• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 1 ۔ یونی کوڈ

باب دوم
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
خاندانی حالات
بانی سلسلہ احمدیہ جری اللہ فی حلل الانبیاء حضرت اقدس مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مشہور ایرانی قوم برلاس کے درخشندہ گوہر تھے اور آپ کا خاندان ایک شاہی خاندان تھا۔ جس کے فارسی قالب کو دست قدرت کی طرف سے اپنی نہاں در نہاں مصلحتوں سے ترکی، چینی اور فاطمی خون کا لطیف امتزاج بخشا گیا تھا۔ ۱
حضرت کا خاندان گو مغلیہ خاندان کہلاتا ہے مکر آپ پر الہاماً یہ انکشاف کیا گیا ۲کہ آپ دراصل فارسی النسل ہیں اور حدیث نبوی ’’لو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ رجل اور جال من ھولاء‘‘ ۳کے مصداق! یہ عجیب تصرف الٰہی ہے کہ اگرچہ حضور کی زندگی میں اس دعویٰ کا کوئی تاریخی ثبوت مہیانہیں ہو سکا۔ مگر آپ کے انتقال پر ربع صدی گزرنے کے بعد متعدد ایسے انکشافات ہوئے ۴کہ آپ کا فارسی الاصل ہونا تاریخ کی روشنی میں بھی بالکل نمایاں ہوگیا ۔ اس تحقیق میں گو ابھی مزید تحقیق و تفتیش کی کافی گنجائش ہے لیکن بہر حال موجودہ صورت میں بھی اصولی طور پر پانچ نقطہ ہائے نگاہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فارسی النسل ہونا بالبداہت ثابت ہے۔
اول:۔ کتاب ’’پنجاب کا رواج زمیندارہ ‘‘(مطبوعہ ۱۸۳۹ء) میں لکھاہے کہ قادیان کا مغل برلاس خاندان زمیندارہ رواج کا نہیں بلکہ اسلامی شریعت کا پابند ہے ۔‘‘ اسی طرح بندوبست مال ۱۸۶۵ء کے کاغذات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کا جو شجرہ نسب منسلک ہے اس میں ( حضرت ) مرزا غلام مرتضیٰ و مرزا غلام جیلانی و مرزا غلام محی الدین کے دستخطوں سے یہ نوٹ درج ہے کہ :۔
’’عرصہ چودہ پشت کا گذرا کہ مرزا ہادی بیگ قوم مغل گوت برلاس مورث اعلیٰ مالکان دیہہ۔۔۔۵یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خاندان برلاس کی نسل سے ہے۔ ۶اور برلاس قوم کے متعلق ہیرلڈلیم (HaroldLamb)ایسے مغربی محقق کی رائے یہ ہے کہ ’’وہ ایشیا کے سطح مرتفع کی ۔۔ ایک قوم تھی جسے گذشتہ زمانے میں متھین کہتے تھے اور بعض ترک بھی بولتے تھے۔ مغلوں کے ساتھ وہ شمالی میدانوں سے آئے تھے اور اس زرخیر پہاڑی ملک میں آباد ہوگئے۔‘‘۷
اور انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھاہے ۔ تمام میتھین قوم ایرانی الاصل تھی۔
‏''The Emtire Community Being of Iranian Originy''
۸پس جب متھین لوگ ایرانی تھے تو برلاس قوم کا ایرانی ہونا بھی خود بخود ثابت ہوگیا۔ برلاس قوم کے ایرانی ہونے کا علم الالسنہ کی رو سے ایک بھاری ثبوت یہ ملا ہے کہ جہاں قدیم منگولی اور ترکی لغات میں برلاس کا لفظ قریباً ناپید ہے وہاں فارسی لغات میں یہ لفظ بکثرت موجود ہے بلکہ عجیب تر بات یہ ہے کہ فارسی لغات نویسوں نے برلاس کے وہی معنی بتائے ہیں جن پر ’’فارسی ‘‘ کا عربی لفظ التزامی رنگ میں مستعمل ہے یعنی شجاع با لنسب ۔ ۹اس ضمن میں چند فارسی لغات نویسوں کے نام یہ ہیں ۔ آئی آئی پی ڈسمینز۱۰(I.I.P Desmaisons)ایف سٹین گاس (F. Stein gaos)شیخ ابو الفضل وغیرہ ۱۱
دوم:۔ دوسرا نقطہ نگاہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مرد فارس ہونا پایا ثبوت تک پہنچتا ہے یہ ہے کہ ہیرلڈیم ۱۲(Harold Lamb) اے ویمبرے ۱۳(A. Vambery)ایچ۔ جی ریورٹی ۱۴(H. G. Raverty)اور سر پر سی سائیکس ۱۵(Sir Percy Sykes)اور دوسرے مغربی مورخین نے تسلیم کیا ہے کہ امیر تیمور برلاس قبیلہ سے تعلق رکھتاتھا اور اس کا باپ اس قبیلے کا رئیس تھا۔ ۱۶اسی طرح ’’تزک تیموری ‘‘(Memoris of Tamur)میں تیمور کے باپ کی یہ دعا بھی لکھی ہے کہ خدایا مجھے ایسا فرزند عطا کر جو قبیلہ برلاس کی عزت و شہرت کو دوبالا کر نے والا ہو۔ ‘‘
یہ معلوم کرلینے کے بعد کہ صاحبقران تیمور برلاس خاندان ہی کا ایک فرد تھا (بلکہ جیسا کہ اس کے شجرہ نسب سے ثابت ہے وہ ایروم جی برلاس کی چھٹی پشت میں تھا اور حاجی برلاس مورث اعلیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حقیقی بھتیجا تھا) اب تیمور کے خاندانی کوائف پر باریک نگاہ ڈالی جائے تو وہ نسلا خالص ایرانی معلوم ہوتاہے ۔ یہ صحیح ہے کہ تیمور کے بعض سوانح نگاروں نے ’’مغل ‘‘لفظ کو نا واجب وسعت دیتے ہوئے اسے رشتہ کے اعتبار سے چنگیز خاں سے ملا دیا ہے ۔ لیکن بالا خر خود مورخین ہی یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ یہ صریحاً جھوٹ بلکہ مفروضہ داستان ہے ۱۷ جو مدت ہوئی باطل قرار دی جاچکی ہے ۔ بلکہ انہیں یہ بھی مسلم ہے کہ چودھویں صدی میں تیمور کی فتوحات کے بعد اس کے خوشامدیوں نے تیموری شجرہ نسب کو چنگیز خاں سے منسلک کرنے کی کوشش شروع کردی تھی ابن الیاس نے تاریخ رشیدی کے ترجمے کی تمہید میں لکھاہے ’’لفظ مغل ‘‘کے معنی غلط سمجھے گئے ہیں اور بعض وقتوں میں اس قدرو سیع کر لئے گئے ہیں کہ بہت سی قومیں جو دراصل ترکی النسل ہیں مغل ہی سمجھ لی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ جو دراصل مغل نہیں تھے وہ بھی مغل ہی مشہور ہوگئے پہلے پہل چنگیز خاں اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں اس کا رواج نظر آتاہے ۔ بعد ازاں ہندوستان میں چغتائیوں کے عروج کے زمانے میں جو عام طور پر مغل کہلاتے ہیں ۱۸‘‘ تیمور کے مغل خاندان سے نہ ہونے کی ایک زبردست شہادت یہ بھی ہے کہ تیمور نے جب مختلف قبائل کو تمغے دینے چاہے اور ان کے نام لئے تو برلاس کو مغل قبیلے سے الگ بیان کیاہے۔ ۱۹
یہی نہیں تاریخ سے اس کا مغلوں کے خلاف یورش کرنا بھی ثابت ہے چنانچہ ’’تاریخ اقوام عالم ‘‘ میں لکھاہے ’’تیمور۔۔۔۔ برلاس خاندان کا سردار تھا۔ تیمور نے گھڑ سوار ترکوں کا ایک لشکر جرار منظم کیا اور ترکستان کے چغتائی مغلوں کو اپنا مطیع بنانے کے بعد اس نے دشت قیچاق پر چڑھائی کی جس کے شمالی اضلاع میں اردوئے زریں والے مغل خان حکومت کر رہے تھے۔ مغلوں کا اردوئے زریں شمال کی طرف پسپا ہوگیا۔ تیمور نے ان کا تعاقب کیا۔ ان کے مرکز سرائے کو تاراج کیا اور دریائے والگا کے بالائی حصوں میں پہنچ کر انہیں شکست دی۔ تیموری لشکرروس کی سرزمین کو پامال کرتاہوا ماسکو کے قریب سے گذرا۔ تیمور نے اس شہر سے تعرض نہ کیا کیونکہ وہ چنگیز خانی مغلوں کی طرح شہروں کو بلا وجہ تاراج کرنے کے حق میں نہ تھا۔ ‘‘۲۰
بہرحال تیمور کو چنگیزی نسل سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے چنانچہ اس بارے میں محققین کی چند آراء یہ ہیں:
(۱) ’’سکرائن ‘‘(SKrine)اور ’’راس ‘‘(Ross) لکھتے ہیں۔ ’’تیمور کے پہلے مورخین اس کا شجرہ نسب چنگیزخاں کے ساتھ ملانے پر خاص خوشی کا اظہار کرتے تھے لیکن یہ محض ایک فسانہ ہے جس کا بھانڈا مدت سے چورا ہے میں پھوٹ چکا ہے ۔ ‘‘۲۱
(۲) میلکم کا کہنا ہے کہ ’’تیمور کے خوشامدی مورخوں نے اس کا نسب مغل بادشاہ کے ساتھ ملادیا ہے ۔‘‘۲۲
تیمور کو چنگیزی نسل سے منسلک کرنے والوں کے برعکس ایک گروہ لی آن کیہم (Lean Cahum)اور اے ویمبرے (A. Vambery)سرڈی راس (Sir D. Ross)بلکہ سکرائن بھی شامل ہیں جو تیمور کو ترک قرار دینے پر مصرہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ بھی پہلے اسی قسم کی غلطی کا شکار ہوا ہے جس کا ارتکاب پہلا گروہ کر چکا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک فریق نے ’’مغل ‘‘ کے دائرہ میں کھینچ تان کی ہے اور دوسرے نے ’’ترک ‘‘ میں ۔ جس کا لازمی اور طبعی نتیجہ یہ برآمد ہواکہ تیمور کی شخصیت ہی نہیں خود برلاس نسل کی ہیت و صورت ہی ’’مغل ‘‘ اور ترک ‘‘پردوں میں پوشیدہ ہوگئی ہے ۔ بایں ہمہ یہ حقائق چھپائے چھپ نہیں سکتے ۔ کہ تیمور کے سکوں، ہتھیاروں اور مہروں کے نشان اور تیمور کے شاہی محل کی طرز میں قدیم ایرانی روایات بالکل نمایاں تھیں ۔کلاو یجو (Clavijo)جو تیمور کے دربار میں ہنری سوم (Henry. 111)کی طرف سے بطور سفیر بھیجا گیا تھا تیمور کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتاہے ’’وہ ہتھیار جو امیر تیمور بیگ لگاتاہے وہ تین دائروں میں ہیں ۔ انگریزی حرف او(o)کی طرح اور ان کی شکل اس طرح کی ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ دنیا کی تین اطراف کا مالک ہے ۔ تیمور کا حکم تھا کہ یہ نشان سکوں پر بھی لگایا جاوے اور ہر ایک چیز پر جو اس کے پاس تھی۔ امیر نے اپنی مہروں پر بھی یہ نشان لگانے کا حکم دے رکھا ہے اور اس کا یہ بھی حکم ہے کہ تمام وہ لوگ جو سلطنت تیموریہ کے باجگزار ہیں اپنے اپنے ملک کے سکوں پر یہ نشان لگاویں‘‘۔ ویمبرے (Vambery)اس مخصوص نشان کو قدیم ایرانی نشان تسلیم کرتے ہوئے لکھتاہے :
’’تیمور کے اپنے ہتھیار تین حلقوں میں تھے جن پر راستی کا ماٹو تھا۔ یعنی انصاف ہی طاقت ہے۔ یہ نشان اس کی طاقت کے اظہار کے لئے تھا جو شمال ، جنوب اور مغرب تین دائروں پر مشتمل تھے۔ مگر گمان غالب یہی ہے کہ وہ قدیم ایران کے ہتھیاروں کے نشانات سے مستعار لئے گئے ہیں کیونکہ حلقے جو طاقت اور اتحاد کا نشان سمجھے گئے ہیں وہ ساسانی بادشاہوں کے مقبروں پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ‘‘۲۳
ویمبرے نے یہ بھی انکشاف کیاہے کہ :۔
’’ـــــ۔۔۔۔۔۔۔محل دس سال سے ایرانی معماروں کے ہاتھ سے تیار ہو رہا تھا ۔ انہوں نے اپنی قومی طرز عمارت کو یہاں تک ملحوظ رکھا کہ سورج اور شیر ببر کے بازو عمارت کی پیشانی پر ڈال دیئے اور اس طرح تورانی فاتح کے محل پر شاہاں ایران کے نشان بنا دیئے ۔ ‘‘۲۴
تیمور کا قدیم ایران کے نشان کو ( جو کوئی وجہ نہیں کہ قومی نشان نہ ہو) یوں سختی سے قائم کرنا اور اپنی باجگزار ریاستوں تک کو اس کی پابندی کا حکم دینا اس کے فارسی النسل ہونے کا واضح ثبوت ہے اور پھر تورانی فاتح کے محل پر شاہان ایران کا شاہی نشان تو صاف واضح کر رہا ہے کہ تیمور اور اس کا قبیلہ برلاس ایرانی عظمتوں کی یادگار تھے اور وہ جہاں جہاں گئے مقبروں سے محلات تک ایرانی نشان کے قیام واحیاء کی تڑپ لے کر گئے۔ ورنہ اگر یہ ایرانی خون کے کرشمے نہیں تھے تو تیمور کی قومی حمیت و غیرت نے کیسے گوارا کر لیا کہ وہ ایک مفتوح قوم کے مٹے ہوئے نقوش کو از سر نو اجاگر کرنے کی منظم تحریک اٹھائے اور ایرانی نشان جو فقط ساسانی مقابر کی زینت بن کر رہ گیا تھا ایک زندہ اور قومی نشان کی شکل میں اس کے پورے نظام ریاست پر لہرا جائے۔ پس تیمور نہ صرف خالص ایرانی النسل انسان ثابت ہوتاہے بلکہ اپنی قومی شوکت ور فعت کا بہت بڑا دلدادہ بھی۔ لہٰذا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا برلاس قوم کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فارسی النسل ہونا قطعی اور یقینی امر ہے۔
سوم :۔ مورخین بالاتفاق یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چھٹی صدی ہجری میں برلاس قبیلہ سمرقند اور کش کے علاقہ میں آباد تھا۔ چنانچہ تزک تیموری (Memoirs of Tamur)میں لکھا ہے کہ قراچار نے ( جو اپنی قوم میں پہلا فرد تھا جس نے اسلام قبول کیا) کش کے میدانوں کو اپنے قبیلہ برلاس کے لئے مقرر کر دیا تھا ۔ ۲۵
ویمبرے لکھتاہے کہ برلاس قبیلے کے لوگوں نے کش اور نخشب میں اپنی ایک خود مختار ریاست قائم کر لی تھی۔ ۲۶اور مارخم صاف کہتاہے کہ تیمور کے جد امجد قراچار نے قبیلہ برلاس کو سمرقند کے قریب کش کے اردگرد حکومت دے دی تھی۔ ۲۷تاریخ رشیدی کے ترجمہ انگریزی میں ہے کہ علاقہ کش اپنے ماتحت علاقوں سمیت امیر قراچار کے ماتحت تھا۔ ۲۸( یہ ظفر نامہ کے حوالہ سے لکھا گیا ہے ) غرض کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں کش اور سمر قند کے علاقوں میں برلاس قوم آباد تھی۔
یہ کش اور سمر قند کا علاقہ قدیم زمانے سے ایرانی نسل کی آماجگاہ تھا۔ پرانے زمانے میں سوغدیانہ یا سغد ( Sadiana) کہلاتاتھا۔ ۲۹قدیم ایرانی سلطنت اشامی نیٹن کا ایک صوبہ تھا جس کی بنیاد ایک معزز ایرانی سردار اشامینی نے ڈالی تھی۔ اور سائرس اور دارااسی سے تعلق رکھتے تھے۔ سمرقند اس صوبے کا دارالخلافہ تھا اور سمر قند کے متعلق ای شولر(E. schuyler) اپنی کتاب ترکستان میں لکھتاہے کہ مقام روایت کے مطابق اس کی بنیاد افراسیاب نے رکھی ۔ اصلی نام سمرقند ایرانی معلوم ہوتاہے اور یہ کہ اس کی تمام بڑی بڑی عمارتیں ایرانی معماروں یا ان کے شاگردوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ ( کیونکہ کتبوں سے یہی ظاہر ہے ) ۳۰ یہی نہیں خود سغدی قوم کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھاہے کہ یہ لوگ ایک ایرانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ امر بھی پایہ ثبوت تک پہنچ چکا ہے کہ قدیم اصطلاح کے مطابق ماوراء النہر کے آگے بھی ایرانی بستیاں آباد تھیں۔ چنانچہ تاریخ کی اس قطعی شہادت کی تائید میں چند محققوں کی آراء یہ ہیں:
۱۔ بحیرہ خرز کے میدان میں رہنے والی وحشی قوموں کے حملے سے بہت پیشتر ایرانی لوگ ماوراء النہر میں بودوباش رکھتے تھے۔ ۳۱
۲۔ اے ویمبرے:۔
’’وراء النہر کے اکثر باشندے ایرانی تھے۔ اور عرب ، سامانی ، سلجوق اور خوارزم بادشاہوں کے زمانے میں بخارا، فرغانہ اور خوارزم کی عام زبان فارسی تھی۔ ‘‘
یہ بات کہ دریائے جیحوں کے دوسری طرف کے ممالک میں قدیم زمانے میں خالص ایرانی نسل کے لوگ آباد تھے ۔ ایرانیوں کے نہایت قدیم یاد گار دندی داد سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔۳۲
۳۔ زیپلیکا ایم ۔ اے:۔’’ تازک جو سمر قند اور فرغنہ کے علاقوں میں رہتے ہیں وہ خالس ایرانیوں کی اولاد تھے۔‘‘۳۳
۴۔ گب’’ ۷۲۰ عیسوی تک عرب حملہ آوروں کا مقابلہ ( مادراء النہر کے ) مقامی بادشاہ ہی کرتے رہے اور ان کی فوجیں قریباً سب کی سب ایرانی سپاہیوں پر مشتمل ہوتی تھیں۔‘‘۳۴
یہ اقتباسات بتاتے ہیں کہ ماوراء النہر کے علاقوں تک ایرانی نسل پھیلی ہوئی تھی۔ اب ذرا گہری تحقیق کی جائے تو ان علاقوں سے آگے بھی ایرانی لوگ بستے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ ای شولر (E. schuyler)لکھتاہے۔
’’ایرانی لوگ امواور سرکے درمیانی علاقے کے رہنے والے ہی نہیں تھے جسے قدیم زمانے میں ماوراء النہر کہتے تھے۔ بلکہ دریائے سرپر دائیں کنارے قوقند اور کاشغر میں بھی آباد تھے۔ فردوسی نے اپنے شاہنامنے میں پہلی دفعہ ایران اور توران کے درمیان دریائے اموکو حد فاصل قرار دیا ہے لیکن پروفیسر گری گوریف نے ساف لکھاہے کہ یہ اصطلاحیں جغرافیائی معنوں میں استعمال کی گئی ہیں نہ کہ علم الانساب کی رو سے ۔ اور ایران اور توران کے درمیان جو جنگ تھی وہ دو مختلف قوموں کے درمیان نہ تھی بلکہ ایک ہی نسل کے دو قبائل کے درمیان تھی ۔ بعد کے زمانے میں توران کے معنی ترک کے ہوگئے اور یہ لفظ تمام ترکی نسل کے لوگوں کے لئے عام طور پر بولا جانے لگا بلکہ ہر ایک قوم کے لئے اور اس چیز کے لئے جس کی اصل زبان دانوں اور علم الانساب کے ماہروں کو معلوم نہ ہوسکتی تھی۔ ‘‘۳۵
پروفیسر ایچ اے آر۔ گب نے بھی اسی نظریئے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’دریائے جیحوں روایتی سرحد ہے تاریخی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ساسانیوں کے زمانے سے جس کا مورخین نے ذکر کیا ہے اور فردوسی کی نظم شاہنانے کی رو سے دریائے جیحوں ایران اور توران کے درمیان سرحد قرار پائی ۔ مگر فتوحات کے زمانوں میں سغد اور دریائے جیحوں کی وادی کے رہنے والوں نے ایرانی زبان اور ایرانی اداروں کو قائم رکھا اور وہ حقیقت میں ایرانی ہی رہے۔ ‘‘۳۶
ایرانی نسل ماورا ء النہر کے علاوہ موجودہ ترکستان میں بھی آباد تھی چنانچہ M.A.Czaplekaلکھتی ہے۔
’’اگرچہ ہم پہلی صدی عیسوی میں بھی جنوبی روس میں ترکوں کا نام سنتے ہیں مگر وہ صرف چوتھی صدی میں ترکستان میں آباد ہوئے تھے اور اسی لئے یہ ملک اس نام سے مشہور ہوا ہے حالانکہ اس سے پہلے اس کا نام ایران تھا اور اسے ایرکستان بھی کہتے تھے یعنی ایرانیوں کا ملک۔ اور مغرب میں اس کی حد موجودہ ایران تک پھیلی ہوئی تھی۔‘‘۳۷
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ ایرانی نسل ماوراء النہر کے علاقے ہی میں نہیں ترکستان تک بھی پہنچ گئی تھی بلکہ ابتداء میں ترکستان ایران ہی کا ایک حصہ تھا اور سمر قند اور بخارا تو بالخصوص برلاس قوم کا مسکن تھے۔ پس اگر یہ ثابت ہوجائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اب وجد سمر قند و بخارا کے رہنے والے تھے تو حضور کا فارسی النسل ہونا مسلمہ حقیقت بن جاتی ہے۔ اس بارے میں تاریخی حقائق ایک کھلے ورق کی حیثیت میں بتارہے ہیں کہ حضور کے مورث اعلیٰ سمر قند سے ہندوستان میں ہجرت کرکے فروکش ہوئے تھے۔ چنانچہ ’’تذکرہ رؤسا ء پنجاب میں (جسے سرلیبل گریفن ۳۸نے تالیف کرنا شروع کیا اور مسٹر میسی اور مسٹر کریک نے پایہ تکمیل تک پہنچایا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے متعلق ایک نوٹ لکھاہے :
’’شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل ہادی بیگ باشندہ سمر قند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں پودو باش اختیار کی۔‘‘
اس کے علاوہ بعض غیراز جماعت اور غیر مسلم سوانح نگاروں نے حضور کے مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ کا سمر قند سے ضلع گورداسپورمیں فروکش ہونا تسلیم کیاہے مثلا پادری ایچ ڈی گرس وولڈ فورمین کرسچن کالج لاہور لکھتے ہیں:
’’مرزا صاحب مغلوں کی نسل سے ہیں۔ آپ کے بزرگ علاقہ سمر قند ملک ترکستان سے بابر بادشاہ کے عہد میں پنجاب میں آئے تھے۔‘‘
چہارم :۔ ظفر نامہ مولانا شرف الدین یزدی ۔ انساب الترک ۔ ابو الغازی خاں۔ الانساب مغل روضۃ الضبط ۔ حبیب السیر ، اکبر نامہ ، منتخب اللباب ،خامی خان وغیرہ تواریخ میں بالا تفاق یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ صاحبقران تیمور کا شجرہ نسب حضرت نوحؑ کے فرزند حضرت یافث سے ملتاہے ۔۳۹اور حضرت یافث کے متعلق مشہور فارسی لغات’’غیاث اللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’شیخ ابن حجر شارح صحیح بخاری گفتہ است کہ فارسی منسوب بفارس بن غامور ابن یافث بن نوح علیہ السلام ‘‘ یعنی صحیح بخاری کے شارح حضرت شیخ ابن حجر فرماتے ہیں کہ فارس حضرت نوح کے پوتے اور حضرت یافث کے بیٹے فارس کی طرف منسوب ہے۔ ۴۰
پنجم :علم الاقوام کے ماہرین (مثلاً ای ریکلس (E. Reclus)جارج رالن سن (George Rawlin Son)۴۲اور اے سی ہیڈن۴۳(A.C. Haddon)وغیرہ نے مصری، کلدانی ، آشوری ، فینقی ، ایرانی ، یونانی اور رومی مشہور تاریخی قوموں کے قدیم حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بالا تفاق تسلیم کیا ہے کہ چوڑی پیشانی ، لمبی اور گھنی ڈاڑھی ، بلند ناک ، گول ٹھوڑی ، چہرہ بیضوی اور سنجیدہ ، بال گھنے اور بکثرت ، جلد سفید گلابی یا تابنے کے رنگ کی مانند ایرانی نسل کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے چینی ، جاپانی ، منگولی تبتی اور ترکستانی نسل کے متعلق لکھاہے کہ اس کا رنگ اور چمڑا زرد آنکھیں چھوٹی اور دھنسی ہوئی اور بال سخت ہوتے ہیں۔ یہ نسل ایشیا کے شمال و مشرق میں کوہ قاف سے چین و جاپان تک پھیلی ہوئی ہے۔ ۴۴اس تحقیق کی روشنی میں جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے خاندان کی جسمانی ساخت، شکل و شباہت اور چہرے مہرے کو دیکھا جائے تو صاف نظر آتاہے کہ یہاں منگولی یا ترکی صفات ہر گز موجود نہیں۔ مگر ایرانی نسل کے تمام تر اوقاف آپ میں بدردجہ اتم پائے جاتے ہیں۔
پس جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فارسی النسل ہونا نیر النہار کی طرح ظاہر و باہر ہو جاتاہے ۔ چنانچہ مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لکھتے ہیں ۔ ’’مولف براہین احمدیہ قریشی نہیں فارسی الاصل ہے۔ ‘‘۴۵
مندرجہ بالا تحقیقات سے اس سربستہ راز پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ حضور کا خاندان ایرانی النسل ہونے کے باوجود کس طرح چینی اور ترکی خون سے مرکب ہوا۔ کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کے جد امجد قراچار نے جو ایروم جی برلاس کے پوتے تھے چغتائی خان کی لڑکی سے شادی کی تھی اور اس طرح ترکی چینی خون کی آپ کے خاندان میں آمیزش ہوئی ۔ اس پہلو کے سمجھنے کے لئے قبیلہ برلاس کے شجرہ نسب پر فقط ایک نگاہ ڈالنا کافی ہے۔
ایروم جی برلاس
سوغوچیجن
قراچارنویاں
ایجل خان
امیر ایلنگراخاں
امیر برکل ۴۶،۴۷
حاجی برلاس مورث اعلیٰ طراغائے
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امیر تیمور صاحبقران
سمرقند سے پنجاب تک :۔
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے ۔ قراچار نے قبیلہ برلاس کو کش کے علاقہ میں آباد کر دیا تھا۔ لیکن جب تیمور کا اقتدار بڑھا تو اس کے چچا حاجی برلاس کش سے بے دخل ہو کر خراسان میں پنا ہ لینے پر مجبور ہوئے اور یہیں فوت ہوئے ۔ ۴۸بعد کو خود تیمور نے خراسان کی ریاست زیر نگین لانے کے بعد حاجی برلاس ہی کے خاندان کو بطور جاگیر سونپ دی اور اس طرح یہ شاہی خاندان خراسان ہی میں مقیم ہوگیا۔ یہاں تک کہ اس خاندان کے ایک مقتدر بزرگ مرزا ہادی بیگ نے اپنے افراد خاندان سمیت خراسان کو خیر باد کہہ دی اور اپنے آبائی وطن کش میں دوبارہ بودو باش اختیار کرلی جہاں قومی تفرقہ اور خصوصیت کے نتیجے میں ملک میں ایسے انقلابات ہوئے کہ آپ اس سر زمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے خاندان اور توابع اور خدام کے دو سو افراد پر مشتمل ایک قافلہ لے کر کش سے پنجاب کی سرحد میں داخل ہوگئے ۔ یہ تاریخی ہجرت ۱۵۳۰ء مطابق ۹۳۸ھ میں ہوئی جبکہ ہندوستان میں تیمور کا پوتا اور سلطنت مغلیہ کا پہلا تاجدار ظہیر الدین محمد بابر گھاگر اکی لڑائی میں آخری فتح حاصل کرنے کے بعد اپنی زندگی کے آخری دن گذار رہا تھا۔ ۴۹اور بزم تصوف و ارشاد میں حضرت شیح عبدالقادر ۵۰ ثانی رحمۃ اللہ ۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ۵۱ حضرت شیخ بہائو الدین جون پوریؒ۵۲، حضرت سلطان جلال الدین ؒ۵۳، حضرت شیخ جمال قدس سرہ ۵۴، حضرت شیخ زین الدین ؒ ۵۵اور حضرت شیخ محمد غوث ۵۶گو الیاری شطاری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ایسے اکابر صوفی اور خدارسیدہ بزرگ رونق افروز تھے۔
بعض مورخین نے لکھاہے کہ :
’’سلطان بابر نے ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی سلطان ہند کو شکست دی اور دہلی میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی۔۔۔۔سلطان محمد بابر کے ساتھ بھی بہت سے چغتائی سردار واردہند ہوئے ۔ چنانچہ ہند میں مرزایان چغتائیہ کی تعداد مغلان برلاس سے زیادہ ہوگئی۔ اور تاحال زیادہ ہے ۔۔۔۔۔چغتائی وہ مغل ہیں جو چنگیز کے بیٹے چغتائی خاں کی اولاد سے ہیں اور ان کے اجداد امیر تیمور اور سلطان محمد بابر کی افواج کے ذریعہ وارد ہند ہوئے اور یہیں مقیم ہوگئے۔ اور برلاس خاص شاہان مغلیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اولاد امیر تیمور گورگانی سے ہیں۔۔۔۔اور امیر تیمور کے خروج کے بعد ان کے اجداد خئن ، تاشقند اور بلخ کے حاکم تھے اور اس واسطے سے یہ تیموری اور بابری لشکروں کے ساتھ وارد ہند ہو کر یہاں سکونت پذیر ہوگئے۔ ‘‘۵۷
پنجاب میں ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام اور قادیان کی تاسیس :۔
حضرت مرزا ہادی بیگ نہ صرف ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے بلکہ خود بابر سے انہیں خاندانی قرابت حاصل تھی۔ آپ کے یہاں قدم رنجہ فرماتے ہی پنجاب کی قسمت جاگ اٹھی اور ماجھا کے علاقہ میں نہ صرف ایک نئی بستی ابھرآئی بلکہ ایک مثالی اسلامی ریاست کا قیام بھی معرض عمل میں آگیا۔ جو ۱۵۳۰ء (مطابق ۹۳۸ھ)سے ۱۸۰۲ء (مطابق ۱۲۱۷ھ) تک کم و بیش پونے دو سو سال تک قائم رہی اور پھر سکھو ں کی برچھا گردی کا شکار ہوگئی ۔ یہ عظیم الشان ریاست آخر میں ۸۴۔ ۸۵دیہات میں محدو د ہوگئی۔ لیکن اس وقت بھی اس کی سالانہ آمدنی آٹھ لاکھ تھی۔ جیسالہ ’’شمشیر خالصہ‘‘ میں لکھاہے کہ :
’’۱۸۶۳ء بکرمی میں اس کا چچا تاراسنگھ مرگیا ۵۸ تو اس کے بیٹے دیوان سنگھ نے جودھ سنگھ سے لڑکر اپنی جائیداد علیحدہ کرلی اور تعلقہ قادیان کے ۸۴ دیہات پر جن کی آمدنی آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ تھی قابض ہوگیا۔‘‘۵۹
حضرت مرزا ہادی بیگ کے وصال کے بعد :۔
حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کے وصال کے بعد ان کے خاندان کی شاہانہ عظمت اور جلال و تمکنت میں اضافہ ہوتارہا۔ یہاں تک کہ جب ان کی نویں پشت میں حضرت مرزا فیض محمد صاحب پیدا ہوئے تو ان کے عہد اقتدار میں قادیان کی ریاست کے مغلیہ سلطنت سے اور بھی گہرے تعلقات و روابط قائم ہوگئے ۔ چنانچہ ۱۷۱۶ء میں محمد فرخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان کی طرف سے انہیں ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منسلک کرکے عضد الدولہ کا عظیم الشان ، قابل فخر اور ممتاز خطاب دیا گیا ۔ ۶۰تاریخ سے ثابت ہے کہ ہفت ہزاری منصب شاہان مغلیہ کے زمانہ میں بہت دقیع و رفیع سمجھا جاتاتھا۔ اور ہفت ہزاری امراء میں منسلک کرنے کے یہ معنی تھے کہ وہ اپنی ریاست میں سات ہزار جوانوں کی فوج رکھ سکتے ہیں جو اس زمانہ میں ایک بڑی جنگی طاقت سمجھی جاتی تھی۔
حضرت مرزا گل محمد صاحب کا دور اقتدار :۔
حضرت مرزا فیض محمد صاحب کے وصال کے بعد حضرت مرزا گل محمد صاحب ایسے ولی اور پارسا حکمران اور اعلیٰ درجہ کے جرنیل جانشین ہوئے اس وقت غالباً عالمگیر ثانی کا دور اقتدار شروع تھا۔ دہلی کی مغلیہ حکومت کی جڑیں خانہ جنگیوں اور چند درچند اسباب و وجودہ سے کھوکھلی ہوچکی تھیں اور مغل شہزادے آپس میں قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے تھے۔ لیکن تاریخی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عالمگیر ثانی (۱۷۵۴ء۔۱۷۵۹ء) اس کے جانشین شاہ عالم ثانی (۱۷۵۹ء۔ ۱۸۰۶ء)کے قادیان کی ریاست اور حضرت مرزا گل محمد صاحب سے گہرے مراسم قائم تھے۔ اور سلطنت مغلیہ کے یہ تاجدار انہیں خط و کتابت میں ’’نجابت وصالی پناہ عالیجاہ۔ رفیع جائیگاہ۔ اخلاص وعقیدت دستگاہ اور عمدۃ الاماثل والا فرمان‘‘ایسے عظیم القاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔ ۶۱
قادیان کی اسلامی ریاست سلطنت مغلیہ کے زوال کے باوجود پورے عروج پر تھی۔ اور اگر تقدیر الٰہی مخالف نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ سکھوں اور مرہٹوں کا سیلاب رک جاتا اور ہندوستان کے شمال میں آپ ایک زبردست اسلامی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ حضرت مرزا گل محمد صاحب رضی اللہ عنہٗ اور ان سے قبل ان کے والد مرزا فیض محمد صاحب ؓ ‘فرخ سیر‘محمد شاہ‘ شام عالم ثانی اور عالمگیر ثانی چاروں بادشاہوں کو برابر توجہ دلاتے رہے کہ پنجاب میں سکھ شورش کے جو شرارے پوری شدت سے اٹھ رہے ہیں اس میں تنہا ہم ہی لڑ رہے ہیں مگر ہمارے پاس اتنی طاقت نہیں کہ اس فتنے کا کامیاب مقابلہ کرسکیں۔ اس لئے ہماری امداد کے لئے جلد مرکزی فوج روانہ کی جائے۔ مگر افسوس ان چاروں نے اس بروقت انتباہ کو ناقابل التفات سمجھا۔ البتہ سکھوں کے خلاف اس ریاست کی اسلامی خدمات کا خلوص دل سے اقرار کرتے ہوئے یہ وعدہ ضرور کرتے رہے کہ شاباش تم خوب مقابلہ کررہے ہو ہم بھی آنے کا ارادہ کررہے ہیں ۔مگر ان میں سے کسی کو پنجاب آنے اور سکھوں کے بڑھتے ہوئے اثرو اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کی توفیق نہ مل سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سکھا شاہی پورے پنجاب پر مسلط ہوگئی اور خود مغل شہزادوں کی سہل انگاری سے پنجاب کا خطہ اسلامی حکومت کی آغوش سے نکل کر سکھ حکومت کے زیر نگیں ہوگیا۔
حضرت مرزا گل محمد صاحبؓ ہی کے زمانہ میں سلطنت مغلیہ کا ایک وزیر مملکت غیاث الدولہ قادیان میں آیا تو وہ ان کے مجاہدانہ عزائم ،ناقابل تسخیر ولولوں ، مدبرانہ طریق، استقلال اورحیرت انگیز قوت تدبر اور پروقار دربار کو دیکھ کر حیران وششدررہ گیا اورچشم پرآب ہوکر کہنے لگا کہ ’’اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اورنالیاقتی اوربدوصفی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے‘‘ لیکن اب پانی حد سے بڑھ چکا تھا ۔اس لئے سلطنت مغلیہ کی بساط سیاست الٹ گئی اور ۱۸۰۳ء؁ میں انگریز مرہٹوں کو دلی سے نکال کر خود مسئلہ اقتدار پر بیٹھ گئے ۔اورپہلے تو شاہ عالم ثانی (۱۸۵۹۔۱۸۰۶ء؁ ) اور اکبر شاہ ثانی (۱۸۰۶۔۱۸۳۷ء؁) انگریزوں کے وظیفہ خوار بنے اور پھر سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ثانی (۱۸۳۷۔۱۸۵۷) کے ہاتھوں سلطنت مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا۔
حضرت مرزا گل محمد صاحبؒ تخمیناً ۱۸۰۰ء؁ میں انتقال فرماگئے۔ (۶۲،۶۳) آپ کے انتقال کے بعد عین اس زمانہ میں جبکہ دہلی کا تخت عملاً مغل شہزادوں سے نکل کر انگریزوں کی طرف منتقل ہورہا تھا ۔قادیان کی اسلامی ریاست سکھ اقتدار کے زیر نگیں ہوگئی ۔عمدۃ التواریخ میں لکھا ہے کہ ’’دیواسنگھ پسرتاراسنگھ ملک کو تاخت وتاراج کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے تعلقہ قادیان مغلاں کو جہاں(مرزا) عطا محمد پسرمرزا گل محمد مقیم تھے زبردستی لے لیا اور مغلوں کو اپنے گھروں سے نکلال دیا‘‘(۶۴)
حضرت مرزا گل محمد صاحب کے جانشین مرزا عطا محمد صاحب اپنے خاندان سمیت کپور تھلہ کی ریاست میں بمقام بیگو وال پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے۔ یہ ۱۸۰۲ء؁ یا ۱۸۰۳ء؁ کا حادثہ ہے جبکہ ریاست راجہ فتح سنگھ کے قبضہ میں تھی ۔ راجہ فتح سنگھ نے مرزا عطا محمد صاحب کو دوگائوں کی پیشکش کی لیکن انہوںنے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم نے یہ گائوں لے لئے تو پھر یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہوجائے گی اوراپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال ان کے دل سے اس طرح جاتا رہے گا۔ (۶۵) تخمیناً ۱۸۱۴ء؁ میں دور جلا وطنی کی گیارہ سالہ سختیاں اور مصائب جھیلنے اوردکھ اٹھانے کے بعد وہ بالاآخر کپور تھلہ ہی میں انتقال فرماگئے ۔(۶۶)اوریہ خاندان بظاہر بالکل بے سہارا رہ گیا۔ اوریہ ناگفتہ بہ حالت کم وبیش بیس برس تک قائم رہی ۔ لیکن اب چونکہ امام الزمان کی ولادت کا وقت آرہا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے قادیان کی واپسی کا از خود غیبی سامان کردیا۔ اوروہ اس طرح کہ ۱۸۳۴ء؁ ۔۱۸۳۵ء؁ میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حضرت مرزا عطا محمد صاحب کے فرزند اوربانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کو قادیان کی ریاست کے پانچ گائوں واپس کردیئے جو چودہ سال تک اس شاہی خاندان کے پاس رہے ۔پھر جب ۲۹۔مارچ ۱۸۴۹ء؁ کو پنجاب کا سلطنت انگریزی سے الحاق عمل میں آگیا تو جہاں اکثر وبیشتر سکھ خاندانوں کے حقوق واعزاز بدستور قائم رکھے گئے(۶۷،۶۸) بلکہ بعض کوقیمتی جاگیروں سے نوازا گیا ۔ وہاں بعض ’’باغی ‘‘ سرداروں (۶۹) کی جاگیروں کے ساتھ قادیان کی جاگیر بھی چھن گئی ۔ اور اشک شوئی کے لئے سات سوروپیہ کی پنشن منظور کردی گئی۔ کیونکہ شورش کے ایام میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ نے فرنگی حکومت کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا تھا اس موقعہ پر سکھ وزیر نے بھاگو وال کے ایک وزیر کے ذریعہ سے انہیں پیغام بھی بھیجا کہ انگریز طاقت ور ہیں ان سے صلح کرلو خواہ مخواہ آدمی نہ مروائو ۔ مگر انہوںنے حکومت وقت سے بے وفائی گوارا نہ کی۔ (۷۰) اورمعتوب ہوگئے ۔ اس کے بعد جب انگریزی حکومت باقاعدہ قائم ہوگئی تو انہوں نے اسلامی تعلیم کے مطابق حکومت وقت سے وفاداری کا اعلیٰ نمونہ دکھایا بایں ہمہ بڑے بڑے مقدمات کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کا کچھ حصہ واپس مل سکا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خود نوشت خاندانی حالات:۔
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ’’کتاب البریہ‘‘ میں قادیان کی اسلامی ریاست اوراپنے خاندانی حالات کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے۔ آپ فرماتے ہیں :۔
’’ہماری قوم مغل برلاس ہے اورمیرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جو اب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے اوران کے ساتھ قریباً دو سوآدمی ان کے توابع اورخدام اوراہل وعیال میں سے تھے اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے اور اس قصبہ کی جگہ جو اس وقت ایک جنگل پڑا ہوا تھا جو لاہور سے تخمیناً پچاس کو س بگوشہ شمال مشرق واقع ہے فروکش ہوگئے۔(۷۱)جس کو انہوںنے آباد کرکے اس کانام اسلام پور رکھا جو پیچھے اسلام پور قاضی ماجھی کے نام سے مشہور ہوا۔ اور رفتہ رفتہ اسلام پور کا لفظ لوگوں کو بھول گیا اور قاضی ماجھی کی جگہ پر قاضی رہا اور پھر آخر قادی بنا اور پھر اس سے بگڑ کر قادیان بن گیا اور قاضی ماجھی کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ علاقہ جس کا طولانی حصہ قریباً ساٹھ کوس ہے۔ ان دنوں میں سب کا سب ماجھہ کہلاتاتھا ۔ غالباً اس وجہ سے اس کانام ماجھہ تھا کہ اس ملک میں بھینسیں بکثرت ہوتی تھیں اور ماجھہ زبان ہندی میں بھینس کو کہتے ہیں۔ اور چونکہ ہمارے بزرگوں کو علاوہ دیہات جاگیرداری کے اس تمام علاقہ کی حکومت بھی ملی تھی۔ اس لئے قاضی کے نام سے مشہور ہوئے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمرقند سے اس ملک میں آئے۔ مگر کاغذات سے یہ پتہ چلتاہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصوصیت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیران کو ملے ۔ چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی۔
سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب مرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے جن کے پاس اس وقت ۸۵گائوں تھے اور بہت سے گائوں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے۔ تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گائوں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دیئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں۔ غرض وہ اس طوائف الموکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے۔ ہمیشہ قریب پانچ سو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دسترخوان پر روٹی کھاتے تھے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے ۔ جن کے کافی وظیفے مقرر تھے ۔ اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ اور قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارک نماز ہو۔ یہاں تک کہ چکی پیسنے والی عورتیں بھی پنج وقہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں۔ اور گردو نواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا، مکہ کہتے تھے ۔ کیونکہ اس پر آسوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی۔ اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی۔ میں نے خود اس زمانہ سے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھاہے کہ وہ اس قدر قادیان کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویا وہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا جس میں حامیان دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے اور اس نواح میں یہ واقعات نہایت مشہور ہیں کہ مرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں اور صاحب خوارق اور کرامات تھے۔ جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور فضلاء قادیان میں جمع ہوگئے تھے۔ اور عجیب تریہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور میں جن کی نسبت ایک گروہ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتارہا ہے ۔ غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے۔ اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادر اور بارعب آدمی تھے۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک وزیرِ سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے مرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دین اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے مختصر دربار کو عقلمند اور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پرپایا۔ تب وہ چشم پر آب ہوکر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضرور یہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بدوصفی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے۔
اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے دادا صاحب موصوف یعنی مرزا گل محمد نے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی۔ بیماری کے غلبہ کے وقت اطباء نے اتفاق کرکے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالباً اس سے فائدہ ہوگا مگر جرات نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں۔ آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا۔ تب انہوں نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ کو شفادینا منظور ہو تو اس کی پیدا کردہ اور بہت سی دوائیں ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کی قضاء و قدر پر راضی ہوں ۔ آخر چند روز کے بعد اسی مرض سے انتقال فرماگئے۔ موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کر لیا۔ موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا۔ افسوس ان نوابوں اور امیروںاور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلی لاپرواہ ہو کر اور خدا تعالیٰ سے سارے علاقے توڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور ناپاک کرکے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہوکر جلد تر مرجاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں۔ (صفحہ ۱۴۴تا ۱۵۴حاشیہ طبع اول )
حضرت اقدس ؑ ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:
’’ مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے۔ اگر اس وقت مشیت الٰہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العزم آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کرکے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس میں قائم کر دیتا۔ جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گائوں تھے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلائے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں۔ تو کیاایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں؟جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گائوں باقی تھے اور ہزار کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی۔ اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں ان کا کوئی نظیر نہ تھا۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہہ نازل ہو اس لئے مرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور مرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے ۔ اور ان کے بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہوگئے تھے۔ یہ بات شاذو نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو۔ لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادات ان سکھوں کے منہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہوکر لڑتے تھے ۔ اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدان جنگ میں نکل کر ان پر فتح پا لیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے نزدیک آسکے۔ اور ہر چند جان توڑ کر دشمن کا لشکر کوشش کرتاتھا کہ توپوں اور بندوقوں کی گولیوں سے ان کو ماردیں مگر کوئی گولی یا گولہ ان پر کار گر نہیں ہوتا تھا یہ کرامت ان کی صدہا موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے منہ سے سنی گئی ہے ۔ جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سندا بیان کی تھی۔ لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں۔ اکثر لوگ زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا ان کے بدن کو نہیں پہنچتا۔ سو یہ کرامت اگر معقولی طور پر بیان کی جائے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے ان کو بچاتا رہا ۔ تو کچھ حرج کی بات نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پر ہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عابد تھے اور معمورالاوقات اور متشرع تھے۔ ‘‘)۷۲
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب میرے پردادا صاحب فوت ہوئے تو بجائے ان کے میرے دادا صاحب یعنی مرزا عطا محمد صاحب فرزند رشید ان کے گدی نشین ہوئے۔ ان کے وقت میں خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے لڑائی میں سکھ غالب آئے۔ دادا صاحب مرحوم نے اپنی ریاست کی حفاظت کے لئے بہت تدبیریں کیں مگر جبکہ قضاء وقدران کے ارادہ کے موافق نہ تھی اس لئے ناکام رہے اور کوئی تدبیر پیش نہ گئی اور روز بروز سکھ لوگ ہماری ریاست کے دیہات پر قبضہ کرتے گئے۔ یہاں تک دادا صاحب مرحوم کے پاس ایک قادیان رہ گئی اور قادیان اس وقت ایک قلعہ کی صورت پر قصبہ تھا۔ ۷۳اس کے چاربرج تھے اور برجوں میں فوج کے آدمی رہتے تھے۔ اور چند توپیں تھیں اور فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اسی قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل اس پر جاسکتے تھے۔ اور ایسا ہوا کہ ایک گروہ سکھوں کا جورام گڑھیہ کہلاتا تھا اول فریب کی راہ سے اجازت لے کر قادیان میں داخل ہوا اور پھر قبضہ کر لیا۔ اس وقت ہمارے بزرگوں پر بڑی تباہی آئی اور اسرائیلی قوم کی طرح وہ اسیروں کی مانند پکڑے گئے اور ان کے مال و متاع سب لوٹی گئی۔ کئی مسجدیں اور عمدہ عمدہ مکانات مسمار کئے گئے ۔ اور جہالت اور تعصب سے باغوں کو کاٹ دیا گیا۔ اور بعض مسجدیں جن میں اب تک ایک مسجد سکھوں کے قبضہ میںہے دھرم سالہ یعنی سکھوں کا معبد بنایا گیا ۔ اس دن ہمارے بزرگوں کا ایک کتب خانہ بھی جلایا گیا جس میں پانچ سو نسخہ قرآن شریف کا قلمی تھا جو نہایت بے ادبی سے جلایا گیا۔ اور آخر سکھوں نے کچھ سوچ کر ہمارے بزرگوں کو نکل جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام مردو زن چھکڑوں میں بٹھا کر نکالے گئے ۷۴اور وہ پنجاب کی ایک ریاست میں پناہ گزین ہوئے۔ ۷۵تھوڑے عرصہ کے بعد انہی دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا صاحب کو زہردی گئی۔ پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیان میں واپس آئے اور مرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گائوں واپس ملے۔ کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے پشاور تک اور دوسری طرف لدھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گائوں ہاتھ میں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں مشہور رئیس تھے۔ گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔ ۱۸۵۷ء میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت گزاری میں پچاس گھوڑے معہ پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کر دئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو اس قسم کی مدد کا عند الضرورت وعدہ بھی دیا اور سرکار انگریزی کے حکام وقت سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھیں چنانچہ سرلیپل گریفن صاحب نے بھی اپنی کتاب تاریخ رئیسان پنجاب میں ان کا تذکرہ کیا ہے غرض وہ حکام کی نظر میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ اور بسااوقات ان کی دلجوئی کے لئے حکام وقت ڈپٹی کمشنران کے مکان پر ان کی ملاقات کرتے تھے۔ ‘‘۷۶
سرلیپل گریفن اور کرنل میسی کی شہادت
سرلیپل گریفن اور کرنل میسی نے ( جن کی طرف مندرجہ بالا سطور میں اشارہ ہے) اپنی مشہور و معروف انگریزی کتاب ’’پنجاب چیفس ‘‘یا چیفس اینڈ فیمیلیز آف نوٹ ان دی پنجاب ‘‘ میں حضرت اقدسؑ کے خاندانی حالات پر ایک نوٹ لکھا ہے جس کا مستند ترجمہ درج ذیل ہے۔ ۷۷ (اس نوٹ سے بالخصوص اس حقیقت پر نمایاں روشنی پڑتی ہے کہ پنجاب کے الحاق کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کی جاگیر ’’باغی سرداروں ‘‘ کے ساتھ ضبط کر لی گئی تھی اور حضور کا خاندان اس وقت تک ملکی حکومت کا خیر خواہ رہا جب تک کہ پورا ملک برطانوی اقتدار کے زیر نگیں نہیں آگیا)
’’شہنشاہ بابر کے عہد حکومت میں آخری سال یعنی ۱۵۳۰ء میں ایک مغل مسمی ہادی بیگ باشندہ سمرقند اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودو باش اختیار کی یہ کسی قدر لکھا پڑھا آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا۔ ۷۸کہتے ہیں کہ قادیان اس نے آباد کیا۔ اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان ہوگیا ۷۹۔ کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا۔ اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہوگیا تھا۔ گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنہیا مسلوں سے جن کے قبضہ میں قادیان کے گردو نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے اور آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھوکر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلووالیہ کی پناہ میں چلا گیا اور بارہ سال تک امن وامان سے زندگی بسر کی۔ اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہوگیا تھا غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلالیا۔ ۸۰اور اس کی جدی جاگیرکا ایک بہت بڑا حصہ اسے واپس دے دیا۔ اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحداور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں۔ نونہال سنگھ شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دوردورے میں غلام مرتضیٰ ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا۔ ۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل و نچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا۔ ہزارہ کے مفسدہ میں اس نے کارہائے نمایاں کئے اور جب ۱۸۴۸ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا۔ اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں۔ جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جا رہا تھا۔ تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیر داران لنگرخاں ساہیوال اور صاحب خانہ ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحبدیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی۔ ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مرگئے ۔
الحاق کے موقعہ پر اس خاندان کی جاگیر ضبط ہوگئی۔ مگر سات سو روپیہ کی ایک پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی اور قادیان اور اس کے گردو نواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکانہ رہے۔ اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جبکہ افسر موصوف نے تریموگھاٹ پر نمبر ۴۶مینٹو انفنٹری کے باغیوں کو جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا۔ جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سنددی جس میں یہ لکھاہے کہ ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا۔
غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا۔ غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتاتھا۔ اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے۔ یہ کچھ عرصے تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا۔ اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہوگیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متنبی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتاتھا۔ مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ تک ترقی پائی۔ یہ قادیاں کا نمبردار بھی تھا۔ مگر اس نمبرداری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا نظام الدین کرتاتھا جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ مرزا سلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں پانچ مربعہ جات اراضی عطا ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اس کا انتقام ہوگیا۔ اس کا سب سے بڑا لڑکا مرزا عزیز احمد ایم اے اب خاندان کا سر کردہ اور پنجاب میں اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر ہے۔ خان بہادر مرزا سلطان احمد کا چھوٹا بیٹا رشید احمد ایک اولوالعزم زمیندار ہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیا ہے نظام الدین کا بھائی امام الدین جس کا انتقال ۱۹۰۴ء میں ہوا دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاڈسن صاحب کے رسالہ میں رسالدار تھا اور اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا۔ ‘‘۸۱
سرلیپل گریفن نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذاتی حالات بھی بیان کئے ہیں ۔ چنانچہ لکھتاہے :
’’یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو مرزا غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا ہے مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا۔ یہ شخص ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوا۔ ۸۲اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی۔ ۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ چونکہ یہ عالم اور منطقی تھا اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہوگئے اور اب احمدیہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ مرزا عربی ، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ جن میں اس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی ۔ اور یہ گمان کیا جاتاہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیاہے۔ مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا۔ کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے۔ لیکن اپنی وفات سے پہلے جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا کہ وہ لوگ بھی جو اس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے۔ اس فرقہ کا صدرمقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتاہے ۔ مرزا غلام احمد کا خلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے ۔
اس خاندان کے سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ ہیں اور نیز تین ملحقہ مواضعات پر بشرح پانچ فی صدی حقوق تعلقہ داری حاصل ہیں‘‘۔۸۳
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا بیان ہے ۔
’’میںنے حضرت مسیح موعودؑ سے ان کی ( مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب۔ ناقل ) تعریف سنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھاہے کہ مہاراجہ صاحب نے ہی یہ گائوں واپس کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گائو ں واپس کیا لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی۔ جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالہ کر دیئے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ان کی جاگیریں موجود ہیں۔ یہاں سے پندرہ بیس میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گائوں بھاگووال ہے وہاں سکھ سردار ہیں ۔ مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے اس سے غداری نہیں کر سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں مگر ہماری چھین لی گئی۔ اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا۔ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہاراجہ صاحب نے سات گائوں واپس کئے تھے پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے ان کے خاندان کی غداری نہیں کر سکتے بھاگووال کے ایک اسی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کوخود سکھ حکومت کے وزیر نے بلاکر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مروائو۔ مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا۔ مگر کیا ملا۔ قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی۔ باقی بھینی ۔ لننگل اور کھارا کا مالکان اعلیٰ قرار دے دیا گیا مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیاہے ؟ یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی۔۔۔۔۔تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اس وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت سے نہایت دیانتداری کا برتائو کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کرلی ورنہ سری گوبند پور کے پاس اب تک ایک گائوں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے پہلے کی بات ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ غیر مطبوعہ ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)





باب سوم
حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ولادت مبارک پاکیزہ
بچپن اور دور تعلیم
(۱۸۳۵ء ۔۱۸۵۳ء)
بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت چراغ بی بی کے بطن مبارک سے ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ھ بمطابق ۱۳۔ فروری (۱)۱۸۳۵ء( بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد) قادیان ضلع گورداسپور (بھارت ) میں پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی طرح آپ کی پیدائش میں بھی ندرت اور معجزانہ (۲) رنگ تھا۔ کیونکہ آپ عالم اسلام کے مشہور صوفی حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی ایک پیشگوئی کے مطابق توام (۳) پیدا ہوئے تھے۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی آپ کی ہمشیرہ حضرت مراد بیگم ؓ تھیں جو مرزا محمد بیگ کے عقد زوجیت میں آئیں اور بڑی عابدہ اور صاحب رؤیا و کشف خاتون تھیں۔ ان سے چھوٹے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم تھے۔ ان سے چھوٹے آپ کے ایک اور بھائی تھے جو بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ ان سے چھوٹی حضورؑ کے ساتھ توام پیدا ہونے والی بہن تھیں جن کا نام جنت تھااور جو بہت جلد فوت ہوگئیں۔ حضرت اقدسؑ کے بھائی بہنوں میں قریباً دو دو سال کا تفاوت تھا۔ (۴)
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت سے تین برس پیشتر مجدد صدی سیزدہم حضرت سید احمد بریلویؒ اور اسمٰعیل شہید بالا کوٹ میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے(۵) اور آپ کی ولادت کے وقت عیسائیت کا سیلاب جو ۲۲۔ جون ۱۸۱۳ء سے اشاعت تبلیغ کے اجازت نامے کے بعد ( پنجاب کے سوا) پورے ہندوستان کو محیط ہو رہا تھا۔ پنجاب کے کناروں تک آپہنچاتھا چنانچہ ٹھیک ۱۸۳۵ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈولیم بنٹنگ کی رائے اور برطانوی سکیم کے عین مطابق پادری جے سی لوری نے انگریزی مملکت کی سرحد پر لدھیانہ میں پنجاب کا پہلا عیسائی مشن قائم کیا۔ جہاں برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ویڈ (Captain Wade)نے پہلے سے ایک عیسائی سکول قائم کر رکھا تھا۔ (۶) پس کیا ہی عجیب خدا ئی تصرف ہے کہ جونہی جے سی لوری ’’باب لد‘‘ یعنی لدھیانہ تک پہنچے خدا تعالیٰ نے کا سر صلیب پیدا کر دیا۔ ادھر زہر پیدا ہوئی اور ادھر اس کا تریاق نمودار ہوگیا۔ پنجاب میں جہاں حضورؑ کی پیدائش ہوئی مہاراجہ رنجیت سنگھ بر سر اقتدار تھا۔ (۷)جس نے ۱۸۰۶ء میں بھنگی مسل کے سرداروں سے امرت سر پر قبضہ کرکے مہاراجہ کا لقب اختیار کر لیا۔ اور پھر قصور ، جموں، کا نگڑہ ، اٹک ، جھنگ ، ملتان، ہزارہ، بنوں اور پشاور تک کے علاقے زیر نگیں کر لئے۔ ۱۸۱۶۔ ۱۸۱۷ء میں رام گڑھیوں کو شکست دے کر قادیان کی ریاست بھی اپنی عملداری میں شامل کر لی۔ لیکن حضرت بانی کی پیدائش سے چند ماہ قبل حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو قادیان کے اردگرد کے پانچ گائوں ان کی خاندانی ریاست میں سے انہیں واپس کر دیئے۔ اس طرح چند ماہ قبل آپ کے خاندانی مصائب و مشکلات کے دور کو فراخی اور کشائش میں بدل ڈالا اور آپ کی پیدائش خاندان کے لئے مادی اعتبار سے بھی باعث صد برکت ثابت ہوئی۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے اور فراخی میسر آگئی ۔ اور اسی لئے وہ آپ کی پیدائش کو نہایت مبارک سمجھتی تھیں۔ (۸)
حضرت کا پاکیزہ بچپن
حضرت اقدس علیہ السلام کا بچپن ملکی ماحول کی بے شمار آلودگیوں کے باوجود معجزانہ طور پر نہایت درجہ پاکیزہ اور مقدس تھا۔ آپ کو کم سنی میں قادیان اور اس کے مضافات کے علاوہ اپنے ننہال ایمہ ضلع ہوشیار پور میں بھی کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ (۹)مگر آپ جہاں بھی تشریف لے گئے دوسرے تمام بچوں سے ممتاز پائے گئے ۔ متانت، سنجیدگی ، تنہا پسندی اور گہرے غورو فکر کی قوت ابتداء ہی سے قدرت نے آپ کو ودیعت کر رکھی تھی اور آپ بچپن ہی سے ایک نرالی دنیا کے فرد نظر آتے تھے۔ موضع بہادر حسین ضلع گورداسپور کے ایک سربرآوردہ شخص کی گواہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کے گائوں آئے تھے یہ گائوں ان کی جاگیر تھا۔ ’’مرزا غلام قادر صاحب ہمارے ساتھ کھیلتے اور جو جو کھیلیں ہم کرتے وہ بھی کرتے مگر مرزا غلام احمد صاحبؑ نہ لڑکوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ شوخی وغیرہ کی باتیں کرتے بلکہ چپ چاپ بیٹھے رہتے ۔‘‘ (۱۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ہم عمر ہندہ کی شہادت ہے کہ ’’ میں نے بچپن سے مرزا غلام احمد کو دیکھا ہے ( علیہ السلام ) میں اور وہ ہم عمر ہیں اور قادیان میرا آنا جانا ہمیشہ رہتا ہے اور اب بھی دیکھتاہوں جیسی عمدہ عادات اب ہیں ایسی نیک خصلتیں اور عادات پہلے تھیں اب بھی وہی ہیں۔ سچا، امانت دار اور نیک۔ میں تو یہ سمجھتاہوں کہ پر میشور مرزا صاحب کی شکل اختیار کرکے زمین پر اتر آیا ہے اور پر میشور اپنے جلوے دکھا رہا ہے ۔‘‘ (۱۱)
حضرت اقدسؑ اپنے عہد طفولیت کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ بچپن میں گائوں سے باہر ایک کنوئیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جو گھر سے لانی تھی۔ اس وقت آپ کے پاس ایک شخص بکریاں چرا رہا تھا۔ آپ نے اس سے کہا کہ مجھے یہ چیز لا دو۔ اس نے کہا میاں! میری بکریاں کون دیکھے گا؟ آپ نے کہا تم جائو میں ان کی حفاظت کروں گا اور چرائوں گا۔ چنانچہ آپ نے اس کی بکریوں کی نگرانی کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے نبیوں کی سنت آپ سے پوری کرادی۔ (۱۲)
اٹھارہویں صدی کی ہلاکت آفرینیوں نے دنیا میں الحادو دہریت اور فسق و فجور کا ایک تند و تیز سیلاب بہا رکھا تھا اور بڑے بڑے متدین خاندان اس کی زد میں آچکے تھے بلکہ خود آپ کے خاندان میں بے دینی کی ایک روچل نکلی تھی۔ لیکن حضرت کے قلب صافی میں ابتداء ہی سے خدا تعالیٰ کی عبادت اور اس سے محبت کے جذبات موجزن تھے اور دنیا کی کوئی دلکشی اور رنگینی آپ کے اس والہانہ عشق میں حائل نہیں ہو سکی۔
ایک معمر ہندو جاٹ کی شہادت
ایک معمر ہندو جاٹ کی ( جس نے آپ کو گود میں کھلایا بھی ہے) شہادت ہے کہ :
’’جب سے اس ( مراد حضرت مسیح پاک۔ ناقل) نے ہوش سنبھالا ہے بڑا ہی نیک رہا۔ دنیا کے کسی کام میں نہیں لگا۔ بچوں کی طرح کھیل کود میں مشغول نہیں ہوا۔ شرارت ، فساد، جھوٹ ، گالی کبھی اس میں نہیں۔ ہم اور ہمارے ہم عمر اس کو سست اور سادہ لوح اور بے عقل سمجھا کرتے تھے کہ یہ کس طرح گھر بسائے گا۔ سوائے الگ مکان میں رہنے کے اور کچھ کام ہی نہیں تھا۔ نہ کسی کو مارا نہ آپ مار کھائی نہ کسی کو برا کہا نہ آپ کو کہلوایا۔ ایک عجیب پاک زندگی تھی مگر ہماری نظروں میں اچھی نہیں تھی۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ نہ کسی سے سوائے معمولی بات کے بات کرنا۔ اگر ہم نے کبھی کوئی بات کہی کہ میاں دنیا میں کیا ہو رہا ہے تم بھی ایسے رہو۔ اور کچھ نہیں تو کھیل تماشہ کے طور پر ہی باہر آیا کرو تو کچھ نہ کہتے ہنس کے چپ ہو رہتے ۔ تم عقل پکڑو کھائو کمائو کچھ تو کیا کرو۔ یہ سن کر خاموش ہو رہتے آپ کے والد مجھے کہتے۔ نمبردار ! غلام احمد کو بلالائو اسے کچھ سمجھا دیں گے ۔ میں جاتابلالاتا۔ والد کا حکم سن کر اسی وقت آجاتے اور چپ چاپ بیٹھ جاتے اور نیچی نگاہ رکھتے ۔ آپ کے والد فرماتے بیٹا غلام احمد ! ہمیں تمہارا بڑا فکر اور اندیشہ رہتاہے تم کیا کرکے کھائو (گے) اس طرح زندگی تم کب تک گذاروگے۔ تم روزگار کرو کب تک دلہن بنے رہو گے۔ خورونوش کا فکر چاہئے ۔ دیکھو دنیا کماتی کھاتی پیتی ہے کام کاج کرتی ہے تمہارا بیاہ ہوگا بیوی آوے (گی) بالک بچے ہوں گے وہ کھانے پینے پہننے کے لئے طلب کریں گے ان کا تعہد تمہارے ذمہ ہوگا۔ اس حالت میں تو تمہارا بیان کرتے ہوئے ڈر لگتاہے ۔ کچھ ہوش کرو۔ اس غفلت اور اس سادگی کو چھوڑ دو۔ میں کب تک بیٹھا رہوں گا۔ بڑے بڑے انگریزوں، افسروں ، حاکموں سے میری ملاقات ہے وہ ہمارا لحاظ کرتے ہیں۔ میں تم کو چٹھی لکھ دیتاہوں تم تیار ہو جائو یا کہو تو میں خود جا کر سفارش کروں ۔ تو مرزا غلام احمد ؑ کچھ جواب نہ دیتے ۔ وہ بار بار اسی طرح کہتے ۔ آخر جواب دیتے تو یہ دیتے کہ ابا بھلا بتائو تو سہی کہ جو افسروں کے افسر اور مالک الملک احکم الحاکمین کا ملازم ہو اور اپنے رب العالمین کا فرمانبردار ہو۔ اس کو کسی کی ملازمت کی کیا پرواہے ۔ ویسے میں آپ کے حکم سے بھی باہر نہیں۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب یہ جواب سن کر خاموش ہو جاتے اور فرماتے اچھا بیٹا جائو۔ اپنا خلوت خانہ سنبھالو۔ جب یہ چلے جاتے تو ہم سے کہتے کہ یہ میرا بیٹا ملاں ہی رہے گا۔ میں اس کے واسطے کوئی مسجد ہی تلاش کردوں جو دس بیس من دانے ہی کمالیتا مگر میں کیا کروں یہ تو ملا گری کے بھی کام کا نہیں۔ ہمارے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ ہے تو یہ نیک صالح مگر اب زمانہ ایسوں کا نہیں چالاک آدمیوں کا ہے پھر آبدیدہ ہو کر کہتے کہ جو حال پاکیزہ غلام احمد ؑ کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی (ہے) یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے ۔‘‘۱۳
حضرت اقدسؑ کو شروع سے نماز کے ساتھ گہرا تعلق اور ایک فطری لگائو تھا جو عمر کے آخر تک گویا ایک نشہ کی صورت میں آپ کے دل و دماغ پر طاری رہی۔ تحریک احمدیت کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے آپ کے ابتدائی سوانح میں یہ عجیب واقعہ درج کیاہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی سے (جو بعد کو آپ سے بیاہی گئی) فرمایا کرتے تھے کہ ’’نا مرادے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے۔‘‘۱۴یہ فقرہ بظاہر نہایت مختصر ہے مگر اس سے عشق الٰہی کی ان لہروں کا پتہ چلتاہے جو مافوق العادت رنگ میں شروع سے آپ کے وجود پر نازل ہو رہی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے انہی فطری رجحانات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پر لکھا ہے کہ :
اَلْمَسْجِدُ مَکَانِیْ وَالصَّالِحُوْنَ اِخْوَانِیْ وَذِکْرُ اللّٰہِ مَالِیْ وَخَلْقُ اللّٰۃِ عَیَالِیْ
فرماتے ہیں کہ اوائل ہی سے مسجد میرا مکان ، صالحین میرے بھائی ، یاد الٰہی میری دولت ہے اور مخلوق خدا میرا عیال اور خاندان ہے۔ ۱۵
حضور کی یہ پاکیزہ فطرت اور خدا نما عادات و خصائل ہی کا نتیجہ تھا کہ جس نے بھی بصیرت کی نگاہ سے دیکھا آپ کا والہ و شیدا ہوگیا ۔ میاں محمد یاسین صاحب احمدی ٹیچر بلوچستان کی روایت ہے کہ ’’مجھے مولوی برہان الدین صاحب ؓ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی غلام رسول صاحب قلعہ میاں سنگھ کے پاس گئے اور اس وقت حضور ابھی بچہ ہی تھے۔ اس مجلس میں کچھ باتیں ہورہیں تھیں۔ باتوں باتوں میں مولوی غلام رسول صاحب نے جو ولی اللہ و صاحب کرامات تھے فرمایا کہ اگر اس زمانہ میں کوئی نبی ہوتا تو یہ لڑکا نبوت کے قابل ہے۔ انہوں نے یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہی ۔ مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا۔ مکر م مولوی غلام محمد صاحب سکنہ بیگووالہ ضلع سیالکوٹ نے بتایا کہ میں نے یہ بات اپنے والد محمد قاسم صاحب سے اسی طرح سنی تھی۔ ‘‘۱۶،۱۷
حضرت مسیح موعود ؑ دورِ تعلیم میں
’’النبی الامی ‘‘ کا قابل فخر خطاب ایک لاکھ جوبیس ہزار انبیاء میں سے تنہا آنحضرت ﷺ کو عطا ہوا اور باقی انبیاء کو بچپن میں کچھ نہ کچھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنا پڑی۔ اس خدائی دستور کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ابتدائی عمر میں تین اساتذہ سے چند ابتدائی علوم پڑھنے کا موقعہ ملا۔ سکھا شاہی کے جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے۔ ہر طرف جہالت کی تاریکی مسلط تھی اور عوام ہی نہیں رؤسا ء بھی علم کے نور سے محروم تھے۔ چنانچہ یہ بات مشہور ہے کہ خطوط مدت تک یونہی بغیر پڑھے رکھے رہتے اور ایک عرصہ کی محنت ، مشقت اور تلاش کے بعد ان کے مضمون سے آگاہی ہو سکتی۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اصلاح خلق کا ایک بہت بڑا کام لینا تھا اس لئے اس نے آپ کے والد بزرگوار کے دل میں آپ کی تعلیم کا خاص شوق پیدا کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے دینی تفکرات اور اقتصادی مشکلات کے باوجودمناسب حال ابتدائی تعلیم دلانے میں گہری دلچسپی لی چنانچہ حضور اپنے ذاتی سوانح میں لکھتے ہیں:
’’بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی جوان معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی جوان مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگ آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے۔ اور میںنے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہواتو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کانام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔ اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘۱۸
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پہلے استاد فضل الٰہی صاحب قادیان کے باشندے اور حنفی المذہب تھے۔ دوسرے استاد مولوی فضل احمد صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے اور اہلحدیث تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے اور پھر غیر مبایعین کی رو میں بہہ گئے، آپ ہی کے بیٹے تھے۔ اور تیسرے استاد مولوی گل علی شاہ صاحب بٹالہ کے رہنے والے اور مذہبا شیعہ تھے۔ ۱۹ حضور کے زمانہ طالب علمی میں قادیان کا وہ کچا دیوان خانہ جس میں بعد کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓ کے مکانات تعمیر ہوئے پرائیویٹ درسگاہ تھی جہاں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ کی بدولت نہ صرف آپ کے فرزندہی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے تھے بلکہ گائوں کے دوسرے بچوں کو بھی استفادہ کی کھلی اجازت تھی۔ بچوں کی شوخی، ہنسی مذاق اور چلبلاپن مشہور ہے اور یہ درسگاہ بھی ان باتوں سے خالی نہ تھی۔ لیکن آپ کوہ وقار تھے اور متانت و سنجیدگی کی مجسم تصویر!! دوسرے بچے جو طفیلی رنگ میں استفادہ کرتے تھے اپنے اساتذہ کا مذاق اڑاتے مگر آپ ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ۔ وہ تعلیمی اوقات میں تفریح اور دل لگی کا سامان پیدا کرتے اور آپ اپنا سبق یاد کرنے میں مستغرق رہتے ۔ آپ کا معمول یہ تھا کہ اپنا سبق ہمیشہ خود پڑھتے اور دو یا تین دفعہ دہرالینے کے بعد بالا خانہ میں تشریف لے جاتے اور وہاں تنہائی میں پوری یکسوئی سے یاد کرتے ۔ اگر کچھ بھول جاتا تو نیچے آکر اپنے استاد سے براہ راست پوچھتے اور پھر اوپر چلے جاتے۔ آپ کی عادت مبارک میں بالخصوص یہ امر بھی داخل تھاکہ اگر کوئی بچہ اپنا سبق بھول جاتاتو آپ اسے یاد کرا دینے میں کبھی تامل نہ فرماتے ۔۲۰ ان دنوں میں عام طور پر کشتی، کبڈی اور مگدراور مونگری اٹھانے کے کھیل مروج تھے اور بیٹر بازی اور مرغ بازی کی وبا عام تھی۔ مگر آپ بالطبع ان سب فضولیات سے متنفر اور قطعی طور پر بیزار تھے۔ ’’ تاہم اعتدال کے ساتھ اور مناسب حد تک آپ ورزش اور تفریح میں حصہ لیتے تھے۔ آپ نے بچپن میں تیرنا سیکھا تھا اور کبھی کبھی قادیان کے کچے تالابوں میں تیرا کرتے تھے۔ اسی طرح اوائل عمر میں گھوڑے کی سواری بھی سیکھی تھی اور اس فن میں اچھے ماہر تھے۔ مگر آپ کی زیادہ ورزش پیدل چلنا تھا جو آخر عمر تک قائم رہی۔ آپ کئی کئی میل تک سیر کے لئے جایا کرتے تھے اور خوب تیز چلا کرتے تھے۔ ‘‘ ۲۱یہ تو محض صحت کی درستی کی غرض سے تھا ورنہ ابتداء ہی سے آپ کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف ۔ مسجدہی میں عموماً ٹہلتے رہتے ۔ اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہوکر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیّز ہو جاتی ۔ (۲۲)
مولوی فضل الٰہی صاحب اور مولوی فضل احمد صاحب تو آخر ملازمت تک قادیان ہی میں مقیم رہے اور سلسلہ تعلیم یہیں جاری رہا۔ مگر مولوی گل علی شاہ صاحب قادیان میں مختصر قیام کے بعد بٹالہ میں چلے آئے ۔ اس لئے حضور انور کو بھی کچھ عرصہ کے لئے بغرض تعلیم بٹالہ میں فروکش ہونا پڑا۔ بٹالہ میں حضور کے خاندان کی دکانیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی( جو بعد میں مقدمات کے نتیجہ میں فروخت ہوگئی)(۲۳)حضور نے اسی بڑی حویلی میں قیام فرمایا۔ ان دنوں آپ کے ہم مکتبوں میں مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور لالہ بھیم سین بھی شامل تھے جنہیں آپ کی خدا نما شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور وہ ہزار جان سے آپ کے فریفتہ ہوگئے۔ آپ کا ذکرالٰہی میں استغراق ، شب بیداری ، امارت میں فقیرانہ شان ، نورانیت سے معمور چہرہ اور عشق رسالت میں ڈھلی ہوئی معصومیت ان کے قلب و نظر کا گم گشتہ فردوس تھے۔ لالہ بھیم سین (۲۴) اور ان کے فرزند لالہ کنور سین کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک حضرت اقدسؑ سے بے حدالفت و عقیدت رہی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے براہین احمدیہ کی اشاعت پر اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۷میں ہم مکتبی کے انہی ایام کی یاد میں لکھا۔’’مولف براہین احمدیہ کے حالات و خیالات سے جس قدرہم واقف ہیں ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے ۔ مولف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل عمر کے ( جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب ۔ اس زمانہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری رہی ہے۔ اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ ہم ان کے حالات و خیالات سے بہت واقف ہیں مبالغہ قرار نہ دیئے جانے کے قابل ہے۔ ‘‘
اپنے اس لمبے اور ذاتی تعارف کی بناء پر مولوی صاحب نے بڑی تحدی کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کی جلالت مرتبت کا بایں الفاظ اقرار کیا کہ :
’’اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ ‘‘ (۲۵)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلربا شخصیت اور تقدس کے انہی گہرے نقوش کا اثر تھا کہ مولوی صاحب دلی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب واپس بٹالہ آئے تو اگرچہ ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوگئے اور ہر جگہ ان کا طوطی بولنے لگا۔ مگر اس وقت بھی ان کی حضور سے عقیدت کایہ عالم تھاکہ حضور کا جوتا آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپ کا وضو کرانا موجب سعادت قرار دیتے تھے (۲۶)
چنانچہ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کا چشم دید واقعہ ہے کہ :
’’دعویٰ سے پہلے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے مکان واقعہ بٹالہ پر تشریف فرماتھے ۔ میں بھی خدمت اقدس میں حاضر تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ دھلانے کے لئے آگے بڑھے۔ حضور نے ہر چند فرمایا کہ مولوی صاحب آپ نہ دھلائیں مگر مولوی صاحب نے باصرار حضور کے ہاتھ دھلائے اور اس خدمت کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا۔ ‘‘۲۷
دعویٰ مسیحیت کے بعد جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے بلکہ اول المکذبین بن کر آپ کے خلاف پہلا اور منظم محاذ قائم کر لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہندوستان بھر کے تمام علماء کو چیلنج دیا کہ وہ آپ کی دعویٰ سے قبل کی زندگی کے کسی گوشہ کو داغ دار ثابت کر دکھائیں۔ اس زبردست تحدی نے مولوی محمد حسین بٹالوی اور ان کے ہم خیال علماء اور سجادہ نشینوں پر سکوت مرگ طاری کر دیا اور وہ حضور کی بے لوث زندگی پر انگشت نمائی کرنے سے سراسر قاصر رہے۔
یہ تو آپ کے ہم مکتبوں کا تاثر تھا ورنہ زمانہ طالب علمی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی فہم و فراست اور تقویٰ شعاری اور علم لدنی کا بعض مواقع پر آپ کے اساتذہ کو بھی معترف ہونا پڑا۔ چنانچہ ایک دفعہ دوران تعلیم میں حضور کے ایک استاد مولوی فضل احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے خواب دیکھا تھا کہ ایک مکان ہے جو دھواں دھار ہے یعنی اس کے اندر باہر سب دھواں ہو رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس کے اندر آنحضرت ﷺ ہیں اور چاروں طرف سے عیسائیوں نے اس (مکان ) کا محاصرہ کیاہواہے ۔ استاد نے یہ بھی بتایا کہ ہم میں سے کسی کو اس کی تعبیر نہیں آئی۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ ’’اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص عیسائی ہو جائے گا کیونکہ انبیاء کا وجود آئینہ کی طرح ہوتاہے۔ پس اس نے جو آپ ؐ کو دیکھا ہے تو گویا اپنی حالت کے عکس کو دیکھا۔‘‘ حضور کا یہ جواب سن کر آپ کے وہ استاد بہت متعجب بھی ہوئے اور خوش بھی ۔ اور کہنے لگے کہ ’’کاش! ہم اس کی تعبیر جانتے اور اسے وقت پر سمجھاتے تو وہ شاید ارتداد سے بچ جاتا۔‘‘ ۲۸
آنحضرتﷺ کی زیارت :۔
دور تعلیم کا اہم ترین واقعہ یہ ہے کہ ۲۹ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آغاز جوانی میں بذریعہ رویاء سرتاج مدینہ نور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے رخ انور کی زیارت کا شرف نصیب ہوا۔ اس زیارت کے بعد جب تک زندہ رہے عشق رسولؐ میں فنا رہے اور گو بعد میں آپ نے کشفی رنگ میں اپنے آقا فداہ ابی و امی کی متعدد بار بیداری میں ملاقات بھی کی۔ اور کئی حدیثوں کی تصدیق بھی آپ سے براہ راست کی ۳۰ لیکن اس زیارت میں رسول خدا محمد عربی ﷺ کے نورانی مکھڑے نے آپ کو کچھ ایسا مستانہ بنا دیا کہ آپ ہمیشہ کے لئے حضور کے تیز نگاہ سے گھائل ہوگئے۔ آپ نے اپنی پوری دنیا بھلا دی مگر یہ عظیم الشان محمدی جلوہ فراموش نہیں کر سکے۔ دربار رسالت کی اس ابتدائی حاضری کا دلکش اور وجد آفرین نقشہ کھینچتے ہوئے حضور آئینہ کمالات اسلام اور براہین احمدیہ حصہ سوم میں تحریر فرماتے ہیں ۔ (آئینہ کمالات اسلام کی اصل عبارت عربی کی ہے جس کا ترجمہ درج کیا گیا ہے )
’’اوائل ایام جو انی میں ایک رات میں نے (رویا میں ) دیکھاکہ میں ایک عالی شان مکان میں ہوں جو نہایت پاک اور صاف ہے اور اس میں آنحضرتﷺ کا ذکر اور چرچا ہو رہا ہے ۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ حضور ؐ کہاں تشریف فرما ہیں ۔ انہوں نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس کے اندر چلا گیا۔ اور جب میں حضور کی خدمت میں پہنچا تو حضور بہت خوش ہوئے اور آپ نے مجھے بہتر طور پر میرے سلام کا جواب دیا۔ آپ کا حسن وجمال اور ملاحت اور آپ کی پر شفقت و پر محبت نگاہ مجھے اب تک یاد ہے اور وہ مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ آپ کی محبت نے مجھے فریفتہ کر لیا۔ اور آپ کے حسین و جمیل چہرہ نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اس وقت آپ نے مجھے فرمایا اے احمد تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ جب میں نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور وہ مجھے اپنی ہی تصنیف معلوم ہوئی۔ میں نے عرض کیا حضور یہ میری ایک تصنیف ہے ۔ ‘‘ ۳۱
’’آنحضرت ﷺ ۳۲نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تونے اس کتاب کا کیا نام رکھاہے ۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کتاب کا میںنے قطبی نام رکھاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض آنحضرتؐ نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اور جب وہ کتاب حضرت مقدس نبی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوشرنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔ آنحضرت ؐ نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لئے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا۔ تب ایک مردہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا آنحضرت ؐکے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرتؐ کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرتؐ بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے ۔
پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت ﷺ نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں کہ جو نئے سرے سے زندہ ہوا۔ اور باقی تمام قاشیں میرے دامن میں ڈال دیں۔ اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنی قاش کھا چکا تو ‘‘ ۳۳ میںنے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کی کرسی اونچی ہوگئی ہے حتی کہ چھت کے قریب جا پہنچی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ کا چہرہ مبارک ایسا چمکنے لگا کہ گویا اس پر سورج اور چاند کی شعاعیں پڑ رہی ہیں اور میں ذوق اور وجد کے ساتھ آپ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ رہا تھا اور میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر میں بیدار ہوگیا اور اس وقت بھی میں کافی رو رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ وہ مردہ شخص اسلام ہے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے روحانی فیوض کے ذریعہ سے اسے اب میرے ہاتھ پر زندہ کرے گا۔ اللّٰھم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَجِیْدٌ۳۴
( ۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تعبین کے سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر احمد ؓ صاحب تحریر فرماتے ہیں ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش اور عمر بوقت وفات کا سوال ایک عرصے سے زیر غور چلا آتاہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصریح فرمائی ہے کہ حضور کی تاریخ پیدائش معین صورت میں محفوظ نہیں ہے۔ اور آپ کی عمر کا صحیح اندازہ معلوم نہیں ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۹۳) کیونکہ آپ کی پیدائش سکھوں کی حکومت کے زمانہ میں ہوئی تھی ۔ جبکہ پیدائشوں کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتاتھا۔ البتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض ایسے امو ربیان فرمائے ہیں جن سے ایک حد تک آپ ؑ کی عمر کی تعبین کی جاتی رہی ہے۔ ان اندازوں میں سے بعض اندازوں کے لحاظ سے آپؑ کی پیدائش کا سال ۱۸۴۰ء بنتاہے اور بعض کے لحاظ سے ۱۸۳۱ء تک پہنچتاہے۔ اور اسی لئے یہ سوال ابھی تک زیر بحث چلا آیا ہے کہ صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے ؟
میں نے اس معاملہ میں کئی جہت سے غور کیاہے ۔ اور اپنے اندازوں کو سیرۃ المہدی کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے ۔ لیکن حق یہ ہے کہ گومجھے یہ خیال غالب رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کا سال ۱۸۳۶ء عیسوی یا اس کے قریب قریب ہے۔ مگر ابھی تک کوئی معین تاریخ معلوم نہیں کی جا سکی تھی ۔ لیکن اب بعض حوالے اور بعض روایات ایسی ملی ہیں۔ جن سے یقینی طور پر معین تاریخ کا پتہ لگ گیا ہے ۔ جو بروز جمعہ ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ ہجری مطابق ۱۳ ۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق یکم پھاگن ۱۸۹۱بکرمی ہے ۔ اس تعبین کی وجوہ یہ ہیں:
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعبین اور تصریح کے ساتھ لکھاہے جس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کی گنجائش نہیں۔ کہ میری پیدائش جمعہ کے دن چاند کی چودھویں تاریخ کو ہوئی تھی( دیکھو تحفہ گولڑویہ بار اول صفحہ ۱۱۰ حاشیہ) ۲۔ ایک زبانی روایت کے ذریعہ جو مجھے مکرمی مفتی محمد صادق صاحب کے واسطہ سے پہنچی ہے ۔ اور جو مفتی صاحب موصوف نے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کی ہوئی ہے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا۔ کہ ہندی مہینوں کے لحاظ سے میری پیدائش پھاگن کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ ۳۔ مندرجہ بالا تاریخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے متعدد بیانات سے بھی قریب ترین مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ ٹھیک ۱۲۹۰ھ میں شرف مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہوئے تھے ( حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۹) اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی تھی۔( تریاق القلوب صفحہ ۶۸) وغیرہ وغیرہ ۔
میں نے گزشتہ جنتریوں کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ اور دوسروں سے بھی کرایا ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پھاگن کے مہینے میں جمعہ کا دن اور چاند کی چودھویں تاریخ کس کس سن میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق سے یہی ثابت ہوا ہے ۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ہجری مطابق ۱۳۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی ہے جیساکہ نقشہ ذیل سے ظاہر ہوگا۔
تاریخ اور سن عیسوی
تاریخ چاند معہ سن ہجری
دن
تاریخ ہندی مہینہ معہ سن بکرمی
۴۔ فروری ۱۸۳۱ء
۱۷۔ فروری ۱۸۳۲ء
۸۔ فروری ۱۸۳۳ء
۲۸۔فروری ۱۸۳۴ء
۱۳۔فروری ۱۸۳۵ء
۵۔ فروری ۱۸۳۶ء
۲۴۔ فروری ۱۸۳۷ء
۹۔ فروری ۱۸۳۸ء
یکم فروری ۱۸۳۹ء
۲۱۔ فروری ۱۸۴۰ء
۲۰۔ شعبان ۱۲۴۶ہجری
۱۴۔ رمضان ۱۲۴۷ہجری
۱۷؍۱۲۴۸ہجری
۱۸۔ شوال ۱۲۴۹ہجری
۱۴شوال ۱۲۵۰ہجری
۱۷۔ شوال ۱۲۵۱ہجری
۱۸۔ ذیقعدہ ۱۲۵۲ہجری
۲۰۔ ذیقعدہ ۱۲۵۳ہجری
۱۵۔ ذیقعدہ ۱۲۵۴ہجری
۱۶۔ ذی الحج ۱۲۵۵ہجری
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
جمعہ
۷پھاگن ۱۸۸۷بکرم
یکم پھاگن ۱۸۸۸بکرم
۴۔پھاگن ۱۸۸۹بکرم
۵۔پھاگن ۱۸۹۰بکرم
یکم ۔پھاگن ۱۸۸۹۱بکرم
۳۔ پھاگن ۱۸۹۲بکرم
۴۔ پھاگن ۱۸۹۳بکرم
۷۔ پھاگن ۱۸۹۴بکرم
۳۔ پھاگن ۱۸۹۵بکرم
۴۔ پھاگن ۱۸۶۶بکرم

(توفیقات الہامیہ مصری و تقویم عمری ہندی )
اس نقشہ کی رو سے ۱۸۳۲ء عیسوی کی تاریخ بھی درست سمجھی جا سکتی ہے مگر دوسرے قرائن سے جن میں سے بعض اوپر بیان ہو چکے ہیں اور بعض آگے بیان کئے جائیں گے ۔ صحیح یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش ۱۸۳۵ء عیسوی میں ہوئی تھی۔ پس ۱۳۔ فروری ۱۸۳۵ء عیسوی مطابق ۱۴۔ شوال ۱۲۵۰ہجری بروز جمعہ والی تاریخ صحیح قرار پاتی ہے اور اس حساب کی رو سے وفات کے وقت جو ۲۴۔ ربیع الثانی ۱۳۲۶ء ہجری ( اخبار الحکم ضمیمہ مورخہ ۲۸۔ مئی ۱۹۰۸ء ) میں ہوئی۔ آپ کی عمر پورے ۷۵سال ۶ماہ اور دس دن بنتی ہے ۔ میں امید کرتاہوں کہ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کی تاریخ معین طور پر معلوم ہوگئی ہے ۔ ہمارے احباب اپنی تحریرو تقریر میں ہمیشہ اسی تاریخ کو بیان کیا کریں گے ۔ تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی ابہام اور اشتباہ کی صورت نہ رہے۔ اور ہم لوگ اس بارے میں ایک معین بنیاد پر قائم ہو جائیں۔
اس نوٹ کے ختم کرنے سے قبل یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپؑ کی عمر اسی یا اس سے پانچ چار کم یا پانچ چار زیادہ ہوگی( حقیقۃ الوحی صفحہ ۹۶) اگر اس الہام الٰہی کے لفظی معنی لئے جائیں تو آپ کی عمر پچھتّر ۷۵ چھہتر یا اسی یا چوراسی ۔ پچاسی سال کی ہونی چاہئے بلکہ اگر اس الہام کے معنی کرنے میں زیادہ لفظی پابندی اختیار کی جائے تو آپ کی عمر پورے ساڑھے پچھتّر سال بنتی ہے ۔ اسی ضمن میںیہ باتبھی قابل نوٹ ہے کہ ایک دوسری جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی پیدائش کے متعلق بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم سے لے کر ہزار ششم میں سے ابھی گیارہ سال باقی رہتے تھے۔ کہ میری ولادت ہوئی اور اسی جگہ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ابجد کے حساب کے مطابق سورۃ والعصر کے اعداد سے آنحضرت ﷺ کا زمانہ نکلتا ہے جو شمار کے لحاظ سے ۴۷۳۹سال بنتاہے (دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ ۹۴۹۳،۹۵ حاشیہ) یہ زمانہ اصولاً ہجرت تک شمار ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہجرت سے نئے دور کا آغاز ہوتاہے ۔ اب اگر یہ حساب نکالا جائے ۔تو اس کی رو سے بھی آپ کی پیدائش کا سال ۱۲۵۰ھ بنتاہے ۔ کیونکہ ۶۰۰۰ میں سے ۱۱نکالنے سے ۵۹۸۹ رہنے ہیں اور ۵۹۸۹میں سے ۴۷۳۹ منہا کرنے سے ۱۲۵۰ بنتے ہیں۔ گویا اس جہت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیدائش کے متعلق مندرجہ بالا حساب صحیح قرار پاتاہے ۔ (مطبوعہ ’’ الفضل ‘‘قادیان ۱۱۔ اگست ۱۹۳۶ء صفحہ ۳)
۲۔ فصوص الحکم صفحہ ۳۶ترجمہ مولانا الفاضل محمد مبارک علی مطبوعہ ۱۳۰۸ھ ))





باب پنجم
مقدمات کی پیروی اور دنیاوی علائق میں
راست گفتاری ، منکسر المزاجی اور تعلق باللہ
(۱۸۵۴تا ۱۸۶۳)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی عمر کی پندرھویں منزل میں ابھی قدم رکھا ہی تھا کہ ملتان ، چیلیانوالہ اور گجرات کی فیصلہ کن جنگوں کے بعد سکھ حکومت کو شکست فاش ہوئی اور ۲۹۔ مارچ ۱۸۴۹ء کو پنجاب کا علاقہ بھی انگریزی حدود مملکت میں شامل کر لیا گیا۔ سکھ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ۵۰ ہزار پائونڈ پینشن دے کر انگلستان روانہ کر دیا گیا اور پنجاب کے ان رؤسا کی جاگیریں ضبط کر لی گئیں جنہوں نے انتقال حکومت کے وقت غیر ملکی حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ جیساکہ ابتداء میں ذکر آچکا ہے ان رؤسا میں چونکہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ اور آپ کے بھائی بھی تھے اس لئے ان کی جاگیر بھی جو قادیان کی مثالی ریاست کے آثار باقیہ سے تھی ضبط کر لی گئی اور اشک شوئی کے طورپر فقط سات سو روپے کی سالانہ پنشن انہیں دی جانی منظور کی گئی جو ظاہر ہے کہ ان کے گذشتہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے لحاظ سے چنداں کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی۔
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو قادیان کی بستی سے اپنے بزرگوں کی مقدس یادگار ہونے کی وجہ سے نہایت درجہ عقیدت تھی اور آپ اکثر اس کا اظہار فرماتے اور اکثر کہتے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انگریزی کی طرف سے بے دخلی کے اعلان پر آپ نے انگریزی عدالتوں تک پہنچنے کا فیصلہ کرکے مقدمات کا ایک وسیع سلسلہ شروع کر دیا۔ جس میں آپ نے کشمیر میں ملازمت اور بعد کے عرصہ میں جمع کی ہوئی ستر ہزار کے قریب رقم پانی کی طرح بہادی ۔ حالانکہ اس زمانے میں اس قدر مصارف سے سوگنے بڑی جائیداد از سر نو خرید کی جا سکتی تھی۔ بایں ہمہ بڑی زبردست جدو جہد کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کے ایک حصہ پر عمل دخل ملا۔ اور اس کے ماحول میں بھینی ، ننگل اور کھارا کے دیہات کی ملکیت کے رسمی حقوق واپسی ہوئے جو ۱۹۴۷ء کے ہنگامہ ہجرت تک بدستور قائم رہے۔ البتہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ کے انتقال کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کے زمانے میں قادیان کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ مرزا اعظم بیگ صاحب لاہوری کے خاندان کی طرف منتقل ہوگیا جو بالا خر پینتیس برس کی کشمکش کے بعد آپ ہی کے خاندان کی طرف واپس آگیا۔ (۱)
مقدمات شروع ہوئے تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم نے اپنے بیٹوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہا۔ حضرت اقدس کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم اپنے دنیا دارانہ رنگ کی وجہ سے مقدمات کی پیروی میں گہری دلچسپی لینے لگے مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فطری طور پر ان امور سے کوئی علاقہ ہی نہ تھا۔ آپ کے والد اور بڑے بھائی کو جس قدر انہماک اور شفف ان دنیاوی مشاغل میں تھا آپ اسی قدر ان سے متنفر تھے اور یہ جاننے کے باوجود متنفر تھے کہ ان مقدمات کے نتیجے میں اگر کامیابی ہوئی تو بالا خر خود آپ ایک بہت بڑی جائیداد پر قابض ہوں گے تاہم ضروری تھا کہ جب خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے آپ اپنی زندگی وقف کئے ہوئے تھے تو اس کی ہدایت کے مطابق اپنے والد کے حکم کے کی بھی تعمیل کریں خواہ آپ کی طبیعت اس سے کس درجہ کراہت رکھتی ہو۔ چنانچہ آپ کو مقدمات سے ( جو آپکے لئے ایک ابتلائے عظیم اور آزمائش کا ایک سنگین مرحلہ تھے )کم و بیش سترہ سال الجھنا پڑا۔ (۲)حضور فرماتے ہیں :۔
’’ میرے والد صاحب اپنے بعض آبائو اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے انہوں نے انہی مقدمات میں بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگادیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا۔ اس لئے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ بنا رہتاتھا۔ ان کی ہمدردی اور مہربانی میرے پر نہایت درجہ پر تھی مگر وہ چاہتے تھے کہ دنیا داروں کی طرح مجھے روبہ خلق بناویں اور میری طبیعت اس طریق سے سخت بیزار تھی۔ ایک مرتبہ ایک صاحب کمشنر نے قادیان میں آنا چاہا۔ میرے والد صاحب نے بار بار مجھ کو کہا کہ ان کی پیشوائی کے لئے دو تین کوس جانا چاہئے ۔ مگر میری طبیعت نے نہایت کراہت کی اور میں بیمار بھی تھا اس لئے نہ جاسکا ۔ پس یہ امر بھی ان کی ناراضگی کا موجب ہوا۔ اور وہ چاہتے تھے کہ میں دنیوی امو رمیں ہر دم غرق رہوں جو مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محو کر دیا تھا اور ان کے لئے دعا میں بھی مشغول رہتاتھا اور وہ مجھے دلی یقین سے بر بالوالدین جانتے تھے اور بسا اوقات کہا کرتے تھے کہ میں صرف ترحم کے طور پر اپنے اس بیٹے کو دنیا کے امور کی طرف توجہ دلاتاہوں ورنہ میں جانتاہوں کہ جس طرف اس کی توجہ ہے یعنی دین کی طرف۔ صحیح اور سچ بات یہی ہے ۔ ہم تو اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں۔ ‘‘(۳)
لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا داری کے معاملات میں بسر ہوئی تھی اس لئے افسوس کا پہلو ہی غالب رہتااور آپ کے مستقبل کے متعلق ہمیشہ تشویش میں رہتے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے والد صاحب مرحوم اکثر اوقات افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ ’’ میر اایک بچہ تو لائق ہے مگر دوسرا لڑکا نالائق ہے ۔ کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتاہے ۔ مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے۔ ‘‘ اور بعض دفعہ افسردہ ہو کر کہتے تھے کہ ’’یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا۔‘‘(۴)
مقدمات کے لئے تیاری اور سفر:۔
یہ مقدمات جو قادیان کی جائیداد کے حقوق ، مقامی زمینداروں کے لگان میں اضافہ یا درختوں کی کٹائی وغیرہ کے متعلق ہوتے تھے۔ آپ ان کے لئے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ہر ممکن تیاری کرتے ۔ ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کاغذات اور شواہد کا خلاصہ ضبط تحریر میں لاتے اور مشمولہ کاغذات کی نقول محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تاعند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو اس سلسلے میں بٹالہ ، گورداسپور ، ڈلہوزی ، امرت سر اور لاہور تک کے متعدد سفر اختیار کرنا پڑے۔ بالخصوص ڈلہوزی تک تو آپ کو ایک مرتبہ یکہ میں اور اکثر مرتبہ پاپیادہ سفر بھی کرنا پڑا۔ ان دنوں میدانی سفر کی سہولتیں بھی میسر نہ تھیں اور یہ تو پہاڑوں کا دشوار گزار راستہ تھا جس کے طے کرنے میں یقینا غیر معمولی بہادری ، ہمت اور جفاکشی درکار تھی اور جسے آپ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے محض رضاء الٰہی کی خاطر اختیار کیا۔
مقدمات میں آپ کی امتیازی خصوصیات :۔
مقدمات میں ہر قسم کا مکرو فریب ، دغابازی اور چالبازی روا رکھی جاتی ہے اور فریق مخالف کو شکست دینے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدمات کی پیروی کا اندازہی بالکل جدا، بالکل نرالا اور بالکل انوکھاتھا۔ آپ کو ہار جیت سے تو کوئی تعلق ہی نہیں تھا صرف اطاعت والد کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی رضاء مقصود تھی۔ ان دنوں آپ کا یہ اکثر معمول تھا کہ جس صبح کو مقدمہ پر جانا ہوتا آپ اس سے قبل عشاء کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کے بعد فرماتے ’’ مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جائے اور مجھے مخلصی ملے۔ میں نہیں کہتاکہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے کہ حق کیاہے پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو‘‘ اس کے بعد حضور خود بھی دیر تک مصروف دعا رہتے اور حاضرین بھی (۵) ایک ہندو مدرس پنڈت دیوی رام کا ( جو ۲۱ ۔جنوری ۱۸۷۵ء کو قادیان آئے اور چار سال تک مقیم رہے ) بیان ہے کہ ’’ جب کسی تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا تو آپ کے والد صاحب آپ کو مختار نامہ دے دیا کرتے تھے اور مرزا صاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔ مرزا صاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے ۔ مقدمہ پر لاچاری امر میں جاتے تھے ۔ ‘‘(۶) ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ لاہو رچیف کورٹ میں ایک مقدمہ دائر تھا اور آپ لاہور میں اس کی پیروی کی غرض سے سید محمد علی شاہ صاحب محکمہ جنگلات کے ہاں فروکش تھے۔ شاہ صاحب کا ملازم آپ کے لئے چیف کورٹ میں ہی کھانا لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن نوکر کھانے لئے واپس آیا اور انہیں اطلاع دی آپ نے فرمایا ۔ کہ گھر پر ہی آکر کھاتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ خوش اور بشاش گھر پہنچے تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں کیا فیصلہ ہوا؟ فرمایا مقدمہ تو خارج ہوگیا ہے مگر خدا تعالیٰ کا شکر ہے آئندہ اس کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ شاہ صاحب کو تو اس خبر سے سخت تکلیف ہوئی مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نہ صرف حزن و ملال کے چنداں کوئی آثار نہیں تھے بلکہ آپ بہت خوش تھے اور بار بار فرماتے تھے کہ مقدمہ کے ہارنے کا کیا غم ہے ۔ !!(۷)
آپ کے دور (۸) مقدمات کی تین خصوصیات بالکل نمایاں تھیں۔ اول راست گفتاری دوم منکسر المزاجی تواضع اور حسن خلق سوم تعلق باللہ ۔
مقدمات میں راست گفتاری :۔
آپ نے جن مقدمات کی پیروی کی وہ زیادہ تر پیچیدہ نہیں ہوتے تھے اور دروغ گوئی سے ان کو کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا کیونکہ پٹواری کی شہادت کافی ہوتی تھی اور سرکاری کاغذات پر فیصلہ ہو جاتا تھا (۹) تاہم ان مقدمات میں متعدد مرحلے ایسے آجاتے تھے جن میں کوئی دوسرا شخص ہوتا تو اس کے قدم ڈگمگا جاتے ۔ مگر آپ نے کمال جرات اور بہادر ی سے ہر موقعہ پر دنیوی مصلحتوں کو پایہ استحقار سے ٹھکرادیا۔ اکثر دفعہ اپنے والد کی خفگی کا نشانہ بھی بنے اور شماتت اعداء کے چرکے بھی برداشت کئے۔ مگر گوارا نہیں کیا تو راست گفتاری کو چھوڑنا گوارانہیں کیا۔
ایک دفعہ جبکہ حضرت اقدس کی عمر پچیس تیس برس کی تھی آپ کے والد بزرگوار کا اپنے موروثیوں سے درخت کاٹنے پر ایک تنازعہ ہوگیا۔ آپ کے والد بزرگوار کا نظریہ یہ تھا کہ زمین کے مالک ہونے کی حیثیت سے درخت بھی ہماری ملکیت ہیں اس لئے انہوںنے موروثیوں پر دعویٰ دائر کر دیا اور حضور کو مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور بھیجا۔ آپ کے ہمراہ دو گواہ بھی تھے حضرت اقدس جب نہر سے گذر کر پتھنا نوالہ گائوں پہنچے تو راستے میں ذراسستانے کے لئے بیٹھ گئے اور ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرمایا ۔ ابا جان یونہی زبردستی کرتے ہیں درخت کھیتی کی طرح ہوتے ہیں یہ غریب لوگ اگر کاٹ لیا کریں تو کیا حرج ہے۔ بہر حال میں تو عدالت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مطلقاً یہ ہمارے ہی ہیں۔ ہاں ہمارا حصہ ہو سکتے ہیں۔ موروثیوں کو بھی آپ پر بے حد اعتماد تھا۔ چنانچہ جب مجسٹریٹ نے موروثیوں سے اصل معاملہ پوچھا تو انہوں نے بلا تامل جواب دیا کہ خود مرزا صاحب سے دریافت کر لیں۔ چنانچہ مجسٹریٹ نے حضور نے پوچھا حضور نے فرمایا کہ میرے نزدیک درخت کھیتی کی طرح ہیں جس طرح کھیتی میں ہمارا حصہ ہے۔ ویسے ہی درختوں میں بھی ہے ۔ چنانچہ آپ کے اس بیان پر مجسٹریٹ نے موروثیوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس کے بعد جب حضور واپس قادیان تشریف لائے تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو باہر تھا مرزا صاحب اندر گئے تھے ان سے معلوم ہوگا۔ اس پر حضرت صاحب کو بلایا گیا۔ حضور نے سارا واقعہ بلا کم و کاست بیان کر دیا جسے سن کر آپ کے والد بزرگوار سخت برہم ہوئے اور ’’ملاں ملاں ‘‘ کہہ کر کوسنے لگے اور کہاکہ گھرسے نکل جائو اور گھروالوں سے تاکید اً کہا کہ ان کو کھانا ہرگز نہ دو۔ حضور دو تین دن تو قادیان ہی میں رہے اور آپ کی والدہ صاحبہ محترمہؓ آپ کو کھانا بھیجواتی رہیں لیکن بعد کو آپ کے والد صاحب کی مزید ناراضگی کی وجہ سے قادیان سے بٹالہ چلے گئے جہاں کوئی دو ماہ تک ’’ پناہ گزین ‘‘ رہنا پڑا۔ اور پھر بیمار ہونے پر والد صاحب مرحوم نے حضور کو واپس بلالیا۔ (۱۰)
دو اور حیرت انگیز مثالیں :۔
یہاں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلم سے دو اور مثالیں بھی درج کرنا ضروری ہیں جو اگرچہ براہ راست اس زمانہ سے تعلق نہیں رکھتیں۔ مگر آپ کے مقدمات میں آپ کے معمول پر گہری روشنی ڈالتی ہیں۔ حضورؑ ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعویٰ تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا ۔ جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا۔ تب فریق مخالف نے موقعہ پاکر میری گواہی لکھادی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح دین صاحب سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا۔ اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا مگر ایک پائوں سے وہ لنگڑا بھی تھا۔ اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے آپ کیا اظہار دیں گے ۔میں نے کہا کہ وہ اظہاردوں گا جو واقعی امر ہے اور سچ ہے۔ تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے ؟ میں جاتاہوں تا مقدمہ سے دست بردار ہو جائوں ۔ سووہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایت صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو اِبْتِغَائً لِمَرَضَاتِ اللّٰہِ مقدم رکھ کر مالی نقصان کو ہیچ سمجھا۔‘‘ (۱۱)
دوسری مثال :۔
حضور خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی روایت ہے کہ :
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلما کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائیداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اس مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں۔ اس چبوترہ کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضۃ اس گھر کے مالکوں کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کے لئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیاداروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہواور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کے لئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں۔ اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کر دیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی صاحب کو بلا کر گواہی لی جائے۔ اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں!! اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلت محسوس کیا اور بہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب امر واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتاہوں؟ ‘‘(۱۲)
منکسر المزاجی اور حسن خلق کے نادر اور بے مثال نمونے :۔
ان مقدمات میں حضور کی منکسر المزاجی ، درویشانہ طبع اور حسن خلق کے متعدد اور بے مثال نمونے ظاہر ہوئے۔ جس نے آپ کے ساتھ ہم رکاب ہونے والوں کو بے حد متاثر کیا اور وہ آپ کے وجود میں اخلاق محمدی ؐ کا جلوہ دیکھ کر انگشت بدنداں ہو جاتے تھے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کہا کرتے تھے کہ’’ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گذاری بلکہ فقیر کے طور پر گذاری ۔‘‘(۱۳) یہ فقرہ جو آپ کی پوری زندگی کی مختصر مگر جامع تصویر ہے ، آپ کے زمانہ مقدمات پر بھی پوری شان سے حاوی ہے ۔ قادیان کے کنہیا لعل صراف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کو بٹالہ جانا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ ایک یکہ کرادیا جائے۔ حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یاد آیا کہ کوئی چیز گھر میں رہ گئی ہے یکہ والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے۔ یکہ والے کو پل پر اور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہوگیا اور مرزا صاحب غالباً پیدل ہی بٹالہ گئے۔ تو میں نے یکہ والے کو بلا کر پیٹا اور کہا کہ کم بخت اگر مرزا نظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتا۔ لیکن چونکہ وہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لئے تو ان کو چھوڑ کر چلا گیا۔ جب مرزا صاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ تم اس سے معافی مانگو تم نے کیوں اسے مارا۔ وہ مزدور آدمی تھا وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتااسے مزدوری مل گئی اورچلا گیا۔ میں نے کہا حضرت میں اسے ماروں گا اس نے کیوں ایسا کیا۔ لیکن حضرت اقدسؑ بار بار یہی فرماتے رہے۔ نہیں اس سے معافی طلب کرو۔ ‘‘(۱۴)
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول تھا کہ جب مقدمات کے لئے قادیان سے روانہ ہوتے تو اپنے ساتھ اصطبل میں سے سواری کے لئے گھوڑا بھی لے لیتے ۔ ان سفروں میں آپ کے ہمراہ ان دنوں آپ کے قدیم خدام میں سے مرزا اسماعیل بیگ صاحب( ساکن قادیان ) یا مرزا دین محمد صاحب (۱۵) (ساکن لنگروال) یا میاں غفارا یکہ بان ہوتے تھے۔ جنہیں آپ گائوں سے نکل کر سوار کر لیتے اور پھر نصف راستہ حضور سوار ہوتے اور نصف راستہ وہ سواری کرتے اور بٹالہ پہنچنے پر اپنی حویلی میں قیام فرماتے تھے۔ اور جوجولاہا اس حویلی کی دیکھ بھال کے لئے مقرر تھا اسے اپنے کھانے سے دیتے اور خود حسب معمول بہت کم کھاتے تھے۔ چنانچہ مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدسؑ اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لئے جایا کرتے تھے تو سواری کے لئے گھوڑا بھی ساتھ ہوتا تھا اور میں بھی عموماً ہم رکاب ہوتاتھا لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرا دیتے ۔ میں بار بار انکار کرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپ فرماتے کہ ’’ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے۔‘‘ جب حضور قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوار کرتے۔ جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہوجاتا تو میں اتر جاتا اور آپ سوار ہو جاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کرتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے ۔ جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اسی چال سے اسے چلنے دیتے۔ ‘‘(۱۶)
آپ کے دوسرے قدیم خادم مرزا دین محمد صاحب مرحوم آف لنگروال کا بیان ہے کہ :۔
’’ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے واقف نہ تھا۔ یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ گزینی اور گمنامی کی زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن چونکہ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔ یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ جب مقدمات کی پیروی کے لئے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے ساتھ اپنے پیچھے سوار کر لیتے تھے اور بٹالہ جاکر اپنی حویلی میں باندھ دیتے ۔ اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا آپ اس میں قیام فرماتے ۔ اس مکان کی دیکھ بھال کاکام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے ۔ یہ اپنے لئے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔ باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اس جولاہے کو دے دیتے اور مجھے کھانا کھانے کیلئے چار آنہ دیتے تھے۔ آپ بہت ہی کم کھایا کرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔‘‘ (۱۷)
جس دن آپ نے بٹالہ جانا ہوتا تو سفر سے پہلے آپ دو نفل پڑھ لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح کا کھانا آپ گھر سے کھا جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے تحصیل میں چلے جانا میں باہر بیٹھتاتھا ۔ دوپہر کے وقت جو وقفہ ہوتا تھا اس میں آپ باہر تشریف لاتے اور مجھے چند پیسے دیتے کہ بھوک لگی ہوگی کوئی چیز کھالو قادیان کی واپسی پر آپ کبھی موڑ پر اتر پڑتے اور کبھی قادیان کے نزدیک ایک باغ میں ( جو محلہ دارالصحت کے قریب تھا) قادیان میں کبھی سوار ہونے کی حالت میں آپ تشریف نہیں لائے۔ ‘‘(۱۸)
مقدمات میں انقطاع الی اللہ :۔
ان مقدمات میں سب سے نمایاں امر آپ کا انقطاع الی اللہ تھا۔ جو ہر موقعہ پر خود بخود ظاہر ہوتاتھا آپ سفر میں ہوتے یا حضر میں ، عدالت میں ہوتے یا اپنی رہائش گاہ پر ، یاد الٰہی سے آپ ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتے تھے ۔ بلکہ زندگی کا ہر تغیر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنتا تھا۔ ڈلہوزی کے سفروں کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب کبھی ڈلہوزی جانے کا مجھے اتفاق ہوتا تو پہاڑوں کے سبزہ زار حصوں اور بہتے ہوئے پانیوں کو دیکھ کر طبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کا جوش پیدا ہوتا اور عبادت میں ایک مزہ آتا اور میں دیکھتا تھا کہ تنہائی کے لئے وہاں اچھا موقعہ ملتاہے ۔ ‘‘ (۱۹)
عنفوان شباب میں بہاریں لوٹنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے تصور میں یوں کھوئے جانا آپ کے اس عشق کا پتہ دیتاہے جو آپ کے قلب صافی میں بحر مواج کی شکل میں ہر دم موجزن رہتاتھا۔ آپ دست باکار اور دل بایار کی مجسم تصویر اور عالم جوانی میں عشق الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا نفیس قالب تھے جس کے چہرہ مہرہ ، طرز گفتگو اور کردار سے روحانیت کا نور برستاتھا جو ایک اجنبی انسان کو بھی مبہوت کر دیاکرتا تھا۔ چنانچہ ڈلہوزی ہی کے سفر کا ایک واقعہ ہے کہ آپ ایک مقدمے کے سلسلہ میں پہاڑ پر یکہ میں بیٹھے سفر کر رہے تھے کہ راستہ میں بارش آگئی۔ آپ اپنے ہم سفر ساتھی سمیت یکہ سے اترے اور ایک پہاڑی آدمی کے مکان کی طرف گئے جو راستہ کے پاس تھا۔ آپ کے ساتھی نے آگے بڑھ کر مالک مکان سے اندر آنے کی اجازت چاہی مگر اس نے روکا ۔ اس پر ان کی باہم تکرار ہوگئی اور مالک مکان تیز ہو کر گالیوں پر اتر آیا۔ حضرت صاحب یہ تکرار سن کر آگے بڑھے ۔ جونہی آپ کی اور مالک مکان کی آنکھیں ملیں تو پیشتر اس کے کہ آپ کچھ فرماتے اس نے اپنا سر نیچے ڈال لیا اور کہا کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ’’میری ایک جوان لڑکی ہے اس لئے میں اجنبی آدمی کو گھر میں نہیں گھسنے دیتا مگر آپ بے شک اندر آجائیں ۔ ‘‘ (۲۰)
مقدمات خواہ کتنے پیچیدہ ، اہم اور آپ کی ذات یا خاندان کے لئے دور رس نتائج کے حامل ہوتے آپ نماز کی ادائیگی کو ہر صورت میں مقدم رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کا ریکارڈ ہے کہ آپ نے ان مقدمات کے دوران میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں ہونے دی ۔ عین کچہری میں نماز کا وقت آتا تو اس کمال محویت اور ذوق شوق سے مصروف نماز ہو جاتے کہ گویا آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے آئے ہیں کوئی اور کام آپ کے مدنظر نہیں ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے عجزو نیاز کر رہے ہوتے اور مقدمہ میں طلبی ہو جاتی مگر آپ کے استغراق ، توکل علی اللہ اور حضور قلب کا یہ عالم تھا کہ جب تک مولائے حقیقی کے آستانہ پر جی بھر کر الحاح و زاری نہ کر لیتے اس کے دربار سے واپسی کا خیال تک نہ لاتے ۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں:
’’ میں بٹالہ ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے گیا۔ نماز کا وقت ہوگیا اور میں نماز پڑھنے لگا۔ چپڑاسی نے آوازدی مگر میں نماز میں تھا فریق ثانی پیش ہوگیا اور اس نے یک طرفہ کارروائی سے فائدہ اٹھانا چاہا اور بہت زور اس بات پر دیا۔ مگر عدالت نے پروانہ کی اور مقدمہ اس کے خلاف کر دیا اور مجھے ڈگری دے دی۔ میں جب نماز سے فارغ ہو کر گیا تو مجھے خیال تھاکہ شاید حاکم نے قانونی طور پر میری غیر حاضری کو دیکھاہو۔ مگر جب میں حاضر ہوا اور میںنے کہا کہ میں تو نماز پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ میں تو آپ کو ڈگری دے چکا ہوں۔ ‘‘(۲۱)
عدالت سے غیر حاضری کے باوجود آپ کے حق میں فیصلہ ہو جانا ایک بھاری الٰہی نشان تھا جو آپ کے کمال درجہ انقطاع و ابتہال کے نتیجہ میں نمودار ہوا۔




پورے ہندوستان کو عیسائیت کے زیر نگیں
کرنے کی برطانوی سازش
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے تبلیغ اسلام کی زبردست جدو جہد کے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیت کی پشت پر برطانوی حکومت کی پوری مشینری کام کر رہی تھی اور ہندوستان میں پنجاب کو اور پنجاب میں لدھیانہ اور سیالکوٹ کو عیسائیت کا مرکز بناکر عیسائیت کا جال پھیلانے کی سر توڑ کوششیں جاری تھیں۔
انگریزی پالیسی :۔
انگریز ہندوستان میں ابتداء ہی سے یہ پالیسی لے کر آئے تھے کہ وہ دولت و ثروت کے بل بوتے پر اس برصغیر پر قابض ہو جائیں اور یہاں اپنا دائمی اثرو اقتدار قائم کرنے کے لئے ایسا طبقہ پیدا کر دیں کہ جو رنگ و خون کے اعتبار سے ہندوستانی ہو مگر اپنے مذاق، اپنی رائے، معاشرتی الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔ (۲۳) برطانوی حکومت نے اس پالیسی پر ابتداء میں جس طرح عمل کیا وہ اس کی ڈپلومیسی کا شاہکار تھا۔ سر سید مرحوم نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ میں ان کارروائیوں کو بڑی تفصیل سے بے نقاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سب جانتے تھے کہ گورنمنٹ نے پادریوں کو مقرر کیاہے ان کو تنخواہ دی جاتی ہے ۔ دیگر اخراجات اور تقسیم کتب کے لئے بڑی بڑی رقمیں دی جاتی ہیں اور ہر طرح ان کے مددگار اور معاون ہیں۔ حکام شہر اور فوج کے افسر ماتحتوں سے مذہبی گفتگو کرتے تھے۔ اپنی کوٹھیوں پر بلا بلا کر پادریوں کا وعظ سنواتے تھے۔ غرض کہ اس بات نے یہاں تک ترقی پکڑی تھی کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ گورنمنٹ کی عملداری میں ہمارا یا ہماری اولاد کا مذہب قائم رہے گا۔‘‘
ہندوستان کو عیسائیت کی آغوش میں دینے کی پالیسی جو ابھی تک خفیہ طور پر اختیار کی جاتی تھی ۱۸۵۷ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجنے لگی۔ چنانچہ پارلیمانی ممبر مسٹر لنگس نے ان دنوں ایک تقریر میں کہا:
’’ خداوند تعالیٰ نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے کہ ہندوستان کی سلطنت انگلستان کے زیر نگیں ہے تاکہ عیسیٰ مسیح کی فتح کا جھنڈا ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لہرائے ہر شخص کو اپنی تمام تر قوت تمام ہندوستان کو عیسائی بنانے کے عظیم الشان کام کی تکمیل میں صرف کرنی چاہئے اور اس میں کسی طرح تساہل نہیں کرنا چاہئے۔ ‘‘ ( ۲۴)
ہنگامہ ۵۷ء کے فرو ہوتے ہی انگریزی حکمرانوں نے جس امر کی طرف مسلسل توجہ دی وہ تبلیغ عیسائیت کا معاملہ تھا ایک چرچ مشنری ہندوستان میں عیسائیت کے فروغ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
’’غدر کی آگ کے بعد زیادہ مستحکم طور پر ایس پی جی نے دہلی میں اور سی ایم ایس نے لکھنؤ میں اپنے مرکز قائم کئے۔ اودھ میں مشنری خدمت کے لئے ہنری لارنس چیف کمشنر نے لکھنؤ میں لکھاجنہوں نے بنارس سے لیوپولٹ کو بھیج دیا۔ اور ۲۴ ۔ ستمبر ۱۸۵۸ء کو منٹگمری نے ایک جلسہ کرکے ۰۰۰،۵ پونڈ جمع کرلئے اور اودھ مشن کو تقویت پہنچائی ۔‘‘(۲۵)
۱۸۶۲ء میں انگلستان کے وزیر اعظم لارڈپامرسٹن اور وزیر ہند چارلس وڈ کی خدمت میں ایک وفد پیش ہوا جس میں دارالعلوم اور دارالا مراء کے رکن اور دوسرے بڑے بڑے لوگ شامل تھے۔ انگلستان کے سب سے بڑے پادری آرچ بشپ آف کنٹربری نے اس وفد کا تعارف کرایا۔ وزیر ہند نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ :
’’میرا یہ ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتاہے انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے ۔ ‘‘(۲۶)
وزیر اعظم لارڈپامرسٹن نے یہ بھی کہاکہ :
’’میں سمجھتاہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہی نہیں بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک بھی ہو سکے فروغ دیں۔ اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلا دیں۔ ‘‘ (۲۷)
ان الفاظ کے بعد اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ ہندوستان سے انگلینڈ تک کے سب ہی انگریز افسر اپنی حکومت کے استحکام کا تمام تر راز عیسائیت کے فروغ میں سمجھتے تھے۔
پنجاب کو عیسائیت کیلئے قدرتی BASEقرار دیا گیا :
مسیحی مشنریوں کی رپورٹوں سے ثابت ہے کہ وہ وسط ایشیا میں عیسائیت کی ترقی کے لئے پنجاب کو قدرتی بنیاد (Base) یقین کرتے تھے۔ چنانچہ رابرٹ کلارک نے لکھا ہے :
’’پنجاب کی سرحدی لائن سے اور اسے اپنے کام کی بنیاد (Base)بناکر عیسائیت ان مقامات تک پھیل سکتی ہے جہاں ابھی اس کا نام تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’وسط ایشیا میں عیسائیت کے تبلیغی کام کے لئے پنجاب ایک قدرتی بنیاد (Base)معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘(۲۸)
پنجاب کو صلیب کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے مرکزی مشن ابتداء لدھیانہ میں قائم کیا گیا ۔ جس کے بعد پنجاب میں اگرچہ دیکھتے ہی دیکھتے صوبہ کے تمام مشہور شہروں میں مسیحی مشنوں کا قیام عمل میں آیا۔ گرجے تعمیر ہوئے اور لٹریچر کی اشاعت شروع ہوگئی۔
سیالکوٹ مشن کی خصوصیت :۔
لیکن سیالکوٹ مشن کو ان میں ایک بھاری خصوصیت حاصل تھی کیونکہ یہ مشن ( جو اسکاچ مشن تھا) ملک کی ایک دفاعی سکیم کے ماتحت جاری ہوا تھا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اسے فوجی افسروں کے مشورہ اور ایماء پر قائم کیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک چرچ مشنری معترف ہیں کہ :
۱۸۵۶ء میں فوجی افسروں کی درخواست پر سکاچ مشن (۲۹)نے پنجاب کا رخ کیا جہاں دس سال کے اندر (۳۰) سیالکوٹ کو مرکز بناکر گردو نواح کے پچاس میل دائرہ کے شہروں اور قصبوں میں سکول ، یتیم خانے اور ڈسپنسریاں قائم کر دیں اور گردو پیش کے گائوں میں تبلیغ کی جانے لگی۔ ‘‘ (۳۱)
چنانچہ عیسائیت نے بالخصوص سیالکوٹ کے حلقہ میں دس سال کے اندر یعنی ۱۸۶۶ء تک اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ دراصل پورے پنجاب میں سیالکوٹ ہی ایک ایسا مقام تھا جس نے انگریزوں کے خلاف بغاوت میں ڈٹ کر حصہ لیاتھا۔ اس لئے انگریزوں کا قدرتی طور پر مفاد اسی میں تھا کہ پنجاب کے اس ’’بازوئے شمشیرزن ‘‘ کو مفلوج کرنے کے لئے عیسائیت کی بکثرت اشاعت کریں۔ ملکہ وکٹوریہ نے ۱۸۵۷ء کے انہی واقعات سے متاثر ہوکر عفو عام ، مساوات اور مذہبی آزادی کا ایک تاریخی اعلان کیا۔ جس کی رو سے ہندوستان میں ہر مذہب و ملت کو اپنے دینی عقائد پر عملدر آمد کرنے اور اشاعت و تبلیغ کرنے کی مکمل اجازت دی گئی تھی۔ انگریزی حکومت سیاسی لحاظ سے خواہ کس قدر فتنوں کے بہالانے کا باعث ہوئی ملکہ کا یہ تاریخی اعلان ملک کے اہل فہم اور دینی مزاج رکھنے والے سنجیدہ طبقوں میں تشکر کے گہرے جذبات سے سناگیا۔ یہ مذہبی آزادی ہر فرقہ کے لئے مساوی تھی جس سے ہر فرقہ نے اپنے مذہب کی ترقی و اشاعت کے لئے فائدہ اٹھایا۔ لیکن انگریزی حکومت سبھی فرقوں کو مذہبی آزادی دینے کے بعد اگر عیسائیت کی پشت پناہی کا خیال ترک کر دیتی تو اسے اپنی موت پر دستخط کرنا پڑتے ۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ عیسائیت انگریزی اقتدار کا سہارا لئے بغیر اس برق رفتاری سے ہندوستان پر چھا نہیں سکتی۔ جس کا انگریزی حکومت کے مفاد تقاضا کرتے ہیں۔
دراصل ۱۸۵۷ء نے انگریز کو پوری طرح محسوس کروا دیا تھا کہ اگر عیسائیت کے فروغ کے لئے پوری جدو جہد کی جاتی تو ملک کی اکثریت عیسائیت کی چوکھٹ پر آجاتی اور اس قسم کے واقعات کی نوبت ہی نہیں آسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انہوں نے پوری قوت سے اور صاف کھل کر عیسائیت کی پشت پناہی شروع کر دی اور پادریوں کی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ایک پاکستانی ادیب لکھتے ہیں ’’انگریزوں کی غدر میں فتوحات کے بعد عیسائی مشنریوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔ ‘‘(۳۲) یہ اسی صورت حال کا لازمی نتیجہ تھا کہ خود ملک کے بعض منصف مزاج اور خدا ترس پادری برملا تسلیم کرتے تھے کہ اگر ۱۸۵۷ء کی مانند پھر غدر ہوا تو عماد الدین ایسے بدسگالوں کی بدزبانیوں اور بے ہودہ گوئیوں سے ہوگا۔ (۳۳) چنانچہ ۱۸۶۴ء میں ہنری لارنس کو جو قبل ازیں چیف کمشنر تھا اور ابتداء ہی سے عیسائیت کی ترقی و اشاعت میں دیوانہ وار کوشش کرنا اپنا سیاسی فرض سمجھتا تھا ہندوستان کا وائسرائے بنادیاگیا۔ یہ وہ شخص تھا جس کی قطعی رائے تھی کہ :
’’غدر کے بھڑکانے میں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ برطانیہ حسب عادت اپنے مذہب کے معاملہ میں بزدلی دکھاتا رہا۔ ‘‘(۳۴)
وہ سر ہر برٹ ایڈ ورڈز کے اس نظریہ کا پر جوش حامی تھا کہ ’’ غدر کے برپا ہونے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ کی گئی ۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کی تبلیغ نہیں کی گئی ‘‘(۳۵) ہنری لارنس ۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۹ء تک وائسرائے رہا اور اس نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائیت کے پھیلانے کی زبردست جدو جہد کی جس کا اعتراف خود فاضل مسیحی محققین کو ہے۔ ایک چرچ مشنری لکھتے ہیں کہ :۔
’’ جب ہنری لارنس وائسرائے مقرر ہوئے تو انہوں نے مسیحی تبلیغ کی اور وسیع کوشش کی ۔ ‘‘(۳۶)
بہرحال یہ تھا سیالکوٹ کے تبلیغی ’’میدان جنگ‘‘ کا نقشہ اور ملکی سیاست کا ماحول ۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قادیان سے سیالکوٹ تشریف لائے اور ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس برطانوی اقدام کے خلاف تن تنہا پر جوش محاذ قائم کر لیا۔ اس زمانہ میں عیسائیت کے دفاع میں آپ کا ایک مناظرہ بلاشبہ حکومت وقت کے آئین سے نہیں اس کے مخصوص مفادات سے ’’بغاوت ‘‘ کے مترادف تھا۔ جمعیۃ العلماء ہند کے ایک سابق ناظم مولانا سید محمد میاں صاحب لکھتے ہیں :
’’رد عیسائیت بظاہر ایک واعظانہ اور مناظرانہ چیز ہے جس کو سیاست سے بظاہر کوئی تعلق نہیں لیکن غور کرو جب حکومت عیسائی گرہو۔ جس کا نقطہ نظر ہی یہ ہوکہ سارا ہندوستان عیسائی مذہب اختیار کرلے اور اس کی تمنادلوں کے پردوں سے نکل کر زبانوں تک آرہی ہو اور بے آئین اور جابر حکومت کا فولادی پنجہ اس کی امداد کر رہا ہوتو یہی تبلیغی اور خالص مذہبی خدمت کس قدر سیاسی اور کتنی زیادہ سخت اور صبر آزمابن جاتی ہے ۔ بلا شبہ رد عیسائیت کے سلسلہ میں ہر ایک مناظرہ ، ہر ایک تبلیغ ، ہر ایک تصنیف اغراض حکومت سے سراسر بغاوت تھی۔ ‘‘(۳۷)
سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعودؑ کا عیسائیت کے خلاف تبلیغی محاذ :۔
اس زمانہ میں مسیحی مشن چونکہ نیا نیا پنجاب میں آیا تھا اس لئے مسلمان اس کے علم کلام اور دلائل سے اکثر نا آشنا تھے اور عیسائیت سے اکثر شکست کھاجاتے تھے لیکن اس کے برعکس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایسے مرد مجاہد سے جس مسیحی کی گفتگو ہوئی اسے خاموش ہونا پڑا۔ آپ صحیح معنوں میں سیالکوٹ کی پوری مذہبی فضاء پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائی پادری آپ کے مدلل اور مسکت مباحثوں سے بالکل لاجواب ہو جاتے تھے۔ آپ کی بیٹھک کے قریب ہی ایک بوڑھے دکاندار فضل دین کی دکان تھی جہاں شام کو شہر کے اچھے اچھے سمجھدار لوگوں کا ایک ہجوم سا رہتا تھا۔ گاہے گاہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لاتے اور مشن سکول کے ہیڈ ماسٹر نصر اللہ نامی عیسائی سے مذہبی امور پر معلومات افزاء گفتگو فرماتے ۔ ان دنوں حاجی پورہ میں ایک دیسی پادری الائشہ صاحب بھی ایک کوٹھی میں رہتے تھے ۔ ایک دفعہ ان سے آپ کا ایک مختصر سا مگر فیصلہ کن مباحثہ بھی ہوا۔ پادری صاحب نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عیسائیت قبول کئے بغیر نجات کا حصول ممکن نہیں ۔ حضرت اقدس ؑ نے جرح میں صرف یہ فرمایا کہ نجات کی مفصل تعریف بیان کیجئے ۔ آپ کا بس اسی قدر فرمانا تھا کہ وہ صاحب دم بخودرہ گئے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ’’ میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔‘‘
پادری بٹلر سے تبادلہ خیالات :۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سیالکوٹ میں جن پادریوں سے مذہبی تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہتا تھا ان میں پادری بٹلر ایم اے ممتاز تھے۔ پادری بٹلر سکاچ مشن کے بڑے نامی گرامی اور فاضل پادری تھے ۔ ایک دفعہ حضرت اقدس سے ان کی اتفاقاً ملاقات ہوگئی۔ اثنائے گفتگو میں بہت کچھ مذہبی گفتگو ہوتی رہی۔ آپ کی تقریر اور دلائل نے پادری صاحب کے دل میں ایسا گھر کر لیا کہ ان کے دل میں آپ کی باتیں سننے کا بہت شوق پیدا ہو گیا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ پادری صاحب دفتر کے آخری وقت میں حضور کی خدمت میں آجاتے اور پھر آپ سے باتیں کرتے کرتے آپ کی فرودگاہ تک پہنچ جاتے اور بڑی خوشی سے اس چھوٹے سے مکان میں جو عیسائیوں کی خوش منظر اور عالی شان کوٹھیوں کے مقابلہ میں ایک جھونپڑا سا تھا بیٹھے رہتے اور بڑی توجہ اور محویت و عقیدت سے باتیں سنا کرتے اور اپنی طرز معاشرت کے تکلفات کو بھی اس جگہ بھول جاتے ۔ بعض تنگ ظرف عیسائیوں نے پادری صاحب کو اس سے روکا اور کہا کہ اس میں آپ کی اور مشن کی خفت ہے آپ وہاں نہ جایا کریں۔ لیکن پادری صاحب نے بڑے حلم اور متانت سے جواب دیا کہ ’’ یہ ایک عظیم الشان آدمی ہے کہ اپنی نظیر نہیں رکھتا تم اس کو نہیں سمجھتے میں خوب سمجھتاہوں۔ ‘‘ (۳۸)
پادری بٹلر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پر نور شخصیت ، بے مثال متانت و سنجیدگی اور زبردست قوت استدلال کا اس درجہ گہرا اثر تھا کہ جب وہ ولایت جانے لگے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الوداعی سلام کئے بغیر سیالکوٹ سے جانا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ وہ دفتر کے اوقات میں محض آپ کی آخری زیارت کے لئے کچہری آئے اور ڈپٹی کمشنر کے پوچھنے پر بتایا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کیلئے آیا ہوں اور پھر جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے۔ اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ (۳۹)
مذہبی تبادلہ خیالات کے دوران میں اکثر ضدو تعصب کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لیکن آپ کچھ ایسے دلکش اور پیارے الفاظ میں عیسائیت کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں کہ خود عیسائیوں میں سے حق پسند طبقہ کو لطف آجاتا اور وہ اختلاف رائے کے باوجود آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ ان دنوں مرزا مراد بیگ صاحب جالندھری مدیر اخبار ’’وزیر ہند ‘‘ ( جو ابتداء مرزا شکستہ تخلص کرتے تھے لیکن عیسائیوں سے مباحثات کے بعد مرزا موحد کہلائے ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے اور آپ کے علم کلام اور مسکت و معقول دلائل سے فیض یاب ہو کر اس سے اپنے رنگ میں اخباری دنیا کو روشناس کراتے ۔ مرزا موحد حضرت اقدسؑ کے جوش ایمانی ، اچھوتے طرز استدلال اور ناقابل تردید براہین پر حد درجہ فریفتہ تھے۔ جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ سے تشریف لے آئے تو وہ قادیان میں بھی کئی بار آپ کی زیارت و استفادہ کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ (۴۰)
آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کے متعلق چند شہادتیں :
وہ مسلمان ، ہندو اور سکھ یا عیسائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ ملازمت میں کچہری کے عملہ میں شامل تھے آپ کی امانت و دیانت ، تقویٰ اور نیکی کے دل سے قائل تھے اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو آپ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کا ثنا خواں اور مداح نہ ہو۔ ضلع کا سب سے بڑا افسر( ڈپٹی کمشنر) آپ کو غایت درجہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔ بلکہ ایک روایت سے یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور استعفیٰ دے کر واپس قادیان آنے لگے تو اس نے آپ کی مشایعت کے اعزاز میں تعطیل عام کر دی تھی کہ ایسا پاکباز شخص ان کے عملے سے مستعفی ہو کر جا رہاہے ۔ (۴۱)
سرکاری افسروں اور ملازموں کے علاوہ سیالکوٹ کا ہر وہ شخص جسے آپ سے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا آپ کی صالح اور درویشانہ طبیعت سے متاثر تھا۔ جن لوگوں کے مکانوں میں آپ نے ان دنوں قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے۔(۴۲) سیالکوٹ کے علمی طبقہ میں تو آپ کو علم و فضل کا ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔ اس زمانہ کی چند شہادتیں درج ذیل ہیں۔
پہلی شہادت :۔
سیالکوٹ میں ایک صاحب حکیم مظہر حسین صاحب تھے جو اگرچہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ ماموریت پر دشمنان احمدیت کی صف اول میں چلے گئے تاہم حضور کے زمانہ سیالکوٹ کی پاکیزہ یا دوہ مخالفت کے ہجوم میں بھی فراموش نہیں کر سکے چنانچہ لکھتے ہیں :۔
’’ ثقہ صورت ، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علوہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا ۔ اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لئے پانی مانگا اور وضو سے فراغت پا نماز ادا کی یا وظیفہ میں تھے۔ ‘‘
درودوظائف کا لڑکپن سے شوق ہے مکتب کے زمانہ میں تحفہ ہند تحفہ الہنود ، خلعت الہنود وغیرہ کتابیں اور سنی اور شیعہ عیسائی مناظرہ کی کتابیں دیکھاکرتے تھے اور ہمیشہ آپ کا ارادہ تھا کہ کل مذاہب کے خلاف اسلام کی تائید میں کتابیں لکھ کر شائع کریں۔ ‘‘(۴۳)
دوسری شہادت :۔
دوسری شہادت مشہور مسلم لیڈر مولوی ظفر علی صاحب آف زمیندار کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب مرحوم کی ہے :
’’مرزا غلام احمد صاحب ۱۸۶۰ء یا ۱۸۶۱ء (؟) کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر ۲۲۔ ۲۳ سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا ۔ عوام سے کم ملتے تھے۔ ‘‘(۴۴)
تیسری شہادتـ:۔
تیسری شہادت جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب (۴۵)مرحوم سیالکوٹی کی ہے۔ مولانا صاحب سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتداء میں آپ ہی سے شرف تلمذرکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔( ۴۶)جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضور سے اکثر ملاقات کا موقعہ ملتا تھا۔ مولوی صاحب نے اس زمانہ میں حضور کو بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا۔ وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضور کی بزرگی، تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدسؑ کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔ (۴۷)ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘(۴۸)
ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سیالکوٹ میں ان سے ملے تو انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا:
’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی ۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘(۴۹)
مولوی سید میر حسن صاحب سیالکوٹ کے قلم سے حضورؑ کے زمانہ سیالکوٹ کے مفصل حالات
مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم نے حضور کے قیام سیالکوٹ کے متعلق دو مفصل بیانات بھی لکھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سیالکوٹ پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے اور جنہیں کوئی مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ میں یہ قیمتی معلومات بنیادی لڑیچر کی حیثیت رکھتی ہے۔
پہلا بیان :۔ (حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مرحوم سیالکوٹ میں اور ان کا زمانہ قیام بتقریب ملازمت ‘‘ کے عنوان سے )
’’حضرت مرزا صاحب ۱۸۶۴ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا۔ چوں کہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی تھی آپ پسند نہیں فرماتے تھے لالہ بھیم سین صاحب وکیل جن کے نانا مٹھن لال صاحب بٹالہ میں اکسٹر ااسسٹنٹ تھے ا ن کے بڑے رفیق تھے اور چوں کہ بٹالہ میں مرزا صاحب اور لالہ صاحب آپ میں تعارف رکھتے تھے اس لئے سیالکوٹ میں بھی ان کے اتحاد کامل رہا۔ پس سب سے کامل دوست مرزا صاحب کے اگر اس شہر میں تھے تو لالہ صاحب ہی تھے۔ اور چوں کہ لالہ صاحب سلیم طبع اور لیاقت زبان فارسی اورذہن رسا رکھتے تھے اس سبب سے بھی مرزا صاحب کو علم دوست ہونے کے باعث ان سے بہت محبت تھی۔
مرزا صاحب کی علمی لیاقت سے کچہری والے آگاہ نہ تھے مگر چوںکہ اسی سال کے اوائل گرما میں ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے (جن کانام پر کسن تھا اور پھر وہ آخر میں کمشنرراولپنڈی کی کمشنری کے ہوگئے تھے) محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ ترجمان کی ضرورت تھی۔ مرزا صاحب چوں کہ عربی (۵۰) میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر وتقریر بخوبی کرسکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھواتے جائو۔ مرزا صاحب نے اس کام کو کماحقہ ادا کیا اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی۔
اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے (اب میں عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے ) کچہری کے ملازم منشیوں کے لئے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔ (۵۱)
مرزا صاحب کو اس زمانہ میں بھی مذہبی مباحثہ کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ پادری صاحبوں سے اکثر مباحثہ رہتا تھا۔ ایک دفعہ پادری الائشہ صاحب ( سے ) جو دیسی عیسائی پادری تھے اور حاجی پورہ سے جانب جنوب کی کوٹھیوں میں ایک کوٹھی میں رہا کرتے تھے مباحثہ ہوا۔ پادری صاحب نے کہا کہ عیسوی مذہب قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی۔ مرزا صاحب نے فرمایا نجات کی تعریف کیا ہے ؟اور نجات سے آپ کیا مراد رکھتے ہیں؟ مفصل بیان کیجئے ۔ پادری صاحب نے کچھ مفصل تقریر نہ کی اور مباحثہ ختم کر بیٹھے اور کہا میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔
پادری بٹلر صاحب ایم اے سے جو بڑے فاضل اور محقق تھے مرزا صاحب کا مباحثہ بہت دفعہ ہوا ۔ یہ صاحب موضع گوہد پور کے قریب رہتے تھے ۔ ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہگار تھا بری رہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگارہوا۔ پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے اس پر پادری صاحب خاموش ہوگئے۔
پادری بٹلر صاحب مرزا صاحب کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے ادب سے ان سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ پادری صاحب کو مرزا صاحب سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ پادری صاحب ولادیت جانے لگے تو مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے کچہری میں تشریف لائے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے پادری صاحب سے تشریف آوری کا سبب پوچھا تو پادری صاحب نے جواب دیا کہ میں مرزا صاحب سے ملاقات کرنے کو آیا تھا۔ چوں کہ میں وطن جانے والاہوں اس لئے ان سے آخر ملاقات کروں گا۔ چنانچہ جہاں مرزا صاحب بیٹھے تھے وہیں چلے گئے اور فرش پر بیٹھے رہے اور ملاقات کر کے چلے گئے۔
چونکہ مرزا صاحب پادریوں کے ساتھ مباحثہ کو بہت پسند کرتے تھے اس واسطے مرزا شکستہ تخلص نے جو بعدا ازاں موحد تخلص کیا کرتے تھے اور مراد بیگ (۵۲) نام جالندھر کے رہنے والے تھے مرزا صاحب کو کہا کہ سید احمد خاں صاحب نے تورات وانجیل کی تفسیر لکھی ہے آپ ان سے خط وکتابت کریں اس معاملہ میں آپ کو بہت مدد ملے گی ۔ چنانچہ مرزا صاحب نے سرسید کو عربی میں خط لکھا۔
کچہری کے منشیوں سے شیخ اللہ داد صاحب مرحوم سابق محافظ دفتر سے بہت انس تھا اور نہایت پکی اور سچی محبت تھی۔ شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھی مرزا صاحب کو دلی محبت تھی۔
چونکہ جس بیٹھک میں مرزا صاحب مع حکیم منصب علی کے جو اس زمانہ میں وثیقہ نویس تھے رہتے تھے اور وہ سربازار تھی اور اس دکان کے بہت قریب تھی جس میں حکیم حسام الدین (۵۳)صاحب مرحوم سامان دوا سازی اور دوا فروشی اور مطب رکھتے تھے ۔ اس سبب سے حکیم صاحب اور مرزا صاحب میں تعارف ہوگیا۔ چنانچہ حکیم صاحب نے مرزا صاحب سے قانونچہ اور موجز کا بھی کچھ حصہ پڑھا۔
چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کردی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے وہ دنیوی اشغال کے لئے بنائے نہیں گئے تھے۔ سچ ہیـ ؎
ہر کسے را بہرے کارے ساختد
ان دنوں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی۔ جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی۔ میں ان کی خدمت میں عرض کی آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کے لحاظ سے نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہوجائیں گے۔ فرمایا میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ اکثر لوگ پڑھ کر بعدازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اورعلم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کو بناتے ہیں۔ میں اس آیت کی وعید سے بہت ڈریتا ہوں اُحْشِرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے۔
ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ انبیاء سوتے جاگتے پاکیزہ خیالوں کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے اس واسطے ان کو خواب میں بھی احتلام نہیں ہوتا۔
ایک مرتبہ لباس کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا۔ ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں۔ دوسرے نے کہا تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے اور اس میں پردہ زیادہ ہے۔ کیوں کہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہوجاتا ہے۔ سب نے اس کو پسند کیا۔
آخر مرزا صاحب نوکری سے دل برداشتہ ہو کر استعفیٰ دے کر ۱۸۶۸ء میں یہاں سے تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ ۱۸۷۷ء میں آپ تشریف لائے اور لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر قیام فرمایا اور بتقریب دعوت حکیم میر حسام الدین صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔
اسی سال سرسید احمد خان صاحب غفرلہ نے قرآن شریف کی تفسیر شروع کی تھی۔ تین رکوع کی تفسیر یہاں میرے پاس آچکی تھی ۔ جب میں اورشیخ اللہ داد صاحب مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے لالہ بھیم سین صاحب کے مکان پر گئے تو اثنائے گفتگو میں سرسید صاحب کا ذکر شروع ہوا۔ اتنے میں تفسیر کا ذکر میں آگیا۔ راقم نے کہا کہ تین رکوعوں کی تفسیر آئی جس میں دعا اور نزول وحی کی بحث آگئی ہے ۔ فرمایا ’’کل جب آپ آویں تو تفسیر لیتے آنویں۔ جب دوسرے دن وہاں گئے تو تفسیر کے دونوں مقام آپ نے سنے اور سن کر خوش نہ ہوئے اور تفسیر کو پسند نہ کیا۔
اس زمانہ میں مرزا صاحب کی عمر راقم کے قیاس میں تخمیناً ۲۴ سے کم اور ۲۸ سے زیادہ نہ تھی غرض کہ ۱۸۶۴ء میں آپ کی عمر ۲۸ سے متجاوز نہ تھی۔ راقم میر حسن‘‘۔ (۵۴)
دوسرا بیان
’’حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے کچہری سکے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے ۔ بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے ۔ ایسی خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حسب عادت زمانہ ۔ صاحب حاجات جیسے اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں ان کی خدمت میں بھی آجایا کرتے تھے اس عمرا مالک مکان کے بڑے بھائی فضل الدین نام کو جوفی الجملہ محلہ میں موقر تھا آپ بلا کر فرماتے۔ میاں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھادو کہ یہاں نہ آیا کریں نہ اپنا وقت ضائع کیا کریں اور نہ میرے وقت کو برباد کیا کریں۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں حاکم نہیں ہوں۔ جتنا کام میرے متعلق ہوتا ہے کچہری میں ہی کر آتا ہوں فضل الدین ان لوگوں کو سمجھا کر نکال دیتے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب بھی اسی محلہ میں پیدا ہوئے اور جوان ہوئے جو آخر میں مرزا صاحب کے خاص مقریبن میں شمار کئے گئے۔
اس کے بعد وہ مسجد جامع کے سامنے ایک بیٹھک میں بمعہ منصب علی حکیم کے رہا کرتے تھے۔ وہ (یعنی منصب علی۔ خاکسار مولف) وثیقہ نویس کے عہدہ پر ممتاز تھے۔ بیٹھک کے قریب ایک شخص فضل الدین نام بوڑھے دکاندا ر تھے جو رات کوبھی دکان پر ہی رہا کرتے تھے ان کے اکثر احباب شام کے بعد آتے سب اچھے ہی آدمی ہوتے تھے۔ کبھی کبھی مرزا صاحب بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گاہ گاہ نصر اللہ نام عیسائی جو ایک مشن سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے آجایا کرتے تھے ۔ مرزا صاحب اور ہیڈ ماسٹر کی اکثر بحث مذہبی امور میں ہوجاتی تھی۔ مرزا صاحب کی تقریر سے حاضرین مستفید ہوتے تھے۔
مولوی محبوب عالم صاحب ایک بزرگ نہایت پارسا اور صالح اور مرتاض شخص تھے۔ مرزا صاحب ان کی خدمت میں بھی جایا کرتے تھے اور لالہ بھیم سین صاحب وکیل کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرو۔ چنانچہ وہ بھی مولوی صاحب کی خدمت میں کبھی کبھی حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب کبھی بیعت اور پیری مریدی کا تذکرہ ہوتا تو مرزا صاحب فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو خودسعی اور محنت کرنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُو افِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا مولوی محبوب عالم صاحب اس سے کشیدہ ہو جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بیعت کے بغیر راہ نہیں ملتی۔
دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیش روی تو عیاں ہے مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہوچکی تھی۔
اس کا مضصل حال یوں ہے کہ ایک دفعہ کچہری برخواست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلاسنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہوجائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ اللہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پائوں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اٹھالیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بلاسنگ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘(۵۵)
ملازمت سے استعفیٰ
سیالکوٹ کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روحانی ٹریننگ کا زمانہ تھا۔ جس میں آپ کے ہاتھوں پادریوں سے معرکہ آرائی کا آغاز ہونا مقدر تھا۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ کے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق یہ چار سالہ دور ختم ہونے کو آیا تو ۱۸۶۷ء میں آپ کے والد بزرگوار کے دل میں جدائی کا زخم جو آہستہ آہستہ مندمل ہوگیا تھا یکایک تازہ ہوگیا اور انہوں نے ایک آدمی بھجوا کر اپنے چہیتے فرزند کو ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس آجانے کی فوری ہدایت دی۔ یہاں کیا دیر تھی چار سال کی طویل مدت میں ایک ایک گھڑی اسی انتظارمیں گذر رہی تھی کہ واپسی کا فرمان آئے تو اس دور اسیری کا خاتمہ ہو۔ چنانچہ آپ یہ ارشاد ملتے ہی ملازمت سے مستعفی ہو کر سیالکوٹ سے قادیان کو چل دئیے اور اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’آخر چوں کہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشاء کے مطابق تھا میں نے استعفیٰ دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کردیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔۔۔۔بقول صاحب مثنوی رومی وہ تمام ایام سخت کراہت اور درد کے ساتھ میں نے بسر کئے؎
من بہر جمعتے نالاں شد م جفت خوشحالاں وبد حالاں شدم
ہر کسے از ظن خود شد یار من وز درون من نجست اسرار من (۵۶)
حضرت چراغ بی بی صاحبہ رحمہا اللہ کا انتقال
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ نے جب حضور کو استعفیٰ دے کر واپس چلے آنے کا پیغام بھجوایا تو حضور کی والدہ ماجدہ سخت بیمار تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام سنتے ہی فوراً سیالکوٹ سے روانہ ہوگئے۔ امر ت سر پہنچے تو قادیان کے لئے تانگہ کا انتظام کیا۔ اسی اثناء میں قادیان سے ایک اور آدمی بھی آپ کو لینے کے لئے امرت سر پہنچ گیا۔ اس آدمی نے یکہ بان سے کہا کہ یکہ جلدی چلائوکیونکہ ان کی حالت بہت نازک تھی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا بہت ہی نازک حالت تھی جلدی کرو کہیں فوت نہ ہوگئی ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ سنتے ہی یقین ہوگیا کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوچکا ہے۔ چنانچہ قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کی مشفق ومہربان اور جان سے پیاری والدہ آپ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکی ہیں۔(۵۷) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ’’حیات النبی‘‘ میں یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ ’’میراں بخش حجام کو آپ کے پاس بھیجا گیا اور اسے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ یک دم حضرت والدہ مکرمہ کی وفات کی خبر حضرت مسیح موعودؑ کو نہ سنائے چنانچہ جس وقت بٹالہ سے نکلے تو حضور کو حضرت والدہ صاحبہ کی علالت کی خبر دی یکہ پر سوار ہو کر جب قادیان کی طرف آئے تو اس نے یکہ والے کو کہا کہ بہت جلد لے چلو۔ حضرت نے پوچھا کہ اس قدر جلدی کیوں کرتے ہو؟اس نے کہا کہ ان کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ پھر تھوڑی دور چل کر اس نے یکہ والے کو اور تاکید کی کہ بہت ہی جلدی لے چلو۔ تب پھر پوچھا۔ اس نے پھر کہا کہ ہاں طبیعت بہت ہی ناساز تھی کچھ نزع کی سی حالت تھی۔ خدا جانے ہمارے جانے تک زندہ رہیں یا فوت ہوجائیں۔ پھر حضرت خاموش ہوگئے۔ آخر اس نے پھر یکہ والا کو سخت تاکید شروع کی تو حضرت نے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کردیتے کیا معاملہ ہے۔ تب اس نے کہا کہ اصل میں مائی صاحبہ فوت ہوگئی تھیں اس خیال سے کہ آپ کو صدمہ نہ ہویک دم خبر نہیں دی۔ حضرت نے سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ دیا اور یہ خدا کی رضاء میں محو اور مست قلب اس واقعہ پر ہر چند کہ وہ ایک حادثہ عظیم تھا سکون اور تسلی سے بھرارہا۔‘‘(۵۸)
حضرت کی والدہ ماجدہؓ کے اخلاق وشمائل
حضرت چراغ بی بی صاحبہؓ ایمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قناعت‘شجاعت‘عفت‘مروت‘وسعت حوصلہ‘استغناء‘فیاضی اور مہمان نوازی آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ شہرکے مفلوک الحال اور پسماندہ طبقہ کی ضروریات کے مہیا کرنے میں انہیں خاص قلبی وروحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ غرباء کے مردوں کو کفن ہمیشہ ان کے ہاں سے ملتا تھا۔ ان کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی مشہور تھی۔ وہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب رضی اللہ عنہٗ کے لئے بہترین مشیر اور غمگسار تھیں اور آپ بھی اپنی ہیبت اور شوکت وجلال کے باوجود خانہ داری کے معاملات میں ان کی خلاف مرضی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔(۵۹)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چونکہ ابتداء ہی سے خلوت گزینی‘ذکر الٰہی اور مطالعہ سے ہر لمحہ شغف تھا اور اپنے والد صاحب کے دنیوی مشاغل اور دوسرے کاروبار میں حصہ لینے سے طبعاً متنفر تھے اس لئے گھر میں ’’ملاں‘‘کہلاتے تھے۔ لیکن آپ کی والدہ محترمہؓ کو آپ سے بڑی محبت تھی ۔ وہ آپ کی نیکی‘ تقویٰ شعاری‘ پاک زندگی اور سعادت مندی پر سو جان سے قربان ہوجاتیں اور آپ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔ چنانچہ ان کی زندگی میں آپ کو کبھی کچھ کہنے کی نوبت نہیں آئی۔ کیونکہ وہ ابتداء ہی سے جانتی تھیں کہ آپ اپنے گھر کے دوسرے افراد کے مقابل بالکل درویش طبع ہیں اور اپنی ضروریات کا کسی سے اظہار کرنا آپ کو ہرگز پسند نہیں۔ جب تک زندہ رہیں آپ کے لئے (ظاہری لحاظ سے ) سپر بنی رہیں۔ والد خفگی کا اظہار کرتے تو ماں کی مامتا فرط محبت سے جوش میں آجاتی۔ حضور جب والد بزرگوار کے اصرار پر سیالکوٹ آگئے تو باقاعدہ آپ کے لئے کپڑے وغیرہ بنا کر بھجواتی رہیں۔ غرض کہ ان کا وجود آپ کے لئے سایہ رحمت تھا۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کا چشم دید بیان ہے کہ حضور علیہ السلام ایک مرتبہ سیر کی غرض سے اپنے پرانے خاندانی قبرستان کی طرف نکل گئے۔ راستہ سے ہٹ کر آپ ایک جوش کے ساتھ اپنی والدہ صاحبہؓ کے مزار پر آئے اور اپنے خدام سمیت ایک لمبی دعا فرمائی۔ حضور جب کبھی حضرت والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے تو آپ چشم پر آب ہوجاتے(۶۰) حضرت والدہ صاحبہ نہایت خدا رسیدہ اور بزرگ خاتون تھیں ۔ ان کی ایک کرامت حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب بڑے مرزا صاحب(یعنی حضرت ؑ کے والد۔ ناقل) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی ۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے‘‘۔(۶۱)
حضرت مریم صدیقہؓ سے معنوی مشابہت
حضرت سیدہ چراغ بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا روحانی مقام تو اس سے ظاہر ہے کہ آپ کے بطن مبارک سے مسیح محمدیؐ ایسا عظیم الشان وجود پیدا ہوا جس سے آفاق عالم روشن ہوگئے لیکن ایک حیرت انگیز معنوی مشابہت آپ کو حضرت مسیح موسوی کی والدہ (حضرت مریمؑ) سے بھی حاصل تھی۔ اور وہ یہ کہ مریم کے ایک معنی ’’سمندر کا ستارا‘‘۶۲ کے بھی ہیں اور آپ کا اسم مبارک چراغ بی بی تھا۔ روشنی اور نور کے مفہوم میں متحد ہونے کے باوجود ان دونوں ناموں میں کھلا کھلا تفاوت ہے جس میں حکمت یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ کی آمد بنی اسرائیل میں دور نبوت کے خاتمہ پر ہوئی تھی اور وہ موسوی سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ اس لئے حضرت مسیح ناصری کی والدہ ستارہ تھیں جو فی نفسہہ روشن ہوتا ہے مگر کسی اور وجود میں اپنی روشنی منتقل نہیں کرسکتا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے چوں کہ قیامت تک ہزاروں اور کروڑوں شمعوں کا روشن ہونا مقدر تھا۔ اس لئے حضور کی والدہ ماجدہ کا نام آسمان پر چراغ بی بی رکھا گیا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں ؎
خدایا تیرے فضلوں کو کروں یا بشارت تونے دی اور پھر یہ اولا د
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد
بشارت تونے مجھ کو بار ہا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
تاریخ وفات کی تعیین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ایک قلمی روزنامچہ حال ہی میں دریافت ہوا ہے جس کے اکثر اندراجات مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کے قلم سے ہیں۔ انہوں نے اس میں حضرت والدہ صاحبہ کی تاریخ وفات ۱۲۔ ذی الحج ۱۲۸۳ ھ (مطابق ۱۸۔ اپریل ۱۸۶۷ء ) لکھی ہے۔
مزار مبارک
آپ کا مزار مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدیم خاندانی مقبرہ میں موجود ہے جو مقامی عیدگاہ کے پاس ہے اور قادیان سے مغرب کی طرف واقع ہے اس قبرستان کے ایک حصہ کا خاکہ یہ ہے :
۱۔ احاطہ مزار شاہ عبداللہ غازیؒ وفرزند شاہ صاحب
موصوف
۲۔ مائی صاحب جان صاحبہ ۔ بیوہ مرزا غلام حیدر صاحب
چچی حضرت اقدسؑ
۳۔ مرزا غلام قادر صاحب برادر کلاں حضرت اقدسؑ
۴۔ حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ
۵۔ حضرت مرزا گل محمد صاحب پردادا حضرت مسیح پاکؑ ۶۔ مرزا غلام محی الدین صاحب چچا حضرت اقدسؑ
۷ ۔ مراد بی بی صاحبہؓ ہمشیرہ حضرت اقدسؑ ۸۔ جنت بی بی صاحبہ ہمشیرہ حضرت اقدسؑ
۹۔ مرزا غلام حید ر صاحب چچا حضرت اقدسؑ ۱۰ ۔ اہلیہ مرزا گل محمد صاحب پردادی حضرت اقدسؑ
۱۱۔ مائی لاڈلی بیگم صاحبہؓ عرف مائی لاڈو اہلیہ مرزا عطا محمد صاحبؓ
۱۲۔ مرزا عطا محمد صاحبؓ(۶۳) وفات ۲۷۔ ربیع الاول ۱۲۸۰ھ بمطابق ۱۲۔ ستمبر ۱۸۶۲ء (قلمی روزنامچہ خاندان مسیح موعود)








باب ہشتم
قلمی جہاد کا آغاز
(۱۸۷۲تا ۱۸۷۶)
مضامین کی اشاعت ملکی اخبارات میں
آپ کی ایک گونہ پبلک زندگی کی ابتداء گو سیالکوٹ میں ہو چکی تھی لیکن اس کا حقیقی معنوں میں آغاز قریباً ۱۸۷۲ء سے ہوا جبکہ آپ نے ملک کے مختلف اخبارات میں اپنے مضامین کا سلسلہ جاری کرکے قلمی جہاد میں حصہ لینا شروع کیا۔
ابتداء میں آپ کا معمول تھا کہ کبھی کبھی شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا بعض دوسرے ناموں سے اپنے مضامین چھپوا دیتے تھے (۱) حضورؑ کے اپنے نام سے جو مضامین ملکی اخبارات میں شائع ہونے شروع ہوئے ان میں موجودہ تحقیق کے مطابق سب سے پہلا مضمون غالباً بنگلور کے دس روزہ اخبار منشور محمدیؐ ۲۵۔ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ مطابق ۲۵۔ اگست ۱۸۷۲ء میں شائع ہوا۔ (۲) یہ تاریخی مضمون دراصل ایک نہایت اہم اعلان تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذاہب عالم کو اپنے بیس سالہ تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر یہ زبردست چیلنج کیاکہ تمام انسانی معاملات اور تعلقات میں سچائی ہی تمام خوبیوں کی بنیاد اور اساس ہے۔ اس لئے ایک سچے مذہب کی نشان دہی کا آسان طریق یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس نے سچائی پر کار بند ہونے کی کہاں تک زور دار اور موثر طریق پر تلقین کی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ زبردست معیار قائم کرتے ہوئے پورے وثوق سے یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہر اس غیر مسلم کو پانچ سو روپیہ کی رقم بطور انعام پیش کرنے کے لئے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے ان تعلیمات کے مقابل آدھی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کردے جو آپ اسلام کی مسلمہ اور مستند مذہبی کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے ۔ خدا کے شیر کی یہ پہلی للکار تھی جسے سن کر پورے ہندوستان میں خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور کسی شخص کو حضرت اقدس کا یہ زبردست چیلنج قبول کرنے کی جرات نہیں ہو سکی۔ (۳)
ضمناً یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ منشور محمدیؐ ( بنگلور ) کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اوائل زمانہ میں وکیل ہندوستان ۔ سفیر ہندامرت سر (۴) نورافشاں لدھیانہ ۔ برادر ہند لاہور۔ (۵) وزیر ہند سیالکوٹ ۔ ودیاپرکاش امرت سر ۔ آفتاب پنجاب لاہور۔ ریاض ہندامرت سر اور اشاعۃ السنہ منگوایا کرتے تھے۔ اور بعض میں مضامین بھی لکھتے تھے ۔ زمانہ ماموریت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے شروع ہوئے جو براہ راست غیر زبانوں کے اخبارات آپ کے ہاں پہنچے آپ جستہ جستہ مقامات سے ان کا ترجمہ سنتے اور اگران کے کالموں میں اسلام کی تردید میں کوئی مضامین آتے تو اس کا جواب لکھوا کر شائع فرماتے ۔ اور جو خود مطالعہ فرما سکتے وہ ضرور پڑھتے ۔ اخبارات کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا آپ کا معمول تھا۔ آخری زمانہ میں آپ لاہور کے روزنامہ ’’ اخبار عام ‘‘ کو بڑے شوق سے خریدتے اور خاص دلچسپی سے پڑھتے اور اس کی بے لاگ اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے۔ (۶)
مولوی اللہ دتہ صاحب لودھی ننگل سے مسئلہ حیات النبی وغیرہ پر مذاکرہ :۔
قادیان کے پاس لودھی ننگل میں ایک مولوی صاحب اللہ دتہ نامی رہا کرتے تھے جنہیں ان دنوں حضرت اقدسؑ نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم کے لئے بلوایا تھا۔ مولوی صاحب( بعض اپنے مذہبی عقائد یا دیگر نامعلوم وجوہ کی بناء پر ) قادیان میں مختصر قیام کے بعد واپس اپنے گائوں چلے گئے۔ جب تک وہ قادیان میں رہے انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مسئلہ ’’حیات النبی ‘‘ اور دوسرے مسائل پر مذاکرہ جاری رکھا اور واپسی کے بعد انہی مسائل کے متعلق ایک منظوم فارسی خط لکھا۔ جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ۶۔ ستمبر ۱۸۷۲ء کو ایک پرکیف اور مبسوط فارسی نظم انہیں بھجوائی ۔ اس نظم سے یہ حقیقت بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ کو ابتداء ہی سے حضرت رسول اکرم ﷺ سے نہایت و الہانہ عقیدت تھی اور آپ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کو دل و جان سے ابدی حیات کے تخت پر رونق افروز ہونے والا زندہ نبی یقین کرتے ۔ حضورؑ کے چشمہ فیوض و برکات کو اپنے دل میں رواں دواں پاتے ۔ اور حضورﷺ کی عظمتوں اور برکتوں کی منادی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ پوری نظم حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اپنی کتاب حیات احمد جلد اول نمبر ۳صفحہ ۲۰۵،۲۰۹پر شائع کی ہے اور قابل دید ہے ۔ صرف چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل کرتا ہوں ؎
سپاس آں خداوند یکتائے را بمہر و بمہ عالم آرائے را
جہاں جملہ مردہ فتاد ست و زار یکے زندہ او ہست از کردگار
چنیں است ثابت بقول سروش اگر راز معنی نیابی خموش
اگر درہوا ہمچو مرغاں پری وگربرسر آب ہا بگذری
وگر ز آتش آئی سلامت بروں وگر خاک را زرکنی از فسوں
اگر منکری از حیات رسولؐ سراسر زیاں است و کار فضول
۱۸۷۲ء میں آپ کی روزمرہ زندگی کی ایک جھلک :۔
اب اگرچہ آپ پبلک زندگی میں قدم رکھ چکے تھے۔ لیکن آپ کی ان جلوتوں میں بھی خلوتوں کا رنگ چھایا ہوا تھا چنانچہ ان ایام کے متعلق مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال کی چشم دید شہادت ہے کہ :
’’قریباً ۱۸۷۲ء کا ذکر ہے میں چھوٹا تھا مرزا نظام الدین صاحب وغیرہ میرے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ اس وقت اہل حدیث کا بہت زور تھا۔ میرے والد صاحب بھی اہل حدیث تھے۔ شیخ رحیم بخش صاحب والد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہاں بہت آیا کرتے تھے میں عام طور پر حضرت مرزا صاحب کے والد صاحب کے گھر بوجہ رشتہ داری آتا جاتا تھا۔ میں ان کے پاس عام طور پر رہتاتھا مگر حضرت مرزا صاحب کی گوشہ نشینی کی وجہ سے میں یہی سمجھتاتھا کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا ایک ہی لڑکا غلام قادر ہے۔ مگر مسجد میں میں مرزا صاحب کو بھی دیکھتا ۔ میرناصرنواب صاحب آیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ یہ اپنے مکان میں تشریف لے جا رہے ہیں۔ دوسرے دن میں نے دیکھا کہ آپ نماز پڑھ کر گھر میں تشریف لے جا رہے ہیں میں آپ کے والد صاحب کے پاس بیٹھاتھا۔ میں بھی جلدی سے اٹھ کر آپ کی طرف گیا۔ آپ اپنے کمرہ میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے لگے تھے کہ میں بھی جاپہنچا۔ آپ نے دروازہ کھول دیا اور دریافت کیا کہ کیاکام ہے؟ میں نے کہامیں ملنا چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے وہاں بٹھایا اور دریافت کیاکہ کہاں سے آئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ لنگروال سے ۔ اس کے بعد مجھے آپ کی واقفیت ہوگئی۔ آپ ایک بالا خانہ پر عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اور گھر سے جب روٹی آتی تو اس کی ایک کھڑکی سے بذریعہ چھینکا روٹی اوپر لے لیتے ۔ اس کے بعد آپ سے مجھے انس ہوگیا اور گھر سے آپ کی روٹی میں لایا کرتا۔‘‘
’’میں آپ کے پاس ہی رہتاتھا اور اسی کمرہ میں سوتا تھا۔ آپ نے استخارہ بھی سکھایا۔ عشاء کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بعد گفتگو نہیں کرنی ہوتی تھی۔ صبح کو جو خواب آتی میں وہ آپ کو بتلا دیتا۔ آپ کے پاس فارسی کا ایک تعبیر نامہ بھی تھا آپ اسے دیکھتے تھے۔ آپ نے مجھے یہ بھی کہاکہ دونوں گھروں میں ( مرزا امام دین اور آپ کا مکان مراد تھا) استخارہ کا طریق بتلادو۔ اور اس طریق سے وہ سویا کریں۔ اور یہ بھی آپ نے کہا تھا کہ صبح جاکر ان کی خوابیں سنا کرو۔ مجھے روٹی بھی بہت دفعہ آپ ساتھ ہی کھلاتے ۔ حافظ معین الدین صاحب عرف ماہناں بھی آپ کے پاس آتے۔ (۷)مجھے آپ ان کی روٹی لانے کے لئے کہتے چنانچہ میں لا دیتا۔ آپ کا گھرانا بہت بڑا تھا جو بھی آتا اسے روٹی مل جاتی۔ اس عام روٹی سے میں میاں ماہناں کی روٹی لاتا۔ حضرت مرزا صاحب اس وقت تک انتظار کرتے اور جب میاں ماہناں کی روٹی آجاتی تو اپنا سالن اس کے سالن میں ملادیتے ۔ پھر اسے روٹی دیتے اور کہتے کھائیں اور خود آپ بہت آہستہ آہستہ روٹی شروع کرتے۔ جب میاں ماہناں اپنی روٹی کھالیتے ۔ تو آپ دریافت کرتے اور بھی چاہئے۔ وہ کہتے اگر ہے تو دے دیں تو بہت دفعہ حضور اپنا کھانا اور میرا بھی ان کو دے دیتے اور وہ سب کھا جاتے ایسے موقعہ پر تیسرے پہر پھر آپ مجھے پیسے دیتے کہ جاکر کابلی چنے بھنوا لائو۔ اس وقت بہت سستے ہوتے تھے ایک پیسے کے بھی بہت آجاتے تھے۔ اور میں اور حضور وہ کھالیتے ۔ آپ بہت آہستہ آہستہ کھاتے تھے۔ آپ ایک دو دانے ہی منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ کی عادت تھی کہ باتیں بشاشت سے کرتے اور اکثر رانوں پر ہاتھ مارتے تھے۔ ‘‘
’’ آپ مسجد میں فرض نماز ادا کرتے ۔ سنتیں اور نوافل مکان پر ہی ادا کرتے تھے عشاء کی نماز کے بعد آپ سو جاتے تھے اور نصف رات کے بعد آپ جاگ پڑتے اور نفل ادا کرتے ۔ اس کے بعد قرآن مجید پڑھنا۔ مٹی کا دیا آپ جلاتے تھے۔ تلاوت فجر کی اذان تک کرتے ۔ جس کمرہ میں آپ کی رہائش تھی وہ چھوٹا سا تھا اس میں ایک چارپائی اور ایک تخت پوش تھا۔ چارپائی تو آپ نے مجھے دی ہوئی تھی اور خود تخت پوش پر سوتے تھے۔ فجر کی اذان کے وقت آپ پانی کے ہلکے ہلکے چھینٹوں سے مجھے جگاتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دریافت کیاکہ حضور مجھے ویسے ہی کیوں نہیں جگادیتے ۔ آپ نے فرمایا حضور رسول کریم ﷺ کا یہی طریق تھا اس سنت پر میں کام کرتا ہوں تاکہ جاگنے میں تکلیف محسوس نہ ہو۔ نماز فجر کے بعد آپ واپس آکر کچھ عرصہ سو جاتے تھے کیونکہ رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گذرتا تھا۔ ‘‘(۸)
سلسلہ تعلیم و تدریس :۔
زندگی کے اس دور سے جبکہ آپ قادیان میں زاہدانہ زندگی بسر کر رہے تھے اور حضرت والد صاحب کے حکم کی تعمیل میں مقدمات کی پیروی کے لئے جانا پڑتا تھا اپنے چشمہ علم و عرفان سے دوسروں کو بہرہ ور کرنا شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے عربی نصاب کی کتابیں نحومیر، تاریخ فرشتہ اور شاید گلستان و بوستان ، بھی آپ سے پڑھیں (۹)میاں علی محمد ساحب مرحوم کو گلستان و بوستاں کے کچھ سبق پڑھائے مرزا دین محمد صاحب آف لنگروال کی روایت کے مطابق ۱۸۷۲ء میں کشن سنگھ ۔ ملاوامل اور شرمپت آپ سے حکمت اور قانون وغیرہ کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ بلکہ خود انہیں بھی حضور انور نے ایک فارسی کتاب پڑھانی شروع کی تھی(۱۰)
بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان :
بھائی کشن سنگھ صاحب کا بیان ہے کہ :
’’لوگ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم سے جرات کرکے کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ مگر حضرت مسیح موعود اعلیہ السلام سے بلا تکلف جو چاہتے کہہ لیتے تھے۔ میںنے اسی لئے ان سے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے زمانہ طالب علمی میں یہ تجربہ ہوا کہ حضرت مرزا صاحب بھی کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے ۔ ان کی خدمت میں جاتے ہوئے ہم کو ذرا بھی جھجک اور حجاب نہ ہوتا تھا۔ ہم بے تکلف جس وقت چاہتے چلے جاتے تھے اور کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ آپ نے اپنی مصروفیت یا آرام کرنے کا عذر کرکے ٹال دیا ہو۔ بعض اوقات آپ نے سوتے اٹھ کر دروازہ کھولا ہے مگر برا نہیں منایا کہ تم نے میرے آرام میں آکر خلل پید اکیا ۔‘‘ چونکہ دروازہ عموماً بند ہوتا تھا کبھی کبھی میں اوپر سے کنکر ہی پھینک دیتا تھا اور آپ اس کی آہٹ سے اٹھ کر دروازہ کھول دیتے ۔ کبھی ایسا بھی اتفاق ہوتا تھا کہ میں سبق پڑھا کرتا اور آپ کھاتے جاتے اور پڑھاتے بھی جاتے تھے۔ اسی حالت میں بعض اوقات میری کتاب میں کوئی غلطی ہوتی تو آپ کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے اور مستند کتاب نکال کر لاتے اور اس غلطی کی اصلاح یا مشکوک امر کو درست فرماتے ۔ میں ہر چند عرض کرتا کہ آپ تکلیف نہ اٹھائیں کھانا کھالیں بعد میں دیکھا جائے گا۔ مگر آپ میری اس درخواست کو منظور نہ فرماتے اور کہہ دیتے کہ تمہارا ہرج ہوگا یہ ٹھیک نہیں وہ اپنے آرام کی پروانہ کرتے اور کتاب نکال کر مجھے درست کرادیتے۔ ‘‘
’’میں طب اکبرپڑھ رہاتھا اور اس میں مالیخولیا کی بیماری پر بحث میرے سبق میں آئی۔ طب اکبر میں اس مرض کی علامات ‘ اسباب وغیرہ پر مفصل بحث تھی۔ اس میں خلوت نشینی کو بھی ایک حد تک داخل کر دیا ہے ۔ اس پر آپ نے فرمایا طبیبوں نے کسی کو بھی نہیں چھوڑا۔ دیکھو جو لوگ خلوت نشین ہوں ان کو بھی مجنون کہہ دیتے ہیں۔ ‘‘ میں نے آپ سے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے آپ کو بھی کہتے ہیں۔ آپ ہنس پڑے اور مجھے کسی قسم کا زجرنہ فرمایا۔ گو مجھے کہہ دینے کے بعد بہت افسوس ہوا اور شرم محسوس ہوئی کہ میں نے غلطی کی ۔ لیکن میںنے کوئی عذر کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ مرزا صاحب اس قسم کی بات دل میں نہیں رکھتے ۔ اور کسی سے بدلہ لینا نہیں چاہتے ۔(۱۱)
شعری کلام کی ابتداء اور دیوان کی تسوید :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اسلام کی قلمی جنگ میں فتح نصیب جرنیل کی حیثیت سے دنیا میں آئے تھے اس لئے قدرت نے ابتداء ہی سے آپ کو قلم کی لازوال قوتوں سے مسلح کرکے بھیجاتھا۔ اورنہ صرف نثر نگاری کے وسیع و عریض میدان کے آپ شہسوار تھے بلکہ اقلیم سخن کو آپ کی تاجداری پر ناز تھا۔ حضور علیہ السلام نے اپنے ہم عصر مسلمان شعراء کی طرح شعرو شاعری کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔ بلکہ اسے ذکر الٰہی ، آنحضرتﷺ سے عشق و فدائیت کے اظہار کا ایک موثر ذریعہ قرار دیا اور پھر اپنی خداداد روحانی و اخلاقی صلاحیتوں کی بدولت اس میں اپنے مسیحائی انفاس سے وہ روح پھونکی کہ الفاظ گویا اسلام کی ایک پرشوکت فوج میں بدل گئے اور تخیلات اور تصورات زبردست روحانی اسلحہ خانوں میں ڈھل گئے جو قیامت تک کفر و ضلالت کے فولادی قلعوں کو پاش پاش کرتے رہیں گے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک عالی خاندان کے فردتھے جسے بجا طور پر بخوروں کا گہوارہ قرار دیا جانا چاہئے ۔ آپ کے والد ماجد نے بھی طبیعت رسا پائی تھی وہ فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے۔ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے ایک دفعہ ان کا کلام بلاغت نظام حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر ’’پنجابی اخبار‘‘ کو دیا تھا مگر وہ فوت ہوگئے اور ان کے ساتھ یہ قیمتی خزانہ بھی معدوم ہوگیا۔ ایک ایرانی شاعر نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ ان کا فارسی کلام ایرانی شعراء کی طرح فصیح و بلیغ ہے۔ اسی طرح حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کو بھی ذوق سخن تھا اور وہ مفتون (۱۲، ۱۳) تخلص کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شعری کلام کی ابتداء کس سن میں ہوئی؟ اس بارے میں احمدی مورخین کوئی قطعی رائے قائم نہیں کر سکے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو خلافت ثانیہ کے ابتداء میں مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم سے شعروں کی ایک کاپی ملی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے شعر درج کئے تھے۔ اس کاپی میں کئی شعر نامکمل تھے اور بعض شعر نظر ثانی کے لئے بھی چھوڑے ہوئے تھے۔ یہ کاپی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے بیان کے مطابق بہت پرانی معلوم ہوتی ہوتی ہے جو غالباً جوانی کا کلام تھا(۱۴) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جوانی میں کلام کہنا شروع کیا تھا اور جوانی کے زمانے کا سب سے ابتدائی کلام جو معین تاریخ کے ساتھ ملتا ہے وہ ۱۸۷۲ء کا فارسی کلام ہے جس کا تذکرہ اوپر کے صفحات میں کیا جا چکا ہے ۔ آپ ابتداء میں فرخ تخلص کیا کرتے تھے ۔ جسے زمانہ ماموریت کے چند سال بعد بالکل ترک کر دیا ۔ ان دنوں آپ اگرچہ اردو اور عربی شعروں میں اپنے خیالات کا اظہار فرماتے لیکن آپ کی زیادہ تر توجہ اپنی خاندانی زبان فارسی کی طرف تھی۔ یہ تو ابتدائی زمانہ کی بات ہے ورنہ منصب ماموریت پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کو اسلام کی منادی کا ذریعہ بنالیا۔ آپ کا کلام الگ الگ تینوں زبانوں میں درثمین کے نام سے چھپا ہوا ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی زندگی بھر کے اہم واقعات ، دعاوی اور علم کلام اس میں پوری شان جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔
۱۸۸۰ء سے پہلے جبکہ آپ کی مستقل تصانیف کی اشاعت شروع نہ ہوئی تھی۔ آپ کبھی کبھی اپنا کلام ملک کے بعض اخبارات میں بھی بھجوا دیتے تھے ۔ چنانچہ
’’منشور محمدؐی‘‘ میں ایک اردو نظم جو حضور نے قادیان سے ۸۔ محرم ۱۲۹۵ھ مطابق ۱۲جنوری ۱۸۷۸ء کو رقم فرمائی اور نیاز نامہ متعلقہ ’’جواب الجواب ‘‘ کے عنوان سے تھی شائع ہوئی ( ۱۵)
حضرت اقدس علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت سے قبل ’’دیوان فرخ قادیانی ‘‘ کے نام سے اپنی غزلیات اور قطعات کا ایک مجموعہ بھی مرتب فرمایا تھا جو آپ کی وفات کے آٹھ سال بعد دسمبر ۱۹۱۶ء میں ’’ درمکنون ‘‘ کے نام سے پہلی دفعہ منظر عام پر آیا۔ اس مجموعہ کلام میں حمد الٰہی ، شان مصطفی ، غیر مذاہب کے رد‘ اسلام کی حقانیت ، اصلاح نفس ، ذکر اولیاء نشان اولیاء، علامات اولیاء ، اخراج نبوت از یہود ، ترک دنیا ، دعا، ایمان ، مذمت کبر، نفس امارہ ، مرتبہ سلوک ، مذمت شرک اور مذمت گور پرستی وغیرہ علمی و روحانی مسائل اور تصوف کے قیمتی اسرارو نکات بیان کئے گئے تھے۔ اس دیوان کے زمانہ تصنیف کا تعین اس وقت تک نہیں کیا جا سکا۔ سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے نزدیک اس کا زمانہ تصنیف قیام سیالکوٹ کے دور سے شروع ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک سیالکوٹ سے واپسی کے بعد۔ خود مجموعہ میں چار مقامات پر ۱۷۔ اکتوبر ۱۸۷۳ء ۔ ۳۱۔ اگست ۱۸۷۶ء ۔ ۲۱۔ ستمبر ۱۸۷۶ء اور ۱۶۔نومبر ۱۸۸۸ء کی تاریخیں درج ہیں۔ لہٰذا قیاسات اور تخمینوں سے الجھے بغیر علیٰ وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجموعہ ۱۸۷۳ء سے ۱۸۸۸ء تک کے پندرہ سالہ عرصہ کو محیط ہے۔
ایک مقدمہ میں نشان آسمانی کا ظہور
تخمیناً۱۸۷۳ء کا واقعہ ہے کہ کمشنر کی عدالت میں آپ زمینداروں کے خلاف ایک مقدمہ کی پیروی کے لئے امرت سر تشریف لے گئے۔ فیصلہ سے ایک روز قبل کمشنر کا رویہ بہت سخت معاندانہ تھا اور اس نے زمینداروں کی ناجائز حمایت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ غریب لوگ ہیں تم ان پر ظلم کرتے ہو۔ رات کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں ایک انگریز کو ایک چھوٹے سے بچے کی شکل میں دیکھا کہ اس کے سر پر حضور ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ چنانچہ حضور دوسرے دن جب عدالت میں پہنچے تو اس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز نہیں تھا۔ اس نے زمینداروں کو سخت ڈانٹ پلائی اور آپ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے سارا خرچہ بھی ان پر ڈال دیا۔(۱۶)
آسمانی بادشاہت ، درویشوں کی جماعت اور اقتصادی کشائش عطا ہونے کی بشارت :۔
۱۸۷۴ء میں آپ کو خواب میں ایک فرشتہ ایک لڑکے کی صورت میں دکھائی دیا جو ایک اونچے چبوترے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پاکیزہ نان تھا جو نہایت چمکیلا تھا۔ وہ نان آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس نے کہا ’’یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے ۔ ‘‘ اس نظارہ میں آپ کو رزق کی کشائش کے علاوہ درویشوں کی ایک جماعت عطا کئے جانے کی بشارت دی گئی ۔ (۱۷) نیز آسمانی بادشاہت عطا ہونے کی خبر بھی دی گئی تھی۔ کیونکہ انجیل کے محاورہ میں روٹی سے مرادآسمانی بادشاہت کا قیام ہے۔ (۱۸) یاد رہے یہ اس زمانہ کی بشارت ہے جب آپ قادیان ایسے کو ردیہہ میں اقتصادی مشکلات سے دو چار گوشہ نشینی اور خلوت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ کے حلقہ بیعت سے کوئی ایک شخص بھی وابستہ نہیں تھا۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ یہ بشارت ٹھیک اس زمانہ میں دی گئی جبکہ دانیال نبی کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کی آمد مقدر تھی ( یعنی ۱۲۹۰ھ مطابق ۱۸۷۳۔ ۱۸۷۴ء میں) چنانچہ مسٹر روتھر فورڈ انجیل کی پیشگوئیوں کی روشنی میں ۱۸۷۴ء کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‏" The facts hereinbefore considered show that the lord was present from 1874"The in this that he was doing a special work concerning his church , to forward, restoring to them the great fundamental truths that had been covered and wit by the ecelesiasticat part of the Devil,s Organization, and preparing to hid gather the saints''(19)
یعنی حقائق بتاتے ہیں کہ ۱۸۷۴ء کے بعد مسیح اس دنیا میں موجود ہے اور اپنے کلیسیا کے متعلق ایک خاص کام سر انجام دے رہا ہے ۔ اور وہ بنیادی صداقتیں جنہیں طاغوتی نظام نے ڈھانپ رکھا ہے اور دنیا کی نظروں میں روپوش کر رکھا ہے ۔ وہ انہیں دوبارہ آشکار کرکے نیک اور پارسالوگوں کو اپنے گرد جمع کر رہا تھا۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر
اب چونکہ وہ زمانہ تیزی سے آرہا تھا جس میں آپ کے گرد پارسادرویش طبع لوگ پروانوں کی طرح جمع ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ خوشخبری دی اور پھر اگلے سال (۱۸۷۵ء ) میں قادیان میں مسجد اقصیٰ ایسی عظیم الشان جامع مسجد کی نبیاد خود آپ کے والد ماجد کے ہاتھوں رکھوادی ۔ عمر بھر کی ناکامیوں کی وجہ سے چونکہ آپ کے والد ماجد کو مسلسل اور پیہم صدمات سے دو چار ہونا پڑا تھا اور دل زخم رسیدہ ہو چکا تھا۔ اس لئے زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے مافات کی تلافی کے لئے قادیان میں ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔ اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کی از حد کوشش کی جسے رام گڑھیہ سکھوں نے بالجبر قبضہ کرکے دھرم سالہ بنادیا تھا۔ لیکن جب خود مقامی مسلمانوں کی مخالفانہ شہادتوں نے اس کی بازیافتگی کا رستہ مسدود کر دیا تو آپ نے اس کے نزدیک ہی قصبہ کے وسط میں ایک اور جگہ انتخاب کی جو اس وقت سکھ کارداروں کی حویلی تھی (۲۰) لیکن اس حویلی کی نیلامی کا مرحلہ آیا تو اہل قریہ نے ایک بار پھر آپ کو زمین سے محروم کرنے کی کوشش کی اور مقابل پر قیمت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ پختہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر باقی جائیداد بھی فروخت کرنا پڑے تو میں یہ زمین لے کر مسجد ضرور بنائوں گا۔ اس لئے آپ نے مالیات کے سبھی پہلو نظر انداز کرکے چند روپوں کی مالیت کا قطعہ ۷۰۰ روپے کی قیمت پر خرید لیا(۲۱) اور اخلاص وندامت بھرے دل کے ساتھ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ گائوں میں چونکہ پہلے کئی مساجد موجود تھیں۔ اور یہ مسجد ان سب سے بڑی بنائی جا رہی تھی اس لئے اس وقت ایک شخص نے کہا کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی ۔ کس نے نماز پڑھنی ہے اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے (۲۲) اور یہ بات گائوں کی مختصر سی مسلم آبادی کے لحاظ سے ہر شخص کو معقول نظر آتی تھی۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کام خدائی تحریک اور اس کے تصرف سے ہو رہا ہے اور ایک زمانہ آئے گا جب اسے دنیا بھر میں ایک ممتاز شان حاصل ہوگی۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر :۔
یہ جامع مسجد جو اب مسجد اقصیٰ سے موسوم ہے تخمیناً ۱۸۷۵ء کے آخری دنوں سے تعمیر ہونی شروع ہوئی اور جون ۱۸۷۶ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی اور اس کے پہلے خادم اور امام میاں جان محمد صاحب مرحوم مقرر ہوئے۔ اس ابتدائی مسجد کی پرانی مسقف عمارت اور اس کا صحن اور کنواں اپنی اپنی جگہ پر بدستور موجود ہیں ۔ البتہ ابتدائی صحن مختصراور پختہ پرانی قسم کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ شمالی دروازہ کے اندر کنوئیں کا منہ پہلے اوپر مسجد کے صحن کے فرش کے برابر تھا اور جہاں صحن کا فرش ختم ہوتا تھا وہاں مشرقی کنارہ پر اینٹوں کی ایک منڈیر تھی جس پر نماز وضو کیا کرتے تھے اور نالی سے مستعمل پانی نیچے بازار کی گلی میں جاگرتا تھا (۲۳)چنانچہ پنڈت دیوی رام ساکن دو دو چک تحصیل شکر گڑھ کی (جو ۲۱۔جنوری ۱۸۷۵ء کو نائب مدرس ہو کر قادیان گئے اور چار سال تک انہیں حضرت اقدس کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا)عینی شہادت ہے کہ ’’(آپ کے )گھر سے چھوٹی سی گلی مسجد کو جاتی تھی اس راستہ سے گذر کر مسجد میں جاتے تھے صرف اکیلے ہی ہوا کرتے تھے اگر دو تین ہو جاتے تو مرزا صاحب جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے اور اگر اکیلے ہوتے تو اکیلے ہی پڑھ لیتے ۔ ان دنوں قادیان میں مسلمان عموماً بے نماز تھے۔ قمار بازی میں مشغول رہتے تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کم تھی ۔۔۔۔ نیکی تقویٰ اور طہارت میں مرزا غلام احمد صاحب اور مرزا کمال الدین صاحب اور میر عابد علی صاحب مسلمانوں میں مشہور تھے۔ مرزا کمال الدین فقیری طریقہ پر تھے۔ معلوم نہیں کہ وہ نماز کب پڑھا کرتے تھے۔ مگر مرزا غلام احمد صاحب کو ہم نے پنج وقت نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ ‘‘(۲۴)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے والد ماجد کے آخری عمر کے جذبات کا نقشہ کھینچتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا پس منظر یوں بیان فرماتے ہیں:
’’ حضرت عزت جل شانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی۔ بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ دنیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر ناحق ضائع کردی ۔ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ایک بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیساکہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے ۔ تو میں اس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا ۔ جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ کھوٹا ہے ۔یہ دیکھ کر میں چشم پر آب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیا داری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپے کی طرح ہے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخری حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گزرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی۔ اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پر دادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا اور دوسرا یہ ہے کہ
ع ’’جب تدبیر کرتاہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے ‘‘
اور یہ غم اور دردان کا پیرانہ سالی میں بہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے ۔ اور وصیت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تاخدائے عزوجل کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اسی مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے ۔ اَللّٰھُمَّ اَرْحَمْہُ وَادْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ۔ آمین ۔اسی یا پچاسی برس کے قریب عمر پائی ۔ ‘‘(۲۵)
روزوں کا عظیم مجاہدہ اور عالم روحانی کی سیر
تلاوت قرآن کریم ، ذکر الٰہی ، اصلاح خلق، خلوت گزینی اور درودشریف کی کثرت آپ کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ اب ۱۸۷۵ء کے آخر میں جناب الٰہی سے آپ کو روزوں کے ایک عظیم مجاہدہ کا ارشاد ہوا۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں آپ نے آٹھ یا نو ماہ تک مسلسل روزے رکھے (۲۶) روزوں کا یہ مجاہدہ بالکل مخفی طور پر اختیار کیا گیا اور اس کے لئے حضور نے یہ التزام فرمایا کہ گھر سے جو کھانا آتا وہ بعض بچوں میں تقسیم فرما دیتے اور خود روٹی کے چند لقموں یا چنوں پر گزا ر کر لیتے ۔ (۲۷) یہ دن انواز الٰہی کی بارش کے تھے جن میں آپ کو عالم روحانی کی سیر کرائی گئی اور خدا تعالیٰ کی تجلیات کے مختلف نظارے دکھائے گئے بعض گذشتہ انبیاء اور چوٹی کے صلحاء امت سے ملاقاتوں کے علاوہ آنحضرت ﷺ ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضٰ اللہ عنہا، حضرت علی و حسن و حسین علیہم السلام کی عین بیداری میں زیارت بھی نصیب ہوئی۔ یہ گویا آپ ایسے بے نظیر عاشق رسول کا ایک معراج تھا جو مسلسل کئی ماہ تک جاری رہا۔ آنحضرتﷺ تو شب معراج میں خدا تک پہنچے تھے اور آپ اس روحانی سیر میں مصطفی تک پہنچے ۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جبکہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا۔ اور اس نے یہ ذکر کرکے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالائوں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالانا بہتر ہے ۔ پس میں نے یہ طریق اختیار کیاکہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگواتا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میںنے پہلے سے تجویز کرکے وقت حاضری کے لئے تاکید کر دی تھی دے دیتا۔ اور اس طرح تمام دن روزہ میں گذارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی۔ پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں ۔ بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں۔ سو میں اس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا۔ یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تولہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی۔ غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلت غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا ۔ خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا۔ اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پرکھلے ۔ چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں ان سے ملاقات ہوئی۔ ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ ﷺ مع حسنین وعلی ؓ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ بیداری کی ایک قسم تھی۔ غرض اسی طرح پر کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزو سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبزاور بعض سرخ تھے ، ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا۔ اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہوگئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے ۔
غرض اس حد تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع و اقسام کے مکاشفات تھے۔ ‘‘(۲۸)
ایک دفعہ فرمایا جب میں تین ماہ کے قریب پہنچا تو ایک شخص قد آور جسم رنگ سرخ میرے سامنے یہ الفاظ کہتا تھا۔ قرت، قرت۔قرت نفس کشی اور ریاضت شاقہ کی اس کٹھن منزل کے طے کرنے سے جہاں آپ کو آسمانی عجائبات دیکھنے کا موقعہ ملا (۲۹، ۳۰) وہاں پہلی مرتبہ اپنے نفس کی حیرت انگیز قوت برداشت کا تجربہ ہوا۔ نیز اس نتیجہ پر پہنچے کہ آرام طلبی کی زندگی کو ترک کئے بغیر روحانیت کے مدارج کا حصول ممکن نہیں ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتاہوں ۔ میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے۔ اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتاہے ۔ اور جب تک کسی کا جسم ایسا سخت کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا۔ لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتاکہ ایسا کرے اور نہ میںنے اپنی مرضی سے ایسا کیا۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی محنت کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا۔ ‘‘(۳۱)
حضرت میرناصر نواب صاحب کی قادیان میں پہلی بار آمد اور تعلقات کا آغاز :۔
ان دنوں دلی کے مشہور عالی قدر سادات خاندان کے چشم و چراغ ، شہرہ آفاق صوفی مرتاض خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے نبیرہ اور ان کے روحانی کمالات کی یاد گار ایک بزرگ جن کا اسم گرامی میرناصر نواب تھا ، (۳۲) امرت سر سے منتقل ہونے کے بعد قادیان کے نزدیک موضع تتلہ میں نہر کے اوورسیر کی حیثیت سے متعین تھے۔ انہیں تبلیغ اسلام کا بڑا جوش تھا۔ ان کے دست مبارک پر اکتوبر ۱۸۷۴ء کو سٹھیالی کا ایک ہندو بنسی دھر حلقہ بگوش اسلام ہوا جس کا نام عبدالحق رکھا گیا (۳۳) ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان میں سب سے پہلے حضور کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب مرحوم سے تعارف ہوا۔ ایک دفعہ حضرت میر صاحبؓ کی زوجہ محترمہ کی طبیعت علیل ہوگئی تو مرزا غلام قادر صاحب نے انہیں اپنے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؓ سے طبی مشورہ کے لئے قادیان جانے کی تحریک کی۔ چنانچہ حضرت میر صاحبؓ پہلی مرتبہ قادیان آئے۔ یہ اندازاً ۱۸۷۶ء کے اوائل کا واقعہ ہے ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حرم محترم ؓ کی روایت ہے کہ مجھے ڈولے میں بٹھاکر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں مرزا غلام قادر صاحب مجلس لگائے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھے تھے اور ایک نیچے کی کوٹھری میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے قرآن شریف پڑھ رہے تھے۔ میںنے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے ۔ اوپر کی منزل میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؓ تھے۔ انہوں ںے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا۔ اور پھر میر صاحبؓ کے ساتھ اپنے دلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ انہوں نے حضرت میر صاحب کو قادیان میں اور ٹھہرنے کے لئے کہا مگر ہم نہیں ٹھہر سکے۔ کیونکہ ( ام المومنین ) نصرت جہاں بیگم کو اکیلا چھوڑ آئے تھے( ۳۴) حضرت میر صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قادیان میں یہ پہلی آمد تھی جو قریباً ۱۸۷۶ء کے اوائل میں ہوئی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات کا آغاز غالباً اگلے سال ۱۸۷۷ء کے بعد ہوا۔ جبکہ حضرت میرصاحب ؓ کے اہل و عیال قادیان میں رہائش پذیر ہوئے ۔ چنانچہ آپ کے حرم کا بیان ہے کہ اس کے بعد جب دوسری دفعہ قادیان آئی۔ تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰؓ فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ مرزا غلام قادر صاحب نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ (قادیان سے قریب ایک گائوں )میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہوگی اور وہ گائوں بھی بدمعاش لوگوں کا گائوں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں میں گورداسپور رہتاہوں اور غلام احمد ( علیہ الصلوٰۃ والسلام ) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہوگی۔ چنانچہ میر صاحبؓ مان گئے اور ہم یہاں آکر رہنے لگے۔ (۳۵)غالباً اسی دوران میں حضرت میر صاحب رضی اللہ عنہ کی مرزا غلام قادر مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلی ملاقات ہوئی تھی(۳۶) حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کے بیان کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جبکہ حضرت اقدس ’’براہین احمدیہ ‘‘ لکھ رہے تھے (۳۷)حضرت میر صاحب کے زیادہ مراسم گو آپ کے بڑے بھائی سے تھے لیکن ابتدائی ملاقات ہی سے آپ کے دل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقویٰ شعاری، عبادت اور ریاضت اور گوشہ گزینی نقش ہوگئی جس کا کبھی کبھی گھر میں اظہار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ’’ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی ہے۔‘‘(۳۸)چند ماہ بعد ان کی تبدیلی قادیان سے لاہور میں ہوگئی تو وہ چند روز کے لئے اپنے اہل خانہ کو حضور کے مشورہ کے احترام میں بے تامل آپ ہی کے ہاں چھوڑ گئے اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہوگیا تو پھر انہیں لے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ مرزا صاحب کے گھر میں رہے مرزا صاحب کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے۔ اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا۔ وہ بھی عجب وقت تھا حضرت صاحب گوشہ نشین تھے‘عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔ لالہ شرمپت اور ملاوامل کبھی کبھی حضرت صاحب کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت صاحب کے کشف اور الہام سنا کرتے تھے بلکہ کئی کشوف اور الہاموں کے پورے ہونے کے گواہ بھی ہیں۔ اس وقت یہ سچے اور نرم دل تھے۔‘‘(۳۹)
حضرت میر صاحب ابتداء ’’قادیان میں رہائش پذیر ہوئے تو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اکثر نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا اور وہ نماز کے بعد حضور سے علمی اورفقہی مسائل پر بھی مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ پنڈت دیوی رام(ساکن دودو چک تحصیل شکر گڑھ) کی چشم دید شہادت ہے کہ میر صاحب چونکہ اہل حدیث مسلک رکھتے تھے اس لئے رفع یدین۔ آمین بالجہر، ہاتھ باندھنے اور تکبیر پڑھنے کے متعلق تبادلہ خیالات جاری رہتا تھا (۴۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حضرت میر صاحبؓ کے ابتدائی تعلقات کا یہ مختصر سانقشہ ہے۔ جس کے بعد ان میں روز روز اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ سات سال بعد وہ بھی دن آگیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی ان کے جگر گوشہ حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ وہ نانا جان کہلائے اور ان کی مقدس صاحبزادی خدا کی ازلی تقدیروں کے باعث’’خدیجہ‘‘کے آسمانی خطاب سے سرفراز ہوکر ام المومنین کے نام سے موسوم ہوئیں۔ (اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی)
حضرت مولانا عبداللہ غزنویؒاور دوسرے اہل اللہ سے ملاقات
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے اس دور کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ آپ ان دنوں بعض اہل اللہ کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے۔(۴۱) سیالکوٹ میں آپ کا ایک بزرگ مولوی محبوب عالم صاحب مرحوم سے خاص تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ وہاں سے واپسی کے بعد آپ نے ایک خدا رسیدہ صوفی حضرت میاں شرف الدین صاحب کی ملاقات کے لئے متعدد بار سم شریف متصل طالب پور ضلع گورداسپور کا سفر اختیار فرمایا۔ تاریخ سے آپ کے یہاں بعض لوگوں کا آنا بھی ثابت ہے۔ مثلاً ایک صاحب مکے شاہ نام ساکن لیل متصل دھاری وال قادیان آتے اور آپ ہی کے پاس قیام کرتے تھے (۴۲) ان کے علاوہ حضرت کو جس باخدا اور صاحب ولایت بزرگ سے آخر وقت تک بے حد الفت رہی وہ مولانا مولوی عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ تھے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے کہ ’’آپ غایت درجہ کے صالح۔۔۔۔۔۔۔۔مردان خدا میں تھے اور مکالمہ الہیہ کے کے شرف سے بھی مشرف تھے اور بمرتبہ کمال اتباع سنت کرنے والے اور تقویٰ اور طہارت کے جمیع مراتب اور مدارج کو ملحوظ اور مرعی رکھنے والے تھے۔ اور ان صادقوں اور راستبازوں میں سے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچا ہوا ہوتا ہے اور پرلے درجہ کے معمور الاوقات اور یاد الٰہی میں محواور غریق اور اسی راہ میں کھوئے گئے تھے۔‘‘ (۴۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے امرت سر اور اس کے نواحی گائوں خیروی میں ملاقات فرمائی۔ اس سفر میں جو موسم سرما میں اختیار کیا گیا تھا۔ حضور کے پاس فنڈر کی مشہور کتاب ’’میزان الحق‘‘(مطبوعہ ۱۸۶۱ء) تھی جس سے آپ نے آخر شب پانی گرم کرنے کا کام لیا۔ آپ فرماتے تھے کہ اس وقت میزان الحق نے خوب کام دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے قلم سے ان ملاقاتوں کا احوال یوں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’جب وہ زندہ تھے ایک دفعہ مقام خیروی میں اور دوسری دفعہ امرت سر میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ ملہم ہیں ہمارا ایک مدعا ہے اس کے لئے آپ دعا کریں۔ مگر میں آپ کو نہیں بتلائوں گا کہ کیا مدعا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درپوشیدہ داشتن برکت است ومن انشاء اللہ دعا خواہم کر دو الہام امر اختیاری نیست۔ اور میرا مدعا یہ تھا کہ دین محمدی علیہ الصلوٰۃ والسلام روز بروز تنزل میں ہے خدا اس کا مددگار ہو۔ بعد اس کے میں قادیان میں چلا آیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد بذریعہ ڈاک ان کا خط مجھ کو ملا جس میں لکھا تھا کہ ’’ایںعاجز برائے شما دعا کردہ بود القاشد وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔ فقیر راکم اتفاق مے افتد کہ بدیں جلدی القا شود ایں از اخلاص شمامے بینم ‘‘(۴۴) یہ تو ابتدائی انکشافات تھے ورنہ اس کے بعد تو آپ نے ایک مخلص ارادتمند (منشی محمد یعقوب صاحب) کو باذن الٰہی یہاں تک بتا دیا کہ حضرت مرزا صاحبؑ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے مامور کئے جائیں گے۔ نیز اپنی وفات سے چند دن قبل (فروری ۱۸۸۱ء میں) اللہ تعالیٰ سے بذریعہ کشف خبر پاکر یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ ’’ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس میری اولاد اس سے محروم رہ گئی‘‘(۴۵)
آپ کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی نسبت بھی الہاماً بتایا گیا تھا کہ اس میں کوئی عیب ہے۔ بٹالوی صاحب نے وضاحت چاہی مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی حیا مانع ہے ۔ دراصل آپ کو عالم رویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بٹالوی صاحب کے کپڑے چاک چاک ہوگئے ہیں (۴۶) ان صریح اور واضح پیشگوئیوں سے جو بعد میں پوری وضاحت وصراحت سے پوری ہوئیں۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی حیرت انگیز قوت کشفی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا غزنوی کی وفات کے متعلق قبل از وقت خبر
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گورداسپور میں تھے کہ حضور کو قبل از وقت بذریعہ رویا خبر دی گئی کہ ان کا زمانہ وفات قریب ہے (۴۷) چنانچہ وہ ۱۵۔ ربیع الاول ۱۲۹۸ھ بمطابق ۱۵۔ فروری ۱۸۸۱ء کو انتقال فرماگئے اور امرت سر میں بیرون دروازہ سلطان ونڈ میں دفن ہوئے(۴۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی وفات کے بعد بھی ان سے کشفی عالم میں ملاقات فرمائی تھی۔ جس میں انہوں نے حضرت اقدس کو خبردی کہ خدا تعالیٰ آپ سے بڑے بڑے کام لے گا۔ آپ روحانی انوار وبرکات کے ذریعہ سے مخالفین حق پر عقلی دلائل اور روحانی انوارو برکات دونوں ذریعہ سے اتمام حجت کریں گے۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ دنیا میں مجھے امید تھی کہ خدا تعالیٰ میرے بعد ضرور ایسا آدمی پیدا کرے گا پھر مولانا غزنویؒحضور کو ایک وسیع مکان کی طرف لے گئے جس میں ایک جماعت راستبازوں اور کامل لوگوں کی بیٹھی ہوئی تھی۔ لیکن سب کے سب مسلح اور سپاہیانہ صورت میں ایسی چستی کی طرز سے بیٹھے ہوئے معلوم ہوتے تھے کہ گویا کوئی خدمت بجا لانے کے لئے کسی ایسے حکم کے منتظر بیٹھے ہیں (۴۹)

ماموریت کا دوسرا سال
مسجد مبارک کی تعمیر (۱۸۸۳ء)
قادیان میں مسجد اقصیٰ کی موجودگی میں کسی اور مسجد کی بظاہر ضرورت نہیں تھی کیوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور معدودے چند افراد کے سوا اس میں کوئی نماز ی ہی نہیں تھا۔ مگر چوں کہ حضرت مسیح موعودؑ معمور الاوقات انسان تھے اور مستقبل قریب میں آپ کے سپرد تحریک احمدیت کی قیادت ہونے والی تھی اور آپ کے ہاتھوں اسلام کی تائید میں عالمگیر قلمی جنگ کے آغاز کا زمانہ قریب آچکا تھا اس لئے حضور کو پیش آنے والی اور وسیع علمی وروحانی سرگرمیوں کے لئے ایک ایسے بیت الذکر کی ضرورت تھی۔ جو آپ کے تاریخ چوبارے کے پہلو ہی میں (جو الہام میں ’’بیت الفکر‘‘ کے نام سے موسوم ہوا اور جس میں آپ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ ایسی عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی) موجود ہو۔ تاکہ تصنیف و تالیف کی مصروفیات کے دوران میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر نمازوں کے التزام کے علاوہ جب چاہیں اپنے مولائے حقیقی کے آستانہ پر بالحاح وزاری عجزو نیاز کرسکیں۔ چنانچہ اس نوع کی متعدد آسمانی مصلحتوں کے مطابق حضرت اقدسؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھاری بشارتوں کے ساتھ ایک مسجد کے قیام کی تحریک ہوئی (۱) ۔ یہ مسجد جو مسجد مبارک کہلاتی ہے آج بھی پوری شان و عظمت کے ساتھ قادیان میں موجود ہے اور عالمگیر شہرت کی حامل ہے۔
مسجد مبارک کی تعمیر
مسجد مبارک کی بنیاد( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی گذشتہ عینی شہادت کے مطابق)۱۸۸۲ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب کی تحقیق کے مطابق ۱۸۸۳ء میں رکھی گئی تھی۔ حضرت اقدسؑ کے چوبارے کے ساتھ جہاں اس مسجد کی تاسیس ہوئی دراصل کوئی موزون جگہ موجود نہیں تھی۔ کیونکہ ’’بیت الفکر‘‘ کے عقب میں گلی تھی اور گلی کے ساتھ آپ کے چچا مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کے گھنڈر پڑے ہوئے تھے اور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بوسیدہ سی دیوار کھڑی تھی۔ حضور نے اسی دیوار اور اپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے مسقف تیار کرایا۔ اینٹوں کی فراہمی کے لئے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی اور مسجد کی تعمیر آپ کے خاندانی معمار پیراں دتا نے شروع کردی ۔ ۱۳۰ اگست ۱۸۸۳ء میں مسجد کی سیڑھیوں کے بننے کا مرحلہ آیا۔ مسجد کا اندرونی حصہ حتمی طور پر ۹۔ اکتوبر ۱۸۸۳ء تک ایک گونہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا لیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی۔
قدیم مسجد مبارک کا اندرونی منظر
مسجد مبارک کی اندرونی عمارت کے تین حصے تھے پہلا اور غربی حصہ امام کا محرابی گوشہ تھا جس کے مغرب اور شمال میں دوکھڑکیاں اور شرقی دیوار میں ایک دروازہ تھا جو لکڑی کے تختے سے بند ہوکر دو ایک فرد کی خلوت نشینی کے لئے ایک نہایت مختصر مگر مستقل حجرہ بن جاتا تھا ۔ وسطی حصے میں چھ چھ نمازیوں کی دو صفوں کی گنجائش تھی۔ اسی حصے میں ’’بیت الفکر‘‘ کو کھڑکی کھلتی تھی مقابل کی جنوبی دیوار میں ایک کھڑی روشنی کے لئے نصب تھی اور باہر کے مشرقی حصہ سے الحاق کے لئے ایک دروازہ لگا دیا گیا تھا۔ مسجد کا شرقی حصہ وسطی حصہ سے نسبتاً بڑا تھا یعنی اس میں بعض اوقات تین حصوں میں کم وبیش پندرہ آدمی نماز پڑھ سکتے تھے اس حصے سے باہر ایک طرف زینہ تھا اور دوسری طرف نمازیوں کے وضو وغیرہ کے لئے جگہ اور ایک غسل خانہ بھی بنایا گیا ۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام گرمیوں میں استراحت بھی فرماتے تھے اور اسی میں سرخی کے چھینٹوں کا نشان بھی ظاہر ہوا(۲) ۔ شرقی حصے میں تین دروازے تھے پہلا شمالی دیوار میں تھا جو حضرت اقدس کے مکان سے متصل تھا۔ دوسرا زینے سے مسجد تک داخلہ کے لئے اور تیسرا غسل خانے کی جانب جاتا۔ مسجد کے دونوں دروازوں پر آیت ’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللہِ الْاِسْلَامُ‘‘۔ درود شریف اور مسجد کے متعلق الہامات درج تھے ۔ اس تفصیل کے مطابق (قدیم ) مسجد مبارک کے اندرونی حصے کا خاکہ یہ تھا۔
مسجد کی بالائی منزل
یہ تو مسجد کی اندرونی عمارت کا نقشہ تھا۔ جہاں تک بالائی منزل کا تعلق ہے وہ اس سے بھی سادہ اور مختصر تھی۔ یعنی گوشہ امام والا حصہ چھوڑ کر باقی چھت کے چاروں کونوں پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تھے اور وہاں پہنچنے کے لئے سرخی کے نشان والے کمرے کی چھت پر دو سیڑھیوں کا ایک چوبی زینہ رکھا رہتا۔ قیام جماعت احمدیہ کے بعد جب حضرت مولانا نور الدین صاحب‘ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب اور دوسرے بزرگان سلسلہ قادیان میں ہجرت کر کے آگئے تو اس کے غربی حصے پر شے نشین بنا دیا گیا جہاں حضرت اقدس نماز مغرب کے بعد اپنے خدا م میں رونق افروز ہوتے اورعلم وعرفان کے موتی بکھیرتے تھے یہ پاک اور روح پرور محفل ’’دربار شام‘‘ کے پیارے نام سے یادکی جاتی تھی۔
مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں نماز ادا فرمانے لگے۔ ابتداء میں اکثر خود ہی اذان دیتے اور خود ہی امامت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
مسجد کی توسیع
مسجد مبارک کی یہ ابتدائی عمارت چوبیس سال تک اپنی پہلی حالت میں بدستور قائم رہی۔ اس دوران میں صرف یہ خفیف سی تبدیلی کی گئی کہ سرخی کے نشان والا کمرہ جو ددو ایک فٹ نشیب میں واقع تھا مسجد کی عام سطح کے برابر کردیا گیا اور پھر ۱۹۰۷ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کی نگرانی میں جنوبی طرف پہلی مرتبہ توسیع کی گئی جس کے نتیجہ میں اس کے جنوب مغربی کونے کا مینار قائم نہ رہ سکا۔ اور دو مینار شمالی دیوار میں جذب ہوگئے ایک مینار آج تک اصلی صورت میں موجود ہے۔ مسجد مبارک کی دوسری مرتبہ توسیع خلافت ثانیہ کے عہد میں دسمبر ۱۹۴۴ء میں مکمل ہوئی جس سے یہ مسجد ۱۹۰۷ء کی عمارت سے اپنی فراخی اور کشادگی میں دوچند ہوگئی۔ اس مرتبہ تعمیر کی نگرانی کا کام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے سرانجام دیا (۳)
نواب صدیق حسن خان صاحب کو سزا اور حضرت اقدسؑ کی دعا سے خطابات کی بحالی
نواب صدیق حسن خاں صاحب کی طرف سے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی بے حرمتی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بددعا کا جو دلخراش واقعہ جلد اول میں بیان ہوچکا ہے وہ اسی زمانہ (۱۸۸۳ء) میں وقوع پذیر ہوا تھا۔
نواب صاحب مولوی سید اولاد حسن صاحب قنوجی کے فرزند تھے انہوںنے علوم دینی علمائے یمن وہند سے حاصل کئے۔ پھر ریاست بھوپاک کی ملازمت اختیار کرلی اور بتدریج ترقی کر کے وزارت ونیابت پر فائز ہوگئے یہاں تک کہ ان کا بھوپال کی والیہ شاہجہان بیگم صاحبہ سے ۱۸۷۱ء میں عقد ہوگیا جس کے بعد وہ عملاً ریاست کے فرمانروا بن گئے تھے۔ اور حکومت برطانیہ نے انہیں ’’ نواب والا جاہ۔‘‘ ’’امیر الملک‘‘اور ’’معتمد المہام‘‘ کے خطابات سے نواز دیا ۔ نواب صاحب اپنی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور علو مرتبت میں بھی اسلام کی تحریری خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ اور ان کی علمی تصانیف کا ہندوستان کے طول وعرض میں ایک شہرہ تھا۔ اور مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی تو انہیں ’’مجدد وقت‘‘ تسلیم کرتے تھے۔ (۴) حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی اس خصوصیت کی وجہ سے ان کی اسلامی خدمات پر حسن ظن کرتے ہوئے انہیں ’’براہین احمدیہ‘‘ بھجوائی تھی(۵) ۔ مگر انہوں نے یہ کتاب پھاڑ کر واپس کردی اور لکھا کہ ’’مذہبی کتابوں کی خریداری حکومت وقت کی سیاسی مصلحتوں کے خلاف ہے اس لئے ریاست سے کچھ امید نہ رکھیں۔ ‘‘حضرت مسیح موعودؑ نے کتاب کی یہ صورت دیکھی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ نے دعا کی کہ ان کی عزت چاک کردی جائے۔ (۶) خدا کی قدرت دیکھئے اس واقعہ پر ابھی دو تین سال کا عرصہ ہی ہوا تھا کہ ۱۸۸۶ء میں اسی حکومت نے ( جس کی خوشنودی کے لئے انہوں نے ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی توہین کی تھی) ان پر بعض مقدمات دائر کر دئیے اوروہ جرائم پیشہ انسانوں کی طرح ریاست میں معصوموں کے خون بہانے ‘سوڈانی مہدی کو امداد بھجوانے اور اپنی مختلف تصانیف میں انگریزی گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے کے سنگین الزمات میں ماخوذ ہوگئے اور حکومت نے ان پر سر لیپل گریفن کا تحقیقاتی کمیشن بٹھا دیا کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ان کے نوابی کے خطابات چھن گئے اور یہاں تک بے آبروئی ہوئی کہ خود مسلمانوں کے ایک طبقہ نے حکومت پر زور دیا کہ اس سیاسی مقدمہ میں ان سے ذرہ بھر رعایت روانہ رکھی جائے اور ان جرائم کی پاداش میں وہ تختہ دار پر لٹکا دئیے جائیں یا کالے پانی بھیج دئیے جائیں۔ حتٰی کہ خود مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو نواب صاحب کے دفاع میں ایک مبسوط مضمون ’’ اشاعت السنہ‘‘ میں لکھنا پڑا۔ اور ’’گورنر ڈفرن اور سرلیپل گریفن کے حضور میں‘‘ نہایت عاجزی کے ساتھ التجا کرنا پڑی کہ وہ نواب صاحب موصوف کے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ان کا خطاب بحال فرمائیں۔ وہ گورنمنٹ کے حقیقی اور دلی خیرخواہ ہیں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا شمار حکومت انگریزی کے دلی خیر خواہوں اور حقیقی وفاداروں میں ہوتا تھا اور حکومت کی نگاہ میں ان کی شہادت بڑی وقیع اور پختہ سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ان کی یہ اپیل بالکل ناقابل التفات سمجھی گئی اور حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اسی لئے پنڈت لیکھرام نے مارچ ۱۸۸۶ء میں حضرت اقدس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا’’آپ تو مقبولوں کے سرغنہ ہیں اور آپ کی دعا تو تقدیر معلق کو باسلوبی ٹال سکتی ہے۔۔۔۔صدیق حسن خاں معزول ہیں اور ان کی نسبت جوجو مقدمات اور غبن مال سرکاری دائر ہیں ان سے نہایت ملول ہیں۔۔۔۔جناب بیگم صاحبہ والئی بھوپال صدیق حسن خاں معزول کو تین لاکھ دے کر خارج کرنا چاہتی ہیں ان کا ارادہ نسخ کیجئے۔‘‘ (۷)
خدا کی شان پنڈت لیکھرام نے تو یہ بات طنزاً کہی تھی مگر آپ ہی کی دعا کی برکت سے حالات میں تبدیلی واقع ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب معاملہ تشویشناک صورت اختیار کرتا دکھائی دیا تو خود نواب صاحب موصوف نے سر تاپا عجزو انکسار بن کر حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست دعا لکھی اور مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت اقدس کی خدمت میں ان کی خدمات پیش کرتے اور دعا کی سفارش کا پیغام بھجواتے ہوئے حافظ محمد یوسف صاحب کو قادیان روانہ کیا۔ حافظ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے جب حاضر ہو کر حضورؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست پیش کی تو حضرت اقدس نے اولاً دعا کرنے سے انکار کردیا اور براہین کا واقعہ بیان کر کے یہ بھی فرمایا کہ وہ خدا کی رضا پر گورنمنٹ کی رضا کو مقدم کرنا چاہتے تھے اب گورنمنٹ کو راضی کرلیں۔ موحد ہونے کا دعویٰ کر کے ایک زمینی حکومت کے خوف اور وہ دین کے معاملہ میں جس میں خود اس حکومت نے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے اس پر بہت دیر تک تقریر فرماتے رہے۔ چوں کہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے۔ میں نے بھی پیچھا نہ چھوڑا عرض کرتا ہی رہا۔ نواب صاحب کی طرف سے معذرت بھی کی آخر حضرت صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ فرما لیا اور میں تو اسی غرض سے آیا تھا جب تک آپ نے دعا نہ کردی اور یہ نہ فرمایا کہ میں نے دعا کردی ہے وہ توبہ کریں خدا تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے وہ رحم کرے گا حکومت کے اخذ سے وہ بچ جائیں گے۔ خود حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ واقعہ اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ (نواب صاحب موصوف نے ۔ ناقل)’’بڑی انکساری سے میری طرف خط لکھا کہ میں ان کے لئے دعا کروں۔ تب میں نے اس کو قابل رحم سمجھ کر اس کے لئے دعا کہ تو خدا تعالیٰ نے مجھ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سرکوبی سے اس کی عزت بچائی گئی۔ میں نے یہ اطلاع بذریعہ خط ان کو دے دی اور کئی اور لوگوں کو بھی جو ان دنوں میں مخالف تھے یہی اطلاع دی۔ چنانچہ منجملہ ان کے حافظ محمد یوسف ضلعدار نہرحال پنشنر ساکن امرت سر اور مولوی محمد حسین بٹالوی بھی ہیں۔‘‘(۸) حافظ صاحب کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی خریداری کے لئے نواب صاحب کی طرف سے درخواست کی آپ نے اس کو منظور نہ فرمایا۔ ہر چند عرض کیا گیا آپ راضی نہ ہوئے فرمایا میں نے رحم کر کے ان کے لئے دعا کردی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اس عذاب سے بچ جائیں گے میرا یہ فعل شفقت کا نتیجہ ہے ایسے شخص کو جس نے کتاب کو اس ذلت کے ساتھ واپس کیا میں اب کسی قیمت پر بھی کتاب دینا نہیں چاہتا۔ یہ میری غیرت اور ایمان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کو جو میں نے تحریک کی تھی خدا تعالیٰ کے مخفی اشارہ کے ماتحت اور ان پر رحم کرکے کہ یہ لوگ دین سے غافل ہوتے ہیں براہین کی اشاعت میں اعانت ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور خدا تعالیٰ انہیں کسی اور نیکی کی توفیق دے۔ ورنہ میں نے ان لوگوں کو کبھی امید گاہ نہیں بنایا۔ ہماری امید گاہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اوروہی کافی ہے نواب صاحب سنگین مقدمہ میں پانچ سال تک مبتلا رہے اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق انہیں حکومت کے مواخذہ سے بھی بچالیا اور ان کے خطابات بھی بحال کردئیے گئے۔ لیکن افسوس وہ بحالی کی خبر ملنے سے پہلے ہی اس دار فانی سے چل بسے۔ (۹)
مرزا غلام قادرصاحب (برادر اکبر) کی رحلت
حضرت مسیح موعودؑ کی شفیق والدہ آپ سے ۱۸۔ اپریل۱۸۶۷ء کو اور والد بزرگوار ۲۔ جون ۱۸۷۶ء کو جدا ہوچکے تھے اب ۱۸۸۳ء میں والد بزرگوار کے انتقال کے سات سال بعد آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب بھی ۹۔ جولائی کو رحلت فرماگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھی ورنہ وہ تو پندرہ سال پہلے ہی لقمہ اجل ہوچکے ہوتے کیونکہ انہیں کم وبیش چالیس سال کی عمر میں ایک شدید بیماری لاحق ہوگئی تھی اوروہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے اور نقاہت کایہ عالم ہوگیا تھا کہ چارپائی پر لیٹتے تو کسی کو احساس تک نہ ہوتا کہ یہاں کوئی شخص پڑا ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر حضرت اقدس کے والد بزرگوار نے جو ایک حاذق طبیب تھے صاف کہدیا کہ اب یہ چند دن کا مہمان ہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی قبل ازیں الہاماً بتایا جا چکا تھا کہ پندرہ دن تک ان کی عمر کا خاتمہ یقینی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں کا نظارہ کرنے کے لئے جناب الٰہی کی طرف توجہ کی چنانچہ خدا کے فضل اور آپ کی روحانی توجہ اور دعا کی برکت سے پندرہ دن پندرہ سالوں میں بدل گئے اور مرزا غلام قادر صاحب جو اپنی زندگی کے دن پورے کر چکے تھے ’’زندہ ‘‘ ہو کر چند روز تک بالکل صحت یاب ہوگئے اور اس کے بعد پندرہ برس تک بقید حیات رہے۔
مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی وفات کا فوری سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مرزا اعظم بیگ لاہوری سابق اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر نے بعض بے دخل شرکاء کی طرف سے آپ کی خاندانی جائیداد میں حصہ دار بننے کے لئے نالش دائر کردی۔ اور مرزا غلام قادر صاحب اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتے ہوئے مقدمہ کی پیروی میں مصروف ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں بھی اور خاندان کے دوسرے تمام افراد کو بھی کھول کھول کر سنا دیا تھا کہ ہمارے لئے مقدمہ میں فتح یابی مقدر نہیں ہے اس لئے اس سے دستبردار ہونا چاہیے۔ لیکن وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے اور انہوں نے جواب دیا کہ اب ہم مقدمہ میں بہت کچھ خرچ کر چکے ہیں۔ اگر پہلے کہتے تو ہم مقدمہ نہ کرتے مگر یہ بے حقیقت بات تھی۔ دراصل انہیں اپنی کامیابی کا ابتداء سے کامل یقین تھا اور ماتحت عدالت میں کامیاب بھی ہوگئے مگر بالاخر چیف کورٹ میں ان کے خلاف ڈگری ہوئی اور تمام عدالتوں کا خرچہ بھی ان کے ذمے پڑا ۔ اور پیروی مقدمہ میں جو بھاری قرضہ اٹھایا تھا وہ بھی ادا کرنا پڑا ۔جس وقت ڈگری ہو جانے کی خبر آئی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تھے مرزا غلام قادر صاحب باہر سے کانپتے ہوئے ڈگری کا پرچہ ہاتھ میں لئے اندر آئے اور حضرت کے سامنے وہ کاغذ ڈال دیااور کہا’’لے غلام احمد جوو کہنداسی اوہوای ہوگیا اے ‘‘۔ یعنی دیکھو غلام احمد جوتم کہتے تھے وہی ہوگیا ہے ۔ اور پھر غش کھا کر گر گئے۔ بہرحال انہیں ڈگری سے شدید صدمہ ہوا۔ اور وہ اس غم میں سخت بیمار ہوگئے اور یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ آپ تقریباً دو سال اس بیماری میں مبتلا رہے۔ جس دن آپ کی وفات مقدر تھی۔ اس کی صبح کو حضرت اقدس کو الہام ہوا کہ ’’جنازہ ‘‘ اور شام ۷ بجے وہ انتقال کر گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد الٰہی اور خدمت دین میں جس درجہ استغراق تھا اسی قدر شیفتگی اپنے والد بزرگوار کے بعد مرزا غلام قادر صاحب کو دینوی معاملات میں تھی۔ ایک کا دل اسلا م کی گم گشتہ حکومت کو دنیا بھر میں قائم کرنے کے لئے ہر لمحہ مضطرب اور بے قرار تھا اور دوسرے کے مدنظر فقط قادیان کی مٹی ہوئی ریاست کے باقی ماندہ نقوش کا رنگ و روغن اور ان کی حفاظت تھی۔
مطمح نظر کا یہ بعد المشرقین ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مسلک ہمیشہ ناگوار گزرتا تھا لیکن اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح کشفی آنکھ سے کبھی یہ دیکھ پاتے کہ جس جائیداد کی واپسی کی خاطر وہ اپنی عمرو دولت ضائع کر رہے ہیں وہی آپ کے چھوٹے بھائی کی روحانی برکتوں کے طفیل کچھ عرصہ بعد خود بخود ان کے خاندان میں منتقل ہو جائے گی اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے خاندان کی روحانی عظمت کا سکہ ساری دنیا پر بیٹھ جائے گا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ اس حقیر اور معمولی مقصد کا خیال تک دل میں لاتے ۔ انہیں حضرت مسیح موعود ؑ نے مقدمہ میں ناکامی کی قبل ازوقت خبر بھی دی مگر وہ اپنی افتادہ طبع کے باعث اپنی رائے بدلنے پر قادر نہیں ہو سکے ۔
اس خالص دینی نقطہ نگاہ سے قطع نظر وہ بڑے طنطنے کے انسان تھے شکل و شباہت نہایت درجہ پر رعب پائی تھی انہوں نے محکمہ نہر اور قطع گورداسپور کے دفتر میں ایک لمبا عرصہ ملازمت کی اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے اور معاملہ فہمی سے حکومت کے بڑے بڑے افسروں کو اپنا مدح بنا لیا۔ وہ شجاعت اور غریب پروری کی نہایت اعلیٰ صفات سے پوری طرح متصف تھے۔ آپ کو اگرچہ حضرت اقدسؑ کے روحانی مشرب سے کوئی مناسبت نہیں تھی مگر آپ حضور کا احترام کرتے تھے۔ آپ کے روحانی کمالات شب بیداری اور دعائوں کی قبولیت کے قائل تھے۔ خاندانی مذاق کے موافق شعرو شاعری میں بھی درک تھا اور مفتون تخلص کرتے تھے۔
مرزا غلام قادر صاحب مرحوم لاولد تھے اوران کی جائیداد کے بھی آپ ہی وارث تھے ان کے ورثاء میں آپ کے سوا کوئی اور شخص ہوتا تو اپنے بھائی کی وفات کے معاً بعد اس جائیداد پر قابض ہو جاتا مگر آپ نے اس موقعہ پر یہ شاندار نمونہ پیش فرمایا کہ آپ نے اپنی بھاوج (۱۰) حرمت بی بی صاحبہ کی دلداری کے لئے جائیداد پر قبضہ نہیں کیا بلکہ پوری جائیداد اپنے فرزند اور ان کے متبنی حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان (۱۱) احمد صاحب کے زیر انتظام کر دی اور خود بد ستور اعلائے کلمۃ الاسلام ہی میں مصروف رہے ۔ بعد کو جب وہ ملازم ہوگئے اور جائیداد تقسیم ہو کر نصف ترکہ آپ کے نام درج ہوگیا تب بھی آپ کو ان معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مرزا اسمٰعیل بیگ صاحب یا دوسرے خدام اس کی نگرانی کرتے تھے اور جو کچھ وہ لا دیتے حضرت اقدس تحقیق کئے بغیر وصول کر لیتے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ بعض ہوشیار کارندے چالاکی سے آپ کو نقصان بھی پہنچا دیتے ۔ مگر آپ ان باتوں سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنی دینی خدمت میں مستغرق رہتے تھے۔ دراصل بات یہ تھی کہ آپ کی بھاوج نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو رسمی طور پر متبنی قرار دیا تھا اور درخواست کی تھی کہ اسے نصف حصہ دے دیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبنیت کے سوال پر تو صاف صاف کہدیا کہ اسلام میں یہ جائز نہیںہے۔ مگر محض ان کی دلداری کی خاطر آدھی جائداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام لکھ دی اور یہ سمجھ لیا کہ آپ نے ان کا حصہ اپنی زندگی میں ادا کر دیا ہے مرزا غلام قادر صاحب مرحوم نے اپنی زندگی میں ڈگری ہونے کے باوجود فریق مخالف کو جائیداد سپرد نہیں کی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات کے بعد جہاں مرزا سلطان احمد صاحب کو نصف جائیداد دی وہاں انہیں بلا کر قبضہ دے دینے کا ارشاد بھی فرمایا۔ نیز اراضی کی تقسیم کے متعلق نصیحت فرمائی کہ شرکاء جس طرح چاہیں تقسیم کر لیں تم دخل نہ دینا اور تسلیم کر لینا۔ چنانچہ اس موقعہ پر خاندان کے ایک قدیم کارکن کی طرف سے ( جو اس وقت مرزا اعظم بیگ ہی کے ملازم تھے) اگرچہ یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی طرح تقسیم قبول کرنے پر ہر گز آمادہ نہ ہوں۔ مگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں فریق مخالف کو قبضہ بھی دے دیا اور جائیداد کا ایک حصہ نہایت سستے داموں فروخت کرکے اخراجات مقدمہ میں ادا کر دیئے۔ (۱۲)
مقام ماموریت سے متعلق بعض مزید تفصیلات
ماموریت کا وہ منصب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۸۸۲ء میں عطا ہوا تھا اس کے متعلق بعض مزید تفصیلات اس سال آپ پر ظاہر کر دی گئیں اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ محدث اللہ ، عیسیٰ دوران اور خدا کے نبی ہیں(۱۳) عجیب بات یہ ہے کہ جیسا کہ یہودی تاریخ کے مطابق حضرت مسیح ناصری اپنے متبوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے ٹھیک ۱۲۷۲برس بعد پیدا ہوئے تھے اسی حضرت اقدس علیہ السلام کو بھی رسول اکرم ﷺ کے دعویٰ رسالت سے ٹھیک ۱۲۷۲ برس بعد ’’عیسیٰ ‘‘ کے عہدے پر سر فراز فرمایا گیا ۔ آنحضرتﷺ نے ۶۱۰ء میں دعویٰ نبوت فرمایا اور ٹھیک ۱۲۷۲سال بعد ۱۸۸۳ء میں یہ الہامات نازل ہوئے گویا مسیح موسوی کا جسمانی اور مسیح محمدی کا روحانی ظہور اپنے اپنے دائرہ میں ایک ہی سال میں وقوع میں آیا۔ (۱۴)
جیسا کہ ابتدا میں بتایا جا چکا ہے ان الہامات کے نزول کے ساتھ تصرف الٰہی سے یہ ہوا کہ آپ پر اپنی بعثت کے ابتدائی ایام میں یہ راز بالکل نہیں کھلا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے براہین احمدیہ حصہ چہارم میں یہ رسمی عقیدہ بھی درج فرمادیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ۔ حضرت مسیح موعودؑ کا اس زمانہ میں اپنے قلم سے مسیح ناصری کی دوبارہ آمد کا اقرار کرنا خدائی مصلحت کے مطابق اور حضور کی سادگی اورعدم بناوٹ پر ایک چمکتا ہوا نشان تھا۔ چنانچہ بعد کو جب دعویٰ مسیحیت کے وقت آپ پر حیات مسیح کے متعلق گذشتہ عقیدہ کی آڑ میں اعتراضات کئے گئے تو آپ نے صاف جواب دیا کہ ’’جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دلائی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تو مسیح موعود ہے اور عیسیٰ فوت ہو گیا ہے تب تک میں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ ہے اسی وجہ سے کمال سادگی سے میں نے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں لکھا ہے ۔ جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو میں اس عقیدہ سے باز آگیا۔ میں نے بجز کمال یقین کے جو میرے دل پر محیط ہو گیا اور مجھے نور سے بھر دیا۔ اس رسمی عقیدہ کو نہ چھوڑا ۔ حالانکہ اسی براہین میں میرا نام عیسیٰ رکھا گیا تھا اور مجھے خاتم الخلفاء ٹھہرایا گیا تھا اور میری نسبت کہا گیا تھا کہ توہی کسر صلیب کرے گا۔ اور مجھے بتلایا گیا تھا تیری خبرقرآن و حدیث میں موجود ہے اور توہی اس آیت کا مصداق ہے ۔ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرۃ علی الدین کلہ۔ نیز فرمایا۔’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدو مد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جمارہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ توہی مسیح موعود ہے۔ پس جب اس بارہ میں انتہاء تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا فاصدع بما تومر یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روز روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیا تب میں نے یہ پیغام لوگوں کو سنا دیا یہ خدا کی حکمت عملی میری سچائی کی ایک دلیل تھی۔ اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر ایک نشان تھا اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور انسانی منصوبہ اس کی جڑ ہوتی تو میں براہین احمدیہ کے وقت میںہی یہ دعویٰ کرتا کہ میں مسیح موعود ہوں۔‘‘(۱۵)
مسلمانان عالم کے روشن مستقبل کے متعلق ایک خبر
انیسویں صدی کا ربع آخر دنیائے اسلام کے لئے نہایت درجہ مایوس کن ، جگر سوز اور روح فرسادور تھا۔ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کے ’’انقلاب ‘‘ کے بعد مغلیہ خاندان کی بساط سیاست پلٹ چکی تھی۔ ترکی اور ایران کی منڈیوں پر یورپ کے سرمایہ دار قابض تھے۔ مصر نہر سویز کے جاری ہونے پر برطانوی اقتدار کے شکنجے میں آچکا تھا اور وہاں احمد عربی پاشاکی قیادت میں فرنگی اور ترکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک اٹھ چکی تھی اور برطانیہ کی امداد کے لئے ہندوستانی فوج کی نئی کمک پہنچ رہی تھی عرب قبائل والئی نجد کے خلاف خانہ جنگی میں مصروف تھے۔ ٹیونس ، الجیریا اور مراکش فرانسیسی اثر کے زیر نگین تھے اور ایران میں ہر طرف بد نظمی اور ابتری کا دور دورہ تھا۔ (۱۶) اور یورپ کی سیاسی قوتیں جو طوفان بن کر اٹھی تھیں ہر طرف آندھی بن کر چھا چکی تھیں اور اسلامی دنیا مرد بیمار کی طرح سسکتے ہوئے بزبان حال پکار رہی تھی۔
وہ بیمار قریب مرگ ہے اسلام واویلا مسیحا کو نہیں ہے جس کی امید شفاباقی (۱۷)
اللہ تعالیٰ نے اسلامی دنیا کی زہرہ گداز اور درد انگیز کس مپرسی کے اس دور میں مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ رویا خبر دی کہ ’’عنایت الہٰیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہے اور یقین کامل ہے کہ اس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہوگئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا۔ کہ ہریک برکت ظاہری اور باطنی اسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘(۱۸)
مسلمانوں کی ازسر نو ترقی اور عروج کے بارہ میں یہ تاریخی الہام بھی نازل ہوا کہ ’’بخرام کہ وقت تو نزدیک رسیدوپائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد‘‘ یعنی خوش ہوکہ تیری ترقی کا وقت قریب آپہنچا اور مسلمانوں کا قدم ایک بہت بلند مینار پر مضبوط پڑا۔ اس الہام الٰہی میں مسلماناں عالم کے عظیم الشان اور روشن مستقبل کی خبر دی گئی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی ان بشارتوں کے مطابق اس کے فضل سے نہ صرف ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء؁ سے پاکستان ایسی عظیم الشان اسلامی مملکت معرض ظہور میں آچکی ہے بلکہ دنیا کے مسلمان پستی کی حالت سے نکل کر آہستہ آہستہ شان وشوکت کے اس مضبوط اور بلند مینار کی طرف آرہے ہیں جس کی خبر آپ کو دی گئی تھی۔ ایران ۔مصر ٹیونس،مراکش اورلیبیا اب غیر ملکی چنگل سے آزاد ہوچکے ہیں ۔سوڈان خود مختار ہوچکا ہے ۔انڈونیشیا میں مسلمان حکومت قائم ہوچکی ہے۔ ترکی بڑی تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ الجیریا وغیرہ ممالک کو ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں ہیں مگران کی تحریک آزادی عالمی رائے کا مرکز بن رہی ہے۔ غرض ۱۸۸۳ء؁ کے مایوس کن اور خطرناک حالات کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے اوراس کی جگہ ایک حوصلہ افزا ماحول نے لے لی ہے۔(جولائی ۱۹۶۲ء؁ میں الجیریا بھی آزاد ہوچکا ہے )
بانی آریہ سماج پرآخری اتمام حجت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء ہی سے تبلیغ دین کا ایک پرجوش اوربے پناہ جذبہ عطا ہوا تھا اورآپ غیر مذاہب کے سربرآوروہ رہنمائوں کو اسلام کا پیغام
پہنچانا اوران کی ملحدانہ تعلیمات وعقائد کا رد کرنے کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے ۔آپ نے ۱۸۷۸ء؁ میں ’’پنڈت دیانندجی سرسوتی ’’ کوروحوں کے ان گنت ہونے کے متعلق چیلنج دے کرخط وکتابت کی جو طرح ڈالی تھی اس کا مقصد وحید بھی یہی تھا کہ وہ ایک جدید ہندو فرقہ کے بانی تھے ۔اگروہ اپنے غلط اوربے بنیاد عقائد سے رجوع کرکے آپ کی طرف متوجہ ہوجاتے تو شاید ہندوجاتی میں اسلام کے متعلق ایک عام روپیدا ہوجاتی لیکن افسوس پنڈت جی نے داعی حق کی آواز سن کر چپ سادھ لی۔ اورپوری عمر اپنے غلط، بے حقیقت اورخود ساختہ عقائد کے پرچار میں بسر کردی اوراسی بے خبری میں ۳۰۔اکتوبر ۱۸۸۳ء؁ کو اس جہان سے کوچ کرگئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات سے صرف چھ ماہ قبل ان پر آخری دفعہ اتمام حجت کرنے کے لئے متعدد رجسٹری خطوط لکھے جنمیں صاف لفظوں میں یہ انتباہ کرتے ہوئے کہ دنیا چند روزہ ہے اورآخر کار خدا سے معاملہ پڑنے والا ہے۔ انہیں ازراہ شفقت ومحبت توجہ دلائی کہ وہ اپنے باطل خیال پر تعصب وعناد سے جمے رہنے کی بجائے قرآن مجید کی صداقت کے عقلی دلائل اوراس کی روحانی برکات ملاحظہ کرنے کے لئے حضور کی تصنیف’’براہین احمدیہ‘‘ کامطالعہ کریں۔ نیز یہ وعدہ بھی فرمایا کہ اگروہ حق وصداقت کی جستجو میں اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر رضامند ہوں تو انہیں یہ قیمتی کتاب مفت ارسال فرمادیں گے۔ آپ نے انہیں یہ پیشکش بھی فرمائی کہ کتاب کے غیرجانبدارانہ مطالعہ کے بعد بھی ان کی نظر میں اسلام کی صداقت مشکوک رہے تو وہ مزید تسلی وتشفی کے لئے قادیان آئیں اوران کی آمدورفت اورقیام کے واجبی اخراجات آپ خود برداشت کریں گے ۔پنڈت دیانند جی نے ان خطوط کی رسید بجھوادی مگر اپنی گزشتہ روایات کے مطابق اس بارہ میں آخر وقت تک بالکل ساکت رہے۔
پنڈت جی کی یہ اتنی کھلی شکست تھی کہ ان کے سوانح نگاروں نے جہاں ان کی زندگی کے واقعات پر تفصیلی قلم اٹھایا وہاں اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ تک کرنے کی جرأت نہیں کر سکے۔ پنڈت دیانند کی وفات کے متعلق بھی آپ کوقبل از وقت اطلاع دی گئی تھی جسے آپ نے قادیان کے ہندوئوں اورآریوں کو بتادیا تھا۔ اس طرح پنڈت دیانند کی زندگی توان کی ہزیمت وشکست کا ثبوت تھی ہی ان کی موت بھی اسلام کی زندگی کا نشان بن گئی ۔






ماموریت کا تیسرا سال
حضرت اقدسؑ کا پہلا سفرلدھیانہ(۱۸۸۴ء؁)
لدھیانہ کے عقیدت مندوں کا اصرار:۔ ’’ براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت نے یوں تو ملک بھر میں ایک تہلکہ مچادیا تھا مگرلدھیانہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ یہاں حضرت اقدسؑ کے عقیدت مندوں کی ایک جماعت قائم ہوگئی تھی جس میں حضرت صوفی احمد جان صاحب‘قاضی خواجہ علی صاحب (۱) نواب علی محمد صاحب آف جھجر، (۲) مولوی عبدالقادر صاحب،(۳) شہزادہ عبدالمجید صاحب (۴) میر عباس علی صاحب وغیرہ بہت سے نفوس شامل تھے۔ یہ بزرگ آپ کے حلقہ ارادت میں آنے کے بعد ہزار جان سے چاہتے تھے کہ حضرت اقدسؑ ان کے ہاں لدھیانہ تشریف لائیں اوراس غرض سے ان کی طرف سے ۱۸۸۲ء؁ میں باصرار درخواست بھی حضور انور کی خدمت میں پہنچی اور حضور نے اس ازراہ شفقت منظور فرماتے ہوئے وعدہ بھی کرلیا۔ لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے کہ مختلف اوقات میں عزم سفر کرنے کے باوجود اس سال وہاں جانے کی نوبت نہ آسکی ۔۱۸۸۴ء؁ کے آغاز میں لدھیانہ کے دوستوں نے ایک دفعہ پھر میر عباس علی صاحب کے ذریعہ سے (جوان دنوں لدھیانہ میں گویا حضرت اقدس کے نمائندے تھے اور جن کے متعلق حضرت اقدس نے یہاں تک حکم دے رکھاتھا کہ لدھیانہ سے جو دوست حضور کی ملاقات کے لئے آئیں پہلے ان سے مل کر آئیں تا تسلی رہے) باربار اپنی اس دلی تمنا کا اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ اذن الٰہی کے بغیر کوئی قدم اٹھانا معصیت خیال کرتے تھے اس لئے آپ نے میر عباس علی صاحب کو ۱۸۔جنوری ۱۸۸۴ء؁ کو تحریر فرمایا کہ ’’کچھ خداوند کریم ہی کی طرف اسباب آپڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں ۔نہیں معلوم حضرت احدیت کی کیا مرضی ہے عاجز بندہ بغیر اس کی مشیت کے قدم اٹھا نہیں سکتا۔نیز لکھا کہ ’’لوگوں کے شوق اورارادت پرآپ خوش نہ ہوں حقیقی شوق اور ارادت کہ جو لغزش اورابتلاء کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے ۔ لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتا ہے‘‘ اس سلسلہ میں انہیں اپنا ایک رؤیا بھی لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میر عباس علی صاحب کی باطنی کیفیت کے متعلق یہ نظارہ دکھایا گیا تھا۔ کہ آپ ایک مکان میں ہیں اور بعض نئے نئے آدمی آپ سے ملنے آئے ہیں اور میر عباس علی صاحب بھی ان کے ساتھ ہیں اوریہ سب حضور سے بیزار ہوکرایک دوسرے مکان میں جابیٹھے حضور ان لوگوں میں جن میں شاید میر صاحب بھی ہیں امامت کی غرض سے تشریف لے گئے لیکن پھر بھی انہوںنے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں تب حضور نے ان سے کنارہ کش ہوکر باہر نکلنے کے لئے قدم اٹھایا معلوم ہوا کہ ان سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو میر صاحب تھے(۵) اس غیبی اطلاع پر تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت عطا کردی گئی تو آپ نے میر عباس علی صاحب کو جو انہی دنوں حضور کی خدمت میں قادیان آئے ہوئے تھے یہ ہدایت فرمائی کہ لدھیانہ میں آپ کے لئے کوئی ایسی قیام گاہ تجویز کی جائے جس میں تخلیہ اور ملاقات کے لئے الگ الگ کمرے ہوں اوران میں مختصر ضروری سامان بھی موجود ہو۔ میر صاحب حضرت کا فرمان سن کر خوشی خوشی لدھیانہ پہنچے اور حضور کے استقبال کے لئے تیاریاں ہونے لگیں۔ لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مریدوں کا ایک جال بچھا ہوا تھا انہیں آپ نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کی خصوصی اطلاع دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ کثیر تعداد میں اسٹیشن پر حاضر ہوں۔ محلہ صوفیاں میں جہاں میر عباس علی صاحب سکونت رکھتے تھے انہیں کے اعزہ واقارب سے ایک دوست ڈپٹی امیر علی صاحب تھے جن کا مکان حضرت کی فردوگاہ کے لئے بہت موزوں تھا۔ مکان کی چابی ڈپٹی صاحب کے چچا میر نظام الدین صاحب کے پاس تھی جب انہیں بتایا گیا کہ اس مکان پر حضرت اقدس کے قیام فرمانے کی تجویز ہے تو انہوںنے بخوشی چابی دے دی ۔انہیں کہا گیا کہ وہ مکان میں سے تکلفات کا سامان اٹھالیں کیونکہ للہی محفل ہے اس میں غریب وامیر آئیں گے۔ ہم یہاں چٹائیاں بچھادیں گے مگرانہوںنے جواب دیا کہ میرے سامان کو قدم بوسی کی برکت نصیب ہوگی اسے یہیں رہنے دیا جائے ہم اسے اپنے ساتھ تھوڑا ہی لے جائیں گے حضرت صوفی احمد جان صاحب نے اپنی فراست کی بناء پر اپنے مریدوں کو پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ احادیث میں اس زمانہ کے مامور کا حلیہ موجود ہے اس لئے اگرچہ میں نے حضرت کی پہلے کبھی زیارت نہیں کی میں آپ کو از خود پہچان لوں گا۔
لدھیانہ میں تشریف آوری اوربے مثال استقبال:۔ غرض یہ کہ اہل لدھیانہ حضرت اقدسؑ کی تشریف آوری کیلئے نہایت بے قراری سے چشم براہ تھے کہ حجور اطلاع کے مطابق اپنے تین خدام حافظ حامد علی صاحب مولوی جان محمد صاحب(۶) اور لالہ ملاوامل صاحب کی رفاقت میں لدھیانہ اسٹیشن پر تشریف لے آئے۔ یہ ۱۸۸۴ء؁ کی پہلی سہ ماہی کا واقعہ ہے ۔اسٹیشن پر زائرین کا بے پناہ ہجوم تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر امڈ آیا ہے۔ لدھیانہ کے دوستوں میں میر عباس علی صاحب کے سوا کوئی بھی حضور کی شکل مبارک سے واقف نہیں تھا اس لئے جب گاڑی کا وقت قریب آیا تو میر صاحب اوران کے ساتھ بہت سے دوست پلیٹ فارم کے اندر چلے گئے اور لوگوں کی نظریں اس طرف جم گئیں کہ میر صاحب جس بزرگ سے مصافحہ کریں گے وہی حضرت اقدس ہوں گے لیکن اتفاق یہ ہوا کہ حضور اپنے خدام کے جھرمٹ میں گاڑی کے اگلے ڈبوں سے اتر کر پھاٹک کی طرف تشریف لے آئے۔ پھاٹک پراس وقت سید میر عنایت علی صاحب کھڑے تھے۔(۷) جو یہ خیال کرکے پہلے ہی سے یہاں آگئے تھے کہ حضرت اقدس بہر حال یہیں سے گزریں گے۔ اور گو انہیں حضور کی زیارت کا قبل ازیں موقعہ نہیں ملا تھا مگر آنے والے مسافروں میں سے جونہی ان کی نظر حضور کے مقدس اورنورانی چہرے پر پڑی وہ فوراً بھانپ گئے کہ حضرت اقدس یہی ہیں اورجھٹ مصافحہ کرتے ہوئے دست بوسی کرلی۔ اس موقعہ پر حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓ نے بھی جیسا کہ انہوں قبل ازوقت بتادیا تھا اسٹیشن پر حضور کو دیکھتے ہی بتادیا کہ حضرت اقدس یہ ہیں حضرت صوفی صاحب کے ساتھ اس وقت ان کے دونوں فرزند یعنی حضرت پیر منظور محمدؐ صاحب اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور متعدد مرید شاگرد مثلاً مولوی قطب الدین صاحب بھی موجود تھے(۸) جوان دنوں تحصیل علم کی خاطرلدھیانہ میں مقیم تھے ۔ مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ حضور کو دیکھتے ہی میری زبان سے نکلا۔ھٰذا لَیسَ وَجہٗ کاذِبٍ۔
اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو باہر تشریف لاچکے تھے مگرمیر عباس علی صاحب اوران کے ساتھی ابھی تک آپ کی تلاش میں سرگرداں تھے جب انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی تو وہ بھی مختصر وقفہ کے بعد باہر آگئے اور حضور کو دیکھتے ہی مصافحہ کے لئے لپکے ان کا مصافحہ کرنا ہی تھا کہ زائرین شوق دیدار میں ٹوٹ پڑے۔ نواب علی محمد صاحب رئیس آف جھجر نے میر عباس علی صاحب سے کہا کہ میری کوٹھی قریب ہے اور اس کے گرد باغ بھی ہے بہت لوگ حضرت اقدس کی زیارت کے لئے آئیں گے۔ اگر آپ اجازت دیں تو حضرت صاحب کو یہیں ٹھہرا لیا جائے۔ میرصاحب نے کہ آج کی رات یہ مبارک قدم میرے غریب خانے پر پڑنے دیں کل آپ کو اختیار ہے۔ نواب صاحب موصوف مان گئے اور حضرت اقدس علیہ السلام قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر محلہ صوفیاں میں ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت اقدسؑ کے ساتھ اس وقت ایک بڑا مجمع تھا گویا ایک جلوس کی سی شکل تھی۔ جب مکان پر پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ حضور نے پہنچتے ہی وضو کیا اور آخر میں اپنی مالیدہ کی جرابوں پر مسح کیا (۹) بعض لوگوں نے جو موجود تھے جب آپ کو پائوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا آپس میں اس کے جواز کے متعلق سرگوشیاں کیں۔ حضرت اقدس جب وضو کرکے مسجد محلہ صوفیاں کے اندر تشریف لائے تو مولوی موسیٰ صاحب نے استفسار کیاکہ حضور اس پر مسح جائز ہے؟ حضور نے فرمایا جائز ہے۔ امامت کے لئے عرض کیا گیا تو فرمایا نہیں نماز مولوی عبد القادر صاحب پڑھائیں گے چنانچہ جب تک حضرت اقدس کا لدھیانہ میں قیام رہا ( نماز فجر کے سوا جس میں حضور خود امامت کراتے تھے) باقی سب نمازیں مولوی صاحب ہی نے پڑھائیں۔
بعض لدھیانوی علماء کی ہنگامہ آرائی!:۔
پہلے روز شام کو میر عباس علی صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ دوسرے دن صبح کو قاضی خواجہ علی صاحب اور شام کو احمدؐ جان صاحب کے ایک مرید منشی رحیم بخش صاحب نے دعوت کی۔ لدھیانہ کی فضا اس وقت تک پر سکون تھی اور ابھی تک کوئی ناشگوار اور تلخ صورت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب شام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مولوی رحیم بخش صاحب کے ہاں تشریف لے گئے تو لدھیانہ کے بعض خدا ناترس علماء کی ایک افسوناک کارروائی سامنے آئی۔ واقعہ یوں ہوا کہ حضرت اقدس آٹھ دس اصحاب کے ہمراہ منشی صاحب کے گھر پہنچے جہاں آپ کو پہلے تو ایک کھلے کمرے میں تشریف رکھنے کے لئے کہا گیا لیکن جب کھانا تیار ہو گیا تو حضور کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھادیا گیا۔ کھانا کھاچکے تو مولوی عبدالعزیز لدھیانوی نے ہنگامہ آرائی کے لئے اپنا ایک ایلچی بھیج دیا۔ جس نے آتے ہی حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مولوی عبدالعزیزی صاحب کہتے ہیں قادیان والے مرزا صاحب یا ہمارے ساتھ بحث کریں یا کو توالی چلیں۔ حضرت صوفی صاحب نے جواب دیاکہ ہم کیوں کو توالی چلیں کیا ہم نے کسی کا قصور کیاہے؟ اگر تمہارے مولوی صاحب نے کوئی بات دریافت کرنی ہے تو اخلاق وانسانیت کے ساتھ محلہ صوفیاں میں جہاں حضرت اقدس ٹھہرے ہوئے ہیں دریافت کرلیں حضرت صوفی صاحب نے اپنا جواب ختم کیا ہی تھا کہ خود میزبان یعنی منشی رحیم بخش صاحب نے انہیں یہ خبرسنائی کہ جس کمرہ سے آپ پہلے اٹھ کر آئے ہیں وہاں بعض لوگ جمع ہیں اپنے شکوک پیش کرنا چاہتے ہیں ۔حضرت صوفی صاحب نے انہیں سمجھایا کہ حضرت صاحب کو سفر کی وجہ سے تکان ہے یہ لوگ حضرت اقدس کی قیام گاہ محلہ صوفیاں پر آجائیں لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے یہ سن کر فرمایا کہ نہیں ہم بیٹھیں گے اوران لوگوں کی بات سنیں گے کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔یہ کہہ کر حضرت اقدس ؑ نے اپنے خدام کے ساتھ پہلے کمرے کی طرف چل دیئے یہاں آئے تو دیکھا کہ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہے اور تل دھرنے کو جگہ نہیں ۔ حضور اورآپ کے ساتھیوں کو بمشکل جگہ ملی ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شکوک پیش کریں۔ چنانچہ وہ اعتراضات کرتے رہے اور حضرت مسیح موعودؑ ان کے جوابات دیتے رہے لیکن ان شوریدہ سروں کو تحقیق حق تو مقصود نہیں تھی وہ تو لدھیانہ کے بعض مولویوں کی اشتعال انگیزی پر اپنے جوش غضب کا مظاہرہ کرنے کو آئے تھے جو کرتے رہے۔ اسی موقعہ پر ایک شخص نے یہ سوال بھی کیا کہ آپ بھی پیشگوئیاں فرماتے ہیں اور نجومی اوررمال بھی کرتے ہیں ہمیں صداقت کا پتہ کس طرح لگے؟ حضور نے فرمایا کہ الٰہی نصرت نجومیوں اوررمالوں کے ساتھ نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام اورمامورین کو نصرت اورکامیابی ملتی ہے اوران کی جماعت روز بروز ترقی کرتی اوران کا اقبال ترقی کرتا ہے خدا کے مامور کا حوصلہ دیکھو کہ میر عباس علی صاحب تو لدھیانہ والوں کا بے جا جوش دیکھ کر گبھرا جاتے مگر حضرت کے چہرے پر قطعاً ملال کے آثار نہیں تھے اور آ پ پوری تسلی اوراطمینان کے لب ولہجہ میں انہیں فرماتے تھے کہ یہ لوگ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کو کرنے دو۔ آخر تھوڑی دیر بعد جب منشی رحیم بخش صاحب نے دیکھا کہ معاملہ طول کھینچ رہا ہے اور مخالفت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے تو انہوں نے کمال عقل مندی سے کہدیا کہ میں حضرت صاحب کو زیادہ تکلیف نہیں دینا چاہتا آپ لوگوں کے شکوک کے جواب حضرت صاحب نے کافی طور پر دے دیئے ہیں حضور کو تکان ہے چنانچہ حضرت اقدس واپسی کا قصد کرکے اٹھے تو صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ نے میر عباس علی صاحب کو مشورہ دیا کہ مولوی عبدالعزیز صاحب فساد کے خوگر ہیں دوسرے رستہ سے چلنا چاہئے ۔حضرت اقدس نے جو قریب ہی کھڑے سن رہے تھے ۔اس موقعہ پر بھی کوہ استقلال بن کر ارشاد فرمایا نہیں اسی راستہ سے چلیں گے جس راستہ سے اندیشہ کیا جاتاہے غرض فوراً حضور اسی راستہ سے ڈپٹی امیر علی صاحب کے مکان تک تشریف لائے اور راستہ میں کسی شخص کو مزاحم ہونے کی جرات نہیں ہوسکی ۔چوڑے اوراونچے بازار کے سرے تک پہنچے تو لالہ ملاوامل نے میر عباس علی صاحب کو وہ رؤیا یاد دلایا جو حضور نے لدھیانہ والوں کی مخالفت کے متعلق لکھا تھا اوران سے پوچھا کہ وہ رؤیا پورا ہوگیا؟ میر عنایت علی صاحب نے جو اس وقت حضرت اقدس کے ہمراہ تھے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فی الواقع میر صاحب کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ اس وقت خود میر عباس علی صاحب نے کھلا اقرار کیا کہ حضور کی رؤیا کمال صفائی سے پوری ہوگئی ہے ۔اگلے دن صوفی احمد جان صاحب کے ہاں دعوت کا انتظام تھا دعوت ختم ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وہ بھی مزید برکت کے لئے ہمراہ ہوگئے ۔رستہ میں انہوںنے حضرت کے استفسار پر عرض کیا کہ میں نے بارہ چودہ سال رتڑ چھتڑ کی گدی میں مجاہدات کئے ہیں جن سے میرے
اندر اتنی زبردست طاقت پیدا ہوگئی ہے کہ اگر میں اپنے پیچھے آنے والے آدمی پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عادت مبارک کے مطابق اپنی سوٹی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا۔ صوفی صاحب اگر وہ گرجائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اس کو کیا فائدہ ہوگا؟ صوفی صاحب اہل باطن میں سے تھے یہ نکتہ سن کر پھڑ ک اٹھے اوراسی وقت حضور کے سامنے علم توجہ سے ہمیشہ کے لئے توبہ کرلی بلکہ اپنی معرکہ الاراء کتاب طب روحانی کو (جس میں انہوںنے توجہ کے کمالات اوربرسوں کے تجربات پر اتنی مفصل روشنی ڈالی تھی کہ لدھیانہ والوں نے انہیں مسیح دوران کے خطابات دے رکھے تھے) نہ صرف مرتے دم تک خود اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ اپنے مریدوں میں اشتہار دے دیا کہ علم توجہ اسلام سے مخصوص نہیں ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مریداسے دین اسلام کا جزو سمجھ کر استعمال نہ کرے۔ حضرت صوفی صاحب نے ’’طب روحانی‘‘ میں اعلان کیا تھا کہ اس سلسلہ میں ’’نجات جاودانی‘‘ اور’’کمالات انسانی‘‘ کے نام پر دو مزید حصے بھی شائع ہوں گے اورعملاً ان کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن اس کے بعد آپ نے وہ مسودہ لے کر چاک کرڈالا بعض لوگوں نے جو ’’طب روحانی‘‘ سے بے حد متاثرتھے بڑے اصرار کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ وہ چیر ا پھاڑا ہوا مسودہ ہی بھیج دیں تا اسی کو مرتب کر کے معلوم ہوسکے کہ کیا لکھا ہے لیکن آپ نے جواب دیا کہ ’’آں قدح ،شکست وآں ساقی نماند‘‘ پنجاب میں ایک آفتاب نکلا ہے جس کے سامنے ستارے رہبری نہیں کرسکتے ۔اس آفتاب کا نام مرزا غلام احمد ہے انہوںنے ایک کتاب’’براہین احمدیہ‘‘ لکھی ہے اسے منگوا کر پڑھو‘‘(۱۰)
زائرین کا ہجوم اور حضور کی مجلس علم وعرفان:۔ بہرکیف زبردست مخالفت کے باوجود جو آپ کی آمد پر اٹھائی گئی تھی لدھیانہ کے گردونواح سے روزانہ ہی صبح وشام بڑی کثرت سے لوگ حاضر ہوتے تھے ۔علماء اور رؤساء کا تو ایک تانتا بندھا رہتا تھا ۔بالخصوص حضرت صوفی احمد جان صاحب نقشبندی ،مولوی شاہ دین صاحب ، مولوی محمد حسن صاحب رئیس اعظم لدھیانہ ، نواب علی محمد خان صاحب جھجر، پیر سراج الحق صاحب نعمانی توپروانوں کی طرح آپ کے گرد رہتے تھے ۔حضرت صوفی احمد جان خود ایک بڑی جماعت کے روحانی پیشوا تھے لیکن وہ حضرت اقدس کی مجلس میں نہایت اخلاص وارادت کے ساتھ دوزانو ہوکر باادب بیٹھتے اور عقیدت مند مریدوں کی طرح آپ کے کلمات طیبات سنتے اور فیض اٹھاتے ۔یہی حال پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا تھا۔ حضرت کی مجلس میں ہر قسم کے دینی مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا اور حضوربڑی دیر تک حقائق ومعارف کے خزانے لٹاتے اور لوگ مالا مال ہوتے تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ حضور نے اس امر پر لطیف روشنی ڈالی کہ ایمان اوریقین لانے کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ کچھ اخفاء بھی ہواگر معاملہ ایسا صاف اورروشن ہوجائے جیسا کہ نصف النہار کے وقت ہوتا ہے اس وقت ایمان لانے کا ثواب نہیں ہوتا۔ اجراسی وقت ہے کہ یُوْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے مطابق کچھ غیبوبت بھی ہواور ایمان لایا جائے ایک دن کسی شخص کے سوال پر حضور نے مسئلہ توحید پر تقریر فرمائی جو کئی گھنٹے تک جاری رہی ۔ حضور کی اعجازی تقریروں میں روحانیت کا دریا بہتا ہوا نظر آتاتھا اورکسی کو آج تک ان آسمانی علوم وحقائق ونکات سننے یا پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ اسی دوران میں شہر کے بعض علماء مثلاً مولوی عبدالقادر صاحب نے بھری مجلس میں حضور سے استدعا کی کہ حضور ان کی بیعت قبول فرمائیں۔ مگر حضور نے بلاتامل جواب دیا۔’’ لست بما مور‘‘ ( میں مامور نہیں ہوں) اورپھر اس مجلس میں ٹھہرنا ہی گوارانہ فرمایا۔ اورفوراً باہر سیر کے لئے چل دیئے۔ حضرت کے اس طرز جواب پرآپ کے ارادتمند دل مسوس کررہ گئے۔ مگر جواب مختصر ہونے کے باوجود ہر پہلو سے مکمل تھا اس لئے پھر کسی کو آپ کے سامنے بیعت کی درخواست کرنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ اور میر عباس علی صاحب نے بعد کو مولوی عبدالقادر صاحب سے کہا آپ بہت سادہ ہیں ایسی بات علیحدگی میں کرنا چاہیے تھی۔
لدھیانہ میں معمول:۔ قیام لدھیانہ کے دوران میں حضرت اقدس اپنے معمول کے مطابق اکثر سیر کو بھی تشریف لے جاتے تھے ایک مرتبہ جنگل میں نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ عرض کیا گیا نماز کا وقت ہوگیا ہے آپ نے فرمایا بہت اچھایہیں پڑھ لیں ۔ غرض وہیں مولوی عبدالقادر صاحب نے نماز پڑھائی۔
ٹمپرنس سوسائٹی میں تقریر کرنے سے انکار
لدھیانہ میں ٹمپرنس سوسائٹی کا جلسہ تھا جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی۔ مختلف فرقوں کے لوگ جمع تھے حاضرین نے آپ سے تقریر کے لئے پر زور درخواست کی مگر آپ نے منظور نہ فرمایا ۔ جب اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور آپ سے انکار کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا اگر میں تقریر کرتا تو ضرور تھا کہ میں بیان کرتا کہ شراب سے روکنے والوں کے سردار محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جن کے ذکر کی یہ لوگ اجازت نہ دیتے اور میری کیفیت یہ ہے کہ میں اس تقریر کو جس میں میرے آقا کا نام لیا جانے کی اجازت نہ ہو پسند نہیں کرتا۔
واپسی ۔
غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام تین چار روز تک علم و عرفان کی بارش برساتے اور اہل لدھیانہ کی روحانی تشنگی بجھاتے ہوئے واپس قادیان تشریف لے گئے (۱۱)
لدھیانہ کا دوسرا سفر :۔
لدھیانہ کے اس اولین سفر کے بعد حضور کو میر عباس علی صاحب کی عیادت کے لئے اسی سال ۱۴۔ اکتوبر کو دوبارہ لدھیانہ تشریف لانا پڑا۔ حضور نے اس دفعہ قبل از وقت محض سرسری سی اطلاع دی تھی تاہم قاضی خواجہ علی صاحب مولوی عبدالقادر صاحب اور نواب علی محمد خان صاحب آف جھجر حضورؑ کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ حضور کا قیام بہت مختصر تھا۔ صرف دو ایک دن ٹھہرے اور سنت نبوی ( ﷺ) کی تعمیل میں عیادت کا اسلامی فریضہ ادا کرنے کے بعد قادیان واپس تشریف لائے۔ (۱۲)
سفر مالیر کوٹلہ :۔
نواب محمد ابراہیم علی خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ کو ان دنوں اپنے بڑے بیٹے عشق علی خان کی وفات وغیرہ صدمات کی وجہ سے خلل دماغ کا عارضہ لاحق تھا اور انہوں نے ریاستی امور سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی ان کی والدہ صاحبہ کو حضرت اقدس کی آمد کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے یہ موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ سے اپنے ہاں تشریف لانے اور اپنے بچے کی شفایابی کے لئے دعا کرنے کی درخواست کی ۔ چنانچہ حضور قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر میر عنایت علی صاحب اور دوسرے آٹھ دس خدام کے ہمراہ مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور دعا کرتے ہی لدھیانہ پلٹ آئے۔ میر عنایت علی صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’ اس وقت تک ابھی مالیر کوٹلہ کی ریل جاری نہیں ہوئی تھی ۔ میں بھی حضور کے ہمرکاب تھا۔ حضرت صاحب نے یہ سفر اس لئے اختیار کیا تھا کہ بیگم صاحبہ یعنی والدہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے اپنے اہلکاروں کو لدھیانہ بھیج کر حضرت صاحب کو بلایا تھا کہ حضور مالیر کوٹلہ تشریف لاکر میرے لڑکے کو دیکھیں اور دعا فرمائیں کیونکہ نواب ابراہیم علی خاں کو عرصہ سے خلل دماغ کا عارضہ ہو گیا تھا۔ حضرت صاحب لدھیانہ سے دن کے دس گیارہ بجے قاضی خواجہ علی صاحب کی شکرم میں بیٹھ کر تین بجے کے قریب مالیر کوٹلہ پہنچے اور ریاست کے مہمان ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو بیگم صاحبہ نے اپنے اہلکاروں کو حکم دیا کہ حضرت صاحب کے لئے سواریاں لے جائیں تاکہ آپ باغ میں جاکر نواب صاحب کو دیکھیں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہمیں سواری کی ضرورت نہیں ہم پیدل ہی چلیں گے۔چنانچہ آپ پیدل ہی گئے اس وقت ایک بڑا ہجوم لوگوں کا آپ کے ساتھ تھا۔ جب آپ باغ میں پہنچے تو مع اپنے ساتھیوں کے ٹھہر گئے نواب صاحب کوٹھی سے باہر آئے اور پہلی دفعہ حضرت صاحب کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے لیکن پھر آگے بڑھ کر آئے اور حضرت صاحب سے السلام علیکم کیا اور کہا کہ کیا براہین کا چوتھا حصہ چھپ گیاہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ابھی تو نہیں چھپا مگر انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا۔ اس کے بعد نواب صاحب نے کہا کہ آئیے اندر بیٹھیں ۔ چنانچہ حضرت صاحب اور نواب صاحب کوٹھی کے اندر چلے گئے اور قریباً آدھ گھنٹہ اندر رہے ۔ کیونکہ کوئی آدمی ساتھ نہ تھا اس لئے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ اندر کیا کیا باتیں ہوئیں۔ اس کے بعد حضرت صاحب مع سب لوگوں کے پیدل ہی مسجد کی طرف چلے گئے اور نواب صاحب بھی سیر کے لئے باہر چلے گئے۔ مسجد میں پہنچ کر حضور نے فرمایا کہ سب لوگ پہلے وضوکریں اور پھر دو رکعت نماز پڑھ کر نواب صاحب کی صحت کے واسطے دعا کریں کیونکہ یہ تمہارے شہر کے والی ہیں ۔ اورہم بھی دعا کرتے ہیں ۔ غرض حضرت اقدسؑ نے مع سب لوگوں کے دعا کی اور پھر اس کے بعد لدھیانہ واپس تشریف لے آئے اور باوجود اصرار
کے مالیر کوٹلہ میں نہ ٹھہرے (۱۳)
سفر انبالہ ، پٹیالہ و سنور
۱۸۸۴ء میں حضرت انبالہ چھائونی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسر حضرت میر ناصر نواب صاحب مقیم تھے۔ سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں غلام قادر صاحب (ولد اللہ بخش ) عبدالرحمن صاحب( ولد اللہ بخش) اور منشی عبداللہ صاحب سنوری پر مشتمل ایک وفد بھجوایا تاکہ حضور کو سنور تشریف لانے کی دعوت دیں ۔ چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری کی درخواست پر حضور واپسی کے وقت سنور تشریف لے گئے۔ رستہ میں پٹیالہ میں بھی مختصر سا قیام فرمایا۔ آپ پٹیالہ سٹیشن پر پہنچے تو بے شمار لوگ آپ کی زیارت کے لئے موجو د تھے ۔ وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن صاحب خان بہادر سی آئی ای وزیر اعظم (۱۴) پٹیالہ نے جو آپ کے خاص ارادت مندوں میں سے تھے آپ کو شاہی بگھی میں بٹھایا اور اپنی کوٹھی میں لے گئے۔ حضرت اقدس نے پٹیالہ کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر بھی فرمائی اور کہا کہ یہ تمہارے وزیر شیعہ نہیں ہیں اہل سنت و الجماعت میں سے ہیں ان کے لئے تم بھی دعا کرو میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے اس کے بعد حضرت نے حاضرین سمیت ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اور بگھی پر سوار ہو کر سنور تشریف لے گئے۔ دوپہر کا کھانا تناول فرمانے کے بعد ظہرو عصر کی نمازوں کے لئے مسجد شیخاناں گئے۔ خدام نے حضرت اقدس سے بار بار عرض کیا کہ آپ نماز پڑھائیں مگر آپ نے یہی جواب دیا کہ اس مسجد کا امام جماعت کرائے۔ آخر کار حددرجہ اصرار ہوا تو پھر آپ ہی نے نماز پڑھائی ۔ حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی اس وقت منشی صاحب ؓ کے دادا محمد بخش صاحب بقید حیات تھے انہیں حضرت اقدس سے مصافحہ کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بعد ازاں پٹیالہ سے ہوتے ہوئے واپس انبالہ چھائونی روانہ ہوگئے ۔ (۱۵) اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔










