• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 10ب ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 10ب ۔ یونی کوڈ

‏vat,10.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
تاریخ احمدیت
جلد نہم
تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام سے لے کر
حضرت سیدنا مصلح موعود کی ہجرت پاکستن تک

مولفہ
دوست محمد شاہد
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی دسویں۱ جلد
)رقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
الحمدلل¶ہ کہ تاریخ احمدیت کی دسویں۲ جلد طبع ہوکر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ پہلی نو جلدوں کی طرح اس کا ہر باب بھی گونا گوں دلچسپیوں کا مخزن ہے۔ اس جلد کے ابتدائی حصے میں سلسلہ احمدیہ کی تعلیمی اقدار اور مقاصد تعلیم کی وضاحت` حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے ارشادات سے کی گئی ہے جن کا ہر وقت پیش نظر رہنا سلسلے کی تعلیمی ترقی اور ارتقاء کے لئے لازم ہے اور جو ہر قدم پر ہمارے معلمین اور متعلمین کے لئے شمع ہدایت اور مشعل راہ ہیں۔
بیشتر حصہ اس جلد کا جہاں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک اہم جزو ہے ساتھ ہی پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی تاریخی داستان کا بھی ایک نہایت دلچسپ اور ناقابل فراموش باب ہے۔ ان واقعات پر بیس بائیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستان کی نئی پود جسے ان درد انگیز ہنگاموں کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ نہیں ہوا جن میں سے گزر کر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آہستہ آہستہ ان مساعی اور اس جدوجہد کی تفاصیل سے ناآشنا ہوتی چلی جارہی ہے جن کا مطالبہ قیام پاکستان کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں سے ہوا اور جن میں امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ نے اپنی بساط سے بہت بڑھ کر حصہ لیا۔ اس جلد میں ان مساعی کا مرقع بھی پیش کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کمال فضل سے اس جلد کی تالیف میں حصہ لینے والوں کی محنت کو قبولیت سے نوازے اور انہیں وافر اجر سے متمتع فرمائے۔ آمین۔
والسلام
خاکسار ظفر اللہ خاں
۲۴۔ دسمبر ۱۹۶۹ء
۱`۲~}~ یعنی پہلے ایڈیشن کی جلد دہم اور موجودہ کی جلد ۹۔ )مولف(
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہم امسال تاریخ احمدیت کی دسویں جلد احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ یہ جلد ۱۹۴۴ء سے اگست ۱۹۴۷ء تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ ۳۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کو سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ قادیان سے ہجرت فرما کر پاکستان تشریف لے آئے اور جماعت احمدیہ کا نیا دور شروع ہوا۔
ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے بننے کا جونہی اعلان ہوا۔ قادیان کے اردگرد فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہتے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جانے لگا اور امن ختم ہوگیا۔ اس بات کو دیکھ کر سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے جماعت کے اکابرین کے مشورہ سے یہ فیصلہ فرمایا کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خواتین مبارکہ کو فوراً پاکستان بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ ۲۵۔ اگست کو بسوں کا انتظام ہوا اور یہ قافلہ صبح ۸ بجے روانہ ہوکر شام کو لاہور پہنچا۔ اس قافلہ میں سیدہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین شامل تھیں۔ مردوں میں سے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب اور مکرم و محترم مرزا منصور احمد صاحب اس قافلہ کے ہمراہ تھے۔ حضورؓ نے فسادات کے پیش نظر جہاں یہ فرمایا کہ خواتین مبارکہ کو بحفاظت پاکستان پہنچا دیا جائے۔ وہاں یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ خاکسار حضورؓ کی تفسیر کے مسودات لے کر اس قافلہ کے ساتھ لاہور چلا جائے۔ بعد ازاں حضور نے مکرم ملک سیف الرحمن صاحب۔ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل کے متعلق بھی حکم دیا کہ وہ بھی اس قافلہ میں لاہور چلے جائیں۔
ہمارا قافلہ صبح ۸ بجے قادیان سے چلا اور فوجی اسکورٹ کے ساتھ لاہور پہنچا۔ راستہ نہایت ہی پرخطر تھا کیونکہ سکھوں کے ہجوم ہر جگہ تھے۔ ہمارے قافلے کے اوپر مکرم میر محمد احمد صاحب ہوائی جہاز پر پرواز کرتے رہے تا قافلہ کا حال دیکھتے رہیں اور واپس جاکر قادیان حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کو قافلہ کے بخیریت پہنچنے کی اطلاع کرسکیں۔ الحمدلل¶ہ کہ یہ قافلہ بخیریت لاہور پہنچ گیا۔
۳۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کو سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ بھی ہجرت کرکے لاہور تشریف لے آئے اور از سرنو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا قیام فرمایا اور جودھامل بلڈنگ میں دفاتر کا کام شروع ہوگیا اور باوجود افراتفری اور پریشان کن حالات کے پھر سے جماعت کا نظام اور شیرازہ قائم ہوگیا اور جماعت کا شجر عظیم جو خوفناک آندھی سے بظاہر اکھڑا ہوا نظر آتا تھا اپنی جڑوں اور تنے پر پھر سے قائم ہوگیا۔ بعد ازاں مرکز ربوہ کی بنیاد پڑی اور احمدیت کی ترقی کا نیا دور شروع ہوگیا۔
یہ جلد پہلی جلدوں کی نسبت حجم میں زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ ہجرت تک کے واقعات پر اس جلد کو ختم کرنا تھا۔ مولف کتاب مکرم مولانا دوست محمد صاحب اور جن احباب نے اس جلد کے مواد کے لئے ان کی امداد فرمائی ان کا اور ان احباب کا جنہوں نے کتابت` طباعت` پروف ریڈنگ میں محنت شاقہ برداشت کی ان کا شکر گزار ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو قبول فرمائے اور اپنی جناب سے اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔ والسلام۔
خاکسار:۔ ابوالمنیر نورالحق منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوہ ۶۹/۱۲/۲۵
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب
حضرت اقدس مسیح موعود مھدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعائوں سے قائم شدہ تعلیم الاسلام کالج کا سیدنا المصلح الموعودؓ کے مبارک ہاتھوں سے احیاء اور پے در پے مشکلات کے باوجود مثالی ترقی
)از مئی ۱۹۴۴ء/ ہجرت ۱۳۲۳ہش تا نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش(
حرف آغاز
زیر نظر حصہ >تاریخ احمدیت< کے سلسلہ تالیف و تدوین کی دسویں کڑی ہے۔ اس کتاب کی نویں جلد کا اختتام ۱۳۲۳ہش/ ۱۹۴۴ء کی پہلی سہ ماہی پر ہوا تھا۔ لہذا اب واقعات کی طبعی ترتیب کے مطابق خلافت ثانیہ کے اس پراز انوار و برکات سال کے بقیہ حالات بیان کئے جاتے ہیں` جن میں سرفہرست تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور ازسر نو قیام ہے اور جو حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے عہد خلافت کا ایک عظیم اور ناقابل ¶فراموش کارنامہ ہے جس کی قدر و منزلت اور عظمت و افادیت میں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت المصلح الموعودؓ کی دعائوں کی بناء پر پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں جب دنیا کے جدید تقاضوں کے مدنظر اسلامی نظام تعلیم کے عالمی نقشہ کی تشکیل اور اس کے عملی نفاذ کا مرحلہ شروع ہوگا تو مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی طرح اس کالج کو بھی سنگ میل کی نمایاں حیثیت حاصل ہوگی۔ انشاء اللہ العزیز۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد ذیل میں سب سے پہلے تعلیم الاسلام کالج کی ابتدائی تاریخ پر اور بعد ازاں ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے لے کر ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک کے اکیس سالہ دور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس سنہری دور کو یہ دوہری خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں کالج کو اپنی علمی زندگی کے ایک طویل عرصہ تک نہ صرف حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود جیسے اولوالعزم قائد کی خصوصی توجہات کا مرکز بننے کا شرف نصیب ہوا بلکہ اسے خالص خدائی تصرف کے ماتحت ایک ایسے مقدس وجود کی براہ راست نگرانی میں پھلنے پھولنے اور جلد جلد ترقی کی منازل طے کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی جس کے لئے مشیت خداوندی میں آئندہ چل کر خدا کے اس پاک اور آسمانی سلسلہ کی باگ ڈور سنبھالنا اور اسے علم و عمل کی رفعتوں کے بلند مینار تک لے جانا مقدر تھا۔ ہماری مراد حضرت مسیح موعودؑ کے موعود >مبارک< اور پسر خامس اور سیدنا المصلح الموعودؓ کے لخت جگر حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہے جن کی قبل از خلافت زندگی کے مسلسل اکیس سال اس عظیم الشان ادارہ کی ترقی و بہبود کے لئے وقف رہے اور خدا کے فضل اور آپ کی بہترین سرپرستی` گرانقدر رہنمائی` انتھک اور بے لوث جدوجہد اور عاجزانہ دعائوں سے تعلیم الاسلام کالج نہ صرف سیدنا المصلح الموعود کے زمانہ خلافت ہی میں پختہ بنیادوں پر استوار ہوگیا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسے منفرد اور امتیازی مقام تک پہنچ گیا جو اپنوں کے لئے موجب ازدیاد ایمان اور بیگانوں کے لئے ہمیشہ ہی قابل رشک رہے گا۔
پہلا باب )فصل اول(
حضرت مسیح موعود و مھدی معہودؑ کے عہد مبارک کا
تعلیم الاسلام سکول و کالج
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< جلد سوم )صفحہ ۳ تا ۹( میں ذکر کیا جاچکا ہے بانئے سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے >اسلامی روشنی ملک میں پھیلانے< اور >طوفان ضلالت میں اسلامی ذریت کو غیر مذاہب کے وساوس سے بچانے کے لئے< ۳۔ جنوری ۱۸۹۸ء کو قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیاد رکھی اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ )عرفانی کبیر( مدیر >الحکم< اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے۔ ابتداء میں یہ مدرسہ صرف پرائمری تک تھا مگر ۵۔ مئی ۱۸۹۸ء سے مڈل کی جماعتیں بھی کھل گئیں اور فروری ۱۹۰۰ء میں نویں جماعت اور مارچ ۱۹۰۱ء میں دسویں جماعت کا اضافہ ہوا۔ ۱۹۰۲ء میں پہلی بار اس کے چار طلبہ انٹرینس کے امتحان میں شامل ہوئے۔ بعد ازاں ۱۹۰۳ء اور ۱۹۰۴ء میں سات سات طلبہ نے امتحان دیا۔ ۱۹۰۵ء میں شریک امتحان ہونے والوں کی تعداد دس تک پہنچی۔۱
مدرسہ کی پریشان کن مالی حالت
مدرسہ تعلیم الاسلام کی اقتصادی صورت حال اس درجہ پریشان کن اور تشویش انگیز تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بنفس نفیس اس کی طرف کئی دفعہ مخلصین جماعت کو توجہ دلانا پڑی۔
چنانچہ حضور نے ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ایک اشتہار بعنوان >ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے< شائع فرمایا جس میں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل تحریک کی۔
>علاوہ لنگر خانہ اور میگزین کے جو انگریزی اور اردو میں نکلتا ہے جس کے لئے اکثر دوستوں نے سرگرمی ظاہر کی ہے ایک مدرسہ بھی قادیان میں کھولا گیا ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہے کہ نوعمر بچے ایک طرف تو تعلیم پاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سلسلہ کے اصولوں سے واقفیت حاصل کرتے جاتے ہیں اس طرح پر بہت آسانی سے ایک جماعت تیار ہو جاتی ہے بلکہ بسا اوقات ان کے ماں باپ بھی اس سلسلہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے اور باوجودیکہ محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ اپنے پاس سے اسی روپیہ ماہوار اس مدرسہ کی مدد کرتے ہیں مگر پھر بھی استادوں کی تنخواہیں ماہ بماہ ادا نہیں ہوسکتیں۔ صدہا روپیہ قرضہ سر پر رہتا ہے۔ علاوہ اس کے مدرسہ کے متعلق کئی عمارتیں ضروری ہیں جو اب تک تیار نہیں ہوسکیں۔ یہ غم علاوہ اور غموں کے میری جان کو کھا رہا ہے۔ اس کی بابت میں نے بہت سوچا کہ کیا کروں۔ آخر یہ تدبیر میرے خیال میں آئی کہ میں اس وقت اپنی جماعت کے مخلصوں کو بڑے زور کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلائوں کہ وہ اگر اس بات پر قادر ہوں کہ پوری توجہ سے اس مدرسہ کے لئے بھی کوئی ماہانہ چندہ مقرر کریں تو چاہئے کہ ہر ایک ان میں سے ایک مستحکم عہد کے ساتھ کچھ نہ کچھ مقرر کرے جس کے لئے وہ ہرگز تخلف نہ کرے مگر کسی مجبوری سے جو قضاء و قدر سے واقع ہو اور جو صاحب ایسا نہ کرسکیں` ان کے لئے بالضرورت یہ تجویز سوچی گئی ہے کہ جو کچھ وہ لنگر خانہ کے لئے بھیجتے ہیں اس کا چہارم حصہ براہ راست مدرسہ کے لئے نواب صاحب موصوف کے نام بھیج دیں۔ لنگر خانہ میں شامل کرکے ہرگز نہ بھیجیں بلکہ علیحدہ منی آرڈر کرا کر بھیجیں۔ اگرچہ لنگر خانہ کا فکر ہرروز مجھے کرنا پڑتا ہے اور اس کا غم براہ راست میری طرف آتا ہے اور میرے اوقات کو مشوش کرتا ہے لیکن یہ غم بھی مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔ اس لئے میں لکھتا ہوں کہ اس سلسلہ کے جوانمرد لوگ جن سے میں ہر طرح امید رکھتا ہوں کہ وہ میری اس التماس کو ردی کی طرح نہ پھینک دیں اور پوری توجہ سے اس پر کاربند ہوں میں اپنے نفس سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا ہے۔ میں نے خوب سوچا ہے اور بار بار مطالعہ کیا ہے۔ میری دانست میں اگر یہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہوگا اور اس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیم یافتوں کی ہماری طرف آسکتی ہے<۔۲
بے نفس اور ایثار پیشہ اساتذہ
مدرسہ کے قدیم اساتذہ۳ انتہائی بے نفس` یک رنگ` ایثار پیشہ اور بہت مخلص بزرگ تھے جن کی فدا کاری کا یہ عالم تھا کہ وہ محض خدمت دین کی خاطر قادیان جیسی چھوٹی سی بستی میں آگئے تھے اور اپنی مسلمہ قابلیتوں اور اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود قلیل تنخواہ پر بخوشی بسر اوقات کرتے اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے قدموں میں رہنے اور اس قومی تربیت گاہ کی خدمت کرنے کو ایک فخر و سعادت سمجھتے تھے چنانچہ حضور علیہ السلام نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا۔
>یہ مدرسہ محض دینی اغراض کی وجہ سے ہے اور صبر سے اس میں کام کرنے والے خدا تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہوتے جاتے ہیں<۔۴
مختصر یہ کہ مدرسہ کے اساتذہ کو دیکھ کر گزشتہ صوفیاء اور اہل اللہ کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ یہ بزرگ سچ مچ آئندہ نسل کے لئے روشنی کے مینار تھے۔
خالص دینی ماحول میں پرورش پانے والے شاگرد
تعلیم الاسلام سکول انیسویں صدی میں اپنی نوعیت کا واحد مدرسہ تھا۔ جس کے اساتذہ ہی کو نہیں شاگردوں کو بھی امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تاثیرات قدسیہ کے طفیل ایک بے مثال روحانی اور مذہبی فضا میسر آگئی تھی اور وہ چھوٹی عمر سے ہی دین محمدی کے رنگ میں رنگین ہوتے جارہے تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ نے اس درسگاہ کے پس منظر` اس کی خصوصیت اور اس کے نونہالوں کی قابل رشک دینی حالت کا نقشہ درج ذیل الفاظ میں کھینچا۔
>ہم صحیح اور پختہ تجربہ اور سچے استقراء سے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ ایک بھی مدرسہ ایسا نہیں جو قوم کے بچوں کو اس مبارک اسوہ پر نشوونما دینے کا متکفل ہو جسے خاتم النبین رحمتہ للعالمین )علیہ الصلٰوۃ والسلام( نے قائم کیا اور جس کی اتباع کے بغیر خدا تعالیٰ کے رضوان اور خوشنودی کا سرٹیفکیٹ نہیں مل سکتا۔ کل مدرسے اور کالج بلا استثناء مقصود بالذات دنیا ¶کو رکھتے اور محض دنیا پرست قوموں کے نقش قدم پر چلنے اور چلانے کو قومی ترقی سمجھتے ہیں۔ ان مدرسوں کے درودیوار سے ان کے تربیت یافتوں کی زبانوں اور دلوں سے لگاتار آوازیں آتی اور راستبازوں کے دلوں کو دکھاتی ہیں کہ دنیا سب چیزوں پر مقدم ہے۔
کیا ہم نے بھی قادیان میں لڑکوں کو وہی چند کتابیں مذہبی پڑھا دیں یا بیگانہ وار وعظوں کے روکھے پھیکے جملے ان کے سامنے پیش کئے۔ اگر ہماری قدرت کی رسائی اسی حد تک ہوتی تو ہم بھی ویسے ہی بے سود کام کرنے والے ہوتے۔ لیکن خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں خاص خصائص سے شرف امتیاز بخشا جن میں روئے زمین کے مسلمانوں میں سے کوئی طبقہ اور مشرب ہمارا شریک نہیں۔ سب سے بڑی اور قابل قدر تحریک جو ہم نے معصوم فطرۃ اور اثر پذیر بچوں کے آگے پیش کی وہ خدا تعالیٰ کے مقدس مسیح کا مبارک وجود ہے جو اپنے ایمان اور عمل سے ہوبہو وہی اسوہ اور نمونہ ہے جس کے اتباع کے لئے قرآن کریم آیا۔ سوچنے والے سوچیں اور غیرت مند خوب فکر کریں کہ کس قدر خوش نصیب وہ والدین ہیں جن کے بچوں کی آنکھوں کو یہ شرف ملے کہ زندگی کے رنگا رنگ اور پر ابتلا نظارہ گاہ میں وا ہوتے ہی ان کے سامنے وہ مبارک اور فرخندہ چہرہ آجائے جو خدا تعالیٰ کی سچی خلافت اور بے عیب مورت ہے۔ ہمارے مدرسہ کے لڑکے خدا کے مسیح کو دیکھتے ہیں۔ آپ کی تقریروں کو سنتے ہیں۔ آپ کے پاک نمونہ کو مشاہدہ کرتے ہیں۔ اسی ایک امر کو اگر ہم بڑی تفصیل سے بیان کرنا چاہیں تو اس جملہ سے اس کا پورا حق ادا ہو جائے گا کہ خدا کے خلیفہ کو دیکھتے ہیں تو سبھی کچھ دیکھتے ہیں۔
دوسری بات اور لاشریک خصوصیت یہ ہے کہ ہم ہرروز باقاعدہ عصر کے بعد لڑکوں کو حضرت مولوی نور الدین صاحب کے درس قرآن مجید میں شامل ہونے کی عزت دیتے ہیں یہ بھی ایسی نعمت ہے کہ کوئی ملک اور شہر اس میں ہمارا شریک نہیں۔
ان سب باتوں اور نمونہ کا یہ اثر اور نتیجہ ہے کہ مڈل اور انٹرنس کے اکثر لڑکے دین کی پابندی اور اس سلسلہ حقہ احمدیہ کی نسبت سچی غیرت اور عصبیت رکھتے اور امید دلاتے ہیں کہ وہ دنیا کے لئے نیک نمونہ ہوں۔ میری فطرت ایسی بنائی گئی ہے کہ میں بہت جلد کسی شخص کی طرف مائل اور کس بات کا گرویدہ نہیں ہوتا۔ اگر میں صحیح تجربہ اور بصیرت سے لڑکوں میں آثار رشد و سعادت محسوس نہ کرتا تو میں قوم کو دھوکہ دینے کا مجرم ہوتا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ بعض لڑکوں کی غیرت اور پابندی اور ان کا عاشقانہ آنکھوں سے حضرت خلیفہ~ن۲~ اللہ کے چہرہ مبارک کو ساری نشست میں دیکھتے رہنا میرے لئے باعث رشک ہوتا ہے۔ وہ اپنے کھیلوں اور بچپنے کے دل لگی کے سامانوں سے الگ ہوکر سب سے پہلے مسجد میں حاضر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ صف اول میں جگہ لے کر خلیفہ~ن۲~ اللہ کے بہت قریب بیٹھ سکیں<۔۵
قیام کالج کے لئے دلی تحریک
مدرسہ کے بچوں میں ان پاک تاثیرات کا پیدا ہوجانا ایک غیر معمولی اور مسرت انگیز اور اطمینان بخش بات تھی جس نے مدرسہ کے منتظم >حجتہ اللہ< حضرت نواب محمد علی خاں صاحب )رئیس مالیر کوٹلہ( اس کے ہیڈ ماسٹر حضرت مولوی شیر علی صاحب اور ادارہ سے متعلق دوسرے بزرگوں کے دل میں ہائی سکول کو کالج تک ترقی دینے کا پرزور خیال پیدا کر دیا۔ اور بالاخر کالج جاری کئے جانے کا فیصلہ ہوگیا۔
جب یہ معاملہ حتمی طور پر طے پاگیا تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے )جو قبل ازیں مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی انجمن تعلیم الاسلام قادیان کے سیکٹری بھی رہ چکے تھے(۶ ۴۔ فروری ۱۹۰۳ء کو ایک مفصل مضمون لکھا۔ حضرت مولوی صاحب نے اپنے اس مضمون میں )جسے تعلیم الاسلام کالج کی قدیم تاریخ کا پہلا ورق قرار دینا چاہئے( مدرسہ تعلیم الاسلام کے نونہالوں کی خالص اسلامی و روحانی ماحول میں ہونے والی تربیت و اصلاح کے عمدہ نتائج و اثرات کا ذکر کیا اور پھر کالج کے پس منظر اور اس کے فوری تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا۔
>غرض لڑکوں کی اس خوشنما اور امید افزا حالت کو دیکھ کر جو انٹرنس کی منزل میں پائوں رکھنے کے ساتھ ان میں پیدا ہوگئی مدرسہ کے کارکنوں کے دل میں یہ خیال یا حوصلہ پیدا ہوا اور غور و فکر کے بعد ارادہ نے عزم کی صورت پکڑلی کہ مدرسہ کو کالج بنایا جائے اس لئے کہ انٹرنس تک ابھی بہت خام اور ناتمام عمر اور تجربہ ہوتا ہے اور اگر دو برس ایف۔ اے کی تقریب سے اور اگر خدا چاہے تو دو برس اور بی۔ اے کی تحریک سے اور ایک سال اور ایم۔ اے کی وساطت سے ہمارے پاس رہ سکیں تو پھر خاصے عمر رسیدہ` تجربہ کار` قوی دل اشداء ہوکر یہاں سے نکلیں گے۔ سردست تو کالج ایف۔ اے تک ہوگا اور اس میں بھی سارا دارومدار توکل پر۔ ورنہ حق تو یہ تھا کہ آغاز ہی میں پورا کالج بنایا جاتا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کارروائی کو جلد بازی پر محمول کریں اور جوش سے کہہ دیں یا رائے دیں کہ ابھی وقت قلت سرمایہ کے سبب سے اس امر کا مقتضی نہیں کہ کالج جاری کیا جائے مگر اس رائے زنی میں وہ خود جلد باز اور غور نہ کرنے والے ٹھہریں گے اس لئے کہ انٹرنس تک محدود ہوکر رہنے میں مدرسہ کی وہ غرض پوری نہیں ہوتی یا آخرکار اس کے تابود ہو جانے کا اندیشہ ہے جو ہمیں اس کارخیر کی محرک ہوئی ہے۔ ابتدائی عمر کے جوش` فوری جوش اور ہنڈیا کے سے ابال ہوتے ہی۔ عمر کی لمبی رفتار میں اور دنیا کے ہر امتحان اور پرفتنہ نظاروں اور کاموں میں بسا اوقات ان میں سردی آجاتی اور ہر وقت امکان رہتا ہے کہ بالعوض بدتحریک اپنا کام کرے مگر کالج کی چکی سے نکل کر ایک عمدہ پختگی اور مضبوط بصیرت رفیق طریق ہو جاتی ہے اور یقین مربیوں کے دلوں میں بھر جاتا ہے کہ ان کے برسوں کے اندوختہ اور محنت پر کسی بدمعاش کا ہاتھ نہیں پڑ سکے گا۔ غرض یہ تو بالکل عین مصلحت اور طے شدہ بات ہے کہ کالج ہو جب ہمارا مقصود پورا ہوتا ہے اور کالج کی تجویز پختہ بھی ہوگئی اور امید ہے آئندہ مئی سے جاری بھی ہو جائے مگر خدا تعالیٰ کی توفیق سے قوم کا یہ کام ہے کہ اس نیک کام میں دل کھول کر شریک ہوں۔ کالج کھولنے سے ایک سال تک تو کوئی زائد خرچ نہیں پڑے گا۔ مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے ریاضی پڑھائیں گے اور وہ ریاضی میں مسلم ہیں۔ ماسٹر شیر علی صاحب بی۔ اے جو انگلش میں بالخصوص قابل ہیں انگریزی پڑھائیں گے۔ حضرت مولوی نور الدین صاحب باقاعدہ ایک گھنٹہ کالج میں دینیات کے معلم ہوں گے اور خاکسار راقم بھی ایک گھنٹہ باقاعدہ عربی کی تعلیم دے گا اور یہ تینوں معلم بلا کسی دینوی اجرت کے کالج کو مدد دیں گے اور دوسرے سال صرف پچاس روپے کا زیادہ بار ہوگا۔ اگر مدرسہ کی امداد میں وہی پہلا جوش ہوتا جو ایک عرصہ تک قائم رہا تو اتنی ہی امداد اور آمدنی ایف۔ اے تک کالج بنانے میں بھی کافی تھی۔ مگر افسوس بہت لوگوں نے بے توجہی کی اور ان کے جوشوں میں سردی پیدا ہوگئی۔ بہت سے شہر ہیں کہ ان سے کچھ بھی امداد اب تک مدرسہ کو نہیں پہنچی اور بعض ایسے ہیں کہ ان سے ناقابل اعتداء مدد ملتی ہے۔ سیالکوٹ اور لاہور دو شہر ہیں جنہوں نے اس کام میں پوری فیاضی سے حصہ لیا ہے اور ایک معقول رقم ماہ بماہ ان کی طرف سے مدرسہ کو ملتی ہے۔ مگر اکثر شہر بعض غلط فہمیوں یا ناعاقبت اندیشی کے سبب سے اس کی طرف سے پہلو تہی کئے بیٹھے ہیں اور وہ اس طرح روا رکھتے ہیں کہ مدرسہ کو خدانخواستہ کوئی صدمہ پہنچے اور اعدائے ملت کو شماتت کا عمدہ موقعہ ملے۔ ہر ایک شخص کو خوب ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ یہ مدرسہ حضرت کا مدرسہ ہے اور ان کے حکم سے جاری کیا گیا ہے اور اس کی شکست کی زد آخرکار سوچ لینا چاہئے کس کی ہمت اور قصد پر پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض سب سے اول اور بہت جلد مدرسہ کو جانکاہ فکر سے سبکدوش کریں اور کالج کے لئے عزم صمیم سے خط مستقیم پر قدم اٹھائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ارحم الراحمین سمیع و بصیر مولیٰ! تو خود ان دردمندانہ فقروں کو پہلے قبول فرما اور پھر قوم کے دلوں میں انہیں جگہ دے کہ ساری توفیقیں تجھ ہی سے اور تیرے ساتھ ہیں<۔۷
کالج کے افتتاح کی نہایت سادہ مگر پروقار دعائیہ تقریب
طے شدہ پروگرام کے مطابق کالج کا افتتاح ۱۵۔ مئی ۱۹۰۳ء کو مقرر تھا مگر حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طبع مبارک علیل ہوگئی اور یہ مبارک تقریب ۲۸۔ مئی ۱۹۰۳ء پر ملتوی کر دی گئی۔
اس روز )۲۸۔ مئی ۱۹۰۳ء( ساڑھے چھ بجے کے بعد مدرسہ تعلیم الاسلام کے احاطہ اور بورڈنگ مدرسہ کے درمیانی میدان میں ایک شامیانے کے نیچے جلسہ کا انتظام کیا گیا جو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سپرنٹنڈنٹ مدرسہ و کالج کی زیر نگرانی مدرسہ کے اساتذہ اور طالب علموں کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ سٹیج کے لئے شمالی جانب ایک عارضی چبوترہ بنایا گیا جہاں ارکان مدرسہ اور دوسرے بزرگوں کے لئے کرسیاں بچھائی گئی تھیں۔ جنوبی طرف ایک میز رکھی گئی جس کے اوپر دائیں جانب قرآن کریم اور بائیں جانب کرہ ارض گلوب (GLOBE) رکھا گیا میز کے سامنے طالب علموں کی ورزش جسمانی کے لئے ایک ستون کھڑا تھا۔۸ اس موقعہ پر نہ کوئی دعوتی کارڈ جاری کئے گئے نہ اس میں کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا کیونکہ اس جلسہ کی اصل غرض تو صرف یہ تھی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام قدم رنجہ فرما کر دعا فرمائیں اور اگر حضور مناسب سمجھیں تو کالج کے اساتذہ اور طلبہ اور دوسرے حاضرین کو اپنے مقدس اور بابرکت ارشادات سے نوازیں اور حضرت اقدس اس جلسہ میں بڑی خوشی کے ساتھ شریک ہونے کے لئے تیار بھی تھے۔۹ مگر رات کے وقت حضور کی طبیعت پھر ناساز ہوگئی۔ ہر ایک پروفیسر اور مدرس اور لڑکے کی آنکھ خدا کے محبوب اور برگزیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی آمد آمد پر لگی ہوئی تھی کہ اس اثناء میں حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے آکر اطلاع دی کہ >حضرت اقدس نے مجھے ایک پیغام دے کر روانہ کیا ہے اور وہ اس طرح سے ہے کہ میں نے حضرت خلیفہ~ن۲~ اللہ علیہ السلام کی خدمت میں تشریف آوری کے واسطے عرض کی تھی` آپ نے فرمایا۔
>میں اس وقت بیمار ہوں حتیٰ کہ چلنے سے بھی معذور ہوں لیکن وہاں حاضر ہونے سے بہت بہتر کام یہاں کرسکتا ہوں کہ ادھر جس وقت افتتاح کا جلسہ شروع ہوگا میں بیت الدعا میں جاکر دعا کروں گا<۔
یہ کلمہ اور وعدہ حضرت خلیفہ~ن۲~ اللہ علیہ السلام کا بہت خوش کن اور امید دلانے والا ہے۔ اگر آپ خود تشریف لاتے تو بھی باعث برکت تھا اور اگر اب نہیں لائے تو دعا فرما دیں گے اور یہ بھی خیر و برکت کا موجب ہوگی<۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اسی قدر کلمات فرما کر کرسی پر بیٹھ گئے۔۱۰
آپ کے بعد حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ ڈائریکٹر تعلیم الاسلام کالج نے مختصر تقریر کی جس میں فرمایا۔
>اس کالج کی غرض کوئی عام طور پر یہ نہیں ہے کہ معمولی طور پر دنیاوی تعلیم ہو اور صرف معاش کا ذریعہ اسے سمجھا جاوے بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ ایک عالم اس پاک سلسلہ کی تعلیم سے مستفیض ہو جو کہ خدا نے قائم کیا ہے۔ دینوی تعلیم کا اگر کچھ حصہ اس میں ہے تو اس لئے کہ مروجہ علوم سے بھی واقفیت ہو جس سے خدا تعالیٰ کی معرفت میں مدد ملے ورنہ اصل غرض دین اور دین کی تعلیم ہی ہے اور ایک بڑی غرض یہ بھی ہے کہ اپنی احمدی جماعت کے کمسن بچے ابتداء سے دینی علوم سے واقف ہوں اور حضور مسیح موعود کے فیضان صحبت سے فائدہ اٹھا دیں اور بڑے ہوکر اس پاک چشمہ سے ایک عالم کو سیراب کریں جس سے وہ خود سیراب ہوچکے ہیں۔
یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ کالج کی موجودہ حالت سب احباب پر ظاہر ہے۔ اس کے کارکنوں نے جو آج تک کیا ہے وہ کسی انسانی طاقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سب کچھ محض خدا کے فضل سے ہی ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ امید ہے جیسے کہ مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا ہے کہ حضرت اقدس نے دعائوں کا وعدہ کیا ہے خدا کی ذات سے بڑی امید ہے کہ یہ کالج بہت جلد ایک یونیورسٹی ہوگا اور اس احمدی جماعت کے لئے ایک بڑا مفید دارالعلوم ثابت ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالج خدا کے فضل سے چلے گا اور خدا کے صادق بندے مسیح موعود کی دعائوں سے نشوونما پائے گا<۔۱۱
اس تقریر کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک نہایت ایمان افروز صدارتی خطاب کیا جس میں ارشاد فرمایا کہ۔
>تمام ترقیوں عزت اور حقیقی خوشی کی جڑ یہ کتاب ہے اور اسی کے ذریعہ سے ہم اس )کرہ ارض( پر حکمرانی کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ سے فضل الٰہی کا سایہ ہم پر پڑ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے لائق` چالاک اور پھرتی سے بات کرنے والوں کے ساتھ ناچیزی حالت میں میرا مقابلہ ہوا ہے مگر اس قرآن کے ہتھیار سے جب میں نے ان سے بات کی ہے تو ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تم کو ایک بچہ کا قصہ سناتا ہوں کیونکہ تم بھی بچے ہو۔ مگر وہ عمر میں تم سب سے چھوٹا تھا۔ اس کا نام یوسفؑ ہے۔ جس وقت بھائیوں نے اسے باپ سے مانگا اور چاہا کہ اسے باپ سے الگ کر دیں اور جنگل میں جاکر ایک کوئیں میں اتار دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ اس وقت کوئی یار نہ آشنا نہ ماں اور نہ باپ` اگر ہوتے بھی تو اسے وہ بات نہ بتلا سکتے جو خدا نے بتائی اور ان کو کیا علم تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا مگر خدا کا سایہ اس پر تھا۔ خدا نے اسے بتلایا۔ لتنبئنھم بامرھم ھذا وھم لایشعرون کہ اے یوسف! دیکھ تجھے باپ سے الگ کیا` تیری زمین سے تجھے الگ کیا اور اندھیرے کوئیں میں ڈالا مگر میں تیرے ساتھ ہوں گا اور اس علیحدگی کی تعبیر کو تو بھائیوں کے سامنے بیان کرے گا اور ان کو اس بات کا شعور نہیں ہے۔ دیکھ لو۔ یہ باتیں باپ نہیں کرسکتا نہ وعدہ دے سکتا ہے کہ یوں ہوگا یا جاہ و جلال کے وقت تک یہ تندرستی بھی ہوگی۔ ایک باپ بچے سے پیار تو کرسکتا مگر وہ اس کے آئندہ حالت کا کیا اندازہ لگا سکتا ہے۔ ان باتوں کو جمع کرکے دیکھو۔ اگر کوئی انسان تسلی دیتا تو بچہ کو پیار کرتا گلے میں ہاتھ ڈالتا اور اسے کہتا کہ ہم چیجی دیویں گے۔ مگر خدا کی ذات کیا رحیم ہے وہ فرماتا ہے لتنبئنھم بامرھم ھذا وہ عروج دیویں گے کہ تو ان احمقوں کو بتلا دے گا<۔
یہ مثال دینے کے بعد حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا۔
>یہ حقیقت ہے اس سایہ کی جسے میں چاہتا ہوں تم پر ہو۔ علوم کی تحصیل آسان ہے مگر خدا کے فضل کے نیچے اسے تحصیل کرنا یہ مشکل ہے۔ کالج کی اصل غرض یہی ہے کہ دینی اور دینوی تربیت ہو۔ مگر اول فضل کا سایہ ہو پھر کتاب پھر دستور العمل ہو۔ اس کے بعد دیکھو کہ کیا کامیابی ہوتی ہے۔ فضل الٰہی کے لئے پہلی بشارت پیارے عبدالکریم نے دی ہے۔ وہ کیا ہے۔ حضرت صاحب کی دعائیں ہیں۔ میں ان دعائوں کو کیا سمجھتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور یقیناً تمہارے ادراک سے بالاتر ہوگی مگر میں کچھ بتلاتا ہوں۔
مخالفوں سے انسان ناکامیاب ہوتا ہے گھبراتا ہے۔ ایک لڑکا ماسٹر کی مخالفت کرے تو اسے مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ جس قدر مہتمم مدرسہ کے ہیں اگر وہ سب مخالفت میں آویں تو زندگی بسر کرنی مشکل ہو۔ اگرچہ افسر بھی لڑکوں کے محتاج ہیں مگر ایک ذرہ سے نقطہ سے اسے بورڈنگ میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب اس پر اندازہ کرو کہ ایک کی مخالفت انسان کو کیسے مشکلات میں ڈالتی ہے۔ لیکن ہمارے امام کی ساری برادری مخالف ہے۔ رات دن یہی تاک ہے کہ اسے دکھ پہنچے پھر گائوں والے مخالف ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حال تو گائوں کی مخالفت کا ہے۔ پھر سب مولوی مخالف` گدی نشین مخالف` سنی مخالف` آریہ مخالف` مشنری مخالف` دہریوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر وہ بھی مخالف اور نہایت خطرناک دشمن اس سلسلہ کے ہیں۔ ان تمام مشکلات کے مقابلہ میں دیکھو وہ )حضرت مرزا صاحب( کیسے کامیاب ہے۔ یہاں ہمارا رہنا تمہارا رہنا سب اسی کے نظارہ ہیں کہ باوجود اس قدر مخالفت کے پھر پروا نہ وار اس پر گرتے ہیں۔ اس کا باعث یہی ہے کہ وہ کتاب اللہ کا سچا حامی ہے اور رات دن دعائوں میں لگا ہوا ہے۔ اس لڑکے سے بڑھ کر کوئی خوش قسمت نہیں جس کے لئے یہ دعائیں ہوں۔ مگر ان باتوں کو وہی سمجھتا ہے جس کی آنکھ بینا اور کان شنوا ہوں۔
لتنبئنھم بامرھم ھذا کی صدا یوسفؑ کے کان میں پڑی۔ اس سے سوچو کہ خدا کا فضل ساتھ ہوتا ہے تو کوئی دشمن ایذا نہیں پہنچا سکتا۔ کس طرح کے جاہ جلال اور بحالی یوسفؑ کو ملی اور سب سے عجیب بات یہ ہے کہ ان بھائیوں کو آخر کہنا پڑا۔ انا کنا خاطئین۔ اس کا جواب یوسفؑ نے دیا۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم۱۲ یہ سب کچھ اللہ پر یقین کا نتیجہ تھا۔ تم بھی اللہ پر کامل یقین کرو اور ان دعائوں کے ذریعے جو کہ دنیا کی مخالفت میں سپر ہیں فضل چاہو۔ کتاب اللہ کو دستور العمل بنائو تاکہ تم کو عزت حاصل ہو باتوں سے نہیں بلکہ کاموں سے اپنے آپ کو اس کتاب کے تابع ثابت کرو۔ ہنسی` تمسخر` ٹھٹھا` ایذا` گالی یہ سب اس کتاب کی تعلیم کے برخلاف ہے` جھوٹ سے` *** سے` تکلیف اور ایذا دینے سے ممانعت اور لغو سے بچنا اس کتاب کا ارشاد ہے۔ صوم اور صلٰوۃ اور ذکر شغل الٰہی کی پابندی اس کا اصول ہے<۔۱۳
حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ اس اثر انگیز تقریر کے بعد کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور پھر مولوی ابو یوسف مبارک علی صاحب سیالکوٹی اور مولوی عبداللہ صاحب )کشمیری( نے افتتاح کالج کی نسبت اپنی اپنی فارسی نظمیں۱۴]ybod [tag پڑھیں۔ ازاں بعد حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ خدا کے فضل و احسان سے افتتاح کالج کی رسم ادا ہوچکی۔ اس کے بعد دعا کی گئی اور جلسہ برخاست ہوا۔۱۵
حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں درخواست دعا
تقریب افتتاح بخیر و خوبی ختم ہوگئی تو حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور حسب ذیل عریضہ
لکھا۔
>سیدی و مولائی طبیب روحانی سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
مولانا مولوی عبدالکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت نصیب اعداء علیل ہے اس لئے حضور تشریف نہیں لاسکتے۔ گو کہ اس سے ایک گونہ افسوس ہوا مگر وہ کلمات جو مولانا موصوف نے نیابتاً فرمائے ان سے روح تازہ ہوگئی اور خداوند تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعائوں کے بھروسہ پر کارروائی شروع کی گئی۔ جلسہ نہایت کامیابی سے تمام ہوا اور کالج کی رسم افتتاح ہوگئی۔ اطلاعاً گزارش ہے۔ خداوند تعالیٰ حضور کو صحت عطا فرمائے۔ حضور نے دعا فرمائی ہوگی اب بھی استدعائے دعا ہے۔ راقم محمد علی خاں<
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے جواب
حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس درخواست کے جواب میں اپنے قلم سے تحریر فرمایا کہ۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`۔ رات سے مجھ کو دل کے مقام پر درد ہوتی تھی اس لئے حاضر نہیں ہوسکا لیکن میں نے اسی حالت میں بیت الدعاء میں نماز میں اس کالج کے لئے بہت دعا کی۔ غالباً آپ کا وہ وقت اور میرے دعائوں کا وقت ایک ہی ہوگا۔ خدا تعالیٰ قبول فرماوے۔ آمین` ثم آمین۔ والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ<۱۶
تعلیم الاسلام کالج کے ابتدائی کوائف
تعلیم الاسلام کالج عہد حاضر میں اپنی طرز کا پہلا کالج تھا جہاں دینوی اور رسمی علوم مروجہ کے ساتھ دینیات کی تعلیم کا معقول انتظام تھا اور اس کی خاص نگرانی کی جاتی تھی۔ اسی طرح کالج کے طلبہ کی اخلاقی اور مذہبی ترقی کے لئے مقدور بھر جدوجہد کی جاتی تھی۔ اس کالج کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے طلبہ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور خدانما مجلس سے مستفیض ہوتے۔ بزرگ صحابہ کی زیر تربیت اپنے اوقات گزارتے اور مرکز احمدیت کی برکتوں سے حصہ وافر لیتے تھے۔۱۷
کالج کے ڈائریکٹر حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ` پرنسپل حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اور سپرنٹنڈنٹ حضرت مفتی محمد صادق صاحب بھیرویؓ تھے۔ کالج کے اولین اساتذہ چار تھے۔
۱۔
حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب بھیرویؓ )دینیات(
۲۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ )عربی(
۳۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب بی۔ اےؓ )انگریزی(
۴۔
جناب مولوی محمد علی صاحب بی۔ اے` ایل۔ ایل۔ بی )ریاضی(۱۸
کالج کے لازمی نصاب میں دینیات` عربی` انگریزی اور ریاضی کے علاوہ فارسی` فلاسفی اور تاریخ کے مضمون بھی شامل تھے۱۹4] f[rt جو حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور بعض دوسرے بزرگ پڑھاتے تھے۔۲۰
طلبہ کالج کے اخراجات کا پیچیدہ مسئلہ
جماعت احمدیہ ان دنوں بالکل ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی تھی۔ اس دور میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے اساتذہ کی تنخواہیں بھی بمشکل پوری ہوسکتی تھیں۔ اب جو مدرسہ کے ساتھ کالج کا اضافہ ہوا تو اس کے ارباب حل و عقد کو کالج کے طلبہ کے اخراجات کی فکر بھی دامنگیر ہوگئی۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ہر شہر کی احمدی جماعتوں کو باہم مل جل کر مدرسہ اور کالج کے طلبہ کے لئے تین یا پانچ روپے کے >وظائف مساکین< مقرر کرلینے کی اپیل کی اور اس تعلق میں آپ نے تین بزرگوں کی فیاضانہ امداد کا تذکرہ خاص بھی کیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>اس جگہ مجھے تین بزرگوں کا شکریہ کے ساتھ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو استاذی المعظم مولانا مولوی نور الدین صاحب جو کئی طلباء کو وقتاً فوقتاً ماہواری اور ایک مشت مدد دیا کرتے ہیں۔ دوم مخدومی نواب محمد علی خاں صاحب جو اپنی جیب خاص سے مدرسہ کے چار طلباء کو ماہواری معقول وظیفہ دیتے ہیں اور تیسرے مکرم و مخدوم نواب فتح نواز جنگ مولوی مہدی حسن صاحب بیرسٹرایٹ لاء لکھنئو جنہوں نے کالج کے واسطے ایک مستقل وظیفہ مبلغ۔۔۔۔۔ ماہوار کا مقرر کر دیا ہے۔ جزاھم اللہ احسان الجزاء<۔۲۱
کالج میں داخل طلبہ کی ناداری اور تنگدستی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایف۔ اے کے امتحان میں داخلہ بھجوانے کا موقع آیا تو چار طلبہ میں سے دو طالب علم داخلہ امتحان کی )۲۰ روپے( فیس تک ادا کرنے سے قاصر تھے جس پر اخبار >الحکم<۲۲4] f[rt اور >البدر<۲۳ دونوں کو چندہ کی تحریک کرنا پڑی۔
کالج کے امید افزاء نتائج
اگرچہ کالج کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس کے طلباء پنجاب یونیورسٹی کے امتحان میں شریک ہوئے مگر جناب الٰہی کی یہ خاص عنایت ہوئی کہ جہاں یونیورسٹی کا نتیجہ قریباً اڑتیس فیصد تھا وہاں تعلیم الاسلام کالج کے نتائج کی اوسط پچھتر فیصد رہی یعنی چار طلبہ میں سے تین ایف۔ اے میں کامیاب قرار پائے۔۲۴ کالج کے اس امید افزا نتیجہ پر رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< )اردو( نے حسب ذیل نوٹ شائع کیا۔
>دو سال گزر چکے ہیں جب اس کالج کی بنیاد پہلے رکھی گئی تھی اور ابھی تک پبلک کو اس کی تعلیمی حالت کا صحیح اندازہ لگانے کا موقعہ نہ ملا تھا مگر ۱۹۰۵ء کے امتحان یونیورسٹی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ علاوہ دینی تعلیم اور تعلیم قرآن شریف کے جو اس کالج کے خاص اغراض میں سے ہے یہاں کی معمولی تعلیم بھی اعلیٰ درجہ کی ہے اور کالج کا سٹاف خصوصاً قابل تعریف ہے۔ اس سال اس کالج سے چار طالب علم امتحان ایف۔ اے میں شامل ہوئے تھے جن میں سے تین کامیاب ہوئے جہاں عام طور پر ایف۔ اے کے امتحان میں ۳۸ فی صدی طالب علم پاس ہوئے ہیں اور بڑے بڑے مشہور کالجوں میں بھی نصف کے قریب قریب ہی تعداد پاس شدگان کی ہے۔ ہمارے کالج کا نتیجہ ۷۵ فیصدی کامیاب بتاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانہ کی زہر ناک ہوائوں کے اثر سے بچنے کے لئے یہ جگہ خدا کے فضل سے نہایت عمدہ ہے<۔۲۵
یونیورسٹی ایکٹ کا نفاذ اور کالج کی بندش
تعلیم الاسلام کالج کی نئی فرسٹ ایر کلاس ۱۵۔ مئی ۱۹۰۵ء کو کھول دی گئی4] f[st۲۶ مگر لارڈ کرزن وائسرائے ہند کی طرف سے یونیورسٹی ایکٹ نافذ کر دیا گیا جس کی رو سے حکومت کو یونیورسٹیوں کے معاملات میں مداخلت کے وسیع اختیارات مل گئے نیز یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ آئندہ کالجوں کے الحاق کی منظوری کالجوں کی مستحکم مالی حیثیت` ٹرینڈ سٹاف اور مستقل عمارت ہونے کی صورت میں ہی دی جاسکے گی۔۲۷ ان شرائط کی موجودگی میں ایک غریب جماعت کے لئے کسی کالج کا جاری رکھنا نہایت دشوار تھا لہذا اسے بند کردینا پڑا۔
مگر جیسا کہ آئندہ حالات نے بتا دیا دراصل خدائے علیم و خبیر نے اپنی حکمت کاملہ سے اس جماعتی اور قومی ضرورت کی تکمیل حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے مثیل و نظیر کے ساتھ وابستہ کر دی تھی اس لئے خلافت ثانیہ کے عہد میں یہ کام نہایت شان و شوکت کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا۔

