا ہے اس لئے مزید آٹا پسوانے کا انتظام کر دیا جائے صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے۔ مہمان کثرت سے آتے جاتے ہیں اس لئے اس کا انتظام جلد کر دیا جائے میں نے ایک دوست کو بلایا ان کا نام قدرت اللہ تھااور وہ میری زمینوں پر ملازم رہ چکے تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ آٹا ختم ہو چکا ہے صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے مہمان کثرت سے آتے ہیں اس لئے دو بوریاں آٹا پسوا لاؤ۔ وہاں قریب ہی تیس کے قریب پن چکیاں تھیں اس لئے آٹا پسوانے میں کوئی دقّت نہیں تھی۔ میں نے انہیں یہ ہدایت کی کہ اس بارہ میں سُستی نہ کرنا۔ یہ نہ ہو کہ مہمانوں کو آٹا نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو۔ گاؤں سے اتنا آٹانہیں مل سکتا چنانچہ وہ اسی وقت چلے گئے تا آٹا پسوانے کا انتظام کریں۔ میں نے انہیں چلتے چلتے بھی تاکید کی کہ آٹا جلد پسوا کر لانااس میں سستی نہ کرنا ۔دوسرے دن صبح کا وقت آیا۔ کھانا تیار ہو کر آگیا اور ہم نے کھالیا۔ شام ہوئی تو کھانا آگیا میں نے خیال کیا کہ آٹا آگیا ہوگا لیکن بعد میں باورچی نے بتایا کہ اس وقت تو ہم نے گاؤں کے دوستوں سے تھوڑاتھوڑا آٹا مانگ کر گزارہ کر لیا ہے کل کے لئے آٹے کا انتظام کرنا مشکل ہے آپ آٹا پسوانے کا جلد انتظام کردیں۔ اتنے چھوٹے سے گاؤں میں اس قدر آٹے کا انتظام نہیں ہو سکتا میں نے سمجھا چلو اس وقت آٹا نہیں آیا تو صبح آجائے گا لیکن صبح کے وقت بھی آٹا نہ آیا۔ میں نے کہا چلو اس وقت گاؤں سے تھوڑا تھوڑا آٹامانگ کر گزارہ کر لو امید ہے شام تک آٹا آجائے گا۔ ویسے تو گاؤں میں چار پانچ سو احمدی تھے لیکن کسی ایک گھر سے اس قدر آٹے کا انتظام مشکل تھا چٹکی چٹکی آٹا مانگنا پڑتا تھا۔ اب48گھنٹے گزر چکے تھے لیکن میاں قدرت اللہ صاحب واپس نہ آئے پھر اگلی شام بھی آگئی لیکن میاں قدرت اللہ صاحب واپس نہ آئے چنانچہ پھر گاؤں کے احمدیوں سے آٹا مانگ کر گزارہ کیا گیا۔ اس پر میں نے ایک آدمی کو میاں قدرت اللہ صاحب کے پاس بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ آٹا پسوانے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے۔ وہاں یہ لطیفہ ہؤا کہ اس دوست نے میاں قدرت اللہ صاحب کے دروازہ پر دستک دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا آخر اس نے بلند آواز سے کہا۔حضور خفا ہو رہے ہیں، آٹا نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف ہو رہی ہے آخر تم بتاؤ تو سہی کہ آٹا پسوانے میں کیوں دیر واقع ہوئی ہے آخر میاں قدرت اللہ صاحب باہر نکلے اور کہا ''اَسی غور پئے کرنے آں کہ آٹا کیڑی چکی توں پسوایئے ''یعنی میں تین دن سے یہ غور کر رہا ہوں کہ آٹا کس چکی پر سے پسوایا جائے گویا آٹا پسوانے کا سوال ہی نہ تھا۔ ابھی تو یہ غور ہو رہا تھا کہ آٹا کہاں سے پسوایا جائے تو یہ ہمارے ملک کی ریڈ ٹیپ ازم ہے۔ ہم ہر معاملہ کو اتنا لٹکاتے ہیں کہ دو منٹ کا کام ہو تو اس پر مہینوں لگ جاتے ہیں۔ میرا ناظروں سے روزانہ یہی جھگڑا ہوتا ہے اور انہیں میں میاں قدرت اللہ صاحب کی ہی مثال دیتا ہوں مثلاً ناظر صاحب بیت المال نے شکایت کی کہ فلاں شخص کے ذمہ 16 ہزار روپیہ کا غبن نکلا ہے اور دو ہزار روپیہ کا جھگڑا اَور ہے صدر انجمن احمدیہ کہتی ہے کہ جب تم پوری تحقیقات کر لو گے تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کونسی مصلحت ہے اس معاملہ میں اتنی دیر ہوگئی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے لئے بعد میں مشکلات کا سامنا ہوگا یا تو ثبوت ضائع ہو جائیں گے یا فریق ثانی کو اس بات کا شکوہ ہوگا کہ وہ کوئی فیصلے نہیں کر رہے۔ معاملہ کو یونہی لٹکایا جارہا ہے (مشکلات کا سامنا ہوگیا کیونکہ جس شخص نے روپیہ کی ضمانت دی تھی وہ فوت ہو گیا ہے)اس سے پہلے بھی دو تین کیس ہو چکے ہیں اور اب ان کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ ہمیں تنخواہیں دی جائیں۔ گویا ایک طرف تو جماعت کا نقصان ہؤا اور دوسری طرف یہ جرمانہ ہؤا کہ جرم کرنے والوں کو تنخواہیں دی جائیں۔میں نے ناظر صاحب اعلیٰ کو یہی لکھا ہے کہ تم ناظر صاحب بیت المال کو یہ جواب کیوں نہیں دیتے کہ کیا آپ کو ہمارادستور معلوم نہیں کہ ہم ہر معاملہ کو ہمیشہ لٹکایا کرتے ہیں تا ثبوت ضائع ہو جائیں اور مجرم دو سال کی تنخواہ اور لے لے۔ غرض ریڈٹیپ ازم کی اتنی مصیبت ہے کہ باوجود کوشش کے احمدیوں سے بھی نہیں جاتی۔ خدّام میں بھی اس قسم کی غفلت اور سُستی پائی جاتی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ میں نے منور احمد کو دیکھا ہے اسے کوئی کام بتاؤ چاہے وہ چند منٹ کا ہو وہ اسے دو تین ماہ تک لٹکائے جاتا ہے بہر حال چونکہ آپ لوگوں نے اس کے حق میں رائے دی ہے اس لئے میں اسے ایک چانس اور دیتا ہوں اسے اپنی عادت کی اصلاح کرنی چاہئے۔ چاہے رات کو بیٹھ کر کام کرنا پڑے۔ کسی چیز کو زیادہ دیر تک لٹکانا نہیں چاہئے۔
میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہوگئی تم یہ کیوں نہیں کر سکتے۔ اب بھی میرا یہ حال ہے کہ میری اس قدر عمر ہو گئی ہے چلنے پھرنے سے میں محروم ہوں، نماز کے لئے مسجد میں بھی نہیں جاسکتا لیکن چارپائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے مَیں ان دنوں کمزور بھی تھا او ربیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کرتا تھا۔ 6 ماہ کے قریب یہ کام رہا جو لوگ ان دنوں کام کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ کوئی رات ہی ایسی آتی تھی جب میں چند گھنٹے سوتا تھا اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی۔ نوجوانوں کے اندر تو کام کرنے کی اُمنگ ہونی چاہئے میاں قدرت اللہ صاحب والا غور انہیں چھوڑ دیناچاہئے۔
پس میں آپ سب کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے کاموںمیں چُستی پیدا کرو۔
تیسرے نمبر پر میر داؤد احمد صاحب کے ووٹ زیادہ ہیں۔ ان کی عمر طاہر احمد سے زیادہ ہے اور تجربہ بھی اس سے زیادہ ہے اس لئے دوسرے نمبر پر نائب صدر میں انہیں بناتا ہوں لیکن چونکہ میرداؤد احمدصاحب تبلیغ کے سلسلہ میں بیرون پاکستان جا رہے ہیں اس لئے ان کے چلے جانے کے بعد باقی عرصہ کے لئے مولوی غلام باری صاحب سیف نائب صدر نمبر 3 ہوں گے۔
میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد اب انصار اللہ میں چلے گئے ہیں۔ان کے متعلق میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ انصار اللہ کے صدر ہوں گے اگرچہ میرا یہ حکم ‘‘ڈکٹیٹرشپ’’ کی طرز کا ہے لیکن اس ‘‘ڈکٹیٹر شپ’’ کی وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا ہے ورنہ تمہارا حال بھی صدر انجمن احمدیہ کی طرح ہی ہوتا۔ ایک دفعہ ایک جماعت کی طرف سے ایک چِٹھی آئی جو سیکرٹری مال کی طرف سے تھی انہوں نے تحریر کیا کہ ہمارے بزرگ ایسے نیک اور دین کے خدمت گزار تھے کہ انہوں نے دین کی خاطر ہر ممکن قربانی کی لیکن اب ہم جو اُن کی اولاد ہیں ایسے نالائق نکلے ہیں کہ جماعت پر مالی بوجھ روز بروز زیادہ ہو رہا ہے لیکن ہم نے اپنا چندہ اتنے سالوں سے ادا نہیں کیا۔ آپ مہربانی کر کے اپنا آدمی یہاں بھجوائیں دوستوں کو ندامت محسوس ہو رہی ہے چنانچہ یہاں سے نمائندہ بھیجا گیا اور چنددن کے بعد اس کی طرف سے ایک چِٹھی آئی کہ ساری جماعت یہاں جمع ہوئی اور سب افراد اپنی سُستی اور غفلت پرروئے اور انہوں نے درخواست کی کہ پچھلا چندہ ہمیں معاف کر دیا جائے آئندہ ہم باقاعدہ چندہ ادا کریں گے اوراس کام میں غفلت نہیں کریں گے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر بقایا ہوگیا تو ایک اور چٹھی آگئی کہ مرکز کی طرف سے کوئی آدمی بھیجا جائے احباب میں ندامت پیدا ہوئی ہے چنانچہ ایک آدمی گیا تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گریہ وزاری کی اور یہ درخواست کی کہ پہلا چندہ معاف کیا جائے آئندہ ہم باقاعدہ چندہ ادا کریں گے غرض ہر تیسرے سال یہ چکر چلتا دو تین آدمی ایسے تھے جو باقاعدہ طور پر چندہ ادا کرتے تھے باقی کا یہی حال تھا۔ اگر میں مجلس خدام الاحمدیہ کے بارہ میں ‘‘ڈکٹیٹرشپ ’’استعمال نہ کرتا تو تمہارا بھی یہی حال ہوتا۔ نوجوانوں کو میں نے پکڑ لیا اور انصار اللہ کو یہ سمجھ کر کہ وہ بزرگ ہیں ان میں سے بعض میرے اساتذہ بھی ہیں چھوڑ دیا لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ خوردبین سے بھی کوئی انصار اللہ کا ممبر نظر نہیں آتا۔ پس ناصر احمد کو میں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں۔ وہ فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدہ داروں کا انتخاب کرکے میرے سامنے پیش کریں اور پھر میرا مشورہ لے کر انہیں ازسر نو منظم کریں۔ پھر خدّام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ جلسہ کیا کریں لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہوگا۔ اس اجتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کبڈی اور دوسری کھیلیں ہوتی ہیں۔ انصار اللہ کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صَرف کیا جائے۔
خدام الاحمدیہ کی تنظیم اب روزبروزبڑھ رہی ہے اس لئے ان کے کاموں میں پہلے سے زیادہ چستی پیدا ہونی چاہئے۔ پچھلے دنوں لاہور والوں نے جو کام کیا ہے وہ نہایت قیمتی تھا لیکن اگر لاہور کی مجلس زیادہ منظم ہوتی تو یقیناً ان کا کام زیادہ مفید ہو سکتا تھا اور اگر لاہور والوں کو منظم ہونے کا احساس ہوتا تو اس کا قاعدہ یہ تھا کہ لاہور والے مرکز کو لکھتے کہ وہ اپنا ایک نمائندہ یہاں بھیج دیں پھر وہ نمائندہ دوسری مجالس کو تاریں دیتا کہ تم لوگ یہاں آکر کام کرو اس طرح لاہور میں خدمت خلق کا کام وسیع ہو سکتا تھا۔ جب میں نے ربوہ سے معمار بھجوائے تو لاہور میں اتنا کام نہیں ہو سکا جس کی ہمیں امید تھی اور اس کی زیادہ وجہ یہی تھی کہ سامان بہت کم تھا۔ معماروں کو وقت پر سامان میسر نہیں آیا اگر لاہور والے اس کے متعلق پہلے غور کر لیتے اور ہمیں سامان کا اندازہ لگا کر بھیج دیتے تو یہاں سے معمار کا م کا اندازہ کر کے بھیجے جاتے۔ اب انہوں نے خدمت بھی کی لیکن کام زیادہ نہیں ہؤا اگر سامان کم تھا تو ہم کچھ معمار اس وقت بھیج دیتے اور باقی معماروں سے کسی اور موقع پر کام لے لیتے انسان آنریری خدمت ہروقت نہیں کر سکتا آخر اس نے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے۔ بہر حال اس قسم کے تمام کام اُسی وقت عمدگی سے سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جب مجالس ایک دوسری سے تعاون کریں۔ سیلاب کے دنوں میں باقی جماعتوں نے بھی کام کیا ہے لیکن لاہور کی جماعت نے جس قسم کا کام کیا ہے اس سے انہیں ایک خاص معیار حاصل ہوگیا ہے۔ موجودہ قائد خدام الاحمدیہ کے اندر وقت کا احساس ہے۔ میں جب لاہور گیا اور میں نے ربوہ کے معماروں کے بنائے ہوئے مکانوں کو خود دیکھا تو ایک جگہ پر ایک کمرہ تعمیر کرنے کے لئے میں نے انہیں اندازہ بھجوانے کی ہدایت کی۔ غور کرنے والے تو شاید اس پر کئی دن لگا دیتے لیکن انہوں نے اندازہ گھنٹوں میں پہنچا دیا اور پھر اس کی تفصیل بھی ساتھ تھی۔
پس تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو اور اپنے بجٹ کو ایسے طور پر بناؤ کہ وقت آنے پر کچھ حصہ اس کا خدمت خلق کے کاموں میں صرف کیا جا سکے۔ قادیان میں یہ ہوتا تھا کہ زیادہ زور عمارتوں پر رہتا تھا۔ حالانکہ اگر کوئی عمارت بنانی ہی ہے تو پہلے اس کا ایک حصہ بنا لیا جائے کچھ کچّےکمرے بنالئے جائیں۔ جماعت بڑھتی جائے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا اور اس سے عمارت آہستہ آہستہ مکمل کی جا سکے گی پس اپنے بجٹ کا ایک حصہ خدمت خلق کے لئے وقف رکھو۔ جیسے ہلال احمر اور ریڈ کراس کی سوسائٹیاں کام کر رہی ہیں اگر تم آہستہ آہستہ ایسے فنڈز جمع کرتے رہو تو ہنگامی طور پر یہ رقوم کام آجائیں گی مثلاً بنگال میں سیلاب آیا تو جماعت کی طرف سے نہایت اچھا کام کیا گیا لیکن چونکہ چندہ دیر سے جمع ہؤا اس لئے کام ابھی تک جاری ہے۔ چندہ جب مانگا گیا تھا تو صرف مشرقی پاکستان کا نام لیا گیا تھا پنجاب کا نام نہیں لیا گیا تاکہ مزید چندہ مانگنے پر جماعت پر مالی بوجھ نہ پڑے۔ اگر اس قسم کی رقوم پہلے سے جمع ہوتیں تو جمع شدہ چندہ ہم مشرقی پاکستان پر خرچ کر دیتے اور ان رقوم میں سے ایک حصہ پنجاب میں خرچ کر دیا جاتا۔
پس ہر سال بجٹ میں اس کے لئے بھی کچھ مارجن رکھ لیا جائے اور تھوڑی بہت رقم ضرور الگ رکھی جائے وہ رقم ریزرو ہوگی جو قحط اور سیلاب وغیرہ مواقع پر صرف کی جائے گی تم اس کا کوئی نام رکھ لو ہماری غرض صرف یہ ہے کہ اس طرح ہر سال کچھ رقم جمع ہوتی رہے جو کسی حادثہ کے پیش آنے یا کسی بڑی آفت کے وقت خدمت خلق کے کاموں پر خرچ کی جاسکے۔ جاپان میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ فرض کرو وہاں کوئی ایسا زلزلہ آجائے جس قسم کا زلزلہ پچھلے دنوں آیا تھا اور اس کے نتیجہ میں دو تین ہزار آدمی مر گئے تھے تو ایسے مواقع پر اگر خدّام الاحمدیہ کی طرف سے گورنمنٹ کے واسطہ سے کچھ رقم وہاں بھیج دی جائے تو خود بخود خدّام الاحمدیہ کا نام لوگوں کے سامنے آجائے گا۔ اس قسم کی مدد سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوجاتی ہے اور طبائع کے اندر شکریہ کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے اگر اس قسم کے مصائب کے وقت کچھ رقم تار کے ذریعہ بطور مدد بھیج دی جائے تو دوسرے دن ملک کی سب اخبارات میں مجلس کا نام چَھپ جائے گا۔ پچھلے طوفان میں ہی اگر خدام کے مختلف وفود بنا لئے جاتے اور تنظیم کے ذریعہ سے باہر کی مجالس سے آدمی منگوا لئے جاتے تو زیادہ سے زیادہ آدمی سیلاب زدہ لوگوں کی امداد کے لئے بھیجے جاسکتے تھے۔ مثلاً سیلاب کا زیادہ زور ملتان، سیالکوٹ اور لاہور کے اضلاع میں تھا اگر ان ضلعوں کی مجالس کو منظم کیا جاتا اور باقی مجالس سے مدد کے لئے مزید آدمی آجاتے اور انہیں بھی امدادی کاموں کے لئے مختلف جگہوں پر بھیجا جاتا تو پھر ان کا کام زیادہ نمایاں ہو جاتا پھر یہ بھی چاہئے کہ حالات کو دیکھ کر غور کیا جائے کہ کس رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور میں مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ چھپّر ڈال کر لوگوں کو پناہ دی جاسکتی تھی اگر شہر کے ارد گرد تالابوں سے تنکے اور گھاس کاٹ کر لایا جاتا تو اس سے بڑی آسانی سے چھپّربنا کر چھت کا کام لیا جا سکتا تھا اس طرح لکڑی کے مہیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح اس قسم کے مواقع پر پکے مکانات کی ضرورت نہیں ہوتی پھِسکے کی عمارت کی ضرورت ہوتی ہے اور لکڑی کی بجائے بانس اور تنکوں کا چھت بنا دیا جاتا ہے۔ لاہور میں کئی ایسی جگہیں تھیں جہاں سردی سے بچاؤ کے لئے چھت کی ضرورت تھی یہ سب کام آرگنائزیشن سے ہو سکتے تھے۔ ہمارے محکمہ خدمت خلق کا یہ کام ہے کہ نہ صرف وہ مجالس کو آرگنائز کرے بلکہ اس قسم کا انتظام کرےکہ اگر کسی جگہ کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو کس طرح ساری جماعت کا زور اس طرف ڈالا جاسکے۔ آئندہ میرے پاس رپورٹیں آتی رہنی چاہئیں کہ کس طرح خدمت خلق کے کام کو آرگنائز کیا گیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حلقے بنا دیئے جائیں اور ان کی آپس میں آرگنائزیشن کر دی جائے۔ جیسے زونل سسٹم ہوتا ہے اس طرح صوبہ کے مختلف زون مقرر کر دئیے جائیں مثلاًیہ کہا جا سکتا ہے کہ ملتان کے اردگرد سوسو میل کا ایک زون بنا دیا جائے۔ اس علاقہ میں آبادی کم ہے اس لئے اس سے بڑا زون بھی بنایا جاسکتا ہے پھر ہر زون میں خدمت خلق کا ایک افسر مقرر کیا جائے جو مصیبت آنے پر دوسری مجالس کو تار دے دے کہ فلاں جگہ پر مصیبت آئی ہے۔ امدادی کاموں کے لئے خدام بھیج دیئے جائیں۔
اسی طرح یاد رکھو کہ ہمارا ملک ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ اس میں نہ صرف بڑے بڑے طوفان آسکتے ہیں بلکہ طوفان لائے بھی جاسکتے ہیں۔ ہم نچلے علاقہ میں ہیں اور ہندوستان کی حکومت اوپر کے علاقوں پر قابض ہے اور وہ پانی چھوڑ کر طوفان لا سکتی ہے۔ پھر لاہور میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں جو دقّت پیش آئی تھی اس کے متعلق دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس موقع پر بھٹہ والوں نے بددیانتی کی ان لوگوں نے اس موقع پر اینٹ کو مہنگا کر دیا اگر اس قسم کی تحریک کی جاتی کہ جماعتیں مل کر ان کو توجہ دلائیں کہ ایسے مواقع پرآپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ مصیبت زدگان کی امداد کریں تو یقیناً وہ کم قیمت پر اینٹ سپلائی کرتے۔ میرے نزدیک آئندہ کے لئے ابھی سے لاہور کے بھٹہ والوں سے مل کر انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ اگر ملک کو آئندہ ایسا حادثہ پیش آیا تو وہ اینٹ کم قیمت پر دیں گے اور دوسرے گاہکوں پر امدای کاموں کو ترجیح دیں گے۔ بے شک اس میں دقّت پیش آئے گی اور پہلے ایک آدمی بھی مشکل سے مانے گا۔ لیکن آہستہ آہستہ کئی لوگ مان لیں گے اور پھر جو لوگ آپ کی بات مان لیں ان کے نام محفوظ رکھ لئے جائیں اس طرح اس کام کو منظم کیا جائے۔
میں نے اس دفعہ اک شعبہ کو منسوخ کر دیا ہے اور وہ ایثارو استقلال کا شعبہ ہے کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تربیت و اصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال کا الگ شعبہ کس غرض کے لئے ہے۔ جب تک اس کے متعلق کوئی نئی سکیم پیش نہ کی جائے میں اسے بحال نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہدہ کو میں نے ہی قائم کیا تھا لیکن اب مجھے یادنہیں رہا کہ اسے کس غرض سے قائم کیا گیا تھا پس جب تک مجھے یہ نہ بتا یا جائے کہ تربیت و اصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال نے کیا کام کرنا ہے یہ شعبہ تربیت و اصلاح میں مدغم رہے گا۔ ہاں اگر مجھے بتا دیا جائے کہ اس عہدہ نے پہلے کیا کام کیا ہے اور اب اسے کس طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے تو میں اس کی دوبارہ منظوری دیدوں گا۔’’
(روزنامہ الفضل ربوہ 9فروری 1955ء)
1
2 بخاری کتاب النِّکَاح باب الأِکفَاء فی الدِّین







خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد
نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے
(2 دسمبر 1954ء)


از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد
نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے
(فرمودہ 2 دسمبر 1954ء برموقع عصرانہ بہ اعزاز صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )

تشہد، تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
‘‘انگریزی کی ایک مثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ چلتا چلا جاتا ہےاور کُتّے بھونکتے جاتے ہیں۔ الفاظ اس مثل کے سخت ہیں لیکن مطلب صرف یہ ہے اور اسی مطلب کی طرف میرا اشارہ ہےکہ جب کسی خاص مقصد کو لے کر انسان کھڑا ہوتا ہےتو ہمیشہ ہی اچھے مقصد کی مخالفت کی جاتی ہےلیکن جن لوگوں نے اپنا کوئی مقصد قرار دیا ہوتا ہےوہ اُس مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ اور جب تک وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں دنیا اپنے منہ سے قرار کرے یا نہ کرے دل میں یہ قرار کرنے پر ضرور مجبور ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کوئی مقصد ہےکیونکہ بغیر مقصد کے کوئی شخص مخالفتوں کا مقابلہ نہیں کیا کرتا۔ جب بے مقصد لوگوں کی مخالفت ہو تو وہ فوراً کام چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ایک گلی میں سے گزر رہا ہو اور سوائے گزر جانے کے اس کی اور کوئی غرض نہ ہو اور راستہ میں اُسے ڈاکومل جاتے ہیں یا وہ دیکھتا ہے کہ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں تو بے مقصد انسان فوراً اُس گلی سے لَوٹ کر دوسری گلی میں سے نکل جائے گا۔لیکن اگر کوئی کمزور عور ت اُس گلی میں سے دوائی لے کر گزرتی ہے اور فرض کرو اُس کا بچہ بسترِ مرگ پر پڑا ہوا ہےتو خوا ہ اُسے راستہ میں ڈاکو ملیں، فسادی نظر آئیں وہ نظر بچاتی اور دیواروں کے ساتھ ساتھ چمٹتی ہوئی وہاں سے گزر جائے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرا یہاں سے گزرنا ضروری ہےاور دوسرا سمجھتا ہے کہ میرا یہاں سے گزرنا ضروری نہیں ۔
گزشتہ ایام میں جو فسادات ہوئے اُن کے متعلق جہاں تک گورنمنٹ کا نکتہ نگاہ ہے وہ محسوس کرتے تھے کہ انتہا درجہ کے فسادات جو کسی ملک میں رونما ہو سکتے ہیں وہ یہاں پیدا ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی جماعت میں سے صرف پندرہ سولہ آدمی تھےجنہوں نے کمزوری دکھائی۔ اور جب انکوائری کمیٹی بیٹھی تو آئی جی یا چیف سیکرٹری کا بیان تھا کہ ہمارے علم میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو ابھی تک واپس نہیں ہؤا باقی سب جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اب سارے ہی واپس آچکے ہیں سوائے ایک دو کے جو پہلے ہی احمدیت سے منحرف تھے اور خواہ مخواہ ان کو اس لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ اس کہ وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہم صحیح مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں صرف ان کے دل کی کمزوری یا بزدلی تھی کہ جس کی وجہ سے عارضی طور پر اُن کا قدم لڑکھڑا گیا۔ بلکہ گوجرانوالہ میں تو ایک لطیفہ ہو گیا ۔ ایک احمدی جو کمزور دل تھااُس پر مخالفین نے دباؤ ڈالا تو اُس نے کہہ دیا کہ میں مرزائیت سےتوبہ کرتا ہوں۔ وہ بڈھا آدمی تھا اُس نے سمجھا کہ دل میں تو مانتا ہی ہوں اگرمنہ سے میں نے کچھ کہہ دیا تو کیا ہؤا؟ بہرحال لوگ اس خوشی میں لَوٹ گئے اور انہوں نے نعرے مارنا شروع کر دیئےہم نے فلاں مرزائی سے توبہ کروا لی ہے۔ مسجد کے امام کو بھی اس کی خبر ہوئی وہ ہوشیار آدمی تھا اُس نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ لگا ہےکہ اُس نے مرزائیت سے توبہ کر لی ہے؟انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے اُس نے کہا ہے کہ میں مرزائیت سے توبہ کرتا ہوں۔ وہ کہنے لگا اُس نے تمہیں دھوکا دیا ہے اب وہ گھر میں بیٹھا استغفار کر رہا ہو گا۔ تم پھر اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے کہو ہم تمہاری توبہ ماننے کے لئے تیار نہیں جب تک تم یہاں آکر ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ چنانچہ پھر ہجوم اُس کے گھر پہنچا اور کہا ہم اس طرح تمہاری توبہ نہیں مانتے۔ تم چلو اور مسجد میں ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔ وہ چونکہ دل میں ایمان رکھتا تھا اور صرف کمزوری کی وجہ سے اُس نے منہ سے توبہ کی تھی اس لئے جب دوبارہ ہجوم اُس کے پاس پہنچا تو خدا نے اُسے عقل دے دی اور وہ کہنے لگا دیکھو بھئی! جب میں مرزائی تھا تو نمازیں پڑھا کرتا تھا، شراب سے بچتا تھا، کنچنیوں کے ناچ گانے میں نہیں جایا کرتا تھا جب تم آئے اور تم نے کہا توبہ کرو تو میں بڑا خوش ہؤا کہ چلو اچھا ہؤا مجھے ان مصیبتوں سے نجات ملی۔ پس میں نے تو اس خیا ل سے توبہ کی تھی کہ مجھے اب نمازیں نہیں پڑھنی پڑیں گی ، شراب پیئوں گا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں شامل ہؤا کروں گا کیونکہ یہ پابندیاں مجھ پر مرزائی ہونے کی حالت میں تھیں۔ مرزائیت سے توبہ کر کےیہ سب مصیبتیں جاتی رہیں مگر تم اِدھر مجھ سے توبہ کرواتے ہو اور اُدھر وہی کام کرواتے ہو جو مرزائی کیا کرتے ہیں پھر یہ توبہ کیسی ہوئی؟ اس پر وہ شرمندہ ہو کر چلے گئے اور اُنہوں نے سمجھ لیاکہ مولوی کی بات ٹھیک ہے اس نے دل سے توبہ نہیں کی۔
آخر یہ کیا چیز تھی جس نے اتنے فتنہ کے زمانہ میں اِکّا دُکّا احمدی کو بھی اپنی جگہ قائم رکھا اور جان، مال اور عزت کے خطرہ کے باوجود اُن کا قدم نہیں ڈگمگایا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک مقصد کے پیچھے چل رہے ہیں اور یہ بے مقصد لوگ ہیں ہم ان کی خاطر اپنے مقصد کو کس طرح چھوڑ دیں اور اگر ہم چھوڑتے ہیں تو خائب و خاسر ہو جاتے ہیں۔
خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی مقصد کے ماتحت کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائےاور انہیں گرنے سے بچایا جائے۔باغوں میں پھل لگتے ہیں تو اس میں انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا۔ پھل لگتے ہیں اور بے تحاشہ لگتے ہیں مگر خدا لگاتا ہے۔ انسان کا ا ختیار اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ان پھلوں کو گرنے سے بچاتا ہے یا اس امر کی نگہداشت کرتا ہے کہ اسے جانور نہ کھا جائیں یا بچے نہ توڑ لیں یا کیڑے اس باغ کو خراب نہ کر دیں اور یہ حفاظت اور نگہداشت اس کی خوبی ہوتی ہے۔ جہاں تک پھلوں کا سوال ہے اُس کا لگانا خدا کے اختیار میں ہےلیکن جہاں تک اُن پھلوں کی حفاظت کا سوال ہے وہ انسان کے اختیار میں ہے۔ لیکن بےوقوف اور نادان باغبان پھلو ں کی حفاظت نہیں کرتااور وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہاں پاکستان میں ہمیں بھی لائل پور میں ایک باغ الاٹ ہؤا ہے۔ لاہور کے ایک تاجر نے اُس کا ٹھیکہ لیا تھاوہ مجھے ملے تو کہنےلگے بیشک ہم نے بھی نفع اٹھایا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کیا اس باغ میں اب کہیں بھی کوئی طوطا نظر آتا ہے۔ پہلے اس باغ میں ہزار ہا طوطے ہؤا کرتے تھے مگر اب ایک طوطا بھی نظرنہیں آتا اور اگر کوئی غلطی سے اِدھر کا رُخ کرے تو چکر کاٹ کر بھاگ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ پہلے سے کئی گُنا زیادہ پھل پیدا ہؤا اور ہم نے بھی فائدہ اٹھایااور آپ کو بھی زیادہ پیسے دیئے۔توپھل تو سب باغوں میں آتے ہیں۔ باغبان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اُن کی حفاظت کرے۔
خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا ہےکہ بچپن اور نوجوانی میں بعض لوگ بیرونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں اوراُن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگ دوسری سوسائٹیوں سے بُرا ا ثرقبول لیتے ہیں اور بعض تر بیت کے نقائص کی وجہ سےآوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیرونی تغیر کو جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونےدیں اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کے پورا کرنے کے لئےجماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے۔اگر نوجوانوں میں یہ روح پیدا کر دی جائے تو پھر بیشک شرارت کرنے والے شرارت کرتے رہیں خواہ اپنے ہوں یا غیرسب کے سب ناکام رہیں گے۔
دنیا میں بسااوقات اپنے دوست اور عزیز بھی مختلف غلط فہمیوں کی بناء پر مخالفت پر اُتر آتے ہیں جیسے آجکل مسلمانوں کی حالت ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں لیکن وہ اپنی نادانی سےسمجھتے ہیں کہ ہم اس راستہ سے ہٹ گئےہیں حالانکہ وہ خود اس راستہ سے ہٹ چکے ہیں۔ اسی طرح ہندو اور عیسائی وغیرہ بھی مخالفت کرتےہیں۔ پس خواہ اپنے لوگ مخالفت کریں یا غیر کریں وہ اپنا کام کئے چلا جاتا ہے اور سمجھتاہے کہ میرے کام اعلیٰ ہیں۔ اگر میں اس راستہ سے ہٹ جاؤں گا تو ذلیل ہو جاؤں گا۔
گزشتہ زمانہ میں مسلمان کمزور ہوئے تو اِسی وجہ سےکہ اسلام کے باغ میں جو ثمرات اور پھل لگے ان پھلوں کی انہوں نے حفاظت نہ کی اور وہ گرنے شروع ہو گئے۔ انہوں نے اسلام میں حاصل ہونے والی عزت پر دُنیوی عزتوں کو ترجیح دینی شروع کردی جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ اسلام کی شوکت آہستہ آہستہ مٹ گئی۔ اگر وہ سمجھتے یورپین سوسائٹی میں شامل ہونا یا ان سوسائٹیوں میں کسی عزت کے مقام کا مل جانامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے تو وہ ادھر کبھی نہ جاتے۔ پس خدام الاحمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں تا یورپ کے اثرات اور روس کے اثرات اور دوسرے ہزاروں اثرات ان کی نگاہ میں حقیر نظر آنے لگیں اور وہ سمجھیں کہ حقیقی عزت اُس کام میں ہےجو خدا نے اُن کے سپرد کیا ہے۔
اس کے بعد انصاراللہ مقرر ہیں تاکہ جو خدام میں سے نکل کر ان میں شامل ہو وہ اس کی حفاظت کریں۔ گویاتمہاری مثال ایسی ہے۔ جیسے کوئی مَور1 کی حفاظت کرتا ہےاور انصاراللہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بڑے پھل کی نگہداشت کرتا ہے۔جہاں تک خدام الاحمدیہ کا سوال ہےوہ بہت چھوٹی بنیاد سے اُٹھے اور بڑھ گئے۔مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے اپنی تنظیم نہیں کی۔حالانکہ ان کی ترقی کے امکانات زیادہ اور ان کے خطرات کم تھے۔ لالچیں اور حرصیں زیادہ تر نوجوانی میں پیدا ہوتی ہیں۔ بڑھاپے میں انسانی کیریکٹرراسخ ہو جاتاہےاور اس کا قدم آسانی سےڈگمگا نہیں سکتا۔ بہرحال خدام نے خوش کن ترقی کی ہےمگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ کا دفتر اپنے پاس ایک چارٹ رکھےجس میں یہ دکھایا جائے کہ مجلس کی اِس وقت تک کتنی انجمنیں ہیں، کس کس جگہ اس کی شاخیں قائم ہیں اور دوران سال میں ان انجمنوں نے کتنی ترقی کی ہے۔ اگر اِس قسم کا ایک چارٹ موجود ہو تو اس کے دیکھتے ہی فوراً پتہ لگ سکتا ہے کہ خدام الاحمدیہ ترقی کر رہے ہیں یا گر رہے ہیں۔
میں نے دیکھا ہے صدر انجمن احمدیہ کی شاخیں ہمیشہ چھ اور سات سو کے درمیان چکر کھاتی رہتی ہیں اور اس تعداد میں کبھی اضافہ نہیں ہؤا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ کوئی ایسا محکمہ نہیں تھا جو اس امر کی نگرانی کرتا اور دیکھتا کہ انجمنیں کیوں ترقی نہیں کر رہیں۔ پس ہر سال ایک چارٹ تیار کیا جایا کرےاور پھر اس چارٹ پر شوریٰ میں بحث ہو کہ فلاں جگہ کیوں کمی آ گئی ہے۔ یا فلاں جگہ جو زیادتی ہوئی ہے وہ کافی نہیں اس سے زیادہ تعداد ہونی چاہئے تھی۔ یا اگر پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے ایک ہزار ممبر تھے تو اس سال بارہ سو کیوں نہیں ہوئے؟ اِس وقت دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور احمدی بھی خداتعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کےذریعہ سے بھی اور نسل کی ترقی کے ذریعہ سے بھی۔ پس خدام الاحمدیہ کی تعداد ہر سال پچھلے سال سے زیادہ ہونی چاہئے۔ اگر یہ چارٹ سالانہ اجتماع پر لگا ہؤا ہو تو باہر سے آنے والے خدام کو بھی اس طرف توجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد جب بیرونی مجالس میں توجہ پیدا ہو تو اس قسم کا چارٹ چھپوا دیاجائے۔ اس چارٹ میں مختلف خانے بنے ہوئے ہوں جن میں مجالس کی ابتداء سے لے کر موجودہ وقت تک کے تمام سالوں کی درجہ بدرجہ ترقی یا تنزل کا ذکر ہو ۔ اگر تم اس طرح کرو تو یقیناً تم کسی جگہ ٹھہرو گے نہیں لیکن اس خانہ پُری میں تمہاری وہ کیفیت نہیں ہونی چاہئے جو جلسہ سالانہ کے منتظمین کی ہوتی ہے کہ پہلے ان کی پرچیٔ خوراک سے ظاہر ہوتا ہے کہ سولہ سترہ ہزار افراد آئے ہیں اور پھر جب لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوتی ہیں کہ لوگ کم کیوں آئے ہیں تو یکدم ان کی تعداد 35 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح نگرانی نہیں ہو سکتی اور خرچ بے کار ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جلسہ سالانہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی لوگ آتے ہیں۔ مگر جب بھی چہ میگوئیاں شروع ہوں کہ زیادہ لوگ نہیں آئے تو یکدم تعداد میں تغیر آ جاتا ہے ۔
اسی طرح باہر سے ایک دوست کی چِٹھی آئی کہ ہم جلسہ کے دنوں میں فلاں جگہ ٹھہرا کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں دس دس بارہ بارہ آدمیوں کے لئے چاول اور پرہیزی کھانا باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ ہمارے ساتھ کچھ غیر احمدی دوست بھی تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ چاول ہمیں کیوں نہیں ملتے؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ بیماروں کے لئے آتے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ کیا اس گھر کے رہنے والےسب کے سب بیمار ہیں؟ یہ بھی ایک نقص ہے جس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگ ان باتوں میں بڑے محتاط ہوتے ہیں اور وہ بڑی صحت کے ساتھ اعدادوشمار بیان کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گڑبڑ کر دیتےہیں۔ اور بعض لوگ تو شاید گڑبڑ کرنا ثواب کا موجب سمجھتےہیں حالانکہ ان چیزوں کا نتیجہ الٹ ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔اگر تم چارٹ بناؤ گےتو وہ تمہاری ترقی کے لئے بڑا محرک ہو گا اور پھر دوسرے لوگوں کو بھی تمہارے کاموں کے ساتھ دلچسپی پیدا ہو جائے گی اور انہیں بھی احساس ہو گا کہ تم ایک کام کرنے والی جماعت ہو ۔’’
(رسالہ خالد جنوری 1955ء)
1 مَور: آم کا پھول۔بُور۔ شگوفہ۔ کلی









تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے
افتتاح کے موقع پر خطاب




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی



بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب

(فرمودہ 6دسمبر 1954ء برموقع افتتاح تعلیم الاسلام کالج ربوہ)

تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
‘‘آج تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی تقریب کے سلسلہ میں مجھے یہاں بلایا گیا ہے جیسا کہ اس کالج کے نام سے ظاہر ہے۔ اس کے بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ اس کالج میں طلباء اسلام کی تعلیم سیکھیں یعنی وہ یہاں آکر جہاں دنیوی علوم حاصل کریں۔ وہاں وہ قرآن کریم کے پیشکردہ علوم کو بھی حاصل کریں۔ بعض لوگ نادانی اورجہالت کی وجہ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید قرآن کریم دوسرے علوم کے سیکھنے سے روکتا ہے حالانکہ قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم اور تجربہ حاصل کرنا چاہئے اور علم نام ہی اس چیز کا ہے جس کو حقیقت اور شواہد سے ثابت کیا جاسکے جس چیز کو قوانینِ قدرت کی مدد سے ثابت نہ کیا جاسکے وہ جہالت قیاسات اور وہم ہوتا ہے۔ اس کا نام علم نہیں رکھا جاسکتا۔ علم کے معنے ہوتے ہیں جاننا اور دوسری چیز کے لئے دلیل ہونا حضرت مسیح علیہ الاسلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ 1 کہ وہ قیامت کے لئے ایک علامت اور دلیل ہیں۔ پس علم کے معنے ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے دوسری باتیں ثابت کی جا سکیں اور ثابت وہی چیز کی جاسکتی ہے۔ جس کے لئے ظاہری شواہد موجود ہوں پس جو چیز قانون قدرت کی تائید رکھتی ہے۔ وہ علم ہے اور جو چیز قانون قدرت کی تائید نہیں رکھتی وہ علم نہیں۔
بعض لوگوں کے نزدیک شاید یہ تعریف بعض علوم پرچسپاں نہ ہو سکے مثلاً تاریخ ہے تاریخ کا علم بھی علم کہلاتا ہے لیکن بظاہر قانونِ قدرت اس کی تائید نہیں کرتا۔ علم جغرافیہ کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے۔ حساب کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے۔ علم النفس کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے۔ ڈاکٹری کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے۔ لاء(LAW) کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے اس کے شواہد اس زمانہ میں موجود ہیں۔ وہ حکومت موجود ہے جس نے قانون مقرر کیا ہے پھر عوام موجود ہیں جو اس کے نگران ہیں پھر جج موجود ہیں جن کا کام ملک میں قانون کو رائج کرنا ہے لیکن تاریخ اس بات کا نام ہے کہ فلاں وقت فلاں جگہ پر فلاں واقعہ ہؤا۔ اب بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ شواہدِ قدرت کی محتاج نہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علم تاریخ بھی شواہدِ قدرت کا ویسے ہی محتاج ہے جیسے دوسرے علوم اسکے محتاج ہیں اگر ہم شواہدِ قدرت کو نکال دیں تو علمِ تاریخ محض جہالت اور قصوں کا مجموعہ رہ جاتا ہے مثلاً الف لیلیٰ ہے اس میں بعض واقعات موجود ہیں۔ کلیلہ و دمنہ ہے۔ اس میں بھی بعض قصے موجود ہیں لیکن ہم انہیں تاریخ نہیں کہتے ہاں ایڈورڈ گبن کی کتاب
THE DECLINE AND FALL OF ROMAN EMPIRE
کو تاریخ کہتے ہیں۔ ابن خلدون کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں۔ ابن اثیر کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ کلیلہ دمنہ اور الف لیلیٰ کی باتوں کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود نہیں لیکن ان کتابوں میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ دان بھی بسااوقات غلطی کر جاتے ہیں لیکن تاریخ دانوں کے غلطی کر جانے کی وجہ سے خود علم پر کوئی حرف نہیں آتا۔ حساب دان بھی بعض اوقات غلطی کر جاتا ہے۔ انجینئر بھی روزانہ غلطیاں کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ تاریخ دانوں کی غلطیوں کی وجہ سے علم تاریخ کو علم نہ کہا جائے ہندوستان کا ایک مشہور واقعہ ہے گورنمنٹ نے بمبئی کی رپورٹ کو گہرا کرنے کا منصوبہ تیار کیا اور اس کے لئے ایک نقشہ بنایا گیا اور کروڑوں کی مشینری اس غرض کے لئے درآمد کی گئی۔ لیکن کلکولیشنز(CALCULATIONS)میں غلطی ہوگئی۔ جس کی وجہ سے یہ کروڑوں کی مشینری بیکار ہوگئی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ پس اندازہ غلط ہو جانے یا ماہرین سے غلطی ہو جانیکی وجہ سے یہ کہنا کہ وہ علم نہیں غلط ہے مثلاً حساب کو اس لئے علم نہیں کہتے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا بلکہ اسے اس لئے علم کہا جاتا ہے کہ قواعد کے مطابق اگر عمل کیا جائے تو اس میں امکانِ صحت موجود ہے اور جس علم میں امکانِ صحت موجود ہے۔ اسے ہم علم کہہ دیتے ہیں اور جس میں امکانِ صحت موجود نہ ہو۔ اسے ہم علم نہیں کہتے۔ تاریخ کو بھی ہم اس لئے علم کہتے ہیں کہ اس میں امکانِ صحت موجودہے۔
تاریخ کے علم کو صحیح طورپر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے ایک وقت آیا جب مسلمانوں نے اپنے آباو اجداد کی باتوں کو بھلا دیا اور ان کی تاریخ پورپین مصنفین نے لکھی چونکہ ان کے سامنے یورپ کا بڑھتا ہؤا اقتدار اور قومی ترقی تھی۔ اس لئے انہوں نے سمجھا کہ علم تاریخ کو بھی چاہئے کہ وہ ان کے اقتدار میں مدد کرے اور وہ مدد اسی طرح کر سکتا ہے کہ دشمن کا منہ اتنا زیادہ سیاہ کر کے دکھایا جائے کہ قوم اس کی طرف رغبت نہ کرے اوراپنی قوم کے کردار کوشاندار کر کے دکھایا جائے تا نوجوانوں کی ہمت بڑھے۔ پس ان کے لئے یہ علم، علم تھا۔ ان کی ترقی جھوٹ کے ذریعہ ہی ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے واقعات کو غلط طور پر پیش کیا اگر وہ جھوٹ نہ بولتے ا ور واقعات کو غلط طور پر پیش نہ کرتے تو وہ ترقی نہیں کر سکتے تھے پس یہ تاریخ ان کے لحاظ سے علم تھا کیونکہ ان کے مدِّنظر یہ تھا کہ اس کے پڑھنے سے مسلمانوں کی بداخلاقی جہالت اور ذلت نظر آئے اور یورپ کی ترقی دوسری اقوم کو مسحور کر دے لیکن ہمارے نزدیک یہ جہالت تھی کیونکہ یہ محض جھوٹ تھا۔ اس کا اصل واقعات سے قریب کا تعلق بھی نہیں تھااور باتیں تو جانے دوتم سب مسلمان ہو مسلمان ہونے کی وجہ سے تم نے بعض باتیں سنی تو ہوں گی۔ جن لوگوں نے یورپین مصنفین کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ ان کے لئے شاید یہ نئی بات ہو لیکن جو لوگ اورینٹلسٹوں(ORIENTALIST) کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے یہ بات پہلے ہی پڑھی ہوگی۔ بہرحال جن لوگوں کو اس کا علم نہیں ان کے لئے یہ بات بالکل اچنبھا ہے کہ یورپین مصنفین اسلام کے متعلق اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کی نعش نعوذ باللہ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے۔ اب کیا تم نے یہ بات کسی جاہل سے جاہل مسلمان سے بھی سنی ہے تم نے یہ تو سنا ہوگا کہ فلاں بزرگ نے مُردہ پر پانی پھینکا اور وہ زندہ ہو گیا تم نے یہ بھی سنا ہوگا کہ فلاں بزرگ نے پھونک ماری تو مکان سونے کا بن گیا اگر تم میں سے کسی نے امام شعرانی کی کتاب پڑھی ہوگی تو اس نے اس قسم کے کئی واقعات اس میں پڑھے ہوں گے لیکن ان سب افتراؤں کے اندر تم نے یہ افتراء نہ پڑھا ہوگا نہ سنا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نعش نَعُوْذُ بِاللّٰہِ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے لیکن یورپین مصنفین یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے پھر تم میں سے بعض نے شاید قرآن کریم باترجمہ نہ پڑھا ہوگا لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے تم سب نے بعض باتیں سنی ہوں گی تم نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ قرآن کریم میں عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکر ہے دونوں کی نمازوں اور استغفار کا ذکر ہے دونوں کے اچھے کاموں کی تعریف کی گئی ہے لیکن یورپین مصنفین اپنی کتابوں میں بِلا استثناء لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے عورت میں روح نہیں پائی جاتی۔ مرنے کے بعد جس طرح کتا بلی اور دوسرے جانوروں کی روحیں ضائع کر دی جائیں گی اسی طرح عورتوں کی روحیں بھی ضائع کر دی جائیں گی اور وہ جنت میں نہیں جائیں گی۔ اب آپ لوگوں کے نزدیک یہ بات الف لیلیٰ کے واقعات سے بھی زیادجھوٹی ہے کیونکہ الف لیلیٰ نے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کے سامان تو مہیا کئے ہیں لیکن اس بات نے تمہارے دلوں کو مجروح کیا ہے اور دکھ دیا ہے۔ پس یہ تاریخ یورپین اقوام کے لئے تو علم ہے کیونکہ ان کو عورتوں میں کافی نفوذ حاصل ہے اگر ان کے اندر یہ چیز پیدا کر دی جائے کہ اسلام ایک گندہ اور غیر معقول مذہب ہے۔ اس کے نزدیک عورتوں کے اندر روح نہیں پائی جاتی اور وہ موت کے بعد کتوں اور بلیوں کی طرح ضائع کر دی جائیں گی تو تم جانتے ہو سب عورتیں اپنے بچوں کو یہی تعلیم دیں گی کہ اس غیر معقول اور گندے مذہب کو مٹانا ضروری ہے پس ان کے لحاظ سے یہ تاریخ علم ہے لیکن ہمارے لحاظ سے وہ جہالت اور قیاسات کا مجموعہ ہے گویا ایک جہت سے مستشرقین کی یہ تاریخ علم ہے اور ایک جہت سے جہالت ہے۔
بہر حال تاریخ بھی دنیوی علوم میں سے ایک اہم علم ہے کیونکہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہم ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن تاریخ کے مطالعہ سے ہم ان سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ایک آدمی کسی سے کچھ واقعات سنتا ہے وہ انہیں دوسرے کے آگے بیان کرتا ہے اور اس طرح وہ واقعات ہم تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سننے والے آگے بیسیوں غلطیاں کر جاتے ہیں۔ ایک واقعہ آتا ہے کہ شہزادہ ویلزیورپ کی پہلی جنگ میں ایک جگہ فوج کا معائنہ کرنے گئے۔ وہیں فوجیوں نے ایک قسم کا مظاہرہ کیا۔ وہاں یہ تجربہ کیا گیا کہ ایک سپاہی دوسرے سے ایک فقرہ کہے اور وہ اس سے اگلے سپاہی سے وہ فقرہ کہے اور وہ اگلے سپاہی سے کہے پھردیکھاجائے کہ آخر پر جاکر وہ کیا بن جاتا ہے جو فقرہ پہلے سپاہی نے دوسرے سے کہا۔ وہ یہ تھا۔ کہ پرنس آف ویلز ہیز کم(PRINCE OF WALES HAS COME) لیکن کئی میل تک کھڑی ہوئی فوج کے آخر تک جو پیغام پہنچا وہ یہ تھا۔ کہ گِوْ می ٹوپنسز (GIVE ME TWO PENCES)اب دیکھ لو کہ سنتے سنتے فقرہ کیا سے کیاہو گیا۔ کس کی ٹون لہجہ یا ایکسنٹ (Accent)میں فرق پڑا تو اس نے کچھ اور سن لیا۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اس میں فرق پڑتا گیا اور آخر میں اس کامفہوم بالکل ہی بدل گیا۔ یہی حال تاریخ میں بھی ہو سکتا ہے۔ وہاں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک ایک واقعہ پہنچتا ہے اور لہجہ اور ٹون میں فرق پڑنے سے ان میں فرق پڑنا لازمی ہوتا ہے
پس اس میں شبہ نہیں کہ غلطی کا امکان اس میں بھی موجود ہے لیکن یورپ والوں نے ہم پر سخت ظلم کیا ہے اگر واقعات ان سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ انہیں صحیح اور درست سمجھتے ہیں لیکن اگر وہی بات مسلمانوں کے متعلق ہو تو کہتے ہیں یہ چیز سماعی ہے اس لئے اسے درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمانوں کا علمِ حدیث جس کو علم کی حد کے اندر رکھنے کے لئے بہت بڑی محنت اور کوشش کی گئی ہے۔ اس کے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے گئے ہیں۔ جن کے ذریعہ احادیث کو پرکھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ یہ کوئی علم نہیں اس کی بنیادسماع پر ہے اور جو چیز سماعی ہو وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی لیکن انجیل جس کے راوی خود کہتے ہیں کہ یہ مسیح سے سینکڑوں سال بعد مرتب کی گئی ہے۔ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول ہے اب دیکھ لو جس کے متعلق کوئی احتیاط نہیں کی گئی۔ وہ تو ان کے نزدیک یقینی اور قطعی ہے اور جس چیز کے متعلق ہر طرح احتیاط برتی گئی وہ محض سماعی باتیں ہیں اسے علم نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ان کے اس تعصب کو نظر اندازکرتے ہوئے ہمیں یہ ماننے سے انکار نہیں کہ سماعی باتوں میں غلطی ہو سکتی ہے کہنے والے کا کوئی مطلب ہوتا ہے اور سننے والا کچھ سمجھ لیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ میں کچھ آدمی مارے گئے۔ ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی یعنی حضرت علیؓ کے بڑے بھائی بھی شامل تھے مدینہ میں یہ رواج تھا کہ مرنے والوں کا ماتم کیا جاتا تھا اور اس کے متعلق ان کا یہ خیال تھا کہ ماتم کرنے سے مرنےوالے کی روح خوش ہوتی ہے۔ مسلمان ابھی حدیث العہد تھے اور ان سے یہ احساس پورے طورپر مٹا نہیں تھا۔ جب عورتوں نے ان لوگوں کی موت کی خبر سنی تو انہوں نے سمجھا ہمیں ماتم کرنا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ اپنے مُردوں کی قدر کرتے ہیں چنانچہ بَین شروع ہؤا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شور سنا تو دریافت فرمایا یہ کیا ہے صحابہؓ نے بتایا کہ عورتیں جنگ میں مرنے والوں پر رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بہت بُری بات ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ویسے بھی مُردوں پر رونا درست نہیں اس سے قوم میں سے بہادری اور جرأت کا احساس جاتا رہتا ہے اور اس کی ہمت گرتی ہے۔ جاؤ انہیں منع کرو۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بَین ختم کرو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورتوں کے اندر جوش پایا جاتاتھا وہ اپنے مردوں کو یاد کر رہی تھیں اور رو رہی تھیں۔ بَین میں ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی لوگ رونے لگ جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ جاؤ مرے ہمارے رشتہ دار ہیں۔ ہمارے دل دکھے ہوئے ہیں اور ہم رو رہی ہیں تم منع کرنے والے کون ہوتے ہو حضرت ابوہریرہؓ واپس آگئے اور عرض کیا یا رسولَ اللہ! میں نے ان عورتوں سے کہا تھا کہ وہ ماتم کرنا ختم کر دیں مگر وہ رکتیں نہیں۔ آپ نے فرمایا اُحْثُ الْتُّرَابَ عَلٰی وُجُوْ ھِھِنَّ 2 اُس فقرہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تُو ان کے منہ پر مٹی ڈال لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے۔ ہمارے ہاں بھی اس موقع پر کہتے ہیں کِھ پا اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ عملی طور پر مٹی مونہوں پر ڈالی جائے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو یہی محاورہ عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے۔ کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالو یعنی انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے اس کا مفہوم نہ سمجھا اور لفظی ترجمہ کی بناء پر اپنی جھولی میں مٹی بھرنی شروع کی حضرت عائشہؓ نے انہیں جھولی میں مٹی بھرتے دیکھ لیا اور فرمایا تم یہ کیا حماقت کر رہے ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ واقع میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے مان لیا کہ وہ غلطی کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے بلکہ آپ کا مطلب صرف یہ تھا کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے۔ اگر حضرت عائشہؓ حضرت ابوہریرہؓ کو جھولی میں مٹی ڈالتے ہوئے نہ دیکھتیں تو یہ روایت آگے چلی جاتی۔ پھر اگر حضرت ابوہریرہؓ لفظی روایت کر دیتے تو بعض لوگ اس کے معنی سمجھ لیتے اور بعض نہ سمجھتے لیکن اگر آپ معنوی روایت کر دیتے تو اس کا مفہوم سمجھنے میں کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ بلکہ سب مسلمان یہی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب عورتیں بَین کریں تو ان کے مونہوں پر خوب مٹی ڈالواور حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے کہ میں نے آپ کے ارشاد پر خود مٹی ڈالی ہے اور اس طرح مسلمانوں میں ایک ناپسندیدہ رواج پڑ جاتا اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہنستے اور مذاق اڑاتے کہ یہ کیا اسلام ہے جس میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جاتی ہے۔ پس تاریخ کے متعلق یہ مانی ہوئی بات ہے کہ اس میں اس قسم کی غلطی کا پایا جانا ممکن ہے لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ یورپین مصنفین اپنے متعلق اور قوانین وضع کرتے اور ہمارے متعلق اور قوانین بتاتے ہیں۔ یہ طریق غلط ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ سماعی باتوں میں فرق ضرور ہوتا ہے اور سننے والے کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طریق ایسا بھی ہے کہ جس کے ذریعہ غلطی سے بچا جا سکتا ہے اور وہ طریق یہ ہے کہ روایت میں غلطی راوی کی وجہ سے پڑتی ہے لیکن ایک شخص کے متعلق جب ہم کئی واقعات سنتے ہیں تو اس کے متعلق ہم معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کا کیریکٹر یہ ہے اور جب کسی کے کیریکٹر کا علم ہو جائے تو علم النفس کے ذریعہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ کونسا واقعہ سچا ہے اور کونسا غلط اگر کوئی واقعہ اس کے کیریکٹر کے مطابق ہے تو ہم کہیں گے یہ واقعہ سچا ہے اور اگر کوئی واقعہ اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے تو ہم کہیں گے یہ واقعہ غلط ہے مثلاً اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص دیانت دار ہے تو اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ کسی کا روپیہ لے کر بھاگ گیا ہے تو ہم کہیں گے یہ بات غلط ہے یہ محض دشمنی کی وجہ سے کہا گیا ہے ورنہ یہ بات اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے گویا جب ہم سائیکالوجی کے نیچے اسے لائیں گے تو یہ ایک علم بن جائے گا چنانچہ اسلامی تاریخ پرمیرا ایک لیکچر چَھپا ہؤا موجود ہے۔ جس کا نام ‘‘اسلام میں اختلافات کا آغاز’’ ہے۔ میں نے اس لیکچر میں اس بات پر بحث کی ہے کہ اسلام میں اختلافات کا آغاز کس طرح ہؤا۔ اس لیکچر کے صدر پروفیسر سید عبدالقادر صاحب تھے۔ میں نے ان کی صدارت میں مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور میں تقریر کی اور اپنے نقطہ نگاہ سے اسلامی تاریخ کے اس حصہ کو اس طرح بیان کیا کہ جس طرح مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اسی طرح صحابہ کو میں نے ان تمام الزامات سے بری ثابت کیا جو ان پرلگائے جاتے تھے۔میرا وہ لیکچر اب بھی پروفیسروں کے زیرِ نظر رہتا ہے اور بعض کالجوں میں تو یہ سفارش کی جاتی ہے کہ طلباء میرے اس لیکچر کا ضرور مطالعہ کریں۔ میں نے اس لیکچر میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بات کہ اسلام میں فتنوں کا موجب حضرت عثمانؓ اور بڑے بڑے صحابہ تھے بالکل جھوٹ ہے اس لیکچر کے سلسلہ میں مَیں نے زیادہ طبری کو مدنظر رکھاہے۔
طبری نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ایک ایک واقعہ کی پانچ پانچ سات سات روایات دے دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے وہ کون سے واقعات ہیں جن کی ایک زنجیر بن سکتی ہے۔ ان واقعات کو میں نے لے لیا اور باقی کو چھوڑ دیا کیونکہ ایک طرح کی زندگی میں اختلاف نہیں ہو سکتا اگر ایک سال ایک کام معاویہؓ کر رہے ہوں۔ اگلے سال وہ کام عمروبن عاصؓ کر رہے ہوں اور اگلے سالوں میں وہی کام پھر معاویہ سے منسوب ہو تو درست بات یہی ہوگی کہ وہ کام دوسرے سال بھی معاویہؓ ہی کر رہے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص کا نام غلطی سے آگیا ہے۔ اس اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صحابہؓ سے بعض غلطیاں ہوئیں یا حضرت علی کے متعلق بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ وہ سب غلط ہیں گویا یہاں علم النفس میرے کام آیا یا اگر ایک شخص کے متعلق ایک سال بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ دوسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں تیسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں تو ہمیں وہی واقعات درست ماننے پڑیں گے جو ایک کڑی اور زنجیر بنا دیں۔ رحم دل اور سنگدل یا پارسا یا عیاش آدمی جمع نہیں ہو سکتے۔ مثلاً ایک آدمی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ رحمدل ہے اور اکثر واقعات اس کی رحمدلی پر دلالت کرتے ہیں۔ اگر اس کے متعلق بعض ایسی روایات آجائیں کہ وہ ظالم تھا تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ اسے ظالم بتانے والی روایات غلط ہیں کیونکہ رحم دلی اور ظلم جمع نہیں ہو سکتے۔
پس سائیکالوجی سے شواہد کو چیک کر لیا جائے تو تاریخ بھی علم بن جاتا ہے۔ سائیکالوجی کی مدد سے ہم دو سال بعد بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کونساواقعہ درست ہے اور کونسا غلط میں اس کی مثال دیتا ہوں اور یہ مثال اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَاءُ۔ کی مصداق ہے۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی تجلی دیکھنے طُور پر گئے تو ان کے پیچھے ہارون علیہ السلام مشرکوں سے مل گئے اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے ایسانہیں کیا بلکہ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو آپ نے انہیں روکا اب دیکھو قرآن کریم 1900 سال بعد آیا ہے اور بائیبل خود اس کے ماننے والوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں لکھی گئی تھی۔اب ایک روایت بائیبل میں موجود ہے اور ایک روایت قرآن کریم نے بیان کی ہے جو 1900سال بعد میں آیا ہاں اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا ہے۔ اب اگر دیکھا جائے کہ ان روایات میں سے کونسی روایت درست ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب الہام کو یہ شبہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے بھی یا نہیں۔ مثلاً مَیں ایک شخص کے متعلق یہ جانتا ہوں کہ وہ یہاں بیٹھا ہے اب اسکے متعلق میں یہ بھلا کیوں کہوں گا کہ وہ چنیوٹ میں ہے۔ حضرت ہارون علیہ السلام تو مُلہَم مِنَ اللہ تھے اگر ان کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ درست ہے تو آپ بچھڑے کی پوجا کس طرح کر سکتے تھے۔ پس علم النفس ہمیں بتاتا ہے کہ ان پر بچھڑے کی پوجا کا الزام لگانا درست نہیں پھر مذہبی کتابوں اور تاریخ سے آپ کی جس قسم کی ذہانت کا پتہ لگتا ہے اس ذہانت والا شخص بھی یہ غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردے۔ اس لئے عقلاً بھی قرآن کریم کی روایت ٹھیک ہے اور بائیبل کی روایت غلط ہے یہ چیز ایسی ہے کہ اسے جس سمجھدار انسان کے سامنے بھی ہم پیش کریں اسے قرآن کریم کی فضیلت ماننی پڑتی ہے۔ یہ تو ہمارا بیان ہے لیکن انسائیکلوپیڈیا میں بھی لکھا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے ہارون علیہ السلام نے شرک نہیں کیا بلکہ آپ نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا سے روکا اور اس روایت کو عقلِ سلیم بھی تسلیم کرتی ہے اسکے مقابلہ میں بائیبل کی روایت غلط ہے۔ غرض خود یورپین محققین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بائیبل کے مقابلہ میں قرآن کریم کی روایت زیادہ درست ہے پس جب تاریخ کے ساتھ علم النفس مل جاتا ہے تو وہ اسے قطعی اور یقینی بنا دیتا ہے۔ غلطیاں ہر علم والے سے ہوتی ہیں حساب میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ ڈاکٹری میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں انجینئرنگ میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح دوسرے علوم میں بھی غلطیوں کا امکان ہوتا ہے لیکن علم انہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں امکانِ صحت موجود ہوتا ہے تاریخ میں بھی امکانِ صحت موجود ہے اسلئے وہ علم ہے غرض اگر سائیکالوجی کے ذریعہ واقعات کو جانچا جائے تو تاریخ چاہے کتنی پرانی ہو ہم اسے پرکھ لیں گے۔یہ کالج جن علوم کے لئے بنایا گیا ہے۔ ان کا سیکھنا تعلیم الاسلام میں شامل ہے تعلیم الاسلام کے متعلق غلط طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کے معنے صرف نماز روزہ کے ہیں۔ قرآن کریم سب علوم سے بھرا پڑا ہے۔خدا تعالیٰ نے شریعت اورقانون قدرت دونوں کو بنایا ہے۔ پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان میں سے ایک کو مانتے ہیں اور ایک کو نہیں مانتے قانون قدرت بھی مذہب ہے اور خدا تعالیٰ کا بنایا ہؤا ہے اور اسکے نتائج بھی یقینی ہیں قانون قدرت خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور شریعت اس کا قول ہے اگر ہم خدا تعالیٰ کے قول سے استدلال کرتے ہیں تو اس کے فعل سے کیوں استدلال نہ کریں۔ خدا تعالیٰ کے قول کو لے لینا اور اس کے فعل کو ترک کر دینا ایک بے ڈھنگے اور بے اصولے آدمی کا کام ہے خداتعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتا ہے کہ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ 3 تم وہ کچھ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔گویا اس نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کریں بھی پھر خدا تعالیٰ یہ کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کہے کچھ اور کرے کچھ۔ ہمارا خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہو سکتا۔ اس نے دین کو بھی بنایا ہے اور زمین و آسمان کو بھی پیدا کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک اس کا قول ہے اور دوسرا اس کا فعل اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مؤیّد ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا قول اور فعل ایک دوسرے کے مؤیّد ہیں تو دنیا میں جتنے مضامین پائے جاتے ہیں وہ قرآن کریم کے شاہد ہیں۔ جس طرح ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ نماز روزہ کے احکام پر عمل کریں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت دنیوی علوم بھی سیکھیں۔ آگے جس طرح کوئی زیادہ عبادت کرتا ہے اور کوئی کم عبادت کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی زیادہ علوم سیکھ سکتا ہے اور کوئی کم علوم سیکھ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی علاج معالجہ کا کام کرے تو اسے حکیم کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے بعض نسخے معلوم کر لئے ہیں اور چونکہ اس کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اس لئے وہ ان نسخوں کے ذریعہ روزی کما لیتا ہے حالانکہ حکیم کا لفظ یونانیوں نے ایجاد کیا تھا اور وہ اس شخص کے متعلق حکیم کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ جو سارے علوم جانتا ہو اسے علم ہیئت بھی آتا ہو حساب بھی آتا ہو۔ علم کیمیا بھی آتا ہو علم سیمیابھی آتا ہو جغرافیہ میں بھی اسے دسترس حاصل ہو۔ اسی طرح وہ فلسفہ منطق اور علمِ علاج میں بھی واقفیت رکھتا ہو۔ اسے موسیقی بھی آتی ہو کیونکہ موسیقی بھی ایک قسم کا علم ہے۔ ان سب علوم کے جاننے کے بعد کوئی شخص حکیم کہلاتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک ماہر طبیب تھے اور طبابت کے علاوہ آپ کو کئی اور علوم میں بھی دسترس حاصل تھی۔ جب لوگ آپکو حکیم کہتے تھے تو آپ فرماتے تھے۔ میں تو طبیب ہوں حکیم نہیں ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھے بعض اور علوم بھی آتے ہیں لیکن میں نے علم موسیقی نہیں سیکھا اس لئے میں بھی حکیم نہیں کہلا سکتا کیونکہ حکیم اس شخص کو کہتے ہیں جو سب علوم جانتا ہو۔ اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن کی طائرانہ نظر ہر علم پر پڑ جاتی ہے۔ مثلاً برنارڈشا کو ہر علم میں تھوڑی بہت دسترس حاصل تھی اور وہ ہر علم کو استعمال کرنا جانتا تھا۔ پس علوم کا سیکھنا اسلام کا ہی ایک حصہ ہے۔ آگے تم زیادہ علوم سیکھ لو یا کم۔ یہ تمہارا کام ہے پس تعلیم الاسلام کالج کے یہ معنے نہیں کہ یہاں صرف قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے یہ واقعات کے خلاف ہے یہاں دنیوی علوم بھی سکھائے جاتے ہیں۔ جب تم یہ سمجھ کر حساب سیکھتے ہو کہ قرآن کریم نے کہا ہے۔ حساب سیکھو تو یہ اسلام کا ہی ایک حصہ بن جاتا ہے۔خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں قیامت کے روز ہر ایک سے حساب لوں گا اگر وہ حساب دان ہے تو ہم حساب کیوں نہ سیکھیں اگر جغرافیہ کا جاننا خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عیب نہیں۔ تو یہ ہمارے لئے بھی عیب نہیں۔ اگر جغرافیہ اور حساب جاننے کے باوجود خدا تعالیٰ کی ذات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا تو ہمارا حساب اور جغرافیہ سیکھنا بھی ہمیں دین کے دائرہ سے خارج نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے گزشتہ زمانہ میں یہ خیال کر لیا تھا کہ ان کا علوم کا پڑھنا جرم ہے چند دن ہوئے بنگال سے ایک وفدیہاں آیا اس کے بعض ممبروں نے بتایا کہ ابتداء میں مولویوں نے ہی کہا تھا کہ انگریزی پڑھنا جرم ہے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس زبان کا بائیکاٹ کر دیا اور ہندوؤں اور دوسری اقوام نے اس زبان کو سیکھا اس طرح ہندو مسلمانوں سے آگے ہیں گویا اسلام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا موجب ہمارے مولوی ہی ہیں اگر مولوی لوگ انگریزی زبان کی تعلیم کے خلاف فتویٰ نہ دیتے تو مسلمان بھی ابتداء میں ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتے او روہ بہت زیادہ ترقی کر جاتے لیکن انہوں نے اس قدر سختی کی کہ کیمیا سیمیا۔ جغرافیہ اور دوسرے تمام علوم انہوں نے ممنوع قرار دے دیئے۔
ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ سے ملے اور آپ نے سوال کیا کہ اے خدا اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کرتے اور کونسی چیز خوراک کے طور پر استعمال کرتے۔ خدا تعالیٰ نے جواب دیا۔ میں خدا ہوں میں نے کیا کھانا تھا۔ مجھے خوراک کی احتیاج نہیں پھر مجھے انسان کی طرح دنیوی کام کرنیکی بھی ضرورت نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر بھی بتائیے کہ اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کام کرتے اور کیا چیز بطور خوراک استعمال کرتے۔اس پر خدا تعالیٰ نے کہا اگر میں دنیا میں ہوتا تو دودھ چاول کھاتا اور ردی کاغذ چنتا۔ گویا ہمارے مولویوں کے نزدیک دنیوی علوم کا سیکھنا تو جرم ہے۔اور چوہڑوں کا کام کرنا یعنی زمین پر پڑے ہوئے ردی کاغذ چننا ایساکام ہے کہ اگر خداتعالیٰ دنیا میں آتا تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ وہ بھی یہی کام کرتا ۔
یاد رکھو دنیوی علوم کا سیکھنا جُرم نہیں بلکہ ان کا سیکھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن کریم ان سب علوم کی تائید کرتا ہے۔ خداتعالیٰ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ 4 کہہ کر تاریخ اور جغرافیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اسی طرح کہتا ہے تم اسراف سے کام نہ لو بلکہ اقتصاد کو ملحوظ رکھو۔ یہ کام بغیر حساب کے کس طرح ہو سکتا ہے پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ستاروں سورج اور چاند کی گردش کی طرف دیکھو اور یہ کام علم ہیئت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ پھر قرآن کریم نے سائیکالوجی کو بار بار پیش کیا ہے کہتا ہے اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 5 اسی طرح نطق کو بیان کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے مشرکین کہتے ہیں کہ ہم وہی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف بھی ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں۔ 6 اب دیکھو یہ نطق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے باپ دادا اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر تباہ ہوگے۔ غرض قرآن کریم ہر قسم کے علوم کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
جب بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ہائی سکول کا قیام فرمایا تو اس کا نام تعلیم الاسلام ہائی سکول رکھا آپ کی نقل میں ہم نے بھی اس کالج کا نام تعلیم الاسلام کالج رکھا ہے۔ آپ نے جب سکول بنایا تو آپ کی غرض یہ تھی کہ اس میں صرف قرآن کریم اور حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے دنیوی علوم بھی پڑھائے جائیں گے اور اس طرح آپ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ دوسرے علماء نے جو بعض دنیوی علوم کو غیر اسلامی کہا ہے غلط ہے۔ سب چیزیں خداتعالیٰ نے بنائی ہیں اس لئے جو چیز بھی دنیامیں پائی جاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ پھر اپنی ذات میں کوئی علم بُرا نہیں۔ ہر علم سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں گو سارے علوم میں دسترس رکھنے والے زیادہ نہیں ہوتے مثلاً مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں مگر پھر بھی میں حکیم نہیں کہلا سکتا کیونکہ حکیم اس کو کہا جاتا ہے جو ہر فن اور ہر علم میں دسترس رکھتا ہو اور مجھے بعض علوم نہیں آتے مثلاً علم موسیقی بھی ایک علم ہے مگر میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ ایکدفعہ ایک لطیفہ ہؤا۔ کسی نے موسیقی سیکھی تو میں نے کہا میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی خاص سُر میں گاتا ہے اور اس میں وہ کوئی مضمون بیان کرتا ہے تو یہی چیز موسیقی کہلاتی ہے اگر آواز اور لہجہ اچھا ہؤا تو وہ کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے لیکن یہ جو تم صرف تاروں پر گاتے ہو اور اسے پکّا راگ کہتے ہو یہ کیا ہے؟ ایک شخص کہتا ہے ‘‘گاڈسیودی کنگ’’(God save the king) خداتعالیٰ بادشاہ کو سلامت رکھے۔ اب اگر تاروں پر اس فقرہ کو دہرایا جائے تو گاڈ سے کوئی دوسرا لفظ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اب ہم اس آواز سے کوئی دوسرا لفظ کیوں مراد نہ لیں۔ صرف یہ کیوں سمجھیں کہ گانیوالا ‘‘ گاڈ سیودی کنگ’’ کہہ رہا ہے میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سُر ہے۔ آگے یہ سُر جس لفظ سے بھی مل جائے مل جائے آپ نے چونکہ اس سُر کو‘‘ گاڈسیودی کنگ’’کے لئے بنایا ہے۔ اسلئے آپ سمجھتے ہیں کہ گانے والا یہی گارہا ہے۔ وہ کہنے لگے۔ آپ نہیں سمجھتے میں آپ کو سمجھاتا ہوں چنانچہ انہوں نے علم موسیقی کے متعلق آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ گفتگو کی اور مجھے اس کے متعلق بعض باتیں سمجھانے کی کوشش کی اور پھر فخریہ طور پر کہا اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ میں نے کہا میں نے علم موسیقی کے متعلق پہلے جو کچھ سمجھا تھا۔ اب معلوم ہؤا ہے کہ وہ بھی غلط ہے لیکن اب آپ نے جو کچھ بتایا ہے وہ بھی میں نہیں سمجھا کچھ عرصہ کے بعد میں لاہور گیا وہاں ایک معزز غیر احمدی دوست مجھے ملنے آئے مجلس میں موسیقی کا ذکر ہو رہاتھا۔ وہاں میں نے یہ لطیفہ سنایا۔ انہیں پینٹنگ (PAINTING) کا شوق تھا میں نے کہا آپ بتائیں یہ کیا علم ہے اگر ہم کوئی پہاڑی بنالیں یا کوئی گدھا یا گھوڑا بنالیں تو یہ تصویرہمیں اچھی لگے گی لیکن مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک غیر انسانی چیز ہے اور اس کے سامنے ہزاروں تاریں ہیں۔ گویا وہ اس کی ٹانگیں ہیں۔ اب کیا دنیا میں کوئی اس قسم کی مخلوق ہے۔ جس کی ہزاروں ٹانگیں ہوں۔ انہوں نے کہا آپ نے پینٹنگ کو نہیں سمجھا یہ بھی ایک علم ہے۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ میں نے کہا پہلے میری بات سن لیں اس کے بعد آپ جوچاہیں کہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ جو جذبات انسانی فوٹو میں نہیں لائے جا سکتے ایک پینٹر اپنی تصویر میں انہیں بآسانی لا سکتا ہے پینٹنگ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ چاہے کوئی شخص ہنس رہاہو وہ اسے تصویر میں روتا ہؤا دکھا سکتا ہے یا چاہے کوئی کتنا شریف ہو وہ اسے تصویر میں بدمعاش اور غنڈا دکھا سکتا ہے اس لئے اسلام نے ان تصویروں کی ممانعت کی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ اچھے سے اچھے آدمی کو بُرا دکھایا جاسکتا ہے فوٹو میں یہ بات نہیں اگر کوئی آدمی ہنس رہا ہو تو فوٹو اسے ہنستا ہؤا ہی دکھائے گا۔ اب یہ کہ اس میں کوئی فلسفہ ہوتا ہے یا بعض باریک باتیں ہوتی ہیں جو ایک عام آدمی نہیں سمجھ سکتا ۔ یہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی۔ میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ چنانچہ وہ سمجھاتے رہے اور آخر میں مَیں نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلے دوست کو موسیقی کے بارہ میں دیا تھا کہ نصف گھنٹہ یا پون گھنٹہ تک آپ سمجھاتے رہے لیکن میں جو کچھ سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس علم کے متعلق جو کچھ میں اب تک سمجھتا رہا ہوں وہ غلط ہے او رآپ نے جو کچھ سمجھانا چاہاہے وہ میں نہیں سمجھا۔ اب دیکھو دو علم گئے جو مجھے نہیں آتے۔ پھر میں کہاں حکیم کہلا سکتا ہوں۔ نہ میں علم موسیقی جانتاہوں اور نہ میں PAINTINGجانتا ہوں۔ ورنہ مجھے ہر علم کا شوق ہے۔ ہاتھ دیکھنا کمپیریٹو ریلیجن(COMPARATIVE RELIGION)، طب،جغرافیہ، تاریخ حساب اور باقی اکثر علوم کے متعلق میں نے کتابیں پڑھی ہیں اور میں ان کے متعلق خاصی واقفیت رکھتا ہوں لیکن یہ علوم میں نے کالج میں نہیں پڑھے۔ پرائیویٹ طور پر ان کا مطالعہ کیا ہے۔ ایک چھوٹا سانکتہ تھا جس نے مجھے اس کا شوق دلایا۔ میں ایک دفعہ دہلی جا رہا تھا۔ کہ سفر پر جانے سے پہلے حضرت خلیفہ اوّل نے مجھے کہا میاں تم نے کبھی کنچنی کا ناچ بھی دیکھا ہے مجھے بہت شرم آئی کہ آپ نے یہ کیا سوال کیا ہے اور میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ آپ نے فرمایامیاں تم دین سیکھ رہے ہو اگر تمہیں کنچنی کے ناچ کا ہی علم نہیں تو تم اس کے متعلق کیا رائے قائم کر سکتے ہو تم اسے فن کے طور پر دیکھو اس چیز نے مجھے احساس دلایا کہ علم کے طور پر کوئی چیز بھی بُری نہیں۔ ہاں اگر وہی چیز تعیش کے طور پر کی جائے تو وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے مثلاً چوری بھی ایک علم ہے اگر یہ علم نہ سیکھا جائے تو جاسوس کیسے بنیں اس کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں لکھا ہے کہ چور کی ایک عادت ہوتی ہے اور وہ اسے بار بار دہراتا ہے مثلاً ایک چور کو کھڑکی سے کودنے کی عادت ہے۔ دوسرے کو سیندھ لگانے کی عادت ہے جاسوسوں نے ان پر نشان لگایا ہؤا ہوتا ہے جب بھی کوئی چوری ہوتی ہے۔ جاسوس اس نشان کا تبتع کرتے ہیں مثلاً کسی گھر میں چوری ہوتی ہے اور چور کھڑکی سے کودا ہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ کتنے چور ایسے ہیں جنہیں کھڑکی سے کودنے کی عادت ہے ان کے متعلق وہ یہ معلوم کریں گے کہ ان میں سے کونسا شخص فلاں تاریخ کو گھر سے غیر حاضر تھا۔ جو شخص گھر سے غیر حاضر ہوگا۔ وہ اسے پکڑ لیں گے غرض یہ بھی ایک علم ہے اور یہ اپنی ذات میں برا نہیں اس سے بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے پس جو علم قانون قدرت کے مطابق ہیں وہ دین کا ایک حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ خود بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