ماموریت کا چوتھا سال
دعویٰ ماموریت اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت
(۱۸۸۵ء)
مارچ ۱۸۸۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے حکم پاکر اپنے مامور اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان عام فرمایا کہ آپ حضرت قادر مطلق جل شانہ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں تا نبی ناصری اسرائیلی (مسیح) کی طرز پر کمال مسکینی فروتنی و غربت و تذلل و تواضع سے اصلاح خلق کے لئے کوشش کریں۔ نیز یہ کہ آپ کو جناب الٰہی سے یہ علم بھی دیا گیا ہے کہ آپ مجدد وقت ہیں۔ اور روحانی طور پر آپ کے کمالات مسیح ابن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اور ایک کو دوسرے سے شدت مناسبت ومشابہت ہے اور آپ کو خواص انبیاء و رسل کے نمونہ پر محض بہ برکت و متابعت حضرت خیر البشر و افضل الرسل ﷺ ان بہتوں پر اکابر اولیاء سے فضیلت دی گئی ہے کہ جو آپ سے پہلے گزر چکے ہیں۔
ماموریت و مجددیت کے اس عظیم الشان دعویٰ کے ساتھ ہی آپ نے مذاہب عالم کے سربر آوردہ لیڈروں اور مقتدر رہنمائوں کو الٰہی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی کہ اگر وہ طالب صادق بن کر آپ کے یہاں ایک سال تک قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے دین اسلام کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کر لیں گے اور اگر ایک سال رہ کر بھی وہ آسمانی نشان سے محروم رہیں تو انہیں دو سور وپیہ ماہوار کے حساب سے چوبیس سوروپیہ بطور ہرجانہ یا جرمانہ پیش کیا جائے گا۔ (۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دعوت کی عالمگیر اشاعت کے لئے خدائی تحریک کے مطابق خاص اہتمام فرمایا۔ چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے بیس ہزار کی تعداد میں اردو انگریزی اشتہارات شائع کئے۔ اور ایشیا یورپ اورامریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی لیڈروں ، فرمانروائوں ، مہاراجوں، عالموں، مدبروں ، مصنفوں اور نوابوں کو باقاعدہ رجسٹری کرکے بھجوادیئے اور اس زمانہ میں کوئی نامور اور معروف شخصیت ایسی نہیں چھوڑی جس تک آپ نے یہ خدائی آواز نہ پہنچائی ہو۔ (۲)
اس دعوت سے بیرونی دنیا میں اس وقت بظاہر (۳) کوئی خاص جنبش پیدا نہیں ہوئی۔ مگر ہندوستان میں جو مذاہب عالم کا عجائب خانہ تھا۔ اس نے ایک زبردست زلزلہ پیدا کر دیا اور غیر مذاہب اس درجہ مبہوت اور دہشت زدہ ہوگئے کہ کسی کو آپ کی دعوت کے مطابق اسلام کی سچائی کا تجربہ کرنے کی جرات ہی نہ ہو سکی۔ آتھم صاحب امرتسر کے ایک منجھے ہوئے مشہور پادری تھے۔ حضرت اقدس ؑ نے انہیں مولوی قطب الدین صاحب کے ذریعہ سے اشتہار بھجوایا تو پادری عماد الدین صاحب اور بعض دوسرے پادری نیز امرت سر کے بعض رؤساء مثلا غلام حسن، یوسف شاہ وغیرہ بھی ان کی کوٹھی میں جمع ہوئے اور پادری آتھم اور دوسرے پادریوں کو قادیان جانے سے روک دیا۔ (۴) ہندوستان کی کروڑوں کی آبادی میں سے جن لوگوں نے قادیان کی روحانی تجربہ گاہ سے آزمائش پر بظاہر رضا مندی ظاہر کی وہ صرف تین تھے۔ منشی اندر من مراد آبادی۔ پادری سو فٹ ۔ پنڈت لیکھرام مگر جیسا کہ آئندہ واقعات نے کھول دیا یہ آمادگی بھی محض نمائش اور فریب تھی۔
منشی اند رمن صاحب مراد آبادی کا فرار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے اس دعوت کے جواب میں سرہیرا سنگھ (۵) سی ایس آئی مہاراجہ نابھہ کے اشارہ پر پہلے نابھہ اور پھر لاہور سے حضرت اقدس کو لکھا کہ وہ آسمانی نشان دیکھنے کے لئے ایک سال تک ٹھہرنا منظور کرتے ہیں مگر اس شرط پر کہ سات دن کے اند ر اندر چوبیس سو روپیہ ان کے لئے سرکاری بینک میں بطور پیشگی جمع کرادیا جائے۔ گوپیشگی رقم کے مطالبہ کا حضرت اقدس کی اصل دعوت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر حضرت اقدس چونکہ دل سے خواہاں تھے کہ ادیان باطلہ کا کوئی علمبردار میدان امتحان میں آئے اس لئے آپ نے چند ضروری اور ناگزیر شرائط کے ساتھ ان کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور لاہور میں مقیم اپنے اراتمندوں یعنی منشی عبدالحق صاحب، منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف صاحب کو فوری طور پر ہدایت فرمائی کہ وہ مطلوبہ رقم مہیا کرکے منشی صاحب کو اطلاع دیں اور آپ کاجواب بھی ان تک پہنچا دیں۔ مقررہ میعاد کے اختتام میں صرف ایک رات باقی تھی۔ اس لئے جو نہی حضرت اقدس کا خط لاہور میں پہنچا۔ حافظ محمد یوسف صاحب روپیہ کی تلاش میں راتوں رات اپنے ایک اہلحدیث دوست منشی سزاوارخاں صاحب پوسٹ ماسٹر کے ہاں جنرل پوسٹ آفس میں پہنچے اور حضور کی ہدایت کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا روپیہ موجود ہے مگر گھر پر ہے میں اس وقت جا نہیں سکتا تم چابی لے جائو اور جا کر روپیہ لے لو۔ اس پر حافظ صاحب ان کے گھر گئے اور ان کا پیغام دے کر چوبیس سو روپیہ لے آئے اور اپنے دوستوں سے کہا یہ مرزا صاحب کی تائیدربانی کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔ صبح ہوئی تو یہ اصحاب مطلوبہ رقم سمیت مرزا امان اللہ صاحب منشی امیر الدین صاحب خلیفہ رجب دین صاحب (۶) اور غالباً بابا محمد ؐ چٹو (۷) وغیرہ لاہور کے دوسرے سر کردہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر منشی اندر من صاحب مراد آبادی کی موعود جائے قیام پر پہنچے لیکن وفد کو یہاں آکر معلوم ہوا کہ منشی صاحب تو لاہور سے اسی روز فرید کوٹ چلے گئے ہیں۔ (۸) جس روز انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں مطلوبہ رقم کے لئے خط لکھا تھا۔
حضرت اقدس نے یہ ناشائستہ حرکت دیکھ کر ۳۰۔ مئی ۱۸۸۵ء کو ان کے فرار کا واقعہ اور اصل خط جو آپ نے وفد کے ذریعہ سے منشی صاحب کو بھجوایا بلا کم و کاست پبلک کے سامنے رکھ دیا۔ منشی اندر من صاحب نے یوں برسر عام اپنی ذلت دیکھی تو ہندوئوں کی اشک شوئی کرنے اور اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے بے سروپا اور مغالطہ انگیز اشتہار شائع کر ڈالا اور لکھا کہ پہلے مرزا صاحب نے خود ہی مجھ سے بحث کا وعدہ کیا اور جب میں اسی نیت سے مشقت سفر اٹھا کر لاہو رمیں آیا تو پھر میری طرف اس مضمون کا خط بھیجا کہ ہم بحث کرنا نہیں چاہتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ ایک اشتہار میں بڑی تفصیل سے منشی صاحب کی عہد شکنی ، کنارہ کشی اور حق پوشی پر روشنی ڈالتے ہوئے بالا خر پر میشر کے نام پر انہیں اپیل کی کہ ’’ اگر آپ طالب صادق ہیں تو آپ کے پر میشر کی قسم دی جاتی ہے کہ آپ ہمارے مقابلہ سے ذرا کوتاہی نہ کریں۔ آسمانی نشانوں کے دیکھنے کے لئے قادیان میں آکر ایک سال تک ٹھہریں اور اس عرصہ میں جو کچھ وساوس عقلی طور پر آپ کے دل پر دامنگیر ہوں وہ بھی تحریری طورپر رفع کراتے جائیں۔ پھر اگر ہم مغلوب رہے تو کس قدر فتح کی بات ہے کہ آپ کو چوبیس سوروپیہ نقد مل جائے گا اور اپنی قوم میں آپ بڑی نیک نامی حاصل کریں گے ۔‘‘ حضرت اقدس نے منشی صاحب سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر قادیان میں ایک سال تک ٹھہرنے کی نیت سے آنے کا ارادہ ظاہر کریں تو مراد آباد سے قادیان تک کا کل کرایہ بھی انہیں بھیج دیں گے ۔ اور چوبیس سور وپیہ کسی بنک سرکاری میں الگ جمع کر دیا جائے گا۔ (۹) لیکن منشی صاحب تو مہاراجہ صاحب نابھہ کے آلہ کاربن کر محض ڈرامائی انداز میں ایک شور و غوغا بلند کرنے آئے تھے ۔ وہ بھلا اس دعوت کو کیسے قبول کر لیتے ۔ چنانچہ حضرت اقدس کے جواب الجواب پر بالکل خاموش ہوگئے اور بظاہر یہ خط و کتابت بالکل بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ مگر کرشمہ قدرت ملاحظہ ہوکر اس کے چودہ پندرہ برس بعد لالہ نرائن داس صاحب پلیڈر مراد آباد کے فرزند اور منشی اندر من صاحب کے نواسے بھگوتی سہائے نے قبول اسلام کرکے آنحضرت ﷺ کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
پنڈت لیکھرام کی آمادگی اور مصلحت امیز کارروائیوں کے ساتھ فرار
دوسرا شخص جس نے حضرت اقدس کی دعوت پر بظاہر آمادگی کا اظہار کیا پنڈت لیکھرام تھا۔ پنڈت لیکھرام نے امرتسر میں کسی سے حضرت اقدس کا اشتہار ( مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہور) پڑھا اور ۳۔ اپریل ۱۸۸۵ء کو منشی اندر من جیسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان دعوت میں خود ساختہ رنگ بھرتے اور نئے معنے ڈالتے ہوئے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ وہ قادیان میں ایک سال تک رہنے اور نشان دیکھنے کا خواہاں ہے بشرط کہ آپ اول بحساب دو سو روپیہ ( ماہوار) کے کل ۲۴۰۰ روپیہ ایک سال کا داخل خزانہ سرکار فرما دیویں ۔ اور اقرار نامہ تحریر کر دیویں کہ اگر ایک سال تک آپ کی ہدایت اور آسمانی نشانات و معجزات و غیرہ سے تسلی نہ پاکر آپ کے دین کو قبول نہ کروں تو وہ مبلغان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو مل جاویں اور وہ روپیہ تا انقضائے ایک سال کے خزانہ سرکاری میں مکفول رہے اس کے واپس لینے کا آپ کو اختیار نہ ہوگا۔ ‘‘ دعوت نشان نمائی میں حضرت اقدس کا روئے سخن چونکہ محض غیر مذاہب کے چید ہ ، منتخب اور مشہور رہنمائوں کی طرف تھا اس لئے حضور علیہ السلام نے اسے جواب دیا کہ خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو اپنی قوم میں معزز اور سر برآوردہ ہیں۔ جن کا ہدایت پانا ملک کے ایک کثیر طبقہ پر موثر ہو سکتا ہے مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں۔ اور اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتداء و پیشوائے قوم ہیں تو صرف اتنا کریں کہ قادیان ، لاہور ، پشاور ، امرتسر اور لدھیانہ کی آریہ سماج کی طرف سے یہ حلفیہ بیان بھجوادیں کہ یہ صاحب ہمارے پیشوا ہیں۔ اور اگراس روحانی مقابلہ میں مغلوب ہوکر نشان آسمانی مشاہدہ کر لیں تو ہم سب بلا توقف حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں گے ۔ پنڈت لیکھرام نے اس معقول مطالبہ کو پورا کرنے کی بجائے اخبارات میں حضور کو بدنام کرنے کی مہم شروع کر دی کہ جس حالت میں میں آریہ سماج کا ایک مشہور لیڈر ہوں اور پھر طالب حق۔ تو پھر مجھے آسمانی نشان دکھانے اور اسلام کی حقیقت مشاہدہ کرانے سے کیوم محروم رکھا جاتاہے اور کیوں چوبیس سو روپیہ دینے کی شرط پر مجھ کو قادیان میں رہ کر نشان آزمانے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا یہ غایت درجہ اصرار دیکھا تو آپ نے اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے فرمایا کہ میں جہاں چاہیں۔۲۴۰۰کی موعود رقم جمع کرانے کو تیار اور مستعد ہوں مگر چونکہ آپ نے دعوت نامہ کی شرائط سے تجاوز کرکے یہ رقم کسی بنک میں محفوظ کرالینے کا مطالبہ کیا ہے اسی طرح مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ میں بھی فقط اس لئے کہ نشان آسمانی کے دیکھنے کے بعد کہیں اپنے مشرف با سلام ہونے کے عہد سے برگشتہ نہ ہو جائیں آپ سے اتنا ہی روپیہ کسی مہاجن کی دکان پر پیشگی جمع کرالوں تا جس کو خدا تعالیٰ فتح بخشے اس کے لئے یہ روپیہ فتح کی ایک یاد گار رہے ۔ نیز لکھا’’ یہ انتظام نہایت عمدہ اور مستحسن ہے کہ ایک طرف آپ وصولی روپیہ کے لئے اپنی تسلی کر لیں اور ایک طرف میں بھی ایسا بندوبست کرلوں کہ درحالت عدم قبول اسلام آپ بھی شکست کے اثر سے خالی نہ جانے پاویں ۔ اگر آپ اسلا م کے قبول کرنے میں صادق النیت ہیں تو آپ کو روپیہ جمع کرنے میں کچھ نقصان اور اندیشہ نہیں۔ کیونکہ جب آپ بصورت مغلوب ہونے کے مسلمان ہو جائیں گے تو ہم کو آپ کے روپیہ سے کچھ سرو کار نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ روپیہ تو صرف اس حالت میں بطور تاوان آپ سے لیا جاوے گا کہ جب عہد شکنی کرکے اسلام کے قبول کرنے سے گریزیا روپوشی اختیار کریں گے ۔ سو یہ روپیہ بطور ضمانت آپ کی طرف سے جمع ہوگا۔ اور صرف عہد شکنی کی صورت میں ضبط ہوگا نہ کسی اور حالت میں ۔‘‘
پنڈت لیکھرام سمجھا کہ اس کے نامعقول مطالبہ کا جواب قطعی طور پر نفی میں ملے گا اور وہ اسے اچھالتے ہوئے اپنی شہرت کا موجب بنالے گا۔ مگر جب حضور نے ہر طرح آمادگی کا اظہار فرمایا اور اس کے مطالبہ کی تکمیل کے لئے ایک معقول طریق بھی سامنے رکھ دیا تو اس نے لکھا کہ ’’ آپ کو واجب تھا کہ پہلے ہی اشتہار میں صاف لفظوں میں شرط باندھتے کہ بطور قمار بازان کے چوبیس سوروپیہ لگایا جاوے گا۔ تاکہ شرائط کی ترمیم تنسیخ نہ کرنی پڑتی‘‘۔ نیز لکھا’’ میں باز آیا محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا ۔ مگر آخری اپنا فرض دوستانہ ادا کرنا بھی واجب جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ سچا مذہب خدا کی طرف سے عالمگیر ہے اور جس کی صداقت کی شعاعیں ہمیشہ آفتاب کی طرح جہان کو روشن کر رہی ہیں۔ وہ آریہ دھرم ہے۔ پس بخیال نیک نیتی کے دعوت کی جاتی ہیں کہ جس طرح اور کئی علماء و فضلاء دین محمدی اچھی طرح سوچ سمجھ کر وید مقدس پر ایمان لائے ہیں آپ کو بھی اگر صراط المستقیم پر چلنے کی دلی تمنا ہے تو صدق دلی سے آریہ دھرم کو قبول کرو۔‘‘( ۱۱) لیکھرام کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مرحلہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے اسے جاہل سمجھ کر منہ لگانا ہی چھوڑ دیا۔ مگر تین ماہ بعد جب اس نے آپ کی خدمت میں ایک پوسٹ کارڈ لکھا تو حضرت نے جواباً لکھوایا کہ قادیان کوئی دور نہیں ہے آکر ملاقات کرجائو امید ہے کہ یہاں پر باہمی ملنے سے شرائط طے ہو جاویں گی۔ (۱۲)
حضرت اقدس کے خاندان کا ایک طبقہ جس میں آپ کا ایک چچا زاد (۱۳) بھائی مرزا امام الدین اپنے ملحدانہ خیالات اور بے دینی میں پیش پیش تھا۔ ابتداء ہی سے نہ صرف حضور کے دعاوی و الہامات کا مذاق اڑاتا تھا بلکہ اسلام اور رسول خدا ﷺ اور قرآن مجید کے خلاف ہرزہ سرائی اس کا ایک عام مشغلہ بن چکا تھا اس کی مقدس تعلیمات پر نشتر چلانے میں اسے ایک خاص لذت محسوس ہوتی تھی چنانچہ اب جو حضور نے نشان نمائی کی عالمگیر دعوت دی تو مرزا امام الدین نے منشی اندر من مراد آبادی اور پنڈت لیکھرام اور دوسرے دشمنان دین کی پیٹھ ٹھونکتے اور محض زبانی بیہودہ گوئی پر اکتفانہ کرتے ہوئے اگست ۱۸۸۵ء میں ’’ قانونی ہندپریس ‘‘ (۱۴) اور ’’چشمہ نورامرت سر ‘‘ سے آپ کے خلاف نہایت گندے اشتہار شائع کئے۔ نیز جب حضرت اقدسؑ نے پنڈت لیکھرام کو قادیان آنے کی دعوت دی تو ( حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی تحقیق کے مطابق) یہ معانداسلام خود گیا اور پنڈت لیکھرام کو قادیان (۱۵) لے آیا۔ پنڈت لیکھرام گو بظاہر حضرت مسیح موعود ؑ کی دعوت پر آیا اور اسے شرائط طے کرنے کے لئے حضرت اقدس سے بہر حال ملا قات کرنا چاہیئے تھی مگر مرزا امام الدین وغیرہ کو جو محض اپنے ذوق بے دینی کی تسکین کے لئے تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ لیکھرام کا اظہار خیالات کے لئے حضرت اقدس کی مجلس میں جانا کیونکر پسند ہو سکتاتھا۔ چنانچہ مرزا امام الدین نے لیکھرام کو اپنے اشاروں کے مطابق چلانے کے لئے یہ مکروہ چال چلی کہ وہ اپنے لگے بندھے بعض نام نہاد مسلمانوں مثلا ملاں حسیناں اور مراد علی وغیرہ کے ساتھ آریہ سماج میں داخل ہوگئے اور یوں خود مسلمانوں ہی کے ہاتھوں ’’ قادیان آریہ سماج ‘‘ کی توسیع ہوئی۔ لیکھرام جب اس طرح مرزا امام الدین کے دام تزویر میں الجھ گیا تو اسے ہر جھوٹے اور مکروہ پر وپیگنڈے کا شکار بنانا چنداں مشکل نہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا امام الدین اور مقامی ہندوئوں کی فتنہ انگیزی سے حضرت اقدس کے خلاف لیکھرام میں دشمنی اور بغض و کینہ کے جذبات ہر لمحہ شدید تر ہوگئے۔ حالانکہ ابتداء میں اس کی حالت اتنی خطرناک نہیں تھی۔ یہ تبدیلی قادیان آنے کے بعد پیدا ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں ۔ ’’قادیان کے بعض شریر الطبع لوگوں نے اس کے دل کو خراب کر دیا اور میری نسبت بھی ان نالائق ہندووں نے بہت کچھ جھوٹی باتیں اس کو سنائیں تا وہ میری صحبت سے متنفر ہو جائے پس ان بدصحبتوں کی وجہ سے روز بروز ردی حالت کی طرف گرتا گیا مگر جہاں تک میرا خیال ہے ابتداء میں اس کی ایسی ردی حالت نہ تھی صرف مذہبی جوش تھا جو ہر اہل مذہب حق رکھتا ہے کہ اپنے مذہب کی پابندی میں بپابندی حق پرستی و انصاف بحث کرے۔ (۱۶) بہرحال لیکھرام کے ماحول پر مرزا امام الدین اور قادیان کے ہندو پوری طرح چھائے ہوئے تھے اس لئے وہ حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے تو نہ آیا البتہ اس نے نہایت شوخی اور بے باکی کے رنگ میں حضرت اقدس سے سلسلہ خط و کتابت شروع کر دیا۔ یہ خط و کتابت اکثر بھائی کشن سنگھ اور گاہے گاہے پنڈت موہن لال ، پنڈت نہال چند اور حکیم دیارام کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ پنڈت موہن لال کا بیان ہے کہ ’’ حضرت صاحب بڑی مہربانی فرماتے تھے اور ہنستے ہوئے ملتے تھے اور کبھی خالی ہاتھ نہ آنے دیتے ۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھے نہایت عمدہ سیب دیئے۔ میں لے کر گیا۔ پنڈت لیکھرام کا بھی معمول ہوگیا تھا کہ جب میں واپس جاتا تو ضرور پوچھتا کیا لائے ہو؟ میں نے جب کہا کہ سیب لایا ہوں تو اس نے گویا للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر کہالائو لائو میں کھائوں ۔ میں نے ان کو ہنسی سے کہا کہ دشمن کے گھر کی چیز تم کو نہیں کھانی چاہیئے۔ تو اس نے جھٹ میرے ہاتھ سے سیب لے لیا اور کھانا شروع کر دیا ۔(۱۷) لیکھرام اپنی تحریر اور مجلس میں نہایت رکیک اور سوقیانہ حملے کرتا تھا ۔ مگر آپ ان کو نظر انداز کرکے تحقیقی جوابات دیتے تھے اور آپ کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ دیانتدارانہ روش اختیار کرکے آپ کی دعوت نشان نمائی پر رضا مندی اختیار کرے۔ دوران خط وکتابت میں آپ نے اسلام کی صداقت کا قائل کرنے کے لئے اس کے سامنے اپنا وہ مخصوص علم کلام بھی پیش کیا۔ جس نے دنیائے اسلام میں زبردست انقلاب برپا کر رکھا تھا یعنی دعویٰ اور دلیل دونوں مذہبی کتاب سے پیش کرنے چاہیں۔ لیکن جب لیکھرام کے مذہبی لیڈر اور آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کو اس جری پہلوان کے سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی تو لیکھرام کو کیا جرات ہوتی ؟ لیکھرام ہر دفعہ نہایت چالاکی سے اس آسمانی حربہ کی زد سے بچنے کی خاطر صرف نشان دکھائے جانے کا مطالبہ دہرا دیتا اور اپنے ہزلیات کے فن میں مشاقی کے جو ہر دکھانے میں ہی کامیابی سمجھتا تھا۔
پنڈت لیکھرام ۱۹۔ نومبر ۱۸۸۵ء کو قادیان آیا اورکم و بیش دو ماہ (۱۸) قادیان میں رہا اس عرصہ میں اس نے مرزا امام الدین کا آلہ کاربن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگاتار سوقیانہ حملے کئے ۔ ایک مرتبہ تو یہاں تک نوبت آپہنچی کہ اس کی زبان درازی کو دیکھ کر مرزا سلطان احمد صاحب ایسے مرنجان مرنج طبیعت انسان نے اسے مباحثے کا چیلنج دے دیا۔ بلکہ پورے جوش کے عالم میں ہندو بازار تک جا پہنچے ۔ مگر ہندو ان کی یہ جرات دیکھ کر سہم گئے اور لیکھرام کو باہر نہ نکلنے دیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ ۱۳ دسمبر کو اس نے ایک خط میں لکھا ۔ ’’مرزا صاحب کندن کوہ( اس کے آگے ایک شکستہ لفظ تھا جو پڑھا نہیں گیا۔ ناقل ) افسوس کہ آپ (۱۹) قرآنی اسپ اور اوروں کے اسپ کو خچر قرار دیتے ہیں۔ میں نے ویدک اعتراض کا عقل سے جواب دیا اور آپ نے قرآنی اعتراض کا نقل سے مگر وہ عقل سے بسا بعید ہے۔ اگر آپ فارغ نہیں تو مجھے بھی تو کام بہت ہے اچھا آسمانی نشان تو دکھا دیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان تو مانگیں تا فیصلہ ہو ۔ ‘‘ حضرت اقدس نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا ۔’’ جناب پنڈت صاحب آپ کا خط میں نے پڑھا ۔ آپ یقینا سمجھیں کہ ہم کو نہ بحث سے انکار ہے اور نہ نشان دکھلانے سے مگر آپ سیدھی نیت سے طلب حق نہیں کرتے ۔ بے جاشرائط زیادہ کر دیتے ہیں۔ آپ کی زبان بد زبانی سے رکتی نہیں آپ لکھتے ہیں اگر بحث نہیں کرنا چاہتے تو رب العرش خیر الماکرین سے میری نسبت کوئی آسمانی نشان مانگیں یہ کس قدر ہنسی ٹھٹھے کے کلمے ہیں گویا آپ اس خدا پر ایمان نہیں لاتے جو بیبا کوں کو تنبیہ کر سکتا ہے باقی رہا یہ اشارہ کہ خدا عرش پر ہے اور مکر کرتا ہے ۔ یہ خود آپ کی ناسمجھی ہے مکر لطیف اور مخفی تدبیر کو کہتے ہیں جس کا اطلاق خدا پر ناجائز نہیں۔ اور عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لئے آتا ہے کیونکہ وہ سب اونچوں سے اونچا اور جلال رکھتا ہے ۔ یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے ۔ خود قرآن میں ہے کہ ہر ایک چیز کو اس نے تھاما ہوا ہے اور وہ قیوم ہے جس کو کسی چیز کا سہارا نہیں ۔ پھر جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے تو عرش کا اعتراض کرنا کس قدر ظلم ہے آپ عربی سے بے بہرہ ہیں آپ کو مکر کے معنے بھی معلوم نہیں ۔ مکر کے مفہوم میں کوئی ایسانا جائز امر نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا۔ شریروں کو سزا دینے کے لئے خدا کے جو باریک اور مخفی کام ہیں ان کا نام مکر ہے لغت دیکھو پھر اعتراض کرو۔ میں اگر بقول آپ کے وید سے امی ہوں تو کیا حرج ہے کیونکہ میں آپ کے مسلم اصول کو ہاتھ میںلے کر بحث کرتا ہوں مگر آپ تو اسلام کے اصول سے باہر ہو جاتے ہیں صاف افتراء کرتے ہیں۔ چاہئے تھا کہ عرش پر خدا کا ہونا جس طور پر مانا گیا ہے اول مجھ سے دریافت کرتے پھر اگر گنجائش ہوتی تو اعتراض کرتے اور ایسا ہی مکرکے معنے اول پوچھتے پھر اعتراض کرتے ۔ اور نشان خدا کے پاس ہیں وہ قادر ہے جو آپ کو دکھلادے۔ وَالسَّلَا مُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدیٰ (۲۰)
پنڈت لیکھرام کم و بیش دو ماہ تک قادیان میں رہا اس عرصہ میں خط و کتابت کے نتیجہ میں یہ تبدیلی ضرور ہوئی کہ ۲۰۰ روپیہ ماہوار کی بجائے تیس روپیہ ماہانہ رقم پر آ گیا۔ مگر اس کے مقابل اس کی بدلگامی اور بیہودی سرائی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اوروہ اپنی ضد پر آخر وقت تک قائم رہا۔ مرزا امام الدین کا آلہ کار بن کر اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سوقیانہ حملے کرتا رہا۔ پنڈت لیکھرام کی یہ مخالفانہ کارروائی سال کے آخر تک پوری طرح جاری رہی۔ اگلاسال ۱۸۸۶ء آیا تو حضرت مسیح موعود ؑ پر فروری ۱۸۸۶ء میں پنڈت لیکھرام اور منشی اندر من مراد آبادی کے متعلق بعض انکشافات ہوئے مگر آپ نے خدائی منشاء کے مطابق پہلے ان ہر دو سے پوچا کہ کیا ان کا اظہار کر دیا جائے۔ مراد آبادی صاحب تو خاموش رہے مگر لیکھرام نے افتاد طبیعت کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت درجہ بے باکی سے تحریری اجازت بھجوا دی ۔ یہی نہیں جب حضرت مسیح موعودؑ کا ماسٹر مرلی دھرہوشیار پوری سے مباحثہ ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تو اس کی شرر انگیزیاں یکایک بڑھ گئیں اور اس نے اپنی کتاب ’’خبط احمدیہ‘‘ میں پر میشور سے سچے فیصلہ کی درخواست کرتے ہوئے کھلے لفظوں میںلکھا ۔’’میں نیاز التیام لیکھرام ولد پنڈت تارا سنگھ شرما مصنف تکذیب براہین احمدیہ ورسالہ ہذااقرار صحیح بدرستی ہوش و حواس کرکے کہتاہوں کہ میں نے اول سے آخر تک رسالہ سرمہ چشم آریہ کو پڑھ لیا۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے جگت پتا پر میشور کو ساکھی جان کر اقرار کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔ اس سرشٹی کے آغاز میں جب انسانی خلقت شروع ہوئی پر ماتما نے دیدوں کو شری اگنی شری وایو شری آدت شری انگرہ جیوچار رشیوں کے آتمائوں میں الہام دیا مگر جبرئیل یا کسی اور چھٹی رسان کی معرفت نہیں بلکہ خود ہی ۔۔۔۔۔۔۔آریہ ورت سے ہی تمام دنیا نے فضیلت سیکھی۔ آریہ لوگ ہی سب کے استاد اول ہیں۔ کیونکہ تواریخ سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ۔ آریہ ورت سے باہر جو بقول مسلمانوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر (۵۔ ۶ہزار سال میں ) آئے ہیں اور توریت ، زبور ، انجیل ۔ قرآن وغیرہ کتب لائے ہیں میں دلی یقین سے ان پستکوں کے مطالعہ کرنے سے اور سمجھنے سے ( باستثنائے ان باتوں کے جو دید مقدس اب نشدو یا شاستروں میں درج ہیں) ان کی تمام مذہبی ہدایتوں کو بناوٹی اور جعلی ۔ اصلی الہام کو بدنام کرنے والی تحریریں خیال کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میرا دوسرا فریق مرزا غلام احمد ہے وہ قرآن کو خدا کا کلام جانتا ہے اور اس کی سب تعلیموں کو درست اور صحیح سمجھتاہے ۔۔۔۔۔۔ اے پرمیشور ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پاسکتا۔‘‘(۲۱)
گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لیکھرام کے متعلق بعض انکشاف ہو چکے تھے اور لیکھرام نے اس کی اشاعت پر بھی پابندی نہیں لگائی تھی مگر آپ الٰہی منشاء کے ماتحت پانچ برس تک اس بارہ میں بالکل خاموش رہے اور پھر اذن خداوندی پاکر ۲۰۔ فروری ۱۸۹۳ء کو آپ نے لیکھرام کے عبرتناک انجام کے متعلق پیشگوئی کا اعلان فرما دیا ۔ جس کے مطابق وہ ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو رب العرش خیر الماکرین کی پراسرار تدبیر کے تحت لاہور میں قتل ہوا۔ اور اس کی زبان جو خنجر کی طرح چلتی تھی تیغ محمدی ﷺ میں متشکل ہو کر اس کے پارہ پارہ کرنے کی موجب بن گئی۔ مگر اس کے بیان کا یہ موقعہ نہیں ۔ اس عظیم الشان نشان کی تفصیل ۱۸۹۷ء کے واقعات میں آئے گی۔
پادری سو فٹ کا گریز :۔
تیسرے صاحب جنہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی دعوت پر قادیان آنے اور نشان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا پادری سو فٹ تھے جو ریاست گوالیار کے باشندے اور عیسائی مدرسہ الہیات ( سہارنپور ) سے فارغ التحصیل ہو کر ان دنوں گوجرانوالہ میں متعین تھے (۲۲) انہیں دوسرے پادریوں کی نسبت مسیحی دینیات کا بڑا ناز تھا حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر انہوں نے بذریعہ ڈاک ایک خط لکھا جس میں حضرت مسیحؑ کی خدائی کا لا طائل فسانہ چھیڑنے کے بعد دعوت کو نمائشی رنگ میں قبول کرتے ہوئے دو شرائط لکھیں جن میں پہلی شرط یہ تھی کہ چھ سو روپیہ یعنی تین ماہ کی تنخواہ بطور پیشگی ہمارے پاس گوجرانوالہ میں بھیجی جائے اور نیز مکان وغیرہ کا انتظام حضور کے ذمہ رہے اور اگر کسی نوع کی دقت پیش آئے تو فوراً وہ گوجرانوالہ کو واپس ہو جائیں گے اور جو روپیہ انہیں مل چکا ہو اس کی واپسی کا حضرت اقدس کو استحقاق نہیں ہوگا۔ دوسری شرط یہ لکھی کہ الہام اور معجزہ کا ثبوت ایسا چاہئے ، جیسے کتاب اقلید س میں ثبوت درج ہوتا ہے حضور کو یہ خط ملا تو آپ کو افسوس ہو ا کہ حضور کی زبردست سعی و جدو جہد کے باوجود عیسائیت کے علمبرداروں میں سے کوئی مرد میدان بن کر آگے نہیں آنا چاہتا۔ اور جس نے آگے آنے کی حامی بھری تو محض دنیا پر ستی کی تکمیل اور نام و نمود کے لئے ۔ بہرحال حضرت اقدس مایوس نہیں ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اپنے جواب میں ’’ الوہیت مسیح‘‘ کے بچھائے ہوئے جال کو اپنے قلم سے پارہ پارہ کرتے ہوئے انہیں نہایت احسن رنگ میں لکھا کہ آپ کے اطمینان قلب کے لئے روپیہ کسی سرکاری بنک یا مہاجن کے پاس جمع کردیا جائے گا اور جس طرح چاہیں روپیہ کی بابت تسلی کر لیں مگر جب تک فریقین میں جو امر متنازعہ فیہ ہے وہ تصفیہ نہ پاجائے آپ کو پیشگی روپیہ لینے کا اصرار نہیں کرنا چاہئے مکان کے بارہ میں انہیں اطمینان دلایا کہ ’’ اس خاکسار کا یہ عہد و اقرار ہے کہ جو صاحب اس عاجز کے پاس آئیں ان کو اپنے مکان میں سے اچھا مکان اور اپنی خوراک کے موافق خوراک دی جائے گی۔ اور جس طرح ایک عزیزاور پیارے مہمان کی حتی الوسع دلجوئی و خدمت و تواضع کرنی چاہئے اسی طرح ان کی بھی کی جائیگی ۔ ہاں یہ وضاحت بھی فرما دی کہ ’’ یہ عاجز مسیحؑ کی زندگی کے نمونہ پر چلتا ہے کسی باغ میں امیر انہ کوٹھی نہیں رکھتا اور اس عاجز کا گھر اس قسم کی عیش و نشاط کا گھر نہیں ہو سکتا۔ جس کی طرف دنیا پر ستوں کی طبیعتیں راغب اور مائل ہیں۔ ‘‘ دوسری شرط کے متعلق فرمایا ’’ اقلیدس میں بہت سی وہمی اور بے ثبوت باتیں بھری ہوئی ہیں۔ (۲۳) جن کو جاننے والے خوب جانتے ہیں مگر آسمانی نشان تو وہ چیز ہے کہ وہ خود منکر کی ذات پر ہی وارد ہو کر حق الیقین تک اس کو پہنچا سکتا ہے ۔ اور انسان کو بجز اس کے ماننے کے کچھ بن نہیں پڑتا۔ سو آپ تسلی رکھیں کہ اقلید س کے ناچیز خیالات کو ان عالی مرتبہ نشانوں سے کچھ نسبت نہیں ’’چہ نسبت خاک رابا عالم پاک‘‘ اور یہ نہیں کہ صرف اس عاجز کے بیان پر ہی رہے گا ۔ بلکہ یہ فیصلہ بذریعہ ثالثوں کے ہو جائے گا۔ اور جب تک ثالث لوگ جو فریقین کے مذہب سے الگ ہوں گے یہ شہادت نہ دیں کہ ہاں فی الحقیقت یہ خوارق اور پیشگوئیاں انسانی طاقت سے باہر ہیں تب تک آپ غالب اور یہ عاجز مغلوب سمجھا جائے گا۔ ‘‘
خط کے آخر میں اسے خدائے کامل اور صادق کی قسم دیتے ہوئے غیرت دلائی کہ ’’ آپ ضرور تشریف لاویں ضرور آئیں اگر وہ قسم آپ کے دل پر موثر نہیں تو پھر اتمام الزام کی نیت سے آپ کو حضرت مسیح کی قسم ہے کہ آپ آنے میں ذرا توقف نہ کریں۔ تاحق اور باطل میںجو فرق ہے وہ آپ پر کھل جائے ۔ ‘‘ (۲۴)
غرض حضرت اقدس نے پادری سو فٹ پر ہر پہلو سے اتمام حجت کر دیا۔ کوئی حق کا طالب ہو تا تو اس مرد خدا کی زیارت کو دیوانہ وار چل پڑتا۔ مگر پادری صاحب کو محض سستی شہرت مطلوب تھی جب انہیں یہ گوہر مقصود نہ ملا تو ان کی زبان پر ابدی قفل لگ گئے ۔
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے چالیس روزہ میعاد کا تعین :۔
خلاصہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعوت پر مذاہب عالم میں سے کسی کو میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہوئی تاہم مزید اتمام حجت کے لئے آپ نے ستمبر ۱۸۸۶ء میں سال کی شرط اڑا کر اس کی بجائے چالیس روز مقرر کر دیئے۔ اور بالخصوص منشی جیون داس، لالہ مرلی دھر ڈرائنگ ماسٹر ہوشیار پور ، منشی اندر من مراد آبادی ، مسٹر عبداللہ آتھم ، پادری عماد الدین اور پادری ٹھاکرداس کو ایک بار پھر دعوت دی اور فرمایا کہ اس عرصہ میں اگر ہم کوئی خارق عادت پیشگوئی پیش نہ کریں یا پیش کریں مگر بوقت ظہور وہ جھوٹی نکلے یا وہ اس کا مقابلہ کرکے دکھادیں تو مبلغ پانسو روپیہ بلا توقف ادا کردیں گے لیکن اگر وہ پیشگوئی بپایہ صداقت پہنچ گئی تو مشرف بہ اسلام ہونا پڑے گا۔ (۲۵) مگریہ آواز بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور اس معرکہ میں اسلام کو ایک بار پھر فتح نصیب ہوئی ۔
مقامی ہندوئوں کی درخواست نشان نمائی :۔
یہ تو بیرونی دنیا کا ذکر ہے خود قادیان میں اس کی باز گشت ایک لحاظ سے خوشگوار رنگ میں سنائی دی اور وہ اس طرح کہ غالباً اگست ۱۸۸۵ء میں قادیان کے دس ہندوئوں (۲۶) نے (جن میں ساہوکار وغیرہ شامل تھے ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بادب درخواست کی کہ ہم آپ کے ہمسایہ لندن اورامریکہ والوں سے زیادہ آسمانی نشان دیکھنے کے حقدار اور مشتاق ہیں۔ ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے سعادت ازلی تو خدا کی توفیق اور فضل سے عطا ہوتی ہے اس لئے مسلمان ہو جانے کی شرط تو ہم سے موقوف رکھی جائے البتہ ہم پر میشر کی قسم کھا کر وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جو نشان آپ سے بچشم خود مشاہدہ کرلیں گے اخبارات میں بطور گواہ اسے شائع کرا دیں گے اور آپ کی صداقت کی حقیقت کو حتی الوسع اپنی قوم میں پھیلائیں گے ۔ اور ایک سال تک عند الضرورت آپ کے مکان پر حاضر ہوکر ہر قسم کی پیشگوئی پر بقید تاریخ دستخط کریں گے اور کوئی نامنصفانہ حرکت ہم سے ظہور میں نہیں آئے گی۔ درخواست کے لفظ لفظ سے چونکہ سراسر انصاف و حق پر ستی اور خلوص ٹپکتا تھا۔ اس لئے حضور نے نہایت درجہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے بلاتامل قبول فرما لیا اور ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ کی شکل میں شرمپت رائے ممبر آریہ سماج قادیان نے اسے شائع بھی کر دیا اور ستمبر ۱۸۸۵ء سے ستمبر ۱۸۸۶ء تک اس کی میعاد قرار پائی۔ (۲۷)
خدا تعالیٰ کی قدرت ابھی میعاد شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ ۵۔ اگست ۱۸۸۵ء کو آپ پر الہاماً منکشف ہوا کہ آج سے اکتیس ماہ تک مرزا امام الدین اور نظام الدین جو اس وقت آپ کی مخالفت میں اہم حصہ لے رہے تھے ) ایک بڑی مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ یعنی ان کے اہل و عیال میں سے کسی مرد یا عورت کا انتقال ہو جائے گا۔ جس سے انہیں سخت تکلیف پہنچے گی۔ حضرت اقدس نے یہ خبرپاتے ہی اس پر معاہدہ میں شامل چار ہندوئوں کے دستخط کرالئے۔ چنانچہ ٹھیک اکتیسویں مہینے ( یعنی فروری ۱۸۸۸ء میں ) مرزا نظام دین کی بیٹی اور مرزا امام الدین کی بھتیجی ایک چھوٹا بچہ چھوڑ کر فوت ہوگئی اور خدا کی بات پوری آب و تاب سے پوری ہوئی مگر افسوس معاہدہ کے مطابق مقامی ہندوئوں کی طرف سے نہ صرف اس نشان کی اشاعت نہ کی گئی بلکہ اصل میعاد کے ختم ہونے سے چند روز پہلے ہی یہ شورو غوغا مچانا شروع کر دیا کہ پیشگوئی غلط نکلی اور جب پیشگوئی کا ظہور ہوگیا تو انہوںنے چپ سادھ لی۔ اور اعتراف حق کرنے کی ان کو توفیق نہ مل سکی۔
یہ تو وہ پیشگوئی ہے جس پر ان ہندوئوں کے دستخط موجود تھے اس کے علاوہ اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صداقت اسلام کے ایک زندہ و تابندہ نشان کی بھی خبر دی گئی جس سے قرآن مجید اور رسول پاکﷺ کی سچائی صرف قادیان کے ہندوئوں پر ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر آفتاب نیم روز کی طرح عیاں ہوگئی ۔ میری مراد مصلح موعود کی پیشگوئی سے ہے جو حضرت اقدسؑ کی دعوت نشان نمائی اور اکتیس ماہ کی میعاد کے اندر کی گئی جس کی تفصیل ۱۸۸۶ء کے واقعات میں بیان ہوگی۔
بیت اللہ شریف اور میدان عرفات میں حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ
کی زبان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی درد انگیز دعا
۱۸۸۵ء کے اوائل میں حضرت صوفی احمد جان صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے جب سفر حج پر روانہ ہونے لگے تو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے قلم سے انہیں ایک درد انگیز دعا تحریر فرمائی اور لکھا ’’ اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ نصیب ہو۔ تو اس مقام محمود مبارک کی انہیں لفظوں سے مسکنت اور غربت کے ہاتھ بحضور دل اٹھا کر گزارش کریں۔ ‘‘ نیز یہ ہدایت فرمائی کہ ’’ آپ پر فرض ہے کہ انہیں الفاظ سے بلا تبدیل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے دعا کریں ۔ ‘‘چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے حضرت کے ارشاد کے تعمیل میں یہ دعا بیت اللہ شریف میں بھی اور پھر ۹۔ ذی الحجہ ۱۳۰۲ھ کو (بمطابق ۱۹۔ ستمبر ۱۸۸۵ء ) میدان عرفات میں بھی پڑھی۔ آپ کے پیچھے اس وقت ان کے ۲۰؍۲۲خدام اور عقیدت مند تھے جن میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب مبلغ ایران حضرت خان صاحب محمد امیر خاں صاحب اور حضرت قاضی زین العابدین صاحب سرہندی (۲۸) اور حضرت صوفی صاحبؓ کے فرزند حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بھی شامل تھے۔ صوفی صاحبؓ میدان عرفات میں حضرت مسیح موعودؑ کا مکتوب مبارک ہاتھ میں لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا میں یہ خط بلند آواز سے پڑھتا ہوں تم سب آمین کہتے جائو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ (۲۹) اس تاریخی دعا کے الفاظ یہ تھے۔
’’ اے ارحم الراحمین ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں سے اسکی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفورو رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہریک قوت اور جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین ( ۳۰)میں مجھے اٹھا ۔ اے ارحم الراحمین جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جواب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اورہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارا لرضاء میں پہنچا اور اپنے نبی ﷺ اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درودوسلام و برکات نازل کر۔ آمین یا رب العالمین ‘‘(۳۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر لدھیانہ اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کی وفات
حضرت صوفی احمد جان صاحب زیارت کعبہ اور حج بیت اللہ شریف کے برکات سے فیضیاب ہو کر وسط دسمبر ۱۸۸۵ء میں لدھیانہ پہنچے اور یکایک سخت بیمار ہو گئے ۔ چنانچہ ابھی تیرہ دن ہی واپسی پر گزرے تھے کہ ۱۹۔ ربیع الاول ۱۳۰۳ھ ( بمطابق ۲۷۔ دسمبر ۱۸۸۵ء) کو پیغام اجل آگیا۔ اور آپ لدھیانہ کے قبرستان گورغریباں میں دفن ہوئے۔ تھوڑا عرصہ بعد حضرت اقدس بنفس نفیس تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے ۔ آپ کے صاحبزادے حضرت پیر افتخار احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر ’’ تھوڑی دیر قیام فرمایا ۔ والد صاحب مرحوم کی محبت ،اخلاص او ردینی خدما کا ذکر فرماتے رہے پھر حضورؑ نے مع حاضرین دعا فرمائی۔
حضرت صوفی احمد جان صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعودؑ کے ان اولین عشاق میں سے تھے۔ جنہوںنے اپنے کثیر ارادت مندوں اور عقیدت مندوں کی پروانہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کے دامن سے وابستگی اختیارکرلی تھی اورشاہی پر غلامی کو ترجیح دی۔ حضرت کو بھی آپ سے دلی محبت والفت تھی جس کا ذکر اکثر ان کی وفات کے بعد فرمایا کرتے تھے چنانچہ مارچ ۱۸۸۹ء؁ میں جب بیت اولیٰ ہوئی تو حضرت اقدس نے اس مقدس تقریب کے لئے حضرت صوفی صاحب رضی اللہ عنہ ہی کے مکان کا انتخاب فرمایا۔ پھراس کے بعد جب ازالہ اوہام کی تصنیف فرمائی تو اس میں اپنے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے متعلق تحریر فرمایا ۔حبی فی اللہ منشی احمدجان صاحب مرحوم ۔اس وقت ایک نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ پردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا کہ اب یہ ہمارا دوست اس عالم میں موجود نہیں ہے۔ اورخداوند کریم ورحیم نے بہشت بریں کی طرف بلالیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ وانا بفراقہ لمحزونون ۔حاجی صاحب مغفور ومرحوم ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اوران کے مریدوں میں آثار رشدو سعادت واتباع سنت نمایاں ہیں ۔اگرچہ حجرت موصوف اس عاجز کے شروع سلسلہ بیت سے پہلے ہی وفات پاچکے لیکن یہ امران کے خوارق میں سے دیکھتا ہوں کہ انہوںنے بیت اللہ کے قصد سے چند روز پہلے اس عاجز کو ایک خط ایسے انکسار سے لکھا جس میں انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کرلیا۔ چنانچہ انہوںنے اس میں سیرۃ صالحین پراپنا توبہ کا اظہار کیا اور اپنی مغفرت کے لئے دعا چاہی اور لکھا کہ میں آپ کے للہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اورپھر لکھا کہ میری زندگی کا نہایت عمدہ حصہ یہی ہے کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں اورپھر کسرنفسی کے طورپر اپنے گزشتہ ایام کا شکوہ لکھا اور بہت سے رقت آمیز ایسے کلمات لکھے جن سے رونا آتا تھا۔ اس دوست کا وہ آخری خط جو ایک دردناک بیان سے بھرا ہوا ہے اب تک موجود ہے مگرافسوس کہ حج بیت اللہ سے واپس آتے وقت پھراس مخدوم پر بیماری کاایسا غلبہ طاری ہوا کہ اس دورافتادہ کو ملاقات کا اتفاق نہ ہوا بلکہ چند روز کے بعد ہی وفات کی خبر سنی گئی اورخبر سنتے ہی ایک جماعت کے ساتھ قادیان میں نماز جنازہ پڑھی گئی۔ حاجی صاحب مرحوم اظہار حق میں بہادرآدمی تھے بعض نافہم لوگوں نے حاجی صاحب موصوف کو اس عاجز کے ساتھ تعلق ارادت رکھنے سے منع کیا کہ اس میں آپ کی کسرشان ہے لیکن انہوںنے فرمایا کہ مجھے کسی شان کی پراہ نہیں اورنہ مریدوں کی حاجت‘‘۔
سرخی کے کشفی چھینٹوں کا حیرت انگیز نشان۔
۱۰؍جولائی ۱۸۸۵ء؁ (بمطابق ۲۷؍رمضان ۱۳۰۲ھ ) کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام طلوع آفتاب کے وقت حسب معمول مسجد مبارک کے مشرقی جانب حجرہ میں جو غسل خانہ کے طور پراستعمال ہوتا تھا شرقًا غرباً بچھی ہوئی ایک چارپائی پرآرام فرمارہے تھے تازہ پلستر کی وجہ سے حجرہ کی فضا میں خنکی سی تھی۔ چارپائی پر نہ کوئی بستر تھا نہ تکیہ اورحضرت اقدس بائیں کروٹ لیٹے بائیں کہنی سر کے نیچے رکھے اورچہرہ مبارک دائیں ہاتھ سے ڈھانپے ہوئے تھے اور حضور کے مخلص خادم منشی عبداللہ صاحب سنوری نیچے بیٹھے حضور کے پائوں داب رہے تھے کہ حضرت اقدس نے کشفی عالم میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء وقدر حضرت نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے ۔ اور اس نے جو ایک اوربقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا اوراس سے قضا ء وقدر کی کتاب پر دستخط کردیئے خدا کی معجزنمائی کا نشان دیکھو ادھر عالم کشف میں قلم کی سرخی چھڑکی گئی اورادھر یہ سرخی وجود خارجی میں منتقل ہوگئی۔ منشی صاحب نے سخت حیرت زدہ ہوکر بچشم خود دیکھا کہ حضورؑ کے ٹخنے پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا ہے انہوںنے اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس قطرہ پر رکھی تو وہ قطرہ ٹخنے اور انگلی پر بھی پھیل گیا۔ تب ا ن کے دل میں یہ آیت گزری صبغۃ اللہ ومن احسن اللہ صبغہ۔ انہوں نے سوچا کہ جب یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں خوشبو بھی ہوگی مگراس میں خوشبو نہیں تھی۔ ابھی وہ اسی حیرت واستعجاب میں تھے کہ انہیں حضور کے کرتے پر بھی سرخی کے چند تازہ چھینٹے دیکھائی دیئے وہ مبہوت ہوکر آہستہ سے چارپائی سے اٹھے اور انہوںنے ان قطرات کا سراغ لگانے کے لئے چھت کا گوشہ گوشہ پوری باریک نظر سے دیکھ ڈالا انہیں اس وقت یہ بھی خیال ہوا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی دم کٹنے سے خون نہ گرا ہو۔ مگروہ تو دست قدرت کا کشفی معجزہ تھا خارج میں اس کا کھوج کیا ملتا ناچار وہ چارپائی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ پائوں دابنے کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔تھوڑی دیر بعد حضور عالم کشف سے بیدار ہوکر اٹھے اورمسجد مبارک میں تشریف لے آئے۔ منشی صاحب پھر دابنے لگے اوراس دوران میں انہوںنے حضرت سے سوال بھی کردیا کہ حضورآپ پر یہ سرخی کہاں سے گری ہے؟ حضورؑ نے بے توجہی سے فرمایا کہ آموں کا رس ہوگا۔ دوبار عرض کیا گیا کہ حضور یہ آموں کا رس نہیں یہ تو سرخی ہے اس پر حضور نے سرمبارک کو تھوڑی سی حرکت دے کر فرمای’’کتھے ہے‘‘ یعنی کہاں ہے۔ منشی صاحب نے کرتے پر وہ نشان دکھا کر کہا کہ یہ ہے ۔ اس پر حضور نے کرتہ سامنے کی طرف کھینچ کر اوراپنا سر ادھر پھر کرقطرہ کو دیکھا اورپھر (منشی صاحب کے بیان کے مطابق) پہلے بزرگوں کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خدا کی ہستی وراء الوراء ہے اوراس کو یہ آنکھیں دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں البتہ اس کے بعض صفات جمالی یا جلالی متمثل ہوکر بزرگوں کو دکھائی دیئے جاتے ہیں۔
رویت باری تعالیٰ اور کشفی امور کے خارجی ظہور پر یوں واقعاتی روشنی ڈالنے کے بعد حضرت نے انہیں کشف کی پوری تفصیل سنائی بلکہ اپنے دست مبارک سے کشف میں قلم کے جھاڑنے اوردستخط کرنے کا نقشہ بھی کھینچا اوراسی طرز پر جنبش دی اوران سے پوچھا کہ اپنا کرتہ اورٹوپی دیکھیں کہیں ان پر بھی سرخی کا قطرہ تو نہیں گرا۔ انہوںنے کرتہ دیکھا تو وہ بالکل صاف تھا مگر ململ کی سفید ٹوپی پرایک قطرہ موجود تھا ۔منشی صاحب نے عاجزانہ درخواست کی کہ حضوراپنایہ اعجاز نما کرتہ انہیں تبرکاً عنایت فرمائیں۔ حضرت اقدس کا سلوک اپنے خدام ہی سے نہیں دشمنوں سے بھی فیاضانہ تھا لیکن آپ نے منشی صاحب کی یہ درخواست ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ہمارے بعد اس سے شرک پھیلے گا۔ اورلوگ اس کی زیارت گاہ بناکر اس کی پوجا شروع کردیں گے ۔ انہوںنے عرض کیا رسول اللہ ﷺکے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ مرتے ہوئے وصیتیں کرگئے کہ ان تبرکات کا ہمارے کفن کے ساتھ دفن کردینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جو تبرک جس صحابی کے پاس تھا وہ ان کے کفن کے ساتھ دفن کردیا گیا انہوں نے عرض کیا کہ حضور میں بھی مرتا ہوا وصیت کرجائوں گا اس پر حضرت اقدس نے فرمایا’’ہاں اگر یہ عہد کرتے ہوتو لے لو‘‘ چنانچہ حضرت نے جمعہ کے لئے کپڑے بدلے تو یہ کرتہ منشی صاحب کے سپرد کردیا اس اعجازی کرتے کو کپڑا نینو کہلاتا ہے اورسرخی کا رنگ ہلکا اورگلابی مائل تھا جس میں تینتالیس برس کی طویل مدت گزرنے کے باوجود خفیف سا تغیر بھی نہیں ہوا۔
نشان کے متعلق حضرت منشی صاحب کا حلفیہ بیان:۔
حضرت منشی صاحب کو اس نشان آسمانی پراس درجہ بصیرت وایمان حاصل تھا کہ ان کی زندگی میں ایک دفعہ مشہوراہلحدیث عالم مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اس کشفی نشان پر تنقید کی تو حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری نے نہ صرف اپنی مفصل حلفیہ شہادت شائع کی بلکہ انہیں مباہلہ کا چیلنج بھی دے دیا مولوی صاحب نے چیلنج سے تو گریز اختیار کیا البتہ لکھا کہ ہمارے محلہ کی مسجد میں آکر قسم کھائیں چنانچہ وہ سلسلہ کے بعض اکابر کو ہمراہ لے کر بے کھٹکے امرت سر پہنچے اور مولوی ثناء اللہ صاحب کی مسجد میں اپنا مطبوعہ حلفیہ بیان ایسے دردانگیز رنگ میں پڑھ کر سنایا کہ سامعین پرایک لرزہ طاری ہوگیا نیز کہا کہ مولوی صاحب کے نزدیک یہ حلف کافی نہ ہوتو وہ جن الفاظ میں چاہین مجھ سے قسم کھلالیں۔ میں اپنی اولاد اپنے مال اوراپنی جان غرض یہ کہ ہرچیز کی قسم کھانے کے لئے تیار ہوں میں نے اس سرخی کے نشان کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ٹخنہ پر پڑا تھا اپنی شہادت کی انگلی لگا کردیکھا تھا اس سے میری سرخی لگ گئی تھی۔ اگر میں یہ جھوٹ کہتا ہوں تو میری انگلی کیا میرے جسم کا ذرہ ذرہ جہنم میں ڈالا جائے۔ اورسب سے بڑا جو عذاب ہے وہ مجھ پر نازل کیا جائے‘‘ حضرت منشی صاحب ایک عرصہ تک لوگوں کو یہ کرتہ دکھانے سے احتراز کرتے تھے۔ لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انہیں ارشاد فرمایا کہ اسے بہت کثرت سے دکھائو تا اس کی رؤیت کے گواہ بہت پیدا ہوجائیں تو وہ دکھانے لگے۔ اوریوں ہزاروں لوگوں کو اسے بچشم خود دیکھنے کا موقعہ مل گیا۔ حضرت منشی صاحب نے عمر بھر اعجازی کرتہ کی حفاظت کی اور سفر حضر میں ہمیشہ اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے ۔بالآخر ۷؍اکتوبر ۱۹۲۷ء؁ کو انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اوریہ قیمتی یاد گار بھی حضرت اقدس کی وصیت کے مطابق بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کردی گئی۔
شہب ثاقبہ کا آسمانی نظارہ
حضرت مسیح ناصریؑ نے اپنی آمد ثانی کے متعلق ایک یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس وقت آسمان سے ستارے کریں گے اورجو قوتیں آسمان میں ہیں وہ بلائی جائیں گی‘‘ چنانچہ ۲۸؍نومبر ۸۸۵اء؁ کی شب کوآسمان پر شہب ثاقبہ کا یہ غیر معمولی نظارہ نمودار ہوا۔ اس وقت آسمان کی فضام ین ہر طرف اس درجہ بے شمار شعلے چل رہے تھے کہ گویا ان کی بارش ہورہی تھی ۔یورپ، امریکہ اورایشیا میں اس سے حیرت کی زبردست لہر دوڑ گئی اوراخباروں میں ان کی خبر نمایاں رنگ میں شائع ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اشارۃ بتایا تھا ۔یہ تصویری زبان میں اس امر کا اعلان تھا کہ آسمانی قوتیں اسلامی انقلاب کے لئے ہلادی گئی ہیں اور اب خدائی افواج کے سپہ سالار کی قیادت میں کفر وباطل کے قلعوں پرحملہ آور ہونے والی ہیں۔
شہب کی بارش کا یہ آسمانی نظارہ ابتدائے شب سے شروع ہوگیا تھا جسے آپ بہت دیر تک دیکھتے اورخدائی بشارتوں کا تصور کرکے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس موقعہ پر آپ پر باربار’’مارمیت اذ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی‘‘ کا الہام اورالقاء کیا گیا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے۔‘‘ اس موقعہ پر حضور کو (کشفا) دکھایا گیا کہ آپ اورحضرت سید عبدالقادرؒایک باغ میں سیر کررہے ہیں۔
اس آسمانی نظارہ کے بعد یورپ کے لوگوں کو وہ ستارہ دکھائی دیا جو حضرت مسیحؑ کے ظہور کے وقت نکلا تھا۔ اورآپ کو بتایا گیا کہ یہ ستارہ بھی آپ کی صداقت کے لئے ایک دوسرا چمکتا ہوا نشان ہے۔













ماموریت کا پانچواں سال
ہوشیار پور کا مبارک سفر
’’پسر موعود‘‘ کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی کا انکشاف
(۱۸۸۶ء؁)

گذشتہ نوشتوں میں پسر موعود کی پیشگوئی:۔ اب ہم ۱۸۸۶ء؁ میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ احمدیت میں ایک نہایت درجہ امتیازی حیثیت رکھتاہے کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کودین اسلام کے شرف اور آنحضرت ﷺ کی صداقت وعظمت کے اظہار کے لئے ایک ’’پسر موعود‘‘ کی عظیم الشان خبردی گئی گویہ پیشگوئی اپنی تفصیلات کے اعتبار سے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ پر منکشف ہوئی مگر اپنی اصولی شکل میں وہ ہزاروں برس سے موجود تھی ۔چنانچہ مذہبی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء بنی اسرائیل کے سامنے یہ منادی کی گئی تھی کہ مسیح موعود کے انتقال کے بعد اس کا فرزند اورپوتا اس کی (آسمانی) بادشاہت کا وارث ہوگا۔ بعد ازاں جب نعمت نبوت بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہوئی تو پیغمبر دوعالم ﷺ نے مسیح موعود کے متعلق یہ خبر دی’ ’یَتَزَوَّجَ وَیُوْلَدُ لَہٗ یعنی وہ شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ اب صاف ظاہر ہے کہ محض شادی اور اولاد کا وجود تو کسی مامورالٰہی کی سچائی پربرہان نہیں بن سکتا۔ جب تک وہ اپنے اندر بھاری نشان نہ رکھتے ہوں۔ پس بے شبہ مخبر صادق کا مقصود یہ تھا کہ مسیح موعود ایک موعود شادی کرے گا جو ایک زبردست آیت اللہ ہوگی جس کے نتیجے میں اسے ایک بلند مقام رکھنے والا صالح فرزند عطا عطا کیا جائے گا ۔جو اس کے روحانی کمالات کا نظیر ومثیل ہوگا اورجانشین بھی! وہ ہرامر میں اس کا مطیع ہوگا اس کا شمار درگاہ الٰہی کے معزز بندوں میں ہوگا اوروہ دین اسلام کی حمایت۔
اب چونکہ اس موعود کے ظہور کا زمانہ قریب آرہا تھا اس لئے خداتعالیٰ کی طرف سے اسلام کے مختلف باکمال بزرگوں کو بھی اطلاع دے دی گئی ۔چنانچہ روم میں مولوی جلال الدینؒ (۱۲۰۷۔۱۲۷۳) ہندوستان میں حضرت نعمت اللہ ولی ہانسوی ۱۱۶۵ء؁ اور شام میں حضرت محی الدین ابن عربی )۱۱۶۴۔۱۲۴۰ء) نے کشفی آنکھ سے اس موعود کو دیکھا اوراپنے اپنے زمانہ میں اس کی خبر دیتے رہے بلکہ پانچویں صدی ہجری کے شامی بزرگ حضرت امام یحیٰی بن عقبؒنے تو کھلے لفظوں میں پیشگوئی فرمائی کہ۔
وَمَحْمُوْدٌسَیَََظْھَرُ بَعْدَ ھٰذَا ۔۔۔۔۔۔۔وَیَمْلِکُ الشَّامَ بَلَا قِتَالِ
یعنی مسیح موعودؑ اور ایک عربی النسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہوگا جو ملک شام کو کسی (مادی) جنگ کے بغیر فتح کرے گا۔ بعض ائمہ شیعہ کو بھی بتایا گیا کہ ایک آنے والے موعود کا اسم گرامی ’’محمود‘‘ ہوگا۔
ہوشیار پور کا مبارک سفر:۔ ان قدیم نوشتوں کے جلد پورا کرنے کے لئے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں قادیان سے باہر چلہ کشی کرنے کی تحریک اٹھی اورآپ نے ۱۸۸۴ء؁ میں سوجان پور کا فیصلہ کرکے اپنے عقید تمند منشی عبداللہ صاحب سنوری کو اپنی منشاء سے اطلاع بھی دے دی مگر حضور کو الہاماً بتایا گیا کہ آپ کی عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ سوحضور بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے ۲۲؍جنوری ۱۸۸۶ء؁ کو ہوشیار پور تشریف لے گئے اور چلہ کشی کے نتیجے میں مصلح موعود اورپردہ غیب میں پوشیدہ جماعت کے شاندار مستقبل کے متعلق بھاری بشارتیں پانے اور تبلیغ اسلام کی مہمات میں حصہ لینے کے بعد ۱۷؍ مارچ ۱۸۸۶ء؁ کو بانیل مرام واپس قادیان پہنچے۔
حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری (جنہیں اس موقعہ پر ابتداء سے آخرتک ہمسفررہنے کا شرف نصیب ہوا) اس مبارک سفر کی روداد یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’ حضرت صاحب نے ۱۸۸۴ء؁ میں ارادہ فرمایا تھا کہ قادیان سے باہر جاکر کہیں چلہ کشی فرمائیں گے اور ہندوستان کی سیر بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ نے ارادہ فرمایا کہ سوجان پور ضلع گورداسپور میں جاکر خلوت میں رہیں اوراس کے متعلق حضور نے ایک اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا پوسٹ کارڈ بھی مجھے روانہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے بھی اس سفر اور ہندوستان کے سفر میں حضور ساتھ رکھیں۔ حضور نے منظور فرمالیا۔ مگرپھر حضور کو اس سفر سوجان پور کے متعلق الہام ہوا کہ تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی۔ چنانچہ آپ نے سوجان پور جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ ہوشیار پور جانے کاارادہ کرلیا۔ جب آپ ماہ جنوری ۱۸۸۶ء؁ میں ہوشیار پور جانے لگے تو مجھے خط لکھ کر حضور نے قادیان بلالیا۔ اورشیخ مہر علی رئیس ہوشیار پور کو خط لکھا کہ میں دوماہ کے واسطے ہوشیار پور آنا چاہتا ہوں کسی ایسے مکان کا انتظام کردیں جو شہر کے ایک کنارہ پر ہواوراس میں بالا خانہ بھی ہو۔ شیخ مہر علی نے اپنا ایک مکان جو طویلہ کے نام سے مشہور تھا خالی کروادیا۔ حضور بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے راستے تشریف لے گئے۔ میں اور شیخ حامد علی اور فتح خاں ساتھ تھے۔۔۔۔۔۔ فتح خاں رسولپور متصل ’’ٹانڈہ ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا تھا اورحضور کا بڑا معتقد تھا مگر بعد میں مولوی محمد حسین بٹالوی کے اثر کے نیچے مرتد ہوگیا۔ حضور جب دریاپر پہنچے تو چونکہ کشتی تک پہنچنے کے رستہ میں کچھ پانی تھا اس لئے ملاح نے حضور کو اٹھا کر کشتی میں بٹھایا جس پر حضور نے اسے ایک روپیہ انعام دیا۔ دریا میں جب کشتی چل رہی تھی حضور نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میاں عبداللہ کامل کی صحبت اس سفر دریا کی طرح ہے جس میں پار ہونے کی بھی امید ہے اور غرق ہونے کا بھی اندیشہ ہے ۔میں نے حضور کی یہ بات سرسری طور پر سنی مگر جب فتح خاں مرتد ہوا تو مجھے حضرت کی یہ بات یاد آئی ۔خیر ہم راستہ میں فتح خاں کے گائوں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیار پور پہنچے وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالا خانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرمادیئے ۔چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا ۔فتح خاں کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اورآنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کردیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں۔ اورنہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں۔ ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کرسکتے ہیں اورسوال وجواب کرنے والے سوال وجواب کرلیں ۔اورحضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہروقت لگی رہے اورگھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے ۔میں اگر کسی کو بلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اورنہ اوپر بلاخانہ میں کوئی میرے پاس آوے۔ میرا کھانا اوپر پہنچادیا جاوے مگراس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں ۔خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں۔ نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا تم نیچے پڑھ لیا کرو۔ جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو۔جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کرسکیں۔ چنانچہ شہر کے باہرایک باغ تھا اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی ۔وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اورہم کو نماز پڑھاتے تھے اورخطبہ بھی خود پڑھتے تھے۔
’’میں کھانا چھوڑنے اوپر جایاکرتا تھا اورحضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا ۔ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا ۔میاں عبداللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے اگران کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں۔۔۔۔۔۔۔۔پسر موعودکے متعلق الہامات بھی اسی چلہ میں ہوئے تھے اور بعد چلہ کے ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی کااعلان فرمایا تھا جب چالیس دن گزر گئے تو پھر آپ حسب اعلان بیس دن اور وہاں ٹھہرے۔ ان دنوں میں کئی لوگوں نے دعوتیں کیں اور کئی لوگ مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے اور باہر سے حضور کے پرانے ملنے والے لوگ بھی مہمان آئے انہی دنوں میں مرلی دھر سے آپ کا مباحثہ ہوا۔ جو سرمہ چشم آریہ میں درج ہے جب دو مہینے کی مدت پوری ہوگی تو حضرت صاحب واپس اسی راستہ سے قادیان روانہ ہوئے ہوشیار پور سے پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بزرگ کی قبر ہے جہاں کچھ باغیچہ سا لگا ہواتھا وہاں پہنچ کر حضور تھوڑی دیر کے لئے بہلی سے اتر آئے اور فرمایا یہ عمدہ سایہ دار جگہ ہے یہاں تھوڑی دیر ٹھہرجاتے ہیں اس کے بعد حضور قبر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی پیچھے پیچھے ساتھ ہوگیا۔ اور شیخ حامد علی اور فتح خاں بہلی کے پاس رہے آپ مقبرہ پر پہنچ کر اس کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور تھوڑی دیر تک دعا فرماتے رہے پھر واپس آئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جب میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو جس بزرگ کی یہ قبر ہے وہ قبر سے نکل کر دو زانو ہوکر میرے سامنے بیٹھ گئے اور اگر آپ ساتھ نہ ہوتے تو میں ان سے باتیں بھی کرلیتا۔ ان کی آنکھیں موٹی موٹی ہیں اور رنگ سانولا ہے۔‘‘ پھر کہا کہ دیکھو اگر یہاں کوئی مجاور ہے تو اس سے ان کے حالات پوچھیں۔ چنانچہ حضور نے مجاورسے دریافت کیا۔ اس نے کہا میں نے ان کو خود نہیں دیکھا کیونکہ ان کی وفات کو قریباً ایک سو سال گزرگیا ہے۔ ہاں اپنے باپ یا دادا سے سنا ہے کہ یہ اس علاقہ کے بڑے بزرگ تھے اور اس علاقہ میں ان کا بہت اثر تھا۔ حضور نے پوچھا ان کا حلیہ کیاتھا؟وہ کہنے لگا سنا ہے سانولا رنگ تھا اور موٹی موٹی آنکھیں تھیں۔ پھر ہم وہاں سے روانہ ہو کر قادیان پہنچ گئے۔‘‘(۱۱)
پسر موعود اور جماعت کی ترقی سے متعلق زبردست پیشگوئی
سفر ہوشیار پور کے ان اجمالی حالات میں حضور کی چلہ کشی پسر موعود کی پیشگوئی اور مباحثہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جن کا تفصیلی ذکر اب کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ) ہوشیار پور میں محض چلہ کشی کے لئے تشریف لے گئے تھے اورشیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان کی بالائی منزل میں آپ چالیس روز تک دعائوں میں مصروف رہے اس دوران میں حضور کی خلوت نشینی کا عجیب رنگ تھا۔ شہر والوں سے تو دستی اشتہارات کے ذریعہ سے ملاقات کی ممانعت تھی اور اپنے تینوں خادموں کو بھی جو آپ کے ہمسفر تھے زبانی یہ حکم دے دیا تھا کہ ڈیوڑھی کی زنجیر ہر وقت لگی رہے اور کوئی شخص گھرمیں بھی مجھے نہ بلائے میں اگر کسی کو بلائوں تووہ اتنا ہی میری بات کا جواب دے جتنا ضروری ہے کھانا پہنچانے کے لئے بھی حضور سے انہیں اوپر اجازت لے کر جانا پـڑتاتھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عرصہ میں مکالمات ومخاطبات کا وسیع سلسلہ جاری ہوا۔ چنانچہ منشی عبداللہ صاحب سنوری ایک دفعہ جب کھانا لے کر اوپر گئے تو حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے۔’’بورک من فیھا ومن حولھا‘‘۔ اورحضور نے تشریح فرمائی کہ من فیھا سے تو میں مراد ہوں اورمن حولھا سے تم لوگ۔ اسی طرح ایک دوسرے موقعہ پر فرمایا۔’’مجھے خدا اس طرح مخاطب کرتا ہے اور مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتا ہے کہ اگر میں ان میں سے کچھ تھوڑا سا بھی ظاہر کردوں تو یہ جو معتقد نظر آتے ہیں سب پھر جاویں‘‘۔(۱۲)ان سب الہامات میں اہمیت اس پیشگوئی کو حاصل ہے جس میں آپ کو پسر موعود کی خبر دی گئی۔ اسی لئے جب چلہ ختم ہوا تو حضرت اقدس نے اپنے قلم سے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار تحریر فرمایا۔ جو اخبار ریاض ہند امرت سر یکم مارچ ۱۸۸۶ء کی اشاعت میں بطور ضمیمہ شائع ہوا چنانچہ آپ نے لکھا۔
’’پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ واعلامہ عزوجل خدائے رحیم وکریم بزرگ وبرتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے (جل شانہ وعزاسمہ) مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کر کے فرمایا کہ تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفرکی کلید تجھے ملتی ہے اے مظفر! تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پـڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں۔ میں کہ تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفی ﷺ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔ سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام(لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے ‘وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والاہوگا (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دل بند گرامی ارجمند مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَالْاٰخَرِ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعُلَائِ کَاَنَّ اللہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَائِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا وہ جلد جلد بڑھے گا اوراسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیںاس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَکَانَ اَمْرًا مَقْضِیّاً۔
پھر خدائے کریم جل شانہ نے مجھے بشارت دے کر کہا کہ تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا تیر نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھائوں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہوں گے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اورہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولدرہ کر ختم ہوجائی گی اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہوجائیں گے ان کے گھر بیوائوں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہوگا لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا۔ خدا تیری برکتیں اردگر پھیلائے گا اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈرائونا گھر برکتوں سے بھر دے گا تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہوجائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھائوں گا اور اپنی طرف بلالوں گا پر تیرا نام صفحہ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایساہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور تیرے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بھی بڑھائوں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اور ان میں کثرت (۱۳) بخشوں گا اوروہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تا بروز قیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہ کرے گا اوروہ اعلیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے تو مجھے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل(یعنی ظلی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھے ایسا ہے جیسی میری توحید۔ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں اوروہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے ‘ کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندہ کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندہ پر کیا تو اس نشان رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگرتم سچے ہو اور اگر تم پیش نہ کرسکو اور یادرکھو کہ ہرگز پیش نہ کرسکو گے تو اس آگے سے ڈرو کہ جو نافرمانوں اور جھوٹوں اورحد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے ۔ فقط ‘‘(۱۴)
اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس ؑ کو مزید بتایا گیا کہ ’’ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی ۹ برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔(۱۵) نیز چند روز بعد ۸۔ اپریل ۱۸۸۶ء کو جناب الٰہی کی طرف توجہ کرنے پر منکشف ہوا ’’کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔‘‘ تاہم یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جواب پیدا ہوگا یہی پسر موعود ہے یاوہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میںپیدا ہوگا۔ (۱۶)














ماسٹر مرلی دھر صاحب سے مباحثہ اور ’’ سرمہ چشم آریہ ‘‘
کی تصنیف و اشاعت
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر ہوشیار پور میں چلہ کشی اور پیشگوئی ’’ پسر موعود‘‘ کے بعد دوسرا اہم واقعہ مباحثہ مرلی دھر ہے۔
ماسٹر مرلی دھر صاحب آف ہوشیار پور سے مباحثہ :۔
ماسٹر مرلی دھر صاحب ( جو آریہ سماج ہوشیار پور کے ایک ممتاز رکن تھے) حضرت اقدس کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ وہ اسلامی تعلیمات پر چند سوالات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کا پہلوان تو مدت سے للکار رہا تھا کہ کوئی آریہ سماجی لیڈر مرد میدان بنے۔ چنانچہ اب جو خود آریہ سماج کی طرف سے ایک تحریری مذہبی مباحثہ کی طرح ڈالی گئی تو حضور نے اسے بسر وچشم قبول فرما لیا۔ اور اس دینی مذاکرہ کو غیر جانبدارانہ سطح پر لے جانے کے لئے یہ تجویز کی کہ ماسٹر صاحب ایک نشست میں اسلام پر اعتراضات کریں اور آپ ان کے جوابات دیں۔ اور دوسری نشست میں حضور آریہ سماج کے مسلمات پر سوال کریں گے اور ماسٹر صاحب ان کا جواب دیں گے ۔ ماسٹر صاحب نے اس تجویز سے اتفاق ظاہر کیا۔ بحث کے لئے حضرت اقدسؑ کی فرودگاہ تجویز ہوئی ۔ اور مباحثہ کی دو نشتوں کے لئے گیارہ مارچ کی شب اور چودہ مارچ کا دن قرار پایا ۔ اور دونوں بحثوں سے متعلق یہ بات بھی طے ہوئی کہ بحث کا خاتمہ جواب الجواب کے جواب سے ہو۔ اس سے پہلے نہ ہو چنانچہ گیارہ مارچ ۱۸۸۶ء کی پہلی نشست میں ماسٹر صاحب اسلام پر چھ سوالات کرنے کی تیاری کرکے آئے تھے اور اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا مگر ابھی انہوں نے معجزہ شق القمر کے متعلق ہی اپنا پہلا مایہ ناز اعتراض پیش کیا تھا کہ ان کی علمیت کا سارا بھرم کھل گیا اور وہ اپنی ناکامی کا داغ مٹانے کے لئے عین اس وقت جب کہ حضور کی طرف سے جواب الجواب کے جواب کا وقت آیا تو معاہدہ کے خلاف محض رات کی طوالت کے بہانے سے جانے کا قصد کرنے لگے ۔ اکثر ہندو حاضرین بالخصوص والی ریاست سو کیت کے بڑے بیٹے میاں شترو گہن صاحب نے جو اس مجلس میں موجود تھے کئی بار ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ جواب الجواب کا جواب لکھنے دیں ہم لوگ بخوشی بیٹھیں گے ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہیں بلکہ ہمیں جواب سننے کا شوق ہے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ آخر حضرت اقدسؑ نے فرمایا یہ جواب تحریر ہونے سے رہ نہیں سکتا۔ اگر آپ اس کو اس وقت ٹالنا چاہتے ہیں تو یہ رسالہ کے ساتھ شامل کیا جائیگا۔ اس پر انہوں نے بادل ناخواستہ اس کا شامل رسالہ کیا جانا تسلیم کر لیا۔ لیکن جواب کا اس مجلس میں تحریر ہو کر پیش ہونا چونکہ ان کو ناگوار تھا اس لئے وہ اٹھ کر چل دیئے۔
پہلی نشست کا تو یوں حشر ہوا اب دوسری نشست کی کیفیت سنئے۔ اس دن حضرت اقدسؑ کا حق تھا کہ پہلے اپنے اعتراض پیش فرماتے ۔ مگر ماسٹر صاحب نے وقت ضائع کرنے کے لئے پہلی نشست کی بحث سے متعلق ایک فضول جھگڑا شروع کر دیا۔ اور یہ چند سطریں لکھ کر اور ان پر اپنے دستخط کرکے جلسہ عام میں ایک بڑے جوش سے کھڑے ہو کر سنائیں کہ ’’ آج پہلے اس کے کہ میں کوئی سوال پیش کروں مرزا صاحب کی پہلے روز کی تقریر میں سے وہ حصہ جو انہوں نے فرمایا کہ ستیارتھ پر کاش میں لکھاہے کہ روحیں اوس پر پھلتی ہیں اور عورتیں کھاتی ہیں تو آدمی پیدا ہوتے ہیں پیش کرتا ہوں ۔ یہ ستیارتھ پرکاش میں کسی جگہ نہیں ۔ اگر ہے تو ستیارتھ پرکاش میں دیتا ہوں اس میں سے نکال کر دکھلادیں تاکہ سچ اور جھوٹ کی نرقی لوگ کر لیں۔ ‘‘ اس کے جواب میںحضور نے کہا کہ پہلے روز کی تقریر اسی روز کے ساتھ ختم ہوگئی۔ آپ کو چاہئے تھا کہ اسی دن یہ مطالبہ پیش کرتے مگر ماسٹر صاحب سراسر مجادلہ کی راہ سے مصر تھے کہ جب تک اس امر کا تصفیہ نہ ہو لے دوسری گفتگو نہیں کر سکتے ۔ اس پر مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل نے بھی انہیں بہت سمجھایا کہ اس موقعہ پر گذشتہ قصوں کو لے بیٹھنا بے جا ہے آج کے دن آج ہی کی بحث ہونی چاہیئے۔ آخر جب کافی ردو قدح ہو چکی تو حضرت اقدسؑ نے قضیہ ختم کرکے اصل موضوع کی طرف لانے کے لئے یہ تحریر لکھ دی کہ جب ہم یہ بحث شائع کریں گے تو اس مقام پر ستیار تھ پرکاش کا حوالہ بھی لکھ دیں گے اس حکمت عملی سے یہ جھگڑا رفع دفع ہوا۔ اور اصل کارروائی شروع ہوئی۔
چنانچہ اس کے بعد حضور کی طرف سے آریہ سماج کے اس اصول کے متعلق تحریری اعتراض پیش ہوا کہ آریہ سماج کا یہ عقیدہ کہ پرمیشر نے کوئی روح پیدا نہیں کی اور نہ وہ کسی کو خواہ کوئی کیسا ہی راست باز اور سچا پر ستار ہو ابدی نجات بخشے گا۔خدا تعالیٰ کی توحید اور رحمت دونوں کے صریح منافی ہے جب یہ زبردست اعتراض جلسہ عام میں سنایا گیا تو ماسٹر صاحب پر ایک عجیب حالت طاری ہوئی جس کی کیفیت ماسٹر صاحب ہی کا جی جانتا ہوگا۔ انہیں اس وقت کچھ بھی نہیں سوجھتا تھا کہ اس کا کیا جواب دیں ۔ اسی لئے گھنٹہ سوا گھنٹہ تک یہی عذر پیش کرتے رہے کہ یہ سوال ایک انہیں دو ہیں۔ حضورؑ نے بتلایا کہ حقیقت میں سوال ایک ہی ہے یعنی خدا تعالیٰ کی خالقیت سے انکار کرنا۔ اور میعادی مکتی ( نجات ) تو اس خراب اصول کا ایک بد اثر ہے ۔ جو اس سے الگ نہیں ہو سکتا ۔ اس جہت سے سوال کے دونوں ٹکڑے حقیقت میں ایک ہی ہیں کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کی خالقیت سے منکر ہو گا اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ ہمیشہ کی نجات کا اقرار کر سکے۔ سو انکار خالقیت اور انکار نجات جاودانی باہم لازم ملزوم ہیں۔ پس جو شخص یہ ثابت کرنا چاہے کہ خدا تعالیٰ کے رب العالمین اور خالق نہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ۔ اس کو یہ ثابت کرنا بھی لازم آجائے گا کہ خدا تعالیٰ کے کامل بندوں کا ہمیشہ جنم مرن کے عذاب میں مبتلا رہنا اور کبھی دائمی نجات نہ پانا یہ بھی کچھ مضائقہ کی بات نہیں۔ غرض بار بار سمجھانے کے بعد ماسٹر صاحب کچھ سمجھے اور جواب لکھنا شروع کیا۔ اور تین گھنٹہ میں سوال کے ایک ٹکڑے کا جواب قلمبند کرکے سنایا اور دوسرے حصہ سوال کے متعلق جو مکتی کے بارے میں تھا یہ جواب دیا کہ اس کا جواب ہم اپنے مکان سے لکھ کر بھیج دیں گے ۔ حضور نے ایسا جواب لینے سے انکار کر کے فرمایا کہ آپ نے جو کچھ لکھنا ہے اسی جلسہ میں حاضرین کے روبرو تحریر کریں۔ اگر گھر میں بیٹھ کر لکھنا تھا تو پھر اس مباحثہ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ مگر ماسٹر صاحب تو محض دفع الوقتی کے لئے آئے تھے وہ کیونکر مانتے ۔ حضور نے جب ان کی یہ ہٹ دھرمی دیکھی تو فرمایا جس قدر آپ نے لکھا ہے وہی ہمیں دے دیں تا اس کا ہم جواب الجواب لکھیں ۔ ماسٹر صاحب جو پہلی نشست میں جواب الجواب کے جواب سننے پر دہشت زدہ ہو گئے تھے ۔ اب جواب الجواب لکھنے پر بوکھلاگئے اور معذرت کی کہ اب ہماری سماج کا وقت ہے ہم بیٹھ نہیں سکتے۔ ماسٹر صاحب نے ابتداء میں جب بہت سا وقت ادھر ادھر کی باتوں میں ضائع کرکے بہت آہستگی اور دھیماپن سے جواب لکھنا شروع کیا تھا تو حضرت اقدسؑ اسی وقت سمجھ گئے کہ ان کی نیت بخیر نہیں اور اسی لئے حضور نے پہلے ان سے احتیاطاً یہ کہا تھا کہ بہتر یوں ہے کہ جو ورق آپ لکھتے جائیں وہ مجھے دیتے جائیں تا میں اس کا جواب الجواب بھی لکھتا جائوں۔ ماسٹر صاحب کے ایک ساتھی لالہ لچھمن صاحب نے حضرت اقدسؑ کی بات سن کر کہا کہ میں آپ کی غرض سمجھ گیا لیکن ماسٹر صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ چنانچہ وہی بات ہوئی اور اخیر پر مباحثہ نا تمام چھوڑ کر انہوں نے سماج کا عذر کر دیا جو محض بہانہ تھا۔ اصل موجب تو سراسیمگی اور گھبراہٹ تھی جو اعتراض سنتے ہی ان کے دل و دماغ پر چھاگئی اور وہ کچھ ایسے مبہوت ہو گئے کہ چہرے پر ہوائیاں چھوٹنے لگیں اور ناکارہ عذرات پیش کرکے یہ چاہا کہ جواب دیئے بغیر ہی اٹھ کر چلے جائیں ۔ یہ وجہ تھی کہ سامعین بھی مایوس ہو کر منتشر ہوگئے اور بعض یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ اب کیا بیٹھیں اب تو بحث ختم ہوگئی ۔ یہ رنگ دیکھا تو ماسٹر صاحب نے شرم و ندامت سے کچھ لکھا جس کا آدھا حصہ تو کاغذ پر اور آدھا ان کے دل میں رہا۔ بہرحال وہ اپنے جو اب کو اس صورت میں چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضور نے ماسٹر صاحب سے اس مرحلہ پر یہ بھی فرمایا کہ اگر آپ اس وقت ٹھہرنا مصلحتاً مناسب نہیں سمجھتے ہیں تو میں دو روز اور اس جگہ ہوں اور اپنا دن رات اسی خدمت میں صرف کر سکتا ہو ں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیں۔ اس جواب پر حضور کو سخت افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کہ آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ جو کچھ معاہدہ ہو چکا تھا۔ اسے توڑ دیا ۔نہ آپ نے پورا جواب لکھا اور نہ ہمیں اب جواب الجواب لکھنے دیتے ہیں۔ بہرکیف یہ جواب الجواب بھی مجبورا ً بطور خود تحریر کر کے رسالے کے ساتھ شامل کر دیا جائے گا۔ یہ بات سنتے ہی ماسٹر صاحب اپنے رفقاء سمیت اٹھ کر چلے گئے اور حاضرین جلسہ پر صاف کھل گیا کہ ماسٹرصاحب کی یہ تمام کارروائی سر تاپا گریز اور کنارہ کشی کے لئے ایک بہانہ تھی۔ (۱)
اس نشست میں سامعین کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی۔ صد ہا مسلمان اور ہندو اپنا کام چھوڑ کر محض مباحثے کی کارروائی دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تھے ۔ اور صحن مکان حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ جن میں شیخ مہر علی صاحب رئیس اعظم ہوشیار پور ، ڈاکٹر مصطفی علی صاحب، بابو احمد حسین صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ہوشیار پور، مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل ہوشیار پور ، میاں عبداللہ صاحب حکیم ، میاں شہاب الدین صاحب دفعدار، لالہ نرائن داس صاحب وکیل ، پنڈت جگن ناتھ صاحب وکیل ، لالہ لچھمن سنگھ صاحب ہیڈ ماسٹر لدھیانہ ، بابو ہر کشن داس صاحب سکینڈ ماسٹر ، لالہ گنیش داس صاحب وکیل، لالہ سیتارام صاحب مہاجن میاں شتروگہن صاحب، میاں شترنجی صاحب، منشی گلاب سنگھ صاحب سر رشتہ دار ، مولوی غلام رسول صاحب مدرس ، مولوی فتح دین صاحب مدرس خاص طور قابل ذکر ہیں۔
’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کی تصنیف و اشاعت:۔
حضرت اقدسؑ نے یہ مباحثہ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۸۸۶ء میں ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ کے نام سے شائع فرما دیا ۔(۲) جس میں آپ نے ستیارتھ پرکاش کا مطلوبہ حوالہ اور اس کے علاوہ وہ جوابات بھی جو مباحثے میں ناتمام رہ گئے تھے اس خوبصورتی سے شامل کر دیئے کہ کتاب کو ایک تاریخی شاہکار کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ حضور نے اس کتاب میں آریہ سماج پر زبردست تنقید کی اور معجزات و خوارق قرآنی، عجائبات عالم ، روح کے خواص ، کشف قبور، انسان کامل اور قانون قدرت جیسے اہم مسائل پر بھی بڑی لطیف روشنی ڈالی اور بالخصوص بتایا کہ خدائی قانون کا احاطہ جب کسی انسان کے لئے ممکن نہیں تو کسی معجزہ کو قانون قدرت کے منافی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟ کتاب کا رد لکھنے والے کے لئے حضور نے پانچ سو روپیہ کا انعامی اشتہار بھی دیا۔ اور لطف یہ کہ اس کے لئے منشی جیون داس صاحب سیکرٹری آریہ سماج کو ثالث تجویز فرما دیا کہ اگر وہ قسم کھا کر شہادت دے دیں کہ کتاب کا جواب دے دیا گیا ہے تو محض ان کی شہادت پر حضور یہ انعام دے دیں گے ۔ اس انعامی چیلنج پر آریہ سماج نے بالکل چپ سادھ لی۔ لیکھرام نے ’’ نسخہ خبط احمدیہ ‘‘ کے ذریعہ سے اس کے رد کی جو ناکام کوشش کی وہ اس قابل نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے۔
’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ ایسی معرکہ الاراء کتاب کی اشاعت پر اہلحدیث عالم مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ ’’ اشاعتہ السنہ ‘‘ میں ریویو کرتے ہوئے لکھا۔ ’’ یہ کتاب لاجواب مولف ’’ براہین احمدیہ ‘‘ مرزا غلام احمد رئیس قادیان کی تصنیف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں جناب مصنف کا ایک ممبر آریہ سماج سے مباحثہ شائع ہوا ہے جو معجزہ شق القمر اور تعلیم دید پر بمقام ہوشیار پور ہوا تھا اس مباحثہ میں جناب مصنف نے تاریخی واقعات اور عقلی وجوہات سے معجزہ شق القمر ثابت کای ہے اور اس کے مقابلہ میں آریہ سماج کی کتاب (وید ) اور اس کی تعلیمات و عقائد ( تناسخ وغیرہ ) کا کافی دلائل سے ابطال کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمیت و حمایت اسلام تو اس میں ہے کہ ایک ایک مسلمان دس دس بیس بیس نسخہ خرید کر ہندو مسلمانوں میں تقسیم کرے۔ اس میں ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اصول اسلام کی خوبی اور اصول مذہب آریہ کی برائی زیادہ شیوع پائے گی اور اس سے آریہ سماج کی ان مخالفانہ کارروائیوں کو جو اسلام کے مقابلہ میں وہ کرتے ہیں روک ہوگی۔
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کتاب کی قیمت سے دوسری تصانیف مرزا صاحب ( سراج منیر وغیرہ) کے جلد چھپنے اور شائع ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگی۔ ہم نے سنا ہے کہ اس وقت تک سراج منیر کا طبع ہونا عدم موجودگی زر کے سبب معرض التوا میں ہے اور اس کے مصارف طبع کے لئے آمد قیمت سرمہ چشم آریہ کا انتظار ہے ۔ یہ بات صحیح ہے تو مسلمانوں کی حالت پر کمال افسوس ہے کہ ایک شخص اسلام کی حمایت میں تمام جہان کے اہل مذہب سے مقابلہ کے لئے وقت اور فدا ہو رہا ہے پھر اہل اسلام کا اس کام کی مالی معاونت میں یہ حال ہے ۔ شاید ان خام خیالوں کو یہ خیال ہو گا کہ مرزا صاحب اپنے دس ہزار روپیہ کی جائیداد جس کو انہوں نے مخالفین اسلام کو مقابلہ پر انعام دینے کے لئے رکھا ہوا ہے فروخت کرکے صرف کر لیں تو پیچھے کو وہ ان کو مالی مدد دیں گے ۔ ان کا واقعی یہی خیال ہے تو ان کا حال اور بھی افسوس کے لائق ہے۔ (۳،۴)
مشہور عیسائی اخبار نورافشاں (۶۔ جنوری ۱۸۸۷ء ) نے ’’سرمہ چشم اریہ ‘‘ پر ان الفاظ میں تبصرہ لکھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب نے آریہ سماج کو پورے طور پر بے نقاب کر تے ہوئے اسے پاش پاش کردیا ہے کتاب کے فیصلہ کن دلائل کا رد کرنا قطعی طور پر ناممکن ہے ۔(۵)
’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ میں آریہ سماج کے بنیادی اصولوں کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کی یاد خود ماسٹر مرلی دھر آخر دم تک بھلا نہیں سکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’ مرزا صاحب غیر معمولی علم رکھتے ہیں میں نے علمائے اسلام میں وہ چیز نہیں دیکھی جوان میں ہے ۔ ’’سرمہ چشم آریہ‘‘ سے متعلق جواب دیا۔ ’’ واقعات درست ہیں نتائج اپنے طرز پر مرزا صاحب نے پیدا کرلئے ہیں اور ہر شخص رائے قائم کر سکتا ہے ۔‘‘ حضرت عرفانیؓ نے کہا کہ نتائج ان واقعات سے ہی پیدا ہوتے ہیں تو کہا کہ اپنا اپنا خیال ہے ۔ آپ نے کہا کہ آپ رد کریں تو کہا ضرورت نہیں (۶)
ایک غیر احمدی عالم ( مولوی سید ابو الحسن علی ندوی ) نے اس عظیم الشان کتاب کے متعلق حال ہی میں اپنی یہ رائے شائع کی ہے کہ ۔
’’۱۸۸۶ء میں مرزا صاحب نے ہوشیار پو رمیں مرلی دھر آریہ سماج سے مناظرہ کیا۔ اس مناظرہ کے بارے میں انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’سرمہ چشم آریہ ‘‘ ہے یہ کتاب مناظرہ مذاہب و فرق میں ان کی دوسری تصنیف ہے ۔
پہلے دن کے مناظرہ کا موضوع بحث ’’ معجزہ شق القمر کا عقلی و نقلی ثبوت ‘‘ تھا۔ مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ بلکہ معجزات ابنیاء کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے ۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ معجزات و خوارق کا وقوع عقلا ممکن ہے محدود انسانی عقل اور علم اور محدود انفرادی تجربات کو اس کا حق نہیں کہ وہ ان معجزات و خوارق کا انکار کریں اور اس کائنات کے احاطہ کا دعویٰ کریں وہ بار بار اس حقیقت پر زور دیتے ہیں کہ انسان کا علم محدودو مختصر اور امکان کا دائرہ بہت وسیع ہے ان کا اس پر بھی زور ہے کہ مذاہب و عقائد کے لئے ایمان بالغیب ضروری ہے اور اس میں اور عقل میں کوئی منافات نہیں اس لئے کہ عقل غیر محیط ہے۔ ‘‘(۷)
حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت او ردعوت مباہلہ
’’ سرمہ چشم آریہ ‘‘ میں حضرت اقدسؑ نے آریوں کو حق و باطل کے فیصلہ کی ایک آسان صورت بتائی کہ وہ کافی غورو فکر کے بعد قرآن مجید سے متعلق دو تین ایسے زبردست اعتراضات بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں جو ان کی دانست میں سب سے قوی ہوں پھر آپ اگر ان کا مسکت جواب دینے سے قاصر رہے تو فی اعتراض پچاس روپیہ بطور جرمانہ ادا کریں گے لیکن اگر فریق مخالف کے اعتراضات لغو ثابت ہوئے تو اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا۔
اس آسان طریق فیصلہ کے علاوہ حضرت اقدسؑ نے اتمام حجت کی غرض سے آریہ سماج کے مشہور اور نامور ممبروں بالخصوص لالہ مرلی دھر ، لالہ جیون داس اور منشی اندر من مراد آبادی کو دعوت مباہلہ بھی دی اور فرمایا کہ فیصلہ آسمانی کے انتظار کے لئے ایک برس کی مہلت ہوگی ۔ پھر اگر ایک برس گزرنے کے بعد مجھ پر کوئی عذاب اور وبال نازل ہوا یا حریف مقابل پر نازل نہ ہوا تو ان دونوں صورتوں میں پانچ سو روپیہ تاوان ادا کریں گے اس دعوت کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے بطور نمونہ مباہلی کی دعا بھی شائع فرما دی ۔ خیال تھا کہ اس فیصلہ کن طریق سے گریز نہیں کیا جائے گا ۔مگر افسوس آریہ سماج نے گذشتہ روایات کے مطابق اس دعوت مباہلہ پر بھی سکوت ہی اختیار کیا۔ البتہ پنڈت لیکھرام نے ۱۸۸۸ء میں اپنی کتاب نسخہ ’’خبط احمدیہ‘‘ میں دعائے مباہلہ کرتے ہوئے لکھا ۔ ’’ اے پرمیشر ہم دونوں فریقوں میں سچا فیصلہ کر کیونکہ کاذب صادق کی طرح کبھی تیرے حضور میں عزت نہیں پا سکتا۔ ‘‘(۸) اللہ تعالیٰ نے ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو وہ فیصلہ کر دکھا یا جو لیکھرام نے اپنے منہ مانگا تھا جس سے آریہ سماج کے بطلان اور اسلام کی سچائی پر ابدی مہر لگ گئی ( اس کی تفصیل اسی جلد میں آگے آرہی ہے )
سفر انبالہ
اس سال (۱۸۸۶ء کے وسط میں ) حضرت اقدس نے انبالہ کا سفربھی اختیار فرمایا اور قریباً ایک ماہ تک محمد لطیف صاحب کی کوٹھی واقع صدر انبالہ احاطہ ناگ پھنی میں قیام پذیر رہنے کے بعد ۲۵۔ نومبر ۱۸۸۶ء کو قادیان تشریف لائے ۔ (۹)


ماموریت کا ساتواں سال
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے جدی خاندان
سے متعلق خدا تعالیٰ کا ایک قہری نشان
(۱۸۸۸ء)
مولوی محمد امام الدین صاحب سے خط وکتابت :۔ منٹگمری میں ایک صاحب مولوی محمد امام الدین ’’فاتح الکتاب المبین ‘‘ ہوتے تھے جو مسلمانوں میں یہ ملحدانہ عقیدہ پھیلانے میں مصروف رہتے تھے کہ قرآن شریف سے قبل کی آسمانی کتابیں ہنوز قابل عمل ہیں اور قرآن شریف کے نزول سے منسوخ نہیں ہو ئیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بعض اہل اسلام کی تحریک پر حضرت اقدس کی خدمت میں بھی ۲۲۔ اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک خط لکھا۔ حضرت اقدس ؑ نے اس کے جواب میں ۲۸۔ اپریل ۱۸۸۸ء کو ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا جس میں آپ نے اس فتنہ انگیز خیال کی تردید میں لکھا ۔ ’’میری دانست میں آپ نے ایک ایسا فضول اور بے بنیاد دعویٰ اپنے ذمہ لے لیا ہے جس کا ثبوت آپ کے لئے محال اور ممتنع ہے۔ بینات قرآنی سے آپ کیوں بھاگتے ہیں ۔ کیا کبھی قرآن شریف کی تلاوت کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ اللہ جل شانہ فرماتا ہے ۔ یَتْلُوْا صُحُفاً مُّطَھَّرَۃً فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ۔سو جس حالت اللہ جل شانہ آپ فرماتا ہے کہ تمام پاک صداقتیں جو پہلی کتابوں میں تھیں اس کتاب میں درج ہیں تو آپ ایسی جامع کتاب کو کیوں نظر تحقیر سے دیکھتے ہیں آپ کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ چند پاک صداقتیں کسی پہلی کتاب کی جو آپ کے گمان میں قرآن شریف میں نہیں پائی جاتیں اس عاجز کے سامنے پیش کریں پھر اگر یہ عاجز قرآن شریف سے وہ صداقتیں دکھلانے میں قاصر رہا تو آپ کا دعویٰ خود بخود ثابت ہو جائیگا کہ ایسی ضروری اور پاک صداقتیں قرآن شریف میں نہ پائی گئیں۔ ورنہ آپ کو اس غایت درجہ کی بے ادبی سے توبہ کرنی چاہیئے کہ جس کتاب کا نام اللہ جل شاہ ، نے جامع الکتاب اور نور مبین رکھا ہے آپ اس کتاب کو ناقص ٹھہراتے ہیں‘‘ (۱) اگلے سال ۳۰ ستمبر ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس نے ان کے نام ایک اور مکتوب میں بائبل کی قلعی کھولتے ہوئے لکھا ۔’’انجیل اور توریت کی حالت کی نسبت یہ آیت نہایت موزون معلوم ہوتی ہے ۔ وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِھِمَا انہوں نے اپنی قوم کو جن کے ہاتھ میں صدہا سال سے یہ کتابیں ہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے جو آپ کو بھی پہنچائیں گی جن کے گندے اور غیر مہذب بیانات کے بڑے فاضل انگریز جان پورٹ ولائل وغیرہ جیسے قائل ہوگئے ہیںآپ نے ان میں کیا دیکھ لیا کہ آپ قائل نہیں ہوتے ۔ خدا تعالیٰ رحم کرے ۔ ‘‘(۲)حضرت اقدس ؑ کے ان زبردست دلائل سے مولوی امام الدین صاحب دم بخود رہ گئے ۔
آپ کے جدی خاندان کی طرف مخالفین اسلام کی پشت پناہی :۔
آریہ قوم پوری بے حجابی سے آنحضرتﷺ اسلام اور آپ کے خلاف دشنام طرازی اور گندہ ذہنی کا مظاہرہ کر رہی تھی کہ عیسائی پادری سستی شہرت کی خاطر میدان مقابلہ میں اتر آئے۔ حضور نے نشان نمائی کا جو چیلنج دے رکھا تھا چونکہ مسیحی دنیا اس کے جواب سے بالکل عاجز اور ابے بس تھی۔ اس لئے وہ آپ کے دعویٰ الہام و کلام پر تنقید کرکے اسلام کی سچائی مخدوش ثابت کرنے کے لئے کسی موزوں موقعہ کی تلاش میں تھی جو مئی ۱۸۸۸ء میں حضور کے نام نہاد خاندان نے پیدا کر دیا۔
جیسا کہ اوپر اشارۃ ذکر آچکا ہے کہ حضرت اقدسؑ کے چچازاد بھائی مرزا نظام الدین ، اما م الدین اور ان کے لگے بندھے احمد بیگ وغیرہ اسلام کے بد ترین مخالف تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات بلکہ گندی گالیوں کا استعمال ان لوگوں کا عام شیوہ ہو چکا تھا۔ ہر نوع کی رسوم قبیحہ کے خوگر، عقائد باطلہ کے عاشق اور بدعات شنیعہ میں مستغرق رہنے کو فخر محسوس کرتے تھے اور اسلام کے معاندین کی صف اول میں شامل تھے۔ وہ خدا جس نے صنم گدوں سے کعبے کے پاسبان پیدا کر ڈالے اس نے اس زمانہ میں بھی کفر کے اسی گہوارہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا۔ اور دیگر تمام مذاہب پر اسلام کو ابدی غلبہ بخشنے کے لئے آپ کو خلعت ماموریت سے سرفراز فرمایا۔ جس پر یہ ظالم آتش زیر پا ہو کر آپ کے خلاف پوری قوت سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اور نہ صرف آپ کو ایک مکار اور فریبی قرار دیا۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ ہم کسی کلام کرنے والے یا قضاء وقدر کے مالک اور روحی کنندہ خدا کو نہیں جانتے ۔ یہ محض ڈھونگ اور مکرو فریب ہے جو شروع سے چلا آیا ہے اور قرآن محمد ( ﷺ) کی تصنیف ہے خدا کا الہام نہیں ہو سکتا۔
ایک روح فرساواقعہ :۔
یہ بد زبانیاں پورے زوروں پر تھیں کہ ایک شخص حضورؑ کی خدمت میں روتا چلاتا پہنچا۔ حضرت اقدس نے گھبرا کر پوچھا کہ کیا کسی فوت شدہ کی خبر آئی ہے ؟ اس نے کہا اس سے بھی بڑھ کر ۔ چنانچہ اس نے بتایا کہ میں ان عدوان دین کے پاس تھا کہ ان میں سے ایک بدبخت نے آنحضرتﷺ کی شان مبارک میں وہ گندے الفاظ استعمال کئے کہ ایسے کلمات کسی کافر سے بھی نہیں سنے گئے ۔ یہی نہیں انہوں نے خدا تعالیٰ کی شان اقدس میں بھی قبیح الفاظ کہے اور قرآن مجید کو نہایت بے دردی سے اپنے پائوں تلے روند کر بے حرمتی کی۔ حضرت اقدس نے اسے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی ان کے پاس بیٹھنے سے منع کیا تھا۔ پس خدا سے ڈرو اور توبہ کرو۔ (۳)
نشان نمائی کا مطالبہ :۔ پھر ان کی خدا نا ترسی کی انتہا یہ ہوئی کہ ان کی شوخی اور بدزبانی کا حلقہ پرائیویٹ مجالس سے نکل کر پبلک کے اخبارات تک وسیع ہو گیا۔ چنانچہ جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ۔ وہ حضرت اقدس کی دعوت نشان نمائی پر ہندوئوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے لیکھرام کو خود بلا کر قادیان لائے اور سخت فتنہ کھڑا کیا اور اگست ۱۸۸۸ء میں اخبار ’’چشمہ نور امرتسر‘‘ سے آپ کے خلاف ایک انتہائی دل آزار اور زہریلا خط بھی شائع کیا جس میں انہوں نے خدا کی ہستی کے ثبوت میں نہایت بے باکی کے ساتھ اپنے متعلق نشان کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف اسی نشان کو نشان قرار دیں گے جو اللہ تعالیٰ ان کی ذات کے متعلق ظاہر کرے گا۔ یہ خط چونکہ آنحضرت ﷺ اور قرآن مجید کے خلاف گالیوں سے پرتھا۔ اس لئے ہندوستان کے غیر مسلموں بالخصوص عیسائیوں نے اسے خوب اچھالا اور ملک کے طول و عرض میں بڑے وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی ۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی دعا او رالٰہی خبر :۔
اسلام کے خلاف اپنے رشتہ داروں کی یہ منظم مخالفت دیکھ کر حضور کو شدید تکلیف پہنچی ۔ اشتہار کے ایک ایک لفظ سے شرارت ٹپکتی تھی۔ اور مضمون اتنا گندہ تھا کہ آسمان پھٹ جاتا تو بعید نہ تھا اور جسے اسلام کا کوئی ادنیٰ ہمدرد بھی پڑھتا تو قطعاً برداشت نہ کر سکتا۔ پھر آپ جو عظیم ترین عاشق رسول تھے وہ کیونکر برداشت کر سکتے۔ چنانچہ جونہی حضور نے یہ اشتہار دیکھا آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسورواں ہوگئے ۔ آپ نے دروازہ بند کر لیا اور آہ و بکا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرگئے اور یہ پر زور دعا کی کہ اے رب ! اے رب! اپنے بندے کی نصرت فرما اور اپنے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دے اے میرے رب میری التجا سن اور اسے قبول فرما یہ کب تک تیرا اور تیرے رسول ﷺ کا مذاق اڑائیں گے ۔ کہاں تک تیری کتاب کی تکذیب کریں گے اور تیرے نبی ﷺ کو گالیاں دیتے رہیں گے ۔ اے ازلی ابدی اے مددگار خدا! میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ ‘‘(۴)
اللہ تعالیٰ نے یہ گریہ وزاری سن کر آپ کو الہاماً بتایا کہ میں نے ان کی بد کرداری اور سرکشی دیکھی ہے میں ان پر طرح طرح کی آفات ڈال کر انہیں آسمان کے نیچے سے نابود کردوں گا۔ اور تم جلد دیکھو گے کہ میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں اور ہم ہرایک بات پر قادر ہیں۔ میں ان کی عورتیں بیوہ، ان کے بچے یتیم اور ان کے گھرویران کر ڈالوں گا۔ اور اس طرح وہ اپنی باتوں اور کارروائیوں کا مزہ چکھیں گے ۔ لیکن میں انہیں یکا یک ہلاک نہیں کروں گا بلکہ تدریجاً پکڑوں گا تا انہیں رجوع اور توبہ کا موقعہ ملے ۔ میری *** ان پر ، ان کے گھروں پر ، ان کے چھوٹوں اور بڑوں پر، ان کی عورتوں اور مردوں پر (بلکہ ) ان کے گھر میں داخل ہونے والے مہمان پر بھی نازل ہوگی۔ اور ان تمام پر *** برسے گی اور صرف انہی لوگوں پر رحم کیا جائے گا جو ایمان لائیں ۔ مناسب حال عمل کریں ۔ ان سے تعلقات منقطع کر لیں۔ اور ان کی مجالس سے کنارہ کش ہو جائیں۔‘‘(۵)
اس کے بعد سفر ہوشیار پور میں آپ کو محمدی بیگم کی نانی اور مرزا احمد بیگ کی خواشد امن کے متعلق الہام ہوا۔ ’’رَئَیْتُ ھٰذِہِ الْمَرْاَۃَ وَاَثَرَ الْبُکَائِ عَلیٰ وَجْھِھَا فَقُلْتُ اَیَّتُھَا الْمَرْاَۃُ تُوْبِیْ تُوْبِیْ فَاِنَّ الْبَلَائَ عَلیٰ عَقِبِکِ وَالْمُصِیْبَۃُ نَازِلَۃٌ عَلَیْکِ یَمُوْتُ وَیْبْقیٰ مِنْہُ کِلَاتٌ مُتَعَدِّ دَۃٌ (۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے خدا کا یہ انذاری پیغام اصولی رنگ میں اپنے رشتہ داروں تک پہنچادیا۔ لیکن وہ توبہ کرنے کی بجائے اور زیادہ خود سری پر اتر آئے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایاگیا کہ ہم انہیں رلانے والے نشانات دکھائیں گے اور ان پر عجیب و غریب ہموم و امراض نازل کریں گے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کر دیں گے وہ پے در پے آفات کا نشانہ بنیں گے اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ چنانچہ ان کی تباہی کے موعودہ آثار شروع ہو گئے خدا تعالیٰ نے مختلف غموں اور قرضوں کے بوجھ سے ان کی کمریں توڑ دیں۔ موت فوت کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ او روہ قسم قسم کے مصائب میں گھر گئے یہ حالت دیکھ کر بھی یہ بد زبان باز نہ آئے۔ بلکہ ان کے دلوں کی کجی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اب آسمانی قضاء کے نزول کا وقت بالکل قریب آگیا اور بظاہر کوئی حالت منتظر ہ باقی نہیں تھی مگر خدا تعالیٰ نے جو محض ان کے رجوع اور توبہ کی غرض سے اپنے عذاب میں تاخیر فرمائی۔ اس میں اپنی صفت رحیمیت کے تحت ایک آخری اور مشروط مگر عجیب صورت پیدا کر دی۔
مرزا احمد بیگ کی دختر محمدی بیگم سے متعلق خدائی تحریک :۔
یہ لوگ اسلامی تعلیم کے خلاف اور ہندو تہذیب کے زیر اثریہ خیال کرتے تھے کہ کسی لڑکی کا اس کے غیر حقیقی ( یعنی رشتہ کے ) ماموں سے نکاح حرام ہے او رصاف کہتے تھے کہ ہمیں اسلام اور قرآن سے کچھ غرض نہیں (۷)نیز وہ آنحضرت ﷺ سے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب کے نکاح پر بھی سخت معترض تھے۔ وہ خدا جس نے تبنیت کی رسم مٹانے کے لئے آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ زید کی مطلقہ بیوی کو اپنے نکاح میں لائیں۔ اسی طرح یہ رسم مٹانے کے لئے کہ کسی لڑکی کا غیر حقیقی ماموں سے نکاح حرام ہے اس نے آنحضرت ﷺ کے حقیقی خادم حضرت مرزا غلام احمد کو بھی یہ حکم دیا کہ آپ مرزا احمد بیگ سے اس کی بڑی لڑکی محمدی بیگم کے لئے سلسلہ جنبانی کریں اور اس سے کہہ دیں کہ تمام سلوک ومروت تم سے اسی شرط پر کیا جائے گا۔ اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اورایک رحمت کا نشان ہوگا اوران تمام برکتوں اوررحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء؁ میں درج ہیں۔ لیکن اگر انحراف کیا تو اس کا دوسری جگہ نکاح نہ لڑکی کے لئے مبارک ثابت ہوگا نہ تمہارے لئے اور اگر تم باز نہیں آئو گے تو کئی مصیبتیں تمہارے خاندان پروار د ہوں گی اور آخری مصیبت تیری موت ثابت ہوگی تو نکاح کے تین سال کے اندر اندر مرجائے گا۔ تو غافل ہے مگرتیری موت تیرے قریب ہی منڈلارہی ہے اسی طرح تیری لڑکی کا خاوند بھی اڑھائی سال کے اندر اندر لقمہ اجل بن جائے گا۔ اوران دونوں کی موت کے بعد ہم یہ لڑکی آپ کی طرف واپس لائیں گے۔
دوسری شادی اپنے مخصوص حالات کی وجہ سے آپ کو ناگوار خاطر تھی۔ اورآپ نے ابتداء ہی سے یہ عہد کر رکھا تھا کہ ’’ کیسا ہی موقعہ پیش آوے جب تک اللہ کی طرف سے صریح حکم سے اس کے لئے مجبور نہ کیا جائوں تب تک کنارہ کش رہوں کیونکہ تعداد ازدواج کے بوجھ اور مکروہات از حد زیادہ ہیں۔ اور اس میں خرابیاں بہت ہیں اور وہی لوگ ان خرابیوں سے بچے رہتے ہیں جن کو اللہ جل شانہ اپنے ارادہ خاص سے اور اپنی کسی خاص مصلحت سے اور اپنے خاص اعلام و الہام سے اس بار گراں کے اٹھانے کے لئے مامور کرتا ہے ۔ تب اس میں بجائے مکرو ہات کے سراسر برکات ہوتے ہیں۔ ‘‘(۱۰) لیکن اب جو یہ خدائی تحریک ہوئی تو حضور نے محض خدائی حکم کی تعمیل کے لئے مرزا احمد بیگ کو خط لکھا جس میں آپ نے الٰہی حکم پہنچاتے ہوئے لکھا کہ میں یہ مکتوب اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لکھ رہا ہوں اسے محفوظ رکھو کہ یہ صدوق و امین خدا کی طر ف سے ہے اللہ تعالیٰ شاہد ہے کہ میں اس بارہ میں سچا ہوں اور جو کچھ میں نے وعدہ کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہے ۔ اور میں نے از خود نہیں کہا بلکہ خدائے تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھ سے کہلوایا ۔ اور یہ میرے رب کا حکم تھا سو میں نے پورا کر دیا۔ مجھے تیری اور تیری بیٹی کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ مجھ پر کوئی تنگی ہے اور عورتیں تیری بیٹی کے علاوہ بہت ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ صالحین کا والی ہے ۔ پس اگر مدت مقررہ گزر جائے اور سچائی ظاہر نہ ہو۔ ( یعنی تمہاری موت دکھ وغیرہ ظاہر نہ ہوں) تو میری گردن میں رسی اور پائوں میں بیڑیاں ڈالنا اور مجھے وہ دکھ دینا جو کسی کو نہ دیا گیا ہو تم نے خدا تعالیٰ سے نشان طلب کیا تھا ۔ پس یہ تمہارے لئے خدا کا نشان ہے ۔ (۱۱)
پیشگوئی کا پبلک حیثیت اختیار کرنا :۔
اس مرحلے پر مرزا احمد بیگ اور اس کے دست راست مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ کی مخالفت انتہا تک پہنچ گئی اور مرزا نظام الدین نے حضرت اقدسؑ کا پہلا خط جو محض پرائیویٹ رنگ میں تھا عیسائیوں کے اخبار نور افشاں ( ۱۰۔مئی ۱۸۸۸ء ) میں شائع کرا دیا جس سے اس پیشگوئی کو ایک پبلک حیثیت حاصل ہوگئی ۔ حالانکہ حضرت اقدس نے محض خط پر ہی اکتفاء فرمایا تھا اور آپ کو ان کی دل شکنی کے خیال سے اسے پبلک میں لانے کا خیال تک بھی نہیں تھا۔
’’ نور افشاں ‘‘ کا طوفان بے تمیزی اور حضرت اقدسؑ کا جواب :۔
اس خط کا ہاتھ آنا تھا کہ عیسائیوں نے ( جو اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے متعلق آپ کے چیلنج سے تنگ آکر کسی موقعہ کی تلاش میں تھے) اس کی آڑ میں آنحضرتﷺ اور آپ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا۔ خود ایڈیٹر اخبار ’’ نور افشاں‘‘ نے اس پر عجیب طرح کی زبان درازی کی ۔ اور ایک صفحہ اخبار کا سخت گوئی اور دشنام دہی میں ہی سیاہ کیا۔ اور تعداد ازدواج کو زنا اور حرامکاری قرار دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۰۔ جولائی ۱۸۸۸ء کو اشتہار شائع فرمایا ۔ جس میں ’’ نور افشاں ‘‘ کی بدلگامی پر بائیبل کی روشنی میں دندان شکن جواب دیئے اور پیشگوئی کا پس منظر بتاتے ہوئے لکھا کہ یہ پیش گوئی ایسی نہیں کہ جو پہلے پہل اسی وقت ظاہر کی گئی ہے بلکہ مرزا امام الدین ، مرزا نظام الدین اور اس جگہ کے تمام آریہ اور نیز لیکھرام پشاوری اور صدہا دوسرے لوگ خوب جانتے ہیں کہ کئی سال ہوئے ہم نے اسی کے متعلق مجملاً ایک پیشگوئی کی تھی یعنی یہ کہ ہماری برادری میں سے ایک شخص احمد بیگ نام فوت ہونے والا ہے ۔ اب منصف مزاج آدمی سمجھ سکتا ہے کہ وہ پیشگوئی اس پیشگوئی کا ایک شعبہ تھی یا یوں کہویہ تفصیل اور وہ اجمال تھی۔ اور اس میں تاریخ اور مدت ظاہر کی گئی اور اس میں تاریخ اور مدت کا کچھ ذکر نہ تھا اور اس میں شرائط کی تصریح کی گئی اور وہ ابھی اجمالی حالت میں تھی۔ سمجھدار آدمی کے لئے یہ کافی ہے کہ پہلی پیش گوئی اس زمانہ کی ہے کہ جب کہ ہنوزوہ لڑکی نابالغ تھی اور جب کہ یہ پیش گوئی بھی اس شخص کی نسبت ہے جس کی نسبت اب سے پانچ برس پہلے کی گئی تھی۔ یعنی اس زمانہ میں جب کہ اس کی یہ لڑکی آٹھ یا نو برس کی تھی۔ تو اس پر نفسانی افتراء کا گمان کرنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے ؟‘‘ (۱۲)
نیز فرمایا’’ ہمیں اس رشتہ کی درخواست کی کچھ ضرورت نہیں تھی۔ سب ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کردیا تھا اولاد بھی عطا کی اور ان میں سے وہ لڑکا بھی جو دین کا چراغ ہوگا۔ بلکہ ایک اور لڑکا ہونے کا قریب مدت تک وعدہ دیا۔ جس کا نام محمود احمد ہوگا۔ اور اپنے کاموں میں اولوالعزم نکلے گاپس یہ رشتہ جس کی درخواست کی گئی ہے محض بطور نشان کے ہے تا خدا تعالیٰ اس کنبہ کے منکرین کو اعجوبہ قدرت دکھلاوے اگر وہ قبول کریں تو برکت اور رحمت کے نشان ان پر نازل کرے اور ان بلائوں کو دفع کر دیوے جو نزدیک چلی آتی ہیں لیکن اگر وہ رد کریں تو ان پر قہری نشان نازل کرکے ان کو متنبہ کرے ۔ (۱۳)
تاریخ سے ثابت ہے کہ ماموروں کے جسمانی رشتہ داروں پر بھی اس مامور کی وجہ سے فضل ورحم ہوتاہے چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب مختلف خواتین کو اپنے نکاح میں لیا تو ان کے خاندانوں پر یہ رحمت و برکت ہوئی کہ انہیں ہدایت نصیب ہوگئی۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت صفیہؓ بنت حی بن اخطب ( وفات ۵۰ھ) اور قبیلہ بنو مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی حضرت جویریہ ؓ ( وفات ۵۰ھ) سے عقد کیا تو ان کے خاندان کے اکثر افراد بلکہ بعض کی پوری قوم حلقہ بگوش اسلام ہوگئی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خاندان پر بھی اس رنگ میں رحمت و برکت نازل کرنے کا ارادہ فرمایا اور حضرت اقدس نے احمد بیگ کو پہلے خط میں الہام الٰہی کے مطابق صاف صاف خبر دیدی کہ ’’ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ منظور کریں تو وہ تمام نحوستیں آپ کی اس رشتہ سے دورکردے گا اور آپ کو آفات سے محفوظ رکھ کر برکت پر برکت دے گا۔ اور اگر رشتہ وقوع میں نہ آیا تو آپ کے لئے دوسری جگہ رشتہ کرنا ہر گز مبارک نہ ہوگا۔ اور اس کا انجام درد اور تکلیف اور موت ہوگی یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق اور کذب معلوم ہو سکتا ہے ( اب جس طرح چاہو آزمالو)‘‘(۱۴)
مسلمانوں کی طرف سے پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں :۔
مرزا احمد بیگ سے متعلق پیشگوئی چونکہ کفرو اسلام کا ایک بہت بڑا معرکہ تھا۔ اس لئے اس زمانہ میں مسلمان اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے دعائیں کرتے تھے چنانچہ ( سلسلے کے ایک شدید مخالف قاضی فضل احمد صاحب کی روایت کے مطابق) حضرت اقدسؑ ۱۷۔ جولائی ۱۸۹۰ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ ہزاروں پادری شرارت سے نہیں بلکہ حماقت سے منتظر ہیں کہ یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے تو ہمارا پلہ بھاری ہو۔ لیکن یقینا خدا تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا۔ اور اپنے دین کی مدد کرے گا۔ میں نے لاہور میں جاکر معلوم کیا کہ ہزاروں مسلمان مساجد میں نماز کے بعد اس پیشگوئی کے ظہور کے لئے بصدق دل دعا کرتے ہیں سو یہ ان کی ہمدردی اور محبت ایمانی کا تقاضا ہے ۔ ‘‘(۱۵)
پیشگوئی کے بعض حیرت انگیز پہلو :۔
مرزا احمد بیگ کی وفات سے متعلق تو پہلے ہی اجمالی طور پر خبر موجود تھی ۔ مگر قدرت نے جب تفصیلات کی گرہیں کھولیں تو اس میں ضمناً کئی حیرت انگیز پیشگوئیاں نکل آئیں۔ مثلاً اول۔ نکاح سے انحراف ضرور ہوگا۔ دوم ۔ نکاح کے وقت تک حضرت اقدس زندہ رہیں گے ۔ سوم ۔ نکاح کے وقت تک مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہے گا۔ چہارم ۔ نکاح کے وقت تک محمدی بیگم بھی زندہ رہے گی۔ پنجم ۔ نکاح کے بعد مرزا احمد بیگ تین سال کے اندر اندر مرجائے گا۔ ششم ۔ اس پیشگوئی کے سلسلے میں صرف ایک شخص کی موت واقع ہوگی۔ ہفتم ۔ اغیار اپنی کج نظری کے باعث تمسخر اور استہزاء کریں گے ۔ چنانچہ یہ سب پیشگوئیاں اس درجہ خارق عادت رنگ میں پوری ہوئیں کہ عقل محو حیرت ہو جاتی ہے۔
پیشگوئی کا ظہور :۔
پیشگوئی کے مطابق جب تک مرزا احمد بیگ نے نکاح نہیں کیا حضرت اقدس بھی زندہ رہے مرزا احمد بیگ بھی زندہ رہا۔ اور اس کی بیٹی محمدی بیگم بھی زندہ رہی یہ گویا خدائے قادر کی طرف سے تین افراد کی زندگی کی ضمانت تھی جو چار سال تک معجزانہ طور پر صحیح ثابت ہوئی۔ لیکن اس کے بعد جب مرزا احمد بیگ نے ۷۔ اپریل ۱۸۹۲ء کو اپنی لڑکی محمدی بیگم کا نکاح مرزا سلطان محمد صاحب آف پٹی سے کر دیاتو وہ مرزا احمد بیگ جسے خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کے بعد چار سال تک زندہ رکھا تھا۔ نکاح کر دینے کے چھٹے ہی مہینے ۳۰۔ ستمبر ۱۸۹۶ء کو مطابق پیشگوئی ہلاک ہوگیا۔ مرزا احمد بیگ کا اس دنیا سے گزرنا ہی تھا کہ پورے خاندان میں صف ماتم بچھ گئی ۔ او وہ کہرام مچا کہ الامان ! الحفیظ ! اور افراد خاندان بلکہ مرزا احمد بیگ کے گائوں والے بھی سخت دہشت زدہ ہوگئے ۔ اور سخت ماتم پڑا حتیٰ کہ عورتوں نے اپنی چیخ پکار میں یہ الفاظ بھی کہ دیئے ۔ کہ ’’ہائے وہ باتیں سچی نکلیں۔ آج ہمارا دشمن جس نے ہمارے لئے پیشگوئی کی تھی سچا ثابت ہوگیا ۔ ‘‘(۱۶)
یہ اتنا عظیم الشان قہری نشان تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی ( جو اب اول المکفرین ہونے کی وجہ سے تمام مخالفین ہند کے سرخیل بن چکے تھے) اعتراف کیا کہ اگرچہ پیشگوئی تو پوری ہو گئی مگر یہ الہام نہیں بلکہ علم رمل یا نجوم وغیرہ سے کی گئی ۔ (۱۷)
غرض پیشگوئی کے مطابق مرزا احمد بیگ کی موت نے ان کے پورے خاندان کو مجسم غم و اندوہ بنا دیا ان کے داماد مرزا سلطان محمد صاحب کا سب سے زیادہ متاثر ہونا ایک قدرتی امر تھا کیونکہ جب دو شخصوں کے لئے ہلاکت کی پیشگوئی ہو۔ اور ایک پیشگوئی کی میعاد مقررہ پوری ہونے سے بہت پہلے ہی ہلاک ہو جائے تو دوسرے پر جو گزرے گی اور وہ جتنا بھی متفکر و متردد اور ترساں و لرزاں ہو جائے گا وہ محتاج بیان نہیں ۔ چنانچہ مرزا سلطان محمد صاحب نے بھی زاری اور دعا کی اور دل سے یقین کر لیا کہ ان کے خسر مرزا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق فوت ہوئے ہیں۔ (۱۸) نتیجہ یہ ہو اکہ خدا تعالیٰ نے مرزا سلطان محمد صاحب کو موت کی سزا سے بچالیا ۔
علماء کو دعوت مباہلہ :۔
مرزا سلطان محمد صاحب جب تک میعاد مقررہ کے دوران میں زندہ رہے حضرت اقدس کی پیشگوئی کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا ۔ مگر اس کے بعد جب یہ میعاد ختم ہوگئی اور مرزا سلطان محمد صاحب تائب ہونے کی وجہ سے بچ گئے تو چاروں طرف سے شدید مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی۔ حالانکہ صدقہ، دعا اور گریہ وزاری سے بڑے بڑے عذابوں کا (خواہ وہ تقدیر مبرم ہی کا حکم کیوں نہ رکھتے ہوں) ٹل جانا خد ا تعالیٰ کی ازلی ابدی سنت سے ثابت ہے اور خصوصاً قرآن مجید اور احادیث اور اکابر امت کا لٹریچر تو اس کی شہادتوں سے بھرا پڑا ہے۔ (۱۹) اور اس پیشگوئی میں تو بار بار توبہ کرنے پر مصائب کے ٹل جانے کا مسلسل تذکرہ تھا۔ (۲۰) لیکن عیسائی ، آریہ اور ان کی پشت پناہی میں آپ کے مخالف علماء نے صرف اس وجہ سے کہ مرزا سلطان محمد توبہ کی وجہ سے بچ گیا تھا۔ یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ معاذ اللہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی ۔ حضرت اقدس نے خدا کے نشان کی یوں تکذیب دیکھی تو آپ نے تین بڑے علماء ( شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی اور مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ) کو انعامی چیلنج دیا کہ وہ ایک جلسہ عام میں الہامی پیشگوئیوں کے عذاب موت کی معین تاریخوں کے ٹل جانے کے متعلق دو گھنٹہ تک کتاب اللہ اور احادیث نبویہ اور کتب سابقہ کی نصوص صریحہ ہم سے سنیں۔ اور پھر اگر اس مجمع میں تین بار حلفاً کہہ دیں کہ اے خدائے قادر ذوالجلال جو جھوٹوں کو سزا دیتا اور سچوں کی حمایت کرتا ہے ۔ میں تیری ذات کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں کہ جو کچھ دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ سب دلائل باطل ہیں اور تیری یہ ہر گز عادت نہیں کہ وعید میں کسی کی توبہ خائف اور ہراساں ہونے سے تاخیر کر دے بلکہ ایسی پیشگوئی سراسر جھوٹ یا شیطانی ہے اور ہر گز تیری طرف سے نہیں۔ اور اے قادر خدا اگر تو جانتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو مجھے ذلت اور دکھ کے عذاب سے ہلاک کر۔ اس کے بعد بلا توقف آپ قسم کھانے والے کو غیر مشروط طورپر دو سو روپیہ نقد انعام دے دیں گے ۔ (۲۱)
پرشوکت اعلان :۔
علاوہ ازیں حضور نے تین سال بعد یہ پر شوکت اعلان بھی فرمایا کہ ۔’’ فیصلہ تو آسان ہے احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہو کہ تکذیب کا اشتہار دے پھر اس کے بعد جو میعاد خدا تعالیٰ مقرر کرے۔ اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔
’’ اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے جب تک کہ وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بیباک کر دیوے ۔ سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھواور اس کو بیباک اور مکذب بنائو اور اس سے اشتہار دلائو اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔ ‘‘ (۲۲)
اس اعلان پر آریوں نے لیکھرام کے قتل اور عیسائیوں نے آتھم کی موت کے باعث مرزا سلطان محمد صاحب کو بڑی بڑی رقموں کی پیش کش کی تاوہ کسی طرح حضرت اقدس پر نالش کر دیں۔ مگر حضور کی سچائی سے متعلق ان میں اتنا زبردست اثر پڑچکا تھا کہ انہوں نے اس پیش کش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا۔ (۲۳)
مرزا سلطان محمد صاحب کا اظہار حق :۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی وفات کے بعد ایک دفعہ مرزا سلطان محمد صاحب نے ۲۱۔ مارچ ۱۹۱۳ء کو ایک تحریر بھی لکھ کر دی جس کا عکس جماعت احمدیہ کے لٹریچر (۲۴) میں برسوں سے شائع شدہ ہے ۔ اس تحریر میں انہوں نے لکھا۔ کہ ’’میں جناب مرزا جی صاحب مرحوم کو نیک ۔ بزرگ ۔ اسلام کا خدمت گزار ۔ شریف النفس۔خدا یاد پہلے بھی اور اب بھی خیال کر رہاہوں۔ مجھے ان کے مریدوں سے کسی قسم کی مخالفت نہیں ہے بلکہ افسوس کرتا ہوں کہ چند ایک امورات کی وجہ سے ان کی زندگی میں ان کا شرف حاصل نہ کر سکا۔‘‘ ۱۹۲۱ء میں حافظ جمال احمد صاحبؓ ( مبلغ ماریشس) ان سے موضع پٹی میں ملے تو انہوں نے حلفیہ بیان دیا۔ کہ انہیں حضرت اقدس کی اس پیشگوئی یا آپ کے دعویٰ کی سچائی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا پھر آپ بیعت کیوں نہیں کرتے ۔ مرزا سلطان محمد صاحب نے جواب دیا۔’’ اس کے وجوہات کچھ اور ہی ہیں جن کا اس وقت ذکر کرنا میں مصلحت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ میں بہت چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ قادیان جائوں کیوں کہ مجھے حضرت میاں صاحب (۲۵) کی ملاقات کا بہت شوق ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت بیان کروں۔ پھر چاہے وہ شائع بھی کر دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا مگر گولی لگنے کی وجہ سے جواب مجھے لاٹھیوں پر چلنے کی دقت ہے ۔ یہ وہاں جانے میں روک ہو جاتی ہے۔ خیال آتاہے کہ اس ہیئت کے ساتھ میں کیا جائوں ۔ باقی رہی بیعت کی بات میں قسمیہ کہتا ہوں کہ جو ایمان اور اعتقاد مجھے حضرت مرزا صاحب پر ہے میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی جو بیعت کر چکے ہیں۔ اتنا نہیں ہوگا۔ ‘‘(۲۶)
محمد ی بیگم کی ایک خواب :۔
یہ تو مرزا سلطان محمد صاحب کی بات ہے خود محمدی بیگم کے ایمان کی کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے خود بیان کیا کہ جنگ عظیم اول میں جب ’’ فرانس سے ان کو ( مرزا سلطان محمد صاحب کو ) گولی لگنے کی اطلاع مجھے ملی تو میں سخت پریشان ہوئی ۔ اور میرا دل گھبرا گیا۔ اسی تشویش میں مجھے رات کے وقت مرزا صاحب رؤیا میں نظر آئے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہے اور مجھ سے کہتے ہیں کہ لے محمدی بیگم یہ دودھ پی لے اور تیرے سر کی چادر سلامت ہے تو فکر نہ کر۔ اس سے مجھے اپنے خاوند کی خیریت کے متعلق اطمینان ہوگیا۔ ‘‘
خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد کی جماعت احمدیہ میں شمولیت :۔
خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کا اثر صرف مرزا سلطان محمد صاحب اور محمدی بیگم صاحبہ کی عقیدت تک ہی نہیں رہا۔ بلکہ خاندان مرزا احمد بیگ کے اکثر افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ چنانچہ مرزا احمد بیگ کی اہلیہ ، اس کا بیٹا ( مرزا محمد بیگ ) اس کی تین بیٹیاں ( سردار بیگم ، عنایت بیگم ، محمودہ بیگم ) اس کا پوتا ( مرزا محمود بیگ ) نواسہ ( مرزا محمد اسحاق پسر محمدی بیگم ) اور داماد ( مرزا محمد حسن ) سب حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے ۔ ان کے علاوہ مرزا نظام الدین کے بیٹے اور بیٹی بلکہ مرزا غلام قادر مرحوم کی اہلیہ محترمہ ’’ تائی صاحبہ‘‘ وغیرہ بھی حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ ماموریت پر ایمان لے آئے۔ ( اور جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ) خصوصاً محمدی بیگم کے بیٹے محمد اسحاق صاحب نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کرکے حضرت مسیح موعودؑ کو اپنا روحانی باپ تسلیم کر لیا جو ’’ آسمانی نکاح ‘‘ کے ظہور میں آنے کا واضح ترین ثبوت ہے ۔ (۲۷)
مرزا سلطان محمد صاحب کے بیٹے کا اعلان بیعت :۔
اس سلسلے میں یہاں مرزا محمد اسحاق بیگ صاحب کا وہ بیان درج کرنا ضروری ہے جو انہوں نے ۱۹۳۳ء میں اپنی بیعت کے وقت شائع کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’احباب کرام ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘پیشتر اس کے کہ میں اپنا اصل مدعا بیان کروں ۔یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ واللہ میں کسی لالچ یا دینوی غرض یا کسی دبائو کے ماتحت جماعت احمدیہ میں داخل نہیں ہوا۔ بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ایک لمبے عرصہ کی تحقیق حق کے بعد اس بات پر ایمان لایا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب اپنے ہر دعویٰ میں صادق او رمامورمن اللہ ہیں اور اپنے قول و فعل میں ایسے صادق ثابت ہوئے ہیں کہ کسی حق شناس کو اس میں کلام نہیں ہو سکتا۔ آپ کی تمام پیشگوئیاں ٹھیک ٹھیک پوری ہوئیں یہ الگ سوال ہے کہ بعض لوگ تعصب یا نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض پیشگوئیوں کو پیش کر کے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں مثلاً ان میں ایک پیشگوئی مرزا احمد بیگ صاحب وغیرہ کے متعلق ہے اس پیشگوئی کو ہر جگہ پیش کرکے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کا پورا ہونا ثابت کرو۔ حالانکہ وہ بھی صفائی کے ساتھ پوری ہوگئی۔ میں اس پیشگوئی کے متعلق ذکر کرنے سے پیشتر یہ بیان کرنا چاہتاہوں کہ یہ ایک انذاری پیشگوئی تھی اور ایسی اندازی پیشگوئیاں خدا تعالیٰ اپنے نبی کے ذریعہ اس لئے کرایا کرتا ہے کہ جن کے متعلق ہوں ان کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔ وما نرسل بالا یات الاتخویفا کہ ہم انبیاء کو نشانات اس لئے دیتے ہیں کہ لوگ ڈر جائیں اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصل بیان فرما دیا ہے ۔ کہ ایسی انذاری پیشگوئیاں لوگوں کی اصلاح کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ جب وہ قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے اور اپنی صلاحیت کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اپنا معلق عذاب بھی ٹال دیتاہے جیساکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا واقعہ ۔ نیز حضرت موسیٰؑ کی قوم کی حالت وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْھِمْ الرِّجْزُ(اعراف :۱۳۵) سے ظاہر ہے ۔ اس صورت میں انذاری پیشگوئی کا لفظی طور پر پورا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ یہی نقشہ یہاں نظر آتا ہے ۔ کہ جب حضرت مرزا صاحب کی قوم اور رشتہ داروں نے گستاخی کی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی ہستی سے انکار کیا۔ نبی کریم ﷺ اور قرآن پاک کی ہتک کی اور اشتہار دے دیا کہ ہمیں کوئی نشان دکھلایا جائے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کے ذریعہ پیشگوئی فرمائی۔ اس پیشگوئی کے مطابق میرے نانا جان مرزا احمد بیگ صاحب ہلاک ہوگئے اور باقی خاندان ڈر کر اصلاح کی طرف متوجہ ہوگیا جس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اکثر نے احمدیت قبول کر لی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت غفورو رحیم کے ماتحت قہر کورحم سے بدل دیا یہاں تک کہ انہوں نے ( یعنی مرزا سلطان محمد صاحب نے ) (حضرت اقدس) مرزا صاحب سے حسن عقیدت کے متعلق مختلف اوقات پر اپنا اظہار خیال بذریعہ خطوط فرمایا نہ صرف خیال ظاہر فرما دیا بلکہ معاندین سلسلہ کے اکسانے پر انہیں صاف جواب دے دیا۔ مثلاً ہندوئوں عیسائیوں اور مسلمانوں نے ہزاروں روپے کا لالچ دے کر اس بات کی کوشش کی۔ کہ آپ اس امر کا اعلان کر دیں کہ وہ پیشگوئی کی وجہ سے نہیں ڈرے لیکن آپ نے ہر گز ان کی بات نہ مانی۔
احمدیت کے متعلق ان ( مراد مرزا سلطان محمد صاحب ۔ ناقل) کی حسن عقیدت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کے والد ابو طالب بعض دینوی مشکلات کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے تھے ۔ لیکن حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ، کو بیعت کر لینے سے نہیں روکا تھا۔ اسی طرح جب میں بھی خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوا تو آپ بجائے کسی قسم کی طعن و تشنیع کرنے کے خوش ہوئے۔ اگرچہ میرے والد صاحب کا تا حال احمدیت میں داخل نہ ہونا پیشگوئی کے پورے ہونے میں کسی طرح بھی مانع نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم خدا تعالیٰ نے یہ روک بھی دور کر دی۔ اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی فالحمدللہ علی ذلک ۔ میں پھر زوردار الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔ میں ان لوگوں سے جن کو احمدیت قبول کرنے میں یہ پیش گوئی حائل ہے عرض کرتا ہوں کہ وہ مسیح الزمان پر ایمان لے آئیں۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں یہ وہی مسیح موعود ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی۔ اور ان کا انکار نبی کریم ﷺ کا انکار ہے ۔‘‘(۲۸)
ان تفصیلات سے عیاں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اگر ظاہری طور پر اس دنیا میں محمدی بیگم کا نکاح ہو جاتا تو وہ اتنا زبردست نشان نہ ہوتا جتنا زبردست نشان وہ اس دوسری صورت میں ہوگیا کہ اس خاندان کا ایک بڑا حصہ( جو حضرت اقدس ؑ کی اسلامی دعوت و تبلیغ کے خلاف مسلسل دس سا ل تک مخالفت پر ڈٹا رہا تھا۔ اور آپ کے خلاف ہندوئوں اور عیسائیوں سے ساز باز کرتا رہا تھا ) بالاخر خد ا تعالیٰ کے اس قہری نشان سے راہ راست پر آگیا اورجو لوگ اپنی مخالفت پر قائم رہے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ آپ کے جدی بھائیوں کی ہر شاخ کاٹی گئی اور آپ کی مبارک نسل اور جماعت خدائی وعدوں کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے دنیا پر ایک تناور درخت کی طرح چھاگئی۔ جس وقت حضور نے دعویٰ کیا اس وقت آپ کے خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے۔ لیکن اب ان کے سوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے کسی ایک کی بھی اولاد موجود نہیں۔ (۲۹) پس حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کی اگر کوئی اور پیش گوئی نہ ہوتی تو فقط یہی ایک نشان اسلام ، محمد عربی ﷺ اور آپ کی صداقت کے ثبوت میں کافی تھا۔ (۳۰)
پادری فتح مسیح کی طرف سے روحانی مقابلہ کی دعوت اور شکست کا اعتراف
مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری سے متعلق پیشگوئی کے واقعات پر یکجائی نظر ڈالنے کے بعد ہم پھر اصل مضمون کی طرف آتے ہیں۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ عیسائی مرزا احمد بیگ کے خط کی اشاعت پر ایک بار پھر میدان مقابلہ میں اترے۔ یہ مقابلہ صرف خط و کتابت کی اشاعت تک محدود نہیں رہا بلکہ عیسائیوں نے حضور کو نشان نمائی میں مقابلہ کا چیلنج بھی دیا۔ مگر بالاخر کھلا فرار اختیار کر گئے۔
۱۸مئی ۱۸۸۸ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بشیر اول کے علاج معالجہ کے سلسلہ میں بٹالہ میں نبی بخش صاحب ذیلدار کے مکان پر فروکش تھے کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک پادری فتح مسیح نامی حضور کی فرودگاہ پر آیا۔ اور ایک مجلس میں جس میں پچاس سے کچھ زیادہ مسلمان اور ہندو وغیرہ جمع تھے۔ حضرت اقدس سے مخاطب ہو کر دعویٰ کیا کہ جیسے آپ اس بات کے مدعی ہیں کہ میری اکثر دعائیں جناب الٰہی میں بپایہ قبولیت پہنچ کر ان کی قبولیت سے پیش از وقوع مجھ کو اللہ تعالی بذریعہ اپنے الہام خاص کے اطلاع دیتا ہے اور غیب کی باتوں پر مجھے مطلع کر تا ہے یہی مرتبہ ملہم ہونے کا مجھ کو اطلاع دے دیتا ہے۔ اس لئے میں آپ سے آپ کی پیشگوئیوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ جس قدر اور جس طور کی پیشگوئیاں عام جلسہ میں آپ تحریر کرکے پیش کریں گے اسی قسم کی پیشگوئیاں اپنی طرف سے بھی پیش کروں گا اور فریقین کی پیشگوئیاں اخبار ’’نور افشاں ‘‘ میں شائع کرادوں گا۔ اور پھر خود ہی ۲۱ مئی ۱۸۸۸ء کی تاریخ اس مقابلہ کے لئے مقرر کی ۔
حضرت اقدسؑ نے پادری فتح مسیح کی یہ دعوت فوراً منظور فرمالی اور اسی دن بذریعہ اشتہار یہ اعلان شائع فرما دیا کہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۸ء کو پادری فتح مسیح روح القدس کا فیض اور الہامی پیشگوئیاں بالمقابل بتانے کے لئے ہمارے مکان پر آئیں گے پہلے ہم الہامی پیشگوئیاں بقید تاریخ پیش کریں گے اور پھر اس کے مقابل پر ان کے ذمہ ہوگا کہ ایسی ہی الہامی پیشگوئیاں وہ بھی پیش کریں۔ پس جو صاحب اس مقابلہ کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دس بجے تک ہمارے مکان پر پہنچ جائیں۔ پھر اگر میاں فتح مسیح برطبق اپنے وعدہ کے پیر کے دن آموجود ہوئے اور روح القدس کی الہامی طاقت جو اٹھارہ سو برس سے عیسائی جماعت سے بوجہ گمراہی گم ہو چکی ہے تازہ کر دکھائیں اور ان پیشگوئیوں کی سچائی اپنے وقت میں ظہور میں آجائے تو بلا شبہ عیسائیو ں کو اپنے مذہب کی صداقت پر ایک حجت ہوگی۔ کیونکہ ایسے عظیم الشان میدان مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کی نہ کی اور ان کو فتح دی اور مسلمانوں کو فتح نہ دی ۔ لیکن اگر ہماری پیشگوئیاں سچی نکلیں اور اسی میدان میں دشمن کو شکست اور ہم کو فتح ہوئی۔ تو اس سے صاف ثابت ہو جائے گا کہ خدا مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔
اس بے نظیر مقابلہ کی اہمیت بتانے کے علاوہ آپ نے اسی اشتہار میں صریح الفاظ میں لکھ دیا کہ ’’ چونکہ ہم یقینا جانتے ہیں کہ عیسائی کلیسیا برکت اور قبولیت اور ایمانداری کے پھلوں سے بالکل خالی ہے اور سارا گذارہ لاف و گزاف اور یا وہ گوئی پر ہے اور تمام برکتیں اسلام سے ہی خاص ہیں اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ اس لاف و گزاف کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے اور نیز یہ بات پبلک کو دکھانے کے لئے کہ یہاں تک عیسائیوں میں دروغ گوئی اور بے باکی نے رواج پکڑلیا ہے بالمقابلہ کرامت نمائی کے لئے اجازت دی جائے۔
تاسیہ روئے شودہر کہ دروغش باشد
چنانچہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۸ء کو حضرت اقدس کی قیام گاہ پر بٹالہ کے معزز مسلمان اور ہندو رئیس اور عیسائی نہایت ذوق و شوق کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ تا اسلام اور عیسائیت کے اس فیصلہ کن روحانی مقابلہ کا نظارہ دیکھیں ۔ مگر ہوا وہی جو حضرت اقدس نے قبل از وقت بتادیا تھا۔ فتح مسیح اپنے چند عیسائی دوستوں کے ساتھ دس بجے کے بعد جلسہ میں پہنچے۔ اور اپنے وعدہ کے مطابق پیشگوئیاں پیش کرنے کی بجائے انہوں نے سراسر لاطائل اور بیہودہ باتیں چھیڑ دیں جن کا موضوع سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ آخر حاضرین میں سے ایک معزز ہندو نے ان سے کہا کہ یہ جلسہ صرف بالمقابل پیشگوئیاں پیش کرنے کے لئے منعقد ہوا ہے اور یہی آپ کا اقرار ہے اور اسی شوق میں سب لوگ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں سو اس وقت الہامی پیشگوئیاں بیان کرنا چاہئے۔ اس کے جواب میں پادری صاحب نے بر سر عا م کہا۔ ’’ اصل بات یہ ہے کہ میری طرف سے دعویٰ الہام نہیں ہے اور جو کچھ میرے منہ سے نکلا تھا میں نے یونہی فریق ثانی کے دعوے کے بالمقابل پر ایک دعویٰ کر دیا تھا ۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا جھوٹا دعویٰ ہے سو ایسے ہی میں نے بھی ایک دعویٰ کر دیا۔ ‘‘ (۳۱)پادری صاحب کی زبان سے جھوٹ کا یہ کھلا کھلا اعتراف سن کر حاضرین جلسہ نے ان پر سخت لے دے کی۔ خصوصاً رائے شمبر داس صاحب رئیس بٹالہ ، بابو گوردت سنگھ صاحب مختار عدالت اور منشی محمد بخش صاحب مختار عدالت نے انہیں ملزم کیا کہ یہ دروغ گوئی نیک چلنی کے برخلاف تم سے وقوع میں آئی اگر تم فی الحقیقت ملہم نہیں تھے تو خلاف واقعہ ملہم ہونے کا کیوں دعویٰ کیا۔ پادری صاحب اس شرمناک دروغ گوئی اور کذب طرازی پر سخت معتوب ہوئے اور جلسہ برخاست ہوگیا۔
اس روحانی مقابلہ اسلام کی زبردست فتح اور عیسائیت کی شکست بالکل نمایاں ہوگئی۔ فتح مسیح دیسی پادری تھا مگر حضرت اقدس نے یورپین پادری ہربرٹ وائٹ بریخٹ سٹانٹن (انچارج بٹالہ مشن ) پر خصوصاً اور دوسرے یورپین پادریوں پر عموماً اتمام حجت کے لئے دوسرا اشتہار شائع کیا جس میں روحانی مقابلہ کی زبردست دعوت دی اور اسی غرض سے برابر ایک ماہ تک بٹالہ میں قیام بھی فرمایا ۔ (۳۲) پادری فتح مسیح نے جو اپنی زبان سے شکست کا اعتراف کر چکا تھا اپنی شرمندگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اخبار ’’نورافشاں ‘‘( ۷۔ جون ۱۸۸۸ء ) میں یہ افتراکیا کہ میں نے الہام کا دعویٰ نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے پادری وائٹ بریخٹ کے نام اپنے ہاتھ سے ایک چٹھی میں صاف لکھا کہ میں نے بالمقابل الہامی ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے ۔ پادری فتح مسیح نے اب کے نور افشاں میں لکھا کہ ہم اس طور پر تحقیق الہامات کے لئے جلسہ کر سکتے ہیں کہ ایک جلسہ منعقد ہو کر چار سوال بند کاغذ میں حاضرین جلسہ میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیں گے وہ ہمیں الہاماً بتایا جائے ۔ حضرت اقدس نے یہ طریق مقابلہ بھی قبول فرمالیا۔ مگر فرمایا فتح مسیح کہ جس کی طینت میں دروغ ہی دروغ ہے ہر گز قابل التفات نہیں ہے۔ ہاں اگر پادری وائٹ بریخٹ صاحب ایک عام جلسہ میں یہ حلفاً اقرار کریں کہ اگر کسی بند لفافہ کا مضمون جو میری طرف سے پیش ہو دس ہفتہ تک مجھے بتلادیا جائے تو میں دین مسیحی سے بیزار ہو کر مسلمان ہو جائوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کروں تو ہزار روپیہ جو پہلے سے کسی ثالث منظور کردہ کے پاس جمع کرادوں گا بطور تاوان انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخل کیا جائے گا ۔ اس تحریری اقرار اور نور افشاں میں اس کی اشاعت کے دس ہفتہ تک ہم نے لفافہ بند کا مضمون بتلادیا تو ان کا روپیہ ضبط ہو گا اور اگر ہم نہ بتلا سکے تو ہم دعویٰ الہام سے دست بردار ہو جائیں گے اور نیز جو سزا زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے تجویز ہو وہ بخوشی خاطر اٹھالیں گے ۔ ‘‘(۳۳)
پادری فتح مسیح تو شملہ بھاگ گیا تھا اور پادری بریخٹ اس مقابلہ کے لئے آمادہ نہ ہو سکے اس طرح عیسائیت کے دیسی اور یورپین پادریوں کی حق پوشی بالکل نمایاں ہوگئی۔ اور اسلام کو ایک بار پھر شاندار فتح نصیب ہوئی۔
سفر پٹیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس روحانی مقابلے کے چند روز بعد وزیر الدولہ مدیر الملک خلیفہ سید محمد حسن خان صاحب وزیر اعظم پٹیالہ کی درخواست پر (جون ۱۸۸۸ء ) میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ خلیفہ صاحب موصوف حضرت اقدس کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے۔ جب براہین احمدیہ شائع ہوئی تو وہ دل و جان سے آپ کے گرویدہ ہوگئے اور اس کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا۔ آپ بصد ذوق و شوق براہین پڑھتے دوسروں سے پڑھوا کر سنتے اور گھنٹوں محظوظ ہو کر زبان سے بار بار فرماتے ’’فی الحقیقت یہ شخص علماء ربانی میں سے ہے۔‘‘
حضرت اقدس کے سفر پٹیالہ کے ایمان افزا حالات جناب مرتضیٰ خان حسن صاحب نے اخبار پیغام صلح ۲۶۔ مئی ۱۹۵۴ء میں شائع کئے تھے جو درج کئے جاتے ہیں ۔ لکھتے ہیں ۔ ’’وزیر صاحب کی دعوت پر حضرت اقدس جون ۱۸۸۸ء میں پٹیالہ تشریف لے گئے۔ آپ حضرت کی آمد پر جامے میں پھولے نہ سماتے تھے ۔ ریاست میں اعلان کیا کہ ہمارے ایک عالم ربانی تشریف لا رہے ہیں ان کی زیارت کے لئے سب کو آنا چاہئے۔۔۔حضرت تشریف لائے تو آپ کا استقبال اس شان و شوکت سے کیا جس طرح بڑے بڑے راجائوں اور نوابوں کا کیا جاتاہے ریاست کے دستور کے مطابق ہاتھی اور گھوڑے لے کر اسٹیشن پر گئے اورایک شاندار جلوس حضرت اقدس کے استقبال کے لئے مرتب کیا ۔ وزیر صاحب فرماتے دنیا کے لوگوں کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اصل عزت کے لائق تو یہ لوگ ہیں جو دین کی جائے پناہ ہیں۔‘‘ استقبال کے وقت لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ جمع تھے۔ لوگ شوق زیارت سے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس قدر خلقت کا اژدہام تھا کہ پٹیالہ کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی مگر حضرت ہیں کہ اس ظاہری شان و شوکت کی طرف آنکھ بھی اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ نہ کسی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں نہ کوئی فخر ہے نہ غرورنہ تکبر ۔ وہی سادگی وہی منکسرالمزاجی جو جبلت میں خدا نے ودیعت فرمائی تھی اب بھی عیاں ہے آنکھیں حیاسے نیچے جھکی ہیں لب ہائے مبارک پر ہلکاہلکا تبسم ہے چہرہ پر انوار الٰہی کی بارش ہو رہی ہے ۔ گویا ابھی غسل کرکے باہر نکلے ہیں۔ دیکھنے والوں کی نظر آپ پر پڑتی ہے ۔ تو سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ چاروں طرف سے السلام علیکم السلام علیکم کی آواز آتی ہے آپ کمال وقار سے ہر ایک کا جوا ب دیتے اور دونوں ہاتھوں سے اور کبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں۔
جتنے دن آپ پٹیالہ میں مقیم رہے زائرین کا تانتا بندھا رہا۔ آپ اپنے مواعظ حسنہ سے طالبان ہدایت کو فیضیاب کرتے رہے۔ مختلف مجالس میں مختلف مسائل کا ذکر ہو تا تھا بالخصوص آریوں اور عیسائیوں کے متعلق اور ان کی خلاف اسلام کار روائیوں کا اکثر ذکر ہوتا تھا۔ انہی دنوں میں آپ قریب کے ایک قصبہ سنور میں بھی تشریف لے گئے جو آپ کے مخلص دوست مشہور و معروف مولوی عبداللہ صاحب سنوری کا مولدو مسکن تھا یہ حضرت کے اخلاق کریمانہ کے تقاضے سے تھا کہ آپ ایک بڑے آدمی کی دعوت پر پٹیالہ گئے تو اپنے ایک غریب دوست کو بھی جس کی دینوی حیثیت پٹواری سے زیادہ نہ تھی اپنے قدوم میمنت لزوم سے نوازا جو شخص شاہی مہمان ہو اور جس کا اس قدر تزک و احتشام سے استقبال کیا گیا ہو اس کا ایک غریب شخص کے گھر پر چلے جانے میں عارنہ سمجھنا فی الحقیقت اس امر کی دلیل ہے کہ یہ شخص اخلاص کا بے انتہا قدر دان ہے ۔ حضرت اقدس کا اصول تھا کہ اپنے مخلص دوستوں کی خواہ وہ دینوی حیثیت میں کتنے ہی ادنیٰ ہوں بے پناہ عزت اور محبت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے ۔ ع
قدیمان خودرابیفزائے قدر
حضرت والا مولانا محمد عبداللہ خاں صاحب مرحوم و مغفور ان دنوں پٹیالہ میں ہی تھے چنانچہ سب سے پہلی دفعہ آپ کو اسی جگہ حضرت اقدس سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے اس ملاقات کا اپنی خود نوشتہ سوانح حیات میں جو فارسی میں ہے ۔ ذکر فرمایا ہے یہ ۱۳۔ جون ۱۸۸۸ء کی تحریر ہے حضرت اقدس کی کتاب براہین احمدیہ اور آپ کے چیلنج کا جو اس کتاب میں مخالفین اسلام کے نام مفصل ذکر کرتے ہوئے اخیر میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ ۱۳۔ جون ۱۸۸۸ء چوں قصبہ سنور کہ متصل پٹیالہ است تشریف اوردندمشرف بزیارت گشتم ۔ میانہ قد۔ گندم گوں۔ کشادہ پیشانی ریش مخضب بخضاب ۔ عمر قریب چہل سال داشنتد ۔سلام گفتہ مصافحہ کردہ۔ بنشتم خلقے بزیارت ایناں گرد آمدہ بود۔ از چہرہ اش آثار بزرگی و جلال الٰہی نمودار۔۔۔۔۔۔۔۔ و ظاہری باحکام شریعت موافق و استوار والباطن یعلمہ اللہ حلم و حیا بسے غالب ۔ نماز پیشین درپس ایناں اداکردم۔۔۔۔۔۔۔ ہر چند کہ استعداد شناختن ایں چنیں مردم ندارم مگر وجود باجود ایناں بمنزلہ رحمت الٰہی وبرائے اسلام و اسلامیان تقویت لامتناہی است از مجددبودن ایناں انکار کردن بجز جہل و نادانی چیزے دیگر نیست سلمہ اللہ ۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ غرضکہ یہ سفر بخیر و خوبی طے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہینوں پٹیالہ کے لوگوں میں حضرت کی تشریف آوری کا چرچا ہوتارہا۔ ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس کو پھر پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا۔ ‘‘(۳۴)
واپسی پر ایک حادثہ :۔
سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت اقدس کو الہام ہوا تھا کہ اس سفر میں کچھ نقصان ہوگا اور کچھ ہم وغم پیش آئیگا۔ چنانچہ جب حضرت اقدس پٹیالہ سے واپسی پر لدھیانہ آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ آپ نے نماز ادا فرمانے کے لئے اپنا چغہ اتار کر وزیر اعظم کے ایک نوکر کو دیا تا وضو کریں۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے بندھے ہوئے تھے وہ گر گیا ہے ۔ پھر حضور جب گاڑی پر سوار ہوئے تو راستہ میں ایک سٹیشن دوراہہ پر حضور کے ایک ساتھ کو کسی مسافر انگریز نے محض دھوکہ دہی سے اپنے فائدہ کے لئے کہدیا کہ لدھیانہ آگیا ہے ۔ چنانچہ اس جگہ آپ اور دیگر ساتھی اتر پڑے لیکن جب ریل چل دی تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور سٹیشن تھا۔ اس طرح الہام کے دونوں حصے پورے ہوگئے۔ (۳۵)








ماموریت کا آٹھواں سال
اشتہار ’’ تکمیل تبلیغ ‘‘ اور لدھیانہ میں بیعت اولیٰ
(۱۸۸۹ء)
بیعت کے لئے حکم الٰہی :۔ جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے۔ اگرچہ مخلصین کے قلوب میں برسوں سے یہ تحریک جاری تھی کہ حضرت اقدس بیعت لیں۔ مگر حضرت اقدس ہمیشہ یہی جواب دیتے تھے کہ ’’لست بما مور‘‘ (یعنی میں مامور نہیں ہوں) چنانچہ ایک دفعہ آپ نے میر عباس علی صاحب کی معرفت مولوی عبدالقادر صاحبؓ کو صاف صاف لکھا کہ ’’ اس عاجز کی فطرت پر توحید اورتفویض الی اللہ غالب ہے اور ۔۔۔چونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوند کریم کی طرف سے کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں۔ لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امراً۔ مولوی صاحب اخوت دین کے بڑھانے میں کوشش کریں۔اوراخلاص اورمحبت کے چشمہ صٓفی سے اس پودا کی پرورش میں مصروف رہیں تو یہی طریق انشاء اللہ بہت مفید ہوگا‘‘
آخر چھ سات برس بعد ۱۸۸۸ء؁ کی پہلی سہ ماہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بیعت لینے کا ارشاد ہوا۔ یہ ربانی حکم جن الفاظ میں پہنچا وہ یہ تھے’’ اذا عزمت فتوکل علی اللہ واصنع الفلک باعیننا ووحینا ۔الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔ یداللہ فوق ایدیھم۔ یعنی جب تو عزم کرلے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر اورہمارے سامنے اورہماری وحی کے تحت( نظام جماعت کی) کشتی تیار کر۔جو لوگ تیرے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا۔
بیعت کا اعلان:۔ حضرت اقدس کی طبیعت اس بات سے کراہت کرتی تھی کہ ہرقسم کے رطب ویابس لوگ اس سلسلہ بیعت میں داخل ہوجائیں۔ اوردل یہ چاہتاتھا کہ اس مبارک سلسلہ میں وہی مبارک لوگ داخل ہوں جنکی فطرت میں وفاداری کا مادہ ہے اورکچے نہیں ہیں۔ اس لئے آپ کو ایک ایسی تقریب کا انتظار رہا۔ کہ جو مخلصوں اور منافقوں میں امتیاز کردکھلائے ۔ سو اللہ جل شانہ نے اپنی کمال حکمت ورحمت سے وہ تقریب اسی سال نومبر ۱۸۸۸ء؁ میں بشیراول کی وفات سے پیدا کردی۔ ملک میں آپ کے خلاف ایک شور مخالفت برپا ہوا اور خام خیال بدظن ہوکر الگ ہوگئے لہٰذا آپ کی نگاہ میں یہی موقعہ اس بابرکت سلسلے کی ابتداء کے لئے موزوں قرار پایا۔ اورآپ یکم دسمبر ۱۸۸۸ء؁ کو ایک اشتہار کے ذریعہ سے بیعت کا اعلان عام فرمادیا۔
اشتہار’’تکمیل تبلیغ وگزارش ضروری‘‘ اس اعلان کے ساتھ جو بیعت سے متعلق پہلا اعلان تھا حضور نے بیعت کے لئے معین رنگ میں کوئی خاص شراط نہیں تحریر کئے تھے۔مگر ادھر حضرت المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء؁ کو دس گیارہ بجے شب (بیت الذکر نمبر ۱ کے زیر سقف کمرہ سے متصل مشرقی کمرہ میں ) پیدا ہوئے ۔ادھرآپ نے ’’تکمیل تبلیغ‘‘ کا اشتہار تحریر فرمایا ۔اور اس میں بیعت کی وہ دس شرطیں تجویز فرمائیں جو جماعت میں داخلہ کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس طرح جماعت احمدیہ اور پسرموعودؑ کی پیدائش توام ہوئی۔
یہ دس شرائط بیعت حضرت اقدس کے الفاظ میں یہ ہیں۔
’’اول:۔ بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہوجائے شرک سے مجتنب رہے گا۔
دوم:۔ یہ کہ جھوٹ اورزنا اور بدنظری اورہرایک فسق وفجور اور ظلم اور خیانت اورفساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگااگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔
سوم:۔ یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اوراپنے نبی کریمؐ پر درود بھیجنے اور ہرروز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اوردلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروز وردبنالے گا۔
چہارم:۔ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا ۔نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
پنجم:۔ یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور یسر اور نعمت اوربلامیں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہرحالت راضی بقضا ہوگا۔ اورہرایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیاررہے گا ۔اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پراس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا ۔
ششم:۔یہ کہ اتباع رسم اورمتابعت ہواوہوس سے بازآجائے گا اورقرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پرقبول کرے گا۔اورقال اللہ اورقال الرسول کواپنے ہریک راہ میں دستورالعمل قراردے گا۔
ہفتم:۔ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا۔ اورفروتنی اورعاجزی اورخوش خلقی اورحلیمی اور مسکینی سے زندگی بسرکرے گا۔
ہشتم :۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اورہمدردی اسلام کو اپنی جان اوراپنے مال اوراپنی عزت اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
نہم:۔ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا۔ اورجہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اورنعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔
دہم:۔ یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔‘‘
حضرت اقدس نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ استخارہ مسنونہ کے بعد بیعت کے لئے حاضر ہوں۔
لدھیانہ میں ورود:۔ اس اشتہار کے بعد حضرت اقدس قادیان سے لدھیانہ تشریف لے گئے اور حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں فروکش ہوئے ۔یہاں سے آپ نے ۴؍مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو ایک اور اشتہار میں بیعت کے اغراض ومقاصد پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے ۔تاایسا متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پراپنا نیک اثر ڈالے اوران کا اتفاق اسلام کے لئے برکت وعظمت ونتائج خیر کا موجب ہو ۔اوروہ ببرکت کلمہ واحدہ پر متفق ہونے کے اسلام کی پاک ومقدس خدمات میں جلد کام آسکیں اورایک کاہل اوربخیل وبے مصرف مسلمان نہ ہوں اور نہ ان نالائق لوگوں کی طرح جنہوںنے اپنے تفرقہ ونااتفاقی کی وجہ سے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اوراس کے خوبصورت چہر ہ کو اپنی فاسقانہ حالتوں سے داغ لگادیا ہے اورنہ ایسے غافل درویشوں اور گوشہ گزینوں کی طرح جن کو اسلامی ضرورتوں کی کچھ بھی خبر نہیں ۔ اور اپنے بھائیوں کی ہمدردی سے کچھ بھی غرض نہیں اوربنی نوع کی بھلائی کے لئے کچھ جوش نہیں بلکہ وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہوجائیں۔ یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اوراسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح فدا ہونے کو تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کریں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور محبت الٰہی اورہمدردی بندگان خدا کا پاک چشمہ ہریک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہوکر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظرآئے۔۔۔۔خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہاہے تا دنیا میں محبت الٰہی اور توبہ نصوع اور پاکیزگی اورحقیقی نیکی اورامن اورصلاحیت اورنبی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سویہ گروہ اس کا ایک خاص گرو ہ ہوگا اوروہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا۔ اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا ۔اوروہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشینگوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صٓدقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آب پاشی کرے گا اورا س کو نشوونما دے گا۔ یہاں تک کہ ان کی کثرت اوربرکت نظروں میں عجیب ہوجائے گی۔ اوروہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کے چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اوراسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے ۔وہ اس سلسلہ کے کامل متبیعین کو ہریک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کوقبولیت اور نصرت دی جائے گی اس قیامت تک ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی اس رب جلیل نے یہی چاہا ہے وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ہریک طاقت اور قدرت اسی کو ہے ۔‘‘
بیعت کے لئے لدھیانہ پہنچنے کا ارشاد:۔ اسی اشتہار میں آپ نے ہدایت فرمائی کہ بیعت کرنے والے اصحاب ۲۰؍مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچ جائیں۔
ہوشیار پور میں شیخ مہر علی کی ایک تقریب میں شمولیت:۔ انہی دنوں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے لڑکے کی شادی کی تقریب تھی جس میں شمولیت کے لئے انہوںنے درخواست کررکھی تھی۔ اس لئے بیعت لینے سے قبل حضرت اقدس کو ایک مرتبہ ہوشیار پور بھی جانا پڑا۔ اس سفر میں منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ میر عباس علی صاحب لدھیانوی اور حافظ حامد علی صاحبؓ آپ کے قدیم خادم آپ کے ساتھ تھے۔ شیخ مہر علی صاحب نے یہ انتظام کیا تھا کہ دعوت میں کھانے کے وقت رؤساء کے واسطے الگ کمرہ تھا اوران کے ساتھیوں اور خدام کے لئے الگ۔ مگر حضرت اقدس کا قاعدہ یہ تھا کہ اپنے خدام کو کمرے میں پہلے داخل کرتے پھر خود داخل ہوتے تھے ۔اوران کو اپنے دائیں بائیں بٹھاتے تھے۔ ان دنوں وہاں مولوی محمود شاہ صاحب چھچھ ہزاروی کا وعظ ہونے والا تھا حضرت اقدس نے منشی عبداللہ صاحب سنوریؓ کے ہاتھ بیعت کا اشتہار دے کر انہیں کہلا بھیجا کہ آپ اپنے لیکچر کے وقت کسی مناسب موقع پر میرا اشتہار بیعت پڑھ کر سنادیں۔ اور میں خود بھی آپ کے لیکچر میں آئوں گا انہوںنے وعدہ کرلیا۔ چنانچہ حضرت اقدس اس کے وعظ میں تشریف لے گئے۔ لیکن اس نے وعدہ خلافی کی اورحضور کا اشتہار نہ سنایا بلکہ جس وقت لوگ منتشر ہونے لگے اس وقت سنایا مگراکثر لوگ منتشر ہوگئے تھے۔ حضرت اقدسؑ کو اس پر بہت رنج ہوا ۔ فرمایا ہم اس کے وعدہ کے خیال سے ہی اس کے لیکچر میں آئے تھے کہ ہماری تبلیغ ہوگی ۔ورنہ ہمیں کیا ضرورت تھی۔ اس نے وعدہ خلافی کی ہے۔ خدا کے بندوں کی خفگی رنگ لائے بغیر نہیں رہتی۔ چنانچہ یہ مولوی تھوڑے عرصہ کے اندر ہی چوری کے الزام کے نیچے آکر سخت ذلیل ہوا۔
۲۳؍مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو محلہ جدید میں بیعت اولیٰ کا آغاز:۔ حضرت اقدس کے اشتہار پر جموں، خوست، بھیرہ، سیالکوٹ، گورداسپور، گوجرانوالہ، جالندھر، پٹیالہ، مالیر کوٹلہ، انبالہ، کپور تھلہ، اور میرٹھ وغیرہ اضلاع سے متعدد مخلصین لدھیانہ پہنچ گئے۔ بیعت اولیٰ کا آغاز لدھیانہ میں حضرت منشی عبداللہ سنوریؓ کی روایات کے مطابق ۲۰؍رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء؁ کو حضرت صوفی احمد جان ؓ کے مکان واقع محلہ جدید میں ہوا ۔وہیں بیعت کے تاریخی ریکارڈ کے لئے ایک رجسٹر تیارہوا۔ جس کی پیشانی پر یہ لکھاگیا۔’’بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ وطہارت‘‘ رجسٹر میں ایک نقشہ تھا جس میں نام ،ولدیت اور سکونت درج کی جاتی تھی۔
حضرت اقدسؑ بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کوٹھری میں ( جوبعد کو دارالبیعت کے مقدس نام سے موسوم ہوئی) بیٹھ گئے اور دروازے پر حافظ حامد علی صاحبؓ کو مقرر کردیا اورانہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جائوں اسے کمرہ میں بلاتے جائو۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کو بلوایا ۔حضرت اقدس نے مولانا کا ہاتھ کلائی پر سے زور کے ساتھ پکڑا اور بڑی لمبی بیعت لی ۔ان دنوں بیعت کے الفاظ یہ تھے۔
’’آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے ان تمام گناہوں اورخراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں میں مبتلا تھا اور سچے دل اورپکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور میر ی سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری اور ۱۲؍جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کا ربند رہوںگا ۔اوراب بھی اپنے گذشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں ۔اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیْ ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِیْ ۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہَ ۔رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ فَاِنَّہٗ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اَنْتَ (۱۳،۱۴)
(خاکہ دارالبیعت لدھیانہ)
شمال



کمرہ بیعت

کمرہ
مشرق



کچا صحن
مسجد
مغرب
پکا صحن


(جنوب) حضرت صوفی احمد جان صاحب ؓ کا مکان

حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کے بعد میر عباس علی صاحب۔ شیخ محمد حسین صاحب خوشنویس مراد آبادی نیز چوتھے نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ (۱۵) اور پانچویں نمبر پر مولوی عبداللہ صاحب ساکن تنگی علاقہ چار سدہ (۱۶) (صوبہ سرحد) نے بیعت کی۔ ان کے بعد غالباً منشی اللہ بخش صاحب (۱۷) لدھیانہ کا نام لے کر بلایا اور پھر شیخ حامد علی صاحب سے کہدیا کہ خودہی ایک ایک آدمی کو بھیجتے جائو۔ اس کے بعد آٹھویں نمبر پر قاضی خواجہ علی صاحبؓ نویں نمبر پر میر عنایت علی صاحبؓ اور دسویں نمبر پر چوہدری رستم علی صاحبؓ اور پھر ( معاًبعد یا کچھ وقفے کے ساتھ ) منشی اروڑا خاں صاحبؓ نے بیعت کی۔ سستائیسویں نمبر پر رحیم بخش صاحب (۱۸) سنوری کی بیعت ہوئی۔ اس طرح پہلے دن باری باری چالیس (۱۹) افراد نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’ سبز کا غذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی چھ سات اشتہار حضور نے بھیجے ۔ منشی اروڑا صاحبؓ فوراً لدھیانہ کو روانہ ہوگئے دوسرے دن محمد خاں صاحب اور میں گئے اور بیعت کر لی۔ منشی عبدالرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے کیونکہ انہوں نے استخارہ کیا۔ اور آواز آئی ’’ عبدالرحمن آجا‘‘۔ ہم سے پہلے اس دن آٹھ نو کس بیعت کر چکے تھے۔ بیعت حضور اکیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے اشتہار پہنچنے سے دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی پہلے منشی اروڑا صاحب نے ۔ پھر میں نے ۔ میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ آپ کے رفیق کہاں ہیں؟ میں نے عرض کی۔ منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خاں صاحب نہا رہے ہیں کہ نہا کر بیعت کریں۔ چنانچہ محمد خاں صاحب نے بیعت کر لی۔ اس کے ایک دن بعد منشی عبدالرحمن صاحبؓ نے بیعت کی۔ منشی عبدالرحمن صاحب۔ منشی اروڑا صاحب اور محمد خاں ؓ صاحب تو بیعت کر کے واپس آگئے کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے میں پندرہ بیس روز لدھیانہ ٹھہرا رہا۔ اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے۔ حضور تنہائی میں بیعت لیتے تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے ۔ بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رقت طاری ہو جاتی تھی۔ اور دعا بعد بیعت بہت لمبی فرماتے تھے۔ ‘‘ (۲۰) پیر سراج الحق صاحبؓ نعمانی ۔ شیخ یعقوب علی صاحب تراب (۲۱) اور مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی اس دن لدھیانہ میں موجود تھے ۔ مگر پہلی بیعت میں شامل نہ ہو سکے ۔ پیر سراج الحق صاحب کا منشاء قادیان کی مسجد مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے حضرت اقدس نے منظور فرما لیا۔ اور ۲۳ دسمبر ۱۸۸۹ء کو بیعت (۲۲) لی۔ باقی حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ (۲۳) اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ تراب (۲۴) نے انہی ایام میں بیعت کر لی تھی۔ حضرت اقدسؑ نے مولانا نور الدین صاحب کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں مولانا عبدالکریم صاحب کا ہاتھ رکھا اور ان ہر دو کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر مولانا عبدالکریم صاحب سے بیعت کے الفاظ کہلوائے۔ (۲۵)
ان ایام میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نیچری خیالات رکھتے تھے ۔ لیکن چونکہ وہ بچپن (۲۶) ہی سے حضرت مولانا نورالدین سے راہ رسم رکھتے تھے اس لئے انہوں نے محض آپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد اتنا زبردست تغیر ہوا کہ خود ہی فرمایا کرتے تھے ۔’’ میں نے قرآن بھی پڑھا تھا۔ مولانا نورالدین ؓ کے طفیل سے حدیث کا شوق بھی ہو گیا تھا۔ گھر میں صوفیوں کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتا تھا ۔ مگر ایمان میں وہ روشنی وہ نور معرفت میں ترقی نہ تھی۔ جو اب ہے اس لئے میں اپنے دوستوں کو اپنے تجربے کی بناء پر کہتا وہں کہ یادرکھو اس خلیفہ اللہ کے دیکھنے کے بدوں صحابہ کا سازندہ ایمان نہیں مل سکتا۔ اس کے پاس رہنے سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کیسے موقع موقع پر خدا کی وحی سناتا ہے اور وہ پوری ہوتی ہے تو روح میں ایک محبت اور اخلاص کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے ۔ جو ایمان کے پودے کی آبپاشی کرتا ہے ۔ ‘‘(۲۷)
عورتوں کی بیعت :۔
مردوں کی بیعت کے بعد حضرت گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت کی ۔ سب سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحب کی اہلیہ محترمہ حضرت صغریٰ بیگم (۲۸) نے بیعت کی۔ حضرت ام المومنین ابتداء ہی سے آپ کے سب ہی دعاوی پر ایمان رکھتی تھیں اور شروع ہی سے اپنے آپ کو بیعت میں سمجھتی تھیں۔ اس لئے آپ نے الگ بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔(۲۹)
بیعت کے بعد اجتماعی کھانا اور نماز :۔
میاں رحیم بخش صاحب سنوری ؓ کا بیان ہے کہ ’’بیعت کے بعد کھانا تیار ہوا تو حضور نے فرمایا۔ اس مکان میں کھانا کھلائو کیونکہ وہ مکان لمبا تھا۔ غرض دسترخوان بچھ گیا اور سب دوستوں کو وہیں کھانا کھلایا گیا کھانے کے وقت ایسا اتفاق ہواکہ میں حضور کے ساتھ ایک پہلو پر بیٹھا تھا حضور اپنے برتن میں سے کھانا نکال کر میرے برتن میں ڈالتے جاتے تھے۔ اور میں کھانا کھاتا جاتاتھا۔ گاہے حضور بھی کوئی لقمہ نوش فرماتے تھے۔ کھانے کے بعد نماز کی تیاری ہوئی۔ نماز میں بھی ایسا اتفاق پیش آیا کہ میں حضور کے ایک پہلو میں حضور کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اس وقت کون امام تھا۔‘‘(۳۰)
دوسرے ایام میں بیعت :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں ۱۸۔ اپریل ۱۸۸۹ء تک مقیم رہے ۔ (۳۱) ابتداء محلہ جدید میں پھر محلہ اقبال گنج میں تاہم بیعت کا سلسلہ بد ستور جاری رہا۔ پہلے بیعت اکیلے اکیلے ہوتی رہی پھر خطوط کے ذریعہ سے پھر مجمع عام میں ۔ (۳۲)
بیعت کے بعد نصائح:۔
حضرت اقدس کا اکثر یہ دستور تھا کہ بیعت کرنے والوں کو نصائح فرماتے تھے۔ چند نصائح بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔
’’ا س جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئے۔ کہ خدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے۔ پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے۔ ‘‘
’’ہمہ و جوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خدا پر توکل چھوڑ دینا یہ شرک ہے اور گویا خدا کی ہستی سے انکار۔ رعایت اسباب اس حد تک کرنی چاہیئے۔ کہ شرک لازم نہ آئے۔ ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں۔ دست درکار دل بایا ر والی بات ہونی چاہئے۔‘‘
’’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے لیکن نبھانا مشکل ہے۔ کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لا پروا کردے دنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دور۔ اس طرح دل سخت ہو جاتاہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتاہے اگرخدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو۔ ‘‘
’’ فتنہ کی کوئی بات نہ کرو۔ شر نہ پھیلائو۔ گالی پر صبرکرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آئو۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلائو سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا راضی ہو جائے۔ اور دشمن بھی جا ن لے کہ اب بیعت کرکے یہ شخص وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئے کہ پورے دل پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے ۔ ‘‘(۳۳)
بعض لوگ بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سوال کیا کرتے تھے کہ حضور کسی وظیفہ وغیرہ کا ارشاد فرمائیں۔ اس کا جواب اکثر یہ دیا کرتے تھے کہ نماز سنوار کر پڑھا کریں اور نماز میں اپنی زبان میں دعا کیا کریں۔ اور قرآن شریف بہت پڑھا کریں ۔ آپ وظائف کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے کہ استغفار کیاکریں۔ سورہ فاتحہ پڑھا کریں۔ درود شریف لاحول اور سبحان اللہ پر مداومت کریں ۔ اور فرماتے تھے کہ بس ہمارے وظائف تو یہی ہیں۔ (۳۴)
رجسٹر بیعت اولیٰ کی مکمل فہرست :
رجسٹر بیعت ابتداء حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کاغذات میں سے ملا تھا جو انہوں نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو دے دیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کی عظیم الشان اہمیت کے پیش نظر اسے خلافت لائبریری ربوہ میں منتقل فرمادیا ہے ۔ اس قیمتی دستاویز کا پہلا ورق ضائع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ابتدائی آٹھ ناموں کا پتہ نہیں چل سکا۔ ذیل میں اس کی مکمل فہرست درج کی جاتی ہے اس فہرست میں مبائعین کی ترتیب مدنظر نہیں رکھی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دستخطی پرچیاں کسی ترتیب سے نہیں رکھی جاتی تھیں ۔ (۳۵)
بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر کے بارہ میں جدید تحقیق :۔
رسالہ الفرقان ربوہ مئی ۱۹۷۱ء (صفحہ ۱۷۔۳۱) میں بیعت اولیٰ کی تاریخ اور اس کے رجسٹر سے متعلق مولف کتاب ھذا کا حسب ذیل نوٹ شائع ہوا: ’’ سلسلہ احمدیہ میں لدھیانہ کی بیعت اولیٰ کو جو تاریخی اہمیت حاصل ہے وہ کسی احمدی سے قطعاً پوشیدہ نہیں ۔ اور یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ اہم واقعہ ( جس نے آئندہ چل کر مذہبی دنیا پر ایک ہمہ گیر اور انقلاب انگیز اثر ڈالا ) مارچ ۱۸۸۹ء میں پیش آیا جبکہ حاجی الحرمین الشریفین حضرت حکیم الامت مولانا حکیم مولوی نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر سب سے پہلے بیعت کا شرف حاسل کیا۔ علاوہ ازیں اس پر بھی اتفاق رائے ہے کہ اس آسمانی اور بابرکت تقریب کے پہلے روز چالیس قدوسیوں کا پاک نہاد، صاف باطن اور خوش نصیب قافلہ بیعت امام الزمان کرکے داخل سلسلہ ہوا تھا۔ مگر اس بیعت اولیٰ کا آغاز شمسی و قمری اعتبار سے کس معین تاریخ کو ہوا؟ یہ مسئلہ جماعت احمدیہ کے علمی حلقوں میں ابھی تک زیر تحقیق چلا آرہا ہے اور ایک معرکہ الاراء موضوع بنا ہوا ہے ۔
میرے نزدیک اس خالص علمی مسئلہ میں تحقیق و تفحص کے ذریعہ سے کسی نتیجہ خیز اور صحیح منزل کو پانے کے لئے مندرجہ ذیل حقائق بہترین مشعل راہ اور روشنی کا مینار ہیں۔
اول: حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام نے ایک طرف اپنے اشتہار ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ میں بیعت پر مستعد اصحاب کے لئے یہ اعلان عام فرمایا :
’’ تاریخ ہذا سے جو ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہے ۲۵۔ مارچ تک یہ عاجز لودیانہ محلہ جدید میں مقیم رہے اس عرصہ میں اگر کوئی صاحب آنا چاہیں تو لودیانہ میں ۲۰ تاریخ کے بعد آجائویں۔ ‘‘
(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۰ حاشیہ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ )
دوسری طرف حضور انورؑ نے حکیم الامت حضرت مولانا حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصی ہدایت فرمائی کہ :۔
’’بجائے بیس کے بائیس کو آپ تشریف لاویں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عاجزارادہ رکھتا ہے کہ ۱۵۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو دو تین روز کے لئے ہوشیار پور جاوے اور ۱۹۔ مارچ یا ۲۰مارچ کو بہر حال واپس آجائوں گا ۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۲ صفحہ ۶۲مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم )
اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کا منشاء مبارک بائیس مارچ کے بعد سلسلہ بیعت کے آغاز کا تھا ورنہ حضور علیہ السلام حضرت مولوی صاحبؓ کو جوان دنوں جموں میں قیام فرما تھے جموں سے بائیس مارچ کو پہنچنے کا حکم نہ دیتے بلکہ بائیس مارچ سے پہلے وارد لدھیانہ ہونے کی تاکید فرماتے خصوصاً اس لئے بھی کہ حضرت مولوی صاحبؓ نے ایک عرصہ سے حضورؑ کی خدمت میں عرض کر رکھا تھا کہ جب حضور کو جناب الٰہی سے بیعت کا اذن ہو تو سب سے پہلے بیعت آپ کی لی جائے اور حضور ؑ اس درخواست و ازراہ شفقت قبول فرما چکے تھے۔
دوم ۔ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ سیدنا المسیح الموعود علیہ السلام نے نہایت جلیل القدر اور مشہور صحابی، سرخ چھینٹوں کے کشفی نشان کے حامل ، براہین احمدیہ کی طباعت میں مخلص معاون اور مشہور سفر ہوشیار پور ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خصوصی خادم تھے۔ حضورؑ نے اپنے قلم مبارک سے ازالہ اوہام میں ان کے لئے بہت تعریفی کلمات لکھے ہیں۔ حضور ؑ نے تحریر فرمایا ہے ’’یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا۔۔۔۔۔۔ یہ نوجوان درحقیقت اللہ اور رسول ؐ کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے ۔ الغرض میاں عبداللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے۔ ‘‘(ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۹۶)
حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ نے بیعت اولیٰ میں چوتھے نمبر پر بیعت کی اور جیسا کہ آپ ؓ فرمایا کرتے تھے جہاں دوسرے مبائعین کو حضور ؑ کے حکم سے شیخ حامد علی صاحبؓ نے کمرہ بیعت میں جانے کی آواز دی وہاں حضور انورؑ نے خود آپ کو نام لے کر بلایا تھا ۔ ( الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۲۷ء )
اس شان کے خدا نما بزرگ اور مسیح محمدیؐ کے منتخب محب کا واضح اور قطعی بیان یہ ہے کہ :۔
’’پہلے دن جب آپ ؑ نے بیعت لی تو وہ تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۹۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء تھی۔‘‘( سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۷۷ مرتبہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۔ طبع اول۱۰۔ دسمبر ۱۹۲۳ء ۔طبع ثانی ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۵ء )
سوم ۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تراب ( عرفانی ) کانام نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ آپ کا مقام سلسلہ احمدیہ کے پہلے صحافی اور پہلے مورخ کے لحاظ سے نہایت بلند ہے۔ حضرت عرفانی رضی اللہ عنہ گو پہلے دن بیعت سے مشرف نہیں ہوئے تھے مگر وہ ان ایام میں لدھیانہ میں تھے اور انہیں دنوں داخل بیعت ہوگئے تھے۔ حضرت شیخ صاحب موصوفؓ بھی حضرت مولانا عبداللہ سنوری ؓ کی تائید میں یہ نظریہ رکھتے تھے کہ بیعت کا اصل دن ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی ہے ۔(حیات احمد جلد سوم صفحہ ۲۸)
چہارم:۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کی قطعی رائے تھی کہ بیعت اولیٰ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو ہوئی تھی بلکہ حضورؑ نے صرف اسی بناء پر ۲۳۔ مارچ ۱۹۴۴ء کا دن جلسہ مصلح موعود لدھیانہ کے لئے مقرر فرمایا اور پھر اس میں بنفس نفیس شرکت کی اور اپنے روح پرور خطاب کی ابتداء ہی ان مبارک کلمات سے فرمائی کہ :۔
’’اس شہر لدھیانہ میں ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔۔۔۔۔نے بیعت لی تھی ۔ ‘‘(الفضل ۱۸۔ فروری ۱۹۵۹ء )
پنجم ۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کا مسلک بھی اس کے مطابق تھا۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:۔
’’سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لدھیانہ کے مقام پر سب سے پہلی بیعت ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو لی تھی اور جماعت احمدیہ کا قیام معرض وجود میں آیا تھا۔ ‘‘
ششم۔ درالبیعت لدھیانہ میں ۱۹۱۶ء سے ۱۹۴۷ء تک جو کتب بطور یاد گار نصب رہا اس پر بھی ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کی تاریخ ثبت تھی۔ (ریویوآف ریلیجنز اردو جون ، جولائی ۹۴۳ء صفحہ ۲۶تا ۳۹)
ہفتم :۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے زمانہ خلافت کے آخر ی دور میں ’’یوم مسیح موعود‘‘ کی بنیاد پری اور ساتھ ہی حضور پر نور کی اجازت و استصواب کے بعد مرکز احمدیت سے مسلسل اعلان کیا گیا کہ بیعت اولیٰ کی تاریخ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہے۔ ( الفضل ۴۔ امان ؍ مارچ ۱۳۲۷ہش ؍ ۱۹۵۸ء صفحہ)
ہشتم ۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردایم ۔ اے (سلسلہ احمدیہ کے نامور مولف و محقق کی قطعی رائے بھی اسی تاریخ کے حق میں تھی۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب ’’ لائف آف احمد‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :۔
‏THE FORMAL INTIATION BEGAM ON MARCH 23RD, 1889(20RAJAB, 1306.A.H)
(صفحہ ۱۵۴ مطبوعہ ۱۹۴۹ء مطابق ۱۳۲۸ہش)
نہم :خالد احمدیت مولانا ابو العطاء صاحب فاضل نے یوم جمہوریہ پاکستان کے موقعہ پر ۲۳۔ مارچ ۱۹۵۷ء کو ایک مضمون سپرد قلم کیا جس میںنے صرف محولہ بالا تاریخ بیعت کی مکمل تائید کی بلکہ یہ نہایت ایمان افروز اور لطیف نکتہ بھی بیان فرمایا کہ :۔
’’ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر کوئی پتہ بھی ہل نہیں سکتا ۔ پس اس لحاظ سے کوئی واقعہ اتفاقی نہیں ہے۔ بلکہ ہر کام ، حادثہ اور ہر سانحہ اللہ تعالیٰ کے علم اور عظیم حکمت کے ماتحت وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ الٰہی تصرفات میں سے یہ عجیب تصرف ہے کہ ۲۳۔ مارچ کو ہی اس زمانہ کے مامور نے روحانی جماعت کا علمی طور پر سنگ بنیاد رکھا اور اسی تاریخ (۵۴) کو مادی دنیا میں ارض مقدسہ ( پاکستان ) بننے پر اس کے جمہوریہ اسلامیہ قرار پانے کا اعلان کیا جاتاہے ۔ بہر حال جماعت احمدیہ کے لئے ۲۳۔ مارچ کی تاریخ نہایت ہی اہم اور خوشی کی تاریخ ہے ۔‘‘( الفضل ۲۸۔ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۵ کالم ۴)
سیدنا المصلح الموعودؑ کی ہدایت خاص، حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کے چشم دید بیان ، حضرت عرفانیؓ کے تائیدی نظریہ ، حضرت مصلح موعودؓ کے واضح فرمان ، حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا ابوالعطاء صاحب کی حتمی رائے۔ دارالبیعت کے یادگاری کتبہ اور جماعت احمدیہ کے اجماعی مسلک سے سوائے اس کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا کہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔
اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ یعنی ان محرکات و عوامل کا تجزیہ کیجئے جو اس صاف اور دو ٹوک نتیجہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ اس تعلق میں بنیادی طور پر صرف دو امور پیش کئے جاسکتے ہیں۔
ٍ۱۔ قدیم رجسٹر بیعت میں مندرجہ تاریخ ۔
۲۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری ؓ کی بیان رمود ہ قمری و شمسی تاریخوں میں عدم موافقت ۔ اول الذکر سے بظاہر اس خیال کو بہت تقویت حاصل ہوتی ہے کہ سلسلہ بیعت دراصل ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء سے جاری ہو چکا تھا اور قادیان ، کا نگڑہ ، غوث گڑھ ، جموں ، مالیر کوٹلہ، شاہ پور، کڑیانہ ، جھنپٹ اور لدھیانہ وغیرہ کے چھیالیس بزرگ بیعت ہوچکے تھے۔
ثانی الذکر امر یہ بھاری شبہ ڈالتا ہے کہ بیعت اولیٰ کی ابتداء ۲۱یا ۲۳مارچ ۱۸۸۹ء کی بجائے ۲۲۔ مارچ کو ہوئی تھی کیونکہ مصری فاضل محمد مختار باشا کی تقویم ۔ اَلتَّوْفِیْقَاتُ الْاِلْھَامِیَّۃِ‘‘سے ثابت ہوتا ہے کہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲۔ مارچ ۱۸۹۹ء کا دن تھا۔ (۵۵)
قدیم رجسٹر جو تاریخ احمدیت کی ایک مقدس دستاویز اور بیعت اولیٰ کے دور کی نہایت بیش قیمت یاد گارہے آج تک خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے ۔ یہ رجسٹر حضرت اقدس مسیح موعود کے حکم سے تیار کیا گیا تھا اور اس کا نام ’’ بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ و طہارت ‘‘ تجویز فرمایا گیا۔ اس رجسٹر کی تحریر مختلف ہاتھوں میں رہی۔ بعض نام حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے لکھے بعض حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگوں نے ۔ اس رجسٹر کا پہلا ورق چونکہ ضائع ہو چکا ہے اس لئے اس کے ابتدائی ناموں کا پتہ نہیں چلتا۔ اپریل ۱۹۳۹ء میں قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پہلی بار اس کے ابتدائی ۶۲ اندراجات اپنی کتاب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں شائع فرمائے تو اس کے پہلے آٹھ نام بعض زبانی اور مستند روایات سے قیاساً درج کرکے اس کے پہلے نمبر پر ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۱مارچ ۱۸۸۹ کی تاریخوں کا اس لئے اضافہ فرما دیا کہ رجسٹر میں سینتالیسویں نمبر پر پہلی تاریخ جو بطور یاد داشت درج تھی وہ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور ۲۲۔ مارچ ۱۸۸۹ء تھی۔
سیر ت المہدی حصہ سوم کی اس فہرست سے یہ تاثر پیدا ہوتاہے کہ ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء ہی کو یوم البیعت تسلیم کیا جانا چاہئے جیسا کہ حال ہی میں بیرو ن پاکستان کے ایک فاضل دوست نے راقم الحروف کے نام اپنے ایک تازہ مکتوب میں لکھا ہے اور زور دیا ہے کہ رجسٹر کی اندرونی شہادت کو کیوں قبول نہیں کیا جاتا؟
بلاشبہ یہ قدیم رجسٹر بیعت ایک مستند ، وقیع ، قابل استناد اور ثقہ شہادت سابقو ن الاولون کے اسماء مبارکہ کی ہے اور کوئی احمدی محقق خواہ وہ کتنی عظیم علمی شخصیت کا حامل ہو اور تاریخ نویسی اور وقائع نگاری میں سند عام کا درجہ حاصل کر لے اس سے بے نیاز ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بایں ہمہ قابل غورو فکر پہلو یہ ہے کہ یہ شہادت کس نوعیت کی ہے ؟ اگر یہ شہادت اس بات کی ہے کہ سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہونے والے قدیم ترین فدائیوں کے نام اور کوائف کیا تھے تو یہ سو فیصد درست ہے اور اگر شہادت سے مراد یہ ہے کہ اس سے بیعت کرنے والوں کی ٹھیک ٹھیک عملی ترتیب اور صحیح صحیح تاریخ کی نشاندہی ہوتی ہے تو قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہما جیسے اکابر محققین احمدیت کی رائے میں بھی اس کا جواب یکسر نفی میں ہے حتیٰ کہ سرے سے اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس میں مندرجہ تواریخ ہجری و شمسی عین بیعت کے وقت لکھی گئی تھیں۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سیرۃ المہدی حصہ سوم میں فرماتے ہیں:۔
’’بیعت کنندگان کے رجسٹر سے جو مجھے مکرم میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ذریعہ دستیاب ہوا ہے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آیا بیعت کے وقت ہی اس رجسٹر میں فوراً اندراج کر لیا جاتاتھا یا کہ بیعت کے بعد چند اسماء اکٹھے درج کر لئے جاتے تھے۔ موخر الذکر صورت میں اس بات کا امکان ہے کہ بوقت اندراج اصل ترتیب سے کسی قدر اختلاف ہو جاتاہے ۔ بلکہ بعض اندراجات سے شبہ ہو تاہے کہ بعض اوقات ایسا ہو جاتا تھا کیونکہ بعض صورتوں میں زبانی روایات اور اندراج میں کافی اختلاف ہے ۔ ‘‘(صفحہ ۴۱)
حضرت قمر الانبیاء رضی اللہ عنہ ( نور اللہ مرقدہ) نے مندرجہ بالا تحریر میں جس ’’ کافی اختلاف‘‘ کی طرف سے نہایت اجمالی مگر بلیغ رنگ میں اشارہ فرمایا ہے اس کی بعض نہایت واضح مثالیں بیان کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔
۱۔ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا المصلح الموعود ؓ ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور دوسرے اکابر سلسلہ اس رائے پر متفق ہیں کہ پہلے دن چالیس بزرگوں نے بیعت کی تھی۔ ( سیرت المہدی حصہ اول صفحہ ۱۸، سیرت مسیح موعود ؑ از حضرت مصلح موعودؓ ۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۲۹از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ۔ ذکر حبیب صفحہ ۹ مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ بھیروی ) اس مسلمہ حقیقت کے باوجود رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق میں چالیس کی بجائے چھیالیس کے نام لکھے ہیں۔
رجسٹر بیعت میں تینتالیسویں نمبر پر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی و نام نامی درج ہے حالانکہ حضرت مرزا بشیر احمدصاحب نے بھی ( بروایت حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری ؓ ) لکھا ہے کہ ’’ بیعت اولیٰ کے دن مولوی عبدالکریم صاحب بھی وہیں موجود تھے مگر بیعت نہیں کی ۔ ‘‘ (سیرت المہدی حصہ اول طبع دوم صفحہ ۷۸)
۳۔ دنیائے احمدیت کے نہایت ممتاز، مخلص اور فدائی بزرگ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے عاشق صادق حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی سوانح اور روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے بیعت کے لئے اشتہار دیا تو اگرچہ حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ اشتہار بیعت ملتے ہی لدھیانہ روانہ ہوگئے تھے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ اور حضرت میاں محمد خان صاحب کپور تھلوی دوسرے دن چل کر تیسرے دن صبح لدھیانہ پہنچے مگر کپور تھلہ کی ان تینوں بلند پایہ شخصیتوں نے بیعت اولیٰ کے پہلے روز ہی بیعت کر لی تھی۔ پہلے حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ بیعت ہوئے۔ پھر حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ اور بعد ازاں حضرت محمد خان صاحبؓ ۔ ( اصحاب احمد جلد چہارم طبع اول صفحہ ۹۱) مگر اس واقعہ کے برعکس رجسٹر بیعت میں ۲۰۔ مارچ کی تاریخ کے تحت ہمیں صرف حضرت منشی روڑا خان صاحب کے نام ملتاہے اور بقیہ دو عشاق مسیح موعود ؑ کے مبارک اسماء ۲۳۔ مارچ میں درج کے گئے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان عالی مقام ، مجسم اخلاص اور سرتاپا فدائیت و جودوں اور شمع مسیح کے زندہ جاوید اور بے مثال پروانوں کی واقعاتی شہادتو ں اور رجسٹر بیعت کے اس حیرت انگیز اور بالکل کھلے کھلے تفاوت و اختلاف کی آخر وجہ کیاہے ؟ اور کیا ان میں مطابقت کی کوئی صورت ممکن نہیں؟
یہ ناچیز جواباً عرض کرتا ہے کہ اگرگہری تحقیق سے کام لیا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ رجسٹر بیعت کے اندراجات کی اصل اور بنیادی ترتیب بیعت اولیٰ کے مبائعین کی عملی بیعت کے اعتبار سے نہیں بلکہ قبل از وقت بیعت کی اطلاع دینے والوں یا بیعت کی خاطر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں لدھیانہ پہنچ جانے والو کے اعتبار سے ہے۔ یہ محض قیاسی یا اجتہادی امر نہیں بلکہ اس کا سراغ براہ راست سیدنا المسیح الموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اشتہار سے بخوبی ملتا ہے جو حضور ؑ نے بیعت اولیٰ سے قبل شائع فرمایا اور جس میں رجسٹر بیعت کی غرض و غایت پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی۔
چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اشتہار مارچ۱۸۸۹ء میں بیعت کے لئے مستعد اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’اے اخوان مومنین (اَیَّدَکُمُ اللّٰہُ بِرُوْحٍ مِنْہٗ) آپ سب صاحبوں پر جو اس عاجز سے خالصاً ۔ طلب اللہ بیعت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں واضح ہوکہ بالقاء رب کریم و جلیل ( جس کا ارادہ ہے کہ مسلمانوں کو انواع و اقسام کے اختلاف اور غل اور حقداور نزاع اور فساد کینہ اور بغض سے جس نے ان کو بے برکت و نکما کر دیا ہے نجات دے کر فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَاناً کا مصداق بنا دے) مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض فوائد و منافع بیعت کہ جو آپ لوگوں کے لئے مقدر ہیں اس انتظام پر موقوف ہیںکہ آپ سب صاحبوں کے اسماء مبارکہ ایک کتاب میں بقید ولدیت و سکونت مستقل و عارضی اور کسی قدر کیفیت کے( اگر ممکن ہو) اندراج پاویں اور پھر جب وہ اسماء مندرجہ کسی تعداد موزوں تک پہنچ جائیں تو ان سب ناموں کی ایک فہرست تیارکرکے اور چھپوا کر ایک ایک کاپی اس کی تمام بیعت کرنے والوں کی خدمت میں بھیجی جائے اور پھر جب دوسری (۵۶) وقت میں نئی بیعت کرنے والوں کا ایک معتدبہ گروہ ہو جائے تو ایسا ہی ہوتا رہے۔ جب تک ارادہ الٰہی نے اپنے اندر مقدرہ تک پہنچ جائے۔۔۔۔۔ مگر چونکہ یہ کارروائی بجز اس کے باسانی و صحت انجام پذیر نہیں ہو سکتی کہ خود مبائعین اپنے ہاتھ سے خوشخط قلم سے لکھ کر اپنا تمام پتہ و نشان بتفصیل مندرجہ بالا بھیج دیں اس لئے ہر صاحب کو جو صدق دل اور خلوص تام سے بیعت کرنے کے لئے مستعد ہیں تکلیف دی جاتی ہے کہ وہ بتحریر خاص اپنے پورے پورے نام و ولدیت و سکونت مستقل و عارضی وغیرہ سے اطلاع بخشیں یا اپنے حاضر ہونے کے وقت یہ تمام امور درج کرا دیں ۔‘‘(تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۲)
حضور انور کے محولہ بالا الفاظ سے ایک گم شدہ کڑی پر اطلاع ملتی ہے اور یہ صداقت نمایاں ہو کر ابھرآتی ہے کہ رجسٹر بیعت میں ناموں کا اندراج بیعت اولیٰ کے انعقاد سے بھی قبل شروع کیا جا چکا تھا لہٰذا یہ سمجھنا کہ اس رجسٹر میں عین بیعت اولیٰ کے وقت یا اس کے دوران یا معاً بعد اندراج ہوا یا اس میں درج شدہ تاریخ لازماً بیعت کی تاریخ ہوگی ( جہاں تک بیعت اولیٰ کے پہلے دن کا تعلق ہے ) یقینا صحیح نہیں ہو سکتا ہاں استثنائی طور پر یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی بزرگ کی لدھیانہ پہنچنے ، بیعت سے مشرف ہونے اور رجسٹر میں اس کے اندراج کی تاریخ ایک ہی ہو مگر یہ ایک اتفاقی چیز ہے جس کو بہرکیف کلیہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
اس وضاحت سے یہ عقدہ لایخل اور سر بستہ راز بھی خود بخود منکشف ہو جاتاہے کہ رجسٹر بیعت میں
ٍ ٭پہلے دن کی تاریخ میں بیعت کرنے والے چالیس بزرگوں کی بجائے چھیالیس بزرگوں کا کیوں ذکر ہے؟
٭اور جب حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی نے پہلے دن بیعت ہی نہیں کی تو پہلی تاریخ میں ان کا نام کیسے درج ہوگیا ؟
٭اسی طرح جب کپور تھلہ کے تینوں بزرگوں نے پہلے ہی دن بیعت کا اکٹھا شرف حاصل کیا تھا تو ان کے نام مبارک ۲۱اور ۲۳۔ مارچ کی دو الگ الگ تاریخوں میں کیوں لکھے گئے ؟
یہ اور اس نوعیت کی سب الجھنیں ، دشواریاں اور پیچیدگیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا وضاحتی اشتہار کی برکت سے بیک جنبش قلم ختم ہو جاتی ہیں اور گویا دن چڑھ جاتاہے اور اب ہم اس کی بدولت یقین کی فولادی چٹان پر کھڑے ہو کر بلا تامل بتا سکتے ہیں کہ رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق تو محض یہ راہ نمائی کرتے ہیں کہ کون کون سے بزرگو ں نے بیعت پر آمادگی کی اطلاع دی یا بیعت کی خاطر بیعت اولیٰ کے انعقاد سے قبل لدھیانہ تشریف لے آئے ۔ یہی اورصرف یہی وجہ ہے کہ ۲۲۔مارچ سے قبل حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سمیت لدھیانہ آنے والے چھیالیس بزرگوں کے نام مبارک ریکارڈ کئے گئے ۔ بعینہٖ اسی حکمت سے حضرت منشی روڑا خان صاحبؓ کا نام ان کے درود لدھیانہ کے بعد ۲۱۔ مارچ کو اور حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ اور حضرت محمد خان صاحبؓ کے اسماء مبارکہ کا نام ۲۳۔ مارچ کو درج رجسٹر کیا گیا۔
اس وضاحت سے ضمناً یہ بھی ثبوت ملتاہے کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنے بیان کے مطابق چونکہ لدھیانہ پہنچتے ہی بیعت اولیٰ کے پہلے روز دوسرے مخلصین کپور تھلہ کے ساتھ بیعت کی تھی اس لئے ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی جو تاریخ ان کے نام کے ساتھ مندرج ہے حتمی طور پر وہی تاریخ بیعت اولیٰ کے آغاز کی ہے۔
المختصر !! رجسٹر بیعت کے ابتدائی اوراق کی فہرست ہرگز ہرگز مبائعین کی واقعاتی ترتیب و تاریخ کے مطابق تیار اور مرتب نہیں ہوئی لہٰذا ۱۹۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو بیعت اولیٰ کا دن قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ۔
اب تحقیق طلب صرف یہ دوسرا امر رہ جاتا ہے کہ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ نے بیعت اولیٰ کی قمری تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ اور شمسی تاریخ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء متعین کی ہے حالانکہ ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ کی روسے ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۲ مارچ ۱۸۸۹ء کا دن بناتا ہ ے۔ اس صورت میں آیا قمری تاریخ کو درست سمجھا جائے یا شمسی تاریخ پر اعتماد کیا جائے ؟؟
اس ضمن میں یہ عاجز محض خدا کے فضل وکرم سے علیٰ وجہ البصیرت اس رائے پر قائم ہے کہ حضرت مولانا سنوری رحمۃ اللہ علیہ کی دونوں بیان فرمودہ تاریخیں ہی صحیح ہیں اور اگر کوئی ’’ سہو‘ ‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ہے تو وہ مصری تقویم ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ کی ہے جس میں ۱۳۰۶ھ کے جمادی الثانی کو انتیس دن کا شما رکرکے یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء سے شروع کیا گیا ہے جو واقعہ کے خلاف ہے ۔ حق یہ ہے کہ اس سال جمادی الثانی انتیس کی بجائے تیس کا تھا اور یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی اور ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کی تاریخ تھی جیا کہ حضرت میاں معراج دین صاحب عمر رضی اللہ عنہ (۵۷) کی مشہور و معروف ’’ ایک سو پچیس برس کی جنتری ‘‘ سے ثابت ہے ۔ یہ جنتری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد مبارک میں یکم ستمبر ۱۹۰۶ء کو اشاعت پذیر ہوئی تھی اس جنتری کے صفحہ ۲۱۷ پر مارچ ۱۸۸۹ء کا عیسوی ، ہجری ، فصلی ، اور بکرمی کیلنڈر حسب ذیل صورت میں درج ہے:۔
مندرجہ بالا کیلنڈر کی رو سے صاف کھل جاتاہے کہ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو یقینا ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کی تاریخ تھی۔ پس حضرت مولانا عبداللہ ؓ سنوری کی قمری و شمسی تاریخوں میں مکمل موافقت پائی جاتی ہے اور کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ۔ بنا بریں ’’اختلاف و تضاد‘‘ کے مفروضہ پر ۲۲۔ مارچ ۱۸۸۹ء کو یوم البیعت تجویز کئے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
چنانچہ قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ اپنے ایک حقیقت افروز نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میاں عبداللہ صاحب سنوری ؓ نے پہلے دن کی بیعت کی تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ( ۱۸۸۹ء) بیان کی ہے مگر رجسٹر بیعت کنندگان سے پہلے دن کی بیعت ۱۹۔ رجب اور ۲۱ مارچ ظاہر ہوتی ہے ۔ یعنی نہ صرف تاریخ مختلف ہے بلکہ قمری اور شمسی تاریخوں میں مقابلہ بھی غلط ہو جاتاہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے میں نے گزشتہ جنتری کو دیکھا تو وہاں سے مطابق زبانی روایت ۲۰۔ رجب کو ۲۳۔ مارچ ثابت ہوتی ہے ۔ پس یا تو رجسٹر کا اندراج چند دن بعد میں ہونے کی وجہ سے غلط ہوگیا ہے اور یا اس میں چاند کی رویت جنتری کے اندراج سے مختلف ہوئی ہوگی۔‘‘ (سیر ت المہدی حصہ سوم صفحہ ۴ مطبوعہ ۳۔ فروری ۱۹۳۹ء ) حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کا یہ ناحق فیصلہ ( کہ جنتری کی رو سے ۲۰۔ رجب کو ۲۳۔ مارچ کی تاریخ ثابت ہوتی ہے ) اپنی پشت پر حقیقتوں اور صداقتوں کی ایک زبردست طاقت رکھتاہے ۔ چنانچہ اگر ۱۸۸۹ء کے جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے بھی اس فیصلہ کی مزید توثیق ہوتی ہے۔ مثلاً اس وقت میرے سامنے امرتسر کے ہفت روزہ ’’ ریاض ہند ‘‘ کا فائل ہے ۔ اس اخبار کے مالک و مہتمم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص و قدیم صحابی حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ تھے جن کے ’’ مطبع ریاض ہند میں نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کی شہرہ آفاق کتاب ’’ براہین احمدیہ کے تین حصے چھپے بلکہ دعوی ماموریت و مسیحیت کے بعد کی بہت سی کتابیں اور اشتہارات بھی زیور طبع سے آراستہ ہوئے اور یہ سلسلہ نہایت باقاعدگی کے ساتھ ۱۸۹۵ء میں ’’ ضیاء الاسلام پریس‘‘ قادیان کی تنصیب تک جاری رہا۔ حضرت شیخ صاحبؓ کے اخبار ’’ ریاض ہند ‘‘ کو برصغیر کی صحافت میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہی وہ اخبار تھا جس میں ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کا مشہور عالم اشتہار شائع ہوا۔ اسی میں جماعت احمدیہ کے سنگ بنیاد سے بھی برسوں قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریروں اور سفروں وغیرہ کی اکثر خبریں شائع ہوا کرتی تھیں اور جہاں تک موجودہ تحقیق کا تعلق ہے ۔ ’’ ریاض ہند‘‘ واحد اخبار ہے جس میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی ولادت باسعادت کی خبر شائع ہوئی (۵۸) یہ اخبار اپنے سرورق پر ہمیشہ قمری اور شمسی تاریخوں کے اندراج کا خاص التزام کیا کرتا تھا۔ ماہ مارچ ۱۸۸۹ء میں اس اخبار کے چار نمبر شائع ہوئے۔ جن پر بالترتیب حسب ذیل تاریخیں موجود ہیں:۔
۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء یکم رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۱۱۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۸۔رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۱۸۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۱۵۔رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
۲۵۔ مارچ ۱۸۸۹ء مطابق ۲۲۔ رجب المرجب ۱۳۰۶ھ یوم دوشنبہ
محولہ بالا نقشہ سے جو اخبار’’ ریاض ہند‘‘ کے چار پرچوں سے مرتب کیا گیا ہے اس نظریہ پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے کہ ’’ التوفیقات الالھامیہ ‘‘ میں یکم رجب ۱۳۰۶ھ کو جو ۳۔ مارچ ۱۸۸۹ ء کا دن شمار کیا گیا ہے وہ ہر گز درست نہیں ۔ بلکہ اس کے برخلاف یہ ۔۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء کا دن تھا اور ظاہر ہے کہ اس حساب کے مطابق ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ کو شمسی تاریخ ۲۳۔ مارچ ہی تھی جیسا کہ حضرت مولانا عبداللہ صاحب سنوری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ۔
خلاصہ تحقیق :۔
الغرض جس نقطہ نگاہ اور زاویہ خیال سے بھی دیکھا جائے اندرونی اور بیرونی علمی اور واقعاتی شہادتوں اور عقلی و نقلی دلائل و براہین کی روشنی میں یہ حقیقت نیر النہار کی طرح ایک قطعی اور فیصلہ کن صورت اختیار کر جاتی ہے کہ بیعت اولیٰ لدھیانہ کی اصل اور صحیح تاریخ ۲۰۔ رجب ۱۳۰۶ھ مطابق ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ ء ہے اور یقینا یہی دن سلسلہ احمدیہ جیسی مقدس اور عالمی تحریک کی جماعتی زندگی کا پہلا اور مبارک دن ہے جو رہتی دنیا تک یوم الفرقان کی حیثیت سے یاد گار رہے گا اور فرمان ایزدی ’’ ذَکِّرْھِمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ ‘‘ کا مصداق و مورد سمجھا جائے گا اور سلسلہ بیعت سے بھی قبل کی یہ خدائی پیشگوئی ہر زمانہ میں پوری شان و شوکت سے پوری ہوتی رہے گی کہ :۔
’’ اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا۔ وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشوونما دے گا یہاںتک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتاہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ ٹھہریں گے ۔ ‘‘
(اشتہار ۴۔ مارچ ۱۸۸۹ء مشمولہ تبلیغ رسالت جلد اول صفحہ ۱۵۵)
قیام لدھیانہ کے دو واقعات :۔
قیام لدھیانہ کے دوران دو واقعات کا تذکرہ ضروری ہے۔
پہلا واقعہ:۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’ بیعت کے بعد جب میں لدھیانہ ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی طبع شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت صاحب سے دریافت کیا کہ آیا آپ آنحضرت ﷺ کی زیارت بھی کر اسکتے ہیں؟ آپ نے جو اب دیا کہ اس کے لئے مناسب شرط ہے اور میری طرف منہ کرکے فرمایا کہ یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے۔ اسی رات میں نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا ۔ ‘‘(۵۹)
دوسرا واقعہ :۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک سائل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ میرا ایک عزیز فوت ہو گیا ہے اور میرے پاس کفن دفن کے لئے کچھ انتظام نہیں ہے اور اس نے کچھ سکے چاندی اور تانبے کے رکھے ہوئے تھے یہ دکھانے کے لئے کہ کسی قدر چندہ ہوا ہے اور ابھی اور ضرورت ہے۔ حضرت اقدس نے قاضی خواجہ علی صاحب سے فرمایا کہ ’’ قاضی صاحب ان کے ساتھ جا کر کفن کا انتظام کردو۔ ‘‘ حضرت اقدس کی اس قسم کی عادت مبارک نہیں تھی بلکہ عام طور پر جو مناسب سمجھتے نہایت درجہ فیاضی سے دے دیتے ۔ اس ارشاد سے خدا کو تعجب ہوا۔ حضرت قاضی صاحب نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا دے دوں۔ بلکہ وہ ساتھ ہی ہوگئے۔ سائل قاضی صاحب کو لے کر رخصت ہوا۔
تھوڑی دیر بعد حضرت قاضی صاحب مسکراتے ہوئے واپس آئے اور کہا حضورؑ وہ تو بڑا دھوکہ باز تھا راستہ میں جا کر اس نے میری بڑی منت خوشامد کی کہ خدا کے واسطے آپ نہ جاویں جو کچھ دینا ہے دے دیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خود جانے کا حکم ہے جو کچھ تمہارے پاس ہے یہ مجھے دو جو کچھ خرچ آئے گا میں کروں گا۔ آخر جب اس نے دیکھا کہ میں ٹلتاہی نہیں تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ندامت کے ساتھ کہا کہ نہ کوئی مرا ہے اورنہ کوئی کفن دفن کی ضرورت ہے ۔ یہ میرا پیشہ ہے۔ اب میری پردہ دری نہ کرو۔ تم واپس جائو۔ میں اب یہ کام نہیں کروں گا۔ ‘‘(۶۰)
؎













ماموریت کا نواں اور دسواں سال
’’فتح اسلام ‘‘ اور توضیح مرام ‘‘ کی تصنیف و اشاعت اور دعویٰ مسیحیت
(۱۸۹۰۔۱۸۹۱)
شدید علالت :۔ ۱۸۹۰ء میں حضرت اقد س علیہ السلام کئی ماہ تک شدید بیماررہے حتی کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہوگئی۔ بیماری کا یہ حملہ مارچ ۱۸۹۰ء کے آخری ہفتہ میں ہوا ۔ مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھہرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے۔
آپ کی طبیعت ایک مرض دوری کے باعث اکثر بیمار رہتی تھی اور ضعف تشویشناک حد تک بڑھ گیا تھا شروع جولائی میں آپ تبدیلی آب وہوا کے لئے عازم لدھیانہ ہوئے اور محلہ اقبال گنج میں برمکان شہزادہ حیدر فروکش ہوئے ۔یہ ساری تفصیلات حضور انور کے ان خطوط سے ملتی ہیں جو انہیں دنوں آپ نے اپنے مخلص مرید حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کے نام تحریر فرمائے اور جو ’’ مکتوبات احمدیہ ‘‘ جلد پنجم نمبر ۳صفحہ ۱۰۶تا ۱۰۹ میں شائع شدہ ہیں۔
۱۸۹۰ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یہ عظیم الشان انکشاف ہوا کہ حضرت مسیح ناصریؑ جن کو مسلمانوں نے آسمان پر زندہ سمجھ رکھا ہے اور جن کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانہ میں وہ اپنے خاکی جسم کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس تشریف لائیں گے ، وفات پا چکے ہیں اور ان کے مثیل کی شکل میں آپ کو دنیا کی ہدایت اور اسلام کی اشاعت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے۔ اس انکشاف پر آپ نے ’’ فتح اسلام ‘‘ اور پھر ’’ توضیح مرام ‘‘ کے نام سے د و کتابیں شائع فرمائیں جن میں اپنے دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا ۔ اور لکھا کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کی زندگی اور ان کی بجسد عنصری واپسی کا عقیدہ جو عام مسلمانوں میں پھیل گیا ہے اسلامی کتب میں اس کا نام و نشان بھی نہیں۔ یہ محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس کے ساتھ کئی بے جاحاشے لگا دیئے ہیں اور بے اصل موضوعات سے اس کو رونق دی گئی ہے حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا۔ بلکہ آنحضرتﷺ نے تو مسیح اول اور مسیح ثانی میں مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے دونوں مسیحوں کا جدا جد احلیہ بیان فرمایا ہے ۔ جو اس امر کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ مسیح اول اور ہے اور مسیح ثانی اور نیز مسیح ثانی کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے ورنہ وہ درحقیقت امت محمدیہ میں سے ایک امام ہوگا۔ (۱)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’فتح اسلام ‘‘ کی کتابت کے سلسلہ میں شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پر یس ہال بازا رامرت سر کو تحریر فرمایا کہ ایک کاتب ہمارے پاس بھیج دیں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھوانا ہے ان دنوں شیخ محمد حسین صاحب مراد آبادی مرحوم ان کے ہاں کام کرتے تھے۔ شیخ نور احمد صاحب( ۲) نے انہی کو بھیج دیا اور حضرت اقدس نے ان سے ’’فتح اسلام ‘‘ کا رسالہ لکھوایا ۔ شیخ محمد حسین صاحبؓ مرحوم کتاب کی کاپیاں لے کر امرت سر واپس آئے اور شیخ نور احمد صاحبؓ سے کہا کہ حضرت اقدس نے اس کو چھاپنے کے لئے آپ کے پاس بھیجا ہے ان کا خیال تھا کہ نہ معلوم یہ رسالہ چھاپیں یا نہ چھاپیں ۔ کیونکہ سلطنت بھی عیسائی ہے اور پادری حضرت مسیح کو خدا ور خدا کا بیٹا کہنے والے موجود ہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت کی طرف سے کوئی باز پرس یا عتاب ہو یا یہ رسالہ ہی ضبط ہو جائے۔ اور پریس والے اور کاتب بھی گرفتار ہو ں ۔ یا کسی اور مصیبت کا سامنا ہو ۔ شیخ نور احمد صاحبؓ نے اسے دیکھ کر کہا کہ میں اس کو ضرور چھاپوں گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ دورسالے بڑی عقیدت مندی کے ساتھ اپنے مطبع میں چھاپے اور قادیان پہنچا دئیے۔ (۳)
مخالفت کا طوفان
رسالہ ’’فتح اسلام ‘‘ ابھی امرت سر میں چھپ ہی رہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اتفاقاً امرتسر پہنچے اور انہوں نے اس رسالہ کے پروف مطبع ریاض ہند سے منگوا کر دیکھے۔ (۴)اور دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگئے۔ انہیں غصہ اس بات پر تھا کہ مجھ سے اپنے دعویٰ سے متعلق آپ نے مشورہ کیوں نہیں کیا ۔ چنانچہ انہی دنوں جب ایک شخص نے انہیں بتایا کہ حضور ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفات مسیح کا ذکر ہے تو وہ کہنے لگے کہ انہوںنے ہم سے تو کوئی ذکر نہیں کیا۔ بہرحال ’’فتح اسلام‘‘ میں آ پ کا دعویٰ مسیحیت پڑھتے ہی ان کی عقیدت کا گذ شتہ رنگ اڑ گیا اورانہوںنے لکھا کہ اس رسالہ کے دیکھنے اورسننے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آپ نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسیح موعود(جن کے قیامت سے پہلے آنے کا خداتعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں اشارۃً اوررسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلام مبارک میں جو صحاح احادیث میں موجود ہے صراحۃً وعدۃ دیا ہے وہ) آپ ہی ہیں۔ اگر آپ کا یہی دعویٰ ہے تو آپ صرف ’’ہاں ‘‘تحریر فرمادیں زیادہ توضیح کی تکلیف نہ اٹھاویں اور اگر اس دعویٰ سے کچھ اور مراد ہے تو اس کی توضیح کریں۔ حضرت اقدس نے ۵؍فروری ۱۸۹۱ء؁ کو لکھا کہ آپ کے استفسار کے جواب میں میں صرف ’’ہاں ‘‘ کافی سمجھتا ہوں ۔اس جواب پر مولوی صاحب آپے سے باہر ہوگئے اورآپ سے طویل سلسلہ مراسلت شروع کردیا(جس کی نقل انہوںنے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۲ نمبر ۱۲ میں شائع کردی) بٹالوی صاحب نے لکھا کہ آپ اگر اس دعویٰ میں حضرت خضر کی طرح معذور ہیں تو میں اس کے انکار میں حضرت موسیٰ کی طرح مجبور ہوں ۔حضرت اقدسؑ نے ’’فتح اسلام‘‘ اور’’توضیح مرام‘‘ کا ایک ایک نسخہ انہیں بھجواتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے اس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں۔ اورخدا میرے ساتھ ہے ۔اوراس کے ساتھ مجھے الہام ہوا ان معنی ربی سیھدین۔ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کردے گا۔ میں آپ کے لئے دعا کروں گا مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہوجائے ‘‘
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کو فتح اسلام اورتوضیح مرام کے نسخے پہنچے تو انہوںنے اپنے دلی بغض وعناد کا برملا اظہار کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کا اعلان کردیا کہ ’’(اشاعۃ السنہ‘‘) کا فرض اوراس کے ذمہ یہ ایک قرض تھا کہ اس نے جیسا اس کو (یعنی سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو ناقل) دعاوی قدیمہ کی نظر سے آسمان پر چڑھایا تھا ویسا ہی ان دعاوی جدیدہ کی نظر سے اس کو زمین پر گرادے ‘‘ نیز مسلمانان ہند کو اشتعال دلانے کے لئے لکھا کہ فتنہ قادیانی ابھی فتنہ ہے کوئی دن میں قیامت ہوگا۔ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مذہب وامن میں زبردست انقلاب واقع ہونے کا اندیشہ ہے اسی لئے اشاعۃ السنہ کا رسالہ اس کی سرکوبی کے لئے مخصوص کردیا گیاہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ اعلان منظر عام پر آنا تھا کہ ملک بھر میں مخالفت کا طوفان بے تمیزی اٹھ کھڑا ہوا۔ شیخ نور احمد صاحبؓ کا (جن کے مطبع ریاض ہند امرت سر میں ابتدائی کتابچے شائع ہوئے) بیان ہے کہ لوگ میرے مطبع میں آتے اور کہتے کہ تم کو کیا ہوگیا تم نے یہ کتاب کیوں چھاپی؟عیسیٰ علیہ السلام تو آسمان پر زندہ موجود ہیں اورآخری زمانہ میں دمشق کے مشرقی سفید منارہ پر اتریں گے اوریہ ہندوستان ہے۔ مرزا صاحب کیسے مسیح موعود ہوسکتے ہیں تم نے مسلمانوں کے خلاف مرزا صاحب کو کیوں مسیح موعود مان لیا۔ علماء اور ان کے زیر اثر سب لوگ مجھ پر ناراض ہوئے۔ اور کہ یہ شخص ایک گائوں کا رہنے والا اور بے علم ہے۔ کسی مدرسہ کا تعلیم یافتہ نہیں اور نہ کسی عربی تعلیم گاہ کا دستار بند ہے ۔امرتسر والوں نے انہیں بہت پریشان کیا لیکن انہوںنے ان کی کچھ پرواہ نہ کی۔ سارا دن یہ لوگ ان کا مطبع اورمکان گھیرے رکھتے اوربھانت بھانت کی بولیاں بولتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فتویٰ تکفیر:۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حق کی آواز دبانے کا فیصلہ کرکے ہر لمحہ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں وقف کردیا اوراپنی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے اسی پرانے حربے کو آزمانے کی ٹھانی جو ہر مامور اورامام ربانی کے وقت استعمال ہوتا آرہا ہے یعنی انہوںنے اول المکفرین بن کر ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک طوفانی دورہ کیا اور’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ کی بعض عبارتوں میں قطع وبرید کا سہارا لے کر ایک استفتاء تیار کیا۔ علماء سے آپ کے کفروارتداد کے فتوے حاصل کئے اورپھراسے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۱۳نمبر ۱۲ میں شائع کردیا۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی ان معاندانہ سرگرمیوں کے متعلق انہی دنوں خود لکھا تھا کہ ’’جون ۱۸۹۱ء؁ سے مارچ ۱۸۹۲ء؁ تک جو اشاعۃ السنہ کا کوئی پرچہ نہیں نکلا تو اس سے وہ غیر حاضر اوراپنے منصبی فرض اورقوم کی خدمت ادا کرنے میں قاصر متصور ہوسکتا ہے۔ نہیں ہرگز نہیں ۔اس عرصہ میں جو خدمت قلمے ۔ قدمے اوردرمے اس نے کی ہے وہ اپنے زمانہ خدمت چودہ سال میں کبھی نہیں کی۔ جون ۱۸۹۱ء؁ میں وہ نمبر ۱،۲،۳جلد ۱۳ میں کیفیت گریز وفرار کادیانی اوراس کے فرضی حواری حکیم نورالدین جمونی کی رپورٹ کرکے پھر جولائی ۱۸۹۱ء؁ سے اس اسلام ومسلمانوں کے دوست نما دشمن عقائد قدیمہ اسلامی کے رہزن وبیخ کن(کادیانی) کے تعاقب میں رہا اوربمشکل ولطائف الحیل جولائی ۱۸۹۱ء؁ بمقام لدھیانہ اس کو جا پکڑا اوربارہ دن تک خوب رگیدا اورچتھاڑا اور ۳۱؍جولائی ۱۸۱۹ء؁ کو ذلت کی شکست سے کر بھگادیا۔ پھر ہندوستان پہنچ کر اس کے عقائد ومقالات کی نسبت ایک استفسار مرتب کیا اور ایک لمبا سفر اختیار کرکے مختلف بلاد ہندوستان کے علماء وفضلاء کا فتویٰ اس کے حق میں حاصل کیا اورخاص وعوام ہندوستان وپنجاب کو اس فتویٰ اوراپنے ربانی بیانات اورمواعظ کے ذریعہ سے اس کے عقائد باطلہ پر آگاہ کرکے اس سے بچنے کے لئے ہوشیار کردیا۔ پھر جب ماہ اکتوبر ۱۸۹۱ء؁ میں قادیانی نے دہلی پہنچ کر سراٹھایا اوروہاں کے اکابر کے مقابلہ میں جو اس کو مخاطب کرنے کے لائق نہ سمجھتے تھے ھل من مبارز کا نعرہ بلند کیا تویہ خادم دہلی پہنچا اور وہاں ا س کو پچھاڑا پھر جب وہ لاہور وسیالکوٹ پہنچا تو وہاں اس کا پیچھا کیا اورمباحثہ سے صاف صریح انکار کرا کے بھگادیا۔
ان الفاظ سے جہاںبٹالوی صاحب کی ان سرگرمیوں پرروشنی پڑتی ہے جو ابتداء میں انہوںنے شمع صداقت بجھانے کے لئے اختیار کیں وہاں فتویٰ کفر سے متعلق ان کے وسیع پیمانے پر ملکی دورہ کا بھی پتہ چلتا ہے ۔یہ فتویٰ کم وبیش ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل تھا ۔اوراس میں دلی ، آگرہ، حیدر آباد دکن، بنگال، کانپور، علی گڑھ، بنارس، اعظم گڑھ، آرہ ، غازی پور، ترہت، بھوپال ولدھیانہ ،امرتسر، سوجانپور، لاہور، بٹالہ ، پٹیالہ ، لکھوکے ضلع فیروز پور ،پشاور ،سوات، راولپنڈی، ہزارہ، جہلم ،گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد، سوہدرہ، کپورتھلہ، گنگوہ، دیوبند، سہارنپور، لکھنؤ ، مراد آباد پٹنہ ،کان پور غرضکہ (متحدہ) ہندوستان کے تمام اہم مقامات کے علماء کے فتاویٰ درج تھے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس فتوے کی اشاعت میں ناروا ہتھکنڈے استعمال کرکے بعض خدا ترس علماء کا نام بھی از خود لکھ دیا۔ حالانکہ انہوںنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف قطعاً فتویٰ کرلیا اور حافظ صاحبؓ کے احتجاج کے باوجود اسے اپنے فتویٰ سے خارج نہیں کیا۔ حافظ صاحبؓ نے ۲۴؍ مئی ۱۸۹۲ء؁ کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں اصل واقعہ لکھ دیا اورآپ فارسی نظم بھی بھجوائی جس میں نہایت عمدہ پیرایہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اخلاص وارادت کا اظہار کیا گیا جسے حضورؑ نے اپنی کتاب ’’نشان آسمانی‘‘ میں شائع کردیا ۔ مولوی محمد حسین صاحب نے یہی چال حافظ صاحبؓ کے استاد مولوی محمد عبداللہ خاں پروفیسر عربی مہندر کالج پٹیالہ سے متعلق چلی تھی ۔اس لئے انہیں بھی اس کی تردید میں اشتہار دینا پڑا ۔ اس سے بڑھ کر مولوی فیض احمد صاحب جہلمی کا واقعہ ہے کہ گوابتداء میں تو انہوںنے فتویٰ دیا تھا مگر ازالہ اوہام کی اشاعت پر تائب ہوکر انہوںنے بٹالوی صاحب سے اپنا فتویٰ واپس طلب کیا لیکن بٹالوی صاحب نہ مانے۔ اوران کا پہلا فتویٰ جس سے وہ رجوع کرچکے تھے شائع کرکے دم لیا۔
فتویٰ دینے والے علماء میں حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی شامل تھے مگرانہوںنے فتویٰ کو محدود اور مشروط اورمحتاط رنگ میں پیش کرکے لکھا کہ ’’نہ‘‘ مطلقاً بلکہ مقیداً لکھا جاتا ہے کہ اگر مرزا ایسے اعتقادات کا معتقد ومدعی ہے جو سوال میں درج ہیں تو بے شک وہ انہیں فتاویٰ کا مستوجب و مستحق ہے جو علماء ربانیین نے اس کے حق میں لگائے ہیں۔ اور عیاذ اً باللہ کہ کسی کے حق میں تقلید اً اور سمعا کوئی فتویٰ دوں اورلکھوں‘‘ اسی فروتنی انکسار اورخدا ترسی کا نتیجہ تھا کہ جب بعد کو انہوںنے حضرت مسیح موعودؑ کی اصل کتابیں ’’فتح اسلام ‘‘ توضیح مرام‘ ‘اور ازالہ اوہام‘‘ وغیرہ دیکھیں تو آپ پر حق کھل گیا ۔اورآپ اگلے ہی سال حجرت امام الزمان کے قدموں میں آگئے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کفر کی جو قرار داد جرم تیار کی اس کا ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز پہلو یہ تھا کہ انہوںنے ایک طرف تو یہ لکھا کہ مرزا صاحب اپنے تئیں محدث لکھتے ہیں ۔ حالانکہ حدیث شریف میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ مسیح موعود قطعی طور پر نبی اللہ ہوگا۔ اور دوسری طرف یہ لکھا کہ نصوص کے لحاظ سے جو شخص آنحضرت ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے(چاہے محدث ہی کیوں نہ کہلاتا ہو) وہ دجال وکذاب ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اوران کے ہم نوا علماء نے فتویٰ تکفیر کے بعد مخالفت کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ابتداء میں قادیان کی ناکہ بندی کے لئے بٹالہ اسٹیشن سے قادیان والی نہر تک اپنے ایجنٹوں کا گویا ایک جال بچھا رکھا تھا۔ جو اسٹیشن سے اترتے ہی قادیان جانے والوں کو روکتے تھے ۔ان ایجنٹوں نے ایک کیمپ سا لگا رکھا تھا جہاں جانے والوں کے لئے حق کا انتظام ہوتا تھا۔ چنانچہ بعض صحابہ کا بیان ہے کہ شروع شروع میں جب ہم قادیان جایاکرتے تھے تو بٹالہ کے اسٹیشن اورقادیان کی سڑک پر میل میل کے فاصلے سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی آدمی بٹھا دیا کرتے تھے ۔ہرشخص کے ہاتھ میں ایک بڑا رجسٹر ہوا کرتاتھا جس پر جانے والوں کے نام اور جانے کی غرض درج کی جاتی تھی۔ کبھی کبھی مولوی محمدحسین صاحب خود بھی یہ ’’خدمت ‘‘ انجام دیتے تھے اورقادیان جانے والوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم کیوں اورکس لئے جاتے ہو؟ جب لوگ کہتے کہ حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لئے جاتے ہیں تو وہ ہر ممکن کوشش سے روکا کرتے اور واپس جانے کے لئے کہتے ۔کئی آدمی انہوںنے واپس بھی کئے۔ اس زمانہ میں عوام مولوی محمد حسین صاحب کی وجہ سے بھی جانے سے ڈرتے تھے۔ نیز وہ سمجھتے تھے کہ یہ رجسٹر جو رکھے جاتے ہیں گورنمنٹ کے حکم سے رکھے جاتے ہیں ۔ اور ہمارے خلاف ضرور کوئی کاروائی کی جائے گی۔
قتل کرنے کی سازش:۔ بیرونی کوششوں کی ناکامی دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی چنانچہ مولوی عمرالدین صاحب شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور حافظ عبدالرحمن صاحب سیاح امرتسری آپس میں باتیں کررہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو۔ حافظ عبدالرحمن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں ۔مرزا صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ میں مباحثہ نہیں کروں گا ۔اب انہیں مباحثہ کا چیلنج دیدو۔ اگرتو وہ تیار ہوگئے تو انہیں کا قول یاد دلا کر نادم کیاجائے۔ کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں ۔اوراگر مباحثہ سے انکار کیاتوہم یہ اعلان کردیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں۔ مولوی عمرالدین صاحب نے کہا مجھے کہو تو میں انہیں جاکر مارآتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہوجائے ۔ اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کرچکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا یہ سنتے ہی مولوی عمر الدین صاحب کے دل میں حضور کی صداقت کا یقین ہوگیا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار کرکے اور عیسائی حکومت کو آپ کے قتل پر اکسا کر ۱۸۹۷ء؁ میں لکھا ’’حکومت وسلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے ۔اسی وقت آپ کا سرکاٹ کر آپ کو مردار کرتے ۔سچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد ہے۔ جس کا جواب بجز قتل اورکوئی نہیں ۔مگر کیا کریں مجبور ہیں۔ سلطنت غیر اسلامی ہے اس کے ماتحت رہ کر ہم اس فعل کے مجاز نہیں اور سلطنت کو جو (عیسائی کہلاتی ہے) اس امر کی پروا نہیں ہے ۔ رہے پادری جو مذہب ہی کی خدمت وحمایت کے صدقہ وطفیل سے ٹکڑا کھاتے ہیں سو(وہ ) بھی اپنی تنخواہ سے کام رکھتے ہیں حمیت وغیرت مذہب کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ اب آپ شوق سے جس قدر چاہیں حضرت مسیحؑ کو یا کسی اورنبی کو گالیاں دیں کوئی پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں ہے‘‘
بہرحال مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف فتنہ تکفیر کھڑا کرکے آپ کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ اوراس طرح صلحاء امت کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ مسیح موعودؑ پرعلماء کفر کا فتوی لگائیں گے اورایسا ہونا اس لئے بھی ضروری تھا کہ امت کا بیشتر حصہ صراط مستقیم سے ادھر ادھر ہوچکا تھا ۔چنانچہ عراق کے ایک عالم شیخ محمد رضا شیسی فرماتے ہیں۔
اَلَا لَیْْتَ شِعْریْ مَا تَرٰی رُوْحُ اَحْمَدَ اِذَا طَالَعَتْنَا مِنْ عَلٍ اَوَاَطَلَّتِ
وَاَکْبَرُ ظَنِّیْ لَوْ اَتَانَا مُحَمَّدٌ ﷺ لَلَاقَی الَّذِیْ لَاقَاۃٌ مِنْ اَھْلِ مَکَّۃِ
عَدَلْنَا عِنَ النُّوْرِ الَّذِیْ جَائَ نَا بِہٖ کَمَا عَدَلَتْ عَنْہُ قُرَیْشٌ فَضَلَّتِ
اِذَنْ لَقَضٰی لَا مَنْھَجَ النَّاسِ مَنْھَجِیْ وَلَا مِلَّۃُ الْقَوْمِ اِلَّا وَاٰخِرُ مِلَّتِیْ
(ترجمہ)اگر احمد مجتبیٰ ﷺ کی روح عالم بالا پر ہمارے حالات سے واقف ہوجائے یا ہمیں جھانکے اور دیکھ پائے تومعلوم نہیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرے۔ میرا ظن غالب ہے کہ محمد ﷺ آج ہمارے پاس تشریف لے آئیں تو آپ کو آج بھی اس قوم کے ہاتھوں اسی قسم کے مصائب اور انکار حق سے دو چار ہونا پڑے گا۔ جس طرح اہل مکہ کے ہاتھوں سے دو چار ہوئے( کیونکہ) ہم اس نور حق سے جسے آپ لے کر مبعوث ہوئے تھے اسی طرح روگردانی کر چکے ہیں جس طرح روگردانی کر چکے ہیں جس طرح قریش نے اس سے منہ پھیرا تھا اور گمراہی کے گڑھے میں جاپڑے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ہماری زبوں حالی اور راہ حق سے بیزاری دیکھ کر یقینا یہ فیصلہ کریں گے کہ لوگ جس راستے پر چل رہے ہیں یہ میرا بتایا ہوا رستہ نہیں ہے اور آخری زمانہ کے لوگوں نے جس مذہب کا طوق ڈال رکھا ہے وہ میرا مذہب ہرگز نہیں ہے۔
مسلمانان ہند (۲۶)کے روشن خیال عناصر کا رد عمل
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر علماء ظواہر کے فتویٰ تکفیر نے عامتہ المسلیمن میں زبردست ہیجان پیدا کردیا تھا مگر مسلمانوں کے روشن خیال اور سنجیدہ عناصر اکثرو بیشتر اس ہنگامہ آرائی میں غیر جانبدار رہے ۔ یہی نہیں بعض مشہور ملسم زعماء نے اختلاف عقیدہ کے باوجود عمر بھر حضور اور حضور کی جماعت کی خدمات کو سراہا۔ ا س غیر جانبدار طبقہ میں ملک کے چوٹی کے ادیب ، صحافی‘ شعراء‘ سیاسی اور مذہبی لیڈر وغیرہ شامل تھے اس ضمن میں چندہ قابل ذکر شخصیتوں کے نام یہ ہیں ۔ خواجہ الطاف حسین حالی پانی پتی (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) اکبر حسین رضوی اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶۔۱۹۲۱) سید علی محمد شاد عظیم آبادی (۱۸۴۶۔ ۱۹۲۷) سید ریاض اور ریاض خیر آبادی (۱۸۵۳۔ ۱۹۳۴)سر سید احمد خاں بانی علی گڑھ کالج ( ۱۸۱۷۔ ۱۸۹۸) مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل (۱۸۷۹۔ ۱۹۲۶) مولانا سید امتیاز علی صاحب امتیاز ( ۱۸۶۰۔ ۱۹۳۵) منشی محمد دین صاحب فوق (ولادت ۱۸۷۷ء) حکیم مولوی عبدالکریم صاحب برہم گور کھپوری (۱۸۶۷۔ ۱۹۲۹) مولوی سراج الدین صاحب والد مولوی ظفر علی خان ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘(متوفی ۱۹۰۹ء) محسن الملک نواب مہدی علی خاں(۱۸۳۷۔ ۱۹۰۷) مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸۔ ۱۹۳۱) مولانا شوکت علی ( ۱۸۷۳۔ ۱۹۳۸) مولانا شبلی نعمانی ( ۱۸۵۷۔ ۱۹۱۴) نواب وقار الملک سید مشتاق حسین (۱۸۳۹۔ ۱۹۱۷) مولوی عبدالحلیم شرر( ۱۸۶۹۔ ۱۹۲۱)
یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ ادبی لڑیچر میںاس کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی جو عمر بھی صلح پسندی اور اسلامی رواداری میں سرسید مرحوم کے نقش قدم پر گامزن رہے’’حیات جاوید‘‘ جلد دوم صفحہ ۴۳۷ پر سرسید کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’ ایک شخص نے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی نسبت۔۔۔۔ایک طول طویل خط سرسید کو لکھا۔ اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔نادان ہیں وہ جو ان سے جھگڑا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور شخص نے مرزا صاحب کے خیالات کی مخالفت میں کچھ لکھنے کا ارادہ سرسید سے ظاہر کیا اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں آپ جو رسالہ نسبت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لکھنا چاہتے ہیں کیا آپ کو کچھ مالیخولیا ہوگیا ہے اس لغو حرکت سے کچھ فائدہ نہیں‘‘۔ جناب اکبر الہ آبادی نے ایک مرتبہ اپنی محبت والفت کا ثبوت دیتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا۔’’ اگر آج میں مرزا صاحب کو پاتا تو قبول کرتا خدا کی قسم میں ان کو مانتا ہوں اور یہی میری بیعت ہے۔ نیز کہا ۔ مرزا صاحب اگر خود نبی ہوکر چلے جاتے تو مجھ کو افسوس ہوتا۔ وہ تو ہر ایک کو امید دلا گئے ہیں کہ وہ مسیح بن سکتا ہے اور یہ جوش ایسا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اپنا مکان عشرت منزل چھوڑ دوں مجھ کو مرزا صاحب کی تحریر سے یقین ہوگیا کہ مسیحؑ مرگئے اور مہدی کا کوئی وجود نہیں‘‘۔ ان کا یہ بیان ان کی زندگی میں ہی۔ اخبار ’’الفضل ‘‘ ۲۸ اکتوبر ۱۹۱۶ میں شائع ہوا تھا۔ سید ممتاز علی صاحب اور مولوی سراج الدین صاحب آف زمیندار نے حضرت مسیح موعود کے وصال پر جو شذرہ لکھا وہ ان کے خیالات کا آئینہ دار ہے۔ نواب محسن الملک کا ایک مکتوب اسی کتاب میں درج ہے۔ جس میں انہوں نے حضرت اقدس کی اسلامی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور حکیم عبدالکریم برہم تحریر احمدیت کے متعلق جو جذبات رکھتے تھے ان کا اظہار انہوں نے بالترتین اخبار ’’ہمدرد ‘‘اور ’’مشرق‘‘ کے زریعہ سے کیا( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات ‘‘ مولفہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم ۔ اے ) اسی طرح مولاا شبلی نے اس رائے کااظہار کیا۔ ’’میں نے کوشش کی کہ انگریزی خوان عربی پڑھیں دیندار ہوں مگر میں ناکام رہا یہ کامیابی مرزا صاحب کو حاصل ہوئی ۔‘‘ (الفضل ۱۱مارچ ۱۹۱۷ ) مولانا عبدالحلیم صاحب شرر فرماتے ہیں ’’احمد مسلک شریعت محمدیہ کو اسی قوت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ و اشاعت کرتا ہے ۔ خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی اسلام کی سچی اور پر جوش خدمت ادا کرتے ہیں ۔ جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے ۔‘‘( رسالہ دل گداز بابت ماہ جون ۱۹۰۶ء)
سفر لدھیانہ
دعویٰ مسیحیت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا کا پیغام پہنچانے اور بالخصوص مسلمانوں پر اتمام حجت کی غرض سے لدھیانہ ‘امرتسر‘دلی ‘ پٹیالہ ‘ لاہور ‘ سیالکوٹ ‘جالندھر اور کپور تھلہ کے سفر اختیار فرمائے۔ جن سے آپ کی دعوت کا ملک میں خوب چرچا ہوگیا۔
اس تعلق میں آپ کا سب سے پہلا سفر لدھیانہ کا ہے جو حضورؑ نے ۳۔ مارچ ۱۸۹۱ء کو اختیار کیا۔ (۲۷) لدھیانہ میں آپ نے محلّہ اقبال گنج مکان شہزادہ غلام حیدر میں قیام فرمایا۔ حضرت اقدسؑ کے ساتھ حضرت حافظ حامد علی صاحب اور پیراں دتا تھے ۔ (۲۸) حضرت اقدس بیمار تھے۔ اس لئے حضورؑ نے یہاں خطوط کے جوابات کے لئے منشی عبداللہ صاحب سنوری کو بلا بھیجا۔ (۲۹) اور خود بیماری کے باوجود پیغام آسمانی پہنچانے میں مصروف ہوگئے۔ لدھیانہ کے علماء ( مولوی محمد صاحب اور مولوی عبدالعزیز صاحب وغیرہ ) جو ’’براہین احمدیہ ‘‘ کی اشاعت کے زمانے سے مخالفت کرتے چلے آرہے تھے اب اس دعوے پر پہلے سے بھی زیادہ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے آپ کے ورودلدھیانہ پر آپ کے خلاف مخالفت کی آگ لگادی۔ ان کے حوصلے یہاں تک بڑھے کہ وہ مسلمانوں کو آپ کے قتل پر کھلم کھلا اکساتے ۔ ایک دفعہ ایک واعظ نے بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش سے کہا کہ مرزا کافر ہے اور اس کے زریعہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو کوئی اس کو قتل کر ڈالے گاوہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا۔اور سیدھا بہشت کو جائے گا۔ ایک گنوار جو ہاتھ میں ایک لٹھ لئے کھڑا اس کی تقریر سن رہا تھا اس وعظ سے بہت متاثر ہوا اور چپکے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکان پوچھتا ہو اآپ کی قیام گاہ پر پہنچ گیا۔ وہاں کوئی دربان نہیں ہوتا تھا ہر ایک شخص جس کا جی چاہتا اندر چلا آتا اتفاق سے حضرت اقدسؑ اس وقت دیوان خانے میں بیٹھے تقریر فرما رہے تھے اور چند آدمی جن میں کچھ ارادت منداور کچھ غیراز جماعت تھے اردگرد بیٹھے حضور کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ گنوار بھی اپنا لٹھ کاندھے پر رکھے ہوئے کمرہ میں داخل ہوا۔ اور دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر آپ پر قاتلانہ حملہ کے لئے مناسب موقعہ کا انتظار کرنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی اور اپنی تقریر جاری رکھی وہ بھی سننے لگا۔ چند منٹ کے بعد اس کے دل پر اس تقریر کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر زمین پر آگیا اور وہ مزید تقریر سننے کے لئے بیٹھ گیا اور سنتا رہا۔ یہاں تک کہ حضور نے یہ سلسلہ گفتگو بند کردیا۔ مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور آپ کا دعویٰ میری سمجھ میں آگیا ہے۔ اور میں حضور کو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ اس پر وہ گنوار بھی آگے بڑھ کر بوالا کہ میں ایک واعظ سے اثر پا کر اس ارادہ سے اس وقت یہاں آیا تھا کہ آپ کو قتل کر ڈالوں اور جیسا کہ واعظ صاحب نے کہا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جائوں۔ مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے۔ اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا۔ اور آپ کی باتیں سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہوگیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا۔ آپ بے شک سچے ہیں اور میں بھی آپ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدسؑ نے اس کی بیعت قبول فرمائی۔ اس وقت بیعت ایک علیحدہ کمرہ میں ہر ایک کی الگ الگ ہوتی تھی۔ (۳۰)
لدھیانہ کے مخالف علماء میں سے مولوی سعد اللہ نو مسلم پیش پیش تھا۔ ہر روز کبھی دوسرے روز ایک اشتہار مخالفت میں گالیوں سے بھرا ہوا شائع کرتا تھا جس میں کبھی چوری کا الزام ہوتا اور کبھی بغاوت کا۔ اسی طرح اور کئی مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے اور بات بات میں جھگڑا کرتے اور الجھتے رہے۔ بعض امتحان اور آزمائش کے لئے اور بعض صرف دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ ایک روز مخالفوں نے پانچ آدمیوں کو بھیجا اور کہا کہ اس مکان میں ایک شخص ہے جو تمام نبیوں کو گالیاں دیتا ہے اور قرآن اور رسول کو نہیں مانتا۔ وہ لوگ سخت غضب میں بھرے ہوئے یکدم مکان میں چلے آئے ۔ اس وقت ایک احمدی حضرت اقدسؑ سے ایک آیت کے معنے دریافت کر رہا تھا۔ حضور نے ایسی تفسیر فرمائی کہ وہ لوگ بہت دیر تک چپ بیٹھے رہے۔ جب حضور خاموش ہوئے تو انہوں نے حضرت اقدس علیہ السلام سے مصافحہ کیا اور آپ کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور عرض کیا کہ لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا جو آپ کو کافر کہتے ہیں وہ خود کافر ہیں اور اگر آپ مسلمان نہیں تو کوئی بھی مسلمان نہیں۔ وہ لوگ باہر آئے ۔ تو لوگوں نے کہا کہ مرزا جادو گر ہے جو اس کے پاس جاتا ہے وہ اسی کا ہو رہتا ہے اس کے پاس کوئی نہ جائے۔ (۳۱)
نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات :۔
واقعات لدھیانہ میں سے ایک اہم واقعہ حضرت نواب علی محمد خان صاحب لدھیانوی کی وفات ہے ۔ نواب صاحب موصوف حکمت تصوف اورعلوم شرعیہ میں ید طولی رکھتے تھے۔ اہل اللہ کے بڑے معتقد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق جانباز تھے۔ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے ۔انہیں حضرت اقدس علیہ السلام سے اعلیٰ درجہ کا عشق تھا اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جو بات میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی میں دیکھی وہ کسی میں نہیں دیکھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگرکوئی شخص ہے تو یہی ہے اس کی تحریر میں نور، اس کے کلام میں نور، اور اس کے چہرہ میں نور ہے۔
حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی کبھی نواب صاحب سے ملنے جایا کرتے تھے اور نواب صاحب بھی آپ سے ملنے کے لئے اکثر آیا کرتے تھے نواب صاحب کے انتقال کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں تشریف رکھتے تھے بوقت انتقال نواب صاحب نے دعا کے لئے ایک آدمی حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجا اور جوں جوں آخری وقت آتا جاتا تھا آدھ آدھ گھنٹہ اور دس دس منٹ کے بعد آدمی بھیجتے رہے اور کہتے رہے کہ میں بڑا خوش ہوں کہ حضور اس وقت لدھیانہ تشریف رکھتے ہیں اور مجھے دعا کرانے کا موقعہ ملا۔ جب حالت نزع طاری ہوئی تو وصیت کی کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مرزا صاحب پڑھائیں تاکہ میری نجات ہونواب صاحب مرحوم کا انتقال ہوگیا تو لدھیانوی علماء نے نواب صاحب کے اقرباء کو جو ان کے زیر اثر تھے کہلا بھیجا کہ اگر مرزا صاحب جنازہ پر آئے تو ہم اور کوئی مسلمان جنازہ پر نہ آئیں گے اور تم پر کفر کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اور جو آئندہ ان میں سے مرے گا اس کی نماز جنازہ کوئی نہیں پڑھے گا۔ نواب صاحب کے اقرباء ان کی اس بات سے ڈر گئے اس لئے حضرت اقدسؑ نے ان کے جنازہ کی نماز اپنے مکان پر ہی ادا فرمائی اور نواب صاحب مرحوم کے لئے مغفرت ورحمت کی بہت بہت دعا کی۔ (۳۲)
انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق الہام : ۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ کی روایت کے مطابق ) قیام لدھیانہ میں انگریزی حکومت کے زوال سے متعلق بھی خبر دی گئی اور الہام ہوا کہ ۔
سلطنت برطانیہ تاہشت سال بعد ازاں ایام ضعف و اختلال (۳۳)
یعنی برطانیہ کی شان و شوکت کا زمانہ آٹھ سال تک ہے اس کے بعد ضعف و انحطاط کے آثار پیدا ہو جائیں گے ۔
پیر سراج الحق صاحب نے اس الہام کے متعلق حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ اس میں روحانی اور مذہبی طاقت کا ذکر معلوم ہوتا ہے ۔ یعنی آٹھ سال کے بعد سلطنت برطانیہ کی مذہبی طاقت یعنی عیسائیت میں ضعف رونما ہو جائے گا اور سچے مذہب یعنی اسلام اور احمدیت کا غلبہ شروع ہو جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جو ہو گا وہ ہو رہے گا ہم پیش از وقت کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ (۳۴)
پادریوں کو دعوت مذاکرہ :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰۔ مئی ۱۸۹۱ء کو پادریوں کے مقابل اشتہار دیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی منصف کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ اس اشتہار میں آپ نے پادری صاحبان کو تبادلہ خیالات کی دعوت دی ۔ مگر کوئی پادری آپ ؑ کے مقابلہ میں نہ آیا۔ (۳۵)
سفر امرتسر اور لدھیانہ میں دوبارہ ورود : ۔
حضرت اقدسؑ اوائل جولائی ۱۸۹۱ء میں بعض احباب اور امرتسر کے رؤساء کی خواہش پر چند دن کے لئے لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے گئے ۔ وہاں الحدیث کے دو فریق ہو چکے تھے ایک فریق مولوی احمد اللہ صاحب کا تھا اور دوسرا غزنویوں کا ۔ مولوی احمد اللہ صاحب بڑے شریف الطبع انسان تھے۔ غزنوی گروہ چاہتا تھا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگائیں مگر وہ گریز کرتے تھے جس پر مولوی صاحب مسجد سے نکال دیئے گئے اور ان کے معتقدین انہیں اپنی دوسری مسجد میں لے آئے۔ اس سفر میں حضرت اقدس نے مولوی احمد اللہ صاحب کو اپنے دعویٰ سے متعلق ۷۔ جولائی ۱۸۹۱ء کو تحریری مباحثہ کی دعوت دی مگر انہوں نے آمادگی کا اظہار نہ کیا اور گو انہوں نے بیعت نہیں کی مگر ان کی اس خاموشی کو دیکھ کر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھیوں نے انہیں ’’مرزائی ‘‘ مشہور کر رکھا تھا۔ ان کے بعض معتقدین جن میں مولوی محمد اسمٰعیل صاحب، میاں نبی بخش صاحب ، مولوی عنایت اللہ صاحب، اور میاں چراغ الدین صاحب شامل تھے۔ بالاخر سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ (۳۶)
حضرت اقدس ؑ امر تسر میں مختصر قیام کے بعد واپس لدھیانہ تشریف لے گئے۔