پہلا باب )فصل دوم(
دور مصلح موعود میں کالج کا ازسر نو قیام اور دوبارہ افتتاح
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے اپنے خلیفہ منتخب ہونے کے چند ہفتے بعد ۱۲۔ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان میں نمائندگان جماعت کا جو سب سے پہلا مشاورتی اجلاس بلوایا۔ اس میں اپنی اس دلی آرزو کا بھی اظہار فرمایا کہ۔
>اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا ایک کالج ہو۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح اول کی بھی یہ خواہش تھی۔ کالج ہی کے دنوں میں کیریکٹر بنتا ہے۔ سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے۔ اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف ہی میں ہوتی ہے۔ پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور موثر بنانے کے لئے اپنا ایک کالج بنائیں۔ پس تم اس بات کو مدنظر رکھو میں بھی غور کررہا ہوں<۔۲۸
اس عزم بالجزم کے بعد ربع صدی سے زائد عرصہ گزر گیا مگر قیام کالج کے لئے حالات سازگار نہ ہوسکے۔ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں تئیسویں مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمدیہ ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ کے نمائندہ ملک مبارک احمد خاں صاحب ایمن آبادی نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بجٹ پر عام بحث کے دوران یہ عرض کی کہ۔
>قادیان میں ایف۔ اے کلاس کھول دی جائے تو بہت بہتر ہو۔ یہ کالج جامعہ احمدیہ کی ایک شاخ کے طور پر کھولا جائے کیونکہ ضلع گورداسپور میں کوئی کالج نہیں اس لئے بہت مفید ثابت ہوگا<۔۲۹
اس مخلصانہ تحریک کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضور کے دل میں یکایک القاء ہوا کہ وقت آگیا ہے کہ قادیان میں کالج جلد سے جلد کھول دیا جائے چنانچہ حضور نے ۲۶۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو فرمایا۔
>خدا تعالیٰ کی حکمت ہے ایک لمبے عرصہ تک میری اس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ قادیان میں ہمارا اپنا کالج ہونا چاہئے بلکہ ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے کالج کے قیام کے متعلق کوشش بھی کی تو میں نے انہیں کہا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں۔ کالج پر بہت روپیہ خرچ ہوگا۔ لیکن پچھلے سال مجلس شوریٰ کے موقع پر بجٹ کے بعد یکدم جب بعض دوسرے لوگوں نے تحریک کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کردی کہ واقعہ میں قادیان میں جلد سے جلد ہمیں اپنا کالج کھول دینا چاہئے حالانکہ اس وقت تک نہ صرف اس تحریک کا میرے دل میں کوئی خیال نہیں تھا بلکہ جب بھی کسی نے ایسی تحریک کی میں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس وقت یکدم خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اس خیال کی تائید پیدا کردی اور نہ صرف تحریک پیدا کی بلکہ بعد میں اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی سمجھا دیئے<۔۳۰
چنانچہ حضرت امیرالمومنین نے مجلس مشاورت کے چند دن بعد جب بجٹ کی مخصوص سب کمیٹی کے اجلاس میں قیام کالج کی تحریک فرمائی تو خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس اور برگزیدہ خلیفہ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے سرسری اور مختصر الفاظ کو غیرمعمولی قبولیت بخشی اور اجلاس میں حاضر چند گنتی کے اصحاب ہی نے کئی ہزار روپیہ نقد پیش کردیا۔۳۱
کالج کمیٹی کا تقرر
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے اس عمومی تحریک کے معاًبعد قدم یہ اٹھایا کہ قیام کالج کے منصوبہ کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے` اس کو جاری کرنے کے انتظامات کی انجام دہی کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور حسب ذیل اصحاب کو اس کا ممبر تجویز فرمایا۔
۱۔
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے )صدر(
۲۔
حضرت صاحبزادہ مزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے )آکسن(
۳۔
حضرت مولوی محمد دین صاحب بی۔ اے۔
۴۔
‏ind] gat[ قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے۔
۵۔
ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے )سیکرٹری(۳۲
حکومت پنجاب سے منظوری
کالج کمیٹی کی تشکیل کے معاًبعد قیام کالج کے لئے حکومت سے اجازت لینے کا مرحلہ شروع ہوا۔ اس سلسلہ میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے سیکرٹری کالج کمیٹی کو ارشاد ہوا کہ وہ لاہور جاکر کوشش کریں کہ اگر ممکن ہو تو یونیورسٹی کے ۱۹۴۳ء )۱۳۲۲ہش( کے تعلیمی سال (SESSION) شروع ہوتے ہی احمدیہ کالج کے اجراء کی اجازت مل جائے۔ لیکن وقت بہت تنگ تھا اور حکومت سے منظوری بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد ہی حاصل ہوسکتی تھی اس لئے اس سال تو کالج کا قیام عمل میں نہ آسکا تاہم اگلے سال ۲۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو پنجاب یونیورسٹی کا ایک کمیشن موقعہ پر حالات کا معائنہ کرنے کے لئے قادیان پہنچا جس نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عالیشان عمارت اور وسیع اراضیات دیکھ کر یونیورسٹی میں کالج کی منظوری دیئے جانے کی سفارش کردی۔ یونیورسٹی نے مطالبہ کیا کہ پینتالیس ہزار روپیہ نقد مجوزہ احمدیہ کالج کے نام پر کسی بینک میں جمع کیا جائے۔ جماعت احمدیہ نے یہ مطالبہ پورا کر دیا تو پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ (SYNDICATE) نے ۱۱۔ فروری ۱۹۴۴ء کے اجلاس میں یونیورسٹی کی سینیٹ (SENATE) کے پاس یہ سفارش کی کہ احمدیہ کالج کی منظوری دے دی جائے۔ سینیٹ (SENATE) نے اپنے اجلاس منعقدہ ۲۵۔ مارچ ۱۹۴۴ء )۲۵۔ امان ۱۳۲۳ہش( میں مطلوبہ منظوری دے کر آخری منظوری کے لئے حکومت کے پاس سفارش کردی اور ۲۔ جون ۱۹۴۴ء کو یونیورسٹی کی طرف سے بذریعہ تار اطلاع موصول ہوئی کہ حکومت پنجاب نے کالج کے اجراء کی منظوری دے دی ہے۔۳۳
قیام کالج کے اخراجات کا تخمینہ اور ابتدائی انتظامات
کالج کمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے احمدیہ کالج کی منظوری کی اطلاع ملتے ہی ایک طرف >الفضل< )۵۔ امان ۱۳۲۳ہش( میں اس کا اعلان کر دیا دوسری طرف سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے حضور کالج کے بنیادی اور ابتدائی اخراجات کے لئے ستر ہزار روپیہ کا بجٹ پیش کیا جسے حضور نے منظور فرمالیا۔ حضور نے کالج کا نام >تعلیم الاسلام کالج< تجویز کیا اور فیصلہ فرمایا کہ یہ کالج تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت میں کھولا جائے اور اس میں نویں دسویں جماعت کے ساتھ ایف۔ اے کلاسز جاری کی جائیں اور مڈل کی جماعتوں کے لئے الگ عمارت تعمیر کی جائے۔ کالج کے ساتھ ہوسٹل کا قیام بھی ضروری تھا۔ اس غرض کے لئے تعلیم الاسلام سکول کے وسیع بورڈنگ ہائوس اور جامعہ احمدیہ کی عمارت تجویز کی گئی۔ کالج کے سٹاف کی بابت یہ اصولی فیصلہ ہوا کہ کچھ عملہ تعلیم الاسلام سکول سے لیا جائے اور کچھ باہر سے مہیا کیا جائے۔۳۴
حضرت مصلح موعود کی طرف سے اخراجات کالج کی تحریک اور مخلصینجماعت کی قربانی
کالج کے ابتدائی انتظامات کے لئے جو رقم کالج کمیٹی کو دی گئی وہ قرض تھی جس کی جلد ادائیگی ضروری تھی۳۵ اس لئے حضرت اقدس المصلح الموعود نے ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳
ہش کو خطبہ جمعہ۳۶ میں اور ۹۔ شہادت/ اپریل کو مجلس مشاورت کے دوران ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی پرزور تحریک فرمائی۔۳۷ اور اس کالج کی افادیت و اہمیت پر نہایت موثر رنگ میں روشنی ڈالی۔ اس تحریک کا خدا کے فضل و کرم سے مخلصین کی جماعت کی طرف سے پرجوش خیر مقدم کیا گیا اور ایک خطیر رقم اس مد میں جمع ہوگئی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی قابل تقلید مثال خود حضرت امام ہمام کی تھی۔ آپ نے کالج کی منظوری دیتے ہی پہلے اپنی طرف پانچ ہزار کا چیک عطا فرمایا اور پھر جلد ہی اپنے جملہ اہلبیت کی طرف سے چھ ہزار روپے عنایت فرما دیئے۔۳۸
کالج کے مجوزہ ڈھانچہ کی تشکیل کے لئے فوری اقدامات
اب تعلیم الاسلام کالج سے متعلق بنیادی فیصلوں پر عملی اقدام کا پہلا مرحلہ شروع ہوا۔ اس سلسلہ میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ہیڈماسٹر۳۹ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام درج ذیل حکم نامہ جاری فرمایا۔
>چونکہ عنقریب تعلیم الاسلام کالج کھلنے والا ہے اور اس کے کھلنے پر سکول ہذا کی ہائی کلاسز کالج کے ساتھ ملا دی جائیں گی اس لئے آج سے سکول کے مڈل کے حصہ کو ہائی کے حصہ سے جدا کیا جاتا ہے ہائی کے حصہ کے انچارج بدستور اخوند عبدالقادر صاحب ایم۔ اے رہیں گے اور فی الحال حصہ مڈل کے انچارج صوفی غلام محمد صاحب T۔B Sc۔B ہوں گے۔ اخوند عبدالقادر صاحب سکول کے مڈل اور پرائمری کے حصہ کا چارج صوفی صاحب موصوف کو دے دیں۔ سکول کے موجودہ سٹاف میں سے اخوند عبدالقادر صاحب کے علاوہ مندرجہ ذیل اساتذہ ہائی کے حصہ میں ہی فی الحال کام کریں گے۔ ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے بی ٹی` صوفی محمد ابراہیم صاحب T۔B Sc۔B ماسٹر محمد ابراہیم صاحب Y۔A۔S۔A۔`B ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ناصر T۔B ۔BA اور بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے<
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی نظر میں کالج کا تاریخی پس منظر
صدر کالج کمیٹی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے >الفضل< )۸۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش( میں >ہمارا تعلیم الاسلام
کالج< کے عنوان سے ایک نہایت اہم مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں اس نئے مرکز ادارہ کے خصائص پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ۔
>سب سے پہلی خصوصیت جو اس کالج کو حاصل ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف خاص کے ماتحت اس کے اجراء کو تاریخ احمدیت کے اس زمانہ کے ساتھ پیوند کر دیا ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے دعوئے مصلح موعود کے ماتحت جماعت کے ایک نئے دور کا حکم رکھتا ہے گویا منجملہ دوسری مبارک تحریکات کے جو اس وقت جماعت کے سامنے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس کالج کو بھی نئے دور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی بنا دیا ہے اور اس طرح یہ کالج خدا کے فضل سے گویا اپنے جنم کے ساتھ ہی اپنے ساتھ خاص برکات و سعادت کا پیغام لارہا ہے۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذلک۔
‏vat,10.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
دوسری خصوصیت اس کالج کو خدا تعالیٰ نے یہ دے دی ہے کہ وہ تاریخ عالم کے لحاظ سے بھی موجودہ جنگ عظیم کے آخری حصہ میں عالم وجود میں آرہا ہے اور جنگ کا یہ حصہ وہ ہے جبکہ دنیا کے بہترین سیاسی مدبر دنیا کے بعد الحرب نئے نظام کے متعلق بڑے غور و خوض سے تجویزیں سوچ رہے اور غیرمعمولی اقدامات عمل میں لارہے ہیں۔ اس لحاظ سے ہمارا یہ کالج دو عظیم الشان دینی اور دینوی تحریکوں کے ساتھ اس طرح مربوط ہوگیا ہے کہ ایک الٰہی جماعت جو ہر امر میں خدائی تقدیر کا ہاتھ دیکھنے کی عادی ہوتی ہے اسے محض ایک اتفاق قرار دے کر نظر انداز نہیں کرسکتی<۔۴۰
المصلح الموعود کی زبان مبارک سے تعلیم الاسلام کالج کیلئے طلبہ بھجوانے کی تحریک
کالج کی ابتداء چونکہ انتظامی اعتبار سے یکم ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے ہوچکی تھی اس لئے سیدنا حضرت المصلح الموعود نے ۵۔
ہجرت ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ۔
>کالج شروع کر دیا گیا ہے۔ پروفیسر بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مل گئے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ چندہ جمع کیا جائے اور لڑکوں کو اس میں تعلیم کے لئے بھجوایا جائے۔ ہر وہ احمدی جس کے شہر میں کالج نہیں وہ اگر اپنے لڑکے کو کسی اور شہر میں تعلیم کے لئے بھیجتا ہے تو کمزوری ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بلکہ میں کہوں گا ہر وہ احمدی جو توفیق رکھتا ہے کہ اپنے لڑکے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج سکے خواہ اس کے گھر میں ہی کالج ہو اگر وہ نہیں بھیجتا اور اپنے ہی شہر میں علیم دلواتا ہے تو وہ بھی ایمان کی کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے<۔۴۱
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا تقرر بحیثیت پرنسپل
حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے کالج کمیٹی کی تجویز پر ۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا تقرر بطور پرنسپل منظور فرمایا۔
جناب پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد )حال ناظر بیت المال آمد صدر انجمن احمدیہ ربوہ( کا بیان ہے۔
>۱۹۴۴ء کے ابتدائی ایام میں محترم حضرت صاحبزادہ مزا ناصر احمد صاحب محترمہ بیگم صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں دہلی مقیم تھے ایک بزرگ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دنوں تعلیم الاسلام کالج کے انتظامات ہورہے ہیں اور پرنسپل کے تقرر کا سوال ہے انہیں لکھو کہ وہ اس موقعہ پر یہاں تشریف لے آئیں۔ میں نے ناسمجھی میں آپ کی خدمت میں ایک عریضہ تحریر کر دیا۔ چند دن کے بعد جواب موصول ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خالد! تم بچپن سے میرے ساتھ رہے ہو ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ میں نے کبھی کسی عہدہ کی خواش نہیں کی میں تو ادنیٰ خادم سلسلہ ہوں<۔
کالج کا پہلا سٹاف
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )پرنسپل و لیکچرار اقتصادیات( کے علاوہ ابتداء میں حسب ذیل اساتذہ کا تقرر عمل میں آیا۔
۱۔
اخوند محمد عبدالقادر صاحب ایم۔ اے` بی۔ ٹی۴۲ )لیکچرار انگریزی(
۲۔
قاضی محمد نذیر صاحب منشی فاضل مولوی فاضل ایف۔ اے` او۔ ٹی۴۳ )لیکچرار فارسی و دینیات(
۳۔
صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے۴۴ )لیکچرار عربی(
۴۔
رانا عبدالرحمن صاحب ناصر ایم۔ اے ریاضی۴۵ )لیکچرار ریاضی(
۵۔
عباس بن عبدالقادر صاحب۴۶ )لیکچرار تاریخ(
۶۔
چودھری محمد علی صاحب ایم۔ اے۴۷ )لیکچر فلاسفی(
)آپ سے قبل عبدالعزیز صاحب۴۸ ایم۔ اے چکوالوی فلاسفی کے لیکچرار مقرر تھے جو ۱۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو انتقال کر گئے جس پر ۲۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو آپ کا انتخاب ہوا(
۷۔
چوہدری عبدالاحد صاحب ایم۔ ایس۔ سی` پی ایچ ڈی۴۹ )لیکچرار کیمسٹری(
اس سٹاف میں وقتاً فوقتاً ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک مندرجہ ذیل اساتذہ کا اضافہ ہوا۔
نام تاریخ تقریر مضمون کیفیت
۱۔ مکرم عطاء الرحمن صاحب غنی ایم۔ اے ماہ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )فزکس(
۲۔ مکرم یحییٰ بن عیسیٰ صاحب بہاری ایم ایس سی ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک خدمت کرتے رہے(
۳۔ مکرم میاں عطاء الرحمن صاحب ایم ایس سی ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش
۴۔ مکرم چوہدری محمد صفدر صاحب چوہان ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۳ہش
۵۔ مکرم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے بی ٹی۵۰ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش
۶۔ مکرم ملک فیض الرحمن صاحب فیضی ایم۔ اے ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش
۷۔ مکرم حبیب اللہ خاں صاحب ایم ایس سی ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش )ابک تک پروفیسر ہیں(
۸۔ سید سلطان محمود صاحب شاہد ایم ایس سی ماہ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش )یحییٰ بن عیسیٰ صاحب کی جگہ ریسرچ سے کالج میں منتقل ہوئے(
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا بحیثیت پرنسپل چارج
اگرچہ تعلیم الاسلام کالج کا انتظامی نقطہ نگاہ سے اجراء ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے ابتدائی ایام میں ہوچکا تھا مگر انٹرمیڈیٹ کالج کی صورت میں اس کا باقاعدہ قیام ۲۲۔ ماہ ہجرت کو ہوا جبکہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے جامعہ احمدیہ کا چارج مولانا ابوالعطاء صاحب کو دے کر تعلیم الاسلام کالج کی باگ ڈور سنبھال لی اور ساتھ ہی سکول کی نویں دسویں کی کلاسیں چند دنوں تک کالج کے ساتھ رہنے کے بعد باقاعدہ سکول کے ساتھ ملحق کر دی گئیں اور کالج صرف انٹرمیڈیٹ کالج رہا۔
پہلے پراسپیکٹس` داخلہ فارم اور پوسٹر کی اشاعت
کالج کو کامیابی سے جاری کرنے کے لئے اشد ضروری تھا کہ اسے قادیان کے گردونواح میں خصوصاً متعارف کرایا جائے اور اس کی افادیت عوام پر واضح کی جائے۔ کالج کمیٹی نے ابتداء میں یہ ذمہ داری خود ہی اٹھائی اور نہ صرف اخبار >الفضل< میں کالج سے متعلق متعدد اعلانات شائع کئے گئے بلکہ کالج کے پہلے پراسپکٹس۵۱ اور داخلہ فارم کے علاوہ >اہالیان ضلع گورداسپور کے لئے ایک خوشخبری< کے عنوان سے ایک پوسٹر بھی شائع کیا اور اسے ضلع بھر کے ہائی سکولوں کے ہیڈماسٹروں اور دیگر معززین تک پہنچانے کا معقول انتظام کیا۔ مقامی تبلیغ کے مبلغوں سے بھی اس کام میں مدد لی گئی۔ اس ابتدائی کوشش کے بعد داخلہ کالج سے متعلق اعلانات اخبار >الفضل`< >ڈان`< >انقلاب< اور دوسرے ملکی اخبارات میں براہ راست پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے بھجوائے جانے لگے۔
طلباء کا انٹرویو
اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طرف سے تعلیم الاسلام کالج سے متعلق پہلا اعلان >الفضل< ۲۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے صفحہ ۸ کالم ۱ پر شائع ہوا۔ جس میں احباب جماعت کو سیدنا المصلح الموعود کے الفاظ میں کالج کے چندہ اور داخلہ کی اپیل کرنے کے بعد اطلاع دی گئی کہ۔
>ایف اے اور ایف ایس سی نان میڈیکل کے داخلہ کے لئے درخواستیں ۲۷۔ مئی تک پہنچ جانی چاہئیں۔ انٹرویو کے لئے ۲۹` ۳۰` ۳۱۔ مئی کی تاریخیں مقرر کی جاتی ہیں<۔
اس اعلان کے مطابق قادیان اور بیرون جات سے آنے والے طلباء کا انٹرویو ۲۹۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے شروع ہوا جو تین روز جاری رہا۔ انٹرویو میں جملہ موجود الوقت لیکچرار صاحبان نے بصورت بورڈ شرکت کی۔ کالج کی ابتدائی حالت کے پیش نظر یہ خیال رکھا گیا کہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کو لیا جائے۔ داخلہ کی آخری تاریخ ۸۔ احسان/ جون مقرر تھی۔ پہلے سال ۸۰ طلبہ نے داخلہ لیا۔
ہائی کلاسز کے دوبارہ سکول کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے کالج کے پاس سکول کی بلڈنگ کے کچھ حصہ کے سوا اور کسی قسم کا کوئی سامان حتیٰ کہ طلبہ کے لئے ڈیسک اور بنچ` پروفیسر صاحبان کے لئے کرسیاں` میزیں` اور کلاس رومز کے لئے بلیک بورڈ تک موجود نہ تھے۔ فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دفتر خدام الاحمدیہ سے دو میزیں بارہ کرسیاں اور ہائی سکول سے ۱۲۰ طلبہ کے لئے نشستوں کا انتظام کیا گیا۔۵۲
تعلیم الاسلام کالج قادیان کا
پہلا پراسپکٹس ۴۵۔ ۱۹۴۴ء/ ۲۴۔ ۱۳۲۳ہش
)انگریزی سے ترجمہ(
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمہید و تعارف
موجودہ دور میں اخلاقی انحطاط اور مادہ پرستی جس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ بدقسمتی سے مغربی تعلیم کا وہ نظام جو اس وقت ہمارے ملک میں جاری ہے باوجود اس کے کہ اس کے بعض پہلوئوں میں کچھ خوبیاں بھی موجود ہیں اس نے مغربی تہذیب کو ہوا دینے میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ پس اس مقصد کے پیش کے نظر کہ ہمارے احمدی بچے مادہ پرستی اور موجودہ تہذیب کے سیلاب سے محفوظ رہیں نیز یہ کہ وہ دینوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کی روحانی برکات سے بھی آراستہ ہوں۔ اور ایک خاص دینی اور اخلاقی ماحول میں پرورش پائیں۔ جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس بانی حضرت احمد علیہ السلام کی زیر ہدایت قادیان میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری فرمایا اور اب یہ ادارہ مئی ۱۹۴۴ء میں انٹرمیڈیٹ کالج )آرٹس اور سائنس( کی صورت میں ترقی پارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد اسے ڈگری کالج کے معیار تک پہنچا دیا جائے گا۔ جس میں آرٹس اور سائنس کے تمام مضامین )چار سالہ کورس( بالترتیب پڑھائے جائیں گے۔
کالج کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایسے بلند کردار نوجوان پیدا کئے جاویں جو نہ صرف موجودہ علوم اور زندگی کے موجودہ تقاضوں سے پوری طرح عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بلکہ اسلامی تمدن کی حقیقی روح کے حامل اور احمدیت اور اسلام کی اخلاقی اور روحانی اقدار کا مجسمہ ہوں۔ اس کے علاوہ وہ بہترین شہری اور معاشرت کا عمدہ ترین نمونہ ہوں۔
یہ کالج صدر انجمن احمدیہ کے زیر انتظام ہوگا اور ایک بہت بڑے وسیع دیہاتی طبقے )کہ جس کا مرکز اس وقت قادیان ہے( کی تعلیمی ضروریات بھی پوری کرے گا اس میں تمام طلباء کو بلاتفریق مذہب و ملت داخلے کی اجازت ہوگی اور ہر طالب علم اپنے ضمیر کے مطابق پوری دل جمعی کے ساتھ تمام علوم سے بہرہ ور ہوسکے گا۔ البتہ داخلہ۔ گنجائش کے مطابق و نوعیت مضامین کے اعتبار سے کیا جاسکے گا۔
اسٹاف
۱۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایچ ایے )پنجاب( بی اے )پنجاب( بی اے آنرز )مارڈرن گریٹس آکسن۔ انگلستان( پرنسپل اور لیکچرار دینیات اور اقتصادیات۔
۲۔
مکرم اخوند عبدالقادر صاحب ایم اے لیکچرار انگریزی۔
۳۔
مکرم عباس بن عبدالقادر صاحب ایم اے لیکچرار تاریخ۔
۴۔
مکرم خواجہ عبدالعزیز صاحب حقانی ایم۔ اے` بی۔ ٹی۔ ایچ )علیگ( لیکچرار فلاسفی۔
۵۔
مکرم عبدالرحمن صاحب ناصر ایم۔ اے لیکچرار ریاضی۔
۶۔
مکرم ذوالفقار علی صاحب غنی ایم۔ ایس۔ سی لیکچرار فزکس اور کیمسٹری۔
۷۔
مکرم بشارت الرحمن صاحب ایم اے لیکچرار عربی۔
۸۔
مکرم قاضی محمد نذیر صاحب )ایچ۔ اے` ایچ۔ پی( لیکچرار فارسی اور اردو۔
۹۔
مکرم صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی بی ٹی ڈیمانسٹریٹر اور ٹیچر سائنس۔
۱۰۔
مکرم محمد ابراہیم صاحب بی اے ایس اے وی ٹیچر انگلش اور جنرل نالج۔
۱۱۔
مکرم محمد ابراہیم صاحب ناصر بی۔ اے` بی۔ ٹی ٹیچر ریاضی۔
۱۲۔
مکرم ماسٹر محمد اسلام خان صاحب ڈرائینگ ماسٹر۔۵۳
۱۳۔
فزیکل انسٹرکٹر )آسامی جلد پر کی جاوے گی(۵۴
۱۴۔
لائبریرین )آسامی جلد پر کی جاوے گی(۵۵
۱۵۔
میڈیکل آفیسر۔ جناب خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب۔
۱۶۔
آفس کلرک۵۶ اور خزانچی۵۷ )آسامی جلد پر کی جائے گی(
۱۷۔
لیبارٹری اسسٹنٹ دوکس )آسامیاں جلدی پر کی جائیں گی(۵۸
مضامین
کالج میں موجودہ حالات میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے جائیں گے۔
)۱( انگریزی )۲( عربی )۳( فارسی )۴( ریاضی )۵( اقتصادیات )۶( تاریخ )۷( فلسفہ )۸( فزکس )۹( کیمسٹری )۱۰( اردو اور دینیات زائد مضامین ہوں گے۔
طلباء مندرجہ ذیل مضامین کے گروپ میں سے اپنے لئے کسی مناسب گروپ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
)۱( انگریزی عربی یا فارسی ریاضی اور تاریخ
)۲( انگریزی عربی یا فارسی ریاضی اور اقتصادیات
)۳( انگریزی عربی یا فارسی ریاضی اور فزکس
)۴( انگریزی عربی یا فارسی تاریخ اور فلسفہ
)۵( انگریزی عربی یا فارسی ریاضی اور فلسفہ
)۶( انگریزی عربی یا فارسی تاریخ اور اقتصادیات
)۷( انگریزی عربی یا فارسی اقتصادیات اور فلسفہ
ایف۔ ایس۔ سی )نان میڈیکل(
انگریزی فزکس۔ کیمسٹری اور ریاضی۔
طلباء کا داخلہ
یونیورسٹی کے قواعد کے طابق ضروری ہے کہ کالج میں داخلے کے وقت طلباء خود حاضر ہوں چنانچہ فرسٹ ایر کلاس میں داخلے کے وقت طلباء کی حاضری اصالتاً ضروری ہے یہ داخلہ میٹرک کے نتائج کے دس دن کے بعد سے شروع کیا جاوے گا۔
داخلے کے وقت طلباء کو حسب ذیل سرٹیفکیٹ پیش کرنے ہوں گے۔
۱۔
پرویژنل سرٹیفکیٹ جس میں تاریخ پیدائش درج ہو اور گزشتہ امتحان یونیورسٹی میں لئے گئے مضامین اور ان کے نمبروں کی تفصیل درج ہو۔
۲۔
عمدہ چال چلن کا سرٹیفکیٹ۔ جو اس ادارے کے سربراہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہو۔ جس میں طالب علم نے آخری مرتبہ تعلیم حاصل کی ہے۔
۳۔
والدین یا سرپرست کی طرف سے تصدیق کہ طالب علم مذکور کو کالج میں داخلے کی اجازت ہے۔
فیسیں
ایف اے کی کلاسوں کی فیس حسب ذیل ہوگی۔
فیس داخلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۔ ۲
یونیورسٹی رجسٹریشن فیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۔ ۴ )داخلے کے موقع پر ایک مرتبہ(
ٹیوشن فیس )۲۴ مہینوں کے لئے( ۔۔۔ ۰۰۔ ۶ )فی ماہ(
لائبریری فیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۰۰۔ ۵ )قابل واپسی جب کہ کالج چھوڑا جائے(
میڈیکل فیس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۵۔ ۰ )فی ماہ(
یونین کلب فنڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۵۔ ۱ )فی ماہ(
ہوسٹل کی فیس
فیس داخلہ ۰۰۔ ۱ )بوقت داخلہ(
رہائش ۰۰۔ ۲ )فی ماہ(
علیحدہ کمرہ ۰۰۔ ۳ )فی ماہ(
روشنی ۵۰۔ ۱ )فی ماہ(
پنکھا )اگر استعمال کیا جائے( ۰۰۔ ۴ )فی ماہ(
ضمانت ۰۰۔ ۵ )قابل واپسی(
کھانے کا پیشگی خرچ ۰۰۔ ۱۰ )داخلے کے وقت ایک مرتبہ اور پھر قابل واپسی(
نوٹ:۔ بورڈنگ میں طلباء کو چارپائیاں مہیا کی جاویں گی لیکن روشنی کے لئے بلب اور پنکھے انہیں خود ہی حاصل کرنے ہوں گے۔
فضل عمر ہوسٹل کا قیام
۲۶۔ ہجرت/۵۹ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو فضل عمر ہوسٹل کا قیام دارالانوار کے گیسٹ ہائوس میں ہوا۔ سیدنا المصلح الموعود نے چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے کو اس کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ اس مرکزی دارالاقامہ کی ابتداء انتہائی مختصر صورت میں ہوئی۔ تین کمرے ہوسٹل کے لئے خالی کر دیئے گئے۔ نہ چارپائیاں تھیں نہ باورچی خانہ کا انتظام۔ محلہ والوں سے چارپائیاں مانگی گئیں اور کھانے کا انتظام پہلے مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہائوس میں کرنا پڑا۔ دو ہفتہ بعد دارالواقفین کے مطبخ کی طرف رجوع کیا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے بکمال شفقت اپنی کوٹھی بیت الحمد کے کچن کو استعمال میں لانے کی اجازت دی جہاں کھانا باقاعدہ تیار ہونے لگا۔ جب طلبہ کی تعداد اندازہ سے بڑھ گئی تو کالج کمیٹی نے >ترجمتہ القرآن< والا کمرہ بھی خالی کردیا لیکن اب بھی طالب علموں کی رہائش کا مسئلہ حل نہ ہوا۔ جس پر سیدنا المصلح الموعود کی خدمت بابرکت میں بیت الحمد کے تین کمروں کو زیر استعمال لانے کی درخواست کی گئی جو حضور نے قبول فرمالی۔ اس طرح گو رہائش کی مشکل پر قابو پالیا گیا مگر ہوسٹل دو حصوں میں تقسیم ہو جانے سے طلبہ کی تسلی بخش نگرانی میں نمایاں خلل آنے لگا۔ تاہم ہوسٹل کے اکثر و بیشتر طلبہ عموماً نمازوں کی پابندی کرتے اور درس قرآن سنتے تھے۔ نماز مغرب مسجد مبارک میں پڑھتے اور اس کے بعد سیدنا المصلح الموعود کی مجلس علم و عرفان سے مستفیض ہوتے تھے جو روحانی اعتبار سے ان کے لئے سرمایہ حیات کی حیثیت رکھتی تھی۔ حضرت امیرالمومنین کے ارشادات کے پیش نظر اس امر کا التزام کیا جاتا تھا کہ ہوسٹل میں ایسی فضا قائم ہو جائے کہ بجائے اس کے کہ سپرنٹنڈنٹ یا ٹیوٹر طلباء کو ان کی کسی غلط روش یا بے راہروی پر نوٹس لیں لڑکے خود ہی ایک دوسرے کو نصیحت کریں۔ اسی ابتدائی دور میں اردو اور انگریزی تقاریر کی مشق کے لئے فضل عمر ہوسٹل یونین کی نیو ڈالی گئی جس کا باقاعدہ افتتاح حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے فرمایا اور اس کے ابتدائی اجلاسوں میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ` حضرت چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بھی خطاب فرمایا۔۶۰ انہی دنوں >بزم حسن بیان< کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ ہوسٹل یونین کی طرف سے مختلف زبانوں میں ترجمہ قرآن کے لئے وعدے بھجوائے گئے۔ یونین کے اجلاسوں میں زندگی وقف کرنے کی تحریک کی گئی نیز حضرت امیرالمومنین کے تازہ ارشادات و فرمودات اور دیگر جماعتی مطالبات طلباء کے سامنے دوہرا کر ان کو لیبک کہنے کی تلقین کی جاتی تھی۔۶۱ ہوسٹل کے سب سے پہلے ٹیوٹر پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے مقرر ہوئے۔ چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے سپرنٹنڈنٹ فضل عمر ہوسٹل اپنے ایک غیر مطبوعہ بیان )مورخہ ۲۶۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۸`ء/ ۱۳۴۷ہش( میں ہوسٹل کے ابتدائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>ہوسٹل کا قیام گیسٹ ہائوس دارالانوار والی عمارت میں عمل میں آیا۔ ایک کمرے میں دفتر تھا۔ وہی سٹور تھا۔ وہیں میں رہتا تھا۔ چند روز تو کھانا لنگر سے آیا۔ پھر کھانا ہم خود پکانے لگے۔ ہمارے پہلے باورچی غلام محمد صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا تقریباً روزانہ حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوٹھی پیدل مع خادمات تشریف لے جایا کرتی تھیں اور برقعے کے ساتھ چھتری بھی استعمال فرمایا کرتی تھیں۔ دو تین دن تو ہم حجاب میں رہے۔ ایک دن ہمت کرکے راستے میں گیسٹ ہائوس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہوگئے اور سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ایک ایک کا نام اور پتہ دریافت فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیز پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے۔ عرض کی کہ ابھی تو لنگر خانے سے آتا ہے۔ برتن وغیرہ نہیں خریدے گئے اس لئے پکنا شروع نہیں ہوا۔ اسی دن حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جو واقعی ہماری اماں جان تھیں اپنے ذاتی برتن ہمارے استعمال کے لئے بھجوا دیئے جن پر نصرت جہاں بیگم کے مبارک اور تاریخی الفاظ کندہ تھے مجھے یاد ہے کہ ان برتنوں میں علاوہ دیگر استعمال کے برتنوں کے ایک پریشر ککر بھی تھا جس کے اندر کئی خانے تھے۔ یہ برتن ہم کافی عرصہ استعمال کرتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوسٹل میں ترجمتہ القرآن کا دفتر تھا۔ جہاں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ باقاعدہ تشریف لاتے۔ گرما کی تعطیلوں کے بعد کالج کھلا تو دفتر >بیت الحمد< میں منتقل ہوگیا۔ طلباء کی آمد آمد ہوئی تو گیسٹ ہائوس سارے کا سارا خالی ہوا۔ پھر بھی گنجائش نہ رہی تو حضورؓ نے از راہ شفقت بیت الحمد کے سامنے والے کمرے ہوسٹل کو مرحمت فرما دیئے جہاں طلباء نئے ہوسٹل کے افتتاح تک مقیم رہے۔ یہ ۱۹۴۴ء ہی کی بات ہے کہ حضورؓ کی اجازت سے ہوسٹل کا نام فضل عمر ہوسٹل رکھا گیا۔ اس پر بہت سے مبارکباد کے خطوط آئے<۔
تعلیم الاسلام کالج کا باقاعدہ افتتاح
تعلیم الاسلام کالج قادیان کا باقاعدہ افتتاح ۴۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو بوقت ساڑھے سات بجے شام تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی سابق عالیشان عمارت کے وسیع ہال میں ہوا۔۶۲]txte [tag تلاوت و نظم کے بعد ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے سیکرٹری کالج کمیٹی نے ایک مفصل رپورٹ سنائی جس میں کالج کی تحریک سے لیکر اس کی منظوری تک کے واقعات پر جامع نظر ڈالی اور بتایا کہ گزشتہ سال جب مجھے لاہور بھیجا گیا کہ میں مجوزہ احمدیہ کالج کے قیام کے لئے کوشش کروں تو اس وقت پروگرام یہ تھا کہ جماعت کی موجودہ مالی حالت ایک پورے ڈگری کالج کے عظیم مصارف کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اس لئے فی الحال ایک ایسے انٹرمیڈیٹ کالج کے لئے درخواست کی جائے جس میں سکول کی ہائی کلاسز بھی ساتھ ہوں تا ہائی سکول کی عمارت اور ہائی کلاسز کے عملے کے کالج میں شامل ہونے سے بہت سے اخراجات کی بچت ہوجائے مگر >حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تو اگلے سال پورا ڈگری کالج بنارہے ہیں۔ یہ ہائی کلاسز والا چار سالہ انٹرمیڈیٹ کالج تو ہماری ضرورت کے لئے متکفی نہیں۔ چنانچہ حضور کے تازہ ارشاد کے مطابق بالکل ہی آخری وقت میں کوشش کرنے پر کالج کی موجودہ شکل کی بھی منظوری حاصل ہوگئی<۔
اس تفصیل کے بعد ملک صاحب موصوف نے کالج کے سٹاف` اس کے نام` موجودہ شکل` نام عمارت اور اغراض و مقاصد کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے بالاخر عرض کیا کہ۔
>جہاں کالج کے قیام کے کام کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی توجہ اور دعائیں کالج کمیٹی کی مددگار رہی ہیں وہاں کالج کمیٹی کے صدر ہمارے مخدوم و محترم حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سلمہ الرحمن کی حکیمانہ ہدایات اور مشورے بھی اس کی راہ نمائی کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ صاحب کو جزائے خیر دے<۔۶۳
پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی رپورٹ][ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے سیکرٹری کالج کمیٹی کے بعد حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے حسب ذیل ضروری کوائف پیش فرمائے۔
>سیدنا! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
کالج کمیٹی کی ہدایت کے ماتحت خاکسار تعلیم الاسلام کالج کے داخلہ کے متعلق ابتدائی رپورٹ اور کالج کے طریق کار کا ایک مختصر سا ڈھانچہ پیش کرتا ہے۔
)۱(
اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۵۱ طلبا کالج میں داخل کئے جاچکے ہیں ¶اور ۷ طلبہ کی باہر سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ جن میں سے اکثر کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ وقت پر یہاں پہنچ جائیں گے۔ اس طرح پرامید ہے کہ انشاء اللہ العزیز کالج میں ۶۰ سے زائد طلباء امسال داخل ہو جائیں گے۔
ان ۵۱ طلبہ میں سے جو اس وقت تک داخل ہوچکے ہیں` ۲۴ نے سائنس لی ہے اور ۲۷ نے آرٹس اور آرٹس میں سے ۲۶ طلبہ نے ہسٹری لی ہے` ۱۶ نے اکنامکس` ۱۳ نے عربی` ۱۳ نے فارسی` ۶ نے فلاسفی` ۶ نے میتھیمٹکس۔ ان ۵۱ طلبہ میں سے ایک تہائی یعنی ۱۷ تھرڈ ڈویژن کے ہیں اور قریباً نصف یعنی ۲۴ سیکنڈ ڈویژن کے اور صرف ۱۰ فرسٹ ڈویژن کے ان طلبہ میں سے ۱۵ وہ ہیں جنہوں نے امسال ٹی آئی ہائی سکول سے میٹرک پاس کی ہے اور ۳۶ باہر سے۔
ڈویژن کے نقشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ داخل ہونے والوں کی اکثریت نے اچھے نمبر نہیں لئے پس تربیت کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج کو ان طلبہ کی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دینی ہوگی تا ان کی پہلی کوتاہیاں ہمارے نتیجہ پر اثر انداز نہ ہوں۔ انسانی کوششیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر` ہیچ ہیں۔ اس لئے ہم حضور سے اور بزرگان سلسلہ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں صحیح طریق پر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے تا ہماری حقیر کوششیں اسے نیک نام کرنے والی ثابت ہوں اور ہمیں حال اور مستقبل میں لسان صدق حاصل ہو۔ اللہم آمین۔
)۲(
تعلیم الاسلام کالج کے قیام کا بڑا مقصد احمدی طلبہ میں مذہبی روح کا پیدا کرنا اور اسلامی تعلیم کا پختگی کے ساتھ قائم کرنا ہے اور ہمارا ارادہ ہے کہ دینیات کے اس نصاب کے علاوہ جو مجلس تعلیم ہمارے لئے مقرر کرے گی طلبہ میں دینی اور مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور اس کی عادت ڈالیں۔ باہر کے بعض کالج مثلاً مشن کالجز وغیرہ اپنے مذہب کی تعلیم ہر مذہب والے کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ہمارے لئے بھی یہ جائز تو ہے کہ ہم بھی ہر مذہب والے کے لئے یہ ضروری قرار دیں کہ وہ ہماری مذہبی تعلیم کی گھنٹی میں ضرور حاضر ہو لیکن اگر غیروں کا رویہ بھی ہمارے نزدیک غیر مناسب اور قابل اعتراض ہو تو پھر ہمیں محض ان کی نقل میں اس گھنٹی میں حاضری لازمی قرار نہیں دینی چاہئے۔ اس سلسلہ میں حضور کی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ اس سے شروع شروع میں ہمارے خلاف مخالفوں کو ناواجب پراپیگنڈا کا آلہ نہ مل جائے۔
)۳(][دماغی نشوونما کے لحاظ سے کالج میں داخل ہونے والے طلباء ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ جہاں انہیں انگلی پکڑ کے بھی چلایا نہیں جاسکتا کہ انہیں اپنے سہارے چلنا سیکھنا ہوتا ہے اور کلی طور پر بے نگرانی بھی نہیں چھوڑا جاسکتا کہ ہمیشہ کے لئے وہ اخلاقی ہلاکت کے گڑھے میں گرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے لئے وہ بہترین درمیانی راہ کا انتخاب جسے صراط مستقیم کہا جاسکتا ہے اور نگرانی اور آزادی کے اس ملاپ کو پالینا جو ان کی اخلاقی زندگی کو ہمیشہ کے لئے بنا دینے والا ہو ناممکن تو نہیں مگر بہت مشکل ضرور ہے اور ہم حضور ہی سے دعا اور رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں۔
)۴(
فٹ بال` ہاکی` کرکٹ انگریزوں کی قومی کھیلیں ہیں اور چونکہ آج کل انگریز ہم پر حاکم ہیں` اس لئے ہندوستان میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب تک تعلیمی اداروں میں ان کھیلوں کو رائج نہ کیا جائے اس وقت تک ہمارے نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کے برعکس وہ تمام قومیں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیاد تر توجہ ATHLETICS کی طرف ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلبہ کی صحتوں پر کوئی برا اثر نظر نہیں آتا۔ ہمارا ارادہ بھی ATHLETICS کی طرف زیادہ توجہ دینے کا ہے۔ مگر چونکہ بہرحال ہم ہندوستان کے رہنے والے ہیں اور ہمارے ملک کی ساری تعلیمی درسگاہیں ہاکی` فٹ بال وغیرہ پر زور دیتی ہیں اس لئے حضور کی ہدایت کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ہاکی فٹ بال وغیرہ کو کلیت¶ہ ترک کردیں یا انہیں جاری تو رکھیں مگر زیادہ اہمیت نہ دیں۔ میرے علم میں ان کھیلوں کو ترک کر دینے پر یونیورسٹی یا محکمہ تعلیم کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
)۵(
دنیا کی بہت سی درسگاہیں اساتذہ اور طلبہ کے لئے کسی خاص لباس کی تعیین کردیتی ہیں اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں بھی یہ رواج رہا ہے۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ طلبہ کی اخلاقی نگرانی زیادہ آسانی سے کی جاسکتی ہے اور ڈسپلن کا قیام بہتر طریق پر ہوتا ہے اگر حضور اسے پسند فرمائیں تو ہمارے لئے بھی کوئی لباس مثلاً کسی خاص قسم کی اچکن اور شلوار مقرر فرمائیں۔
)۶(
طلبہ میں تعلیمی دلچسپی بڑھانے کے لئے مختلف سوسائیٹیز کے قیام کا ارادہ ہے۔ مثلاً )۱( عربک سوسائٹی )۲( پرشین سوسائٹی )۳( فلوسافیکل سوسائٹی )۴( ریلیجس ریسرچ سوسائٹی )۵( اکنامکس سوسائٹی اور )۶( کالج بزم حسن بیان
عام طور پر کالج یونین میں طلبہ کی قوت بیان کو بڑھانے کے لئے DEBATES کا طریقہ رائج ہے۔ مگر یہ طریق ہمارے ہاں پسندیدہ نہیں۔ اس لئے انشاء اللہ العزیز ہم کالج کی بزم حسن بیان میں DEBATES کے طریق کو ترک کرکے تقریر کے طریق کو رائج کریں گے اور امید ہے کہ ہمارے طلبہ تقریر کے میدان میں محض اس طریق کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہیں گے۔
نئے سے نئے تعلیمی طریقے اور سکیمیں جن میں سے جدید ترین مسٹر جان سارجنٹ کی رپورٹ ہے پبلک کے سامنے آتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا رائج الوقت طریقہ تعلیم تسلی بخش نہیں اور اس امر کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ اس کی بجائے کوئی بہتر طریقہ تعلیم رائج کیا جائے۔ ایک نئی یورنیورسٹی بھی کسی نئی سکیم کو رائج کرسکتی ہے اور کوئی کالج جو ایک غیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق رکھتا ہو کسی نئی سکیم کو رائج نہیں کرسکتا۔ پس ہمارے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی کو چھوڑ کر کسی نئے طریقہ تعلیم کو اپنے کالج میں رائج کریں لیکن ایک غیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق رکھتے ہوئے اور اس کی پالیسی کو اختیار کرتے ہوئے بھی یہ ممکن ہے کہ بعض ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جو طلبہ کی ذہنی نشوونما میں زیادہ ممد ثابت ہوں۔ مثلاً RESIDENTIAL یونیورسٹیز کی امتیازی خصوصیت طلبہ پر انفرادی توجہ دینی ہے۔
ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان تمام ذرائع کو استعمال کرکے طلبہ کے فطری قویٰ کو صحیح نشوونما دینے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعائوں اور رہنمائی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ہم ہیں اساتذہ تعلیم الاسلام کالج قادیان<۶۴
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کا علم و معرفت سے لبریز خطاب
رپورٹیں پڑھی جاچکیں تو حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کھڑے ہوئے اور تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ایک نہایت
پراز علم و معرفت تقریر فرمائی جس میں کالج کے قیام کی اغراض بیان کرکے پروفیسروں اور طالب علموں دونوں کو نہایت اہم اور قیمتی ہدایات دیں۔ اس ایمان افروز خطاب کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے تشہد` تعویذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا کہ۔
>یہ تقریب جو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دو گونہ مقاصد رکھتی ہے ایک مقصد تو اشاعت تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک تعلیمی سوال ہے یہ کالج اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لئے کھلے رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا حصول کسی ایک قوم کے لئے نہیں ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم کو بحیثیت ایک انسان ہونے کے ہر انسان کے لئے ممکن اور سہل الحصول بنادیں۔ میں نے لاہور میں ایک دو ایسے انسٹی ٹیوٹ دیکھیں جن کے بانی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان میں کسی مسلمان کا داخلہ ناجائز ہوگا۔ مجھ سے جب اس بات کا ذکر ہوا تو میں نے کہا اس کا ایک ہی جواب ہوسکتا ہے کہ مسلمان بھی ایسی ہی انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور اس میں یہ واضح کریں کہ اس میں کسی غیر مسلم کا داخلہ ناجائز نہ ہوگا کیونکہ ایک مسلم کا اخلاقی نقطہ نگاہ دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے۔ پس جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو۔ اس کالج کے دروازے ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور انہیں ہرممکن امداد اسی انسٹی ٹیوٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دی جائے۔
دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ آج کل کی تعلیم بہت سا اثر مذہب پر بھی ڈالتی ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ غلط اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے خلاف ہوتا ہے۔ ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ خدا کا فعل اس کے قول کے خلاف ہوتا ہے نہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ خدا کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ خواہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہ بھی ہوں۔ جن سے ان اعتراضات کا اسی رنگ میں دفعیہ کیا جاسکتا ہے۔ جس رنگ میں وہ اسلام پر کئے جاتے ہیں یا جن علوم کے ذریعہ وہ اعتراضات کئے جاتے ہیں انہی علوم کے ذریعہ ان اعتراضات کا رد کیا جاسکتا ہو۔ پھر بھی یہ یقینی بات ہے کہ جو اعتراضات خدا تعالیٰ کی ہستی پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات خدا تعالیٰ کے رسولوں پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات اسلام کے بیان کردہ عقاید پر پڑتے ہیں وہ تمام اعتراضات غلط ہیں اور یقیناً کسی غلط استنباط کا نتیجہ ہیں۔ چونکہ اس قسم کے اعتراضات کا مرکز کالج ہوتے ہیں اس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں ان کا انہی علوم کے ذریعہ رد کیا جائے اور ہمارے کالج میں جہاں ان علوم کو پڑھانے پر پروفیسر مقرر ہوں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہو کہ وہ انہی علوم کے ذریعہ ان اعتراضات کو رد کریں اور دنیا پر ثابت کریں کہ اسلام پر جو اعتراضات ان علوم کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں وہ سر تا پا غلط اور بے بنیاد ہیں۔
پس جہاں دوسرے پروفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہوگی کہ وہ ان اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ رد کرتے چلے جائیں۔ اب تک ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ کام سرانجام دیا جاسکتا۔ انفرادی طور پر ہماری جماعت میں پروفیسر موجود تھے مگر وہ چنداں مفید نہیں ہوسکتے تھے اور نہ ان کے لئے کوئی موقعہ تھا کہ وہ اپنے مقصد اور مدعا کو معتدبہ طور پر حاصل کرسکیں۔ پس جہاں ہمارے کالج کے منتظمین کو اور عملہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ غیر مذاہب کے طالب علم جو داخل ہونے کے لئے آئیں ان کے داخلہ میں کوئی ایسی روک نہ ہو جس کے نتیجہ میں وہ اس کالج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کرسکیں وہاں منتظمین کو یہ بھی چاہئے کہ وہ کالج کے پروفیسروں کے ایسے ادارے بنائیں جو ان مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں` جمع کریں اور اپنے طور پر ان کو رد کرانے کی کوشش کریں اور ایسے رنگ میں تحقیقات کریں کہ نہ صرف عقلی اور مذہبی طور پر وہ ان اعتراضات کو رد کرسکیں بلکہ خود ان علوم سے ہی وہ ان کی تردید کردیں۔
میں نے دیکھا ہے بسا اوقات بعض علوم جو رائج ہوتے ہیں محض ان کی ابتداء کی وجہ سے لوگ ان سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ ذرا کوئی تھیوری نکل آئے تو بغیر اس کا ماحول دیکھنے اور بغیر اس کے مالہ اور ماعلیہ پر کافی غور کرنے کے وہ ان سے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے علمی تحقیق قرار دے دیتے ہیں۔ مثلاً پچھلے سو سال سے ڈارون تھیوری نے انسانی دماغوں پر ایسا قبضہ کرلیا تھا کہ گو اس کا مذہب پر حملہ نہیں تھا مگر لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس تھیوری کی وجہ سے تمام مذاہب باطل ہوگئے ہیں کیونکہ ارتقاء کا مسئلہ ثابت ہوگیا ہے۔ حالانکہ جس مذہب پر اس تھیوری کا براہ راست حملہ ہوسکتا تھا وہ عیسائیت ہے اسلام پر اور اس کا کوئی حملہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی طرح جہاں تک خدا تعالیٰ کے وجود کا علمی تعلق ہے ارتقاء کے مسئلہ کا مذہب کے خلاف کوئی اثر نہیں تھا۔ صرف انتہائی حد تک پہنچ کر اس مسئلہ کا بعض صفات الٰہیہ کے ساتھ ٹکرائو نظر آتا تھا اور درحقیقت وہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ لیکن ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈارون تھیوری کے خلاف کوئی بات کہنا عقل اور سائنس پر حملہ کرنا ہے۔ مگر اب ہم دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ وہی یورپ جو کسی زمانہ میں ڈارون تھیوری کا قائل تھا اب اس میں ایک زبردست رو اس تھیوری کے خلاف چل رہی ہے اور اب اس پر نیا حملہ حساب کی طرف سے ہوا ہے۔ چنانچہ علم حساب کے ماہرین اس طرف آرہے ہیں کہ یہ تھیوری بالکل غلط ہے۔ مجھے پہلے بھی اس قسم کے رسالے پڑھنے کا موقع ملا تھا مگر گزشتہ دنوں جب میں دھلی گیا تو وہاں مجھے علم حساب کے ایک بہت بڑے ماہر پوفیسر مولر ملے۔ جنہیں پنجاب یونیورسٹی نے بھی پچھلے دنوں لیکچروں کے لئے بلایا تھا اور ان کے پانچ سات لیکچر ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ علم حساب کی رو سے یہ قطعی طور پر ثابت کیا جاچکا ہے کہ سورج اڑتالیس ہزار سال میں اپنے محور کے گردچکر لگاتا ہے اور جب وہ اپنے اس چکر کو مکمل کرلیتا ہے تو اس وقت مختلف سیاروں سے مل کر اس کی گرمی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اس گرمی کے اثر سے کسی وجہ سے اس کے اردگرد چکر لگانے والے تمام سیارے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا اگر اڑتالیس ہزار سال میں تمام سیارے سورج کی گرمی سے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہوتی وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے۔ دنیا کی عمر اس سے زیادہ ہرگز نہیں ہوسکتی۔ میں نے کہا ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم قطعی طور پر صحیح ہے لیکن اگر آپ کی رائے کو صحیح تسلیم کرلیا جائے۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ڈارون تھیوری اور جیالوجی کی پرانی تھیوری بالکل باطل ہے وہ کہنے لگے یقیناً باطل ہیں۔ میں نے کہا۔ علوم کا اتنا بڑا ٹکرائو آپس میں کس طرح ہوگیا۔ انہوں نے کہا وہ تو علوم ہیں ہی نہیں۔ عقلی ڈھکوسلے ہیں۔ اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم حساب کی رو سے کہتے ہیں۔ بہرحال اب ایک ایسی رو چل پڑی ہے کہ وہ بات جس کے متعلق سو سال سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے بغیر علم مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ اب اسی کو رد کرنے والے اور علوم ظاہر ہورہے ہیں۔ اس طرح نیوٹن کی تھیوری جو کشش ثقل کے متعلق تھی ایک لمبے عرصے تک قائم رہی۔ مگر اب آئن سٹائن کے نظریہ نے اس کا بہت سا حصہ باطل کردیا ہے۔
اس سے پتہ لگتا ہے کہ جن باتوں سے دنیا مرعوب ہوجاتی ہے وہ بسا اوقات محض باطل ہوتی ہیں اور ان کا لوگوں کے دلوں پر اثر نئے علم کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جب دنیا میں ہمیں یہ حالات نظر آرہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسائل جنہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی ہمارے پروفیسر دلیری سے یہ کوشش نہ کریں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں بعض اور علوم ان کو باطل کردیں ہماری انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی ان کا غلط ہونا ظاہر کر دے اور ثابت کردے کہ اسلام پر ان علوم کے ذریعہ جو حملے کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں اگر وہ کوشش کریں تو میرے نزدیک ان کا اس کام میں کامیاب ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ خدا کی مدد سے محمد رسول اللہ~صل۱~ نے جو دین قائم کیا ہے اس کی مدد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو روشنی لائے ہیں اس کی مدد سے اور احمدیت نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس کی مدد سے وہ بہت جلد اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور جو کام اور لوگوں سے دس گنا عرصہ میں بھی نہیں ہوسکتا وہ ہمارے پروفیسر قلیل سے قلیل مدت میں سرانجام دے سکتے ہیں۔
پس میری غرض کالج کے قیام سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ایک ایسا مرکز مل جائے جس میں ہم بیج کے طور پر ان تمام باتوں کو قائم کردیں تاکہ آہستہ آہست اس بیج کے ذریعہ ایک ایسا درخت قائم ہو جائے` ایک ایسا نظام قائم ہو جائے` ایک ایسا ماحول قائم ہو جائے جو اسلام کی مدد کرنے والا ہو جیسے یوروپین نظام اسلام کے خلاف حملہ کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہے۔
پس ہمارے کالج کے منتظمین کو مختلف علوم کے پروفیسروں کی ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہئیں جن کی غرض یہ ہو کہ اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے بڑے علوم کے ذریعہ جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا دفعیہ انہی علوم کے ذریعہ کریں۔ اور اگر وہ دیکھیں کہ موجودہ علوم کی مدد سے ان کا دفعیہ نہیں کیا جاسکتا تو پھر وہ پوائنٹ نوٹ کریں کہ کون کونسی ایسی باتیں ہیں جو موجودہ علوم سے حل نہیں ہوتیں اور نہ صرف خود ان پر غور کریں بلکہ کالج کے بالمقابل چونکہ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ۶۵ بھی قائم کی گئی ہے اس لئے وہ پوائنٹ نوٹ کرکے اسی انسٹی ٹیوٹ کو بھجواتے رہے اور انہیں کہیں کہ تم بھی ان باتوں پر غور کرو اور ہماری مدد کرو کہ کس طرح اسلام کے مطابق ہم ان کی تشریح کرسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ان باتوں کا محتاج نہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس کا مدار ایک زندہ خدا پر ہے پس وہ سائنس کی تحقیقات کا محتاج نہیں۔ مثلاً وہی پروفیسر مولرجن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ جب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور نیویارک کے بعض اور پروفیسر بھی تحقیقات کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یونیورس کا ایک مرکز ہے۔ اس مرکز کا انہوں نے نام بھی لیا تھا جو مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ سارے نظام عالم کا فلاں مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اس کے علاوہ اور لاکھوں کروڑوں سورج چکر لگارہے ہیں اور انہوں نے کہا۔ میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے۔ گویا اس تحقیق کے ذریعہ ہم خدا کے بھی قائل ہیں۔ یہ نہیں کہ ہم دہریت کی طرف مائل ہوگئے ہوں۔ پہلے سائنس خدا تعالیٰ کے وجود کو رد کرتی تھی۔ مگر اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کررہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے۔ میں نے کہا۔ نظام عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں۔ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے۔ مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں۔ میں نے ان سے کہا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنے کلام اور الہام کے ذریعہ وہ مجھے قبل از وقت بتا دیتا ہے۔ آپ بتائیں کہ کیا آپ جس مرکز کو خدا کہتے ہیں وہ بھی کسی پر الہام نازل کرسکتا ہے۔ وہ کہنے لگے۔ الہام تو نازل نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کرلوں کہ وہی مرکز خدا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں۔ کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے` کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے` کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔
پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا آپ مجھے بتائیں۔ کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتاسکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے اٹھائیس سو ہوائی جہاز بھجوایا جائے گا۔ وہ کہنے لگے۔ اس کرہ سے تو کوئی ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جاسکتی۔ میں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس کرے اور اسی طرح اور کروں کا خدا کوئی اور ہے یہ خود اپنی ذات میں خدا نہیں ہیں کیونکہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اس مرکز کے ذریعہ کسی کو کوئی خبر قبل از وقت نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن میں اپنے تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پس آپ بے شک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں لیکن ہم تو ایک علیم و خبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں۔ اس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے۔ اس کے اندر جلال بھی ہوتا ہے` اس کے اندر جمال بھی ہوتا ہے۔ اس کے اندر علم بھی ہوتا ہے` اس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے۔ اس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے` اس کے اندر محی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے` اس کے اندر ممیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے۔ اس کے اندر حلیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے` اس کے اندر مہیمن ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے۔ اس کے اندر واسع ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے۔ غرض بیسیوں قسم کی صفات ہیں جو اس کے اندر پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس کا نور ہونا` اس کا وہاب ہونا` اس کا شکور ہونا` اس کا غفور ہونا ` اس کا رحیم ہونا` اس کا ودود ہونا` اس کا کریم ہونا` اس کا ستار ہونا اور اسی طرح اور کئی صفات کا اس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں۔ کیا یہ صفات اس مرکز میں بھی پائی جاتی ہیں جس کو آپ خدا کہتے ہیں؟ جب ایک طرف اس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو اپنی ان صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اس کا کلام پورا ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہوتا ہے وہی کچھ دینا کو دیکھنا پڑتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح مان سکتے ہیں؟ اس پر وہ کہنے لگا۔ اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ تھیوری باطل ہے۔ اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو۔
تو مذہب کے لحاظ سے ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں۔ ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم سائنس کے علوم کی مدد سے خدا تعالیٰ کو حاصل کریں۔ خدا بغیر سائنس کے بھی انسان کو مل جاتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ کو ہی دیکھ لو۔ آپ نے نہ فلسفہ پڑھا نہ سائنس پڑھی نہ حساب پڑھا نہ کوئی اور علم سیکھا۔ مگر پھر خدا آپ سے اس طرح بولا کہ آج تک نہ کسی سائنس دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے نہ کسی حساب دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے نہ کسی فلسفی کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نہ یہ فلسفہ پڑھا۔ نہ یہ سائنس پڑھی نہ یہ حساب پڑھا۔ لیکن جس رنگ میں خدا نے آپ سے کلام کیا وہ نہ کسی فلسفہ والے کو نصیب ہوا نہ کسی سائنس والے کو نصیب ہوا نہ کسی حساب والے کو نصیب ہوا۔ اسی طرح اب میرے ساتھ جس طرح خدا متواتر کلام کرتا اور اپنے غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرماتا ہے یہ نہ سائنس کا نتیجہ ہے نہ فلسفے کا نتیجہ ہے نہ حساب کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ میں نے نہ سائنس پڑھی ہے نہ فلسفہ پڑھا ہے نہ حساب پڑھا ہے۔ تو ہمیں کسی سائنس یا فلسفہ یا حساب کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لوگ جو دن رات ان علوم میں محو رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے اپنے الہامات پیش کریں اور وہ ان پر غور کرے تو ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ جائے گا۔ جیسے پروفیسر مولر جب میرے پاس آیا اور میں نے اس سے سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیں تو وہ حقیقت کو سمجھ گیا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ میں مجھے قبل از وقت الہام کے ذریعہ کئی خبریں دی گئی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔ اس وجہ سے اس کی راہ میں مشکلات تھیں۔ لیکن اس نے اتنا ضرور تسلیم کرلیا کہ اگر الہام ثابت ہو جائے تو پھر یہ مان لینا پڑے گا کہ جس تھیوری کو میں پیش کرتا ہوں وہ غلط ہے۔ جب اس نے الہام کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو غلط مان لیا تو وہ جن کے سامنے الہامم پورے ہوتے ہیں وہ ایسی تھیوری کو کب مان سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے ہی خدا کو مان سکتے ہیں جو قادر ہے` کریم ہے` میہمن ہے` عزیز ہے` سمیع ہے` مجیب ہے` حفیظ ہے۔ اسی طرح اور کئی صفات حسنہ کا مالک ہے۔ اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو کون رد کرسکتا ہے۔
‏vat,10.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
تو سائنس بھی اور فلسفہ بھی اور حساب بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے ایک تھیوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کو ماننے والا کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ غلط ہوں شاید یہ صحیح ہوں۔ اسے قطعی اور یقینی وثوق ان علوم کی سچائی پر نہیں ہوسکتا لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر جو یقین ہے وہ ہر قسم کے شبہات سے بالاتر ہے۔ وہ یقین ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے خدا میں سورج کا انکار کرسکتا ہوں۔ میں اپنے وجود کا انکار کرسکتا ہوں` مگر جس طرح تو مجھ پر ظاہر ہوا ہے۔ میں اس کا کبھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہ وہ یقین ہے جو خدا پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتا ہے مگر کیا ایسا یقین کسی سائنسدان کو اپنے کسی سائنس کے مسئلہ کی سچائی پر ہوسکتا ہے۔ یا کب ایسا یقین کسی حساب دان کو اپنے حساب کے کسی مسئلہ کی سچائی پر ہوسکتا ہے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ حساب قطعی اور یقینی چیز ہے مگر اب نئی دریافتیں ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حساب کے متعلق بھی شبہات پیدا ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ مگر حساب سے عام سودے والا حساب مراد نہیں بلکہ وہ حساب مراد ہے جو فلسفہ کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور فلسفہ خود مشکوک ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں جو فلاسفر ظاہر ہوتا ہے ان علوم کا انکار کرنے والا علوم جدیدہ کا منکر قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ابھی پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلسفی کھڑا ہو جاتا ہے جو اس پہلے فلاسفر کی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا اور نئے نظریات پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وقت جو لوگ اس کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لوگ ان کے متعلق یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ علوم جدیدہ کے منکر ہیں مگر پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلاسفر اس تحقیق کو قدیم تحقیق قرار دے کر ایک نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کردیتا ہے اور پہلی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا ہے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ خدا کا وجود بھی غلط قرار دیا گیا ہو یا کبھی کوئی نبی ایسا کھڑا ہوا ہو جس نے کہا ہو کہ خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں جو خیال پایا جاتا تھا وہ موجودہ تحقیق نے غلط ثابت کردیا ہے۔ آدم سے لے کر اب تک ہمیشہ ایسے وجود آتے رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے۔ پھر دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ایسا ثابت کیا کہ دنیا ان دلائل کا انکار نہ کرسکی۔ انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی طرف سے کھڑے ہوئے ہیں اور خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا۔ چنانچہ دنیا نے ان کی مخالفت کی مگر خدا نے ان کو کامیاب کرکے دکھا دیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ اس عالم کا حقیقتاً ایک قادر و مقتدر خدا ہے جو اپنے پیاروں سے کلام کرتا اور مخالف حالات میں ان کو کامیاب کرتا ہے۔
پس خدا کے وجود پر انبیاء کی متفقہ گواہی ایک قطعی اور یقینی شہادت ہے جو اس کی ہستی کو ثابت کررہی ہے۔ آج تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی تردید کی ہو۔ ہر سائنسدان پہلے سائنسدان کی تردید کرتا ہے۔ ہر فلاسفر پہلے فلاسفر کی تردید کرتا ہے۔ ہر حساب دان پہلے حساب دان کی تردید کرتا ہے۔ مگر انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کی تردید کرے۔ وہ ان کی لائی ہوئی صداقتوں کو باطل ثابت کرے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں پیش کیا تھا جسے عیسائیوں نے غلطی سے نہ سمجھا اور اعتراض کر دیا کہ مصدقا لما معکم یعنی دنیا میں ایک ہی سلسلہ ہے جس میں ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا ہے اور اس کی تکذیب اور تردید نہیں کرتا۔ آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ تک اور محمد~صل۱~ سے لے کر مسیح موعودؑ تک ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھایا جاسکتا جس نے پہلے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی صداقتوں کا انکار کیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ پہلوں کی تصدیق کرتا ہے لیکن دوسرے تمام علوم چونکہ ظنی ہیں` وہمی اور خیالی ہیں اور اس لئے ہر نئی سائنس پہلی سائنس کی تردید کرتی ہے اور ہر نیا فلسفہ پہلے فلسفہ کی تردید کرتا ہے` ہر نیا حساب پہلے حساب کی تردید کرتا ہے۔ بے شک انبیاء کی تعلیمیں منسوخ بھی ہوتی ہیں۔ مگر منسوخ ہونا اور چیز ہے` اور ان تعلیموں کو غلط قرار دینا اور چیز ہے۔ فلسفہ والے کہتے ہیں کہ فلاں زمانہ میں جو فلسفی گزرا تھا اس کا فلسفہ غلط تھا کیونکہ نئی تحقیقات نے اس کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں پہلے سائنسدانوں نے غلطی کی۔ انہوں نے فلاں فلاں مسائل بالکل غلط بیان کئے تھے۔ اسی طرح علم حساب کی تحقیق ہوتی ہے۔ حساب دان یہ کہتے ہیں کہ فلاں حساب دان نے یہ غلطی کی تھی اور فلاں حساب دان نے وہ غلطی کی تھی۔ لیکن دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہو اور اس نے یہ کہا ہو کہ فلاں نبی نے غلط بات کہی تھی۔ انبیاء سابقین کی تعلیمیں بے شک منسوخ ہوتی رہی ہیں مگر منسوخ ہونے کے یہ معنے نہیں تھے کہ وہ تعلیمیں غلط تھیں۔ ان تعلیموں کے منسوخ ہونے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ وہ تعلیمیں اس زمانہ کے لئے تھیں بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھیں۔
پس ہمیں ذاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سائنس اور فلسفہ اور حساب اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت ثابت کریں۔ اسلام ان سب سے بالا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا میں کچھ لوگ ان وہموں میں مبتلا ہیں اور وہ ان علوم کے رعب کی وجہ سے اسلام کی تائید میں اپنی آواز بلند نہیں کرسکتے اس لئے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مرکز کھولیں اور ان کی زبان میں ان سے باتیں کرنے کی کوشش کریں اور انہیں بتائیں کہ علوم جدیدہ کی نئی تحقیقاتیں بھی اسلام کی موید ہیں۔ اسلام کی تردید کرنے والی اور اس کو غلط ثابت کرنے والی نہیں ہیں۔ یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے۔ چونکہ یہ نیا کام ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کام میں دقتیں پیش آئیں۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب آہستہ آہستہ ان علوم کے ذریعہ بھی اسلام کی صداقت دنیا کے کونے کونے میں پھیل جائے گی اور لوگ محسوس کریں گے کہ علوم خواہ کس قدر بڑھ جائیں` سائنس خواہ کس قدر ترقی کر جائے اسلام کے کسی مسئلہ پر زد نہیں پڑسکتی۔ دنیا میں ہمیشہ دشمن کے قلعہ پر پہلے گولہ باری کی جاتی ہے اور یہ گولہ باری فوج کا بہت بڑا کام ہوتا ہے۔ لیکن جب گولہ باری کرتے کرتے قلعہ میں سوراخ ہو جاتا ہے تو فوج اس سرعت سے بڑھتی ہے کہ دشمن کے لئے ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ہم نے بھی کفر کے مقابلہ میں ایک بنیاد رکھی ہے اور ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے پرانے زمانہ کی منجنیقیں اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی شخص موجودہ زمانہ کے مضبوط ترین قلعوں کو سر کرنے کی کوشش کرے یا غلیلوں سے دشمن کو شکست دینے کا ارادہ کرے۔ ہم کو بھی جب دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ لوگ کیا کررہے ہیں۔ وہ عظیم الشان قلعے جو کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں جن کی تعمیر میں بڑے بڑے قیمتی مصالحے صرف ہوئے ہیں جن کو الیون پونڈرگنز(ELEVEN POUNDERGUNS) اور سیون ٹی فائیو ملی میٹر گنزMGUNS)۔(SEVENTYFIVEM بمشکل سر کرسکتی ہیں۔ ان قلعوں کو وہ ان پتھروں یا غلیلوں سے کس طرح توڑ سکیں گے۔ مگر جو خدا کی طرف سے کام ہوتے ہیں وہ اسی طرح ہوتے ہیں۔ پہلے دنیا ان کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے ایسا ہونا ناممکن ہے۔ مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی دنیا کہتی ہے اس کام نے تو ہونا ہی تھا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہوچکے تھے۔ جب محمد رسول اللہ~صل۱~ آئے تو لوگوں نے اس وقت یہی کہا کہ ان دعووں کا پورا ہونا ناممکن ہے۔ انہوں نے آپ کو مجنون کہا۔ انہوں نے آپ کے متعلق یہ کہا۔ اس شخص پر نعوذباللہ ہمارے بتوں کی *** پڑ گئی ہے۔ مگر آج یورپ کے مصنفوں کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو۔ وہ کہتے ہیں اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں قیصر کی حکومت کو شکست ہوگئی۔ اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں کسریٰ کی حکومت کو شکست ہوگئی۔ اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم نہیں ٹھہرسکی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور اس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہوچکے تھے جو محمد~صل۱~ کی تائید میں تھے۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمد~صل۱~ کے زمانہ میں تو آپ کے دعویٰ کو پاگل پن اور جنون سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے دعویٰ کو لوگوں نے تسلیم کرلیا تو اس میں کون سی عجیب بات ہے۔ زمانہ کے حالات اس دعویٰ کے مطابق تھے اور لوگوں کی طبائع آپ کے عقائد کو تسلیم کرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہوچکی تھیں۔ یہی احمدیت کا حال ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے دعویٰ کیا لوگ کہتے تھے کہ ناممکن ہے کہ یہ شخص دنیا پر فتح حاصل کرسکے۔ یہ اپنی آئی آپ مر جائے گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے یہ کہہ دیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گرائوں گا۔ )اشاعتہ السنہ جلد ۱۳ نمبر۱۔ ۱۸۹۰ء( مگر آپ کے سلسلہ کو دن بدن ترقی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ شخص جسے قادیان میں بھی لوگ اچھی طرح نہیں جانتے تھے۔ اس کی جماعت پہلے پنجاب کے مختلف حلقوں میں پھیلنی شروع ہوئی۔ پھر پنجاب سے بڑھی اور افغانستان میں گئی` بنگال میں گئی` بمبئی میں گئی` مدراس میں گئی` یو۔ پی میں گئی` سندھ میں گئی` بہار میں گئی` اڑیسہ میں گئی` سی۔ پی میں گئی` آسام میں گئی اور پھر اس سے بڑھ کر بیرونی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی۔ چنانچہ انگلستان میں احمدیت پھیلی` جرمنی میں احمدیت پھیلی` ہنگری میں احمدیت پھیلی` امریکہ میں احمدیت پھیلی۔ ارجنٹائن میں احمدیت پھیلی` یوگوسلاویہ میں احمدیت پھیلی` البانیہ میں احمدیت پھیلی` پولینڈ میں احمدیت پھیلی۔ زیکو سلوویکیا میں احمدیت پھیلی` سیرالیون میں احمدیت پھیلی` گولڈ کوسٹ میں احمدیت پھیلی` نائجیریا میں احمدیت پھیلی` مصر میں احمدیت پھیلی` مشرقی افریقہ میں احمدیت پھیلی` ماریشس میں احمدیت پھیلی` فلسطین میں احمدیت پھیلی` شام میں احمدیت پھیلی` روس میں احمدیت پھیلی` کاشغر میں احمدیت پھیلی` ایران میں احمدیت پھیلی` سٹریٹ سیٹلمنٹس میں احمدیت پھیلی` جاوا میں احمدیت پھیلی` ملایا میں احمدیت پھیلی` چین میں احمدیت پھیلی` جاپان میں احمدیت پھیلی۔ غرض دنیا کے کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ دنیا میں کچھ پاگل لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اگر چند پاگلوں نے احمدیت کو مان لیا ہے تو یہ کوئی عجب بات نہیں۔ مگر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ دنیا میں احمدیت کی ایسی مضبوط بنیاد قائم ہو جائے گی کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ احمدیت کی فتح کی امید ایک مجنونانہ خیال ہے بلکہ کہا جائے گا کہ احمدیت کو مار دینے کا خیال ایک مجنونانہ خیال ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ وہی لوگ جو آج احمدیت کی ترقی کو ایک ناممکن چیز قرار دے رہے ہیں۔ جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ احمدیت ترقی کر گئی ہے` احمدیت ساری دنیا پر چھا گئی ہے` احمدیت نے روحانی لحاظ سے ایک انقلاب عظیم پیدا کردیا ہے تو وہی لوگ کہیں گے احمدیت کی کامیابی اور اس کی فتح کوئی معجزہ نہیں۔ اگر احمدیت فتح یاب نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ اس وقت یورپ اتنا مضمحل ہوچکا تھا۔ اس وقت انسانی دماغ اتنا پراگندہ ہوچکا تھا۔ اس وقت سائنس اپنی حد بندیوں کو توڑ کر اسی طرح کا ایک فلسفہ بن چکی تھی کہ اگر احمدیت نے فتح پائی تو یہ کوئی معجزہ نہیں۔ اس وقت کے حالات ہی اس فتح کو پیدا کررہے تھے۔
پس یہ بیج جو ہم بورہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں پھیل کررہے گا۔ ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ بیج پھیل جائے گا۔ ہمیں یہ کہنے کہ بھی ضرورت نہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ بیج کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ ہم خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ بیج ایسا ہے جس میں سے ایک دن ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا ہے جس کے سایہ میں بیٹھنے کے لئے لوگ مجبور ہوں گے اور اگر وہ نہیں بیٹھیں گے تو تپتی دھوپ میں وہ اپنے دماغوں کو جھلسائیں گے اور انہیں دنیا میں کہیں آرام کی جگہ نہیں ملے گی۔
پس ہم جانتے ہیں کہ جس راستہ کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ ضرور ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے کسی خیال کے ماتحت نہیں۔ کسی وہم اور گمان کے ماتحت نہیں بلکہ اس علیم و خبیر ہستی کے بتانے کی وجہ سے یہ یقین ہمیں حاصل ہوا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی جس کی بتائی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر اعتبار کرکے ہم نے انہیں اس کالج میں پروفیسر مقرر کیا ہے ان میں سے بعض نا اہل ثابت ہوں۔ مگر ان کے نااہل ثابت ہونے کی وجہ سے اس کام میں کوئی نقص واقعہ نہیں ہوسکتا۔ جس طرح دریا کے دھارے کے سامنے پتھر آجائے تو وہ بہہ جاتا ہے مگر دریا کے دھارے کو وہ روک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے یا اپنے کام کے لئے کوئی غلط طریق اختیار کرتا ہے` وہ احمدیت کے دریا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ اپنی تباہی کے آپ سامان پیدا کرتا ہے۔ وہ مٹ جائے گا` مگر جس دریا کو خدا نے چلایا ہے` جس کی حفاظت کے لئے اس نے اپنے فرشتوں کو آپ مقرر کیا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے بہائو کو روک نہیں سکتی خواہ وہ یورپ کی ہو خواہ وہ امریکہ کی ہو خواہ وہ ایشیاء کی ہو اور خواہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کی ہو۔ ہمیں نظر آرہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے یورپ میں بھی اتر رہے ہیں` امریکہ میں بھی اتر رہے ہیں` ایشیاء میں بھی اتر رہے ہیں اور ہر شخص جو اس مشن کا مقابلہ کرتا ہے` ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو رد کرتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے آپ سامان کرتا ہے۔ آج اور کل اور پرسوں اور اترسوں دن گزرتے چلے جائیں گے۔ زمانہ بدلتا چلا جائے گا` انقلاب بڑھتا چلا جائے گا اور تغیر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ روز بروز اس سلسلہ کی راہ سے روکیں دور ہوتی جائیں گی روز بروز یہ دریا زیادہ سے زیادہ فراخ ہوتا چلا جائے گا۔ دریا کے دہانہ کے پاس ہمیشہ چھوٹے چھوٹے نالے ہوتے ہیں جن پر سے ہر شخص آسانی سے کود کر گزر سکتا ہے۔ میں نے خود جہلم کے دہانہ کے پاس ایسے نالے دیکھے ہیں اور میں خود بھی ان نالوں پر سے کود کر گزرا ہوں۔ مگر آہستہ آہستہ دریا ایسے وسیع ہوتا جاتا ہے کہ بڑے بڑے گائوں اور بڑے بڑے شہر بہا کرلے جاتا ہے۔ اسی طرح ابھی ہم دریا کے دہانہ کے قریب ہیں۔ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے۔ جب لوگ ہماری جماعت کے متعلق سمجھتے تھے کہ یہ ایک نالے کی طرح ہے جو شخص چاہے اس پر سے کود کر گزر جائے مگر اب ہم ایک نہر کی طرح بن چکے ہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کے بڑے سے بڑے دریا کی وسعت بھی اس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائے گی۔ جب اس کا پھیلائو اتنا وسیع ہو جائے گا جب اس کا بہائو اتنی شدت کا ہوگا کہ دنیا کی کوئی عمارت اور دنیا کو کوئی قلعہ اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکے گا۔
پس ہمارے پروفیسروں کے سپرد وہ کام ہیں جو خدا اور اس کے فرشتے کر رہے ہیں اگر وہ دیانتداری کے ساتھ کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو ہم یہی دعا کریں گے کہ خدا انہیں توبہ کی توفیق دے اور انہیں محنت سے کام کرنے کی ہمت عطاء فرمائے۔ لیکن اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ اس سلسلہ کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بن سکیں گے۔ جس طرح ایک مچھر بیل کے سینگ پر بیٹھ کر اسے تھکا نہیں سکتا` اسی طرح ایسے کمزور انسان احمدیت کو کسی قسم کی تھکاوٹ اور ضعف نہیں پہنچا سکیں گے۔
جن سوالات کو اس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے ان سب کے متعلق میں ابھی فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن جہاں تک لباس کا سوال ہے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو آسان اور سہل الحصول بنانا چاہئے اور کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جسے طالب علم برداشت نہ کرسکیں تا ایسا نہ ہو کہ غریب لڑکے اس بوجھ کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائیں۔
جہاں تک کھیلوں کا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ کالجوں میں بعض ایسی کھیلیں اختیار کرلی گئی ہیں جن پر روپیہ بھی صرف ہوتا ہے اور صحت پر بھی وہ برا اثر ڈالتی ہیں۔ میں نے یورپین رسالوں میں پڑھا ہے کہ انگلستان میں کھیلوں کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی جس نے بہت کچھ غور کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ ہاکی کے کھلاڑیوں میں سل کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ تحقیق تو آج کی گئی ہے لیکن میں نے آج سے اکیس سال پہلے اس کی طرف توجہ دلا دی تھی اور میں نے کہا تھا کہ میں ہاکی سے نفرت کرتا ہوں یہ صحت کے لئے مضر ہے اس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے<۔ )الفضل جلد ۱۱ نمبر ۴۶ صفحہ ۸ مورخہ ۱۱۔ دسمبر ۱۹۲۳ء( اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ہاکی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر کرتی ہے۔ ہاکی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں۔ اس طرح باوجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا۔ )الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء(
جب میں نے یہ بات کہی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ہاکی سے سینہ کمزور ہو کر سل کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے مگر اب دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ اسی طرف آرہے ہیں۔ عزیزم مرزا ناصر احمد کا ان الفاظ میں کہ۔
>وہ تمام قومیں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ توجہ ایتھلیٹکس (ATHLETICS) کی طرف رہتی ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلباء کی صحتوں پر کوئی برا اثر نظر نہیں آتا<۔
غالباً جرمنی کی طرف اشارہ ہے جہاں ان کھیلوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان کھیلوں پر روپیہ اور وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر صحت کو کم فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ ان کھیلوں کی بجائے انہوں نے جو دوسری کھیلیں اختیار کی ہیں ان کا صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور روپیہ بھی کم خرچ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری کھیلوں کا رواج اب دن بدن بڑھ رہا ہے۔ انگریزی ممالک میں شاید اسی وجہ سے کہ وہاں کہر زیادہ ہوتی ہے اس قسم کی کھیلوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے جو دوڑ دھوپ والی ہوں۔ لیکن وسطی یورپ یا جنوبی یورپ میں ان کا زیادہ رواج نہیں۔ میں یورپین کھیلوں میں سب سے کم مضر فٹ بال سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے سینہ پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ سینہ چوڑا اور فراخ رہتا ہے۔ ہاکی میں چونکہ دونوں ہاتھ بند ہوتے ہیں۔ ادھر سانس سینہ میں پھولتا نہیں اس لئے ہاکی کے نتیجہ میں اکثر سینہ پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ کمزور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاکی کو مضر سمجھتا رہا ہوں۔ مگر اب چار پانچ سال ہوئے انگلستان میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ کی کہ ہاکی پلیئرز میں سل کا مادہ نسبتاً زیادہ دیکھا گیا ہے۔
بہرحال یہ ایک ابتدائی کام ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے ایسے لڑکے کالج میں نہیں آئے جو بڑے بڑے نمبروں پر پاس ہوئے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے پروفیسر کوشش کریں اور والنا زعات غرقا کے ماتحت اپنے فرض کی ادائیگی میں پوری طرح منہمک ہو جائیں اور وہ سمجھ لیں کہ تعلیمی طور پر )تربیت تعلیم سے باہر نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ہی شامل ہے( ہم نے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو لڑکے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں` وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں وہ اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں تو یقیناً وہ ان گھڑے جواہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں` ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنائیں اور ان کی مذہبی حالت بھی بہتر بنائیں۔
میں اس موقعہ پر اساتذہ اور طلباء دونوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے۔ کئی باتیں اس قسم کی ہیں جو دوسرے کالجوں میں جائز سمجھی جاتی ہیں لیکن ہم اپنے کالج میں ان باتوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں اور ان افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرماں برداری کریں۔ اگر کسی شخص کو کوئی شکایت پیدا ہو تو اسلامی طریق کے رو سے یہ جائز ہے کہ وہ بالا افسر کے پاس اس معاملہ کو پہنچائے اور حقیقت ظاہر کرے اور اگر وہ افسر توجہ سے کام نہ لے تو اس سے بھی بالا افسر کے پاس اپیل کرے۔ یہ دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے اور وہ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکا ہے۔ ہمارا یہ طریق نہیں کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ہم کسی کی بات نہیں سنتے۔ ہم صداقت کو ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انسان کے منہ سے سن کر بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بلکہ صداقت اگر ایک چوہڑے کے منہ سے نکلے تو ہم اس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اگر صداقت نہ ہو تو خواہ سارا کالج مل کر زور لگائے ہم وہ بات تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔
پس جو روایت ہمارے سکول میں قائم ہے میں امید کرتا ہوں کہ کالج میں بھی اس کو قائم رکھا جائے گا۔ احمدی طالب علموں کے متعلق تو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس پر پوری طرح قائم رہیں گے لیکن چونکہ اس کالج میں دوسرے طالب علم بھی داخل ہوں گے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے احمدی طلباء اپنے اثر سے دوسروں کو بھی اس روایت پر قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور کوئی ایسی حرکت نہیں ہونے دیں گے جو کالج کے نظام کے خلاف ہو اور جس سے یہ شبہ پڑتا ہو کہ زور اور طاقت سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جاری ہے کیونکہ زور اور طاقت سے ماننے کے لئے یہاں کوئی شخص تیار نہیں ہے۔ دنیا میں لوگ زور اور طاقت سے اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ مگر وہ اس وقت منواتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ دوسرا فریق زور اور طاقت سے مرعوب ہو جائے گا۔ اگر انہیں یہ یقین نہ ہو تو وہ زور اور طاقت استعمال کرنے کی جرات بھی نہ کریں۔ واقعہ مشہور ہے کہ کوئی یتیم لڑکا جس کی ماں چکی پیس پیس کر گزارہ کیا کرتی تھی ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا۔ مجھے دو آنے چاہئیں۔ ماں نے اسے کہا۔ میرے پاس تو صرف ایک آنہ ہے۔ وہ لے لو۔ مگر لڑکا ضد کرنے لگا اور کہنے لگا میں تو دو آنے ہی لوں گا۔ وہ لڑکا اس وقت چھت کی منڈیر پر بیٹھا تھا ماں کو کہنے لگا مجھے دو ورنہ میں ابھی چھلانگ لگا کر مرجائوں گا۔ اس بے چاری کا ایک ہی لڑکا تھا۔ وہ اسے ہاتھ جوڑے` منتیں کرے اور بار بار کہے کہ بیٹا ایک آنہ لے لے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں۔ مگر وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مجھے دو آنے دے نہیں تو میں ابھی چھلانگ لگاتا ہوں۔ ماں نیچے کھڑی روتی جائے اور بچہ اوپر بیٹھ کر چھلانگ لگانے کی دھمکی دیتا چلا جائے اس وقت اتفاقاً گلی میں سے کوئی زمیندار گزر رہا تھا۔ وہ پہلے تو باتیں سنتا رہا۔ آخر اس نے وہ آلہ جس سے توڑی ہلائی جاتی ہے اور جسے سانگھا کہتے ہیں نکال کر اس لڑکے کے سامنے کیا اور کہا تو اوپر سے آمیں نیچے سے سانگھا تیرے پیٹ میں ماروں گا۔ لڑکا یہ سنتے ہی کہنے لگا میں نے چھلانگ تھوڑی لگانی ہے۔ میں تو اپنی ماں کو ڈرا رہا تھا۔
تو اس قسم کی باتیں وہیں سنی جاتی ہیں جہاں زور اور طاقت سے دوسرے لوگ مرعوب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم وہ ہیں جنہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ صداقت خواہ ایک کمزور سے کمزور انسان کے منہ سے نکلے اسے قبول کرلو اور صداقت کے خلاف کوئی بات قبول مت کرو چاہے وہ ایک طاقتور کے منہ سے نکل رہی ہو۔ قادیان سے باہر بے شک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے سلسلہ کی کسی انسٹی ٹیوٹ میں اس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جاسکتیں۔
پس ہمارے نوجوانوں کو خود بھی احمدیت کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور دوسرے نوجوانوں پر بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہاں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کیا جاسکتا جو دین کے خلاف ہو اور مذہبی روایات کے منافی ہو۔ ہم نے یہ کالج دین کی تائید کے لئے بنایا ہے۔ اگر کسی وقت محسوس ہو کہ کالج بجائے دین کی تائید کرنے کے بے دینی کا ایک ذریعہ ثابت ہورہا ہے تو ہم ہزار گنا یہ زیادہ بہتر سمجھیں گے کہ اس کالج کو بند کر دیں بجائے اس کے کہ بے دینی اور خلاف مذہب حرکات کو برداشت کریں۔ اس کالج کے پروفیسروں کو بھی یہ امر مدنظر رکھنا چائے کہ بیرونی دنیا میں عام طور پر صداقت کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اس بات کو پیش کررہے ہیں۔ اگر ایک جتھہ کی طرف سے کوئی بات پیش کی جارہی ہو تو اسے مان لیتے ہیں۔ لیکن اگر ایک کمزور انسان کے منہ سے صداقت کی بات نکلے تو اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہمیں اس طریق کے خلاف یہ عمل کرنا چاہئے کہ اگر صداقت صرف ایک لڑکے کے منہ سے نکلتی ہے تو ہم اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب تک سو لڑکا اس کی تائید میں نہیں ہوگا ہم اسے نہیں مانیں گے۔ بلکہ ہمیں فوراً وہ بات قبول کرلینی چاہئے کیونکہ صداقت کو قبول کرنے میں ہی برکت ہے اور صداقت کو قبول کرنے سے ہی قومی ترقی ہوتی ہے۔
یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا طریق سارے کا سارا اسلامی ہونا چاہئے۔ بے شک ہندو` سکھ` عیسائی جو بھی آئیں ہمیں فراخدلی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے اخلاق سرتاپا مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں ان کی عادات مذہب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوں۔ ان کے افکار مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ ان کے خیالات مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ پس جہاں ہمارے پروفیسروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ رات دن اسی کام میں لگے رہیں کہ لڑکوں کے اخلاق اور ان کی عادات اور ان کے خیالات اور ان کے افکار ایسے اعلیٰ ہوں کہ دوسروں کے لئے مذہبی لحاظ سے وہ ایک مثال اور نمونہ ہوں۔ اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا یقین ہم لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ہندوئوں اور سکھوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور سکھ بھی خدا کے قائل ہیں۔ اگر ہم دہریت کو مٹاتے ہیں۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کی محبت کا درس ان کو دیتے ہیں تو ان کے ماں باپ یہ سن کر برا نہیں منائیں گے بلکہ خوش ہوں گے کہ ہمارے لڑکے ایسی جگہ تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں دینوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی لحاظ سے بھی تربیت کی جارہی ہے۔ پس جہاں تک توحید کے قیام کا سوال ہے` جہاں تک مذہب کی عظمت کا سوال ہے` جہاں تک خدا تعالیٰ کی محبت کا سوال ہے مسلمان` ہندو` سکھ` عیسائی سب اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ان کو یہ تعلیم دی جائے کیونکہ ان کا اپنا مذہب بھی یہی باتیں سکھاتا ہے۔
میرے نزدیک ہمیں ان باتوں پر اس قدر زور دینا چاہئے کہ ہمارے کالج کا یہ ایک امتیازی نشان بن جائے کہ یہاں سے جو طالب علم بھی پڑھ کر نکلتا ہے وہ خدا پر پورا یقین رکھتا ہے۔ وہ اخلاق کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ مذہب کی عظمت کا قائل ہوتا ہے۔ اگر ایک ہندو یہاں سے بی۔ اے کی ڈگری لے کر جائے تو اسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے۔ اگر ایک سکھ یہاں سے بی۔ اے کی ڈگری لے کر جائے تو اسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے۔ وہ دہریت کے دشمن ہوں۔ وہ اخلاق سوز حرکات کے دشمن ہوں۔ وہ مذہب کو ناقابل عمل قرار دینے والوں کے مخالف ہوں اور یورپین اثر سے پوری طرح آزاد ہوں۔ وہ چاہے احمدیت کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں مگر مذہب کی بنیادی باتیں ان کے دلوں میں ایسی راسخ ہوں کہ ان کو وہ کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں۔
اسی طرح ہمارے کالج کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر ایک عیسائی یا یہودی اس جگہ تعلیم حاصل کرے تو وہ بھی بعد میں یہ نہ کہے کہ سائنس یا حساب یا فلسفہ کے فلاں اعتراض سے مذہب باطل ثابت ہوتا ہے بلکہ جب بھی کوئی شخص ان علوم کے ذریعہ اس پر کوئی اعتراض کرے وہ فوراً اس کا جواب دے اور کہے میں ایک ایسی جگہ سے پڑھ کر آیا ہوں۔ جہاں دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جو سب پر حکمران ہے۔ میں ایسے اعتراضات کا قائل نہیں ہوں۔
اگر ہم دہریت کی تمام شاخوں کی قطع و برید کردیں۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین کالج میں تعلیم پانے والے لڑکوں کے دلوں میں اس مضبوطی سے پیدا کردیں کہ دنیا کا کوئی فلسفہ` دنیا کی کوئی سائنس اور دنیا کا کوئی حساب انہیں اس عقیدہ سے منحرف نہ کرسکے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
چونکہ اب شام ہوگئی ہے اس لئے میں اب اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ لیکن میں آخر میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری نیت یہ ہے کہ جلد سے جلد اس کالج کو بی۔ اے بلکہ ایم۔ اے تک پہنچا دیں۔ اس لئے کالج کے جو پروفیسر مقرر ہوئے ہیں انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بڑھانے کا فکر کرنا چاہئے اور آئندہ ضروریات کے لئے انہیں ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے تاکہ جب بڑی کلاسز کھولی جائیں تو قواعد کے لحاظ سے اور ضرورت کے لحاظ سے اور تجربہ کے لحاظ سے وہ ان کلاسز کو تعلیم دینے کے لئے موزوں ہوں اور اس کام کے اہل ہوں اور چونکہ ہمارا منشاء آگے بڑھنے کا ہے اس لئے جہاں کالج کے پروفیسروں کو اپنا تعلیمی معیار بلند کرنا چاہئے اور اپنے اندر موجودہ قابلیت سے بہت زیادہ قابلیت پیدا کرنی چاہئے وہاں انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب کالج میں وسعت ہو تو جو اچھے اور ہونہار طالب علم ہوں اور دین کا جوش اپنے اندر رکھتے ہوں ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں اور ساتھ ہی ان کے دینی جوش میں ترقی ہوتا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ صرف دنیا کمانے میں ہی نہ لگ جائیں بلکہ اس کالج میں پروفیسر یا لیکچرار کا کام کرکے سلسلہ کی خدمت کرسکیں۔ پس ایک طرف وہ اعلیٰ درجہ کے ذہین اور ہوشیار لڑکوں کے متعلق یہ کوشش کریں کہ وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوں اور دوسری طرف انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ جب وہ اپنے تعلیمی مقصد کو حاصل کرلیں تو اس کے بعد اپنی محنت اور دماغی کاوش کا بہترین بدلہ بجائے سونے چاندی کی صورت میں حاصل کرنے کے اس رنگ میں حاصل کریں کہ اپنے آپ کو ملک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔ اس کے بغیر کالج کا عملہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
پس ایک طرف ہمارے پروفیسر خود علم بڑھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف آئندہ پروفیسروں کے لئے ابھی سے سامان پیدا کرنے شروع کردیں اور نوجوانوں سے کہیں کہ وہ قوم کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ پھر خواہ انہیں کالج میں رکھ لیا جائے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر لگایا جائے۔ بہرحال ان کا وجود مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ سکول میں میں نے دیکھا ہے جب افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو اس کے بعد ہمیں سکول میں سے ہی ایسے کئی لڑکے مل گئے جنہوں نے اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کردیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ یہی طریق کالج میں بھی اختیار کیا جائے گا تاکہ جو طالب علم اس کالج سے تعلیم پاکر نکلیں ان کے متعلق ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ تعلیم کے بعد دین کے میدان میں ہی آئیں گے۔ یہ نہیں ہوگا کہ دنیا کمانے میں مشغول ہو جائیں اور تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہمارے کالج کا ہر طالب علم اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے پیش کردیتا ہے۔ صرف ہمارے بچے ہوئے طالب علم ہی دنیا کی طرف جاتے ہیں۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم کوئی کام کریں ہماری اصل دوڑ مذہب کی طرف ہی ہونی چاہئے۔
اب میں دعا کردیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور یہ بیج جو آج اس مقام پر ہم بورہے ہیں اس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو` ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو جس کے ذریعہ کفر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے۔ اللھم امین<۔۶۶
فضل عمر سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قیام اور اس کے اغراض و مقاصد
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے تعلیم الاسلام کالج کے ساتھ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بھی بنیاد رکھی اور اس کی نگرانی چودھری عبدالاحد
صاحب ایم۔ ایس۔ سی کے سپرد فرمائی۔ اس زمانہ میں اس نوعیت کے متعدد تحقیقاتی ادارے قائم تھے۔ بنگال میں ڈاکٹر بوس کی انسٹی ٹیوٹ تھی۔ اسی طرح الہ آباد یا بنارس یونیورسٹی کی طرف سے بھی کام ہورہا تھا۔ بنگلور میں میسور گورنمنٹ کی طرف سے ایک اعلیٰ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تھی۔ دہلی میں مرکزی حکومت کی انسٹی ٹیوٹ تھی۔ مگر یہ سب ادارے یا حکومت کی طرف سے جاری تھے یا یونیورسٹیوں کی طرف سے یا ہندوئوں کی طرف سے۔ کروڑوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمانوں کا کوئی ایک ادارہ بھی پورے ملک میں موجود نہ تھا۔ جس کی وجہ سے سیدنا المصلح الموعودؓ کے دل میں ہمیشہ خلش رہتی تھی۔۶۷ آخر اس کے قیام کا بھی سامان ہوگیا۔ اس طرح یہ پہلا مسلم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت فضل عمرؓ کی توجہ سے برصغر میں وجود میں آیا۔
سیدنا المصلح الموعودؓ کے مدنظر اس عظیم تحقیقاتی مرکز کی تاسیس کا اصل مقصد کیا تھا اور آپ اس کے مستقبل سے متعلق کیا کیا عزائم رکھتے تھے اور کس طرح مغربی فلسفہ کے خلاف اسے ایک مضبوط اسلحہ خانہ بنانا چاہتے تھے اس کا کسی قدر اندازہ حضور کے خطبہ جمعہ کے درج ذیل اقتباس سے ہوسکتا ہے۔ فرمایا۔
>ہمارا کالج درحقیقت دنیا کی ان زہروں کے مقابلہ میں ایک تریاق کا حکم رکھتا ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں اور مختلف قوموں میں سائنس اور فلسفہ اور دوسرے علوم کے ذریعہ پھیلائی جارہی ہیں۔ مگر اس زہر کے ازالہ کے لئے خالی فلسفہ اور دوسرے علوم کام نہیں آسکتے بلکہ اس غرض کے لئے عملی نتائج کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ایک کثیر حصہ سائنس کی ایجادات سے دھوکہ کھا گیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ سائنس کے مشاہدات اور قانون قدرت کی فعلی شہادات اسلام کو باطل ثابت کررہی ہیں۔ اسی لئے کالج کے ساتھ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے تاکہ بیک وقت ان دونوں ہتھیاروں سے مسلح ہوکر کفر پر حملہ کیا جاسکے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام پر بھی دو لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ پہلے سال کا خرچ تو اسی نوے ہزار کے قریب ہے لیکن اگلے سال جب عمارت کو مکمل کیا جائے گا اور سائنس کا سامان اکٹھا کیا جائے گا کم سے کم دو لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر سالانہ ستر اسی ہزار کے خرچ سے یہ کام چلے گا۔ اس کام کو چلانے کے لئے ہمیں قریباً بیس آدمی ایسے رکھنے پڑیں گے جنہوں نے سائنس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کی ہو۔ گویا کالج سے بھی زیادہ عملہ اس غرض کے لئے ہمیں رکھنا پڑے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد امید ہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ خود روپیہ پیدا کرنے کے قابل بھی ہوسکے گی۔ کیونکہ اس ادارہ میں جب علوم سائنس کی تحقیق کی جائے گی تو ایسی ایجادات بھی کی جائیں گی جو تجارتی دنیا میں کام آسکتی ہیں یا صنعت و حرفت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان ایجادات کو دنیا کے تجارتی اور صنعتی اداروں کے پاس فروخت کیا جائے گا۔ ہم ان اداروں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے محکمہ نے یہ یہ ایجادات کی ہیں۔ اگر تم خریدنا چاہتے ہو تو خرید لو۔ اس طرح جو روپیہ آئے گا اس کے ذریعہ اس کام کو انشاء اللہ زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جاسکے گا۔
اسی طرح میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ سائنس کی جو ایجادات ایسی مفید ہوں کہ جماعت ان کو اپنے خرچ پر جاری کرسکتی ہو وہ ایجادات ہم اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اور جماعتی خرچ سے ان کو دنیا میں فروغ دیں گے۔ جیسے ہوزری کا کارخانہ ہے۔ اس نے ایک لمبے عرصہ تک نقصان اٹھایا مگر اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قریباً سو فیصدی نفع دے سکتا ہے۔ تیس فیصدی نفع تو دے بھی چکا ہے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایجادات کے ذریعہ بھی سلسلہ کے مقاصد کی تکمیل کے لئے بہت کچھ روپیہ جمع ہونا شروع ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں جس قدر سائنس کی انسٹی ٹیوٹز ہیں ان کے موجد اس لئے ایجادات کرتے ہیں کہ تا اسلام تباہ ہو اور یورپ کا فلسفہ دنیا پر غالب آئے۔ مگر ہمارے موجد اس لئے ایجادات کریں گے تاکہ کفر تباہ ہو اور اسلام یورپ کے فلسفہ اور یورپ کے تمدن پر غالب آجائے۔ یہ لڑائی ہے جو اسلام اور یورپ میں جاری ہے۔ یہ لڑائی ہے جو احمدیت اور یورپ کا فلسفہ آپس میں لڑنے والے ہیں<۔۶۸
مزید فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں کو دیکھ لو۔ آپ نے جہاں اسلامی مسائل کی فوقیت ثابت کرنے کے لئے قرآنی آیات پیش کی ہیں۔ وہاں آپ نے قانون قدرت سے بھی دلائل پیش کئے ہیں اور فرمایا ہے کہ خدا کے کلام کی سچائی کا شاہد خدا کا فعل ہے اور یہ ناممکن ہے کہ خدا کا قول اور ہو اور اس کا فعل کچھ اور ظاہر کررہا ہو۔ ہمارا کام بھی یہی ہے کہ ہم خدا کی فعلی شہادت اسلام اور احمدیت کی تائید میں کالج اور سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ دنیا کے سانے پیش کریں۔ یہی مقصد کالج کے قیام کا ہے اور یہی مقصد ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی تعلیم کے ماتحت دین کی تائید کو مدنظر رکھتے ہوئے نیچر پر غور کیا جائے گا۔ تاکہ ہم اسلام کی سچائی کی عملی شہادت دنیا کے سامنے پیش کرسکیں اور یورپ کے لوگوں سے کہہ سکیں کہ آج تک تم نیچر اور اس کے ذرات کی گواہی قرآن کے خلاف پیش کرتے رہے ہو مگر یہ بالکل جھوٹ تھا۔ تم دنیا کو دھوکہ دیتے رہے ہو۔ تم جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتے رہے ہو۔ آئو! ہم تمہیں دکھائیں کہ دنیا کا ذرہ ذرہ قرآن اور اسلام کی تائید کررہا ہے اور نیچر اپنی عملی شہادت سے محمد~صل۱~ کی راستبازی کا اعلان کررہا ہے۔ یہ کام بہت مشکل ہے۔ یہ کام بہت لمبا ہے اور اس کے لئے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ ابتدائی کام کے لئے بیس ایم ایس سی ایسے درکار ہوں گے جو رات اور دن اس کام میں لگے رہیں اور اسلام کی تائید کے لئے نئی سے نئی تحقیقاتیں کرتے رہیں۔ میں نے بتایا ہے کہ اس کام پر ستر ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ ہوگا اور شروع میں کم سے کم اس غرض کے لئے دو لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی۔ یورپ میں تو دو دو چار چار کروڑ روپیہ کے سرمایہ سے ایسے کاموں کا آغاز کیا جاتا ہے اور ممکن ہے ہمیں بھی زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑے<۔۶۹
ابتدائی تاریخ
فضل عمر ریسرچ انسٹی کا قیام کن مراحل میں سے گزر کر ہوا۔ اس کی ابتدائی تاریخ کیا ہے` شروع میں کیا کیا بنیادی کام ہوئے اور مستقبل کے لئے کیا پروگرام مدنظر تھا؟ ان سب امور پر ڈاکٹر چودھری عبدالاحد صاحب کے ایک مفصل مضمون۷۰ سے تفصیلی روشنی پڑتی ہے۔ جناب چودھری صاحب لکھتے ہیں۔
>حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق شروع شروع میں خاکسار نے ہندوستان کا دورہ کرکے مختلف یونیورسٹیوں اور سائنس کے اداروں کو دیکھا اور مختلف ماہرین سائنس سے ملاقات کی تاکہ میری معلومات میں مزید اضافہ ہو۔ چونکہ حضور کے منشاء کے مطابق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے کام میں بہت توسیع مدنظر تھی۔ اس لئے یہ ضروری تھا کہ اس کی بلڈنگ اور لیبارٹری باہر ایک کھلی جگہ بنائی جائے جس کے لئے زمین کے ایک بڑے رقبہ کی ضرورت تھی۔ لیکن دوران جنگ چونکہ بجلی کے لئے (CONNECTION) حاصل کرنے میں مشکلات تھیں اس لئے تعلیم الاسلام کالج کی دوسری منزل پر چند کمرے تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی تاکہ کام فوری طور پر شروع کیا جاسکے۔ ان کمروں کے نقشے کی تفاصیل تیار کرنے کے بعد تعمیر کا کام مکرمی مولوی عبدالرحمن صاحب انور انچارج تحریک جدید کے سپرد ہوا۔ جنگ کی وجہ سے عمارت کے لئے ضروری سامان مثلاً لوہا` اینٹیں` سیمنٹ اور لکڑی وغیرہ کے ملنے میں بہت سی مشکلات تھیں۔ لیکن مکرم انور صاحب کی کوششوں اور دوسرے احباب کے تعاون سے یہ کام مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جنوری ۱۹۴۶ء میں پایہ تکمیل پر پہنچا۔ فرنشنگ فٹنگ اور بجلی کا سامان مہیا کرنے میں بھی بہت سی مشکلات تھیں۔ دوسرے قادیان میں ماہر کاریگروں کی قلت کی وجہ سے اس کام کو پورا کرنے میں اندازہ سے زیادہ وقت صرف ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنگ کی وجہ سے چونکہ سامان سائنس کی غیر ممالک سے درآمد بند تھی اور ہندوستان کی مشہور فرموں سے بہت کم سامان ملتا تھا اس لئے بیرونی ممالک سے بعض آلات کے حاصل کرنے کے لئے گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کرکے انگلستان اور امریکہ سے سامان منگوانے کی کوشش کی گئی۔
جماعت کی توجہ سائنس کے علوم کی طرف کم تھی اس لئے کام کرنے والوں کی قلت بہت شدت سے محسوس کی گئی۔ چنانچہ ان مشکلات کے پیش نظر حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلے ہی واقفین زندگی کے ایک گروہ کو سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لئے منتخب فرما کر ان کی ٹریننگ کا انتظام کروا دیا تھا۔ ابتداء میں خاکسار نے صرف ایک کلرک کی امداد سے کام شروع کیا۔ کچھ عرصہ سے مکرمی اقبال احمد صاحب بی ایس سی آنرز اور بشارت احمد صاحب بی ایس سی بھی تشریف لے آئے ہیں۔ ان ہر دو احباب نے ابتدائی تحقیقاتی کام شروع کر دیا ہے جسے وہ ایم ایس سی کی ڈگری کے لئے پیش کریں گے۔ انشاء اللہ۔
اکتوبر ۱۹۴۵ء سے عطاء الرحمن صاحب غنی ایم ایس سی امپیریل انسٹی ٹیوٹ دہلی سے تشریف لائے ہیں اور لائبریری اور لٹریچر کی چھان بین کا کام ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ پانچ مزید دوست مختلف اداروں میں بالترتیب ذیل ایم ایس سی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ غلام احمد صاحب عطا ایگریکلچرل کالج لائل پور میں` منور احمد صاحب بنارس یونیورسٹی میں` سلطان محمود صاحب شاہد` نصیر احمد خاں اور ناصر احمد سیال علی گڑھ یونیورسٹی میں` ان کے علاوہ محمد عبداللہ صاحب بی ایس سی انجینرنگ اور ناصر احمد صاحب سیال کو عنقریب اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھجوایا جارہا ہے۔ ان احباب کے علاوہ بہت سے اور نوجوان بھی زندگیاں وقف کرکے سائنس کی ابتدائی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حالات میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قادیان میں جاری کرنا اور پھر کام کو جنگ کے ایام میں شروع کروانا حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اولوالعزم ہونے کا زبردست ثبوت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضور ہر مشکل کے وقت ہماری راہنمائی نہ فرماتے تو جنگ کے ایام میں اس کا شروع ہونا قریباً قریباً ناممکن تھا<۔
پہلا باب )فصل سوم(
قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کی
تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کے تین سال
)از احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش تا احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش(
جماعت احمدیہ کی یہ مرکزی درسگاہ قادیان کی روح پرورفضا اور زندگی بخش ماحول میں تقسیم برصغیر کے باعث صرف تین سال تک جاری رہ سکی۔ کالج نے اس نہایت قلیل عرصہ میں غیر معمولی ترقی کی اور اس کے ارتقاء کی رفتار حیرت انگیز رہی اور سیدنا المصلح الموعودؓ کی توجہ سے کالج نے اپنی کم عمری کے باوصف وہ تمام اہم خصوصیات حاصل کرلیں جو دوسرے ترقی یافتہ کالجوں کو سن بلوغت میں میسر آتی ہیں۔ اس سہ رسالہ دور کے بعض اہم واقعات یہ ہیں۔
۱۔ فزکس اور کیمسٹری کی تجربہ گاہوں کا قیام ۲۔ طلبہ کی تعلیمی دینی و اخلاقی نگرانی کے موثر اقدامات ۳۔ علمی تقریروں کا مفید سلسلہ ۴۔ طلبہ کالج کے لئے دینی نصاب ۵۔ مجلس مذہب و سائنس ۶۔ تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی ۷۔ فضل عمر ہوسٹل کی نئی عمارت کا افتتاح ۸۔ بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کلاسز کا آغاز ۹۔ فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ۱۰۔ فضائی تربیت۔
واقعات کے اجمالی تعارف کے بعد اب ان کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
فزکس اور کیمسٹری کی تجربہ گاہوں کا قیام
کالج کا ایک اہم بنیادی مسئلہ جس نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صدر کالج کمیٹی اور دوسرے ارباب حل و عقد کو بہت مشوش کر رکھا تھا` شعبہ سائنس کی تیاری کا مسئلہ تھا۔ یعنی۔
۱۔ سانس بلاک )لیکچر روم اور لیبارٹریوں( کو جلد از جلد قابل استعمال بنانا۔
۲۔ سائنس کے مطلوبہ سامان کی خرید۔
۳۔ گیس پلانٹ کا انتظام۔
حصرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کام کی سرانجام دہی کے لئے حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ سے براہ راست راہنمائی حاصل کی اور حضرت صاحبزادہ ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کو اطلاع دی کہ۔
>اول گیس پلانٹ کا کام چونکہ زیادہ نازک ہے اور اس میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا بھی حصہ ہے۔ اس لئے وہ چوہدری عبدالاحد صاحب کے سپرد رہے۔
دوم۔ باقی دونو کام یعنی )الف( سائنس کے کمروں کو استعمال کے قابل بنانا اور ان کی فٹنگ اور )ب( سائنس کے مطلوبہ سامان وغیرہ کی خرید وہ آپ کے سپرد ہوگی اور آپ مذکورہ کاموں کو اپنی نگرانی میں اپنے عملہ سے کروا لیں<۔۷۱
شعبہ سائنس کے تینوں اہم کاموں کی تکمیل کے لئے پہلے سال جو جدوجہد کی گئی۔ اس کی تفصیل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی مندرجہ ذیل رپورٹ سے بخوبی مل سکتی ہے۔ یہ رپورٹ آپ نے صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی خدمت اقدس میں بھجوائی تھی۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
>موسمی تعطیلات یعنی ۴۴/۷/۷۲۷ مختلف فرموں کے ساتھ خط و کتابت میں وقت گزر گیا اور ایام تعطیلات میں )۱( گیس پلانٹ )۲( کیمسٹری اور فزکس کے کمروں کی فٹنگ )۳( لیبارٹری کی فٹنگ )۴( کالج فرنیچر )۵( سائنس کا سامان` آلات و ادویہ کی خرید )۶( دفتر کالج کے عمارتی کام میں تبدیلی کے کام مکرمی رانا عبدالرحمن صاحب ناصر کے سپرد کئے گئے جنہوں نے مکرمی چوہدری عبدالاحد صاحب کے مشورہ سے PLANT GAS کے ۴۴/۱۲/۲۳ تک فٹ ہو جانے کے لئے ۶۰۰۰ روپیہ پر ایجوکیشنل سٹور لاہور کے ساتھ فیصلہ کیا اور اس عرصہ میں گیس پلانٹ کے لئے کنواں اور گیس ہائوس اور چار دیواری کا کام چوہدری غلام حسین صاحب اوورسیئر کی نگرانی میں مکمل کرایا۔
سائنس کے کمروں کی فٹنگ کے سلسلہ میں جو لیکچر رومز تیار کرائے گئے تھے ان میں اینگل آئرن کی ضرورت تھی جس کی خرید میں سخت دقت پیش آئی۔ کئی مرتبہ لاہور جانا پڑا۔
چونکہ لوکل کاریگروں کے لئے یہ کام بالکل نیا تھا باوجودیکہ ان کو نمونے دکھائے گئے مگر وہ FRAMING کا کام بالکل نہ کرسکے اس لئے وہ کام بھی لاہور سے کروایا گیا۔ اسی طرح لیبارٹری میں گیس اور پانی کی نالی کی فٹنگ یہاں کے کاریگر نہ کرسکے اس لئے لاہور کی ایک فرم کے ساتھ معاہدہ (AGREMENT) کرکے کام کی تکمیل کروائی گئی۔ لیکن گھومنے والے بلیک بورڈ قادیان میں ہی تیار کروا کر کیمسٹری اور فزکس کے کمروں کی فرنشنگ کروائی گئی<۔
کالج کے سیکنڈ ایئر کے لئے روشنی (LIGHT) بجلی (ELECTRICITY) اور مقناطیسی (MAGNETISM) کا سامان ماہ اخاء و نبوت/ اکتوبر و نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں پہنچا۔
‏vat,10.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
طلباء کی دینی` تعلیمی اور اخلاقی نگرانی کے لئے موثر اقدامات
ماہ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں طلبہ کی نگرانی کے لئے بعض اہم اقدامات کئے گئے۔ مثلاً کالج کو سات گروپوں میں تقسیم کرکے پروفیسر صاحبان کو گروپ انچارج مقرر کردیا گیا جن کا کام طلبہ کی ہر قسم کی نگرانی اور ان کی ترقی کے معیار کو ہررنگ اور ہرپہلو میں بلند کرنا تھا۔۷۳ نماز ظہر کالج کے تعلیمی وقت کے درمیان آتی تھی جس میں طلباء کی حاضری کی نگرانی کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں احمدی طلباء کے لئے جو قادیان کے کسی محلے یا ہوسٹل میں رہتے تھے` حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کے درس قرآن میں شمولیت لازمی قرار دے دی گئی۔۷۴ اسی تعلق میں حضرت پرنسپل صاحب کالج نے یکم نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو یہ خصوصی ہدایت جاری فرمائی کہ۔
>اساتذہ کرام اس بات کا خیال رکھیں کہ آئندہ کوئی طالب علم کلاس میں ننگے سر نہ آئے۔ اگر کوئی طالب علم اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کو کلاس سے باہر نکال دیں جب تک کہ وہ ٹوپی پہن کر نہ آئے<۔۷۵
کھیلوں کا اجراء
علاوہ اس امر کے کہ کھیلوں کے بارے میں پنجاب یورنیورسٹی کے قواعد بہت سخت تھے اور ہیں سلسلہ احمدیہ کے مرکزی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کو ہمیشہ نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ اس کی مسلمہ قدیم روایات ہیں۔
کالج میں کھیلوں کا باضابطہ اجراء ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ہوا۔ ایک ہفتہ بعد طلباء کو ان کی استعداد اور شوق کے مطابق مختلف گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔۷۶ کالج میں پہلا ٹورنامنٹ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوا۔۷۷
علمی تقریروں کا مفید سلسلہ
افتتاح کالج کے بعد طلبہ کے اضافہ معلومات کے لئے ایک سلسلہ تقاریر جاری کیا گیا۔ اس سلسلہ کی پہلی تقریر آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ۲۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو فرمائی جس میں آپ نے نہایت قیمتی نصائح اور تجاویز سے مستفید فرمایا۔ صدارت کے فرائض حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے انجام دیئے۔۷۸
چودھری صاحب کی اس تقریر کے بعد سال ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں حسب ذیل مقررین نے خطاب فرمایا۔
ڈاکٹر سید ریاض الحسن صاحب آفیسر انچارج بائی لاجیکل پروڈکٹس و اسسٹنٹ ڈائریکٹر گورنمنٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ عزت نگر )بریلی10]`( [p۷۹ مسٹر اے۔ ایچ بھٹی` حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی۔ مولانا ابوالعطاء صاحب` قاضی محمد نذیر صاحب۔۸۰`۸۱
کالج یونین کی بنیاد
طلبہ میں اردو اور انگریزی میں تقریر کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے اخوند عبدالقادر صاحب ایم۔ اے کی زیر نگرانی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے دوران ہی کالج یونین قائم کی گئی۔۸۲ اسی طرح ہائیکنگ کلب اور بعض اور سوسائٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
کالج کی ہائیکنگ پارٹی چمبہ میں
۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں کالج کی ہائیکنگ پارٹی چودھری محمد علی صاحب ایم۔ اے کی قیادت میں پانگی )ریاست چمبہ( کے علاقہ میں گئی۔ یہ پارٹی حسب پروگرام ۶۔ وفا/ جولائی کو قادیان سے روانہ ہوئی اور ۹۔ ظہور/ اگست کو بخیریت واپس پہنچی۔ اس ہندوستان ریاست میں طلبہ سے نہایت تنگدلانہ اور متعصبانہ سلوک روا رکھا گیا۔ جس کی مفصل اطلاع چودھری صاحب نے حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے حضور بھی کردی چنانچہ انہوں نے لکھا حضور کے خدام کالج ہائیکنگ پارٹی اس وقت کلڈر پانگی میں چار روز سے ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اس جگہ سارے پانگی میں جہاں تک خاکسار کے علم کا تعلق ہے صرف ایک سنار مسلمان ہے۔ باقی سب کٹر ہندو ہیں۔ یہاں پر ایک بنگالی سوامی جی ہیں۔ انہوں نے ہمارے راشن اور قلیوں کی فراہمی میں سخت دقت پیدا کی ہے۔ یہاں سرکاری ڈپو ہے اور آٹا وغیرہ یہاں سے ملتا ہے۔ لیکن پہلے ہی دن سوامی جی نے خود آکر ڈپو والے کو ہمیں آٹا دینے سے روک دیا۔ سوامی جی کا لوگوں میں بہت رسوخ ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین اور افسروں کا راشن بھی بعض اوقات بند کر دیتے ہیں۔ یہاں پر کچھ آریہ سماجی بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی شرارت کررہے ہیں۔ پارٹی کا پروگرام ٹوٹ رہا ہے اور جب تک راشن نہ ہو واپس آنا سخت مشکل ہے۔ پانگی کی چڑھائی اور میل ہامیل برف پر چلنے کی وجہ سے اور بارش میں بھیگ جانے کے باعث اور خوراک کی قلت کے سبب پارٹی کے اکثر ممبر بیمار ہوچکے ہیں۔ اگرچہ یہاں ہسپتال ہے اور ڈاکٹر صاحب جو نہایت شریف آدمی ہیں ہماری مدد کررہے ہیں اور ہمارے اپنے پاس بھی کچھ دوائیاں ہیں پھر بھی پانگی کا راستہ واپس طے کرنا مشکل ہے جب تک پورا سامان خوراک نہ ہو اور قلی نہ ہوں۔ قلیوں کو بھی سوامی جی نے بہکا دیا ہے۔ یہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ ہمارا دھرم بھر شٹ کرنے آئے ہیں۔ )الفضل ۱۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲(
چودھری محمد علی صاحب کا بیان ہے کہ جب ہم واپس ڈلہوزی پہنچے تو حضورؓ کی خدمت میں اطلاع بھیجی۔ حضور بلا توقف` بے تابانہ` ایک ہاتھ میں قلم` ایک میں کاغذ` پیشانی مبارک پر چشمہ` ننگے سر` ننگے پائوں` سیڑھیوں کے پاس تشریف لے آئے۔ ہم دوڑ کر حضورکی خدمت میں پہنچے۔ سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی اور حضور اسی حالت میں حالات دریافت فرماتے رہے۔
احمدی طلباء کے لئے دینی نصاب
مجلس تعلیم نے سیدنا حضرت المصلح الموعودؓ کی منظوری کے بعد ۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۸۳ کو انٹر میڈایٹ کلاس کے احمدی طلباء کے لئے حسب ذیل دینی نصاب مقرر کیا۔
۱۔ >قرآن شریف ناظرہ مع ایسے ترجمہ کے جو اس کے مطالب کو واضح کرنے والا ہو۔ حفظ ربع آخر پارہ عم
۲۔ حدیث۔ عمدۃ الاحکام
۳۔ کلام۔ نزول المسیح۔ کشتی نوح۔ ترجمہ لباب الخیار۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ ہمارا خدا
۴۔ ایسے احمدی طلباء جو باہر سے آئے ہوئے ہونے کی وجہ سے اوپر کا نصاب نہ سمجھ سکتے ہوں یا پورا نہ کرسکتے ہوں ان کے لئے مندرجہ ذیل نصاب ہوگا۔
)الف( قرآن شریف ناظرہ و قرآن شریف باترجمہ تا آخر سورۃ توبہ و ترجمہ نماز۔
)ب( حدیث۔ نبر اس المومنین
)ج( کلام۔ نزول المسیح۔ کشتی نوح۔ ترجمہ لباب الخیار۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ ہمارا خدا۔
۵۔ باہر سے آنے والے طلباء میں سے جو اس نصاب کو نہ لیں ان کے لئے حسب ذیل عام اسلامی تاریخ کا نصاب ہوگا۔ سیرت خاتم النبین حصہ اول ایڈیشن ثانی` مختصر تاریخ اسلام مصنفہ شاہ معین الدین ندوی اعظم گڑھ` اردو ترجمہ لباب الخیار` سوانح حضرت محمدﷺ~ صاحب مصنفہ شردھے پرکاش صاحب۔۸۴`۸۵
پرنسپل تعلیم الاسلام کالج پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل میں
تعلیم الاسلام کالج کو پہلے ہی سال پورے صوبہ بلکہ ملک بھر میں جو شہرت نصیب ہوئی اس کا نہایت خوشگوار اثر صوبائی کالجوں پر یہ پڑا کہ پنجاب یونیورسٹی کے تمام انٹرمیڈیٹ کالجوں کے پرنسپل صاحبان نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو متفقہ طور پر سال ۴۶۔ ۱۹۴۵ء کیلئے یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل کا ممبر منتخب کرلیا اور پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو ۶۔ جنوری ۱۹۴۵ء کو یہ اطلاع بھی مل گئی۸۶
مجلس مذہب و سائنس کا قیام
سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں قیام کالج کے بعد جماعت احمدیہ میں اعلیٰ علمی ` مذہبی اور سائنٹفک تحقیق کا مذاق پیدا کرنے کے لئے >مجلس مذہب و سائنس< کے نام سے ایک اہم مجلس کی تاسیس فرمائی۔ جس کا صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو نامزد فرمایا۔ حضرت میاں صاحب نے مجلس کا کام چلانے کے لئے حسب ذیل عہدیدار مقرر فرمائے۔
۱۔ نائب صدر۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان
۲۔ زائد نائب صدر۔ مولانا ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان
۳۔ جنرل سیکرٹری۔ چودھری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی۔ پی ایچ ڈی۔
۴۔ نائب سیکرٹری۔ چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی اے و عبدالسلام صاحب اختر ایم اے
۵۔ انچارج لائبریری۔ پروفیسر عطاء الرحمن صاحب غنی ایم ایس سی
۶۔ ایڈیٹر حصہ انگریزی۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے
۷۔ ایڈیٹر حصہ اردو۔ چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی۔ اے۸۷
مجلس کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ سائنس` فلسفہ` اقتصادیات` عمرانیات اور دوسرے علوم جدیدہ کی طرف سے مذہب پر عموماً اور اسلام پر خصوصاً ہونے والے اعتراضات کی اعلیٰ علمی سطح پر تحقیق کی جائے۔ اس غرض کے لئے چار سب کمیٹیوں کی تشکیل کی گئی۔ ۱۔ سب کمیٹی مذہب` ۲۔ سب کمیٹی سائنس` ۳۔ سب کمیٹی فلسفہ اور ۴۔ سب کمیٹی اقتصادیات` پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی وغیرہ۔ ان سب کمیٹیوں کے سیکرٹری بالترتیب مولانا ابوالعطاء صاحب` ڈاکٹر عبدالاحد صاحب ایم۔ ایس۔ سی` پی ایچ ڈی` چوہدری محمد علی صاحب ایم اے اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تجویز ہوئے۔
مجلس کا پہلا پبلک جلسہ ۲۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے نہایت لطیف پیرایہ میں مجلس کی اہمیت و ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
>سلسلہ احمدیہ کے کام کا دائرہ اب آہستہ آہستہ بہت وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ جس طرح سمندر میں پہلے ایک لہر اٹھتی ہے` پھر دوسری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر تیسری اور اس طرح لہروں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا ہے اسی طرح خدائی سلسلہ بھی روز بروز بڑھتا ہے اور اپنے حلقہ کو وسیع کرتا جاتا ہے۔ شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں ہماری ابتدائی بحث قریباً نوے فیصدی وفات مسیح کے مسئلہ پر ہوا کرتی تھی۔ پھر صداقت مسیح موعود کے مسئلہ پر زور شروع ہوا۔ پھر نبوت کے مسائل پر بحث کا دور آیا اور ساتھ ساتھ دوسری قوموں کے ساتھ مقابلہ بڑھتا گیا۔ اور اب آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ وہ وقت لارہا ہے جب کہ احمدیت کا ساری دنیا کے ساتھ ٹکرائو ہونے والا ہے اور اس کے نتیجہ میں ہی اسے انشاء اللہ عالمگیر فتح حاصل ہوگی<۔
>اس وقت ہمارے لئے معین مذہبی تعلیمات کو چھوڑ کر تین مقابلے درپیش ہیں۔ ان میں سے بعض تو حقیقی ہیں اور بعض خیالی۔ لیکن بہرحال ان تینوں کا مقابلہ کرنا اس مجلس کا کام ہے۔ پہلا دائرہ جو اقتصادیات کا دائرہ ہے ایک عملی دائرہ ہے جس کا اسلام اور احمدیت سے بھاری مقابلہ ہے۔ ہمیں اس کے مقابلہ پر وہ نظام پیش کرنا ہے جو اسلام پیش کرتا ہے اور اسے غالب کرکے دکھانا ہے۔ دوسرا دائرہ جو فلسفہ سے تعلق رکھتا ہے ایک قولی مقابلہ ہے۔ یہ لوگ فلسفے کے چند نظرئے پیش کرتے ہیں جو بعض صورتوں میں اسلامی تعلیموں کے ساتھ سخت ٹکراتے ہیں۔ ہمیں اس کے مقابلہ میں اسلام کے نظریئے پیش کرنے اور ان کی فوقیت ثابت کرنی ہے۔ تیسرا حلقہ سائنس کا ہے۔ اس حلقہ کا مذہب کے ساتھ کوئی حقیقی ٹکرائو نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے سائنس خدا کا فعل ہے اور مذہب خدا کا قول ہے مگر چونکہ بعض لوگ کوتاہ بینی کی وجہ سے غیر ثابت شدہ حقائق کو ثابت شدہ حقائق سمجھ کر اعتراض کر دیتے ہیں۔ اس لئے اس کے مقابلہ کی بھی ضرورت ہے۔
تو یہ تین دائرے ہیں۔ ایک عملی دوسرا قولی تیسرا خیالی یعنی غیر حقیقی` جن کے مقابلہ کے لئے یہ مجلس مذہب و سائنس قائم ہوئی ہے۔۸۸
مجلس نے اپنے قیام کے بعد سب سے پہلے خصوصی توجہ دو امور پر مرکوز کردی۔
۱۔ جدید علوم کی طرف سے اسلام اور مذہب پر وارد ہونے والے اعتراضات کی مکمل فہرست۔
۲۔ علوم جدیدہ کے لٹریچر کی مکمل فہرست۔
مجلس نے ابتداء ہی میں موجودہ دنیا کے اہم ترین علمی مضامین کی تحقیق کے لئے مندرجہ ذیل اہل علم و فہم کی خدمات حاصل کرلیں۔
مقرر