تمہیں جو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کیا گیا ہے تو اس مقصد کے ماتحت داخل کیا گیا ہے کہ تم دین کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم بھی سیکھو میں جانتا ہوں کہ تم میں سے 30،40 فیصدی غیر احمدی ہیں لیکن تم بھی اس نیّت سے یہاں آئے ہو کہ دینی تعلیم حاصل کرو۔ بے شک کچھ تم میں سے ایسے بھی ہوں گے جو دوسرے کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کالج کا خرچ تھوڑا ہے اس لئے وہ یہاں آگئے یا ان کا گھر ربوہ سے قریب ہے اس لئے وہ اس کالج میں داخل ہوگئے۔ یا ممکن ہے ان کے بعض رشتہ دار احمدی ہوں اور وہ یہاں آباد ہوں اور انہیں ان کی وجہ سے یہاں بعض سہولتیں حاصل ہوں۔ لیکن تم میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہوگی جو یہ سمجھتی ہوگی کہ اس کالج میں داخل ہو کر ہم اسلام سیکھ سکیں۔ تم میں سے جو طالب علم اس نیت سے یہاں نہیں آئے کہ وہ اسلام کی تعلیم سیکھ لیں میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تم اب یہ نیت کر لو کہ تم نے اسلام کی تعلیم سیکھنی ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم اسلام کی تعلیم سیکھو تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم احمدیت کی تعلیم سیکھو۔ ہمارے نزدیک تو اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں۔ احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے۔ لیکن اگر تمہیں ان دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے تو تم وہی سیکھو جسے تم اسلام سمجھتے ہو۔ اگر انسان کرتا اَور ہے اور کہتا اَور ہے تو وہ غلطی کرتا ہے۔ دیوبندی بریلویوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اَور ہے بریلوی دیو بندیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اَور ہے۔ اور سُنّی شیعوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اَور ہے اور شیعہ سُنیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اَور ہے۔ اسی طرح آغاخانیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اَور ہے۔ جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اَور ہے۔ احمدیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اَور ہے لیکن جب یہ سب فرقے اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتے ہیں تو وہ اسلام کے متعلق کچھ نہ کچھ تو ایمان رکھتے ہوں گے۔ورنہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے۔ بریلوی بھی مسلمان ہیں، دیوبندی بھی مسلمان ہیں، سنی بھی مسلمان ہیں، شیعہ بھی مسلمان ہیں، جماعت اسلامی والے بھی مسلمان ہیں، احمدی بھی مسلمان ہیں تم ان میں سے کسی فرقے کے ساتھ تعلق رکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مانتے ہو اس پر عمل کرو۔ قرآن کریم میں باربار یہ کہا گیا ہے کہ اے عیسائیو! تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم عیسائیت پر عمل نہ کرو اور یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ اے یہودیوں!تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم یہودیت پر عمل نہ کرو۔ اب دیکھ لو قرآن کریم ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم اسلام پر عمل کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مذہب پر عمل کرو کیونکہ نیکی کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے مذہب پر عمل کرے۔
پھر دیکھو اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ جائز رکھا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر مذہب نے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اس کے ماننے والے ان اصول کی پیروی کرتے ہیں تم سمجھتے ہو کہ یہودی سؤر نہیں کھاتے اس لئے تم تسلی سے ان کا ذبیحہ کھا لو گے۔ اسی طرح عیسائیوں سے تم کوئی معاملہ کرتے ہوئے نہیں گھبراؤ گے کیونکہ ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور کسی سے فریب نہ کرو۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص تم سے فریب کرے تو کرے لیکن اپنے مارل کوڈ(MORAL CODE)کے ماتحت وہ تم سے فریب نہیں کرے گا۔ اہل کتاب کی لڑکیوں سے جو شادی کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ وہ تمہاری زوجیت میں آجانے کے بعد اپنے مارل کوڈ کے ماتحت چلیں گی۔ مثلاً یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم کے ماتحت کوئی عورت اپنے خاوند کو زہر نہیں دے گی۔ اس لئے تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو گے اورایک دوسرے پر اعتماد کر سکو گے۔ گویا شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دی ہے اور بتایا ہے کہ اپنے مخصوص عقیدہ پر چلنے میں بڑی سیفٹی ہے پس کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنے عقائد کے مطابق عمل کرو۔ اگر کوئی پروفیسر تمہیں کسی احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو تم اس کا مقابلہ کرو اور میرے پاس بھی شکایت کرو۔ میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا۔ لیکن اگر وہ تمہیں کہتا ہے تم نماز پڑھو تو یہ تمہارے مارل کوڈ کے خلاف نہیں اور اس کا نماز پڑھنے کی تلقین کرنا ریلیجس انٹرفیرنس(Religious interference) نہیں۔ تم نماز پڑھو چاہے کسی طرح پڑھو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم اپنے میں سے کسی کو امام بنالو۔ کالج کے بعض پروفیسر غیر احمدی ہیں تم ان میں سے کسی کو امام بنا لو لیکن نماز ضرور پڑھو۔ شیعہ اور بوہرہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑتے ہیں باندھتے نہیں۔ ہم اہل حدیث کی طرح سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ حنفی لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں اس کے خلاف اگر کوئی پروفیسر تمہیں مجبور کرتا ہے تو تم اس کی بات ماننے سے انکار کردو۔ اگر وہ کہتا ہے کہ تم آمین بالجہر کہو تو یہ اہلحدیث کا مذہب ہے حنفیوں کا نہیں۔اگر تم حنفی ہو تو تم اس کی بات نہ مانو اور میرے پاس شکایت کرو میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا۔ مذہب میں دخل اندازی کا کسی کو حق نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بناتا ہے مسلمان نہیں بناتا۔ لیکن تم میں سے ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم الاسلام کالج کا طالب علم ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر چلے۔ اب اسلام کی تم کوئی تعریف کرو اسلام کی جو تعریف ہمارے باپ دادوں نے کی ہے تم اُسی کو مانو لیکن اگر تم اس تعلیم پر جسے تم خود درست سمجھتے ہو عمل نہیں کرتے تو یہ منافقت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کالج میں اگر کوئی ہندو بھی داخل ہونا چاہے تو ہمارے کالج کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں لیکن وہ بھی اس بات کا پابند ہوگا کہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے کیونکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے۔ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے، ہندو اپنے مذہب پر عمل کرے، عیسائی عیسائیت پر عمل کرے اور یہودی یہودیت پر عمل کرے۔ پس اس اسلامی حکم کی وجہ سے ہم اسے مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے۔ لیکن یہ کہ تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرو لیکن کسی مارل کوڈ کے ماتحت نہ چلو تو یہ درست نہیں ہوگا۔تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا اور پھر تمہارا فرض ہوگا کہ تم اس کے ماتحت چلو۔
پس اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں مسلمان نہیں۔تب بھی ہم تمہیں برداشت کر لیں گے لیکن اس شرط پر کہ تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا۔ چاہے تم اسے تجربہ کے طور پر تسلیم کرو مثلاً تم تجربہ کے طور پر اپنے ماں باپ کے مذہب کو اختیار کر لو تب بھی ہم برداشت کر لیں گے لیکن اگر تم کسی مارل کوڈ کے ماتحت مستقل طور پر نہیں چلتے اور نہ کسی مارل کوڈ کو تجربہ کے طور پر اختیار کرتے ہو تو دیانتداری یہی ہے کہ تم اس کالج میں داخلہ نہ لو۔ اسلام کہتا ہے کہ تم جس مذہب کی تعلیم پر بھی عمل کرنا چاہو عمل کرو۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر کوئی ہندو اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، عیسائی اپنی تعلیم پرعمل کرتا ہے، یہودی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہےتو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے۔ اگر کوئی حنفی المذہب ہے اور وہ حنفی مذہب پرعمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے۔ اگر کوئی شیعہ ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے تو اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے۔ کیونکہ یہ کالج تعلیم الاحمدیہ کالج نہیں تعلیم الاسلام کالج ہے اور اسلام ایک وسیع لفظ ہے کوئی کوڈ آف ماریلٹی(CODE OF MORALITY) جس کو علمائے اسلام نے کسی وقت تسلیم کیا ہو یا اب اسے تسلیم کر لیں وہ اسلام میں شامل ہے۔
پس میں طلباء کو اس طرف توجہ دلاتاہوں کہ تم کالج کی روایات کو قائم رکھو۔ یہ تعلیم الاسلام کالج ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ کالج تمہیں عملی مسلمان بنا دے گا اور یہی اس کالج کے قائم کرنے کی غرض ہے۔ پھر ہر کالج کی کچھ نہ کچھ روایات ہوتی ہیں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی ہے اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پانے والے تمام طلباء کے لئے ایک خاص قسم کا نشان مقرر کیا ہؤا ہے۔اب جو شخص اس نشان کو دیکھے گا وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی ہے۔ ہمارے ملک میں علیگڑھ کالج نے اس قسم کی روایات قائم کی تھیں۔ وہاں سے فارغ ہونیوالے طلباء اپنے نام کے آگے ‘‘علیگ’’ لکھ لیتے تھے اور جو شخص یہ لفظ پڑھتا اگر وہ بھی علیگڑھ میں ہی پڑھا ہؤا ہوتا تو اس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا۔ اس قسم کی روایات اس کالج کے ساتھ بھی وابستہ ہونی چاہیں چونکہ اس کالج کا نام ‘‘تعلیم الاسلام’’ کالج ہے اور تم میں سے ہر ایک اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں آیا ہے اسلئے تمہارا فرض ہے کہ تم یہاں رہ کر اسلام سیکھو آگے میں نے بتایا ہے کہ یہاں فرقہ بندی کو کوئی بات نہیں تم کسی فرقہ کے مخصوص عقائد پر عمل کرواور دوسرے لوگوں کو بتاؤ کہ کالج والے ہمیں جرأت دلاتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے فرقہ کے عقائد پرعمل کریں۔ اگر ہم حنفیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس سے روکتے نہیں، اگر ہم شیعیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس میں مخل نہیں ہوتے، اگر ہم دیوبندی یا بریلوی ہیں تب بھی وہ ہمارے مذہبی عقائد میں دخل اندازی نہیں کرتے، اس سے ملک کے لوگوں میں عمل کی سپرٹ پیدا ہوگی اور پاکستان سے سستی کی *** دور ہوگی۔
شیخوپورہ میں ایک عیسائی پادری تھا وہ اپنی مدتِ ملازمت پوری کر کے واپس جا رہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے سوشل تعلقات کی وجہ سے ان کے گھر گئے اس سے وہ بھی ممنون ہو گیا اور جب ہمارے مبلغ واپس آنے لگے تو وہ بھی انہیں چھوڑنے آیا۔ ہمارے مبلغ نے اُس سے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی دن پاکستان کی عظمت اور اس کا رعب بھی دنیا پر قائم ہو جائے گا؟ عیسائی پادری نے کہا جب تک اس ملک میں حُقّہ کا رواج ہے اور جب تک اِس ملک میں سُستی اور کاہلی پائی جاتی ہے پاکستان رُعب اور عظمت حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ویسٹ آف ٹائم اور ویسٹ آف انرجی دونوں انسان کو ترقی کی طرف قدم بڑھانے نہیں دیتیں۔ دیکھ لو یورپین لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے لیکن ان کے مقابلہ میں ہمارے ہاں ایک جمود پایا جاتا ہے گویا ہم افیونی ہیں۔ افیونی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک طبعی افیونی ہوتے ہیں۔ اور دوسرے نفسیاتی افیونی ہوتے ہیں ہم نفسیاتی افیونی ہیں۔
میں جب انگلستان گیا میرے ساتھ سلسلہ کے ایک عالم بھی تھے ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا حضور! کیا آپ نے یہاں کوئی آدمی چلتے بھی دیکھا ہے؟ میں ان کا مطلب سمجھ گیا میں نے کہا نہیں میں نے یہاں ہر شخص کو دوڑتے دیکھا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی آفت آرہی ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یورپ والی مزدوری نہیں ملتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا مزدور ہمارے مزدور سے پانچ گنا زیادہ کام کرتا ہے۔ اگر ہمارے ملک میں ایک مزدور ڈیڑھ روپیہ روزانہ کماتا ہے تو ایک یورپین مزدور دن میں ساڑھے سات روپیہ کا کام کر دیتا ہے۔ اب پاکستانی مزدور کے مقابلہ میں پانچ گنا زیادہ کام کرنے پر اگر اسے پانچ روپیہ روزانہ مزدوری دی جائے تو کیا حرج ہے وہاں ایک عمارت بن رہی تھی۔ ہمیں پہلی نظر میں یوں معلوم ہؤا کہ گویا آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اسے بجھانے کے لئے جا رہے ہیں لیکن ہمارا مزدور اس طرح چلتا ہے کہ گویا اسے دھکا دیکرموت کی طرف لے جایا جا رہا ہے جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو آہ بھرتا ہے پھر کمر پرہاتھ رکھتا ہے پھر اینٹ پر پھونک مارنے لگتا ہے اس کے بعد وہ اسے اٹھا کر ٹوکری میں رکھتا ہے اور یہی عمل وہ دوسری اینٹوں پر کرتا ہے۔ آٹھ دس منٹ کے بعدوہ ٹوکری اٹھائے گا۔ پھر جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے اس کے جسم میں بیس خم پڑیں گے پھر جب وہ ٹوکری اٹھا کر قدم اٹھاتا ہے تو اس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے اس طرح وہ بیس پچیس منٹ میں معمار کے پاس پہنچتا ہے پھر معمار بھی اس قسم کی حرکات کرتا ہے کہ گویا کسی مریض کا آپریشن ہونے لگا ہے۔
پس جب تک تم لوگ قربانی محنت اور دیانتداری کی عادت نہیں ڈالتے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پرانی عادات کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کوئی نئی عادت پیدا نہ ہونے دینا آسان ہوتا ہے مثلاً بڑی عمر میں جا کر سگریٹ وغیرہ کا استعمال ترک کرنا مشکل ہوتا ہے۔لیکن اگر اس عمر میں ان باتوں کو چھوڑ دو تو زیادہ مشکل نہیں اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ قوم کی عمارت کو بنانا نوجوانوں کا کام ہوتا ہے۔ تم اس فقرہ کو روزانہ دہراتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بیان کرتے ہو لیکن عملی طور پر اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں مدنظر نہیں رکھتے مثلاً سکولوں اور کالجوں کے لڑکے سٹرائیک کرتے ہیں اور اپنے جلسوں اور تقریروں میں یہ الفاظ دہراتے ہیں کہ ہم قوم کے معمار ہیں۔ قومیں ہمیشہ نوجوانوں سے بنا کرتی ہیں اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ لڑکے ہی قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ ا س کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر تم اپنی بری عادات چھوڑ دیتے ہو تو تم فی الواقع قوم کے معمار ہو لیکن اگر تم ایسی حرکات کرتے ہو جن سے قوم کو نقصان پہنچتا ہے تو تم قوم کے معمار کہلانے کے مستحق نہیں تم اپنی قوم کی سٹڈی کرو اگر تم دیکھتے ہو کہ ہمارے بڑوں میں سے بعض جھوٹ بولتے تھے تو تم جھوٹ نہ بولو اس طرح تم اپنی قوم سے جھوٹ جیسی *** کو دور کر سکو گے۔ میری ایک رشتہ کی ہمشیرہ احمدی نہیں ہیں۔ ویسے وہ احمدیت سے محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ جب کبھی ان سے کہاجاتا ہے کہ تم احمدیت قبول کیوں نہیں کرتیں تو وہ یہی کہا کرتی ہیں کہ ہم تو پہلے ہی احمدی ہیں کون کہتا ہے کہ ہم غیر احمدی ہیں۔ ایک دفعہ اس قسم کی باتیں ہورہی تھیں تو انہوں نے کہا فلاں مسجد میں ہم نے احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھی تھی ان کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا اس نے کہااماں جانے بھی دو۔ احمدی تو فلاں جگہ نماز پڑھتے ہیں۔ اب ہمیں یہ مذاق ہاتھ آگیا ہے کہ جب کوئی ایسی بات ہو تو ہم اس لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات درست ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈرتھے جنہیں سر کا خطاب بھی ملا ہؤا تھا۔ انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گورنمنٹ نے باہر بھجوایا۔ ان کے ایک کالج فیلو احمدی تھے۔ انہوں نے اس احمدی دوست سے کہا کہ میں فلاں کانفرنس میں شرکت کے لئے جا رہا ہوں۔ مجھے وائسرائے نے اختیار دیا ہے کہ میں جسے چاہوں اپنے ساتھ بطور سیکرٹری لے جاؤں میرا خیال ہے کہ تم میرے ساتھ سفر میں سیکرٹری کے طور پر رہو چنانچہ انہوں نے اس احمدی دوست کو اپنا سیکرٹری بنا لیا چونکہ وہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے۔ اس لئے لوگ ان کا لحاظ کرتے تھے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ ایک جگہ مختلف جگہوں کے انگریز بیٹھے اپنے تجربات سنا رہے تھے تو انہوں نے ان سے کہا آپ بھی اپنا کوئی تجربہ سنائیں۔ اس پر انہوں نے بھی اپنا ایک تجربہ سنایا۔ ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ بدقسمتی سے اس موقع پرمیں بھی ساتھ تھااور میں جانتا تھا کہ واقعہ اس طرح نہیں۔ جس طرح یہ اب بیان کر رہے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ انہیں غلطی لگی ہے۔ اس لئے جب وہ واقعہ اس طرح نہیں ہؤا۔ جس طرح آپ نے بیان کیا ہے بلکہ یہ واقعہ اس طرح ہؤا ہے اس موقع پر میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے اس کے بعد ایک دن دوبارہ انہوں نے ایک مجلس میں ایک واقعہ سنایا اس موقع پر بھی میں نے کہا۔ آپ کو اس واقع کے بیان کرنے میں غلطی لگی ہے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا واقعہ اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے بیان کیا ہے انہوں نے کہا تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن ایسا کہنے میں وہ کچھ انقباض محسوس کر رہے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد جب وہ کمرہ سے باہر نکلے تو انہوں نے میری گردن پر ہاتھ مار کر کہا کہ کیا جھوٹ بولنا تیرا اور تیرے باپ کا ہی حق ہے میرا حق نہیں؟ تو اب دیکھو اگرچہ وہ ایک بڑے آدمی تھے لیکن انہیں جھوٹ بولنے کی عادت پڑی ہوئی تھی دو دفعہ انہیں ٹوکا گیا تو انہوں نے برداشت کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ جب میں مجلس کو گرمانے کے لئے مبالغہ آمیز بات کرتا ہوں ،تو تمہیں کیا حق ہے کہ مجھے ٹوکو لیکن تم اگرچاہو تو اس قسم کی عادتوں کو ترک کر سکتے ہو اور اس طرح ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے۔
تم دیکھتے ہو کہ ہمارے ملک میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور اس بے اطمینانی کی یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے قول اور فعل میں فرق ہے۔ مجھے یاد ہے۔ جب میں یورپ گیا تو رستہ میں کچھ روز ہم دمشق میں بھی ٹھہرے۔ ہمارے خلاف کسی نے ایک اشتہار شائع کیا اس کے جواب میں ہم نے بھی ایک اشتہار شائع کیا۔ پولیس نے ہمیں اطلاع دی کہ آپ کا وہ اشتہار ضبط کر لیا گیا ہے۔ ان دنوں وہاں دو گورنر ہؤا کرتے تھے۔ ایک فرانسیسی اور دوسرے شامی۔ دوسرے دن مَیں فرانسیسی گورنر سے ملنے گیا تو میں نے ان سے اشتہار کا ذکر کر دیا کہ وہ دوسرے لوگوں کے ایک اشتہار کے جواب میں تھا لیکن پولیس نے چھاپہ مار کر اسے ضبط کر لیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا یہ بری بات ہے لیکن دراصل اس بات کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں مجھے افسوس ہے کہ یہ حکم شامی گورنر کا ہے۔ آپ کل اپنے کسی آدمی کو بھجوائیں تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس بارہ میں مناسب غور کریں چنانچہ دوسرے دن میرا سیکرٹری وہاں چلا گیا تو شامی گورنر نے کہا یہ دراصل دوسرے گورنر کی شرارت ہے۔ میں اس کی تحقیقات کروں گا جب میرے سیکرٹری باہر آئے تو گورنر کی لڑکی بھی باہر آئی اور وہ ہنس کر کہنے لگی میرا باپ جھوٹ بولتا ہے میں نے خود سنا ہے کہ وہ اس قسم کا آرڈر دے رہا تھا۔
غرض بے اطمینانی اس قسم کی باتوں سے پھیلتی ہے۔ انگریز کتنا ہی برا ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قوم کا ایک مخصوص کیریکٹر تھا۔ ہماری ایک زمین تھی جو صدر انجمن احمدیہ نے خرید کی ہوئی تھی۔ وہ افتادہ زمین تھی کسی کام نہیں آتی تھی وہاں لوگ کھیلتے اور میلے کر لیتے تھے چونکہ وہ جگہ خالی تھی۔ اس لئے مخالفوں نے شور مچایا کہ یہ پبلک کی جگہ ہے اور اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہم نے بھی اس زمین کو واپس لینے کی کوشش کی۔ کاغذات مسٹر ایمرسن کے پاس تھے وہ مالیات کے ماہر تھے انہیں ہمارے ایک دوست ملے تو انہوں نے کہا میں نے یہ کاغذات چھ ماہ سے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے اپنا پورا زور لگایا ہے کہ میرا ہاتھ پڑے تو میں آپ سے یہ زمین چھین لوں لیکن چھ ماہ تک غور کرنے کے باوجود میرا کہیں ہاتھ نہیں پڑا۔ اس لئے میں نے زمین آپ کو واپس دے دی ہے اگر ہمارے ملک کے افراد میں بھی یہی روح پیدا ہو جائے کہ وہ کسی کا حق چھیننے کے لئے تیار نہ ہوں،تو قلوب کی بے اطمینانی بڑی حد تک دور ہو سکتی ہے۔
اس کالج میں جو غیر احمدی طالب علم آئے ہیں۔ ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے تو،تو صرف اسلام سیکھنے کے لئے ورنہ اگر دنیوی ملازمتوں کو دیکھا جائے تو ہماری جماعت کے لئے کئی قسم کی مشکلات ہیں۔
گویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مختلف قسم کی مشکلات کے باوجود احمدی گورنمنٹ سروسز میں عام طور پر منتخب ہو جاتے ہیں اور یہ صرف ہمارے تعلیمی اداروں کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے۔ دوسری جگہوں میں لڑکے سینما دیکھتے ہیں بعض شراب بھی پیتے ہیں اور اس طرح اپنے وقت کو لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک انگریز پادری نے یہ کہا تھا کہ جب تک اس ملک سے حقہ کی عادت نہیں جائے گی یہ ملک دنیا کی نظروں میں عظمت حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح میں یہ کہوں گا کہ جب تک سینما دیکھنے اور ریڈیو کے گانے سننے کی عادت نہیں جائے گی ہمارے ملک کو ترقی حاصل نہیں ہوگی۔ لیکن جو نوجوان ان عادتوں سے بچائے جائیں گے وہ ترقی حاصل کر لیں گے یورپین لوگوں نے تعلیمی اداروں کے متعلق کئی قسم کے قواعد بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے طلباء پر بعض خاص پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں لیکن ہمارا ملک ابھی اسبارہ میں بہت پیچھے ہے جس کی وجہ سے طلباء اخلاقی لحاظ سے بلند معیار حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے مقابلہ میں جو تعلیم تمہیں یہاں حاصل ہوگی وہ تمہیں ہر سوسائٹی اور ہر مجلس میں ایک امتیازی مقام عطاء کریگی ار تمہارا سکہ دوسروں کے دلوں پر بٹھا دیگی۔ لوگ کہتے ہیں کہ احمدی جماعت کے لوگ سفارشوں کی وجہ سے ملازمتوں میں داخل ہو جاتے ہیں ان کی یہ بات بالکل غلط ہے۔ احمدیوں کے ملازمتوں میں لئے جانے کی وجہ صرف ان کے اخلاق ہیں سفارشات نہیں پس اگر تم اپنے استادوں سے تعاون کرو گے تو آئندہ زندگی میں تمہاری ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوگی اور اگر ایک افسر متعصب ہونے کی وجہ سے کسی وقت تمہیں رد بھی کر دے گا تو دوسرا افسر تمہارے اخلاق دیکھ کر تمہیں جگہ دیدے گا۔ ایک دفعہ ایک پوسٹ کے لئے ایک احمدی دوست نے درخواست دی لیکن جب وہ کمیشن کے سامنے پیش ہؤا تو اس کے بعض ممبران نے کہا چونکہ یہ احمدی ہے اسلئے ہم اسے یہ جگہ نہیں دے سکتے۔ کمیشن کا ایک انگریز بھی ممبر تھا اس نے کہا تم اس کو موقع تو دو اور دیکھو کہ یہ اپنی قابلیت کی وجہ سے اس جگہ کا مستحق ہے یا نہیں۔ اس کے کہنے پر انہوں نے اس احمدی کو موقع دے دیا اور بعد میں کمیشن کے غیر احمدی ممبروں نے بھی کہا کہ واقع میں یہی شخص اس پوسٹ کا حقدار تھا پس اگر تم ایک جگہ تعصب کی وجہ سے رد کر دئیے جاؤ گے تو دوسری جگہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے تمہیں لے لیا جائے گا۔ تم دیکھ لو چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو سرمیاں فضل حسین صاحب نے ہی آگے کیا تھا اور پھر بڑے زور سے آگے کیا تھا۔ گورنمنٹ نے کسی کام کے سلسلہ میں میاں فضل حسین صاحب کو افریقہ بھیجنا تھا انہوں نے کہا میں اس شرط پر افریقہ جانا منظور کرتا ہوں کہ تم میری جگہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو لگاؤ۔پھر جب مستقل ممبری کا سوال آیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس کئی غیر احمدی آئے اور انہوں نے مجھے کہاکہ کیا آپ اس کافر کو ممبر بنائیں گے۔ میں نے کہا مجھے تو یہی کافر اس کام کے قابل نظر آتا ہے تمہاری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی موزوں آدمی ہو تو اس کا نام بتا دو وہ کہنے لگے کہ یہی سوال تھا جو مجھے ان سے چھڑا لیتا تھا کیونکہ اس کے جواب میں ہر شخص اپنا نام ہی لیتا تھا۔ غرض کیریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے قوم کئی قسم کی خوبیوں سے محروم ہو جاتی ہے اگر تم اپنا کیریکٹر بنا لو گے تو وہی کیریکٹر تمہارے لئے نیک نامی کا لیبل ہوگا اور مستقبل میں تمہارا نام روشن کر دیگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے آپ کو تعلیم الاسلام کے لیبل کے مطابق بناؤ اور یہ کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی اسلامی فرقہ جو اپنے اخلاق کی بنیاد قرآن کریم پر رکھتا ہے تم اس میں شامل ہوجاؤ۔ مخالفت محض چند عقائد کی بناء پر ہے لیکن جہاں تک اسلام کا سوال ہے۔ سارے فرقے مسلمان ہیں تمہیں یہ بحث کرنے والے تو نظر آئیں گے کہ خداتعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں چنانچہ دیوبندیوں اور اہلحدیث کی بہت سی کتابیں اس مضمون پر لکھی گئی ہیں لیکن تمہیں ایسا کوئی فرقہ نظر نہیں آئے گا جو یہ کہے کہ کوئی مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں پس اگر قرآن کریم پر بنیاد رکھی جائے تو تمام فرقوں میں بہت تھوڑا فرق رہ جاتا ہے اور اصل چیز قرآن ہی ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔ بہر حال جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ7 یعنی میرے سب صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرو تم ہدایت پا جاؤ گے۔ اسی طرح تم کسی اسلامی فرقہ کے پیچھے چلو تم اصولی اور بنیادی امور میں غلطی نہیں کرو گے۔ بے شک عقائد میں ہمارا دوسرے فرقوں سے کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور ہوگا لیکن عمل میں آکر یعنی نماز روزہ زکوٰۃ اور حج میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں اور اپنی عملی زندگی میں ہم نے کوئی ایسا اصول نہیں بنایا جس پر اس سے پہلے کسی بزرگ نے عمل نہ کیا ہو۔ پس چند عقائد اور بعض مائنرڈیٹیلز (MINOR DETAILS)کے علاوہ سب اسلامی فرقوں کا آپس میں اتحاد ہے۔ اس وقت جو اختلاف نظر آتا ہے وہ بالکل ویسا ہی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں رواج تھا کہ لوگ شادی بیاہ پر نیوتا دیتے تھے اور بد قسمتی سے یہ رواج بھی تھا کہ جتنا کسی نے پہلے دیا ہو کم ازکم اتنا ضرور دیا جائے۔ ایک شادی کے موقع پر کسی بخیل نے بیس روپے نیوتا دینا تھا اور اس قدر رقم دینا اسے دو بھر معلوم ہو رہا تھا۔وہ باہر نکلا تو کوئی غریب آدی بھی باہر کھڑا تھا جو اسی فکر میں تھا کہ نیوتا کس طرح ادا کرے۔ اس بخیل نے دوسرے شخص سے کہا۔ آؤ میں تمہیں نیوتا نہ دینے کی ایک تجویز بتاؤں چنانچہ وہ دونوں چھت پر چڑھ گئے اور چھت کے اوپر پیر مارنے لگے۔ اس سے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں پر مٹی گری۔ گھر کے مالک نے آوازدی اور کہا تم چھت پر کون ہو۔ اس پر اس بخیل نے کہا اچھا اب ہم کون ہوگئے اور یہ کہتے ہوئے وہ دونوں وہاں سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ اِس وقت مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں تھیوری ڈاگما اور کریڈ (THEORYDOGMA OR CREED) آرام سے طے کرنے والی باتیں ہیں یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لڑا جائے۔ پس میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم تعلیم الاسلام پر عمل کرو۔ پھر چاہے تم کسی فرقہ کے عقائد کے مطابق چلو تمہارے اختلافات دور ہو جائیں گے۔
اس کے بعد میں اپنے بچوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جب میں نے دوسروں سے کہا ہے تو ان سے کیوں نہ کہوں۔ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے عمل سے یہ ثابت کردو کہ تمہارا ایک قومی کیریکٹر ہے اگر تم مثلاً کسی کے بہکانے سے سینما دیکھنے چلے جاتے ہو تو تمہارا کیا کیریکٹر ہے اگر تمہارا اتنا ہی کیریکٹر ہے کہ ٹکٹ مفت مل گیا تو سینما دیکھ لیا تو جب ملک کی کسی دشمن سے لڑائی ہوئی اور تم کسی دستۂ فوج کے کمانڈر ہوئے تو کیا تم دباؤ کے نیچے آکر ملک کے راز افشاء نہیں کرو گے اگر تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے کیریکٹر کا خیال نہیں رکھتے تو تم بڑی باتوں میں اس کا خیال کیسے رکھو گے۔
تم دیال سنگھ کالج کو تو جانتے ہوگے لیکن تمہیں شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ اس کے بانی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا اس کا ایک مولوی سے دوستانہ تھا۔ اس نے جب اسلام کا مطالعہ کیا تو اس نے اسے قبول کرنے کا ارادہ کر لیا آریوں کو پتہ لگا تو انہوں نے اسے سمجھانا شروع کیا۔ اس نے کہا مجھے اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہؤا ہے کہ اس سے بہتر اور کوئی مذہب نہیں۔ انہوں نے کہا تم نے صرف کتابی علم حاصل کیا ہے تم نے ان لوگوں کے عمل کو نہیں دیکھا تم اس مولوی کو جس سے تمہارا دوستانہ ہے ایک ہزار یا دوہزار روپیہ دے دو تو یہ تمہارے ساتھ شراب بھی پی لے گا حالانکہ شراب اسلام نے حرام کی ہے چنانچہ اس نے ایک دن اس مولوی سے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے اسلام قبول کر رہا ہوں اور اپنا سب کچھ چھوڑ رہا ہوں تم دیکھتے ہو کہ میں شراب کا عادی ہوں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد تو مجھے شراب پینا ترک کرنا ہوگا۔ جب آخری دفعہ مجلس لگ جائے، تو کیا ہی اچھا ہو اور پھر جب میں نے آپ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دینا ہے تو آپ میری خاطر ایک دفعہ تو شراب پی لیں۔ میں آپ کی خدمت میں دو ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا چنانچہ مولوی صاحب نے دو ہزار روپیہ ہاتھ میں لیا اور شراب پی لی۔ اس سے اس نے معلوم کر لیا کہ آریہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہی درست ہے۔ مسلمان کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں چنانچہ وہ برہمو سماج میں چلا گیا۔
پس تمہیں اپنے آپ کو ایسا بنانا چاہئے کہ جو کچھ تم منہ سے کہتے ہو اس پر عمل بھی کرو تمہارا قول و فعل ایک ہو آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ والے تمہاری نقل نہیں کرتے لیکن تم یورپ والوں کی نقل کرتے ہو درحقیقت جب تم ان کی نقل کرتے ہو تو اپنی ذلت پر آپ مہر لگاتے ہو۔
میں جب انگلستان گیا تو چونکہ وہاں سردی زیادہ تھی اس لئے میں کچھ علیگڑھ سے فیشن کے گرم پاجامے بھی بنواکر ساتھ لے گیا اور میرا ارادہ تھا کہ وہاں جا کر انہیں استعمال کرونگا لیکن میں نے وہاں جاتے ہی پاجامے استعمال نہیں کر لینے تھے۔ میں نے ابھی شلوار ہی پہنی ہوئی تھی کہ ایک دو دن کے بعد امام صاحب مسجد لندن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے شلوار پہننے کی وجہ سے لوگوں کو ٹھوکر لگ رہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ ننگے پھر رہے ہیں کیونکہ اگر کسی کی قمیص پتلون سے باہر ہوں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ننگا ہے میں نے کہااگر وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ میں نے ان کے وطن کا لباس نہیں پہنا۔ اس لئے میں ننگا ہوں تو یہ ان کی عقل کا فتور ہے۔ میں نے لباس پہنا ہؤا ہے انہوں نے کہا بہر حال ان کا لحاظ کرنا چاہئے آپ شلوار کی بجائے پتلون پہن لیا کریں۔ میں نے کہا میں آتی دفعہ چند پاجامے علیگڑھی فیشن کے سلوا کر لایا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں یہاں آکر وہ پاجامے استعمال کروں گا لیکن اگر انہیں اعتراض ہے کہ میں نے یہاں آکر ان کا لباس کیوں نہیں پہنا تو میں اب وہ پاجامے بھی استعمال نہیں کروں گا شلوار ہی پہنوں گا۔ شام کو سرڈینی سن راس مجھے ملنے آئے۔ وہ علیگڑھ میں کچھ عرصہ رہ گئے تھے ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں یہاں آکر اپنا ملکی لباس پہنتا ہوں اور آپ کے ملک کے لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں ننگا پھر رہا ہوں آخر وہ کیوں برا مناتے ہیں کیا یہ ہمارا ملکی لباس نہیں۔ سرڈینی سن راس نے کہا وہ اس لئے برا مناتے ہیں کہ انہیں اس لباس کے دیکھنے کی عادت نہیں۔ میں نے کہا پھر مجھے بھی ان کا لباس دیکھنے کی عادت نہیں۔ میں اسے برا کیوں نہ سمجھوں اگر کوئی روسی۔جرمن یا فرانسیسی۔ آپ کے ملک میں آتا ہے اور وہ اپنا ملکی لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اسے برا نہیں سمجھتے لیکن اگر کوئی ہندوستانی یہاں آکر اپنا لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اس پر برا مناتے ہیں۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ سرڈینی سن راس نے کہا۔ ہاں بات تو یہی ہے۔ اس پر میں نے کہا اگر یہی بات ہے تو ہر عقلمند ہندوستانی کو چاہئے کہ وہ آپ کی کسی بات میں نقل نہ کرے کم از کم میں اس بات کے لئے تیار نہیں کہ آپ کو بڑا سمجھوں اور اپنے آپ کو ذلیل سمجھوں۔ میں نے کہا سرڈینی سن راس! مجھے سچ سچ بتائیں کیا آپ لوگ اپنے ذہن میں ہر اس ہندوستانی کو ذلیل نہیں سمجھتے جو ہر بات میں آپ کی نقل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا بات تو یہی ہے پس تم نے ہر جگہ پھرنا ہے اگر تم ہر بات میں دوسروں کی نقل کرو تو تمہارے ملک اور مذہب کی کیا عزت رہ جائے گی۔ ہم جب انگلستان گئے تو جس جہاز میں ہم سفر کر رہے تھے۔ اس کا ڈاکٹر مجھے ملا وہ اٹلی کا رہنے والا تھا وہ ابھی کنوارا تھا۔ میں نے اسے کہا تم شادی کیوں نہیں کرتے۔ وہ انگریزی نہیں جانتا تھا۔ اس نے اشاروں سے بات کو سمجھانے کی کوشش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا۔ اٹالین وائف ہسبنڈ کم ہوم۔شی سٹنگ۔اے فرینڈ کم ہوم،شی..... (اس کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیاجس کا مطلب یہ تھا کہ وہ منہ پر پوڈر لگاتی ہے) اٹالین نو وائف یعنی اٹالین بیوی بھی کوئی بیوی ہے۔ جب خاوند گھر آتاہے تو وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتی لیکن جب کوئی دوست گھر آجاتا ہے تو چہرہ پر پوڈر مل لیتی ہے۔
یہی حال ہمارا ہے ہم غیر کو دیکھتے ہیں تو اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں اور جب گھر میں ہوں تو دھوتی باندھ لیتے ہیں گویا ہماری سادگی گھر والوں کے لئے ہے اور ہمارا فیشن دوسروں کے لئے ہے۔ اگر ہم خود ایسا کرتے ہیں تو دوسرا شخص ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا۔ ہمارے ایک امریکن احمدی نو مسلم یہاں آئے تو شلوار پہننے لگے میں نے انہیں کہا کہ تم نے اپنے وطن کا لباس چھوڑ کر شلوار کا استعمال کیوں شروع کر دیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں آرام رہتا ہے پس شلوار اگرچہ آرام دہ لباس ہے۔ لیکن ہم دوسروں کو دیکھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر جب یورپین لوگ ہمارے ہاں آتے ہیں تو اپنا لباس ترک نہیں کرتے اور یہ ایک قومی کیریکٹر ہے تم بھی اپنے اندر کیریکٹر پیدا کرو لیکن وہ کیریکٹر اسلامی ہو غیر اسلامی نہ ہو۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام میں کوئی خاص لباس نہیں اسی طرح پتلون کوئی انگریزی لباس نہیں انگریز تو کچھ عرصہ قبل کھال کی دھوتی پہنتے تھے۔ پتلون ترکی لباس ہے۔ اس لئے اس کے پہننے میں کوئی عیب نہیں ہاں صرف نقل کرنے میں عیب ہے ورنہ یہ نہیں کہ کوٹ کلمہ پڑھتا ہے اور پتلون حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ میں اس وقت کیریکٹر پر بحث کر رہا ہوں اگر کوئی لباس آہستہ آہستہ ہماری قوم میں آجائے تو آجائے۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن تم کسی کی نقل نہ کرو۔ آج سے چند سال قبل ہمارے باپ دادے موجودہ کاٹ کا کوٹ نہیں پہنتے تھے کچھ کپڑا مہنگا ہوگیا ہے اور کچھ وقار کی وجہ سے لوگوں نے پہلا کاٹ بدل لیا۔پس جس طرح کوئی اسلامی زبان یا غیر اسلامی زبان نہیں۔ اسی طرح کوئی لباس اسلامی یا غیر اسلامی نہیں۔ جو لباس آہستہ آہستہ ہم میں آجائے وہ ہمارے لباس کا حصہ ہے۔ اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں لیکن تم اپنا کیریکٹر وہ بناؤ جو اسلامی ہو یعنی جس میں قومیت کا احترام ہو۔ اسلام نماز کی سہولت چاہتا ہے اور جس لباس میں یہ خوبی ہووہی اسلامی لباس ہے پس اس کالج میں رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے ماٹو کو سامنے رکھو اس سے تمہاری عزت بڑھے گی اور لوگ تمہاری نقل کریں گے تم ان کی نقل نہیں کرو گے۔
آخر میں مَیں دعا کر دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس کالج کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے۔ جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اور اس کے طالب علم رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شاگرد ہوں جو لوگوں کو آپؐ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں۔ ہماری کوتاہیوں اور بدعملیوں کی وجہ سے آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو گالیاں پڑ رہی ہیں۔ خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح فرمائے اور انہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے غلاموں میں شامل فرمائے۔’’
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ یکم 7,6,3,2دسمبر 1955ء)
1: الزخرف : 62
2: بخاری کتاب المغازی باب غَزْوَۃ مُؤتَۃَ (الخ)
3: الصف : 3
4: الانعام : 12
5: البقرۃ : 45
6: وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّبِعُوْا مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاۤ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا١ؕ اَوَ لَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْـًٔا(البقرۃ :171)
7: مشکٰوۃ باب مناقب الصحابۃ اَلْفَصْلُ الثالث











افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء










از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء

(فرمودہ 26دسمبر 1954ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘جیسا کہ احباب کو پروگرام سے معلوم ہو گیا ہو گا اس سال جلسہ کے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جلسہ کی ابتدا پندرہ منٹ دیر سے کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی بجائے نو بجے کے سوا نو بجے جلسہ شروع ہؤا کرے گا اور پہلے اجلاس کے ختم ہونے کا وقت جو کہ پہلے ساڑھے گیارہ اور عملاً ساڑھے بارہ بجے تک جاتا تھا یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا تھا اس کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ گیارہ سوا گیارہ سے آگے نہ جائے اور دو گھنٹے درمیان میں فاصلہ دیا جائے تا کہ جن لوگوں نے کھانا کھانا ہو وہ کھانا کھا لیں، پیشاب پاخانہ کی ضرورت ہو تو وہ اس کو پورا کر لیں، جو کمزور لوگ تھک گئے ہوں وہ ذرا چل پھر کر اپنی لاتیں ٹھیک کر لیں تا کہ اگلے اجلاس میں وہ نماز پڑھنے کے بعد آرام اور سہولت کے ساتھ آ سکیں۔
در حقیقت یہ تحریک باہر سے ہوئی تھی اور چونکہ پہلے بھی بعض لوگ اس کے متعلق کہتے رہتے تھے میں نے اس تحریک کو پسند کیا اور انجمن کو ہدایت تھی کہ وہ اس کے مطابق اپنے پروگرام کو تبدیل کرے لیکن جب یہ بات شائع ہوئی تو بعض لوگوں نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ ان لوگوں نے لکھا کہ جو تو شوق رکھتے ہیں وہ تو جلسہ کے بعد بھی بیٹھے رہتے ہیں اور ہرجماعت میں سے باری باری لوگ پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر آجاتے ہیں اور وہیں نماز پڑھتے ہیں اور جو لوگ شوق نہیں رکھتے ان کے لئے آپ دوگھنٹہ چھوڑ چار گھنٹے بھی چھوڑیئے انہوں نے پِھرنا ہی ہے۔ اس لئے ان کی وجہ سے ہم لوگوں کو جو کہ سلسلہ کی باتیں اور دین کی باتیں سننے کا شوق رکھتے ہیں محروم نہیں رکھنا چاہیئے۔ بہرحال دنیا میں ہر چیز کے لوگوں نے دو پہلو بنائے ہوئے ہیں بلکہ اگر ان کو موقع ملے تو چار چار پانچ پانچ دس دس پہلو بھی بنا لیتے ہیں ۔ حتّٰی کہ خدا تعالیٰ کے متعلق بھی لوگوں نے دو پہلو بنالئے ہیں حقیقتاً تو کئی ہیں لیکن بہرحال کوئی کہتے ہیں کہ خدا ہے اور کوئی کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے۔ تو اس میں بھی اختلاف ہونا کوئی بعید بات نہیں لیکن چونکہ جلسہ اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ احباب جماعت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اس لئے ان کے مشورہ اور ان کی رائے کو بھی سننا اور اس پر غور کرنا ضروری امر ہے۔ پس اختلاف کو دیکھتے ہوئے میں نے انجمن کو مشورہ دیاہے کہ وہ جماعت کی مجلس شوریٰ کے سامنے اس مسئلہ کو رکھ دیں کہ ہمارا جلسہ کا پروگرام کس طرح ہؤا کرے اور کتنے وقت کے لئے ہؤا کرے۔ جماعتوں کو اب چاہئے کہ جب شوریٰ پر ان کے نمائندے منتخب ہو کر آئیں تو وہ ان کو اپنی مرضی بتا دیں کہ ہم یوں چاہتے ہیں۔ ہر جماعت غور کر کے اپنے نمائندے کو ہدایت دے دے۔ وہ نمائندہ شوریٰ میں آ کر اپنی رائے پیش کر دے گا اور جماعت کی کثرت اس معاملہ میں جس امر پر متفق ہو گی اس پر اس وقت ہم عمل کر لیں گے۔ درحقیقت جلسہ کے اوقات تو ضرورت کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور بدل سکتے ہیں۔ تاریخیں جلسہ کی ہم نے وہی رکھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے ابتدائی زمانہ سے چلی آ رہی ہیں مگر جلسہ کا موجودہ روزانہ کا پروگرام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ثابت نہیں۔ اس وقت پروگرام مختلف رنگ میں ہوتا تھا بعض دفعہ ایسا ہوتاتھا کہ اصل تقریر تو حضرت صاحب کی مقرر ہو جاتی تھی اور بیچ میں کبھی لوگ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس چلے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں کچھ سمجھائیں اور نصیحت کر دیں تو وہ کر دیتے تھے۔ کبھی حضرت صاحب کو کہتے تھے کہ وقت فارغ ہے تو آپ خود ہی فرما دیتے تھے کہ آج مولوی نور الدین صاحب کا لیکچر ہو گا، کبھی مولوی عبدالکریم صاحب لیکچر کر دیتے تھے، کبھی کوئی اور دوست لیکچر کر دیتے تھے بہرحال وہ زائد باتیں ہؤا کرتی تھیں۔ اصل تقریر وہی ہؤا کرتی تھی جو خصوصاً 27 تاریخ کو نماز ظہر و عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام فرمایا کرتے تھے۔ پس جو آپ لوگوں کا مشورہ ہو گا اس پر یہاں کا مرکز عمل کرے گا۔ آپ لوگ اپنی اپنی مجالس میں غور کر لیں غریب ، کمزور اور مسکین جو بیمار ہیں ان کا بھی خیال کر لیں، جو شائقین ہیں ان کا بھی خیال کر لیں اور پھر جو دونوں طرف کے نقطہ نگاہ سننے کے بعد آپ کی درمیانی رائے بنے اس سے اپنے نمائندہ کو آگاہ کر دیں تا کہ وہ اس جگہ شوریٰ کے موقع پر آپ لوگوں کے خیالات پہنچا دے۔
اس کے بعد میں آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت ایک سال کے بعد پھر ہمیں اس لئے جمع ہو نے کا موقع ملا ہے کہ ہم خداتعالیٰ کے حضور اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار کریں اور اس کے سامنے اپنی عقیدت کا تحفہ پیش کریں۔ کہتے ہیں ''کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا'' حقیقتاً دنیا کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دنیا کے مذاہب کو مدنظر رکھتے ہوئے پدی کا شوربا تو کسی کام آبھی سکتا ہے مگر آپ لوگوں کا شوربا کسی کام نہیں آ سکتا۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے آپ کی تعداد بہت کم ہے، ظاہری سازوسامان کے لحاظ سے آپ کی طاقت بہت کم ہے، نفوذ اور اثر کے لحاظ سے آپ کا خانہ خالی ہے اور ہمارا یہاں جمع ہونا درحقیقت ایسا ہی ہوتاہے جیسے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو ایک یتیم کی صورت میں دیکھ کر، ایک لاوارث کی صورت میں دیکھ کر اسے منڈی میں لے آیا اور اس نے کہا کہ کوئی اس کا خریدار ہو، کوئی اس کا متولّی ہو جو اس کی حفاظت کرنے کا ذمہ دار ہو۔ دنیا کے لوگوں نے جو بڑے بڑے مالدار تھے اور بڑے بڑے رسوخ والے تھے اور بڑے بڑے اثر والے تھے انہوں نے اس چیز کو دیکھا اور اس کی قدر نہ کی اور انہوں نے اپنے منہ پھیر لئے اور کہا کہ یہ دردِ سر کون مول لیتا پھرے، کون اس یتیم اور غریب کی حفاظت اور پرورش کا ذمہ لے مگر تم جب سب سے زیادہ حقیر اور ذلیل اور غریب تھے تم نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم اس یتیم کو اپنے گھر میں رکھیں گے اور پالیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ جب تم نے یہ ذمہ لیا تھا تم ان ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں تھے جو تم پر عائد کی جانے والی تھیں تم کو نہیں پتا تھا کہ کیا چیز تمہارے سپرد کی جار ہی ہے۔ اسی طرح جس طرح مدینہ کے لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں بلانے پر وہ کتنا بڑا بھِڑوں کاچھتّا چھیڑ رہے ہیں اس وقت تو مکہ کی رقابت میں مدینہ والوں نے کہہ دیا کہ چلئے صاحب! مکہ والے آپ کی قدر نہیں کرتے تو ہمارے پاس چلئے۔ حضرت عباسؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور آپ سے بہت محبت رکھتے تھے گو ظاہر میں اسلام نہیں لائے تھے وہ چونکہ ہوشیار آدمی تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ دعوت تو انہوں نے دے دی ہے لیکن اس کا سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے اس وقت کہا کہ آپ لوگ ان کو لے جاتے تو ہیں لیکن آپ مکہ والوں کو جانتے نہیں عرب کو نہیں جانتے۔ سارا عرب اور سارے مکہ والے ان کے مخالف ہیں اور وہ ضرور آپ سے اس کام کا بدلہ لیں گے۔ پس میں تب ان کو لے جانے کی اجازت دیتا ہوں اگر آپ لوگ یہ عہد کریں کہ اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کر کے اس کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تو چھوٹا سا قصبہ ہے۔ سارے عرب کے ساتھ ہم کہاں لڑ سکتے ہیں پر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر مدینہ پر کسی نے چڑھائی کر کے اسے نقصان پہنچانا چاہا تو ہم اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ مدینہ سے باہر جانے کی ہم میں طاقت نہیں۔ حضرت عباسؓ نے کہا مجھے منظور ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان سے معاہدہ کر لیا پھر جو نتائج ہوئے آپ لوگ جانتے ہیں۔ اس طرح جب دینِ اسلام کا یتیم آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ کو کہا گیا کہ اس کی نگرانی کریں اور اس کی حفاظت کریں تو آپ نے اسے قبول کیا لیکن آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس وقت زیادہ سے زیادہ آپ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی مولوی بُرا بھلا کہہ لے گا، کوئی ہمسایہ گالی دے لے گا۔ آپ کی نگاہ اس طرف نہیں اٹھتی تھی کہ یہ کام کسی وقت اتنا بلند ہو جائے گا اور یہ ذمہ داری اتنی اہم ہو جائے گی کہ اس کا سنبھالنا ہمارے لئے دوبھر ہو جائے گا لیکن آپ نے ہمت کی اور حامی بھر لی اور کہا ہم اس یتیم کو اپنے گھر لے جائیں گے اور پالیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔ دنیا کے لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور انہوں نے کہا کہ کتنے بے وقوف ہیں یہ لوگ! گھر میں کھانے کو نہیں، دوسروں کو پالنے کے لئے آگے آتے ہیں۔ آسمان کے فرشتوں نے بھی ایک قہقہہ لگایا اور انہوں نے کہا کتنے نادان ہیں یہ لوگ! ان کو پتہ نہیں کیا چیز اپنے گھر لے جا رہے ہیں۔ کل کو یہ چیز ان کے لئے وبال جان ثابت ہو گی اور کل کو یہ ذمہ داری اتنی بوجھل ہو گی کہ یہ اپنی گردنیں چھڑانے کی کوشش کریں گے لیکن عرش کے مالک خدا نے کہا کہ میری آواز پر جس نے پہلے لبیک کہا ہے خواہ وہ کتنا ہی نالائق سہی میں اب اس کی عزت کروں گا اور یہ امانت اس کے حوالے کر دوں گا۔ تم اس کو لے کر اپنے گھروں میں آگئے۔ تم خوش تھے کہ ہم نے ایک غریب اور یتیم کی پرورش کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمہارے واہمہ میں بھی اس وقت نہیں تھا کہ ایک دن اس یتیم کے پالنے کی وجہ سے تم دنیا کے سردار کہلاؤ گے، تم دنیا کے راہنما کہلاؤ گے، تم دنیا کے ہادی کہلاؤ گے لیکن اس سے پہلے تمہیں اپنی گردنیں تلواروں کے نیچے رکھنی ہوں گی تا کہ کُند تلواروں سے تم کو ذبح کیا جائے اور تمہارے ایمانوں کا امتحان لیا جائے۔ جوں جوں وہ یتیم بڑھتا گیا۔ تمہاری ذمہ داریاں بھی بڑھتی گئیں، تمہاری قربانیاں بھی بڑھتی گئیں تم پر مطالبات بھی بڑھتے گئے۔ کچھ نے خوشی سے ان مطالبات کو پورا کیا اور کچھ نے دل میں انقباض محسوس کرنا شروع کیا۔ کچھ آئے اور پیچھے ہٹ گئے، کچھ آئے اور آگے نکل گئے۔ غرض کچھ پیچھے سے آ کر سابق ہو گئے اور کچھ سابق کے آئے ہوئے پیچھے رہ گئے مگر یہ ہؤا ہی کرتا ہے۔ یہ تمہارا نرالا تجربہ نہیں بلکہ ہمیشہ ہی جب خدا تعالیٰ کو ئی نئی تحریک قائم کرتا ہے تو ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے، ایسا ہی ہوتا چلا جائے گاتو تم آئے ہو اپنی اس قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لئے، اپنے اس عہد کو دوہرانے کے لئے، اپنے اخلاص کا تحفہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے اور اس کو یہ بتانے کے لئے کہ اے ہمارے رب جب ہم نے یہ بوجھ سنبھالا تھا تو ہم اس کی ذمہ داری سے واقف نہیں تھے مگر اب جبکہ ہماری آنکھیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور ہماری ذمہ داریاں ہمارے لئے واضح ہوتی جاتی ہیں۔ دیکھ ہم آج بھی مستقل مزاج ہیں اور آج بھی اپنے عہد کو دوہراتے ہیں اور تم اس لئے آئے ہو کہ تمہارا خدا آسمان پر یہ کہے کہ اے میرے کمزور بندو تم نے اس وقت ایک عہد مجھ سے باندھا تھا جب تم اس کی حقیقت سے واقف نہیں تھے لیکن جب تم اس کی حقیقت سے واقف ہو گئے اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو گئے اور تم نے قسم قسم کی مشکلات اور دقتیں سامنے دیکھیں اور ان کو برداشت کیا تم پھر بھی اپنے عہد پر قائم رہے۔ اس لئے میں بھی اپنے عہد پر قائم ہوں اور تم کو وہی کچھ دوںگا جس کا میں نے تم سے اور تم سے پہلے تمہارے بزرگوں سے وعدہ کیا تھا۔ پس اپنے ان ایام کو جو کہ نہایت ہی اہم ایام ہیں خشوع اور خضوع اور ذکرِ الٰہی کے ساتھ گزارو اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے اس مقصد کو پورا کرے جس کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو۔ تم کوئی دنیوی جماعت نہیں ہو تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ وہ تم کو زمین دے، تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو کارخانے دے، تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو اموال دے، تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو حکومت دے تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو سیاست میں نفوذ دے، تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر ہوئے ہو کہ اے خدا تیری رضا ہم کو مل جائے۔ فقرہ چھوٹا لیکن اہمیت بہت بڑی ہے۔ بات تو زبان پر ہلکی ہے مگر میزان میں اس کا وزن بہت زیادہ ہے۔ سو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری مدد کرے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اپنی موت تک اپنے عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ تماری موت تک ہی نہیں تمہاری اولادوں اور اولادوں کی اولادوں اور پھر لامتناہی سلسلہ تک تمہارے خاندان کو اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اگر اس کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو وہ اسلام کی ترقی اور اس کا نفوذ اور اس کے ظہور کا زمانہ تم کو بھی اپنی آنکھوں سے دکھا دے لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے اور اس کی حکمتِ کاملہ کے خلاف ہے تو پھر کم سے کم اس کے نمایاں آثار دیکھ لو اور تمہاری اولادیں اسلام کی فتح میں حصہ دار ہوں اور تمہارے حصہ میں ندامت اور حسرت نہ آئے۔ پھر اس کے علاوہ وہ لوگ جو کہ باہر سے آئے ہیں ان کے لئے بھی جو تمہارے ساتھ آئے ہیں، ان کے لئے بھی جو تمہارے میزبان ہیں، ان کے لئے بھی جو آنا چاہتے تھے لیکن نہیں آ سکے ان کے لئے بھی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے آنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے تھے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے بھی دل صاف کرے۔ باہر سے بہت سے لوگوں کی دعاؤں کی تاریں آئی تھیں۔ میں نے دفتر کو کہا تھا کہ مجھے اس وقت دے دینا لیکن انہوں نے نکلتے وقت صرف میرے سامنے کاغذ کر کے پھر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ بہرحال ان میں زیادہ تر باہر کی جماعتوں کی تاریں ہیں۔ انڈونیشیا کی جماعت کی تار ہے، جرمنی کی جماعت کی تار ہے، امریکہ کی طرف سے تار ہے، شام کی طرف سے تار ہے اسی طرح گولڈکوسٹ کی طرف سے تار ہے۔ غرض مختلف ممالک سے احباب کی تاریں آئی ہیں کہ جب افتتاح کے موقع پر دعا کی جائے تو ہمارے لئے بھی دعا کریں۔ بعض ایسے لوگوں کی بھی تاریں آئی ہیں جو جلسہ پر نہیں آ سکے اور انہوں نے خواہش کی ہے کہ ہمارے لئے جلسہ کے موقع پر دعا کے لئے کہا جائے۔ یہ اتنا وقت تو ہے ہی نہیں کہ ان امور کو تفصیل سے بتایا جائے بلکہ میں دو چار منٹ اپنے وقت سے اوپر لے چکا ہوں۔بہرحال ان کے لئے دوست دعا کریں۔ایسے موقع پرتفصیلی دعا تو ہو نہیں سکتی اجمالی دعا ہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سارے دوستوں پر اپنا فضل نازل فرمائے اور جو نہیں آسکے ان کو بھی آئندہ آنے کی توفیق دے۔اور اپنی دعاؤں میں ا س بات کو بھی یاد رکھو کہ یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک ہے اور مختلف اسلامی ممالک اس وقت خطرہ میں ہیں۔انڈونیشیا ہے، خود پاکستان بھی ہے،شام ہے،مصرہے،ایران ہے۔ یہ ممالک اس وقت ایک خطرہ کے دور میں سے گزر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کی حفاظت کرے۔چار پا نچ سو سال کی غلامی کے بعداللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکو آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے ۔خدا کرے کہ یہ آزادی ان کے لئے اور دین اسلام کے لئے مبارک ہو اور ان کی مشکلات دور ہوں اور وہ پھر دنیا میں اس عزت کے مقام کو حاصل کر لیں جس عزت کے مقام کو کسی زمانہ میں انہوں نے حاصل کیا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ پس اپنے لئے اور سارے مسلمانوں کے لئے اور ساری جماعت کے لئے اور سلسلہ کے لئے اور اس کے مرکزکے لئے اور سلسلہ کے کاموں کے لئے اور دین اسلام کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوران کے مقام کی بلندی کے لئے اور آپؐ کی شان کے ظہور کے لئے ان سارے امور کے لئے دعا کرواوراس کے بعد خدا تعالی ٰپرتوکّل کرتے ہوئے اپنے جلسہ کی کارروائی کو شروع کرو تا خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوں اور وہ تمہاری مدد کریں۔ ’’
(الفضل 7جنوری 1955ء)