علماء وقت کو تحریری مباحثہ کی دعوت
حضرت اقدس ؑ کا یہ سفر چونکہ اتمام حجت کی غرض سے تھا اس لئے حضور ؑ نے لدھیانہ سے ۲۶۔ مارچ ۱۸۹۱ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ تمام مشہور علماء بالخصوص مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ( ۱۸۲۸ء ۔ ۱۹۰۵) مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی (۱۸۵۲۔ ۱۹۱۳) مولوی عبدالرحمن صاحب لکھو کے والے ، مولوی شیخ عبداللہ صاحب تبتی ۔ مولوی عبدالعزیز صاحب لدھیانوی اور مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری کو تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا اور لکھا کہ میرا دعویٰ ہر گز قال اللہ اور قال الرسول کے خلاف نہیں اگر آپ حضرات مقام و تاریخ مقرر کرکے ایک عام جلسہ میں مجھ سے تحریری بحث نہیں کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ اور اس کے راست باز بندوں کی نظر میں مخالف ٹھہریں گے ۔ (۱)
حضرت اقدسؑ کے اس اشتہار پر لدھیانہ کے مولوی دبک گئے اور بحث کے لئے آمادہ نہ ہوئے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کے ایک مرید اور دست و بازو مولوی شاہ دین صاحب تھے انہوں نے اپنے پیرو مرشد( مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ) کو لکھا کہ میں مرزا صاحب سے مباحثہ کروں تو کس طرح کروں اور کس مسئلہ میں کروں۔ جواب آیا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا تمہارا کام نہیں اول تو ٹال دینا اور جو بات نہ ٹلے اور مباحثہ ہو ہی جائے تو وفات و حیات مسیح علیہ السلام میں ہر گز بحث نہ کرنا۔ اس میں تمہارا یا کسی کا ہاتھ نہیں پڑے گا۔ ہاں نزول میں بحث کر لینا اس مسئلہ میں ہماری کچھ جیب ہو سکتی ہے۔ چنانچہ مولوی شاہ دین کو جب بحث کے لئے اصرار سے کہا جانے لگا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ مرزا صاحب بے علم ہیں۔ میری شان سے بعید ہے کہ ایک بے علم آدمی سے بحث کروں۔
لدھیانہ میں ایک اور مولوی مشتاق احمد صاحب انبیٹھوی تھے جنہیں اپنی حدیث دانی پر بڑا ناز تھا یہ صاحب گنگوہ پہنچے ان کو بھی وہاں سے وہی جواب ملا جو مولوی شاہ دین کو ملا تھا، لدھیانہ ، دیو بند، سہارنپور ، گنگوہ میں اس بارہ میں خفیہ مشورے ہوئے کہ کیا کرنا چاہئے لیکن مباحثہ کے لئے کوئی آمادہ نہ ہوا۔
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کا مباحثہ تحریری سے انکار :۔
اسی دوران پیر سراج الحق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ سب لوگوں کی نظر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی طرف لگ رہی ہے اگر حکم ہو تو مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھوں کہ وہ مباحثہ کے لئے آمادہ ہوں۔ فرمایا اگر تمہارے لکھنے سے آمادہ ہوں تو ضرور لکھ دو۔ چنانچہ انہوں نے اس بارہ میں ایک خط لکھ کر گنگوہ بھجوادیا۔
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور پیر صاحب موصوف ہمزلف بھی تھے اور ویسے بھی ان سے تعلقات رکھتے تھے لیکن جوں ہی ان کو یہ خط پہنچا مولوی صاحب اور ان کے معتقدوں اور شاگردوں نے ایک شور برپا کر دیا۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں لکھا کہ میں بحث کو مرزا صاحب سے منظور کرتا ہوں لیکن تقریری اور صرف زبانی۔ تحریری مجھ کو ہرگز ہرگز منظور نہیں ہے اور عام جلسہ میں بحث ہوگی اور وفات و حیات مسیح میں کہ یہ فرع ہے بحث نہیں ہوگی بلکہ بحث نزول مسیحؑ میں ہوگئی جو اصل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خط دیکھ کر پیر صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ اس کے جواب میں یہ لکھ دیں کہ بحث تحریری ہونی چاہئے۔ تا حاضرین کے علاوہ غائبین کو بھی پورا پورا حال معلوم ہو جائے۔ اسی طرح فرمایا کہ وفات و حیات فرع کس طرح ہوئی اصل مسئلہ تو وفات وحیات مسیح ہی ہے اگر حیات مسیح ثابت ہوگئی تو نزول بھی ثابت ہوگیا اور جو وفات ثابت ہوگئی تو مسیحؑ کا بجسد عنصری نزول خود بخود باطل ہوگیا۔ ہمارے دعویٰ کی بنیاد یہی وفات مسیح پر ہے اگر مسیحؑ کی زندگی ثابت ہو جائے ۔ تو ہمارے دعوے میں کلام کرنا فضول ہے۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میںلکھا کہ افسوس ہے مرزا صاحب اصل کو فرع اور فرع کو اصل قرار دیتے ہیں۔ بہرحل تقریری کی بجائے تحریری مباحثہ نہیں کرتا۔
دو سجادہ نشینوں کو دعوت
یہاں سے مایوس ہو کر پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ نے دو مشہور سجادہ نشینوں(میاں اللہ بخش صاحب تونسوی سنگھڑی اور شاہ نظام الدین صاحب بریلوی نیازی) کیطرف توجہ کی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے علمی یا روحانی طریق سے مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت نامہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسند فرمایا اور اپنے دستخط کر کے یہ تحریر فرمایا کہ میں روحانی باطنی اور علمی مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور جو کچھ صاحبزادہ صاحب نے لکھا ہے درست ہے اور میں مسیح موعود اور امام مہدی معہود ہوں۔ مسیحؑ بے شک فوت ہوچکے ہیں وہ اب نہیں آئیں گے۔ چوں کہ آپ گدی نشین‘ سجادہ نشین‘ صوفی اور پیر ہیں اس معاملہ میں خواہ تحریری خواہ باطنی قوت قلبی یا دعا سے مقابلہ کریں تاحق ظاہر ہو اور باطل مٹ جاوے۔
سنگھڑ سے تو اس خط کا کوئی جواب موصول نہ ہوا البتہ بریلی سے شاہ نظام الدین صاحب نے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’فقیر میں اتنی قو ت نہیں ہے کہ جو مقابلہ کرسکے یا اس باطنی ورحانی طور سے مقابل پر کھڑا ہوسکے۔ یہ کام تو مولویوں اور علماء کا ہے آپ بھی تو صوفی اور درویش اور چار قطب ہانسوی اور امام اعظم رحمتہ االلہ علیہم اجمعین کے پوتے ہیں ہمیں آپ پر حسن ظن ہے۔ اور جیسا کچھ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا ۔وہ ہو رہے گا۔ مجھے آپ معاف فرمائیں۔‘‘(۳)
مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو تقریری مباحثہ کی دعوت اور ان کا انکار
حضرت اقدسؑ نے یہ خط پڑھ کر فرمایا۔ تو نسوی متکبر کو دیکھو کہ جواب تک نہیں دیا۔ مگر یہ کیسے منکسر المزاج ہیں۔ نیز حضور نے پیرسراج الحق صاحب سے فرمایا کہ مولوی رشید احمد صاحب کو لکھ دیا جائے کہ اچھا ہم بطریق تنزل تقریری مباحثہ منظور کرتے ہیں مگر اس شرط سے کہ آپ تقریر کرتے جائیں اور دوسرا شخص آپ کی تقریرلکھتا جائے اور جب تک ایک کی تقریر ختم نہ ہو۔ دوسرا فریق یا کوئی اور دوران تقریر میں نہ بولے۔ پھر دونوںتقریریں شائع ہوجائیں لیکن بحث لاہور میں ہو۔ کیونکہ لاہور علوم وفنون کا مرکز ہے۔ پیر صاحب نے حضرت اقدسؑ کا یہ پیغام مولوی صاحب کو بھیج دیا۔ وہاں سے جواب آیا کہ تقریر صرف زبانی ہوگی۔ لکھنے یا کوئی جملہ نوٹ کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہوگی۔ اور حاضرین میں سے جس کے جی میں جو آئے گا وہ رفع اعتراض وشک کے لئے بولے گا۔ میں لاہور نہیں جاتا۔ مرزا صاحب بھی سہارنپور آجائیں اور میں بھی سہارنپور آجائں گا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ سہارنپور میں مباحثہ کا ہونا مناسب نہیں ہے سہارنپور والوں میں فیصلہ کرنے یا حق وباطل کی سمجھ نہیں ہے۔ لاہور آج دارالعلوم اور مخزن علم ہے اور ہر ایک ملک اور شہرکے لوگ اور ہر مذہب وملت کے اشخاص وہاں موجود ہیں۔ آپ لاہور چلیں میں بھی لاہور چلا جاتا ہوں اور آپ کا خرچ آمدورفت اور قیام لاہور ایام بحث تک اور مکان کا کرایہ اور خرچ میرے ذمہ ہوگا یہ مضمون پیر صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے دستخط سے گنگوہ بھیج دیا۔
مولوی رشید احمد صاحب نے اس خط کے جواب میں پھر یہی لکھا کہ میں لاہور نہیں جاتا صرف سہارنپور تک آسکتا ہوں۔ اور تحریری بحث مجھے منظور نہیں اور تقریر بھی کسی دوسرے شخص کو لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خط پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب ان کو یہ لکھ دو کہ ہم مباحثہ کے لئے سہارنپور ہی آجائیں گے آپ سرکاری انتظام کرلیں میں تاریخ مقررپ آجائوں گا۔ اور ایک اشتہار اس مباحثہ کے لئے شائع کر دیا جائے گا تالاہور وغیرہ مقامات سے صاحب علم اور مباحثہ سے دلچسپی رکھنے والے اصحاب سہارنپور آجائیں ۔ رہا تقریری اور تحریری مباحثہ وہ اس وقت پر رکھیں تو بہتر ہے جیسی حاضرین جلسہ کی رائے ہوگی۔ کثرت رائے پر ہم اور آپ کا ر بند ہوجائیں گے۔
بہرحال آپ مباحثہ ضرورکریں کہ لوگوں کی نظریں آپ کی طرف لگ رہی ہیں۔ مولوی رشید احمد صاحب نے اس دعوت کا صرف یہ جواب دیا کہ انتظام کا میں ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ اور پھر باربار یادد ہانی کے باوجود چپ سادھ لی۔ (۴)
سعید روحوں کی خدائی جماعت میں شمولیت
لدھیانہ ان دنوں مخالفت کا مرکز بنا ہوا تھامگر آ آتشین فضاء میں بھی خدا کے فرشتے سعید روحوں کو کھینچ کھینچ کر خداکے مامور کی جماعت میں لارہے تھے ۔ لاہور سے ایک عالم رحیم اللہ صاحب آئے اور آتے ہی انہوں نے حضورؑ کی بیعت کرلی۔ (۶۵) ان سے قبل مولوی غلام نبی صاحب ساکن خوشاب لدھیانہ میں آئے اور آتے ہی حضرت اقدسؑ کی مخالفت میں تقریریں کرنے لگے۔ شہر میں ان کے لیکچروں کی دھوم مچ گئی اور ہر جگہ ان کے علم و فضل کا چرچا ہونے لگا ایک روز اتفاق سے مولوی صاحب کا وعظ اسی محلہ میں تھا جس میں حضور تشریف فرما تھے وعظ اتنا زبردست تھا کہ تحسین وآفرین کے نعرے بلند ہونے لگے۔ اور مرحبا کا شور چاروں طرف سے اٹھا۔ اس وعظ میں لدھیانہ کے تمام مولوی موجود تھے۔ اور ان کے حسن بیان اور علم کی بار بار داد دیتے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ میں تھے اور کتاب ازالہ اوہام کا مسودہ تیار کر رہے تھے۔ مولوی صاحب وعظ کہہ کر اور پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ساتھ ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے اور ادھر سے حضرت اقدس علیہ السلام زنانہ مکان سے باہر مردانہ مکان میں جانے کے لئے نکلے تو مولوی صاحب سے مڈبھیڑ ہوگئی اور خود حضرت اقدس علیہ السلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے جواب میں وعلیکم السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے ہوئے آپ کے ساتھ سیدھے مردانہ میں چلے آئے اور حضرتؑ کے سامنے دوزانو بیٹھ گئے۔ باہر تمام لوگ حیرت میں کھڑے تھے ۔ علماء نے عوام کو جو مختلف چہ میگوئیاں کر رہے تھے یقین دلایا کہ مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے گئے ہیں وہاں انہیں نیچا کھا کر آئیں گے لیکن ارادہ الٰہی میں کچھ اور ہی مقدر تھا۔ جب مولوی غلام نبی صاحب اندر گئے تو مولوی صاحب نے پوچھا۔ حضور آپ نے وفات مسیحؑ کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟
حضرت اقدس! قرآن شریف ‘حدیث شریف اور علماء ربانی کے اقوال سے ۔
مولوی صاحب! کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیحؑ کے بارے میں ہو تو بتلائیے۔
حضرت اقدس نے قرآن شریف کے دو مقام پر کاغذ کا نشان رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا۔ ایک مقام تو سورہ آل عمران ع ۶ اور دوسرا سورہ مائدہ کے آخری رکوع کا تھا۔ پہلے میں آیت یا عیسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ اور دوسرے میں آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ تھی۔ مولوی صاحب دونوں آیات دیکھ کر حیران وششدر رہ گئے اور کہنے لگے یُوَفِّیْ اُجُوْرَھُمْ بھی تو قرآن شریف میں ہے اس کے کیا معنے ہوں گے؟
حضور اقدسؑ نے فرمایا۔ یہ اور باب سے ہے اور وہ اور باب سے۔ مولوی صاحب دو چار منٹ حیران ہوگئے اور سوچ کر کہنے لگے معاف فرمائیے میری غلطی تھی۔ جو کچھ آپ نے فرمایا صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے۔
حضرت اقدسؑ فرمانے لگے جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں؟ مولوی صاحب یہ سن کر رو پڑے یہاں تک کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور عرض کیایہ خطا کار گہنگار بھی حضور کے ساتھ ہے اس کے بعد مولوی صاحب پھر روتے رہے اور سامنے مودب بیٹھے رہے۔(۷)
اندر تو مولوی صاحب کے خیالات میں یہ انقلاب واقع ہوا اور باہر کئی ہزار آدمی کھڑا اس انتظار میں خوش ہو ہو کر تالیاں بجا رہا تھا کہ آج مرزا قابوآیا۔ آج مرزا کو توبہ کرنی پڑے گی۔ بہر کیف جب بہت دیر ہوگئی تو لوگ آوازیں دینے لگے کہ جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے۔ مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا جب شور زیادہ بلند ہواتو مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جائو میں نے حق دیکھ لیا اور پالیا۔ اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے اگر تم اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آجائو اور اس امام کو مان لو۔ میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ کا مامور اور آنحضرتؐ کا موعود ہے۔ جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا۔ مولوی صاحب اس حدیث کے الفاظ پڑھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور آپؑ کے سامنے یہ حدیث شریف دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت ؐ کا سلام پہنچاتا ہوں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے علیکم السلام فرمایا کہ مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا اور ہی نقشہ تھا اور حاضرین وسامعین پر بھی ایک عجیب وجد وسرور کی کیفیت طاری تھی۔
باہر مجمع کو مولوی صاحب کا جب یہ پیغام پہنچا کہ میں نے حق پالیا ہے تو سب کی زبان سے کافر کافر کا شور بلند ہوا اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ منتشر ہوگئے۔
اس کے بعد علماء کی طرف سے مولوی غلام صاحب کے پاس مباحثہ کے پیغام آنے لگے مولوی صاحب موصوف نے مباحثہ منظور کیا لیکن مباحثہ کے لئے کوئی نہ آیا مولوی غلام نبی صاحب نے اشتہار مباحثہ بھی شائع کیا کہ میں تیار ہوں۔ جس کو علم کا دعویٰ ہو وہ مجھ سے بحث کرے اس کے بعد مولوی غلام نبی صاحبؓ نے یہ اشتہار دیا کہ جو شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (جسمانی) زندگی کے ثبوت میں قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو ہر آیت اور ہر حدیث پر دس روپے انعام دوں گا۔ اور روپے پہلے بنک میں جمع کروا دئیے جائیں گے یہ اشتہار دیکھ کر بھی کسی کو مرد میدان بننے کی جرات نہ ہوسکی۔ اب تو مولوی غلام نبی صاحب بس حضرت اقدس علیہ السلام کے ہی ہو رہے اور ان کا ایسا بحر کھلا کہ جو کوئی مولوی یا کوئی شخص آتا اس سے بات کرنے اور مباحثہ کرنے کے لئے آمادہ ہوجاتے اور حضرت اقدسؑ کا چہرہ ہی دیکھتے رہتے اور خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے۔
مولوی صاحبؓ کہیں ملازم تھے وہاں سے خط آیا کہ جلد آئو ورنہ ملازمت جاتی رہے گی اور نام کٹ جائے گا۔ مولوی صاحب نے ملازمت کی کچھ بھی پروانہ کی اور کہا کہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی بیعت میں شرط کی ہے۔ مجھے نوکری کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ایک روز یہ ذکر آگیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ خود ملازمت کو چھوڑنا نہیں چاہیئے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ ہاں خود بخود ہی اللہ تعالیٰ اپنی کسی خاص مصلحت سے علیحدہ کردے تو اور بات ہے ملازمت پر چلے جانا چاہیئے۔پھر رخصت لے کر آجانا۔ حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد سن کر مولوی صاحب مجبوراً چلنے کو تیار ہو گئے اور دوبارہ بیعت کی تجدید کی۔ جب وہ رخصت ہو کر چلنے لگے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا دل جانے کونہیں چاہتا دیکھو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے یہ معنے ہیں ۔ مولوی صاحب چل دیئے۔ مگر کچھ دیر بعد دیکھا تو وہ ہنستے ہوئے اور خوشی خوشی بغل میں گٹھری دبائے واپس چلے آتے ہیں۔ سب حیران ہوئے۔ اور حضرت اقدسؑ بھی مسکرائے۔ مولوی صاحب نے بتایا میرے جاتے جاتے ریل چل دی۔ بعض لوگوں نے کہا بھی کہ سٹیشن پر ٹھہرو دوسرے وقت چلے جانا۔ میں نے کہا جتنی دیر اسٹیشن پر لگے اتنی دیر حضور کی صحبت میں رہوں تو بہتر ہے اسٹیشن پر ٹھہرنے سے کیا فائدہ ؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ۔ جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے اللہ تعالیٰ کسی کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اس میں کچھ حکمت الٰہی ہے یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ تم اپنی ملازمت پر حاضر ہو جائو اور اگر کسی وجہ سے نہ آسکو تو رخصت کی ایک درخواست بھیج دو تارخصت مل جائے۔ اور میں کوشش کرکے رخصت دلوادوں گا۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ریل کے نہ ملنے میں یہ حکمت الٰہی تھی۔ اب رخصت کی درخواست بھیج دو۔ مولوی صاحب نے حسب الارشاد ایک درخواست بھیج دی اور وہ بھی منظور ہو گئی۔ مولوی صاحب کو بہت روز حضرت کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت اٹھانے کا موقع میسر آگیا۔ (۸)
مباحثہ ’’الحق ‘‘ لدھیانہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباحثہ پر اورکوئی سامنے نہ آیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اپنے علم پر بہت گھمنڈ تھا اور وہ ابتداء ہی سے حضرت اقدس کو مغلوب کرنے کا فیصلہ کر کے حضور سے خط و کتابت کرنے کے علاوہ حضرت مولانا نور الدین صاحب (۹)سے بھی نوک جھونک جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی ترنگ میں وہ شملہ سے لدھیانہ پہنچے اور آتے ہی شہر میں یہ شور مچا دیا کہ مرزا صاحب کو چاہیے کہ وہ مجھ سے مباحثہ کر لیں۔ حضرت اقدسؑ تو مباحثہ کے لئے پہلے ہی تیار تھے رات کے وقت مولوی رحیم اللہ صاحب لاہوری اور مولوی نظام الدین صاحب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ سخت بد زبان ہے۔ مگر آپ نے فرمایا بحث ہونے دو اس کی علمیت کی پوری حقیقت کھول دی جائے گی اور وہ جان جائے گا کہ بحث اس کانام ہے ۔ پھر مولوی عبداللہ صاحب نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ اور وہ جان جائے گا کہ بحث اس کا نام ہے ۔ پھر مولوی عبداللہ صاحب نے عرض کیا کہ بحث کس مسئلہ میں ہوگی فرمایا وفات مسیح میں بحث ہوگی۔ اور یہی اصل ہے انہوںنے عرض کیا کہ سنا ہے وہ یہ مسئلہ نہیں چھیڑیں گے وہ تو نزول مسیح کے مسئلہ میں گفتگو کریں گے ۔ آپ ؑ نے فرمایا نزول مسیح کی بحث سے کیا تعلق ۔ نزول مسیح تو ہم خود مانتے ہیں۔ اگر نزول مسیحؑ ہم نہ مانتے تو ہمارا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا کب چل سکتاتھا۔ اصل مسئلہ جس پر بنیادی طور پر بحث ضروری ہے وہ تو وفات و حیات مسیح کا ہی مسئلہ ہے۔
مولوی نظام الدین صاحب کی بیعت کا واقعہ:۔
دوسرے روز صبح آٹھ نو بجے مولوی نظام الدین صاحب مولوی محمد حسین صاحب اور دو تین اور اشخاص کی مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر آپس میں گفتگو ہوئی۔ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ حضرت مسیحؑ کی زندگی پر بھی قرآن شریف میں کوئی آیت ہے۔
مولوی صاحب نے کہا کہ بیس آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں۔ مولوی نظام الدین صاحب فوراً حضرت اقدسؑ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کے پاس کیا اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ قرآن شریف ہے مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ اگر قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کی کوئی آیت موجود ہو توآپ مان لیں گے ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا۔ ہاں ہم مان لیں گے ۔ مولوی صاحب نے کہا میں ایک دو نہیں بیس آیتیں قرآن شریف کی حضرت عیسیٰ کی زندگی پر لے آئوں گا۔ حضرت اقدس علیہ السلان نے فرمایا۔ بیس کیا اگر آپ ایک ہی آیت لے آئیں گے تو میں قبول کر لوں گا۔ ساتھ ہی فرمایا ۔ مولوی صاحب یاد رہے آپ کو یا کسی اور کو ایک آیت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی نہیں ملے گی۔ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا آپ اپنی بات پر پکّے رہیں۔ میں بیس آیتیں ابھی لائے دیتاہوں۔ چنانچہ وہ مولویوں کے پاس پہنچے اور کہا میں مرزا صاحب کو ہرا آیا ہوں۔ مولوی صاحبان یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا مولوی صاحب مرزا صاحب کو کس طرح ہرا آئے ؟ مولوی نظام الدین صاحب نے کہا کہ میں حیات مسیحؑ کے ثبوت میں بیس آیتوں کا وعدہ کر آیا ہوں۔ اب مجھے بیس آیتیں قرآن شریف سے نکال دیں مولوی محمد حسین صاحب بولے کہ آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہم احادیث سے حیات مسیحؑ کا ثبوت پیش کر دیتے ہیں انہوںنے کہا ایسا کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ مقدم قرآن شریف ہے مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر اور گھبرا کر عمامہ سر سے پھنک دیا اور کہا کہ تو مرزا کو ہرا کے نہیں آیاہمیں ہرا آیا اور ہمیں شرمندہ کیا۔ میں مدت سے مرزا کو حدیث کی طرف لارہا ہوں اور وہ قرآن شریف کی طرف مجھے کھینچتاہے۔ قرآن شریف میں اگر کوئی آیت مسیح کی زندگی کے متعلق ہوتی تو ہم کبھی کی پیش کر دیتے ۔ ہم تو حدیثوں پر زور دے رہے ہیں۔ (۱۰) تب مولوی نظام الدین صاحب کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا جب قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں تو اتنا دعویٰ تم نے کیوں کیا تھا۔ اور کیوں بیس آیتوں کے دینے کا مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اب میں کیا منہ لے کے مرزا صاحب کے پاس جائوں گا۔ اگر قرآن شریف تمہارے ساتھ نہیں مرزا صاحب کے ساتھ ہے تو میں بھی مرزا صاحب کے ساتھ ہوں تمہارے ساتھ نہیں ۔ چنانچہ مولوی نظام الدین صاحب وہاں سے چلے اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں آکر اور شرمندہ ہو کر بیٹھ گئے۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا ۔ مولوی صاحب آیتیں لے آئے؟ مولوی نظام الدین صاحب نے دو چار مرتبہ دریافت کرنے پر رو کر عرض کیاکہ حضور وہاں تو یہ معاملہ گزرا اب توجد ھر قرآن شریف ہے ادھر ہی میں ہوں ۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کر لی۔ (۱۱)
مباحثے کا آغاز :۔
ان حالات میں حضرت اقدسؑ کا مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ شروع ہوا۔ یہ مناظرہ تحریری تھا اور ۲۰ سے ۲۹ جولائی ۱۸۹۱ء تک یعنی دس روز جاری رہا۔ مباحثہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بخاری شریف رکھ لیتے اور قلم برداشتہ لکھتے جاتے جب مضمون تیار ہو جاتا تو پڑھ کر سنا دیا جاتا۔ مگر ادھر بڑی مشکل سے مضمون تیار کیا جاتا۔ اور بڑی دقت سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اپنا مضمون تیار کرکے سناتے ۔
یہ مباحثہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر ہوتا تھا لیکن بعد کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے حضرت اقدسؑ سے کہا کہ ہم آپ کے مکان پر آتے ہیں آپ ہمارے مکان پر نہیں آتے ۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام مولوی محمد حسن صاحب رئیس آنریری مجسٹریٹ کے مکان پر ( جہاں بٹالوی صاحب ٹھہرے ہوئے تھے) تشریف لے جانے لگے ۔ حضرت اقدسؑ کی سواری کے لئے ایک صاحب منشی میراں بخش صاحب اکونٹنٹ محکمہ نہر نے اپنی ٹم ٹم پیش کی لیکن حضور نے فرمایا ۔ ہم پیدل ہی جائیں گے ۔ جس راستہ سے حضور گزرتے ہندو بھی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے کہ کس قدر نورانی چہرہ ہے ۔ مسلمان کیوں ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ (۱۲)
ایک معجزہ :۔
( حضرت پیر سراج الحق صاحب کی روایت کے مطابق) اس مباحثہ کے دوران میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بخاری کا ایک حوالہ طلب کیا۔ اس وقت وہ حوالہ حضرت اقدسؑ کو یا د نہیں تھا۔ اور نہ آپ کے خادموں میں سے کسی اور کو یاد تھا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے بخاری شریف کا نسخہ منگایا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور جلدجلد اس کا ایک ایک ورق الٹنے لگے اور آخر ایک جگہ پہنچ کر آپ ٹھہر گئے اور فرمایا ۔ لو یہ دیکھ لو۔ دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجراہے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ جب میںنے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے کتاب کے صفحات ایسے نظر آتے تھے کہ گویا وہ خالی ہیں اور ان پر کچھ نہیں لکھا۔ اس لئے میں ان کو جلد جلد الٹاتا گیا آخر مجھے ایک صفحہ ملا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ایسا معجزانہ تصرف فرمایا کہ اس جگہ کے سوا جہاں حوالہ درج تھا باقی تمام اوراق آپ کو خالی نظر آئے۔ (۱۳)
حضرت شیخ یعقوب عرفانی کا بیان ہے کہ یہ واقعہ لدھیانہ کا نہیں لاہور کا ہے مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محدثیت اور نبوت پر بحث ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے محدثیت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے بخاری کی ایک حدیث (۱۴) کا حوالہ دیا۔ مولوی عبدالحکیم صاحب کے مددگاروں میں سے مولوی احمد علی صاحب نے حوالہ کا مطالبہ کیا بلکہ بخاری خود بھیج دی۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حوالہ نکالنے کی کوشش کی مگر نہ نکلا۔ آخر حضرت مسیح موعودؑ نے خدائی تصرف کے نتیجہ میں خود نکال کر پیش فرما دیا جسے دیکھ کر فریق مخالف پر ایک موت وارد ہوگئی اور مولوی عبدالحکیم صاحب نے اس پر مباحثہ ختم کر دیا۔ (۱۵) یہ واقعہ خواہ لدھیانہ میں ہوا ہو یا لاہور میں بہر کیف دونوں جگہ یہ ایک نشان تھا۔ جو خدا تعالیٰ کا اپنے بندے کے لئے ظاہر ہوا۔
یہ مباحثہ انہی دنوں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ایک محققانہ دیباچہ کے ساتھ سیالکوٹ سے شائع کر دیا تھا جو ’’ الحق ‘‘ لدھیانہ کے نام سے مشہور ہے ۔
پیر سراج الحق صاحب کے بیان کردہ مباحثہ کے تفصیلی کوائف :۔
اس مباحثہ میں حضرت اقدس کے مضمون کو نقل کرنے کی خدمت حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانی کے سپرد تھی۔ حضرت پیر صاحب نے اپنی کتاب تذکرۃ المہدی ( حصہ اول ) میں جہاں سفر لدھیانہ کے تفصیلی حالات بیان کئے ہیں وہاں مباحثہ کے مفصل حالات بھی لکھے ہیں جو قابل ذکر ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے مباحثہ قرار پایا اور مباحثہ کا دن مقرر ہوا۔ مباحثہ کے لئے مولوی محمد حسین صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کے آگے رکھ دیا حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کا جواب لکھ دیا۔ اور مجھ سے فرمایا کہ کئی قلم بنا کر میرے پاس رکھ دو اور جو ہم لکھتے جائیں اس کی نقل کرتے جائو چنانچہ میں نقل کرنے لگا اور آپ لکھنے لگے جب سوال و جواب اس دن کے لکھ لئے گئے تو مولوی محمد حسین صاحب نے خلاف عہد زبانی وعظ شروع کر دیا اور بیان کیا کہ مرزا صاحب کا جو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن شریف حدیث پر مقدم ہے یہ عقیدہ صحیح نہیں ہے بلکہ عقیدہ یہ چاہیے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے ۔ کیونکہ قرآن شریف کے متعلق مسائل کو حدیث کھولتی ہے پس وہی فیصلہ کن ہے۔ خلاصہ مولوی صاحب کی تقریر کا یہی تھا۔ پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے چونکہ یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ زبانی تقریر کوئی نہ کرے اور مولوی صاحب نے اس معاہدے کے خلاف تقریر کی ہے سو اب میرا بھی حق ہے کہ میں بھی کچھ زبانی تقریر کروں۔ پھرحضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے ۔ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہو چکا تھا۔ اور حدیث کے جمع کرنے کا ایسا انتظام نہیں تھا۔ اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھی ۔ پس وہ مرتبہ اور درجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے ۔کیونکہ یہ روایت در روایت پہنچی ہے ۔
اس بیان اور تقریر نیز اس تحریری پرچہ پر جو حضرت اقدس علیہ السلام سناتے تھے چاروں طرف سے واہ واکے اور سبحان اللہ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ بلکہ سعد اللہ اور مولوی محمد حسین صاحب کے سوا ان کی طرف کے لوگ بھی بے اختیار سبحان اللہ کہہ اٹھتے تھے۔ مولوی صاحب اس پر خفا ہوتے اور کہتے کہ لوگو تم سننے کو آئے ہو یا واہ وا سبحان اللہ کہنے کو آئے ہو۔ اس مباحثہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حدیث اور قرآن شریف کے مقام پر سیر کن بحث کی ہے اور آئندہ کے لئے تمام بحثوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ چھ سات روز تک یہ مباحثہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مکان پر ہوا۔ اب مولوی صاحب نے رنگ بدلا۔ اور کہا کہ اتنے روز تو آپ کے مکان پر مباحثہ رہا اب میری فرودگاہ ( یعنی مولوی محمد حسن صاحب کے مکان ) پر مباحثہ ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ بھی منظور فرما لیا۔ اور باقی دنوں تک مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر مباحثہ رہا جب حضرت اقدس علیہ السلام وہاں تشریف لے جاتے تو میں حاضر ہو جاتا ورنہ مجھے بلوا لیتے ۔ اس مباحثے میں مولوی محمد حسین صاحب نے بہت چالاکیاں کیں بلکہ ایک پرچہ بھی اڑا لیا جس کا مباحثے میںحوالہ دیا گیا ہے دس روز تک یہ مباحثہ رہا۔ آخر باہر سے خطوط آنے لگے اور لدھیانہ کے لوگوں نے بھی شور کیا۔ کہ اصل بحث تو وفات و حیات مسیحؑ پر ہونی چاہیے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بھی بار بار فرمایا کہ مباحثہ تو وفات و حیات مسیحؑ میں ہونا ضروری ہے تاکہ سب مسائل کا یکدم فیصلہ ہو جاوے مگر مولوی صاحب اس مسئلہ کی طرف نہ آئے جب آخری روز مباحثہ کا آیا تو عیسائیوں مسلمانوں اور ہندوئوں کا بہت ہجوم ہوگیا۔ میں نواب علی محمد خاں آف جھجر کی کوٹھی پر تھا اور روانگی کا ارادہ کر رہا تھا حضرت اقدسؑ مولوی عبدالکریم صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح اور قاضی خواجہ علی صاحب اور الہ دین صاحب واعظ وغیرہ کے ہمراہ مولوی محمد حسن صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے اور میرے پاس مولوی نظام الدین صاحب مرحوم اور مولوی عبداللہ صاحب مجتہد مرحوم کو بھیجا کہ جلد صاحبزادہ سراج الحق صاحب کو لے آئو۔ چونکہ مضمون میرے پاس تھا۔ اور میں نے رات بھر میں مضمون کی نقل کر لی تھی۔ اس واسطے اور بھی حضرت اقدسؑ کو میرا انتظام ہوا۔
جب میں آیا تو دروازہ بند پایا ۔ دروازہ پر سینکڑوں آدمی تھے بمشکل تمام دروازہ مولوی نظام الدین صاحب مرحوم نے کھلوایا ۔ میرے ساتھ سب آدمی اندر گھس گئے اور مولوی محمد حسن صاحب اور مولوی محمد حسین صاحب کا چہرہ زرد ہوگیا ۔ مجھ سے مولوی محمد حسن صاحب نے کہا۔ کہ تم کیوں آگئے؟ میں نے کہا ہم کیسے نہ آویں ۔ کاتب مباحثہ میں ہوں۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے مضمون سنانے سے پہلے فرمایا۔کہ مولوی صاحب اب یہ مباحثہ طول پکڑگیا ہے ۔ اس کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ وفات و حیات مسیح علیہ السلام میں بحث ہونی مناسب ہے مگر مولوی صاحب کب ماننے والے تھے۔ جب حضرت اقدس علیہ السلام نے پرچہ سنانا شروع کیا تو مولوی صاحب کا چہرہ سیاہ پڑگیا اور ایسی گھبراہٹ ہوئی اور اس قدر حواس باختہ ہوئے کہ نوٹ کرنے کے لئے جب قلم اٹھایا تو زمین پر قلم مارنے لگے دوات جوں کی توں رکھی رہ گئی اور قلم چند بار زمین پر مارنے سے ٹوٹ گیا اور جب یہ حدیث آئی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ جو حدیث معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے۔ اور قرآن کو لے لیا جائے تو اس پر مولوی محمد حسین صاحب کو نہایت غصہ آیا او ر کہا یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔ اور جو یہ حدیث بخاری میں ہوتو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب کو مارے شرم کے اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور بعد کو کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں پڑی۔ اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا ہے۔ پہلے تو چند لوگوں کو اس کی خبر تھی لیکن اب مولوی صاحب ہی نے ہزاروں کو اس کی اطلاع کر دی (۱۶)
غرض کہ مولوی صاحب کو اس مباحثہ میں ہر لحاظ سے شکست ہوئی ۔ مگر مولوی صاحب کی دیدہ دلیری کہ اپنی خفت مٹانے کے لئے انہوں نے یکم اگست ۱۸۹۱ء کو ایک لمبا چوڑا اشتہار شائع کیا جو ہر قسم کے مفتریات کا مجموعہ تھا۔ ( ۱۷)
کئی ماہ بعد جبکہ یہ مباحثہ شائع ہو چکا تھا۔ دلی میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں بہت سے علماء نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر زبردست تنقید کی کہ تم نے جو مرزا صاحب سے لدھیانہ میں مباحثہ کیا ہے اس میں تم نے کیا کیا اور کیا کر کے دکھایا اصل بحث تو کچھ بھی نہ ہوئی بٹالوی صاحب نے جواب دیا کہ اصل بحث کس طرح کرتا۔ اس کا پتہ ہی نہیں ۔ قرآن شریف میں مسیحؑ کی حیات یا رفع الی السماء کا کوئی ذکر نہیں ۔ حدیثوں سے صرف نزول ثابت ہوتاہے میں مرزا صاحب کو حدیثوں پرلاتاتھا اور وہ مجھے قرآن کی طرف لے جاتے تھے۔ پھر ان علماء نے کہاکہ مرزا صاحب نے تو بحث چھاپ دی تم نے اب تک کیوں نہ چھاپی۔ بٹالوی صاحب نے کہا اشاعۃ السنہ میں چھاپوں گا۔ انہوںنے کہا اس بحث کو الگ رسالہ کی شکل میں مکمل کرکے چھپوانا تھا۔ اس طرح علماء نے انہیں بہت شرمندہ کیا۔ (۱۸)
میر عباس علی صاحب کا ارتداد :۔
میر عباس علی صاحب بظاہر تو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہی نظر آتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس سے ان کی عقیدت سفر علی گڑھ کے دوران ہی میں روبہ تنزل ہو چکی تھی۔ اور وہ لمحہ بہ لمحہ حضور ؑ سے دور جاتے جا رہے تھے۔ مباحثہ لدھیانہ کے دنوں میں مولوی محمد حسین صاحب کا جو پرچہ نقل کے بعد منگوایا جاتا تھا وہ لینے کے لئے میر صاحب ہی جاتے تھے اور بدقسمتی سے اس آمدو رفت نے ان کی رہی سہی عقیدت بھی ختم کر دی ۔ بات یہ ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب اور مولوی محمد حسن صاحب انہیں پھانسنے کے لئے بڑی خاطر تواضع کرتے اور جب جاتے تو سروقد تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میر عباس علی صاحب تم تو سید ہو آل رسول ہو تمہارا تو وہ مرتبہ ہے کہ لوگ تم سب بیعت ہوں مگر افسوس تم مرزا کے مرید ہو گئے امام مہدی تو سیدوں میں سے ہوگا یہ مغل کہاں سے بن گیا یہ دونوں مولوی میر عباس علی صاحب کے ہاتھ چومتے اور دو ایک روپیہ نذرانہ بھی دیتے اور کہتے کہ تمہاری شان تو وہ ہے کہ تم درود میں شریک ہو مگر افسوس تم کس کے مرید ہوگئے میر عباس علی صاحب تو پہلے ہی منافقت آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے تھے ۔ اب جوان جیلہ گروں کی یہ ارادت مندی دیکھی تو باچھیں کھل گئیں۔ اعتقاد متزلزل ہوگیا اورایمان کی دولت یکسر کھوبیٹھے۔ ایک روز وہ حضور کی خدمت میں آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے ایسا دعویٰ کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہم کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔ کہ میر صاحب میں نے جھوٹا دعویٰ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور قسم کھا کر کہتاہوں کہ میں خدا کی طرف سے ہوں اور سچا ہوں۔ کیا اتنے روز سے تم نے میرا کوئی جھوٹ سنایا مجھ کو جھوٹ بولتے دیکھا یا میں نے کوئی افتراء کیا یا منصوبہ باندھا۔ میں مسیح موعود اور مہدی موعود ہوں۔ یہ تقریر سن کر حضرت مولانا نور الدین ؓ پر ایسا اثر ہوا کہ ان پر وجد طاری ہوگیا۔ لیکن میر صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا۔ (۱۹)
میر صاحب اس کے بعد روز بروز معاندانہ سرگرمیوں میں بڑھتے گئے یہاں تک کہ اسی سال ۱۲۔ دسمبر ۱۸۹۱ء کو انہوں نے ایک مخالفانہ اشتہار بھی شائع کیا جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آسمانی فیصلہ میں اس اشتہار کا گو جواب دیا مگر ان کے زمانہ عقیدت و اخلاص کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اپنی جماعت کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کے حق میں دعا کریں اور میں بھی دعا کروں گا۔ نیر فرمایا ۔’’ یہ انسان کے تغیر ات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا۔ آج اس کی کیا حالت ہے پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ نیز فرمایا ’’ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے بہت رنج ہوا۔ لیکن پھر میں دیکھتاہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جوان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی۔ آخر مسیحؑ سے منحرف ہوگئے تھے۔ ‘‘(۲۰)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر امرتسر اور لدھیانہ میں دوبارہ تشریف آوری :۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے شکست کھانے کے بعد اپنی ندامت چھپانے کے لئے لدھیانہ میں ایک شورش سی برپا کر دی ۔ لدھیانہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں فساد نہ ہو جائے اس لئے ان کو لدھیانہ سے رخصت کر دینے کا حکم دے دیا۔ اس کام کے لئے ڈپٹی کمشنر صاحب نے ڈپٹی دلاور علی اور کریم بخش تھانہ دار کو مقرر کیا۔ ان لوگوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سنایا اور وہ لدھیانہ سے چل دیئے۔ پھر وہ حضرت اقدس ؑ کی طرف آئے اور سٹر ک پر کھڑے ہو کر اندر آنے کی اجازت چاہی حضرت اقدسؑ نے ان کو اجازت دے دی۔ اور اندر بلا لیا۔ وہ ڈپٹی کمشنرکا یہ پیغام لائے تھے کہ لدھیانہ میں فساد کا اندیشہ ہے بہترہے کہ آپ کچھ عرصہ کے لئے یہاں سے تشریف لے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب یہاں ہمارا کوئی کام نہیں ہے ہم جانے کو تیار ہیں لیکن سردست ہم سفر نہیں کر سکتے کیونکہ بچوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ خیر کوئی بات نہیں ، ہم ڈپٹی کمشنر سے کہ دیں گے اور ہمیں آپ کی ملاقات کا بہت شوق تھا سو شکر ہے کہ اس بہانہ سے زیارت ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت صاحب اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ایک چٹھی ڈپٹی کمشنر کے نام لکھ کر لائے۔ جس میں اپنے خاندانی حالات اور اپنی تعلیم وغیرہ کا ذکر فرمایا ۔ اور بعض خاندانی خطوط کی نقول بھی منسلک فرما دیں ۔
چٹھی کا انگریزی ترجمہ منشی غلام قادر صاحب فصیح نے کیا (۲۱) دراصل ڈپٹی دلاور علی کو ڈپٹی کمشنر کا حکم سمجھنے میں غلطی ہوگئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کا منشاء صرف مولوی محمد حسین صاحب کے اخراج کا تھا۔ تاہم یہ چٹھی ارسال کرنے کے بعد حضرت اقدسؑ احتیاطاً لدھیانہ سے امر تسر تشریف لے آئے۔
اس سفر میں حضورؑ نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی ہدایت کی۔ صبح کے وقت گاڑی امرتسر کے سٹیشن پر پہنچی ۔ شیخ نور احمد صاحب ؓ مالک مطبع ریاض ہند سٹیشن پر موجود تھے انہوں نے فوراً ایک مکان کا انتظام کیا جو ہال بازار کے قریب غربی جانب کے راستوں میں سے ایک راستہ پر تھا ۔ اور کنھیا لعل کے تھیٹر کے قریب ایک گلی میں چھوٹا سا مکان تھا ۔ اوپر کے کمرے میں حضرت اقدس کے اہل بیت فروکش ہوئے اور خود حضور اپنے تین چار خادموں کے ساتھ نیچے ٹھہرے ۔ امرتسر میں آپ کی آمد کا شہرہ ہوگیا۔ اور لوگ آپ کی زیارت کے لئے آنے لگے۔ امر تسر کے کسی معزز دوست نے حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خدام کی دعوت بھی کی جس میں مولوی احمد اللہ صاحب بھی مدعو تھے۔ دعوت کی تقریب پر مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدسؑ کے سامنے یہی مسئلہ پیش کیا کہ آپ کی بعض تحریروں سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تشریح فرمائی کہ میری مراد نبوت سے کیا ہے جس پر مولوی صاحب نے عرض کیا اچھا آپ تحریر کر دیں کہ آپ کی تحریرات میں جہاں کہیں نبوت کا لفظ ہے وہ ایسا نہیں کہ جو ختم نبوت کے منافی ہو او را س سے مراد محدثیت ہے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ میں لکھے دیتاہوں۔ چنانچہ اس وقت حضور نے ایک تحریر لکھ کر مولوی صاحب کو دے دی ۔ جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لی تا ان لوگوں کو دکھائیں جو اس وجہ سے حضرت اقدسؑ پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے (۲۲)
مولوی احمد اللہ صاحب نے حضرت اقدسؑ سے یہ بھی دریافت کیا تھا کہ اہلحدیث آپ کا یہ شعر پیش کرکے آپ پر شرک کا الزام لگاتے ہیں کہ
شان احمد را کہ داند جز خدا وند کریم
آنچناں از خود جدا شدکز میاں افتاد میم
اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت اقدس ؑ نے جواب دیا چونکہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کے مظہر اتم ہیں اس لئے جس طرح اللہ تعالیٰ خالق ہونے کے اعتبار سے ’’ احد ‘‘ ہے اسی طرح رسول کریم ﷺ اس کا مظہرا تم ہونے کے باعث تمام مخلوقات میں ’’ احد ‘‘ ہیں ۔(۲۳)
انہی دنوں ایک دفعہ بعض شریر لوگوں نے حضرت اقدسؑ کے مکان پر حملہ کرکے بالا خانہ پر چڑھنا چاہا۔ مگر آپ ؑ کے چند خدام نے بڑی ہمت سے سیڑھیوں میں کھڑے ہوکر ان شریر وں کو روکا۔ اور بعد کو پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہو منتشر ہوگئے۔
حضرت اقدسؑ کے امرت سر تشریف لانے کی خبر پر بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے پہنچ گئے۔ کپور تھلہ سے منشی محمد خاں صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب بھی آگئے اور بہت دنوں ٹھہرے رہے۔
حضورؑ کچھ دن امرتسر میں مقیم رہے۔ پھر لدھیانہ سے ڈپٹی کمشنر کی یہ چھٹی موصول ہونے پر کہ آپکو لدھیانہ میں ٹھہرنے کے وہی حقوق حاصل ہیں جیسا کہ دیگر رعایا سرکار انگریزی کو حاصل ہیں۔ حضور لدھیانہ واپس تشریف لے گئے جہاں کچھ عرصہ قیام فرما کر قادیان آگئے۔ (۲۴)
سفر دلی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا نے اپنے دعویٰ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے دوسرا سفر ہندوستان کے قدیم دارالسلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی کی طرف فرمایا ۔ حضور مع ام المومنین و میر محمد اسمٰعیل صاحب وغیرہ قادیان سے روانہ ہوکر ۲۹۔ ستمبر ۱۸۹۱ء کو دلی پہنچے اور نواب لوہاروکی دو منزلہ کوٹھی واقع محلہ بلیماراں میں قیام فرماہوئے۔ پہلی منزل میں مرد اور دوسری یعنی بالائی منزل میں حضرت ام المومنین مقیم ہوئیں۔ (۱۹) حضور کے دلی میں وار ہوتے ہی چاروں طرف یہ خبر پھیل گئی۔ اہل دلی کے ایک طبقہ نے جو مخالف ومتشد د علماء کے زیر اثر خطرناک غلط فہمیوں میں مبتلا تھا۔ خدا کے مسیحؑ سے ویسا ہی سلوک روا رکھا جیسا مامور ان الٰہی کے ساتھ منکرین حق ابتداء سے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور حضرت مسیح ناصری سے یہود نا مسعود نے کیا تھا۔ حضورجس کوٹھی میں مقیم تھے اس کے نیچے بازار میں شوریدہ سر اور آتش مزاج لوگ نہایت بیباکی و خود سری سے گندی گالیاں دیتے اور کوٹھی پر خشت باری کرتے تھے۔ (۲۰)
سید نذیر حسین صاحب دہلوی اورمولوی عبدالحق صاحب کو مباحثہ کی دعوت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہی حالات میں ۲۔ اکتوبر کو شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب ( ۱۸۰۵۔ ۱۹۰۲ء) اور شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب حقانی ( ۱۸۴۹۔ ۱۹۱۶) کو بذریعہ اشتہار قرآن وحدیث صحیح سے وفات مسیحؑ پر تحریری بحث کی کھلی دعوت دی اور لکھا کہ امن قائم رکھنے کے لئے وہ خود سرکاری انتظام کرادیں کیوں کہ میں مسافر ہوں اور اپنی عزیزقوم کا مورد عتاب !!اشتہار میں آپ نے یہ حلفیہ اقرار بھی کیا کہ اگرمیں اس بحث میں غلطی پر ثابت ہوا تو میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائوں گا۔ (۲۱)
شمس العلماء مولوی عبدالحق صاحب کی معذرت:۔
اس اشتہار کے نکلنے پر مولوی عبدالحق صاحب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور عرض کیا کہ ’’حضرت میں تو آپ کا بچہ ہوں۔ آپ میرے بزرگ ہیں آپ کا مقابلہ بھلا مجھ جیسا نا چیز آدمی کیا کرسکتا ہے۔ میرا نام اشتہار سے کاٹ دیں۔ میں ایک فقیر گوشہ نشین اور ایک زاویہ گزین درویش ہوں اور مباحثات سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ اچھا آپ ہی اپنے ہاتھ سے کاٹ دیں۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے ہاتھ سے اپنا نام کاٹ دیا۔ (۲۲)
شیخ الکل مولوی سید نذیر حسین صاحب کا انکار:۔
مولوی عبدالحق صاحب نے یوں پہلو بچایا ممکن تھا کہ مولوی نذیر حسین صاحب بھی خاموش رہتے۔ مگر حضرت اقدسؑ کی آمد سے ایک دن پہلے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پہنچ گئے۔ بٹالوی صاحب نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اپنے متشدد خیالات سے متاثر کرنا شروع کیا۔ مولوی نذیر حسین صاحب نے ان سے ایک دفعہ کہا بھی کہ بڑھاپے میں مجھے رسوانہ کرو اور اس قصے کو جانے ہی دو حضرت مسیحؑ کی جسمانی زندگی کا کہیں بھی ثبوت نہیں مل سکتا۔ لیکن مولوی محمد حسین صاحب نے ان سے کہا کہ اگر آپ ایسے کلمات زبان پر لائیں گے تو سب لوگ آپ سے پھر جائیں گے (۲۳)
شیخ الکل عمر رسیدہ تھے اپنے شاگر د کی زبان سے یہ سن کر خوفزدہ ہوگئے اور مجبوراً حضرت اقدسؑ کے مقابلے پر کمر بستہ ہونا پڑا۔ اب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے بعض دوسرے شاگردوں نے یہ شرارت کی کہ حضرت اقدسؑ کو براہ راست کسی قسم کی کوئی اطلاع دئے بغیر مباحثے کا ایک دن مقرر کرلیا اور عین وقت پر حضرت اقدسؑ کے پاس آدمی بھیجا کہ مباحثے کے لئے تشریف لائیے۔ اور ساتھ ہی دلی کے عوام کو بے بنیاد اتہمات سے مشتعل کرکے اسی دن آپ کی کوٹھی کا محاصرہ کرادیا۔ حضرت اقدسؑ کے لئے اخلاقاً اس یکطرفہ جلسہ میں پہنچنا ضروری نہیں تھا۔ مگر پھر بھی حضور نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن عین جلسہ کے وقت جب مفسد لوگوں نے صورت حال ہی بدل دی۔ تو مجبوراً یہ حالت دیکھ کر حضور بالاخانے پر چلے گئے۔ ہجوم نے کواڑوں پر حملہ کردیا اور کچھ لوگ مکان کے اندر بھی داخل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعض سرکش بالا خانے میں بھی پہنچ گئے۔ ان حالات میں حضرت اقدسؑ یہی جواب دے سکتے تھے۔ اور آپ نے یہی جواب دیا کہ خود بخود فریق ثانی کی منظوری اور شرائط کے تصفیہ کے بغیر مباحثہ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ اور مجھے عین وقت پر اطلاع دی گئی ہے اور مجھے تو اس صورت میں بھی انکار نہ ہوتا۔ مگر آپ کے شہر میں مخالفت کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں بدلگام میرے مکان کے اردگرد شرارت کی نیت سے جمع ہیں اور ذمہ دار لوگ انہیں نہیں روکتے بلکہ اشتعال انگیز الفاظ کہہ کہہ کر الٹا جوش دلاتے ہیں۔ پس جب تک میں اپنے پیچھے اپنے مکان اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کا انتظام نہ کرلوں میں نہیں جاسکتا۔ اور علاوہ ازیں ابھی تک جائے مباحثہ اور راستہ میں بھی حفظ امن کا کوئی انتظام نہیں ہے (۲۴) شیخ الکل کے شاگرد فرار کے لئے کسی بہانہ کی تلاش میں تھے اب جو حضرت اقدسؑ کی طرف سے یہ جواب ملا تو انہوں نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ اور اپنی جھوٹی فتح کا نقارہ بجاتے ہوئے شور مچانے لگے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مشورہ بھی ہوا کہ آپ کے اشتہار چھپنا بند کردو۔ یہ بڑی مشکل تھی مگر خدا تعالیٰ نے جلد ہی اس منصوبے کا تدارک بھی کر دیا۔
دلی میں ایک اہل حدیث عالم کی طرف سے ایک اشتہار نکلا کہ غلام احمد وغیرہ نام رکھنا شرک میں داخل ہے فتح پور کے ایک بڑے حنفی عالم مولوی محمد عثمان صاحب نے اس کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا کہ علماء اہلحدیث نے اس اشتہار میں دراصل ہم سب مقلدین پر طنز کی ہے کیوں کہ ہمارے نام اس قسم کے ہیں۔ اور ہم ان ناموں کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر وہ خفیہ طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ہے میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسی اپنی جان سے۔ ان لوگوں نے بڑی شرارت کی ہے میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں۔ گومیں آپ کو مسیح موعود نہیں مانتا مگر میں آپ کی طرف ہوں آپ جو اشتہار وغیرہ چھپوانا چاہیں میری معرفت چھپوائیں میرا ایک شاگرد عمدہ کاپی نویس ہے اور ایک مطبع والا میرا شاگر د ہے۔ میں اس کے مطبع میں چھپوادوں گا۔(۲۵) سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا نا ترس علماء کی مغالطٰہ انگیزیوں کا پردہ چاک کرنے اور عوام تک اصل واقعات پہنچانے کے لئے ۱۷۔ اکتوبر کو انہی کے ذریعہ سے ایک اشتہار دیا کہ میں نے اب حفاظت کا انتظام کرلیا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب جہاں چاہیں بحث کے لئے حاضر ہو جائوں گا اور ہرگز تخلف نہ کروں گا۔ وَلَعْنَۃُ اللہِ عَلٰی مَنْ تَخَلَّفَ۔ اس اشتہار میں حضور نے مولوی نذیر حسین صاحب کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر لکھا کہ وہ مرد میدان بنیں اور حیات مسیح کے متعلق تحریری مباحثہ کرلیں۔ اس اشتہار میں حضور نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اگر آپ کسی طرح بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل سن کر تین مرتبہ قسم کھا کر کہدیں کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی امر یہی ہے کہ حضرت مسیحؑ ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور یہی میرا عقیدہ ہے اس پر اگر ایک سال کے اندر اندر آپ خدا کے عبرتناک عذاب سے بچ نکلیں تو میں جھوٹا ہوں۔ ( ۲۶)
مولوی نذیر حسین صاحب نے چند روز قبل (۱۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱) حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا تھا کہ آئندہ آپ مجھے خط وکتابت سے معاف رکھیں جو کچھ کہنا ہومیرے تلامذہ مولوی عبدالمجید صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب سے کہیں اور انہی سے جواب لیں۔ (۲۷) حضرت اقدسؑ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ بقول بٹالوی صاحب شیخ الکل ہیں۔ گویا آپ سارے جہان کے مقتدا ہین اور بٹالوی صاحب اور عبدالمجید صاحب جیسے آپ کے ہزاروں شاگر ہوں گے۔ اگر بٹالوی صاحب کو ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ ساکت کر دیا جائے تو اس کا کیا اثر ہوگا۔ (۲۸)
اس اشتہار کے شائع ہوتے ہی دلی والوں میں کھلبلی مچ گئی۔ آخر انہوں نے بات یہ بنائی کہ مولوی نذیر حسین صاحب بہت بوڑھے ہیں۔ مرزا صاحب نے دیکھ لیا کہ اب مرنے والے تو ہیں ہی چلو ایسا اشتہار دے دو یہ مر جائیں گے اور ہماری بات بن جائے گی ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے اور نہ مولوی نذیر حسین صاحب یہ بات مان سکتے ہیں۔ مگر دلی کے شریف اور متین طبقے نے ان کی یہ روش دیکھ کر زور دینا شروع کیا کہ مولوی نذیر حسین صاحب قسم کھائیں۔ سچ اور جھوٹ میں واقع تمیز ہوجائے گی۔ (۲۹) چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ۲۰۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء کو عصر کی نماز کے بعد مباحثہ ہو یا قسم اٹھائی جائے۔ جو لوگ دیانتداری سے حق وباطل کا فیصلہ چاہتے تھے وہ اس دن کا شدت انتظار کرنے لگے۔ لیکن مخالف عنصر نے جس کی تعداد زیادہ تھی یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو مسجد ہی میں قتل کردینا چاہیئے۔ (۳۰)
جامع مسجد دلی میں اجتماع:۔
چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ۲۰۔ اکتوبر کی صبح ہی سے یہ پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد میں ہرگز نہ جائیں فساد کا اندیشہ ہے۔ دلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح تھی۔ مگر حضرت اقدس علیہ السلام باربار فرماتے تھے کہ کوئی پروا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے واللہ یعصمک من الناس ۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کافی ہے۔ (۳۱)
ظہرو عصر کی نماز ظہر کے وقت ہی جمع کی گئی۔ اور دوتین بگھیاں کرایہ کی منگائی گئیں۔ ایک بگھی میں حضرت اقدس علیہ السلام‘ سید امیر علی شاہ صاحب‘مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی اور ایک اور بزرگ ۔ ایک بگھی میں پیر سراج الحق صاحب۔ غلام قادر صاحب فصیح سیالکوٹی اور محمد خاں صاحب کپور تھلوی اور ایک اور بزرگ اور تیسری میں حکیم فضل دین(۳۲) صاحب بھیروی اور بعض اور بزرگ بیٹھ گئے جن سب کی تعداد حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے حواریوں کی مانند بارہ تھی ان بزرگوں میں سے باقی چھ کے نام یہ ہیں۔ شیخ رحمت اللہ صاحب۔ منشی اروڑا خان صاحب۔ حافظ حامد علی صاحب۔ میر محمد سعید صاحب( حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بھانجے) سید فضیلت علی صاحب منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی۔ (۳۳) راستے میں کئی بدبخت گھات میں بیٹھ گئے کہ بندوق سے حضور پر فائر کر دیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت !! کہ جس راہ حضرت اقدسؑ اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے۔ گویا خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بگھی والوں کے دل میں مخالفت ڈال دی اوربفضلہٖ تعالیٰ حضور بخریت مسجد جامع کے جنوبی دروازہ کی سیڑھیوں تک پہنچ کر جو آدمیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ گاڑی سے باہر تشریف لائے۔ خدام کچھ حضور کے دائیں بائیں ہو گئے اور کچھ عقب میں اور حضور نہایت متانت ووقار سے سیڑھیاں طے فرما کر دروازہ مسجد کے اندر داخل ہوئے۔ اور صحن مسجد سے گذر کر وسطی محراب مسجد میں رونق افروز ہوگئے۔ مسجد میں بھی ہزاروں کا مجمع تھا۔ جس کی تعداد اس ہجوم کی تعداد کو جو سیڑھیوں پر تھا شامل کر کے پانچ ہزار (۳۴) یا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ حضورؑ کے دائیں بائیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب وغیرہ بیٹھے اور سامنے حضرت پیر سراج الحق صاحب اور قریب ہی کتب متعلقہ مباحثہ رکھ دی گئی تھیں۔ اس اثنا میں یوروپین سپرنٹنڈنٹ پولیس اپنے ہمراہ انسپکٹر پولیس اور ایک سو سے زیادہ وردی پہنے ہوئے سپاہیوں کو لے کر آگیا۔ اور حضرت اقدسؑ کو معہ خدام حلقہ میں لے لیا۔ تھوڑے وقفہ کے بعد شیخ الکل جناب مولوی سید نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگر د ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبدالمجید صاحب انصاری دہلوی وغیرہ علماء مسجد کے شمالی دروازے سے داخل ہوکر اسی دالان میں بیٹھ گئے جس کا سلسلہ دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان لوگوں نے مسجد میں آکرنماز عصر ادا کی اور پھر اسی دالان میں جہاں پہلے بیٹھے تھے چلے گئے ۔ حضرت اقدسؑ کی طرف جو مع خدام مسجد میں تشریف رکھتے تھے نہ آئے۔
اب مولوی عبدالمجید صاحب انصاری وغیرہ جن میں مولوی محمد حسین بٹالوی شامل نہیں تھے اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور باقی علماء کے نمائندے بن کر پولیس افسر جو دالان کے باہر قریب ہی موجود تھاباتیں کرنے لگے۔ (۳۵) مولوی سید نذیر حسین صاحب اپنی جگہ خاموش بیٹھے تھے اور ان کے چہرے سے سخت پریشانی کے آثار ظاہر ہور ہے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جناب مولوی محمد نذیر حسین صاحب کو ایک رقعہ لکھاجس کا مضمون یہ تھا کہ میں موجود ہوں اب آپ جیسا کہ اشتہار ۱۷۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں میری طرف سے شائع ہو چکا ہے حیات ووفات مسیح کے بارے میں مجھ سے بحث کریں اور اگر بحث سے عاجز ہیں تو یہ قسم کھالیں کہ میرے نزدیک مسیح ابن مریم ؑ کا زندہ بجسد عنصری آسمان پر اٹھایا جانا قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بنیہ سے ثابت ہے اس قسم کے بعد اگر ایک سال تک آپ اس جھوٹے حلف کے اثر بد سے محفوظ رہے تو میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا۔
مولوی صاحب موصوف نے حضرت اقدسؑ کے رقعہ کا کوئی جواب نہ دیا۔ ہاں اپنے نمائندے کے ذریعہ سے پولیس افسر تک مباحثہ نہ کرنے کا یہ عذر پہنچا دیا کہ یہ شخص عقائد اسلام سے منحرف ہے جب تک اپنے عقائد کا ہم سے تصفیہ نہ کرلے ہم حیات ووفات مسیح علیہ السلام کے بارہ میں اس سے ہرگز بحث نہ کریں گے ۔
حضرت اقدسؑ نے سپر نٹنڈنٹ پولیس کو اس کے استفسار پر یہ جواب دیا کہ یہ ان ( مولوی نذیر حسین صاحب) کے فہم کاقصور ہے۔ ورنہ میرے تمام عقیدے اہل سنت وجماعت کے بنیادی عقائد کے بالکل مقابق ہیں ان سے انکار کرنے والے کو میں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اس صورت میں ان تمام عقائد مسلمہ میں بحث کیا کروں بحث تو اختالف کی صورت میں ہوتی ہے نہ اتفاق کی حالت میں۔ پس اصل اختلافی مسئلہ حضرت مسیحؑ کی حیات ووفات ہے لیکن مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگر د اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس بحث سے بار بار انکار کرتے رہے۔ (۳۶)
پھر قسم کے بارے میں گفتگو ہوئی اس سے بھی ان لوگوں نے انکار کیا اور کہا کہ مولوی صاحب بوڑھے اور ضعیف ہیں ہم نہ قسم کھائیں اور نہ اس پر مولوی صاحب کو آمادہ کریں۔ (۳۷) ان کے اس قسم کے عذرات سن کر خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل اور آنریری مجسٹریٹ علی گڑھ حضرت اقدسؑ کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیاکہ آپ اپنے عقائد لکھ دیں۔ لوگوں کا گمان ہے کہ آپ کے عقائد خلاف اسلام میں۔ آپ کا لکھا ہوا میں سنادوں گا۔ اور ایک نقل اس کی علی گڑھ بھی لے جائوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی وقت اپنے عقائد سے متعلق ایک بیان لکھ کر انہیں دے دیا۔ جو خواجہ محمد یوسف صاحب نے بلند آواز سے پڑھ کر سنادیا۔ اور پھر اس بات پر زور دیا کہ جب ان عقائد میں درحقیقت کوئی نزاع ہی نہیں فریقین بالاتفاق مانتے ہیں تو پھر ان میں بحث کیونکر ہو سکتی ہے ؟ بحث کے لائق تو وہ مسئلہ ہے جس میں فریقین اختلاف رکھتے ہیں یعنی وفات و حیات مسیحؑ کا مسئلہ ۔ جس کے طے ہونے سے سارا فیصلہ ہو جاتاہے بلکہ حیات مسیح کے ثبوت کی صورت میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ساتھ ہی باطل ہو جاتاہے۔ اور بار بار حضرت اقدسؑ کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے خود وعدہ کر لیا ہے کہ اگر نصوص بینہ قرآن و حدیث سے حیات مسیحؑ ثابت ہوگئی تو میں مسیح موعود ہونے کے دعوے سے دست بردار ہو جائوں گا۔ الغرض خواجہ صاحب نے بہت کوشش کی کہ علماء اس مسئلہ کی طرف آئیں۔ مگر علماء کو تو اس مسئلہ میں بحث منظور ہی نہیں تھی وہ کیوں اس طرف آتے ۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ اس وقت ایک شخص نے کھڑے ہو کر بڑے درد سے کہا کہ آج تو شیخ الکل صاحب نے دہلی کی عزت خاک میں ملادی اور ہمیں خجالت کے دریا میں ڈبو دیا۔ بعض نے کہا کہ اگر ہمارا یہ مولوی سچ پر ہوتا تو اس شخص سے ضرور بحث کرتا ۔ یہ تو نزدیک والوں کے خیالات تھے لیکن جو نادان اور جاہل دور کھڑے تھے اور جنہیں معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے وہ مشتعل ہوگئے (۳۸) اور اپنے خونی پروگرام کی تکمیل کے لئے آمادہ ہونے لگے۔ پولیس افسر نے یہ دیکھ کر کہ اب فساد ہوا چاہتاہے اپنے ماتحت افسر کو حکم دیا کہ مجمع منتشر کر دو۔ چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ کوئی مباحثہ نہیں ہوگا۔ سب چلے جائیں ۔ اس اعلان پر حضرت اقدسؑ نے اٹھنے کا قصد فرمایا مگر منشی ظفر احمد صاحب کے یہ عرض کرنے پر کہ مولوی نذیر حسین صاحب وغیرہ بھی تو رخصت ہوں رک گئے بحالیکہ مولوی صاحب موصوف اور ان کے رفقاء اسی دالان میں بیٹھے تھے جس میں دروازہ ہے ۔ اس لئے وہ چلے جانے کا اعلان ہوتے ہی دروازے سے باہر ہوچکے تھے یہ معلوم ہونے پر حضرت اقدسؑ بھی مع خدام اٹھے۔ صاحب سپر نٹندنٹ پولیس حضور کے ہمراہ تھے۔ حضور کے بارہ خادموں نے حضور کے گرد حلقہ کر لیا۔ اور ان کے گرد پولیس کے جوانوں نے ۔ بگھیوں کا دو طرفہ کرایہ ادا کردیا گیا تھا لیکن باہر آکر معلوم ہوا کہ ایک بگھی بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ایذارساں بگھی والوں کو بہکا کر پہلے ہی بھگا چکے تھے اور دوسری تمام بگھیاں وغیرہ مسجد کی سیڑھیوں تک آنے سے روک دی گئی تھیں ۔ حضرت اقدسؑ کو مع خدام کچھ دیر اس انتظار میں رکنا پڑا کہ کوئی بگھی یا گاڑی آجائے۔ شورید سروں نے جو حضرت اقدسؑ کو دیکھا تو حضور ؑ کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے یہ رنگ دیکھا تو حضورؑ سے کہا ان لوگوں کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ میری گاڑی میں تشریف لے جائیں حضور مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر اس گاڑی میں بیٹھ گئے تو صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس نے کوچ مین سے کہا کہ جہاں تک جلد ممن ہو گاڑی کو کوٹھی میں پہنچائو۔ حضورؑ کے تشریف لے جانے پر لوگوں نے حضور کے خدام سے بحث کرنی چاہی۔ چونکہ وہ موقع ایسا نہیں تھا اس لئے اعراض کیا گیا۔
جب تک حضرت اقدسؑ کو کوٹھی پر پہنچا کر گاڑی واپس نہیں آگئی صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس مسجد کی سیڑھیوں پر ٹھہرے رہے ۔ اس کے بعد حضورؑ کے خدام روانہ ہوئے تو یہ فرض شناس پولیس افسر لوگوں کو منتشر کر تا رہا۔ آخر سب خدام بھی بخیرت حضورؑ کی خدمت میں پہنچ گئے۔ (۳۹)
دہلی کے ہر طبقے کی طر ف سے مخالفت:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اہل دلی کے بعض طبقات میں سے حق پسندی و منصف مزاجی سے تعلق نہ رکھنے اور اپنے معتقدات کے خلاف کچھ سنتے ہی بھڑک اٹھنے والے تو ابتداء ہی سے خلاف انسانیت حرکات میں مشغول تھے لیکن مسجد جامع کے واقعہ نے ان طبقات کے آشفتہ دماغ آتش مزاج اشخاص کو بھی ان کی قیام گاہوں سے نکال کر میدان مخالفت میں کھڑا کر دیا۔ جواب تک پہلے مخالفت کرنے والوں کے ساتھ شامل نہیں تھے۔ بحالیکہ مخالفت کی کوئی معقول وجہ نہ تو پہلے موجود تھی نہ اب ۔ اور اب تو وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے ۔ کہ جس مسئلہ پر بحث کے لئے اور بحث نہ کرنے کی صورت میں قسم کھا کر دلائل وفات مسیح کو غلط اور اپنے عقیدہ حیات مسیحؑ کو صحیح قرار دینے کا مولوی محمد نذیر حسین صاحب سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ وہ انہوں نے پورا نہیں کیا ہے یعنی نہ تو مسئلہ مذکورہ میں بحث کی ہے اور نہ حسب مطالبہ قسم کھائی ہے ۔ اس حالت میں حضرت اقدسؑ کے خلاف جوش و خروش کی تو ان کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اپنے شیخ الکل پر غصہ کرنے یا کم ازکم ان کی اس حالت پر کہ نہ انہوں نے بحث کی ہے اور نہ مطالبہ قسم پورا کیا ہے متاسف ہونے کا موقعہ تھا۔ اگر وہ اس امر پر ایک طالب تحقیق کی طرح غور کرتے کہ مولوی سید نذیر حسین صاحب جیسے شہرہ آفاق عالم نے مسئلہ حیات و فات مسیحؑ میں بحث کیوں نہیں کی اور بحث نہ کر سکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کیوں نہ کھائی عقیدہ حیات مسیحؑ کی حقیقت ان سے مخفی نہ رہتی ۔ اور ان کی سمجھ میں آجاتا کہ جب شیخ الکل نے اس مسئلہ میں بحث نہیں کی اور حسب مطالبہ قسم نہیں کھائی تو ہمارے شور مخالفت برپا کرنے سے کیا ہاتھ آئے گا اور اس سے حیات مسیحؑ کا عقیدہ کس طرح صحیح ثابت ہوجائے اس اختلافی مسئلہ کی صحت و عدم صحت معلوم کرنے کا ذریعہ تواز روئے آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ مبادلہ خیالات ہی ہے نہ اختلاف رکھنے والے کے خلاف شورو غوغا اور طوفان مزخرفات اور یہ سمجھ کر وہ اپنے ہنگامہ بے جاو حرکات نارو اسے باز آجاتے ۔ لیکن چونکہ وہ مخالف علما ء کے لگائے ہوئے غلط الزاموں اور باطل اتہاموں سے اتنے متاثرو مشتعل ہوچکے تھے کہ ان میں حضرت اقدسؑ کے خلا ف ہنگامے برپا کرنے اور اشتعال پھیلانے کے سوا کسی اور امر کی طرف توجہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی تھی۔ اس لئے وہ مخالفت ہی میں سر گرم رہے اور یہ مخالفت خاص خاص طبقات کے شورش پسند افراد تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے پیروں فقیروں اور مغربیت زدہ وغیرہ گروہوں کے افراد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور پہلے پچھلے دونوں قسم کے مخالف اپنی اپنی مناسبت طبع اور ذوق فطری کے مطابق جو ہر دنائت و سفاہت کا مظاہرہ کرنے اور شرافت اور انسانیت کو شرمانے لگے اس موقعہ پر ان کی کارستانیوں اور کرتوتوں کی بہت سی گونا گوں مثالوں میں سے صرف ایک ہلکی سی مثال پیش کی جاتی ہے۔ اور یہ مثال ہے بھی ان کی جو مشہور صحافی بھی ہیں اور بہت سی کتابوں کے مولف و مصنف بھی اور جنہوں نے قرآن شریف اور بخاری شریف کا ترجمہ بھی کیا ہے اور جن کا نام ہے مولوی امراء مرزا حیات حیرت دہلوی (۱۸۵۸۔۱۹۲۸) آپ مغربیت کے دلدادہ ، اور اس پر فخر کرنے والے بھی تھے۔ اور زمرہ علماء میں سے ہونے کا غرہ رکھنے والے بھی۔ آپ نے بعض اور علماء کے مشورہ سے اس مضمون کا ایک اشتہار چھپوایا۔ کہ اصل مسیحؑ میں ہوں جو آسمان سے اتراہوں اور دلی میں دجال آیا ہوا ہے اور آپ یہ اشتہار لے کر فتح گڑھ کے منارپر چڑھ گئے اور وہاں سے یہ اشتہار پھینکنے لگے ۔ حضرت اقدس ؑ نے حیرت صاحب کی اس سفلہ خوئی پر اشتہار مورخہ ۲۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء میں دلی والوں کو بڑی شرم دلائی ہے ۔ پھر یہی مرزا حیرت صاحب ایک روز پولیس افسر بن کر حضرت اقدسؑ کے پاس آئے اور کہا میں سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں۔ اور مجھے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ سے دریافت کروں کہ آپ کس غرض کے لئے آئے ہیں اور کس قدر عرصہ ٹھہریں گے ۔ اور اگرکوئی فساد ہو تو اس کا ذمہ دار کون ہے ۔ آپ مجھے اپنا بیان لکھوادیں بلکہ یہاں تک کہا کہ سرکار سے حکم ہواہے کہ یہاں سے فوراً چلے جائو ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ حضرت اقدس ؑ نے مرزا حیرت کی طرف ذرہ بھی التفات نہ کیا۔ صرف سید امیر علی شاہ صاحب نے جو اہلکار پولیس تھے ان سے کچھ دریافت کرنا چاہا ۔تووہ گھبرائے اور اپنا بھرم کھلتا دیکھ کر چلتے بنے۔
اس مثال سے قیاس ہوسکتا ہے کہ جو شخص بہت سی کتابوں کا منصف ومولف ہواورقرآن کریم اوربخاری شریف کے مترجم ہونے کا حوصلہ رکھنے والا بھی ہو جوش مخالفت میں ایسی ذلیل وشرمناک حرکتوں سے باز نہ رہ سکا تو اسی جیسا علم اور دل ودماغ رکھنے والوں اورپھر عوام کالانعام کا کیا حال ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے طبائع کافرق بھی کتنا عجیب ہے جہاں دلی کے ہزاروں آتش مزاجوں اور شورش پسندوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ خیال نہ ہوا کہ مطالبہ تو مسئلہ حیات ووفات حضرت مسیح علیہ السلام میں مباحثہ کا ہے اور وہ پورا ہوسکتا ہے مولوی سید نذیر حسین صاحب کے مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ کرلینے یا نہ کرسکنے کی حالت میں حسب مطالبہ قسم کھالینے سے ہماری زشت کاریوں اورکشت باریوں اور تمسخرواستہزاء وغیرہ سے وہ کس طرح پورا ہوجائے گا وہاں دلی ہی کے شریف وشائستہ متین وسنجیدہ اور امن پسند لوگوں کو ابتداء ہی سے یہ خیال تھا۔ کہ ایک معزز شخص اپنے چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر ہندوستان کے قدیمی دارالسلطنت اور مشہور علمی مرکز دلی میں وارد ہوا ہے اوراس نے علمی لحاظ سے اس شہر کی عظیم شخصیت سے مسئلہ حیات ووفات حضرت مسیحؑ میں مباحثہ کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ اقرار بھی شائع کردیا ہے کہ اگرازروئے آیات قرآنیہ وواحادیث صحیحیہ حیات حضرت مسیحؑ ثابت کردی گئی تو اس نے وفات حضرت مسیحؑ کے ثبوت میں جو کتابیں لکھی ہیں وہ جلادے گا ۔اور حیات حضرت مسیحؑ ثابت کرنے والے کے ہاتھ پر بیعت کرلے گا۔
کیا انصافاً یہ مطالبہ ایسا ہے جو اینت پتھر گالی گلوچ اور تمسخر اور استہزاء یا اسی قسم کی اور حرکات بے جا وناروا کے ذریعہ ٹال دیا جائے ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ ہرگز ایسا نہیں بلکہ یہ تو ایسا مطالبہ ہے جس کا پورا کیا جانا اشد ضروری ہے اور مسئلہ متنازعہ حیات ووفات مسیح میں ضرور مباحثہ ہونا چاہئے ۔ لیکن اگر ایسا نہ ہوا اورطالب مباحثہ کی جائے قیام پر یورش اور کواڑ توڑ کر اندر گھسنے اور حسب حوصلہ دل کی بھڑاس نکالنے کا جوش وخروش ٹھنڈا نہ ہوگیا اورچند مسافر مصائب مسلسل کو برداشت نہ کرکے مباحثہ کئے بغیر ہی شہر سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے تو نتیجہ نہایت افسوسناک ہوگا۔ دنیا اسے کبھی اچھی نظر سے نہ دیکھے گی علماء کے اعتبار ووقار میں فرق پڑے گا۔ حیات مسیحؑ کے عقیدے میں تزلزل پیدا ہوجائے گا بہت سے اسے چھوڑ دیں گے اوربہت سے تذبذب میں پڑجائیں گے ان تمام امور کے لحاظ سے مباحثہ ہوجانے کی بے حد ضرورت ہے اورکوشش ہونی چاہیے کہ مباحثہ ضرور ہوجائے چنانچہ ایسے ہی خیال والوں میں سے ایک معاملہ فہم ومحل شناس انسان کو مباحثہ کا انتظام کردینے کی توفیق مل گئی۔
علی جاں والوں کی طرف سے مولوی محمد بشیر صاحب کو دعوت مباحثہ:۔ علی جان والوں کو جو دلی میں ٹوپیوں کی ایک بڑی فرم کے مالک اورمذہبا اہلحدیث تھے اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر ابتدا ہی سے یہ علم تھا کہ دلی کے علماء خواہ وہ احناف میں سے ہوں یا اہلحدیث میں سے۔ آپ کے ساتھ مسئلہ حیات ووفات مسیحؑ میں مباحثہ کرنے کے لئے حقیقتاً ایک بھی آمادہ نہیں ۔اشتہار شائع کئے جائیں گے تقریریں ہوں گی مگر مسئلہ مذکورہ میں مباحثہ ہرگز نہ کیا جائے گا وہ خود یہی یقین رکھتے تھے کہ حیات حضرت مسیحؑ کا عقیدہ ایک اسلامی عقیدہ اورقرآن وحدیث سے ثابت ہے پھراس میں مباحثہ نہ کرنا کیا معنے۔ انہیں بڑا دکھ تھا کہ اس مسئلہ میں مباحثہ نہ کئے جانے سے تو عقیدہ حیات مسیح کو بڑی ٹھیس لگے گی اوریہ بالکل ہی متزلزل ہوجائے گا علماء دلی سے وہ مایوس چکے تھے اس مسئلہ میں مباحثہ کو ضروری سمجھتے تھے اس حالت میں وہ مجبو ر ہوگئے کہ باہر کے علماء میں سے کسی کو اس مباحثہ کے لئے آمادہ کریں اورباہر والوں میں سے ان نظر مولوی سید محمد بشیر صاحب سہسوانی کے سوا اورکسی کی طرف کہاں جاسکتی تھی وہ اس زمانے کے بہت بڑے عالم بھی تھے اور علی جان والوں کے ہم مذہب بھی ۔آخر اس مباحثہ کے لئے ان کی منظوری حاصل کرلی گئی۔
مولوی سید محمد بشیرسہسواں ضلع بدایوں کے رہنے والے اوراہل حدیث کے ایک مشہور وجید عالم تھے اور بعض دوسرے علماء اہل حدیث کی طرح نواب سید محمد صدیق حسن خاں رئیس بھوپال کے قائم فرمائے ہوئے اشاعتی ادارے سے وابستہ ، اورمولانا سید محمد احسن صاحب امروہی کی طرح اس کے ممتاز رکن تھے ۔ اور حضرت اقدسؑ کی کتاب’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے بعد حضور کی فضیلت علمی اور وجاہت وعظمت روحانی کا جو اثر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی وغیرہ کثیر علماء پر ہوا تھا اس سے یہ دونوں موصوف الصدر علماء بھی خالی نہیں تھے لیکن جب حضرت اقدسؑ نے یہ اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موسوی علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں ۔ اورامت محمدیہ میں جس مسیح کی آمد کی مثردہ دیا اور وعدہ کیا گیا تھا وہ مسیح میں ہوں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس نہایت ہی عجیب وغریب خیال کی بناء پر کہ اس اعلان سے پہلے مجھ سے مشورہ کریں نہیں کیا گیا۔ سرکشی وسرتابی اختیار کرلی اور بڑے جوش وخروش سے مخالفت شروع کردی۔ مگر باقی دونوں مذکورہ علماء حضرت اقدس ؑ کے دعویٰ پر علیحدہ علیحدہ بھی غور کرنے لگے۔ اورباہم مبادلہ خیالات کے ذریعہ سے بھی دونوں صاحبوں میں گفتگو تو ہوا ہی کرتی تھی مگر کسی مقررہ مقام پر نہیں ۔ آخر مولوی محمد بشیر صاحب کے اس مشورہ پر کہ ان مسائل میں برملا گفتگو مناسب نہیں ۔عوام الناس میں مخالفت پیدا ہوتی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ خلوت میں گفتگو ہوا کرے ۔اورمولوی صاحب موصوف ہی کی تجویز وخواہش پر یہ مبادلہ خیالات مولانا محمد احسن صاحب کے مکان پر خلوت میں ہونے لگا۔ یہ مبادلہ خیالات مناظرانہ ومخالفانہ نہیں بلکہ محققانہ ومحبانہ تھا اور دونوں حضرات نے اس تسمیہ عہد کے عد شروع کیا کہ جو امر صحیح ثابت ہوگا وہ ضرور قبول کرلیا جائے گا۔ پہلے روز مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے غیر مطبوعہ رسالہ اعلام الناس جو آپ نے وفات مسیحؑ کے ثبوت اور مولوی عبدالحق غزنولی کے رد میں لکھا تھا مولوی محمد بشیر صاحب کو سنانا شروع کیا۔ تاجس امر سے انہیں اختلاف ہواس پر مبادلہ خیالات ہوجائے۔ مولوی محمد بشیر صاحب نے صرف ایک جگہ اختلاف کیا اور اتنا مضمون مولانا محمد احسن صاحب نے اپنے رسالہ سے خارج کردیا۔ باقی تمام مضمون سے اتفاق کیا۔ اور نہ صرف اتفاق بلکہ جابجا تائیدی مضمون بھی بیان کئے جومولوی محمد احسن صاحب نے اس رسالے میں شامل کرلئے۔ باقی امور میں مبادلہ خیالات جاری تھا کہ اس خلوت کے مبادلہ خیالات اور دوسرے لوگوں کو علم ہوکر عام چرچا ہوگیا اور ابھی اس مبادلہ خیالات کے صرف تین ہی جلسے ہوپائے تھے کہ یہ سلسلہ ختم کردینا پڑا اور مولوی محمد بشیر صاحب جس بات سے ڈرتے تھے وہ ہو کر رہی اور جابجا ذکر ہونے لگا کہ یہ دونوں مولوی قادیانی خیالات کے ہوگئے ہیں ان کی وجہ سے یہاں قادیانیت پھیلنے کا سخت خطرہ پیدا ہوگیا ہے ۔ مولاناسید محمد احسن صاحب نے تو اس کی پروانہ کی۔ اور حضرت اقدسؑ کی بیعت کر لی۔ لیکن مولوی محمد بشیر صاحب یہ جرات نہ کر سکے۔ (۴۲)
مولانا محمد احسن صاحب کی بیعت کر لینے سے عوام کے اس خیال کو بڑی تقویت حاصل ہوگئی کہ دونوں مولوی قادیانی ہوگئے ہیں اور کہا جانے لگا کہ ایک تو بے نقاب ہوگئے دوسرے جو کسی مصلحت سے رکے ہوئے ہیں حشران کا بھی وہی ہونا ہے جو پہلے کا ہو چکاہے ۔ مولوی محمد بشیر صاحب لوگوں کے ان خیالات و مقالات سے بے خبر نہیں تھے انہوں نے لوگوں کو ان خیالات سے روکنے کے لئے حضرت اقدسؑ کے خلاف تقریریں شروع کر دیں اور یہ سلسلہ جاری تھا کہ علی جان والوں نے ان سے دلی تشریف لا کر حضرت اقدسؑ سے مسئلہ حیات و فات حضرت مسیح علیہ السلام میں بحث کرنے کی درخواست کی اور مولوی صاحب نے یہ سمجھ کر کہ دلی پہنچ کر اس مسئلہ میں بحث کرنے سے وہ الزامات جو ان پر عائد کے گئے اور کئے جارہے ہیں بڑی صفائی سے دور ہو جائیں گے اور ہم جس چیز کو حاصل کرنے کی دنوں سے کوشش کر رہے ہیں وہ بڑی آسانی سے حاصل ہو جائے گی۔ بڑی خوشی سے منظور کر لی تھی۔ اور جب دلی والوں نے انہیں بلایا تو وہ دلی پہنچ گئے ۔
مولوی محمد بشیر صاحب دلی میں :۔
مولوی صاحب موصوف جب دلی تشریف لے آئے تو غیر مقلد و مقلددونوں قسم کے علماء نے جو مسئلہ حیات و وفات مسیح میں بحث ہونا کسی طرح مناسب نہیں سمجھتے تھے اور جس طرح بھی ٹال سکے اب تک اسے ٹالتے آئے تھے۔ جمع ہو کر ان سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس حیات مسیح پر وہ کونسی قطعی الدلالت آیت ہے جو آپ ( حضرت اقدس) مرزا صاحب کے مقابلے میں پیش کریں گے مولوی محمد بشیر صاحب نے آیت وان من اھل الکتب الا لیومنن بہ قبل موتہ پڑھی ۔ علماء نے کہا مولوی صاحب ! اس آیت شریفہ سے تو اشارتا! کنایتہ بھی حیات مسیح نہیں نکلتی ۔ مولوی صاحب نے کہا میں تو یہی آیت پیش کروں گا۔ تمام علماء نے کہا کہ ہم اس معاملے میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں اور آپ کی فتح و شکست کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ مگر مولوی صاحب نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی۔ اور ان سے بالکل بے نیاز ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست بھیج دی۔ کہ آپ مجھ سے مسئلہ حیات و وفات اور نزول مسیحؑ پر مباحثہ کر لیں۔ حضورنے وہ منظور فرمالی اور مباحثے کی پانچ ضروری شرائط بھی بھجوادیں کہ مباحثہ تحریری ہوگا۔ فریقین کی طرف سے پانچ پانچ پرچے ہوں گے اور پہلا پرچہ آپ کا ہوگا اور سب سے قبل مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر مباحثہ ہوگا۔ اس کے بعد نزول مسیحؑ اور پھر آپ کے مسیح موعود ہونے کی بحث ہوگی۔ مباحثہ کی تاریخ ۲۳۔ اکتوبر ۱۸۹۱ء مطابق ۱۹۔ ربیع الاول ۱۳۰۹ھ قرار پائی ( ۴۳)
مباحثے کا آغاز :۔
دوسرے دن صبح ۲۳۔ اکتوبر کو مباحثے کا اہتمام شروع ہوا۔ ایک بڑا لمبا دالان تھا جس کے ایک کمرے میں مولوی عبدالکریم صاحب منشی عبدالقدوس صاحب (اخبار ’’صحیفہ قدسی‘‘ کے غیر احمدی ایڈیٹر) منشی ظفر احمد صاحب، پیر سراج الحق صاحب اور حضور کے بعض دوسرے خدام بیٹھے تھے کہ مولوی محمد بشیر صاحب بھی اپنے چند رفقاء سمیت آگئے۔ حضور علیہ السلام مولوی محمد بشیر صاحب کی آمد کی اطلاع پر بالا خانے سے نیچے تشریف لائے۔ السلام علیکم اور وعلیکیم السلام کے بعد مولوی محمد بشیر صاحب نے مصافحہ بھی کیا اور معانقہ بھی۔ اس کے بعد حضرت اقدس اور تمام حاضرین بیٹھ گئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مباحثہ شروع ہونے سے قبل اپنے دعویٰ سے متعلق مولوی محمد بشیر صاحب اور ان کے رفقاء کو مخاطب کرکے ایک پر معارف تقریر فرمائی ۔ حضورؑ کی یہ تقریر ابھی جاری ہی تھی کہ مولوی محمد بشیر صاحب دوران تقریر ہی میں بول اٹھے کہ آپ اجازت دیں تو میں دالان کے پرلے گوشے میں جابیٹھوں اور وہاں کچھ لکھوں ۔ دالان میں بہت سے آدمی علی جان والوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ۔ بہت اچھا!! چنانچہ مولوی صاحب دالان کے اس گوشہ میں جابیٹھے اور جو مضمون گھر سے لکھ کر لائے تھے نقل کروانے لگے۔ (۴۴) حالانکہ شرط یہ تھی کہ کوئی اپنا پہلا مضمون نہ لکھے بلکہ جو کچھ لکھنا ہوگا وہ اسی وقت جلسہ بحث میں لکھنا ہوگا۔ اس خلاف ورزی پر مولانا عبدالکریم صاحب نے کہا یہ تو خلاف شرط ہے ۔ پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ حضور اجازت دیں تو میں مولوی صاحب سے کہہ دوں کہ آپ لکھا ہوا تو لائے ہیں یہی دے دیجئے۔ تاکہ اس کا جواب لکھا جائے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کی بکراہت اجازت دے دی۔ انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب لکھے ہوئے مضمون کو نقل کرانے کی کیا ضرورت ہے دیر ہوتی ہے لکھا ہوا مضمون دے دیجئے۔ تاکہ ادھر سے جلدی جواب لکھا جائے۔ اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے کہا کہ حضرت صاحب خالی بیٹھے ہیں جب آپ سوال لکھ کر ہی لائے ہیں تو وہی دے دیں تا حضور جواب لکھیں۔ مولوی صاحب نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے گھبرا کر جواب دیا۔ نہیں نہیں میں مضمون لکھ کر تو نہیں لایا صرف نوٹ لکھ لایا تھا۔ جنہیں مفصل لکھ رہا ہوں۔ حالانکہ وہ مضمون کو حرف بحرف ہی لکھوا رہے تھے اس کے جواب میں پیر صاحب نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر حضرت اقدسؑ نے انہیں روک دیا۔ اور حضور نے منشی ظفر احمد صاحب سے یہ فرمایا کر کہ جب مولوی صاحب مضمون دیں تو مجھے بھیج دیا جائے۔ بالاخانے پر تشریف لے گئے اور مولوی صاحب کے مضمون دینے پر منشی صاحب نے وہ لے جاکر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضرت اقدسؑ نے مولوی صاحب کے مضمون پر پہلے صفحہ سے لے کر آخر صفحہ تک بہت تیزی سے نظر فرمائی اور اس کا جواب لکھنا شروع کر دیا۔ جب مضمون کے دو ورق تیار ہوگئے تو حضور منشی ظفر احمد صاحب کو نیچے نقل کرنے کو دے آئے۔ ایک ایک ورق لے کر مولوی عبدالکریم صاحب اور عبدالقدوس صاحب نے نقل کرنا شروع کیا۔ اسی طرح منشی صاحب حضرت صاحب کا مسودہ لاتے اور یہ دونوں صاحب نقل کرتے رہتے ۔ حضرت اقدسؑ اتنی تیزی سے لکھ رہے تھے کہ عبدالقدوس صاحب جو خود بھی بڑے زودنویس تھے متحیر ہوگئے ۔ اور حضور کی تحریر پر انگلی کا پورا لگا کر سیاہی دیکھنے لگے کہ یہ کہیں پہلے کا لکھا ہوا تو نہیں ۔ منشی ظفر احمد صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہوگا۔ کہ جواب پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ حضرت اقدسؑ کی یہ حیرت انگیز قوت تصنیف دیکھ کر مولوی محمد بشیر صاحب کو حضور کی خدمت میں درخواست کرنی پڑی کہ اگر آپ اجازت دیدیں تو میں کل اپنے جائے قیام ہی سے جواب لکھ لائوں۔ حضور نے بے تامل اجازت دیدی اور پھر مولوی صاحب نے مباحثہ کے ختم ہونے تک یہی طریقہ رکھا۔ کہ حضرت اقدسؑ کا مضمون ملنے پر حضور سے اجازت لے کر اپنے جائے قیام پر چلے جاتے اور مضمون وہیں سے لکھ کر لاتے انہوں نے سامنے بیٹھ کر کوئی مضمون تحریر نہیں کیا۔
اب فریقین کے تین تین پرچے ہوچکے تھے اور مولوی صاحب کے اس مسئلہ سے متعلق جو ذخیرہ تھا وہ ختم ہو چکا تھا جو کچھ انہوںنے کہنا تھا وہ انہوں نے کہہ لیا تھا۔ اور حضرت اقدسؑ نے ان کی ہر دلیل کا جواب دیدیا تھا اور جو پرچے لکھے جا چکے وہ ہر منصف مزاج طالب تحقیق کے لئے کافی تھے۔ مباحثہ کوخواہ مخواہ طول دینا وقت کو ضائع کرناتھا۔ اور جب مولوی صاحب نے سامنے بیٹھ کر لکھنے کی شرط پر عمل کرنے سے روگردانی کر لی تھی مضمون گھر سے لکھ کر لاتے تھے اور اس قسم کا مباحثہ اپنے اپنے مقام پر موجود رہ کر بھی ہو سکتا تھا اس کے لئے حضور کے دلی میں مقیم رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے حضورؑ نے فریقین کے تین تین پرچے تحریر ہوجانے پر مباحثہ ختم کر دیا۔ اور مولوی صاحب سے فرمایا کہ جب آپ کے پاس کوئی دلیل ہی نہیں رہی تو پھر خواہ مخواہ تحریر بڑھانے سے کیا فائدہ ؟ بحث ختم ہو جانے پر مولوی محمد بشیر صاحب حضرت اقدسؑ سے ملنے آئے اور کہا کہ میرے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے آپ کو اس بحث کے لئے جو تکلیف دی ہے اس کی معافی چاہتاہوں۔(۴۵)
اس مباحثہ کی روداد’’ الحق دہلی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی
سفر لدھیانہ
مباحثہ دلی کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع اہل بیت لدھیانہ تشریف لائے اور یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب فرمایا۔ سیالکوٹ وغیرہ شہروں سے بہت سے خدام آئے ہوئے تھے۔ تقریر کے بعد منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی نے عرض کیا کہ حضور ہماری مسجد کا مقدمہ دائرہے۔ شہر کے تمام رئیس اور کپور تھلہ کے جملہ حکام فریق مخالف کی امداد کر رہے ہیں اور ہم چند احمدیوں کی بات بھی کوئی نہیں سنتا۔ حضور دعا فرمائیں ۔ منشی فیاض علی صاحب کے عرض کرنے پر حضور نے جلالی رنگ میں فرمایا ۔’’ اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو مسجد تمہارے پاس واپس آئے گی ‘‘منشی صاحب نے یہ پیشگوئی مدعا علیہم اور شہر والوں کو سنادی ۔ اور مسجد میں ایک تحریر بھی لکھ کر چسپاں کر دی۔ اب اتفاق یہ ہوا کہ چیف کورٹ کے جج نے پہلی ہی پیشی میں فریقین کی موجودگی میں کہہ دیا۔ کہ مسجد کا بانی غیر احمدی تھا۔ لہٰذا احمدی اپنی مسجد علیحدہ بنالیں۔ میں پرسوں مسل پر حکم لکھ دوں گا۔ جج کے اس زبانی فیصلہ پر غیروں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر خوب مذاق اڑایا۔ لیکن تیسرے ہی دن ان کی ساری خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ عین اس وقت جب کہ یہ جج عدالت میں جانے سے قبل گھر میں حقہ کی انتظار میں بیٹھا تھا اس کی حرکت قلب بند ہوگئی اور وہ مسل پر حکم لکھنے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے کر کوچ کر گیا۔ اس حادثہ کے بعد چیف کورٹ کی طرف انگریزی علاقہ سے ایک آریہ بیر سٹر کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس سے مقدمہ کے بارے میں رائے طلب کی گئی اس مقدمہ پر فریق مخالف نے حصول مقصد کے لئے ہر ممکن کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ اور بالا خر ۱۹۰۵ء میں احمدیوں کے حق میں فیصلہ دیدیا گیا اور مسجد احمدیوںکو مل گئی ۔ (۴۶)
سفر پٹیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام لدھیانے سے پٹیالہ تشریف لے گئے جہاں حضور کے خسر میر ناصر نواب صاحب ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے۔ حضور کے یہاں ورود فرماتے ہی مولوی محمد اسحاق صاحب وغیرہ نے آپ کے خلاف عوام میں مخالف کی آگ سی لگادی ۔ وہ قیام پٹیالہ کے دوران میں ایک دن ( ۳۰۔ اکتوبر) حضر ت اقدسؑ کی فرودگاہ پر آئے اور حضور سے وفات مسیحؑ کے متعلق بالمشافہ گفتگو کی۔ مولوی محمد اسحاق صاحب نے دوسرے علماء کے مسلک سے کچھ اختلاف کرتے ہوئے کہا ۔ کہ اس قدر تو ہم بھی مانتے ہیں۔ کہ بعض احادیث میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم چند گھنٹے کے لئے ضرور فوت ہوگئے تھے مگر وہ پھر زندہ ہو کر آسمان پر چلے گئے تھے۔ اور پھر کسی وقت زمین پر اتریں گے ۔ حضرت اقدسؑ نے اس کے جواب میں ایک نہایت مبسوط تقریر فرمائی۔ اور قرآن و حدیث کے متعدد دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یقینی طور پر فوت ہو چکے ہیں۔
مولوی محمد اسحاق صاحب کے ہمراہ ایک دوسرے عالم مولوی غلام مرتضیٰ صاحب بھیروی بھی آئے تھے جنہوں نے ایک مسئلہ کی تحقیق میں استہزاء شروع کر دیا۔ اس پر مولوی محمد عبداللہ صاحب پروفیسر مہندر کالج پٹیالہ نے ( جو اس وقت احمدی نہیں تھے) کہا ۔ مولوی صاحب آپ نے تہذیب سے کام نہیں لیا۔ آپ کی مولویا نہ شان سے بعید ہے کہ ایسی سوقیانہ باتیں کریں۔ بعد میں حضرت اقدسؑ نے مولوی عبداللہ صاحب سنوری سے دریافت فرمای کہ یہ کون صاحب تھے جنہوں نے مولوی غلام مرتضیٰ صاحب کو ڈانٹا۔ ان سے ایمان کی خوشبو آتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہو ااور پروفیسر محمد عبداللہ صاحب اپنے خاندان سمیت بیعت میں داخل ہوگئے (۴۷)
مولوی محمد اسحاق صاحب پر اتمام حجت:۔
مولوی محمد اسحاق صاحب اور ان کے رفقاء نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے مشہور کر دیا کہ انہوں نے اس گفتگو میں فتح پائی ۔ حضرت اقدسؑ نے پٹیالہ کے عوام کو اس گمراہ کن پراپیگنڈہ سے بچانے کی غرض سے ۳۱۔ اکتوبر کو ایک اشتہار میں اصل واقعات لکھ دئیے اور مولوی محمد اسحاق صاحب کو تحریری مباحثہ کا کھلا چیلنج دیا۔ مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی ۔ (۴۸)
حضرت اقدس علیہ السلام پٹیالہ میں مختصر قیام کے بعد واپس قادیان تشریف لے آئے۔








ماموریت کا گیارھواں سال
سفر لاہور
(۱۸۹۲ء)
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جنوری ۱۸۹۲ء کے تیسرے ہفتہ میں لاہور والوں پر اتمام حجت کے لئے سفر لاہو راختیار فرمایا۔ حضورؑ لاہور اسٹیشن سے قیامگاہ تک یکے میں سوار ہو کر پہنچے ۔ ابتداًء حضور نے منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر لاہور کی کوٹھی واقع چونا منڈی میں قیام فرمایا:لیکن جب وہ جگہ کافی نہ رہی تو آپ محبوب رایوں کے مکان واقع ہیرا منڈی میں تشریف لے گئے۔
ایک فاتر العقل شخص کا حملہ:۔
حضرت اقدسؑ قیام لاہو رکے دوران میں مسجد مولوی رحیم اللہ صاحب میں جو (لنگے منڈی میں میاں چراغ الدین صاحب کے مکانات کے سامنے تھی) نمازیں ادا فرماتے تھے ایک روز حضور ظہر یا عصر کی نماز پڑھ کر سیدھا مٹھا بازار کی طرف تشریف لے جا رہے تھے جہاں حضور محبوب رایوں کے مکان میں مقیم تھے۔ حضور کے پیچھے خدام دس گز کے فاصلے پر تھے۔ کہ ایک شخص اچانک آکر لپٹ گیا اور شور مچانے لگا کہ مہدی تو میں ہوں تم نے کیوں دعویٰ کیاہے ؟ وہ نہ تو آپ کو اٹھا سکا نہ گراسکا۔ حضرت اقدسؑ کے بعض خدام نے اسے پکڑ کر الگ کر دیا۔ وہ اسے مارنا چاہتے تھے مگر حضور نے مسکراکے ارشاد فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہوجانے دو ۔ معذور ہے وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عہد ہ میں نے سنبھال لیاہے ۔
حضرت اقدسؑ کی طرف سے صبرکا ایک بے نظیر نمونہ :۔
حضرت اقدسؑ جہاں ٹھہرے تھے وہاں لاہور کے مسلمان ہندو مرد عورت ہر مذہب و ملت کے لوگ بڑی کثرت سے آتے مختلف سوال کرتے تھے ۔ حضرت اقدسؑ ان کے شافی جوابات دیتے اور وہ بادب سنتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت اقدسؑ مجلس میں تشریف فرماتھے اور منشی شمس الدین صاحب جنرل سیکرٹری حضورؑ کے ارشاد سے رسالہ’’ آسمانی فیصلہ ‘‘ سنا رہے تھے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب (۱) گولڑوی کے کسی بدزبان مرید نے حضور گو نہایت گندی گالیاں دینا شروع کر دیں۔ حضورؑ خاموش سر جھکائے اور ریش مبارک پر ہاتھ رکھے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوگیا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔ کہ کچھ اور بھی کہنا ہے تو کہہ ڈالو اس پر وہ بہت نادم ہو کر معافی کا خواستگار ہوا۔ جب وہ چلا گیا تو حاضرین میں سے ایک تعلیم یافتہ برہموسماجی لیڈر نے کہا کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام ) کے تحمل کے متعلق تو بہت کچھ پڑھا تھا مگر جو نمونہ آج دیکھنے میں آیا ہے یہ یقینا آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے ۔
لاہور کے ’’ پیسہ‘‘ اخبار( ۲۲۔ فروری ۱۸۹۲ء ) نے لکھا:۔
’’جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں۔
مرزا صاحب دو ہفتے سے لاہور میں تشریف رکھتے تھے ۔ لاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں۔ ہر شخص گھر میں ہر دکان بازار میں ۔ دفتر میں مرزا صاحب اور ان کے دعویٰ مماثلت مسیح کا ذکر کرتاہے ۔ آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں۔ مگر ہم نے عمداً اس بحث کو نہیں چھیڑا۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے پیسہ اخبار کو ئی مذہبی اخبار نہیں ۔ مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہوگیا ہے ۔ اور کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے ۔ اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کرتے ہیں۔ مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے ۔ کوئی مسلمان زنا کرے چوری کرے ۔ الحاد کا قائل ہو۔ شراب پئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے کبھی علمائے اسلام اس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے۔ مگر ایک باخدا مولوی جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعداری کرتاہے بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانا جاتا ہے ۔
گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ و ارد
وائے گر ازپس امروز بود فردائے
ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کر لے۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں جو اب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے۔
؎ ہر کس ازدست غیر نالہ کند
سعدی از دست خویشتن فریاد
اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اور یہ بات ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے ۔ اگر اہل ہنود خصوصاً آریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور و شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا بے جا نہیں تھا۔ مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات ، براہین احمدیہ ، سرمہ چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں۔ ‘‘
جلسہ عام میں حضرت اقدسؑ کی تقریر :۔
۳۱۔ جنوری ۱۸۹۲ء کو منشی میراں بخش صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں حضورؑ کا ایک عظیم الشان لیکچرہوا خلقت کا اژدحام اس کثرت سے تھا کہ کسی صورت میں بھی حاضرین کی تعداد دس ہزار سے کم نہ ہوگی۔ ہر طبقہ کے لوگ موجو دتھے۔ کوٹھی کے صحن کے علاوہ آس پاس کے مکانوں کی چھتوں اور گلیوں میں بھی بڑا ہجوم تھا۔ حضرت اقدس نے اپنی تقریر میں اپنے دعاوی سے متعلق زبردست دلائل دیئے۔ اور خصوصیت سے ان آسمانی نشانوں کا تذکرہ فرمایا جو خدا تعالیٰ نے آپ کی نصرت کے لئے بارش کی طرح نازل فرمائے تھے اور بتایا کہ علماء میرے مقابلہ میں دلائل قرآنیہ سے عاجز آکر میرے خلاف کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ایک مومن کو کافر کہہ دینا آسان ہے مگر اپنا ایمان ثابت کرنا آسان نہیں۔قرآن کریم نے مومن اور غیر مومن کے لئے کچھ نشان مقرر کر دیئے ہیں۔ میں ان کافر کہنے والوں کو دعوت دیتاہوں کہ اسی لاہور میں میرے اور اپنے ایمان کا قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرالیں۔
حضرت اقدسؑ تقریر فر ما چکے تو حضرت مولانا نور الدین سے ارشاد فرمایا کہ آپ بھی تقریر کر یں ۔ یہ کہ کر حضور انور تو اندر تشریف لے گئے اور حضرت حکیم الامت نے ایک دل ہلا دینے والی تقریر فرمائی۔
حضرت حکیم الامت کا یہ خطاب گو مختصر تھا مگر جب آپ نے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا۔ کہ کیا میں اس عمر میں بھی جھوٹ بولنے کی آرزو کر سکتاہوں ؟ تو یہ الفاظ تیر بن کر دلوں کے پار ہوگئے کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ ہر طرف آہ و بکا کا شور بلند ہوگیا۔ تقریر کے بعد چند ہندو معززین آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک دفعہ وہی کلمہ پھر پڑھتے تو ہم پورے مسلمان ہو جاتے لیکن آدھے مسلمان تو ہوگئے۔ آپ کے مخالفوں نے اس موقعے پر لوگوں کو جلسہ میں شامل ہونے سے بڑی سختی سے منع کیا۔ اس وقت بازار میں اتنا بڑا انبوہ ہوگیا کہ آمدورفت رک گئی ۔ مگر خدا تعالیٰ کے مسیح کی آواز منہ کی پھونکوں سے بند کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔
مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری سے مباحثہ :۔
قیام لاہو رکا ایک اہم ترین واقعہ مباحثہ مولوی عبدالحکیم کلانوری ہے مولوی عبدالحکم صاحب کلانور ضلع گورداسپور کے باشندے تھے اور الور میں رہتے تھے ۔ انہوں نے حضرت اقدسؑ سے ’’توضیح مرام ‘‘ کی اس عبارت پر کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتاہے چند روز تک تحریری مباحثہ کیا۔ جو ۳۔ فروری تک جاری رہا۔ ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ۔ کہ میرے دعویٰ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ مسیح ابن مریم ؑ نبی ناصری فوت ہو چکے ہیں اور جس مسیح کے آنے کا وعدہ ہے وہ میں ہوں۔ اگر مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر جانا ثابت ہو جائے تو میرا دعویٰ خود بخود غلط ہو جائے گا۔ مگر مولوی عبدالحکم صاحب نے اس راہ سے ہٹ کر ایک دوسرا طریق اختیار کیا۔ یعنی کہا کہ میں اس بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ پہلے آپ کا مسلمان ہونا تو ثابت ہو۔ آپ نے نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خروج کیا ہے ۔ اور مسیح ابن مریم کے نزول کا عقیدہ اسلام کے خلاف نہیں ہواسی امت میں ہوگا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا ۔مجھ پر دعویٰ نبوت کا الزام سراسر افتراہے۔ حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا کہ میرے مسلمان اور مومن ہونے کا ثبوت ان معیاروں سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں اور جن کو میں نے رسالہ ’’ آسمانی فیصلہ‘‘ میں لکھا ہے ۔ مگر مولوی عبدالحکیم صاحب اپنی بات پر اڑ گئے۔ جس پر تحریر ی مباحثہ شروع ہوا۔ حضورؑ نے اپنے جواب میں یہ بنیادی نکتہ پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ سے مکالمات و مخاطبات کا سلسلہ امت محمدیہ میں قیامت تک جاری ہے اس دعوے کے ثبوت میں حضور نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث لکھی ’’ لَقَدْ کَانَ فِیْ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ رِجَالٌ یُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَیْرِاَنْ یَکُوْنُوْ ا اَنْبِیَائَ فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْھُمْ اَحَدٌ فَعُمَرً(۲)
جونہی یہ حدیث پڑھی گئی مولوی احمد علی صاحب نے جو مولوی عبدالحکیم صاحب کے کاتب کے فرائض انجام دے رہے تھے شور مچانا شروع کر دیا کہ بخاری شریف سے یہ حدیث نکال کر پیش کریں۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا مضمون ختم ہونے دیں۔ میں حدیث نکال کر پیش کردوں کا مگر وہ بار بار بخاری حضرت اقدسؑ کی طرف پیش کرتے کہ لیجئے اور نکالئے۔ غرض کہ ان کا مطالبہ بڑی شدت اختیار کر گیا۔ مولانا سید محمد احسن صاحب ایسے محدث نے حوالہ کی تلاش میں بخاری کی پوری باریک نظری سے ورق گردانی کی مگر حوالہ نہ مل سکا۔ اور فریق مخالف کے حوصلے اور بھی بڑھ گئے تب حضرت اقدسؑ نے خود بخاری لے کر چند ورق الٹے اور آخر حوالہ معجزانہ رنگ میں مل گیا اور اسی پر مباحثہ ختم ہوگیا ۔ مباحثے کے اختتام پر حضرت اقدسؑ کا ایک تحریری بیان جس پر آٹھ افراد کے دستخط تھے پڑھ کر سنایا گیا۔ اس مباحثے کے اصل پرچے مولوی عبدالحکیم صاحب ساتھ لے کر چلے گئے تھے اور مطالبے کے باوجود انہوںنے آخر دم تک واپس نہیں کئے۔ مولوی صاحب ایک دفعہ مباحثہ کے بعد قادیان بھی آئے تھے۔ حضورؑ کو اطلاع ہوئی تو وہ نواب صاحب کے مکان میں ٹھہرائے گئے اور حضورؑ نے ان کی خاطر تواضع کے لئے حکم دیا۔ اس موقعہ پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب (۳) نے ان سے بڑے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ کے پاس مباحثے کے پرچے ہیں مہربانی کرکے مجھے دیدیں آپ کے کام کے نہیں اور اگر اپنے پرچے نہ بھی دیں تو حر ج نہیں مگر حضرت اقدسؑ کے پرچے ضرور دے دیں انہوں نے اس وقت وعدہ کیا کہ جاتے ہی بھیج دوں گا۔ مگر ا کے ایفا کی ان کو توفیق نہ مل سکی۔
تقدیر کے مسئلہ پر تقریر:۔
انہی دنوں ایک برہمو سماج کا سیکرٹری جو ایم ۔ اے تھا حاضر خدمت ہوا۔ اور اس نے ذکر کیا کہ تقدیر کا مسئلہ میں نے اپنی تحقیق کی بناء پر اس طرح حل کیا ہے کہ میرے خیال میں شاید اس سے بہتر کوئی اور تسلی بخش بیان نہ کرسکے ۔ آپ نے یہ سن کر مسئلہ تقدیر پر تقریر شروع فرمادی۔ وہ شخص حیران ہوگیا اور اس نے کھڑے ہوکر کہا کہ میری معلومات اس بارے میں ہیچ ہیں اور آپ سے بہتر دنیا میں کوئی اور شخص مسئلہ تقدیر کو نہیں سمجھتا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ آپ میں ہر میشر کی شکتی ہے انسان سے آدمی گفتگو کرسکتا ہے مگر جو پر میشر کاروپ رکھتا ہو۔ اس کے آگے کیا پیش جاسکتی ہے پھر وہ نہایت ادب سے ہاتھ باندھ کر سلام کر کے الٹے پائوں یہ کہتا ہو اچلا گیا۔ کہ بڑی قوت ہے بڑی قوت ہے۔ اس کے جانے کے بعد نواب فتح علی خاں صاحب (۴) قزلباش کہنے لگے کہ آپ اسلام کی روح بیان فرماتے ہیں وہ لوگ بڑ ے ظالم ہیں جو آپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ظالم کا لفظ سن کر آپ نے بڑے جوش میں ایک زبردست تقریر فرمائی۔ نواب صاحب اس تقریر سے بڑے متاثر ہوئے اور پھر اجازت لے کر السلام علیکم کہہ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ ہمارے نواب صاحب سے پرانے تعلقات ہیں ۔ انہیں ایسی مجالس میں شریک ہونے کا کہاں موقعہ ملتا ہے۔ اتفاقیہ آگئے میں نے ضروری سمجھا کہ انہیں نصائح آمیز تبلیغ کردوں۔ تا اگر غور کریں تو ہدایت یاب ہوں۔(۵)
سفر سیالکوٹ
جماعت احمدیہ سیالکوٹ کی دلی خواہش تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں دوبارہ رونق افروز ہوں اور انہیں زیارت سے فیضیاب فرمائیں۔ چنانچہ اب جو حضورؑ لاہور تشریف لائے۔ تو مولانا عبدالکریم صاحب نے احباب سیالکوٹ کی طرف سے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں سیالکوٹ آنے کی دعوت پیش کی ۔ چنانچہ اس دعوت کو آپ نے شرف قبولیت بخشا اور فروری ۱۸۹۲ء کے دوسرے ہفتہ میں سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حکیم حسام الدین صاحب کے مکان میں فروکش ہوئے۔
زائرین کا ہجوم اور پاک مجلس
حضرت اقدسؑ کے تشریف لانے کی خبر سن کر سیالکوٹ اور اس کے نواح سے زائرین کا ایک ہجوم امڈ آیا اور لوگ ذوق وشوق سے حضورؑ کا چہرہ مبارک دیکھنے اور پاک مجلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آنے لگے ۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا بیان ہے کہ ’’میں مع ایک دوست کے تیسرے پہر آپ کو دیکھنے کے لئے شہر گیا۔ اس وقت حکیم حسام الدین صاحب کے کوچہ میں لوگوں کا بے حد اژدہام تھا۔ ہم دونوں نوجوان لڑکے تھے گھستے پھستے آخر اس قطار تک پہنچ گئے جو عین دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ حضرت اقدسؑ ایک دورازے سے نکلے اور کوچہ عبور کر کے دوسرے مکان کے دروازہ میں چلے گئے۔ مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک نور کا جھمکڑا نظروں کے سامنے آکر یکایک گم ہوگیا۔ میں اپنے تخیل میں کسی بزرگ کی مقدس شکل کا جو بہتر سے بہتر تصور قائم کیا کرتا تھا یہ ویسا ہی بلکہ ا س سے بھی کچھ زیادہ تھا۔ میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ نورانی شکل جھوٹے کی نہیں ہوسکتی۔ یہ شخص سچا ہے۔ اس کے بعد ہم حکیم حسام الدین والی مسجد کے اندر گئے اور حضرت اقدسؑ نے عصر کی نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ مسجد کے درمیانی در میں جنوبی ستون کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے اور مسجد کا اندر اور صحن سب لوگوں سے بھرا ہوا تھا صحن کے سامنے کی طرف ایک شہ نشین تھا اس پر میں اور مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے ہوئے تھے میری نظریں حضرت اقدسؑ کے چہرہ پر جمی ہوئی تھیں۔ اتنے میں مولوی عبدالکریم صاحب بولے کہ دیکھو چہرہ پر کس قدر نور برس رہا ہے میں نے کہا واقع اس قدر نورانی چہرہ میں نے کبھی نہیں دیکھا لوگ مختلف مذہبی سوالات کرتے تھے جن کے آپ ایسے معقول جواب دیتے تھے کہ نہ صرف دل کو لگتے تھے بلکہ مجھے نہایت تعجب ہوتا تھا کہ مذہبی لوگوں سے ایسی معقول باتیں میں نے کبھی نہیں سنی تھیں۔ کسی شخص نے ایک مرگی زردہ کی شفا کے لئے دعا بھی کروائی۔ چنانچہ آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اتنے میں مولوی عبدالکریم صاحب نے نزدیک ہو کر دریافت کیا کہ حضرت عرش کیا ہے؟آپ نے فرمایا اس سے مراد سلطنت اور نفاذ امر بھی ہیں لیکن حال اور صاحب باطن لوگوں کی نظر میں یہ وہ مقام ہے جہاں مادی اور روحانی ہر طرح کی مخلوق کی حد ختم ہو جاتی ہے اور صرف ذات باری تعالیٰ ہی جلوہ گر ہوتی ہے۔ غرض کہ آپ نے عرش پر ایسی لطیف تقریرفرمائی کہ سننے والوں کو وجد آگیا۔ شام ہوگئی۔ نماز مغرب کے بعد میں مع اپنے دوست کے واپس چلا آیا۔ ہم دونوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ یہ شخص صادق ہے۔ دوسرے دن ہم دونوں آدمی پھر نماز ظہر کے وقت گئے حضرت اقدسؑ نے نماز ظہرکے بعد ایک تقریر کی جس میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر فرمائی جو ایسی لطیف اور پراز معارف تھی کہ ہم دونوں عش عش کر گئے اس سے قبل یہ حقائق ومعارف کہاں سنے تھے بہت عالموں کے وعظ سنے تھے مگر یہاں بات ہی کچھ اور تھی۔ ان دنوں آریہ سماج کا بڑا زور تھا اس تقریر کے دوران میں ہمارے لئے ایک نئی بات یہ بھی ہوئی کہ حضرت صاحب نے آریہ سماج کے ایسے پرخچے اڑائے کہ آریہ سماج کا جتنا رعب ہمارے جیسے نو عمر طالب علمو ں پر تھا وہ سب ہباء منشور اً ہوگیا اور اسلام کی عظمت اور شوکت آنکھوں کے سامنے ہویداہوگئی۔ تقریر کے بعد چند جٹ زمیندار حضرت اقدسؑ کے گرد جمع ہو کر زور زور سے باتیں کرنے لگے۔ جنہیں بھیڑ کی وجہ سے میں نہ سمجھ سکا۔(۶)
ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب اور ان کے والد اور برادر اکبر کی عقیدت وبیعت سے متعلق ایک ضمنی نوٹ :۔
یہاں ضمناً یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ (شاعر مشرق) ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب (۱۸۷۳ء ۱۹۳۸ ) کے والد بزرگوار شیخ نور محمد صاحب (متوفی ۱۹۲۹ء) نے مولانا عبدالکریم صاحب اور سید حامد شاہ صاحب کی تحریک پر ۹۲۔ ۱۸۹۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ (۷) اور ان کے دونوں فرزند شیخ عطا محمد صاحب اور ڈاکٹر محمد اقبال صاحب بھی اپنے آپ کو جماعت میں شمار کرتے تھے۔ اور حضرت اقدسؑ سے ارادت مندانہ تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ہی کا بیان ہے کہ ’’سفر سیالکوٹ کے موقعہ پر ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو مسجد کی ڈیوڑھی کی چھت پر چڑھے بیٹھے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے دیکھو شمع پر کس طرح پروانے گر رہے ہیں۔‘‘ (۸) یہ اسی عقیدت کا نتیجہ تھا کہ دو ایک سال بعد جب سعداللہ لدھیانوی نے حضرت اقدسؑ کی ذات پر نہایت گندے اور لغو اعتراضات کئے تو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب جو ان دنوں سکاچ مشن سکول سیالکوٹ میں ایف اے کے طالب علم تھے حضرت اقدسؑ پر سوقیانہ حملے برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے اس کے جواب میں ایک نظم لکھی جس میں حضور ؑ کو ’’آفتاب صدق‘‘ تسلیم کیا۔ (۹)
چند سال بعد شیخ نور محمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ سیالکوٹ کی جماعت چونکہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور میں بوڑھا آدمی ان کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ (۱۰) لہٰذا آپ میرا نام اس جماعت سے الگ رکھیں تاہم ان کے فرزند شیخ عطا محمد صاحب عمر بھر نہایت اخلاص کے ساتھ احمدیت سے وابستہ رہے۔ (۱۱) شیخ عطا محمد صاحب کے بیٹے شیخ اعجاز احمد صاحب خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور نہایت مخلص احمدی ہیں (کتاب کے اس جدید ایڈیشن کے دوران آپ انتقال فرماگئے۔ تاریخ وفات ۲۔ جنوری ۱۹۹۴ء) مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کے بیان کے مطابق خود ڈاکٹر سرمحمد اقبال صاحب نے بھی پانچ سال بعد ۱۸۹۷ء (۱۲) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی تھی۔ اور حضرت اقدس کی زندگی میں اپنے بعض انگریزی مضامین میں حضورؑ کے متعلق صاف صاف لکھاکہ آپ جدید ہندی مسلمانوں میں سب سے بڑے دینی مفکر ہیں۔ (۱۳) نو سال بعد (۱۹۱۰ء میں ) انہوں نے علی گڑھ میں ایک تقریر میں کہا کہ’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔ ‘‘ (۱۴۔۱۵) ان کے بعض سوانح نگاروں کے بیان کردہ حالات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ ۱۹۱۳ء تک وہ جماعت قادیان سے ربط ضبط رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک نجی مسئلے میں فتویٰ حاصل کرنے کے لئے اپنے ایک گہرے دوست کو حضرت خلیفۃ المسیح اول کی خدمت میں قادیان بھیجا تھا۔ (۱۶) لیکن اس کے بعد جیسا کہ ڈاکٹر محمد اقبال صاحب کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے وہ سلسلہ قادریہ سے منسلک ہوگئے تھے۔ (۱۷) اور عمر کے آخر میں جمال الدین صاحب افغانی کو مجدد سمجھنے لگے تھے۔ بایں ہمہ وہ ۱۹۳۲ء تک جماعت احمدیہ کے اشاعت اسلام کے دینی جو ش وخروش کے بہر نوع مدح رہے۔ چنانچہ انہوںنے ۷۔ اپریل ۱۹۳۲ء کو اپنے ایک مکتوب میں لکھا۔ کہ ’’ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریق ہیں۔ میرے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے وہ زمانہ حال کی طبائع کے لئے موزوں نہیں ہے ہاں اشاعت اسلام کاجوش جو ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے قابل قدر ہے ‘‘(۱۸) ان کی وفات سے تین سال قبل (۱۹۳۵ء میں) بعض سیاسی حلقوں میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیئے جانے کا مطالبہ اٹھاتو ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کی تائید میں خالص فلسفیانہ رنگ میں مضامین لکھے اور دراصل فلسفہ ہی وہ موضوع تھا جس کے متعلق خود ان کی رائے تھی کہ ’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزری ہے اوریہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نا دانستہ میں اسی نقطہ خیال سے حقائق اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں‘‘۔ (۱۹)
ڈاکٹر صاحب اور ان کے والد بزرگوار کا ضمنی تذکرہ کرنے کے بعد دوبارہ سفر سیالکوٹ کا ذکر کیاجاتا ہے۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی مخالفانہ کوشش اور ناکامی:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے تومولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی سیالکوٹ پہنچے ۔ اور مختلف مساجد میں حضرت اقدسؑ کے خلاف گمراہ کن وعظ کئے اور عوام کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی ہر رنگ کوشش کی مگر جن آنکھوں نے اس نورانی چہرہ کو اٹھائیس برس قبل دیکھا تھا وہ بھلا ان کی باتوں سے کیونکر دھوکا کھا سکتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس مخالفت میں انہیں سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور لوگ ذوق وشوق کے ساتھ آپ کی بیعت میں شامل ہوئے۔
سفر کپور تھلہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد کپور تھلہ تشریف لے گئے جہاں حضور نے دو ہفتہ قیام فرمایا اور میاں سردار علی صاحب کے مکان میں فرو کش ہوئے یہ حضور کا کپور تھلہ کی طرف تیسرا اور آخری سفر تھا۔
حضورؑ نے کپور تھلہ کاپہلا سفر منشی محمد اروڑا صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کی درخواست پر زمانہ بیعت کے قریب اختیار فرمایا تھا اس وقت کپور تھلے تک ریل نہیں تھی۔ حضور یکے سے اتر کر کپور تھلے کی مسجد فتح والی میں تشریف لے گئے۔ حافظ حامد علی صاحب ساتھ تھے۔ مسجد سے حضور نے خادم مسجد کو بھیجا کہ منشی اروڑا صاحب یا منشی ظفر احمد صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع کردو۔ منشی ظفر احمد صاحب اور منشی محمد اروڑا صاحب کچہری میں تھے۔ خادم مسجد نے انہیں اطلاع دے دی کہ مرزا صاحب مسجد میں ہیں اور انہوں نے مجھے اطلاع دینے کے لئے بھیجا ہے۔ منشی محمد اروڑا صاحب نے بڑی حیرت سے اسے پنجابی میں کہا۔ ’’دیکھ تاں تیری مسیت وچ آکے مرزا صاحب نے ٹھہر ناسی۔‘‘ یعنی کیا تمہاری مسجد میں ہی آکر مرزا صاحب نے ٹھہرنا تھا۔ منشی ظفر احمد صاحب نے کہا چل کر دیکھنا تو چاہیئے ۔ پھر منشی صاحب جلد ی سے پگڑی باندھ کر ان کے ساتھ چل پڑے۔ مسجد میں جاکر دیکھا کہ حضور فرش پر لیٹے تھے اور حافظ حامد علی صاحب پائوں دبار ہے تھے۔ منشی محمد اروڑا خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور تشریف لانا تھا تو ہمیں اطالع فرماتے ہم کرتا رپور اسٹیشن پر حاضر ہوتے۔ حضورؑ نے جواب دیا اطلاع دینے کی کیا ضرورت تھی ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا۔ وہ پورا کرنا تھا۔
بہرحال حضرت اقدسؑ کپور تھلہ کے محلہ قائم پورہ کے اس مکان میں جہاں بعد میں پرانا ڈاک خانہ رہا ہے فروکش ہوئے۔ وہاں بہت سے لوگ حضورؑ کے پاس جمع ہوگئے جن میں کرنیل محمد علی خاں صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب بھی تھے کرنیل صاحب نے ایک سوال پیش کیا جس کے جواب میں حضورؑ نے تصوف کے رنگ میں ایک تقریر فرمائی جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے ۔ مولوی غلام محمد صاحب جو کپور تھلہ کے علماء میں سے تھے آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے ہاتھ بڑھایا کہ میری بیعت لے لیں۔ مگر حضورؑ نے بیعت لینے سے انکار کردیا۔ وہاں صرف ایک ہی دن قیام فرمایا اورقادیان تشریف لے آئے۔
حضرت اقدس نے دوسرا سفر زمانہ بیعت کے بعداختیار فرمایا آپ اس وقت علی گوہر صاحب افسر ڈاک خانہ کے ہاں ٹھہرے تھے۔اور تین دن قیام فرمایا تھا۔ اور تیسرا اب اختیار فرمایا۔ جو دعویٰ مسیحیت کے بعد تھا۔ آپؑ اس کے بعد کپور تھلہ تشریف نہیں لے گئے (۲۰)
سفر جالندھر:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کپور تھلہ سے واپسی پر کرتارپور تک بگھی میں سفر کیا اور جالندھر تشریف لے گئے اس سفر میں کپور تھلہ کے مخلص خدام مثلاً منشی عبدالرحمن صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب حضورؑ کے ہمرکاب تھے۔
بعض لوگوں نے جالندھر کے انگریزسپرنٹنڈنٹ پولیس سے شکایت کی کہ ایک شخص قادیان سے آیا ہواہے اور کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ اس کے قیام سے یہاں فساد کا اندیشہ ہے اسے حکم دیا جائے کہ وہ یہاں سے چلا جائے۔ چنانچہ اسی شکایت کی بناء پر یہ انگریز افسر صبح سویرے ہی حضور کی قیام گاہ پر پہنچا۔ بہت سے مخلصین جمع تھے۔ حضور نے اس کے واسطے کرسی منگوائی اور دوسری کرسی پر خود تشریف فرما ہوئے ۔ اس نے پوچھا آپ یہاں کیسے آئے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے کہا جب تک آپ کی مرضی ہو یہاں قیام فرمائیں اور یہ کہہ کر اور سلام کر کے وہ واپس چلا گیا اس کے بعد اس کا یہ معمول ہوگیا کہ جب حضور سیر کو تشریف لے جاتے اور وہ راستے میں گھوڑے پر سوار مل جاتا تو وہ ٹوپی اتار کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتا (۲۱)
سفر لدھیانہ:۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جالندھر میں قریباً ایک ماہ قیام فرما کر لدھیانہ تشریف لے گئے۔ حضورؑ نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت دے رکھی تھی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ ( جلد ۱۴ نمبر ۲ صفحہ ۵۱۔ ۵۲ ) میں ایک فرضی صوفی کی طرف سے یہ مضحکہ خیز اعلان شائع کیا کہ اگر مرزا کو درگاہ الٰہی میں اپنے مقبول ہونے اور دیگر علماء کے مردود ہونے کا زعم ہو وہ کرامت دکھائے۔ کرامت ایسی ہونی چاہیے کہ اس کے جزئی وکلی حالات پوری تشریح سے شائع ہوں اورہر خاص وعام اسی تشریح کے مطابق ان کا پورا ہونا اچھی طرح دیکھ لے ۔یہ کرامت دس ہفتہ میں دکھلائی جائے اور اگر اس میعاد میں مرزا ایسی کرامت دکھانے سے عاجز آجائے تو اس کے اقرار عجز کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ میں وہی کرامت اورآسمانی نشان جو مرزا طلب کرے گا اس کو پانچ ہفتہ کے اندر دکھادوں گا حضرت اقدس جب جالندھر سے لدھیانہ آئے تو میر عباس علی صاحب نے اسی فرضی صوفی کی وکالت میں حضور کو لکھا کہ ان سے مقابلہ کریں ۔حضورؑ پرنور نے بذریعہ اشتہار جواب دیا۔ کہ اگریہ پردہ نشین صوفی درحقیقت موجود ہے تو اسے اپنا نام شائع کرنا چاہیے۔ اوراگراس کے پاس حق ہے تو حق لے کر میدان میں آجائے مجھے جب کوئی معین شخص سامنے نظر نہیں آتاتو میں کس سے مقابلہ کروں؟ حضور کے اس مطالبے پر نہ میر عباس علی صاحب لدھیانوی کچھ بولے اور نہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی!!
حضور مئی کے تیسرے ہفتے میں واپس قادیان آگئے اور اس طرح آپ کے دعویٰ مسیحیت کے سلسلہ میں ابتدائی سفر بخیروخوبی ختم ہوئے اورآپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔
’’نشان آسمانی‘‘ کی تصنیف واشاعت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفر جالندھر کے بعد لدھیانہ میں مقیم تھے تو حضور نے ’’نشان آسمانی‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی جس کا دوسرا نام ’’شہادت الملمین‘‘ بھی ہے اس کتاب میں حضرت اقدسؑ نے آنحضرتﷺ کے علاوہ نعمت اللہ صاحب ولی اورجمال پور ضلع لدھیانہ کے ایک درویش بزرگ مجذوب گلاب شاہ صاحبؒ کی اہم پیش گوئیوں کا شرح وبسط سے ذکر فرمایا ۔ جو انہوںنے سالہا سال قبل مسیح ومہدی کے متعلق کررکھی تھیں اور جو آپ کی آمد سے روز روشن کی طرح پوری ہوئیں۔’’نشان آسمانی‘‘ میں حضرت اقدسؑ نے اپنے دعویٰ کی صحت معلوم کرنے کے لئے قوم کے سامنے ایک آسان تجویز یہ بھی رکھی کہ وہ آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق دوہفتہ تک خدا تعالیٰ سے استخارہ کریں۔
مکفر علماء کو مباہلہ کی پہلی دعوت:۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس وقت تک علماء کو اپنے دعویٰ کی سچائی کے لئے قرآن وحدیث کے علاوہ آسمانی نشان کی طرف توجہ دلارہے تھے لیکن اب جب کہ آپ تبلیغ حق کا ایک ابتدائی مرحلہ طے کرچکے تھے آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ ان تمام علماء کو جو آ پ کو محض جزئی اختلاف یا اپنی کج فہمی کے باعث ابھی تک کافر کہے جاتے ہیں مباہلہ کا چیلنج دیں۔ چنانچہ حضرت اقدسؑ نے ۱۰؍دسمبر ۱۸۹۲ء؁ کو علماء وقت کو مباہلہ کی پہلی دعوت عام دی۔ اورمباہلہ کے لئے چار ماہ کی مہلت دی ۔اس دعوت میں آپ کے اولین مخاطب شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی اور ان کے انکار کی صورت میں شیخ محمد حسین صاحب بٹالوی تھے۔
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت:۔
یہ دعوت حضورؑ نے فرداً فرداً تمام مکفر وعلماء کو بھیجی ۔مگران میں سے کسی کومرد میدان بننے کی جرات نہ ہوئی۔ صرف مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے آمادگی کا اظہار کیا مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے بعض علماء کو شریک مباہلہ کرنے کی درپردہ بڑی جدوجہد کی مگر غزنوی خاندان کے اکابر خود بھی گریز کر گئے اوران کو بھی منع کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ان کی آمادگی کو غنیمت سمجھتے ہوئے ۱۰؍ذی قعدہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۲۷؍ مئی ۱۸۹۳ء؁ کا دن مباہلہ کے لئے تجویز فرمایا۔ اور امرتسر کی عیدگاہ متصل مسجد خان بہادر حاجی محمد شاہ مقام مباہلہ مقررکیا۔ نیز مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پر اتمام حجت کے لئے اشتہار شائع کیا کہ وہ اس تاریخ کو اگر شامل مباہلہ نہ ہوئے تو سمجھا جائے گا کہ انہوںنے اپنے فتویٰ تکفیر سے رجوع کرلیا ہے۔ اس اشتہار پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مجبوراً چند شرائط پر مباہلہ کرنا منظور کرلیا۔ اور حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بذریعہ خط وہ الفاظ بھی بجھوادیئے جن میں وہ مباہلہ کرنا چاہتے تھے ۔حضورؑ نے بذریعہ اشتہار امرتسر کے مسلمانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ بکثرت میدان مباہلہ میں حاضر ہوں میں یہ دعا کروں گا کہ ’’جس قدر میری تالیفات ہیں ان میں سے کوئی بھی خدا اور رسول کے فرمودہ کے مخالف نہیں ہیں اورنہ میں کافر ہوں اوراگر میری کتابیں خدا اور رسول ﷺ کے فرمودہ سے مخالف اورکفر سے بھری ہوئی ہیں تو خدا تعالیٰ وہ *** اورعذاب میرے پر نازل کرے جو ابتدائے دنیا سے آج تک کسی کافر بے ایمان پر نہ کی ہو۔ اورآپ لوگ کہیں آمین‘‘۔
حضرت اقدس میدان مباہلہ میں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا گریز:۔
حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ وقت مقررہ(۲بجے) پرعید گاہ تشریف لے گئے عیدگاہ میں یہ معرکہ حق وباطل دیکھنے کے لئے مسلم اور غیر مسلم کثیر تعداد میں جمع تھے ۔مگر مکفر علماء میں سے خال خال ہی تھے۔ حضرت اقدس ؑ ایک درخت کے نیچے عام انبوہ خلائق کے حلقے میں بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی بھی پہنچ گئے اور عیدگاہ کے منبر پر بیٹھ کر گالیوں بھرا ’’وعظ‘‘ کرنے لگے ۔ حالانکہ اپنے خط میں یہ شرط تسلیم کرچکے تھے کہ مباہلے کے سوا کوئی فریق کوئی وعظ کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ عام لوگوں کو ان کی یہ حرکت بہت ناگوار گزری کہ آئے کس غرض سے تھے اورکرتے کیا ہیں۔ آخر کار خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امرت سر ہجوم میں سے ہوتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ مولوی محمد حسین صاحب کہتے ہیں کہ آپ اس طرح دعا کریں کہ الٰہی میں نے جو اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے ملائکہ سے انکار کیا ہے اگران سب کفریات میں میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر *** بھیج ۔یہ احمقانہ بات سن کر سب لوگ ہنس پڑے اور خود خواجہ صاحب بھی مسکرادیئے ۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ آپ ہی سوچئے کہ میں تو اپنے آپ کو امت محمدیہ کا ایک فرد سمجھتا ہوں اورایسی باتوں کا منہ پر لا ناخودکفر جانتا ہوں پھر یہ کیسے کہوں۔ یہ کہہ کر حضرت اقدسؑ نے وہ خط خواجہ صاحب کے ہاتھ میں دے دیا کہ یہ انہی کی تحریر ہے آپ ان کو دکھائیں ۔اورچونکہ وقت گزرتا جاتاہے اس لئے مباہلہ پرآمادہ کریں ۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ایک شاگرد شیخ عبدالعزیز صاحب نے جو یہ خط دیکھا تو کہا کہ یہاں تو صاف لکھا ہے کہ مباہلے کے سوا کسی فریق کو وعظ کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور وہ خواجہ صاحب اور منشی غلام قادر صاحب فصیح کو ساتھ لے کر مولوی محمد حسین صاحب کے پاس گئے اور انہوںنے اور دیگر معززین نے بہت زور لگایا مگر مولوی صاحب کی تو مباہلہ سے جان جاتی تھی وہ بھلا کیسے تیار ہوتے عوام میں ان کے اس کھلے گریز کے بڑے چرچے ہوئے۔ حضرت اقدس ؑ نے یہ دیکھا تو خود ہی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ مباہلہ کرنے کھڑے ہوگئے۔ سب مرید اور دوسرے لوگ صف بستہ پیچھے کھڑے تھے۔ حضورؑ نے اس وقت ایسے درد ناک پیرایہ میں تین بار بلند آواز سے دعا کے الفاظ دہرائے کہ عید گاہ آہ و فغاں سے میدان حشر کا نمونہ بن گئی اور کئی آدمی غش کھا کر گر پڑے ۔ حضورؑ نے اس مباہلے میں مولوی عبدالحق صاحب کے خلاف کوئی بددعا نہیں کی۔ صرف اپنے متعلق خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اگر میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو خدا تعالیٰ مجھے ہلاک کر دے ۔ اور پھر اپنے معتقدات پر ایک زبردست تقریر فرمائی آپ کی یہ تقریر اتنی موثر تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے ایک شاگرد منشی محمد یعقوب صاحب سابق اور سیر محکمہ نہر کی توچیخ نکل گئی ۔ اور وہ ہاتھ پھیلائے حضور کے قدموں میں جاگرے اور مجمع عام میں بیعت کر لی۔ حضرت اقدسؑ کے مباہلہ اور تقریر کی یہ فوری تاثیر ایک عظیم الشان نشان تھا جس نے لوگوں کے دل میں حضور سے ایک عقیدت پیدا کر دی اور وہ بٹالوی صاحب سے بد ظن ہوگئے ۔ چونکہ وقت بہت ہو چکا تھا ۔ اس لئے انسپکٹر پولیس نے جو عید گاہ میں موجود تھا حضرت اقدسؑ سے بھی تشریف لے جانے کی درخواست کی اور بٹالوی صاحب سے بھی ۔ عید گاہ سے آنے کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالولی نے ہر چند کوشش کی کہ انہیں مسجد خیرالدین ( امرتسر) میں ہی وعظ کرنے کا موقعہ مل جائے مگر شہر کے عوام اور رؤساء کو ان کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ تھا۔ وہ انہیں کیوں موقعہ دیتے ۔ مولوی صاحب نے یہ ذلت و رسوائی دیکھی تو خودہی امرت سر سے چلے گئے ۔(۲۸)
مباہلے کے بعد مباحثے کا چیلنج اور علماء کا فرار :۔
مباہلے کے بعد علماء نے شور مچایا کہ ہم سے بحث ہونی چاہئے۔ اس پر حضرت اقدسؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا کہ جن مولوی صاحب کو بحث کرنا ہو وہ کوئی مقام تجویز کریں ہم آج سے تیسرے روز یہاں سے چلے جائیں گے پھر کوئی عذر نہ رہے گا لیکن مولوی صاحبان خاموش رہے۔ اس پر خواجہ یوسف شاہ صاحب رئیس امر تسر نے مولویوں سے کہا کہ اب آپ بحث کیوں نہیں کرتے جب کہ مرزا صاحب نے بحث منظور کر لی ہے ۔ مولویوں نے جواب دیا کہ ہم بحث کریں گے پہلے باہم مشورہ کر لیں چنانچہ وہ مشورہ کی غرض سے محمد جان کی مسجد کے ایک حجرے میں جمع ہوئے اور موذن سے کہہ دیا کہ حجرے کا دروازہ مقفل کرکے چابی اپنے پاس رکھے اور اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ کہیں دعوت پر گئے ہیں دیر میں آئیں گے ۔ خواجہ یوسف شاہ صاحب مولویوں کو تلاش کرتے ہوئے وہاں آگئے۔ موذن سے پوچھا کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ اس نے کہا دعوت میں گئے ہیں ۔ پھر خواجہ صاحب موصوف مولوی عبدالجبار صاحب کے ہاں گئے وہاں سے بھی یہی جواب ملا اس پر خواجہ صاحب مولویوں کی تلاش میں نکلے اورپتہ لگایا کہ کس کے ہاں دعوت ہے اوردوبارہ محمد جان کی مسجد کی طرف آئے تو اچانک کسی نے تبادلہ کہ تمام مولوی اس مسجد کے نیچے کے حجرہ میں جمع ہیں اور باہر سے قفل لگا ہواہے تا کسی کو پتہ نہ لگے۔ خواجہ صاحب نے موذن سے پھر پوچھا ۔کہ مولوی صاحبان کہاں ہیں؟ موذن نے پھر یہی جواب دیا کہ دعوت میں گئے ہیں۔ خواجہ صاحب نے کہا کس کے ہاں؟ اس کا جواب اس نے خوفزدہ ہوکردیا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ اس پرخواجہ صاحب نے اس سے کنجی لے کر حجرہ کھولا ۔ جب اندر جاکر دیکھا تو سب مولوی حجرہ کے اندر بیٹھے ہوئے پائے۔ خواجہ صاحب کہنے لگے۔ آج تو بحث کا دن ہے اورآپ چھپ کر بیٹھے ہیں کل کو مرزا صاحب چلے جاویں گے تو بحث کس سے ہوگی۔مولویوں نے کھسیانے ہوکر کہا کہ ہاں ہم مشورہ کررہے ہیں تھوڑی دیر میں آپ کو اطلاع دی جائے گی آپ تسلی رکھیں۔خواجہ صاحب تاکید کرکے چلے گئے ۔ مگر جب مولویوں نے خواجہ صاحب کو کچھ نہ بتایا تو خواجہ صاحب کو یقین ہوگیا کہ مولوی صاحبان بحث نہیں کرسکتے۔ اورسچی بات بھی یہی تھی۔ اس پر خواجہ صاحب خاموش ہوگئے۔ البتہ جب حضرت اقدسؑ قادیان واپسی کے لئے تیار ہوئے تو مولوی صاحبان نے آپ کے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ایک مطبوعہ اشتہار آپ کی سواری کے پیچھے پیچھے تقسیم کرنا اور دیواروں پر چسپاں کرنا شروع کردیا جس کا عنوان تھا ’’مرزا بھاگ گیا‘‘
امرتسری علماء دوچار روز بعد مباحثہ کرنے والے عالم کا انتخاب کرنے کے لئے دوبارہ جمع ہوئے مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔آخر مولوی غلام اللہ صاحب قصوری بولے کہ بحث سے تو انکار نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں یہ لکھ دو کہ مقام مباحثہ کابل یا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ ہوگا۔ نہ وہاں جائیں گے نہ مباحثہ ہوگا۔
۱۸۹۲ء؁ کے بعض صحابہ
۱۸۹۲ء؁ کے بعض مشہور صحابہ یہ ہیں ۔(۱)حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب (۲) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب المعروف مغل(۳)حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب (۴) مرزا یعقوب بیگ صاحب(۵) حضرت منشی شادی خاں صاحب سیالکوٹی(۶)حضرت پیر منظور محمد صاحب(۷) حضرت حاجی شہزادہ عبدالمجید صاحب(۸) حضرت خان عبدالمجید صاحب کپور تھلوی(۹) حضرت مولوی غلام امام صاحب عزیز الواعظین منی پور(۱۰) حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی(۱۱) منشی گلاب دین صاحب رہتاسی(۱۲) حضرت مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں(۱۳) حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب(۱۴) حضرت صوفی نبی بخش صاحب (۱۵) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب اوجلوی(۱۶) حضرت پروفیسر علی احمد صاحب بھاگلپوری(۱۷) حضرت خان بہادر غلام محمدصاحب گلگتی (۱۸) حضرت حکیم محمد حسین (مرہم عیسیٰ) (۱۹) حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری۔


ماموریت کا بارھواں سال
’’آئینہ کمالات ِاسلام‘‘ کی تصنیف واشاعت
(۱۸۹۳ء)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو قرآن مجیدکے کمالات اوراسلام کی اعلیٰ تعلیم سے واقف کرانے کے لئے ۱۸۹۲ء؁ میں ایک کتاب لکھنی شروع کی جو ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے نام سے فروری ۱۸۹۳ء؁ میں شائع ہوئی ۔اس کتاب کی تحریر کے دوران میں آپ کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مرتبہ زیارت ہوئی۔ اورحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تالیف پر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
اس معرکتہ الاراء تصنیف میں متعدد اہم مباحث مثلاً مقام فنا، بقا، لقا، روح القدس کی دائمی رفاقت اورملائک وجنات کے وجود کے ثبوت پر جدید زاویہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔کتاب میں وہ قوت وشوکت ہے کہ سطرسطر سے تائید حق کا جلوہ صاف نظرآتاہے۔
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کی طباعت۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے ابتداء ہی میں کتاب آئینہ کمالات اسلام لکھنے کا ارادہ فرمایا تو شیخ نور احمد صاحب مالک ریاض ہند پریس امرتسر سے ارشاد فرمایا کہ اپنا پریس قادیان لے آئیں۔ چنانچہ وہ امرتسر سے اپنا پریس قادیان لے آئے اور اسے گول کمرے میں نصب کردیا۔ حضرت اقدسؑ ساتھ ساتھ مضمون لکھتے اور ساتھ ہی ساتھ کاپی لکھی جاتی تھی۔ کاتب امام الدین صاحب لاہوری تھے جن کو حضورؑ کا لکھا ہوا خط پڑھنے کی خوب مہارت ہوگئی تھی۔ (۲)
’’التبلیغ‘‘
۱۱۔ جنوری ۱۸۹۳ء کو جب کتاب کا اردو حصہ مکمل ہوچکا تو مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مجلس میں حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان فقراء اور پیرزادوں پر اتمام حجت کے لئے ایک خط بھی شائع ہونا چاہیئے۔ حضور نے یہ تجویز بہت پسند کی ۔ آپ کا ارادہ تھا کہ یہ خط اردو میں لکھا جائے لیکن رات کوبعض اشارات الہامی میں آپ کو عربی میں لکھنے کی تحریک ہوئی۔ (۳) اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے پر آپ کو رات ہی رات میں عربی کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا گیا (۴) چنانچہ آپ نے اسی الہامی قوت سے ’’التبلیغ‘‘ کے نام سے فصیح وبلیغ عربی میں ایک خط لکھا جس میں آپ نے ہندوستان‘ عرب ‘ ایران‘ترکی‘مصر اور دیگر ممالک کے پیرزاردوں ‘سجادہ نشینوں‘ زاہدوں‘ صوفیوں اور خانقاہ نشینوں تک پیغام حق پہنچا دیا۔’’التبلیغ‘‘ کے بعد عربی زبان میں حضورؑ نے وہ بے نظیر لڑیچر پیدا کیا کہ فصحائے عرب وعجم کی زبانیں اس کے مقابلے میں گنگ ہوگئیں۔ ’’التبلیغ‘‘ کے متعلق ایک عرب فاضل نے کہا کہ اسے پڑھ کر ایسا وجد طاری ہوا کہ دل میں آیا کہ سر کے بل رقص کرتا ہوا قادیان پہنچوں۔(۵) طرابلس کے ایک مشہور عالم السید محمد سعیدی شامی نے اسے پڑھتے ہی بے ساختہ کہا۔ واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا۔ (۶) اور بالاخر اسی سے متاثر ہو کر احمدیت قبول کرلی(۷) ۔ حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے ۔ کہ ہماری جتنی عربی تحریریں ہیں یہ سب ایک رنگ کی الہامی ہی ہیں کیوں کہ سب خدا کی خاص تائید سے لکھی گئی ہیں۔ فرماتے تھے بعض اوقات میں کئی الفاظ اور فقرے لکھ جاتاہوں۔ مگر مجھے ان کے معنے نہیں آتے۔ پھر لکھنے کے بعد لغت دیکھتا ہوں تو پتہ لگتا ہے ۔
ان کتابوں کا یہ اعجازی رنگ دیکھ کر مخالف علماء کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ آپ کی تالیفات ہیں وہ قطعی طور پر سمجھتے تھے کہ آپ نے اسی غرض کے لئے علماء کا کوئی خفیہ گروہ ملازم رکھا ہوا ہے چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب اس ’’خفیہ گروہ ‘‘ کا سراغ لگا نے کے لئے قادیان آئے اور رات کے وقت مسجد مبارک میں گئے۔ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ان دنوں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں مقیم تھے مولوی صاحب نے حضرت منشی صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی عربی تصانیف ایسی ہیں کہ ان جیسی کوئی فصیح بلیغ عبارت نہیں لکھ سکتا ضرور مرزا صاحب کچھ علماء سے مدد لے کر لکھتے ہوں گے اور و ہ وقت رات ہی کا ہوسکتا ہے تو کیا رات کو کچھ آدمی ایسے آپ کے پاس رہتے ہیں جو اس کام میں مدد دیتے ہوں حضرت منشی صاحب نے کہا مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین صاحب ضرور آ پ کے پاس رہتے ہیں یہی علماء رات کو امداد کرتے ہوں گے۔ حضرت اقدسؑ کو منشی صاحب کی یہ آواز پہنچ گئی اور حضور بہت ہنسے۔ کیوں کہ مولوی محمد چراغ صاحب اور مولوی معین الدین صاحب دونوں حضور کے ان پڑھ ملازم تھے اس کے بعد مولوی صاحب موصوف اٹھ کر چلے گئے۔ اگلے روز جب حضور بعد عصر مسجد میں حسب معمول بیٹھے تو مولوی صاحب موصوف بھی موجود تھے۔ حضورؑ منشی صاحب کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا وہ رات والے علماء انہیں دکھلا بھی تو دو۔ اس وقت حضور نے مولانا عبدالکریم صاحب کو بھی رات کا واقعہ سنایا وہ بھی ہنسنے لگے حضرت منشی صاحب نے محمد چراغ اور معین الدین کو بلا کر مولوی صاحب موصوف کے سامنے کھڑا کردیا وہ مولوی صاحب ان دونوں ’’علماء ‘‘ کو دیکھ کر چلے گئے اور ایک بڑے تھال میں شیرینی لے آئے اور اپنے بارہ ساتھیوں سمیت حضور کے دست مبارک پر بیعت کرلی ۔(۸)
سرور کونین ﷺ کی شان اقدس میں قصیدہ مدحیہ :۔
’’ التبلیغ‘‘ کے آخر میں حضرت مسیح موعودؑ نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں ایک معجزہ نما عربی قصیدہ بھی رقم فرمایا جو چودہ سو سال کے اسلامی لڑیچر میں آپ ہی اپنی نظیر ہے ۔ جب حضور یہ قصیدہ لکھ چکے تو آپؑ کا روئے مبارک فرط مسرت سے چمک اٹھا اور آپ نے فرمایا یہ قصیدہ جناب الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول ( آنحضرت ﷺ ) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردوں گا۔ اور اپنا قرب عطا کروں گا۔ (۹) السید محمد سعیدی شامی کو جب یہ قصیدہ دکھایا گیا تو وہ پڑھ کر بے اختیار رونے لگے اور کہا۔ خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار بھی کبھی پسند نہیں کئے مگر ان اشعار کو میں حفظ کروں گا۔(۱۰)
مولانا نیاز محمد خاں نیاز فتحپوری نے اس قصیدے کے متعلق لکھا ہے ۔ ’’اب سے تقریباً ۶۵ سال قبل ۱۸۹۳ء کی بات ہے۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعویٰ تجدید ومہددیت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی۔ اور مخالفت کا ایک طوفان ان کے خلاف برپاتھا۔ آریہ عیسائی اور مسلم علماء سبھی ان کے مخالف تھے اوروہ تن تنہا ان تمام حریفوں کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انہوں نے مخالفین کو ’’ھل من مبارز‘‘ کے متعدد چیلنج دئیے اور ان میں سے کوئی سامنے نہ آیا۔ ان پر منجملہ اور اتہامات میں سے ایک اتہام یہ بھی تھا کہ وہ عربی وفارسی سے نابلد ہیں اسی اتہام کی تردید میں انہوں نے یہ قصیدہ نعت عربی میں لکھ کر مخالفین کو اس کا جواب لکھنے کی دعوت دی لیکن ان میں سے کوئی بروئے کار نہ آیا۔
مرزا صاحب کایہ مشہور قصیدہ ۔۶۹ اشعار پر مشتمل ہے اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب وغریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب تہہ نہ کیا تھا کیوں کر ایسا فصیح وبلیغ قصیدہ لکھنے پر قادر ہوگیا۔ اسی زمانہ میں ان کے مخالفین یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان کی عربی زبان کی شاعری غالباًان کے مرید خاص مولوی نورالدین کی ممنون کرم ہے لیکن اس الزام کی لغویت اسی سے ظاہر ہے کہ مولوی نورالدین خود مرزا صاحب کے بڑے معتقد تھے اور اگر مرزا صاحب کے عربی قصائد وغیرہ انہی کی تصنیف ہوتے تو مرزا صاحب کے اس کذب ودروغ پر کہ یہ سب کچھ خود انہی کی فکر کا نتیجہ ہے سب سے پہلے مولوی نور الدین ہی معترض ہو کر اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے ۔ حالانکہ مرزا صاحب کے بعد وہی خلافت کے مستحق قرار دئیے گئے۔۔۔۔۔ یہ قصیدہ نہ صرف اپنی لسانی وفنی خصوصیات بلکہ اس والہام محبت کے لحاظ سے جو مرزا صاحب کو رسول اللہ سے تھی بڑی پر اثر چیز ہے یہ قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتاہے ۔
یَا عَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانِ
یَسْعٰی اِلَیْکَ الْخَلْقُ کَالظَّمْاٰنِ
اور اختتام اس شعر پر ہوتاہے :۔
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَالَیْتَ کَانَتْ قَوَّۃُ الطَّیَرَانِ
فارسی نعت :۔ اس عربی قصیدہ کے علاوہ جو ’’ التبلیغ ‘‘ میں شامل تھا حضرت اقدسؑ نے ’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ میں ایک بلند پایہ فارسی نعت بھی رقم فرمائی اس نعت کا مطلع یہ ہے ۔
؎ عجب نوریست در جان محمد
عجب لعلیت در کان محمد
یہی وہ نعت ہے جس کے ایک شعر سے متعلق جماعت احمدیہ کا ایک شد ید مخالف اخبار ’’ آزاد ‘‘ بھی یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کی تعریف و توصیف میں گزشتہ انبیاء و مرسلین سے لے کر صلحائے امت تک نے بہت کچھ کہا ہے مگر حقیقی تعریف اسی شعر میں بیان کی گئی ہے کہ ۔
؎ اگر خواہی دلببلے عاشقش باش
محمد ہست برہان محمد
’’التبلیغ ‘‘ کا فارسی ترجمہ مولانا عبدالکریم صاحب کا کیا ہوا ہے ۔
ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آئینہ کمالات اسلام میں ملکہ و کٹوریہ ( ۱۸۱۹۔ ۱۹۰۱) کو ایک خط کے ذریعہ سے دعوت اسلام دی۔ جس میں آپ ؑ نے انحضرت ﷺ کے حقیقی خادم ہونے کی حیثیت سے ملکہ و کٹوریہ کو انہی الفاظ میں حق کا پیغام پہنچایا۔ جن الفاظ میں آنحضرتﷺ (۱۳) نے ۶۲۸ء کے آخر میں قیصرہ کسریٰ کو پہنچایا تھا۔ یعنی آپ نے لکھا ’’ یا ملیکہ الا رض اسلمی تسلمین ۔‘‘ اے ملکہ مسلمان ہو جا تو اور تیری سلطنت محفوط رہے گی۔ خط کے آخر میں حضور نے اسے محض اللہ نصیحت فرمائی کہ اے ملکہ مسلمانوں کی طرف خاص نظر کرنا اور ان کی اکثریت کو حکومت کے معاملات میں اپنا مقرب و مصاحب بنانا کیونکہ تو ان کی اس ریاست پر قابض ہوئی ہے جس پر وہ ایک ہزار سال (۱۴) تک اپنا پرچم لہراتے رہے ہیں پس خدا کے اس انعام پر اپنے رب کا شکر اداکر اور مسلمانوں پر فدا ہو جاکہ خدا تصدق ہو جانے والوں کو پسند فرماتاہے ۔ حکومت کا اصل مالک خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے حکومت عطا کرتا۔ اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔
ملکہ وکٹوریہ کو جب یہ دعوت ملی تو اس نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں شکریہ کا خط ارسال کیا اور خواہش ظاہر کی کہ حضور اپنی تمام تصانیف انہیں بھجوائیں (۱۵) عمر کے آخری حصہ میں ملکہ کو اسلام سے خاص محبت و الفت پیدا ہوگئی تھی ۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت تعظیم کرتی تھیں۔ اور انہوں نے ایک ذی علم مسلمان سے اردو بھی پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ (۱۶)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کا خراج عقیدت : ۔
تبلیغ اسلام کا یہی وہ مجاہدانہ کارنامہ تھا جسے چاچڑاں شریف سابق ریاست بہاولپور کے ایک صاحب کشف بزرگ خواجہ غلام فرید صاحب(۱۷) نے ( جن کے ارادتمندوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ) بہت سراہا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ۔’’ ہمہ اوقات مرزا صاحب بعبادت خدا عزوجل میگذارند ، یا نمازمی خواند، یا تلاوت قرآن شریف میکند، یادیگر شغل اشغال مینماید ۔ وبر حمایت اسلام و دین چناں کمرہمت بستہ کہ ملکہ زمان لندن رانیز دعوت دین محمدی کردہ است ، وبادشاہ روس و فرانس وغیرہ ہماراہم دعوت اسلام نمودہ است ، وہمہ سعی و کوشش اوانیست کہ عقیدہ تثلیت و صلیب راکہ سراسر کفراسست بگذارند ، و تبوحید خداوند تعالیٰ بگروند ۔ و علماء وقت رابہ بینید ، کہ دیگر گروہ مذاہب باطلہ راگذاشتہ صرف درپے ایں چنیں نیک مرد کہ ازاہل سنت و جماعت است و بر صراط مستقیم است درراہ ہدات می نماید آفتادہ اند۔و بروے حکم تکفیرمے سازند ۔ کلام عربی ادبہ بینید کہ از طاقت بشریہ خارج است و تمام کلام او مملواز معارف و حقائق است۔‘‘ (۱۸) یعنی حضرت مرزا صاحب اپنے تمام اوقات عبادت الٰہی ، دعا ، نماز ، تلاوت قرآن اور اسی نوح کے دوسرے مشاغل میں گزارتے ہیں۔ دین اسلا کی حمایت کے لئے آپ نے ایسی کمرہمت باندھی ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کو لندن میں دعوت اسلام بھیجی ہے اسی طرح روس ، فرانس اور دوسرے ممالک کے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام دیا ہے ۔ آپ کی تمام تر سعی جدو جہد یہ ہے کہ تثلیث و صلیب کا عقیدہ جو سراسر کفرو الحاد ہے ۔ صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور اس کی بجائے اسلامی توحید قائم ہو جائے۔ مگر علماء وقت کو دیکھو کہ باقی تمام باطل مذاہب کو چھوڑ کر اس نیک مرد پر کفر کے فتوئوں سے ٹوٹ پڑے ہیں جو اہل سنت و الجماعت میں سے ہے خود بھی صراط مستقیم پر گامزن ہے اور دوسروں کو بھی اسی کی راہنمائی کر رہا ہے ۔ آپ کا تمام عربی کلام دیکھا جائے تو انسانی قدرت سے بالا، معارف و حقائق سے لبریز اور سرتاپا ہدایت ہے ۔
پنڈت لیکھرام سے متعلق پیشگوئی
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے خبر پاکر پنڈت لیکھرام کے متعلق اگرچہ سات سال قبل ( فروری ۱۸۸۶ء ) سے اعلان کر رکھا تھا کہ اس شاتم رسول کے لئے ایک عبرتناک سزا مقدر ہے ۔ مگر اس کی تفصیلات آپ کو ۱۸۹۳ء میں بتائی گئیں۔ چنانچہ اس سال مختلف اوقات میں نازل ہونے والے الہامات و کشوف کے ذریعہ سے آپ کو لیکھرام کی عبرتناک سزا کے بارے میں تفصیلاً بتایا گیا کہ :۔
اول:۔ لیکھرام ایک ایسے عبرتناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جس کا نتیجہ ہلاکت ہوگا۔
دوم :۔ یہ عذاب چھ سال کے عرصہ میں آئے گا۔
سوم :۔ یہ عذاب عید کے دن سے ملے ہوئے دن میں آئے گا۔
چہارم :۔ اس کی ہلاکت ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے مقدر ہے جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا۔ (جیساکہ آپ کو ایک کشف میں دکھا یا گیا )
پنجم :۔ وہ ’’تیغ برہان محمد ‘‘ یعنی رسول اکرم ﷺ کی تیز تلوار سے کیفرکردار کو پہنچے گا۔
ششم:۔ اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے سے کیا گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ پھر اسے جلا کر اس کی راکھ دریا میں ڈال دی گئی تھی۔
حضور نے یہ تفصیلی پیشگوئیاں آئینہ کمالات اسلام ، برکات الدعا اور کرامات الصادقین میں شائع فرمائیں۔
زبردست تحدی:۔
حضور نے لیکھرام سے متعلق یہ پیشگوئی شائع کرتے ہوئے ملک بھر کے مسلمانوں، آریوں اور عیسائیوں کے سامنے یہ زبردست تحدی کی کہ ’’ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا تو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر الٰہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور نہ اس کی روح سے میرا یہ نطق ہے ۔ اور اگر میں اس پیشگوئی میں کاذب نکلا تو ہر یک سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں اور اس بات پر راضی ہوں کہ مجھے گلے میں رسہ ڈال کر کسی سولی پر کھینچا جائے۔ ‘‘ نیز لکھا ’’ اب آریوں کو چاہئے کہ سب مل کر دعا کریں کہ یہ عذاب ان کے اس وکیل سے ٹل جائے ۔ ‘(۱۹)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ ّ العالی کی ولادت
’’ آئینہ کمالات اسلام ‘‘ (صفحہ ۲۶۶) میں حضرت اقدسؑ نے خد اتعالیٰ سے اطلاع پاکر یہ پیشگوئی شائع فرمائی کہ ’’یَاتِیْ قَمَرُ الْاَنْبِیَائِ وَاَمْرُکَ یَتَاتّٰیْ یُسِرُّ اللّٰہُ وَجْھَکَ وَیُنِیْرُ بُرْھَانَکَ سَیُوْلَدُلَکَ الْوَلَدُ ۔وَیُدْنیٰ مِنْکَ الْفَضْلُ اِنَّ نُوْرِیْ قَرِیْبٌ۔ یعنی نبیوں کا چاند آئیگا اور تیرا مدعا حاصل ہو جائیگا ۔ خدا تیرے منہ کو بشاش اور تیری برہان کو روشن کر دیگا ۔ تجھے عنقریب ایک لڑکا عطا ہوگا اور فضل تیرے نزدیک کیا جائیگا۔ یقینا میرا نور قریب ہے ، سو اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ۲۰۔ اپریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے۔ (۲۰) جو خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے عالی گہراور خدا تعالیٰ کے ایک زندہ نشان ہیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن میں ایک مرتبہ آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا پلکیں گرگئیں تھیں۔ آنکھوں سے پانی بہتا تھا ۔ کئی سال تک انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بلکہ حالت اور زیادہ تشویشناک ہوگئی ۔ آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو حضورؑ کو الہام ہوا۔ بَرِقَ طِفْلِیْ بَشِیْر( میری لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں) چنانچہ اس الہام کے ایک ہفتہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامل شفا بخشی۔ اور نہ صرف آنکھیں بالکل درست ہوگئیں( ۲۱) بلکہ بصیرت کی آنکھیں بھی ایسی روشن ہوئیں کہ مادی اور روحانی علوم کے دروازے آپ پر کھل گئے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی بلند پایہ تالیفات :۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور تمنا ( ۲۲) تھی کہ آپ کو ایم ۔ اے کرایا جائے۔ حضورؑ کا منشائے مبارک اس وصیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تاآپ بیسویں صدی میں اسلام کی ترجمانی کا حق ادا کرسکیں ۔ چنانچہ ۱۹۱۶ء میں آپ ایم ۔ اے کا امتحان پاس کرتے ہی قلمی میدان میں آگئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایسا شاندار لٹریچر پید اکر دیا کہ اپنے ہی نہیں بیگانے بھی آپ کے قلم کا لو ماننے پر مجبور ہوئے ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کو چونکہ ابتدا ہی سے علم حدیث اور تاریخ اسلام سے ایک خاص فطری تعلق رہا ہے اس لئے ابتداً آپ نے اسلام کی مستقل خدمت کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح مبارک ہیں۔ جو آپ نے ’’ سیرۃ خاتم النبیین ‘‘ ( ۲۳) جیسی بلند پایہ کتاب کی شکل میں تحریر فرمائی۔ اس بلند پایہ تالیف کی اشاعت نے ملک کے اسلامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی اور انہوں نے اچھوتے مضامین ، دلاویز اسلوب بیان اور علم سیرت نبوی اور علم کلام کے نادرامتزاج اور دوسرے محاسن و کمالات پر دل کھول کر خراج تحسین ادا کیا۔
چنانچہ سیٹھ عبداللہ ہارون ایم۔ ایل ۔ اے نے لکھا ۔’’میری رائے میں اس زمانہ میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ کی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں ان میں سے یہ ایک بہترین کتاب ہے امید ہے کہ یہ کتاب مسلمانان ہند کے لئے نہایت مفید ثابت ہوگی۔ ‘‘ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا ۔ ’’ اس تصنیف میں بعض اہم مباحث پر عمدہ بحث کی گئی ہے ۔ ‘‘ نواب اکبر یا رجنگ بہادر جج ہائیکورٹ حید ر آباد دکن نے اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا۔ ’’ میری نظر میں یہ بے مثل کتاب ہے ۔ ‘‘ مولانا سید سلیمان ندوی نے کہا۔ ’’ اس میں شک نہیں کہ اس تصنیف میں محنت اٹھائی گئی ہے ۔ ‘‘ مولانا عبدالماجد صاحب ایڈیٹر اخبار ’’ سچ‘‘ لکھنؤ نے اس پر مفصل ریویو کرتے ہوئے لکھا۔ ’’سیرۃ خاتم النبیین حصہ دوم بہت مفصل و مشرح ہے اور اس میں علاوہ واقعات تاریخی کے مسائل کا حصہ بھی کثرت سے آگیاہے ۔ قانون ازدواج و طلاق ۔ غلامی۔ تعداد ازدواج ۔ جہاد وغیرہ کے مباحث خصوصاً مفصل ہیں اور انگریزی خوان نوجوان کے حق میں مفید ۔ معجزات پر بھی شافی بحث ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان مسائل پر بحث کرتے وقت مصنف کا قلب تحقیقات فرنگ سے مرعوب و دہشت زدہ نہیں جیساکہ بدقسمتی سے اکثر متکلمین حال کا حال ہے ۔۔۔۔۔ سرورکائنات کا ذات پر جمال تو وہ ہے جس نے خدا معلوم کتنے بیگانوں تک کے دلوں کو موہ لیا ہے اہل قادیان تو بہرحال کلمہ گوہیں ان کے کسی مصور کے قلم نے اگر اس حسین و جمیل کی ایسی دلکش تصویر تیار کر دی ہے تو اس پر حیرت بے محل ہے ۔ ‘‘
’’ سیرت خاتم النبیین ‘‘ کی تالیف کے دوران ہی میں آپ کی توجہ حضرت مسیح موعود کی سیرت و سوانح سے متعلق صحابہ کرامؓ کی روایت جمع کرنے کی طرف ہوئی۔ چنانچہ آپ کی شبانہ روز کوششوں کے نتیجہ میں ’’ سیرت المہدی ‘‘ (۲۴) کا قیمتی ذخیرہ شائع ہو کر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔ سلسلہ کی بعض گمشدہ کڑیوں کا سراغ اسی سے ملتا ہے اس کے چوتھے حصہ کا مواد بھی فراہم ہو چکا ہے مگر اس کی اشاعت کی نوبت ابھی نہیں آسکی۔
تاریخ سلسلہ کی تدوین کے سلسلہ میں آپ کی معرکۃ الا راء تالیف ’’ سلسلہ احمدیہ ‘‘ ہمیشہ یادگار رہے گی ۔ جو آپ نے خلافت جوبلی کی تقریب پر ۱۹۳۹ء میں شائع فرمائی ۔ یہ کتاب جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ کارناموں کی مختصر مگر جامع اور مستند تاریخ ہے ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس میں سلسلہ احمدیہ کے مخصوص عقائد ، اس کے اغراض و مقاصد اور مستقبل پر بھی مخصوص انداز میں سیر حاصل روشنی ڈالی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
ان تالیفات کے علاوہ جو اسلام و احمدیت کا انسائیکلوپیڈیا کہلانے کی مستحق ہیں آپ نے سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں سینکڑوں مضامین لکھے ہیں ۔ اور متعدد لاجواب کتابیں اور رسائل تالیف کئے ہیں۔ مثلاً ’’ کلمۃ الفصل ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۱۵) ’’تصدیق المسیح‘‘ (مطبوعہ ۱۹۲۷ء) ’’ الحجۃ البالغہ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۷۱ء ) ’’ ہمارا خدا ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۲۷ء ) ’’ تبلیغ ہدایت ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۲۷ء ) ’’ ایک اور تازہ نشان ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۳۴) ’’ امتحان پاس کرنے کے گر‘‘ ۔ (مطبوعہ ۱۹۳۴ء ) ’’ مسئلہ جنازہ کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۴۱ء ) ’’ قادیان کاخونی روزنامچہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۸۴ء ) (۲۵) ’’ اشتراکیت اور اسلام ۔ ‘‘ ’’ چالیس جواہر پارے ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۰ء) ’’ اسلامی خلافت کا نظریہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۱ء ) ’’اچھی مائیں ‘‘۔ ’’ ختم نبوت کی حقیقت ‘‘( مطبوعہ ۱۹۵۳) ’’جماعتی تربیت اور اس کے اصول ۔‘‘ ’’ روحانیت کے دو زبردست ستون ‘‘ (مطبوعہ ۱۹۵۶ء) ’’ احمدیت کا مستقبل ۔‘‘ ’’ قرآ ن کا اول و آخر ۔‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۵۷ء) ’’ نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘(مطبوعہ ۱۹۵۸) ’’ سیرت طیبہ ‘‘ ( مطبوعہ ۱۹۶۰) تربیتی مضامین ‘‘(۲۶) (مطبوعہ ۱۹۶۰ء) ان میں سے ہرایک تالیف یا مضمون کو اپنے موضوع کے اعتبار سے مشعل راہ کی حیثیت حاصل ہے ۔
عظیم الشان عملی کارنامے :۔
یہ تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی علمی خدمات کا ایک مختصر سا خاکہ ہے انتظامی اور عملی لحاظ سے بھی آپ کا مقدس وجود جن عظیم الشان برکتوں کا موجب ثابت ہوا ہے وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ بلا شبہ آپ کوہ وقار اور پیکر جہادو استقلال ہیں۔ آپ کی خاموش اور بے ریا زندگی خدمت دین کے بے شمار کارناموں سے معمور ہے جن کی تفصیل کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے ۔ مختصراً اتنا بتانا ضروری ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے عملی کارناموں کا آغاز مولانا نورالدین حضرت خلیفہ اول ؓ کے زمانہ سے ہوتا ہے جب کہ آپ کو حضرت خلیفہ اول ؓ نے ’’ صدر انجمن احمدیہ ‘‘ کی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۔ خلافت اولیٰ کا دور آپ نے زیادہ تر تعلیمی مصروفیات میں گزارا۔ لیکن خلافت ثانیہ کے ابتداء ہی سے آپ کا ایک ایک لمحہ خدمت دین کے لئے وقف ہوگیا۔ چنانچہ شروع میں آپ نے ’’ الفضل ‘‘ کی ادارت کے فرائض سر انجام دیئے اس کے بعد ’’ ریویو آف ریلیجنز ‘‘ کی خدمت ایک عرصہ تک آپ کے سپر د رہی ۔ مدرسہ احمدیہ ایسے اہم جماعتی ادراہ کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ سالہاسال تک سلسلہ احمدیہ کے متعدد صیغوں مثلاً تالیف و تصنیف ۔ امور عامہ اور تعلیم و تربیت کی نگرانی کے فرائض سر انجام دینے کے علاوہ ناظر اعلیٰ بھی رہے ۔ ’’ انگریزی ترجمہ القرآن ‘‘ کے نام میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ پھر قیام پاکستان کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایات کے تحت آپ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ جن کا مفصل ذکر اپنے مقام پر آرہا ہے ۔ ۳۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کو جب حضرت اقدس مصلح موعود ہجرت کرکے قادیان سے پاکستان تشریف لائے تو حضور نے آپ کو امیر مقامی نامزد فرمایا حضرت صاحبزادہ صاحب نے قادیان میں ۲۳۔ ستمبر ۱۹۴۷ء تک نہایت احسن رنگ سے نیابت کے فرائض ادا کئے اور پھر حضور کے خاص ارشاد کے تحت پاکستان تشریف لے آئے ۔
یہاں حفاظت ( ۲۷) مرکز کا اہم شعبہ آپ کے سپر د ہوا۔ جس کی زمام قیادت آپ اب تک نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آپ نے وقت کے ہر اہم جماعتی تقاضے کو پورا کرنے میں انتہائی معاملہ فہمی اور بیدار مغزی کا ثبوت دیا ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب مرکز سے باہر تشریف لے جاتے ہیں تو حضور آپ کو ہی امیر مقامی تجویز فرماتے ہیں۔ غرض کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی اسلام و احمدیت کے لئے مسلسل جہاد اور تاریخ احمدیت کا زریں ورق ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و توانائی کے ساتھ لمبی عمر بخشے ۔ آمین۔ ( جدید ایڈیشن سے قبل آپ وصال فرما چکے ہیں۔ تاریخ وفات ۲۔ ستمبر ۱۹۶۳ء)
تصنیف واشاعت’’ برکات الدعاء‘‘
سرسید احمد خاں مرحوم ہندو ستانی مسلمانوں کے عظیم سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے مسلمانوں کی کسمپرسی سے مضطرب ہو کر ان کی رفاہ و بہبود کا بیڑا اٹھایا اور تعلیمی و معاشرتی اصلاح کے لئے ایک منظم تحریک کا آغاز کیا۔ جس نے دینوی اعتبار سے مسلمانان ہند کو بڑے بڑے فوائد پہنچائے مگر بد قسمتی سے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے پاکیزہ جذبہ کے جوش میں مغربیت اور اسلام کی صلح کرانے کے لئے اسلام کے اہم بنیادی اصول مثلاً وحی کو اندرونی خیالات کا نام دے کر استجابت دعا وغیرہ کا انکار کر دیا اور اپنے خیالات کی اشاعت کے لئے قرآن مجید کے ایک حصے کی تفسیر شائع کی اور پھر رسالہ ’’ الدعاء والاستجابہ‘‘ اور ’’ تحریرفی اصول التفسیر ‘‘ کے ذریعہ سے اپنے نظریات دہرائے۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو دنیا میں وحی اور دعا کی قبولیت کا مجسم نشان بن کر آئے تھے آپ بھلا ایسے خیالات کو کب برداشت کرسکتے تھے چنانچہ حضور نے اپریل ۱۸۹۳ء کو ’’ برکات الدعاء ‘‘ جیسی لطیف تصنیف شائع فرمائی اس رسالے میں حضور نے سر سید احمد خاں کو پنڈت لیکھرام کے عبرت ناک انجام کے بارہ میں اپنی دعا کے قبول ہونے کی قبل از وقت خبر دیتے ہوئے یہ زبردست پیشگوئی بھی فرمائی کہ جب تک لیکھرام کی موت واقع نہ ہوگی وہ زندہ رہیں گے جیسا کہ حضور نے فرمایا :۔
ہاں مکن انکار زیں اسرار قدت ہائے حق قصہ کو تہ کن بیبں ازمادعائے مستجاب (۲۸)
چنانچہ ایسا ہی ہوا سر سید احمد خاں اس وقت تک زندہ رہے جب تک لیکھرام کی موت واقع نہیں ہوئی ۔
ہنری مارٹن کلارک کی طرف سے مباحثہ کا چیلنج اور رسالہ
’’حجۃ الاسلام ‘‘ اور رسالہ ’’ سچائی کا اظہار ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
جنڈیالہ ( ضلع امرت سر ) میں عیسائیوں کا بھاری مشن تھا۔ ۱۸۸۲ء ( ۲۹) میں ڈاکٹر کلارک امرتسر میں طبی مشن کے انچارج بنے تو انہوں نے یہاں طبی شاخ کھول کر عیسائیت کے فروغ کا نیا دروازہ کھول دیا۔ اور عیسائی مناد جابجاو عظ کرنے لگے ۔ جنڈیالہ کے ایک غیور مسلمان میاں محمد بخش پاندہ نے جو یہ صورت حال دیکھی تو وہ معمولی تعلیم رکھنے کے باوجود مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ عیسائی پادریوں سے جب کوئی معقول جواب نہ بن سکا تو انہوں نے مشن انچارج ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب سے شکایت کی جس پر مارٹن صاحب نے جنڈیالہ کے مسیحیوں کی طرف سے مسلمانوں کو مباحثہ کا تحریری چیلنج دے دیا۔ اور کہا کہ اہل اسلام جنڈیالہ اپنے علماء و بزرگان دین کو میدان میں لاکر دین حق کی تحقیق کریں ورنہ آئندہ سوال کرنے سے خاموش ہو جائیں۔ میاں محمد بخش صاحب نے یہ چیلنج ملتے ہی علماء کو خط لکھے کہ پادریوں سے بحث کرنے کے لئے جنڈیالہ تشریف لائیں ۔ نیز اسی دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی لکھا کہ آنجناب اللہ اہل اسلام جنڈیالہ کی امداد فرمائیں۔ دوسرے مولویوں نے تو پاندہ صاحب کو جواب دیا کہ ہمارے قیام و طعام اور سفر خرچ وغیرہ کا کیا انتظام ہوگا۔ مگر حضرت اقدسؑ یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ خد اتعالیٰ نے ہمارے لئے ایک شکار بھیجا ہے ۔ چنانچہ حضور ؑ نے ۲۳۔ اپریل ۱۸۹۳ء کو جنڈیالہ اطلاع بھجوائی کہ حضور اس دینی کام کے لئے بالکل تیار ہیں۔ (۳۰) نیز دوسرے ہی دن قادیان سے اپنے خدام کا ایک وفد ( ۳۱) پادری مارٹن کلارک صاحب کے پاس امرت سر بھجوایا پادری صاحب کوٹھی پر موجود تھے انہوں نے اردلی کو توحکم دیا کہ کرسیاں برآمدہ میں رکھ دو اور خود دوسرے دروازہ سے پادری عبداللہ آتھم ( ۳۲) صاحب کی کوٹھی پر پہنچے اور انہیں اپنی کوٹھی پر لے آئے رات کے گیارہ بجے تک گفتگو جاری رہی اور بالاخر اتفاق رائے سے ایک مفصل تحریری شرائط نامہ ( ۳۳) پر فریقین کے دستخط ہوگئے۔ مباحثہ کیلئے ۲۲۔ مئی سے ۵۔ جون ۱۸۹۳ء کی تاریخیں مقرر ہو ئیں۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ اور عیسائیوں کی طرف سے پادری عبداللہ آتھم مناظر قرار پائے۔
بعض علماء کی عیسائیت نوازی :۔
جب امرتسر اور بٹالہ کے بعض مولویوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے آتھم صاحب کی کوٹھی پر جا کر کہا کہ تم نے دوسرے علماء سے بحث کیوں منظور نہ کی مرزا صاحب سے کیوں بحث پر رضا مندی ظاہر کی ان کو تو تمام علماء کافر کہتے ہیں اور ان پر اور ان کے مریدوں پر کفر کے فتوے لگ چکے ہیں۔ آتھم صاحب تو پہلے ہی حضرت اقدسؑ سے خوفزدہ تھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک سے کہنے لگے کہ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مرزا صاحب سے بحث کرنا آسان نہیں۔ اب یہ موقع اچھا ہاتھ آگیا ہے ۔ مرزا صاحب کو جواب دے دو اور ان مولویوں سے بے شک مباحثہ کر لو کوئی حرج نہیں چنانچہ پادری مارٹن کلارک نے ۱۲۔ مئی ۱۸۹۳ء کو ایک اشتہار دیا کہ مرزا صاحب کو علماء نے کافر قرار دیا ہے ۔(۳۴) لہٰذا وہ اسلام کے وکیل نہیں ہو سکتے ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں انہیں خط لکھا کہ اب آپ کا انکار درست نہیں۔ آپ لوگوں کی تحریریں اور وعدے اور منظور کردہ شرائط ہمارے پاس ہیں پس آپ کو یا تو بحث کر نا ہوگی یا پھر شکست تسلیم کرنی پڑے گی اگریہ بات اخباروں میں شائع کردو اور اپنی شکست کا اعتراف کر لو پھر تمہیں اختیار ہے جس مولوی سے چاہو بحث کر لو۔ نیز فرمایا تم ہمیں کفر کے فتووں کا طعنہ دیتے ہو حالانکہ یہ فتاویٰ کفر ہم پر چسپاں نہیں ہو سکتے ۔ ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے سچے مسلمان ہیں اور ایک خدا ترس عالم فاضل مسلمانوں کی جماعت ہمارے ساتھ ہے اور کفر کے فتوے تو آپ لوگوں پر بھی لگ چلے ہیں پروٹسٹنٹ کیتھولک مذہب والوں کو کافر بلکہ واجب القتل یقین کرتے ہیں۔ پھر تو آپ بھی عیسائیت کے وکیل نہیں ہو سکتے ۔ پس فتاویٰ کفر میں ہم اور تم برابر ہیں ۔ بحث تو دراصل حق اور باطل میں ہے کہ آیا حق آپ کی طرف ہے یا ہم حق پر ہیں۔ اس میں کفر کے فتوئوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے اسلام اور قرآن کریم کی وکالت کرنی ہے اور آپ نے اناجیل کی ۔ بھلااس کو فتاویٰ کفر سے کیا تعلق ‘‘(۳۵)
حضرت اقدسؑ نے مناظرہ کی ابتدائی خط و کتابت ، مارٹن کلارک کا چیلنج ، پاندہ صاحب کا خط ، مناظرہ کے شرائط اور دیگر تمہید کوائف منظر عام پر لانے کے لئے ’’ حجۃ الاسلام ‘‘ اور ’’ سچائی کا اظہار ‘‘ نامی رسالے شائع کئے۔ حجۃ الاسلام میں حضورؑ نے خد اتعالیٰ سے علم پا کر اول المکفرین مولوی محمد حسین بٹالوی سے متعلق یہ خبر دی کہ وہ مرنے سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے اور تکفیر سے رجوع کر لیں گے ۔ چنانچہ یہ پیشگوئی ۱۹۱۴ء میں پوری ہوگئی جب کہ مولوی صاحب نے ضلع گوجرانوالہ کے جج لالہ دیو کی نندن کی عدالت میں حلفیہ شہادت دی کہ فرقہ احمدیہ بھی قرآن و حدیث کو مانتاہے اور ہمارا فرقہ کسی ایسے فرقہ کو جو قرآن اور حدیث کو مانے کا فر نہیں کہتا ( دیکھو مقدمہ نمبر ۱۳۰۰ بعد الت لالہ دیو کی نندن مجسٹریٹ درجہ اول )ایک غیر احمدی عالم اس نشان کے پورا ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مرزا صاحب کے سخت مخالف تھے ۔ حتیٰ کہ آپ نے مرزا صاحب پر کفر کے فتوے لگائے عین اس زمانہ میں مرزا صاحب نے پیشگوئی کی کہ مولانا موصوف وفات سے قبل میرا مومن ہونا تسلیم کر لیں گے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور مولوی صاحب کو عدالت میں یہ بیان دینا پڑا کہ ان کا فرقہ جماعت مرزائیہ کو مطلقاً کافر نہیں کہتا یہ ایک ایسا بد یہی نشان ہے جس سے انکار نہیں ہو سکتا۔(۳۶)
جنگ مقدس
طے شدہ شرائط کے مطابق ۲۲۔ مئی سے ۵۔ جون ۱۸۹۳ء تک امرتسر میں مباحثہ ہوا۔ جو جنگ مقدس کے نام سے چھپا ہوا موجود ہے ۔ یہ مباحثہ مسٹرہنری مارٹن کلارک کی کوٹھی میں ہوا۔ مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح( وائس پریذیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ) نے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے صدر کے فرائض سر انجام دیئے۔ حضور کے ساتھ معاونین کے طور پر حضرت مولانا نور الدین صاحب۔ مولانا سید محمد احسن صاحب اور شیخ اللہ دیا صاحب لدھیانوی تھے۔ اور عیسائی مناظر آتھم کے معاون پادری جے ۔ایل ٹھاکر داس، پادری عبداللہ اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے۔ کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپورتھلہ جو عیسائیت اختیار کر چکے تھے عیسائیوں کی طرف بیٹھتے۔ ایک طرف حضرت اقدسؑ اور دوسری طرف عبداللہ آتھم صاحب بیٹھتے تھے ۔ دونوں فریقوں کے درمیاں خلیفہ نورالدین صاحب جمونی اور منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مباحثہ کی کارروائی نوٹ کرتے ۔ اسی طرح عیسائیوں کے آدمی بھی لکھتے تھے اور بعد میں تحریروں کا مقابلہ کر لیتے تھے ۔ (۳۷)
ایک ایمان افروز واقعہ:۔
مباحثہ کے دوران میں ایک عجیب ایمان افزا واقعہ پیش آیا جس نے اپنوں اور بیگانوں کو حیران کر دیا۔ عیسائیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے یہ صورت نکالی کہ ایک دن چند لولے لنگڑے اور اندھے اکٹھے کر لئے اور کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا دعویٰ ہے ان پر ہاتھ پھیر کر اچھا کر دیں۔ مجلس میں ایک سناٹا سا چھا گیا۔ اور مسلمان نہایت بے تابی سے انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں اور عیسائی اپنی اس کارروائی پر پھولے نہیں سماتے تھے لیکھ جب حضورؑ نے اس مطالبہ کا جواب دیا تو ان کی فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی اور معقولیت کے قائل ہوگئے آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا انجیل میں لکھا ہے ہم تو اس کے قائل ہی نہیں ہمارے نزدیک تو حضرت مسیحؑ کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا۔ یہ تو انجیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے۔ لیکن اسی انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی برابر ( ۳۸) بھی ایمان ہوگا تو تم مجھ سے بھی بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو۔ پس ان مریضوں کو پیش کرنا آپ لوگوں کاکام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے اور اب میں ان مریضوں کو جو آپ نے نہایت مہربانی سے جمع کر لئے ہیں آپ کے سامنے پیش کرکے کہتا ہوں کہ براہ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہے تو ان مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جائو۔ اگریہ اچھے ہوگئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ اور آپ کا مذہب سچاہے ۔ حضرت اقدسؑ کی طرف سے یہ برجستہ جواب سن کر پادریوں کے ہوش اڑ گئے اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا۔ (۳۹)
مباحثے کا اثر :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس مباحثہ میں یہ اصول پیش کیا کہ فریقین کو لازم ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعویٰ اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جائے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں اور دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سنہری اصول کا التزام کرتے ہوئے قرآن کریم کی صداقت جس خوبی سے نمایاں کرکے دکھائی ہے اس کا لطف اصل پر چے دیکھنے سے ہو سکتا ہے ۔ اس کے مقابل عیسائی مناظر اس میں سراسر ناکام ہوئے یہ اسی فتح عظیم کا نتیجہ تھا کہ کرنیل الطاف علی خاں صاحب رئیس کپورتھلہ جو مباحثہ میں عیسائیوں کی صف میں بیٹھتے تھے آخری دن حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پہنچے اور عیسائیت سے تائب ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔(۴۰)
باطل طریق کے لئے پیشگوئی :۔
مباحثہ کا آخری دن ( ۵۔ جون ۱۸۹۳ء ) بڑے معرکے کا دن تھا کیونکہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا سے علم پاکر باطل فریق کے متعلق یہ زبردست پیشگوئی فرمائی کہ ’’ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔ اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے ۔ ‘‘ اس کے بعد حضورؑ نے مسٹر آتھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگریہ نشان پورا ہوگیا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل ( صفحہ۷۰، ۷۵) میں معاذ اللہ دجال کے لفظ سے آپ یاد کرتے ہیں محکم دلیل ٹھہرے گی یا نہیں ؟ (۴۱) یہ ہیبت ناک پیشگوئی سن کر مسٹر آتھم کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے اور انہوںنے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے جیسا کہ ایک خائف ملزم توبہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتاہے ۔ اور بار بار لرزتی ہوئی زبان سے کہا توبہ توبہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز دجال نہیں کہا۔(۴۲،۴۳)
سفر جنڈیالہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مناظرہ سے فارغ ہونے کے بعد مسلمانان جنڈیالہ کی درخواست پر ایک دن کے لئے جنڈیالہ تشریف لے گئے ۔ قصبہ کے اکثر معزز لوگوں نے جو حضورؑ کی زیارت کے مشتاق تھے آپ کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اور ایک نئے مکان میں حضور کا قیام ہوا۔ مکان کے ایک دالان اور کوٹھری میں فرش بچھا ہوا تھا۔ کوٹھری میں تو حضرت اقدس فروکش ہوئے اور چند خدام حضرت مولانا نورالدین صاحب کے ساتھ مکان کی ملحقہ مسجد میں آکر بیٹھ گئے ۔ اہل جنڈیالہ نہایت شوق سے مسجد میں جمع ہوئے اور مناظرہ کے کوائف سنتے رہے حضرت مولانا بڑی دیر تک وعظ فرماتے اور حالات سناتے رہے ۔ اہل جنڈیالہ اس دن اس قدر خوش تھے کہ گویا ان کے واسطے عید کا دن تھا۔ دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر حضرت اقدسؑ بھی مسجد میں تشریف لے آئے اور دیر تک اپنے مقدس کلمات سے نوازتے رہے ۔ حضور نے بڑی تفصیل سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جو علماء نے پھیلا رکھی تھیں اور نصوص قطعیہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ثابت کی جس سے لوگوں کی خوب تسلی ہوئی اور وہ نہایت شکر گزار ہوئے ۔ حضرت اقدسؑ عصر کی نماز تک جنڈیالہ میں مقیم رہے اور عصرکے بعد تھوڑی دیر بیٹھ کر امر تسر تشریف لے آئے ۔ (۴۴)
قادیان کوواپس :۔
جنڈیالہ سے آنے کے بعد چند روز حضورؑ نے مزید امرتسر میں قیام فرمایا اور جون کے دوسرے ہفتہ میں قادیان تشریف لے آئے ۔ (۴۵)












ماموریت کا پندرھواں سال
تعطیل جمعہ کی تحریک
(۱۸۹۶ء)
۱۸۹۶ء کا آغاز ایک دوسری تحریک سے ہوا جو تعطیل جمعہ سے متعلق تھی۔ جمعہ کی عظمت و فرضیت قرآن و احادیث سے نمایاں اور مسلمانان عالم کے نزدیک مسلم ہے جہاں جہاں اسلامی حکومتیں قائم رہیں انہوں نے اس شعار اسلامی کے قیام و بقاء کا خاص خیال رکھا۔ اسی طرح جس وقت سے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی اسی وقت سے جمعہ کی تعطیل بھی جاری ہوئی اور آخرتک جاری رہی بلکہ مسلمان حکومت کے خاتمہ کے بعد بھی مدت تک بعض ہندو ریاستوں میں جمعہ کی سرکاری تعطیل ہوتی رہی۔ لیکن جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو اتوار کی تعطیل شروع ہوگئی اور مسلمان بالعموم اس مقدس دن کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ احیائے دین کے لئے تشریف لائے تھے اس لئے آپ نے یکم جنوی ۱۸۹۶ء کو مسلمانان ہند کی طر ف سے وائسرائے ہند کے نام اشتہار شائع کیا (۱) جس میں اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعہ کی اہمیت واضح کرکے درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل قراردیں۔
اس سے قبل مسلمانوں نے کئی دفعہ اس تجویز کا ارادہ کیالیکن یہ سوچ کر کہ ایک غیر اسلامی گورنمنٹ سے اس کے قبول کرنے کی امید نہیں ہو سکتی وہ دستکش ہوگئے۔ (۲)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی پرزور مخالفت :۔
حضرت اقدس نے یہ تحریک اٹھاتے ہوئے بالخصوص علماء کو توجہ دلائی ۔کہ ’’ وہ بھی دستخط کرنے سے ثواب آخرت حاصل کر یں ۔ یہ فرض کیا کہ ہم ان کی نظر میں کافر اور بے دین ہیں۔ مگر اس بے دلیل خیال سے اس نیکی سے محروم نہ رہ جائیں یونہی سمجھ لیں کہ کبھی دین کو خدا تعالیٰ فاسقوں کے ذریعہ سے بھی مدد دیتاہے (۳)لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے زیر اثر علماء نے اس موقعہ پر بھی اختلاف کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا پورا زور صرف کر دیا۔ چنانچہ لکھا ۔’’ چونکہ وہ درپردہ دشمن اسلام اور دہریہ ہے اور موجودہ ہیئت اسلام و مسلمانوں کو درہم برہم کرنا چاہتاہے لہٰذا کچھ بعید نہیں کہ یہ درخواست اس نے اسی غرض سے تجویز کی ہو کہ یہ درخواست گورنمنٹ سے نامنظور ہو تو موجودہ حالت ( افسران بالادست کی خاص اجازت ) بھی باقی رہے اور جمعہ جماعت کا بکھیڑا دور ہوتا نظر آوے ۔ ‘‘(یٔ)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی اس حاسدانہ کارروائی سے وقتی طور پر یہ تحریک دب گئی مگر بالا خر مولانا نورالدین حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں حکومت نے یہ تجویز منظور کر لی۔ (۵)
امیر کابل کے نام تبلیغی خط
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء مطابق شوال ۱۳۱۳ھ میں والئی کابل امیر عبدالرحمن خاں ( ۱۸۴۴۔ ۱۹۰۱ء ) کے نام ایک تبلیغی خط بھیجا( ۶) یہ خط حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب شہید لے کر گئے تھے ۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار’’ منادی ‘‘ میں لکھا تھا کہ امیر کابل نے اس خط کے موصول ہونے پر فقط یہ جواب دیا کہ ’’اینجابیا‘‘ اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعویٰ کرو۔ تو نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔ (۷) لیکن اس کا کوئی قطعی ثبوت معلوم نہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات سے صرف اتنا ثابت ہوتاہے ۔کہ بعد کو جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کابل گئے تو انہوں نے امیر کابل کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ چنانچہ مولوی صاحب نے واپس آنے کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آسکیں گے ۔(۸)
بعض علماء کا کہنا ہے کہ امیر کابل کو جب حضرت مسیح موعود ؑ کا تبلیغی خط پہنچا۔ تو انہوں نے کہا’’مارا عمر باید نہ عیسیٰؑ ۔ عیسیٰ درزمان خودچہ کردہ بودکہ باردیگر آمد خواہد کرد۔‘‘ یعنی ہمیں حضرت عمر فاروق کی ضرورت ہے ۔ حضرت عیسیٰؑ کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے بعثت اولیٰ میں کیا کامیابی حاصل کی تھی؟ (۹)
مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کو مباہلے کی دعوت
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے دعویٰ الہام پر بیس برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا جو آپ کی صداقت کا کھلا کھلا خدائی نشان تھا۔ جب آپ ؑ نے الہام پانے کا دعویٰ کیا تو آپ جوان تھے لیکن اب آپ بوڑھے ہو چکے ۔ آپ کے بہت سے دوست اور عزیز جو آپ سے چھوٹے تھے فوت ہو گئے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے عمر دراز بخشی اور ہر میدان میں آپ کی نصرت و تائید فرمائی ۔ اور ہر مشکل میں آپ کا متکفل و متولی رہا۔ مگر آسمانی عدالت کا یہ عملی فیصلہ دیکھ کر بھی چونکہ خدا ناترس علماء اور سجادہ نشین ابھی تک آپ کے مفتری و کذاب ہونے کی رٹ لگارہے تھے اس لئے حضور نے خدا کے حکم ( ۱۰) سے اس سال ہندوستا ن کے تمام قابل ذکر مخالف عالموں اور سجادہ نشینوں کا نام لے لے کر ان کو مباہلہ کی فیصلہ کن دعوت دی۔ (۱۱)
الفاظ مباہلہ :۔ اس دعوت کے ساتھ حضور نے مباہلہ کے الفاظ بھی از خود لکھ دیئے۔ چنانچہ لکھا ’’تاریخ اور مقام مباہلہ کے مقرر ہونے کے بعد میں ان تمام الہامات کو جو لکھ چکا ہوں اپنے ہاتھ میں لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوں گا اور دعاکروں گا کہ یا الٰہی اگر یہ الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں میرا ہی افتراہے اور تو جانتاہے کہ میں نے ان کو اپنی طرف سے بنالیا ہے یا اگر یہ شیطانی وساوس ہیں اور تیرے الہام نہیں ۔ تو آج کی تاریخ سے ایک برس گزرنے سے پہلے مجھے وفات دے یا کسی ایسے عذاب میں مبتلا کر جو موت سے بدتر ہو اور اس سے رہائی عطانہ کر جب تک کہ موت آجائے تا میری ذلت ظاہر ہو اور لوگ میرے فتنہ سے بچ جائیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرے سبب سے تیرے بندے فتنہ اور ضلالت میں پڑیں۔ اور ایسے مفتری کا مرنا ہی بہتر ہے ۔ لیکن اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضر ہیں ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر ۔ کسی کو اندھا کر دے ۔ اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا۔ اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب میں یہ دعا کر چکوں تو دونوں فریق کہیں کہ آمین ۔ ایسا ہی فریق ثانی کی جماعت میں سے ہریک شخص جو مباہلہ کے لئے حاضر ہو جناب الٰہی میں یہ دعا کرے ۔ کہ اے خدائے علیم و خبیر ہم اس شخص کو جس کا نام غلام احمد ہے دراصل کذاب اورمفتری اور کافر جانتے ہیں ۔ پس اگر یہ شخص درحقیقت کذاب اور مفتری اور کافر اور بے دین ہے اور اس کے یہ الہام تیری طرف سے نہیں بلکہ اپنا ہی افتراء ہے تو اس امت مرحومہ پر یہ احسان کر کہ اس مفتری کو ایک سال کے اندر ہلاک کردے تالوگ اس کے فتنہ سے امن میں آجائیں۔ اور اگر یہ مفتری نہیں اور تیری طرف سے ہے اور یہ تمام الہام تیرے ہی منہ کی باتیں ہیں تو ہم پر جو اس کو کافر اور کذاب سمجھتے ہیں دکھ اور ذلت سے بھرا ہوا عذاب ایک برس کے اند رنازل کر ۔ اور کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج اور کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر اور جب یہ دعا فریق ثانی کر چکے تو دونوں فریق کہیں کہ آمین (۱۲)
اس کے ساتھ ہی حضورؑ نے یہ ۔۔۔۔۔۔۔شرط بھی درج فرمائی کہ ’’میری بددعا کا اثر صرف اس صورت میں سمجھا جاوے کہ جب تمام وہ لوگ جو مباہلہ کے میدان میں بالمقابل آویں ایک سال تک ان بلائوں میں سے کسی نہ کسی بلا میں گرفتار ہو جائیں ۔ اگرایک بھی باقی رہا تو میں اپنے تئیں کا ذب سمجھوں گا۔ اگرچہ وہ ہزار ہوں یا دو ہزار اور پھر ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اگر میں مرگیا تو ایک خبیث کے مرنے سے دنیا میں ٹھنڈاور آرام ہو جائے گا۔
حضرت اقدسؑ نے یہ دعوت باقاعدہ مطبوعہ شکل میں تمام مشہور علماء اور سجادہ نشینوں کو بذریعہ رجسٹری ارسال فرمائی ۔ اور ان کے ناموں کی لمبی فہرست دے کر آخر میں یہ بھی احتیاطاًلکھا کہ ان حضرات میں سے اگر اتفاقاً کسی صاحب کو یہ رسالہ نہ پہنچا ہو تو وہ اطلاع دیں تا دوبارہ بذریعہ رجسٹری بھیجا جائے ۔(۱۴)
اس دعوت کے بعد آپ نے علماء و مشائخ کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی کہ ان میں سے ہر شخص اپنے ہا ں بیٹھے بٹھائے اشتہارات کے ذریعہ سے بھی مباہلہ کر سکتا ہے ۔ (۱۵) لیکن افسوس کہ اس درجہ سہولت ، اور غیرت دلانے والے الفاظ کے باوجود حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف اور حضرت پیر صاحب العلم سندھ کے سوا کوئی شخص ایسا نہ نکلا جو کھلم کھلا حضور کی تصدیق کرتا۔
دعوت مباہلہ مجسم نشان کی حیثیت اختیار کر گئی :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعوت میں لکھا تھا۔ کہ میں مباہلہ میں دعا کروں گا کہ ’’ اے علیم و خبیر اگر تو جانتا ہے کہ یہ تمام الہامات جو میرے ہاتھ میں ہیں تیرے ہی الہام ہیں اور تیرے منہ کی باتیں ہیں تو ان مخالفوں کو جو اس وقت حاضرہیں۔ ایک سال کے عرصہ تک نہایت سخت دکھ کی مار میں مبتلا کر کسی کو اندھا کر دے اور کسی کو مجذوم اور کسی کو مفلوج او ر کسی کو مجنون اور کسی کو مصروع اور کسی کو سانپ یا سگ دیوانہ کا شکار بنا اور کسی کے مال پر آفت نازل کر اور کسی کی جان پر اور کسی کی عزت پر ۔‘‘ اور گومباہلہ کی نوبت نہیں آئی۔ لیکن یہ عجیب کرشمہ قدرت ہے کہ آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ بے اثر ثابت نہیں ہوئے ۔ بلکہ جو معاند علماء یا گدی نشین اپنی مخالفت پر بدستور قائم رہے انہیں اپنے جرم کی پاداش میں ان سزائوں میں سے کسی نہ کسی سزا کو ضرور بھگتنا پڑا۔ چنانچہ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی پہلے اندھے ہوئے پھر سانپ کے ڈسنے سے مرے ۔ مولوی عبدالعزیز صاحب اور مولوی محمد صاحب لدھیانوی جو مشہور مکفر ین میں سے تھے صرف تیرہ دن کے وقفے سے یکے بعد دیگرے اس جہان سے کوچ کر گئے اور ان کا پورا خاندان اجڑ گیا۔ مولوی سعد اللہ صاحب نو مسلم اور مولوی رسل بابا صاحب طاعون کا شکا ر ہوئے۔ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری نے اپنی کتاب ’’فتح رحمانی‘‘ صفحہ ۲۶۔۲۷میں آپ کے خلاف بد دعا کی تھی وہ کتاب کی اشاعت سے قبل ہی اجل کے ہاتھوں پکڑے گئے ۔ غرض ان مخالفانہ کاروائی جاری رکھنے والوں میں سے اکثر آپ کی زندگی میں ہی تباہ و برباد ہوئے۔ چنانچہ ۱۹۰۶ء تک ان مخالفین کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جوزندہ تھے ۔ وہ بھی کسی نہ کسی بلا میں گرفتار تھے۔ (۱۶) آپ کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری سلسلہ احمدیہ کے عروج کا مشاہدہ کرنے کے لئے دیر تک زندہ رہے اور بالاخر پے درپے صدمات سہ کر فالج سے راہی ملک عدم ہوئے (۱۷)
حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف کی تصدیق : ۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے ان عالموں اور سجادہ نشینوں کے حلقے میں حضرت خواجہ غلام فرید صاحب وہ مرد مجاہد تھے جنہوں نے کھلے لفظوں سے آپ کی تصدیق فرمائی ۔ چنانچہ انہوں نے دعوت مباہلہ کا اشتہار ملتے ہی ۲۷۔ رجب ۱۳۱۴ھ ( مطابق جنوری ۱۸۹۷ء) کو حضرت اقدسؑ کے نام عربی میں عقیدت مندی کے جذبات سے مکتوب بھیجا کہ مباہلہ کا سوال ہی کیا ہے میں تو ابتداہی سے حضور کی تعظیم کر تاہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو۔ اور کبھی میری زبان پر تعظیم و تکریم اور رعایت آداب کے سوا آپ کے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ حضرت اقدس نے یہ خط ضمیمہ ’’ انجام آتھم ‘‘ میں شائع فرما دیا۔ اورآپ کی بڑی تعریف فرمائی کہ ہزاروں میں سے انہوں نے پرہیز گاری اور تقویٰ شعاری کا نور دکھلایا۔ آپ کا یہ کارنامہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتا۔ یہ خط چھپا تو پہلے مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری اور پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان کے گائوں پہنچے اور غزنوی خاندان کے بعض علماء نے انہیں مکذب بنانے کے لئے خطوط بھی بھیجے مگر آپ چونکہ بزرگ اور پاک وطن تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ پر مسیح کی صداقت پوری طرح منکشف کرکے آپ کا سینہ نور صداقت سے منور کر رکھا تھا اس لئے آپ نے کسی کی بھی پروانہ کی اور ان خشک ملائوں کو ایسے دنداں شکن جواب دیئے کہ وہ ساکت ہوگئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کا خاتمہ مصدق ہونے کی حالت میں ہوا۔(۱۸)
حضرت پیر ’’ صاحب العلم ‘‘ کی شہادت:۔
دوسرے مصدق حضرت پیر صاحب العلم تھے جو سند ھ کے مشہور مشائخ میں سے تھے او رجن کے مرید ایک لاکھ سے بھی متجاوز تھے انہوں نے آپ کی نسبت گواہی دی کہ ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو عالم کشف میں دیکھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ مفتری ہے یا صادق؟ حضور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طر ف سے ہے ۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو عام مجلس میں کھڑے ہو کر اور ہاتھ میں عصالے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیا کہ میں حضرت اقدس مرزا صاحب کو ان کے دعوے میں حق پر جانتاہوں اور ایساہی مجھے کشفاً معلوم ہوا ہے اور دوسری طرف انہوںنے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عقیدت مندانہ پیغام بھیجا کہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ آپ حق پر ہیں۔ اب بعد اس کے ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے ۔ اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہوگا۔ اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے ۔پس اگر آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردارپائیں گے ۔
یہ باتیں ان کے خلیفہ عبداللطیف صاحب اور شیخ عبداللہ صاحب عرب نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خود عرض کی تھیں۔(۱۹)