موضوع
تاریخ خطاب
۱۔ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے

>دنیا کی موجودہ تحریکیں< ۲۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۸۹
۲۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے

>اشتراکیت اور مذہب< ۱۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۹۰
۳۔ پروفیسر محمد علی صاحب ایم۔ اے

>علم النفس کے جدید نظریئے< ۳۱۔ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۹۱
۴۔ چودھری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی` پی ایچ ڈی

>نظام کائنات اور سائنس کی حدود< ۴۔وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۹۲
۵۔ چودھری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی` پی ایچ ڈی

>نظام کائنات اور سائنس کی حدود< یکمنبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۹۳
۶۔ چودھری عبدالاحد صاحب ایم ایس سی` پی ایچ ڈی

>زندہ اشیاء کے خواص اور زندگی کی اہمیت< ۲۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۹۴
۷۔ ڈاکٹر پی۔ کے کچلو صاحب پروفیسر طبیعات گورنمنٹ کالج لاہور

>جوہری تواناہی< ۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۹۵
۸۔ ڈاکٹر میلارام صاحب پروفیسر طبیعات ایف۔ سی کالج لاہور

>زمین کی عمر< ۱۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۹۶
۹۔ ڈاکٹر آسکر برفلر صاحب )ڈی۔ ایس۔ سی(