سال 1954ء کے اہم واقعات
(فرمودہ 27 دسمبر 1954ء)








از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

سال 1954ء کے اہم واقعات

(فرمودہ 27دسمبر 1954ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
‘‘آج مَیں پہلے دن کی تقریر جو عام طور پر تربیتی اور اصلاحی تقریر ہؤا کرتی ہے اس کے سلسلہ میں کچھ بیان کروں گا لیکن یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ کچھ میری کمزوری کی وجہ سے، کچھ اس دفعہ کی شدید سردی کی وجہ سے (یا پھر مجھے معلوم ہوتی ہے ممکن ہے باقی لوگوں کو معلوم نہ ہوتی ہو) اور کچھ اس بیماری کی وجہ سے جو کمر درد کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی میری حالت جسمانی اس وقت ایسی ہے کہ مَیں زیادہ دیر تک اور لمبا بول نہیں سکتا ملاقاتوں کی وجہ سے اور سردی میں بیٹھنے کی وجہ سے کمر کی درد بہت زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ ذرا سی بھی حرکت ہوجائے تو تکلیف زیادہ ہونے لگ جاتی ہے۔ اسی طرح آج آپ ہی آپ شاید گردوغبار کی وجہ سے میرا گلا بیٹھنا شروع ہوگیا ہے اور نزلہ اورسردرد بھی ہو گیا ہے اور بخار بھی محسوس ہو رہا ہے۔ مَیں اپنی طرف سے تو یہ علاج کر کے آیا ہوں کہ سردرد کے لئے دواکھائی ہے نزلہ کےلئے اے پی سی کی پڑیا کھائی ہے۔ اس طر ح اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ میں ایک حد تک اپنے فرض کو ادا کر سکوں مگر پھر بھی مَیں معذرت کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر مَیں اپنے فرض کو پوری طرح ادانہ کر سکوں تو دوست اس بات کو یاد رکھیں کہ میری صحت ان دنوں میں ایسی نہیں ہے کہ مَیں زیادہ بوجھ برداشت کر سکوں ۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے یہ تقریر زیادہ تر تربیتی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی اس میں تربیتی مضمون کم ہو جاتے ہیں اور بعض علمی مضامین بھی مَیں ضمنی طور پر لے آتا ہوں اور بعض سالوں میں تو وہ اتنے اہم تھے کہ اگر ان کو محفوظ رکھاجاتا تو وہ بہت کچھ کارآمد ہو سکتے تھے مگر بوجہ اس کے کہ یہ تربیتی تقریر کہلاتی ہے اس کے لکھنے اور سنبھالنے کی پوری احتیاط نہیں کی جاتی۔ کئی تقریریں تو پڑی ہوئی ہیں۔ میرے پاس ہی وہ لکھ کر بھجوا دیتے ہیں اگر ہمارے زودنویسی کے محکمہ والے ذرا بھی توجہ کریں تو ان کو اخبار میں شائع کرایا جا سکتا ہے۔ بہر حال آج میں متفرق امور کے متعلق کچھ کہوں گا اور سب سے پہلے مَیں اس سلسلہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج اور کل کے تجربہ سے یہ معلوم ہؤا ہے کہ تربیتی تقریریں محض لذّتِ گوش کے لئے سنی جاتی ہیں۔ ان کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور ان ہدایات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔
سب سے پہلے مَیں ملاقاتوں کو لیتا ہوں ملاقاتوں کی کئی غرضیں ہوتی ہیں۔ بعض غرضیں تو بغیر اس کے کہ کارکن کوئی خدمت کریں یا نہ کریں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض غرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کارکن اپنا فرض صحیح طور پر ادا نہ کریں پوری نہیں ہوتیں اور بعض غرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہ کریں وہ پوری نہیں ہو سکتیں مثلاً جہاں تک رشتہ محبت کا تعلق ہے جو احباب آتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم مصافحہ بھی کر لیں اور شکل بھی دیکھ لیں۔ کئی تو یہ کہہ کر روپڑتے ہیں کہ خبر نہیں اگلے سال تک ہم زندہ بھی رہیں گے کہ نہیں رہیں گے۔ یہ ان کا ادب بھی ہوتا ہے کچھ حجاب بھی ہوتا ہے ورنہ بسا اوقات ان کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں آپ اگلے سال تک زندہ بھی رہیں گے یا نہیں اور یہ ایک سچی بات ہے کوئی انسان اس دنیا میں ہمیشہ تک زندہ رہا ہی نہیں آخر ہر شخص نے کسی نہ کسی وقت اس دنیاسے جانا ہے۔ اپنی مثال کو مَیں دیکھتا ہوں تو وہ ایک معجزانہ نظر آتی ہے کیونکہ مجھے بچپن میں ہی کئی قسم کی بیماریاں لگی ہوئی تھیں۔ مَیں چھوٹا ہی تھا جبکہ مجھے خسرہ نکلا پھر اس کے بعد کالی کھانسی ہو گئی اور یہ بیماری اتنی شدید ہوئی کہ اس سے خنازیر پیدا ہوگئیں وہ خود اپنی ذات میں ایک مہلک مرض ہے۔ اس کے بعد جب قریب بہ بلوغت پہنچا تو چھ مہینے سال تک متواتر بخار رہا اور اس کے ایک دو حملے ہوئے۔ حضرت خلیفہ اوّل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت تھی اس لئے وہ اس بات کو اَور نگاہ سے دیکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے اَور نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک ہی واقعہ کو دونوں نے مختلف شکلوں سے دیکھا۔ مجھے تو یاد نہیں کہ ان دنوں میں مَیں خاص طور پر بیمار تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دس پندرہ دن پہلے بغیر میرے کہنے کے یا بغیر میرے کسی قسم کی بیماری کی شکایت کرنے کے لاہور میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور کہا محمود کی صحت بہت خراب رہتی ہے مجھے اس کی بڑی فکر ہے آپ اس کو اچھی طرح دیکھیں اور اس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں۔ یہ بھی کہا کہ میری بھی صحت اچھی نہیں پر اس کی زیادہ خراب ہے اور اس کی مجھے بہت فکر ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن دنوں میں مجھے خاص طور پر کوئی بیماری تھی صرف چھ مہینے پہلے بخار رہا تھا لیکن اس حالت کو حضرت خلیفۂ اوّل نے اَور طرح بیان فرمایا۔ مَیں ایک دفعہ ان کے پاس گیا تو کہنے لگے میاں! تم بیمار ہو تمہاری صحت بڑی خراب ہے۔ پر مجھے مرزا صاحب کی فکر ہے۔ ان کی صحت تم سے بھی زیادہ خراب ہے تو انہوں نے اپنی محبت میں بیماریوں کا توازن یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیماری کو بڑھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی محبتِ پدری کی وجہ سے میری بیماری کو بڑھایا۔ بہر حال وہ حالت اِس قسم کی تھی کہ مَیں بھی اور جو واقف لوگ تھے وہ بھی سمجھتے تھے کہ مَیں کسی لمبی عمر کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی لمبا بوجھ اٹھانے والا کام نہیں کر سکتا۔
مجھے یاد ہے کہ شروع ایامِ خلافت میں جب مجھ پر جماعت نے اتفاق کیا تو میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ مَیں یہ بوجھ کہاں اٹھا سکتا ہوں اور بعض دفعہ اس سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت مَیں اپنے دل کو اس رنگ میں تسلی دیا کرتا تھا کہ میری صحت تو ایسی ہے ہی نہیں کہ مَیں زیادہ دیر تک زندہ رہوں اس لئے یہ بوجھ تھوڑے دنوں کا ہی ہے کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں لیکن ان حالات کے ہوتے ہوئے باوجود بیماریوں کے اور باوجود اس حملہ کے جو پچھلے سال مجھ پر ہؤا اب مَیں اس عمر کو پہنچ گیا ہوں کہ اس سال کے ختم ہونے پر جنوری میں مَیں چھیاسٹھ سال کا ہو جاؤں گا۔ گویا گورنمنٹ جس عمر میں جا کر پنشن دیتی ہے اس سے گیارہ سال بڑی عمر ہو جائے گی اور اب جو مالی تنگی کی وجہ سے گورنمنٹ نے پنشن کی عمریں بڑھا دی ہیں اس کے لحاظ سے بھی چھ سال زیادہ ہوجائے گی۔ اور وہ جو تکلیفیں آتی ہیں اگر ان کو نظر انداز کر دیا جائے اور درمیانی طور پر جو جھٹکے لگتے ہیں ان کو بھُلادیا جائے تو ابھی تک خداتعالیٰ کے فضل سے کام کے لحاظ سے میرے اندر طاقت ہوتی ہے۔ بوجھ پڑتے ہیں تو مَیں ان کو اٹھا لیتا ہوں اگر محنت کرنی پڑتی ہے تو کسی نہ کسی رنگ میں، کسی نہ کسی وقت مَیں اس کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر لیتا ہوں۔
بہرحال اس سال کی بیماری کی وجہ سے اور اس سال کے حملہ کی وجہ سے اس قسم کا ضُعف مجھے اس سال پیدا ہؤا کہ مَیں سمجھتا ہوں وہی وجہ ہے کہ مَیں آج اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتا ہوں۔ سینہ میں درد ہو رہی ہے، گلا بیٹھا ہؤا ہے۔ نزلہ کی حالت ہے،کمر میں درد ہے،جسم میں درد ہے،بخار ہے وَاللہُ اَعْلَمُ کیا سبب ہے اور اُس بیماری کے ساتھ اِس کا کیا جوڑ ہے لیکن میں عام طور پر رات کو کام کرنے کا عادی تھا۔ دن کو تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص آ گیا اس نے کہا ملنا ہے۔ دوسرا آ گیا وہ بھی کہتا ہے ملنا ہے۔ تیسراآ گیا وہ بھی کہتا ہے ملنا ہے۔ پھر کاغذات آگئے ان کے دیکھنے بھالنے میں جو اصل کام مطالعہ کا اور فکر کا اور غور کا اور مسائل نکالنے کا اورلکھنے کا ہوتا تھا اس کے لئے دن کو فرصت نہیں ملتی تھی چنانچہ جو پہلی ایک ہزار صفحہ کی تفسیر چَھپی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری مَیں نے رات کو لکھی ہے۔ یہ سمجھ لو کہ وہ ہزار صفحہ کی کتاب ہے اور اس کے ایک صفحہ میں کم سے کم پانچ کالم آتے ہیں گویا کالموں کے لحاظ سے اس تفسیر کا پانچ ہزار کالم بنتا ہے۔ اور ایک آدمی اگر تیزی سے لکھے، حوالے دیکھنے کی ضرورت نہ ہو، سوچنے کی ضرورت نہ ہو تو مَیں نے دیکھا ہے گھنٹہ بھر میں سات ساڑھے سات کالم فُل سکیپ سائز کے لکھتا ہے اور اگر اس کو حوالے دیکھنے ہوں، آیتوں کا مقابلہ کرنا ہو، لغت دیکھنی ہو، بعض مشکل مضمونوں کو سوچنا ہو جیسا کہ قرآن شریف کی تفسیر ہوتی ہے تو شاید بعض لوگ دو تین کالم ہی لکھ سکیں لیکن سردیوں کے موسم میں یہ قریباً ساری کی ساری تفسیر لکھی گئی۔ ساری تو نہیں یہ سمجھو کہ آدھی کیونکہ آدھی میرے درس قرآن کی وجہ سے پہلے لکھی ہوئی تھی صرف اس کی درستی کا کام تھا بہرحال کم سے کم پانچ سو صفحہ ایسا تھا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ پچیس سو کالم ایسا تھا جو تین مہینے میں رات کو بیٹھ کر مَیں نے لکھا۔ کئی دفعہ ایسا ہو جاتا تھا کہ مَیں صرف کمر سیدھی کرنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاتا تھا ورنہ گھڑی بتاتی تھی کہ اب صبح کی اذان ہونے والی ہے۔ ایک بجے دو بجے تک بیٹھنا تو قریباً قاعدہ ہی بنا ہؤا تھا اور پھر اس جوش میں یہ بھی احساس نہیں ہوتا تھا کہ کپڑے اوپر ہیں یا نہیں۔ ایک کُرتے میں دالان میں جا کے بیٹھ رہنا اور لکھتے رہنا ، بیوی نے دوسرے کمرے میں سوئے رہنا ایک معمول سا ہو گیا تھا۔ تو رات کو کام کرنے کا مَیں پرانا عادی ہوں۔ لیکن اس دفعہ مَیں نے دیکھا کہ بعض دفعہ تو آٹھ نو بجے ہی مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب مَیں بالکل ایک منٹ بھی نہیں جاگ سکتا اور مجبوراً سونا پڑتا تھا تو ان سردیوں میں مَیں رات کو بالکل کام نہیں کر سکا سوائے اس کے کہ عشاء تک کوئی کام کر لوں تو کر لوں۔ بلکہ گھر سے مجھ پر اعتراض ہونے شروع ہوگئے تھے کہ آپ تو اتنی جلدی کھانا کھانے لگ گئے ہیں کہ اردگرد والے لوگ ہنستے ہیں کہ ہم تو نہیں کھاتے اورآپ شام کے وقت ہی کہتے ہیں کہ کھانا لاؤ۔مَیں نے کہا مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ آٹھ نو سے زیادہ مَیں جاگ ہی نہیں سکتا اور کھانے اور سونے میں کچھ فاصلہ ہونا چاہئے اس لئے مَیں پہلے کھا لیتا ہوں۔ تو یہ سال اس لحاظ سے میرے لئے نہایت ہی تکلیف دہ گزرا اور شاید یہی موجب میری بیماری کاہؤا ہو اور اس وجہ سے لازماً میرے لئے ضروری تھا کہ مجھے زیادہ تر آرام دیا جائے۔ مثلاً گرد نہ اُڑے، غبار نہ ہو کیونکہ یہ چیزیں گلے میں جا کر سوزش پیدا کرتی ہیں اور تکلیف ہو جاتی ہے لیکن یہ چیز میسر نہیں آسکی اور ملاقاتوں کے وقت میں گردوغباربھی اڑتا رہا۔ گو مرد اب پہلے سے بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں پہلے تو بڑی گرد ہؤا کرتی تھی لیکن اب مَیں نے دیکھا ہے کہ چند سالوں سے نصیحت کی وجہ سے بہت احتیاط ہوتی ہے لیکن پھر بھی غفلت ہو جاتی ہے۔ مستورات کی ملاقات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم چونکہ کم ہوتی ہے اور ان کی تربیت بھی کم کی گئی ہے ان کی مجالس میں گردوغبار زیادہ ہوتا ہے۔ خصوصاً گاؤں والی عورتیں اور پھر خصوصاً ایسی عورتیں جنہوں نے ہمیں گودیوں میں پالا ہؤا ہے (اور ایسی عورتیں ابھی زندہ ہیں) ان میں سے کوئی عورت آجائے تو وہ تو ایک بچہ سمجھ کر مجھ پر آکر جھپٹتی ہے کیونکہ اس نے گودوں میں کِھلایاہؤا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ تو پھر وہ گرد اڑتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آندھی ہی آرہی ہے۔ اس وجہ سے مجھے زیادہ کوفت ہوئی لیکن زیادہ تر مجھے اس وجہ سے خیالی کوفت ہوئی کہ ہماری جماعت اتنی دیر سے قائم ہے اور ابھی تک مردوں اور عورتوں کی تربیت پوری طرح سے نہیں ہوسکی۔
یورپ میں مَیں نے دیکھا ہے ان کے ہاں ایسی تربیت ہے کہ خطرناک سے خطرناک وقت میں بھی وہ اپنے نظام کو نہیں بگڑنے دیتے۔ مَیں نے اخبار میں ایک دفعہ ایک واقعہ پڑھا وَاللہُ اَعْلَمُ واقعہ تھا یا لطیفہ مگر اس نے واقعہ کے طور پر لکھا تھا کہ کسی سینما میں لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ آگ لگ گی آگ کو دیکھ کر لوگ باہر کی طرف بھاگے۔ اب ڈریہ پید اہؤا کہ دروازہ رک جائے گا لوگ اس میں پھنس جائیں گے اور جتنی دیر میں دس نکل سکتے ہیں اتنی دیر میں شاید دو ہی نکلیں ایک ہوشیار آدمی وہاں کھڑا ہؤا تھا اس نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو اس نے سمجھا کہ ان کو فوراً نظم میں لانا چاہئے ورنہ پھر ان کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کے ہاں ایک قاعدہ ہوتا ہے جسے کیو (QUEUE) کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے ان کے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں اور پھر اسی ترتیب سے جاتے ہیں جس ترتیب سے کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور یہ عادت ان میں اس قدر راسخ ہوگئی ہے کہ حیرت آتی ہے۔
میں نے ایک دفعہ لندن میں دیکھا۔ میں جارہا تھا چودھری صاحب اور دوسرے دوست ساتھ تھے ایک گلی میں کوئی سو گز کی ایک لمبی قطار تھی اور اس کے پہلو میں اسی طرح کی ایک دوسری قطار تھی اور اسی طرح ایک تیسری قطار تھی۔ سب لوگوں کے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے جگ پکڑے ہوئے تھے تینوں کے اگلے سرے کھڑکی کے پاس تھے اور پچھلا سرا ایک کا بہت دور تھا اور دوسرے کا اس سے کم تیسری کا نصف میں ختم ہوجاتا تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یہ شراب خانہ ہے اور یہ شراب خریدنے کے لئے آئے ہوئے ہیں اور یہ جو پہلی قطار ہے اس سے شراب تقسیم ہونی شروع ہوگی یہاں تک کہ آخری آدمی شراب خرید لے گا اس کے بعد دوسری قطار کا اگلا آدمی آگے آئے گا اور پھر تیسری کا۔ اب شراب جیسی چیز جو نشہ میں انسان کی عقل ماردیتی ہے اس کے وہ خریدار تھے اور شاید کہیں نہ کہیں سے پی کر ہی آئے ہوں گے لیکن اب وہ اپنے گھروں کو شراب لے جارہے تھے۔ اس دن ہفتہ کی شام تھی اور چونکہ ہفتہ کے دن ان کو تنخواہیں ملتی ہیں، اس دن بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے تو انہوں نے کہا یہ محض اس وجہ سے آرام سے کھڑے ہیں کہ تا ان کا مقررہ قومی نظام نہ ٹوٹے۔ خیر واقعہ مَیں یہ سنا رہا تھا کہ جب آگ لگی اور لوگ نکلنے لگے تو ان میں سے ایک نے دیکھا کہ اس طرح خطرہ بڑھ گیا ہے تب اس نے وہی کیو(QUEUE)کی آواز دی۔ یہ لفظ اس نے زور سے بولاتو یکدم سارے ہٹ کے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہونے شروع ہوگئے۔ گویا ایسی عادت پڑی ہوئی تھی کہ وہ بھول ہی گئے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ سارے کے سارے آرام سے باہر نکل گئے لیکن ہمارے ہاں یہ تنظیم اتنی کیوں نہیں۔
ابھی مجھ سے ایک عزیز نے سوال کیا اور کہا کہ میں ولایت سے آیا ہوں۔ میں ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا رنگ کچھ متغیر سا ہؤا ہؤا تھا شاید اس خیال سے کہ کہیں مجھ سے خفا نہ ہو جائیں۔ خیر وہ مجھ سے کہنے لگا خبر نہیں کیا بات ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں ۔میں ہنس پڑا اور میں نے کہا میرا اپنا خیال یہی ہے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ شاید مولویوں کی طرح یہ بھی خفا ہو جائیں گے کہ تم نے اپنی قوم کے اخلاق کو بُرا کہا ہے حالانکہ جب سچی بات یہی ہے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں تو ہم اس کے سِوا کہہ کیا سکتے ہیں۔ پس میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے میرا اپنا بھی یہی خیال ہے۔ پھر اس نے جھجکتے ہوئے مجھ سے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ پھر میں نے اس کو سچاسچا جواب دیا کہ یہ شراب کی وجہ سے ہے۔ ا س نے حیرت سے کہا کیا شراب کی وجہ سے ان کے اخلاق اچھے ہیں؟ میں نے کہا ہاں۔ اب میں نے سمجھا کہ اب یہ دوسرا وسوسہ اس کے دل میں پیدا ہوگا کہ پھر شراب شروع کرنی چاہئے تاکہ ہمارے اخلاق بھی اچھے ہو جائیں۔ تو میں نے اُس کو بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شراب میں ہزاروں خرابیاں بھی ہیں لیکن شراب میں ایک خوبی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اجتماعِ فکر کر دیتی ہے جس چیز کو سنیں یا کہیں اُسی کو دہراتے چلے جائیں گے اور کسی دوسری چیز کا ان میں احساس ہی نہیں ہوگا۔
مَیں نے کئی دفعہ سنایا ہے ایک دفعہ میں گھر میں ٹہل رہا تھا اور ٹہلتے ٹہلتے کوئی کتاب یا کوئی مضمون لکھ رہا تھا۔ نیچے سے مجھے کسی شخص کی آواز آئی جو دوسرے کو پنجابی میں کہہ رہا تھا کہ ''بھائی سورن سنگھ کیا پکوڑے کھانے ہیں'' مجھے یہ فقرہ کچھ عجیب سا معلوم ہؤا۔ چھوٹی سی دیوارتھی پاس ایک سٹول پڑا ہؤا تھا میں نے سٹول پر کھڑے ہو کر نیچے جھانکا کہ کیا بات ہے تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار جا رہا تھا اور دوسرا آدمی جو پیدل تھا وہ اس جگہ موڑ پر جہاں صدر انجمن احمدیہ کا دفتر ہؤا کرتا تھا اور اسی کے اوپر مکان کے دوسری طرف میرا دفتر تھا گلی کے نیچے نکڑ میں بیٹھا ہؤا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکٹھے آئے ہیں مگر وہاں آکے وہ تھک کے بیٹھ گیا ہے اور گھوڑے والا جا رہا ہے اور وہ عجیب لچکدار طرز پر جیسے کوئی ناز کرتا ہے کہہ رہا تھا'' سورن سنگھ پکوڑے کھانے ایں''۔اس آواز کو سنکر مجھے تعجب ہؤا مگر پھر میرا تعجب اور بڑھا کہ سورن سنگھ صاحب گھوڑے پر چڑھے ہوئے کوئی پندرہ گز چلے گئے اور وہ وہیں بیٹھے ہوئے کہتا جاتا ہے۔''سورن سنگھ پکوڑے کھانے ایں''پھر میں نے دیکھا کہ سورن سنگھ صاحب تو گلی کی دوسری نکڑ پر پہنچے ہوئے ہیں اور یہ ابھی پکوڑوں کی دعوت دے رہا ہے۔ اس کے بعد وہ اور آگے نکل گیا اور غالباً پھر وہ بہشتی مقبرہ تک بھی جاپہنچا اور وہ شخص بیٹھے ہوئے یہی کہہ رہا تھا۔ ''بھائی سورن سنگھ صاحب کیا پکوڑے کھانے ہیں'' اب سورن سنگھ صاحب شاید گھر بھی جاپہنچے تھے اور یہ بیٹھا میرے گھر کے نیچے ''پکوڑے کھانے ہیں'' کا راگ الاپ رہا تھا یہ چیز صرف شراب کی وجہ سے تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے شراب پی ہوئی ہے۔ تو شراب اجتماعِ فکر کرتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ علم النفس کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز پر متواتر انسانی ذہن لگ جائے وہ دل میں میخ کی طرح گڑ جاتی ہے۔ تو دوسری خوش قسمتی ان کو یہ نصیب ہوئی (اصل تو بدقسمتی تھی مگر خوش قسمتی یہ نصیب ہوئی) کہ کسی نہ کسی وجہ سے مسیحی قوم میں اخلاق اور رحم اور عفو پر خاص زور دیا گیا۔ جب وہ شرابیں پی کے اور سج سجا کے اتوار کی چھٹی میں گرجے میں جاتے ہیں(کام ان کو بڑا کرنا پڑتا ہے) تو وہاں جاتے ہی پادری ان کو کہتا ہے کہ تم میں رحم ہونا چاہئے ،تم میں شفقت ہونی چاہئے، تم میں صفائی ہونی چاہئے، تم میں نظم ہونا چاہئے، تم میں غریبوں کی ہمدردی ہونی چاہئے۔ یہ وہ سنتے ہیں اور پھر یہی خیال ان کے دماغ میں گھومتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ کیفیت ہے کہ ہم ہر چیز کے متعلق اس طرح کُودتے ہیں جس طرح بندر درخت پر کُودتا ہے۔ ابھی ایک خیال ہوتا ہے پھر دوسرا خیال ہوتاہے پھرتیسرا خیال ہوتاہے پھر چوتھا خیال ہوتاہے ایک جگہ پر ہم ٹکتے ہی نہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ قرآنی تعلیم اور حدیثی تعلیم ہمارے اندر جذب نہیں ہوتی کیونکہ ہم جھٹ اس سے کُود کر آگے چلے جاتے ہیں۔(رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰ لہٖ وسلم نے اس کا علاج مراقبہ بتایا ہے اور مختلف شکلوں میں صوفیائے کرام نے اس پر عمل کی تدابیر نکالی ہیں مگر اس مادی دور میں اس کو پوچھتا کون ہے)تو میں نے کہا ایسا شراب کی وجہ سے ہے اور میں نے اُن کو بتایا کہ ہمارے ہاں بھی خداتعالیٰ نے اس کا علاج رکھا ہے مگر ہمارے علماء نے وہ علاج اختیار نہیں کیا۔ اور وہ یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم اور حدیث کی تعلیم جو اِن امور کے متعلق ہے اُس کو بار بار ذہن میں لایا جائے جسے مراقبہ کہتے ہیں۔ اور پھر بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے مگر ہمارے ہاں تو بجائے یہ کہنے کے کہ اخلاق کی درستی ہونی چاہئے بس یہی ہوتا ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، یوں سجدہ کرو، یوں ڈھیلا استعمال کرو۔ کم سے کم سات دفعہ جب تک پتھر سے خاص خاص حرکات نہ کرو تمہارا ڈھیلے کا فعل درست ہی نہیں ہو سکتا۔ غرض یاقشر پر زور دیا جاتا ہے یا رسم پر زور دیا جاتا ہے اور جو اصل سبق ان احکام کے پیچھے ہے اسے بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ غرض اُدھر دماغوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنے والا جو ایک جسمانی سامان اُن کو میسر ہے وہ ہمیں نہیں۔ ہمارے پاس روحانی سامان تھے، اخلاقی سامان تھے لیکن اِن کو ہم استعمال نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں یہ اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں اور ہمارے ہاں نہیں ہوتے۔
تو بہر حال تربیت کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرتی اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تربیت کریں لیکن بار بار جلسہ پر بھی میں نے کہا ہے، خطبے بھی کہے ہیں، زبانی بھی ہدایتیں دی ہیں لیکن''وہی ڈھاک کے تین پات'' وہ بات اپنی جگہ سے ہلتی نہیں۔ مثلاً ملاقات ہوتی ہے اس ملاقات کے لئے میں نے متواتر عیدوں پر ہدایتیں دی ہیں، جلسے پر ہدایتیں دی ہیں کہ جو لوگ آتے ہیں وہ اپنی محبت کے جذبہ میں آتے ہیں تمہاری طرح ڈیوٹی پر نہیں کھڑے ہوئے۔ اُن کا دل یہ چاہتا ہے کہ جہاں سے ہم داخل ہوں خلیفہ کے مُنہ پر ہماری نظر پڑنی شروع ہو جائے مگرباربار سمجھانے کے باوجود پہریدار ہمیشہ میرے مُنہ کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور ملاقاتی کو لا کر اور پھر اپنی پیٹھ کے پیچھے سے گزار کر سامنے کرتے ہیں تاکہ اسے کچھ نظر نہ آئے اور جس وقت وہ میرے پاس آتاہے اُس وقت ایک دوسرے ملاقات کروانے والے صاحب اُس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں ''چلو پیچھے کو '' وہ نظارہ بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے تین آنہ والی یا چھ آنہ والی مشین ہوتی ہے جس کے اندر کوئی تین آنے یا چھ آنے ڈالے تو اندر سے ایک پیکٹ نکل آتا ہے۔ اس غریب ملاقاتی کی ملاقات بھی اسی پیکٹ کے نکلنے کی طرح ہوتی ہے اور کچھ نتیجہ نہیں نکلتا۔ بار بار میں نے سمجھایا ہے کہ ایسا نہ کیا کرو۔ بعض کارکن ایسے ہیں کہ ان کے متعلق میں نے یہاں تک ہدایت دی کہ آئندہ ان کو کام پر نہ مقرر کیا کرو کیونکہ یہ ہمیشہ دخل دیتے ہیں لیکن باوجود اِس کے وہی مقرر ہوتے ہیں اور اُن کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہاتھ پکڑا اور نکالا۔ ہاتھ پکڑا اور نکالا۔ حالانکہ میں نے منع کیا ہؤا ہے کہ اگر میں سمجھوں گا کہ اب روکنے کا وقت آیا ہے تومیں آپ کہہ دوں گا کہ ان کو رخصت کردو۔ جب تک میں نہیں کہتا تمہارا کام نہیں کہ ان کو گھسیٹو۔ یا اگر خطرے والی بات ہو تو بے شک اُس وقت ہر انسان اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے اگر تم سمجھتے ہو کہ کوئی دشمن آ گیا ہے اور وہ کوئی حملہ کرنا چاہتا ہے تو پھر تمہیں میرا حکم لینے کی ضرورت نہیں۔ آپ ہی اپنی طرف سے انتظام کر سکتے ہو مگر وہ تو لاکھوں میں سے کوئی شخص ہوگا۔ اگر فرض کرومجھے نوہزار آدمی ملتا ہے تو اس میں سے آٹھ ہزار نو سو ننانوے تو نیک اور مخلص اور محبت کرنے والا ضرور ہوتاہے اس کے لئے اس قسم کی حرکتیں کرنے کی ضرورت کیا ہوئی لیکن کبھی باز نہیں آتے۔ پھر مردوں نے تو کچھ نہ کچھ تنظیمیں کر لی ہیں مگر عورتوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ مثلاً آج ہی میں نے یہاں آنا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ تھوڑا سا وقت دے دینا تاکہ میں اس میں اپنے نوٹوں پر نظر ڈال لوں اور وہ پھر دماغ میں تازہ ہو جائیں تو مجھے کہا گیا کہ اچھا ایک گھنٹہ ملاقات ہوگی لیکن یہ نہیں سوچا کہ ایک گھنٹہ میں کتنی ملاقاتیں ہو سکتی ہیں۔ مردوں میں اتنا ہے کہ انہوں نے اندازے کر لئے ہیں کہ ایک گھنٹہ میں اتنے آدمیوں کی ملاقات ہوتی ہے اگر وہ گھنٹہ کہیں گے تو ساتھ آدمی بھی بتا دیں گے کہ اتنا آدمی آئے گا مگر انہوں نے گھنٹہ کی ملاقات رکھ دی اور چھ گھنٹہ کی عورتیں جمع کر لیں۔ پھر عورتوں بیچاریوں کے لئے اَور بھی مشکل ہوتی ہے۔ یعنی کچھ تو ایسی ہوتی ہیں کہ پردہ میں لپٹی لپٹائی آئیں اور یہ کہہ کے چلی گئیں کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ،دعا کے لئے آئی ہیں۔ اور کچھ جیسے میں نے کہا ہے ہمارے گھروں میں پرانی آنے والی ہوتی ہیں جن کی گودیوں میں ہم پلے تھے یا جنہوں نے ہم کو کھلایا ہؤا تھا۔ وہ تو کہتی ہیں کہ یہ ہماری جائیداد ہے ہم چھوڑیں گی نہیں۔ تم اُن کو پکڑ پکڑ کے گھسیٹو بھی، کچھ بھی کرو وہ یہی کہتی چلی جائیں گی کہ''ذرا ٹھہر جاؤ اک گل کرنی ہے۔'' غرض وہ اپنی ہی کہی جاتی ہیں تو اُن کو بھی چاہئے کہ اِن ساری باتوں کو سوچ کر آدمیوں کی بھی تقسیم کر لیں اور وقت بھی مقرر کر لیا کریں کہ اِتنا وقت ہے اور اِس میں اتنے آدمی مل سکتے ہیں۔ پھر اتنے آدمیوں کو آنے دیں اور اس کے بعد والوں کے لئے دوسرا وقت مقرر کر دیں۔ مگر باوجود سمجھانے کے ان میں ابھی یہ بات پیدا نہیں ہوئی۔ پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر تم نے تربیت نہیں حاصل کرنی تو پھر اس لیکچر کی غرض ہی بیکار ہے۔ اس میں تو یہی بتایا جائے گا اور بتایا جاتا ہے اور بڑی بات اور اہم بات اس میں یہی ہوتی ہے کہ ہماری جماعت کو اپنے اخلاق کس طرح زیادہ سے زیادہ ٹھیک کرنے چاہئیں اور کس طرح اپنی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ درست کرنا چاہئے۔
جلسہ کے انتظام کے متعلق بھی میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ کا انتظام بدلا گیا اور پھر مجھے کارکنوں نے بتایا کہ کسیر کم ہوگئی ہے۔ میرے نزدیک کھانے سے بھی زیادہ مکان اور کسیر کی اہمیت ہوتی ہے۔ لوگ گھر سے آئے، چارپائیاں چھوڑ کر آئے تو کم سے کم ان کے لئے زمین پر تو ایسی جگہ ہونی چاہئے کہ ان کی صحت ٹھیک رہ سکے اور لیٹ کے انہیں نیند آجائے۔ قیدیوں کے متعلق جو کتابیں میں نے پڑھی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں قیدی کو کوئی خاص چٹائی وغیرہ ایسی نہیں ملتی جس پر وہ آرام کر سکے بس دو کمبل دے دیتے ہیں کہ ایک کو نیچے بچھا لو اور ایک کو اوپر اوڑھ لو۔ اس سے زیادہ اس کے آرام کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مگر ہم تو اسکے بھی خلاف ہیں اور حکومت سے یہی چاہتے ہیں کہ قیدیوں کو بھی اس سے اچھی جگہ دو کیونکہ بہر حال وہ انسان ہیں، انہوں نے زندگی بسر کرنی ہے، انہیں تم نے اپنے سارے رشتہ داروں سے محروم کردیا ۔ اِس سے زیادہ اور کیا سزا ہوگی۔ تو کسیر کا وقت پر مہیا کرنا اور اتنی کثرت سے مہیا کرنا کہ لوگ اس سے آرام حاصل کر سکیں اور زمین کی سختی اور ٹھنڈک ان کو نقصان نہ پہنچا ئے یہ نہایت ضروری اور لازمی امر ہے۔ اِسی طرح مکانوں کے متعلق بھی اس دفعہ بہت شکایت ہوئی کہ مکانوں میں دقّت ہے۔ خصوصاً عورتوں میں تو بہت ہی دقت ہوئی۔ ان کے لئے کچھ خیمے لگائے گئے ہیں لیکن وہ خیمے بھی ان کی تعداد سے جو بڑھ گئی ہے کم ہیں۔ پس آئندہ ان امور کا وقت پر انتظام کیا جایا کرے اور اس کے متعلق اصولی طور پر تصفیہ کر کے انجمن کے پاس رپورٹ کی جائے۔ مجھ سے بھی مشورہ لے لیا جایا کرے تاکہ آئندہ اس قسم کی دقتیں پیش نہ آئیں۔
اسی طرح لاؤڈ سپیکر کے متعلق شکایت ہوئی ہے۔ کل عورتوں نے کہا کہ سارا دن ہمیں تقریریں ہی نہیں ملیں۔ انہوں نے کہا ہے بولنے والا بولتا تھا لیکن ہمارے پاس تو اس کی آواز اس طرح آتی تھی کہ ہم سمجھتے تھے آدمی نہیں جانور بول رہا ہے۔ حالانکہ لاؤڈسپیکر کی غرض یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ بولنے والے کے گلے پر بوجھ پڑے تمام حاضرین تک آواز پہنچ جائے۔ اگر یہ غرض پوری نہ ہو تو پھر لاؤڈ سپیکر اکثر اوقات بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہوجاتا ہے۔
اسی طرح کئی انتظام اس قسم کے ہیں جن کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال نئے سرے سے سوچے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہر سال ہی بدلتے ہیں۔ مثلاً پولیس آتی ہے گورنمنٹ نے ان کا فرض مقرر کیا ہؤا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ لکھ کے لاؤ۔ اب تمہیں تو اس پر خوش ہونا چاہئے بے شک جو شخص سیڈیشن (SEDITION)کی باتیں کرتا ہے، فساد کی باتیں کرتا ہے وہ تو ڈرے گا کہ یہ میری رپورٹ لکھیں گے اور اوپر پہنچےگی تو خبر نہیں کیا ہوگا۔ ان کو کسی طرح دق کر کے نکالو مگر تمہاری تو یہ کیفیت ہے کہ ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' تمہیں کہتے ہیں تبلیغ نہ کرو اور آپ ہماری تبلیغ لے کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ رپورٹ پہلے سپرنٹنڈنٹ پولیس پڑھتا ہے پھر ڈپٹی کمشنر پڑھتا ہے پھر کمشنر پڑھتا ہے پھر چیف سیکرٹری پڑھتا ہے پھر گورنر صاحب پڑھتے ہیں وزیر پڑھتے ہیں۔ غرض ادھر کہتے ہیں تبلیغ نہ کرو اور ادھرخود سامان کرتے ہیں کہ ہمیں تبلیغ کرو۔ اس سے زیادہ تمہارے لئے اور کونسا اچھا موقع ہو سکتا ہے۔ پس ہمیشہ ان کے لئے اچھی جگہ بنانی چاہئے اور انہیں ایسا موقع دینا چاہئے کہ وہ تمہارا ایک ایک لفظ لکھیں تاکہ اوپر کے سارے افسر وہ ایک ایک لفظ پڑھیں جو تم نے تبلیغ کے سلسلہ میں کہے ہیں۔ بہر حال اگر تو رپورٹر جھوٹ بولنے والا ہے تو لکھنے سے جھوٹ کم ہو جاتا ہے کیونکہ اگر تم اس کو اچھی طرح لکھنے کا موقع نہیں دوگے تو وہ جا کے ساری تقریر اپنے پاس سے بنائے گا اور اس میں بہت زیادہ اس کے لئے جھوٹ کا موقع ہوگا اور اگر وہ لکھے گا تو لکھنے کی وجہ سے اس کا جھوٹ کم ہو جائے گا اور اگر وہ شریف آدمی ہے تو پھر جو کچھ وہ لکھے گا وہ تمہاری اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہوگی۔ گویا لوگ تو تمہیں تبلیغ سے روکتے ہیں اور خداتمہارے لئے دروازہ کھولتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے تمہاری تبلیغ کا ایک راستہ کھول دیا ہے وہ آپ آتے ہیں اور لکھتے ہیں اور اوپر کے افسران تقریروں کو پڑھتے ہیں۔ اگر تم مثلاً یہاں کے جلسہ کی تقریروں کا ایک رسالہ لکھو اور ڈپٹی کمشنر کو جاکے کہو کہ پڑھ۔ تو شرم سے وہ لے تو لے گا۔ کہے گاشکریہ، بہت اچھا۔ لیکن گھر میں جا کر پھینک دے گا اور کہے گا مجھے کہاں فرصت ان باتوں کی۔ سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تم وہی رسالہ جا کے دے دو تو وہ مُنہ سے تو کہہ دے گا کہ بہت اچھا شکریہ بڑی مہربانی کہ آپ یہ رسالہ لائے ہیں اور جا کے گھر میں پھینک دے گا بلکہ شاید اس کے گھر کی باورچن یا باورچی اس سے چولہا ہی جلائے۔ اسی طرح اوپر کمشنر کے پاس لے جاؤ تو وہ کبھی نہیں پڑھے گا۔ چیف سیکرٹری کے پاس لے جاؤ تو وہ کبھی نہیں پڑھے گا لیکن یہ پولیس والے جو کچھ تمہاری تبلیغ کی باتیں لکھیں گے انہیں یہ سارے پڑھیں گے۔ وہ ایک ایک لفظ پڑھتے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید آگے وہ لفظ آئے گا جو ہمارے کام کا ہے پھر اور آگے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آگے آئے گا اتنے میں تمہاری ساری بات سنی جاتی ہے۔ تو یہ تو ایک اعلیٰ درجہ کا موقع خدا تمہارے لئے نکالتا ہے۔تمہیں تو اگر ڈرانا جائز ہوتا تو تم کو چاہئے تھا کہ انہیں جا کے ڈرا تے کہ اب کے خبر نہیں کیا کیا خطرناک تقریر ہو رہی ہے بہت سا عملہ بھیجا جائے جو ایک ایک لفظ نوٹ کرے کیونکہ بڑی بھاری باتیں ہونیوالی ہیں۔ بہرحال جتنا تمہارا ریکارڈ اوپر بھیجیں گے اُتنا ہی تمہارے لئے مفید ہوگا اور اُتنی ہی تمہاری تبلیغ ہے کیونکہ ایک ایک جگہ پر بیس بیس، پچاس پچاس افسر اِس کو پڑھ لیتا ہے اور تمہاری تبلیغ ہو جاتی ہے۔ یہ چیزیں ہمیشہ ہوتی ہیں لیکن ہر دفعہ ہی میرے پاس شکایت آجاتی ہے کہ کرسیوں کا انتظام نہیں تھا یا میزوں کا انتظام نہیں تھا یا بعض اَور اس قسم کی تکلیفیں تھیں جن سے ان کے کام میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض دفعہ وہ ہمارا فرض نہیں بھی ہوتا لیکن میں تو یہ بتاتا ہوں کہ فرض کا سوال نہیں تم کو تو خوشی ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے تبلیغ کا ایک رستہ کھولا ہے پھر بہر حال جو لوگ آتے ہیں وہ تو سنتے ہی ہیں۔ مثلاً مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ اِس دفعہ پولیس کی قریباً چالیس پچاس کی نفری آئی ہے اب یہ کتنی اچھی بات ہے کہ تمہارے لئے چالیس پچاس آدمی آ گیا جو سننے پر مجبور ہے کیونکہ اس کی ڈیوٹی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ سُنے۔ اگرتمہاری باتیں سچی اور اچھی ہیں تو ان میں سے ہی ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جن کے دلوں پر وہ باتیں اثر کریں گی اور وہ صداقت کو قبول کر لیں گے۔
اس کے بعد اور کسی دوسرے مضمون کے شروع کرنے سے پہلے میں عورتوں سے خطاب کرتا ہوں۔ کیونکہ اس دفعہ پھر عورتوں کے لئے تقریر کا الگ انتظام نہیں ہو سکا۔
عورتوں کے لئے جو ان کا خصوصی فرض مقرر کیا گیا ہے میں اس کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں اور وہ مسجد ہالینڈ ہے۔ ہالینڈ کی مسجد کا بنانا عورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس فرض کو عورتوں نے اس تن دہی سے ادا نہیں کیا جس طرح کہ وہ پہلے ادا کیا کرتی تھیں۔ مسجد ہالینڈ کا سارا چندہ اس وقت تک غالباً ساٹھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہؤا ہے۔ لیکن اس کے اوپر جو خرچ کا اندازہ ہے وہ جیسا کہ میں نے پچھلے سال بیان کیا تھا قریباً ایک لاکھ دس ہزار روپے کا ہے۔ بلکہ اب تو کچھ اور دقتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ یعنی جو آرچی ٹیکٹ (Architeck) تھا اس نے اپنا نقشہ دیتے ہوئے لکھ دیا کہ ساٹھ ہزار میں مسجد بنے گی۔ جب دوسرے ماہرین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نوے ہزار لگے گا۔ اب اگر ان کا اندازہ صحیح ہو تو نوے ہزار یہ اور تیس ہزار کی زمین ہے۔ ایک لاکھ بیس ہزار ہؤا۔ پھر جو نگرانی وغیرہ پر خرچ ہو گا۔ پانچ چھ ہزار اس کا بھی اندازہ لگا لو۔ پانچ چھ ہزار فرنیچر کا لگا لو۔ تو ایک لاکھ تیس ہزار بن گیا۔ اس لحاظ سے بھی قریباً ستّر ہزار کی رقم کی ضرورت ہے۔ مجھے ابھی چلتے وقت دفتر نے رپورٹ بھجوائی ہے کہ سارے سال میں عورتوں سے اکیس ہزار روپیہ مانگا گیا تھا۔ اور انہوں نے نو ہزار جمع کر کے دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے منتظمین میں بھی کسی قدر سستی پائی جاتی ہے۔ یا یہ کہو کہ ان کو کام کرنے کا طریقہ نہیں آتا۔ جو ان سے پہلے لوگ گزرے ہیں وہ کام کروا لیتے تھے۔ لیکن موجودہ عہدہ دار جو پچھلے سال سے بدلے ہیں کام کروا نہیں سکتے۔ لیکن ہانپتے ضرور ہیں۔ کہ ہم نے اتنا کام کیا۔ اور یوں لوگوں میں شور مچایا۔ لیکن بہرحال شور مچانا وہی کارآمد ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ نکلے۔ اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ کام کرنے والے کے طریق کار میں کوئی نقص ہے۔ مثلاً لجنہ ہے لجنہ نے اپنا ہال وغیرہ بنا لیا ہے اور اس پر انہوں نے پچاس ہزار کے قریب روپیہ لگایا ہے۔ وہ آخر جمع ہو گیا کہ نہیں اور وہ روپیہ انہوں نے اس صورت میں اکٹھا کیا ہے جبکہ ابھی مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتیں دے رہی تھیں۔ جب وہ ان سے ایک مقامی ہال کے لئے ایک دو سال میں اتنی رقم جمع کر سکتی تھیں تو وہ مسجد جو کہ نسلوں تک عورتوں کا نام بلند کرنے اور ان کے ثواب کو زیادہ کرنے کا موجب ہو سکتی تھی اس کے چندہ کے جمع کرنے میں وہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ یقیناً کام کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اور کم از کم مجھ پر یہی اثر ہے۔ بڑا ذریعہ ہمارے ہاں اشتہارات کا اور لوگوں کو توجہ دلانے کا اخبار ‘‘الفضل’’ ہوتا مگر میں نے تو ‘‘الفضل’’ میں کبھی ایسی شکل میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں پڑھا کہ جس سے مجھ پر یہ اثر ہؤا ہو کہ صحیح کوشش کی جا رہی ہے۔ پس میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ان کے ذمہ اسّی ہزار روپیہ پورا کرنا ہے۔ اور اب تو مسجد کے نقشے وغیرہ بن گئے ہیں اور کچھ مقدمہ بازی بھی شروع ہو گئی ہے کیونکہ آرچی ٹیکٹ (Architect) نے کہ ہے کہ تم نے کئی نقشے بنوائے تھے سب کی قیمت دو اور ہمارے آدمی کہہ رہے ہیں کہ جو نقشے کام نہیں آئے ان کی قیمت کیوں دیں۔ اب اس نے نالش کر دی ہے اور اس نے وہاں کی عدالت کے سمن ربوہ میں بھجوائے ہیں حالانکہ اس سے معاہدہ تو مقامی امیر یا امام نے کیا تھا۔ اس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ نہ تحریک وہاں پہونچے گی اور نہ عدالت میں اپنا جواب دے گی اور یکطرفہ ڈگری ہو جائے گی۔ اگر وہ مسجد جلدی سے بننی شروع ہو جائے تو پھر سوال حل ہو جاتا ہے۔ دراصل وہاں قاعدہ یہ ہے کہ آرچی ٹیکٹ کا نقشہ اگر رد کر دیا جائے تو اس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس زمین کو جس پر مکان بنوایا جاتا ہے نیلام کروا کے اپنی قیمت وصول کر لے اور یہی اس کی غرض ہے۔ اگر اس پر مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تو پھر کسی کو جرأت نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کے نیلام کا سوال اٹھائے کیونکہ وہ تو خدا کا گھر ہو گیا۔ اور وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ساری دنیائے اسلام میں شور مچ جائے گا۔ پس اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کا جلد ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ وہ جگہ محفوظ ہو جائے اور آئندہ کسی کو شرارت کرنے کا موقعہ نہ ملے۔
‘‘دوسری چیز جس کی طرف میں خواتین کو توجہ دلاتا ہوں وہ پردہ ہے۔ پرانے زمانہ میں پردہ کو اتنی بھیانک صورت دے دی گئی تھی کہ وہ ایک اچھا خاصا قید خانہ تھا پردہ نہیں تھا حالانکہ اسلامی تاریخ میں اس قسم کے پردے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔نہ تو اسلامی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں گھروں میں بیٹھی رہتی تھیں، نہ اسلامی تاریخ سے یہ ثبوت ملتاہے کہ وہ کسی مرد سے کسی صورت بھی کلام نہیں کرتی تھیں، نہ اسلامی تاریخ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ اپنے مُنہ کو اس طرح بند کرتی تھیں کہ ان کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا لیکن پردہ پھر بھی تھا مگر آجکل اس کا رد عمل ایسا ہؤا ہے اور پردہ کی شکل کو ایسا بدل دیا گیا ہے کہ پتا ہی نہیں لگتا کہ ہم پردہ کس چیز کا نام رکھیں۔ مسلمان عورتیں پارٹیوں میں بھی شامل ہوتی ہیں، گانے بھی گاتی ہیں، مردوں کے ساتھ مصافحے بھی کرتی ہیں، ان کے ساتھ خوب باتیں بھی کرتی ہیں، ان کے سٹیجوں پر جا کر تقریریں بھی کرتی ہیں، ان کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور پھر کہا یہ جاتا ہے کہ یہ اسلامی پردہ ہے۔ یہ اسلامی پردہ ہے تو غیر اسلامی پردہ کون سا ہوتا ہے؟ آیا غیر مسلم عورتیں ننگی پھرا کرتی ہیں؟ جس حد تک آجکل ہماری وہ عورتیں جو باہر جاتی ہیں لباس پہنتی ہیں، وہی یورپین عورتیں بھی پہنتی ہیں۔ جس حد تک یہ سوسائٹی میں شامل ہوتی ہیں اسی حد تک عیسائی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں پھر پردہ کون سا ہؤا۔ آخر ایک لفظ کا تو قرآن سے پتا لگتا ہے اور اس کے کوئی معنی ہوں گے وہ کیا معنے ہیں؟ جو بھی اس کے وہ معنے کرتے ہیں آیا اس پروہ عمل کرتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو چلو اتنا ہی عمل کرنا شروع کر دو پھر آگے چل پڑیں گے مثلاً یورپ میں جو عورتیں ہمارے ذریعہ سے مسلمان ہوتی ہیں یا امریکہ میں ہوتی ہیں یا انڈونیشیا میں ہوتی ہیں (انڈونیشیا والے گو مسلمان ہیں لیکن ان کے ہاں پردہ ایسا ہی ہے جیسا یورپ اور امریکہ میں ) تو ان سے ہم یہ نہیں کہتے کہ تم فوراً پردہ شروع کر دو۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کو نسلاً بعد نسلٍ بے پردگی کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ ان کے مکان ایسے بنے ہوئے ہیں کہ اگر وہ ان میں پردہ کریں تو بیمار پڑ جائیں اور پھر ان کی سوسائٹی کی حالت اس قسم کی ہے کہ اگر وہ اس قسم کا پردہ کریں تو انہیں فاقے آنے شروع ہو جائیں۔ جیسے ہمارا زمیندار ہوتا ہے اس کی بیوی جب تک کھیت میں جا کر کام نہیں کرتی اس کی زمینداری چلتی نہیں ہم اس کو کبھی نہیں کہتے کہ تو شہری عورتوں والا پردہ کر یا دوسری پڑھی لکھی عورتوں یا گھر کی کھاتی پیتی عورتوں والا پردہ کر۔ اسی طرح اگر وہ بھی اپنی ضرورتوں کے مطابق کرتی ہیں تو کر لیں لیکن ہم ان کو یہ سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ دیکھو اس اس حد تک تم پردہ کرنا شروع کرو لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ پردہ اس سے زیادہ ہے مثلاً یورپ اور امریکہ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنا گلا ڈھانک لیا کرے اس طرح اپنا سر ڈھانک لیا کرے لیکن ساتھ ہی ہم انہیں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پردہ اس سے زیادہ ہے لیکن تمہارے حالات میں سردست اس سے زیادہ ہم نہیں چاہتے کہ جب آہستہ آہستہ تمہاری تعداد میں زیادتی ہوتی جائے گی اور عمرانی دباؤ تمہارے حق میں پیدا ہونا شروع ہو جائے گا تو اس وقت ہم تم سے یہ خواہش کریں گے کہ اپنے پردے کو بڑھاؤ اور آہستہ آہستہ اس پردے تک پہنچ جاؤ جس کا اسلام تم سے تقاضا کرتا ہے۔ اس پردے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بد انتظامی ہو تو اور بات ہے۔ ہم نے عورتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمیں قادیان میں بھی دلوا دی تھیں اور یہاں بھی دلوا دی ہیں خود میری ایک بیوی ایم ۔اے ہے، دوسری بی۔ اے کی تیاری کر رہی ہے ایک میری لڑکی سیکنڈ ایئر میں پڑھ رہی ہے عورتیں سکول اور کالج میں پڑھاتی ہیں اور اگر مرد پڑھانے کے لئے آتے ہیں تو پسِ پردہ بیٹھ کر پڑھا دیتے ہیں۔ مجھ سے کئی لوگوں نے جب بات کی اور ان کو بتایا گیا کہ ہمارے ہاں اِس حد تک کی تعلیم ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر اعتراض ان کایہی ہوتا ہے کہ پردہ کرنے سے عورتوں کی صحتیں خراب ہو جاتی ہیں اور ان کی تعلیم اچھی نہیں ہوتی۔ جب ہم بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم بھی ہو رہی ہے اور صحتیں بھی ان کی خراب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہیں تو ان کے لئے یہ بات بڑی حیرت کا موجب ہوتی ہے بہرحال پردہ ایک اسلامی حکم ہے اور اس کو تم نے پورا کرنا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ امریکہ اور انگلستان اور جرمنی اور فرانس والے لوگ خدا اور محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو پورا کریں گے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عیسائیت نے نہیں کرنی، پوپ نے نہیں کرنی، آرچ بشپ آف کنٹر بری نے نہیں کرنی، مسلمان نے کرنی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تم ایک دن میں اس میں تغیّر پیدا کر لو لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ تم نئی رسمیں نہ جاری کرو۔ جو پہلے بھی پردہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کو ہم آہستہ آہستہ ادھر لائیں گے مگر جو پردہ کرتی تھیں وجہ کیا ہے کہ وہ ایک دن میں پردہ سے باہر نکل آتی ہیں۔ ابھی دو مہینے کی بات ہوتی ہے کہ وہ عورت بڑا پردہ کرتی ہے اس کی صحت بھی ٹھیک ہوتی ہے، اس کا سانس بھی کبھی نہیں رکا، دم بھی نہیں گھٹا وہ دمہ کا دورہ بھی نہیں ہؤا مگر دو مہینے کے بعد وہ وہی باتیں طوطے کی طرح دوہرانا شروع کر دیتی ہے کہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے اس میں یہ ہوتا ہے اس میں وہ ہوتا ہے۔ تیری ماں کی صحت خراب نہیں ہوئی، تیری بہن کی نہیں ہوئی تیری خالہ کی نہیں ہوئی، تیری پھوپھی کی نہیں ہوئی اب تک تیری نہیں ہوئی تھی آج یکدم کیوں خراب ہونے لگی ہے صرف اس لئے کہ اب تجھے ایسا آزاد خاوند مل گیا ہے جو چاہتا ہے کہ تو بھی آزاد پھرے۔ پس جو پہلے سے بے پردہ پھرتی ہیں ان کو تو بے شک روکنے میں وقت چاہیئے اور حکمت اور سہولت اور نرمی کے ساتھ ہر ایک کام ہونا چاہئے مگر جو اسلام اور قرآن کو مانتے ہوئے پردہ چھوڑتی ہیں ان سے ہم پہلا مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف کی عزت رکھنا تمہارے اختیار میں ہے تمہیں پردہ میں جو دقتیں اور مشکلات نظر آتی ہیں یا اسلامی اصول کے خلاف باتیں دکھائی دیتی ہیں ان کے متعلق گفتگو کرو بحثیں کرو اور ایک نتیجہ پر پہنچ کر جو شدتیں لوگوں نے پیدا کر لی ہیں ان کو دور کرو یہ بے شک تمہارا حق ہے اور تمہیں ان سے کوئی روک نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام ایک دفعہ امرتسر یا لاہور کے اسٹیشن پر پھر رہے تھے اور حضرت اماں جان کو ساتھ لیا ہؤا تھا۔ مولوی عبدالکریم صاحب احمدیت سے پہلے وہابی تھے پھر نیچری خیال کے ہوئے سرسید کے بہت معتقد ہو گئے تھے اور پھر احمدی تو ہوئے مگر ان کی طبیعت پر پرانے خیالات کا اثر زیادہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو وہاں ٹہلتے ہوئے دیکھ کر انہیں خیال آیا کہ اب خبر نہیں کیا ہو جائے گا لوگ اعتراض کریں گے۔ اس زمانہ میں تو عورت کا باہر برقعہ میں نکلنا بھی عیب سمجھا جاتا تھا کجا یہ کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ٹہل رہی ہو چنانچہ وہ گھبرائے ہوئے حضرت خلیفہ اوّل کے پاس گئے مجھے حضرت خلیفہ اوّل نے یہ واقعہ خود سنایا تھا کہنے لگے مولوی عبد الکریم صاحب میرے پاس آ ئے اور آ کے کہا کہ کتنا ظلم ہو گیا ہے اب کل دیکھئے سارے اخباروں میں شور پڑا ہؤا ہو گا۔ میں نے کہا کیا ظلم ہو گیا ہے۔ کہنے لگے دیکھئے مرزا صاحب کو تو پتہ ہی نہیں وہ تو اپنے خیال میں محو رہتے ہیں کوئی مسئلہ ہی سوچ رہے ہو ں گے یا کسی اور طرف متوجہ ہوں گے اور دیکھئے ساتھ ساتھ بیوی صاحبہ کو لے کر ٹہل رہے ہیں اب کیا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پھر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے آپ جائیے اور جا کر ان کو سمجھائیے کہ حضور کیا کررہے ہیں کل کو تمام دنیا میں شور پڑ جائے گا۔ کہنے لگے میں نے کہا مولوی صاحب میں تو کہتا نہیں اور نہ مجھ میں جرأت ہے اور اگر کہہ لیں گے تو آگے کون سی لوگوں نے ہماری عزت باقی رکھی ہوئی ہے اور پھر اس میں حرج کیا ہے۔ اس پر وہ بڑے جوش میں آ گئے اور کہنے لگے آپ کو یہ خیال ہی نہیں ہے کہ کس طرح جماعت کی بدنامی ہو گی اور پھر آپ غصہ سے گئے اور جا کر حضرت صاحب سے کچھ کہا۔ آپ فرماتے تھے جب مولوی صاحب لوٹے تو میں نے شکل دیکھ کر سمجھا کہ کوئی اچھی بڑی جھاڑ پڑی ہے۔ سر جھکایا ہؤا تھا اور خاموش چلے آ رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر کہا کہ مولوی صاحب کہہ آئے کہنے لگے ''ہاں کہہ آئے'' میں نے کہا کہ پھر مرزا صاحب نے کیا جواب دیا (آپ فرماتے تھے میں دیکھ رہا تھا کہ جب انہوں نے بات کی تو حضرت صاحب کھڑے ہو گئے حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جس وقت کوئی بات قابلِ اعترض یا قابلِ تشریح ہوتی تھی تو کھڑے کھڑے زمین پر اپنی سوٹی رکھ کر رگڑتے تھے۔ میں نے آپ کو سوٹی رگڑتے ہوئے دیکھا تھا جس سے میں سمجھ گیا کہ حضرت صاحب نے جوش میں کوئی بات کی ہے۔ بہرحال جب میں نے پوچھا کہ کیا ہؤا) کہنے لگے جب میں نے کہا تومرزا صاحب نے میری طرف مڑ کے دیکھا اور کہا مولوی صاحب مخالف کیا لکھیں گے کیا یہ کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو جب کہ وہ برقعہ میں تھی لے کر ٹہل رہے تھے۔ بس یہ کہہ کر آگے چل دیئے۔ آپ نے کہا یہی میں آپ کو کہہ رہا تھا کہ آخر ہؤا کیا۔ خاوند اپنی بیوی کو جو پردہ میں ہے لے کر ٹہل رہا ہے اس میں قابلِ اعتراض بات کون سی ہے۔ تو کئی چیزیں ایسی تھیں جن کو لوگوں نے تمسخر بنایا ہؤا تھا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دلّی میں دیکھا ہے کہ اردگرد پردہ کر کے ڈولی آئی پھر ڈولی کے گرد پردہ کیا اور پھر عورت کو اندر بٹھایا۔ یہ ساری باتیں لغو ہیں لیکن اس کا ردِ عمل یہ تو نہیں ہونا چاہیئے کہ تم اپنے باپ دادا کی سزا خدا کو دینا شروع کر دو۔ تمہارے باپ دادوں نے تم پر ظلم کئے، تمہارے باپ دادوں نے تم کو قید کیا، تمہارے باپ دادوں نے تمہیں ایسی حالت میں رکھا جو جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ تمہیں چڑیا خانوں میں رکھا لیکن کیا اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ تم خدا کے حکم کو رّد کر دوگی۔ یہ تو بالکل وہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی نمبر دار کسی جلاہے کا برتن مانگ کر لے گیا اور پھر اس نے وقت پر اس کو واپس نہ کیا کچھ مدت انتظار کرنے کے بعد جلاہا نمبردار کے گھر گیا تا کہ اپنا برتن واپس لے۔ وہ گیا تو اتفاقاً اسی کے برتن میں (وہ کٹورا تھا جسے پنجابی میں چھنّا کہتے ہیں) وہ سالن ڈال کر کھا رہا تھا یہ دیکھ کر اس کو اور آگ لگ گئی۔ پہلے تو اسے یہی غصہ تھا کہ اتنی دیر ہو گئی اس نے برتن واپس نہیں کیا اب اس برتن میں اسے سالن کھاتے دیکھ کر اسے اور غصہ چڑھا اور کہنے لگا ''اچھا نمبردار یہی سہی تُو مجھ سے کٹورا مانگ کر لایا تھا اور واپس نہ کیا بلکہ اس میں سالن ڈال کر کھا رہا ہے اب میرا بھی نام بدل دینا اگر میں تم سے برتن مانگ کر نہ لے جاؤں اور اس میں غلاظت ڈال کر نہ کھاؤں'' اپنی طرف سے اس نے سمجھا کہ میں نے اس کو سزا دی ہے مگر اصل سزا خود اپنے نفس کو دی تھی اسی طرح اگر تم بھی کرتے ہو تو یہ حماقت کی بات ہے۔ تم نے اپنے باپ دادوں کو جو سزا دینی ہے دے لو۔ خدا تعالیٰ کو کیوں سزا دینا چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو حکم بھی دیا ہے خیر والا دیا ہے، بہتری والا دیا ہے اور اس کے نتائج یقینا بڑے بابرکت ہیں لیکن جو تمہیں تمہارے باپ دادا نے دکھ دیا تھا اس کی جگہ پر تم یہ کر رہی ہو کہ تم نے خداتعالیٰ کے احکام کو توڑنا شروع کر دیا ہے۔