حواشی
۱۔ تبلیغ رسالت جلد پنجم صفحہ ۷۔۱۰
۲۔ اشاعۃ السنہ جلد ۱۶نمبر ۱۲صفحہ ۳۷۲۔۳۷۳
۳۔ تبلیغ رسالت جلد چہارم صفحہ ۳۸۔۴۷ جلد پنجم صفحہ ۲
۴۔ اشاعۃ السنہ جلد ۱۶نمبر ۱۲صفحہ ۳۷۳
۴۔ تفصیل ’’ خلافت اولیٰ ‘‘ کے واقعات میں آئے گی ۔
۶۔ مفصل مکتوب کے لئے ملاحظہ ہو ’’ الحکم ‘‘ ۱۷۔ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۸۔ ۱۰
۷۔ ’’حیات احمد‘‘ جلد چہارم صفحہ ۵۴۲۔۵۴۴
۸۔ ’’ حقیقۃ المہدی ‘‘ طبع اول صفحہ ۳
۹۔ ’’ عاقبۃ المکذبین ‘‘ جلد اول صفحہ ۱۷ مطبوعہ ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء ( مولفہ قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی مردان )
۱۰۔ علماء وقت تو ۱۸۹۱ء سے آپ کو مباہلہ کا چیلنج دے رہے تھے لیکن حضور کو اس میں ایک عرصے تک تامل رہا۔ کیونکہ حضورمباہلہ کے لئے اتمام حجت ضروری سمجھتے تھے ۔ دوسرے جزئی اختلاف کی وجہ سے جس کی بناء اجتہاد پر ہو مباہلہ کرنا آپ نے نزدیک سرے سے جائز ہی نہیں تھا چنانچہ حضور نے نواب محمد علی خان صاحب کو ایک خط میں لکھا۔ ’’ کسی جزئی میں حنفی حق پر نہیں اور کسی بھی شافعی حق پر اور کسی میں اہلحدیث ۔ اب جب کہ فرض کیا جائے کہ سب فرقے اسلام کے جزئی اختلاف کی وجہ سے باہم مباہلہ کریں۔ اور خدا تعالیٰ اس پر جو حق پر نہیں عذاب نازل کرے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی اپنی خطا کی وجہ سے تمام فرقے اسلام کے روئے زمین سے نابود کئے جائیں اب ظاہر ہے کہ جس امر کے تجویز کرنے سے اسلام کا استیصال کرنا پڑتا ہے وہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک جو حامی اسلام اور مسلمین ہے کیونکر جائز ہوگا۔ ( مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ ۱۱)
۱۱۔ چند مخاطب عالموں اور سجادہ نشینوں کے نام یہ ہیں شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی۔ مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ۔ مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مولف تفسیر حقانی ۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مولوی عبدالجبار صاحب۔ غزنوی ۔ مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی ۔ مولوی عبدالحق صاحب غزنوی ۔ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری ۔ مولوی عبداللہ صاحب ٹونکی ۔ حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی۔ مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی ۔ غلام نظام الدین صاحب سجادہ نشین ۔ نیاز احمد صاحب بریلوی ۔ خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف ۔ صادق علی شاہ صاحب رتر چھتر( ضلع گورداسپو ر) سید حسن شاہ صاحب مودودی دہلوی
۱۲۔ ’’انجام آتھم ‘‘ طبع اول صفحہ ۶۵۔ ۶۶
۱۳۔ ’’انجام آتھم ‘‘ طبع اول صفحہ ۶۴۔ ۶۷
۱۴۔ ’’انجام آتھم ‘‘ صفحہ ۷۲
۱۵۔ ضمیمہ انجام آتھم ( حاشیہ صفحہ ۳۳۔ ۳۵)
۱۶۔ ’’ حقیقۃ الوحی ‘‘ طبع اول صفحہ ۲۲۷۔۳۰۰‘‘’’عاقبۃ المکذبین ‘‘ صفحہ ۳۳۔ ۳۴( مولفہ حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی
۱۷۔ سیرت ثنائی صفحۃ ۳۷۲حاشیہ و صفحہ ۳۹۷ حاشیہ ( مولفہ جناب مولوی عبدالمجید صاحب سوہدروی)
۱۸۔ حقیقۃ الوحی طبع اول صفحہ ۲۰۷، ’’اشاعۃ السنہ ‘‘جلد ۱۸نمبر ۵صفحہ ۱۳۸۔ ۱۳۹ ۱۹۔ انجام آتھم صفحہ ۶۰
’’جلسہ مذاہب عالم ‘‘ میں اسلام کی شاندار فتح اور تصنیف و اشاعت ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘
۱۸۹۶ء کا اختتام ’’جلسہ مذاہب عالم‘‘ ایسے عظیم الشان واقعہ سے ہوا جس میں دنیا کے ایک مشترکہ مذہبی پلیٹ فارم پر اسلام کو اور اسلام کے کامیاب وکیل ہونے کی حیثیت سے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسی شاندار فتح نصیب ہوئی کہ رہتی دنیا تک یاد گار ہے گی ۔
جلسہ کا پس منظر :۔
ایک صاحب سوامی سادھو شوگن چند رنامی تھے۔ جنہیں بچپن سے ہی مذہب کی طرف میلان تھا۔ ابتدائی عمر میں کچھ عرصہ ملازمت اختیار کی مگر پھر سادھو بن گئے اور کنجاہ (گجرات ) کے ایک فقیر سے ان کا تعلق ہوگیا۔ جس کے حکم پر وہ تین چار سال تک ہندوئوں کا کاستھ قوم کی اصلاح وخدمت کا کام کرتے رہے۔ آخر ۱۸۹۲ء میں دفعتہ انہیں خیال آیا کہ جب تک سب لوگ اکٹھے نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ اس فکر میں رہے اور آخر یہ تجویز دل میں آئی کہ ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی جائے چنانچہ اس نوعیت کا پہلا جلسہ اجمیر میں ہوا۔ اس کے بعد وہ دوسری کانفرنس کے لئے لاہور کی فضاء کو موزون سمجھ کر یہاں اس کی تیاری میں لگ گئے ۔(۱)
کانفرنس کے لئے انتظامات :۔
سوامی صاحب نے اسے عملی جامہ پہنانے اور جلسہ کے وسیع پیمانہ پر انتظامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ ماسٹرورگاپر شاداور چیف سیکرٹری ہائیکورٹ لاہور کے ایک ہندو پلیڈ ر لالہ دھنپت لائے بی اے۔ ایل ۔ ایل۔ بی تھے ۔ کمیٹی نے جلسہ کے لئے پانچ سوالات تجویز کئے۔
اول:۔انسان کی جسمانی ، اخلاقی اور روحانی حالتیں ۔
دوم :۔ انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی عقبیٰ
سوم :۔ دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیاہے اور وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی ہے ؟
چہارم :۔ کرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتاہے ؟
پنجم :۔ علم یعنی گیان اور معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ (۲)
کانفرنس کے لئے ۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸۔ دسمبر ۱۸۹۶ء کی تاریخیں قرار پائیں اور جلسہ گاہ کے لئے انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہائی سکول کا احاطہ ( متصل مسجد مولوی احمد علی شیر انوالہ دروازہ ) حاصل کیا گیا ۔ (۳) جلسہ کی کارروائی کے لئے مندرجہ ذیل چھ موڈریٹر صاحبان نامزد کئے گئے ۔(۱) رائے بہادربابو پر تول چند صاحب جج چیف کوٹ پنجاب (۲) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج سمال کا زکورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈرچیف کورٹ سابق گورنر جموں (۴) حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی(۵) رائے بوانی داس صاحب ایم ۔ اے اکسٹرا سٹلمنٹ آفسیر جہلم ۔ (۶) جناب سردار جواہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کمیٹی لاہور۔ (۴)
اشتہار واجب الاظہار :۔
سوامی شوگن چندر صاحب نے کمیٹی کی طرف سے جلسہ کا اشتہار دیتے ہوئے مسلمانوں ، عیسائیوں اور آریہ صاحبان کو قسم دی کہ ان کے نامی علماء ضرور اس جلسے میں اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان فرمائیں چنانچہ انہوں نے لکھا۔ ’’اس وقت یہ بندہ کل صاحبان مذہب کی خدمت میں جو اپنے اپنے مذہب کے اعلیٰ درجہ کے واعظ اور بنی نوع کی ہمدردی کے لئے سرگرم ہیں ادب و انکسار سے گزارش کرتاہے کہ جو جلسہ اعظم مذاہب کا بمقام لاہور ٹائون ہال قرار پایا ہے جس کی تاریخیں ۲۶۔ ۲۷۔۲۸دسمبر ۱۸۹۶ء مقرر ہو چکی ہیں۔ اس جلسہ کے اغراض یہی ہیں کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع مہذبین میں ظاہر ہو کر اس کی محبت دلوں میں بیٹھ جائے اور اس کے دلائل اور براہین کو لوگ بخوبی سمجھ لیں اور اس طرح پر ہر ایک مذہب کے بزرگ واعظ کو موقع ملے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائیاں دوسروں کے دلوں میں بٹھا دے اور سننے والوں کو بھی یہ مبارک موقع حاصل ہوکہ وہ ان سب بزرگوں کے مجمع میں ہر ایک تقریر کا دوسرے کی تقریر کے ساتھ موازنہ کریں اور جہاں حق کی چمک پاویں اس کو قبول کر لیں۔ اور پھر یہ سب تقریریں ایک مجموعہ میں چھپ کر پبلک کے فائدہ کے لئے اردو اور انگریزی میں شائع کر دی جائیں۔
اس بات کو کون نہیں جانتا کہ آج کل مذاہب کے جھگڑوں سے دلوں میں بہت کچھ ابال اٹھا ہوا ہے اور ہر ایک طالب حق سچے مذہب کی تلاش میں ہے اور ہرایک دل اس بات کا خواہشمند ہے کہ جس مذہب میں درحقیقت سچائی ہے وہ مذہب معلوم ہو جائے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیونکر معلوم ہو اس سوال کے جواب میں جہاں تک فکر کام کر سکتاہے یہی احسن طریق معلوم ہوتا ہے کہ تمام بزرگان مذہب جو وعظ اور نصیحت اپنا شیوہ رکھتے ہیں ایک مقام میں جمع ہوں اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں سوالات مشتہرہ کی پابندی سے بیان فرمائیں ۔ پس اس مجمع اکابرمذہب میں جو مذہب سچے پر میشر کی طر ف سے ہوگا ضرور وہ اپنی نمایاں چمک دکھلائے گا۔ اسی غرض سے اس جلسہ کی تجویز ہوئی ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو کسی مذہب کو اس پر اعتراض ہو۔ سراسر بے تعصب اصول پر مبنی ہے ۔ لہٰذا یہ خاکسار ہر ایک بزرگ واعظ مذہب کی خدمت میں بانکسار عرض کرتاہے کہ میرے اس ارادہ میں مجھ کو مدددیں۔ اور مہربانی فرما کر اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے تاریخ مقررہ پر تشریف لاویں۔ میں اس بات کا یقین دلاتاہوں کہ خلاف تہذیب اور برخلاف شرائط مشتہرہ کے کوئی امر ظہور میں نہیں آئے گا۔ اور صلح کاری اور محبت کے ساتھ یہ جلسہ ہوگا اور ہر ایک قوم کے بزرگ واعظ خوب جانتے ہیں کہ اپنے مذہب۔۔۔۔۔۔ کی سچائی ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اس غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں تو خد انے ان کو اس غرض کے ادا کرنے کا اب جواب موقع دیا ہے۔ جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا میرا دل اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کو دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں کہ جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لو گ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو وہ ہاتھ سے دیدے اور ذرا اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیونکر کوئی عذر قبول کروں کیا میں قبول کر سکتا ہوں کہ جو شخص دوسرے کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتاہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بتلاتے ہیں وہ پہلو تہی کرے میر ادل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچے جوش کو بیان کر سکوں ۔ میرا قوموں کے بزرگ و اعظموں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کیلئے ایک عاجزانہ التماس ہے ۔ میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر بادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنا مذہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقعہ پر اپنے اس نبی کی عزت کے لئے جس کے فداشدہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں۔ اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نہایت ادب اور انکسار سے میری التماس ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کو فی الواقعہ سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ پر ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لاویں۔ میں نے جیساکہ مسلمانوں کو قسم دی ہے ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیحؑ کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری کے ساتھ عرض پرداز ہوں کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کے عزت کے لئے ضروری جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لاویں ۔ ایسا ہی اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میشر کی قسم دے کر جس نے وید مقدس کو اپنت کہا عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر وید مقدس کی خوبیاں بیان کرے اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبوں وغیرہ کی خدمت میں اس قسم کی التماس ہے ۔ پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک یہ فائدہ بھی حاصل ہو گا کہ ان تمام قوموں میں کسی قوم کو درحقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کیا۔ تو بلا شبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار کرنا ہے ۔
’’المشتہر ۔ شوگن المعروف سوامی شوگن چندردھرم مہوتسواوپدیشک لاہور)(۵)
مذاہب کے نمائندے :۔
اس اشتہار پر مندرجہ ذیل حضرات نے دعوت قبول کی (۱) حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام (نمائندہ اسلام ) (۲) مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ( نمائندہ اسلام )(۳) مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری(نماندہ اسلام )(۴) مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی (نمائندہ سناتن دھرم ) (۷) پنڈت گوپی ناتھ صاحب سیکرٹری سناتن دھرم سبھا لاہور(نمائندہ سناتن دھرم ) (۸) پنڈت بھانودت صاحب ممتحن پنجاب یونیورسٹی ( نمائندہ سناتن دھرم ) (۹) رائے برودہ کنٹہ صاحب پلیڈروزیر ریاست فرید کوٹ (نمائندہ تھیوسافیکل سوسائٹی ) (۱۰) یابو بیجا رام چٹر جی صاحب سکھر (نمائندہ آریہ سماج )(۱۱) ماسٹر درگا پر شاد صاحب (نمائندہ آریہ سماج )۱۳۔ پنڈت گوردھن داس صاحب (نمائندہ فری تھنکر )(۱۳) سردار جواہر سنگھ صاحب ایم۔ اے (نمائندہ سکھ مذہب )(۱۴) ماسٹر رامجید اس صاحب ( نمائندہ ہار مونیکل سوسائٹی (۱۵) لالہ کانشی رام صاحب سیکرٹری برہموسماج لاہور (نمائندہ برہمو سماج )(۱۶۰) مسٹر جے ماریسن صاحب بہادر جرنلٹ لاہور(نمائندہ عیسائیت ) (۱۷۰) مسٹر رو صاحب بہادر سابق ہیڈ ماسٹر ایچی سن ہائی سکول لاہور ( نمائندہ عیسائیت )
مفتی عبداللہ صاحب اور مسٹر رو صاحب عملاً شریک جلسہ نہیں ہو سکے اس لئے ان کا وقت دوسرے مقررین کو دے دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود کی طرف سے اپنے مضمون کے بالا رہنے کی قبل از وقت پیشگوئی :۔
سوامی شوگن چندر صاحب جلسہ کا اشتہار دینے سے پہلے قادیان بھی آئے تھے اور حضرت اقدسؑ سے عرض کیا کہ میں ایک مذہبی جلسہ کرنا چاہتاہوں آپ بھی اپنے مذہب کی خوبیوں سے متعلق کچھ مضمون لکھیں تااس جلسہ میں پڑھا جائے ۔حضرت اقدسؑ نے اپنی بیماری کے باعث عذر کیا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ آپ ضرور لکھیں چونکہ آپ یقین رکھتے تھے کہ آپ بغیر خدا کے بلائے بول نہیں سکتے۔ اس لئے آپ نے جناب الٰہی میں دعا کی کہ وہ آپ کو ایسے مضمون کا القاء کرے جو اس مجمع کی تمام تقریروں پر غالب رہے آپ نے دعا کے بعد دیکھا کہ ایک قوت آپ نے اندر پھونک دی گئی اور آپ نے آسمانی قوت کی ایک زبردست جنبش اپنے اندر محسوس کی۔ آپ کو ان دنوں اسہال کا عارضہ تھا آپ نے ناسازی طبع کے باعث لیٹے لیٹے ہی قلم برداشتہ مضمون لکھنا شروع کیا۔ آپ ایسی تیزی اور جلدی سے لکھتے تھے کہ نقل کرنے والوں کے لئے مشکل ہوگیا کہ اس قدر جلدی سے اس کی نقل کرسکیں۔ جب حضور مضمون لکھ چکے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ مضمون بالا رہا۔ (۶) یہ الٰہی خوشخبری پاتے ہی آپ نے ۲۱۔ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ایک اشتہار لکھا جس کا عنوان تھا ۔’’سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری۔‘‘ اس اشتہار میں آپ نے تحریر فرمایا ۔
’’جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹائون ہال میں ۲۶۔۲۷۔۲۸۔دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو ہوگا اس میں عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات کے بارے میں پڑھاجائے گا ۔یہ وہ مضمون ہے۔ جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اس کی تائید سے لکھا گیا ہے اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اورمعارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہوجائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کاکلام اور رب العالمین کی کتاب ہے ۔اورجو شخص اس مضمون کو اول سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گا ۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہوگا اورایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا ۔اورخدا تعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آجائے گی۔ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف وگزاف کے داغ سے منزہ ہے مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن وجمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور نور سے نفرت کرتے ہیں ۔مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا اوراس میں سچائی اورحکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اوراس کو اول سے آخر تک سنیں ۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اور۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو میں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا ۔اوراس کے چھونے سے ۔۔۔۔۔۔ اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو اردگرد پھیل گیا ۔ اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی ہوئی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا۔ اللہ اکبر خربت خیبر ۔ اس کی یہ تعبیر ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول وحلول انوار ہے اور وہ نورانی معارف ہیں اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں۔ جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اورانسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کے صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرادیا گیا ہے۔ سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبوں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے ۔پھر میں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اورمجھے یہ الہام ہواان اللہ معک ان اللہ یقوم اینما قمت یعنی خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا وہیں کھڑا ہوتا ہے ۔جہاں تو کھڑا ہوتا ہے ۔یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے۔ اب میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا ہرایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا ہرج بھی کرکے ان معارف کے سننے کے لئے ضرور بمقام لاہور تاریخ جلسہ پر آویں کہ ان کی عقل اورایمان کو اس سے وہ فائدے حاصل ہوں گے کہ وہ گمان نہیں کرسکتے ہوں گے۔ والسلام علی من اتبع الھدی۔
خاکسار غلام احمد از قادیان ۲۱ ۔دسمبر ۱۸۹۶ء؁
حضرت اقدس کا یہ اشتہار بڑی کثرت سے شائع ہوا ۔اورہندوستان کے دور دراز مقامات تک پھیلادیا گیا۔
جناب خواجہ کمال الدین صاحب کا تاثر:۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب جلسے کے انتظامات میں گہری دلچسپی لے رہے تھے ۔آپ انہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنا مضمون خواجہ صاحب کی خواہش پر ان کو پڑھنے کے لئے دیا تو انہوں نے اس پر کچھ ناامیدی کا اظہار کرکے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے نہ دیکھا جائے گا۔ اورخواہ مخواہ ہنسی کا موجب ہوگا۔ چنانچہ خود حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک دفعہ فرمایا۔’’مہوتسو کے جلسہ اعظم مذاہب کے واسطے جب ہم نے مضمون لکھا تو طبیعت بہت علیل تھی اور وقت نہایت تنگ تھا۔ اورہم نے مضمون جلدی کے ساتھ اسی تکلیف کی حالت میں لیٹے ہوئے لکھا۔ اس کو سنکر احباب میں سے ایک نے کچھ ناپسندیدگی کا منہ بنایا۔ اور پسند نہ کیا کہ مذاہب کے اتنے بڑے عظیم الشان جلسہ میں وہ مضمون پڑھا جائے۔
جلسے کی کاروائی کاآغاز:۔
بہرحال ۲۶؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ ٹھیک دس بجے انجمن حمایت اسلام کے ہائی سکول واقع شیرانوالہ کے وسیع احاطہ میں جلسہ شروع ہوا حضرت اقدسؑ کا مضمون دوسرے دن ڈیڑھ بجے کی دوسری نشست میں پڑھا جانا تھا۔ اس لئے اس سے قبل ایشری پرشاد صاحب مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی او ر برودا کنٹہ صاحب، مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری ، بابو بیجارام صاحب اورپنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریریں ہوئیں ۔اس زمانے میں ابوسعید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کاطوطی بول رہا تھا اورہرطرف ان کی بڑی شہرت تھی۔ اور مولوی ثناء اللہ امرتسری صاحب ابھی نوجوان تھے اور نئے نئے منظر عام پر آئے تھے لیکن مولوی ابوسعید صاحب کی تقریر مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریر کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی۔
حضرت اقدسؑ کا مضمون اورسامعین کا ذوق وشوق:۔
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے حضرت اقدسؑ کے مضمون کے لئے دوسرے دن کی دوسری نشست مقرر تھی ۔جس کا وقت اگرچہ ڈیرھ بجے شروع ہونا تھا مگر مخالف کے باوجود دلوں میں ایسی تحریک پیدا ہوگئی کہ پہلی نشست میں بیٹھنے والے بھی اپنی اپنی جگہ پر جمے رہے اور ہزاروں سامعین چاروں طرف سے امڈ پڑے۔ نتیجہ یہ ہوا۔ کہ کاروائی سے قبل ہی جلسہ کا پنڈال کھچا کھچ بھرگیا اور سینکڑوں اشخاص جن میں ملک کے بڑے بڑے سربرآوردہ افراد رؤسا معہ ڈاکٹر اوروکلاء شامل تھے کھڑے ہونے پر مجبور ہوگئے آخر حضرت مولانا عبدالکریم صاحب جیسے فصیح البیان نے اپنی دلکش ودل نشین آواز سے حضرت اقدسؑ کا مضمون پڑھنا شروع کیا۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا تائید روح القدس سے لکھا ہوا مضمون اور مولانا عبدالکریم صاحب کی شیریں زبان نے ہزاروں کے اس تاریخی اجتماع پر کیف وسرور کا وہ عالم طاری کردیا کہ فلک نے آج تک سرزمین ہند میں کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ ایسا نظر آتاتھا کہ گویا ملائک آسمان سے نور کے طبق لے کے حاضر ہوگئے ہیں اور ایک دست غیب اپنی مقناطیسی جذب وکشش سے ہر دل کوکشاں کشاں عالم وجد کی طرف لے جارہا ہے۔ دل ودماغ اس آسمانی مائدہ سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ یکایک مضمون کا مقررہ وقت ختم ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مولوی ابویوسف محمد مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے اعلان کیا کہ میں اپنا وقت بھی حضرت اقدسؑ کے مضمون کے لئے دیتا ہوں ۔اس اعلان نے مجمع میں خوشی اور مسرت کی برقی لہر دوڑ ا دی اورپنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اورپھر علم وحکمت کے موتی لٹنے لگے۔ مضمون ابھی باقی تھا کہ وقت پھر ختم ہوگیا اب کی دفعہ چاروں طرف سے شور برپا ہوا کہ جلسہ کی کاروائی اس وقت تک ختم نہ کی جائے جب تک یہ مضمون ختم نہ ہولے اور جلسہ کے منتظمین کو یہی کرنا پڑا۔ سامعین نے یہ سن کر پھر تالیوں کے ذریعہ سے اپنی مسرت ظاہر کی اور مضمون نہایت ذوق وشوق اور یکساں دلچسپی سے شام کے ساڑھے پانج بجے تک مسلسل چار گھنٹہ تک جاری رہا۔ سامعین کی بے خودی اور محویت یہاں تک بڑھی کہ انہوں نے یہی سمجھ لیا کہ پانچوں سوالات کے جوابات پڑھ دیئے گئے ہیں لیکن حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے بلند آواز سے فرمایا کہ حضرات جو کچھ آپ نے سنا ہے یہ صرف پہلے سوال کا جواب ہے چار سوالوں کے جوابات ابھی باقی ہیں ۔ مولانا کا یہ کہنا تھا کہ سامعین نے یک زبان ہوکر بڑے زور شور سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ جب چار سوالوں کے جواب ابھی باقی ہیں تو جلسہ کے لئے ایک اور دن کیوں نہ بڑھادیا جائے یہ زبردست مطالبہ چاروں طرف سے اتنی شدت سے بلند ہوا کہ منتظمین جلسہ کو اعلان کرنا پڑا کہ سامعین کی خاطر جلسہ کے لئے ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ا س اعلان پر پبلک نے جس جوش وخروش سے اظہار شادمانی کیا وہ دیکھنے کی چیز تھی اس کا نقشہ پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔
جلسے کے منتظمین کا بیان:۔
۲۷؍دسمبر کے دن کی اس کاروائی سے متعلق منتظمین جلسہ کے بیانات درج ذیل ہیں ۔
’’پنڈت گوردھن داس صاحب کی تقریرکے بعد نصف گھنٹہ کا وقفہ تھا لیکن چونکہ بعد از وقفہ ایک نامی وکیل اسلام کی طرف سے تقریر کا پیش ہونا تھا اس لئے اکثر شائقین نے اپنی اپنی جگہ کو نہ چھوڑا ۔ڈیڑھ بجے میں ابھی بہت سا وقت رہتا تھا کہ اسلامیہ کالج کا وسیع میدان جلد جلد بھرنے لگا ۔اورچندہی منٹوں میں تمام میدان پر ہوگیا اس وقت کوئی سات اورآٹھ ہزار کے درمیان مجمع تھا ۔مختلف مذاہب وملل اور مختلف سوسائٹیوں کے معتدبہ اور ذی علم آدمی موجود تھے۔ اگرچہ کرسیاں اور میزیں اور فرش نہایت ہی وسعت کے ساتھ مہیا کیا گیا لیکن صدہا آدمیوں کو کھڑا ہونے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑا۔ اور ان کھڑے ہوئے شائقینوں میں بڑے بڑے رؤساء عمائد پنجاب ۔علماء فضلاء ۔بیر سٹر وکیل ۔پروفیسر۔ اکسٹرااسسٹنٹ۔ ڈاکٹر غرض کہ اعلیٰ طبقہ کے مختلف برانچوں کے ہر قسم کے آدمی موجود تھے ۔ان لوگوں کے اس طرح جمع ہوجانے اورنہایت صبر وتحمل کے ساتھ جوش سے برابر پانچ چار گھنٹہ اس وقت ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ ان ذی جاہ لوگوں کو کہاں تک اس مقدس تحریک سے ہمدردی تھی۔ مصنف تقریر اصالتاً تو شریک جلسہ نہ تھے۔ لیکن خود انہوںنے اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو مضمون کے پڑھنے کے لئے بھیجا ہوا تھا۔ اس مضمون کے لئے اگرچہ اس کمیٹی کی طرف سے صرف دوگھنٹے ہی تھے لیکن حاضرین جلسہ کو عام طور پر اس سے کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ موڈریٹر صاحبان نے نہایت جوش اور خوشی کے ساتھ اجازت دی کہ جب تک یہ مضمون نہ ختم ہو تب تک کاروائی جلسہ کو ختم نہ کیا جائے۔ ان کا ایسا فرمانا عین اہل جلسہ اور حاضرین جلسہ کے منشاء کے مطابق تھا۔ کیونکہ جب وقت مقررہ کے گزرنے پر مولوی ابویوسف مبارک علی صاحب نے اپنا وقت بھی اس مضمون کے ختم ہونے کے لئے دیدیا۔ تو حاضرین اورموڈریٹر صاحبان نے ایک نعرہ خوشی سے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ جلسہ کی کاروائی ساڑھے چار بجے ختم ہوجانی تھی لیکن عام خواہش کو دیکھ کر کاروائی جلسہ ساڑھے پانج بجے کے بعد تک جاری رکھنی پڑی کیونکہ مضمون قریباً چار گھنٹہ میں ختم ہوااور شروع سے اخیر تک یکساں دلچسپی ومقبولیت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔‘‘
’’اگرچہ اس مضمون کے ختم ہوتے ہوتے شام کا وقت قریب آگیا لیکن یہ ابھی پہلے سوال کا جواب تھا اس مضمون سے حاضرین جلسہ کو بلااستثناء احدے ایسی دلچسپی ہوگئی کہ عام طور سے ایگزیکٹو کمیٹی سے استدعا کی گئی کہ کمیٹی اس جلسہ کے چوتھے اجلاس کے لئے انتظام کرے جس میں باقی سوالات کا جواب سنایا جاوے کیونکہ حسب اعلان ایگزیکٹو کمیٹی جلسہ کے تین ہی اجلاس ہونے تھے ۔اور تیسرے اجلاس کے سپیکر پہلے ہی سے مقرر ہوچکے تھے جلسہ کا دن بڑھانے کے لئے موڈریٹر صاحبان کی خاص رضامندی تھی۔ علاوہ ازیں سناتن دھرم کی طرف سے اور آریہ سماج کی طر ف سے بھی استدعا تھی کہ ان کی طرف سے اور زیادہ ریپریذینٹیشن ہو اس لئے ایگزیکٹو کمیٹی نے انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری اورپریذیڈنٹ صاحب سے جو وہاں موجود تھے چوتھے دن کے لئے استعمال مکان کی اجازت لے کر میر مجلس کو اطلاع دی کہ وہ چوتھے دن کا اعلان کردیں۔ مضمون ساڑھے پانج بجے ختم ہوا۔ جس پر ذیل کے الفاظ میں میر مجلس نے آج کے اجلاس کی کاروائی کو ختم کیا۔
میرے دوستو! آپ نے پہلے سوال کا جواب جناب مرزا صاحب کی طرف سے سنا۔ ہمیں خاص کر جناب مولوی عبدالکریم صاحب کا مشکور ہونا چاہیے۔ جنہوںنے ایسی قابلیت کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا۔میں آپ کو مژدہ دیتا ہوں کہ آپ کے اس فرط شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر جو آپ نے مضمون کے سننے میں ظاہر کی اور خصوصاً موڈریٹر صاحبان اور دیگر عمائد و رؤساء کی خاص فرمائش سے ایگزیکٹو کمیٹی نے منظور کرلیا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے بقیہ حصہ مضمون کے لئے وہ چوتھے دن اپنا آخری اجلاس کرے ۔اب نماز مغرب کا وقت قریب آگیا ہے۔ اور میں زیادہ وقت آپ کا لینا نہیں چاہتا‘‘۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی استدعا:۔
دوسری طرف مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کی سنئے ۔حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہانپوری کا بیان ہے کہ ۲۷؍دسمبر کی کاروائی کے خاتمے پر میں اپنے بزرگوں کے ساتھ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے دردولت پر جہاں میرا قیام تھا واپس آگیا اس رات حضرت خلیفہ صاحب موصوف کے بڑے بھائی کی طرف سے جن کا نام خلیفہ عمادالدین صاحب تھا چند معززین کی دعوت تھی۔ ان میں جناب خان بہادر خدا بخش صاحب جج بھی شامل تھے جنہوں نے ایک وقت جلسہ کی صدارت بھی فرمائی تھی اورجو جلسہ کے ماڈریٹروں میں سے تھے ۔موجود الوقت حضرات میں اس وقت عام طور پر جلسے کی تقریریں ہی زیر بحث تھیں ۔ تعریف سب کی زبان پر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کے مضمون کی تھی۔ اسی اثناء میں ایک شخص نے آکر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ تحریری پیغام جناب جج صاحب موصوف کی خدمت میں پیش کیا کہ جلسے کا ایک دن بڑھادیاگیا ہے۔ اگرجناب میری تقریرکے لئے بھی وقت دیئے جانے کی طرف توجہ فرمائیں گے تو بڑی مہربانی ہوگی۔ جناب جج صاحب نے بے ساختہ فرمایا۔ کہ ’’مولوی ابوسعید صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں کونسا تیر مارا تھا جوان کی دوسری تقریر کے لئے وقت رکھا جائے‘‘
مولوی محمدحسین صاحب نے یہ صورت دیکھی تو انہوںنے مضمون پڑھنے کے لئے ایک اورطریق نکالا۔ ۲۸؍دسمبر کے پروگرام میں پہلی تقریر مولوی مفتی محمد عبداللہ صاحب ٹونکی پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کی تھی۔ اوراس کے بعد پوراوقت غیر مسلم نمائندوں کے لئے مخصوص تھا۔ اس لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے مفتی صاحب موصوف سے درخواست کی کہ وہ اپنا وقت انہیں دے دیں جسے انہوںنے منظور کرلیا۔ اس پر مولوی صاحب شیخ خدا بخش صاحب جج کے پاس آئے اوران کو بھی مفتی صاحب کا پیغام دے کر رضامند کرلیا۔ چنانچہ وہ ان کو ہمراہ لے کر قریبا ً ساڑھے آٹھ بجے صبح پنڈال میں پہنچ گئے۔ جلسے کی کاروائی کو دس بجے شروع ہونا تھا ۔ساڑھے دس بجنے میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے کہ خان بہادر صاحب موصوف نے انتظامیہ کمیٹی کے چند ممبروں سے بیان کیا کہ جناب مفتی صاحب چند اتفاقات کے باعث آج نہیں آسکیں گے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وقت مولوی محمد حسین صاحب کو دے دیا جائے۔ لہٰذا اب کمیٹی میں یہ تب منظور کرائیں۔ چنانچہ کمیٹی کے اجلاس میںجب یہ معاملہ پیش ہوا تو مفتی صاحب کے پیغام سے ایک قسم کی مایوسی ہوئی کیونکہ یہ کمیٹی کا فرض تھا کہ ہر مذہب کی طرف سے مختلف وکیل جلسے میں پیش کرے۔ سیکرٹری صاحب اس تبدیلی کے مخالف تھے لیکن جب مسلمان ممبروں نے اس بات پر زوردیا تو بہت بحث کے بعد یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مفتی صاحب کا وقت دیا جاوے۔
۲۸؍دسمبر کی کاروائی اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی دوسری تقریر:۔ ۲۸؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو جلسہ دس بجے شروع ہونا تھا لیکن جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے لوگ وقت مقررہ پر بہت ہی کم آئے۔ اس لئے قریباً ساڑھے دس بجے کاروائی کا آغاز ہوا پہلی تقریر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی۔ جس میں گزشتہ تقریرکے الجھائو کا رنگ اورزیادہ نمایاں ہوگیا اور ان کی زبان سے یہ سن کر تو مسلمانوں کی گردنیں مارے شرم کے جھک گئیں کہ ’’انبیاء فوت ہوچکے۔ امت محمدیہ کے بزرگ ختم ہو چکے بے شک وارث انبیاء ولی تھے وہ کرامت رکھتے اور برکات رکھتے تھے وہ نظر نہیں آتے زیر زمین ہوگئے آج اسلام ان کرامت والوں سے خالی ہے اورہم کو گزشتہ اخبار کی طرف حوالہ کرنا پڑتا ہے ہم نہیں دکھا سکتے۔‘‘
۲۹؍دسمبر کو حضرت اقدسؑ کے بقیہ مضمون کی گونج:۔
۲۹؍دسمبر ۱۸۹۶ء؁ کو جلسے کا آخری اجلاس منعقد ہوا ۔اس دن اگرچہ جلسہ کی کاروائی دستور سابق کے خلاف نو بجے صبح رکھی گئی تھی لیکن ابھی نو بھی نہ بجنے پائے تھے کہ سامعین کا ہجوم شروع ہوگیا۔ ٹھیک مقررہ وقت پر مولانا عبدالکریم صاحب نے حضرت اقدسؑ کے پرمعارف مضمون کا بقیہ حصہ اپنی گذشتہ شان کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اورپھر ۲۷؍ دسمبر کا سماں بندھ گیا۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بناسن رہا تھا ۔اس بقیہ مضمون کی ایک اعجازی خصوصیت یہ تھی کہ جلسہ میں غیر مسلم مقررین کی طرف سے بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی صداقتوں پر جو اہم اعتراضات وارد کئے گئے تھے ان کا شافی جواب اس مضمون کے اندر موجود تھا ۔بلکہ مسلمانوں کے بعض دوسرے نمائندوں نے اسلام کے مقدس چہرے پر جو گردو غبار ڈالنے کی کوشش کی تھی اس کی صفائی بھی اس حصہ سے ہوگئی ۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک دن قبل اپنی تقریر میں اسلام جیسے زندہ مذہب کی طرف جو معجزات سے خالی ہونے کا اتہام لگایا تھا اس کا رد بھی اس حصہ میں آگیا جس نے مجمع کو بے خود کر دیا۔ اکثر لوگ زار زار روتے تھے اور لذت سے دل وجد کر رہے تھے ۔ حضرت اقدسؑ نے تحریر فرمایا تھا کہ ’’میں بنی نوع انسان پر ظلم کروں گا اگر میں اس وقت ظاہر نہ کروں کہ وہ مقام جس کی میں نے یہ تعریفیں کی ہیں اور وہ مرتبہ مکالمہ اور مخاطبہ کا جس کی میں نے اس وقت تفصیلی بیان کی وہ خدا کی عنایت نے مجھے عنایت فرمایا ہے تامیں اندھوں کو بینائی بخشوں اور ڈھونڈنے والوں کو اس گم گشتہ کاپتہ دوں ۔ اور سچائی قبول کرنے والوں کو اس پاک چشمہ کی خوشخبری سنائوں۔ جس کا تذکرہ بہتوں میں ہے اور پانے والے تھوڑے ہیں۔ میں سامعین کو یقین دلاتاہوں کہ جس کے ملنے میں انسان کی نجات اور دائمی خوشحالی ہے وہ بجز قرآن شریف کی پیروی کے ہر گز نہیں مل سکتا۔ کاش جو میں نے دیکھا ہے لوگ دیکھیں اور جو میں نے سنا ہے وہ سنیں اور قصوں کو چھوڑ یں۔ اور حقیقت کی طرف دوڑیں۔ ‘‘
’’ میں سب طالبوں کو یقین دلاتاہوں کہ صرف اسلام ہی ہے جو اس راہ کی خوشخبری دیتاہے اور دوسری قومیں تو خدا کے الہام پر مدت سے مہر لگا چکی ہیں۔ سو یقینا سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے مہر نہیں بلکہ محرومی کی وجہ سے انسان ایک حیلہ پیدا کر لیتاہے اور یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں۔
میں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔‘‘ (۱۴)
اب کی دفعہ پھر تقریر کے دوران میں ہی وقت مقررہ ختم ہو گیا اور پبلک اور صدر صاحبان دونوں نے اصرار کے ساتھ وقت کے اضافہ کا مطالبہ کیا ۔ جلسہ کی مجلس عامہ نے اس مطالبہ کو بخوشی پورا کرکے ہزاروں دلوں کو خوشی اورشادمانی سے بھر دیا۔ (۱۵)
مضمون بالا رہا:۔
غرض کہ یہ مضمون پوری شان و شوکت سے ختم (۱۶)ہوا۔ سب لوگوں نے مسلمانوں کو مبارک باد دی ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی طوعاً و کرہاً قائل ہوگئے کہ یہ تمام تاثیر خدا تعالیٰ کی طرف سے تھی ۔ اور یہ مضمون اسلام کی فتح کا موجب ہوا۔ ملک بھر میں اس مضمون کی دھوم مچ گئی اور ہر طرف اسی کے چرچے ہوئے۔ اور مسلمان بے اختیار بول اٹھے کہ اگر یہ مضمون نہ ہوتا تو آج اسلام کو سبکی اٹھانی پڑتی ۔ اور ہر ایک کہتاتھا کہ آج اسلام کی فتح ہوئی اور حضور کا مضمون ہی بالا رہا۔ (۱۷) اس شاندار فتح کا اعتراف ملک کے بیس کے قریب اخبارات مثلاً سول اینڈملٹری گزٹ ‘‘’’ پیسہ اخبار‘‘ چودھویں صدی‘‘ ( راولپنڈی) ’’ سراج الاخبار ‘‘ ’’ مشیر ہند ‘‘ لاہور ۔ ’’ صادق الاخبار‘‘ (بہاولپور ) ’’مخبردکن ‘ ‘ ۔پنجاب آبزرور‘‘’’ وزیر ہند‘‘ (سیالکوٹ) اور ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ (کلکتہ ) نے کیا۔ اور بڑے نمایاں انداز میں اس کی خبر شائع کرکے آپ کو خراج تحسین ادا کیا۔ اور اس مضمون کی تعریف میں کالموں کے کالم بھر دیئے۔ (۱۸)
اخبار’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ اور ’’ آبزرور‘‘ کاریویو:۔
اخبار’’ سول اینڈملٹری گزٹ (لاہور) نے لکھا:۔
’’ اس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی میرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔ اس لیکچر کے سننے کے لئے دور نزدیک سے مختلف فرقوں کا ایک جم غفیر امڈ آیا تھا۔ اور چونکہ مرزا صاحب خود تشریف نہیں لا سکتے تھے اس لئے یہ لیکچران کے ایک لائق شاگرد منشی عبدالکریم صاحب فصیح سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا۔ ۲۷۔ تاریخ کو یہ لیکچر تین گھنٹہ تک ہوتا رہا اور عوام الناس نے نہایت ہی خوشی اور توجہ سے اس کو سنا لیکن ابھی صرف ایک سوال ختم ہوا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر وقت ملا تو باقی حصہ بھی سنا دوں گا۔ اس لئے مجلس انتظامیہ اور صدر نے یہ تجویز منظور کر لی ہے کہ ۲۹۔ دسمبر کا دن بڑھا دیا جائے ۔‘‘(ترجمہ)
اخبار ’’ پنجاب آبزرور ‘‘ نے بھی انہیں الفاظ میں حضرت اقدس کے مضمون کی رپورٹ شائع کی (۱۹)
اخبار ’’چودھویں صدی ‘‘ کا ریویو :۔
اخبار ’’ چودھویں صدی ‘‘ راولپنڈی نے لکھا ’’ان لیکچروں میں سب سے عمدہ اور بہترین لیکچر جو جلسہ کی روح رواں (۲۰) تھا مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا لیکچر تھا جس کو مشہور فصیح البیان مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے نہایت خوبی و خوش اسلوبی سے پڑھا ۔ یہ لیکچر دو دن میں تمام ہوا ۲۷۔ دسمبر کو قریباً چار گھنٹے اور ۲۹ کو ۲گھنٹہ تک ہوتا رہا۔ کل چھ گھنٹہ میں یہ لیکچر تمام ہوا جو حجم میں سو صفحہ کلاں تک ہوگا۔
غرض کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے یہ لیکچر شروع کیا اور کیسا شروع کیا کہ تمام سامعین لٹو ہوگئے ۔ فقرہ فقرہ پر صدائے آفرین و تحسین بلند تھی اور بسا اوقات ایک ایک فقرہ کو دوبارہ پڑھنے کے لئے حاضرین سے فرمائش کی جاتی تھی۔ عمر بھر کانوں نے ایسا خوش آئندہ لیکچر نہیں سنا۔ دیگر مذاہب میں سے جتنے لوگوں نے لیکچر دیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ جلسہ کے مستفسرہ سوالوں کے جواب بھی نہیں تھے۔ عموماً سپیکر صرف چوتھے سوال پر ہی رہے اور باقی سوالوں کو انہوں نے بہت ہی کم مس کیا اور زیادہ تراصحاب تو ایسے بھی تھے جو بولتے تو بہت تھے مگر اس میں جاندار بات ایک آدھ ہی ہوتی ۔ تقریریں عموماً کمزور سطحی خیالات کی تھیں ۔ بجزمرزا صاحب کے لیکچر کے جوان سوالات کا علیحدہ علیحدہ مفصل اور مکمل جواب تھا اور جس کو حاضرین جلسہ نے نہایت ہی توجہ اور دلچسپی سے سنا اور بڑا بیش قیمت اورعالی قدر خیال کیا ہم مرزا صاحب کے مرید نہیں ہیں نہ ان سے ہم کو کوئی تعلق ہے لیکن انصاف کا خون ہم کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کوئی سلیم فطرت اور صحیح کاشنس اس کو روارکھ سکتا ہے مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب ( جیسا کہ مناسب تھا ) قرآن شریف سے دیئے اور تمام بڑے بڑے اصول و فروع اسلام کو دلائل عقلیہ اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا ۔ پہلے عقلی دلائل سے الہیات کے ایک مسئلہ کو ثابت کرنا۔ اور اس کے بعد کلام الٰہی کو بطور حوالہ پڑھنا ایک عجیب شان دکھاتاتھا۔
مرزا صاحب نے یہ صرف مسائل قرآن کی فلاسفی بیان کی بلکہ الفاظ قرآنی کی فلالوجی اور فلاسونی بھی ساتھ ساتھ بیان کر دی غرض کہ مرزا صاحب کا لیکچربہ ہیت مجموعی ایک مکمل اور حاوی لیکچر تھا جس میں بیشمار معارف و حقائق و حکم و اسرار کے موتی چمک رہے تھے اور فلسفہ الہیہ کو ایسے ڈھنگ سے بیان کیا گیا تھا کہ تمام اہل مذاہب ششدر رہ گئے ۔ کسی شخص کے لیکچر کے وقت اتنے آدمی جمع نہیں تھے جتنے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت ۔ تمام ہال اوپر نیچے سے بھر رہا تھا۔ اور سامعین ہمہ تن گوش ہو رہے تھے۔
مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت اور دیگر سپیکروں کے لیکچروں میں امتیاز کے لئے اس قدر کافی ہے کہ مرزا صاحب کے لیکچر کے وقت خلقت اس طرح آگری جیسے شہد پر مکھیاں ۔ مگر دوسرے لیکچروں کے وقت بوجہ بے لطفی بہت سے لوگ بیٹھے بیٹھے اٹھ جاتے ۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا لیکچر بالکل معمولی تھا۔ وہی ملانی خیالات تھے جن کو ہم لوگ ہر روز سنتے ہیں اس میں کوئی عجیب و غریب بات نہ تھی اور مولوی صاحب موصوف کے دوسرے حصہ لیکچر کے وقت پر کئی لوگ اٹھ کر چلے گئے تھے۔ مولوی ممدوح کو اپنا لیکچر پورا کرنے کے لئے چند منٹ زائد کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی لیکن مرزا صاحب کے لیکچر پورا کرنے کے لئے لالہ درگاپر شاد صاحب نے آپ سے آپ دس پندرہ منٹ کی اجازت دے دی۔ غرض کہ وہ لیکچر ایسا پر لطف اور ایسا عظیم الشان تھا کہ بجز سننے کے اس کا لطف بیان میں نہیں آسکتا۔ مرزا صاحب نے انسان کی پیدائش سے لے کر معاد تک ایسا مسلسل بیان فرمایا اور عالم برزخ اور قیامت کا حال ایسا عیاں فرمایا کہ بہشت و دوزخ سامنے دکھادیا۔ اسلام کے بڑے سے بڑے مخالف اس روز اس لیکچر کی تعریف میں رطب اللسان تھے چونکہ وہ لیکچر عنقریب رپورٹ میں شائع ہونے والا ہے اس لئے ہم ناظرین کو شوق دلاتے ہیں کہ اس کے منتظر رہیں۔ مسلمانوں میں سے مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری کا طرز بیان بھی کسی قدر اچھا تھا ۔ لیکن لیکچر عموماًوعظ کی قسم کا تھا۔ فلسفیانہ ڈھنگ کا نہیں تھا جس کی جلسہ کو ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اس کا شکر ہے کہ اس جلسہ میں اسلام کا بول بالا رہا۔ اورتمام غیر مذاہب کے دلوں پر اسلام کا سکہ بیٹھ گیا ۔ گو زبان سے وہ اقرار کریں یا نہ کریں۔‘‘(۲۱)
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کمال صفائی سے پوری ہوئی اور اسلام کو غلبہ نصیب ہوا۔ یہ مقابلہ اس مقابلے کی مانند تھا جو حضرت موسیٰ کو ساحروں کے ساتھ کرنا پڑا۔ سب مذاہب والوں نے اپنی اپنی لاٹھیوں کے خیالی سانپ بنائے تھے لیکن جب خدا نے مسیح موعودؑ کے ہاتھ سے اسلامی راستی کا عصا ایک پاک اور پر معارف تقریر کے پیرائے میں ان کے مقابل چھوڑا تو وہ اژدھا بن کر سب کو نگل گیا۔
جلسہ اعظم مذاہب میں اسلام کی شاندار فتح سے متعلق کلکتہ کے اخبار جنرل و گوہر آصفی کا تبصرہ :۔
اخبار ’’جنرل و گوہر آصفی‘‘ (کلکتہ ) نے ۲۴۔ جنوری ۱۸۹۷ء کی اشاعت میں صفحہ ۲پر ’’جلسہ اعظم مذاہب ‘‘ منعقد لاہور اور ’’فتح اسلام ‘‘ کے دوہرے عنوان سے لکھا۔’’ چونکہ ہمارے اخبار کے کالم اس جلسہ کے متعلق ایک خاص دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں لہٰذا ہم اپنے شائق ناظرین کو اس کے درجہ آخر مختصر حالات سے اطلاع دینی ضروری سمجھتے ہیں۔
جہاں تک ہم نے دریافت کیا ہے ہر ایک طالب حق کو اس جلسہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے بڑا ہی شائق پایا ہے کون دل ہوگا جو حق کا متلاشی نہ ہوگا۔ کون آنکھ ہوگی جو حق کی چمک دیکھنے کے لئے تڑپتی نہ ہوگی؟ کون دماغ ہوگا جو حق کی جانچ پڑتال کی طرف مائل نہ ہوگا۔ پھر ہم یہ کیونکر امید نہیں کر سکتے کہ اپنے ناظرین کی روحیں اس جلسہ کی کارروائی کی دریافت کے لئے مضطرنہ ہوں گی ۔ کیا اس اضطرار کو دفع کرنا ہمارا فریضہ نہیں۔ بے شک ہے اور ضرور ہے اور اسی لئے ہے جو ہم نے خاص انتظام کر کے اس جلسہ کے حالات کو دریافت کیاہے جنہیں ہم اب ہدیہ ناظرین کیا چاہتے ہیں پیشتر اس کے کہ ہم کارروائی جلسہ کی نسبت گفتگو کریں ہمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ہمارے اخبار کے کالموں میں جیساکہ اس کے ناظرین پر واضح ہوگا یہ بحث ہو چکی ہے کہ اس جلسہ اعظم مذاہب میں اسلامی وکالت کے لئے سب سے زیادہ لائق کون شخص تھا۔ ہمارے ایک معزز لائق نامہ نگار صاحب نے سب سے پہلے خالی الذہن ہوکر اور حق کو مدنظر رکھ کر حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان کو اپنی رائے میں منتخب فرمایا تھا۔ جس کے ساتھ ہمارے اور ایک مکرم مخدوم نے اپنی مراسلت میں توارداً اتفاق ظاہر کیا تھا۔ جناب مولوی سید محمد فخر الدین صاحب فخر نے بڑے زور کے ساتھ اس انتخاب کی نسبت جو اپنی آزاد، مدلل اور بیش قیمت رائے پبلک کے پیش فرمائی تھی اس میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان ۔ جناب سر سید احمد صاحب آف علی گڑھ کو انتخاب فرمایا تھا اور ساتھ ہی اس اسلامی وکالت کا قرعہ حضرات ذیل کے نام نکالاتھا۔ جناب مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ۔ جناب مولوی حاجی سید محمد علی صاحب کانپوری اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی۔ یہاں یہ ذکر کر دینا بھی نا مناسب نہ ہوگا۔ کہ ہمارے ایک لوکل اخبار کے ایک نامہ نگار نے جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی مصنف تفسیر حقانی کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا تھا ہم اپنے ناظرین کو یہ بھی معلوم کرانا چاہتے ہیں کہ سوامی شوگن چندرنے انعقاد جلسہ سے پہلے اپنے اشتہار واجب اظہار کے ذریعے علمائے مذاہب مختلف ہند کو بہت عاردلادلا کر اپنے اپنے مذہب کے جوہر دکھلانے کے لئے طلب کیا تھا اور جس جوش سے اور عاردلانے والے طریق سے انہوں نے طلب کیا تھا اس کا ٹھیک اندازہ انہیں کی عبادت سے کیا جا سکتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں۔
’’ ہرا یک قوم کے بزرگ واعظ جانتے ہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی کو ظاہر کرنا ان پر فرض ہے پس جس حالت میں اسی غرض کے لئے یہ جلسہ انعقاد پایا ہے کہ سچائیاں ظاہر ہوں۔ تو خدا نے ان کو اس فرض کے ادا کرنے کا اب خوب موقع دیا ہے جو ہمیشہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ میرا دل اس بات کو قبول کر نہیں سکتا۔ کہ اگر ایک شخص سچا جوش اپنے مذہب کے لئے رکھتا ہو اور فی الواقع اس بات میں ہمدردی انسانوں کی دیکھتا ہو کہ ان کو اپنے مذہب کی طرف کھینچے تو پھر وہ ایسی نیک تقریب میں جب کہ صدہا مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ ایک عالم خاموشی میں بیٹھ کر اس کے مذہب کی خوبیاں سننے کے لئے تیار ہوں گے ایسے مبارک وقت کو ہاتھ سے دیدے اور ذرہ اس کو اپنے فرض کا خیال نہ آوے اس وقت میں کیوں کر کوئی عذر قبول کروں۔ کیا میں قبول کرسکتا ہوں کہ جو شخص دوسروں کو ایک مہلک بیماری میں خیال کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس کی سلامتی میری دوا میں ہے اور بنی نوع کی ہمدردی کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ وہ ایسے موقع میں جو غریب بیمار اس کو علاج کے لئے بلاتے ہیں وہ دانستہ پہلو تہی کرے ۔ میرا دل اس بات کے لئے تڑپ رہا ہے کہ یہ فیصلہ ہوجائے کہ کونسا مذہب درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں سے بھرا ہوا ہے اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ میں اپنے اس سچے جوش کو بیان کرسکوں۔ میرا قوموں کے بزرگ واعظوں اور جلیل الشان حامیوں پر کوئی حکم نہیں ۔ صرف ان کی خدمت میں سچائی ظاہر کرنے کے لئے ایک عجزانہ التماس ہے۔ میں اس وقت مسلمانوں کے معزز علماء کی خدمت میں ان کے خدا کی قسم دے کر با ادب التماس کرتا ہوں کہ اگر وہ مذہب منجانب اللہ جانتے ہیں تو اس موقع پر اپنے اسی نبی کی عزت کے لئے جس کے فداشدہ وہ اپنے تئیں خیال کرتے ہیں اس جلسہ میں حاضر ہوں۔ اسی طرح بخدمت پادری صاحبان نہایت ادب اور انکساری سے میری التماس ہے کہ اگروہ مذہب کوئی فی الواقع سچا اور انسانوں کی نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں تو اس موقعہ پر ایک اعلیٰ درجہ کا بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں سنانے کے لئے جلسہ میں تشریف لا دیں۔ میں نے جیسا کہ مسلمانوں کو قسم دی ایسا ہی بزرگ پادری صاحبوں کو حضرت مسیحؑ کی قسم دیتا ہوں اور ان کی محبت اور عزت اور بزرگی کا واسطہ ڈال کر خاکساری کے ساتھ عرض پرواز ہوں۔ کہ اگر کسی اور نیت کے لئے نہیں تو اس قسم کی عزت کے لئے ضرور اس جلسہ میں ایک اعلیٰ بزرگ ان میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے تشریف لاویں۔ ایسا ہی میں اپنے بھائیوں آریہ سماج والوں کی خدمت میں اس پر میشر کی قسم دے کر جس نے وید مقدس کو اپنت کیا عاجزانہ عرض کرتا ہوں۔ کہ اس جلسہ میں ضرور کوئی اعلیٰ واعظ ان کا تشریف لا کر وید مقدس کی خوبیاں بیان کرے۔ اور ایسا ہی صاحبان سناتن دھرم اور برہمو صاحبان وغیرہ کی خدمت میں اسی قسم کے ساتھ التماس ہے پبلک کو اس اشتہار کے بعد ایک فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ ان تمام قوموں میں سے کس قوم کو درحقیقت اپنے خدا کی عزت اور قسم کا پاس ہے اور اگر اس کے بعد بعض صاحبوں نے پہلو تہی کی تو بلاشبہ ان کا پہلو تہی کرنا گویا اپنے مذہب کی سچائی سے انکار ہے ‘‘۔
اب ہمارے ناظرین کو غور کرنا چاہیئے کہ اس جلسے کے اشتہاروں وغیرہ کے دیکھنے اور دعوتوں کے پہنچنے پر کن کن علمائے ہند کی رگ حمیت نے مقدس دین اسلام کی وکالت کے لئے جوش کھایا۔ اور کہاں تک انہوں نے اسلامی حمایت کا بیڑا اٹھا کر حجج وبراہین کے ذریعے فرقانی ہیبت کا سکہ غیر مذاہب کے دل پر بٹھانے کے لئے کوشش کی ہے۔
ہمیں معتبر ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ کارکنان جلسہ نے خاص طور پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب اور سرسید احمد صاحب کو شریک جلسہ ہونے کے لئے خط لکھا تھا تو حضرت مرزا صاحب نے گو علالت طبع کی وجہ سے بنفس نفیس شریک جلسہ نہ ہوسکے مگر اپنا مضمون بھیج کر اپنے ایک شاگرد خاص جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کو اس کی قرات کے لئے مقرر فرمایا۔ لیکن جناب سرسید نے شریک جلسہ ہونے اور مضمون بھیجنے سے کنارہ کشی فرمائی یہ اس بناء پر نہ تھا کہ وہ معمر ہو چکے اور ایسے جلسوں میں شریک ہونے کے قابل نہ رہے ہیں اور نہ اس بناء پر تھا کہ انہیں ایام میں ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد میرٹھ میں مقرر ہوچکا تھا بلکہ یہ اس بناء پر تھا کہ مذہبی جلسے ان کی توجہ کے قابل نہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی چٹھی میں جس کو ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اخبار میں کسی اور وقت درج کریں گے صاف لکھ دیا ہے کہ وہ کوئی واعظ یا ناصح یا مولوی نہیں۔ یہ کام واعظوں اور ناصحوں کا ہے جلسے کے پروگرام کے دیکھنے اور نیز تحقیق کرنے سے ہمیں یہ پتہ ملا ہے کہ جناب مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری ۔ جناب مولوی عبدالحق صاحب دہلوی اور جناب مولوی احمد حسین صاحب عظیم آبادی نے اس جلسہ کی طرف کوئی جوشیلی توجہ نہیں فرمائی اور نہ ہمارے مقدس زمرہ علماء سے کسی اور لائق فرد نے اپنا مضمون پڑھنے یا پڑھوانے کا عزم بتایا۔ ہاں دو ایک عالم صاحبوں نے بڑی ہمت کرکے مانحن فیھا میں قدم رکھا۔ مگر الٹا۔ اس لئے انہوں نے یا تو مقرر کردہ مضامین پر کوئی گفتگو نہ کی۔ یا بے سروپا کچھ ہانک دیا۔ جیسا کہ ہماری آئندہ کی رپورٹ سے واضح ہوگا۔ غرض جلسہ کی کاروائی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صرف ایک حضرت مرزا غلام احمدؑ صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا ہے۔ اور اس انتخاب کو راست کیا ہے جو خاص آپ کی ذات کو اسلامی وکیل مقررکرنے میں پشاور ۔ روالپنڈی ۔ جہلم ۔ شاہ پور ۔ بھیرہ ۔ خوشاب ۔ سیالکوٹ۔ جموں ۔ وزیر آباد۔ لاہور ۔ امرت سر۔ گورداسپور۔ لودھیانہ شملہ۔ دہلی ۔انبالہ ۔ ریاست پٹیالہ ۔ کپور تھلہ۔ ڈیرہ دون۔ الہ آباد ۔ مدراس۔ بمبئی ۔ حیدر آباد دکن ۔ بنگلور وغیرہ بلا دہند کے مختلف اسلامی فرقوں سے وکالت ناموں کے ذریعہ مزین بدستخط ہو کر وقوع میں آیا تھا۔ حق تویہ ثابت ہوتا ہے ۔ کہ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچالیا۔ بلکہ اس کو اس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پریوں جاری ہوچکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ جو انتخاب تیر بہدف کی طرح روز روشن میں ٹھیک نکلا۔ اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخرو ناز کا موجب ہے اس لئے اس میں اسلامی شوکت ہے اور اسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔
اگر چہ جلسہ اعظم مذاہب کا ہند میں یہ دوسرا اجلاس تھا لیکن اس نے اپنی شان وشوکت اور جاہ وعظمت کی رو سے سارے ہندوستانی کانگرسوں اور کانفرنسوں کو مات کردیا ہے ہندوستان کے مختلف بلاد کے روسا اس میں شریک ہوئے ۔ اور ہم بڑی خوشی کے ساتھ یہ ظاہر کیا چاہتے ہیں ۔ کہ ہمارے مدارس نے بھی اس میں حصہ لیا ہے جلسہ کی دلچسپی یہاں تک بڑھی کہ مشتہرہ تین دن پر ایک دن بڑھانا پڑا۔ انعقاد جلسہ کے لئے کارکن کمیٹی نے لاہور میں سب سے بڑی وسعت کا مکان اسلامیہ کالج تجویز کیالیکن خلق خدا کا ازدحام اس قدر تھا کہ مکان تھا (وسعت) غیر مکتفی ثابت ہوئی۔ جلسہ کی عظمت کا یہ کافی ثبوت ہے کہ کل پنجاب کے عمائدین کے علاوہ چیف کورٹ اور ہائیکورٹ آلہ آباد کے آنریبل ججز بابو پر تول چندر صاحب اورمسٹر بینر جی نہایت خوشی سے شریک جلسہ ہوئے۔ اس جلسے کے لئے سابق چھ پریذیڈنٹ مقرر ہوچکے تھے جن کے نام نامی یہ ہیں(۱) رائے بہادر بابو پر تول چندر چٹر جی چیفکورٹ پنجاب (۲ ) خان بہادر شیخ خدا بخش صاحب جج اسمال کا زکورٹ لاہور (۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن صاحب کول پلیڈر چیف کورٹ وسابق گورنر جموں (۴) سر داردیال سنگھ صاحب رئیس اعظم مجیٹھ (۵) رائے بہادر بھوانیداس صاحب افسر بندوبست ضلع جہلم۔ (۶) مولوی حکیم نورالدین صاحب سابق طبیب شاہی مہاراجہ صاحب بہادر والی کشمیر اور یہی مولوی صاحب تھے جو اختتام جلسہ پر خاتمہ کی تقریر کرنے کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ ‘‘
لیکچر کا غیر زبانوں میں ترجمہ اور عالمگیر مقبولیت :۔
۱۸۹۷ء میں پہلی دفعہ یہ شہرہ آفاق لیکچر کتابی شکل میں بزبان اردو شائع ہوا۔ لیکن جلد ہی اسے مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اب دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں مثلاً عربی۔ فارسی، انگریزی، جرمنی، انڈونیشی ، ہسپانوی، برمی، چینی اور سہیلی کے علاوہ کنیاری، ہندی اور گورمکھی میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں اور جیساکہ حضرت اقدسؑ کو کشف میں بتایا گیا تھا ۔ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا موثر ترین ذریعہ بن رہے ہیں۔ اور بالخصوص مغربی ممالک میں اسلامی تعلیمات کے وسیع اور مقبول ہونے میں تو اس لیکچر کو بڑا بھاری دخل ہے سینکڑوں غیر مسلم اس کا مطالعہ کرکے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں اور ایک عالم اس کے پاک انوار سے حق و صداقت کی روشنی کی طرف کھچا آرہا ہے ۔’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے نے کیا تھا۔ اور اس پر نظر ثانی مسٹر محمد الیگزنڈررسل ویب( امریکہ ) حضرت مولوی شیر علی صاحب بی اے اور چودھری غلام محمد صاحب سیالکوٹی نے کی تھی ۔ (۲۲) یہ ترجمہ ۱۹۱۰ء کے وسط میں لنڈن میں چھپا تھا۔
’’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ مغربی مفکرین کی نظر میں :۔
امریکہ و یورپ میں جب ’’ اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے ترجمہ کی اشاعت ہوئی تو اسے زبردست مقبولیت نصیب ہوئی۔ اور مغربی مفکرین نے اس لیکچر کو بے حد سراہا ۔ چند آراء بطور مثال درج ذیل ہیں۔
۱۔ نامورروسی مفکر اکائونٹ ٹالسٹائی نے کہا:۔
‏The ideas are very profound and very true;
یہ خیالات نہایت گہرے اور سچے ہیں۔
۲۔ ’’ تھیوسافیکل بک نوٹس ‘‘ نے لکھا :۔
‏ ٓAdmirably calculated to appeal to the student of comparative religion, Who will find exactly what he wants to know as Mohammedan doctrines on souls and bodies, divine existence , moral law and much else;
(مارچ ۱۹۱۲ء ) Theosophical Book Notes
قابل تعریف جچا تلاانداز جو مقابلہ مذاہب کے ایسے طالب علم کو بہت متاثر کرتا ہے جسے اس میں وہ سب کچھ مل جاتاہے جو وہ محمدی قوانین کی روشنی میں روح، جسم، روحانی زندگی ، اخلاقی قوانین اور دیگر بہت سے متعلقہ امو رکے بارے میں جاننا چاہتاہے ۔ (مارچ ۱۹۱۲ء)
۳۔ ’ ’ دی انگلش میل ‘‘ نے یہ رائے دی کہ :۔
‏ A summary of really Islamic Ideas;
(۲۷۔ اکتوبر ۱۹۱۱ء ) The English Mail
’’ حقیقی اسلامی خیالات کا خلاصہ ‘‘ (۲۷ ۔اکتوبر ۱۹۱۱ء )
۴۔ ’’ دی برسٹل ٹائمزاینڈ مرر‘‘ نے تبصرہ کیا کہ :۔
‏Clearly it is no ordinary person who thus assresses himself to the west.
‏the Bristol Times and Mirror
یقینا وہ شخص جو اس رنگ میں مغرب کو مخاطب کرتا ہے کوئی معمولی آدمی نہیں ۔
۵۔ دی ڈیلی نیوز ( شکاگو)نے لکھا :۔
‏Character of the author is apparent "
(۱۶۔مارچ ۱۹۱۲ء) chicag.
‏The devout and earnest ( the Daily News)
اس مصنف کا نہایت پر خلوص اور حقیقت پر مبنی کردار بالکل عیاں ہے ۔
۶۔ دی اینگو بیلجین ٹائمز( برسلز) نے کتاب پر درج ذیل خیالات کا اظہار کیا:۔
‏The Teaching of Islam'turns out a wonderful commentary on the Quran (the Muslim scripture) itself. The author, s method has a further moral, and this is one which, to our mind, all writers on religion will do well to consider. It is that a religious treatise should be affirmative rather than negative in character. It should insist on the beauties of the one system rather than on the defects of another . The Teaching of Islam" demonstrates the principle in a pre.eminent degree, and the result is that the author has been able, without being in the least bitter towards any non.Muslim system, to guide the reader to an appreciation of Muslim fundamentals such as would have been impossible otherwise. The book rings with sincerity and conviction .
‏The Anglo. Belgian Times, Brussels
’’ٹیچنگ آف اسلام ‘‘ مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن کریم کی ایک نہایت عمدہ تفسیر ہے ۔ مصنف کا اسلوب بیان ایک مزید اخلاقی معیار قائم کرتاہے ۔ جسے ہمارے نزدیک مذہب پر لکھنے والے تمام مصنفین کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک مذہبی تصنیف کا انداز منفی نہیں بلکہ مثبت ہونا چاہئے۔ اسے کسی بھی سسٹم کی خوبیاں واضح کرنی چاہئیں نہ کہ محض دوسرے کی خامیاں ۔ کتاب ’’ ٹیچنگز آف اسلام ‘‘ یہ اصول نہایت واضح طور پر قائم کرتی ہے جس کی بناء پر اس کا مصنف قاری کو اسلا م کے بنیادی اصولوں کی ستائش کی ترغیب کی خاطر کسی اور غیر مسلم سسٹم کے خلاف تلخ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ اور یہ بات کوئی اور طرز بان اختیار کرنے سے ممکن نہ تھی۔ الغرض یہ کتاب خلوص اور حق الیقین کا مرقع ہے ۔ (۲۳)
۱۸۹۲ء کے بعض صحابہ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض جلیل القدر صحابہ جنہوں نے ۱۸۹۲ء میں سلسلہ حقہ میں شمولیت اختیار کی یہ ہیں۔
(۱) حضرت ملک نورالدین صاحب (۲۴)
(۲) حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں ضلع گورداسپور (۲۵)
(۳) حضرت ڈاکٹر بوڑیخاں صاحب قصور۔ (۲۶)
(۵) حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب ۔ (۲۸)
حضرت مولوی امام الدین صاحب گولیکی ۹۷۔ ۱۸۹۲ء میں داخل سلسلہ ہوئے ۔ آپ کا مختصر تذکرہ پہلے آچکاہے ۔
اس وقت مندرجہ بالا ۳۱۳ اصحاب میں سے حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ( ۱۰۱) حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب جہلمی (۱۹۰) اور حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ربوہ ( ۲۸۱) خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ اور مبائعین میں شامل ہیں۔ ان مخلصین کے علاوہ فہرست میں شامل چند اور اصحاب بھی گوبقید حیات ہیں۔ مگر وہ مبایعین سے متعلق نہیں رہے۔( افسوس موجود ہ ایڈیشن کے وقت ۳۱۳ اصحاب میں سے کوئی بزرگ زندہ نہیں۔ اس مبارک گروہ کے آخری فرد حضرت قاضی صاحب تھے جن کا انتقال ۲۷۔ فروری ۱۹۷۲ء کو ہوا)
علماء کے نام عربی مکتوب :۔
’’انجام آتھم ‘‘ میں حضرت اقدس نے علماء پر اتمام حجت کے لئے فصیح وبلیغ عربی میں ایک مفصل مکتوب بھی تحریر فرمایا۔ جو آپ کے روحانی اور علمی کمالات کا مرقع اور آپ کی سچائی پر ابدی برہان ہے۔
اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا پرشوکت چیلنج:۔
کتاب کے ضمیمہ میں حضور نے اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے پر ایک پرشوکت چیلنج دیتے ہوئے اعلان فرمایا:۔
بالآخر میں پھر ہریک طالب حق کو یاد دلاتا ہوں کہ وہ دین حق کے نشان اوراسلام کی سچائی کے آسمانی گواہ جس سے ہمارے نابینا علماء بے خبر ہیں۔ وہ مجھ کو عطا کئے گئے ہیں۔ مجھے بھیجا گیا ہے ۔تا میں ثابت کروں کہ ایک اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور وہ کرامات مجھے عطا کئے گئے ہیں جن کے مقابلہ سے تمام غیر مذاہب والے اور ہمارے اندرونی اندھے مخالف بھی عاجز ہیں ۔میں ہریک مخالف کو دکھلا سکتا ہوں۔ کہ قرآن شریف اپنی تعلیموں اور اپنے علوم حکمیہ اوراپنے معارف دقیقہ اور بلاغت کاملہ کی رو سے معجزہ ہے۔ موسیٰ کے معجزہ سے بڑھ کر اور عیسیٰ کے معجزات سے صدہا درجہ زیادہ ۔
میں باربار کہتاہوں اوربلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم ﷺ سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنادیتا ہے اوراسی کامل انسان پر علوم غیبیہ کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور دنیا میں کسی مذہب والا روحانی برکات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بجز اسلام تمام مذہب مردے۔ ان کے خدا مردے اور خود وہ تمام پیرو مردے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہوجانا بجز اسلام قبول کرنے کے ہرگز ممکن نہیں ۔ ہرگز ممکن نہیں ۔
اے نادانو! تمہیں مردہ پرستی میں کیا مزہ ہے؟ اورمردار کھانے میں کیا لذات؟!! آئو میں تمہیں بتلائوں کہ زندہ خدا کہاں ہے اور کس قوم کے ساتھ ہے ۔ وہ اسلام کے ساتھ ہے اسلام اس وقت موسیٰ کا طو ر ہے۔ جہاں خدا بول رہا ہے وہ خدا جو نبیوں کے ساتھ ہمیشہ کلام کرتاتھا۔ اورپھر چپ ہوگیا آج وہ ایک مسلمان کے دل میں کلام کررہا ہے۔ کیا تم میں سے کسی کو شوق نہیں کہ اس بات کو پرکھے۔ پھر اگر حق کو پاوے تو قبول کرلیوے ۔تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا ایک مردہ کفن میں لپیٹا ہوا ۔پھر کیا ہے؟ کیا ایک مشت خاک ۔کیا یہ مردہ خدا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ تمہیں کچھ جواب دے سکتا ہے؟ذرا آئو! ہاں! *** ہے تم پراگر نہ آئو اور اس سڑے گلے مردہ کا میرے خدا کے ساتھ مقابلہ نہ کرو۔
دیکھو میں تمہیں کہتاہوں کہ چالیس دن نہیں گزریں گے کہ وہ بعض آسمانی نشانوں سے تمہیں شرمندہ کرے گا ۔ ناپاک ہے وہ دل جوسچے ارادہ سے نہیں آزماتے اورپھر انکارکرتے ہیں اورپلید ہیں وہ طبیعتیں جو شرارت کی طرف جاتی ہیں نہ طلب حق کی طرف۔
او میرے مخالف مولویو! اگرتم میں شک ہوتو آئو چند روز میری صحبت میں رہو اگر خدا کے نشان نہ دیکھو تو مجھے پکڑو اور جس طرح چاہو تکذیب سے پیش آئو ۔ میں اتمام حجت کرچکا ۔ اب جب تک تم اس حجت کو نہ توڑ لو تمہارے پاس کوئی جواب نہیں ۔خدا کے نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں کیا تم میں سے کوئی نہیں جو سچا دل لے کر میرے پاس آوے کیا ایک بھی نہیں۔
’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا‘‘
اشتہار مستیقنا بوحی اللہ القھار:۔
یہ پرشوکت چیلنج آپ نے بالخصوص عیسائی پادریوں کو مخاطب کرتے ہوئے ۱۴؍ جنوری ۱۸۹۷ء؁ کو الاشتھار مستیقنا بوحی اللہ القھار‘‘ کے ذریعہ سے بھی دیا۔ اس روحانی مقابلہ کے لئے آپ نے چالیس دن مقرر فرمائے۔ اشتہار کا ایک ایک لفظ تثلیث پرستی کے لئے شمشیرو سنان کا حکم رکھتاہے۔
عیسائیوں کو ایک ہزار روپیہ انعام کی پیشکش:۔
اس اشتہار کے چودہ دن بعد ۲۸؍ جنوری ۱۸۹۷ء؁ کو ایک اور اشتہار میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ میرا دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ہیں ۔ اگرکوئی پادری میری پیشگوئیوں اورمیرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قومی تر دکھلا سکے تو میں اس کو ایک ہزار روپیہ نقد دوں گا ۔
پادریوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کے ان اشتہاروں سے لاجواب اور مبہوت ہوکر یہ جواب دیا کہ انجیل کی رو سے جھوٹے رسول اور جھوٹے مسیح بھی ایسے بڑے نشان دکھلاسکتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کردیں۔ حضرت اقدسؑ کو یہ جواب پہنچا ۔تو آپ نے ۲۸؍فروری ۱۸۹۷ء؁ کو ایک اور اشتہار دیا۔ جس میں لکھا کہ انجیل کا جو سہارا انہوںنے لیا ہے وہ ان کے لئے کچھ فائدہ بخش نہیں بلکہ اس سے وہ خود زیرالزام آتے ہیں کیونکہ جس حالت میں اسی قسم کے نشانوں پر بھروسہ کرکے یسوع کو خدا بنادیا گیا ہے تو یہ بڑ اظلم ہوگا کہ دوسرا شخص ایسے ہی نشان بلکہ بقول یسوع بڑے بڑے نشان بھی دکھلا کر ایک سچا ملہم بھی نہ ٹھہر سکے۔
اشتہار’’ خدا کی *** اور کسر صلیب‘‘
اس اشتہار کے بعد ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء؁ کو آپ نے ’’خدا کی *** اور کسرصلیب‘‘ کے عنوان سے ایک اور زبردست اشتہار دیا جس میں آپ نے ثابت کیا کہ *** کی رو سے *** کے معنے راندہ درگاہ عالی اورشیاطین کے ہیں مگر عیسائیوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح مصلوب ہوکر تین دن کے لئے *** ہوگئے تھے ۔بنابریں آپ نے سوال کیا کہ اگر معاذ اللہ جناب یسوع پر واقعی کچھ دنوں تک *** پڑ گئی تو ان کا خدا تعالیٰ سے انبیت کا تعلق کیسے قائم رہ سکتاتھا جب کہ بیٹا ہونا تو الگ رہا خود پیارا ہونا بھی *** کے منافی ہے۔
شیخ محمد رضا طہرانی نجفی کی اشتہار بازی
شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ایک شیعہ مجتہد تھے ۔جنہوں نے سستی شہرت اوراپنے علم وفضیلت کا سکہ جمانے کے لئے حضرت اقدس کے خلاف اشتہار بازی کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے حق وکذب کے فیصلے کا یہ مضحکہ خیز طریق پیش کیا کہ ہم دونوں لاہور کی شاہی مسجد کے منارے سے چھلانگ لگائیں۔ جو صادق ہوگا وہ بچ جائے گا۔ نیز حضرت اقدسؑ کے دعویٰ الہام و نشان کا مذاق اڑاتے ہوئے تعلی کی کہ میں چالیس لمحوں میں نشان دکھا سکتاہوں ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے یکم فروری ۱۸۹۷ء کو بذریعہ اشتہار ان کے شاہی مسجد سے چھلانگ لگانے کے مطالبے کا تویہ لطیف جواب دیا کہ یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں اس طرز کا واقعہ دو مرتبہ ہوا ہے ۔ شیخ نجدی (۷) نے حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلی مرتبہ یہ کہا تھا اور اب شیخ نجفی مجھ سے یہ تقاضا فرما رہے ہیں۔ پس میں بھی انہیں وہی جواب دیتاہوں جو حضرت مسیحؑ نے شیخ نجدی کو دیا تھا۔ کہ میں اپنے خدا کی آزمائش نہیں کرنا چاہتا(۸) شیخ نجفی کے دعویٰ نشان نمائی کے جواب میں حضور نے فرمایا ۔ کہ چالیس روز کے اندر اگرہم سے نشان ظاہر ہوگیا اور وہ جو چالیس لمحوں میں کرامت دکھانے کا ادعا کرتے ہیں ۔چالیس دنوں میں بھی کچھ نہ دکھاسکے۔ تو صادق و کاذب کی خود بخود شناخت ہو جائے گی۔ (۹) سو چالیس دن کے اند رلیکھرام پشاوری کی ہلاکت کا نشان وقوع میں آگیا ۔ جس پر حضور نے ۱۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو اشتہار دیا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی صداقت پر چمکتا ہوا نشان ظاہر کرکے شیخ نجفی کا کذب کھول دیا ہے اور اب کسی مقابلہ کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ۔ تاہم تنزل کے طور پر راضی ہیںکہ وہ مسجد شاہی کے منارہ سے اب نیچے گر کے دکھلاویں۔ (۱۰)
حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کی ولادت :۔
۲۔ مارچ ۱۸۹۷ء مطابق ۲۷۔ رمضان ۱۳۱۴ھ کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم مدظلہا العالی کی پیدائش ہوئی ۔ آپ کی ولادت سے قبل حضرت اقدس کو الہاماً خبر دی گئی کہ ’’ تنشافی الحلیہ‘‘(۱۱) کہ یہ دختر نیک اختر زیورات میں نشوونماپائے گی۔ پھر ۱۹۰۱ء میں الہام ہوا۔ ’’نواب مبارکہ بیگم ‘‘(۱۲) ان الہامات اور بعض رویا کی روشنی میں حضور نے ( حضرت صاحبزادہ ) مرزا بشیر احمد صاحب( حضرت صاحبزادہ ) مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت سیدہ موصوفہ کی آمین کے موقع پر خصوصاً آپ سے متعلق فرمایا ؛
؎ اوران کے ساتھ دی ہے ایک دختر ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اختر
کلام اللہ کو پڑھتی ہے فرفر خد اکا فضل اور رحمت سراسر
ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر
لقب عزت کا پاوے وہ مقرر یہی روز ازل سے ہے مقدر
چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت صاحبزادی صاحبہ ’’ حجۃ اللہ ‘‘ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس اعظم ریاست مالیر کوٹلہ سے بیاہی گئیں۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۰۸ء کو آپ کی تقریب نکاح عمل میں آئی اور ۱۴۔ مارچ ۱۹۰۹ء کو رخصتانہ ہوا۔ خطبہ نکاح حضرت مولانا نورالدین نے پڑھا۔ جس میں کہا ’’ ایک وقت تھا جب کہ حضرت نواب صاحب موصوف کے ایک مورث اعلیٰ صدر جہاں کو ایک بادشاہ نے اپنی لڑکی نکاح میں دی تھی۔ اور وہ بزرگ بہت ہی خوش قسمت تھا۔ مگر ہمارے دوست نواب محمد علی خاں صاحب اس سے زیادہ خوش قسمت ہیں کہ ان کے نکاح میں ایک نبی اللہ کی لڑکی آئی ہے ۔‘‘(۱۳)
حضرت سیدہ موصوفہ سلسلہ کی ان بزرگ ہستیوں میں شامل ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست تعلق و نسبت کا فخر بھی بخشا ہے اور بلند پایہ اور لطیف روحانی اور ادبی ذوق سے بھی نوازاہے۔ آپ کا شعری کلام تصوف و روحانیت کی نازک خیالیوں اور لطافتوں سے لبریز اور سوزو گداز میں ڈوبا ہوتاہے ۔ آپ کی شعری خدمات کا سلسلہ ۱۹۲۴ء سے شروع ہوتا ہے جس کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ یورپ کے پہلے سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔ آپ کی روح پر ور نظموں کا مجموعہ ’’ الشرکہ الاسلامیہ ‘‘ ربوہ نے ’’ درعدن ‘‘ کے نام سے دسمبر ۱۹۵۹ء میں شائع کیا ہے ۔
نظم کی طرح نثر میں بھی مخصوص طرز نگارش رکھتی ہیں۔ زبان نہایت نفیس پاکیزہ اور شگفتہ ہے جو حضرت مسیح موعود کی دعا اور حضرت امام المومنین نور اللہ مرقدھا کی حسن تربیت کا فیض ہے۔ ( حضرت سیدہ ۲۳۔ مئی ۱۹۷۷ء کو انتقال فرماگئیں)






شاتم رسول پنڈت لیکھرام کا قتل ، خانہ تلاشی اور آریوں کے خطرناک منصوبے ’’ استفتاء ‘‘ اور ’’ سراج منیر ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
پنڈت لیکھرام کا قتل :۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شاتم رسول پنڈت لیکھرام کی عبرتناک موت سے متعلق جو مفصل پیشگوئی فروری ۱۸۹۳ء سے کر رکھی تھی اس کی چھ سالہ میعاد مقرر تھی جواب اختتام کو پہنچ رہی تھی اور مارچ کے مہینہ میں عید الفطر کا دن بھی آرہا تھا جو اس واقعہ کی معین علامت بتائی گئی تھی اس لئے جوں جوں یہ دن نزدیک آرہا تھا پبلک کی بیتابی میں بھی اضافہ ہوتا جاتاتھا۔ دوسری طرف پنڈت لیکھرام کو بھی دھڑکا لگا ہوا تھا اور اس نے دو تنخواہ دار سپاہی اپنی حفاظت کے لئے اپنے مکان واقعہ محلہ وچھووالی لاہور میں تعینات کرلئے تھے ۔(۱) مگر یہ انتظامات خدا تعالیٰ کے عذاب سے کیونکر بچا سکتے تھے ؟ ۵۔ مارچ کو عید الفطر کا دن تھا۔ جو بظاہر سکون سے گزارا۔ لیکن اگلے دن (۶۔ مارچ کو ) سات بجے شام لیکھرام مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے پنڈت دیانند کی سوانح عمری لکھ رہے تھے اور ایک شخص جو آریہ سماجیوں کے بیان کے مطابق شدھ ہونے کے لئے پاس بیٹھا تھا اور جس کے لئے آریہ سماج ۷۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو شدھی کی پہلی تقریب منانے کا اہتمام بڑی دھوم دھام سے کرنے والی تھی) پاس بیٹھا تھا۔ اس دوران میں پنڈت لیکھرام تصنیف کے کام سے تھک کر ذرا آرام کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور انگڑائی لی ۔ جس پر ’’شدھ ہونے والے شخص نے ‘‘ ان پر خنجر سے بھرپور وار کیا ۔ کہ انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ اور پنڈت لیکھرام کے منہ سے بیل کی طرح نہایت زور کی آواز نکلی جسے سن کر اس کی بیوی اور والدہ اوپر گئیں۔ لوگ جمع ہوگئے ۔ لیکھرام کو لاہور کے میو ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ۔ شام کا وقت تھا۔ ہسپتال میں اس وقت ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ( جو اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم پاتے تھے ) ڈیوٹی پر تھے ۔ مگر انگریز سرجن ڈاکٹر پیری موجودنہ تھا ۔ جب سرجن ڈاکٹر کے آنے میں تاخیر ہوئی تو پنڈت لیکھرام نے بار بار یہ کہنا شروع کیا ۔ ’ ’ ہائے میری قسمت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بوہڑدا‘‘۔ یعنی ڈاکٹر بھی نہیں پہنچتا۔ آخر بہت انتظار کے بعد قریباً نو بجے ڈاکٹر پیری بھی آپہنچا۔ اپریشن سے پہلے اس نے مرزا یعقوب بیگ صاحب کو کئی مرتبہ جو ’’ مرزا صاحب ‘‘ کہہ کے پکارا ۔ تولیکھرام کانپ اٹھا۔۔۔۔۔۔ کہ ہائے و ہ مرزا صاحب یہا ہسپتال بھی آپہنچے۔ ڈاکٹر پیری نے زخم سیئے لیکن قریباً بارہ بجے جب وہ انتڑیاں وغیرہ صاف کرکے اور پیٹ سی کر ہاتھ دھونے لگا تو ٹانکے چھوٹ گئے اور ان کو دوبارہ سینا پڑا۔ اس وقت پولیس والوں نے پنڈت لیکھرام کا بیان لینا چاہا جسے ڈاکٹر پیری نے روک دیا۔ کہ اس میں جان کا خطرہ ہے ۔ اس طرح آخر شب ہوگئی اور بالآخر لیکھرام تڑپ تڑپ کر ۴ بجے صبح چل بسا۔ اور جس طرح پیشگوئی میں قبل از وقت بتایا گیا تھا سامری کے بچھڑے کی طرح اس کی ارتھی جلائی گئی ۔ اور اس کی راکھ دریا میں بہادی گئی ۔ (۲)
پنڈت دیوپر کاش کا بیان :۔
مشہور آریہ سماجی پنڈت دیو پرکاش نے اپنی کتاب دافع الاوہام میں پنڈت لیکھرام کے واقعات قتل پر مفصل روشنی ڈالی ہے جس کے لفظ لفظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ہر حصہ کے پورے ہونے کی شہادت ملتی ہے پنڈت صاحب لکھتے ہیں ۔ ’’ ۱۳ فروری یا ۱۴ ۔ فروری ۱۸۹۷ء کو ایک شخص لالہ ہنسراج جی کے پاس گیا پھر دوسرے روز دیا نند کالج ہال میں دکھائی دیا ۔ وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کرتا تھا ۔ پھر پنڈت جی کو ملا۔ اس نے ظاہر کیا کہ وہ پہلے ہندوتھا۔ عرصہ دو سال سے مسلمان ہوگیا تھا ۔ اب پھر اپنے اصل دھرم میں واپس آنا چاہتاہے ۔۔۔۔۔ وہ پنڈت جی کے ساتھ سایہ کی طرح رہنے لگا۔ کھانا بھی عام طور سے پنڈت جی کے گھر ہی کھایا کرتا تھا یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے ۔ ۵۔ مارچ کو عید کا دن تھا ۔ قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر ریلوے سٹیشن آریہ پرتی ندھی سبھا کے دفتر ۱۸یا ۱۹ چکر لگائے ۔ مگر پنڈت جی ۵۔ مارچ کو ملتان سے نہ آسکے ۔ اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا۔ ۶۔ مارچ کو صبح ہی پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پرتی ندھی کے دفتر سے ہوتا اور ریلوے اسٹیشن پر گیا۔ اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے ۔ قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا یہ حالت دیکھ کر پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے ۔ اس نے کہا ہاں ۔ ساتھ کچھ درد بھی ہے تب پنڈت جی اسے ڈاکٹر بشنداس کے پاس کے گئے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکار نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی پینے کی دوا دیجئے ۔ تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا ۔ اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدا اور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ ہی تھا۔ جس مکان میں پنڈت جی کام کرتے تھے وہ گلی وچھووالی لاہور میں واقع ہے اور اس کا نقشہ حسب ذیل ہے زینہ چڑھتے ہی چھت پر اس کے ساتھ لگا ہوا ایک برآمدہ ہے ۔ اس میں پنڈت جی کام کیا کرتے تھے ۔ دو طرف دیوار ۔ ایک طرف اندرونی کمرہ کا دروازہ جس میں ان کی ماتا اور دھرم پتنی بیٹھی تھی اور کواڑ بند تھا۔ چوتھی طرف بالکل کھلی ہوئی تھی پنڈت جی چار پائی پر جا بیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر (سوانح عمری) کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہوگئے اور سفاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔ عین اس وقت جب کہ پنڈت جی نے مہرشی کے جیون کے اس آخری حصہ کو جس وقت کہ انہوں نے اپنی زندگی کو دیدک دھرم کے راستہ میں قربان کیا اور کہا کہ ایشور تیری اچھیا( خواہش) پورن ( پوری ) ہو ختم کیا اور تھکاوٹ کے سبب اٹھ کے ۷ بجے شام کے وقت انگڑائی لی ۔ اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا فوراً اٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انتڑیوں کو تھاما اور ایک سے چھری چھین لی ۔ تب پنڈت جی کی ماتا اور دھرم پتنی اس کی طرف دوڑیں اس وقت اس بے رحم ظالم نے پندت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب سے بے ہوش ہو کر گر گئیں۔ اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے ڈاکٹر صاحب نے زخموں کا ملاحظہ کیا اور سینے میں مصروف رہے اور کہا کہ اگر صبح تک بچ گئے تو امید زیست ہے ورنہ نہیں۔ پنڈت جی جب تک ہسپتال میں جیتے رہے دید منتروں کا پاٹھ کر تے رہے اور آخر ایک بجے رات کے اپنی آخری وصیت کہ آریہ سماج سے تحریر کا کام بند نہ ہوکر کے آپ کی پاک روح قفس فانی سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی ۔ ‘‘(۳)
بابو گھانسی رام صاحب ایم ۔ اے ۔ ایل ایل ۔ بی کا اعلان حق :۔
ایک دوسرے آریہ سماجی بابو گھانسی رام صاحب ایم ۔ اے ایل ۔ ایل ۔بی کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں ’’ صوبہ پنجاب کے دارالخلافت لاہو رمیں یہ قتل ہوا۔ مگر پولیس قاتل کا پتہ چلانے میں ناکامیاب رہی اتفاق دیکھئے۔ غلام احمد کی پیشگوئی پوری ہوئی اور پنڈت لیکھرام کو شہادت نصیب ہوئی اس بات کو پر میشر ہی جان سکتا ہے کہ یہ اس کا بھیجا ہوا عذاب تھا یا انسان کا ۔‘‘(۴)
پنڈت مدن گوپال سناتن دھرمی کا واضح اقرار :۔
یہ تو ایک آریہ سماجی صاحب کا بیان ہے اب ایک سناتن دھرمی فاضل کا واضح اقرار درج کیا جاتاہے ۔ جناب مدن گوپال مدن پاراشرسابق ایڈیٹر’’ رندھیر ‘‘ پٹی ضلع لاہور لکھتے ہیں ’’لیکھرام کے مارے جانے کی نسبت پیشگوئی اور الزام قتل سے انجام کار اپنے بری ہونے کی پیشگوئی پوری ہوئی ۔ ‘‘ ( ۵)
ان تین ناقابل تردید بیانات سے واضح ہے کہ ایک عرصہ کے بعد آریہ سماجی اور سناتن دھرمی دونوں حلقے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پنڈت لیکھرام سے متعلق خدا کا چمکتا ہوا نشان پوری شان سے ظاہر ہوا۔
ہندوئوں کی شورش :۔
اس عظیم الشان پیشگوئی کے واضح رنگ میں پورے ہونے پر چاہئے تو یہ تھا کہ ہندو اسلام اور پیغمبر خدا ﷺ کی سچائی پر ایمان لے آتے مگر افسوس اس موقع پر ان کی قساوت قلبی میں اور بھی اضافہ ہوگیا اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زبردست شورش برپا کر دی۔ خصوصاً لاہور میں جہاں یہ واقعہ ہوا تھا ہندوئوں نے کئی مسلمان بچوں کو مٹھائی وغیرہ میں زہردے دیا۔ جب ایسی متعدد واردات ہوئیں تو مسلمانوں نے ایکا کر لیا کہ وہ ہندوئوں کے ہاتھوں سے نہیں کھائیں گے اور اس طرح کئی دکانیں مسلمانوں کی کھل گئیں۔ آریہ لوگوں نے ملک میں اپنے جاسوسوں کا جال بچھا دیا اور ملک کا چپہ چپہ چھان مارا اور قاتل کے گرفتار کرنے والے کے لئے بڑے بڑے انعام رکھے گئے مگر اس شورش کا حقیقی اور تمام تر رخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات مقدس کی طرف تھا۔ چنانچہ ہندو اخباروں نے آپ کے خلاف عوام اور حکومت دونوں کو مشتعل کرنے میں کوئی دقیقہ فردو گذاشت نہیں کیا۔ اور ملک بھر میں ایک زبردست آگ لگا دی ۔ اور صریح لفظوں میں آپ کو قتل میں شریک قرار دیا۔
ہندو اخبارات کی زہر چکانی :۔
چنانچہ ’’اخبار عام ‘‘ ۱۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ۔ ’’ اگر ڈپٹی صاحب یعنی آتھم کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا جس کا خمیازہ لیکھرام کو بھگتنا پڑا تب اور صورت تھی۔
’’ یہ قتل کئی ایک اشخاص کی مدت کی سوچی اور سمجھی ہوئی اور پختہ سازش کا نتیجہ ہے ۔ جس کی تجاویزامرت سر اور گورداسپورہ کے نزدیک اور ادھر دہلی اور بمبئی کے ارد گرد مدت سے ہو رہی تھیں۔ کیا یہ غیر اغلب ہے کہ اس سازش کا جنم ان اشخاص سے ہوا جو علانیہ بذریعہ تحریر و تقریر کہا کرتے تھے کہ پنڈت کو مارڈالیں گے اور مزید برآں یہ کہ پنڈت اس عرصہ میں اور فلاں دن ایک دردنا ک حالت میں مرے گا۔ کیا آریہ دھرم کے مخالف چند ایک کتب کے ایک خاص مصنف کو اس سازش سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘
’’ انیس ہند ‘‘ میرٹھ ( ۲۰۔ مارچ ۱۸۹۷ء ) نے لکھا ’’ ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا کہ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے لیکھرام کی موت کی نسبت پیشگوئی کی تھی۔ کیا اس کو علم غیب تھا۔ ‘‘
حضرت اقدسؑ کو قتل کی دھمکیاں :۔
یہی نہیں ہندوئوں نے حضور ؑ کو برملا قتل (۶) کی دھمکیاں دیں چنانچہ اخبار ’’ رہبر ہند‘‘ لاہور۵۔ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۱۴نے لکھا کہ ’’ کہتے ہیں کہ ہندوقادیان والے کو قتل کرائیں گے ۔ ‘‘
ایک ہندو بشیشرداس نے اخبار آفتاب ہند ( ۱۸۔ مارچ ۱۸۹۷ء صفحہ ۵) پر ’’ مرزا قادیانی خبردار ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں صاف صاف لکھا کہ ’’ مرزا قادیانی بھی امروز فرد کا مہمان ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے ۔ آج کل ہنود کے خیالات مرزا قادیانی کی نسبت بہت بگڑے ہوئے ہیں پس مرزا قادیانی کو خبردار رہنا چاہئے۔ کہ وہ بھی بکر عید کی قربانی نہ ہو جائوے ۔ ‘‘(۷)
اس درپردہ خونی منصوبے کی تکمیل کے لئے ایک خفیہ انجمن بھی قائم کی گئی ۔ چنانچہ حضور کی خدمت میں پنجاب کے مختلف مقامات سے بکثرت یہ اطلاعات بھی پہنچ گئی تھیں انہیں دنوں گوجرانوالہ کے ایک معزز رئیس نے آپ کو لکھا کہ ’’ اس جگہ دو دن تک جلسہ ماتم لیکھرام ہوتا رہا۔ اور قاتل کے گرفتار کنندہ کے لئے ہزار روپیہ انعام قرار پایا۔ اور دو سو اس کے لئے جو نشان دہی کرے ۔ نیز سنا گیا ہے کہ ایک خفیہ انجمن آپ کے قتل کے لئے منعقد ہوئی ہے اور اس انجمن کے ممبر قریب قریب کے شہروں کے لوگ ( جیسے لاہور امرت سر بٹالہ اور خاص گوجرانوالہ کے ہیں ) منتخب ہوئے ہیں ۔ بیس ہزار روپیہ تک چندہ کا بندوبست ہو بھی گیا ہے باقی دوسرے شہروں اور دیہات سے وصول کیا جائیگا مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس مشورہ قتل کے سرگردہ اس شہر کے بعض وکیل اور چند عہد ہ دار سرکاری اور لاہور کے بعض آریہ رئیس بھی ہیں۔ ‘‘(۸)
حضرت اقدسؑ کی طرف سے ہندوئوں کو چیلنج:۔
کوئی اور ہوتا تو قتل کا نام سنتے ہی دہشت زدہ ہو جاتا۔ مگر حضرت اقدس تو خدا کے مامور تھے آپ تو ان مخالفتوں اور شورشوں کی آگ ہی میں اب تک اپنے خدا کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ آپ کو یہ دھمکیاں کیا ڈرا سکتی تھیں۔ ایک صاحب مستان شاہ کابلی امرت سر میں قیام پزیر تھے جو حضرت اقدسؑ کے مخالف اور آپ کی پیشگوئی کے مکذب تھے۔ لیکھرام کی ہلاکت سے دو ایک روز قبل انہوں نے شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند سے کہا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی ۔ لیکن جب لیکھرام کے قتل کی دہشتناک خبر پہنچی تو مستان شاہ کا چہرہ یہ سنتے ہی سیاہ پڑگیا اور ان کے ایک مرید نے جو گورنمنٹ سکول امرت سر میں ریاضی پڑھاتے تھے شیخ صاحب سے کہا کہ کل شام کو پنڈت لیکھرام قتل ہوگیا۔ مرزا صاحب کی پیشگوئی تو پوری ہوگئی لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے مجھے ان سے ہمدردی ہے کہ کہیں ان کی جان پر کوئی آفت نہ آجائے اسی وقت مرزا صاحب کو خط لکھ دیں کہ آئندہ کوئی بات اس پیشگوئی سے متعلق نہ لکھیں اور نہ کوئی ایسی پیشگوئی کریں لاہور میں بڑا تہلکہ بپاہے اور چاروں طرف شورو غل مچ رہا ہے ۔ وہ بار بار اصرار سے کہتاتھا۔ کہ پیسے مجھ سے لے لو اور خط لکھدو ۔ احتیاط اچھی چیز ہے (۹) بیگانوں کی دہشت کایہ عالم ہوتو لاہور کی احمدیہ جماعت پر کیا گزری ہوگی۔ لیکن خدا کے بہادر پہلوان کو دیکھ کہ ادھر یہ اطلاع سنی ادھر آریوں کو اسلام کے اس چمکتے ہوئے نشان کی طرف توجہ دلانے کے لئے اشتہار لکھا کہ اگرچہ انسانی ہمدردی کی رو سے ہمیں افسوس ہے کہ اس کی موت ایک سخت مصیبت اور آفت اور ناگہانی حادثہ کے طور پر عین جوانی کے عالم میں ہوئی ۔ لیکن دوسرے پہلو کی روسے ہم خدا تعالیٰ کاشکر کرتے ہیں جو اس کے منہ کی باتیں آج پوری ہوئیں۔ سو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ اس نے چاہا کہ اس بندہ کی تحقیر کرنے والے متنبہ ہو جائیں اور اپنی جانوں پر رحم کریں ایسا نہ ہو کہ اسی حجاب میں گزر جائیں ۔ ‘‘(۱۰) اس اشتہار کا عنوان تھا ۔
کرامت گرچہ بے نام و نشان است بیابنگر زغلمان محمدؐ
اس اشتہار کے تین روز بعد آپ نے سر سید احمد خان پر اتمام حجت کے لئے بھی اشتہار دیا اور انہیں بتایا کہ ’’ برکات الدعا‘‘ میں لیکھرام سے متعلق قبل از وقت جس دعائے مستجاب کی اطلاع دی گئی تھی وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے کمال صفائی سے پوری ہوگئی ہے اس لئے اب آپ ایسے منصف مزا ج کو اپنے اس خیال سے رجوع کرلینا چاہیے کہ دعا محض عبادت ہے جو قبول نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ رسالہ ’’ الدعا ء والا ستجابت ‘‘ میں ظاہر کیا گیا ہے ۔ (۱۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت اور آریوں کو چیلنج :۔
یہ پیشگوئی جس خارق عادت رنگ میں اپنی ایک ایک شق کے ساتھ پوری ہوئی تھی اس کو دیکھ کر ہر سعید الفطرت ورطہ حیرت میں پڑ گیا مگر یہی بات آریوں کے لئے انکار و تکذیب کا موجب بن گئی ۔ چنانچہ انہوں نے ملک بھر میں مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب نے پنڈت جی کو قتل کروا دیا ہے اور ثبوت یہ پیش کیا کہ آپ نے برسوں قبل اس کی ہلاکت کے بارے میں جو کچھ خبر دی تھی یہ حادثہ عین اسی رنگ سے وقوع میں آگیا ہے ۔ حضور نے تکذیب و استہزاء کا یہ رنگ دیکھا تو آپ نے اشتہار وں پر اشتہار دیئے اور تحدی کے ساتھ ان کو بتایا کہ لیکھرام کے قتل میں کسی انسانی منصوبہ کا ہر گز دخل نہیں ہے ۔ اسلام اور آریہ مذہب کا خدا تعالیٰ کی درگاہ میں برسوں سے ایک مقدمہ دائر تھا سو آخر ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء کے اجلاس میں اس عدالت نے مسلمانوں کے حق میں ایسی ڈگری دی جس کی نہ کوئی اپیل اور نہ مرافعہ ۔ آریہ صاحبوں کو چاہیئے کہ اب گورنمنٹ کو تکلیف نہ دیں ۔ مقدمہ صفائی سے فیصلہ پا چکا ۔‘‘
نیز لکھا ۔’’ ہمارے دل کی اس وقت عجب حالت ہے درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا۔ تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لئے دعا کرتا اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی وہ زندہ ہو جاتا۔ وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں اس سے کوئی بات انہونی نہیں۔ اور خوشی اس بات کی ہے کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی ۔ ‘‘
آپ نے سازش کا الزام لگانے والوں سے پوچھا۔ کہ آپ لوگوں میں بھی بڑے بڑے اوتار گزرے ہیں جیسے راجہ رامچندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب۔ کیا آپ لوگ ان کی نسبت یہ گمان کرسکتے ہیں کہ انہوں نے پیشگوئی کرکے پھر اپنی عزت رکھنے کے لئے ایسا حیلہ کیا ہو کہ کسی اپنے چیلہ کی منت سماجت کی ہوکہ اس کو اپنی کوشش سے پوری کرکے میری عزت رکھ لے پس کیونکر ممکن ہے کہ دعویٰ تو یہ ہوکہ میں وقت کا عیسیٰ ہوں اور جھوٹی پیشگوئی کو اس طرح پورا کرنا چاہے کہ مریدوں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ کسی طرح میری پیشگوئی پوری ہو۔ کیا ایسا مردار ایک پاک جماعت کا مالک ہو سکتا ہے ۔ کہاں ہے تمہارا پاک کاشنس ۔ اے مہذب آریو۔ اور کہاں ہے فطرتی زیر کی ۔ اے آریہ کے دانشمندو ! ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتاہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کو چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا۔ تو میں تمہیں بالکل درست کہتاہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ۔۔۔۔۔ اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیزگاری سیکھنے کے لئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے ، کہ ڈاکوئوں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں۔ میں حلفاً کہتا ہوں اور سچ کہتاہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں اور اگر کوئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی جناب میں ہے نہ کسی اور عدالت میں ۔ ‘‘(۱۲)
آریوں کی بدگمانیوں کا ہر پہلو سے ازالہ کرکے آپ نے ان کے سامنے بالا خر فیصلہ کا یہ آسان طریق رکھا کہ اگر اب بھی کسی کا خیال ہے کہ میں نے لیکھرام کے قتل کی سازش کی ہے ۔ تو ایسا شخص میرے سامنے قسم کھا ئے کہ میں یقینا جانتا ہوں کہ یہ شخص سازش قتل میں شریک یا اس کے حکم سے واقعہ قتل ہوا ہے ۔ پس اگریہ صحیح نہیں ہے تو اے قادر خدا ایک برس کے اندر مجھ پر وہ عذاب نازل کر جو ہیبت ناک عذاب ہو مگر کسی انسان کے ہاتھوں سے نہ ہو اور نہ انسان کے منصوبوں کا اس میں دخل متصور ہو سکے ۔ پس اگر یہ شخص ایک برس تک میری بددعا سے بچ گیا تو میں مجرم ہوں اور اس سزا کے لائق کہ ایک قاتل کے لئے ہونی چاہیے۔ اب اگر کوئی بہادر کلیجہ والا آریہ ہے جو اس طور سے تمام دنیا کو شبہات سے چھڑا دے تو اس طریق کو اختیار کرے ۔ ‘‘(۱۳)
گنگابشن صاحب کی آمادگی اور فرار :۔
حضرت اقدسؑ کے اس چیلنج پر آریہ سماج دم بخودرہ گئی ۔ اور کسی بہادر کلیجہ والے آریہ کو آپ کے سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی ۔ البتہ ایک صاحب گنگا بشن نامی نے ’’ پنجاب سماچار ‘‘ ۳۔ اپریل ۱۸۹۷ء میں قسم کھانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اور لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں بایں شرط کہ (۱) پیشگوئی پوری نہ ہونے کی حالت میں آپ کو پھانسی دی جائے (۲) میرے لئے دس ہزار روپیہ گورنمنٹ میں جمع کرا دیا جائے اگر میں بددعا سے بچ رہوں تو وہ روپیہ مجھے مل جائے (۳) جب میں قادیان میں قسم کھانے کے لئے آئوں تو اس بات کا ذمہ لیا جائے کہ لیکھرام کی طرح قتل نہ کیا جائے گا جسے حضور نے فوراً گنگا بشن کی تینوں شرطیں منظر فرما لیں اور لکھا ۔ ’’ میں تیار ہوں نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہروں تو مجھ کو پھانسی دیا جائے ۔ میں خوب جانتا ہوں کہ خدانے میری پیشگوئی پوری کرکے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے پس ہرگز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی ملوں یا ایک خرمہرہ بھی کسی تکذیب کرنے والے کو دوں۔ بلکہ وہ خدا جس کے حکم سے ہر جنبش و سکون ہے اس وقت کوئی اور ایسا نشان دکھائے گا جس کے آگے گردنیں جھک جائیں۔ ‘‘(۱۴)
یہ اشتہار پڑھ کر لالہ جی کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوںنے فضول عذرات سے جان چھڑانے کی کوشش کی ۔ مثلاً کہا کہ ’’ ایک سال کومیں نہیں مانتا ۔ بلکہ چاہتا ہوں کہ فوراً زمین میں غرق کیا جائوں یا یہ کہ مہینہ اور گھنٹہ موت کا مجھے بتلایا جائے ‘‘ حضرت اقدسؑ نے جواب دیا کہ ’’ یہ آپ کے پہلے اقرار کے خلاف ہے علاوہ اس کے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوں۔ اس کے حکم سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ اور نہ کم ۔ ہاں اگر میعاد کے اندر کوئی زیادہ تشریح خدا تعالیٰ کی طرف سے کی گئی تو میں اس کو شائع کردوں گا۔ مگر کوئی عہد نہیں۔ آپ اگر اپنی بہادری پر قائم ہیں تو ایک سال کی شرط قبول کر لیں ۔ میں یہ اقرار بھی کرتا ہوں کہ صرف اس حالت میں یہ نشان ، نشان سمجھا جائے گا۔ کہ جب کسی انسانی منصوبہ سے آپ کی موت نہ ہواور کسی دشمن بد اندیش کے قتل کا شبہ نہ ہو۔ ‘‘(۱۵)
لالہ گنگابشن صاحب نے اب کی دفعہ یہ شرط بھی زائد کی تھی کہ اگر آپ کو جھوٹا نکلنے کی صورت میں پھانسی دی جائے تو لاش گنگابشن صاحب کے حوالہ کی جائے جو چاہیں تو جلا دیں یادریا برد کردیں۔
حضرت اقدسؑ نے اس شرط کی منظوری کا بھی اعلان کر دیا اور ساتھ ہی لکھاکہ ’’ میرے نزدیک بھی جھوٹے کی لاش ہر ایک ذلت کے لائق ہے اور یہ شرط درحقیقت نہایت ضروری تھی جو لالہ گنگابشن صاحب کو عین موقعہ پریاد آگئی۔ لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ یہی شرائط بالمقابل اپنے لئے بھی قائم کریں۔ ہم نے مناسب نہیں دیکھا کہ ابتداء اپنی طرف سے یہ شرط لگا دیں۔ مگر اب چونکہ لالہ گنگابشن صاحب نے بخوشی خود یہ شرط قائم کر دی اس لئے ہم بھی تہ دل سے شکر گزار ہو کر اور اس شرط کو قبول کرکے اسی قسم کی شرط اپنے لئے قائم کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب گنگا بشن صاحب حسب منشاء پیشگوئی مر جائیں تو ان کی لاش بھی ہمیں مل جائے تا بطور نشان فتح وہ لاش ہمارے قبضہ میں رہے اور ہم اس لاش کو ضائع نہیں کریں گے بلکہ بطور نشان فتح مناسب مصالحوں کے ساتھ محفوظ رکھ کر کسی عام منظر میں یا لاہور کے عجائب گھر میں رکھا دیں گے ۔ ‘‘(۱۶)
اب لالہ جی کے لئے کوئی راہ فرار باقی نہیں تھی ۔ حضرت اقدسؑ ان کی شرطوں کو تسلیم کرتے ہوئے باربار للکار رہے تھے کہ میدان میں آئو۔ مگر لالہ گنگابشن صاحب کو تو اپنی لاش سامنے نظر آرہی تھی۔ وہ مرد میدان کیسے بنتے۔ ناچار ایک اشتہار میں اپنی لاش دینے سے انکار کر کے ہمیشہ کے لئے چپ سادھ لی۔ (۱۷)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی آریوں کی طرف سے نمائندگی :۔
اب آریہ سماج پر تو سناٹا چھا گیا مگر خدا جانے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو کیا سوجھی کہ وہ آریوں کی نمائندگی کرتے اور ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے میدان مقابلہ میں آگئے اور ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں ’’الہامی قاتل‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا کہ وہ لیکھرام کے قتل میں آپ کا سازشی ہاتھ ہونے پر قسم کھانے پر آمادہ ہیں مگر ایک برس کی میعاد سے ڈرتے ہیں ایسا نہ ہو کہ اس قدر مدت میں مرجائیں یا کوئی اور عذاب نازل ہوجائے اس لئے قسم کے لئے فوری نتیجہ برآمد ہونا چاہیئے۔(۱۸)
یہ شرط چونکہ خلاف سنت والہام تھی اس لئے حضرت اقدسؑ نے ان کی حیلہ بازیوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھا۔
’’ایک ایسے شخص کے ساتھ کہ اپنی ذکر کردہ بنیاد الہام ٹھہراتا ہے ضد کرنا حماقت ہے۔ صاحب الہام کے لئے الہام کی پیروی ضروری ہوتی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ چند ہفتہ میں ان پر عذاب نازل کرے مگر ہماری طرف سے ایک برس کی ہی معیاد ہوگی۔ اب اس سے ان کا منہ پھیرنا اپنے درو فگو ہونے کا اقرار کرنا ہے‘‘۔ (۱۹)
اس جواب نے مولوی صاحب کے حدیث وسنت کے عالم ہونے کے دعاوی پارہ پارہ کردئیے۔ اور وہ گنگا بشن کی طرح میدان سے فرار اختیار کرگئے ۔
حضرت اقدسؑ کی خانہ تلاشی:۔
آریہ سماجیوں کے جذبات مشتعل دیکھ کر انگریزی حکومت کی مشینری حرکت میں آگئی ۔ چنانچہ اس نے قاتل کے حلیہ کا اشتہار شائع کیا۔ خفیہ پولیس نے دوڑ دھوپ کر کے کئی افراد کو شبہ میں گرفتار کرلیا۔ ایک شخص کشمیر سے پکڑ کر لاہور لایا گیا۔ اس شخص کا حلیہ مشتہرہ حلیہ کے مطابق تھا لیکن آخر جب پنڈت لیکھرام کی والدہ اور بیوی نے اسے دیکھا تو کہا یہ وہ شخص نہیں اس کی آواز قاتل کی آواز جیسی نہیں ہے جس پروہ چھوڑ دیا گیا۔ اسی طرح ایک احمدی بابو وزیر خاں صاحب بھی ( جو برما میں کام کرتے تھے) زیر حراست کر لئے گئے مگر تفتیش کرنے پر وہ بھی رہا کر دئیے گئے۔ اس پکڑ دھکڑ کے علاوہ قتل کا سراغ لگانے کی غرض سے وسیع پیمانے پر تلاشیاں بھی ہوئیں۔ (۲۰) چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت اقدسؑ مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی بھی ہوئی یہ ۸۔ اپریل ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے۔ حضرت اقدس پولیس افسروں کے آنے سے چند منٹ پیشتر ’’سراج منیر‘‘کی ایک کاپی پڑھ رہے تھے۔ جس میں یہ مضمون تھا کہ لیکھرام کے قتل سے آپ پر ویسا ہی ابتلاء آیا۔ جیسے مسیح علیہ السلام کو واقعہ صلیب کے موقعہ پر آیا تھا۔ یہ مضمون پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں یکایک خیال آیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمنوں نے خود بھی ایذا رسانی کی کوششیں کی تھیں اور گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی تکلیف دی تھی۔ مگرمیرے معاملے میں تواب تک صرف ایک پہلو ہے کیا اچھا ہوتا کہ گورنمنٹ کی دست اندازی کا پہلو بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک مسٹر لیمار چند سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور‘ میاں محمد بخش انسپکٹر بٹالہ اور ہیڈ کا نسٹیبل اور پولیس کی جمعیت نے قادیان پہنچ کر حضور کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ قبل ازیں صبح کے وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب نے کہیں سے پولیس کے آنے کی خبر سن لی۔ تووہ سخت گھبرائے ہوئے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پہنچے اور سخت پریشانی کے عالم میں کہا کہ پولیس گرفتاری کے لئے آرہی ہے۔ حضرت اقدسؑ نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ ’’میر صاحب (دنیا دار) لوگ خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں۔ ہم سمجھ لیں گے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کی کنگن پہن لئے۔ پھر ذرا تامل کے بعد فرمایا۔’’ مگر ایسا نہ ہوگا۔ کیوں کہ خدا تعالیٰ کی اپنی گورنمنٹ کے مصالح ہوتے ہیں‘‘۔ (۲۱) اس وقت حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدسؑ پر پولیس کی اطلاع کا خفیف سا اثر بھی نہ ہوا۔ اور بدستور کاپی پڑھتے رہے ۔ لیکن جب پولیس نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ نے کام بند کردیا اور فوراً جا کر دروازہ کھول دیا۔ مسٹر لیمار چند نے ٹوپی اتار کر کہا کہ ’’مجھے حکم آگیا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں آپ کے گھر کی تلاشی لوں۔ ‘‘تلاشی کا نام سن کر آپ کو اس قدر خوشی ہوئی جتنی اس ملزم کو ہوسکتی ہے جس سے کہا جائے کہ تیرے گھر کی تلاشی نہیں ہوگی۔ چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آپ اطمنان سے تلاشی لیں اور میں مدد دینے میں آپ کے ساتھ ہوں۔اس کے بعد آپ انہیں دوسرے افسروں سمیت مکان میں لے گئے اور پہلے مردانہ اور پھر زنانہ مکان میں تمام بستے وغیرہ انہوں نے دیکھے۔ اس وقت مرزا امام دین بھی شرارتاً پولیس کے ساتھ تھا۔ اللہ کی قدرت !! جب ایک بستہ کھولا گیا تو سب سے پہلے جو کاغذات برآمد ہوئے وہ پنڈت لیکھرام کے لکھے ہوئے تھے جو اس نے نشان نمائی کے مطالبہ کے لئے اپنے قلم سے حضور کے نام لکھے تھے۔ تلاشی بہت دیر تک جاری رہی۔ بعض ٹرنکوں کے قفل توڑ کر بھی سامان دیکھے گئے۔ اور پولیس نے گھر کا کونہ کونہ چھان مارا۔ مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ تلاشی کے دوران میں حضرت اقدسؑ کے روئے منور پر کسی قسم کی فکرو تشویش کے آثار قطعاً نہیں تھے۔ بلکہ آپ بالکل مطمئن ومسرور تھے۔ حضور کے گھر کی تلاشی کے بعد مہمانخانہ ‘مطبع اور حضرت مولانا نورالدین کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی۔ دیواری الماریاں بھی دیکھیں گئیں۔ اور پتھر کی سل تک لوٹ پوٹ کی گئی۔ مگر پولیس کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ (۲۲) اس موقعہ پر تلاشی کے واقعات کے متعلق حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہما کی عینی شہادت کا درج کرنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا( حضرت سیدہ نواب ) مبارکہ کا چلہ نہانے کے دو تین دن بعد میں اوپر کے مکان میں چارپائی پر بیٹھی تھی اور تم (مراد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی) میرے پاس کھڑے اور پھجو (گھر کی ایک خادمہ کانام ) بھی پاس تھی۔ کہ تم نے نیچے کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ’’اماں او پائی‘‘۔ میں نہ سمجھی۔ تم نے دو تین دفعہ دہرایا اور نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ جس پر پھجو نے نیچے دیکھا تو دیوڑھی کے دروازے میں ایک سپاہی کھڑا تھا۔ پھجو نے اسے ڈانٹا۔ کہ یہ زنانہ مکان ہے۔ تو کیوں دروازے سے آگیا ہے۔ اتنے میں مسجد کی طرف کا دروازہ بڑے زور سے کھٹکا۔ پتہ لگا کہ اس طرف سے بھی ایک سپاہی آیا ہے حضرت صاحب اندر دالان میں بیٹھے کام کر رہے تھے ۔ میں نے محمود (حضرت خلیفہ المسیح الثانی) کو ان کی طرف بھیجا کہ سپاہی آئے ہیں اور بلاتے ہیں حضرت صاحب نے فرمایا کہو کہ میں آتا ہوں۔ پھر آپ نے بڑے اطمینان سے اپنا بستہ بند کیا اور اٹھ کر مسجد کی طرف گئے۔ وہاں مسجد میں انگریز کپتان پولیس کھڑا تھا۔ اور اس کے ساتھ دوسرے پولیس کے آدمی تھے۔ کپتان نے حضرت صاحب سے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں لیکھرام کے قتل کے متعلق آپ کے گھر کی تلاشی لوں۔ حضرت صاحب نے کہا آئیے اور کپتان کو معہ دوسرے آدمیون کے جن میں بعض دشمن بھی تھے۔ مکان کے اندر لے آئے۔ اور تلاشی شروع ہوگئی۔ پولیس نے مکان کا چاروں طرف سے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ہم عورتیں اور بچے ایک طرف ہوگئے۔ سب کمروں کی باری باری تلاشی ہوئی اور حضرت صاحب کے کاغذات وغیرہ دیکھے گئے تلاش کرتے کرتے ایک خط نکلا جس میں کسی احمدی نے لیکھرام کے قتل پر حضرت صاحب کو مبارک باد لکھی تھی۔ دشمنوں نے اسے جھٹ کپتان کے سامنے پیش کیا کہ دیکھئے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟حضرت صاحب نے کہا کہ ایسے خطوں کا تو میرے پاس تھیلا رکھا ہے اور پھر بہت سے خط کپتان کے سامنے رکھ دئیے۔ کپتان نے کہا نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔جب کپتان نیچے سرد خانے میں جانے لگا۔ تو چونکہ اس کا دروازہ چھوٹا تھا اور کپتان لمبے قد کا آدمی تھا اس کا سر اس زور کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرایا کہ بیچارہ سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا۔ حضرت صاحب نے اس سے اظہار ہمدردی کیا اور پوچھا کہ گرم دودھ یا کوئی اور چیز منگوائیں۔ اس نے کہا نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔۔حضرت صاحب خود اسے کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف لے جاتے تھے اور ایک ایک چیز دکھاتے تھے۔ (۲۳‘۲۴)
’’سراج منیر‘‘ اور ’’استفتاء‘‘ کی تصنیف واشاعت:۔
حضرت اقدسؑ نے آریہ سماج کے پراپیگنڈا کی قلعی کھولنے کے لئے انہی دنوں’’سراج منیر‘‘ اور ’’استفتاء‘‘ کے نام سے دو اہم کتابیں تصنیف فرمائیں۔
’’سراج منیر ‘‘ ۲۴۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھی گئی اور مئی ۱۸۹۷ء میں شائع ہوئی۔ اس لاجواب تصنیف میں حضرت اقدسؑ نے اپنی صداقت کے ۳۷ نشانات درج فرمائے جو لیکھرام کی ہلاکت سے قبل آفتاب نیم روز کی طرح پورے ہوچکے تھے۔ اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر آسمانی گواہ تھے۔
رسالہ ’’استفتاء ‘‘۱۲۔ مئی ۱۸۹۷ء کو شائع ہوا۔ جو لیکھرام کی پیشگوئی سے مخصوص تھا۔ اور جس میں حضرت اقدسؑ نے اس نشان کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالتے اور اس میں الٰہی قدرت کا ہاتھ دکھاتے ہوئے ملک کے اہل الرائے اصحاب سے دریافت کیا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی کما ل صفائی سے پوری ہوگئی ہے یا نہیں؟ اس کتاب میں حضرت اقدسؑ نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ پیشگوئی ۱۷ برس قبل ’’براہین احمدیہ ‘‘میں بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے اور براہین کی تالیف کاوہ زمانہ تھا کہ لیکھرام اس وقت غالباً ۱۳؍ ۱۲ برس کا ہوگا جو اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ یہ نشان خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی سے ظہور میں آیا ہے کسی انسانی منصوبہ کا اس میں ہرگز دخل نہیں۔
سکھوں کی طرف سے مخالفت اور اتمام حجت
حضرت اقدس کی مخالفت میں ہندوستان کی تمام بڑی بڑی مذہبی قومیں متحدہ ہوچکی تھیں صرف سکھ علیحدہ نظر آتے تھے مگر وہ بھی ’’ست بچن ‘‘ کی تصنیف سے بگڑ گئے اورعین اس وقت میدان مقابلہ میں آئے جب پنڈت لیکھرام کے قتل نے ملکی مطلع غبار آلود کر رکھا تھا۔ اور وحشت وجنون کے گھٹا ٹوپ بادل چھارہے تھے۔
چنانچہ ایک صاحب سردار راجندر سنگھ نے ’’خبط قادیانی‘‘ کتاب لکھی جس میں آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ حملے کئے اور باوانانکؒ کے مسلمان ہونے پر غم وغصہ کا اظہار کیا۔ حضرت اقدسؑ کو سکھ قوم سے حسن ظن تھا جو اس کتاب سے مجروح ہوا آپ کو ہرگز یہ خیال نہیں تھا کہ سکھ قوم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو رسول خدا ﷺ سے متعلق بے باکی کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ۱۸۔ اپریل ۱۸۹۷ء کو اس کے جواب میں مفصل اشتہار لکھا۔ اور فرمایا۔’’ کوئی برامانے یا بھلا۔ مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان تمام مذہبوں میں سچ پر قائم وہی مذہب ہے جس پر خدا کا ہاتھ ہے۔ اور وہی مقبول دین ہے جس کی قبولیت کے نور ہر ایک زمانے میں ظاہر ہوتے ہیں یہ نہیں کہ پیچھے رہے گئے ہیں۔ سو دیکھو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ روشن مذہب اسلام ہے جس کے ساتھ خداکی تائیدیں ہر وقت شامل ہیں کیا ہی بزرگ قدر وہ رسول ہے جس سے ہمیشہ تازہ بتازہ روشنی پاتے ہیں اور کیا ہی برگزیدہ وہ نبی ہے۔ جس کی محبت سے روح القدس ہمارے اندر سکونت کرتی ہے۔‘‘
حضورؑ نے اس اشتہار میں سکھوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے سردار راجند سنگھ کو اسی آسمانی فیصلہ کی طرف بلایا جو آپ کے جوش ایمان اور منصب ماموریت کا ابتداء ہی سے طرہ امتیاز تھا۔ یعنی آپ نے انہیں دعوت دی کہ آپ اگر باوانانکؒ کو مسلمان نہیں سمجھتے تو ایک مجلس عام میں اس مضمون کی قسم کھاویں کہ درحقیقت باوانانکؒ صاحب دین اسلام سے بیزار تھے۔ اور رسول کریم ﷺ کو برا سمجھتے تھے اور اگر دونوں باتیں خلاف واقعہ ہیں تواے قادر کرتا ر مجھے ایک سال تک اس گستاخی کی سزا دے۔
حضرت اقدسؑ نے یہ وعدہ فرمایا کہ کسی اخبار میں یہ قسم شائع ہونے کے بعد ہم ان کے لئے پانچ سو روپیہ جمع کرادیں گے جو ان کے ایک سال تک زندہ رہنے کی صورت میں انہیں فی الفور دے دیا جائے گا ۔ نیز یقین دلایا کہ اگر کسی انسان کے ہاتھ سے آپ کو تکلیف پہنچے تو وہ ہماری بددعا کا اثر ہرگز نہیں سمجھا جائے گا۔(۲۵) لیکن سردار راجندر سنگھ خدا کے شیر کی ایک ہی گرج سے ایسے دم بخود ہوئے کہ زندگی بھر انہوں نے اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لیا۔













نائب سفیر سلطان ترکی حسین کامی کی قادیان میں آمد اور سلطنت ترکی میں انقلاب کی پیشگوئی
مخالفین کا شوروشغب پورے زوروں پرتھاکہ مئی میں آپ کے خلاف مہم چلانے کا ایک نیا بہانہ ان کے ہاتھ آگیا۔
حسین کامی کا قادیان میں ورود اور حضرت اقدسؑ سے ملاقات :۔
واقعہ یہ ہوا کہ حسین کامی وائس قونصل ترکی لاہور آئے اور مسلمانان لاہور کی طرف سے خلیفۃ المسلمین سلطان عبدالحمید ثانی سے گہری عقیدت وارادت کے باعث ان کا پر جوش استقبال ہوا اور ڈپٹی برکت علی خاں صاحب شاہجہانپوری صدر انجمن اسلامیہ لاہور کی کوٹھی بیرون موچی دروازہ میں ان کے قیام کا انتظام کیا گیا۔ جماعت احمدیہ لاہور کے بعض اصحاب نے ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملاقات کی ‘پیغام حق پہنچایا اور جماعتی لڑیچر بھی دیا جس سے انہوں نے متاثر ہو کر حضرت اقدس کی خدمت میں ملاقات کے لئے نہایت عاجزی کے ساتھ تحریری درخواست(۱) کی اور اس میں حضور علیہ السلام کو ’’جناب مستطاب معلی القاب قدوۃ المققین قطب العارفین حضرت پیردستگیر‘‘ کے القاب سے یاد کیا۔ حسین کامی ۱۰یا ۱۱مئی ۱۸۹۷ء کو نماز عشاء کے قریب قادیان پہنچے۔ دوسرے روز حضرت اقدسؑ اپنے طریق کے خلاف ان کی درخواست پر تخلیہ میں ان سے ملے ۔ انہوں نے سلطان ترکی کے لئے ایک خاص دعا کی تحریک کی اور یہ بھی چاہا۔ کہ آئندہ ان کے لئے جو کچھ قضاوقدر سے آنے والا ہے اس سے مطلع کیا جائے۔ حضرت اقدسؑ پر اول ملاقات میں ہی جناب الٰہی کی طرف سے ان کی منافقانہ کیفیت بے نقاب کر دی گئی۔ اور ان کی دنیا پر ستی کا رنگ آپ پر عیاں ہوگیا۔ (۲)
سلطنت روم کی نسبت کشفی خبر:۔
حضرت اقدسؑ اگرچہ سلطان عبدالحمید ثانی کی تعریف کرتے ہوئے ان کا یہ واقعہ ہمیشہ سنایا کرتے تھے کہ انہوںنے ایک جنگ کے موقعہ پر یہ کہا تھا کہ کوئی خانہ خدا کے لئے بھی خالی رکھنا چاہیے۔ لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علی السلام نے ان سے بوقت ملاقات صاف کہہ دیا کہ ’’سلطان کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اورمیں کشفی طریق سے ان کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اورمیرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں ’’نیز اس بات پر بھی زور دیا کہ رومی سلطنت خدا کے نزدیک کئی باتوں میں قصور وار ہے اورخدا سچے تقویٰ اورطہارت اور نوع انسان کی ہمدردی کو چاہتا ہے اورروم کی حالت موجودہ بربادی کو چاہتی ہے ۔توبہ کرو تا نیک پھل پائو‘‘
حسین کامی کا ’’ناظم الہند‘‘ میں غضب آلود مراسلہ اور عام مخالفت:۔
حضرت اقدس کی زبان مبار ک سے یہ الفاظ سن کر حسین کامی صاحب( جنہوں نے قادیان میں اکثر وقت لہوولعب اور شطرنج میں گزارا) سخت جز بز ہوئے اور واپس آکر اخبار’’ناظم الہند‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک غضب آلود مراسلہ شائع کیا جس نے عداوت کی ایک نئی بنیاد ڈال دی اخبارات نے اسے خوب اچھالا اور بڑی کثرت سے اشتہارات میں اس کا چرچا ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس قسم کے موقعہ کی ہمیشہ تاک میں رہتے تھے ’’خلیفۃ المسلمین’’ کی عقیدت والفت کا واسطہ دے کر مسلمانوں کے جذبات سے خوب کھیلے اور اشتعال انگیزی کی حد کردی۔
’’چودھویں صدی‘‘ کا بزرگ:۔
حسین کامی صاحب کے خط پر (ضلع راولپنڈی) کے ایک وقیع عالم اوررئیس اعظم راجہ جہاں داد خاں صاحب بھی پراپیگنڈا کی رو میں بہہ گئے اور نازیبا کلمات آپ کی شان میں کہے اور گواہوں نے از خود تو کوئی مضمون آپ کے خلاف نہ لکھا مگر اخبار’’چودھویں صدی‘‘ نے انہی کا سہارا لے کر ۱۵؍جون ۸۹۷اء کے اخبار میں حضرت اقدسؑ کے متعلق ناواجب کلمات لکھے۔ حضرت اقدس کو اس کے رد میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی مگر یہ عجیب بات ہوئی کہ جب یہ اخبار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پڑھا گیا تو اس کے دوران میں یہ عبارت بھی آگئی کہ ’’ایک بزرگ نے جب یہ اشتہار پڑھا تو بے ساختہ ان کے منہ سے یہ شعر نکل گیا۔
’’چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنہ پاکاں برد‘‘
اس مقام پر پہنچ کر حضرت اقدسؑ کی روح میں بددعا کے لئے ایک خاص جوش اٹھا تب آپ نے اس شخص کے بارے میں جس کو اخبار میں ’’ بزرگ ‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا گیا تھا دعا کی کہ ’’یا الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ میں کذاب ہوں اور اورتیری طرف سے نہیں ہوں اور جیسا کہ میری نسبت کہا گیا ہے ملعون اور مردود ہوں اور کاذب ہوں اور تجھ سے میرا تعلق اور تیرا مجھ سے نہیں ۔تو میں تیری جناب سے عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ہلاک کرڈال۔ اوراگر تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے ہوں اور تیرا بھیجا ہوا ہوں اور مسیح موعود ہوں تو اس شخص کے پردے پھاڑ دے جو بزرگ کے نام سے اس اخبار میں لکھا گیا ہے لیکن اگروہ اس عرصہ میں قادیان میں آکر مجمع عام میں توبہ کرے تو اسے معاف فرما تو رحیم وکریم ہے‘‘ اس بددعامیں حضرت اقدس نے یکم جولائی ۱۸۹۷ء؁ سے یکم جولائی ۱۹۹۸ء؁ تک اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کی درخواست کی ۔
حضرت اقدسؑ کی طرف سے اطلاع عام:۔
حضرت اقدس کی دعا قبول ہوگئی جس کی اطلاع عام کے لئے آپ نے ۲۵؍ جون ۱۸۹۷ء؁ کو ایک اور اشتہار شائع کیا جس میں یہ سب واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا’’میرے اشتہار کا بجز اس کے کیا مطلب تھاکہ رومی لوگ تقویٰ اورطہارت اختیار کریں کیونکہ آسمانی قضاوقدر اور عذاب سماوی کے روکنے کے لئے تقویٰ اور توبہ اور اعمال صالحہ جیسی اورکوئی چیز قوی تر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ ممکن نہ تھا کہ جو کچھ میں نے رومی سلطنت کے اندرونی نظام کی نسبت بیان کیا وہ دراصل صحیح ہواور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے بھی ہوں جوقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہوں‘‘
’’چودھویںصدی کے ‘‘ بزرگ کی معافی :۔
اب ’’حسین کامی‘‘ کی ملاقات کے نتیجہ میں تین پیشگوئیاں پبلک میں آگئیں ۔
۱۔ ’’ چودھویں صدی‘‘ کے بزرگ کی توبہ نہ کرنے کی صورت میں ایک سال میں تباہی ۔
۲۔’’ حسین کامی‘‘ کی منافقت اورغداری
۳۔ اندرونی نظام کی خرابی کے نتیجے میں سلطنت ترکی میں انقلاب‘‘
بظاہر حالات ایسے نہیں تھے کہ ان میں سے کوئی پہلو بھی ظاہر ہوتا۔ مگر دنیا یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ یہ تمام پیشگوئیاں مختصر سے وقفہ کے ساتھ بڑی شان سے پوری ہوگئیں۔
پہلی پیشگوئی ’’چودھویں صدی‘‘ کے بزرگ سے متعلق تھی۔ سوراجہ جہاں داد صاحب نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے چند ماہ کے بعد معافی کی عاجزانہ درخواست کی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوںنے ۲۹؍اکتوبر ۱۸۹۷ء؁ کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حددرجہ فروتنی انکسار اور تذلل سے ایک مفصل خط لکھا ۔یہ خط ان الفاظ پر ختم ہوتا تھا۔
’’اس وقت تو میں ایک مجرم گنہگار کی طرح آپ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں (مجھ کو حاضر میں بھی کچھ عذر نہیں مگر بعض حالات میں ظاہری حاضری سے معاف کیا جانے کا مستحق ہوں) شاید جو لائی ۱۹۹۸ء؁ سے پہلے حاضر ہی ہو جائوں۔
امید کہ بارگاہ قدس سے بھی آپ کو راضی نامہ دینے کے لئے تحریک فرمائی جائے کہ نسی ولم نجد لہ عزما قانون کا بھی یہی اصول ہے کہ جو جرم عمداً وجان بوجھ کر نہ کیاجائے وہ قابل راضی نامہ ومعافی کے ہوتاہے۔ فاعفو واصلحو ان اللہ یحب المحسنین۔
میں ہوں حضور کا مجرم(دستخط بزرگ) روالپنڈی ۲۹؍اکتوبر ۹۷ء؁‘‘
راجہ جہاں داد خاں نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ خط بھجوانے کے علاوہ اس کا ملحض راولپنڈی کے اخبار چودھویں صدی ۸؍نومبر ۱۸۹۷ء؁ (صفحہ ۳۔۴) میں بھی شائع کروادیا۔
حضرت اقدسؑ نے اس خط پر ۲۰؍نومبر ۱۸۹۷ء؁ کو بذریعہ اشتہار اعلان فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ اس بزرگ کی خطا معاف کرے اور اس سے راضی ہو۔ میں اس سے راضی ہوں اور اس کو معافی دیتا ہوں چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہرایک شخص اس کے حق میں دعائے خیر کرے‘‘
حسین کامی کی مجرمانہ خیانت اور اپنے عہدہ سے برطرفی:۔
دوسری پیشگوئی خود حسین کامی کی نفاق آمیزی کی نسبت تھی جو خارق عادت رنگ میں پوری ہوئی۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسی سال یونانیوںنے ترکی کے مقبوضات میں سے ایک جزیرہ کریٹ پر قبضہ کرکے اس کے مسلمان باشندوں کا بے دردی سے قتل عام کیا کہ پورے عالم اسلام پر قیامت گزرگئی اور ہرجگہ چندے ہونے لگے۔ مسلمانان ہند نے بھی اپنے مظلوم بھائیوں کی اعانت میں دل کھول کر حصہ لیا اور مدراس کے ترکی سفیر عبدالعزیز کے علاوہ حسین کافی مقیم کراچی کو بھی یہ چندہ دیا کہ پہنچادیں مگریہ صاحب مظلومات کریٹ کا کل چندہ خود ہی ہضم کرگئے اور ایک کوڑی تک ان ستم رسیدوں تک نہیں پہنچنے دی ۔حکومت ترکی کو جب اس قومی غداری کا علم ہوا تو اس نے حسین کامی کو عہدہ سے برطرف کرکے اس کی جائیداد ضبط کرلی۔ اس راز کا انکشاف مشہور ہندی سیاح حافظ عبدالرحمن صاحب امرت سر ی (۱۸۴۰۔۱۹۰۷ء؁) پر قسطنطنیہ کی سیاحت کے دوران میں ہوا۔ جس پر انہوںنے اخبار’’نیر آصفی ‘‘ مدراس کو نامہ نگار کی حیثیت سے اس خبر کی پوری تفصیلات بھجوادیں جو ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۹ء؁ کے ایشوع میں ایک ادارتی نوٹ کے ساتھ بایں الفاظ شائع ہوئیں۔
’’چند مظلومان کریٹ اور ہندوستان‘‘
ہمیں آج کی ولایتی ڈاک میں اپنے ایک معزز اورلائق نامہ نگار کے پاس سے ایک قسطنطنیہ والی چٹھی ملی ہے جس کو ہم اپنے ناظرین کی اطلاع کے لئے درج ذیل کئے دیتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے ہمیں کمال افسوس ہوتا ہے افسوس اس وجہ سے کہ ہمیں اپنی ساری امیدوں کے برخلاف اس مجرمانہ خیانت کو جو سب سے بڑی اور سب سے زیادہ منظم اور مہذب اسلامی سلطنت کے وائس قونصل کی جانب سے بڑی بیدردی کے ساتھ عمل میں آئی اپنے کانوں سے سنا اور پبلک پر ظاہر کرنا پڑا ہے جو کیفیت جناب مولوی حافظ عبدالرحمن الہندی نزیل قسطنطنیہ نے ہمیں معلوم کرائی ہے اس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ حسین بک کامی نے بڑی بے شرمی کے ساتھ مظلومان کریٹ کے روپیہ کو بغیر ڈکار لینے کے ہضم کرلیا اور کارکن کمیٹی چندہ نے بڑی فراست اور عرقریزی کے ساتھ ان سے روپیہ اگلوایا مگر یہ دریافت نہیں ہوا کہ وائس قونصل مذکور پرعدالت عثمانیہ میں کوئی نالش کی گئی یانہیں ۔ہماری رائے میں ایسے خائن کو عدالتانہ کاروائی کے ذریعہ عبرت انگیز سزا دینی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’قسطنطنیہ کی چٹھی‘‘
ہندوستان کے مسلمانوں نے جو گذشتہ دوسالوں میں مہاجرین کریٹ اور مجروحین عساکر حرب یونان کے واسطے چندہ فراہم کرکے قونصل ہائے دولت علیہ ترکیہ مقیم ہند کو دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہر زر چندہ تمام و کمال قسطنطنیہ میں نہیں پہنچا اور اس امر کے باور کرنے کی یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ حسین بک کامی وائس قونصل کرانچی کو جو ایک ہزار چھ سو روپیہ کے قریب مولوی انشاء اللہ صاحب ایڈیٹراخبار وکیل امرتسر اور مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ’’ پیسہ اخبار‘‘ نے مختلف مقامات سے وصول کرکے بھیجا تھا وہ سب غبن کر گیا ایک کوڑی تک قسطنطنیہ میں نہیں پہنچائی مگر خدا کا شکر ہے کہ سلیم پاشا ملحمہ کارکن کمیٹی چندہ کو جب خبر پہنچی تو انہوں نے بڑی جاں فشانی کے ساتھ اس روپیہ کے اگلوانے کی کوشش کی اور اس کے اراضی مملوکہ کو نیلام کراکر وصولی رقم کا انتظام کیا اور باب عالی میں غبن کی خبر بھجوا کر نوکری سے موقوف کرایا۔ اس لئے ہندوستان کے جملہ اصحاب جرائد کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس اعلان کو قومی خدمت سمجھ کر چار مرتبہ متواتر اپنے اخبارات میں مشتہر فرمائیں اور جس وقت ان کو معلوم ہو کہ فلاں شخص کی معرفت اس قدر روپیہ چندہ کا بھیجا گیا تو اس کو اپنے جریدہ میں مشتہرکرائیں اور نام مع عنوان کے ایسا مفصل لکھیں کہ بشرط ضرورت اس سے خط وکتابت ہو سکے ۔‘‘(۱۰)
اس خبر نے ’’ناظم الہند‘‘ اور دوسرے تمام اخبارات پر بجلی سی گرادی ۔ یہ وہ اخبارات تھے جنہوں نے حسین کامی کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے یہاں تک لکھ ڈالا تھا کہ یہ نائب خلیفۃ اللہ سلطان روم جو پاک باطنی اور دیانت اور امانت کی وجہ سے سراسر نور ہیں اس لئے قادیان میں بلائے گئے ہیں تاکہ مرزائے قادیان اپنے افتراء سے اس نائب الخلافت یعنی مظہر نور الٰہی کے ہاتھ پر توبہ کرے اور آئندہ اپنے تئیں مسیح موعود ٹھہرانے سے باز آجائے ۔ ‘
لیکن قدرت حق نے جلد ہی حسین کامی کے چہرے سے نقاب اٹھادی اور خدا کی بات کمال صفائی سے پوری ہوگئی۔
سلطنت ترکی میں انقلاب اور سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی :۔
اب سلطنت ترکی کی نسبت سنئے۔ حضرت اقدسؑ نے خبر دی تھی کہ ’’ سلطان روم کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا۔ اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں۔ ‘‘ او ربتایا تھا کہ ترکی گورنمنٹ میں کئی ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت رکھنے والے ہیں۔ گو حضرت اقدسؑ کا دینی عقیدہ یہ تھا کہ سلطان ترکی حرمین کا محافظ نہیں بلکہ حرمین اس کے محافظ ہیں تاہم اس سلطنت کو مسلمانوں کے لئے مفتنمات میں سے سمجھتے تھے ۔(۱۲) اس لئے آپ کو طبعاً صدمہ ہوا اور آپ رقت اور درد سے بھر گئے ۔ (۱۳) آپ کا یہ کرب و اضطراب درگاہ الٰہی میں پہنچا اور بالاخر جنوری ۱۹۰۴ء میں آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد علبھم سیغلبون ( ۱۴) کہ اہل روم نزدیک کی زمین میں مغلوب کئے جائیں گے اور وہ عنقریب مغلوب ہونے کے بعد غلبہ پائیں گے ۔چنانچہ ۱۹۰۴ء میں ہی سلطنت ترکی کے انقلاب کے آثار نمودار ہونے لگے ۔ اور اس کے کچے دھاگوں کے ٹوٹنے اور اندرونی نظام کے کھوکھلا ہونے کی خبر یں بڑی کثرت سے منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں۔ جس پر اخبار وکیل ۲۷۔ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ ۸ کالم نمبر ۲ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ۔ ’’ نہایت افسوس کی بات ہے کہ جس عادت زبون نے ترکوں کو یہ دن دکھایا اور عیسائی سلطنتوں کے ہاتھوں اسے برباد کرایا وہ عادت ابھی تک ان میں کم و بیش پائی جاتی ہے اور یہ عادت ملک و قوم کی اغراض پر اپنی اغراض کو ترجیح دینا ہے ۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ یہ تباہی بخش مرض عام لوگوں کے طبقہ سے گذر کر مقتدر اور سر بر آوردہ طبقہ کے اشخاص میں بھی گھر کر گیا ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کسی نہ کسی نمک حرام ترک افسر کی غداری کی خبریں مشہور نہ ہوتی ہوں ۔ اب جو شخص ملک و قوم کی اغراض کو ایک طرف پھینک کر غداری کے میدان میں نکلا ہے کمال الدین پاشا فرزند عثمان پاشا ہے یہ نوجوان ( سلطان المعظم کا۔ ناقل ) داماد تھا مگر کچھ عرصہ سے اس کی ہوا ایسی بگڑی ہے کہ کسی دشمن نے اس پر ایسا جادو چلایا ہے کہ وہ علانیہ سرکشی پر کمربستہ ہو گیا ۔ یہ حالت دیکھ کر دختر سلطان المعظم نے اس سے کنارہ کر لیا اور زوجیب کے تمام تعلقات منقطع کر دیئے ۔ اب یہ نوجوان بروسامیں نظر بند کیا گیا ہے اور اس کے تمام تمغہ جات و جاگیر وغیرہ ضبط ہوگئی ۔ کیسا درد ناک سبق ہے کہ جس شخص کو سلطنت کی ترقی۔ اقبال میں ساعی ہونا چاہئے تھا وہ سازش کے جرم میں زندان میں ڈالاجائے۔ جب تک ترکوں میں اس قسم کے آدمی ہیں وہ اپنے آپ کو کبھی بھی خطرہ سے باہر نہیں نکال سکتے ۔ (۱۵) ان پے در پے غداروں اور سازشوں نے ملکی نظام درہم برہم کر دیا۔ جس نے ملک میں سخت ابتری پھیلا دی اور سلطان عبدالحمید ثانی کو ۱۹۰۹ء میں تخت سے اتار دیا گیا اور ان کے بھائی سلطان محمد پنجم بادشاہ ہو گئے۔ سیاسی بحران اس وقت انتہاء کو پہنچ چکا تھا خزانہ لٹ چکا تھا نہ فوج کی حالت درست تھی نہ ملکی نظم و نسق ہی ٹھیک تھا اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کر لیا۔ ساتھ ہی بلقان میں لڑائی چھڑ گئی ۔ یہ ختم ہوئی تو پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی ۔ اور ترکی کو جرمنی کے حلیف کی شکل میں اس میں حصہ لینا پڑا۔ لڑائی جاری تھی کہ سلطان محمد پنجم انتقال کر گئے اور سلطان عبدالوحید تخت پر بیٹھے ۔ ۱۰ اگست ۱۹۱۸ء کو جرمن نے ہتھیار ڈال دئے ۔ اور اتحادیوں نے انتقام لینے کے لئے ظالمانہ طور پر ترکی سلطنت کے حصے بخرے کرکے اسے آپس میں بانٹ لیا۔ حجاز، عراق ، فلسطین اور اردون انگریزوں نے ہتھیائے ۔ فرانس نے شام و لبنان پر قبضہ کیا۔ ایشیائے کوچک یونان کو ملا۔ اور باقی حصہ مشترک ملکیت قرار پایا ۔ اور بظاہر ترکی سلطنت ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئی ۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فرستادہ اور برگزیدہ کی دعائوں کے طفیل اور اپنے الہام کے مطابق اس کے مردہ قالب میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے نوجوان ترک مصطفی کمال پاشا، روف بے اور ڈاکٹر عدنان کو کھڑا کر دیا۔ جنہوں نے تھوڑی بہت فوج جمع کرکے جنگ شروع کر دی ۔ خلیفہ عبدالوحید سے اتحادیوں نے حکم لکھوایا تھا کہ مصطفی کمال وغیرہ باغی ہیں اور قتل کے مستحق ۔مگر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ہم نہ خلیفہ عبدالوحید کو خلیفہ مانتے ہیں نہ اس کی حکومت کو صحیح حکومت ۔ آخر خدا کے فضل سے یونان نے شکست کھائی اور سارا ایشیائے کوچک اتحادیوں کے پنجہ سے نکل کر ترک جھنڈے کے نیچے آگیا۔ ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء کو قسطنطنیہ پر بھی قبضہ ہوگیا۔ اس عظیم انقلاب کے بعد یکم مارچ ۱۹۲۴ء کو مصطفی کمال پاشا نے جدید ترکی حکومت قائم کر لی ۔ اور آخری ’’خلیفۃ المسلمین ‘‘ حکومت کے ایک گھنٹہ کے نوٹس پر حدود ترکی سے بھاگ کر انگریزوں کے زیر سایہ مالٹا میں پناہ گزیں ہوگیا۔ (۱۶)
’’حجۃ اللہ ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
چندماہ پیشتر مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے ’’ ضرب النعال علی وجہ الدجال ‘‘ کے عنوان سے حضرت اقدسؑ کے خلاف ایک نہایت گندہ اشتہار شائع کیا تھا جس میں آپ کی بعض پیشگوئیوں پرشرمناک اعتراضات کئے اور اپنی عربی لیاقت و قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے عربی زبان میں مباحثہ کی دعوت دی ۔
حضرت اقدسؑ نے جواباً’’ ضمیمہ انجام آتھم‘‘ میں لکھا کہ ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ تم اقرار کرو کہ اگر تم باجود اتنے دعویٰ فضیلت اور عربی دانی کے میرے جیسے انسان سے صاف شکست کھا جائو۔(جس کی نسبت تمہیں اسی اشتہار میں اقرار ہے کہ اس شخص کو عربی دانی کی ہر گز لیاقت نہیں ) تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے معجزہ سمجھ کر فی الفور میری بیعت میں داخل ہو جائو گے ۔ حضرت اقدس نے ایک عرصہ تک انتظار کیا ۔ مگر جب غزنوی صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ تو آپ نے نجفی اور غزنوی دونوں کی سرکوبی کے لئے فصیح و بلیغ عربی میں ’’ حجۃ اللہ ‘‘ ایسی اعجازی تصنیف فرمائی جو ۱۷۔ مارچ ۱۸۹۷ء کو لکھنی شروع ہوئی اور ۲۶۔ مئی ۱۸۹۷ء کو چھپ گئی۔ حضرت اقدس نے ’’ حجۃ اللہ ‘‘ میں غزنوی صاحب کو کھلے لفظوں میں چیلنج دیا کہ ’’ اس دن کہ یہ رسالہ ان کے پاس پہنچ جائے اس مضمون کی نظیر اس کے حجم اور ضخامت کے مطابق اس کی نظم اور نثر کے موافق بالمقابل شائع کر دے اور پروفیسر عربی مولوی عبداللہ صاحب یا کوئی اور پروفیسر جو مخالف تجویز کر یں ایسی قسم کھا کر جو موکد بعذاب الٰہی ہو جلسہ عام میں کہدیں کہ یہ مضمون تمام مراتب بلاغت اور فصاحت کے رو سے مضمون پیش کردہ سے بڑھ کر یا برابر ہے اور پھر قسم کھانے والا میری دعا کے بعد اکتالیس دن تک عذاب الٰہی میں ماخوذ نہ ہو تو میں اپنی کتابیں جلا کر جو میرے قبضہ میں ہوں گی ان کے ہاتھ پر توبہ کروں گا۔ اور اس طریق سے روز کا جھگڑا طے ہو جائے گا اور اس کے بعد جو شخص مقابل پر نہ آیا تو پبلک کو سمجھنا چاہئے کہ وہ جھوٹا ہے۔‘‘(۱۷) اس چیلنج نے ان صاحب کی عربی دانی کی سب حقیقت عریاں کردی ان کا بھرم کھل گیا اور وہ آخر دم تک اس علمی معجزہ کے جواب پر قلم اٹھانے کی جرات نہ کر سکے اور اللہ کی حجت تمام ہوئی ۔
محمود کی آمین ۔
جون ۱۸۹۷ء میں سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ختم قرآن کی مبارک تقریب منعقد ہوئی جس میں باہر سے بھی احباب شامل ہوئے ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خوشی کے موقعہ پر تمام حاضرین کو پر تکلف دعوت دی۔
حضرت ام المومنین نے چند روز قبل جناب شیخ نور احمد صاحب کی اہلیہ صاحبہ سے ارشاد فرمایا کہ ایک مطبوعہ آمین امرت سر سے منگادیں میاں محمود نے قرآن مجید ختم کیا ہے ۔ جس پر جناب شیخ نور احمد صاحب امرتسر سے ایک آمین خرید لائے جس کے ہر شعر کے آخر میں ’’سبحان من یرانی ‘‘ آتا تھا۔ شیخ صاحب نے یہ آمین حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کر دی صبح کو حضور نے ایک اور آمین بنا کر انہیں دی اور ارشاد فرمایا کہ اس کو جلد چھپوا دیں۔
چنانچہ یہ اسی روز ( ۷جون کو ) چھپ گئی اور اس تقریب پر پڑھ کر سنائی گئی۔ اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اور باہر مرد اور بچے پڑھتے تھے ۔یہ آمین نہایت درجہ سوزو درد میں ڈوبی ہوئی دعائوں کا مجموعہ ہے اور اپنی مبشر اولاد بالخصوص سیدنا محمود ایدۃ اللہ الودود سے متعلق حضور کے دلی جذبات کی آئینہ دار ہے۔ حضرت اقدسؑ کے سینہ میں عشق قرآن کا جو عظیم جذبہ موجزن تھا وہ اس کے لفظ لفظ سے ٹپک رہا ہے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں۔
تونے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنائیں گایا
صد شکر ہے خدایا صدشکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا
دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اس کے ہیں دو برادران کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر
کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحد یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
یہ تینوں تیرے چاکر ہوویں جہاں کے رہبر یہ ہادی جہاں ہوں یہ ہو ویں نور یکسر
یہ مرجع شہاں ہوں یہ ہوویں مہر انور یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
حضرت حافظ احمد اللہ صاحب کو یہ شرف نصیب ہوا کہ انہوں نے حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو بچپن میں قرآن شریف پڑھایا ۔ حضور کے دوسرے فرزندوں حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر احمد صاحب و حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضور کی دختر نیک اختر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے حضرت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یسرنا القرآن سے قرآن شریف پڑھا تھا۔






ساٹھ سالہ جوبلی پر ملکہ وکٹوریہ کو دوسری بار دعوت اسلام ۔ انگلستان
میں ’’جلسہ مذاہب ‘‘ کی تجویز ’’ تحفہ قیصریہ ‘‘ کی تصنیف و اشاعت
جلسہ احباب اور ملکہ کے مسلمان ہونے کی دعا
۲۰۔۲۱۔۲۲۔جون ۱۸۹۷ء کو ہندوستان بھر میں ملکہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی بڑی دھوم دھام سے منائی گئی ۔ دس سال قبل پچاس سالہ جوبلی کی تقریب پر بھی اسی جوش و خروش کا اظہار کیا گیا اور خصوصاً اہل اسلام نے اپنی مسرت و عقیدت کا عدیم النطیر ثبوت پیش کیا اور اہل اسلام میں جماعت اہلحدیث نے سب سے زیادہ اپنی دلچسپی اور وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ جماعت اہلحدیث لاہو ر نے اس تقریب پر ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ یہ دعوت مولوی الٰہی بخش صاحب وکیل کی وسیع کوٹھی میں دی گئی ۔ جس میں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سب ممبروں اور دوسرے مسلمان رؤساء شرفاء علماء او رعام اہل اسلام نے سات آٹھ ہزار کی تعداد میں شرکت کی۔ کوٹھی کے عین دروازہ کے سامنے ایک بلند او روسیع دروازہ پر ایک طرف سنہری حروف سے یہ الفاظ درج کئے گئے۔
‏"The Ahli Hadis With Empress a Long Life"
اہل حدیث قیصرہ ہند کی درازی عمر کے آرزو مند ہیں ۔ دوسری طرف لاجوردی رنگ میں یہ شعر لکھا تھا۔
دل سے ہے یہ دعائے اہلحدیث جشن جوبلی مبارک ہو
اس رات کو اہل پنجاب کی مختلف سوسائٹیوں نے ایڈریس پڑھے ۔ جس میں اہلحدیث نے اپنے ایڈریس میں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ’’بحضور فیض گنجور کوئین و کٹوریہ ملکہ گریٹ برٹن و قیصرۃ ھند بارک اللہ فی سلطنتھا۔ ہم ممبران اہل حدیث اپنے گروہ کے کل اشخاص کی طرف سے حضور والا کی خدمت عالی میں جشن جوبلی کی دلی مسرت سے مبارکباد عرض کرتے ہیں۔
برٹش رعایائے ہند میں سے کوئی فرقہ ایسانہ ہوگا جس کے دل میں اس مبارک تقریب کی مسرت جوش زن نہ ہوگی اور اس کے بال بال سے صدائے مبارک بادنہ اٹھتی ہوگی۔ مگر خاص کر فرقہ اہل اسلام جس کو سلطنت کی اطاعت اور فرمانروائے وقت کی عقیدت اس کا مقدس مذہب سکھاتا اور اس کو ایک فرض مذہبی قرار دیتا ہے ۔ اس اظہار مسرت اور ادائے مبارکباد میں دیگر مذاہب کی رعایا ہے پیش قدم ہے علی الخصوص گروہ اہل حدیث منجملہ اہل اسلام اس اظہار مسرت و عقیدت او ر دعائے برکت میں چند قدم اور بھی سبقت رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جن برکتوں اور نعمتوں کی وجہ سے یہ ملک تاج برطانیہ کا حلقہ بگوش ہو رہا ہے اور ازانجملہ ایک بے بہا نعمت مذہبی آزادی اس گروہ کو خاص کراسی سلطنت میں حاصل ہے بخلاف دوسرے اسلامی فرقوں کے ان کو اور اسلامی سلطنتوں میں بھی یہ آزادی حاصل ہے اس خصوصیت سے یقین ہو سکتا ہے کہ اس گروہ کو اس سلطنت کے قیام و استحکام سے زیادہ مسرت ہے اور ان کے دل سے مبارکباد کی صدائیں زیادہ زور کے ساتھ موجزن ہیں ۔ ہم بڑے جوش سے دعا مانگتے ہیں کہ خدا وند تعالیٰ حضور والا کی حکومت کو اور بڑھائے اور تادیر حضور والا کا نگہبان رہے تاکہ حضور والا کی رعایا کے تمام لوگ حضور کی وسیع سلطنت میں امن اور تہذیب کی برکتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ‘‘(۱۸)
لاہور میں جملہ اہل السلام کی طرف سے شاہی مسجد لاہور میں بھی ایک بھاری اجتماع ہوا جس میں انجمن حمایت اسلام کے ممبروں اور تمام اسلامی فرقوں کے لوگ موجود تھے۔ اس اجتماع میں انجمن اسلامیہ کے ممبروں نے بڑی پرجوش اور موثر تقریروں سے قیصرہ ہند کی برکات بیان کیں ۔ اور ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا کی گئی ۔ اسی قسم کے اجتماع ہندوستان کے دوسرے شہروں دہلی۔ نصیر آباد اور اجمیر وغیرہ میں بھی ہوئے (۱۹)
پچاس سالہ جوبلی کی طرح ساٹھ سالہ جوبلی بھی گذشتہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے شاندار طریق پر منائی گئی بلکہ اسے یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی کہ پہلی جوبلی میں اہلحدیث جماعتی اعتبار سے نمایاں نظر آتے تھے ۔ اب ہندوستان بھر کے مسلمانوں کی ایک جنرل کمیٹی قائم کی گئی جس کی مطبوعہ ہدایات کی روشنی میں ہندوستان کے تمام اسلامی فرقوں نے اظہار مسرت و مبارکباد کیا۔
ملکہ کو دعوت اسلام اور ’’تحفہ قیصریہ ‘‘ کی تصنیف :۔
اس جشن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ نے بھی حصہ لیا جو اسلامی عظمت و وقار کے لحاظ سے ایک امتیازی شان رکھتا تھا دوسرے اداروں یا فرقوں نے جوبلی کی تقریب محض چراغاں ، غرباء کو طعام قیصرہ ہند کی مدح اور حکومت کے بقاء و استحکام کی دعا تک محدود رکھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے جوش دینی کے باعث یہ تقریب بھی جو خالص مادی تقریب تھی علمی جہاد میں تبدیل کر دی ۔ اس سلسلے میں حضور نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ۲۷۔ مئی ۱۸۹۷ء کو ’’تحفہ قیصریہ ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں ملکہ وکٹوریہ کو تثلیث سے تائب ہو کر قرآن مجید کی سچی اور پر حکمت تعلیم سے وابستہ ہونے کی نہایت لطیف رنگ میں دعوت دی۔
لندن میں جلسہ مذاہب ‘‘ کے انعقاد کی تجویز :۔
حضرت اقدسؑ نے ’’ تحفہ قیصریہ ‘‘ میں ملکہ کے سامنے ’’ جلسہ مذاہب ‘‘ کے انعقاد کی تجویز بھی پیش کی ۔ چنانچہ فرمایا ’’ قیاصرہ روم میں سے جب تیسرا قیصرروم تخت نشین ہوا ۔ اور اس کا اقبال کمال کو پہنچ گیا تو اسے اس بات کی طرف توجہ پیدا ہوئی کہ دو مشہور فرقہ عیسائیوں میں جو ایک موحد اور دوسرا حضرت مسیحؑ کو خدا جانتا تھا باہم بحث کرادے ۔ چنانچہ وہ بحث قیصر روم کے حضور میں بڑی خوبی اور انتظام سے ہوئی اور بحث کے سننے کے لئے معزز ناظرین اور ارکان دولت کی صدہا کرسیاں بلحاظ رتبہ و مقام کے بچھائی گئیں اور دونوں فریق کے پادریوں کی چالیس دن تک بادشاہ کے حضور میں بحث ہوتی رہی اور قیصر روم بخوبی فریقین کے دلائل سنتا رہا۔ اور ان پر غور کرتا رہا۔ آخر جو موحد فرقہ تھا اور حضرت یسوع مسیح کو صرف خدا کا رسول اور نبی جانتا تھا وہ غالب آگیا اور دوسرے فرقہ کو ایسی شکست آئی کہ اس مجلس میں قیصر روم نے ظاہر کر دیا کہ میں نہ اپنی طرف سے بلکہ دلائل کے زو ر سے موحد فرقہ کی طرف کھینچا گیا اور قبل اس کے جو اس مجلس سے اٹھے توحید کا مذہب اختیار کر لیا۔ اوران موحد عیسائیوں میں سے ہوگیا جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے اور بیٹا اور خد اکہنے سے دست بردار ہوگیا۔ اور پھر تیسرے قیصرتک ہر ایک تخت روم موحد ہوتا رہا۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایسے مذہبی جلسے پہلے عیسائی بادشاہوں کا دستور تھا اور بڑی بڑی تبدیلیاں ان سے ہوتی تھیں ان واقعات پر نظر ڈالنے سے نہایت آرزو سے دل چاہتا ہے کہ ہماری قیصرہ ہند دام اقبالہا بھی قیصرروم کی طرح ایسا مذہبی جلسہ پایہ تخت میں انعقاد فرمادیں کہ یہ روحانی طور پر ایک یادگار ہوگی ۔ مگریہ جلسہ قیصر روم کی نسبت زیادہ توسیع کے ساتھ ہونا چاہئے۔ کیونکہ ہماری ملکہ معظمہ بھی اس قیصر کی نسبت زیادہ وسعت اقبال رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ ضروری ہوگا کہ اس جلسہ مذاہب میں ہرایک شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے دوسروں سے کچھ تعلق نہ رکھے۔ اگر ایسا ہو ا تو یہ جلسہ بھی ہماری ملکہ معظمہ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے ایک روحانی یادگار ہوگا۔ اور انگلستان جس کے کانوں تک بڑی خیانتوں کے ساتھ اسلامی واقعات پہنچائے گئے ہیں ایک سچے نقشہ پر اطلاع پاجائے گا۔ بلکہ انگلستان کے لوگ ہر ایک مذہب کی سچی فلاسفی سے مطلع ہو جائیں۔ ‘‘(۲۰،۲۱)
ملکہ کے لئے حضرت مسیحؑ کی ملاقات کا آسمانی تحفہ :۔
حضرت اقدسؑ نے ملکہ و کٹوریہ کو اس طرف بھی توجہ دلائی کہ ’’خدا کی عجیب باتوں میں سے جو مجھے ملی ہیں ایک یہ بھی ہے جو میں نے عین بیداری میں جو کشفی بیداری کہلاتی ہے یسوع مسیحؑ سے کئی دفعہ ملاقات کی ہے اور اس سے باتیں کرکے اصل دعوے اور تعلیم کا حال دریافت کیا ہے ۔ یہ ایک بڑی بات ہے جو توجہ کے لائق ہے کہ حضرت یسوع مسیحؑ ان چند عقائد سے جو کفارہ اور تثلیت اور ابنیت ہے ایسے متنفر پائے جاتے ہیں کہ گویا ایک بھاری افتراء جوان پر کیا گیا ہے وہ یہی ہے یہ مکاشفہ کی شہادت بے دلیل نہیں ہے بلکہ میں یقین رکھتاہوں کہ اگر کوئی طالب حق نیت کی صفائی سے ایک مدت تک میرے پاس رہے اور وہ حضرت مسیحؑ کو کشفی حالت میں دیکھنا چاہے تو میری توجہ اور دعا کی برکت سے وہ ان کو دیکھ سکتا ہے ۔ ان سے باتیں بھی کر سکتا ہے اور ان کی نسبت ان سے گواہی بھی لے سکتاہے ۔ کیونکہ میں وہ شخص ہو جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیحؑ کی روح سکونت رکھتی ہے ۔ ‘‘(۲۲)
نشان نمائی کی پیشکش :۔
اس رسالہ میں آپ نے اپنے دعویٰ نشان نمائی کا ذکر کرتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ کے سامنے بھی پیش کش کی کہ اگروہ مجھ سے نشان دیکھنا چاہیں ’’ تو میں یقین رکھتاہوں کہ ابھی ایک سال پورا نہ ہو کہ وہ نشان ظاہر ہو جائے اور نہ صرف یہی بلکہ دعاکر سکتاہوں کہ یہ تمام زمانہ عافیت اور صحت سے بسر ہو لیکن اگر کوئی نشان ظاہر نہ ہوا ور میں جھوٹا نکلوں تو میں اس سزا میں راضی ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پایہ تخت کے آگے پھانسی دیا جائوں یہ سب الحاح اس لئے ہے کہ کاش ہماری محسنہ ملکہ معظمہ کو اس آسمان کے خدا کی طرف خیال آجائے جس سے اس زمانہ میں عیسائی مذہب بے خبر ہے ۔ ‘‘(۲۳)
’’تحفہ قیصریہ ‘‘ کے چند مجلد نسخے نہایت دیدہ زیب شکل میں ملکہ وکٹوریہ ۔ وائسرائے ہند اور لفٹنٹ گورنر پنجاب کو ارسال کئے گئے ۔
قادیان میں جشن جوبلی کے موقعہ پر احباب کا جلسہ :۔
چونکہ وائس پریذیڈنٹ ’’جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند ‘‘ کی طرف سے یکم جون کو اعلان شائع ہو اتھا کہ مسلمان ۲۰اور ۲۱جون کو جشن منائیں اور اظہار تشکر اور دعا اور خوشی کی جائے اس لئے حضرت اقدسؑ نے ۷۔ جون کو بذریعہ اشتہار اپنی جماعت کے دوستوں کو تحریک کی کہ وہ ۲۰جون سے قبل قادیان میں پہنچ جائیں۔ تا جماعت کی طرف سے جلسہ شکریہ کے مراسم ادا کئے جا سکیں۔ (۲۴) چنانچہ ۱۹۔ جون کو حضرت اقس کے ۲۲۵ خدام قادیان پہنچ گئے ۔ اور ’’جنرل کمیٹی اہل اسلام ہند ‘‘ کے پروگرام کے مطابق نہایت پروقار رنگ میں یہ تقریب منائی گئی ۔ تین دن غریبوں اور درویشوں کو کھانا کھلایا گیا۔ ۲۰۔جون کو ملکہ اور خاندان شاہی کے لئے اجتماعی دعا کی گئی ۔ ۲۱۔ جون ۱۸۹۷ء کو ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیا اور قادیان کے غرباء اور درویش دعوت میں بلائے گئے اس دعوت میں سو سے زائد اشخاص شریک ہوئے ۲۲۔ جون کی رات کو گلی کوچوں گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا گی ا۔ اس دن ایک جلسہ عام بھی منعقد ہوا۔جس میں مولانا عبدالکریم صاحب۔ مولانا حکیم نورالدین صاحب۔ مولانا برہان الدین صاحب جہلمی اور مولوی جمال الدین صاحب سید والہ ضلع منٹگمری نے تقریریں کیں۔ (۲۵)
ملکہ وکٹوریہ کے مسلمان ہونے کے لئے دعا:۔
پہلے روز ( ۲۰جون ) کو جو اجتماعی دعا ہوئی ۔ اس میں حضرت اقدسؑ نے مختصر سی تقریر کے بعد دعا بھی کروائی کہ ’’ قیصرہ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑاکر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اللّٰہ پر اس کا خاتمہ کر۔‘‘(۲۶)
’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ‘‘
لاہور کے ایک عیسائی سراج الدین نامی نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں چار سوال لکھے تھے۔ حضور نے ان سوالات کے جواب میں ایک زبردست مضمون لکھا جو ۲۲۔ جون ۱۸۹۷ء کو ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب ‘‘ ہی کے نام سے شائع ہوا۔ کتاب میں آپ کے قلم نے اس خوبی سے ان سوالات پر روشنی ڈالی ہے کہ اگر کوئی عیسائی تعصب سے علیحدہ ہوکراس کا مطالعہ کرے تو اس کے لئے اسلام قبول کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔
ہندوستان کے مشائخ و صلحاء سے خدا کی قسم دے کر ایک درخواست:۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دل میں انہیں دنوں ہندوستان کے مشائخ و صلحاء پر اتمام حجت کے لئے یہ تجویز پیدا ہوئی۔ کہ ہندوستان کے تمام مشائخ اور فقراء اور صلحاء اور مرادان باصفا سے اللہ جل شانہ ٗ کی قسم دے کر التجاء کی جائے کہ وہ آپ کے بارے میں دعا اور تضرع اوراستخارہ سے جناب الٰہی میں توجہ کریں ۔ پھر اگر ان کے الہامات و کشوف اور رویا صادقہ سے جو حلفاً شائع کریں کثرت اس طرف نکلے کہ آپ معاذ اللہ مفتری ہیں تو بیشک تمام لوگ مجھے مفتری قرار دیں۔ اور جس قدر چاہیں لعنتیں بھیجیں ان کو کچھ گناہ نہیں ہوگا اور اگر کثرت آپ کے حق میں ثابت ہوئی ۔ تو پھر ہر ایک خدا ترس پر لازم ہوگا کہ وہ آپ کی پیروی کرے چنانچہ آپ نے ۱۵۔ جولائی ۱۸۹۷ء کو اشتہار دیا کہ ’’ وہ میرے بارے میں جناب الٰہی میںکم سے کم اکیس روز توجہ کریں۔۔۔۔۔ اور خدا سے انکشاف اس حقیقت کا چاہیں کہ میں کون ہوں؟ آیا کذاب ہوں یا منجانب اللہ ۔۔۔۔ پھر ایسی الہامی شہادتوں کے جمع ہونے کے بعد جس طرف کثرت ہوگی وہ امر منجانب اللہ سمجھا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یادرہے کہ ایسا ہر ایک شخص جس کی نسبت ایک جماعت اہل بصیرت مسلمانوں کی صلاح اور تقویٰ اور پاک دلی کا ظن رکھتی ہے ۔ وہ اس اشتہار میں میرا مخاطب ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ جو صلحاء شہرت کے لحاظ سے کم درجہ پر ہیں میں ان کو کم نہیں دیکھتا۔ ممکن ہے کہ وہ شہرت یافتہ لوگوں سے خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ اچھے ہوں۔ اسی طرح میں صالحہ عفیفہ عورتوں کو بھی مردوں کی نسبت تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ ممکن ہے کہ وہ بعض شہرت یافتہ صالح مردوں سے بھی اچھی ہوں۔ لیکن ہر ایک صاحب جو میری نسبت کوئی رویا یا کشف یا الہام لکھیں ان پر ضروری طور پر واجب ہو گا کہ وہ حلفاً اپنی دستخطی تحریر سے مجھ کو اطلاع دیں۔ تا ایسی تحریریں ایک جگہ جمع ہوتی جائیں اور پھر حق کے طالبوں کے لئے شائع کی جائیں۔۔۔۔ سواے عزیزو ! اور بزرگو!! برائے خدا عالم الغیب کی طرف توجہ کرو۔ آپ لوگوں کو اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میرے اس سوال کو مان لو۔ اس قدیر ذوالجلال کی تمہیں سوگند ہے کہ اس عاجز کی یہ درخواست رد مت کرو۔ ‘‘(۲۷)
مگر افسوس کہ مشائخ نے آپ کی یہ درخواست بھی سنی ان سنی کر دی ۔

حواشی
۱۔ ’’تبلیغ رسالت ‘‘ جلد ششم صفحہ ۱۱۷ پر مفصل مکتوب چھپا ہوا موجودہے ۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۷
۳۔ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۱۴۔۱۱۵
۴۔ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۲۵
۵۔ ’’اشاعۃ السنہ ‘‘ جلد ۱۸نمبر ۵
۶۔ وفات ۱۸۔ نومبر ۱۹۰۶ء( الحکم ۳۰نومبر ۱۹۰۶ء )
۷۔ ’’تبلیغ رسالت ‘‘جلد ششم صفحہ ۱۳۴۔ ۱۳۶
۸۔ (یہ اخبار خلافت لائبریری میں محفوظ ہے)
۹۔ ’’تبلیغ رسالت ‘‘جلدششم صفحہ ۱۷۹
۱۰۔ بحوالہ ’’تبلیغ رسالت ‘‘جلد ششم صفحہ ۹۷۔۱۰۰
۱۱۔ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۹۳
۱۲۔الحکم ۱۴۔مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۵اور تبلیغ رسالت ’’ جلد ہشتم صفحہ ۹۳(۱۸۹۹ء)
۱۳۔ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۳۴
۱۴۔ ریویوآف ریلیجنز ‘‘ اردو جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۴۰
۱۵۔ بحوالہ ’’تبلیغ رسالت ‘‘ جلد ہشتم صفحہ ۹۵
۱۶۔ ہماری بادشاہی ‘‘(ازمولوی عبدالسلام ندوی)
۱۷۔ ’’ حجتہ اللہ ‘‘طبع اول صفحہ ۱۵۔۱۶
۱۸۔ اشاعۃ السنہ جلد ۹نمبر ۷صفحہ ۲۰۳تا ۲۰۶
۱۹۔ اشاعۃ السنہ جلد ۹نمبر ۷صفحہ ۲۰۷
۲۰۔ ’’تحفہ قیصریہ ‘‘ طبع اول صفحہ ۲۶۔ ۲۷
۲۱۔ حضرت اقدس نے ۲۷۔ ستمبر ۱۸۹۹ء کو اپنی اس اہم تجویز کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت انگریزی کو دوبارہ اس کے انعقاد کی طرف توجہ دلائی ۔ اور اس میں اس شرط کا بھی اضافہ کیا کہ مذاہب کے نمائندے اس موقعہ پر آسمانی نشانات کا اعلان بھی کریں۔ تا اگر ایک سال کے اندر وہ پورے ہو جائیں تو اس مذہب کی سچائی پر دلیل ہوں اور آپ نے قبل از وقت لکھا کہ ’’ اگر اس جلسہ کے بعد ایک سال کے اندر میرے نشان تمام دنیا پر غالب نہ ہوں تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ میں راضی ہوں کہ اس جرم کی سزا میں سولی دیا جائوں اور میری ہڈیاں توڑی جائیں لیکن خدا جو آسمان پر ہے ۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ ہوگا اور میرے ساتھ ہے وہ مجھے گورنمنٹ عالیہ اور قوموں کے سامنے شرمندہ نہیں کرے گا۔ ‘‘’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد ہشتم صفحہ ۵۸۔۶۰
۲۲۔ ’’تحفہ قیصریہ ‘‘صفحہ ۲۱
۲۳۔ تحفہ قیصریہ حاشیہ صفحہ ۲۴
۲۴۔ ’’تبلیغ رسالت ‘‘ جلد ششم صفحہ ۱۲۴
۲۵۔ ۲۶ ۔جلسہ احباب و ’’تبلیغ رسالت‘‘ جلد ششم صفحہ ۱۲۴۔ ۱۳۳
۲۷۔ ’’تبلیغ رسالت ‘‘ جلد ششم صفحہ ۱۴۴۔







پادری ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ اقدام قتل اور الہام کے مطابق حضورؑ کی بریت
کتاب البریہ کی تصنیف و اشاعت
اب ہم اگست ۱۸۹۷ء کے ہنگامہ خیز مہینہ میں قدم رکھ رہے ہیں جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ اس مہینہ میں مخالفت کا وہ ماحول جو لیکھرام کے قتل سے پیدا ہوا تھا اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھ اور عیسائی پادریوں کی ایک گہری اور نہایت خطرناک سازش سے مختلف مذہبی طاقتیں حضرت اقدسؑ کو مقدمہ اقدام قتل میں ماخوذ کرنے کے لئے جمع ہوگئیں۔
’’جنگ مقدس ‘‘ میں اسلام کے مقابل عیسائیت کو جو شکست فاش نصیب ہوئی تھی اس نے پادریوں کو غضب ناک کر دیا تھا اور وہ آتش غیظ و غضب کا شعلہ جو الہ آپ کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرکے کسی موقعہ کی تاک میں تھے کہ ایک آوارہ مزاج نوجوان عبدالحمید جو جہلم کے ایک غیر احمدی عالم مولوی سلطان محمود کا بیٹا اور مولوی برہان الدین صاحب کا بھتیجا تھا عیسائی بننے کے لئے ان کے پاس پہنچ گیا۔ یہ ایک متفنی انسان اور تبدیلی مذہب کا خوگر شخص تھا۔ کبھی عیسائی ہوتا کبھی ہندو اور کبھی مسلمان۔ اسی چکر میں وہ قبل ازیں قادیان بھی گیا۔ حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نے حضرت مولانا برہان الدین صاحب کا برادر زادہ ہونے کے باعث اس سے شفقت آمیز سلوک کیا۔ عبدالحمید نے یہاں بھی پرانا کھیل کھیلنا چاہا اوران کے توسط سے حضرت اقدسؑ سے بیعت کی درخواست کی ۔ جسے حضورؑ نے رد کردیا۔ اس پر وہ ناراض ہوکر قادیان چلا گیا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ قادیان پہنچا اور اس دفعہ خود حضرت مولانا برہان الدین صاحب بھی قادیان میں موجود تھے انہوںنے حضرت حکیم الامت کو اس کی ناشائستہ حرکتوں سے آگاہ کرکے اسے قادیان سے نکلوا دیا۔ اب عبدالحمید نے دوبارہ عیسائیوں کی طرف رخ کیا اور امرتسر پہنچ کر پادری نوردین ساکن بٹالہ کے سامنے بپتسمہ لینے کا خیال ظاہر کیا۔ پادری نوردین نے اسے انچارج مشن پادری گرے صاحب کے پاس بھیج دیا۔ جس نے پادری نوردین سے مشورہ کرکے اسے پادری ہنری مارٹن کلارک صاحب کے سپرد کر دیا۔ اس نے بتایا کہ میں قادیان سے آیا ہوں ہندو سے مسلمان ہوا ہوں اورعیسائی ہونا چاہتا ہوں۔عبدالحمید کی زبانی قادیان سے آنے کا تذکرہ سن کر پادری مارٹن کلارک نے نہایت ہوشیاری سے یہ خوفناک سکیم تیار کر لی کہ اسے آلہ کا ربنا کر حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا جائے ۔ چنانچہ اس کی تکمیل کے لئے عبدالحمید بیاس لے جایا گیا جہاں ہنری مارٹن کلارک صاحب کے گماشتوں نے نہایت ڈرامائی انداز میں اس سے پوچھا کہ سچ بتلائو تم کس لئے آئے ہو ورنہ کپتان صاحب پولیس کے حوالہ کر دئیے جائو گے ؟ اس نے کہا کہ عیسائی ہونے کو آیا ہوں اور کوئی بات نہیں انہوں نے کہا تم خون کرنے آئے ہو۔ تیسرے روز مارٹن کلارک بھی دو ایک دو ساتھیوں کو لے کر پہنچ گئے۔ اور اس کا فوٹو لے کر واپس چلے آئے اور تار دے کر اسے امرتسر بلوالیا۔ اسٹیشن پر پھر اس کی تصویر لی گئی ۔ وہ کوٹھی میں گیا اور پھر اسے بیاس بھجوادیا گیا۔ دو روز کے بعد پادری ہنری مارٹن کلارک ۔ پادری وارث دین ۔ بھگت پریم داس اور بعض دوسرے پادری دوبارہ بیاس پہنچے۔ پادری وارث دین اور عبدالرحیم نے جو اس کام کے لئے مقرر کئے گئے تھے سب کے روبرو اس سے پوچھ اکہ اب بتلائو تم کس کام کے واسطے آئے ہو اس نے پھر جواب دوہرادیا کہ عیسائی ہونے کو آیا ہوں انہوں نے کہا کہ تم کو مرزا نے بھیجا ہے ۔ اس نے کہا نہیں ۔ اس پر عبدالرحیم نے ( جو اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا) عبدالحمید پر دبائو ڈالتے ہوئے کہاکہ تم یہ بات کہہ دو مرزا غلام احمد نے مجھے بھیجا ہے کہ ڈاکٹر کلارک کو پتھر سے ماردو۔ اور ساتھ ہی تصویر دکھلائی اور کہا کہ تم بات کہہ دو ۔ ورنہ جہاں جائو گے پکڑے جائو گے ۔ پادریوں نے اس سے یہ بھی کہا کہ ’’ اس طرح بیان کر دو۔ اور مرزا کو پھنسادو۔ تم کو کچھ نہیں ہوگا۔ تم کو ڈاکٹر صاحب نے معافی دے دی ہے ۔ ‘‘عبدالحمید نے جو اپنے آپ کو اس طرح پادریوں کو حلقہ میںبے بس پایا تو مجبوراً ان کے منشاء کے عین مطابق بیان لکھ کر اس پر دستخط کر دیئے۔ آٹھ پادریوں نے اس پر گواہی کے دستخط کئے اس کے بعد ٹرین میں پادری ہنری مارٹن کلارک اسے اپنے ہمراہ امرت سر لائے رات کو سلطان ونڈلے گئے ۔خیر دین ڈاکٹر کے مکان پر رکھا اور اسے خوب سکھلایا۔ کہ تم عدالت میں یہ بیان کرنا کہ مرزا صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ مارٹن کلارک کو پتھر سے مار دو۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہاکہ ایسا ہی کہوں گا ۔ عبدالرحیم نے اس سے یہ بھی کہا کہ تم یہ کہنا کہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر میری نیت قتل کر دینے کی بدل گئی ہے۔ صبح اسے گاڑی میں بٹھلاکر کوٹھی پر لے آئے اور اسے تسلی دیتے ہوئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرتسر اے ای۔ مارٹینو کی عدالت میں لے گئے جہاں دفعہ ۱۰۷ فوجداری کے تحت اس نے وہی سکھایا ہوا بیان دیا پھر مارٹن کلارک نے عبدالحمید کا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا اوراپنی گواہی میں کہا کہ ’’میری واقفیت مرزا صاحب سے اس مباحثہ کے وقت سے ہے جو ۱۸۹۳ء؁ میں موسم گرما میں ہوا تھا میں نے اس مباحثہ میں بڑا بھاری حصہ لیا تھا ۔یہ مباحثہ اس میں اورایک بھاری عیسائی عبداللہ آتھم کے مابین ہوا جو مرگیا ہے۔ میں میر مجلس تھا اور دوموقعوں پر مسٹر آتھم کی جگہ بطور مباحث کے بیٹھا تھا۔ مرزا صاحب کو بہت ہی رنج ہوا تھا اوراس کے بعد اس نے ان تمام کی موت کی پیشگوئی کی۔جنہوںنے اس مباحثہ میں حصہ لیا تھا اورمیرا حصہ بہت ہی بھاری تھا۔ اس وقت سے اس کا سلوک میرے ساتھ بہت ہی مخالفانہ رہا ہے اس مباحثہ کے بعد خاص دلچسپی کا مرکز مسٹرآتھم رہا۔ چار مستقل کوششیں اس کی جان لینے کے لئے کی گئیں۔ اس کی موت مقرر کردہ میعاد کے آخری دوماہ میں خاص پولیس کا پہر ہ دن رات فیروز پور میں رکھا گیا ۔اسے امرت سر میں انبالے اورانبالے سے فیروز پور بھاگنا پڑا۔ ان کوششوں کے باعث سے جو اس کی جان لینے کے لئے کی گئیں اوریہ کوششیں عام طور پر مرزا صاحب سے منسوب کی گئی ہیں ۔اس کی موت کے بعد میں ہی پیش نظر رہا ہوں اورکئی ایک مبہم طریقوں سے یہ پیشگوئی مرزا صاحب کی تصنیفات میں مجھے یاد دلائی گئی ہے جس کے لئے سب سے بڑی وہ کوشش تھی جس کو عبدالحمید نے بیان کیا ہے ۔لاہور میں لیکھرام کی موت کے بعد جس کو تمام لوگ مرزاصاحب کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔میرے پاس اس بات کے یقین کرنے کے لئے خاص وجہ تھی۔ کہ میری جان لینے کی کوئی نہ کوئی کوشش کی جائے گی میں تین ماہ کے لئے رخصت پر گیا ہوا تھا۔ میری واپسی پر میرا آنا مرزا صاحب کو فوراً معلوم ہوگیا اور عبدالحمید میرے پاس پہنچ گیا۔ عبدالحمید کے بیان پریقین کرنے کے لئے میرے پاس کافی وجوہ ہیں اورنیز اس بات کا یقین کرنے کے لئے کہ مرزا صاحب مجھے نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں مرزا صاحب کا یہ ہمیشہ کا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے مخالفوں کی موت کی پیشگوئی کرتے ہیں ‘‘(۲)
مقدمہ چونکہ نہایت سنگین اور اپنے ہم مذہب پادری کی طرف سے تھا۔ اس لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرت سر بیان سنتے ہی دفعہ ۱۱۴ ضابطہ فوجداری کے تحت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیئے۔ اوراس کے ساتھ چالیس ہزار روپیہ کی ضمانت کا حکم اوربیس ہزار کا مچلکہ بھی تھا۔ یہ عدالتی کاروائی ختم ہوئی تو پادریوں نے واپس آکر عبدالحمید کو ایک کوٹھی میں بند کردیا۔ اوراگلے بیان کی تیاری کے لئے زور شور سے کوششیں شروع کردیں۔ اوراپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی خدمات بھی حاصل کرلیں ۔اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اپنے دشمن کواقدام قتل کی سزا دلوانے میں بہرحال کامیاب ہوجائیں گے ۔
یہاں امرت سر میں تو سازشوں کے جال بچھادیئے گئے اورمعاملہ حضرت اقدسؑ کے خلاف وارنٹ جاری کردیئے جانے تک پہنچادیا گیا۔ مگر حضرت اقدسؑ اورجماعت کو اس کی قطعاً خبر نہیں تھی۔ خدائی تصرفات وعجائبات کہ وارنٹ کاکاغذ کہیں غائب ہوگیا چند دن بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو از خود خیال آیا کہ اس نے وارنٹ کا یہ حکم خلاف قانون دیاہے۔ وہ گورداسپور کے کسی ملزم کے نام وارنٹ جاری نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس نے ۷؍اگست کو ڈپٹی کمشنر گورداسپورولیم مانٹیگو ڈگلس کو تار دیا کہ مرزا غلام احمد صاحب کی گرفتاری کا جو وارنٹ جاری کیا گیا ہے اسے فی الحال منسوخ سمجھاجائے۔ ولیم مانٹیگو ڈگلس نے اپنے ریڈرراجہ غلام حیدر خاں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایسا وارنٹ آیا ہی نہیں ہے۔ حسن اتفاق سے ان دنوں گورداسپور حضرت چوہدری رستم علی صاحب ؓ کورٹ انسپکٹر تھے انہیں جو اس تار کا علم ہوا تو دوپہر کے وقت بھاگے ہوئے منشی عبدالعزیز صاحب کے پاس اوجلہ پہنچے اور انہیں بتایا کہ وارنٹ تو ہمارے پاس ابھی تک کوئی نہیں پہنچا۔ لیکن ہمارے اس ضلع میں حضرت اقدسؑ کے سوامرزا غلام احمد صاحب اور کون ہوسکتے ہیں؟ اس لئے آپ فوراً قادیان جاکر اس کی اطلاع حضرت صاحب کو دے آئیں۔ چنانچہ منشی صاحب اسی وقت قادیان کو روانہ ہوگئے ۔ قادیان اوجلہ سے کوئی ۱۷میل کے فاصلہ پر ہے۔ وہ سیکھواں سے ہوتے ہوئے شام یا صبح کو قادیان پہنچے اورساری کیفیت حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کی۔ لیکن حضور نے اس وقت کوئی توجہ نہ فرمائی۔ عصر کے بعد حافظ احمد اللہ صاحب بھی امرت سر آئے اورانہوں نے بھی یہ اطلاع دی کہ کسی پادری نے حضور پر امرتسر میں دعویٰ کر دیا ہے جس کی خبر کسی طرح انہیں مل گئی ہے یہ بات سن کر حضور نے منشی عبدالعزیز صاحب کو بلوایا اور فرمایا کہ ’’ آپ کی بات کی تصدیق ہوگئی ہے فوراً گورداسپور جاکر چوہدری رستم علی صاحب سے مفصل حالات دریافت کرکے لائو۔‘‘
میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی بھی اس وقت قادیان میں تھے منشی صاحب نے انہیں ساتھ لیا اوردونوں اس روز شام کو گورداسپور پہنچے۔ چوہدری رستم علی صاحب نے بتایا کہ مجھے تو اس وقت تک اس سے زیادہ علم نہیں ہوسکا۔ آپ فوراً امرت سر چلے جائیں اور وہاں کے کورٹ انسپکٹر سے جس کا نام پنڈت ہرچرن داس ہے میرا نام لے کر معاملہ دریافت کریں ۔چوہدری صاحب نے ریلوے پولیس کے ایک کنسٹیبل کو ان کے ہمراہ کردیا۔ جو انہیں رات اپنے ہاں رکھ کر اگلے دن صبح پنڈت صاحب کے مکان پر لے گیا۔ پنڈت صاحب نے ان سے کہا کہ مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ایک دن ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے مجھے بلوا کر یہ دریافت کیا تھا کہ اگر مستغیث امرتسر کارہنے والا ہو او ر ملزم ہوشیار پور کا تو کیا دعویٰ امرت سر میں ہوسکتا ہے اورمیں نے جواب دیا تھا کہ اگر وقوعہ بھی ہوشیار پور کا ہے تو دعویٰ بھی وہیں کیا جاسکتاہے چنانچہ ہردوصاحب میرے ساتھ اس امرپر بحث کرتے رہے ۔ پنڈت صاحب نے نائب کورٹ کو بھی بلا کر دریافت کیا لیکن اس نے بھی کوئی اطلاع نہ دی۔ منشی صاحب بس اتنی خبر لے کر گورداسپوراائے اورچوہدری رستم علی صاحب کو بتایا۔ انہوںنے مشورہ دیا کہ حجرت اقدسؑ کی خدمت میں اسی طرح جاکر عرض کردو۔ چنانچہ منشی صاحب اور میاں خیرالدین صاحب قادیان آئے اور حضور کی خدمت میں تمام حالات عرض کردیئے۔
جس روز یہ بزرگ قادیان کو روانہ ہوئے اسی روز امرتسر سے دوسرا حکم گورداسپور آگیا کہ پادری ہنری مارٹن کلارک نے جو استغاثہ زیر دفعہ ۱۰۷ ضابطہ فوجداری امرتسر میں دائرکیا ہے اور جس کاوارنٹ پہلے بھیجا جاچکا ہے اورجس کے روکنے کے لئے تار بھی دیا گیا تھا وہ مقدمہ ضلع گورداسپور میں منتقل کیا جاتا ہے اس پر گورداسپور سے حضرت اقدس علیہ السلام کے نام نوٹس جاری کردیا گیا کہ اگلے روز (۱۰۔اگست ۱۸۹۷ء؁ کو) ڈپٹی کمشنر کا مقام بٹالہ میں ہوگاآپ وہیں پیش ہوں چودھری رستم علی صاحب نے اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے موضع اوجلہ میں آکر منشی عبدالعزیز صاحب کے چھوٹے بھائی منشی عبدالغنی صاحب کو جو اس وقت سکول میں تعلیم پارہے تھے ایک خط اس مضمون کا لکھوا کردیا کہ کل بٹالہ میں حضور کی پیشی ہے اس کا انتظام کرلینا چاہیے۔ یہ خط چودھری صاحب نے منشی عبدالعزیز صاحب ہی کے ایک ملازم کے ہاتھ روانہ کردیا۔ منشی عبدالعزیز صاحب اورمیاں خیردین صاحب قادیان پہنچے تواس ملازم کو قادیان میں دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ وہ اتنی جلدی کیونکر پہنچ گیا ہے اس نے انہیں وہ خط دیا کہ اس کی اطلاع حضور کی خدمت میں کی گئی ۔ حضوراسی وقت مسجد مبارک میں تشریف لے آئے منشی صاحب نے خط پڑھ کر سنایا تو حضور نے انہیں ارشاد فرمایا کہ آپ اسی وقت گورداسپور چلے جائیں۔ چودھری صاحب سے ملیں اورشیخ علی احمد صاحب وکیل کولے کر کل صبح بٹالہ پہنچ جائیں اسی وقت حضرت اقدسؑ نے مرزا ایوب بیگ صاحب کو لاہوار روانہ فرمایا کہ وہ شیخ رحمت اللہ صاحب اورایک وکیل لے کر بٹالے پہنچ جائیں چنانچہ حضرت منشی صاحب میاں خیرالدین صاحب اوراپنے ملازم میاں عظیم کے ساتھ اسٹیشن چھیناکی طرف گورداسپور والی گاڑی میں سوار ہونے کے لئے روانہ ہوئے بارش کی وجہ سے کیچڑ زیادہ تھی اوران کے پائوں بہت پھسلتے تھے وہ باربار گرتے اور پھر اٹھ کر چلتے خشیت کا اس وقت یہ عالم تھا کہ زار زار رورہے تھے او ر دعائیں کررہے تھے ۔سیکھواں پہنچ کر میاں امام الدین صاحب اور میاں جمال الدین صاحب کو ایک شخص کے ذریعہ سے پیغام بھجوا کر خود اسی طرح آگے چل دیئے۔ ایک میل کے فاصلے پر یہ دونوں فدائی بھی انہیں مل گئے ۔ باہم مشورہ کرکے میاں امام الدین صاحب کو گھر کی حفاظت کیلئے واپس بھیج دیا اورمیاں جمال الدین صاحب اس قافلہ کے ساتھ ہولئے یہ چاروں اصحاب بمشکل گاڑی کے وقت اسٹیشن تک پہنچے اور شام کو گورداسپور میں چودھری رستم علی صاحب سے ملے اور حضرت اقدس علی السلام کا پیغام سنایا۔ شیخ علی احمد صاحب اس روز اپنے گائوں دھرم کوٹ رندھا وا کو گئے تھے۔ وہاں آدمی بھیجا کہ شیخ صاحب کو لے کر بٹالہ پہنچ جائے۔ اگلے روز صبح میاں خیرالدین صاحب جمال الدین صاحب اور چوہدری رستم علی صاحب اور شیخ علی احمد صاحب گورداسپور سے اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل لاہور سے بٹالہ پہنچ گئے۔ (۳) ان کے علاوہ لدھیانہ ۔ امرت سر ۔لاہور اورسیالکوٹ سے بھی بہت سے مخلصین ۹؍اگست کی رات کو بٹالے پہنچ گئے اور تھانے کے بالمقابل منڈی میں مقیم ہوئے۔ (۴)
حضرت اقدس کی بٹالے میں گواہی کے لئے تشریف آوری:۔
دوسر ے دن (۱۰ اگست کی صبح کو) حضرت اقدس ۸اور ۹ بجے کے درمیان قادیان سے تشریف لائے اور خدام نے حضور کا انار کلی کے موڑ پر استقبال کیا ۔آپ جماعت کو دیکھ کر دور ہی سے یکہ سے اتر آئے نہایت ہشاش بشاش اپنے خدام سے مصافحہ کیا۔ گویا ااپ کو کسی قسم کی فکر نہیں ہے آپ وہاں سے پیدل ہی روانہ ہوئے ۔خدا م نے سوار ہونے کے لئے عرض کیا تو فرمایا اب تک سوار ہی آئے ہیں اب سب کے ساتھ پیدل چلیں گے اور سب کے ساتھ سیر ہوجائے گی ۔راستہ میں مقدمہ کا سرسری ذکرآیا تو فرمایا۔ ہم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے خبردے دی تھی اورہم تو اس کی تائید ونصرت کا انتظار ہی کررہے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے آغاز پر ہم خوش ہیں اور اس کے انجام بخیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں ۔ہمارے دوستوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘‘ ذکر آیا کہ عیسائیوں کے ساتھ آریہ بھی (۵) مل گئے ہیں اورمولوی محمدحسین بٹالوی بھی ان کے ساتھ ہیں حضور نے فرمایا ہمارے ساتھ خدا ہے جو ان کے ساتھ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فیصلہ سے ہم کو واقف کردیا ہے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ وہی ہوگا۔ اگر ساری دنیا بھی اس مقدمہ میں ہمارے خلاف ہوتو مجھے ایک ذرہ کے برابر پروا نہیں ۔ اوراللہ تعالیٰ کی بشارت کے بعد اس کا وہم کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں(۶) اللہ اللہ! دنیا کے لوگ آپ کو دارورسن تک پہنچانے کے لئے مجتمع ہوگئے ہیں مگرآپ پورے جاہ وجلال کے ساتھ خدا کی بشارت کا اعلان فرمارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبل از وقت خوشخبری:۔
یہاں یہ بتاناضروری ہے کہ حضرت اقدس کو مقدمہ سے تین ماہ پہلے مندرجہ ذیل الہام اس ابتلاء کے بارے میں ہوچکے تھے۔ قَدِابْتُلِیَ الْمُوْمِنُوْنَ مَاھٰذَا اِلَّا تَھْدِیْدُالْحُکَّامِ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَادُّکَ اِلٰی مَعَادٍ اِنِّیْ مَعَ الْاَفْوَاجِ اٰتِیْکَ بَغْتَۃً یَاتیک نَصرتی۔ انی انا الرحمن ذوالمجد العلی۔مخالفوں میں پھوٹ ۔اورایک شخص متنافس کی ذلت اوراہانت اورملامت خلق اوراخیر حکم ابراء بے قصور ٹھہرانا بلجت آیاتی۔ یعنی تجھ پر اور تیسرے ساتھ مومنوں پر مواخذہ حکام کو ابتلاء آئے گا ۔وہ ابتلاء صرف تہدید ہوگا ۔اس سے زیادہ نہیں ۔ وہ خدا جس نے خدمت قرآن تجھے سپرد کی ہے پھر تجھے قادیان میں واپس لائے گا میں اپنے فرشتوں کے ساتھ ناگہانی طور پر تیری مدد کروں گا ۔میری مدد تجھے پہنچے گی۔ میں بلند شان والا رحمان ہوں۔ میں مخالفوں میں پھوٹ ڈالوں گا اورانجام کاریہ ہوگا کہ تمہیں بری اور بے قصور ٹھہرایا جائے گا۔
حضرت اقدسؑ عدالت میں :۔
حضرت اقدس اپنے مخلصین کے حلقے میں قیام گاہ پر تشریف لائے اورکچھ دیر ٹھہر کر ڈاک بنگلہ میں پہنچے اور عدالت کے کمرہ میں کرسی پررونق افروز ہوگئے جو ڈپٹی کمشنر ولیم مانٹیگو ڈگلس صاحب نے پہلے ہی رکھوادی تھی ۔اس وقت حضرت اقدس کے ہمراہ مرزا ایوب بیگ صاحب ۔حکیم فضل الدین صاحب مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور کچھ اورلوگ تھے(۸) کمرے کے باہر تماشائیوں کا بہت بڑا ہجوم تھا۔ جس میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نہایت خوشی وخرمی کے ساتھ نمایاں تھے جس کا نقشہ حضرت اقدس نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ’’اگست کی ۱۰؍تاریخ کو اس نظارہ کے لئے مولوی محمدحسین صاحب موحدین کے ایڈووکیٹ اس تماشے کے دیکھنے کے لئے کچہری میں آئے تھے تا اس بندہ درگاہ کو ہتھکڑی پڑی ہوئی اورکانسٹیبلوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھیں اور دشمن کی ذلت کو دیکھ کر خوشیاں منادیں۔ لیکن یہ بات ان کو نصیب نہ ہوسکی بلکہ ایک رنجدہ نظارہ دیکھنا پڑا۔ اوروہ یہ کہ جب میں صاحب مجسٹریٹ ضلع کی کچہری میں حاضر ہوا تو وہ نرمی اوراعزاز سے پیش آئے اوراپنے قریب میری کرسی بچھوادی اورنرم الفاظ سے مجھ کو کہا کہ گو ڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگر میں نہیں لگاتا‘‘(۹)
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کی گواہی اورعبرتناک حالت:۔
۱۳؍اگست ۱۸۹۷ء؁ کا دن بھی بڑے معرکے کا دن تھا۔ اسی دن عیسائیوں کے آلہ کار ابوسعید مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی۔ مولوی محمدحسین صاحب پر اس دن کیا گزری؟ اورکس طرح خدا نے ان کی ذلت ورسوائی کا سامان کیا اس کی کیفیت ظاہر کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے ایک (غیراحمدی) مسل خواں راجہ غلام حیدر خاں صاحب ساکن راولپنڈی کا مفصل اورنہایت اہم بیان درج کیا جاتاہے جو موصوف نے اپنی مرض الموت میں خود لکھوا کر جناب ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مولف ’’مجدد اعظم‘‘ کو بھجوایا ۔اس بیان سے عیسائیوں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی آمیزش پر بھی واضح روشنی پڑتی ہے ۔راجہ صاحب لکھتے ہیں ’’میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے زمانہ میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کاریڈر(مسلحواں) تھا ۔میں پانچ یاچھ روز کی رخصت پراپنے گھر راولپنڈی گیا ہوا تھا۔ رخصت سے واپسی پر جب میں امرتسر پہنچا اور سیکنڈ کلاس کے ڈبہ میں بہ امید روانگی بیٹھا ہوا تھا جو دو یوروپین صاحبان جن میں سے ایک تو ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک خودتھا اوردوسرا کاراک جو وکیل تھا اسی ڈبہ میں تشریف لائے اتنے میں مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بھی آگئے اوروہ اسی سیٹ پر جہاں میں بیٹھا تھا بیٹھ گئے ۔ ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک میرے زمانہ ایام ملازمت ضلع سیالکوٹ کے واقف تھے اورمولوی محمد حسین صاحب سے بھی اچھی واقفیت تھی اس واسطے ایک دوسرے سے باتیں شروع ہوگئیں۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی بھی ڈاکٹر صاحب موصوف کے ہم سفر ہیں۔ بلکہ ان کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خریدا ہے ۔پھر ڈاکٹر صاحب موصوف نے بوجہ دیرینہ ملاقات کے مجھ سے دریافت فرمایا کہ آپ تو ضلع سیالکوٹ میں سررشتہ دار تھے اب کہاں ہیں؟ میں نے ان کو جواب دیا کہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کا ریڈر ہوں تب انہوںنے فرمایا کہ ’’اوہو۔ تب توشیطان کا سرکچلنے کے لئے آپ بہت کارآمدہوں گے‘‘ چونکہ میں تینوں صاحبان سے واقف تھا اس لئے فوراً سمجھ گیا۔ کہ ڈاکٹر صاحب کا اشارہ کس طرف ہے میں نے سرسری طور پر جواب دیا کہ ’’واقعی ہرایک نیک انسان کاکام ہے کہ وہ شیطان کا سرکچلے مگر مجھے معلوم نہیں ہوا کہ آپ کا یہ کہنے سے مطلب کیا ہے‘‘ تب ڈاکٹر صاحب موصوف سنے مرزا صاحب کانام لے کر کہا کہ ’’وہ بڑا بھاری شیطان ہے جس کا سر کچلنے کے ہم اور مولوی صاحب درپے ہیں۔ آپ اقرارکریں کہ آپ ہمیں مدد دیں گے‘‘ چونکہ میں اس گفتگو کو طور دینا پسند نہیں کرتا تھا۔ میں نے صرف اتنا کہدیا کہ کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کا اورمرزا صاحب قادیانی کا مقابلہ ہے۔ اورمقدمہ عدالت میں دائر ہے اس لئے میں اس بات سے معافی چاہتا ہوں کہ اس معاملہ میں ز یادہ گفتگو کروں۔ جو شیطان ہے اس کا سرخودبخود کچلا جائے گا ۔یاد نہیں پڑتا کہ اس کے بعد اورکوئی گفتگو ہوئی یا نہیں ۔میں بٹالہ اپنی ڈیوٹی پرحاضر ہوگیا۔ کیونکہ ڈپٹی کمشنر صاحب وہیں مقیم تھے۔ دوسرے دن جب صبح سیر کے لئے نکلے۔ مرزا صاحب کے بہت سے متعلقین سے انار کلی (جو بٹالہ میں عیسائیوں کے گرجے اور مشن کے مکان کانام ہے ۔مولف) کی سڑک پر مجھ سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر کلارک صاحب جس کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔وہ سامنے تھی ۔ہم نے دیکھا کہ مولوی محمدحسین صاحب دروازے کے سامنے ڈاکٹر کلارک کے پاس ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی فضل دین صاحب وکیل مرزا صاحب نے تعجب کے لہجہ میں کہا کہ ’’دیکھو آج مقدمہ میں مولوی محمدحسین صاحب کی شہادت ہے اورآج بھی یہ شخص ڈاکٹر کلارک کا پیچھا نہیں چھوڑتا‘‘ اس کے علاوہ احاطہ بنگلہ میں عبدالحمید جس کی بابت بیان کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے مرزا صاحب نے اسے تعینات کیا تھا۔ ایک چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ رام بھجدت وکیل آریہ اور پولیس کے چند آدمی اس کے گرد بیٹھے تھے اوریہ بھی دیکھا گیا کہ عبدالحمید کے ہاتھوں پر کچھ نشان کئے جا رہے ہیں ۔چنانچہ وکیل حضرت مرزا صاحب نے سوال کیا کہ وہ احاطہ کوٹھی مارٹن کلارک میں بیٹھا ہوا تھا ۔اوررام بھجدت وکیل اورپولیس والے اس کے پاس تھے ۔اورکیا اس کو مرزا صاحب کے برخلاف جو بیان دینا تھا اس کے لئے کچھ باتیں تلقین کررہے تھے اورکچھ نشان اس کے ہاتھوں پرکررہے تھے اس وقت عبدالحمید سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے رام بھجدت وغیرہ کی موجودگی کو تسلیم کیا اور جب اس کے ہاتھ پر بطور یادداشت بنائے گئے تھے ۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت سے قبل مولانا مولوی نورالدین صاحب کی شہادت ہوئی ان کی سادہ ہیت یعنی ڈھیلی ڈھالی سی بندھی ہوئی پگڑی اورکرتے کا گریبان کھلا اور شہادت ادا کرنے کا طریق نہایت صاف اورسیدھا سادھا ایسا موثر تھا کہ خود ڈپٹی کمشنر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ ’’ خدا کی قسم اگریہ شخص کہے کہ میں مسیح موعود ہوں تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پر پوراپورا غورکرنے کے لئے تیار ہوں گا‘‘ مولوی نورالدین صاحب نے عدالت سے دریافت کیا کہ ’’ مجھے باہر جانے کی اجازت ہے یا اسی جگہ کمرہ کے اندر رہوں‘‘ ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ’’مولوی صاحب! آپ کو اجازت ہے جہاں آپ کا جی چاہے جائیں‘‘ ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی شہادت ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ اوران کے بعد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شہادت کے لئے کمرہ میں داخل ہوئے اور دائیں بائیں دیکھا تو کوئی کرسی فالتو پڑی ہوئی نظرنہ آئی ۔مولوی صاحب کے منہ سے پہلا لفظ جو نکلا و ہ یہ تھا کہ ’’حضور کرسی‘‘ ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ ’’ کیا مولوی صاحب کو حکام کے سامنے کرسی ملتی ہے‘‘ میں نے کرسی نشینوں کی فہرست صاحب کے سامنے پیش کردی اورکہا کہ اس میں مولوی محمدحسین صاحب یا ان کے والد بزرگوار کانام تودرج نہیں۔ لیکن جب کبھی حکام سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے توبوجہ عالم دین یاایک جماعت کا لیڈر ہونے کو وہ انہیں کرسی دے دیا کرتے ہیں۔ اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر نے مولوی صاحب کو کہا کہ ’’ آپ کوئی سرکاری طور پر کرسی نشین نہیں ہیں آپ سیدھے کھڑے ہوجائیں اور شہادت دیں‘‘ تب مولوی صاحب نے کہا کہ ’’ میں جب کبھی الاٹ صاحب کے حضور میں جاتا ہوں تو مجھے کرسی پر بٹھایا جاتا ہے۔ میں اہلحدیث کا سرغنہ ہوں ‘‘ تب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے گرم الفاظ میں ڈانٹا اور کہا کہ ’’نج کے طور پر اگرلاٹ صاحب نے تم کو کرسی پر بٹھایا تو اس کے یہ معنے نہیں کہ عدالت میں بھی تمہیں کرسی دی جائے‘ ‘ خیر جب شہادت شروع ہوئی ۔تو مولوی صاحب نے جس قدر الزامات کسی شخص کی نسبت لگائے جاسکتے ہیں مرزا صاحب پر لگائے لیکن جب مولوی فضل دین صاحب وکیل حضرت مرزا صاحب نے جرح میں مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب سے معافی مانگ کر اس قسم کا سوال کیا جس سے ان کی شرافت یا کیریکٹر پردھبہ لگتا تھا تو سب حاضرین نے متعجبانہ طور پر دیکھا کہ جناب مرزا صاحب اپنی کرسی سے اٹھے اور مولوی فضل دین صاحب کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اورفرمایا کہ میری طرف سے اس قسم کا سوال کرنے کی نہ تو ہدایت ہے اورنہ اجازت ہے آپ اپنی ذمہ داری پر بہ اجازت عدالت اگرپوچھنا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے‘‘ قدرتی طور پر صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کو دلچسپی ہوئی اور انہوںنے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا اس سوال کی بابت تم کو کچھ حال معلوم ہے میں نے نفی میں جواب دیا۔ مگرکہا کہ اگر آپ معلوم کرناچاہتے ہیں تو جب آپ لنچ کے لئے اٹھیں گے تو میں معلوم کرنے کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ جب نماز ظہر کا وقت ہوا تو صاحب ڈپٹی کمشنر لنچ کے لئے اٹھ گئے تو میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کی معرفت حضرت مرزا صاحب سے دریافت کروایا کہ کیا ماجرا ہے حضرت مرزا صاحب نے نہایت افسوس کے ساتھ شیخ رحمت اللہ صاحب کو بتایا کہ مولوی محمدحسین صاحب کے والد کا ایک خط ہمارے قبضہ میں ہے جس میں کچھ نکاح کے حالات اورمولوی محمدحسین صاحب کی بدسلوکیوں کے قصے ہیں جو نہایت قابل اعتراض ہیں مگرساتھ ہی حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ اس قصہ کا ذکر مسل پرلایاجاوے یا ڈپٹی کمشنر صاحب اس سے متاثر ہوکر کوئی رائے قائم کریں‘‘ میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب سے سنکر لنچ والے کمرہ میں جاکر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے روبرو جو ڈپٹی کمشنر صاحب کے ساتھ لنچ میں شامل تھے۔ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو یہ ماجرا سنا دیا اس پر خود ڈاکٹر مارٹن ہنری کلارک بہت ہنسے۔ صاحب ڈپٹی کمشنر نے کہایہ امر توہمارے اختیار میں ہے ۔کہ ہم اس ماجرے کو قلمبند نہ کریں مگر یہ بات ہمارے اختیار سے باہر ہے کہ ہمارے دل پر اثر نہ ہو‘‘ لنچ کے بعد جب مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب دوبارہ جرح کے لئے عدالت میں پیش ہوئے تو مولوی فضل دین صاحب وکیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ آج ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی پر ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے؟ تو انہوںنے صاف انکار کردیا۔ جس پر بے ساختہ میں چونک پڑا۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھ سے اس چونکنے کی وجہ پوچھی تو میں نے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کی طرف اشارہ کیا۔صاحب بہادر نے ڈاکٹر کلارک سے دریافت کیا تو انہوںنے صاف اقرارکیا کہ ’’ہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے اس مقدمہ کی گفتگو کررہے تھے‘‘ پھر مولوی فضل الدین صاحب وکیل نے پوچھا کہ ’’آپ ان دنوں امرتسر سے بٹالہ تک ڈاکٹر ہنری مارٹن لارک کے ہم سفرتھے؟ اورآپ کا ٹکٹ بھی ڈاکٹر صاحب نے خرید کیا تھا؟ تو مولوی محمدحسین صاحب صاف منکر ہوگئے۔ بعض وقت انسان اپنے خیالات کا اظہار بلند آواز سے کر گزرتا ہے ۔یہی حال اس وقت میرا بھی ہوا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ’’ یہ تو بالکل جھوٹ ہے ۔‘‘ تب ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب سے ڈپٹی کمشنر صاحب نے پھر پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا کہ ’’ مولوی صاحب میرے ہم سفر تھے اور ان کا ٹکٹ بھی میں نے ہی خریدا تھا۔ ‘‘ اس پر صاحب ڈپٹی کمشنر حیران ہوگئے آخر انہوں نے یہ نوٹ مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کے آخر لکھا کہ ’’ گواہ کو مرزا صاحب سے عداوت ہے جس کی وجہ سے اس نے مرزا صاحب کے خلاف بیان دینے میں کوئی دقیفہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ اس لئے مزید شہادت لینے کی ضرورت نہیں ۔‘ ‘ مولوی محمد حسین صاحب شہادت کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک آرام کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے۔ کانسٹیبل نے وہاں سے انہیں اٹھادیا کہ کپتان صاحب پولیس کا حکم نہیں ہے ۔ ‘‘ پھر مولوی صاحب موصوف ایک بچھے ہوئے کپڑے پر جا بیٹھے جن کا کپڑا تھا انہوں نے یہ کہہ کر کپڑا کھینچ لیا کہ مسلمانوں کا سرغنہ کہلا کر اس طرح صریح جھوٹ بولنا۔ بس ہمارے کپڑے کو ناپاک نہ کیجئے۔ ‘‘ تب مولوی نورالدین صاحب نے اٹھ کر مولوی محمد حسین صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور کہا کہ ’’ آپ یہاں ہمارے پاس بیٹھ جائیں۔ ہر ایک چیز کی ایک حدہونی چاہئے۔ ‘‘ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو چادرسے اٹھانے والے مولوی محمد حسین صاحب (سابق مبلغ کشمیر ) کے والد میاں محمد بخش صاحب بٹالوی تھے جو اس وقت نہ صرف احمدی نہیں تھے بلکہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے عقیدت مندوں میں شامل تھے اس دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدوان رسول سے مل کر شرمناک مظاہرہ کیا تو ان کی دینی غیرت نے یہ گوارانہ کیا کہ پادریوں کی مدد کرنے والا شخص ان کی چادر پلید کرے ۔
عبدالحمید کا مشتبہ بیان :۔
اس دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے علاوہ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک ،پریم داس اور خود عبد الحمید کے بیانا ت بھی ہوئے عبدالحمید کا یہ دوسرا بیان تھا جو بٹالہ میں ہوا۔ ولیم ڈگلس نے ( جیسا کہ بعد کو اپنے فیصلہ میں لکھا ) عبدالحمید کے بیان کو شروع ہی سے بعید از عقل خیال کیا پھر اس بیان میں جو اس نے امرت سر میں داخل عدالت کیا اختلافات تھے۔ اور وہ اس کی وضع قطع سے جب کہ وہ شہادت دیتا تھا مطمٔن نہیں تھے اس کے علاوہ انہوں نے کمال ذہانت سے یہ بھی بھانپ لیا کہ جتنی دیر تک وہ بٹالہ مشن کے ملازموں کی زیر نگرانی رہا۔ اتنی ہی اس کی شہادت مفصل اور طویل ہوتی گئی ہے جس پر وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ یا تو کوئی شخص یا اشخاص اسے سکھلاتے ہیں یا یہ کہ اس کو اور زیادہ علم ہے جتنا کہ وہ اب تک ظاہر کر چکا ہے ۔
مسٹرڈ گلس کو کشفی نظاروں کے ذریعہ سے راہ نمائی:۔
راجہ غلام حیدر ہی کا بیان ہے کہ ’’جب عدالت ختم ہو ئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ۔ ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں۔ تم ابھی جاکر ہمارے لئے ریل کے کمرے کا انتظام کرو۔ چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلو ے اسٹیشن پر گیا۔ میں اسٹیشن سے نکل کر برآمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سرڈگلس سٹرک پر ٹہل رہے ہیں اور کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر۔ ان کا چہرہ پریشان ہے ۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا۔ صاحب آپ باہر پھر رہے ہیں۔ میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں۔ آپ وہاں تشریف رکھیں۔ وہ کہنے لگے ۔ منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں۔ میری طبیعت خراب ہے۔ میں نے کہا کچھ بتائیں تو سہی۔ آخر آپ کی طبیعت کیوںخراب ہوگئی ہے ۔ تاکہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے۔ اس پر وہ کہنے لگے میں نے جب سے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کرکے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہگار نہیں ۔ ان کا کوئی قصور نہیں ۔ پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا۔ اور یہاں آیا تو تواب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں۔ میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے ۔ پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزاصاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں یہ کام نہیں کیا۔ اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جائوں گا ۔ میں نے کہا صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھئے سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریزہیں ان کو بلا لیتے ہیں۔ شاید ان کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں ۔ سپر نٹنڈنٹ صاحب کا نام لیمار چنڈ تھا۔ سرڈگلس نے کہا کہ انہیں بلوالو۔ چنانچہ میں انہیں بلا لایا۔ جب وہ آئے تو سرڈگلس نے ان سے کہا دیکھو یہ حالات ہیں۔ میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے میں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھبرا کر اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے ۔ پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے ۔ اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے ۔ میری یہ حالت پاگلوں سی ہے ۔ اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو۔ ورنہ میں پاگل ہو جائوں گا۔
عبدالحمید کو پولیس کی تحویل میں دیئے جانے کا حکم :۔
لیمار چنڈنے کہا اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالہ کیا ہوا ہے۔ وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آکر بیان کر دیتا ہے چنانچہ اسی وقت ڈگلس نے کاغذ منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبدالحمید کو پولیس کے حوالہ کیا جائے ۔ (۱۱)
سازش کا انکشاف : ۔
چنانچہ اگلے ہی دن ڈسٹرکٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس مسٹر لیمار چنڈ نے میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر پولیس کو انار کلی بھیج کرنہال چند منشی کو اپنے پاس بلا لیا۔ رستہ میں وارث دین نے عبدالحمید کو تاکید کی کہ وہ پہلا بیان نہ بدلے۔ تم کو ڈاکٹر صاحب نے وعدہ معافی دیا ہوا ہے ۔ دو سکھ سپاہیوں نے بھی یہی زور دیا۔ بٹالہ کے مدرس نہالچند نے بھی یہی کہا۔ بلکہ صبح کو عبدالغنی عیسائی نے شیخ وارث دین اور یوسف کا یہ پیغام دیا کہ تم کو ڈاکٹر صاحب سے معافی دلوادیں گے اور تم بچ رہو گے ۔ اگر پہلے بیان پر قائم رہے۔ مسٹر لیمار چنڈ کو چونکہ مصروفیت تھی۔ اس لئے انہوں نے میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر پولیس اور ایک انسپکٹر پولیس جلال الدین صاحب کا پہرہ اس پر مقرر کر دیا۔ اور خود قریب ہی جہاں وہ دکھائی دیتا تھا کام کرنے لگے ۔ جب کافی دیر ہوگئی تو انسپکٹر پولیس نے ان سے کہا کہ اگر فرصت نہیں ہے تو عبدالحمید کو واپس انار کلی بھیج دیا جائے ۔کیونکہ وہ جانا چاہتا ہے ۔ اور مقدمہ کی بابت کچھ اصلیت ظاہر نہیں کرتا۔ تب مسٹر لیمار چنڈ نے عبدالحمید کو بلوالیا ۔ اور پوچھ گچھ شروع کی ۔ لیکن اس نے وہی پہلی داستان دوہرائی جو دو صفحے میں لکھ لی گئی اور ساتھ ہی اس سے کہا۔ کہ ہم اصلیت دریافت کرنا چاہتے ہیں تم ناحق وقت کیوں ضائع کرتے ہو۔ اب تمہیں انار کلی نہیں بھیجا جائے گا۔ گورداسپور لے جاویں گے بس یہ کہنا ہی تھا کہ عبدالحمید ان کے پائوں پر گر کر زاروقطار رونے لگا اور اس نے سازش کا انکشاف کرتے ہوئے سارا قصہ بے کم و کاست کہہ ڈالا۔ اور صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ جو کچھ میں بیان دیتا رہا ہوں محض ان کے سکھانے پر دیتا رہا ہوں۔ (۱۲) اس واقعہ کے چار روز بعد امرت سر سے پادری ایچ ۔ جی ۔ گرے اور نوردین کی چھٹیاں بھی عدالت میں پہنچ گئیں جن سے اس بیان کی مزید تصدیق ہوگئی۔
حضور ؑ کی الزام قتل سے بریت اور دشمن کو عفو عام : ۔
عبدالحمید نے ۲۰۔ اگست کو سرکاری گواہ کے طور پر عدالت میں اپنا اصل بیان پڑھا تو پادریوں اور ان کے لگے بندھوں کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی ۔ پادری کارٹن کلارک نے اپنے آخری بیان میں اپنی ’’ معصومیت ‘‘ کا اظہار کرنے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارنے کی بے حد کوشش کی۔ لیکن اب راز کھل چکا تھا۔ لہٰذا ۲۳۔ اگست ۱۸۹۷ء کو مسٹر ولیم مانٹیگو ڈگلس نے حضرت اقدسؑ کو بالکل بری کر دیا اور اپنے فیصلہ میں اس واقعہ کی پوری تفصیل دیتے ہوئے لکھا۔’’ جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ کا تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یا یہ کہ مقدمہ پولیس کے سپر د کیا جائے لہٰذا اور بری کئے جاتے ہیں۔ ‘‘(۱۳)پھر عین کچہری میں انہوں نے ہنستے ہوئے حضور کو مبارکباد پیش کی۔ (۱۴) اور کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں۔ اگر چاہتے ہیں ۔ تو آپ کو حق ہے ۔ ‘‘
حضرت اقدسؑ نے جو ایمان افروز جواب دیا وہ خدا کے اولواعزم پیغمبروں ہی کی زبان سے نکل سکتاہے ۔ حضورؑ نے فرمایا ۔’’ میں کسی پر مقدمہ کرنا نہیں چاہتا ۔ میر امقدمہ آسمان پر دائر ہے ۔ ‘‘ (۱۵) اس طرح یہ ابتلاء تو چند روز کے اندر اندر ختم ہو گیا۔ لیکن اس کا نتیجہ ایک عظیم الشان پیشگوئی اور نصرت الٰہی کا نشان بن کر رہ گیا جو ہمیشہ کیلئے یاد گار رہے گا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 5 ۔ یونی کوڈ

‏rov.5.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت

سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی
المصلح الموعود کے
سوانح قبل از خلافت
پہلا باب (فصل اول)
آسمانی نوشتوں کے مطابق ولادت‘پاکیزہ بچپن‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت میں ابتدائی سفر اور بعض دوسرے دلچسپ واقعات
(۱۳۰۶ھ ۔ ۱۳۱۲ھ)
(جنوری ۱۸۸۹ء سے دسمبر ۱۸۹۴ء تک)
سیدنا و امامنا و مرشدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و اطال اللہ بقاہ) کا دور خلافت سلسلہ خلفاء کی تاریخ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں اس خلافت کو نوازا ہے اور اس کے ہر پہلو کو اپنی برکت کے ہاتھ سے ممسوح کیا ہے اور اس کے ساتھ غیر معمولی برکتوں اور حیرت انگیز ترقیوں اور مافوق العادت کامیابیوں کو وابستہ فرمایا ہے۔ وہ اپنی نظیر آپ ہیں !!!
جہاں تک خلافت ثانیہ کے روحانی و مذہبی اثر و نفوذ کی وسعت کا تعلق ہے اسے ایک عالمگیر حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں۔
’’میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے عرب‘ایران‘چین‘جاپان‘یورپ‘امریکہ‘افریقہ‘سماٹرا‘جاوا‘اور خود انگلستان کے لئے غرضکہ کل جہان کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہوں۔ اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں‘‘۱۔
اس ’’عالمگیر خلافت‘‘ اور ’’مذہبی حکومت‘‘ کے ساتھ ہی حال و مستقبل میں اسلام کی ترقی اور سربلندی وابستہ ہے جیسا کہ حضور نے لکھا ہے کہ
’’اس وقت اسلام کی ترقی خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے۔ پس جو میری سنے گا وہ جیتے گا۔ اور جو میری نہیں سنے گا وہ ہارے گا جو میرے پیچھے چلے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر مکمل کھولے جائیں گے۔ اور جو میرے راستہ سے الگ ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر بند کر دئے جائیں گے‘‘۲۔حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور دوسرے خلفاء میں ایک بھاری فرق ہے۔ یہ فرق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں یہ ہے کہ
’’جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں۔ ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے۔ ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے پس میرے لئے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے‘‘۳۔ان آسمانی نشانات و معجزات میں خدائی تائید و نصرت کا نشان ایسا کھلا اور واضح نشان ہے جو آج تک حضور کی زندگی کے ہر گوشہ میں ہمیشہ جلوہ فرما نظر آتا ہے۔ خلافت ثانیہ کی تاریخ ابتداء ہی سے مخالفتوں کے ہجوم میں گھری ہوئی ہے مگر اس مقدس سالار کی قیادت میں احمدیت کا قافلہ فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور آئندہ سے متعلق بھی خدائی فیصلہ یہی ہے کہ حضور کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ چنانچہ حضور نے ایک عرصہ ہوا یہ ارشاد فرمایا تھا۔
’’میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو۔ شور مچائے۔ گالیاں دے یا برا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ یہ تقدیر مبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا یہ زمین و آسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہو گا۔ مگر بہرحال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی‘‘۴۔خلافت ثانیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خلافت موعودہ ہے جس کے قیام کی بشارتیں اور پیشگوئیاں صدیوں اور قرنوں سے ہوتی چلی آرہی تھیں چنانچہ (یہود کی قدیم روایات کی کتاب) طالمود (جوزف بارکلے) میں لکھا ہے۔
‏descend kingdom his and die shall Messiuh( )The he that said also is ’’‘‘It۔grandson and son his to
(طالمود بائی جوزف بارکلے باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۸ء)
ترجمہ:۔ یہ بھی روایت ہے کہ مسیح (موعود) وفات پا جائیں گے اور ان کی بادشاہت ان کے بیٹے اور پوتے کو ملے گی۔
ازاں بعد جہاں خدا تعالیٰ نے آنحضرت~صل۱~ کی زبان مبارک سے یہ خبر دی کہ آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان روحانی مصلح مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہو گا وہاں آپ ہی کے ذریعہ سے اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ یتزوج و یولد لہ۵۔ یعنی (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریح فرمائی) آنے والا مصلح اکیلا اور تنہا نہیں آئے گا۔ بلکہ خدائی منشاء کے مطابق اس کی ایک خاص شادی ہو گی۔ اور اس شادی سے خدا اسے اولاد عطا کرے گا۔ جن میں سے ایک بیٹا ایک خاص شان کا نکلے گا۔ اس کے کام کو بہت ترقی حاصل ہو گی۔ اس طرح گویا خدا نے مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ہی آپ کے ایک موعود فرزند کی روحانی خلافت کی بھی داغ بیل ڈال دی۔
آنحضرت~صل۱~ کے بعد امت محمدیہ کے بعض اولیاء و صلحاء مثلاً حضرت نعمت اللہ ولی اور حضرت امام یحییٰ بن عقب رحمتہ اللہ علیہما پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ مسیح موعود کے بعد اس کا ایک صاحب عظمت و شوکت فرزند تخت خلافت پر متمکن ہو گا۔
ان اولیاء کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اس موعود فرزند کے ظہور کا وقت بھی قریب آپہنچا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ پر اس پیشگوئی کی مزید تفصیلات ظاہر فرمائیں چنانچہ دعویٰ ماموریت کے چوتھے سال ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کو پیدائش مصلح موعود کی بڑی صراحت سے بشارت دی گئی اور پسر موعود کی پوری زندگی اور اس کے عہد خلافت کی تاریخ کا نہایت جامع و مانع نقشہ کھینچ دیا گیا۔ یہ بشارت ان لفظوں میں تھی۔
’’تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رجس سے پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔
اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظھر الاول و الاخر مظھر الحق و العلاء کان اللہ نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔ اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا و کان امرا مقضیا‘‘۶۔
اس پیشگوئی کے بارے میں جناب الہیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو مزید انکشافات ہوئے۔
اول۔ یہ کہ ایسا موعود فرزند نو برس کے اندر اندر ضرور پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ حضور نے اشتہار ۲۲/ مارچ ۱۸۸۶ء میں تحریر فرمایا۔
’’اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا۔ خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا‘‘۷۔
دوم۔ حضرت اقدس نے ’’سبز اشتہار‘‘ میں تحریر فرمایا کہ۔
’’اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی۔ اور اس عبارت تک کہ ’’مبارک وہ جو آسمان سے آتا
‏rov.5.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت
ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ میں شروع ہی سے اولوالعزمی اور جلال کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت قدیمی اور مخلص صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہاں پوری اپنا ایک چشم دید واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ۔
’’اپریل یا مئی ۱۸۹۳ء کا ذکر ہے کہ میں ایک روز نماز عصر کے لئے مسجد کی طرف جارہا تھا۔ جب اس جگہ پہنچا جہاں حضرت سید احمد نور کابلی رضی اللہ عنہ کی دکان تھی۔ تو میں نے دیکھا۔ کہ اس سے شمال کی طرف چند قدم کے فاصلہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اس زمانہ میں میاں صاحب یا میاں محمود کہلاتے تھے چند بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ میں آپ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ سیدنا و مولانا حضرت مولوی نور الدینؓ بھی تشریف لے آئے اگرچہ آنجناب زمین پر اکڑو بیٹھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے تاہم میاں صاحب کے قریب پہنچ کر اکڑو زمین پر بیٹھ گئے۔ اور آپ کو اپنے ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا۔ اور بڑی محبت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے ہوئے پیار کے لہجہ میں فرمایا۔ ’’میاں آپ کھیل رہے ہیں۔‘‘ میاں نے معصومانہ نظروں سے حضرت مولوی صاحب کی طرف دیکھا اور جس لہجہ میں آپ سے سوال کیا گیا تھا بالکل اسی لہجہ میں بڑی تیزی سے جواب دیا کہ ’’بڑے ہوں گے تو ہم بھی کام کریں گے۔‘‘ سیدنا حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ ’’خیال تو تمہارے پیو کا بھی یہی ہے۔ اور نور الدین کا بھی واللہ اعلم بالصواب۔‘‘ مجھے ’’پیو‘‘ کے معنے معلوم نہیں تھے اس لئے میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ سیدنا حضرت مولوی صاحب کس امر میں کس سے متحد الخیال ہیں۔ جب سیدنا حضرت مولوی صاحب مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہمراہیوں میں سے کسی سے پوچھا کہ پیو کسے کہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ باپ کو مگر یہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی متحد الخیال ہونے والی بات میں اس وقت نہیں سمجھا تھا وہ سیدنا حضرت مولانا نور الدینؓ کے زمانہ خلافت میں مجھے معلوم ہوئی۔ فالحمدللہ
جس زمانے کی یہ بات ہے اس زمانے میں حضرت امیر المومنین کی عمر چار سال یا اس سے کچھ تھوڑی ہی زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ مجھے آج بھی جب اس واقعہ کا خیال آتا ہے تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اتنی چھوٹی عمر میں حضرت مولوی صاحب کا سوال کیسے سمجھا اور اس کا اتنا چیدہ و سنجیدہ اور پسندیدہ و برجستہ جواب کس طرح دیا تھا‘‘۵۱۔
ہمارے ملک کے بچوں میں ایک دلچسپ کھیل رائج ہے۔ کہ ایک لڑکا بیٹھ جاتا ہے اور باقی سب لڑکے اس کے سر پر اوپر نیچے مٹھیاں بند کرکے رکھتے چلے جاتے ہیں آپ بھی بچپن میں یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ مگر یہ بالکل ابتدائی عمر کی بات ہے ورنہ تعلیمی دور اور اس کے بعد آپ کی پسندیدہ کھیل بیڈمنٹن۵۳ اور فٹ بال تھی۔ جو اپنے زمانہ خلافت سے قبل آپ ایک عرصہ تک کھیلتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی کے آخری دنوں میں تو آپ نے موگریاں بھی رکھی ہوئیں تھیں۵۴۔
ان ورزشی کھیلوں کے علاوہ شکار سے بھی آپ کو رغبت تھی جس کی وجہ خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں کہ ’’میں ابتدائی ایام سے بندوق چلانے کا شائق رہا ہوں۔ بچپن میں ہی مجھے شکار کھیلنے کا شوق تھا۔ میں شکار خود نہیں کھاتا تھا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو لا کر دے دیتا تھا۔ آپ چونکہ دماغی کام کرتے تھے اس لئے شکار کا گوشت آپ کے لئے مفید ہوتا۔ اور آپ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔ اس وقت مجھے اتنی مشق تھی کہ میں پانچ چھ چھرے لے جاتا اور ہوائی بندوق سے چار پانچ پرندے مار لاتا تھا۔ حالانکہ وہ بندوق بھی معمولی قسم کی ہوائی بندوق ہوتی تھی‘‘۵۵۔
آپ کشتی رانی اور تیراکی بھی کرتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک چھوٹی کشتی بھی جہلم سے منگوا کر دی تھی اور آپ کو تیرنا سکھانے کے لئے ابو سعید عرب مقرر ہوئے تھے۔ اس زمانہ میں ڈھاب بڑی وسیع تھی مگر بعد میں ڈھاب پر کرکے اکثر جگہ مکانات بن گئے۵۶۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو پہلی مرتبہ ۱۹۰۵ء میں قادیان آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے حضور کو ڈھاب میں کشتی چلاتے دیکھا ہے۵۷۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری زمانہ میں غالباً ۱۹۰۶ء کے قریب آپ کی سواری کے لئے ایک گھوڑی بھی خریدی جو نہایت عمدہ نسل اور عمدہ قد کی جوان بچھیری تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خان عبدالمجید خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ (فرزند اکبر حضرت منشی محمد خان صاحبؓ) کو خط لکھا کہ یہ چالاک گھوڑی ہے اس کی بجائے کوئی اور گھوڑی بھجوائی جائے یا اس کو بیچ کر کوئی اور عمدہ گھوڑی بھجوا دیں۔ حضرت شیخ عرفانی الکبیرؓ نے مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم میں حضور کا پورا خط نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ ’’اس مکتوب سے ظاہر ہے ۔۔۔۔۔ کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے۔ خصوصیت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی۔ اور حضرت امیر المومنین ایک عمدہ شاہسوار ہیں‘‘۵۸۔
سیدنا حضرت محمود بچپن میں ٹوپی پہنا کرتے تھے لیکن ایک دفعہ عید کے روز آپ نے ٹوپی پہن رکھی تھی کہ حضور نے آپ کو دیکھ کر فرمایا۔ میاں تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہے آپ نے اسی وقت ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی اور کچھ عرصہ بعد ٹوپی کا استعمال ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۵۹۔
آپ کا لباس ابتداء ہی سے نہایت سادہ رہا ہے۔ شروع شروع میں آپ پرانے دستور کے مطابق پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ جو شلوار کے رواج سے پہلے عام طور پر سکولوں میں رائج تھا۔ اور شرعی پاجامہ کہلاتا تھا۔ لیکن طالب علمی کی زندگی میں آپ نے شلوار کا استعمال شروع کر دیا۔ اس تبدیلی کی بھی ایک بڑی پر لطف سرگزشت ہے جس کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں درج کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ فرماتے ہیں۔
’’بعض لڑکوں نے مجھے کہا میں شلوار پہنا کروں۔ چنانچہ میں نے شلوار بنائی۔ مجھے خوب یاد ہے جب پہن کر میں گھر سے باہر آیا۔ تو میں نہیں سمجھتا کوئی چور یا ڈاکو بھی کوئی واردات کرکے اتنی ندامت اور شرمساری محسوس کرتا ہو گا جتنی کہ مجھے اس وقت شلوار پہننے سے محسوس ہوئی۔ میں آنکھیں نیچی کئے ہوئے بمشکل اس مکان تک جو پہلے شفا خانہ تھا اور جس میں اس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب بیٹھا کرتے تھے آیا۔ بھائی عبدالرحیم صاحب اور بعض دوسرے استادوں نے اس بات کی تائید بھی کی کہ شلوار اچھی لگتی ہے۔ مگر مجھے اتنی شرم آئی کہ واپس جا کر میں نے اسے اتار دیا‘‘۶۰۔
ایک خاص اور نمایاں وصف جو ابتدائے عمر سے آپ میں پوری شان کے ساتھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے زبردست محبت و عقیدت تھی کہ حد بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت صحن میں سو رہے تھے کہ بادل زور شور سے گھر آئے اور بجلی نہایت زور سے کڑکی۔ وہ کڑک اس قدر شدید تھی کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ گویا بالکل اس کے پاس گری ہے ۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام جو صحن میں سو رہے تھے چارپائی سے اٹھ کر کمرہ کی طرف جانے لگے دروازہ کے قریب پہنچے کہ بجلی زور سے کڑکی۔ میں اس وقت آپ کے پیچھے تھا۔ میں نے اسی وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دئے اس خیال سے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے آپ پر نہ گرے۔ اب یہ ایک جہالت کی بات تھی بجلیاں جس خدا کے ہاتھ میں ہیں اس کا تعلق میری نسبت آپ سے زیادہ تھا۔ بلکہ آپ کے طفیل میں بھی بجلی سے بچ سکتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہاتھوں سے بجلی کو نہیں روکا جا سکتا۔ مگر عشق کی وجہ سے مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ محبت کے وفور کی وجہ سے یہ سب باتیں میری نظر سے اوجھل ہو گئیں اور میں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا‘‘۶۱۔
آپ کا جذبہ عقیدت و فدائیت اور ادب و اطاعت محض اس لئے نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے والد ماجد تھے۔ بلکہ اس لئے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے مامور ہیں اور اس نے اپنے حکم سے آپ کو بھیجا ہے چنانچہ سیدنا حضرت امیر المومنین نے بچپن کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔
’’میری عمر جب ۹ یا دس برس کی تھی میں اور ایک اور طالب علم ہمارے گھر میں کھیل رہے تھے وہیں ایک الماری میں ایک کتاب پڑی تھی جس پر نیلا جزدان تھا۔ وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی نئے نئے ہم پڑھنے لگے تھے اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرئیل نازل نہیں ہوتا۔ میں نے کہا یہ غلط ہے میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے مگر اس لڑکے نے کہا کہ جبرئیل نہیں آتا کیونکہ اس کتاب میں لکھا ہے ہم میں بحث ہو گئی۔ آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آ نے فرمایا۔ کہ کتاب میں غلط لکھا ہے جبرائیل اب بھی آتا ہے‘‘۶۲۔
آپ کا ایک اور واقعہ بھی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے۔ اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے۔ میں اس وقت بالغ نہیں تھا۔ کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا۔ کہ ایک شخص مجھے ملا۔ اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی۔ مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔ محمد بخش ان کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں کیا نماز ہو گئی ہے؟ انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ میں واپس آگیا۔ میں یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا۔ مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا۔ جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعودؑ نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی۔ کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں۔ مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا۔ کہ میں نے جھوٹ بولا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا۔ ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی یا فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے۔ بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے‘‘۶۳body] gat[۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کے دل میں جس قدر ادب و احترام تھا اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی ضرورت کے لئے حضور سے کبھی کوئی مطالبہ اپنی زبان سے نہیں کیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ کہ۔
ذاتی ضرورت کے لئے میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کچھ نہیں مانگا مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی میں خاموش پاس کھڑا ہو جایا کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھ جاتے کہ اسے کوئی ضرورت ہے چنانچہ آپ ہماری والدہ صاحبہ سے کہتے کہ اسے کوئی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ پتہ لو یہ کیا چاہتا ہے۶۴۔
اسی ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باجودیکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی جب سے ہوش سنبھالا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی بات کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان کے شایاں نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں۔ باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی۔ مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا۔ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا تھا۔ لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے۔ کیونکہ وہ برکت اس الہام کے ماتحت ہوئی کہ یادم اسکن انت و زوجک‘‘۶۵۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر حکم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کیا کرتے تھے اور آپ کے اشاروں کو بھی ابتدا ہی سے خوب سمجھتے۔ چنانچہ حضرت سید فضل شاہ صاحب کا واقعہ ہے کہ۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور بادام آگے رکھے تھے ۔۔۔۔۔۔ میں بادام توڑ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت میاں بشیر الدین جن کی عمر اس وقت چار یا پانچ سال کی ہو گی۔ تشریف لائے اور سب بادام اٹھا کر جھولی میں ڈال لئے۔ حضرت اقدس نے یہ دیکھ کر فرمایا یہ میاں بہت اچھا ہے یہ زیادہ نہیں لے گا۔ صرف ایک یا دو لے گا۔ باقی سب ڈال دے گا جب حضرت صاحب نے یہ فرمایا۔ میاں نے جھٹ بادام میرے آگے رکھ دئے اور صرف ایک یا دو بادام لے کر چلے گئے۶۶۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زندہ ایمان ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ حضور کی ہر بات صدق دل سے تسلیم کرتے تھے۔ اور اسی کی تلقین دوسروں کو بھی فرماتے۔ چنانچہ بطور مثال آپ کے قلم سے لکھا ہوا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا۔ کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کہتے ہیں تو ایک ہی دفعہ کی تسبیح پر ہمیں خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرا انسان ہزاروں ہزار ویسی تسبیح کرکے بھی اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ میں اس مجلس میں نہیں تھا کسی ہمارے ہم عمر نے یہ بات سن لی۔ وہ مجھے ملے تو انہوں نے تعجب سے کہا۔ پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے معلوم نہیں کس تسبیح کا ذکر کیا۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا تو یہ بات فوراً میرے ذہن میں آگئی کہ ایک تسبیح دل سے نکلتی ہے اور ایک تسبیح زبان سے نکلتی ہے۔ جب تسبیح دل سے نکلتی ہے تو یکدم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے اور جو تسبیح زبان سے نکلتی ہے وہ خواہ کوئی انسان ہزاروں دفعہ دہرائے وہ وہیں کا وہیں بیٹھا رہتا ہے میں نے اسے کہا میں سمجھ گیا ہوں جو تسبیح دل سے نکلتی ہے اس کا اثر فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور جو صرف زبان سے نکلتی ہے اس کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا‘‘۶۷۔
وہ بزرگ جنہوں نے آپ کو انتہائی بچپن کے زمانہ سے دیکھا ہے بالاتفاق یہ گواہی دیتے ہیں کہ چھوٹی عمر سے ہی آپ کو دینی باتوں سے خاص شغف اور دلچسپی رہی ہے اور اگرچہ آپ ابتداء سے بہت کمزور اور دبلے پتلے ہوتے تھے اور اکثر صحت خراب رہتی تھی مگر اس زمانہ میں بھی مذہبی باتوں میں آپ ہمیشہ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ اگرچہ وہ باتیں شروع شروع میں آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور نہ آسکتی تھیں تاہم آپ کو ان سے طبعاً ایک دلی لگائو اور گہرا تعلق تھا اسی تعلق کے باعث آپ نے بالکل چھوٹی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جانا شروع کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کو نہایت محبت کے ساتھ اپنے شہ نشین پر دائیں طرف بٹھاتے تھے۶۸۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں۔
’’صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا ۔۔۔۔۔ ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشا اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں‘‘۶۹۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیلؓ سے مروی ہے کہ ’’حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے واپس گھر تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) سے جن کی عمر اس وقت ۱۰۔ ۱۲ سال کی ہو گی پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی۔ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا۔ تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھا ہے‘‘۷۰۔
آپ کے عہد طفولیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ آپ کو چھوٹی عمر سے ہی نماز پڑھنے اور لمبی لمبی دعائیں کرنے کا بے حد شوق تھا۔ دراصل آپ روزانہ اپنی آنکھوں سے قبولیت دعا کے تازہ بتازہ نشانات اور معجزات مشاہدہ کرتے تھے جنہوں نے آپ کو رفتہ رفتہ معرفت‘بصیرت‘اور یقین و ایمان کی مستحکم چٹان پر کھڑا کر دیا تھا۔ خود فرماتے ہیں۔
’’ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دیکھے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے بعد خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ پھر خود اپنی ذات میں بھی اس نشان کا مشاہدہ کیا ہے اور بارہا حیرت انگیز ذرائع سے دعائوں کو قبول ہوتے دیکھا ہے‘‘]01 [p۷۱۔
اس سلسلہ میں بطور نمونہ بچپن کے تین واقعات ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت مفتی محمد صادقؓ کی چشم دید شہادت ہے کہ۔
’’چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت ۱۸۹۰ء کے اخیر میں کر لی تھی۔ اور اس وقت سے ہمیشہ آمدورفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔ میں حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قریب ہو گی آپ مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے بچپن سے ہی آپ کو فطرتاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا‘‘۷۲۔
۲۔
اسی نوعیت کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت شیخ غلام احمد واعظ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ۔
’’ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آچ کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا۔ اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا۔ اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا۔ اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے یہ دعا کی کہ یا الٰہی یہ شخص جو تیرے حضور سے جو کچھ مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا۔ کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے۔ مگر جب آپ نے سر اٹھایا۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔ میں نے السلام علیکم کی اور مصافحہ کیا۔ اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کرکے دکھا۔ اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے‘‘۷۳۔
۳۔ حضرت شیخ محمد اسمعیل سرسادیؓ۷۴ کا بیان ہے کہ۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کے بچپن کو دیکھا اور پھر اسی بچپن میں آپ کے ایثار اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو خوب دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ آپ کے قلب میں دین کا ایک جوش موجزن تھا۔ اور بچپن ہی سے آپ دعائوں میں اس قدر محو اور غرق ہوتے تھے کہ ہم تعجب سے دیکھا کرتے تھے کہ یہ جوش ہم میں کیوں نہیں۔ آپ بعض وقت دعا میں ایسے محو ہوتے تھے کہ ہم ہاتھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتے تھے لیکن آپ کو اپنی محویت میں اس قدر بھی معلوم نہ رہتا کہ کس قدر وقت گزر گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سورج گرہن کی نماز پڑھنے کے لئے ہم مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے نماز مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے پڑھائی اور نماز کے بعد مولوی صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ ’’میاں آپ دعا شروع کریں۔‘‘ آپ نے دعا شروع فرمائی۔ مگر آپ اس دعا میں ایسے محو ہوئے کہ آپ کو یہ خبر ہی نہ رہی کہ میرے ساتھ اور لوگ بھی دعا میں شریک ہیں دعا میں جس قدر لوگ شامل تھے ان کے ہاتھ اٹھے اٹھے اس قدر تھک گئے کہ وہ شل ہونے کے قریب ہو گئے۔ اور کئی کمزور صحت۷۵4] [rtf کے لوگ تو پریشان ہو گئے۔ تب مولوی محمد احسن صاحب نے جو خود بھی تھک چکے تھے دعا کے خاتمہ کے الفاظ بلند آواز میں کہنے شروع کئے جسے سن کر آپ نے دعا ختم فرمائی۷۶۔
حضرت شیخ محمد اسمعیلؓ نے اپنے اس بیان میں مزید یہ لکھا ہے کہ۔
’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے سنا ہے۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں‘‘۷۷۔
حضرت مسیح موعودؑ کی بعض ابتدائی کتابوں میں آپ کا ذکر مبارک سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر بمشکل دو سال کی ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء کے آغاز میں دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا۔ حضور نے اسی سال سے جہاں اپنے دعاوی کے ثبوت میں دوسرے زبردست نشانات پبلک کے سامنے رکھنے شروع کئے وہاں آپ نے التزام کے ساتھ پیشگوئی متعلقہ پسر موعود کی بھی بار بار منادی کرنا شروع کر دی۔ اور اپنی کتابوں میں بڑے زور شور سے تمام لوگوں کو توجہ دلانے لگے کہ پسر موعود سے متعلق آسمانی نشان کو بھی یاد رکھیں کہ یہ آپ کی سچائی اسلام کی سچائی اور محمد رسول اللہﷺ~ کی سچائی پر ایک عظیم الشان برہان ہے۔ چنانچہ ۱۸۹۱ء سے ۱۸۹۴ء تک کے زمانے میں آپ نے جو کتابیں تصنیف فرمائیں ان میں سے ’’ازالہ اوہام‘‘۔ ’’نشان آسمانی‘‘۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ اور ’’سر الخلافہ‘‘۷۸ میں پسر موعود کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے۔
چنانچہ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا۔
’’خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہو گی۔ وہ آسمان سے اترے گا۔ اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا۔ وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کے زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔ فرزند دلبند گرامی اراجمند مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء لیکن یہ عاجز ایک خاص پیشگوئی کے مطابق جو خدا تعالیٰ کی مقدس کتابوں میں پائی جاتی ہے مسیح موعود کے نام پر آیا ہے۔ واللہ اعلم و علمہ احکم‘‘۷۹۔
’’نشان آسمانی‘‘ میں حضرت نعمت اللہ ولی~رح~ کے قصیدہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا۔
دور اوچوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم
یعنی جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا یعنی مقدریوں ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک لڑکا پارسا دے گا جو اس کے نمونہ پر ہو گا اور اسی کے رنگ سے رنگین ہو جائے گا۔ اور وہ اس کے بعد اس کا یادگار ہو گا۔ یہ درحقیقت اس عاجز کی اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو ایک لڑکے کے بارے میں کی گئی ہے‘‘۸۰۔
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ (تصنیف ۱۸۹۲ء) میں حضور نے صرف ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کا مکمل اشتہار شامل کر دیا بلکہ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود کا عربی ترجمہ بھی شائع فرمایا تا دنیائے عرب تک بھی اصل پیشگوئی کے الفاظ پہنچ جائیں۔ اور اتمام حجت ہو۔ چنانچہ حضور نے اس کتاب میں عربی میں پیشگوئی کے الفاظ لکھنے کے بعد تحریر فرمایا۔
’’قد اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسیح الموعود یتزوج ویولدلہ ففی ھذا اشارہ الی ان اللہ یعطیہ ولدا صالحا یشابہ اباہ ولا یا باہ و یکون من عباداللہ المکرمین والسر فی ذلک ان اللہ لا یبشر الانبیاء و الاولیاء بذریہ الا اذا قدر تولید الصالحین وھذہ ھی البشارہ التی قد بشرت بھا من سنین ومن قبل ھذہ الدعوی لیعر فنی اللہ بھذا العلم فی اعین الذین یستشرفون و کانوا للمسیح کالمجلوذین۔‘‘
ترجمہ: رسول اللہ~صل۱~ نے خبر دی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک لڑکا عطا کرے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہو گا۔ اور (کسی بات میں) اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہو گا۔ اور اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو بشارت نہیں دیتا مگر جبکہ اس نے نیکوں کو پیدا کرنا مقدر کیا ہو۔ اور یہ وہ بشارت ہے جو مجھے اس دعویٰ سے کئی سال پہلے دی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس علم کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے (جو انتظار کرتے تھے اور مسیح کے جلدی ظہور کے لئے چشم براہ تھے) متعارف کرا دے۸۱۔
‏rov.5.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت
پہلا باب (فصل دوم)
تعلیم قرآن اور آمین ’’مدرسہ تعلیم الاسلام‘‘ میں ظاہری تعلیم‘پہلی شادی ’’انجمن ہمدردان اسلام‘‘ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ اور شعر و سخن کا آغاز
(۱۳۱۲ ھ ۔ ۱۳۲۲ھ)
(۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۴ء تک)
تعلیم قرآن ۱۸۹۵ء
سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تعلیم قرآن کی ابتدا ۱۸۹۵ء میں ہوئی۸۲۔ حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری کو یہ سعادت حاصل ہوئی۔ کہ انہوں نے آپ کو (سادہ) قرآن شریف پڑھایا۸۳۔
’’انجام آتھم‘‘ میں ذکرحضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۱۸۹۷ء میں ’’انجام آتھم‘‘ بھی شائع فرمایا تو اس کے ضمیمہ میں امیر المومنین حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش کو سبز اشتہار کی پیشگوئی کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے نشان قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے‘‘۸۴۔
’’سراج منیر‘‘ میں ذکر
اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’سراج منیر‘‘ میں بھی سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو سبز اشتہار کا موعود قرار دیا۔ اور علماء و خواص مسلم و غیر مسلم دنیا کو توجہ دلائی۔
’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا۔ اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے‘‘۸۵۔
اور حاشیہ میں تحریر فرمایا۔
’’ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہو گیا۔ کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے۔ اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو۔‘‘۸۶
’’محمود کی آمین‘‘
۷/ جون ۱۸۹۷ء کا دن نہ صرف سیدنا محمود کی زندگی میں بلکہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے کیونکہ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے ختم قرآن مجید کی فرحت خیز و مسرت انگیز تقریب بڑے وقار اور دعائوں کے ماحول میں منائی اس اجتماع میں جماعت کے بہت سے دوستوں نے شرکت کی چنانچہ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے۔ ’’دوسرا جلسہ حضور کے لخت جگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ کے ختم قرآن کی تقریب پر ہوا۔ اس جلسہ پر بھی بہت سے احباب تشریف لائے‘‘۸۷۔
حضرت حافظ احمد اللہ خان صاحب ناگپوری فرماتے تھے کہ ختم قرآن کی تقریب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈیڑھ سو روپیہ عنایت فرمایا تھا۸۸۔
اس موقعہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک منظوم ’’آمین‘‘ لکھی جس میں اپنی تمام مبشر اولاد کے لئے عموماً اور حضرت محمود (ایدہ اللہ تعالیٰ) کے لئے خصوصاً نہایت درد و سوز اور الحاح و زاری سے دعائیں کیں اور اس فضل ربانی پر جو ختم قرآن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اپنے آسمانی آقا کا تہ دل سے شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا کے خوب گیت گائے۔ جیسا کہ محمود کی آمین کے مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے۔
کیونکر ہو شکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا
تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا
جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا
دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنائیں گایا
صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا
یہ روزکر مبارک سبحان من یرانی
ہو شکر تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور
تو نے مجھے دئیے ہیں یہ تین تیرے چاکر
تیراہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۸۹
سن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری
رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری
اپنی پنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحدیگانہ اے خالق زمانہ!
میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے
جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے
ہر غم سے دور رکھنا تو رب عالمیں ہے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۹۰
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے
کر ان سے دور یا رب دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے
کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے
یہ فضل کر کہ ہویں نیکو گہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی
کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی
دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
میری دعائیں ساری کریو قبول باری
میں جائوں تیرے واری کر تو مدد ہماری
ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا
دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا
دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۹۱
مقدمہ مارٹن کلارک سے بریت کی بشارت
سیدنا حضرت محمود فرماتے ہیں۔ ’’جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا ۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب اوروں کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔ میں نے اس وقت رئویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے اردگرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔ میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ ہوتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کرکے آگے اپلے چن دئیے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں۔ مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی۔ وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ میں اس سے بہت گھبرایا۔ لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ’’جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی‘‘۹۲۔
چنانچہ اس خواب کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف بری کر دئے گئے۹۳۔
سفر ملتان
آخر ۱۸۹۷ء میں سیدنا حضرت محمود سلمہ الودود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملتان کا سفر فرمایا۔ اس سفر کے صرف دو واقعات آپ کو یاد ہیں جن کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے۔ وہاں ان دنوں مومی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ جن سے مختلف بادشاہوں اور ان کے درباروں کے حالات بتائے جاتے تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش دیر ہائوس ۔۔۔۔۔۔ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے عرض کیا کہ یہ ایک علمی چیز ہے آپ اسے دیکھنے کے لئے تشریف لے چلیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا۔ کہ میں چل کر وہ مومی مجسمے دیکھوں۔ میں چونکہ بچہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیچھے پڑ گیا۔ کہ مجھے یہ مجسمے دکھائے جائیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام میرے اصرار پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مختلف بادشاہوں کے حالات تصویروں کے ذریعہ دکھائے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی لاہور کے اندر کسی نے دعوت کی اور آپ اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے گئے۔ کچھ اثر میرے دل پر یہ بھی ہے کہ دعوت نہیں تھی۔ بلکہ مفتی محمد صادق یا ان کا کوئی بچہ بیمار تھا۔ اور آپ انہیں دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۹۴۔ بہرحال شہر کے اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام واپس آرہے تھے کہ سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے پاس میں نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا جو گالیاں دے رہا تھا ایک شخص ان کے درمیان کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی گاڑی پاس سے گزری۔ تو ہجوم کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی میلہ ہے چنانچہ میں نے نظارہ دیکھنے کے لئے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا۔ اس وقت کا یہ واقعہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور جس پر ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا جا رہا تھا۔ ’’مرزا دوڑ گیا۔ مرزا دوڑ گیا۔‘‘ اب دیکھو ایک شخص زخمی ہے اس کے ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ مگر وہ مخالفت کے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے ٹنڈے ہاتھ سے ہی نعوذ باللہ احمدیت کو دفن کر آئوں گا‘‘۹۵۔
تعلیم الاسلام سکول میں داخلہ
۱۸۹۸ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا افتتاح ہوا۔ اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ آپ بھی اس مدرسہ میں داخل ہو گئے۔ اس سے پہلے آپ کچھ عرصہ تک ڈسٹرکٹ بورڈ کے لوئر پرائمری سکول میں بھی پڑھتے رہے تھے۹۶۔ یہ سکول غالباً ۴۱۔ ۱۹۴۰ء تک قائم رہا پھر توڑ دیا گیا۔ مگر اس کی شکستہ عمارت جس کی چار دیواری گر چکی ہے ابھی تک ریتی چھلہ کے قریب موجود ہے۔ اس سکول میں ابتداًء حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی بھی مدرس رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد تھا کہ ’’میاں کو بھی سکول لے جایا کرو‘‘۔ اور حضرت پیر صاحب اس ارشاد کی تعمیل میں آپ کو اسکول لے جایا کرتے تھے۹۷۔
تعلیم الاسلام سکول کا افتتاح کس رنگ سے ہوا۔ اور اس کی ابتدائی حالت کیا تھی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’مجھے یاد ہے ہمارا وہ ہائی سکول جس کی اب ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے کہ معائنہ کرنے والے انسپکٹر کہتے ہیں پنجاب بلکہ ہندوستان میں کسی سکول کی ایسی عمارت نہیں اس کا جب پہلے دن افتتاح ہوا۔ تو مرزا نظام الدین صاحب کے کوئیں کے پاس ٹاٹ بچھا کر لڑکے بٹھائے گئے۔ پھر کچھ دنوں تک لڑکے مہمان خانہ میں بٹھائے گئے۔ پھر ایک کچا مکان بنایا گیا تھا‘‘۹۸۔
ہم مکتب
سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعض ہم مکتب یہ ہیں۔
حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلہؓ۔ قاضی نور محمد صاحبؓ۔ محمد علی صاحب اشرفؓ (حکیم)۔ دین محمد صاحب پنشنر اکائونٹنٹ۹۹۔ شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹی۔
اساتذہ کرام
’’مدرسہ تعلیم الاسلام‘‘ کے زمانہ تعلیم میں آپ نے جن اساتذہ سے پڑھا۔ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ۱۰۰۔ (۲) حضرت قاضی سید امیر حسینؓ۱۰۱۔ (۳) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ۱۰۲۔ (۴) حضرت مولانا شیر علیؓ۱۰۳۔ (۵) حضرت ماسٹر عبدالرحمن نو مسلم ؓ۱۰۴۔ (۶) مفتی محمد صادقؓ۱۰۵۔ (۷) ماسٹر فقیر اللہ صاحب۱۰۶۔ (۸) قاضی یار محمد صاحب پلیڈر۔
دور تعلیم سے متعلق حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ صاحب کے تاثرات
آپ کا دور تعلیم کیسا پاکیزہ اور اخلاق و روحانیت سے کتنا معمور تھا؟ یہ معلوم کرنے کے لئے آپ کے بعض اساتذہ کے تاثرات معلوم ہوناضروری امر ہے۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پڑھا کرتے تھے۔ تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب! خوابیں تو بہت آتی ہیں۔ اور میں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جا کر حریف کا مقابلہ کر رہا ہوں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی۔ تو سر کنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں میں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت ¶یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا۔ اور میں نے اسی وجہ سے کلاس میں کرسی پر بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا۔ آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا اور میں نے خواب سن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ ’’میاں آپ بڑے ہو کر مجھے بھلا نہ دیں۔ اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں‘‘۔۱۰۷ (بروایت حضرت حافظ مختار احمد صاحب)
حضرت مولانا شیر علیؓ کے تاثرات
اس سلسلہ میں حضرت مولانا مولوی شیر علیؓ کے تاثرات جو آپ نے ایک مفضل مضمون کی شکل میں شائع فرمائے تھے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و شمائل اور اخلاق و عادات پر گہری روشنی پڑتی ہے یہ تاثرات ایسے مقدس بزرگ و حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی کے ہیں جنہیں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے بچپن اور جوانی کے اکثر حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ و ملاحظہ کرنے اور بہت قریب سے آپ کی عظیم شخصیت کے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’مئی ۱۸۹۹ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا چارج لینے کے بعد جلدی ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے ارشاد کے ماتحت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ آپ کی عمر ۱۰ سال کی تھی بندہ کے پاس انگریزی پڑھنی شروع کی پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکان میں جو دارالمسیح الموعود کے متصل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل نواب صاحب کا مکان ہے رہتا تھا جب تک میں اس مکان میں رہا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ اس مکان میں پڑھنے کے لئے تشریف لاتے رہے اس کے بعد میں خود حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور یہ خدمت بندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دس سال میں برابر ادا کرتا رہا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے شش سالہ دور خلافت میں بھی جاری رہا …گویا حضور کا سارا بڑھنا اور پھولنا اور بابرگ و بار ہونا میری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ آپ ایک نازک پتیوں والے چھوٹے پودے کی طرح تھے جبکہ میں نے پہلی دفعہ حضور کو دیکھا اور یہ پودا میرے دیکھتے دیکھتے جلد جلد بڑھا اور پھول پھل لایا۔ اور وہ حیرت انگیز ترقی کی جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی اور انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے اگر کوئی قابل انشاء پرداز ہوتا تو وہ شاید اس حیرت انگیز ترقی کا نقشہ کھینچنے کی کچھ کوشش کرتا۔ لیکن میں تو اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ کہ اس بات کی شہادت دوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں آپ کی نسبت پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ اس کو میں نے اپنی آنکھوں سے لفظ بلفظ پورا ہوتا دیکھ لیا مجھے اپنی زبان کی کمزوری اور قلم کی ناتوانی پر افسوس آتا ہے جو صحیح نقشہ ناظرین کے سامنے پیش کرنے سے عاجز ہوں لیکن میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ و ھو الموفق۔
’’میں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا۔ ابتداء میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے۔ جو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نمایاں ہوتے گئے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص میرے اس بیان کو خوش اعتقادی پر محمول کرے اس لئے میں آپ کے بچپن کی ایک بات کا ذکر کرتا ہوں جس سے ناظرین خود حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ کو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ یہ ایک ہدایت تھی جو حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے بچہ کو دی۔ اب دیکھئے کہ وہ خورد سال بچہ حضرت اقدسؑ کی اس ہدایت کی کس طرح تعمیل کرتا ہے۔ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتداء میں حضور بندہ کے مکان پر پڑھنے کے لئے تشریف لاتے تھے اور وہ مکان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ہی مکان تھا جو حضور کے رہائشی مکان کے بالکل متصل بلکہ حضور کے گھر کے ساتھ ملحق تھا۔ ہم غالباً ۳ سال اس مکان میں رہے اور اس تمام عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بندہ کے پاس پڑھنے کے لئے تشریف لاتے اور جب کبھی آپ کو پیاس لگتی۔ تو آپ اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور اپنے گھر سے پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے۔ خواہ کیسا ہی مصفا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپ اسے نہ پیتے۔ صرف اس لئے کہ حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف سے آپ کو ہدایت تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا اب بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں ہمیں حضور کی اس وقت کی شکل صحیح رنگ میں نظر آسکتی ہے۔ اول دیکھئے کہ حضور اس بچپن کے زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کیسی کامل اطاعت کرتے اور کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے۔ دوسرے دیکھئے کہ وہ اس اطاعت میں کس درجہ کی احتیاط سے کام لیتے۔ بظاہر حضرت اقدسؑ نے جب فرمایا کہ کسی کے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ تو حضرت اقدسؑ کی مراد ایسی چیزوں سے تھی جو لوگ بچوں کو اپنی محبت اور پیار کے اظہار کے لئے دیتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ کسی کے برتن سے پانی بھی نہ پینا۔ مگر آپ کی احتیاط اس درجہ کی تھی کہ آپ اپنے گھر کے سوا قادیان میں کسی اور گھر سے کسی گھڑے یا صراحی سے پانی لے کر پینا بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی ہی سمجھتے تھے۔ یہی حد درجہ کی احتیاط ہے۔ جسے دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں۔ پس آپ کے اسی عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ آپ بچپن میں ہی اطاعت اور تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن تھے۔ اور یہی بیج تھا جو آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا اور زیادہ واضح اور زیادہ نمایاں شکل میں کمال کے آخری مرتبہ تک پہنچ گیا۔ یہ پانی کا واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوا۔ اور حضور ہمیشہ اطاعت کے اصول پر مضبوطی سے قائم رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ شاید حجاب کی وجہ سے آپ ہمارے گھر سے پانی پینے سے اجتناب فرماتے مگر ایسا نہیں تھا۔ آپ بے تکلفی سے ہمارے گھر میں رہتے اور حضور کی خوش خلقی اور خوش طبعی کی باتیں اس وقت تک بندہ کے گھر سے نہایت محبت کے ساتھ یاد کرتی ہیں۔ اور جب حضور کے منصب خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد بندہ کے گھر سے بیعت کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اس وقت کے بچپن کے واقعات ان کو یاد دلائے۔ کیونکہ حضور کا حافظہ بہت مضبوط ہے‘‘۱۰۸۔
’’حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طالب علمی کا ایک اور واقعہ لکھتا ہوں اس سے بھی آپ کی قلبی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی۔ مگر زیادہ نہ تھی۔ بندہ وقت مقررہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضور نے دروازہ کھولا بندہ اندر آکر برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ آپ کمرہ میں تشریف لے گئے میں نے سمجھا کہ کتاب لے کر باہر برآمدہ میں تشریف لائیں گے۔ مگر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہو گئی۔ تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لئے دعا کی تحریک ہوئی ہے اور آپ بندہ کے لئے دعا فرما رہے ہیں۔ آپ بہت دیر تک سجدہ میں پڑے رہے اور دعا فرماتے رہے‘‘۱۰۹۔
صحت کی خرابی کا اثر زمانہ تعلیم پر
اس اہتمام کے باوجود جو آپ کی ابتدائی دینوی تعلیم کے لئے کیا گیا چونکہ آپ کی صحت شروع ہی سے بہت کمزور تھی اور آپ بچپن ہی سے بیمار چلے آرہے تھے۔ اس لئے آپ اپنے اساتذہ کی توجہ اور شفقت کے باوجود کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکے۔ چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں۔
’’میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا بچپن میں میری آنکھ میں سخت ککرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں۔ اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میری صحت کے متعلق خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے بھی شروع کر دئیے۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے بہرحال تین یا سات روزے آپ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے۔ اور روزہ کھولنے کے لئے مونہہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی۔ کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے۔ مگر اس میں بھی ککرے پڑ گئے۔ اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ اس کی پڑھائی اس کی مرضی پر ہو گی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے۔ کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لیا کرلو۔ اس کے علاوہ آپ نے مجھے کچھ اور پڑھنے کے لئے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو۔ کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔ ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ وہ ہمارے حساب کے استاد تھے۔ اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے۔ لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی۔ اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کیونکہ نظر تھک جاتی۔ اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ کبھی جی چاہتا۔ تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ماسٹر فقیر اللہہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ پڑھتا نہیں۔ کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسے چلا جاتا ہے۔ ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر ہنس کر فرمانے لگے کہ اس سے ہم نے آٹے دال کی دوکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم~صل۱~ یا آپﷺ~ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے۔ میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ اور پھر مدرسہ میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی۔ غرص اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی۔ اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا۔ کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی۔ ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکری کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی۔ کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں ککرے۔ جگر کی خرابی۔ عظم طحال۱۱۰ کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا یہ فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔ ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے میرا اردو کا امتحان لیا۔ میں اب بھی بہت بدخط ہوں۔ مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا۔ کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں کہ میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ان (حضرت میر ناصر نواب صاحب) کی طبیعت بڑی تیز تھی۔ غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس پہنچے۔ میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نہ معلوم کیا ہو۔ خیر میر صاحب گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں۔ میں نے س کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا۔ بلائو حضرت مولوی صاحب کو۔ جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اولؓ کو بلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو مجھ سے بڑے محبت تھی۔ آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ مولوی صاحب میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب میرے پاس آئے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا بالکل پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے لیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا۔ اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے۔ اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے۔ مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا۔ مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے۔ حضور میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا۔ ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔
مدرسہ کے امتحانات میں ناکامی اور اس کی حکمت
یہ وہ حالات تھے جن میں آپ کو زمانہ تعلیم میں گزرنا پڑا۔ صرف اس وجہ سے آپ اگلی جماعت میں بٹھا دئے جاتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند ارجمند تھے۔۱۱۲ مگر چونکہ سرکاری امتحانوں میں یہ عقیدت مندی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اس لئے آپ مڈل اور انٹرنس دونوں امتحانوں میں فیل ہو گئے تا دنیا پر یہ کھل جائے کہ آپ کا معلم حقیقی تو عرش کا خدا ہے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں۔
’’دینوی لحاظ سے میں پرائمری فیل ہوں مگر چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دے دی جاتی تھی۔ پھر مڈل میں فیل ہوا۔ مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دے دی گئی۔ آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کھل گئی اور میں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا۔ اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں۔ مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا۔ کہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو۔ اور پھر اسے شرمندگی نہ ہوئی ہو۔ بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے اور اب بھی میرا دعویٰ ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو وہ اگر قرآن کریم کے خلاف میرے سامنے کوئی اعتراض کرے گا تو اسے ضرور شکست کھانی پڑے گی اور وہ شرمندہ اور لاجواب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا‘‘۱۱۳۔
پھر فرماتے ہیں۔ ’’اگر کچھ پاس کر لیتا تو ممکن ہے مجھے خیال ہوتا کہ میں یہ ہوں۔ وہ ہوں۔ لیکن اب تو اس حقیقت کا انکار نہیں ہو سکتا کہ جو مجھے آتا ہے یہ اللہ کا ہی فضل ہے میری اس میں کوئی خوبی نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا لاہور میں دو مولوی صاحبان مجھ سے ملنے آئے اور بطور تمسخر ایک نے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کہاں تک ہے میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ کہنے لگے آخر کچھ تو ہو گی۔‘‘ میں نے کہا صرف قرآن جانتا ہوں۔ کہنے لگے بس قرآن مجھے ان پر تعجب کہ ان کے نزدیک قرآن جاننا کوئی چیز ہی نہیں اور انہیں اس پر خوشی کہ ان کی تعلیم کچھ نہیں‘‘۱۱۴۔
انجمن ہمدردان اسلام
۱۸۹۷ء میں جبکہ آپ کی عمر آٹھ نو سال کی تھی۔ قادیان کے احمدی نوجوانوں کی انجمن قائم ہوئی جس کے سرپرست (حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ) مولانا مولوی نور الدینؓ تھے اول اول اس کے اجلاس پرانے اور قدیم مہمان خانے میں ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت زیادہ سے زیادہ چھ سات ممبر تھے جن میں ایک سرگرم ممبر آپ بھی تھے۔ حضرت بھائی عبدالرحمنؓ قادیانی تحریر فرماتے ہیں۔
’’تشحیذ الاذہان کا پہلا اور ابتدائی نام انجمن ہمدردان اسلام تھا۔ جو بالکل ابتدائی ایام اور پرانے زمانہ کی یادگار ہے۔ جبکہ سیدنا محمود بمشکل آٹھ نو برس کے تھے آپ کے دینی شغف اور روحانی ارتقاء کی یہ پہلی سیڑھی تھی۔ جو حقیقتاً آپ ہی کی تحریک خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی۔ کھیل کود اور بچپنے کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت اسلام کا ایسا جوش اور جذبہ نظر آیا کرتا تھا۔ جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذہی ہوتی آپ کی ہر ادا میں اس کا جلوہ اور ہر حرکت میں اس کا رنگ غالب و نمایاں ہے جسے آپ کی کھیلوں کے دیکھنے اور مشاغل کو جانچنے کا اکثر موقعہ ملتا تھا۔ گھنٹوں آپ مطب میں تشریف لا کر ہم میں بیٹھا کرتے کبھی ٹیمیں بنا کرتیں اور کھیلوں کے مقابلوں کی تجاویز ہوا کرتیں کبھی فوجیں بنا کر مصنوعی جنگوں کا انتظام ہوتا۔ کبھی ڈاکو اور چوروں کا تعاقب ہوتا ان کی گرفتاری کے سامان ہوتے اور مقدمات سن کر فیصلے کئے جاتے سزائیں دی جاتیں اور کارہائے نمایاں کرنے والوں کو انعام و اکرام ملتے تو کبھی بحث مباحثات اور علمی مقابلوں کا رنگ جما کرتا۔ گرما گرم بحث ہوتی۔ حجز مقرر ہوتے اور فاتح و مفتوح کا فیصلہ ہوتا۔ الغرض ایسے ہی مشاغل اور مصروفیتوں کے نتائج میں سے ایک انجمن ہمدردان اسلام کا قیام بھی ہے جو آپ کی خواہش‘مرضی اور منشاء کے ماتحت قائم کی گئی‘‘۔
’’حضرت مولانا نور الدینؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا فضل عمرؓ کی زات والا صفات کی وجہ سے ہماری طرف خاص توجہ فرماتے۔ ہماری انجمن کے اکثر اجلاسوں میں شریک ہو کر ہدایات دیتے۔ ۔۔۔۔۔۔ اسی ہماری انجمن میں ایک مرتبہ سیدنا حضرت نور الدینؓ شریک تھے۔ ہمارے آقائے نامدار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نور نظر لخت جگر نے ۔۔۔۔۔۔۔ تقریر فرمائی۔ تقریر کیا تھی علم و معرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا۔ تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نور الدینؓ کھڑے ہوئے۔ اور آپ نے ۔۔۔۔۔ آپ کی تقریر کی بے حد تعریف کی۔ قوت بیان اور روانی کی داد دی نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے نہایت اکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا‘‘۱۱۵۔
اس انجمن کے پہلے صدر بھی مدرسہ کے ایک استاد تھے اور سیکرٹری بھی استاد (یعنی منشی خادم حسین صاحب بھیروی) لیکن جب دوبارہ انتخاب ہوا تو صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قرار پائے۱۱۶۔ آپ کی صدارت میں انجمن کا پہلا اجلاس ۳/ مارچ ۱۸۹۹ء کو ہوا۔۱۱۷
حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت
۱۸۹۸ء کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’۱۸۹۸ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی گو بوجہ احمدیت کی پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا کرنے کی علامت تھی‘‘۱۱۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پہلا فوٹو
وسط ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو پہلا گروپ فوٹو لیا گیا اس میں آپ بھی صحابہ حضرت مسیح موعودؑ اور اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس پہلے فوٹو کے بعد اگلے سال خطبہ الہامیہ کی تقریب پر ۱۱/ اپریل ۱۹۰۰ء میں عصر کے وقت دوسرا گروپ فوٹو لیا گیا تھا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ حیات ہی میں آپ کا ایک اور فوٹو لیا گیا۔ جس میں آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد۔ حضرت مرزا شریف احمد‘حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا اور حضرت مرزا مبارک احمد بھی شامل ہیں اور آپ کی ایک اور تصویر بھی ملتی ہے جو ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور لی گئی تھی جس میں آپ ترکی ٹوپی پہنے اور چھڑی ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آتے ہیں‘‘۱۱۹۔
’’تریاق القلوب‘‘ میں ذکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’تریاق القلوب‘‘ میں تحریر فرمایا۔ ’’الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور ایک کو ان میں سے ایک مرد خدا مسیح صفت الہام نے بیان کیا ہے سو خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے‘‘۱۲۰۔
’’میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ۔۔۔۔۔۔۔ خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ انا نبشرک بغلام حسین یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دہلی میں میری شادی ہوئی۔ اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا اور تین اور عطا کئے‘‘۱۲۱۔
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی۔ اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا‘‘۱۲۲
حضورؑ نے یہ پیشگوئی دوبارہ پیش کرتے ہوئے ’’تریاق القلوب‘‘ ہی میں لکھا۔
’’محمود جو میرا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا۔ پیشگوئی کی گئی تھی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں میں سے کوئی بھی فرقہ نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو۔ تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۔۔۔۔۔۔۔ محمود پیدا ہوا۔ اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تکمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں اور اس کے صفحہ ۴ میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد
دیرآمدہ زراہ دور امدہ۱۲۳
احکام اسلامی کی طرف تحریک ۱۹۰۰ء کا یادگار رسال
بیسوی صدی کا آغاز آپ کی زندگی میں ایک نئے روحانی انقلاب کے آغاز پر ہوا۔ اس نہایت اہم اجمال کی تفصیل آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’۱۹۰۰ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا تھا۱۲۴۔ میں نے آپ سے وہ جبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ میں اسے پہن نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ اس کے دامن میرے پائوں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا اور ۱۹۰۰ء نے دنیا میں قدم رکھا۔ تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں۔ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے۔ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی۔ جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے۔ تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو اس وقت میں گیارہ سال کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ جن کا میں نے اوپر زکر کیا ہے تو ایک دن ضحیٰ کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا۔ اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا پہن لیا۔
تب میں نے اس کوٹھری کا جس میں میں رہتا تھا۔ دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا۔ خوب رویا۔ خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا۔ اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کے ابھی باقی تھے۔ میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کیوں رویا۔ فلسفی کہے گا اعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے مذہبی کہے گا تقویٰ کا جذبہ تھا۔ مگر میں جس سے یہ واقعہ گزرا کہتا ہوں مجھے معلوم نہیں۔ میں کیوں رویا؟ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت میں اس امر کا اقرار کرتا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اور وہ رونا کیسا بابرکت ہوا۔ وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی جب اس کا خیال کرتا ہوں۔ تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے پھر وہ کیا تھے؟ میرا خیال ہے وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے۔ وہ مسیح موعود کے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ تھے۔ گر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے‘‘۱۲۵۔
انجمن تشحیذ الاذہان
۱۹۰۰ء میں آپ نے ایک نئی انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا۔ اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانان احمدیت کو تبلیغ اسلام کے لئے تیار کرے۱۲۶۔
خطبہ الہامیہ میں شرکت
۱۱/ اپریل ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عید الاضحیہ کے بعد عربی میں خطبہ الہامیہ پڑھا تھا۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد ایدہ اللہ کو بھی اس میں شرکت کا فخر حاصل ہوا۔ چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ۔
’’مجھے خوب یاد ہے گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا۔ مگر آپ کی ایسی خوبصورتی اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی۔ کہ میں اول سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا۔ حالانکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا‘‘۱۲۷
’’مجھے یاد ہے۔ ہمیں اس تقریر کے کئی فقرے یاد ہو گئے تھے۔‘‘۱۲۸
بیماری اور دعا سے شفا یابی
نومبر ۱۹۰۰ء میں آپ کو سخت بخار ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی شفا یابی کی الہامی بشارت ملی۱۲۹۔ چنانچہ بخار اتر گیا۔
مقدمہ دیوار کے فیصلہ کی قبل از وقت خبر
تاریخ احمدیت جلد سوم۱۳۰ میں مقدمہ دیوار کا واقعہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے کہ کس طرح آپ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کو تکلیف دینے کی خاطر ایک دیوار کھینچ دی تھی۔ حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ الودود کو اس بارے میں بذریعہ خواب دیوار کے گرائے جانے کا نظارہ دکھایا گیا۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش ہو چکی ہے اس حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفتہ اولؓ تشریف لا رہے ہیں۔ جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا۔ اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی میں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا۔ میاں دیکھو۔ آج تمہارا خواب پورا ہو گیا‘‘۱۳۱۔
سیدنا کے بارے میں بشارت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ء میں ’’بشیر احمد۔ شریف احمد اور مبارکہ بیگم کی آمین‘‘ لکھی تو نہ صرف اپنے سب بچوں کے لئے بارگاہ الٰہی میں نہایت خشوع خضوع سے دعائیں ہی کیں بلکہ اپنی کل اولاد خصوصاً اپنے لخت جگر سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابت دنیا کو ان دعائوں کے شرف قبولیت پانے کی بشارت بھی سنا دی۔ جیسا کہ حضورؑ فرماتے ہیں۔
خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد
بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہو شمشاد
خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی!
فسبحان الذی اخزی الاعادی
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا اک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھائوں گا کہ اک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی (درثمین)
بارہ تیرہ برس کی عمر میں پہلا روزہ
آپ نے پہلا روزہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں رکھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں۔ ’’مجھے جہاں تک یاد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی‘‘۱۳۲۔
مڈل کا امتحان اور خدائی الہام
جنوری ۱۹۰۲ء میں آپ مڈل کے امتحان کے لئے بٹالہ کو جانے والے تھے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا۔ ’’لیحملہ رجل‘‘ یعنی یہ کمزور ہے اس کے سہارے کے لئے کوئی آدمی ساتھ جانا چاہئے۱۳۳۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب آپ کے ساتھ کئے گئے۔۱۳۴
’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں ذکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ شائع فرمائی تو اس میں دنیا کو پسر موعود سے متعلق نشان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا۔ جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا۔ اور مظہر الحق و العلاء ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔4]‘‘ [stf۱۳۵
’’نزول المسیح‘‘ میں ذکر
حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی سال ’’نزول المسیح‘‘ تالیف فرمائی اور اس میں بھی سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمایا کہ۔
’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔ چنانچہ قبل ولادت بذریعہ اشتہار کے وہ پیشگوئی شائع ہوئی پھر بعد اس کے وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بھی رئویا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا اور یہ پہلا لڑکا ہے جو سب سے بڑا ہے‘‘۱۳۶۔
پہلی شادی
اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ کی دختر نیک اختر (حضرت) سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ سے رڑکی میں ہوا اور وسط اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شادی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ڈاکٹر صاحب کو قبل ازیں رشتہ کی تحریک فرمائی تو لکھا کہ۔
’’اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گو ابھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر محمود کی رضا مندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً و اللہ اعلم جناب الٰہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہو گا‘‘۱۳۷۔
عکس مکتوب مبارک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(بنام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ)
حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ نے حضور کی شادی پر بمبئی سے ایک ٹوپی اور اوڑھنی کا تحفہ حضرت اقدسؓ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ ٹوپی پر مصلح موعود سے متعلق یہ الہام درج تھا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظھر الاول و الاخر مظھر الحق والعلا|ء کان اللہ نزل من السماء اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیٹھ صاحبؓ دوسرے اکابر صحابہ کی طرح اس وقت بھی حضرت خلیفہ ثانی کے مصلح موعود ہونے کا یقین رکھتے تھے۱۳۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تحفہ کے شکریہ میں ۳۰/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا۔
۲۰/ اکتوبر ۱۹۵۲ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔:۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مجی عزیزی اخویم سیٹھ اسمعیل آدم صاحب!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آپ کا محبت اور اخلاص کا تحفہ جو آپ نے برخوردار محمود اور بشیر کی شادی کی تقریب پر بھیجا ہے یعنی ایک ٹوپی اور ایک اوڑھنی پہنچ گیا ہے۔ میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اور دنیا میں اس کا اجر بخشے آمین باقی خیریت ہے۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
’’مواہب الرحمن ‘‘ میں ذکر
’’مواہب الرحمن‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا۔ ’’الحمدللہ الذی وھب لی علی الکبر اربعہ من البنین و انجز وعدہ من الاحسان‘‘۱۳۹ یعنی اللہ تعالیٰ ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے جس نے بڑھاپے کے باوجود چار فرزند عطا کئے اور بطور احسان اپنا وعدہ پورا فرما دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب مبارک
(بنام حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ)
شعر و سخن کا آغاز
۱۹۰۳ء میں آپ نے شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو ابتداًء آپ شاد تخلص فرماتے تھے آپ کی پہلی (مطبوعہ)۱۴۰ نظم کے چند اشعار یہ ہیں۔
اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے
بیمار عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے
جب تک کہ دم میں دم ہے اس دین پر رہوں
اسلام پر ہی آئے جب آئے قضا مجھے
تیری رضا کا ہوں میں طلبگار ہر گھڑی
گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے
سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی تمام منظومات ’’کلام محمود‘‘ میں تاریخی ترتیب کے ساتھ طبع شدہ ہیں اور آپ کی سیرت کا صاف و شفاف آئینہ ہیں۔ جس میں عشق الٰہی۔ عشق رسولﷺ~ اور عشق اسلام کی شان اپنی پوری آن بان سے درخشاں و تاباں ہے۔ آپ نے اپنے کلام کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے کہ
’’میرے نزدیک شعر اس لئے کہنا کہ لوگ پسند کریں اور داد دیں درست نہیں۔ میں بھی شعر کہتا ہوں۔ لیکن جب میں شعر کہتا ہوں تو نہیں معلوم ہوتا کہ کیا لکھ رہا ہوں۔ جب قلم ایک جگہ جا کر رک جاتا ہے‘تو پھر خواہ کتنا ہی زور لگائوں آگے شعر نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شعر جس کو انسان تلاش کرکے لاتا ہے وہ ناپسند ہے مگر جب طبیعت میں جوش اور بغیر خوض اور غور کے مضامین جاری ہوں تو وہ ایک قسم کا القاء اور الہام ہوتے ہیں‘‘۱۴۱
نیز فرماتے ہیں۔
’’درحقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو درحقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا۔ شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا یا اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکتہ میں حل کیا گیا ہے‘‘۱۴۲
مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط اور ان کا جواب
حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب شعر کہنے شروع کئے تو آپ نے مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط لکھا کہ میں شاعری میں آپ کا شاگرد بننا چاہتا ہوں اگر آپ منظور فرمائیں تو آپ کو اپنا کلام اصلاح کے لئے بھیج دیا کروں۔ کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا جواب آیا۔ کہ ’’میاں صاحبزادے! اپنی قیمتی عمر کو اس فضول مشغلے میں ضائع نہ کرو یہ عمر تحصیل علم کی ہے۔ پس دل لگا کر علم حاصل کرو۔ جب بڑے ہو گے اور تحصیل علم کر چکو گے اور فراغت بھی میسر ہو گی اس وقت شاعری بھی کر لینا‘‘۱۴۳`۱۴۴
جناب جلال لکھنوی سے اصلاح سخن
مولانا حالی سے مندرجہ بالا جواب ملنے کے بعد آپ نے کسی اور استاد کی طرف رجوع کرنا چاہا۔ اس دور کے بکثرت اساتذہ میں سے تین حضرات بہت بلند پایہ اور عالمگیر شہرت رکھنے والے تھے۔ منشی مفتی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنوی۔ فصیح الملک نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی اور جناب سید ضامن علی صاحب جلال لکھنوی۱۴۵۔ مگر اول الذکر حضرات تو اس وقت وفات پاچکے تھے آخر الذکر ہی باقی تھے آپ نے اصلاح سخن کے لئے انہی کی طرف توجہ فرمائی۔۱۴۶
کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ مشق سخن کا یہ سلسلہ جو خط و کتابت ہی کے ذریعہ سے سر انجام پاتا تھا۔ جناب جلال لکھنوی کی وفات تک جاری رہا یا ۱۹۰۹ء سے پیشتر ہی کسی وقت ختم ہو گیا۔ جو ان کے انتقال کا سنہ ہے۔
گورداسپور میں قیام
وسط اگست ۱۹۰۴ء سے اکتوبر ۱۹۰۴ء تک آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور میں رہے۔۱۴۷
سفر لاہور و سیالکوٹ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگست ۱۹۰۴ء میں لاہور۱۴۸ پھر اکتوبر ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے ان دونوں سفروں میں بھی آپ کو حضرت اقدسؑ کی معیت حاصل ہوئی سفر سیالکوٹ کے بارے میں حضور کا ایک بیان خاص اہمیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔۔ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو غیر احمدیوں میں سے بعض نے شورش کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا۔ کہ وہاں حضور کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے اس نے یہ انتظام کر دیا کہ شہر کے ایک رئیس آغا باقر جو قادیان برائے علاج آچکے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے انتظام کے لئے ان سے مشورہ کیا انہوں نے اپنی خدمات انتظام کے لئے پیش کر دیں اور اپنے ساتھ مسٹر بیٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لگائے جانے کی خواہش کی اور ڈپٹی کمشنر نے اسے منظور کر لیا۔ چنانچہ ان دونوں نے مل کر ایسا عمدہ انتظام کیا کہ کسی قسم کی شورش نہ ہوئی لوگ پتھروں کو لے کر مکانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ مگر ان دونوں نے کہہ دیا کہ اگر کسی نے شرارت کی تو ہم اس قدر سزا دیں گے کہ وہ یاد رکھے گا یہ سن کر سب دشمن ڈر گئے۔
مجھے یاد ہے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلتے وہ ساتھ رہتے۔ اس سفر میں ایک لیکچر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اور کچھ لوگوں نے اس میں شورش کرنی چاہی اور بعض آنے والوں پر پتھر پھینکے مسٹر بیٹی نے ان لوگوں کو ڈانٹ کر ہٹا دیا۔ اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ہو چکا تو باواز بلند کہا کہ مجھے ان مسلمانوں پر افسوس آتا ہے کہ غصہ تو ہم کو آنا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں ہمارے خدا کو مردہ ثابت کیا اور ہمارے خلاف اور بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن مسلمانوں کے نبی کی بہت تعریف کی ہے اور وہ پھر بھی فساد کرتے ہیں غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں ہر شر سے محفوظ رکھا اور اس سے دشمن اور بھی زیادہ غصہ میں بھر گئے۔ چنانچہ انہوں نے آخر تجویز کی کہ آپ کی واپسی پر ٹرین پر پتھر برسائے جائیں اور جو لوگ چھوڑنے جائیں واپسی کے وقت ان کو دکھ دیا جائے چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہوئے تو آپ کی گاڑی پر پتھر برسائے گئے اور جو لوگ وداع کے لئے گئے تھے واپسی پر ان پر حملہ کیا گیا ان لوگوں میں مولوی برہان الدین صاحب (جہلمی) مرحوم بھی شامل تھے لوگ بری طرح ان کے پیچھے پڑ گئے۔ ستر یا بہتر سال ان کی عمر تھی اور نہایت کمزور تھے مگر خندہ پیشانی سے مار کھائی حتی کہ ایک شخص نے گوبر اٹھایا ور ان کے منہ میں ڈال دیا۔ بعض دوستوں نے سنایا کہ مولوی صاحب اس وقت بالکل غمگین نہ تھے بلکہ بہت خوش تھے اور بار بار کہتے تھے۔ ’’ایہہ نعمتاں کتھوں ایہہ نعمتاں کتھوں‘‘۔ یعنی ’’یہ نعمتیں ہم کو پھر کب میسر آسکتی ہیں‘‘۔۱۴۹
ایک غیر مطبوعہ قلمی نوٹ
حضرت خلیفتہ المسیح اول مولانا نور الدینؓ کی معرکتہ الاراء کتاب ’’نور الدین‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۰۴ء میں طبع ہوا۔ کتاب کے اس دوسرے ایڈیشن کے شروع میں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ قلمی نوٹ لکھا ہے۔۱۵۰
‏rov.5.4
تا
‏rov.5.9
‏rov.5.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دوسرا سال
دوسرا باب (فصل دوم)
خلافت ثانیہ کا دوسرا سال
(۱۳۳۳ھ تا ۱۳۳۴ھ)
(~جنوری ۱۹۱۵ء سے دسمبر ۱۹۱۵ء تک
مبلغین کی اعلیٰ کلاسں کے لئے لیکچروں کا سلسلہ
مبلغین کی اعلٰی کلاسں کے لئے جو قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر تربیت ترقی کر رہی تھی دو انتظامات کئے گئے۔ اول ان کے لئے الگ بورڈنگ اور الگ سپرنٹنڈنٹ تجویز کیا گیا۲۳۷۔ دوم مفید لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ابتدا میں مندرجہ ذیل حضرات نے طلبہ سے خطاب فرمایا۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب (مضمون ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘۔ ثبوت ملائکہ‘‘۲۳۸) حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ’’(مضمون کفر و اسلام‘‘۲۳۹ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی (مسئلہ دعا و تقدیر۲۴۰) شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور۔ (مضمون قدامت دید و سکھ ازم۲۴۱) چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (مضمون عورتوں کے حقوق۲۴۲)۔ حضرت قمر الانبیاء کا محققانہ مضمون ’’کلمتہ الفصل‘‘ کے نام سے انہی دنوں چھپ گیا تھا۔ ۱۹۴۱ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن ’’مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ تو آپ نے اس میں صراحتاً تحریر فرمایا۔ ’’یقیناً دوسرے منکرین کی نسبت غیر احمدی ہمارے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہمارا کلمہ اور ہمارا شارع رسول ~(صل۱)~ ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اگر غیر احمدیوں سے دوسرے منکرین کی نسبت بعض امور میں امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو یہ بالکل جائز اور معقول ہو گا‘‘۲۴۳۔
ایک خبر کی تردید
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے متعلق غیر مبایعین اصحاب نے یہ خبر مشہور کر رکھی تھی کہ آپ نے اپنے خلیفتہ المسلمین تسلیم کئے جانے کے لئے حکومت انگریزی سے درخواست کی ہے۔ حضور نے اس غلط بیانی کے جواب میں ایک رسالہ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی مدد صرف صادقوں کے ساتھ ہے‘‘۲۴۴۔
اس رسالہ میں ان لوگوں کی شہادتیں درج فرمائیں جن کی طرف یہ بے بنیاد خبر منسوب کی گئی تھی۔
رسالہ ’’القول الفصل‘‘ کی تصنیف
پہلے سال کے واقعات میں بتایا جا چکا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے ’’اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب‘‘ پر ۔۔۔۔۔۔۔ لیکچر دیا تھا۔ جو اسی نام سے شائع ہوا۔ اس کے جواب میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱/ جنوری ۱۹۱۵ء کو ’’القول الفصل‘‘ تصنیف فرمائی یہ رسالہ جو ۷۸ صفحات پر مشتمل تھا۔ صرف ایک دن میں لکھا گیا تھا۲۴۵۔ حضور نے انہی دنوں قاضی محمد یوسف صاحب مردان کے نام ایک خط میں اس لاجواب رسالہ کی نسبت تحریر فرمایا کہ۔
’’خواجہ صاحب کے رسالہ کے جواب آخر میں نے خود ہی لکھنا پسند کیا۔ پہلے مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد کیا تھا انہوں نے بھی لکھا ہے لیکن اکیس جنوری کو میں نے جب (خواجہ صاحب کا) وہ رسالہ پڑھا تو حیران ہو گیا۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ خلافت کے عقیدہ (میں) مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ ۔ ناقل) بھی ان کے ساتھ تھے۔ اور شخصی حکومت (خلافت کا نام رکھا ہے) کے قائل نہ تھے جس شخص نے مولوی صاحب کی زندگی میں ان کی چھ سالہ تقریریں۔ خطبے۔ درس وغیرہ سنے ہوں اسے تو اس بات کو معلوم کرکے حیرت ہی ہوتی ہے میں تو حیران ہوں اس جرات کو کیا کہوں بھول چوک اس کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔ غلطی اسے نہیں کہہ سکتے گھنٹوں اس بارہ میں مجھ سے حضرت (خلیفہ اولؓ) نے گفتگو فرمائی ہے۔ ہر درس میں جہاں کوئی بھی خلافت (کا) ذکر آجاتا تو خلافت کے منکرین پر لے دے کرتے۔ مگر آج وہ کہا جاتا ہے۔ جو کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ صاحب کے رسالہ کے جواب میں جو مضمون میں نے لکھا ہے اس میں ظلی نبوت پر کافی بحث ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے تو ہماری طرح ہی ظلی بنی ہیں لیکن اس کے معنی ایسے کر دیتے ہیں۔ کہ اس سے نبی صرف نام رہ جاتا ہے۔ کام نہیں رہتا۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبی تھے۔ لیکن امتی نبی‘ظلی نبی‘بروزی نبی‘نبی سے مراد یہ ہے کہ آپ کو وہ درجہ ملا جو نبیوں کو ملا۔ وہ کام ملا جو نبیوں کے سپرد ہوا۔ امتی کے معنی ہیں کہ آپ پر شریعت اسلام کی اتباع فرض تھی۔ اور آپ ساری عمر قرآن کریم کے پابند رہے۔ ظلی بروزی سے یہ مطلب ہے کہ آپ کو جو کچھ ملا وہ آنحضرت~صل۱~ کے طفیل اور آپ کی اتباع سے ملا۔ آپ کی نبوت بلاواسطہ نہیں تھی۔ بلکہ آنحضرت~صل۱~ کی غلامی کا نتیجہ تھی۔ اور آپ آنحضرت~صل۱~ کے بروز تھے کیونکہ قرآن کریم میں و اخرین منھم کی آیت میں ہمارے آنحضرت~صل۱~ کے دو بعث لکھے ہیں اور حضرت صاحب لکھ گئے ہیں کہ ہر ایک مسلمان پر جس طرح اور ایمانیات کا ماننا فرض ہے ان دو بعثوں کا ماننا بھی فرض ہے۔ لیکن باوجود اس کے ہم کہتے ہیں کہ ظل اپنے اصل سے جدا نہیں ہوتا اور اس میں جو کچھ ہے اصل کا ہی ہے لیکن ہم ایسے الفاظ کبھی استعمال نہیں کر سکتے۔ جن سے حضرت مسیح (موعود) کی ہتک ہو جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ظل کیا شے ہے ظل کو تو نعوذ باللہ جوتیاں مارنی جائز ہیں عزت تو اصل انسان کی ہوتی ہے نہ اس کے سائے کی۔ ان لوگوں نے ظل کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔ جو شخص تصویر کا نقص نکالتا ہے۔ وہ دراصل اس انسان کا نقص نکالتا ہے جس کی وہ تصویر ہے میں نے اس پر اس مضمون پر بحث کی ہے‘‘۔
احمدیہ دارالتبلیغ ماریشس
خلافت ثانیہ کے دوسرے سال جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن ماریشس میں قائم کیا گیا۔ اور اس کی تحریک خود ماریشس سے ہوئی اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ (روزہل) ماریشس میں ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نور محمد نور دیا صاحب فرانسیسی زبان میں ایک اخبار ’’دی اسلامزم‘‘ شائع کرتے تھے اور لورپول میں ایک معزز انگریز مسٹر عبداللہ کوئلم کی ادارت میں ایک اسلامی اخبار ’’دی کریسنٹ‘‘ نکلتا تھا یہ دونوں اخبارات تبادلہ میں ایک دوسرے کو پہنچتے تھے۔ ’’دی کریسنٹ‘‘ کے پرچوں میں ’’اسلامزم‘‘ کا ذکر پڑھ کر ایڈیٹر ’’رسالہ ریویو آف ریلیجنز‘‘ نے نور محمد صاحب کو اپنے رسالہ کے چند پرچے بھیجے اس طرح ۱۹۰۵ء میں احمدیت کا باقاعدہ پیغام اس جزیرہ تک پہنچا (جو دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے) نور محمد صاحب نے بڑی تحقیقات کے بعد ۱۹۱۲ء میں احمدیت قبول کر لی اور کھلے طور پر احمدیت کا پیغام پہنچانے لگے۔ ان کے ذریعہ سے ماسٹر حاجی عظیم سلطان غوث صاحب آف فونکس بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور آخر دم تک جماعتی خدمات انجام دینے میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۱۳ء میں قصبہ فونکس )PHOENISC( کے مسجد کے امام جناب سبحان محمد صاحب نے بھی احمدی ہونے کا اعلان کر دیا جس پر مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کو قتل کرنے کے منصوبے ہونے لگے مگر سبحان محمد صاحب بہت زور سے تبلیغ میں مصروف رہے۔ ۱۹۱۴ء میں ہندوستان کی ایک فوجی پلٹن ماریشس پہنچی۔ جس میں چار احمدی بھی تھے۔ جن کے نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر لعل محمد صاحب۲۴۶۔ اسمعیل صاحب‘عبدالمجید صاحب۔ منظور علی صاحب۔ جناب سبحان محمد صاحب اکثر ان احمدیوں سے ملاقات کے لئے چھائونی کو جایا کرتے تھے اور وہ بھی گاہے بگاہے ان کے ہاں آجاتے اسی دوران میں کئی لوگ احمدیت کی طرف مائل ہونے لگے۔ اس مرحلہ پر ان لوگوں کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک انگریزی دان مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی۲۴۷۔ اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحب۲۴۸ بی۔ اے پر پڑی۔ حضرت صوفی صاحب ۲۰/ فروری ۱۹۱۵ء کو۲۴۹ قادیان سے روانہ ہو کر حیدر آباد مدراس ہوتے ہوئے ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء کو کولمبو پہنچے۔ یہاں آپ نے تین ماہ قیام فرمایا۔ اور شبانہ روز تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں معمر اور تعلیم یافتہ اشخاص پر مشتمل جماعت قائم کر لی۔ اور کولمبو اس کا مرکز بنا اور آپ اس کے پہلے آنریری پریذیڈنٹ مقرر ہوئے۲۵۰`۲۵۱۔
حضرت صوفی صاحب ۱۵/ جون ۱۹۱۵ء کو ماریشس کی بندرگاہ پورٹ لوئیس پہنچے ابھی آپ جہاز ہی میں تھے کہ ماریشس کے ایک اخبار JOURNAL( PETIT )LE نے حکومت سے آپ کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ مگر یہ کوشش ناکام ہوئی۔ مکرم ماسٹر نور محمد صاحب نے جہاز پر آپ کا استقبال کیا اور اپنے مکان پر لے آئے۔ چند ماہ تک اسی مکان میں جمعہ اور اجتماعات ہوتے رہے اور یہیں سے حضرت صوفی صاحب کی تبلیغ سے احمدیت کی شعائیں تمام جزیرہ میں پھیلنی شروع ہو گئیں۔ ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان سے متصل غیر احمدیوں کی ایک بڑی مسجد تھی جہاں حضرت صوفی صاحب اور ماسٹر صاحب صبح کی نماز پڑھا کرتے تھے ۴/ فروری ۱۹۱۶ء کو آپ قریباً دس بارہ احمدیوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے اس مسجد میں گئے۔ پہلے غیر احمدیوں نے نماز پڑھی پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ نماز مغرب سے فارغ ہو کر آپ نے عشاء کی نماز تک تقریر فرمائی جو سامعین کو بہت پسند آئی۔ تقریر سننے والوں میں مسجد کے پریذیڈنٹ جناب احمد حاجی سلیمان اچھا صاحب بھی تھے جو اس درجہ متاثر ہوئے کہ عشاء کی نماز انہوں نے حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں ادا کی۔ اس کے بعد حضرت صوفی صاحب اور دوسرے احمدی احباب پانچوں وقت کی نمازیں اور نماز جمعہ بھی اسی مسجد میں ادا کرنے لگے۔ غیر احمدی اصحاب نماز جمعہ پہلے پڑھ لیتے تھے۔ پھر حضرت صوفی صاحب خطبہ دیتے اور نماز جمعہ پڑھاتے تھے چار پانچ ہفتے کے بعد اس مسجد کے امام جناب میاں جی احمد صاحب نے یہ دیکھ کر کہ حضرت صوفی صاحب کی تقریریں اسلامی تعلیم کے بالکل مطابق ہوتی ہیں خود بھی حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں نمازیں پڑھی شروع کر دیں۔ قریباً تین ماہ گزرنے کے بعد غیر احمدیوں نے یکایک مسجد میں آنا ترک کر دیا۔ اور دوسری جگہ نمازیں پڑھنے لگے۔ اور نو ماہ بعد (۶/ ستمبر ۱۹۱۸ء کو) عدالت عالیہ میں یہ دعویٰ دائر کر دیا کہ احمدی مشرک ہیں ان کو اسلامی تعلیم کی رو سے مسجد میں داخلہ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ مقدمہ قریباً دو سال تک چلتا رہا اور اس کی ستر کے قریب نشستوں میں متنازعہ فیہ مسائل پر پوری اور سیر حاصل بحث ہوئی اور احمدیت کا خوب چرچا ہوا۔ آخر نومبر ۱۹۲۰ء کو عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ احمدی مسلمان ہیں۔ لیکن چونکہ غیر احمدی بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور اکثریت بھی انہیں کی ہے اس لئے احمدیوں کو اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کہ اس میں فساد کا اندیشہ ہے۲۵۲۔
اگرچہ اس فیصلہ میں نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت تو احمدیوں کو نہیں دی گئی۔ لیکن چونکہ اجازت کا نہ دیا جانا اس وجہ سے نہیں تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں بلکہ احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرکے فساد ہو جانے کے خدشے کی وجہ سے تھا اس لئے احمدیوں کی بات کو اس فیصلہ سے ذرا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کی ہمت زیادہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا۔ اور باوجودیکہ وہ اس موقعہ پر قریباً پندرہ ہزار کی رقم کثیر خرچ کرچکے تھے جس میں نمایاں حصہ محمد صدر علی صاحب‘مازور صاحب اور بھنوں برادرز نے لیا تھا انہوں نے ۱۹۲۳ء میں نئی مسجد بنا لی۔ ۶۲۔ ۱۹۶۱ء میں خود احمدیوں نے اپنے ہاتھوں اس کی دوبارہ تعمیر کی اور اب یہ ماریشس کی دو منزلہ خوبصورت ترین مسجد شمار کی جاتی ہے۔
حالات مقدمہ بیان کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ ماریشس مشن کے ابتدائی واقعات کی طرف آتے ہیں۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت صوفی صاحب نے ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان میں احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ روزہل سے پانچ میل کے فاصلہ پر سینٹ پیری Pierre( ۔)St ہے جہاں معزز اور متمول بھنو خاندان آباد تھا۔ حضرت صوفی صاحب اس خاندان کی دعوت پر دوبارہ سینٹ پیئر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر سے ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ ایک دن میں اس خاندان کے سب افراد بیعت میں داخل ہو گئے اس واقعہ سے جزیزہ بھر میں ایک شور عظیم برپا ہو گیا۔ اور روزہل کے کئی مسلمانوں نے بھی بیعت کر لی۔
بھنو خاندان نے خواہش ظاہر کی کہ قادیان سے ایک عالم خاص ان کے خاندان کی ضروریات کے لئے انہی کے اخراجات پر بلایا جائے۔ چنانچہ مرکز سے حضرت مولوی حافظ عبداللہ صاحبؓ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۱۷ء۲۵۳ کو روانہ ہوئے۔ اور مع اہل بیت کے ماریشس تشریف لے گئے اور بہت اخلاص اور جانفشانی سے نوجوانوں کو پڑھانے لگے۔ روزانہ رات کو درس دیتے۔ ہفت روزہ اجلاس کرکے ان کو تقریر کی مشق کراتے اس کے علاوہ عام تبلیغی کاموں میں حضرت صوفی صاحب کا ہاتھ بٹاتے۔ افسوس دسمبر ۱۹۲۳ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اور ان کو ماریشس ہی میں پائی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب عہد خلافت ثانیہ کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے اعلائے کلمتہ اللہ کرتے ہوئے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جام شہادت نوش فرمایا۔
مئی ۱۹۱۷ء میں حضرت صوفی صاحب نے چار نوجوانوں کو تحصیل علم کے لئے قادیان بھجوایا جن میں سے دو (پیر محمد صاحب اور الیاس اکبر علی صاحب) قادیان میں رحلت کرکے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۲۵۴4] [rtf۔
۲۸/ اپریل ۱۹۱۸ء کو آپ کا پورٹ لوئیس کے امام جامع کے ساتھ ایک کامیاب مناظرہ ہوا۲۵۵ ۱۹۲۶ء میں آپ دو ہفتہ کے لئے مڈغاسکر تشریف لے گئے اور وہاں پیغام حق پہنچایا۲۵۶۔ حضرت صوفی صاحب قریباً تیرہ سال تک ماریشس میں رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے جزیرہ میں احمدیت کا سکہ بٹھا دیا۔ آپ کو تبلیغ کا جنون تھا اور دشمن تک آپ کی قابلیت کے معترف تھے۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے ۴/۳ مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ احمد حسن صاحب۲۵۷ سوکیہ کے ہمراہ ماریشس سے چل کر ۱۶/ مارچ ۱۹۲۷ء میں وارد قادیان ہوئے۔
آپ کی واپسی کے بعد حضرت اقدس نے حافظ جمال احمد صاحب۲۵۸ کو بھجوایا۔ جو ۲۷/ جولائی ۱۹۲۸ء کو ماریشس پہنچے۔ اور اکیس (۲۱) برس تک نہایت درجہ اخلاص و فدائیت سے تبلیغ کا کام کرتے ہوئے ماریشس ہی میں ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو انتقال فرما گئے۔ ’’سینٹ پیری‘‘ میں آپ کا مزار مبارک ہے۔
حافظ جمال احمد صاحب کے سانحہ شہادت کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بالترتیب مندرجہ ذیل مبلغین کو ماریشس روانہ فرمایا۔
۱۔ حافظ بشیر الدین صاحب (ابن مولوی عبیداللہ صاحبؓ) آپ ۳/ جولائی ۱۹۵۱ء کو ماریشس پہنچے۔ اور ۱۳/ اپریل ۱۹۵۵ء کو واپس تشریف لائے۔ (۲) مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر۔ آپ نے پہلی بار ۲/ فروری ۱۹۵۵ء کو ماریشس میں قدم رکھا۔ (اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے) اب تک فریضہ تبلیغ بجا لا رہے ہیں۔
(۳) مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر ۸/ دسمبر ۱۹۶۰ء ماریشس پہنچے اور تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۸/ ستمبر ۱۹۶۲ء کو مرکز میں آئے۔
ماریشس مشن نے فرانسیسی زبان میں اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی بکثرت اشاعت کی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بعض تصانیف کا فرانسیسی ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ قرآن کریم کا فرنچ ترجمہ بھی اس مشن کے زیر انتظام چھپ رہا ہے۔ روزہل میں ۱۶/ جنوری ۱۹۶۲ء کو فضل عمر کالج کا اجرا ہوا۔ مئی ۱۹۶۲ء میں Massage Le نامی اخبار کا اجرا ہوا۔ اور جزیرہ کے چھ مقامات روزہل فونکس۔ سینٹ پیری۔ مونتین بلانش۔ تریولے اور پائی میں احمدی مساجد موجود ہیں۔ جماعت احمدیہ ماریشس کے بعض ممتاز احمدیوں کے نام یہ ہیں۔ احمدید اللہ بھنو۔ عبدالستار سوکیہ۔ مسٹر حنیف جواہر۔ عباس کالو۲۵۹۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کا درس بخاری شریف
اسی سال حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے درس بخاری شریف دینا شروع کیا۲۶۰۔ یہ درس ایک خاص رنگ اور امتیازی شان رکھتا تھا۔ ارشادات نبوی کی حکمتیں اور باریک در باریک معارف و نکات ایسے پاکیزہ و پسندیدہ و دل نشین و روح افزا انداز میں بیان فرماتے کہ سننے والے کے دل آنحضرت~صل۱~ کی عظمت و محبت سے معمور ہو جاتے اور ہر شخص یہی چاہتا کہ آپ بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں درس کے دوران ربودگی اور وجد کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ آپ کا ایک ایک لفظ محبت رسول میں ڈوبا ہوا ہوتا اور ایک ایک بات سے درد و سوز ٹپکتا تھا۔ خصوصاً آنحضرت~صل۱~ کا نام مبارک زبان پر آتے ہی آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آواز بھرا جاتی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔ آپ درس حدیث کے دوران میں آنحضرت~صل۱~ کو حضور کے مختلف ناموں اور مختلف لقبوں سے یاد فرمایا کرتے تھے اور حضور کا جو نام یا لقب آپ کی زبان سے نکلتا تھا وہ اس جوش اخلاص و محبت میں نکلتا تھا کہ سننے والوں کے دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے خاص کر رسول مقبولﷺ~ کے الفاظ تو اس رنگ میں آپ کی زبان سے نکلتے کہ گویا دلوں پر نقش ہو جاتے اور پھر حضرت رسول مقبول~صل۱~ (فدا ابی و امی و روحی و جنانی) کا ذکر مبارک اس جذبہ سے فرماتے کہ ہر سننے والا محسوس کرتا کہ گویا میں آنحضرت~صل۱~ کی پاک مجلس میں بیٹھا ہوا اپنے کانوں سے احادیث رسول سن رہا ہوں۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا۔ ’’درس تدریس کا بھی حضرت میر صاحب کو بے حد شوق بلکہ عشق تھا ان کا حدیث کا درس اب تک سننے والوں کے کانوں میں گونج پیدا کرکے ان کے دلوں کو گرما رہا ہے۔ اور ان کی نگاہیں اس ذوق و شوق اور محبت سے درس دینے والے کو بے تابی سے ڈھونڈتی ہیں مگر نہیں پاتیں‘‘۲۶۱۔
دراصل حدیث شریف حضرت میر صاحب کی غذائے روح اور راحت جان تھی۔ جس کے بغیر آپ کو تسکین ہی نہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار علمی و عملی مصروفیات کے باوجود آپ نے اپنی وفات تک (جو ۱۷/ مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی) باقاعدہ درس جاری رکھا اور حتی الوسع کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا۲۶۲4] ft[r۔
’’حقیقتہ النبوت‘‘ کی تالیف
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تالیف منیف مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کا جواب ہے جس کا نام انہوں نے ’’القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار‘‘ رکھا تھا۔ حضور نے یہ معرکتہ الاراء کتاب جو تقریباً تین سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے بیس روز کے اندر اندر تالیف فرما کر مارچ ۱۹۱۵ء میں شائع فرما دی جس میں مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعودؑ کے تمام پہلوئوں پر نہایت جامعیت سے بڑی سیر کن اور تسلی بخش بحث کی گئی ہے۔ اس موضوع پر اسے حرف آخر کا رتبہ حاصل ہے۔ اس کا فقرہ فقرہ بلکہ لفظ لفظ لائق مطالعہ ہے ہم اس کا صرف ایک اقتباس بطور نمونہ درج کرتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد~صل۱~ کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد~صل۱~ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے۔ وہ میری جان ہے میرا دل ہے۔ میری مراد ہے۔ میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں۔ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ ~}~
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدے کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں اس میں آنحضرت~صل۱~ کی ہتک ہے‘‘۲۶۳`۲۶۴
اس کتاب کے مطالعہ سے بہتوں پر حقیقت نبوت منکشف ہو گئی اور کئی اصحاب کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے یا بیعت خلافت کی سعادت حاصل ہوئی۲۶۵۔
’’چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ کی اشاعت کے بعد ہی ۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء کو مسئلہ نبوت ہی سے متعلق سولہ صفحات کا ایک پمفلٹ بھی شائع فرمایا۔ جس میں مولوی محمد علی صاحب کی چند غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا گیا ہے۔
’’ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب‘‘
ایک غیر احمدی دوست نے اپنے ایک خط میں پانچ سوالات پیش کئے اور درخواست کی کہ خود آپ کی طرف سے ان کا جواب دیا جائے۔ چنانچہ ’’ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب‘‘ کے عنوان سے حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جو پمفلٹ کی شکل میں بھی شائع کر دیا گیا۲۶۶۔
ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغ
حضور نے ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغی خط لکھا تھا۔ جس پر اس نے دریافت کیا کہ حضرت مرزا صاحب کا مقام کیا تھا؟ اس اہم سوال کے جواب میں حضور نے مفصل خط لکھنے کے علاوہ ’’تحفہ الملوک‘‘ اور ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ بھی بھجوائیں۔ حضور کا یہ خط ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اردو مئی ۱۹۱۵ء (صفحہ ۱۹۹ تا ۲۰۶) میں چھپا ہوا ہے۔
حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح
۷/ جون ۱۹۱۵ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دختر نیک اختر صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت حجتہ اللہ محمد علی خاں صاحب کے فرزند ارجمند حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب سے ہوا۲۶۷۔ خطبہ نکاح حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر سوا سات بجے شام مسجد اقصیٰ میں پڑھا۔ آپ اس تقریب سعید پر لاہور سے بلوائے گئے تھے۲۶۸۔ حضرت ام المومنین نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں اس رشتہ کی بابت خواب دیکھا تھا]10 [p۲۶۹۔ ۲/ فروری ۱۹۱۷ء کو نہایت سادگی کے ماحول میں رخصتانہ عمل میں آیا۲۷۰۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’میری شادی کے روز شام کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بلا بھیجا۔ چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے شہر پہنچا ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا بھیجا۔ اور میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے واپس چلا گیا۔ اور بعد میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بوزینب بیگم صاحبہ دلہن کو دارالمسیح سے دارالسلام لے گئیں‘‘۲۷۱۔ ۲۳۔ ۲۴/ جون کو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے دعوت ولیمہ دی۔
حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے یہ اولاد ہوئی۔ نواب میاں عباس احمد خان صاحب (ولادت ۲/ جون ۱۹۲۰ء) طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۸/ مارچ ۱۹۱۹ء) طاہرہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳/ جون ۱۹۲۱ء) زکیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۳/ نومبر ۱۹۲۳ء) قدسیہ بیگم صاحبہ۲۷۲body] [tag (ولادت ۲۰/ جون ۱۹۲۷ء) شاہدہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء) میاں شاہد احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ اکتوبر ۱۹۳۵ء) فوزیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۲/ نومبر ۱۹۴۱ء) میاں مصطفیٰ احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ جولائی ۱۹۴۳ء)۲۷۳
سفر لاہور
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مع اہل بیت ۷/ جولائی ۱۹۱۵ء کو لاہور تشریف لے گئے۲۷۴ اور ۱۲/ جولائی ۱۹۱۵ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۲۷۵۔ ۱۱/ جولائی ۱۹۱۵ء کو بعد نماز مغرب میاں معراج الدین صاحب کے احاطہ میں حضور کا معرکتہ الاراء لیکچر ہوا۲۷۶۔ یہ لیکچر جو بعد کو (۲۶ صفحات میں) ’’پیغام مسیح‘‘ کے نام سے چھپ بھی گیا۔ یہ ایک نہایت ہی عمدہ و پسندیدہ لیکچر تھا جس کی عمدگی کا لاہور کے غیر مسلموں نے بھی اقرار کیا۲۷۷۔
آسٹریلیا سے بیعت خلافت کا خط
آسٹریلیا۲۷۸ میں سالہا سال سے ایک بزرگ صوفی حسن موسیٰ خان صاحب رہتے تھے۔ جو صحابی تھے اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان بھی آچکے تھے خلافت ثانیہ کے قیام پر بعض وجوہ سے آپ متامل رہے۔ مگر بالاخر ۱۱/ جولائی ۱۹۱۵ء کو بذریعہ خط بیعت کر لی۲۷۹۔ اور آخر دم تک اس براعظم میں آنریری طور پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے۔ آپ بڑے مخلص و پرجوش بزرگ تھے۔ ضعیف العمری کے باوجود بڑی محنت و جانفشانی سے کام کرتے۔ زبانی بھی تبلیغ کرتے اور تبلیغی خطوط بھی بکثرت لکھتے آپ ہی کی کوشش سے وہاں ’’بیرسن بین‘‘ اور ’’آڈ میئر‘‘ میں جماعتیں قائم ہوئیں اور جزیرہ فجی میں احمدیہ لٹریچر پہنچا۔ ۱۸/ اگست ۱۹۴۵ء کو آپ کی وفات ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو مدارج عالیہ عطا فرمائے۔ آپ کے بعد تبلیغ کا کام پرتھ کے ایک مخلص احمدی جناب شیر محمد صاحب نے سنبھال لیا۲۸۰۔
ایک والئے ریاست کو جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پر ایک والی ریاست نے اپنے معتمد کے ذریعہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور ہمارے یہاں تشریف لائیں ہم سلسلہ احمدیہ کے متعلق کچھ سننا چاہتے ہیں حضور نے جواب دیا کہ پیاسا کنوئیں کے پاس آتا ہے۔ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا۔ ہاں اگر آپ کو واقعی حق کی تلاش ہے۔ تو علمائے سلسلہ بھیجے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی حفاظت کے آپ ذمہ دار ہوں۲۸۱۔
کنانور(مالا بار) کے قریب احمدیوں پر راجہ صاحب کے مظالم
۱۹۱۵ء کے وسط آخر میں مالا باری احمدیوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ایک احمدی کو مسجد میں نماز پڑھنے کی وجہ سے زدوکوب کرکے نیم جان کر دیا۔ جس پر مقدمہ چلا۔ غیر احمدیوں نے مقدمہ کے لئے ایک فنڈ کھول دیا۔ چند روز کے بعد ایک احمدی کے ایس۔ حسن صاحب کا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا۔ راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ احمدی کافر ہیں کسی مقبرے میں ان کا مردہ دفن نہیں کیا جا سکتا۔ آخر دوسرے دن بڑی کوشش کے بعد کنا نور سے دو میل دور ایک قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت ملی۔ چار پانچ ہزار لوگ شرارت کے لئے جمع ہو گئے۔ احمدی صرف نو تھے آخر مسلح پولیس کی حفاظت میں نعش لے جائی گئی۔ اور شام کے قریب بچہ دفن کرنے کی نوبت آسکی۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ کوئی دکاندار کسی احمدی کے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہ کرے۔ ورنہ وہ بھی قادیانی قرار دے کر مساجد سے روک دیا جائے گا۔ اس سے پہلے کئی احمدیوں کی بیویاں بھی چھینی جا چکی تھیں۔ اب اس حکم سے لوگوں کو اور شہ مل گئی۔ حتیٰ کہ زبانوں سے گزر کر ان حالات کا ذکر اخباروں میں بھی آنا شروع ہو گیا۔ اور ان کے مظالم کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ چنانچہ ایک اخبار ’’کیر لاپتر کا‘‘ نے لکھا۔ ’’احمدیوں پر تکالیف کی بوچھاڑ پہلے کی نسبت بہت زیادہ پڑنے لگی ہے۔ بیچارے اپنے گھر کے صحن سے بھی باہر نہیں نکلتے جن کے پاس کچھ مال تھا وہ اندر بیٹھے کھا رہے ہیں اور جو غریب ہیں وہ فاقے کاٹ رہے ہیں۔ جب یہ حالات منظر عام پر آگئے تو لفٹنٹ گورنر پنجاب نے گورنر مدراس کو توجہ دلائی۔ اور تحقیقات کے بعد احمدیوں کو اپنی مسجد اور اپنا قبرستان بنانے کے لئے الگ زمین دے دی گئی۔ مگر چند ہی روز کے بعد کنانور کے قاضی صاحب کی رپورٹ پر راجہ صاحب نے احمدیوں کے نام نوٹس جاری کر دیا کہ کیوں نہ تمہیں کافر قرار دیا جائے اس حکمنامہ نے اور آگ بھڑکا دی۔ لیکن بالاخر مظلوم احمدیوں کی فریاد سنی گئی۔ اور ۱۷/ نومبر ۱۹۱۵ء کو راجہ صاحب انگریزی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور احمدیوں کو ان کے مظالم سے نجات ملی10] p[۲۸۲
حضور کے نصائح حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب مبلغ انگلستان کو
حسب الارشاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی ۶/ ستمبر ۱۹۱۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہوئے۲۸۳ حضور نے ان کو جو تفصیلی ہدایات و نصائح اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر دیں۔ ان کا ملخص یہ ہے۔ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے۔ یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں۔ بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں۔ کھانے پینے پہننے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں۔ اخلاص سے سمجھائیں اور محبت سے کلام کریں۔ ہر ہفتہ مفصل خط لکھتے رہیں۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کسی فوری جواب کی ضرورت ہو۔ خط لکھ کر ڈال دیں۔ اور خاص طور پر دعا کریں تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے خدا کی قدرتیں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے۔ اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں کم خوردن‘کم گفتن‘کم خفتن عمدہ نسخہ ہے۔ اور تہجد ایک بڑا ہتھیار۲۸۴`۲۸۵
سندھی ٹریکٹ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سندھ کو پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ۱۹۱۵ء کے آخر میں ٹریکٹ لکھا جو سندھی زبان میں بعنوان ’’ایک عظیم الشان بشارت‘‘ شائع کیا گیا۲۸۶
’’فاروق‘‘ کا اجراء
خلافت ثانیہ کے عہد میں مرکز سے پہلا اخبار ’’فاروق‘‘ حضرت میر قاسم علی صاحب کی ادارت میں ۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو جاری ہوا۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پہلے پرچہ میں بعنوان ’’فاروق کے فرائض‘‘ ایک نہایت قیمتی مضمون لکھا۲۸۷۔ حضرت میر قاسم علی صاحب فاروق کی ابتدا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’خاکسار ایڈیٹر فاروق ۱۹۱۵ء میں دہلی سے ہجرت کرکے دارالامان میں آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض ذمہ دار احباب نے مجھے انجمن کی طرف سے ہیڈ مبلغ بننے کی صلاح دی۔ جس کے لئے میں نے اپنے آپ کو ناقابل سمجھا۔ اور اس تجویز کو منظور نہ کیا۔ میرے پیارے مقتدا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے میری حالت کا اندازہ فرما کر مجھے یہی حکم دیا کہ میں جس طرح دہلی سے ’’الحق‘‘ اخبار نکالتا تھا اسی طرح دارالامان سے اخبار جاری کروں اور اس کا نام خلافت ثانیہ کے لحاظ سے فاروق تجویز ہوا‘‘۲۸۸۔ ’’فاروق‘‘ مخالفین اسلام و احمدیت کے لئے شمشیر برہنہ تھا جس کے دلائل سے ان کے اعتراضات پارہ پارہ ہو جاتے تھے۔ افسوس اپریل ۱۹۴۲ء میں حضرت میر قاسم علی صاحب کی وفات کے بعد یہ بند ہو گیا۔
مولوی عبدالحی صاحب کی خدمت میں لاہوری وفد
حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ (حرم حضرت خلیفہ اولؓ) اور مولوی عبدالحی صاحبؓ نے ابتدا ہی میں بیعت خلافت ثانیہ کر لی تھی۔ مگر غیر مبایعین برابر اس کوشش میں لگے رہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کرکے انہیں اپنے اندر جذب کر لیں۲۸۹۔ چنانچہ جناب میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا بیان ہے کہ ’’مولوی عبدالباقی صاحب بہاری ایم۔ اے نے بتایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانے میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے۔ مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے ان کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے انہوں نے فرمایا۔ ’’یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔ اطاعت کرنا آسان کام نہیں۔ میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو‘‘۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں۔ پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یا نہیں۔ مولوی عبدالحی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جائو حضرت خلیفتہ المسیح کی بیعت کر لو۔ یہ بات سن کر وہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا‘‘۲۹۰۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے اہم میموریل
ابتداء میں جب انگریزی حکومت نے مسلمانوں سے دریافت کیا۔ کہ تمہارے مقدمات وراثت کا فیصلہ رواج پر ہو یا شریعت پر۔ تو بعض نے رواج لکھوایا اور بعض نے شریعت۔ ہر قوم کے رواج الگ الگ تھے۔ اس لئے مقدمات بہت طول کھینچنے لگے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے آپ کو کسی ذاتی فائدے کے لئے ایک خاص رواج کا پابند قرار دیتا جس پر بالاخر حکومت نے تجویز کی کہ تمام قوموں کے رواج کی ایک کتاب لکھی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو رواج اس میں درج ہوں وہی قانون قرار دیئے جائیں۔ اور ان کے سوا کچھ مسلم نہ ہو۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اکتوبر ۱۹۱۵ء میں جماعت احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ انہیں حکومت کو میموریل بھیجنے چاہئیں۔ کہ ہم خواہ کسی قسم یا ذات یا خاندان سے ہوں ہم احمدی ہیں اور شریعت کے تابع ہیں اور ہمارا عمل درآمد شریعت اسلامیہ ہے پس ہمارے مقدمات شرع کے مطابق فیصل ہوا کریں۔ جو مسئلہ اسلامی فرقوں میں متنازعہ فیہ ہو اس میں احمدی علماء کی رائے معتبر مانی جائے۲۹۱۔
چنانچہ جماعت نے اس کی پوری پوری تعمیل کی اور گو جماعت احمدیہ کا اکثر و بیشتر حصہ پہلے ہی رواج پنجاب کی بندھنوں سے آزاد اور احکام اسلامی کا پابند تھا مگر میموریل کے ذریعہ سے انگریزی حکومت پر بھی واضح ہو گیا کہ یہ جماعت رواج کی بجائے اسلامی شریعت کو اپنا آئین سمجھتی ہے لیکن اس کے مقابل (ایک قلیل طبقہ کے سوا) مسلمانوں کے سواد اعظم نے شریعت پر رواج کو ترجیح دی۔
سر ڈبلیو ایچ ریٹگین رواج عام پنجاب کی مشہور اور مستند ترین کتاب of digest ‘‘The law’’ customary میں لکھا ہے کہ
۔۔۔۔۔ governed is Batala Tehsil Qadian of Barlas Mughal the of family ‘‘The۔۲ ۲۹Law’’ Muhammdan by
یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواج زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانون شریعت کا پابند ہے۔
مولوی عبدالحی صاحب کی وفات
۱۱/ نومبر ۱۹۱۵ء۲۹۳ کو مولوی عبدالحی صاحب (ابن حضرت خلیفہ اولؓ) کا انتقال ہوا۔ آپ کی وفات پر کثیر التعداد تعزیت ناموں کے علاوہ کئی احباب بیرون سے تعزیت کے لئے آئے۲۹۴۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چودھری فتح محمد صاحب سیال مبلغ انگلستان کو مولوی صاحب کی وفات کی نسبت اطلاع دیتے ہوئے لکھا۔ ’’عزیز میاں عبدالحی کو دو ہفتہ بخار رہا۔ اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی۔ مگر پچھلی جمعرات کو یک لخت حالت بگڑ گئی۔ اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بیہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اب کے ففتھ ہائی کا امتحان دینا تھا۔ سال ڈیڑھ سال سے شبانہ روز جسم و علم میں ترقی تھی۔ اور اب خاصہ جوان آدمی معلوم ہوتے تھے۔ ذہن نہایت تیز اور رسا تھا مگر منشاء الٰہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا۔ اور اس کے ہر فعل میں حکمت ہوتی ہے اور جیسا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا۔ یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکمتوں کے ماتحت تھا۔ ورنہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا۔ مرحوم بوجہ کمسن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آجاتا تھا۔ میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی ان کو لے آیا تھا۔ (ان کی بہن امتہ الحی کی خواہش سے) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر سا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں مجھے اس سے تسلی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے وفات سے پہلے اس کے دل کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیئے تھے اور ایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔ مجھے اس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہئے۔ اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحبؓ کا اس سے محبت رکھنا تھا۔ بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اسے خود بھی مجھ سے محبت تھی۲۹۵`۲۹۶
احمدیہ ہوسٹل لاہور کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگاہ دوربین تبلیغ کی راہوں اور طریقوں سے گزر کر نونہالان جماعت کی ابتدائی تعلیمی و تربیتی ضرورتوں تک بھی جاپہنچی۔ قادیان میں ان دنوں کوئی کالج نہیں تھا۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو لاہور یا دوسرے شہروں کے کالجوں میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال تربیتی نقطہ نگاہ سے بڑی خطرناک تھی۔ کیونکہ جماعتی ماحول سے نکل کر دنیا کے زہر آلود مادی ماحول میں داخل ہو جانا خام طبیعتوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ حضور نے جماعت کی نئی پود کو اس خطرہ سے محفوظ کر دینے کے لئے تجویز فرمائی کہ لاہور میں احمدی نوجوانوں کے لئے ایک ہوسٹل قائم کیا جائے۔ جہاں جماعت کے نوجوان طلبہ جماعت کے تربیتی نظام کے ماتحت رہیں۔ یہ ہوسٹل ۱۹۱۵ء کے آخر میں جاری ہوا۲۹۷۔ اور اس کے پہلے سپرنٹنڈنٹ مکرم بابو عبدالحمید صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لاہور مقرر کئے گئے۲۹۸۔ اور درس و تدریس کا فرض حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ادا فرمانے لگے۲۹۹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا شروع شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو احمدیہ ہوسٹل میں ہی قیام فرماتے۔ کہ طلباء میں دینی روح پیدا ہو۔ اور وہ احمدیت سے اخلاص میں ترقی کریں۔ اور یہ حضور کی اس خاص توجہ کا نتیجہ تھا کہ احمدیہ ہوسٹل کے طلباء نہایت اخلاص و جوش رکھنے اور خدمات سلسلہ میں پورا حصہ لینے والے تھے۔ چنانچہ مسجد لندن کی تحریک پر صرف احمدیہ ہوسٹل کا چندہ دو ہزار کے قریب تھا۔ امتحان کے دنوں میں بھی طلباء احمدیت کی تبلیغ کے جوش میں سائیکلوں پر سوار تمام شہروں میں اشتہار بانٹتے پھرتے۔ ایک دفعہ حضور امتحان کے دنوں میں لاہور تشریف فرما ہوئے۔ تو لڑکوں نے امتحان کا کام چھوڑ دیا۔ مگر خدا کے فضل سے پھر بھی ان کے نتائج بہت عمدہ رہے۔ اسی طرح جب ۱۹۱۷ء میں غیر احمدیوں نے قادیان میں پہلا جلسہ منعقد کیا تو احمدیہ ہوسٹل کے طلباء بھی قادیان پہنچ گئے۔ وہ بھی امتحان کے دن تھے لیکن بفضلہ تعالیٰ سب کے سب پاس ہو گئے تھے۳۰۰۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاہب نے اپریل ۱۹۲۷ء میں جب کہ آپ ناظر تعلیم و تربیت تھے۔ احمدیہ ہوسٹل کے مفصل قواعد و ضوابط مرتب فرمائے۔ کل چالیس قواعد تھے جن میں سے چند یہ تھے۔ (۱) کسی بورڈر کے پاس رات کو کوئی مہمان نہیں ٹھہر سکے گا۔ (۲) ہر بورڈر اسلامی تعلیمات کا پابند ہو گا۔ اور سپرنٹنڈنٹ کے احکام کی اطاعت کرے گا۔ (۳) پانچوں نمازیں ادا کرنی ہوں گی۔ اور رمضان کے روزے رکھنے ہوں گے۔ (۴) سگریٹ نوشی ممنوع ہو گی۔ (۵) ہوسٹل کے ملازمین سے طلباء قرضہ نہیں لے سکیں گے وغیرہ وغیرہ۳۰۱۔
احمدیہ ہوسٹل کے لاہور میں ایک عرصہ تک نوجوانان احمدیت کے دینی و علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ یہ گویا اسلامی ماحول میں پرورش پانے والا ایک شجر تھا جس نے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ۔ ملک غلام فرید صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم۔ ڈاکٹر بدر الدین صاحبؓ۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد ایم۔ اے۔ شیخ یوسف علی صاحبؓ بی۔ اے سید عزیز اللہ شاہ صاحبؓ۔ سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۔ جناب شیخ بشیر احمد صاحب۔ جناب مرزا عبدالحق صاحب۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ جناب میاں عطاء اللہ صاحب۔ صوفی محمد ابراہیم صاحب۔ اخوند عبدالقادر صاحب مرحوم اور چوہدری علی اکبر صاحب جیسے اثمار شیریں پیدا کئے۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء (صفحہ ۲۴۴۔ ۲۴۶) میں احمدیہ ہوسٹل کے قدیم طلبہ کی حسب ذیل فہرست شائع شدہ ہے۔
۱۹۱۵۔ ۱۹۱۶ء
۱۹۱۷ء
‏]3do [tag۱۹۱۸ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) میاں عبداللہ خان صاحب
(۱) شیخ یوسف علی صاحب
(۱) چوہدری عصمت اللہ صاحب۔ وکیل
(۱) چوہدری محمد حسینصاحب ہیڈکلرک۔ جھنگ۔
(۲) ملک غلام فرید صاحب
(۲) سید محمود اللہ شاہ صاحب
(۲) محمد حسن صاحب
(۲) میاں محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ
(۳) ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب
(۳) خلیفہ تقی الدین صاحب
(۳) خاکسار غلام محمد
(۳) مرزا عبدالحق صاحب۔ وکیل گورداسپور
(۴) صوفی محمد ابراہیم صاحب
(۴) چوہدری علی اکبر صاحب
(۴) شیخ سردار علی صاحب سٹوڈنٹ
ایم۔ بی۔ بی۔ ایس
(۵) چوہدری محمد لطیف صاحب
(۵) ڈاکٹر محمد رمضان صاحب
(۵) شیخ بشیر احمد صاحب وکیل گوجرانوالہ
(۶) ڈاکٹر غلام قادر صاحب
(۶) سید عزیز اللہ شاہ صاحب
(۶) اخوند غلام حسن صاحب
پروفیسر بہاولپور کالج
(۷) شیخ احمد الدین صاحب
(۷) میاں عطاء اللہ صاحب
(۷) چوہدری فضل احمد صاحب
اے۔ ڈی۔ آئی۔ گجرات
(۸) ڈاکٹر غلام علی صاحب
(۸) حشمت علی خان صاحب
(۹) ڈاکٹر غلام محمد صاحب
(۱۰) ڈاکٹر لال الدین صاحب