>مذہب اور سائنس< ۲۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۹۷
پہلی تین تقاریر کے سوا جن میں بالترتیب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اور مولوی ابوالعطاء صاحب نے صدارت کے فرائض انجام دیئے باقی سب اجلاسوں میں سیدنا المصلح الموعودؓ بنفس نفیس رونق افروز رہے اور حضور نے اپنے بیش قیمت ارشادات سے مستفیض فرمایا۔
مجلس مذہب و سائنس کے زیر اہتمام پہلے آٹھ لیکچر مسجد اقصیٰ میں دیئے گئے اور نواں لیکچر مسجد مبارک میں ہوا۔ یہ مجلس تقسیم ہند تک قائم رہی اور اپنے دائرہ عمل میں نہایت قابل قدر اور مفید علمی خدمات سرانجام دیتی رہی۔
تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی کی بنیاد
سیدنا المصلح الموعود کے ارشاد پر >مجلس مذہب و سائنس< کے علاوہ ۱۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو >تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی< بھی قائم کی گئی جس کے بنیادی اغراض و مقاصد یہ تھے کہ طلباء اور اساتذہ دونوں میں تحقیقاتی اور علمی مذاق پیدا کیا جائے اور ان اعتراضات کے متعلق جو مذہب پر عموماً اور اسلام پر خصوصاً سائنس اور دیگر علوم کی بناء پر کئے جاتے ہیں پوری تحقیقات کرکے ان کا رد کیا جائے۔ سوسائٹی کی دو شاخیں تجویز کی گئیں۔ )الف( سائنس سیکشن )ب( آرٹس سیکشن۔
اس علمی اور تحقیقاتی مجلس کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )پرنسپل( اور سرپرست حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب )صدر کالج کمیٹی( تھے۔ اور اس کے قواعد میں یہ بات شامل تھی کہ یہ سوسائٹی فضل عمر سائنٹفک اینڈ ریلیجس سوسائٹی کے لئے جس کا نام مجلس مذہب و سائنس رکھا گیا` پودوں کے ذخیرہ )YR(NURSE کے طور پر کام کرے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کالج یونین` جوبلی فنڈ` صدر انجمن احمدیہ اور عطیہ جات سے اس کے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
فضل عمر ہوسٹل کی نئی عمارت کا افتتاح
فضل عمر ہوسٹل عارضی طور پر گیسٹ ہائوس میں قائم ہوچکا تھا۔ مگر ضرورت اس امر کی بھی کہ اسے کالج کمیٹی کی طے شدہ پروگرام کے مطابق جامعہ احمدیہ کی عمارت میں منتقل کردیا جائے۔ یہ جگہ تعلیم الاسلام کالج سے بالکل متصل غربی جانب واقع تھی اور خلافت اولیٰ کے زمانہ میں مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کی رہائش گاہ اور دفتر تفسیر القرآن کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔
یہ عمارت بہت سے تعمیری اضافوں اور تبدیلیوں کے بعد ماہ اخاء/ اکتوبر میں ہوسٹل کی صورت میں تبدیل کر دی گئی اور حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس کا افتتاح اسی ماہ ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر کو نماز عصر کے بعد فرمایا۔
اس تقریب پر چوھدری محمد علی صاحب ایم۔ اے سپرنٹنڈنٹ فضل عمر ہوسٹل نے پہلے ایک ایڈریس پیش کیا جس کے ابتداء میں کہا۔
>آج سے ۳۱ سال پہلے جبکہ منکرین خلافت خدا کے رسول کی تخت گاہ چھوڑ رہے تھے تو ان میں سے ایک نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سے دس سال کے بعد اس بلڈنگ پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق مصلح موعود کے مبارک دور میں جماعت کو ترقی پر ترقی عطاء فرمائی۔ وہ بلڈنگ جس کے متعلق یہ بات کہی گئی تھی۔ اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا اور سکول کی بجائے اسے کالج کی بلڈنگ میں تبدیل کر دیا۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
یہ جگہ جہاں موجودہ ہوسٹل کی تعمیر ہوئی ہے` یہ وہ جگہ ہے جہاں منکرین خلافت کے امیر رہا کرتے تھے۔ لیکن آج ان کی کوٹھی کالج کے ہوسٹل میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ سب باتیں ہمارے لئے نشان ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ ہر برے اثر کو اس جگہ سے دور کرے اور اپنی برکات کی بارش سے سیراب کرے<۔۹۸
اس ایڈریس کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے ایک نہایت روح پرور اور وجد آفریں تقریر فرمائی جس کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ۔
>سپرنٹنڈنٹ صاحب ہوسٹل تعلیم الاسلام کالج نے ایک پرانے واقعہ کی طرف اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے۔ آپ لوگ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے والے اور تاریخی طور پر اسے یاد رکھنے والے اس کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتے جو کیفیت آج سے ۳۲ سال پہلے مارچ ۱۹۲۱۴ء میں قادیان کے لوگوں پر طاری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت کی قادیان آج والی قادیان نہ تھی جتنے محلے قصبہ سے باہر آج آباد نظر آتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ تھا۔ قادیان کی آبادی اس وقت قریباً قریباً اتنی ہی ہوگی۔ جتنی اس وقت کالج اور اس کے متعلقین کی تعداد ہے۔ قصبہ کے باہر جتنے مکانات نظر آتے ہیں سوائے سکول کے اور سوائے مسجد نور اور مولوی محمد علی صاحب کی اس کوٹھی کے جس کی طرف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ باقی تمام جنگل ہی جنگل تھا۔ اس وقت یہ سوال جماعت کے سامنے آیا کہ کیا اپنے اصول پر قائم رہ کر اکابرین جماعت کا مقابلہ کریں یا ان سے ڈر کر ہتھیار رکھ دیں۔ اس وقت اس فیصلہ کا انحصار ایک ایسے شخص پر تھا جس کی عمر کالج کے بہت سے پروفیسروں سے کم تھی۔ جس کی حیثیت موجودہ کالج کے بہت سے پروفیسروں سے بہت کم تھی۔ جس کا علم جہاں تک دینوی علوم کا تعلق ہے` کالج کے ہر طالب علم سے کم تھا۔ صرف اس ایک انسان کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ان تمام ذمہ داریوں کے ہوتے ہوئے آیا ان تمام بوجھوں کے ہوتے ہوئے اور آیا ان تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے جبکہ جماعت کے تمام اکابر خلاف کھڑے ہوگئے تھے جبکہ بہت سی بیرونی جماعتوں میں ابتلاء آچکا تھا جبکہ جماعت کے لوگوں میں یہ خیال پیدا کردیا گیا تھا کہ قادیان کے لوگ سلسلہ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بہت بڑے فتنہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں` اس وقت ان کا مقابلہ کرنا چاہئے یا ان کے سامنے ہتھیار رکھ دینے چاہئیں۔ وہ اکابر جو سلسلہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے ان کا اندازہ اس وقت کی حالت کی نسبت کیا تھا اس کی طرف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے اور ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہونے والے تعداد میں` علم میں` ساز و سامان میں اور اثر و رسوخ میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر ہمارے مقابلے میں کھڑے ہوئے تو گرتے پڑتے زیادہ سے زیادہ دس سال تک ٹھہریں گے۔ پھر یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس وقت اس شخص کو جس کی عمر ۲۵ سال تھی` خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کا فیصلہ کرنے کی توفیق ملی کی خواہ حالات کچھ بھی ہوں اس جھنڈا کو کھڑا رکھے گا جس کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ کھڑا کیا ہے<۔۹۹
اس کے بعد حضور نے ۱۹۱۴ء کے بعض واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد طلباء کو نصیحت فرمائی۔
>آج آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ دن کیسے خطرناک تھے اور خدا تعالیٰ نے کس قسم کے فتنوں میں سے جماعت کو گزارا۔ اس حالت کا آج کی حالت سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہی جوش اور وہی اخلاص جو اس وقت جماعت میں تھا آج بھی آپ لوگوں میں ہو تو یقیناً تم پہاڑوں کو ہلا سکتے ہو۔ اس وقت جماعت کے لوگ بہت تھوڑے تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا ایمان اور ایسا جوش بخشا کہ کوئی بڑی سے بڑی روک بھی انہیں کچھ نہ نظر آتی تھی۔ آج کے نوجوان اور آج کی جماعت اگر ویسا ہی ایمان پیدا کرلے تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کرسکتی ہے۔ جو کام ایک پونڈ بارود کرسکتا ہے ایک ٹن بارود اس سے بہت زیادہ کام کرسکتا ہے۔ اگر اس وقت جماعت کی حیثیت پونڈ کی تھی تو آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹن کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس وقت جماعت کے لوگ بارود تھے کیا آج بھی وہ بارود ہیں یا ریت کے ڈھیر۔ اگر بارود ہیں تو یقیناً آج اس وقت کی نسبت بہت زیادہ کام کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ریت ہیں تو اس وقت کے کام کا سواں حصہ بھی نہیں کرسکتے۔ پس میں نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں<۔۱۰۰
حضور نے آخر میں مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>یہ سامنے کی کوٹھی جنہوں نے اپنے رہنے کے لئے بنوائی تھی اس میں اب ہوسٹل کے جو سپرنٹنڈنٹ رہیں گے وہ ان کے ہم نام` ہم قوم` ہم ڈگری اور ہم علاقہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے لکھا ہے۔ پہلا آدم آیا تو اسے شیطان نے جنت سے نکالا مگر دوسرا آدم اس لئے آیا کہ جنت میں داخل کرے۔ اس کوٹھی میں پہلے رہنے والے محمد علی نام کے` ایم۔ اے ڈگری والے` ارائیاں قوم کے اور وطن کے لحاظ سے جالندھری تھے` ان کے ساتھیوں نے خلافت کے اختلاف کے وقت کہا تھا۔ دیکھ لینا! دس سال تک یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ کی نکتہ نوازی دیکھو۔ دس سال بعد نہیں تیس سال بعد ایک دوسرا شخص اسی نام` اسی ڈگری` اسی قوم اور اسی ضلع کا آج ہمارے سامنے یہ کہہ رہا ہے کہ اب میں اس کوٹھی میں رہوں گا اور احمدیت کی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کروں گا۔ جو کچھ پہلے محمد علی ایم۔ اے ارائیں جالندھری نے کہا تھا بالکل غلط ہے۔ یہ جگہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ہی بنائی اور یہاں اسلام کے خادم ہی رہیں گے۔ اور میں محمد علی ایم اے ارائیں جالندھری اپنے طلبہ سمیت پوری کوشش کروں گا کہ احمدیت اپنی سب روایات سمیت قائم ہے اور دنیا پر غالب آئے<۔۱۰۱
یونیورسٹی کمیشن کی طرف سے تعلیم الاسلام کالج کا معائنہ اور اظہار مسرت
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کے ارشاد کے پیش نظر کالج کمیٹی نے پنجاب یونیورسٹی سے درخواست کی کہ کالج کو بی۔ اے
اور بی ایس سی تک بڑھانے کی اجازت دی جائے۔ اس پر یونیورسٹی نے تمام حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے ایک کمیشن قادیان بھجوایا۔ یہ کمیشن ملک عمر حیات صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور` سردار جودھ سنگھ صاحب پرنسپل خالصہ کالج امرتسر اور ڈاکٹر جی ایل دتا صاحب پرنسپل ڈی اے وی کالج پر مشتمل تھا۔ ارکان کمیشن نے ۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو تعلیم الاسلام کالج کا معائنہ کیا اور کالج کی جائے وقوع` اس کی عمارات` سامان` گرائونڈز وغیرہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فضل عمر سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دیکھ کر تو یہ اثر لے کر گئے کہ کالج سے متعلق ان تیاریوں سے ظاہر ہے کہ ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔۱۰۲
تعلیم الاسلام کالج میں توسیع کے لئے حضرت امیر المومنین کی اپیل
جماعت احمدیہ کے اولوالعزم روحانی سپہ سالار حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے کالج کی افتتاحی تقریب پر اس دلی منشاء کا اظہار فرما دیا
تھا کہ آپ اس دن کے آنے کے منتظر ہیں کہ >اس بیج میں سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو اور ایک ایک پتہ کالج بن جائے اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو<۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے اس عظیم الشان نصب العین کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قیام پاکستان سے قبل جو تدریجی قدم اٹھائے ان میں تعلیم الاسلام کالج میں بی۔ اے اور بی ایس سی کی کلاسوں کا اضافہ بھی ہے حضور نے اس سلسلہ میں ناصر آباد سندھ سے ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو حسب ذیل مضمون رقم فرمایا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
من انصاری الی اللہ
تعلیم الاسلام کالج قادیان میں توسیع
بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی کلاسیں کھولنے کی تجویز
احباب کو معلوم ہے کہ دو سال سے قادیان میں کالج کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اس سال ایف۔ اے اور ایف ایس سی کے طالب علم امتحان دیں گے اور پاس ہونے والے بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی میں داخل ہوں گے۔ چونکہ ایف اے اور ایف ایس سی تعلیم کا منتہیٰ نہیں ہے اس کے لئے تکمیل تعلیم کے لئے بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی جماعتوں کا ہونا ضروری ہے۔ جن کے کھولنے کے لئے صرف عمارت اور فرنیچر اور سائنس کے سامان کا اندازہ ایک لاکھ ستر ہزار کیا جاتا ہے اور کل خرچ پہلے سال کا دو لاکھ پانچ ہزار بتایا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی طرف سے کمیشن آکر بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی جماعتوں کے کھولنے کی سفارش کرچکا ہے۔ اب صرف ہماری طرف سے دیر ہے۔ اس وقت اگر ہم یہ جماعتیں نہ کھولیں گے تو جماعت کے لڑکے ایک تو اعلیٰ تعلیم کے لئے پھر دوسرے کالجوں میں جانے پر مجبور ہوں گے۔ دوسرے بہت سے لڑکوں کو دوسرے کالج لیں گے ہی نہیں۔ کیونکہ اکثر کالج دوسرے کالجوں کے لڑکوں سے تعصب رکھتے ہیں۔ اس لئے ہمارے ہمارے لڑکوں کی عمریں تباہ ہوں گی۔ تیسرے جو غرض کالج کے اجراء کی تھی کہ لامذہبیت کے اثر کا مقابلہ کیا جائے اور خالص اسلامی ماحول میں پلے ہوئے نوجوانوں کو باہر بھجوایا جائے وہ فوت ہو جائے گی۔ پس ان حالات ہی میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے کالج کی بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کی جماعتیں کھول دی جائیں اور اسی سے دعائے کامیابی کرتے ہوئے میں جماعت احمدیہ کے مخلص افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کام کے لئے دل کھول کر چندہ دیں اور یہ دو لاکھ کی رقم اس سال میں پوری کردیں تاکہ یہ کام بہ تمام و کمال جلد مکمل ہوکر اسلام کی ایک شاندار بنیاد رکھی جائے۔
میں نے اپنے آپ کو ایک نمونہ بنانے کے لئے دس ہزار روپیہ کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے اس سال میں دس ہزار تحریک جدید میں اور پانچ ہزار مدرسہ احمدیہ کے وظائف کے لئے دے چکا ہوں اور ان چندوں کے علاوہ نو دس ہزار کی مزید رقم میں نے ادا کی ہے یا کرنی ہے اور گو یہ میرے ارادے میری موجودہ حالت کے خلاف ہیں لیکن وہ مال جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کام نہیں آتا کس کام کا؟ ہماری زبان میں محاورہ ہے کہ بھاٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان۔ پس وہی روپیہ ہمارا ہے جو دین میں خرچ ہو۔ جو ہم نے کھایا وہ گنوایا۔ اور جو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیا وہ لیا۔ پس احباب جماعت کو چاہئے کہ چندوں کی کثرت سے گھبرائیں نہیں بلکہ خوشی سے کودیں اور اچھلیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے کام کے لئے چن لیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ احباب اس تحریک کو ایک بار نہ سمجھیں گے بلکہ ایک عظیم الشان انعام سمجھتے ہوئے اس کے حصول کے لئے کھلے دلوں کے ساتھ چندہ دیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعتوں میں اب ایسے لوگ شامل ہیں کہ اگر ان میں سے پانچ سو آدمی بھی اس عہد کو سامنے رکھ کر جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا ہے اس کام کے لئے آگے آگئے تو وہ دوسروں کی مدد کے بغیر اس رقم کو پورا کرسکتے ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہر احمدی غریب امیر اس کام میں حصہ لے جو ہزاروں دے سکتے ہیں وہ ہزاروں دیں اور جو سینکڑوں دے سکتے ہیں وہ سینکڑوں دیں اور جو بیسیوں دے سکتے ہیں وہ بیسیوں دیں اور جو روپیہ دو روپیہ دے سکتے ہیں وہ روپیہ دو روپیہ دیں اور جو چند پیسے دے سکتے ہیں وہ چند پیسے ہی دیں تا اس اسلامی عمارت میں آپ میں سے ہر چھوٹے بڑے کا حصہ ہو اور دجالی لشکر کے مقابلہ کے لئے تیار کئے جانے والے لشکر کے سامان میں آپ کا روپیہ بھی لگا ہوا ہو۔ میں بسم اللہ مجرھا و مرسھا کہتے ہوئے اس کاغذی نائو کو تقدیر کے دریا میں پھینکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے اتارے جو اسے کامیابی کی منزل پر پہنچا دیں اور اپنے الہام سے مخلصوں کے دلوں میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرے اور پھر ان کی قربانی کا ادھار نہ رکھے بلکہ بڑھ چڑھ کر اس کا بدلہ دے۔ اللھم امین۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد
از ناصر آباد سندھ ۱۵۔ امان ۱۳۲۵ہش مطابق ۱۵۔ مارچ ۱۹۴۶ء۱۰۳`۱۰۴
قادیان کے بزرگ صحابہ کی فضل عمر ہوسٹل میں تشریف آوری
طلبائے فضل عمر ہوسٹل کی دیرینہ خواہش تھی کہ صحابہ کرام کی زیارت کرنے اور چند لمحے ان کی بابرکت مجلس میں بیٹھنے کی سعادت حاصل کریں۔ یہ مبارک موقع ۱۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو میسر آیا۔ اس روز نماز عصر کے بعد طلبہ فضل عمر ہوسٹل نے مقامی صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دعوت چائے پر مدعو کیا اور بطور یادداشت ان کے دستخط لئے۔ چائے کے بعد طلباء کی طرف سے نہایت جامع ایڈریس پیش کیا گیا۔ پھر سب صحابہ کا مجموعی طور پر فوٹو لیا گیا۔ اکتالیس صحابہ کرام اس گروپ میں موجود تھے۔ حضرت صاحبزادہ مزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی شمولیت فرمائی۔ آخر میں صحابہ کرام نے باری باری اپنا نام` ولدیت` وطن اور سنہ بیعت برائے تعارف بیان فرمایا اور مغرب کے وقت دعا پر یہ تقریب ختم ہوئی۔۱۰۵
اس اہم تقریب کی مزید تفصیل چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے کے الفاظ میں یہ ہے کہ >فضل عمر ہوسٹل میں ایک مجلس صحابہ منعقد ہوئی جس میں سوائے حضرت میر محمد اسماعیلؓ اور حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کے قادیان میں موجود تمام صحابہ نے شمولیت فرمائی۔ سیدنا حضرت مصلح الموعودؓ بھی تشریف نہیں لاسکے تھے۔ بالاتفاق صدارت کے لئے حضرت مولانا سید سرور شاہؓ کا اسم گرامی تجویز ہوا۔ تمام صحابہ نے اپنے مختصر کوائف بیان کئے جو درج رجسٹر ہوئے اور سب نے باری باری اس بات کی شہادت دی کہ ہم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نبی کی حیثیت سے ایمان لائے تھے اور اسی عقیدہ پر اب تک قائم ہیں<۔
بی ایس سی کے لئے علم طبعیات کی لیبارٹری کی بنیاد اور اس کی تعمیر
۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے تعلیم الاسلام کالج کی چھت پر جانب مغرب شعبہ سائنس کی
علم طبعیات کی لیبارٹری کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی۔ اس موقعہ پر حسب ذیل صحابہ کرام بھی موجود تھے۔
۱۔ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب` ۲۔ خان صاحب منشی برکت علی صاحب` ۳۔ آنریبل چوھدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` ۴۔ سیٹھی خلیل الرحمن صاحب` ۵۔ خان بہادر غلام محمد صاحب` ۶۔ مولوی محمد دین صاحب` ۷۔ ملک غلام فرید صاحب` ۸۔ مولوی فضل الٰہی صاحب` ۹۔ حضرت نواب زادہ محمد عبداللہ خاں صاحب` ۱۰۔ حضرت ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے` بی۔ ٹی` ۱۱۔ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری `۱۲۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب` ۱۳۔ ماسٹر ودھاوے خاں صاحب۔۱۰۶]ydbo [tag
ان صحابہ نے بھی حضور کے ارشاد پر ایک ایک اینٹ رکھی۔ بعد ازاں سیدنا المصلح الموعودؓ نے مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی۔۱۰۷
بی۔ ایس۔ سی )فزکس اور کیمسٹری( کی لیبارٹری کے آلات (APPARATUS) کے لئے ولایت کی ایک فرم کو آرڈر دیا گیا۔ فرنشنگ` فٹنگ اور پلیننگ کا کام چوہدری غلام حیدر صاحب کے سپرد تھا اور بلڈنگ کے انجینئر چوہدری عبداللطیف صاحب واقف زندگی اوورسیئر تھے۔۱۰۸ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کے وسط تک یہ لیبارٹریاں تیار ہوچکی تھیں اور آلات (APPARATUS) بھی خاصی تعداد میں ولایت سے پہنچ گئے تھے۔
فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح
فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا باقاعدہ افتتاح ۱۹۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو بوقت پانچ بجے شام ہوا۔ اس تقریب میں سیدنا حضرت المصلح الموعود بھی رونق افروز تھے۔ سب سے پہلے ادارہ کے ڈائریکٹر چوہدری عبدالاحد صاحب نے ڈاکٹر سرشانتی سروپ بھٹناگر ڈائریکٹر کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کو ایڈریس پیش کیا۔ جس کے ابتداء میں اس ادارہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ بعد ازاں بتایا۔
>اس ادارہ کے لئے مستقل عمارت کی تجویز شہر سے کچھ فاصلہ پر ہے چنانچہ گورنمنٹ کی نیلامی سے چالیس ایکٹر زمین حاصل کرلی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ تجربہ گاہوں کو جدید آلات سائنس سے لیس کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کی جارہی ہے اور ایک ٹیکنیکل لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ بعض ایسے انتظامات بھی کئے گئے ہیں جن سے مختلف قسم کے تجربات کم اور زیادہ دبائو کے ماتحت کئے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجارتی تجربات کے لئے مملکت متحدہ کی بعض فرموں کو نباتاتی تیل کے صاف کرنے اور اس سے بناسپتی گھی بنانے نیز پینٹ` وارنش اور چھاپنے والی سیاہی بنانے کے لئے مشینری کا آرڈر دیا جاچکا ہے اور امید ہے کہ عنقریب یہ چیزیں پہنچ جائیں گی۔ ان کے علاوہ مختلف چیزوں کی غذائیت پر تحقیق کرنے اور انہیں تجارتی طریق پر چلانے کے لئے ایک مشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی زیر نگرانی بھی تیار کی جارہی ہے جس کو عنقریب مکمل ہونے پر تجربہ گاہ میں نصب کیا جائے گا۔
ادارہ کا قریباً ۲۵ ایکٹر تجرباتی فارم بھی ہے جہاں مختلف پودوں خصوصاً تیل نکالنے والے بیج اور بعض دوسری جڑی بوٹیوں کی پیداوار کو بڑھانے کے متعلق تجاویز عمل میں لائی جاتی ہیں۔
ارادہ ہے کہ پودوں کے مختلف حصوں میں ان کے بڑھنے کے دوران میں جو خاص کیمیاوی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں انہیں بھی زیر مطالعہ لایا جائے<۔۱۰۹
پروفیسر سرشانتی سروپ۱۱۰ بھٹناگر نے اپنی افتتاحی تقریر میں حضور کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کیا کہ جانب والا ایک طاقتور جماعت کے مذہبی رہنما کی حیثیت سے آپ نے فضل عمر سائنس تحقیقاتی ادارہ کو اپنی جماعت کی مذہبی نشوونما کے لئے قائم فرمایا ہے۔ مذہب اور سائنس کا یہ اتحاد اور یہ باہمی تعلق جو آنجناب کا ادارہ قائم کرے گا بے حد قابل تعریف ہے۔۱۱۱
ڈاکٹر بھٹناگر صاحب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کرچکے تو حضرت سیدنا المصلح الموعود نے نمائندگان جماعت سے )جو مجلس مشاورت پر قادیان میں پہنچ چکے تھے اور اس موقعہ پر موجود تھے( خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لئے اب تک مالی قربانی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا لیکن موجودہ ابتدائی پروگرام کی تکمیل کے بعد دو تین سال میں ہی وہ وقت آنے والا ہے جب جماعت کے سامنے اس کی تحریک کی جائے گی۔۱۱۲
ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا چرچا پریس میں
یہ ادارہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا واحد مثالی ادارہ تھا جسے نہ صرف ملکی پریس ہی نے بلکہ انگلستان تک کے سائنسی اداروں(INSTITUTIONS) نے بھی سراہا۔
چنانچہ شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >انقلاب< نے لکھا۔
>اس وقت علمی و صنعتی دائرے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ سائنٹفک تحقیقات کے ادارے قائم کئے جائیں جن میں نوجوان سائنس کے جدید ترین آلات اور بہترین ٹیکنیکل کتابوں اور فاضل اور تجربہ کار معلموں کی مدد سے اسرار قدرت کا علم حاصل کریں اور صنعت و حرفت کے جدید اور وسیع دوائر میں کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ یہی طریقہ ہے جس سے کام لیکر ملت میں وہ قوت و صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے جو آج دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو حاصل ہوچکی ہے اور جس کے بغیر کمزور قومیں مادی ترقی کے میدان میں ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکتیں۔
قادیان نے اس سلسلہ میں سبقت کی ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے ڈھائی لاکھ روپیہ کے ابتدائی سرمایہ سے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کا افتتاح گزشتہ جمعہ کے دن مشہور سائنسدان ڈاکٹر سرشانستی سروپ بھٹناگر نے بمقام قادیان فرمایا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی لیبارٹریوں میں بہترین اور جدید آلات مہیا کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے۔
بایو کیمیکل ریسرچ کے لئے الیکٹرون` خوردبین` پروٹین اور کولائیڈیجنر کے خواص کی تحقیق کے لئے خاص آلہ تحلیل و تجزیہ کی عملیات کے لئے سیکٹو گراف اور دوسرے آلات منگائے جارہے ہیں۔ جن کی مدد سے صنعتوں کی ترقی و توسیع کا کام اعلیٰ پیمانے پر کیا جائے گا۔ اس وقت چھ ریسرچ اسسٹنٹ کام کررہے ہیں۔ دو فارغ التحصیل نوجوانوں کو کیمیکل انجینئرنگ وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیجا جارہا ہے۔ ہندوستان کی یونیورسٹیوں کے طلبہ سائنس کے لئے بھی انسٹی ٹیوٹ میں ٹیکنیکل ٹریننگ کا بندوبست کیا جارہا ہے۔
یہ ہے وہ حقیقی کام جس کی ضرورت مسلمانوں کو شدت سے محسوس ہورہی ہے لیکن اب تک ان کے کسی تعلیمی ادارے میں اس کام کی طرف کماحقہ توجہ نہیں کی گئی۔ اگر قادیانیوں کو برا بھلا کہنے والوں کو اس >جہاد لسانی< کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کے تعمیری کاموں میں مسابقت کی توفیق بھی ملتی تو کتنا اچھا ہوتا۔
ہمیں یقین ہے کہ مرزا محمود احمد صاحب کی توجہ اور ان کے جانثاروں کی محنت سے یہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہت جلد بے انتہا کام کرنے لگے گا۔
کیا ہم یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ لاہور` پشاور` دہلی` علی گڑھ کے اسلامی ادارے بھی وقت کی اس اہم ضرورت کی طرف توجہ کریں گے<۔۱۱۳
۲۔ ہندوستان کے انگریزی روزنامہ >سٹیٹسمین< نے لکھا۔
>قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح اس کی مقامی اہمت سے بہت زیادہ بیرونجات پر اثر انداز ہے۔ جماعت احمدیہ کا یہ اقدام مذہب و سائنس کو متحد کرنے کی کوشش کا کامیاب مظاہرہ ہے۔ احمدی بے شک تعداد میں تھوڑے ہیں لیکن جماعتی لحاظ سے اس طرح منظم ہیں کہ بہت سے شعبہ ہائے زندگی میں وہ بڑی تیز رفتاری سے شاہراہ ترقی پر گامزن ہورہے ہیں۔ قادیان کے احمدیوں میں صنعت و حرفت کی ترغیب و ترویج کے لئے انہوں نے بہت کوشش کی ہے اور بہت سی مفید باتوں میں وہ دوسروں سے پیش پیش ہیں۔ ان کا یہ تازہ شاہکار اس ترقی کی روح کا آئینہ دار ہے )ترجمہ<(۔۱۱۴
۳۔ دنیائے سائنس کی مشہور ہفتہ وار رسالہ نیچر (NATURE) نے جو لندن سے نکلتا ہے` ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے افتتاح کی تفصیلی خبر دیتے ہوئے لکھا۔
>مشرق و مغرب دونوں جگہ ازمنہ گزشتہ سے ہی علم کی ترقی مذہبی جماعتوں کی مرہون منت رہی ہے۔ مستقبل میں ہندوستان میں سائنس کو جو اہمیت حاصل ہوگی اس کے احساس کی نمایاں علامت اس فیصلہ سے ظاہر ہوتی ہے جو امام جماعت احمدیہ خلیفہ~ن۲~ المسیح )حضرت خلیفہ المسیح المصلح الموعودؓ( نے اپنی جماعت کے چندوں میں سے ایک کثیر رقم سائنس کے تحقیقاتی اداروں کے قیام کے لئے منظور فرما کر کیا ہے۔ یہ جماعت پہلے ہی بہت تعلیمی اداروں کو چلا رہی ہے جن میں تعلیم الاسلام کالج بھی شامل ہے۔ مگر اب )حضرت( امام )جماعت احمدیہ( کا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے جبکہ ان اداروں کو بام عروج تک پہنچایا جائے۔ یہ نیا تحقیقاتی ادارہ فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان اس وقت جنم لے رہا ہے جبکہ ہندوستان میں تحریک احیاء سائنس زوروں پر ہے اور پرائیویٹ اداروں نے بھی اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اپنا حصہ ادا کرنا ہے )ترجمہ<(۱۱۵
ریسرچ کا دوبارہ لاہور میں قیام
‏]txte [tagاہل ملک کو عموماً اور جماعت احمدیہ کو خصوصاً اس ادارہ سے بہت توقعات وابستہ تھیں اور وہ اسے دنیا بھر میں اپنی طرز کا منفرد اور کامیاب سائنسی تحقیقات کا مرکز دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر جیسا کہ آئندہ آنے والے واقعات نے ثابت کیا خدا تعالیٰ کی مشیت کے مطابق عہد مصلح موعود میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی محض داغ بیل ڈالنا مقصود تھا ٹھیک جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد کا رکھا جانا! جہاں ۱۹۰۵ء میں کالج کی بندش حکومت کی داخلہ پالیسی کے نتیجہ میں بالواسطہ ہوئی تھی وہاں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ۱۹۴۷ء میں فسادات ملکی کی وجہ سے بند کرنا پڑی۔ مگر حضرت سیدنا محمود المصلح الموعود نے قادیان میں مغربی فلسفہ کے خلاف اسلام کی تائید و برتری کے لئے جو قدم اتھایا تھا اس سے وقتی طور پر بھی ہٹنا گوارا نہ فرمایا۔ چنانچہ محض آپ کے طفیل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ دوبارہ معرض وجود میں آگئی۔ ریسرچ کا دفتر ۱۰۸ بلاک۔ سی ماڈل ٹائون لاہور میں قائم کیا گیا اور صنعتی کام کے لئے مسلم ٹائون کے بالمقابل نہر کے پاس ایک لیبارٹری الاٹ کرالی گئی جو S۔R۔F۱۱۶4] [rtf کے نام سے مشہور تھی۔
لاہور میں اس کی ابتداء بہت مشکلات کے دوران ہوئی۔ کافی تگ و دو کے بعد کیمیاوی مرکبات اور سائنٹفک سامان بنانے کا کام شروع کیا گیا۔ دو تجربے بڑے پیمانہ پر کئے گئے جو گندھک کی صفائی اور گندھک کا تیزاب بنانے سے تعلق رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے صابن سازی کی صنعت بھی جاری رہی۔
ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا ایک پروگرام بیرون ممالک میں اپنے سکالرز کو اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ دلوانا بھی تھا۔ چنانچہ اس سکیم کے تحت چار افراد۱۱۸ امریکہ و انگلستان بھجوائے گئے اور متعدد طلبہ کو اندرون ملک اعلیٰ تعلیم دلائی گئی اواخر ۱۹۵۰ء میں بیرونی ممالک کے سکالرز واپس آنا شروع ہوئے اور ۱۹۵۱ء کے وسط میں انسٹی ٹیوٹ کو ازسر نو ترتیب دیا جانے لگا۔ ۱۹۵۲ء کی ابتداء تک انسٹی ٹیوٹ پلیننگ کے مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔
مالی مشکلات کے پیش نظر چھوٹے پیمانہ پر ہی کام ممکن ہوسکا۔ کیمیاوی مرکبات بنانے کا کام جاری رہا۔ وارنش بنانے کا کام تجربہ کے رنگ میں شروع کیا گیا۔ چند ایک مکینیکل لائن کی مصنوعات بھی بنائی گئیں جو سائیکل انڈسٹری سے تعلق رکھتی تھیں۔ گندھک صاف کرنے کا ایک کامیاب تجربہ کیا گیا۔ کاسمیٹکس کے چند ایک عمدہ مرکبات بنائے گئے۔ پاکستان کی چند معدنیات کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا۔
علمی کام کے لحاظ سے زیادہ تر ببلیو گریفک لٹریچر پیدا کرنے کی طرف توجہ دی گئی۔ اس کام میں سردار عطاء الرحمن صاحب غنی نے کافی شغف رکھا اور انہوں نے >پاکستان ایسوسی ایشن فار ایڈوانس منٹ آف سائنس< کے ماتحت ایک کتاب اور متعدد رسائل شائع کئے۔ اسی موضوع سے متعلق چند ایک مضامین بھی سائنٹفک رسائل میں شائع کئے گئے۔ ببلیو گرافک کام کو لائبریری آف کانگرس واشنگٹن امریکہ` مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن امریکہ` ڈویژن آف ببلیو گرافی یونیسکو پیرس جیسے مشہور اداروں نے مفید قرار دیا۔ پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ کے پاس ایک عمدہ لائبریری بھی فراہم ہوگئی۔۱۱۹
ماہ احسان ۱۹۵۳ء/ ۱۲۳۲ہش میں یہ ادارہ لاہور سے ربو منتقل ہوگیا اور ۲۵۔ احسان/ جون ۱۹۵۳ء/ ۱۲۳۲ہش کو حضرت المصلح الموعودؓ نے ایک بصیرت افروز تقریر اور دعا کے ساتھ اس کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا۔۱۲۰ مگر افسوس حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے آخری دور میں یہ تحقیقاتی مرکز بوجوہ بند کر دینا پڑا۔
ایف۔ اے اور ایف۔ ایس۔ سی کلاسوں کا پہلا امتحان اور پہلا نتیجہ
۲۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو تعلیم الاسلام کالج میں انٹرمیڈیٹ کا پہلا امتحان شروع ہوا۔ سردار امریک سنگھ صاحب خالصہ
کالج امرتسر سپرنٹنڈنٹ اور اخوند عبدالقادر صاحب ایم اے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔۱۲۱
اس موقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت پرنسپل صاحب کے نام ایک خط میں تاکید فرمائی کہ >طلباء کو تاکید فرما دیں کہ وہ ہر پرچے کو دعا کے ساتھ شروع کیا کریں اور پورا وقت لے کر اٹھا کریں۔ اور آخر میں نظر ثانی بھی ضرور کیا کریں۔ کئی لڑکے پرچے کو آسان سمجھ کر یا گھبرا کر جلدی اٹھ آتے ہیں اور نظرثانی بھی نہیں کرتے اور اس طرح بھاری نقصان اٹھاتے ہیں<۔۱۲۲ آپ کی یہ ہدایت طلبہ کو ذہن نشین کرا دی گئی۔
کالج کی طرف سے ۱۹۴۶ء کے ایف۔ اے اور ایف۔ ایس۔ سی کے امتحانوں میں ۵۹ طلبہ شریک ہوئے جن میں سے کمپارٹمنٹ والے طالب علموں کو شامل کرتے ہوئے ۳۱ کامیاب قرار پائے اور ایک طالب علم نذیر احمد ۴۹۳ نمبر لے کر پنجاب بھر کے مسلمان امیدواروں میں سوم رہے۔ یونیورسٹی کے اعلان کے مطابق ان امتحانوں کا نتیجہ گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے سخت رہا تھا اور اسی لئے کالج کے اس نتیجہ نے اگرچہ جماعت کے بلند علمی حلقہ میں آئندہ بہت بہتر نتائج کی امید پیدا کر دی تھی۱۲۳ مگر یہ نتیجہ حضرت سیدنا المصلح الموعود کی توقع سے کم نکلا جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بذریعہ رئویا قبل از وقت دی جاچکی تھی۔۱۲۴4] f[rt
طلبہ کے نام موسمی تعطیلات کے دوران نہایت اہم مکتوب
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کو ہمیشہ احمدی طلباء کی روحانی اور اخلاقی تربیت کا فکر دامنگیر رہتا تھا اور اس کے لئے آپ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانتے دیتے تھے۔ ماہ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کا واقعہ ہے کہ کالج موسمی تعطیلات میں بند تھا اور طلبہ اپنے اپنے گھروں میں چھٹیاں گزار رہے تھے۔ اس دوران میں آپ نے اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل مراسلہ تحریر فرمایا۔۱۲۵4] [rtf
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
دفتر تعلیم الاسلام کالج قادیان
عزیزم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ کا تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ آپ کے لئے ہزارہا برکات کا موجب ہے اور ہم پر ہزارہا قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔ اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اب جبکہ آپ اپنے گھروں میں چھٹیاں گزار رہے ہیں بعض ضروری باتوں کے متعلق آپ کو یاد دہانی کرادوں۔ امید ہے کہ آپ عزیز ان کی طرف خاص توجہ دے کر ثواب دارین حاصل کریں گے۔ اور >احیاء اسلام< کے لئے ایک مفید وجود بن کر اپنے رب کی رضا آپ کو حاصل ہوگی۔
)۱( نماز باجماعت کے پابند رہیں )۲( تبلیغ )حتی المقدور( ضرور کرتے رہیں )۳( کالج کے لئے ایک سو روپیہ چندہ اکٹھا کرکے ضرور لائیں۔ )۴( کالج میں داخل ہونے کے لئے پراپیگنڈا کرتے رہیں )۵( آپ کے ذمہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے لئے بھی پانچ سے دس روپیہ کا چندہ لگایا گیا تھا۔ یہ بالکل ہی معمولی کام ہے۔ ذرہ سی توجہ سے ہوسکتا ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو حقیقی احمدی بنائے<۔
‏]1dahe [tag
مکتوب کا چربہ
عکس کیلئے
کالج میں فضائی تربیت
پروفیسر چودھری محمد علی صاحب ایم۔ اے تحریر کرتے ہیں۔
>قادیان میں C۔T۔A۔I یعنی فضائی تربیت کی کلاسیں شروع ہوئیں۔ اس کے لئے مکرم سید فضل احمد صاحب اور عاجز اور بعد میں چوہدری فضل داد صاحب ٹریننگ کے لئے سکندر آباد گئے اور واپس آکر یہ کلاسیں شروع کیں۔ ہم پنجاب یونیورسٹی کے ونگ کا حصہ تھے۔ سردار جگبیر سنگھ جو ہمارے استاد پروفیسر شوچرن سنگھ کے لڑکے تھے ہمارے ونگ کے کمانڈر تھے<۔۱۲۶
قادیان میں کالج کی تعلیمی سرگرمیوں کا آخری دن
تعلیم الاسلام کالج قادیان کی سہ سالہ روداد پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ۳۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کے اس یادگار دن تک آپہنچے ہیں جو قادیان میں کالج کی تعلیمی سرگرمیوں کا آخری دن تھا۔ اس روز حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے >آرڈر بک سٹاف< میں یہ تحریر فرمایا کہ کالج یکم جولائی ۱۹۴۷ء سے گرمی کی تعطیلات کے لئے بند ہوکر ۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۷ء کو دوبارہ کھلے گا۔ یہ سرکلر کالج کے دور قادیان کا آخری فرمان ثابت ہوا کیونکہ موسمی تعطیلات کے دوران ہی ۱۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو ملکی تقسیم عمل میں آئی اور ساتھ ہی ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا۔۱۲۷ ۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۷ء ۱۳۲۶ہش کو سٹاف اور طلبہ کی موجودگی میں تعلیم الاسلام کالج اور فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی شاندار عمارتوں پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا اور بیش قیمت اور جدید ترین آلات سائنس اور ہر قسم کے علوم و فنون پر مشتمل لائبریری چھین لی گئی۔۱۲۸
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پاکستان میں ہجرت
موسمی تعطیلات میں کالج کے اکثر اساتذہ و طلبہ قادیان سے باہر چلے گئے۔ مگر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( یکم وفاء سے لے کر ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک قادیان میں تشریف فرما رہے اور قیام امن و صلح کے لئے شب و روز مصروف عمل اور سرتاپا جہاد بنے رہے۔ اسی دوران میں سیدنا المصلح الموعود کی طرف سے پاکستان آجانے کا ارشاد ملا جس پر آپ ۱۶۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو۱۲۹ قادیان کی مقدس اور پیاری بستی سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے اور ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج قادیان کے دور اول کی تاریخ کا آخری ورق الٹ گیا۔
‏vat,10.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
پہلا باب )فصل چہارم(
سیدنا المصلح الموعود کے خصوصی فیصلہ پر پاکستان میں کالج کی بنیاد
لاہور میں اس کی زندگی کا ہفت سالہ دور
ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ابھی قادیان۱۳۰ میں تھے کہ خدا کے اولوالعزم عالی ہمت اور ذہین و فہیم خلیفہ موعود نے ہجرت پاکستان کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ تعلیم الاسلام کالج کو جلد سے جلد کھولنے کا انتظام کیا جائے اور چوہدری عبدالاحد صاحب ڈائریکٹر کو ریسرچ اور کالج کے لئے موزوں عمارت تلاش کرنے پر مقرر فرمایا۔ نیز قادیان لکھا کہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے فی الفور لاہور بھجوا دیئے جائیں۔ موصوف یہاں پہنچے تو انہیں قائم مقام پر نسپل تجویز کر دیا گیا۔ ۲۰۔ اخاء/ اکتوبر کو آپ نے کالج کے فوری اخراجات کے لئے ڈیڑھ سو روپیہ بطور پیشگی دیئے جانے کی درخواست کی جو دے دیئے گئے۔ ۲۳۔ اخاء/ اکتوبر کو چودھری صاحب اور پروفیسر فضل الرحمن صاحب فیضی ایم۔ اے کو )جو فسادات کے دوران گجرات میں تھے( ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر حصول عمارت کی جدوجہد کرنے کا ارشاد ملا۔ چودھری صاحب اور فیضی صاحب نے پہلے دن ہی اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں اور لاہور میں خالصہ بورڈنگ ہائوس کی عمارت دیکھنے کے بعد مفصل رپورٹ اگرچہ اگلے روز ۲۴۔ ماہ اخاء/ اکتوبر کو صدر کالج کمیٹی حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو بھجوا دی۔ مگر ساتھ ہی حضرت امیر المومنین کی خدمت میں تحریری طور پر بادب عرض کیا کہ۔
>حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی رائے یہ ہے کہ سردست کالج نہ کھولا جائے۔ خاکسار کی گزارش یہ ہے کہ لاہور میں کالج کھولنے کی ضرورت نہیں۔ فی الحال اگر یہ فیصلہ ہو کہ طلباء صرف ایک کالج میں داخل ہوں تو ایک حد تک ان کی نگرانی ہوسکتی ہے۔ ورنہ خواہ اپنا کالج ہی کیوں نہ ہو لاہور کی مسموم ہوا میں طلباء کو شکنجے میں رکھنا کسی صورت میں قابل عمل نہیں ہوگا<۔۱۳۱
سیدنا المصلح الموعودؓ کا تاریخی فیصلہ
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے کا بیان ہے کہ۔
>میں نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کی کہ پرنسپل صاحب نے قادیان سے ایک مشورہ بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر حضور مناسب خیال فرمائیں تو موجودہ حالات میں کالج کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالا جائے۔ اس پر حضور خاموش رہے۔ پھر حضرت مولوی عبدالرحمیم صاحب درد نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے۔ حضور پھر بھی خاموش رہے پھر کسی اور نے مشورہ دیا۔ حتیٰ کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہؓ نے اتنے جوش اور بلند آواز سے کہ سب کے دل دہل گئے` فرمایا۔
>آپ کو پیسوں کی کیوں فکر پڑی ہوئی ہے۔ کالج چلے گا اور کبھی بند نہیں ہوگا< اور پھر اس عاجز سے فرمایا کہ۔
>آسمان کے نیچے پاکستان کی سرزمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کرو<۱۳۲
اس فیصلہ کے علاوہ حضور نے ۲۴۔ اخاء/ اکتوبر کو ارشاد فرمایا کہ میاں عطاء الرحمن صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج کو فوری طور پر قادیان سے یہاں بھجوانے کا انتظام کیا جائے نیز انہیں یہ ہدایات بھی بھیجی جائیں کہ وہ کالج کے سامان کی مکمل فہرست بھی تیار کرکے اپنے ساتھ لے آئیں۔ اس فہرست میں وہ سائنس کے سامان کو خاص طور پر مدنظر رکھیں۔ چوہدری محمد علی صاحب نے حضور کا یہ فوری حکم حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو قادیان بھجوا دیا اور میاں عطاء الرحمن صاحب بھی لاہور پہنچ گئے۔
۲۸۔ اخاء/ اکتوبر کو حضور نے مزید ہدایت فرمائی کہ صوفی بشارت الرحمن صاحب اور محمد صفدر صاحب کو بلانے کے لئے قادیان لکھا جائے۔ اس حکم کی بھی تعمیل کی گئی۔
حضور کا منشاء مبارک چونکہ فی الفور کالج کے قیام و تاسسیس کا تھا۔ اس لئے لاہور کے علاوہ ایمنآباد` گوجرانوالہ` کوٹ شیرا میں موزوں جگہ کی تلاش میں دوڑ دھوپ کی گئی۔ ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو ملک فیض الرحمن صاحب فیضی راولپنڈی بھجوائے گئے اور خود چوہدری محمد علی صاحب لائل پور اور سانگلہ ہل پہنچے۔ لائل پور میں آریہ سکول کی عمارت نہایت اعلیٰ تھی مگر ڈپٹی کمشنر صاحب لائلپور نے کہا کہ اسے فی الحال حکومت پاکستان کے سرکلر کے تحت ریزرو کرلیا گیا ہے۔ اس لئے کوئی کامیابی نہ ہوسکی۔
۳۰۔ اخاء/ اکتوبر کو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ >سانگلہ ہل میں جاکر فوراً خالصہ ہائی سکول پر قبضہ لیا جائے اور قبضہ لیتے وقت ڈائریکٹر صاحب سے یہ طے کرلیا جائے کہ ہم فوری طور پر کالج کا اجراء وہاں نہیں کرسکتے جنوری یا اپریل میں کرسکیں گے کیونکہ ابھی تک ہمارے پاس سائنس کا سامان نہیں۔ لہذا اس اثناء میں کسی اور کو سکول کا قبضہ نہ دیا جائے<۱۳۳ حضور کے فرمان کی تعمیل میں عارضی طور پر یہ سکول جماعتی تحویل میں لے لیا گیا۔ مگر سکول کی عمارت سخت ناقص تھی اور صحن بھی بہت چھوٹا تھا۔ لہذا اسے ترک کردینا پڑا۔
ڈیرہ غازی خاں اور ملتان کے بعض دوستوں سے رابطہ قائم کرکے معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا وہاں نیشنل کالج ہیں اور سائنس کا سامان بھی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر اس بارہ میں اس تگ و دو کا اصل محور لاہور ہی رہا جہاں ماہ اخاء/ اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ڈی۔ اے۔ وی کالج کے متعلق درخواست دے دی گئی اور ساتھ ہی لکھ دیا گیا کہ جب تک یہ کالج پناہ گزینوں سے خالی نہیں ہوتا اتنی دیر ہم دوسری جگہ کالج جاری کرلیں گے۔ چوہدری محمد علی صاحب کے بیان کے مطابق سکھ نیشنل کالج۱۳۴ پر بھی قبضہ لیا گیا۔ لیکن یہ قبضہ بھی بوجوہ ختم ہوگیا۔ سنت نگر میں خالصہ ہوسٹل اور جنج گھر بطور ہوسٹل حاصل کئے گئے مگر چھوڑ دیئے گئے۔
کالج کے لئے عارضی عمارت کی تلاش ابھی ابتدائی مرحلہ میں تھی کہ کالج کا دفتر جودھامل بلڈنگ کے ساتھ مغربی جانب سیمنٹ والی عمارت میں کھول دیا گیا۱۳۵ جہاں ایک بورڈ لکھوا کر رکھ دیا گیا اور مکرم عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی بورڈ کے پاس فرش پر دیگر کارکنان دفاتر کی طرح بیٹھ گئے اور ۱۰۔ فتح/ دسمبر سے کالج میں داخلہ کا آغاز کردیا گیا۔ جو لیٹ فیس کے بغیر دس روز تک جاری رہا۔ داخلہ کالج کی رپورٹ باقاعدگی سے روزانہ حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں بھجوائی جاتی تھی۔
اگرچہ پاکستان آکر تعلیم جاری رکھنے والوں کی اکثریت کالج کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔ پھر بھی ان کی تعداد ساٹھ سے بڑھ نہ سکی۔۱۳۶ تاہم اتنے طلبہ کا داخلہ لینا بھی ایک گونہ حوصلہ افزا بات تھی جس میں حضرت مصلح موعود کی خاص توجہ کا عمل دخل تھا۔ چنانچہ ان ہی ایام میں اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل تحریک شائع فرمائی۔
>تمام احباب جماعت کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ وہ موجودہ شورش سے اس طرح نہ گھبرائیں کہ لڑکے تعلیم سے محروم ہو جائیں چاہیئے کہ سب جو تعلیم دلانے کا ارادہ رکھتے تھے اپنے بچوں کو ایف اے اور بی اے میں داخل کروائیں یا ایف ایس سی یا بی ایس سی میں داخل کروائیں۔ اور چاہئے کہ ہر احمدی تعلیم الاسلام کالج میں اپنے لڑکے کو داخل کروائے اور اس بارہ میں لڑکے کی مخالفت کی پروا نہ کرے تاکہ دینیات کی تعلیم ساتھ کے ساتھ ملتی جائے۔
خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ~ن۲~ المسیح<۱۳۷
تعلیم الاسلام کالج جاری کرنے سے پہلے سائنس کلاسز کا مسئلہ حل کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو ارشاد فرمایا کہ۔
>ایف۔ سی کالج والوں سے فوراً مل کر پریکٹیکل میں اشتراک عمل کا فیصلہ کیا جائے اور پھر وائس چانسلر سے عارضی طور پر لاہور میں کوٹھیاں کرایہ پر لے کر کالج کھولنے کی اجازت لی جائے<۔۱۳۸
ایف۔ سی کالج )فارمین کرسچن کالج( میں لیبارٹریز موجود تھیں۔ مگر ہندو سٹاف بھارت جاچکا تھا۔ اس بناء پر یہ معاہدہ طے پایا کہ تعلیم الاسلام کالج کے پروفیسر ایف۔ سی کالج میں پڑھائیں گے اور دونو کالجوں کے طلبہ ان کے لیکچر اور سائنس لیبارٹریوں سے استفادہ کریں گے۔
سائنس کی عملی تعلیم کا بندوبست ہوچکا تو آرٹس کلاسز کے اجراء اور طلبہ کالج کی رہائش کے لئے ایف۔ سی کالج کے عقب میں ڈاکٹر کھیم سنگھ گریوال کی کوٹھی حاصل کرلی گئی جہاں ۶۔ نبوت/۱۳۹ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش سے باقاعدہ کلاسیں شروع کردی گئیں۔]01 [p۱۴۰ ۱۱۔ ماہ نبوت/ نومبر کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب صدر کالج کمیٹی نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کو اطلاع دی کہ تعلیم الاسلام کالج کا سٹاف اور طلبہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور سائنس کی کلاسز کے لئے عارضی طور پر فارمین کرسچن کالج لاہور سے معاہدہ کرلیا گیا ہے لہذا کالج کھولنے کی منظوری دی جائے۔ وائس چانسلر نے اس کے اجراء کی منظوری دے دی۔
چند دن بعد )۱۶۔ ماہ نبوت کو( حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی قادیان سے لاہور تشریف لے آئے اور کالج کا انتظام دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
کالج کے لئے موزون عمارت تلاش کرنے کی جو مہم جاری تھی اس کا نتیجہ ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو صرف یہ برآمد ہوا کہ محکمہ بحالیات نے ۳۷ کینال پارک لاہور کی ایک نہایت بوسیدہ عمارت )جو ڈیری فارم یا اصطبل کے طور پر استعمال ہوتی رہی تھی( عطا کی اور اسی روز اس کا قبضہ لے لیا گیا۔۱۴۱ جگہ نہایت تنگ اور مختصر تھی۔ صفوں پر کلاسیں ہوتی تھیں۔ طلبہ کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی۔ ان لٹے پٹے طلبہ نے علم کے حصول کی خاطر ہر قسم کی سختیاں سہیں اور مشکلات خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ وہ دن کے وقت جن صفوں پر بیٹھ کر اساتذہ کے لیکچر سنتے رات کو انہی صفوں پر سورہتے۔ نمازیں بھی اسی جگہ ادا کی جاتیں اور کھانا بھی یہیں کھایا جاتا۔
ان دنوں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اتفاقاً اس کالج کو دیکھنے تشریف لے گئے اور بے حد متاثر ہوئے اور اپنے قلم سے مندرجہ ذیل تاثرات >الفضل< میں شائع کرائے جو اس ماحول کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
>آج مجھے اتفاقاً اپنے تعلیم الاسلام کالج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالیشان عمارت میں اپنے بھاری ساز و سامان کے ساتھ قائم تھا وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور حقیر سی عمارت میں چل رہا ہے۔ اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سا رنگ رکھتا ہے اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں مشتمل ہے عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جارہا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے اور باقی کمروں میں بورڈر رہائش رکھتے ہیں جن میں سے بعض چارپائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کررہے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ میں نے سب بورڈروں کو ہشاش و بشاش پایا جو اپنے موجودہ طریق زندگی پر ہر طرح تسلی یافتہ اور قانع تھے اور کالج میں پڑھتے ہوئے لاہور جیسے شہر میں جھونپڑوں کی زندگی میں خوش نظر آتے تھے۔ یہ اس اچھی روح کا ورثہ ہے۔ جو خدا کے فضل سے احمدیت نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہے اور میں اس روح پر کالج کے طلباء اور کالج کے سٹاف کو قابل مبارک باد سمجھتا ہوں۔
مگر جس چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثر پیدا کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی جیسا کہ میں اوپر بتاچکا ہوں موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جاسکا ہے اس لئے باقی کلاسیں برآمدوں میں یا کھلے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھتی ہیں لیکن خواہ وہ کمرہ میں بیٹھتی ہیں یا کہ برآمدہ میں اور خواہ کھلے میدان میں` ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹائیاں بچھا کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب دینی اور دینوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجدیں ہوا کرتی تھیں جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے اردگرد گھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں کو درس دیا کرتے تھے اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
میں نے کالج کے بعض بچوں اور پروفیسروں کو بتایا کہ انہوں نے پرانے زمانہ کی یاد کو تازہ کیا ہے اور جس خوشی کے ساتھ انہوں نے حالات کی اس تبدیلی کو قبول کیا ہے وہ ان کے لئے اور ہم سب کے لئے باعث فخر ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ موجودہ حالات سے انہیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ حقیقی علم ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ظاہری ساز و سامان سے بے نیاز ہے اور جھونپڑوں کے اندر فرشوں پر بیٹھ کر بھی انسان اسی طرح علوم کے خزانوں کا مالک بن سکتا ہے جس طرح شاندار ساز و سامان استعمال کرنے والے علم حاصل کرتے ہیں بلکہ یہ صورت روح کی درستی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور انسانی قلب کو علم کے مرکزی نقطہ پر زیادہ پختگی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے کیونکہ جب ماحول کی زیب و زینت نہیں ہوگی تو لازماً انسان کی آنکھیں اور انسان کے دل و دماغ علم کی طرف زیادہ متوجہ رہیں گے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ضروری سامان جو موجودہ علم کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ اسے حاصل نہ کیا جائے۔ جو چیز حقیقتاً ضروری ہے وہ علم کا حصہ ہے اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے اور موجودہ صورت میں بھی ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ مگر ظاہری ٹیپ ٹاپ یا زیب و زینت کا سامان یا آرام و آسائش کے اسباب بہرحال زائد چیزیں ہیں جو علم کے رستہ میں ممد ہونے کی بجائے روک بننے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔ ہمارے آقا )فداہ نفسی~(صل۱~ نے فرمایا ہے۔ الفقر فخری یعنی فقر میرے لئے فخر کا موجب ہے۔ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ مجھے آسائش کے سامانوں کی ضرورت نہیں اور میری روح ان چیزوں کے تصور سے بے نیاز ہے جو محض جسم کے آرام کا پہلو رکھتی ہیں اور روح انسانی کی ترقی میں ممد نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح آنحضرت~صل۱~ فرماتے ہیں۔ اطلبوا العلم ولو بالصین یعنی علم کی تلاش کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین کے ملک تک جانا پڑے چونکہ اس زمانہ میں چین کا ملک ایک دور افتادہ ملک تھا اور اس میں رستہ کی صعوبتوں کے علاوہ دینوی آسائش کے بھی کوئی سامان موجود نہیں تھے اس لئے آنحضرت~صل۱~ نے یہ حکیمانہ الفاظ فرما کر یہ اشارہ کیا کہ حقیقی علم دینوی آسائشوں اور سازوسامان کے ماحول سے آزاد ہے۔
بہرحال میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے یا کم از کم ان میں سے اکثر نے ماحول کی موجودہ تبدیلی میں اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اس روح پر قائم رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ علم کے حصول کے علاوہ سادہ زندگی کی برکات سے بھی پوری طرح فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوں گے<۔۱۴۲4] ftr[
لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کا سٹاف
لاہور میں تعلیم الاسلام کالج کی زندگی کے ابتدائی دو ماہ )ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش( نہایت درجہ بے سروسامانی اور آشفتہ حالی کے تھے جن میں کالج کے گزشتہ نظام تعلیم کے احیاء کا فریضہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی قیادت میں اخوند محمد عبدالقادر صاحب ایم۔ اے` صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے` عباس بن عبدالقادر صاحب` چوہدری محمدعلی صاحب ایم۔ اے` میاں عطاء الرحمن صاحب ایم۔ ایس۔ سی` چوہدری محمد صفدر صاحب چوہان` شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے` بی۔ ٹی` ملک فیض الرحمن صاحب فیضی` حبیب اللہ خاں صاحب ایم۔ ایس۔ سی` سید سلطان محمود صاحب شاہد ایم۔ ایس۔ سی` نے انجام دیا۔
ان اساتذہ کرام کے علاوہ جو قادیان ہی سے کالج کی تعلیمی خدمات بجالارہے تھے لاہور میں حسب ذیل اصحاب بھی کالج کے سٹاف میں شامل کئے گئے۔
محمد اسحاق صاحب الم

)تبلیغ/ فروری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

جیلانی کامران صاحب

‏col3] g[ta )تبلیغ/ فروری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

اقبال حسین صاحب

)ہجرت/ مئی ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

ثناء اللہ صاحب بھٹی

)ہجرت/ مئی ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

سید محفوظ علی صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)تبوک/ ستمبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

چوہدری غلام علی صاحب

)نبوت/ نومبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

صوفی عبدالعزیز صاحب
‏]2loc [tag
)نبوت/ نومبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش(

شوکت علی صاحب

)صلح/ جنوری ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش(

راجہ محمد مقبول الٰہی صاحب ایم۔ اے

)احسان/ جون ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش(

مولانا ارجمند خاں صاحب فاضل

)تبوک/ ستمبر ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش(

راجہ محمد نصراللہ احسان الٰہی صاحب

)صلح/ جنوری ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش(
میاں منور حسین صاحب

)امان/ مارچ ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش(

مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی فاضل

)ہجرت/ مئی ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش(

نصیر احمد خاں صاحب

)ہجرت/ مئی ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش(

ملک محبوب الٰہی صاحب

)احسان/ جون ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش(

پروفیسر کرامت الٰہی صاحب

)احسان/ جون ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش(

احمد دین صاحب میر

)تبوک/ ستمبر ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش(

محمود احمد صاحب

)اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش(

حسن ظہیر صاحب

)نبوت/ نومبر ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش(

محمد یعقوب صاحب ایم۔ اے` ایل ایل بی

)امان/ مارچ ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش(

فرمان اللہ خاں صاحب

)فتح/ دسمبر ¶۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش(

نور محمد صاحب ناز صدیقی

)فتح/ دسمبر ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش(

ڈی۔ اے۔ وی کالج کے کھنڈرات پر قبضہ
تعلیم الاسلام کالج کینال پارک کی بوسیدہ عمارت میں وسط ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش تک چلتا رہا۔ جس کے بعد ۱۶۔ شہادت/۱۴۳ اپریل کو ڈی۔ اے۔ وی کالج لاہور کی ٹوٹی پھوٹی اور برباد شدہ عمارت الاٹ ہوئی اور ۱۹۔ شہادت/ اپریل کو اس پر قبضہ ملا اور پھر یہاں کالج منتقل کر دیا گیا۔ صوبہ کے اس نہایت مشہور اور عالیشان کالج کا سارا سامان غیر مسلم پناہ گزینوں کے ہاتھوں بالکل غارت ہوچکا تھا یا ہندوستان پہنچ چکا تھا حتیٰ کہ کسی میز` کرسی یا ڈیسک کا نام و نشان تک باقی نہ رہا تھا۔ لیبارٹریوں میں ٹوٹی شیشیاں بکھری ہوئی تھیں اور کمرے ملبہ کے ڈھیروں سے اٹے پڑے تھے۔ اس خستہ سامانی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ محض کمروں اور لیبارٹریوں کی صفائی پر قریباً ستائیس سو روپیہ خرچ کرنا پڑا۔۱۴۴
علاوہ ازیں لاکھوں روپے کے صرف سے کالج کو پھر سے جدید تجربہ گاہوں سے آراستہ کیا گیا۔ فرنیچر تیار کیا گیا اور لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا۔۱۴۵ کھنڈرات پر کالج ازسرنو کس طرح آباد ہوا۔ اس کا نقشہ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے انہی دنوں ذیل کے الفاظ میں کھینچا۔
>۴۸۔ ۱۹۴۷ء کو ہم بے سروسامانی کا سال کہہ سکتے ہیں اور جن نوجوانوں نے اپنے کالج کے اس نازک ترین دور کو ہمت اور بشاشت سے گزارا وہ یقیناً قابل قدر ہیں۔ خاصی تگ و دو و ناظم تعلیمات عامہ پنجاب کے ہمدردانہ رویہ کے نتیجہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج کی آباد کاری کے لئے ڈی۔ اے وی کالج کے کھنڈرات پر ہمیں قبضہ ملا۔ ان عمارتوں کو غیر مسلم پناہ گزیں کلی طور پر تباہ و برباد کرچکے تھے۔ دروازوں کے تختے اور چوکٹھے` روشندان` الماریاں وغیرہ ہر قسم کا فرنیچر غائب تھا۔ عمل گاہوں میں ٹوٹی ہوئی شیشیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کے سوا کچھ موجود نہ تھا۔ پانی اور گیس کے نل ٹوٹے ہوئے پڑے تھے۔ تیس چالیس ہزار کتابوں پر مشتمل مشہور کتب خانے کی اب ایک جلد بھی باقی نہ تھی۔ یہ وہ کھنڈر تھے جن میں مئی ۱۹۴۸ء میں ہم آباد ہوئے اور ہماری فوری توجہ ان ضروری اور ناگزیر مرمتوں کی طرف منعطف ہوئی۔ چنانچہ شروع میں گیس پلانٹ کو درست کروایا گیا اور شعبہ کیمیا کے لئے ضروری سامان خرید کر کیمیا کے عملی تجربے اپنے کالج میں ہی شروع کروا دیئے گئے۔ طبعیات کے لئے ہمیں ایم۔ اے۔ او کالج سے انتظام کرنا پڑا۔ جن کے برادرانہ سلوک کے ہم ہمیشہ ممنون رہیں گے۔ چونکہ ابھی اصل ہوسٹل پر قبضہ نہ ملا تھا۔ اس لئے کالج کے ہی ایک حصہ کو مرمت کروا کے عارضی طور پر یہ ہوسٹل بنا دیا گیا۔ جس میں اندازاً پچاس پچپن طلبہ کی گنجائش تھی جو وقتی طور پر کافی سمجھی گئی گو عملاً طلبہ اس سے بہت زیادہ آگئے جس کے نتیجہ میں ایک ایک کمرہ میں آٹھ آٹھ طلبہ کو رہنا پڑا<۔۱۴۶
شاندار نتائج اور حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی اور اہم ہدایات
ظاہر ہے کہ ان حالات میں طلبہ کو نہ ذہنی سکون میسر آسکتا تھا نہ پوری سہولتیں حاصل تھیں خصوصاً سائنس کے طلبہ کو جنہیں طبعیات کے
عملی تجربات کے لئے خاصہ فاصلہ طے کرکے ایم۔ اے۔ او کالج جانا پڑتا تھا مگر پھر بھی دوسرے سال ہی کالج اپنے نتائج کے اعتبار سے صوبہ کے ممتاز ترین کالجوں کی صف اول میں شمار ہونے لگا۔ چنانچہ جہاں بی۔ اے میں یونیورسٹی نتائج کی اوسط ۸ء ۳۹ تھی وہاں تعلیم الاسلام کالج کی اوسط ۳ء ۸۳ رہی۔ اسی طرح دوسرے امتحانوں میں بھی اس اسلامی درسگاہ کی اوسط یونیورسٹی کی اوسط سے بہتر رہی۔۱۴۷ جس پر حضرت مصلح موعود نے حددرجہ خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>گزشتہ سال فسادات کی وجہ سے ہمارے کالج کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے مگر اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کا نتیجہ غیر معمولی طور پر نہایت شاندار رہا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ گزشتہ سال کے نتائج کی خرابی ان حالات کی وجہ سے تھی جو ۱۹۴۷ء میں پیدا ہوئے۔ اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج کی ایک جماعت کا نتیجہ نوے فیصدی کے قریب رہا ہے جو ایک حیرت انگیز امر ہے حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط ۳۹ فیصدی ہے۔ یہی حال اور جماعتوں کے نتائج کا ہے۔ کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جس کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے کم ہو بلکہ ہر جماعت کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے بڑھ کر ہے۔ اگر کسی کلاس کے متعلق یونیورسٹی کی اوسط ۳۵ فیصدی ہے تو ہمارے کالج ۱/۳۷۲ فیصدی ہے یا اگر یونیورسٹی کی اوسط ۳۵ فیصدی ہے تو ہمارے کالج کی ۳۹ فیصدی ہے اور ایک کلاس کے متعلق تو میں نے بتایا ہے کہ ہمارے کالج کا نتیجہ اس میں نوے فیصدی کے قریب ہے حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط اس سے بہت کم ہے۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہات ہوا کرتے تھے کہ ہمارے کالج میں لڑکوں کی تعلیم کا زیادہ بہتر انتظام نہیں۔ اب ان نتائج کے بعد ان کے شبہات دور ہو جانے چاہئیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کے نتائج سوائے ایک کے باقی تمام کالجوں سے شاندار نکلے ہیں اور اب ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے فوراً تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرنے کی کوشش کریں۔ اس بارہ میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی سے کام نہ لیں۔ اس کالج میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھجوانا اس قدر ضروری اور اہم چیز ہے کہ میں تو سمجھتا ہوں جو شخص اپنے بچوں کو باوجود مواقع میسر آنے کے اس کالج میں داخل نہیں کرتا وہ اپنے بچوں کی دشمنی کرتا اور سلسلہ پر اپنے کامل ایمان کا ثبوت مہیا نہیں کرتا<۔۱۴۸
حضرت مصلح موعود نے احمدی جماعتوں کو تعلیم الاسلام کالج میں بچوں کو داخل کرنے کی تحریک فرمانے کے بعد کالج کے عملہ کو متعدد زریں ہدایات دیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ انہیں اپنے نتائج بہتر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوسروں سے زیادہ وقت کالج کی ترقی اور لڑکوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے صرف کرنے کی عادت ڈالیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ دینی احکام کا پابند اور اخلاق فاضلہ کا متصف بنائیں۔ لڑکوں کی خوراک کی طرف زیادہ توجہ رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ تھوڑے روپیہ سے بہتر سے بہتر کھانا ان کو مہیا کیا جائے۔ اسی طرح دینیات کی تعلیم کی طرف انہیں خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔ لڑکوں کے اندر صحیح دینی جذبہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرکز سے وابستہ ہوں اور مرکز سے وابستگی پیدا کرنے کے جہاں اور کئی طریق ہیں وہاں ایک یہ بھی طریق ہے کہ خلیفہ وقت سے کالج میں کم سے کم دوچار لیکچر سالانہ کروائے جائیں تاکہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس پیدا ہو اور قربانی کی روح ان کے اندر ترقی کرے۔ اس کے علاو جماعت کے دوسرے علماء اور مبلغین سے بھی وقتاً فوقتاً لیکچر کروانے چاہئیں۔ ہمارے کالج کے افسروں کے اندر یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ انہوں نے اپنے طالب علموں کی زندگیوں کو سنوارنا اور انہیں قوم کے لئے اعلیٰ درجہ کا وجود بنانا ہے یہاں تک کہ وہ جس محکمہ میں بھی جائیں اس میں چوٹی کے آدمی ثابت ہوں اور کوئی دوسرا شخص ان کا مقابلہ نہ کرسکے۔ جس وقت کوئی دوسرا شخص یہ سنے کہ یہ احمدی انجینئر یا احمدی ڈاکٹر ہے یا احمدی وکیل ہے یا احمدی بیرسٹر ہے یا احمدی تاجر ہے تو وہ کسی انٹرویو کی ضرورت ہی نہ سمجھے بلکہ محض ایک احمدی کا نام سنتے ہی یقین کرلے کہ اس شخص کا اپنے فن میں کوئی اور مقابلہ نہیں کرسکتا۔
اس ضمن میں حضور نے عملہ کالج کو آخری نصیحت یہ فرمائی کہ انہیں لڑکوں کی دماغی تربیت کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے۔ ان کا صرف اچھے نمبروں پر پاس ہوجانا کافی نہیں بلکہ ان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی دماغی تربیت اس رنگ کی ہو کہ جب وہ نماز پڑھیں تو عقلمند انسان کی طرح نماز پڑھیں اور جب کتاب پڑھیں تو عقلمند انسان کی طرح کتاب پڑھیں۔۱۴۹
تعلیم الاسلام کالج کے ہر شعبہ میں روز افزوں ترقی
تعلیم الاسلام کالج نے انتہائی بے سروسامانی اور نامساعد حالات کے باوجود صرف امتحانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کیں بلکہ اپنے ہر شعبہ میں روز افزوں ترقی کا ثبوت دیا۔ چنانچہ ۵۰۔ ۱۹۴۹ء/ ۲۹۔ ۱۳۲۸ہش میں طلبہ کی تعداد ساٹھ سے بڑھ کر ۲۶۷ تک پہنچ گئی۔ کتب خانہ کی ازسرنو تشکیل کی گئی اور کئی ہزار کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ جمع ہوگیا۔ امریکہ کے نومسلم بھائیوں نے ۲۲۸ مجلدات بھجوائیں۔ اس کے علاوہ انگلستان سے بھی بعض عطایا وصول ہوئے۔ طالب علموں کے علمی ارتقاء کے لئے مجلس عمومی )کالج یونین( مجلس عربی` مجلس اقتصادیات` سائنس سوسائٹی` فوٹو گرافک اور ریڈیو سوسائٹی سرگرم عمل رہیں۔ اس عرصہ میں یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور بھی قائم کی گئی۔ کالج کے دستہ نے تبلیغ/ فروری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش میں سالانہ کیمپ کے موقعہ پر ضبط اور اطاعت کا بہترین نمونہ دکھا کر اعلیٰ افسروں سے خراج تحسین وصول کیا اور دستہ کے سارجنٹ بشارت احمد کی ہزایکسیلنسی کمانڈر انچیف پاکستان نے بھی بہت تعریف کی اور اس فن میں مہارت پر انہیں مبارک باد دی۔
۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش میں سالانہ کیمپ کے موقعہ پر یو۔ او۔ ٹی۔ سی کے ہر افسر نے کالج کے اس دستہ کے جوانوں کے ضبط` اطاعت` جوش عمل اور حسن کارکردگی پر اظہار مسرت کیا اور یہ دستہ عسکری فنون میں تمام دستوں میں اول رہا اور یو۔ او۔ ٹی۔ سی کے کرنل نے گورنر پنجاب سردار عبدالرب صاحب نشتر کے سامنے اس امر کا اظہار بھی کیا۔ تعلیم الاسلام کالج کا یہ دستہ ہر لحاظ سے معیاری اور بہترین شمار کیا جاتا تھا۔ چنانچہ مختلف گارڈز آف آنر میں نسبتی اعتبار سے بھی اور محض تعداد کے اعتبار سے بھی تعلیم الاسلام کالج کی تعداد سب سے زیادہ رہی۔ مثلاً ان دنوں شہنشاہ ایران کی آمد پر جو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اس میں تقریباً اسی فیصدی نوجوان اسی کالج کے طالب علم تھے۔ اسی طرح فٹ بال` والی بال` بیڈ منٹن اور تیراکی میں کالج کی ٹیمیں خاص اعزاز کی حامل رہیں۔ کشتی رانی میں کالج کی ٹیم پنجاب روئنگ ایسوسی ایشن کے سالانہ مقابلہ میں اول آئی۔
جہاں تک طلبہ کی اخلاقی و دینی تربیت کا تعلق ہے اس کیلئے بھی کالج کی طرف سے موثر انتظام کیا گیا خصوصاً اسلامی شعائر اور فرائض کی پابندی پر بہت زور دیا گیا جس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی۔۱۵۰
لاہور کے علمی اداروں میں تعلیم الاسلام کالج کا اثر و نفوذ
چوہدری محمد علی صاحب کا بیان ہے کہ۔
>جب کالج لاہور آیا تو آہستہ آہستہ بہت سے غیراز جماعت طلباء جو صاف ستھری اخلاقی اور تعلیمی فضا میں پڑھنا چاہتے تھے تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ کالج کی شہرت اور نیک نامی آہستہ آہستہ دلوں میں گھر کررہی تھی اور کالجوں کی بزم میں تعلیم الاسلام کالج کا نام عزت اور احترام سے لیا جانے لگا تھا۔ لاہور کے کالجوں کا عام طالب علم جانتا تھا کہ پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کس بلند مرتبے اور کیریکٹر کے انسان ہیں۔ دوسرے کالجوں کے پرنسپلوں کی موجودگی میں شوخی کرنے والے حضور کے سامنے ادب سے گفتگو کیا کرتے تھے۔ حضور بھی خود تمام طلباء کو اپنا عزیز طالب علم جانتے تھے اور ان کے جائز حقوق کی حفاظت فرمایا کرتے تھے اور یہ اکثر فرمایا کرتے کہ ہمارا طالب علم طبعاً شریف ہوتا ہے۔ عموماً خرابی اس کے HANDLING میں ہوتی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔
ایک دفعہ لاہور کے طلباء مجمع بناکر تعلیم الاسلام کالج کے سامنے اکٹھے ہوگئے۔ یہ کالجوں کو بند کرواتے پھر رہے تھے۔ غالباً کسی غیر ملکی ظلم پر احتجاج ہورہا تھا۔ لڑکوں کو دیکھ کر حضور خود بنفس نفیس لڑکوں میں تشریف لے گئے اور چند منٹ اپنے دلاویز تبسم کے ساتھ ان سے گفتگو فرمائی۔ لڑکے قائل ہوئے اور پرنسپل ٹی۔ آئی کالج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے۔
ایک بار کشتی رانی کے فائنل پر جبکہ اسلامیہ کالج کی ٹیم آگے تھی اور ہم نمبر دو پر تھے اور دریا کے کنارے لائوڈ سپیکر نصب تھا اور نعرے لگ رہے تھے۔ اصل مقابلہ اسلامیہ کالج اور ٹی۔ آئی کالج کے درمیان تھا۔ ہمارا بھی سارا کالج پہنچا ہوا تھا۔ کیونکہ سوائے دریا کے ہمارے پاس کوئی کھیل کا میدان نہیں تھا۔ کشتیاں دریا میں جاچکی تھیں۔ آخر میں جانے والی کشتیاں اسلامیہ کالج اور ہمارے کالج کی تھیں۔ اسلامیہ کالج کی کشتی ابھی ایک چپو کے زور پر لہر میں داخل ہی ہوئی تھی کہ کسی بظاہر غیر طالب علم نے جو ایسے مقابلے میں حمایت کے لئے آجاتے ہیں تعلیم الاسلام کالج کے خلاف ایک نہایت نازیبا نعرہ لگایا جس کی آواز لاوڈ سپیکر پر بھی سنائی دے گئی۔ اچانک اسلامیہ کالج کی کشتی وہیں سے واپس مڑی۔ ہم سمجھے کہ شاید فالتو چپو بھول گئے ہیں لیکن ہوا یہ کہ کشتی کنارے لگتے ہی اسلامیہ کالج کی ٹیم کا کپتان عقاب کی طرح مجمع پر جھپٹا اور جس نے نعرہ لگایا تھا اس کو پکڑلیا اور اعلان کیا کہ اگر تعلیم الاسلام کالج کے خلاف اس قسم کا بے ہودہ نعرہ اب لگایا گیا تو ہم دوڑ نہیں دوڑیں گے۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ایسے موقعوں پر جب جذبات مسابقت برانگیختہ ہوکر عام قیود اور آداب کی پابندیاں ڈھیلی کرچکتے ہیں اس قسم کا مظاہرہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں ان طلباء کی بھی خوبی تھی یعنی دونو کالجوں کے طلباء کی کہ ان کے تعلقات انتہائی طور پر خوشگوار تھے<۔۱۵۱
رسالہ >المنار< کا اجراء
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کی سرپرستی میں اکنامکس سوسائٹی کے زیر اہتمام >ینگ اکانومسٹ< کے نام سے ایک کتابی سلسلہ جاری کیا گیا۔ ازاں بعد ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش سے کالج کا علمی مجلہ >المنار< کے نام سے شروع کیا گیا۔ جو اب تک باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے اور ادبی اور علمی حلقوں میں خاص وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اردو کے بعض پاکستانی ادیبوں اور ناقدوں نے >المنار< کی قلمی سرگرمیوں کو سراہا ہے۔ اور اسے اچھے ادبی ذوق کا آئینہ دار قرار دیا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے >المنار< کے پہلے شمارہ کے لئے >نور کا نشان۔ روشنی اور بلندی کا شعار< کے عنوان سے ایک نہایت قیمتی مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں علاوہ دوسری اہم نصائح کے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ >ہمارے عزیزوں کو چاہئے کہ اپنے اس رسالہ کو صحیح معنوں میں المنار بنائیں یعنی وہ علم کے میدان میں روشنی اور بلندی کا نشان ہو۔ ہر دوسرے کالج کی نظریں اس رسالہ کی طرف اٹھیں اور وہ اس کے مضامین میں ہدایت اور تسلی کا سامان پائیں۔ لکھنے والے محض خانہ پری سے کام نہ لیں بلکہ محنت اٹھا کر اور تحقیق کرکے دنیا کے سامنے سچا علم پیش کریں اور موجودہ علوم باطلہ سے ہرگز مرعوب نہ ہوں<۔۱۵۲
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اس موقعہ پر طلباء کے نام جو پیغام دیا وہ ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا۔ آپ نے تحریر فرمایا۔
>زندگی مسلسل جستجو کا نام ہے۔ کلاس روم میں آپ پہلوں کی جستجو کے نتائج سنتے ہیں۔ انہیں سمجھنے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان نتائج پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کا آپ کو موقعہ میسر نہیں آتا۔ کلاس روم تخلیق کا میدان بھی نہیں۔ مگر تنقید و تحقیق کے بغیر آپ کی زندگی بے معنی ہے 'پدرم سلطان بود` آپ کو زیب نہیں دیتا۔ دنیا کو جس حالت پر آپ نے پایا اس سے بہتر حالت پر آپ نے اسے چھوڑنا ہے۔ کالج میگزین تنقید و تحقیق کا ایک وسیع میدان آپ کے سامنے کھولتا ہے۔ اب آپ کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ دیدہ بینا سے دنیا کو دیکھیں` عقل سلیم سے اسے پرکھیں۔ ذہن رسا سے اس کی غیر معروف وادیوں میں داخل ہوں۔ اس کی چھپی ہوئی کانوں میں جائیں اور آنے والی نسلوں کے لئے در بے بہا تلاش کریں۔ اسلام کو آج روشن دماغ بہادروں کی ضرورت ہے۔ اگر آپ بہادر تو ہیں مگر آپ کے ذہنوں میں جلا نہیں تو آپ اسلام کے کسی کام کے نہیں۔ آزادانہ تنقید و تحقیق آپ کو بہادر بھی بنائے گی اور آپ کے اذھان کو منور بھی کرے گی اور یہی کالج میگزین کے اجراء کا مقصد ہے۔ خدا ہمیں اس میں کامیاب کرے<۔۱۵۳
ان بزرگوں نے اردو کے علاوہ انگریزی حصہ کے لئے بھی پیغامات دیئے۔ چنانچہ حضرت قمر الانبیاء نے طلبہ کو اسلامی تعلیمات کے پہنچانے کے لئے عربی اور اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی عبور حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔۱۵۴ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے پیغام کا متن یہ تھا۔
‏ your of hpmuitr ultimate the in Faith and God in trust on><With march mission
یعنی خدا تعالیٰ پر یقین محکم اور ایمان کامل کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول اور آخری فتح کے لئے بڑھے چلو!۱۵۵
تقسیم اسناد کے پہلے جلسہ میں حضرت امیر المومنین کا بصیرت افروز خطاب
۲۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۳۹ہش کو تعلیم الاسلام کالج کی تاریخ میں پہلی بار تقسیم اسناد و تقسیم انعامات کی انتہائی سادہ اور موثر تقریب
منعقد ہوئی جو خالص اسلامی ماحول میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس جلسہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ سیدنا المصلح الموعود نے اس میں بنفس نفیس شرکت کی اور نہایت ایمان افروز صدارتی خطاب۱۵۶ ارشاد فرمایا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں طلبہ کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف نہایت بلیغ انداز میں توجہ دلائی اور اس ضمن میں بالخصوص ان فرائض پر روشنی ڈالی جو ایک نئی مملکت کے آزاد شہری ہونے کی حیثیت سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>میں ان نوجوانوں کو جو تعلیم سے فارغ ہوکر اپنی زندگی کے دوسرے مشاغل کی طرف مائل ہونے والے ہیں` کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق سکون کے حاصل کرنے کی بالکل کوشش نہ کرو بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کے لئے تیار ہو جائو اور قرآنی منشاء کے مطابق اپنا قدم ہروقت آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے۔
یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفس کی ہی ذمہ داری نہیں۔ تم پر تمہارے اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خرچ کیا ہے خواہ بالواسطہ یا بلاواسطہ` اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کیا ہے اور پھر تمہارے مذہب کی بھی ذمہ داری ہے۔ تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو۔ یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے وہ منزل مقصود کو طے کرنے کے لئے پہلا قدم ہے۔ یونیورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو۔ ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے اور ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے۔ محض کسی یونیورسٹی کے فرض کرلینے سے کہ تم کو علم کا تخمینی وزن حاصل ہوگیا ہے تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہو جاتا جس کے اظہار کی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش ہوتی ہے۔ اگر ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم اپنی آئندہ زندگی میں یہ ثابت کریں کہ جو تخمینی وزن ان کی تعلیم کا یونیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پاس اس سے بھی زیادہ وزن کا علم موجود ہے تو دنیا میں اس یونیورسٹی کی عزت اور قدر قائم ہو جائے گی لیکن اگر ڈگریاں حاصل کرنے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کردیں کہ تعلیم کا جو تخمینی وزن ان کے دماغوں میں فرض کیا گیا تھا ان میں اس سے بہت کم درجہ کی تعلیم پائی جاتی ہے تو یقیناً لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یونیورسٹی نے علم کی پیمائش کرنے میں غلطی سے کام لیا ہے۔
پس تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ یونیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بناتیں جتنا کہ طالب علم یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہوتی ہے۔ پس تمہیں اپنے پیمانہ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اپنے کالج کے زمانہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیج تصور کرنا چاہئے اور تمام ذرائع سے کام لے کر اس بیج کو زیادہ سے زیادہ بارآور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تاکہ اس کوشش کے نتیجہ میں ان ڈگریوں کی عزت بڑھے جو آج تم حاصل کررہے ہو اور اس یونیورسٹی کی عزت بڑھے جو تمہیں یہ ڈگریاں دے رہی ہے اور تمہاری قوم تم ¶پر فخر کرنے کے قابل ہو اور تمہارا ملک تم پر اعلیٰ سے اعلیٰ امیدیں رکھنے کے قابل ہو اور ان امیدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھے۔
تم ایک نئے ملک کے شہری ہو۔ دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھوٹی سی مملکت کے شہری ہو۔ تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے۔ ایک غریب ملک ہے۔ دیر تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہوچکے ہو۔ سو تمہیں اپنے اخلاق اور کردار بدلنے ہوں گے۔ تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہوگی۔ تمہیں اپنے ملک کو دنیا سے روشناس کرانا ہوگا۔ ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے۔ تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو۔ تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں۔ انہیں ایک بنی ہوئی چیز ملتی ہے۔ انہیں آباء و اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں۔ مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے۔ تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قائم کرنی ہیں۔ ایسی روایتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روایتوں کی رہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں۔
پس دوسرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو۔ وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں۔ تم نے اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہوگی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی۔ اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے کہ۔ ~}~
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا مے رود دیوار کج
یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہو جائے گی۔ پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہئے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کجی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کجی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی جائے گی۔
بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے۔ اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کرکے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردو گے تو تمہارا نام اس عزت اور اس محبت سے لیا جائے گا جس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی۔
پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم` استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو۔ قدم مارتے چلے جائو اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جائو کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے اور منزل دوم بھی ہوتی ہے` منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی۔ ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے سفر کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اپنے رخت سفر کو کندھے سے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ ان کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہوتا ہے جبکہ وہ کامیاب اور کامران ہوکر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے۔
پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نوجوانو! اسلام کے بہادر سپاہیو! ملک کی امید کے مرکزو! قوم کے سپوتو! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا` تمہارا دین` تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں<۔۱۵۷
حضرت امیر المومنینؓ کے خطبہ صدارت کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے اس ادارہ کی دو سالہ روداد پڑھ کر سنائی۱۵۸ جس میں کالج کی ترقی` طلبہ کی تعلیم و تربیت اور ان کے علمی و مجلسی مشاغل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ بعدہ سیدنا حضرت امیر المومنین نے انعامات تقسیم فرمائے اور دعا کے بعد جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
اس تقریب میں شریک ہونے والے معزز مہمانوں میں مشتاق احمد صاحب میئر لاہور کارپوریشن` سید جمیل حسین صاحب ڈپٹی کمشنر آباد کاری` ایس۔ ایس جعفری ڈپٹی کمشنر لاہور` مسٹر ظفر الاحسن چیئرمین امپرہوومنٹ ٹرسٹ` مسٹر ترمذی ڈپٹی ڈائریکٹر تعلیمات عامہ پنجاب نیز صوبے کے ماہرین تعلیم اور مدیران جرائد بالخصوص قابل ذکر تھے۔۱۵۹
تقسیم اسناد و انعامات کی اس پہلی تقریب کے بعد ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش سے لے کر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک حسب ذیل شخصیتوں نے مہمان خصوصی کے فرائض انجام دیئے۔
‏vat,10.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
تاریخ

مہمان خصوصی

۴۔ امان/ مارچ ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش ڈاکٹر قاضی محمد بشیر صاحب برادر اکبر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے کنٹب۔۱۶۰
۳۰۔ امان/ مارچ ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش آنریبل جسٹس ڈاکٹر ایس۔ اے رحمان وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی۔۱۶۱
۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش عزت ماب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقابہ سابق وزیر خارجہ پاکستان۔۱۶۲
۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش میاں افضل حسین صاحب سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور۔۱۶۳
۱۰۔ امان/ مارچ ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش سردار عبدالحمید صاحب دستی سابق وزیر تعلیم پنجاب۔۱۶۴
۱۴۔ احسان/ جون ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ہش قاضی محمد اسلم صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور و صدر شعبہ فلسفیات و نفسیات
کراچی یونیورسٹی۔۱۶۵
۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش جناب ایم۔ آر کیانی چیف جسٹس عدالت عالیہ مغربی پاکستان۔۱۶۶
۴۔ احسان/ جون ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش پروفیسر سراج الدین صاحب صوبائی سیکرٹری محکمہ تعلیم۔۱۶۷
۳۔ احسان/ جون ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش پروفیسر حمید احمد خاں صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور۔۱۶۸
۹۔ احسان/ جون ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش مولانا صلاح الدین صاحب مدیر >ادبی دنیا< لاہور۔
۱۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہان پوری شاگرد خاص منشی امیر احمد امیر مینائی کا
رقم فرمودہ خطبہ مولانا جلال الدین صاحب شمس سابق ¶مبلغ بلاد عربیہ و غربیہ نے پڑھا۔۱۶۹
کالج کے لئے ایک نیا خطرہ
یہ درسگاہ مہاجر تھی۔ اسے اپنی آباد کاری میں سینکڑوں دقتیں پیش آئیں۔ ڈی اے وی کالج کی جو عمارت بصد دقت ملی وہ انتہائی خستہ حالت میں تھی۔ زرکثیر خرچ کرکے اور کافی تگ و دو کے بعد اس کے بڑے حصے کو قابل استعمال بنایا جاسکا۔ اس عمارت کے بعض حصوں پر ابھی قبضہ بھی نہ ملا تھا کہ بعض حلقوں میں یہ سوال اٹھا دیا گیا کہ یہ عمارت اس تعلیمی ادارہ سے چھین لی جائے اور اس کی بجائے کوئی اور مختصر سی عمارت دے دی جائے۔۱۷۰
خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور کالج کی مزید کامیابیاں
ان غیر مطمئن اور حددرجہ مخدوش حالات نے کالج کے ماحول پر خطرناک اثر ڈالا اور بہت سی تجاویز شرمندہ تکمیل نہ ہوسکیں مگر ان مشکلات کے باوجود یہ درسگاہ خدا تعالیٰ کے فضل سے شاہراہ ترقی پر گامزن رہی۔
کالج قریباً سات سال تک لاہور میں جاری رہا اس عرصہ میں خصوصاً ڈی۔ اے۔ وی کالج کی عمارت کے قبضہ کو ختم کرنے کی منظم تحریک کے بعد کالج نے کیا کیا کامیابیاں حاصل کیں` اس کی تفصیلات اس دور کی مطبوعہ سالانہ رپورٹوں سے باسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اپنے مخصوص دینی و علمی ماحول اور اخلاقی روایات کے برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر امتحان میں کالج کے نتائج نہایت خوشکن اور یونیورسٹی کی اوسط سے بہت بڑھ کر رہے۔ چنانچہ ۵۲۔۱۹۵۱ء/ ۳۱۔ ۱۳۳۰ہش میں اس کے ایک طالب علم مرزا بشارت احمد صاحب بی۔ ایس۔ سی میں مجموعی طور پر پنجاب بھر میں سوم رہے۔ ۵۴۔ ۱۹۵۳ء/ ۳۳۔ ۱۳۳۲ہش میں اس کے ایک اور طالب علم حمید اللہ صاحب نے بی۔ ایس۔ سی میں صوبہ بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ان سالوں میں طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ اور وہ قریباً پانسو تک پہنچ گئی۔ پنجاب یونیورسٹی بمپنگ ریسز میں کالج کی ٹیم دوسرے نمبر پر شمار ہوتی تھی۔ ۵۳۔ ۱۹۵۲ء/ ۳۲۔ ۱۳۳۱ہش میں اس نے انتہائی سخت مقابلہ کے باوجود پنجاب یونیورسٹی کی چیمپئن شپ جیت لی اور ۶۲۔ ۱۹۶۱ء/ ۴۱۔ ۱۳۴۰ہش تک یہ اعزاز اسے حاصل رہا۔۱۷۱ ۵۱۔ ۱۹۵۰ء/ ۳۰۔ ۱۳۲۹ہش میں یو۔ او۔ ٹی۔ سی کی سالانہ فائرنگ کے موقعہ پر جس میں رائفل` سٹین گن` برین گن اور دو انچ مارٹر کے فائر شامل تھے` کالج کے طالب علم عبدالحلیم لیس کار پورل اول اور حمید اللہ بھیروی دوم رہے۔ ۵۲۔۱۹۵۱ء/ ۳۱۔ ۱۳۳۰ہش میں کالج کے ایک طالب علم حمید اللہ صاحب پنجاب یونیورسٹی کی کھیلوں میں اول آئے۔
ماہ تبلیغ/ فروری ۵۱۔۱۹۵۰ء/ ۳۰۔ ۱۳۲۹ہش میں پہلی بار کالج کے زیر انتظام کل پاکستان بین الکلیاتی تقریری مقابلوں کا انتظام کیا گیا۔ اس سال کالج یونین کے مقررین نے لاہور سے باہر کے کالجوں میں ان کے آل پاکستان انٹر کالجیٹ مباحثوں میں حصہ لینا شروع کیا اور ملک پر اس درسگاہ کے جگر گوشوں کی قوت خطابت کے جوہر کھلنا شروع ہوئے۔
اس دور میں جن بیرونی مقررین نے طلبہ کالج کو خطاب کیا ان میں نامور مبلغین اسلام` شہرہ آفاق سیاسی مفکر` چوٹی کے ادیب اور ماہرین اقتصاد بھی شامل تھے۔ اس ضمن میں بعض ممتاز لیکچراروں یا مقالہ نگاروں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری

۲۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ

۳۔ مولوی ابوبکر ایوب صاحب آف انڈونیشیا

۴۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وزیر خارجہ پاکستان
۵۔ مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ احمد نگر

۶۔ مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن

۷۔ عمری عبیدی صاحب مشرقی افریقہ

۸۔ خاں عبدالرحمن خاں صاحب ڈائریکٹر محکمہ زراعت پنجاب

۹۔ ڈاکٹر عبدالبصیر صاحب پال شعبہ اقتصادیات پنجاب

۱۰۔ فضل الٰہی صاحب ایم۔ اے رئیس شعبہ اقتصادیات ایم۔ اے او کالج لاہور

۱۱۔ ڈاکٹر محمد باقر صاحب صدر شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی )پرنسپل اورینٹل کالج لاہور(

۱۲۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ایم۔ اے` پی۔ ایچ۔ ڈی سینئر لیکچرار )حال صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی(

۱۳۔ صوفی غلام مصطفی صاحب تبسم

۱۴۔ قاضی ظہیر الدین صاحب صدر شعبہ عربی اسلامیہ کالج لاہور

۱۵۔ پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ایم۔ اے` پی۔ ایچ۔ ڈی صدر شعبہ عربی گورنمنٹ کالج لاہور

۱۶۔ ڈاکٹر بی۔ اے قریشی صدر شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی لاہور

۱۷۔ ڈاکٹر ایس ایم اختر صدر شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی

۱۸۔ ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ڈین آف یونیورسٹی انسٹرکشنز و ڈائریکٹر یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری پنجاب یونیورسٹی

۱۹۔ ڈاکٹر نیاز احمد صاحب ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی پنجاب یونیورسٹی

۲۰۔ مسٹر اعظم اورک زئی سینئر لیکچرار شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی

۲۱۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی ایم۔ اے` پی۔ ایچ۔ ڈی سینئر لیکچرار )حال صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی(

۲۲۔ مولانا صلاح الدین احمد صاحب ایڈیٹر >ادبی دنیا<

۲۳۔ اے۔ ایم زتشی گلزار ایم۔ اے` ایل ایل بی` ایچ یو پروفیسر دہلی یونیورسٹی

۲۴۔ پروفیسر تھامسن صدر شعبہ اقتصادیات ایف سی کالج لاہور

۲۵۔ ڈاکٹر فرانسس ایم ڈاسن پروفیسر آئیوا (IOWA) یونیورسٹی امریکہ



‏0] f[stایام کرب و بلا میں صبر و استقامت کا قابل تعریف مظاہرہ
۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش کے شروع میں پاکستان کی سیاسی فضا نہایت درجہ مکدر ہوگئی اور )سابق( صوبہ پنجاب خصوصاً اس کا صدر مقام لاہور خوفناک فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ان ایام کرب و بلا میں کالج کے اساتذہ اور طلبہ دونوں نے صبر و استقامت کا قابل تعریف نمونہ دکھایا۔ حتیٰ کہ اس کے ایک ہونہار طالب علم جمال احمد نے بھاٹی گیٹ میں جام شہادت نوش کرکے اپنے خون سے اسلام کے مقدس درخت کی آبیاری کی اور تعلیم الاسلام کالج کی مقدس روایات کو چار چاند لگا دیئے۔۱۷۲
لاہور میں حالات پر قابو پانے کے لئے مارشل لاء کا نفاذ ناگزیر ہوگیا تو پاکستان کی بہادر فوج نے میجر جنرل اعظم خاں صاحب کی قیادت میں شہر کا نظم و نسق سنبھال لیا اور چند گھنٹوں میں امن و امان قائم کردیا۔ حالات تیزی سے معمول کی طرف آرہے تھے کہ تعلیم الاسلام کالج کو یکایک ایک دوسرے سانحہ ہوشربا سے دوچار ہونا پڑا یعنی اس کے قابل صد احترام پرنسپل یکم ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش کو گرفتار کر لئے گئے۱۷۳ اور یوسفی شان کے ساتھ قید و بند کی مصیبتیں جھیلنے اور اذیتیں برداشت کرنے کے بعد بالاخر ۲۸۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش کو رہا ہوئے۔۱۷۴
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے کا بیان ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج جیل سے رہا ہوکر رتن باغ میں تشریف لائے۔ فضل عمر ہوسٹل کے احمدی اور غیر احمدی طلباء یہ خوشکن اطلاع پاتے ہی فوراً والہانہ رنگ میں بے تاب ہوکر بھاگتے ہوئے رتن باغ پہنچے اور آپ کی زیارت کرکے باغ باغ ہوگئے اور بعض کی آنکھوں میں فرط مسرت سے آنسو آگئے۔ اس نادر موقعہ کی ایک یادگار تصویر اس کتاب کی زینت ہے۔
پہلا باب )فصل پنجم(
ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کی مستقل عمارت کی تعمیر و افتتاح اور اس کی گرانقدر مساعی عہد مصلح موعود کے اختتام تک
)۲۶۔ احسان/ جون ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش ۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش(
حضرت مصلح موعودؓ کا منشاء مبارک تھا کہ تعلیم الاسلام کالج کو دوسرے جماعتی اداروں کی طرح جلد سے جلد جماعت کے نئے مرکز ربوہ میں منتقل کیا جائے تا اس کے نونہال خالص دینی فضا میں تربیت پاسکیں اگرچہ اس وقت کی اس نقل مکانی کی افادیت کالج کے بعض پروفیسر صاحبان کی سمجھ میں نہ آسکی اور ان کا اصرار تھا کہ کالج کو لاہور ہی میں رہنے دیا جائے مگر حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ارشاد فرمایا کہ قادیان سے ہجرت کے بعد تمام کاروبار اور ادارہ جات دوبارہ جاری کرنے کا حق سب سے پہلے ربوہ کا ہے اس کے بعد اگر احباب جماعت یا دیگر اصحاب کوئی کالج یا سکول چلانا چاہیں تو اس شہر کی جماعت کو خود کوشش کرنی چاہئے۔4] fts[۱۷۵
ربوہ میں کالج اور ہوسٹل کے لئے زمین مخصوص ہوچکی تھی اور اس پر کالج بنانے کا منصوبہ عمل میں آچکا تھا۔ نقشے اور ڈیزائن بنانے کا کام قاضی محمد رفیق صاحب )لیکچرار نیشنل کالج آف آرٹس( لاہور کو دیا گیا۔۱۷۶ حضرت مصلح موعودؓ کے سامنے جب کالج کا نقشہ رکھا گیا تو حضور نے فرمایا کہ >ہمارے پاس اتنی بڑی عمارت کے لئے رقم نہیں۔ جو رقم ہے اس کے مطابق عمارت کا کچھ حصہ بنالیا جائے اور کالج شروع کیا جائے<۔۱۷۷
‏]bus [tagسنگ بنیاد
کالج کی تعمیر کی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحب کے سپرد ہوئی۔۱۷۸ شاہ صاحب نے حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج )حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ( سے ملاقات کی۔ آپ ان دنوں جیسا کہ پچھلی فصل میں ذکر آچکا ہے جیل خانہ میں تھے۔ آپ نے ان کو کالج شروع کرنے کی ہدایات فرمائیں۱۷۹ اور کام شروع ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد حضرت صاحبزادہ صاحب بھی باعزت بری ہوکر ربو تشریف لائے جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۶+ احسان/ جون ۱۹۵۳ء/ ۱۲۳۲ہش کی شام کو اپنے دست مبارک سے کالج اور اس کے ہوسٹل کا سنگ بنیاد رکھا اور کالج کی بنیاد میں دارالمسیح قادیان کی اینٹ نصب فرمائی اور دعا کی۔ بعد ازاں دس بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے جن میں سے ایک حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اور ایک حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے ذبح کیا۔۱۸۰
تعمیر عمارت کے لئے جدوجہد سے قبل
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا بیان ہے کہ جب کالج بنا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے فرمایا کہ ایک لاکھ روپیہ کالج کی عمارت اور ساٹھ ہزار روپیہ ہوسٹل کی عمارت کے لئے میں تمہیں دیتا ہوں۔ آج کل اگر ایک لاکھ مربع فٹ کی عمارت بنے تو ساٹھ ستر لاکھ روپے چاہئیں۔ لیکن آپ نے فرمایا اتنی رقم سے )جماعت غریب ہے( جتنا بناسکتے ہو بنالو۔ خیر کام شروع ہوا۔ )تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاتا( اور وہ جلد تیار ہوگیا اور چھ روپے فی مربع فٹ خرچ آیا۔ کسی کے سامنے جب یہ بات کرتے تھے تو وہ کہتا تم تو یونہی چالاکی کررہے ہو یہ تو ہوہی نہیں سکتا۔ یہاں بھی انجینئر بیٹھے ہیں وہ کہیں گے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ >ہو نہیں سکتا< فلسفہ ہے اور >ہو گیا< حقیقت ہے جو ہمارے سامنے ہے یہ ہے اللہ تعالیٰ کی برکت اور یہی ہماری اصل دولت ہے۔ یہ دلوں کا اخلاص ہے جو ہمارے خزانہ میں مال جمع کر دیتا ہے اور دیانتداری سے اس کا خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کی برکتوں کو کھینچتا اور ہمارے روپے میں برکت ڈالتا ہے<۔۱۸۱
تعمیر عمارت کے لئے سرفروشانہ جدوجہد
تعلیم الاسلام کالج کی وسیع و عریض عمارت کی بنیاد جس قطعہ زمین پر رکھی گئی وہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اسی کے حضور دعائیں کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش میں عمارت کی تعمیر کا کام اپنی نگرانی میں شروع کرا دیا۔ برکتوں والے خدا نے آپ کی مخلصانہ کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ سرمایہ کی کمی کے باوجود اس کے فضل و کرم سے پانچ چھ ماہ کے قلیل عرصہ میں ہوسٹل کی عمارت اور کالج کے تین بلاک تیار کروا دیئے۔۱۸۲
حضرت صاحبزادہ صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے اس عظیم الشان کام کی جلد از جلد تکمیل کے لئے لاہور سے ربوہ آکر کس طرح گویا ڈیرے ڈال دیئے اور گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں گردوغبار اور بگولوں کے تھپیڑوں سے بے پروا ہوکر چھوٹے بڑے ہر کام کی نگرانی بنفس نفیس فرمائی؟ اس کی ایمان افروز تفصیل کالج کے سربرآوردہ اصحاب کے قلم سے بیان کرنا مناسب ہوگا۔
۱۔
پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے لکھتے ہیں۔
>۱۹۵۴ء کے شروع میں جب سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی بیمار ہوئے تو حضور نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں لے آئو۔ ربوہ میں کالج کے لئے کوئی عمارت نہ تھی۔ وقت بہت کم تھا۔ گرمی کے ایام تھے۔ ربوہ کی تمازت مشہور ہے۔ مگر آپ نے ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہی۔ خود یہاں آگئے اور بظاہر کالج کی تعمیر کے سامان پیدا نہ ہوسکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل کرکے کام شروع کردیا۔ دھوپ میں کھڑے ہوکر آپ خود نگرانی کرتے اور اس طرح عمارت کے ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کی تعمیر اپنی نگرانی میں کرواتے چلے گئے مشکلات سے کبھی آپ گھبرائے نہیں اور آپ کو یہ یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی خواہش کی تکمیل کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کردے گا۔ ایک دن خاکسار لاہور سے یہاں آیا۔ خاکسار نے دیکھا کہ دوپہر کے وقت کالج کی زیر تعمیر عمارت ہی میں مقیم رہے۔ کھانا کھانے کے لئے شہر میں تشریف نہ لائے بلکہ ان مزدوروں سے جو اپنی روٹی پکارہے تھے قیمتاً روٹی لے کر وہیں تناول فرمائی<۔
۲۔
مکرم عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی )سابق سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج` تحریر کرتے ہیں۔:
>آپ نے تعمیر کالج کے دوران ارادہ فرمایا تھا کہ صرف لنگر کی دال اور روٹی کھایا کروں گا۔ آپ نے اکثر دوپہر کا کھانا وہیں نامکمل عمارت کے برآمدہ میں کھایا ہے اور نمازیں تک وہیں پڑھی ہیں اور کام کے وقت ایک ایک اینٹ اور لنٹل وغیرہ کی کھڑے ہوکر نگرانی کی ہے<۔
>تعلیم الاسلام کالج کی زمین کا رقبہ ۱۷ ایکڑ ۳۳۳ مربع گز ہے اور مسقف حصہ ایک لاکھ مربع فٹ ہے۔ گورنمنٹ کے ریٹ کے مطابق چودہ روپے فی مربع فٹ کے حساب سے چودہ لاکھ روپیہ کی عمارت ہے اس پر آپ کی نگرانی اور توجہ کی بدولت چار پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے<۔
۳۔
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے لکھتے ہیں۔:
>جب کالج ربوہ میں منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تو آپ اپنی نگرانی میں کالج کی تعمیر کے لئے تشریف لے آئے۔ کچھ عرصہ یہ عاجز بھی آپ کی خدمت میں حاضر رہا۔ فجر کی نماز پڑھ کر کالج میں تشریف لے آتے جہاں نہ کوئی درخت تھا نہ سایہ` نمکین پانی کے دو نلکے تھے۔ کھانا لنگر خانے سے آتا تھا۔ مزدوروں میں کھڑے ہوکر کام کی نگرانی فرماتے۔ جب مزدور آرام کرتے تو آپ حسابات کا معائنہ کرتے۔ کبھی رقم ختم ہو جاتی تو اس عاجز کو بھیجتے کہ عطایا (DONATIONS) لی جائیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ فضل تھا اور آپ کے ساتھ یہ سلوک تھا کہ ایک لاکھ کی منظوری کے ساتھ اس سے کئی گنا قیمت کی عمارت مہینوں میں تعمیر ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے بھی عجیب عجیب معجزے دیکھے جب ہال کا لنٹل پڑنے والا تھا کثیر مقدار میں سیمنٹ اور مصالحہ بھگو کر تیار کیا جاچکا تھا تو سیاہ بادل اٹھا اور گھر کر چھا گیا۔ آپ نے ہاتھ اٹھا کر بادل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ غریب جماعت کی خرچ کی ہوئی رقم ہے۔ اگر تو برسا تو یہ رقم ضائع ہو جائے گی۔ جا یہاں سے چلا جا۔ دراصل آپ کی اللہ تعالیٰ کے حضور ایک رنگ میں فریاد تھی۔ جو قبول ہوئی اور جس طرح ابر آیا تھا اسی طرح چلا گیا<۔
۴۔
چوہدری غلام حیدر صاحب سینئر لیکچرر اسسٹنٹ و ناظم املاک کالج لکھتے ہیں۔
ان دنوں سریا اور پائپ ملنے میں بہت سی دشواریاں تھیں۔ خاکسار کو کراچی تین دفعہ بھیجا گیا اور وہاں سے کنٹرول ریٹ پر خرید کیا جاتا رہا اسی طرح فرنشنگ اینڈ فٹنگ کے لئے پائپ اور فٹنگ کی دقت تھی اور یہ بھی ان کی وجہ سے کراچی سے کنٹرول پر مل گیا۔ حضرت صاحبزادہ مزا ناصر احمد صاحب کو کئی دفعہ رقم فراہم کرنے میں دقت ہوئی مگر ہمارے شیر دل بہادر اور محبوب آقا نے ذرا بھی لیبر یا ٹھیکیداروں کو محسوس نہیں ہونے دیا۔
آپ یوں تو بنیاد سے لے کر چھت تک نگرانی فرماتے رہے مگر لینٹل جب پڑتے تو خود سریا` اس کی بندھوائی اور سیمنٹ ریت بجری کی مقدار چیک کرتے اور اس وقت تک نہ ہلتے جب تک سارا لنٹل ختم نہ ہوجاتا۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کالج ہال پر لینٹل پڑرہا تھا جو کافی بڑا کام تھا اور لیبر کافی درکار تھی۔ کام شروع ہوچکا تھا۔ بے شمار سیمنٹ کی بوریاں کھلی پڑی تھیں اور انہیں مسالہ کے ساتھ ملایا جارہا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹا اٹھی اور یقین تھا کہ ابھی بارش ہو جائے گی آپ نے بادلوں کی طرف دیکھ کر خواہش ظاہر کی کہ واپس چلے جائیں۔ اسی وقت بادل ایک طرف سے ہوکر گزر گئے اور آپ رات کا کافی حصہ گئے تک لینٹل مکمل کرکے تشریف لے گئے۔ جب کبھی طبیعت خراب ہوتی تو بستر پر بھی کام کا خیال رہتا۔ ایک دفعہ آپ کی طبیعت بوجہ دل کی تکلیف کے خراب تھی۔ گھر لیٹے ہوئے تھے۔ پانی کی ٹینکی بنائی جارہی تھی اور مجھے حکم تھا کہ میں نے ایک منٹ ادھر ادھر نہیں ہونا اور رپورٹ ہر گھنٹہ بعد گھر بھجوانی ہے۔
ایک دفعہ وزیر تعلیم سردار عبدالحمید صاحب دستی آئے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کا کالج اور ہوسٹل پر کتنا خرچ اٹھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قریباً پانچ لاکھ` تو وہ حیران ہوگئے کہ سرگودھا کالج پر تو ۲۵ لاکھ خرچ ہوا ہے اور آپ کی نگرانی اور محنت کی بہت تعریف کی۔
کالج کو پانی کی سخت تکلیف تھی۔ کالج کے احاطہ میں ٹیوب ویل بور کرانا شروع کیا مگر جلن کی وجہ سے ٹھیکیدار پائپ درمیان میں چھوڑ گیا۔ آخر کار کالج سے کوئی دو ہزار فٹ دور ٹیوب ویل بنوایا اور وہاں سے پائپ کے ذریعہ لیبارٹریز اور احاطہ کالج و ہوسٹل کو پانی مہیا فرمایا۔ کالج میں ٹک شاپ` گیسٹ ہائوس اور فیملی کوارٹرز بھی بنائے گئے۔ ہوسٹل بہت اچھا بنایا گیا۔ آپ کی شفقت اور ہمدردی خصوصاً فزکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ رہی۔ یہاں ربوہ آکر HONS c۔S۔B کی لیبارٹریز اور اپریٹس کی فراہمی کے لئے فراخ دلی سے خرچ کیا اور فزکس ایم۔ ایس۔ سی کا پروگرام بن چکا تھا جس کے لئے علیحدہ نیوکیمپس بنایا جارہا ہے اور پچپن ہزار روپیہ فزکس کے اپریٹس کے لئے دے کر اپریٹس منگایا جارہا ہے<۔
ایک اہم مکتوب کا چربہ
)حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کا ایک مکتوب گرامی جو آپ نے تعمیر کالج کے دوران چوہدری غلام حیدر صاحب کو کراچی لکھا تھا(
عکس کیلئے


مکرم غلام حیدر صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
)۱( آپ کے ہر دو خطوط اور تار مل گئے۔
)۲( آپ کراچی سے لوہا خریدنے کا ارادہ ترک کردیں مگر تمام معلومات لے کر آئیں۔ )۱( کراچی میں لوہا مل سکتا ہے۔ )۲( کس قیمت پر )۳( کیا شیشہ مل سکتا ہے )۴( پرمٹ ملنے میں کتنی دقت پیش آئے گی۔ )۵( ریٹ کیا ہے )۶( پیچ وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کرلیں۔ اس لئے ملک بشیر صاحب کا چیک اور مزید جس قدر روپیہ مل سکے لے کر آجائیں۔
)۳( شیخ صاحب سے کہیں PIT SINKING کے نقشے نہیں ملے۔ شکریہ۔ مگر ان سے نقشہ لے کر آئیں۔ ہوسٹل میں چھ چھ فلش کے دو یونٹ ہوں گے اس کے مطابق۔ اس کے علاوہ دو یونٹ اور تین یونٹ (UNITS) کے نقشے بھی۔
)۴( محمد کرامت اللہ صاحب سے کہیں کہ کم از کم نصف رقم تو دے دیں۔
)۵( اسی طرح چوہدری شریف احمد صاحب سے کہیں کہ مکرم ملک صاحب سے کم از کم نصف روپیہ لے کر دے دیں۔ کراس چیک لے کر آجائیں۔
)۶( امید ہے آپ دو دنوں میں ان کاموں سے فارغ ہوکر بدھ کے روز لاہور کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔
)۷( دوبارہ یہ کہ آپ لوہے` شیشے اور کیل وغیرہ کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرکے )۲( فلش کے نقشے لے کر اور )۳( جس قدر عطایا مل سکیں لے کر )بذریعہ کراس چیک( دو تین روز تک لاہور کے لئے روانہ ہو جائیں۔ تاکید ہے۔
مہینے ڈیڑھ مہینے کے بعد میں خود کراچی جاکر عطایا وصول کرنے کی کوشش کروں گا۔ انشاء اللہ۔
)دستخط(
پرنسپل
کالج کی مستقل عمارت کا افتتاح
‏text] gat[حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے کالج کی مستقل اور شاندار عمارت کا افتتاح ۶۔ فتح/ دسمبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش کی صبح کو فرمایا۔۱۸۳
اس روز صبح آٹھ بجے ہی گہما گہمی شروع ہوگئی۔ کالج کی عمارت کے سامنے میدان میں شامیانے نصب تھے جن کے نیچے نہایت سلیقہ اور ترتیب سے کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ سٹیج کے دائیں طرف سٹاف` بائیں طرف بزرگان سلسلہ` سامنے پریس گلیری اور پیچھے معزز مہمانوں کی جگہ مقرر تھی اور باقی حصہ طلبہ کے لئے مخصوص تھا۔
دس بجے حضور کی تشریف آوری پر کالج کے سٹاف کی فوٹو کھینچنے کا پروگرام تھا۔ اس لئے تمام اساتذہ کرام گائون پہنے شاداں و فرحاں حضور کے لئے سراپا انتظار تھے۔ دس بج کر پانچ منٹ پر حضور کی کار کالج کے احاطہ میں داخل ہوئی۔ حضور پرنور نے کار سے اترتے ہی تمام ممبران اسٹاف کو شرف مصافحہ بخشا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم۔ اے پرنسپل کالج نے سب اساتذہ کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد گروپ فوٹو ہوئی۔ بعد ازاں حضور نے کالج کی عمارت کا معائنہ فرمایا۔ معائنے کے بعد حضور سٹیج پر تشریف لائے اور ڈیڑھ گھنٹہ تک حاضرین سے پرمعارف خطاب فرمایا۔
افتتاح کی کارروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع کی گئی جو سردار حمید احمد صاحب سیکنڈ ایر نے کی۔ ان کے بعد محمد اسلم صاحب صابر متعلم فرسٹ ایر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم >حمد و ثناء اسی کو جو ذات جاودانی< خوش الحانی سے پڑھی۔ بعد ازاں پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب نے اپنی دو نظمیں پڑھیں جو انہوں نے خاص اسی تقریب کے لئے لکھی تھیں۔۱۸۴ اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا جس میں آپ نے ان تمام مراحل پر بلیغ انداز میں روشنی ڈالی جن سے گذر کر کالج کی عظیم الشان اور پرشکوہ عمارت پایہ تکمیل تک پہنچی تھی۔۱۸۵
سپاسنامہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نہایت ولولہ انگیز تقریر فرمائی جس میں حضور نے اس کالج کے قیام کی اصل غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو خاص طور پر نصائح فرمائیں کہ۔
>تمہیں جو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کیا گیا ہے تو اس مقصد کے ماتحت داخل کیا گیا ہے کہ تم دین کے ساتھ دینوی علوم بھی سیکھو۔ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے ۳۰/ ۴۰ فیصدی غیر احمدی ہیں۔ لیکن تم بھی اس نیت سے یہاں آئے ہو کہ دینی تعلیم حاصل کرو۔ بے شک کچھ تم میں سے ایسے بھی ہوں گے جو دوسرے کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کالج کا خرچ تھوڑا ہے اس لئے وہ یہاں آگئے یا ان کا گھر ربوہ سے قریب ہے اس لئے وہ اس کالج میں داخل ہوگئے یا ممکن ہے ان کے بعض رشتہ دار احمدی ہوں اور وہ یہاں آباد ہوں اور انہیں ان کی وجہ سے یہاں بعض سہولتیں حاصل ہوں لیکن تم میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہوگی جو یہ سمجھتی ہوگی کہ اس کالج میں داخل ہوکر ہم اسلام سیکھ سکیں۔ تم میں سے جو طالب علم اس نیت سے یہاں نہیں آئے کہ وہ اسلام کی تعلیم سیکھ لیں میں ان ے کہتا ہوں کہ تم اب یہ نیت کرلو کہ تم نے اسلام کی تعلیم سیکھنی ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم اسلام کی تعلیم سیکھو تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم احمدیت کی تعلیم سیکھو۔ ہمارے نزدیک تو اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں۔ احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے لیکن اگر تمہیں ان دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے تو تم وہی سیکھو جسے تم اسلام سمجھتے ہو۔ اگر انسان کرتا اور ہے اور کہتا اور ہے تو وہ غلطی کرتا ہے۔ دیوبندی بریلویوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے۔ سنی شیعوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے۔ اسی طرح آغا خانیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے۔ جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے۔ احمدیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے لیکن جب یہ سب فرقے اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتے ہیں تو وہ اسلام کے متعلق کچھ نہ کچھ تو ایمان رکھتے ہوں گے ورنہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے۔ بریلوی بھی مسلمان ہیں` دیوبندی بھی مسلمان ہیں` سنی بھی مسلمان ہیں` شیعہ بھی مسلمان ہیں` جماعت اسلامی والے بھی مسلمان ہیں` احمدی بھی مسلمان ہیں۔ تم ان میں سے کسی فرقے کے ساتھ تعلق رکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مانتے ہو اس پر عمل کرو۔ قرآن کریم میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے عیسائیو! تم میں اس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک عیسائیت پر عمل نہ کرو اور یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ اے یہودیو! تم میں اس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم یہودیت پر عمل نہ کرو۔ اب دیکھ لو قرآن کریم ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم اسلام پر عمل کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مذہب پر عمل کرو کیونکہ نیکی کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے مذہب پر عمل کرے۔ پھر دیکھو اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ جائز رکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مذہب نے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور ان کے ماننے والے ان اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ تم سمجھتے ہو کہ یہودی سور نہیں کھاتے اس لئے تم تسلی سے ان کا ذبیحہ کھالو گے۔ اسی طرح عیسائیوں سے تم کوئی معاملہ کرتے ہوئے نہیں گھبرائو گے کیونکہ ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور کسی سے فریب نہ کرو انفرادی طور پر اگر کوئی شخص تم سے فریب کرے تو کرے لیکن اپنے مارل کوڈ کے ماتحت وہ تم سے فریب نہیں کرے گا۔ اہل کتاب کی لڑکیوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ وہ تمہاری زوجیت میں آجانے کے بعد اپنے مارل کوڈ کے ماتحت چلیں گی مثلاً یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم کے ماتحت کوئی عورت اپنے خاوند کو زہر نہیں دے گی۔ اس لئے تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کرسکو گے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرسکو گے۔ گویا شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دی ہے اور بتایا ہے کہ اپنے مخصوص عقیدہ پر چلنے میں بڑی سیفٹی ہے۔ پس کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنے عقائد کے مطابق عمل کرو۔ اگر کوئی پروفیسر تمہیں کسی احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو تم اس کا مقابلہ کرو اور میرے پاس بھی شکایت کرو۔ میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا۔ لیکن اگر وہ تمہیں کہتا ہے کہ تم نماز پڑھو۔ تو یہ تمہارے مارل کوڈ کے خلاف نہیں اور اس کا نماز پڑھنے کی تلقین کرنا ریلیجس انٹرفیرینس نہیں۔ تم نماز پڑھو چاہے کسی طرح پڑھو۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ تم اپنے میں سے کسی کو امام بنالو۔ کالج کے بعض پروفیسر غیر احمدی ہیں۔ ان میں سے کسی کو امام بنالو۔ لیکن نماز ضرور پڑھو۔
شیعہ اور بوہرہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑتے ہیں باندھتے نہیں۔ ہم اہلحدیث کی طرح سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ حنفی لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں۔ اس کے خلاف اگر کوئی پروفیسر تمہیں مجبور کرتا ہے تو تم اس کی بات ماننے سے انکار کردو۔ اگر وہ کہتا ہے کہ تم آمین بالجہر کہو تو یہ اہلحدیث کا مذہب ہے حنفیوں کا نہیں۔ اگر تم حنفی ہو تو تم اس کی بات نہ مانو اور میرے پاس شکایت کرو۔ میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا۔ مذہب میں دخل اندازی کا کسی کو حق نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بتاتا ہے مسلمان نہیں بناتا۔ لیکن تم میں سے ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم الاسلام کالج کا طالب علم ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر چلے۔ اب اسلام کی تم کوئی تعریف کرو۔ اسلام کی جو تعریف تمہارے باپ دادا نے کی ہے تم اسی کو مانو۔ لیکن اگر تم اس تعلیم پر جسے خود درست سمجھتے ہو عمل نہیں کرتے تو یہ منافقت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کالج میں اگر کوئی ہندو بھی داخل ہونا چاہے تو ہمارے کالج کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں۔ لیکن وہ بھی اس بات کا پابند ہوگا کہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے کیونکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے۔ ہندو اپنے مذہب پر عمل کرے` عیسائی عیسائیت پر عمل کرے اور یہودی یہودیت پر عمل کرے۔
پس اس اسلامی حکم کی وجہ سے ہم اسے مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے۔ لیکن یہ کہ تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرو لیکن کسی مارل کوڈ کے ماتحت نہ چلو یہ درست نہیں ہوگا تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا اور پھر تمہارا فرض ہوگا کہ تم اس کے ماتحت چلو۔
پس اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں مسلمان نہیں تب بھی ہم تمہیں برداشت کرلیں گے` لیکن اس شرط پر کہ تمہیں کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا چاہے تم اسے تجربہ کے طور پر تسلیم کرو۔ مثلاً تم تجربہ کے طور پر اپنے ماں باپ کے مذہب کو اختیار کرلو۔ تب بھی ہم برداشت کرلیں گے۔ لیکن اگر تم کسی مارل کوڈ کے ماتحت مستقل طور پر نہیں چلتے اور نہ کسی مارل کوڈ کو تجربہ کے طور پر اختیار کرتے ہو تو دیانت داری یہی ہے کہ تم اس کالج میں داخلہ نہ لو۔ اسلام کہتا ہے کہ تم جس مذہب کی تعلیم پر بھی عمل کرنا چاہو` کرو۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کوئی ہندو اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے` عیسائی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے` یہودی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے۔ اگر کوئی حنفی المذہب ہے اور وہ حنفی مذہب پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے۔ اگر کوئی شیعہ ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے تو اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے کیونکہ یہ کالج تعلیم الاحمدیہ کالج نہیں` تعلیم الاسلام کالج ہے اور اسلام ایک وسیع لفظ ہے۔ کوئی کوڈ آف مارلٹی جس کو علماء اسلام نے کسی وقت تسلیم کیا ہو یا اب تسلیم کرلیں وہ اسلام میں شامل ہے۔ پس میں طلبہ کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم کالج کی روایات کو قائم رکھو۔ یہ تعلیم الاسلام کالج ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ کالج تمہیں عملی مسلمان بنا دے گا اور یہی اس کالج کے قائم کرنے کی غرض ہے<۔۱۸۶
حضرت مصلح موعود نے اپنے اثر انگیز خطاب کے آخر میں دعا فرمائی کہ >اللہ تعالیٰ اس کالج کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اور اس کے طالب علم رسول کریم~صل۱~ کے شاگرد ہوں جو لوگوں کو آپﷺ~ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں<۔۱۸۷
جلسہ کے اختتام پر حضور نے تمام طلبہ کو شرف مصافحہ بخشا۔ اس کے بعد حضور نے کالج کی طرف سے دی گئی ایک دعوت میں شرکت فرمائی۔ حضور دو بجے کے قریب دعوت سے فارغ ہوئے۔ جس کے بعد حضور نے مجلس عاملہ کالج یونین کے ساتھ ایک گروپ فوٹو کھنچوائی اور پھر واپس تشریف لے گئے۔ اس طرح یہ مبارک تقریب بخیر و خوبی انجام پائی۔۱۸۸
اس تقریب پر متعدد غیراحمدی معززین بھی تشریف لائے ہوئے تھے جن میں سید عابد احمد علی صاحب پرنسپل گورنمنٹ کالج سرگودھا4]` ft[s۱۸۹ خاں رفیع اللہ خاں صاحب`۱۹۰ شیخ عطاء اللہ صاحب پرنسپل اسلامیہ کالج چنیوٹ اور پروفیسر۱۹۱ غلام جیلانی اصغر صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حضرت مصلح موعود نے کالج کے افتتاح کے موقعہ پر فضل عمر ہوسٹل کی VISITORSBOOK میں اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل عبارت رقم فرمائی۔
>اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بے سروسامانی میں کالج کے سامانوں کو مہیا کیا اور بے گھروں کو گھر دیا۔ اب دعا ہے کہ جس طرح اس دنیا کا علم دیا اگلے جہان کا علم بھی دے اور جس طرح اس جہان کا گھر دیا اگلے جہان کا اچھا گھر بھی بخشے اور اس کالج میں پڑھنے والے سب طلبہ کو اپنی رضا پر چلنے` اپنا فرض ادا کرنے اور ایثار و قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق بخشے۔ خاکسار مرزا محمود احمد۔۱۹۲
تعلیم الاسلام کالج کے ہونہار اور فارغ التحصیل طلبہ کالج کے سٹاف میں
جیسا کہ فصل سوم میں بتایا جاچکا ہے کہ حضرت مصلح موعود نے قیام کالج کے پہلے سال )۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش( میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ
کالج کے لیکچرار طالب علموں میں وقف کی تحریک کریں تاکہ ان کو مستقبل میں پروفیسری کے لئے تیار کیا جائے کیونکہ آگے چل کر ہمیں بہت سے ایم۔ اے اور ایم۔ ایس۔ سی صاحبان کی ضرورت ہوگی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بحیثیت پرنسپل کالج حضرت مصلح موعود کے اس فرمان مبارک کی تعمیل کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ چنانچہ آپ کی مخلصانہ مساعی بارآور ہوئیں جن کے شیریں اثمار ربوہ میں آکر ظاہر ہونا شروع ہوئے جبکہ تعلیم الاسلام کالج کے فارغ التحصیل طلبہ کالج کے سٹاف میں شامل ہوکر کالج کی علمی و عملی ترقی میں سرگرم عمل ہونے لگے۔
ذیل میں ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش سے لے کر نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کے درمیان کالج کے سٹاف میں شامل ہونے والے نئے اساتذہ کی فہرست دی جاتی ہے کہ جس میں ایک خاصی تعداد اسی مرکز علم و دانش سے اکتساب فیض کرنے والوں کی نظر آئے گی )گول دائرہ کا نشان اس خصوصیت کی علامت کے طور پر لگایا گیا ہے(
مرزا مجید احمد صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

محمد ابراہیم صاحب ناصر بی۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

مسعود احمد صاحب عاطف ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

مبارک احمد صاحب انصاری ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

چوہدری محمد لطیف صاحب ایم۔ اے

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

ظفر احمد صاحب وینس ایم۔ اے

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش(

سید مظفر حسین صاحب زیدی ایم۔ اے

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

ایس۔ ایم حمایت اللہ صاحب ایم۔ اے

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

سید کلیم اللہ شاہ صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

چوہدری عطاء اللہ صاحب ایم۔ اے

‏col3] gat[ )ماہ امان/ مارچ ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

مولوی محمد دین صاحب ایم۔ اے۔ سی ایل ایس سی۱۹۳

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

چوہدری حمید اللہ صاحب ایم۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

ملک محمد عبداللہ صاحب

)ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش(

نصیر احمد صاحب بشیر ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش(

مرزا خورشید احمد صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش(

حمید اللہ صاحب ظفر ایم۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش(

رفیق احمد صاحب ثاقب ایم۔ ایس۔ سی آنرز

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش(

کنور ادریس صاحب

)ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش(

مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش(

محمد شریف صاحب خالد ایم۔ اے` ایل ایل بی` بی۔ ٹی

)ماہ وفا/ جولائی ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش(

سعید احمد صاحب رحمانی ایم۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش(

حمید احمد صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ہش(

آفتاب احمد صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

خواجہ منظور احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

چوہدری محمد سلطان صاحب اکبر ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

ناصر احمد صاحب پروازی ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

منور شمیم خالد صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

سید حبیب الرحمن صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش(

سعید اللہ صاحب خاں صاحب ایم۔ اے` بی ایس سی۱۹۴

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

اسلم قریشی صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

سردار محمد علیم صاحب ایم۔ اے

)ماہ صلح/ جنوری ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

مرزا مسعود بدر بیگ صاحب ایم۔ اے

)ماہ امان/ مارچ ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

سید پرویز سجاد جعفری صاحب ایم۔ اے

)ماہ امان/ مارچ ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

سجاد امام صاحب

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

چوہدری محمد اسلم صاحب صابر ایم۔ اے` بی ایڈ

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

چوہدری انور حسن صاحب ایم۔ اے

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

عبدالرشید فوزی صاحب ایم۔ اے

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش(

چوہدری عزیز احمد صاحب طاہر ایم۔ اے

)ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

محمد ارشد صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

چوہدری عبدالسمیع صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

مسٹر مائیکل ای ولیمز ایم۔ ایس۔ سی ڈرہم



سید مقبول احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

محمد سرور صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

محمد شریف خان صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

عبدالشکور صاحب اسلم بی۔ ایس۔ سی۱۹۵

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

عبدالرشید صاحب غنی انبالوی۔ ایم۔ ایس۔ سی۱۹۶

)ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(
][ سید محمد یحییٰ صاحب

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش(

رشید احمد صاحب جاوید ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش(

اعجاز الحق قریشی صاحب ایم۔ اے

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش(

محمد انور شاہ صاحب ارشد ترمذی

)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش(

عبدالجلیل صاحب صادق
‏col2] [tag
)ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش(

محمد اکرم صاحب ایم۔ ایس۔ سی

)ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش(

تعلیم الاسلام کالج کے تدریسی و تعلیمی نظام میں بتدریج وسعت اور جدید ڈگری کالج کی تعمیر
یہ عظیم درسگاہ ربوہ میں منتقل ہونے کے بعد نہایت تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔ چنانچہ یہاں آکر کیمیا کی تدریس اور پریکٹیکل
کا انتظام )بی۔ ایس۔ سی کے معیار تک( پہلے سے بھی زیادہ عمدگی کے ساتھ ہونے لگا۔
۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش ہی میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی خصوصی اجازت سے آل پاکستان بین الکلیاتی مباحثوں کا آغاز کیا گیا۔۱۹۷ علاوہ ازیں کالج کے طلبہ دیگر اداروں کے کل پاکستان بین الکلیاتی سالانہ مباحثوں میں شریک ہونے اور انفرادی اور مجموعی طور پر بکثرت انعام حاصل کرنے لگے جس کی تفصیل کالج کی مطبوعہ سالانہ رپورٹوں میں موجود ہے۔
۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش سے کالج میں ریاضی )آنرز( کیمیا )آنرز( اور شماریات کی تعلیم کا اجراء ہوا۔ ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش میں بی ایس سی باٹنی اور بی ایس سی زوآلوجی کی کلاسز بھی کھل گئیں۔
اسی زمانہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے کالج میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لئے ایک عظیم الشان منصوبہ تیار فرمایا جو خدا کے فضل و کرم` سیدنا المصلح الموعود کی توجہ اور آپ کی ذاتی توجہ` دلچسپی اور رہنمائی کی بدولت نہایت برق رفتاری کے ساتھ کامیابی کے زینے طے کررہا ہے۔ ہماری مراد جدید ڈگری کالج سے ہے جس کی تفصیلی سکیم ۶۲۔ ۱۹۶۱ء/ ۴۱۔ ۱۳۴۰ہش میں بروئے کار آئی۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس کی سالانہ رپورٹ میں فرمایا۔
>اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو نظام تعلیم کے نئے دور میں تعلیم الاسلام کالج سابقون الاولون میں شمار ہوگا۔ انشاء اللہ العزیز۔ کالج کی تقسیم (BIFURACTION) کے بعد جو عنقریب ہونے والی ہے ڈگری اور پوسٹ گریجوایٹ کلاسیں جلد ہی اپنی نئی عمارت میں منتقل ہوجائیں گی۔ یہ سال تو کالج کے لئے زمین` عمارت کے نقشوں اور دیگر کوائف کی تفاصیل سے متعلق فیصلوں ہی میں گزرا ہے۔ اس وقت کالج کیمپس کے گرددیوار بن رہی ہے۔ ٹیوب ویلوں کے لئے آزمائشی کھدائی کی جاچکی ہے۔ نقشے بن چکے ہیں اور انشاء اللہ العزیز تعمیر کا کام بھی جلد ہی پوری تیز رفتاری سے شروع ہونے والا ہے۔ یہ دور جدید کالج کی زندگی میں ایک عہد آفریں اور خوشکن انقلاب کا حامل ہوگا<۔۱۹۸
۶۴۔ ۱۹۶۳ء/ ۴۳۔ ۱۳۴۲ہش میں کالج کیمپس کی اصل عمارت کی تعمیر شروع کر دی گئی۔ اس عظیم علمی منصوبہ پر ماہ امان/ مارچ ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش تک نو لاکھ روپیہ کے اخراجات ہوئے۔ سائنس لیبارٹریز کی ورکشاپ تو اسی سال مکمل ہوگئی۔۱۹۹ مگر سائنس بلاک کی تعمیر خلافت ثالثہ کے چوتھے سال )۶۹۔ ۱۳۴۸ہش( تک جاری رہی۔ چنانچہ اخبار >الفضل< ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش صفحہ ۸ میں اس زیر تعمیر کالج کی نسبت یہ خبر شائع کی گئی۔
>شعبہ فزکس کی لیبارٹریز مکمل ہوچکی ہیں۔ عنقریب ان کی فٹنگ اور فنشنگ شروع ہو جائے گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے طور پر فزکس میں ایم۔ ایس۔ سی کی تدریس شروع کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کردہ خاص کمیٹی نے آلات فزکس کی ایک فہرست تیار کی تھی اور الحاق سے قبل ان کا فراہم کرنا ضروری قرار دیا تھا<۔
۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش میں اس کمیٹی کی تیار کردہ فہرست کے مطابق بیرونی ممالک سے جدید ترین آلات درآمد کرنے کا انتظام کیا گیا۔ جن کی پہلی کھیپ ۱۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش کو انگلستان` مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ سے ربوہ میں پہنچی جس میں اسلو سکوپ` الیکٹرک اوسی لیٹررز` الیکٹرو سکوپ` ریڈیو ایکٹو سوسرز` ریٹ میٹر` اور الیکٹرانکس کا دیگر بیش قیمت سامان شامل تھا۔ مزید برآں بعض INSTRUMENTS PRECISION بھی منگوائے گئے۔ بعض آلات کے پرزہ جات کو صدر شعبہ طبعیات ڈاکٹر نصیر احمد خاں صاحب کی نگرانی میں فزکس کے اساتذہ اور بعض طلبہ نے خود ASSEMBLE کیا اور دن رات ایک کرکے سامان کی چیکنگ اور ترتیب مکمل کرکے بڑے قرینہ سے شعبہ طبعیات کی بڑی لیبارٹری میں نصب کئے تاکہ ان آلات کی کارکردگی کو جانچا جاسکے۔ اس طرح کالج کی طبعیات کی لیبارٹریز جدید سائنٹیفک آلات سے آراستہ ہوگئیں۔ جن کا معائنہ اور عملی کارکردگی کا مشاہدہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۷۔ ہجرت ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش کو بنفس نفیس فرمایا۔۲۰۰
آلات طبعیات کی دوسر کھیپ امریکہ سے موصول ہونے والی ہے جو ماہ جولائی )۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش( کے آخر تک پہنچ جائے گی۔ موجودہ ششماہی میں دس ہزار روپیہ کا کیش بونس درآمدی لائسنس منظور ہوا ہے جس پر مزید آلات کا آرڈر دیا جارہا ہے۔
فزکس کا بلاک مکمل ہوچکا ہے۔ بجلی کی وائرنگ اور فرنیچر کے لئے رقم کی منظوری حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہوچکی ہے۔ امید ہے کہ اگست تک یہ کام مکمل ہو جائے گا اور فزکس کی تجربہ گاہیں یونیورسٹی کمیشن کے آنے تک سامان اور تجربات سے پوری طرح لیس ہو جائیں گی۔۲۰۱
یونیورسٹی کے امتحانوں میں کالج کے خوشکن نتائج
ربوہ میں ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش سے لے کر ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک یہ کالج حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی براہ راست نگرانی اور قیادت میں سرگرم عمل رہا۔ اس زمانہ میں کالج نے اپنے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پرنسپل کے زیر سایہ علم و عمل کے میدان میں نمایاں ترقی کی اور بالخصوص یونیورسٹی کے امتحانات میں اس کے نتائج سال بسال نہایت درجہ خوشکن` مسرت افزا اور شاندار رہے اور اس کے طلبہ نے صوبہ بھر میں امتیازی پوزیشن حاصل کی۔۲۰۲
کالج میں مشہور ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کی آمد
تعلیم الاسلام کالج کی علمی تقریبات میں نامور ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کی آمد کا جو سلسلہ قبل ازیں جاری ہوچکا تھا وہ ربوہ میں حیرت انگیز حد تک وسعت پکڑ گیا حتیٰ کہ امریکہ` یورپ اور روس کے بعض ممتاز شہرہ آفاق اور بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنسدان بھی اس علمی ادارہ کی شہرت سے متاثر ہوکر کھنچے آنے لگے۔ چنانچہ اس ضمن میں بعض نامور اشخاص کی ایک مختصر فہرست دی جاتی ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی براہ راست قیادت کے مبارک دور میں یہاں پہنچے اور جنہوں نے بذریعہ تقریر اپنے تجربات و معلومات سے اساتذہ اور طلبہ کو متمتع ہونے کا موقعہ دیا۔۲۰۳
ڈاکٹر ایس۔ ایل شیٹس لاہور۔ اطالوی مستشرق پروفیسر اے بوسانی` روسی سائنسدان برونوف۲۰۴ )پروفیسر لینن گراڈ یونیورسٹی ڈائریکٹر انسٹی چیوٹ آف فزیالوجی اکیڈمی آف سائنسز R۔S۔S۔(U امریکی سائنسدان ای۔ سی سٹیکمین۲۰۵]ydob [tag پروفیسر ارئیں امینا سوٹا یونیورسٹی امریکہ و سائنٹیفک ایڈوائزر راک فیلر فائونڈیشن`( میجر عثمان بیگ آفندی آف ترکی` میجر جنرل اکبر خاں` مسٹر تھیوڈور` ڈاکٹر محمد عودہ مدیر >الجمہوریہ< مصر` مرغوب صدیقی صاحب صدر شعبہ جرنلزم پنجاب یونیورسٹی` سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون ایڈیٹر >ریاست< دھلی۔ ڈاکٹر ای۔ ٹی۔ جے روز نتھل` کیمرج یونیورسٹی۔ سرہیری میلول سابق پروفیسر برمنگھم یونیورسٹی` انور عادل صاحب سیکرٹری تعلیم مغربی پاکستان` ڈاکٹر سی ولیم کرک مشیر ثقافتی امور امریکی کونسل` پروفیسر سڈرف )روسی سائنس اکیڈمی کے ممبر )بابائے سپٹنک SPUTNIN) OF (FATHER فلائنٹ لیفٹیننٹ ایم۔ ڈبلیو بناچ۔ مولانا ابوالہاشم خاں رکن اسلامی مشاورتی کونسل پاکستان` چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جج عالمی عدالت انصاف` مولانا صلاح الدین احمد صاحب ایڈیٹر )ادبی دنیا`< ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ایم۔ اے پی ایچ ڈی` ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب ایم۔ اے` پی ایچ ڈی` اطالوی پروفیسر بارتلونی` پروفیسر حمید احمد خاں پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور` ڈاکٹر محمد صادق صاحب ایم۔ اے` پی ایچ ڈی وائس پرنسپل و صدر شعبہ انگریزی دیال سنگھ کالج لاہور` سید امجد الطاف ایم۔ اے سیکرٹری بورڈ آف ایڈیٹرز اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام پنجاب یونیورسٹی لاہور۔ ڈاکٹر عبدالبصیر صاحب پال صدر شعبہ طبعیات پنجاب یونیورسٹی` سید حماد رضا سی ایس پی کمشنر سرگودھا ڈویژن` ڈاکٹر وحید قریشی صاحب ایم۔ اے` پی ایچ ڈی شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی` مسٹر جسٹس سجاد احمد جان جج عدالت عالیہ مغربی پاکستان` مسٹر جسٹس انوار الحق صاحب جج عدالت عالیہ مغربی پاکستان` مسٹر منظور قادر صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان و چیف جسٹس عدالت عالیہ مغربی پاکستان` ڈاکٹر ظفر احمد صاحب ہاشمی وائس چانسلر زراعتی یونیورسٹی لائل پور` سہیل بخاری صاحب ایم۔ اے` پی ایچ ڈی پاکستان ایر فورس سکول سرگودھا` پروفیسر سید وقار عظیم ریڈر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور۔
ڈاکٹر عبدالحق صاحب سابق پرنسپل ڈینٹل کالج` ڈاکٹر جے۔ ایم بھینڈ` ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب ایم۔ ایس۔ سی` پی ایچ ڈی` ڈاکٹر کریم قریشی ایم۔ ایس۔ سی` پی ایچ ڈی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی ڈاکٹر تھیوڈر بیلر )پنجاب یونیورسٹی`( ڈاکٹر طاہر حسین صدر شعبہ طبعیات گورنمنٹ کالج لاہور` ڈاکٹر ایس۔ اے درانی ایم۔ ایس۔ سی` پی ایچ ڈی ڈائریکٹر اٹامک انرجی کمیشن لاہور` کیپٹن علی ناصر زیدی` پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب امپیریل کالج لندن و مشیر سائنسی امور صدر پاکستان` ڈاکٹر الیاس ڈوباش ڈپٹی ڈائریکٹر صنعتی تحقیقاتی تجربہ گاہ` ڈاکٹر ایس۔ اے رحمان` کمانڈر عبداللطیف صاحب ڈائریکٹر اعلیٰ تعلیمات زرعی یونیورسٹی لائل پور`
‏vat,10.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
پروفیسر کرامت حسین جعفری پرنسپل گورنمنٹ کالج لائل پور` پروفیسر ڈاکٹر حمید الدین صاحب وائس پرنسپل و صدر شعبہ فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور` علامہ علائو الدین صاحب صدیقی صدر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی` شمس الدین صاحب ایم۔ اے صدر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور` پروفیسر شجاع الدین صاحب ایم۔ اے صدر شعبہ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہور` پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب صدر شعبہ تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور` ڈاکٹر ایس۔ ایم اختر پی ایچ ڈی صدر شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی` پروفیسر محمد اعظم ورک زئی شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی` ڈاکٹر منیر چغتائی شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ہیل بک پروفیسر میونک یونیورسٹی` پروفیسر مائیکل ولیم ایم۔ ایس۔ سی` میر حبیب علی صاحب اسسٹنٹ ڈائریکٹر سپورٹس مشرقی بنگال۔
ان مقررین کے علاوہ پاکستان کے ممتاز شعراء میں سے احسان دانش` طفیل ہوشیارپوری` سید محمد جعفری` مکین احسن کلیم حبیب اشعر کلیم عثمانی` نظر امروہی` شرقی بن شائق مدیر >نیا راستہ`< قتیل شفائی` ثاقب زیروی` احمد ندیم قاسمی` عاطر ہاشمی` ہوش ترمذی` ظہیر کاشمیری` محمد علی مضطر` صوفی غلام مصطفی تبسم` شیر افضل جعفری` لطیف انور )مدیر مخابرات ریڈیو پاکستان لاہور( ہوش ترمذی )ڈائریکٹر پریس برانچ مغربی پاکستان لاہور`( ضمیر فاطمی مدیر >اسلوب`< مولانا عبدالمجید سالک مدیر >انقلاب`< نازش رضوی` عبدالرشید تبسم گلزار ہاشمی وغیرہ نے کالج کی تقریبات میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔
آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز
۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش اور ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کے سال کالج کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہیں گے اس لئے کہ ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خصوصی ہدایات اور سرپرستی سے دو ایسے اہم اقدامات عمل میں لائے گئے جو نہایت درجہ وسیع` شاندار اور دوررس نتائج کے حامل ثابت ہوئے جن سے کالج کی ملک گیر شہرت و مقبولیت میں نئے باب کا اضافہ ہوا اور اس کی عظمت و اہمیت کو چار چاند لگ گئے۔
اس ضمن میں پہلا قابل ذکر امر کالج کے زر انتظام آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز ہے جس کی کامیابی کا سہرا پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب کے سر ہے جن کی مسلسل کوشش سے ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش میں کچی کورٹ سے کالج میں باسکٹ بال کی ابتداء ہوئی۔ ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش میں اس میدان کو ایک معیاری پختہ کورٹ میں تبدیل کردیا گیا جس میں پہلا آل پاکستان تعلیم الاسلام کالج باسکٹ بال ٹورنامنٹ کھیلا گیا۔ اس پہلے ٹورنامنٹ میں جس کا اہتمام ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش میں کیا گیا۔ پولیس لاہور برادرز کلب لاہور` وائی ایم۔ سی۔ اے لاہور` بمبئی سپورٹس کلب کراچی` نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور` فرینڈز کلب سرگودھا` لائلپور کلب ٹی۔ آئی کلب` زراعتی کالج لائلپور` گورنمنٹ کالج لائلپور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ٹیمیں شامل ہوئیں اور پاکستان بھر کے چھ اور پنجاب کے آٹھ منتخب اور مشہور کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور کھیل کا معیار نہایت بلند رہا۔ انعامات چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے تقسیم فرمائے۔
دوسرے ٹورنمنٹ میں نہ صرف شرکت کرنے والی نامور ٹیموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا بلکہ چھ کی بجائے پاکستان بھر کے دس منتخب کھلاڑی شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں بعض ایسے کھلاڑیوں نے بھی شرکت کی جنہیں بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کا فخر حاصل تھا۔ اس ٹورنامنٹ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ پنجاب باسکٹ بال ایسوسی ایشن لاہور کے فیصلہ کے مطابق پنجاب کی بہترین ٹیم کا انتخاب اس ٹورنامنٹ میں ہوا۔ قبل ازیں اس انتخاب کے لئے الگ مقابلے ہوتے تھے۔
تیسرا ٹورنمنٹ اپنی منفرد حیثیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ ملک کے کونے کونے سے دو درجن کے قریب بہترین ٹیمیں اور مشہور ترین کھلاڑی شامل ہوئے جن میں سی۔ ٹی۔ آئی کلب سیالکوٹ کے تین امریکی بھی تھے۔ اس موقعہ پر بہت سے کالجوں کے پروفیسر اور دیگر معززین بھی بکثرت موجود تھے۔ ہر سال یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ٹورنامنٹ کا افتتاح کس سے کروایا جائے؟ تیسرے ٹورنامنٹ کے موقعہ پر جب یہ معاملہ پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے قدرے تامل کے بعد فرمایا ایک BRAINWAVE یعنی خیال کی لہر آئی ہے اور مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا۔ کیسے؟ فرمایا۔ پچھلے ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم کے کپتان سے افتتاح کروالو اور آئندہ یہی ہماری روایت ہوگی۔ چنانچہ اس سال سے لے کر اب تک اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس روایت کی ابتداء ریلوے ٹیم کے کپان سید جاوید حسن سے شروع ہوئی جو پچھلے سال کے ٹورنا منٹ کے فاتح تھے۔
چوتھا آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ اس موقع پر پہلی بار ایک یادگاری مجلہ (SOUVENIR) شائع کیا گیا جس میں مختلف معززین کے خیرسگالی کے پیغامات اور تصاویر کے علاوہ ربوہ میں باسکٹ بال کے اجراء اور ترقی کا جائزہ لیا گیا تھا۔ >پاکستان ٹائمز< )لاہور`( >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور`( >نوائے وقت< )لاہور`( >امروز< )لاہور`( اور >الفضل< )ربوہ( نے نمایاں طور پر اس ٹورنامنٹ کی خبریں شائع کیں۔
۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش یعنی پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ربوہ کے چھوٹے سے قصبہ میں کل آٹھ باسکٹ بال کورٹس اور سات باسکٹ بال کلب جن کا مرکزی باسکٹ بال ایسوسی ایشن لاہور سے باقاعدہ الحاق تھا قائم ہوچکے تھے۔ ان سب کلبوں نے علاوہ بیرونی کلبوں کے چوتھے ٹورنامنٹ میں شمولیت کی۔ اسی سال کالج کے چار منتخب کھلاڑیوں نے پنجاب کی طرف سے قومی مقابلوں میں حصہ لیا۔
۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش کو وائی۔ ایم۔ سی۔ اے کی مشہور بھارٹی ٹیم` کراچی` لاہور اور راولپنڈی کے علاوہ ربوہ میں بھی میچ کھیلنے کے لئے آئی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ ربوہ کو بیرون ملک کھلاڑیوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔
ان بیش از پیش کامیابیوں کے نتیجہ میں ربوہ باسکٹ بال کے تین چار اہم ترین ملکی مراکز میں سے شمار ہونے لگا اور چونکہ ملک میں باسکٹ بال کو غیر معمولی طور پر فروغ دینے میں تعلیم الاسلام کالج کے منتظمین خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا بھاری عمل دخل تھا اس لئے پانچویں سالانہ ٹورنامنٹ پر امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے ایک وفد جو ایکٹنگ چیئرمین )چوہدری محمد علی صاحب۲۰۶ ایم۔ اے( اور سیکرٹری )قریشی محمد اسلم صاحب ایم۔ ایس۔ سی( پر مشتمل تھا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت حاضر ہوا اور درخواست کی کہ باسکٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اور ترقی کے سلسلہ میں آپ نے جو خدمات جلیلہ انجام دی ہیں ان کی وجہ سے ایسوسی ایشن چاہتی ہے` کہ آپ پریذیڈنٹ کا عہدہ قبول فرمائیں۔ اگرچہ قبل ازیں کئی بار آپ یہ درخواست قبول کرنے سے معذوری کا اظہار فرماچکے تھے مگر اس مرتبہ آپ نے از راہ شفقت پریذیڈنٹ بننا منظور فرمالیا۔ چنانچہ آپ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش یعنی منصب خلافت پر فائز ہونے تک ایسوسی ایشن کے صدر رہے اور ہمیشہ بلامقابلہ منتخب ہوتے رہے۔۲۰۷
پانچواں آل پاکستان ٹورنامنٹ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا۔ اس دفعہ کھیل پہلی بار رات کے وقت بجلی کی روشنی میں ہوا اور کلب سیکشن میں کراچی یونیورسٹی` زرعی یونیورسٹی اور ایرفورس کی ٹیمیں پہلی بار شامل ہوئیں۔ ایسوسی ایشن کے نمائندے` انتظامیہ کے ممبر اور پنجاب ٹیم کی انتخابی کمیٹی کے تمام ارکان کے علاوہ دور و نزدیک سے سینکڑوں شائقین نے نہایت دلچسپی اور دلجمعی سے کھیل دیکھا اور خوب داد دی۔ حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب نے سنٹرل ایمیچیور باسکٹ بال ایسوس ایشن کے صدر کی حیثیت سے انعامات تقسیم فرمائے۔
چھٹا سالانہ ٹورنامنٹ اپنی گزشتہ روایات کے مطابق کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوا اور انعامات کی تقسیم پروفیسر خواجہ غلام صادق صاحب چیئرمین سنٹرل امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن نے کی۔
ساتواں ٹورنامنٹ جو کالج میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی سربراہی کے مبارک زمانہ کا آخری ٹورنامنٹ تھا` ۲۵` ۲۶` ۲۷۔ تبلیغ ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کو منعقد ہوا۔ کل ۲۶ ٹیموں نے شرکت کی اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے بحیثیت پرنسپل و صدر سنٹرل ایسوسی ایشن لوائے پاکستان اور کالج کا جھنڈا لہرایا۔ اس موقعہ پر جن اصحاب نے پیغامات ارسال کئے ان میں ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان` خواجہ عبدالحمید صاحب ڈائریکٹر تعلیمات راولپنڈی ریجن` ونگ کمانڈر ایچ۔ اے صوفی سیکرٹری سپورٹس کنٹرول بورڈ گورنمنٹ آف مغربی پاکستان` پروفیسر خواجہ محمد اسلم پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور اور سید پناہ علی شاہ انسپکٹر آف سکولز لاہور ڈویژن` خاں محمد عادل خاں ڈائریکٹر آف سپورٹس پشاور یونیورسٹی بالخصوص قابل ذکر تھے۔ اس ٹورنامنٹ کی تصاویر )مع پیغام و تصویر ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان( دو دفعہ ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی۔ اسی طرح ریڈیو پر مقامی اور قومی خبروں میں بھی اس کا اعلان نشر کیا گیا۔
۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب منصب خلافت پر فائز ہوئے اور خلافت ثالثہ کے مبارک عہد کا آغاز ہوا تو حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ کرم اپنے اسم گرامی سے ٹورنامنٹ کو منسوب کئے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ آئندہ سے یہ مقابلے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے >ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ< کے نام سے ہونے لگے۔۲۰۸
کل پاکستان اردو کانفرنس کا انعقاد
باسکٹ بال ٹورنامنٹ سے اگر کھیلوں کی دنیا میں کالج کا شہرہ عام ہوا تو ادب اردو کے حلقوں میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی >کل پاکستان اردو کانفرنس< نے دھوم مچا دی۔
ربوہ میں اپنی نوعیت کی پہلی کامیاب کانفرنس جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خداداد ذہانت` بلند پایہ نفیس ادبی ذوق اور بہترین علمی قیادت و سیادت کی آئینہ دار اور پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے صدر شعبہ اردو اور پروفیسر ناصر احمد صاحب پروازی معتمد مجلس استقبالیہ اردو کانفرنس اور ان کے دوسرے رفقاء کی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ تھی` ۱۸۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کو تعلیم الاسلام کالج کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۲۵ کے قریب نامور ادباء اور شعراء نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں مختلف کالجوں کی طرف سے بھی پچیس کے قریب مندوبین شامل ہوئے۔ کانفرنس کی کارروائی تلاوت سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ نے اپنے پراثر خطبہ۲۰۹ میں ارشاد فرمایا۔
>اس کانفرنس کے مقاصد خالصت¶ہ تعمیری اور مثبت ہیں۔ ہم اردو کا مینار تخریب کے منفی اقدار پر استوار نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے نزدیک سلبی انداز فکر ذہنی افلاس کی علامت ہے۔ زندہ قوموں کی ہزار پہلو ضروریات اپنے اپنے مقام اور محل پر سب کی سب اہم اور ناقابل تردید حیثیت کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ ان جملہ قومی تقاضوں کو ضروری خیال کرتے ہوئے بھی میزان عدل کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اردو کو وہ ارفع مقام دیا جاسکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے۔
یہ ایک عظیم قومی حادثہ ہے کہ زبان کا مسئلہ جو خالصت¶ہ قومی اور علمی سطح پر حل کیا جانا چاہئے تھا` سیاسی نعرہ بازی اور مہمل جذبات کا شکار ہوکر رہ گیا اور سترہ سال کا طویل عرصہ بے کار مباحث اور مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں ضائع ہوگیا۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ ہمارے معروف >ساغر< کا ایک دور >صد سالہ دور چرخ< کے ہم پلہ ہوا کرتا ہے اور رند جب میکدہ سے نکلتے ہیں تو دنیا بدلی ہوئی پاتے ہیں لیکن یہاں سترہ سال کے بعد بھی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل انگاری اور خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ ٹھنڈے دل سے اپنی مشکلات کا جائزہ لیں اور سنجیدگی سے اپنے تعلیمی` تدریسی` علمی` ادبی` لسانی اور طباعتی مسائل کا حل تلاش کریں۔ زبان و بیان` تلخیص و ترجمہ` رسم الحظ اور اسی قسم کے دیگر عقدوں کی گرہ کشائی کی کوشش کریں۔ ایسا لائحہ عمل بنائیں اور اس کی تشکیل ایسے خطوط پر کریں جس سے یہ گومگو کی کیفیت ختم ہو اور اس ذہنی دھند سے نجات ملے۔
اس جگہ اس امر کا اظہار بھی غیر مناسب نہ ہوگا کہ اردو کے ساتھ جماعت احمدیہ کا ایک پائیدار اور روحانی رشتہ بھی ہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اکثر تصانیف اردو ہی میں ہیں۔ اس لئے اردو زبان عربی کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے۔ اسی لئے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدیہ مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں ہاں اردو سیکھی اور سکھلائی جارہی ہے۔ زبان اردو کی یہ ٹھوس اور خاموش خدمت ہے جو جماعت احمدیہ دنیا کے گوشے گوشے میں کررہی ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے۔ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے۔ یہ وہ قیمتی متاع ہے جو ہمیں ہمارے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسے اس قابل بنائیے کہ ہماری آئندہ نسلیں اس ورثہ کو سرمایہ افتخار تصور کریں اور اس پر بجاطور پر ناز کرسکیں اور ہماری طرح گونگی اور >بے زبان< ہوکر نہ رہ جائیں۔
اردو ایک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے۔ ادبیات کی اہمیت مسلم لیکن یہ نہ بھولئے کہ اردو زبان کا یہ بھی حق ہے کہ شعر و ادب کے روایتی اور محدود دائرے سے باہر نکلے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہو جائے۔ ساری دنیا کے دلوں پر اس کی حکومت ہو۔ قومیں اسے لکھیں` بولیں اور اس پر فخر کریں اور بین الاقوامی زبانوں کی محفل میں اردو بھی عزت کے بلند پایہ مقام پر سرفراز ہو۔
ان دعائیہ الفاظ کے ساتھ ہی میں ایک بار پھر اپنے دوستوں اور بزرگوں کو اھلا و سھلا و مرحبا کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو ایسا انداز فکر عطا فرمائے اور اس نہج پر کام کرنے کی توفیق دے جو نہ صرف زبان اردو کے لئے بلکہ ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے خیر و برکت کا باعث ہو۔ اللہم آمین۔4] [stf۲۱۰
خطبہ استقبالیہ کے بعد معتمد استقبالیہ اردو کانفرنس نے اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی اور اشتیاق حسین صاحب قریشی رئیس الجامعہ جامعہ کراچی کے پیغامات سنائے جو انہوں نے خاص اس موقعہ کے لئے بھیجے تھے۔ ان پیغامات کے علاوہ سیدنا المصلح الموعود کے اس پیغام کے اقتباسات بھی سنائے جو حضور نے ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش میں دانش گاہ پنجاب میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نام ارسال فرمایا تھا۔ ازاں بعد حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ ادبی مقابلہ >اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کرسکتے ہیں؟< کے موضوع پر پڑھا گیا۔ حضور کا یہ قیمتی مقالہ برصغیر پاک و ہند کے ادیب شہیر احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی نے اپنے رسالہ >ادبی دنیا< )مارچ ۱۹۳۱ء( میں حضور کا فوٹو دے کر شائع کیا تھا۔ اس زمانہ میں رسالہ >ادبی دنیا< کے نگران اعلیٰ سرعبدالقادر مرحوم تھے۔
اس یادگار مقالہ کے بعد جو گویا اس پوری کانفرنس کی روح رواں تھا۔ وزیر آغا ایم۔ اے` پی۔ ایچ۔ ڈی نے اپنا فاضلانہ خطبہ افتتاح پڑھا جس میں تعلیم الاسلام کالج کو ادبی کانفرنس منعقد کرنے پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا۔
>اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے یوں تو بہت سے اقدامات ضروری ہیں لیکن اس سلسلہ میں اردو کانفرنسوں کا انعقاد ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں بالعموم ہر تحریک نہ صرف بعض بڑے ثقافتی مراکز سے جنم لیتی ہے بلکہ پروان چڑھنے کے بعد وہیں کی ہوکر رہ جاتی ہے اس سے تحریک میں وہ کشادگی اور وسعت پیدا نہیں ہوتی جو اس کی پوری کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اردو زبان کی ترویج کے سلسلہ میں جو تحریکات وجود میں آئیں وہ عام طور پر لاہور اور کراچی ایسے مراکز ہی سے وابستہ ہیں۔ تعلیم الاسلام کالج نے اس انجماد کو توڑا ہے اور اردو کانفرنس کے انعقاد سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اب اردو کے لئے محبت اور اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی آرزو بڑے بڑے مراکز تک ہی محدود نہیں رہی۔ گویا اس خوشبو کی طرح جو دیوار چمن کو پار کرتی ہے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کی تحریک بھی اونچی اونچی دیواروں کو پار کرکے افق کے پہاڑوں سے آٹکرائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو مبارک قدم اٹھایا ہے اس کی ملک کے طول و عرض میں عام طور سے تقلید ہوگی اور ہم اردو زبان کو ملک کے دور دراز گوشوں تک پہنچا سکیں گے۔ آپ کی یہ اردو کانفرنس اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے پس پشت اردو زبان کے لئے بے پناہ محبت کے سوا کوئی اور جذبہ موجزن نہیں ہے اور آپ نے پنجاب کے اس دیہاتی علاقہ میں منعقد کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو زبان پنجاب کے دور دراز گوشوں میں بھی ویسی ہی مقبول ہے جیسی کہ اردو کے بڑے بڑے مراکز میں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے اردو کانفرنس کے منعقد کرنے کی جو روایت قائم کی ہے اسے ہمیشہ جاری رکھیں گے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے ملک کے دوسرے ادارے اس سلسلہ میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی پوری کوشش کریں گے۔۲۱۱]ybod [tag
اس خطبہ افتتاح کے بعد کانفرنس کی دو نشستوں میں مندرجہ ذیل موضوعات پر تحقیقی اور فکر انگیز مقالے پڑھے گئے۔
۱۔ اردو میں سائنسی تدریس )پروفیسر شیخ ممتاز حسین صاحب صدر شعبہ اردو زراعتی یونیورسٹی لائل پور(
۲۔ اردو میں قانونی تدریس )خضر تمیمی صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور(
۳۔ اردو میں دخیل الفاظ کا مسئلہ )ڈاکٹر سہیل بخاری صاحب سرگودھا(
۴۔ اردو بحیثیت تدریسی زبان )پروفیسر سید وقار عظیم صاحب شعبہ اردو دانش گاہ پنجاب(
۵۔ غیر ممالک میں احمدی کی کیا خدمات انجام دے رہے ہیں )مولانا نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ(
۶۔ ادب اور زندگی کا رشتہ )سید سجاد باقر صاحب رضوی شعبہ اردو دانش گاہ پنجاب(
۷۔ اردو بحیثیت قومی زبان )ڈاکٹر وحید قریشی صاحب(
ان ادباء کے علاوہ جامعہ احمدیہ کے تین غیرملکی طلبہ یوسف عثمان صاحب )افریقہ( عبدالقاھر صاحب )ترکستان( اور عبدالرئوف صاحب )فجی( نے >ہمیں اردو سے کیوں محبت ہے< کے عنوان پر مضمون پڑھے۔ مہمانوں کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ غیرملکی طلبہ ایسی شستہ اردو بول رہے ہیں۔۲۱۲ الغرض یہ پہلی اردو کانفرنس ہر لحاظ سے حددرجہ کامیاب رہی۔
دوسری اردو کانفرنس
۱۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۷ء/ ۱۳۴۶ہش کو کالج میں دوسری آل پاکستان اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مغربی پاکستان کی تین یونیورسٹیوں اور متعدد تعلیمی اداروں اور ادبی تنظیموں کے ۸۴ خصوصی نمائندے شریک ہوئے۔ خطبہ افتتاح ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی نے دیا اور جسٹس اے۔ آر کارنیلس چیف جسٹس پاکستان` جناب اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان` ممتاز حسین صاحب سابق مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنک آف پاکستان اور جناب پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے خصوصی پیغامات ارسال کئے۔
اس دو روزہ کانفرنس میں زبان` ادب` صحافت اور تدریس کے پچاس موضوعات پر ۴۳ مقالے پڑھے گئے اور باقی سات مقالے اشاعت کے لئے پیش کئے گئے۔ کانفرنس میں دو مذاکرے بھی منعقد ہوئے۔ ان میں سے ایک مذاکرہ اردو میں >سائنسی تدریس کی مشکلات اور ان کا حل< کے موضوع پر ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر ظفر علی صاحب ہاشمی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائلپور نے کی۔ دوسرے مذاکرہ کا موضوع >جدید اردو شاعری کے رجحانات< تھا۔ اس میں صدارت کے فرائض سید وقار عظیم صاحب صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی نے ادا کئے۔ کانفرنس کا ایک اجلاس محسنین اردو کے تذکرہ کے لئے وقف تھا۔ جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب` حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب )المصلح الموعود`( علامہ نیاز فتح پوری اور مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات اور کارناموں پر ٹھوس مقالے پڑھے گئے۔۲۱۳`۲۱۴
پہلا باب )فصل ششم(
کالج میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا قائم فرمودہ مثالی نظام تعلیم و تربیت اس کی بنیادی خصوصیات اور ہمہ گیر اثرات
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے ذہن مبارک میں تعلیم الاسلام کالج کے عروج و ارتقاء اور شاندار مستقبل کی نسبت جو نقشہ قیام کالج کے وقت موجود تھا وہ اپنی تفصیلات و مضمرات کے اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا حامل ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ اس نقشہ کی عملی تشکیل و تعمیر کے لئے مسلسل اکیس برس )۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش تا ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش( تک سرتاپا وقف اور مجسم جہاد بنے رہے اور قریباً ربع صدی کی بے پناہ کاوشوں اور معرکہ آرائیوں کے بعد خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود کی دعائوں اور حضرت مصلح موعود کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں کالج کو ایک قابل رشک مخصوص اور امتیازی مقام تک پہنچا دیا اور اس کی بنیادیں ایک اسے طریق تعلیم اور نظام تربیت پر استوار کیں جو روح و جسم اور علم و عمل پر حاوی اور دین و دنیا کے حسین امتزاج کا بہترین نمونہ ہے۔
آپ نے اس اسلامی درس گاہ میں جو مثالی نظام تعلیم و تربیت رائج فرمایا وہ اپنے اندر متعدد خصوصیات رکھتا ہے جن میں سے پانچ حد درجہ نمایاں ہیں اور کالج کی مقدس اور ناقابل فراموش روایات بن چکی ہیں۔
پہلی خصوصیت آپ کے قائم کردہ نظام کی یہ تھی کہ آپ نے اپنے پاک نمونہ سے کالج کے اساتذہ میں زبردست روح پھونکی کہ وہ طلبہ کو قوم کا عظیم سرمایہ یقین کرتے ہوئے ان کے ساتھ شفیق باپ سے بھی بڑھ کر محبت کرتے` ان کی بہبود اور ترقی میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے` ان کی جائز ضروریات پوری کرتے` ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے` ہر وقت بے لوث` خدمت میں لگے رہتے اور پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ بچوں کی رہبری اور رہنمائی میں مصروف رہتے تھے۔
دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے کالج کی قیادت اس رنگ میں فرمائی کہ طلبہ و اساتذہ اسلامی اقدار کے حامل بنیں اور ہمیشہ ہی غلط قسم کی سیاست سے کنارہ کش اور ہڑتالوں اور دوسری مغربی بدعات سے متنفر رہیں۔ چنانچہ کالج کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ قادیان` لاہور اور ربوہ تینوں جگہ یہ انسٹی ٹیوشن ہمیشہ ہی ذہنی تکدر اور سیاسی بے راہ روی سے ہر طرح محفوظ و مصئون رہی ہے اور یہ وہ خصوصیت اور امتیاز ہے جس میں تعلیم الاسلام کالج اس زمانہ میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر کے کالجوں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
تیسری خصوصیت اس نظام تعلیم و تربیت کی یہ تھی کہ اس درسگاہ کا فکر و عمل ہمیشہ مذہب و ملت کی تفریق سے بالا رہا ہے۔ ہر طالب علم خواہ وہ کسی مذہب` کسی فرقہ یا سیاسی جماعت سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ہر قسم کی جائز سہولتیں حاصل کرتا ہے اور اس کالج کے اساتذہ ہر طالب علم کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے تھے۔
چوتھی خصوصیت اس میں یہ تھی کہ یہاں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ ایک غریب کی عزت و احترام کا ویسا ہی خیال رکھا جاتا تھا جیسا کہ کسی امیر طالب علم کا` اور اساتذہ ہر اس طالب علم کی قدر کرتے تھے جو علمی شوق رکھتا ہو اور علم کی وسیع شاہراہ پر بشاشت اور محنت کے ساتھ آگے بڑھنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے آپ کو ابتداء ہی سے اسلامی نظام اقتصادیات سے غیر معمولی دلچسپی` لگائو اور شغف رہا ہے اور آپ نے ہرممکن جدوجہد فرمائی کہ کالج کے نظام تعلیم و تربیت سے اس نظام کو زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جائے۔ اس بناء پر آپ نے ہمیشہ سادگی پر زور دیا اور طلباء کے اخراجات کو کم سے کم رکھنے کو اپنا ضروری فرض سمجھا تاکہ غریب طالب علم کو اپنی غربت کا احساس نہ رہے اور امیر اپنی امارت جتانے میں حجاب محسوس کرے۔ آپ کے اسی طرز عمل کا نتیجہ تھا کہ کالج کے بعض غریب طلبہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر اپنے فارغ اوقات میں محنت اور مزدوری کرکے اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے تھے اور آپ بھی اور دوسرا سٹاف بھی ان محنتی اور ہونہار طلبہ کی ہر رنگ میں حوصلہ افزائی اور قدر دانی فرمایا کرتے تھے۔
‏body2] gat[پانچویں خصوصیت آپ نے تعلیم و تربیت کی ظاہری تدابیر کو انتہاء تک پہنچانے کے باوجود ان پر کبھی انحصار نہیں کیا اور ہمیشہ خود بھی ہر مرحلے پر دعائوں سے کام لیا اور اپنے رفقاء کار میں بھی اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور ان میں یہ احساس پختگی کے ساتھ قائم کردیا کہ محض ظاہری دیکھ بھال اور تربیت کافی نہیں۔ ہمارے بچوں کا پہلا اور آخری حق ہم پر یہ ہے کہ ہم دعائوں کے ساتھ ان کی مدد کرتے رہیں۔
یہاں بطور نمونہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے متعلق خود آپ کے بعض دعائیہ کلمات درج کئے جاتے ہیں جن سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ اس ادارہ کو رفعتوں کے کتنے بلند ترین مقام تک لے جانے کے ہمیشہ متمنی اور آرزو مند رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش میں دعا کی کہ۔
>اے قادر توانا خدا! اے حقائق اشیاء کو پیدا کرنے والے اور ان حقاق و رموز کو انسانی دل پر الہام کرنے والے خدا! تو ہماری ان ناچیز مساعی کو قبول فرما اور ہماری تضرعات کو سن اور ہم پر اور ہماری اولاد پر علم کے وسیع دروازوں کو ہر پہلو سے کھول دے۔ علم کی روشنی سے ہمارے دل اور دماغ کو منور کر۔ اور علم و معرفت کی غیر محدود طاقت سے ہمارے عمل میں ایک نئی روح اور ہماری مساعی میں ایک نئی زندگی پیدا کر کہ ہم اور ہماری نسلیں تیرے عطا کردہ علم اور تیری بخشی ہوئی معرفت سے پر ہوکر تجھ ہی سے دعائیں کرتے ہوئے جس میدان عمل میں بھی داخل ہوں سب پر سبقت لے جائیں۔ اے خدا! تو خود اس نو شگفتہ نسل کے دل و دماغ کو رموز قیادت و مسابقت سے آشنا کر اور ان کے عمل اور مساعی میں تیزی اور جولانی پیدا کر اور انہیں دنیا کا ہمدرد بنا` دنیا کا خادم بنا` دنیا کا محسن بنا` اور دنیا کا رہبر بنا` قوم کا نام ان کے کام سے چمکے۔ انسانیت کا چہرہ ان کی روحانیت سے منور ہو اور تیری صفات ان کے کمالات سے ظاہر ہوں<۔۲۱۵
نظام تعلیم و تربیت کا ایک جامع نقشہ
کالج کے نظام تعلیم و تربیت کی بنیادی خصوصیات کی نشاندہی کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کے مبارک الفاظ میں اس درسگاہ کے تعلیمی و تربیتی اعتبار سے پاکیزہ ماحول کا ایک نقشہ قارئین کے سامنے رکھ دیں۔ اس نقشہ سے نہایت جامعیت کے ساتھ پانچوں خصوصیات کی جھلک پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش میں فرمایا۔
>ہمارے طلبہ اور ہمارے اساتذہ تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فرض تصور کرتے ہیں۔ ہمارے پاس برے بھلے ہر قسم کے طلبہ آتے ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں اور ایک باپ ہی کی محبت کا سلوک کرنا پڑتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان عزیزوں کے لئے صحت افزا ذہنی` اخلاقی اور جسمانی فضا مہیا کرنا` ان کی شخصیتوں کے جملہ پہلوئوں کو اجاگر کرنا اور علمی اور اخلاقی نشوونما کی جملہ سہولتیں بہم پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے نزدیک مسجد کے بعد مدرسے کا تقدس ہے اور ہماری اس درسگاہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم و تربیت کے فرائض عبادت کے رنگ میں سرانجام دیئے جاتے ہیں جہاں رنگ اور مذہب` افلاس اور امارت` اپنے اور بیگانے کی کوئی تفریق نہیں۔ جہاں طلباء مقدس قومی امانت ہیں۔ جہاں ماحول خالص اسلامی اور اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی۔ جہاں منتہائے مقصود خدمت ہے نہ کہ جلب منفعت۔ جہاں غریبی عیب نہیں اور امارت خوبی نہیں۔ الحمدلل¶ہ علیٰ ذلک۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے عظیم اور مثالی ادارے کی کماحقہ حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے جس کے ذرے ذرے پر اس کے فدائی اساتذہ اور طلباء نے خون دل سے محنت اور اخلاص کی داستانیں لکھی ہیں۔ یہاں اساتذہ سستی شہرت کی خاطر اپنے فرائض کے تلخ پہلوئوں سے اغماض نہیں برتتے اور نہ ہی طلباء سٹرائیک کی قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہاں نہ صرف ملک کے گوشے گوشے بلکہ غیر ممالک سے بھی ہر مذہب و خیال کے طلباء اس پرسکون` سادہ اور پاک ماحول سے فائدہ اٹھا رہے ہیں<۔۲۱۶
>تعلیم الاسلام کالج ایک بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے۔ کالج کے طلبہ کا حلقہ انڈونیشیا` برما` تبت` ہندوستان` مغربی افریقہ` مشرقی افریقہ` سومالی لینڈ اور بحرین وغیرہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے<۔
>ہمارے طلبہ میں سچائی` محنت` خدمت خلق` غیرت قومی` خدمت دین` امانت و دیانت اور دیگر اخلاق فاضلہ صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان کا معیار بھی کافی بلند ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ جس معیار کی تعلیم دینے اور جس طرح کے طلبہ پیدا کرنے کی کوشش اس کالج میں ہورہی ہے اس کے پیش نظر نہ صرف اس کالج کی بلکہ اس جیسے سینکڑوں کالجوں کی ملک و قوم کو ہر وقت ضرورت رہے گی اور ہمارے طلبہ انشاء اللہ تعالیٰ آنے والے سالوں میں تعلیمی` علمی اور اخلاقی میدان میں مثالی اور قابل فخر کردار ادا کریں گے<۔۲۱۷
>اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور کوششوں میں برکت ڈالے اور ہمیں خدمت قوم و بنی نوع انسان کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے<۔۲۱۸
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی طلبہ کالج سے متعلق یہ پیشگوئی خدا کے فضل و کرم سے حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
تعلیم و تربیت سے متعلق بعض اہم واقعات
یہ نظام تعلیم و تربیت جس کا خاکہ اوپر کھینچا گیا ہے اپنی تفصیلات کے اعتبار سے ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ تاہم ذیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے اس دور زندگی کے بعض اہم واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے آپ کے انداز تربیت کے بہت سے گوشے نمایاں ہوتے ہیں اور جو دنیائے اصلاح و تربیت کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
طلبہ پر بے مثال شفقت
بلامبالغہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( نے تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو اپنے خون سے پالا ہے اور ان کے ساتھ ہمیشہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر محبت کی ہے۔ جناب پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے کا بیان ہے کہ >ایک دفعہ خاکسار نے لاہور میں ۱۹۵۰ء یا ۱۹۵۱ء میں آپ سے عرض کیا کہ ڈسپلن کیسے رہے ہم اساتذہ طلباء کی غفلتوں پر بعض اوقات جرمانہ کی سزا دلواتے ہیں مگر آپ اسے معاف فرما دیتے ہیں۔ آپ نے جواباً تحریر فرمایا۔
اگر طلبہ کے لئے میرے دل میں خدا تعالیٰ نے رحم ڈالا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ باقی حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ ناصر احمد<
عکس