مردوں کی ذمہ داریاں
میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو فوجی ہیں۔ فوجیوں میں سے
پچاس فیصدی افسر ایسے ہیں جن کی بیویوں نے پردہ چھوڑ رکھا ہے اور جب ان کی بیویوں کو سمجھایا جائے تو کہتی ہیں کیا کریں ہمارے خاوند کہتے ہیں کہ اس کے بغیر ترقی نہیں ہوتی۔ جب تک تم مجلسوں میں نہیں آؤ گی دعوتوں میں نہیں آؤ گی ہمارے افسر ہمارے متعلق سمجھیں گے کہ یہ کوئی اچھا مہذب افسر نہیں ہے اور اس کی وجہ سے وہ ہم کو اعلیٰ ترقی نہیں دیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک ایسا ہوتا بھی ہے گو یہ بہت زیادہ مبالغہ ہے میرے ایک عزیز جو فوت ہو گئے ہیں ریلوے کی تعلیم پا کر انگلینڈ سے آئے تو میں نے ان کے لئے کوشش کی کہ وہ کہیں ملازم ہو جائیں۔ اتفاق ایسا ہؤا کہ ان کی نظر میں کچھ نقص نکلا جس کی وجہ سے گورنمنٹ ریلوے میں وہ نہیں آ سکے۔ پھر ایک انگریز افسر جو بڑے عہدہ پر تھا اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ ولایت سے پڑھ کر آیا ہے اس کو نقصان پہنچا ہے وعدہ کیا کہ میں بنگال ریلوے میں جو اُس وقت تک گورنمنٹ نے ابھی خریدی نہیں تھی اسے ملازم کروا دوں گا چنانچہ انہوں نے سفارش لکھ کر بھیجی کہ اس کو وہاں نوکر رکھ لیا جائے۔ یہ وہاں گئے اور پھر واپس آ گئے میں نے پوچھا کیا ملازم ہو گئے؟ تو وہ کہنے لگے نہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے وہاں جو دوافسر انٹرویو کے لئے بیٹھے تھے انہوں نے جاتے ہی مجھ سے یہ سوال کیا کہ تمہاری بیوی پردہ کرتی ہے میں نے کہا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی اور اگر ہوتی بھی تو میں اس سے پردہ کراتا۔ میں نے کہا کہ تمہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اتنا کہہ دیتے کہ میری شادی نہیں ہوئی کہنے لگے اس کے بعد امرتسر کا ایک اور شخص پیش ہؤا (وہ ایک بڑا افسر ہو کے غالباً ابھی ریٹائر ہؤا ہے) اور ہنستا ہؤا واپس آیا۔ کہنے لگا دیکھو تم نے یہ بیوقوفی کی تھی۔ میری بھی ابھی شادی نہیں ہوئی لیکن جب انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا ہاں صاحب میری بیوی ہے اور وہ ٹینس کلب میں جا کر کھیلتی ہے اور ناچتی ہے چنانچہ انہوں نے اُس کو فوراً رکھ لیا اور اِن کو رّد کر دیا۔ میں نے کہا تمہاری تو بیوی ہی کوئی نہیں تم نے یہ کیا کیا؟ وہ کہنے لگا نہیں ہے تو کیا ہؤا مجھے یہ تو حکم نہیں دے سکتے کہ نوکری کے بعد اپنی بیوی کو ضرور بلاؤ اور جب میری شادی ہو جائے گی تو میں نے اس سے پردہ کروانا ہی نہیں۔ یہ شکایات زیادہ تر فوجی افسروں کے متعلق ہیں۔ ایک دن ایک عورت آتی ہے یا اس کے رشتہ دار آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ خوب پردہ کرتی ہے اور پھر دو مہینے کے بعد وہی بے پرد ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ تو ہم نے ایسا دیکھا ہے کہ شادی کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال فوج میں گزارے ہیں اور پردہ ہؤا ہے لیکن جب ترقی کا سوال آیا کہ شاید اب کرنیلی کے اوپر بریگیڈیئر ہو جائیں تو پردہ چھوڑ دیا۔ گویا وہ بیوی کی بھیک سے بریگیڈیئر بننا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں میں مثال نہیں دیتا ورنہ ان لوگوں کے نام ظاہر ہو جاتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں۔ بہرحال ایسی ایسی باتیں دیکھی گئی ہیں جو حیرت انگیز ہیں اگر تو کوئی شخص یہی کہتا کہ چلو میں ان باتوں کو نہیں مانتا تو اس میں بھی کم سے کم کچھ وقار تو ہوتا ہے مگر بیوی کو ان کی جھولی میں ڈال کر یا اپنی بھیک کے ٹھیکرے میں بیوی ڈال کر اپنی ترقی لینی یا اپنی عزت لینی بہت ہی چھچھوری اور ذلیل بات ہے۔ یہ چیز ہے جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ عورتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور ساتھ ہی مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں تو وہ ذرا ہمت کریں۔ جن کو ترقیاں نہیں ملتیں ان کو پھر بھی نہیں ملتیں۔ آخر کیا سارے کرنیل جرنیل ہوگئے ہیں، کیا سارے میجر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ہو گئے ہیں، کیا سارے لیفٹیننٹ جنرل فُل جنرل ہو گئے ہیں۔ تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تمہاری بیوی کے پردے کی وجہ سے تم فُل جرنیل نہیں ہوئے۔ تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تمہاری بیوی کے پردے کی وجہ سے تم لیفٹیننٹ جنرل نہیں ہوئے۔ تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تم بریگیڈیئر سے میجر جنرل صرف پردہ کی وجہ سے نہیں ہوئے۔ کہنے والے تمہیں دھوکا دینے کے لئے بیسیوں باتیں کہہ دیتے ہیں۔ اسی طرح کوئی یہ بھی کہہ دیتا ہو گا کہ جناب آپ کی بیوی چونکہ پردہ کرتی ہے اس لئے آپ کی طرف افسروں کی توجہ نہیں لیکن یہ یاد رکھو کہ ایسے معاملات کے ساتھ کچھ وقار کی حِس بھی وابستہ ہوتی ہے اگر تم کسی کے اندر یہ عیب دیکھو تو اس کو بڑی محبت اور ہوشیاری کے ساتھ سمجھاؤ بیوقوفی سے نہ سمجھاؤ کیونکہ یہ نقص تبھی پیدا ہوتا ہے جب وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بڑا عہدہ ملے اور اس وجہ سے انہوں نے پہلے سے ہی اپنا ایک بڑا مقام قائم کیا ہؤا ہوتا ہے اور جس نے پہلے سے اپنا بڑا مقام کیا ہؤا ہو اگر اس کو ذرا سی ٹھیس لگے تو وہ یقینا گر جائے گا ۔ حضرت خلیفہ اوّل اپنے ایک داماد کا جو اہلِ حدیث تھے۔ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہنے لگے انہیں اس بات کا بڑا جوش رہتا تھا کہ ذرا کسی کی غلطی دیکھی تو کھڑے ہو گئے اور اسے کہنا شروع کر دیا کہ تم جہنمی ہو، تم کافر ہو، تم مرتد ہو۔ وہ ایک دفعہ مجلس میں آئے ہوئے تھے کہ ایک زمیندار رئیس جو ہمارا دوست تھا اور غیراحمدی تھا ہم سے ملنے کے لئے آ گیا۔ حضرت خلیفہ اوّل سرگودھا کی طرف کے تھے اور یہاں جتنے بڑے زمیندار ہوتے ہیں وہ لمبی لمبی تہبندیں باندھتے ہیں جو زمین کے ساتھ لٹکتی چلی جاتی ہیں اور وہ اسے ایک فخر کی چیز سمجھتے ہیں جیسے انگریزوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں کی کریز بڑی صاف ہے ان کے ہاں یہ ہوتا ہے کہ تہبند زمین پر لٹکے اور وہ جھاڑو دیتا چلا جائے جیسے ملکہ الزبتھ اوّل کی گاؤن ہؤا کرتی تھی۔ اگر ایسا ہو تو اس کو وہ بڑی عزت کی چیز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنا رُعب جمانے کے لئے مجلس میں آرہا تھا اور اس کی تہبند زمین پر لٹکی ہوئی تھی۔ ادھر یہ وہابی صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور مسواک انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی انہوں نے مسواک لی اور اس کے پیر پر مار کر کہنے لگے ''یہ جہنم میں جائے گا'' کہنے لگے وہ اچھا بھلا مسلمان تھا لیکن چونکہ اَور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور وہ اپنے آپ کو علاقہ کا رئیس سمجھتا تھا۔ جب اس نے کہا ''جہنم میں جائے گا'' تو بڑی گندی گالی دے کر کہنے لگا ''تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔ میں کوئی مسلمان نہیں'' گویا جَھٹ اس نے چھلانگ مار کر اسلام سے ہی انکار کر دیا۔ تو پیار اور محبت کے ساتھ ان باتوں کا ازالہ کرو سختی کے ساتھ نہ کرو کیونکہ اگر تم سختی کرو گے تو پھر اسلام کے ساتھ جو کچھ بھی ان کی وابستگی اس وقت باقی ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں اصل نہیں ہیں جڑ تو ہے محبتِ الٰہی، جڑ تو ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت۔ جب یہ چیزیں قائم ہو جائیں گی تو باقی چیزیں آہستہ آہستہ آپ ہی آ جائیں گی مگر یہ ضرور ہے کہ کم سے کم نیکی ان کی یہ ہے کہ وہ کہیں کہ ہم پردہ تو نہیں کرتے لیکن اسلام کا حکم یہی ہے کہ پردہ کیا جائے مثلاً ہم نے یورپ اور امریکہ کی نو مسلم عورتوں کو یہی تعلیم دینی شروع کی ہے کہ تم اتنا گلا ڈھانک لیا کرو، سر ڈھانک لیا کرو اور ایک تم ہم سے وعدہ کر لو کہ جب کہیں پردے کا ذکر ہوتو تم یہ کہو کہ حکم تو وہی ہے پر میں کر نہیں سکتی۔ اس سے کم سے کم تمہاری اولاد میں احساس پیدا ہو گا کہ ہم اور زیادہ کر لیں۔ یہاں ہمارے انڈونیشیا کے دوست بیٹھے ہیں یہ وہاں کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ ان میں پردہ بالکل نہیں اور یہ بات ہمارے لئے بعض دفعہ بڑی عجیب ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شاید یہ نئی چیز ایجاد کی ہے حالانکہ ان میں نسلاً بعد نسلٍ کبھی پردہ تھا ہی نہیں۔ کوئی شخص ہمارے مبلغ کا مخالف تھا اس نے کیا کیا ایک تصویر مجھے بھجوا دی کہ آپ کے مبلغ یہ کام کرتے ہیں۔ اس میں ہمارے مبلغ صاحب بیٹھے ہوئے بالکل یوں معلوم ہوتے تھے جیسے کرشن جی بیٹھے ہیں اردگرد ساری عورتیں بے پرد پھر رہی تھیں کوئی ادھر کوئی درخت پر چڑھی ہوئی تھی، کوئی دریا میں کودی ہوئی ہے۔ میں اس بات کو جانتا تھا کہ وہاں تو پردہ ہی نہیں چنانچہ میں نے اس کو لکھا کہ اس کا کیا قصور ہے۔ جب یہ مبلّغ پیدا بھی نہیں ہؤا تھا تب سے وہاں کی عورتیں یہ کام کر رہی ہیں اس میں اس مبلّغ کا کیا قصور ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ان میں بالکل یورپ کی طرح رواج ہے اور خواہ ہمارا مبلغ ہو یا کوئی ہو وہ ہر ایک کے سامنے اسی طرح کرتی ہیں۔ اب بعض عورتیں وہاں ایسی گئی ہیں جو پردہ کرتی ہیں مثلاً میری بہو گئی ہے، حافظ قدرت اللہ کی بیوی گئی ہے یہ دونوں پردہ کرتی ہیں۔ پیچھے ان کے رئیس المبلّغین یہاں آئے تھے اور ان کی بیوی بے پرد تھی۔ انہوں نے کہاوہاں کوئی پردہ کرتا ہی نہیں لیکن یہاں کی عورتوں کو دیکھ کر اب وہاں بُرقع شروع ہو گیا ہے اور چند عورتوں نے پہنا ہے لیکن یہ ان کی مرضی پر ہے ہم ان پر سختی نہیں کرتے۔ یہاں شاہ صاحب کی بیوی نے بُرقع بنوا لیا تو کہنے لگی کہ میں بُرقع پہن کر جاؤں گی تو سہی پر وہاں مجھے بڑی شرم محسوس ہو گی یعنی جس طرح یہاں کی عورتوں کو بُرقع اتارنے میں شرم محسوس ہوتی ہے وہاں کی عورتوں کو پہننے میں محسوس ہوتی ہے۔ اس سے بھی تم سمجھ لو کہ تمہارا ان کو سمجھانا کتنا مشکل کام ہے۔
جہاں عورتوں کو میں نے ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مردوں کو بھی عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی جائے۔ مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت عورتوں کے حقوق کے متعلق پوری طرح اسلامی ہدایات پر کاربند نہیں ہوئی۔ کثرت کے ساتھ یہ شکایتیں پیدا ہوتی ہیں کہ مرد جب دوسری شادی کرلیتے ہیں تو ان کی پہلی بیوی کے بچے آوارہ پھرتے ہیں وہ ان کی خبر گیری نہیں کرتے۔ ان کی معیشت کے سامان مہیا نہیں کرتے اور ان عورتوں کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ آج بھی جو عورتیں ملنے آئیں ان میں ایک لڑکی بھی تھی وہ بُرقع میں لپٹی ہوئی آئی اور اس نے بغیر کچھ کہے سسکیاں لے کر رونا شروع کر دیا آخر ملاقات کرانے والی عورتوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت ہو گیا ہے اسے اٹھا لیا مگر پھر اس کی سسکیاں دیکھ کر کسی کو رحم آیا اور اس نے پھر اسے میرے پاس لا بٹھایا۔ میں نے کہا بیٹا بتاؤ تو سہی تمہیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے یہی تکلیف بتلائی کہ میرے خاوند نے مجھ سے بچے لے لئے ہیں وہ ان کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کرتا اور مجھ سے بھی بچے اس نے جدا کر لئے ہیں اور اب وہ میرے اخراجات وغیرہ کی بالکل پرواہ نہیں کرتا۔ میں نے دیکھا ہے یہ مرض اچھے اچھے مخلصوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ تک بڑا عمدہ سلوک ہوتا ہے اور اس کے بعد یکدم کسی دن رَو آئی تو حالت بدل جاتی ہے بعض دفعہ ایسا قلبِ ماہیت دیکھا ہے کہ رات کو اچھے بھلے تعلقات تھے اور دوسرے دن سنا کہ آپس میں لڑائیاں ہو گئی ہیں۔ پس مردوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ عورتوں کو اس وقت تک ان کے حقوق سے کچھ ہم نے محروم کر رکھا ہے اور کچھ شریعت نے ان کو بعض باتوں میں مجبور کیا ہؤا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں رسم و رواج نے ان کو مجبور کیا ہؤا ہے، شریعت نے ان کو آزادی دی ہے، حقوق دیئے ہیں رسم و رواج نے نہیں دیئے غرض وہ اس قسم کی مظلوم ہستی ہے بلکہ اس مظلوم ہستی کے ساتھ تورحم کا معاملہ ہونا چاہیئے اور سوائے اس کے کہ ہم اس کے حقوق ادا نہ کریں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے اپنے پاس سے زائد حقوق دیں مگر ہمارے ہاں یہ طریق ہے جو ابھی تک بعض احمدیوں میں بھی جاری ہے کہ وہ اس کے حقوق کو تلف کر دیتے ہیں۔ آئندہ کے لئے یہ امر یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خدا تعالیٰ کی محبت وابستہ ہے عورت سے حسنِ سلوک کے ساتھ اور حسنِ معیشت کے ساتھ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ 1 تم میں سے خدا کے نزدیک بہتر وہی ہے جس کا اپنی بیوی بچوں سے معاملہ بہتر ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ اپنی بیوی سے کوئی سختی کی تو آپؑ کو الہام ہؤا کہ ''یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو'' 2
ان کولیڈر کہہ کر ان کادل بھی خوش کر دیا اور ان کو عزت کا مقام بھی دے دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تمہارا یہ فعل ہمیں پسند نہیں۔
پس یہ چیز ایسی ہے جس کی طرف ہماری جماعت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیئے۔ خصوصاً یہ جو مسئلہ ہے کہ اگر کبھی اختلاف ہو جائے تو طلاق بھی دینی پڑتی ہے اور خلع بھی کرانا پڑتا ہے اس کے متعلق تو میں نے دیکھا ہے بعض احمدی ایسے گندے اخلاق دکھاتے ہیں کہ شرم آ جاتی ہے حالانکہ انہیں شریعت نے خلع کا حق دیا ہے اگر تم اپنا حق استعمال کرتے ہو اور تمہارے پاس کوئی آتا ہے تو کہتے ہو کیوں مجھے نہیں حق طلاق کا؟ تو جب تم اپنا حقِ طلاق استعمال کرتے ہو تو عورت اگر خلع کا حق استعمال کرتی ہے تو تمہیں کیا اعتراض ہے۔ میری تو سمجھ میں یہ بات آج تک کبھی آئی نہیں کہ جو عورت اس طرح راضی نہیں اس کو گھر میں رکھنا تو سانپ پالنے والی بات ہے۔ میں تو کبھی سمجھ نہیں سکا کہ ایک عورت اگر خلع چاہتی ہے تو مرد کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ تو اگر ایک دفعہ مانگتی ہے تو یہ دودفعہ دیوے اس کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے پھر جب وہ بے چاری خلع مانگتی ہے تو وہ اپنا حق آپ چھوڑ دیتی ہے۔ مہر چھوڑ دیتی ہے اور کئی قسم کے حقوق جو شریعت نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں سارے ترک کر دیتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے راستہ میں روک پیدا کی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو ایک عورت نے ایک دفعہ ایسی ہی بات کہہ دی۔ پیچھے اس نے بتایا کہ مجھے سکھایا گیا تھا کہ ایسا کہنا اچھا ہوتا ہے لیکن بہر حال وہ دھوکا میں آ گئی اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں آپ کے پاس آنا پسند نہیں کرتی۔ اسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے اور آپ نے فرمایا اس کو مہر وغیرہ اخراجات دے دو اور اس کو رخصت کر دو۔3 دیکھو یہ چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے کہ اس کی درخواست کو اور اس کے اس فقرہ کو ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع سمجھا اور اسے خلع قرار دے دیا۔ پس اگر ایک عورت خلع مانگتی ہے تو جس طرح تم کو طلاق دینے کا حق ہے عورت کے لئے شریعت نے خلع رکھا ہے تم کیوں خواہ مخواہ اس پر لڑا کرتے ہو۔ پھر طلاق دیتے ہیں تو مہر کے لئے ہزاروں بہانے بناتے ہیں کہ میں نے مہر نہیں دینا اگر مہر دینے کی طاقت نہیں تو اس کو طلاق ہی کیوں دیتے ہو۔ پس مردوں کو عورتوں کے متعلق اپنے رویہ میں اصلاح کرنی چاہیئے۔ ورنہ یہ دونوں گروہ اسلام کے لئے بشاشت محسوس نہیں کریں گے جو انہیں محسوس کرنی چاہیئے۔ ’’ (الفضل 25فروری 1955ء)
اب میں جماعت کو اشاعتِ لٹریچر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔اس سال کچھ نئی کتابیں اور لٹریچر شائع ہؤا ہے جن میں سے ایک کتاب مسئلہ ختم نبوت پر قاضی محمد نذیر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے لکھی ہے۔ میں نے اب تو یہ کتاب نہیں دیکھی لیکن جب انہوں نے یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو وہ اس کے ہیڈنگ بنا کر میرے پاس لائے تھے اور مجھ سے انہوں نے مشورہ کیا تھا۔ میرا اثر یہی ہے کہ یہ کتاب اچھی اور اِس زمانہ کے لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے۔ میں نے ان کو سمجھایا تھا کہ ہمارے ہاں پہلے جو طریق رہا ہے کہ بعض بے احتیاطیوں کی وجہ سے لوگوں کو خواہ مخواہ ٹھوکر لگی اُس سے آپ کو بچنا چاہئے۔ جب صداقت پہلے بھی آپ لوگ پیش کرتے تھے اور اب بھی پیش کرتے ہیں تو کیوں نہ ایسے الفاظ میں اس کو پیش کیا جائے جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ نہ ہوں یا کم ازکم ان کو پیچھے پِھرانے والے نہ ہوں۔
دوسری کتاب حیات بقاپوری ہے اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض فتاویٰ بھی جمع کئے ہیں۔ نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے یا ان کو پسند تھے کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض خیالات اور آپ کے افکار بعض مسائل کے متعلق نہایت اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی اور پہلے ہم کو نہیں ملا اس میں ہمیں مل گیا یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے۔
اسی طرح مرکز میں کتب کی اشاعت کے لئے دو کمپنیاں بنائی گئی ہیں۔ ایک غیراردو کتب کی اشاعت کے لئے اور ایک اردو کتب کی اشاعت کے لئے۔ یا یہ کہہ لو کہ ایک پاکستانی اور ہندوستانی علاقوں کے لٹریچر کی اشاعت کے لئے اور ایک غیرپاکستانی اور غیر ہندوستانی لٹریچر کی اشاعت کے لئے۔جو کمپنی انگریزی اور دوسری غیر زبانوں کا لٹریچر تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے اس کی طرف سے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ اس کے دولاکھ روپے کے حصے ابھی قابلِ فروخت ہیں۔ بیس بیس روپیہ کا حصہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ دس ہزار حصہ ابھی قابلِ فروخت ہے لیکن ایک وقت میں صرف پانچ روپے دینے پڑتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوستوں کو تحریک کی جائے کہ جن کو توفیق ہو وہ اس میں حصہ لیں تاکہ لٹریچر کی اشاعت زیادہ سے زیادہ کی جاسکے۔ اِس وقت تک ان کی طرف سے ڈچ ترجمۂ قرآن اور جرمن ترجمۃ القرآن شائع ہو چکا ہے اور انگریزی ترجمۃ القرآن کل مجھے ملاہے۔یہ ابھی مکمل نہیں ہے۔انہوں نے اس کی جلد بندی صرف جلسہ کے لوگوں کو دکھانے کے لئے کر دی ہے ورنہ اس میں ابھی دیباچہ شامل ہونا ہے۔ پریس والوں نے کہا ہے کہ ان دنوں ہمیں کرسمس کا کام ہے ہم اس وقت نہیں چھاپ سکتے دو تین مہینہ کے بعد چھاپیں گے اس لئے انہوں نے یہ شکل آپ لوگوں کو دکھانے کے لئے بھیج دی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ کئی لوگ ساری جلدوں میں قرآن شریف نہیں خرید سکتے اور پڑھ بھی نہیں سکتے اس لئے یہ ترجمہ انشاء اللہ مفید ثابت ہوگا اور انگریزی جاننے والے ملکوں میں مثلاً انگلینڈ اور امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں خداتعالیٰ کے فضل سے اس سے اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہوسکے گی۔
اس کے علاوہ وہ اَور بھی لٹریچر شائع کرنا چاہتے ہیں مگر میں نے ان کو روکا ہؤا ہے کہ جب تک سارے حصے فروخت نہیں ہو جاتے میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا اگر حصے بِک جائیں تو وہ یہاں پریس جاری کر سکتے ہیں۔ پریس انہوں نے خریدا ہؤا ہے لیکن اس کے لگانے کے لئے بھی دس بارہ ہزار روپیہ کا سامان چاہئے اور پندرہ سولہ ہزار روپیہ مکان نے بھی لینا ہے۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ میں قرض نہیں لینے دوں گا۔ حصے بیچو اور روپیہ لگاؤ۔ اس لئے انہوں نے مجھ سے ہی خواہش کی ہے کہ''جو بولے وہی کنڈا کھولے'' آپ نے کہا ہے قرض نہیں لینا حصے بیچ کر رقم پوری کر لو تو اب حصے بکوائیے بہرحال انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اس کی تحریک کروں۔
اسی طرح دوسری کمپنی جو اردو لٹریچر کے لئے قائم ہوئی ہے انہوں نے بھی اس سال بہت سی کتابیں شائع کی ہیں۔ ایک تو ''نبیوں کا سردار'' رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات ہیں دراصل میری کتاب ''دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی''میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو لائف تھی اُس کا یہ اردو ترجمہ ہے اور اس کانام انہوں نے ‘‘نبیوں کا سردار’’ رکھاہے یہ 320صفحہ کی کتاب ہے۔
''الشرکۃ الاسلامیہ''والے کہتے ہیں کہ لگے ہاتھوں ہمارا بھی ذکر کر دیا جائے۔ 80ہزار کے حصے ہمارے بھی قابلِ فروخت ہیں جو دوست لے سکیں انہیں لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ثواب کا ثواب ہے اور خداتعالیٰ چاہے اور نفع آجائے تو اس طرح بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ''الشرکۃ الاسلامیہ'' نے اس سال ''اسلامی اصول کی فلاسفی''، ''سیرروحانی'' ''مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ'' ''رسالہ حج'' اور ''رسالہ معیار شناخت انبیاء'' یہ چھ کتابیں شائع کی ہیں۔ ''اسلامی اصول کی فلاسفی'' مدت سے نہیں مل رہی تھی یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کتاب بڑی مبارک ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا لوگوں کے دلوں پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے۔
''سیرروحانی'' میری تقریروں کا مجموعہ ہے۔ ایک حصہ اس کا پہلے شائع ہؤا تھا جس میں میری پہلی تقریر تھی۔ اب تک گیارہ عنوانات پر تقریریں ہو چکی ہیں بہر حال جو پہلی تقریر تھی وہ تو شائع ہو گئی تھی لیکن اب میں نے فیصلہ کیا کہ الگ الگ تقریریں شائع کرنا ٹھیک نہیں۔تین جلدوں میں سب مضمون شائع کر دیا جائے سو اِس جلد میں میری پہلی تقریر کو شامل کر کے جو الگ شائع ہوچکی تھی دو سال کی تقریریں مزید برآں شامل کر دی گئی ہیں اور اب یہ جلد 327 صفحہ کی ہو گئی ہے۔ اگلے سال انشاء اللہ اس کی دوسری جلد شائع کر دی جائے گی۔ مصالحہ سب موجود ہے پھر جب یہ تقریریں ختم ہو جائیں گی تو تیسری جلد شائع ہو جائے گی۔
''مسئلہ وحی ونبوت کے متعلق اسلامی نظریہ '' وہ بیان ہے جو انکو ائری کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے کہنے پر سوالات کا جواب لکھا گیا تھا مگر عجیب بات ہے غلط فہمیاں ہوتی ہیں تو اس طرح ہوتی ہیں ہائیکورٹ نے جن سوالوں کا جواب مانگا تھا جب وہ ریویو میں چَھپا تو گورنمنٹ کی طرف سے ان کو نوٹس آیا کہ تم نے ایسا مضمون چھاپ دیا ہے جس سے بڑے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں آئندہ اس سے احتیاط کرو۔ حالانکہ یہ نوٹس ہائیکورٹ کو جانا چاہئے تھا یا پھر فیڈرل کورٹ کو یہ نوٹس جانا چاہئے تھا جس میں آجکل وہ جج صاحب چیف جج ہیں جو انکوائری کمیشن کے بھی صدر تھے۔ یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ عدالت سوال کرتی اور ہماری جماعت جواب نہ دیتی۔
پس یہ کتابیں ہیں جن کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ ان کے علاوہ کچھ کتابیں سید محمد سعید صاحب سلیم نے شائع کی ہیں۔ ان میں سے بھی بعض ایسی ہیں جو اصل میں سلسلہ کی طرف سے لکھوائی گئی ہیں۔ بہرحال وہ کتابیں یہ ہیں۔
قادیانی مسئلہ کا جواب مودودی صاحب کے بیان پر صدر انجمن احمدیہ کا تبصرہ (یہ بھی ہائیکورٹ کے کہنے پر لکھا گیا) ''محاسن کلام محمود'' اور ''مسلمان عورت کی بلند شان''۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق بھی دوستوں کو تحریک کی جائے۔ یہ جو ''محاسن کلام محمود '' کتاب ہے اس پر مجھے اس لئے خوشی ہے کہ ہماری جماعت کے ایک نوجوان ادیب نے اسے لکھا ہے لوگوں میں عادت ہوتی ہے کہ جب وہ ذرا آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں تو ان کو خیال ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اس حلقہ میں ہماری بدنامی ہو جائے مگر اس نوجوان کی ہمت ہے کہ اس نے شاعری کا شوق رکھتے ہوئے یہ کتاب لکھ دی اور وہ نہیں ڈرا کہ دوسرے شاعر جن کی مجلسوں میں مَیں جاتاہوں وہ مجھے کیا کہیں گے۔ یوں میرے دل میں خود خیال آیا کرتا تھا کہ میرے اکثر شعر درحقیقت کسی آیت کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی حدیث کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی فلسفیانہ اعتراض کا جواب ہوتے ہیں لیکن لوگ عام طور پر اگر صرف وزن میں ترنم پایا جاتا ہے اور موسیقی پائی جاتی ہے تو سن کر ہاہا کر لیتے ہیں۔ مجھے کئی دفعہ خیال آتا تھا کہ لوگ سمجھنے کی طرف کم توجہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس طرف توجہ کرے تو شاید یہ زیادہ مفید ہو سکے۔ چنانچہ اس نوجوان نے یہ پہلی کوشش کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ اور کوشش کرنے والے کوشش کریں گے یا انہی کو توفیق مل جائے گی اور یا پھر اَور لوگ پیدا ہو جائیں گے۔
درحقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گاجو درحقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا۔ شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یا اسی طرح کئی تصوّف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکتہ میں حل کیا گیا ہے مثلاً اس نوجوان نے بھی ایک شعر اس میں درج کیا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دیکھو یہ بڑا ادبی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوّف کا یہ ایک پرانا سوال ہے کہ خلقِ عالَم کس طرح ہؤا۔ اس سوال کا جواب اس شعر میں دیا گیا ہے جو درحقیقت ایک فلسفیانہ بات کا جواب ہے کہ اصل میں ہمارے نزدیک خلقِ عالَم کا ذریعہ یہ ہے اگر اس کو کوئی زیادہ غور کے ساتھ دیکھے تو اسے پتہ لگ سکتا ہے بے شک انسان جب محبت کی دھن میں ہوتا ہے تو اس میں کئی خیالات عام جذباتی بھی آجاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی خیالات ہوتے ہیں جن میں فلسفہ یا حکمت بیان کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
میں نے عورتوں کے حصہ کی مسجد کے متعلق ابھی توجہ دلائی تھی کہ اس مسجد کے لئے اب تک رقم جمع نہیں ہوئی لیکن مردوں کے ذمہ جو مسجد لگائی گئی ہے یا بہت سی مساجد لگائی گئی ہیں ان کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ عورتوں کی مسجد کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے اور اس پر جو مسجد بننی ہے اس کی بھی قریباً ایک تہائی رقم جمع ہے لیکن مرد بیچارے ایسے کم ہمت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی طرف سے ابھی زمین کی قیمت بھی ادا نہیں ہوئی حالانکہ میں نے اس کے لئے نہایت آسان راہیں بتائی تھیں لیکن تعجب ہے کہ ان پر عمل نہیں ہؤا۔ان آسان راہوں کے متعلق ہمارا یہ اندازہ تھا کہ اسّی ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ جمع ہو سکتا ہے لیکن مجھے رپورٹ یہ کی گئی ہے کہ کُل چودہ ہزار روپیہ سال میں چندہ آیا ہے۔
مَیں نے بتایا تھا کہ جس کی مثلاً شادی ہو وہ اس خوشی میں کچھ نہ کچھ رقم مسجد فنڈ میں بھی دے دیا کرے ہماری جماعت دو تین لاکھ کی ہے اور ہزار دو ہزار کی شادی ہوتی رہتی ہے پس وہ جو سو ،دوسو، پانچ سو، ہزار، دو ہزار، پانچ ہزار روپیہ شادی پر خرچ کرتا ہے اگر پانچ دس بیس پچاس روپیہ تک مساجدکے لئے بھی اُس وقت دے دے تو کونسی بات ہے۔ فرض کرو اگر ہزار شادی ہو اور پانچ روپیہ اوسط لگا لو کسی نے ایک روپیہ دیا کسی نے دو دیئے کسی نے بیس یا پچاس بھی دیئے لیکن اوسط پانچ روپے رکھو تو پانچ ہزار تو شادیوں کا آجاتا ہے۔ اسی طرح میں نے کہا تھا کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو تم تھوڑا بہت تو خرچ کرتے ہو۔ اگر مسجد کے لئے کچھ دے دیا کرو تو یہ بھی خداتعالیٰ کے حضور تمہاری اولاد کے لئے برکت کا موجب ہو جائے گا۔ فرض کرو اگر ہمارے ہاں سال میں دوہزار یا تین ہزار بچہ پیدا ہوتا ہے اور دو روپے اوسط آتی ہے تو پانچ ہزار یہ بھی ہو جاتا ہے گویا دس ہزار تو صرف شادیوں اور بچوں سے ہوتا جاتاہے۔
پھر میں نے یہ کہا تھا کہ جس کسی شخص کی ترقی ہو وہ پہلے مہینہ کی ترقی دے دیا کرے۔ ہماری جماعت میں خداتعالیٰ کے فضل سے دو تین ہزار ملازم ہیں اور ان کی اوسط تنخواہ میرے نزدیک تین چار سو روپیہ ہوتی ہے اور ہر سال انہیں ترقی ملتی ہے اگر ان میں سے آدھوں کی ترقی بھی فرض کر لی جائے کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے فوجی ملازم ہیں کہ ان کی سالانہ ترقی نہیں ہوتی کچھ وقفے کے بعد ہوتی ہے بہر حال اگر ہزارآدمی بھی سمجھ لیا جائے تو بارہ چودہ پندرہ یا بیس روپیہ ان کی ترقی کی اوسط نکل آئے گی۔ اگر پندرہ روپیہ بھی ترقی کی اوسط رکھی جائے تو پندرہ ہزار تو یہ آجاتا ہے۔ پچیس ہزار ہو گئے۔ پھر میں نے یہ کہا تھاکہ ڈاکٹر اور وکیل (بلکہ خود ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔) اپنی سابق آمد کا تعیّن کر کے ہر سال اس میں جو زیادتی ہو اس زیادتی کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیا کریں۔ اسی طرح بجٹ کے سال کے پہلے مہینہ یعنی ماہ مئی کی آمد کا پانچ فیصدی ہر سال ادا کیا کریں یہ بھی کوئی ایسا بوجھ نہیں جو لوگوں کے لئے مشکل ہو۔ میرے نزدیک کئی ہزار کی رقم اس طرح نکل سکتی ہے۔ اسی طرح ایک یہ تجویز تھی کہ جو چھوٹے تاجر ہیں وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دے دیا کریں اور جو بڑے تاجر ہیں وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کے پہلے سودے کا منافع دے دیا کریں۔
پھر زمینداروں کے متعلق یہ تھا کہ جو دس ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں وہ ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے اور جو دس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک ہیں۔ خواہ بارانی ہو یا نہری۔ وہ دو آنے فی ایکڑ کے حساب سے دے دیا کریں۔ یہ بھی کوئی ایسا چندہ نہیں ہے جو کسی زمیندار پر دوبھر ہو مثلاً اگر دو آنے مقرر ہیں اور25 ایکڑ یعنی ایک مربع اسکے پاس ہے تو مربع والے کے لئے تین روپے مسجد کے لئے چندہ دینا کوئی بڑی بات نہیں۔
پھر پیشہ وروں کے لئے یہ قاعدہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو یا مہینہ کا کوئی اور دن مقرر کر کے اس دن جو انہیں مزدوری مل جائے اس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں۔
بہرحال یہ سارے کے سارے ذرائع آمدن ایسے تھے جو کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے اور آمدن اسّی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے لیکن ہوتی چودہ ہزار ہے اور اس چودہ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بھی نکلیں گے جنہوں نے اپنے اخلاص میں اپنی طاقت سے بہت زیادہ دے دیا ہے اصل چندہ جو قاعدہ کے مطابق دیکھا جائے گا وہ دس گیارہ ہزار نکلے گایعنی متوقع آمد کا دسواں حصہ۔ گویا یہ چندہ ایساہے جو جماعت میں سے 10/1حصہ نے ادا کیا ہے10/9نے ادا نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا ہے کہ ابھی ہمیں امریکہ سے مشن ہاؤس والوں نے لکھا کہ ہمارے مشن ہاؤس کے ساتھ ایک زمین ہے جس میں اچھے پیمانہ پر مسجد بنائی جاسکتی ہے یہ زمین اگر اِس وقت لے لی جائے تو سات ہزارڈالر میں حاصل ہو سکتی ہے۔ کیونکہ مالک کو ضرورت ہے اور وہ سستا دینے کو تیار ہے لیکن ہم نے مجبوراً اُن کو یہی لکھا کہ ہمارے پاس تو روپیہ ہی نہیں ہم کہاں سے دیں۔ اب اس کے نتیجہ میں یا تو سابق جگہ میں بہت چھوٹا سا کمرہ مسجد کا بنے گا یا پھر ہمیں کوئی نئی زمین مسجد کے لئے خریدنی پڑے گی اور نئی جگہ پر انتظام کرنا پڑے گا۔
اب میں اس سال کا وہ واقعہ بیان کرتاہوں جس کی وجہ سے میری صحت پر بھی اثر پڑا ہے اور جس کی وجہ سے جماعت کے اندر بھی ایک گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ حفاظت کے انتظام کے لئے خاص چندہ مقرر کیا جائے تاکہ ساری جماعتیں اس میں شریک ہو سکیں۔ یہ چندہ بھی جیسا کہ عام چندے کی رقم یا وصیت کی رقوم آتی ہیں اور جیسا کہ سمجھا گیا تھا کہ آمدن ہوگی اس طرح اس کی وصولی نہیں ہو رہی بلکہ ہمارا جو اندازہ تھا اُس کا قریباً تیسرا یا چوتھا حصہ وصول ہو رہا ہے۔ یوں تو جماعت میں سے بعض کہنے والے ایسے موقعوں پر کہہ دیتے ہیں کہ ان کو ملامت ہے ان کو ملامت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک سارے لوگ اپنے فرض کو ادا نہ کریں محض دوسروں کو ملامت کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ ربوہ والوں کو تو رات دن کچھ نہ کچھ کام ایسے موقعوں پر کرنا ہی پڑتا ہے وہ پہرے بھی دیتے ہیں اور پھر وہ دوسرے بھی کئی کام کرتے ہیں۔ باہر کی جماعتوں نے تو اس کو صرف اپنے چندہ سے ہی پورا کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر ربوہ والے بھی اسی طرح چندہ دیتے ہیں۔ لیکن اگر جماعت کے اندر یہ ہو کہ ریزولیوشن تو یہ ہوں کہ مر جائیں گے اور یُوں کر دیں گے لیکن عملاً آکر کمزوری دکھائیں تو یہ دشمن کے لئے ہنسی کا موجب بن جاتاہے۔ یہ واقعہ جس طرح ہؤا میں اسے آج دوستوں کے سامنے بیان کرتا ہوں کیونکہ اس حملہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آپ لوگ میرے سامنے آئے ہیں۔ دشمن نے تو اپنی طرف سے ختم کر دیا تھا لیکن کہتے ہیں ''جس کو خدا رکھے اس کو کون چکھے''۔
مارچ 1954ء کی دس تاریخ کا واقعہ ہے کہ میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے گیا نماز پڑھ کے جس وقت میں باہر نکلنے لگا اور دروازہ کے پاس پہنچا یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا ایک پیر باہر آگیا تھا یا نہیں آیا تھا مگر بہر حال میں دروازہ کی دہلیز کے پاس کھڑا تھا کہ پیچھے سے کسی شخص نے مجھ پر حملہ کیا۔ وہ حملہ اس شدت سے تھا اور ایسا اچانک تھا اور پھر چونکہ وہ حملہ سر کے پاس کیا گیا تھا یکدم میرے حواس پر اس کا اثر پڑا اور مجھے یہ نہیں محسوس ہؤا کہ کیا ہؤا ہے۔ مجھے یہ معلوم ہؤا کہ جیسے کوئی بڑا پتھر یا دیوار آگری ہے اور اس پتھر یا دیوار کی وجہ سے میرے حواس مختل سے ہوگئے ہیں۔ اُس وقت میں اپنے ذہن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ زلزلہ آگیا ہے یا کیا ہؤا ہے بس مجھے یہ سمجھ آتی تھی کہ کوئی بڑی سِل میری گردن پر آکے پڑی ہے لیکن ایک حسّ شعوری ہوتی ہے اور ایک غیر شعوری ہوتی ہے۔ غیر شعوری حسّ کے ماتحت میں نے اُس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس جگہ پر چوٹ تھی پھر مجھے اتنا یاد ہے کہ مجھے یہ دھند لکا سا معلوم ہؤا کہ میں گر رہا ہوں اور مجھے کوئی شخص سہارا دے رہا ہے۔ چنانچہ جو پہرہ دار تھا اس نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس کو پتہ لگ گیا تھا کہ کسی نے حملہ کیا ہے یا اُس کو بھی نہیں پتہ تھا۔ بہرحال اُس نے یہ دیکھ کر کہ یہ گر رہے ہیں وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنا سینہ لگا کے ہاتھ سے مجھے سنبھال لیا۔ اُس وقت مجھے یہ یاد ہے کہ مجھے یوں معلوم ہؤا جیسے اُس کے کان پر کوئی زخم ہے اور میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید وہی پتھر یا سل جو گری ہے وہ اس کو بھی لگی ہے اور اس کی وجہ سے اسے یہاں زخم آیا ہے۔اس اثر کے بعد اس نے مجھے سہارا دے کر باہر کھینچا یا میں دھکّے میں باہر آگیا بہر حال مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ جو پتھر گرا ہے اُس کے دھکّے کی رَو میں مَیں نکل کے باہر آ گیا ہوں۔ مسجد کے آگے جو دو تین سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اُن کے اوپر دھکے کے زور میں یا اس کے کھینچنے سے (شاید اس نے مجھے بچانا چاہا) میرا ایک پیر دیوار کے پرے چلا گیا اور ایک ادھر رہ گیا۔ وہ حالت ایسی تھی کہ اگر اُس وقت وہ شخص دوبارہ حملہ کرتا تو میں وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس دھکّے میں ایک دیوار میری لاتوں کے درمیان تھی اور ایک ٹانگ نیچے اتری ہوئی تھی اور ایک ٹانگ سیڑھیوں کے اوپر تھی۔ خیر اتنے میں کچھ لوگ اندر سے باہر نکل آئے اور انہوں نے کھینچ کر مجھے باہر کیا مگر میں ابھی تک اس احساس کے نیچے تھا کہ شاید کوئی پتھر گرا ہے یا دیوار گری ہے یا خبر نہیں کیا ہؤاہے مگر یہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ہاتھ میں نے چوٹ کی جگہ پر رکھا ہؤا ہے یہ مجھے نہیں پتہ لگتا تھا کہ میں نے ہاتھ کیوں رکھا ہؤا ہے۔ اتنے میں اندر سے دوسرے دروازے میں سے کچھ نمازی نکل کے باہر آگئے اور وہ میرے سامنے کھڑے ہو گئے۔ ابھی تک کوئی چیز مجھے پوری نظر نہیں آتی تھی ان کے چہرے بھی دھندلکے سے نظر آرہے تھے بہرحال مولوی ابوالعطاء صاحب مجھے نظر آئے تو میں نے کہامولوی صاحب ہؤا کیا؟ یعنی میں ابھی یہ سمجھ ہی نہیں رہا تھا کہ مجھ پر حملہ ہؤا ہے بلکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ کوئی پتھر گرا ہے یا زلزلہ آگیا ہے یا معلوم نہیں کیا بات ہوئی ہے اور میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہؤا ہے یہ دیوار اتفاقاً گر گئی ہے یا زلزلہ آیا ہے یا کیا ہؤا ہے۔ اس پر انہوں نے اور بعض دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ آپ پر کسی شخص نے حملہ کیا ہے۔ میں نے کہا اچھا مجھ پر حملہ کیا گیا ہے؟ اُس وقت مجھے یہ احساس ہؤا کہ شاید میں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھا ہؤا ہے چنانچہ میں نے جب ہاتھ دیکھا تو سارا ہاتھ خون سے بھرا ہؤا تھا۔ میں نے کہا اوہو! اس میں سے تو خون نکل رہا ہے۔ انہوں نے کہا اپنے کپڑوں کو دیکھئے میں نے کپڑے دیکھے تو کوٹ اور صدری اور نیچے کُرتا اور پاجامہ یہ سارے کے سارے خون سے بھرے ہوئے تھے اور زمین پر بھی اچھا خاصا تالاب بنا ہؤا تھا جیسے خون بہا ہوتا ہے ۔ جب مجھ پہ حقیقت کھلی تو میں نے کہامجھے سہارا دے کر گھر پہنچاؤ چنانچہ وہ سہارا دےکرمجھے گھر لے آئے۔ میں نے کہا ڈاکٹر کی طرف آدمی بھیجو تاکہ وہ آئیں اور ٹانکہ وغیرہ لگائیں خون بہتا چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کی طرف آدمی دوڑ گیا ہے بہرحال میں وہاں آکے بیٹھا رہاتھوڑی دیر میں ڈاکٹر پہنچ گئے۔ جن میں منور احمد میرا لڑکا بھی تھا۔ قدرتی طور پر اپنی مذہبی محبت بھی ہوتی ہے اور پھر وہ میرا بیٹا بھی تھا بہرحال وہ گھبرائے ہوئے مگر انہوں نے اتنی احتیاط کی کہ اوزاروں کو اچھی طرح سٹرلائز کر کے یعنی جراثیم کو پوری طرح مار کر کام شروع کیا لیکن میرے احساس کی خاطر اندر سے زخم کی صفائی نہیں کی اور باہر سے ٹانکے لگا دیئے اتفاقاً کسی کو گھر میں خیال آیا اور اس نے لاہور میں میرے لڑکے مرزا ناصر احمدکو فون کر دیا کہ اس طرح حملہ ہؤا ہے۔ مرزا ناصر احمد نے مرزا مظفر احمد کو بتایا جو میرا داماد بھی ہے اور بھتیجا بھی ہے۔ انہوں نے اپنے طورپر (ہم نے تو نہیں کہا تھا اور نہ ہمیں خیال تھا۔) ایک ڈاکٹرکو کہا کہ تم وہاں چلو اور چل کر دیکھو۔ ڈاکٹر امیرالدین صاحب جو لاہور کے سرجن ہیں انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالج کے یونیورسٹی کے امتحانات ہو رہے ہیں اور کل میں نے لڑکوں کا امتحان لینا ہے اس لئے میں نہیں جاسکتا۔ پھر انہوں نے ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سے کہا اور وہ ان کو لے کر آگئے۔ ان کے ساتھ بعض دوسرے ڈاکٹر بھی آگئے مثلاً ڈاکٹر مسعود صاحب پہنچ گئے، ڈاکٹر محمود اختر صاحب جو قاضی فیملی میں سے ہیں(مسعود احمد صاحب بھی قاضی فیملی میں سے ہی ہیں) وہ بھی پہنچ گئے۔ یہ میوہسپتال میں کلوروفارم دینے پر افسر مقرر ہیں۔ ڈاکٹر یعقوب صاحب غالباً ان سے پہلے آچکے تھے اوروہ گر بھی گئے تھے شیخ بشیر احمد صاحب ڈاکٹر صاحب اور چودھری اسد اللہ خاں صاحب لاہور سے آرہے تھے۔ گھبراہٹ میں انہوں نے شاید موٹر تیز چلوا دیا تو موٹر گر گیا جس کی وجہ سے یہ سارے زخمی ہوئے اور قریباً ہر ایک کی ہڈیوں کو ضرب پہنچی۔ کسی کی کُہنی کی ہڈی ٹوٹی اور کسی کی سینے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ بہرحال ڈاکٹروں نے زخم کو دیکھا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک تو اس کا پھر آپریشن کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا مجھے اتنی کوفت ہوچکی ہے اور اب رات کے ایک بجے کا وقت قریب آگیا ہے اگر آپ صبح تک انتظار کر سکیں تو کیا حرج ہے۔ وہ گئے کہ اپنا مشورہ کر کے بتاتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر مسعود صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کہتے ہیں کہ گردن پر ورم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر خون جاری ہے اور کوئی رگ پھٹی ہوئی ہے اسلئے صبح تک انتظار کرنا خطرناک ہے اگر اَور انتظار کیاگیا تو خون میں زہر پیدا ہو جائے گا۔ اور انہیں اصرار ہے کہ آپریشن ابھی ہونا چاہئے۔ چاہے رات کے وقت تکلیف بھی ہوگی لیکن آپریشن ضرور کرنا پڑے گا چنانچہ میں اس پر راضی ہو گیا۔ کہنے لگے بے ہوش کیا جائے؟ میں نے کہا مجھے بے ہوش نہ کریں یونہی آپریشن کرو خداتعالیٰ توفیق دے دے گا اور میں اس کو برداشت کروں گا۔ چنانچہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب آئے اور خواب آور ٹیکا لگوا دیا۔ پھر ایک گھنٹہ بارہ منٹ تک انہوں نے آپریشن کیا، صفائی کی اور خون کے لوتھڑے نکالے انہوں نے بعد میں بتایا کہ حملہ سے ایک بڑا عصبہ کٹ گیا ہے۔ دو درمیانی سائزکی خون کی رگیں کٹ گئی ہیں اور سوادوانچ گہرا اور سوادوانچ لمبا حصہ عضلات کا کٹ گیا ہے بہر حال کوئی ایک گھنٹہ بارہ منٹ کام کرنے کے بعد وہ فارغ ہوئے اور صبح چلے گئے۔ دوسرے دن گردن وغیرہ کی درد کی تکلیف رہی۔ اور چونکہ میں گردن کو ہلا نہیں سکتا تھا اس لئے ایک تکیہ ایسا بنا دیا گیا جس کے بیچ میں شگاف کر دیا گیا تاکہ زخم کی جگہ تکیہ پر نہ لگے بہرحال آجکل حفظان صحت کے جو قوانین مقرر ہیں ان کے لحاظ سے ایک عرصہ مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے آرام دے دیا۔ پورا آرام تو کوئی بائیس تئیس دن میں آیا لیکن زخم کے ٹانکے شاید آٹھویں یا دسویں دن کھول دیئے گئے۔
خون کے متعلق بھی دوستوں نے بتایا کہ جہاں تک آپ آئے ہیں وہاں تمام جگہ پر جیسے خون کے چھپڑ بنے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح اچھے خاصے چھپڑبنے ہوئے تھے۔
وہ لباس جس پر خون لگا ہؤا ہے ہم نے اب تک رکھا ہؤا ہے۔ وہ بھی خداتعالیٰ کے نشانوں کی صداقت کا ایک ثبوت ہے۔ حکومت کی طرف سے ان دنوں بڑی ہمدردی کا اظہار ہؤا۔ خود گورنر صاحب کی طرف سے بھی ہمدردی کی گئی، وزیراعظم صاحب کی طرف سے ایک دفعہ دوسرے نے اور پھر انہوں نے خود بھی فون کر کے بات کی۔ اسی طرح کمشنر صاحب بھی آئے، ڈی آئی جی بھی آئے، ڈپٹی کمشنر بھی آئے، سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے لیکن حکومتِ ضلع کی مصلحت یہی معلوم ہوتی تھی کہ اس معاملہ کو رفع دفع کر دیا جائے چنانچہ ایک موقع پر ایک بالا افسر نے اس خیال کا اظہار بھی کیا۔ ایسے مقدمات میں پولیس کی طرف سے عموماً عدالت میں کپڑے بھی پیش کئے جاتے ہیں وہ بھی ایک شہادت ہوتے ہیں کہ دیکھو یہ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں اور ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ زخم کس حد تک تھا مگر ہم سے پولیس نے پہلے خود کپڑے مانگے لیکن جب پیشی کا وقت آیا تو باوجود اُن کو کہلا کے بھیجنے کے کہ کپڑے منگوا لیں اُنہوں نے نہیں منگوائے (گوانہوں نے اب یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کپڑے اُس وقت پیش ہوتے ہیں جب ان کے اندر سے زخم لگے۔ میں تو قانون دان نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ ہے تو پہلے ان کا آدمی کپڑے مانگنے کیوں آیا تھا) اس طرح وہ چادر جس میں کہا جاتا ہے کہ ملزم چاقو چھپا کر بیٹھا تھا وہ بھی پولیس نے پیش نہیں کی۔ یہ قانون ہے (شاید بعض لوگ نہیں جانتے ہوں گے) کہ ایسے فوجداری مقدمات میں گورنمنٹ مدعی ہوتی ہے خود مضروب کا کوئی حق نہیں ہؤاکرتا کہ وہ بیچ میں بولے یا بلوا سکے۔ بہر حال وہ چادر بھی نہیں پیش کی گئی جس کی وجہ سے مجسٹریٹ نے احمدی گواہوں پر شبہ کا اظہار کیا اور لکھا کہ اگر کوئی چادر تھی تو وہ پیش کیوں نہیں کی گئی حالانکہ چادر پیش کرنا نہ کرنا پولیس کا کام تھا ہمارے اختیار میں یہ بات نہ تھی۔