(۱۱) میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد
(۱۲) چوہدری غلام حسین صاحب
(۱۳) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب
نائب تحصیلدار
۱۹۱۹ء
۱۹۲۰ء
۱۹۲۱ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) عطاء اللہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ
(۱) صوفی عبدالقدیر صاحب
(۱) عبدالقدیر کاٹھ گڑہی
(۱) میاں ناصر علی صاحب تمیم
(۲) سید عنایت اللہ شاہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ
(۲) شیخ فضل کریم صاحب
(۲) عبدالجلیل صاحب کاٹھ گڑھی
(۲) چوہدری غلام احمد صاحب
(۳) ہارون رشید
(۳) عبدالغفار مرحوم
(۳) سید عبدالرزاق
(۳) ملک غلام نبی
(۴) غلام حسین
(۴) محمد انور پسر قاضی عبدالحق صاحب مرحوم
(۴) چوھدری ولی محمد
(۴) چوہدری غلام احمد
(۵) سید فضل الرحمان
(۵) عبدالرحمان رانجہ
(۵) مرزا غلام حیدر وکیل
(۶) سید عبدالحی
(۶) میر عطاء اللہ خان
۲۲۔ ۱۹۲۳ء
۱۹۲۴ء
۱۹۲۵ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) رشید احمد
(۱) کرامت اللہ
(۱) مرزا محمد یعقوب
اس عرصہ میں اور نیز
(۲) عبید السلام
(۲) حبیب اللہ
(۲) شیخ محمد یعقوب
اس کے بعد کے دو سالوں
(۳) حمید اللہ
(۳) برکت اللہ
(۳) محمد شریف][ میں بیرونی طلباء میں سے
(۴) محمد اسمعیل
(۴) محمد صادق
(۴) میر عنایت اللہ
کوئی ایسا طالب علم
(۵) عبدالمنان
(۵) عبدالرحیم مالا باری
(۵) اسد اللہ خان
ہوسٹل میں نہیں آیا
(۶) نذیر احمد