تادیب` دلداری اور ذاتی تعلق
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے لکھتے ہیں۔
>آپ کالج اور ہوسٹل کی تفصیلی نگرانی فرماتے اور ہر معاملے میں ہم خدام کو ان کی بابرکت رہنمائی حاصل ہوتی۔ سزا بھی دیتے لیکن کراہت کے ساتھ لیکن جہاں سزا ضروری ہوتی اسے ضرور دیتے۔ مجھے یاد ہے۔ ایک دفعہ ایک طالب علم کو بدنی سزا دی جانے لگی۔ ہال میں طلبہ اکٹھے ہوئے۔ اس عاجز سے ارشاد فرمایا کہ سزا دو۔ جب سزا کا نفاذ ہونے لگا تو فرمانے لگے کہ سزا میں نے آپ کو نہیں اس طالب علم کو دی ہے اور خود باقی سزا اپنے ہاتھ سے نافذ کی۔ آج تک واقعہ کا اثر دل پر ہے۔ بعد میں بھی جب سزا دی ہے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر غم کی کیفیت طاری ہوئی اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اس تکلیف سے کتنا کتنا عرصہ گھر سے تشریف نہ لاتے<۔
طلباء آپ سے جو محبت اور عقیدت رکھتے اس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ چوہدری محمد بوٹا ایک طالب علم ہوتے تھے جو اب RESEARCH IRRIGATION میں آفیسر ہیں۔ غیراز جماعت ہیں۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں عرصے کے بعد جب وہ ایم ایس سی کرچکے تھے اور کالج سے جاچکے تھے خط لکھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتا ہوں اور میرے دل میں چونکہ آپ کی بے حد قدر اور عزت ہے اور مجھے کوئی اور آپ جیسا عظیم انسان نہیں ملا اس لئے آپ کی اجازت سے اپنا نام ناصر رکھنا چاہتا ہوں چنانچہ آج وہ اسی نام سے موسوم ہیں۔
محمد اشرف ایک طالب علم تھے جن پر کالج کے دنوں میں بظاہر سختی ہوئی تھی۔ یورپ کے دورے )۱۹۶۷ء( کے وقت دیوانہ وار حضور کی خدمت میں ایڈنبرا` گلاسگو وغیرہ حاضر رہے۔ طلبہ آپ کے والہ و شیدا تھے اور آپ بھی بیٹوں کی طرح ان سے سلوک فرماتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آدھی آدھی رات بیمار طلبہ کے سرہانے بیٹھ کر ہاتھ سے چمچے کے ساتھ خود دوائی پلایا کرتے اور تسلیاں دیا کرتے۔ اس شفقت اور محبت کو دیکھ کر دوسرے طلباء کہا کرتے کہ ہمارا بھی بیمار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ غریب طلباء کی بہت دلداری فرماتے کہ ان کی امداد اس رنگ میں ہو کہ ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے۔ جو طلباء مزدوری کرکے پڑھتے ان کی خاص قدر فرماتے اور ان کا اس محبت سے ذکر فرماتے کہ ایسے طلباء کا فخر سے سراونچا ہو جاتا۔ غریب طلباء کی غذا` دوا` لباس` سویا بین اور پتہ نہیں کیا کیا ان کے لئے مہیا فرماتے۔ ڈسپلن کے معاملے میں سختی فرماتے اور پھر دلداری بھی فرماتے۔ فرمایا کرتے کہ استاد کو باپ اور ماں دونوں کا کام کرنا چاہئے۔
>سویا بین کا بہت شوق تھا اور ہے اور کمزور اور کھلاڑی اور ذہین طلباء کو اس کا حلوا تیار کروا کے کھلایا کرتے اور خوش ہوتے۔
آپ کا تعلق طلباء سے بے حد محبت اور تکریم کا ہوا کرتا تھا۔ ان سے مزاح بھی فرماتے اور بے تکلف بھی ہوتے لیکن حدود قائم رہتیں۔ خدام الاحمدیہ کے دور میں کلائی پکڑنے کا شوق تھا میرے علم میں کوئی ایسا شخص یا طالب علم ¶نہیں جو آپ کے مقابلے پر پرا اتر سکا ہو۔ اگر یہ عاجز کبھی کوشش کرتا تو دو انگلیوں سے کلائی چھڑا لیتے۔ طلباء کسی قسم کا بعد یا فاصلہ محسوس نہیں کرتے تھے۔ باپ بیٹے کا تعلق تھا جو زندہ اور جاری تھا۔ جب مرحوم مبشر احمد گکھڑ جو بے حد ہونہار اور نیک اور ذہین طالب علم تھا قتل ہوا اور آپ کی خدمت میں شام کو کراچی میں ضمناً ایک لڑکے مبشر احمد کی اطلاع کی گئی تو رات گئے غالباً بارہ ایک بجے کا عمل ہوگا کہ آپ کا فون آیا کہ تفصیل بتائی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے نیند نہیں آرہی اور بے حد بے چینی ہے۔ کیا یہ وہی مبشر احمد تو نہیں جو ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ افسوس کہ یہ وہی مبشر احمد تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہوگئے اور آدھی رات کو کراچی سے فون آیا۔
آپ طلبہ کو بلاوجہ ان کے نچلے پن پر ٹوکتے نہیں تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ ان کی صحت کی علامت ہے۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے جو جماعت کے ایک مخلص خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خود ایک بڑی کار پر ماڈل ٹائون سے کالج آیا کرتے تھے آپ کی >ولزلے< کارپر >المنار< میں چھپنے کے لئے انگریزی میں ایک مضمون لکھا۔ میں ان دنوں انگریزی حصے کا نگران تھا۔ میں نے شائع کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر مصنف نے اصرار کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا۔ یہ تو ضرور چھپنا چاہئے۔ میں نے اسے ذرا نرم کرکے چھاپ دیا۔ جس دن >المنار< شائع ہوا۔ کوئی چند گھنٹے بعد طالب علم کانپتا ہوا میرے پاس آیا۔ کہنے لگا کہ ادھر یہ مضمون شائع ہوا اور ادھر میری کار کی ٹکر درخت سے ہوگئی۔ میری جان بچ گئی۔ میں اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کی کار پر استہزاء کا مرتکب ہوا تھا۔ مجھے اس کی سزا مل گئی۔ خدا معاف کرے۔
آپ طلباء کے اجتماعات میں دلی نشاط اور بشاشت سے شامل ہوتے اور خط اٹھاتے کشتی رانی (ROWING) کے میچوں میں تقریباً آدھ میل تک کشتی کے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے دوڑ کر حوصلہ افزائی فرماتے اور دوسرے کالجوں کے طلباء بار بار ہم سے کہا کرتے کہ کاش ہمارے پرنسپل بھی ہماری کھیلوں میں اتنی دلچسپی لیں۔ خدا تعالیٰ نے جو رعب دیا ہوا ہے طلباء اس کی وجہ سے ڈرتے بھی۔ لیکن وہ یہ جان گئے تھے کہ اگر کوئی خاص سنگین قسم کی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوں تو اس رعب کے نیچے حلم اور حیا اور محبت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہے اس لئے عام جرمانہ وغیرہ ہوتا تو جاکر معاف کروا لیتے۔ آپ کبھی بے صبری کا اظہار نہ فرماتے سختی کے وقت سختی بھی فرماتے لیکن دل نرمی کی طرف مائل رہتا۔ کھلاڑیوں خصوصاً روئنگ اور باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کی تکریم کرتے۔ لیکن اگر کبھی وہ قانون شکنی کرتے تو سختی بھی اتنی ہی زیادہ فرماتے۔ ایک روئنگ کے لڑکے سے غلطی ہوئی جو ہمارا کپتان تھا کبڈی کا کپتان بھی تھا۔ نہایت ذہین طالب علم تھا۔ سکالر شپ ہولڈر تھا۔ اسے اور خرچ بھی دیتے تھے اور آپ کے گھر سے کھانا بھی آیا کرتا اور اس کی خوب خوب ناز برداری ہوتی۔ لیکن جب اس نے کالج کے ایک استاد کے ساتھ گستاخی کی تو اسے دو سال کے لئے کالج سے نکال دیا۔ میں نے آپ کو بڑے سے بڑے حادثے پر روتے نہیں دیکھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اس لڑکے کے اخراج از کالج کے فارم پر دستخط فرماتے وقت حضور کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں<۔
طلبہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کی محبت و شفقت اور ہمدردی کے بے شمار واقعات ہیں۔ حال ہی میں آپ نے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا۔
>میں ایک دفعہ اپنے کالج کے دفتر سے گھر کی طرف جارہا تھا۔ راستے میں مجھے ایک طالب علم ملا جس کے متعلق مجھے علم تھا کہ وہ بڑا محنتی اور ہوشیار طالب علم ہے۔ کوئی مہینے ڈیڑھ تک یونیورسٹی کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس کا منہ زرد اور منہ پر دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ بیمار شکل ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچا کہ میں نے اس کی صحت کا خیال نہیں رکھا۔ ویسے وہ عام کھانا تو کھارہا تھا۔ لیکن ایسے کھانے پر اسلام کا اقتصادی نظام نہیں ٹھہرتا۔ میں نے سوچا کہ میں نے ظلم کیا۔ کشتی رانی کرنے والے طلباء کو تو میں سویابین کا حلوہ دیتا ہوں لیکن جو دن رات محنت کرنے والے طلباء ہیں ان کو میں سویابین کا حلوہ نہیں دیتا۔ میں نے تو بڑی غلطی کی۔ چنانچہ اس کو تو میں نے کہا کہ مجھ سے سویابین لے جاکر استعمال کرنا )لیکن بعد میں میں نے تمام محنتی طلباء کو سویا بین دینے کا انتظام کردیا( پہلے اسے مناسب حال غذا نہیں مل رہی تھی۔ اب جب اسے مناسب حال غذا ملی تو پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کے دھبے دور ہوگئے۔ چہرہ پر سرخی آگئی۔ آنکھوں میں زندگی اور توانائی کی علامات نظر آنے لگیں اور وہ امتحان میں بڑی اچھی طرح سے پاس ہوا۔ اچھے نمبر تو وہ ویسے بھی لے لیتا لیکن یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ساری عمر کے لئے وہ بیمار پڑجاتا۔ کئی ایسے عوارض اسے لاحق ہوجاتے جن سے چھٹکارا پانا اس کے لئے ناممکن ہو جاتا<۔
طلبہ کی حوصلہ افزائی اور روح مسابقت میں اضافہ کے لئے جدوجہد
حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کالج کی سربراہی کے زمانہ میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کس طرح ان میں روح عمل اور
روح مسابقت کو بیدار کرنے بلکہ بڑھانے میں سرگرم عمل رہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے بطور نمونہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
شروع ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش کا واقعہ ہے کہ لاہور میں کشتی رانی کے مقابلے جاری تھے جس میں حسب سابق تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم بھی اپنی روایتی شان کے ساتھ حصہ لے رہی تھی۔ ۵۔ تبلیغ/ فروری کو کالج کی کشتی رانی کی ٹیم کے کیپٹن ناصر احمد صاحب ظفر۲۱۹ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مغربی پاکستان اوپن روئینگ چیمپئن شپ کے ارکان نے لاہور کے مقامی کالجوں کے لڑکے ہمارے مقابلہ جات کے لئے بطور منصف مقرر کر دیئے ہیں جس سے صورت حال بالکل ہمارے خلاف ہوگئی ہے۔ اس پر حضرت صاحبزادہ نے اپنے قلم مبارک سے انہیں حسب ذیل پیغام تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کے نام لکھ دیا اور ارشاد فرمایا کہ آپ ٹیم کے سامنے یہ پڑھ کر سنادیں۔
عکس کیلئے

~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعلیم الاسلام کالج کے باغیرت نوجوانو!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
مجھے بتایا گیا ہے کہ سکول بورڈ کے منتظمین نے کل کے مقابلہ میں لاہور کالجز کے طلبہ کو بطور ججز مقرر کیا تھا اور ان کا فیصلہ خلاف عقل و انصاف تھا۔ اگر یہ صحیح ہے تو۔
پہلے آپ کا مقابلہ برادرانہ مقابلہ تھا۔ دوسرے کالجز کے طلبہ ہمارے لئے ایسے ہی ہیں جیسا کہ اپنے طلبہ اور وہ آپ کے بھی بھائی ہیں۔ ان کے خلاف کوئی غصہ نہیں ہونا چاہئے۔ مقابلہ میں ہار جیت ہوتی ہی ہے اور یہ مقابلے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم عزت کے ساتھ جیتنا اور وقار کے ساتھ ہارنا سیکھیں اور آپ لوگ اس سبق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
مگر اب آپ کا مقابلہ اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں رہا۔ اب آپ کا مقابلہ بے انصافی اور بے ایمانی کے ساتھ ہے اور غیرت کا تقاضا ہے کہ آپ بے ایمانی اور بے انصافی کو شکست دیں۔ پس آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی قوت اور جوش کا آخری ماشہ خرچ کرکے دوسری ٹیموں کو بمپ کرتے ہوئے پھر اول آئیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ بے انصافی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے بغیر آپ کی غیرت کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ دل چھوڑنے کا` ہمت ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر بے انصافی روز آپ کو سب سے آخر میں رکھے تو آپ کی غیرت کو چاہئے کہ وہ روز آپ کو پہلی پوزیشن میں لے جائے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کردکھائیں گے۔
آج میرا پہنچنا ممکن نہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آخری دو دن آپ کے ساتھ رہوں۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔
ویسے میں آج فون کررہا ہوں شاید کسی ذمہ دار افسر کی انسانیت بیدار ہوسکے۔ آمین۔
فقط
ناصر احمد
پرنسپل
۵۷۔ ۲۔ ۵
ناصر احمد صاحب ظفر یہ پیغام لے کر لاہور پہنچے اور جودھامل بلڈنگ میں جہاں کالج کی ٹیم مقیم تھی۔ سب طلبہ کو اکٹھا کرکے یہ پیغام انہیں سنایا۔ اس ولولہ انگیز پیغام نے طلبہ کے اندر بے انصافی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ایک زبردست جوش اور بے پناہ جذبہ پیدا کردیا اور انہوں نے مصمم عہد کرلیا کہ وہ چیمپئن شپ حاصل کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعائوں سے کالج کی ٹیم چیمپئن شپ کا اعزاز جیت کر ربوہ پہنچی۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
طلبہ کو غیر اسلامی اخلاق و اقدار سے بچانے کیلئے ایک جرات مندانہ فیصلہ
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ۔
>یہ ۴۸۔ ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب پہلا C۔T۔O۔U کیمپ ہوا۔ یہ کیمپ والٹن میں ہوا تھا اور پاکستان بننے کے بعد پہلا کیمپ تھا۔ کیمپ کے حالات تسلی بخش نہیں تھے۔ ایک سینئر آفیسر CADETS اور اساتذہ کو جن کو فوجی رینک ملے ہوئے تھے بسا اوقات فحش گالیاں نکالا کرتا تھا۔ جنرل رضا ان دنوں ایڈجوٹنٹ جنرل تھے ان کے آنے تک تو بات بنی رہی لیکن جب کیمپ کا خاتمہ قریب آیا اور کمانڈر انچیف صاحب کے آنے کا دن قریب آیا تو طلبہ بے قابو ہوگئے اور فیصلہ کرلیا کہ سٹرائیک کریں گے اور تقسیم انعامات کے وقت اور کمانڈر انچیف صاحب کی آمد کے وقت خیموں میں بیٹھے رہیں گے۔ نہ صفائی کریں گے اور نہ ہی وردیاں پہنیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ہمارے لئے تسلی بخش نہ تھی۔ یہ عاجز اپنے دستے کا کمانڈر تھا اور مکرم چوہدری فضل داد صاحب نائب کمانڈر تھے۔ ہم نے حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی خدمت میں خاص آدمی بھجوایا کہ یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے ہماری مدد کی جائے لیکن وہ پیغام رساں کیمپ سے باہر نکلتے وقت گرفتار ہوگیا اور کوارٹر گارڈ میں بھیج دیا گیا۔ اس کا ہمیں اس وقت علم نہ ہوا۔ اور ہم آپ کی طرف سے کسی پیغام کے انتظار میں رہے۔ جب رات ہوگئی اور کوئی جواب نہ آیا تو پہلے ہم نے کالجوں کے اساتذہ سے رابطہ قائم کیا خصوصاً محترم راجہ ایس۔ ڈی احمد صاحب )سابق پرنسپل وٹرنری کالج اور ڈائریکٹر اینیمل ہبنڈری` کرنل اسلم )جو ہماری بٹالین کے کمانڈر تھے( برادر مکرم رفیق عنایت مرزا )جو اب سینئر سی ایس پی آفیسر ہیں( سے اور ان پر یہ بات واضح کی کہ ہم سٹرائیک میں شامل نہیں ہوں گے۔ اگر سٹرائیک ختم نہ ہوئی تو تعلیم الاسلام کالج کی پلاٹون اکیلی ڈیوٹی پر جائے گی کیونکہ ہم سٹرائیک کو شرعاً ناجائز سمجھتے ہیں۔ اور ان سے اپیل کی کہ پاکستان کا پہلا کیمپ ہے وہ خود بھی سٹرائیک ختم کروانے کے خواہشمند تھے۔ بہرحال بعض دوستوں کو ساتھ لے کر ہم رات کے وقت خیمے خیمے میں پھرے۔ لڑکے گانے گارہے تھے۔ قوالیاں ہورہی تھیں اور نعرے لگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا۔ ہماری اپیل پر لڑکے آمادہ ہوگئے کہ اگلے روز سٹرائیک نہ کریں اور پاکستان کے نام پر ایسی غیرت دکھائی کہ رات کا باقی وقت جاگ کر تیاری میں گزرا اور صفائی اور خیموں کی تزئین میں لگ گئے۔ چنانچہ اگلی صبح کمانڈر انچیف صاحب آئے۔ میدان جنگ کا نقشہ پیش ہوا۔ کمپنیوں میں باہمی لڑائی کی مہارت کے تمام انداز دکھائے۔ اس موقع پر ہمارے کچھ طلباء جو محاذ کشمیر پر فرقان بٹالین میں رہ چکے تھے وہ کمانڈر انچیف صاحب نے پہچان لئے۔ ان کی دلچسپی بڑھی تو پوچھا کہ سارے کیمپ میں کتنے ایسے مجاہدین ہیں۔ صرف ہمارے ہی کالج کے طلباء نکلے۔ تقسیم انعامات کے لئے پنڈال الگ قائم ہوچکا تھا اور مہمانوں کی آمد آمد تھی۔ وزراء` جج` وائس چانسلر صاحب` سیکرٹری` جرنیل اور بریگیڈیر پنڈال کے پاس ایک ہی جگہ کمانڈر انچیف صاحب کے استقبال کے لئے اکٹھے کھڑے تھے۔ طلباء پنڈال میں تھے۔ اساتذہ بھی تھے کہ اسی آفیسر نے پھر کوئی نازیبا الفاظ کہے جس پر پنڈال میں موجود طلباء میں پھر کھچائو پیدا ہوگیا۔ اس اثناء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کی کار بھی آتی دکھائی دی۔ یہ عاجز آگے بڑھ کر استقبال کے لئے گیا اور آپ کو وہیں روک کر سارے کوائف بتائے۔ آپ تشریف لائے تو وہ آفیسر بھی استقبال کے لئے آگے بڑھے۔ آپ نے سرسری انداز میں پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خیر گزری۔ اس پر اس آفیسر نے اسی انداز میں کہا کہ مجھے ان کی کیا پروا ہے۔ یہ فقرہ کافی بلند آواز سے انہوں نے کہا۔ سول اور ملٹری آفیسر سب کچھ سن رہے تھے۔ آپ خاموش رہے۔ انہوں نے دوبارہ یہی فقرہ دوہرایا۔ جب سہ بارہ اسی قسم کا فقرہ کہا تو آپ نے بڑے جلال سے بلند آواز میں فرمایا کہ آپ کو پروا نہیں لیکن ہمیں ان کی بڑی پروا ہے۔ یہ قوم کے بچے ہیں۔ ہم ان کو اس قسم کے اخلاق کی تربیت کے لئے یہاں نہیں بھیجتے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ابھی ساری پلٹنوں کو واپس بلوا لو اور آئندہ سے کوئی سروکار نہ رکھو۔ اس پر کچھ سینئر آفیسرز اس افسر کو ایک طرف لے گئے اور اگلے ہی لمحے میں اس نے بڑی لجاجت سے معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ جب آپ نے یہ فقرات کہے تو مجھے یاد ہے کہ میرے ایک غیر از جماعت ساتھی نے فرط جذبات میں خوشی سے دیوانہ ہوکر میرا ہاتھ پکڑا اور اتنا زور سے دبایا کہ کئی دن تک میرا ہاتھ درد کرتا رہا۔ پھر حضرت میاں صاحب تقریب کے اختتام پر تشریف لے گئے اور محکمہ تعلیم کے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میاں صاحب نے سب کی عزت رکھ لی۔
اس عجیب واقعہ کا آخری حصہ یہ ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لیکن ہوا اور وہ یہ کہ کیمپ کے خاتمہ کے بعد جب بھی کوئی ٹرک روانہ ہوتا تو اس میں بیٹھنے والے >مرزا ناصر احمد زندہ باد< اور >پرنسپل ٹی۔ آئی کالج زندہ باد< کے نعرے ضرور لگاتے۔ یہ فلک شگاف نعرے ہمارے روکنے کے باوجود نہ رک سکے اور اسی انداز سے یہ کیمپ ختم ہوا<۔
‏vat,10.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
پروفیسر کرامت حسین جعفری پرنسپل گورنمنٹ کالج لائل پور` پروفیسر ڈاکٹر حمید الدین صاحب وائس پرنسپل و صدر شعبہ فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور` علامہ علائو الدین صاحب صدیقی صدر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی` شمس الدین صاحب ایم۔ اے صدر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور` پروفیسر شجاع الدین صاحب ایم۔ اے صدر شعبہ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہور` پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب صدر شعبہ تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور` ڈاکٹر ایس۔ ایم اختر پی ایچ ڈی صدر شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی` پروفیسر محمد اعظم ورک زئی شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی` ڈاکٹر منیر چغتائی شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ہیل بک پروفیسر میونک یونیورسٹی` پروفیسر مائیکل ولیم ایم۔ ایس۔ سی` میر حبیب علی صاحب اسسٹنٹ ڈائریکٹر سپورٹس مشرقی بنگال۔
ان مقررین کے علاوہ پاکستان کے ممتاز شعراء میں سے احسان دانش` طفیل ہوشیارپوری` سید محمد جعفری` مکین احسن کلیم حبیب اشعر کلیم عثمانی` نظر امروہی` شرقی بن شائق مدیر >نیا راستہ`< قتیل شفائی` ثاقب زیروی` احمد ندیم قاسمی` عاطر ہاشمی` ہوش ترمذی` ظہیر کاشمیری` محمد علی مضطر` صوفی غلام مصطفی تبسم` شیر افضل جعفری` لطیف انور )مدیر مخابرات ریڈیو پاکستان لاہور( ہوش ترمذی )ڈائریکٹر پریس برانچ مغربی پاکستان لاہور`( ضمیر فاطمی مدیر >اسلوب`< مولانا عبدالمجید سالک مدیر >انقلاب`< نازش رضوی` عبدالرشید تبسم گلزار ہاشمی وغیرہ نے کالج کی تقریبات میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا۔
آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز
۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش اور ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کے سال کالج کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہیں گے اس لئے کہ ان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خصوصی ہدایات اور سرپرستی سے دو ایسے اہم اقدامات عمل میں لائے گئے جو نہایت درجہ وسیع` شاندار اور دوررس نتائج کے حامل ثابت ہوئے جن سے کالج کی ملک گیر شہرت و مقبولیت میں نئے باب کا اضافہ ہوا اور اس کی عظمت و اہمیت کو چار چاند لگ گئے۔
اس ضمن میں پہلا قابل ذکر امر کالج کے زر انتظام آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز ہے جس کی کامیابی کا سہرا پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب کے سر ہے جن کی مسلسل کوشش سے ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش میں کچی کورٹ سے کالج میں باسکٹ بال کی ابتداء ہوئی۔ ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش میں اس میدان کو ایک معیاری پختہ کورٹ میں تبدیل کردیا گیا جس میں پہلا آل پاکستان تعلیم الاسلام کالج باسکٹ بال ٹورنامنٹ کھیلا گیا۔ اس پہلے ٹورنامنٹ میں جس کا اہتمام ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش میں کیا گیا۔ پولیس لاہور برادرز کلب لاہور` وائی ایم۔ سی۔ اے لاہور` بمبئی سپورٹس کلب کراچی` نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور` فرینڈز کلب سرگودھا` لائلپور کلب ٹی۔ آئی کلب` زراعتی کالج لائلپور` گورنمنٹ کالج لائلپور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ٹیمیں شامل ہوئیں اور پاکستان بھر کے چھ اور پنجاب کے آٹھ منتخب اور مشہور کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور کھیل کا معیار نہایت بلند رہا۔ انعامات چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے تقسیم فرمائے۔
دوسرے ٹورنمنٹ میں نہ صرف شرکت کرنے والی نامور ٹیموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا بلکہ چھ کی بجائے پاکستان بھر کے دس منتخب کھلاڑی شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں بعض ایسے کھلاڑیوں نے بھی شرکت کی جنہیں بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کا فخر حاصل تھا۔ اس ٹورنامنٹ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ پنجاب باسکٹ بال ایسوسی ایشن لاہور کے فیصلہ کے مطابق پنجاب کی بہترین ٹیم کا انتخاب اس ٹورنامنٹ میں ہوا۔ قبل ازیں اس انتخاب کے لئے الگ مقابلے ہوتے تھے۔
تیسرا ٹورنمنٹ اپنی منفرد حیثیت کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا۔ ملک کے کونے کونے سے دو درجن کے قریب بہترین ٹیمیں اور مشہور ترین کھلاڑی شامل ہوئے جن میں سی۔ ٹی۔ آئی کلب سیالکوٹ کے تین امریکی بھی تھے۔ اس موقعہ پر بہت سے کالجوں کے پروفیسر اور دیگر معززین بھی بکثرت موجود تھے۔ ہر سال یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ٹورنامنٹ کا افتتاح کس سے کروایا جائے؟ تیسرے ٹورنامنٹ کے موقعہ پر جب یہ معاملہ پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے قدرے تامل کے بعد فرمایا ایک BRAINWAVE یعنی خیال کی لہر آئی ہے اور مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا۔ کیسے؟ فرمایا۔ پچھلے ٹورنامنٹ کی فاتح ٹیم کے کپتان سے افتتاح کروالو اور آئندہ یہی ہماری روایت ہوگی۔ چنانچہ اس سال سے لے کر اب تک اسی پر عمل ہورہا ہے۔ اس روایت کی ابتداء ریلوے ٹیم کے کپان سید جاوید حسن سے شروع ہوئی جو پچھلے سال کے ٹورنا منٹ کے فاتح تھے۔
چوتھا آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ بھی ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ اس موقع پر پہلی بار ایک یادگاری مجلہ (SOUVENIR) شائع کیا گیا جس میں مختلف معززین کے خیرسگالی کے پیغامات اور تصاویر کے علاوہ ربوہ میں باسکٹ بال کے اجراء اور ترقی کا جائزہ لیا گیا تھا۔ >پاکستان ٹائمز< )لاہور`( >سول اینڈ ملٹری گزٹ< )لاہور`( >نوائے وقت< )لاہور`( >امروز< )لاہور`( اور >الفضل< )ربوہ( نے نمایاں طور پر اس ٹورنامنٹ کی خبریں شائع کیں۔
۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش یعنی پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ربوہ کے چھوٹے سے قصبہ میں کل آٹھ باسکٹ بال کورٹس اور سات باسکٹ بال کلب جن کا مرکزی باسکٹ بال ایسوسی ایشن لاہور سے باقاعدہ الحاق تھا قائم ہوچکے تھے۔ ان سب کلبوں نے علاوہ بیرونی کلبوں کے چوتھے ٹورنامنٹ میں شمولیت کی۔ اسی سال کالج کے چار منتخب کھلاڑیوں نے پنجاب کی طرف سے قومی مقابلوں میں حصہ لیا۔
۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش کو وائی۔ ایم۔ سی۔ اے کی مشہور بھارٹی ٹیم` کراچی` لاہور اور راولپنڈی کے علاوہ ربوہ میں بھی میچ کھیلنے کے لئے آئی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ ربوہ کو بیرون ملک کھلاڑیوں سے نبردآزما ہونا پڑا۔
ان بیش از پیش کامیابیوں کے نتیجہ میں ربوہ باسکٹ بال کے تین چار اہم ترین ملکی مراکز میں سے شمار ہونے لگا اور چونکہ ملک میں باسکٹ بال کو غیر معمولی طور پر فروغ دینے میں تعلیم الاسلام کالج کے منتظمین خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا بھاری عمل دخل تھا اس لئے پانچویں سالانہ ٹورنامنٹ پر امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے ایک وفد جو ایکٹنگ چیئرمین )چوہدری محمد علی صاحب۲۰۶ ایم۔ اے( اور سیکرٹری )قریشی محمد اسلم صاحب ایم۔ ایس۔ سی( پر مشتمل تھا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت حاضر ہوا اور درخواست کی کہ باسکٹ بال کے کھیل کی مقبولیت اور ترقی کے سلسلہ میں آپ نے جو خدمات جلیلہ انجام دی ہیں ان کی وجہ سے ایسوسی ایشن چاہتی ہے` کہ آپ پریذیڈنٹ کا عہدہ قبول فرمائیں۔ اگرچہ قبل ازیں کئی بار آپ یہ درخواست قبول کرنے سے معذوری کا اظہار فرماچکے تھے مگر اس مرتبہ آپ نے از راہ شفقت پریذیڈنٹ بننا منظور فرمالیا۔ چنانچہ آپ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش یعنی منصب خلافت پر فائز ہونے تک ایسوسی ایشن کے صدر رہے اور ہمیشہ بلامقابلہ منتخب ہوتے رہے۔۲۰۷
پانچواں آل پاکستان ٹورنامنٹ پہلے سے بھی زیادہ شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوا۔ اس دفعہ کھیل پہلی بار رات کے وقت بجلی کی روشنی میں ہوا اور کلب سیکشن میں کراچی یونیورسٹی` زرعی یونیورسٹی اور ایرفورس کی ٹیمیں پہلی بار شامل ہوئیں۔ ایسوسی ایشن کے نمائندے` انتظامیہ کے ممبر اور پنجاب ٹیم کی انتخابی کمیٹی کے تمام ارکان کے علاوہ دور و نزدیک سے سینکڑوں شائقین نے نہایت دلچسپی اور دلجمعی سے کھیل دیکھا اور خوب داد دی۔ حضرت صاحبزاد مرزا ناصر احمد صاحب نے سنٹرل ایمیچیور باسکٹ بال ایسوس ایشن کے صدر کی حیثیت سے انعامات تقسیم فرمائے۔
چھٹا سالانہ ٹورنامنٹ اپنی گزشتہ روایات کے مطابق کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوا اور انعامات کی تقسیم پروفیسر خواجہ غلام صادق صاحب چیئرمین سنٹرل امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن نے کی۔
ساتواں ٹورنامنٹ جو کالج میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی سربراہی کے مبارک زمانہ کا آخری ٹورنامنٹ تھا` ۲۵` ۲۶` ۲۷۔ تبلیغ ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کو منعقد ہوا۔ کل ۲۶ ٹیموں نے شرکت کی اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے بحیثیت پرنسپل و صدر سنٹرل ایسوسی ایشن لوائے پاکستان اور کالج کا جھنڈا لہرایا۔ اس موقعہ پر جن اصحاب نے پیغامات ارسال کئے ان میں ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان` خواجہ عبدالحمید صاحب ڈائریکٹر تعلیمات راولپنڈی ریجن` ونگ کمانڈر ایچ۔ اے صوفی سیکرٹری سپورٹس کنٹرول بورڈ گورنمنٹ آف مغربی پاکستان` پروفیسر خواجہ محمد اسلم پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور اور سید پناہ علی شاہ انسپکٹر آف سکولز لاہور ڈویژن` خاں محمد عادل خاں ڈائریکٹر آف سپورٹس پشاور یونیورسٹی بالخصوص قابل ذکر تھے۔ اس ٹورنامنٹ کی تصاویر )مع پیغام و تصویر ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان( دو دفعہ ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی۔ اسی طرح ریڈیو پر مقامی اور قومی خبروں میں بھی اس کا اعلان نشر کیا گیا۔
۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب منصب خلافت پر فائز ہوئے اور خلافت ثالثہ کے مبارک عہد کا آغاز ہوا تو حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ کرم اپنے اسم گرامی سے ٹورنامنٹ کو منسوب کئے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ آئندہ سے یہ مقابلے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے >ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ< کے نام سے ہونے لگے۔۲۰۸
کل پاکستان اردو کانفرنس کا انعقاد
باسکٹ بال ٹورنامنٹ سے اگر کھیلوں کی دنیا میں کالج کا شہرہ عام ہوا تو ادب اردو کے حلقوں میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی >کل پاکستان اردو کانفرنس< نے دھوم مچا دی۔
ربوہ میں اپنی نوعیت کی پہلی کامیاب کانفرنس جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خداداد ذہانت` بلند پایہ نفیس ادبی ذوق اور بہترین علمی قیادت و سیادت کی آئینہ دار اور پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے صدر شعبہ اردو اور پروفیسر ناصر احمد صاحب پروازی معتمد مجلس استقبالیہ اردو کانفرنس اور ان کے دوسرے رفقاء کی ان تھک جدوجہد کا نتیجہ تھی` ۱۸۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کو تعلیم الاسلام کالج کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی جس میں ۲۵ کے قریب نامور ادباء اور شعراء نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں مختلف کالجوں کی طرف سے بھی پچیس کے قریب مندوبین شامل ہوئے۔ کانفرنس کی کارروائی تلاوت سے شروع ہوئی۔ بعد ازاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ نے اپنے پراثر خطبہ۲۰۹ میں ارشاد فرمایا۔
>اس کانفرنس کے مقاصد خالصت¶ہ تعمیری اور مثبت ہیں۔ ہم اردو کا مینار تخریب کے منفی اقدار پر استوار نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے نزدیک سلبی انداز فکر ذہنی افلاس کی علامت ہے۔ زندہ قوموں کی ہزار پہلو ضروریات اپنے اپنے مقام اور محل پر سب کی سب اہم اور ناقابل تردید حیثیت کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ لیکن ہمارا موقف یہ ہے کہ ان جملہ قومی تقاضوں کو ضروری خیال کرتے ہوئے بھی میزان عدل کا توازن برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اردو کو وہ ارفع مقام دیا جاسکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے۔
یہ ایک عظیم قومی حادثہ ہے کہ زبان کا مسئلہ جو خالصت¶ہ قومی اور علمی سطح پر حل کیا جانا چاہئے تھا` سیاسی نعرہ بازی اور مہمل جذبات کا شکار ہوکر رہ گیا اور سترہ سال کا طویل عرصہ بے کار مباحث اور مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں ضائع ہوگیا۔ ہم تو سنتے آئے تھے کہ ہمارے معروف >ساغر< کا ایک دور >صد سالہ دور چرخ< کے ہم پلہ ہوا کرتا ہے اور رند جب میکدہ سے نکلتے ہیں تو دنیا بدلی ہوئی پاتے ہیں لیکن یہاں سترہ سال کے بعد بھی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل انگاری اور خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ ٹھنڈے دل سے اپنی مشکلات کا جائزہ لیں اور سنجیدگی سے اپنے تعلیمی` تدریسی` علمی` ادبی` لسانی اور طباعتی مسائل کا حل تلاش کریں۔ زبان و بیان` تلخیص و ترجمہ` رسم الحظ اور اسی قسم کے دیگر عقدوں کی گرہ کشائی کی کوشش کریں۔ ایسا لائحہ عمل بنائیں اور اس کی تشکیل ایسے خطوط پر کریں جس سے یہ گومگو کی کیفیت ختم ہو اور اس ذہنی دھند سے نجات ملے۔
اس جگہ اس امر کا اظہار بھی غیر مناسب نہ ہوگا کہ اردو کے ساتھ جماعت احمدیہ کا ایک پائیدار اور روحانی رشتہ بھی ہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اکثر تصانیف اردو ہی میں ہیں۔ اس لئے اردو زبان عربی کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے۔ اسی لئے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدیہ مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں ہاں اردو سیکھی اور سکھلائی جارہی ہے۔ زبان اردو کی یہ ٹھوس اور خاموش خدمت ہے جو جماعت احمدیہ دنیا کے گوشے گوشے میں کررہی ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے۔ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے۔ یہ وہ قیمتی متاع ہے جو ہمیں ہمارے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسے اس قابل بنائیے کہ ہماری آئندہ نسلیں اس ورثہ کو سرمایہ افتخار تصور کریں اور اس پر بجاطور پر ناز کرسکیں اور ہماری طرح گونگی اور >بے زبان< ہوکر نہ رہ جائیں۔
اردو ایک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے۔ ادبیات کی اہمیت مسلم لیکن یہ نہ بھولئے کہ اردو زبان کا یہ بھی حق ہے کہ شعر و ادب کے روایتی اور محدود دائرے سے باہر نکلے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہو جائے۔ ساری دنیا کے دلوں پر اس کی حکومت ہو۔ قومیں اسے لکھیں` بولیں اور اس پر فخر کریں اور بین الاقوامی زبانوں کی محفل میں اردو بھی عزت کے بلند پایہ مقام پر سرفراز ہو۔
ان دعائیہ الفاظ کے ساتھ ہی میں ایک بار پھر اپنے دوستوں اور بزرگوں کو اھلا و سھلا و مرحبا کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو ایسا انداز فکر عطا فرمائے اور اس نہج پر کام کرنے کی توفیق دے جو نہ صرف زبان اردو کے لئے بلکہ ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے خیر و برکت کا باعث ہو۔ اللہم آمین۔4] [stf۲۱۰
خطبہ استقبالیہ کے بعد معتمد استقبالیہ اردو کانفرنس نے اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی اور اشتیاق حسین صاحب قریشی رئیس الجامعہ جامعہ کراچی کے پیغامات سنائے جو انہوں نے خاص اس موقعہ کے لئے بھیجے تھے۔ ان پیغامات کے علاوہ سیدنا المصلح الموعود کے اس پیغام کے اقتباسات بھی سنائے جو حضور نے ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش میں دانش گاہ پنجاب میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے نام ارسال فرمایا تھا۔ ازاں بعد حضرت مصلح موعودؓ کا رقم فرمودہ ادبی مقابلہ >اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کرسکتے ہیں؟< کے موضوع پر پڑھا گیا۔ حضور کا یہ قیمتی مقالہ برصغیر پاک و ہند کے ادیب شہیر احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی نے اپنے رسالہ >ادبی دنیا< )مارچ ۱۹۳۱ء( میں حضور کا فوٹو دے کر شائع کیا تھا۔ اس زمانہ میں رسالہ >ادبی دنیا< کے نگران اعلیٰ سرعبدالقادر مرحوم تھے۔
اس یادگار مقالہ کے بعد جو گویا اس پوری کانفرنس کی روح رواں تھا۔ وزیر آغا ایم۔ اے` پی۔ ایچ۔ ڈی نے اپنا فاضلانہ خطبہ افتتاح پڑھا جس میں تعلیم الاسلام کالج کو ادبی کانفرنس منعقد کرنے پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا۔
>اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے یوں تو بہت سے اقدامات ضروری ہیں لیکن اس سلسلہ میں اردو کانفرنسوں کا انعقاد ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں بالعموم ہر تحریک نہ صرف بعض بڑے ثقافتی مراکز سے جنم لیتی ہے بلکہ پروان چڑھنے کے بعد وہیں کی ہوکر رہ جاتی ہے اس سے تحریک میں وہ کشادگی اور وسعت پیدا نہیں ہوتی جو اس کی پوری کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اردو زبان کی ترویج کے سلسلہ میں جو تحریکات وجود میں آئیں وہ عام طور پر لاہور اور کراچی ایسے مراکز ہی سے وابستہ ہیں۔ تعلیم الاسلام کالج نے اس انجماد کو توڑا ہے اور اردو کانفرنس کے انعقاد سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اب اردو کے لئے محبت اور اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی آرزو بڑے بڑے مراکز تک ہی محدود نہیں رہی۔ گویا اس خوشبو کی طرح جو دیوار چمن کو پار کرتی ہے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کی تحریک بھی اونچی اونچی دیواروں کو پار کرکے افق کے پہاڑوں سے آٹکرائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے جو مبارک قدم اٹھایا ہے اس کی ملک کے طول و عرض میں عام طور سے تقلید ہوگی اور ہم اردو زبان کو ملک کے دور دراز گوشوں تک پہنچا سکیں گے۔ آپ کی یہ اردو کانفرنس اس لئے بھی اہم ہے کہ اس کے پس پشت اردو زبان کے لئے بے پناہ محبت کے سوا کوئی اور جذبہ موجزن نہیں ہے اور آپ نے پنجاب کے اس دیہاتی علاقہ میں منعقد کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اردو زبان پنجاب کے دور دراز گوشوں میں بھی ویسی ہی مقبول ہے جیسی کہ اردو کے بڑے بڑے مراکز میں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے اردو کانفرنس کے منعقد کرنے کی جو روایت قائم کی ہے اسے ہمیشہ جاری رکھیں گے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے ملک کے دوسرے ادارے اس سلسلہ میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی پوری کوشش کریں گے۔۲۱۱]ybod [tag
اس خطبہ افتتاح کے بعد کانفرنس کی دو نشستوں میں مندرجہ ذیل موضوعات پر تحقیقی اور فکر انگیز مقالے پڑھے گئے۔
۱۔ اردو میں سائنسی تدریس )پروفیسر شیخ ممتاز حسین صاحب صدر شعبہ اردو زراعتی یونیورسٹی لائل پور(
۲۔ اردو میں قانونی تدریس )خضر تمیمی صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور(
۳۔ اردو میں دخیل الفاظ کا مسئلہ )ڈاکٹر سہیل بخاری صاحب سرگودھا(
۴۔ اردو بحیثیت تدریسی زبان )پروفیسر سید وقار عظیم صاحب شعبہ اردو دانش گاہ پنجاب(
۵۔ غیر ممالک میں احمدی کی کیا خدمات انجام دے رہے ہیں )مولانا نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ(
۶۔ ادب اور زندگی کا رشتہ )سید سجاد باقر صاحب رضوی شعبہ اردو دانش گاہ پنجاب(
۷۔ اردو بحیثیت قومی زبان )ڈاکٹر وحید قریشی صاحب(
ان ادباء کے علاوہ جامعہ احمدیہ کے تین غیرملکی طلبہ یوسف عثمان صاحب )افریقہ( عبدالقاھر صاحب )ترکستان( اور عبدالرئوف صاحب )فجی( نے >ہمیں اردو سے کیوں محبت ہے< کے عنوان پر مضمون پڑھے۔ مہمانوں کے لئے یہ عجیب بات تھی کہ غیرملکی طلبہ ایسی شستہ اردو بول رہے ہیں۔۲۱۲ الغرض یہ پہلی اردو کانفرنس ہر لحاظ سے حددرجہ کامیاب رہی۔
دوسری اردو کانفرنس
۱۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۷ء/ ۱۳۴۶ہش کو کالج میں دوسری آل پاکستان اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مغربی پاکستان کی تین یونیورسٹیوں اور متعدد تعلیمی اداروں اور ادبی تنظیموں کے ۸۴ خصوصی نمائندے شریک ہوئے۔ خطبہ افتتاح ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی نے دیا اور جسٹس اے۔ آر کارنیلس چیف جسٹس پاکستان` جناب اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان` ممتاز حسین صاحب سابق مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنک آف پاکستان اور جناب پروفیسر حمید احمد خاں صاحب نے خصوصی پیغامات ارسال کئے۔
اس دو روزہ کانفرنس میں زبان` ادب` صحافت اور تدریس کے پچاس موضوعات پر ۴۳ مقالے پڑھے گئے اور باقی سات مقالے اشاعت کے لئے پیش کئے گئے۔ کانفرنس میں دو مذاکرے بھی منعقد ہوئے۔ ان میں سے ایک مذاکرہ اردو میں >سائنسی تدریس کی مشکلات اور ان کا حل< کے موضوع پر ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر ظفر علی صاحب ہاشمی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائلپور نے کی۔ دوسرے مذاکرہ کا موضوع >جدید اردو شاعری کے رجحانات< تھا۔ اس میں صدارت کے فرائض سید وقار عظیم صاحب صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی نے ادا کئے۔ کانفرنس کا ایک اجلاس محسنین اردو کے تذکرہ کے لئے وقف تھا۔ جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب` حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب )المصلح الموعود`( علامہ نیاز فتح پوری اور مولانا صلاح الدین احمد کی خدمات اور کارناموں پر ٹھوس مقالے پڑھے گئے۔۲۱۳`۲۱۴
پہلا باب )فصل ششم(
کالج میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا قائم فرمودہ مثالی نظام تعلیم و تربیت اس کی بنیادی خصوصیات اور ہمہ گیر اثرات
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے ذہن مبارک میں تعلیم الاسلام کالج کے عروج و ارتقاء اور شاندار مستقبل کی نسبت جو نقشہ قیام کالج کے وقت موجود تھا وہ اپنی تفصیلات و مضمرات کے اعتبار سے بین الاقوامی نوعیت کا حامل ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ اس نقشہ کی عملی تشکیل و تعمیر کے لئے مسلسل اکیس برس )۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش تا ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش( تک سرتاپا وقف اور مجسم جہاد بنے رہے اور قریباً ربع صدی کی بے پناہ کاوشوں اور معرکہ آرائیوں کے بعد خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود کی دعائوں اور حضرت مصلح موعود کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں کالج کو ایک قابل رشک مخصوص اور امتیازی مقام تک پہنچا دیا اور اس کی بنیادیں ایک اسے طریق تعلیم اور نظام تربیت پر استوار کیں جو روح و جسم اور علم و عمل پر حاوی اور دین و دنیا کے حسین امتزاج کا بہترین نمونہ ہے۔
آپ نے اس اسلامی درس گاہ میں جو مثالی نظام تعلیم و تربیت رائج فرمایا وہ اپنے اندر متعدد خصوصیات رکھتا ہے جن میں سے پانچ حد درجہ نمایاں ہیں اور کالج کی مقدس اور ناقابل فراموش روایات بن چکی ہیں۔
پہلی خصوصیت آپ کے قائم کردہ نظام کی یہ تھی کہ آپ نے اپنے پاک نمونہ سے کالج کے اساتذہ میں زبردست روح پھونکی کہ وہ طلبہ کو قوم کا عظیم سرمایہ یقین کرتے ہوئے ان کے ساتھ شفیق باپ سے بھی بڑھ کر محبت کرتے` ان کی بہبود اور ترقی میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے` ان کی جائز ضروریات پوری کرتے` ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے` ہر وقت بے لوث` خدمت میں لگے رہتے اور پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ بچوں کی رہبری اور رہنمائی میں مصروف رہتے تھے۔
دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے کالج کی قیادت اس رنگ میں فرمائی کہ طلبہ و اساتذہ اسلامی اقدار کے حامل بنیں اور ہمیشہ ہی غلط قسم کی سیاست سے کنارہ کش اور ہڑتالوں اور دوسری مغربی بدعات سے متنفر رہیں۔ چنانچہ کالج کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ قادیان` لاہور اور ربوہ تینوں جگہ یہ انسٹی ٹیوشن ہمیشہ ہی ذہنی تکدر اور سیاسی بے راہ روی سے ہر طرح محفوظ و مصئون رہی ہے اور یہ وہ خصوصیت اور امتیاز ہے جس میں تعلیم الاسلام کالج اس زمانہ میں نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر کے کالجوں میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
تیسری خصوصیت اس نظام تعلیم و تربیت کی یہ تھی کہ اس درسگاہ کا فکر و عمل ہمیشہ مذہب و ملت کی تفریق سے بالا رہا ہے۔ ہر طالب علم خواہ وہ کسی مذہب` کسی فرقہ یا سیاسی جماعت سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو ہر قسم کی جائز سہولتیں حاصل کرتا ہے اور اس کالج کے اساتذہ ہر طالب علم کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے تھے۔
چوتھی خصوصیت اس میں یہ تھی کہ یہاں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا۔ ایک غریب کی عزت و احترام کا ویسا ہی خیال رکھا جاتا تھا جیسا کہ کسی امیر طالب علم کا` اور اساتذہ ہر اس طالب علم کی قدر کرتے تھے جو علمی شوق رکھتا ہو اور علم کی وسیع شاہراہ پر بشاشت اور محنت کے ساتھ آگے بڑھنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ سے آپ کو ابتداء ہی سے اسلامی نظام اقتصادیات سے غیر معمولی دلچسپی` لگائو اور شغف رہا ہے اور آپ نے ہرممکن جدوجہد فرمائی کہ کالج کے نظام تعلیم و تربیت سے اس نظام کو زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جائے۔ اس بناء پر آپ نے ہمیشہ سادگی پر زور دیا اور طلباء کے اخراجات کو کم سے کم رکھنے کو اپنا ضروری فرض سمجھا تاکہ غریب طالب علم کو اپنی غربت کا احساس نہ رہے اور امیر اپنی امارت جتانے میں حجاب محسوس کرے۔ آپ کے اسی طرز عمل کا نتیجہ تھا کہ کالج کے بعض غریب طلبہ کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر اپنے فارغ اوقات میں محنت اور مزدوری کرکے اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے تھے اور آپ بھی اور دوسرا سٹاف بھی ان محنتی اور ہونہار طلبہ کی ہر رنگ میں حوصلہ افزائی اور قدر دانی فرمایا کرتے تھے۔
‏body2] gat[پانچویں خصوصیت آپ نے تعلیم و تربیت کی ظاہری تدابیر کو انتہاء تک پہنچانے کے باوجود ان پر کبھی انحصار نہیں کیا اور ہمیشہ خود بھی ہر مرحلے پر دعائوں سے کام لیا اور اپنے رفقاء کار میں بھی اس کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی اور ان میں یہ احساس پختگی کے ساتھ قائم کردیا کہ محض ظاہری دیکھ بھال اور تربیت کافی نہیں۔ ہمارے بچوں کا پہلا اور آخری حق ہم پر یہ ہے کہ ہم دعائوں کے ساتھ ان کی مدد کرتے رہیں۔
یہاں بطور نمونہ کالج کے اساتذہ اور طلبہ سے متعلق خود آپ کے بعض دعائیہ کلمات درج کئے جاتے ہیں جن سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوگا کہ آپ اس ادارہ کو رفعتوں کے کتنے بلند ترین مقام تک لے جانے کے ہمیشہ متمنی اور آرزو مند رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش میں دعا کی کہ۔
>اے قادر توانا خدا! اے حقائق اشیاء کو پیدا کرنے والے اور ان حقاق و رموز کو انسانی دل پر الہام کرنے والے خدا! تو ہماری ان ناچیز مساعی کو قبول فرما اور ہماری تضرعات کو سن اور ہم پر اور ہماری اولاد پر علم کے وسیع دروازوں کو ہر پہلو سے کھول دے۔ علم کی روشنی سے ہمارے دل اور دماغ کو منور کر۔ اور علم و معرفت کی غیر محدود طاقت سے ہمارے عمل میں ایک نئی روح اور ہماری مساعی میں ایک نئی زندگی پیدا کر کہ ہم اور ہماری نسلیں تیرے عطا کردہ علم اور تیری بخشی ہوئی معرفت سے پر ہوکر تجھ ہی سے دعائیں کرتے ہوئے جس میدان عمل میں بھی داخل ہوں سب پر سبقت لے جائیں۔ اے خدا! تو خود اس نو شگفتہ نسل کے دل و دماغ کو رموز قیادت و مسابقت سے آشنا کر اور ان کے عمل اور مساعی میں تیزی اور جولانی پیدا کر اور انہیں دنیا کا ہمدرد بنا` دنیا کا خادم بنا` دنیا کا محسن بنا` اور دنیا کا رہبر بنا` قوم کا نام ان کے کام سے چمکے۔ انسانیت کا چہرہ ان کی روحانیت سے منور ہو اور تیری صفات ان کے کمالات سے ظاہر ہوں<۔۲۱۵
نظام تعلیم و تربیت کا ایک جامع نقشہ
کالج کے نظام تعلیم و تربیت کی بنیادی خصوصیات کی نشاندہی کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کے مبارک الفاظ میں اس درسگاہ کے تعلیمی و تربیتی اعتبار سے پاکیزہ ماحول کا ایک نقشہ قارئین کے سامنے رکھ دیں۔ اس نقشہ سے نہایت جامعیت کے ساتھ پانچوں خصوصیات کی جھلک پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش میں فرمایا۔
>ہمارے طلبہ اور ہمارے اساتذہ تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فرض تصور کرتے ہیں۔ ہمارے پاس برے بھلے ہر قسم کے طلبہ آتے ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں اور ایک باپ ہی کی محبت کا سلوک کرنا پڑتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان عزیزوں کے لئے صحت افزا ذہنی` اخلاقی اور جسمانی فضا مہیا کرنا` ان کی شخصیتوں کے جملہ پہلوئوں کو اجاگر کرنا اور علمی اور اخلاقی نشوونما کی جملہ سہولتیں بہم پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ ہمارے نزدیک مسجد کے بعد مدرسے کا تقدس ہے اور ہماری اس درسگاہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلیم و تربیت کے فرائض عبادت کے رنگ میں سرانجام دیئے جاتے ہیں جہاں رنگ اور مذہب` افلاس اور امارت` اپنے اور بیگانے کی کوئی تفریق نہیں۔ جہاں طلباء مقدس قومی امانت ہیں۔ جہاں ماحول خالص اسلامی اور اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی۔ جہاں منتہائے مقصود خدمت ہے نہ کہ جلب منفعت۔ جہاں غریبی عیب نہیں اور امارت خوبی نہیں۔ الحمدلل¶ہ علیٰ ذلک۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے عظیم اور مثالی ادارے کی کماحقہ حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے جس کے ذرے ذرے پر اس کے فدائی اساتذہ اور طلباء نے خون دل سے محنت اور اخلاص کی داستانیں لکھی ہیں۔ یہاں اساتذہ سستی شہرت کی خاطر اپنے فرائض کے تلخ پہلوئوں سے اغماض نہیں برتتے اور نہ ہی طلباء سٹرائیک کی قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہاں نہ صرف ملک کے گوشے گوشے بلکہ غیر ممالک سے بھی ہر مذہب و خیال کے طلباء اس پرسکون` سادہ اور پاک ماحول سے فائدہ اٹھا رہے ہیں<۔۲۱۶
>تعلیم الاسلام کالج ایک بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے۔ کالج کے طلبہ کا حلقہ انڈونیشیا` برما` تبت` ہندوستان` مغربی افریقہ` مشرقی افریقہ` سومالی لینڈ اور بحرین وغیرہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے<۔
>ہمارے طلبہ میں سچائی` محنت` خدمت خلق` غیرت قومی` خدمت دین` امانت و دیانت اور دیگر اخلاق فاضلہ صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان کا معیار بھی کافی بلند ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ جس معیار کی تعلیم دینے اور جس طرح کے طلبہ پیدا کرنے کی کوشش اس کالج میں ہورہی ہے اس کے پیش نظر نہ صرف اس کالج کی بلکہ اس جیسے سینکڑوں کالجوں کی ملک و قوم کو ہر وقت ضرورت رہے گی اور ہمارے طلبہ انشاء اللہ تعالیٰ آنے والے سالوں میں تعلیمی` علمی اور اخلاقی میدان میں مثالی اور قابل فخر کردار ادا کریں گے<۔۲۱۷
>اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور کوششوں میں برکت ڈالے اور ہمیں خدمت قوم و بنی نوع انسان کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے<۔۲۱۸
حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کی طلبہ کالج سے متعلق یہ پیشگوئی خدا کے فضل و کرم سے حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
تعلیم و تربیت سے متعلق بعض اہم واقعات
یہ نظام تعلیم و تربیت جس کا خاکہ اوپر کھینچا گیا ہے اپنی تفصیلات کے اعتبار سے ایک مستقل مضمون کا تقاضا کرتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ تاہم ذیل میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے اس دور زندگی کے بعض اہم واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے آپ کے انداز تربیت کے بہت سے گوشے نمایاں ہوتے ہیں اور جو دنیائے اصلاح و تربیت کے لئے چراغ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
طلبہ پر بے مثال شفقت
بلامبالغہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز( نے تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو اپنے خون سے پالا ہے اور ان کے ساتھ ہمیشہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر محبت کی ہے۔ جناب پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے کا بیان ہے کہ >ایک دفعہ خاکسار نے لاہور میں ۱۹۵۰ء یا ۱۹۵۱ء میں آپ سے عرض کیا کہ ڈسپلن کیسے رہے ہم اساتذہ طلباء کی غفلتوں پر بعض اوقات جرمانہ کی سزا دلواتے ہیں مگر آپ اسے معاف فرما دیتے ہیں۔ آپ نے جواباً تحریر فرمایا۔
اگر طلبہ کے لئے میرے دل میں خدا تعالیٰ نے رحم ڈالا ہے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ باقی حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ ناصر احمد<
عکس