اس دوران میں ڈاکٹر کئی دفعہ آتے رہے۔ انہی دنوں اس حملہ کے اثر سے یہ بھی ہؤا کہ مجھے عارضی طور پر ذیابیطس کی شکایت ہو گئی۔ ڈاکٹر پیشاب ٹیسٹ کرتے رہتے تھے تاکہ کوئی خرابی ہو تو پتہ لگ جائے ایک دن جو پیشاب ٹیسٹ کرایا تو معلوم ہؤا کہ اس کے اندر شکر آتی ہے۔ مگر ڈاکٹروں نے کہا ابھی آٹھ دس دن تک آپ نہ گھبرائیں۔ اگر تو یہ تکلیف زخم کی وجہ سے ہوئی ہے اور ایسا ہو جاتا ہے تو آٹھ دس دن کے بعد ہٹ جائے گی اور اگر زخم کی وجہ سے نہ ہوئی تو ہم علاج کا فکر کریں گے اتنی دیر تک علاج کے فکر کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ اس بارہ دن کے بعد یہ تکلیف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہٹ گئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ صرف زخم کی شدت کی وجہ سے تھی خود اصل بیماری نہیں تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ یہ زخم کی تکلیف آپ کو چھ مہینے تک چلے گی پہلے تین مہینوں میں تو آپ کو زخم کا آرام معلوم ہونا شروع ہوگا لیکن تین مہینے کے بعد یہ تکلیف بڑھنی شروع ہو جائے گی اور وہ نرو(NERVE)جو کٹ گیا ہے وہ اَور کسی جگہ پر اپنی جگہ بنائے گا اورکسی دوسرے نرو سے جڑنے کی کوشش کرے گا۔ جب وہ اس طرف کو چلے گا تو اس سے آپ کو گھبراہٹ ہوگی وہ یوں معلوم ہوگا کہ اندر کوئی چیز حرکت کرتی ہے۔ غرض مجھے انہوں نے پہلے سے کہہ دیا تھا مگر اتفاق کی بات ہے بعض دفعہ تشویش مقدر ہوتی ہے قریباً چھ مہینے تک جو انہوں نے وقفہ بتایا تھا اس میں مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی صرف چھوٹی چھوٹی حرکت ہوتی تھی لیکن چھٹے ماہ کے آخر میں اس قدر شدید تکلیف شروع ہوئی کہ بعض دفعہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مینڈک اندر کُود رہا ہے اور چھلانگیں مارتا ہؤا آگے جا رہا ہے۔ اور باوجود جاننے کے گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ۔ ڈاکٹروں سے پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہے تو کراچی کے سرجن نے کہا کہ یہ تکلیف اس سے پہلے ہونی چاہئے تھی اور اب تک آرام آجانا چاہئے تھا مگر ممکن ہے بڑی عمر کی وجہ سے اندمال کا وقت پیچھے ہوگیا ہو اس لئے ایک ماہ تک انتظار کریں۔ اگر طبعی عارضہ ہؤا تو یہ تکلیف ہٹ جائے گی ورنہ پھر غور کیا جائے گا کہ اس نئی تکلیف کا نیا سبب کیا ہے۔ پھر لاہور آکر سرجن کو دکھایا گیا اور وہاں کے ڈاکٹروں نے بھی پہلی سی رائے ظاہر کی۔ بہر حال دو مہینے یہ تکلیف جاری رہی اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے دب گئی۔اب مجھے سر کے اس حصہ میں نسبتاً حس بھی محسوس ہوتی ہے اور گردن کو ٹیڑھا کرنے سے جو پہلے یکدم جھٹکا سا محسوس ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے سر میں ہتھوڑا مارا ہے وہ حالت بھی جاتی رہی ہے اور وہ جو اندر کوئی چیز زور سے حرکت کرتی معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی جانور کُود رہا ہے یا ناچ رہا ہے وہ بھی جاتی رہی ہے۔ بہرحال اب ایسی حالت ہے کہ اکثر اوقات مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ گو کوئی کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید کوئی بیماری ہو۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک بَلا آئی، بڑی شکل میں آئی، بہت بُری شکل میں آئی اور پھر چلی گئی۔ اصل میں تمام امور انجام کے لحاظ سے دیکھے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انجام اچھا کر دیا۔ مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ یوں تو ہم فصدیں کرواتے نہیں ممکن ہے خداتعالیٰ کے نزدیک خون نکالنا اچھا ہو اُس نے یہ ذریعہ پیدا کر دیا چلو اِنہوں نے فصدیں نہیں نکلوانی ہم اس طرح ہی فاصد خون نکال دیتے ہیں۔
اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف جماعت کو توجہ دلاتاہوں۔ بات یہ ہے کہ جُوں جُوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے مطابق تدبیر بھی بڑھتی چلی جانی چاہئے تمہارے ذمہ جو کام ہیں وہ اتنے عظیم الشان ہیں کہ دنیا کے پردہ پر اس زمانہ میں کسی کے ذمہ وہ کام نہیں ۔ ایک زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ بڑا بوجھ تھاصحابہؓ پر۔چندصحابہؓ تھے جن پر دنیا کی اصلاح فرض تھی پراب تو وہ صحابہؓ زندہ نہیں۔ اگر آج وہ صحابہؓ زندہ ہوتے تو میں تمہیں کہتا کہ دیکھو یہ تم سے زیادہ بوجھ اٹھا رہے ہیں مگر وہ تو فوت ہو چکے۔ اب تمہارا زمانہ ہے تم یہ بتاؤ کیا اِس وقت بھی دنیا میں کوئی جماعت ہے جس پر اتنا بوجھ ہو جتنا تم پر ہے؟ آج تمہیں دنیا کے پردہ پر کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آئے گی جس پر اتنا بوجھ ہو جتنا تم پر ہے اور تمہارا کام ایسا ہے جو روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جتنا تم چندہ دیتے ہو اتنا ہی تم اگلے چندہ کے لئے اپنے آپ کو مجبور کرتے ہو کیونکہ جب تم چندہ دیتے ہو ہم کہتے ہیں بھئی یہ روپیہ ضائع نہ ہو ایک مشن اَور کھول دو۔ جب ہم وہ مشن کھولتے ہیں تو اَب کسی اَورمشن کو چلانے کے لئے پھر روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے پھر تمہیں کہتے ہیں اَور دو۔ ہم دو یا چار یا پانچ مشن کھول کر بند کر دیتے تو خرچ نہ بڑھتا مگر جُوں جُوں تم چندہ دیتے چلے جاتے ہو ہم کام بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور جُوں جُوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے پھر ہم کو اَور روپیہ مانگنا پڑتا ہے۔ گویا ہماری مثال بالکل اُسی قسم کی ہوگئی ہے جیسے کہتے ہیں کسی چیتے نے کوئی سِل پڑی ہوئی دیکھی تو وہ سِل کو چاٹنے لگا۔ سِل چونکہ کُھردری ہوتی ہے اس سے خون بہا جسے کھا کر اسے مزہ آیا۔ پھر اُس نے اَور چاٹی۔ اس نے سمجھا شاید میں سِل کھا رہا ہوں حالانکہ اصل میں وہ اپنی زبان ہی کھا رہا تھا۔ ہوتے ہوتے اُس کی ساری زبان گِھس گئی۔ اِسی طرح تم بھی گویا اپنی زبان کھا رہے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ چیتے نے تو زبان کھائی تھی اپنے مزہ کے لئے اور تم زبان کھا رہے ہو خدا کے لئے۔ اُس کو تو اُس کی زبان کا بدلہ نہیں ملتا مگر تم جس کے لئے زبان گِھسا رہے ہو وہ زبان پیدا کرنے والا ہے بلکہ سارا وجود ہی پیدا کرنے والا ہے۔ اس لئے تمہارے لئے یہ خطرہ نہیں ہو سکتا کہ تمہاری زبان گِھس جائے تو پھر کیا ہوگا۔ اس لئے کہ پھر دوسری زبان تم کو مل جائے گی پھر تیسری زبان مل جائے گی پھر چوتھی زبان مل جائے گی۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں اور بعض دفعہ تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہ بوجھ زیادہ بڑھایا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ خلیفہ کوئی بات ایسی نہیں کر سکتا جس کو کہ بعد میں پورا نہ کیا جا سکے۔ کوئی اس کو مبالغہ کہہ لے، کوئی اس کو خود پسندی کہہ لے، کوئی کچھ کہہ لے مگر میرا یہ یقین ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ لازمی نتیجہ ہے اِس بات کا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے کہ جو بھی خلیفہ کام شروع کرے گا وہ اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہوگا اور جب وہ ضروری ہوگاتو جماعت کے اندر ضرور اُس کی طاقت ہوگی۔ وہ اپنی غفلت سے اُس کو پورا کر سکے یا نہ کر سکے یہ اَور بات ہے لیکن جہاں تک امکان کا تعلق ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ناممکن تھا اس جماعت کے لئے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے اب تبلیغ ایسے رنگ میں آچکی ہے اور مشن ایسی طرز پر قائم ہو چکے ہیں کہ شاید چند مشن اَور قائم ہونے کے بعد ہم ساری دنیا میں شور مچا سکیں۔ اگر اِس وقت صرف چھ سات مشن اَور دنیا میں قائم ہو جائیں تو ایک وقت میں ساری دنیا میں آواز بلند ہو سکتی ہے اور ایسی طرز پر آواز اٹھ سکتی ہے کہ لوگوں کو اسلام کی طرف لازماً توجہ کرنی پڑے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان موجودہ مشنوں کو قائم رکھا جائے اور چھ سات مشن اَور قائم کر دیئے جائیں اور مساجد بنائی جائیں اور لٹریچر شائع کیا جائے۔یہ ساری چیزیں ہو جائیں تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام اب دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ عیسائیت کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے۔ تم تو خداتعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا مردم شماری کرو مدینہ میں کتنے مسلمان ہیں تو ان کے دلوں میں شبہ یہ پیدا ہؤا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں فرماتے ہیں بہرحال چونکہ آپ کا حکم تھا وہ گئے اور انہوں نے مردم شماری کی اور اُس وقت سات سَو مسلمان نکلے۔ صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر کہا یا رسول اللہ! ہم سات سَو نکلے ہیں مگر آپ نے کیوں مردم شماری کرائی تھی؟ کیا آپ کو یہ وہم تھا کہ اب مسلمان تباہ نہ ہو جائیں ؟وہ زمانہ جب ہم تباہ ہو سکتے تھے وہ گزر گیا۔اب تو ہم دنیا میں سات سو ہیں اب ہمیں کون تباہ کر سکتا ہے۔ 4
دیکھو کس قدر یقین اور ایمان ان کے اندر تھا۔ یہی حال تم اپنا سمجھ لو۔ ایک زمانہ وہ تھا جب اسلام کی آواز اٹھانے والا دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ اب تمہارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ برکت پیدا کی ہے اور تم کو اس برکت کا حاصل کرنے والا بنایا ہے۔ امریکہ میں تمہارے مشن ہیں، اسی طرح تمہارا مشن انگلینڈ میں ہے، ہالینڈ میں ہے، جرمنی میں ہے، سوئٹزر لینڈ میں ہے۔ یورپ میں اہم ملکوں کے لحاظ سے اٹلی ،فرانس اور سپین میں اَور مشن ہونے چاہئیں۔ ایشیا میں، جاپان میں اور آسٹریلیا میں اور ایک تھائی لینڈ وغیرہ کے علاقہ میں ہونا چاہئے جو چین وغیرہ میں تبلیغ کو وسیع کر سکے۔امریکہ میں اگر ہمارے دومشنری اَور ہو جائیں یعنی ایک کینیڈا میں اور ایک جنوبی امریکہ کے کسی علاقہ میں تو پھر اس طرح تمہاری تنظیم ہو سکتی ہے کہ تم ایک دم ساری دنیا میں اسلام کی آواز کو بلند کر سکتے ہو۔ اگر اس کے ساتھ لٹریچر مہیا ہو جائے اور خداتعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف سے زیادہ اعلیٰ لٹریچر کیا ہوگا۔ قرآن شریف شائع ہو گیا ہے اور کئی کتابیں جو ضروری ہیں وہ ہمارے زیرنظر ہیں تو اَور بھی آسانی ہو سکتی ہے۔ جوں جوں چھپوانے کی توفیق ہوگی وہ چَھپنی شروع ہو جائیں گی۔ اگر جماعت کے مخلص لوگ حصہ لے کر اورینٹل (ORIENTAL)پبلشنگ کمپنی کو کھڑا کر دیں اور پریس جاری ہو جائے تو پھر انشاء اللہ جلدی جلدی اَور لٹریچر بھی شائع ہونا شروع ہو جائے گا۔ میں نے ایسے لٹریچر مد نظر رکھ لئے ہیں جن کو فوراً ہی لکھوا کر وسیع کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ تنظیم ہو جائے تو یہ عیسائیت پر ایک ایسا حملہ ہو جائے گاجس کو رد کرنے کے لئے دشمن کے لئے مشکل پیش آئے گی۔ مثلاً دیکھو میرا قرآن شریف کا دیباچہ شائع ہؤا ہے اس کے متعلق متواتر جو رپورٹیں آرہی ہیں جرمنی سے، ہالینڈ سے اور دوسرے کئی ممالک سے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مصنّفوں نے اس کے متعلق لکھا ہے۔ بعضوں نے گالیاں بھی دی ہیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ بڑی سختی کی گئی ہے مگر تمام کا خلاصہ یہ آجاتا ہے کہ یہ اسلام کا ایسا حملہ ہے جس کے ردّ کئے بغیر ہم چُپ نہیں رہ سکتے۔ مگر یہ دیکھ لو کہ آج تو تم بہت زیادہ ہو (میں نے وہ مثال اِسی لئے مدینہ کی دی تھی کہ آج تو تم بہت زیادہ ہو ) جب تم ابھی تھوڑے تھے اور جب قرآن شریف سارا نہیں نکلا تھا صرف پہلا سپارہ شائع ہؤا تھا اُس وقت فورمن کرسچن کالج لاہور کا پرنسپل اور اس کے دو ساتھی جن میں سے ایک عالمگیر محکمہ ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن (Young Man Christian Association) کا اشاعتِ کتب کا سیکرٹری تھا اورایک جنرل سیکرٹری تھا۔ یہ تینوں مجھے قادیان ملنے آئے۔ باتیں ہوئیں باتیں ہونے کے بعد (وہ لوگ اُس وقت امریکہ جا رہے تھے) امریکہ چلے گئے۔ چند دنوں کے بعد سیلون سے وہاں جماعت نے مجھے ان کا ایک کٹنگ بھجوایا جس میں ذکر تھا کہ سیلون میں فورمن کرسچن کالج کا جو پرنسپل تھا اُس نے تقریر کی اور اُس نے کہا کہ عیسائیت کے لئے اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اس کو اسلام کے ساتھ آخری جنگ لڑنی پڑے گی اور اس نے کہا یہ احساس عیسائیوں میں عام ہے کہ اب عیسائیت کوایک آخری جنگ اسلام کے ساتھ لڑنی پڑے گی۔ لیکن کسی کا تو یہ احساس ہے کہ یہ مصر میں لڑائی ہو گی، کسی کا یہ احساس ہے کہ کسی اور بڑے مرکز میں ہوگی، یورپ میں ہوگی یا امریکہ میں ہوگی۔ مگر میں ایک دورہ سے جو ابھی آیا ہوں میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام اور عیسائیت کی یہ جنگ کسی اور بڑے مقام پر نہیں لڑی جائیگی ایک چھوٹا ساقصبہ قادیان ہے وہاں لڑی جائے گی۔
دیکھو!یہ 1917ء کی بات ہے۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ سینتیس سال اس کے اوپر گزر گئے۔ سینتیس سال ہوئے جب ہماری طاقت بالکل کم تھی، جب ابھی تحریک جدید کا نام بھی نہیں تھا اُس وقت اس شخص کی ذہانت نے بھانپ لیا کہ آئندہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ قادیان میں ہونی ہے۔ مگر اب تو تمہارے نام سے سارے کے سارے واقف ہیں۔ دیکھو ٹائن بی جو اِس وقت سب سے بڑا مورّخ مانا جاتا ہے اور قریباً گبن کی پوزیشن اس کو ملنے لگ گئی ہے بلکہ بعض تو اس سے بھی بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا مؤرّخ کبھی نہیں گزرا اس نے اپنی تاریخ میں کہا ہے کہ دنیا میں جو ردّو بدل ہؤا کرتے ہیں اور تغیّر آیا کرتے ہیں وہ اخلاقی اقدار سے آتے ہیں۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی بڑی چیز ہو یا بڑی طاقت ہو تو اس سے تغیّرات ہوتے ہیں یہ غلط بات ہے۔ پھر اس نے مثال دی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ اب اسلام کی ٹکر ہوگی جس کے سامان نظر آرہے ہیں۔ آگے اس کے مطالعہ کی غلطی ہے اس نے سمجھا ہے کہ شاید یہ جو بہائی ہیں یہ بھی مسلمان ہی ہیں حالانکہ وہ تو کہتے ہیں ہم مسلمان نہیں ہیں بہرحال وہ کہتا ہے یہ بہائی ازم اور احمدی ازم یہ دو چیزیں نظر آرہی ہیں جن میں مجھے آئندہ لڑائی والی جھلک نظر آرہی ہے۔ ان کے ساتھ ٹکر کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آئندہ تہذیب کی بنیاد اگلی صدیوں میں اسلام پر قائم ہوگی یا عیسائیت پر قائم ہوگی۔ پھر اس نے ایک مثال دی ہے کہتا ہے ہم تو گھوڑ دوڑ کے شوقین ہیں ہمارے ہاں عام گھوڑ دوڑ ہوتی ہے ہم گھوڑ دوڑ والے جانتے ہیں کہ بسا اوقات جو گھوڑا سب سے پیچھے سمجھا جاتا ہے وہ آگے نکل جاتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے یہ مت خیال کرو کہ احمدی اِس وقت کمزور ہیں کیونکہ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ پچھلا گھوڑا آگے نکل جاتا ہے اِسی طرح اب تم کو یہ کمزور نظر آتے ہیں لیکن مجھے ان میں وہ ترقی کا بیج نظر آرہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی وقت عیسائیت کے ساتھ ٹکر لیں گے اور شاید یہی جیت جائیں۔
دیکھو اتنا بڑا شخص جس کے متعلق یہ سمجھاجاتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑا مؤرّخ ہے اس کو بھی ماننا پڑا کہ احمدیت کے اندر وہ بیج موجود ہے جس نے عیسائیت سے ٹکر لینی ہے اور پھر ممکن ہے یہی جیت جائیں۔ وہ تو آخر مخالف ہے اس نے ممکن ہی کہنا تھا یہ تو نہیں کہنا تھا کہ یقینی امر ہے کہ جیت جائیں۔ تو اتنے مقام پر پہنچنے کے بعد کتنی شرم کی بات ہے اگر تم اپنا قدم پیچھے ہٹا لو۔ تم وہ تو نہ کرو جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مغرور شخص تھا۔ اس کو یہ خیال ہو گیا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور بہادری کی علامت اس نے یہ مقرر کی ہوئی تھی کہ وہ خوب چربی لگا لگا کے اپنی مونچھیں موٹی کرتا رہتا تھا چنانچہ اس نے خوب مونچھیں پال لیں۔ کوئی انچ بھر وہ موٹی ہوگئیں اور پھر اس نے ان کو مروڑ مروڑ کر آنکھوں تک پہنچا دیا۔ اور پھر اس نے یہ اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ مونچھیں بہادری کی علامت ہیں اس لئے خبردار اِس علاقہ میں میرے سوا کوئی مونچھ نہ رکھے۔ لوگوں میں مونچھیں رکھنے کا عام رواج تھا کیونکہ اُس زمانہ میں جنگی کیریکٹر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مونچھیں چڑھائی ہوئی ہوں مگر اُس نے جس کی مونچھ دیکھنی پکڑ لینی اور قینچی سے کاٹ ڈالنی اور کہنا خبردار آئندہ جو یہ حرکت کی۔ میرے مقابلہ میں کوئی شخص مونچھیں نہیں رکھ سکتا۔ سارے علاقہ میں شور پڑ گیا آخر لوگوں نے کہا ذلیل کیوں ہونا ہے مونچھیں کٹواڈالو ورنہ اس نے تو زبردستی کاٹ ڈالنی ہیں۔ کئی بیچاروں نے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جانا اور کسی نے چپ کر کے نائی سے کٹوا دینی۔ نہیں کٹوانی تو اس نے جاتے ہی بازار میں مونچھ پکڑ لینی اور قینچی مارنی اور کاٹ ڈالنی۔ اِس سے لوگوں کی بڑی ذلتیں ہوئیں۔ آخر ایک شخص کوئی عقلمند تھا یوں تھا غریب سا اس نے جو دیکھا کہ روز روز یہ مذاق ہو رہا ہے اور اس طرح لوگوں کی ذلت ہوتی ہے تو اس نے کیا کیا کہ وہ بھی گھر میں بیٹھ گیا اور اس نے مونچھیں بڑھانی شروع کردیں۔ یہاں تک کہ اس نے اُس سے بھی زیادہ بڑی مونچھیں بنا لیں۔ جب مونچھیں خوب ہوگئیں تو آکر بازار میں ٹہلنے لگ گیا اور ایک تلوار لٹکا لی حالانکہ تلوار چلانی بیچارے کو آتی ہی نہیں تھی۔ اب اس پٹھان کو لوگوں نے اطلاع دی کہ خان صاحب! چلئے کوئی مونچھوں والا شخص آگیا ہے۔ کہنے لگا کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا فلاں بازار میں ہے۔ خیر دوڑے دوڑے وہاں آئے دیکھا تو بڑے جوش سے کہا تم کو پتہ نہیں مونچھیں رکھنا صرف بہادر کا کام ہے اور میرے مقابل میں کوئی مونچھیں نہیں رکھ سکتا۔ وہ کہنے لگا جاؤ جاؤ بہادر بنے پھرتے ہو تم سمجھتے ہو تم ہی بڑے بہادر ہو مَیں تم سے بھی زیادہ بہادر ہوں۔ اس نے کہا پھر یہ تو تلوار کے ساتھ فیصلہ ہوگا۔ وہ کہنے لگا اور کس کے ساتھ ہوگا بہادروں کا فیصلہ ہوتا ہی تلوار کے ساتھ ہے۔ اس نے کہاپھر نکالوتلوار۔ چنانچہ اس نے بھی تلوار نکال لی اور اس نے بھی تلوار نکال لی حالانکہ اس بے چارے کو تلوار چلانی ہی نہیں آتی تھی۔ جب وہ تلوار نکال کر کھڑا ہوگیا تو یہ کہنے لگا دیکھو بھئی خان صاحب! ایک بات ہے اور وہ یہ کہ میرا اور آپ کا فیصلہ ہونا ہے کہ ہم میں سے کون بہادر ہے لیکن ہمارے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں۔ فرض کرو میں مارا جاؤں تو میری بیوی کا کیا قصور ہے کہ بیچاری بیوہ بنے اور میرے بچے یتیم بنیں اور تم مارے جاؤ تو تمہاری بیوی اور بچوں کا کیا قصور ہے خواہ مخواہ ظلم بن جاتا ہے۔ اس نے کہا پھر کیا علاج ہے؟ کہنے لگا علاج یہی ہے کہ میں جا کے اپنے بیوی بچوں کو مارآتا ہوں اور تم جا کے اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ۔ پھر ہم آپس میں آکر لڑیں گے پھر تو ٹھیک ہوئی بات۔ اب خواہ مخواہ اپنی اس لڑائی کے ساتھ دوسروں کو کیوں تکلیف دینی ہے۔ یہ بات بیچارے خان صاحب کی سمجھ میں آگئی انہوں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ وہ گئے اور اپنے بیوی بچوں کو مار کر آگئے۔ اور یہ وہیں بیٹھا رہا جس وقت وہ واپس پہنچا کہنے لگا نکالو تلوار۔ اس نے کہا نہیں میری رائے بدل گئی ہے اور یہ کہہ کر اُس نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں۔ تو کیا اب تم وہی کرنا چاہتے ہو!! تم تھوڑے سے تھے جب تم دنیا میں نکلے اور تم نے نکل کر دنیا سے یہ منوالیا کہ اگر اسلام کی عزت رکھنے والی کوئی قوم ہے تو صرف احمدی ہیں، تم نے دنیا سے منوا لیا کہ اگر عیسائیت کا جھنڈا زیر کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہی دلیلیں ہیں جو مرزا صاحب نے پیش کی ہیں۔ جب عیسائیت کانپنے لگی،جب وہ تھر تھرانے لگی، جب اس نے سمجھا کہ میرا مذہبی تخت مجھ سے چھینا جا رہا ہے اور یہ تخت چھین کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جا رہا ہے تو تم نے کہاہم اپنی مونچھیں نیچی کرتے ہیں۔ کیسی افسوس کی بات ہے۔ یہی تو وقت ہے تمہارے لئے قربانیوں کا، یہی تو وقت ہے تمہارے لئے آگے بڑھنے کا۔ اب جبکہ میدان تمہارے ہاتھ میں آرہا ہے تم میں سے کئی ہیں جو پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں۔لیکن یاد رکھو اِس قسم کی عزت کا موقع اور اس قسم کی برکت کا موقع اور اِس قسم کی رحمت کا موقع اور اس قسم کے خداتعالیٰ کے قُرب کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے۔ سینکڑوں سال میں کبھی یہ موقعے آتے ہیں اور خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو وہ موقعے مل جائیں اور وہ اس میں برکتیں حاصل کر لیں۔
نوجوانوں کو میں خصوصاًتوجہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں۔ خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے اوپر غیر بھی عش عش کرتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سنوارتے چلے جاؤگے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اور اسلام کی تبلیغ کا دنیا میں پھیلانا یہ نا ممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو کہ آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اِس خدمت کو دیکھ کر کس طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی۔ کیا آج تم میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج ایشیا میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج افریقہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج امریکہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج چین اور جاپان کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے یا شمالی علاقوں کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ اسلام غالب آجائے گا اور عیسائیت شکست کھا جائے گی؟ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ ربوہ جو ایک کوردِہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، ایک شور زمین والا جس میں اچھی طرح فصل بھی نہیں ہوتی، جس میں پانی بھی کوئی نہیں اِس ربوہ میں سے وہ لوگ نکلیں گے جو واشنگٹن اور نیویارک اور لنڈن اور پیرس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے؟ تو یہ تمہاری حیثیت ہے کہ کوئی شخص نہ دشمن نہ دوست یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ تم دنیا میں یہ کام کر سکتے ہو۔ مگر تمہارے اندر خداتعالیٰ نے یہ قابلیت پیدا کر دی ہے، تمہارے لئے خداتعالیٰ نے یہ وعدے کر دئیے ہیں بشرطیکہ تم استقلال کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لئے تیار رہو۔ اگر تم اپنے وعدوں پر پورے رہو، اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تاج تم چھین کے لاؤ گے اور تم پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر رکھو گے۔ تم تو چند پیسوں کے اوپر ہچکچاتے ہو مگر خداتعالیٰ کی قسم! اگر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولادوں اور اپنی بیویوں کو ذبح کرنا پڑے تو یہ کام پھر بھی سستا ہے۔
پس نوجوانوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ ان کے آباء نے قربانیاں کیں اور خدا کے فضل سے وہ اس مقام پر پہنچے کچھ ان میں سے فوت ہو گئے اور کچھ اپنا بوجھ اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اب وہ آگے بڑھیں اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے۔ جس قوم کا قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے وہ قوم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور جس قوم کی اگلی نسل پیچھے ہٹتی ہے وہ قوم بھی پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے، کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گی کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہر قسم کی شکلیں بنابنا کر تمہارے سامنے آئیں گی لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب آسمان کے فرشتے اتریں گے اور وہ کہیں گے بس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا، جتنا امتحان لینا تھا لے لیا۔ خدا کی مرضی تو پہلے سے یہی تھی کہ اِن کو فتح دے دی جائے۔ جاؤ ان کو فتح دے دو۔ اور تم فاتحانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے۔ پس بڑوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں اور بچوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں حصہ لیں اور وقفِ زندگی کریں تاکہ تمہاری قربانیوں کے ذریعہ سے پھر اسلام طاقت اور قوت پکڑے۔
مَیں نے اِس سال یہ سکیم بھی تجویز کی ہے کہ آئندہ ہمیں لٹریچر کی اشاعت کے لئے لائبریریاں قائم کرنی چاہئیں میں جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ اب مختلف جگہوں پر جاکے جماعتیں مکان لیں اور لائبریریاں قائم کریں۔ مجھے دعوۃ و تبلیغ نے بتایا ہے کہ انہوں نے 27 جگہ پر لائبریریاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کتابیں بھی انہوں نے لِسٹیں بنا کر مجھے دکھا دی ہیں کہ یہ یہ کتابیں ہم دو دو، تین تین، چار چار جلدیں وہاں رکھوادیں گے تاکہ لوگوں کو پڑھنے کے لئے دی جائیں۔ لیکن ہماری جماعتیں تو سینکڑوں جگہوں پر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتوں میں بیداری پیدا ہوگی اور وہ مکان لے کر کام شروع کریں گی تو انہیں بہت جلد اس کے فوائد محسوس ہونے شروع ہو جائیں گے۔ زیادہ ضرورت لائبریری کے لئے یہ ہوتی ہے کہ کوئی آدمی کچھ وقت کے لئے وہاں بیٹھے تاکہ وہ لوگوں کو کتابیں پڑھنے کے لئے دے یا اگر گھر پر پڑھنے والے ہوں تو ان کو کتاب اِشو (ISSUE)کرنا اور پھر ان سے واپس لے کر لائبریری میں رکھنا یہ کام ہوتا ہے۔ دعوۃ و تبلیغ نے 27 جگہیں وہی چُنی ہیں جہاں ان کے اچھے مبلغ ہیں۔ بڑے بڑے شہر انہوں نے لے لئے ہیں اسی طرح ضلعوں کے صدر مقام لے لئے ہیں اور یہ تجویز کی ہے کہ ان کا مبلغ روزانہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا کرے اور لوگوں کو کتابیں اِشو (ISSUE)کیا کرے۔ مقامی جماعتوں کے سپرد یہ کام ہوگا کہ وہ کوئی ایسا مکان لیں جس میں لوگ آسکیں اور بیٹھ سکیں۔ ایک یا دو کمرے لے لیں جس میں وہ یہ کام جاری کرسکیں۔ بعض جماعتوں نے تو اپنے مکان بنا لئے ہیں اور بعض جماعتوں نے کرایہ پر لئے ہوئے ہیں یا بعض جگہ پر بعض مخیر احمدی ہوتے ہیں گھر ان کا اچھا کھلا ہوتا ہے جس میں سے وہ ایک دو کمرے دے دیتے ہیں۔ ایک کمرہ میں لائبریری ہوگئی ایک میں بیٹھنے والے اور کتابیں پڑھنے والے بیٹھ گئے۔ لیکن ان 27 پر بس نہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں جب ہم نے یہ چیز منظم کی تو جس طرح پہلے ہم نے ایک دو مبلغ بھیجے تھے تو اس ایک دو پر پھر ہم نے بس نہیں کی۔ اس طرح اس کام میں توسیع ہوتی چلی جائے گی۔ یہ تو کسی کو چلانے کے لئے ایک حکمت ہوتی ہے بچے کو جب چلاتے ہیں تو کہتے ہیں اچھا ایک قدم، ایک قدم۔ اور ایک قدم چلاتے چلاتے پھر اسے پہاڑوں پر چڑھاتے ہیں اور میدانوں میں دوڑاتے ہیں۔ اسی طرح یہ 27 لائبریریاں نہیں ہیں یہ درحقیقت تمہارے لئے ایسی ہی ہیں جیسے 27 بسکٹ تم کو دکھائے جا رہے ہیں جس طرح بچوں کو دکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا قدم اٹھائیں۔ یہ 27 لائبریریاں پیش خیمہ ہوں گی اور ہونی چاہئیں، 27 ہزار نہیں 27 لاکھ لائبریریوں کا جن کے ذریعہ سے احمدیت اور اسلام کی تعلیم لوگوں کو پہنچائی جاسکے۔ لوگ اپنے گھروں میں جس طرح آرام سے کتاب پڑھ سکتے ہیں اس طرح مبلغ کے پاس نہیں آسکتے۔ مبلغ کے پاس تو کبھی مہینہ میں ایک دفعہ موقع مل گیا تو آگئے لیکن کتاب تو بعض ایسے اچھے پڑھنے والے ہوتے ہیں کہ ہر تیسرے چوتھے دن پڑھ کر ختم کر سکتے ہیں۔ پس جماعتوں کو چاہئے کہ جہاں جہاں بھی مرکزی جماعتیں ہیں وہ اپنی اپنی جگہوں پر کسی مکان کا انتظام کریں اور پھر دعوۃ و تبلیغ سے اصرار کریں کہ وہ ان کے لئے لٹریچر مہیا کرے۔ لیکن یہ لٹریچر وہیں مہیا کیا جائے گا جہاں ہمارا مبلغ ہوگا یا مبلغ کی جگہ پر کوئی اچھا کارکن ہوگا جس کی جماعت ضمانت دے کہ یہ کتابوں کو سنبھال کر رکھے گا ضائع نہیں کرے گا۔ لیکن جو ضلع وار جماعتیں نہیں اگر ان میں بھی جوش ہے اور اخلاص ہے اور وہ بھی اس قسم کے مکان کا انتظام کر سکتی ہیں اور آدمیوں کا انتظام کر سکتی ہیں تو ان کے اس یقین دلانے پر مَیں محکمہ کے پاس ان کی سفارش کروں گا کہ وہ ان کی جگہ پر بھی لائبریری قائم کر دے تاکہ وہ بھی اپنے علاقہ میں تربیت اور تعلیم کا کام جاری کر سکیں۔
ایک بات مَیں جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مساجد کا قیام ہمارے ہاں اکثر جگہوں پر نہیں ہے بڑی افسوس کی خبر آتی ہے جب کسی جماعت کی طرف سے یہ اطلاع آتی ہے کہ فلاں جگہ فلاں کے مکان پر نماز پڑھ رہے تھے کہ وہ کچھ خفا ہوگیا اور اس نے کہا نکالو اپنی چٹائیاں یہاں سے۔ تم اگر کبھی یہ سن لو کہ کسی کے گھر میں تمہارا بیٹا مہمان تھا اور اس نے اسے نکال دیا تو تمہارے لئے یہ بات ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ پھر تم یہ کس طرح سن لیتے ہو کہ تمہارے خدا کو کسی نے نکال دیا ہے۔ آخر مسجد خدا کا گھر ہے جب ایک جگہ پر کسی نے کمرہ دیا اور اس کے بعد کسی سیکرٹری سے یا پریذیڈنٹ سے یا اور کسی آدمی سے وہ خفا ہوگیا اور اس نے کہا اٹھاؤ چٹائیاں اور لے جاؤ میں نہیں دیتا اپنا مکان نماز کے لئے۔ تو یہ ذلّت تو ایسی ہے کہ انسان کے دل میں خیال آنا چاہئے کہ اس سے تو مرنا بہتر ہے۔ خداتعالیٰ کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تو ہماری زندگی کس کام کی۔ آخر اس میں دقّت کیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ سے بڑھ کر شان کس کی ہونی ہے۔ آپ نے معمولی زمین لی اور اس پر کچی دیواریں کھڑی کیں اور اوپر کھجور کی شاخیں ڈال دیں اور چھت بنا لی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ بارش ہوتی تھی اور آپ سجدہ کرتے تھے اور آپ کے گھٹنے بھی پانی سے تر ہو جاتے تھے، ماتھا بھی تر ہو جاتا تھا، کیچڑ بھی لگا ہؤا ہوتا تھا مگر اُسی جگہ سجدے کرتے تھے 5 ہماری جماعت میں یہ کیا آفت آئی ہوئی ہے کہ ہر شخص کہتا ہے کہ پکی مسجد ہونی چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک پکی مسجد خانۂ کعبہ بنی ہوئی تھی باقی لوگوں کے پاس اپنی سیدھی سادی مسجدیں تھیں۔ اب ایک مسجد تم نے مرکز میں بنالی ہے یہ پکی مسجد تمہارے لئے کافی ہے باقی توفیق ملے تو بے شک بناؤ۔ اگر اپنے گھروں سے خدا کا گھر اچھا بنے تو بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ کہ خدا کا گھر ہی کوئی نہ ہو یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے پندرہ پندرہ، بیس بیس سال صرف اس لئے گزار دئیے ہیں کہ اچھی جگہ نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر میں بتا دیتا ہوں امرتسر کی جماعت تھی ان کے سپرنٹنڈنٹ بڑے مخلص تھے ان کا سارا خاندان احمدی ہے اور بڑا مخلص ہے وہ میرے پاس آئے اور آکر انہوں نے کہا مسجد کے لئے دعا کریں۔میں نے کہا کیا دقّت ہے جو ہم دعا کریں۔ خدا نے سامان دیا ہؤا ہے، زمینیں بِکتی ہیں اور روپیہ بھی خدا نے آپ کو دیا ہؤا ہے۔ خدا سے دعا تو برکت کے لئے کریں گے مسجد لینے کے لئے کیا دعا کریں۔ کہنے لگے نہیں جی جگہیں تو ہیں لیکن جگہ ذرا سنٹر میں ہو جہاں اسلامیہ سکول ہے اگر وہاں جگہ ملے تو پھر اچھا ہے۔ میں نے کہا ہاں بازار کے باہر جگہ ہے، میں نے خود کئی جگہیں دیکھی ہیں وہاں لے لو۔ کہنے لگے نہیں جی وہ بہت دور ہے اس میں مزا نہیں مسجد یہاں بننی چاہئے۔ خیر میں ان کو سمجھاتارہا، تین چار سال گزرے تو پھر وہ کہنے لگے مسجد کے لئے دعا کریں۔ میں نے کہا کیا کوئی جگہ نہیں؟ کہنے لگے نہیں جی اب دعا کریں کہ ہال بازار کے باہر جگہ مل جائے۔ میں نے کہا۔ ہیں! آپ تو اسلامیہ سکول کے پاس لے رہے تھے اب کیا ہؤا ہے؟ کہنے لگے وہ تو نہیں ملتی لیکن اب یہاں بھی دقت ہو گئی ہے اور مکان بننے لگے ہیں جس کی وجہ سے اب یہ سنٹرل جگہ ہو گئی ہے ہماری خواہش ہے کہ ہمیں یہاں جگہ مل جائے آپ دعا کریں۔ میں نے کہا تم نے پہلے اُس وقت کیوں نہ لی؟ کہنے لگے اُس وقت اَور بات تھی اب تو یہ جگہ آباد ہو گئی ہے۔ میں نے کہا ہال بازار کا خیال جانے دو اگر یہاں جگہ نہیں ملتی تو شریف پورہ آباد ہو رہا ہے میں نے سنا ہے اب شریف پورہ میں جگہ ملتی ہے وہاں لے لو۔ کہنے لگے نہیں نہیں وہاں کون جاتا ہے، شریف پورہ بالکل باہر ہے۔ میں نے کہا اب موقع ہے پھر تمہیں وہاں بھی نہیں ملے گی۔ کہنے لگے نہیں بس یہ ٹھیک ہے۔ دو چار سال کے بعد پھر آئے میں نے کہا سناؤ مسجد کے لئے زمین مل گئی؟ کہنے لگے دعا کریں کہ شریف پورہ میں جگہ مل جائے۔ میں نے کہا۔ ہیں! شریف پورہ تو بڑی نامناسب جگہ تھی شریف پورہ میں ملنے کا کیا مطلب؟ کہنے لگے ہاں اب وہ بڑا آباد ہو گیا ہے اور اب وہاں بھی جگہ نہیں ملتی۔ پھر اس سے پرے ایک اَور جگہ تھی، خبر نہیں کیا پورہ بنا تھا۔میں نے کہا اُس میں جگہ لے لو۔ کہنے لگے نہیں نہیں اُس میں کون جاتا ہے شریف پورہ میں ملنی چاہئے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے کہا۔ سناؤ مسجد کا کیا حال ہے؟ اس پر پھر وہ جو میں نے نئی جگہ بتائی تھی اُس کا نام لے کر کہنے لگے دعا کریں وہاں مل جائے۔ میں نے کہا کیوں!! شریف پورہ میں کیوں نہیں لیتے؟ کہنے لگے وہاں تو اب نہیں ملتی اب اس میں بھی مشکل ہو گئی ہے آپ اس کے لئے دعا کریں۔ میں نے کہا میں ساری عمر اپنی دعا تمہاری مسجد کے پیچھے لئے پھرتا رہوں۔ پھر پیچھے خدا نے ان کو اندر بھی ایک چھوٹی سی جگہ دے دی لیکن جیسی مَیں چاہتا تھا کہ ان کو جگہ مل جائے اور اس میں لائبریری بھی بن جائے اور مسجد بھی بن جائے وہ تو باہر ہی مل سکتی تھی۔ جماعت اتنی تھی ہی نہیں کہ ان کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ اندر کوئی بڑی زمین خرید سکے۔
دوسری کراچی کی جماعت تھی مگر وہ وقت پر سمجھ گئی بہرحال ان سے بھی یہی ہؤا کہ1935ء سے میں نے وہاں جانا شروع کیا اور ان کو سمجھانا شروع کیا اور انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہاں جگہ مل جائے، فلاں جگہ مل جائے آخر یہ ہؤا کہ بڑی مصیبتوں سے ان کو راضی کیا اور انہوں نے خدا کے فضل سے مسجد بنا لی۔ بناتے بناتے کچھ ہندو وہاں سے بھاگے تو انہوں نے کچھ غنیمت کا مال بھی لُوٹااور اس طرح مسجد ان کی اَور زیادہ وسیع ہوگئی۔ اس طرح اور کئی جماعتیں ہیں۔ میں نے دیکھا ہے سارے کے سارے اس فکر میں رہتے ہیں کہ ان کو سرکٹ ہاؤس میں جگہ ملے۔ بھلا ''کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ'' تمہاری ابھی حیثیت ہی کیا ہے۔ نہ تمہارے پاس اتنا روپیہ ہے، نہ اتنی طاقت ہے، نہ شوکت ہے اور پھر بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں ایک اَور سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے ملتان والے ہیں وہ تو کہتے ہیں اب بھی امید ہے لیکن آٹھ دس سال سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں گورنمنٹ کی طرف سے زمین انعام مل جائے۔ راولپنڈی والے بھی اس کی بڑی خواہش رکھتے تھے۔ میں نے انہیں کہا تمہیں دیتا کون ہے۔ آخر تم اپنی حیثیت تو سمجھو۔ کہنے لگے بس اب مل رہی ہے اب وہ راضی ہو گئے ہیں مگر پھر تھوڑے دنوں کے بعد کہا لوگوں نے شور مچایا ہؤا ہے۔ میں نے کہا لوگوں نے ہمیشہ شور مچانا ہے تمہیں اس طرح زمین مل ہی نہیں سکتی تم کیوں خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کررہے ہو۔ تم زمین خریدو، کہیں خریدو، باہر خریدو خدا تمہاری خاطر وہیں شہر لے جائے گا۔غرض بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن میں یہی دقّت پید اہوتی رہی ہے۔ لاہور والوں کو بھی بڑی مصیبت سے پیچھے پڑ پڑ کے میں نے زمین خرید نے پر مجبور کیا۔ اِس وقت میاں سراج الدین صاحب میرے سامنے ہی بیٹھے ہیں۔ میں نے ان کو کہا کہ میاں! تم خریدو ہم زبردستی تمہارے پیچھے یہ کام لگا دیتے ہیں چنانچہ انہوں نے خرید لی اب وَاللہُ اَعلَمُ وہ کب تک محفوظ ہوتی ہے کیونکہ اس کے متعلق کچھ قانونی جھگڑے ہیں۔
بہرحال یہ خیال بالکل جانے دو کہ مسجد مرکز میں ہو۔ تم اپنے خدا پر اتنے بدظن کیوں ہو۔ تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جہاں تمہاری مسجد ہوگی خدا اُسی جگہ شہر لے جائے گا۔ کیا تم نے دلّی کو نہیں دیکھا ہؤا کہتے ہیں ہر سَو سال کے بعد وہ بگڑتی ہے اور دوسری جگہ بستی ہے۔ تو شہر اُجڑا کرتے ہیں اور دوسری جگہ بسا کرتے ہیں۔ سیالکوٹ والوں کو بھی اِسی طرح مجبور کر کے میں نے زمین دلوائی تھی۔ اُس وقت کہتے تھے کہ یہاں تو کوئی بھی نہیں جانے کا۔ مگر اب وہ کہتے ہیں کہ اِردگرد سب آبادی ہو گئی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ اب لوگوں کا اِدھر رُخ ہو گیا ہے۔ تو تم خدا پر حسن ظنّی کرتے ہوئے جہاں بھی جگہ ملے لے لو اور پھر جیسی بھی کھڑی ہو سکتی ہو مسجد کھڑی کر لو۔ لیکن جہاں میونسپل کمیٹیاں ہیں وہاں یہ امر یاد رکھو کہ تمہاری مسجد کی درخواست کبھی نہیں منظور ہونے کی۔ ''کبھی نہیں'' سے مراد یہ ہے کہ 100میں سے 98دفعہ تمہاری درخواست ردّ ہو جائے گی۔ تم ایک وسیع کمرہ بنایا کرو اور اس کا نام لائبریری رکھو، سکول رکھو، مہمانخانہ رکھو جو مرضی ہے رکھو ہر جگہ خدا کی مسجد بن سکتی ہے اور پھر تم وہاں نماز پڑھنا شروع کر دو آہستہ آہستہ لوگ اسے خود ہی مسجد کہنا شروع کر دیں گے۔ لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ احمدی اگر مہمانخانہ بھی بناتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ''ایہہ احمدیاں دی مسجد ہے''۔ غرض آہستہ آہستہ وہ آپ ہی مسجد بن جاتی ہے پھر کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔
پس ہر جگہ پر مسجدیں بنانے کی کوشش کرو۔ کوئی شہر، کوئی قصبہ اور کوئی گاؤں ایسا نہ رہے جس میں تمہاری اپنی مسجد نہ ہو۔ گاؤں والوں میں تو یہ بات ہے، شہر والوں میں عام طور پر یہ بات نہیں لیکن اگر تم مسجدیں بنانے لگو گے تو یاد رکھو میرا تجربہ یہ ہے کہ جہاں جہاں مسجد بنتی ہے وہاں فوراً احمدی بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جس وقت کراچی والا ہال بنا لوگ کہتے تھے یہ ہال تو بن گیا ہے اِس میں نمازیں پڑھنے والے کہاں سے آئیں گے؟ میں نے کہا تم بناؤ پھر دیکھو لوگ کس طرح آتے ہیں۔ چنانچہ ابھی وہ پورا تیار بھی نہیں ہؤا تھا کہ پارٹیشن ہو گئی اور دلّی کی ساری جماعت وہاں آپڑی۔ اب اس ہال میں وہاں کے سارے احمدی سماہی نہیں سکتے۔ چنانچہ اب وہ اَور جگہ پر انتظام کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس سے زیادہ کھلی جگہ ملے تاکہ ہم سب سما سکیں۔ اور اگر وہ جگہ بھی خدا نے چاہا انہوں نے بنالی تو پھر دیکھیں گے کہ پھر خدا جماعت کے بڑھنے کا کوئی ذریعہ بنادے گا اور پھر وہ تنگ ہو جائے گی۔ہمارے متعلق تو خدائی قانون ہے کہ وَسِّعْ مکَانَکَ6 اپنے مکانوں کو بڑھاتے جاؤ بڑھاتے جاؤ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنی حسن ظنی کی ہے فرماتا ہے وَسِّعْ مکَانَکَ ۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا کو میرے اور تمہارے مکان سے کیا واسطہ ہے۔ دنیا میں سارے مکان بنتے ہیں، پاخانے ہوتے ہیں، غسلخانے ہوتے ہیں، باورچی خانے ہوتے ہیں اور ہمیشہ بنتے ہیں۔ اس کو میرے اور تمہارے مکان سے کیا دلچسپی ہے۔ درحقیقت اس الہام میں اُس نے تم پر حسنِ ظنی کی ہے اور وَسِّعْ مکَانَکَ کے معنے یہ ہیں کہ اے احمدی، اے بانئ سلسلہ اور اس کے اتباع! تم جب مکان بناؤ گے تو میرے لئے بناؤ گے اس لئے میں تم پر اعتبار کرتے ہوئے کہتا ہوں اپنا مکان بڑھاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ میرا بڑھاؤ ۔ تو وَسِّعْ مکَانَکَ میں درحقیقت خدا تعالیٰ نے حسنِ ظنی سے کام لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے مکانوں کے ساتھ خدا کا مکان بھی بڑھے۔ پس خدا کا مکان بڑھاتے چلے جاؤ تمہیں خدا آپ بڑھاتا چلا جائے گا۔
مَیں نے پچھلے سال کہا تھا کہ ہر تعلیم یافتہ آدمی کسی ایک کو اَور پڑھا دے۔ اس کے متعلق بعض لوگو ں کے خطوط آئے تو بڑی خوشی ہوئی۔ بعض نے بتایا کہ ہم پڑھا رہے ہیں، بعض عورتوں نے خصوصاً یہ بتایا کہ آٹھ آٹھ، دس دس طالب علموں کو ہم نے پڑھانا شروع کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ تحریک ایک عرصہ تک گئی پھر جس طرح آگ بجھ جاتی ہے اِسی طرح بجھ گئی حالانکہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ اس لئے میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تعلیم کی طرف توجہ کریں اور تعلیم کی طرف توجہ کر کے اپنی جماعت کے مردوں اورعورتوں کا معیار بڑھائیں۔ جن لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مدرسے ہوں یا جولوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی مدرسہ کھل جائے انہوں نے کبھی بھی غیر قوموں کے تعلیمی معیار نہیں دیکھے۔ دنیا میں جتنی قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے پکے مکانوں میں کبھی نہیں کی یورپ میں انگلستان تعلیم میں سب سے بڑھ کر ہے اگر تم میں سے کسی نے بھی ان کی تعلیمی ترقی کی رپورٹ پڑھی ہو تو تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کوئی بڑی کوٹھیاں نہیں تھیں، کوئی بڑے مدرسے نہیں تھے بہت معمولی معمولی جگہوں پر ان کے مدرسے تھے اور انہی میں انہوں نے ترقی کر کے یونیورسٹیاں بنا لیں۔ نہ شروع میں ان کو یہ احساس تھا کہ کوئی بہت بڑے بڑے علوم انہوں نے سیکھنے ہیں۔ وہ ان کو اپنی زبان سکھاتے تھے اور اس کے بعد ساری چیزیں اس کے لئے آسان ہو جاتی تھیں۔دیکھو اگر سارے کے سارے لوگ مثلاً انگریزی پڑھیں تو آٹھ کروڑ کو انگریزی پڑھانا کتنا مشکل کام ہے۔ لیکن اگر بیس آدمی انگریزی پڑھے ہوئے مقرر کر دئیے جائیں کہ وہ ان علوم پر جن میں اردو میں لٹریچر نہیں ہے خود لکھیں یا دوسری کتابوں کا ترجمہ کریں۔ تو بیس آدمیوں کے ذریعہ سے آٹھ کروڑ کی پڑھائی کا انتظام ہو جاتا ہے لیکن یوں اگر آٹھ کروڑ کو پڑھانے لگیں اور سَوسَو پر بھی ایک ٹیچر ہو تو آٹھ لاکھ ٹیچر چاہئے۔ آٹھ لاکھ ٹیچر تمہارے پاس کہاں سے آئے گا؟ لیکن اگر اپنی زبان میں تراجم کرائے جائیں، اگر اپنی زبان میں کتابیں لکھ دی جائیں تو آپ ہی آپ سارے پڑھتے ہیں۔