(۶) عبدالغفور
جس نے ہوسٹل میں
(۷) نذیر احمد


آکر ترقی کی ہو۔
(۸) صلاح الدین



‏od1] [tag۱۹۲۶ء
۱۹۲۷ء


(۱) مشتاق احمد
(۱) عبدالرحمن جنید


(۲) ناصر الدین
(۲) افتخار الحق


(۳) احمد الدین
(۳) ضیاء اللہ


(۴) محمد یوسف
(۴) عبدالحمید خان


(۵) محمد دائود



(۶) شریف احمد



(۷) غیور احمد



(۸) غلام احمد



(۹) فیض قادر



(۱۰) مولوی عبدالسلام



(۱۱) محمد اسمعیل رام پوری



(۱۲) اختر احمد



(۱۳) محمد زاہد
۳۰۲


احمدیہ ہوسٹل میں مدت تک ’’احمدیہ فیلوشپ آف یوتھ‘‘ کے نام سے ایک مجلس قائم رہی۔ جس کے روح رواں جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم تھے اس مجلس نے یوم التبلیغ اور دوسرے موقعوں پر کئی پمفلٹ شائع کئے ایک پمفلٹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی تحریر فرما کر اسی انجمن کو چھاپنے کے لئے عنایت فرمایا۳۰۳`۳۰۴
پہلے پارہ کی نادر تفسیر (اردو اور انگریزی میں)
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت دسمبر ۱۹۱۵ء کے آخر میں قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تفسیر اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر خود حضور کی لکھی ہوئی تھی مگر آپ کے نام سے شائع نہیں ہوئی۔ کیونکہ آپ نے جماعت کے ذمہ دار اصحاب سے فرما دیا تھا کہ میں صرف ایک نمونہ تیار کرتا ہوں۔ اور آگے اسے مکمل کرنا آپ لوگوں کا کام ہوگا۔ اس تفسیر کے لئے حضور نے علماء کی ایک کمیٹی بھی تجویز فرمائی جس کے ممبر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاب‘حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل تھے۔ اس تفسیر کا انگریزی ترجمہ احمدی علماء کے ایک بورڈ نے کیا تھا]4 [stf۳۰۵۔ جس میں قاضی عبدالحق صاحب مرحوم پیش پیش تھے۔ اور اس کی اشاعت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خرچ پر ہوئی۔ جو جائداد کا ایک حصہ فروخت کرکے مہیا کیا گیا تھا۳۰۶۔
اس نادر تفسیر نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ کے حلقوں میں بھی بڑی ہلچل پیدا کر دی تھی حتیٰ کہ امریکہ کے مسیحی اخبار ’’مسلم ورلڈ‘‘ نے لکھا۔ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی اس بات کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ مذاہب کی موجودہ جنگ میں اسلام اور مسیحیت میں سے کون غالب آنے والا ہے۳۰۷۔ ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ (لندن) نے لکھا۔ یہ قرآن مجید کا بے نظیر ترجمہ ہے۔ جس سے مطالب قرآن پر خوب روشنی پڑتی ہے۳۰۸۔ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور نے یہ رائے دی کہ اس ترجمہ سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قرآن سراسر مربوط کلام ہے جس کی ہر آیت اپنی جگہ ٹھیک ٹکے ہوئے موتی کی طرح ہے۳۰۹۔ ہندوستان کے مشہور فاضل ڈاکٹر عبداللہ المامون السہروردی ایم۔ اے نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ ترجمہ کتاب مجید کا ایک شاندار ایڈیشن ہے تشریحی نوٹ سبق اموز اور روشنی پیدا کرنے والے ہیں یہ نئی علمی کوشش اس امر کی مستحق ہے کہ مذاہب عالم کا غیر جانبداری سے مطالعہ کرنے والے تمام لوگ اس کی اعانت و تائید کریں۳۱۰
محلہ دارالفضل
قادیان کے شمال مشرق میں احمد آباد اور کھارا کے درمیان آخر ۱۹۱۵ء میں ایک نیا محلہ آباد ہونا شروع ہوا۔ جس کا نام ’’دارالفضل‘‘ رکھا گیا۳۱۱ یہ محلہ اسی سرزمین پر آباد ہوا جو انگریزی پارہ کے اخراجات مہیا کرنے کے لئے فروخت کی گئی تھی۳۱۲۔ اس محلہ میں ابتداًء حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسمل۔ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (مہر سنگھ) حضرت میر قاسم علی صاحب اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری وغیرہ بزرگوں نے مکانات بنائے تھے۔
سرزمین سندھ سے متعلق ایک اہم خبر
حصرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۵ء میں خواب میں دیکھا کہ آپ نہر میں بہہ رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں۳۱۳]4 [rtf۔ یہ خواب ایک عرصہ کے بعد غیرمعمولی نشان بن کر پوری ہوئی۔ اور اب اس علاقہ میں حضور اور حضور کے خاندان اور سلسلہ کی ہزاروں ایکٹر کی جائداد موجود ہے۔ اور محمد آباد۔ احمد آباد۔ محمود آباد۔ ناصر آباد اسٹیٹس قائم ہیں۳۱۴۔
’’انوار خلافت‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد کے دوسرے سالانہ جلسہ دسمبر ۱۹۱۵ء کی مختلف تاریخوں میں نہایت حقیقت نما اور معلومات افزا چار تقریریں فرمائیں۔ حضور نے ان تقریروں میں ’’مسئلہ اسمہ احمد‘‘ ’’مسئلہ نبوت‘‘ وغیرہ پر بڑی شرح و بسط سے کلام فرمایا ہے اور کتب معتبرہ کی رو سے عبداللہ بن سبا کے فتنہ کی پوری تاریخ بیان فرما دینے کے بعد جماعت کے دوستوں کو یہ دل ہلا دینے والی وصیت فرمائی کہ۔
’’آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں۔ اور تیار رہیں فتنے ہوں گے اور بڑے سخت ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے۔ کیونکہ ان کے مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گے۔ دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ۔ اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ بہت کم ہوں گے۳۱۵۔
متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے فرزند ارجمند مرزا حمید احمد صاحب کی ولادت ہوئی۳۱۶۔
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے لاہور اور مالیر کوٹلہ کا سفر کیا]10 [p۳۱۷
۳۔
حضرت ام المومنینؓ دہلی تشریف لے گئیں۳۱۸۔
۴۔
مولوی عبدالحی صاحب کی وفات پر ۴/ نومبر ۱۹۱۵ء کو مولوی محمد علی صاحب‘شیخ رحمت اللہ صاحب مرزا خدا بخش صاحب وغیرہ حضرات قادیان آئے اور خاندان حضرت خلیفہ اول سے تعزیت کرنے کے بعد مزار حضرت مسیح موعودؑ پر فاتحہ پڑھنے چلے گئے۔ حضرت امیر المومنین کی طرف سے انہیں چائے کی دعوت بھی دی گئی تھی مگر وہ مقبرہ بہشتی ہی سے لاہور واپس ہو گئے۳۱۹4] ftr[۔
۵۔
حضرت سید میر محمد اسحق صاحب کے فرزند میر محمد ناصر صاحب۔ میاں نجم الدین صاحب اور حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلہ کا انتقال ہوا۔
۶۔
غیر مبایعین حضرات نے اپنے سالانہ جلسہ میں کچھ وقت سوال و جواب کے لئے رکھا تھا۔ حضرت امیر المومنین کے حکم سے حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ اور حضرت میر قاسم علی صاحب سوال و جواب میں شریک ہونے کے لئے لاہور تشریف لے گئے۳۲۰۔
۷۔
حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ ماموریت سے پہلے کا فارسی کلام ’’درمکنون‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
۸۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) گورنمنٹ ہائی سکول پورٹ بلیر (انڈیمان) میں ہیڈ ماسٹر بن کر گئے۔ اور جلد ہی اپنے فرائص کے ساتھ ساتھ دیوانہ وار تبلیغ کرکے جماعت قائم کر دی اور کولمبو‘کانڈی وغیرہ شہروں میں لیکچر دیئے۔ اور لارڈ بشپ اور بدھ لیڈروں کو مقابلہ پر بلایا۔ جس کا مقامی پریس میں خوب چرچا ہوا۳۲۱۔
۹۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘پیر اکبر علی صاحب فیروزپور۔ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب (قادیان) کے خطبات نکاح پڑھے۔
۱۰۔
مشہور مباحثے۔ مباحثہ ڈیرہ غازی خان۳۲۲۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب اور مولوی عزیز بخش صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب کے درمیان) مباحثہ گوجرانوالہ۳۲۳۔ (احمدی مناظرین حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی) مباحثہ شملہ۳۲۴ind] gat[ (جو مولوی عمر دین صاحب شملوی نے منشی عبدالحق صاحب اور حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے نبوت مسیح موعودؑ کے موضوع پر کیا) مباحثہ موضع کھیڑ ضلع گجرات۳۲۵۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی) مباحثہ چٹاگانگ۳۲۶۔ مباحثہ سڑوعہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب نے ایک سکھ سے مناظرہ کیا۳۲۷)
۱۱۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات۔ ’’حیات النبی‘‘ جلد اول (از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ) تذکرۃ المہدی حصہ اول۳۲۸ (از حضرت پیر سسراج الحق صاحب نعمانی) ’’صداقت مریمیہ‘‘ (از حضرت میاں معراج دین صاحبؓ عمر) ’’بابا نانک کی سوانح عمری‘‘ از شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) ’’تذکرۃ الذاکرین‘‘ (حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ بھیروی)
۱۲۔
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب (حیدر آباد (دکن) مہاشہ فضل حسین صاحب (لاہور) اور پروفیسر ریگ کلیمنٹ۳۲۹ (انگلستان) احمدیت میں داخل ہوئے۔
‏rov.5.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا تیسرا سال
دوسرا باب (فصل سوم)
خلافت ثانیہ کا تیسرا سال
(جنوری ۱۹۱۶ء تا دسمبر ۱۹۱۶ء بمطابق ۱۳۳۴ھ تا ۱۳۳۵ھ تک)
مسٹر والٹر قادیان میں
جنوری ۱۹۱۶ء کے پہلے ہفتہ میں مسٹر والٹر (سیکرٹری کرسچن ینگ مین ایسوسی ایشن لاہور) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئے۔ مسٹر ہیوم (ایجوکیشنل سیکرٹری) اور مسٹر لیوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچن کالج لاہور) بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان سب صاحبوں نے دوبارہ حضور سے ملاقات کرکے بعض مذہبی امور دریافت کئے اور حضور نے بڑی تفصیل سے ان کے جواب دیئے۳۳۰۔ اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب ترجمان تھے۔
اسی دوران میں مسٹر والٹر حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ تحصیلدار کپورتھلہ سے بھی ملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدیم صحابی اور معمر بزرگ تھے۔ انہوں نے حضرت منشی صاحب سے چند رسمی باتوں کے بعد دریافت کیا۔ کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا۔ حضرت منشی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں یہ فرما کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا۳۳۱
مسٹر والٹر نے بعد کو ’’احمدیہ موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے کہ ’’میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا۔ میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا۔ جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے۔ قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی‘‘۳۳۲۔
اسی طرح مسٹر لیوکس نے سیلون میں جا کر تقریر کی تو کہا کہ ’’عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہو گا۔ بلکہ ایک چھوٹے سے گائوں میں ہو گا جس کا نام قادیان ہے‘‘۳۳۳۔
دارالبیعت کا افتتاح
لدھیانہ کا دارالبیعت جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پہلی بیعت لی تھی اب تک ایک مکان کی شکل میں تھا۔ انجمن احمدیہ لدھیانہ نے ۱۹۱۶ء میں اس کی مرمت کرائی اور اس کی بیرونی صورت میں تبدیلی کرکے جانب شمال ایک لمبا اور ہوا دار پختہ کمرہ تعمیر کرا دیا۔ اس کی شمالی دیوار کے بیرونی رخ پر دارالبیعت کا نام اور تاریخ بیعت ۲۳/ مارچ ۱۸۸۹ء کا کتبہ ثبت کرا دیا۔ اور صحن میں پختہ اینٹوں کا بالشت بھر اونچا ایک چبوترہ اور ایک محراب بنوا کر نماز کے لئے مخصوص کر لیا۳۳۴۔
اس ترمیم شدہ عمارت کا افتتاح کرنے کے لئے مرکز سے حافظ روشن علی صاحب تشریف لے گئے اور آپ نے دو دن تک وہاں لیکچر دیئے۳۳۵
۱۹۳۹ء کے قریب دارالبیعت یادگار کے طور پر پختہ بنا دیا گیا جس کی نگرانی میں حافظ سید عبدالوحید صاحب آف کمرشل ہائوس کوہ منصوری اور مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی نے نمایاں حصہ لیا۔
تائی صاحبہ کی بیعت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۱۹۰۰ء میں الہام ہوا تھا۔ ’’تائی آئی‘‘۳۳۶ اس الہام میں تین زبردست پیشگوئیاں تھیں۔ (۱) حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے خلیفہ ہو گا۔ (۲) اس وقت اس کی تائی صاحبہ جماعت احمدیہ میں آجائیں گی۔ (۳) بیعت کرنے تک آپ بہرحال زندہ رہیں گی۳۳۷۔ اور ایسا ہی ہوا کہ تائی صاحبہ کا نام حرمت بی بی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیوہ تھیں۔ اور جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی اور نہ حضرت خلیفہ اولؓ کی اور سخت مخالف رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۱۶ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر لی10] p[۳۳۸۔ ایک احمدی شاعر جناب حسن رہتاسی نے اس پر یہ قطعہ کہا۔
تیرے وعدے کے مطابق ترے مامور کے پاس
چل کے دنیا کے کناروں سے خدائی آئی
جس کے آنے کی خبر عہد نبوت میں ملی
تائی والے کی خلافت میں وہ تائی آئی۳۳۹
دارالسلطنت دہلی میں عظیم الشان جلسہ
مارچ ۱۹۱۶ء میں دارالسلطنت دہلی میں جماعت احمدیہ کا عظیم الشان جلسہ منعقدہ ہوا۔ جو ۳/ مارچ ۱۹۱۶ء سے شروع ہو کر ۶/ مارچ ۱۹۱۶ء تک چار دن برابر منعقد ہوتا رہا تھا۔ اپنی نوعیت کا پہلا اور عظیم الشان تبلیغی جلسہ تھا۳۴۰ جلسہ کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام اہل دہلی کے نام جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھ کر سنایا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب‘چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘حضرت میر قاسم علی صاحب‘چوہدری ابوالہاشم صاحب‘مولوی محمد الدین صاحب اور شیخ عبدالخالق صاحب ماہر بائیبل کے لیکچر ہوئے۳۴۱۔ لیکن اس جلسہ کی جان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وہ معرکتہ الاراء مضمون تھا جو حضور نے ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘ کے عنوان سے قلم برداشتہ رقم فرما کر بھجوایا تھا۳۴۲۔
حضور کا یہ نہایت اہم مضمون جس نے اہل دہلی پر باحسن طریق اتمام حجت کر دیا بعد کو کتابی صورت میں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی میں بھی شائع کیا گیا تھا۔
’’نصائح مبلغین‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲/ مارچ ۱۹۱۶ء کو نماز ظہر کے بعد مبلغین کے لئے ایک اہم لیکچر دیا۔ جس میں بہت قیمتی نصیحتیں فرمائیں۔ مثلاً تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ رہیں۔ کتابیں اپنی خریدیں۔ سوال اور خوشامد سے بچیں۔ اللہ پر توکل کریں دعائوں میں مصروف رہیں۔ بدی کے رد میں پوری جرات سے لیکچر دیں۔ اپنے کام کا محاسبہ کرتے رہیں۔ استقلال سے کام لیں۔ مسائل پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ اور لوگوں کو مرکز میں بار بار آنے کی تاکید کرتے رہیں۳۴۳ یہ لیکچر ’’نصائح مبلغین‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
’’نجات کی حقیقت‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ مارچ ۱۹۱۶ء کو ایک عیسائی کی درخواست پر مسئلہ نجات سے متعلق فلسفہ عیسائیت اور فلسفہ اسلام کا مقابلہ کرکے اسلام کی برتری ثابت فرمائی ہے۳۴۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا ایک پر حکمت جواب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک غیر مبائع صاحب کا خط پہنچا۔ کہ اختلاف عقائد کے باوجود حضور کی مستجاب دعائوں سے استفادہ کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس نے جواب لکھوایا۔
’’اگر آپ صرف دعا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو میں دعائیں تو ہر مذہب اور ملت کے آدمیوں کے لئے کرتا ہوں اس کے لئے احمدی ہونا اور احمدیوں میں مبائع ہونا شرط نہیں۔ ہندو اور عیسائی بھی مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں اور میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ پس اگر یہی غرض آپ کی بیعت کرنے کی ہے۔ تو یہ غرض مبارک ہے آپ اپنی اصلی حالت میں رہیں اور مجھے کبھی کبھی علم کے لئے یاد دلاتے رہیں۔ اور اگر بیعت کی غرض اتحاد جماعت کا قائم رکھنا ہے تو پھر اس شرط پر میں آپ کی بیعت منظور کر سکتا ہوں کہ انتظام جماعت کے متعلق آپ کو میرے تمام احکام ماننے پڑیں گے۔ مسائل اختلافیہ میں نہ میں آپ کے عقائد کا ذمہ دار اور نہ آپ میرے عقائد کے ذمہ دار۔ نہ آج تک کوئی خلیفہ عقائد میں جماعت کا ذمہ دار ہوا ہے لیکن عقائد کے متعلق اتنی احتیاط ضروری ہو گی۔ کہ جب میں کسی مسئلہ پر بحث کو جماعت کے اختلاف کا باعث قرار دوں تو اس پر بحث کرنے سے کنارہ کشی کرنی ہو گی اگر ان شرائط پر آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کی بیعت منظور ہے‘‘۳۴۵۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کامیابی اور شکریہ
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس سال ایم۔ اے کا امتحان دیا تھا۔ جس میں آپ کامیاب ہو گئے۔ احباب نے کثرت سے مبارکباد کے خطوط بھیجے جس پر آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔ ’’میری یہ کامیابی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ کیونکہ ظاہر سامان بالکل مایوس کن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مجھے ایم۔ اے تک پڑھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس قول کو پورا کرنے کے لئے ہی اللہہ تعالیٰ باوجود میری کمزوریوں کے تمام یونیورسٹی کے امتحانوں میں مجھے کامیاب فرماتا رہا۳۴۶۔
اخبار ’’صادق‘‘ کا اجراء
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جون ۱۹۱۶ء میں رد عیسائیت کے لئے اخبار ’’صادق‘‘ جاری کیا۔ جو چند اشاعتوں کے بعد بند ہو گیا۔
’’قبولیت دعا کے طریق‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دعائوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ۲۱/ جولائی اور ۲۸ جولائی ۱۹۱۶ء کو ’’قبولیت دعا کے طریق‘‘ پر نہایت پر معارف خطبات ارشاد فرمائے۳۴۷۔ جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا فرمان
بعض لوگ کتابیں یا اشتہارات شائع کرکے احباب جماعت کے نام بغیر ان کی تحریری اجازت یا زبانی درخواست کے وی۔ پی کر دیتے تھے۔ جس سے انجمن کے عام چندوں پر اثر پڑتا تھا۔ اس لئے حضور نے ایک فرمان کے ذریعہ اس کی سختی سے ممانعت کر دی۔ اور حکم دے دیا کہ اگر کسی صاحب کے نام کوئی ایسا وی۔ پی آجائے تو وہ اسے واپس کرکے مجھے اطلاع دیں۳۴۸۔
سنگ بنیاد
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے شروع اگست ۱۹۱۶ء میں مسجد اقصیٰ کے قریب جانب غرب و جنوب جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کے مکان کا سنگ بنیاد رکھا۳۴۹۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چند الزامات کے جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی ماہ درس قرآن مجید کے علاوہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب کے لئے صحیح مسلم شریف کا ایک درس عام بھی جاری فرمایا۳۵۰۔
’’پیغام صلح‘‘ کے چند الزامات کے جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے خلاف ’’پیغام صلح‘‘ کے ایک مضمون میں نہایت ناروا اور بے جا الزامات لگائے گئے جن کے رد میں آپ کے قلم حقیقت رقم سے الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۶ء کو ایک مفصل مضمون شائع ہوا۔
عملی تعزیت نامہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کی پہلی بی بی کی ایک بچی چھوڑ کر ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۶ء کو فوت ہو جانے پر اپنے دست مبارک سے ایک خط لکھا کہ ’’آج آپ کا خط ملا تھا اس وقت سے عورت تلاش کرائی گئی لیکن بوجہ بیماریوں کے کوئی نہ مل سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹی بچی کا فکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ جب تک آپ کا گھر خدا تعالیٰ پھر آباد کرے بچی کو ہمارے گھر میں بھیج دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس غرض کے لئے ایک عورت کو بھیجتا ہوں‘‘۳۵۱۔
حضرت میرزا شریف احمد صاحب کا تقرر
حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کئی ماہ سے آنریری طور پر افسر مدرسہ احمدیہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مگر اس سال آپ نے ہائی سکول کی پانچویں جماعت کو جغرافیہ پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ اور مدرسہ احمدیہ کی نگرانی کے لئے حضرت میاں شریف احمد صاحب کا تقرر بطور اسسٹنٹ عمل میں آیا۳۵۲۔
مغربی افریقہ میں احمدیت کا پیغام
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرنے بیرونی ممالک سے تبلیغی خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔ جس کے نتیجہ میں ۱۹۱۶ء میں نائیجیریا اور سیرالیون میں کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۳۵۳۔
’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح نے یہ اندازہ فرما کر کہ جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو صاحب سلسلہ احمدیہ کے حالات سے آگاہی کا خیال پیدا ہو رہا ہے اور ابتدائی حالت میں مفصل و مبسوط کتب کا مطالعہ ان کے کے لئے مشکل ہو گا۔ نومبر ۱۹۱۶ء میں ’’سیرت مسیح موعود‘‘ کے نام سے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایا جس میں بہت اختصار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت‘دعویٰ دلائل‘مشکلات اور حضور کی چند پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا۔ یہ رسالہ چھپ چکا ہے اور جاوی و انگریزی زبان میں اس کے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔
آنریری مبلغین کے لئے تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے تبلیغ کے کام کو ملک کے طول و عرض میں زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لئے نومبر ۱۹۱۶ء میں آنریری مبلغین کے تقرر کی تحریک ہوئی۳۵۴۔ جس پر کئی احمدیوں نے لبیک کہا۳۵۵۔
بہار ہائیکورٹ کا فیصلہ
مونگیر کے احمدیوں نے سب جج مونگیر کی عدالت میں غیر احمدیوں کے نام یہ درخواست دی تھی کہ وہ احمدیوں کے مساجد میں آکر نماز پڑھنے میں مزاحم نہ ہوں۔ غیر احمدیوں کی طرف سے کہا گیا کہ احمدی کافر ہیں اس لئے انہیں مسجدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سب جج اور ڈسٹرکٹ جج نے دعویٰ خارج کر دیا اور قرار دیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ مسلمان تو ہیں البتہ ان کی بعض رسوم و عقائد دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں اس لئے وہ اس رعایت کے مستحق نہیں۔ اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ جس کی سماعت ۱۲/ دسمبر ۱۹۱۶ء کو شروع ہوئی جماعت احمدیہ کی طرف سے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء پیش ہوئے۔ آپ نے کہا کہ عدالت ماتحت نے قانون محمدی کے تحت میرے موکلوں کو مسلمان قرار دیا ہے اس لئے احمدی اس رعایت کے مستحق ہیں۔ مدعا علیہم کی طرف سے مسٹر مظہر حق پیش ہوئے۔ اپیل کی سماعت ختم ہوئی تو خاتمہ پر چیف جج نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ہائیکورٹ کے جج ان کے بہت شکر گزار ہیں۳۵۶۔ مگر ہائیکورٹ نے عدالت ماتحت کے فیصلہ کو بحال رکھا۔ اور اپیل نامنظور کر دی۔ فریق ثانی کی طرف سے بھی اپیل کی گئی وہ بھی خارج ہو گئی۳۵۷۔
پروفیسر مارگولیتھ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے ۱۶/ دسمبر ۱۹۱۶ء کو مشہور مستشرق اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر قادیان آئے حصرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ملاقات کے وقت ترجمان تھے حضور نے ایک مختصر مگر نہایت مفید گفتگو فرمائی اس علمی مذاکرہ میں معجزہ شق القمر بھی زیر بحث آیا۔ حضور نے ان کو الوادع کہتے ہوئے مغربی حلقوں میں پہنچا دینے کے لئے ایک پیغام بھی دیا جو یہ تھا کہ اگر یورپین لوگ محبت سے اسلامی مسائل کے متعلق تحقیقات کریں تو اس سے انہیں فائدہ بھی ہوگا اور آپس میں محبت بھی بڑھے گی اور حضور نے ان کو بطور تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند عربی مطبوعات دیں اور پروفیسر صاحب عازم لاہور ہو گئے۳۵۸۔
’’صادق لائبریری‘‘ کا قیام
دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی تمام بیش بہا کتابوں کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا۳۵۹۔ اور صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اولؓ کا کتب خانہ اور تشحیذ اور ریویو کی لائبریری میں اسے مدغم کرکے ایک مستقل مرکزی لائبریری ’’صادق لائبریری‘‘ کے نام پر قائم کر دی۔ جس کے ناظم‘افسر مدرسہ احمدیہ تھے۳۶۰۔ اور ۲۴/ جولائی ۱۹۱۷ء سے حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی اس کے لائبریرین مقرر ہوئے۳۶۱۔ ۱۹۲۴ء میں یہ لائبریری نظارت تالیف و تصنیف کے زیر انتظام کر دی گئی اور حضرت امیر المومنین کی خاص ہدایت پر مخالفین اسلام و احمدیت کی کتب خصوصیت سے جمع کی جانے لگی۔ ۱۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو حکیم غلام حسین صاحب نے اس کا چارج لیا۔ اور اپنی وفات تک جو ۱۳/ جون ۱۹۵۰ء کو ہوئی یہ خدمت نہایت محنت سے بجا لاتے رہے۳۶۲۔ نومبر ۱۹۲۹ء میں لائبریری کے قواعد و ضوابط تجویز ہوئے۳۶۳۔ جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی لائبریری بھی اس میں شامل کر دی]01 [p۳۶۴۔ ۱۹۴۷ء میں اس کا بیشتر حصہ قادیان میں رہ گیا۔ تاہم جو کتابیں بھی لائی جا سکیں وہ از سر نو مرتب کی گئیں۔ اور دوبارہ ربوہ میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مئی ۱۹۵۲ء کو یہ مرکزی لائبریری اور حضور کی ذاتی لائبریری دونوں ملا کر ایک کر دی گئیں۔ اور اس مجموعہ کا نام خلافت لائبریری رکھا گیا۔ اور جون ۱۹۵۲ء میں اس کے پہلے انچارج جناب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل شاہد ڈی۔ ایل۔ ایس واقف زندگی مقرر ہوئے۳۶۵4] ft[r۔
خواتین کے لئے تبلیغی فنڈ کی پہلی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آخر ۱۹۱۶ء میں احمدی عورتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ ولایت میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک تبلیغی فنڈ قائم کریں۔ اور اس کی صورت حضور نے یہ تجویز فرمائی کہ مستورات آٹے کی ایک مٹھی ایک خاص برتن میں ڈال دیا کریں اور آٹا ہر ہفتہ فروخت کرکے اس کی قیمت قادیان میں بھجوا دی جائے۔ ابتداًء یہ تحریک قادیان میں شروع ہوئی۔ سب سے پہلے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ نے (جو حضرت خلیفہ اولؓ کی نواسی تھیں) اس میں حصہ لیا۳۶۶۔
’’ذکر الٰہی‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب سابق ۱۹۱۶ء کے سالانہ جلسہ پر بھی تین تقریریں فرمائیں۔ پہلی تقریر میں وقتی حالات کے مطابق متفرق امور۳۶۷ پر روشنی ڈالی۔ دوسری تقریر میں جماعت کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ تیسری روحانیت سے لبریز تقریر جسے تصوف اسلام کا بہترین خلاصہ اور عطر کہنا چاہئے۔ ’’ذکر الٰہی‘‘ کے عنوان پر فرمائی جس میں ذکر کی اہمیت‘اس کی اقسام اس کے آداب و اوقات بتانے کے علاوہ تہجد کے لئے اٹھنے اور نماز میں توجہ قائم رکھنے کے ایسے ایسے عملی طریق بتائے کہ سننے والے وجد میں آگئے۔ دوران تقریر میں ایک غیر احمدی صوفی صاحب نے رقعہ بھیجا کہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں اس قسم کا ایک نکتہ صوفیاء کرام دس دس سال خدمت لے کر بتایا کرتے تھے۔ آپ ایک ہی مجلس میں سب رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۳۶۸۔ یہ تینوں تقریریں ’’ذکر الٰہی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہیں اور ۱۴۶ صفحات پر مشتمل ہیں۔
‏]bus [tag۱۹۱۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات
حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں امتہ الحمید بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۳۶۹۔
۲۔
حضرت قمر جان صاحبہ اہلیہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ لدھیانوی‘ماسٹر عبدالحق صاحبؓ اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب کی زوجہ (ملکہ جان صاحبہؓ) اور ہمشیرہ (مختار بیگم صاحبہ) کی وفات ہوئی۔
۳۔
حضرت ام المومنینؓ دہلی۔ پانی پت‘مالیر کوٹلہ اور پٹیالہ تشریف لے گئیں4] [stf۳۷۰
۴۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب سالانہ جلسہ کی انتظامیہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اور آپ نے بڑی توجہ اور جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیئے۳۷۱۔
۵۔
مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی اور منارۃ المسیح کی سفیدی کا کام ختم ہوا۳۷۲۔
۶۔
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری (شاگرد خاص حضرت خلیفہ اولؓ) کا نکاح پڑھا]4 [stf۳۷۳۔
۷۔
مشہور مباحثات: مباحثہ امرتسر (مابین حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی و مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری۳۷۴) مباحثہ سرگودھا (حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان۳۷۵) مباحثہ گڑھ شنکر۔ (مابین حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب اور مولوی عصمت اللہ صاحب مبلغ انجمن حمایت اسلام لاہور۳۷۶) مباحثہ کولو تارڑ۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۳۷۷) مباحثہ اجنالہ۳۷۸۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری و شیخ عبدالرحمن صاحب مصری) مباحثہ نواں کوٹ۳۷۹۔ (احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) مباحثہ بنگہ (احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب۳۸۰) مباحثہ لکھنو (سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو نے غیر مبایعین سے مناظرہ کیا۳۸۱)
۸۔
‏ind] gat[ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’الفارق‘‘۔ ’’القول المحمود فی شان مصلح الموعود‘‘ (از حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ)
۹۔
ممتاز نو مبایعین: ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب (کیپ ٹائون۳۸۲) نواب اکبر یار جنگ صاحب۳۸۳ سابق ہوم سیکرٹری نظام حیدر آباد۔ حافظ سید عبدالوحید صاحب آف کمرشل ہائوس منصوری۳۸۴۔ مولوی عبداللطیف صاحب (پروفیسر چاٹگام کالج۳۸۵]ind )[tag
‏rov.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
دوسرا باب (فصل چہارم)
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۵ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۶ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۷ء سے دسمبر ۱۹۱۷ء تک) ~[~
زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت][سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ع ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار‘‘ اس کے مطابق ۱۲/ مارچ ۱۹۱۷ء۳۸۶ کو بالشویک انقلاب نے زار کی مطلق العنان اور آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اور پھر اسے اور اس کے بیوی اور بچوں کو محبوس کرکے طرح طرح کی سختیوں عقوبتوں اور شرمناک مظالم کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۳۸۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر ۴/ اپریل ۱۹۱۷ء کو ’’زندہ خدا کے زبردست نشان‘‘ نامی ٹریکٹ لکھا اور دنیا پر اتمام حجت کر دیا اس ٹریکٹ پر بعض اشتہارات میں زار والی پیشگوئی پر کچھ اعتراض کئے گئے۳۸۸۔ جن کا جواب حضور نے ’’خدا کے قہری نشان‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔
’’الحجہ البالغہ‘‘
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جون ۱۹۱۷ء میں مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام پر ایک معرکتہ الاراء کتاب تصنیف فرمائی جو ’’الحجہ البالغہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۳۸۹۔
’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد
مخدوم و معظم حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی کوششوں سے یکم رمضان ۱۳۳۵ھ مطابق ۲۱/ جون ۱۹۱۷ء کو ’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۳۹۰۔ اور ستمبر ۱۹۱۷ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ ابتداًء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور ۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا۳۹۱۔ پہلے حضرت میر محمد اسحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے۳۹۲۔ آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا زنانہ وارڈ قائم ہوا۔ اپریشن روم میں ترقی ہوئی۳۹۳۔ ۱۹۳۰ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کئے گئے۳۹۴۔
‏body] g[taنور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلاتمیز تمام مذہب و ملت خدمت کی۔
مبلغین کا وفد بمبئی میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال بمبئی میں تبلیغ شروع کرنے گویا ہندوستان کے دروازہ کا تبلیغی محاصرہ کرنے کے لئے ۳/ اگست ۱۹۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد بھجوایا جس کے ممبر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاحب‘حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی اکتیس ہدایتیں بھی انکو دیں اور بارش کی حالت میں قادیان سے باہر تک انہیں الوداع کہنے کے لئے بھی تشریف لے گئے۳۹۵۔
وفد نے قریباً دو ڈھائی ماہ قیام کرکے مسلمانوں کے مختلف فرقوں (خوجے‘بوہرے‘میمن‘اسمعیلی وغیرہ) میں اشتہاروں‘لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی اور مخالفتوں کے باوجود خدا کے فضل سے عموماً اچھا اثر رہا10] p[۳۹۶۔ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بمبئی میں دو ٹریکٹ لکھے۳۹۷۔ عمومی تبلیغ زیادہ تر حضرت مولوی میر محمد اسحق صاحب کی مساعی کا نتیجہ تھی۔
امرتسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ
اس سال احمدیوں کے خلاف امرتسر۳۹۸ اور شادیوال۳۹۹ میں دو اہم مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مقدمات میں وکالت کے فرائض چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کئے۔ اور دونوں کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔
سفر شملہ
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ علیل ہو جانے کی وجہ سے طبی مشورہ پر ۳۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۴۰۰۔ اس سفر میں جو محض تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کیا گیا تھا۔ حضور کی دینی مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی پورا سفر شروع سے آخر تک نہایت درجہ مشغولیت میں گزرا۔ حضور نے شملہ میں اپنے وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رکھا۔ ترقی اسلام میں حصہ لینے سے ¶متعلق جماعت احمدیہ کے نام چھ صفحات کا پیغام بھیجا۴۰۱ ۳۰/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو حضور کا جماعت شملہ کے سالانہ جلسہ پر ’’زندہ مذہب‘‘ کے عنوان سے زبردست اور پر عظمت لیکچر ہوا۔ جس میں حضور نے قبولیت دعا کے معاملہ میں مذاہب عالم کے لیڈروں کو فیصلہ کن چیلنج دیا۴۰۲۔ شملہ سے واپسی پر حضور راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے اور پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے پھر راجپورہ واپس آکر پہلے سنور۴۰۳]4 [rtf پھر پٹیالہ پہنچے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک نہایت زور دار الفاظ میں دلوں کو ہلا دینے والا لیکچر دیا۴۰۴۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و غریب دعوت مباہلہ اور اس کا جواب
درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء~رح~ کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی دہلوی نہایت شریف مگر ہوشیار صوفیوں اور صاحب طرز ادیبوں اور انشاء
پردازوں میں سے تھے۔ خواجہ صاحب کے مراسم۴۰۵ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ سے قائم تھے مگر یکایک خدا جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے (رسالہ نظام المشائخ میں) سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مباہلہ کا یہ عجیب و غریب چیلنج دے دیا کہ وہ اجمیر شریف میں آئیں میں بھی وہاں حاضر ہو جائوں گا۔ آستانہ خواجہ غریب نواز کی مسجد میں میرزا صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی باطنی قوت کے تمام حرجے مجھ پر آزمائیں۔ اور جب وہ اپنی ساری کرامت آزما چکیں تو مجھ کو اجازت دی جائے کہ میں صرف یہ کہوں۔ اے خدا بطفیل اس صاحب مزار کی حقانیت کے اپنی صداقت کو ظاہر کر اور ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو اس کو اسی وقت اور اسی لمحہ میں ہلاک کر دے اور اس کے بعد میرزا محمود احمد کو اجازت دی جائے۔ کہ وہ اپنے الفاظ میں جو جی چاہیں کریں۔ میعاد صرف ایک گھنٹہ مقرر کی جائے۔ یعنی دونوں آدمیوں میں سے ایک پر ایک گھنٹہ کے اندر اس دعا کا اثر ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۰۶‘‘ اگر تم کو یہ مباہلہ منظور ہو تو ربیع الاول ۱۳۳۶ھ کی چھٹی تاریخ کو اپنے حواریوں کو لے کر اجمیر شریف آجائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم اس ارادہ سے اجمیر شریف آئو تو اپنی والدہ صاحبہ سے دودھ بخشوا کر آنا اور ریلوے کمپنی سے ایک گاڑی کا بندوبست کرا لینا جس میں تمہاری لاش قادیان روانہ ہو سکے۔ اور نیز اپنی اہلیہ صاحبہ سے مہر بھی معاف کرا لینا اور قادیان کو والد ماجد کی قبر سمیت ذرا غور سے دیکھ کر آنا کہ پھر تم کو زندگی میں وہ درو دیوار دیکھنے نصیب نہ ہوں گے اور جانشینی کے مسئلہ کو بھی طے کرکے آنا‘‘۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جب خواجہ صاحب کے اس چیلنج کا علم ہوا تو حضور نے مفصل اعلان فرمایا کہ مباہلہ کے مسنون طریق کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارے میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں۔ آیت مباہلہ سے ثابت ہے کہ دلائل کے اظہار کے بعد مباہلہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہو گا کہ مباہلہ سے پہلے دونوں اپنے اپنے عقائد پر تقریر کر لیں۔ مباہلہ میں شرط ہو گی کہ عذاب انسانی دخل سے پاک ہو گا۔ اس مباہلہ کا ظاہر ہونا یوم مباہلہ سے ایک سال کے عرصہ میں ضروری ہو گا ہاں خواجہ صاحب کو اجازت ہو گی کہ آپ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کا وقت مقرر کر لیں۔ آیت قرآنی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اور سنت رسولﷺ~ کے مطابق ضروری ہو گا کہ کم سے کم سرگروہ اپنے بیوی اور بچوں کو مباہلہ میں شامل کریں۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ آپ نے مباہلہ کا اثر وسیع کرنے اور فریقین کے لئے منحرف ہونے کی راہ مسدود کرنے کے لئے ایک شرط یہ رکھی کہ دونوں طرف سے ایک ایک ہزار آدمی شامل مباہلہ ہوں۔ دوسرے پانچ پانچ ہزار روپیہ بطور ضمانت کسی ثالث کے پاس رکھ دیا جائے۴۰۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے خواجہ صاحب کو ان کے طریق مباہلہ کی طرف توجہ دلائی کہ ’’یہ طریق فیصلہ کہاں سے ایجاد کیا گیا ہے۔ اس قسم کا مقابلہ کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے طریق عمل سے ثابت نہیں خواجہ صاحب فیصلہ کا طریق مخفی طاقتوں اور غیبی تصرفوں کا استعمال اور باطنی قوت کے حربوں کے وار بتاتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم میں بار بار یہی لکھا پاتے ہیں کہ عذاب کا لانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں پس جب کسی انسان کے اختیار میں یہ بات ہی نہیں تو اپنی طرف سے اس کے قواعد بنانے اور غیبی تصرفات کا دعویٰ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کا چیلنج اور حضرت اقدس کا جواب پبلک کے سامنے آیا تو مولوی ظفر علی خاں نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ اور ’’اسلام سے تمسخر‘‘ کے دہرے عنوان سے لکھا۔ ’’جناب طریقت ماب تقدس انتساب خواجہ حسن نظامی قدس سرہ کو اگر جدا مجد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طریق کار بھی پسند نہ تھا۔ تو قرآن کریم کی وہ عام ہدایت کیا ان کے لئے بہترین معیار عمل نہ تھی۔ کہ اذ اتنا زعتم فی شی فردوہ الی اللہ و الرسول جب کسی چیز میں شکل منازعت نکل آئے اور تم میں نزاع ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ و رسول ~(صل۱)~ کی جانب لوٹائو۔ یعنی قرآن کریم اور سنت حسنہ نبویہ پر اس کو پیش کرو کہ تم مسلمان ہو تو کتاب و سنت سے اچھا جج تمہیں کون سا ملے گا۔ مگر ہمارا ہندوستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک گروہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ایک دوسرے گروہ کو کہ اسے بھی قائل اسلام ہونے کا ادعا ہے۔ مباہلہ کی *** آفرین دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو فلاں پیر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر ہم تم ایک دوسرے کو بددعائیں دیں اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر ملاء اعلیٰ سے عزرائیل کو بلا کر اپنی حبل الورید اس کے نشتر کے حوالہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ قادیان جناب میرزا بشیر الدین محمود سلمہ کے عقائد سے کامل اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس قدر کہنے پر صداقت ہم کو مجبور کرتی ہے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کے مباہلہ کا جواب نہایت معقولیت سے دیا ہے‘‘۴۰۸۔
اب خواجہ صاحب کی سنئے۔ حضرت کے جواب پر انہوں نے گو ابتداء میں مسنون مباہلہ کی اکثر و بیشتر شرائط پر بظاہر آمادگی ظاہر کی۔ مگر بالاخر یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ ’’چند ماہ کا ذکر ہے میری اہل قادیان سے کچھ مخاطبت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لگاتار تضیع اوقات نہیں کر سکتا تھا قادیان کی علانیہ گریز دیکھ لی اور سمجھ لی تو اس گفتگو کو ختم کر دیا۔ اب وہ مذکورہ مباہلہ کی نسبت کچھ ہی لکھتے رہیں مطلق جواب نہ دیا جائے گا۴۰۹۔ حالانکہ انہوں نے شروع میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اہل قادیان سے میری خانہ جنگی نہیں بلکہ جہاز جنگی ہے سارے جہان کو جس قوت مریبیہ و فنائیہ کا خوف لگا ہوا ہے میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں پروشیا کے قوائے حربیہ کا خاتمہ ہو جائے گا تو دنیا کو امن نہیں ملے گا جتنا کہ قادیان کی طاقت زیر و زبر ہونے سے مل سکتا ہے‘‘۔ (ویش ۲۴/ جنوری ۱۹۱۸ء۴۱۰)
مسٹر مانٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت کے تحفظ کے لئے نئی جدوجہد کا آغاز
مسٹر مانٹیگو وزیر ہند نے ۲۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو اعلان کیا کہ حکومت کا منشاء ہندوستانیوں کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا ہی نہیں
بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالاخر ہندوستانیوں کو سونپ دیا جائے گا۴۱۱
اس اہم اعلان سے ملکی سیاست میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہوا۔ جس کے بعد کانگرس کی تحریک جہاں اور زور پکڑ گئی وہاں مسلمان اقلیت کو اپنے مستقبل سے متعلق ایک مہیب خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس کے تحفظ حقوق کے بغیر آزادی ان کی مستقل قومی ہستی کو ختم کر دے گی اور انگریز کے بعد ملک کی بھاری ہندو اکثریت کے ابدی غلام بن جائیں گے۔ گیارہ سال کا واقعہ ہے کہ نواب محسن الملک کی کوشش سے مسلمانوں کا ایک وفد یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو شملہ میں لارڈ منٹو وائسرائے و گورنر جنرل کی خدمت باریاب ہوا اور اس نے ایک مفصل عرضداشت پیش کی اور کہا۔ ’’جو طریقہ نیابت و قائم مقامی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہل ہند کے لئے بالکل نیا ہے۔ ہماری قوم کے بعض دور اندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور تمدنی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے نہایت حزم احتیاط و مال اندیشی سے کام لینا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ورنہ) منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالہ ہو جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے نیز کہا۔ ’’قومی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی ایک جداگانہ جماعت ہے جو ہندوئوں سے بالکل الگ ہے‘‘۴۱۲۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کو سیاست سے الگ رہنے کی پرزور تلقین فرماتے اور بتاتے آرہے تھے کہ ہم مذہبی جماعت ہیں ہمیں سیاست کے دھندوں سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف رہنا چاہئے۴۱۳۔ لیکن اب جو برطانوی حکومت کی طرف سے نئی پالسی کا اعلان ہوا اور مسلم اقلیت کے حقوق خطرے میں پڑنے لگے۔ تو حضور محض اسلامی ہمدردی کی بناء پر مسلمانوں کی ترجمانی اور ان کے مفاد کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آگئے۔ اور آپ نے مصمم فیصلہ کر لیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اور تمام ممکن اخلاقی اور آئینی ذرائع سے مسلم اقلیت کے جداگانہ وجود کو قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اور جیسا کہ آنے والے واقعات سے پتہ چلے گا حضور نے ہرا ہم قدم پر مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کے ہندوستان آنے پر اٹھایا جب کہ انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دہلی میں آکر ریفارم سکیم گورنمنٹ کے سلسلہ میں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا تھا تا آزادی سے متعلق برطانوی سکیم کو بروئے کار لایا جا سکے۔
حضور اس موقعہ پر بنفس نفیس ۱۳/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی تشریف لے گئے۴۱۴ اور جماعت احمدیہ کے بعض سربرآوردہ ممبر بھی دہلی میں بلوا لئے۔ حضور کی ہدایت کے مطابق ۱۵/ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک احمدیہ وفد۴۱۵ نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی۔ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ جس میں ملکی شورش کے مختلف اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالنے کے بعد اور آئندہ ’’سیلف گورنمنٹ‘‘ کے طریق انتقال سے متعلق مشورہ دیا کہ ’’انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں ایسے تمام صوبوں میں جہاں کوئی قلیل التعداد جماعت خاص اہمیت رکھتی ہو اور اس کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس جماعت کو اس تعداد سے زیادہ ممبروں کے انتخاب کا حق دیا جائے جس قدر کہ بلحاظ تعداد کے اس کے حصوں میں آتے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب و بنگال کے سوا باقی صوبوں میں مسلمان اور پنجاب میں سکھ اور بمبئی میں پارسی اور مدراس میں عیسائی ہیں اور سرحدی صوبہ میں اگر کبھی اس کو آئینی حکومت ملی تو ہندو ہیں مگر یہ حق ایسی قلیل التعداد جماعتوں کو جو زیادہ قلیل نہیں ہیں ہرگز نہیں ملنا چاہئے۔ کیونکہ اس حق سے ان جماعتوں کو جو قلیل کثرت رکھتی ہیں سخت نقصان پہنچائے گا مثلاً اگر بڑی تعداد والی قلیل التعداد جماعتوں کو بھی یہ حق دیا جاوے۔ تو ہندوئوں کو تو جن کی میجارٹی جہاں ہے بہت زیادہ کوئی نقصان نہ ہو گا۔ مگر مسلمانوں کو جن کی میجارٹی (کثرت) صرف بنگال اور پنجاب دو صوبوں میں ہے اور بہت ہی کم ہے سخت نقصان پہنچے گا اور ان کی میجارٹی (کثرت) کہیں بھی نہ رہے گی۔ نیز بتایا ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعویٰ اسلام رکھتے ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے بھی اپنی رائے دیں‘‘۴۱۶۔ اخبار پانیئر (الہ آباد) نے اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ ’’احمدیہ وفد عصر کے وقت پیش ہوا۔ سیکرٹری وفد نے اصلاحات کی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوروپین اور ہندوستانی میں جو تفریق کی جاتی ہے یہ موجودہ باعث بے اطمینانی کا ہے ایسی کوئی اصلاحات نافذ نہ ہوں جو چھوٹی جماعتوں کے حقوق کے لئے ضرر رساں ہوں آخر میں بیان کیا ہندوستان کے واسطے دو قسم کی اصلاحیں ضروری ہیں۔ اول وہ اصلاحیں جو سارے ملک کی مجموعی حالت کا خیال کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ دوئم وہ اصلاحیں جو تعلیم یافتہ اصحاب کی اکثریت چاہتی ہے دونوں قسم کی اصلاحیں بہت ضروری ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اصلاحوں کو جاری کیا جائے لیکن آخری فیصلہ کرتے وقت مفصلہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی صلاح نہ ہو جس سے قلیل التعداد اقوام کے حقوق کو نقصان پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اصلاحیں اس ملک کی مختلف اقوام کی بہبودی کے لئے ضروری نظر آرہی ہیں۔ اور ان سے جائز حقوق پورے ہوتے ہیں ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے۴۱۷۔
احمدیہ وفد کے موقف کی مزید وضاحت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح بھی اسی دن ۶ بجے شام مسٹر مانٹیگو سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور ۳۵ منٹ تک گفتگو فرمائی۔ ترجمان کے فرائض چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انجام دیئے۴۱۸۔ اور حضور ۲۶/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی سے قادیان واپس تشریف لائے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور کے اس نئے اقدام پر بعض حلقوں کا تاثر کیا تھا؟ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ ’’جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے۔ بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق (وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس وقت غیر احمدی تھے) بیان کیا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ریل سے بارہ میل فاصلہ پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو سکتا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ تھی) لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں۔ اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو- یا سیاسیات ہوں میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نقطہ پر پہنچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں۔ اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا‘‘۴۱۹۔
ریاست لائبیریا (مغربی افریقہ) میں احمدیت
اسی سال مغربی افرقہ کی ریاست لائبیریا کے ایک پروفیسر نے احمدیت کا لٹریچر منگوایا اس طرح پہلی بار لائبیریا میں احمدیت کا پیغام پہنچا۴۲۰۔
’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو زمانہ قیام بمبئی میں تحریک ہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مناقب پر ایک مختصر سا رسالہ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے بمبئی سے واپس آکر دسمبر ۱۹۱۷ء میں ’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘ تصنیف فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت فرمایا۔
تحریک وقف زندگی
‏0] [rtfسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیاں روز بروز وسعت پکڑ رہی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کے لئے ۷/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی۴۲۱۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب۔ مولوی ابوبکر صاحب سماٹری۔ مولوی ظل|الرحمان صاحب بنگالی۔ خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم۔ اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال۔ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے۔۴۲۲
ان وافقین کو تین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ (۱) رابطین جو وافقین کے استاد تھے۔ (۲) مجاہدین جو عملاً تبلیغی جہاد میں مصروف عمل تھے۔ (۳) منتظرین جو مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں تعلیم پا رہے تھے۴۲۳۔
’’حقیقتہ الرویاء‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۷‘۲۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر تین تقاریر فرمائیں جو ’’حقیقتہ الرویاء‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان تقریروں میں حضور نے علم دین کے طریق بتائے۔ الہام‘کشف‘رویاء اور خواب کے فلسفہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی اور الہام خصوصاً ماموروں کے الہام کی علامات بیان فرمائیں۔
۱۹۱۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کے ختم قرآن پر ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء کو آمین ہوئی۔
۲۔
‏]ind [tag حضرت ام المومنینؓ‘حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب جناب منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی ہمشیرہ کے رخصتانہ کی تقریب پر سنور (ریاست پٹیالہ) تشریف لے گئے۴۲۴۔
۳۔
حضرت خلیفہ اول کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی نگرانی میں ایک ’’انجمن ارشاد‘‘ قائم ہوئی جس کا مقصد جوانوں کو تبلیغی ٹریننگ دینا تھا۴۲۵۔ اس کے علاوہ حضور کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی انجمن شبان الاسلام کی بنیاد رکھی۴۲۶۔
۵۔
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے۴۲۷۔
۶۔
حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا نکاح ثانی جناب مرزا محمد شفیع صاحب کی دختر نیک اختر سے پڑھا۴۲۸۔
۷۔
۷۔ ۸۔ ۹/ اپریل ۱۹۱۷ء کو قادیان میں ’’احمدیہ کانفرنس‘‘ ہوئی۔ کانفرنس کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں۔ دوسرا مسجد اقصیٰ میں اور تیسرا مسجد مبارک میں ہوا۔ وسطی اجلاس کی صدارت قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کی۴۲۹۔
۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی یادگار میں شفا خانہ نور کا اجراء ہوا۔ اور اس کے پہلے انچارج مفتی فضل الرحمن صاحب بنے۔ شفا خانہ حضرت خلیفتہ اولؓ کے مطب والے مکان میں ہی کھولا گیا۴۳۰۔
۹۔
حضرت خلیفتہ المسح ثانی کے حکم سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم کے لئے بھیجے گئے آپ کے ہمراہ محمد سعید صاحب سعدی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے۴۳۱۔ یہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے۔
۱۰۔
قادیان میں ایک نیا محلہ ’’دارالرحمت‘‘ کے نام سے آباد ہونا شروع ہوا جس کے ابتدائی مکینوں میں بابو عبدالرحیم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک غلام حسین صاحب رہتاسی بھی تھے۴۳۲۔
۱۱۔
مشہور مباحثات: مباحثہ کاٹھ گڑھ (آریوں سے۔ احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۴۳۳) مباحثہ نواں شہر۴۳۴۔ (آریوں سے) مباحثہ بھمبلہ ضلع گجرات (احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۳۵) مباحثہ بمبئی (حضرت میر محمد اسحق صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے بھی اور پادری جوالا سنگھ کے ساتھ مباحثے کئے) مباحثہ ظفر وال (حضرت میر قاسم علی صاحب کا آریوں سے۴۳۶۔ مباحثہ کلا سوالہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا مہاشہ چرنجی لعل پریم کے ساتھ۴۳۷) مباحثہ سیکھواں (شیخ محمد یوسف صاحب کا سکھوں سے۴۳۸) ان کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے) موضع پکیواں (ضلع گورداسپور) میں ایک آریہ پنڈت اور مولوی ابو تراب عبدالحق صاحب سے مباحثہ کیا۴۳۹]ind [tag۔
۱۲۔
مرزا گل محمد صاحب (ابن مرزا نظام الدین صاحب) داخل احمدیت ہوئے۴۴۰۔
‏rov.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
دوسرا باب (فصل چہارم)
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۵ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۶ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۷ء سے دسمبر ۱۹۱۷ء تک) ~[~
زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت][سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ع ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار‘‘ اس کے مطابق ۱۲/ مارچ ۱۹۱۷ء۳۸۶ کو بالشویک انقلاب نے زار کی مطلق العنان اور آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اور پھر اسے اور اس کے بیوی اور بچوں کو محبوس کرکے طرح طرح کی سختیوں عقوبتوں اور شرمناک مظالم کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۳۸۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر ۴/ اپریل ۱۹۱۷ء کو ’’زندہ خدا کے زبردست نشان‘‘ نامی ٹریکٹ لکھا اور دنیا پر اتمام حجت کر دیا اس ٹریکٹ پر بعض اشتہارات میں زار والی پیشگوئی پر کچھ اعتراض کئے گئے۳۸۸۔ جن کا جواب حضور نے ’’خدا کے قہری نشان‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔
’’الحجہ البالغہ‘‘
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جون ۱۹۱۷ء میں مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام پر ایک معرکتہ الاراء کتاب تصنیف فرمائی جو ’’الحجہ البالغہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۳۸۹۔
’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد
مخدوم و معظم حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی کوششوں سے یکم رمضان ۱۳۳۵ھ مطابق ۲۱/ جون ۱۹۱۷ء کو ’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۳۹۰۔ اور ستمبر ۱۹۱۷ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ ابتداًء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور ۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا۳۹۱۔ پہلے حضرت میر محمد اسحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے۳۹۲۔ آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا زنانہ وارڈ قائم ہوا۔ اپریشن روم میں ترقی ہوئی۳۹۳۔ ۱۹۳۰ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کئے گئے۳۹۴۔
‏body] g[taنور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلاتمیز تمام مذہب و ملت خدمت کی۔
مبلغین کا وفد بمبئی میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال بمبئی میں تبلیغ شروع کرنے گویا ہندوستان کے دروازہ کا تبلیغی محاصرہ کرنے کے لئے ۳/ اگست ۱۹۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد بھجوایا جس کے ممبر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاحب‘حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی اکتیس ہدایتیں بھی انکو دیں اور بارش کی حالت میں قادیان سے باہر تک انہیں الوداع کہنے کے لئے بھی تشریف لے گئے۳۹۵۔
وفد نے قریباً دو ڈھائی ماہ قیام کرکے مسلمانوں کے مختلف فرقوں (خوجے‘بوہرے‘میمن‘اسمعیلی وغیرہ) میں اشتہاروں‘لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی اور مخالفتوں کے باوجود خدا کے فضل سے عموماً اچھا اثر رہا10] p[۳۹۶۔ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بمبئی میں دو ٹریکٹ لکھے۳۹۷۔ عمومی تبلیغ زیادہ تر حضرت مولوی میر محمد اسحق صاحب کی مساعی کا نتیجہ تھی۔
امرتسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ
اس سال احمدیوں کے خلاف امرتسر۳۹۸ اور شادیوال۳۹۹ میں دو اہم مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مقدمات میں وکالت کے فرائض چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کئے۔ اور دونوں کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔
سفر شملہ
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ علیل ہو جانے کی وجہ سے طبی مشورہ پر ۳۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۴۰۰۔ اس سفر میں جو محض تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کیا گیا تھا۔ حضور کی دینی مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی پورا سفر شروع سے آخر تک نہایت درجہ مشغولیت میں گزرا۔ حضور نے شملہ میں اپنے وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رکھا۔ ترقی اسلام میں حصہ لینے سے ¶متعلق جماعت احمدیہ کے نام چھ صفحات کا پیغام بھیجا۴۰۱ ۳۰/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو حضور کا جماعت شملہ کے سالانہ جلسہ پر ’’زندہ مذہب‘‘ کے عنوان سے زبردست اور پر عظمت لیکچر ہوا۔ جس میں حضور نے قبولیت دعا کے معاملہ میں مذاہب عالم کے لیڈروں کو فیصلہ کن چیلنج دیا۴۰۲۔ شملہ سے واپسی پر حضور راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے اور پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے پھر راجپورہ واپس آکر پہلے سنور۴۰۳]4 [rtf پھر پٹیالہ پہنچے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک نہایت زور دار الفاظ میں دلوں کو ہلا دینے والا لیکچر دیا۴۰۴۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و غریب دعوت مباہلہ اور اس کا جواب
درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء~رح~ کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی دہلوی نہایت شریف مگر ہوشیار صوفیوں اور صاحب طرز ادیبوں اور انشاء
پردازوں میں سے تھے۔ خواجہ صاحب کے مراسم۴۰۵ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ سے قائم تھے مگر یکایک خدا جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے (رسالہ نظام المشائخ میں) سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مباہلہ کا یہ عجیب و غریب چیلنج دے دیا کہ وہ اجمیر شریف میں آئیں میں بھی وہاں حاضر ہو جائوں گا۔ آستانہ خواجہ غریب نواز کی مسجد میں میرزا صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی باطنی قوت کے تمام حرجے مجھ پر آزمائیں۔ اور جب وہ اپنی ساری کرامت آزما چکیں تو مجھ کو اجازت دی جائے کہ میں صرف یہ کہوں۔ اے خدا بطفیل اس صاحب مزار کی حقانیت کے اپنی صداقت کو ظاہر کر اور ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو اس کو اسی وقت اور اسی لمحہ میں ہلاک کر دے اور اس کے بعد میرزا محمود احمد کو اجازت دی جائے۔ کہ وہ اپنے الفاظ میں جو جی چاہیں کریں۔ میعاد صرف ایک گھنٹہ مقرر کی جائے۔ یعنی دونوں آدمیوں میں سے ایک پر ایک گھنٹہ کے اندر اس دعا کا اثر ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۰۶‘‘ اگر تم کو یہ مباہلہ منظور ہو تو ربیع الاول ۱۳۳۶ھ کی چھٹی تاریخ کو اپنے حواریوں کو لے کر اجمیر شریف آجائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم اس ارادہ سے اجمیر شریف آئو تو اپنی والدہ صاحبہ سے دودھ بخشوا کر آنا اور ریلوے کمپنی سے ایک گاڑی کا بندوبست کرا لینا جس میں تمہاری لاش قادیان روانہ ہو سکے۔ اور نیز اپنی اہلیہ صاحبہ سے مہر بھی معاف کرا لینا اور قادیان کو والد ماجد کی قبر سمیت ذرا غور سے دیکھ کر آنا کہ پھر تم کو زندگی میں وہ درو دیوار دیکھنے نصیب نہ ہوں گے اور جانشینی کے مسئلہ کو بھی طے کرکے آنا‘‘۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جب خواجہ صاحب کے اس چیلنج کا علم ہوا تو حضور نے مفصل اعلان فرمایا کہ مباہلہ کے مسنون طریق کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارے میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں۔ آیت مباہلہ سے ثابت ہے کہ دلائل کے اظہار کے بعد مباہلہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہو گا کہ مباہلہ سے پہلے دونوں اپنے اپنے عقائد پر تقریر کر لیں۔ مباہلہ میں شرط ہو گی کہ عذاب انسانی دخل سے پاک ہو گا۔ اس مباہلہ کا ظاہر ہونا یوم مباہلہ سے ایک سال کے عرصہ میں ضروری ہو گا ہاں خواجہ صاحب کو اجازت ہو گی کہ آپ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کا وقت مقرر کر لیں۔ آیت قرآنی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اور سنت رسولﷺ~ کے مطابق ضروری ہو گا کہ کم سے کم سرگروہ اپنے بیوی اور بچوں کو مباہلہ میں شامل کریں۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ آپ نے مباہلہ کا اثر وسیع کرنے اور فریقین کے لئے منحرف ہونے کی راہ مسدود کرنے کے لئے ایک شرط یہ رکھی کہ دونوں طرف سے ایک ایک ہزار آدمی شامل مباہلہ ہوں۔ دوسرے پانچ پانچ ہزار روپیہ بطور ضمانت کسی ثالث کے پاس رکھ دیا جائے۴۰۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے خواجہ صاحب کو ان کے طریق مباہلہ کی طرف توجہ دلائی کہ ’’یہ طریق فیصلہ کہاں سے ایجاد کیا گیا ہے۔ اس قسم کا مقابلہ کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے طریق عمل سے ثابت نہیں خواجہ صاحب فیصلہ کا طریق مخفی طاقتوں اور غیبی تصرفوں کا استعمال اور باطنی قوت کے حربوں کے وار بتاتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم میں بار بار یہی لکھا پاتے ہیں کہ عذاب کا لانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں پس جب کسی انسان کے اختیار میں یہ بات ہی نہیں تو اپنی طرف سے اس کے قواعد بنانے اور غیبی تصرفات کا دعویٰ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کا چیلنج اور حضرت اقدس کا جواب پبلک کے سامنے آیا تو مولوی ظفر علی خاں نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ اور ’’اسلام سے تمسخر‘‘ کے دہرے عنوان سے لکھا۔ ’’جناب طریقت ماب تقدس انتساب خواجہ حسن نظامی قدس سرہ کو اگر جدا مجد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طریق کار بھی پسند نہ تھا۔ تو قرآن کریم کی وہ عام ہدایت کیا ان کے لئے بہترین معیار عمل نہ تھی۔ کہ اذ اتنا زعتم فی شی فردوہ الی اللہ و الرسول جب کسی چیز میں شکل منازعت نکل آئے اور تم میں نزاع ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ و رسول ~(صل۱)~ کی جانب لوٹائو۔ یعنی قرآن کریم اور سنت حسنہ نبویہ پر اس کو پیش کرو کہ تم مسلمان ہو تو کتاب و سنت سے اچھا جج تمہیں کون سا ملے گا۔ مگر ہمارا ہندوستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک گروہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ایک دوسرے گروہ کو کہ اسے بھی قائل اسلام ہونے کا ادعا ہے۔ مباہلہ کی *** آفرین دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو فلاں پیر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر ہم تم ایک دوسرے کو بددعائیں دیں اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر ملاء اعلیٰ سے عزرائیل کو بلا کر اپنی حبل الورید اس کے نشتر کے حوالہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ قادیان جناب میرزا بشیر الدین محمود سلمہ کے عقائد سے کامل اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس قدر کہنے پر صداقت ہم کو مجبور کرتی ہے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کے مباہلہ کا جواب نہایت معقولیت سے دیا ہے‘‘۴۰۸۔
اب خواجہ صاحب کی سنئے۔ حضرت کے جواب پر انہوں نے گو ابتداء میں مسنون مباہلہ کی اکثر و بیشتر شرائط پر بظاہر آمادگی ظاہر کی۔ مگر بالاخر یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ ’’چند ماہ کا ذکر ہے میری اہل قادیان سے کچھ مخاطبت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لگاتار تضیع اوقات نہیں کر سکتا تھا قادیان کی علانیہ گریز دیکھ لی اور سمجھ لی تو اس گفتگو کو ختم کر دیا۔ اب وہ مذکورہ مباہلہ کی نسبت کچھ ہی لکھتے رہیں مطلق جواب نہ دیا جائے گا۴۰۹۔ حالانکہ انہوں نے شروع میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اہل قادیان سے میری خانہ جنگی نہیں بلکہ جہاز جنگی ہے سارے جہان کو جس قوت مریبیہ و فنائیہ کا خوف لگا ہوا ہے میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں پروشیا کے قوائے حربیہ کا خاتمہ ہو جائے گا تو دنیا کو امن نہیں ملے گا جتنا کہ قادیان کی طاقت زیر و زبر ہونے سے مل سکتا ہے‘‘۔ (ویش ۲۴/ جنوری ۱۹۱۸ء۴۱۰)
مسٹر مانٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت کے تحفظ کے لئے نئی جدوجہد کا آغاز
مسٹر مانٹیگو وزیر ہند نے ۲۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو اعلان کیا کہ حکومت کا منشاء ہندوستانیوں کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا ہی نہیں
بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالاخر ہندوستانیوں کو سونپ دیا جائے گا۴۱۱
اس اہم اعلان سے ملکی سیاست میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہوا۔ جس کے بعد کانگرس کی تحریک جہاں اور زور پکڑ گئی وہاں مسلمان اقلیت کو اپنے مستقبل سے متعلق ایک مہیب خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس کے تحفظ حقوق کے بغیر آزادی ان کی مستقل قومی ہستی کو ختم کر دے گی اور انگریز کے بعد ملک کی بھاری ہندو اکثریت کے ابدی غلام بن جائیں گے۔ گیارہ سال کا واقعہ ہے کہ نواب محسن الملک کی کوشش سے مسلمانوں کا ایک وفد یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو شملہ میں لارڈ منٹو وائسرائے و گورنر جنرل کی خدمت باریاب ہوا اور اس نے ایک مفصل عرضداشت پیش کی اور کہا۔ ’’جو طریقہ نیابت و قائم مقامی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہل ہند کے لئے بالکل نیا ہے۔ ہماری قوم کے بعض دور اندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور تمدنی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے نہایت حزم احتیاط و مال اندیشی سے کام لینا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ورنہ) منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالہ ہو جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے نیز کہا۔ ’’قومی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی ایک جداگانہ جماعت ہے جو ہندوئوں سے بالکل الگ ہے‘‘۴۱۲۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کو سیاست سے الگ رہنے کی پرزور تلقین فرماتے اور بتاتے آرہے تھے کہ ہم مذہبی جماعت ہیں ہمیں سیاست کے دھندوں سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف رہنا چاہئے۴۱۳۔ لیکن اب جو برطانوی حکومت کی طرف سے نئی پالسی کا اعلان ہوا اور مسلم اقلیت کے حقوق خطرے میں پڑنے لگے۔ تو حضور محض اسلامی ہمدردی کی بناء پر مسلمانوں کی ترجمانی اور ان کے مفاد کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آگئے۔ اور آپ نے مصمم فیصلہ کر لیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اور تمام ممکن اخلاقی اور آئینی ذرائع سے مسلم اقلیت کے جداگانہ وجود کو قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اور جیسا کہ آنے والے واقعات سے پتہ چلے گا حضور نے ہرا ہم قدم پر مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کے ہندوستان آنے پر اٹھایا جب کہ انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دہلی میں آکر ریفارم سکیم گورنمنٹ کے سلسلہ میں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا تھا تا آزادی سے متعلق برطانوی سکیم کو بروئے کار لایا جا سکے۔
حضور اس موقعہ پر بنفس نفیس ۱۳/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی تشریف لے گئے۴۱۴ اور جماعت احمدیہ کے بعض سربرآوردہ ممبر بھی دہلی میں بلوا لئے۔ حضور کی ہدایت کے مطابق ۱۵/ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک احمدیہ وفد۴۱۵ نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی۔ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ جس میں ملکی شورش کے مختلف اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالنے کے بعد اور آئندہ ’’سیلف گورنمنٹ‘‘ کے طریق انتقال سے متعلق مشورہ دیا کہ ’’انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں ایسے تمام صوبوں میں جہاں کوئی قلیل التعداد جماعت خاص اہمیت رکھتی ہو اور اس کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس جماعت کو اس تعداد سے زیادہ ممبروں کے انتخاب کا حق دیا جائے جس قدر کہ بلحاظ تعداد کے اس کے حصوں میں آتے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب و بنگال کے سوا باقی صوبوں میں مسلمان اور پنجاب میں سکھ اور بمبئی میں پارسی اور مدراس میں عیسائی ہیں اور سرحدی صوبہ میں اگر کبھی اس کو آئینی حکومت ملی تو ہندو ہیں مگر یہ حق ایسی قلیل التعداد جماعتوں کو جو زیادہ قلیل نہیں ہیں ہرگز نہیں ملنا چاہئے۔ کیونکہ اس حق سے ان جماعتوں کو جو قلیل کثرت رکھتی ہیں سخت نقصان پہنچائے گا مثلاً اگر بڑی تعداد والی قلیل التعداد جماعتوں کو بھی یہ حق دیا جاوے۔ تو ہندوئوں کو تو جن کی میجارٹی جہاں ہے بہت زیادہ کوئی نقصان نہ ہو گا۔ مگر مسلمانوں کو جن کی میجارٹی (کثرت) صرف بنگال اور پنجاب دو صوبوں میں ہے اور بہت ہی کم ہے سخت نقصان پہنچے گا اور ان کی میجارٹی (کثرت) کہیں بھی نہ رہے گی۔ نیز بتایا ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعویٰ اسلام رکھتے ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے بھی اپنی رائے دیں‘‘۴۱۶۔ اخبار پانیئر (الہ آباد) نے اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ ’’احمدیہ وفد عصر کے وقت پیش ہوا۔ سیکرٹری وفد نے اصلاحات کی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوروپین اور ہندوستانی میں جو تفریق کی جاتی ہے یہ موجودہ باعث بے اطمینانی کا ہے ایسی کوئی اصلاحات نافذ نہ ہوں جو چھوٹی جماعتوں کے حقوق کے لئے ضرر رساں ہوں آخر میں بیان کیا ہندوستان کے واسطے دو قسم کی اصلاحیں ضروری ہیں۔ اول وہ اصلاحیں جو سارے ملک کی مجموعی حالت کا خیال کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ دوئم وہ اصلاحیں جو تعلیم یافتہ اصحاب کی اکثریت چاہتی ہے دونوں قسم کی اصلاحیں بہت ضروری ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اصلاحوں کو جاری کیا جائے لیکن آخری فیصلہ کرتے وقت مفصلہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی صلاح نہ ہو جس سے قلیل التعداد اقوام کے حقوق کو نقصان پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اصلاحیں اس ملک کی مختلف اقوام کی بہبودی کے لئے ضروری نظر آرہی ہیں۔ اور ان سے جائز حقوق پورے ہوتے ہیں ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے۴۱۷۔
احمدیہ وفد کے موقف کی مزید وضاحت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح بھی اسی دن ۶ بجے شام مسٹر مانٹیگو سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور ۳۵ منٹ تک گفتگو فرمائی۔ ترجمان کے فرائض چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انجام دیئے۴۱۸۔ اور حضور ۲۶/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی سے قادیان واپس تشریف لائے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور کے اس نئے اقدام پر بعض حلقوں کا تاثر کیا تھا؟ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ ’’جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے۔ بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق (وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس وقت غیر احمدی تھے) بیان کیا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ریل سے بارہ میل فاصلہ پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو سکتا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ تھی) لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں۔ اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو- یا سیاسیات ہوں میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نقطہ پر پہنچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں۔ اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا‘‘۴۱۹۔
ریاست لائبیریا (مغربی افریقہ) میں احمدیت
اسی سال مغربی افرقہ کی ریاست لائبیریا کے ایک پروفیسر نے احمدیت کا لٹریچر منگوایا اس طرح پہلی بار لائبیریا میں احمدیت کا پیغام پہنچا۴۲۰۔
’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو زمانہ قیام بمبئی میں تحریک ہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مناقب پر ایک مختصر سا رسالہ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے بمبئی سے واپس آکر دسمبر ۱۹۱۷ء میں ’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘ تصنیف فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت فرمایا۔
تحریک وقف زندگی
‏0] [rtfسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیاں روز بروز وسعت پکڑ رہی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کے لئے ۷/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی۴۲۱۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب۔ مولوی ابوبکر صاحب سماٹری۔ مولوی ظل|الرحمان صاحب بنگالی۔ خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم۔ اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال۔ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے۔۴۲۲
ان وافقین کو تین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ (۱) رابطین جو وافقین کے استاد تھے۔ (۲) مجاہدین جو عملاً تبلیغی جہاد میں مصروف عمل تھے۔ (۳) منتظرین جو مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں تعلیم پا رہے تھے۴۲۳۔
’’حقیقتہ الرویاء‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۷‘۲۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر تین تقاریر فرمائیں جو ’’حقیقتہ الرویاء‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان تقریروں میں حضور نے علم دین کے طریق بتائے۔ الہام‘کشف‘رویاء اور خواب کے فلسفہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی اور الہام خصوصاً ماموروں کے الہام کی علامات بیان فرمائیں۔
۱۹۱۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کے ختم قرآن پر ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء کو آمین ہوئی۔
۲۔
‏]ind [tag حضرت ام المومنینؓ‘حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب جناب منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی ہمشیرہ کے رخصتانہ کی تقریب پر سنور (ریاست پٹیالہ) تشریف لے گئے۴۲۴۔
۳۔
حضرت خلیفہ اول کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی نگرانی میں ایک ’’انجمن ارشاد‘‘ قائم ہوئی جس کا مقصد جوانوں کو تبلیغی ٹریننگ دینا تھا۴۲۵۔ اس کے علاوہ حضور کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی انجمن شبان الاسلام کی بنیاد رکھی۴۲۶۔
۵۔
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے۴۲۷۔
۶۔
حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا نکاح ثانی جناب مرزا محمد شفیع صاحب کی دختر نیک اختر سے پڑھا۴۲۸۔
۷۔
۷۔ ۸۔ ۹/ اپریل ۱۹۱۷ء کو قادیان میں ’’احمدیہ کانفرنس‘‘ ہوئی۔ کانفرنس کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں۔ دوسرا مسجد اقصیٰ میں اور تیسرا مسجد مبارک میں ہوا۔ وسطی اجلاس کی صدارت قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کی۴۲۹۔
۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی یادگار میں شفا خانہ نور کا اجراء ہوا۔ اور اس کے پہلے انچارج مفتی فضل الرحمن صاحب بنے۔ شفا خانہ حضرت خلیفتہ اولؓ کے مطب والے مکان میں ہی کھولا گیا۴۳۰۔
۹۔
حضرت خلیفتہ المسح ثانی کے حکم سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم کے لئے بھیجے گئے آپ کے ہمراہ محمد سعید صاحب سعدی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے۴۳۱۔ یہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے۔
۱۰۔
قادیان میں ایک نیا محلہ ’’دارالرحمت‘‘ کے نام سے آباد ہونا شروع ہوا جس کے ابتدائی مکینوں میں بابو عبدالرحیم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک غلام حسین صاحب رہتاسی بھی تھے۴۳۲۔
۱۱۔
مشہور مباحثات: مباحثہ کاٹھ گڑھ (آریوں سے۔ احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۴۳۳) مباحثہ نواں شہر۴۳۴۔ (آریوں سے) مباحثہ بھمبلہ ضلع گجرات (احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۳۵) مباحثہ بمبئی (حضرت میر محمد اسحق صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے بھی اور پادری جوالا سنگھ کے ساتھ مباحثے کئے) مباحثہ ظفر وال (حضرت میر قاسم علی صاحب کا آریوں سے۴۳۶۔ مباحثہ کلا سوالہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا مہاشہ چرنجی لعل پریم کے ساتھ۴۳۷) مباحثہ سیکھواں (شیخ محمد یوسف صاحب کا سکھوں سے۴۳۸) ان کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے) موضع پکیواں (ضلع گورداسپور) میں ایک آریہ پنڈت اور مولوی ابو تراب عبدالحق صاحب سے مباحثہ کیا۴۳۹]ind [tag۔
۱۲۔
مرزا گل محمد صاحب (ابن مرزا نظام الدین صاحب) داخل احمدیت ہوئے۴۴۰۔
‏rov.5.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا پانچواں سال
دوسرا باب (فصل پنجم)
خلافت ثانیہ کا پانچواں سال
(ربیع الاول ۱۳۳۶ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۷ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۸ء سے دسمبر ۱۹۱۸ء تک) ~[~
احمدیان کٹک پر مظالم
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے پانچویں سال (۱۹۱۸ء) کے شروع میں کٹک (صوبہ بہار) کے احمدیوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم توڑے گئے جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔ چنانچہ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ امرت سر جیسا معاند احمدیت اخبار بھی ان مظالم کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے۔ ’’قادیانیوں کا قافیہ ایسا تنگ کر دیا ہے کہ بیچارے مکان سے باہر تک نہیں نکل سکتے‘‘۔ مرزائیوں کی میت کا پوچھئے مت۔ شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستان میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہے کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تابوت نہیں ملتی۔ بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں۔ بانس اور لکڑی کی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھو کر گاڑ دیں۔ تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آکر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں‘‘۴۴۱۔
سفر بمبئی
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ۱۹۱۸ء میں زیادہ مضمحل ہو گئی اور ڈاکٹروں نے بمبئی جانے کا مشورہ دیا۔ حضور ۳/ مئی ۱۹۱۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۴۴۲۔ اور لاہور میں ناک و حلق کا بجلی کے ذریعہ علاج کئے جانے کے بعد بمبئی تشریف لے گئے۴۴۳۔ اور خدا کے فضل سے بمبئی میں مرض سے افاقہ ہو گیا اور حضور ۱۵/ جون ۱۹۱۸ء کو قادیان پہنچ گئے۴۴۴۔ اس سفر میں حضور کی ایک بچی امتہ العزیز صاحبہ نے (جو حضرت ام ناصر کے بطن سے تھیں) ڈیڑھ سال کی عمر میں وفات پائی اور بمبئی میں دفن ہوئیں۴۴۵۔
سفر ڈلہوزی
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی تشریف لے گئے اور ۲۲/ جون ۱۹۱۸ء سے ۱۷/ اگست ۱۹۱۸ء تک قیام فرمایا۴۴۶۔ اور ایک آزاد خیال عیسائی کی خواہش پر اس سے گفتگو فرمائی اس دن حضور کی طبیعت ناساز تھی مگر جب دوران گفتگو میں اس نے سیدنا نبی کریم~صل۱~ کی نیت پر حملہ کیا تو حضور نے جلالی رنگ میں ایسا مسکت جواب دیا کہ اسے بہت ہی ندامت سے خاموش ہو جانا پڑا4] f[st۴۴۷۔
’’اظہار حق اور حقیقت الامر‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے مولوی محمد علی صاحب کے بعض وساس و اوہام کے ازالہ میں ’’اظہار حقیقت‘‘ اور ’’حقیقت الامر‘‘ کے نام سے بالترتیب جولائی ۱۹۱۸ء اور ستمبر ۱۹۱۸ء میں دو اہم رسائل شائع ہوئے۔
انفلو انزا کی عالمگیر وبا میں جماعت کی بے لوث خدمت
۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوانزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی۔ جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔ اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہو گیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کرکے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گائوں بہ گائوں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی۔ اور عام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورد و نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والنٹیر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہو گئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا۔ اور تقریر و تحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کر دیا ہے۴۴۸ ۔
حضرت خلیفہ ثانی کی تشویشناک علالت اور وصیت
‏]txet [tagحضرت امیر المومنین پر آخر ۱۹۱۸ء میں انفلوانزا کا اتنا شدید۴۴۹ حملہ ہوا کہ حضور نے ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھ دی جس میں اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نامزد فرما دی۔ اس اہم وصیت کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
’’میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے۴۵۰۔ جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کاغذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں۔ تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام میں اس جگہ تحریر کرتا ہوں ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہو سکیں (گو اگر جدا مکان میں ہو تو میرا حکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں) تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپس کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر کریں پہلے صدر جلسہ سب کے رو برو باواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا۔ اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا۔ پھر وہ ہر ایک نامزد شدہ سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صدر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھائیں کہ وہ اس معاملہ کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ شرائط پوری ہو جائیں جو میں نے اس تحریر میں لکھی ہیں اس قسم کے بعد یہ سب لوگ فرداً فرداً اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے۔ تاکہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیر المومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو۔ اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو سب لوگ جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جاویں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدا یا تو ہم پر حق کھول دے۔ دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھائیں اور پھر اسی طرح رائے دیں۔ اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کر سکیں تو ۵/ ۳ رائیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں۔ اس کی خلافت کا اعلان کیا جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہو گا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جو صدر ہو اس مضمون کی بیعت لیں۔ کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالااتفاق ہو۔ بشرطیکہ وہ شخص ان ممبروں میں سے جو صدر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کر ے۔ (جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا۔ بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی امور سب سے زیادہ میرے مدنظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا۔ اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مدنظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں۔ کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے۔ نیوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں۔ پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے۔ میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولاد انشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی۔ بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہو ان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کر لیں بچوں کو اس وقت تک جبکہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں۔ اور بچوں کو دینوی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جاوے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کرسکیں۔ جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جاوے۔ باقی حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یاد دلاتا ہوں۔ جو کام حضرت مسیح موعودؑ نے جاری کئے ہیں کسی صورت میں ان کو بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہو تو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہو اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعائوں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت پہلے سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہو گا؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کس قدر ہی اس کو ناراضگی ہو۔ اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے۔ ان لوگوں کے اسماء جن کو میں خلیفہ کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ یہ ہیں۔
(۱) نواب محمد علی خان صاحب (۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۳) مولوی شیر علی صاحب (۴) مولوی سید سرور شاہ صاحب (۵) قاضی سید امیر حسین صاحب (۶) چوہدری فتح محمد صاحب سیال (۷) حافظ روشن علی صاحب (۸) سید حامد شاہ صاحب (۹) میاں چراغ دین صاحب (۱۰) ذوالفقار علی خاں صاحب۔
اگر بیرونی لوگ شامل نہ ہو سکیں تو پھر یہیں کے لوگ فیصلہ کریں- خلیفہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو قادیان میں رہے جو خود نمازیں پڑھے یہ ضروری ہدایت یاد رکھی جائے کہ یہ لوگ اس بات کا اختیار رکھیں گے کہ اپنے میں سے کسی شخص کو انتخاب کریں یا کسی ایسے شخص کو جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ایک نام اس میں اور زیادہ کر دیا جاوے۔ میاں بشیر احمد صاحب بھی اس میں شامل ہیں۔ والسلام۔
اگر صدر جلسہ خود خلیفہ تجویز ہو تو جو الفاظ خلیفہ کی بیعت کے لئے رکھے گئے ہیں ان کا وہ خود حلفیہ طور پر مجلس میں اقرار کرے۔ خدا کے فضلوںکا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ پس اس شخص کو جس کے لئے لوگ متفق ہوں خلافت سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں مشورہ دینے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے شخص کو منتخب کریں کہ وہ قادیان کا ہی ہو کر رہ سکے۔ اور جماعت کرا سکتا ہو۔ والسلام و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین (دستخط) خاکسار مرزا محمود احمد دستخط خاکسار شیر علی عفی عنہ بقلم خود کاتب تحریر ہذا۔ ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ دستخط فتح محمد سیال بقلم خود۔ دستخط خاکسار مرزا بشیر احمد بقلم خود ۱۸/۱۰ ۱۹۔ دستخط محمد سرور شاہ بقلم خود ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ دستخط خلیفہ رشید الدین ایل۔ ایم۔ ایس بقلم خود ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ (نوٹ) یہ کاغذ مولوی شیر علی صاحب کی تحویل میں رکھا جاوے اور اس کی نقل فوراً شائع کر دی جاوے۔ (دستخط) مرزا محمود احمد‘‘۔
حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دوسرے ہی روز یہ وصیت دفتر ترقی اسلام کے میگزین پریس قادیان سے شائع کر دی گئی۴۵۱
فتح کا جشن مسلمانان ہند اور جماعت احمدیہ
جرمنی نے ۱۱/ نومبر ۱۹۱۸ء کو معاہدہ صلح پر دستخط کئے اور دنیا نے جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پانے پر اطمینان کا سانس لیا ۱۲/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی منائی گئی۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی۔ اے (ایڈیٹر ’’مخزن)‘‘ نے لکھا۔ ’’ماہ نومبر کی بارھویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں وہ مدتوں تک یاد رہیں گی۔ اور ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت سی کلفتوں کو دھو ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نے برطانیہ اور اس کے حلیف دول کو بڑی شاندار کامیابی دی ہے ۔۔۔۔۔۔ ظلم پر عدل کی فتح ہے خود مختاری پر جمہوریت کی فتح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی تاریخ ایک نیا ورق الٹتی ہے۔ خدا کرے کہ امن و آزادی کا ایک دور جدید دنیا بھر میں اس فتح سے شروع ہو۴۵۲۔ ۲۷/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ملک بھر میں جشن فتح منایا گیا۔ اس تقریب پر مسلمان شعراء نے دل کھول کر نظمیں کہیں مثلاً میرا غلام بھیک بی۔ اے نیرنگ (صدر انجمن دعوت و تبلیغ اسلام انبالہ) نے لکھا۔
دکھایا اوج طالع نے نگاہوں کو عجب منظر
جسے دیکھو خوشی کے جوش میں آپے سے ہے باہر
مبارکباد کا اک شور ہے مشرق سے مغرب تک
ترانوں سے طرب کے گونجتا ہے گنبدا خضر
ملی برطانیہ کو فتح کامل ایسے دشمن پر
تصور میں نہیں آتا ہے دشمن جس سے قاتل تر
شہنشہ جارج کو آخر خدا نے فتح کامل دی
کہ خود فتح و ظفر کو ناز ہے اس شہ کی نسبت پر۴۵۳
ایک اور مسلمان شاعر خان احمد حسین خاں (مدیر ’’شباب اردو)‘‘ نے لکھا۔ ~}~
یہ فتح شاندار مبارک ہو شہریار
تم کو نصیب خضر کی ہو عمر تاجدار
یہ تیرا راج راحت اہل قلوب ہو
اور اس پہ آفتاب نہ ہر گز غروب ہو۴۵۴
دوسرے مسلمانوں کی طرح جماعت احمدیہ نے بھی اس جشن میں حصہ لیا۔ کھیلوں کے مقابلے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا گیا۔ چراغاں کیا گیا۴۵۵۔ اور اس تمام تر خوشی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’مغرور اور متکبر سلطنت جرمنی جو آج سے چند سال پیشتر تمام دنیا کو اپنی ظلم و استبداد کی حکومت کے ماتحت لانے کے خواب دیکھ رہی تھی اس پر برطانیہ اور اس کی اتحادی طاقتوں نے کامل غلبہ اور فتح اور اقتدار حاصل کرلیا۴۵۶۔
مسلمان بچوں کے لئے پانچ ہزار روپیہ
حضور نے پانچ ہزار روپیہ جنگ عظیم میں کام آنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے فنڈ میں عطا فرمایا۴۵۷۔
متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاں (حضرت ام ناصر کے بطن سے) صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور (حضرت سیدہ امتہ الحی کے بطن سے) صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی ولادت ہوئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب پیدا ہوئے۔
۲۔ صدر انجمن احمدیہ نے اپنے کارکنوں کے لئے پراویڈنٹ فنڈ کا سسٹم جاری کیا۴۵۸
۳۔ ۱۹۱۸ء کا سالانہ جلسہ ملتوی کر دیا گیا۔
۴۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ۱۹۱۴ء میں ولایت سے واپسی کے بعد سیالکوٹ میں وکالت شروع کی تھی مگر اپریل ۱۹۱۸ء کے قریب آپ لاہور میں قیام پذیر ہو گئے۔ اور امارت لاہور کی نازک ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کر دی گئی۔ فرائض امارت کے علاوہ آپ صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی بھی تھے۴۵۹۔ اور جماعتی مقدمات میں بھی اکثر جایا کرتے تھے۔
۵۔ اس سال (۱۹۱۸ء میں) حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی۴۶۰ نے اور حضرت سید محمد علی شاہ صاحب نے انتقال فرمایا۴۶۱۔
۶۔ ۱۹۱۸ء میں غیر احمدیوں کے دائر کردہ دو اہم مقدمات خارج ہوئے۔ (۱) ایک مقدمہ مولوی قاضی فضل احمد لدھیانوی نے شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری انجمن لدھیانہ کے خلاف ایک اشتہار کی بناء پر دائر کر رکھا تھا جو خارج ہو گیا۴۶۲۔ (۲) کٹک کے احمدیوں پر مسجد سے ممانعت کے تعلق میں ایک فوجداری مقدمہ تھا جو عدالت نے خارج کر دیا۴۶۳۔
۷۔ عہد خلافت ثانیہ کی پہلی سالانہ رپورٹ (صدر انجمن احمدیہ) پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی۴۶۴۔
۸۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کا مجموعہ ’’تبلیغ رسالت‘‘ کے نام سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے شائع کرنا شروع کیا۔
۹۔ اس سال کے مشہور مباحثات: مباحثہ ہوشیار پور۴۶۵ (مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری اور مولوی ثناء اللہ کے درمیان) مباحثہ فتح گڑھ چوڑیاں۴۶۶۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا آریوں سے) مباحثہ گوجرانوالہ۴۶۷ (مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا عیسائیوں سے) مباحثہ شملہ۴۶۸ (مولوی عمر دین صاحب شملوی اور مولوی عبدالحق صاحب غیر مبائع) مباحثہ گجرات۴۶۹۔ (حضرت حافظ روشن علی صاحب کا آریہ پنڈت پور نند سے) مباحثہ ماچھیواڑہ۴۷۰ind] gat[ ضلع لدھیانہ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا دہلوی علماء سے) مباحثہ کپورتھلہ۴۷۱۔ (شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان)
۱۰۔ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات ’’میرا عقیدہ دربار نبوت مسیح موعودؑ‘‘ (مولفہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری) ’’حق الیقین‘‘ (حضرت مولوی حکیم عبیداللہ صاحب بسمل)
۱۱۔ اس سال سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی۴۷۲ (کلکتہ) احمدیت میں داخل ہوئے جنہوں نے آگے چل کر حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی طرح سلسلہ کی ہر اہم تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی۔ خصوصاً تقسیم ملک کے بعد قادیان۔ درویشان قادیان اور احمدیت کے لئے ان کی مالی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع اور قابل رشک ہے۔
‏rov.5.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
دوسرا باب (فصل ششم)
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۷ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۸ھ)
(جنوری ۱۹۱۹ء سے دسمبر ۱۹۱۹ء تک)
جماعت کے مرکزی نظم و نسق میں اصلاح اور نظارتوں کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۹ء میں اس وقت کے نظام سلسلہ احمدیہ کی مناسب اصلاح و ترمیم فرما کر اسے نہایت مفید بنا دیا سلسلہ احمدیہ کا پہلا مرکزی نظام (خلافت کی نگرانی میں) صدر انجمن احمدیہ پر مشتمل تھا۔ جو اپنی تفصیل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تجویز فرمودہ نظام نہیں بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ نظام تھا۔ اس نظام میں مختلف صیغے ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع تھے کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ صدر انجمن احمدیہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا دخل نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصت¶ہ ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے تھے۔ جن کے ہاتھوں میںکسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈور نہیں تھی۔ پھر مجلس کے قواعد کی بنیاد ایسی طرز پر رکھی گئی تھی کہ جماعت کی نمائندگی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا بحالیکہ حکومت کی سب سے خطرناک صورت یہی سمجھی گئی ہے کہ اول تو چند آدمی تمام لوگوں کے نمائندے قرار دے دیئے جائیں مگر دراصل وہ نمائندے نہ ہوں۔ دوسرے انہیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ خود ہی اپنے قائم مقام تجویز کر دیا کریں۴۷۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی نظر اس امر تک پہنچ تو شروع میں ہی گئی تھی۔ مگر اس خیال سے کہ کسی اور قسم کے نقصانات پیدا نہ ہو جائیں قائم شدہ نظام کو یک دفعہ بدل دینا پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ حضور نے کافی غور وفکر اور مقامی وبیرونی اہل الرائے احباب کے مشورہ کے بعد یکم جنوری ۱۹۱۹ء کو ایک متوازی نظام جاری فرمایا۔ جس میں ہر شخص خلیفہ وقت کی براہ راست نگرانی و ہدایات کے تحت ایک مستقل صیغہ کا انچارج اور ذمہ دار تھا اور پھر یہ سب انچارج باہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے۔ ان افسروں کا نام حضور نے ناظر تجویز فرمایا۔ اور ان کی انجمن کا نام محکمہ نظارت رکھا۴۷۴۔ اور مختلف ناظروں کے اوپر ایک صدر ناظر مقرر فرمایا جس کا نام ناظر اعلیٰ رکھا گیا۔ چنانچہ حضور نے ایک فرمان مبارک کے ذریعہ سے اعلان فرمایا کہ۔
’’تمام احباب جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریات سلسلہ کے پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونجات کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے سرانجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقع اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں۔ اور جماعت کی تمام ضروریات کے پورا کرنے میں کوشاں رہیں۔ فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ ایک ناظر تالیف و اشاعت ایک ناظر تعلیم و تربیت ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا اور ان عہدوں پر سردست ان احباب کو مقرر کیا جاتا ہے‘ناظر اعلیٰ مکرمی مولوی شیر علی صاحب۔ ناظر تالیف و اشاعت مکرمی مولوی شیر علی صاحب۔ ناظر تعلیم و تربیت مکرمی سید سرور شاہ صاحب۔ ناظر امور عامہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب۔ ناظر بیت المال مکرمی ماسٹر عبدالمغنی صاحب۔ ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتاء اور قضاء کو مدنظر رکھ کر افتاء کے لئے مولوی سید سرور شاہ صاحب مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب اور قضا کے لئے مکرمی قاضی امیر حسین صاحب مکرمی مولوی فضل دین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحاق صاحب کو مقرر کیا ہے۔ آئندہ جو تغیرات ہوں گے ان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احباب کو اطلاع دی جاتی رہے گی میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے اور سلسلہ کی کسی خدمت سے دریغ نہ کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کی تحریرات کو میری ہی تحریرات سمجھیں گے‘‘۴۷۵۔
اس جداگانہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور بالاخر اکتوبر ۱۹۲۵ء میں صدر انجمن احمدیہ اور اس کے جدید نظام کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا۴۷۶ جس میں صدر انجمن احمدیہ کا نظام اور اس کی اصولی صورت تو بدستور قائم رہی مگر صیغوں کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن بھی جدید نظام عمل کے مطابق قائم ہو گئی اور جماعت کو صحیح معنوں میں موثر نمائندگی بھی میسر آگئی۔ اور قواعد اس رنگ میں ڈھال دیئے گئے کہ مجلس معتمدین کا براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق و رابطہ ہو گیا۔ اور اسے خلیفہ وقت کو اطلاع اور مجلس شوریٰ کے غور کے بغیر کوئی بجٹ پاس یا تبدیل کرنے کا اختیار نہ رہا۴۷۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے اس جدید نظام عمل کے مطابق مندرجہ ذیل نظارتیں قائم فرمائیں۔ (۱) نظارت علیا۔ (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ) (۲) دعوت و تبلیغ۴۷۸ (حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) (۳) تعلیم و تربیت۴۷۹ (حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ) (۴) بیت المال (حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحبؓ) (۵) امور عامہ (حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحبؓ) (۶) امور خارجہ (حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ) (۷) ضیافت (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) (۸) بہشتی مقبرہ (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ)
حضور نے ان ناظروں کے علاوہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کو مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۴۸۰۔ اور گو ناظروں اور مجلس معتمدین کے ممبروں کی تبدیلی حسب ضرورت ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ مگر اب تک یہی مخلوط نظام سلسلہ میں رانج ہے اور بفضلہ تعالیٰ روز افزوں ترقی پر ہے۔
’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘
حضرت خلیفہ ثانی ۱۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو لاہور تشریف لے گئے۴۸۱۔ اور ۲۷/ فروری ۱۹۱۹ء کو دارالامان رونق افروز ہوئے۴۸۲۔ یہ سفر بغرض علاج کیا گیا تھا۔ مگر حضور نے اس کے دوران میں دو معرکتہ الاراء تقریریں بھی فرمائیں۔ پہلی تقریر ۲۳/ فروری کو بریڈ لا ہال میں ’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘ کے موضوع پر۴۸۳۔ اس جلسہ کے صدر جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تھے ملک کے مختلف اخبارات ’’روزانہ قومی رپورٹ‘‘ (مدراس) ’’روزانہ اخوت‘‘ (لکھنئو) روزانہ ’’ہمدم‘‘ (لکھنئو) ’’وکیل‘‘ (امرتسر) نے مختصر اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ (لاہور) نے اس کی مفصل خبر شائع کی۴۸۴۔
’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘
حضور نے دوسری تقریر مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے زیر اہتمام ۲۶/ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال میں فرمائی۔ اس تقریر کا عنوان تھا ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘۔ اس جلسہ کے صدر مورخ اسلام جناب سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے تھے۔ سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا۔ ’’آج کے لیکچرار اس عزت اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب ناواقف ہوں۔ آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیاتھا۴۸۵۔
افتتاحی تقریر کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوران خلافت میں عبداللہ ابن سبا اور اس کے باغی اور مفسد ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر اتنی تفصیلی روشنی ڈالی اور تاریخ اسلام کی گمشدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑیوں کو اس طرح منکشف و مربوط فرما کر سامنے رکھ دیا کہ بڑے بڑے صاحبان علم و فہم بھی حیران رہ گئے۔ خاتمہ تقریر پر صدر مجلس جناب سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے نے فرمایا۔ ’’حضرات! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے۔ اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں۔ اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس (میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف اشارہ کرکے) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ (جو اوپر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر) کی روشنی سے ہے حضرات جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے‘‘۴۸۶۔
یہ اہم تقریر اگلے سال شائع ہوئی تو اس کے ابتداء میں سید عبدالقادر صاحب نے تمہیداً لکھا۔
’’فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شذبد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا‘‘۴۸۷۔
شرائط مناظرہ سے متعلق اہم اعلان
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے شرائط مباحثہ میں بعض خلاف شریعت شرائط بھی منظور کر لینے پر تحریر فرمایا کہ ’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فیصلہ خدا کا منظور ہو سکتا ہے نہ کسی اور کا۔ فروعات میں تو غیر شخص بھی فیصلہ کر سکتا ہے لیکن ایمانی اور اصولی معاملات میں کسی شخص کا فیصلہ ہرگز مانا نہیں جا سکتا۔ نہ میں ایک منٹ کے لئے کسی ایسے مباحثہ کا خیال اپنے دل میں آنے دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سب کی سب جماعت احمدیہ دنیا کے ہر ایک گوشہ کی ایسے امر پر مرتد ہونے کے لئے تیار ہو (خدانخواستہ) تو میں اس کے ارتداد کو نہایت فراخدلی اور خوشی سے قبول کروں گا۔ مگر مسیح موعودؑ کی صداقت یا اسلام کی حقانیت کے متعلق زید اور بکر کی رائے کو حکم بنانے کے لئے تیار نہیں ہوں گا۔ اور ہرگز نہیں ہوں گا آپ لوگوں نے گناہ کیا ہے اور سخت گناہ کیا ہے۔ بلکہ اپنے ایمانوں پر اپنے ہاتھوں سے تبر چلایا ہے‘‘۴۸۸۔
’’عرفان الٰہی‘‘
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا پہلے سالوں میں یہ معمول رہا تھا کہ جلسہ کے موقع پر اپنی پہلی تقریر میں تو عام نصائح فرماتے اور دوسری تقریر علمی مسئلہ پر ہوا کرتی تھی مگر دسمبر ۱۹۱۸ء کا جلسہ جو مارچ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں پہلے دن تو حضور نے ’’عرفان الٰہی‘‘ جیسے دقیق مضمون کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا۔ اور عرفان الٰہی اور تزکیہ نفوس کے ذرائع بتاتے ہوئے نکات و معارف کا دریا بہا دیا۔ اور دوسرے دن کی تقریر میں متفرق امور پر روشنی ڈالی پہلے دن کی تقریر ’’عرفان الٰہی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔
نیا قبرستان
احمدی بچوں اور غیر موصی احمدیوں کی تدفین کے لئے کوئی الگ قبرستان موجود نہیں تھا حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے جو ہمیشہ رفاہی کاموں میں دلچسپی رکھنے والے بزرگ تھے۔ اس طرف توجہ فرمائی اور اس کے لئے دور الضعفاء (ناصر آباد) سے متصل ایک قطعہ زمین کا انتظام کر دیا۴۸۹۔
(متحدہ) ہندوستان میں زبردست سیاسی ہیجان اور جماعت احمدیہ کا رویہ
(متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں ۱۹۱۹ء کا سال اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اس میں ایسے طویل و عریض ہیجان کا آغاز ہوا جس کی نظیر اس سے پہلے گزرے ہوئے کسی سال میں نظر نہیں آتی۔ جنگ کے اختتام نے دنیا میں ایک عام بیداری پیدا کر دی تھی۔ اور چونکہ اس قسم کی بیداری کے ابتدائی مراحل میں بعض جوشیلی طبیعتیں حد اعتدال سے آگے نکل جاتی ہیں اس لئے اس کے انسداد کی غرض سے حکومت نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور ۱۹۱۹ء کی ابتداء میں ایک ’’رولٹ بل‘‘ بھی پاس کرنے کی تجویز کی۔ جس کے ذریعہ سے پریس پر خاص پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ حکومت کے اس اقدام پر ملک کے بیدار شدہ حصہ میں سخت ہیجان پیدا ہوا۔ امپریل لیجلیٹو کونسل میں جن دنوں یہ بل پیش تھا ملکی اخباروں اور سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور کونسل کے تمام ہندوستانی ممبروں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے لیکن حکومت نے سرکاری اور نامزد عناصر کی مدد سے یہ بل پاس کرکے ’’رولٹ ایکٹ‘‘ بنا دیا۔ تمام ملک میں شدید ناراضگی کی لہر دوڑ گئی۔ مسٹر گاندھی کی تحریک پر (جسے ستیہ گرہ کا نام دیا گیا) دو دن (۳۰/ مارچ اور ۶/ اپریل ۱۹۱۹ء) ملک کے گوشے گوشے میں ہڑتال منائی گئی۔ نام کو تو یہ ’’سول نافرمانی کی پر امن تحریک‘‘ تھی مگر اس کے نتیجہ میں دہلی۔ احمد آباد اور دوسرے مقامات پر فسادات رونما ہو گئے پنجاب میں سب سے زیادہ شورش برپا ہوئی چند مقامی لیڈروں کی گرفتاری پر امرتسر میں کوئی آٹھ نو افسر قتل کر دیئے گئے۔ بنک لوٹے گئے سرکاری عمارتیں جلا دی گئیں۔ گوجرانوالہ کا ریلوے اسٹیشن نذر آتش کر دیا گیا۔ اور کئی جگہ ریل کی پٹری اکھاڑ دی گئی۔ اور تار کاٹ دیئے گئے اس پر اپریل ۱۹۱۹ء میں لاہور۔ امرتسر۔ گجرات۔ گوجرانوالہ اور لائل پور کے اضلاع میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ یعنی صوبہ کا انتظام فوجی افسروں کو سونپ دیا گیا۔ اور فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔
مارشل لاء کے تحت ہر قسم کے جلسے اور جلوس بند کر دیئے گئے تھے۔ لیکن اہل امرتسر نے یہ قانون ٹھکرا دیا اور ۱۳/ اپریل ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ میں ایک پبلک جلسہ کیا جس میں ہزاروں آدمیوں نے شرکت کی۔ امرتسر کے فوجی افسر جنرل ڈائر نے لوگوں کو منتشر ہونے کی کافی مہلت دیئے بغیر گولی چلا دی جس سے سینکٹروں آدمی قتل اور زخمی ہو گئے۔ اس انتہائی غیر دانشمندانہ کارروائی کے خلاف پورا ملک کوہ آتش فشاں بن گیا۔ حکومت نے ایک کمیٹی جلیانوالہ باغ کی خونی داستان سے متعلق تحقیق کے لئے مقرر کر دی جس کے نتیجہ میں حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ جنرل ڈائر نے گولی چلانے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے حکومت نے پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈ وائر کو واپس انگلستان بلا لیا۔ اور جنرل ڈائر کو ملازمت سے برطرف کر دیا۴۹۰
چونکہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ابتداء سے یہی رہا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملکی امن کو برباد کرنے والی ہو اس لئے حضرت خلیفہ ثانی نے اس زمانے میں اپنی جماعت کو پے در پے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہے۴۹۱۔ چنانچہ جماعت احمدیہ نے ان خطرناک ایام میں قیام امن کے لئے ہر ممکن جدوجہد سے کام لیا۔ حتیٰ کہ حکومت کے ایک پریس کمیونک میں کھلے طور پر تسلیم کیا گیا کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے۴۹۲۔
جہاں تک فوجی حکومت کی تشدد آمیز پالیسی کا تعلق ہے حضرت خلیفہ ثانی نے اسے وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینگ کر چلنے کا حکم ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ ہے کہ کوئی شخص بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اس کے خلاف اگر ہندوستان کو غصہ پیدا ہو تو یہ کوئی تعجب کا مقام نہیں۔ اسی طرح جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں بھی جس سختی سے کام لیا گیا ہے۔ وہ نہایت ہی قابل افسوس ہے اور جنرل ڈائر کا یہ قول کہ وہ اس لئے گولیاں چلاتے گئے تا ملک کے دوسرے حصہ پر اثر ہو اور بغاوت فرو ہو جائے۔ ان کے مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔ یہ بیان کہ جنرل ڈائر کا فعل اجتہادی غلطی ہے درست نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی وہ ہوتی ہے کہ جس کا وقوع ایسے حالات میں ہو کہ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کے دلائل موجود ہوں لیکن اس جماعت پر گولیاں چلانا جو ہتھیار ڈال چکی ہو اور اپنے عمل سے اپنی غلطی کا اقرار کر رہی ہو خود میدان جنگ میں بھی جائز نہیں‘‘۴۹۳۔
حضور نے اس کے ساتھ ہی ہندوستانیوں کو بھی نصیحت فرمائی کہ اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کیا آئندہ جب ہندوستان کو حکومت خود اختیاری ملے گی تو ہم میں سے بعض کا یہ فعل اس حکومت کے انتظام میں خلل ڈالنے والا نہ ہو گا اور آئندہ نسلیں یہ نہیں سمجھیں گی کہ حکومت کے قوانین کو توڑنے میں کوئی حرج نہیں؟ یاد رکھیں وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو۴۹۴۔
مگر افسوس مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے جو اس تحریک کے علمبردار تھے اس وقت اس اہم نصیحت کو لائق التفات خیال نہیں کیا۔ لیکن ملکی آزادی کے بعد وہی ہوا جو حضور نے فرمایا تھا اور برصغیر پاک و ہند کو جس رنگ میں مسلسل اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور پڑ رہا ہے اور آئے دن ایک ہی ملک کے باشندے اپنے ہم وطنوں اور اپنی ملکی حکومتوں کے خلاف قانون شکنی کے مظاہرے کرتے آرہے ہیں وہ تاریخ کا ایک کھلا ورق ہے۔ یہ واقعات جو یکے بعد دیگرے آتے چلے جا رہے ہیں۔ اتفاقی حادثابت نہیں بلکہ قانون شکنی کی اس باقاعدہ ٹریننگ کے ہولناک نتائج ہیں۔ جو یہ اصحاب غیر ملکی حکومت کے زمانے میں برابر دیتے آرہے تھے۔
علماء دیو بند کا مباہلہ سے گریز
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو دعوت مباہلہ کے موقعہ پر یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ ’’اگر علمائے دیوبند یا علمائے فرنگی محل مباہلہ کے لئے تیار ہوں تو میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ان کی تحریر پر ان سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں‘‘۴۹۵۔ اس کے بعد قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب بلانویؓ نے علماء کو توجہ دلائی کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی دعوت کیوں قبول نہیں کرتے اور ساتھ ہی حضور کی طرف سے شرائط مباہلہ کا بھی اعلان کر دیا۴۹۶۔ اور انتہائی کوشش کی کہ وہ اس آخری فیصلہ کی طرف رجوع کریں۴۹۷۔ علمائے دیو بند نے پوچھا کہ مباہلہ کا نتیجہ کس رنگ میں ظاہر ہو گا۔ اس طرف سے لکھا گیا کہ ’’ہمارے نزدیک مباہلہ کے نتیجہ میں سنت رسول کریم~صل۱~ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے کسی خاص قسم کے عذاب کی تعین نہیں ہوتی۔ ہاں وہ عذاب ایسا ہو گا۔ جس میں فریق مخالف کے کسی منصوبہ کا دخل نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب علمائے دیو بند کا فرض ہے کہ جو کچھ آثار مباہلہ سمجھتے ہیں ان کی تعین کر دیں‘‘۴۹۸۔ اس جواب پر دیوبندی علمائے کے لبوں پر مہر سکوت لگ گئی۔
تحریک خلافت کا آغاز اور حضرت خلیفہ ثانی کی بروقت رہنمائی
پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں نے ترکی کی شان و شوکت خاک میں ملا دی تھی۔ گو ابھی صلح کے شرائط طے نہیں ہوئے تھے مگر اس کا مستقبل صاف صاف مخدوش نظر آرہا تھا۔ جس سے مسلمانان ہند کو از حد تشویش تھی۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ۳۱/ ستمبر ۱۹۱۹ء کو لکھنئو میں ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں حکومت کے خلاف منظم طریقہ سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی تجویز زیر غور آئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو بھی اس کانفرنس میں خاص طور پر دعوت دی گئی۔ گو حضور اپنی ناسازی طبیعت اور بعض دوسری وجوہ کی بناء پر تشریف نہ لے جا سکے۔ مگر آپ نے اپنے قلم سے مسئلہ ترکی کے بارے میں ایک مفصل مضمون کانفرنس میں بھجوایا جو ’’ٹرکی کے مستقبل اور مسلمانوں کا فرض‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپ گیا۴۹۹
اس مضمون میں حضور نے اس موقعہ کو نازک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرے میں ہے اور پورا یقین دلایا کہ ’’جماعت احمدیہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے‘‘ اور پھر اسی پر اکتفا نہ کرکے ترکی کے مستقبل کو آئندہ خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے نہایت مدبرانہ رنگ میں ایک متوازاً قابل عمل اور ٹھوس اور موثر سکیم تجویز فرمائی۔ اس سکیم میں خاص طور پر آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ترکوں کے مستقبل کے بارے میں جن طاقتوں کو فیصلہ کرنا ہے ان میں صرف برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اگرچہ مسلمان نہیں کہ وہ مذہباً ترکوں کی ہمدرد ہو لیکن وہ اپنی مسلمان رعایا کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کسی حد تک مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہے جیسا کہ حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار ’’قبلہ‘‘ کئی دفعہ اقرار کر چکا ہے۔ پس ہمیں برطانیہ پر اور زیادہ زور دینا چاہئے کہ ترکی کو دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے۵۰۰
گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس
سر ایڈورڈ میکلیگن گورنر پنجاب کی خدمت میں ان کی لاہور میں آمد پر مختلف مسلمان فرقوں کی طرف سے دسمبر ۱۹۱۹ء کو خوش آمدید کے ایڈریس پیش کئے گئے۔ حضرت خلیفہ ثانی کی زیر ہدایت اسی دن صوبہ پنجاب کے احمدیوں کی طرف سے اکاون سربر آوردہ اصحاب پر مشتمل ایک وفد گورنر پنجاب کی خدمت میں پہنچا اور ان کی طرف سے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے خیر مقدم کا ایڈریس پیش کیا جس میں علاوہ اور امور کے یہ بھی کہا کہ ’’جناب عالی! ہم سے پہلے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کا ایڈریس بھی جناب کی خدمت میں پڑھا گیا ہے اور ان میں دو امور کی طرف جناب کو توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک مسئلہ مستقبل ٹرکی اور ایک مسلمانوں کی تعلیم کا سوال ہم اس موقع پر ان دونوں سوالات کے متعلق کہنا چاہتے ہیں ہم آخر الذکر مسئلہ کے متعلق تو ان کے خیالات سے بکلی متفق ہیں لیکن اول الذکر مسئلہ کے متعلق ہمارے اور ان کے نقطہ خیال میں کچھ فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے مذہبی نقطہ خیال سے اس امر کے پابند ہیں کہ اس شخص کو اپنا مذہبی پیشوا سمجھیں جو حضرت مسیح موعودؑ کا جانشین ہو اور دنیاوی لحاظ سے اسی کو اپنا سلطان و بادشاہ یقین کریں جس کی حکومت کے نیچے ہم رہتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکی حکومت سے ہماری ہمدردی اس بناء پر ہے کہ وہ اسلام کے نام میں ہمارے شریک ہیں۔ اور ان کی حکومت کا زوال اسلام کی ظاہری شان و شوکت کے لئے ایک صدمہ ہے‘‘۵۰۱
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بعض جوانوں کو خاص خاص مذاہب کی ریسرچ کے لئے ارشاد فرمایا۔ مثلاً ہندو مذہب کے لئے (مہاشہ) ملک فضل حسین صاحب۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی کو سکھ مذہب کے لئے۔ مولوی رحمت علی صاحب (مبلغ انڈونیشیا) شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور عیسائی مذہب کی تحقیق کے لئیے شیخ (حکیم) فضل الرحمن صاحب مقرر ہوئے۵۰۲۔ ان حضرات میں سے مولوی رحمت علی صاحب اور شیخ فضل الرحمن صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے آگے چل کر بالترتیب انڈونیشیا۔ افریقہ اور مصر میں سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بڑی قابل قدر خدمات سر انجام دیں اور ملک فضل حسین صاحب نے اندرون ملک میں ہندو مذہب کے رد اور اسلام کی تائید میں شاندار لٹریچر پیدا کیا۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی نے تحریک شدھی ملکانہ میں ہندو دھرم کے رد میں سرگرم حصہ لیا۔
’’تقدیر الٰہی‘‘
حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ میں تین تقریریں فرمائیں جن میں ایک تقریر ’’تقدیر الٰہی‘‘ کے اہم اور نازک موضوع پر تھی۔ ’’مسئلہ تقدیر‘‘ پر ایمان کی ضرورت و حقیقت۔ تقدیر و تدبر۔ تقدیر عام اور تقدیر خاص کے پہلوئوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اور تقدیر سے متعلق شبہات کا پوری طرح ازالہ فرمایا۔ یہ علم و معرفت سے لبریز تقریر بعد کو ’’تقدیر الٰہی‘‘ ہی کے نام سے شائع ہو گئی۵۰۳۔
۱۹۱۹ء کے متفرق مگر اھم واقعات
۱۔ حضرت خان عبداللہ خان صاحب کے مشکوئے معلیٰ میں طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ تولد ہوئیں۵۰۴۔
۲۔ بزرگوں کی وفات: مندرجہ ذیل بزرگ صحابہ داغ مفارفت دے گئے۔ حافظ معین الدین صاحبؓ۔ حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ۔ حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحبؓ کپورتھلوی۔ حضرت مولوی عظیم اللہ صاحبؓ نابھہ۔
۳۔ اس سال قادیان سے دو نئے رسائل جاری ہوئے۔ (۱) ’’اتالیق‘‘۵۰۵ (بچوں کا رسالہ ایڈیٹر ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی) (۲) ’’رفیق حیات‘‘۵۰۶ (طبی رسالہ۔ ایڈیٹر حکیم عطا محمد صاحبؓ مرحوم)
۴۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں احمدی یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے وسط ۱۹۱۹ء میں احمدیہ یتیم خانہ قائم کیا گیا اور اس کے افسر حضرت میر قاسم علی صاحب مقرر ہوئے۵۰۷۔
۵۔ مشہور مباحثہ: مباحثہ بمبئی۵۰۸ (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مہاشہ رام چندر کے درمیان) مباحثہ قادیان (حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت میر محمد اسحق صاحب اور غیر مبائع میر محمد مدثر شاہ صاحب کے مابین۵۰۹) مباحثہ شموگہ میسور (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مولوی سید عبدالکریم صاحب کے مابین۱۰مباحثہ ڈیریانوالہ ضلع سیالکوٹ۵۱۱ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور پیر جماعت علی شاہ صاحب کے خلیفہ مولوی غلام احمد صاحب اخگر کے مابین)
۶۔ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’براہین العقائد‘‘ (مضامین میں حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب (اکمل) ’’تنویر الابصار‘‘ (از حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل) ’’بابا نانک کا مذہب‘‘ (از شیخ محمد یوسف صاحب) ’’نعم الوکیل‘‘ ’’جماعت مبایعین کے عقائد صحیحہ‘‘ (از مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔
‏rov.5.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
حواشی (پہلا باب)
۱۔ الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۔ ۳ بعنوان کلمات طیبات۔
۲۔ الحکم ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۳۔ برکات خلافت طبع اول صفحہ ۶۔
۴۔ الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶۔ حقیقتہ الرویاء صفحہ ۹۶۔ ۹۷) (از حضرت خلیفہ ثانی)
۵۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔
۶۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۲۔
۷۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳ و صفحہ ۶ کالم ۱۔ حضرت قاضی صاحب کو تو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں حضرت خلیفہ ثانی کی خلافت کا علم دیا گیا۔
۸۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔ ۳۔
۹۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔ ۳۔][۱۰۔
الفضل۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲۔
۱۱۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۔ انہیں تو جنگ مقدس کے دوران میں حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی کے خلیفہ ہونے کے بارے میں خواب آیا تھا۔ ۔(الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔)
۱۳۔ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۶۔
۱۴۔ بشارات رحمانیہ حصہ اول صفحہ ۲۵۵۔
۱۵۔ آپ کے لطیف کشف کے لئے ملاحظہ ہو فاروق یکم فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۷۔
۱۶۔ رسالہ فرقان قادیان مئی و جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۹‘۲۰۔ حکیم مرہم عیسیٰ صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کی قبر شق ہو کر حضرت امام آخر الزمانؑ اس میں سے باہر سینے تک کھڑے ہو گئے ہیں مگر شکل حضور مسیح موعود کی اس وقت بالکل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تھی۔ یہ خواب والدم بزرگوار نے حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے سامنے قادیان میں ایک مجلس میں سنائی تھی اور اس کی تعبیر بھی پوچھی تھی تو حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ نے یہی جواب دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ علوم ظاہری و باطنی کی جامعیت حضرت فضل عمر بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہی عطا فرمائے گا‘‘۔
۱۷۔ الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۷۔ ۸ آپ کی خواب تعبیر میں حضرت خلیفہ اولؓ نے تحریر فرمایا۔ ’’خواب بہت عمدہ ہے اور تعبیر بھی صحیح ہے اور انشاء اللہ اسی طرح پوری ہو گی‘‘۔
۱۸۔ اخبار نور ۲۴/ ۱۷ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۹۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۶ صفحہ ۷۵ و مرکز احمدیت قادیان صفحہ ۳۳۱ (از محمود احمد عرفانی مرحوم)
۲۰۔ تابعین اصحاب احمد حصہ اول صفحہ ۱۹۔ آپ کو خلافت محمود کی آٹھ روز پہلے ہی کشفاًاطلاع مل گئی تھی۔
۲۱۔ منشی صاحب مرحوم کی بیٹی صادقہ بیگم صاحبہ (اہلیہ برکت علی صاحب پریذیڈنٹ راجن پور ضلع ڈیرہ غازی خاں) کا بیان ہے کہ ہم نے اپنے ابا جان سے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ پیغامی عمائدین سے آپ کے گہرے تعلقات تھے پھر آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت کیسے کر لی؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے خلیفہ اولؓ کے اوائل زمانہ خلافت میں یہ رئویا ہوئی کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما ہیں حضور کے اور بھی خدام کافی تعداد میں موجود ہیں حضورؑ نے فرمایا کہ بیعت کر لو۔ میں نے دوسرے دوستوں کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد عرض کیا کہ حضور یہ تو ایک بچے کا ہاتھ ہے حضور نے فرمایا کہ یہ محمود ہے‘‘ ابا جان فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضور کے فرمان پر اس وقت سے بیعت کر لی تھی۔ جب محمود بچہ تھے پھر جب خدا نے ان کو خلیفہ بنا دیا تو میں کیسے پیغامی دوستوں کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ (ملخص از مکتوب چوہدری برکت علی صاحب بنام مولف کتاب مورخہ ۶۴~/~ ۴~/~ ۱۱)
۲۲۔ روئداد جلسہ جوبلی صفحہ ۹۔
۲۳۔ الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
۲۴۔ الفضل یکم اگست ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ الفضل ۲۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ میں ان کی خواب درج ہے افسوس اپنی عمر کے آخر میں یہ غیر مبایعین میں شامل ہو گئے۔
۲۵۔ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے آرگن روح اسلام جلد ۲ نمبر ۷ صفحہ ۵۵ پر لکھا ہے کہ ۲۷/ مئی ۱۹۰۸ء کی شب کو تہجد میں دعا کر رہے تھے تو خیال آیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے بعد کون خلیفہ ہو گا اور آواز آئی بشیر الدین محمود۔ اس خواب سے تین باتیں بالکل واضح ہیں۔ اول حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کا یہی عقیدہ تھا کہ خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا ورنہ اگر انجمن اہی اصل جانشین ہے تو اس دعا کی انہیں ضرورت ہی کیا تھی۔ دوم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں شخصی خلافت کا سلسلہ انجمن کے باوجود جاری رہنا مقدر ہے۔ سوم دوسرے خلیفہ بشیر الدین محمود ہوں گے۔ افسوس ان واضح حقائق کے منکشف ہونے پر بھی شاہ صاحب نے انجمن والوں سے وابستگی اختیار کر لی اور وجہ یہ بتائی کہ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مگر وہ آتے ہی مرتدع ہو جائے گا۔ میں کہتا ہوں یہ فقرہ خود حضرت خلیفہ ثانی کی تائید میں ہے۔ کیونکہ *** میں مرتدع کے معنے ممسوح ہونے اور نشانہ ٹھیک نہ لگنے کے ہیں۔ پہلے معنے کی رو سے بتایا گیا تھا۔ کہ حضور رضائے الٰہی کے عطر سے آتے ہی ممسوح ہوں گے۔ یعنی مصلح موعود کی صفات کے حامل ہوں گے۔ دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ باوجود یکہ آپ رات کے تیروں (یعنی دعائوں) سے جماعت کو متحد رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر آپ کو اس میں کامیابی نہ ہو گی۔ اس کے مقابل پر شاہ صاحب نے یہ توجیہہ کی کہ عقائد میں فتور آجائے گا۔ حالانکہ آتے ہی کا لفظ بتاتا ہے۔ کہ مرتدع ہونے کی صورت قیام خلافت کے بعد ہو گی۔ مگر مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کا تو کہنا یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب کے عقائد خلیفہ بننے سے پہلے ہی بگڑ چکے تھے۔ اس لئے بیعت سے کنارہ کش ہو گئے۔ پھر یہ بات عقلاً بھی قابل تسلیم نہیں کہ کوئی خلیفہ آتے ہی گمراہ ہو جائے۔
۲۶۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔ ایضاً الحق دہلی ۱۹۱۴ء۔
۲۷۔ پیغام صلح ۱۰/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۴۔
۲۸۔ بیان مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۔ الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۱۔
۳۰۔ مسٹر محمد عبداللہ کا حضرت خلیفہ اول کے نام مکتوب بدر ۲۳/ اکتوبر ۱۹۱۳ء میں شائع شدہ ہے ۔ الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۳ کالم ۳
۳۱۔ فرقان سالانہ نمبر نومبر۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۴۴۔ ۴۵۔
۳۲۔ بیعت کے علاوہ بھی ہر نماز کے بعد اور دوسرے وقتوں میں بھی کئی دن تک بیعتیں ہوتی رہیں۔ پہلے روز ۳۶۰ عورتوں کی بیعت ہوئی جن میں حضرت ام المومنین~رضی۱~ اور حضرت اماں جان بھی شامل تھیں۔ (الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳)
۳۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اندازہ کی رو سے صرف پچاس کے قریب آدمی ہوں گے جو بیعت سے باز رہے (آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۱) جناب مولوی محمد علی صاحب نے انحراف خلافت کی یہ عجیب توجیہہ فرمائی کہ ’’حضرت مولوی صاحب مرحوم (مراد خلیفہ اول۔ ناقل) ۔۔۔۔۔۔ وصیت کی رو سے نہیں بلکہ قوم کے اتفاق سے خلیفتہ المسیح کہلائے ۔۔۔۔۔۔۔ اب جب قوم کا اتفاق نہیں رہا تو خلافت کا خاتمہ ہو گیا‘‘۔ (الوصیت شائع کردہ مولوی محمد علی صاحب اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ج) علاوہ ازیں پیغام صلح میں شائع ہوا۔ اب آئندہ کے واسطے اس سلسلہ خلافت کا رواج دینا ہی ایک بہت خطرناک ہے۔ (پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۴)
۳۴۔ انہی کی نسبت جناب مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب نے ابتداء میں ہی لکھا ہی تھا۔ فی الحقیقت حضرت مولوی محمد علی صاحب سے بڑھ کر منصب صدارت و خلافت کے لئے اور کوئی موزوں کام نہ تھا۔ (سالانہ رپورٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور حصہ اول۔ دوم صفحہ ۴) اور دعویٰ کیا کہ حضرت مولانا محمد علی صاحب کی آواز گویا کہ خدا کی آواز ہے اور اس کے رسول کی آواز ہے اور اس کے خلیفہ برحق حضرت مسیح موعودؑ کی آواز ہے۔ یہ ضرور کامیاب ہو کر رہے گا اور جماعت احمدیہ کا بہترین حصہ جو اپنے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل اور دل میں تقویٰ اللہ اور خشیت اللہ رکھتا ہے ضرور اس مرد میدان کے ساتھ ہو جاوے گا اور آخر کار یہ شخص کامیاب ہو کر رہے گا‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۱۲)
۳۵۔ ابتدائے خلافت میں فتنہ کو فرد کرنے کے لئے قلمی خدمات سر انجام دینے والے ممتاز بزرگ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب~رضی۱~۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ۔ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحبؓ ہلالپوری۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ۔حضرت مولوی سید محمد احسن صاحبؓ۔ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ۔ حضرت میاں محمد سعید سعدیؓ۔ حضرت محمد حسن صاحبؓ۔ آسان دہلوی رضی اللہ عنہم اور حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔
۳۶۔ اس سلسلہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ۔ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کو پشاور۔ لدھیانہ۔ سیالکوٹ اور شملہ وغیرہ مقامات کی طرف بھجوایا گیا۔ ان حضرات کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ۔ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب مسٹر مبارک اسمعیل صاحب نے بھی وعظ و تلقین کے لئے سفر کئے موخر الذکر دو حضرات سیالکوٹ گئے تھے۔ (الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۳ و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ و الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) لاہور میں جو اس فتنے کا اصل مرکز تھا حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی بھجوائے گئے۔ (الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳) اور انہوں نے مبارک منزل کے احاطہ چراغ دین میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔ (یاد رہے کہ خلافت ثانیہ کے شروع سے ہی غیر مبائع زعماء نے ملک میں طوفانی دورے کرنے شروع کر دیئے تھے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۵) (ایضاً الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱)
۳۷۔ چنانچہ ان حضرات کو سرتوڑ کوشش کے بعد بالاخر اقرار کرنا پڑا سوائے معددوے چند اشخاص کے میاں صاحب کے ساتھ ساری جماعت تھی۔ (پیغام صلح ۲۳/ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳) اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بھی لکھا کہ میاں صاحب اگر حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے نہ ہوتے اور قادیان مرکز نہ ہوتا اور کوئی مبہم پیشگوئی ۔۔۔۔۔۔۔اور انصار اللہ پارٹی ان کی پشت پر نہ ہوتی تو پھر ہم دیکھ لیتے کہ میاں صاحب اپنے عقائد باطلہ کے ساتھ کس طرح کامیاب ہو جاتے‘‘ (ایضاً) بنا بنایا کام بنی بنائی جماعت بنی بنائی قومی جائیدادیں اسکول بورڈنگ روپیہ خزانہ سبھی کچھ بنا بنایا مل گیا۔ قادیان کا مرکز اور مسیح موعودؑ کا بیٹا ہونا کام بنا گیا قادیان کی گدی نہ ہوتی مسیح موعود کا بیٹا نہ ہوتے اور کہیں باہر جا کر میاں محمود احمد صاحب اپنے عقیدہ ۔۔۔۔۔۔۔ کو پھیلا کر دکھاتے اور پھر نئے سرے سے جماعت بنتی۔ اور ترقی کرتی تو کچھ بات تھی۔ (پیغام صلح ۱۵/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۹ کالم ۳) خدا کی شان ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد حضرت امیر المومنین نے ربوہ میں عظیم الشان شہر بسا کر بتا دیا کہ خلافت ثانیہ کا قیام محض خدا تعالیٰ کی ازلی مشیت کے تحت عمل میں آیا تھا نہ کہ کسی سازش یا قادیان کے بنے بنائے انتظام کے بل بوتے پر!!
۳۸۔ مثلاً پٹیالہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ دوالمیال میں مولوی کرم داد صاحب لکھنو میں مرزا کبیر الدین صاحب اور سرگودھا و لائلپور کے علاقہ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے فتنہ کے اثرات زائل کرنے میں خوب کام کیا۔
۳۹۔ اس حقیقت کے ثبوت میں صرف چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ ’’ایک غیر معصوم انسان کو جو اپنی رشد کی عمر کو بھی نہیں پہنچا اپنا پیر اور رہبر بنا لیا‘‘۔ (المہدی نمبر ۲ صفحہ ۳۵) ’’اب وہ پچیس سال کے نو عمر جوان کے غلام ہیں۔ کیونکہ وہ موجودہ خلیفہ صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کامل اطاعت کی بیعت کر چکے ہیں پس وہ ایک گونہ ایک بچے کے دائمی غلام بن گئے‘‘۔ (پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲) ’’یہ ہے وہ ہٹ کا پکا اولو الہٹ جس کو غلطی سے اولوالعزم پکارا جاتا ہے‘‘۔ (رسالہ انکشاف حقیقت صفحہ ۴۹) ’’ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کے خاندان اور ان کے بعض تعلقداروں کا گزارہ اسی قسم کا ہے کہ ان کی جائداد کی آمدنی اس کے واسطے کافی نہیں ہے اور نوکری وغیرہ تو انہوں نے نہیں کی ہے کہ باہر سے کوئی اور سبیل گزارہ کا نکال دیوے پس لاچاراً اسی آمدنی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ جو سلسلہ کی طرف سے جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ ساری ضروریات اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں تاوقتیکہ حضرت صاحب کے مرید ان کو نذرانہ مقررہ طور پر نہ دیویں۔ پس اگر صاحبزادہ صاحب ان کفر و فسق کے فتووں سے باز آجاویں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے گزارے کے واسطے ایک مستقل صورت قائم کرنے کے واسطے تیار ہیں‘‘۔ (ٹریکٹ احمدی قوم کی خدمت میں اپیل صفحہ ۶۔ ۷۔ از عجب خان صاحب پاڑا چنار)
اس ضمن میں پیغام صلح ۱۶/ مئی ۱۹۱۵ء صفحہ ۴ کالم ۱ کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو۔ صاحبزادہ صاحب کے مریدین کو حضرت مولوی محمد علی صاحب کو خلیفتہ ¶المسیح ماننے میں کیا عذر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک ہم خیال کر سکتے ہیں صاحبزادہ صاحب کو فقط یہی فوقیت ہے کہ وہ جسمانی طور پر ولد مسیح موعود ہیں ورنہ حضرت مولوی صاحب ممدوح حضرت مسیح موعودؑ کے سلسلہ مبارکہ کی خدمت اس وقت سے کر رہے ہیں جب کہ صاحبزادہ صاحب کے دودھ کے دانت بھی ابھی نہ نکلے تھے‘‘۔
۴۰۔ چنانچہ جناب مولوی صدر الدین صاحب ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء کو اور جناب مولوی محمد علی صاحب ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان چھوڑ کر چلے آئے۔ (پیغام صلح ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ و مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۴) الفضل میں ان کے جانے پر یہ خبر شائع ہوئی۔ ’’صدر انجمن کے اجلاس میں مولوی محمد علی صاحب کو ۲/۱ ۴ ماہ کی رخصت باتنخواہ بحساب دو سو سولہ روپے ماہوار ملی ماسٹر صدر الدین صاحب کو ایک ماہ کی رخصت ملی باتنخواہ حساب ایک سو پچھتر روپیہ ماہوار اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب آپ پھر آنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو رخصت باتنخواہ لینے کے کیا معنے‘‘۔ (الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۱۔ ۲)
۴۱۔ لکھا ہے ’’ہمارے دوستوں نے ملزم کیا کہ تم نے یہ بھاری غلطی کی جو قادیان کو چھوڑ کر آئے ہم نے اس کی ہمیشہ یہی وجہ پیش کی کہ فساد سے بچنے کے لئے ہم نے قادیان کو چھوڑ دیا‘‘۔ (پیغام صلح یکم نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲)
۴۲۔ جناب مولوی محمد علی صاحب نے انہی دنوں اقرار کیا تھا۔ سیکرٹری ان کا مرید محاسب ان کا مرید ناظران کا مرید خود وہ اس کے میر مجلس پندرہ ممبروں میں سے نو ان کے مرید وہ جس طرح چاہتے اس انجمن سے کام لے سکتے تھے۔ (پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔)
۴۳۔ آپ نے بیعت خلافت پر ایک مفصل مکتوب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی لکھا تھا۔ جو الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۴ پر طبع شدہ ہے۔
۴۴۔ اس تعلق میں پیغام صلح (۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳) کا یہ اعلان ملاحظہ ہو۔ انجمن برائے نام ایک چیز رہ گئی ہے جو پیر کے ہر ایک حکم کی تعمیل کرنے والی ہو گی ہمارے نزدیک یہ تمام کارروائیاں سلسلہ کے انتظام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے والی ہیں اور تھوڑے دنوں میں یہ مردہ انجمن جو اب پیر کے ہاتھ میں کام کرانے کا ایک آلہ ہو گا خود بخود مر جائے گی لہذا ہم اپنے احباب کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی قسم کا روپیہ قادیان نہ بھیجیں۔
۴۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر الوصیت میں تحریر فرمایا تھا کہ یہ ضروری ہو گا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے۔ مگر ان لوگوں نے اس بابرکت مقام سے ابدی انقطاع کر لیا۔ اور لاہور کو مدینہ المسیح لکھنا شروع کر دیا۔ (پیغام صلح ۲۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲) پیسہ اخبار لاہور نے لکھا۔ میں کسی کی طرفدار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور کی جماعت نے جواب اختلاف خلافت کے بعد لاہور کو کھینچ تان کر مدینہ المسیح بنایا ہے۔ اگر ان کا لاہور کے مدینہ المسیح ہونے کی نسبت پہلے سے اعتقاد تھا تو پیغام صلح بھی اب بہت عرصہ سے نکلتا ہے اس میں اس سے پہلے اس امر کو کیوں ظاہر نہ کیا گیا۔ (پیسہ اخبار بحوالہ الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔)
۴۶۔ جناب مولوی محمد علی صاحب ابھی قادیان میں ہی تھے کہ انہوں نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ملازم ہونے کے باوجود اس نئی انجمن کی تشکیل میں سب سے نمایاں حصہ لیا۔ اور پیغام صلح ۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ پر اس کا اعلان بھی کر دیا۔
۴۷۔ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ حقیقت بخوبی ¶واضح ہوتی ہے کہ فروری ۱۹۱۴ء کے گوشوارہ کے مطابق انجمن کے تمام ضروری شعبے مثلاً مدرسہ‘مقبرہ بہشتی‘تعمیر اور بیت المال وغیرہ سب مقروض ہو چکے تھے۔ سید محمد حسین شاہ صاحب نے پیغام صلح (۱۶/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳) پر خزانہ کے خالی ہونے کا بایں الفاظ اقرار کیا۔ میاں صاحب نے چندوں کی تحریک اپنے متعلق کرکے انجمن کو ان مشکلات میں ڈالا ہوا ہے کہ اس کا خزانہ خالی ہے۔ الخ۔
۴۸۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۴۲۔ ۳۴۷ سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ (مولفہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۴۹۔ پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم ۱۔
۵۰۔ پیغام صلح ۲۴/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ج کالم ۱۔
۵۱۔ پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۵۲۔ مجدد کامل (از خواجہ کمال الدین صاحب) مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۵۔
۵۳۔ پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ء مولوی محمد علی صاحب کے مضمون کے چند فقرات یہ تھے۔ ’’جو چند دوستوں میں تبلیغ کے طریق کار کے متعلق اختلاف تھا۔ اسے کتاب میں لانا اور پھر بعض جگہ نامناسب الفاظ میں انجمن اور اس کے کاموں کی طرف اشارہ کرنا بہت احباب کے لئے رنج کا موجب ہوا ہے۔ (صفحہ ۶ کالم ۱)
۵۴۔ پیغام صلح ۱۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۱ و مجاہد کبیر صفحہ ۴۱۱۔
۵۵۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۳۳ (بحوالہ رسالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ از ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ)
۵۶۔ بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ۔ صفحہ ۱۵۔ ۱۷۔
۵۷۔ بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ صفحہ ۱۶۔ ۱۷۔
۵۸۔ ایضاً صفحہ ۲۶۔ ۲۸ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مجاہد کبیر صفحہ ۳۴۶۔ ۳۴۸۔
۵۹۔ یہ الفاظ ڈاکٹر غلام محمد (احمدیہ بلڈنگس لاہور) کے ایک سرکلر سے لئے گئے ہیں جو انہوں نے اپنے دستخط سے ۲۵/ مارچ ۱۹۵۹ء کو ارسال کیا اور جس کی ایک کاپی مولف کتاب کے پاس موجود ہے۔
۶۰۔ ان حضرات میں دوسرے اکابر غیر مبایعین کے علاوہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی تھے۔ جنہوں نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ ’’اگر میرے مرنے کے بعد میری اولاد ذکورواناث نابالغ رہ جائیں تو ان کی تعلیم و تربیت و ترویح وغیرہ کا انتظام بطور گارڈین کے خلیفہ وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سرپرستی میں کیا جائے‘‘۔ المرقوم ۲۹/ جنوری ۱۹۰۹ء (بحوالہ فرقان نومبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۱۲)
۶۱۔ انہی دنوں کسی نے مولوی صدر الدین صاحب سے پوچھا ’’کہ یہ کیوں بنایا گیا ہے جواب دیا۔ الوئوں کی تسلی بھی تو چاہیئے۔‘‘ (الحق مئی ۱۹۱۴ء)
۶۲۔ پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۶۳۔ مجدد اعظم حصہ دوم صفحہ ۱۰۷۹۔ پھر نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ لوگ بہشتی مقبرہ کے لفظوں پر خفا ہونے لگے۔ (ملاحظہ ہو پیغام صلح ۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۵)
۶۴۔ پیغام صلح ۴/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۶۵۔ تقریر الحاج شیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح ۶/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۶۶۔ پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۶۷۔ پیغام صلح ۱۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۶۸۔ بحوالہ الحق دہلی ۲۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
پیغام صلح ۲۴/ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۷۰۔ اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء۔
۷۱۔ پیغام صلح ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۷۲۔ کلید کلام الامام صفحہ ۱۳۷ شائع کردہ دارالکتب اسلامیہ احمدیہ بلڈنگس لاہور۔
۷۳۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ۔۔۔۔۔۔ اولیاء اللہ میں سے تھے۔ (پیغام صلح ۲۸// اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۳ کالم ۲)
۷۴۔ مولوی محمد علی صاحب احمدیت کے پہلے مجدد تھے۔ (پیغام صلح ۲۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۹۔ از میاں محمد صاحب) حیرت یہ ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب نے ۱۹۱۴ء میں مصلح موعود کے جلد آنے سے صرف اس بناء پر انکار فرمایا تھا کہ ’’اب تو سو سال کے بعد ہی کوئی مجدد آئے گا‘‘۔ (ایک نہایت ضروری اعلان صفحہ ۱۳)
۷۵۔ پیغام صلح ۱۲/ مئی ۱۹۴۰ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۷۶۔ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳۔
۷۷۔ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳۔
۷۸۔ پیغام صلح ۲۴/ مارچ ۱۹۱۴ء۔
۷۹۔ چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب نے ۱۹۰۱ء میں اپنی کتاب (عسل مصفیٰ بار دوم) میں لکھا۔ ’’اس وقت تک چار ہی لڑکے موجود ہیں جن میں سے ایک وہ موعود بھی ہے جو اپنے وقت پر اپنے کمالات ظاہر کرے گا اور جو حضرت اقدس کا جانشین ہو گا‘‘۔ (صفحہ ۷۹۹۔ ۸۰۰ طبع اول)
۸۰۔ مجدد اعظم حصہ اول صفحہ ۱۵۹ (از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) اپنے اس نئے نظریہ کے باوجود کہ مصلح موعود کا زمانہ تیسری چوتھی صدی ہے ان دنوں پیغام صلح والوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی نسبت ایک خواب کی بناء پر یہ امید وابستہ کر دی۔ خداوند تعالیٰ کے دربار میں ممکن ہے کہ تین کو چار کرنے والا آخر مرزا سلطان احمد خان صاحب ہی ہوں۔ (پیغام صلح ۳/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم ۳) خدا کی قدرت حضرت صاحبزادہ صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی اور یہ خواب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی سچائی کا ثبوت بن گیا۔
۸۱۔ الوصیت صفحہ ۶ ب۔ شائع کردہ اشاعت اسلام۔ بار چہارم اگست ۱۹۱۴ء۔
۸۲۔ ریویو جلد ۷ نمبر ۱ صفحہ ۱۴۔
۸۳۔ پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۴۔ پیغام صلح ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۸ کالم ۲۔
۸۵۔ دافع البلاء (طبع اول) صفحہ ۱۰۔
۸۶۔ الحکم ۱۸/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۸۷۔ بیان القرآن اردو صفحہ ۱۰۔
۸۸۔ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب (از حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلالپوریؓ) و مولوی محمد علی اور اس کی تفسیر بیان القرآن (نوشتہ جناب قاضی محمد یوسف صاحبؓ مردان)
۸۹۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء کی شوریٰ میں اہل پیغام نے یہ فیصلہ کیا کہ ’’اگر میاں محمود احمد صاحب انجمن کے فیصلوں کو قطعی قرار دیں اور پرانے احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینا لازم تصور نہ کریں تو ان کو صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اور کل جماعت کا امیر تسلیم کیا جائے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۶) اس ضمن میں ان حضرات کا دلی عقیدہ معلوم کرنے کے لئے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی یہ عبارت ملاحظہ ہو۔ خاتم النبین کے بعد نبی لانے کے مجرم جیسے کہ ہمارے قادیانی بھائی ہیں ویسے ہی غیر احمدی علماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں کسی نئے یا پرانے نبی کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کو مستلزم کفر سمجھتے ہیں (پیغام صلح ۲۲/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم ۱`۲) دوسری طرف انہوں نے صاف لفظوں میں اپنا یہ فتویٰ شائع کیا۔ بے شک ختم نبوت کے منکر کو میں بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ (پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ کالم ۱) اس فتویٰ میں جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنی پارٹی کے سوا باقی سب کلمہ گوئوں کو بے دین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔
۹۰۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۶۴۔
۹۱۔ پیغام صلح ۲۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۹۲۔ پیغام صلح ۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۹۳۔ پیغام صلح ۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۴۔ رسالہ خلافت اسلامیہ بروئے قرآن و حدیث صفحہ ۵‘۱۸۔
۹۵۔ پیغام صلح ۳/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۹۶۔ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مولوی دوست محمد صاحب (غیر مبائع) کا ایک خط (محررہ ۶/ فروری ۱۹۲۷ء) حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں پہنچا جس میں لکھا تھا کہ آپ نے ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں ایک احمدی کے مقابل غیر احمدی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے یہ حکم منسوخ کیا جائے یہ خط جو دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں محفوظ ہے اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ غیر مبائع حضرات کے نزدیک صرف رشتہ ناطہ ہی نہیں ووٹوں کے سلسلہ میں بھی احمدیت ہی کو مقدم رکھنا چاہیئے۔
۹۷۔ قادیانی مذہب بار پنجم صفحہ ۵۹ (مولفہ صلاح الدین محمد الیاس برنی)
۹۸۔ زمیندار ۱۷/ ستمبر ۱۹۴۴ء بحوالہ فرقان ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۰۔
۹۹۔ بحوالہ فرقان (قادیان) فروری ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۱۰۰۔ Mohammedanizm طبع دوم مطبوعہ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۸۷ (از ایچ۔ اے۔ آر۔ گب)
اسی خیال کا اظہار انہوں نے اپنی دوسری کتابISLAM( IN TRENDS )MODERN کے صفحہ ۶۱۔ ۶۲ پر بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کے باوجود وہ مشکوک ہی رہے ہیں۔
۱۰۱۔ پیغام صلح ۱۵/ جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۰۲۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۸ (مولفہ ممتاز احمد صاحب فاروقی بی۔ ایس۔ سی۔ ای۔ ای و محمد احمد ایم۔ اے خلف مولانا محمد علی مرحوم) مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۲ء۔
۱۰۳۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۱۔
۱۰۴۔ بحوالہ پیغام صلح ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۰۵۔ بحوالہ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۳۔
۱۰۶۔ بحوالہ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۱۰۷۔ بحوالہ الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۴ کالم ۳۔
۱۰۸۔ بحوالہ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔ ۳۔
۱۰۹۔ الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ اس درس کے بعد حضور نے حضرت خلیفہ اولؓ کی وصیت کے مطابق مستورات میں بھی درس شروع فرما دیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ سورہ نساء تک درس دے چکے تھے اس لئے حضور نے سورہ مائدہ سے درس کی ابتداء فرمائی درس قرآن کے علاوہ حضور نے ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء سے بخاری شریف کا درس بھی جاری کر دیا۔ (الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔)
۱۱۰۔ ۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء کو حضور نے درس کے سب امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والوں کو اپنے دست مبارک سے انعامات عطا فرمائے۔ انعام حاصل کرنے والے۔ حافظ عبدالسلام صاحب شملوی۔ صوفی صالح محمد صاحب قصوری۔ نذیر احمد صاحب سٹوڈنٹ بی۔ ایس۔ سی۔ چوہدری فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر اور شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) حال مربی سلسلہ احمدیہ لاہور۔
۱۱۱- الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱-
۱۱۲ ابتدائی مجالس کے نوٹوں کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الحکم ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳۔۴ و ۲۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۴‘۷/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔
۱۱۳- الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۱۱۴- برکات خلافت طبع اول صفحہ ۵۔
۱۱۵- برکات خلافت طبع اول صفحہ ۷۔
۱۱۶- الحق ۲۹/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱۔
۱۱۷ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۷۔
۱۱۸- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۲۶-
۱۱۹- الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۱۲۰- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۱۲۱- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۸- ۱۹۱۷ء۔
۱۲۲- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر ڈاک کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ مدرسہ احمدیہ میں بھی پڑھاتے تھے۔
۱۲۳- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء۔
۱۲۴- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۰ء۔
۱۲۵- حضرت مفتی صاحب فرماتے تھے۔ ’’جب میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں آپ کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا تو میں اس امر کو مشاہدہ کرتا رہا کہ مختلف علوم و فنون کے ماہر جو باہر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے گفتگو کرتے تو ہر ایک علم کا ماہر آپ کی ملاقات کے بعد اس امر کا اقرار کرتا کہ اگرچہ ہم اپنے علم کے ماہر و ایکسپرٹ ہیں مگر حضرت صاحب سے گفتگو کے بعد ہم پر یہ اثر ہوا ہے کہ اس علم میں وہ ہم سے بھی زیادہ واقف ہیں‘‘۔ (الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۱)
۱۲۶- مطبوعہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۱۲۷- مطبوعہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲۔ یاد رہے کہ یہ خطبہ بیماری کے دوران میں دیا گیا ورنہ زمانہ صحت میں آپ کا آخری خطبہ ۲۰/ فروری ۱۹۵۹ء کا ہے۔ (مطبوعہ الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲ تا ۴) ان دونوں خطبوں کے بعد حضور نے ۲۹/ مارچ ۱۹۶۰ء کو خطبہ عیدالفطر ارشاد فرمایا- جو حضو نے پہلے سے املا کروا لیا تھا۔ اس کے بعد آج تک حضور مجلس میں رونق افروز نہیں ہوئے (خطبہ عید الفطر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵/ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۳`۴)
۱۲۸- ۱۹۴۴ء تک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفروں کے خطبوں کو قلمبند کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا حضور کے ہمسفر خدام میں سے جن کو خیال آتا اپنے لفظوں میں خطبات کا ملخص الفضل کو بھجوا دیتے تھے۔ لیکن فروری ۱۹۴۵ء میں جب شعبہ زود نویسی کا قیام عمل میں آیا تو مستقل طور پر سفر و حضر میں حضور کے ملفوظات لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا۔
۱۲۹- ولادت ۲۷/ جنوری ۱۹۰۸ء مولوی فاضل کا امتحان جولائی ۱۹۲۹ء میں پاس کیا مئی ۱۹۳۰ء میں ادارہ الفضل میں شامل ہوئے اور ۱۹۴۵ء میں شعبہ زود نویسی کے انچارج مقرر ہوئے۔
۱۳۰- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۸۷۔
۱۳۱- خطبات لکھنے والے دوسرے اصحاب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ چوہدری عبدالمجید صاحب۔ بی۔ اے۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیال گڑھی۔ مولوی سید احمد علی صاحب۔ مولوی عبدالعزیز صاحب چک سکندر۔ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی۔ مولوی سلطان احمد صاحب پیرکوٹی۔ عبدالکریم صاحب۔
۱۳۲- الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۱۳۳۔ روح پرور خطاب صفحہ ۴۔ اس پہلے اشتہار کے شائع کرنے کے لئے آپ کے پاس روپے نہیں تھے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کو علم ہوا تو انہوں نے پانچ سو روپیہ کی ایک تھیلی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیر مساجد کی رقم ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس مصرف میں لانا جائز ہے اس لئے یہ رقم خرچ کر لی جائے۔ چنانچہ اس رقم سے خلافت ثانیہ کا یہ پہلا اشتہار بھی شائع ہوا۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۷) اور بیرونی جماعتوں میں واعظ بھی بھجوائے گئے۔ (سیرت سروری صفحہ ۳۸ غیر مطبوعہ از مولوی صدر الدین صاحب فاضل)
۱۳۴- اشتہار کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے۔ صفحہ ۶۔ ۷ (مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء)
۱۳۵- یہ پورا شعر حضرت مسیح موعودؑ کا ہے جو درثمین میں طبع شدہ موجود ہے۔ مولوی محمد علی صاحب اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’اس شعر کو اپنے لئے ہی سمجھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ لعل بے بدل صداقت ہے‘‘ (ضمیمہ پیغام صلح ۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم ۱۔ ۲)
۱۳۶- حضرت مسیح موعودؑ کی اصطلاح میں تمزق اعداء کے ایک معنے ان پر اتمام حجت کا ہونا بھی ہے (انوار الاسلام صفحہ ۱۵)
۱۳۷- اشتہار کون ہے جو خدا کے کلام کو روک سکے صفحہ ۱۲ (مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء نوشتہ ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء)
۱۳۸- الفضل ۶/۔ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶۔
۱۳۹- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منصب خلافت طبع اول صفحہ ۵۱۔
۱۴۰- الفضل ۲/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰-
۱۴۱- ریزولیوش نمبر ۱۶۰۔
۱۴۲۔ ریزولیوشن نمبر۱۶۶ اس ریزولیوشن کی بحث کے دوران مولوی محمد علی صاحب اور ان کے تینوں رفقاء (مولوی صدر الدین صاحب کے علاوہ) اجلاس سے تشریف لے گئے جس کی وجہ مجاہد کبیر میں لکھی ہے کہ ’’انہوں نے دیکھا کہ وہ امور جو ایجنڈا پر بھی نہ تھے اس مجلس میں تحکمانہ طور پر پاس ہونے لگے‘‘ (صفحہ ۱۱۹) مگر صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ اس ادعاء کی تغلیط کے لئے کافی ہے۔ پھر لکھا ہے کہ مولوی نور الدین صاحب کے وقت میں پکا فیصلہ ہو چکا تھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو ولایت بھجوایا جائے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۰) ہمارا دعویٰ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر انجمن نے کوئی ایسا پکا فیصلہ کیا ہوتا تو اسے ایجنڈا میں ضرور ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔
۱۴۳- ریزولیوشن نمبر ۱۷۱۔
۱۴۴- ریزولیوشن نمبر ۱۷۳-
۱۴۵- اس اجلاس کی کارروائی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور مولوی صدر الدین صاحب (سیکرٹری) کے دستخط ہیں۔
۱۴۶- الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۳۔ نمائندگان کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۷`۸ و الفضل ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۱۴۷- منصب خلافت صفحہ ۳۱۔
۱۴۸- منصب خلافت سرورق صفحہ ۲ (طبع اول)
۱۴۹- منصب خلافت سر ورق صفحہ ۲ و صفحہ ۵۵۔ ۵۶۔
۱۵۰- یہ ترمیم عملی اعتبار سے ہرگز کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اسی اعلان کی دستوری و آئینی تعبیر تھی جو صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت خلافت پر ان الفاظ میں کیا تھا کہ ’’حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہے ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تھا‘‘۔ (بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲) اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہے کہ انجمن کی نگاہ میں حضرت خلیفہ اول کا فرمان قطعی اور ناطق رہا چنانچہ انجمن کو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی تعمیل میں اپنے فیصلوں کی ترمیم ہی نہیں تنسیخ بھی کرنا پڑی۔ (ملاحظہ ہو ریزولیوشن نمبر ۱۲۳۱ مورخہ ۲۶/ مارچ ۱۹۱۰ء) مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے اکابر نے ۱۹۱۳ء میں ایک اور اعلان کیا کہ ’’ساری قوم کے آپ مطاع ہیں اور سب ممبران مجلس معتمدین آپ کی بیعت میں داخل اور آپ کے فرمانبردار ہیں‘‘۔ (پیغام صلح ۴/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ۱) پس یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اس ترمیم سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑا ہاں اس سے ان لوگوں کی ضرور قلعی کھل گئی جنہوں نے انجمن کے اجتہاد کو حجت قرار دینے کے باوجود اس کثرت رائے سے کیا ہوا فیصلہ قبول کرنے سے بالکل انکار کر دیا حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ سلسلہ کے ان معاملات کے بارے میں جو انجمن کے ہاتھ میں ہیں یہ تحریر فرما چکے ہیں۔ ’’میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہئے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہئے اور وہی قطعی ہونا چاہئے‘‘۔ اس پر بس نہیں حضور نے ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلاف منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی‘‘۔ غیر مبایعین کی رائے میں یہ سب کارروائی حضرت مسیح موعودؑ کے منشاء کے خلاف تھی۔ اور انجمن کا ترمیم سے متعلق فیصلہ قابل تسلیم نہیں تھا اور اس لئے اس پر انہوں نے بہت شور بھی اٹھایا کیونکہ ان کے نزدیک صرف ان کے ہم خیال ممبروں ہی کا دوسرا نام انجمن تھا۔ وہ اسی انجمن کی مجموعی رائے کو ناطق و قطعی سمجھتے تھے۔
۱۵۱- منصب خلافت طبع اول صفحہ ۵۵۔ ۵۶۔
۱۵۲۔ جن مقامات کی جماعتوں کے نمائندے اس اجلاس میں موجود تھے ان کے نام یہ ہیں۔ لاہور۔ پاکپٹن۔ کریام ضلع جالندھر۔ راہوں۔ کلکتہ۔ امرتسر۔ بھنگالہ ضلع ہوشیارپور۔ مردان ضلع پشاور۔ صوابی۔ سہارن پور۔ جموں۔ سیالکوٹ۔ گوجرانوالہ۔ ملتان۔ علی پور۔ لائل پور۔ بٹالہ۔ سارچور۔ بھڈیار۔ گوکھووال۔ تلونڈی راہ والی۔ جالندھر چھائونی۔ گوجرہ۔ ماہل پور۔ کوٹ رادھاکشن۔ کراچی۔ بھریا۔ سرگودھا۔ دوالمیال۔ کپورتھلہ۔ لودھراں۔ جوڑہ۔ سیکھواں۔ محلا نوالہ۔ اہرانہ۔ صریح۔ مانگٹ اونچے۔ گوجرانوالہ۔ ڈیرہ غازی خاں- دوجو وال (اجنالہ) گجرات۔ شاہ جہان پور۔ دہلی۔ (الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰)
۱۵۳- منصب خلافت سر ورق صفحہ ۲۔
۱۵۴- شکریہ اور اعلان ضروری۔ مشمولہ ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔
۱۵۵- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۳۔
۱۵۶- منصب خلافت صفحہ ۱۶ تا ۱۹ (طبع اول)
۱۵۷- اس لیکچر میں حضور نے غیر مبایعین کے اعتراضوں کی حقیقت کھول کھول کر بتائی کہا جاتا تھا کہ عمر چھوٹی ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں حضرت ابن ابی لیلیٰؓ کا واقعہ بیان فرمایا جنہیں حضرت عمرؓ نے انیس سال کی عمر میں کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ کوفہ والوں نے از راہ مذاق ان سے عمر پوچھی تو انہوں نے جواب دیا۔ آنحضرت~صل۱~ نے اسامہؓ کو جس عمر میں کبار صحابہ کا افسر بنا کر محاذ شام پر بھیجا تھا میں اس سے دو سال بڑا ہوں۔ حضور نے فرمایا۔ ’’میں بھی اس رنگ میں جواب دیتا ہوں کہ میری عمر تو ابن ابی لیلیٰ سے بھی سات برس زیادہ ہے‘‘۔ (منصب خلافت صفحہ ۴۴۔ ۴۵)
۱۵۸- صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ میں مولوی محمد علی صاحب کی اس اطلاع کا ذکر ہمیں ملتا ہے کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر جاتا ہوں میری غیر حاضری میں افسر اشاعت اسلام کا مناسب انتظام کی جائے۔ (روئداد اجلاس ۲۶/ اپریل ۱۹۱۴ء)
۱۵۹- آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۸‘۱۹۹ (طبع اول) اخبار نور (۱۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۳) نے مولوی صاحب کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلامت روی اور صلح جوئی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ آپ عین اس جھگڑے اور اس شدید جنگ میں بنفس نفیس جناب مولوی محمد علی صاحب کے ہاں تشریف لے گئے۔
۱۶۰- الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱‘۶/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱ پر ان کا ذکر ہے۔
۱۶۱- وفات ۲/ جنوری ۱۹۶۱ء۔
۱۶۲ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۴ء سے ماخوذ۔
۱۶۳ تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۹۱۔ ۴۹۴ پر گزر چکی ہے۔
۱۶۴ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۱ (از چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے) طبع اول دسمبر ۱۹۲۷ء۔
۱۶۵- لندن سے مکرم درد صاحب کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار مسلم ٹائمز کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا۔ (الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء)
۱۶۶- الفضل ۲۸/ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔ اب ان کی عمر ۷۵ برس کی ہو گی۔ جب ان کے سامنے حضور کا ذکر آتا ہے۔ تو چشم پر آب ہو جاتے ہیں۔
۱۶۷- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تواریخ مسجد فضل لندن (از حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ) مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۷ء قادیان۔
۱۶۸- آپ کی واپسی ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہوئی۔
۱۶۹- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو احمدیہ مشن لنڈن کی ایک سالانہ رپورٹ (مطبوعہ الفضل ۲۷/۲۴ مئی ۱۹۳۴ء)
۱۷۰- رسالہ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۴۔ ۵ میں خود قائداعظم کے الفاظ میں اس فیصلہ کا تذکرہ موجود ہے۔
۱۷۱- حضرت مولانا درد صاحب کی زبان سے اس اہم واقعہ کی تفصیل سنیئے فرماتے ہیں۔ ’’یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائداعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اور اس طرح بالاخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا ۔جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائداعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے۔ وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی۔ میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جبکہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمدیہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد قائداعظم انگلستان کو خیر باد کہ کر ہندوستان واپس آئے۔ مسلم لیگ کو منظم کیا اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا‘‘۔ (الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۸) قائداعظم کی یہ تقریر ۶/ اپریل ۱۹۳۳ء کو عید الاضحیہ کی تقریب پر ہوئی تھی اور جلسہ کے صدر سر سٹیوارٹ سنڈیمن Sandaman( Stewart )Sir تھے۔ قائداعظم نے تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔’’۔escape leftmeno oftheImam ‘‘Theeloquentpersuation (ترجمہ) امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی۔ (انقلاب عظیم کے متعلق انذارد بشارات نمبر ۲ صفحہ ۱۹ از حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب) مسجد فضل پٹنی میں ایک سیاسی نوعیت کی تقریر پر مختلف حلقوں میں بڑے تعجب کا اظہار کیا گیا۔ اور پریس نے اس کی اشاعت میں سرگرم حصہ لیا۔ چنانچہ ’’دی ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ (لندن) ’’ہندو‘‘ (کلکتہ) ’’دی سٹیٹمین‘‘ (کلکتہ) ’’مدراس میل‘‘۔ ’’ویسٹ افریقہ‘‘ (افریقہ) ’’ایجپشن گزٹ‘‘ (اسکندریہ) ’’پایونیئر‘‘ (الہ آباد) وغیرہ اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہو گئی تھیں جن کے تراشے مولانا درد صاحب کی ایک فائل میں محفوظ ہیں۔
۱۷۲- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۱۔ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۶ و ۴۲۔ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۳۔ ۱۷۔ ایضاً رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء صفحہ ۸۴۔ ۸۵۔
۱۷۳- مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۹۳۸ء کے آخر سے مارچ ۱۹۴۰ء تک لندن کے احمدیہ مسلم مشن میں کام کرتے رہے۔
۱۷۴- آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۴۵ء کو تشریف لے گئے۔
۱۷۵- الفضل ۲۷/ ۲۴ جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۶- پہلی بار روانگی کے بعد آپ ۷/ مارچ ۱۹۶۰ء کو ایک ماہ کے لئے واپس آئے اور ۲/ اپریل ۱۹۶۰ء کو پھر لنڈن چلے گئے تھے اس کے بعد آپ کا قیام لندن مشن میں ہی ہے۔
۱۷۷- آپ صحابی تھے اور انگلستان آنے سے قبل سیالکوٹ کے امیر تھے کرکٹ ٹیم کے ساتھ ۱۹۳۸ء کے قریب انگلستان گئے اور وہیں انتقال کیا۔
۱۷۸- آپ بھی صحابی تھے جو اس صدی کے شروع میں انگلستان گئے۔ آپ باقاعدگی سے ہائیڈ پارک میں تقاریر فرماتے تھے۔ ان کے ایک فرزند جن کا نام عبدالعزیز دین ہے اب بھی لنڈن میں مقیم ہیں اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے ہیں۔
۱۷۹- مبلغ انگلستان بشیر احمد صاحب رفیق کی ایک رپورٹ (مورخہ ۶۴/۲۴۲) سے ماخوذ۔
۱۸۰- خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مطبوعہ الفضل ۱۷/ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۱۸۱- ۔8 NO 1, VOL ISLAM GENUINE THE
‏۱۸۲- trail on Civilization صفحہ ۲۰۴ بحوالہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۳۔
۱۸۳- ترجمہ رپورٹ آف دی مشنری کانفرنس ۱۸۹۴ء منعقدہ لندن صفحہ ۴۱۹۔ بحوالہ انصار اللہ دسمبر ۱۹۶۱ء۔
۱۸۴- تذکرہ (طبع دوم) صفحہ ۵۰۹۔
۱۸۵- ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ و الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۱۸۶- ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱۔
۱۸۷- الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۸- الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۸۹- منصب خلافت صفحہ ۳۳ طبع اول ۱۹۱۴ء۔
۱۹۰- الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ الفضل ۹/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔ الحکم ۱۴/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۱۹۱- حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق حضرت منشی عبدالحق صاحب کاتب نے اس کتاب کی نہایت عمدہ اور نفیس کتابت کی۔
۱۹۲- بشارات رحمانیہ جلد اول صفحہ ۱۷۴۔ ۱۷۶ (از مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر فاضل) الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۱۹۳- الفضل ۳/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۲- ۲۳۔
۱۹۴- پیغام صلح ۶/ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ب۔ ج۔
۱۹۵- الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱ و الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۱۹۶-یاد رہے اس سے قبل ترکی کے سلطنت برطانیہ سے نہایت گہرے تعلقات تھے۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی۔ اے بیرسٹر ایٹ لاء سیکرٹری خلافت کمیٹی سیالکوٹ لکھتے ہیں۔ ’’حضور سلطان المعظم خلیفتہ المسلمین نے سلطان ٹیپو کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا اور اس دین کے پکے مسلمان نے خلیفتہ المسلمین کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھا اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں غدر مچا اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت حضور خلیفتہ المسلمین سلطان المعظم نے دی تھی جنوبی افریقہ میں جنگ بوئر ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکی نے انگلستان کا ساتھ دیا۔ ہزارہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مساجد میں انگریزوں کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں‘‘۔ (ترکی کے ارمینوں پر فرضی مظالم صفحہ ۲۳۔ شائع کردہ مجلس خلافت پنجاب) مطبوعہ ۱۹۲۰ء۔
۱۹۷- تاریخ اقوام عالم صفحہ ۶۷۴۔ ۶۷۶ (از مرتضیٰ احمد خاں میکش) شائع کردہ مجلس ترقی اردو کلب روڈ لاہور۔
۱۹۸- تاریخ اقوام عالم صفحہ ۶۸۵۔ ۶۸۶۔
۱۹۹- ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۳۹۹۔ ۴۰۵۔
۲۰۰- تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۳ (از حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق نعمانیؓ) طبع اول ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۱ء و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۹۵۔
۲۰۱۔ اس سلسلہ میں مولانا سید میاں محمد صاحب ناظم جمعیتہ العلماء ہند نے اپنی کتاب علماء حق کے کارنامے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان کے یہی غیور مسلمان جو علماء ملت پر ہندو پرستی کا الزام لگاتے ہیں گزشتہ جنگ جرمنی کے زمانہ میں انہوں نے عراق‘شام‘ایران وغیرہ وغیرہ اسلامی ممالک کو انگریزوں کے لئے کیوں تباہ کیا۔ خاص قبلہ ایمان اور کعبہ اسلام پر کیوں گولیاں برسائیں اس کا سبب بھوک اور فاقہ بے روزگاری اور تہیدستی تھی؟ یا ان کے دلوں میں اسلام اور ایمان سے مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ سے عربوں اور ترکوں سے کوئی بغض بھرا ہوا تھا‘‘۔ (صفحہ ۲۸۴)
۲۰۲- دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ صفحہ ۱۶۱۔ ۱۶۳۔ (از سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی) طبع اول
۲۰۳- الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۰۴- اخبار سرمہ روزگار آگرہ یکم دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۷۔
۲۰۵- پوری مسدس اخبار وکیل (امرتسر) مورخہ ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء و ستارہ صبح مورخہ ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء اور کتاب یادگار جنگ (پنجاب پبلسٹی کمیٹی لاہور) صفحہ ۱۷۔ ۱۸۔ پر موجود ہے۔ ایضاً ذکر اقبال (از عبدالمجید سالک) صفحہ ۸۷۔
۲۰۶۔ الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۹۔
۲۰۷۔ حضرت اقدس کی ایک تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسٹر مانٹیگو وزیر ہند تھے۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۷۔ ۳۸)
۲۰۸۔ الفضل ۵/ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۲۰۹۔ الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۲۱۰۔ مکمل خط ملک فضل حسین صاحب مہاجر نے ریویو آف ریلیجنز اردو مئی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷۔ ۱۲ پر چھپوا دیا تھا۔
۲۱۱۔ اس تبلیغی مہم کی تفصیلات خود حضرت حکیم مولوی عبیداللہ صاحب بسمل نے مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کو لکھوا دی تھی۔ مگر افسوس وہ شائع ہونے سے پہلے ہی ایک خادمہ کے ہاتھوں ضائع ہو گئے۔
۲۱۲۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جلد ۱۳ صفحہ ۴۲۱۔ ۴۲۷۔
۲۱۳۔ انہی دنوں ترکی کے شامل جنگ ہونے پر دوسرے مسلمانان ہند نے بھی انتباہ کیا تھا چنانچہ قاضی سراج الدین احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء راولپنڈی نے حقیقت خلافت اور مسلمانوں کا فرض میں لکھا یورپ میں اس لڑائی کے شروع ہونے کے بعد مسلمانان ہندوستان نے ترکوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس لڑائی میں غیر جانبداری کی وضع اختیار کریں۔ لیکن آخر کار ترکوں نے اس مشورہ کو نہایت حقارت کے ساتھ رد کر دیا اور جرمنی کی جانبداری اختیار کرنے سے انگلستان فرانس اور روس کی رعایا کو ایک غیر مطبوع اور تشویشناک حالت میں ڈال دیا۔ درحقیقت ترکوں نے اس موقع پر مسلمانان عالم کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر برائی کی ہے۔ جرمنی نے ترکوں کو اپنے دام تزویر میں صرف اس غرض سے نہیں پھنسایا تھا کہ ان سے براہ راست امداد حاصل کرے بلکہ اس غرض سے بھی کہ سلطان ٹرکی کا جو اقتدار اسلامی دنیا میں مانا جاتا ہے اس کو استعمال کرکے قریب قریب تمام دنیا کے مسلمانوں سے ان سلطنتوں کے خلاف جن سے وہ وابستہ ہیں غدر اور فساد برپا کرا دیا جائے یہ ایسی کوشش تھی کہ اگر اس میں کامیابی ہو جاتی۔ تو صرف ایک ہی نتیجہ ہو سکتا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان خدا کے نزدیک اور اپنی اپنی سلطنتوں کی نگاہ میں مردود ہو جاتے اور دین و دنیا میں ان کا کہیں ٹھکانہ باقی نہ رہتا۔ خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ جرمنی اور ترکوں کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور خدا نے مسلمانان عالم کی عزت و آبرو رکھ لی۔ اس میں شک نہیں کہ ایک وجہ ایسی موجود تھی جس سے تمام اسلامی دنیا کو ترکی سلطنت کا احترام واجب تھا اور یہ اسی احساس کا معاوضہ تھا جو ترکی حکومت کے حرمین الشریفین کی حفاظت کو اپنے ذمہ لینے سے پیدا ہوتا تھا۔ لیکن ترکوں نے اپنے اس حق کو بھی اپنے ہاتھوں سے تلف کر دیا ہے۔ اگر ترکوں کو ارض مقدس اور حرمین الشریفین کی حفاظت کی کچھ بھی پروا ہوتی تو وہ دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت یعنی انگلستان کے برخلاف کبھی جنگ کا نام نہ لیتے بلکہ صرف اپنے اس فرض کی ادائیگی کی خاطر اس زبردست سلطنت کے ساتھ ہمیشہ مستحکم دوستی رکھتے‘‘۔ (صفحہ ۸۶۔ ۸۹)
۲۱۴۔ الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۱۵۔ الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۱۶۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۱۷۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۱۸۔ ریکارڈ روئداد اجلاس صدر انجمن احمدیہ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۸۰۔
۲۱۹۔ ریکارڈ ۳۱۔ ۱۹۳۰ء۔
۲۲۰۔ ایضاً ریکارڈ روئداد اجلاس صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۵ء۔
۲۲۱۔ مکمل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو احمدی جنتری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۸۔ ۳۹۔
۲۲۲۔ پیغام صلح یکم دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۳۔ خواجہ صاحب نے اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب میں خود لکھا ہے میرا ارادہ تھا کہ میں فوراً ہی قادیان جائوں (صفحہ ۱۸) مگر فوراً نہ جا سکنے کی وجہ الفضل کا ایک مضمون بتایا ہے جو ان کے لاہور پہنچنے کے چھ دن بعد شائع ہوا۔
۲۲۴۔ یہ مفصل واقعہ قاضی محمد یوسف صاحب کی روایت الفضل ۱۵/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۵ پر چھپ چکا ہے۔
۲۲۵۔ الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۶۔ الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۷۔ الحکم ۲۱/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳ و الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۸۔ الحکم ۲۸/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۲۲۹۔ الفضل ۴/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶‘۱۰/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۳۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۷۸۔
۲۳۱۔ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۳۲۔ الفرقان۔ قمر الانبیاء نمبر۔ اپریل مئی ۱۹۶۴ء صفحہ ۱۱۔
۲۳۳۔ الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۱۴ء‘۲۵/ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔ ۶‘۵/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔
۲۳۴۔ یہ نماز ہزاروں کی تعداد میں یورپ‘امریکہ اور آسٹریلیا میں بھیجی گئی۔ (الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۱۴ء) صفحہ ۱۰ کالم ۱۔ ۲ (نوٹ) اس عنوان کے تحت مصنفین سلسلہ کی صرف خاص خاص کتابوں کا تذکرہ ہو گا۔
۲۳۵۔ الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ ۲۹/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۳۶۔ آپ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۸ (حاشیہ)
‏rov.5.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
حواشی (دوسرا باب)
۲۳۷۔ الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۳۸۔ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱‘۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء۔
۲۳۹۔ الفضل ۹/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ یہ مضمون بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہو گیا۔
‏h1] ga[t۲۴۰۔ الفضل ۱۶/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء۔
۲۴۱۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ ‘۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۴۲۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ ‘۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۴۳۔ مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت۔ مطبوعہ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۱۸۔
۲۴۴۔ ضمیمہ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔ ۴۔
۲۴۵۔ القول الفصل سرورق (مطبوعہ ۳۰/ جنوری ۱۹۱۵ء)
۲۴۶۔ عزیز الواعظین حضرت مولانا غلام امام صاحب شاہ جہانپوری ثم اسامی کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے سلسلہ کے نہایت فدائی اور بذلہ سنج بزرگ تھے۔ ۱۹۶۴ء میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کے لائق فرزند جناب محمود الحسن صاحب (ریونیو ممبر حکومت مشرقی پاکستان ) ڈھاکہ سے آپ کی نعش ربوہ لے آئے اور آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔
۲۴۷۔ ریویو آف ریلیجنز اردو اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۴۔ ۲۶۔
۲۴۸۔ جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع اول) میں بالتفصیل ذکر آچکا ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے ۱۹۰۷ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے تحریک فرمانے پر اپنی زندگی وقف کی تھی ۱۹۱۲ء میں آپ بی۔ اے کا امتحان پاس کرکے حضرت خلیفہ اولؓ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ حضرت نے قرآن مجید حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ نے بفضلہ تعالیٰ چھ ماہ میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ ان دنوں دربار خلافت میں نیروبی سے ایک مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی ہوئی تھی۔ حضرت خلیفہ اول نے آپ کو کینیا کالونی کا پاسپورٹ لینے کا حکم دیا۔ مگر افریقہ کا پاسپورٹ نہ مل سکا اور حضرت خلیفہ اولؓ کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایت پر آپ نے ماریشس کے لئے پاسپورٹ کی درخواست دی۔ دسمبر ۱۹۱۴ء میں آپ کو پاسپورٹ مل گیا۔ (یہ حالات خود حضرت صوفی صاحب کے قلم سے روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵ پر موجود ہیں)
۲۴۹۔ الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۰۔ روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵۔ ایضاً الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ و الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۱۔ سیلون میں باقاعدہ مشن اگست ۱۹۵۱ء کو قائم ہوا۔ جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا۔
۲۵۲۔ اس مقدمہ کی پوری عدالتی کارروائی ۲۷۳ صفحات میں طبع شدہ ہے۔
۲۵۳۔ الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۷ء۔
۲۵۴۔ ریویو آف ریلیجنز اردو۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۷ و الفضل ۱۹/ ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۵۵۔ روائداد مباحثہ دربارہ حیات و وفات عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نام سے یہ مناظرہ چھپ گیا تھا۔
۲۵۶۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵۔ ۲۸۶۔ ایضاً و الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۷۔ آپ قریباً دو سال تک قادیان میں علم دین حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے اور اب تک جماعت کے لٹریچر کی فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے میں اہم خدمات بجا لا رہے ہیں۔
۲۵۸۔ حضرت حافظ صاحب صحابی تھے مئی ۱۹۰۸ء میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے آخری سفر لاہور کے دوران زیارت کی جس کے قریباً دو ہفتہ کے بعد حضور علیہ السلام وصال فرما گئے۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۴۸۔ ۱۹۱۶ء میں آپ نے مبلغین کلاس پاس کی۔ (الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱)
۲۵۹۔ وکالت تبشیر کے ریکارڈ اور جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی تقاریر سے ماخوذ!! جماعت احمدیہ ماریشس کی مطبوعات Massage’’ ‘‘Le (پہلا سالنامہ مئی ۱۹۶۳ء) اور Khilaafat’’ for ‘‘Victory سے بھی مدد لی گئی۔
۲۶۰۔ الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۶۱۔ الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۷۔
۲۶۲۔ الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۵۳ (مضمون جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور)
۲۶۳۔ حقیقتہ النبوۃ صفحہ ۱۸۵۔ ۱۸۶۔
۲۶۴۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ کی نسبت ۱۳/ نومبر ۱۹۱۵ء کو ایڈیٹر پیغام صلح کے نام خط لکھا کہ میں نے کتاب حقیقتہ النبوۃ کی تعریف کی تھی۔ مگر اس کے دلائل پر رائے دینے کا حق مجھے حاصل نہیں۔ کیونکہ اختلاف سلسلہ احمدیہ کے متعلق وہی محض رائے دے سکتا ہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں‘‘۔ پیغام صلح ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۶۵۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ خالد۔ اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۶۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۶۶۔ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۲ تا ۸۔
۲۶۸۲۶۷۔ ‘ الفضل ۱۰/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۰۱ (حضرت مولانا کا خطبہ نکاح الفضل ۱۷/ جون ۱۹۱۵ء میں شائع شدہ ہے)
۲۶۹۔ اصحاب احمد حصہ دوم صفحہ ۲۷۸۔
۲۷۰۔ الفضل ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۲۷۱۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۲۹۸۔
۲۷۲۔ حضرت ام المومنینؓ کے وصال کے بعد ان کا نام ایک رویاء کی بناء پر نصرت جہاں بیگم رکھ دیا گیا۔
۲۷۳۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۳-
۲۷۴۔ الفضل ۸/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۵۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۶۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔
۲۷۷۔ الفضل ۲۶/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۲۷۸۔ مائونٹ گراوٹ متصل شہر برزبن ضلع کونیز لینڈ (آسٹریلیا)
۲۷۹۔ الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۲۸۰۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۵۔
۲۸۱۔ الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۲۸۲۔ تاریخ مالا بار (از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی) میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
۲۸۳۔ الفضل ۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء۔
۲۸۴۔ مفصل نصائح الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۴۔ ۵ میں طبع شدہ ہے۔
۲۸۵۔ حضرت قاضی صاحب ۲۸/ نومبر ۱۹۱۹ء کو قادیان میں واپس پہنچے۔ (الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱)
۲۸۶۔ پیغام صلح ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۷۔ ۸ و ۲۱/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۸۷۔ ملاحظہ ہو فاروق ۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۸۸۔ فاروق ۶/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۲۸۹۔ اس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لیکچر نظام آسمانی کا پس منظر میں موجود ہے۔ (اس واقعہ کی تعیین نہیں ہو سکی اندازاً اس سال کے واقعات میں اسے درج کیا جا رہا ہے)
۲۹۰۔ الفضل ۴/ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۔
۲۹۱۔ الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۵ء و ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۔
۲۹۲۔ گیارھواں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸ (بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۱۲۴ بار ششم
۲۹۳۔ الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۴۔ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۵۔ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر صفحہ ۳۸۔ ۴۰ (از سیدنا حضرت خلیفتہ المسسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ)
۲۹۶۔ مرحوم کی بیماری وغیرہ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو۔ (الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲ و ۲۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔ ۷ و اخبار فاروق ۱۸/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تعزیت نامہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں فاروق ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۰۔
۲۹۷۔ ابتداًء اس کے لئے اسلامیہ کالج کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا گیا۔ پھر اسے گوالمنڈی میں منتقل کیا گیا (الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸) کچھ عرصہ لارنس روڈ اینگلو بنگلو پر رہا۔ (الفضل مئی ۱۹۱۶ء) اور پھر شاہ ابوالعالی روڈ دیال سنگھ کالج لاہور کے پاس بھی رہا۔ (الفضل ۲۰/ ۱۰ ستمبر ۱۹۲۰ء) اسی طرح ایمپرس روڈ کوٹھی نمبر ۴۰ میں بھی۔
۲۹۸`۲۹۹۔ الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸ (بابو صاحب کے بعد متعدد سپرنٹنڈنٹ بنے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر ضلع ملتان و سیکرٹری تعلیم و تربیت لندن۔ سید دلاور شاہ صاحب بخاری۔ شیخ فضل کریم صاحب پراچہ۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ۔ ماسٹر نذیر خان صاحب۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب۔ چوہدری غلام احمد صاحب ایم۔ اے۔
۳۰۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۳۲۔ ۱۳۴
۳۰۱۔ انگریزی قواعد و ضوابط کی ایک کاپی صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ ۱۹۲۷ء میں محفوظ ہے۔
۳۰۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت۔
۳۰۳۔ الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۸ و الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۸ و الفرقان اپریل `۱۹۶۱ء صفحہ ۳۳۔
۳۰۴۔ ایک یوم التبلیغ پر دو ہزار انگریزی ٹریکٹ شائع کرنے کا ذکر سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۰۰ پر ہے یہ ہوسٹل ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بند ہو گیا تھا اب ستمبر ۱۹۶۴ء سے دوبارہ جاری ہوا۔
۳۰۵۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۴۔ ۳۵۵ (از حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۳۰۶۔ الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔ انگریزی پارہ کا عربی متن حضرت پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی نے لکھا (الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اس کی چھپوائی کے لئے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اس کی پروف ریڈنگ کے لئے مدراس تشریف لے گئے (الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۱ کالم ۲) اردو تفسیر اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں اور انگریزی تفسیر ایڈیسن پریس مدراس میں طبع ہوئی۔
۳۰۷۔ مسلم ورلڈ بابت اپریل ۱۹۱۶ء (بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۰۵۔
۳۰۸۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲۔
۳۰۹۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲۔
۳۱۰۔ الفضل ۲۴/ اکتوبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۳۱۱`۳۱۲۔ قادیان گائیڈ صفحہ ۱۰۰ (از محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان) صفحہ ۱۰۰۔ ۱۰۱۔
۳۱۳۔ الفضل ۷/ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۷۔
۳۱۴۔ تفصیل کے لئے دیکھیں المصلح ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۳ء۔
۳۱۵۔ انوار خلافت صفحہ ۱۵۳۔ ۱۵۴۔
۳۱۶۔ الفضل ۵/ جنوری ۱۹۱۵ء۔
۳۱۷۔ الفضل ۳۔ ۵/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۱۸۔ الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۱۹۔ الفضل ۱/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ جہاد کبیر صفحہ ۱۴۵۔
۳۲۰۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۲۱۔ اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۹۶۔ ۱۰۲۔
۳۲۲۔ الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۳۲۳۔ الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۲۴۔ الفضل ۱۶/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ اس مباحثہ کا فیصلہ جو شیخ محمد عمر صاحب بی۔ اے ایل۔ ایل۔ بی وکیل چیف کورٹ (ثالث فریقین) نے کیا۔ قول فیصل کے نام سے طبع شدہ ہے۔
۳۲۵۔ الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۳۲۶۔ الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۳۲۷۔ اخبار نور ۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۔
۳۲۸۔ دوسرا حصہ ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔
۳۲۹۔ حضرت مسیح موعودؑ سے پروفیسر صاحب کی ملاقات کا تفصیلی ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۳۵۔ ۵۳۶ پر گزر چکا ہے۔
۳۳۰۔ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ مفصل گفتگو الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔ ۶ اور فاروق ۱۳/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۲ میں چھپ گئی تھی۔ ان مہمانوں کے قیام اور ملاقات کا انتظام حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سپرد تھا۔ (اصحاب احمد جلد نہم حاشیہ صفحہ ۱۱۲)
۳۳۱۔ اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۶۴۔ ۶۵۔
۳۳۲۔ احمدیہ موومنٹ۔
۳۳۳۔ تفسیر کبیر (سورۃ الکوثر صفحہ ۴۷۶ (از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی)
۳۳۴۔ ریویو آف ریلیجنز جون۔ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶۰۔
۳۳۵۔ الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۳۶۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۸۔
۳۳۷۔ الفضل ۹/ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۔
۳۳۸۔ الفضل ۴/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۳۹۔ کلام حسن صفحہ ۶۷۔
۳۴۰۔ یہ جلسہ راما تھیٹر ہال میں ہوا تھا۔
۳۴۱۔ حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاہب نے عربی میں لیکچر دیا تھا۔ اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مولوی محمد الدین صاحب اور چوہدری ابو الہاشم خان صاحب نے انگریزی میں حضرت میر صاحب نے ایک لیکچر اردو میں بھی دیا تھا۔
۳۴۲۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔ ۱۳۔ حضور نے جس مصروفیت اور جوش کے عالم میں اس مضمون کی تکمیل فرمائی۔ اس کی نسبت الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱ پر لکھا ہے کہ آپ نے ایک حصہ تو ظہر تک لکھ کر امیر قافلہ مولوی محمد الدین صاحب بی۔ اے کے سپرد کیا۔ دوسرا حصہ ۲ بجے رات کے منشی فخر الدین کے ہاتھ بھجوایا پھر جمعہ کی نماز کے بعد شیخ عبدالخالق صاحب دہلی جا رہے تھے چند اوراق انہیں دیئے اور ایک حصہ دو گھنٹے کے بعد ماسٹر عبدالعزیز صاحب نے سائیکل سے جا کر اسٹیشن بٹالہ پر شیخ عبدالخالق صاحب کو پہنچایا اور باقی مضمون تین بجے رات کو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لے کر دلی کو روانہ ہوئے۔
۳۴۳۔ الفضل ۲۲/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۴۔ الفضل ۲۷/ مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔
۳۴۵۔ الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۶۔ الفضل ۱۸/ جون ۱۹۱۶ء صفحہ ۴۔
۳۴۷۔ الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۷۔ و الفضل ۸/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۶۔ ۱۲۔
۳۴۸۔ الفضل ۸/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۴۹۔ الفضل ۸/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۵۰۔ الفضل ۲۹/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۵۱۔ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۱۶ء ضمیمہ (ب)
۳۵۲۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۹۵۔ ۲۸۵۔ جغرافیہ پرھانے کے دوران کا ایک واقعہ الفضل سالانہ جلسہ نمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۳۳ پر ملاحظہ ہو۔
۳۵۳۔ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۸/ ۷
۳۵۴۔ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۸۔
۳۵۵۔ الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۔
۳۵۶۔ الفضل ۲۲/۱۹ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۵۷۔ الفضل ۲/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۵۸۔ الفضل ۱۶/ ۱۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ و الفضل ۲۲/ ۱۹ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۸۔ ۲۰۔
۳۵۹‘۳۶۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۶ء صفحہ ۴۶۴ و قادیان گائیڈ صفحہ ۷۲۔ حضرت خلیفہ اولؓ کا کتب خانہ اس وقت تک آپ کے گھر میں رکھا تھا۔
۳۶۱۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۶۶۔ ایضاً سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۳۷۔۳۶۲۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۲۔
۳۶۳۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۵۷۔ ۳۵۹۔
۳۶۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۸۴۔
۳۶۵۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۵۳۔ ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۲۔
۳۶۶۔ ضمیمہ الفضل ۱۶/ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۶/ ۵ اس ضمیمہ میں حضور نے اسلام کے عنوان سے مستوارت کے لئے ایک مضمون بھی شائع کیا۔
۳۶۷۔ اس سال مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بچارے اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث غیر مبایعین سے متاثر ہو گئے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میں میاں محمود احمد صاحب کو خلافت سے معزول کرتا ہوں حضرت اقدس نے پہلی تقریر میں اس امر کا بھی ذکر فرما کر پورے جلال کے ساتھ اعلان فرمایا۔ ’’خلیفہ اگر خدا بناتا ہے اور واقعہ میں خدا ہی بناتا ہے تو مولوی محمد احسن کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اسے معزول کر سکتے ہوں۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی نے ان کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر میری بیعت کی تھی وہ اپنی بیعت فخ کرنے میں آزاد ہے‘‘۔ (ذکر الٰہی طبع اول صفحہ ۱۳۔ ۱۴) حضرت مولوی محمد احسن صاحب بعد کو حضور کی خدمت میں قادیان تشریف لائے اور صاف اقرار کیا کہ حق قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے کہ میں بڑھاپے میں اپنی بیوی کا محتاج ہوں مگر بیوی کو لاہوریوں نے لالچ دیا ہوا ہے اس لئے میں بھی ان کے ساتھ جانے پر مجبور ہوں۔ (الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۳)
۳۶۸۔ تفسیر کبیر (سورہ التطفیف) صفحہ ۳۱۵ (از حضرت خلیفہ ثانی)
۳۶۹۔ الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۰۔ الفضل ۴۔ ۸۔ ۱۸/ اپریل‘۲۴/ اکتوبر ۱۹۱۶ء۔
۳۷۱۔ الفضل ۵/ ۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۲۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۳۔ الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
‏h1] gat[۳۷۴۔ مباحثہ احمدیاں و غیر احمدیاں کے نام سے کتابی صورت میں طبع شدہ ہے۔
۳۷۵۔ یہ مباحثہ بھی مباحثہ سرگودھا کے نام سے شائع ہو گیا تھا۔
۳۷۶۔ الفضل ۴/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۷۷۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۷۸۔ الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۹۔ فتح مبین کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۳۸۰۔ اخبار نور ۱۷/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔
۳۸۱۔ الفضل ۵/ ۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۸۲۔ الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۳۸۳۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳۔
۳۸۴۔ الفضل ۷/ مارچ ۱۹۶۴ء صفحہ ۵۔
۳۸۵۔ الفضل ۴۔ ۸/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۰۔
۳۸۶۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا زیر لفظ ‘‘RUSSIA’’
۳۸۷۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع اول) صفحہ ۴۰۳‘۴۰۵۔ ایضاً ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری فروری ۱۹۳۵ء۔
۳۸۸۔ جناب مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے ’’خدائے قادیان اور زار روس‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی جس کے چند شعر یہ تھے۔ ~}~
زار کی لفظی رعایت نے یہ سمجھایا تھا قول
زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار
بعد مردن اتفاقاً چھڑ گئی جنگ فرنگ
رنگ لائی مدتوں میں گردش لیل و نہار
زار سے چھنوا دیا قسمت نے اس کا تخت و تاج
کیونکہ قسمت کا نہیں دنیا میں کچھ بھی اعتبار
حال اسی کو غیب کے اسرار کا معلوم ہے
بادشاہی اور گدائی پر ہے جس کا اختیار
(ارمغان قادیان صفحہ ۱۹۔ - ۲۰)
۳۸۹۔ ریویو آف ریلیجنز اردو ۱۵/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۹۶۔
۳۹۰۔ الفضل ۱۴/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔
۳۹۱۔ حضرت ڈاکٹر صاحب ان دنوں ریاست پٹیالہ میں ملازم تھے اور ریاست سے فارغ ہونا مشکل تھا اور شروع میں حضرت ڈاکٹر صاحب بلا تنخواہ رخصت پر قادیان آئے تھے (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۹ء)
۳۹۲۔ ایضاً ریکارڈ ۱۹۲۱ء۔
۳۹۳۔ اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۱۲۳۔
۳۹۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۰ء (نور ہسپتال کا ایک کمرہ ملک صاحب خان صاحب نون کے خرچ پر تعمیر ہوا) ریکارڈ ۱۹۲۸ء۔
۳۹۵۔ الفضل ۴/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و الحکم ۲۸/ نومبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۹۶۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔
۳۹۷۔ الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۳۹۸۔ الفضل ۱۹/ ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۳۹۹۔ الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۷۔
۴۰۰۔ الفضل یکم ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و ۱۳/ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۰۱۔ ملاحظہ ہو ضمیمہ الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۷ء۔
۴۰۲۔ زندہ مذہب صفحہ ۲۹۔ (از حضرت خلیفہ ثانی)
۴۰۳۔ سنور میں حضور حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری‘منشی محمد تقی صاحب اور مولوی قدرت اللہ صاحب کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔
۴۰۴۔ الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۴ (لیکچر کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۱۵/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔ ۱۵۔
۴۰۵۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعودؑ کی ۱۹۰۵ء میں درگاہ میں ملاقات اور حضور کی خط و کتابت کا ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع سوم) صفحہ ۴۳۷ پر گزر چکا ہے ہم یہاں یہ مزید بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کی وفات پر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں یکم اکتوبر ۱۹۰۷ء کو ریاست مانگرول (کاٹھیا واڑ) سے مندرجہ ذیل تعزیت نامہ لکھا۔ قدسی صفات۔ سراپا نوازش و الطاف مرزا صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔۔ الحکم آیا اور عزیز مبارک احمد کی وفات معلوم ہوئی۔ جس کے پڑھنے سے اس قدر غم واندوہ ہوا ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ زمانہ قیام دہلی میں عزیز مرحوم کو دیکھا تھا کیا پیارا بچہ تھا۔ اگرچہ آپ کو صبر و رضا کی تلقین لقمان کو حکمت سکھانا ہے تاہم رسمی طور پر اس نیت سے یہ نامہ ارسال ہے گو آپ کو اور آپ کی جماعت کو اس ابتلا میں قلبی اطمینان میسر ہو گیا ہو گا مگر افسوس کہ میں بسبب اس محبت کے جو مجھ کو آپ اور آپ کی جماعت سے ہے عزیزم مرحوم کی ناگہانی وفات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اور سخت قلق میں ہوں۔ خواجہ حسن نظامی خواہر زاد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی دہلی۔
۴۰۶۔ رسالہ نظام المشائخ دہلی محرم ۱۳۳۶ھ صفحہ ۵۲۔ ۵۳۔ بعنوان اجمیر شریف میں بلاوا۔
۴۰۷۔ الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۰۸۔ ستارہ صبح ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۲ جلد ۱ نمبر ۱۰۰۔
۴۰۹۔ رسالہ مرشد نمبر ۱ بحوالہ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۵۔
۴۱۰۔ بحوالہ الفضل ۱۸/ ۱۵ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۴۔
۴۱۱۔ ]h2 [tag تاریخ ہند و پاک صفحہ ۲۳۸ مطبوعہ حجازی پریس لاہور۔
۴۱۲۔ حیات محمد علی جناح صفحہ ۶۱ (از سید رئیس احمد جعفری) طبع دوم۔
۴۱۳۔ برکات خلافت صفحہ ۵۳۔ ۶۴۔ (تقریر سیدنا حضرت خلیفہ ثانی برسالانہ جلسہ ۱۹۱۵ء)
۴۱۴۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۸۔ ۱۹۱۷ء صفحہ ۵ و الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۱۵۔ ممبر حضرت نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔ خان بہادر راجہ پائندہ خاں جنجوعہ جہلم۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ عبداللہ بھائی الہ دین صاحب سکندر آباد دکن۔ مولوی غلام اکبر خان صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۔
۴۱۶۔ ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۴۵۳۔ ۴۵۷۔ ۴۵۸۔
۴۱۷۔ بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۱۔
۴۱۸۔ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۱۹۔ الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۲۰۔ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۔
۴۲۱۔ الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۵۔
۴۲۲۔ رپورٹ محکمہ نظارت جماعت احمدیہ صفحہ ۱۰۔
۴۲۳۔ الحکم ۷/ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۵۔
۴۲۴۔ الفضل ۲۷/ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱‘۱۴/ ۱۰ ۱ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۵۔ الفضل ۲۷/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۶۔ فاروق ۶/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔
۴۲۷۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۔
۴۲۸۔ فاروق ۱۲/ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۹۔ الفضل ۱۳/ ۱۰ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۳ ‘۱۰/ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰۔
۴۳۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء۔
۴۳۱۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء۔
۴۳۲۔ قادیان گائیڈ صفحہ ۱۰۲۔
۴۳۳۔ اخبار نور ۱۷/ ۳ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۳۴۔ الفضل ۳/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۳۵۔ الفضل ۱۷/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۲۔
۴۳۶۔ h2] gat[ الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔
۴۳۷۔ الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۹۔
۴۳۸۔ اخبار نور ۱۷/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔
۴۳۹۔ فاروق ۶/ ستمبر صفحہ ۳۔ ۴ و ۲۷/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۴۴۰۔ الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۴۱۔ بحوالہ الفضل ۹/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۳۔
۴۴۲۔ الفضل ۴/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۳۔ الفضل ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۴۔ الفضل ۱۸/ جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۵۔ مکتوب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنام مولف کتاب محررہ ۳۱/ جولائی ۱۹۶۴ء۔
۴۴۶۔ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۷۔ الحکم ۷/ جولائی ۱۹۱۸ء صفحہ ۴۔
۴۴۸۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔ ۳۵۹۔ (از حضرت میرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۴۴۹۔ حضرت امیر المومنین کو انفلو انزا کی وجہ سے ہر وقت حرارت رہتی تھی۔ اور ضعف قلب کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا حضور کی بیماری پر حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تار دے کر بلوائے گئے۔ حضرت میر صاحب تو قادیان پہنچنے کے دوسرے تیسرے روز خود انفلو انزا میں مبتلا ہو گئے۔ مگر حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو قریباً سوا تین ماہ حضور کی خدمت میں رہ کر تیمارداری اور علاج کا موقعہ ملا۔ رات کو حضور کے پاس صرف حضرت ڈاکٹر صاحب ہی ہوتے۔ اکثر کھانا بھی حضور کے ساتھ کھاتے تھے۔ حضور نے انہیں پہلا حکم یہ دیا کہ میری اجازت کے بغیر کمرہ سے باہر نہ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حضور کا بول و براز ٹسٹ کرانے کے لئے لاہور کے پتھالوجیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھجوایا جہاں ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک کام کرتے تھے۔ تشخیص کا نتیجہ سامنے آنے پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے ایک نئی ایجاد شدہ دوا کے چھ ٹیکے منگوائے اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ نئی قسم کا ٹیکہ حضور کے لگایا بھی جائے یا نہیں۔ اس بارے میں بعض احباب متامل تھے کہ مبادا کوئی بری علامت پیدا ہو جائے مگر حضرت ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ یہ علاج انشاء اللہ ضرور کارگر ہو گا۔ اس لئے آپ نے پسند کیا کہ بطور تجربہ ایک ٹیکہ آپ کے لگا کر نتیجہ دیکھ لیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد جب کوئی بری علامت ظاہر نہ ہوئی۔ پھر تو حضور کے بھی ٹیکہ لگایا گیا۔ دوسرے ٹیکہ کے بعد حضور کی بیماری ختم ہو گئی اور تیسرے ٹیکہ کی ضرورت نہ رہی۔ (نیز ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۱۱۶۔ ۱۱۷)
۴۵۰۔ یعنی حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ۔ ناقل۔
۴۵۱۔ حضرت مولانا شیر علی صاحب کے قلم سے لکھی ہوئی اصل وصیت خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۴۵۲۔ اخبار حق لاہور ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۵۳۔ یادگار جنگ صفحہ ۳۷۔ ۳۸ (شائع کردہ پنجاب پبلسٹی کمیٹی لاہور)
۴۵۴۔ اخبار حق لاہور ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۵۵۔ الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۵۶۔ الفضل ۷/ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۱۔
۴۵۷۔ الفضل ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۴۵۸۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔
۴۵۹۔ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۴۔
۴۶۰۔ الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۶۱۔الحکم ۱۴/ ۷ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۸۔
۴۶۲۔ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۳۔ الفضل ۲۲/ جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء۔
۴۶۵۔ الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۴۶۶۔ اخبار نور ۳/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۷۔ ۱۵۔
۴۶۷۔ الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۸۔ ’’فیصلہ حکم‘‘ کے نام سے چھپ گیا تھا۔
۴۶۹۔ الفضل یکم جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۹۔
۴۷۰۔ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۷۱۔ تشحیذ الاذہان دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۹۔ ۲۶۔
۴۷۲۔ سیٹھ صاحب کا وطن مالوف چنیوٹ ضلع جھنگ ہے آپ کے والد ماجد میاں حاجی سلطان محمود صاحب نے چنیوٹ میں اسلامیہ ہائی سکول جاری کیا۔ جس کی وجہ سے اپنی برادری میں بانی خطاب پایا حاجی تاج محمود صاحب مرحوم جن کا انتقال جولائی ۱۹۶۴ء میں ہوا آپ کے سگے چچا تھے۔ (الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴)
۴۷۳۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶۲۔ ۳۶۳ و الفضل ۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳ (تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی)
۴۷۴۔ رپورٹ محکمہ نظارت (از یکم جنوری ۱۹۱۹ء تا مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۲ (شائع کردہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ ناظر اعلیٰ) و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۹ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۷۵۔ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔ نظارتوں کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ طبع شدہ ہے۔
۴۷۶۔ الفضل ۳۱/ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳‘۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
۴۷۷۔ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
‏]1h [tag۴۷۸‘۴۷۹۔ ۲۹/ نومبر ۱۹۵۵ء کو نظارت دعوۃ و تبلیغ ختم کر دی گئی اور فیصلہ ہوا کہ جماعت بہت بڑھ چکی ہے اور جماعتی تربیت کی طرف بہت ضرورت ہے اس لئے نظارت تعلیم و تربیت دو نظارتوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ اول نظارت تعلیم دوم نظارت رشد و اصلاح۔ نظارت رشد و اصلاح کے کارکن اپنے گریڈ کے لحاظ سے علی الترتیب (۱) مربی (۲) معلم کے نام سے موسوم ہوں گے۔ اس فیصلہ کے مطابق نظارت تعلیم وتربیت کا تربیتی حصہ عملہ و بجٹ سمیت نظارت رشد و اصلاح کی طرف منتقل کر دیا گیا۔
۴۸۰۔ h2] gat[ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ (یکم مئی ۱۹۲۶ء کو حضور نے نظارت تجارت کا اضافہ کیا اور اس کے پہلے (آنریری) ناظر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقرر فرما کر ارشاد فرمایا کہ شاہ صاحب ہر تجارتی معاہدہ مرزا شریف احمد صاحب کے مشورہ سے کریں گے (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء) تقسیم ملک کے بعد نظامت خدمت و رویشاں نظامت دیوان اور نظارت زراعت کا بھی قیام عمل میں آیا۔
۴۸۱۔ الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
۴۸۲۔ الفضل ۴/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
‏h1] ga[t۴۸۳۔ اس تقریر کا ملخص ریویو آف ریلیجنز اردو ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۱۹ء میں شائع ہوا۔
۴۸۴۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
۴۸۵۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۸۶۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۵۔ غیر مبائع اخبار پیغام صلح نے ۲/ مارچ ۱۹۱۹ء کی اشاعت میں ’’میاں صاحب کا ایک قابل قدر لیکچر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ علانیہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ۲۶/ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال لاہور میں خلافت اسلامیہ کے اندرونی اختلافات‘‘ پر جو لیکچر انہوں نے دیا وہ نہایت ہی قابل قدر اور لائق تحسین تھا جس محنت اور جس قابلیت کے ساتھ میاں صاحب نے تاریخ کی ورق گردانی کرکے ان اسباب کو معلوم کیا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات اور آپس کی نزاعات اور جنگوں کا باعث تھے اور جس خوبی کے ساتھ اس الزام کو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم دراصل ان فتنوں کے موجب تھے ان خیر القرون کے بزرگوں سے اتارنے کی کوشش کی ہے۔ وہ داد دینے کے قابل ہے۔
۴۸۷۔ ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ بار دم سر ورق صفحہ ۲۔
۴۸۸۔ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۸۹۔ قادیان گائید صفحہ ۸۶۔ اس نئے قبرستان میں سب سے پہلے امتہ الرشید بنت محمد یامین صاحب تاجر کتب آف قادیان حال (ربوہ) دفن ہوئی۔
۴۹۰۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۹۔ ۳۶۰ (از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) سرگزشت صفحہ ۶۰۔ ۶۳ (از عبدالمجید سالک) تاریخ ہند حصہ دوم صفحہ ۲۴۴۔ ۲۴۵۔ (مطبوعہ حجازی پریس لاہور)
۴۹۱۔ ملاحظہ ہو الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۱۹ء۔
۴۹۲۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ مئی ۱۹۱۹ء (بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۳)
۴۹۳۔ ترک موالات اور احکام اسلام صفحہ ۲۔ ۳ (از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ)
۴۹۴۔ ترک موالات اور احکام اسلام۔ صفحہ ۴۔ ۵ (ملخصاً)
۴۹۵۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۹۶۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۹۷۔ الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۱۹ء۔
۴۹۸۔ الفضل ۲/ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۵۔
۴۹۹۔ اس کا انگریزی ایڈیشن Turkey’’ of Future ehT‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔
۵۰۰۔ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۱۹ء۔
۵۰۱۔ الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۳۔
۵۰۲۔ رپورٹ محکمہ نظارت جماعت احمدیہ صفحہ ۱۰۔
۵۰۳۔ جمعدار فضل دین صاحب کا تحریری بیان ہے کہ اس تقریر کے دوران میرے پاس ایک بزرگ عبداللہ نامی بیٹھے تھے انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنا نام لکھے بغیر یہ سوال لکھ بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وجہ سے انسان تقدیر کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہے۔ عجیب بات ہے کہ ابھی سوال کا کاغذ حضور تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضور نے از خود عبداللہ کا نام بطور مثال لے کر اس اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا۔ جو تقدیر الٰہی طبع اول (صفحہ ۱۰۹۔ ۱۱۰) پر موجود ہے۔
۵۰۴۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۳۔
۵۰۵۔ الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۵۔
۵۰۶۔ الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۸۔
۵۰۷۔ الفضل ۲۱/ جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۵۰۸۔ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۹ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۵۰۹۔ h2] gat[ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۹۔
۵۱۰۔ الفضل ۲۶/ جولائی ۱۹۱۹ء صفحہ ۸۔
۵۱۱۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
‏rov.5.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا ساتواں سال
تیسرا باب (فصل اول)
دارالتبلیغ امریکہ کی بنیاد سے لے کر
’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا ساتواں سال
(جنوری ۱۹۲۰ء تا دسمبر ۱۹۲۰ء بمطابق ربیع الاخر ۱۳۳۸ھ تا ربیع الاخر ۱۳۳۹ھ تک)
دارالتبلیغ امریکہ کی بنیاد
۱۹۲۰ء کے سال کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی باقاعدہ تبلیغی مہم پرانی دنیا کی حدود سے نکل کر نئی دنیا میں جا پہنچیں اور امریکہ میں مستقل مرکز کی بنیاد پڑی۔ یہ وہی امریکہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشیگوئی کے مطابق ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی فالج زدہ ہوکر کچھ دنوں کے بعد ۹ مارچ ۱۹۰۷ء کو بڑی حسرت واندوہ کی حالت میں ختم ہو گیا۔ ۱ ڈوئی اس عداوت و دشمنی کا بدترین نمونہ تھا۔ جو امریکن پادریوں کو اسلام اور بانی اسلام حضرت رسول خدا محمد مصطفیٰ~صل۱~ سے رہی ہے۔
دراصل امریکہ کے پادری گذشتہ صدی سے تمام عالم اسلام حتیٰ کہ مرکز اسلام مکہ معظمہ پر بھی صلیب کے جھنڈے لہرانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ مسٹر جان ہنری بیرس berose( Henry )Gohn نے گذشتہ صدی کے نصف آخر میں کہا تھا کہ صلیب کی چمکار آج ایک طرف لبنان پر ضوافگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمک سے جگمگا رہا ہے یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا جب قاہرہ دمشق اور تہران کے شہر خداوند یسوع کے خدام سے آباد نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی۔ اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگا ۲
یہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو اس وقت انگلستان میں تھے امریکہ چلے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ آپ ۲۶ جنوری ۱۹۲۰ء کو انگلسان کی بندرگاہ لور پول سے روانہ ہوئے۳ اور ۱۵ فروری ۱۹۲۰ کو امریکہ کی بندرگاہ فلاڈلفیا پر اترے لیکن شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے کیونکہ راہداری کے انسپکٹر نے کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد صرف اس وجہ سے کہ آپ ایک ایسے مذہب کے داعی و مبلغ تھے جو تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے آپ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اور فیصلہ کیا کہ آپ جس جہاز میں آئے ہیں اسی میں واپس چلے جائیں۔
حضرت مفتی صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف محکمہ آباد کاری (واشنگٹن) میں اپیل کی۔ اپیل کے فیصلہ تک آپ کو سمندر کے کنارے ایک مکان میں بند کر دیا گیا۔ جس سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی مگر چھت پر ٹہل سکتے تھے۔ اس کا دروازہ دن میں صرف دو مرتبہ کھلتا تھا جبکہ کھانا کھلایا جاتا تھا۔
اس مکان میں کچھ یورپین بھی نظر بند تھے جو عموماً نوجوان تھے اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کے لئے یہاں نظر بند کردیئے گئے تھے جب تک حکام کی طرف سے ان کے متعلق کوئی فیصلہ ہو۔ یہ لوگ حضرت مفتی صاحب کابڑا ادب کرتے تھے۔ اور ان کی ضرویات کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ بھی انہوں نے بنادی تھی۔ اور برابر خدمت کرتے رہتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ان نوجوانوں ہی کو تبلیغ کرنا شروع کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ کے اندر پندرہ آدمی اسی مکان میں مسلمان ہوئے۔
ادھر یہ صورت ہوئی ادھر آپ کی شہرت کا غیبی سامان یہ ہوا۔ کہ امریکن پریس نے آپ کی آمد اور ملک میں داخلے کی ممانعت کا بہت چرچا کیا۔ اور بعض مشہور ملکی اخبارات مثلاً ’’فلاڈلفیا ریکارڈ‘‘ ۔ پبلک ریکارڈ‘‘۔ نارتھ امریکن بلیٹین‘‘۔ ایوننگ بلیٹین‘‘۔ پبلک لیجر‘‘۔ دی پریس‘‘۔ نے نہ صرف آپ کی آمد کے بارے میں خبر دی۔ بلکہ جماعت احمدیہ کے حالات بھی شائع کئے۔]4 [stf۴
سیدنا حضرت خلفیتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے امریکی حکومت کے اس رویہ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
’’امریکہ جسے طاقتور ہونے کا دعٰوی ہے اس وقت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہوگی۔ روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا۔ اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ ہمیں وہ ہرگز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم امریکہ کے اردگرد علاقوں میں تبلیغ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بناکر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی‘‘۔۵
آخر شروع مئی ۱۹۲۰ء میں امریکی حکومت کی طرف سے حضرت مفتی صاحب سے پابندی اٹھالی گئی۔ جس کی فوری وجہ یہ ہوئی۔ کہ حضرت مفتی صاحب کی تبلیغ سے کئی انگریزوں کے مسلمان ہونے کی خبر جب متعلقہ محکمہ کے افسر کو پہنچی تو وہ بہت گھبرایا اور سوچنے لگا۔ کہ اس طرح تو یہ آہستہ آہستہ سارے نظر بند نوجوانوں کو مسلمان کرلیں گے۔ اور جب شہر کے پادری صاحبان کو اس کا علم ہوگا تو وہ سخت ناراض ہوں گے۔ اور شہر کی پبلک میرے خلاف ہوجائے گی اس پر اس نے اعلیٰ افسروں کو تار دیئے کہ جس قدر جلد سے جلد ممکن ہو ہندوستانی مشنری کو اندرون ملک میں داخلے کی اجازت دیدی جائے چنانچہ حکام نے بھی آپ کو امریکہ داخل ہونے کا فیصلہ کر دیا۔ اور حضرت مفتی صاحب ۶ نے نیو یارک میں داخل ہوکر ایک مکان کا حصہ لیکچروں اور دفتر کے لئے کرایہ پر لے کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا ۷ اور سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہونے لگیں۔
اس کے بعد آپ نے ڈیٹرائٹ میں چند ماہ قیام فرمایا اور عرب آبادی میں خاص طور پر پیغام حق پہنچایا پھر ۱۹۲۱ء میں آپ شکاگو منتقل ہوگئے وہاں آپ نے ایک عمارت خرید کر امریکہ مشن کا مرکز قائم کیا۔۸ اور ’’دی مسلم سن رائز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا۔ حضرت مفتی صاحب (جو امریکہ میں آج تک ڈاکٹر صادق کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں) ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء میں قادیان سے تشریف لے گئے ۹ اور امریکہ مشن کا چارج حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے لے لیا۔
حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے اپنے عہد میں امریکہ کے طول وعرض میں تبلیغی حدود کو اور زیادہ وسعت دی اور کئی امریکنوں کو مسلمان کیا۔ آپ جنوری ۱۹۲۳ء میں قادیان سے تشریف لے گئے اور ۳۰ جون ۱۹۲۵ء کو واپس تشریف لے آئے۔
۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو مکرم صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مشن کے باقاعدہ انچارج بناکر بھیجے گئے جو ۱۸ اگست ۱۹۲۸ء کو شکاگو پہنچے۔ ۱۰ ملک میں ان دنوں گورے اور کالے کا سوال بہت شدت سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اور شکاگو مشن کالے باشندوں کی آبادی میں ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں کی آمدورفت بہت کم تھی۔ اس لئے صوفی صاحب نے ۱۹۲۹ء میں شہر کے مرکز میں ایک اور مکان کرایہ پر لے لیا۔ جو شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے لوگوں کے لئے باآسانی تبلیغی سنٹر بن گیا۔۱۱
مکرم صوفی صاحب ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو واپس قادیان آئے اوردوبارہ ۲۱اکتوبر ۱۹۳۶ء کو امریکہ بھیجے گئے۔ جہاں آپ بارہ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے بعد ۱۹۴۸ء میں واپس آئے۔ آپ نے اپنے زمانہ قیام میں رسالہ’’مسلم سن رائز‘‘ کی اشاعت کے علاوہ آنحضرت ~صل۱~ کی سیرت اور قبر مسیحؑ پر شاندار تصانیف شائع کیں۔ علاوہ ازیں آپ نے متعدد پمفلٹ اور ٹریکٹ صداقت اسلام پر شائع کئے۔ آپ کے ذریعہ امریکہ میں متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین نے امریکہ میں تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم۔ اے (شکاگو۔ واشنگٹن) چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے (نیویارک واشنگٹن) مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل مرحوم (جوپٹس برگ میں ہی شہید ہوئے) چوہدری شکر الٰہی صاحب (سینٹ لوئیس) عبدالقادر ضیغم مولوی فاضل (پٹس برگ) مولوی نورالحق صاحب انور مولوی فاضل (نیویارک) سید جواد علی صاحب بی ۔اے (ڈیٹرائٹ) امین اللہ خان سالک شاہد بی۔ اے(شکاگو)صوفی عبدالغفور صاحب بی۔ اے (واشنگٹن نیویارک) عبدالرحمان خان صاحب بنگالی بی ۔ اے (واشنگٹن پٹس برگ) راجہ عبدالحمید صاحب (ڈیٹن)
۱۹۵۰ سے امریکہ کا مرکزی دارالتبلیغ شکاگو کی بجائے واشنگٹن مقرر کیا گیا ہے اور اس کے حلقہ میں شکاگو ‘واشنگٹن ‘بوسٹن‘فلاڈلفیا‘نیویارک۔ بالٹی مور۔ پٹس برگ۔ نیگس ٹائون۔ کلیولینڈ۔ ڈیٹن ۔ انڈیا ناپولس۔ ملواکی ۔ سینٹ لوئیس اور کینس سٹی۔ ولیاینٹک اور ڈیٹرائٹ میں مشہور جماعتیں قائم ہیں۔
امریکہ کے بعض نہایت مخلص اور ایثار پیشہ احمدیوں کے نام یہ ہیں:۔ ولی کریم۔ لطیفہ کریم۔ امتہ اللطیف۔ مرسل شفیق (ڈیٹن) احمد شہید۔ علیہ شہید۔ ابوصالح ابوالکلام۔ رشیدہ کلام۔ (پٹس برگ) علیہ علی (انڈیاناپولس) نور الاسلام۔ محمد بشیر (شکاگو) زینب عثمان۔ عبداللہ علی (سینٹ لوئیس) عبدالحکیم‘امتہ الحفیظ (کلیولینڈ) کریما کریم عبدالرحمان (بالٹیمور) رشیدہ طٰہ (واشنگٹن) بشیر افضل مصطفٰے دلیل (نیو یارک) خلیل محمود ایم۔ اے (باسٹن)
امریکہ مشن کی طرف سے اس وقت تک تیس سے زائد کتب ورسائل شائع ہوچکے ہیں مثلاً اسلامی اصول کی فاسفی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے انگریزی تراجم۔ اسلام اینڈ ڈیماکریسی(از حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) حیاتاحمد Ahmad( of )Life قبر مسیح jesus( of Tomb )The مئولفہ جناب صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم) اسلام کا تعارف Islam( of Interpetation )An (اطالوی پروفیسر واگ لیری) موخرالذکر کتاب کا دیباچہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (سابق جج عالمی اسمبلی حال جج عالمی عدالت ہیگ) کا لکھا ہوا ہے۔ مشن کی طرف سے اس وقت تبلیغ اسلام کے لئے ’’دی مسلم سن رائز‘‘ اور تربیتی اغراض کے لئے ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کے نام سے دو رسالے بھی جاری ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب منیر نے جماعت کو فضل عمر پریس بطور عطیہ دیا۔۱۲
امریکہ میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کے کام میں جو بھاری کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتخانہ کا ترجمان ’’پنوراما‘‘ لکھتا ہے کہ American ‘‘1,000 Ahmadiyya’’ by Islam to converts۱۳ یعنی امریکہ میں ایک ہزار نو مسلم جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں داخل اسلام ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ایک امریکن پادری نارمن ونسنٹ پیل peal( vincent )Norman خود امریکہ میں عیسائیت کی ناکامی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ گذشتہ سال موسم بہار میں عوامی رجحانات کا جائزہ لینے کا ایک خاص اہتمام کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ گرجوں میں حاضری روز بروز گر رہی ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب (عیسائیت) کا اثر روز بروز کم ہوتا جارہا ہے ان کی تعداد پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ ایک اور جدید رجحان یہ ہے کہ بائبل کو خدا کا مستندالہامی کلام تسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جارہاہے۔ یہ اب محض ایک دینی کتاب کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اور اس منہ بولتی تصدیق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کہ خداوند کا فرمان یہ ہے ’’یقیناً خداوند کا فرمان اور انجیل وہ بنیادیں ہیں جن پر پروٹسٹنٹ ازم قائم ہے جب یہ بنیاد ہی کمزور ہوجائے۔ تو پھر پوری عمارت کا متزلزل ہونا لازمی ہے‘‘۔]4 [stf۱۴
مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک
حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۷ جنوری ۱۹۲۰ء کو مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی۔ جس پر جماعت نے ایسے رنگ میں لبیک کہا کہ ایک دنیا ور طہ حیرت میں آگئی۔ چنانچہ عبدالمجید قریشی ایڈیٹر اخبار ’’تنظیم‘‘ امرت سر نے لکھا ’’تعمیر مسجد کی تحریک ۶ جنوری ۱۹۲۰ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع و اطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ۱۰ جون تک ساڑے اٹھتر ہزار روپیہ نقد اس کارخیر کے لئے جمع ہوگیا تھا کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثار وفدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں۔۱۵
لاہور اور امرت سر میں عظیم الشان لیکچرحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء ۱۶سے ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء۱۷ تک لاہور اور امرت سر کے سفر میں رہے حضور نے اس سفر میں چھ عظیم الشان لیکچر دیئے۔
۱۔ پہلا لیکچر ۱۵ فروری کو بصدارت خان ذوالفقار علی خان صاحب بریڈلا ہال لاہور میں ہوا جس میں حضور نے مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم انگلستان کے اس اعلان کی عقلی و نقلی دلائل سے دھجیاں اڑادیں۔ کہ آئندہ دنیا کا امن عیسائیت سے وابستہ ہے حضور نے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا کہ مستقبل میں امن و امان کا قیام صرف اسلام ہی کے ذریعہ ہو سکتاہے۔۱۸
۲۔ حضور کا دوسرا اہم لیکچر ’’واقعات خلافت علوی‘‘ کے موضوع پر لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے زیرانتظام کالج کے حبیبیہ ہال میں ہوا۔ اور حضور کے مشہور و مقبول لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ کی طرح یہ تاریخی تقریر بھی نہایت مقبول ہوئی اور صاحب صدر جناب خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب بی۔اے نے اختتامی تقریر میں فرمایا ۔ ’’حضرات ! میں آپ سب صاحبان کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اس پرزور اور پراز معلومات تقریر کے لئے جو آپ نے اس وقت ہمارے سامنے کی ہے میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نے قریباً تین گھنٹے تقریر کی ہے اور آپ صاحبان نے ہمہ تن گوش ہوکر سنی ہے اس تقریر سے جو وسیع معلومات اسلامی تاریخ کے متعلق معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض بالکل غیر معمولی ہیں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کی تلاش اور تجسس کے لئے کسی وقت بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا۔ مگر میں بلا تامل کہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں محض مطالعہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں بلکہ
ایں سعادت بزرو بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کو مسلسل بیان کیا ہو اور پھر کسی تاریخی مضمون میں ایسا لطف آیا ہو جو کسی داستان گو کی داستان میں بھی نہ آسکے۔ اس کے لئے میں پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۳۔ حضور کا تیسرا لیکچر ’’مذہب اور اس کی ضرورت‘‘ پر ۱۸ فروری ۱۹۲۰ء کو احمدیہ ہوسٹل لاہور میں ہوا جس میں حضور نے انگریزی خوانوں کے اعتراضات اور موجودہ علمی تحقیقات کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ایسی خوبی و خوش اسلوبی سے پیش کیا کہ دل وجد کرنے لگے۔ یہ لیکچر اپنی شان اور اپنے رنگ میں بالکل اچھوتا تھا۔ نہایت مشکل وادق مسائل بڑی صفائی و برجستگی سے بیان فرمائے گئے تھے۔ ۲۰
۴۔ حضور نے ۱۹ فروری ۱۹۲۰ء کو بیرون دہلی دروازہ ایک نہایت عمدہ تبلیغی لیکچر دیا یہ لیکچر ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا ۔ اکثر احباب چشم پر آب تھے۔ اور غیراز جماعت دوست بھی بہت متاثر ہوئے۔۲۱
۵۔ اس کے بعد حضور لاہور سے امرت سر تشریف لے گئے اور ۲۲ فروری ۱۹۲۰ء کو بندے ماترم ہال میں (جہاں ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے لیکچر دیاتھا۔ اور باوجود مولویوں کی اشتعال انگیزی کے یہ لیکچر بخیروخوبی ختم ہوا۔ اور حضور رات کی گاڑی میں لاہور واپس ہوگئے ۔
۶۔ حضور نے ۲۴ فروری ۱۹۲۰ء کو جماعت لاہور سے ایک اہم خطاب فرمایا گوبظاہر تو احباب لاہور ہی اس کے مخاطب تھے لیکن فی الحقیقت یہ خطاب تمام جماعت ہائے احمدیہ کے لئے تھا۔ ۲۲
سیالکوٹ اور امرتسر میں لیکچر
حضور ۷ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۳ کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۴ کو قادیان واپس آئے۔ سفر لاہور کی طرح اس سفر میں بھی حضور نے کئی تقریریں فرمائیں چنانچہ ۱۰ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۵ کو احمدیہ حال کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے خطاب فرمایا۔ دوسرے روز ۱۱ اپریل ۱۹۲۰ء کو اس عنوان پر کہ’’دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا‘‘۔ لیکچر دیا۔ اس لیکچر کے وقت آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آسمان سے یکا یک ایک نور اترا ہے اور میرے اندر داخل ہوگیا ہے اور میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکلنے لگی ہیں۔ کہ میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ہے۔ اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ اور بفضلہ تعالیٰ یہ تقریر بہت کامیاب ہوئی تیسرے روز ۱۲ اپریل ۱۹۲۰ء کو حضور نے پنجابی زبان میں ایک گھنٹہ تک عورتوں کو لیکچر دیا۔ ۲۶جو فرائض مستورات کے نام سے چھپ چکا ہے حضور سیالکوٹ سے واپسی پر ۱۳ اپریل کو لاہور رونق افروز ہوئے۔ اور ۱۴ اپریل کو امرت سر پہنچے اور اس موضوع پر کہ ’’کیا دنیا کے امن و امان کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے‘‘ بندے ماترم ہال میں لیکچر دیا۔ اور مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم کے اعلان کے مقابل اسلام کو ذریعہ امن ثابت فرمایا۔ اس لیکچر کے دوران میں جب حضور نے اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں خدا تعالیٰ کا ماں سے بھی زیادہ شفیق ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مشکٰوۃ مطبع مجتبائی دہلی صفحہ ۲۰۷) یہ سنتے ہی امرتسر کی مسجد خیرالدین کے امام جناب مولوی سید عطااللہ شاہ صاحب بخاری فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت جوش و خروش سے حوالہ صفحہ ‘سطر ‘مطبع ‘سنہ کا مطالبہ کرنے لگے۔ حضور نے جواباً فرمایا۔ اس وقت آپ تقریر سنیں اگر حوالہ کی ضرورت ہو تو مکان پر تشریف لے آئیں۔ جناب بخاری صاحب خوب جانتے تھے کہ یہ میدان مناظرہ نہیں ہے کہ کتابیں ساتھ لائی گئی ہوں اور نہ یہ لیکچر کسی اسلامی فرقہ کے خلاف ہو رہا تھا کہ کسی غیر احمدی کو اعتراض ہو سکتا مگر چونکہ ان کی نیت اور تھی۔ اس لئے انہوں نے معقول جواب کی طرف کچھ توجہ نہ کی۔ اور جو شور وغل شروع کر چکے تھے اس میں ترقی کرتے گئے اسی دوران میں بعض دوست یہ اندازہ کرکے کہ غوغائی لوگ خشت باری کا ارادہ کر رہے ہیں۔ حضور کے آگے کھڑے ہوگئے تا حضور کو تکلیف نہ پہنچے مگر حضور نے ان کو حکماً بٹھا دیا۔ بعض نے خطرہ بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ بھی عرض کیا کہ لیکچر بند کردیا جائے۔ مگر حضور نے بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا۔ کہ کیا تم مجھے بزدل بناتے ہو۔ ۲۷ اور لیکچر بند نہیں فرمایا۔ آخر پولیس نے یہ دیکھ کر کہ حالت خراب سے خراب تر ہوا چاہتی ہے۔ مداخلت کی اور مولوی سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے جلسہ کا ہال چھوڑ دینے کے لئے کہا اس پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت شوروغل مچاتے جلسہ کی جگہ سے نکل کر باہر دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ ادھر ہال میں تو حضور کا لیکچر ہو رہا تھا۔ اور ادھر ہال کے باہر مولوی بخاری صاحب احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھے کہ شرافت سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والا انسان انہیں زبان پر لانے کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے غیظ و غضب کے عالم میں یہاں تک کہہ ڈالا آج میں مصروف جہاد ہوں اور مرنے مارنے پر تیار ہوں نماز نہیں پڑھوں گا بلکہ اس کو جو خلیفہ بنا ہوا ہے زندہ نہیں نکلنے دوں گا۔ آخر کچھ وقت کے بعد حضور لیکچر ختم کرکے اسی مشتعل ہجوم میں سے ہوتے ہوئے خدا کے فضل سے بخیریت اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔۲۸ اور قادیان واپس تشریف لانے پر جناب بخاری صاحب کی مطلوبہ حدیث کا مکمل متن مع حوالہ شائع کردیا۔۲۹
مبلغین کلاس کا اجراء۔
حضرت امیرالمومنین کی ہدایت پر ۲۱جون ۱۹۲۱ء کو پہلی یادگار مبلغین کلاس جاری ہوئی اور اس کے استاد علامہ زمان حضرت حافظ روشن علی صاحب جیسے مثالی عالم ربانی مقرر ہوئے۔ ۳۰ مولانا جلال الدین صاحب شمس ۔ مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ مولانا ظہور حسین صاحب اور مولانا شہزادہ خانصاحب مرحوم جیسے نامور علماء و فضلا اس پہلی کلاس کے ابتدائی طلبہ ہیں اس کلاس میں بعد کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی شامل ہوگئے۔ ۳۱ تین سال بعد ۱۹۲۴ء میں کر یہہ ضلع جالندھر کے ایک نہایت ذہین وطباع طالب علم کو بھی خوش قسمتی سے اس کلاس میں داخل ہوکر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا یہ طالب علم اب علمی دنیا میں مولانا ابوالعطاء ۳۲ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سلسلہ کے مبلغین میں سے ابوالبشارت مولانا عبدالغفور صاحب ۔ مولوی قمرالدین صاحب سیکھوانی جناب قریشی محمد نذیر صاحب اور دوسرے متعدد طلباء تھے جنہیں آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے فرائض تعلیم و تربیت اور جہاد تبلیغ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے آپ نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی کہ میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں۔۳۳۔ اور حق یہ ہے کہ آپ کے تمام شاگردوں نے آپ کی وصیت پر عمل کرنے کا اپنی اپنی حالت کے مطابق پورا پورا خیال رکھا ہے اور رکھتے ہیں لیکن آپ کے فیض یافتہ تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے سامنے بھی بہت تبلیغ کی تھی اور آپ کے بعد تو پوری قوت سے تبلیغ کے لئے کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہیں ان کے متعلق خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پیش کر دینا زیادہ انسب واولیٰ ہے حضور نے فرمایا ’’حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو ۔۔۔۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں‘‘۔۳۴ پھر ۱۹۵۶ء میں فرمایا۔ ’’یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں چنانچہ (مولوی جلال الدین صاحب ناقل )شمس صاحب ہیں۔ مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں۔ عبدالرحمان صاحب خادم ہیں‘‘۔]4 [stf۳۵
’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘
فاتح اتحادی ملکوں نے ترکی سے جو شرائط صلح طے کیں وہ انتہا درجہ کی ذلت آمیز تھیں۔ ترکی سلطنت کے حصے بخرے کر دیئے گئے فلسطین عراق ‘عرب اور شام کو آزاد و خودمختار سلطنتیں قرار دے کر ان پر برطانیہ کی عملداری قائم کر دی گئی اور حجاز پر شریف حسین مکہ کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی اور مصر ٹرکی کے حقوق واختیارات سے آزاد کر دیاگیا۔ شرائط نامہ میں ٹرکی کی بحری اور بری اور ہوائی افواج بھی نہایت درجہ محدود کر دی گئیں۔ ۳۶ اس کے علاوہ اور بھی سخت شرائط اور پابندیاں لگادی گئیں۔
اس معاہدہ کے سلسلہ میں آئندہ طریق عمل سوچنے کے لئے یکم و ۲ جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ۳۷ کانفرنس منعقد کی گئی۔ جمیعتہ العلماء ہند ۳۸ کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل کی دعوت پر حضور نے ایک مضمون معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ کے عنوان سے ایک دن میں رقم فرمایا۔ اور اسے راتوں رات چھپواکر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ بھجوادیا۔ ۳۹ ان کے ساتھ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے۔
اس مضمون میں حضور نے اپنا نقطہ نگاہ بدلائل واضح فرمایا۔ کہ ’’میرے نزدیک اس معاہدہ کی کئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہوا ہے‘‘ اس کے بعد لکھا کہ مسلمانوں کے سامنے کئی آراء پیش کی جارہی ہیں۔ بعض نے ہجرت کی تجویز پیش کی ہے بعض نے جہاد عام کو پسند کیا ہے بعض نے قطع تعلقی عدم موالات کی پالیسی کو سراہا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سب تجاویز نادرست اور ناقابل عمل ہیں چنانچہ حضور نے تینوں تجاویز کا مفصل جائزہ لیا۔
۱۔ ہجرت کے بارے میں بتایا کہ شرعاً ہجرت کا یہ کوئی موقعہ نہیں ہے اور ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان ہندوستان کو چھوڑ کر کہیں جاسکتے ہیں؟
۲۔ جہاد کی نسبت وضاحت فرمائی کہ ایک حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرکے اس میں رہنے کے بعد اس کے خلاف علم جہاد بلند نہیں کیا جاسکتا۔
۳۔ تحریک عدم موالات کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے صاف اور واضح لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ ’’سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہوجائیں اور اپنے حقوق کو جو بوجہ مسلمانوں کے سرکاری ملازمتوں میں کم ہونے کے پہلے ہی تلف ہورہے ہیں۔ اور زیادہ خطرہ میں ڈال دیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘‘۔
مضمون کے دوسرے حصہ میں حضور نے مسلمانوں کو مستقبل کے لئے ایک عملی پروگرام بنانے کی طرف توجہ دلائی اور تجویز پیش کی کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لئے بلا تاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ (یعنی موتمر عالم اسلامی) قائم ہوجانی چاہئے۔ آخر میں مسلمانوں کو اسلام کے درخشندہ اور روشن مستقبل کی خبر دیتے ہوئے تحریر فرمایا یہآخری صدمہ واقعہ میں آخری صدمہ ہے اب اسلام کے بڑھنے کے دن شروع ہوتے ہیں اور اب ہم دیکھیں گے کہ مسیحی کیونکر اس کی بڑھتی ہوئی رو کو روکتے ہیں خدا کی غیرت اس کے مامور کے ذریعہ ظاہر ہوچکی ہے۔ اور اب سب دنیا دیکھ لے گی۔ کہ آئندہ اسلام مسیحیت کو کھانا شروع کردے گا۔ اور دنیا کا آئندہ مذہب وہی مذہب ہوگا جو اس وقت سب سے کمزور مذہب سمجھاجاتا ہے۔ ۴۰
حضرت خلیفہ المسیح کا پیغام احمدی قوم کے نام
جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جماعت احمدیہ کو اپنے پیغام میں مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے اپنے بچے بھجوانے اور مالی اعانت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ مدرسہ احمدیہ تمہاری عملی جدوجہد کا نقطہ مرکزی ہے اور اسی کی کامیابی پر اس امر کا فیصلہ ٹھہرا ہے کہآئندہ سلسلہ کی تبلیغ جاری رکھی جاسکے گی یا نہیں۔۴۱اس پیغام پر کئی مخلصین جماعت نے اپنے نونہال اس اہم درسگاہ میں داخل کرادیئے اور مدرسہ کے طلبہ میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔
مسجد لندن کے لئے زمین کی خرید پر خوشی کی تقریب
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ ۳۱ جولائی ۱۹۲۰ء کو دھرم سالہ تشریف لے گئے اور ۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء کو واپس قادیان آئے ۴۲ اس سفر کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد احمدیہ لنڈن کے لئے قطعہ زمین کی اطلاع ملنے پر ۹ ستمبر کو ایک پر مسرت تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے قریباً تمام رفقاء سفر (مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب‘حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ‘حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم ۔اے‘حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب) نے باری باری مسجد لنڈن کے بارے میں اشعار پڑھے اور سب کے بعد خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ قطعہ سنایا۔
مرکز شرک سے آوازہ توحید اٹھا
دیکھنا دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اٹھا
نور کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی
جان لو جلد ہی اب ظلم صنا دید اٹھا۴۳
اس قطعہ کے علاوہ حضور کی ایک نظم بھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے پڑھ کر سنائی۔ نظموں کا پروگرام ختم ہونے پر دعا ہوئی اور نماز عصر پڑھنے کے بعد دسترخوان دعوت بچھایا گیا جس میں آقا و خدام سب خوشی خوشی شامل ہوئے۔۴۴
’’الواح الہدیٰ‘‘ نونہالان احمدیت کو درد انگیز خطاب
اسی سال جبکہ حضور دھرم سالہ میں مقیم تھے نوجوانان احمدیت کو نہایت قیمتی نصائح کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے ایک درد انگیز نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ تھا۔
نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
‏body] gat[اس نظم کی یہ خصوصیت تھی کہ حضور نے نہ صرف قریباً ہر شعر کی وضاحت نثر میں بھی حاشیہ کے ذریعہ سے فرمائی۔ بلکہ نظم لکھنے سے قبل اس کا پس منظر بھی اپنے قلم سے تحریر فرمایا جس میں لکھا۔ ’’اے نوجوانان جماعت احمدیہ! ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے۔ گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الٰہی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا ۔ پس ۔۔۔ آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ تاخدا تعالٰے کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے۔ اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کردی ہیں جس پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔۔۔۔ خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں پس اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ تھوڑے ہی دنوں میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے۔ جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے یہ بھی یاد رکھ کہ تمہارا یہی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو۔اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خداتعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں ۔ جس کے لئے آدم اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ اللھم آمین۔ ۴۵
’’سیرت خاتم النبین‘‘ کی اشاعت
اس سال کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی معرکتہ الارا کتاب ’’سیرت خاتم النبین‘‘ کی پہلی جلد جو آنحضرت ~صل۱~ کی مکی زندگی کے بصیرت افروز حالات پر مشتمل ہے۔ شائع ہوئی۔ ابتداً یہ کتاب ۱۹۱۹ء کے ریویو میں ماہوار چھپتی رہی تھی پھر نظر ثانی کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئی اس محققانہ تالیف نے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے سیرت النبی~صل۱~ کے چودہ سوسال کے اسلامی لٹریچر میں ایک شاندار اضافہ کیا ہے اور ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت رسول مقبول ~صل۱~ کی شان تمام نبیوں میں ارفع و اعلیٰ ہے اسی طرح سیرت خاتم النبین سیرت کی دوسری تمام کتابوں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ چنانچہ اس کے پہلے ایڈیشن پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سر محمد شفیع صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور‘مولوی الف دین صاحب وکیل ہائیکورٹ پنجاب اور ’’آگرہ اخبار‘‘ (آگرہ) ’’میونسپل گزٹ‘‘ لاہور نے بہت عمدہ تبصرے کئے ہیں۔۴۶
’’سیرت خاتم النبین‘‘ کا دوسرا حصہ اگست ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا جو ابتدائے ہجرت سے ۵ ہجری کے آخر تک کے واقعات پر مشتمل تھا اور اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں کے لحاظ سے ایک زبردست علمی کارنامہ تھا۔ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا ’’میں سمجھتا ہوں رسول کریم ~صل۱~ کی جتنی سیرتیں شائع ہوچکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پرتو ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں اس کے ذریعہ انشاء اللہ اسلام کی تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہوگی‘‘۔
اس حصہ پر نواب سر سکندر حیات خان‘سیٹھ عبداللہ ہارون ایم۔ایل۔ اے کراچی ‘ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ مولوی الف دین ایڈووکیٹ ضلع سیالکوٹ‘نواب اکبر یار جنگ جج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن ‘مولانا سید سلیمان ندوی‘رسالہ معارف (اعظم گڑھ)اور اخبار ’’سچ‘‘ لکھنو نے بھی بے حد خراج تحسین ادا کیا۔ ۴۷
سیرت کا تیسرا حصہ جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد سے لے کر آنحضرت ~صل۱~ کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج تھے۔ اپریل ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔
ترک موالات و احکام اسلام
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رسالہ ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ میں مسلمانوں کو تحریک عدم موالات اور ہجرت کے نقصانات سے بروقت انتباہ فرما دیا تھا۔ مگر مسلمان لیڈروں نے مسٹر گاندھی کی قیادت میں یکم اگست ۱۹۲۰ء ۴۸ سے عدم تعاون کا منظم پروگرام شروع کرکے ملک میں ایسی آگ لگادی کہ کوئی صوبہ اور کوئی ضلع محفوظ نہ رہا۔ بلکہ قصبوں اور دیہات تک اس کی لپیٹ میں آگئے ہر طرف سیاسی جلسوں اور جوشیلی تقریروں کا بازار گرم اور مسلمانوں کی ہجرت کا تانتا لگا ہوا تھا۔ لوگ اپنا گھر بار اور وطن عزیز چھوڑ اعزا واقرباء سے منہ موڑ کر افغانستان کی طرف چلے جارہے تھے۔ اس لئے حضور نے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں مختصراً جن خیالات کا اظہار فرمایا تھا ان کو ایک اپنی کتاب ترک موالات و احکام اسلام (مطبوعہ دسمبر۱۹۲۰ء) میں ازروئے آیات قرآنیہ واحادیث نبویہﷺ~ بڑی شرح وبسط سے ثابت فرما دیا۔ اس لاجواب تصنیف نے جو ۹۲ صفحات پر مشتمل ہے جہاں حامیان ’’عدم موالات’’ و ’’ہجرت‘‘ کے خیالات و دلائل کی بے بنیادی ظاہر کر دی۔ وہاں سنجیدگی سے غور کرنے والوں کے لئے کامیابی کا ایک نیا رستہ کھول دیا۔ انہیں دعوت دی کہ یہ وقت اس مجرب نسخہ موالات کو استعمال کرنے کا ہے جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے ہلاکو خاں کے پوتے کو اسلام کی غلامی میں داخل کر دیا تھا۔ اور جو خدائے واحد لاشریک کے عبادت گزاروں میں شامل ہو کر ایک نئی اسلامی حکومت کا بانی ہوا تھا۔
اس کتاب لاجواب میں حضور نے نہایت غیرت دلانے والے لفظوں میں لکھا کہ ’’اگر یہ درست ہے کہ ترک موالات سے ایک دوسال میں تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائو گے تو اسلام کی دوبارہ زندگی یقیناً مسٹر گاندھی کے ہاتھ ہوگی اور نعوذ بااللہ من ذالک ابدالا باد تک محمد رسول اللہ ~صل۱~ کا سر مبارک بار احسان سے ان کے سامنے جھکا رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح تو خیر ایک نبی تھے۔ اب جس شخص کو تم نے اپنا مذہبی راہ نما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں پس محمد رسول اللہ ~صل۱~ کی اس ہتک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مسٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی جتنی کہ حضرت مسیح کی امت کی غلامی تم کہتے ہو کہ ہمیں کرنی پڑی ہے‘‘۔۴۹
افسوس کہ حضور کی یہ آواز بہرے کانوں سے سنی گئی۔ عوام تو رہے ایک طرف مسلمانوں کے قومی لیڈروں نے اس امید خام کی وجہ سے کہ اتحادیوں کے ہاتھوں ترکی حکومت کو جو مشکل پیش آگئی ہے وہ حل ہوجائے گی۔ اور ہم انگریز کی غلامی سے بھی آزاد ہوجائیں گے مسٹر گاندھی اور کانگریس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اور بعض بعض ممتاز لیڈروں نے تو ان کے لئے وہ کچھ کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح کہا گیا۔ چنانچہ ظفرالملک صاحب علوی نے کہا کہ اگر آنحضرت ~صل۱~ خاتم النبین نہ ہوتے تو میں ضرور کہتا کہ اس زمانے کے بنی مہاتما گاندھی ہیں۔ جناب ڈاکٹر آصف علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’میں صدق دل سے یقین کرتا ہوں کہ اس صدی کے مجدد مہاتماگاندھی ہیں۔ مولانا شوکت علی نے کہا۔ میں کہتا ہوں امام مہدی گاندھی جی ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کا مریڈنے جیل سے پیغام بھیجا کہ میں آنحضرت ~صل۱~ کے بعد بے سوچے سمجھے مہاتما گاندھی کی پیروی کرتا ہوں۔ (امیرشریعت احرار) جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے مسجد خیرالدین امرت سر میں کہا۔ کہ میں مسٹر گاندھی کو نبی بالقوۃ مانتا ہوں‘‘۔۵۰
جناب ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے راولپنڈی میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کے دوران میں کہا۔ کہ میں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو تلک اور گاندھی بتا رہے ہیں یہ اخلاقی قوت ان بزرگوں کی ہی کام کر رہی ہے۔ یہ آسمانی قوت ہے۔ ہندوئوں نے اور مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کئے ہیں ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے۔ ہمارے پاس زر نہیں ہے جب جان چاہیں ہم حاضر ہیں۔ ۵۱
راولپنڈی کے بعد انہوں نے کلکتہ میں کہا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے کلکتہ کی تاریخی سرزمین پر ایک اجلاس خاص منعقد کیا اور اس مشترک پلیٹ فارم پر سے جس کی تعمیر خود خدائے قادر وقیوم کے مقدس ہاتھوں کی رہین منت ہے۔ اس آواز کی ایک قرنا پھونکی گئی ہے اس وقت برطانیہ اقتدار کے حواس درست کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ’’عدم تعاون‘‘ ہے۔ ۵۲
لیکن آہ! جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قبل از وقت انتباہ فرما دیا تھا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کا رہا سہا وقار خاک میں ملادیا۔ اور انہیں تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا۔ اور مسلمانان ہند کی ملی و سیاسی زندگی کا یہ خونچکاں حادثہ آج بھی ایک غیور ۔ درد مند مسلمان کو تڑپادینے کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں:۔
’’اٹھارہ ہزار مسلمان اپنا گھر بار جائداد اسباب غیر منقولہ اونے پونے بیچ کر خریدنے والے زیادہ ترہندو تھے۔ افغانستان ہجرت کر گئے وہاں جگہ نہ ملی واپس کئے گئے کچھ مرکھپ گئے جو واپس آئے تباہ حال ‘خستہ درماندہ مفلس ‘قلاش ‘تہی دست‘بے نوائے یار ومدد گار۔ اگر اسے ہلاکت نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں‘‘۔۵۳
میاں محمد مرزا صاحب دہلوی لکھتے ہیں ۔ ’’کچھ دنوں بعد جب مورخ کابے رحم قلم اس ایجی ٹیشن کے جذبی اثر سے آزاد ہو کر اس کا جائزہ لے گا۔ اور خالص سیاسی نقطہ نظر سے اسے جانچے گا۔ تو ایجی|ٹیشن کا یہ سارا دور اپنی ہنگامہ خیزیوں کے باوجود اسے ایک ایسا بے نتیجہ سیاسی بحران نظر آئیگا جس نے مسلمانوں کی قومی خود داری کا خاتمہ کرکے رکھ دیا۔ (یہ) ہندوئوں کا پروگرام تھا ہندو ہی اس کے رہنما تھے۔ مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھی۔ اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہوگئی‘‘۔ ۵۴
جناب عبدالمجید صاحب سالک لکھتے ہیں ۔ یہ مخلص اور جوشیلے مسلمان کس جوش و خروش سے ایک دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کو ترک کر رہے تھے۔ اور پھر چند ماہ بعد جب امیر امان اللہ خان کی حکومت نے اس لشکر جرار کی آباد کاری سے عاجز آکر اس کو جواب دے دیا تو ان مہاجرین کی عظیم اکثریت بادل بریاں وبا دیدہ گریاں واپس آگئی۔ اور اس تحریک کا جو محض ہنگامی جذبات پرمبنی تھی نہایت شرمناک انجام ہوا۔۵۵
لیکن یہ شرمناک انجام دراصل تحریک خلافت کے ہولناک اثرات کا ابھی آغاز تھا کیونکہ چند سال بعد ۱۹۲۴ء میں خود ترکی کی قومی اسمبلی نے ترکی خلیفتہ المسلمین کو معزول اور ان کے عثمانی شاہی خاندان کو جلا وطن کر کے ترکی خلافت کا خاتمہ کر دیا اور محمد مصطفٰے کمال پاشا کی صدارت میں ترکی میں جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔
اس واقعہ کی خبر ہندوستان میں پہنچی تو عامتہ المسلمین اور ان کے خلافتی لیڈروں پر کیا بیتی۔ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے خود مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ۔ ادھر فیصلہ خلافت کی پہلی خبر رپوٹر ایجنسی نے بھیجی اور اتنی بات کان میں پڑگئی کہ خلیفہ معزول اور خلافت موقوف ! ادھر دماغی رد فعل (ری ایکشن) کی ایک طوفانی لہر سب کے دماغوں میں دوڑ گئی۔ افسوس یہ ہے کہ خواص بھی اپنی دماغی حالت عوام سے بلند تر ثابت نہ کر سکے۔ بلکہ کہنا چاہئے عوام کی بدحواسی ذخیرہ دماغی کی رہنمائی انہی نے کی جس طرح اب سے پہلے دنیا کی ہر خوبی انگورہ والوں میں تھی اس طرح ایک لمحہ کے اندر دنیا جہان کی برائیاں ان میں سمٹ آئیں۔ شاید ہی کوئی بے محل اور بد حواسانہ بات ایسی ہوگی جو نہ کہی گئی ہو بس ایک جوش تھا جو مصطفٰے کمال پاشا۔ کے خلاف امڈ رہا تھا۔ کافر‘بے دین‘دشمن خلافت۔ چنگیزی بدترازہلا کو ۔ ہم مسلمانان ہند نے پانچ سال سے قومی زندگی کی نئی کروٹ لی تھی اور یہ پہلا واقعہ تھا کہ ہماری دماغی قوت اور قومی نظام کے لئے ایک آزمائش پیش آئی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم آزمائش میں فیل ہوگئے۔ گذشتہ دو ماہ نے ثابت کر دیا کہ ہم میں اب تک کوئی نظام و جمعیت نہیں ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم میں نازک وقتوں کے لئے حالات پر قابو پانیوالے دماغ مفقود ہیں‘‘۔۵۶
مولوی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران سیرت گاندھی۵۷ تصنیف کی تھی۔ تحریک کے انجام پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’مسلمانوں میں ایسا انتشار پیدا ہوگیا تھا کہ ان کا کوئی حقیقی رہنما یا لیڈر ایسا نہ تھا جس پر وہ پوری طرح اعتماد کرسکیں۔ دوسری طرف ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوئوں کے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے تھے۔ ان کے مفادات کی نمائندگی گاندی جی کر رہے تھے۔ مسلمان ان پر اعتماد رکھتے تھے حالانکہ وہ ان کے بالکل کام کے نہ تھے اور فائدہ کی بجائے نقصان ہی پہنچا سکتے تھے۔ اور پہنچایا۔ ۵۸
تحریک خلافت کے علمبردار حضرات خلیفہ کی معزولی پر پہلے تو مصطفٰے کمال پاشا کو گالیاں دیتے تھے۔ مگر جب کچھ وقت گذر گیا۔ تو معزول شدہ خلیفہ کو سخت سست کہنے لگے چنانچہ خود مولانا آزاد صاحب نے بھی جو مسلمانوں میں خلافت ترکی کے سب سے زیادہ سرگرم مبلغ تھے۔ خلیفتہ المسلمین کے خلاف یہاں تک لکھا کہ خلیفہ قطعاً بے کار تھا۔ وہ قسطنطنیہ کے ایک قصر میں رہتا تھا۔ دس ہزار پونڈ اس کا وظیفہ تھا۔ اور اگر کوئی مشغولیت تھی تو صرف یہ کہ جمعہ کے دن جلوس سلاملق کے ساتھ ادائے نماز کے لئے مسجد چلاجائے گویا یہ خلافت محص نام اور تنخواہ کی خلافت تھی جس کو دس ہزار پائونڈ ملیں اور جمعہ کے دن سلاملق کے ساتھ نکلے وہی خلیفہ ہے۔ ۵۹
ملائکہ اللہ
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۰ء کے سالانہ جلسہ میں جو ایمان افروز تقریرں فرمائیں۔ وہ ملائکہ اللہ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ ان تقریروں میں جماعت کو نہایت قیمتی اور اہم ہدایات دینے کے علاوہ ملائکہ اللہ کے دقیق و لطیف مضمون پر ایسی صاف و شفاف اور ایسی بصیرت افروز وتسکین بخش روشنی ڈالی کہ دل عش عش اور روح وجد کرنے لگی ملائکہ کی حقیقت و ضرورت۔ ان کے فرائض وخدمات بیان فرمائے ان کے وجود پر ہوسکنے والے شبہات و اعتراضات کے کافی وشانی جوابات دیئے۔ اور آخر میں ان سے تعلق پیدا کرنے کے متعدد ذرائع بتائے۔
۱۹۲۰ء کے متفرق مگر اہم واقعات
(۱) حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کے حرم اول میں صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں چوتھے فرزند مرزا مبشر احمد (اول) پیدا ہوئے۔ ]01 [p۶۰
۲۔ خان محمد عبدالرحیم خان صاحب (ابن حضرت نواب محمد علی خانصاحب) بیرسٹری کے لئے انگلستان روانہ ہوئے۔ ۶۱
۳۔ الفضل نے حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام کے سوانح اور حالات زندگی محفوظ کرنے کی پہلی تحریک کی۔ ۶۲
۴۔ سیلون ‘ماریشس اور نائیجیریا کے طلبہ کے لئے باقاعدہ غیر ملکی کلاس کھولی گئی جس میں حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی کچھ وقت دیتے رہے۔ ۶۳
۵۔ حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں لیکچروں کا ایکسلسلہ جاری فرمایا تھا یہ سلسلہ ایک سال جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اور اس سال ۲۲ جنوری ۱۹۲۰ء کو پھر جاری ہوا۔ جبکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ضرورت مذہب کے عنوان پر پہلا لیکچر دیا۔۶۴
۶۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ صاحب کا نکاح پڑھا اور خطبہ ارشاد فرمایا۔
۷۔ حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور۔ حضرت مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹ بگہ ‘حضرت مولوی عبدالغفار صاحب افغان‘حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بھینی شرقپور ‘حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاسی۔ حضرت میرز امیر احمد خان صاحب عرائض نویس (مردان) اور حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی جیسے اکابر صحابہ کا وصال ہوا۔
۸۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ فیروز پور ۶۵ (حضرت منشی فرزندعلی خان صاحب اور سید مدثر شاہ صاحب غیر مبائع کے درمیان) مباحثہ قادیان۔ ۶۶(شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور مرحوم اور سردار گنگا سنگھ کے درمیان) مباحثہ جہلم ۶۷]ydob [tag (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے درمیان )مباحثہ ڈوگری ۶۸ ضلع سیالکوٹ (احمدی مناظر حافظ جمال احمد صاحب مرحوم) مباحثہ عالم پور کوٹلہ ۶۹۔ (مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد امین صاحب اہلحدیث کے مابین ) مباحثہ چنیوٹ ۷۰ (حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی) مباحثہ سارچور (مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبدالل¶ہ صاحب کے درمیان)۔۷۱
۹۔ خان اوصاف علی خاں صاحب سی۔ آئی۔ ای کمانڈر نابھہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔
(الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۰ ’’فہرست نومبائعین‘‘ نمبر)556
‏rov.5.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال
فصل دوم
خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال
( جنوری ۱۹۲۱ء تا دسمبر ۱۹۲۱ء بمطابق ربیع الاخر ۱۳۳۹ھ تا جمادی الاول ۱۳۴۰ھ تک)
ہندومسلم اتحاد کے لئے ایک اہم تجویز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے ۲۳ جنوری ۱۹۲۱ء کو ہندومسلم اتحاد کے سلسلہ میں پہلی بار یہ تجویز فرمائی کہ آریہ صاحبان اپنے بیس (۲۰) طلبہ یا کم و بیش جتنے مناسب سمجھیں ہمارے پاس بھیج دیں ان کا خرچ ہم برداشت کریں گے اور ان کو قران شریف پڑھائیں گے اس کے مقابلہ میں آریہ صاحبان ہمارے صرف دو آدمیوں کو سنسکرت پڑھادیں۔ اور ویدوں کا ماہر بنادیں اور ان کا خرچ بھی ہمارے ذمہ ہوگا۔۷۲ مگر افسوس آریہ صاحبان سے آجتک اس طرف توجہ نہیں ہوسکی۔
حضور نے اگلے سال ۱۹۲۲ء میں گوروکل کانگڑی کے بعض ہندو طلباء کے سامنے یہ تجویز بیان فرمائی تو ایک ہندو طالب علم (جو گندرپال) اس کی معقولیت سے متاثر ہوکر خود بخود قادیان آگئے اور بالاخر مشرف باسلام ہوئے جن کا اسلامی نام محمد عمر رکھا گیا۔۷۳
’’ہدایات زریں برائے احمدی مبلغین‘‘
۲۶ جنوری ۱۹۲۱ء کو حضور نے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں جماعت کے مبلغین اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے سامنے تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات دیں پوری تقریر حضرت میر قاسم علی صاحب نے ’’ہدایات زریں‘‘ کے نام سے شائع کردی تھی۔ حضور کی ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا کہ مبلغ کو بے غرض دلیر ‘ہمدرد خلائق‘وسیع المعلومات‘نظافت پسند۔ بااخلاق۔ تہجد گذار۔ دعاگو‘بے نفس‘غیر جانبدار ‘منظم‘سوشل تعلقات میں ماہر اور ایثار وقناعت کا مجسمہ ہونا چاہئے۔۷۴
دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائیجیریا کا قیام
اس سال افریقہ میں پہلے مستقل دارالتبلیغ کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہ تاریک براعظم اسلام و احمدیت کے نیراعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا۔
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالٰے کو افریقہ میں تبلیغ کی تحریک کیسے ہوئی؟ یہ ایک نہایت ایمان افروز بات ہے جس کی تفصیل خود حضرت اقدس کے قلم سے درج کرتا ہوں فرماتے ہیں۔ ’’مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا۔ اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔۷۵ جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رویاء آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے۔ اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے۔ نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔ اسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں بے شک خدا تعالٰے نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی۔ کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا۔ (نعوذباللہ) میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔‘‘۷۶
حضرت خلیفتہ المسیح نے افریقہ میں پہلا مشن قائم کرنے کے لئے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کا انتخاب فرمایا۔ جو ان دنوں لنڈن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔ چنانچہ مولانا نیر صاحب ۷۷ ۹فروری ۱۹۲۱ء کو لنڈن سے روانہ ہوئے اور ۱۹ فروری ۱۹۲۱ء ۷۸4] ftr[ کو سیرالیون پہنچے تختہ جہاز پر مسٹر خیر الدین افسر تعلیم سیر الیون نے آپ کا استقبال کیا۔ ۲۰ فروری ۱۹۲۱ء کو مسلمانوں کے مقامی مدارس اور مسجد میں آپ نے چار لیکچر دیئے۔ آخر تقریر کے بعد جو عیسائیوں کے لئے مخصوص تھی سوال و جواب بھی ہوئے ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کی صبح کو آپ نے سرکاری حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف توجہ دلائی ۷۹ اور اسی روز تیسرے پہر جہاز پر سوار ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء کو ساڑھے چار بجے شام گولڈ کوسٹ (غانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر اترے اور مسٹر عبدالرحمان پیڈرو کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔
گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا۔ جہاں شمالی اور جنوبی نائیجیریا اور وسط افریقہ کے کچھ لوگ آباد ہوگئے تھے۔ اور اصل باشندوں میں صرف فینٹی قوم مسلمان تھی جس کے چیف (امیر) کا نام مہدی تھا۔ ۸۰ جس رات حضرت نیر صاحب سالٹ پانڈ پہنچے اسی رات مہدی نے خواب میں دیکھا کہ میرے کمرے میں رسول خدا ~صل۱~ تشریف لائے ہیں۔ ۸۱چیف مہدی ۴۵ برس سے مسلمان تھے۔ اور اس وقت سے برابر تبلیغ اسلام میں مصروف تھے انہیں یہ از حد غم تھا کہ میری آنکھیں بند ہوتے ہی کہیں اس علاقہ کے مسلمان سفید عیسائی مشزیوں کے رعب میں آکر اسلام کو خیرباد نہ کہہ دیں۔ چیف مہدی نے جو نہایت خدا پرست بزرگ تھے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ معلوم کیا۔ اور کچھ روپیہ جمع کرکے ان کو لنڈن بھجوایا تامسلمانوں کا کوئی سفید فام مبلغ گولڈ کوسٹ آئے اور تبلیغ کا کام شروع کرے مگر دوسال تک کوئی مبلغ افریقہ کی طرف نہ بھجوایا جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں یہاں تک سخت بدگمانی پیدا ہوگئی حتیٰ کہ وہ کہنے لگے کہ سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے۔۸۲حضرت نیر صاحب نے سیرالیون اور سکنڈی سے اپنی آمد کے تار دیئے تو اسی وجہ سے ان پر بھی چنداں اعتبار نہ کیا گیا۔ البتہ آپ کے سالٹ پانڈ پہنچنے پر پہلے بعض آدمی مختلف دیہات سے خبر کی تصدیق کے لئے پہنچے۔ پھر چیف مہدی صاحب کا نقیب آپ سے آکر ملا اور ۱۱ مارچ ۱۹۲۱ء کو اکرافل۸۳میں فینٹی مسلمانوں کا جلسہ مقرر ہوا۔
مولانا نیر صاحب ترجمان کے ساتھ بذریعہ موٹر وہاں پہنچے چیف مہدی کے مکان کے سامنے پانچصد افراد کا مجمع تھا۔ چیف مہدی اپنے قومی لباس پہنے حلقہ امراء میں بیٹھے تھے ۔ مولانا نیر صاحب کے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا۔ آپ کا ترجمان اور ائمہ مساجد آپ کے ارد گرد تھے۔ نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر چیف اور اس کے ممبروں کی طرف سے خوش آمدید کہا۔ پھر خود چیف مہدی نے تقریر کی۔ کہ ۴۵ برس ہوئے میں مسلمان ہوا۔ مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا۔ اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔ ہوسا قوم۸۴ اور لیگوس کے لوگ بعد میں آئے اور ہمیں اسلام سکھایا۔ ہم جاہل ہیں۔ ۸۵ اسلام کا پورا علم نہیں۔ سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں۔ میں بوڑھا ہوں مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے۔ اور ابیہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے اور دین سکھایا جائے۔
اس کے بعد مولانا نیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا۔ کہ اللہ تعالٰے نے تمہاری دستگیری کی اور اس جماعت کی طرف سے مبلغ آیا جو زندہ اسلام پیش کرتے ہے۔ میری آنکھوں نے مسیح موعودؑ کو دیکھا۔ میرے کانوں نے اس کے مقدس منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سنے۔ میرے ہاتھوں نے اس برگزیدہ پہلوان اسلام کے پائوں کو چھوا۔ پس تم کو مبارک ہو کہ خدانے تمہاری مدد کی۔ اب انشاء اللہ فینٹی مسلانوں کی تعلیم و تربیت کا کام احمدی جماعت کرے گی۔
۱۸ مارچ ۱۹۲۱ء کو اکرافول میں دوسرا جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے دو گھنٹہ تقریر فرمائی۔ اور فینٹی قوم اور ان کے چیف کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور گذشتہ رسوم و رواج کو ترک کرکے سچے اور مخلص مسلمان بننے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ان کی مجلس اکابر نے فیصلہ کیا کہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی دن میں ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے اور ید خلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ ۸۷۸۶
فینسٹی قوم کے احمدی ہونے کے بعد حضرت مولانا نیر صاحب نے نائیجیریا کی طرف توجہ مبذول فرمائی چنانچہ پہلی بار آپ بذریعہ جہاز ۸ اپریل۱۹۲۱ء کو نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس میں پہنچے۔ ۸۸
لیگوس میں ان دنوں ۳۵ ہزار کے قریب مسلمان تھے۔ اور ۲۰ ہزار کے قریب عیسائی مگر علم دولت تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک (محمڈن اسکول) تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیر نے لیگوس میں قدم رکھا اور پہنچتے ہی مختلف مساجد میں لیکچر دیئے۔ پھر پبلک لیکچروں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ ۸۹ ماحول کے اثر سے لیگوس کے مسلمانوںمیں یہ رسم قائم ہوچکی تھی۔ کہ وہ دوسرے کا ادب و احترام کرنے کی خاطرفوراً گھٹنوں کے بل ہوجاتے تھے حضرت مولانا نیر صاحب نے اس کے خلاف زبردست وعظ کی جس پر بہت سے مسلمانوں نے یہ رسم چھوڑ دی۔ لیگوس میں ایک فرقہ اہل قرآن بھی تھا۔ ۹۰ اس کے بارہ اکابر نے حضرت مولانا نیر صاحب سے ملاقات کی اور بتایا کہ بارہ برس ہوئے ہمارے سابق امام جماعت نے مرنے سے پہلے یہ خوشخبری دی تھی کہ ایک سفید رنگ کا آدمی man( )White آئے گا جو مسیح موعود کی خبر لائے گا۔ اور اہل قرآن کی تصدیق کرے گا یہ پیشگوئی آپ کے وجود سے پوری ہوئی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۹۱ چنانچہ ان اکابر میں سے جنہوں نے مولانا نیر کے ہاتھ پر بیعت کی۔۹۲ الفا عبدالقادر بھی ایک بزرگ تھے افسوس چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ۹۳ مولانا نیر نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو ان کے محل میں جاکر تبلیغ کی۔ ۹۴
آپ چار ماہ لیگوس میں ٹھرے اور دن رات دیوانہ وار تبلیغ کرتے رہے اور بالاخر ۸ اگست ۱۹۲۱ء کو واپس سالٹ پانڈ پہنچے ۹۵ سالٹ پانڈ میں آکر شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لے کر مشن ہائوس قائم کیا۔ اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا۔ ۹۶ اور ایک مبلغین کلاس جاری کی جس میں عربی میں قرآن و حدیث ‘فقہ اور عقائد احمدیہ کی تعلیم دینے لگے۔ ۹۷اسی طرح گولڈ کوسٹ (غانا) جماعت کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان میں عہدیدار مقرر کئے۔ انتظامی تقسیم کے مکمل ہونے کے بعد آپ دوبارہ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۱ء کو نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس میں تشریف لے گئے۔ اور تبلیغ شروع کردی۔ اسی دوران میں حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے ۲۳ جنوری ۱۹۲۲۔ ۹۸ کو گولڈ کوسٹ مشن سنبھالنے کے لئے مولوی حکیم فضل الرحمان صاحب کو روانہ فرمایا۔ ۹۹ جو ۱۱ مارچ کو لنڈن اور ۱۷ اپریل کو لیگوسپہنچے اور حضرت نیر کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو سالٹ پانڈ پہنچ گئے۔ اس طرح نائیجیریا اور غانا مشن جو ایک ہی مبلغ کے مشن کے تحت تھے دو مستقل مشنوں کی صورت اختیار کرگئے گولڈ کوسٹ کے انچارج حکیم فضل الرحمان صاحب اور نائیجیریا مشن کے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر۔
دارالتبلیغ نائیجیریا
واقعات کے تسلسل کے لحاظ سے سب سے پہلے نائیجیریا مشن کے بقیہ حالات لکھے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا نیر صاحب نے جو نائیجیریا مشن کے مستقل انچارج کی حیثیت سے لیگوس کے باہر بھی تبلیغ کو وسعت دینی شروع کی پہلے اور شمالی نائیجیریا کے ایک اہم شہر زاویہ کے امیر ۱۰۰ اور امیر کانو تک پیغام حق پہنچایا۔ پھر واپس لیگوس آکر ۱۱ ستمبر ۱۹۲۲ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا جو صحیح معنوں میں لیگوس میں پہلا اسلامی مدرسہ تھا۔ ۱۰۱ نیز ارد گرد کے علاقوں میں مقامی احمدیوں کے وفود بھجوائے۔ ۱۰۲ حضرت مولانا نیر صاحب کو مغربی افریقہ میں بڑی جدو جہد کرنا پڑی اور آپ شمالی نائیجیریا کے دورہ سے واپس آکر کم وبیش ۴ ماہ تک بیمار رہے۔ اور گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ پھر آپ ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیل آب و ہوا کے لئے بتاریخ ۲۱ جنوری ۱۹۲۳ء لنڈن بھجوادیئے گئے۔ ۱۰۳
حضرت مولانا نیر کے بعد مالی مشکلات ۱۰۴ کی وجہ سے سالہا سال تک کوئی مرکزی مبلغ نہیں بھجوایا جاسکا۔ آخر حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد سے الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے ستمبر ۱۹۲۹ء کے قریب گولڈ کوسٹ (غانا) سے واپسی سے پہلے نائیجیریا کا دورہ کیا۔ ۱۰۵ پھر وہ مرکز میں تشریف لے آئے حکیم صاحب فروری ۱۹۳۳ء کو قادیان سے روانہ ہوکر لنڈن ‘سیرالیون اور گولڈ کوسٹ میں قیام کرتے ہوئے جولائی ۱۹۳۴ء میں نائیجیریا پہنچے۔ ]01 [p۱۰۶ آپ وہاں پہنچتے ہی ایک خظر ناک اندرونی کشمکش سے دوچار ہوگئے۔ جو بعض لوگوں نے ایک خود ساختہ قانون کی بناء پر پیدا کردی تھی۔ ۱۰۷ معاملہ آخر عدالت تک پہنچا۔ ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو اس کا فیصلہ ہوا۔ ۱۰۸ لیکن فیصلہ ہونے کے باوجود ۱۹۳۹ء تک حالات مخدوش رہے ۱۹۴۰ء میں حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد پر جماعت کی دوبارہ تشکیل کی گئی۔ جس کے بعد مکرم حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی ترقی واستحکام کی طرف پوری توجہ دینی شروع کردی۔ اور اپنی مسلسل جدوجہد اور قابل رشک اخلاص سے مشن کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا چنانچہ انہوں نے جماعت نائیجیریا کی تربیت واصلاح کے لئے متعدد اقدامات کئے تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی۔ ۱۰۹ نئی جماعتیں قائم کیں۔ لیگوس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد ۱۱۰ اور مشن ہائوس تعمیر کیا۔ آنحضرت ~صل۱~ کی سیرت طیبہ ’’دی لائف آف محمدﷺ‘‘~ کے نام سے تصنیف کی ۔ جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور آج تک مغربی افریقہ کے تمام سکولوں کے نصاب میں شامل ہے جنوری ۱۹۴۵ء میں جناب مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی نائیجیریا بھجوائے گئے جنہوں نے حکیم صاحب کی واپسی کے بعد جو ۱۹۴۷ء میں ہوئی مشن کا چارج لیا۔ اور (چند ماہ کے وقفہ کے ساتھ) قریباً انیس سال تک اہم تبلیغی خدمات بجالاتے رہے ۔ آپ ہی نے دی ٹرتھ Truth( )The کے نام سے نائیجریا مشن کا پہلا ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو نائیجیریا میں مسلمانوں کا واحد اخبار ہے۔ اور عیسائیت کے حملوں کے سامنے ایک آہنی دیوار کا کام دے رہا ہے۔ اور تبلیغ اسلام و احمدیت کا نہایت کامیاب اور موثر ذریعہ ہے محترم سیفی صاحب نے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب Movement( )Qadiani (قادیانی مذہب) کا جواب Movement’’ ‘‘Our (ہماری تحریک) کے نام سے لکھا جو ہالینڈ سے شائع ہوا۔ ۶۰۔۱۹۵۹ء میں مشہور ہو ساقبیلہ کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں داخل احمدیت ہوئے۔۱۱۱ آپ جولائی ۱۹۶۴ء میں واپس ربوہ تشریف لائے اور اب مولوی شیخ نصیر الدین احمد صاحب دارالتبلیغ نائیجیریا کے انچارج مبلغ ہیں۔
جناب نسیم سیفی صاحب کے زمانہ سے لے کر اب تک جن مبلغین کو نائیجیریا کی سرزمین میں اعلائے کلمہ اسلام کی توفیق ملی یا جو سرگرم عمل ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ قریشی محمد افضل صاحب۔ سید احمد شاہ صاحب۔ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی‘شیخ نصیر الدین احمد‘مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ۔ مولوی محمد بشیر صاحب شاد۔ مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل۔ عبدالمجید صاحب بھٹی۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب‘قریشی مقبول احمد صاحب۔ چوہدری رشید الدین صاحب۔ کرنل محمد یوسف شاہ صاحب۔ حاجی فیض الحق صاحب‘قریشی فیروز محی الدین صاحب۔ بشیر احمد صاحب شمس۔
لٹریچر
دارالتبلیغ نائیجیریا کی طرف سے بڑی کثرت سے لٹریچر چھپ چکا ہے جس میں یوربا زبان میں ترجمہ قرآن (پارہ اول) Islam of outline (Anاسلام کا اجمالی خاکہ) Christ and Mhuammad حضرت محمد اور یسوع) movement Our (ہماری تحریک) Qadian of Ahmad (احمد قادیانی) Christianity and Islam (اسلام اور عیسائیت) وغیرہ (جو جناب نسیم سیفی صاحب کی تالیفات ہیں) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ نائیجیریا کے وزیراعظم الحاج ابوبکر۱۱۲ نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا کہ مجھے جب بھی عیسائیوں سے بحث کے دوران کوئی بات پیش کرنی ہوتی ہے تو ہمیشہ احمدیہ لٹریچر میری رہنمائی کرتا ہے میں اس کے علاوہ کسی اور مذہبی لٹریچر پر اعتماد نہیں کرتا جتنا احمدیہ جماعت کے لٹریچر پر کرتا ہوں‘‘۔
نائیجیریا میں اس وقت مرکزی مبلغوں کے علاوہ متعدد مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں ۳۵ جماعتیں قائم ہیں اور مشن اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ وہ خود کفیل ہے اور اس کے ماتحت دس سکول اور دو ہسپتال کھولے جاچکے اور انیس مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں۔ اور احمدیہ مشن کی طرف سے ہرماہ تقریباً آٹھ دفعہ ریڈیو پر تقاریر اور ایک مرتبہ خطبہ جمعہ نشر کیا جاتا ہے۔
نائیجیریا مشن غیروں کی نظر میں
اخبار مسلم ورلڈ نے لکھا (۱) ’’سنوسیہ اور اس جیسے مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین طاقت سے کھلے کھلے جنگ کے حامی تھے۔ ایک ایک کرکے میدان سے ہٹ گئے ہیں۔ اور ان کی جگہ فرقہ احمدیہ لے رہا ہے جس نے لیگوس کے مرکز سے پھیل کر تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جمالیا ہے‘‘۔
(۲) اسی طرح دی نائیجیریا سپیکٹیڑ لیگوس نے لکھا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لئے مقدر ہوچکا ہے کہ وہ نائیجیریا کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیں چند ہی سال گذرے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور اب یہ سلسلہ نہ صرف لیگوس میں بلکہ تمام نائیجیریا کے مسلمان نوجوانوں کی زندگی میں ایک بھاری تبدیلی پیدا کر رہا ہے‘‘۔۱۱۳
۳۔ ’’تمام نائیجیریا اور خصوصاً اس کے مرکز لیگوس میں زیادہ افراد حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ یہی حال ابادان کا ہے جو ملک کا تعلیمی مرکز ہے‘‘ (نائیجیریا کے لاٹ پادری بشپ ہاولز کی رپورٹ)۱۱۴
۴۔ ’’آج اسلام کو مغربی نائیجیریا میں بہت زیادہ غلبہ حاصل ہو رہاہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک کے مقابل پر اسلام میں بیس داخل ہونے والے ہوتے ہیں‘‘۔ (دی لائٹز یکم نومبر ۱۹۵۳ء از اینگلیکن مشزی)
۵۔ ہم چرچ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے اگر ہماری اس تنبیہ کی طرف توجہ نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ اسلام فاتحانہ انداز میں جنوبی نائیجیریا کے آخری سرے تک پہنچ جائے۔ 4] f[st۱۱۵ (ویسٹ افریقن پائلاٹ نائیجیریا ۲۱ مئی ۱۹۵۷ء)
۶۔ ’’میتھوڈسٹ کے چرچ نے اپنی سالانہ کانفرنس کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلام مغربی افریقہ اور خود برطانیہ میں ایک زبردست تبلیغی مہم سر کر رہا ہے‘‘۔۱۱۶ (ڈیلی سروس (نائیجیریا) ۱۲ جون ۱۹۵۷ء)
۷۔ ابادان (نائیجیریا) کے انچارج بشپ اے ۔ بی آکیں یسیلے نے کہا۔’’اسلام اس امر کا بڑے زور سے تقاضا کررہا ہے کہ اسے مغربی افریقہ کا مسلمہ مذہب قرار دیا جائے اور اس نے ایک سے زیادہ صوبائی پادریوں سے یہ سنا ہے کہ اسلام بہت زیادہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔
۸۔ (افریقہ میں) لاکھوں لاکھ افریقن جن کی تعداد وہاں کی اصل آبادی کے پانچویں حصے کے برابر ہوگی۔ اسلام قبول کرچکے ہیں۔ بعض علاقوں میں جہاں آجکل عیسائی مشزی اور مسلمان مبلغ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنیوالے ایک شخص کے مقابلے میں دس افریقن اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر افریقنوں کا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ عیسائیت وہاں صرف اور صرف سفید لوگوں (یورپین) کا مذہب بن کر رہ گیا ہے۔ ۱۱۷
۹۔ ’’آج سے تیس سال قبل وہ (یعنی مسلمان) سب سے زیادہ پسماندہ قوم تھے لیکن جب سے احمدیہ جماعت نے اپنے ترقیاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا ہے مسلمانوں میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوگئی ہے‘‘۔ (کیتھولک ہیرلڈ ۱۹ اگست ۱۹۵۵ء)
۱۰۔ ابادان کے بشپ نے غانا میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جہاں عیسائیت کو سخت ناکامی ہوئی ہے وہاں مسلمانوں نے میدان جیت لیا ہے‘‘۔ (نائیجیرین ٹریبیون ۲۴ فروری ۱۹۵۵ء)
۱۱۔ نائیجیریا کے بشپ ایس۔ او۔ روڈ وٹون نے کل افریقہ چرچ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا عیسائی چرچ نائیجیریا میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بہت تشویش میں ہے (ڈیلی ٹائمز۔ ۱۴ جنوری ۱۹۵۸ء)
۱۲۔ مسٹر ریمزے نے افریقہ کے تیرہ ممالک کا دورہ کرنے کے بعد اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت افریقہ میں اسلام سے شکست کھا رہی ہے۔ (ویسٹ افریقن پائلاٹ ۲۱ مارچ ۱۹۶۰ء)
۱۳۔ جیوفرے ہیرلڈ (ایک مشہور عیسائی مصنف) نے ویسٹ افریقن ریویو (لنڈن) کی دسمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا ہے احمدیہ جماعت اگرچہ قلیل التعداد ہے لیکن یہ بہت زیادہ کام کرنے والے لوگ ہیں۔ اور اپنی آواز کو خوب دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ مغربی افریقہ میں ان کے متعدد مدارس ہیں جو مغربی خطوط پر چلائے جاتے ہیں۔ ان کے اخبارات بھی ہیں۔
گولڈ کوسٹ (غانا) مشن۱۱۸ اوپر بتایا جاچکاہے کہ الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو انچارج مشن کی حیثیت میں یہاں پہنچے آپ آخر ستمبر ۱۹۲۹ء ۱۱۹ تک گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف عمل رہے۔ محترم حکیم صاحب کے عہد میں مشن کو بہت فروغ ہوا۔ سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری کیا۔ اور جماعت کے امراء سے چندہ خاص کرکے سکول کی عمارت تعمیر کی ۱۲۰ اپریل ۱۹۲۸ء میں شہر کماسی میں آپ کا غیر احمدیوں سے مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح بخشی۔ اس مناظرہ میں حکومت کے اعلیٰ افسروں کے علاوہ پراونشل کمشنر بھی موجود تھے۔ ۱۲۱ حکیم صاحب ابھی گولڈ کوسٹ ہی میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم پر مولوی نذیر احمد (علی) صاحب (ابن حضرت بابو فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر) ۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو قادیان سے گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ ۱۲۲ اور وہاں کچھ عرصہ حکیم صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء سے مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ ۱۲۳ اور کامیاب جرنیل ثابت ہوئے۔
مولوی نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں گولڈ کوسٹ (حال غانا) کی جماعت نے خوب ترقی کی کوامنیاٹا۔ اسیام۔ کیپ مقامات میں نئے سکول کھلے اور متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ مئی ۱۹۳۳ء میں آپ واپس تشریف لے آئے۔ اور مشن کا کام الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے انجام دینا شروع کر دیا۔ ۱۲۴
آپ کے دور میں یہاں مشن ہائوس بھی تعمیر ہوگیا۔ ۲۱۲۵ فروری ۱۹۳۶ء کو مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذید احمد صاحب مبشر سیالکوٹی مولوی فاضل گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ اور ۲۳ اپریل ۱۹۳۶ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے۔ اور یکم مئی ۱۹۳۶ء کو اس مشن کا چارج لیا۔۱۲۶ اور کماسی میں جواشانٹی کا مرکز ہے احمدیہ پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔ ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء ۱۲۸ میں مولوی نذیر احمد علی صاحب حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد کے تحت سیرالیون میں نیا داراتبلیغ کھولنے کے لئے تشریف لے گئے اور گولڈ کوسٹ مشن مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی امارت میں جلد جلد ترقیات کی منزلیں طے کرنے لگا اور خدا کے فضل سے یہ آپ ہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج غانا کی جماعت ممالک بیرون پاکستان کی عظیم ترین جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جس میں اڑھائی سو سے زیادہ جماعتیں ہیں۔ پونے آٹھ لاکھ روپیہ کا بجٹ ہے ایک سو باسٹھ کے قریب مساجد اور سولہ کے قریب سکول قائم ہیں۔اور بیس کے لگ بھگ (مرکزی مبلغین کے علاوہ) مقامی مبلغ کام کر رہے ہیں جن کے لئے الگ الگ مشن ہائوس موجود ہیں۔ حضرت خلیفہ ثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کی نسبت فرمایا تھا۔ افریقی اقوام میں بیداری کے جو سامان پیدا ہوئے ہیں ان میں مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۲۹ حضرت اقدس کے حکم سے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر تین بار اس ملک میں بھجوائے گئے اور آپ کو یہاں (آمدورفت کے عرصہ کو مستثنیٰ کرکے) ۱۹۳۶ء سے لیکر ۱۹۶۱ء تک تبلیغی جہاد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس عرصہ میں تعداد۔ تعلیم اور جائیداد غرضکہ ہر جہت سے مشن نے حیرت انگیز ترقی کی چنانچہ مسٹر جان ہمفری فشر John ۔)Mr fisher( Humphrey نے جو جماعت کی تبلیغی مساعی پر تحقیقات کے لئے خود مغربی افریقہ گئے تھے۔ اپنی کتاب Ahmdiyya میں آپ کی خدمات کو سراہا ہے۔ ۱۳۰ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے بعد اب مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج مشن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور سالٹ پانڈ سے ایک ماہوار اخبار ’’دی گائیڈنس‘‘ Guidance( )The بھی آپ کی ادارت میں ۱۹۶۲ء سے شائع ہوتا ہے۔
اب ذیل میں ان مجاہدین کے نام لکھے جاتے ہیں جنہوں نے مندرجہ بالا مبلغین کے علاوہ اس مشن میں کام کیا ہے۔ یا ابھی تک مصروف جہاد ہیں ملک احسان اللہ صاحب۔ مولوی عبدالخالق صاحب ۔ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہوی۔ مولوی صالح محمد صاحب۔ مولوی عبدالحق صاحب انور ۔ چوہدری عطاء اللہ صاحب۔ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر۔ صوفی محمد اسحاق صاحب۔ مولوی عبداللطیف صاحب شاہد۔ مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد۔ مولوی محمد افضل صاحب قریشی۔ ملک خلیل احمد صاحب اختر۔ مولوی فضل الٰہی صاحب انوری۔ مولوی عبدالرشید صاحب رازی۔ مسعود احمد صاحب دہلوی۔ سید سفیر الدین احمد صاحب۔ قریشی فیروز محی الدین صاحب۔ مرزا لطف الرحمان صاحب۔ جناب مولوی عبدالمالک خان صاحب۔ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب۔ سید دائود احمد صاحب انور۔ مولوی عبدالحمید صاحب۔ منیر احمد صاحب رشید۔ پروفیسرمحمد لطیف صاحب۔ سید محمد ہاشم صاحب بخاری۔ ان مرکزی مبلغین کے علاوہ دو درجن کے قریب مقامی مبلغین بھی کام کررہے ہیں۔ جن میں سے مسٹر عبدالوہاب بن آدم اور مسٹر ابراہیم بن مانو ربوہ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔
لٹریچر۔ اس مشن کی طرف سے فینٹی‘اشانٹی اور انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چھپ چکا ہے۔
غانا دارالتبلیغ کی خدمات غیروں کی نظر میں
بالاخر غانا دارالتبلیغ سے متعلق غیروں کے چند تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس مشن کی فتوحات کا کسی قدر اندازہ ہوگا۔
۱۔ غانا یونیورسٹی کالج کے مشہور پروفیسر مسٹر ایس۔جی ولیم سن لکھتے ہیں غانا کے شمالی حصہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد کے پیروئوں کے لئے میدان خالی کردیا ہے اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصیت سے ساحل کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوشکن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھچی چلی جارہی ہے۔ اوریہ یقیناً صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔ کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہوگا یا صلیب کا۔ ۱۳۱(ترجمہ)
۲۔ ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ (جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۹۔۴۰) میں لکھا ہے ’’کیا اسلام کی روز افزوں ترقی اور اس سارے علاقہ کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہمارے پاس کوئی موثر و موزوں جواب ہے۔ غانا میں بھی جماعت احمدیہ سر گرم عمل ہے۔ غانا کے شمالی علاقہ کے لوگ مذہبی ہیں۔ اس لئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کو وسیع پیمانہ پر پھیلانے کا موجب ہوسکتی ہے‘‘۔
۳۔ ماہنامہ ’’مجلہ الازہر‘‘ (بابت جولائی ۱۹۵۸ء) نے ’’الاسلام فی غانا‘‘ کے عنوان سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا ان الفاظ میں ذکر کیا۔ ’’ولھم نشاط بارز فی کافہ النواصی ومدارسھم ناجحہ بالرغم ان تلامیذ ھا لا یدینون بمذھبھم جمیعا‘‘۔ یعنی فرزندان احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں اور ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ بحالیکہ ان مدارس کے سبھی طلبہ ان کی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں۔
۴۔ غانا کے ڈپٹی سپیکر الحاج یعقوب طالع نے بیان دیا کہ یہ امر ہمارے مشاہدہ میں آیا ہے کہ اگر احمدیہ جماعت اسلام کے احیاء اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی جدوجہد نہ کرتی تو اسلام مادیات کے تھپیڑوں میں کبھی کا دب چکا ہوتا۔ میں چشم دید گواہ ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں سربلندی حاصل کررہا ہے۔ اور یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگا۔ کہ اس دور کی انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ ۱۳۲
۵۔ غانا یونیورسٹی کے ایک لیکچرار Price ۔A۔J نے مانچسٹر گارڈین کی ایک اشاعت میں لکھا ’’مالکیوں کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جماعت احمدیہ بھی ہے جو اپنی تبلیغی مساعی کے لحاظ سے مشہور ہے اس کا مرکز پاکستان میں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ جماعت تیزی کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن ہے عیسائی اور مشرکین دونوں میں سے لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہورہے ہیں۔ اس جماعت کی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس امر سے ہوسکتاہے۔ کہ ۱۹۳۱ء میں اس کے ممبروں کی تعداد تین ہزار ایک سو دس تھی جبکہ ۱۹۴۸ء میں یہ تعداد بائیس ہزار پانچ سو بہتر تک پہنچ چکی ہے احمدیہ مشن کی نمایاں کامیابی میں اس کی تعلیمی سرگرمیوں کا بھی دخل ہے۔ جس میں ثانوی تعلیم بھی شامل ہے ان کی مساعی کو مغربی افریقہ کے تمام علاقوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ ۱۳۳
حضرت خلیفہ المسیح کا تیسرا نکاح
۷ فروری ۱۹۲۱ کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے حضرت مسیح موعود کے مخلص اور قدیم صحابی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کو اپنی زوجیت کا فخر بخشا۔ خطبہ نکاح حضرت سید سرورشاہ صاحب نے پڑھا مہر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا۔۱۳۴ ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی ۲۳ فروری ۱۹۲۱ء کو بوقت صبح دعوت ولیمہ ہوئی۔ ۱۳۵ حضور کو اس نکاح کی تحریک اس لئے ہوئی کہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مسیح موعود کے فرزند مرزا مبارک احمد سے ہواتھا۔ مگر جب صاحبزادہ صاحب وفات پاگئے تو حضور نے گھر میں اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ یہ رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہوتو اچھا ہے۔ ۱۳۶
سکھوں کے ایک گورو صاحب قادیان میں
کرتار پور ضلع جالندھر میں سکھوں کی مشہور گدی ہے ۔ ۲۵ فروری ۱۹۲۱ء کو وہاں کے گورو ضلع گورداسپور کا دورہ کرتے ہوئے قادیان آئے۔ حضرت اقدس نے ان کی پیشوائی کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شہر سے باہر بھجوایا۔ گورو صاحب گھوڑے پر اور انکے مصاحب رتھ اور گاڑیوں میں سوار تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے صحن میں اتارا گیا۔ حضرت خلیفہ ثانی نے مزاج پرسی کے بعد ان سے مسلمانوں اور سکھوں کے ان باہمی خوشگوار تعلقات کا تذکرہ فرمایا۔ جو شاہان مغلیہ کے زمانہ میں تھے۔ کوئی پون گھنٹہ کی ملاقات کے بعد گورو صاحب نے رخصت کی اجازت چاہی۔ حضرت اقدس نے اپنے گھر سے میووں کی ایک سینی لگوا کر حضرت میر قاسم علی صاحب کے ہاتھ بھجوائی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ ۱۳۷
سفر لاہور ومالیر کوٹلہ
۴ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایک مقدمہ میں شہادت کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے لاہور میں حضور کی دو تقریریں ہوئیں جن کے عنوان یہ تھے ’’مذہب کی ضرورت‘‘ اور ’’حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے طریق‘‘۔ ۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور مالیر کوٹلہ روانہ ہوئے۔ مالیر کوٹلہ کے اسٹیشن پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب‘حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحب وغیرہ اصحاب استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور بذریعہ موٹر شیروانی کوٹ تشریف لے گئے۔ ۹ مارچ ۱۹۶۲ء کو حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان میں ’’صداقت اسلام‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔ ۱۰ مارچ کو حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (والد ماجد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد) کی درخواست پر لدھیانہ میں قیام فرمایا ۔ حضرت ماسٹر صاحب نے حضور کے اعزاز میں ایک بڑی دعوت کا انتظام کیا۔ حضور لدھیانہ سے ۱۱ مارچ ۱۹۲۱ء کو قادیان واپس تشریف لائے۔ ۱۳۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ایک پرجلال و شوکت تقریر
۹ مارچ ۱۹۲۱ء میں قادیان کے غیر احمدیوں کا بڑی دھوم دھام سے جلسہ ہوا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اہلحدیث مولوی محمد علی صاحب روپڑی ۔ مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی۔ مولوی انور شاہ صاحب کاشمیری مدرس اعلیٰ دیوبند اور مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگوی وغیرہ نے دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ ۱۳۹ جن کے جواب میں ۲۱۔ ۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک پر جلال و شوکت تقریر فرمائی۔
چونکہ علماء صاحبان کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کی بے حرمتی کرنے اور کھودنے کی افواہیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں جن کی تصدیق خود اس جلسہ کی تقاریر سے بھی ہوگئی تھی۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے پہلی بار قادیان کی آبادی اور احمدی مساجد اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے اقدامات کرنے پڑے۔ ۱۴۱۱۴۰4] [rtf
جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ کا تحریری بیان ہے کہ۔:
’’جس سال احراریوں نے اپنے بد ارادے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے متعلق اور بہشتی مقبرہ کے متعلق ظاہر کئے تھے اور قادیان میں ایکبہت بڑے جلسہ کا انعقاد کا اعلان کردیا تھا میں ان دنوں مہینہ کی رخصت پر اپنے گائوں ہمزہ آیا ہوا تھا مجھے جب احرایوں کے جلسہ قادیان کی اطلاع ملی تو میں اپنے والد صاحب سے اجازت لی اور قادیان کی طرف روانہ ہوگیا۔ چونکہ ان دنوں قادیان کی طرف ریل نہیں جاتی تھی میں بٹالہ سے ٹانگہ پر سوار ہوکر قادیان پہنچا اور بہشتی مقبرہ کے قریب ٹانگہ سے اتر کر دعا کے لئے بہشتی مقبرہ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد چہار دیوار ڈال کر چھت ڈالی ہوئی تھی۔ دعا کے بعد میں مسجد مبارک قادیان میں گیا۔ سب سے پہلے میں وہاں قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ملا اور رات مہمان خانہ میں گزاری۔ دوسرے دن صبح کے وقت میں ابھی بیت مبارک میں ہی تھا کہ حضرت صاحب زادہ مرزا شریف احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے مجھ سے علیحدگی میں فرمایا کہ عبدالکریم لوہار جو ان دنوں سیویوں کی مشین بنایا کرتے تھے ان کو بلا لائیں۔ وہ اپنے ساتھ ایسا سامان لے آئیں جس سے بیت مبارک کی پچھلی طرف کھڑکیوں کی سیخیں کاٹی جاسکیں تاکہ اگر مخالفین دار مسیح پر کسی قسم کا حملہ کریں تو ان کھڑکیوں کے ذریعہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں بچوں اور عورتوں کو حفاظت کے لئے بھیجا جاسکے۔ آپ کے حکم پر میں مذکورہ لوہار کی دکان پر پہنچا تو اس نے میرے ساتھ آنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے بہت کام ہے۔ میں وہاں نہیں جاسکتا۔ جب میں نے اس سے اوزار مانگے کہ میں خود ہی سیخیں کاٹ کر اوزار واپس کردوں گا تو اس نے اوزار دینے سے بھی انکار کر دیا اس پر میں مایوس ہوکر واپس آیا تو بیت مبارک میں مجھے کوئی شخص نہ ملا۔ اسی روز احرار گاڑی میں متواتر پہنچ رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام ہندوستان کے احرار آرہے ہیں۔۱۴۲ بٹالہ سے ان کے قافلے پیدل اور ٹانگوں پر قادیان روانہ ہوئے۔ مولوی ثناء اللہ وغیرہ بھی ان میں تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے بد ارادوں کی خبریں جو وہ اپنی باتوں میں بیان کرتے تھے قادیان پہنچتی رہیں ہمارے نوجوانوں نے ایسی سکیم تیار کرلی تھی جس کے تحت وہ بٹالہ میں بہت جمع ہوچکے تھے وہ ہر قافلہ میں دو دو تین تین شامل ہوجاتے اور چونکہ گرمی کے دن تھے وہ ہاتھوں میں پنکھے لے کر آگے بڑھ جاتے اور ہر قافلہ میں جو مولوی ہوتے ان کو پنکھا کرتے اور ان کی باتیں سن لیتے اور پھر پنکھا اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کر کے واپس قادیان جاکر بیان کرتے۔ اس طرح ان کی تمام باتیں قادیان میں قبل از وقت پہنچتی رہیں۔ اس دن انہوں نے پہنچ کر ایک ہندوئوں کے مکان میں تقریریں کیں وہاں بھی ہمارے خاص خاص نوجوانوں کو جانے ہی کا حکم تھا جو وہاں سے رپورٹیں لے کر آتے تھے۔ دوسرے دن ان کا اس قدر ہجوم تھا کہ حضرت صاحب کے حکم سے ایک فوٹو گرافر کو منارۃ المسیح کے اوپر جاکر کیمرہ سے فوٹو لینے کو کہا گیا۔ کیوں کہ وہ دن اور دھوپ کا وقت تھا اور احراریوں کی نظریں منارۃ المسیح پر بدنیتی سے پڑ رہی تھیں جب فوٹو گرافر نے وہاں جاکر کیمرہ نصب کیا تو ان لوگوں نے دیکھا اور بعض نے تو ان میں سے یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو وہ منارۃ المسیح پر مشین گن لگ گئی۔ اسی دن حضرت میر محمد اسماعیل سول سرجن نے مجھے جب مسجد مبارک میں دیکھا تو فرمایا کہ آپ چونکہ ملٹری کے آدمی ہیں میں آپ سے کچھ سوالات کرتا ہوں آپ اس کا جواب دیدیں اس کے بعد میں کوئی کام آپ کے حوالے کردوں گا۔ جو آپ کو کرنا ہوگا۔ میں نے لبیک کہا تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے فرسٹ ایڈ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نے جواب اثبات میں دیا۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ آپ فیلڈ ایمبولنس کی ٹریننگ بھی رکھتے ہیں جس میں زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے آگ بجھانے کی فائر بریگیڈ کی ٹریننگ بھی حاصل کی ہے میں نے جواباً کہا ہاں صاحب۔ پھر میں نے کہا کہ حضور کچھ اور بھی پوچھنا چاہتے ہیں تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اب میں آپ کا امتحان لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر آپ کو بیس آدمی فائر بریگیڈ کے لئے دے دیئے جائیں تو ان کے لئے آپ کو کس سامان کی ضرورت ہوگی۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ تیس چالیس خالی ٹینوں کی ضرورت ہوگی۔ بیس کے سر کٹے ہوئے ہوں جن میں ہم مٹی یا ریت ڈالیں گے اور بیس کے آدھے سر کٹے ہوئے ہوں جس میں پانی ڈالا جائے تا کہ ضرورت کے وقت کام آسکے۔ اس کے علاوہ بیس آدمیوں کے پاس بیس لاٹھیاں ہوں تاکہ اس سے ضرورت کے وقت کام لیا جاسکے۔ اور گینتیاں اور بیلچے دس دس ہوں آپ نے کہا کہ آپ اس میں پاس ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا فیلڈ ایمبولینس میں اگر زخمیوں کو اٹھانے کا کام دیا جائے تو آپ کو کس سامان کی ضرورت ہے میں نے ابھی سٹریچر کا نام ہی لیا تھا تو آپ نے کہا یہ تو فیلڈ ہے یہاں سٹریچر کہاں سے آئیں گے اس پر میں نے کہا کہ حضور بیس آدمیوں کے لئے بیس بانس کی لاٹھیاں چاہیئں اور بیس خالی بوریاں چاہئیں تاکہ چاقوئوں سے بوریوں میں سوراخ کرکے ان میں بانس دے کر سٹریچر کا کام لیا جاسکے۔ اس پر آپ نے کہا کہ چاقو کہاں سے آئے گا تو میں نے اپنی جیب سے چاقو نکال کر دکھلا دیا کہ یہ تو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ بیت مبارک کے سامنے الفضل کا دفتر ہے اس پر آپ چالیس آدمی لے کر شام مغرب کی نماز کے بعد صبح تک اپنے انتظام کو مکمل رکھیں گے اور دیکھنا کہ جو آدمی آپ کو دیئے جاتے ہیں یہ پنجابی زمیندار ہیں انہیں حقہ پینے کی عادت ہے کہیں یہ آپ کو وقت پر جواب نہ دے دیں حضرت صاحب کی طرف سے قادیان کے گردا گرد دس دس میل تک کے لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ایک ایک آدمی ہر گھر سے قادیان آجائے اس طرح کافی احمدی جمع ہوچکے تھے مغرب کی نماز کے بعد میں اپنے چالیس منتخب آدمیوں کو لے کر حضرت نواب محمد علی خان کے مکان کی چھت پر جو مسجد مبارک سے متصل ہے چلا گیا وہ چالیس آدمی کچھ اس چھت پر کچھ دوسری چھت پر بھیج دیئے گئے اور ٹینوں میں پانی اور مٹی ڈال کر مسجد مبارک کے سامنے والے مکانوں کی چھتوں پر اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر رکھوا دیئے گئے اور میں ان دوستوں کو آہستہ آہستہ ان کے فرائض بتانے لگا کہ کس چیز کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے فرسٹ ایڈ کے لئے پٹیاں بھی پہنچادیں تھی عشاء کی نماز ہم نے چھتوں پر ہی ادا کی تو زمیندار دوست حقے کی خواہش پر مجھ سے اجازت لینے آئے کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم حقہ پی آئیں ۔ میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اب آپ نے میرے ساتھ کام کرنا ہے اور میرا کہا ماننا ہے ورنہ ہم اپنے مقصد میں ناکام ہوکر بجائے حضور سے دعا لینے کی ان کی ناراضگی کا باعث بن جائیں گے اس لئے صرف ایک شخص سیڑھی سے اترے اور جاکر حقہ پی آئے اور اس کے آنے کے بعد دوسرا جائے۔ اس طرح سے میں نے خیال کیا کہ ایک ہی آدمی ایک وقت میں غیر حاضر رہ سکتا ہے اور اپنا بستر سیڑھی کے پاس لگا لیا۔ حضور کی طرف سے ان دنوں ہدایات جماعت کو دی جاتی تھیں تعمیل کے لئے پھیلادی جاتی تھی۔ عشاء کے بعد ابھی دو گھنٹے گذرے تھے کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب دوتین دوستوں کے ہمراہ مکان کے اوپر تشریف لائے اور مجھے اوپر بلایا اور فرمایا کہ دیکھو آج رات قادیان میں ہر طرح کا خطرہ ہے اس لئے اپنے آدمیوں کو چوکس رکھنا۔ میں نے اپنے تمام آدمیوں کو چوکس رہنے کے لئے ہدایت کردی۔ اور کہا کہ ایک آواز آنے کے بعد دوسرے کا انتظار نہ کریں اور فوراً اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آجائیں یہ ایک عجب رات تھی مگر خدائی وعدوں پر ایمان تھا۔ رات کے دو بجے کے قریب جب احرار اپنے خیالات کو دماغوں میں لے کر محو خواب تھے اور ہر اک احمدی اللہ تعالیٰ کے آگے دعا میں مصروف تھا منارۃ المسیح سے بگل کی آواز ایسے رنگ میں سنائی دی کہ گویا وہ صور اسرافیل تھی اور قیامت کا دن تھا۔ ہر احمدی اپنی آرام گاہ سے فوراً کھڑا ہوگیا اور بعض گھروں میں اس آواز سے بچوں کی چیخیں سنائی دیں۔ میں نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ کہیں کچھ احمدی زخمی ہوگئے ہیں اور کہیں آگ لگ گئی ہے فوراً چوک میں اپنے سامان کو لے کر کھڑے ہوں میں آگے آگے تھا میرے ہاتھ میں ایک بیلچہ تھا اور ایک خالی ٹین اور میں نے اپنے آدمیوں کو وہاں کھڑا کردیا دیکھتے ہی دیکھتے احمدیہ اسکول کالج کے لڑکے چند منٹ کے اندر‘باہر کے محلوں کے احمدی دوست رات کے وقت مسجد مبارک کی طرف بھاگے اور جہاں جہاں جگہ ملی گلی کوچوں میں کھڑے ہوگئے اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا آپ نے اس بگل سے کیا سمجھا میں نے عرض کیا کہ دشمن نے ہمارے آدمیوں کو زخمی کر دیا ہے اور ہمارے گھروں کو آگ لگادی ہے یہی خیال لئے میں یہاں آیا ہوں کہ پتہ چلے تو اپنے فرض کو ادا کروں۔ میر صاحب نے کہا کہ بس آپ لوگ جاکر آرام کریں کوئی بات نہیں ۔ ادھر تو یہ حالت تھی اور ادھر لشکر احرار کی یہ حالت تھی کہ وہ بگل کی آواز سن کر انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم پر آسمانی فوجوں نے حملہ کردیا ہے اور ہم ہر طرح سے بے دست وپا ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ جو کہ ہمارے رپورٹروں نے بتایا اور ہم نے احراریوں کے پائوں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھی۔ صبح کو ایک دوست نے مسجد مبارک کے چوک میں تقریر کی جس میں انہوں نے گورو گوبند سنگھ کے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ سکھوں میں جو پانچ پیارے ہیں ان کا کس طرح امتحان لیا گیا اور وہ اس طرح کے گوبند سنگھ کے لنگر میں بے شمار سکھ حلوہ پوری کھانے والے موجود ہیں۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کچھ کام بھی کرسکتے ہیں تو اس نے رات کے وقت ایک میدان میں ایک تنبو لگا کر اس میں بکرے باندھ دیئے آپ سکھوں کا امتحان کرنا چاہتے تھے صبح کو کڑاہ|پرشاد کھانے والے سکھوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج ہمیں چند سکھوں کے سر درکار ہیں آئو کون ہمیں اپنا سر دیتا ہے۔ ان میں سے ایک شخص اٹھ کر آگے بڑھا اور تنبو سے باہر گورو صاحب تلوار لے کر کھڑے ہوگئے وہ آگے بڑھا تو وہ تنبو میں لے گئے اور اسے ایک طرف بٹھا کر تلوار سے ایک بکرے کو مار دیا۔ جب تلوار کی آواز باہر سکھوں نے سنی تو ان میں ہلچل مچ گئی پھر گوبند سنگھ صاحب خون آلود تلوار لے کر باہر آئے اور کہا کہ مجھے ایک اور سر کی ضرورت ہے۔ پھر ایک دوسرا سکھ آپ کے ساتھ اندر گیا تو آپ نے اس کو پہلے سکھ کے ساتھ بٹھا دیا اور پھر تلوار ایک بکرے کی گردن پر ماری۔ اب تو خون بھی تنبو سے باہر دکھائی دینے لگا۔ سکھ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے اسی طرح آپ تیسری چوتھی اور پانچویں مرتبہ آئے اور صرف پانچ آدمی آپ کے ساتھ تنبو میں داخل ہوئے باقی سب بھاگ گئے ان پانچ سکھوں کو جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا وعدہ کیا تھا پانچ پیارے کہتے ہیں اور سکھوں کی ہر بات پانچ باتوں پر ہی مقرر ہے۔ پانچ پیارے ہیں پانچ ککے ہیں اس احمدی مقرر نے کہا کہ لو ادھر تو صرف پانچ پیارے تھے آج تمہارا بھی امتحان ہوگیا کہ تم نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کردیا۔ وہ تو پانچ پیارے تھے۔ احمدی جماعت کا ہر فرد پیارا ہے۔ یہ تو صرف میرے دیکھے ہوئے حالات ہیں باقی انتظامات کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا۔ اسی روز شام کے وقت اعلان کیا گیا کہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں عشاء کے بعد جلسہ منعقد ہوگا اور اس میں حضور بھی تشریف لائیں گے اور اس میں غیر احمدیوں کے لئے داخلہ کے ٹکٹ دیئے جائیں گے اور احمدیوں کی شناخت پر اندر آسکیں گے۔
عشاء کے بعد جلسہ کا انتظام شروع ہوا حضرت میر محمد اسحاق نے پولیس کے افسروں اور مجسٹریٹ وغیرہ کو جو احراریوں کے جلسہ میں آئے ہوئے تھے جلسہ میں شمولیت کے لئے دعوت دی جب یہ افسران جلسہ گاہ میں تشریف لاکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو حضرت میر صاحب نے ان کو کچھ مٹھائی اور چائے پیش کی۔ انہوں نے ابھی چائے پینی شروع کی ہی تھی کہ حضور تشریف لے آئے تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر حضور کا استقبال کیا۔ حضور السلام علیکم کہہ کر اپنی کرسی پر تشریف لے گئے۔ بیٹھنے کے بعد حضور فوراً کھڑے ہوگئے اور تقریر شروع کردی۔ تقریر اس موضوع پر تھی کہ گورنمنٹ نے پولیس اور باقی محکمے مظلوموں کی مدد اور ان کی دادرسی کے لئے بنائے ہیں مگر افسوس ہے کہ محکمے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتے بلکہ برعکس اس کے ظالموں کی مدد کرتے ہیں حضور کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حاضرین پرایک سکتے کا عالم تھا۔ اور ان کے سامنے پڑی ہوئی چائے اور مٹھائی انہیں ایسا زہر دکھائی دے رہا تھا کہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ چائے اور مٹھائی اس طرح پڑی رہ گئی حضور مختصر سی تقریر کے بعد تشریف لے گئے اور افسر بھی اٹھ کر جلسہ گاہ سے چلے گئے مگر احمدی اور غیر احمدی پبلک جم کر بیٹھی رہی حضور کے بعد میر محمد اسحاق نے ان اعتراضات کے جواب دینے شروع کئے جو احراریوں نے اپنے اسٹیج پر کئے تھے۔ آپ قرآن اور احادیث سے ان کے جوابات دیتے تو غیر احمدی پبلک سے حوالہ حوالہ کے آوازے اٹھتے ادھر جو احمدی احباب حوالے تلاش کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے وہ فوراً کتاب میر صاحب کے آگے رکھ دیتے اور حضرت میر صاحب حوالہ پیش کردیتے۔ کئی غیر احمدیوں کی طرف سے یہ سنا گیا کہ آج تک ہم نے ایسے عالم نہیں دیکھے تھے کہ جو حوصلہ مندی سے اس طرح حوالے پیش کرتے ہوں اور مخالفین کی باتیں توجہ اور حوصلہ سے سنتے ہوں‘‘۔ (غیر مطبوعہ)
ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت
۲۳ جون ۱۹۲۱ء کو جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے ‘حضرت مرزا شریف احمد صاحب‘حضرت نواب محمد علی خان صاحب ۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور بعض دوسرے سر برآور دہ حضرات شامل تھے۔ شملہ میں وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ سے ملاقات کی ۔چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کا خیر مقدم کیا۔ اور سلسلہ احمدیہ کے حالات بیان کرنے کے بعد وائسرائے ہند کی توجہ خاص طور پر تین باتوں کی طرف مبذول کرائی۔
اول حکام میں یہ روح پیدا کی جائے کہ ان کا سلوک ہندوستانیوں سے برادرانہ ہو اور اقوام کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔
ودم ترکی حکومت کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے اگر پچاس سال کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے السس‘لوریں فرانس کو واپس مل سکتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ سمرنا اور تھریس ترکوں کو واپس نہ دلائے جائیں۔
سوم ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے۔ مسٹر چرچل وزیر نوآبادیات نے ایک سکیم میں ذکر کیا ہے کہ اگر حکومت حجاز اپنے بیرونی تعلقات برطانوی حکومت کی نگرانی میں دیدے اور اندرونی امن کی ذمہ داری اٹھالے تو انگریزی حکومت اسے سالانہ مالی امداد دے گی۔ یہ سکیم آزادی حجاز کے سراسر منافی ہے اگر حکومت حجاز واقعہ میں ملکی حفاظت نہیں کرسکتی تو حجاز ترکوں کو انہی شرائط پر واپس کردینا چاہئے جن شرائط پر مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۴۳
سفر کشمیر
اس سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے طبی مشورہ کے مطابق کشمیر کا سفر فرمایا۔ آپ ۲۵ جون ۱۹۲۱ء کو روانہ ہوئے ۱۴۴ اور تین ماہ بعد ۲۹ ستمبر ۱۹۲۱ء کو واپس تشریف لائے۔ ۱۴۵ حضور دوران سفر اسلام آباد۔ گاندھر بل۔ چشمہ اچھا بل۔ چشمہ ویری ناگ اور آسنور یاڑی پور وغیرہ کی طرف بھی تشریف لے گئے مگر قیام اکثر و بیشتر سری نگر میں رہا۔ ماحول کی کشمیری جماعتوں نے حضور کی آمد سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور نوے کے قریب بیعتیں ہوئیں۔ ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء کو حضور تمام اہل بیت کے ساتھ محلہ خان یار میں تشریف لے گئے۔ اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مزار مبارک پر بہت دیر تک دعا کی۔ اور روضہ کے محافظ کو اس کی مرمت کے لئے کچھ رقم بھی دی۔ اس کے بعد حضور جامع مسجد دیکھنے گئے۔ ۱۴۶ ۲۶۔۲۷ اگست کو حضرت اقدس کے ارشاد پر آسنور میں احمدیان کشمیر کا جلسہ ہوا۔ جس میں حضور نے تربیتی امور پر لیکچر دیئے۔ آسنور کے احمدیوں نے اس موقع پر جلسہ کے انتظام اور مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ۱۴۷4] f[rt
آئینہ صداقت
دسمبر ۱۹۲۱ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے ایک معرکتہ الاراء کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ شائع ہوئی۔ جس میں حضور نے مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کی انگریزی کتاب ’’دی سپلٹ‘‘ Split( )The سے پیدا ہوسکنے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے علاوہ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس عظیم الشان تصنیف کا (جو۲۰۳ صفحات پر مشتمل ہے) اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ احمدیت ۔ خدا کا قائم کیا ہوا پودہ ہے اس کو کوئی اکھاڑ نہیں سکتا۔
خلافت اس کا لگایا ہوا درخت ہے اس کو کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ اس عاجز اور ناتوان وجود کو اسی نے اپنے فضل اور احسان سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے اس کے کام میں کوئی روک نہیں ہوسکتا۔ ۱۴۸
اس زبردست تصنیف کا انگریزی ترجمہ split’’ the about Truth ‘‘The کے نام سے کلکتہ میں چھپ کر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔
ہستی باری تعالیٰ
سالانہ جلسہ ۱۹۲۱ء میں حضرت اقدس نے ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر تقریر دلپذیر فرمائی جو اسی نام سے شائع ہوئی اس معرکہ الاراء تقریر میں حضور نے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل اس کی صفات شرک اور اس کی باریک درباریک اقسام رویت الٰہی اور اس کے مدارج اور اس کے طریق حصول پرایسی زبردست روشنی ڈالی ہے کہ گویا دن ہی چڑھا دیا ہے۔
۱۹۲۱ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مسجد مبارک (قادیان) سے مہمان خانہ تک احمدیہ بازار میں فرش لگوایا۔ ۱۴۹
۲۔ قادیان میں شرقی جانب واقع ڈھاب کے پرکرنے کا کام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں ہوا۔
۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنرل خان اوصاف علی خان صاحب سی ۔ آئی۔ ای کمانڈر انچیف۱۵۰افواج نابھہ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے نکاح پڑھے۔ ۱۵۱
۴۔ حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر صحابی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیانی نے وفات پائی۔
۵۔ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے اور ان کے چند رفقاء حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی کو لاہور لے جانے کے لئے قادیان آئے جماعت کی طرف سے خانصاحب ذوالفقار علی خان نے ناشتہ کرنے کے لئے کہا۔ مگر انہوں نے معذرت کردی۔ واپسی پر ٹمٹم میں کھانا رکھوادیا گیا لیکن مولویمحمد علی صاحب نے کھانا اتروا دیا۔ ۱۵۲
۶۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ قادیان۱۵۳ (حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت پورنانند صاحب کے درمیان) مباحثہ مالیر کوٹلہ۱۵۴ شیخ عبدالرحمان صاحب مصری حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان) مباحثہ قادیان ۱۵۵ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور مہاشہ دھرم بھکشو صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور ۱۵۶ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور منشی پیر بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ ’’تائید الاسلام‘‘ لاہور کے درمیان)۔
۷۔ علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات۔ التشریح الصحیح لالہامات المہدی والمسیح (از مولوی فضل دین صاحب وکیل) تذکرۃ المہدی حصہ دوم (از پیر سراج الحق صاحب نعمانی) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات (از سید احمد نور صاحب کابلی) تاریخ مالا بار (از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی)۔
‏rov.5.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا نواں سال
فصل سوم
خلافت ثانیہ کا نواں سال
(جنوری ۱۹۲۲ء تا دسمبر ۱۹۲۲ء بمطابق جماد الاول ۱۳۴۰ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۱ھ تک)
۱۹۲۲ء کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو مصر جانے کا حکم ہوا ۱۵۷ حضور نے آپ کو روانہ کرتے ہوئے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر دیں۔
آپ مصر جاتے ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سر زمین دنیا کی تباہی اور ترقی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہے۔اس سرزمین سے اسلام کو بہت سا نقصان بھی پہنچا ہے اور فائدہ بھی اور آئندہ اور بھی حوادث ہیں جو اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ انجام کار وہ اسلام کے لئے مفید ہونگے۔ پس اس سرزمین میں بہت ہی ڈرتے ڈرتے قدم رکھیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ آپ کا قدم ادھر ادھر پڑنے سے آپ کومحفوظ رکھے۔ آپ کا اول کام عربی زبان کا سیکھنا ہے اس لئے ہندوستانیوں سے رابطہ پیدانہ کریں۔ کیونکہ غیر ملک میں اپنے اہل ملک جب ملتا ہے تو ان کی طرف بہت کھنچ جاتا ہے۔ پس جہاں تک ہوسکے عربوں سے ہی میل ملاقات رکھیں تاکہ زبان صاف ہونے کا موقع ملے۔ اور یہ بھی احتیاط رہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں سے تعلق ہو۔ کیونکہ جہال کی زبان بہت خراب ہوتی ہے سیاسیات میں نہ پڑیں۔ اور نہ سیاسی لوگوں سے تعلق رکھیں۔ کیونکہ سیاسی لوگوں میں اگر تبلیغ ہوئی بھی تو ان کو اپنے راستہ سے ہٹاکر دین کی طرف لانا دگنی محنت چاہتا ہے۔ اور اس قدر کام آپ موجودہ اغراض کو پورا کرتے ہوئے نہیں کرسکتے۔
اپنے اخلاق کا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں کیونکہ غیر جگہ انسان جاتا ہے تو لوگ اس کی حرکات سکنات کیطرف زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ ہر ایک بات پر اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کوئی ایسی بات پیش کرے جس پر رائے کا اظہار نامناسب ہے یا ایسی بحثوں کی طرف لے جائے جو سفر کے مقصد کے خلاف ہے تو بہتر ہے کہ کہدیں کہ مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے نہ میں نے اس پر کافی غور کیا ہے۔ اور نہ اس پر میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہوں ہر قوم میں کچھ عیوب ہوتے ہیں کچھ خوبیاں۔ پس مصریوں کی خوبیاں سیکھنے کی کوشش کریں مگر ان کے عیوب سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے گردوپیش ایک قسم کے حالات دیکھتا ہے تو بری باتیں بھی اسے اچھی نظر آنے لگ جاتی ہیں اور وہ اسے بطور فیشن اختیار کرلیتا ہے۔ مومن کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ ۱۵۸
شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ۱۸ فروری ۱۹۲۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے ۱۵۹ اور سکندر آباد سے ہوتے ہوئے بمبئی پہنچے جہاں سے بذریعہ جہاز قاہرہ (مصر) میں وارد ہوئے آپ نے حضور کی ہدایات کی روشنی میں وہاں اس رنگ سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا کہ خدا کے فضل سے پہلے سال ہی ایک جماعت پیدا کرلی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ء پر فرمایا۔ اس سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ میں ایک نیا مشن مصر میں جاری کیاگیا ہے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک طالب علم کے ذریعہ جماعت پیدا کردی ہے۔ ۱۶۰ دسمبر۱۹۲۳ء سے آپ کی ادارت میں ’’قصر النیل‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا۔ ۱۶۱
عرفانی صاحب نے ۱۹۲۶ء تک مصر میں کام کیا۔۱۶۲ اور اعلیٰ طبقہ کے سرکاری ملازمین آپ کے ذریعہ داخل جماعت ہوئے۔ جن میں سے الاستاذ احمد حلمی آفندی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۶۳ آپ کے زمانہ میں تبلیغ اسلام و احمدیت کا کام تمام تر انفرادی ملاقات یا لٹریچر کے ذریعہ سے ہوا۔ مگر آپ کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے مصر کے علماء اور مسیحی پادریوں سے مناظرے ہوئے۔ چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ازہر کے تعلیم یافتہ ایک مرتد پادری کامل منصور سے ’’حدیقتہ الازبکیہ‘‘ کے گرجا میں اناجیل کی حقیقت کے باے میں ایک معرکتہ الاراء مباحثہ ہوا۔ جو بعد کو تحقیق الادیان کے نام سے رمضان ۱۳۴۸ھ بمطابق فروری ۱۹۳۰ء میں شائع کیا گیا۔ اس مباحثہ سے عیسائیت کا نمائندہ لاجواب ہوگیا۔ مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کا نمائندہ لاجواب ہوگیا۔ مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کے اوہام کا شکار ہو رہے تھے۔ پھر سے اسلام پر پختہ ہوگئے۔ انہی نوجوانوں میں عبدالحمید خورشید آفندی بھی تھے جو اس مباحثہ میں آپ کے دلائل وبراہین سے اتنے متاثر ہوئے کہ احمدی ہو کر عیسائیوں کا مقابلہ کرنے لگے مولانا شمس صاحب نے قاہرہ میں قیام کے دوران میں ایک بہائی محی الدین الکروی سے بھی پرائیویٹ مناظرے کئے اور بار بار تحدی کی کہ بہائی شریعت سے کوئی ایک ہی ایسا مسئلہ دکھایا جائے جو اسلامی شریعت میں موجود نہیں۔ اور ضروری ہو۔ مگر وہ کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ کرسکے۔
۱۹۳۳ء میں مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے مشہور عیسائی پادری ڈاکٹر فلپس )Philips( سے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر مناظرہ کیا جس میں اسلام کو نمایاں فتح اور عیسائیت کو شکست فاش نصیب ہوئی۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے مباحثہ کی پوری روداد فلسطین کے عربی رسالہ البشارۃ الاسلامیتہ الاحمدیہ میں شائع کرتے ہوئے بلا وعربیہ کے تمام پادریوں کو چیلنج دیا کہ اگر ان میں طاقت ہے۔ تو اس کا جواب دیں۔ بعد ازاں اردو میں بھی ’’مباحثہ مصر‘‘ اسی چیلنج کے ساتھ شائع کیا گیا مگر آج تک نہ بلادعربیہ میں نہ برصغیر پاک وہند میں کسی پادری کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں ہوسکی۔ ۱۶۴`۱۶۵
مولانا ابوالعطاء صاحب کے بعد مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے جولائی ۱۹۳۷ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک مصر میں قیام کیا۔ آپ مصر سے حج پر روانہ ہوکر ۱۰ مارچ ۱۹۳۸ کو قادیان میں واپس آئے۔ اسی زمانہ میں ایک مشہور عیسائی عالم انستاس مارمی کرملی نے نشوء اللغہ العربیہ ونموھا واکتناء ھا کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں حضرت مسیح موعود کے اس نظریہ کی تائید کی کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے۔ ۱۶۶
۱۹۴۰ء کے قریب مولوی محمد دین صاحب مرحوم فاضل مجاہد تحریک جدید البانیہ سے مصر تشریف لائے اور دارالتبلیغ کی سرگرمیاں باقاعدہ صورت میں ہونے لگیں۔ ابھی آپ مصر ہی میں مقیم تھے کہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل فلسطین سے مصر تشریف لے گئے اور جماعت کی ازسر نو تنظیم کی۔ اور کئی اصحاب کو سلسلہ میں شامل کیا۔ اور وقتاً فوقتاً آپ اپنے زمانہ اقامت بلاد عربیہ میں مصر جاتے رہے۔
اسی زمانہ میں البانیہ کے دو طالب علم ۱۶۷جامع ازہر میں بغرض حصول تعلیم داخل ہوئے جن کے متعلق ازہر کے حلقوں میں یہ شور اٹھا کہ یہ احمدی ہیں اس لئے ان کو اس اسلامی درسگاہ سے نکال دیا جائے علامہ مصطفیٰ المراغی شیخ الجامع الازہر نے ازہر کے نامور علماء کی ایک کمیٹی بنائی تاوہ پوری تحقیقات کرکے رپورٹ کرے کہ کیا جماعت احمدیہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے یا نہیں؟ اور اگر اختلاف ہے تو کس قدر؟ اس کمیٹی کی تشکیل پر چوہدری محمد شریف صاحب انچارج مبلغ بلادعربیہ نے عربی رسالہ (البشریٰ) اور مصری اخبارات کے ذریعہ اس کا خیر مقدم کیا اور شیخ الجامع الازہر (علامہ مصطفٰے المراغی) کی معرفت کمیٹی کو سلسلہ احمدیہ کا ضروری لٹریچر بھیجا۔ اور لکھاکہ میں خود بھی حاضر ہوکر جماعت احمدیہ سے متعلق مستند معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں۔
اسی دوران ۱۹۴۲ء میں بابوعبدالکریم صاحب یوسف زئی پوسٹ ماسٹر (آف پونچھ) مرحوم نے لیبیا میں اقامت کے وقت ازہر (مصر) سے یہ دریافت کیا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں؟ اور جو شخص وفات مسیح کا قائل ہے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے تو شیخ الازہر نے یہ استفسار علماء ازہر اپنی کمیٹی (کبار علماء الازہر) یعنی ازہر کے بڑے بڑے علماء کے ایک نامور ممبر استاذ محمود شلتوت کو جواب لکھنے کے لئے دیا۔ الشیخ محمود شلتوت نے پوری تحقیق کے بعد حضرت مسیح کی وفات کا فتویٰ دیا حسب دستور علماء ازہر کی کمیٹی میں پیش ہوا۔ سب علماء ازہر نے اس جواب پر اتفاق کیا اور یہ فتویٰ مصر کے ایک کثیر الاشاعت ہفتہ وار اخبار ’’الرسالہ والروایہ‘‘ میں ’’رفع عیسیٰ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا گیا۔ ۱۶۸
اس کے کچھ عرصہ بعد خود الاستاذ محمود شلتوت شیخ الازہر )RECTOR( کے ازہر یونیورسٹی کی طرف سے آپ کے تمام اہم فتادی دسمبر ۱۹۵۹ء میں ’’الفتاویٰ‘‘۱۶۹ کے نام سے شائع کردیئے گئے ’’الفتادیٰ‘‘ میں ’’وفات مسیح‘‘ سے متعلق ان کا سابقہ فتویٰ بھی شامل کیا گیا جس کا خلاصہ خود الاستاذ شلتوت کے الفاظ میں یہ ہے۔
(’’۱) انہ لیس فی القران الکریم ولا فی السنتہ المطھرہ مستند یصلح لتکوین عقیدہ یطمئن الیھا القلب بان عیسی رفع بجسمہ الی السماء وانہ حی الی الان فیھا و انہ ینزل منھا اخر الزمان الی الارض۔
(۲) ان کل ماتفیدہ الایات الواردہ فی ھذہ الشان ھووعد اللہ عیسی بانہ متوفیہ اجلہ ورافعہ الیہ وعاصمہ من الذین کفروا وان ھذا الوعدقد تحقق فلم یقتلہ اعدائہ ولم یصلبوہ ولکن وفاہ اللہ اجلہ ورفعہ الیہ۔‘‘۱۷۰ترجمہ (۱) قرآن کریم اور سنت مطہرہ سے ہرگز کوئی ایسی سند نہیں ملتی جس کی بناء پر اس عقیدہ پر دلی اطمینان ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مادی جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور یہ کہ وہ اب تک آسمان پر زندہ ہیں اور وہ آخری زمانہ میں زمین پر اتریں گے۔