تادیب` دلداری اور ذاتی تعلق
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے لکھتے ہیں۔
>آپ کالج اور ہوسٹل کی تفصیلی نگرانی فرماتے اور ہر معاملے میں ہم خدام کو ان کی بابرکت رہنمائی حاصل ہوتی۔ سزا بھی دیتے لیکن کراہت کے ساتھ لیکن جہاں سزا ضروری ہوتی اسے ضرور دیتے۔ مجھے یاد ہے۔ ایک دفعہ ایک طالب علم کو بدنی سزا دی جانے لگی۔ ہال میں طلبہ اکٹھے ہوئے۔ اس عاجز سے ارشاد فرمایا کہ سزا دو۔ جب سزا کا نفاذ ہونے لگا تو فرمانے لگے کہ سزا میں نے آپ کو نہیں اس طالب علم کو دی ہے اور خود باقی سزا اپنے ہاتھ سے نافذ کی۔ آج تک واقعہ کا اثر دل پر ہے۔ بعد میں بھی جب سزا دی ہے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ پر غم کی کیفیت طاری ہوئی اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اس تکلیف سے کتنا کتنا عرصہ گھر سے تشریف نہ لاتے<۔
طلباء آپ سے جو محبت اور عقیدت رکھتے اس کا بیان کرنا مشکل ہے۔ چوہدری محمد بوٹا ایک طالب علم ہوتے تھے جو اب RESEARCH IRRIGATION میں آفیسر ہیں۔ غیراز جماعت ہیں۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں عرصے کے بعد جب وہ ایم ایس سی کرچکے تھے اور کالج سے جاچکے تھے خط لکھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اپنا نام تبدیل کرنا چاہتا ہوں اور میرے دل میں چونکہ آپ کی بے حد قدر اور عزت ہے اور مجھے کوئی اور آپ جیسا عظیم انسان نہیں ملا اس لئے آپ کی اجازت سے اپنا نام ناصر رکھنا چاہتا ہوں چنانچہ آج وہ اسی نام سے موسوم ہیں۔
محمد اشرف ایک طالب علم تھے جن پر کالج کے دنوں میں بظاہر سختی ہوئی تھی۔ یورپ کے دورے )۱۹۶۷ء( کے وقت دیوانہ وار حضور کی خدمت میں ایڈنبرا` گلاسگو وغیرہ حاضر رہے۔ طلبہ آپ کے والہ و شیدا تھے اور آپ بھی بیٹوں کی طرح ان سے سلوک فرماتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ آدھی آدھی رات بیمار طلبہ کے سرہانے بیٹھ کر ہاتھ سے چمچے کے ساتھ خود دوائی پلایا کرتے اور تسلیاں دیا کرتے۔ اس شفقت اور محبت کو دیکھ کر دوسرے طلباء کہا کرتے کہ ہمارا بھی بیمار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ غریب طلباء کی بہت دلداری فرماتے کہ ان کی امداد اس رنگ میں ہو کہ ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے۔ جو طلباء مزدوری کرکے پڑھتے ان کی خاص قدر فرماتے اور ان کا اس محبت سے ذکر فرماتے کہ ایسے طلباء کا فخر سے سراونچا ہو جاتا۔ غریب طلباء کی غذا` دوا` لباس` سویا بین اور پتہ نہیں کیا کیا ان کے لئے مہیا فرماتے۔ ڈسپلن کے معاملے میں سختی فرماتے اور پھر دلداری بھی فرماتے۔ فرمایا کرتے کہ استاد کو باپ اور ماں دونوں کا کام کرنا چاہئے۔
>سویا بین کا بہت شوق تھا اور ہے اور کمزور اور کھلاڑی اور ذہین طلباء کو اس کا حلوا تیار کروا کے کھلایا کرتے اور خوش ہوتے۔
آپ کا تعلق طلباء سے بے حد محبت اور تکریم کا ہوا کرتا تھا۔ ان سے مزاح بھی فرماتے اور بے تکلف بھی ہوتے لیکن حدود قائم رہتیں۔ خدام الاحمدیہ کے دور میں کلائی پکڑنے کا شوق تھا میرے علم میں کوئی ایسا شخص یا طالب علم ¶نہیں جو آپ کے مقابلے پر پرا اتر سکا ہو۔ اگر یہ عاجز کبھی کوشش کرتا تو دو انگلیوں سے کلائی چھڑا لیتے۔ طلباء کسی قسم کا بعد یا فاصلہ محسوس نہیں کرتے تھے۔ باپ بیٹے کا تعلق تھا جو زندہ اور جاری تھا۔ جب مرحوم مبشر احمد گکھڑ جو بے حد ہونہار اور نیک اور ذہین طالب علم تھا قتل ہوا اور آپ کی خدمت میں شام کو کراچی میں ضمناً ایک لڑکے مبشر احمد کی اطلاع کی گئی تو رات گئے غالباً بارہ ایک بجے کا عمل ہوگا کہ آپ کا فون آیا کہ تفصیل بتائی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے نیند نہیں آرہی اور بے حد بے چینی ہے۔ کیا یہ وہی مبشر احمد تو نہیں جو ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ افسوس کہ یہ وہی مبشر احمد تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہوگئے اور آدھی رات کو کراچی سے فون آیا۔
آپ طلبہ کو بلاوجہ ان کے نچلے پن پر ٹوکتے نہیں تھے اور فرمایا کرتے تھے یہ ان کی صحت کی علامت ہے۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے جو جماعت کے ایک مخلص خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور خود ایک بڑی کار پر ماڈل ٹائون سے کالج آیا کرتے تھے آپ کی >ولزلے< کارپر >المنار< میں چھپنے کے لئے انگریزی میں ایک مضمون لکھا۔ میں ان دنوں انگریزی حصے کا نگران تھا۔ میں نے شائع کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر مصنف نے اصرار کیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب سے پوچھ لیں آپ نے فرمایا۔ یہ تو ضرور چھپنا چاہئے۔ میں نے اسے ذرا نرم کرکے چھاپ دیا۔ جس دن >المنار< شائع ہوا۔ کوئی چند گھنٹے بعد طالب علم کانپتا ہوا میرے پاس آیا۔ کہنے لگا کہ ادھر یہ مضمون شائع ہوا اور ادھر میری کار کی ٹکر درخت سے ہوگئی۔ میری جان بچ گئی۔ میں اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کی کار پر استہزاء کا مرتکب ہوا تھا۔ مجھے اس کی سزا مل گئی۔ خدا معاف کرے۔
آپ طلباء کے اجتماعات میں دلی نشاط اور بشاشت سے شامل ہوتے اور خط اٹھاتے کشتی رانی (ROWING) کے میچوں میں تقریباً آدھ میل تک کشتی کے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے دوڑ کر حوصلہ افزائی فرماتے اور دوسرے کالجوں کے طلباء بار بار ہم سے کہا کرتے کہ کاش ہمارے پرنسپل بھی ہماری کھیلوں میں اتنی دلچسپی لیں۔ خدا تعالیٰ نے جو رعب دیا ہوا ہے طلباء اس کی وجہ سے ڈرتے بھی۔ لیکن وہ یہ جان گئے تھے کہ اگر کوئی خاص سنگین قسم کی قانون شکنی کے مرتکب نہ ہوں تو اس رعب کے نیچے حلم اور حیا اور محبت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہے اس لئے عام جرمانہ وغیرہ ہوتا تو جاکر معاف کروا لیتے۔ آپ کبھی بے صبری کا اظہار نہ فرماتے سختی کے وقت سختی بھی فرماتے لیکن دل نرمی کی طرف مائل رہتا۔ کھلاڑیوں خصوصاً روئنگ اور باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کی تکریم کرتے۔ لیکن اگر کبھی وہ قانون شکنی کرتے تو سختی بھی اتنی ہی زیادہ فرماتے۔ ایک روئنگ کے لڑکے سے غلطی ہوئی جو ہمارا کپتان تھا کبڈی کا کپتان بھی تھا۔ نہایت ذہین طالب علم تھا۔ سکالر شپ ہولڈر تھا۔ اسے اور خرچ بھی دیتے تھے اور آپ کے گھر سے کھانا بھی آیا کرتا اور اس کی خوب خوب ناز برداری ہوتی۔ لیکن جب اس نے کالج کے ایک استاد کے ساتھ گستاخی کی تو اسے دو سال کے لئے کالج سے نکال دیا۔ میں نے آپ کو بڑے سے بڑے حادثے پر روتے نہیں دیکھا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ اس لڑکے کے اخراج از کالج کے فارم پر دستخط فرماتے وقت حضور کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں<۔
طلبہ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ صاحب کی محبت و شفقت اور ہمدردی کے بے شمار واقعات ہیں۔ حال ہی میں آپ نے خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا۔
>میں ایک دفعہ اپنے کالج کے دفتر سے گھر کی طرف جارہا تھا۔ راستے میں مجھے ایک طالب علم ملا جس کے متعلق مجھے علم تھا کہ وہ بڑا محنتی اور ہوشیار طالب علم ہے۔ کوئی مہینے ڈیڑھ تک یونیورسٹی کے امتحان ہونے والے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس کا منہ زرد اور منہ پر دھبے پڑے ہوئے ہیں۔ بیمار شکل ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑا سخت صدمہ پہنچا کہ میں نے اس کی صحت کا خیال نہیں رکھا۔ ویسے وہ عام کھانا تو کھارہا تھا۔ لیکن ایسے کھانے پر اسلام کا اقتصادی نظام نہیں ٹھہرتا۔ میں نے سوچا کہ میں نے ظلم کیا۔ کشتی رانی کرنے والے طلباء کو تو میں سویابین کا حلوہ دیتا ہوں لیکن جو دن رات محنت کرنے والے طلباء ہیں ان کو میں سویابین کا حلوہ نہیں دیتا۔ میں نے تو بڑی غلطی کی۔ چنانچہ اس کو تو میں نے کہا کہ مجھ سے سویابین لے جاکر استعمال کرنا )لیکن بعد میں میں نے تمام محنتی طلباء کو سویا بین دینے کا انتظام کردیا( پہلے اسے مناسب حال غذا نہیں مل رہی تھی۔ اب جب اسے مناسب حال غذا ملی تو پندرہ دن کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے کے دھبے دور ہوگئے۔ چہرہ پر سرخی آگئی۔ آنکھوں میں زندگی اور توانائی کی علامات نظر آنے لگیں اور وہ امتحان میں بڑی اچھی طرح سے پاس ہوا۔ اچھے نمبر تو وہ ویسے بھی لے لیتا لیکن یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ساری عمر کے لئے وہ بیمار پڑجاتا۔ کئی ایسے عوارض اسے لاحق ہوجاتے جن سے چھٹکارا پانا اس کے لئے ناممکن ہو جاتا<۔
طلبہ کی حوصلہ افزائی اور روح مسابقت میں اضافہ کے لئے جدوجہد
حضرت صاحبزادہ صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ کالج کی سربراہی کے زمانہ میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کس طرح ان میں روح عمل اور
روح مسابقت کو بیدار کرنے بلکہ بڑھانے میں سرگرم عمل رہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے بطور نمونہ ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
شروع ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش کا واقعہ ہے کہ لاہور میں کشتی رانی کے مقابلے جاری تھے جس میں حسب سابق تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم بھی اپنی روایتی شان کے ساتھ حصہ لے رہی تھی۔ ۵۔ تبلیغ/ فروری کو کالج کی کشتی رانی کی ٹیم کے کیپٹن ناصر احمد صاحب ظفر۲۱۹ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مغربی پاکستان اوپن روئینگ چیمپئن شپ کے ارکان نے لاہور کے مقامی کالجوں کے لڑکے ہمارے مقابلہ جات کے لئے بطور منصف مقرر کر دیئے ہیں جس سے صورت حال بالکل ہمارے خلاف ہوگئی ہے۔ اس پر حضرت صاحبزادہ نے اپنے قلم مبارک سے انہیں حسب ذیل پیغام تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کے نام لکھ دیا اور ارشاد فرمایا کہ آپ ٹیم کے سامنے یہ پڑھ کر سنادیں۔
عکس کیلئے