جتنے بڑے بڑے سائنٹسٹ ہیں یا بڑے بڑے فلاسفر ہیں ان کی زندگیوں کے حالات پڑھ لو تو ان میں سے بیشتر حصہ ایسے لوگوں کا نکلے گا جنہوں نے ابتدائی تعلیم بہت معمولی حاصل کی ہوگی۔انگلستان کا سب سے بڑا ادیب ڈاکٹر جانسن ہے۔ اس کی زندگی کے حالات پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ وہ شاید مڈل تک پڑھا ہؤا تھا اور اسی میں اس نے سلف سٹڈی (SELF STUDY)کے ساتھ اور مطالعہ کے ساتھ ترقی کی۔ یہاں تک کہ اب لغتِ انگریزی کا سب سے بڑا مدوّن وہی ہے، سارے کے سارے اس کی خوبی کو مانتے ہیں۔ا سی طرح شیکسپیئر ہے اوّل تو اس کے حالات ہی بہت مبہم ہیں لیکن بہرحال جتنے ظاہر ہیں ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ بہت چھوٹی سی پڑھائی اس کی تھی مگر اس کے ساتھ اس نے ترقی کر کے بہت بڑا درجہ حاصل کر لیا۔ تو جب انسان اپنے ملک کی زبان میں لٹریچر پڑھے اور سیدھے سادے طور پر مطالعہ کرے(صرف مطالعہ کی عادت ہونی چاہئے) تو پھر وہ آگے نکل جاتا ہے۔ پس تعلیم میں یہ کوشش کرو کہ ہر احمدی اردو لکھ پڑھ سکتا ہو اور لکھنا بھی بے شک ایسا ہی ہو کہ مشکل سے پڑھا جائے۔ تم دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے جو کاتب تھے وہ کیسا لکھا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط مقوقس کے نام کا آج تک محفوظ ہے۔مَیں اِس جگہ ایک غلطی کا بھی ازالہ کر دیتا ہوں۔ میری کسی کتاب میں یہ لکھا گیا ہے کہ قیصر کے نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط لکھا تھا وہ محفوظ ہے حالانکہ وہ قیصر کے نام کا خط نہیں مقوقس کے نام کا خط ہے۔ بہرحال میاں بشیر احمد صاحب نے اس خط کی نقل منگوائی۔ جس سے منگوائی تھی وہ ایمبیسیڈر تھا اس نے یہ خیال کر کے کہ شاید ان پر بھی احسان ہو جائے اور یہ بھی کہیں کہ اس نے میرا خیال کیا ہے وہ خط میری معرفت بھیج دیا۔ انہوں نے ایک دفعہ نقل مانگی تو مجھے پہلے تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا مگر پھر جو دیکھا تو وہ انہی کے نام کی تھی بہرحال ہم نے اس کو پڑھ کے دیکھا ہے۔ وہ تحریر پڑھی ہی نہیں جاتی۔ عربی کا ایک چھوٹا سا خط ہے مگر اُس زمانہ میں ہمارے لکھنے والے ایسے ہی ہوتے تھے۔ کچھ فرق بھی تھا یعنی اُس زمانہ میں زیر زبر نہیں ہوتی تھی، نقطہ نہیں ہوتا تھا لیکن یہ بھی ہے کہ وہ ایسی طرز پر لکھتے تھے جیسے ہمارے آجکل کے زمانہ میں زمیندار جو بہت تھوڑا سا پڑھا ہؤا ہوتا ہے لکھتا ہے۔ مثلاً کسی جگہ اس نے سوٹی کا لفظ لکھنا ہو تو ''س'' الگ لکھ دیا۔ ''واؤ'' الگ لکھ دی۔ ''ٹ'' الگ لکھ دی اور ''ی''الگ لکھ دی۔ گویا یہ اپنی طرف سے سوٹی ہو گئی۔ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ میں نے سوٹی لکھا ہے اور وہ پڑھتا ہے تو سوٹی پڑھتا ہے لیکن دوسرا پڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے س و ٹ ی۔ اِسی طرز پر اس خط کی تحریر ہے کہ بیچ میں وقفے ہیں اور حروف کے درمیان ان کے جوڑ بالکل نہیں ہیں یہی اُس زمانہ کی تحریر ہوتی تھی اور اس کو بھی بہت تھوڑے لوگ جانتے تھے۔ اور پھر نہ زبر ہوتی تھی، نہ زیر ہوتی تھی، نہ نقطہ ہوتا تھا۔تو اگر اتنا بھی کوئی شخص لکھ دیتا ہے تب بھی کم سے کم وہ اپنے خیالات کو دُہرا تو سکتا ہے۔ مثلاً میں یہاں تقریر کر رہا ہوں اگر کسی کو اتنا ہی لکھنا آتا ہو اور وہ اس قسم کے حروف لکھ کر لے جائے تو بے شک تم پڑھو گے تُو اس پر ہنسو گے۔ لیکن تم ہنسو گے اور وہ اپنے گھر میں جا کر سارے رشتہ داروں کو تقریر سنا دے گا کہ یہ دیکھو میں نے لکھی ہے کیونکہ اپنا لکھا ہؤا پڑھنا اس کو آتا ہے دوسرے لوگ اس کا لکھا ہؤا نہیں پڑھ سکتے۔
مشہور ہے کہتے ہیں کسی شخص کو کسی نے کہا تھا کہ خط لکھ دے تو اس نے کہا میری لات میں درد ہے میں نہیں لکھ سکتا ۔ اس نے کہا تم نے خط تو ہاتھ سے لکھنا ہے لات کے درد کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ وہ کہنے لگا لات کے درد کا سوال یہ ہے کہ جہاں خط جائے گا پڑھ تو کسی نے سکنا نہیں اس نے پڑھنے کے لئے مجھے ہی بلانا ہے۔ اب لات ٹھیک ہو تو میں جاؤں۔ تو بے شک ایسا ہی خط ہو، حرج کیا ہے۔ بہرحال وہ تو اپنا خط جا کے پڑھے گا مگر ہمارے ہاں تو اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ میرے ایک دو بچے ایسے ہیں دو لڑکیاں ہیں اور ایک لڑکا وہ آپ بھی پھر بعد میں نہیں پڑھ سکتے۔ میرا وہ لڑکا ایک کالج میں پڑھتا تھا۔ یونیورسٹی کی کانووکیشن کا جلسہ تھا میں بھی اس میں شریک تھا۔ مجھ سے کسی نے اس کالج کے پرنسپل کو ملوایا۔ میں نے کہا میں انہیں جانتا ہوں یہ ناصراحمد صاحب کے دوست ہیں۔ وہ کہنے لگے ناصر احمد کی دوستی کا کیا تعلق ہے اپنے فلاں بچے کا نام کیوں نہیں لیتے وہ میرا شاگرد ہے۔ میں نے کہا میں نے تو جان کر نام نہیں لیا کہ آپ کو شرم نہ آجائے کہ ایسا شاگرد ہے آپ کا۔ کہنے لگا نہیں بات اصل میں یہ ہے کہ وہ جانتا خوب ہے لیکن اس کا لکھا ہؤا کوئی بھی نہیں پڑھ سکتا۔ اس لئے لازماً وہ فیل ہوتا ہے کہنے لگے ہم بعض دفعہ اس کو بلا کر کہتے ہیں کہ یہاں پرچہ پڑھ دو تو وہ کہتاہے اب مجھ سے نہیں پڑھا جاتا۔ وہ کس طرح پاس ہو سکے۔ باقی پریکٹیکل خوب جانتا ہے ہم نے اس پر سوالات کر کے دیکھا ہے وہ خوب سمجھتا ہے۔
غرض اردو اگر تم سکھا دو تو لازماً تمہارا سٹینڈرڈ اور معیار تعلیم بہت اونچا ہو جائے گا۔ یہ مت پروا کرو کہ تمہارا کوئی باقاعدہ مدرسہ ہوچاہے درخت کے نیچے رکھوبہرحال پڑھانا شروع کرو۔ ٹیگور نے اس نکتہ کو سمجھا تھا اور اس نے ایک درخت کے نیچے اپنا سکول کھول دیا تھا اور دنیا جہان سے اس کے پاس شاگرد آتے تھے تو سادگی کے ساتھ تعلیم وسیع ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر تم وہ انتظام کرو جو حکومتیں کرتی ہیں تو تم یہ دیکھ لو کہ ایک اچھے سکول کے جو معیار گورنمنٹ نے رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے لحاظ سے ایک کلاس میں حد سے حد پچاس طالب علم ہوتے ہیں اگر ہمارے ملک کے دس فیصدی طالبعلم پڑھنے والے ہوں تو چونکہ آٹھ کروڑ ہماری آبادی ہے وہ اسّی لاکھ ہوگئے۔ پچاس لڑکے اگر ایک کلاس میں ہوں تو اسّی لاکھ کے معنی یہ ہوئے کہ سَوا لاکھ مدرِّس چاہئے۔ گویا سَوالاکھ مدرِّس کے ساتھ اتنے لڑکے پڑھ سکتے ہیں اور سَوا لاکھ مدرّس ملنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ پھر سَوالاکھ مدرِّس کا ہی سوال نہیں سوال یہ ہے کہ ایک کلاس میں اگر پچاس لڑکے ہوں تو مڈل تک کی تعلیم سمجھ لو تو چار سَو لڑکا ہو گیا۔ اور چونکہ اسّی لاکھ طالبعلم ہوں گے اس لئے بیس ہزار سکول ہوں تو ان کی تعلیم کا انتظام ہو سکتا ہے اور آجکل کی عمارتوں کا جو حساب گورنمنٹ نے بنایا ہؤا ہے وہ اگر لگایا جائے تو مڈل سکول پر کم سے کم بیس پچیس ہزار روپیہ لگے گا۔ پورے سکول یا کالج پر تو ڈیڑھ دو لاکھ لگتا ہے۔ اب بیس ہزار کو پچیس ہزار کے ساتھ ضرب دو تو پچاس کروڑ بن گیا گویا پچاس کروڑ کے ابتدائی خرچ کے ساتھ صرف مدرسے بنتے ہیں۔ پھر سکول کے سامان اور فرنیچر وغیرہ کے اخراجات ملائے جائیں تو یہ کوئی ارب ڈیڑھ ارب روپیہ بن جاتا ہے۔ اور پھر مرمت کے سامان الگ ہیں اتناخرچ ایک غریب قوم کر ہی کہاں سکتی ہے۔ پس سیدھی سادی تعلیم تمہارا اصل مقصود ہونی چاہئے۔عمارتیں اور پکی عمارتیں اور چونا مقصود نہیں ہونا چاہئے۔ پس تعلیم دو اور اپنی اپنی جگہوں پر راتوں کو مسجدوں میں بیٹھ کر دو۔ ہمارے ہاں کتنا سَستا سامان تھا کہ ہمارے مدرسے ہماری مسجدیں ہوتے تھے۔ وہیں لوگ آجاتے تھے، نماز پڑھتے تھے اور نماز کے بعد بیٹھ کر لوگوں کو پڑھانا شروع کر دیتے تھے۔ پس اگر تم سارے کے سارے یہ عہد کر لو کہ تمہارا امام یا تم میں سے کوئی بڑا شخص ہر نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ سب کو سبق دے دیا کرے گا اور جتنے مرد اور عورتیں ہیں ہر ایک کے ذمہ یہ لازمی طور پر لگا دو کہ تم نے اپنی زبان میں پڑھنا ہے تو تمہارے اندر اتنا تغیّر ہو جائے گا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی تمہیں یہ نظر آئے گا کہ دنیا میں تمہارے برابر کوئی علمی قوم ہی کوئی نہیں۔
ایک بات جس کو اب میں ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اس کی ابتدائی چند باتیں بتا دیتا ہوں یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا میں ہر دفعہ جلسہ کے موقع پر کچھ نہ کچھ بیان کر دیتا ہوں لیکن وہ سارے کا سارا کہا ہؤا بے کار چلا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک گُر بتایا تھا کہ جب رمضان آئے تو انسان یہ عہد کر لے کہ ایک بدی میں چھوڑ دوں گا اور ایک نیکی مَیں اختیار کر لوں گا۔ باقیوں کو جانے دے اگر وہ ایسا کرلے تو آپ فرماتے ہیں کہ تھوڑے دنوں میں ہی ایک بڑی طاقت اس کے اندر پیدا ہو جائے گی۔ دس بیس سال میں دس بیس اہم بدیاں ایسی ہو جائیں گی جن کو وہ چھوڑنے والا ہوگا اور دس بیس اخلاق ایسے پیدا ہوجائیں گے جن کو وہ کرنے والا ہوگا۔
میری خلافت پر ہی چالیس سال گزر چکے ہیں اگر چالیس سال میں ہی ہر سال تم ایک خُلق اختیار کر لیتے تو چالیس اخلاق تمہارے اندر پیدا ہو جاتے اور تم سمجھتے ہو کہ چالیس اخلاق کی کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے درحقیقت اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کرنا دنیا کے لئے بڑا ناممکن ہوتا ہے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ لوگ آئے اور لوگوں نے سنا اور چلے گئے اور کسی نے عمل نہیں کیا، کسی نے پرواہ نہیں کی۔ کہہ دیا کہ بڑی اچھی تقریر ہوگئی ہے یا یہ کہہ دیا کہ آج تو بڑی لمبی تقریر ہوگئی مثانہ پھٹنے لگا تھا، کسی نے کہہ دیا کہ میری تو طبیعت خراب تھی میں تو اٹھ کر چلا گیا تھا۔ اس سے آگے بات ختم ہو جاتی ہے پھر فائدہ کیا ہؤا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ترقی کی اصل وجہ یہی تھی کہ لوگ جو بات سنتے تھے اُس کو پکڑ لیتے تھے اور پھر اس کو اتنی انتہا تک پہنچاتے تھے کہ ہر دیکھنے والا شخص سمجھتا تھا کہ یہ بات اس کے اندر راسخ ہو گئی ہے۔
بہرحال یہ یادرکھو کہ سب سے مقدم چیز انسانی اعمال میں اخلاقِ قومی ہوتے ہیں۔ جب تک قوم میں اخلاق پیدا نہ ہو جائیں اُس وقت تک نہ دین درست ہوتا ہے نہ دنیا درست ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں جیسے ابھی میں نے ایک اَور مسئلہ پر بھی کہا تھا کہ تم یہ تو سوچو کہ قرآن کریم نے اخلاق فاضلہ کے سیکھنے کی نصیحت کی ہے۔ تم یہ جانے دو کہ میں تمہیں اخلاق فاضلہ کی جو تعبیر بتاتا ہوں تم کہو وہ غلط ہے۔ تم یہ جانے دو کہ وہ اخلاق فاضلہ جن کو میں اخلاق فاضلہ قرار دیتا ہوں ان کے متعلق تم کہہ دو کہ یہ غلط ہیں یہ نہیں ہیں اخلاق فاضلہ۔ پر آخر یہ تو قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ ایک چیز کا نام رکھا گیا ہے اور بعض کاموں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اچھے ہیں۔ مثلاً بتایا گیا ہے کہ مومن سچ بولتے ہیں، بتایا گیا ہے کہ مومن متکبر نہیں ہوتے، بتایا گیا ہے کہ مومن مُسرف نہیں ہوتے، یہ بتایا گیا ہے کہ متقی انصاف کرنے والے ہوتے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ وہ سچی شہادت دینے والے ہوتے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ چوری نہیں کرتے، ڈاکہ نہیں مارتے، زنا نہیں کرتے۔ اسی طرح اَور کئی باتیں نہیں کرتے اب تم مجھ سے کتنا بھی اختلاف کر لو، ساری دنیا سے اختلاف کر لو۔ کہو سچ کے معنے جو تم کرتے ہو غلط ہیں یہ نہیں سچ کے معنے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اخلاق فاضلہ کا کوئی لفظ ہی قرآن کریم میں نہیں ہے تم نے اپنے پاس سے بنایا ہے۔ پر کچھ نہ کچھ تو قرآن نے کہا ہے یا نہیں کہا۔ یہ تو تم مانو گے۔ صدق کے معنے یا سداد کے معنے جو میں کرتا ہوں یا کوئی اور کرتا ہے تم کہہ دو یہ غلط ہیں ہم تو اس کو نہیں مانتے پر آخر صدق کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے اور کوئی معنے اس کے کرنے پڑیں گے۔ یہ تو نہیں کہنا پڑے گا کہ یونہی بے معنے لفظ بول دیا گیا ہے سداد کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے کوئی تو اس کے معنے کرنے پڑیں گے۔ تو میں کہتا ہوں جو بھی معنے تم کرتے ہو تم یہ بتا دو کہ تم نے جو معنے کیے ہیں اس پر عمل شروع کر دیا ہے تو بس میری تسلّی ہو جائے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کرو جو میں کہتاہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کرو جو غزالی کرتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کرو جو شاہ ولی اللہ کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کرو جو محمد مکی کرتے ہیں۔ ان سب کو چھوڑ دو تم وہ معنے کرو جو تم کرتے ہو اور پھر تم بتا دو کہ اس میں سے اتنی پرسنٹیج (PERCENTAGE) اخلاق پر ہم قائم ہو گئے ہیں۔ جب تم یہ بتا دو گے تو میرے لئے اتنا ہی جواب کافی ہوگا میں پھر مزید بحث نہیں کرونگا۔ لیکن اگر تم نہ میرے معنے سنو، نہ اپنے معنے سنو، نہ غزالی کے معنے سنو، نہ شاہ ولی اللہ کے سنو، نہ محمد مکی کے سنو، ان میں سے کسی کے بھی نہ سنو اور اس کے بعد یہ بھی کہو کہ ہم قرآن پر عمل کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں تو یہ فضول اور بے معنے بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقِ فاضلہ کے بغیر نہ دین درست ہو سکتا ہے اور نہ دنیا درست ہو سکتی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی ترقی نہ تو سائنس کی وجہ سے ہوئی ہے، نہ گولہ بارود کی وجہ سے ہوئی بلکہ اس کی ترقی محض اخلاق کی وجہ سے ہوئی ہے۔
میں نے ابھی ایک واقعہ سنایا تھاکہ ایک نوجوان ڈاکٹر یورپ سے آیا اور اس نے آکے بڑے ڈرتے ڈرتے اور شرماتے شرماتے مجھ سے پوچھا کہ ایک بات میں نے وہاں عجیب دیکھی ہے۔ میں نے پوچھا کیا دیکھی ہے؟ اس نے کہا یہ دیکھی ہے کہ ان کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں۔ اُس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں اسلام سکھایا جاتا ہے، مسلمان کہا جاتا ہے لیکن اخلاق تو اُن کے اچھے ہیں اور یہ واقع ہے۔ انگریزی عدالتوں میں چلے جاؤ اور وہاں ان کے واقعات دیکھو جج پوچھتا ہے تم نے یہ جُرم کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہاں کیا ہے۔ پھر پوچھتا ہے تم فلاں جگہ پر تھے؟ وہ کہتا ہے جی تھا۔ ہماری عدالت میں چلے جاؤ۔ چور کو پولیس والے عین سیندھ کے اوپر سے پکڑ کے لاتے ہیں اور جج پوچھتا ہے تم وہاں تھے؟ وہ کہتا ہے جی میں تو اس محلہ میں تھا ہی نہیں۔ وہ پوچھتا ہے تم کہاں تھے؟ وہ کہتا ہے میں توفلاں شہر میں تھا۔ پھر وہ پوچھتا ہے ارے پولیس نے تم کو وہاں سے نہیں پکڑا؟ وہ کہتا ہے جھوٹ ہے اِن کو مجھ سے فلاں پرانی عداوت تھی اِس کی وجہ سے یہ مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں۔ غرض شروع سے لے کر آخر تک تمام جھوٹ ہی جھوٹ چلتا چلا جاتا ہے۔ اور وہاں گو مجرم اپنے بچاؤ کی بھی کوشش کرتا ہے ٹرِک بھی کرتا ہے لیکن غیرضروری ٹرِک نہیں کرتا۔ اور یہاں غیر ضروری جھوٹ بولا جاتا ہے مثلاً چوری کے ساتھ اِس کا کوئی تعلق نہیں کہ اُس نے اُس وقت کالا کوٹ پہنا ہؤا تھا یا لال لیکن وہ اگر کہیں گے کہ کالا کوٹ پہنا ہؤا تھا تو یہ کہے گا نہیں میں نے تو لال پہنا ہؤا تھا یا مثلاً وہ کہہ دیں گے تمہارے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اب اس کا چوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بھلا چوری کا چھڑی سے کیا تعلق ہے لیکن یہ کہے گا نہیں میرے ہاتھ میں چھڑی نہیں تھی میرے ہاتھ میں قرآن شریف تھا۔ غرض وہ غیر ضروری جھوٹ جس کا مقدمہ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی یہ بولتا ہے اور ہر بات میں ان کی تردید کرتا جائے گا اور کہے گا یہ نہیں تھا لیکن یورپ میں چلے جاؤ وہ سَو میں سے ننانوے باتیں مان لے گا کوئی ایک اپنی جان بچانے کے لئے بیچ میں ٹرِک بھی کر جائے گا۔ باقی سب باتوں کے متعلق کہے گا کہ ٹھیک ہیں۔
اسی طرح سَو دوں کو دیکھ لو وہ اپنے کئے ہوئے سَودوں کے متعلق جو بھی وعدہ کریں گے اسے پورا کریں گے لیکن ہمارے مُلک میں سَودے کر کے دیکھ لو سب باتوں میں جھوٹ شروع ہو جائے گا۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں کشمیر گیا۔ وہاں ایک قسم کی قالین بنتی ہے جو اونی ٹکڑے کاٹ کاٹ کے اور پھر اُن کو سی کر بناتے ہیں اور اس کو گابھا کہتے ہیں۔اس میں وہ مختلف رنگ کے دُھنے رنگتے ہیں کوئی سبز رنگ لیا، کوئی زرد رنگ لیا، کوئی سرخ رنگ لیا، کوئی نیلا رنگ لیا، کوئی سفید لے لیا اور پھر اس کے ٹکڑے کاٹ کے اور خوبصورت ڈیزائن بنا کے وہ قالین بنا دیتے ہیں جن کو گابھا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھ کر پسند آیا۔ چنانچہ میں نے بھی چاہا کہ یہاں سے دو چار خرید کر لے جائیں اپنے گھروں میں تحفہ دیں گے۔ ایک شخص اسلام آباد میں اس کام کے لئے اچھا مشہور تھا۔ میں نے اس کو جا کے کہا کہ میں یہ قالین پنجاب میں تحفۃً لے جانا چاہتاہوں تم مجھے اچھے سے بنا دو۔ اس نے کہا اچھا کچھ پیشگی دے دیں چنانچہ ہم نے کچھ رقم اس کو پیشگی دے دی اور ہم آگے پہاڑ پر سیر کے لئے چلے گئے۔ میں نے اسے یہ بھی کہا کہ دیکھنا میں جو اس کا میئر (MEASURE)بتاؤں گا یعنی لمبائی چوڑائی بتاؤں گا وہ ٹھیک ہو کیونکہ میں کمروں کے لحاظ سے لے رہا ہوں۔ اس نے کہا بالکل ٹھیک ہوگا۔ جب وہ آئے تو مجھے دیکھتے ہی پتہ لگ گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں اور پھر جو ماپ کر دیکھا تو ایک بالشت چوڑائی میں کمی تھی اورایک بالشت لمبائی میں کمی تھی۔ اب بظاہر تو ایک بالشت معلوم ہوتی ہے لیکن ضرب دو تو بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔ میں نے اس کو کہا یہ تو تم نے بڑی دھوکابازی کی ہے کہ ''اس کو چھوٹا بنا دیا ہے۔ اس پر اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ''میں مسلمان ہوں ،میں مسلمان ہوں''۔ میں نے کہا مسلمان تو تم ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ تمہاری عملی چیز موجود ہے ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ تھا یا نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے قالین بناؤں گا؟ اور پھر دو چار آدمیوں کے سامنے یہ بات ہوئی تھی میں نے ان آدمیوں سے کہا کہ بتاؤ تمہارے سامنے اس نے یہ وعدہ کیا تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا ہمارے سامنے وعدہ کیا تھا۔ اس پر میں نے اسے کہا کہ دیکھو تم نے وعدہ کیا تھا وہ اپنے کشمیری لہجہ میں کہنے لگا ''میں مسلمان ہوندی'' کشمیری مرد کو مؤنث بولا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہنے لگا ۔''جی میں مسلمان ہوندی۔میں مسلمان ہوندی''۔میری عمر اُس وقت کوئی انیس بیس سال کی تھی مجھے اس پرغصّہ چڑھے کہ یہ اپنا فعل اسلام کی طرف کیوں منسوب کرتا ہے۔ یہ کہے میں نے ٹھگی کی ہے جانے دو یہ کیوں کہتا ہے کہ میرے مسلمان ہونے کے لحاظ سے میرا یہ حق تھا کہ میں یہ ٹھگی کرتا۔ غرض میں اصرار کروں کہ اسے پورا کراؤ اور وہ یہی کہتا جائے کہ میں مسلمان ہوں میں مسلمان ہوں۔ گویا اسلام اتنا گر گیا ہے کہ اب یہ سمجھا جاتا ہےکہ مسلمان اگر ٹھگی کرے تو وہ بھی گویا اس کا ایک قسم کا جائز حق ہے۔
پھر ایسے ایسے گند میں مبتلا ہوتے ہیں کہ حیرت آتی ہے۔ ایک دفعہ ہم پالم پور گئے وہاں کچھ دقّت ہو گئی لیکن میری وہاں ٹھہرنے کی صلاح تھی میں نے کہا کہ کچھ چارپائیاں یہاں سے سستی سستی بنوالاؤ۔ پہاڑوں پر بہت سستی چارپائیاں تین تین چار چار روپیہ میں مل جاتی ہیں۔ میں نے کہا چند بنوالو لوگ نیچے سوتے ہیں۔ انہوں نے ایک دکاندار کو بنانے کے لئے کہہ دیا۔ اُس نے کچھ تو نہ دیں اور کچھ بالکل ہی اوٹ پٹانگ بنادیں جو سونے کے قابل ہی نہیں تھیں۔ ایک دفعہ ہم موٹر میں جا رہے تھے کہ کسی نے کہا یہ دکاندار ہے یہ باقی چارپائیاں دیتا بھی نہیں اور جو اس نے بنائی ہیں وہ بھی خراب ہیں۔ میں نے اُس کو بلایا اور کہا دیکھو تم مسلمان ہو تمہیں دیانت سے کام لینا چاہئے۔ مگر اُس پر اِس قدر جہالت غالب تھی کہ وہ کہنے لگا تم تو ہمارے خدا ہو،خدا نے ہم کو نہیں پالنا تو کس نے پالنا ہے۔ میں نے کہا بے وقوف چارپائی کا سوال تھا اب تُو نے مجھے خدا بھی بنا دیا یہ کیا نالائقی ہے؟ کیا تُو مسلمان ہے؟ کہنے لگا جی ہاں میں مسلمان ہوں۔ مگر جتنا میں اس کو سمجھاؤں وہ کہے لو آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے چونکہ ہندوؤں سے سنا ہؤا تھا کہ بت ہوتے ہیں اس نے یہی سمجھنا شروع کر دیا کہ مذہبی پیشوا اور لیڈر خدا ہی ہوتا ہے اور مذہبی لیڈر ہونے کے لحاظ سے گویا یہ اس کا کام ہے کہ وہ ان کی شرارت اور دھوکے بازی کو اِنکرج (ENCOURAGE) کرے بجائے اس کے کہ ان کو نصیحت کرے۔ اس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمان کی تجارت وغیرہ بالکل تباہ ہو گئی اور یورپ کی تجارتیں بڑھ گئیں۔ اب کہا یہ جاتا ہے کہ یورپ والوں نے سائنس کے ذریعہ سے ترقی کی ہے۔ حالانکہ سائنس تو آج نکلی ہے اور ہماری تجارتیں سائنس کے نکلنے سے بھی سالہا سال پہلے خراب ہو چکی تھیں۔ پہلے ہاتھوں سے ہی کپڑے بناتے تھے جیسے ہمارے ہاں کھڈیاں ہوتی ہیں۔ ان کے بھی کھڈیاں ہوتی تھیں لیکن ان کا کپڑا یہاں آکے بِکتا تھا ہمارا نہیں بِکتا تھا۔اِس کی وجہ یہی تھی کہ وہ دیانت کے ساتھ کام کرتے تھے ہم نہیں کرتے تھے۔باقی رہا گولہ و بارود۔ سوگولہ و بارود اُن کے ترقی کر جانے کے بہت بعد نکلا ہے۔ انہوں نے تو ترقی آج سے سات سو سال پہلے کی ہوئی تھی۔ اُس وقت گولہ و بارود تھا ہی نہیں۔ گولہ و بارود پہلے مسلمانوں نے نکالا پھر اُدھر منتقل ہو کر گیا ہے لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ یورپ نے اپنی فوجوں اور گولہ و بارود کے ذریعہ سے ترقی کر لی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے جب یورپ نے شکست کھائی تو انہوں نے غور کیا کہ مسلمان کیوں جیتتا ہے۔ مسلمان کے پاس گھوڑا ہے ہمارے پاس بھی گھوڑا ہے، اس کے پاس تلوار ہے ہمارے پاس بھی تلوار ہے، مسلمان کے پاس فوج ہے ہمارے پاس بھی فوج ہے۔ پھر جیتتا کیوں ہے؟ تو انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمان کے اخلاق اعلیٰ ہیں انہوں نے کہا چلو ہم بھی وہی اخلاق اختیار کریں پھر جیتیں گے۔ اِدھر مسلمان جُوں جُوں بڑھتے گئے اِنہوں نے سمجھا ہماری فوج دس ہزار ہے اُن کی فوج ایک ہزار ہے ہم اعلیٰ ہیں۔ فوج کی وجہ سے اِنہوں نے اخلاق کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور اُنہوں نے اخلاق کو پکڑنا شروع کر دیا۔ چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جب اسلامی لشکر نے حملہ کیا تو بادشاہ نے ایک آدمی بھیجا کہ ذرا ان کے لشکر کا حال دیکھو اور جا کے اندازہ لگاؤ کہ ان کی کتنی طاقت ہے۔ اس نے واپس آکر کہا کہ تم نہیں جیت سکتے کیونکہ یہ لوگ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ جو اِن کا کیریکٹر ہے کہ اپنے آپ کو انہوں نے اسلام میں محو کر دیا ہے اور نماز اور روزے اور حج اور زکوٰۃیہ سارے کے سارے کام لڑائیوں میں بھی جاری ہیں یہ بتا رہے ہیں کہ ان کا کیریکٹر اعلیٰ ہے تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔چنانچہ یہی ہؤا۔ تو یورپ کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کے اخلاق بالا ہیں۔ انہوں نے اخلاق میں نقل کرنی شروع کر دی۔ ہمارے آدمیوں نے آہستہ آہستہ یہ سمجھ لیا کہ اپنی تعداد کی وجہ سے اور اپنے روپیہ کی وجہ سے اور اپنی فوجوں کی وجہ سے ہم جیتتے ہیں۔ تو جب فوج کے پیچھے اخلاق نہ رہے تو اس نے لڑنا کیا تھا اور جب تجارت کے پیچھے اخلاق نہ رہے تو اس نے جیتنا کیا تھا۔ تجارتوں میں کھوٹ شروع ہوئے۔ جب کھوٹ شروع ہوئے تو غیر ملکوں سے جو روپیہ آتا تھا وہ وہاں سے آنا رُک گیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ تجارت بند ہونی شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ ان کے سامان بِکنے لگ گئے اور ہمارے سامان بند ہونے شروع ہو گئے۔
ایک زمانہ وہ تھا اوروہ بھی کوئی بہت دور کا زمانہ نہیں الزبتھ کا زمانہ ہے۔ (جو 1558ء سے 1603ء تک تھا) میں سمجھتا ہوں شاید چار سَو سال اس کو ہوئے ہیں میں جب انگلستان میں گیا تو میں نے خود برائٹن میں ایک عمارت بنی ہوئی دیکھی تھی۔ وہاں کی میونسپل کمیٹی نے ہمارے اعزاز میں ایک جلسہ کیا تھا اور چونکہ وہ عمارت میونسپل کمیٹی کے چارج میں ہے اس لئے انہوں نے وہ عمارت بھی ہمیں دکھائی۔ جب الزبتھ پر حملہ ہؤا ہے تو اس نے تُرکوں کے بادشاہ کو لکھا کہ میں ایک غریب عورت ہوں اور کمزور ہوں مجھ پر سپین والوں نے حملہ کیا ہے۔ مسلمان بڑے بہادر ہوتے ہیں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اپنی فوج بھیجیں اور میری مدد کریں چنانچہ ترک بادشاہ نے ایک جرنیل اور اس کے ساتھ کچھ اور بڑے افسر بھیجے کہ جا کر جائزہ لو کہ ہم اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔ جب وہ وہاں پہنچے تو چونکہ وہ اس کے بُلاوے پر آئے تھے اس نے ان کے لئے وہیں سے انجینئر بلوا کے مسجد تعمیر کروادی۔مسجد کا خاص گنبد وغیرہ نہیں تھا کمرہ بنا ہؤا تھا۔ جب انہوں نے یہ عمارت ہمیں دکھائی تو ہم نے فوراًپہچان لیا اس میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا تھا۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھول بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ کہنے لگے دیکھئے کیسے اچھے پھول بنے ہیں۔ ہم نے کہا یہ پھول نہیں یہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا ہؤا ہے۔ غرض اس پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا ہؤا تھا گویا اس وقت یہ حالت تھی کہ اسلامی شوکت اور اس کی طاقت کے مقابلہ میں یورپ کے لوگ بالکل زیر ہوتے تھے اور الزبتھ جو اتنی مشہور ہے اس نے ترکوں سے امداد کی درخواست کی تھی لیکن بعد میں وہ زمانہ آیا کہ کچھ بھی نہ رہا۔ انگریزوں نے اور امریکیوں نے اور دوسری قوموں نے ہر جگہ پر اس طرح مسلمانوں کے ملکوں پر قبضہ کیا کہ کسی جگہ بھی ان کی کوئی عزت اور رتبہ باقی نہ رہا۔ ساری وجہ اس کی یہی تھی کہ اخلاق نہ رہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دولت کی فراوانی ہمیشہ باہر سے آتی ہے یہ جو لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ دولت اندر سے پیدا ہوتی ہے وہ غلطی کرتے ہیں۔ ایک حد تک قومی معیار دولت کا اندر سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو دولت کی فراوانی ہوتی ہے ہمیشہ باہر سے آتی ہے۔ دولت کے متعلق یہ نظریہ بالکل غلط ہے جو آجکل کے کالجوں کے پڑھے ہوئے عام طور پر پیش کرتے ہیں۔ دولت کے متعلق کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ یورپ والے اور اقتصادیات کے ماہر کر رہے ہیں کہ ساری دنیا ایک سٹینڈرڈ پر ہو جائے اور وہی ایک ہائرسٹینڈرڈ سب کو مل جائے۔ روس بھی یہی لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے، امریکہ والے بھی یہی دھوکا دے رہے ہیں، انگریز بھی یہ دھوکا دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم اپنی ڈیماکریسی سے ساری دنیا کو اونچا کر دیں گے اور ایک معیار پر لے آئیں گے۔ روس والا کہتا ہے ہم اپنے کمیونزم کے ساتھ سب کو اونچا کر دیں گے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکن بات ہے کہ ساری دنیا کا وہ معیار ہو سکے جو امریکہ کا ہے۔ ساری دنیا کا اگر ایک معیار کرنا ہوگا تو امریکہ کو دس ڈگری نیچے گرانا ہوگا پھرجاکے دنیا کا معیار ایک ہو سکتا ہے کیونکہ ترفّہ7 کی جو ترقی ہے اس کی اقتصادی لحاظ سے ایک حدہوتی ہے۔
ایک دفعہ یہاں عالمگیر بنک جو یو این او نے بنایا ہے۔ (یونائیٹڈ نیشنز ایسوسی ایشن نے )ان کا ایک بنکوں کا وفد پاکستان اور ہندوؤں کا معائنہ کرنے کے لئے آیا۔ ان میں سے ایک بڑا افسر مجھے بھی ملنے کے لئے آیا اور مجھ سے اس کی باتیں ہوئیں اب غالباً وہ اور بھی بڑے عُہدہ پر ہوگیا ہے۔ اخباروں میں بعض دفعہ اس کا نام چَھپا کرتا ہے بہرحال جب اس کی باتیں ہوئیں تو میں نے اس سے کہا کہ آپ دورہ کیوں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ ہم اس لئے دورہ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ امریکہ کا اور یونائیٹڈ نیشنز کا یہ فیصلہ ہے کہ سارے غریب ملکوں کو اونچا کیا جائے اور ان کی مالی مدد کی جائے۔ میں نے کہا میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ آپ لوگ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ سارے ملکوں کا ایک معیار کر کے ہر ایک کی دولت کا معیار امریکہ اور انگلینڈ والا کر دیں لیکن مجھے تو یہ بات بالکل جھوٹی نظر آتی ہے۔ جہاں تک میں نے اقتصادیات کا مطالعہ کیا ہے یہ ناممکن ہے۔ بڑی بات تو یہی ہے کہ خود یورپ کے جو مختلف ملک ہیں ان کا ایک سٹینڈرڈ نہیں اگر یہ سارے ایک سٹینڈرڈ پر آسکتے تو یورپ کے سارے کے سارے ملک انگلینڈ کے سٹینڈرڈ پر کیوں نہیں آئے۔ سپین کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے۔ اٹلی کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے۔ پولینڈ کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے۔ اور رومانیہ اور بلغاریہ اور یونان کا وہ سٹینڈرڈ نہیں جو انگلستان کا ہے تو اگر یہ ممکن ہوتا تو تمہارے گھر میں کیوں نہ ہوتا۔ پھر اگر ساری قومیں ایک سٹینڈرڈ پر آسکتی ہیں تو افراد بھی آسکتے ہیں۔ کیا امریکہ کے سارے آدمی ایک سٹینڈرڈ پر آئے ہوئے ہیں؟ اگر امریکہ کے سارے آدمی اعلیٰ سٹینڈڑڈ پر آجائیں تو پھر ہم مان سکتے ہیں کہ اَوروں کو بھی تم اعلیٰ سٹینڈرڈ پر لے جاؤ گے۔ تم یہ تو کر سکتے ہو کہ امریکہ کو گرا کے کچھ نیچے لے آؤ۔ فرض کرو وہ معیارِ معیشت کے لحاظ سے سَو نمبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم دو نمبر پر ہیں اور تم یہ کرو کہ امریکہ کو گرا کر چالیس پر لے آؤ اور ہم کو اٹھا کر چالیس پر لے جاؤتو یہ تو ممکن ہے لیکن یہ کہ امریکہ سَو پر قائم رہے اور تم ہم کو دوسے سَو پر پہنچا دو یہ ناممکن ہے۔ تم مجھے بتاؤ تو سہی تم یہ کس طرح کر سکتے ہو؟ وہ کہنے لگا میرا اپنا بھی خیال یہی ہے۔یہ اقتصادیات والے جو بات کرتے ہیں غلط ہے۔ میں نے کہا تو پھر تم کیا کوششیں کرتے پھرتے ہوتمہاری اس کوشش کے صرف یہ معنے ہیں کہ تم ہمارے ملک میں آکر ہمیں خوش کرو اور کہو کہ ہم تمہیں اونچا کرنا چاہتے ہیں اور اصل میں تم بھی جانتے ہو کہ تم اونچا نہیں کر سکتے۔ تم صرف اتنی مدد یہاں کر سکتے ہو کہ ہمارے کئی سامان ایسے ہیں جو ہمارے کام آسکتے تھے لیکن ہم نے وہ استعمال نہیں کئے۔ مثلاًہماری زراعت زیادہ کپاس پیدا کرسکتی ہے، ہماری فصلیں زیادہ گندم پیدا کرسکتی ہے۔ اسی طرح ہماری اور کئی چیزیں ہیں جو ہم کوشش کرکے زیادہ اچھی کر سکتے ہیں یا بعض چیزیں جو ہم باہر سے منگواتے ہیں ان کے منگوانے کی ضرورت نہیں ہم بغیر کسی زیادہ کوشش کے وہ یہیں پیدا کر سکتے ہیں۔ پس تم ان میں ہم کو اونچا کردو اور ہمارا معیار دو کی بجائے دس یا آٹھ کردو لیکن تم وہاں تو نہیں لے جا سکتے جہاں امریکہ کے لوگ کھڑے ہیں۔ اس نے کہا یہ ٹھیک ہے اور اُس کو بھی میرا نظریہ تسلیم کرنا پڑا۔ میں نے اسے کہا تم امریکہ والے جو بڑھے ہو تو ہمارے طفیل بڑھے ہو۔ اگر ہم اونچے ہو گئے تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا۔ اگر چین اونچا ہو گیا تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا۔ اگر انڈونیشیا اونچا ہو گیا تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا۔ جب تک امریکہ اپنے مقام پر کھڑا رہتا ہے ہم کبھی اس تک نہیں جا سکتے بہرحال نیچے ہی رہیں گے۔
اب یہ جو دولت باہر سے آتی ہے یہ کیوں آتی ہے؟یہ محض اخلاق کی وجہ سے آتی ہے۔ قومی تعصب لوگوں میں ہوتے ہیں لیکن وہ ایک حد تک چلتے ہیں آگے پھر رُک جاتے ہیں۔ جب قومیں یہ دیکھ لیتی ہیں کہ ہمارے آدمیوں کے اخلاق گرے ہوئے ہیں اور وہ چیزوں میں کھوٹ ملاتے ہیں لیکن جو باہر کے لوگ ہیں وہ بہت اچھی چیزیں بناتے ہیں تو ہمیشہ لوگ اُس سے خریدنے لگ جاتے ہیں۔ اب مجھے عام شکایت یہ معلوم ہوئی ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ یہ چیز پاکستان کی بنی ہوئی ہے تو کہتے ہیں بس ہم نہیں لیتے انگلستان کی بنی ہوئی چیز کے فوراً خریدار مل جاتے ہیں۔ گویا وہ اثر اب تک دلوں پر چلا جاتا ہے کہ انگلستان اور امریکہ کی چیز اچھی ہوتی ہے اور ان میں دیانتداری ہوتی ہے۔ اگر وہی دیانتداری تم کرنے لگ جاؤ اوروہ دیانتداری تم منوالو کچھ دیر اس میں بے شک لگے گی لیکن اگر تم لوگوں سے اپنی دیانتداری منوالو تو تمہاری وہی چیز بِکنے لگ جائیگی۔ مثلاً ہندوستان ہے اس نے یہ بات منوالی ہے چنانچہ اب ہندوستان میں سے جو آدمی آتے ہیں ان سے میں نے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں یہ نام لے دو کہ امریکہ کی ہے تو وہ فوراً چھوڑ دیتے ہیں۔ کہیں گے نہیں ہندوستانی لاؤ۔ کیونکہ اچھی سے اچھی چیزیں وہاں بننے لگ گئی ہیں اور ان کے معیار اعلیٰ ہو گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر کھوٹ نہیں ہے، فریب نہیں ہے اس وجہ سے ان کا کام خوب چل رہا ہے۔ تو اگر تم دنیا میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اخلاقی معیار بلند کرو۔ اگر اخلاقی معیار تم بلند نہیں کرو گے تو دنیا میں تمہیں کوئی عزت نہیں ملے گی۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم غریب ہیں۔ میرے پاس عام طورپر لوگ آتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں بڑی مصیبت ہے دعا کریں حالانکہ اصل سوال تو یہ ہے کہ وہ اپنا معیارِ اخلاق کیوں نہیں بلند کرتے۔ یہی زمین ہے جس کے متعلق جاپان میں گورنمنٹ پاکستان کے آدمی گئے تھے تو انہوں نے آکے رپورٹ کی کہ وہاں فی ایکڑ دو ہزار روپیہ اوسط آمدن ہے۔ ہمارے ہاں فی ایکڑ دس پندرہ بیس پچاس حد سے حد آمد ہے۔ مربع والی زمینوں میں سَو دوسَو ہے اس سے زیادہ نہیں اور وہ سَو دو سَو انتہائی اعلیٰ درجہ کی زمینوں کا ہے لیکن وہاں انہوں نے بتایا کہ عام سٹینڈرڈ دو ہزار کا ہے اور تین ایکڑ فی خاندان ملا ہؤا ہے چھ ہزار روپیہ کماتے ہیں جو پانچ سو روپیہ مہینہ بنتا ہے۔
اسی طرح اٹلی کے ہمارے ایک مبلغ تھے وہ آئے ہم نے مجبوری کی وجہ سے ان کو الگ کر دیا تھا کیونکہ ہمارے پاس خرچ نہیں تھا۔ ہم نے کہا تم نے دو سال کس طرح گزارے؟ انہوں نے کہا میرا خسر میری مدد کیا کرتا تھا۔ انہوں نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کی ہوئی ہے۔ میں نے کہا تمہارے خسر کی کیا آمد ہے؟ کہنے لگے اب تو کوئی آمدن ان کی نہیں ہے مگر ان کا جو باپ تھا وہ وہاں انگریزوں کا قنصل تھا اور پھر وہ وہیں رہ گیا تھا۔ اس نے وہاں چودہ ایکڑ زمین خرید لی تھی۔ بیٹے پر ا س کو کچھ اعتبار نہیں تھا اُس نے وہ ساری زمین بیٹی کے نام کر دی۔ آگے بیٹی کے حالات کچھ ایسے اچھے ہو گئے کہ اس کو اس زمین کی آمدن کی چنداں ضرورت نہ رہی۔ اس نے اپنے بھائی کے ساتھ احسان کیا اور وہ چودہ ایکڑ زمین اس کو دے دی اور اب وہ اس کے ذریعہ آپ بھی کھاتا ہے اور مجھے بھی دیتا ہے۔ میں نے کہا وہ خود کاشت کرتا ہے؟ کہنے لگا نہیں وہ زمین اس نے آگے تین مزارعوں کو دی ہوئی ہے۔ اب گو اٹلی کا معیار انگلینڈ سے کم ہے لیکن ہم سے تو پھر بھی تین چار گُنے زیادہ ہی ہے۔ میں نے کہا تو اس معیار پر وہ تین مزارع کماتے ہیں پھر وہ اس کو دیتے ہیں، وہ آگے تم کو دیتا ہے؟ کہنے لگا نہیں جی وہ اپنی بہن کو بھی بھیجتا ہے۔ میں نے کہا پھر تو بات اور زیادہ مشکل ہو گئی تمہاری آمدن کہاں سے ہوتی ہے؟ اس پر پھر میں نے لمبی جرح کی اور اس نے بتایا کہ اس اس طرح وہ محنت کرتے ہیں، پولٹری فارم بھی انہوں نے بنایا ہؤا ہے، ڈیری فارم بھی انہوں نے بنایا ہؤا ہے اور شہد کی مکھیاں بھی رکھی ہوئی ہیں اور پھولوں کے پودے بھی رکھے ہوئے ہیں جن سے وہ پھول اُگاتے ہیں اور پھل بھی رکھے ہوئے ہیں۔ غرض عجیب نقشہ اُس نے بتایا کہ رات دن وہ لگے رہتے ہیں اور اس طرح ان کی آمدن ہوتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ اٹیلین معیار پر جو انگریزوں سے کم ہے لیکن ہم سے بہت زیادہ ہے آپ بھی گزارہ کرتا تھا،اس داماد کو بھی دیتا تھا، اپنی بہن کو بھی بھیجتا تھا اور تین مزارع بھی اس میں سے گزارہ کرتے تھے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگر ہمارے ملک کے لوگ محنت کریں تو ا ن کو دولت نہ ملے لیکن یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ سندھ میں ہماری کچھ زمینیں ہیں۔ پنجاب کی حالت تو پھر بھی اچھی ہے لیکن وہاں یہ حالت ہے کہ صبح کے وقت مالک کے نوکر زمینداروں کو کھینچ کھینچ کر اور ترلے کر کر کے اور منتیں کر کر کے اور بعض دفعہ دھمکیاں دے کر لاتے ہیں کہ چل کر ہل چلاؤ یا پانی دو۔ اور اگر کسی فصل سے گزر گئے ہیں اور پانی نظر آتا ہے اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ پانی کس طرح آگیا ہے؟ تو زمیندار کہتا ہے کسی نوکر سے کر وا لیا کرو یا مجھ سے پیسے لے لیا کرو..... مجھ سے رات کو نہیں جاگا جاتا۔ اب بتاؤ جنہوں نے اس قسم کی محنت کرنی ہے انہوں نے کمانا کیا ہے اور انہوں نے کھانا کیا اور انہوں نے کھلانا کیا ہے۔ اگر تم واقع میں صحیح محنت کرو تو دنیا میں ایک ایکڑ پر لوگ ہزار دو ہزار روپیہ کماتے ہیں اور تم بھی کما سکتے ہو۔ تم اگر ہزار میں سے دو سَو بھی کمانے لگ جاؤ تو تمہاری حالت بدل جائے۔ یہاں ہماری ہولڈنگ چھ سات ایکڑ کی ہے مگر ان ملکوں میں دو تین ایکڑ کی ہے۔ اگر فرض کرو ہزار روپیہ نہیں دوسَو روپیہ بھی فی ایکڑ آجائے تو بارہ سَو ہو گیا۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ سَو روپیہ مہینہ زمیندار کی آمدن ہو گئی اور سَو روپیہ مہینہ انٹرنس والے کو دس پندرہ سال کے بعد جا کر ملتا ہے۔ غرض تمہارے چندے بھی اِس پر منحصر ہیں اور تمہاری اپنی حالت بھی اس پر منحصر ہے اور تمہاری اپنی خدمات بھی اور تمہاری قومی ترقی بھی اس پر منحصر ہے۔ اگر تم ان کاموں کو کرنے لگ جاؤ اور اپنی اخلاقی حالت دوست کرو تو تم یقیناً دوسروں سے بڑھ جاتے ہو۔
اسی طرح پیشہ ور ہیں اگر پیشہ ور محنت کے ساتھ کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے سب ڈاکٹروں کو چھوڑ کر لوگ احمدی ڈاکٹر کے پاس نہ آئیں۔ اگر اس کے اخلاق اچھے ہوں، اس کی قربانی زیادہ ہو، اس کی محنت زیادہ ہو تو لازمی طور پر لوگ دس رستے چھوڑ کر اس کے پاس پہنچیں گے۔ اسی طرح اگر ہمارا بیرسٹر اور ہمارا وکیل اچھا ہوگا تو لوگ لازمی طور پر اس کے پاس جائیں گے۔ مصیبت کے وقت لوگ ساری دشمنیاں بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ایک وکیل دوست یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک مقدمہ میں ہمارا ایک چوٹی کا مخالف ان کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ یہی اچھے وکیل ہیں۔ پہلے اس نے اپنے دوستوں کو کہا بھی کہ ان کے پاس کیوں جاتے ہو مجھے شرمندہ کرو گے لیکن انہوں نے کہا نہیں یہی وکیل اچھے ہیں چنانچہ وہ آپ بھی ان کے پاس آتا رہا اور مشورہ کرتا رہا۔ تو اگر تم اپنے اخلاق کی درستی کے لئے خاص طور پر توجہ کرو گے تو یقیناً تمہاری دینی اور دنیوی حالت اچھی ہو جائے گی۔ لیکن اگر یہ نہیں کرو گے تو تم دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے۔ تم ایک نے چار چار ہزار کا مقابلہ کرنا ہے ا ور پھر مقابلہ بھی زبان سے کرنا ہے، دلیل سے کرنا ہے۔ او رزبان اور دلیل کا مقابلہ اور بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ لٹھ کا تو پھر بھی مقابلہ ہو جاتا ہے کیونکہ لٹھ والا کبھی بھاگ کے بھی جان بچالے گا لیکن دلیل والا تو بھاگ سکتا ہی نہیں۔ اس کو تو بہرحال ٹھہرنا ہی پڑے گا۔
اب دنیا کی آبادی دو ارب سے زیادہ ہے اور دو ارب آبادی میں اگر تم دو لاکھ ہو تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ دنیا کے قریباً بارہ ہزار آدمی کے مقابلہ میں تمہارا ایک آدمی ہے اور بارہ ہزار کے مقابلہ میں تم ایک نے کس طرح کام کرنا ہے اگر تم قربانی نہیں کرتے، اگر تم جان نہیں مارتے۔ لیکن اگر تم جان مار کے کام کرنا شروع کردو تو یقیناً سمجھو کہ خداتعالیٰ کے سامان جو اس نے دنیا میں پیدا کئے ہیں ان سے کام لے کر زیادہ سے زیادہ پیدا وار ہوسکتی ہے۔ مثلاً قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ چار سَو من گندم تک ایک ایکڑ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر فرض کرو تم قرآن کی اس تعلیم کو پورا کر لو اور چار سَو من تمہاری گندم ہو جائے تو سارے ملک کے زمینداروں سے تم بڑے ہو جاتے ہو یا نہیں ہو جاتے؟ اُن کی اوسط ہے دس من۔ کسی کی تھوڑی ہے اور کسی کی بہت۔ لیکن تمہاری اوسط اگر چار سَو من نکل آئے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چالیس گُنے تمہاری آمدن بڑھ جاتی ہے۔ اور چالیس گُنے کے معنے یہ ہوئے کہ اگر تم دو لاکھ آدمی ہو تو اسّی لاکھ ہوگئے۔ اسّی لاکھ سے تمہاری پوزیشن کتنی بڑھ جاتی ہے۔ پھر اگر تمہارا ایک ایک آدمی بڑھے تو فوراً چالیس گُنے بڑھ جاتا ہے اور سال میں اگر دو ہزار احمدی ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسّی ہزار آدمی بڑھ گیا۔
غرض اپنی محنت اور اپنی کوشش اور اپنی عقلمندی سے اور اپنی دیانت داری سے (کیونکہ دیانتداری کے اندر یہ ساری چیزیں شامل ہیں)تم کہیں سے کہیں پہنچ سکتے ہو۔ لیکن اگر تم دیانتداری نہ کرو تو پھر وہ مقابلہ جو تمہارے سامنے ہے وہ لمبا وقت لے گا۔ آخر تمہارا غلبہ ہوگا تو سہی لیکن تم نے نہ دیکھا اور تمہاری اولاد نے نہ دیکھا تو فائدہ کیا ہے۔
وہ ہے تو لطیفہ ہی کئی دفعہ میں بیان کر چکا ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چاہے کسی کی اولاد بھی ہو اگر اس نے وہ چیز دیکھ لی اور ہم نے نہیں دیکھی تو کیا فائدہ۔ اگر موسیٰ کے باپ کے سامنے یہ رکھا جاتا کہ تمہارابیٹا خدا کو دیکھے گا تو چاہے بیٹے کا خدا کو دیکھنا بڑی بھاری قیمتی چیز ہے مگر یہ تو اس کے دل کو ضرور ٹھیس لگتی کہ میں نے نہیں دیکھا بیٹے نے دیکھ لیا مجھے بھی دیکھنا چاہئے تھا۔
کہتے ہیں کوئی بامذاق عالم تھا۔ اُس کو کسی نے تحفہ بھیجا۔ روزوں کے دن تھے اُس نے شربت اور مٹھائیاں اور حلوے وغیرہ بنا کے دو طشت نوکروں کے سروں پر رکھے اور افطاری کے لئے بھیج دئیے۔ کوئی ہمسایہ آیا اور کہنے لگا شیخ صاحب! شیخ صاحب! آپ کو خوشخبری سناؤں؟ دو آدمی میں نے رستہ میں دیکھے ہیں ان کے سر پر بڑے بڑے طباق رکھے ہوئے ہیں اور ان میں قسم قسم کے شربت اور حلوے اور مٹھائیاں اور کباب وغیرہ ہیں۔ وہ کہنے لگا مجھے کیا؟ اُس نے کہا آپ کو کیا ہے، وہ آپ ہی کے گھر کی طرف آرہے تھے۔ وہ کہنے لگا تمہیں کیا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ کامیابی تو تمہیں ضرور ملنی ہے یہ خدا نے کہا ہے لیکن پھر وہی بات ہو جائے گی کہ تم کہو گے مجھے کیا۔ تمہارے بیٹوں کو بھی اگر ملا تو تم کو تو نہیں ملا، اگر تمہارے پوتوں کو ملا تو تمہارے بیٹوں کو اور تم کو تو نہیں ملا، اگر تمہارے پڑپوتوں کو ملا تو تم کو اور تمہارے بیٹوں کو اور تمہارے پوتوں کو تو نہیں ملا۔ تو چاہے تم کو ملے گا اور ضرور ملے گا لیکن اگر وہ اگلی نسلوں پر چلا جائے تو یقیناً اس کامیابی کا اگلی نسلوں پر چلا جانا تمہارے لئے افسردگی کا ہی موجب ہو سکتا ہے تمہاری خوشی اتنی نہیں ہو سکتی جتنی کہ تمہارے ہاتھ سے ہوتی۔
موسیٰ ؑ کو بھی کنعان مل گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ مل گیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ کی حیثیت کیا ہے۔ کنعان موسیٰ ؑ کی اولادوں کو جاکے ملا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مکہ میں داخل ہوئے۔ دونوں کی خوشی کبھی ایک جیسی ہو سکتی ہے؟ اِسی طرح تمہاری مثال ہوگی۔ اگر تم پوری طرح قربانیاں نہیں کرو گے تو تمہاری اولادوں کو تو یہ چیز مل جائے گی لیکن یہ کہ تمہیں نہیں ملے گی تم اپنی موت کے وقت یہ خواہش کرو گے کہ کاش ہم بھی وہ دن دیکھ لیتے جب اسلام دنیا پر غالب ہوتا۔ اور چاہے اگلے جہان میں تم کو خدا یہ دکھا ہی دے۔ موت کا جو افسوس ہے وہ بھی کوئی کم تکلیف دہ نہیں ہوتا وہ بھی ایک قسم کا ذبح ہونا ہی ہوتا ہے۔ جب انسان مرتے وقت یہ خیال کرے کہ میں نے اپنے زمانہ میں یہ چیز نہیں دیکھی۔ بے شک کامل مومن کو اللہ تعالیٰ غیبی نظارے دکھا دیتا ہے لیکن کامل مومن سارے تو نہیں ہوتے اسی لئے مومن بعض دفعہ مرتے وقت مسکراتے یا ہنستے ہیں اِس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ خداتعالیٰ ان کو کامیابیوں کے نظارے دکھا دیتا ہے اور مرنے سے پہلے ان کو خوش کر دیتا ہے لیکن وہ تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ اگر ظاہر میں وہ چیز آئے گی تو تم میں سے کمزور کو بھی نظر آجائے گی، طاقتور کو بھی نظر آجائے گی، چھوٹے کو بھی نظر آجائے گی، بڑے کو بھی نظر آجائے گی، بوڑھے کو بھی نظر آجائے گی، جوان کو بھی نظر آجائے گی، عورت کو بھی نظر آجائے گی، بچے کو بھی نظر آجائے گی۔ غرض تم اپنے اخلاق کی درستی اس طرح پر کرو اور اپنے آپ کو ایسا محنت کا عادی بناؤ کہ تمہاری قربانیاں بڑھ جائیں اور تمہاری ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد آپ ہی آپ لوگ تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں۔ اگر اس طرح اخلاق سے کچھ تو باہر سے کھنچے چلے آئیں گے اور کچھ تمہاری طاقتِ قربانی بڑھتی چلی جائے تو تمہارے کاموں میں اتنی سُرعت پیدا ہو جائے گی کہ تھوڑے دنوں میں ہی وہ چیز جو اَب تمہیں ناممکن نظر آتی ہے وہ ممکن نظر آنے لگ جائے گی۔’’
(الفضل 11تا13 فروری+25، 27، 28۔ اکتوبر+یکم تا3 نومبر1955ء)
1 ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی ﷲ علیہ وسلم
2 تذکرہ صفحہ 396 ایڈیشن چہارم
3
4 مسلم کتاب الایمان باب جَوَازُ الْاِسْتِسْرَارِ بِالْاِیْمَانِ لِلْخَائِفِ
5 بخاری کتاب الصوم باب اِلْتِمَاس لَیْلَۃ الْقَدْر (الخ)
6 تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم
7 ترفُّہ:- خوشحالی۔ آسودگی
 
Top