(۲) قرآنی آیات یہ بتارہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علہ السلام سے وعدہ فرمایا تھے کہ وہ انہیں وفات دے گا۔ ان کا رفع فرمائے گا۔ اور کافروں کے شر سے بچائے گا۔ یہ وعدہ یقیناً پورا ہوچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے دشمن نہ انہیں قتل کرسکے اور نہ صلیب پر مار سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کے دن پورے کر کے انہیں وفات دے دی اور ان کا اپنی طرف رفع فرمایا۔
عالم اسلامی کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی درسگاہ (یونیورسٹی) کے اس فتویٰ نے ممالک اسلامیہ میں زبردست ہلچل پیدا کردی۔ اور اس پر سب قدامت پسند علماء نے سخت نکتہ چینی کی اور آجتک کر رہے ہیں۔ مصر کے ایک عالم الشیخ عبداللہ محمد صدیق الغماری نے اپنی کتاب ’’اقامہ البرھان علی نزول عیسی فی اخر الزمان ‘‘ میں اس کے خلاف زبردست احتجاج اور اسے مصیبت عظمی اور اہم واقعہ قرار دے کر علامہ شلتوت کو اپنے ہندی بھائیوں کی دلداری اور حمایت کی خاطر یہ اپنا فتویٰ واپس لے لینے کا مشورہ دیا۔ مگر علامہ الشیخ شلتوت برابر آخردم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ اور صاف صاف کہا۔ ’’ انا ابدیت رائی ولا یضرنی ان اوافق القادیانیتہ اوغیرھم‘‘ ۱۷۱یعنی میں نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے اور مجھے قادیانی جماعت یا کسی اور کی تائید و موافقت نقصان نہیں پہنچاسکتی۔
الاستاذ شلتوت نے ۲ نومبر۱۹۶۰ء کو شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ سے ملاقات کی ۱۷۲اور دوران ملاقات مسئلہ اجرائے نبوت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ظاہری طور پر لفظ نبوت طبائع میں ہیجان پیدا کردیتا ہے۔ اس لئے عوام اس اصطلاح سے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ مگر جو تاویل اور توضیح جماعت احمدیہ کرتی ہے اس قسم کی نبوت غیر تشریعی کی یقیناً گنجائش موجود ہے اور دوسری طرف بانی احمدیت کا لٹریچر اور اسلامی خدمات اس تادیل اور گنجائش کو قبول کرنے میں ممد ہیں‘‘۔ افسوس تین سال بعد علامہ الاستاذ محمود شلتوت دسمبر ۱۹۶۳ء میں انتقال فرما گئے اور دنیائے اسلام ایک عالم متبحر سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئی۔
الشیخ الاکبر علامہ محمود شلتوت کے علاوہ اور بھی کئی مقتدر علما مسیح کی وفات کا فتویٰ دے چکے ہیں مثلاً الاستاذ مصطفیٰ المراغی (ازہر یونیورسٹی) علامہ عبدالکریم شریف۔ ڈاکٹر احمد زکی ابوشادی الاستاذ عباس محمود العقاد۔ ۱۷۳
مصری علماء مسئلہ ام الالسنہ اور مسئلہ وفات مسیح وغیرہ میں احمدیت کے علم کلام کی تصدیق کرنے کے بعد اب مسئلہ نسخ فی القرآن کے بارے میں بھی جماعت احمدیہ کا مسلک اختیار کر رہے ہیں چنانچہ الاستاذ عبدالمتعال محمد الجبری نے ۱۹۶۱ء میں النسخ فی الشریعتہ الاسلامیتہ کما افھمہ ۱۷۴ شائع کی ہے جس میں قرآنی نسخ کے عقیدہ کا ابطال کیا گیاہے۔
مصری پریس پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں نے کہاں تک اثر ڈالا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے مصر کے بااثر اور مشہور رسالہ الفتح کے دواقتباس کافی ہوں گے۔ اخبار الفتح نے لکھا۔
’’نظرت فاذاحرکتھم امر مد ھش فانھم رفعو اصواتھم و اجروا اقلامھم باللغات المختلفہ وایدو ادعوتھم ببذل المال فی المشرقین والمغربین فی مختلف الاقطار و الشعوب ونظموا جمعیاتھم وصدقوا الحملہ حتی استفحل امرھم وصارت لھم مراکزدعایتہ فی اسیاء واوربا وامریکا وافریقیہ تساوی علما وعملا جمعیات النصاری وامافی التاثیر والنجاح فلامناسبتہ بینھم و بین النصاری فلقادیانیون اعظم نجاحالما معھم من حقائق الاسلام و حکمہ‘‘۔۱۷۵
یعنی میں نے جماعت احمدیہ کا بغور مطالعہ کیا ہے اس جماعت کے کام حیرت انگیز ہیں احمدیوں نے اپنا قلم اور آواز مختلف زبانوں میں احیائے اسلام کے لئے استعمال کی ہے۔ اور مشرق و مغرب میں اپنے اموال خرچ کرکے اپنے عقائد پھیلائے ہیں۔ چنانچہ یہ جماعت بہت اہمیت حاصل کرچکی ہے ایشیا یورپ‘امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ یہ مراکز علمی و عملی رنگ میں عیسائیوں کے مراکز کے ہم پلہ ہیں۔ یہ جماعت سب سے زیادہ کامیاب ہے کیونکہ اس کے پاس اسلام کے حقائق ومعارف ہیں جو شخص ان کے حیرت انگیز کارناموں کو بغور دیکھتا ہے اور سب باتوں کا موازنہ کرتا ہے وہ اس بات پر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہ اس چھوٹی سی جماعت نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے جو عظیم الشان کام کیا ہے وہ دوسرے کروڑوں مسلمانوں سے نہیں ہوسکا۔
(۲) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے اس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن ‘مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہوجائے گا کہ سچا اورمخلص مومن کون ہے۔ ۱۷۶4] ft[r
جماعت احمدیہ مصر کی طرف سے اب تک مندرجہ ذیل لٹریچر شائع ہوچکا ہے حمامتہ البشریٰ (حصہ اول تالیف سید نا حضرت مسیح موعود) (۲) التبلیغ ۰ تالیف سید ناحضرت مسیح موعود۔ (۳) الخطاب الجلیل (اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ از السید زین العابدین ولی اللہ صاحب) از تالیفات سید ناحضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ (۴) الصلٰوۃ فی الاسلام ترجمہ نماز از عبدالمجید الرحالتہ (۵) تنویر الالباب لابطال دعوۃ البہاء والباب۔ (۶) النور المبین (۷) کشف اللثام اور (۸) جواہر الکلام (از مکرم مولانا جلال الدین شمس) ’’بشائر التوراۃ والانجیل فی حق سلیل سیدنا ابراہیم الخلیل‘‘ (از مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری)
بالاخر یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ مصر کے مندرجہ ذیل مخلص احمدی احباب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیادت اور مرکز سے استفادہ کے لئے آچکے ہیں۔ (۱) عبدالحمید خورشید آفندی (۲) الاستاذ احمد حلمی آفندی (۳) الشیخ عبدالحمید ابراہیم آفندی (۴) ابراہیم عباس فضل اللہ از خرطوم۔ سوڈان مصر (۵) رضوان عبداللہ ۔ (آپ ربوہ میں حصول تعلیم کے لئے آئے اور ۲۶ اگست ۱۹۵۳ کو ربوہ میں وفات پائی اور یہیں دفن کئے گئے۔ ۱۷۷
احمدیہ ٹیریٹوریل کمپنی
۱۹۲۲ء کے آغاز میں دوسری ملکی جماعتوں اور قوموں کی طرح ٹیریٹوریل فورس میں جماعت احمدیہ کی بھی ایک کمپنی جالندھر میں قائم کی گئی۔۱۷۸ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۹۳۹ء تک اس کمپنی کی کمان کرتے رہے۔ ۱۷۹ کمپنی کے جوانوں کے لئے آپ کی برگزیدہ شخصیت تنظیم واخلاق اور فوجی روح کے اعتبار سے ایک مثالی شان رکھتی تھی۔ جن دنوں آپ ٹریٹوریل فورس میں لیفٹنینٹ کے عہدہ پر فائز تھے۔ قادیان کے ’’تعلیم الاسلام میگزین‘‘ نے آپ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے اختراع کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہے چنانچہ آپ نے بندوق کی ایسی گولی ایجاد کی ہے جو بڑے بڑے جانور کے پار نکل جاتی ہے۔ اور اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بڑے بڑے افسروں کو بھی اقرار ہے۔ فوجی کام میں خاص دلچسپی لیتے ہیں آپ کا نشانہ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے نشانہ بازی میں بھی ایک ایسا آلہ ایجاد کر رہے ہیں جس کے ذریعہ سے دور فاصلے کی چیز بہت قریب نظر آنے لگے گی۔ اور نشانہ کبھی خطا نہ جائے گا‘‘۔۱۸۰
مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) کو ہدایات زریں
۲۳ / جنوری ۱۹۲۲ء کی صبح کو حکیم فضل الرحمن صاحب مغربی افریقہ روانہ ہونے والے تھے۔ حضور نے ان کو تحریری اور زبانی ہر دو طرح ہدایات دیں جن کا ملخص یہ تھا : (۱) وہاں کی زبان سیکھیں (۲) نہایت محبت اور حکمت سے کام لیں (۳) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے۔ جب ان کو نصیحت کریں۔ تو علیحدگی میں کریں (۴) ان کی دماغی قابلیت کے لحاظ سے تدریجاً علم دین سکھائیں۔ (۵) ہمیشہ چست رہیں (۶) اپنا کام کرتے وقت دوسروں پر نگاہ مت رکھیں۔ (۷) اخلاق کا خاص خیال رکھیں اور حکام سے معاملہ کرتے وقت مناسب ادب سے پیش آئیں۔ (۸) افریقنوں کا تاثر ہے کہ دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے مگر آپ ان سے محبت کا معاملہ کریں۔ (۹) عادات‘لباس اور کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مدنظر رہے۔۱۸۱
’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘
شہزادہ ویلز (جو بعد کو ایڈورڈ ہشتم بنے اور ۱۹۳۶ء میں انگلینڈ چرچ سے اختلاف کر کے تخت سے دستبردار ہو گئے اور ڈیوک آف ونڈسر کہلائے) دسمبر ۱۹۲۱ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے برطانیہ کے ولی عہد کو اسلام کا بے نظیر تحفہ پیش کیا۔ یعنی ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔۱۸۲ جسے آپ کی تجویز کے مطابق ۱۸۳جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار سے زائد افراد نے ایک ایک آنہ فی کس جمع کر کے شائع کیا اور ۲۷ / فروری ۱۹۲۲ء کو لاہور میں احمدیہ وفد کے ذریعہ ایک مرصع رو پہلی کشتی میں شہزادہ معظم کے سامنے پیش کیا۔۸۴
حضور نے اس کتاب میں ولی عہد برطانیہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی برکات ہمیشہ کے لئے جاری ہیں اور ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اب بھی مسیحی دنیا اسلام اور مسیحیت کا اثر دیکھنے کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اچھے درخت میں اچھے پھل لگا کر دکھا دے گا۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں۔ جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لئے بعض مشکل امور کے لئے دعا مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کے لئے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرے۔ مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لئے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کرلیا جائے پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور ہرگز نہ کریں گے کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں۔ تو پھر اے شہزادہ آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کر دی ہیں‘‘۔۱۸۵
شہزادہ ویلز نے اس لاثانی تحفہ کو نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ ادا کیا۔۱۸۶ بلکہ یکم مارچ ۱۹۲۲ء کو لاہور سے جموں تک کے سفر میں اسے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے اور جیسا کہ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا۔]4 [stf۱۸۷ اسی طرح ان کے ایڈی کانگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا۔۱۸۸
اخبار ’’ذوالفقار‘‘ (۲۴ / اپریل ۱۹۲۲ء) نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ ’’ہم خلیفہ ثانی کی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔۔۔۔۔ تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرور رشک کریں گے یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں۔ اس واسطے اس تحفہ کو دیکھ کر ہم عش عش کر اٹھے۔ اس تحفہ میں فاضل مصنف نے سنت رسولﷺ~ پر پورا پورا عمل کیا ہے۔ دعوت اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے کسی فرقہ کا کوئی فرد یا موجودہ زمانے کا کوئی شورش پسند اخبار حسد اور بغض کی راہ سے اس تحفہ پر کوئی حملہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اس تحفہ میں کوئی ایسا مقام دکھائی نہیں دیا کہ جس میں خوشامد سے کام لیا گیا ہو۔ ہاں بعض مقامات ایسے ہیں جس میں مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے ابتداء سے آخر تک مختصر سے حالات لکھے ہیں لیکن وہ واقعات امن پسندی اور حکومت کی وفاداری کا اظہار ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ بد امن اور شورش پسند فرقہ کو کبھی خدا دوست نہیں رکھتا اور تباہ اور برباد کر دیتا ہے‘‘۔۱۸۹
اسی طرح پنجاب کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ۱۸ / اپریل ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں اس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ ’’یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے۔ خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہوسکتی ۔ جو مذہب میں اور خاصکر ہندوستان اور برطانیہ کے بے شمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ۱۹۰
بیرونی دنیا پر بھی اس کتاب نے گہرا اثر ڈالا۔ اور مغربی ممالک میں تو اس نے تبلیغ اسلام کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ چنانچہ وی آنا (دارالخلافہ آسٹریا) کے ایک پروفیسر نے جو تین زبانوں کا ماہر تھا اسے پڑھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ اور افسوس کیا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے ورنہ دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرتا۔ ۱۹۱ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے امریکہ سے لکھا کہ اس کتاب نے امریکہ کو بہت متاثر کیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امریکہ کے علمی تقاضوں کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ۱۹۲
مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ میں بھی اس کا اثر ہوا۔ چنانچہ نیروبی کے اخبار ’’لیڈر‘‘ (۲۳ نومبر ۱۹۲۲ء) نے کہا۔ ’’گو میں عیسائی نہیں مگر عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور ان کے لٹریچر کو خوب سمجھتا ہوں لیکن جو کچھ مجھے اس کتاب سے حاصل ہوا ہے اور جو میں نے حظ اٹھایا ہے اسے بیان نہیں کرسکتا۔ اس کتاب کا لکھنے والا گو مسلمان ہے لیکن شبہ غالب ہے کہ وہ عیسائیوں میں سالہا سال تک رہا ہے اور ان کے لٹریچر کو اس نے غور سے پڑھا ہے ورنہ یہ بہت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کوایسی پتہ کی باتیں اس دھڑلے سے سنائے آجتک کوئی ایسی کتاب میری نظر سے نہیں گذری جو مذہبی بنیاد پر لکھی گئی ہو اور تعصب سے مبرا رہی ہو اس شان کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ۱۹۳
سفر لاہور
۲۳ فروری ۱۹۲۲ء ۱۹۴ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور تشریف لے گئے اور ۲ مارچ ۱۹۲۲ء کو واپس قادیان آئے یہ سفر بظاہر شہزادہ ویلز کے استقبال کی غرض سے تھا۔ جو ارشاد نبوی~صل۱~ اذا جاء کریم قوم فاکرموہ کی تعمیل میں تھا۔ لیکن اس کے پیچھے اور بھی اہم دینی مقاصد کار فرما تھے۔ جن کی تفصیل اخبار الفضل کے الفاظ میں یہ ہے کہ حضور خلیفتہ المسیح نے لاہور کے قیام کا ایک ہفتہ وعظ ونصیحت اور ارشاد و ہدایت میں صرف کیا۔ کہیں جماعت کے نونہال طلباء کو وعظ کرتے تھے کہیں عام لوگوں کو سمجھاتے تھے کہیں ایک جلسہ کی صورت میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہبی اور روحانی لذت کا شوق دلاتے تھے کہیں دہریت اور مادیت کی رگ پرنشتر رکھتے تھے کہیں عیسویت کا سحر باطل کرتے تھے کہیں منکرین الہام و نبوت کو قائل کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ غرض ایک کیفیت تھی ایک حال تھا ایک ولولہ تھا جو چلتا پھرتا اور کام کرتا اور لوگوں کو کام کرنے پر آمادہ کرتا نظر آتا تھا۔ اس سفر میں بہت سے لوگوں کے شکوک مذہب کے متعلق دور ہوئے بہت سے اوہام باطل ہوئے اور قریباً بیس پچیس شخصوں نے بیعت بھی کی۔۱۹۵
اس سفر کے دوران حضور ۲۶ فروری ۱۹۲۲ء کو گنج مغلپورہ کی احمدیہ مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں دو نفل نماز پڑھائی۔ یہ مسجد مستری محمد موسیٰ صاحب (نیلہ گنبد لاہور) نے تعمیر کرائی تھی۔ ۱۹۶ ۲۷ فروری کو احمدیہ انٹرکالجئیٹ کے اجلاس میں روح کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ ۲۸ فروری کو دیال سنگھ کالج لاہور کے پرنسپل آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ ۱۹۷
ناظر اول کا تقرر
مارچ ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نظارت کے صیغوں کی مزید نگرانی خصوصاً محکمہ تجارت کی نگرانی کے لئے ناظراعلیٰ کے علاوہ ایک نیا عہدہ ناظر اول کا تجویز فرمایا۔ اور اس کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نامزد کئے گئے۔ ۱۹۸
علماء کو تبلیغ اسلام میں مقابلہ کی دعوت
قادیان کے غیر احمدی مسلمانوں نے گذشتہ سال کی طرح مارچ ۱۹۲۲ء میں بھی اپنا سالانہ جلسہ کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جلسہ پر تشریف لانے والے غیر احمدی علماء کو تحقیق حق کے لئے تبادلہ خیالات اور بالاخر مباہلہ کی بار بار دعوت دی۔ ۱۹۹ جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اپنی ایک تقریر میں یہ جواب دیاکہ میں بڑی حیثیت کا مالک ہوں اور آپ سے مخاطب ہونا بھی اپنی ہتک سمجھتا ہوں اور اس کے ثبوت میں کہا کہ کلکتہ تک آپ میرے ساتھ چلیں تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ پھول کس پر نچھاور ہوتے ہیں اور پتھروں کی بارش کس پر ہوتی ہے؟
حضرت خلیفہ ثانی نے اس کے جواب میں اشتہار دیا کہ اگر مولوی صاحب نے اپنی حیثیت کا پتہ لگانا ہے تو اس کا یہ ذریعہ ہے کہ مولوی صاحب بھی اعلان کریں اور میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک سوآدمی جو کم سے کم پچاس روپیہ ماہوار کے ملازم ہوں یا علم دین کے واقف ہوں تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اور اشاعت اسلام کے لئے چین یا جاپان یا امریکہ کی طرف نکل جائیں پھر دیکھیں کہ مولوی صاحب کی تحریک پر کس قدر آدمی اپنی نوکرں یا اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور میری تحریک پر کس قدر۔ ابھی اسی جگہ مولوی صاحب بھی اعلان کردیں اور میں بھی ابھی اعلان کرتا ہوں ابھی اس کا امتحان کر لیا جائے۔ کہ اس وقت جو ان کے ہزاروں ہم خیال جمع ہیں ان میں سے کس قدر ان کی بات مانتے ہیں اور میرے چند سو مبائع جو اس وقت موجود ہیں ان میں کس قدر میری بات کو مانتے ہیں۔
پتھر کھانے سے گویا ثابت ہوجائے گا کہ محمد رسول اللٰہ ~صل۱~ کا سچا قائم مقام کون ہے مگر اسلام کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ مگر اس تجویز سے جو میں پیش کرتا ہوں اسلام کو بھی فائدہ ہوگا۔ ۲۰۰
شیر اسلام کی یہ للکار سن کر شیر پنجاب کہلانے والے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خاموشی مناسب سمجھی۔
مجلس شوریٰ کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا۔ وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ اہم ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضور نے وسط اپریل ۱۹۲۲ء میں مستقل طور پر مجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔
مجلس شوریٰ کے قیام سے گویا جماعتی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہوگیا یعنی سب سے اوپر خلیفہ وقت ہے جو گویا پورے نظام کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس سے نیچے ایک طرف مجلس شوریٰ ہے اور اہم اور ضروری امور میں خلیفہ وقت کے حضور اپنا مشورہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی صدر انجمن احمدیہ ہے جسے نظارتوں کے انتظامی صیغہ جات چلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شوریٰ ۱۵۔۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان) ۲۰۱]ydob [tag کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں ۵۲ بیرونی اور ۳۰ مرکزی نمائندوں نے شرکت کی۔ ہال کی شمالی جانب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی میز اور کرسی تھی اور سامنے نصف دائرہ کی شکل میں نمائندے کرسیوں پر بیٹھے تھے ساڑھے نو بجے صبح کے قریب حضور نے افتتاحی تقریر فرمائی جو بارہ بجے تک جاری رہی یہ چونکہ اپنی نوعیت کی پہلی مجلس شوری تھی۔ اس لئے حضور نے تفصیل کے ساتھ اس کی ضرورت واہمیت اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور نمائندگان کو متعدد اہم ہدایات دیں جو ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ہیں ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا۔
۱۔ ہر شخص دعا کرے کہ الٰہی میں تیرے لئے آیاہوں تو میری راہ نمائی کر کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے۔ میری نیت درست اور رائے درست اور تیری منشاء کے ماتحت ہو۔
۲۔ رائے دیتے وقت صرف یہ امر مدنظر رہے کہ جو سوال درپیش ہے اس کے لئے کونسی بات مفید ہے۔
۳۔ جذبات کی بجائے ہمیشہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
۴۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ غیروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ موثر ہوں۔
۵۔ کوئی شخص پہلی بات کے محض دہرانے کے لئے کھڑا نہ ہونا چاہئے۔ ہر شخص اپنا وقت بھی بچائے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع نہ کرے۔ ۲۰۲
ان قیمتی ہدایات کے بعد حضور نے مشورہ طلب امور کی تفصیلات کاذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ’’میری طبعیت خدانے ایسی بنائی ہے کہ میں بھی سوچتا رہتا ہوں کہ کونسا کام کریں جس سے دنیا میں ہدایت پھیلے اور بعض دفعہ کوئی تجویز ایسی خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہوں اور وہ دن یا وہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لئے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام نیا جاری ہو ۔۔۔۔۔۔ میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے۔ دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کرکے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کردو۔ مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کررہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیادیں رکھیں جس کی نظر وسیع نہیں اسے تکلیف نظر آرہی ہے مگر اس کی آئندہ نسل ان لوگوں پر جو بنیادیں رکھیں گے درود پڑھیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کردے گا کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہے۔ ۲۰۳
اس تقریر کے بعد حضور نے سلسلہ کے ہر ایک صیغہ کے معاملات پر غور کرنے اور تجاویز مرتب کرنے کے لئے سات سب کمیٹیاں مقرر فرمائیں اور پہلے دن کا اجلاس ختم ہوا۔
دوسرے دن مشاورت کی کارروائی (نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے علاوہ) صبح سات بجے سے لے کر سوا دوبجے شب تک جاری رہی جس میں منتخب کمیٹیوں کی تجاویز اور احباب کی آراء پیش ہوئیں۔ اور حضور نے متعدد اہم فیصلے فرمائے۔ مثلاً۔
۱۔ غیر ممالک میں نئے مشن قائم کئے جائیں لیکن پہلے اسلامی بلاد اور جاوا اور فلپائن وغیرہ کی طرف توجہ کی جائے اور ایسے لوگ وہاں بھیجے جائیں جو اپنا گذارہ بھی کریں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی۔ ۲۰۴
۲۔ ہر جماعت میں امور عامہ کے لئے علیحدہ سیکرٹری مقرر ہو اور رشتہ ناطہ کے لئے ایک باقاعدہ رجسٹر رکھا جاوے۔
۳۔ چندہ کی وصولی کے نظام کو باقاعدہ کرنے اور نگرانی کرنے کے لئے انسپکٹر مقرر کئے جائیں۔ ۲۰۵
۴۔ جس طرح مبلغین تبلیغ کے لئے جاتے ہیںاسی طرح واعظین بھی جائیں اور جماعت کو اخلاقی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ عام دینی مسائل سے بھی آگاہ کریں۔
۵۔ جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک ہو۔ ۲۰۶
۶۔ مرکز سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا جائے۔ ۲۰۷
۷۔ جو شخص کوئی نماز مسجد میں آکر باجماعت ادا نہ کرسکے اورکسی مجبوری کی وجہ سے رہ جائے وہ مسجد میں ہی آکر نماز پڑھے تاکہ آئندہ کے لئے اس کی سستی دور ہو۔
۸۔ والدین اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرانے میں ذمہ دار ہوں اسی طرح مستورات کو پابندی نماز کی عادت ڈالی جائے۔ ۲۰۸
۹۔ دو دو یا اس سے زائد افراد کی جماعتیں بنادی جائیں جو باہمی رشتہ اخوت و محبت استوار کرکے ایک دوسرے کی اصلاح میں ممد ہوں۔
۱۰۔ مرکز سے مستورات کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے۔ ۲۰۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۰ء ۲۱۰ تک مجلس شوریٰ میں بنفس نفیس شریک ہوتے رہے ہیں اور اس عرصہ میں حضور نے جس طرح قدم قدم پر ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں جماعت کی رہنمائی فرمائی ہے اور بے نظیر فراست و ذہانت‘حیرت انگیز قوت فیصلہ اور زبردست مدبرانہ قابلیت کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور مجلس شوری کی شائع شدہ رپورٹیں جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے ایک اہم حصہ کی حامل ہیں اس امر پر شاہد ہیں اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المیسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۲ء کی شوریٰ میں بتایا تھا شوری کے فیصلے اور تمام تر کارروائی مستقبل میں قائم ہونے والی عالمگیر اسلامی نظام کے لئے سنگ بنیاد بننے والی ہے۔ جس پر دنیا کا آئندہ نظام استوار ہونے والا ہے۔
اسی لئے حضور نے ۱۹۲۸ء میں نمائندگان شوریٰ کے سامنے ارشاد فرمایا:۔
’’ ۔۔۔۔۔۔۔ آج بے شک ہماری مجلس شوری دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں کے ممبروں کو وہ درجہحاصل نہ ہوگا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی۔ پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے۔‘‘ ۲۱۱
یہ عظیم الشان پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہونے والی ہے اس پر تو مستقبل کامورخ ہی لکھ سکے گا۔ مگر ہم یہاں ایک نشان کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور وہ یہ کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مدتوں تک مجلس مشاورت میں حضور کے ساتھ بیٹھتے اور اس کی کارروائی چلانے میں مدد کرتے رہے۔ خدا کی شان دیکھو وہ فرزند احمدیت جو مجلس مشاورت میں امیرالمومنین کے پہلو میں خادمانہ حیثیت سے سلسلہ کی خدمات بجالاتا رہا۔ خدا نے اسے عالمی اسمبلی کا ۱۹۶۲ء میں صدر بنادیا۔ ۲۱۲
اچھوت اقوام میں تبلیغ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے۔ تبلیغ کے عام فریضہ کے علاوہ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنا بنائے بیٹھے ہیں۔ پس اگر ان قوموں میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو اور وہ مسلمان ہوجائیں تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپریل ۱۹۲۲ء کے آغاز میں۲۱۳ ایک سکیم کے مطابق پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرمادی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا۔ آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھنچ آئے اور بہت سے مذہبی سکھ بالیکی اور دوسرے اچھوت اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے اس رو کا سب سے بڑا زور ۲۴۔۱۹۲۳ء میں تھا۔ جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ قومیں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھائیں گی۔ مگر اس وقت بعض خطرات محسوس کرکے یہ سلسلہ دانستہ مدہم کردیا گیا اور انفرادی تبلیغ پر زور دیاجانے لگا۔اور خداکے فضل سے اس کے اچھے نتائج پیدا ہوئے۔ ۲۱۴
ابتداء میں یہ کام شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم ۲۱۵ کے ذریعہ سے مختصر پیمانہ پر قادیان سے شروع کیا گیا۔ دو ڈھائی سال میں جو اچھوت حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کے ذریعہ سے ارد گرد کے دیہات میں تبلیغی جدوجہد جاری کی گئی اور پھر پورے ملک میں ان سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ ۱۹۲۸ء سے مکرم جناب گیانی واحد حسین صاحب ۲۱۶ (سابق شیر سنگھ حال مربی سلسلہ احمدیہ) اچھوت اقوام کے طلباء کی تعلیم وتدریس کے لئے مقرر ہوئے ان کے بعد مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خاص ہدایات کے ماتحت عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا جس سے اچھوتوں کو بیدار کرنے اور انہیں اسلام کے قریب لانے میں بھاری مدد ملی اس سلسلہ میں ’’اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں‘‘ ’’اچھوتوں کی حالت زار‘‘۔ ویدشاستر اور اچھوت ادھار ’’اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہندو اقتدار کے منصوبے‘‘ (حصہ اول) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخری کتاب مشہور اچھوت لیڈر ڈاکٹر امبید کار کی فرمائش پر لکھی گئی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کردیا گیا۔ ڈاکٹر امبید کار اس لٹریچر سے بہت متاثر تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے لندن میں ایک ملاقات کے دوران میں کہا کہ اگر میں کبھی مسلمان ہوا تو احمدی جماعت میں ہی داخل ہوں گا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ہندوستان میں صوبہ پنجاب ۲۱۷ کے بعد بنگال کی طرف بھی توجہ فرمائی اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے کو ابتدائی سروے کے لئے بھجوایا۔ جنہوں نے بڑی حکمت عملی سے کام لے کر ایک مفصل سکیم پیش کی۔ ۲۱۸ جس پر وہاں بھی یہ کام ہونے لگا۔
حفظ قرآن کریم کی تحریک
اپریل ۔ مئی ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفہ ثانی نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم از کم تیس آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی اصحاب نے لبیک کہا۔ ۲۱۹
درس القرآن
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ماہ اگست ۱۹۲۲ء میں درس القرآن دیا تھا اس تاریخی درس میں جن خوش نصیب اصحاب کو شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں یہ فہرست الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۳ سے منقول ہے۔
احباب قادیان
۱۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب
۷۔ایوب خان صاحب طالب علم ہائی سکول قادیان
۲۔ چوہدری فضل احمد صاحب
۸۔ چوہدری فتح محمد صاحب ایم ۔ اے
۳۔ مولوی حافظ ابوعبید اللہ غلام رسول صاحب وزیر آبادی
۹۔مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل و منشی فاضل
۴۔ مولوی عبدالصمد صاحب پٹیالوی
۱۰۔ مولوی عبدالمغنی صاحب ناظربیت المال
۵۔مولوی غلام نبی صاحب مولوی فاضل مصری
۱۱۔ مولوی ارجمند خان صاحب مولوی فاضل
۶۔ شیخ عبدالرحمان صاحب مولوی فاضل مصری
۱۲۔اللہ دتا صاحب طلب علم مدرسہ احمد قادیان
‏a] emarf[۱۳۔ناصر الدین صاحب طلباء مدرسہ احمد قادیان
۱۴۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
۱۵۔ محمد اسماعیل صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل سکول
۱۶۔سید عنایت اللہ شاہ صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل کالج
۱۷۔ چوہدری بدالدین صاحب قادیان
۱۸۔ ماسٹر مولیٰ بخش صاحب قادیان
۱۹۔میاں عبدالغفار صاحب ابن ماسٹر مولیٰ بخش قادیان
۲۰۔ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب
۲۱۔ مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل
۲۲۔مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل
۲۳۔ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل
۲۴۔ مولوی زین العابدین صاحب ماریشسی
۲۵۔ مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی
۲۶۔ مولوی مبارک احمد صاحب مولوی فاضل
۲۷۔ مولوی محمد شہزادہ صاحب مولوی فاضل
۲۸۔ مسٹر محمد ابراہیم صاحب بی۔ایس۔ سی
۲۹۔ مسٹر غلام محمد صاحب
۳۰۔ مسٹر عبدالقدیر صاحب
۳۱۔ مسٹر مطیع الرحمان صاحب سٹوڈنٹ بی ۔ اے کلاس
۳۲۔ مولوی شیر علی صاحب بی۔ اے
۳۳۔ میر محمد اسحاق صاحب مولوی فاضل
۳۴۔ محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان
۳۵۔ ممتاز علی خان صاحب
۳۶۔ مولوی قمر دین صاحب مولوی فاضل
۳۷۔ رسائیدار خداداد خان صاحب
۳۸۔ ماسٹر عبدالرحمان صاحب بی۔اے
۳۹۔ مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل
۴۰۔ حکیم مولوی غلام محمد صاحب
۴۱۔ قاضی عبداللہ صاحب بی ۔ اے۔ بی ٹی
۲۴۔ ماسٹر محمد دین صاحب بی۔اے
۳۴۔ مولوی فضل الٰہی صاحب بھیروی
۴۴۔ ڈاکٹر عطردین صاحب
۴۵۔ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے
بیرونی احباب
۱۔ حاجی غلام احمد صاحب کریام
۲۔ مبارک اسماعیل صاحب بی۔اے ڈیرہ غازیخان
۳۔ میاں سعد الدین صاحب کھاریاں
۴۔ میاں قدرت اللہ صاحب سنور
۵۔ سید عبدالسلام صاحب بی۔اے۔ سیالکوٹ
۶۔ منشی محمد عبداللہ صاحب ریڈر سیالکوٹ
۷۔ مسٹر عطاء اللہ صاحب امرتسر
۸۔ مستری غلام نبی صاحب سیالکوٹ
۹۔ محمد حسن خاں صاحب لدہیانہ
۱۰۔ ملک حسن محمد صاحب سمبڑیال
۱۱۔میاں غلام مصطفٰے صاحب کھاریاں
۱۲۔ مولوی محمد اعظم صاحب تھہ غلام نبی
۱۳۔ میاں محمد امیر صاحب فیروز پور
۱۴۔ میاں بدر دین صاحب میڈیکل کالج
۱۵۔ مولوی محمد علی صاحب شیخوپورہ
۱۶۔ مسٹر عبدالوحید صاحب امرتسر
۱۷۔ مسٹر عبدالغنی صاحب جہلمی
۱۸۔شیخ محمد حسین صاحب انسپکٹر ڈاکخانہ جات امرتسر
۱۹۔ظہور الحسن صاحب مردان
۲۰۔ میاں غلام محمد صاحب طالب پور
۲۱۔ عالمگیر خان صاحب مردان
۲۲۔ مولوی معین الدین صاحب مردان
۲۳۔ میاں عبداللہ صاحب گولیکی
۲۴۔ مولوی فضل دین صاحب مانگٹ اونچی
۲۵۔ نیاز احمد صاحب گولیکی
۲۶۔ محمد دین صاحب میڈیکل سکول امرتسر
۲۷۔ حافظ راج علی کھاریاں
۲۸۔ نعمت اللہ صاحب گوہر لائلپور
۲۹۔ احمد یار صاحب بنگہ
۳۰۔ مہدی شاہ صاحب بیگم پورہ
۳۱۔ میاں خدابخش صاحب میانوالی
۳۲۔ عبدالرحمان صاحب کھیرانوالی
۳۳۔ مسٹر فضل کریم صاحب
۳۴۔ مخدوم محمد صدیق صاحب شاہ پور
۳۵۔ مسٹر حبیب اللہ صاحب سٹوڈنٹ لاہور
۳۶۔ شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے۔ پٹیالہ
۳۷۔ مولوی غلام مرتضیٰ صاحب ضلع گورداسپور
۳۸۔ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب غازی آباد
۳۹۔ عبدالرشید صاحب
۴۰۔ ملک مولیٰ بخش صاحب گورداسپور
۴۱۔ پروفیسر مولوی عبداللطیف صاحب چٹاگانگ
۴۲۔ ابو احمد خان صاحب بی۔اے کلکتہ
۴۳۔ عبدالسلام صاحب شملہ
۴۴۔ تقی الدین صاحب طالبعلم لاہور
۴۵۔ سید محمود اللہ شاہ صاحب طالب علم
۴۶۔ منشی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ
۴۷۔ مولوی عبدالخالق صاحب مظفر نگر
۴۸۔ مسٹر لعل دین صاحب طالبعلم لاہور
۴۹۔ بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ
۵۰۔ دوست محمد صاحب لاہور
۵۱۔ غلام فرید صاحب لاہور
۵۲۔ احمد دین صاحب طالب علم امرتسر
۵۳۔ چوہدری عصمت اللہ صاحب طالبعلم لاہور
۵۴۔ سید سردار شاہ صاحب
۵۵۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب کرم پورہ ضلع شیخوپورہ
مدراس ہائیکورٹ کا فیصلہ
مالا بار میں غیر احمدی مسلمانوں نے ایک احمدی کی بیوی کا نکاح دوسری جگہ پڑھا دیا تھا۔ مقدمہ دائر کیا گیا تو ماتحت عدالت نے انہیں بری کردیا اس پر ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کی گئی اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور سے مقدمہ کی پیروی کے لئے مدارس تشریف لے گئے اور انی بحث میں ثابت کیا کہ (۱) برطانوی عدالتوں کے مسلمہ اصول کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۲) کوئی بھی تعریف اسلام کی مستند کتب سے پیش کی جائے اس کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۳) احمدیوں کے تمام عقائد قرآن کریم کے عین مطابق ہیں (۴) احمدیوں کے متعلق یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ انہوں نے کوئی عقیدہ ایسا ترک کیا ہے جو مسلمہ طور پر جزو اسلام ہے ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ احمدیہ جماعت اسلام ہی کا ایک اصلاح شدہ فرقہ ہے جو قرآن کریم کو اپنی الہامی کتاب مانتا ہے۔ ۲۲۰
غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات کی تلقین
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ نومبر ۱۹۲۲ء کو جماعت احمدیہ کویہ تلقین فرمائی کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں سے میل جول رکھیں اور ان سے ہمدردی اور عمدہ برتائو کریں۔ اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ ان تعلقات کی وجہ سے دین میں خلل نہ آنے دیں۔ اور نہ اپنے مذہبی عقائد ان کی خاطر قربان کریں۔ ۲۲۱
‏0] ft[sتبلیغ ہدایت
۲۲۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تبلیغ ہدایت کے نام سے دسمبر ۱۹۲۲ء میں ایک اہم کتاب شائع فرمائی جس میں آپ نے مخصوص اور دلکش اور زور دار انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کو دلائل نقلیہ سے ثابت فرمایا۔ اگرچہ اس کتاب میں انہی مسائل پر آپ نے قلم اٹھایا جن پر احمدیہ لٹریچر میں بہت کچھ لکھا جاچکا تھا۔ لیکن آپ نے ہر بات اور مسئلہ میں خاص رنگ پیدا کیا۔ اور ترتیب اور طرز بیان دونوں بالکل نئے اور اچھوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ ہدایت کو اپنے فضل سے بہت مقبولیت عطافرمائی کئی لوگوں نے اس کے ذریعہ ہدایت پائی اور عموماً اپنوں اور بیگانوں دونوں میں اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور آپ کی زندگی میں ہی اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ۲۲۳ سندھی زبان والا ایڈیشن اس کے علاوہ تھا۔
لجنہ اماء اللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج
سید ناحضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں جو مجالس قائم ہوئیں وہ سب مردوں کی تھیں۔ مثلاً ’’اشاعت اسلام۔ صدر انجمن احمدیہ۔ تشحیذالاذہان۔ مجلس احباب۔ مجمع الاخوان۔ مجلس ارشاد‘‘۔ وغیرہ لیکن مستورات کی کوئی علمی دینی اور تمدنی انجمن اس وقت تک موجود نہ تھی۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے حرم دوم امتہ الحی صاحبہؓ کی ۲۲۴ تحریک پر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ ۲۲۵ جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امتہ الحی صاحبہ تھیں۔
حضرت امتہ الحی صاحبہ کے بعد یہ اہم خدمت آپ کے حرم حضرت سارہ بیگم صاحبہ اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہما کے سپرد ہوئی۔ جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی ممبرات نے حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیںاور غالباً پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا۔ لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت ام ناصرؓ کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لئے نامزد فرمادیا۔ چنانچہ حضرت ام ناصر اپنی وفات تک جو ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کو ہوئی یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں۔ اگست ۱۹۵۸ء سے حضرت ام متین صاحبہ کی صدارت میں یہ مجلس کام کر رہی ہے۔
لجنہ اماء اللہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام مندرجہ ذیل مضمون تحریر فرمایا۔
’’اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے جہاں تک میرا خیال ہے عوتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہئے۔ جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں۔
اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔
دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہوسکتاہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتاہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہوکر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔
ان امور کو مدنظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی موید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کرکے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد شروع کر دیا جائے۔
۱۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
۲۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جاسکے۔
۳۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔
۴۔
اس امر کی ضروت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں
۵۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیداہو۔
۶۔اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں۔
۷۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔
۸۔اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم ۔ آنحضرت ~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ نے مقرر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو۔
۹۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے۔ اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے۔
۱۰۔اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست۔ ہوشیار۔ تکلیف برداشت کرنے والے بنائو۔ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اورخدا ۔ رسولﷺ~ ۔ مسیح موعود ؑ۔ اور خلفاء کی محبت۔ اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔ اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔
۱۱۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔
۱۲۔چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پرہنستے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاحل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔
۱۳۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہمخیال بنائی جائیں۔ اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہواپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔
۱۴۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہوجائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔
۱۵۔چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں۔ چھوٹے بڑے۔ غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
۱۶۔اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔
۱۷۔اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔
ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں
جو ہماری پیدائش میں اس نے مدنظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکھے۔ یہاں تک اس دنیا کی عمر تمام ہوجائے۔
اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کرکے پاس کئے جارہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہر بانی کرکے اس کاغذ پر دستخط کردیں۔ بعدمیں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے‘‘۔ ۲۲۶
‏rov.5.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا نواں سال
اس ابتدائی تحریک پر (جو محض رضاکارانہ رنگ کی تھی) قادیان کی تیرہخواتین نے دستخط کئے ۔
حضور کے فرمان پر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت ام المومنین کے گھر میں جمع ہوئیں حضور نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی۔ اور لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس تقریر میں حضور نے لجنات کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیئے۔ اور نصائح فرمائیں۔ ۲۲۷
اس اجلاس اول کے بعد لجنہ اماء اللہ کے مفصل قواعد رسالہ تادیب النساء میں (جوقادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا) شائع کردیئے گئے۔ اور اس طرح باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ ۲۲۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے لجنہ کے اغراض ومقاصد جلد سے جلد پورا کرنے کے لئے اور احمدی مستورات کی اصلاح و تنظیم کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ لجنات کے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور فروری اور مارچ ۱۹۲۳ء کے تین اجلاسوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضور نے خدمت دین کا عملی جوش پیدا کرنے کے لئے تعمیر مسجد برلن کی ذمہ داری بھی احمدی مستورات پر ڈالی۔ اور اس کے لئے چندہ کی فراہمی کا کام ’’لجنہ اماء اللہ کے سپرد فرمایا‘‘۔۲۲۹ (لجنہ اماء اللہ نے اس عظیم الشان تحریک کے کامیاب بنانے میں جس جذبہ ایثار وفدائیت کا ثبوت دیا اس کی تفصیل ایک مستقل عنوان کے تحت اگلے صفحات میں آرہی ہے)۔
دوسال بعد حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی نے خواتین میں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے ۱۷ مارچ ۱۹۲۵ء کو مدرستہ الخواتین جاری فرمایا۔ جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ سابق مبلغ ماریشس اور دوسرے اصحاب کے علاوہ خود حضور تعلیم دیتے تھے۔۲۳۰ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اس مدرسہ کے نگران تھے۔ اس مدرسہ نے خواتین کے علمی و تنظیمی خلاء کو پر کرنے میں بڑا کام کیا۔ اور خواتین کے مرکزی اداروں اور درسگاہوں کے لئے معلمات اور کارکنات پیدا ہوگئیں۔
۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ ’’مصباح‘‘ جاری ہوا جس سے احمدی خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پہنچی۔ ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے مگر مئی ۱۹۴۷ء۲۳۱ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کو سونپ دیا گیا جس سے رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اور اب یہ جماعت کی مستورات کے واحد ترجمان کی حیثیت سے سلسلہ کی خدمت بجا لارہا ہے۔
۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء کو حضرت امتہ الحی صاحبہ کی یاد میں ’’امتہ الحی لائبریری‘‘ کا افتتاح ہوا اور اس کی نگرانی حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو تفویض ہوئی۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی لجنہ کے کام کے لئے وقف رکھی۔ افتتاح پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت ام المومنینؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد نے کتابیں عنایت فرمائیں۔ یہ لائبریری حضرت خلیفہ ثانی کی اجازت خاص سے گول کمرہ میں قائم ہوئی۔ ۲۳۲ ۱۹۴۷ء کے بعد اس لائبریری کا احیاء جنوری ۱۹۶۰ء کو ربوہ میں ہوا۔ ۲۳۳
جولائی ۱۹۲۸ء میں صاحبزادی امتہ الحمید صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کی کوشش سے چھوٹی بچیوں کی لجنہ قائم ہوئی ۲۳۴ اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی۔ اسی سال احمدی مستوارات نے ’’سیرت النبیﷺ‘‘~ کی تحریک کو بھی کامیاب بنانے میں حصہ لینا شروع کیا۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر سابق انچارج احمدیہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ ’’میری شادی سے قبل جو ۱۹۳۹ء میں ہوئی میری اہلیہ امتہ الحفیظ صاحبہ اور ان کی چھوٹی بہن امتہ الحی صاحبہ کئی مہینے تک حضرت سیدہ ام طاہر (خداتعالیٰ ان سے راضی ہو) کے ہاں مقیم رہیں۔ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ نے اپنی حقیقی والدہ کی وفات کے بعد اسی گھر میں پرورش پائی۔ میری اہلیہ صاحبہ اور امتہ الحی صاحبہ کی علی الترتیب دونوں صاحبزادیوں کے ساتھ بہنوں کی طرح کے تعلقات تھے جس کا ذکر حضرت امام جماعت نے میرے نکاح میں بھی فرمایا ان کے ہاں میرا آنا جانا پردہ کے اسلامی احکام کی پوری پابندی کے ساتھ اکثر ہوتا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں صاحبزادی سیدہ امتہ الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ ذکر فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی بنیادوں پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہئے۔ چنانچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ ایسی تنظیم کا اعلان فرمانے کے لئے صاحبزای موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور کی خدمت میں درخواست کریں اور یہ بھی گذارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرمائیں۔ اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقعہ ملا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ اور خاکسار نے کچھ قیاس آرائی بھی کی کہ حضور اس تنظیم کا کیا نام تجویز فرمائیں گے۔ حسن اتفاق سے ایک نام ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ بھی ذہن میں آیا بہرکیف صاحبزادی موصوفہ کے حضور کی خدمت میں درخواست کے جلد بعد ہی حضور نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اسکا نام ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ تحریر فرمایا اور اس طرح اس تنظیم کی ابتداء ہوئی۔
صاحبزادی سیدہ امتہ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ مستحق صد مبارک ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ مبارک تحریک ڈالی اور ان کی کوششیں مثمر ہوئیں فالحمد لل¶ہ علی ذالک۔
۱۹۳۰ء میں لجنہ کو مجلس شوریٰ میں نمائندگی کا حق ملا جولائی ۱۹۳۱ء میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو الجنہ نے اسے کامیاب بنانے کے لئے چندہ دیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یکم اپریل ۱۹۳۸ء کو حکم دیا کہ جہاں جہاں لجنہ ابھی قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریںاور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیرز سمجھیں۔ ۲۳۵
ماہ اپریل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو الہام ہوا ۔ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی۔ ۲۳۶ اس خدائی تحریک پر حضور لجنہ اماء اللہ کی تربیت و تنظیم کی طرف اور زیادہ گہری توجہ فرمانے لگے۔
۱۹۴۶ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے سلسلہ میںقادیان کی احمدی خواتین نے اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر حضور نے فرمایا کہ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے۔اور بار بار جماعت کے سامنے لایا جائے انہوں نے بے نظیر قربانی اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل آئی ہیں۔ ۲۳۷
۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہوگیا اور ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم معطل سی رہی۔ مگر جونہی حالات کچھ سدھرنے لگے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہاتھوں جماعت کا نیا مرکز ربوہ تعمیر ہونا شروع ہوا تو لجنہ کی دینی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں۔ چنانچہ ۱۹۵۰ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تحریک وقف زندگی پر مستورات نے لبیک کہا ۱۹۵۱ء میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا دفتر بنا۔ ۱۹۵۵ء میں ان کے چندوں سے ہالینڈ کی مسجد تعمیر ہوئی۔ ۹ دسمبر ۱۹۵۷ء کو فضل عمر جونئیر ماڈل سکول کا اجراء ہوا۔ جو حضرت سیدہ ام امتہ المتین کی ذاتی نگرانی اور دلچسپی کے باعث آٹھویں جماعت تک ترقی کرگیا ہے اس سکول کے علاوہ گھٹیالیاں۔ ہلال پور اور چک منگلہ میں بھی سکول جاری ہوچکے ہیں۔
یہ اجمالی خاکہ ہے ان خدمات کا جو لجنہ اماء اللہ نے انجام دی ہیں۔ لجنہ کی تحریک اب عالمگیر تنظیم بن چکی ہے۔ جس کی شاخیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں ہیں بلکہ کینیا‘یوگنڈا‘ٹانگا نیکا۔ غانا۔ نائیجیریا۔ ماریشس۔ سائوتھ افریقہ۔ امریکہ۔ لنڈن اور انڈونیشیا تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ ۲۳۸ اور اس کے کام کی وسعت روز بروز بڑھتی جارہی ہے لجنہ اماء اللہ نے غیروں پر بھی اپنی غیر معمولی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا ہے اس سلسلہ میں ہم دو اقتباسات تحریر کرکے آگے چلیں گے۔
۱۔ مولوی عبدالمجید صاحب قریشی ایڈیٹر اخبار تنظیم امرت سر نے لکھا ’’لجنہ اماء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام احمدیہ خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کردیا ہے عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پرجوش ہونگی اور احمدیہ عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا۔‘‘۲۳۹
ایک کٹر آریہ سماجی اخبار ’’تیج‘‘ (۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء) نے رسالہ مصباح پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عوتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بندرہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہوجائے گی۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ عوتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کررہی ہے اور ان میں مذہبی احساس اور تبلیغی جوش کس قدر ہے ہم استری سماج قائم کرکے مطمئن ہوچکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہوناچاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے۔ مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی عورتیں ہندوستان ‘افریقہ ‘عرب ‘مصر ‘یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع کر دیا۔‘‘ ۲۴۰
نجات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ء کی تقاریر میں جماعت احمدیہ کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد مسئلہ نجات پر روشنی ڈالی اور اس کے مختلف اہم پہلوئوں کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا اگلے سال ۱۹۲۳ء کے سالانہ جلسہ پر بھی حضور نے اسی مضمون کا دوسرا حصہ بیان فرمایا جس میں مسئلہ کفارہ کے دلائل اور تفصیلات غیر معمولی وسعت اور انتہائی باریک نظری سے پیش فرمائے ان کا تجزیہ کرکے اس مسئلہ کا بے بنیاد ہونا ثابت کیا ۔ ۲۴۱ پہلا حصہ ’’نجات‘‘ ہی کے نام سے چھپ چکا ہے مگر دوسرا ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔
۱۹۲۲ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا مبشر احمد صاحب پیدا ہوئے۔ ]01 [p۲۴۲
۲۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حفظ قرآن کی تکمیل کرلی۔ آپ کے حفظ قرآن کی تاریخ ’’حافظ قرآن‘‘ نکلی۔۲۴۳
۳۔ مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ‘مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی ‘مولوی ظہور حسین صاحب‘مولوی محمد شہزادہ خان صاحب اور مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی نے مبلغین کلاس کا امتحان (فزیالوجی۔ ’’ہدایات زریں)‘‘ پاس کیا۔ ۲۴۴
۴۔ حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی اور حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کا انتقال ہوا۔
۵۔ پشاور کے علاقہ جہانگیر پورہ محلہ گل بادشاہ میں احمدیہ مسجد تعمیر ہوئی۔ ۲۴۵ جس میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب (مردان) کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔
۶۔ قادیان سے ایک انگریزی اخبار ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے ۲۰ مئی ۱۹۲۲ء کو جاری ہوا۔ ۲۴۶ جس کے ایڈیٹر اور مینجر چودھری غلام محمد صاحب بی۔اے سیالکوٹی مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول تھے۔ البشریٰ جو دستی پریس پر چھپتا تھا کچھ مدت چل کر بند ہوگیا۔
۷۔ وسط ۱۹۲۲ء میں ذوالفقار علی خان صاحب (ایڈیشنل سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) نے وائسرائے ہند کی خدمت میں لکھا کہ رمضان میں مسلمان قیدیوں کو مشقت سے مستثنیٰ کیا جائے یا برائے نام مشقت لی جائے اور نماز تراویح کے لئے قرآن مہیا کئے جائیں ۔۲۴۷اس درخواست پر سب سے پہلے جس صوبہ نے مسلمان قیدیوں کے لئے اس نوع کی سہولت مہیا کرنے کا اعلان کیا وہ صوبہ بہار تھا۔ ۲۴۸
۸۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے میاں عبدالسلام صاحب عمر کا نکاح چودھری ابو الہاشم خاں صاحب ایم۔ اے کی دختر محمودہ صاحبہ کے ہمراہ پڑھا۔ ۲۴۹
۹۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں تقاریر کی مشق کے لئے ایک انجمن قائم ہوئی جس کے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحب اورسیکرٹری سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مقرر ہوئے۔ ۲۵۰
۱۰۔ مدرسہ احمدیہ میں حافظ کلاس کھولی گئی۔۲۵۱
۱۱۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ نوشہرہ ۲۵۲ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ گیان بھکشو کے درمیان) ہوا۔ مباحثہ دہلی ۲۵۳ (حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری ۲۵۴ اور پادری احمد مسیح کے درمیان) مباحثہ لاہور ۲۵۵ (بابو عبیداللہ صاحب احمدی اور پادری چنن خاں کے درمیان) مباحثہ امرت سر ۲۵۶ (آریوں سے ہوا۔ احمدی مناظر حصرت حافظ روشن علی صاحب اور مولانا جلال الدین شمس تھے)
حواشی
۱۔ ]h2 [tag تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع سوم) صفحہ ۲۴۷۔ ۲۵۰
۲۔ بیروز لیکچرز صفحہ ۴۲
۳۔ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۲
۴۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی صفحہ۵۰ (مرتبہ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی) مطبوعہ ۱۹۴۶ء طبع اول و الفضل ۳۔ مئی ۱۹۲۰ء صفحہ ۲ و ۲۸۔ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۔ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۱۲
۶۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی۔ صفحہ۵۱
۷۔h2] gat[ الفضل ۱۴ جون ۱۹۲۰ء صفحہ۴
۸۔ اس عمارت کو بعد میں مسجد کی شکل دے دی گئی اور اب یہ مسجد شگاگو کے نام سے مشہور ہے۔
۹۔ الفضل ۷/۴ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱
۱۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴
۱۱۔ رپورٹ سالانہ ۳۵۔۱۹۳۴ء صفحہ ۴۴۔۴۵۔
۱۲۔ الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۴
۱۳۔ پنوراما ۳ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ۸
۱۴۔ ریڈرز ڈائجسٹ (امریکن ایڈیشن) ستمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۲۔۵۳ بحوالہ انصار الل¶ہ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۴۲۔۴۳
۱۵۔ تنظیم ۲۸ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۔۶ بحوالہ تاثرات قادیان۔
۱۶۔ الفضل ۱۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۱۷۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۱۸۔ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔۴
۱۹۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۵۔۶
۲۰۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۷
۲۱۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۸
۲۲۔ افضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔ قیام لاہور کے دوران میں حضور نے کئی لوگوں مثلاً مسٹر رچرڈ پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو ملاقات کا موقع دیا اور دینی مسائل پر ان سے گفتگو فرمائی (الفضل ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۲)
۲۳۔ الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۲۴۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۱
۲۵۔ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۲
۲۶۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۸۔۱۱
۲۷۔ الفضل ۱۴/۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۔ ان میں سے ایک حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب اور دوسرے بابوعبدالمجید صاحب آڈیٹر ریلوے۔
۲۸۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱۔۱۲
۲۹۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۲
۳۰۔ الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۳۱۔ الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ۲۶
۳۲۔ حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے کے لئے خود قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ (جو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے) کی خدمت میں آپ کو لیکر حاضر ہوئے چنانچہ آپ نے ان کو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل کردیا۔
۳۳۔ الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ج
۳۴۔ الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ۴
۳۵۔ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۴
۳۶۔ مفصل معاہدہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۰ء صفحہ ۸۔۹
۳۷۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ۱
۳۸۔ یہ دونوں جماعتیں ۱۹۱۹ء میں معرض وجود میں آئی تھیں ان کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مرزا محمد دہلوی اپنی کتاب مسلمانان ہند کی حیات سیاسی میں مفصل لکھتے ہیں۔ ہندوئوں کو نئی حکومت کے زیر سایہ اپنی مضبوط قومی تعمیر کے لئے ملک پر زیادہ سے زیادہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش تھی اور اسی کے لئے انہوں نے جدوجہد شروع کردی مسلمانوں کا پرجوش طبقہ جو پہلے ہی جذبات سے مغلوب ہورہا تھا۔ یہسمجھا کہ یہ آزادی کی جنگ ہے بلا کسی شرط کے اس جدوجہد میں ہندوئوں کے ساتھ ہوگیا۔ ہندوئوں نے اس نئی طاقت کا خیر مقدم کیا اور بڑے سلیقہ سے اپنے مقصد کے آلہ کار بنالیا۔۔۔۔۔۔ خلافت کمیٹی کانگریس کا ایک جزو بن گئی تھی اور جمعیہ العلماء کی حیثیت ان دونوں جماعتوں کے مذہبی نقیب کی سی تھی کانگریس کوئی نئی تحریک وضع کرتی خلافت کمیٹی اس پر عمل کرنے کو میدان میں اتر آتی اور جمعیتہ العلماء اس تحریک کو قرآن و احادیث کے مطابق ثابت کرکے فتوے سے شائع کیا کرتی (صفحہ ۱۰۴‘۱۰۵ ‘۱۱۴)
اس حقیقت کی روشنی میں یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ تحریک خلافت کے اصل خدوخال کیا تھے؟ جناب ابوالکلام آزاد جو خلافتی لیڈروں کے سرخیل تھے۔ خود ہی انکشاف فرماتے ہیں کہ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگلا قدم کیا ہو۔ ایک میٹنگ ہوئی جس میں مسٹر شوکت علی۔ حکیم اجمل خاں اور مولوی عبدالباری فرنگی محل بھی شریک تھے گاندھی جی نے اپنا پروگرام ترک موالات سے متعلق پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وفود اور عرضداشتوں کے دن ختم ہوگئے۔ ہم کو حکومت کے ساتھ نصرت و اعانت کے تمام تعلقات منقطع کردینے چاہیں۔ گاندھی جی نے میری طرف دیکھا میں نے ایک لمحے کی جھجک کے بغیر کہا کہ مجھے یہ پروگرام منظور ہے اگر لوگ واقعی ترکی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو گاندھی جی کے پروگرام کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کچھ ہفتوں کے بعد خلافت کانفرنس میرٹھ میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور سے گاندھی جی نے اعلانیہ پبلک پلیٹ فارم سے ترک موالات کا پروگرام پیش کیا ان کی تقریر کے بعد میں نے ان کی مکمل تائید کی (انڈیا ونس فریڈم۔ صفحہ ۹۔۱۰ بحوالہ تقسیم ہند از عبدالوحید خاں صفحہ۵۰۔۵۲) نیز لکھتے ہں جہاں تک اس تحریک کا تعلق ایک ملکی مسئلہ سے ہے وہاں تک کہاں جاسکتا ہے کہ اس مسئلے کے محرک چند رفقا تھے میں نام لونگا مہاتما گاندھی کا وہ تحریک کے اولین اور سب سے بڑے بزرگ تھے جنہوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا تھا۔ ایضاً صفحہ ۵۵۔
۳۹۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۴۰۔ الفضل ۷ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔۸ اس مضمون کاانگریزی ترجمہ بھی شائع کر دیا گیا تھا۔
۴۱۔ الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء صفحہ ۸
۴۲۔ الفضل ۲ اگست ۱۹۲۰ء صفحہ۱ ‘۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۴۳۔ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۲
۴۴۔ الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء (اس نمبر میں سب حضرات کی نظمیں چھپ گئی تھیں)۔
۴۵۔ الواح الہدیٰ (شائع کردہ مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان)
۴۶۔ ملاحظہ ہو سرورق ۴۔ سیرت خاتم النبین حصہ دوم طبع اول۔
۴۷۔ ]2h [tag سیرت خاتم النبین حصہ اول طبع دوم (سرورق)
۴۸۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا عبدالمجید صاحب سالک کی کتاب سرگزشت صفحہ ۱۱۶۔۱۱۷
۴۹۔ ترک موالات اور احکام اسلام طبع اول صفحہ۸۵۔۸۶
۵۰۔ اخبار اتفاق و ذوالفقار بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۳۹۔ ۱۴۰ (از سید طفیل محمد شاہ صاحب) بخاری صاحب اور دوسرے خلافتی لیڈروں نے جیل میں کیا کیا کارنامے انجام دیئے ان کی تفصیل سرگزشت صفحہ ۱۶۰۔۱۶۷ (ازمولانا سالک) سوانح سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری ۔ (از شورش) صفحہ ۶۵۔۷۳ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۶‘۷ میں ملاحظہ ہوں بخاری صاحب نے بیرونی سنسر شپ سے بچنے کے لئے اپنا نام پنڈت کرپارام برہمچاری لکھنا شروع کردیا تھا (سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از شوزش) صفحہ ۷۳ مولوی سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نظر بند تو نہیں ہوئے البتہ انہوں نے سیرت گاندھی پر ایک کتاب لکھی جو ضبط کرلی گئی۔ (نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ۱۲۸۹)
۵۱۔ تقاریر مولاناظفر علی خاں۔ صفحہ۵۹۔۶۱
۵۲۔ تقاریر مولانا ظفر علی خاں صفحہ۶۴
۵۳۔ حیات محمد علی جناح صفحہ۱۰۸ دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۰۸
۵۴۔ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۰۹
۵۵۔ سرگزشت صفحہ ۱۱۶۔ عامتہ المسلمین نے تو یوں اپنے ہاتھوں اپنا گھر بارتباہ و بروباد کیا۔ مگر خلافتی لیڈروں نے یہ قربانی کی کہ وہ لاکھوں روپے جو مسلمانوں نے خلافت کی بحالی کے لئے چندہ میں دیئے تھے ہضم کرگئے چنانچہ جب مولانا محمد علی صاحب جیل سے رہا ہوئے تو خلافت کا خزانہ خالی ہوچکا تھا۔ (سیرت محمد علی صفحہ ۴۷۸۔۴۷۹۔ از سید رئیس احمد صاحب جعفری) طبع دوم ۱۹۵۰ء
۵۶۔ تبرکات آزاد صفحہ۲۲۶۔۲۲۷۔ (مولاناآزاد کے مکاتیب ومقالات کا مجموعہ مرتبہ جناب غلام رسول صاحب مہر)
۵۷۔ خودنوشت سوانح عمری مشمولہ ’’مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘ صفحہ۴۳۔
۵۸۔ بحوالہ تحریک اسلامی صفحہ ۸۶۔ مرتبہ خورشید احمد شائع کردہ ادارہ چراغ راہ کراچی۔
۵۹۔ ایضاً صفحہ ۲۴۷۔
۶۰۔ الفضل ۵۔۹ اگست ۱۹۲۰ء صفحہ ۱‘الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۶۱۔ الفضل ۹/۸ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
‏]1h [tag۶۲۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۶۳۔ ریویو آف ریلیجز اردو مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱۳
۶۴۔ الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۲۰ء صفحہ۳
۶۵۔ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۸
۶۶۔ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱
۶۷۔ الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۸
۶۸۔ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ۷
۶۹۔ الحکم ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۰ء صفحہ۲۔۳۔
۷۰۔ الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۳
۷۱۔ h2] gat[ مطبوعہ ہے۔
۷۲۔ الفضل ۳۱ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۶
۷۳۔ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشاورت ۱۹۴۲ء میں اپنی جماعت کے ہندومت اور سکھ مذہب کے فاضلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مہاشہ محمد عمر صاحب کے قادیان آنے کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ’’ہندوعلوم اور لٹریچر کے کئی لوگ ہمارے پاس موجود ہیں ۔۔۔۔مولوی عبداللہ ناصر الدین صاحب ہیں جو دید بھی پڑھے ہوئے اور اعلیٰ ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔۔۔۔ سکھوں کے متعلق واقفیت رکھنے والے کئی لوگ ہیں گیانی عباد اللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب اور ان کے علاوہ سردار محمد یوسف صاحب جو سکھوں کی کتب اور لٹریچر کے پرانے ماہر ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے دیر سے بہت مفید کام کررہے ہیں غالباً ۱۹۲۲ء کی بات ہے کہ مہاشہ محمد عمر صاحب ہندوطالبعلموں کی ایک پارٹی کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے گوروکل کانگڑی کے ایک پروفیسر صاحب یہاں ایک جلسہ پر آئے تھے اور اپنی بہادری دکھانے کے لئے آئے کہ دیکھو میں کیسی اچھی تقریر کرتا ہوں طالب علموں کی ایک پارٹی کو بھی ساتھ لے آئے۔ انہوں نے طلبہ کو مجھ سے ملنے کو بھی بھیجا۔ اس وقت مہاشہ محمد عمر بھی ان کے ساتھ تھے میں نے طالب علموں سے کہا پروفیسر صاحب سے کہو کہ آپ اپنے چند طالب علم یہاں بھیج دیں میں خود ان کو قرآن پڑھائوں گا اسی طرح میں چند طالبعلم بھیجتا ہوں جن کو وہ وید پڑھائیں۔ خرچ اپنے طالب علموں کا بھی اور ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کا بھی میں ہی دونگا۔ اگر قرآن کریم میں تاثیر ہوگی تو ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کو میں مسلمان کرلوں گا اور اگر ویدوں میں تاثیر ہوگی تو ہمارے طالب علموں کو وہ ہندوکرسکیں گے۔ اور یہ ہم دونوں کا انعام ہوگا۔ مگر انہوں نے اس تجویز کو نہ مانا۔ مہاشہ محمد ¶عمر صاحب بھی اس پارٹی میں تھے ان کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ چند دنوں کے بعد بھاگ کر یہاں آگئے انہوں نے گو جوانی یہاں گزاری ہے مگر بچپن میں وہ ہندوئوں میں رہے ہیں اور وہیں پڑھتے رہے ہیں اس لئے ان کا لب ولہجہ ہندوانہ ہے ان کے علاوہ مہاشہ فضل حسین صاحب ہیںوہ شاید سنسکرت تو نہیں جانتے مگر ہندو لٹریچر سے اچھے واقف ہیں‘‘۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صفحہ ۲۹۔۳۰)
۷۴۔
تفصیل کے لئے دیکھیں ’’ہدایات زریں‘‘
۷۵۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخرب الکعبہ ذوالسویقتین من الحبشہ‘‘ (صحیح مسلم جلد دوم مصری صفحہ ۳۱۹)
۷۶۔ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۴۔۵
۷۷۔ الفضل ۷ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ۹
۷۸۔ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۶
۷۹۔ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۶۔۷۔ مسٹر خیرالدین صاحب عرصہ سے سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کررہے تھے اب حضرت نیر صاحب کی آمد پر انہوں نے بیعت کرلی اس طرح سیرالیون میں احمدیت کا بیج بویاگیا۔ سیر الیون کا سولہ سال بعد مستقل دارالتبلیغ ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا جس کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں۔
۸۰۔ الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۸۱۔ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۱ء
۸۲۔ ابتداء میں جب مغربی افریقہ کے بعض مسلمانوں نے حضرت نیر صاحب سے ملاقات کی تو کہا کہ آج تک لوگ ہم پر ہنستے تھے کہ سفیدآدمی مسلمان نہیں ہوتے الحمدلل¶ہ کہ اب سفید آدمی مبلغ اسلام ہوکر یہاں آگیا ہے (الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ۲
۸۳۔ چیف مہدی کی جائے رہائش کا مقام
۸۴۔ نائیجیریا کی دو قومیں اولاً اسلام میں داخل ہوئیں ہوسا جو عرب مخلوط نسل سے ہیں۔ یو ربا جو حبشی النسل ہیں ہو ساقدامت پسند مسلمان ہیں اور یوربا مہذب اور تجارت سے شغل رکھتے ہیں۔
۸۵۔ اس زمانہ میں سیرالیون گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ایک بھی مسلمانوں کا ایسا مدرسہ نہیں تھا جس میں جدید طرز کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مسلمانوں کے جو بچے ذرا انگریزی پڑھ لیتے وہ عیسائی ہوجاتے تھے ۔
۸۶۔ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۱ صفحہ۳۔۶
۸۷۔ افریقہ میں جماعت احمدیہ کو عیسائیت کے مقابل شاندار فتوحات کی خبر پڑھ کر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں خط لکھا کہ بے اختیار زبان سے الحمداللہ نکلا۔ افریقہ میں عیسائیت کے مقابلہ میں مرزائیت کی فتح یقیناً ہر مسلمان کو اچھی معلوم ہوگی بشرطیکہ وہ حاصل مقصد کو سمجھتا ہو میں آپ کے عقیدہ کے اب تک دل سے مخالف ہوں مگر امریکہ یورپ اور افریقہ میں آپ کے آدمیوں کے ذریعہ جو کچھ کام ہورہا ہے اس کا اعتراف کرنا اور اس کے نتائج سے مسرور ہونا لازمی سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے دین کا اس سے زیادہ بول بالا کرے۔ (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۹)
۸۸۔ الفضل ۹/۱۲ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔
۸۹۔ الفضل ۸ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ ۳۔
۹۰۔ یہ لوگ پنجاب کے چکڑالوی نہیں ان کا دوسرے مقامی مسلمانوں سے اختلاف صرف یہ تھا کہ تفسیر جلالین قرآن پر مقدم نہیں ہے۔
۹۱۔ الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ۷
۹۲۔ حضرت خلیفہ ثانی نے نیر صاحب کو افریقہ میں بیعت لینے کی اجازت دی تھی (الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۷)
۹۳۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۔
۹۴۔ الفضل ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ ۴
۹۵۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۹۶۔ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۲
۹۷۔ الفضل ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۹۸۔ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۷
۹۹۔ الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔۲
۱۰۰۔ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۰۱۔ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔۱۲ اس مدرسہ کی مستقل عمارت کا افتتاح ۱۹۲۸ء میں ہوا۔ اس تقریب پر مسٹر ہنری کار (RRHENRYCA۔)MR پہلے نائیجیرین ریذیڈنٹ نے نائیجیریا میں مسلمانوں کی تعلیم کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا نائیجیریا کے مسلمانوں نے ڈاکٹر ای۔ ڈبلیو بلائڈن کے مشورہ پر ۱۸۹۶ء میں لیگوس محمڈن سکول جاری کیا جسے نائیجیرین مسلمان حکومت کی امداد اور سرپرستی کے باوجود زیادہ لمبے عرصہ تک قائم نہ رکھ سکے۔ اوربالاخر حکومت کو کلی طور پر اپنی تحویل میں لینا پڑا تحویل میں لینے سے قبل حکومت نے مسلمانوں کو بار بار توجہ دلائی کہ وہ اسلامی سکول کھولنے کی کوشش کریں لیکن کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی حتیٰ کہ ۱۹۲۲ء میں مسلمانوں کے احمدیہ فرقہ نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی تحریک پر تعلیم الاسلام سکول قائم کیا اس طرح صحیح معنوں میں یہاں سب سے پہلا مسلم سکول کھولنے کا فخر جماعت احمدیہ کو حاصل ہوا (ترجمہ) (ریویو آف ریلیجنز انگریزی ۱۹۲۸ء صفحہ۲۱۔۲۵)
۱۰۲۔ (الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔۲
۱۰۳۔ الفضل ۵ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲
۱۰۴۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۳ء صفحہ ۱۵۷
۱۰۵۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۲۔۱۵۳
۱۰۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۱۵۶۔
۱۰۷۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۷۸
۱۰۸۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۴۔ ۳۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۷۸۔ ۸۶۔
۱۰۹۔ رپورٹ سالانہ ۳۸۔۱۹۳۷ء صفحہ ۳۳
۱۱۰۔ اس کی بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رکھی تھی۔
۱۱۱۔ یہ لوگ جناب محمد بشیر صاحب شاد کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے تھے۔
۱۱۲۔ یہ تقریر آپ نے لیگوس کی احمدیہ مسجد میں کی تھی؟ جبکہ شمالی علاقہ کے لوکل چیف پہلی دفعہ نائیجیرین پارلیمنٹ کے اجلاس میں شمولیت کے لئے لیگوس تشریف لائے تھے اور جماعت احمدیہ نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ اجلاس منعقد کیا تھا۔
۱۱۳۔ بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶۷ (از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب)۔
۱۱۴۔ بحوالہ اسلام کا غلبہ (ازمولانا جلال الدین صاحب شمس صفحہ ۵۲۔۵۳
۱۱۵۔ ایضاً
۱۱۶۔ بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۱۲ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ) روزنامہ ڈیلی ٹائمز ۲۳ فروری ۱۹۵۵ء (ترجمہ)
۱۱۷۔ رسالہ لائف امریکہ ۸ اگست ۱۹۵۵ء (ترجمہ)
۱۱۸۔ اہل گولڈ کوسٹ نے ۱۹۶۰ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد اپنے ملک کا نام (غانا) رکھ لیا۔
۱۱۹۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۱۵۱۔
۱۲۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ۳۷۔
۱۲۱۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲۔۱۸۳
۱۲۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲۔۱۸۳
۱۲۳۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۱۵۱
۱۲۴۔ رپورٹ سالانہ ۳۲۔۱۹۳۳ء صفحہ۱۵۵۔۱۵۷۔
۱۲۵۔ رپورٹ سالانہ ۳۵۔۱۹۳۶ء صفحہ۳۵
۱۲۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۶۔۱۹۳۷ء صفحہ۴۱ ۔ ۴۳ اسکی تکمیل مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے زمانہ میں ہوئی اور افتتاح ۲۷ جنوری ۱۹۴۱ء کو عمل میں آیا۔
۱۲۷۔ ایضاً
۱۲۸۔ رپورٹ سالانہ ۳۸۔۱۹۳۷ء صفحہ ۳۴
۱۲۹۔ ۱۵ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۳۰۔ ملاحظہ ہو صفحہ ۱۲۱۔ ۱۷۷
۱۳۱۔ کرائسٹ آر محمد (مولفہ ایس۔ جی ولیم سن پروفیسر یونیورسٹی کالج غانا) مطبوعہ غانا بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں۔ صفحہ۷
۱۳۲۔ افتتاحی ایڈریس تبلیغی نمائش برموقع سالانہ کانفرنس غانا ۱۹۶۲ء
۱۳۳۔ بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ۲۲ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید ربوہ)
۱۳۴۔ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۔ خطبہ نکاح کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء۔
۱۳۵۔ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۳۶۔ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۴۔۵۔ زیادہ تفصیل کے لئے دیکھیں تابعین اصحاب احمد جلد سوم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔اے۔ قادیان۔
۱۳۷۔ الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۳۸۔ الفضل ۷۔۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء (والد صاحب (صفحہ ۵۳۔۵۴) از مولانا عبدالرحیم صاحب درد)
۱۳۹۔ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۔۴ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۳
‏h1] g[ta۱۴۰۔
مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴۔۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۴۱`۱۴۲۔ مولویوں نے اپنے جلسہ میں یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو ان کی قبر کھود کر دکھائی جائے اگر وہ نبی ہیں تو ان کی لاش محفوظ ہوگی۔ حضور نے جواب دیا کہ قرآن و حدیث سے نبوت کے اس معیار کی تائید میں کوئی دلیل پیش کریں پھر ہزارہا نبیوں کی قبریں دکھا کر اس کا عملی ثبوت بہم پہنچادیں اس کے بعد ہم ان کا مطالبہ پورا کرکے حضور کی سچائی ثابت کر دکھائیں گے۔
۱۴۳۔ الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۱ء صفحہ۶
۱۴۴۔ الفضل ۲۷ جون ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۵۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۶۔ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۷۔ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۱۴۸۔ آئینہ صداقت صفحہ۲۰۳
۱۴۹۔ الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۰۔ الحکم ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۱۵۱۔ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۱ء
۱۵۲۔ الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۵۳۔ الفضل ۳ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۴۔ الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۱
۱۵۵۔ الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۶۔ مطبوعہ ہے (الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱۳
۱۵۷۔ آپ واقف زندگی تھے اور عہدیہ تھا کہ کوئی خرچ سلسلہ سے نہیں لیں گے اسلئے آپ کے والد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ایک ہزار روپیہ نظارت دعوت و تبلیغ کوبھجوادیا۔ (قادیان صفحہ۲۸۴ از شیخ محمود احمد عرفانی)
۱۵۸۔ الحکم ۷ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحہ۶
‏h1] gat[۱۵۹۔ ایضاً۔
۱۶۰۔ نجات صفحہ ۶ (لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سالانہ جلسہ) ۱۹۲۲ء
۱۶۱۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۱۶۲۔ قادیان صفحہ ۲۸۴ (از محمود احمد صاحب عرفانی) آپ دوبارہ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۴ء تک مصر میں مقیم رہے اور ’’العالم الاسلامی‘‘ کے نام سے اخبار شائع کرتے رہے۔
۱۶۳۔ آپ نے ۱۹۶۳ء میں وفات پائی۔
۱۶۴۔ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مباحثہ پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا تھا مناظرہ توخیر کا سرصلیب کے شاگرد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہونا ہی تھا مگر مجھے اس مناظرہ کی روداد پڑھنے سے حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس مختصر سے مناظرہ میں کتنا مواد بھر دیا ہے یہ مناظرہ یقیناً ان احمدی مبلغوں کے بہت کام آسکتا ہے جن کا مسیحی مشزیوں کے ساتھ سابقہ پڑتا ہے۔ (الفرقان دسمبر ۱۹۶۱ء)
۱۶۵۔ (مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کی روانگی از قادیان ۱۳ اگست واپسی قادیان ۲۴ فروری ۱۹۳۶ء)
۱۶۶۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو الاستاذ کرملی نے ۱۹۳۵ء میں مقتطف‘الہلال اور لغت العرب وغیرہ مصری اخبارات میں تحریر کیئے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔
۱۶۷۔ طلبہ کے نام ایوب فضلی قرانیا اور ثلیل ابیشطی تھا۔ ملاحظہ ہو رسالہ الاحمدیتہ عرفناھا۔
۱۶۸۔ ہفتہ وار رسالہ (الرسالتہ والروایتہ) نمبر ۴۶۲ بابت ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۶۱ھ مطابق ۱۹۴۲ جلد ۱۰ نمبر ۴۶۲ (یہ رسالہ مصر کے مسلمہ ادیب الاستاذ احمد حسن الزیات کی ادارت میں نکلتا تھا۔
۱۶۹۔ ]2h [tag الفتاوی کی اشاعت کے بعد علامہ شلتوت نے جامعہ از ہر کے علمی ترجمان ’’مجلتہ الازہر‘‘ فروری ۱۹۶۰ء کے انگریزی حصہ میں دوبارہ عقیدہ وفات مسیح کا اعلان کیا۔
۱۷۰۔ الفتاویٰ صفحہ ۵۸ (شائع کردہ الادارۃ العامتہ للثقافتہ الاسلامیہ بالازہر مطبوعہ جمادی الاخر ۱۳۷۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۹ء (نشرواشاعت نظارت اصلاح وارشاد نے اس صفحہ کا عکس پمفلٹ کی صورت میں الگ بھی شائع کر دیا ہے۔
۱۷۱۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مقدمتہ الہدی والتبصرۃ لمن یری صفحہ ۲۲ تا ۲۷۔ مطبوعہ فلسطین شائع کردہ چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ ایضاً ’’رسالہ‘‘ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں‘‘۔ صفحہ ۱۳۔ ۱۴ (مرتبہ شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلاد عربیہ)
۱۷۲۔ الفضل ۳ مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۔۴ (اس موقعہ پر علامہ شلتوت نے شیخ نور احمد صاحب منیر کو اپنی تین اہم تصانیف بطور ہدیہ دیں جن کے نام یہ ہیں۔ توجیہات الاسلام۔ عقیدۃ و شریعہ۔ الفتاویٰ۔ شیخ الجامعہ نے ان میں سے ہر کتاب پر اپنے دستخط سے عبارت لکھی ھدیہ دینیہ علمیہ الی اخی فی اللہ السید نور احمد منیر من علماء باکستان مع خالص التحیات۔
۱۷۳۔ علماء مصر و عرب کے فتاوی کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں مرتبہ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ
۱۷۴۔ طبع اول ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۱ء مطبوعہ مطبع دارالجہاد ۱۴ شارع الجمہوریہ ناشر مکتبہ دارالعروبہ شارع الجمہوریہ القاہرہ۔
۱۷۵۔ الفتح قاہرہ (مصر) صفحہ ۳۱۵۔ ۲۰ جمادی الاخرہ ۱۳۵۱ھ (بحوالہ الفرقان فروری ۱۹۵۶ء صفحہ۴
۱۷۶۔ اخبار الفتح ۱۷ جمادی الاخرہ ۱۳۵۸ھ مطابق اگست ۱۹۳۹ء بحوالہ (البشری) فلسطین جلد۵
۱۷۷۔ مقدم الذکر دو اصحاب قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے آئے تھے اور باقی ربوہ میں۔
۱۷۸۔ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کے علاوہ سردار نذر حسین صاحب ‘مرزا گل محمد صاحب اور چوہدری فضل احمد صاحب بھی افسر تھے جن کا درجہ سیکنڈ لفٹنٹ کا تھا مرزا گل محمد صاحب اسسٹنٹ ایجوٹنٹ بٹالین بھی تھے (الفضل ۸ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ۲
۱۷۹۔ رپورٹ سالانہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۳۴۸
‏h1] [tag۱۸۰۔ تعلیم الاسلام میگزین جلد ۲ نمبر۳ صفحہ۱۰۔ (سالنامہ ۱۹۳۱ء) صوبیدار عبدالمنان صاحب (حال افسر حفاظت خاص ربوہ) کا بیان ہے کہ ۱۹۲۵ء کے قریب اس کمپنی کا الحاق انبالہ چھائونی کی ۱۵ پنجاب رجمنٹ سے ہوگیا اور سے ۱۱۔۱۵ پنجاب رجمنٹ کا نمبردیا گیا حضرت میاں صاحب جوانوں کی اعلیٰ ٹریننگ اور نشانہ بازی کے مقابلوں میں شرکت کے لئے میرٹھ چھائونی تشریف لے جاتے اور ہمیشہ اول آیا کرتے تھے اس طرح آپ کی حسن تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدیہ ٹریٹوریل کمپنی نے بٹالین اور بریگیڈ کی سالانہ کھیلوں کے مقابلہ میں کثرت سے انعام جیت کر انبالہ چھائونی میں ایک ریکارڈ قائم کردیا تھا۔
۱۸۱۔ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۷
۱۸۲۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحب اسے چھپوانے کے لئے خود بمبئی تشریف لے گئے (الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔۲) چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے ۱۹۴۳ء میں اس کا عربی ترجمہ بھی کبابیر (فلسطین) سے شائع گیا۔
۱۸۳۔ الفضل ۹ جنوری ۱۹۲۲ء صفحہ ۹
۱۸۴۔ ملاحظہ ہو تحفہ شہزادہ ویلز۔
۱۸۵۔ تحفہ شہزادہ ویلز۔ اردو صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳ (طبع اول)
۱۸۶۔ ملاحظہ ہو تحفہ شہزادہ ویلز اردو انگریزی طبع دوم
۱۸۷۔ ’’ذوالفقار‘‘ ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء (بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷)۔
۱۸۸۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ۱۲۷
۱۸۹۔ بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔۸
۱۹۰۔ بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ۲۸۲ (از سید طفیل محمد شاہ صاحب مرحوم)
۱۹۱۔ الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ۵
۱۹۲۔ نجات صفحہ۵ (لیکچر حضرت خلیفہ الثانی ۱۹۲۲ء)
۱۹۳۔ الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ۸
۱۹۴۔ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔
۱۹۵۔ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۳۔ اس سفر میں حضور کا قیام چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کی کوٹھی پر تھا (الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۱) اور چوہدری صاحب ہی نے حضور اور حضور کے خدام کی مہمان نوازی کا انتظام کیا (الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۲)
۱۹۶۔ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۵
۱۹۷۔ الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۹۸۔ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۱
۱۹۹۔ الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۲۲ء و الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۳
۲۰۰۔ الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ۵
۲۰۱۔ ۱۹۴۷ء تک مجلس مشاورت کا انعقاد اسی ہال میں ہوتا رہا۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ء کی مجلس شوریٰ رتن باغ لاہور میں ہوئی ۱۹۴۹ء میں اس کا اجراء ربوہ میں ہوا۔ ربوہ کی یہ پہلی شوریٰ چند گھنٹوں کے لئے منعقد ہوئی اور اس میں صرف بجٹ پیش ہوا۔ ۵۱۔۱۹۵۰ء کی شوریٰ جامعہ المبشرین کی خام عمارت کے احاطہ میں ہوئی ۱۹۵۲ء سے اس کے اجلاس دفتر لجنہ اماء اللہ کے ہال میں ہونے لگے۔
۲۰۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۔۱۳ ۔ ان بنیادی ہدایات کے علاوہ حضور نے نمائندوں کی راہنمائی کے لئے بکثرت اور ارشادات فرمائے جو مشاورت کی رپورٹوں میں محفوظ ہیں۔
۲۰۳۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ۲۰۔
۲۰۴۔ ایضاً صفحہ ۴۷۔۴۸
۲۰۵۔ ایضاً صفحہ ۵۳۔۵۴
۲۰۶۔ ایضاً صفحہ ۵۹۔
۲۰۷۔ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۶۰
۲۰۸۔ ایضاً صفحہ۶۰
۲۰۹۔ ایضاً صفحہ۶۲
۲۱۰۔ یاد رہے کہ ۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۵ء میں حضور نے اپنی بیماری کے بائث مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی) کو صدارت کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ ۱۹۶۰ء کے وسطی اجلاس کی صدارت حضور کی ہدایت پر شیخ بشیر احمد صاحب (سابق جج ہائیکورٹ لاہور) نے کی۔ اسی طرح ۱۹۶۱ء ۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۳ء میں حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مجلس شوریٰ کے لئے صدر نامزد فرمایا۔ اور ۱۹۶۴ میں حضور کے حکم سے شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور کی صدارت میں شوریٰ کا انعقاد ہوا۔ ۱۹۴۶ سے ۱۹۴۹ء تک کی رپورٹیں غیر مطبوعہ ہیں چھپی ہوئی رپورٹوں کے ضبط تحریر میں لانے کا کام جن اصحاب نے کیا ہے ان میں خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی ایڈیٹر الفضل اور مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۲۱۱۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵۔
۲۱۲۔ یہاں شوریٰ کے متفرق کوائف درج کرنا ضروری ہے۔ (۱) ۱۹۲۶ء کی شوریٰ کے ساتھ ایک تبلیغی نمائش بھی منعقد ہوئی۔ (۲) ابتداء میں صدر انجمن کی نظارتوں کی رپورٹیں بھی مشاورت میں سنائی جاتی تھیں۔ مگر کارروائی کے لمبا ہوجانے کی وجہ سے ۱۹۳۰ء میں یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔ (۳) ۱۹۳۰ء میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے حضورنے یہ فیصلہ فرمایاکہ لجنات اپنی آراء پرائیویٹ سیکرٹری کو بھجوادیا کریں میں ان امور کا فیصلہ دیتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھ لوں گا۔ (۴) ۱۹۴۱ء میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ شوریٰ میں لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ایک نمائندہ شامل ہوا کرے چنانچہ آج تک اس پر عمل ہوتا ہے لجنہ کے سب سے پہلے نمائندے جو ۱۹۴۲ء میں مقرر ہوئے بابوعبدالحمید صاحب آڈیٹر تھے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر ۱۹۴۷ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے انکے بعد میاں غلام محمد صاحب اختر ۔ مولوی غلام باری صاحب سیف اور مولوی محمد احمد صاحب جلیل کو بھی شوریٰ میں نمائندگی کا موقعہ ملا۔
۲۱۳۔ ملاحظہ ہو رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ۴۵۔
۲۱۴۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ۳۷۳۔۳۷۴ (از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے)
۲۱۵۔ h2] gat[ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹
۲۱۶۔ گیانی صاحب موصوف جو ۱۹۲۸ء سے اس وقت تک سلسلہ کی تقریری و تحریری خدمات میں مصروف ہیں۔ ۱۹۲۶ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے۔
۲۱۷۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۰۱۔۲۰۴۔
۲۱۸۔ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۵۲ (از حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ)
۲۱۹۔ الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۲۰۔ الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۲۸~/~۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۵۔
۲۲۱۔ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۶۔۸۔
۲۲۲۔ وکالت تبشیر تحریک جدید کی طرف سے تبلیغ ہدایت کا فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اور مناسب وقت میں شائع کردیا جائے گا۔
۲۲۳۔ بعد کے ایڈیشنوں میں کئی مقامات پر آپ کے قلم سے اضافہ و ترمیم ہوئی۔
۲۲۴۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۷۔
۲۲۵۔ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ بمنہ کا نام حضور ہی کا تجویز فرمودہ ہے (الفضل ۸ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۶)
۲۲۶۔ ]2h [tag ’’الازہار لذوات الخمار‘‘ صفحہ ۶۸۔ ۷۲ (مرتبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ) سن اشاعت اپریل ۱۹۴۶ء۔
۲۲۷۔ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔
۲۲۸۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۸۔
۲۲۹۔ الفضل ۸ فروری ۱۹۶۳ء صفحہ ۶۔
۲۳۰۔ الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۔ ایضاً مصباح یکم جون ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔ اس مدرسہ میں مولوی ارجمند خاں صاحب کو منطق پڑھانے اور ماسٹر محمد طفیل خان صاحب کو تاریخ وجغرافیہ پڑھانے اور ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب کو حفظان صحت پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان ہے کہ پردہ کے پیچھے کھڑے ہوکر ہم لیکچر دیا کرتے تھے مکان غالباً حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ والا چوبارہ تھا۔ جو مسجد مبارک کی گلی کے اوپر چھت پر ہے۔ اس مدرسہ میں حضور کی بیگمات بھی طالبات کی حیثیت سے شامل ہوتی تھیں۔
۲۳۱۔ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۶۔ مصباح ابتداًء حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی ادارت میں نکلتا تھا۔ ان کے بعد مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر ایک عرصہ تک ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۱ء تک امتہ اللہ خورشید صاحبہ (بنت مولانا ابوالعطاء صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ) کی زیر ادارت نکلتا رہا۔ اور اب ان کی وفات کے بعد امتہ الرشید شوکت صاحبہ (اہلیہ جناب ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ) اس کی مدیرہ ہیں۔
۲۳۲۔ لائبریری کی تجویز ۱۹۲۴ء میں حضرت امتہ الحی صاحبہؓ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ۱۹۲۵ء میں لجنہ اماء اللہ کی پرجوش کارکن حضرت ام دائود صاحبہؓ کی تحریک پر لائبریری کی مہتممہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ تجویز ہوئیں۔ اور حضرت ام المومنینؓ نے کتابیں رکھنے کے لئے ایک الماری مستعار عنایت فرمائی۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو مرکزی لجنہ نے فیصلہ کیا کہ لائبریری کے جمع شدہ فنڈ سے کتابیں خریدی جائیں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ (ملاحظہ ہو حضرت ام طاہر صاحبہؓ کا مضمون مطبوعہ ’’مصباح‘‘ ۱۵ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۶۔ ۱۷)
۲۳۳۔ رپورٹ کار گزاری لجنہ اماء اللہ مرکزیہ از یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء تا ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۔
۲۳۴۔ مصباح یکم اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۔
۲۳۵۔ مصباح ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔
۲۳۶۔ الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۲۳۷۔ مصباح مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۷۔
۲۳۸۔ رپورٹ کارگزاری لجنات اماء اللہ یکم اکتوبر ۱۹۶۲ء تا ۳۰ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۲۔ ۲۵۔
۲۳۹۔ اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر ۲۸۔ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۵۔۶ بحوالہ ’’تاثرات قادیان‘‘ صفحہ ۱۷۳ (از ملک فضل حسین صاحب طبع اول)
۲۴۰۔ بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۳۰۔ ۲۳۱۔
۲۴۱۔ الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۲۴۲۔ الفضل ۲۴۔ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۳۔ الفضل ۱۷`۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۴۔ الفضل ۹ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۴۵۔ الفضل ۲۴۔ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۔
۲۴۶۔ الفضل ۲۲۔ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۷۔ الفضل ۱۲۔ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۔
۲۴۸۔ پیسہ اخبار بحوالہ الفضل ۱۰۔ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۔
۲۴۹۔ الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۲۲ء میاں صاحب کی برات (جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب‘حضرت حافظ روشن علی صاحب وغیرہ اکابر سلسلہ بھی شامل تھے) ۲۰ نومبر ۱۹۲۲ء کلکتہ گئی تھی (الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱)
۲۵۰۔ الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۵۱۔ الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۵۲۔ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۵۳۔ الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۵۴۔ اسی سال ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کا دہلی میں ایک اہم مباحثہ مولوی عبدالحق صاحب ودیارتھی (مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام) سے ہوا۔ (الفضل ۲۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۸)
۲۵۵۔ الفضل ۲۸/۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۲ (یہ مباحثہ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی میں ہوا) ایضاً الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ۴۔
۲۵۶۔ الفضل ۳۰۔ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۰۔ ۴ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔ ۸۔
‏rov.5.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
چوتھا باب (فصل اول)
تحریک شدھی کے خلاف محاذ جنگ۔ مجاہدین احمدیت کے کارہائے نمایاں اور اسلام کی شاندار فتوحات
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
(جنوری ۱۹۲۳ء تا دسمبر ۱۹۲۳ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۱ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۲ھ
شدھی تحریک کا پس منظر
ہندوستان۱ میں اسلامی حکومت کی بنیاد تو فاتح سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں ۷۱۲ء میں رکھی گئی۔ مگر اسلام کا پیغام اس برصغیر میں عرب تاجر اور سیاح برسوں پہلے پہنچا چکے تھے اور اس کی وسیع تبلیغ و اشاعت اکابر اولیاء و صوفیاء و صلحائے امت نے کی۔ ان بزرگوں کی اخلاقی قوت‘ان کے خوارق و کرامات اور ان کے زبردست روحانی اثرات کی وجہ سے ہندوستان کی کئی بت پرست قومیں راجپوت‘جاٹ‘میواتی وغیرہ اس کثرت سے اسلام میں داخل ہوئیں کہ ہر طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آنے لگے۔
مگر جیسا عظم الشان یہ داخلہ تھا ویسے وسیع پیمانے پر اس کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا انتظام نہ ہو سکا۔ اور بعض ہندو قومیں اسلامی تعلیم و تربیت سے بالکل ہی محروم رہیں۔ چونکہ وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوئی تھیں اس لئے اپنے آپ کو سمجھتی اور کہتی تو مسلمان ہی رہی اور ہندو بھی انہیں مسلمان ہی خیال کرتے رہے لیکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان کہلانے کے سوا ان کا رہنا سہنا‘کھانا پینا‘بول چال‘پہناوا‘برتائو اور رسم و رواج سب ہندوانہ تھے۔
یہاں تک کہ نام بھی ہندوانہ کام بھی ہندوانہ اور ماحول بھی ہندوانہ۔ ان کے ہاں شادی کے موقعہ پر قاضی جی بھی بلائے جاتے تھے اور پنڈت جی بھی یہی حالت غمی کے موقع پر تھی۔ ان قوموں کے مردے دفن بھی کئے جاتے تھے اور جلائے بھی جاتے تھے۔
ان کے کئی دور اسی حالت میں گزر چکے تھے۔ وہ تو ناواقفی کی وجہ سے اپنی اس غیر اسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھیں۔ اور مسلمان اپنی غفلت و بے پروائی کے باعث۔ اور ان قوموں کا مدتہائے مدید سے اس حالت پر قائم و برقرار رہنا بھی صرف اس لئے ہو سکا کہ یہ جہاں کہیں بھی تھیں سناتنی ہندوئوں میں گھری ہوئی تھیں۔ اور سناتنی ہندو کسی غیر مذہب کو اپنے مذہب میں داخل و شامل کرنا خود مذہبی احکام کی رو سے جائز نہیں سمجھتے۔ اور اس کے سخت مخالف تھے۔ اس لئے انہوں نے سودی کاروبار کے ذریعہ سے ان قوموں کا خون تو جہاں تک چوس ملا خوب چوسا۔ لیکن مذہبی لحاظ سے ان کے معاملات میں نہ کوئی مداخلت کر سکتے تھے اور نہ انہوں نے کوئی مداخلت کی۔ ہاں جب انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پنڈت دیانند سرسوتی کی کوشش سے سناتنی ہندوئوں کے خلاف ایک نیا فرقہ آریہ ظہور میں آیا تو وہ غیر مذاہب والوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لینے کا قائل اور اس کے لئے بڑا جوش و خروش رکھنے والا تھا۔ چنانچہ اس نے قوت پاتے ہی شدھی یعنی غیر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ایسے نئے‘تازہ دم اور جوشیلے فرقہ کی متجسس نظروں سے صدیوں پرانی مالکانہ راجپوت کہلانے والی قومیں کہاں مخفی رہ سکتی تھیں۔ جو یو۔ پی کے متعدد شہروں اور ان کے نواحی علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ اس فرقہ نے کام تو ملکانے راجپوتوں میں بھی شروع کر دیا تھا۔ مگر بہت احتیاط بڑی ہوشیاری اور نہایت آہستہ روی سے وہ ان قوموں کو قابو میں لانے کے لئے سالہا سال تک دو حربے ان پر چلاتا رہا۔ پہلا یہ کہ مسلمان بادشاہوں نے اب سے صدیوں پہلے تمہارے دادوں پر دادوں کو زبردستی ہندو دھرم سے الگ کرکے مسلمان بنا لیا تھا۔ لیکن اب تو کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جن کے بزرگوں سے جبراً ان کا دھرم چھڑوایا گیا تھا وہ اپنے بزرگوں کے دھرم میں نہ آجائیں؟ دوسرا حربہ مذہب اسلام کو بری سے بری اور بھیانک شکل میں دکھانا اور اس پر زیادہ سے زیادہ نفرت دلانے والے گھنائونے الزام لگانا تھا۔
یہ خطرناک حربے جن قوموں پر چلائے جا رہے تھے اسلامی تعلیم و تربیت تو ان کے ان بزرگوں کو بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ جو اب سے پہلے کسی زمانے میں مسلمان ہوئے تھے۔ انہیں صرف اسلام قبول کرنے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان سمجھے جانے کا احساس تھا اور یہ ان کا سچا اور گہرا احساس ہی تھا جس نے باوجود اسلامی تعلیم حاصل نہ ہو سکنے کے انہیں بھی آخر دم تک اپنے حال پر قائم رکھا اور اسی کے اثر سے ان کی کئی نسلیں بھی اپنے حال پر قائم و برقرار رہتی ہوئی گزر گئیں۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ یہ احساس بھی کم ہوتے ہوتے بہت کم رہ گیا اور انیسویں صدی کے آخر میں جب بالکل مٹ گیا یا مٹنے کے قریب ہو گیا۔ تو اب کون سی چیز ملکانہ راجپوتوں کو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں کی طرح اپنے حال پر قائم رکھ سکتی تھی؟
مسلمانوں نے نہ تو کبھی پہلے ان کی طرف توجہ کی تھی۔ اور نہ وہ اب اس کی ضرورت سمجھتے تھے آریوں نے میدان بالکل خالی پایا۔ اور اسلام کے خلاف برسوں زہریلا اثر ان میں پھیلایا۔ اور جب تمام علاقوں کی اچھی طرح دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کرکے اطمینان کر لیا۔ کہ ان کے دونوں حربے کارگر ثابت ہوئے ہیں اور تمام مختلف علاقوں کے چھوٹے بڑے سارے میدان ہموار و صاف ہو چکے ہیں تو انہوں نے اپنے کام کو اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر پہنچانے کا پورا پورا عزم کر لیا اور صوبہ یو۔ پی کے اضلاع ہردوئی۔ شاہ جہان پور‘فرخ آباد‘بدایوں‘متھرا‘ایٹہ‘اٹاوہ‘آگرہ‘مین پوری‘علی گڑھ اور ریاست ہائے جیسور اور بھرت پور اور تروا وغیرہ سب ان کے عزم بالجزم کی زد میں آگئے۔ اور شدھی کا سلسلہ بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام سے جاری ہو گیا۔
مسلمان علماء کا افسوسناک طریق عمل ان اضلاع اور ان کے ماحول میں بسنے والے علماء اور مسلمانوں کے مشہور ادارہ ندوۃ العلماء نے شدھی کی اس تحریک شدید کے مقابلہ و تدارک اور انسداد کی کوشش سے متعلق جس مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی تفصیل علامہ شبلی کے شاگرد رشید و سیرت نگار مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’حیات شبلی‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
’’۱۹۰۸ء میں یک بہ یک یہ راز طشت از بام ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندوۃ العلماء نے اگرچہ ابتداء ہی سے اشاعت اسلام کو اپنے مقاصد میں داخل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ تاہم اب تک اس نے عملی طور پر اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی۔ لیکن اب وہ حالت پیش آگئی کہ خاموش رہنا مشکل تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ندوہ کی مجلس اشاعت اسلام کے معتمد جناب مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی تھے۔ اور مولانا (شبلی) کے خیال میں وہ کام نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے مولانا دو برس تک عجیب شش و پنج میں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اس آگ میں کود پڑے۔ انہیں اطلاع ملی کہ شاہ جہانپور کے قریب ایک مسلمان زمیندار راجپوت مرتد ہوا چاہتا ہے یہ سننا تھا کہ وہ بے قرار ہو گئے مولانا (شبلی) نے اس واقعہ کا ذکر ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فرماتے ہیں دو سال ہوئے کہ شاہ جہانپور سے ایک خط میرے سفید خاں سوداگر کا آیا کہ شاہ جہانپور سے آٹھ کوس پر ایک گائوں جمال پور ہے وہاں کے رئیس راجپوت جو مسلمان ہیں وہ ہندو ہونا چاہتے ہیں آریہ وہاں پہنچ گئے ہیں۔ ان کو ہندو کرنا چاہتے ہیں آپ جلد آئیے اور مدد کیجئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی دہلی کی انجمن ہدایت الاسلام کے مولانا عبدالحق حقانی کو لکھا وہ وہاں سے تشریف لائے تھے اور میں ندوہ سے گیا۔ جس وقت میں یہاں سے چلا ہوں میری جو حالت تھی یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں گے کہ میں نے اس وقت کوئی گالی نہیں اٹھا رکھی تھی۔ جو میں نے ان ندوہ والی کو نہ سنائی ہو گی کہ اے بے حیائو! اور اے کم بختو! ڈوب مرو یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو یہی الفاظ میں نے اس وقت کہے تھے اور آج بھی کہتا ہوں۔ اس وقت نہایت افسوس میں میں یہاں سے گیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے لوگوں نے یہ بیان کیا کہ آریہ اس گائوں میں آئے ہوئے ہیں اور وہ گائوں کے نو مسلم راجپوتوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں۔ مسلمان علماء کو بلوایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کوس پر خیمہ کھڑا کیا گیا ہے تین سو روپے کھانے میں صرف ہوئے ہیں۔ چندہ وغیرہ کیا گیا ہے۔ وہ نو مسلم بیچارے یہ کہتے تھے کہ مناظرہ جانتے نہیں۔ پڑھے لکھے نہیں۔ آپ ہمارے اس گائوں میں آئیے اور یہاں آکر ہم کو سمجھائیے جو باتیں ہمارے دل میں ہوں گی ہم آپ سے کہیں گے۔ آپ ان کا جواب دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک شخص بھی راضی نہ ہوا کہ گائوں میں جائے۔ اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ لوگ خدانخواستہ فوجداری کریں گے یا ماریں گے کیونکہ پولیس اور تحصیل دار وہاں موجود تھے کہ امن و امان قائم رہے۔ میں نے بالاخر یہ کہا کہ بھائیو! مجھے تو پالکی میں ڈال کر وہاں لے چلو میں چلتا ہوں لیکن کوئی شخص نہیں لے گیا۔ غرض تین دن تک میں وہاں پڑا رہا۔ بالاخر ان لوگوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم ہندو ہیں۲۔
اس افسوس ناک واقعہ کے دو سال بعد علامہ شبلی نے ’’شدھی کے مقابلہ‘‘ اور اشاعت اسلام کی تجویز کے لئے ۶۔ ۷۔ ۸/ اپریل ۱۹۱۲ء کا اجلاس لکھنو میں منعقد کیا۔ اس اجلاس میں علامہ شبلی کی دعوت پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ایدہ اللہ تعالیٰ اور خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی شرکت فرمائی۔ مگر علمائے کرام نے انسداد شدھی کے بارے میں کوئی عملی کارروائی کرنے اور تدابیر سوچنے کی بجائے اپنا سارا زور اس مخالفت میں لگا دیا کہ قادیانی کیوں بلوائے گئے ہیں۳؟ چنانچہ جناب سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں۔ ’’مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں۔ اس لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) جو اب خلیفہ قادیان اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا؟ اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی۔ مگر مولانا شروانی کی ثالثی سے یہ بلا ٹل گئی‘‘۴۔
جناب سید سلیمان صاحب ندوی کی تحریر کے مطابق علامہ شبلی کے مدنظر ’’اشاعت و حفاظت اسلام‘‘ کی ایک اہم تجویز تھی۔ جس پر وہ اجلاس لکھنو کے بعد کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن عملاً اگر کچھ ہوا تو صرف یہی کہ چند ماہ بعد وہ ندوہ سے مستعفی ہو گئے۔ چنانچہ سید سلیمان صاحب خود لکھتے ہیں کہ اس تجویز پر عمل کا وقت آیا ہی تھا کہ مولانا بیمار اور پراگندہ خاطر ہو کر مولوی عبدالسلام صاحب اور سیرت کو لے کر بمبئی روانہ ہو گئے اور دو چار ماہ کے غور و فکر کے بعد جولائی ۱۹۱۲ء کو ندوہ سے مستعفی ہو کر سبکدوش ہو گئے اور کام کی ساری تجویزیں درہم برہم ہو کر رہ گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۵۔
مختصر یہ کہ علامہ شبلی اور ان کے ساتھی برسوں سے ارتداد کے مقابلہ کی جو تجویز کر رہے تھے وہ محض خواب و خیال بن چکی تھی اور ان کے علاوہ دوسرے علماء کو اپنے فرضی مشاغل سے فرصت نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ شدھی کی آگ ۱۹۲۳ء کے آغاز میں پوری شدت سے بھڑک اٹھی اور علی گڑھ سے آگرہ تک اور فرخ آباد سے ریاست الور تک کے علاقے اس کی زد میں آگئے۔
چوہدری افضل حق صاحب (مفکر احرار) نے علماء کی غفلت و بے حسی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا۔
’’آج سے پہلے اسلام کو تبلیغی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان علماء اپنی خدمات کو جا بیجا ہر جگہ بیان کرتے تھے حالانکہ ان کی تمام کوششیں مسلمانوں کو کافر بنانے میں صرف ہوتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں اسلام کے سب سے بڑے دعویدار موجود تھے۔ ان ہی کے دروازوں پر مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور ان کے بنائے کچھ نہیں بنتی۔ جن کے ہندوستان بھر میں کفر کے فتویٰ کام کرتے تھے ان کا اپنا عمل قریب کے مسلمانوں پر کچھ اثر نہ ڈال سکا تین چار سو برس سے ایک قوم اسلام کے دروازے کے اندر داخل ہوئی مسلمانوں کو متوجہ نہ پا کر آج پھر واپس چلی گئی ایک مسخرہ نے سچ کہا کہ ’’علماء کا کام ہی مسلمانوں کو کافر بنانا ہے‘‘۔ سو انہوں نے مالکانہ راجپوتوں میں اپنی کامیاب تبلیغ کر دی ہے حضرات فرنگی محل‘حضرات دیوبند‘حضرات دہلوی کی صد سالہ اسلامی تبلیغ کا نتیجہ دیکھو کہ ان ہی اضلاع کے گرد و نواح میں ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ ہمارے علماء کے لئے اس میں عبرت ہے ان کے لئے ندامت سے گردن جھکا لینے کا وقت ہے اس فتنہ و ارتداد کی تاریخ اغیار کے لئے دلچسپ اور مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے۔‘‘۶
شردھانند کی طرف سے ہندوئوں کو میدان عمل میں آنے کی کھلم کھلا دعوت
مسلمانان ہند خدا جانے کب تک خواب غفلت میں پڑے رہتے کہ وسط مارچ ۱۹۲۳ء میں مشہور آریہ سماجی لیڈر شردھانند نے جو اس تحریک
کے پرجوش علمبردار تھے اور سب سے بڑے لیڈر تھے (اور جنہیں اس سے پہلے مسلمان علماء نے ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے خیال سے نہ صرف ’’خلافت کانفرنس‘‘ کے نائب صدر ہونے کا موقعہ دیا تھا۷ بلکہ جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا کر تقریر کرائی تھی۸) ہندوئوں سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے اور اب تک قریباً چار ہزار تین سو راجپوت ملکانے‘گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں۔ نیز کہا ’’ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں۔ یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندو سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہو گا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے‘‘۹۔
مہاراجہ کشمیر کی پشت پناہی
شردھانند کے اس اعلان کے ساتھ آریہ اخبار کیسری (۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء) میں یہ خبر چھپی کہ مہاراجہ جموں و کشمیر نے ساڑھے چار لاکھ ملکانہ راجپوتوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے مسئلہ پر کامل غور و خوض کے بعد پنجاب کے سناتن دھرمی پنڈتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس مسئلہ پر کشمیری پنڈتوں سے گفت و شنید کریں‘‘۱۰۔
مسلمانان ہند کے لئے نازک ترین دوران خبروں کے منظر عام پر آنا ہی تھا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمانوں میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی اور ان کے دل پاش پاش ہو گئے اور حواس پراگندہ اور انہیں یقین ہو گیا۔ کہ ہندو قوم شدھی کے بل بوتے پر ان کا نام مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ اور ہندوستان میں ان کی قومی زندگی اور قومی ہستی یقینی طور پر خطرہ میں ہے۔
شدھی کے پیچھے ہندو راج کے منصوبے
اس خطرناک حملہ کی شدت کا اندازہ لگانے کے لئے آریہ کے وہ بیانات بھی کافی رہنمائی کرتے ہیں۔ جو بعد کو ان کی زبانوں سے خود بخود جاری ہو گئے اور جن میں انہوں نے کھلا اعتراف کیا کہ شدھی کی تحریک صرف ملکانہ کے مسلم راجپوتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ہندو دھرم کی چوکھٹ پر لا ڈالنے کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ چنانچہ ایک آریہ سماجی راجکمار ایٹھی نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’بلا شدھی ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) نہیں ہو سکتی۔ جس وقت سب مسلمان شدھ ہو کر ہندو ہو جائیں گے تو سب ہندو ہی ہندو نظر آئیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو آزادی سے نہیں روک سکتی‘‘۱۱
سوامی و چارانند نے گوروکل کانگڑی کی سلور جوبلی کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ’’سب دھرموں سے ہمارا دھرم پرانا ہے تو ہمارے دھرم کے سامنے کسی کو ادھیکار (حق) نہیں کہ وہ شدھ کرے۔ سوارج کے لئے ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) ضروری ہے لیکن ہم سچی ایکتا شدھی میں مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک بھارت ورش کے مسلمان اور عیسائی شدھ نہیں ہو جائیں گے اس وقت تک تم کو سوارج نہیں مل سکتا‘‘۱۲۔ اسی موقعہ پر پنڈت لوک ناتھ جی نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اگر اس چھری کو جو گئو کی گردن پر چل رہی ہے۔ بند کرنا چاہتے ہو تو اس کا علاج شدھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اگر آپ ہمیشہ کے لئے کانٹے دار درخت کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کی جڑ نکال دو‘‘۱۳۔
اسی طرح ایک ہندو شاعر نے اپنے قومی نصب العین کو ان لفظوں میں دہرایا ~}~
کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے
بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں
ہندوئو! تم میں ہے گر جذبہ ایماں باقی
رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی۱۴
مسلمان پریس کا شور و فغاں
المختصر شدھی کی خوفناک تحریک نے مسلمانان ہند کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔ اور اسی لئے مسلمان پریس کو سوامی شردھانند اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کو دیکھ کر بالاتفاق لکھنا پڑا کہ ملک کے تمام مسلمان فرقے اگر اس نازک موقعہ پر متحد ہو کر اس کے انسداد کی فوری جدوجہد نہ کریں گے تو ان کا تباہ ہونا قطعی اور یقینی ہے۱۵۔ خصوصاً اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر کے ایڈیٹر مولوی عبداللہ منہاس صاحب نے ۸/ مارچ ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں ’’علمائے اسلام کہاں ہیں؟‘‘ کے عنوان سے ایک پرزور مضمون لکھا۔ جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اس نازک موقعہ پر کیوں خاموش ہیں۱۶۔
حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان
مسلم پریس نے شدھی کے خلاف آواز تو مارچ ۱۹۲۳ء میں بلند کی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ہی اس فتنہ کی طرف توجہ فرمائی اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ ایک قوم کی قوم ارتداد کے لئے تیار ہے۔ فوراً دفتر کو ہدایت فرمائی کہ پوری تحقیق کریں۔ چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق پہلے مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی۔ ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ فروری ۱۹۲۳ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے اور ایک اور احمدی کو علاقہ ملکانہ میں ابتدائی سروے اور فراہمی معلومات کے لئے بھجوا دیا۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نے واپس آکر مفصل بتایا کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے۱۷۔
اس رپورٹ پر حضور نے شدھی کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کے لئے ایک زبردست سکیم تیار کی اور جیسا کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کا بیان ہے اس اولوالعزم امام نے یہاں تک تہیہ کر لیا کہ میری کل جماعت کی جائداد تخمیناً دو کروڑ روپیہ کی ہو گی اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک و اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے۱۸۔
چنانچہ حضور نے ۷/ اپریل ۱۹۲۳ء کو اعلان فرمایا کہ جماعت احمدیہ فتنہ ارتداد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کی غرض سے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے۱۹۔ اس کے بعد ۹/ مارچ ۱۹۲۳ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لئے فی الحال ڈیڑھ سو احمدی سر فروشتوں کی ضرورت ہے۔ جو اپنے اور اپنے لواحقین کی معاش کا فکر کرکے میدان عمل میں آجائیں چنانچہ آپ نے فتنہ ارتداد کی وسعت بیان کرتے اور جماعت کو اپنی سکیم کے ایک حصہ سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا یہ طریق ہو کہ اس ڈیڑھ سو کو تیس تیس کی جماعتوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصہ بیس بیس کے بنائے جائیں۔ اور تیس آدمیوں کو ریز رو رکھا جائے۔ کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے۔ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم خود انتظام کرنے کے لئے بھیجیں گے۔ ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجہ کا ہو گا۔ چاہے وہ کسی درجہ اور کسی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے۔ ان لوگوںکے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے۔ اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے۔ البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہو گا۔ تو ہم دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے جماعت کو پچاس ہزار روپیہ دینا ہو گا۔ ایسے کاموں کے لئے جو تبلیغ وغیرہ کے ہوں گے۔ باقی مبلغین اسی رنگ میں جائیں گے وہاں اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ملازمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا خود انتظام کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ وہ چار سہ ماہیوں میں سے کس سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی انتظام کے ماتحت ہم سخت انتظام کریں گے اور جو ہیڈ بنائے جائیں گے ان کی پوری اطاعت کرنی ہو گی۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات افسر سختی بھی کر بیٹھیں اور مار بھی بیٹھیں لیکن جو ماتحت ہو کے جائیں گے ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر جائیں۔ اور تمام سختیوں کے مقابلے میں کام کریں اور افسر نے اگر ناواجب تکلیف دی ہو گی تو کام کے ختم ہونے کے بعد رپورٹ کر سکتے ہیں مگر اس وقت کام کرنا ہو گا۔ ماتحتوں کو بہرحال افسروں کی اطاعت کرنی اور ان کا حکم ماننا ہو گا۔ اگر وہ زیادتی کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کو سزا دے گا صبر کا اجر ملے گا اور بعد میں رپورٹ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں کو ہر ایک اپنا کام آپ کرنا ہو گا۔ اگر کھانا آپ پکانا پڑے گا تو پکائیں گے اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں وہ آئیں۔ ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی۔ ننگے پیروں چلیں گے۔ جنگلوں میں سوئیں گے۔ خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا۔ اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پائوں میں جو سختی پیدا ہو جائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہو گا ان کے کام آئے گی مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت و آرام کا مقام ہو گا۔ اور یہ وہ مقام ہو گا جہاں رہنے والے نہ بھوکے رہیں گے نہ پیاسے یہ چند دن کی بھوک اور چند دن کی پیاس اس انعام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۲۰۔
مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک طرف جماعت کو میدان جہاد میں آنے کی ہدایت دی تو دوسری طرف مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا۔
’’جب تک ایک لمبی اور باقاعدہ جنگ نہ کی جائے گی (سعی اور تبلیغ کی نہ تلوار کی) اس وقت تک ان علاقوں میں کامیابی کی امید رکھنا فضول ہے۔ اس کام پر روپیہ بھی کثرت سے خرچ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندو اپنی پرانی کوششوں کے باوجود دس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں مسلمانوں کو نیا کام کرنا ہے ان کے لئے بیس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے پیشکش فرمائی کہ اگر دوسرے لوگ بقیہ رقم مہیا کر لیں تو ہم پچاس ہزار روپہ یعنی کل رقم کا چالیسواں حصہ اس کام کے لئے جمع کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق کے ماتحت ہماری جماعت تیس آدمی تبلیغ کا کام کرنے کے لئے دی گی۔ جن کے اخراجات وہ موعودہ رقم میں سے خود برداشت کرے گی۔ اور اگر اس سے زیادہ خرچ ہو گا تو بھی وہ خود اپنے مبلغوں کا کل خرچ ادا کرے گی اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوئی۔ تو ہماری جماعت انشاء اللہ سینکڑوں تک ایسے آدمی مہیا کر دے گی۔ جو تبلیغ کا عمر بھر کا تجربہ رکھتے ہوں گے‘‘۔
حضور نے یہ دعوت دیتے ہوئے دوسری مسلمان کہلانے والی تمام جماعتوں (اہلحدیث۔ حنفی۔ شیعہ وغیرہ) کے سربرآوردہ اصحاب کو توجہ دلائی کہ وہ اس موقعہ کی نزاکت کو سمجھیں اور اسی نسبت سے اپنے لوگوں کی طرف سے مطلوبہ رقم کا فوراً اعلان کرکے ایک مقام پر جمع ہوں تا کام کی تفصیل اور انتظام پر غور کر لیا جائے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کا وقت نہیں کام کا وقت ہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس دعوت اور فراخ دلانہ پیشکش پر اخبار ’’ہمدم‘‘ نے لکھا۔
’’جماعت احمدیہ کے جوش و ایثار کو دیکھتے ہوئے ان کی طرف سے پچاس ہزار بلکہ اس سے زیادہ روپیہ اس غرض یعنی انسداد ارتداد کے لئے فراہم ہو سکنے کا قریب قریب یقین و اعتماد ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ دیگر مسلمانوں سے ۲/۱ ۱۹ لاکھ تو کجا ایک لاکھ روپیہ بھی حالات موجودہ میں چند ہفتہ کے اندر جمع ہو جانے کی قوی تو کیا معمولی امید بھی ان طریقوں سے نہیں باندھ سکتے‘‘۔ ’’(ہمدم‘‘ ۱۸/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۴۳)
اسی طرح اخبار ’’مشرق‘‘ نے لکھا۔
’’جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی‘‘۔ ’’(مشرق‘‘ ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۴۳)
احمدیہ جماعت کی طرف سے والہانہ رنگ میں لبیک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۷ اور ۹/ مارچ ۱۹۲۳ء کو جماعت سے جس عظیم الشان جانی و مالی قربانی کا مطالبہ فرمایا اس پر جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں لبیک کہا اور ڈیڑھ ہزار احمدیوں نے اپنی آنریری خدمات حضور کی خدمت میں پیش کر دیں۔ اس قربانی کے لئے آگے آنے والے ملازم‘رئوسا‘وکلاء‘تاجر‘زمیندار‘صناع‘پیشہ ور‘مزدور‘استاد‘طالبعلم‘انگریزی خواں‘عربی داں‘بوڑھے اور جوان غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ تھے۔ حتیٰ کہ مستورات اور بچوں تک نے اس جہاد کے لئے اپنا نام پیش کیا۔
چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے حضور کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہمیں راہ نمائی فرمائی جائے کہ ہم اس تبلیغی جہاد میں کیا خدمت سرانجام دے سکتی ہیں؟ خواتین نے ملکانہ عورتوں میں تبلیغ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اس موقعہ پر احمدی بچوں میں بھی اشاعت اسلام کا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ مرزا منور احمد صاحب جو اس وقت ۵ سال کے تھے ملکانہ علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند محمد احمد صاحب نے جن کی عمر اس وقت بارہ سال ہو گی اپنی والدہ ماجدہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو لکھا کہ تبلیغ اسلام کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے۔ اس لئے جب آپ تبلیغ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں۔ اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں۔۲۱
جہاں تک انسداد ارتداد کے لئے پچاس ہزار روپیہ چندہ کا تعلق تھا یہ بہت جلد جمع ہو گیا۔ اور جاعت کے مخیر بزرگوں نے بالخصوص اس میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں سرفہرست حضرت نواب محمد علی خان صاحب تھے جنہوں نے ایک ہزار روپیہ اور جن کی حرم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے دو سو روپیہ چندہ دیا۔ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب‘جنرل اوصاف علی خاں صاحب نابھہ‘میر مرید احمد صاحب خیر پور سندھ‘شیخ محمد حسین صاحب کلکتہ اور حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی نے پانچ پانچ سو کی رقمیں پیش کیں۔ ڈاکٹر فضل کریم صاحب کابل۔ حصرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بالترتیب چار سو تیرہ روپیہ۔ تین سو اور ڈھائی سو روپیہ چندہ دیا۔ ان کے علاوہ بابو فضل احمد صاحب راولپنڈی۔ چوہدری عبداللہ صاحب۔ چوہدری نذیر احمد صاحب راولپنڈی۔ خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب۔ چوہدری عبداللہ صاحب۔ چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری۔ شیخ مشتاق حسین صاحب گوجرانوالہ اور منشی محمد دین صاحب کھاریاں نے بقدر طاقت ڈیڑھ سو سے سوا دو سو روپیہ چندہ پیش کیا۔ سو سو روپیہ دینے والے تو متعدد اصحاب تھے۲۲۔ چندہ میں شرکت کے لئے ابتداًء یہ شرط تھی۔ کہ کم از کم ایک سو روپیہ چندہ دینے والے لوگ آگے آئیں۔ لیکن بعد کو غریب احمدیوں کی درخواست پر حضور نے یہ شرط اڑا دی اور غریبوں کو بھی اس ثواب میں حصہ لینے کا موقعہ میسر آگیا۔
چندے کے علاوہ احمدی احباب نے مجاہدین کے لئے سائیکل دیئے خصوصاً لاہور کی جماعت نے ڈاکٹر محمد منیر صاحب آف امرتسر نے دھوپ سے بچانے والے پروٹیکٹر دیئے۔ بعض نے ستو کی بوریاں بھیج دیں عید الاضحیہ کا موقعہ آیا تو ہزاروں روپے میدان ارتداد میں ملکانہ قوم کے لئے جانور ذبح کرنے کے لئے بھجوا دیئے۲۳۔ بعض غریبوں نے جن کے پاس کچھ نقد اثاثہ نہ تھا۔ اپنا مکان یا زمین یا جانور بیچ کر اس میں حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ مشہور پنجابی شاعر ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی نے اپنی بھینس بیچ ڈالی اور میدان ارتداد میں جا پہنچے۔ بھینس اگرچہ خسارے پر بکی۔ مگر ڈاکٹر نے اس گھاٹے کے سودے پر بھی خوشی منائی۔
مردوں کے علاوہ احمدی عورتوں نے بھی ایثار و قربانی کا ثبوت دیا۔ چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے بیس بڑے دوپٹے ان ملکانہ عورتوں کے لئے بھیجے۔ جو ارتداد کے وقت اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ حضرت اقدس کی صاحبزادی امتہ القیوم نے جن کی عمر اس وقت چھ سال کی ہو گی۔ اپنا ایک چھوٹا دوپٹہ دیا اور کہا کہ یہ کسی چھوٹی ملکانی کو دیا جائے۲۴۔
قواعد انتظام انسداد فتنہ ارتداد
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس مرحلہ پر اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل بیس قواعد مقرر فرمائے۔
۱۔ اس انتظام کو باقاعدہ چلانے کے لئے ایک افسر ہو گا جو سب کام کی نگرانی کرے گا۔
۲۔ یہ افسر اپنے کام کی بہتری کے لئے اپنے کام کے کئی حلقہ تجویز کرے گا۔ جن میں سے ہر ایک حلقہ کا ایک نگران ہو گا۔
۳۔ ہر ایک حلقہ میں جس قدر لوگ کام کر رہے ہوں گے وہ حلقہ افسر کے ماتحت ہوں گے اور افسر کو چاہئے کہ ایک وقت مقررہ پر ان سے رپورٹ طلب کرے یعنی ان کو مقررہ عرصہ کے بعد اپنے کام کی رپورٹ کرنے کی ہدایت کرے اور اگر کسی کی رپورٹ نہ پہنچے تو اس کی رپورٹ طلب کرے۔ کارکنان کو چاہئے کہ علاوہ مقررہ رپورٹ کے ہر اہم بات کی اس کو رپورٹ کریں۔
۴۔ حلقہ کے افسر کا فرض ہو گا کہ ایک وقت مقررہ پر جس کی تعین افسر اعلیٰ کرے گا افسر اعلیٰ کو اپنے کام کی رپورٹ دیتا رہے۔ اور درمیان میں بھی جب کوئی اہم امر ہو اس کی رپورٹ کرتا رہے۔
۵۔ افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ ہر روز اپنے تمام صیغہ کی رپورٹ جس میں اہم امور کو خاص طور پر پیش کیا جائے میرے پاس بھیجتا رہے۔
۶۔ افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ وقتاً فوقتاً خود دورہ کرکے تمام حلقہ کے افسروں اور کارکنوں کے کام کو دیکھتا رہے اور جب وہ دورہ پر جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے ایک ہوشیار نائب کو اپنا قائم مقام مرکز میں بھی بنا جائے۔
۷۔ افسر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ اس امر کا کوئی مناسب انتظام کرے کہ صدر اور حلقوں کے مرکزوں میں ان لوگوں کے کھانے کے متعلق مناسب انتظام رہے جو بطور مہمان کے آویں یا جن کو کام کی مدد کے لئے بلوایا جائے۔ لیکن نہایت درجہ کی کفایت شعاری کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ تھوڑی تھوری بے احتیاطی سے بڑے بڑے نقصانات پہنچ جاتے ہیں۔
۸۔ حلقہ کے افسروں کو بھی چاہئے کہ دورہ کرکے اپنے ماتحتوں کے کام کو دیکھتے رہیں اور ان کو مناسب ہدایتیں دیتے رہیں۔
۹۔ صدر مقام میں ایک مکمل ذخیرہ ان کتب اور اخبارات و رسائل کا رہنا چاہئے جو آریوں کے خلاف کام کرنے کے لئے ضروری ہے۔
۱۰۔ صدر مقام میں ایک واقف آریہ مذہب اور ہندی کا رہنا چاہئے جو نو آمدوں کو ہندی کے الفاظ سکھائے اور حوالہ نکال نکال کر ان کو دے اور ایسی باتیں آریہ لٹریچر سے نکالتا رہے جس سے دوسری اقوام کو وہ اپنی اصل شکل میں نظر آسکیں۔
۱۱۔ جو لوگ کام پر لگائے جاویں ان کو ایک کاپی مطبوعہ ہدایات کی رجسٹری رسید لے کر دی جائے اور اس پر ایک نمبر لکھ دیا جائے جب وہ شخص واپس جائے تو اس سے وہ کاپی لے کر دوسرے کو دے دی جائے نمبر وہی رہنے دیا جائے مگر دستخط دوسرے آدمی کو جسے دوبارہ دی گئی ہے کے لے لئے جاویں اس سے کاپیاں محفوظ رکھنے کا خیال لوگوں کے دل میں رہے گا۔
۱۲۔ چاہئے کہ سب کارکنوں کو آریہ مذہب کے خلاف مسائل مختصراً عمدگی سے سمجھا دیئے جاویں اور ان کے موٹے موٹے اعتراضات کے جواب بھی تاکہ اگر کوئی ان کا مبلغ مل جائے اور اس سے مجبوراً بات کرنی پڑے تو سبکی اور شرمندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳۔ افسروں کو خاص توجہ رکھنی چاہئے کہ جن کے جو کام سپرد کیا گیا ہے وہی کام کرتے رہیں ہیں ایسا تو نہیں کہ جسے مثلاً خفیہ خبر رسانی پر لگایا گیا تھا وہ بحث میں لگ گیا ہے اور بحث والا خفیہ خبر رسانی پر۔ بے شک زائد وقت میں اگر ان کو اجازت مل جاوے تو دوسرا کام بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میلان طبیعت کے ماتحت وہ اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ جاویں۔
۱۴۔ افسروں کو چاہئے کہ خاص طور پر طبائع کے میلان کا خیال رکھیں میلان طبع کا خیال نہ رکھنے سے بہت دفعہ کام خراب ہو جاتا ہے۔ جو شخص جس کام کے اہل ہو اسے وہی کام سپرد کیا جائے دوسرا کام سپرد نہ کیا جائے۔ اور اگر بعد کے تجربہ سے پہلا خیال غلط معلوم ہو تو پھر مناسب تبدیلی کر دی جائے۔
۱۵۔ چاہئے کہ حلقوں کے افسر وہ ایسے لوگوں کو مقرر کرے کہ جنہوں نے مستقل طور پر کام کرنا ہے۔ دوسرے لوگ خواہ درجہ میں بڑے ہوں علم میں زیادہ ہوں ان کو مستقل کام کرنے والوں کے ماتحت رکھنا چاہئے ورنہ کام خراب ہو جائے گا۔
۱۶۔ کام کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے۔
۱۔ افسر اعلیٰ
۲۔ افسران حلقہ
۳۔ ایسے لوگ مقرر ہوں جو ہندی اور آریہ مذہب کا علم رکھتے ہوں اگر نہ ہوں تو صرف مرکز میں رکھے جاویں ورنہ ہو سکے تو فی حلقہ ایک آدمی مقرر کر دیا جائے یا ضروری حلقوں میں ایک آدمی رکھا جائے۔ یہ لوگ آریوں کے خلاف سامان بہم پہنچاویں۔ ۲۔ آریوں‘سناتینیوں‘جینیوں‘سکھوں میں جو اختلاف عقیدہ اور عمل میں ہے اس کو جمع کرکے مبلغوں کو سکھاویں۔ ۳۔ تاریخی طور پر برہمنوں نے راجپوتوں پر جو ظلم کئے ہیں ان کو جمع کریں خواہ عملاً ظلم کیا ہو خواہ ایسے عقائد کی تعلیم دے کر جن میں ان کا درجہ گھٹایا ہو۔ ۴۔ تاریخی طور پر ایسی مثالیں جمع کی جائیں جن سے معلوم ہو کہ مسلح راجپوتوں نے ہندو راجپوتوں کو شکست دی ہے اور پھر اس قوم کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ یہ لوگ جو فاتح ہیں ایسے بزدل تھے کہ ڈر کر مسلمان ہو گئے اور ہندو راجپوت جو ان سے ماریں کھاتے تھے ایسے بہادر تھے کہ یہ اپنے دھرم پر قائم رہے۔ ۵۔ بھرت پور۔ الور۔ بیکانیر اور دوسری راجپوتانہ کی ریاستوں کی تاریخوں سے یہ امر معلوم کیا جائے کہ وہ کب سے قائم ہیں اور اگر معلوم ہو کہ یہ قدیم سے چلی آتی ہیں مسلمان کی بنائی ہوئی نہیں ہیں یا یہ کہ ان کے علاقہ کبھی مسلمانوں کے براہ راست انتظام کے نیچے نہیں آئے تو پھر ان قوموں کے سرکردوں سے دریافت کی جائے کہ ان کی قومی روایتوں کے رو سے وہ ان علاقوں میں کب سے بس رہی ہیں جب ان کی روایتوں سے ثابت ہو جائے کہ وہ باہر سے آکر نہیں بسیں بلکہ اسی علاقہ کی رہنے والی ہیں تو پھر یہ بات ان کے سامنے پیش کی جائے اور آریوں سے بحث میں بھی یہ حربہ استعمال کیا جائے کہ جب ان علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ کبھی ہوا نہیں اور جب یہ قومیں باہر سے نہیں آئیں تو پھر ان ریاستوں میں جا کر مسلمانوں نے ان لوگوں کو جبراً مسلمان کیوں کر بنا لیا۔ اور اگر ان ریاستوں میں یہ لوگ بلاجبر کے مسلمان ہو گئے تو باہر کے اسی قسم کے لوگوں کی نسبت کیوں نہ یقین کیا جائے کہ وہ بھی اسی طرح مسلمان ہو گئے تھے۔
۶۔ ان لوگوں کے مسلمان ہونے کی تاریخ دریافت کی جائے پھر ہندو مصنفین کی کتب سے معلوم کیا جائے کہ وہ کس کس زمانہ میں مسلمانوںکے جبر کے متعلق مضامین لکھ چکے ہیں کن زمانوں کو ایسی کوششوں سے پاک بتاتے ہیں اور کن بادشاہوں کو غیر معتصب قرار دیتے ہیں پھر دونوں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے کہ جس وقت یہ لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت کون سی حکومت اور کون بادشاہ تھا اگر یہ ثابت ہو جائے اور یہی بات اندازاً معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت اسلامی حکومت کمزور تھی اور ہندو راجائوں کا زور تھا یا یہ کہ وہ اکبر اور جہانگیر کا زمانہ تھا تو پھر بتایا جائے کہ اس زمانہ میں اگر اس قدر کثرت سے لوگ جبراً مسلمان بنائے جاتے تو اس کا تاریخ میں ثبوت ہونا چاہئے تھا برخلاف اس کے اس وقت یا تو مسلمانوں کا زور تھا ہی نہیں بلکہ وہ کمزور تھے یا یہ کہ اس وقت کے بادشاہوں کو بھی جابر نہیں کہتے پھر کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑے تعداد ان کے زمانہ میں جبراً مسلمان بنائی گئی جو دوسرے بقول تمہارے جابر بادشاہوں کے زمانہ میں بھی نہیں بنائی گئی۔
۷۔ باوا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کے متعلق اور سکھ گروئوں میں ہندوئوں کے ظلم اور مسلمانوں کا ان سے نیک سلوک اور اس مضمون پر سکھ اخباروں کی آراء جمع کی جاویں اور ان کو مبلغین کو یاد کرایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں سکھ پولیس میں زیادہ ملیں گے بعض تعلقہ دار بھی ہیں ان پر اس ذریعہ سے اثر ڈالنا چاہئے۔ عام طور پر ان لوگوں کو آریہ دھوکہ دے کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ اور مسلمان تمہارے دشمن ہیں حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔
۸۔ آریوں کی کتاب مصنفہ سے جس میں راجپوتوں کو ترکوںں کی اولاد قرار دیا گیا ہے اور جس پر راجپوت انجمنوں نے سخت شورش برپا کیا تھا خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے مفید حوالے اور ان کے استعمال کا موقع اور طریق مبلغوں کو سکھایا جائے۔
۴۔ کچھ لوگ جو بحث کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام آریوں کو بحثوں میں الجھانا ہوتا کہ لوگوں پر ان کی کمزوری اور شکست ظاہر ہو۔
۵۔ کچھ لوگ جو مضمون نگاری کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام یہی ہو کہ مطلوبہ وفد کی کوششوں اور کامیوں کو پبلک کے سامنے لاتا رہے تاکہ لوگوںکو سلسلہ کے کام سے دلچسپی پیدا ہو اور جماعت میں جوش پیدا ہو اور دوسرے لوگوں میں زندگی اور ہمدردی پیدا ہو۔ ان کو مختلف اخبارات سلسلہ اور دوسرے انگریزی اور اردو اخبارات میں برابر اور متواتر مضمون لکھتے رہنا چاہئے لیکن یاد رہے کہ (۱) مضون نہایت مختصر ہوں ایک یا ڈیڑھ کالم سے زیادہ نہ ہوں۔ (۲) دلچسپ پیرایہ میں بیان ہوں یوں نہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اپنی مدح کر رہا ہے ۔ (۳) جوش دلانے والے ہوں۔ (۴) خاص دلچسپ واقعات مثلاً کسی مبلغ کی خاص قربانی (خواہ احمدی ہو خواہ غیر احمدی) کو بیان کیا جائے آریوں کی خفیہ تدابیر کو طشت ازبام کی جائے۔ ان لوگوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا جائے۔ ان کی روایات اور رسوم کو بیان کیا جائے۔ خاص کامیابیوں کو بیان کیا جائے۔ اپنے مبلغوں کے ایثار پر روشنی ڈالی جائے۔ ہر دفعہ نئے واقعات ہوں نئے پیرایہ میں ہوں۔ (۴) چونکہ اخبارات بہت سے ہیں اور ایک ہی مضمون کو بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے اس لئے خاص مضامین کو چھوڑ کر باقی مضامین اس طرح لکھے جاویں کہ گو سب واقعات سب اخباروں کو جائیں لیکن ایک اخبار میں باقی واقعات مختصر ہوں اور ایک واقع کو خاص طور پر نمایاں کیا جائے۔ دوسرے میں اس کو مختصر اور ایک دوسرے امر کو نمایاں کرکے بیان کیا جائے اس طرح سب واقعات بہ صورت اجمال سب اخباروں میں شائع ہو جائیں گے اور تفصیل سب میں مجموعی طور پر مل جاوے گی اس تفصیل کی خاطر اجمال کو شوق سے لوگ اخبار سے لیں گے۔ (۵) جو مضمون چھپے اس میں لکھنے والے کا نام اس طرح آوے کہ احمدیہ وفد قادیان کا علم لوگوں کو ہوتا رہے۔
۶۔ مختلف ایسے لوگوں کے نام پر یہ مضمون چھپیں جو ڈگری یافتہ ہوں خواہ ایم اے بی اے خواہ مولوی فاضل منشی فاضل ڈاکٹر پلیڈر بیرسٹر وغیرہ۔ (۷) سب ایسے مضامین جو چھپیں وہ صدر دفتر سے جاویں تا یہ دیکھ لیا جائے کہ سب مضامین کی روح ایک ہی ہے اور کہیں اس میں تضاد تو نہیں ہو گیا بلادفتر کے معائنہ کسی شخص کو اجازت نہ ہو کہ اپنے طور پر مضمون لکھ کر شائع کرے۔ (۸) اگر کوئی کارکن دوسری جماعت کا سچے اخلاص سے کام کر رہا ہے یا یہ کہ ہمارے کام میں مدد دے رہا ہے تو اس کا ذکر بھی کیا جائے مگر ایسی طرز پر کہ دوسرے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے مقابلہ میں اس کو اچھا قرار دیا گیا ہے۔ رقابت پیدا نہ ہونے دی جائے۔ (۹) خواہ کسی افسر کا کسی کارکن سے کوئی اختلاف ہو اس کے اچھے کام کو ظاہر کرنے میں ہرگز کمی نہ کریں۔
۵۔ ایک شخص ایسا مرکز میں رہے جو دستی پریس (چھوٹا نقلوں کا پریس) کا کام اچھی طرح کر سکے تاکہ جہاں نقلیں بھیجنے کی ضرورت پیش آوے وہاں نقلیں فوراً بھیجی جا سکیں۔
۶۔ کچھ ایسے لوگ ہوں جو حکام کو ملنے ملانے کا کام اچھی طرح کر سکیں اور اس بات کی نگہداشت رکھیں کہ ہندو لوگ غلط شکایتوں کے ذریعہ حکام کو بدظن کرکے کام میں روک تو نہیں ڈالنی چاہتے۔
۷۔ ایک آدمی کم سے کم زیادہ ہوں تو اچھے ہیں فوٹو کا کام اچھی طرح کر سکنے کی قابلیت رکھنے والا وفد میں ہو اگر کوئی موجودہ وفد میں سے اس کام کو نہیں جانتا تو کسی ہوشیار آدمی کو یہ کام سکھا لیا جائے مگر چست رہنے والا ہو آہستہ فوٹو لینے کا یہ موقع نہیں ہو گا۔
۸۔ ہر حلقہ کے مرکز میں افسر کے ساتھ ایک مددگار بھی رکھا جائے جو چلنے پھرنے میں ہوشیار ہو تا ادھر سے ادھر خبر پہنچا سکے۔
۹۔ وفد کے ساتھ دین اسلام سے واقف ایک عالم کی ضرورت ہے جو علماء کی مجالس میں اپنے علم سے اثر ڈال سکے یا مباحثات میں اسلامی نقطہ خیال کی خوبی کی وضاحت کر سکے۔
۱۰۔ کچھ ایسے لوگ ہوں جو شعر اچھی طرح پڑھ سکیں۔
۱۱۔ کوئی آدمی متحرک تصاویر یا بائسکوپ دکھانے کی قابلیت رکھنے والا بھی ہونا چاہئے تا اگر ضرورت پڑے تو آریوں کی لٹھ بند جماعتوں کی تصویریں ان کو دکھاتا پھرے اور اس طرح ہو سکے تو پرانے براہمن بادشاہوں کے مظالم کا نقشہ۔
۱۲۔ جہاں تک ہو سکے ایک قانوں دان آدمی بھی ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی ہیچ ڈال کر روکیں ڈالی جاویں تو فوری اور معتبر مشورہ ہو سکے۔
۱۳۔ ind] ga[t کچھ آدمی دفتری کام کرنے کی قابلیت رکھنے والے بھی چاہئیں تا اس کام کو اچھی طرح سنبھال سکیں۔
۱۴۔ کچھ آدمی آریوں کے ارادوں کا پتہ لگانے کے لئے مقرر ہونے چاہئیں۔
۱۵۔ کام کرنے والوں کو چاہئے کہ مناسب مقامات کو دیکھ کر اسے حلقہ تجویز کریں جہاں سے آسانی سے ایک حلقہ کی نگرانی ہو سکے۔ یہ مقام ان تمام جہات سے جو ہدایات نمبر اول میں درج ہیں مناسب ہو۔
۱۶۔ چاہئے کہ کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک حصہ جماعت کا ان لوگوں میں کام کرے جن میں آریہ اپنا جال پھیلا چکے ہیں دوسرا حصہ ان لوگوں میں کام کرے جن میں ابھی تک انہوں نے قطعاً جال نہیں پھیلایا یا پھیلایا ہے تو اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔
۱۷۔ روپیہ چاہئے کہ بنک میں جمع رہے۔ مگر سو دو سو روپیہ ہر حلقہ کے افسر کے نام سے اس جگہ کے سیونگ بنک میں جمع کر دیا جائے جس سے بوقت اشد ضرورت اسے روپیہ نکالنے کی اجازت ہو۔
۱۸۔ روپیہ کے خرچ میں کفایت کو مدنظر رکھنا چاہئے اگر کسی افسر سے بے احتیاطی ہوئی تو اس کا اسے ذمہ دار قرار دیا جائے گا مگر یاد رہے کہ ذمہ داری سے ڈر کر کام میں سستی نہیں کرنی چاہئے ذمہ داری اٹھائے بغیر انسان تعریف اور ثواب کا مستحق نہیں بنتا۔
ھدایات برائے مبلغین اسلام
(سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رقم فرمودہ اہم ہدایات جو انسداد و ارتداد کے جہاد میں شامل ہونے والے ہر مجاہد کو مطبوعہ ٹریکٹ کی صورت میں دی جاتی تھیں)
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیمط
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
‏rov.5.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
ھدایات برائے مبلغین اسلام
مکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ چونکہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ انسداد فتنہ ارتداد کے لئے وقف کیا ہے۔ میں چند ہدایات اس کام کے متعلق آپ کو دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے افسروں کے احکام کے ماتحت پوری طرح ان ہدایات پر عمل کریں گے۔ وہ ہدایات یہ ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے نیک نیت اور محض ابتغاًء لوجہ اللہ اس کام کا ارادہ کریں۔
۲۔ گھر سے نکلیں تو دعا کرتے ہوئے اور رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا کہتے ہوئے نکلیں۔ اور بہت استغفار کرتے جائیں۔ کہ خدا تعالیٰ کمزوروں پر پردہ ڈال کر خدمت دین کا کوئی حقیقی کام لے لے۔
۳۔ سورہ فاتحہ اور درود کا بہت ورد رکھیں۔ نمازوں کے بعد تسبیح۔ تمحید اور تکبیر ضرور کریں۔ اور کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ذکر الٰہی کریں کہ ایسے اوقات میں یہ نسخہ نور قلب پیدا کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے۔
۴۔ ا۔ بھاشا کے الفاظ سیکھنے اور ان کے استعمال کرنے کی طرف خاص توجہ کریں کہ تبلیغ کا آلہ زبان ہے۔ زبان نہ آتی ہو تو تبلیغ بے اثر ہو جاتی ہے۔ پس بھاشا جو ان لوگوں کی زبان ہے۔ اس کے سیکھنے کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے۔ اس میں جس قدر کوشش کریں گے۔ اسی قدر تبلیغ زیادہ موثر ہو گی۔ اور جس قدر تبلیغ زیادہ موثر ہو گی اسی قدر ثواب کا زیادہ موقع ملے گا۔
(ب) اسی طرح جس قوم سے مقابلہ ہو۔ اس کے مذہب اور طریق سے پوری واقفیت نہ ہو تو مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔ پس اگر آریوں کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو مرکز سے ان کے متعلق ضروری معلومات اور حوالوں کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کر لیں۔ اور اسلام پر ان کے اعتراضوں کے جواب بھی۔ اور ان کو بار بار پڑھ کر یاد کرتے رہا کریں۔
۵۔ راستہ میں لوگوں سے ہرگز فخریہ طور پر باتیں نہ کرتے جاویں۔ فخر انسان کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے اور سیاستاً بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے۔ دشمن کی توجہ اس طرف پھر جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتا ہے۔
۶۔ اگر پہلے سے آپ کی جگہ مقرر ہے۔ تو جو جگہ مقرر ہے۔اس جگہ جا کر مبلغ سے چارج باقاعدہ لے لیں۔ اور اس سے سب علوم ضروریہ حاصل کر لیں۔ اور اگر جگہ مقرر نہیں تو پھر مرکز میں جا کر افسر اعلیٰ سے ہدایات حاصل کریں۔
۷۔ جس قصبہ میں داخل ہوں۔ جس وقت وہ نظر آوے۔ مندرجہ بالا مسنون دعا کم سے کم تین دفعہ خشوع اور خضوع سے پڑھیں۔ نہایت مجرب اور مفید ہے۔ اللھم رب السموت السبع وما اظللن و رب الارضین السبع وما اقللن و رب الشیاطین وما اظللن و رب الریاح وما ذرین فانا نسالک خیر ھذہ القریہ و خیر اھلھا و خیر مافیھا و نعوذ بک من شر ھذہ القریہ و شر اھلھا و شرما فیھا۔ اللھم بارک لنا فیھا و ارزقنا جناھا وحببنا الی اھلھا وحبب صالحی اھلھا الینا۔ آمین۔ کم سے کم تین دفعہ سمجھ کر یہ دعا مانگو رسول کریم~صل۱~ سے یہ مروی۔ اور میرا اس کے متعلق وسیع تجربہ ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اے اللہ جو سات آسمانوں کا رب ہے۔ اور ان کا بھی جن پر یہ سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اور جو ساتوں زمینوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن کو یہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور شیطانوں کا بھی اور ان کا بھی جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں۔ اور ہوائوں کا بھی۔ اور ان چیزوں کا بھی جن کو وہ اڑاتی ہیں۔ ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی طلب کرتے ہیں اور اس کے باشندوں کی بھلائی بھی طلب کرتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی بھی جو اس میں پائی جاتی ہے۔ اور ہم اس بستی کی ہر ایک برائی سے پناہ مانگتے ہیں۔ اور اس بستی میں رہنے والوں کی برائی سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ اور اس بستی کی ہر ایک بری شے سے پناہ مانگتے ہیں۔ اے خدا اس بستی میں ہمارے قیام کو بابرکت کر۔ اور اس کی نعمتوں اور بارشوں سے ہمیں متمتع کر۔ اور ہماری محبت اس جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈال اور ہمارے دل میں اس جگہ کے نیک لوگوں کی محبت پیدا کر۔
۸۔ سفر سے نکلتے ہی اپنے پاس ایک پاکٹ بک رکھیں۔ جس میں سب ضروری امور لکھتے چلے جاویں۔ کم سے کم دو کارڈ اور ایک لفافہ اور پنسل و چاقو بھی ہر وقت ساتھ رہیں۔
۹۔ جس حلقہ میں کام کرنا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی ان امور کو دریافت کریں
(۱) وہ کس ضلع میں ہے۔ (۲) کس تحصیل میں ہے۔ (۳) وہ کس تھانہ میں ہے۔ (۴) اس کا ڈاک خانہ کہاں ہے۔ (۵) اس میں کوئی مدرسہ بھی ہے یا نہیں۔ (۶) اس میں کوئی شفا خانہ بھی ہے یا نہیں۔ (۷) اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کون ہے اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیسا ہے؟ (۸) اس تحصیل کے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کون ہیں اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں؟ (۹) اس تھانہ میں تھانیدار اور اس کے اوپر انسپکٹر کون ہے اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں۔ (۱۰) اس گائوں میں اگر پولیس مین مقرر ہے تو وہ کون ہے اور اس کے اخلاق اور اس کا معاملہ کیسا ہے۔ (۱۱) اس کے پوسٹ آفس کا انچارج کون ہے اور چٹھی رساں کون ہے اور ان کا طریق اس تحریک شدھی میں کیسا ہے۔ (۱۲) ڈاک وہاں کتنی دفعہ دن یا ہفتہ میں آتی ہے۔ (۱۳) مدرس کون لوگ ہیں اور وہ اس تحریک میں کیسا حصہ لیتے ہیں۔ (۱۴) ڈاکٹر کون ہے اور اس تحریک میں کیا حصہ لیتا ہے۔ (۱۵) اس میں کوئی مسجد ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو امام ہے یا نہیں اگر ہے تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
۱۰۔ حلقہ کا افسر ڈپٹی کمشنر سے۔ تحصیل کا انچارج تحصیلدار سے۔ تھانہ کا انچارج تھانہ دار سے ملنے کی کوشش کرے اور بغیر اپنے کام کی تفصیل بتائے اس کی دوستی اور ہمدردی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ بالا دوسرے لوگوں سے بھی اپنے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کرے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر نقصان یا فائدہ چھوٹے لوگوں سے جیسے پولیس مین چھٹی رسان وغیرہ سے پہنچ سکتا ہے اس قدر بڑے لوگوں سے نہیں پہنچ سکتا۔
۱۱۔ جس گائوں میں جائے اس کے مالک اور نمبردار اور پٹواری کا پتہ لے۔ اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اور ان سے مدد کی درخواست کرے مگر یہ بات صاف صاف کہہ دے کہ مدد سے مراد میری چندہ نہیں بلکہ اخلاقی اور مشورہ کی مدد ہے تاکہ وہ پہلے ہی ڈر نہ جائے۔ اگر کوئی شخص مالی مدد دینا بھی چاہے تو شروع میں مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ابھی آپ مجھ سے اور ہمارے کام سے واقف نہیں۔ جب واقف ہو کر اسے مفید سمجھیں گے اور ہم لوگوں کو دیانتدار پاویں گے تب جو مدد اس کام کے لئے آپ دیں گے اسے ہم خوشی سے قبول کریں گے۔ اگر وہ غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے تعلقات دنیاوی پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ میل ملاقات کا بھی ایک لحاظ ہوتا ہے۔
۱۲۔ کوئی مالی مدد دے تو اسے اپنی ذات پر نہ خرچ کرے بلکہ اس کی رسید باقاعدہ دے اور پھر اصل رسید مرکزی حلقہ سے لا کر دے تا لوگوں پر انتظام کی خوبی اور کارکنوں کی دیانتداری کا اثر ہو۔
۱۳۔ سادہ زندگی بسر کرے اور اگر کوئی دعوت کرے تو شرم اور حیا سے کھانا کھاوے۔ کوئی چیز خود نہ مانگے اور جہاں تک ہو سکے دعوت کرنے والے کو تکلف سے منع کرے اور سمجھاوے کہ میری اصل دعوت تو میرے کام میں مدد کرنا ہے مگر مستقل طور پر کسی کے ہاں بلا قیمت ادا کرنے کے نہ کھاوے۔
۱۴۔ دورہ کرتے وقت جو جو لوگ اسے شریف نظر آویں اور جن سے اس کے کام میں کوئی مدد مل سکتی ہے ان کا نام اور پتہ احتیاط سے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کرے۔ تابعد میں آنے والے مبلغوں کے لئے آسانی پیدا ہو۔
۱۵۔ جن لوگوں سے اسے واسطہ پڑنا ہے۔ خصوصاً افسروں۔ بڑے زمینداروں یا اور دلچسپی لینے والوں کے متعلق غور کرے کہ ان سے کام لینے کا کیا ڈھب ہے اور خصوصیت سے اس امر کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرے کہ کس کس میں کون کون سے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں جن کے ابھارنے سے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
۱۶۔ جن لوگوں سے کام لینا ہے ان میں سے دو ایسے شخصوں کو کبھی جمع نہ ہونے دو۔ جن میں آپس میں نقار ہو۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ہوشیاری سے دریافت کر لو کہ ان معززین کی آپس میں مخالفت تو نہیں۔ اگر ہے تو کس کس سے ہے جن دو آدمیوں میں مقابلہ اور نقار ہو ان کو اپنے کام کے لئے کبھی جمع نہ کرو بلکہ ان سے الگ الگ کام لو اور کبھی ان کو محسوس نہ ہونے دو کہ تم ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ تعلق رکھتے ہو۔ تمہاری نظر میں وہ سب برابر ہونے چاہیں اور کوشش کرو کہ جس طرح ہو سکے انکا نقار دور کرکے ان کو کلمہ واحد پر اسلام کی خدمت کے لئے جمع کر دو۔
۱۷۔ جس جگہ جائو وہاں کے لوگوں کی قوم ان کی قومی تاریخ اور ان کی قومی خصوصیات‘ان کی تعلیمی حالت‘ان کی مالی حالت اور ان کی رسومات کا خوب اچھی طرح پتہ لو اور پاکٹ بک میں لکھ لو اور جہاں تک ہو سکے ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھو کہ جن باتوں کو وہ ناپسند کرتے ہیں وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہ آویں۔
۱۸۔ جس قوم میں تبلیغ کے لئے جائو اس کے متعلق دریافت کرلو کہ اس میں سب سے زیادہ مناسب آدمی کونسا ہے جو جلد حق کو قبول کر لے گا۔ اس سے پہلے ملو پھر اس سے رئیس کا پتہ لو جس کا لوگوں پر سب سے زیادہ اثر ہے پھر اس سے ملو اور اسی معرفت پہلے قوم کو درست کرنے کی کوشش کرو۔
۱۹۔ جب کسی قوم میں جائو تو پہلے یہ دیکھو کہ اس قوم کو ہندو مذہب سے کون کونسی مشارکت ہے اور اسلام سے کون کونسی مشارکت ہے اور ان کو اپنی کاپی میں نوٹ کر لو۔ پھر ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر جو ان میں اسلام کی ہیں۔ ان میں اسلام کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان اسلامی مسائل کی خوبی پر خاص طور پر زور دو جن پر وہ پہلے سے کاربند ہیں اور جن کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔
۲۰۔ جب ایسی جگہ پر جائو جہاں کے لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جو اسلام کی کھلی تبلیغ کو بھی سننا پسند نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو جاتے ہی کھلے طور پر تبلیغ نہ کرنے لگو بلکہ مناسب ہو تو اپنا مقصد پہلے ان پر ظاہر ہی نہ کرو۔ اگر کوئی پوچھے تو بے شک بتا دو۔ مگر خود اپنی طرف سے کوئی چرچا نہ کرو کیونکہ اس طرح ایسے لوگوں میں ضد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
۲۱۔ اردگرد کے مسلمانوں کو یہ باتیں سمجھانے کی کوشش کرو کہ مسلمانوں کی عدم ہمدردی اور سختی سے یہ لوگ تنگ آکر اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام کی خاطر آپ اب ان سے اچھی طرح معاملہ کریں اور خوش اخلاقی اور احسان سے پیش آویں اور سمجھاویں کہ ان کا ہندو ہونا نہ صرف ہمارے دین کے لئے مضر ہو گا بلکہ اس کا یہ نتیجہ بھی ہو گا کہ ہندو آگے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچائیں گے۔
(ب) یہ بھی سمجھائیں کہ اس فتنہ کو سختی سے نہیں روکا جا سکتا اور سختی سے روکنے کا فائدہ بھی کچھ نہیں۔ پس چاہئے کہ محبت کی دھار سے ان کی نفرت کی کھال کو چیرا جائے اور پیار کی رسی سے ان کو اپنی طرف کھینچا جائے۔
۲۲۔ وہ لوگ جو غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ پس کبھی ان سے علمی بحثیں نہ کرو۔ بالکل موٹی موٹی باتیں ان سے کرو۔ موٹی موٹی باتیں یہ ہیں۔
آریہ مذہب کے بانی نے کرشن جی کی (جن کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں اور ان سے شدید تعلق رکھتے ہیں) جو بڑے بزرگ تھے۔ ہتک کی ہے۔
نیوگ کا مسئلہ خوب یاد رکھو اور ان کو سمجھائو کہ تم راجپوت ہو کر ایسی تعلیم کے پیچھے جا سکتے ہو۔ مرکز میں ستیارتھ پرکاش رہے گی اگر حوالہ مانگیں تو دکھا سکتے ہو۔
ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے آبائو اجداد کو زبردستی مسلمان کر لیا گیا تھا۔ ان سے کہو کہ راجپوت تو کسی سے ڈرتا نہیں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اس بات کو ماننے کے تو یہ معنے ہوں گے کہ تمہارے باپ دادا راجپوت ہی نہ تھے۔ کیا اس قدر قوم راجپوتوں کی اس طرح دھرم کو خوف یا لالچ سے چھوڑ سکتی تھی۔
کہو کہ یہ بات برہمنوں نے راجپوتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بنائی ہے۔ پہلے ان لوگوں نے تمہاری زمینوں کو سود سے تباہ کیا اب یہ لوگ تمہاری قومی خصوصیت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں۔ یہ بنیئے تو اپنے ایمان پر قائم رہے اور تم راجپوت بہادر ہو کر بادشاہوں سے ڈر گئے۔ یہ جھوٹ ہے تمہارے باپ دادوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا تھا۔
ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی قوم سے آملو۔ ان کو سمجھائو کہ لاکھوں راجپوت مسلمان ہو چکے ہیں۔ پس اگر ملنا ہے تو یہ ہندو مسلمان ہو کر تم سے مل جاویں اور یہ ملاپ کیسا ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر دور کے تعلق والوں سے جاملو۔
ان کو بتائو کہ کرشن جی کی ہم مسلمان تومہما کرتے ہیں اور ان کو اوتار مانتے ہیں لیکن آریہ ان کی ہتک کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں۔ تمہارے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور الگ کچھ اور کہتے ہیں۔
ان کو بتائو کہ ہندو تو تم کو ہندو کرکے بھی چھوت چھات کرتے ہیں اور کریں گے۔ چند لوگ لالچ دلانے کو تمہارے ساتھ کھاپی لیتے ہیں ورنہ باقی قوم تم سے برتائو نہیں کرے گی چاہو تو چل کر اس کا تجربہ کر لو لیکن مسلمان تم کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔
ان کو بتائو کہ آریہ جو آج تم کو چھوت چھات کی تعلیم دیتے ہیں دوسری جگہوں میں جا کر نیچ قوموں میں شدھی کرتے اور چماروں کو ساتھ ملاتے ہیں۔ اس کے حوالے یاد رکھو۔ (جیسے جموں میں شدھی ہو رہی ہے) لیکن ایسی طرز پر بات نہ کرو کہ گویا تم چھوت چھات کے قائل ہو بلکہ اس بات کا اظہار کرو کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں۔
ان کو بتائو کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ اس کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ سود کی شرح محدود کر دی جائے اور قانون انتقال اراضی پاس کیا جائے مگر ہندو اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں (ان دونوں قانونوں کو اچھی طرح سمجھ لو) ان باتوں کا ان کو فائدہ سمجھائو اور کہو کہ ان کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو آریہ یا ہندو آئے اسے کہو کہ اگر تم سچ مچ ہمارے خیر خواہ ہو تو یہ دونوں قانون پاس کرائو۔ پھر ہم سمجھیں گے کہ تم ہمارے خیر خواہ ہو۔
۲۳۔ اپنے دل کو پاک کرکے اور ہر ایک تکبر سے خالی کرکے بیماروں اور مسکینوں کے لئے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور سنے گا انشاء اللہ۔ میں بھی انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا تا خدا تعالیٰ تمہاری دعائوں میں برکت دے۔
۲۴۔ اپنی زبان کو اس بات کا عادی بنائو کہ ان بزرگوں کو جن کو فی الواقع ہم بھی بزرگ ہی سمجھتے ہیں ایسے طریق پر یاد کرو جو ادب اور اخلاص کا ہو۔
۲۵۔ کھانے پینے پہننے میں ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ الگ جو چاہو کرو لیکن ان کے سامنے ان کے دل کو تکلیف دینے والی بات نہ کرو کہ علاوہ تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے یہ بداخلاقی بھی ہے۔
۲۶۔ ہر ایک کام تدریجی طور پر ہوتا ہے یہ مت خیال کرو کہ وہ ایک دن میں پکے مسلمان ہو جائیں گے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوں گے پس یک دم ان پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ تین چار ماہ میں خود ہی درست ہو جائیں گے۔ پہلے تو صرف اسلام سے محبت پیدا کرو اور نام کے مسلمان بنائو۔ مگر یہ بھی نہ کرو کہ اسلام کی کوئی تعلیم ان سے چھپائو کیونکہ اس سے بعد میں ان کو ابتلاء آوے گا۔ اور یا وہ ایک نیا ہی دین بنا لیں گے۔
۲۷۔ لباس وغیرہ ان کے جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دو اور ابھی چوٹیاں منڈوانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں ادنیٰ درجہ کی ہیں۔ جب وہ پکے مسلمان ہو جائیں گے خود بخود ان سب باتوں پر عمل کرنے لگیں گے۔
۲۸۔ جس جگہ پر جائو۔ وہاں خوش خلقی سے پیش آئو اور بے کسوں کی مدد کرو اور دکھیاروں کی ہمدردی کرو کہ اچھے اخلاق سو واعظ سے بڑھ کر ہوتے ہیں
۲۹۔ جس جگہ کی نسبت معلوم ہو کہ وہاں کسی شخص کو مناسب مدد دے کر باقی قوم کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ تو اس کی اطلاع افسر حلقہ کو کرو۔ مگر یاد رکھو کہ اس طرف نہایت مجبوری میں توجہ کرنی چاہئے۔ جب کوئی چارہ ہو ہی نہیں۔ اسی صورت میں یہ طریق درست ہو سکتا ہے۔ مگر خود کوئی وعدہ نہ کرو نہ کوئی امید دلائو امداد کس رنگ میں دی جا سکے گی۔ یہ افسروں کی ہدایت میں درج ہو گا۔ اس معاملہ کو افسر حلقہ کے سپرد رہنے دو۔
۳۰۔ کھانے پینے پہننے میں بالکل سادہ رہیں اور جس جگہ افسر حلقہ مناسب سمجھے وہاں کا مقامی لباس پہن لیں اور جس جگہ وہ مناسب سمجھے ایک چارد ہی پہن لو اگر ضرورت ہو تو گیردا رنگ دلوا لو۔ یاد رکھو کہ لباس کا تغیر اصل نہیں۔ لباس کا تغیر اسی وقت برا ہوتا ہے جب انسان ریا کے لئے یا کسی قوم سے مشابہت کی غرض سے پہنچتا ہے۔ تمہارا تغیر لباس تو عارضی ہو گا اور جنگ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہو گا۔ پس تمہارا طریق قابل اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ تم سادھو یا فقیر یا صوفی کہلانے کے لئے ایسا طریق اختیار نہیں کرو گے اور چند دن کے بعد پھر اپنا لباس اختیار کر لو گے۔ اس لباس کی غرض تو صرف دشمن سلام کے حملہ کا جواب دینا ہو گی۔
۳۱۔ کبھی اپنے کام کی رپورٹ لکھنے اور پھر اس کو دفتر حلقہ میں بھیجنے میں سستی نہ کرو۔ یاد رکھو کہ یہ کام تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے۔ جب تک کام لینے والوں کو پورے حالات معلوم نہ ہوں وہ ہرگز کام کو اچھی طرح نہیں چلا سکتے۔ پس جو شخص اس کام میں سستی کرتا ہے وہ کام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
۳۲۔ دشمن تمہارے کام کو یہ نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کی تدابیر کو اختیار کرے گا۔ تمہاری ذرا سی بے احتیاطی کام کو صدمہ پہنچا سکتی ہے۔ پس فتنہ کے مقام سے دور رہو اور ایسی مجلس میں نہ جائو جس میں کوئی تہمت لگا سکے۔ کسی شخص کے گھر میں نہ جائو۔ جب تک تجربہ کے بعد ثابت نہ ہو جائے کہ وہ دشمن نہیں دوست ہے۔ کھلے میدان میں لوگوں سے باتیں کرو۔
۳۳۔ غصہ کی عادت ہمیشہ ہی بری ہے مگر کم سے کم اس سفر میں اس کو بالکل بھول جائو کسی وقت غصہ میں آکر اگر ایک لفظ بھی سخت تمہارے منہ سے نکل گیا یا تم کسی کو دھمکی دے بیٹھے یا کسی کو مار بیٹھے تو اس کا فائدہ تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مگر آریہ لوگ اس کو اس قدر شہرت دیں گے کہ ہمارے مبلغوںکو ان کے حملوں کے جواب دینے سے فرصت نہ ملے گی اور سلسلہ کی سخت بدنامی ہو گی۔ پس گالیاں سن کر دعا دو اور عملاً دو۔ اور جوش دلانے والی بات کو سن کر سنجیدگی سے کہہ دو کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم تمہیں اس کا جواب دینے سے مانع ہے۔ تم پھر بھی اس کے خیر خواہ ہی رہو۔ اپنے مخالف سے بھی کہو کہ تم اس کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم باوجود اس کی عداوت کے اس کے خیرہ خواہ ہو کیونکہ تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ اگر کوئی مار بھی بیٹھے تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ یاد رکھو کہ لوگ بزدل کو حقیر جانتے ہیں اور وہ فی الواقعہ حقیر ہے لیکن تکلیف اٹھا کر صبر کرنے والا اور اپنے کام سے ایک بال کے برابر نہ ہٹنے والا بزدل نہیں وہ بہادر ہے۔ بزدل وہ ہے جو میدان سے بھاگ جاتا ہے یا اپنی کوششوں کو سست کر دیتا ہے جو مار کھاتا ہے اور صبر کرتا اور اپنے کام کو جاری رکھتا ہے۔ وہی درحقیقت بہادر ہے کیونکہ بہادری کا پتہ تو اسی وقت لگتا ہے جب اپنے سے طاقتور کا مقابلہ ہو اور پھر بھی انسان نہ گھبرائے۔
۳۴۔ میں نے بار بار آہستگی کی تعلیم دی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مہینوں اور برسوں میں کام کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم بقدم چلو۔ جب قدم مضبوط جم جائے تو پھر دوسرے قدم کے اٹھانے میں دیر کرنا اپنے وقت کا خون کرنا اور اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر گھنٹوں میں کام ہوتا ہے تو گھنٹوں میں کرو۔ اگر منٹوں میں کام ہوتا ہے تو منٹوں میں کرو۔ صرف یہ خیال کر لو کہ اس کی رفتار ایسی تیز نہ ہو کہ خود کام ہی خراب ہو جائے یا آئندہ کام پر اس کا بداثر پڑے۔
۳۵۔ ایسے علاقوں میں رات نہ گزارو جہاں فتنہ کا ڈر ہو۔ اگر وہاں رات بسر کرنی ضروری ہے تو شہر میں نہ رہو۔ شہر سے باہر کسی پرانے مکان یا کسی جھونپڑے میں یا پاس کے کسی گائوں میں رہو صبح پھر وہیں آجائو۔ یہ بزدلی نہیں حکمت عملی ہے۔
۳۶۔ اس عرصہ میں اگر پرانے ہندوئوں کو تبلیغ کر سکو تو موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دو۔ مگر سوائے ان لوگوں کے جن کا کام بحث کرنا مقرر کیا گیا ہے۔ دوسرے لوگ بحث کے کام میں حصہ نہ لیں۔ بلکہ فرداً فرداً اور الگ الگ تبلیغ کریں۔
۳۷۔ اردگرد کے ہندئوں کے خیال معلوم کرکے جو شدہی کے برخلاف ہوں۔ ان میں بھی غیر معلوم طور پر اس تحریک کے خلاف جوش پیدا کرنے کی کوشش کرو۔
۳۸۔ یہ کوشش کرو کہ شدھی ہونے والے راجپوتوں پر ثابت ہو جائے کہ ہندو قوم بحیثیت قوم ان کے ساتھ اپنے لوگوں والا برتائو کرنے کے لئے تیار نہیں اور کسی تدبیر سے ایسے لوگوں کو جو اس بات کو دیکھ کر شدھی کی بے ہودگی کو سمجھ سکیں ان لوگوں سے ملائو۔ جو شدھی شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار نہیں۔
۳۹۔ ان ظلموں اور شرارتوں کی یا جبر کی خوب خبر رکھو۔ جو آریہ لوگ شدھی کے لئے کرتے ہیں اور جہاں جہاں ایسی مثالیں معلوم ہوں ان کا پورا حال معلوم کرکے گواہوں اور مخبروں کے نام سمیت اپنے حلقہ کے دفتر میں ضرور اطلاع دو۔ اس سے اس کام میں بہت مدد مل سکتی ہے اگر کسی جگہ کے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہاں آریوں نے بندوقیں اور تلواریں لے کر جمع ہونا ہے اور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس کی اطلاع ضرور قبل از وقت دفتر کو دو۔ تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
۴۰۔ راجپوت یا دیگر اقوام جن میں شدہی ہو رہی ہے ان میں سے اسلام کا درود رکھنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ ان سے دوستی اور تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے رہو۔
۴۱۔ ]dni [tag محنت سے کام کرو اور وقت کو ضائع نہ ہونے دو۔ دن میں کئی کئی گائوں کی خبر لے لینی چاہئے۔ چلنے پھرنے کی عادت ڈالو اور کم ہمتی کو پاس نہ آنے دو۔
۴۲۔ ہدایت زریں میرا لیکچر تبلیغ کے طریق پر ہے۔ وہ حلقوں میں اور صدر میں رکھا ہوا ہو گا اس کو خوب اچھی طرح پڑھ لو۔ کیونکہ اس میں تبلیغ کے متعلق بعض عمدہ گر جو اس جگہ درج نہیں ہیں ملیں گے۔
۴۳۔ بعض شعر جن میں آریہ مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی اور بعض نظمیں مسائل کے متعلق اپنے پاس رکھو اور گائوں کے چند نوجوان لوگوں کو یاد کرا دو پھر بار بار ان سے بلند آواز سے پڑھوا کر وہ سنو۔ اس سے ان میں جوش پیدا ہو گا۔
۴۴۔ اصل چیز جو ارتداد سے روک سکتی ہے وہ روحانیت ہے۔ پس سنجیدگی اور قناعت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ اس کے بغیر سب کوششیں رائیگاں ہیں۔
۴۵۔ جہاں تک ہو سکے ان کو زائد وقت میں تعلیم دینے کی کوشش کرو۔ لفظ لفظ پڑھ کر بھی انسان کچھ عرصہ میں پڑھ جاتا ہے۔ وہ اردو جاننے لگیں تو اس سے بھی اس فتنہ کا بہت حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
۴۶۔ ایسے تمام علاج جو مقامی واقفیت سے ذہن میں آویں ان سے اپنے حلقہ کے افسر کو اطلاع دو تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
۴۷۔ ایسے نوجوان جو ذھین ہوں اور تعلیم کا شوق رکھتے ہوں اور تعلیم کی خاطر چند دنوں کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہوں ان کی تلاش رکھو اور پتہ لگنے پر انکے نام اور پتہ اور جملہ حالات سے افسر حلقہ کو اطلاع دو۔
۴۸۔ جس بات کو مخفی رکھنے کے لئے کہا جائے۔ اس کو پوری طرح مخفی رکھو۔ حتیٰ کہ بلا اجازت اپنے آدمیوں پر بھی ظاہر نہ کرو کہ ایسا کرنا بدیانتی اور سلسلہ کی خیانت ہے۔
۴۹۔ آریوں کے طریق عمل اور ان کے مبلغوں کی نقل و حرکت اور ان کے انتظام کا نہایت ہوشیاری اور غور سے مطالعہ کرو اور جب کوئی بات اس کے متعلق معلوم ہو تو فوراً اس کے متعلق افسر حلقہ کو اطلاع دو۔ اس امر میں سستی تبلیغ کے لئے مضر اور اس میں کوشش تبلیغ کے لئے بہت مفید ہو گی۔
۵۰۔ مجھے خط براہ راست آپ لکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ خط رپورٹ نہیں سمجھا جائے گا۔ رپورٹ وہی سمجھی جائے گی جو افسروں کے توسط سے مجھ تک آئے گی۔
۵۱۔ اس عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت کیا تھا یا اب اس تحریک کے وقت کیا ہے اور ان ہدایات کو بار بار پڑھتے رہیں اور پوری طرح بلا سرمو کے فرق کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ اس میں آپ کا مددگار ہو۔
۵۲۔ جب دوسرے بھائی کو چارج دیں تو ان تمام لوگوں سے اس کو ملا دیں جو واقف ہو چکے ہیں اور جن سے کام میں مدد ملنے کی امید ہے اور ان لوگوں سے آگاہ کر دیں۔ جن سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور سارے علاقہ کی پوری خبر اس کو دیں اور اپنی نوٹ بک سے وہ سب باتیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اس کو نقل کروا دیں تاکہ وہ بغیر محنت کے کام کو آگے چلا سکے اور ایک دفعہ ساتھ مل کر اس کو دورہ کرا دیں۔ پھر دعائوں پر زور دیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا۔ واپس آجاویں اور آنے سے پہلے اپنے حلقہ کے مرکز میں آکر رپورٹ کریں کہ میں فلاں شخص کو چارج دے چکا ہوں اور جو معلومات وہ چاہیں ان کو بہم پہنچا کر اور ان کی اجازت سے مع الخیر واپس ہوں۔ خدا آپ کے ساتھ ہو۔ والسلام۔
خاکسار: میرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی قادیان دارالامان۔ ضلع گورداسپور
۲۱/ اپریل ۱۹۲۳ء
مجاہدین احمدیت شدھی کے علاقہ میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ شدھی کے خلاف اپنی سکیم یکم اپریل ۱۹۲۳ء سے جاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر حالات کی نزاکت کے پیش نظر حضور نے وسط مارچ ۱۹۲۳ء ہی سے اس کا آغاز فرما دیا۔
چنانچہ آپ کی ہدایت پر صیغہ ’’انسداد ملکانہ‘‘ کے نام سے ایک نیا دفتر کھولا گیا اور اس کے افسر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور نائب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب تجویز ہوئے۔ اس مرکزی ادارہ کے قیام کے ساتھ آپ نے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو امیر المجاہدین مقرر فرمایا۲۵۔ اور ان کی سرکردگی میں ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کا پہلا وفد روانہ فرمایا۔
اس پہلے وفد کے مجاہدین مندرجہ ذیل تھے۔ (۱) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے (امیر المجاہدین) (۲) حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی۔ (۳) شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے (۴) صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے (۵) صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس۔ سی۔ (۶) ڈاکٹر نور احمد صاحب سب اسسٹنٹ سرجن (۷) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب (نو مسلم‘قادیانی) (۸) مہاشہ محمد عمر صاحب نو مسلم (۹) ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (۱۰) چوہدری بدر الدین صاحب (۱۱) مولوی ظفر اسلام صاحب (۱۲) میاں عبدالسمیع صاحب (۱۳) محمد ابراہیم صاحب نائک (۱۴) فتح محمد صاحب ملتانی سپاہی (۱۵) عزیز احمد صاحب (۱۶) عبداللطیف صاحب گجراتی (۱۷) میاں خدا بخش صاحب (مومن پٹیالوی) (۱۸) حبیب الرحمن صاحب افغان (۱۹) سید صادق حسین صاحب اٹاوہ (جن کو اٹاوہ سے شامل وفد ہونے کی ہدایت دی گئی۲۶۔ اس وفد کی روانگی کے چند دن بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی آگرہ اور اس کے ماحول میں مناظرات اور تقاریر کے لئے بھجوائے گئے۔
چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی قیادت میں دستہ ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء کو روانہ ہو کر ۱۴/ مارچ ۱۹۲۳ء کو بمقام اچھنیرا ضلع آگرہ میں پہنچا۲۷۔
یہاں چوہدری نذیر احمد خاں صاحب وکیل ریاست جے پور اور نیاز محمد خان صاحب جے پور اور محبوب خاں صاحب جو اپنے علاقہ کے سرکردہ غیر احمدی راجپوتوں میں سے تھے اور اسلام کے لئے دردمند دل رکھتے تھے چوہدری صاحب کی ملاقات کے لئے آئے اور جماعت کا قافلہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ ہی لوگوں کے منتظر تھے۔ یہ کام بہت نازک ہے اور آپ ہی کی کوشش اور تندہی سے خاطر خواہ طور پر انجام پا سکے گا۔
اچھنیرہ میں مجلس ’’نمائندگان تبلیغ‘‘ کے نمائندوں میں شدید اختلاف رونما ہو چکے تھے اور ان کے دور ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ تاہم حضرت چوہدری صاحب نے ان تینوں اصحاب کی معرفت کہلا بھیجا کہ ہم اس انجمن سے ہر طرح ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر باہمی چپقلش کے انتہا تک پہنچنے کی وجہ سے ان نمائندوں میں اتفاق نہ ہو سکا۔ لہذا انجمن کی طرف سے چوہدری صاحب کو اطلاع آئی کہ آپ لوگ اپنا کام الگ شروع کر دیں اور ساتھ ہی احمدیوں کے لئے آگرہ کے ماحول کا ایک ایسا علاقہ مقرر کر دیا گیا۔ جہاں ارتداد پورے زوروں پر تھا یعنی اس علاقہ کا ایک حصہ تو مرتد ہو چکا تھا اور باقی علاقہ ارتداد سے خطرناک طور پر متاثر تھا۔ اس علاقہ کے راجپوتوں اور مولوی صاحبان نے متفق ہو کر کہا کہ اس علاقہ میں خطرہ بہت سخت ہے اس لئے ہم یہ کام آپ ہی کے سپرد کرتے ہیں۲۸۔
آریوں کی طرف سے شدھی کے مختلف ذرائع
وہ علاقہ جو جماعت احمدیہ کے لئے مقرر کیا گیا بلاشبہ سب سے اہم میدان جنگ تھا اور جیسا کہ احمدی مجاہدین کو یہاں پہنچ کر معلوم ہوا۔ یہاں آریہ چپہ چپہ پر شدھی میں مصروف تھے اور اس غرض کے لئے اس پراپیگنڈہ کے علاوہ جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ ہر قسم کے ناروا طریقے استعمال میں لا رہے تھے۔ کہیں روپے کا لالچ دے رہے تھے اور کہیں ظلم و تشدد کرکے انہیں اپنی زمین اور مکان سے بے دخل کر رہے تھے۲۹۔ اور یہ سب ہندو راجوں اور ہندو افسروں کی پشت پناہی میں ہو رہا تھا۔ مثلاً ضلع فرخ آباد کی ایک چھوٹی سی ریاست تروانامی تھی۔ جس کا راجہ شدھی کا بڑا زبردست حامی تھا۔ وہ خود دیہات میں جاتا۔ سائبان لگ جاتے حلوہ پوری پکنی شروع ہو جاتی۔ راجہ غریب ملکانوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا۔ انکے قرضے اتارتا اس طرح بھولے بھالے ملکان شدھ ہونے کے لئے تیار ہو جاتے۔ ایک اور طریق یہ دیکھنے میں آیا کہ گائوں کے چند شوریدہ سر آوارہ طبع لوگوں کو چن لیتے اور ان پر اپنا اثر جما کر باقی لوگوں کو بھی شدھ کر لیتے۔ جس گائوں کو شدھ کرنا ہوتا تھا وہاں کی ملکانہ آبادی سے کئی گناہ آدمی لے کر موٹروں‘گاڑیوں‘اونٹوں‘رتھوں‘بندوقوں اور تلواروں کے ساتھ پہنچتے اور اس نمائش سے مرعوب کرکے مسلمانوں کو شدھ کر لیتے۔ ضلع آگرہ کے ایک گائوں (فتح پور) میں جب آریہ گئے تو بعض مسلمان عورتوں نے جو شدھی کے خلاف تھیں تنگ آکر کنویں میں ڈوب مرنے کی کوشش کی جنہیں بڑی مشکل سے بچایا گیا۳۰۔ جہاں جہاں آریوں کا زور بڑھتا جاتا تھا شدھ سے انکار کرنے والوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا تا وہ بھی ارتداد اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۳۱۔
اس سلسلہ میں ایک اہم واقعہ جو ترتیب کے لحاظ سے آگے آنا چاہئے۔ مگر آریوں کی تشدد آمیز کارروائیوں کا نمونہ بتانے کے لئے ضروری ہے۔ یہیں درج کئے دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ فرخ آباد کے گائوں بھڑا میں ایک نوجوان شہزادہ نامی نے اپنی بہادر مسلمان بیوی ’’بسم اللہ‘‘ کو شدھ ہونے کے لئے کہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا جس پر شاہزادہ نے اسے لاٹھی سے مار مار کر نیم جان کر دیا وہ بے چاری آخر دم تک مرغ بسمل کی طرح تڑپتی رہی اور یہ کہتے ہی دم توڑ دیا کہ میں مر جائوں گی مگر شدھ نہیں ہوں گی اس حادثہ کے بعد آریوں نے اس مظلومہ کی لاش دفن کر دی اور مشہور کر دیا کہ وفات ہیضہ سے ہوئی ہے بسم اللہ کا باپ نور خاں ایک غریب اور بے کس آدمی تھا۔ بھاگا بھاگا اپنے مولویوں کے پاس گیا مگر کسی نے پروا نہ کی۔ آخر وہ فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے پاس گیا۔ انہوں نے آگرہ کے مرکز میں اطلاع دی اور شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ جو آگرہ میں مصروف جہاد تھے۔ فرخ آباد آئے اور نور خاں کی طرف سے عدالت میں درخواست دلوائی اور خاص توجہ سے مقدمہ کی پیروی کی۔ قصہ کوتاہ لاش نکلوائی گئی۔ اور ڈاکٹری معائنہ بھی ہوا۔ مگر اوپر سے نیچے تک تمام کارروائی ہندوئوں کے ہاتھوں میں ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم صاف بری ہو گیا۳۲۔
یہ تمام تر حربے اتنے ناروا اور خلاف اخلاق تھے کہ مشہور ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی کھلا اعتراف کرنا پڑا کہ۔
’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں تحریک شدھی کی بنیاد مختلف اسباب پر ہے اور ناپسندیدہ طریق پر اسے چلایا جا رہا ہے۔ بجائے امن و یکجہتی کے اس کی وجہ سے نفرت و حقارت‘بے اعتمادی اور تلخی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ رواداری کا قطعی فقدان ہو گیا ہے۔ اور ہم میں سے اچھے اچھے اشخاص بھی قابل شرم شکوک و شبہات سے بری نہیں ہیں‘‘۳۳۔
پھر ان ہی دنوں مسٹر گاندھی نے شدھی کے علمبردار سوامی شردھانند اور آریوں کی نسبت اپنی یہ واضح رائے دی کہ۔
’’آپ جہاں کہیں بھی آریہ سماجیوں کو پائیں گے وہاں ہی زندگی اور سرگرمی موجود ہو گی تنگ نظری اور لڑاکی عادت کی وجہ سے وہ ۔۔۔۔۔۔۔ دیگر مذاہب کے لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شردھا نندجی ۔۔۔۔۔۔۔ کو بھی اس سپرٹ کا حصہ وافر ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماجی اپدیشک (مبلغ) کو اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی جتنی کہ دیگر مذاہب کی بدگوئی کرنے کے وقت ہوتی ہے‘‘۳۴۔
مجاہدین احمدیت کی ابتدائی سرگرمیاں
یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے علاقہ ارتداد میں قدم رکھا۔ حضرت چوہدری صاحب نے اپنا مرکز شہر آگرہ میں قائم کرکے مجاہدین کو مین پوری‘ایٹہ‘فرخ آباد‘علی گڑھ‘کرنال اور مظفر نگر کے اضلاع سے صحیح صحیح حالات کی رپورٹ کے لئے بھیجا اور دس دن میں لوٹنے کی تاکید کر دی۳۵۔ جن علاقوں میں شدھی ہو چکی تھی۔ یا ہونے کی افواہ تھی وہاں بھی مبلغ بھجوا دیئے۔ خصوصاً ریاست بھرت پور کے اکرن نامی مشہور گائوں میں جہاں جمیا نامی ایک بہادر راجپوت بڑھیا پورے گائوں کے شدھ ہونے کے باوجود اسلام پر قائم تھی۳۶۔ جمیا کے بیٹوں نے آریوں کے دھمکانے پر اس سے بار بار کہا کہ شدھ ہو جائو تمام آریہ اور ریاست کے حاکم کہہ رہے ہیں مگر یہ نیک بخت عورت نہ مانی۔ اسے بہت دکھ دیئے گئے اور اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا لیکن وہ یہی کہتی رہی کہ ’’بیٹا میں اسلام کو ناہیں چھوڑ سکت چاہے گردن کٹ جائے‘‘۳۷۔ اسی طرح ملکان کے مشہور قصبہ نو گائوں میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ مقرر ہوئے۳۸۔
جو اصحاب علاقہ کا ابتدائی دورہ کرنے کے لئے بھجوائے گئے تھے وہ جلد ہی پورے محاذ کا دورہ کرکے نہایت اہم معلومات لے کر واپس آئے۔ اس سلسلہ میں انہیں سخت مجاہدہ کرنا پڑا۔ چنانچہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی‘صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے اور دوسرے مجاہدین نے تیز اور چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کیا۔ بعض اوقات کھانا تو الگ رہا ان کو پانی بھی نہ مل سکا۔ کھانے کے وقت یا تو اپنا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے دانے کھا کر پانی پی لیتے اور اگر سامان میسر آسکتا تو آٹے میں نمک ڈال کر اپنے ہاتھوں روٹی پکا کر کھا لیتے۔ رات کو جہاں جگہ ملتی سو جاتے۔ ملکان نے ان کی خاطر تواضع دودھ سے کرنا چاہی۔ مگر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے واپس کر دیا۔ بعض رئوسا نے مبلغین کے بستر اور سامان کے لئے مزدور دینا چاہے مگر یہ جانباز سپاہی اپنا سامان اٹھائے پیدل سفر کرتے رہے اور ایک گائوں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پروا کئے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گائوں کتنے فاصلے پر ہے فوراً آگے روانہ ہو جاتے انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پر خطر راستوں سے سفر کیا۔ جہاں جنگلی سور اور بھیڑیئے بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہ مجاہد ملکانوں پر پانی تک کا بھی بوجھ نہ ڈالتے۔ اور یہ کہتے کہ آپ لوگوںکو دین سکھانے کے لئے ہمارے آدمی آئیں گے۔ جو آپ سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچ بھی آپ برداشت کریں گے۔ یہ لوگ چونکہ اپنے مولوی صاحبان کی شکم پروریوں کی وجہ سے بدظن ہو چکے تھے۳۹۔ اس لئے ان کے نزدیک یہ بات بڑی حیرت انگیز تھی کہ ایسے خادم دین بھی موجود ہیں جو رضا کارانہ طور پر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کا بیٹرہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے نہ صرف تین دن کے اندر اندر ضلع ایٹہ کے اکثر دیہات کا دورہ مکمل کر لیا اور ہر گائوں سے متعلق ایسے تفصیلی کوائف مہیا کئے گویا مدت سے ان دیہات میں ان کی آمدورفت تھی۔
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم4] ft[s۴۰ اور خدا بخش صاحب ’’مومن جی‘‘ پٹیالوی نے ضلع فرخ آباد کا وسیع دورہ کیا۔ جناب ماسٹر صاحب نے جوگیوں کے لباس میں بھگوے کپڑے پہنے‘ننگے سر اور ننگے پائوں دورہ کرتے رہے جس کا مسلمانوں پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے مولوی نہیں دیکھے جو اس طرح رات دن تبلیغ میں بھاگے پھریں اور کسی پر کھانے پینے کا بوجھ نہ ڈالیں۔
جناب شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے ریاست بھرت پور اور علاقہ تسی میں گئے اور بہت سے گائوں میں پہنچ کر معزز لوگوں کو پیش آمدہ خطرہ سے آگاہ کیا۔ اسی دوران میں شیخ صاحب ریاست بھرت پور کے گائوں اکرن کی جواں ہمت ستر سالہ بڑھیا جمیا سے بھی ملے جو آریوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود مذہب اسلام پر قائم تھی۔ مائی جمیا نے بتایا کہ مرتد مسلمانوں نے تعصب اور ضد کی وجہ سے اس کی فصل کاٹنے سے بالکل انکار کر دیا ہے۔ یہ خبر آگرہ کے دارالتبلیغ میں پہنچی تو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر وفد المجاہدین نے اسی وقت جناب قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے بی۔ ٹی کو (جو اس علاقہ کے انچارج تھے) حکم دیا کہ سب کام چھوڑ کر فوراً اپنے آدمیوں کو ساتھ لے کر فصل کاٹنا شروع کر دیں۔ اور اس مائی کی حفاظت کا پورا پورا سامان کریں۔ چنانچہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور دوسرے مجاہدین نے ہاتھوں میں درانتیاں پکڑ کر بڑھیا کی ساری فصل کاٹ دی‘‘۴۱۔
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے نے ضلع مین پوری اور متھرا کا دورہ کرکے قریباً چالیس دیہات میں چکر لگایا۔ اور سولہ میل روزانہ کی اوسط سے پیدل سفر کرتے رہے۔ ایک بار کھانے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا اور متواتر انیس گھنٹہ تک بھوکے رہے اور اسی حالت میں سفر جاری رکھا۴۲4] ft[r۔
غرض کہ اس پہلے ہرا دل دستہ کے مجاہدین دس دن تک آگرہ‘متھرا‘بھرت پور‘ایٹہ‘اٹاوہ‘مین پوری‘فرخ آباد کے اضلاع میں طوفانی دورہ کرکے نہ صرف آئندہ کی مورچہ بندی کے لئے مکمل رپورٹ اور سکیم ساتھ لائے بلکہ شدھی سے متاثر مقامات کے مسلمان ملکان کے حوصلے بلند کر دیئے اور ان کو آریوں کے عزائم سے چوکس اور ہوشیار کر دیا۔
حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے ۲۴/ مارچ کو تار دیا کہ بیس مبلغین کی فوری ضرورت ہے چنانچہ ادھر یہ مجاہدین حالات کا جائزہ لے کر آگرہ میں پہنچے ادھر ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے بیس کی بجائے بائیس مجاہدین کا دوسرا وفد آگیا۔ اس وفد کے بعض افراد کے نام یہ ہیں۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی۔ جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل۔ جناب مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی۔ منشی عبدالخالق صاحب کپورتھلوی۔ منشی محمد الدین صاحب ملتانی (والد ماجد جناب شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) ہادی علی خان صاحب۔ (برادر زادہ مولانا محمد علی و شوکت علی) شیخ محمد ابراہیم علی صاحب (پسر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) اور حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی۴۳۔
حضرت چوہدری صاحب رات کے ایک بجے تک اس وفد کو صورت حال سے آگاہ کرتے اور ہدایات دیتے رہے اور دوسرے ہی دن ۲۷/ مارچ ۱۹۲۳ء کو مختلف انسپکٹروں کی سرکردگی میں نئے مجاہدین کو مختلف اضلاع میں روانہ کرکے ہر طرف پھیلا دیا۴۴۔ چنانچہ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی بھوپت پور (ضلع ایٹہ) میں چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی متھرا کے گائوں بھائی میں۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب متھرا کے دوسرے گائوں انور میں اور سید عزیز الرحمن صاحب ضلع فرخ آباد میں بھجوائے گئے۴۵۔
میدان ارتداد میں تبلیغی جنگ کا ابتدائی نقشہ
اس دوسرے وفد کے پہنچنے پر میدان ارتداد میں مدافعت کا ابتدائی نقشہ یہ ہو گیا امیر المجاھدین کے ساتھ صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس سی اور خواجہ علام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے آگرہ میں کام شروع کیا۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس آگرہ اور دوسرے علاقوں میں مباحثوں اور تقریروں کے لئے مقرر ہوئے۔
ضلع آگرہ کے موضع کھڈوائی میں مولوی ظفر اسلام صاحب موضع سکرار میں منشی محمد دین صاحب اور ان کی نگرانی اور نئے حالات سے تبلیغی مرکز میں اطلاع دینے کی خدمت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کے سپرد ہوئی۔ ضلع متھرا میں (جو اس وقت آریوں کا بھاری مرکز تھا) حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب‘حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ‘میاں خدا بخش صاحب مومن‘چوہدری بدر الدین صاحب‘چوھدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی‘صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز‘حضرت قاضی محمد عبداللہ بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے پہلے ہی نو گائوں‘پرکھم‘موضع بھائی‘موضع باٹھی‘موضع تیرہ اور موضع بیری وغیرہ میں کام کر رہے تھے۔
ضلع فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم تھے اور ان کے تحت حضرت سید عزیز الرحمن صاحب اور دوسرے متعدد مجاہدین قائم گنج‘علی گڑھ و قنوج‘برون‘چھٹرمئو‘محمد آباد اور منگھوالی میں مصروف جہاد تھے۔ ضلع ایٹہ کے قصبات و مواضع (دھومٹری‘بھوپت پور اور کاس گنج) میں مولوی عبدالخالق صاحب اور مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی فاضل وغیرہ نے مورچے سنبھالے۔ ریاست بھرت پور‘ضلع علی گڑھ‘ضلع مظفر گڑھ اور ضلع اٹاوہ میں بالترتیب مولوی عبدالصمد صاحب پٹیالوی۔ شیخ ابراہیم علی صاحب۔ منشی عبدالسمیع صاحب کپورتھلوی اور ہادی علی خان صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے مجاہدین کا تقرر ہوا۴۶۔
۴/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے مجاہدین کا تیسرا وفد بھی۴۷ جو بائیس افراد پر مشتمل تھا راتوں رات ہدایات لے کر ۷/ اپریل کو میدان عمل میں پہنچ گیا۔ اس وفد میں دوسرے احباب کے علاوہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب‘حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکر‘حضرت مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری‘قریشی محمد حنیف صاحب میر پوری اور عبداللہ خانصاحب (خلف حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب بھی شامل تھے۔ اس وفد کی آمد پر زور شور سے تبلیغی جنگ لڑی جانے لگی۔
اسی دوران میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے افسر صیغہ انسداد ارتداد ملکانہ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ آگرہ تشریف لے گئے۴۸`۴۹ اور بچشم خود اصل حالات کا مشاہدہ کرکے اور مبلغین کو ضروری اور مناسب ہدایات دے کر ۲۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو واپس تشریف لائے۔ آپ کے تاثرات یہ تھے کہ ’’یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی۔ جس کا محاذ قریباً ایک سو میل کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں‘‘۵۰۔
آگرہ‘متھرا کے اضلاع اور ریاست بھرت پور میں شدھی کا حملہ بہت سخت تھا۔ مگر امیر وفد المجاہدین نے دور اندیشی کی کہ جن علاقوں میں آریہ ابھی پہنچے نہیں تھے یا ان کا زور کم تھا وہاں مجاہدین کو پیش قدمی کا حکم دے کر قبضہ کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے گائوں ارتداد سے بچ گئے۵۱body] ga[t۔
۱۶/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے انیس مجاہدین کا چوتھا وفد جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی امارت میں روانہ ہوا جو حضرت شیخ صاحب موصوف‘حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی‘مرزا مہتاب بیگ صاحب مولوی محمد اسماعیل صاحب (برادر اکبر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری) اور حضرت منشی قاسم علی خاں صاحب رامپوری وغیرہ اصحاب پر مشتمل تھا۵۲۔ ۱۸/ اپریل ۱۹۲۳ء کو آگرہ پہنچا۔ اس وفد کے پہنچنے پر میدان جہاد میں کام کرنے والوں کی مجموعی تعداد سو کے قریب ہو گئی۔ اس کے بعد ایسا انتظام کیا گیا کہ بیک وقت ایک ایک سو آنریری مبلغ اس علاقہ میں کام کرتے تھے ایک دستہ فارغ ہوتا تھا تو اس کی جگہ دوسرا وفد پہنچ جاتا تھا۵۳۔
اگلے وفدوں میں آنے والے بعض اصحاب کا نام بالترتیب یہ ہے۔ چوہدری غلام احمد صاحب کریام۔ شیخ فضل احمد صاحب ہیڈ کلرک راولپنڈی (حال ربوہ`) محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب لاہور (سابق جج ہائیکورٹ مغربی پاکستان`) جناب میاں عطاء اللہ صاحب (بی۔ اے ایل ایل بی لاہور سابق امیر جماعت راولپنڈی مقیم کینیڈا`) چوہدری احمد دین صاحب (وکیل گجرات`) میاں فضل کریم صاحب بی۔ اے‘(مرزا) عبدالحق صاحب لاہور (حال امیر صوبائی و صدر نگران بورڈ`) شیخ محمود احمد صاحب پلیڈر کپور تھلہ‘بابو غلام رسول صاحب ریڈر سیشن کورٹ پشاور‘سید فضل الرحمن صاحب فیضی کمرشل ہائوس منصوری‘حضرت میر مہدی حسین صاحب‘حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان‘حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی‘حضرت منشی فرزند علی خان صاحب‘ملک عزیز محمد صاحب پلیڈر ڈیرہ غازی خان‘حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب سنوریؓ۔
حضرت مولوی محمد حسین صاحب کے نہایت ایمان افروز چشم دید اور خودنوشت حالات
حضرت مولوی محمد حسین صاحب وہ خوش نصیب بزرگ ہیں جنہیں پہلی بار ۴۔ اپریل ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کے تیسرے وفد میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ بعد ازاں میں کیا عرصہ مربی
ملکانہ کی حیثیت سے شاندار خدمات کی توفیق ملی آپ اپنی کتاب ’’میری یادیں‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’شردھانند آریہ نے آگرہ سے غالباً یہ اشتہار دیا کہ اگر آریہ سماج چار لاکھ روپیہ اکٹھا کرکے مجھے بھیج دیں تو میں ساڑھے چار لاکھ ملکانہ مرد وزن بچوں کو آریہ بناسکتا ہوں۔ جب یہ اشتہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں پہنچا تو حضور کو سخت قلق ہوا اور آپ نے وہ اشتہار خطبہ جمعہ میں پڑھ کر سنایا اور اعلان کیا کہ ہماری جماعت اب میدان میں نکلے اور تین ماہ خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کرے اور اپنے ہی کرایہ اور کھانے کے بندوبست پر یوپی کے علاقہ جہاں بھی اس کا تعین کیا جائے رہ کر ان لوگوں کو دین
‏rov.5.22,a
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
حق سے اچھی طرح وابستہ کرے۔ چنانچہ جو لوگ اس کام کے لئے تیار ہوں وہ بہت جلد اپنی درخواستیں بھیج کر جانے کے لئے تیار رہیں۔ حضور کا یہ اعلان سنتے ہی سینکڑوں مخلصین نے درخواستیں دیں۔ میں نے بھی والد صاحب سے اجازت لے کر درخواست دے دی۔ میری اس درخواست کا سن کر والدہ صاحبہ بہت گھبرائیں کیونکہ کسی عورت نے بتا دیا تھا کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں ہندوئوں سے جھگڑے ہوں گے اور وہاں ہندو کثرت سے ہیں۔ نامعلوم یہ کہاں مارے جائیں۔ عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں۔ اسی لئے آپ بھی گھبرا گئیں۔ میں نے آپ کو بڑی محبت سے سمجھایا کہ خدا نے اس جگہ سے ہمیں بچائے رکھا جہاں ہم گورنمنٹ کی نوکری میں صرف جنگ کرنے کے لئے ہی گئے تھے اور یہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ خود ہی ہماری حفاظت کرے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں اور ہر نماز میں دوسری دعائوں کے ساتھ دین حق کی فتح کی دعا بھی کرنا شروع کردیں۔ قادیان سے ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو پہلا وفد برائے سروے حضور نے روانہ فرمایا۔ حضور اور دیگر احباب کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک وفد کو روانہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک کنویں کے نزدیک تمام احباب اکٹھے ہوگئے۔ حضور نے مختلف نصیحتیں کرنے کے بعد ایک لمبی دعا کروا کر وفد کو روانہ کیا اور اس وقت تک وہیں کھڑے رہے جب تک وفد کے احباب جاتے ہوئے دکھائی دیتے رہے۔ جب یہ وفد آنکھوں سے اوجھل ہوا تو حضور نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آگئے۔ اس وقت میرے دل میں بہت جوش اٹھا کہ کاش میں بھی اس جانے والے وفد کے ہمراہ ہوتا۔ واپس قادیان آکر غمگین دل کے ساتھ دوبارہ کام شروع کردیا۔ بالاخر ۲۴ مارچ ۱۹۲۳ء کو دوسرا وفد جانے کی افواہ سنی۔ بڑی خوشی ہوئی کہ اب میرا نام بھی اس وفد میں ضرور آجائے گا۔ میں نے فہرست میں اپنے نام کی تسلی کرنے کے لئے کوشش کی تو جواب ملا کہ آپ تسلی سے اپنا کام جاری رکھیں۔ جب آپ کا نام آئے گا تو روانگی سے ایک دن قبل آپ کو اطلاع کردی جائے گی۔ ۲۳ مارچ کا دن بھی آگیا مگر شام تک مجھے کوئی اطلاع نہ ملی اور اگلے دن صبح یہ اعلان ہوگیا کہ آج بعد دوپہر دوسرا وفد روانہ ہوگا۔ چنانچہ پہلے وفد کی روانگی کی طرح اب بھی ہم حضور کے ہمراہ اسی جگہ تک گئے اور نصائح کے بعد دعا کے ساتھ وفد کو روانہ کیا۔ میرا نام وفد میں نہ آنے کی وجہ سے سخت اضطراب کی حالت میں رہا اور پھر تنگ آکر میں نے حضور کی خدمت میں ایک درخواست لکھی کہ اگر حضور نے مجھے تیسرے وفد میں بھی نہ بھیجا تو میں بیمار ہوجائوں گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے میری التجا سن لی اور مجھے اطلاع ملی کہ کل مورخہ ۴ اپریل ۱۹۶۳ء کو تیسرے وفد کے ہمراہ جانے کے لئے تیار رہیں اور کل دس بجے اپنا مختصر سامان‘کھانا اور کپڑے وغیرہ ہمراہ لیکر دفتر تشریف لے آئیں۔ یہ سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اگلے دن مع سامان اور ساٹھ روپے نقد لے کر دفتر پہنچ گیا۔ وہاں سے سرٹیفکیٹ ملا کہ ’’حامل سرٹیفکیٹ جماعت احمدیہ ضلع گورداسپور پنجاب کا بونافائڈ مشنری ہے۔ اسے ہر جگہ جانا پڑے گا اور ضرورت کے مطابق لباس بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس لئے گورنمنٹ اسے مشتبہ نظر سے نہ دیکھے وغیرہ وغیرہ۔
مورخہ ۴۔ اپریل ۱۹۶۳ء کو دفتر سے فارغ ہونے کے بعد وفد کے سب اصحاب جو تعداد میں پچیس کے قریب تھے اکٹھے ہوئے اور ہمیں حضور اور دیگر افراد جماعت کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک الوادع کرنے گئے۔ حضور نے حسب معمول نصائح فرمائیں اور اعلان کیا کہ جس کو نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا یاد ہے وہ گاڑی میں ہی سب احباب کو حفظ کرا دے مجھے اور عبدالرحیم صاحب کو یہ دعا یاد تھی چنانچہ ہم نے سب کو یاد کروانے کا اقرار کیا۔ حضور نے بعد دعا و معانقہ ہمیں رخصت کیا۔ ہم پیدل ہی جارہے تھے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ لیتے تھے۔ حضور بھی اس وقت تک کھڑے ہمیں دیکھتے رہے جب تک ہم انہیں دکھائی دیتے رہے۔ ہم تیزی کے ساتھ چلتے رہے۔ عصر کی نماز قصر کرکے ہم نے نہر کے کنارہ پر نماز باجماعت ادا کی اور مغرب کے بعد بٹالہ پہنچے۔ رات کو بٹالہ سے بذریعہ گاڑی روانہ ہوئے اور اگلے دن بعد دوپہر آگرہ پہنچے۔ وہاں چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر تھے۔ انہوں نے ہمارے لئے حلقوں کا انتخاب کیا۔ جو لوگ مجھ سے واقف تھے وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ آخر بابو جمال الدین صاحب جو ایڈیٹر ’’نور‘‘ محمد یوسف صاحب کے سسر تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ میں عمر رسیدہ ہوں اس لئے آپ مولوی محمد حسین کو میرے ہمراہ کردیں۔ چوہدری صاحب نے منظور کرلیا۔ ہمیں ضلع ایٹہ ملا اور عبدالرحمان صاحب قادیانی ہمیں ہمارے حلقہ میں پہنچانے کے لئے ہمراہ چل دیئے۔ کاسکنج پہنچنے کے بعد بذریعہ لاری ایٹہ پہنچے۔
چونکہ ہم رات کے وقت ایٹہ پہنچے تھے اس لئے رہائش کے لئے سرائے تلاش کرنے لگے۔ ایک آدمی سے سرائے کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ آپ آباد سرائے میں جائیں گے یا غیر آباد میں؟ ہم نے کہا آباد سرائے میں تو وہ بیچارہ ہمیں راستہ بتا کر کہنے لگا کہ وہاں روشنی ہورہی ہوگی اور آپ آسانی سے وہاں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم چند قدم ہی آگے بڑھے تو مجھے خیال آیا کہ اس آباد اور غیر آباد سرائے کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے۔ چنانچہ واپس آکر دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آباد سرائے میں ہر قسم کی بازاری عورت مل جائے گی اور غیر آباد میں نہیں ملے گی۔ میں نے لاحول پڑھا اور ہنستے ہنستے عبدالرحمان صاحب کو آواز دی کہ ذرا ٹھہر جائیں اور انہیں سارا حال سنایا۔ وہ بھی لاحول پڑھ کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ شکر ہے کہ آپ کو یہ بات بروقت سوجھ گئی ورنہ صبح کو ہماری بڑی بدنامی ہوتی۔ غرضیکہ ہم غیر آباد سرائے میں چلے گئے۔ صبح اٹھ کر نماز وغیرہ پڑھی اور بعد دعا بذریعہ یکہ ڈھمری روانہ ہوگئے۔ ظہر کے وقت علی گنج کی تحصیل میں ایک گائوں ’’گڑھی‘‘ تھا جو پختہ سڑک کے کنارہ پر تھا وہاں پہنچے۔ بھائی عبدالرحمان صاحب نے ہمیں سڑک پر ہی اتار دیا کہ آپ اس گائوں میں جہاں چاہیں ڈیرہ لگا لیں میں اب واپس جاتا ہوں۔ خدا حافظ کہہ کر اسی یکہ پر واپس روانہ ہوگئے۔ ہم اپنا سامان اٹھا کر اسی گائوں کی ایک چھوٹی سی پختہ بیت میں پہنچے۔ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی زبان سے ہم واقف نہ تھے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔ ’’ارے یہ کوہ ہے؟‘‘ یعنی یہ کون ہے؟ تھوڑے دیر کے بعد ایک معمر آدمی جس کا نام ممتاز علی خان تھا آیا۔ اس نے بڑی عمدہ سلیس اردو میں ہمارے ساتھ مہذبانہ طریق سے بات کی۔ ہمیں اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ تعلیم یافتہ آدمی تھا۔ ہم نے اسے اس ملک میں آنے کی غرض بتائی۔ وہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں پہلے آپ کے کھانے کا انتظام کر آئوں پر بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ بابو صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں تو اب یہیں رہوں گا آپ کوئی اور گائوں قریب ہی تلاش کرلیں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں بھی کوئی گائوں تلاش کرلوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ رات کو کافی دوست اکٹھے ہوگئے۔ میں نے ان سے اردگرد کے دیہات کا پتہ لیا۔ ان سے قسم قسم کی باتیں کرکے ان سے تعلقات پیدا کئے۔ وہ لوگ مجھ سے زیادہ مانوس ہوگئے کیونکہ بابو صاحب کم گوتھے اور مجھے باتیں کرنے کا شوق پرانا تھا۔ رات کے بارہ بجے مجلس برخواست ہوئی۔ میں نے کچھ طالب علم بھی بابو صاحب کو مہیا کردیئے۔ صبح کے وقت میں نے نماز پڑھائی جس میں دو تین مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی۔ دن کے دس بجے میں اپنا بستر اور دیگر سامان اٹھا کر وہاں سے روانہ ہوا۔ ابھی دو میل کے قریب ہی سفر کیا تھا ایک گائوں میں بیت نما بوسیدہ سا مکان دیکھا۔ میں نے ایک مقامی دوست سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ملکانہ مسلمانوں کا گائوں ہے۔ اور اس کا نام نگلہ گھنو ہے۔ میں اس بوسیدہ سے مکان میں پہنچا۔ اس میں محراب بھی بنا ہوا تھا اور فرش پر گھاس اگا ہوا تھا۔ وہیں میں نے اپنا ڈیرہ جما لیا۔ وہاں پانی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میں اکیلا ہی بیٹھا رہا۔ کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک معمر سی عورت آئی۔ میں نے السلام علیکم کہا۔ اس نے کہا بیٹے جیتے رہو۔ تم کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے۔ میں نے اپنی آمد کی غرض بتائی کہ آریوں سے اس قوم کو بچانے کے لئے ہمارے پیارے امام نے ہمیں قادیان سے بھجوایا ہے۔ تفصیل سے باتیں بتائیں تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ یہاں کے لوگ بہت جاہل ہیں ان سے گھبرا نہ جانا۔ میں نے کہا اماں جی اگر یہ لوگ‘ہمارے بھائی‘جاہل نہ ہوتے تو آریہ ان پر حملہ کیوں کرتے۔ وہ یہ کہتے ہوئے چلنے لگی کہ میں آپ کے لئے ’’ستوا‘‘ یعنی ستو لاتی ہوں۔ میں نے کہا اماں جی آپ کا شکریہ۔ میرے پاس ستو بھی ہے اور بھنے ہوئے چنے اور جو موجود ہیں آپ کوئی تکلیف نہ کریں۔ ہمیں حضرت صاحب کا حکم ہے کہ اپنا ہی کھانا ہے کسی کو اس کی تکلیف نہیں پہنچانا۔ وہ بڑے اصرار کے بعد لے ہی آئی اور کہنے لگی بیٹا تین دن تک تو مہمان رہ کر حق رکھتے ہیں پھر چوتھے دن خود انتظام کرلینا۔ اس معمر خاتون کا نام ممتاز بیگم تھا اور یہی اس گائوں میں نماز و روزہ سے واقف تھی۔ باقی سب اسلام کی تعلیم سے ناواقف تھے۔ اس کی زرعی زمین کافی تھی لیکن بوجہ بیوہ ہونے کے مزارعان بددیانتی کرلیا کرتے تھے۔ اس کی دو شادی شدہ بیٹیاں تھیں اور ایک لڑکا نصیر الدین خان تھا جو مڈل پاس تھا۔ میرا پہلے دن ہی ان سے تعارف ہوگیا تھا۔ میں نے ظہر کی اذان کہی۔ بعض لوگ اذان سن کر آئے اور مجھے مل کر چلے گئے۔ رات کے وقت مائی جی ہی کھانا لے آئی اور میں نے اپنا سامان ان ہی کے گھر رکھ دیا۔ خود میں چوپال یعنی ایک مشترکہ مکان ہوتا ہے جس میں ہر گھر کی ایک چارپائی موجود رہتی ہے اور سب گھروں کے مہمان کھانا وغیرہ کھا کر رات وہیں آکر بسر کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسافر ہو تو اس کا کھانا بھی چوپال میں ہی آجاتا ہے۔ رات کو یہ سب لوگ میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ نمبردار بھجو خان اور وہاں کا رئیس مظفر خان اس کا والد جان محمد خان‘دلاور خان‘خیراتی خاں‘میاں خاں‘منشی خاں‘عثمان خاں‘نتھو خاں‘نور محمد خاں اور افضل خاں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے ان سے تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایک دلچسپ کہانی سنائی کیونکہ وہ لوگ کہانیوں کے بہت شوقین تھے۔ صبح کے وقت گائوں میں چرچا ہوگیا کہ ’’ارے پنجابی مولبی صاحب تو غجب کی کہانی کاہت ہیں‘‘ یعنی پنجابی مولوی صاحب تو غضب کی کہانی کہتے ہیں۔ میں بھی دن بھر اس قسم کی کہانیاں گھڑتا رہتا تھا جس سے دین حق کے ساتھ محبت بھی پیدا ہو اور دلچسپ بھی ہو۔ غرضیکہ تین چار دنوں میں وہ لوگ میرے ساتھ مانوس ہوگئے۔ میں نے آہستہ آہستہ اردگرد کے دیہات کا دورہ کرنا شروع کردیا اور آریوں کے تعلقات اور آمدورفت کا پتہ رکھا۔
مجھے نگلہ گھنو میں رہتے ہوئے پانچواں ہی دن تھا کہ ٹھاکر گردندر سنگھ آریہ اپدیشک وہاں آگیا۔ اس گائوں میں ہندو ٹھاکروں کے دو ہی گھر تھے اور ایک گھر بنئے کا تھا مگر یہ سب لوگ میرے واقف ہوچکے تھے۔ اس آریہ ٹھاکر نے آکر ان لوگوں کو آریہ بن جانے کی پرزور تحریک کی اور ان کے جذبات کو بہت بھڑکایا اور ان میں ایک خون‘ایک تمدن اور ایک لباس اور ایک ہی قسم کی زبان ہونے اور اعتقاد میں ذرا سا اختلاف ہونے پر انہیں متحد ہونے کی ہدایت کی۔ میں خاموشی سے ان کی ساری باتیں سنتا رہا۔ جب وہ اپنی بات ختم کرچکا تو میں نے کہا ٹھاکر صاحب آپ نے متحد ہونے کی تحریک کی ہے میں نے اس سے بہت اچھا اثر لیا ہے اور ہم سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک ہی خون ہے ایک ہی خوراک ہے ایک ہی آنے کا راستہ ہے اور ایک ہی جانے کا راستہ ہے لباس بھی سب پہنتے ہیں اور غذا بھی سب کھاتے ہیں۔ زمین بھی سب کی ایک ہے اور آسمان بھی سب کا ایک ہی لیکن جس طرح ہم سب کی شکلیں جداگانہ‘عقلیں جداگانہ‘علم جداگانہ اور اعتقاد بھی جداگانہ ہیں لیکن بعض باتوں میں ہم سب ایک جیسے ہیں اور بعض میں مختلف ہیں اسی طرح نباتات‘جمادات اور حیوانات کا حال ہے۔ درخت کا لفظ تو سب کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی کیکر ہے تو کوئی ڈھاک ہے‘کوئی شہتوت یا آم ہے تو کوئی نیم ہے غرضیکہ نام کا اشتراک ہے مگر تاثیرات اور فوائد سب ایک ہیں مگر ہم سب کے اعتقادات جو الگ الگ قائم ہوچکے ہیں اگر ہم کوشش کریں تو یہ ایک ہوسکتے ہیں اور یہ کوشش اسی طرح ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے آریہ عقائد بیان کریں ہم سن کر ان پر غور کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے دین حق سے اچھے ہوئے تو ہم ان کو قبول کرلیں گے۔ پھر میں اپنے ناقص علم کے ساتھ اسلامی عقائد و اخلاق بیان کروں گا۔ پھر آپ ان پر غور کریں پھر ان دونوں میں جو اچھے ہوں گے ان پر ہم دونوں اکٹھے ہوجائیں گے۔ سارے مجمع نے اس بات کو بہت پسند کیا مگر ٹھاکر صاحب نے کہا کہ آپ سے ہماری کوئی بات نہیں ہے۔ آپ پنجابی ہیں۔ میں تو اپنی برادری کو اپنے ساتھ ملا کرجائوں گا۔ میں نے کہا ہم سب مہادیو یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اس وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں۔ اس لئے سب برادری ہیں۔ جب خدا کا بنایا ہوا سورج ساری دنیا کے کام آتا ہے‘اس کی ہوا‘پانی‘آگ‘چاند‘ستارے آسمان اور زمین غرضیکہ اس کی بنائی ہوئی ہر چیز دنیا کے کام آتی ہے تو خدا کا دین بھی ایک ہونا چاہئے اور اس وقت ضرورت بھی ساری دنیا میں ایک ہی دین کی ہے تاکہ جس طرح سب کے جسم ایک جیسے ہیں‘اعتقاد بھی ایک جیسا ہو اور آپس میں مستقل اتحاد پیدا ہوجائے۔ اگر ہر برادری کا مذہب علیحدہ علیحدہ ہو تو پھر دن رات جھگڑے ہی ہوتے رہیں گے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ دنیا میں جس طرح پہلے دن سے ایک ہی سورج چلا آرہا ہے اسی طرح دنیا میں ابتدائی کتاب وید مقدس چلی آرہی ہے اگر اس پر تمام دنیا ایمان لے آئے تو سب جھگڑے آج ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ میں نے ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ آخر آپ نے بھی محسوس کرہی لیا کہ میرا بیان کرنا صحیح تھا مگر ٹھاکر صاحب آپ نے میرے پہلے بیان پر غور نہیں کیا کہ بعض باتیں تو سب کی مشترک ہیں لیکن بعض میں تبدیلی ضروری ہے۔ مثلاً بارش بھی ابتدائے زمانہ سے چلی آرہی ہے۔ مگر ہمیں اس کی ہر وقت ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں کسی وقت اس کی ضرورت ہے تو کسی وقت دھوپ کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلی جماعت کا قاعدہ صرف پہلی جماعت کے لئے ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے حروف ساری کتابوں میں استعمال ہوتے ہیں اور طالب علم کی استعداد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کتابیں بھی بدلتی جاتی ہیں۔ اسی طرح بچپن میں بھی ہمیں لباس ہی پہنایا جاتا تھا مگر اب جوانی میں ہم وہ لباس نہیں پہن سکتے کیونکہ ہم بڑے ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اگر ابتداء میں وید تھا تو وہ ابتدائی قاعدہ کی طرح تھا۔ اب جب کہ دنیا کی استعداد بڑھ چکی ہے تو انہیں اب مکمل کتاب کی ضرورت تھی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کتاب قرآن کریم ہے۔ جیسے جوان آدمی کے ناپ کے کپڑے بڑھاپے تک کام میں آتے ہیں اسی طرح قرآن کریم اب قیامت تک کام دینے کا دعویدار ہے مگر وید میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے کامل کتاب ہوں۔ جب وید دعویدار ہی نہیں تو مدعی سست گواہ چست والا معاملہ آپ نہ کریں۔ ٹھاکر صاحب بولے آپ ہماری باتوں میں دخل نہ دیں۔ یہ پنجاب نہیں کہ دھنیا‘جولاھا‘لوہار‘ترکھان سب ایک ہی ہوں۔ ہم راجپوت ہیں اور مسلمان بادشاہوں نے ان ہمارے بھائیوں کے بزرگوں کو پتاشے کھلا کر مسلمان کرلیا تھا اور ہم لوگوں نے بھی سستی کی کہ انہیں منہ نہ لگایا۔ اب ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم انہیں اپنے ساتھ ملا کر رہیں گے خواہ ان کے پائوں پکڑنا پڑیں یا ان کے آگے ہاتھ جوڑنا پڑیں۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب میں بھی آپ کا خونی رشتہ دار ہوں اور پنجابی ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ پنجاب میں گائوں کے گائوں راجپوتوں کے آباد ہیں اور میں خود بھی راجپوت کھوکھر ہوں۔ کوئی بھٹی ہیں کوئی چوہان راٹھور ہیں۔ رھا دھنیا‘جولاہا‘تیلی و موچی وغیرہ تو یہ سب ہندوئوں سے ہی ہمارے ہاں مسلمان ہوئے ہیں اور ادھر بھی موجود ہیں۔ مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ ان ہندوئوں کو جو چمار‘بھنگی‘تیلی و لوہار ہیں کمی (کمین) جان کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہم لوگ ان کے مسلمان ہوجانے پر اور صاف رہنے کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتے کیونکہ یہ سب پیشوں کے نام ہیں اور پیشوں کے بغیر دنیا کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ اس لئے وہ لوگ ہمارے مددگار ہیں۔ کسی بات میں ہم ان کے اور کسی بات میں وہ ہمارے محتاج ہیں۔ اناج حاصل کرنے کے لئے اگر وہ ہمارے محتاج نہیں تو جوتا‘تیل اور صفائی رضائی کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں۔ اس لئے میں نے بتایا تھا کہ وید ابتدائی قاعدہ ہے۔ یہ ساری دنیا میں محبت واتحاد نہیں پیدا کرسکتا اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو ان کی شرن میں آجائے اس کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے ہماری مقدس گائے کھانے والے لوگوں سے ہمارا اتحاد نہیں ہوسکتا اور یہ کہ ہم گائے کھانے والوں کو چیر کر رکھ دیں گے۔ ہمارا راجپوتی خون اب جوش میں ہے۔ جو ہمیں ماں کی طرح میٹھا میٹھا دودھ پلاتی ہے یہ ڈشٹ مسلمان اس کو ذبح کردیتے ہیں اور اس کا سرتن سے جدا کردیتے ہیں۔ چونکہ وہ راجپوت مسلمان بھی گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے ٹھاکر صاحب نے ان کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ جب وہ ذرا خاموش ہوا تو میں نے کہا ٹھاکر صاحب آپ تو غصہ میں آگئے۔ حالانکہ اپدیشک کا یہ فرض ہے کہ اپنے علم سے محبت کے ساتھ برے فعل کی برائی اور بھلے کام کی بھلائی بیان کرے پبلک کو سوچ بچار کا موقع دے۔ اس جگہ کس نے گائے کو تکلیف دی ہے کہ آپ خواہ مخواہ اپنے اور دیگر دوستوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ آپ کے اس رویے سے مجھ پر کوئی اچھا اثر نہیں ہوا بلکہ یہی معلوم ہوا کہ آپ اپنے مذہب کی کوئی خوبی بیان نہیں کرسکتے بلکہ ایک ایسی طرح ڈالنا چاہتے ہیں جس سے آپ کی کمزوری پر پردہ پڑا رہے۔ میں بھی جذبات کو بھڑکا کر لڑائی کراسکتا ہوں مگر ہمارا دین حق سلامتی کا مذہب ہے۔ یہ جنگ کو روکنا اور صلح کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اسلام تو پھیلا ہی جنگ سے ہے۔ مسلمان چور اور ڈاکو بن کر لوگوں کو لوٹتے رہے ہیں میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس ساری کتابیں موجود ہیں آپ کی کیا طاقت ہے کہ میری باتوں کا جواب دے سکو اور اگر کھجلی ہورہی ہو تو میں بھی اتارنے کے لئے تیار ہوں۔ بتائو کیا مرضی ہے۔ اس کی یہ باتیں سن کر تین چار آدمیوں نے ارادہ کیا کہ اس ٹھاکر کو دو چار رسید کرکے مزا چھکایا جائے اور بعض ٹھاکر صاحب سے لڑنے بھی لگے۔ میں نے بڑی محبت سے انہیں روکا اور کہا کہ جس طرح میں آپ کا مہمان ہوں بھائیو اسی طرح ٹھاکر صاحب ہمارے مہمان ہیں۔ ہمارا دین حق ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی تمہارا مہمان بھی غلطی کرے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اسے معاف کردو اور اکرام ضیف کو ملحوظ رکھو۔ میری یہ بات سن کر ٹھاکر صاحب بھی شرمندہ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس پنجابی کی ان لوگوں میں مجھ سے زیادہ عزت ہے۔ خیر اب وہ صحیح راستے پر آگیا تھا۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب نے یہ دو الگ الگ سوال کئے ہیں۔ پہلا گائے کے متعلق ہے کہ مسلمانوں نے گائے پر ظلم کیا ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ میں ان دونوں سوالات کے جوابات علیحدہ علیحدہ دیتا ہوں۔ (۱) ہم سب مسلمان دودھ دینے والے سب جانوروں کی خدمت کرتے ہیں۔ چاہے گائے ہو یا بکری‘بھینس ہو یا اونٹنی ہم سب کو چارہ بھی ڈالتے ہیں اور راتب بھی کھلاتے ہیں۔ اس کی بچپن ہی سے نگہداشت کرتے ہیں مگر ہم ان تمام جانوروں کو اپنا خادم سمجھتے ہیں نہ کہ بزرگ۔ ان میں سے جو دودھ نہ دے یا بانجھ ہو جائے تو اسے ہندو اور مسلمان دونوں قصابوں کے پاس فروخت کرآتے ہیں تو یہ کوئی اعجوبہ نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ میٹھا دودھ دینے کی وجہ سے وہ ماں ہے تو پھر ٹھاکر صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا بھینس‘اونٹنی اور بکری وغیرہ کا دودھ کڑوا ہوتا ہے؟ جب ان کا دودھ بھی میٹھا ہے تو گائے اگر ماں ہے تو بھینس نانی ہوئی اور بکری بہن ہوئی تو پھر ان کی عزت ہندوئوں کے دلوں میں کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ اب ٹھاکر صاحب ہی بتائیں گے کہ ایسا کیوں نہیں ہے؟ (۲) ہر مذہب میں ماں باپ کی ایک جیسی عزت کرنے کا حکم ہے تو پھر ہمارے یہ ہندو بھائی کیا ظلم کرتے ہیں کہ گائے ماں کو مقدس جان کر اتنی زیادہ عزت کرتے ہیں کہ ایسی عزت نہ کرنے والوں کو چیر کر رکھ دینے کو تیار ہیں مگر اپنے باپ بیل کو ہل میں جوتنا یا ان کی مدد سے کنواں چلانا‘گاڑی کھینچنا‘کولہو چلانا‘اس پر بوجھ لادنا اور ذرا سی کوتاہی پر مار مار کر فنا کردینا اور ہر وقت اس پر مصیبت کھڑی رکھنا اور ذرا بھی عزت نہ کرنا حالانکہ اس بات کی کوشش سے ہی گائے دودھ دینے کے قابل اور ماں بنی تھی۔ (۳) اگر گائے ماں کا ہی مقام رکھتی ہے جو انہیں بچپن میں دودھ پلاتی ہے تو پھر اس کے مرنے پر وہ کیوں چماروں کے حوالے کرکے اس کی کھال اترواتے ہیں اور اس کے گوپر اوپلے اور پیشاب سے چننا متر بناتے ہیں اور اس کی کھال کے جوتے پہنتے ہیں۔ یہ سب تقدیس کے دعوے ان کی ان حرکات سے باطل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے صرف ہندوئوں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لئے یہ ایک جذباتی طریق اختیار کیا ہوا ہے۔ (۴) اگر ناکارہ بھینس‘بکری‘اونٹنی بھیڑ وغیرہ ذبح کئے جائیں اور ان کے مرنے پر ہی چمڑہ میسر آتا ہو تو پھر پانچ صد روپے کا بھی جوتا نہیں مل سکتا اور لوگ دھوپ اور سردی میں ننگے پائوں ہی چلیں اور ہر وقت کانٹے ہی نکالتے رہیں۔
(۶) دوسرا سوال کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ ٹھاکر صاحب نے کرکے راجپوتوں کی سخت توہین کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار سے ڈر کر اپنا آبائی مذہب جھٹ تبدیل کرلیا مگر چمار‘بھنگی‘تیلی وغیرہ تلوار سے نہ ڈرے اور انہوں نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا۔ کیا آپ راجپوتوں کی یہی بہادری ظاہر کرتے پھر رہے ہیں کہ راجپوت اتنے ڈرپوک اور بھوکے تھے کہ جب انہیں تلوار اور پتاشے دکھائے گئے تو جھٹ ڈر کر اور میٹھی چیز دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ ٹھاکر صاحب آپ نے تو تاریخ دان ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ جب حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اس ہندوستان میں درویشی کی حالت میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں کون سی تلوار تھی اور ان کے ہمراہ کونس سی فوج تھی؟ ہاں بزرگی‘نیکی‘تقویٰ‘طہارت‘خوش اخلاقی‘دلائل‘عبادت‘ریاضت‘شرافت اور تبلیغ کی تلوار تھی جس نے راجہ اور پرجا کو ان کے سامنے جھکا دیا اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوگئے ورنہ جب مسلمان بادشاہ اکبر تخت نشین ہوئے تو ان کی بیوی جودہ بائی تھی اور وہ تمام عمر بت پرستی کرتی رہی اور ہندو ہی رہی۔ اور اسے جبراً مسلمان نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین حق میں جبر نہیں ہے۔ بلکہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کا سبق دیا جاتا ہے۔ دین حق ہمیشہ اپنی صداقت اور خوبیوں سے پھیلا ہے۔ آپ آج بھی قادیان جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ہندو اور سکھ ¶مسلمان ہوچکے ہیں۔ اب تو مسلمانوں کے ہاتھ میں دین حق پھیلانے کے لئے تلوار نہیں ہے اور نہ اس سے قبل ہی دین حق تلوار سے پھیلا۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ جس نے تلوار سے دین حق کو مٹانے کی کوشش کی اسے تلوار ہی سے روکا گیا۔ اب آپ دلائل سے بات کریں انشاء اللہ دلائل سے ہی جواب دیئے جائیں گے۔ اس وقت کافی رات گزر چکی تھی مگر مرد بدستور چوپال میں اور عورتیں مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی تھیں اور سب میرے جواب کے منتظر رہتے تھے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ آپ کے عرب والے نبی نے نو (۹) عورتوں کے ساتھ شادی کیوں کی؟ جب کہ امت کے لئے چار ہی جائز قرار دیں۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ عرب کے لوگ بھی ہندوئوں کی طرح بت پرست تھے اس وقت نہ تو کوئی اصول اور نہ کوئی شریعت تھی۔ جس طرح آج پٹیالہ کے ہندو راجہ نے دو سو سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں اسی طرح عرب کے لوگ اس وقت سو سو بیویاں رکھ لیتے تھے۔ جب حضرت نبی کریم~صل۱~ نے نویں شادی کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ اور شادی نہیں کرنا اور نہ ان میں سے ہی کسی کو چھوڑنا ہے۔ چونکہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے کسی کو بھی علیحدہ نہیں کرنا اور ساتھ ہی مومنوں کے لئے حکم دے دیا کہ تم چار تک اپنے خیالات کے مطابق شادیاں کرسکے ہو اور اگر تمہیں لڑائی جھگڑے کا خوف ہو تو ایک ہی شادی رہنے دو۔ اگر رسول پاک~صل۱~ کسی بیوی کو چھوڑ دیتے تو وہ ماں کی صورت میں کہاں جاتی جب کہ منوشاستری میں بھی یہی لکھا ہے کہ گرو کی بیوی ماں ہوتی ہے۔ ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے آقا نے تو نو شادیاں کرکے اپنے حسن و اخلاق اور سلوک کا یہ نمونہ دکھایا کہ کسی ایک بیوی کو بھی کسی جگہ ناانصاف کہنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور کے نیک سلوک کا ان کے دلوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ حضور~صل۱~ کے پاس مال غنیمت بکثرت پہنچا۔ یہ دیکھ کر بعض بیویوں کے دلوں میں خیال پیدا ہوا کہ اب موقع ہے کہ ہم آپ سے اچھے لباس اور زیورات کا مطالبہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے سامنے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا۔ حضور~صل۱~ کو اللہ تعالیٰ نے جواب میں بتایا کہ اے نبی اپنی ان بیویوں سے کہہ دو کہ میں تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق زیورات اور لباس بنوا دیتا ہوں مگر پھر تم میرے پاس نہیں رہ سکتیں یعنی علیحدہ ہونا پڑے گا۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو اور مجھے پسند کرتی ہو تو پھر تم اس خواہش کو ترک کردو۔ یہ سن کر سب نے یہ جواب دیا کہ ہم اپنی اس خواہش کو قربان کرتی ہیں ہمیں صرف آپ~صل۱~ کی اور اللہ تعالیٰ کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ الفاظ معمولی نظر آتے ہیں مگر جب مستورات کی حالت اور خواہشات کو سامنے رکھ کر غور کیا جاتا ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی بیویوں کے ایسا کہنے سے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ان کے قلوب پر کتنا گہرا اثر تھا حالانکہ ان کا مطالبہ بھی جائز تھا لیکن انہوں نے کسی قسم کی بحث نہیں کی اور اپنے مطالبہ کے مقابل پر اپنے خدا اور اس کے رسول کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مگر یہ اعتراض کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں۔ کہ ان کی ایک بیوی بھی جسے اولاد نہ ہو گیارہ مردوں سے نیوگ کرسکتی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عرب کا ایک آدمی نو یا گیارہ بیویاں سنبھال سکتا تھا مگر ان آریوں کی ایک بیوی گیارہ مردوں کو سنبھال سکتی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قسم کے اعتراض نہ کریں تو اور کیا کریں کیونکہ یہ کام ان کی طاقت سے باہر ہے۔ ٹھاکر صاحب یہ الفاظ سن کر چیخ اٹھے کہ یہ ہندو دھرم کی توہین کی ہے۔ میرے پاس حوالہ موجود تھا میں نے فوراً ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ نکال کر اسے دکھا دی۔ وہ بہت شرمندہ ہوا۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ مباحثہ ٹھاکر صاحب کے ان الفاظ پر ختم ہوا کہ صبح دس بجے اب میں اعتراض کروں گا یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ قادیانی تلوار سے ہی قابو آئیں گے یہ علم سے قابو میں نہیں آسکتے۔ میں نے کہا اس شعر کا جواب آپ کو انشاء اللہ کل ہی دیا جائے گا۔ غرضیکہ سب مردوزن اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ میں اکیلا ہی دیا جلا کر بیٹھ گیا اور خیال کیا کہ اس کے بے تکے شعروں کا جواب بھی اگر بے تکے اشعار میں ہی دیا جائے تو اثر اچھا رہے گا اور خدا کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گیا۔ فجر کی نماز تک میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق ستر (۷۰) اشعار بنائے۔ جو شعر مجھے اس وقت یاد ہیں تحریر کردوں گا باقی سب ریکارڈ قادیان میں رہ گیا تھا۔ خیر فجر کی نماز کے لئے بیت پہنچا۔ وہاں ایک فقیر طبع آدمی جسے ہم میاں صاحب کہا کرتے تھے اس علی نامی تھا۔ وہ میرا بہت گرویدہ ہوچکا تھا۔ وہ بھی رات کو گفتگو کے اختتام پر ہی سویا تھا۔ اسے بیدار کیا اور اذان کہلوائی۔ بعدہ دونوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ باقی لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ہم جمعہ سے نمازیں پڑھنا شروع کردیں گے۔ نماز کے بعد دعا اور قرآن کریم پڑھ کر سوگیا۔ جب حضور ہمیں الوداع کہنے کے لئے ڈلہ موڑ تک تشریف لائے تھے تو اس وقت یہی نصیحت کی تھی کہ ’’کثرت سے دعائیں کرنا‘نماز کے بعد تسبیح و تحمید کرنا اور خدا کو ہی قادر مطلق جاننا اور صرف اور صرف اس کی ذات پر بھروسہ کرنا۔ کیسی بھی مخالفت ہو گھبرانا نہیں بلکہ میدان میں شیر بننا۔ مخالف چاہے کتنا بڑا عالم ہو اسے معمولی سمجھنا اور نڈر ہوکر اسے جواب دینا۔ اپنے علم اور عقل پر بھروسہ نہ کرنا۔ ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا۔ تلاوت قرآن پاک باقاعدہ کرنا۔ ہر ایک کو دوست بنانے کی کوشش کرنا۔ خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنانا تہجد پڑھنے کی کوشش کرنا۔ مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ ملکانونکی اچھی طرح سے تربیت کرنا اور دین حق کا پابند کرنے کی کوشش کرنا۔ دین حق کی انہیں خوبیاں بتاتے رہنا اور خود بھی کتب کا مطالعہ کرتے رہنا۔ سب سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دل و جان سے سب کا ہمدرد بننا۔ جائو خدا تعالیٰ حافظ و ناصر ہے۔ آمین ثم آمین‘‘ میں بیدار ہوکر دوبارہ بیت پہنچا۔ لوگ بھی بصد شوق آئے ہوئے تھے اور مختلف قسم کی باتوں میں مصروف تھے کوئی کہتا کہ ’’مولبی کا بہت مجہ آیو‘ٹھاکر سیدھو سادھو معلوم ہوت ہے پر رات کو تو غجب کردیو تھو‘‘ غرضیکہ قسم قسم کی باتیں ہورہی تھیں۔ رات والی بڑھیا پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ مولوی بیٹا اللہ آپ کو بہت عمر دے۔ یہ ٹھاکر بڑا آریہ تھا اس کی خوب رات کو خبرلی ہے۔ گائوں کے سب مرد اور عورتیں کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں اتنا بڑا اور کوئی مولوی نہیں ہے۔ ہم تو اب اپنے بچوں کو اس سے پڑھوائیں گے۔ میں نے اپنے پیارے خدا کا شکر ادا کیا۔ ادھر ملکانہ لڑکے مقامی ہندو ٹھاکروں کو بتا رہے تھے کہ کیوں بھئی رات کو آریہ کا تماشا دیکھا کہ ’’ایک جورو اور گیارہ مرد‘‘۔ وہ ٹھاکر یہ سن کر کہتے کہ یہ آریہ بہت گندے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹھاکر گردندر سنگھ اور بہت سا لوگوں کا ہجوم پہنچ گیا۔ سارا میدان شائقین سے بھر گیا۔ میں نے سب بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رات کو ٹھاکر صاحب نے کسی گم نام آریہ کے دو شعر سنائے تھے کہ ان قادیانیوں کو قتل کردو‘باتوں میں کامیابی مشکل ہے۔ میں نے ان کے شعروں کا جواب اشعار میں ہی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا وہ پہلے سنا لوں یا پہلے دوسری باتیں ہونی چاہئیں۔ ان میں مسئلہ نیوگ‘جونیں بدلنا وغیرہ سب کچھ بیان کردیا۔ اس کے ابتدائی شعر یہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ ~}~
کیا ڈراتے ہو ہمیں کہ مار دیں گے جان سے
کیا ڈرا کرتے ہیں وہ جو عبد ہیں رحمان کے
ہم تو مر اس دن گئے تھے جب ہم گھر سے چل پڑے
اے سفیہہ کیا ہے تو واقف احمدی ایمان سے
مرنا بہتر ہے ہمارا زندہ رہنا اور بھی
گرچہ تم نے دیکھنا ہو مار دو تم جان سے
پر عورتوں میں بیٹھ کر للکارنا اچھا نہیں
سامنے مردوں کے آ اور جیت لے میدان سے
نیوگ کا مسئلہ لئے پھرتے ہو تم در بدر
آفریں اس وید پر اور اس کی اعلیٰ شان کے
کتے کتیا کھیلتے تھے ایک دن مندر کے پاس
آریہ ان کو بلاتے تھے بڑوں کے نام سے
ہیں بزرگ یہ سب ہمارے آج قسمت سے ملے
ہم کھلائیں گے انہیں بھوجن بڑے آرام سے
یہ صرف چودہ مصرعے ہیں کل ستر مصرعے تھے جن میں پورا مضمون تناسخ‘جون بدلنا اور پھر کسی بھی عبادت یا عمل سے بخشش نہ ہونا درج تھا۔ میں کوئی شاعر نہیں‘نہ قابلیت ہی ہے مگر ملکانوں نے خوب مزے لے لے کر بار بار انہیں سنا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے یہ اشعار سن کر جھٹ کہہ دیا کہ میں اس قسم کا آریہ نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر آریوں کی قسمیں ہوئیں۔ کوئی پنڈت دیانند کو سچا جاننے والا جبکہ آپ اسے جھوٹا بتا رہے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب نے تاکید کی ہوئی ہے کہ جس طرح شادی بیاہ ہے اسی طرح نیوگ ہے مگر جو بیاہ سے پیدا ہوں ان کا اظہار تو بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے مگر جو نیوگ سے پیدا ہوتے ہیں آپ ان کی کوئی فہرست نہیں دکھا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ معیوب چیز ہی ہے۔ ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ مسلمانوں میں بھی عیب ہیں۔ ان کے ہاں بھی بہت بازاری عورتیں موجود ہیں۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب یہ کوئی قومی یا مذہبی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے تو مذہبی گفتگو کرنا ہے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ دین حق ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ایسا فعل کیا جائے بلکہ ایسا فعل کرنے والے کی دین حق نے بہت سخت سزا رکھی ہوئی ہے۔ یعنی سو ۱۰۰ کوڑوں کی سزا۔ کسبی شخص کا یہ فعل کرنا شخصی جرم ہے مذہبی نہیں۔ دوسرا ایسی بدکار عورتوں کا ہندوئوں کے بازار میں بیٹھنا بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ایسی بدکار عورتوں کو اپنے محلے میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ ایسی عورتیں ہندوئوں کے بازار میں آجاتی ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں بھی نیوگ کی تعلیم ہے اس لئے یہ بازار بھی برا نہیں منائیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ ٹھاکر صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلے جنم میں آپ کیا تھے اور پھر کیا آپ اچھے کام کرکے اپدیشک آدمی بنے ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں کسی بڑے پنڈت کو لیکر کسی وقت اسی جگہ آئوں گا اور پھر آپ کی تسلی ہوجائے گی۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے ذمہ بہت سا قرض چڑھا لیا ہے۔ کیا آپ پنڈت کو لے کر آنے کی کوئی تاریخ بتا سکتے ہیں تاکہ میں بھی اس دن اسی گائوں میں موجود رہوں۔ ٹھاکر صاحب بولے میں آپ کو بذریعہ چٹھی (خط) اطلاع دے دوں گا۔ میں نے کہا آپ کا شکریہ ٹھاکر صاحب جان چھڑا کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ بعد میں نہ تو کوئی خط ہی ملا اور نہ خود ہی کبھی دکھائی دیئے۔ مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ ہمارے ملکانے بھائیوں کو کئی باتوں کا علم ہوگیا اور ان کو مجھ سے اور زیادہ محبت پیدا ہوگئی۔ بعدہ وہاں کے نوجوانوں نے مجھ سے پڑھنے کا اصرار کیا۔ میں نے ہاتھ سے ادب لکھ کر پڑھانا شروع کردیا۔ پھر قادیان چٹھی لکھی کہ دو درجن قاعدے یسرنا القرآن بھجوا دیں۔ چنانچہ بیس شاگردوں کو قاعدہ پڑھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی بچیوں نے بھی آنا شروع کیا اور میں نے ان کو بھی قرآن پڑھایا۔
نگہ گھنو میں جے پور کے رہنے والے ایک غیر احمدی دوست چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ میرے کام کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تھے۔ جو اکثر احمدیوں کا کام دیکھ کر یہی کہا کرتے تھے کہ دین حق تو صرف احمدیوں ہی کے پاس ہے اور یہی آریوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں ان کے برعکس دیوبندی وغیرہ سب ’’کلی توڑ‘‘ ہیں یعنی کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ایک دن بعد نماز فجر یہی وکیل صاحب اچانک بذریعہ یکہ چوپال پہنچ گئے۔ میں اس وقت بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا اور سب بچے بڑے زور شور سے پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کی۔ وہ جان محمد خان صاحب رئیس اور بھجو خان صاحب نمبردار کو لیکر علیحدہ چلے گئے اور ان سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر واپس آکر میرے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ کہنے لگے مجھے ازحد خوشی ہوئی ہے۔ میں آپ کے کام اور اخلاق کے بارے میں آپ کی عدم موجودگی میں بھی اچھی تحقیق کرچکا ہوں اور آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس کیا کوئی کاپی ہے؟ میں نے انہیں کاپی دی۔ انہوں نے اس پر لکھ دیا کہ میں فلاں تاریخ کو نگہ گھنو میں اچانک پہنچا اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب کا کام دیکھ کر اور اہل دیہہ سے حالات دریافت کرکے مجھے اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے۔ اس علاقہ کے لئے مولوی صاحب نہایت موزوں ہیں اگر کچھ عرصہ یہ ان لوگوں میں مزید رہیں تو یہاں کے رہنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ اہل دیہہ ان سے بہت خوش ہیں۔ میں مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اگر اسی طرح مستعدی سے کام ہوتا رہا تو بچے تعلیم حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے‘‘۔ والسلام نذیر احمد وکیل جے پور ۲۳~/~۵~/~۲۱ حال نگلہ گھنو۔ میں نے اس سرٹیفکیٹ کی ایک نقل آگرہ روانہ کردی۔ بعدہ اردگرد کے دیہات لوہاری‘گوھیٹہ‘مہیکہ‘جہوڑا‘مجہولہ‘نگلہ امرسنگھ‘گڑھی‘دھروی‘علی گنج‘رانی کا رامپور‘بوپارہ وغیرہ کا دورہ کرنا شروع کردیا۔
لوہاری گائوں میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبدالخالق صاحب بڑے محنت سے کام کررہے تھے۔ وہ ان دنوں احمد نگر ضلع جھنگ کے صدر ہیں۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر دیوبندیوں سے مناظرہ مقرر کرلیا۔ مقررہ تاریخ پر کافی مولوی صاحبان لوہاری پہنچ گئے اور ہماری طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس‘مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی‘سیٹھ خیر الدین صاحب آف لکھنئو‘قاضی عبدالرحیم صاحب اور اسلم صاحب آف فرخ آباد۔ غرضیکہ کافی احباب پہنچ گئے۔ مجھے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ میری واپسی پر مناظرہ کا آغاز ہوا۔ حیات و ممات مسیح پر دیوبندیوں نے شور مچانا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ ان قادیانیوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور کسی طریق سے ان کا علاج نہیں ہوسکتا۔ میرے گائوں کے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر علم کی بحث کرنا ہے تو مولویوں سے کرو اور اگر کسی سسرے نے ڈنڈا چلانا ہے تو ہم پر چلائے۔ غرضیکہ مناظرہ اسی شور میں بخیر وخوبی ختم ہوگیا۔ فریقین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ جب اس بات کی اطلاع حضور کو قادیان پہنچی کہ دیو ¶بندیوں نے ہمیں ڈنڈے سے ڈرایا ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کے گائوں والوں نے انہیں ایسا جواب دیا ہے تو حضور بہت خوش ہوئے کہ یہ ہمارے مبلغ کے تعلقات کا نتیجہ ہے اور مبلغین کو ہرجگہ ایسا ہی نمونہ اختیار کرنا چاہئے۔ غرضیکہ حضور نے یہ خوشنودی کا اظہار فرمایا میرے وہاں دورے کا تین ماہ کا عرصہ پورا ہوچکا تھا اور منشی عبدالخالق صاحب رخصت پر قادیان جارہے تھے تو بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی مجھ سے کہنے لگے کہ آپ خدا کے لئے دس دن اور وقف کردیں ورنہ یہ حلقہ خالی رہ جائے گا اور دشمن اپنا پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو ہمارے خلاف کردے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مراکز سے ہمیں جواب مل جائے۔ میں نے ان کے کہنے پر دس دن اور وقف کردیئے اور مزید دس دن وہاں گزارے۔ اسی اثناء میں منشی عبدالخالق صاحب قادیان سے میرے پاس نگہ گھنو پہنچے اور کہا آپ واپس جانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ حضور کی طرف سے آپ کو کوئی خاص حکم آئے گا۔ کیونکہ آپ کے کام کے متعلق خفیہ خفیہ کچھ درخواستیں حضور کی خدمت میں پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کا کام اور اثر بہت اچھا ہے لہذا انہیں ابھی واپس نہ بلایا جائے۔ مجھے آگرہ سنٹر سے بھی چٹھی موصول ہوئی کہ آپ بہت جلد آگرہ پہنچ جائیں تا آپ کو قادیان واپس بھجوایا جاسکے۔ ایک طرف مجھے قادیان جانے کی بہت خوشی تھی اور دوسری طرف ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں سے علیحدہ ہونے کا غم۔ گائوں کے سب مرد اور عورتیں مع میرے شاگردوں کے مجھے رخصت کرنے کے لئے جمع تھے اور رو رہے تھے کہ معلوم نہیں کہ کب ملاقات ہو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’(میری یادیں‘‘ صفحہ ۴۵ تا ۶۷ اشاعت ۱۹۹۴ء)
‏rov.5.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ دسواں سال
ایک اہم سرکلر
(حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نائب ناظر انسداد راجپوتانہ قادیان کے ایک سرکلر کی نقل جو آپ نے ۴/ جون ۱۹۲۳ء کو جاری فرمایا اس سرکلر سے مجاہدین احمدیت کی مشکلات پر روشنی پڑتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‏]body [tagمکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ دارالامان سے روانہ ہونے والے آخری وفد کو بالخصوص دارالامان سے روانہ ہونے والے خطوط میں متعدد بار حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی گائوں میں ہمارے مبلغ وارد ہوتے ہیں تو ملکانوں میں سب سے پہلے جو لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں اور آریوں سے اپنی بیزاری کا تذکرہ کرتے ہیں وہی آریوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں (الا ماشاء اللہ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ آنے والے مبلغ کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھیں اور اس کو یقین دلاتے رہیں کہ تم بے فکر رہو یہاں کوئی شدھی نہیں ہو گا اور کیا مجال ہے جو آریہ یہاں آسکیں۔ ان کی اس قسم کی باتوں کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مبلغ اپنے علاقہ کو ارتداد کے فتنہ سے محفوظ خیال کر لیتا ہے۔ جس سے اس کی عملی طاقتیں سست ہو جاتی ہیں اور وہ گائوں کے سب لوگوں سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا اور وہ لوگ جو اس فتنہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ احمدی مبلغ سے دور رہتے ہیں۔ اس لئے آریوں کا زہر ان پر سے نہیں اتر سکتا۔ اور آریوں کا ایجنٹ مبلغ کو اپنے ساتھ الجھائے رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اشدھی کا وقت آتا ہے تو اشدھ ہونے کے لئے سب سے آگے وہی اشخاص ہوتے ہیں جو کہ ہمارے مبلغ سے زیادہ ملنے والے اور ظاہراً اسلام کے حامی نظر آتے ہیں۔
اس فتنہ کے متعلق حضور نے بار بار اب تک لکھوایا ہے۔ مگر اب تک بہتوں نے آریوں کی اس چالاکی کو نہیں سمجھا اور وہ اب تک آریوں کے ایجنٹ کے فریب سے آگاہ نہیں ہوئے۔ تازہ واقعہ یہ ہے کہ علادل پور کا ایک شخص جس کے باپ کا نام ملتان خان ہے اور اس کا نام ملائم خان آریوں کا ایجنٹ ہے۔ جس کو وہ ۱۵ ماہوار دیتے ہیں۔ اپنے گائوں کے احمدی مبلغ سے اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ پہلے آنے والی رپوٹیں بتاتی رہی ہیں کہ اس شخص کو اسلام سے محبت ہے مگر آج ذہلیہ سے اطلاع ملتی ہے کہ یہی ملائم خان ساکن علادل پور ذہلیہ میں گیا اور اپنا نام ملائم سنگھ بتایا اور ہماری اس جگہ کے مبلغ کی سخت مخالفت کرنے لگا۔ اسنے وہاں کے لوگوں کو سخت جوش دلایا اور آریہ ہو جانے کے لئے بڑا زور لگایا اور ان لوگوں پر زور ڈالا کہ ہمارے مبلغ کو اپنے گائوں سے نکال دیں۔
دوسری مثال یہ ہے کہ چارلی گنج جو بحمداللہ احمدی مبلغوں کے ذریعہ سارے کا سارا ارتداد سے واپس داخل اسلام ہوا ہے۔ جب یہ گائوں مرتد ہوا تھا۔ تو اس وقت چار گھر ظاہراً مسلمان ہی رہے تھے۔ لیکن اب جب چارلی گنج والے دوبارہ داخل اسلام ہوئے تو یہی چاروں گھر جو شدھی سے بچے ہوئے بتائے جاتے تھے اپنے گائوںکو دوبارہ مسلمان ہونے سے روکنے کے لئے لاٹھیاں لے کر باہر نکل آئے۔ یہ واقعہ صاف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آریہ لوگوں نے بہت سے ملکان کو اپنا ایجنٹ بنایا ہوا ہے۔ جو بظاہر مسلمان ہی رہتے ہیں اور اشدھ نہیں ہوتے۔ مگر اندر ہی اندر لوگوں کو ارتداد کے لئے تیار کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
پس ہمارے مبلغین کا فرض ہے کہ اپنے اپنے گائوں میں جو لوگ ملکانہ ان کو اپنے گائوں کی حالت سے مطمئن کرانا چاہتے ہوں۔ ان کی باتوں سے خوش ہو کر مطمئن نہ ہو بیٹھیں۔ یہ گائوں کے ہر ایک فرد تک پہنچیں اور اس کا عندیہ معلوم کریں۔ اس کو اسلام پاک سے آگاہ کریں۔ اور محبت اسلام ان کے دلوں میں ڈالیں۔ جب تک ہر ایک فرد سے آپ ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں کریں گے برخلاف اس کے ایک ہی شخص کو جو آپ سے ملتا ہے اپنے گائوں کی زبان سمجھتے رہیں گے۔ آپ خطرہ سے خالی نہیں۔ ایسے لوگ جو چاہیں آپ کو اطمینان دلائیں۔ مگر آپ لوگ ایک دم کے لئے بھی ان سے غافل نہ ہوں۔ اور کام میں سرگرمی جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے کی آپ کو توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار: مرزا شریف احمد
نائب ناظر انسداد ارتداد راجپوتانہ۔ قادیان
۴/ جون ۱۹۲۳ء
نوشتہ سید عبدالرحیم لدھیانوی
سند خوشنودی
’’(سند اظہار خوشنودی‘‘ کا متن جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تحریک شدھی کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والے مبلغین کو واپسی پر عطا کیجاتی تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سند اظہار خوشنودی
مکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ- اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے ساتھ اپنا وقف کردہ وقت پورا کرکے آپ واپس آرہے ہیں۔ یہ موقعہ جو خدمت کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔ اس پر آپ جس قدر خوش ہوں کم ہے اور جس قدر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں تھوڑا ہے۔ ایسی سخت قوم اور ایسے نامناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ آپ لوگوں کے کام کی دشمن بھی تعریف کر رہا ہے اور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے۔ اور میری خوشی اور مسرت کا موجب۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس کام کو قبول فرمائے۔ میں آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔ اور انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا۔
امید ہے آپ لوگ اس کام کو بھی یاد رکھیں گے۔ جو واپسی پر آپ کے ذمہ ہے۔ اور جو ملکانہ کی تبلیغ سے کم نہیں۔ یعنی اپنے ملنے والوں اور دوستوں میں اس کام کے لئے جوش پیدا کرتے رہنا کیونکہ اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری۔ کسی کمی کے سبب سے برباد ہو جائے۔ مومن کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اسے اس کے لئے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین۔ والسلام۔
خاکسار
(حضرت) مرزا محمود احمد (خلیفتہ المسیح ثانی)
از قادیان۔ دارالامان۔ پنجاب
(نوشہ سید عبدالرحیم لدھیانوی)
مسلمان اور ہندو اخبارات کی طرف سے خراج تحسین
اگرچہ مورچہ بندی کا ابھی یہ ابتدائی دور تھا مگر اس میں بھی مجاہدین احمدیت نے سرفروشی‘جاں بازی اور فدا کاری کا وہ شاندار نمونہ دکھایا کہ مسلمان ہی نہیں۔ ہندو بھی عش عش کر اٹھے۔
۱۔
چنانچہ اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور (۸/ اپریل ۱۹۲۲ء) نے لکھا۔ ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص‘جس ایثار‘جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے‘‘۔
۲۔ اخبار ’’ہمدم‘‘ لکنھو (۶/ اپریل ۱۹۲۳ء۵۴) نے لکھا۔
’’قادیانی جماعت کی مساعی حسنہ اس معاملہ میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسری اسلامی جماعتوں کو بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے‘‘۔
۳۔ اخبار ’’مشرق‘‘ گورکھپور نے لکھا۔ ’’جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتار تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑتا ہے اور اس جہاد میں اس وقت سب کے آگے یہی فرقہ نظر آتا ہے اور باوجود اس بات کے احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس فرقہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا۔ اس لئے اس کی شرم سے امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں۔ اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ احمدیہ جماعت اپنے عقائد کی تعلیم دے گی۔ تو وہ اپنی متفقہ جماعت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا خلوص پیدا کرکے آگے بڑھیں کہ ستو کھائیں اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں۔ جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں۔ دیانت‘ایفاء عہد۔ اپنے امام کی اطاعت۔ پس یہ جماعت فرد ہے۔ جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں۔ دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود آمدن کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۵۵۔
۴۔ ’’مسلمانوں کی مذہبی حمیت اور جوش مذہبی کا اندازہ یہ ہے کہ صرف قادیانی جماعت کے ڈیڑھ سو مبلغین تین ماہ تک بغیر کسی معاوضہ کے اور اپنے ذاتی خرچہ پر کام کر رہے ہیں اور دو سو مبلغ آمادہ کار ہیں۔ ان مجاہدین میں زمیندار۔ علماء۔ گریجوایٹ۔ اخبار نویس اور جج شامل ہیں‘‘۵۶
۵۔ نذیر احمد خان صاحب وکیل جے پور نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’قادیان کی احمدیہ جماعت کے ۷۲‘مبلغین کام کر رہے ہیں۔ چوہدری فتح محمد صاحب ایم۔ اے امیر وفد ایک نہایت ہی زیرک‘فہیم‘بردبار‘مدبر اور تبلیغ میں سالہا سال کا تجربہ رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کا انتظام اور نظام ایسے اعلیٰ پیمانہ اور طریق پر ہے کہ تمام مبلغین بھیجنے والوں کو انکا اتباع کرنا چاہئے اور حق یہ ہے کہ جب تک اس جماعت کے قواعد و ضوابط اور ہدایات پر جو ان کو مرکز سلسلہ سے ملتی رہتی ہیں سب مبلغین کاربند نہ ہوں گے کامیابی محال ہے ان احمدی مبلغین کو ہدایت ہے کہ وہ اپنے افسر کی اطاعت ایسی کریں کہ اگر جان جانے کا خطرہ بھی ہو تو بھی حکم بجا لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس جماعت کے سوا اور کسی فرد کی ایسی اعلیٰ تربیت نہیں۔ نہ سنیوں میں نہ شیعوں میں نہ کسی اور جماعت میں۔ پس میں سچے دل سے مشورہ دیتا ہوں کہ اس اعلیٰ نمونہ کی تقلید سب بھائی کریں اور فائدہ اٹھاویں کہ بغیر اس کے کامیابی محال ہے‘‘۵۷ind] [tag
۶۔ اخبار ’’وکیل‘‘ (امرتسر) ۳/ مئی ۱۹۲۳ء نے اپنے اداریہ میں لکھا۔
’’احمدی جماعت کا طرز عمل اس بات میں نہایت قابل تعریف ہے جو باوجود چھیڑ چھاڑ کے محض اس خیال سے کہ اسلام چشم زخم سے محفوظ رکھا جائے۔ ان خانہ جنگیوں کے انسداد کی طرف خود مسلمانوں کے لیڈروں کو توجہ دلاتے ہیں اور ہر طرح کام کرنے کو تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم علیٰ وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ قادیان کی احمدی جماعت بہترین کام کر رہی ہے‘‘۵۸
۷۔ اخبار ’’نور‘‘ علی گڑھ (۳/ مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا۔
’’اب تک جتنی انجمنوں نے اس کارخیر میں قدم رکھا ہے ان میں سے اعلیٰ کام قادیانی جماعت کا ہے‘‘۵۹۔
اب ہندو اخبارات کی رائے پڑھئے۔
۱۔ ’’آریہ پترکا‘‘ (بریلی) نے یکم اپریل ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’اس وقت ملکانے راجپوتوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی پرانی راجپوتوں کی برادری میں جانے سے باز رکھنے کے لئے (یعنی مرتد ہونے سے بچانے کے لئے۔ ناقل) جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے احمدیہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل داد ہے۶۰۔
۲۔ دیو سماجی اخبار ’’جیون تت‘‘ (لاہور) نے لکھا۔
’’ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی موت کا پرچار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کے لئے ملکانوں میں جاکر مفت کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا وہاں کے کرایہ وغیرہ کا کل خرچہ خود برداشت کر سکیں۔ اور انتظام میں جس لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں ان شرائط پر کام کرنے کے لئے موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں ۹۰ احمدی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچ چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پرچار کر رہے ہیں۔ اس نئے علاقہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجویٹ نوجوان بھی شامل تھے۔ اپنے بسترے کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کرکے سارے علاقہ کا دورہ کیا ہے۔ اپنے مت کے پرچار کرنے کے لئے ان کا جوش اور ایثار تعریف کے قابل ہے‘‘۶۱۔
تحریک شدھی اور تحریک خلافت کے لیڈر
جماعت احمدیہ کے تبلغی جہاد کی ان مہمات کے مقابل تحریک خلافت کے لیڈروں کی بے حسی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی اور انہوں نے اس اہم ترین مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں فرمائی۔ چنانچہ اخبار ’’روزگار‘‘ آگرہ (یکم مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا۔ ’’اس میں شک نہیں کہ جتنے وفد اور جس قدر واعظ اور ہمدردان اسلام کوشاں ہیں ان میں سب سے بڑھا ہوا نمبر جماعت قادیان کا ہے۔ جس کے واعظ ہر قسم کے مصائب اور مصارف برداشت کرکے مصروف کار ہیں بے حد قابل شکر گزاری کے ہیں۔ لیکن افسوس یہ کیسا برتائو ہے کہ فرضی یا اصلی خلافت کے حامیان کی جماعت جو ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کی گہری پسینے کی کمائی سے باون لاکھ وصول کرکے ٹھکانے لگا چکی ہے وہ واقعات فتنہ ارتداد دیکھتے ہیں اور خاموش ہیں‘‘۶۲۔
شدھی اور شیعہ اصحاب
شیعہ اصحاب فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کو کہاں تک اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ شیعہ اخبار ’’در نجف‘‘ (یکم جولائی ۱۹۲۳ء) کے مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔
’’ملکانہ راجپوت کے فتنہ ارتداد کو روکنا عبث اور بے فائدہ کوشش ہے۔ ہزاروں روپے کا مفت برباد کرنا ہے‘‘۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’’فرض کرو اگر وہ مسلمان بھی ہو گئے تو کون مسلمان ہوں گے سنی مسلمان‘پیر پرست‘گور پرست‘اوہام پرست‘تقلید پرست یا غلام احمدی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اللہ جری اللہ مانیں گے یا اہلحدیث جو خدا تعالیٰ کو مجسم قرار دے کر عرش پر بٹھائیں گے اور پنڈلی کا سجدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ (کے) قدم دوزخ میں ڈالیں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کرکے اس سے مصافحہ و معانقہ وغیرہ کریں گے۔ ملکانہ راجپوت سے زیادہ خطرناک وہ مسلمان ہیں جو دائرہ اسلام میں رہ کر صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۶۳۔
شدھی اور دوسرے مسلمان علماء
خلافتی لیڈر وغیرہ تو خیر خاموش رہے مگر دوسرے مسلمان علماء نے کس طرح اپنی مخالفانہ سرگرمیوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کی تفصیل چوہدری نذیر احمد خاں وکیل جے پوری نے ۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو دہلی کی جامع مسجد میں بیان فرمائی اور کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو بتایا کہ۔
’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے آریوں کے بطلان میں وہ مصالحہ جمع کر دیا ہے اگر اس کو اب استعمال کیا جائے تو یہ لوگ بیخ و بن سے اکھڑ سکتے ہیں۔ لیکن تعجب اور افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے مسلمان علماء ان کی اور ان کی جماعت کی خواہ مخواہ مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ ’’دشمنان اسلام‘‘ کے مقابلہ پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ میں نہ تو خود احمدی ہوں اور نہ میرا کوئی رشتہ دار احمدی ہے نہ اس ملک کا رہنے والا ہوں جہاں احمدیوں کی آبادی ہے لیکن ان کے کام کے طریق‘ان کی سرگرمی‘ان کے اخلاص‘ان کی تندہی اور جفاکشی سے کام کرنے کی حالت کا اندازہ کرکے مجبور ہوں کہ تمام اہل اسلام سے کہہ دوں کہ وہ ان حضرات کی مخالفت کو چھوڑ دیں۔ ان ہی لوگوں کے اخلاق ایسے ہیں جو جاہل اور اکھڑ ملکانوں کو آریہ ہونے سے باز رکھ سکتے ہیں اس کے برخلاف ہماری انجمنوں کے مبلغین ۵۵ کی تعداد میں وہاں گئے تھے جن میں سے اکثر شب برات کے حلوے کھانے اور عرس کرنے کے لئے واپس آچکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ رمضان میں واپس گھر پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ لوگ خیال کریں ان لوگوں سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ اس لئے جو جماعت کام کرتی ہے اس کے رستے سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں‘‘۶۴۔
رمضان گزرنے کے بعد علمائے کرام پھر میدان ارتداد میں آموجود ہوئے اور آریہ کی بجائے ایک دوسرے سے پھر الجھنے لگے اور خصوصاً احمدیوں کے خلاف تو محاذ قائم کر لیا۔ جس پر اخبار ’’زمیندار‘‘ (۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء) نے ’’مجلس نمائندگان تبلیغ‘‘ اور دوسری جماعتوں کو شرم دلائی کہ۔
’’اگرچہ سوامی شردھانند آریہ سماجی ہیں لیکن آریہ سماج کی جماعتوں کے علاوہ سناتن دھرم اوجینی وغیرہ بھی ان کے شریک کار ہیں اور آج تک ان لوگوں میں اختلاف کی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی۔ سناتن دھرم والوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ سوامی شردھانند ملکانوں کو آریہ بنا رہے ہیں۔ پرتاپ‘کیسری اور تیج کے فائل اٹھا کر دیکھئے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایک تحریر ایک خبر ایک اطلاع ایک مراسلہ بھی ایسا نہ ملے گا جس سے ہندو مبلغین کا ذرہ برابر باہمی اختلاف ظاہر ہوتا ہے لیکن ’’زمیندار‘‘۔ ’’سیاست‘‘۔ ’’وکیل‘‘ اور دوسرے اسلامی اخبارات کی جلدیں پڑھئے تو آپ پر بار بار اس افسوسناک حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ ایک انجمن دوسری انجمن کو حلقہ ارتداد میں کام کرتے دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ خدا کا کام ہے لیکن ہندوئوں نے اسے ذاتی اختلاف اور ذاتی شہرت پسندی کی جولانگاہ بنا رکھا ہے کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں۔ ہم ’’مجلس نمائندگان تبلیغ‘‘ اور دوسری تمام تبلیغی انجمنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر احمدی مبلغین ملکانوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو بگڑنے کا کوئی حق نہیں۔ جس طرح آپ ان کو حنفی و اہلحدیث بنانے کا حق رکھتے ہیں احمدی مبلغین ان لوگوں پر اپنا کیش و مذہب پیش کرنے میں آزاد ہیں اور ہندو ہو جانے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ ایک مسلمان احمدی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھ لیجئے۔ اگر چھ لاکھ ملکانے مسلمانوں کی کسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو مسلمان شمار کئے جائیں گے۔ لیکن اگر ہندو ہو گئے تو فریق ثانی کی طاقت میں اضافہ کا باعث ہوں گے مسلمانوں کے مقاصد سیاسی کی حفاظت کے دعوی دار بتائیں کہ صواب کی راہ کون سی ہے‘‘۶۵
اس بروقت انتباہ کے باوجود ان حضرات کے طرز عمل میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا۔ بلکہ احمدیوں کی کامیابی پر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوئے۔ دراصل یہ بھی آریہ اخبارات کی ایک چال تھی کہ انہوں نے غیر احمدی علماء کو اکسایا‘کہ قادیانی تو ملکانوں کو احمدی بنا لیں گے۔ دوسرے علماء سے احمدی جماعت کے خلاف فتویٰ کفر طلب کرکے شائع کئے گئے اور ملکانوں سے کہا گیا کہ احمدی تو خود بھی مسلمان نہیں تمہیں کیا اسلام سکھائیں گے؟
اس وقت احمدیوں کے علاوہ ’’جمعیتہ العلماء‘‘۔ ’’رضائے مصطفیٰ‘‘۔ ’’خدام الصوفیہ‘‘ وغیرہ تبلیغ کے لئے پہنچی ہوئی تھیں۔ آریوں کا جادو چل گیا۔ اور یہ سب جماعتیں الا ماشاء اللہ اپنی طاقت و قوت احمدیوں کے خلاف استعمال کرنے لگیں۔ اگر کوئی احمدی مجاہدین کی کوششوں کے نتیجہ میں شدھی سے تائب ہو کر واپس اسلام میں داخل ہوتا تو یہ اصحاب وہان جا کر ملکان سے کہتے کہ قادیانی تو آریوں سے بھی بدتر ہیں۶۶۔ ان کے ذریعہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟
پھر یہ اصحاب اس قدر بے بنیاد الزام لگاتے کہ خدا کی پناہ۔ یہ کہا گیا کہ قادیان میں ایک جھنڈا ہے اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ مرزا صاحب نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے تئیں (نعوذ باللہ) رسول اللہ~صل۱~ سے افضل سمجھتے ہیں۔ قادیانی پانچ نمازیں نہیں پڑھتے ان کا حج قادیان میں ہوتا ہے۔ یہ گورنمنٹ کے ایجنٹ ہیں اور اس سے روپیہ لیتے ہیں ان کے پاس روپیہ بنانے کی مشین ہے۔ یہ ملکانوں کو روپیہ دے کر اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں۔ یہ لڑکوں کو بھگا لے جائیں گے۔ اب تو بچوں کو پڑھاتے ہیں پھر ان کے اخراجات کا دعویٰ دائر کر دیں گے۔ غرض کہ اس قسم کے مغالطے ملکانوں کو دیئے کہ بس حد ہو گئی۔ اب احمدی مجاہدین کو بیک وقت دو زبردست طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آگے آریہ صاحبان اور پیچھے علماء کرام !!۶۷۔
یہ افسوسناک صورت حال معلوم کرکے مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ (لاہور) نے لکھا۔
’’میں نے سنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کے لئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ مناسب جانا کہ میں جس گروہ کے مبلغین کو سب سے زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کر لوں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔ مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کافر ہیں اور ان کا کفر ملکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس زمانہ میں علماء کا یہ کام مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان نہ ہو گا۔ جس کے متعلق سب علماء دین بالاتفاق یہ کہہ سکیں کہ واقعی یہ ٹھیک مسلمان ہیں۔ ہمارے علماء سے جسے چاہو کافر بنوالو۔ وہابی کافر‘بدعتی کافر‘رافضی کافر‘خارجی کافر۔ لیکن اگر ان سے چاہو کہ چند کافروں کو مسلمان بنا دو۔ تو یہ کام ان سے نہیں ہو سکتا‘‘۶۸۔
اسی کی تائید میں جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب ’’سرگزشت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔
’’ملکانہ راجپوتوں میں انسداد ارتداد اور تبلیغ اسلام کا کام شروع ہوا۔ بریلوی‘دیوبندی‘شیعہ‘احمدی‘لاہوری احمدی۔ میر نیزنگ کی جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے مبلغ غرض ہر فرقے اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر اسلام کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ صرف احمدی مبلغین تو کچھ کام کرتے تھے اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں مصروف پیکار تھے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے‘‘۶۹۔
جمعیتہ العلماء دہلی کی طرف سے احمدیوں کو دھمکی
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ’’جمعیتہ العلماء‘‘ دہلی نے احمدیوں کو تباہ کرنے کی بھی دھمکی دے دی۔ چنانچہ شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کا چشم دید بیان ہے کہ ’’جب میں ملکانہ میں کام کرتا تھا تو چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے مجھے حکم دیا کہ دہلی جائیں اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب وغیرہ جمعیتہ العلماء کے علماء سے ملیں۔ اور اطلاع دیں کہ آپ کے فلاں مبلغ ملکانوں کو تبلیغ اسلام کرنے کی بجائے ان کو ہمارے خلاف بہکا رہا ہے۔ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو غالباً مولوی احمد سعید صاحب نے میری عرض داشت پر جو کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں مدد کرتا ہوں۔ مگر میں ایک بات سنائے دیتا ہوں کہ جب یہ ملکانہ کا قضیہ ختم ہو جائے گا تو پھر ہم آپ کی جماعت کا مقابلہ کریں گے اور پیس کر رکھ دیں گے۔ یہ کہہ کر ساتھ ایک آدمی کر دیا کہ فلاں مولوی صاحب کے پاس لے جائیں یہ مولوی صاحب جو نوجوان تھے اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنے آدمیوں کو تنخواہیں ہی نہیں سفر خرچ بھی دیتے ہیں اور بھی ان کی خاطر مدارت کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ بھاگ آتے ہیں۔ مگر آپ نے کیا روح پھونک دی ہے کہ ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں‘‘۷۰
’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ کی مزاحمت اورحضرت چوہدری فتح محمد صاحب کی غیرت دینی
جیسا کہ اوپر جمعیتہ العلماء کا بطور مثال ذکر کیا گیا ہے بعض مستثنیات کے سوا علماء کے سب طبقے اجتماعی صورت میں احمدیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ حتیٰ کہ ’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ بھی جسے
بالکل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے تھا وہ بھی مزاحمت کرنے لگی چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب (ایڈووکیٹ لائلپور) اس صورت حال کا تذکرہ کرتے اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی غیرت دینی کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’تمام علاقے میں ہنگامے برپا تھے۔ ہر طرف رواروی اور ہماہمی تھی۔ اگر آج چوہدری صاحب موضع پرکھم میں ایک مسجد کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو کل موضع اسپار میں مرتد ملکانوں کی اسلام میں واپسی کی تقریب پر شاداں و فرحاں احباب سمیت جا رہے ہیں۔ اور اس طرح شب و روز فرائض منصبی میں بشاشت سے منہمک ہیں اور اس مشکل ترین فرائض کا ایک پہاڑ سر پر اٹھایا ہوا ہے اور امام کے اشارات و ہدایات کے مطابق چلے جا رہے ہیں اور الا مام جنہ یقاتل من ورائہ کا منظر ہے۔ بعض اور انجمنیں بھی علاقہ ارتداد میں کام کر رہی تھیں یا کام بگاڑ رہی تھیں اور کبھی کبھی بلاوجہ محض حسد کی راہ سے ہمارے کام میں روک بن جاتی تھیں۔
اسی قسم کا ایک واقعہ خاکسار کے رو برو پیش آیا۔ ’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ نے بذریعہ ایک کارکن ہمارے کام میں دراندازی کی۔ چوہدری صاحب مرحوم کو علم ہوا تو بپھرے ہوئے شیر کی مانند اس انجمن کے دفتر میں آئے۔ خاکسار ہمراہ تھا پھر وہاں جو واقعہ پیش آیا سننے اور سمجھنے کے قابل ہے اور میرے روزنامچے میں بہ الفاظ ذیل درج ہے۔
’’۲۳/ اگست ۱۹۲۳ء۔ امیر صاحب کی معیت میں نمائندگان تبلیغ کے دفتر میں گئے قریب سوا آٹھ بجے (شب) ان کے دفتر میں پہنچے۔
نذیر احمد خاں وکیل جے پوری جو فتنہ ارتداد کے دوران میں معروف ہو چکے ہیں۔ وہاں موجود تھے اور آج ہی مہاسبھا بنارس سے واپس آئے تھے۔ اس کے متعلق اپنے دفتر کے کلرک کو کچھ مضمون وہاں کی کارروائی کے متعلق لکھوا رہے تھے۔ بدیں پیرایہ کہ والیان ریاست کی طرف سے ایک ہزار نمائندے شریک تھے۔ پنڈت مالویہ نے پرزور تحریک شدھی کے حق میں کی کہ خواہ کھان پان نہ ہو۔ لیکن بھنگیوں چماروں تک کو کنوئوں سے پانی بھرنے‘مندروں میں درشن وغیرہ کی اجازت ضرور دی جائے پنڈت لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن مالویہ کے آگے ان کی پیش نہ گئی اور بالاخر یہ پاس ہو گیا۔ مارواڑی کروڑ پتی اور دور دراز کے نمائندے شریک تھے راجہ بھرت پور کی حسن کارکردگی کا خصوصاً اعتراف کیا گیا۔
اس کے بعد وکیل صاحب موصوف نے نوٹ لکھوایا کہ میرا یہ خیال ہے کہ اگر ہندوستان کی کل جماعتیں ایک شخص کے ماتحت ہو کر کام نہ کریں گی تو ۱۹۲۳ء میں دو کروڑ نفوس مرتد ہو جائیں گے اور ہمیں مخاطب کرکے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو اجمل خاں‘محمد علی‘شوکت‘کچلو وغیرہ تمام مسلمان لیڈروں کو کہتا کہ لیڈری کو چھوڑو۔ شکاری شکار کھیلتا ہے اور تم لوگ اس کی بندوق و تیر اٹھائے پھرتے ہو۔ وغیرہ۔
اتنا عرصہ ہم خاموش بیٹھے رہے اور مضمون کے ختم ہونے پر امیر صاحب نے حرف مطلب یوں شروع کیا۔
ہمیں نمائندگان تبلیغ سے سخت شکایت ہے ہم چھ ماہ سے یہاں پڑے ہیں۔ ہماری جماعت کے بہترین آدمی برسرکار ہیں۔ ہم دو ماہ میں شدھی وغیرہ سب کو پورے طور پر رفع دفع کر گئے ہوتے لیکن یہ مولوی لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ ہم جان توڑ کر مسلسل کوشش سے ایک دیہہ کو فتح کرنے والے ہوتے ہیں کہ آپ کا آدمی پہنچتا ہے اور کام خراب کر دیتا ہے ہمیں کافر ٹھہرا کر ملکان کو بہلا پھسلا کر۔
کنور عبدالوہاب صاحب وغیرہ یہاں نہیں رہتے۔ ہم شکایت ان سے کیسے کریں۔ دین میں اعزازی عہدے نہیں ہوا کرتے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہم اب یہ برداشت نہیں کر سکتے یا تو مولوی کو ۔۔۔۔۔۔۔ دو دن کے اندر نکال دیا جائے۔ ورنہ ہم اس انجمن کے خلاف جو چاہیں گے کریں گے۔ آریہ مسلمانوں سے بڑی قوم ہے۔ انگریز اتنی بڑی قوم ہے ہم نے ان سے مقابلہ ٹھانا ہوا ہے تو پھر یہ مولوی وغیرہ کیا چیز ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تمام جماعت احمدیہ کہہ رہی ہے۔
نذیر احمد خاں: آپ پندرہ دن اور ٹھہر جائیں۔ یہ مولوی ملانے بوریا بستر باندھ کر خود چل دیں گے۔
امیر صاحب: ہم نے چھ مہینے انتظار کیا ہے لیکن کوئی اصلاح نہیں ہوئی۔ کنور عبدالوہاب صاحب کے سامنے ملکانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے ایک مولوی نے احمدیوں کو ان کے گائوں میں نہ رہنے دیا ورنہ وہ لوگ ان کے زیر اثر پنجوقتہ نماز پڑھنے لگ گئے تھے حتیٰ کہ بعض تہجد بھی پڑھتے تھے نمائندگان کا آدمی گیا انہیں ورغلایا اور احمدیوں کو کافر قرار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی وہاں سے لوٹ آئے اور وہ مولوی ایک دن بھی نہ ٹھہرا۔ سب نے نماز چھوڑ دی اور ویسے کے ویسے رہ گئے۔
امیر صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تحریر میرے پاس موجود ہے اور انہوں نے کہا ہم قادیان بیعت کرتے ہیں۔ لیکن ہم خاموش رہے۔ اب بتائو ہم نے انہیں کہا تھا کہ بیعت کرو۔ اسی طرح آئے دن واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ مولوی چاہتے ہیں کہ کام نہ خود کریں نہ کرنے دیں۔
آنور ایک بڑا گائوں ہے چھ سو ملکانے وہاں آباد ہیں۔ اگر وہ واپس ہو تو بھرت پور پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ دیگر دیہات متھرا پر بھی اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ وہاں ہمارے تین آدمی مقرر ہیں۔ شیخ فضل صاحب جو بٹالہ کے رئیس ہیں اور دو اور تعلیم یافتہ آدمی اب چوتھا آدمی نمائندگان کا وہاں کیوں جائے۔ لیکن نواب خاں وہاں گیا کہ عبدالحی صاحب نے اسے حکم دیا کہ تم نوکر ہو وہاں ضرور جانا ہو گا۔ اس نے جا کر انہیں بگاڑا۔ ورنہ وہ واپسی کے لئے آمادہ تھے۔ اس شرط پر کہ آریوں سے جو دو سو روپیہ مرمت چاہ کے لئے وہ لے چکے ہیں انہیں واپس دے کر رسید ہم لے لیں اور اگر وہ کوئی مقدمہ کریں تو ہم ان کی امداد کریں۔ ہم تیار تھے کہ یہ آدمی پہنچا۔ ملکانے ایک ہوشیار قوم ہے انہوں نے جب دیکھا کہ دو خریدار ہیں۔ تو اب کہتے ہیں کہ ۸۰۰ دلائو۔ ہمارا چندہ صرف ہندوستان پر ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ممالک یورپ امریکہ‘افریقہ پر بھی صرف ہوتا ہے۔ میں بجٹ سے ایک پیسہ زیادہ نہیں کر سکتا۔ اگر ہمارا مقابلہ ہی کرنا ہے تو جائو پنجاب میں‘بنگال میں‘تمام ہندوستان میں ہمارا مقابلہ کرو۔ یہ علاقہ اسلام پر ایک مصیبت ہے یہاں ہی ہمارے ساتھ دشمنی کرنی ہے۔ اگر اتحاد نہیں ہو سکتا تو دشمنی تو نہ ہو اگر ہم آپ کے خیال میں مسلمان نہیں تو ہم ہر دو کم از کم تعلیم یافتہ تو ہیں ملکا نے ہم دونوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ اس کا تو خیال ہے۔ اگر آپ کہیں تو ہم آپ کے حسب مرضی جو جو گائوں آپ چاہیں چھوڑ دیں لیکن باقیوں پر ہمارا کامل تسلط ہو گا اور آپ کی طرف سے کوئی در اندازی نہ ہو گی اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن ایک سو چالیس گائوں ہیں ان میں کم از کم دو سو اسی آدمی مبلغ درکار ہوں گے آپ کو ان کا انتظام کرنا ہو گا غرض کوئی معاہدہ بھی ہو لیکن استوار ہو۔
خدا جانتا ہے کہ ہمیں یہاں آنے سے کوئی خاص غرض نہیں اور یہ شکایت محض جانبین کی بہتری کے لئے ہے انتھی کلامہ۔
یہ تمام گفتگو نذیر احمد خاں صاحب اور عبدالحی صاحب نائب ناظم مجلس نمائندگان کے روبرو ہوئی۔ آخر نذیر احمد خاں صاحب عبدالحی صاحب کو اٹھا کر ایک طرف لے گئے اور واپس آکر عبدالحی صاحب نے کہا کہ آپ اپنے دیہات کی ایک فہرست ہمارے پاس بھیج دیں۔ اس کے بعد ہم ان نامزدہ دیہات میں کوئی مداخلت نہ کریں گے۔ کہا گیا کہ چھ ماہ ہوتے ہیں آپ کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں کہاں ہیں۔ بہرحال فہرست مطلوبہ ارسال کر دی جائے گی۔
یہ تقریر میں نے واپسی پر رات کو ہی قلمبند کر لی تھی‘‘۷۱۔
مجاہدین احمدیت پر ظلم و تشدد
میدان ارتداد میں احمدی مجاہدین کو آریوں اور علماء کی طرف سے ظلم و تشدد کا تختہ مشق بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ چنانچہ فرخ آباد میں آریوں نے ایک بار ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے مکان کا مسلح محاصرہ کر لیا۔ مگر اس دوران میں اچانک پولیس کا ایک مسلمان سپاہی آگیا اور ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اسی طرح ایک مولوی آل نبی صاحب نے کئی سو آدمی لے کر ان کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا اور ماسٹر صاحب اور ان کی اہلیہ اور بوڑھی والدہ اور ننھے بچے یونس احمد کو (جو آب قادیان میں درویشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) جبراً مکان سے نکال دیا اور ساتھ ہی دفتر بھی خالی کروا لیا۷۲۔ ان ہی مولوی صاحب کے رفقائے نے ایک دوسرے احمدی مبلغ عبدالرشید صاحب کو فحش گالیاں دیں اور قتل کی دھمکیاں دینے سے بھی قطعاً دریغ نہ کیا۷۳۔
موضع اسہار میں آریوں اور مرتد ملکانوں نے مرزا غلام رسول صاحب (ریڈر سیشن جج پشاور) پر لاٹھیوں سے مسلح حملہ کرکے ان کی جھونپڑی نیچے گرا دی اور وہ نیچے دب گئے۔ بازوئوں سے کھینچ کر باہر نکالا گیا۔ ظالم و سفاک انہیں گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور دھکے دے کر گائوں سے نکال دیا۷۴۔ جس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مقدمہ دائر کیا گیا اور شیخ محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ نے اس کی پیروی کی۔
اکرن میں ہندو تھانیدار نے احمدی مبلغین کو علاقہ سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا۷۵۔ پھر مہاراجہ بھرت پور نے پوری ریاست میں یہ ظالمانہ حکم دے دیا کہ کوئی غیر ریاستی پر چارک (مبلغ) ریاست کی حدود میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہ رہے۔ تب مجاہدین نے حدود ریاست سے باہر کیمپ لگا لیا۔ ایک مجاہد ریاست میں جاتا اور موضع اکرن میں ۲۴ گھنٹے ٹھہر کر واپس آجاتا۔ اس کے بعد دوسرا مجاہد پہنچ جاتا اور اس طرح باری باری اکرن میں شدھی کی خلاف مورچہ کی نگرانی ہوتی رہی۔ ریاستی حکام نے جب یہ صورت دیکھی تو بڑے سٹ پٹائے۔ آخر مہاراجہ بھرت پور نے احمدی مبلغین کے داخلہ ریاست پر قطعی پابندی عائد کر دی۔
ریاست کی اس مذہبی دست درازی پر مسلم پریس مثلاً ’’پیسہ اخبار‘‘۔ ’’سیاست‘‘ اور ’’وکیل‘‘ نے پر زور احتجاج کیا۷۶]body [tag۔ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے (جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی‘حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل پر مشتمل تھا) ناظم ریاست سے ملاقات کی اور یہ ظالمانہ حکم واپس لینے کی اپیل کی۔ مگر ریاستی حکام ٹس سے مس نہ ہوئے اور مجاہدین کو ریاست سے باہر ملحقہ دیہات میں قیام پذیر ہو کر ریاست کے مرتد مسلمانوں سے رابطہ قائم کرنے کے مختلف ذرائع اختیار کرنے پڑے۷۷۔
مجاہدین احمدیت کا بے مثال استقلال
احمدیت کے رستہ میں قدم قدم پر مشکلات و مصائب کے پہاڑ کھڑے کئے گئے مگر اسلام کے جانباز سپاہی بڑے وسیع حوصلہ اور استقلال اور مضبوط ارادے کے ساتھ شدھی کا قلعہ توڑنے میں دیوانہ وار مصروف ہو گئے۔ اسلام کی تائید میں لٹریچر پھیلایا۷۸۔ ملکانہ بچوں کے لئے ساندھن‘پرکھم‘صالح نگر‘کھڑوائی وغیرہ متعدد مقامات پر مدارس قائم کئے۔ ہسپتال کھولے‘پرانی مسجدیں مرمت کرکے آباد کیں اور نئی مسجدیں تعمیر کیں۷۹`۸۰ مجالس اور پبلک جلسوں کے ذریعہ اسلام کی منادی کی اور جب اور جہاں بھی آریوں نے مناظرے کی طرح ڈالی چیلنج دیئے احمدی اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالتے ہوئے میدان مناظرہ میں کود پڑے اور آریوں کے پیش کردہ دلائل کی دھجیاں بکھیر ڈالیں۔ چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بھونگائوں‘بموری‘متھرا‘آگرہ‘ساندھن‘مین پوری اور دہلی میں کامیاب مناظرے کرکے کئی اہم مہمیں سرکیں۔
یہ مجاہدانہ سرگرمیاں دیکھ کر مشہور مسلم اخبار ’’زمیندار‘‘ جو پہلے ہی جماعت کی تبلیغی کارناموں کو دیکھ کر رطب اللسان تھا اور زیادہ تعریف کرنے لگا۔ چنانچہ اخبار ’’زمیندار‘‘ نے لکھا۔
۱۔
’’جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں۔ جو ایثار اور کمربستگی‘نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیرا اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کرکے دکھا دی ہے‘‘۸۱۔
۲۔
’’قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا قریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے۔ ان لوگوں نے نمایان کام کیا ہے۔ جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں۔ ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے۔ اس کا نمونہ سوائے متقدین کے مشکل سے ملتا ہے۔ ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے۔ شدت کی گرمی اور لوئوں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں‘‘۸۲۔
۳۔ ’’احمدی مبلغ جس جوش اور ولولہ سے فتنہ ارتداد کے انسداد میں مصروف ہیں ان کی تعریف و توصیف کرنے سے ہم باز نہیں رہ سکتے‘‘۸۳۔
کامیاب مدافعت اور شاندار پیش قدمی
الحمدللہ کہ احمدی مبلغوں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے شدھی کی رو میں زبردست کمی آگئی اور شدھ کئے ہوئے خاندان بڑی کثرت سے دوبارہ اسلام میں آنے لگے۔ شورش انگیز اور تشدد آمیز کارروائیوں اور چیرہ دستیوں اور مخالف طاقتوں کی زبردست شورش کے باوجود ہر طرف اسلام کی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ ریاست بھرت پور کے کئی گائوں شدھی سے تائب ہو کر پھر سے اسلامی لشکر میں آشامل ہوئے۸۴۔ آنور کا قصبہ جس کے قریب سری کرشن جی کی پیدائش ہوئی اکثر و بیشتر مسلمان ہو گیا۔ اسہار کے ایک بڑے حصہ نے اسلام قبول کر لیا۸۵۔
چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے تحریر فرماتے ہیں۔
’’دوران جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض خطرے کے موقعے بھی پیش آئے جن میں بعض اوقات غنیم نے نازک حالات پیدا کر دیئے۔ اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والنٹیر اپنی کوشش سے ایک شدھ شدہ گائوں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کرکے اسے پھسلا دیا۔ مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کرکے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا۔ بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکانہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا۔ مگر بالاخر ایک ایک کرکے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے پلٹا کھا کر اپنا راستہ بدل لیا۔ بلکہ اس جدوجہد میں ایک حد تک ملکانہ راجپوتوں کی دینی تربیت بھی ہو گئی اور ان میں سے کم از کم ایک حصہ خدا کے فضل سے صرف نام کا مسلمان نہیں رہا۔ بلکہ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والا اور اسلام کے احکام پر چلنے والا بن گیا‘‘۸۶۔
مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار ہندوئوں اور سکھوں دونوں کی طرف سے برملا کیا گیا۔ چنانچہ لالہ سنت رام بی۔ اے سیکرٹری جات پات توڑک منڈل لاہور نے بیان دیا۔ ’’الفاظ بہت کڑے ہیں اور سخت مایوسی سے بھرے ہوئے ہیں مگر یہ سچائی ہے چاہے کڑوی ہو۔ بہت سے بھائی پوچھیں گے ہم اخباروں میں روز شدھی اور اچھوت ادھار کی خبریں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ شدھی اور اچھوت ادھار کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے جواب میں میری عرض یہ ہے کہ کسی کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں۔ پرمیشور نے آپ کو آنکھیں دی ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں دوسرے دھرموں سے کتنے لوگ شدھ ہو کر آئے ہیں جن کی شدھی کی خبریں اخباروں میں جلی الفاظ میں چھپتی ہیں ان کی تعداد کم سے کم پانچ سو تو ہو گی مگر ان میں سے مجھے بیس کے نام تو گن دیجئے۔ جو آج بھی ہندو ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ملکانوں کی شدھی پر بڑا فخر کیا جاتا ہے۔ تھی بھی وہ بڑی فخر کی بات مگر جو لوگ سچائی کو جانتے ہیں وہ بڑے متفکر ہیں۔ ملکانوں کی شدھی کی جو رپورٹ وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتی رہی ہے اس کے بموجب شدھ ہونے والوں کی گنتی ڈھائی لاکھ سے کم نہیں پہنچی مگر ۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں میں بہت سے تو اپنی پہلی حالت میں واپس چلے گئے اور باقی بیچ میں لٹکے ہوئے کسی ٹھوکر کی راہ دیکھ رہے ہیں‘‘]10 [p۸۷۔
پروفیسر پریتم سنگھ ایم- اے اپنی کتاب ’’ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’آریہ سماج نے شدھی یعنی ناپاک کو پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا۔ ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقہ سے تصادم ہو گیا۔ آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہیں اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہیں۔ اور مکمل گیان ہیں قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں۔ اس کدو کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں شامل نہیں ہوتا مذہب کی تبدیلی بے معنی سی ہو گئی ہے آریہ سماج کا تعلیمی کام اب تک جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سماج کا تبلیغی کام تقریباً بند ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماج کی تحریک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکی۔ پرانے ہندو جو بت پرست اور مقلد تھے وہ ویسے کے ویسے ہی رہے اور کچھ انگریزی پڑھے لکھے لوگ جو سماج میں داخل ہوئے وہ مادیات میں پھنس کر دہریہ ہو گئے۔ ان کی تو وہی حالت ہے۔
ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘۸۸۔
شردھانند کی طرف سے تحریک شدھی سے دست برداری کا اعلان
جب آریوں کو کئی مقامات پر پسپا ہونا پڑا تو شدھی کے بانی شردھانند نے ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو تمام مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان عملی میدان سے ہٹ کر براہ راست ان کی طرف متوجہ ہوں اور جہاں ہندو ان کی شخصیت و عظمت کے قائل ہوں وہان بھولی بھالی ملکانہ قوم پر رعب طاری ہو۔ اس چیلنج میں انہوں نے گو احمدیہ جماعت کا نام نہیں لیا تھا مگر چونکہ اس دعوت میں سب مسلمانوں ہی کو خطاب تھا اس لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے ناظر تالیف و اشاعت نے فوراً مناظرہ کی منظوری بذریعہ تار بھیج دی اور ساتھ ہی مسلمان اور ہندو اخبارات کو بھی اس کی اطلاع کر دی۸۹۔
انصاف و اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے فریق مخالف کی اطلاع کا جواب دیتے مگر شردھانند صاحب نے اس تار کا تو کوئی جواب نہ دیا البتہ ’’ہندوستان کے سب مسلمانوں کو کھلا چیلنج‘‘ کے نام سے ایک نیا اعلان دے دیا۔ جس میں پبلک پر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ گویا خود مسلمانوں نے مجھے دعوت مباحثہ دی ہے۔ تحریر کیا کہ:۔
’’کچھ عرصہ سے مسلمان اصحاب نے میری معرفت مباحثہ کرنا زیادہ تر مناسب سمجھا ہے اس لئے ان کی خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے سب کا فرداً فرداً جواب نہ دیتے ہوئے ہندوستان کے جملہ مسلمان بھائیوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ آریہ سماج ہر وقت مباحثہ کے لئے تیار ہے۔ ۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء تک اسلام کے ہر فرقہ کی طرف سے (جو مباحثہ کرنا چاہیں) میرے پاس درخواست آجانی چاہئے‘‘۹۰۔
اس اعلان میں انہوں نے ایک تو مسلمانوں کی ’’درخواست‘‘ کے لئے ایسی قلیل مدت مقرر کی جو کسی لحاظ سے معقول نہیں تھی کیونکہ اس دوران میں ہر جگہ سے جواب کا بروقت پہنچنا بالکل ناممکن تھا۔ دوسرے ایسی بعض شرائط بھی لگا دیں جو دوسرا فریق منظور ہی نہ کر سکے۔ مثلاً مناظرہ کے وقت پریذیڈنٹ آریہ سماج کی طرف سے ہو گا۔ تیسرے اس تحکمانہ لہجہ میں اعلان لکھا کہ گویا آپ مہاراجہ ہیں اور اپنی رعایا کے نام احکام جاری فرما رہے ہیں لیکن اس کے باوجود احمدی جماعت نے جواب دیا کہ ہمیں ہر شرط منظور ہے۔ میدان میں نکلیں۔
چنانچہ ناظر صاحب تالیف و اشاعت نے قادیان شردھانند جی کو للکارتے اور پبلک پر ان کی شکست خوردہ ذہنیت کو آشکار کرتے ہوئے لکھا:۔
’’ہم سب شرائط منظور کرتے ہیں جو آپ نے تجویز کی لیکن ہم تمام پبلک خصوصاً انصاف پسندوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی غیر منصفانہ طریق ہے کہ ایک فریق اپنے ہی قبضہ میں سب اختیارات رکھتا ہے۔ اگر آریہ سماج اس طرح مجبور کرکے اپنی پیش کردہ شرائط کو منظور کرانا چاہتی ہے تو یہ اس کا رویہ خود اقرار شکست ہے بحث ایک جنگ ہے اور جب کہ شکست خوردہ دشمن کا بھی یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو فاتح کی پیش کردہ شرائط کے مقابلہ میں پیش کرے۔ تو یہ بات نہایت خلاف عقل ہے کہ ایک فریق بحث سے بھی پہلے اپنی طرف سے سب پیش کردہ شرائط کو بلا چون و چرا ماننے پر زور دے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آریہ سماج کی طرف سے جلد سے جلد مجھے اس امر کی اطلاع دی جائے گی کہ ان کو ہمارے ساتھ مباحثہ کرنا منظور ہے یا نہیں‘‘۹۱۔
اب شردھانند صاحب کے لئے گریز کی کوئی راہ باقی نہ تھی۔ شرائط اگرچہ یکطرفہ تھیں اور وقت نہایت تنگ مگر جماعت احمدیہ نے اتمام حجت کے لئے مباحثہ منظور کر لیا۔ جماعت بڑی بے تابی سے اس وقت کے انتظار میں تھی کہ کب ’’سوامی جی‘‘ میدان مباحثہ قبول کرتے ہیں اور ہندو دھرم کے مقابل اسلام اور ویدوں کے مقابل قرآن مجید کی فتح کے نقارے بجتے ہیں۔ لیکن شردھانند تو اس مناظرے سے اپنا پیچھا چھڑانے کی فکر میں تھے اور کسی بہانہ کی تلاش میں تھے۔
دہلی کی اتحاد کانفرنس
حسن اتفاق سے ان ہی دنوں دہلی میں آل انڈیا نیشنل کانگرس نے ایک خاص اجلاس شدھی اور سنگھٹن کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلا رکھا تھا اس اجلاس میں جناب ابوالکلام صاحب آزاد صدر کانگریس نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ موجودہ ملکی حالت یہ ہے کہ سوارج اور خلافت کی جگہ شدھی سنگھٹن کی تحریک اور اس کی مدافعت نے لے لی ہے ہمیں متحدہ قومیت کی ضرورت ہے میں تمام ہندو مسلمانوں سے وطن کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ان تمام سرگرمیوں کو بند کر دیں جو شدھی تحریک اور اس کی مدافعت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
خطبہ صدارت کے بعد ہندو مسلم لیڈروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور جناب آزاد کی تجویز پر ایک اتحاد کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس کی غرض کانگریس کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرنا تھا یہ اتحاد کمیٹی حسب ذیل ممبروں پر مشتمل تھی۔ پنڈت شردھانند‘پنڈت مالویہ جی‘جناب ابوالکلام صاحب آزاد‘ڈاکٹر انصاری‘ڈاکٹر کچلو‘حکیم اجمل خاں‘مولوی شبیر حسین‘مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی‘پنڈت موتی لال نہرو‘سی۔ آر داس‘مسٹر کینڈا‘مسز سروجنی نائیڈو اور ڈاکٹر ستیہ پال۹۲۔
اتحاد کمیٹی کے ممبر ہونے کی وجہ سے شردھانند جی کو مباحثہ سے انکار کرنے کا ایک موقعہ ہاتھ آگیا۔ اور اگرچہ کمیٹی کی تجاویز میں مباحثہ کے اعلان کی واپسی کا چنداں ذکر نہیں تھا۔ مگر انہوں نے فوراً اعلان شائع کر دیا کہ۔
’’کمیٹی صلح کے بن جانے سے ہر دو مذاہب کے درمیان پھر سے اتحاد کی بنیاد قائم ہو گئی۔ اب میں اس بنی ہوئی فضا کے راستے کو مکدر کرنا نہیں چاہتا اس لئے مباحثہ کو اپنی طرف سے بند کرتا ہوں‘‘۹۳۔
اس اعلان پر دنیا نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ آریوں کے مشہور لیڈر اور شدھی کے بانی نے احمدیوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست پر اپنے ہاتھوں دستخط کر دیئے ہیں۹۴۔ یہ بات اتنی واضح اور کھلی تھی کہ ہندو اخبار ’’پرتاپ‘‘ لاہور نے لکھا۔
’’ممکن ہے فساد بھی ہو جاتا لیکن جو بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ یہ حالات تو پہلے بھی موجود تھے جبکہ سوامی جی نے مناظرہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد تو کوئی اور فساد بھی نہیں ہوا۔ اس کے بعد کونسی ایسی بات ہوئی ہے جس نے سوامی جی کو مناظرہ کے بند کرنے پر مائل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے خود ہی مناظرہ کا اعلان کیا۔ خود ہی اسے منسوخ کر دیا‘‘۹۵۔
مناظرہ کی منسوخی سے آریہ سماج کو ایسی ضرب کاری لگی کہ چند دن بعد شردھانند تحریک شدھی سے ہی دستبردار ہو گئے اور اپنی علیحدگی کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’میری صحت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ شدھی جیسے اہم اور ضروری کام کو اسی شوق سے کئے جائوں میرا دل ہمیشہ کارکنوں کے ساتھ رہے گا‘‘۹۶۔
اتحاد کمیٹی میں نمائندگان جماعت کی شمولیت
اب اتحاد کمیٹی کی طرف آئیے۔ جس کی بناء پر شردھا نند جی نے پہلے میدان مناظرہ سے گریز اختیار کیا اور پھر شدھی سے دستکش ہو گئے۔
ہم اوپر یہ ذکر کر آئے ہیں کہ جناب ابوالکلام صاحب آزاد صدر آل انڈیا نیشنل کانگرنس نے ہندو مسلمان لیڈروں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ شدھی کی تحریک بھی اور اس کی مدافعت کا کام بھی بالکل بند کر دیا جائے۔ چنانچہ اتحاد کمیٹی کے ارکان سوامی شردھانند سے یہ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو گئے کہ بیرونی آریہ اپدیشک بھی تحریک شدھی سے الگ ہو جائیں اور دوسری جگہ سے آنے والے مسلمان بھی میدان ارتداد سے ہٹ جائیں اور خود ملکان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ آپس میں کوئی فیصلہ کر لیں۔
یہ اطلاع قادیان میں پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے ناظر صیغہ انسداد ارتداد (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے) نے حکیم اجمل خاں صاحب۔ ڈاکٹر انصاری صاحب اور ڈاکٹر کچلو کے نام (جو اتحاد کمیٹی کے ممبر تھے) اس سمجھوتہ کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہوئے مفصل تار دیا۔ کہ
’’ہمارے نزدیک یہ سمجھوتہ سخت خلافت دانست اور خلاف مصالح اسلامیہ ہے۔ آریہ لوگ ایک عرصہ سے وہاں کام کر رہے ہیں اور کئی ہزار آدمی کو آریہ بنا چکے ہیں۔ اب پیچھے ہٹ جانے کے یہ معنی ہیں کہ ان لوگوں کو آریہ رہنے دیا جاوے۔ جو قوم پہلے قبضہ کر چکی ہے اس کے لئے آئندہ جنگ بند کر دینا کوئی حرج نہیں ہے۔ نقصان اس کا ہے جس نے اپنے اہل مذہب کو واپس لانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ہم بڑے زور سے اس سمجھوتہ کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہیں اس وقت تک کہ اس علاقہ کے لوگ واپس اسلام میں آجائیں ہم صبر نہیں کریں گے اور اسلام کی عزت کے مقابلے میں کسی سمجھوتہ کی پروا نہیں کریں گے۔ ہماری جماعت امید رکھتی ہے کہ آپ اس وقت اسلام کی طرف سے جو ذمہ داری آپ پر عائد ہے۔ اس کو محسوس کرتے ہوئے کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے جو اسلام کی تبلیغی روح
‏rov.5.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
کے خلاف ہو‘‘۹۷۔
تار پہنچنے تک اتحاد کمیٹی کے ہندو اور مسلمان لیڈروں میں قطعی فیصلہ ہو چکا تھا کہ دونوں قومیں اپنے اپنے آدمی علاقہ ارتداد سے واپس بلا لیں۔ اور صرف یہ سوال باقی رہ گیا کہ آریہ پہلے علاقہ خالی کریں یا مسلمان‘مسلمان لیڈروں نے مان لیا کہ ہمارے آدمی پہلے واپس آجائیں گے لیکن اب یہ اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ احمدیوں کا کیا ہو گا۔ اس پر شردھانند جی نے مسلمان لیڈروں سے کہا۔ جناب! آپ لوگ کس خیال میں ہیں یہ تو سارا کھیل ہی احمدیوں کا ہے پس آپ انہیں الگ رکھ کر کس حیثیت میں سمجھوتہ کریں گے اور کیا سمجھوتہ کریں گے؟
بعض مسلمان لیڈر اس سے پہلے نخوت کے رنگ میں احمدیوں کو دانستہ اس کمیٹی سے الگ کرکے اپنے طور پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس مرحلہ پر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں مجبوراً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں درخواست کرنا پڑی کہ وہ اپنے نمائندے بھجوائیں۹۸ چنانچہ سمجھوتہ کے خلاف احتجاجی تار ڈاک خانہ میں دینے کے معاًبعد حکیم اجمل خان صاحب‘جناب محمد علی صاحب (جوہر) اور ڈاکٹر انصاری صاحب کی طرف سے تار پہنچا کہ۔
’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ۔ ہماری پر زور درخواست ہے کہ آپ اپنے ذمہ دار قائم مقام کو جو آپ کے خیالات سے واقف ہو بھیجیں تاکہ شدھی اور اشدھی کی تحریکات کی وجہ سے جو فسادات پیدا ہو رہے ہیں ان کو روکنے کے لئے مشورہ کیا جائے‘‘۹۹4] [rtf۔
چنانچہ حضور کے حکم پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم۔ چودھری فتح محمد صاحب سیال امیر وفد المجاہدین اور حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب (علی برادران کے بڑے بھائی) ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء کو دہلی پہنچے۱۰۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیڈروں کے نام اپنے نمائندوں کے ہاتھ ایک خط بھی بھجوایا جس میں تحریر فرمایا۔
’’جہاں تک میں آپ کے تار سے مطلب سمجھ سکا ہوں ہدایات دے دی ہیں اگر کوئی ایسا سوال پیدا ہوا۔ جس کے متعلق ان کو میری رائے معلوم نہ ہوئی تو مجھ سے دریافت کرکے آپ کو اطلاع دیں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اتحاد کے لئے ہماری جماعت بے چین ہے اور ہمارے عظیم مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا میں سے تفرقہ اور انشقاق مٹ جائے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس بات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ موجب اختلاف کو معلوم کرکے ایسے اسباب مہیا کئے جائیں جن سے دائمی صلح اور آشتی پیدا ہو کر تمام اقوام عالم میں امن قائم ہو سکے۔ نہ یہ کہ ایسی صلح کی جائے جو دیرپا نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں کسی اور جنگ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں‘‘۱۰۱۔
ان نمائندوں کے دہلی پہنچنے پر حکیم اجمل خاں صاحب نے دوبارہ تار دیا کہ۔
’’حضرت مرزا محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ۔ خط اور فوری توجہ کا تہ دل سے شکریہ۔ آپ کا مشورہ ہمارے لئے بڑی مدد کا موجب ہو گا۔ اجمل خاں‘‘۱۰۲۔
احمدی نمائندوں نے کمیٹی کے سامنے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ موقف پوری وضاحت سے پیش کیا کہ جب تک شدھ شدہ مسلمانوں میں سے ایک فرد واحد بھی باقی ہے ہم یہ مہم ہرگز نہیں چھوڑیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ سمجھوتہ نہ ہو سکا اور شردھانند اور دوسرے کانگریسی ہندوئوں کی یہ سیاسی تدبیر جو انہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم پر کی تھی۔ کامیاب نہ ہو سکی۔
علاقہ ارتداد میں مستقل مبلغین کا تقرر
گو ہندو مسلم لیڈروں کا کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ مگر غیر احمدی علماء اور آریہ پر چارک تھک ہار کر تیزی کے ساتھ واپس آنے لگے۔ اس کے مقابل جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا تھا۔ احمدی مجاہدین آخر دم تک میدان عمل میں مصروف جہاد رہے چنانچہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے یہ علاقہ آگرہ‘فرخ آباد اور مین پوری تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن کے الگ الگ امیر تبلیغ مقرر کئے گئے۱۰۳۔ اور چھ چھ سات مبلغ ان کے ماتحت لگا دیئے گئے۔ اس سلسلہ میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم مولوی محمد حسین صاحب۔ قریشی افضال احمد صاحب۱۰۴۔ مولوی عبدالحی صاحب بھاگلپوری۔ مولوی جلال الدین صاحب۱۰۵ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے اس علاقہ میں لمبا عرصہ تک اسلام کا جھنڈا بلند رکھا اور خدا کے فضل سے اب بھی وہاں احمدیہ جماعت اور اس کی مساجد موجود ہیں اور ان گری ہوئی قوموں کو اٹھانے اور پختہ مسلمان بنانے کا کام جاری ہے۔
تحریک شدھی کے ہنگامی دور کے بعد جماعت احمدیہ کا مستقل مزاجی سے ان علاقوں میں تبلیغی جدوجہد جاری رکھنے پر بھی مسلم پریس نے جماعت کی بہت تعریف کی۔ چنانچہ اخبار اہلسنت (امرتسر) نے لکھا۔
’’جب فتنہ ارتداد کی ابتدا تھی تو بہت سی انجمنیں وہاں کام کرنے کے لئے پہنچ گئی تھیں۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں وہ انجمنیں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں۔ باوجودیکہ ان کے مقابل میں قادیانی بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ سورج پور میں قادیانیوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ محمد اسمعیل کا آگرہ سے خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ شدھی کا زور بہت کم ہے۔ لیکن قادیانیوں کا زور زیادہ ہے تمام انجمنیں کنارہ کشی کر گئی۔ کوئی مدرسہ مسلمانوں کا نہیں رہا۔ تمام گائوں پر قادیانی قبضہ کر رہے ہیں۔ صالح نگر اور ساندھن میں بھی قادیانی ہیں‘‘۱۰۶۔
آریوں کی طرف سے احمدیت کی زبردست طاقت کا اقرار
اس معرکہ حق و باطل نے آریوں کو جماعت احمدیہ کی زبردست اور بے پناہ تبلیغی و تنظیمی طاقت و قوت کا پورا پورا احساس کرا دیا چنانچہ اخبار ’’پرتاپ‘‘ لاہور نے لکھا۔
’’مشکل یہ ہے کہ ہندوئوں کو اپنے ہی ہم وطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے وہ خطرہ ہے تنظیم و تبلیغ کا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ کام اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہندوئوں کے پائوں اکھڑ رہے ہیں ان کی تعداد سال بہ سال کم ہو رہی ہے اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے جبکہ آریہ دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے‘‘۱۰۷۔
اس سے بڑھ کر ایک متعصب آریہ سماجی نے لکھا:۔
’’میں نے اسلام کے اندر رہ کر اور اسلام کے ترک کرنے کے بعد مسلمانوں کے تبلیغی نظام کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا۔ میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس موثر اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت احمدیہ جماعت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر کی ہے تو فی الحال ہم اسے سمجھ نہیں سکے اگر ہم نے اس کی طرف کبھی دیکھا بھی تو ہماری نگاہیں اس کے بیرونی خط و خال کو دیکھ کر پلٹ آئیں اور اس کے اندرونی حالات ابھی تک ہمارے لئے ایک بھید اور سر مخفی ہیں۔ بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقعہ پا کر ہمیں بالکل جھلس دے گی۔
آریہ سماج اور تحریک احمدیت کے جو تعلقات رہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی طرف سے بالکل غافل نہ ہوتے۔ خاص کر پنڈت لیکھرام جی کی شہادت تو ایک ایسا سبق تھا جس کو ہمیں بالکل نہ بھولنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہم نے ہمیشہ غفلت برتی اور آج تک غافل ہیں۔ بظاہر خواہ معلوم نہ ہو لیکن درحقیقت ہندوستان اور دوسرے ممالک میں شدھی کی تحریک کے لئے سب سے بڑی روک احمدیہ جماعت ہے اور اس روک کو دور کئے بغیر ہمارے لئے پوری پوری کامیابی حاصل کرنا بالکل محال ہے۔ آج شائد میری اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہو گا۔ لیکن زمانہ خود بتا دے گا کہ میرا کہنا کس قدر صداقت پر مبنی ہے۔
آج سے تیس چالیس سال پیچھے ہٹ جائیے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔ اور دیکھئے اس زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے۔ ہندو تو ایک طرف رہے خود مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا اور اس پر *** و ملامت کے تیر برسائے اس جماعت نے اپنی ابتدائی حالت میں جن جن کاموں کے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ آج ان میں سے اکثر انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اس زمانہ میں جب احمدیوں نے ان کاموں کی ابتدا کی تھی ان کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور ان کی حماقت پر ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ مگر واقعات یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر ہنسی اڑانے والے خود بے عقل اور احمق تھے۔ اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عقلمندی سے کام لیا۔ انہوں نے اس وقت سے جب احمدیہ جماعت نے جنم ہی لیا تھا کہ اس کی طرف صرف توجہ ہی نہ کی بلکہ ہمیشہ نہایت گہری نظر سے اس کا مطالعہ کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اور ہندوئوں سے زیادہ امریکہ اور یورپ کے پادری احمدیہ تحریک سے زیادہ واقف ہیں ان کے پاس اس جماعت کے متعلق درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ ان کی ہوشیاری اور باخبری کا یہ عالم ہے کہ احمدیوں نے ابھی یورپ و امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری ان کے مقابلے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ نصف صدی سے یہ جماعت اپنا خوفناک کام ہمارے مقدس ملک میں کر رہی ہے۔ مگر ہمارا متوجہ ہونا اور انسدادی تدابیر اختیار کرنا تو ایک طرف رہا ہم اس سے اچھی طرح واقف بھی نہیں ہیں‘‘۱۰۸۔
نیز لکھا۔ ’’احمدی جماعت کا اثر ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ یورپ‘امریکہ‘افریقہ‘آسٹریلیا‘عرب‘ایشیا کے تمام حصے غرضیکہ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جہاں احمدیہ جماعت کی شاخ یا کم از کم کوئی احمدی کام نہ کر رہا ہو۔ یورپ کے تمام ممالک انگلستان‘فرانس‘جرمنی وغیرہ میں ان کے باقاعدہ مشن موجود ہیں امریکہ میں بھی تبلیغ ہو رہی ہے۔ افریقہ اور عرب کے تپتے ہوئے صحرائوں‘مصر‘ایران کے زرخیر متمدن ممالک ترکستان‘شام‘افغانستان کی خوشنما وادیوں میں غرضیکہ ہر جگہ ان کی کوششیں جاری ہیں اور دن بدن ترقی کر رہی ہیں۔ اگر آج ہم نے ہندوستان میں احمدیوں کا مقابلہ نہ کیا اور ان کی طرف سے غافل رہے تو کل کو ہمارے لئے ممالک اسلامیہ‘یورپ اور امریکہ میں شدھی کا کام کرنا ناممکن ہو جائے گا ۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ ہمیں ذرا عقل مندی سے کام لے کر اپنے طریق کار کو بدلنا چاہئے۔ ہماری قیمتی طاقتیں بالکل رائیگاں جا رہی ہیں ہم ایسے حریفوں سے ابھی بالکل ناواقف ہیں۔ اب آئندہ کے لئے ہمیں اس تاریکی میں نہ رہنا چاہئے اور جلد سے جلد احمدیہ جماعت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اگر ہم چند سال اور اس خوفناک جماعت کی طرف سے غافل رہے تو اس کے نتائج نہایت افسوسناک اور نقصان دہ ہوں گے۔ آج تک احمدی جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ان کی ذاتی کوششیں ہی تھیں۔ دوسرے مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ان کی مخالفت کی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب یہ حالت نہیں ہے آج کل سوائے پرانے خیال کے مولویوں کے باقی تمام مسلمان ان کے مددگار اور ان کے کام کے مداح ہیں یہ تبدیلی ایسی ہے جس میں ہمارے لئے بہت سے خطرے پوشیدہ ہیں جن سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بندوبست نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا‘‘۱۰۹۔
جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی خصوصیت کاعام چرچا
میدان ارتداد میں جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارناموں نے جہاں آریوں کو لرزہ بر اندام کر دیا۔ وہاں مسلمانوں پر بھی ظاہر ہو گیا کہ اس زمانہ میں اگر دنیا کے پردہ پر اسلام کا سچا درد رکھنے والی اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف احمدیہ جماعت ہے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب نے (جو بعد کو مفکر احرار کے نام سے یاد کئے گئے) تحریک شدھی کے دوران میں لکھا تھا۔
’’مسلمان پبلک کو چاہئے کہ فتویٰ بازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ غیر اقوام میں تبلیغ کرکے غیروں کو اپنا سچا ہم خیال مسلمان بنائیں تاکہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمانون کو کافر بنانا کتنا آسان اور کافر کو مسلمان بنانا کس قدر دشوار ہے۔ مگر مسلمان فتویٰ باز کسی کے روکے نہیں رکتے تو انہیں اجازت دی جائے کہ جہاں وہ مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں وہاں کبھی کبھی غیر قوموں میں تبلیغ بھی کریں تاکہ ان کا مزاج اعتدال پر آجائے۔ سینکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی ایک فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا۔ مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے‘‘۱۱۰۔
‏rov.5.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
(فصل دوم)
مبلغ امریکہ کو زریں ہدایات
تحریک شدھی کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ۱۹۲۳ء کے دوسرے حالات کی طرف آتے ہیں ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ۷/ جنوری ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آپ کو مفصل ہدایات و نصائح لکھ کر دیں۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ نو مسلموں کو اسلامی اخلاق کا پابند بنائیں۔ ان کا مرکز اور خلیفہ وقت سے عاشقانہ تعلق اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں دعا پر زور دیں۔ سیاہ اور سفید نسل والوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں۔ سیاست سے الگ رہیں قرآن مجید پر تدبر کریں۔ ایسی تمام مجالس سے بچیں جو لغو کاموں پر مشتمل ہوں۔ اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف بنائیں۔ پہلے مبلغین کی خدمات کا دل زبان اور قلم سے اعتراف کریں۔ یہ امر خوب یاد رکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں۔
اسی سلسلہ میں حضور نے ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ خلیفہ وقت کی فرمانبرداری اپنا شعار بنائیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں۱۱۱۔
احمدی خواتین کا اخلاص
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایک عرصہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کے لئے جدوجہد فرما رہے تھے۔ آخر ستمبر ۱۹۲۲ء میں مولوی مبارک علی صاحب لنڈن سے برلن بھیجے گئے۔ انہوں نے حضور کی ہدایت پر وہاں زمین کا انتظام کر لیا۔ جس پر حضور نے ۲/ فروری ۱۹۲۳ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر خواتین کے چندہ سے ہو۱۱۲۔ اس تحریک نے احمدی خواتین کا مطمح نظر بلند کرکے ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت و للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا کر دیا کہ (متحدہ) ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو صرف اور صرف قرون اولیٰ کی صحابیات میں!!
چنانچہ حضرت ام المومنین کو ایک جائیداد میں سے پانچ سو روپے کا حصہ ملا تھا جو آپ نے سب کا سب چندہ میں دے دیا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا۔ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ۔ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ حضرت ام دائود (اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) اور بیگم صاحبہ خان بہادر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مقدور بھر حصہ لیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہل بیت بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری مبارک خواتین سے اپنی قربانی میں پیچھے نہیں رہے۔ حضرت ام ناصر کو حضور کی طرف سے ایک رقم ملی تھی جس کا نصف آپ نے وصیت میں اور باقی اس تحریک میں دے دیا۔ حضرت امتہ الحی صاحبہ نے ایک سو روپیہ پیش کیا۔ حضرت ام طاہر نے اپنا ایک گلو بند بھی دیا اور کچھ نقدی بھی۔
قادیان کی دوسری احمدی خواتین میں سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ۔ حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ (دختر حضرت پیر منظور محمد صاحب) نے نمایاں حصہ لیا۔ ایک نہایت غریب و ضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھی اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دو روپے پیش کر دیئے۔ یہ عورت بہت غریب تھی اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کرکے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھی۔ باقی دفتر کی امداد پر اس کا گزارہ چلتا تھا- ایک پنجابی بیوہ عورت نے جس کے پاس زیور کے سوا کچھ نہ تھا اپنا ایک زیور مسجد کے لئے دے دیا۔ ایک اور بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور اور مال میں سے کچھ بھی پیش کرنے کے لئے موجود نہ تھے اپنے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے۔ ایک خاتون نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا تھا دوبارہ گھر گئی کہ بعض برتن بھی لا کر حاضر کر دوں۔ اس کے خاوند نے کہا کہ تو زیور دے چکی ہے اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہو رہا ہے کہ اگر خدا اس کے دین اور اس کے رسول کے لئے ضرورت پیش آئے (اور ایسا ممکن اور جائز ہو) تو میں تجھے بھی فروخت کرکے چندہ میں دے دوں یہ الفاط گو ہرگز قابل تعریف نہ تھے نہ شرعاً نہ اخلاقاً مگر ان سے اس جوش کا ضرور اندازہ ہو سکتا ہے۔ جس نے ایک غیر تعلیم یافتہ عورت کا جذبہ فدائیت ان الفاظ میں ظاہر کر دیا۱۱۳۔ ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لئے الدار میں پہنچی اور کہا کہ ہمارے گھر میں ان کے سوا کوئی چیز نہیں۔ یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں۱۱۴۔
قادیان کے باہر کی مستورات نے بھی قربانی کے قابل رشک اور قابل فخر نمونے دکھائے چنانچہ اہلیہ صاحبہ کپتان عبدالکریم صاحب (سابق کمانڈر انچیف ریاست خیر پور) نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ کپڑا چندے میں دے دیا۔ اس قسم کے اخلاص کا نمونہ چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانونگو سیالکوٹ۔ سیٹھ ابراہیم صاحب۔ خان بہادر محمد علی خاں صاحب اسسٹنٹ پولٹیکل افسر چکدرہ (بنوں) حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری‘ڈاکٹر اعظم علی صاحب جالندھری‘خان بہادر صاحب خان نوں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر‘حضرت ڈاکٹر قاضی اکرم الٰہی صاحب امیر جماعت امرتسر (والد ماجد قاضی محمد اسلم صاحب) میاں محمد دین صاحب و اصل باقی نویس کے خاندان کی مستورات نے بھی دکھایا۱۱۵`۱۱۶
افسوس جرمنی کی غیر مستقل سیاسی صورت حال اور بعض دوسری ناگزیر مشکلات کی وجہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کا کام بند کر دینا پڑا۔ مگر احمدی خواتین کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ بلکہ ان کے چندہ سے لندن میں مسجد تعمیر ہوئی۔ جو یورپ میں جماعت احمدیہ کی سب سے پہلی مسجد ہے۔
ہندو مسلم امور میں جماعت احمدیہ کا سیاسی موقف
کونسلوں میں انتخابات ہونے والے تھے اس مرحلہ پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ۷/ اگست ۱۹۲۳ء کو ایک مفصل اعلان میں بتایا گیا کہ کونسلوں میں جماعت احمدیہ کا کون نمائندہ ہو سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں بعض بنیادی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر جماعت احمدیہ کی سیاسی پالیسی واضح کی گئی کہ ہم یہ امر ہرگز تسلیم نہیں کرتے کہ ہندو مسلم اتحاد کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان اپنی جداگانہ ہستی مٹا کر ہندوئوں کو خوش کرنے کے لئے ہر ایک حق اپنا چھوڑ دیں۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کی قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس لے جائیں اور مسلمانوں کو کونسلوں اور محکمہ جات میں ان کے تناسب آبادی کے مطابق حصہ ملے۔ مثلاً پنجاب میں مسلمان زیادہ ہیں تو ان کو کونسلوں اور محکموں میں زیادہ آسامیاں ملنی چاہیں یہ حق اس وقت تک غضب کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ایک ایک منٹ جو اس نقص کی اصلاح کے بغیر گزر رہا ہے اس سے مسلمانوں کی قومی موت قریب سے قریب تر آرہی ہے‘‘۱۱۷۔
بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ
‏]text [tagسیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے قلم مبارک سے اخبار الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو حسب ذیل مضمون سپرد اشاعت ہوا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ
للہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر میخواست
آخر آمدز پس پردہ تقدیر پدید
۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے جسے میں پہلے بھی بعض مجالس میں بیانکر چکا ہوں کہ ایک احمدی دوست اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے جو انگریزی فوج میں ملازم تھے اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے۔ وہاں سے بولشویکی فتنہ کی روک تھام کے لئے حکام بالا کے حکم سے انکی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئی اور کچھ عرصہ تک وہیں رہی۔ یہ واقعات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔ کیونکہ اس وقت کے مصالح یہی چاہتے تھے کہ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو مخفی رکھا جائے۔ ان دوست کا نام فتح محمد تھا اور یہ فوج میں نائک تھے۔ ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقع پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت کے معلوم کرنے لئے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھی۔ وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ پھرتے پھراتے ایک جگہ پر گئے جہاں کچھ لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلغ ہیں اور چونکہ روسی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں۔ وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں۔ نماز کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں میں ان کو تبلیغ کروں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اس امت میں سے ایک شخص آجائے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے۔ اس کا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی انہی کے ماننے والے ہیں۔ فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نو احمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں۔ اتفاقاً کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا اور وہ روسی عشق آباد میں گئے۔ وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگ ہیں۔ لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں۔ جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ ماننے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کو پوچھتے ہو وہ تو یہاں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتہ بتایا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دوکان ہے یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کئے۔ اس نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں۔ جس طرح رسول کریم~صل۱~ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی کہتے تھے۔ انہوں نے وجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کئے گئے لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں۔ تو ہمیں چھوڑ دیا گیا۔ اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے۔ زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا۔ سلسلہ کی ابتداء کا ذکر اس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا- وہاں اسے حضرت مسیح موعود کی کتب ملیں وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آکر یزد کے علاقہ میں جو اس کا وطن تھا۔ اس نے تبلیغ کی کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لئے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لائے اور اس طرح جماعت بڑھنے لگی۔
یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر مجھے بھیجے۔ چونکہ عرصہ زیادہ ہو گیا ہے اب اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ واقعات اسی ترتییب سے ہیں یا نہیں لیکن خلاصہ ان واقعات کا یہی ہے گو ممکن ہے کہ بوجہ مدت گزر جانے کے واقعات آگے پیچھے بیان ہو گئے ہوں۔ جس وقت یہ خط مجھے ملا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ بخارا کے امیر کی کہان آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اسی رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لئے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گو لی لگنے سے فوت ہو گئے ہیں۔ اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سر دست اس ارادہ کو ملتوی کر دینا پڑا۔ مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے پیدا ہوتی رہی اور آخر ۲۱ء میں میں نے ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبر لینی چاہئے۔
چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بدگمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لئے تو غالباً بند ہی تھا۔ یہ دقت درمیان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو اس کام کو کرنا چاہئے اور ان احباب میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتا دیں اور کہہ دیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے۔ اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لئے تیار ہو جائیں۔ جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے آپ کو اپنا قوت خود کمانا ہو گا۔ اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا۔ اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے بلا زادراہ فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ کوئیہ تک تو ریل میں سفر کیا سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مگر سب تکالیف برداشت کرکے بلا کافی سامان کے دو ماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لئے چل پڑے۔ آخری خط ان کا مارچ ۱۹۲۲ء کا لکھا ہوا پہنچا تھا اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے نہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر الحمدلل¶ہ کہ آج ۹/ اگست کو ان کا اٹھارہ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا ہے۔ جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہو گئی ہے اور باقاعدہ انجمن بن گئی ہے-
اس دوست کو روسی علاقہ میں داخل ہو کر جو سنسنی خیز حالات پیش آئے وہ نہایت اختصار سے انہوں نے لکھے ہیں لیکن اس اختصار میں بھی ایک صاحب بصیرت کے لئے کافی تفصیل موجود ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تجربات سے دوسرے بھائی فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاص میں ترقی کریں گے۔ اور اسلام کے لئے ہر ایک قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ حقیقی کامیابی خدا کی راہ میں فنا ہونے میں ہی ہے۔
چونکہ برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا۔ اس لئے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی روس کے پہلے ریلوے سٹیشن قہضہ پر انگریزی جاسوس قرار دئے جا کر گرفتار کئے گئے۔ کپڑے اور کتابوں اور جو کچھ پاس تھا۔ وہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا اس کے بعد آپ کو عشق آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمرقند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ اور بار بار آپ سے بیانات لئے گئے تا یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلا تو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لئے گئے تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعد گوشکی سرحد افغانستان لے جایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کرکے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے۔ اس نے واپس آنے کو اپنے لئے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور بھاگ کر بخار جا پہنچا۔
دوہ ماہ تک آپ وہاں آزاد رہے لیکن دو ماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کئے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کئے گئے اور قید میں رکھا گیا اور بخارا سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیجا گیا۔
اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقویٰ میں برکت دے۔ چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی اس لئے پھر کاکان کے ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا۔ اور پا پیادہ بخارا پہنچا۔ بخارا میں ایک ہفتہ کے بعد پھر انکو گرفتار کیا گیا اور بدستور سابق پھر کاکان کی طرف لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا۔ وہاں سے آپ پھر چھوٹ کر بھاگے اور بخارا پہنچے اور ۱۳/ مارچ ۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت کے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے اور حسب میری ہدایات کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا ایک جگہ اکٹھا کرکے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدیہ انجمن بنائی گئی اور باجماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا۔
وہاں کی جماعت کے دو مخلص بھائی ہمارے عزیز بھائی کے ساتھ آنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن پاسپورٹ نہ مل سکنے کے سبب سے سردست رہ گئے۔
اس وقت محمد امین خان صاحب واپس ہندوستان کو آرہے ہیں اور ایران سے ان کا خط پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے واپس لائے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از پیش خدمات کرنے کا موقع دے۔
میں ان واقعات کو پیش کرکے اپنی جماعت کے مخلصوں کو توجہ دلاتا ہے کہ یہ تکالیف جن کو ہمارے اس بھائی نے برداشت کیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں وہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں۔ پھر کتنے ہیں جنہوں نے ان ادنیٰ تکالیف کے برداشت کرنے کی جرات کی ہے۔
اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے۔ کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخارا میں قائم ہوئی ہے۔ یونہی نہیں چھوڑ سکتے۔ پس آپ میں سے کوئی رشید روح ہے جو ان ریوڑ سے دو بھیڑوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔ اور اس وقت تک ان کی چوپانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ اللہ تعالیٰ کھول دے۔
و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
خاکسار
میرزا محمود احمد (خلیفتہ المسیح الثانی) ۹/ اگست ۱۹۲۳ء
قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ کا اجراء
جماعت میں جسمانی ورزش کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے نومبر ۱۹۲۳ء سے قادیان میں احمدیہ ٹورنا منٹ کا اجراء ہوا۔ اور ہر سال قادیان میں کھیل کے باقاعدہ مقابلے ہونے لگے۔ ٹورنا منٹ کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے اور سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد مقرر ہوئے۔ یہ ٹورنا منٹ سالہا سال تک کامیابی سے جاری رہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس ٹورنا منٹ میں ہمیشہ بے حد دلچسپی لیتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اول آنے والوں کو انعامات عطا فرمایا کرتے تھے۱۱۸- حضور نے پہلے ٹورنا منٹ کے تقسیم انعامات کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ورزش ضروری ہے نیز فرمایا۔
’’جب میری خلافت کا زمانہ آیا تو میں نے ابتداًء کام کے باعث ورزش کرنا چھوڑ دیا۔ جس سے میری جسمانی حالت پر بہت برا اثر پڑا۔ اس وقت میں نے ایک خواب دیکھی جس میں میں ایک شخص کو ورزش کی ضرورت سمجھا رہا ہوں اس کو میں نے کہا بعض کھیل بعض لوگوں کے لئے جائز ہوتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جن کے ذمہ بڑے بڑے ذمہ داری کے کام ہوتے ہیں اگر وہ ورزشوں میں حصہ نہ لیں اور صحت جسمانی کا خیال نہ رکھیں تو ان پر گناہ ہوتا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ سمجھا یہ مجھے ہی سمجھایا گیا ہے اس کے بعد میں نے ورزشوں میں حصہ لینا شروع کیا جس سے میری جسمانی صحت اچھی ہو گئی اور میں پہلے سے زیادہ کام کرنے کے قابل ہو گیا‘‘۱۱۹`۲۰
ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم مشکلات کا صحیح حل
شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نے ملک کا امن برباد کر دیا تھا۔ اس سے پہلے مسلمانوں اور ہندوئوں میں محبت کی بظاہر ایک زبردست لہر پھیلی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہتے تھے مگر اب یہ بھائی بھائی آپس میں لڑنے لگے تھے اور جن کو ایک دوسرے سے مل کر ملک و قوم کی ترقی و بہبود کے لئے کوشش کرنا چاہئے تھی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے معلوم ہونے لگے۔ ہندو مسلم فسادات روزانہ کے معمولی واقعات تھے۔ بھلا جہاں جلوس نکالنے‘اذان دینے‘گائو کشی کرنے اور مسجد کے سامنے باجہ بجانے پر جنگ و جدل کا بازار گرم ہو جائے وہاں اتفاق کا امکان ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے؟
اس نازک ترین مرحلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی صورت حال سے مضطرب ہو کر میدان عمل میں آئے اور آپ نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ملک بھر کی قوموں کے نام صلح کا پیغام دیتے ہوئے قومی اور ملکی مشکلات کا صحیح حل اہل وطن کے سامنے رکھا۔ یہ حل آپ نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو بریڈلا ہال (لاہور) کے ایک پبلک لیکچر۱۲۱ میں جہاں تعلیم یافتہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ بڑی وضاحت وصراحت سے پیش فرمایا۔
چنانچہ حضور نے ہندو مسلم اتحاد قائم نہ رہنے کی وجوہ بتائیں کہ کس طرح ہندوئوں نے مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹا دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت واضح کرنے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی طرف توجہ دلائی کیونکہ جیسا کہ سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب ’’حیات محمد علی جناح‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’شدھی اور سنگھٹن کے طوفان نے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوئوں کے خلاف ایک تلخی اور بدمزگی پیدا کر دی تھی۔ لیکن وہ جوابی طور پر آمادہ عمل نہ ہوئے اس کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی جائے پھر یہ باہمی اور خانگی تنازعات طے کر لئے جائیں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے اور ہندو اپنا کام کئے جا رہے تھے۱۲۲۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو صرف خود حفاظتی کی طرف محض توجہ ہی نہیں دلائی بلکہ ان کو اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کی عملی اور موثر تجاویز بھی بتائیں جن کا لب لباب یہ تھا۔
پہلی تجویز: مسلمان اپنے تئیں مضبوط کریں۔ جس کے لئے مسلم لیگ جیسی تنظیموں کا زندہ و قائم رکھنا ضروری ہے۔ تا مسلمانوں کے قومی حقوق کا تحفظ ہو۔
دوسری تجویز: مسلمانوں نے اپنی قومی زندگی کے سارے ذرائع دوسروں کو سپرد کر دیئے ہیں۔ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہئے اور تمدنی طور پر آپ کو آزاد کر لینا چاہئے۔ چھوت چھات کی وجہ سے ہندوئوں نے بالخصوص ملکانوں کے علاقہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے بائیکاٹ ناپسند ہے مگر جب ہندو چھوت چھات کے باجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو مسلمانوں کو بھی چھوت چھات کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ موجودہ حالات میں ضروری ہے۔
چھوت چھات کے علاوہ مسلمانوں کو صنعت و حرفت۔ ڈاکٹری اور وکالت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہندوستان کی داخلی اور خارجی تجارت کلی طور پر ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے اس طرف بھی مسلمان متوجہ ہوں۔
تیسری تجویز: مسلمانان ہند سیاسی اور مذہبی اختلافات نظر انداز کرکے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے کسی فرقہ کو جدا نہ کریں۔ اسی طرح سیاسی اختلاف کی وجہ سے بھی علیحدہ ہونے کی پالیسی چھوڑ دیں۔ مثلاً الیکشن کا معاملہ ہے اس میں ایسا موقع بھی آیا ہے کہ ہماری جماعت کا ایک آدمی ایک حلقہ سے کھڑا ہوا مگر دوسرا شخص اس سے زیادہ لائق اور موزوں کھڑا ہوا تو ہم نے اپنا آدمی بٹھا دیا اور دوسرے مسلمان کو ووٹ دیئے۔ اگر ایسی ہی رواداری سب مسلمانوں میں پائی جائے تو بہت سے فوائد کا موجب ہو سکتی ہے۔
چوتھی تجویز: مسلمان مذہب سے بہت دور جا رہے ہیں۔ چاہئے کہ مسلمان خود بھی مذہبی جذبات پیدا کریں اور اپنے بچوں میں بھی مذہبی روح پیدا کریں۔
پانچویں تجویز: مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تبلیغ کریں اور دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کریں۔ قرآن کریم نے تبلیغ دین ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے۔
چھٹی تجویز: مسلمان امراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کریں جو غرباء کو کام سکھائیں اور ان کے لئے روزگار کا سامان کریں۔
ساتویں تجویز: مسلمان اپنی قوم کے اپاہج‘لولے اور لنگڑے لوگوں کا خاص انتظام کریں اور یتیم بچوں کی تربیت اور پڑھائی کی طرف خاص توجہ دیں۔
حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی یہ اہم تجاویز بتانے کے بعد ہندو مسلم صلح کے مندرجہ ذیل سنہری اصول بیان فرمائے۔
پہلا اصول: اگر حقیقت میں صلح کی خواہش ہے تو سب فرقوں بلکہ گورنمنٹ سے بھی صلح ہونی چاہئے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ جو کچھ کرتی ہے سب ٹھیک کرتی ہے میرے نزدیک بعض اوقات گورنمنٹ سخت غلطیاں کرتی ہے اور ایسے موقع پر خود میں نے ایسے ایسے سخت الفاظ میں گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے کہ جو ضروری تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بالعموم ان باتوں کو منظور کرلیا۔ پس میں خوشامدیوں میں سے نہیں ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ لوگ گورنمنٹ کی خوشامد کریں کیونکہ میرے نزدیک خوشامدی انسان ہی نہیں ہوتا۔ حیوان ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی گرا ہوا ہے۔ اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ گورنمنٹ غلطیوں سے پاک ہوتی ہے۔ ہاں چونکہ وہ ہمارے ملک کا حصہ ہے اس لئے ایسے رنگ میں حقوق قائم کرنے چاہئیں کہ اسے علیحدہ نہ کریں ورنہ وہ اتحاد ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
دوسرا اصول: مستقل صلح کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی رنگ میں صلح ہو۔ مگر مذہبی صلح سے یہ مراد نہیں کہ سب ایک مذہب میں شامل ہو جائیں بلکہ فقط یہ ہے کہ سب مذاہب والے ایک دوسرا کے مذہبی بزرگوں اور پیشوائوں کا احترام کریں۔ بلاشبہ ہندوستان ہمیں جمع کر سکتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں محمد~صل۱~ کی ذات والا صفات سے بڑھ کر ہمارے نزدیک ہندوستان کی ہرگز پوزیشن نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ سے ہمیں جو تعلق ہے وہ ہندوستان سے بہت بڑھ کر ہے اگر آپ کا ادب اور احترام قائم نہ رکھا جائے تو مسلمانوں کو کوئی چیز جمع نہیں کر سکتی۔
ہندوستانی اگر دوسرے بزرگوں کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے پر ہی اکتفا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو یہ بھی اتحاد کے لئے کافی ہے۔ جیسا کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ (علیہ الصلٰوۃ والسلام) نے بہت پہلے فرمایا تھا۔ مگر افسوس ملک نے توجہ نہ کی نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اتحاد نہیں ہو سکا۔
تیسرا اصول: اگر کوئی شخص کہے کہ ایسا ممکن نہیں تب بھی ہم اتفاق و اتحاد کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ یہ اقرار کیا جائے کہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں نہ دی جائیں اور خدا اور اس کے رسول~صل۱~ کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔ اس صورت میں ضروری ہو گا کہ صرف مسلمہ اصولوں کی بناء پر اعتراض کیا جائے۔
چوتھا اصول: مذہبی لوگوں سے ان کا کوئی مسلمہ مذہبی اصل ترک کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے مثلاً ہندو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو مگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوئوں کے نزدیک ہے مسلمان اس کا گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیں جب کہ ان کا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔
پانچواں اصول: ہر قوم دوسری قوم کے حقوق تسلیم کرے۔ عجیب بات ہے کہ ہندو یہ تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو سوارج لے کر دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق نہیں دینا چاہتے۔ میرے نزدیک مسلم لیگ اور کانگریس نے ہندو مسلم حقوق کے متعلق جو سمجھوتہ کیا تھا۱۲۳ وہ بھی ٹھیک نہ تھا جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں تو ان کو کم حقوق دیئے ہی گئے ہیں لیکن جہاں ان کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے وہاں بھی آبادی کے تناسب سے پورے حقوق نہیں دیئے گئے۔ اس لئے سب سے ضروری چیز حقوق کا صحیح تعین ہے۔
چھٹا اصول: صلح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب مجرموں کو بلا تمیز مذہب و ملت سزا دی جائے اور جو فریق بھی قصور وار ہو اسے پکڑا جائے۔
ساتواں اصول: آل انڈیا نیشنل کانگریس تب ہی سارے ملک کی نمائندہ بن سکتی ہے جبکہ خیالات کے اختلاف سے بے نیاز ہو کر ہر نقطہ نظر کے لوگوں کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے ورنہ جب تک یہ کانگریس موجودہ شکل میں ہے اور اختلاف والوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے اس وقت تک یہ پورے ملک کی کانگریس ہرگز نہیں کہلا سکتی۱۲۴۔
لیکچر کے اختتام پر صدر جلسہ خان بہادر عبدالقادر صاحب نے کہا۔ ’’میں جناب مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی جامع اور پر مغز تقریر فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ میں اپنا سارا وقت دینیات کے مطالعہ میں صرف کرتا ہوں مگر اس وقت آپ نے سیاسیات پر ایسی وسعت سے روشنی ڈالی ہے کہ زبان اور دل سے تحسین نکلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب مرزا صاحب نے اتفاق و اتحاد کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالی ہے۔ جس کی سیاسی لیڈروں سے توقع نہیں ہو سکتی نہ وہ اس طرح نگاہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی (سیاسی) پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے آپ نے نہایت آزادی اور وسعت سے ہر پہلو کو بیان فرمایا ہے‘‘۱۲۵۔
افسوس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ان اہم اور بروقت ہدایات پر اہل وطن نے کوئی توجہ نہ دی بلکہ ’’پیسہ اخبار‘‘ (لاہور) کے سوا ملک کے مسلمان پریس نے اس کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی اہم ہدایت احمدی مصنفوں اور لیکچراروں کے لئے
ملکی شورش کی وجہ سے انگریزی حکومت قابل اعتراض تقریروں یا تحریروں پر نوٹس لے رہی تھی اور ہر جگہ مقدمات چلائے جارہے تھے
اور ایک عنصر مقدمہ میں گرفتار ہو کر جھٹ معافی مانگنا شروع کر دیتا تھا۔ یہ حالات دیکھ کر حضور نے اپنی جماعت کے تمام مصنفوں اور لیکچراروں کے نام ایک خاص ہدایت جاری فرمائی۔ کہ
’’اول تو وہ اپنی تحریروں یا تقریروں میں ایسا رنگ ہی اختیار نہ کریں جس سے ملک میں فساد ہو یا شورش پیدا ہو لیکن اگر باوجود ان کی احتیاط کے گورنمنٹ ان میں سے کسی پر کسی مصلحت سے کوئی مقدمہ چلائے تو میں ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ مومنانہ غیرت کو کام میں لائیں گے اور بزدلی سے اجتناب کریں گے۔ ہم گورنمنٹ کے لئے ہر ایک جائز بات کو اختیار کر سکتے ہیں لیکن بداخلاقی کو نہیں اور بزدلی اور جھوٹ دو زبردست بد اخلاقیاں ہیں پس جو شخص مقدمہ سے ڈر کر معافی مانگتا ہے جب کہ اس کا نفس یہ کہتا ہے کہ اس نے غلطی نہیں کی اور اپنے اس فعل سے اسلام کی ہتک کرتا ہے وہ دو گناہ کرتا ہے۔ وہ بزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے پھر لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے اس میں ہرگز کوئی بات خلاف واقعہ یا خلاف تہذیب یا خلاف قانون یا بد نیتی سے نہیں کہی تو اسے گورنمنٹ کے غضب سے بچنے کے لئے خدا کے غضب کو اپنے اوپر نہیں بھڑکانا چاہئے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی حضور نے یقین دلایا کہ۔
’’اگر کوئی شخص خدانخواستہ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور وہ بہادری سے اپنے ایمان اور اپنی ضمیر کی پیروی کرے تو میں اور میرے ساتھ اخلاص رکھنے والی تمام جماعت اس کی ہر ممکن اور جائز مدد کرے گی اور قانونی طور پر جس قدر بھی اس کی تائید کر سکے گی اس کی تائید کرے گی۔ اس شخص کا غم ہمارا غم ہو گا اور اس کی مصیبت ہماری مصیبت۔ لیکن جو شخص بزدلی سے کام لے گا اور اپنی ضمیر کے خلاف جھوٹ سے اپنی مصیبت کو ٹلانا چاہے گا وہ ہم میں جگہ نہیں پائے گا اور خدا کی پاک جماعت اسے اپنی آغوش میں نہیں لے گی‘‘۱۲۶۔
(متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں صرف یہی ایک مثال ملتی ہے کہ کسی جماعت کے لیڈر نے اس طرح کھلے الفاظ میں اپنے پیروئوں کو محتاط اور پر امن اور حق و صداقت کی خاطر مومنانہ غیرت و شجاعت کا نمونہ دکھانے کی پرزور تلقین کی ہو۔ جماعت احمدیہ کے مصنفوں اور لیکچراروں نے اس ہدایت کے ایک ایک لفظ کی پابندی کرکے دکھا دی اور کسی قسم کی آزمائش ان کے ثبات و استقلال میں تزلزل پیدا نہ کر سکی۔
’’سیرت المہدی‘‘ کی تالیف
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال مبارک پر کئی سال گزر چکے تھے اور حضور کے قدیم صحابہ کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی۔ اس لئے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے متعلق جتنی بھی روایات جمع ہو سکیں ان کو جلد از جلد محفوظ کر لیا جائے اور ترتیب استنباط و استدلال اور علم روایت و درایت کے نقطہ نگاہ سے واقعات کی تحقیق و تفتیش کا کام مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے نے اس اہم ترین ضرورت کے پیش نظر ’’سیرت المہدی‘‘ کے نام سے روایات کا ایک ایمان افروز مجموعہ مرتب کرنا شروع فرمایا اور خاص طور پر یہ اہتمام فرمایا کہ ایسے صحابہ سے روایات جمع کر لی جائیں جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اٹھائی اور سلسلہ بیعت سے پہلے تعلق رکھنے والے تھے۔
’’سیرت المہدی‘‘ کا پہلا حصہ جس میں دوسرے اکابر صحابہ کے علاوہ خاص طور پر حضرت ام المومنینؓ اور حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی روایات خاص طور پر درج کی گئی تھیں۔ اس سال دسمبر ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۱۲۷۔ دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب ۱۹۲۷ء اور اپریل ۱۹۳۹ء میں چھپ گیا۔ چوتھے حصے کا مواد آپ نے قادیان ہی میں جمع کر لیا تھا جس میں بعض قدیم صحابہ (خصوصاً حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی) کی نہایت ایمان پرور روایات شامل تھیں مگر اس کی اشاعت اب تک نہیں ہو سکی۱۲۸۔
جماعت احمدیہ کا پہلا شہید مبلغ
جماعت احمدیہ کے لئے دسمبر ۱۹۲۳ء کا پہلا ہفتہ خوشی اور غم کے مخلوط جذبات پیدا کرنے کا موجب تھا خوشی اس لئے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ ۴/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو کامیاب و کامران ہو کر وارد قادیان ہوئے اور غم اس لئے کہ ۷/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی حافظ عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس کے انتقال کی المناک اطلاع ملی۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
’’ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں اور پھر ایسے بہت کم ہیں۔ جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا۔ ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبداللطیف تھے یا دوسرے کہ ان سے پہلے ان کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے۔ ہندوستان میں شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا‘‘۱۲۹۔
‏sub] ga[tدارالتبلیغ جرمنی کا قیام
اس سال کے آخر میں مولوی مبارک علی صاحب بی۔ اے بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کی کوشش سے یورپ میں دوسرا اسلامی مشن جرمنی میں قائم ہوا۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ۱۹۲۰ء سے لنڈن میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے۔ لنڈن سے سیدھے برلن بھجوائے گئے اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قادیان سے بتاریخ ۲۶/ نومبر ۱۹۲۳ء کو روانہ فرمایا۱۳۰۔ جو ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو صبح دس بجے برلن پہنچے۱۳۱۔
جرمنی میں سب سے پہلے پروفیسر فرنیزی۱۳۲ ایل ایل۔ ڈی اور ڈاکٹر اوسکا۱۳۳ جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کے دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسر اور طلباء میں بھی تحقیق سلسلہ کی جستجو پیدا ہو گئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ارادہ یہاں شاندار اسلامی مرکز قائم کرنے کا تھا اور اسی لئے مسجد برلن کی تحریک بھی آپ نے فرمائی مگر جرمنی کے حالات یکایک بدل گئے۔ کاغذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سونے کا سکہ جاری کیا گیا۔ جس کی وجہ سے قیمتوں میں دو تین سو گناہ اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف مبلغ کا خرچ ۶ پونڈ کی بجائے کم از کم ۲۵ پونڈ تک جا پہنچا۔ دوسری طرف مسجد برلن کی تعمیر کے لئے جس کا پہلے تیس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات بتائے جانے لگے۔
ان حالات کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دارالتبلیغ لنڈن ہی مضبوط کیا جائے اور اسی سے وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو۔ یہ فیصلہ مارچ ۱۹۲۴ء میں ہوا۱۳۴۔ اور مئی ۱۹۲۴ء میں یہ دارالتبلیغ بند کر دیا گیا اور جرمنی کے مبلغ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے انگلستان چلے گئے مگر بالاخر ربع صدی کے بعد ۱۹۴۹ء میں چوہدری عبداللطیف صاحب بی۔ اے کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۹۲۳ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حرم ثالث میں مرزا طاہر احمد صاحب (اول) کی ولادت ہوئی اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ہاں صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۱۳۵۔
۲۔
حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (والد ماجد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۱۳۶) اور اہلیہ صاحبہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحبؓ نے وفات پائی۔
۳۔
حضرت ام المومنین نے یکم اگست ۱۹۲۳ء کو نور ہسپتال قادیان کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد رکھا۱۳۷۔
۴۔
قادیان میں پہلی بار سماٹرا کے طلباء تحصیل علم کے لئے آئے۱۳۸۔
۵۔
میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی ادارت میں دہلی سے ’’دعوت الاسلام‘‘ کے نام سے ایک روزنانہ جاری ہوا۱۳۹۔
۶۔
ایک اردو افریقی اخبار ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر (ابن ملک غلام حسین صاحب رہتاسی) کی زیر ادارت نیروبی سے نکلنا شروع ہوا۱۴۰۔
۷۔
ادارہ ’’پیغام صلح‘‘ پر ایک مضمون بعنوان ’’وید کا بھید‘‘ کی بناء پر مقدمہ دائر تھا جس کی پیروی چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رضا کارانہ طور پر کی۔ اخبار ’’الفضل‘‘ نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا۱۴۱۔
۸۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سالانہ جلسہ پر ’’کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ آپ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر یہ سب سے پہلی تقریر تھی جسے آپ نے نہایت روانی اور تسلسل کے ساتھ بناہا۔ اجلاس کے صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس تقریر کے بعد فرمایا کہ ’’صاحبزادہ صاحب نے اسی لحن میں قرآن کریم پڑھا ہے کہ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ہیں کیونکہ میں نے اس لحن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی آواز سنی ہے‘‘۱۴۲
۹۔
مشہور مباحثے: مباحثہ جلال پور جٹاں۱۴۳ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیعہ مناظر سیف علی صاحب کے درمیان) مباحثہ فیروز پور۱۴۴ (حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت رام چندر دہلوی اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ لائلپور۱۴۵ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور پادری عبدالحق کے درمیان) مباحچہ بھونگائوں ضلع مین پوری۱۴۶ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ رام چندر دہلوی کے درمیان) مباحثہ اودھم پور۱۴۷ (مولوی ظہور حسین صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ اسٰمعیلہ گجرات۱۴۸ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور ایک غیر احمدی مولوی محمد حسین صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور۱۴۹ (حضرت حافظ روشن علی صاحب کا پنڈت دھرم بھکشو اور پنڈت رام چندر دہلوی سے) مباحثہ سیالکوٹ (حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بالترتیب پادری عبدالحق صاحب اور پادری احمد مسیح سے مباحثہ کیا۱۵۰) مباحثہ دھاریوال۱۵۱ (شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان)
۱۰۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’فقہ احمدیہ‘‘ حصہ اول (مولفہ حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب) ’’آریہ پنتھ کا فوٹو‘‘۔ (جناب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) ’’محقق‘‘ (سید ابوالبرکات صاحب محقق دہلوی)
۱۱۔
نواب اکبر یار جنگ صاحب ہوم سیکرٹری حیدر آباد دکن کے بڑے بھائی عبدالغفار صاحب (جنہوں نے تحریک شدھی میں احمدی مجاہدین سے ہر طرح تعاون کیا تھا) داخل احمدیت ہوئے۔۱۵۲ میر محمد بخش صاحب (بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ آف گوجرانوالہ) نے اس سال قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ ۱۵۳
‏rov.5.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
حواشی
۱۔
متحدہ ہندوستان مراد ہے۔
۲۔
’’حیات شبلی‘‘ صفحہ ۵۵۳ تا ۵۵۸۔
۳۔
لکھنئو میں تو علمائے ندوہ نے مولانا شبلی کو اس وجہ سے کہ آپ نے احمدیوں کو جلسہ میں شرکت کی دعوت اور تقریر کرنے کا موقعہ دیا تھا جس طرح چاہا ہدف اعتراضات و الزامات بنایا۔ لیکن اس کے برخلافت مولانا مسیح الزمان خان صاحب رئیس اعظم شاہ جہانپور استاد نظام دکن نے احمدیوں کی شمولیت سے کام کئے جانے میں ذرا بھی تامل نہ فرمایا۔ چنانچہ جب حاجی محمد سعید خاں صاحب سوداگر رئیس شاہ جہانپور کے پاس (جن کو حیات شبلی میں غلطی سے سفید خاں لکھ دیا ہے) یہ اطلاع پہنچی کی قصبہ جلال آباد سے چند کوس کے فاصلہ پر موضع موہن پور میں چھ سات سربرآوردہ ملکانے راجپوت اپنے گھرانوں سمیت آریہ ہونے والے ہیں ان کو آریہ بنانے کے لئے بھرت پور وغیرہ راجواڑوں کی طرف سے بڑے اعلیٰ پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں اس تقریب پر بہت بڑا ازدحام ہو گا بڑے بڑے مقرر تقریریں کریں گے اگر آپ اس کی روک تھام کے لئے کچھ کر سکتے ہیں تو کریں۔ اس اطلاع پر حاجی صاحب موصوف الصدر نے ایک مجلس مشاورت منقعد فرمائی۔ جس کی صدارت کے فرائض مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن نے انجام دیئے اور باتفاق رائے یہ قرار پایا کہ دیو بندی عالم تو موجود ہیں دلی سے احمدی مناظر مولوی میر قاسم علی صاحب بلوا لئے جائیں اور پھر موہن پور میں جلسہ کیا جائے۔ میر قاسم علی صاحب کو بلوانے کی تجویز بھی ایک دیو بندی مولوی صاحب کی طرف سے تھی اور جو صاحب دلی جا کر انہیں ساتھ لائے وہ بھی دیو بندی مکتب خیال سے تعلق رکھنے والے مولانا سید نور احمد میاں صاحب فائز شاہ جہانپوری تھے۔ کچھ لوگ تو پہلے ہی سے موہن پور پہنچ گئے تھے شیر اسلام میر قاسم علی صاحب کے تشریف لے آنے پر باقی جانے والے بھی موہن پور پہنچ گئے کئی روز وہاں دن رات جلسے کئے علماء نے تقریریں کیں اور وہاں کے لوگوں سے ان کے مکان پر جا کر بھی باتیں کی گئیں اور انہیں اپنے پاس بلا کر بھی نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک ملکانہ راجپورت ٹھاکر موہن سنگھ تو آریہ ہو گئے باقی سب بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہے یہ سب کارروائی حاجی محمد سعید خاں سوداگر شاہجہانپور اور مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن کی منشاء کے مطابق سیکرٹری انجمن احمدیہ شاہجہانپور (حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب) کے ذریعہ سے انجام تک پہنچی۔
۴۔
حیات شبلی۔ صفحہ ۵۶۹۔
۵۔
حیات شبلی۔ صفحہ ۵۷۲۔ ۵۷۳۔
۶۔
فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلا بازیاں مشمولہ رفتار زمانہ لاہور ۷/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۷۔
نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۳۶۹۔
۸۔
سیرت محمد علی صفحہ ۳۹۵ (از رئیس احمد جعفری)
۹۔
اخبار پرتاپ لاہور ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۱۰۔
بحوالہ اخبار زمیندار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۱۔
تیج دہلی ۲۰/ مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۶ بحوالہ ہندو راج کے منصوبے (از ملک فضل حسین صاحب) بار ششم ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۳۸۔
۱۲‘۱۳۔
پیغام صلح بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۳۸۔ ۱۳۹۔
۱۴۔
اخبار تیج دہلی ۱۳/ جنوری ۱۹۲۵ء بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۴۴۔
۱۵۔
ملاحظہ ہو پیسہ اخبار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء و زمیندار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۶۔
بحوالہ الفضل ۱۲/ مارچ ۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۷۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۸۔
خالد۔ اگست ۱۹۵۶ء صفحہ ۷۔
۱۹۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۳۔
۲۰۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۱۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲۔
۲۲۔ ][ ملاحظہ ہو رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۵۔
۲۳۔
فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۴۔
’’کار زار شدھی‘‘ صفحہ ۴۳۔ ۴۵ (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۲۵۔
حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۳ء پر حضرت چوہدری صاحب موصوف کو کمانڈر انچیف کے خطاب سے بھی یاد فرمایا تھا۔ (الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷)
۲۶۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ جناب ملک فضل حسین صاحب کا نام بھی اس وفد میں شامل تھا مگر جب آپ وفد کے ساتھ قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی تجویز پر انہیں قادیان میں رہ کر میدان ارتداد کے لئے یعنی علمی اسلحہ تیار کرکے بھجوانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ نے آریہ دھرم کے خلاف ان ہی دنوں دس ٹریکٹ چالیس ہزار کی تعداد میں شائع کر دیئے۔
۲۷۔
کار زار شدھی صفحہ ۳۹۔
۲۸۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء۔
۲۹۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔ ایضاً الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ایک سناتنی اخبار جاگرت نے ۱۳/ اپریل ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا۔ دولت کا جھوٹا لالچ دے کر ایرے غیرے کسی کو مونڈھ لینا شدھی نہیں۔ (بحوالہ وکیل امرتسر ۱۱/ مئی ۱۹۲۷ء)
۳۰۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔ ۸۔
۳۱۔
الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔ ایضاً تبرکات آزاد (مرتبہ غلام رسول مہر)
۳۲۔
الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ میری کہانی (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) غیر مطبوعہ و الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۳۳۔
ہمدم مورخہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔
۳۴۔
پرتاپ (لاہور) ۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ بحوالہ محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی۔ صفحہ ۵۔ (مولفہ مہاشہ فضل حسین صاحب احمدی مہاجر) طبع اول ۱۹۲۴ء۔
۳۵۔
کار زارشدھی صفحہ ۴۲۔ الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۳۶۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔
۳۷۔
جمیا کو احمدی مجاہدین سے بہت محبت تھی اپنے بچوں سے زیادہ الفت کرتی تھی اور بہت ہمدرد تھی۔ اس کے بیٹوں نے چونکہ اسے باہر جانے سے روک رکھا تھا اس لئے اکثر رات کو چھپ کر احمدی مبلغین کے پاس آتی اور اپنا دکھ درد سناتی تھی۔ (کار زار شدھی صفحہ ۷۷)
۳۸۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۳۹۔
چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلا بازیاں میں لکھتے ہیں۔ انجمن ہدایت الاسلام کی زیر نگرانی روک تھام شروع ہوئی ایک جگہ سے یک صد روپیہ کی گرانقدر رقم بھی ماہانہ امداد کے طور پر ملی تنخواہ دار مبلغ رکھے گئے لیکن نہ اوپر سے نگرانی ہوئی نہ دل میں سچی تبلیغ کا جذبہ تھا۔ مولوی صاحبان جس گائوں میں جاتے وہاں وعظ فرماتے اور وعظ کے بعد باوجود تنخواہ دار ہونے کے اپنے ذاتی مصارف کے لئے بھیک مانگتے۔ علاوہ ازیں سنا گیا ہے کہ بعض بداخلاقی کی حرکتیں بھی کر بیٹھتے جس سے ان لوگوں کے دل میں اسلام کے متعلق نہایت ذلیل خیال بیٹھ گیا۔
۴۰۔
جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا بیان ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ اس علاے میں سادھوئوں کی بے حد تعظیم اور مولویوں سے از حد نفرت کی جاتی ہے اس لئے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اجازت طلب کی کہ مجھے سادھو بن کر تبلیغ کا کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضور نے مجھے اجازت تو دے دی مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا عارضی اجازت ہے مستقل نہیں۔ بہرحال میں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا۔ جو گیا نہ دھوتی پہن لی۔ چمٹا‘گڈوی اور جھولا وغیرہ سادھو کے لوازمات مہیا کئے اور اپنا کام شروع کر دیا۔ اس لباس میں جو بھجن میں نے وقتاً فوقتاً کہے اور گائے ان سے تبلیغ اسلام کے کام میں بڑی مدد ملی۔ اور ملکانہ قوم اور ہندوئوں میں میرا بڑا احترام ہو گیا۔ وہ مجھ پر بھروسہ کرتے۔ میری باتوں کو سنتے۔ مجھے دور سے نمسکار (سلام کرتے) کرشن جی‘رامچندر جی کی باتیں مجھ سے سنتے اور واہ واہ کرتے جس گائوں میں کوئی مولوی صاحب نہ جائے میں چلا جاتا۔ میں نے علاقے کی پوربی زبان بہت جلد سیکھ لی ہندی اور سنسکرت کے بعض الفاظ اور اصطلاحات بھی یاد کر لیں۔ اور ہندو ریشوں اور مہا پرشوں کے قول اور نصیحتیں بھی از بر کیں۔ میں نے اس قوم کی زبان میں جو بھجن کہے وہ ملکانہ من لگن بھجن کے نام سے ۱۹۲۴ء کے سالانہ جلسہ پر شائع ہوئے اور خدا کے فضل سے بہت مقبول ہوئے۔ اس جلسہ پر میں نے شدھی کے خلاف جماعت احمدیہ کی خدمات پر بھی تقریر کی (میری کہانی غیر مطبوعہ صفحہ ۲۰۶۔ ۲۱۰)
۴۱۔
کار زار شدھی صفحہ ۷۷۔ ۷۸۔
۴۲۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔ ۶۔
۴۳۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔ ۱۱۔
۴۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۴۵۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۶۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰۔
۴۷۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۸۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱ و ۱۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۴۹۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ حضرت نواب صاحب‘حضرت شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سب جج علی گڑھ اور خاکسار عرفانی کو ایک خاص مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم یو۔ پی کے ان اضلاع کے حکام سے ملیں اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہونے دیں اور بنجارہ قوم کے جرائم پیشہ سے نکلوانے کی کوشش کریں۔ ہم تینوں سفر کرتے تھے اور اخراجات خورد نوش و قیام و سفر نواب صاحب ہی اپنی جیب سے کرتے تھے۔ الخ۔ (اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۴۲۹) حضرت نواب صاحب اور حضرت عرفانی صاحب مسلسل کئی روز گرمی میں دورہ کرنے اور پیدل چلنے کے بعد مئی ۱۹۲۳ء کے وسط میں واپس آئے۔ (الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء)
۵۰۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۱۔
۵۱۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰ و کار زار شدھی صفحہ ۴۲۔ (مولفہ جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۵۲۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۳۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۰۔
۵۴۔
بحوالہ الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۵۵۔
مشرق ۲۹/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۳۔ ۴۴ (ایڈیٹر حکیم برہم)
۵۶۔
اخبار نجات (بجنور) ۲۷/ اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۷ حاشیہ۔
۵۷۔
بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۵ حاشیہ۔
۵۸۔
بحوالہ کار زار شدھی (مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) صفحہ ۱۱۹۔
۵۹۔
ایضاً صفحہ ۱۱۹۔
۶۰۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۶۱۔
اخبار جیون تت۔ ۲۴/ اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۴ حاشیہ۔
۶۲۔
بحوالہ کار زار شدھی صفحہ ۱۱۹۔ ۱۲۰۔ اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ۶۔ ۷/ اپریل ۱۹۲۳ء کو آگرہ میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دو تین مسلمان لیڈر شامل ہوئے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا ذکر نہایت معمولی واقعہ کی طرح کیا۔ مولوی آزاد سبحانی صاحب نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہمارا اصل مقصد سوراج حاصل کرنا ہے جب سوارج حاصل ہو جائے گا تو پھر ہم فیصلہ کر لیں گے کہ ہمیں اسلام پر قائم رہنا چاہئے یا ہندو ہو جانا چاہئے۔ اس لئے سوامی شردھانند سے عرض کروں گا اور مسلمان دوسرے ہندوئوں سے عاجزی کے ساتھ درخواست کریں کہ وہ چند دن کے لئے شدھی کی تحریک روک دیں۔ (الفضل ۱۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) مولوی ابو الکلام صاحب آزاد نے ۱۵/ اپریل ۱۹۲۳ء کے زمیندار میں ایک بیان دینے پر اکتفا کی جس میں کہا۔
’’میں پورے وثوق کے ساتھ رائے رکھتا ہوں کہ جن لوگوں نے موجودہ وقت میں یہ تحریک شروع کی انہوں نے ملک کا عام مفاد نظر انداز کر دیا۔‘‘ ’’مسلمانوں کو نہ چاہئے کہ شکوہ و شکایت کریں یا اپنے لئے کوئی ایسا پوزیشن (رویہ) اختیار کریں جس سے توقع اور خواہش نکلتی ہو۔ یہ کام شروع نہ کیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب شروع کر دیا گیا ہے تو مسلمانوں کے لئے صرف ایک ہی چارہ کار رہ گیا ہے یعنی وہ بھی اپنا فرض سکون اور خاموشی کے ساتھ انجام دیں دوسروں کے لئے یہ نیا قدم ہے لیکن ان کے لئے ان کا اصلی اور دائمی فرض ہے اگر انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہوتا تو آج یہ نتائج پیش نہ آتے‘‘ (تبرکات آزاد صفحہ ۲۰۹۔ ۲۱۰۔ مرتبہ غلام رسول صاحب مہر شائع کردہ ’’کتاب منزل‘‘ لاہور طبع اول جولائی ۱۹۵۹ء)
علی برادران نے اس زمانہ میں عجیب عجیب تقریریں کیں۔ مثلاً مولوی محمد علی نے کہا۔ مسلمان شدھی کی وجہ سے ہندوئوں سے کیوں لڑتے ہیں جب کہ خود عرب میں مسلمانوں کو دوسرے مذہب والے اپنے اندر داخل کرنے کو کوشاں ہیں۔ (وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳)مولوی شوکت علی خادم کعبہ نے کہا۔ مسلمانوں کو ہندوئوں کا احسان ماننا چاہئے کہ تم ذرا اسی باجہ بجانے کی بات پر ہی ان سے لڑ پڑتے ہو۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہندو بھائی تمہاری کسی مسجد کو بھی گرا دیں تو بھی تمہیں برداشت کرنا چاہئے۔ (اخبار کیسری ۱۱/ نومبر ۱۹۲۳ء) نیز کہا۔ میں اور بھائی محمد علی نے اور محترمہ بی اماں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خواہ کوئی ہندو ہماری ماں‘بہن‘بہو‘بیٹی کی بے عزتی ہی کیوں نہ کرے ہم کبھی کسی ہندو کے برخلاف کچھ نہیں کہیں گے۔ امید ہے اس طرح آپس میں محبت اور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ (وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳)
۶۳۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۶۴۔
جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۵۔
۶۵۔
زمیندار بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۶۶۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔
۶۷۔
کار زار شدھی صفحہ ۱۱۲۔ ۱۱۵۔
۶۸۔
اخبار تہذیب نسواں (لاہور) ۲/ مئی ۱۹۲۵ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵۔ ۱۶۶۔ (مولفہ سید طفیل محمد صاحب گوکھو وال)
۶۹۔
سرگزشت صفحہ ۲۲۰ طبع اول جنوری ۱۹۵۵ء از جناب عبدالمجید صاحب سالک۔
۷۰۔
یہ صاحب ناظم عمومی شعبہ تبلیغ جمعیتہ علمائے ہند تھے۔ سیاست لاہور (۱۲/ اگست ۱۹۲۵ء) نے جمعیتہ علماء ہند کی نسبت لکھا۔ جمعیتہ کے شعبہ تبلیغ نے فتنہ ارتداد کے سلسلہ میں روپیہ جمع کرنے کے لئے اپیلیں کرنے کے علاوہ کوئی عملی خدمت انجام نہیں دی ہے۔ (بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵)
۷۱۔
خالد اگست ۱۹۶۰ء صفحہ ۷ تا ۹۔
۷۲۔
میری کہانی (غیر مطبوعہ از جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) ملخصاً۔
۷۳۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۷۴۔
الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۵۔
الفضل ۴/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۶۔
الفضل ۳۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۷۔
الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۸۔
اس بارے میں جماعت کے جن اہل قلم اصحاب نے خدمات سر انجام دیں ان میں حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق‘جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور‘مولانا قاضی محمد نذیر فاضل اور ملک فضل حسین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ (کارزار شدھی صفحہ ۴۴)
۷۹۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔ ۸۔ قریشی محمد حنیف صاحب میر پوری نے موضع بیری میں ایک پرانی مسجد کی مرمت کی اور اپنے شاگردوں سے مل کر کنواں کھودا یہ گائوں شدھ ہو چکا تھا۔
۸۰۔
مساجد کی تعمیر میں مجاہدین کو خود مسلمان ملکانوں کی طرف سے بھی بہت مشکلات پیش آئیں۔ چنانچہ ایک غیر احمدی دوست ڈاکٹر محمد اشرف صاحب (مراد آبادی) نے یہ چشم دید واقعہ لکھا ہے کہ دوسرے مہینے میں اپنی ننھیال میں گیا یہ تحصیل ہاتھرس کا ایک گائوں ہے یہاں میں نے دیکھا کہ میرے نانا کی چوپال پر قادیانی مولویوں نے مدرسہ کھول رکھا ہے اور بچے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ مولوی صاحب مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مجھے قادیانیوں سے کوئی تعصب نہیں ہے تو علیحدہ جا کر فرمانے لگے کہ اب تم اپنے نانا سے سفارش کر دو کہ اس چوپال پر جہاں مدرسہ ہے اور روزانہ باجماعت نماز ہوتی ہے مسجد بنانے کی اجازت دے دیں۔ بالاخر میں نے نانا صاحب سے مولوی صاحب کی خواہش بیان کر دی اور اپنی طرف سے حمایت کے الفاظ بھی کہہ دیئے۔ شام کو میں اور قادیانی مولوی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ میرے نانا آگئے اور خالص برج بھاشا میں فرمانے لگے کہ مولوی اب تک تو میں خاموش تھا مگر آج آپ نے مسجد کی بات شروع کی ہے تو میں بھی کہہ ڈالوں۔ دیکھئے جس ہفتہ آپ نے نماز پڑھنا شروع کی۔ میری گائے مر گئی۔ پھر دوسرے مہینے جب آپ نے باجماعت نماز پڑھنا شروع کر دیا تو میری بڑی لڑکی بیمار ہو گئی اور وہ اب تک بیمار چلی جاتی ہے اب آپ ہی سوچئے کہ جب خدا ہم سے ذرا دور ہے تو یہ مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور اگر اس کا گھر ہی یہاں بن گیا (یعنی مسجد) تو پھر وہ سب کو مار ڈالے گا۔ ایک بھی ہم میں سے زندہ نہیں بچے گا۔
اب مولوی صاحب پریشان تھے کہ ٹھاکر صاحب کو کیسے سمجھائیں بالاخر انہوں نے نماز چوپال پر پڑھنا بند کر دی اور باہمی صلح ہو گئی مسجد اس گائوں میں اب تک نہیں ہے۔ (نقوش آپ بیتی نمبر جون ۱۹۶۴ء) باقی نمبر ۳ مثلاً رائو پٹی (الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) اکبر پور اور واحد پور (ضلع فرخ آباد) الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔ صالح نگر (الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲)
۸۱۔
بیان شیخ نیاز علی صاحب وکیل ہائیکورٹ لاہور۔ زمیندار ۲۴/ جون ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۶۔
۸۲۔
بیان شیخ غلام حسن صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول جہلم (زمیندار ۲۹/ جون ۱۹۲۳ء) بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۶۔ ۴۷۔
۸۳۔
زمیندار ۲۲/ فروری ۱۹۲۳ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۶۶۔
۸۴۔
الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۸۶۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۱۔
۸۷۔
تازیانہ (لاہور) ۱۹/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰ (ایڈیٹر یوسف حسن)
۸۸۔
ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں صفحہ ۴۲۔ ۴۴ (مصنفہ پروفیسر پریتم سنگھ ایم۔ اے) طبع اول ۱۹۴۱ء مطبوعہ امرت الیکڑک پریس ریلوے روڈ لاہور۔
۸۹۔
الفضل ۲۴/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۰۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۱۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۲۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۳۔
ملاپ (لاہور) بحوالہ کار زار شدھی صفحہ ۹۶۔
۹۴۔
شردھانند پر حجت تمام کرنے کے لئے جماعت احمدیہ دہلی نے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو ایک جلسہ عام منعقد کیا جس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے شردھانند کو مقابلہ پر بلایا اور اس غرض کے لئے اپنی تقریروں کے بعد وقت بھی رکھا مگر شردھانند کو سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی۔ (الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷)
۹۵۔
بحوالہ الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۹۶۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۷۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۸۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۷ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۳۔
۹۹۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۰۰۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
‏h1] ga[t۱۰۱۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۰۲۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۲/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۷۔
۱۰۴۔
قریشی صاہب موصوف ۱۹۲۳ء میں ملکانہ نو مسلموں کا ایک پیدل قافلہ جو ایک درجن افراد پر مشتمل تھا ساندھن سے قادیان کے سالانہ جلسہ پر لائے تھے۔ (الحکم ۱۴/۷ مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۰)
۱۰۵۔
آپ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے اسی سر زمین میں فوت ہوئے اور یہیں دفن کئے گئے۔
۱۰۶۔
اخبار اہلسنت (امرتسر) یکم جون ۱۹۲۵ء (ایڈیٹر مولوی عبدالحق تراب) بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۶۔
۱۰۷۔
پرتاپ (لاہور) ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۹ء ایڈیٹر مہاشہ کرشن بی۔ اے (بحوالہ راہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۷)
۱۰۸۔
اخبار تیج دھلی ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء (ایڈیٹر لالہ ویش بندھو) بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۲۱۔ ۲۲۳ (مولفہ جناب مہاشہ فضل حسین صاحب) طبع اول
۱۰۹۔
اخبار تیج (دہلی) ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء۔ بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۲۱۔ ۲۳۳۔
۱۱۰۔
فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلا بازیاں (مطبوعہ اخبار رفتار زمانہ لاہور ۷/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۲۔ ۲۴) چوہدری افضل حق صاحب اپنے رفقاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خدا نے مجلس احرار کو زباں آور لوگ دیئے ہیں۔ جن کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی تقریریں قلوب کو گرما دیتی ہیں لیکن میں نے سینکٹروں تقریروں میں اسلام کے محاسن اور خوبیاں بیان ہوتے سنی ہیں مگر کسی احراری لیڈر کو یہ کہتے نہیں سنا کہ مسلمانو! تم بھی اپنے دینی اور تبلیغی فرض کو ادا کرو اور غیر مسلموں میں اسلام کا تحفہ پیش کرو احرارہی ہیں جن کے متعلق عام گمان ہے کہ وہ اسلام کے بہترین مبلغ اور جادو بیان ہیں جب ان کا یہ حال ہے تو دوسروں سے کیا توقع۔ خطبات احرار صفحہ ۷۴۔ (مرتبہ جناب آغا شورش کاشمیری) طبع اول مارچ ۱۹۴۴ء۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۳۔ ۶۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱ و الفضل ۸/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۱۱۳۔
الحکم ۲۱/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۴۔
الحکم ۱۴/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۵۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۱۶۔
مسجد برلن کے لئے چندہ دینے والوں کی ایک فہرست ضمیمہ الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۳ء میں شائع کی گئی تھی۔
۱۱۷۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۸۔
الفصل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔ الفضل ۴۔ ۷/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۹۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔
۱۲۰۔
ٹورنامنٹ سے متعلق تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کی کھیلیں (از ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے بی ٹی)
۱۲۱۔
یہ لیکچر خان بہادر (سر) عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ہوا۔ جنہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا ’’جناب مرزا صاحب کو جو موقع اس مسئلہ اور اسی طرح اور بہت سے اہم مسائل پر غور فرمانے کا حاصل ہے وہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے کیونکہ آپ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے مذہبی پیشوا ہیں اور آپ نے اپنی زندگی مذہبی معاملات پر غور و فکر کرنے کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ (الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷)
۱۲۲۔
حیات محمد علی جناح طبع دوم صفحہ ۱۶۹ فروری ۱۹۴۶ء (شائع کردہ کتب خانہ تاج آفس نیپیئر روڈ کراچی (پاکستان)
۱۲۳۔
میثاق لکھنو (۱۹۱۶ء) کی طرف اشارہ ہے جس میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو پچاس فیصدی۔ بنگال میں چالیس فیصدی‘بہار میں ۲۹ فیصدی‘مدراس اور سی پی میں پندرہ فیصدی اور بمبئی میں تئیس فیصدی نشستیں مخصوص کی جائیں۔ (حیات محمد علی جناح صفحہ ۷۴۔ ۷۵ طبع دوم (از سید رئیس احمد جعفری)
۱۲۴۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۳۰۔
۱۲۵۔
الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ قیام لاہور کے دوران میں حضور نے آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب وزیر تعلیم کے زیر صدارت اسلامیہ کالج کے ہال میں بھی لیکچر دیا۔ جو ۱۵/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ہوا۔ جس کا عنوان تھا اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی۔ (الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱)
۱۲۶۔
الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۲۷۔
اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں (مع اضافہ) شائع ہوا۔
۱۲۸۔
اس غیر مطبوعہ حصہ کا مسودہ حضرت مولف نے اپنی زندگی میں میر مسعود احمد صاحب (خلف حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) کے سپرد فرما دیا تھا۔ تاریخ احمدیت اور کتاب شمائل احمد (شائع کردہ شعبہ اطفال خدام الاحمدیہ مرکزیہ قادیان۔ مطبوعہ ۱۹۴۳ء میں اس کی بعض روایات درج ہو چکی ہیں۔
۱۲۹۔
الفضل ۱۴/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ولادت ۱۸۹۲ء پیدائشی صحابی تھے۔ آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسول وزیر آبادی نے آپ کو بچپن میں ہی وقف کر دیا تھا۔
۱۳۰۔
الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۱۔
الفضل ۲۸/ ۲۵ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۴۔ ۱۵۔
۱۳۲۔
یہ وہی صاحب ہیں جو وسط یورپ کی طرف سے دربار تاجپوشی شاہ جارج پنجم پر دہلی میں شاہی مہمان تھے۔
۱۳۳۔
مسیحی دینیات کے مسلمہ جرمن عالم۔
۱۳۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۶۔ ۴۸۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۶۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔ الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۹۔
‏h2] gat[ الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۰۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۴۱۔
الفضل ۱۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲ و ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۲۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲ و الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۴۳۔
یہ مناظرہ کلمتہ الحق کے نام سے شائع شدہ ہے۔ (ناشر مکتبہ الفرقان۔ ربوہ)
۱۴۴۔
الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۴۵۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۶۔
الحکم ۲۱/ ۱۴ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ۱۱۔
۱۴۷۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۴۸۔
الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۹۔
الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۵۰۔
الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۵۲۔
کار زار شدھی صفحہ ۱۲۲۔ ۱۲۳۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۱ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
‏rov.5.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل اول)
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا پہلا سفر یورپ اور مغرب میں فتح اسلام کی بنیاد
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
(جنوری ۱۹۲۴ء تا دسمبر ۱۹۲۴ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۲ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۳ھ)
۱۹۲۴ء کا سال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک انقلاب انگیز سال کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کا پہلا سفر فرمایا۔ جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔
ویمبلے کانفرنس کے لئے تحریک
شروع ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے۱ نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹر ولیم لافٹس ہیر Hare( Loftus William )Mr, نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد کی جائے جس میں برطانوی مملکت کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں۔ نمائش کے منتظمین جن میں مستثرقین بھی شامل تھے اس خیال سے اتفاق کیا اور لنڈن یونیورسٹی کے مدرسہ علوم شرقیہ studies( Oriental of School )The کے زیر انتظام کانفرنس کا وسیع پیمانہ پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی۲۔
کانفرنس کا مقام امپریل انسٹی ٹیوٹ لنڈن مقرر کیا گیا اور ۲۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء سے ۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء تک کی تاریخیں اس کے لئے تجویز کی گئیں۔ کمیٹی نے مندرجہ ذیل مذاہب کے مقررین کا انتخاب کیا۔ ہندو مت‘اسلام‘بدھ ازم‘پارسی مذہب‘جینی مذہب‘سکھ ازم‘تصوف‘برہمو سماج‘آریہ سماج‘کنفیوشس ازم وغیرہ۔
اگرچہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ۱۹۲۳ء کے آغاز ہی سے لنڈن میں تھے مگر آپ کو اس عظیم الشان کانفرنس کی تجویز کا مطلق علم نہ ہو سکا۔ مگر جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہو چکے اور ۱۹۲۴ء کا بھی کچھ حصہ گزر چکا تو ایک سوسائٹی میں برسبیل تذکرہ کسی نے اس کا تذکرہ کیا جس پر آپ کمیٹی کے جائنٹ سیکرٹری ایم۔ ایم شارپلز سے ملے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام سے متعلق احمدی جماعت کا نقطہ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے۔ کمیٹی میں ذکر آیا تو کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ (مصنف Islam of )Preaching نے کمیٹی کو توجہ دلائی کہ انتخاب مقررین میں نیر صاحب سے ضرور مشورہ لیا جائے۔ چنانچہ حضرت نیر صاحب کے ساتھ مجوزہ پروگرام پر نظر ثانی ہوئی۔ آپ نے ہندو مت اور بدھ کے نمائندوں کے نام تجویز کرنے کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب کا نام لکھایا۔ مگر ساتھ ہی بتایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی اجازت سے ہی حافظ صاحب آسکیں گے۔
کمیٹی میں جونہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ نے اور کمیٹی کے دوسرے تمام ممبروں نے نہایت خلوص و محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے اس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ الل¶ہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں انگلستان کے سربرآوردہ مستشرقین کی طرف سے دعوت نامہ پہنچا۳۔
سفر یورپ کے لئے مشورہ
یہ دعوت قادیان پہنچی تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶/ مئی ۱۹۲۴ء کو بعد نماز عصر ایک مجلس شوریٰ بلائی۴۔ جس میں دوستوں سے مشورہ طلب فرمایا کہ کسے کانفرنس میں شمولیت کے لئے لندن بھیجا جائے۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عرض کیا کہ یہ تبلیغ اسلام کا ایک خاص موقعہ ہے اگر حضور خود بنفس نفیس تشریف لے جا سکیں تو مناسب ہو گا۵۔ دوسرے احباب نے بھی بھاری اکثریت سے اس کی تائید کی۔ اس کے بعد حضور نے بیرونی جماعت سے استصواب فرمایا۶۔
چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۴/ مئی ۱۹۲۴ء کو احباب جماعت کے نام حسب ذیل مکتوب رقم فرمایا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ لوگوں کو شاید معلوم ہو گا کہ ولایت میں دو سال سے ایک تجارتی نمائش کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں انگریزی حکومت کے تمام علاقوں کی ہر قسم پیداوار اور صنعت کی چیزیں رکھی جائیں گی یہ نمائش اب کھل گئی ہے اور ایسے بڑے پیمانے پر ہے کہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ تجارت کی ترقی کو مدنظر رکھ کر اور ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے دو کروڑ آدمی کے قریب اس کو دیکھنے آئے گا۔ غرض ان دنوں میں دنیا کے ہر گوشے کے تعلیم یافتہ آدمی انگلستان میں جمع ہوں گے اور گویا تمام دنیا چھوٹے پیماے پر اس جگہ جمع ہو جائے گی۔ چینی‘جاپانی‘امریکن‘روسی‘فرانسیسی‘جرمن‘ترک‘عرب‘مصری‘ایرانی‘افعانی‘ہندوستانی اور دوسری چھوٹی بڑی قوموں کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ کے لوگ وہاں جمع ہوں گے اور چھ ماہ تک ایسا ہی جھمگٹا وہاں رہے گا۔
اس اجتماع سے فائدہ اٹھا کر انگلستان کے مذہبی مذاق کے لوگوں نے تجویز کی ہے کہ ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں وہاں ایک مذہبی جلسہ کیا جائے۔ جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی حقیقت کو کھول کر بیان کریں اور ساری دنیا کو ان کے اصل عقیدہ اور غرض کا علم ہو جائے۔
اس انجمن نے اپنے جلسہ میں تقریر پڑھنے کی مجھے بھی دعوت دی ہے اور درخواست کی ہے کہ میں خود وہاں جا کر اپنے سلسلہ کے متعلق ان کو علم اور واقفیت بہم پہنچائوں۔ ایسے عظیم الشان موقع سے تبلیغ کا فائدہ اٹھانا تو ہمارا فرض ہے کیونکہ ایسا موقعہ کہ اس کثرت سے ساری دنیا کے ملکوں کے اعلیٰ طبقوں کے لوگ جمع ہوں اور گویا ساری دنیا ایک ہی وقت میں اکٹھی ہو جائے۔ روز بروز نہیں ملتا اس نمائش کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ سو سال تک ایسی بڑی نمائش پھر انگریزوں کے لئے کرنی مشکل ہو گی۔ اس وقت گویا انگلستان میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو خدا کا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور کروڑوں آدمیوں کو سلسلہ کی حقیقت سے واقف کر سکتے ہیں اور دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہ سکتا جو اس ذریعہ سے سلسلہ سے واقف نہ ہو جائے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام کیا کس طرح جائے؟ میں نے اس مذہبی کانفرنس کی دعوت پر قادیان کے احباب کو جمع کرکے مشورہ لیا تھا۔ سولہ احباب میں سے گیارہ کا مشورہ یہ تھا کہ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور آپ کو خود جانا چاہئے۔
اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقعہ دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کو کھینچیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہر مذہب اور ہر علم کے جاننے والے لوگ وہاں جمع ہوں گا اس لئے اس موقعہ پر صرف میرے ہی جانے سے ان لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اور دوسروں کے جانے سے ان کی توجہ نہ اس طرف منعطف ہو گی نہ دوسروں کی باتوں سے ان کو ایسی تسلی ہو گی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ساری دنیا کو خبردار کر دینے سے تمام دنیا کی حق کی طالب روحیں سلسلہ کی تحقیق میں لگ جائیں گی اور شاید بعض ملک آپ ہی اپنے ملک میں مشن قائم کرنے کی درخواست کریں۔
دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ اس وقت جب کہ ہم مغربی ممالک میں مشن قائم کر رہے ہیں سلسلہ کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو دیکھ کر اپنی آنکھوں سے وہاں کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کے لئے ایسی سکیم تیار ہو سکے جو مکمل ہو اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہو جائے۔
تیسری دلیل یہ لوگ یہ دیتے ہیں کہ امام جماعت کے ساتھ جو ایک جماعت کارکنوں کی جائے گی وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ مل کر اور واقفیت حاصل کرکے زیادہ عمدگی سے کام کر سکے گی۔ اور اس کا نقطہ نگاہ وسیع ہو کر اسے معلوم ہو جائے گا کہ باہر جانے والے مبلغین کے لئے کیا وقتیں ہیں اور دنیا کیا کر رہی ہے اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
دوسرا فریق جو مخالف ہے اس کے دلائل یہ ہیں کہ اس وقت تک ان ممالک میں سلسلہ کی عظمت پوری طرح قائم نہیں اس کے خلیفہ کا ایسے وقت میں جانا سلسلہ کی شان کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ مرکز سے خلیفہ وقت کا باہر جانا گو عارضی ہو مگر موجب فتنہ ہو سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو غرض خلیفہ کے جانے سے ہے وہ دوسری طرح پوری ہو سکتی ہے۔ چند عالم بھیج دیئے جاویں جو وہاںجا کر تبلیغ کریں۔ جب وہ ممالک تیار ہو جائیں تو پھر خلیفہ وقت کا باہر جانا بھی درست ہو سکتا ہے جو لوگ میرے جانے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں۔ مفتی محمد صادق صاحب‘چوہدری فتح محمد صاحب‘عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب‘ذوالفقار علی خان صاحب‘سید ولی اللہ شاہ صاحب‘مولوی رحیم بخش صاحب‘میر قاسم علی صاحب‘قاضی ظہور الدین صاحب‘ماسٹر عبدالمغنی صاحب‘حافظ روشن علی صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۔
جو لوگ میرے جانے کے خلاف مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں۔
مولوی شیر علی صاحب‘مولوی سید سرور شاہ صاحب‘ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب‘میر محمد اسحاق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب۔ گویا گیارہ رائیں تو میرے جانے کی تائید میں تھیں اور پانچ اس امر کے حق میں تھیں کہ میرا جانا ٹھیک نہیں کوئی اور آدمی بھیجے جاویں۔
اس مشورہ کے بعد میری رائے اس طرف مائل تھی کہ میرے جانے کے بعد ان ملکوں کے مشنوں کو اور زیادہ مضبوط کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک کرکے خاموش ہو جانا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے زیادہ نقصان ہو گا اور اگر مضبوط کیا جاوے تو روپیہ زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ پھر اگر میں گیا تو چونکہ ساتھ زیادہ آدمی ہوں گے اس لئے روپیہ زیادہ خرچ ہو گا اور جماعت پر بوجھ پہلے ہی زیادہ ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب اور حافظ روشن علی صاحب کو بھیج دیا جاوے۔
دو تین (روز) (متن میں یہ لفظ سہواً رہ گیا ہے۔ ناقل) کے بعد عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے جانے کے متعلق کچھ عذر پیش کیا اور ادھر ولایت سے دوبارہ تار آئی کہ مذہبی کانفرنس چاہتی ہے کہ میں خود شامل ہوں۔ اس پر دوبارہ مشورہ لیا گیا تو میر محمد اسحق صاحب نے بھی جانے والوں کی تائید میں رائے دی لیکن میں نے بعد مشورہ یہ مناسب سمجھا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا ملک سے باہر جانا گو ساڑھے تین ماہ کے لئے ہو۔ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کا سب جماعت پر اثر پڑتا ہے۔ اس لئے سب جماعت کو مشورہ میں شامل کیا جاوے اور اس رائے کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ آپ کی انجمن اس معاملہ کے متعلق مشورہ دے کہ آیا اس کے نزدیک کونسا پہلو اختیار کیا جاوے۔ میرا خود جانا زیادہ مناسب ہو گا یا بعض دوسرے دوستوں کو بھیجنا۔ مشورہ کے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس امر سے میں متفق ہوں کہ اگر مغربی ممالک میں تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ امام جماعت کسی وقت اپنی آنکھوں سے ان ممالک کی حالت کو دیکھے تاکہ صحیح تجویز تبلیغ کے متعلق کر سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ موقع ٹھیک ہے یا ابھی انتظار کرنا چاہئے؟ خرچ کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ لوگ اس امر کو پسند کریں کہ مجھے جانا چاہئے تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گو میں اس وقت سخت مقروض ہوں مگر خزانہ پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ بلکہ اپنا خرچ خود کروں گا گو کہ قرض ہی لینا پڑے مگر جو لوگ دوسرے ساتھ ہوں گے یعنی انگریزی لیکچرار اور علماء اور رپورٹر۔ ان کا خرچ اور تبلیغ کا خرچ بتیس ہزار کے قریب ہو گا۔ اس میں سے پندرہ سولہ ہزار تو وہ ہے جو خالص تبلیغ پر ہو گا اور پندرہ سولہ ہزار وہ ہے جو ان لوگوں کے آمدورفت کے کرایہ اور مکان اور خوارک وغیرہ پر خرچ ہو گا۔ جو لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ اس وقت مجھے ضرور جانا چاہئے اس کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کا خاص بوجھ جماعت پر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مسجد برلن کے لئے جو زمین لی تھی اور جسے عمارت کھڑے کرتے ہوئے پیشتر اس کے کہ مسجد بنتی اس لئے روکنا پڑا تھا کہ جرمن کی مالی حالت بدل جانے کے سبب اس پر چھ سات لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے۔ (جس کا ذکر میں سالانہ جلسہ کے موقع پر کر چکا ہوں) اس جگہ کو مجلس شوریٰ کے مشورہ کے بعد فروخت کیا گیا ہے اور اس پر چالیس ہزار روپیہ نفع آیا ہے۔ یعنی ہمارے خرچ سے اتنی رقم زیادہ مل گئی ہے اس روپیہ سے جو نفع کے طور پر آیا ہے۔ روپیہ قرض لے لیا جائے کیونکہ یہ روپیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام ملا ہے اور پھر تین چار سال میں آہستہ آہستہ کرکے جماعت اس رقم کو واپس کر دے اس طرح فوری بوجھ کوئی نہیں پڑے گی۔ باقی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس رقم کو ہمیں بالکل نہیں چھیڑنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ضرورت ہو تو اسی وقت سفر کرنا چاہئے کہ جب پہلے روپیہ جمع ہو۔
اب ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ میں کون سا طریق اختیار کروں۔ اگر آپ مجھے جانے کا مشورہ دیں تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ میں اسلام کی ترقی کی خاطر روپیہ قرض لے کر بھی جانے کی کوشش کروں گا۔
اور اپنی ذات کا بوجھ سلسلہ پر نہیں ڈالوں گا۔ لیکن اگر آپ کے نزدیک میرا جانا مناسب نہ ہو تو اور دوسرا وفد بھیجنے کی صورت کی جائے گی۔ جس میں چونکہ آدمی کم ہوں گے۔ اس پر خرچ کم ہو گا۔ گو دس گیارہ ہزار پھر بھی خرچ ہو جائے گا۔ چونکہ فیصلہ فوراً ضروری ہے اس لئے جو جماعتیں دور ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی رائے سے بذریعہ تار کے اطلاع دیں۔ کل وقت سفر کا ساڑھے تین ماہ ہو گا۔ ۲۵/ مئی تک جواب پہنچ جانا چاہئے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد قادیان ۱۴/ مئی ۱۹۲۴ء
نوٹ: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال اس خط کا مضمون اپنی جماعت کے دوستوں تک ہی محدود رہے۔ خاکسار رحیم بخش ایم۔ اے۔ افسر ڈاک
نوے فیصدی جماعتوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضور ہی بنفس نفیس تشریف لے جائیں ۷۔ پھر حضور نے بھی اور چالیس کے قریب دوستوں نے استخارے بھی کئے جن سے اسی مشیت الٰہی کا علم ہوا کہ خود آپ ہی کو تشریف لے جانا چاہئے۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی طرف مزید توجہ فرمائی تو آپ پر یہ حقیقت بالکل منکشف ہو گئی کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین۹ (مسیح موعود) یا اس کے نائب کے سفر یورپ کی اور حدیث شریف میں سفر دمشق۱۰ کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ ذوالقرنین کے سفر سے متعلق واقعہ پر مزید غور کرتے ہوئے حضور نے معلوم کیا کہ یہ سفر (بنیادی اغراض کے اعتبار سے) تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں اسلامی انقلاب کی تبلیغی سکیم تیار کرنے کے لئے کیا جائے گا۱۱۔ اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویاء بھی آپ کے سامنے آیا کہ ’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے ۔۔۔۔۔۔۱۲
اس کے علاوہ خود حضور کو ایک عرصہ قبل رئویا میں سفر یورپ کا نظارہ دکھایا جا چکا تھا۔ چنانچہ ایک رویاء میں آپ نے دیکھا۔ آپ لنڈن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپ شامل ہیں۔ مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیراعظم) اس جلسہ میں تقریر کر رہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے دہشت زدہ ہو کر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ ’’مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے‘‘۱۳۔
دوسری رئویا میں (جو کانفرنس کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی تھی) آپ نے دیکھا کہ ’’میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازہ وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں ۔۔۔۔۔ اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدبر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ایک آواز آئی]9 [p Conqueror( the )William ولیم دی کنکرر یعنی ولیم (اولوالعزم) فاتح۱۴
ان امور پر غور و فکر اور مسلسل دعائوں اور استخاروں کے بعد حضور نے ویمبلے کانفرنس کی دعوت ایک الٰہی تحریک سمجھی اور باوجودیکہ اتنے لمبے سفر پر جانے کے رستہ میں آپ کے لئے ذاتی طور پر بہت سے مشکلات حائل تھیں۱۵ اور اس بوجھ کا اٹھانا آپ کے لئے بہت مشکل تھا۔ حضور نے اپنے فرائض دینی کو مقدم رکھتے ہوئے پورے انشراح صدر سے سفر یورپ پر جانے کا فیصلہ فرما لیا۔ اور روانگی کی تاریخ ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء معین کر دی۔
چنانچہ حضور نے ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء کو اپنے فیصلہ کی اطلاع دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اور چونکہ ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا ہمارا فرض ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں ۔۔۔۔۔۔ اس نظام کے مقرر کرنے کے لئے ضروری ہے خلیفہ مغربی ممالک کی حالت کو وہاں جا کر دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔ پس مغربی ممالک میں تبلیغ کے کام کو اگر ہم نے جاری رکھنا ہے اور اگر اس پر جو روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کی خدا تعالیٰ کو جوابدہی سے عہدہ برآ ہونا ہے تو ضروری ہے کہ خود خلیفہ وقت ان علاقوں میں جا کر ان کی مشکلات کو دیکھے۔ اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کرکے ایک سکیم تجویز کرے ۔۔۔۔۔۔۔ پس ان ضروریات کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کانفرنس کی تحریک کو ایک خدا کی تحریک سمجھ کر اس وقت باوجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں۔ مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کی تبلیغ کے لئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لئے کیونکہ وہ ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا توڑنا ہمارا مقدم فرض ہے‘‘۱۶۔
کانفرنس کے لئے کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کی تصنیف
سفر یورپ کے فیصلہ کا اعلان تو ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء میں ہوا۔ مگر معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر حضور نے ٹھیک ایک ماہ قبل ۲۴/ مئی۱۷ ۱۹۲۴ء کو کانفرنس کے لئے ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھنا شروع فرما دیا۔
حضور کو سخت گرمی اور تپش میں صبح سے لے کر آدھی رات تک مصروف رہنا پڑتا تھا۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں۔ ’’مضمون کے لکھنے کے دنوں میں مجھے بسا اوقات رات کے بارہ بارہ بجے تک اور بعض دفعہ تو دو دو بجے تک بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس شدید گرمی کے موسم میں جبکہ دن کو کام بھی مشکل ہوتا ہے رات کے وقت لیمپ کی روشنی میں بارہ بارہ بجے تک کام کرنا سخت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کمزور صحت کے آدمی کے لئے تو ناممکن معلوم ہوتاہے‘‘۱۸۔
اس کے دوران میں دو روز آپ بیمار ہو گئے مگر بالاخر شبانہ روز محنت و جدوجہد کے بعد محض روح القدس کی تائید سے ۶/ جون ۱۹۲۴ء تک مضمون ختم ہو گیا۱۹۔ اس کے بعد مضمون پر نظر ثانی اور پھر انگریزی ترجمہ کے مقابلہ اور اصلاح کا کٹھن مرحلہ شروع ہوا۔ چونکہ مضمون کے لکھنے کے دنوں میں آپ نے ملاقاتوں اور ڈاک کا کام مجبوراً کم کر دیا تھا۔ اس لئے اب وہ کام بھی جمع ہو گیا اس لئے آدھا دن ڈاک اور ملاقات وغیرہ میں صرف ہوتا اور آدھا مضمون کے لئے۔ یہ دن حضور کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مصروفیت کے تھے۔ چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں ’’مجھے ان دنوں میں بالکل معلوم نہ ہوتا تھا کہ دن کب ہوتا ہے اور رات کب کیونکہ میرے لئے یہ دونوں چیزیں برابر تھیں‘‘۲۰۔
نظر ثانی اور ترجمہ اور اس کی اصلاح کا کام حضور نے مکرم و محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کے سپرد فرما رکھا تھا۲۱ اور انگریزی مسودہ کے ٹائپ کرانے اور مقابلہ کی ذمہ داری حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد پر تھی۲۲۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ساتھ ان سب اصحاب نے دن رات ایک کرکے ۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو مضمون کا انگریزی ترجمہ مکمل کر دیا۲۳ اور ۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کو اس کی ایک نقل مذاہب کانفرنس کے منتظموں کو بھجوا دی گئی۲۴۔
اسی اثناء میں حضور نے یہ دیکھ کر کہ لکھا ہوا مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے جسے کانفرنس میں پڑھا نہیں جا سکے گا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے مطالب کا خلاصہ کرکے ایک نیا مضمون لکھنا چاہئے چنانچہ حضور ۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی سے فارغ ہوتے ہی نئے مضمون کی تصنیف میں مشغول ہو گئے اور ۹/ جولائی ۱۹۲۴ء کو قریباً گیارہ بجے رات یہ نیا مضمون جو ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ Movement( )Ahmadiyya کے عنوان سے تھا پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اور پھر اسی کا خلاصہ کانفرنس میں پڑھا گیا۲۵۔
’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ گو چند دنوں میں تصنیف ہوئی۔ مگر اس میں حضور نے خدا کے فضل سے احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کی دلکش اور جامع تصویر رکھی اور مکمل نقشہ مغربی دنیا کے سامنے کھینچ دیا اور الل¶ہ تعالیٰ سے تعلق سے متعلق اسلامی نظریہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے پہلے یہ بتایا کہ ’’اسلام‘‘ ہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے علیم خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور وہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے‘‘۲۶۔ پھر حضور نے اسلام کے نظام اخلاق‘نظام تمدن اور نظام ملکی پر قلم اٹھانے کے بعد یہ عظیم الشان انکشاف فرمایا کہ قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے جبکہ لیگ آف نیشنز کا کوئی خیال بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر ایک اسلامی جمعیتہ الاقوام کا خاکہ پیش کر رکھا ہے اور جب تک اس کے مطابق لیگ کی تشکیل نہیں ہو گی دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ حضور کی یہ پیشگوئی کس طرح آج تک حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۲۷۔ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
جماعت احمدیہ کے لئے نیابتی انتظام
’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘۲۸ اور ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوتے ہی حضور نے فوری طور پر جس اہم امر کی طرف توجہ فرمائی۔ وہ قادیان میں نیابتی انتظام کا قیام تھا۔ چنانچہ حضور نے اپنے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کو ان کا نائب مقرر فرمایا۔ ان کے علاوہ ایک مجلس شوریٰ مقرر فرمائی جس کے چودہ ممبر یہ قرار دیئے۔ حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب۔ حضرت قاضی امیر حسین صاحب۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت ماسٹر عبدالمغنی خان صاحب۔ حضرت قاضی محمد عبدالل¶ہ صاحب۔ حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل۔ حضرت میر قاسم علی صاحب۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر ’’نور‘‘۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر ’’الفضل‘‘۲۹۔
حضور نے ان تمام اصحاب کے تقرر پر ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کو ایک خطبہ بھی دیا۔ جس میں ہر ایک کا نام لے کر ان کی مخلصانہ خدمات کا نہایت تعریفی کلمات میں ذکر کرکے بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ لوگ میرے نزدیک بہترین مشیر ہیں۳۰body] [tag۔
علمی کام جاری رکھنے کے لئے حضور نے ہدایت جاری فرمائی کہ مکرم مولوی شیر علی صاحب درس قرآن اور مولوی سید سرور شاہ صاحب درس بخاری دیں اور یہ دونوں درس مسجد اقصیٰ میں باری باری ہوں۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں کام کر رہے تھے۔ اب جدید انتظام کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کی حج سے واپسی تک) ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا گیا۔
حضور نے ڈاک کا یہ انتظام فرمایا کہ آپ کے نام خطوط قادیان کے پتہ پر لکھے جائیں اور مرکز سے ہفتہ کی ڈاک کا اکٹھا پارسل بنا کر حضور کے نام بھیج دیا جائے۳۱۔
سفر یورپ کے لئے تیاری
جتنی جلدی اس عظیم الشان سفر کی تیاری ہوئی شائد اس کی مثال پہلے دنیا میں نہ ملتی ہو چھ ہزار میل کا سفر اور صدیوں کی تبلیغ کے لئے سکیم بنانے کی تجویز اور حالت یہ کہ سفر کے شروع ہونے تک حضور کو کسی امر کے سوچنے کے لئے یکسوئی کے لمحات میسر نہیں آسکے۔ ۹۔ ۱۰/ جولائی ۱۹۲۴ء کی رات کے گیارہ بجے کانفرنس والا مضمون ہی بمشکل ختم ہوا۔ اور ۱۲/ جولائی حضور کی روانگی کی تاریخ تھی۔ اس لحاظ سے ۱۰ اور ۱۱/ جولائی کے صرف دو دن فراغت کے مل سکے۔ جن میں حضور نے اپنے بعد قادیان میں انتظام کا فیصلہ کیا۔ لائبریری میں سے ضروری کتابیں نکلوائیں اور دوسرے لوگوں کی مستعار کتابیں واپس کیں۳۲۔
۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کا مصروف ترین دن
۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کے دن حضور کی مصروفیت انتہاء تک پہنچ گئی۔ حضور صبح کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور نے مزار کے مشرقی دروازہ میں کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی پھر جنوب کی طرف موضع ننگل میں سے ہوتے ہوئے موضع کاہلواں کے پاس سڑک تک گئے اور دوسرے رستہ پر لوٹ کر دوبارہ مقبرہ بہشتی میں پہنچے اور مزار اقدس پر دوبارہ دعا فرمائی اس وقت بھی حضور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چلتے چلتے ایک مجاہد کو جو حضور کے ساتھ ہی دور دراز ملک کے لئے روزانہ ہو رہے تھے نہایت اہم اور ضروری امور کے متعلق نوٹ اور ہدایات لکھواتے رہے۔
مقبرہ بہشتی سے واپسی کے بعد حضور گھر تشریف لے گئے اور پھر جمعہ پڑھایا جس میں مقامی انتظام کی تفصیل بیان فرمائی۔ نماز جمعہ کے بعد دیر تک بیرونی احباب سے مصافحہ فرماتے رہے۔
عصر کی نماز حضور نے مسجد مبارک میں پڑھائی اور پھر مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں ایک بہت بڑے مجمع میں حضور کا ان اصحاب کے ساتھ جو حضور کے ہمراہ تشریف لے جا رہے تھے۔ (اور جو سبز پگڑیاں بند گلے کے سیاہ کوٹ اور پاجامہ میں ملبوس تھے۳۳) فوٹو لیا گیا۔ ان اصحاب میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب۔ مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین صاحب بھی کھڑے کئے گئے جو ایران اور بخارا میں تبلیغ کے لئے روانہ ہونے والے تھے۔ حضور انور کے سر پر سفید پگڑی تھی اور آپ کرسی پر رونق افروز تھے۔ حضور نے اپنی معمولی لباس ململ کی سفید پگڑی کھلے گلے کا لمبا کوٹ اور سفید لٹھے کی شلوار میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔
اس موقعہ پر حضور نے دو نکاحوں کا بھی اعلان فرمایا ور دعا کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی ایک الوداعی نظم۳۴ ملک عبدالعزیز صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ نے ایسے رقت انگیز لہجہ میں پڑھی کہ حضور آبدیدہ ہو گئے اور اخیر تک اپنا چہرہ مبارک رومال سے ڈھانپے رہے]4 [stf۳۵۔ اس تقریب کے بعد حضور رات کے ایک بجے تک اپنے بعد کام چلانے کے متعلق ہدایات دیتے رہے۳۶۔
روانگی سے قبل مزار مسیح موعودؑ پر آخری دعا
۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو روانگی کا دن تھا اس دن حضور صبح صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر آخری بار دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے اس دعا کے وقت حضور کے قلبی جذبات کیا تھے؟ حضور خود ہی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’صبح ۔۔۔۔۔۔ اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لئے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا۔ یعنی آقائی و سیدی و راحتی و سروری و حبیبی و مراوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر آہ وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کرکے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا۔ ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مر جائوں (اللھم متعنا بطول حیاتہ و اطلع شموس طالعہ۔ مولف) تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جن کی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کردیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولیٰ مجھ پر بھی رحم فرما دے۔ ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریز دل لے کر اس مزار پر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ع
’’اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی‘‘
اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے۔ جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپا لے۔ آہ! اس کی غنا میرے دل کو کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیت میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے۔ وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کر دے ادھر ایک تکلیف دہ سفر درپیش تھا۔ جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو۔ شاید وہ امید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو۔ سمندر پار کے مردوں کو کون لا سکتا ہے ان کی قبر یا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی‘‘۳۷۔
قادیان سے روانگی کا نظارہ
‏]txet [tagاس روز (۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو) صبح کی نماز کے بعد سی ہی لوگ مسجد مبارک کے قریب جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے خدام کا بھاری ہجوم ہو گیا۔ ۸ بجے کے قریب حضور نے بیت الدعا میں لمبی دعا کرائی پھر باہر تشریف لائے۔ اصحاب مصافحہ کے لئے بے تابی کے ساتھ آگے بڑھے لیکن حکم ہوا کہ مصافحے سڑ کے موڑ پر ہوں گے۔
اگرچہ منتظمین نے انتظام کیا تھا کہ حضور کو حلقہ کے اندر لے کر ہجوم کو پیچھے پیچھے رکھا جائے لیکن ہجوم کا ریلہ سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ کئی لوگ ایک دوسرے پر گرتے مگر کسی قسم کے ملال کے بغیر فوراً اٹھ کر آگے بڑھنیے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے۔ منتظموں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہجوم کے گردوغبار سے حضور کو تکلیف ہو گی۔ سب لوگوں کو قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر حضور نے حکم دیا کہ کسی کو روکا نہ جائے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوں آپ لوگ بھی آہستہ چلیں تا زیادہ گرد نہ اڑے۔
موڑ کے قریب پہنچ کر حضور نے سارے خدام سمیت پھر لمبی دعا فرمائی۔ دعا کے بعد حضور مردوں کے ہجوم سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت ام المومنین نے دیر تک حضور کو گلے لگا کر دعائوں سے رخصت فرمایا۳۸۔
حضرت ام المومنین سے الوداع ہونے کے بعد حضور نے خدام کو جو موڑ پر دو رویہ قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا۔ سب اصحاب سے مصافحہ کر لینے کے بعد حضور اور حضور کے ہمراہ جانے والے اصحاب موٹروں میں سوار ہوئے اور یہ مقدس قافلہ آسمانی ’’ولیم دی کنکرر‘‘ کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہو گیا۳۹۔
اس سفر میں حسب ذیل اصحاب ہمرکاب تھے۴۰۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۴۱۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۴۲۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۴۳۔ حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب۴۴۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۴۶۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۴۷۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۴۸۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۴۹۔ چوہدری علی محمد صاحب۵۰۔ میاں رحم دین صاحب۵۱۔
ان کے علاوہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو حضور کے ترجمان خصوصی کی حیثیت سے جا رہے تھے پہلے ہی انگلستان روانہ ہو چکے تھے۔ اسی طرح چوہدری محمد شریف صاحب وکیل بھی اپنے خرچ پر حضور کے ہمراہ گئے۔
بٹالہ سے دہلی تک
حضور مع خدام قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے۔ جہاں آپ کی انتظار میں خلقت کا بے پناہ اژدھام تھا۔ بٹالہ سے چل کر دہلی تک مختلف مقامات کی جماعتوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعائوں کے ساتھ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہا۔ امرتسر‘بیاس‘جالندھر چھائونی‘پھگواڑہ اور دہلی میں آپ کے اور آپ کے رفقاء سفر کے فوٹو لئے گئے۔ لدھیانہ سے آگے جا کر حضور نے قادیان کی یاد میں وہ مشہور نظم کہی۵۲`۵۳۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔ ~}~
ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں
مدعائے حق تعالیٰ مدعائے قادیاں
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف فرما تھے جو سہارنپور سے واپس ہوئے۔ دہلی اسٹیشن پر دہلی‘بریلی‘شاہ جہانپور‘قائم گنج اور علی گڑھ کی جماعتوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا۔ امرتسر میں مستری محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے برف کا انتظام تھا۔ جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے۔
دہلی سے بمبئی تک
دہلی سے آگے متھرا اسٹیشن پر آگرہ کی جماعت کے علاوہ میدان ارتداد ملکانہ کے بعض مجاہدین مثلاً ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم اور ماسٹر غلام محمد صاحب بھی حاضر تھے۵۴۔ متھرا کے پلیٹ فارم پر بھی حضور کا فوٹو لیا گیا۔ مجاہدین میدان ارتداد ملکانہ نے آگرہ تک حضور کی معیت کا فخر حاصل کیا۔ متھرا اور آگرہ کے درمیان ملکانوں کے راستے میں جو گائوں پڑتے تھے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے وہ حضور کو گاڑی میں دکھائے اور وہ جگہ بھی جہاں ہندو ٹھاکروں نے اشدھی کے خلاف پنچایت کی تھی۔ عین اس وقت جب حضور ملکانہ کے علاقہ سے گزر رہے تھے علاقہ ملکانہ اور دوسرے اہم معاملات کے لئے دعا فرمائی اور اپنی جیب خاص سے قربانی کے لئے ایک روپیہ دیا۔ اسی دوران میں گاڑی آگرہ پہنچ گئی۵۵۔
حضور آگرہ سے چل کر گوالیار اور جھانسی سے ہوتے ہوئے آدھی رات کے وقت بھوپال پہنچے جہاں حضرت حکیم عبیداللہ صاحب بسمل اور بعض دوسرے دوست موجود تھے۔ ۱۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے اپنے رفقاء کو ارشاد فرمایا کہ وہ باہم صرف انگریزی یا عربی میں کلام کریں چنانچہ بمبئی اسٹیشن تک اس پر پورے طور پر عمل ہوتا رہا۔ ۱۴/ جولائی ۱۹۲۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی۔ حضور نے عید منماڑ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پڑھائی اور مختصر سا خطبہ پڑھا۔ گاڑی اسی روز پانچ بجے شام کے بعد عیسیٰ کے وکٹوریہ اسٹیشن پر پہنچی۔ اسٹیشن پر حیدر آباد‘سکندر آباد‘سورت‘ایلچ پور‘مالا بار اور بمبئی کی جماعتیں موجود تھیں جس اخلاص و عقیدت کے ساتھ ان جماعتوں نے حضور کا خیر مقدم کیا اس کا اظہار الفاظ نہیں کر سکتے۔ مصافحہ کے بعد حضور کا فوٹو لیا گیا۔ جس کے معاًبعد حضور مولوی عبدالرحیم صاحب درد‘خان صاحب ذوالفقار علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو لے کر تھامس کک کے دفتر میں تشریف لے گئے پھر انجمن احمدیہ بمبئی کی میمن بلڈنگ میں آکر قیام پذیر ہوئے یہاں پہنچ کر بمبئی کے دو ایک سیٹھ آپ سے ملاقات کے لئے آئے اور حضور تبلیغ فرماتے رہے پھر ساڑھے بارہ بجے تک تحریر میں مصروف رہے۵۶۔
بمبئی سے بذریعہ جہاز روانگی اور عدن میں وردد
دوسرے دن ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء کو قریباً سات بجے حضور اپنے رفقاء سمیت بمبئی کی بندرگاہ پر تشریف لے گئے اور عرشہ جہاز۵۷ سے جماعت کے نام ایک محبت بھرا برقی پیغام دیا جس میں فرمایا۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ مجھے کس قدر محبت تم سے ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ جدائی صرف جسمانی ہے میری روح ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور رہے گی میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں‘‘۵۸۔
بندرگاہ پر جماعت کے دوست بڑی کثرت سے الوداع کہنے کے لئے حاضر تھے۔ حضور نے اس موقعہ پر ایک لمبی اور رقت انگیز اجتماعی دعا کرائی۔ یہاں تک کہ جہاز کی روانگی کا وقت گزرنے لگا مگر جہاز کے افسروں پر بھی ایسی محویت طاری تھی کہ وہ نہ دعا ختم کرنے کے لئے کہہ سکتے تھے اور نہ جہاز روانہ کر سکتے تھے۔ آخر حضور نے دعا ختم کی اور دعا کے ساتھ آسمان سے ترشح ہوا حضور نے دعائوں کے ساتھ جماعت کو رخصت کیا اور السلام علیکم اور خدا حافظ کے نعروں سے فضا گونجی۔ جہاز ایک چھوٹی دخانی کشتی کے ذریعہ حرکت دیا جا رہا تھا۔ جماعت کے دوست کنارے پر کھڑے تھے اور حضور دل میں دعا کر رہے تھے۔ پھر یکایک آپ کو جوش آیا اور پرنم آنکھوں کے ساتھ آپ نے پھر جماعت کے لئے نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ لمبی دعا کی۔
اب جہاز حرکت میں آچکا تھا اور دوست بڑی تیزی سے نظر سے اوجھل ہورہے تھے مگر حضور کی شفقت و محبت کا ایک عجیب عالم دیکھنے میں آیا یعنی جہاز کا جو حصہ بھی دوستوں کے قریب ہوتا حضور بھی دوڑ کر اسی طرف تشریف لے جاتے کبھی اس سرے کبھی دوسرے اور کبھی وسط میں اور دوستوں کے لئے قریب جا کر پھر دعا شروع کرا دیتے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور آپ کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے مگر اپنے خدام سے دلی الفت و محبت کی چنگاری آپ کو بے قرار کئے ہوئے تھی۔ غرضکہ حضور اسی طرح جہاز کے چاروں طرف نہایت بے تابی سے گھومتے رہے حتیٰ کہ سب دوست آنکھوں سے بالکل غائب ہو گئے۵۹
جہاز کا یہ پہلا دن تھا اسی دن سے حضور اور حضور کے رفقاء کی طبیعت سمندری مرض Sickness( )Sea سے سخت ہونے لگی۔ پھر کئی روز تک سمندر میں ایسا شدت کا تلاطم برپا رہا کہ اس نے حالت اور زیادہ تشویشناک کر دی۔ سمندر کی طوفانی حالت ایسی مخدوش تھی کہ جہاز کی رفتار بہت ہی کم کر دینی پڑی اور عملہ جہاز بھی بیمار ہو گیا۔ خود حضور پر جہازی بیماری کے اثر کے ساتھ سر درد اور بخار کا حملہ ہوا اور متلی کی شکایت بھی تھی لیکن حضور اپنی تکلیف بھولے ہوئے تھے اور اپنے خدام ہی کے فکر میں تھے۔ حضور ہر ایک کی عیادت فرماتے اور ہر طرح تسلی دیتے اور دلجوئی فرماتے تھے اور کبھی کبھی احباب کا دل بہلانے اور غم غلط کرنے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب درد‘خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے نظمیں سنتے۔ خاص طور پر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی الوادعی نظم تو بار بار پڑھی گئی۔ اس موقعہ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی‘حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال‘حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب نے ایثار نفس کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا اور اپنا آرام قربان کرکے اپنے بیمار بھائیوں کو آرام پہنچایا۔ وگرنہ جہاز میں تو ہر جگہ نفسی نفسی کا معاملہ تھا۔ دوسروں کی خدمت کا جذبہ صرف انہی بزرگوں میں نظر آتا تھا۶۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اس سفر میں سب سے بڑی فکر اور تشویش جس نے آپ کو دن رات متفکر کر رکھا تھا صرف یہ تھی کہ یورپ کے تمدن اور اس کی دماغی ترقی کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ چنانچہ اپنے رفقاء سے فرمایا۔ ’’یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ اس کا مذہب کیونکر فتح کیا جائے گا۔ مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلد سرنگوں ہو گی مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ ہے کہ یورپ کا تمدن اور یورپ کی ترقی اور دماغی ترقی کا کیونکر مقابلہ کیا جائے یہی دو باتیں ایسی ہیں جن پر غور و فکر کرتے ہوئے میں راتیں گزار دیتا ہوں اور گھنٹوں اسی سوچ میں پڑا رہتا ہوں‘‘۔ پھر فرمایا۔ ’’انگریزی لباس سے مجھے سخت چڑ ہے اگر ہمارے بچوں میں سے کوئی پتلون اور ہیٹ کا استعمال کرے تو اس کو سزا دینی چاہئے۔ جس قوم کے پاس لباس بھی اپنا نہیں اور دوسرے کے لباس کو اپنے لباس سے اچھا سمجھ کر اسے اختیار کر لینا چاہتی ہے۔ اس قوم نے اس کا مقابلہ کیا کرنا ہے۔ آنحضرت~صل۱~ نے عربوں کی آنکھ کھلتے ہی اصل کو معلوم کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے آپ نے ارشاد فرمایا۔ خالفوا الیھود و النصاری۔ الخ نیز من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ اور حقیقت یہی ہے کہ جو کسی قوم کے لباس کو اور تمدن کو قبول کر لیتا ہے وہ دل سے ان ہی میں سے ہوتا ہے کیونکہ دل اس کا ان کی عظمت اور بڑائی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے‘‘۶۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے طوفانی کیفیت میں بھی عموماً نماز باجماعت کا التزام رکھا اور اپنے رفقاء سفر اور جماعت کے لئے بہت دعائیں کیں۔ آخر پانچویں روز (۱۹/ جولائی) سے طوفان کی حالت بدلنے لگی اور چھٹے روز (۲۰/ جولائی) کو بہت حد تک طوفان تھم گیا۶۲۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ ’’اس روز حضور نے جب نماز عصر جملہ احباب سمیت جہاز کے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے صحن میں ادا کی اور بعد نماز حضور مصلے پر تشریف فرما ہوئے اور تمام رفقائے سفر حضور کی خدمت میں حاضر تھے تو جہاز کے ڈاکٹر نے (جس کا نام مینگلی تھا اور اٹلی کا باشاندہ تھا) حضور کی طرف اشارہ کرکے آہستہ سے کہنے لگا۔ and Christ Jesus Disciples’’ twelve یعنی یسوع مسیح اور بارہ حواری۔ یہ سن کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی کہ خدا تعالیٰ کیسا قادر ہے کہ پوپ کی بستی کا رہنے والا ایک نہایت سچی اور عارفانہ بات کہہ رہا ہے‘‘۔
ساتویں روز ۲۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کو حضور اپنے خدام میں قریباً ڈیڑھ بجے رات تک رونق افروز رہے۔ ناگپور کا ایک ہندو نوجوان مسٹر جوشی بی ایس سی جو مکینکل انجینرنگ کی تعلیم کے لئے جرمنی جا رہا تھا حضور کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضور نے حقیقی مذہب کی شناخت اور زندہ خدا پر ایمان کے صحیح طریق پر بہت لطیف تقریر فرمائی جس سے مسٹر جوشی بہت متاثر ہوا اور کہا کہ حقیقت میں آج مجھے نیا علم ملا ہے۶۳۔
آٹھویں دن (۲۲/ جولائی) جہاز عدن کے اور قریب آیا تو حضور نے آدھی رات کے وقت اپنے قلم سے جماعت کے نام ایک مفصل خط میں لکھا۔
’’آج جہاز عدن کے قریب ہو رہا ہے صبح چار بجے خشکی پر جہاز لگے گا۔ طوفان کے علاقہ سے جہاز خدا کے فضل سے نکل آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گزر گئی ہے۔ مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوئے تھے اب سو جائیے مگر عدن قریب آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے کا موقعہ ملے گا۔ اس لئے میں ان دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ یہی کہتا ہوں کہ خط نصف ملاقات ہوتی ہے۔ میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اٹھانے دو۔ مجھے چھوڑ دو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی نائو پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت۔ دوستوں کی جماعت رہتی ہے۔ ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑے دیر کے لئے خالص اس سرزمین کی طرف پرواز کرکے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں‘‘۶۴۔
خط کے آخر میں جماعت کو نصیحت فرمائی۔ ’’اپنے آپ کو صاف رکھو۔ تا قدوس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے اتحاد‘محبت‘ایثار‘قربانی‘اطاعت‘ہمدردی بنی نوع انسان‘عفو‘شکر‘احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بنائو۔ یاد رکھو تمہاری سلامتی سے آج دین کی سلامتی ہے‘‘۶۵۔
جہاز ۲۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کو (۹ بجے صبح کے قریب) بخیریت عدن پہنچا اور حضور نے بذریعہ تار اپنی خیریت کی اطلاع ارسال فرما دی۶۶۔
عدن سے پورٹ سعید تک
اب جہاز عدن سے پورٹ سعید کی طرف چلا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وقت پہلے سے زیادہ دعا اور اس اہم سفر کے متعلق عملی پروگرام پر غور میں صرف ہونے لگا۔ چنانچہ ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء کو آپ نے شام و مصر میں تبلیغ سلسلہ پر کئی گھنٹے دوستوں سے مشورہ لیا اور ایک سکیم تجویز فرمائی اور دوستوں کو تاکید فرمائی کہ سفر کی اہمیت‘مقصد کی عظمت اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام وقت اس کی تیاری میں صرف ہونا چاہئے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے تا ہمیں ہر قسم کے برکات حاصل ہوں۔ غرضیکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کے پیش نظر یہی ایک امر تھا کہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۶۷ اسی تاریخ (۲۴/ جولائی) کو حضور دیر تک اسلامی عالم میں اتحاد عمومی پیدا کرنے کی ایک موثر تحریک کے قیام پر گفتگو فرماتے رہے۔
۲۵/ جولائی کو گیارہ اور ۱۲ بجے کے درمیان جہاز جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گزرنے والا تھا۔ حضور نے ارادہ فرمایا کہ خاص طور پر دعا کی جائے چنانچہ حضور نے دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں بہت رقت انگیز دعائیں کیں۶۸۔ ۲۶/ جولائی کو حضور دن بھر مضمون لکھنے میں مصروف رہے۔
۲۷۔ ۲۸/ جولائی کو حضور نے اپنے قلم سے جماعت کے نام دوسرا مکتوب لکھا۔ جو آپ کے اس اندرونی فکر و تشویش کا آئینہ دار تھا اور جو اس تصور سے آپ کو ہو رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یورپ اسلام کو تو قبول کرے مگر اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسلام کی بدلی ہوئی صورت پہلے یورپ میں پھر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائے گا۶۹۔
حضور نے اس خط میں اپنی جماعت کو اس زبردست خطرہ سے متنبہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ’’ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھائیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو۔ پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم میں ایک نذیر عریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا۔ نہ چھوڑنا نہ چھوڑنا۔ آہ نہ چھوڑنا میں کس طرح تم کو یقین دلائوں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے۔ وہ مانے یا نہ مانے تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہئے اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل وحرکت کو دیکھتے رہو اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کس کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا۔ یورپ کے لئے اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے‘‘۷۰۔
جہاز ۲۸/ جولائی کو پورٹ سعید کے ساحل سے لگا۷۱۔
‏rov.5.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پورٹ سعید سے قاہرہ
حضور مع خدام پورٹ سعید سے اسی دن ایکسپریس گاڑی سے قاہرہ تشریف لے گئے اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے مکان پر فروکش ہوئے۔ قاہرہ میں حضور کا قیام صرف دو دن رہا۔ مگر آپ کی برکت و توجہ سے دو دنوں میں ہی قاہرہ کے اندر سلسلہ کی تائید میں ایک نئی رو پیدا ہو گئی۔
حضور قیام مصر کی نسبت اپنے تاثرات و حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے۔ مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بناء پر کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسیٰ فرعون کی تباہی میں۔ بے شک اس وقت یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے میں نے قاہرہ پہنچتے ہی ۔۔۔۔۔ اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصہ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا اور دوسرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا۔ تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کو مہیا کرنے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ علاقے تبلیغ کے لئے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی کچھ مل سکتی ہے میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات۷۲ کے ایڈیٹروں کے پاس ملنے کے لئے بھیجا تھا ۔۔۔۔۔۔ جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئندہ ہر طرح مدد دینے کا وعدہ کیا۔ حتیٰ کہ وطنی اخباروں نے بھی ۔۔۔۔۔۔ علاوہ مذکورہ بالا لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے۔ بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے۔ چنانچہ جامع ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابوالعزائم صاحب ملنے کے لئے آئے یہ صاحب بہت بڑے پیر ہیں کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ان لوگوں کے دو اور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے۔ لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقعہ نہ ملا ان میں سے ایک تو ترکی رئیس تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے صاحب ایک وکیل تھے ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔ مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں احمدیہ مشن کو مضبوط کیا جائے ۔۔۔۔۔۔ چونکہ گرمی کا موسم ہے تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقعہ نہیں مل سکتا تھا۔ مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے دو ازہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست۔ تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا۔ تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے‘‘۷۳۔
قاہرہ سے بیت المقدس تک
حضور فرماتے ہیں۔ ’’دو دن کے قیام کے بعد ہم دمشق کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا۔ مقامات انبیاء کے دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لئے وہاں ٹھہر گئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہودی قوم کی قابل رحم حالت جو یہاں نظر آتی ہے۔ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین ۔۔۔۔۔۔۔ کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دو دن برابر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں جس دن ہم جگہ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا۔ عورتوں اور مردوں اور بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر بائبل کی دعائیں پڑھ پڑھ کر اظہار عجز کرنا ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا ۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس میں سے مندرجہ ذیل مقامات قابل ذکر ہیں۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم‘حضرت اسحاقؑ‘حضرت یعقوبؑ‘اور حضرت یوسفؑ کی قبور اور وہ مقام جس پر حضرت عمرؓ نے نماز پڑھی اور بعد میں اس کو مسجد بنا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے مقامات (بیت لحم وغیرہ۔ مولف) وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر میرے نزدیک ان کی رائے غلط ہے یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۷۴۔ ۔۔۔۔۔۔ پس میرے نزدیک مسلمان رئوساء کا یہ اطمینان بالاخر ان کی تباہی کا موجب ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ فلسطین کے گورنر ہائی کمشنر کہلاتے ہیں۔ اصل ہائی کمشنر آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں ان کی جگہ سرگلبرٹ کلیٹن کام کر رہے ہیں۔ میں ان سے ملا تھا ایک گھنٹہ تک ان سے ملکی معاملات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو عام طور پر شکایت تھی کہ تعلیمی معاملات میں ہمیں آزادی نہیں۔ میں نے اس امر کے متعلق ان سے گفتگو کی اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے مجھے بتایا کہ ایک دن پہلے ہی انہوں نے ایک تجویز وزارت برطانیہ کے غور کے لئے بھیجی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سر کلیٹن صاحب کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت دلچسپی ہو گئی اور گو ہم نے دوسرے دن روانہ ہونا تھا۔ مگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دوسرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں۷۵text] gat[۔
بیت المقدس سے دمشق تک
فلسطین سے چل کر ہم حیفا آئے جہاں سے کہ دمشق کے لئے گاڑی بدلتی ہے۔ رات حیفا میں ٹھہرنا پڑا۔ چونکہ دس بجے صبح سے پہلے کوئی گاڑی نہ جاتی تھی۔ صبح گاڑی لے کر میں سیر کے لئے گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ بہائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی عکہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایک سڑک پر آرہے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عرف عبدالبہاء کا مکان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی رحیم بخش صاحب۷۶4] ftr[۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب مکان دیکھنے کو چلے گئے۔ شوقی آفندی تو وہاں موجود نہ تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور بعض دوسرے رشتہ دار (اور) بچے موجود تھے ۔۔۔۔۔ نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۷۷
حضور ۴/ اگست ۱۹۲۴ء کی صبح کو حیفا سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر اسی شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دمشق پہنچے اور ۹/ اگست تک یہاں مقیم رہے۷۸۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخالف حالات کے باوجود دمشق میں غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت عطا فرمائی۔ جس کی تفصیل خود حضور کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ میں بہت گھبرایا اور دعا کی اے اللہ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہو گی۔ اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں۔ تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما۔ جب میں دعا کرکے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے۔ عبد مکرم]ydob [tag یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے۔ اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے۔ پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا۔ فساد کا خطرہ ہے۔ میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے۔ مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور ھذا ابن المھدی کہتے اور سلام کرے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں۔ ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا۔ اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا ۔۔۔۔۔ اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ غرض عجیب رنگ تھا کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے۔ کاپیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہرئیے۔ یہ لفظ رہ گیا ہے۔ گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کرکے حضرت مسیح کو مخاطب کرنے کا ذکر ہے اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہاتو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ذرا ناواجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو۔ ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے اس پر وہ چلا گیا اور رئوسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بے وقوف تھا۔ اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب (المغربی۔ ناقل) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰ نے اترنا ہے کہنے لگے۔ مسجد امویہ کا ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ آکر خود بنائیں گے۔ اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے۔ دیکھ تو چلیں صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے۔ جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔ میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے۔ یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا۔ مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی‘‘۷۹۔
’’دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کئے۔ دمشق کے تعلیم یافتہ طبقے نے نہایت گہری دلچسپی لی۔ تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے کثرت سے فوراً فروخت ہو جاتے تھے‘‘۸۰body] gat[۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اوپر شیخ عبدالقادر مغربی کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا ایک خاص واقعہ بھی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ ان صاحب نے جو دمشق کے ادیب شہیر تھے حضور سے کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں۔ مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں۔ مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر دمشق میں دارالتبلیغ قائم کرنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو بھجوا دیا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا۸۱۔
‏0] ft[sدمشق سے پورٹ سعید تک
حضور ۱۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے۸۲۔ اور پھر عکہ میں بہائیوں کا مرکز دیکھنے تشریف لے گئے۔ مگر وہاں جاکر آپ کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب آپ کو معلوم ہوا کہ عکہ میں کوئی بہائی نہیں ہے بلکہ عکہ سے تین چار میل پرے ایک گائوں ہے جس کا نام منثیہ ہے۔ اس میں یہ لوگ رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے موٹروں پر وہاں پہنچے۔ بہجہ میں مرزا محمد علی صاحب سے جو مرزا عباس علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ گمنام سی جگہ ہے کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا ہے تو مکان کے ایک گوشہ میں ٹھہر جاتا ہے۔ جب بہائیوں کی تعداد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ صحیح تعداد تو نہیں بتائی جا سکتی مگر جو کچھ بہائی ہیں ایران ہی میں ہیں پھر کچھ امریکہ میں ہیں باقی ملکوں میں یونہی تھوڑے ہیں۸۳۔
حضور بہجہ میں۸۴ دو گھنٹے تک ٹھہرے مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ اس جگہ کوئی اور بھی آباد ہے۔ یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنے قافلہ سمیت واپس حیفا پہنچے اور دوسرے دن صبح پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے۸۵۔
پورٹ سعید سے برنڈزی تک
۱۳/ اگست ۱۹۲۴ء۸۶ کو آپ کا جہاز جس کا نام پلنا تھا پورٹ سعید سے برنڈزی کے لئے روانہ ہوا۔ حضور کی طبیعت متواتر سفروں شب بیداریوں اور غذا کی بے ترتیبیوں اور خصوصاً دمشق کی متواتر لمبی لمبی تقریروں کی وجہ سے پہلے ہی ناساز تھی کہ بیروت پہنچ کر بیماری کا سخت حملہ ہوا۔ بیروت سے حیفا تک کا سفر موٹر کے ذریعہ کرنا پڑا اور اس دن حضور کو دس بارہ اسہال ہوئے۔ عکہ پہنچ کر حضور نے پھر اپنی تکلیف کا کچھ خیال نہ کیا اور گیارہ بجے رات تک بہائیوں سے گفتگو فرماتے رہے۔ ۱۲ بجے شب حیفا میں پہنچے اور پھر بیماری کی حالت میں حیفا سے پورٹ سعید تک آئے۔ صحت کی خرابی کی یہ حالت دیکھ کر جہاز کے ڈاکٹر نے سفر جاری رکھنے کی بجائے کسی صحت افزا مقام پر آرام کرنے کا مشورہ دیا مگر حضور نے سفر منقطع کرنا پسند نہ فرمایا۔
حضور کو پورٹ سعید میں قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کے خطوط سے معلوم ہوا کہ اخبار ’’پیغام صلح‘‘ آپ کے سفر یورپ کے خلاف بہت زہر اگل رہا ہے۔ اس پر حضور نے ۱۵/ اگست ۱۹۲۴ء کو تھوڑی دیر میں ’’اہل پیغام سے خطاب‘‘ کرتے ہوئے ایک نظم کہی جس کے تین شعر یہ تھے۔ ~}~
پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں
باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں سے
پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البعث
ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے
ماننے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے
یہ قضا وہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیروں سے
حضور نے اس نظم کی تشریح میں ایک نوٹ سپرد قلم کرکے پوری نظم الفضل کو اشاعت کے لئے بھجوا دی۸۷۔ ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء کو ساڑھے نو بجے صبح آپ کا جہاز اٹلی کی بندرگاہ برنڈزی پر پہنچا۔
برنڈزی سے لنڈن
حضور مع خدام برنڈزی سے ۲/۱ ۶ بجے شام کی گاڑی سے سوار ہو کر ۱۷/ اگست ۱۹۲۴ء کو ۲/۱ ۹ بجے روما میں داخل ہوئے جو عیسائیت کے پوپ کا مرکز ہے۔
روما میں حضور کا قیام چار روز رہا۔ اس عرصہ میں حضور برابر اشاعت سلسلہ کے کام میں مصروف رہے۔ اخبارات کے نمائندوں اور فوٹو گرافروں نے آپ سے انٹرویو کئے۔ حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے بھی ملاقات کی اور اسے سلسلہ احمدیہ کے اغراض و مقاصد بتائے۔ مسولینی نہایت اکرام سے پیش آیا۸۸۔
حضور کا ارادہ پوپ سے ملنے اور ان کو تبلیغ اسلام کرنے کا بھی تھا۔ مگر پوپ نے آپ کی آمد پر ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دیا۸۹۔ تاہم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ان تک جو پیغام حق پہنچانا چاہتے تھے وہ خدا تعالیٰ نے دوسرے طریق پر پہنچا دیا۔ یعنی روما کے سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار ’’لاٹربیونا‘‘ نے حضور کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا۔ حضور سے سوال کیا گیا کہ آپ پوپ کو ملتے تو کیا کہتے؟ حضور نے جواب دیا۔ ’’میں جب پوپ سے ملتا تو سب سے بہترین تحفہ جو میرے پاس ہے میں اسے پیش کرتا اور وہ یہ ہے کہ میں اسے دعوت اسلام دیتا اور اس نور کی طرف بلاتا جو انسانوں کو خدا تک پہنچا دیتا ہے اور یہ لفظاً نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے نشانات اس میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے آدمی عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں جن کو بڑا نیک اور متقی کہا جاتا ہے۔ مگر وہ کوئی نشان اپنی صداقت میں نہیں دکھا سکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کا یہ راہ نہیں۔ اور یہ سچ ہے خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ دنیا پر ثابت کر دے کہ یہ قوت اور طاقت اب اسلام میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میں پوپ کو اس اسلام کی بشارت دیتا اور اس کو سناتا کہ ہم کو وہ نشان دیئے گئے ہیں جو خدا کے برگزیدہ کو ملتے ہیں‘‘۹۰۔
روما میں حضور نے اصحاب کہف کی غاریں بھی دیکھیں جس کی تفصیل حضور نے اپنی تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۹۲۱۔ ۹۲۲ پر درج فرمائی ہے۔
روما سے ۲۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو بوقت شام روانگی ہوئی اور گاڑی دوسرے دن صبح (۲۱/ اگست کو) ۹ بجے کے قریب پیرس فرانس پہنچی۔ پیرس سے کیلے آئے اور بذریعہ جہاز رود بار انگلستان عبور کرکے ڈوور آئے اور ڈوور سے گاڑی لے کر۹۱ ۲۲/ اگست ۱۹۲۴ء۹۲ کو ۶ بجے کے قریب لنڈن کے مشہور وکٹوریہ سٹیشن پہنچے۔ جہاں مبلغ اسلام اور دوسرے اصحاب استقبال کے لئے حاضر تھے۔
حضور نے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی اپنے قافلہ سمیت دعا کی۔ اس نظارہ کا فوٹو لنڈن کے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ اسٹیشن سے حضور لڈ گیٹ (باب اللد) پہنچے اور سینٹ پال کے گرجا کے دروازہ کے پاس صحن میں آپ نے اسلام کی کامیابی اور کسر صلیب کے لئے دعا کی۔ یہ نظارہ لنڈن نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس لئے چاروں طرف خلقت کا اژدحام ہو گیا۔ حضور ایک لمبی دعا کرنے کے بعد اپنے خدام سمیت اپنی قیام گاہ (واقع چیشم پیلس نمبر ۶) میں تشریف لے گئے اور دعا کے بعد قیام فرما ہو گئے۹۳۔
برطانوی پریس میں چرچا
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جس دن سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ برطانوی پریس میں آپ کی آمد کی خبریں شائع ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ مگر لندن میں ورود کے بعد تو مصور اور غیر مصور اخبارات نے اتنی کثرت سے آپ کے فوٹو اور حالات وغیرہ شائع کئے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے۹۴۔ اور کئی لوگوں نے برملا اظہار کیا کہ پریس نے اتنی اہمیت اور شہرت لنڈن میں آنے والے کسی بڑے سے بڑے لارڈ کو بھی نہیں دی۹۵ جتنی آپ کی تشریف آوری پر پریس کے علاوہ فلموں میں آپ کے اور آپ کے رفقاء کے مناظر دکھائے گئے اس طرح خدا نے انگلستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کی شہرت کا خود ہی سامان فرما دیا۔
قیام لنڈن کا پہلا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء
حضور نے یہاں پہنچ کر سب سے پہلا اہم کام یہ کیا کہ اپنے رفقاء کو مختلف فرائض سپرد کرکے ایک انتظامیہ کمیٹی قائم کر دی جس کے پریذیڈنٹ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور سیکرٹری مولوی محمد الدین صاحب کو تجویز فرمایا۔ ملک غلام فرید صاحب مکرمی مولوی محمد الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو پریس سے رابطہ کے لئے مقرر فرمایا۔ ہندوستان میں سفر کی مفصل رپورٹ بھجوانے کا کام ابتدا ہی سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذمہ تھا جو وہ برابر سر انجام دے رہے تھے۔ ڈاک کی خدمت حافظ روشن علی صاحب‘چوہدری محمد شریف صاحب وکیل‘شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو اور ملاقات کی خدمت ذوالفقار علی خان صاحب‘چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے سپرد ہوئی۹۶۔ اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور چوہدری علی محمد صاحب کو خورد نوش کے انتظامات پر لگایا گیا۔ چوہدری علی محمد صاحب کو چونکہ اکثر حضور کی خدمت میں بھی حاضر رہنا پڑتا تھا اس لئے زیادہ ذمہ داری حضرت بھائی صاحب پر تھی۔ جو اپنی اصل ڈیوٹی کے علاوہ گاہے گاہے جماعت ہندوستان کو حالات سے باخبر رکھنے کے لئے خطوط بھی لکھتے تھے اور حضور کی ڈاک کے لئے بھی وقت دیتے تھے۹۷۔
انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ حضور نے قیام لندن کے پہلے ہفتہ میں ’’ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ اور اخبار ’’سٹار‘‘ کے نمائندوں کو انٹرویو دیا۔ ڈاکٹر عبدالمجید شاہ صاحب لاہوری اور مسٹر عبداللہ کوئلم (انگریز) کو شرف ملاقات بخشا اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال فرمایا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب کے ’’تصوف‘‘ کے مضمون پر نظر ثانی فرمائی اور ضروری ہدایات کے ساتھ مولوی محمد دین صاحب کو ترجمہ کے لئے دیا۔ یہ مضمون ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو مولوی محمد دین صاحب ہی نے پانچ بجے شام سر پیٹرک نگن کی صدارت میں سنایا اور بہت مقبول ہوا۹۸۔
اس ہفتہ حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہمراہ ویمبلے اور انڈیا آفس میں تشریف لے گئے۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ انگلستان نے اخبارات کے نمائندوں کو دعوت دی۔ جس میں مذاہب کانفرنس کی انتظامیہ کے بعض ممبر (کرنل ینگ ہسبینڈ اور مس شارپلز) بھی شریک ہوئے۔ اس دعوت میں حضور نے اہل انگلستان کے نام ایک مفصل پیغام دیا۔ جس کا فصیح و بلیغ انگریزی زبان میں فی البدیہہ انگریزی ترجمہ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا۹۹۔
فرمایا۔ میں اس محبت اور اس اخلاص کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے رکھتا ہوں اور جو میں سمجھتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی صحبت اور اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے انگلستان آیا ہوں۔ میں ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے کیں اس امر پر یقین رکھتا ہوں کہ مغرب جلد ان صداقتوں کو قبول کرے گا جو بانی سلسلہ احمدیہ جن کا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی اور کل مذاہب کے موعود ہونے کا تھا لائے تھے۔ جب وہ صرف اکیلے تھے اور انکے ساتھ کوئی نہ تھا بلکہ علاوہ ہندوئوں مسلمانوں اور مسیحیوں کے جو طبعاً ان کے مخالف تھے گورنمنٹ بھی ان پر مہدی کے دعویٰ کی وجہ سے شک کرتی تھی اس وقت انہوں نے یہ خبر دی تھی کہ خدا تعالیٰ ان کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور انگلستان میں خصوصاً اور دوسرے مغربی ممالک میں عموماً لوگ ان کے دعویٰ کو قبول کرکے اسلام میں جس کے زندہ کرنے اور ان غلطیوں سے پاک کرنے کے لئے جو اسے لوگوں کے اجتہاد کی وجہ سے اس میں پیدا ہو گئی تھیں جو خدا کے الہام سے مدد پا کر اس کو پیش نہیں کرتے تھے داخل ہو جائیں گے اس دعویٰ کو چونتیس سال گزرے اور آج دنیا کے پردہ پر ایک ملین کے قریب آدمی ان کو مانتا ہے اور یوروپین ممالک میں اور امریکہ میں بھی کئی لوگ ان پر ایمان لا چکے ہیں۔ پس ماضی پر نظر کرتے ہوئے میں یقین کرتا ہوں کہ بقیہ حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو کر رہے گا۔ اسلام یعنی وہ اسلام جسے مسیح موعود نے زندہ کیا ہے اور جو انسانی اجتہادوں سے پاک ہے آخر پھیلے گا اور انگلستان اس طرح ایک ایسے شخص سے نور پائے گا جو اس کے ماتحت ملک میں رہتا تھا جس طرح روم نے انیس سو سال پہلے اپنے ایک ماتحت ملک کے نبی سے نور پایا ہے۔ یہ امر مشکل معلوم ہوتا ہے مگر کون خیال کرتا تھا کہ ناصرہ کا مصلح دنیا پر غالب ہو گا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیتا ہے۔ جن کو دنیا ادنیٰ اور کمزور سمجھتی ہے تا اس کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اس کو انسانی مدد کا محتاج نہ سمجھ لیں میں اہل انگلستان سے امید کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے اس شخص کے دعویٰ پر غور کرے جو یہ کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سے اسی طرح بولتا تھا جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں سے بولا اور ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کی طرف توجہ کریں گے تو وہ اسی طرح خدا کا جلال اپنے اندر پائیں گے اور اس کا کلام سنیں گے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواریوں نے محسوس کیا اور سنا۔
مسیح موعود کا دعویٰ تھا کہ وہ صلح کے شہزادے ہیں اور یہ کہ ان کے ہاتھ پر دنیا اکٹھی کی جائے گی اور امن قائم ہو گا پس ہر اک امن پسند کا فرض ہے کہ وہ ان کے دعویٰ پر غور کرے تا اس کی سستی اس مقصد کو پیچھے نہ ڈال دے جس کے حصول کے لئے وہ کوشاں ہے۔ کوئی سچی اخوت قائم نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد خدا کے ساتھ تعلق پر نہ ہو کیونکہ بھائیوں کا رشتہ باپ کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو باپ کو پہچانتا ہے وہ باپ کے حق کو پہچان سکتا ہے اور اس زمانہ میں صرف مسیح موعود ہی ایک ایسا شخص ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ باپ سے اسی دنیا میں انسان کو ملا دیتا ہے اور نہ صرف دعویٰ کرتا ہے بلکہ ہزاروں جنہوں نے اس کی تعلیم پر عمل کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی طرح سنا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواری سنتے تھے چنانچہ راقم مضمون بھی ان میں سے ایک ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ انگلستان ہمارے مشن کی ہمدردانہ طور پر مدد کرے گا اور تمام وہ لوگ جو سچے طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کے مشتاق ہیں ملامت اور طعن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس طرف متوجہ ہوں گے اور انگلستان کا پریس جو آزادی کا حامل ہے اس حقیقی آزادی کے حصول میں جس کے بغیر بچے اپنے باپ سے نہیں مل سکتے ہماری مدد کریں گے۔ جو لوگ خیالات میں ہمارے مخالف ہیں کم سے کم ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا اور ان کا مقصد ایک ہے یعنی دنیا میں نیکی کو قائم کرنا اور خدا تعالیٰ سے انسان کا تعلق قائم کرکے سچی اخوت کو پیدا کرنا جس کا نتیجہ امن ہوتا ہے۔ جب ہم مقصد کی یگانگت پر غور کرکے اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں گے تو یقیناً یہ یگانگت ایک ذرائع کے اختیار کرنے پر بھی ہمیں مجبور کر دے گی۔
چونکہ ہمارا مقصد خدا اور بندوں کے درمیان اور بندوں اور بندوں کے درمیان نیک تعلق قائم کرنا ہے میں اہل انگلستان سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مشرقی سوال کی طرف زیادہ توجہ کریں۔ مشرق و مغرب باوجود کوشش کے روزبروز ایک دوسرے سے جدا ہو رہا ہے اور اگر جلد اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ دنیا کے لئے اچھا نہ ہو گا۔ عقلمندوں کو واقعات کی موجودہ صورت کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسے حالات جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں آخر کار کیا نتیجہ پیدا کیا کرتے ہیں قوموں کی زندگی محدود نہیں ہوتی اس لئے ان کو اپنے مستقل قریب پر نہیں بلکہ مستقبل بعید پر نظر ڈالنی چاہئے۔ دنیا اپنی موجودہ حالت پر ہرگز نہیں رہ سکتی اگر اس میں تبدیلی نہ ہوئی تو یا دونوں تہذیبیں نئی اور پرانی تباہ ہو جائیں گی یا ان میں سے ایک مگر کیوں نہ دونوں ہی قائم رہیں؟ ہمدردی اور دور اندیشی اس بعد کو دور کر سکتے ہیں مگر یہ کام حکومتوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ جب تک قومیں اس طرف توجہ نہ کریں گی یہ کام نہ ہو گا۔ وہ لوگ کوتہ اندیش ہیں جو اس کام کے لئے حکومتوں کی طرف دیکھتے میں حکومتیں خود نہیں ہلا کرتیں بلکہ قومیں ان کو ہلایا کرتی ہیں۔ ایک زبردست طاقت نے دنیا میں کام شروع کیا ہوا ہے کیوں نہ ہم اسے اپنے مفید مطلب استعمال کر لیں ایک دریا جب اس کے پانی کو استعمال کیا جائے لاکھوں ایکٹر کو سیراب کر دیتا ہے لیکن جب اس کو اپنا کام کرنے دیا جائے ہزاروں گائوں اور سینکٹروں جانوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ سو آئو ہم سب مل کر بہتری کے لئے کوشش کریں اور بجائے اجاڑنے والوں کے آباد کرنے والے بنیں۔
قیام لنڈن کا دوسرا ہفتہ ۲۹/ اگست سے ۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء تک
دوسرے ہفتہ میں حضور کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ جس کی بڑی وجہ کابل میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی سنگساری کا المناک حادثہ تھا۱۰۰۔ اس حادثہ کی اطلاع ملنے پر حضور نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری اور مناسب اقدامات فرمائے۔ اور اس کے لئے دن رات ایک کر دیا۱۰۱ اور یہ سلسلہ لنڈن میں قیام کے آخر تک برابر جاری رہا۔
اس کے علاوہ اس دوسرے ہفتہ میں حضور برائٹن کے قصبہ میں تشریف لے گئے اور جنگ عظیم میں جان دینے والے سپاہیوں کی یادگار میں چھتری میں دعا کی کہ جس طرح یہ ایک نشان ہے ان لوگوں کا جو ایک دنیاوی غرض کے لئے متحد ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی عظیم الشان چھتری کے نیچے مشرق و مغرب کو جمع کر دے۔ حضور نے دعا سے پہلے ایک تقریر بھی فرمائی۔ سینما والوں نے اس نظارہ کی تصویریں سینما میں دکھائیں اور اخبارات نے مفصل خبریں شائع کیں۔ حضور چھتری میں دعا کے بعد ایوان شاہی کو گئے اور اس کے دروازہ پر ایک ہجوم کے سامنے اپنا پیغام سنایا جس کا ترجمہ مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا۔ اسی ہفتہ آپ نے مسئلہ تبلیغ پر مجلس مشاورت منعقد فرمائی۔ ’’سپر چولزم سوسائٹی‘‘ کے ایک جلسہ میں شمولیت فرمائی اور مختلف اخبارات اور مذہبی کانفرنس کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ برائٹن کی یادگار تقریب کے قلمی نظارے دنیا بھر کے سینما گھروں میں دکھلائے گئے چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی رپورٹ میں ہے کہ ’’خدا تعالیٰ کی قدرتیں بھی عجیب درعجیب ہیں ساری دنیا میں سلسلہ احمدیہ کا ذکر پہنچانے کے لئے یہ سامان کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کو برائٹن میں دعوت دی گئی۔ حضور تشریف لے گئے اور سارا قافلہ ہمرکاب تھا ادھر فوٹو گرافروں کے دل میں تحریک ہوئی اور وہ وہاں جاپہنچے۔ انہوں نے وہ نظارے فلموں میں بھر کو سینما میں بھیج دئے۔ اب وہ فلمیں ہیں جو عراق عرب میں‘مصر میں شام میں امریکہ وافریقہ میں غرض تمام دنیا میں چکر لگا رہی ہیں‘‘۔۱۰۲۔
قیام لنڈن کا تیسرا ہفتہ ۵/ ستمبر تا ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء
حضور نے تیسرے ہفتہ میں بھی تبلیغ سلسلہ کی مہم اور تیز کر دی۔ چنانچہ ۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو بہت سے انگریز مردوں‘عورتوں ہندوستانی طالب علموں اور سفارت ترکیہ اور دوسرے معزز مسلمانوں کو دعوت پر بلایا گیا۔ جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور پیغام محبت حسب سابق مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت قابلیت سے پڑھ کر سنایا۱۰۳۔ ۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین‘‘ کے اجلاس (منعقدہ گلڈ ہائوس) میں پہلا انگریزی لیکچر دیا جو بہت پسند کیا گیا۱۰۴۔ پھر ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو قیام امن کے مسئلہ پر لیگ آف نیشنز کے شعبہ مذہب و اخلاق کے سیکرٹری مسٹر ایل سن اور مسٹر رین سے تفصیلی گفتگو فرمائی اور حکیمانہ انداز میں بتایا کہ جب تک اسلامی اصولوں پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد قائم نہیں ہو گی یہ اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی۱۰۵۔
قیام لنڈن کا چوتھا ہفتہ ۱۲/ ستمبر تا ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء
چوتھے ہفتہ کا آغاز جمعہ سے ہوا۔ جو حضور نے پڑھایا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ اسے شہید افغانستان کی طرح ہر وقت شہادت کے لئے تیار رہنا چاہئے۱۰۶۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے پورٹ سمتھ میں دو لیکچر دیئے ایک ’’مسیح کی آمد ثانی‘‘ اور دوسرا ’’پیغام آسمانی‘‘ پر ۱۵/ ستمبر کو حضور نے ہندوستانی طلبہ سے خطاب فرمایا]01 [p۱۰۷۔ ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے کانفرنس کے لئے مجوزہ مضمون کا خلاصہ لکھا۔ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کابل کی شہادت سے متعلق ایک احتجاجی جلسہ میں تقریر فرمائی۱۰۸۔
قیام لندن کا پانچواں ہفتہ ۱۹ سے ۲۵/ ستمبر تک
۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قومی اخلاق مضبوط کرنے پر زور دیا۔ جمعہ کے بعد ویمبلے کانفرنس کے پریذیڈنٹ سر ای۔ ڈی راس سے ملاقات کی۔ آپ کا شمار انگلستان کے نامور مستشرقین میں ہوتا ہے۔ مزاج پرسی کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کی تشریف آوری پر انگلستان کا پریس بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ اسی شام آپ نے سینٹ لوکس ہال میں ’’حیات بعد الموت‘‘ پر شاندار لیکچر دیا۔ ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لیگوس (نائجیریا) کے دو حاجی صاحبان (جن میں سے ایک احمدی تھے) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور کی کرنل ڈگلس سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہی ڈگلس تھے جنہوں نے ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ بے بنیاد پا کر خارج کر دیا تھا اور عدل و انصاف کا بہترین نمونہ دکھایا تھا۔ ۲۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ویمبلے کانفرنس کا افتتاح ہوا اور حضور معہ رفقاء اس کے اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے۔
کانفرنس میں حضور کے مضمون کی شاندار کامیابی
۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے۔ کیونکہ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضور کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا۔ جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا رویا پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا۔
حضور کے مضمون کا وقت ۵ بجے شام مقرر تھا جب کہ لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام۱۰۹ سے متعلق مضامین سن رہے تھے۔ انگلستان کے باشندے زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں مگر جونہی آپ کی تقریر کا وقت آیا وہ نہ صرف وہیں اپنی اپنی جگہ پورے شوق و ذوق سے بیٹھ گئے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے بھر گیا۔ کسی اور لیکچر کے وقت حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔
اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن نے حضور کا سامعین سے تعارف کرانے کے بعد نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محفوظ فرمائیں۔ اس پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی جو اپنے رفقاء کے ساتھ سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور انگریزی میں فرمایا۔ مسٹر پریذیڈنٹ بہنو اور بھائیو! میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کے بعد میں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں۔ میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پرچہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں۔ کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں۔ مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے۔
اس کے بعد حضور نے مکرم چودھری صاحب کے کان میں کہا کہ ’’گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا‘‘۔
چنانچہ مکرم چودھری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک گھنٹہ میں نہایت بلند اور نہایت موثر اور نہایت پرشوکت لہجہ میں یہ مضمون پڑھ کر سنایا۔ چودھری صاحب ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اللہ تعالیٰ نے روح القدس سے ان کی تائید فرمائی۔ حضرت امیر المومنین کا مضمون اور مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی زبان نے (جسے حضور نے ایک مجمع میں میری زبان کہا تھا۱۱۰) حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۱۱۱۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہوں۔ تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے۔ جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو ان کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے۔ غلامی‘سود‘اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا۔ تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تک تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ (سر تھیوڈر ماریسن) کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ تک انتظار کرنا۔
پریذیڈنٹ نے کہا۔ مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب‘خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے۔ کیا آپ کا خیال نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لئے جو آج آپ کو حاصل ہوئی ہے آپ یہاں تشریف لائے۱۱۲۔
اجلاس ختم ہونے پر سر تھیوڈر ماریسن دیر تک سٹیج پر کھڑے کھڑے مختلف باتیں کرتے رہے۔ اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے۔ مضمون کے پڑھنے پر لوگوں نے مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی بہت مبارکباد دی۔
چنانچہ (فری چرچ کے ہیڈ) ڈاکٹر والٹر واش نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔
میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سننے کا موقعہ ملا۔ قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے پھر کہا اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
ایک پادری منش نے کہا تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا ہے۱۱۳۔
مس شارپلز (کانفرنس کی سیکرٹری) نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے ہزہولی نس (خلیفتہ المسیح الثانی) کے متعلق کہا یہ اس زمانہ کا لوتھر معلوم ہوتا ہے بعض نے کہا ان کے سینہ میںں ایک آگ ہے۔ ایک نے کہا یہ تمام پرچوں سے بہتر پرچہ تھا۔
ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے۔ یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے۔
مسٹر لین نے جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدہدار تھے تسلیم کیا کہ خلیفتہ المسیح کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا۱۱۴۔
پریس نے بھی اس عظیم الشان لیکچر کی نمایاں خبریں شائع کیں اور اس کی عظمت کا اقرار کیا۔ چنانچہ ’’مانچسٹر گارڈین‘‘ نے (۲۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں) لکھا۔
’’اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا۔ نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس فرقہ کی بنا ان کے قول کے بموجب آج سے چونتیس سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے اس سلسلہ کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے۔ ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب ہزہولی نس خلیفتہ المسیح الحاج میرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصاراً خلیفتہ المسیح ہے مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی۔ جس کا عنوان ہے ’’اسلام میں احمدیہ تحریک‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ایک اور شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا ۔۔۔۔۔ آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی۔ ایک پرجوش اپیل کے ساتھ ختم کیا۔ جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور اس نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا۔ اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا‘‘۔ (ترجمہ۱۱۵)
قیام لنڈن کا چھٹا ہفتہ ۲۶/ ستمبر سے ۲/ اکتوبر تک
۲۶/ ستمبر کو حضور نے کنز رویٹو کی درخواست پر ڈچ ہال لنڈن میں ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع پر ایک معلومات افزا لیکچر دیا۱۱۶۔ ۲۸/ ستمبر کو آپ کا ایک اہم مضمون ’’رسول کریم~صل۱~ کی زندگی اور تعلیم سے نوجوان بچے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘ کے موضوع پر لنڈن فیلڈ میں پڑھا گیا۱۱۷۔ ۲۹/ ستمبر کو حضور کا بہت سا وقت ہندوستان کی ڈاک میں صرف ہوا۔ اسی ہفتہ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لنڈن سے شائع ہوا کرے۱۱۸۔
۲/ اکتوبر کو حضور نے ’’ولیم دی کنکرر‘‘ والی خواب کو پورا کرنے کے لئے خلیج میونسی پر پہنچے اور ایک کشتی لے کر اس مقام کی طرف تشریف لے گئے۔ جہاں ’’ولیم دی کنکرر‘‘ اترا تھا۔ حضور کشتی چھوڑ کر قریب ہی ایک مقام پر جس کا نام الیکرسی (لنگر گاہ) ہے۔ کھڑے ہوئے اور خواب کی طرح اسی شکل و ہیئت میں ایک لکڑی پر دایاں پائوں رکھ کر ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کی۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بیان ہے کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی اور اس کے ساتھ ایک ربودگی بھی تھی۔ اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آپ نے دعا فرمائی۔ اس مقام کے پاس ہی ویلٹائن نام ایک برج سا ہے جس پر ایک توپ رکھی ہوئی تھی۔ حضور نے نماز قصر کرکے پڑھی اور اس میں بھی لمبی دعا کی اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں اور فرمایا۔ کسریٰ کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو صحابی نے مبارک فال لیا کہ کسریٰ کا ملک مل گیا اور لے کر رخصت ہوا۔ شہنشاہ ایران نے آدمی بھیجے کہ وہ مٹی لے آئیں۔ مگر صحابی نے واپس نہ کی اور خدا نے بھی اس مبارک فال پر وہ سر زمین صحابہ کو دے دی۔ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور درد صاحب نے ان سنگریزوں کی دو دو مٹھیاں بھر کر اپنی جیبوں میں ڈال لیں۔ یہاں سے فارغ ہوتے ہی بھائی جی کے دل میں ایک پرزور تحریک ہوئی اور آپ نے باواز بلند مبارک باد دی اور بہت جوش سے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ مصرع پڑھا۔ ع
تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں۱۱۹؟
قیام لنڈن کا ساتواں ہفتہ ۳/ اکتوبر سے ۹/ اکتوبر تک
۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ۱۲۰ پڑھا اور کانفرنس مذاہب عالم کے آخری اجلاس سے اردو میں خطاب فرمایا۔ جس پر نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا گیا۔ لیکچر ہال بالکل پر تھا۱۲۱۔ نیز شام کو حضور نے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ لنڈن کی ترتیب مضامین اور دیگر امور پر مجلس شوریٰ منعقد فرمائی۔ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور مع رفقاء انگلستان کے نئے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو لے کر پٹنی کے اس مکان کے دروازہ پر تشریف لے گئے۔ جو مجوزہ مسجد میں کھلنے والا تھا۔ اس مقام پر کھڑے ہو کر حضور نے تعمیر مسجد کی سکیم کا مختصر ذکر فرمایا۔ پھر مکان کے اس کمرہ میں تشریف لے گئے۔ جہاں ان دنوں نمازیں ہوتی تھیں اور بہت لمبی دعا فرمائی اور اس کے بعد اپنے دست مبارک سے مولوی عبدلرحیم صاحب درد کو اس مکان کی چابی عطا فرمائی اور پھر مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ان کے نائب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کو مفصل ہدایات دیں4] ft[s۱۲۲۔ ۷/ اکتوبر کو حضور نے دارالامراء Lords( of )House کا اجلاس دیکھا اور ۸ اور ۹ اکتوبر کو دارالعوم commons( of )House کا اجلاس دیکھنے تشریف لے گئے۱۲۳۔
قیام لنڈن کا آٹھواں ہفتہ ۱۰/ اکتوبر سے ۱۶/ اکتوبر تک
یہ ہفتہ حضور کی گوناگوں مصروفیت کا ہفتہ تھا۔ چنانچہ حضور نے ۱۰/ اکتوبر کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۱۲۴ ارشاد فرمایا۔ ایک ڈاکٹر سے مشورہ کے لئے تشریف لے گئے۔ ۱۲/ اکتوبر کو نو مسلموں کو پانچ گھنٹہ تک تبلیغ و ہدایت فرمانے میں مصروف رہے نیز انگریز مردوں اور عورتوں سے مختلف مسائل سے متعلق دلچسپ مذہبی گفتگو فرمائی۱۲۵۔ چونکہ ۱۴/ اکتوبر کو سامان سفر تھامس کک اینڈ سنزsons( and cooks )Thomas کے سپرد کیا جانے والا تھا اس لئے ۱۳/ اکتوبر کا دن سامان کی تیاری میں گزرا۔ ۱۵/ اکتوبر کو حضور نے ’’اورینٹل سکول آف سٹڈیز‘‘ دیکھا۱۲۶۔
قیام لنڈن کا آخری ہفتہ ۱۷/ اکتوبر سے ۲۴ اکتوبر تک
اب ہم قیام انگلستان کے حالات بیان کرتے ہوئے اس کے آخری مگر اہم ہفتہ میں پہنچ گئے ہیں۔ اس ہفتہ کا آغاز ’’مسجد فضل‘‘ کی بنیاد کے ابتدائی انتظامات سے ہوا۔ اور اختتام رخت سفر باندھنے پر۔ اس طرح وہ دن آپہنچا جس کے انتظار میں آپ فرماتے ہیں۔ ~}~
آہ کیسی خوش گھڑی ہو گی کہ بانیل و مرام
باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں
’’مسجد فضل‘‘ کے سنگ بنیاد کا یادگار دن (۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
اس ہفتہ کا یادگار دن ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء ثابت ہوا۔ جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴ بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں ’’مسجد فضل‘‘ (۶۳ میلروز روڈ۔ لنڈن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۱۲۷۔
اس تقریب پر سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لنڈن مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے خوش آمدید کا مختصر ایڈریس پڑھا۔ جس کے بعد تمام حاضرین مقام بنیاد کی طرف گئے۔ جہاں پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحب نے تلاوت فرمائی۔ پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔
’’پیشتر اس کے کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف (جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں) متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی۔ دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی۔ اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کرکے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے‘‘۔
اس مضمون کے بعد (جس کا حاضرین پر ایک گہرا اثر تھا) حضرت خلیفتہ المسیح نے بنیادی پتھر رکھا جس پر انگریزی میں ایک مضمون درج تھا۔ جس کے الفاظ ہم حضرت خلیفتہ المسیح ہی کے خط کے عکس کی صورت میں اگلے صفحہ پر درج کرنے کے علاوہ ذیل میں بھی نقل کر دیتے ہیں۱۲۸۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر۔
قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔
میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو۔ اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے۔ اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ اس کے لئے اس مسجد کو نیکی‘تقویٰ‘انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبین~صل۱~ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلٰوہ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خدا تو ایسا ہی کر۔
۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء
لندن میں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تو مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بلند آواز سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک تار پڑھ کر سنایا جو انہوں نے جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اس تقریب پر مبارک باد کا بھیجا تھا۔ اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کی۔ پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضور نے اعلان فرمایا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب فوٹو گرافروں اور سینما والوں نے لئے۔ نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی اور مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا۔ اس کے بعد پورا مجمع خیمہ کی طرف چائے نوشی کے لئے آیا۱۲۹۔
اس مجمع میں مختلف قوموں کے ممتاز آدمی شامل تھے۔ مثلاً انگریز‘جرمن‘سردین‘ہنگری‘زیکو سلواکیا‘ایتھونیا‘مصری‘امریکن‘اٹالین‘جاپانی اور ہندوستان کے رہنے والے نیز مختلف مذاہب کے لوگ عیسائی‘مسلمان‘پارسی اور یہود بھی تھے۔ اگرچہ بارش کا دن تھا پھر بھی دو سو سے زیادہ معززین اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں جرمن سفیر‘ایتھونیا اور سرویا کے وزیر‘زیکو سلویا کا نمائندہ‘ترکی‘البانیہ اور فن لینڈ کے وزراء نے بذریعہ خطوط اچھی خواہشوں کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم انگلستان نے امام مسجد لنڈن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ افسوس میں اس دن لنڈن میں نہیں ہوں گا۔
اس تقریب پر آنے والے مہمانوں کو ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ وہ بہت دیر تک اس جگہ ٹھہرے رہے اور سلسلہ کے متعلق اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے۔ ورڈز ورتھ کے میئر نے کہا کہ کوئی مذہب جسے اس تقریر کے کسی حصہ پر بھی اعتراض ہو۔ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اور لکھنے والا فرشتہ اس کو دوام کی سیاہی میں ڈبوئی ہوئی قلموں کے ساتھ لکھے گا۔ زیکو سلویکا کے نمائندہ نے کہا کہ مجھے نہایت ہی خوشی ہے کہ مجھے ایسے خیالات پہلی دفعہ سننے کا موقعہ ملا ہے۱۳۰]ybod [tag۔
مسجد کے سنگ بنیاد پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ ’’ڈیلی کرانیکل‘‘ نے لکھا۔
’’ہز ہولی نس (یعنی تقدس ماب۔ ناقل) خلیفتہ المسیح نے جو اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں۔ کل ۱۹/ اکتوبر کو میلروز روڈ سائوتھ فیلڈز میں لنڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اس اصلاحی تحریک کے پیرو لندن میں ایک سو اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ فی الحال یہ ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے۔ اس تقریب پر جاپان اور جرمنی کے سفیر‘وینڈز ورتھ کے رئیس‘استھونیا کا وزیر اور ترکی اور البانیا کے نمائندے بھی شامل تھے۱۳۱۔ (ترجمہ)
۲۔ ’’ویسٹ منسٹر گزٹ‘‘ نے لکھا۔ ’’ایک مسجد جو لنڈن میں پہلی مسجد ہو گی۔ سوتھ فیلڈز میں تعمیر کی جائے گی۔ جس کا مینار ستر فٹ بلند ہو گا۔ جہاں سے ایک موذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا۔ سنگ بنیاد کل ایک باغیچہ میں رکھا گیا۔ پھلدار درختوں میں خوشبو کا نیلا نیلا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ گیلی زمین پر قالین بچھائے گئے۔ اور اس مجمع میں مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے۔ ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح نے یہ رسم ادا کی۔ آپ نے قرمزی رنگ کے کفوں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا اور ہاتھ میں ایک عصا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کا امام جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان میں ہے۔ آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھتا ہوں کہ لنڈن میں اس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور تاکہ اس ملک کے لوگ بھی ان برکات سے حصہ لیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تقریب تو انسان کی اخوت اور وحدت کا ایک نشان ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف رائے سے تفرقہ پیدا ہو۔ عرب کا مقدس نبی فرماتا ہے کہ اختلاف رائے رحمت کا ایک سرچشمہ ہے کیونکہ اس سے علم اور حکمت کی ترقی میں مدد ملتی ہے رواداری اور عالمی حوصلگی صرف اختلاف رائے کے مدرسہ میں سیکھی جا سکتی ہے۔
ہز ہولی نس کی رائے میں وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ جنگ کے خیالات کو ترک کر دیں گے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک ہی خالق کے بندہ ہو کر اتفاق سے زندگی بسر کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام مسجد مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جاویں گے ۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ جو کہ اسلام میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے۔ انگلستان کو ایشیا سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا۔ انگلستان میں یہ پہلی مسجد ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے مسٹر سی۔ ایچ اوشر مسجد کے انجینئر نے ہمارے نامہ نگار سے بیان کیا کہ وہ ایک وقت سلطان مراکش کے انجینئر تھے اس کی عمارت اپنی شکل میں شرقی طرز کی ہو گی یہ سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی جنکا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ وہ مذہبی جنگوں کے خلاف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا سلسلہ دنیا کو نبی عربی ~(صل۱)~ کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے‘‘۱۳۲۔
‏rov.5.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
لنڈن سے روانگی اور بمبئی میں درود
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لنڈن میں پہلا جمعہ پڑھایا۱۳۳۔ اور لنڈن سے روانگی سے پہلے حضور نے فرمایا۔ میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا۔ دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو دیکھ نہیں سکتا‘‘۱۳۴۔
حضور ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو لندن سے روانہ ہوئے۔
واٹرلو اسٹیشن پر (جہاں سے حضور مع خدام گاڑی پر سوار ہوئے) بہت سے یورپین مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہندوستانی اور افریقن لوگ بھی الوداع کرنے کے لئے موجود تھے۔ نہایت محبت آمیز مصافحوں کے بعد ہر ایک نے خدا حافظ کہا اور فوٹو گرافروں نے فوٹو لئے۔ لنڈن سے گاڑی سائوتھ پٹن پہنچی۔ جہاں سے حضور معہ رفقاء نے رات کے بارہ بجے بحری جہاز سے رودبار انگلستان عبور کی اور ۲۶/ اکتوبر کو ساڑھے آٹھ بجے کی گاڑی سے سوار ہو کر پیرس پہنچے۔ پیرس میں حضور کا قیام بہت مختصر تھا جو بہت کامیاب رہا۔ روزانہ اخبارات کے نمائندے ملاقات کے لئے آئے۔ پیرس کی سرکاری نو تعمیر مسجد میں پہلی نماز حضور نے پڑھائی۔ پریس کے نمائندوں اور سینما کی کمپنیوں نے فوٹو لئے جو روزانہ اخبارات میں شائع ہوئے]01 [p۱۳۵۔
حضور ۳۱/ اکتوبر کو پیرس سے روانہ ہوئے۔ ۲/ نومبر کی رات کو وینس (اٹلی) سے جہاز پر سوار ہو کر۱۳۶ ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی کے ساحل پر اترے۔ جماعت احمدیہ کے قریباً دو سو نمائندوں نے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے تشریف لائے تھے۔ حضور کا نہایت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور پریس کے نمائندوں نے فوٹو لئے۔ ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے تمام جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے حضور کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ یہاں سے حضور لیاقت منزل میں پہنچے اور جناب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں فروکش ہوئے۱۳۷۔ بمبئی کے تمام اخبارات کے نمائندوں نے حضور سے سفر یورپ کے حالات دریافت کرنے کے لئے ملاقات اور گفتگو کی۱۳۸`۱۳۹۔
بمبئی میں بخیر و عافیت پہنچنے پر حضور نے جماعت احمدیہ کے نام برقی پیغام ارسال فرمایا کہ۔
’’میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء سفر کی طرف سے تمام احباب جماعت کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے دعائیں کیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز کامیابی جو ہمیں اس سفر کے دوران میں حاصل ہوئی محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وجہ سے تھی۔ اس نے ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی اور ہمارے لئے ایسے اوقات میں دروازے کھولے جب کہ ہمیں کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا۔ میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے اس خاص فضل کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو ان بڑی قربانیوں کے لئے تیار کریں جو انہیں ان اثمار کے حاصل کرنے کے لئے کرنی پڑیں گی۔ جو گزشتہ چار ماہ کے کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی برکات نازل فرمائے‘‘۱۴۰۔
بمبئی سے بٹالہ تک
حضور ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے بی بی اینڈ سی آئی ریلوے کے ذریعہ روانہ ہو کر اگلے دن ۲۱/ نومبر ۱۹۲۴ء کو آگرہ پہنچے۔ آگرہ آتے ہوئے آپ نے اکرن کا مشہور مقام دیکھا جو مائی جمیا کا گائوں اور جماعت احمدیہ کے معرکہ جہاد کا اہم میدان رہا ہے۔ آگرہ اسٹیشن پر آپ کا مخلصانہ استقبال کیا گیا۔ مرزا عرفان علی بیگ صاحب نے آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے۱۴۱4] ft[r۔
صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی امیر المجاہدین آگرہ کی طرف سے اخبار الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ورود آگرہ میں
۲۱/ نومبر بوقت ۸/ بجے شام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مع خدام آگرہ فورٹ پر گاڑی سے اترے جہاں سلسلہ احمدیہ کے قریباً ایک سو قائمقاموں نے جو یو پی کے مختلف مقامات سے جمع ہوئے تھے مع چند رئوساء قریباً چالیس غیر احمدی پنجابی تاجروں کے استقبال کیا۔ حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ حضور نے سب لوگوں کو مصافحہ سے مشرف کیا۔ پھر مع خدام الاحمدیہ دارالتبلیغ میں تشریف لائے۔ آتے ہی حضور نے نمازیں ادا کیں اور علاقہ مین پوری کے چند مہمانوں کی بیعت لی۔ پھر کھانا تناول فرمایا ور مجاہدین و جماعت احمدیہ آگرہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے اپنی کامیابی کو محض فضل الٰہی سے ثابت کرتے ہوئے جماعت کو آئندہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی اور مزید قربانیوں کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔ اگلی صبح حضور کا مع خدام فوٹو لیا گیا اور موٹر پر تاج محل کو دیکھتے ہوئے موضع ساندھن تشریف لے گئے‘‘۔
۲۲/ نومبر کو حضور ملکانہ تبلیغ کا بہت بڑا مرکز ساندھن دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہاں کل انتظام ملکانوں نے کیا تھا۔ بڑے شاندار دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے ایک پر ’’غلام احمد کی جے‘‘ کا فقرہ لکھا ہوا تھا۔ حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا۔ جس کا حضور نے جواب دیا۔ پھر بہت سے لوگوں نے بیعت کی۔ ساندھن سے روانہ ہو کر حضور اچھنیرہ اسٹیشن سے سوار ہوئے اور اسی رات دہلی پہنچے۔ دہلی اسٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا۔ یہاں تک کہ چلنا مشکل ہو گیا۔ دہلی اور شملہ کی جماعتوں نے ایڈریس پیش کیا۔ جس کا حضور نے جواب دیا اور ۲۳/ نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہو کر انبالہ پہنچے اور انبالہ سے بٹالہ روانہ ہوئے۔
تمام درمیانی اسٹیشنوں پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں نے آکر شرف ملاقات حاصل کیا۔ انبالہ کے اسٹیشن پر جماعت انبالہ کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ راجپورہ کے اسٹیشن پر ریاست پٹیالہ‘سرہند‘نابھہ اور بسی وغیرہ کی جماعتیں موجود تھیں۔ چاوا اور دوراہا کے اسٹیشنوں پر غوث گڑھ کی جماعت موجود تھی چاوا پر گاڑی اسٹیشن سے آگے نکل آئی تھی مگر اسٹیشن پر جماعت دکھائی دی۔ اس لئے گاڑی رکوائی گئی اور حضور کچھ دور پیدل چل کر اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا۔
لدھیانہ اسٹیشن پر قابل دید منظر تھا۔ تمام جماعتیں جو ضلع لدھیانہ اور فیروزپور اور مالیر کوٹلہ سے آئی ہوئی تھیں۔ ایک خاص ترتیب سے صف بستہ کھڑی تھیں۔ شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری جماعت لدھیانہ نے ایڈریس پڑھا۔ جس کا حضور نے جواب دیا۔ لدھیانہ کے بعد گاڑی جالندھر چھائونی پر ٹھہری۔ جہاں ضلع جالندھر‘ہوشیار پور اور کپورتھلہ کی جماعت کے نمائندے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ نے ایڈریس پڑھا پھر گاڑی جالندھر اور بیاس اسٹیشنوں پر مختصر قیام کرتی ہوئی امرتسر پہنچی جہاں پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ جماعت احمدیہ کا مبارکباد اور خیر مقدم کا بلند جھنڈا لہرا رہا تھا۔ قریشی محمد حسین صاحب (موجد مفرح عنبری) قائم مقام امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایڈریس پڑھا اور حضور نے اس کا جواب دیا۔ جماعت امرتسر کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا گاڑی ۱۱ بجے بٹالہ پہنچی۔
جماعت قادیان کی طرف سے بٹالہ میں حضور کے استقبال و قیام کے انتظام کے لئے احباب موجود تھے۔ حضور نے رات بٹالہ میں قیام فرمایا اور ۲۴/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بروز ’’دو شنبہ مبارک دو شنبہ‘‘ بٹالہ سے بذریعہ موٹر قادیان کے لئے روانہ ہوئے۔
قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت شاندار پرجوش اور پر اخلاص استقبال
ادھر حضور روانہ ہوئے ادھر قادیان کے سب چھوٹے بڑے اس مقام کی طرف جانے شروع ہو گئے جو استقبالیہ کمیٹی نے قادیان اور
بٹالہ کی سڑکوں کے مقام اتصال پر کنوئیں کے پاس مقرر کیا تھا۔ یہ جگہ شامیانے لگا کر قطعات اور رنگ برنگ جھنڈیوں سے سجا کر نہایت خوبصورت بنائی گئی تھی۔ بیٹھنے کے لئے بینچ رکھے گئے تھے اور سڑک پر بہت خوبصورت دروازہ بنایا گیا جس پر اھلا و سھلا و مرحبا کے علاوہ دوسرے قطعات بھی آویزاں تھے۔ حضور کی تشریف آوری سے قبل بہت بڑا مجمع ہو گیا جس میں قادیان اور بیرونی جماعت کے احمدیوں کے علاوہ قادیان کے غیر احمدی آریہ اور سکھ اصحاب بھی تھے۔ منتظمین نے نہایت عمدگی سے تمام اصحاب ایک ترتیب کے ساتھ سڑک سے لے کر شامیانے تک کھڑے کر دیئے سب سے آگے حضرت مولوی شیر علی صاحب‘حضرت میر محمد اسحق صاحب اور خاندان مسیح موعودؑ کے افراد کھڑے تھے۔
اس وقت ہر فرد ہمہ تن چشم انتظار بن کر سڑک کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا کہ دور سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر نظر آئی اور سب کے چہرے خوشی اور مسرت سے کھل گئے۔ ہر ایک کا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر سب سے پہلے اپنے محبوب آقا کے پاس پہنچے اور زیارت کرے۔ لیکن انتظام کی پابندی کی وجہ سے مجبور تھے۔ حضور بھی اپنے خدام کے وفور شوق کو جانتے تھے۔ اس لئے حضور نے بھی انتظام کی پابندی کرانے کے لئے کہلا بھیجا کہ ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ کھڑا رہے۔ اپنی جگہ چھوڑ دینے والے سے مصافحہ نہیں کیا جائے گا۔
یہ ارشاد پہنچ جانے کے بعد حضور کی موٹر آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ موٹر پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا جو چودھری علی محمد صاحب پکڑے ہوئے تھے۔ جب حضور دروازہ کے پاس پہنچے تو پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے مصافحہ ومعانقہ کیا اس کے بعد حضور نے بہت دیر تک باری باری تمام مجمع سے مصافحہ کیا جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو حضور نے آگے بڑھ کر حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کو گلے لگا لیا اور دیر تک معانقہ فرمایا۔ اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ آپ کے بعد حضور نے حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سے معانقہ فرمایا اور پھر تمام مجمع کے ساتھ دعا فرمائی اور اپنے رفقاء سمیت قادیان کی طرف پیدل ہی چل دیئے۔ اس وقت ایک عظیم الشان ہجوم ساتھ تھا۔
حضور قصبہ میں داخل ہونے سے پہلے باغ میں پہنچے۔ اس وقت پھولوں کے بہت سے ہار حضور کے گلے میں تھے۔ حضور نے اس موقعہ پر فرمایا اگر یہ جائز ہوتا۔ تو میں سارے پھول حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر چڑھا دیتا کیونکہ یہ فتوحات کا نشان آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کے ذریعہ حاصل ہوا ہے۔ اس کے بعد حضور نے مقبرہ بہشتی کے پاس پہنچ کر مٹی کے لوٹے سے پانی پیا۔ پھر وضو کیا اور مزار مسیح موعودؑ پر اکیلے دعا کرنے کو تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد حضور نے اپنے رفقاء سفر بھی پاس بلائے۔ پھر سب نے مل کر دعا کی۔ دعا کرنے کے بعد حضور نے اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی قبر پر کھڑے ہو کر (جو آپ کے اس سفر کے دوران انتقال فرما گئے تھے) نماز جنازہ پڑھی۔
مقبرہ بہشتی سے قصبہ میں داخل ہونے لگے تو حضور نے فرمایا۔ حافظ روشن علی صاحب داخلہ شہر کی دعا پڑھیں گے۔ سب دوست اسے بلند آواز سے دہراتے جائیں۔ اس پر حافظ صاحب دعا کا لفظ لفظ بلند آواز سے پڑھتے اور سارا مجمع اسے دہراتا۔ دعا یہ تھی۔
آئبون تائبون عابدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ۔
حضور میاں محمد اسمعیل صاحب و میاں محمد عبداللہ صاحب جلد ساز ان کے مکان سے متصل راستے میں سے گزرتے ہوئے مہمان خانہ کے قریب پہنچے۔ جہاں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے خیر مقدم کیا۔ یہاں نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے فرزند میاں عباس احمد صاحب اونچے چبوترے پر بٹھائے گئے تھے۔ جن کی طرف سے حضرت میر محمد اسحق صاحب نے ایک نان حضور کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ ’’یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے‘‘۔ حضور نے نان لیا اور اپنے رفقاء میں تقسیم کر دیا۱۴۲۔ اس کے بعد جلوس پھر بلند آواز سے حمد کا یہ ترانہ پڑھتا ہوا۔ آگے بڑھا۔ مدرسہ احمدیہ کی طرف سے سکول کے دروازوں کے قریب خیر مقدم اور خوش آمدید کے رنگین اور سنہری قطعے آویزاں تھے۔
احمدیہ چوک میں پہنچ کر حضور نے سارے مجمع سمیت واپسی کی دعا پڑھی۔ اس وقت کا نظارہ نہایت ہی رقت آمیز اور موثر تھا خود حضور کی آواز میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور حاضرین بھی فرط مسرت سے رو رہے تھے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ اس رقت انگیز حالت میں حضور نے ڈبڈبائی آنکھوں اور دردناک لہجہ میں فرمایا۔
’’دیکھو رسول کریم~صل۱~ کی یہ دعا کیسی لطیف ہے جس کا نظارہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہی جگہ یہی مقام اور یہی گھر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو آپ اکیلے اور تنہا تھے۔ کوئی ساتھی اور مددگار نہ تھا۔ اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ نعوذ باللہ یہ فریبی ہے یہ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور دشمن کہتے کہ ہم اسے کیڑے کی طرح مسل دیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی تائید اور نصرت کی اور آج اسی کمند میں جکڑے ہوئے ہم اس قدر لوگ یہاں جمع ہیں آپ ہی کے طفیل ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی۔ اسی کے ذریعہ اور اسی کے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عزتیں دیں جو درحقیقت اس کے لئے آئیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں ان انعامات کا وارث بنایا جن کا وعدہ آپ سے کیا گیا اور اگر حقیقت اور سچائی کو مدنظر رکھا جائے تو سچ ہے کہ ساری بڑائیاں حضرت مسیح موعودؑ کے لئے ہیں۔ محمد~صل۱~ کے لئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے ہیں‘‘۔
یہ الفاظ فرمانے کے بعد حضور اس دروازہ میں سے گزر کر جو مسجد مبارک کے نیچے نہایت خوبصورتی کے ساتھ بنایا اور بیل بوٹوں سے سجایا گیا تھا۔ مسقف گلی میں سے ہو کر سیڑھیوں سے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے اور مسجد کے اس حصہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسجد تھی۔ حضور نے باجماعت دو رکعت نفل اپنے رفقاء سمیت ادا فرمائے۔ نماز کے بعد حضور مجمع کو السلام علیکم کہہ کر اپنے گھر دارالمسیح میں تشریف لے گئے۱۴۳۔
اس طرح حضور کا یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً چار ماہ پہلے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو شروع ہوا تھا ۲۴/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا اور آپ یورپ کے لمبے اور طویل سفر سے کامیاب و کامران فتح مندی و کامرانی کا جھنڈا لہراتے ہوئے قادیان کی مقدس سرزمین میں رونق افروز ہوئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے اپنے رفقاء سفر اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کا شکریہ اور تحریک دعا
اسی روز حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اہل قادیان کی طرف سے نماز عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں سپاسنامہ پیش کیا۔ جس کے جواب میں حضور نے سفر میں خدا تعالیٰ کی بے نظیر تائیدات
پر روشنی ڈالی اور آخر میں اپنے رفقاء سفر اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’آخر میں مضمون ختم کرنے سے پہلے میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے کام کیا۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوئی ہیں۔ میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی سی ہے جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پر جوش بنانے کے لئے ہوتی ہے۔ مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں خصوصاً اس لئے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا۔ جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے نہ اپنے آرام کا اسے خیال آئے نہ وقت بے وقت دیکھے۔ جب اس طرح کام لیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کا ہاتھ پائوں بھی پھول جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی جائیں پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر خصوصیت سے جماعت کی دعائوں اور شکریہ کے مستحق ہیں واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کی وجہ سے بھی سلسلہ کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ برادرانہ حسن سلوک کے خلاف ہو گا اگر میں اس پہلے موقعہ پر جو مجھے اظہار خیالات کا اس سفر کے بعد ملا ہے ان کی خدمات کا اظہار نہ کروں‘‘۱۴۴۔
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب
حضرت مصلح موعود نے ۱۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو خان بہادر آصف زمان صاحب آف پیلی بھیت کے نام سے حسب ذیل مکتوب سپرد قلم فرمایا۔
۱۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء
مکرمی شیخ صاحب
السلام علیکم۔ آپ کا خط مورخہ گیارہ ستمبر ملا۔ سفر کے حالات پر ہندوستان کے اخبار ہی حواس باختہ نہی خود ہمارے لوگ جو اس ملک کے حالات سے واقف ہیں حیران ہیں پرانے پرانے رہنے والے اقرار کرتے ہیں کہ جس قدر ملک میں ہماری آمد پر شور ہوا ہے کسی بادشاہ کے آنے پر بھی پریس نے اس قدر نوٹس نہیں لیا۔ یہاں کا پریس اپنے آپ کو سب سے اوپر خیال کرتا ہے اور پھر اس قدر بدلنے والا ہے کہ ایک دن لکھ کر دوسرے دن لکھنا اپنی ہتک خیال کرتا ہے مگر ہمارے متعلق کوئی ساٹھ ستر اخبارات نے نوٹس لیا ہے اور بعض نے چھ چھ سات سات دفع لکھا ہے۔ لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہا آخری دن برکت دینے کی درخواست بھی مجھی سے کی گئی۔ لوگ کثرت سے سلسلہ کے حالات سے واقفیت کی طرف متوجہ ہیں آج ہی ایک شخص انگلستان کے ایک اور علاقے سے ملنے آیا ہوا تھا ایک مشہور سوسائٹی کا سیکرٹری ہے صرف ملنے کے لئے آیا تھا۔ اس سوسائٹی کی مختلف ممالک میں شاخیں ہیں اور کئی ممبر پارلیمنٹ اس میں شامل ہیں جنگ کے خلاف سوسائٹی ہے۔
لڑکے کی پیدائش مبارک ہو۔ خدا تعالیٰ اسے خاندان کے لئے بھی بابرکت کرے اور خود اسے بھی صاحب فضل بنائے نام حمید زمان رکھیں اور اگر یہ نام پہلے کسی لڑکے یا اور رشتہ دار کا ہو تو ناصر زمان۔
میری صحت بالکل خراب ہو گئی ہے آنکھیں بہت کمزور ہو گئی ہیں بظاہر پچھلے چھ ماہ سے متواتر کام نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر لمبے اور فوری آرام کا مشورہ دیتے ہیں مگر سردست یہ میسر ہوتا نظر نہیں آتا۔
و علی اللہ التوکل
خاکسار
مرزا محمود احمد
ویمبلے کانفرنس لندن کی رپورٹ
’’ویمبلے کانفرنس لندن‘‘ کی مفصل رپورٹ جس میں دوسرے مضامین کے علاوہ حضور کا مضمون بھی شامل تھا ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی جس کے دیباچہ میں صدر انتظامیہ کانفرنس مذاہب لنڈن ڈینی سن راس Ross( )Denison نے لکھا۔
’’جیسا کہ ہمیں پہلے ہی علم تھا کہ لنڈن میں ان تمام مدعووین کی حاضری ممکن نہیں تھی جنہیں ہم نے کانفرنس میں مضمون پڑھنے کے لئے دعوت دے رکھی تھی لیکن بیرون سے اس کا جواب حوصلہ افزاء تھا۔ چنانچہ ہم خلیفتہ المسیح امام جماعت احمدیہ کے خاص طور پر ممنون ہیں کہ آپ نے اپنے ارادہ سے فوراً آگاہ فرما دیا کہ آپ اپنے چند رفقاء سمیت خاص طور پر کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ کی اس قابل ذکر مستعدی کی اخبارات میں کافی اشاعت ہوئی اور آپ کا یہ کار عظیم ہماری کانفرنس کے لئے خاص دلچسپی کے پیدا کرنے کا موجب ہوا۔
کانفرنس کے دوران بہت سی استقبالیہ دعوتیں منعقد ہوئیں۔ ایک تو لیڈی بلام فیلڈ field( )Blom کی طرف سے ()Claridgen( ہوٹل میں وقوع پذیر ہوئی اور دوسری رٹز )Ritz( ہوٹل میں مکرم اے آر درد کی طرف سے۔ تاکہ احمدیہ جماعت کے امام سے ملاقات اور تعارف ہو سکے۔ جو گروپ فوٹو وہاں لئے گئے وہ اپنے اندر ان اجتماعات کے وسیع المشرب اور صلح کل ہونے پر واقعاتی شہادت ہیں۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مضمون پڑھنے والوں میں سے خاص تعداد کو پلیٹ فارم پر بلایا گیا۔ چند مختصر لیکچر دیئے گئے۔ جن میں کانفرنس کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ ان میں سے ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح کا نہایت شاندر لیکچر اردو زبان میں تھا۔
قرآن مجید کی آیات کی تلاوت بھی کی گئی جو کہ ووکنگ مسجد کے مفتی اور ہمارے مہمان صوفی روشن علی صاحب آف رنمل نے کی۔ (ترجمہ انگریزی)
’’(ریویو آف ریلیجنز‘‘ آف دی ایمپائر صفحہ ۵۔ ۶)
سیکرٹری ویمبلے کانفرنس کے نام مکتوب
(حضرت امتہ الحی صاحبہؓ کی وفات پر ویمبلے کانفرنس کی سیکرٹری مس شارپلز9] [p Sharples( M۔)M نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تعزیت نامہ لکھا جس کے جواب میں حضور نے وسط ۱۹۲۵ء میں ایک اہم مکتوب لکھا۔ جس کا وہ حصہ جو حضور کی مقدس زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ درج ذیل کیا جاتا ہے)
’’مکرمہ! مجھے افسوس ہے کہ بوجہ ماہ رمضان کے آجانے کے میں آپ کے خط کا جلد جواب نہ دے سکا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا اور میرے ساتھیوں کا دل اس محبت اور ہمدردی کے شکریہ سے لبریز ہے جس سے آپ ہماری پارٹی سے پیش آئیں اور ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ میں اس ہمدردی کا بھی شکر گزار ہوں جس کا اظہار آپ نے میری پیاری بیوی کی وفات کے متعلق کیا ہے۔ میری مرحومہ بیوی ایسا علمی مذاق رکھتی تھیں اور میری تسلی کا ایسا موجب تھیں کہ ان کی وفات میرے لئے نہایت تکلیف کا موجب تھی اور اس وجہ سے میں آپ کی ہمدردی کا اور بھی زیادہ ممنون ہوں۔ گو مجھے اللہ تعالیٰ نے میرے ولایت کے سفر سے پہلے ہی اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی اور میں نے شائع بھی کر دیا تھا کہ میرے اہل کے متعلق ایک سخت حادثہ پیش آنے والا ہے مگر میرے قومی فرائض مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں اپنے ذاتی احساسات کو سلسلہ کے مفاد پر قربان کر دوں۔ لیکن باوجود اس کے کہ اس حادثہ کے متعلق ایک حد تک پہلے سے علم تھا پھر بھی یہ واقعہ میرے سفر سے واپسی کے اس قدر قریب ہوا کہ قدرتاً اس کی تکلیف زیادہ محسوس ہوئی لیکن میں اللہ تعالیٰ کی قضا پر خوش ہوں اور کوئی تکلیف مجھے اس کے دین کی خدمت سے غافل نہیں کر سکتی۔ (انشاء اللہ) ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ میں مرحومہ کو یاد نہ کرتا ہوں اور اس کے لئے دعا نہ کرتا ہوں۔ لیکن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھتا ہوں کہ میرا دل خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ تیار ہے میں مرحومہ کو بھولنا پسند نہیں کرتا گویا درفتگان ہمیشہ غمگین رہنے والی ہوتی ہے کیونکہ میرے نزدیک ایک وفادار بیوی سے ادنیٰ وفاداری ہم یہ کر سکتے ہیں کہ باوجود تکلیف کے ہم اس کی یاد کو تازہ رکھیں تا اس کے لئے دعا کرتے رہیں‘‘۔
‏rov.5.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل دوم)
سفر یورپ کے تفصیلی حالات فصل اول میں بیان ہو چکے ہیں۔ اب ۱۹۲۴ء کے بقیہ واقعات فصل دوم میں درج کئے جاتے ہیں۔
امریکہ کے مستشرق پادری زویمر قادیان میں
امریکہ کے مشہور و معروف مستشرق زویمر مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے ۲۸/ مئی ۱۹۲۴ء کو قادیان آئے۔ آپ نے مرکزی ادارے دیکھنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر لینے کے بعد رخصت ہوئے۱۴۵۔ اور امریکہ پہنچ کر ایک سرکلر خط شائع کیا۔ جس میں عیسائی دنیا سے اپیل کی کہ اسے جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے خاص تیاری کرنی چاہئے۔ کیونکہ ’’جدید اسلام‘‘ جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ و امریکہ میں مضبوط ہو رہا ہے۱۴۶۔
پادری زومیر نے چرچ مشنری ریویو لنڈن میں ’’ہندوستان میں اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا اور اس میں اپنی آمد قادیان کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا۔
’’ہمارا استقبال نہایت گرم جوشی کے ساتھ کیا گیا۔ درحقیقت انہوں نے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن۱۴۷ پر ہمیں لانے کے لئے آدمی بھیجا (مگر ہم دوسرے رستہ آگئے اور ہمیں گھنٹوں کی بجائے دنوں تک قادیان میں ٹھہرنے کی دعوت دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے نہ صرف رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور رسائل بھی نکلتے ہیں اور لندن‘پیرس‘برلن‘شکاگو‘سنگاپور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان۔ مختلف قسم کی انسائیکلو پیڈیا ڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے۔ جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے‘‘۱۴۸۔ (ترجمہ)
حادثہ بھیرہ
وسط جولائی ۱۹۲۴ء میں جماعت احمدیہ بھیرہ ایک خطرناک ابتلا میں مبتلا ہو گئی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے احمدیت کے خلاف مسلسل اشتعال پھیلا کر شہر کی فضا مکدر کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدیوں نے احمدیوں کے خلاف بلوہ کر دیا۔ جس میں خود غیر احمدی اصحاب کے ہاتھوں ان ہی کے ایک ساتھی مارے گئے۔ جس پر بائیس بے گناہ احمدی حوالات میں دے دیئے گئے۱۴۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اس حادثہ کا علم ہوا تو حضور نے بذریعہ تار مولوی شیر علی صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ’’یہ حادثہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہم ہے سلسلہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے اپنے طور پر تحقیقات کریں اگر اس میں احمدیوں کا قصور نکلے تو ان کو تنبیہہ کی جانی چاہئے اور جو شخص یا اشخاص اس فساد کے اصل بانی ہوں ان کا مقاطعہ کرنے کے متعلق میرے پاس رپورٹ آنی چاہئے۔ لیکن اگر وہ مظلوم ہوں تو انہیں اپنے سلسلہ کا احترام قائم رکھنے کے لئے ہر طرح سے پوری امداد دینی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ بھیرہ کے احمدیوں کو ہدایت کر دی جائے کہ وہ اپنے تمام بیانات وغیرہ میں صداقت اور محض صداقت کو اختیار کریں‘‘۱۵۰۔
اس ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب‘مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی فضل الٰہی صاحب نے نہایت محنت سے تحقیقات کرکے مفصل رپورٹ دی کہ بھیرہ کے احمدی مدتوں کی دشمنی اور ایک مولوی صاحب کے اشتعال کا شکار ہوئے ہیں۱۵۱۔
دارالتبلیغ ایران
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔ آپ کے ہمراہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے۔ جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر تھے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد میں پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے طہران (دارالخلافہ ایران) میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دارالتبلیغ قائم کیا۔
حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے۔ مگر اخراجات یہاں آکر ختم ہو گئے۔ پیچھے کوئی جائیداد تھی نہیں۔ مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو دی نہیں جاتی تھی۔ اس لئیے آخر عمر میں بعض اوقات اپنے زائد کپڑے فروخت کرکے گزارہ کرتے تھے۔ اور جیسا کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے آپ معمولی سی صف اور نہایت مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے۔ یہاں تک نوبت آجاتی کہ کپڑے دھونے کے لئے خرچ باقی نہ رہتا۱۵۲۔ بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنا عہد نبھایا اور اپنی بے نفس خدمات سے باقاعدہ جماعت قائم کر دی۱۵۳۔ ۲۲/ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں انتقال فرما گئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کی وفات پر فرمایا۔
’’شہزادہ عبدالمجید صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔ افغانستانن کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے۔ آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا۔ انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا۔ رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا۔ وہ ان کے پاس تھا۔ اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جائوں گا۔ اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے۔ مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے۔ ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی۔ مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نہ معلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے پھر مجھے اتفاقاً پتہ لگا۔ ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں ¶تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا۔ اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا۔ اس وقت پوچھ لیا جاتا تھا کہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں۔ پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی۔ وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں۔ ابھی پرسوں اترسوں۱۵۴ اطلاع ملی ہے کہ آپ یکم رمضان (۱۳۴۶ھ) کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا۔ آخری دن بہت تیز بخار ہو گیا۔ جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو۔ دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے۔ سحری کے وقت آپ نے ایک دو دفعہ پانی مانگا تیماردار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے۔ جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوب انصاری دفن ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی۔‘‘۱۵۵
حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب تہران کے جنوبی طرف شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں دفن کئے گئے۔ ۱۹۵۳ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد یہ قبرستان ہموار کرکے اس پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں اور اس کا ظاہری نشان بھی مٹ گیا۔
حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحبؓ کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین ایران تشریف لے گئے۔
(۱) حضرت میر مہدی حسین صاحب (۲) حضرت بابو فقیر علی صاحب (۳) شیخ عبدالواحد صاحب (۴) مولوی صدر الدین صاحب (۵) مولوی عبدالخالق صاحب۔
اول الذکر دونوں بزرگ آنریری مبلغ تھے اور موخر الذکر تحریک جدید کے مبلغ جو ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۵ء کے عرصہ میں بالترتیب ایران گئے اور مصروف تبلیغ رہے۔
دارالتبلیغ ایران کی طرف سے مندرجہ ذیل فارسی لٹریچر اب تک شائع ہو چکا ہے۔
’’فلسفہ اصول اسلام‘‘۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا ترجمہ (از حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسمل و چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات) ترجمہ براہین احمدیہ جلد اول۔ (از مولوی صدر دین صاحب فاضل) ’’گلدستہ بہار‘‘۔ (حضرت مسیح موعودؑ کے کلام فارسی و عربی کا انتخاب۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل۔) ’’حقیقت اسلام‘‘ (ترجمہ لیکچر حضرت مسیح موعودؑ جلسہ ۱۹۰۶ء۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل) ’’پیغام احمدیت‘‘ (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا لیکچر۔ مترجم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل) ’’شمشیر براں‘‘۱۵۶۔ ’’افضل الانبیاء‘‘۔ ’’نعمت الہام دباب و بہا‘‘۱۵۷۔ ’’اولین مسجد اسلامی درلندن‘‘ (تالیف مولوی صدر الدین صاحب فاضل)
حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء اور دوسرے مصنفین کا لٹریچر تہران کے ’’کتاب خانہ ملی‘‘ (پبلک لائبریری) ’’کتاب خانہ شوری ملی‘‘ (قومی اسمبلی کی لائبریری) ’’دانش گاہ تہران‘‘ (یونیورسٹی) اور ’’دانشکدہ ادبیات‘‘ (آرٹس کالج) میں موجود ہے اور ایران کے مذہبی حلقے خصوصاً عیسائیت اور بہائیت کے رد کے لئے جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑی دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اسلام کی خدمت قرار دیتے ہیں۱۵۸۔
مبلغ احمدیت مولوی ظہورحسین صاحب پر روسی حکومت کے دردناک مظالم
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے بخارا کا تبلیغی وفد (جو مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین خان صاحب پر مشتمل تھا) ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو
ایران کے شہر مشہد میں پہنچا۔ یہاں مولوی ظہور حسین صاحب تپ محرقہ میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے مگر مولوی محمد امین خان صاحب جو ۱۹۲۱ء میں بھی بخارا کا سفر کر چکے تھے۔ ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور کچھ عرصہ تک تبلیغی کام کرنے کے بعد حاجی مردان قل ساکن بخارا کو لے کر واپس قادیان آگئے۱۵۹۔
اب مولوی ظہور حسین صاحب کی سنیئے۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی بیماری سے شفا یاب ہوتے ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ میں بیماری سے اٹھا ہوں اور سخت کمزور ہوں۔ سردی بھی سخت پڑنے لگی ہے اور برفباری بھی شروع ہو گئی ہے۔ پھر میں نہ روسی زبان سے واقف ہوں نہ رستہ کا علم ہے۔ ویزا بھی نہیں ملا۔ خرچ بھی کم ہے۔ مگر ان مایوس کن حالات کے باجود میں بخارا جانے سے رک نہیں سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعائیں مجھے ناکام نہ ہونے دیں گی۔
مولوی صاحب یہ اطلاع دینے کے بعد اکیلے ہی ۸/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور ڈیڑھ دن کے بعد رات روسی ترکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے مگر ارتھک اسٹیشن سے بخارا کا ٹکٹ لے کر گاڑی پر سوار ہو رہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور آپ کو جاسوس سمجھ کر پہلے ارتھک‘پھر عشق آباد‘تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھ کر بہت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ مگر ان مصائب کے باوجود آپ نے قید خانہ میں بھی برابر تبلیغ جاری رکھی چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کرکے روس میں احمدیت کا بیج بو دیا۔
مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں بڑی تفصیل سے اپنے دردناک حالات شائع کر دیئے ہیں۔ ہم ’’آپ بیتی‘‘ کا ایک اقتباس ذیل میں درج کرتے ہیں۔
’’الغرض جب حکومت کے اکثر افراد نے جو میرے سخت مخالف ہو گئے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بیان میں قابو نہیں آتا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کاغذ خود ہی فارسی زبان میں لکھ کر اس جگہ پر اس طرح پھینکا جائے کہ اسے علم نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ میرے کمرے میں دو روشندان تھے وہاں سپاہی مقرر کر دیئے گئے ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب مجھے سوتا ہوا دیکھیں روشندان کے ذریعہ سے کاغذ پھینک دیں اور ادھر دروازہ پر جو سپاہی ہیں۔ وہ فوراً دروازہ کھول کر تلاشی لے کر کاغذ پکڑے اور مجھ کو ملزم ثابت کر دے ۔۔۔۔ پس میں نہ رات کو سوتا نہ دن کو ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کئی دن تک میرا حال رہا کہ نہ میں رات کو سوتا نہ دن کو۔ نہ کھانا صبح کھاتا نہ شام کو۔ جب مجھ کو سخت بھوک لگتی تو نہایت کم ایک دو لقمے کھاتا ادھر ۔۔۔۔۔۔ دو ماہ سے متواتر سور کا گوشٹ قید میں دیتے تھے اور روسی یا مسلمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی میں بجائے گوشت کے گرم پانی سے روٹی بھگو کر کھایا کرتا تھا کئی کئی وقت پانی نہ پینے ۔۔۔۔۔ اور کھانا نہ کھانے کے باعث اور بہت کم سونے کے باعث ۔۔۔۔۔۔ سخت لاغر اور کمزور ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ ایک بار رات کے آٹھ نو بجے کا وقت تھا ایک حاکم جو سپاہی سے بڑا عہدہ رکھتا تھا اس نے دروازہ کھول کر مجھے پکڑ لیا اور اوپر سے روشندان کی طرف سپاہی کو دیکھ کر روسی زبان میں کہا کہ جلدی کاغذ پھینک۔ جب میں نے سپاہی کو روشندان سے دیکھا تو اس وقت بے اختیار میں اونچی آواز سے بڑے حاکم (یعنی اس کے عہدہ کا نام لے کر) پکارا ۔۔۔۔۔۔ تو پانچ چار سپاہی میرے کمرے میں آئے اور مجھ کو پکڑ کر دوسرے تاریک و سیاہ کمرے میں لے گئے ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک لکڑی کا اچھا لمبا اور چوڑا تختہ لائے جس پر مجھ کو اس قدر سخت جکڑا کہ میری بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ میں ساری رات ۔۔۔۔۔۔۔ شدت درد کے باعث جو میرے بازوئوں کو بوجہ سختی سے پیچھے کی طرف باندھنے کے ہوتی تھی جاگتا رہا ۔۔۔۔۔۔ جس وقت مجھ کو پیشاب آیا تو میں نے اسی طرح کہ جس طرح لیٹا ہوا تھا اوپر ہی کیا کیونکہ باندھنے اور پھر تختے کے ساتھ جکڑنے کے باعث میں ادھر ادھر ہل نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس رات اپنی سخت تکلیف دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا یہ کی کہ اے خدا! تو میرے آقا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کو خبر دے دے کہ میں قید میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔۔۔ دوسرے تیسرے دن مجھ کو بذریعہ خواب بتایا کہ حضور میرے لئے کوشش فرما رہے ہیں جس پر مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب درست ہے۔ چنانچہ جب عاجز آزاد ہو کر قادیان آیا تو میرے استاذ محترم حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے مجھ کو واضح الفاظ میں فرمایا کہ حضور کو خوابوں کے ذریعہ تیرے قید ہونے اور تکالیف برداشت کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ چنانچہ اس بناء پر حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو جو ان دنوں ناظر امور خارجہ تھے حکم دیا کہ آپ فوراً ماسکو میں انگریز سفیر کو اس مضمون کا خط لکھیں کہ ہم نے ایک سال سے اپنا مبلغ بخارا کی طرف بھیجا ہوا ہے جس کا ہم کو کچھ علم نہیں ہو سکا‘‘۱۶۰۔
المختصر روسی حکام نے ڈیڑھ پونے دو سال تک آپ کو قید رکھنے کے بعد ہنزلی (ایران کی بندرگاہ) پر چھوڑ دیا۔ جہاں سے آپ تہران۔ بغداد۔ بصرہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۶ء کی صبح کو قادیان پہنچ گئے۱۶۱۔
مولوی صاحب کی واپسی پر ’’کشمیر اخبار‘‘ لاہور نے ’’ایک احمدی کا قابل تقلید مذہبی جوش‘‘ کے عنوان سے لکھا ’’مولوی ظہور حسین مبلغ احمدیت جو دو سال سے بالکل لاپتہ تھے پھر ہندوستان واپس آگئے ہیں اس دوران میں آپ کو بہت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے ایک خط میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں بغیر پاسپورٹ کے بے کسی اور بے بسی کی حالت میں مشہد سے بخارا کی طرف جانا پڑا اور وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا۔ راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے۔ جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بے رحمی سے مارا گیا۔ تاریک کمروں میں رکھا گیا۔ کئی کئی دن سئور کا گوشت کھانے کے لئے ان کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن وہ سرفروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا۔ ان کی تعلیمات کی بدولت احمدی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا۔ اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے۔ جو باتیں آج مولوی ظہور حسین سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر ظہور میں آئی ہیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اشاعت مذہب کے لئے ایسی ہی تڑپ ہوا کرتی تھی۔ کیا ہمارے ناظرین کو معلوم نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہؓ جیل کے اندر بھی لوگوں کو درس دیتے رہے احمدی مسلمانوں کے عقائد اور عام مسلمانوں کے عقائد بوجہ احمدیت اور محمدیت بہت کچھ اختلاف ہے تاہم اس امر کو بلا خوف تردید سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر وہ اخلاص و عزم اور وہ تڑپ اپنے مذہب کی حمایت و اشاعت کے لئے نہیں جو ایک معمولی احمدی بھی اپنے دل کے اندر رکھتا ہے۔
کاش! اسلام کے دوسرے فرقے بھی کفر سازی و کفر پروری کی بجائے ایسے ہی مجاہد پیدا کر سکیں‘‘۱۶۲۔
مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی دردناک شہادت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابھی لنڈن میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان صاحب ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو ۳۴ سال کی عمر میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے۱۶۳۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
مولوی نعمت اللہ خاں صاحب (ابن امان اللہ) کابل کے پاس ایک گائوں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیر۱۶۴ کے رہنے والے تھے احمدی ہونے کے بعد وہ سلسلہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان چلے گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء میں جبکہ وہ ابھی تعلیم پارہے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کو کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے افغانستان بھجوا دیا اور چونکہ احمدیوں کے لئے وہاں امن نہیں تھا۔ اس لئے آپ نے انفرادی رنگ میں اپنے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران میں ۲۰/ فروری ۱۹۱۹ء کو امیر حبیب اللہ خاں شاہ افغانستان قتل ہو گئے تو امیر امان اللہ خاں نے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد اپنی سلطنت میں کامل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا۱۶۵۔
اس اعلان پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اگست ۱۹۱۹ء میں نیک محمد خاں صاحب غزنوی (سابق گورنر غزنی امیر احمد خاں کے فرزند) اور بعض دوسرے اصحاب کو افغانستان سے آمدہ ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کے لئے منصوری بھجوایا۔ جو محمود طرزی صاحب (وزیر خارجہ افغانستان) کی قیادت میں انگریزوں سے معاہدہ صلح طے کرنے کے لئے آیا تھا۔ حضور کا مقصد یہ تھا کہ افغان حکومت کی موجودہ پالیسی کا علم ہو جائے۔ کہ کیا احمدیوں کے لئے بھی مذہبی آزادی ہے اور وہ احمدی افغان جو مذہب میں مداخلت کی وجہ سے اپنے وطن سے ¶ہجرت کرک قادیان آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ اس افغان وفد میں ایک ہندو وزیر خزانہ افغانستان بھی شامل تھے انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ میر احمد خاں (رئیس و سابق گورنر غزنی) کا لڑکا ہے اور چودہ سال۱۶۶ کی عمر میں احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر قادیان آگیا ہے تو انہوں نے روتے ہوئے گلے لگا لیا اور کہا کہ تمہارا باپ تو میرا بھائی تھا۔ تم اپنے وطن میں واپس آجائو۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ یہی وعدہ محمودی طرزی صاحب نے کیا۱۶۷body] gat[۔ اور یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان میں کسی احمدیت کو قطعاً کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ کیونکہ ظلم کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔
وفد کے دوسرے ممبروں کے دل پر بھی نیک محمد خاں صاحب کی حالت زار دیکھ کر بہت اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندان کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں۔ موجودہ شاہ افغانستان امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہو گا۔
احمدی وفد اپنے نزدیک بہت کامیاب واپس آیا۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مزید احتیاط کرتے ہوئے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ محمودی طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے احمدیوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ کریں اور شاہ کابل کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں۔ محمودی طرزی صاحب نے ملاقات کے بعد ان احمدیوں کی تکلیف کا ازالہ کر دیا۔ لیکن چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہو رہا ہے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے وزیر خارجہ افغانستان اور مشہور ترکی جنرل جمال پاشا (مقیم افغانستان) کو بذریعہ خط توجہ دلائی گئی۱۶۸۔ اس کے جواب میں کابل کی وزارت خارجہ کی طرف سے سردار محمود طرزی صاحب نے لکھا۔
’’دو قطعہ مکتوب شما تاریخ ۳۰/ ماہ اپریل ۱۹۲۱ء عیسوی بعنوان جناب جلالت ماب جمال پاشا و بنام ایں خدمتگار عالم اسلام رسیدہ۔ مضامین و مطالب آنرا مطالعہ کردہ الیٰ آخرہ دانستہ شدیم۔ جواباً مے نگاریم کہ درسلطنت اعلیٰ حضرت غازی پادشاہ معظم افغانستان ہیچ یک زحمت یا تکلیفے از طرف حکومت دربارہ تابعین و متعلقین شمادر خاک فغانستان ابراز نیافتہ‘‘۔
’’اگر سیاہہ اشخاص تابعین خودرا کہ درخاک افغانستان سکونت دارند برائے ما بفر ستید‘ممکن است اگر تکلیفے دربارہ شاں وارد شدہ باشد رفع شود‘‘۔
یعنی آپ کے دو خط مورخہ ۳۰/ اپریل ۱۹۲۱ء جناب جلالت ماب جمال پاشا اور عالم اسلام کے اس خدمت گار کے نام پہنچے جن کے تمام مطالب و مضامین سے آگاہی ہوئی۔ جواباً لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی (امان اللہ خاں) کے عہد حکومت میں کابل کی سرزمین میں رہنے والے آپ کے متبعین اور متعلقین کو کسی قسم کی زحمت یا تکلیف حکومت کی طرف سے نہیں پہنچائی گئی اور اگر ملک افغانستان میں سکونت رکھنے والے احمدیوں کی فہرست ہمارے پاس بھیج دیں تو ممکن ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کر دیا جائے۱۶۹۔
اس مراسلہ کے کچھ عرصہ بعد علاقہ خوست کے بعض احمدیوں کو پھر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ تو جماعت احمدیہ شملہ نے سفیر افغانستان (متعین ہندوستان) کی معرفت حکومت افغانستان کو ایک درخواست بھیجی۔ ۲۴/ مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر افغانستان کو معرفت جواب ملا۔ کہ احمدی امن کے ساتھ حکومت کے ماتحت رہ سکتے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔ باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی۔ جواب میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ معاملہ حضرت شاہ معظم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور آپ کے مشورہ سے لکھا جا رہا ہے۔
اب جماعت احمدیہ پوری طرح مطمئن تھی کہ افغانستان میں مذہبی آزادی کا دور دورہ ہے مگر ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو حکومت افغانستان نے قید کر لیا ہے۔ اس اطلاع کے چند ماہ بعد شروع جولائی ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ پہلے تو ان کو یہ صحیح بیان دینے پر کہ وہ احمدی ہیں رہا کر دیا گیا۔ مگر پھر جلدی ہی آپ جیل میں ڈال دیئے گئے۔
۲۸/ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ (مطابق یکم اگست ۱۹۲۴ء) کو مولوی نعمت اللہ صاحب نے قید خانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی (مقیم کابل) کے نام ایک مفصل خط لکھا۱۷۰۔ جس میں اپنے حالات ان الفاظ میں بتائے کہ ’’یہ کمینہ داعی اسلام تیس روز سے ایسے قید خانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشندان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے کسی کے ساتھ بات کرنے کی بھی ممانعت ہے جب میں وضو وغیرہ کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ ہوتا ہے خادم کو قید خانہ میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھڑیوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خط لے کر حضرت خلیفتہ المسیح کے حضور بھیج دیں۔ علاوہ ازیں بذریعہ تار یا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دے دیں تا وہ دعا فرماویں کہ خدا تعالیٰ مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے۔ میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ ’’الٰہی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے بلکہ میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ الہیٰ اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر‘‘۱۷۱۔ (ترجمہ از فارسی)
الغرض مولوی نعمت اللہ خاں محکمہ شرعیہ ابتدائیہ۱۷۲ میں پیش کئے گئے۔ جس نے ۱۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ عدالت مرافعہ کابل کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس نے آپ کے دوبارہ بیانات لئے اور ارتداد سے متعلق پہلے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے مزید حکم یہ دیا کہ نعمت اللہ خان کو قتل کرنے کی بجائے ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے۱۷۳۔
اس فیصلہ کے مطابق ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو پولیس نے مولوی صاحب کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھیرایا اور ہر جگہ منادی کی کہ یہ شخص آج ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقعہ پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں۔ دیکھنے والوں کی شہادت ہے جس وقت آپ کو گلیوں میں پھیرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے۔ گویا آپ کی موت کا فتویٰ نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی تھی۔
آخر عصر کے وقت ان کو کابل کی چھائونی کے میدان میں (جسے شیر پور کہا جاتا ہے۱۷۴) سنگسار کرنے کے لئے لے جایا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقعہ دیا جائے حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو۔
چنانچہ آپ کمر تک گاڑ دیئے گئے اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے پھینکا اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خدا تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے شہادت کے وقت جس جذبہ فدائیت اور ایمانی جرات کا نمونہ دکھایا۔ اس کا اقرار کرتے ہوئے کابل کے ایک نیم سرکاری اخبار نے ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی سے مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی اپنے عقیدہ کو باواز بلند ظاہر کرتا رہا‘‘۔
اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ کے کابلی نامہ نگار نے بتایا۔ ’’ایک بہت بڑا مجمع یہ فتویٰ عمل میں لانے کا نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا تھا مگر اپنے نہایت ہی خوفناک انجام کے باوجود (جو اس کا انتظار کر رہا تھا) وہ شخص نہایت مضبوط اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقیدہ پر قائم رہا۔ اسی حالت میں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر رہا تھا اس کثرت سے پتھروں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہو گئی کہ چند لمحوں میں اس کا جسم کلی طور پر پتھروں کے بہت بڑے تودے کے نیچے دب گیا۱۷۵۔ (ترجمہ)
اسی طرح ایک آریہ اخبار ’’پرکاش‘‘ نے ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں لکھا۔ ’’ہمارا احمدیوں سے سخت اختلاف ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن باوجود اس کے ہم انہیں مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ایک فرد نے اپنے مذہب کے لئے شہید ہونا منظور کیا ہے اگرچہ کابل کی عدالت نے کہہ دیا تھا کہ مولوی نعمت اللہ کے لئے بروئے شروع توبہ بھی نہیں ہے تاہم ان کے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے آخری وقت تک توبہ نہیں کی پتھر کھا کھا کر مرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی ایذا کی موت ہے باوجود اس کے انہوں نے اسے منظور کیا لیکن احمدی ہونے سے انکار نہیں کیا‘‘۱۷۶۔
حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے بعد ان کی لاش پر پہرہ لگا دیا گیا۔ ان کے بوڑھے غیر احمدی باپ نے حکام سے لاش لینے کی درخواست کی مگر حکومت نے صاف انکار کر دیا۱۷۷۔
انصاف پسند دنیا کا زبردست احتجاج
اس دردناک حادثہ کی خبر شائع ہونے پر ہر ملک میں شہید کی مظلومیت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا گیا اور تمام متمدن اور انصاف پسند دنیا نے اس کارروائی کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا چنانچہ جہاں یورپ کے اخباروں مثلاً ’’ٹائمز‘‘۔ ’’آبزرور‘‘۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘۔ ’’نیئر ایسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘۔ ’’مارننگ پوسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی نیوز‘‘۔ ’’ڈیلی میل‘‘ نے۱۷۸ اس کے خلاف سخت احتجاج کیا اور نوٹ لکھے وہاں ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم پریس۱۷۹۔ نے بھی اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی چنانچہ بطور نمونہ چند اخباروں کے اقتباس درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
‏]ybod [tag۱۔ مشہور شیعہ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے ۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’نہایت افسوس ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ایک احمدی مسلمان تھے۔ قرآن ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ رسول ایک‘کعبہ ایک۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور روزے رکھتا تھا صرف اس کا یہ جرم تھا کہ وہ امیر افغانستان کے مذہب کا مسلمان نہیں تھا۔ جو پہلے گرفتار کر لیا گیا اور اس کو اپنے مذہب پر پھیرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لئے ظالمانہ سزا سے ایک غریب الوطن کو قتل کر دیا گیا۔ خدا مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اس رنج میں ہمیں احمدی صاحبان سے دلی ہمدردی ہے اور امیر کے اس فعل ظالمانہ سے سخت نفرت ہے جس حکومت میں یہ ظلم اور ستم روا رکھا گیا ہے اس کا کاسہ عمر جلد ٹوٹ جائے گا۔ ایسی حکومت دیرپا نہیں رہتی‘‘۱۸۰۔
۲۔ صوبہ بنگال کے بااثر ہندو اخبار ’’بنگالی‘‘ (کلکتہ) نے ۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’یہ فعل ہر رنگ میں بالکل خلاف انسانیت اور وحشیانہ ہے مگر اس معاملہ میں جو دھوکہ بازی دی اور بدعہدی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے ضمیر کی کامل آزادی کا اعلان کیا تھا‘‘۱۸۱4] ft[r۔
۳۔ اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور (۱۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔
’’افغان عدالتوں کا ۔۔۔۔۔۔ سارا فیصلہ ایک ایسے جاہلانہ مذہبی تعصب سے لبریز نظر آتا ہے کہ جس کے امکان کا تصور بھی بیسویں صدی میں مشکل سے ہو سکتا ہے یہ بات بے شک باور کی جا سکتی ہے کہ اس مقدمہ کی تہہ میں ایک پولیٹکل تحریک تھی یعنی درحقیقت اس کا موجب وہ عنصر ہوا جس کو خوش کرنے اور جس کی مخالف کو موافقت سے بدلنے کا امیر کو خاص فکر ہے کیونکہ اس کی اصلاحات پر ان بے حد متعصب لوگوں کی طرف سے خلاف شرع اسلام ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر امیر کا منشا اپنی سلطنت کے ان بڑھتے ہوئے متعصب لوگوں کو خوش کرنا ہی تھا تو یہ بات اس نے اس نیک نامی پر قربان کرکے حاصل کی ہے جو اس کی گورنمنٹ کو ترقی یافتہ ہونے اور مذہبی رواداری کے لئے حاصل ہو سکتی تھی‘‘۱۸۲۔
۴۔ اخبار ’’مسلم‘‘ لاہور نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا۔
’’حکومت افغانستان کا یہ فعل کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو محض مرزا صاحب کا پیرو ہونے کی وجہ سے مرتد قرار دیا اور پھر اس خام خیالی پر سنگسار کر دیا مسلمان کہلانے والوں کے لئے باعث شرم ہے‘‘۱۸۳۔
۵۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور (۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔ ’’گو ابھی تک اس واقعہ کی مزید تفصیل دستیاب نہیں ہوئی۔ لیکن اب پائونیر سے معلوم ہوا کہ حکومت نے متعصب عقیدہ کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سزا کی اجازت دے دی ہو گی۔ چونکہ افغانستان میں اسلام سلطنت کا مذہب ہے اور اسی کے استحکام پر سلطنت کے استحکام کا مدار ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن احمدی صاحبان کا یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ امیر صاحب نے سال گزشتہ میں مذہبی حریت کا اعلان کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ حضرت خلیفتہ المسلمین معزول سلطان عبدالمجید خاں نے بھی سوئٹزرلینڈ سے کابل کے اس مذہبی قتل پر سخت صدائے احتجاج بلند کی ہے اور وول یورپ کو اس پر توجہ دلائی ہے۔ معلوم نہیں وول یورپ افغانستان کے اس مذہبی معاملہ میں کیا مداخلت کر سکتی ہے بہرحال واقعہ افسوسناک ہے‘‘۔
۶۔ ’’آریہ پتر‘‘ (۲۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔ ’’غیر مسلم مذہب کے لوگ اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا انحصار زیادہ تر جبر و تشدد اور تلوار پر ہے۔ لیکن مسلم اصحاب اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور اس کے عقائد کی خوبیاں ہی اس کی اشاعت کا خاص سبب ہیں۔ جو ہو ابھی حال میں کابل کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ہزمیجسٹی امیر کابل نے ایک احمدی بھائی نعمت اللہ خاں کو اس لئے نہایت بے رحمانہ اور وحشیانہ طریق پر ہلاک کر دیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس ایک واقعہ سے مذہبی معاملات میں اسلامی اسپرٹ کا اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے‘‘۱۸۴۔
۷۔ الہ آباد کے انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ نے ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا:۔
’’نعمت اللہ خان کی ہلاکت کے لئے جو خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا سفاکانہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ یقیناً ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل کو ہلا دے گا ایک احمدی نامہ نگار کا بیان ہے کہ اس غریب کو کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا گیا۔ اور پولیس اس کے ساتھ ساتھ اعلان کرتی گئی کہ اسے کفر کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اکٹھے ہو کر اس کی خوفناک ہلاکت کا مشاہدہ کریں۔ پھر اسے کابل چھائونی میں ایک کھلی جگہ لے جا کر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا۔ تب کابل کے مفتی نے اس پر پہلا پتھر پھینکا۔ اس کے بعد چاروں طرف سے اس بے چارے پر پتھروں کی بارش ہونے لگی جو اس وقت تک برابر جاری رہی جب تک وہ پتھروں کے ایک بڑے ڈھیر کے نیچے دب نہ گیا۔ قتل کا یہ وحشیانہ طریقہ کابل کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم سے عمل میں لایا گیا جس نے حکم دیا تھا کہ عوام الناس کی موجودگی میں اسے سنگساری سے ہلاک کیا جائے‘‘۱۸۵۔
۸۔ کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’مسلمان‘‘ نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’گورنمنٹ کابل نے مولوی نعمت اللہ خاں کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے فتویٰ موت صادر کرنے میں جس بے جا تعصب کا اظہار کیا ہے اور جس وحشیانہ طریق سے ان کا قتل عمل میں لایا گیا ہے ہماری حقیر رائے میں اسلام اور انسانیت کے لئے باعث ننگ دعار ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور فرقہ حنفیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی والئی افغانستان کا مذہب ہے۔ ہم احمدی فرقہ کے بعض عقائد سے متفق نہیں اور گو ہم مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ہماری شریعت میں ایسی نارواداری ہے کہ محض اختلاف عقائد کی وجہ سے حکومت ہونے کی صورت میں قتل کو روا رکھتی ہو۔ عیسائی اور یہودی تو رسول~صل۱~ کی نبوت کے ہی قائل نہیں کیا انہیں بھی سنگسار کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں عدالت ہائے افغانستان نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف جو مملک افغانستان میں بستے ہیں فتویٰ موت صادر نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ نعمت اللہ خاں پر فتویٰ اور اس پر طریق عمل نے ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسلام کے خوبصورت چہرہ پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ مہذب دنیا میں یہ فعل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدہ خیالات پیدا کرے گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس غلطی کا اعادہ نہ ہو گا اور آئندہ افغانستان اس امر کو گوارا نہ کرے گا کہ اسے تعصب اور نارواداری کا مجسمہ سمجھا جائے‘‘۱۸۶۔
۹۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر نے اپنی ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔
’’یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ افغانستان کے اس فیصلے سے پہلے ہمارے مسلم معاصرین فرقہ احمدیہ کو ایک اسلامی فرقہ تسلیم کرتے تھے اور فتنہ ارتداد کے متعلق اس کے افراد کی مساعی حسنہ کو اپنے کالموں میں انتہائی استحسان کے ساتھ درج کیا کرتے تھے۔ ممالک غیر میں اشاعت اسلام کے متعلق ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو فرعی قرار دیتے تھے۔ جو احمدی و غیر احمدی مسلمانوں کے عقائد میں موجود ہیں۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کونسا نیا تغیر فرقہ احمدیہ کے عقائد میں رونما ہو گیا ہے کہ وہ ایک احمدی کو مرتد قرار دینے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر حکومت افغانستان نے کسی سیاسی امر کی بناء پر ایک احمدی کا قتل مناسب خیال کیا تھا تو اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ اپنے فیصلہ میں صاف لکھ سکتی تھی کہ اس شخص کو کسی سیاسی امر کی بناء پر قتل یا سنگسار کیا جاتا ہے۔ اس نے محض ارتداد کو موجب رجم قرار دینے میں غلطی کی اور شریعت سے منسوب کرکے اس غلطی کو اور بھی غلیظ بنا دیا۔ ہمارے بعض علماء و معاصرین نے اس غلطی کی تائید کرنے میں اسلام کی نہیں بلکہ اپنے معاندانہ جذبات کی ترجمانی کی ہے‘‘۱۸۷۔
۱۰۔ لکھنئو کے مشہور روزانہ اخبار ’’اودھ‘‘ (۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔
’’یہ معاملہ محض ایک قادیانی کی سنگساری کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل کی سلطنت میں کوئی شخص ایسے اعتقادات و خیالات رکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جو وہاں کے بااقتدار علماء و حکام کے خلاف ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام متمدن دنیا اب اس تاریک حد سے بہت دور چلی گئی ہے۔ جبکہ آزادی رائے و خیال پر بھی پابندیاں عائد تھیں۔ اب کسی متمدن ملک میں دلوں پر حکومت کرنے کی کوشش ویسی نہیں ہو رہی ہے جیسی کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتی ہو گی۔ اس وجہ سے اس متمدن دنیا میں اور اس آزادی کے دور میں کابل کا واقعہ تمام دنیا کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۱۸۸۔
۱۱۔ اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ (لاہور) نے ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء میں لکھا۔
’’اعلیٰ حضرت امیر کابل نے تخت نشینی کے موقع پر اپنی سلطنت میں ہر قوم کو پوری مذہبی آزادی دینے کا بڑے زور سے اعلان فرمایا تھا۔ ایسے اعلان کے بعد اس قسم کے دردناک واقعہ کا ظہور آیا میں آنا بے انتہا افسوس کی بات ہے۔ احمدی فرقے کے مسلمان بالعموم دیندار امن پسند مرنج مرنجان لوگ ہیں۔ عقائد میں ان کا ہم سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ مگر اسلام کی خدمت جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خدمت ہم مسلمانوں کے کسی اور فرقہ سے نہیں ہو سکتی۔ ملکانہ راجپوتوں میں فرائض تبلیغ جس خوبی سے ان خادمان دین نے ادا کئے ہیں وہ اب تک کسی دوسرے فرقے سے ادا نہیں ہو سکے۔ پھر ان خدمات کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں احمدی فرقے کے مبلغین خدمات اشاعت اسلام کے باب میں بالکل منفرد ہیں۔ یہ خدمات مسلمانوں کے اور کسی فرقے سے نہیں ہو سکیں اور اب کوئی کرے گا تو انہیں کی تقلید کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ثواب ان نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کے لئے لکھا گیا ہو گا وہ اب دوسروں کو ملنا مشکل ہو گا۔
حریفاں بادہ با خوردند و رفتند
تہی خمخانہ ہا کردند و رفتند
ایسے مفید و نیک دل گروہ کے مبلغ کو یوں بے دردی سے پتھرائو کرکے ہلاک کر دیا جائے کتنے شدید اور خوفناک ظلم کی بات ہے۔ اس واقعہ جانکاہ کا ذرا تصور دل میں لائو کہ جس وقت ایسے بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کرکے اس پر پتھر مارنے شروع کئے ہوں گے اور وہ اس کے منہ‘سر اور آنکھوں پر لگے ہوں گے اور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کر ہر طرف خون کی دھاریں چل رہی ہوں گی۔ اس وقت اس عاجز‘بے بس و بے کس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ لکھا ہے کہ اس شدید عذاب سے ان کی روح جسم سے مفارقت کر گئی اور ان کے دلفگار رفیقوں نے پتھروں میں ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیاء نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی‘‘۱۸۹۔][۱۲۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے صدر آنریبل سید رضا علی صاحب نے مولوی نعمت اللہ خان کی سنگساری کے دلخراش واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اگر کسی سیاسی جرم میں انہیں سزا دی گئی ہوتی تو ہمیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ لیکن اخباروں میں جو فیصلے شائع ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بعلت ارتداد سنگسار کیا گیا اور یہی باعث ہے جو مسلمان بے تعلق نہیں رہ سکتے۔ مذہبی اختلافات پر بحث کرنے کی مجھ میں اہلیت نہیں۔ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کسی اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں کہ محض کسی روحانی عقیدہ کے لئے وہ اپنی کسی رعایا کو قتل کرے۔ اگر یہ خیال پھیلا کہ اسلامی حکومتیں رواداری نہیں برت سکیں تو اسلام کی اخلاقی قوت بہت کمزور ہو جائے گی‘‘۱۹۰۔
۱۳۔ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے ۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں دوبارہ لکھا۔
’’ہمیں احمدی صاحبان سے مذہباً کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ مگر انسانی ہمدردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم امیر افغانستان کے اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل پر اظہار رنج و نفرین کریں اور اس کو متعصب اور مذہبی دیوانہ اور ناقابل حکومت اور سلطنت کہیں۔ کسی والئی ملک کا یہ فرض منصبی نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب سے اخلاف رائے رکھنے والے کمزور کسی فرقہ یا شخص کو موت کے گھاٹ اتارتا جائے اور زبردست قوم کے دبائو سے دبتا رہے‘‘۱۹۱۔
جمعیتہ العلماء ہند کی طرف سے امان اللہ خاں کو مبارکباد
متمدن اور مہذب دنیا کے اس احتجاج عام کے مقابل ہندوستان کے متعصب اور سنگدل علماء نے اس خبر پر خوشی کے شادیانے بجائے چنانچہ ’’جمعیتہ العلماء ہند‘‘ کی طرف سے مولوی حبیب اللہ صاحب ناظم دارالعلوم دیو بند نے امیر امان اللہ خاں کو مبارکباد کا تار دیا اور لکھا کہ۔
’’مرکزی جماعت دارالعلوم دیو بند دلی مسرت و اطمینان کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ اعلیٰ حضرت امیر غازی نے ایک مرتد پر حسب قواعد شرعیہ حد و تعزیر جاری کرکے امیر شہید رحمتہ اللہ علیہ کے اسوہ حسنہ پر عمل اور خلفاء راشدین کے مبارک عہد اور ملوک عادلہ اسلام کے طریق کو زندہ کیا ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے جس نے ہندوستان کی فضا میں ایسے وقت جبکہ قادیانی رہزن نام نہاد مذہبی آزادی کی آڑ لے کر غارتگری میں مصروف تھے۔ سکون و اطمینان پیدا کر دیا ہے اور نہایت قبولیت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت امیر غازی اپنے اس غیر متزلزل اتباع شریعت پر صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور یہی وہ امر ہے جو ہم کو دولت خداداد کی ترقی و استحکام اور ملت افغانیہ کے عروج کی غیبی بشارت سناتا ہے‘‘۱۹۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے سانحہ شہادت پر ۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ ’’برادران! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلانا چاہئے۔ جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے۔ جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربانی کر دی ہے اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے آئو ہم اس لمحہ سے یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے (یعنی وہاں احمدیت نہیں پھیلا لیں گے) صاحبزادہ عبداللطیف صاحب۔ نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلارہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی۱۹۳۔
اس پیغام پر جماعت کے بہت سے مخلصین نے حضور کی خدمت میں اپنے نام پیش کئے کہ وہ کابل میں جا کر تبلیغ کرنے اور مولوی نعمت اللہ خاں کی طرح جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔
چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا۔
سیدنا و امامنا۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میری زندگی اب تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں۔ میں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ملے اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے۔ آج جو ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہوا وہاں یہ بھی تحریک ہوتی کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کو کسی کام میں لائو اور اپنے تئیں افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ پھر میں اچانک رکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا اپنے تئیں پیش کرتا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرو یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو۔ حضور انور میں کمزور ہوں‘سست ہوں‘آرام طلب ہوں لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں‘فوری شہادت کے لئے نہیں‘دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لئے‘اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے‘اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں اگر مجھ جیسے نابکار گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں۔
حضور میں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یاری دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کہا ہے۔ ~}~
بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو پھر
ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
اس لئے اس پر بس کرتا ہوں کہ میں جس وقت حضور حکم فرماویں افغانستان کے لئے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فقط حضور کی دعائوں اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو راستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ جاتے ہی شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرو یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبے عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ موڑو۔ حضور انور میں کمزور ہوں‘سست ہوں‘آرام طلب ہوں۔ لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں۔ فوری شہادت کے لئے نہیں۔ دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لئے۔ اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اگر مجھ جیسے نابکار‘گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہوں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین خادم
خاکسار ظفر اللہ
سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا۔ ’’میرا نام بھی ان مجاہدین کی فہرست میں داخل فرمائیں۔ جو جام شہادت کے پینے کے لئے تیار ہو رہے ہیں‘‘۔
مولوی عبدالمغنی خان صاحب نے درخواست دی کہ ’’حضرت نعمت اللہ خاں شہید کے واقعہ پر اگر حضور پسند فرمائیں تو میں اس امر کے لئے تیار ہوں کہ کابل جا کر شہید موصوف کے قدم بقدم چل کر سنگسار کیا جائوں‘‘۔
مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے درخواست پیش کی کہ ’’حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ گناہگار کو اس خدمت کے لئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ کامل ایمان‘استقامت اور ثبات عطا فرمائے‘‘۔
منشی عبدالخالق صاحب کپورتھلوی نے لکھا۔ ’’خادم کو مکرم برادرم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے شہادت پانے سے جدائی کا سخت صدمہ پہنچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ جگہ شہید کی کابل میں خالی ہے۔ لہذا امیدوار ہوں کہ اس جگہ پر کمترین کی پرورش فرمائی جائے اور کابل بھیج دیا جائے۔ شاید اسی راستہ سے اس نابکار کو وصال الٰہی ہو۔ خادم حضور انور نے فارسی کی مشق شروع کر دی اور قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں دیکھنا شروع کر دیا ہے‘‘۔
ان کے علاوہ کئی اور مخلصین نے اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ مثلاً مولانا غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) ملک صلاح الدین صاحب۱۹۴۔ نذیر احمد علی صاحب۔ چوہدری بدر الدین صاحب مبلغ ملکانہ۔ غلام رسول صاحب افغان۔ احمد نور صاحب کابلی۔ میاں عطاء اللہ صاحب (بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ) مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی۔ سید لال شاہ صاحب (اول مدرس لوئر مڈل سکول شرقپور ضلع شیخوپورہ) ماسٹر نذیر احمد صاحب چغتائی۔ مولوی محمد شاہزادہ خاں صاحب۔ شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس کراچی۔ حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیان۔ مولوی محمد حسین صاحب مبلغ ملکانہ۔
‏rov.5.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل سوم)
دو بزرگ ہستیوں کا انتقال
اس سال کے نہایت اہم اور دردناک واقعات میں سے یہ ہے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت امتہ الحی صاحبہ (حرم ثانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) جیسی بزرگ ہستیاں بھی دماغ مقارقت دے گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کا وصال ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ہوا۱۹۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق اور عظیم الشان خدمات دینیہ کے باعث سلسلہ احمدیہ میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اکل حلال‘جرات ایمانی‘محنت و مشقت‘استقلال‘سخاوت‘ہمدردی خلق اور احکام شریعت کا کمال اہتمام آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکا تھا۔ پوری عمر قال اللہ اور قال الرسول پر سختی سے کاربند رہے۔ سلسلہ کی خدمت کا ہر کام اعزازی کیا۔ اور آنریری کام کرنے کے باوجود تنخواہ لینے والوں سے زیادہ محنت و استقلال کا ثبوت دیا (آپ کی خدمات کا تذکرہ) ’’تاریخ احمدیت‘‘ جلد چہارم میں کیا جا چکا ہے)
حضرت میر صاحب کی وفات کے دو ماہ بعد ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو (ام خلیل) حضرت امتہ الحی صاحبہ بھی اپنے مولا سے جا ملیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح نے آپ کی وفات پر فرمایا۔
’’عورتوں پر خصوصیت سے میری اس بیوی کا احسان ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد میرا منشا نہیں تھا کہ میں عورتوں میں درس دیا کروں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان والد کی وفات کے تیسرے روز ہی امتہ الحی نے مجھ کو رقعہ لکھا ( اس وقت میری ان سے شادی نہیں ہوئی تھی) کہ مولوی صاحب مرحوم اپنی زندگی میں ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے وصیت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں۔ اس لئے میں اپنے والد صاحب کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں۔ وہ کام جو میرے والد صاحب کیا کرتے تھے۔ اب آپ اس کو جاری رکھیں وہ رقعہ ہی تھا جس کی بناء پر میں نے عورتوں میں درس دینا شروع کیا اور وہ رقعہ ہی تھا جس کی وجہ سے میرے دل میں ان سے نکاح کا خیال پیدا ہوا۔ پس اگر اس درس کی وجہ سے کوئی فائدہ عورتوں کو پہنچا ہو تو یقیناً اس کے ثواب کی مستحق بھی مرحومہ ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ عورتوں میں خطبہ۔ لیکچرز سوسائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہو سکتا ہے اس کی محرک وہی ہیں‘‘۱۹۶۔
لاہورمیں مسلم لیگ کااجلاس اورحضرت خلیفہ ثانی کی سیاسی راہنمائی
ملک میں دو مشہور سیاسی پارٹیاں قائم تھیں آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز مسٹر ہیوم نے ۱۸۸۵ء میں رکھی۱۹۷۔ اور ابتداًء اس کے بنیادی مقاصد میں انگریزی حکومت اور ہندوستانیوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا جو رفتہ رفتہ مکمل آزادی کے مطالبہ میں تبدیل ہو گیا۔ مسلم لیگ کی تاسیس ۳۰/ ستمبر ۱۹۰۶ء کو وقار الملک نواب مولوی مشتاق حسین صاحب کی زیر صدارت عمل میں آئی اور اس کا نصب العین یہ تجویز ہوا کہ ’’ہندوستانی‘‘ ’’مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی محافظت و ترقی اور حکومت (برطانیہ) کی وفاداری کے ساتھ ہمسایہ اقوام سے اتفاق و اتحاد بڑھانے کی کوشش‘‘۱۹۸۔ کانگریس میں گو مسلمان زعماء کی ایک خاصی جماعت شامل تھی مگر عملاً اس پر ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ خالص مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی جس میں مسٹر محمد علی جناح۱۹۹ جیسے مشہور لیڈر شامل تھے۔ جو ۱۹۲۱ء میں کانگریس سے علیحدہ ہو چکے تھے اور مسلم مفاد کی ترجمانی کا فریضہ انتہائی خلوص سے ادا کر رہے تھے۔ اور گو اس ابتدائی دور میں مسلمانوں نے ان کی سیاسی عظمت کو نہیں سمجھا۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اسی وقت سے ان کی قومی خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ حضور نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو بریڈ لا ہال میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسٹر جناح اور راجہ صاحب محمود آباد سے بے التفاتی پر سخت اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’ایک زمانہ تھا جب مسلمان ان کی بہت بڑی قدر کرتے اور ان کو اپنا لیڈر سمجھتے تھے۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ان کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح مسلمان نقصان اٹھا رہے ہیں۲۰۰۔ اسی طرح شملہ میں لیکچر دیتے ہوئے فرمایا۲۰۱۔
’’جناح صاحب اس وقت سے مسلمانوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کہ محمد علی صاحب (جوہر۔ ناقل) ابھی میدان میں نہ آئے تھے ۔۔۔۔۔۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ جناح صاحب میرے لیڈر نہیں۔ میں اپنی قوم کا آپ لیڈر ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن میں ان کی خدمات کے باعث ان کو قابل عزت اور قابل ادب سمجھتا ہوں جب تک مسلمانوں میں یہ احساس نہ ہو کہ خدمت کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کریں اور ان کا ادب کریں اس وقت تک ان میں قومی وقار پیدا نہ ہو گا‘‘۲۰۲body] gat[۔
مسٹر محمد علی جناح کی خدمات ہی کا اثر تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف ان کی ذات سے بلکہ ’’مسلم لیگ‘‘ سے بھی گہری ہمدردی پیدا ہو چکی تھی۔ خصوصاً اس لئے کہ یہ واحد سیاسی ادارہ تھا جو مسلمانان ہند کے سیاسی تحفظ کو پیش کر رہا تھا اور حضور کی از حد خواہش تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم بنانا چاہئے۔ چنانچہ اسی خیال سے آپ نے مسلم لیگ کے اجلاس لاہور (منعقدہ ۲۳/ مئی ۱۹۲۴ء) کے لئے ’’اساس الاتحاد‘‘ کے نام سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا۔ جسے اجلاس کے موقعہ پر مفت تقسیم کیا گیا۔ مسلم لیگ کی استقبالیہ کمیٹی نے حضور کو اجلاس میں شرکت کی خاص طور پر دعوت دی تھی جو اس رسالہ کی وجہ تصنیف بنی۔
یہ دور مسلم لیگ کی تاریخ میں انتہائی نازک دور تھا۔ اس وقت مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ کر اپنا اثر و نفوذ ختم کر چکی تھی۔ مگر آپ نے ’’اساس الاتحاد‘‘ کے ذریعہ اس میں زندگی کے نئے آثار پیدا کرنے کے لئے نہایت اہم اور مفید مشورے دیئے۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم نکتہ مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد کے سامنے مندرجہ ذیل الفاظ میں رکھا۔
’’مسلم کی تعبیر مذہبی نقطہ خیال سے اور ہے اور سیاسی نقطہ خیال سے اور۔ مذہبی نقطہ خیال سے تو مختلف فرق اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نزدیک بنائے اسلام رکھتے ہیں متفق ہو۔ اور سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم~صل۱~پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپﷺ~ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے لفظ مسلم کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ پس ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کے لئے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقوں کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کافر ہی سمجھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی مہریں ثبت ہوں‘‘۲۰۳۔
حضور نے ’’اساس الاتحاد‘‘ میں ان اہم نکات کو بھی دوہرایا جو آپ نے ملکی قوموں میں اتحاد کے لئے ۱۹۲۳ء میں پیش فرمائے تھے اور ایسی تدابیر بتائیں جن پر آپ کے نزدیک ملکی جماعتوں میں مستقل اور پائیدار صلح و امن کی اساس رکھی جا سکتی تھی۲۰۴۔
مسلم لیگ نے بالاخر یہ عظیم الشان نکتہ تسلیم کرکے اعلان کیا کہ اس کا دروازہ ہر مدعی اسلام کے لئے کھلا ہے۔ چنانچہ مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے مسلم لیگ کانفرنس میرٹھ میں کہا۔ ’’اس (مسلم لیگ۔ ناقل) نے اپنے دستور میں اعلان کر دیا ہے کہ ہماری مراد مسلم کے لفظ سے صرف اس قدر ہے کہ اس میں شریک ہونے والا اسلام کا دعویٰ رکھتا ہے اور اس کا کلمہ پڑھتا ہو کیونکہ مسلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت نہیں۔ علماء کے فتاویٰ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے صرف غیر کلمہ گویوں کے مقابلہ میں قدرے توسیع کیا گیا ہے‘‘۲۰۵۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کے لئے صرف مشوروں اور تجاویز بتلانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر ممکن اخلاقی‘آئینی اور مالی ذرائع سے اس کی اعانت بھی کرنے لگے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی خود فرماتے ہیں۔
’’جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے منعقد کرنے کے لئے بھی روپیہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنئو کے ایک وکیل ملے انہوں نے کہا میں قریباً نو سال مولانا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تھا آپ کو اس میں بلایا جاتا تھا اور آپ سے مشورہ لیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکتا تھا تو آپ سے مالی امداد لی جاتی تھی ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں‘‘۲۰۶۔
یہ بات ایسی کھلی تھی کہ غیر مسلم بھی اسے جانتے تھے چنانچہ ارجن سنگھ صاحب عاجز (ایڈیٹر اخبار ’’رنگین‘‘ امرتسر نے) اپنی کتاب ’’سیر قادیان‘‘ میں جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک بیان کرتے ہوئے لکھا۔
’’مسلمانوں کی کئی سیاسی جماعتوں ہیں اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ احمدی جماعت مسلم لیگ کے طرز عمل کی حامی ہے چنانچہ ذمہ دار احمدیوں سے تبادلہ خیالات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے مسلم لیگ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہزار ہا روپیہ خرچ کرنے کے علاوہ اپنی تمام کوششیں مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے وقف رکھی ہوئی ہیں‘‘۲۰۷`۲۰۸۔
’’دعوۃ الامیر‘‘ کی اشاعت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اوائل خلافت ہی سے والیان ریاست تک پیغام احمدیت پہنچانے کا ازحد خیال رہا ہے جیسا کہ نظام حیدر آباد دکن‘والی ریاست رامپور اور والیہ ریاست بھوپال کے نام تبلیغی خطوط بھجوانے کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے اس سال (۱۹۲۴ء میں) حضور نے امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لئے ’’دعوۃ الامیر‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع فرمائی۲۰۹۔ جس کا فارسی ترجمہ حضرت حکیم مولانا عبیداللہ صاحب بسمل۲۱۰ نے کیا۲۱۱۔ حضور نے اس بے نظیر کتاب میں (جس کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے القاء کا نتیجہ ہے۲۱۲) نہایت جامعیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کے بارہ میں دلائل بیان فرمائے اور حضور علیہ السلام کی پوری ہونے والی بارہ اہم پیشگوئیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس شاندار تحفہ کا اختتام مندرجہ ذیل الفاظ پر کیا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لائیے تا خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو امن دیا جائے اور اسلام کی آواز کو قبول کیجئے تا سلامتی سے آپ کو حصہ ملے میں آج اس فرض کو ادا کر چکا ہوں جو مجھ پر تھا۔ خدا تعالیٰ کا پیغام میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے۔ اب ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے‘‘۲۱۳۔
افسوس امیر امان اللہ خان نے نہ صرف یہ آسمانی تحفہ قبول کرکے خدا کی امان کے نیچے آنے سے انکار کر دیا بلکہ انتہائی شوخی اور بے باکی سے مظلوم اور بے کس احمدیوں کو پے در پے اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۲۱۴ جس کا خمیازہ انہیں عبرتناک رنگ میں بھگتنا پڑا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ یعنی ۱۹۲۹ء میں ایک ڈاکو بچہ سقہ نے تخت کابل پر قبضہ کر لیا۲۱۵۔ اور انہیں بھاگ کر پہلے قندھار اور پھر قندھار سے بمبئی۲۱۶ کے رستہ جا کر اٹلی میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ جہاں وہ کئی سال تک نہایت کسم پرسی اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد ۳/ اپریل ۱۹۶۰ء کو راہی ملک عدم ہو گئے فاعتبر وایا اولی الابصار۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا بیان ہے کہ جب وہ یورپ روانہ ہوئے تو خود ان کے ایک درباری نے آپ کی خدمت خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ جو کچھ ہماری ذلت ہوئی وہ اسی ظلم کی وجہ سے ہوئی جو ہم نے احمدیوں پر کیا تھا امید ہے کہ اب جبکہ ہمیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے لئے بددعا نہ کریں گے‘‘۲۱۷۔
دعوۃ الامیر کا اثر سعید روحوں پر
’’دعوۃ الامیر‘‘ کو گو امیر امان اللہ نے کوئی اہمیت نہ دی مگر یہ کتاب بہت سی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنی اور بن رہی ہے۔ یہی وہ عظیم الشان کتاب ہے جو چوہدری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر (سابق صوبہ سرحد) کو احمدیت میں لانے کا فوری باعث ہوئی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں۔
’’سرحد کے ایک رئیس چوہدری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر تھے۔ وہ ایک دفعہ دہلی میں مجھے ملے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم چار بھائی ہیں جن میں سے دو بھائی غیر احمدی ہیں اور دو بھائی احمدی ہیں۔ اپنے متعلق انہوں نے کہا کہ میں ابھی تک آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہم پورا پورا انصاف کرنے کے عادی ہیں روپیہ میں سے اٹھنی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی دوسرے مسلمانوں کو دے دی ہے۔ میں نے بھی ان سے مذاقاً کہا کہ خان صاحب! ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے۔ ہم تو پورا لے کر چھوڑا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت معہ اہل و عیال انگلستان کی سیر کو جا رہے تھے۔ میری اس بات کو سن کر انہوں نے کہا کہ خان محمد اکرم خان صاحب چارسدہ والے میرے بھائی ہیں انہوں نے آپ کی بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ولایت چلے گئے۔ ابھی تین مہینے ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک چٹھی پہنچی اس کے شروع میں ہی یہ لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ میں وہ ہوں جو آج س تین ماہ پہلے دہلی کے شاہی قلعہ میں آپ سے ملا تھا۔ اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم نے پورا پورا انصاف کیا ہے اٹھنی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی غیر احمدیوں کو دے دی ہے جس پر آپ نے کہا تھا کہ ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں۔ سو آپ کے حکم کے مطابق اب ایک چونی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ اور لکھا کہ جب میں ولایت میں آیا اور میں نے مختلف مقامات کی سیر کی تو گو میں پٹھان ہوں اور مذہبی جوش میرے دل میں موجود ہے مگر کفر کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر میرا دل پژ مردہ ہوتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آسکتا۔ ایک دن میرے دل پر اس خیال کا بے انتہا اثر ہوا۔ اور حالت مایوسی میں میں نے کہا آئو ان کتب کو پڑھ کر دیکھو جو میرے بھائی نے میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں۔ چنانچہ پہلے ’’اسلامی اصولی کی فلاسفی‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھا اس کے بعد آپ کی کتاب ’’دعوۃ الامیر‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے پڑھتے اس کتاب میں وہی ذکر آگیا جس نے میرے دل میں انتہائی طور پر مایوسی پیدا کر دی تھی یعنی اسلام کے تنزل اور اس کے ادبار کا اس میں ذکر تھا۔ مگر ساتھ ہی بتایا گیا تھا کہ رسول کریم~صل۱~ نے اسلام کے تنزل کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی جو پوری ہو گئی۔ غرضیکہ بعد دیگرے اسلامی تنزل کے متعلق کئی پیشگوئیاں تھیں جو پڑھنے میں آئیں اور جو واقعہ میں پوری ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد آپ نے اسلام کی ترقی کے متعلق رسول کریم~صل۱~ کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب رسول کریم~صل۱~ کی وہ پیشگوئی پوری ہو گئیں جو اسلام کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں۔ تو وہ پیشگوئیاں کیوں پوری نہیں ہوں گی۔ جو اسلام کے دوبارہ غلبہ کے متعلق ہیں۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس وقت تک سونے کے لئے اپنے بستر پر نہیں جائوں گا جب تک آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں۔ چنانچہ سونے سے پہلے میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں میری بیعت کو قبول کیا جائے‘‘۲۱۸۔
احمدیہ مسجد لاہور کی تعمیر
خلافت ثانیہ کے آغاز سے لے کر ۱۹۲۳ء تک جماعت احمدیہ لاہور کے احباب حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے گھر (واقع بیرون دہلی دروازہ) پر نمازیں پڑھتے تھے اور یہی جگہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتی تھی مگر ۱۹۲۴ء میں حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت میاں سراج دین۲۱۹ صاحب کے مشترکہ احاطہ میں جماعت احمدیہ لاہور کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو ۱۹۲۵ء کے قریب پایہ تکمیل تک پہنچی مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور نے تعمیر مسجد کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر اور سیکرٹری سید دلاور شاہ صاحب بخاری تھے۔ مسجد کا نقشہ میاں محمد صاحب نے تیار کیا جو سکول آف آرٹس لاہور میں ورک اوورسیر تھے۔ اور اس کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی (موجد مفرح عنبری) کے سر ہے چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں ’’حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے‘‘۲۲۰۔
سالانہ جلسہ پر تقریریں
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۴ء کے موقعہ پر تین تقریریں فرمائیں۔
۱۔
افتتاحی تقریر جس میں استغفار و دعا کی طرف توجہ دلائی۔
۲۔
دوسری تقریر ’’بہائی ازم کی تاریخ و عقائد‘‘ کے موضوع پر ہوئی۔ جس سے دنیا پر پہلی بار واضح طور پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ بہائیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ بہاء اللہ صاحب کا دعویٰ خدا ہونے کا تھا۔
۳۔
حضور نے اپنی آخری اور تیسری تقریر میں پہلے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا ذکر کرکے قرآن و احادیث سے ثابت فرمایا کہ اسلام میں محض ارتداد کی سزا ہرگز رجم و قتل نہیں ہے۔ اس کے بعد حضور نے اپنے سفر بلاد اسلامیہ ویورپ کے واقعات اور اس سفر کی تئیس عظیم الشان برکات و فوائد بیان فرمائے اور جماعت احمدیہ کو ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی۲۲۱
۱۹۲۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم ثانی میں مرزا خلیل احمد صاحب‘حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا مجید احمد صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ہاں سید دائود احمد صاحب کی ولادت ہوئی۔
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۲۴ء کو تعلیم الاسلام مڈل سکول کاٹھ گڑھ کا سنگ بنیاد رکھا۲۲۲۔
۳۔
صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (اول) (فرزند حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) مولوی الحاج میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی۔ حضرت سید فضل شاہ صاحب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب۲۲۳۔ (مالک انگلش ویر ہائوس لاہور) عابد علی شاہ صاحب سیالکوٹی۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب۲۲۴ (ترگڑی والے) سردار امام بخش خاں صاحب تمندار قیصرانی4] ft[s۲۲۵۔ پیر برکت علی صاحب (برادر اکبر حافظ روشن علی صاحب) اور مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸/ مارچ ۱۹۲۴ء کو محفوظ الحق علمی۔ مہر محمد خاں شہاب اور ماسٹر اللہ دتہ کو جماعت میں درپردہ اور خفیہ بہائی خیالات کی اشاعت کرنے پر جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا۔ ان لوگوں نے حضور کے مقررہ کردہ کمیشن کے سامنے اپنے بہائی ہونے کا خود اعتراف کیا تھا۲۲۶۔ حضور نے ان کے اخراج کے بعد بہائی مذہب کی حقیقت سے متعلق لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری فرمایا۲۲۷۔ علاوہ ازیں مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر نے بڑی محنت اور عرقریزی سے بہائیت کی کتابیں خصوصاً بہاء اللہ کی کتاب ’’اقدس‘‘ حاصل کی اور بہائی ازم کے ابطال میں بنیادی اور اہم لٹریچر شائع کیا۲۲۸۔
۵۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرزا رشید احمد صاحب (خلف حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کا نکاح حضرت میرزا بشیر احمد صاحبؓ کی دختر امتہ السلام صاحبہ کے ساتھ پڑھا‘‘۲۲۹۔
۶۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مولوی فاضل میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے۔ آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مجھے یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی کی تکمیل کے لئے تیس روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے اگر حضور کا ارشاد ہو تو وہاں داخل ہو جائوں مگر حضور نے فرمایا۔ ’’جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اس تیس روپے میں گرفتار کرنے کے لئے تیار نہیں‘‘۲۳۰۔ چنانچہ آپ نے مبلغین کلاس میں داخلہ لے لیا۔ مولانا ابوالعطاء صاحب کے ہم مکتبوں میں سے ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب‘مولوی تاج دین صاحب لائلپوری۲۳۱ اور مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے بھی اسی سال مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۲۳۲۔ اور مزید ٹریننگ لینے کے بعد سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ موخر الذکر تین اصحاب میں سے خصوصاً (ابوالبشارت) مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے آگے چل کر اپنی تقریروں اور مباحثوں سے جماعت میں بڑا نام پیدا کیا اور مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے مالا بار کے طول و عرض میں احمدیت کا پیغام پہنچایا اور سلسلہ کی عمدہ خدمات کیں۔
۷۔
اس سال سے سالانہ جلسہ مسجد نور کی بجائے قریب ہی ہائی سکول کی گرائونڈ میں منعقد ہونا شروع ہوا۲۳۳۔
۸۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ بلاد یورپ و مغربی افریقہ سے ۲۱/ ۲۰ دسمبر ۱۹۲۴ء کو سلسلہ احمدیہ میں پہلی بار میجک لینٹرن کے ذریعہ تبلیغی تصاویر دکھانے کا طریق جاری فرمایا۲۳۴۔ حضرت نیر صاحب کے بعد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے بھی اس طریق سے تبلیغ احمدیت کا بہت کام لیا ہے۔
۹۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: (۱) قرآن مجید کا گورمکھی ترجمہ (از جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) (۲) ’’احکام القرآن‘‘ (از حکیم محمد الدین صاحب گوجرانوالہ) (۳) ’’برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول‘‘ (۴) ’’محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی‘‘۔ (از مہاشہ فضل حسین صاحب) (۵) ’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘۲۳۵۔ (از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) (۶) ’’فقہ احمدیہ‘‘ حصہ اول (از حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ) (۷) ’’کارزار شدھی‘‘ (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۱۰۔
مشہور مباحثات: مباحثہ مظفر نگر۲۳۶ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبداللطیف صاحب۔ مصطفیٰ آبادی کے مابین) مباحثہ بانکی پورپٹنہ۲۳۷ (مولوی سید وزارت حسین صاحب رئیس موضع اورین ضلع مونگیر اور آریہ سماج کے درمیان) مباحثہ گلانوالی۲۳۸ ضلع امرتسر (مولوی ظہور حسین صاحب فاضل اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کے درمیان) مباحثہ مونگیر (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور اجودھیا پرشاد ست دیو اور مراری لال تین آریہ مناظروں کے ساتھ) مباحثہ میانی۲۳۹ (مولانا جلال الدین صاحب شمس کا مفتی غلام مرتضیٰ صاحب میانوی کے ساتھ) مباحثہ کھاریاں۲۴۰ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی) مباحثہ اٹاوہ (مابین جناب سید صادق حسین صاحب مختار عدالت سیکرٹری انجمن احمدیہ اٹاوہ و حکیم مرزا محمود احمد صاحب زرقانی و سید محفوظ الحق صاحب علمی بہائی۲۴۱)
۱۱۔
(میجر جنرل) احیاء الدین صاحب (خلف خان بہادر میاں وسیع الدین صاحب سرخ ڈھیری ضلع مردان صوبہ سرحد) داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔
‏rov.5.32
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
حواشی
۱۔
ویمبلے لنڈن کے ایک پارک کا نام ہے جہاں اس نمائش کا انعقاد ہوا تھا۔
۲۔
اس کمیٹی کے ممبر یہ تھے۔ (۱) سرای ڈینی سن راس (صدر) (۲) سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ اور مسٹر وکٹر برنیفورڈ (نائب صدر) مسٹر ایف سی چینینگ۔ مسٹر سی رائس ڈیوڈ۔ پارسی ٹسل ڈیوس۔ پادری اے ایس گیڈن۔ پروفیسر مارگولیتھ۔ پروفیسر ایلائس ورنر۔ پادری ڈبلیو سٹن پیج۔ سر فرانسس ینگ ہسبینڈ۔ (یہ سب انتظامیہ کمیٹی کے ممبر تھے) مسٹر ایل سی ساپر (خزانچی) مسٹر ڈبلیو لا فٹس ہیئر (سیکرٹری) مس ایم ایم شارپلز (سیکرٹری)
۳۔
الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۵۔
۴۔
الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۵۔
تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۱۳۔
۶۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۸۔
الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ اس سفر کے متعلق استخارہ کرنے کا تحریری ارشاد خاکسار کو بھی پہنچا تھا۔ ابھی دو تین دن ہی دعا کی تھی کہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ مولوی فضل الدین صاحب (وکیل) اسباب سفر باندھ رہے ہیں اور میں بطور مددگار پاس کھڑا ہوں میں نے یہ رئویا حضور کو لکھ کر بھیج دی تھی۔
۹۔
حضرت مسیح موعودؑ نے لیکچر لاہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم پر تحریر فرمایا ہے کہ ذوالقرنین کے قرآنی واقعہ میں میرے متعلق پیشگوئی ہے اور میرا نام ذوالقرنین رکھا گیا ہے اب ذوالقرنین کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اس نے مغربی ممالک کی طرف سفر کیا۔ ثابت ہوا کہ مسیح موعود یا اس کے کسی جانشین کو ان ممالک کی طرف ضرور سفر کرنا پڑے گا۔
۱۰۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حدیث نزول عیسیٰ کی تشریح میں فرمایا یسافر المسیح الموعود او خلیفہ من خلفاء|ہ الی ارض دمشق (حمامتہ البشریٰ صفحہ ۳۷) طبع اول یعنی مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کا سفر اختیار کرے گا۔
۱۱۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۲۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۵۱۵۔ ۵۱۶۔
۱۳۔
ملخصاً از الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۴۔
ملخصاً از الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۵۔
ان کی تفصیل حضور ہی کے قلم مبارک سے لکھتا ہوں فرمایا۔ ’’میری مالی مشکلات جن کی موجودگی اور بوجھ کا اٹھانا طبیعت پر ایک حد تک گراں گزرتا ہے دوسرے میری صحت بہت خراب رہتی ہے اور اتنے لمبے سفر اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرنا میرے لئے شاید ایک بار گراں ثابت ہو کیونکہ اس قدر کثیر اخراجات کے برداشت کرنے کے بعد اگر وقت کو پوری طرح استعمال نہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ کام نہ کیا جائے تو یہ ایک اسراف ہو گا۔ جس کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی۔ تیسرے قادیان سے اس قدر عرصہ تک اتنے فاصلے پر رہنا کہ گویا ایک نئی دنیا ہے مجھے ناپسند ہے چوتھے اپنی صحت کی خرابی اور عمر کی ناپائیداری کا خیال کرکے طبیعت ایک تکلیف محسوس کرتی ہے۔ پانچویں میری دو بیویاں اس وقت حاملہ ہیں اور ان دونوں کو اسقاط کا مرض ہے اور بچے ان کو سخت تکلیف سے ہوتے ہیں یہاں تک کہ جان کی فکر پڑ جاتی ہے اور ان کے وضع حمل کا زمانہ وہی ہے جو اس سفر میں خرچ ہو گا۔ میری غیر حاضری کا خیال ان کی طبائع پر ایک قدرتاً بوجھ ہے‘‘۔ (الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۳)
۱۶۔
الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۸`۱۹۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۲۰۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۱`۲۲۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۳۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۴۔
فاروق ۶/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۵۔
مفصل ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۷۔ ۴۰۔
۲۶۔
احمدیت یعنی حقیقی اسلام اردو صفحہ ۹۰۔
۲۷۔
ایضاً صفحہ ۲۲۸۔ ۲۲۹۔
۲۸۔
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ سفر یورپ کے دوران مین ولنگٹن سکوائر کلکتہ سے چھپوا کر لندن بھجوا دیا گیا تھا۔
۲۹۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ ۷۔
‏h1] gat[۳۰۔
الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۳۱۔
الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۳۲۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۳۔
یہ فوٹو سید ناصر شاہ صاحب نے لیا تھا۔
۳۴۔
پوری نظم الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲ پر چھپی ہوئی ہے۔
۳۵۔
الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۳۶۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۳۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۳۸۔
‏]2h [tag الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۹۔
الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۰۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۴۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرح حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے ذاتی خرچ پر تشریف لے گئے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ مصر میں عربی ادب کا مطالعہ کرنے کے لئے قیام پذیر رہے۔
۴۲۔
سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے۔
۴۳۔
پرائیوٹ سیکرٹری
۴۴۔
جنرل سیکرٹری۔
۴۵۔
بحیثیت عالم۔
۴۶۔
بحیثیت پریس رپورٹر۔
۴۷۔
مشیر طبی کی حیثیت سے۔
۴۸۔
خادم خاص۔
۴۹۔
بحیثیت عالم۔
۵۰۔
خادم۔
۵۱۔
باورچی۔
۵۲۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کی قلمی یادداشت سے ماخوذ۔ پوری نظم الفضل ۲۵/ جولائی ۱۹۲۴ء کے علاوہ کلام محمود میں بھی موجود ہے۔
۵۳۔
یہ وہی تاریخی نظم ہے جس کی اشاعت پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی حضور کو مخاطب کرکے اسی ردیف و قافیہ میں اپنے دلی خیالات کا اظہار فرمایا تھا۔ ملاحظہ ہو درعدن صفحہ ۹۔ ۱۳۔ دراصل آپ کی مقدس شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے۔
۵۴۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ایک خط سے ماخوذ ایضاً الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۵۵۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲۔
۵۶۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب سے ماخوذ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۵۷۔
اس جہاز کا نام افریقہ تھا۔ اٹالین کمپنی کا جہاز ہونے کی وجہ سے دو ایک ہندوستانی گورکھوں کے سوا اس کے سب ملازم اٹالین تھے۔ افسروں کا سلوک دوران سفر حضور اور حضور کے رفقاء کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا۔ (الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶)
۵۸۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۹۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ایضاً خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۔
۶۰۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ و ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۱۔
‏h2] [tag الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۶۲۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۳۔
الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۵۔ ۶۔
۶۴۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۶۵۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۶۶۔
الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۲۴ء و الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۷۔
الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۶۹۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۷۰۔
الفضل ۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۷۔
۷۱۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۷۲۔
اس سلسلہ میں اخبار المقطم قاہرہ مورخہ ۲/ اگست ۱۹۲۴ء کے ایک نوٹ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۷۳۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۷۴۔
بعد کے واقعات نے حضور کے الفاظ کی لفظاً لفظاً تصدیق کر دی۔
۷۵۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۶۔
۷۶۔
یعنی مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔
۷۷۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۷۸۔
الفض ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۷۹۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۸۰۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۸۱۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۵۔ ۳۷۶ (از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ایضاً الحکم ۲۱/ ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۳۔
۸۲۔
الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۸۳۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۸۴۔
عکا شہر کی آبادی سے چار میل دور کھیتوں میں جس جگہ بہا اللہ کی قبر ہے بہائی اس کا نام بہجہ رکھتے ہیں۔
۸۵۔
خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۔
۸۶۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۸۷۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۸۸۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
خط سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی بنام حضرت مولوی شیر علی صاحب (الفضل ۲۳/ ستمبر صفحہ ۳۔ ۴)
۹۰۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۹۱۔
خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ماخوذ۔
۹۲۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۹۳۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۹۴۔
الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۶ چند اخبارات کے نام بطور نمونہ یہ ہیں۔ ٹائمز آف لنڈن۔ ڈیلی میل لنڈن۔ ڈیلی مرر۔ ڈیلی نیوز۔ ایوننگ سٹینڈرڈ۔ ڈیلی سکیچ۔ ڈیلی گرانک۔ ڈیلی ٹیلیگراف۔ مانچسٹر گارڈین۔ (ملاحظہ ہو اخبار الفضل ۱۹۲۴ء)
۹۵۔
الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۹۶۔
سفر یورپ کے حالات کی قلمی ڈائری (از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) اصل ڈائری جو پنسل سے لکھی ہوئی ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۹۷۔
ان خطوط کی نقل خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۹۸۔
الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۹۹۔
قلمی ڈائری حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے ماخوذ۔ (مکمل پیغام کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵)
۱۰۰۔
اس کا مفصل ذکر آگے آرہا ہے۔
۱۰۱۔
مثلاً لیگ آف نیشنز اور دنیا کے مختلف ممالک کو تار دیئے پریس کو اطلاعات بہم پہنچانے کا انتظام فرمایا لنڈن میں احتجاجی جلسے منعقد کرائے ایک مضمون میں شہید افغانستان کے مفصل حالات شائع کئے۔
۱۰۲۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔ ۷۔ الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۰۳۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵ پر پیغام کا متن موجود ہے۔
۱۰۴۔
مکمل لیکچر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۰۶۔
مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۰۸۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔
۱۰۹۔
۲۳/ ستمبر کو اسلام پر تین مضمون پڑھے گئے پہلا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن نے اہلسنت و الجماعت کی طرف سے دوسرا شیخ خادم دجیلی نے ایل تشیع کی طرف سے اور تیسرا اور آخری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تھا۔ جو تحریک احمدیت کے نقطہ خیال سے اسلام کی ترجمانی کرتا تھا۔
۱۱۰۔
الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۱۳۔
الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶ الف۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۱۵۔
بحوالہ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۱۶۔
یہ لیکچر ایک سیاسی لیکچر کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۱۱۷۔
یہ مضمون پیارا رسول کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۱۱۸۔
الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۱۹۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۰۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۱۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳ و ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۲۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۱۲۳۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۲۴۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۱۲۶۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۲۸۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۳۱۔
‏]h2 [tag ڈیلی کرانیکل لندن ۲۰/ اکتوبر ۱۹۲۴ء (بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۹)
۱۳۲۔
ویسٹ منسٹر گزٹ (۲۰/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) بحوالہ تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۳۶۔ ۳۸۔
۱۳۳۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۳۴۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ایضاً صفحہ ۳۔ ۶۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۶۔
۱۳۶۔
الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۳۸۔
مثلاً ٹائمز آف انڈیا نے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۴ء کو لکھا۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے (جو کل اپنے لمبے سفر یورپ سے واپس آئے ہیں) ہمارے اخبار (ٹائمز آف انڈیا) کے ایک نمائندہ نے ان کے بمبئی پہنچنے سے تھوڑی دیر بعد ملاقات کی یہ ملاقات نہایت دلچسپ اور نئی روشنی دینے والی ثابت ہوئی۔ اس نئی اسلامی جماعت کے امام ایک ذی علم اور روشن دماغ نوجوان ہیں اور انگریزی خوب روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ (بحوالہ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۹)
۱۳۹۔
اسی طرح حضور نے ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء کو گاندھی جی کے ساتھ علی برادران اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ کانگریس اس وقت تک صحیح معنوں میں قومی جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک اس میں تمام قسم کے خیال کے لوگ شامل نہ کئے جائیں۔ اب کانگریس اپنے آپ کو قومی جماعت کہتی ہے لیکن وہ ایک خاص پارٹی کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے گاندھی جی نے اس پر رضا مندی ظاہر کی اور حضور سے کانگریس میں شامل ہونے کے لئے بہت اصرار کیا حضور نے جواب دیا کہ چونکہ میں کلی طور پر حامی تعاون ہوں اور آئینی اور ارتقائی ترقی کا حامی ہوں اس لئے موجودہ صورت میں انڈین کانگریس میں شامل نہیں ہو سکتا۔ (الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء) صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۱۔
ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ جب حضور ریلوے اسٹیشن آگرہ سے گھوڑا گاڑی پر سوار شہر میں جائے قیام پر تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک احمدی دوست نے حضور کی خدمت میں قادیان سے آمد تازہ تار پیش کیا۔ جس میں یہ اطلاع تھی کہ امتہ الحی صاحبہ سخت بیمار ہیں حضور جلد از جلد قادیان تشریف لائیں۔ یعنی آگرہ کا ایک روزہ قیام منسوخ فرما دیں۔ مگر حضور نے فرمایا کہ یہ دینی کام جو مقررہ پروگرام کے مطابق ہے چھوڑ نہیں سکتا اور ساتھ ہی اپنے اس طبی خادم حشمت اللہ کو فوراً قادیان روانہ کر دیا چنانچہ میں حضور کے ورود قادیان سے ۳۱ گھنٹے پہلے قادیان پہنچ گیا حضرت امتہ الحی صاحبہ کو میرے پہنچنے سے خوشی ہوئی۔
۱۴۲۔
یاد رہے کہ دراصل ایک خوبصورت بچہ کی طرف سے نان پیش کئے جانے کا ذکر حضرت مسیح موعود~ع۱~ کے ایک کشف میں آتا ہے جو تریاق القلوب میں درج ہے اور اس موقعہ پر بھی اسے پورا کر دیا گیا۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱ تا ۸۔
۱۴۴۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۱۴۵۔
الفضل ۳/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۶۔
بحوالہ الفضل ۶/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۴۷۔
بٹالہ مراد ہے کیونکہ اس وقت تک قادیان میں ریل نہیں آئی تھی۔
۱۴۸۔
بحوالہ الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
‏h1] gat[۱۴۹۔
الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۵۰۔
الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۵۲۔
آپ بیتی صفحہ ۱۸۷ (از مولوی ظہور حسین صاحب) طبع دوم ۱۹۶۳ء۔
۱۵۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۴۱ و رپورٹ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۹۔
۱۵۴۔
یہ خطبہ ۲۳/ مارچ ۱۹۲۸ء کا ہے۔
۱۵۵۔
الفضل ۲۷۔ ۳۰/ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔ حضرت شاہزادہ صاحب کی تیمارداری اور تجہیز و تکفین کرنے والے محمد خان صاحب گجراتی (متوطن پنجن کسانہ تحصیل کھاریاں) تھے۔
۱۵۶`۱۵۷۔
یہ دونوں کتابیں روبہائیت میں ہیں جن کو ایران کے علماء و فضلا نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ آقائی عبدالحسین آیثی (سابق مبلغ بہائیاں) آقائی عطاء اللہ شہاب پور (انجمن تبلیغات اسلامی کے بانی اور رسالہ نور دانش کے) آقائی حسن نیکو (سابق مبلغ بہائیاں) اور شیخ مصطفیٰ رہنما صاحب (ایڈیٹر رسالہ حیات مسلمین (تہران) نے ان پر عمدہ تبصرہ لکھے جو دنیائے اسلام۔ نور دانش۔ آئین اسلام اور اصلاحات ایران‘آئین برادری‘حیات مسلمین وغیرہ ایرانی اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۵۶ء)
۱۵۸۔
تحریک جدید کے بیرونی مشن صفحہ ۴۸ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ)
۱۵۹۔
الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۱۶۰۔
آپ بیتی از مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا و روس صفحہ ۹۵۔ ۱۰۹۔
۱۶۱۔
آپ بیتی صفحہ ۱۸۴۔ ۱۹۰ طبع دوم ۱۹۶۳ء۔ الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۱۶۲۔
اخبار کشمیری مورخہ ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۶ء (بحوالہ الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۳۔ ۴)
۱۶۳`۱۶۴۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۶۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۷۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۳۔
۱۶۸۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۹۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۷۰۔
اصل خط جو فارسی زبان میں ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور اس کا عکس الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴ پر چھپ چکا ہے۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۷۲۔
یعنی پہلی شرعی عدالت۔
۱۷۳۔
اخبار حقیقت کابل (جلد ۱ شمارہ ۱۱ صفحہ ۴) بحوالہ الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ ملزم چونکہ اہل السنت و الجماعت کے ان علماء کو جنہوں نے مسئلہ نزول مسیح کو جسمانی صورت میں بتایا ہے غلطی خوردہ سمجھتا ہے اس لئے یہ خادم شرع شریف اس فیصلہ کا حکم درست سمجھتا ہوا اس کی تصدیق کرتا ہے‘‘۔ (ترجمہ)
۱۷۴۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۷۵۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۷۶۔
بحوالہ الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۷۷۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی کے ایک مفصل مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴ سے ماخوذ۔
۱۷۸۔
بحوالہ الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۷۹۔
بعض متعصب اخباروں نے اس فعل پر پردہ ڈالنے کے لئے شہید احمدیت مولوی نعمت اللہ خاں کو سیاسی مجرم گرداننے کی کوشش کی۔ مگر افغان عدالت کے فیصلہ نے اس کی تغلیط کر دی۔ اخبار ڈیلی میل کے نامہ نگار نے کابل سے اطلاع دی کہ مولوی نعمت اللہ کی سنگساری کے عدالتی فیصلہ کے بعد امیر نے ملکی دستور کے مطابق اس فیصلہ کی بذات خود تصدیق کی جس کے بعد یہ عمل میں لایا گیا۔ (الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۱۸۰۔
الفضل ۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۸۱۔
بحوالہ الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۸۲۔
بحوالہ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۸۳۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۸۴۔
الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۸۵۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۶۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۷۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۸۔
بحوالہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۰۔
۱۸۹۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۱۹۰۔
بحوالہ الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۴۔
۱۹۱۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۹۲۔
زمیندار ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۹۳۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۹۴۔
یاد رہے یہ مولف اصحاب احمد نہیں اور صاحب تھے۔
۱۹۵۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲ (تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو حیات ناصر (مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
۱۹۶۔
الفضل ۲۰/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۹۷۔
اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۴۱ شائع کردہ فیروز سنز لاہور۔
۱۹۸۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۵۲ (از محمد مرزا دہلوی) طبع اول مارچ ۱۹۴۰ء۔
۱۹۹۔
ولادت ۲۵/ دسمبر ۱۸۷۶ء بمقام کراچی ۱۸۹۶ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۱۸۹۷ء میں بمبئی ہائیکورٹ میں مقدمات کی پیروی شروع کی ۱۹۰۵ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۱۹۲۱ء میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کی ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان کی تجویز منظور کرائی ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک حصول پاکستان کے لئے شب و روز کوشاں رہے ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آئی تو اس کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے اور گیارہ ستمبر ۱۹۴۸ء کو کراچی میں وفات پائی۔
۲۰۰۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۲۔
۲۰۱۔
۱۹۲۷ء کے حالات میں اس کا ذکر آرہا ہے۔
۲۰۲۔
لیکچر شملہ صفحہ ۱۹۔ ۲۰۔
۲۰۳۔
اساس الاتحاد صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۰۴۔
اساس الاتحاد صفحہ ۲۴۔ ۲۵۔
۲۰۵۔
خطبہ صدارت صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۲۰۶۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۴۔
۲۰۷۔
سیر قادیان صفحہ ۲۵۔ ۲۶۔
۲۰۸۔
اس ضمن میں تفصیلات تو آئندہ اپنے اپنے مقام پر آئیں گی ہم یہاں صرف مالی اعانت سے متعلق بطور مثال دو شہادتیں صدر انجمن احمدیہ کے پرانے ریکارڈ سے درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ کا مسلم لیگ سے رابطہ و تعلق کتنا پرانا اور کتنا گہرا ہے۔ (۱)
صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ متعلقہ ۱۹۲۷ء میں ناظر اعلیٰ کی طرف سے یہ رپورٹ درج ہے کہ شملہ کانفرنس کے موقعہ پر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو بیرسٹرایٹ لاء حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلم لیگ کی مالی کمزوری کا اظہار کرکے حضرت سے امداد کی درخواست کی حضور نے ترقی اسلام کے سلسلہ میں دو سو روپیہ دینا منظور فرما لیا اور اسی وقت اپنے پاس سے ادا فرما دیئے۔ (۲) ۱۹۲۹ء کے ریکارڈ میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (دہلی منعقدہ ۳۱/ ۳۰ مارچ ۱۹۲۹ء) کے لئے ایک سو روپیہ چندہ دیاگیا۔ (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۷۶) یہ اجلاس روشن تھیٹر دہلی اجمیر دروازہ میں ہوا تھا اس میں مسٹر محمد علی جناح۔ حاجی عبداللہ ہارون صاحب۔ مولوی شفیع صاحب دائودی۔ مولوی ظفر علی خان صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت ذوالفقار علی خان صاحب اور دوسرے مقتدر حضرات شامل تھے۔ اس جلسہ کا اشتہار جو سید شمس الحسن صاحب سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ بلیماراں دہلی کا لکھا ہوا اور اقبال پرنٹنگ پریس دہلی کا چھپا ہوا ہے قادیان کی احمدیہ لائبریری میں محفوظ ہے۔
۲۰۹۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے ایک خط محررہ یکم جون ۱۹۲۲ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۲۲ء میں تصنیف ہو چکی تھی چنانچہ فرماتے ہیں ’’حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے امیر کے نام ایک لطیف تحفہ لکھا ہے اور عبدالاحد خاں افغان کو سردست ایک خط دے کر بھیجا ہے‘‘۔ (جان پدر صفحہ ۳۵)
۲۱۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء صفحہ ۲۸۔
۲۱۱۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں امیر کابل کو یہ کتاب بذریعہ ڈاک بھجوانے کی تجویز کی گئی تھی۔ لیکن عبدالاحد صاحب افغان کا بیان ہے کہ حضرت سید ولی اللہ شاہ اور نیک محمد خاں غزنوی بمبئی گئے اور سردار محمود طرازی وزیر خارجہ کو دعوۃ الامیر دی کہ وہ شاہ کابل تک اسے پہنچا دیں۔
۲۱۲۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں ’’احمدیت اور دعوۃ الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے القا کردہ الفاظ ہو گئے ہیں‘‘۔ (الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۶)
۲۱۳۔
دعوۃ الامیر صفحہ ۲۸۳۔
۲۱۴۔
تفصیل آگے آرہی ہے۔
۲۱۵۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو زوال غازی (از عزیز ہندی)
۲۱۶۔
سید احمد محمود غزنوی (جنہوں نے عرشہ جہاز پر شاہ سے آخری ملاقات بھی کی تھی) امان اللہ خاں کی بمبئی سے روانگی کے وقت کا دردناک منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ’’عام مسافروں کے ساتھ ان کی کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ یورپ کو جانے والے مسافر بڑے اعلیٰ لباس میں پورے فیشن کے ساتھ دوڑتے نظر آتے تھے اور اگر کوئی شخص سب سے سادہ معمولی قمیص میں اور پتلون بغیر کوٹ کے پہنے ہوئے تھا تو وہ افغانستان کا سابق بے کس بادشاہ تھا میں مبالغہ نہیں کرتا۔ قمیض بھی صاف نہ تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ کئی روز سے پہنی جا رہی ہے۔ ۱۹۲۷ء کے زمانہ کو یاد کرو بمبئی میں کس زور سے استقبال کیا گیا تھا۔ جہاز کا ایک حصہ مخصوص طور پر سجایا گیا تھا۔ بڑی بڑی شاہی کرسیاں مزین تھیں جہاز کے اوپر ہوائی جہاز پرواز کر رہے تھے آج کیا ہے امان اللہ عام مسافروں کے ساتھ ہے وہ جب گزرتا ہے تو عام مسافروں کے ساتھ کھوا چھلتا ہے اگر اس دن زربفت کی پوشاک اور سر پر تاج تھا تو آج جسم پر کوٹ تک نہیں سر سے ننگے نظر آرہے تھے اور یاس و حزن کی ایک حرکت کرتی ہوئی تصویر دکھائی دیتی تھی۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر نگاہ اٹھاتا اور اپنی اس حالت پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ملکہ ثریا جو یورپ کی عورتوں میں اپنے فیشن اور اعلیٰ لباس کے باعث محبوب تھی۔ آج معمولی لباس میں بال پریشان کئے عرشہ جہاز پر اپنے کیبن کے سامنے کھڑی تھیں پژمردگی ۔افسردگی ان کے چہرہ پر نمایاں تھی معلوم ہوتا تھا کہ اپنی سابقہ جاہ و حشمت کو یاد کرکے اور موجودہ حالت کا مقابلہ کرکے بے ہوشی کے عالم میں کھڑی ہجوم خلق کو جو بڑی بے توجہی کے ساتھ اس کے پاس کھڑا ہے دیکھ رہی ہے اس کا چھوٹا بچہ جسے ولی عہد سلطنت افغانستان شہزادہ ہدایت اللہ خان کہتے تھے اس کے پاس ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ لپٹ کر پوچھتا ہے ’’مادر جان ما کجا میرویم‘‘۔ کون دل ہے جو ان الفاظ کو سن کر ٹوٹ نہ جاتا ہو ہمارے سوا شاہ نے اور کسی کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا ۔۔۔۔۔۔ سیڑھی اٹھائی گئی اور جہاز نے لنگر اٹھانے کے لئے گھنٹی بجائے۔ اب ہم نیچے اترے۔ مولانا ظفر علی خاں سے ملے اور ان کی جماعت میں شامل ہو گئے نیچے بہت سے لوگ جمع تھے جنہیں جہاز پر جانے کا موقعہ نہیں ملا جہاز کنارہ سے جدا ہوا اور صدائے اللہ اکبر امان اللہ خاں کو سنائی گئی اور اس کو یاد دلایا گیا کہ ایک سب سے بڑا بادشاہ ہے جسے چاہے تخت دے جسے چاہے اس حالت میں وطن سے نکالے۔ یہ خیال میرے دل میں تھا آنسو میری آنکھوں سے جاری تھے اور زبان پڑھ رہی تھی۔ اللھم توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء۔ امان اللہ خاں و ثریا اور اس کے بچے سامنے کھڑے دیکھ رہے تھے اور نعروں کو سن رہے تھے اچانک مولانا ظفر علی خاں نے بلند آواز سے کہا۔ ’’بسلامت روی و باز آئی‘‘۔ اس مصرعہ نے برق کا کام کیا اور اس کو سنتے ہی امان اللہ خاں جو پہلے ہی مغموم و مخزون تھے بے اختیار ہو گئے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور دیر تک خاموش کھڑے رہے پھر معاً شاہ و ثریا دونوں اپنے کیبن میں چلے گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس مصرعہ نے ان پر تیر کا کام کیا دو بجے کے قریب جہاز ساحل سے دور چلا گیا اور ہم لوگ واپس آئے و فیھا عبرہ لا ولی الابصار‘‘۔ (انقلاب لاہور ۲۹/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳)
۲۱۷۔
الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۲۱۸۔
تفسیر کبیر (سورۃ التکویر) صفحہ ۱۹۶۔ ۱۹۷ طبع اول (خان فقیر محمد صاحب نے ۱۹۳۱ء میں بیعت کی تھی)
۲۱۹۔
والد ماجد جناب ڈپٹی محمد شریف صاحب۔
۲۲۰۔
الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۔ مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں پہلے چمڑے کا گودام ہوا کرتا تھا یہ زمین ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ میں خرید کی گئی تھی (رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۸۔ ۱۹۱۷ء صفحہ ۴۸)
۲۲۱۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۲ و سفر یورپ کے برکات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ء و الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء۔
۲۲۲۔
الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۲۳۔
شیخ صاحب مرض ذیا بیطس میں مبتلا ہو کر ۲/ مارچ ۱۹۲۴ء کو فوت ہوئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شیخ صاحب کی بیماری کی خبر سنتے ہی ۲۸/ فروری ۱۹۲۴ء کو ذوالفقار علی خان صاحب کے ہاتھ اپنا ایک پر درد خط عیادت نامہ کے رنگ میں ۔۔۔۔۔۔ بھجوایا۔ جس میں تحریر فرمایا ’’میں نے بارہا حضرت مسیح موعودؑ کو رویا میں دیکھا ہے اور یہ معلوم کیا ہے کہ جہاں دوسرے بعض لوگوں پر ناراض ہیں آپ سے کم ناراض ہیں یا صرف دوستانہ گلہ آپ سے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بعض اور خوابوں میں بھی آپ کے دل کی حالت بعض دوسرے لوگوں کی نسبت اچھی دکھائی گئی ہے۔ اس لئے بھی اور ان متواتر خدمات کو یاد کرتے ہوئے جو آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کیں میرا دل آپ کی جدائی پر کڑھتا ہے‘‘۔ (الفضل ۱۱/ ۱۴ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲۔ ۱۔ ۲)
۲۲۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ہمارے مولوی محمد اسمعیل صاحب ترگڑی والے جنہوں نے ’’چھٹی مسیح‘‘ لکھی تھی۔ ان کی ایک بات مجھے بڑی اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔۔ وہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے بعد مجھے ملے وہ چونکہ بڈھے تھے اس لئے انہیں بار بار پیشاب آنے کا مرض تھا وہ مجھے کہنے لگے۔ آپ ہمارے جیسے بڈھوں کا بھی کچھ خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کیا بات ہے۔ کہنے لگے آپ کا لیکچر ہو جاتا ہے لمبا اور مجھے ہے بار بار پیشاب آنے کا مرض۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی مجھے ضرورت ہوتی ہے کہ میں اٹھوں اور جا کر پیشاب کر آئوں مگر جب پیشاب آتا ہے تو مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔ میں کہتا ہوں یہ بات جو بیان کر رہے ہیں اسے ذرا پوری طرح سن لوں یہ ختم ہو گئی تو پیشاب کر آئوں گا مگر جب وہ بات ختم ہوتی ہے تو ایک اور بات شروع ہو جاتی ہے اور وہ بھی بڑی مزیدار ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے بھی سن کر جائوں۔ غرض ادھر پیشاب سے برا حال ہو رہا ہوتا ہے اور ادھر باتیں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ اٹھ کر جانے کو جی نہیں چاہتا۔ آخر انتظار کرتے کرتے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ شدت پیشاب کی وجہ سے مثانہ پھٹنے لگتا ہے۔ یہ ان کی محبت کی ایک علامت تھی کہ انہوں نے ایک طرف اپنی تکلیف کا بھی اظہار کر دیا اور دوسری طرف اپنی محبت کا بھی اظہار کر دیا‘‘۔ (سیر روحانی طبع اول صفحہ ۴۔ لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی جلسہ ۱۹۳۸ء)
۲۲۵۔
ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک نہایت معزز احمدی رئیس جن کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے انتہائی مخلصانہ تعلق تھا۔ آپ حکومت میں پیش ہونے والے احمدی وفدوں کے ممبر ہوتے تھے۔
۲۲۶۔
الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۲۷۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۸۔
اقدس کا نسخہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے بہائیوں کو بطور ضمانت ایک ہزار روپیہ تک کی پیشکش کی گئی کہ اس کی نقل کرنے کی اجازت دے دیں مگر وہ آنوں بہانوں سے ٹال دیتے تھے۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء)
۲۲۹۔
الفضل ۶/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۹۔
۲۳۰۔
الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۳۱۔
آپ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ابتداًء مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے۔ پھر ناظم قضا جیسے اہم عہدہ پر فائز ہوئے۔
۲۳۲۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
‏]1h [tag۲۳۳۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۲۳۴۔
الفضل ۶/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۲۳۵۔
سنہ اشاعت حصہ اول ۲۴ء حصہ دوم ۲۵ء حصہ سوم ۲۷ء حصہ چہارم۔ غالباً ۱۹۲۷ء۔
۲۳۶۔
الفضل ۲۲/ فرری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۲۳۷۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۲۳۸۔
الفضل ۲۹/ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۳۹۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۲۴۰۔
الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ طبع شدہ ہے۔
۲۴۱۔
الفضل ۱۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔ و اخبار انوار الاسلام لکھنئو ۲۶/ ۲ فروری ۱۹۲۵ء مدیر حسام الدین صاحب لکھنوی۔
‏rov.5.33
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
چھٹا باب (فصل اول)
شہدائے کابل کی شہادت سے لے کر مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود سے متعلق منظم جدوجہد
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
(جنوری ۱۹۲۵ء تا دسمبر ۱۹۲۵ء بمطابق رجب ۱۳۴۳ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۴ھ)
مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کی شہادت
امیر امان اللہ خان صاحب کی حکومت جس نے ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو محض اختلاف عقیدہ کی بناء پر سنگسار کرا دیا تھا عالمگیر احتجاج پر اور بھی مشتعل ہو گئی اور اس نے ۵/ فروری ۱۹۲۵ء کو دو اور احمدی مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی صاحب ساکن کابل سنگسار کر دیئے۱`۲
سرزمین کابل میں چند ماہ کے اندر ہونے والے اس دوسرے المناک حادثہ پر جس میں دو بے گناہوں کا خون بہایا گیا تھا۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے پہلے سے زیادہ زور اور شدت سے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والوں میں دنیا بھر کے مشہور علمی دماغ شامل تھے۔ مثلاً (برطانوی مورخ) ایچ۔ جی ویلز (نامور افسانہ نگار) سر آرتھر کونن۔ سر الیور لاج۔ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبنڈ۔ تصوف اسلامی کے ماہر پروفیسر نکلسن۳۔ جناب محمد علی جوہر۔ جناب عبدالماجد دریا آبادی۔ مسٹر گاندھی۴۔
ہندوستان کے ہندو مسلم پریس نے اس واقعہ کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی چنانچہ بطور نمونہ چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔
’’انڈین ڈیلی میل‘‘ (بمبئی) نے ۱۴/ فروری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا۔
’’یہ خبر کہ کابل کے دو اور احمدی ۔۔۔۔۔۔ سنگسار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ امیر افغانستان کی شہرت کو سوائے چند متعصب ہندوستانی ملانوں کے حلقے کے اور کسی قوم میں نہیں بڑھائے گی‘‘۵۔
۲۔
’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور نے ۱۷/ فروری ۱۹۲۵ء کے پرچہ میں لکھا۔
’’اس بیسویں صدی میں ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب قوموں میں شمار کرے ایسے دل سوز منظر کا واقعہ دل میں افسوسناک خیالات پیدا کرتا ہے‘‘۶۔
۳۔
اخبار ’’ریاست‘‘ دہلی نے ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء کو لکھا۔
’’افغان گورنمنٹ کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی سزائے احتجاج بلند کریں کم ہے ۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کسی شخص کا مذہبی عقائد کی صورت میں حکومت کی طرف سے ظلم کیا جانا اور بے رحمی کے ساتھ قتل کیا جانا باعث شہادت ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ نعمت اللہ اور اس کے دو شجاع اور بہادر قادیانی بھی شہید کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے اپنے عقائد کے مقابلہ پر دنیاوی لالچ اور راحت و آرام کی پروا نہ کی اور اپنے فانی جسم کو پتھروں‘اینٹوں اور دوسری بے جان چیزوں کے حوالے کر دیا۔ ع ’’ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘‘۔
ہم جہاں افغان حکومت کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت اور انتہائی حقارت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان شہداء کے خاندان اور قادیانی فرقہ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر دنیا میں ظاہر کر دیا کہ ہندوستان اب بھی اپنے عقائد کے مقابلہ پر بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہے‘‘۷`۸
۴۔
مدراس کے مشہور اخبار ’’مدراس میل‘‘ نے کلکتہ کے اخبار سٹیٹسمین کے حوالہ سے لکھا۔
’’یہ نہایت ظالمانہ فعل جو نیم سرکاری افسروں کی ہدایات کے بموجب عمل میں لایا گیا ۔۔۔۔۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امیر جس نے بلند ارادوں اور مصلحانہ روح کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ قدامت پسند اور متعصب اثرات کے نیچے دب گیا ہے‘‘۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے مظالم پر صبر و سکون کی تلقین
شہدائے کابل کے حادثہ کی قادیان میں اطلاع جب پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسی وقت بیت الدعا
میں تشریف لے گئے اور دعا کی کہ الہیٰ تو اس حکومت پر رحم فرما اور ان کو ہدایت دے۔ دعا کے بعد حضور نے ایک تقریر کی جس میں پوری جماعت کو صبر و سکون سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو نصیحت فرمائی۔ کہ
’’مجھے اس بات کا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ افغان نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کر دیا ہے مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان مظالم کو پڑھیں گی۔ اس وقت ان کا جوش اور ان کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں4] ft[s۱۰۔
مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ اور ہندو اصحاب
مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے واقعہ شہادت کی طرح اس موقعہ پر بھی ہندوستان کے بعض متعصب اور تنگ نظر علماء نے امان اللہ خان کا یہ فعل مستحسن قرار دیا اور اسے ’’شریعت حقہ اسلامیہ‘‘ کی اہم ترین دفعہ ثابت کرنے کی کوشش کی۱۱۔ اس موقف نے دشمنان اسلام کے ہاتھ اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کو بدنام کرنے کا ایک اور ہتھیار دے دیا اور ان کو پورا پورا یقین ہو گیا کہ اسلام واقعی جبر و تشدد کا علمبردار ہے۔
چنانچہ مسٹر گاندھی نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ سنگساری کی سزا کی قرآن میں صرف خاص حالات میں اجازت ہے۔ جن کے تحت میں یہ واقعات تو آسکتے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی سزا کو اخلاق پر دھبہ قرار دوں گا ۔۔۔۔۔۔ یہ اس قسم کی سزا ہے جو انسانی جذبات کو ٹھیس لگاتی ہے خواہ جرم کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو دل اور دماغ قبول نہیں کرتے کہ کسی بھی جرم کے لئے سنگساری کی وحشیانہ سزا کو مناسب قرار دیا جائے‘‘۱۲۔
پنڈھت شردھانند نے بیان دیا کہ ’’حال کی سنگساری کے بارہ میں وزیر داخلہ کابل نے جو اعلان نکالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے یہ سنگساریاں مذہبی اختلاف کی بناء پر عمل میں آئی تھیں۔ جہاں کہیں بھی اسلامی بادشاہت قائم ہو گی وہاں قتل مرتد بذریعہ سنگساری کا قانون جاری ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہندوستان کے ہندو اس امر سے واقفیت رکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیتہ علمائے ہند سے پوچھا تھا کہ اگر قتل مرتد کا مسئلہ صحیح ہے تو ہندو کیسے مطمئن ہوں گے؟ مولانا مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کہ قتل مرتد کی اجازت اسی حالت میں ہے جبکہ مسلمان بادشاہ ہو۔ کیونکہ بادشاہ ہی ایسا حکم دے سکتا ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں جمہوری سلطنت قائم ہو جائے اور اس کا صدر مسلمان چنا جائے۔ اس وقت ان ہندوئوں اور عیسائیوں کی حالت کیا ہو گی۔ جو ایک بار مسلمان ہو کر پھر اپنے پرانے مذہب میں واپس آنا چاہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اگر ایسے وحشیانہ قانون کے برخلاف یک زبان ہو کر ساری دنیا آواز نہ اٹھائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انصاف کا خیال دنیا سے معدوم ہو گیا ہے‘‘۱۳۔
مسئلہ قتل مرتد اور جماعت احمدیہ اور دوسرے روشن خیال علماء
جماعت احمدیہ قتل مرتد کے مسئلہ ہی کو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی و مخالف سمجھتی ہے اس لئے وہ دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے شروع ہی سے یہ واضح کرتی آرہی تھی کہ امان اللہ خاں کی حکومت اور اس کے مویدین نے احمدیوں ہی کا نہیں اسلام کا بھی خون کیا ہے جماعت احمدیہ کے اس موقف کی تائید و موافقت بعض دوسرے روشن خیال علماء نے بھی کی اور جرات اور دلیری سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ نہ تو اسلام میں ارتداد کے لئے کوئی سزا مقرر ہے اور نہ احمدی مرتد ہیں۔
چنانچہ جناب مولانا محمد علی جوہر نے اس موضوع پر اپنے اخبار ہمدرد میں کئی اقساط میں ایک مفصل مقالہ سپرد قلم کیا جس میں مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ پر قرآن و حدیث سے سے بحث کرنے کے بعد لکھا۔
’’اس وقت احمدیوں کی دو جماعتیں ہیں۔ لاہوری جماعت کے عقائد تو بالکل عام مسلمانوں کے سے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب رہے قادیانی احمدی یعنی مرزا بشیر الدین صاحب۱۴ کے حلقہ کے لوگ بے شک ان کے عقائد عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ہم ان لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے مگر باوجود ان کے غلط عقائد کے ان کو کافر و مرتد کہنا صریح ظلم ہے کیونکہ وہ اہل کعبہ ہیں‘توحید‘رسالت‘قرآن اور حدیث کو ماننے اور عبادت و معاملات میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں۔ صوم و صلٰوۃ اور حج و زکٰوۃ کو فرض تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں قرآن کو کلام الٰہی اور رسول اللہ کو افضل الرسل و انبیاء مانتے ہیں۔ باقی مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو خیال انہوں نے قائم کر لیا ہے وہ ہر اک لحاظ سے غلط و باطل ہے مگر بہرصورت وہ قصور علم و کوتاہی فہم کی وجہ سے ہے۔ وہ آیات و احادیث میں تاویل کرتے ہیں اور موول کو آج تک کسی نے مرتد و کافر نہیں کہا۔ مرتد کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ مرتد و کافر قرار دے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا ط جو تم کو سلام کرے اس سے یہ مت کہو کہ تو مومن نہیں۔ اگر قصور فہم و تاویلات بعیدہ کی بناء پر کفر و ارتداد کے فتوے نکلنے اور احکام جاری ہونے لگیں تو کوئی فرقہ بھی کفر و ارتداد کی زد سے نہیں بچ سکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جو کچھ بھی عقائد ہیں وہ آیات و احادیث کے سوء فہم و قصور علم کی بناء پر ہیں۔ ایک آیت کے معنے جو ہم سمجھے ہوئے ہیں وہ اس کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔ مگر ہماری طرح وہ بھی اپنے عقائد کے ثبوت میں آیات و احادیث کے معنی و مفہوم کو اپنے طور پر اپنے فہم و ادارک کے مطابق پیش کرتے ہیں اور یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ موول کو مرتد یا کافر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ مرتد کی سزا قتل بتلائی جاتی ہے نہ کہ رجم۔ مگر افغانستان میں ان کو رجم کیا جا رہا ہے جو ایک نئی اختراع ہے۔
اگر مناظرانہ الزامات کفر و ارتداد کو معتبر قرار دیا جائے تو پھر تمام فرقے ایک دوسرے کے نزدیک واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ بہت سے غالی اور متقشف علمائے احناف شیعوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ بالخصوص قائلین افک عائشہؓ کو۔ اسی طرح شیعہ خوارج کو کافر کہتے ہیں اور مناظرانہ حیثیت میں تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کو باطل ٹھہراتے اور کفر و ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں۔ بریلی کے دارالکفر سے سینکڑوں علماء حق کی نسبت کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ خصوصاً مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر حضرت شیخ الہند قدس سرہ العزیز تک تمام علمائے دیو بندان کے نزدیک بالکل ہی مرتد و کافر تھے۔ کیا یہ سبب واجب القتل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طریقہ پر ایک ایسے فتنہ کا ۔۔۔۔۔۔ دروازہ نہیں کھل جاتا۔ جو لا انتہاء تباہی اور بربادی کا باعث ہو گا‘‘۱۵۔
سید رئیس احمد صاحب جعفری نے مولانا محمد علی جوہر کے ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’انہوں نے ان دونوں جماعتوں کے افکار و آراء کا مطالعہ کیا۔ اور پھر اپنا نظریہ یہ پیش کیا کہ اسلام میں قتل مرتد جائز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلہ پر انہوں نے آیات قرآنی‘احادیث رسول~صل۱`~ اقوال فقہاء‘خیالات آئمہ‘افکار مجتہدین کا اتنا نادر ذخیرہ جمع کر لیا کہ ایک شخص پوری بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ پر ’’ریسرچ‘‘ کر سکتا ہے۔ اس ذخیرہ سے متمتع ہونے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق ایک رائے قائم کی اور اس پر آخر وقت تک مصر رہے‘‘۱۶۔
مسلم زعماء میں سے دوسرے اہل قلم جنہوں نے اس موقعہ پر مسئلہ قتل مرتد پر محققانہ انداز میں قلم اٹھایا جناب عبدالماجد صاحب بی۔ اے دریا آبادی ہیں جنہوں نے لکھا۔
’’کابل کے واقعہ رجم کی تائید و تحسین میں بعض اخبارات کی پرجوش تحریریں اور علمائے حنفیہ کے مضامین میری نظر سے گزرے میں نے انہیں بغور پڑھا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان سے متفق و مطمئن نہ ہو سکا اور باوجود غیر احمدی ہونے کے اس باب خاص میں میری ہمدردی گروہ احمدی کے ہاتھ ہے۔
میں کسی معنی میں بھی ہرگز مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا۔ تاہم ایک عام مسلم بھی اپنے فہم و ادارک کے موافق ہر اسلامی مسئلہ میں لب کشائی کر سکتا ہے۔ اس لئے امید ہے کہ میری یہ مبادرت قابل عفو خیال کی جائے گی۔
میرے پیش نظر سوالات ذیل ہیں۔
۱۔
کیا اسلام نے ارتداد کی سزا قتل رکھی ہے؟
۲۔
کیا قتل و رجم مترادف ہیں؟
۳۔
کیا احمدیت ارتداد ہے؟
(اس کے بعد آپ نے اس مسئلہ پر جو موافق و مخالف دلائل کا تجزیہ کیا اور آخر میں لکھا۔)
’’رجم مرتد کی تائید میں تو کوئی سند بھی موجود نہیں۔ ’’قتل‘‘ مرتد کے باب میں کتاب و سنت خاموش ہیں بلکہ قرآن کریم جو رواداری عقائد کا اعلان عام کیا جا چکا ہے۔ وہ فتویٰ جو از قتل مرتد کی گویا تردید کر رہا ہے۔ صحابہ کرام کے طرز عمل سے باغیوں کے ساتھ قتال ثابت ہوتا ہے نہ کہ محض مرتدوں سے۔ آخر میں تیسرا مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ آیا مرتد کا اطلاق احمدیوں پر صحیح ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں مرتد تو شاید صرف اسے کہہ سکتے ہیں جو احکام خدا یا احکام رسول سے منحرف ہو گیا ہو۔ پھر کیا احمدیت کو کتاب و سنت کے کسی جزئیہ سے بھی انکار ہے ۔۔۔۔۔ جہاں تک میری نظر سے خود بانی سلسلہ احمدیہ جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی تصانیف گزری ہیں ان میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی۔ بلکہ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ احمدیت کے بیعت نامہ میں ایک مستقل دفعہ حضرت رسول خدا~صل۱~ کے خاتم النبین ہونے کی موجود ہے۔ مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے تھے تو اس معنی میں جس میں ہر مسلمان ایک آنے والے مسیح کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔
پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود مرزا صاحب مرحوم بانی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے ’’ارتداد‘‘ سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے ان کی تحریروں سے تو محض اتنا ہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ توحید و رسالت کے پوری طرح قائل ہیں قرآن پر حرفاًحرفاًایمان رکھتے ہیں کعبہ مومنین کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں بلکہ سردار کونین~صل۱~ کی ذات مبارک کے ساتھ محبت و شیفتگی بھی ٹپکتی ہے۔ ان سے ہمارا جو کچھ اختلاف ہے وہ بعض احکام و ہدایات کی سوء تعبیر کی بناء پر ہے نہ کہ اغراض و انکار کی بناء پر۔ اور سوء تعبیر ایسی شے نہیں جس کی بناء پر ارتداد و تکفیر کا حکم لگایا جا سکے‘‘۱۷۔
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار ’’اہلحدیث، نے بھی مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مسلک کی تائید کرتے ہوئے لکھا۔
’’ہم علی اعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے تو ہمیں اس پر بحث نہیں‘‘۔
اس کے بعد آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور لکھا۔
’’نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو کسی مرزائی کو محض مرزائی ہونے کی وجہ سے (اگر یہ صحیح ہے) سنگسار کیا گیا ہے تو قرآن‘حدیث اور کتب فقہ میں اس کا ثبوت نہیں اس لئے یہ سزا نہ حد ہے نہ تعزیز ہاں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو باصطلاح افاغنہ سیاسی حکم ہے دگر ہیچ‘‘۱۸۔
مسئلہ ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ پر سلسلہ مضامین
جماعت احمدیہ کی بار بار وضاحتوں اور جناب محمد علی صاحب جوہر اور جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی کے قابل قدر علمی مضامین کے باوجود غیر مسلموں کی طرف سے اسلام کو برابر بدنام کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ آریوں کے بااثر اخبار ’’پرکاش‘‘ لاہور (۷/ مارچ ۱۹۲۵ء) نے لکھا۔
قادیانیوں کا تعصب مذہبی ملاحظہ ہو۔ کہ عین اسی وقت جبکہ وہ حکومت افغانستان کے اس سنگدلانہ فعل کے برخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اس عنوان سے اپنے اخبار میں مضامین کی اشاعت میں بھی مشغول ہیں کہ اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی۔ کوئی ان بھلے آدمیوں سے پوچھے کہ اگر اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی تو کیا نعمت اللہ پر پھول برسائے گئے تھے۔ یا اس کی اور اس کے بعد دو اور احمدیوں کی لاشیں ابھی تک پھولوں کے ڈھیر میں دبی پڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ نعمت اللہ اور دیگر احمدیوں کو تلوار نہیں پتھروں کی مار سے مارا گیا ہے۔ لیکن پتھر کی مار تلوار کی مار سے بلاشبہ زیادہ سنگدلانہ ہے‘‘۱۹۔
اس خطرناک طعن و تشنیع کا دروازہ بند کرنے کی واحد صورت یہی تھی کہ سابقہ مضامین پر اکتفا نہ کرتے ہوئے مسئلہ قتل مرتد پر اسلامی نقطہ نگاہ سے سیر حاصل روشنی ڈالی جائے تا اسلام کا مقدس چہرہ اس بدنما داغ سے پوری طرح صاف و شفاف ہو کر غیر مسلموں کے سامنے آجائے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس اہم خدمت کے لئے مقرر فرمایا۔ جنہوں نے حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے مکرم مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی کی اعانت سے اس مسئلہ کے ہر پہلو پر زبردست تحقیق کی اور اس سلسلہ میں قرآن مجید‘احادیث نبوی اور اقوال فقہاء پر نہایت گہری اور باریک نظر ڈال کر ایسے مدلل‘متین اور زور دار رنگ میں اس نازک مسئلہ پر قلم اٹھایا کہ اپنوں اور بے گانوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں ہی کا ازالہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کا مذہب امن و صلح ہونا بھی پورے طور پر عیاں ہو گیا۔ یہ مضمون الفضل ۱۹۲۵ء میں پہلے باقساط چھپا پھر اگلے سال ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ یہ اسی عظیم الشان تصنیف کا اثر ہے کہ مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ کو (جنہوں نے اس مسئلہ کی تائید میں اہل دیوبند کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ مضامین شائع کئے تھے) بالاخر اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ’’اس دین کی اصل محکم جس کا نام اسلام ہے یہ دین کمال کو پہنچا اور نعمت پوری ہو چکی اس قرآن کریم میں مجرم ارتداد کی کوئی جسمانی سزا نہیں بتائی گئی‘‘۲۰۔
تحریک چندہ خاص
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۰/ فروری ۱۹۲۵ء کو مخلصین جماعت کو ایک لاکھ روپیہ کی خاص چندہ کی تحریک فرمائی۔ اس تحریک کا پس منظر حضور کے الفاظ میں یہ تھا۔
’’میری صحت متواتر بیماریوں سے جو تبلیغ ولایت کے متعلق تصانیف اور دوران سفر کے متواتر کام کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں بالکل ٹوٹ چکی ہے۔ اور غموں اور صدموں نے میرے جسم کو زکریا علیہ السلام کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر کبھی بھی میرا جسم راحت اور آرام کا مستحق اور میرا دل اطمینان کا محتاج تھا تو وہ یہ وقت ہے لیکن صحت کی کمزوری‘جانی۲۱ اور مالی ابتلائوں۲۲ کے باوجود بجائے آرام ملنے کے میری جان اور بھی زیادہ بوجھوں کے نیچے دبی جا رہی ہے۔ کیونکہ سفر مغرب کی وجہ سے اور اشاعت کتب کی غرض سے جو روپیہ قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی کا وقت سر پر ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے اور بیت المال کا یہ حال ہے کہ قرضہ کی ادائیگی تو الگ رہی کارکنوں کی تنخواہیں ہی تین تین ماہ کی واجب الادا ہیں۔ پس یہ غم مجھ پر مزید برآں پڑ گیا ہے کہ قرضہ ادا نہ ہونے کی صورت میں ہم پر نادہندگی اور وعدہ خلافی کا الزام نہ آئے اور اسی طرح وہ لوگ جو باہر کی اچھی ملازمتوں کو ترک کرکے قادیان میں خدمت دین کے لئے بیٹھے ہیں ان کو فاقہ کشی کی حالت میں دیکھنا اور ان کو ان کی ان تھک خدمات کے بعد قوت لایموت کے لئے بھی روپیہ نہ دے سکنا کوئی معمولی صدمہ نہیں ہے تیسرا صدمہ مجھے یہ ہے کہ اس قدر تکالیف برداشت کرکے جو سفر اختیار کیا گیا تھا اس کے اثرات کو دیرپا اور وسیع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ فوراً تجربہ کے ماتحت شام اور انگلستان میں تبلیغ کا راستہ کھولا جاتا۔ مگر مالی تنگی کی وجہ سے اس کام کو شروع نہیں کیا جا سکتا اور سب محنت کے برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ ان صدمات کے بعد جو میری صحت اور جسم کو پہنچے ہیں اور جو اپنی ذات میں ہی ایک انسان کو ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہیں اس قدر صدمات کا بوجھ میرے لئے ناقابل برداشت ہوا جا رہا ہے۔ پس میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وعدہ کے مطابق جو احباب نے سفر ولایت کے متعلق مشورہ لیتے وقت کیا تھا ایک خاص چندہ کی اپیل کروں۔
سفر ولایت پر پچاس ہزار روپیہ خرچ آیا ہے۔ اور اس خاص لٹریچر کی اشاعت پر جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوایا گیا۔ بیس ہزار روپیہ۔ موجودہ مالی تنگی کو رفع کرنے اور سفر سے جو تحریک اسلامی اور مغربی بلاد میں پیدا کی گئی تھی اس کے چلانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے۔ یہ کل ایک لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور میں اس کے لئے اب جماعت سے اپیل کرتا ہوں اور اس کے پورا کرنے کے لئے یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے۔ اس غرض کے لئے اپنی ایک مہینہ کی آمد تین ماہ میں یعنی ۱۵/ فروری سے ۱۵/ مئی تک علاوہ ماہوار چندہ کے جو وہ دیتا ہے اس خاص تحریک میں ادا کرے۔ زمیندار لوگ دونوں فصلوں کے موقعہ پر علاوہ مقررہ چندہ کے دو سیر فی من پیداوار پر ادا کریں اور اس جماعت کی عزت اور سلسلہ کے کام کو برباد ہونے سے بچایا جائے‘‘۲۳۔
جماعت احمدیہ نے اپنے پیارے امام کے ارشاد پر تین ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دیا۔
چنانچہ حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۵ء کو اعلان فرمایا۔ ’’الحمدلل¶ہ کہ میں آج اس امر کا اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ معیاد مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک لاکھ کی تحریک کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہایت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مخالفوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اعتراض کر رہے تھے کہ احمدی چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں۲۴۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں اس نے جماعت کو اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچانے کا موقعہ دے دیا ہے کہ وہ چندے دیتے دیتے تھکی نہیں بلکہ وہ اسی طرح تازہ دم ہے جس طرح کہ پہلے دن تھی۔ بلکہ مومنانہ شان کے مطابق اس کا جوش پہلے سے بھی بڑھا ہوا ہے اور وہ دین اسلام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہے اور ہر ایک بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ‘‘!۲۵
اشاعت احمدیت کے لئے خاص تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳/ فروری ۱۹۲۵ء کو تحریک فرمائی کہ ہر ایک احمدی دل میں عہد کرے کہ اشاعت سلسلہ میں ہمہ تن لگ جائے گا۔ نیز فرمایا۔
’’میرے نزدیک موجودہ ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ جب تک ایک لاکھ سالانہ سلسلہ میں لوگ داخل نہ ہوں ہماری ترقی خطرہ میں ہے۔ ہمیں جلد سے جلد اس بات پر قادر ہونا چاہئے۔ ایک لاکھ سالانہ کی رفتار سے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ جو اس کام کو جاری رکھ سکیں گے۔ موجودہ حالت میں تو ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے۔ پس جس طرح احباب سب چندہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک دو سال بھی اگر وہ سب اشاعت سلسلہ اور اخلاق کی درستی کی کوشش میں لگ جائیں جس کے ساتھ جماعت کے اندر ایک رو پیدا ہو جائے تو اس طرح ایسی تعداد پیدا ہو سکتی ہے کہ جو کام کو سنبھال سکیں‘‘۲۶۔
فرقہ وارانہ نیابت کے سوال کا حل
ان دنوں ملک میں فرقہ وارانہ نیابت کا سوال بہت پیچیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے تصفیہ کے لئے سیاسی زعماء نے دہلی میں آل انڈیا پارٹی کانفرنس بھی منعقد کی۔۲۷ مگر کچھ فیصلہ نہ ہو سکا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ مسلمان اپنا یہ مطالبہ کہ ان کو بعض صوبوں میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت دیا جائے چھوڑ دیں۔ مدراس یا بہار میں اگر وہ چند ممبریاں زیادہ بھی حاصل کر لیں گے تو اس سے ان کو اتنا فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جتنا کہ بعض صوبوں میں کثرت سے ہو سکتا ہے۔ اور آئندہ نظام اس طریق پر قائم کیا جائے کہ ہر ایک قوم کو اس کی آبادی کے مطابق حق نیابت ملے۔ صرف یہ رعایت ہو کہ جہاں قلیل التعداد اقوام کو نصف ممبری کا حق ملتا ہے وہاں ان کو ایک پوری ممبری کا حق دیا جائے بشرطیکہ آبادی کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے۔
اس ضمن میں دوسری اہم تجویز آپ نے یہ فرمائی کہ ہر قوم کا انتخاب اس کی اپنی قوم کے افراد کے ذریعہ سے کیا جاوے یعنی نہ صرف یہ شرط ہو کہ ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق نیابت دی جائے بلکہ یہ بھی شرط ہو کہ ہر قوم کے نمائندے صرف اسی کے ووٹوں سے منتخب کئے جائیں ورنہ طاقتور اور ہوشیار قومیں دوسری اقوام کے ایسے ممبروں کے منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔جو اپنی قوم کا نمائندہ کہلانے کی بجائے دوسرے زبردست یا زیادہ تعلیم یافتہ قوم کا نمائندہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہو گا۔
تیسری بات حضور نے سیاسی لیڈروں کے سامنے یہ پیش کی کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں جن کی موجودگی میں کثیر التعداد قومیں اقلیتوں پر ظلم نہ کر سکیں۔ پس آئندہ سمجھوتہ کی بنیاد ان شرائط پر ہونی چاہئے کہ
(الف) ایک قوم دوسری قوم کے مخصوص تمدنی قوانین کے خلاف بھی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ ان امور کے متعلق جو مابہ النزاع ہوں۔
(ب) ایسے امور میں نہ صرف مذاہب کے کثیر التعداد فرقوں کے خیالات کا احترام کیا جائے گا بلکہ اگر قلیل التعداد فرقہ کثیر التعداد کے خلاف ہو تو اس کے لئے کوئی قانون اس کی مرضی کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۲۸۔
مدرستہ الخواتین کا اجراء اور آپ کی مصروفیات میں اضافہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کی علمی ترقی سے متعلق سفر یورپ کے دوران میں جو سکیم بنائی تھی۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے حضور نے ۱۷/ مارچ ۱۹۲۵ء کو ’’مدرستہ الخواتین‘‘ کی بنیاد رکھی۲۹۔
چونکہ قابل معلمات اس وقت موجود نہیں تھیں اس لئے خود حضور بھی طالبات کو پڑھاتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی مصروفیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۲۵ء میں فرمایا۔
’’میں صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ خواتین میں پڑھاتا ہوں یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے۔ جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے ان میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چکیں ڈال کر عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں۔ آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں۔ مولوی شیر علی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ۔ سوا گھنٹہ تک میں انہیں پڑھاتا ہوں۔ اصل وقت تو ۴۵ منٹ مقرر ہے مگر سارے استاد اپنا کچھ نہ کچھ وقت بڑھا لیتے ہیں کیونکہ مقررہ وقت کم ہے اور تعلیم زیادہ اس کے بعد اس کمرہ میں جہاں کل دوست ملاقات کرتے ہیں جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں آکر میرا دفتری کام شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں سلسلہ کے انتظامی کاموں اور کاغذات اور سکیموں کا مطالعہ کرتا ہوں اسی دوران میں دس بجے کے قریب ڈاک آجاتی ہے جن میں روزانہ ۔۔۔۔۔۔۔ سو سوا سو خطوط ہوتے ہیں جو کم از کم دو اڑھائی گھنٹہ کا کام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں کھانا کھانے جاتا ہوں پھر نماز ظہر کے لئے جاتا ہوں نماز پڑھانے کے بعد آکر سلسلہ کے کام جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں یا دفاتر کے کاغذات پڑھنے یا تدابیر سوچنے یا بعض علمی مضامین کے لئے مطالعہ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد پھر عصر کی نماز ۔۔۔۔۔۔ پڑھانے کے بعد وہاں کچھ دیر دوستوں کے لئے بیٹھتا ہوں اور اگر درس ہو تو درس کے لئے چلا جاتا ہوں یا بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھاتا ہوں کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ وہ پڑھاتا ہوں اور اس کے بعد کھانا کھا کر عشاء کی نماز تک مطالعہ کرتا ہوں اور پھر عشا کی نماز کے بعد کام کے لئے اسی کمرہ میں چلا جاتا ہوں جہاں ۱۱ بجے اور ۱۲ بجے تک ترجمہ قرآن کریم کا کام کرتا ہوں پھر علمی شوق کے لئے ذاتی مطالعہ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے تک یہ مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد جب بستر پر لیٹتا ہوں تو تھکان کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ آنکھوں کے سامنے چیزیں ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ تھکان کی وجہ سے اعصاب کانپ رہے ہوتے ہیں اسی حالت میں نیند آجاتی ہے پھر صبح کی نماز کے بعد کام کا یہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۳۰۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کے متعلق اھم اعلان
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس شوریٰ (منعقدہ ۱۹۲۵ء) کے موقعہ پر یہ اہم اعلان فرمایا۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے۔ محمد~صل۱~ کا بروز ہو کر آئے تھے۔ اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریر کی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا۔ مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دوں گا‘‘۳۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا چوتھا نکاح
(حرم ثانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات سے جماعت میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مدنظر احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک اہم سکیم تھی جو ان کی وفات سے درمیان میں ہی رہ گئی۳۲۔
اگر آپ لاکھوں کی جماعت کے امام نہ ہوتے اور احمدی مستورات کی ترقی و بہبود اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ پر عائد نہ ہوتی تو آپ کے لئے کسی اور نکاح کا خیال ہی دکھے ہوئے دل کو ٹھیس لگانے کے لئے کافی تھا کیونکہ جسمانی و مالی پہلو دونوں مخدوش اور سقیم تھے اور دو بیویاں اور بچے موجود تھے۳۳۔ لیکن آپ محض مفاد سلسلہ کی خاطر تیسرے نکاح کے لئے آمادہ ہو گئے اور مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری سے ان کی دختر نیک اختر سارہ بیگم صاحبہ کے لئے کم از کم تین سو مرتبہ استخارہ کرکے سلسلہ جنبانی شروع کیا۳۴۔
آخر جب فریقین کی طرف سے معاملہ طے پا گیا تو ۱۲۔ ۱۳/ اپریل ۱۹۲۵ء کو مسجد اقصیٰ میں حضور کے اس مبارک نکاح کی تقریب عمل میں آئی۔ حضور نے اپنا خطبہ نکاح خود پڑھا اور اس کے اغراض و مقاصد پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۳۵۔
سرزمین حجاز کی خانہ جنگی اور جماعت احمدیہ
جنگ عظیم کے خاتمہ پر تمام عرب ممالک کی ایک وسیع مملکت بنانے کا جو وعدہ انگریزوں نے کیا تھا۔ وہ تو پورا نہ کیا۔ البتہ عربوں کے لیڈر شریف حسین (شریف مکہ) کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کر لیا شریف حسین اس وعدہ خلافی پر بہت تلملائے۔ نجد کے سلطان امیر عبدالعزیز ابن سعود نے حجاز پر چڑھائی کر دی اس لڑائی میں جیسا کہ بعد کو انکشاف ہوا۔ ابن سعود اور شریف حسین دونوں کو برطانیہ کی خفیہ امداد حاصل تھی۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت امیر عبدالعزیز ابن سعود کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور مصر کے برطانوی حکمران شریف حسین کو امداد دے رہے تھے۳۶۔ امیر عبدالعزیز ابن سعود کی فوجیں تجربہ کار تھیں شریف حسین کو شکست پر شکست ہونے لگی اور طائف بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ مگر ابھی تک شریف حسین میں تاب مقابلہ تھی۔ لیکن جونہی مکہ مکرمہ پر سعودی لشکر نے حملہ کیا تو انہوں نے اس خیال سے کہ اہل مکہ ہی اس کے خلاف کہیں بغاوت نہ کر دیں اور ان کے لئے بھاگنے کا رستہ نہ رہے خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی اور ان کے بڑے لڑکے شریف علی نے ان کی جگہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنی فوج ترتیب دے کر جدہ کو اپنا صدر مقام بنا لیا اور کھلے میدان میں جنگ کرنے کی بجائے ساحل سمندر کے پاس شہروں میں محصور ہو گئے۳۷۔ اور اس طرح وسط ۱۹۲۵ء میں حجاز کی صورت یہ تھی کہ امیر ابن سعود کا مکہ مکرمہ پر اقتدار ہو چکا تھا۔ مگر جدہ کی مشہور بندرگاہ جو ہندوستانی حجاج کا صرف ایک ہی راستہ تھی شریف حسین کے قبضہ میں تھی۔ مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈر برابر زور دے کر حج کے لئے جہاز روانہ کروا رہے تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک مضمون میں (جو الفضل ۱۹۲۵ء کی تین اشاعتوں میں شائع ہوا) مسلمانوں کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ فتنہ کے ان ایام میں حج کا ارادہ ملتوی کر دیں۔ کیونکہ حج کی شرائط میں ایک اہم شرط امن کا وجود ہے جو موجودہ حالات میں مفقود ہے۳۸۔
اس مشورہ کے ساتھ ہی حضور نے (امیر ابن سعود اور شریف مکہ کی کشمکش اور عرب پر اس کے سیاسی اور تمدنی اثرات کا جائزہ لینے کے علاوہ بتایا کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں جبکہ اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھارہی تھیں ’’خدا تعالیٰ کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا کئے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے عرب میں خدا تعالیٰ نے محمد بن عبدالوہاب کو چنا‘‘۔ اس تفصیل کے بعد سعودی خاندان کی پوری تاریخ پر روشنی ڈالی اور سعودی حکومت کی نسبت یہ رائے دی کہ ’’ہمارا پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ احمدیت میں جس قدر جلد وہابی۳۹ داخل ہوتے ہیں اس قدر جلد کوئی دوسرا فرقہ مسلمانوں کا داخل نہیں ہوتا۔ پس جماعت احمدیہ کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حجاز پر وہابیوں کی حکومت ہمارے لئے گو مشکلات بھی پیدا کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر انجام کار انشاء اللہ ہمارے سلسلہ کے لئے مفید ہوگی4]‘‘ [stf۴۰۔
اس کے چند ماہ بعد امیر عبدالعزیز ابن سعود۴۱ نے شریف علی کو مکمل شکست دے دی اور نجد و حجاز کو ملحق کرکے مملکت سعودیہ عربیہ کے نام سے اپنی حکومت قائم کر لی جسے آہستہ آہستہ سب حکومتوں نے تسلیم کر لیا۔
‏rov.5.34
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
چھٹا باب (فصل دوم)
دارالتبلیغ شام و فلسطین
ابھی جماعت احمدیہ کا باقاعدہ قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ۶/ اپریل ۱۸۸۵ء کو الہام نازل فرمایا کہ ’’یدعون لک ابدال الشام و عباداللہ من العرب۔۴۲ یعنی تیرے لئے ابدال شام اور عرب کے نیک بندے دعا کرتے ہیں۔
اس آسمانی خبر کے قریباً چار سال بعد لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی۔ اور ۱۰/ جولائی ۱۸۹۱ء کو مکہ مکرمہ کے ایک بزرگ محمد بن شیخ احمد۴۳ (ساکن محلہ شعب عامر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے۔ بلاد عربیہ کے دوسرے بزرگ۴۴ جنہوں نے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ السید محمد سعید النشار الحمید انی الطرابلسی تھے ان کے علاوہ طائف میں عثمان صاحب اسکندریہ (مصر) میں السید احمد زہری بدر الدین۴۵ اور یمن میں الحاج محمد المغربی۴۶ حضور علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان لائے۔
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد بلاد عربیہ تک اپنی دعوت پہنچانے کے لئے فصیح و بلیغ عربی میں متعدد تالیفات فرمائیں۴۷۔
یہ مبارک لٹریچر بلاد عربیہ اور دوسرے عربی سمجھنے والے ممالک میں پھیلا دیا۴۸۔ اس طرح حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی کے زمانہ میں احمدیت کا پیغام ان ممالک تک پہنچ گیا۔ اسی زمانہ میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصر میں تشریف لے گئے اور احمدیت کی دعوت پہنچاتے رہے۴۹۔
خلافت اولیٰ کے آخری دور میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری نو مسلم مصر میں بغرض تعلیم گئے۵۰۔ اور اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تبلیغ سلسلہ میں بھی مصروف رہے۔ ان کے بعد ۱۹۲۲ء میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا احمدیہ دارالتبلیغ مصر میں قائم ہوا۵۱۔
اب اس سال (۱۹۲۵ء میں) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شام میں نیا دارالتبلیغ کھولنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو روانہ فرمایا اور انہیں الوداع کرتے ہوئے جہاں اور کئی نصائح فرمائیں وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا۔ کہ
’’اہل عرب کے ہم پر بہت بڑے احسان ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم تک اسلام پہنچا ہمارا ]ksn [tagرونگٹا رونگٹا ان کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہے۔ ان کا بدلہ دینے کے لئے ہمارے یہ مبلغ وہاں جا رہے ہیں۔ ان میں سے سید ولی اللہ شاہ صاحب پر دوہری ذمہ داری ہے۔ کیونکہ انہوں نے علم بھی اس ملک سے حاصل کیا ہے۔ اب ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کو روحانی علم دیں۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ مبلغ کی حیثیت سے نہیں جارہے بلکہ مدبر کی حیثیت سے جارہے ہیں ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے مبلغ کی حیثیت سے مولوی جلال الدین صاحب جا رہے ہیں ان کو اسی مقصد کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چاہئے تاکہ ان کے جانے کا مقصد فوت نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ کام ہے کہ ان کے ذریعہ جو جماعت خدا تعالیٰ پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ترقی ہی موجب تنزل ہو گی ۔۔۔۔ پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے۔ اگر شامی احمدی ہوں تو انہیں یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ ہم ’’شامی احمدی‘‘ ہیں اسی طرح جو مصری احمدی ہوں۔ ان کے دل میں یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ ہم ’’مصری احمدی‘‘ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ مذہب اسلام وطنیت کو مٹانے کے لئے آیا ہے۔ اس لئے نہیں کہ حب وطن کو مٹانا چاہتا ہے اسلام تو خود کہتا ہے حب الوطن ایمان کی علامت ہے مگر وہ وطن کو ادنیٰ قرار دیتا ہے اور اس سے اعلیٰ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو وطن سمجھو دنیا سے مراد تو وہ انسان ہوتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں مگر انسانیت سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو پہلے گزر چکے اور جو آئندہ آئیں گے ایک مسلمان کا کام جہاں پہلوں کی نیکیوں کو قائم کرنا اور ان کے الزامات کو مٹانا ہوتا ہے وہاں آئندہ نسلوں کے لئے سامان رشد پیدا کرنا بھی ہوتا ہے اس کے لئے انسانیت ہی مطمح نظر ہو سکتی ہے پس ہمارے مبلغوں کو یہ مقصد مدنظر رکھ کر کھڑا ہونا چاہئے اور ہمیشہ اسی کو مدنظر رکھنا چاہئے‘‘۵۲۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس ۲۷/ جون ۱۹۲۵ء۵۳ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ جولائی ۱۹۲۵ء کو دمشق پہنچے۵۴۔ حضرت شاہ صاحب کے دوستوں اور شاگردوں کا حلقہ بیت المقدس اور شام میں وسیع تھا۔ جس سے انہوں نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تعارف کرایا۔ قیام دمشق کے دوران میں آپ نے ’’کشتی نوحؑ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ایک ٹریکٹ ’’الحقائق عن الاحمدیہ‘‘ چھپوایا اور ایک مبسوط کتاب ’’حیات المسیح و وفاتہ‘‘ کے نام سے شائع کی۔ جس کا عیسائیوں کے علاوہ بڑے بڑے مسلمان عالموں اور فلاسفروں پر بھی بہت اثر پڑا۔ چنانچہ مصر کے مشہور مفکر احمدز کی پاشا نے تسلیم کیا کہ وفات مسیح کے متعلق جو تحقیق احمدیوں نے کی ہے اور جس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی اور عیسائیت پر کاری ضرب لگتی ہے۔ ان کے علاوہ محسن البرازی بیک نے (جو پہلے حکومت شام کے سابق وزیر اور پھر القصر الجمہوری معتمد اول منتخب ہوئے) کہا کہ افسوس اگر میرے دینوی مشاغل مانع نہ ہوتے تو سب سے بہترین کام جس کے اختیار کرنے میں فخر کرتا وہ تبلیغ اسلام تھا جسے احمدی انجام دے رہے ہیں۵۵۔
ان دنوں عراق میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا۔ ہندوستانی احمدی انفرادی طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے۔ حکومت عراق نے انہیں تبلیغ احمدیت کی ممانعت کر دی اور ان کے پرائیوٹ اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے راستہ سے آئیں اور کوشش کریں کہ یہ ناروا پابندیاں اٹھا دی جائیں چنانچہ شاہ صاحب شروع ۱۹۲۶ء میں بغداد پہنچے اور امیر فیصل سے ملاقات کی اور خوبی اور عمدگی سے پورا معاملہ ان کے سامنے رکھا۵۶ جس پر حکومت عراق نے سب پابندیاں اٹھا دیں۵۷۔
حضرت شاہ صاحب موصوف سفارت عراق میں کامیاب ہو کر ۱۰/ مئی ۱۹۲۶ء۵۸ کو قادیان تشریف لائے تو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔
’’میرے نزدیک شاہ صاحب نے اس سفر میں ایک بڑا کام ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ عراق کے متعلق ہے۔ سیاستاً یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو دور تک اثر رکھتا ہے ۔۔۔۔۔ ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ کوشش کر چکے تھے۔ مگر پھر بھی اجازت نہ حاصل ہوئی تھی۔ وہاں سے ہمارے کئی آدمی اس لئے نکالے جا چکے تھے کہ وہ تبلیغ کرتے تھے۔ اپنے گھر میں جلسہ کرنا بھی منع تھا۔ ان حالات میں کوشش کرکے کلی طور پر روک اٹھا دینا بلکہ وہاں ایسے خیالات پیدا ہو جانا جو ان کے دل میں ہمدردی اور محبت ثابت کرتے ہیں بہت بڑا کام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔ پس شاہ صاحب نے یہ بہت بڑی خدمت کی ہے‘‘۵۹۔
شاہ صاحب کی خصوصی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم پھر دارالتبلیغ شام و فلسطین کے ابتدائی حالات کی طرف واپس آتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ شام و فلسطین میں بحیثیت مبلغ مولانا جلال الدین صاحب شمس تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے شاہ صاحب کی معیت میں وہاں پہنچتے ہی تبلیغ شروع کر دی اسی دوران میں نومبر ۱۹۲۵ء میں درزیوں نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا جس پر شام کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر مسلسل بمباری کرکے تباہی مچا دی اگر ان ناموافق حالات میں بھی آپ شاہ صاحب کے ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہے اور یکم اپریل ۱۹۲۶ء تک دمشق میں ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۶۰۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔ ’’ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ ۔۔۔۔۔ تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا۔ الخ ۔۔۔۔۔۔۔۶۱
۱۹۲۷ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دمشق میں ایک تحریری مناظرہ ڈنمارک کے ایک مشہور پادری الفریڈ نلسن سے کیا جو بیس سال سے شام کے علاقہ میں عیسائیت کا کام کر رہے تھے اور شام کے عیسائی مشنوں کے انچارج تھے۔ موضوع مناظرہ یہ تھا کہ کیا حضرت مسیح ناصری فی الواقعہ صلیب پر فوت ہوئے؟ مناظرہ کے محرک السید منیر الحصنی صاحب تھے جو احمدی مناظر کے دلائل سن کر احمدیت میں شامل ہو گئے اور اخلاص میں اتنی ترقی کی کہ جماعت شام کے امیر و مبلغ بنے۔ چنانچہ آپ خود لکھتے ہیں۔
’’میرے قبول احمدیت کا سب سے بڑا سبب یہی مناظرہ تھا۔ کیونکہ میں نے دیکھا کہ احمدی مبلغ کے دلائل و براہین لاجواب تھے۔ مسیحی مناظر سے ان کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور عزت و غلبہ اسلام نصف النہار کی طرح ظاہر ہو گیا۔ عیسائی پادری اور مولانا شمس صاحب میں مناظرہ سے پہلے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اختتام مناظرہ پر پوری روئداد مناظرہ فریقین کے خرچ پر طبع کرائی جائے گی۔ لیکن جب مناظرہ ہو چکا تو وہ اپنے عہد سے پھر گیا۔ اس مناظرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ قبول احمدیت کے لئے کھول دیا اور مجھے مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا‘‘۶۲۔ یہ مناظرہ ’’اعجب الاعا جیب فی نفی الانا جیل لموت المسیح علی الصلیب‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
عیسائیت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے علاوہ آپ نے علماء ومشائخ کا بھی مقابلہ کیا۔ مگر آپ کے دلائل و براہین کا وہی جواب دیا گیا جو ہمیشہ مخالفین حق دیا کرتے ہیں۔ یعنی دسمبر ۱۹۲۷ء۶۳ میں آپ پر خنجر سے قاتلانہ حملہ کرا کے سخت زخمی کر دیا گیا۔ آپ کے زخم مندمل ہوئے تو علماء کی انگیخت پر فرانسیسی حکومت نے ۹/ مارچ ۱۹۲۸ء کو حکم دیا کہ آپ شام کا ملک چھوڑ دیں۔ جس کی اطلاع آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں بذریعہ تار دی۔ حضور نے آپ کو فلسطین کی بندرگاہ حیفا میں جانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ السید منیر الحصنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام امیر مقرر کرکے ۱۷/ مارچ ۱۹۲۸ء کو حیفا پہنچ گئے اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی۔
شروع شروع میں یہاں بھی آپ کی سخت مخالفت ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ حیفا میں بھی جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب مشائخ نے دیکھا کہ یہاں لوگ احمدیت کو بنظر استحسان دیکھنے لگے ہیں تو انہوں نے سخت مخالفت شروع کر دی آخر ایک عالم شیخ کامل قصاب سے آپ کا دو دن مباحثہ ہوا۔ شیخ مذکور نے اپنی شکست محسوس کرکے عوام کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔
ان مخدوش حالات کے باوجود آپ برابر تبلیغی کوششوں میں مصروف رہے۔ چنانچہ اپریل ۱۹۲۸ء سے فروری ۱۹۲۹ء تک آپ کے آٹھ پرائیویٹ مناظرے علماء سے دو بہائیوں اور سات عیسائیوں سے ہوئے۔ عیسائیوں کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان کا اثر مسلمانوں پر بہت اچھا ہوا اور مشائخ کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان میں سے پہلے مناظرہ میں مدمقابل عالم نے اپنی شکست محسوس کر لی۔ اس لئے دوسرے مناظرہ میں شرائط مناظرہ کی خلاف ورزی کی جس کا نتیجہ فوری طور پر یہ ہوا کہ جو صاحب محرک مناظرہ تھے وہ احمدی ہو گئے ان کی بیعت پر مشائخ اور بھی زیادہ مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اور تمام مساجد میں جمعہ کے دن جبکہ دیہات سے بھی سینکڑوں لوگ حیفا میں آئے ہوئے تھے سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلاف تقریریں کیں۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ سلسلہ سے ناواقف لوگ واقف ہو گئے اور جو واقف تھے وہ قریب تر ہو کر سلسلہ کے حالات کا مزید مطالعہ کرنے لگے۔
۳/ جون ۱۹۲۸ء کو آپ بعض دوستوں کے ہمراہ سیر کرتے ہوئے (کبابیر کے نیچے واقع) وادی السیاح میں پہنچے جہاں ان کی ملاقات الحاج محمد المغربی الطرابلسی سے ہوئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لا چکے ہیں۔ اور ان کے ایمان کا باعث حضرت اقدس کی بعض تالیفات تھیں جو کسی طرح یمن میں امام محمد بن ادریس کے پاس پہنچی تھیں۔ یہ بزرگ پہلے ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ مگر اب اپنے دو شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۶۴۔ ۱۹۳۰ء میں جبکہ کبابیر میں الحاج صالح عبدالقادر عودہ نے اپنے خاندان سمیت احمدیت قبول کر لی۔ الحاج مغربی بھی کبابیر میں آگئے اور کبابیر کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا اور مدرسہ کبابیر قائم ہونے تک باقاعدہ یہ خدمت بجا لاتے رہے۶۵۔
وسط ۱۹۲۹ء میں علماء نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر مخالفت تیز کر دی چنانچہ انہوں نے فلسطین کی ’’المجلس الاسلامی الاعلیٰ‘‘ سے ایک مبلغ آپ کے مقابلہ کے لئے بلوایا جس نے ’’جمعیتہ الشبان المسلمین‘‘ اور دوسرے مقامی علماء کے ساتھ مل کر احمدیوں پر جبر و تشدد کرنا شروع کیا۔ اس شور و شر کے تھوڑے عرصہ کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں میں جھگڑا شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کے خلاف مظاہرات کرنے لگے اور قتل کی وارداتیں شروع ہو گئیں اور معلوم ہو گیا کہ فسادی عنصر آپ کے مکان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ آپ کو فساد کے اندیشہ سے مجبوراً دوسرے مکان میں منتقل ہونا پڑا4] [stf۶۶۔
۳/ اپریل ۱۹۳۱ء۶۷ (بمطابق ۱۶ ذوالقعدہ ۱۳۴۹ھ) کو آپ نے کبابیر۶۸ میں ’’جامع سیدنا محمود‘‘ کی بنیاد رکھی جو بلاد عربیہ میں پہلی احمدیہ مسجد ہے مسجد کی صرف چھت ڈالنا باقی رہ گئی تھی کہ آپ واپسی کے لئے مصر روانہ ہو گئے۔ اس مسجد کی تعمیر میں کبابیر کے سب احمدی مردوں‘عورتوں اور بچوں نے حصہ لیا۔ آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء تک فلسطین میں رہے آپ کے زمانہ قیام میں حیفا اور طیرہ میں دو مستقل جماعتیں قائم ہوئیں اور بلاد عربیہ کے اہم مقامات مثلاً بغداد‘موصل بیروت‘حمص‘حماۃ لاذقیہ اور عمان وغیرہ میں تبلیغی خطوط کے ذریعہ پیغام احمدیت پہنچا۶۹`۷۰۔
شام و فلسطین میں آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف شائع ہوئیں۔ ’’اعجب الاعا حبیب فی نفی الاناجیل لموت المسیح علی الصلیب‘‘۔ البرھان الصریح فی ابطال الوھیہ المسیح‘‘۔ الھدیہ السنیہ لفئہ المبشرہ المسیحیہ‘‘۔ ’’حکمہ الصیام‘‘ ’’میزان الاقوال‘‘۔ ‘‘’’توضیح المرام فی الرد علی علماء حمص و طرابلس الشام‘‘۔ دلیل المسلمین فی الرد علی فتاوی المفتین‘‘۔
‏body] [tagآپ ابھی حیفا میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے مولانا ابوالعطاء صاحب ۱۳/ اگست ۱۹۳۱ء۷۱ کو قادیان سے روانہ ہو کر ۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء۷۲ کو حیفا پہنچے۔ مولانا شمس صاحب نے آپ کو مشن کا چارج دیا اور ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء۷۳ کو قادیان مراجعت پذیر ہوئے۔
آپ کی واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو توفیق دی ہے کہ انہوں نے سچائی کی خاطر جانیں دیں جیسا کہ افغان ہیں۔ ہندوستانیوں کو ابھی تک ایسا موقعہ نہیں ملا۔ اور ایسا تو بالکل نہیں ملا کہ وہ جانتے ہوں کہ ان کی جان لی جائے گی اور پھر جان لی گئی ہو۔ مگر ایسا بھی موقعہ نہیں ملا کہ بے جانے حملہ کرکے جان لی گئی ہو۔
اس قسم کا پہلا موقعہ مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے مولوی جلال الدین صاحب کو ملا‘‘۷۴۔
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ستمبر ۱۹۳۱ء سے آخر جنوری ۱۹۳۶ء تک قیام پذیر رہے۔ آپ کے زمانہ میں دارالتبلیغ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا۔
آپ نے کبابیر میں ’’مسجد جامع سیدنا محمود‘‘ کی تکمیل کرائی۔ مولانا شمس صاحب نے ۱۹۳۰ء میں ایک مکتب جاری کیا تھا۔ جس میں الشیخ محمد المغربی لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے اس کا باقاعدہ مدرسہ احمدیہ کی صورت میں افتتاح اب مولوی ابوالعطاء صاحب کے ذریعہ سے یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو ہوا۔ آپ اس مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے اور الشیخ سلیم محمد الربانی‘الشیخ ابو حسین مصطفیٰ الفحماوی‘الحاج عبداللہ العراقی‘السید منیر الحصنی]10 [p۷۵ اور محمد سعید بخت ولی اس کے ابتدائی اساتذہ !! اس کے علاوہ آپ نے ’’المطبعہ الاحمدیہ‘‘ کے نام سے کبابیر میں پہلا احمدیہ پریس جاری کیا جس کا افتتاح ۶/ مارچ ۱۹۳۵ء کو ہوا اور سب سے پہلے اس پر حضرت مسیح موعودؑ کے اشتہار ’’دعوت حق‘‘ کا عربی ترجمہ شائع کیا۷۶۔
آپ کے زمانہ میں بھی علماء اور مسیحی منادوں سے زبردست مقابلہ جاری رہا اور متعدد تحریری و تقریری مناظرے ہوئے جن میں اللہ تعالیٰ نے اسلام و احمدیت کو غلبہ عطا فرمایا اور بہت سے لوگوں تک پیغام حق پہنچا۔ اس دوران میں آپ قاہرہ‘راس البر‘دمیاط اور اسکندریہ بھی تشریف لے گئے۷۷۔ عیسائیوں کے علاوہ آپ نے یہودیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی اور عبرانی زبان میں بھی ان کے لئے ایک ٹرکٹ شائع کیا۔ یہودیوں کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ انہیں عبرانی زبان میں مسلمانوں کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا اور انہیں حیرت ہوئی کہ اب ہمیں عبرانی میں بھی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے۔
آپ کے زمانہ قیام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے گاہے گاہے کوئی ٹریکٹ یا رسالہ شائع کرنے کی بجائے باقاعدہ مقررہ وقت پر شائع ہونے والے رسالہ کی بنیاد رکھی اور پہلے شروع میں ایک سہ ماہی رسالہ ’’البشارہ الاسلامیہ الاحمدیہ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ جسے بعد میں جنوری ۱۹۳۵ء میں ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے ماہوار کر دیا جو آئندہ چل کر بلاد عربیہ کے طول و عرض میں اسلام و احمدیت کا پیغام پھیلانے میں موثر ترین ذریعہ ثابت ہوا۔
آپ نے باقاعدہ سہ ماہی یا ماہوار رسالہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لٹریچر شائع کیا۔ (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح ایک مبسوط دیباچہ کے ساتھ۔ (۲) نبراس المومنین (سو احادیث نبویہ کا مجموعہ) یہ کتاب مدرسہ احمدیہ کبابیر کے نصاب میں داخل تھی۔ (۳) عین الضیاء (۴) القول المتین فی بیان معنی خاتم النبین (۵) عشرون دلیلا علی بطلان لا ھوت المسیح (۶) الدین الحی الخالد (۷) دعوہ عامہ الی المناظرہ (۸) رسالہ اخلاص الی کل مسیحی متدین‘‘۷۸۔
آپ کے زمانہ میں ام الفحم اور موضع عارہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور کبابیر‘حیفا اور برجا میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۷۹۔
مولانا ابوالعطاء صاحب مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کو چارج دے کر شام اور عراق کے راستہ سے ۲۴/ فروری ۱۹۳۶ء کو قادیان پہنچ گئے۸۰۔
مولوی محمد سلیم صاحب ۴/ جنوری ۱۹۳۶ء۸۱ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۷/ جنوری ۱۹۳۶ء کو حیفا پہنچے ہی تھے۸۲ کہ آپ کے چارج لینے کے چند ہفتے بعد فلسطین بھر میں عربوں اور یہودیوں کی باہمی کشمکش کی وجہ سے عام ہڑتال شروع ہو گئی۔ جو چھ ماہ تک جاری رہی۔ جس نے جلدی شورش کی شکل اختیار کر لی۔ تاہم آپ نے دارالتبلیغ کے مرکز کبابیر میں درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھا۔ ’’البشریٰ‘‘ کی ادارت کا کام خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھا مدرسہ کبابیر کی ترقی و بہبود میں دلچسپی لی اور فلسطین‘شرق اردن اور مصر میں علماء ازہر نیز عیسائی پادریوں سے مناظرے کئے جن میں سچائی کو فتح نصیب ہوئی۔ آپ کے وقت میں بھی کئی سعید روحیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہوئیں۸۳۔ آپ نے اپنے زمانہ قیام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب ’’الاستفتاء‘‘ شائع کی۔ اور رسالہ اسئلہ واجوبہ (پہلا حصہ) بھی لکھا۔
مولوی محمد سلیم صاحب فاضل قریباً دو سال تک فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۰/ مارچ ۱۹۳۸ء کو واپس آگئے۸۴۔ تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری محمد شریف صاحب فاضل کو فلسطین روانہ فرمایا۸۵۔
آپ ۷/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو حیفا پہنچے آپ بلاد عربیہ میں قریباً ۱۸ سال تک تبلیغ احمدیت میں مصروف رہنے کے بعد ۱۵/ دسمبر ۱۹۵۵ء کو ربوہ میں واپس آئے۔
آپ کا دور تبلیغ بڑے صبر آزما حالات میں گزرا۔ عربوں اور یہودیوں کی کشمکش پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کر گئی۔ اسی دوران میں آپ کے قتل کا منصوبہ بھی کیا گیا جو ناکام ہو گیا۔ فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی خانہ جنگی جب انتہاء کو پہنچ گئی تو نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلہ کا اعلان ہوا۸۶اور ۱۵/ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل حکومت قائم ہو گئی اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ جہاں ہزاروں بے گناہ عرب مارے گئے اور لاکھوں بے خانماں ہوئے حیفا اور کیا بیر باقی ملک سے کٹ گیا اور متعدد احمدی جماعتیں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئیں۸۷۔
ابھی تقسیم فلسطین کا آخری فیصلہ ہوا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے شیخ نور احمد صاحب منیر اور مولوی رشید احمد صاحب چغتائی بالترتیب ۱۳/ اکتوبر ۱۹۴۵ء اور ۲۳/ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بلاد عربیہ میں تبلیغ کے لئے فلسطین روانہ ہوئے۔
شیخ نور احمد صاحب منیر چند ماہ فلسطین میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۷/ ستمبر ۱۹۴۶ء کو شام میں آگئے۔ اور جماعت احمدیہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اس ملک کے اونچے طبقہ تک پیغام احمدیت پہنچایا اور ملکی پریس کے ذریعہ عوامی حلقوں کو بھی جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں سے روشناس کرایا۔ پھر آپ ہی کے دوران قیام میں فلسطینی احمدی نہایت بے سرو سامانی سے دمشق میں پناہ گزین ہوئے جن کی آباد کاری کا انتظام بھی آپ نے السید منیر الحصنی صاحب سے مل کر کیا۔ اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ دمشق نے بہت اخلاص اور ہمدردی کا نمونہ دکھایا اور احمدی مہاجرین کی خصوصاً اور دوسرے مہاجرین کی عموماً ہر ممکن امداد کی۔ آپ ۱۷/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو واپس مرکز (ربوہ) میں آگئے۸۸۔
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے فلسطین میں پہنچنے کے ایک سال بعد چونکہ فلسطین کی صورت حال بہت زیادہ نازک ہو گئی تھی اس لئے چوہدری محمد شریف صاحب نے انہیں ۳/ مارچ ۱۹۴۸ء کو شرق اردن میں نیا مشن قائم کرنے کے لئے بھجوا دیا۔ جہاں آپ ۱۷/ جولائی ۱۹۴۹ء تک تبلیغی فرائض ادا کرنے کے بعد دمشق میں آگئے اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد لبنان مشن کی بنیاد رکھی اور ۲۲/ دسمبر ۱۹۵۱ء کو مرکز (ربوہ) میں پہنچے۸۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ انچارج کے اس بروقت اقدام کی تعریف کرتے اور السید منیر الحصنی اور شیخ نور احمد صاحب منیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے اور خطرناک جگہ وہی تھی جہاں ہماری جماعت تھی۔ حیفا کی جماعت کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی دمشق چلا گیا تھا۔ باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی۔ چوہدری محمد شریف صاحب نے جو وہاں کے مشنری انچارج تھے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرق اردن بھجوا دیا اور اسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کرو۔ گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی اور اپنا ایک ساتھی شرق اردن میں بھجوا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا۔ تحریک جدید کے ماتحت شیخ نور احمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے وہاں کے دوست منیر الحصنی صاحب مقامی احمدی ہیں جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں ان کے چھوٹے بھائی دمشق کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور ان کے ایک بھائی کی قاہرہ (مصر) میں ایک بڑی دکان ہے ان کے خاندان کے سب افراد احمدی ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادرم منیر الحصنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے‘‘۹۰۔
چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے اپنے زمانہ قیام فلسطین میں مندرجہ ذیل اہم خدمات انجام دیں۔
۱۔
احمدیہ پریس (کبابیر) متروک الاستعمال اور مقفل ہو چکا ہے۔ جسے آپ نے نومبر ۱۹۳۸ء میں درست کرا کے اسی سے رسالہ (البشریٰ) شائع کرنا شروع کیا۔ جو آپ کے زمانہ قیام تک باقاعدگی سے آپ کی ادارت میں نکلتا رہا۔
۲۔
احمدیہ پریس اور احمدیہ کتب خانہ عارضی طور پر بنائے گئے تھے جو آپ نے از سر نو پختہ تعمیر کرائے۹۱۔
۳۔
مدرسہ احمدیہ کبابیر کو ترقی دی۔
۴۔
حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’’تحفہ بغداد‘‘۔ ’’حمامتہ البشری‘‘۔ ’’نجم الہدیٰ‘‘۔ ’’لجتہ النور‘‘۔ ’’حقیقتہ المہدی‘‘۔ ’’مکتوب احمد الیٰ علماء الہند و غیرھا من البلاد الاسلامیہ‘‘۔ (عربی حصہ ’’انجام آتھم)‘‘ ’’الہدیٰ و التبصرۃ لمن یرسیٰ‘‘۔
۵۔
حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مندرجہ ذیل اردو کتب کے تراجم شائع کئے۔ ’’تجلیات الٰہیہ‘‘۔ ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘۔ ’’الوصیت‘‘۔ ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘۔ ’’نظام نو‘‘۔ ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘۔ (موخر الذکر دو کتابوں کے مترجم جماعت احمدیہ مصر کے پریذیڈنٹ الاستاذ بسیونی ہیں)
۶۔
مندرجہ ذیل تالیفات کرکے شائع کیں۔ ’’التاویل الصحیح لنزول المسیح‘‘۔ ’’اسئلہ و اجوبہ‘‘۔ (آخری حصہ) ’’کشف الغطاء عن وجہ شریعہ البھاء‘‘۔ ’’محمد رسول اللہ خاتم النبین و مفتی الدیار المصریہ‘‘۔ ’’نداء المنادی‘‘۔ (چار حصے) ان کے علاوہ بڑی تعداد میں عربی اور عبرانی تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے۔
۷۔
حیفا کی اسلامی لاء کورٹ نے احمدیوں کی نکاح خوانی سے انکار کر دیا تھا۔ آپ نے یہ معاملہ المجلس الاسلامی الاعلیٰ (بیت المقدس) تک پہنچایا۔ جس نے تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے۔
۸۔
آپ نے جنوری ۱۹۴۷ء میں پیٹری آرک آف انطاکیہ کو خصوصاً اور فلسطین و شام کے پیٹری آرکوں اور بشپوں کو عموماً چیلنج دیا کہ وہ بیت المقدس میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان اختلافی مسائل کی نسبت تقریری اور تحریری مناظرہ کر لیں۔ یہ چیلنج عراق‘مصر‘شام‘لبنان وغیرہ کے اخبارات میں شائع ہوا۔ مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی۹۲۔
۹۔
بہائیوں کے لیڈر شوقی آفندی پر بھی اتمام حجت کیا۹۳۔
۱۰۔
 
Top