~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعلیم الاسلام کالج کے باغیرت نوجوانو!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
مجھے بتایا گیا ہے کہ سکول بورڈ کے منتظمین نے کل کے مقابلہ میں لاہور کالجز کے طلبہ کو بطور ججز مقرر کیا تھا اور ان کا فیصلہ خلاف عقل و انصاف تھا۔ اگر یہ صحیح ہے تو۔
پہلے آپ کا مقابلہ برادرانہ مقابلہ تھا۔ دوسرے کالجز کے طلبہ ہمارے لئے ایسے ہی ہیں جیسا کہ اپنے طلبہ اور وہ آپ کے بھی بھائی ہیں۔ ان کے خلاف کوئی غصہ نہیں ہونا چاہئے۔ مقابلہ میں ہار جیت ہوتی ہی ہے اور یہ مقابلے ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ ہم عزت کے ساتھ جیتنا اور وقار کے ساتھ ہارنا سیکھیں اور آپ لوگ اس سبق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
مگر اب آپ کا مقابلہ اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں رہا۔ اب آپ کا مقابلہ بے انصافی اور بے ایمانی کے ساتھ ہے اور غیرت کا تقاضا ہے کہ آپ بے ایمانی اور بے انصافی کو شکست دیں۔ پس آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی قوت اور جوش کا آخری ماشہ خرچ کرکے دوسری ٹیموں کو بمپ کرتے ہوئے پھر اول آئیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ بے انصافی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کے بغیر آپ کی غیرت کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ دل چھوڑنے کا` ہمت ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر بے انصافی روز آپ کو سب سے آخر میں رکھے تو آپ کی غیرت کو چاہئے کہ وہ روز آپ کو پہلی پوزیشن میں لے جائے اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کردکھائیں گے۔
آج میرا پہنچنا ممکن نہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ آخری دو دن آپ کے ساتھ رہوں۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔
ویسے میں آج فون کررہا ہوں شاید کسی ذمہ دار افسر کی انسانیت بیدار ہوسکے۔ آمین۔
فقط
ناصر احمد
پرنسپل
۵۷۔ ۲۔ ۵
ناصر احمد صاحب ظفر یہ پیغام لے کر لاہور پہنچے اور جودھامل بلڈنگ میں جہاں کالج کی ٹیم مقیم تھی۔ سب طلبہ کو اکٹھا کرکے یہ پیغام انہیں سنایا۔ اس ولولہ انگیز پیغام نے طلبہ کے اندر بے انصافی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا ایک زبردست جوش اور بے پناہ جذبہ پیدا کردیا اور انہوں نے مصمم عہد کرلیا کہ وہ چیمپئن شپ حاصل کئے بغیر نہیں رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعائوں سے کالج کی ٹیم چیمپئن شپ کا اعزاز جیت کر ربوہ پہنچی۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
طلبہ کو غیر اسلامی اخلاق و اقدار سے بچانے کیلئے ایک جرات مندانہ فیصلہ
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ۔
>یہ ۴۸۔ ۱۹۴۷ء کی بات ہے جب پہلا C۔T۔O۔U کیمپ ہوا۔ یہ کیمپ والٹن میں ہوا تھا اور پاکستان بننے کے بعد پہلا کیمپ تھا۔ کیمپ کے حالات تسلی بخش نہیں تھے۔ ایک سینئر آفیسر CADETS اور اساتذہ کو جن کو فوجی رینک ملے ہوئے تھے بسا اوقات فحش گالیاں نکالا کرتا تھا۔ جنرل رضا ان دنوں ایڈجوٹنٹ جنرل تھے ان کے آنے تک تو بات بنی رہی لیکن جب کیمپ کا خاتمہ قریب آیا اور کمانڈر انچیف صاحب کے آنے کا دن قریب آیا تو طلبہ بے قابو ہوگئے اور فیصلہ کرلیا کہ سٹرائیک کریں گے اور تقسیم انعامات کے وقت اور کمانڈر انچیف صاحب کی آمد کے وقت خیموں میں بیٹھے رہیں گے۔ نہ صفائی کریں گے اور نہ ہی وردیاں پہنیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال ہمارے لئے تسلی بخش نہ تھی۔ یہ عاجز اپنے دستے کا کمانڈر تھا اور مکرم چوہدری فضل داد صاحب نائب کمانڈر تھے۔ ہم نے حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی خدمت میں خاص آدمی بھجوایا کہ یہ صورت حال پیدا ہوگئی ہے ہماری مدد کی جائے لیکن وہ پیغام رساں کیمپ سے باہر نکلتے وقت گرفتار ہوگیا اور کوارٹر گارڈ میں بھیج دیا گیا۔ اس کا ہمیں اس وقت علم نہ ہوا۔ اور ہم آپ کی طرف سے کسی پیغام کے انتظار میں رہے۔ جب رات ہوگئی اور کوئی جواب نہ آیا تو پہلے ہم نے کالجوں کے اساتذہ سے رابطہ قائم کیا خصوصاً محترم راجہ ایس۔ ڈی احمد صاحب )سابق پرنسپل وٹرنری کالج اور ڈائریکٹر اینیمل ہبنڈری` کرنل اسلم )جو ہماری بٹالین کے کمانڈر تھے( برادر مکرم رفیق عنایت مرزا )جو اب سینئر سی ایس پی آفیسر ہیں( سے اور ان پر یہ بات واضح کی کہ ہم سٹرائیک میں شامل نہیں ہوں گے۔ اگر سٹرائیک ختم نہ ہوئی تو تعلیم الاسلام کالج کی پلاٹون اکیلی ڈیوٹی پر جائے گی کیونکہ ہم سٹرائیک کو شرعاً ناجائز سمجھتے ہیں۔ اور ان سے اپیل کی کہ پاکستان کا پہلا کیمپ ہے وہ خود بھی سٹرائیک ختم کروانے کے خواہشمند تھے۔ بہرحال بعض دوستوں کو ساتھ لے کر ہم رات کے وقت خیمے خیمے میں پھرے۔ لڑکے گانے گارہے تھے۔ قوالیاں ہورہی تھیں اور نعرے لگ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا۔ ہماری اپیل پر لڑکے آمادہ ہوگئے کہ اگلے روز سٹرائیک نہ کریں اور پاکستان کے نام پر ایسی غیرت دکھائی کہ رات کا باقی وقت جاگ کر تیاری میں گزرا اور صفائی اور خیموں کی تزئین میں لگ گئے۔ چنانچہ اگلی صبح کمانڈر انچیف صاحب آئے۔ میدان جنگ کا نقشہ پیش ہوا۔ کمپنیوں میں باہمی لڑائی کی مہارت کے تمام انداز دکھائے۔ اس موقع پر ہمارے کچھ طلباء جو محاذ کشمیر پر فرقان بٹالین میں رہ چکے تھے وہ کمانڈر انچیف صاحب نے پہچان لئے۔ ان کی دلچسپی بڑھی تو پوچھا کہ سارے کیمپ میں کتنے ایسے مجاہدین ہیں۔ صرف ہمارے ہی کالج کے طلباء نکلے۔ تقسیم انعامات کے لئے پنڈال الگ قائم ہوچکا تھا اور مہمانوں کی آمد آمد تھی۔ وزراء` جج` وائس چانسلر صاحب` سیکرٹری` جرنیل اور بریگیڈیر پنڈال کے پاس ایک ہی جگہ کمانڈر انچیف صاحب کے استقبال کے لئے اکٹھے کھڑے تھے۔ طلباء پنڈال میں تھے۔ اساتذہ بھی تھے کہ اسی آفیسر نے پھر کوئی نازیبا الفاظ کہے جس پر پنڈال میں موجود طلباء میں پھر کھچائو پیدا ہوگیا۔ اس اثناء میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کی کار بھی آتی دکھائی دی۔ یہ عاجز آگے بڑھ کر استقبال کے لئے گیا اور آپ کو وہیں روک کر سارے کوائف بتائے۔ آپ تشریف لائے تو وہ آفیسر بھی استقبال کے لئے آگے بڑھے۔ آپ نے سرسری انداز میں پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خیر گزری۔ اس پر اس آفیسر نے اسی انداز میں کہا کہ مجھے ان کی کیا پروا ہے۔ یہ فقرہ کافی بلند آواز سے انہوں نے کہا۔ سول اور ملٹری آفیسر سب کچھ سن رہے تھے۔ آپ خاموش رہے۔ انہوں نے دوبارہ یہی فقرہ دوہرایا۔ جب سہ بارہ اسی قسم کا فقرہ کہا تو آپ نے بڑے جلال سے بلند آواز میں فرمایا کہ آپ کو پروا نہیں لیکن ہمیں ان کی بڑی پروا ہے۔ یہ قوم کے بچے ہیں۔ ہم ان کو اس قسم کے اخلاق کی تربیت کے لئے یہاں نہیں بھیجتے اور مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ ابھی ساری پلٹنوں کو واپس بلوا لو اور آئندہ سے کوئی سروکار نہ رکھو۔ اس پر کچھ سینئر آفیسرز اس افسر کو ایک طرف لے گئے اور اگلے ہی لمحے میں اس نے بڑی لجاجت سے معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار کیا۔ جب آپ نے یہ فقرات کہے تو مجھے یاد ہے کہ میرے ایک غیر از جماعت ساتھی نے فرط جذبات میں خوشی سے دیوانہ ہوکر میرا ہاتھ پکڑا اور اتنا زور سے دبایا کہ کئی دن تک میرا ہاتھ درد کرتا رہا۔ پھر حضرت میاں صاحب تقریب کے اختتام پر تشریف لے گئے اور محکمہ تعلیم کے ایک بڑے افسر نے کہا کہ میاں صاحب نے سب کی عزت رکھ لی۔
اس عجیب واقعہ کا آخری حصہ یہ ہے جس سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لیکن ہوا اور وہ یہ کہ کیمپ کے خاتمہ کے بعد جب بھی کوئی ٹرک روانہ ہوتا تو اس میں بیٹھنے والے >مرزا ناصر احمد زندہ باد< اور >پرنسپل ٹی۔ آئی کالج زندہ باد< کے نعرے ضرور لگاتے۔ یہ فلک شگاف نعرے ہمارے روکنے کے باوجود نہ رک سکے اور اسی انداز سے یہ کیمپ ختم ہوا<۔
‏vat,10.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
طلبہ سے مساوی حیثیت میں محبت بھرا سلوک
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے مزید لکھتے ہیں۔
>ایک طالب علم جو جماعت اسلامی کی انتظامیہ کا رکن تھا اور اس لئے آیا تھا کہ غیراز جماعت طلباء کو جماعت کے خلاف منظم کرے۔ کالج میں داخلے کے لئے آیا۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس کام کے لئے آئے ہیں تو آپ یہ ضرور کام کریں۔ میں آپ کو داخل بھی کرلیتا ہوں اور فیس کی رعایت بھی دیتا ہوں لیکن آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ یہ کام نہیں کرسکیں گے اور میرے کالج میں پڑھنے والے غیراز جماعت طلباء آپ کے دام میں نہیں آئیں گے۔ یہ طالب علم کافی عرصہ تک پوشیدہ اور علانیہ کوشش کرتا رہا لیکن بری طرح ناکام ہوا اور آپ کی شفقت اور محبت خود اس پر اثر کے بغیر نہ رہ سکی<۔
>جب کالج ربوہ میں منتقل ہونا شروع ہوا تو لاہورکے لوگوں کو اس سے بہت بے چینی پیدا ہوئی۔ بعض نے اخباروں میں لکھا کہ جو لوگ شریفانہ ماحول میں تھوڑے خرچ سے اچھی تعلیم دلانا چاہتے ہیں ان کے بچے کہاں جائیں۔ زبانی بھی ہمیں کہا گیا کہ کالج نہ لے جائیں۔ ایک دفعہ ایک وفد )جس میں چند ایسے لوگ بھی شامل تھے جو ہمارے خلاف ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن میں ماخوذ ہوئے تھے( حضور کے دفتر میں ملنے کے لئے آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایجی ٹیشن میں آپ کے خلاف حصہ لیا تھا لیکن اپنے بچے آپ کے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کالج نہ لے جائیں۔ آپ نے فرمایا۔ اس سے زیادہ تعریف آپ کالج کی نہیں کرسکتے لیکن ہماری اپنی مجبوریاں ایسی ہیں کہ ربوہ کا بہرحال حق ہے اس لئے کالج ضرور جائے گا۔ البتہ آپ کا شکریہ۔ الحمدلل¶ہ کہ کالج ربوہ آگیا<۔
بے تکلفی اور پاکیزہ مزاح
چوہدری محمد علی صاحب تحریر کرتے ہیں۔
>پاکیزہ مزاح بھی ہمارے کالج کا اور خصوصاً ہوسٹل کی تقریبوں کا طرہ امتیاز رہا ہے جن میں خود آپ )ایدہ اللہ تعالیٰ( اور آپ کی ولزلے کار پر محبت اور ادب کے ساتھ تنقید بھی ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ اس عاجز نے ولزلے کے متعلق کچھ کہنے سے منع کردیا تو ارشاد پہنچا کہ اگر ولزلے کا ذکر نہ ہوا تو میں نہیں آئوں گا۔ مختلف سالوں میں اس پر اتنی نظمیں لکھی گئیں کہ فرمایا کہ تمام نظمیں جمع کروائو تاکہ میں >دیوان کار< چھپوا کر حضور مصلح موعود ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کروں اور مجھے نئی کار حضور کی طرف سے مل جائے<۔۲۲۰
درویشانہ زندگی
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے مزید لکھتے ہیں۔
>مصلح موعودؓ کے فرزند اکبر کی درویشانہ شان تھی اور آپ اسی میں مگن تھے۔ کبھی ٹیپ ٹاپ کی طرف آپ کی طبیعت نہیں گئی۔ ایک دفعہ چند آنے گز کی ایک اچکن سلوائی۔ سبز رنگ تھا اور دھاریدار تھی۔ جب آپ نے زیب تن کی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ نہایت قیمتی کپڑا ہے۔ کئی مرتبہ میں نے خود دیکھا کہ اچکن کو پیوند لگا ہوا ہے اور بڑی بڑی تقریبوں میں شامل ہوتے ہیں اور حضور کے داخل ہوتے ہیں تمام حاضرین مجلس کی توجہ آپ کی طرف ہو جاتی۔ وقار اور مسکراہٹ اور رعب یہ اللہ تعالیٰ کی دین تھی۔ بارہا یہ عاجز شکار پر آپ کی خدمت میں ساتھ ہوا کرتا۔ کھانے کا وقت آجاتا تو دیہات کی سادہ تنور کی روٹی پسی ہوئی مرچ اور لسی سے اتنا مزہ لے کر تناول فرماتے کہ گویا اس سے لذیذ اور کوئی کھانا نہیں ہوسکتا<۔
دعائوں کی تلقین
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ کالج کے دفتر میں تشریف فرما تھے کہ دفتر کے ایک کارکن نے طالب علموں کے ڈیڑھ سو فارم یونیورسٹی میں بھجوانے کے لئے رکھ دیئے۔ آپ ان فارموں پر دستخط بھی کرتے رہے اور ساتھ ہی درود شریف بھی پڑھتے رہے۔ دو تین منٹ کے بعد آپ کو خیال آیا کہ میں ایک بھائی کو نیکی سے محروم کررہا ہوں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمہیں اس وقت کام نہیں۔ تم صرف میرے دستخطوں کے بعد فارم اٹھارہے ہو۔ تم فارم بھی اٹھاتے رہو اور ساتھ ساتھ درود شریف پڑھتے رہو۔ چنانچہ اس کارکن نے بھی درود شریف کا ورد شروع کر دیا۔ اور جب آپ سب فارموں پر دستخط فرماچکے تو اس نے نہایت بشاشت سے عرض کیا کہ میں نے دو تین سو کے درمیان درود شریف پڑھ لیا ہے۔۲۲۱
کالج میں مختلف علمی مجالس کا قیام اور انکی غرض و غایت
حضرت صاحبزادہ صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کی توجہ سے کالج میں طلبہ کی علمی نشوونما کے لئے مندرجہ ذیل مشہور علمی مجالس جاری ہوئیں۔ مجلس عمومی` مجلس ارشاد` بزم اردو` سائنس سوسائٹی` مجلس عربی` مجلس علوم معاشرت` مجلس تاریخ` مجلس حیاتیات` مجلس فلسفہ و نفسیات` ریڈیو اور فوٹو گرافک سوسائٹی۔
ان اہم مجالس کے قیام کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما تھا؟ اس کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
>تحصیل علم کے لئے مندرجہ ذیل چار باتیں ضروری ہیں۔ اول علمی باتوں کا غور سے سننا` دوم علمی باتوں کے سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کرنا` سوم ان میں سے جو باتیں بظاہر عقل کے خلاف نظر آئیں ان پر تنقید کرنا اور چہارم ناقابل تسلیم نظریوں کے مقابل اپنے تحقیقی نظریئے پیش کرنا یعنی سننے سمجھنے تنقید اور تحقیق کرنے کے بغیر صحیح علم حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے دو کام کلاس روم میں کئے جاتے ہیں جہاں نظم و ضبط کی پابندی از بس ضروری ہے۔ لیکن اگر ہمارا نصب العین محض یہ ہو کہ سنو اور قبول کرو تو ہماری آئندہ نسل اندھی اور کند ذہن ہوگی۔ مذکورہ نصب العین پر ہمیں یہ اضافہ کرنا پڑے گا کہ پرکھو اور تحقیق کو اور تحقیق و تنقید کے لئے کلاس روم سے باہر بھی علمی مشاغل کا ہونا ضروری ہے اور اسی لئے درسگاہوں میں مختلف علمی مجالس کی قائم کی جاتی ہیں جن میں سے اہم ترین مجلس کالج کی عمومی مجلس ہے جہاں طلبہ اپنی آراء کا آزادانہ اظہار کرتے ہیں<۔۲۲۲
کھیلوں کی سرپرستی
چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے تحریر کرتے ہیں۔
>سپورٹس کی ایسوسی ایشنیں اعلیٰ سطح پر آپ کی خدمت میں پہنچتیں کہ صدارت قبول فرمائیں تاکہ امن کی فضا قائم ہو۔ آپ پنجاب بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے صدر کئی سال رہے۔ مغربی پاکستان کے بیڈمنٹن کے مقابلے کالج ہال میں ہوا کرتے۔ پھر آپ جیسا کہ ذکر آچکا ہے باسکٹ بال کی سنٹرل زون کے صدر بنے۔ دیگر کھیلوں کو بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی فٹ بال` کرکٹ` ٹینس` ٹیبل ٹینس تو آپ خود نہایت عمدہ کھیلتے تھے اور اساتذہ اور طلباء کے میچوں میں خصوصاً ہوسٹل ٹیبل ٹینس کے میچوں میں حصہ لیتے رہے۔ روئنگ اور باسکٹ بال کو آپ نے بام عروج تک پہنچا دیا۔ ہائیکنگ میں آپ بے حد دلچسپی لیتے رہے۔ پنجاب مائونٹیرنگ کلب اور یونیورسٹی کی مائونٹیرنگ کلب جس کے صدر مرحوم ڈاکٹر بشیر وائس چانسلر تھے پارٹیشن کے بعد دونو کے دستور بنانے میں آپ کے خاص مشورے شامل تھے اور عملاً آپ ان کے فائونڈر ممبر ہیں۔ لیکن دونوں کلبوں سے کوئی براہ راست رابطہ قائم نہ رہ سکا۔ البتہ آپ ہائیکنگ اور مائونیٹرنگ اور یوتھ ہاسٹلنگ کی ہر آن حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ مرحوم چوہدری لطیف جو پاکستان کے ممتاز ہائیکر تھے آپ کے بے حد معتقد تھے۔
صحت جسمانی کے لئے مختلف اہم شعبے
قومی اور ملی فرائض کی بجاآوری بلکہ پوری زندگی کو صحیح طریق پر گزارنے کے لئے صحت جسمانی کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے طلبہ کی تربیت کے دوران اس سنہری اصول کو نہ صرف مدنظر رکھا بلکہ اسے ہمیشہ ہی خاص الخاص اہمیت دی۔ چنانچہ آپ نے ۵۱۔۱۹۵۰ء/ ۳۰۔ ۱۳۲۹ہش کی سالانہ رپورٹ میں اپنا مخصوص اور بلند نقطہ نگاہ مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا۔
>ایک نوزائیدہ مملکت اگر ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ ممالک سے بازی لینا چاہتی ہے تو اس کے افراد پر سعی پیہم اور مستقل جدوجہد کی بھاری ذمہ داری پڑتی ہے اور لگاتار محنت کرتے چلے جانا جذبہ ملی اور مضبوط و توانا جسموں کے بغیر ممکن نہیں۔ تمام بیدار ممالک اپنی قوم کی صحت کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں اور عام اندازہ کے مطابق ان ممالک کا جتنا روپیہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اسی کے لگ بھگ رقم وہ ورزشوں وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ بوجہ غربت ہم ان کے لئے پوری خوارک مہیا نہیں کرسکتے۔ لیکن غربت کے باوجود بھی صحیح ورزش انہیں کرواسکتے ہیں۔ یہ مہاجر ادارہ طلباء کے اس شعبہ زندگی کی طرف بھی خاص توجہ دیتا رہا ہے۔ بہت سے غریب بچوں کو مفت دودھ دیا جارہا ہے اور عام طور پر یہ کوشش رہی ہے کہ تمام طلبہ ورزش کے ذریعہ سے اپنے جسموں کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے رہیں<۔۲۲۳
حضرت میرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے کالج میں عسکری تربیت کا خاص اہتمام کرنے کے علاوہ مجلس سیاحت کا قیام فرمایا اور نیز والی بال` بیڈمنٹن` کبڈی` فٹ بال وغیرہ مختلف کھیلوں کو خاص طور پر رواج دیا اور کشتی رانی اور باسکٹ بال کو اوج کمال تک پہنچانے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کردیں۔
طلباء کو زریں نصائح
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( طلباء کی اخلاقی` روحانی اور علمی رہنمائی کے لئے ہر دم کوشاں رہتے اور وعظ و نصیحت کے ہر اہم موقعہ سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ آپ فارغ التحصیل طلبہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کی روشنی میں خاص طور پر قابل قدر نصائح سے نوازتے اور یہ آپ کا نہایت مرغوب دستور اور معمول رہا۔ مثلاً۔
۱۔ ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ہش کی سالانہ تقریب اسناد پر کالج کی سالانہ رپورٹ سنانے کے بعد فرمایا۔
>بالاخر میں بی۔ اے اور بی۔ ایس۔ سی کے امتحانات میں کامیاب رہنے اور انعامات حاصل کرنے والے طلباء سے کہوں گا کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے۔ تمہیں تمہاری کامیابیاں مبارک ہوں مگر یہ کامیابیاں محض ابتدائی نوعیت کی ہیں۔ ان کامیابیوں کو اصل مقصد کے حصول کا ایک وسیلہ سمجھو۔ ان کی وجہ سے اصل مقصد کو کبھی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دو۔ خدا تعالیٰ کی >توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کو۔ اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی اور تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو<۔۲۲۴body] gat[
۲۔ ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش کی تقریب اسناد پر فرمایا۔
>تمہیں تمہاری کامیابیاں مبارک ہوں مگر یہ کبھی نہ بھولنا کہ تمہاری یہ کامیابیاں جہاں زندگی کی ایک منزل کی انتہاء ہیں وہاں دوسری منزل کی ابتداء بھی ہیں جہاں تم نے اپنے عمل کے جوہر دکھانے ہیں۔ جہاں تم نے انسانی اقدار کو قائم کرنا اور بااخلاق انسان کی صفات کا مظاہرہ کرنا ہے اور جہاں تم نے )اگر خدا تمہیں توفیق دے( باخدا اور خدا نما انسان کے روپ میں دنیا میں جلوہ گر ہونا ہے ایسے مبارک وجود آج استثناء کا حکم رکھتے ہیں۔ مگر حسن سیرت کے ہر خوبصورت پہلو کو عام کرکے اس استثناء کو قاعدہ کلیہ کی شکل میں ڈھالنا۔ تمہارا )جو تعلیم الاسلام کالج کی پیداوار ہو( فرض ہے اور اس فرض سے تم سبکدوش ہو نہیں سکتے جب تک کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل نہ بنائو<۔۲۲۵ )آگے >کشتی نوح< کا اقتباس درج ہے(
۳۔ ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کی سالانہ تقریب اسناد پر یہ بیش قیمت نصائح فرمائیں۔
>آپ درسگاہ کی تعلیم سے فارغ ہورہے ہیں مگر تعلیم سے فارغ نہیں ہورہے۔ علم ایک بحربے کنار ہے۔ اس لئے ایک انسان علم میں خواہ کس قدر ترقی کرجائے علم ختم نہیں ہوتا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مددا کہہ دے کہ اگر سمندر کو سیاہی بناکر اسے خدا تعالیٰ کی معرفت کی باتیں` اس کے دیئے ہوئے علوم اور قدرت کے راز ضبط تحریر میں لانا چاہو تو وہ ایک سمندر کیا اس جیسا ایک اور سمندر بھی لے آئو تو وہ بھی ختم ہو جائے گا مگر خدا کی باتیں اور اس کے دیئے ہوئے علوم ختم نہ ہوں گے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم~صل۱~ سے اور حضور کی اتباع میں ہر مسلمان کی زبان سے یہ کہلوایا کہ رب زدنی علما۔ اے اللہ مجھے اپنی معرفت اور علم میں بڑھاتا چلا جا۔ پس علم کبھی نہ ختم ہونے والی چیز ہے۔ اس لئے آپ تادم حیات علم کی جستجو میں رہیں اور اس کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو<۔۲۲۶
۴۔ ماہ امان/ مارچ ۱۹۶۵ء/ ۱۳۳۴ہش کی سالانہ تقریب کے موقعہ پر کامیاب طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>حقیقی علم کا ابدی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سنی سنائی باتوں یا درسی کتب سے آپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے گھڑے یا مشکیزے کا پانی جو اپنے سرچشمہ سے دور ہوجانے کی وجہ سے مرور زمانہ کے ساتھ متعفن` بدبودار اور مضر صحت ہو جاتا ہے۔ اگر آپ علم سے محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کا تعلق علم کے حقیقی سرچشمہ سے ہمیشہ مضبوط رہے۔ پس اپنی عقل اور علم پر تکیہ نہ کرو بلکہ ہمیشہ علام حقیقی کے آستانہ پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکے رہو تا اس تعلق کے طفیل تمہارے دلوں سے بھی ہمیشہ مصفیٰ` میٹھے اور لذیذ علم کے چشمے پھوٹتے رہیں۔ اگر تمہارا یہ تعلق اپنے رب سے جو خالق کل اور عالم کل ہے پختہ اور مضبوط رہا تو علم و حکمت کا ایسا خزانہ تمہیں ملے گا جو دنیا کی تمام دولتوں سے اشرف ہے۔ دنیا کی دولت فانی ہے لیکن علم و حکمت کا جو خزانہ تمہیں ملے گا اس پر فنا نہیں آئے گی۔ پس دعا اور عاجزی کے ساتھ اپنے محسن` اپنے رب سے بصیرت اور معرفت طلب کرتے رہو۔
یہ بھی نہ بھولنا کہ انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ خود اس سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کی خدمت کرے۔ حقیقی علم کے حصول کے بعد انسان ہزار برائیوں سے بچتا اور بے شمار نیکیوں کی توفیق پاتا ہے۔ اور بڑا ہی بدبخت ہے وہ جسے معرفت تو عطا ہوئی` جس نے علم تو حاصل کیا مگر اس کے باوجود وہ غفلت اور گمراہی میں ہی پڑا رہا۔ نہ خود فائدہ اٹھایا نہ دوسروں کی خدمت کرسکا۔ پس ہمیشہ عالم باعمل بننے کی کوشش کرو۔ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور اپنے سایہ رحمت میں ہمیشہ تمہیں رکھے<۔۲۲۷
تعلیم الاسلام کالج سے متعلق دوسروں کے تاثرات
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کی براہ راست قیادت کے زمانہ میں کالج کا نظام تعلیم و تربیت کس درجہ کامیاب رہا اس کا کسی قدر اندازہ ان تاثرات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جن کا اظہار غیراز جماعت حلقوں سے تعلق رکھنے والے مشہور اہل علم اور سربرآوردہ اصحاب نے کیا۔
۱۔
میاں افضل حسین صاحب )وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی(
>میرے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ تعلیم الاسلام کالج ہر اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے<۔۲۲۸
۲۔
پروفیسر سراج الدین صاحب )سیکرٹری محکمہ تعلیم مغربی پاکستان(
>خالصت¶ہ ذاتی عزم و کوشش کے نتیجہ میں ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج جیسی درسگاہ کو قائم کردکھانا اور پھر اسے پروان چڑھا کر اس کے موجودہ معیار پر لانا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ تعلیم الاسلام کالج کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسے پرنسپل کی رانمائی حاصل ہے جو ایمان و یقین` خلوص و فدائیت اور بلند کرداری کے اعلیٰ اوصاف سے مالا مال ہے۔ آج ہم کو ایسے ہی باہمت` بلند حوصلہ اور اہل انسانوں کی ضرورت ہے۔ ہر چند مجھے پہلی بار تعلیم الاسلام کالج کی حدود میں قدم رکھنے کا اتفاق ہوا ہے تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں اور ان تمام لوگوں کے دلوں میں جو اس صوبے میں تعلیم سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں محبت کا ایک خاص مقام ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم الاسلام کالج دو نمایاں اور ممتاز شخصیتوں والد اور فرزند کی محنت ` محبت اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ میری مراد آپ کی جماعت کے واجب الاحترام امام جو اس کالج کے بانی ہیں اور ان کے لائق و فائق فرزند مرزا ناصر احمد سے ہے۔ وہ اپنے مشہور و معروف خاندان کی قائم کردہ روایات کو وقف کی روح اور ایک ایسے جذبہ و جوش کے ساتھ چلا رہے ہیں جو دوسرے ممالک میں بھی شاذ ہی نظر آتا ہے۔ جب میں اس کالج پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے انگلستان اور امریکہ میں علم کی ترویج اور اس کے فروغ کے متعلق انسانوں کے وہ عظیم محسن یاد آئے۔ بغیر نہیں رہتے جنہوں نے خدمت کی نیت سے آکسفورڈ` کیمرج اور ہارووڈ میں کالج قائم کئے۔ خالصت¶ہ ذاتی عزم و ہمت کے بل بوتے پر ربوہ میں ایک ایسی درسگاہ قائم کردکھانا ایک عظیم کارنامہ ہے اور پھر اس کی آبیاری کرنا اور پروان چڑھا کر اسے حسن و خوبی اور مضبوطی و استحکام سے مالا مال کر دکھانا اور بھی زیادہ قابل ستائش ہے۔ ایک ایسے پرائیویٹ ادارے کو دیکھ کر جو باہمی مخاصمت اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے پاک ہو اور جس کی تمام تر کوششیں اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لئے وقف ہوں` استعجاب اور رشک کے جذبات کا ابھرنا ایک قدرتی امر ہے۔
آپ کے امام جماعت کو علم اور اس کی ترویج سے جو محبت ہے آپ کے پرنسپل صاحب اور ممبران سٹاف ایسے ماہرین تعلیم بھی اس میں حصہ دار ہیں۔
مرزا ناصر احمد صاحب جنہیں اپنے شاگردوں میں شمار کرنا میرے لئے باعث عزت ہے برصغیر ہندو پاک کے نامور فاضل اور ماہر تعلیم ہیں۔ یہ کالج کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسے پرنسپل کی راہ نمائی حاصل ہے جو اپنی زندگی میں آج کے دن تک بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ مقررہ نصب العین کے حصول میں کوشاں چلے آرہے ہیں اور زمانے کے اتار چڑھائو ان کے لئے کبھی سد راہ ثابت نہیں ہوسکے۔ ان سے کم اہلیت اور کم عزم و حوصلہ کا انسان ہوتا تو زمانے کے اتار چڑھائو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ ہمیں ایسے ہی آدمیوں کی ضرورت ہے جو ایمان و یقین` فدائیت اور بلند کرداری کے اوصاف سے متصف ہوں۔
مرزا ناصر احمد سے تعارف اور ان کی دوستی کے شرف سے مشرف ہونا عزم و ہمت کے ازسرنو بحال ہونے کے علاوہ خود اپنے آپ کو اس مستقبل کے بارے میں جو زمانے کے پریشان کن بادلوں کے پیچھے پوشیدہ ہے ایک پختہ اور غیر متزلزل اتحاد سے بہرہ ور کرنے کے مترادف ہے<۔۲۲۹
۳۔
جناب حماد رضا صاحب کمشنر سرگودھا ڈویژن۔
>میں مبارک باد دیتا ہوں اس کالج کے بانیوں کو کہ انہوں نے اس ادارہ کو قائم کیا اور پھر اسے ترقی دے کر اس حد تک لائے اور اب اسے اور ترقی دینے کے خواہاں ہیں۔ مجھے پرنسپل صاحب سے پتہ چلا ہے کہ ہر سال ہی کالج کے نتائج یونیورسٹی اور بورڈ کی شرح فیصد سے زیادہ رہتے ہیں۔ یہ امر واقعی باعث مسرت ہے۔ میں پرنسپل صاحب اور ان کے سٹاف کی خدمت میں دلی مبارکباد عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک ایسے ادارہ کی سربراہی کا فرض ادا کررہے ہیں جس پر وہ فخر کرسکتے ہیں<۔۲۳۰
۴۔
سابق سیکرٹری محکمہ تعلیم جناب انور عادل صاحب سی۔ ایس۔ پی سیکرٹری صوبائی وزارت داخلہ۔
>بلاشبہ آپ کا یہ تعلیمی ادارہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اسے وہ ماحول میسر ہے جسے ہم صحیح معنوں میں تعلیمی ماحول کہتے ہیں۔ یہاں دھیان بٹانے اور توجہ ہٹانے والی بے مقصد قسم کی غیر علمی مصروفیات ناپید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس خالص تعلیمی ماحول میں حصول تعلیم اور کردار سازی کے نقطہ نگاہ سے آپ کو یہاں ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کا زریں موقع حاصل ہے اور آپ لوگ سیرت و کردار کے یکساں سانچوں میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے ہیں<۔۲۳۱
۵۔
جسٹس سجاد احمد جان جج عدالت عالیہ مغربی پاکستان لاہور۔
>اس ادارہ میں تربیت کی کشتی کے چپو بڑے ہی پختہ کار ہاتھوں میں ہیں جو جانتے ہیں کہ ماحول کے ساتھ مناسبت پیدا کرکے بالاخر ماحول پر کس قدر غلبہ پایا جاسکتا ہے۔ یہ بجائے خود بہت بڑی خوبی پر دلالت کرتا ہے<۔۲۳۲
۶۔
جسٹس انوار الحق صاحب جج ہائیکورٹ مغربی پاکستان لاہور۔
>آج آپ کے ادارہ میں آکر میری اپنی طالب علمی کا دور میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ آکسفورڈ جیسی فضا دیکھ کر میرے دل میں پرانی یادیں تازہ ہوگئی ہیں اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو مثالی تعلیمی اور تربیتی ماحول میسر ہے جہاں دوسری جگہوں کی مضرت انگیز مصروفیات ناپید ہیں<۔۲۳۳
۷۔
پروفیسر حمید احمد خاں صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی۔
>یہ کالج دوسری غیر سرکاری درسگاہوں کی طرح ہمارے قومی نظام تعلیم میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ مجھے اس میں قطعاً شبہ نہیں کہ قومی جماعتوں اور انجمنوں کی قائم کی ہوئی درسگاہیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہماری اجتماعی زندگی میں ایک بنیادی ضرورت کو پورا کررہی ہیں اور ان کے نہ ہونے سے ہماری زندگی میں ایک خلا ہوگا<۔۲۳۴
۸۔
‏]dni [tag مولانا صلاح الدین احمد ایڈیٹر >ادبی دنیا<
>آپ کی ۔۔۔۔۔۔ خوش بختی یہ ہے کہ آپ نے جس ادارے میں تعلیم و تربیت پائی ہے وہ دنیا میں دین کے امتزاج کا ایک نہایت متوازن تصور پیش کرتا ہے نہ صرف پیش کرتا بلکہ اسے عمل مسلسل میں ملبوس بھی کرتا چلا جاتا ہے۔ خدا وہ دن جلد لائے جب ہم اس کالج کو ایک معیاری` مکمل اور منفرد کلیہ کی حیثیت و صورت میں دیکھ سکیں اور کوئی وجہ نہیں کہ جہاں کام کو کام بلکہ ایک مشن تصور کیا جاتا ہے` جہاں طلباء کو فقط پڑھایا نہیں جاتا بلکہ ان کے مزاجوں میں ایک کوہ شکن سنجیدگی اور کردار میں ایک شریفانہ صلاحیت پیدا کی جاتی ہے اور جہاں اساتذہ کی قربانیاں اور جانفشانیاں اپنے پیچھے ایک کہکشان نور چھوڑتی چلی جاتی ہیں وہاں اہل خیر کی تمنائیں کیوں نہ فروغ پائیں گی اور اہل قلم کے عزائم کیوں نہ پورے ہوں گے<۔۲۳۵
۹۔
ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائل پور
>تعلیم الاسلام کالج ملک کا وہ ممتاز ترین ادارہ ہے جہاں کے طلباء کا اوڑھنا بچھونا علم ہے اور وہ علم کے حصول کو بھی ایک عبادت تصور کرتے ہیں<۔
>آپ لوگ اپنی قومی زبان کی جو خدمت کررہے ہیں وہ ہر لحاظ سے قابل تحسین اور قابل ستائش ہے<۔۲۳۶
۱۰۔
مولانا عبدالمجید صاحب سالک مدیر >انقلاب< لاہور
>تعلیم الاسلام کالج احمدی جماعت اور پرنسپل میاں ناصر احمد کی مخلصانہ مساعی اور شبانہ روز محنت کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ اس کالج کے کارکن جماعت کے تعمیری و تعلیمی تصورات کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف ہیں اور میرے نزدیک اس درسگاہ کی سب سے بڑی خصوصیت اور برکت یہ ہے کہ ربوہ کی فضاء آج کل کی شہری آلودگیوں سے قطعی طور پر محفوظ ہے اور وہ ترغیبات بالکل مفقود ہیں جو تربیت اخلاقی میں حائل ہوکر تعلیم کے بلند تصورات کو برباد کردیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس درسگاہ کو پاکستانیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید و بابرکت بنائے اور اس کے کار پردازوں کو بیش از بیش سعی و جدوجہد کی توفیق عطا فرمائے۔
ربوہ ۱۱۔ فروری ۱۹۵۶ء عبدالمجید سالک<
۱۱۔
جناب عبدالحمید صاحب دستی وزیر تعلیم مغربی پاکستان
>تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی اسلامی روایات قابل تقلید و ستائش ہیں۔ پرنسپل میاں ناصر احمد کی مساعی ادارے کی ہر نوع میں تعمیر کے متعلق مبارکباد کی مستحق ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادارے کے معائنہ سے مجھے بہت اطمینان اور راحت نصیب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس درسگاہ کو برکت عطا فرمائے۔
عبدالحمید دستی ۱۷۔ مارچ ۱۹۵۷ء<
۱۲۔
صوفی غلام مصطفیٰ صاحب تبسم مدیر >لیل و نہار و پروفیسر فلاسفی گورنمنٹ کالج لاہور
>تعلیم الاسلام کالج اور متعلقہ اداروں کو دیکھ کر ہمیں روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ چند سالوں میں یہاں جس تیز رفتاری اور خوش اسلوبی سے ترقی ہوئی ہے وہ کارکنوں کے خلوص` بلند ہمتی اور استقلال کا نتیجہ ہے۔ توقع ہے کہ یہ جگہ تھوڑے ہی عرصے میں ہمارے ملک کی ایک معیاری اور قابل رشک جگہ ہوگی<۔
پہلا باب )فصل ہفتم(
کالج کے اکیس سالہ دور میں دعائوں کی برکت سے آسمانی نصرتوں کے روح پرور نظارے!
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مئی/ ہجرت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے لے کر ۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک کالج کے سربراہ رہے۔ ازاں بعد خدائے عزوجل کی طرف سے آپ کو دنیا بھر کی تعلیم و تربیت اور راہ نمائی کے لئے منصب خلافت پر سرفراز فرما دیا گیا۔ آپ کے اکیس سالہ تعمیری و اصلاحی دور قیادت میں اس درسگاہ نے انتہائی ناموافق اور پرخطر حالات اور بے حد مشکلات کے باوجود جو فقید المثال ترقی کی وہ بلاشبہ آنحضرت~صل۱~ کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کے بیت الدعا والی دعائوں کی قبولیت کا زبردست نشان ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ مگر ان دعائوں کی تاثیرات کو کھینچ لانے میں سیدنا المصلح الموعودؓ کی راہنمائی` روحانی توجہ اور قوت قدسیہ کے ساتھ ساتھ حضرت صاحبزاد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کی ان درد و سوز میں ڈوبی ہوئی دعائوں کا بھی یقیناً بھاری دخل ہے جو آپ ہمیشہ اس درسگاہ کے لئے کرتے رہے اور جن کے نتیجہ میں قدم قدم پر خدائی نصرتوں اور برکتوں کا ظہور ہوا۔ اور جن کا ایمان افروز مختصر سا تذکرہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے اس آخری فصل میں کیا جاتا ہے۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کو اساتذہ و طلبہ تعلیم الاسلام کالج کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>میں اس درسگاہ سے قبل مختلف دوروں سے گزرا ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں پہلے میں نے قرآن کریم حفظ کیا۔ پھر دینی اور عربی تعلیم حاصل کی اور پھر دینوی تعلیم کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ گورنمنٹ کالج میں پڑھا۔ پھر انگلستان گیا اور آکسفورڈ میں بھی پڑھا۔ جب میرا تعلیمی زمانہ ختم ہوا اور میں انگلستان سے واپس آیا تو حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے مجھے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد لگا دیا۔ اس وقت مجھے عربی تعلیم چھوڑے قریباً دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لئے میرے دماغ نے کچھ عجیب سی کیفیت محسوس کی۔ کیونکہ وہ علوم جو میرے دماغ میں اب تازہ نہیں رہے تھے وہی علوم مجھے پڑھانے پر اب مقرر کردیا گیا اور میں نے دل میں کہا کہ اللہ خیر کرے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نباہ سکوں۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مجھے جامعہ احمدیہ کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے پیار اور حسن کا عجیب تجربہ ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ میری کلاس جب پہلی دفعہ یونیورسٹی میں گئی تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سارے کے سارے طلبہ پاس ہوگئے۔ اس وقت مجھے اپنے رب کی قدرتوں کا مزید یقین ہوا اور میں نے سمجھا کہ علوم کا سیکھنا اور سکھانا بڑی حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری کوششوں میں جو کمی رہ جاتی ہے اس کی کمی کو ہم اپنی دعائوں سے پورا کرسکتے ہیں۔ یہ تجربہ ۴۱۔ ۴۰ء سے اب تک مجھے رہا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس کالج میں بھی سب سے کم لیکچر دینے والا میں ہی تھا۔ اگر دوسرے اساتذہ سو سو لیکچر دیتے تو میں چالیس پچاس سے زیادہ لیکچر نہ دے سکتا تھا۔ شاید کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے اور کچھ اپنی دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے حضور دعائیں کرنے کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل رہا ہے کہ جو پرچہ میں پڑھاتا رہا ہوں )اکنامکس اور پولٹیکل سائنس پڑھائے ہیں( اس کے بڑے اچھے نتائج نکلتے رہے ہیں۔ ایک کلاس میری ایسی تھی کہ جس کے متعلق ایک دفعہ مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں نے کچھ حصے ان کو صحیح رنگ میں نہیں پڑھائے اور اس میں طلبہ کمزور ہیں۔ امتحان سے پندرہ بیس دن پہلے مجھے خیال آیا کہ ایک عنوان ایسا ہے کہ اگر میں اس کے متعلق ان کو نوٹ تیار کرکے دے دوں تو خدا کے فضل سے یہ طلبہ بڑا اچھا نتیجہ نکال لیں گے چنانچہ میں نے ایک نوٹ تیار کیا اور کوشش کرکے میں نے خود طالب علموں کے پاس پہنچایا اور ان کو کہا کہ اس کو یاد کرلو۔ چنانچہ جب پرچہ آیا تو اس میں تین سوال ایسے تھے جو میرے اس نوٹ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور چونکہ وہ مختصر اور کمپری ہنسو )مکمل( تھا اور تازہ تازہ ان کے ذہن میں تھا۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ اس سال نصف سے زیادہ طلبہ نے اس پرچہ میں فرسٹ ڈویژن حاصل کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔
پس میرے اپنے سارے زمانہ میں یہ تجربہ رہا ہے کہ جب ہم اپنے رب کی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکتے ہیں تو وہ اپنے فضل اور رحم کی بارشیں ہم پر کرتا ہے۔ ہمارا خدا بخیل نہیں بلکہ بڑا دیالو ہے۔ اگر کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم بعض دفعہ لاپروائی سے کام لیتے ہیں اور اس کی طرف جھکنے کی بجائے دوسرے دروازوں کو کھٹکھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ دروازے کھولے نہیں جاتے۔
تو اس زمانہ میں جب میں جامعہ میں تھا میں نے اپنا دل اور دماغ اس ادارے کو دے دیا تھا اور بڑی محنت سے اس کی نشوونما کی طرف توجہ کی تھی۔ اور اس زمانہ میں جب میں نے حساب لگایا تو مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ پہلے یا دوسرے سال جتنے جامعہ احمدیہ کے واقفین زندگی تبلیغ اسلام کے میدان میں اترے اس سے پہلے پانچ یا سات سال کے طلبہ کی مجموعی تعداد بھی اتنی نہ تھی۔ اور وہ اس زمانہ کے بہت سے طالب علم ہیں جو اس وقت تبلیغی میدان میں کام کررہے ہیں۔
پھر ۱۹۴۴ء میں جب میں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے ان کے علاج کے لئے دہلی گیا ہوا تھا۔ اچانک ایک دن ڈاک میں حضرت مرزا بشر احمد صاحبؓ کا خط مجھے ملا کہ یہاں قادیان میں ایک کالج کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے اور حضرت صاحب نے تمہیں اس کالج کا پرنسپل مقرر فرمایا ہے۔ میں بڑا پریشان ہوا کہ پہلے میں عربی قریباً بھول چکا تھا تو مجھے جامعہ میں لگا دیا گیا۔ اب جب میرا ذہن کلی طور پر اس چیز کی طرف متوجہ ہوچکا ہے تو مجھے وہاں سے ٹرانسفر کرکے ایک انگریزی ادارے کا پرنسپل بنا دیا گیا ہے۔ اس وقت ابھی صرف انٹرمیڈیٹ کالج تھا۔ خیر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھانے کی توفیق دے اور ہماری کوششوں میں برکت ڈالے۔ ابتداء بالکل چھوٹے سے کام سے ہوئی۔ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں جو ساتھی ملتے ہیں وہ بڑے پیار سے کام کرنے والے اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں۔ گو بہت سے میری طرح بالکل (RAW) خام تھے۔ ،میں اس وجہ سے RAW تھا کہ اس میدان سے بالکل ہٹ چکا تھا اور عربی کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ اور اکثر ان میں سے وہ تھے جو ایم۔ اے پاس کرتے ہی وہاں آگئے تھے۔ جنہیں کوئی تجربہ نہ تھا۔ باقی سب RAW ہی تھے۔ ہم نے جو کوششیں کیں وہ تو کیں` ہمارے جو وسائل تھے شاید آپ ان کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
ایک چھوٹی سی مثال سے اس کو واضح کردیتا ہوں۔ وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ تک پرنسپل کے دفتر کے سامنے چق بھی نہ تھی۔ دروازہ یونہی کھلا رہتا تھا۔ پھر ان چقوں کے حصول کے لئے محترم قاضی محمد اسلم صاحب کو سپیشل سفارش کرنی پڑی۔ تب جاکر اس دفتر کو چقیں نصیب ہوئیں اور ایک حد تک اطمینان اور پرائیویسی جو کام کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے` میسر آئی۔
پھر مالی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ عجیب سلوک رہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا اور نہ دیکھا اور نہ پتہ کیا کہ ہمارے کھاتوں میں کتنی رقم ہے۔ ہمیشہ یہ سوچا کہ جو خرچ آپڑا ہے وہ ضروری ہے کہ نہیں اور اس خرچ میں کوئی فضول خرچی تو نہیں۔ ناجائز حصہ تو نہیں۔ اگر جائز ضرورت ہوتی تو پھر یقین ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کرتے ہوئے اس جائز ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ پھر جب سال گزرتا` حساب کرتے تو ساری رقوم ایڈجسٹ ہوجاتیں اور کبھی فکر یا تردد کرنا نہیں پڑا۔ ورنہ یہ کالج جس میں آپ اس وقت بیٹھے ہیں کبھی نہ بنتا۔
جب میں نے اس کالج کا نقشہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے حضور پیش کیا تو آپ مسکرائے اور فرمایا کہ اتنا بڑا کالج بنانے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں۔ میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ کالج کے لئے اور پچاس ہزار روپیہ ہوسٹل کے لئے دے سکتا ہوں اور یہ نہیں کرنے دوں گا کہ کالج کی بنیادیں اس نقشہ کے مطابق بھرلو اور پھر میرے پاس آجائو کہ جی! آپ کا دیا ہوا لاکھ روپیہ خرچ ہوگیا ہے۔ کالج کی صرف بنیادیں بھری گئی ہیں` تکمیل کے لئے اور پیسے دے دو پس انجینئر سے مشورہ کرکے اس نقشہ پر سرخ پنسل سے نشان لگوائو کہ ایک لاکھ سے بلڈنگ کا اتنا حصہ بن جائے گا وہ میں نے تم سے بنا ہوا لینا ہے۔
میں نے اس وقت جرات سے کام لیتے ہوئے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ٹھیک ہے میں حضور سے پیسے مانگنے نہیں آیا` نقشہ منظور کرانے آیا ہوں اس کے لئے حضور دعا فرماویں۔ میں لکیریں لگوا کر لے آئوں گا۔ لیکن مجھے اجازت دی جائے کہ جماعت سے عطایا وصول کرسکوں۔ حضور نے فرمایا۔ ٹھیک ہے عطایا وصول کرو لیکن لکیریں ڈلوا کر لائو۔
میں نے نقشہ پر مشورہ کرنے کے بعد لکیریں ڈالیں۔ پھر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ تب حضور نے منظوری دی کہ کام شروع کردو۔ لیکن اس کے بعد نہ مجھے یاد رہا کہ وہ لکیریں کس حصہ پر ڈالی گئی تھیں۔ نہ حضورؓ کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ لکیریں کہیں اور ڈالی گئی تھیں اور کالج کا پھیلائو زیادہ ہوگیا ہے اور رقم کا مطالبہ کررہے ہو۔
تو اللہ تعالیٰ ہر مرحلہ پر آگے بڑھنے کی توفیق دیتا چلا گیا۔ جب ہم ایک جگہ پہنچتے تو میں اپنے ساتھیوں کو جو تعمیر کررہے تھے کہہ دیتا کہ اگلا کام بھی شروع کرادو۔ جب وہ حصہ بن جاتا تو میں کہتا کہ اب اگلا حصہ بھی بنالو۔ میں شاہد ہوں اس بات کا اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ آپ کو یہ بات بتارہا ہوں کہ آج تک مجھے )جو خرچ کرنے والا تھا( پتہ نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی جیسا کہ آپ جانتے ہیں سب آمد خزانہ میں جاتی ہے اور سب خرچ چیکوں کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن کبھی ہم نے اس کو سمیٹا نہیں۔ یہ کالج کی عمارت` ہوسٹل اور دوسری بلڈنگیں ہیں وہ سب ملا کر ایک لاکھ مربع فٹ سے اوپر ہیں اور میرا رف اندازہ ہے کہ ان پر چھ سات لاکھ روپیہ کے درمیان خرچ آیا ہے۔ بعض دفعہ اچھے پڑھے لکھے غیراز جماعت دوست آتے ہیں اور ان سے بات چیت ہوتی ہے تو وہ یقین نہیں کرتے کہ اتنی تھوڑی رقم میں اتنی بڑی عمارت کھڑی ہوسکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان سے چالاکی کررہے ہیں` صحیح رقم بتانے کے لئے تیار نہیں۔
تو جہاں تک ضروریات اور اسباب کا سوال ہے اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۴ء سے ہی اس ادارے پر اپنا خاص فضل کیا ہے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں اسے رکھا ہے۔ وہ ہماری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے اور نتائج محض اس کے فضل سے اچھے نکلتے ہیں۔ میرے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا اور مجھے یقین ہے کہ میرے ساتھیوں کے دل میں بھی کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا ہوگا کہ یہ سب کچھ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم اپنی کوششوں کو خوب جانتے ہیں اور ہم سے زیادہ ہمارا رب جانتا ہے جس ادارے پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ اپنے فضل اور احسان کئے ہوں اس ادارہ کی طرف منسوب ہونے والے خواہ وہ پروفیسر ہوں یا طلبہ ان سب کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حمد کرتے رہیں تاکہ اس کے فضلوں کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے۔
جہاں تک میرے جذبات کا سوال ہے تو جو میرے جذبات پہلے جامعہ احمدیہ کے متعلق تھے وہی جذبات میرے دل میں اس ادارہ کے متعلق پیدا ہوئے اور میں نے اپنے دل کو` اپنے دماغ کو اور اپنے جسم کو اس ادارہ کے لئے خدا کے حضور بطور وقف پیش کردیا اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ اس کو چلانے کی کوشش کی اور ان طلبہ کو جو یہاں تعلیم پاتے تھے میں نے اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھا۔ بے شک میں نے جہاں تک مناسب سمجھا سختی بھی کی لیکن اس وقت سختی کی جب میں نے اسے اصلاح کا واحد ذریعہ پایا اور بعد میں مجھے اس دکھ کی وجہ سے راتوں جاگنا پڑا کہ کیوں میرے ایک بچہ نے مجھے اس سختی کے لئے مجبور کردیا حتیٰ کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ کئی راتیں ہیں جو میں نے آپ کی خاطر جاگتے گزار دیں اور ہمیشہ آپ کے لئے دعائیں کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے رب کا پیار بھی محسوس کیا کہ وہ اپنے فضل سے میری اکثر دعائیں قبول کرتا رہا اور کبھی کسی موقع پر بھی میرے دل میں ناکامی` نامرادی یا ناامیدی کا خیال تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی ان دلوں میں پیدا ہونا چاہئے جنہوں نے اس کام کو کرنا ہے۔<۲۳۷
پہلا باب
حواشی
۱۔
اشتہار بعنوان >ایک ضروری فرض کی تبلیغ< ۱۵۔ ستمبر ۱۸۹۷ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیان و مشمولہ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحہ ۱۵۵ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ ایڈیٹر فاروق قادیان` رسالہ تعلیم الاسلام قادیان دارالامان بابت ماہ اکتوبر ۱۹۰۶ء جلد ۱ نمبر ۶ صفحہ ۲۳۳ تا ۲۳۶ و صفحہ ۲۴۲ و تاریخ مدرسہ تعلیم الاسلام از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام سکول قادیان و مدیر بدر و صادق۔
۲۔
تذکرہ الشہادتین اردو بحوالہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو صفحہ ۴۶۴۔ ۴۶۵ بابت نومبر و دسمبر ۱۹۰۳ء سن اشاعت اکتوبر ۱۹۰۳ء ایضاً تبلیغ رسالت جلد ۱۰ صفحہ ۶۳۔ ۶۴ مرتبہ حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر اخبار فاروق قادیان سن اشاعت اکتوبر ۱۹۲۷ء۔
۳۔
نام تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۶` ۷ پر درج ہیں۔
۴۔
ذکر حبیب صفحہ ۱۳۷ )مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ( ناشر بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان۔
۵۔
اخبار الحکم قادیان ۷۔ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔
۶۔
رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد ۱ نمبر ۶ صفحہ ۲۳۶۔
۷۔
اخبار الحکم قادیان ۷۔ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵ و ۶۔
۸۔
اخبار الحکم قادیان ۱۷۔ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ کالم ۳ و ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔
۹۔
اخبار الحکم قادیان ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۱۰۔
اخبار البدر ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴ کالم ۳۔
۱۱۔
البدر ۵۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۴۔ ۱۵۵۔
۱۲۔
سورہ یوسف رکوع ۱۰۔ الحکم میں یہ حصہ آیت سہواً غلط چھپ گیا تھا۔ )مرتب(
۱۳۔
الحکم ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲۔
۱۴۔
یہ دونوں نظمیں الحکم ۳۰۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۔ ۸ پر شائع شدہ ہیں۔ مالیر کوٹلہ کے ممتاز احمدی شاعر محمد نواب خاں صاحب ثاقبؓ نے افتتاح کالج کا قطعہ تاریخ لکھا کہ۔ ~}~
بسال افتتاح کالج ما
ندا آمد بہ ثاقب فیض فرقاں~/~۱۳۲۱ھ
)البدر ۱۰۔ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۹۹ کالم ۲(
۱۵۔
الحکم ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۱۶۔
الحکم ۲۴۔ جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ تا ۱۳۔
۱۷۔
رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد اول شمارہ ۶ صفحہ ۲۳۲۔
۱۸۔
اخبار الحکم قادیان ۷۔ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۹۔
اخبار الحکم قادیان ۱۷۔ مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۰۔
حضرت مولوی محمد دین صاحب بی۔ اے )سابق مبلغ امریکہ( حال صدر صدر انجمن احمدیہ فرماتے ہیں۔
غالباً درزی خانہ والا کمرہ کلاس روم تھا۔ مگر اس کے علاوہ پرانے صحن مدرسہ کا مشرقی کمرہ بھی استعمال ہوتا رہا۔ درزی خانہ کا اوپر والا کمرہ بھی بعض دفعہ لیکچروں اور بعض دفعہ کالج کے بورڈروں کی رہائش کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ )اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۱۸۲ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے طبع اول ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش(
۲۱۔
البدر ۷۔ اگست ۱۹۰۳ء صفحہ ۲۳۱ کالم ۲۔
۲۲۔
مورخہ ۲۴۔ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۸ و ۱۰۔ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۹۔
۲۳۔
مورخہ یکم جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱۔ اس چندہ میں حصہ لینے والے بزرگوں کے اسماء گرامی اخبار الحکم ۲۴۔ جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱ کالم ۴ میں شائع شدہ ہیں۔
۲۴۔
اخبار بدر ۲۰۔ اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۱ میں پاس ہونے والوں کے نام درج ہیں۔
۲۵۔
ریویو آف ریلیجنز اردو بابت ماہ مئی ۱۹۰۵ء سرورق صفحہ ۲۔
۲۶۔
ایضاً۔
۲۷۔
ملاحظہ ہو یونیورسٹی ایکٹ ۱۹۰۴ء دفعہ ۲۱۔
۲۸۔
منصب خلافت صفحہ ۳۷ طبع اول مطبوعہ اللہ بخش مشین پریس قادیان۔
۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۲۶۔
۳۰۔
الفضل ۳۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۳۱۔
الفضل ۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۳۲۔
یہ کمیٹی نہایت مفید اور قابل قدر انتظامی خدمات انجام دینے کے بعد ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مجلس تعلیم میں مدغم کر دی گئی جس کے صدر بھی قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ہی تھے۔ نیز فیصلہ ہوا کہ۔
)ا( آئندہ کالج کمیٹی کے ایسے ممبران جو اس وقت تک مجلس تعلیم کے ممبر نہیں مجلس تعلیم کے ممبر ہوں گے۔
)ب( کالج کے عملی کام کے لئے ایک سب کمیٹی مشتمل برحضرت میاں بشیر احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے اور مولوی ابوالعطاء صاحب ہوگی جس کے سیکرٹری ملک غلام فرید صاحب اور اسسٹنٹ سیکرٹری مولوی ابوالعطاء صاحب ہوں گے۔ )ج( یہ سب کمیٹی کالج کے جملہ تفصیلی کام سرانجام دے گی۔ البتہ بجٹ اور اصولی قواعد اور استثنائی فیصلہ جات اور مزید کلاسز کا اجراء مجلس تعلیم میں پیش ہوں گے۔
۱۹۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو اس نئی کمیٹی کے ممبران میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا اضافہ کیا گیا مگر ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش میں یہ نظام عمل بھی بدل دیا گیا اور ۲۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش کو فیصلہ ہوا کہ آئندہ تعلیم الاسلام کالج کے متعلق مجلس تعلیم کا کام صرف اس حد تک محدود ہوگا جو دینیات کا نصاب مقرر کرنے اور دینیات کا امتحان لینے سے تعلق رکھتا ہے نظم و نسق کا سارا کام صدر انجمن احمدیہ کی طرف منتقل کر دیا جائے۔
۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش میں جبکہ مجلس تعلیم کا وجود عملاً قائم نہ رہا دینیات کے امتحان والا حصہ خودبخود نظارت تعلیم سے متعلق ہوگیا۔
۳۳۔
الفضل ۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ )رپورٹ نوشتہ ملک غلام فرید صاحب ایم اے سیکرٹری کالج کمیٹی(
۳۴۔
یہ سب تفصیلات کالج کمیٹی کی رپورٹ مورخہ ۱۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں موجود ہیں۔
۳۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۵۵۔
۳۶۔
الفضل ۲۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔ ۷۔
۳۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۵۵ تا ۱۵۹۔
۳۸۔
الفضل ۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶ کالم ۳۔ ۴۔
۳۹۔
اخوند عبدالقادر صاحب ایم۔ اے
۴۰۔
الفضل ۸۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۱۔
الفضل ۲۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۲۔ ۳۔
۴۲۔
ولادت: ۲۳۔ جنوری ۱۹۰۱ء` وفات: ۱۹۵۸ء/ ۱۳۳۷ہش۔ ۱۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش سے صدر انجمن قادیان کی ملازمت میں آئے۔
۴۳۔
ولادت: ۳۔ ستمبر ۱۸۹۸ء۔ یکم مئی ۱۹۳۷ء سے صدر انجمن احمدیہ قادیان کے کارکنوں میں شامل ہوئے۔
۴۴۔
ولادت ۸۔ دسمبر ۱۹۲۰ء۔ ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش سے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ٹیچر کی حیثیت سے خدمت سلسلہ کا آغاز کیا۔
۴۵۔
ولادت ۱۱۔ ستمبر ۱۹۱۶ء۔ ۱۸۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو لیکچرار مقرر ہوئے۔
۴۶۔
ولادت: یکم جنوری ۱۹۱۹ء` ۲۸۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو لیکچرار مقرر کئے گئے۔
۴۷۔
ولادت: ۱۱۔ جنوری ۱۹۲۰ء` تقرر: احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۴۸۔
مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت حافظ محمد امین صاحب کے فرزند تھے۔ سرکاری ملازمت چھوڑ کر خدمت دین کے لئے زندگی وقف کردی تھی اور قادیان آگئے تھے۔ ماہنامہ ریویو آف ریلیجنز )اردو( میں حقانی ایم۔ اے کے قلمی نام سے جو معلومات افزا مضامین اس زمانہ میں شائع ہوئے وہ انہی کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ )الفضل ۱۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۱(
۴۹۔
کالج کمیٹی کا فیصلہ یہ تھا کہ کیمسٹری کے مستقل لیکچرار کے قادیان پہنچنے تک چوہدری عبدالاحد صاحب بطور لیکچرار کیمسٹری تعلیم الاسلام کالج میں کام کریں گے۔ اس فیصلہ کے مطابق ۱۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے انہوں نے کیمسٹری کی کلاسیں لینا شروع کر دیں یہاں تک کہ کیمسٹری کے پہلے لیکچرار پہنچ گئے۔
۵۰۔
یکم جون ۱۹۳۶ء کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں آئے۔ نصرت گرلز ہائی سکول پھر جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول میں بہترین تعلیمی فرائض بجا لانے کے بعد کالج سٹاف میں شامل ہوئے۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش کو کالج سے ریٹائر ہوکر ناظر بیت المال آمد کے عہدہ پر ممتاز کئے گئے۔
۵۱۔
یہ پراسپکٹس انگریزی میں تھا جس کا اردو ترجمہ اس کتاب کے آخر میں بطور ضمیمہ منسلک ہے۔ الفضل ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں اس کے شائع ہونے کی اطلاع ہے۔
۵۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان نے ۲۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو امیر المومنین حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حضور کالج کی پہلی رپورٹ ارسال کی۔ یہ معلومات اسی رپورٹ سے ماخوذ ہیں۔
۵۳۔
نمبر ۹ تا ۱۲ پر مندرج اساتذہ کالج کے باقاعدہ افتتاح سے قبل ہی تعلیم الاسلام ہائی سکول سے منسلک کر دیئے گئے۔
۵۴۔
پہلے فزیکل انسٹریکٹر چوہدری محمد اسماعیل صاحب ننگلی تھے ۱۴۔ تبلیغ )فروری( ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں ان کی بجائے چوہدری محمد فضل داد صاحب مقرر ہوئے۔
۵۵۔
کالج کے پہلے لائبریرین مولوی محمد دین صاحب ہیں۔ آپ نے وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے اسسٹنٹ کے طور پر چارج سنبھالا۔
۵۶۔
منشی حمید الدین صاحب بی اے بی ٹی منشی فاضل ادیب فاضل برادر اکبر مولانا محمد شریف صاحب مجاہد بلاد عربیہ )گیمبیا( نے شروع میں بطور ہیڈ کلرک کام کیا منشی صاحب ۲۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش کو نیشنل گارڈز میں رائفل ٹریننگ لیتے ہوئے گولی سے شہید ہوئے )الفضل ۲۔ شہادت مطابق اپریل ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش میں قاضی عبدالرحمن صاحب جنید ابن حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل گجراتی سپرنٹنڈنٹ آفس بنے۔
۵۷۔
عبدالمجید صاحب ناصر کلرک )تقرر ۹۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
۵۸۔
اولین لیبارٹری اسسٹنٹ چوہدر غلام حیدر صاحب )تقرر ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش( ۲۔ قاضی محمد منیر صاحب )تقرر ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش( ۳۔ شیخ فضل قادر صاحب )تقریر ۲۲۔ تبلیغ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش( ۴۔ ملک عبدالعزیز صاحب )تقریر ۸۔ امان ۱۳۲۵ہش مطابق ۸۔ مارچ ۱۹۴۶ء(
۵۹۔
اس روز ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے نے پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج کی خدمت میں اطلاع دی کہ تعلیم الاسلام کالج کمیٹی نے اپنے اجلاس مورخہ ۴۴/۵/۲۱ میں یہ تجویز پاس کی تھی کہ گیسٹ ہائوس واقع دارالانوار کو تعلیم الاسلام کالج کے ہوسٹل کے طور پر استعمال کیا جائے۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ نے کمیٹی کی اس تجویز کو منظور فرما لیا ہے۔ اس لئے آپ متعلقہ افسران سے مل کر اس عمارت کو اپنے زیر انتظام کرلیں۔ )فائل کالج کمیٹی(
۶۰۔
اخبار الفضل میں بھی گاہے گاہے اس یونین کی سرگرمیوں کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں۔
۶۱۔
رپورٹ فضل عمر ہوسٹل از ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش تا ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش )نوشتہ چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے( سے ملخصاً۔ اصل رپورٹ تعلیم الاسلام کالج کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
۶۲۔
الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۴۔
۶۳۔
الفضل ۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۶۴۔
الفضل قادیان ۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۶۵۔
اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ )مرتب(
۶۶۔
الفضل ۱۲` ۱۴` ۱۵` ۱۶۔ تبلیغ/فروری ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش۔ یہ تقریر تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی غرض و غایت کے عنوان سے الگ بھی چھپ چکی ہے۔
۶۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۷۰` ۱۷۱۔
۶۸۔
الفضل ۳۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵` ۶۔
۶۹۔
الفضل ۳۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۷۔
۷۰۔
یہ مضمون الفضل ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں شائع ہوا۔
۷۱۔
مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بنام پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج قادیان مورخہ یکم احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )فائل تعلیم الاسلام کالج قادیان سے منسلک(
۷۲۔
تعلیم الاسلام کالج پہلی موسمی تعطیلات کے لئے ۸۔ وفا/ جولائی سے لے کر ۲۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش تک کے لئے بند رہا۔
۷۳۔
رپورٹ تعلیم الاسلام کالج مورخہ ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )غیر مطبوعہ(
۷۴۔
یہ پرمعارف درس صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش سے مسجد مبارک میں بعد نماز عصر ہوتا تھا۔
۷۵۔
فائل NOTICES> <OFFICE
۷۶۔
غیرمطبوعہ رپورٹ تعلیم الاسلام کالج مورخہ ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۷۷۔
۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں تعلیم الاسلام کالج سوئمنگ کلب کے طلباء نے یونیورسٹی اور پنجاب کے تیراکی کے مقابلوں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ناصر محمود صاحب اور عبدالشکور صاحب نے پچاس اور سو میٹر کی دوڑ میں یونیورسٹی میں پوزیشن لی۔ پنجاب چیمپئن شپ میں کالج کی ریلے ٹیم دوم آئی۔ اس کی ٹیم نے واٹر پولو میں پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کو شکست دی اور پھر فائنل میں ایچیسن کالج کی ٹیم کو تین کے مقابلہ میں پانچ گول سے ہرا دیا اور واٹر پولو کی چیمپئن شپ جو ایچی سن کالج کے پاس تھی تعلیم الاسلام کالج نے جیت لی۔ )الفضل ۲۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲(
۷۸۔
الفضل ۲۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۷۹۔
الفضل ۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۰۔
رپورٹ از ابتداء تا صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش )غیر مطبوعہ( یہ رپورٹ کالج کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
۸۱۔
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے بعض مقررین یہ تھے۔ عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے` میجر رچرڈس ریکروٹنگ آفیسر ناردرن ایریا` ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش میں مشہور ریاضی دان پروفیسر مارڈل صاحب ایف۔ آر۔ ایس )کیمرج( حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ` مسٹر او ایچ کے سپیٹ )لنڈن سکول آف اکنامکس میں جغرافیہ کے پروفیسر( نے طلبہ سے خطاب کیا۔ )الفضل مورخہ ۱۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۲` ۱۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۲` ۲۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶
‏vat,10.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
۱۳۲۶ہش صفحہ ۱` ۲۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔ ۲۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱` ۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔
۸۲۔
رپورٹ تعلیم الاسلام کالج ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )غیر مطبوعہ(
۸۳۔
رجسٹر کارروائی مجلس تعلیم قرارداد ۵۴` ۵۵۔
۸۴۔
رسالہ مجلس تعلیم صفحہ ۵۱۔ ۵۲ شائع کردہ مجلس تعلیم قادیان )فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔
۸۵۔
اس نصاب کا پہلا امتحان ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کے شروع میں ہوا جس کا نتیجہ الفضل یکم امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۰ پر شائع شدہ ہے۔ کل ۳۳ طلباء کامیاب ہوئے۔ عبدالسمیع صاحب نون )ادرحمہ حال ایڈووکیٹ سرگودھا( اور فضل الٰہی صاحب انوری )سابق مبلغ جرمنی حال مبلغ نائجیریا(بالترتیب اول و دوم قرار پائے۔
امتحان پاس کرنے والے دوسرے طلبہ کے نام۔ محمد امین صاحب )حال لندن( سعید احمد صاحب اعوان` چوہدری فیض احمد صاحب` عبدالکریم صاحب` شیخ بہاء اللہ صاحب )حال ساہیوال( قریشی ہارون الرشید صاحب ارشد` سید منیر احمد صاحب` خلیل احمد صاحب )پشاوری( صلاح الدین صاحب ناصر )بنگالی( محمد ظہیر الدین صاحب` الطاف حسین صاحب` سید شفیق الحسن صاحب` مسعود احمد صاحب` شیخ نصیر الدین احمد صاحب )ابن حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب( نذیر احمد صاحب` غلام احمد صاحب )گجراتی( محمود احمد صاحب` عبداللطیف صاحب ملتانی` چوہدری مختار احمد صاحب )حال سرگودھا( عبدالحمید صاحب سعید حیدرآبادی` سلیم الدین صاحب )مرحوم متوفی ۵۳/۵/۱۱( محمد شریف صاحب` حافظ عطاء الحق صاحب` )برادر اصغر مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب( بشیر احمد صاحب` مسعود احمد صاحب عاطف )حال پروفیسر تعلیم الاسلام کالج( محمود احمد صاحب صادق` محمد ادریس عیسیٰ صاحب )حال شعبہ موسمیات کوئٹہ( ملک مسعود احمد صاحب )ڈیرہ غازیخاں حال وائس پرنسپل گورنمنٹ کالج جڑانوالہ( سردار منور احمد خان صاحب` چوہدری نذیر احمد صاحب` محمد شریف صاحب )الفضل یکم امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۰(
۸۶۔
الفضل ۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲۔
۸۷۔
‏]2h [tag الفضل ۶۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶۔
۸۸۔
الفضل ۲۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ پر مکمل تقریر درج ہے۔
۸۹۔
الفضل ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲۔
۹۰۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۹۱۔
الفضل ۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲ نیز الفضل ۷۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵۔
۹۲۔
الفضل ۱۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴۔
۹۳۔
الفضل ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴۔
۹۴۔
الفضل ۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۵۔
الفضل ۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۶۔
الفضل ۱۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۷۔
الفضل ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۴۔
۹۸۔
الفضل ۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔
۹۹۔
الفضل یکم نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔ ۴۔
۱۰۰۔
الفضل یکم نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۱۰۱۔
الفضل یکم نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۰۲۔
الفضل ۱۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔ حضرت امیر المومنین کا یہ فرمان اخبار >الفضل< کے علاوہ ہینڈبل کی صورت میں بھی شائع ہوا۔
۱۰۴۔
کالج کے چندہ کی اپیل پر ۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش تک قریباً چھیالیس ہزار کے وعدے آئے۔ حضور نے ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو اس تحریک میں سبقت کرنے والے مخلصین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
۲۶ ہزار کے وعدے تو صرف چار آدمیوں کی طرف سے ہیں۔ دو نے دس دس ہزار کے وعدے کئے ہیں۔ ایک نے پانچ ہزار کا اور ایک نے ایک ہزار کا۔ ایک تو دس ہزار کا وعدہ میرا ہے۔ دوسرا دس ہزار دینے کا وعدہ سیٹھ محمد صدیق صاحب کلکتے والے اور ان کے بھائی سیٹھ محمد یوسف صاحب نے کیا ہے۔ تیسرے پانچ ہزار کا وعدہ سیٹھ عبداللہ بھائی کی طرف سے ہے اور چوتھے ایک ہزار کا وعدہ شیخ امام دین صاحب کا ہے جو بمبئی کی طرف تجارت کرتے ہیں۔ گویا اس میں ۲۶ ہزار کے وعدے صرف چار آدمیوں کے ہیں۔ چھ ہزار کا وعدہ قادیان کی لجنہ کا ہے۔
تفصیلی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۸۔ اس تاریخ تک جن جماعتوں یا احباب نے اپنا وعدہ ادا کردیا ان کی فہرست الفضل ۲۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۸ پر شائع کر دی گئی۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔ زیر عنوان مدینہ المسیح۔ طلبہ نے اس یادگار تقریب پر جو ایڈریس پیش کیا وہ الفضل ۲۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۴ پر چھپا ہوا ہے۔
۱۰۶۔
والد ماجد جناب چودھری شاہ محمد صاحب خوشنویس۔
۱۰۷۔
الفضل ۱۶۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۱۰۸۔
چوہدری صاحب موصوف نے یکم تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش سے لے کر ۱۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک نہایت محنت و جانفشانی سے یہ خدمت سرانجام دی۔ لیبارٹریوں کی تعمیر کے بعد ان کے اندر چار جگہوں PARTITIONWALLS بھی آپ کی نگرانی میں بنائی گئیں جو بہت مشکل اور ٹیکنیکل کام تھا۔ اس کا تمام ڈیزائن (DESIGN) بھی آپ ہی کا تیار شدہ تھا۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۱۱۰۔
وفات: ۳۔ جنوری ۱۹۵۵ء۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۱۱۲۔
الفضل ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۱۳۔
انقلاب لاہور ۲۰۔ اپریل ۱۹۴۶ء بحوالہ الفضل ۲۵۔ اپریل ۱۹۴۶ء۔
۱۱۴۔
بحوالہ الفضل ۱۵۔ مئی ۱۹۴۶ء۔
۱۱۵۔
بحوالہ الفضل ۲۶۔ جولائی ۱۹۴۶ء۔
۱۱۶۔
‏ STATION RESEARCH FIELD
۱۱۷۔
اب یہ عمارت پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نیوکیمپس کا حصہ ہے۔
۱۱۸۔
ان کا ذکر فصل دوم میں آچکا ہے۔
۱۱۹۔
رسالہ خالد ماہ وفا/ جولائی ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش صفحہ ۸۔
۱۲۰۔
حضور کی تقریر کا خلاصہ ماہنامہ الفرقان بابت ماہ وفا/ جولائی ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش میں شائع شدہ ہے۔ ایضاً الفضل ۳۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش صفحہ ۳۔ ۴۔ ریسرچ کی یہ عمارت ایک احمدی دوست کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھی۔
۱۲۱۔
الفضل ۲۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۲۔
فائل ریزولیوشنز کالج کمیٹی۔
۱۲۳۔
الفضل ۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔ شامل امتحان ہونے والوں میں ۲۴ سائنس کے اور ۳۵ آرٹس کے طالب علم تھے۔
۱۲۴۔
الفضل ۲۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۲۵۔
یہ مراسلہ سید عبدالباسط صاحب کارکن خدام الاحمدیہ نے دستی پریس پر بطور سرکلر چھاپا اور آپ کی ہدایت کے ماتحت طلبائے کالج کو بھجوایا گیا۔
۱۲۶۔
ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو کالج کی سپیشل ایر فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوئی جس کی رپورٹ الفضل ۲۶۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش میں شائع شدہ ہے۔
۱۲۷۔
الفضل ۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴ و ۵۔
۱۲۸۔
المنار ہجرت۔ احسان/ مئی۔ جون ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۲۔
۱۲۹۔
الفضل ۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴۔ آپ جس کنوائے میں قادیان سے لاہور پہنچے۳۔ وہ دس ٹرکوں پر مشتمل تھا۔ اس کنوائے کے بخیریت پہنچنے کی خبر الفضل ۱۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱ پر چھپ گئی تھی۔
۱۳۰۔
کالج کے باقی اکثر اساتذہ ان ایام میں قادیان یا ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے۔ چنانچہ پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب لیکچرار کیمسٹری ۱۹۴۷۔ ملاپلی حبیب نگر حیدر آباد دکن میں تھے کہ ہنگامے شروع ہوگئے۔ ریل کا رستہ بند ہوگیا اور آپ ۳۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو بذریعہ بحری جہاز بمبئی سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے اور کراچی سے لاہور پہنچے۔ پروفیسر عباس بن عبدالقادر صاحب اپنے وطن بہار میں چھٹیاں گزار رہے تھے اور بصد مشکل پاکستان میں آئے۔
۱۳۱۔
اصل خط کے لئے ملاحظہ ہو فائل بحالی کالج۔
۱۳۲۔
تحریری بیان چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ اے )محررہ ۲۶۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش۔ غیر مطبوعہ(
۱۳۳۔
مراسلہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ناظر اعلیٰ بنام سیکرٹری صاحب کالج کمیٹی محررہ ۴۷/۱۰/۳۰ مجریہ یکم نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔
۱۳۴۔
موجودہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے متصل۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۶۔
رپورٹ تحریر فرمودہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ( مرقومہ الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۲(
۱۳۷۔
الفضل لاہور ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۸۔
سرکلر حضرت نواب محمد عبداللہ خان ناظر اعلیٰ بنام سیکرٹری صاحب کالج کمیٹی مورخہ ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔
۱۳۹۔
یہ تاریخ چوہدری محمد علی صاحب ایم۔ ایے کے ایک خط سے متعین ہوتی ہے جو آپ نے ۶۔ نبوت ۱۳۲۶ہش کو حضرت پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج قادیان کے نام لکھا تھا اور اب تک ریکارڈ میں شامل ہے۔
۱۴۰۔
الفضل ۱۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۴۱۔
اسسٹنٹ ری ہیبلی ٹیشن کمشنر کے دستخط سے الاٹمنٹ کی منظوری کا کاغذ فائل بحالی کالج G2 سے منسلک ہے۔
۱۴۲۔
الفضل ۱۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش صفحہ ۶۔
۱۴۳۔
کالج کی فائل 22A G-۔
۱۴۴۔
رسالہ المنار مئی/ جون ۱۹۶۰ء صفحہ ۲۴۔
۱۴۵۔
ایضاً۔
۱۴۶۔
الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳۔
۱۴۷۔
الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۴۸۔
الفضل ۱۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۱۴۹۔
الفضل ۱۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۵۰۔
الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳ تا ۴ ملخصاً` المنار ہجرت۔ احسان/ مئی۔ جون ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش۔
۱۵۱۔
غیر مطبوعہ۔
۱۵۲۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۸۔
۱۵۳۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۹۔
۱۵۴۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۷۔ ۸ )حصہ انگریزی(
۱۵۵۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۶ )حصہ انگریزی(
۱۵۶۔
حضرت امیر المومنین کا یہ صدارتی خطبہ کالج کی طرف سے اردو اور انگریزی میں تقریب سے قبل چھپوا دیا گیا تھا۔
۱۵۷۔
الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۱۵۸۔
اس کے مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۳۔ ۵۔
۱۵۹۔
الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش۔
۱۶۰۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش صفحہ ۶۔ آپ نے کوئی خطبہ صدارت نہیں پڑھا۔
۱۶۱۔
المنار ہجرت و احسان/ مئی و جون ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش صفحہ ۱۲۔
۱۶۲۔
‏h2] ga[t المنار احسان/ جون ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۳ تا ۴ پر آپ کا بلیغ اور پراثر خطبہ کا متن شائع شدہ ہے۔
۱۶۳۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش صفحہ ۱۔
۱۶۴۔
الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۵۷ء/ ۱۳۳۶ہش۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ہش صفحہ ۱۔
۱۶۶۔
آپ کا خطبہ صدارت المنار ہجرت و احسان/ مئی۔ جون ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۳۵ تا ۳۸ میں چھپا۔
۱۶۷۔
الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۹۶۱ء/ ۱۳۴۰ہش صفحہ ۱۔
۱۶۸۔
الفضل ۵۔ احسان/ جون ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش صفحہ ۸۔
۱۶۹۔
یہ خطبہ جلیلہ رسالہ المنار وفا۔ ظہور۔ تبوک/ جولائی۔ اگست۔ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش کی زینت ہے۔
۱۷۰۔
روئداد تعلیم الاسلام کالج لاہور )۵۱۔ ۱۹۵۰ء( صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۷۱۔
روئداد تعلیم الاسلام کالج ۵۳۔ ۱۹۵۲ء/ ۳۲۔ ۱۳۳۱ہش و ۶۲۔ ۱۹۶۱ء/ ۴۱۔ ۱۳۴۰ہش۔
۱۷۲۔
کالج کے اس مایہ ناز فرزند کا تذکرہ رپورٹ عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء )اردو ایڈیشن( کے صفحہ ۱۷۱ پر موجود ہے۔
۱۷۳۔
اخبار نوائے وقت لاہور ۳۔ اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۔
۱۷۴۔
اخبار المصلح کراچی ۲۹۔ نبوت/ مئی ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۷۵۔
بروایت عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی سابق سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج ربوہ حال نائب ناظر بیت المال۔
۱۷۶۔
بروایت چوہدری غلام حیدر صاحب سینئر لیکچرار اسسٹنٹ تعلیم الاسلام کالج و سابق ناظم املاک و تعمیر کالج۔
۱۷۷۔
روئیداد تعلیم الاسلام کالج ۵۷۔ ۱۹۵۶ء/ ۳۶۔ ۱۳۳۵ہش صفحہ ۱۶۔
۱۷۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۳۔ ۱۹۵۲ صفحہ ۶۵۔
۱۷۹۔
بروایت چودھری غلام حیدر صاحب سینئر اسسٹنٹ لیکچرار تعلیم الاسلام کالج۔
۱۸۰۔
رسالہ خالد ظہور/ اگست ۱۹۵۳ء/ ۱۳۳۲ہش صفحہ ۳۳۔
۱۸۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۰۱۔ ۱۰۳ غیر مطبوعہ )خلافت لائبریری ربوہ(
۱۸۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت ۵۹۔ ۱۹۵۸ء/ ۳۸۔ ۱۳۳۷ہش صفحہ ۹۳۔
۱۸۳۔
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ تعلیم الاسلام کالج کے ربوہ منتقل ہونے کی خبر پر لوگوں میں بہت بے چینی پیدا ہوگئی حتیٰ کہ بعض نے اخبار نوائے وقت میں لکھا۔
ایک اور کمی متوسط طبقہ کے طلبہ کو سختی سے محسوس کرنی پڑے گی وہ تعلیم الاسلام کالج کا لاہور سے ربوہ منتقل ہو جانا ہے۔ میں متعلقہ حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلہ کی طرف فوری توجہ کرتے ہوئے موجودہ تعطیلات گرما کے اختتام کے ساتھ ہی تعلیم الاسلام کالج کی کمی کو پورا کرنے کے لئے لاہور میں کسی مناسب جگہ پر ایک نیا کالج کھول دیا جائے۔ )نوائے ¶وقت ۳۱۔ اگست ۱۹۵۴ء(
۱۸۴۔
دونوں نظمیں رسالہ المنار بابت ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۱۶ و ۱۷ پر شائع شدہ ہیں۔
۱۸۵۔
المنار بابت ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۱۷۔ ۱۸۔
۱۸۶۔
الفضل ۶۔ فتح/ دسمبر ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۸۷۔
الفضل ۷۔ فتح/ دسمبر ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش صفحہ ۵۔
۱۸۸۔
رسالہ المنار بابت ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۱۷ و ۱۸۔
۱۸۹۔
سرسید مرحوم کے عزیزوں میں سے ہیں۔ محکمہ تعلیم سے فراغت کے بعد اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام سے منسلک رہے۔ آج کل انجینئرنگ یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے صدر ہیں۔
۱۹۰۔
پرنسپل سرگودھا کالج۔ آپ انگلستان میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہم عصر تھے اور گہرے دوست بھی۔
۱۹۱۔
المنار بابت ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۱۸۔
۱۹۲۔
سالانہ رپورٹ تعلیم الاسلام کالج ۵۵۔ ۱۹۵۴ء/ ۳۴۔ ۱۳۳۳ہش صفحہ ۸۔
۱۹۳۔
ماہ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے لائبریرین کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۱۹۴۔
قبل ازیں ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش سے بطور ڈیمانسٹریٹر کام کررہے تھے۔
۱۹۵۔
بیشتر ازیں شعبہ بیالوجی میں ڈیمانسٹریٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۱۹۶۔
اس سے قبل ڈیمانسٹریٹر کی حیثیت سے کالج کی خدمت بجالارہے تھے۔
۱۹۷۔
پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خاں ایم۔ ایس۔ سی` پی۔ ایچ ڈی )ڈرہم( جنہوں نے ۱۹۵۴ء/ ۱۳۳۳ہش سے لے کر ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش تک سٹوڈنٹس یونین کی نگرانی کے فرائض انجام دیئے اپنے ایک بیان میں لکھتے ہیں۔ سب سے پہلا مباحثہ لجنہ اماء اللہ کے ہال میں منعقد ہوا کیونکہ اس وقت تک کالج کا اپنا ہال تعمیر نہیں ہوا تھا۔ ۱۹۵۴ء/ سے ۱۹۶۱ء تک یہ دستور رہا کہ سالانہ مباحثوں کے اختتام سے اگلی صبح تمام شریک مباحثہ طلباء )جو کراچی` پشاور اور لاہور وغیرہ مختلف کالجوں سے ربوہ آئے ہوتے تھے( کے ناشتہ کا انتظام حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے در دولت پر ہوتا تھا اور آپ اس میں طلباء کے ساتھ نہایت بے تکلفی اور شفقت کے ساتھ پیش آتے اور ایک ذاتی تعلق ہر شریک مجلس سے پیدا ہو جاتا۔
سالہا سال یونین کی خوش قسمتی سے حضرت مصلح موعودؓ شریک مباحثہ طلبہ کو قصر خلافت میں ملاقات خاص کا موقع عطا فرماتے رہے۔ چونکہ تعداد زیادہ ہوتی تھی اس لئے کبھی نچلی منزل کے صحن میں احاطہ پرائیویٹ سیکرٹری کے آگے یا پیچھے اور کبھی اوپر ملاقات کے کمرے میں کرسیاں لگا دی جاتیں اور ایک کلاس روم کا ماحول پیدا ہو جاتا۔ حضور حالات دریافت فرماتے` پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جو بعض دفعہ گھنٹوں جاری رہتا۔ طلبہ ہمیشہ ایک عظیم الشان روحانی اور علمی مائدہ سے لطف اندوز ہوکر باہر نکلتے اور اگلے سال پھر آنے کی آرزو لے کر واپس گھروں کو لوٹتے۔ طلباء میں متعصب اور مخالف بھی ہوتے مگر کوئی طالب علم بھی ایسا نہ تھا جو حضور کے تبحر علمی اور شگفتہ مزاجی سے متاثر نہ ہوتا۔
۱۹۸۔
سالانہ روئداد تعلیم الاسلام کالج ۶۲۔ ۱۹۶۱ء/ ۴۱۔ ۱۳۴۰ہش صفحہ ۲۔
۱۹۹۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکسان ربوہ بابت ۶۴۔ ۱۹۶۳ء/ ۴۳۔ ۱۳۴۲ہش صفحہ ۱۵۸۔ کیمپس کالج کی عمارت کے نگران چوہدر فضل داد صاحب تھے اور بجلی کی ہائی ٹیشن چوہدری غلام حیدر صاحب سینئر لیکچرار اسسٹنٹ و ناظم املاک کالج کے سپرد رہی۔
۲۰۰۔
الفضل ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش صفحہ ۸۔
۲۰۱۔
یہ سطور شروع ماہ وفا/ جولائی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش میں لکھی جارہی ہیں۔
۲۰۲۔
تفصیل یہ ہے۔ ۵۶۔ ۱۹۵۵ء/ ۳۵۔ ۱۳۳۴ہش میں ایف۔ اے کے امتحان میں منور احمد صاحب سعید صوبہ بھر میں اول اور بی۔ ایس۔ سی میں اعجاز الرحمن صاحب سوم رہے۔
۵۸۔ ۱۹۵۷ء/ ۳۷۔ ۱۳۳۶ہش میں محمد سلطان صاحب اکبر نے بی۔ اے کے امتحان میں عربی پاس کورس اور عربی آنرز میں اول رہنے پر طلائی تمغہ حاصل کیا اور افتخار احمد صاحب شہاب یونیورسٹی بھر کے انگریزی کے امتحان میں اول رہے۔
۶۱۔ ۱۹۶۰ء/ ۴۰۔ ۱۳۳۹ہش میں ہائر سیکنڈری امتحان کے پری میڈیکل گروپ میں حمید احمد خاں صاحب پنجاب بھر میں اول رہے GROUP HUMANITIES کے طلبہ میں قریشی اعجاز الحق صاحب نے اول پوزیشن حاصل کی۔ اسی طرح بی۔ ایس۔ سی کے امتحان میں سید امین احمد صاحب فزکس کے مضمون میں یونیورسٹی میں اول رہے۔
۶۲۔ ۱۹۶۱ء/ ۴۱۔ ۱۳۴۰ہش میں بی۔ اے سال اول کے امتحان میں اعجاز الحق صاحب قریشی نے یونیورسٹی میں دوم پوزیشن حاصل کی اسی طرح ہائر سیکنڈری امتحان میں عطاء المجیب صاحب راشد نے بھی کامیاب ہونے والے طلبہ میں امتیازی مقام حاصل کیا۔
۶۳۔ ۱۹۶۲ء/ ۴۲۔ ۱۳۴۱ہش میں اعجاز الحق صاحب قریشی بی۔ اے کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے۔
۶۴۔ ۱۹۶۳ء/ ۴۳۔ ۱۳۴۲ہش میں ایم۔ اے عربی پریوس میں چودھری محمد صدیق صاحب اول اور چودھری ناصر الدین صاحب اور بشارت الرحمن صاحب دوم رہے۔ عطاء المجیب صاحب راشد نے بی۔ اے سال عربی میں اول رہ کر دو طلائی تمغے )مالیر کوٹلہ میڈل اور خلیفہ محمد حسن جوبلی گولڈ میڈل( حاصل کئے اور اعجاز الحق قریشی)ہسٹری آنرز سال سوم میں( یونیورسٹی میں اول رہے۔
۶۵۔ ۱۹۶۴ء/ ۴۴۔ ۱۳۴۳ہش میں پہلی بار کالج کے طلباء ایم۔ اے عربی کے امتحان میں شامل ہوئے اور سارے طلبہ اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوئے اور چوھدری محمد صدیق صاحب یونیورسٹی میں اول قرار پائے۔ اسی طرح تین اور طلبہ نے تیسری چوتھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کی۔
۶۶۔ ۱۹۶۵ء/ ۴۵۔ ۱۳۴۴ہش میں کالج کی دوسری ایم۔ اے کلاس کا نتیجہ بھی سو فیصد رہا۔ نیز یونیورسٹی میں بحیثیت مجموعی پہلی تین پوزیشنیں طلبہ تعلیم الاسلام کالج کے حصہ میں آئیں۔ یعنی قریشی مقبول احمد صاحب اول` عطاء المجیب صاحب راشد دوم اور سید عبدالحی صاحب سوم آئے اور ایک طالب علم کے سوا جس نے سیکنڈ ڈویژن لی باقی سب نے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کیا۔ اسی طرح عنایت اللہ صاحب منگلا پنجاب یونیورسٹی میں ایم۔ اے اقتصادیات میں فرسٹ ڈویژن لے کر اول آئے۔ )تعلیم الاسلام کالج کی مطبوعہ رپورٹوں )۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش تا ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش( سے ماخوذ(
۲۰۳۔
خطبہ اسناد پڑھنے والے مشاہیر کا تذکرہ فصل چہارم میں کیا جاچکا ہے اور کالج کی آل پاکستان اردو کانفرنس میں شریک ادباء کی تفصیل مستقل عنوان کے تحت الگ دی جارہی ہے۔
۲۰۴۔
اخبار الفضل ۳۱۔ صلح/ جنوری و یکم تبلیغ/ فروری ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش میں ان سائنسدانوں کی آمد پر خبر شائع کی گئی جس پر ہفت روزہ >المنیر< لائلپور نے >ربوہ کی سیر< کے کالم میں لکھا >تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پائوں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں اور دوسری جانب ۵۳ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ۵۷۔ ۱۹۵۶ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپیہ کا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ربوہ کے کالج` ہائی سکول اور پرائمری مدارس میں سینکڑوں مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ )شمارہ بابت۔ ۲۳۔ فروری ۱۹۵۶ء صفحہ ۱۰ کالم ۳(
۲۰۵۔
ایضاً۔
۲۰۶۔
یاد رہے ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش سے لے کر تبوک/ ستمبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش تک تعلیم الاسلام کالج باسکٹ بال کی صدارت کے فرائض پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب نے انجام دیئے آپ کی انگلستان کو بغرض تعلیم روانگی پر پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب نے اس کی باگ ڈور سنبھال لی اور نہایت محنت` شوق اور کامیابی کے ساتھ اسے چلا رہے ہیں
۲۰۷۔
حضرت صاحبزادہ صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے ٹورنامنٹ میں نظم و ضبط اور انصاف کے قیام کے لئے جو گرانقدر مساعی کیں ان کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بطور نمونہ صرف ایک واقعہ پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب کے قلم سے درج کیا جاتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ایک سالانہ ٹورنامنٹ کے موقعہ پر جب ملک کی دو مشہور ٹیموں کے درمیان سخت مقابلہ ہورہا تھا اور ہار جیت کا فیصلہ ایک ایک پوائنٹ سے بدل رہا تھا ایک ٹیم نے ریفری کے فیصلہ کے خلاف احتجاجاً کھیل بند کردیا اور ریفری کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کردیا۔ خاکسار نے صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ ریفری کی عزت اور وقار کو بحال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اعلان کردو کہ پانچ منٹ کے اندر اندر ٹیم میدان میں آجائے ورنہ اسے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ اعلان موثر ثابت ہوا اور کھیل حسب سابق اطمینان کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔
۲۰۸۔
تعلیم الاسلام کالج کی سالانہ رپورٹوں سے ملخصاً۔
۲۰۹۔
کانفرنس میں آپ کی طرف سے یہ خطبہ استقبالیہ پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے صدر شعبہ اردو نے پڑھا۔
۲۱۰۔
ذکر اردو صفحہ ا تا د ناشر تعلیم الاسلام کالج۔
۲۱۱۔
ذکر اردو صفحہ د تا س ناشر تعلیم الاسلام کالج۔
۲۱۲۔
الفضل ۲۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش صفحہ ۷۔ کانفرنس میں پڑھے جانے والے تمام مقالے ذکر اردو کے نام سے تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے شائع شدہ ہیں۔
۲۱۳۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۷ء/ ۱۳۴۶ہش۔
۲۱۴۔
دوسری کانفرنس میں مقالے پڑھنے والوں کی فہرست یہ ہے۔ سید قدرت نقوی۔ ایرکموڈور ظفر چوہدری )ان کا مضمون سکویڈرن لیڈر امداد باقر رضوی نے پڑھا( یعقوب احمد۔ سید عابد علی عابد۔ مکرم شیخ محمد اسماعیل پانی پتی۔ طفیل احمد قریشی۔ ڈاکٹر نصیر احمد خاں۔ ڈاکٹر سید نذیر احمد سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور )مندوب پنجاب یونیورسٹی( ڈاکٹر محمد عبدالعظیم صدر شعبہ کیمیا گورنمنٹ کالج لاہور )مندوب پنجاب یونیورسٹی( میجر آفتاب حسن ناظم ادارہ تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی )مندوب کراچی یونیورسٹی( محمد حیات خاں سیال۔ ڈاکٹر اسد علی ادیب۔ علامہ لطیف انور۔ عاطر ہاشمی۔ اعجاز فاروقی۔ جیلانی کامران۔ غلام جیلانی اصغر۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ غلام حسین اظہر۔ عبدالسلام اختر۔ سمیع اللہ قریشی۔ سید سجاد باقر رضوی۔ عبدالرشید اشک۔ عبدالرشید تبسم۔ ثاقب زیروی۔ نسیم سیفی۔ آغا محمد باقر۔ مسعود احمد خاں دہلوی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔
۲۱۵۔
سالانہ روئداد تعلیم الاسلام کالج ۶۱۔ ۱۹۶۰ء/ ۴۰۔ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۱۶۔
۲۱۶۔
المنار وفا۔ ظہور۔ تبوک/ جولائی۔ اگست۔ ستمبر۔ ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش صفحہ ۱۸۔
۲۱۷۔
المنار ہجرت۔ احسان۔ / مئی۔ جون ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۲۷۔
۲۱۸۔
المنار وفا۔ ظہور۔ تبوک / جولائی۔ اگست۔ ستمبر۔ ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش صفحہ ۱۹۔
۲۱۹۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش صفحہ ۳ کالم ۲۔
۲۲۰۔
ولزلے حضرت پرنسپل صاحب کی ایک پرانی اور خستہ حال موٹر کار تھی اور اکثر اساتذہ` طلباء اور خود حضرت پرنسپل صاحب کے تفنن کا سبب بنتی تھی۔ باوجود اس کار کی پیرانہ سالی کے آپ اسے ہی استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ ہوسٹل کے سالانہ فنکشن پر طلبہ اس کار کو خوب خوب ہدف طنز و مزاح بناتے تھے۔
۲۲۱۔
الفضل ۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۲۲۔
رسالہ المنار بابت ماہ احسان/ جون ۱۹۵۰ء/ ۱۳۲۹ہش صفحہ ۱۲۔ ۱۵۔
۲۲۳۔
المنار شہادت/ اپریل ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش صفحہ ۱۵۔
۲۲۴۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ بابت ۵۹۔ ۱۹۵۸ء/ ۳۸۔ ۱۳۳۷ہش صفحہ ۹۹۔
۲۲۵۔
روئداد سالانہ تعلیم الاسلام کالج بابت ۶۳۔ ۱۹۶۲ء/ ۴۲۔ ۱۳۴۱ہش صفحہ ۲۳۔
۲۲۶۔
رسالہ المنار بابت۔ وفا۔ ظہور۔ تبوک/ جولائی۔ اگست۔ ستمبر ۱۹۶۴ء/ ۱۳۴۳ہش صفحہ ۳۷۔ ۳۸۔
۲۲۷۔
روئداد سالانہ تعلیم الاسلام کالج ۶۵۔ ۱۹۶۴ء/ ۴۴۔ ۱۳۴۳ہش صفحہ ۲۱۔
۲۲۸۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ہش صفحہ ۱۔
۲۲۹۔
المنار جلد ۱۲ شمارہ ۲` ۳ صفحہ ۵ و ۶۔
۲۳۰۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش صفحہ ۸۔
۲۳۱۔
سالانہ رپورٹ تعلیم الاسلام کالج ۶۲۔ ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۔
۲۳۲۔
الفضل ۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش۔
۲۳۳۔
الفضل ۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش۔
۲۳۴۔
المنار جلد ۱۴ شمارہ ۳ و ۴۔
۲۳۵۔
المنار اخاء۔ نبوت۔ فتح/ اکتوبر ۔ نومبر۔ دسمبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش صفحہ ۱۶۔
۲۳۶۔
الفضل اخاء/ اکتوبر ۱۹۶۳ء/ ۱۳۴۲ہش صفحہ ۱۔
۲۳۷۔
الفضل ۱۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش۔
‏vat,10.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
سپین میں پرچم اسلام لہرانے سے دور جدید کے پہلے جلسے تک
دوسرا باب )فصل اول(
سپین میں پرچم اسلام لہرانے کا عزم` خلیفہ وقت کی حفاظت کا مسئلہ` برصغیر کی احمدی جماعتوں کے لئے الانذار` سیدنا المصلح الموعود کی آخری شادی` سیتارتھ پرکاش کے مکمل جواب کی تجویز` مصلح موعود کے دور جدید کا پہلا سالانہ جلسہ اور دوسرے اہم متفرق واقعات
)ماہ شہادت/ اپریل و ماہ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ہم تعلیم الاسلام کالج کی مفصل تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہ امان/ احسان ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش سے ابتدا کرکے ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش کے آخر تک پہنچ گئے تھے۔ اب ہم ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے بقیہ اہم واقعات کی طرف پلٹتے ہیں۔
جماعت کو صحابہ کے بابرکت وجود سے فائدہ اٹھانے کی خاص ہدایت
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ ہمیشہ ہی ¶احباب جماعت کو یہ تلقین فرماتے رہتے تھے کہ وہ صحابہ کے مبارک
زمانہ کو غنیمت سمجھیں` ان سے فیض صحبت اٹھائیں اور ان کے رنگ میں رنگین ہوکر زندہ ایمان اور کامل عرفان پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسی سلسلہ میں حضور نے ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے آغاز میں ایک درد انگیز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابہ میں سے خصوصاً حضرت منشی رستم علی صاحب )آف مدار ضلع جالندھر( کے جذبہ ایثار و فدائیت کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ۔
>چوہدری رستم علی صاحبؓ غالباً پہلے سب انسپکٹر تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنادیا۔ سب انسپکٹری کی تنخواہ میں سے وہ ایک معقول رقم ماہوار چندہ کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو بھجوایا کرتے تھے۔ اس وقت غالباً ان کی اسی روپے تنخواہ تھی۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان کو انسپکٹر بنا دیا۔ اور ان کی ایک سو اسی روپے تنخواہ ہوگئی۔ جب ان کا خط آیا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام بیمار تھے۔ میں نے خود ان کا خط پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو سنایا۔ انہوں نے خط میں لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے عہدہ میں ترقی دے کر تنخواہ میں ایک سو روپیہ کی زیادتی عطا فرمائی ہے۔ مجھے اپنے گزارہ کے لئے زیاد روپوں کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے میری تنخواہ میں یہ اضافہ محض دین کی خدمت کے لئے کیا ہے اس لئے میں آئندہ علاوہ اس چند کے جو میں پہلے ماہوار بھیجا کرتا ہوں یہ سو روپیہ بھی جو مجھے ترقی کے طور پر ملا ہے ماہوار بھیجتا رہوں گا۔
دیکھو اس قسم کے نمونے آج کل کتنے نادر ہیں؟ مگر اس وقت کثرت سے جماعت میں اس قسم کے نمونے پائے جاتے تھے۔ لیکن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وفات کے بعد ان کو دیکھا کہ ان کے دل اس بات پر خوش نہیں تھے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ کافی تھا بلکہ بعد میں جب انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وجود اس سے بہت زیادہ اہم تھا جتنا انہوں نے سمجھا اور اس سے بہت زیادہ آپ کے وجود پر دنیا کی ترقی کا انحصار تھا جس قدر انہوں نے پہلے خیال کیا تو ان کے دل روتے تھے کہ کاش انہیں یہ بات پہلے معلوم ہوتی اور وہ اس سے بھی زیادہ خدمت کرسکتے۔ مگر پھر انہیں یہ موقعہ نصیب نہ ہوا اور وقت ان کے ہاتھ سے چلا گیا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی لوگ ایسے تھے جنہیں قادیان میں صرف دو تین دفعہ آنے کا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا کہ ہمارا قادیان سے تعلق پیدا ہوگیا اور ہم نے زمانہ کے نبی کو دیکھ لیا۔ مگر آج اس چیز کی اس قدر اہمیت ہے کہ ہماری جماعت میں سے کئی لوگ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا زمانہ یاد کرکے بڑے خوشی سے یہ کہنے کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ کاش ہماری عمر میں سے دس یا بیس سال کم ہو جاتے لیکن ہمیں زندگی میں صرف ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیکھنے کا موقع مل جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا زمانہ تو گزر گیا۔ اب آپ کے خلفاء اور صحابہ کا زمانہ ہے۔ مگر یاد رکھو کچھ عرصہ کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا جب چین سے لے کر یورپ کے کناروں تک لوگ سفر کریں گے اس تلاش اس جستجو اور اس دھن میں کہ کوئی شخص انہیں ایسا مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بات کی ہو مگر انہیں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا۔ پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو` صرف مصافحہ ہی کیا ہو۔ مگر انہیں ایسا شخص بھی کوئی نہیں ملے گا۔ پھر وہ کوشش کریں گے کہ انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو` صرف اس نے آپ کو دیکھا ہی ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نظر نہیں آئے گا۔ پھر وہ تلاش کریں گے کہ کاش انہیں کوئی ایسا شخص مل جائے جس نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بات نہ کی ہو۔ آپ سے مصافحہ نہ کیا ہو` آپ کو دیکھا نہ ہو` مگر کم سے کم وہ اس وقت اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کو دیکھا ہو مگر انہیں ایسا بھی کوئی شخص نہیں ملے گا لیکن آج ہماری جماعت کے لئے موقع ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کرے<۔۱
سپین میں اسلامی جھنڈا لہرانے کا عزم صمیم
مسلم سپین کی تباہی اور بربادی تاریخ اسلام کا نہایت اندوہناک` دردانگیز اور خونچکاں باب ہے جس کے لفظ لفظ پر ہر مخلص اور حساس اور غیور مسلمان کا جگر پاش پاش ہو جاتا` کلیجہ منہ کو آتا` دل غم و اندوہ میں ڈوب جاتا اور آنکھیں بے اختیار خون کے آنسو روتی ہیں۔
مسلمان سرزمین اندلس )سپین( میں ۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک حکمران رہے۔ بعد ازاں اندلس کی اسلامی سلطنت عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ کے قبضہ میں چلی گئی۔ گو فرڈیننڈ نے از روئے معاہدہ مسلمانوں کو مذہب اور زبان کی آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ۱۴۹۹ء سے ایسے انسانیت سوز اور شرمناک مظالم شروع ہوگئے جو ایک صدی کے اندر اندر اندلسی مسلمانوں کے بالجبر ارتداد` اخراج` قتل عام اور بالاخر ان کے کلیت¶ہ خاتمہ پر منتج ہوئے۔ ملک سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹ گیا اور مسلمانوں کے اس پرشکوہ اور پرعظمت دور کی بجائے آثار قدیمہ کی بعض یادگاریں عمارتوں یا کھنڈروں کی صورت میں باقی رہ گئیں۔ مسلم سپین میں پیدا ہونے والے وہ سینکڑوں مفسر` فقیہ` فلسفی` صوفی ادیب اور جرنیل اور تاجدار جن کی خاک پانے اس ملک کو ہمدوش ثریا بنا دیا تھا اب زیر خاک آسودہ ہیں اور عظمت اسلام کا خزانہ لٹ چکا ہے!!۲
اللہ تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعود کو ملت اسلامیہ کے لئے ایک مضطرب اور دردمند دل بخشا تھا۔ حضور ہمیشہ مسلمانوں کی گزشتہ حکومتوں کی تاریخ عروج و زوال کا خاص طور پر مطالعہ فرماتے اور آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ خصوصاً اسلامی ریاست میسور اور اسلامی سپین کے صفحہ ہستی سے معدوم کئے جانے کے لرزا دینے والے واقعات سے آپ کے قلب مبارک پر سخت چوٹ لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کی تقریروں اور تحریروں میں میسور کے آخری بادشاہ حضرت ابوالفتح فتح علی ٹیپو سلطان رحمتہ اللہ علیہ اور ہسپانوی جرنیل عبدالعزیز جیسے اسلام کے فدائیوں اور شیدائیوں کی جاں فروشی اور جاں نثاری کے تذکرے ہمیں ملتے ہیں۔ مگر تحریک احمدیت جس کے آپ سپہ سالار تھے چونکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی علمبردار تحریک ہے اور ایک روشن مستقل کا امید افزاء پیغام لے کر اٹھی تھی اس لئے جہاں اس دور کے دوسرے مسلمان زعماء مسلمان شاعر` مسلمان فلاسفر اور مسلمان خطیب عبرت نامہ اندلس پر قلم اٹھاتے یا لب کشائی کرتے ہوئے محض مرثیہ خواں بن کے رہ گئے تھے وہاں سیدنا المصلح الموعودؓ نے یہ پر شوکت نعرہ بلند کیا کہ ہم قرطبہ` زہراء` غرناطہ` مالقہ` طلیطلہ اور ہسپانیہ کے دوسرے شہروں میں ہی نہیں اس کے ذرہ ذرہ پر دوبارہ اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے۔
چنانچہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو قادیان میں ایک ولولہ انگیز خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>تاریخ اسلام کی ان باتوں سے جو مجھے بہت پیاری لگتی ہیں۔ ایک بات ایک ہسپانوی جرنیل کی ہے جن کا نام غالباً عبدالعزیز تھا۔ جب سپین میں مسلمانوں کی طاقت اتنی کمزور ہوگئی کہ ان کے ہاتھ میں صرف ایک قلعہ رہ گیا جو آخری قلعہ تھا تو عیسائیوں نے ان کے سامنے بعض شرائط پیش کیں اور کہا کہ اگر بچنا چاہتے ہو تو ان کو مان لو۔ وہ شرائط ایسی تھیں کہ جنہیں مان کر اسلام سپین میں عزت کے ساتھ نہ رہ سکتا تھا۔ بادشاہ وقت ان شرائط کو ماننے کے لئے تیار ہوگیا۔ دوسرے جرنیل بھی تیار تھے۔ مگر یہ جرنیل کھڑا ہوا اور کہا کہ اے لوگو! کیا کرتے ہو؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ عیسائی اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ ہمارے باپ دادا نے سپین میں اسلام کا بیج بویا تھا۔ اب تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اس درخت کو گرانے لگے ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ سوائے اس کے ہوکیا سکتا ہے۔ دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت ہے ہی کیا؟ اس جرنیل نے کہا۔ یہ سوال نہیں کہ دشمن سے کامیاب مقابلہ کی صورت کیا ہے؟ نہ ہمیں اس کے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئے اور ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ مر جائے مگر ان شرائط کو تسلیم نہ کرے اس طرح یہ ذلت تو نہ اٹھانی پڑے گی کہ اپنے ہاتھ سے حکومت دشمن کو دے دیں۔ جو کچھ تمہارے اختیار کی بات ہے وہ کردو اور باقی خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ یہ بات سن کر وہ لوگ ہنسے اور کہا کہ اس قربانی کا کیا فائدہ؟ اور سب نے انکار کیا۔ مگر اس نے کہا کہ اگر تم اس بے غیرتی کو پسند کرتے ہو تو کرو میں تو اپنے ہاتھ سے اسلامی جھنڈا دشمن کے حوالے نہ کروں گا۔ قریباً ایک لاکھ کا لشکر تھا جو قلعہ کے باہر جمع تھا۔ وہ اکیلا ہی تلوار لے کر باہر نکلا۔ دشمن پر حملہ کر دیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔ بے شک اس کی شہادت کے باوجود سپین میں مسلمانوں کی حکومت تو قائم نہ رہ سکی مگر اس کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گیا اور موت اسے مٹا نہ سکی۔ وہ بادشاہ اور جرنیل جنہوں نے اس کے مشورہ کو تسلیم نہ کیا اور اپنی جانیں بچانی چاہیں وہ مٹ گئے۔ ان کا ذکر پڑھ کر اور سن کر ہم اپنے نفسوں کو بڑے زور سے ان پر *** کرنے سے روکتے ہیں۔ لیکن کبھی سپین کے حالات کا میں مطالعہ نہیں کرتا یا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یہ باتیں میرے ذہن میں آئی ہوں اور اس جرنیل کے لئے دعائیں نہ نکلتی ہوں۔ اس کے خون کے قطرے آج بھی سپین کی وادیوں میں ہم کو آوازیں دیتے ہیں کہ آئو! اور میرے خون کا انتقام لو۔ بے شک وہ بہادر جرنیل مر گیا۔ مگر مرنا ہے کیا؟ کیا یوں لوگ نہیں مرتے؟ کیا وہ بادشاہ اور جرنیل جو دشمن سے نہ لڑے مر نہ گئے؟ وہ بھی ضرور مر گئے۔ لیکن ان کے لئے ہمارے دلوں سے *** نکلتی ہے اور اس جرنیل کے لئے دعائیں۔
آج بھی اس کی کشش ہمیں سپین کی طرف بلارہی ہے اور اگر مسلمانوں کی غیرت قائم رہی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت سے ظاہر ہوتا ہے نہ صرف قائم رہے گی بلکہ ترقی کرے گی اور پہلے سے بھی بڑھ کر ظاہر ہوگی کہ تو وہ دن دور نہیں جب اس جرنیل کے خون کے قطروں کی پکار` اس کی جنگلوں میں چلانے والی روح اپنی کشش دکھائے گی اور سچے مسلمان پھر سپین پہنچیں گے اور وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے۔ اس کی روح آج بھی ہمیں بلارہی ہے اور ہماری روحیں بھی یہ پکار رہی ہیں کہ اے شہید وفا! تم اکیلے نہیں ہو۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دین کے سچے خادم منتظر ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی وہ پروانوں کی طرح اس ملک میں داخل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے نور کو وہاں پھیلائیں گے۔
یہ سوال نہیں کہ ہم امن پسند جماعت ہیں۔ مخالف امن پسندوں پر بھی تلوار کھینچ کر ان کو مقابلہ کی اجازت دلوا دیا کرتے ہیں۔ کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ امن پسند نہ تھے۔ مگر مخالفین کے ظلموں کی وجہ سے آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو مقابلہ کی اجازت دے دی۔ جیسا کہ فرمایا اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر۔۳ جن لوگوں کو خواہ مخواہ نشانہ مظالم بنایا گیا ہے اب ان کو بھی اجازت ہے کہ مقابلہ کریں۔
پس سپین کے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوں مقدر ہے تو ہماری تبلیغ و تعلیم سے ہی کفر و شرک کو چھوڑ دیں گے اور یا پھر ہم پر اتنا ظلم کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقابلہ کی اجازت ہو جائے گی اور وہ جنہوں نے کان پکڑ کر مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالا تھا کان پکڑ کر محمد~صل۱~ کے مزار پر حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ حضور کے غلام حاضر ہیں اور اس اکیلے لڑنے والے کی روح ناکام نہیں رہے گی<۔۴
مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں خلیفہ وقت کی حفاظت کا مسئلہ
۱۹۴۴/ ۱۳۲۳ہش کی مجلس مشاورت ۷` ۸` ۹۔ شہادت/ اپریل کو منعقد ہوئی جس میں دوسرے معاملات کے علاوہ خلیفہ وقت کی حفاظت کا مسئلہ
بھی زیر بحث آیا اور حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری` چوہدری اعظم علی صاحب` ملک عبدالرحمن صاحب خادم` ماسٹر غلام محمد صاحب` چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ` مولوی محمد احمد صاحب ثاقب` شیخ نیاز احمد صاحب` محمد عبداللہ صاحب` سید ارتضیٰ علی صاحب` میاں غلام محمد صاحب اختر` غلام حسین صاحب` مولوی ظہور حسین صاحب` پیر صلاح الدین صاحب` پیر اکبر علی صاحب` مولوی ابوالعطاء صاحب` بابو عبدالحمید صاحب` مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے اپنے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا اور مختلف تجویزیں پیش کیں۔ اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمایا۔
>نظام خلافت کی حفاظت کے ساتھ خلفاء کی حفاظت کا گہرا تعلق ہے جو قوم نظام خلافت کی حفاظت نہیں کرسکتی وہ خلافت سے محروم ہو جاتی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی حفاظت مسلمانوں نے کی۔ اس لئے حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے انہیں پہلے سے زیادہ برکات دیں۔ بعد میں آنے والے خلیفوںؓ کے وقت میں خدا تعالیٰ کی تائید اس پایہ کی نہ تھی جس پایہ کی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تھی جب مسلمانوں نے غفلت کی تو تین دفعہ غفلت کے بعد مسلمانوں سے خلافت چھین لی۔
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی حفاظت کے لئے دونوں قسم کے انتظامات کی ضرورت ہے۔ رضاکارانہ اور بامعاوضہ۔ رضاکارانہ حفاظت میں ہوسکتا ہے کہ ۲۴ گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ خالی رہ جائے۔ انتظام کو مکمل رکھنے کے لئے تنخواہ دار پہریداروں کی بھی ضرورت ہے۔
پھر نظام خلافت قائم رکھنے کے لئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف یہی کافی ہے کہ بارہ یا پندرہ آدمی رکھ دیئے جائیں۔ میرے نزدیک ۲۰۰ آدمیوں کا وجود بھی خلیفہ کی حفاظت کے لئے کافی نہیں اور نہ معلوم ہمیں کس وقت اس کے لئے ایک ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو۔ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ خلیفہ کے وجود کو قائم رکھ کر نظام خلافت کی حفاظت کریں خواہ ایک سو آدمی اس کام پر متعین ہوں۔ تب بھی ہم میں سے ہر شخص اس کے لئے بے قرار ہو اور وہ تہیہ کئے ہو کہ ہم نے خلیفہ کی حفاطت کرکے نظام خلافت کی حفاظت کرنی ہے<۔۵
بالاخر کثرت رائے سے یہ قرار پایا کہ۔
>حضور کی خدمت میں سفارش کی جائے کہ حضور ماہر اصحاب کی ایک کمیٹی مقرر فرمائیں جو حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش کرے۔ اس کا مالی حصہ بجٹ کمیٹی میں پیش کردیا جائے۔ حضور دونوں رپورٹوں کے بعد اس کے متعلق خود فیصلہ فرماویں<۔۶
اس بحث کے دوران چونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ اجلاس میں تشریف فرما نہ تھے اس لئے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے )جن کی زیر صدارت یہ کارروائی ہوئی تھی( یہ سفارش سیدنا حضرت المصلح الموعود کی خدمت میں پہنچا دی جو حضور نے بھی قبول فرمالی اور ساتھ ہی ناظر صاحب امور عامہ` چوہدری فتح محمد صاحب سیال` حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور شیخ نیاز احمد صاحب پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کے بعد شیخ نیاز احمد صاحب نگران حفاظت مقرر ہوئے اور پہرہ داروں میں بھی اضافہ کیا گیا جس سے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی حفاظت کا انتظام پہلے سے نسبتاً زیادہ عمدہ صورت میں قائم ہوگیا۔
جماعت میں ضلع وار نظام کا قیام
مرکز سلسلہ کی صوبہ پنجاب کے اضلاع کی متفرق اور کثیر جماعتوں کی براہ راست نگرانی کا مسئلہ روز بروز مشکل اور پیچیدہ ہورہا تھا۔ اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کی تجویز پر ضلع وار نظام کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور اس نئی سکیم کے تجربہ کے لئے سب سے پہلے گورداسپور` لاہور` لائل پور` گجرات` گوجرانوالہ` سرگودھا` فیروزوالہ` سیالکوٹ` جالندھر اور ہوشیارپور کے اضلاع تجویز کئے گئے۔
ضلع وار نظام کے حسب ذیل فرائض قرار پائے۔
۱۔
تبلیغ اسلام` تربیت جماعت اور چندوں کی وصولی میں مرکز سلسلہ کی اعانت۔
۲۔
علاقہ کے تمام احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام۔
۳۔
چندوں کے متعلق افراد کے کھاتے رکھنا۔
۴۔
مرکزی ہدایات و تحریکات کا تمام حلقہ میں اجراء اور ان کی تعمیل اور نگرانی اور اس کے متعلق مرکز سلسلہ کو ہدایات کے ماتحت رپورٹ دینا اور ضلع کے عام حالات سے مطلع رکھنا۔
۵۔
آنریری مبلغ اور کارکن پیدا کرنا جو سالانہ ایک مہینہ مسلسل تبلیغ کے لئے وقت دیں اور ایسے لوگوں کی تعداد پانچ فی صدی تک ہونی چاہئے۔
۶۔
ہر سال اس نظام کے مرکزی مقام یا کسی دوسرے اہم مقام پر سالانہ جلسہ کرنا۔
۷۔
ہر ایک جماعت کا دورہ سال میں دو دفعہ لازماً کرنا۔ پہلے دورہ میں امیر کے ساتھ کلرک متعینہ ہوگا اور دوسرے دورہ میں کلرک متعینہ کے ساتھ اس ضلع کے دوسرے بااثر اور صاحب علم دوست ہوں گے۔ پہلے دورہ کی غرض جماعتوں میں انتظام تبلیغ و انتظام تعلیم و تربیت کا استحکام ہوگا اور دوسرے دورہ کا مقصد تحریک چندہ اور اس سے متعلق امور۔۷
سیدنا المصلح الموعود کا ایک ضروری خطبہ واقفین زندگی کے نکاحوں سے متعلق
۱۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے بعد نماز عصر مسجد مبارک میں مکرم مولوی نورالحق
صاحب ۸ واقف زندگی تحریک جدید کے نکاح کا اعلان فرمایا اور ساتھ ہی وضاحت بھی فرمائی کہ۔
>میں نے اعلان کیا ہوا ہے کہ میں سوائے اپنے عزیزوں کے اور کسی کا نکاح نہیں پڑھائوں گا۔ مگر چونکہ یہ واقف زندگی ہیں اور اس وجہ سے میرے عزیزوں میں شامل ہیں اس لئے میں اس نکاح۹ کا اعلان کررہا ہوں<۔
حضور پرنور نے اپنے خطبہ نکاح میں جماعت کی اصلاح اور اس کے حالات کی درستی کے لئے دو نہایت اہم اور ضروری باتوں کی طرف توجہ دلائی۔
۱۔ پہلی اصلاح طلب بات حضور نے یہ بیان فرمائی کہ۔
>جب کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جائے اور نوجوانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کریں تو اول تو کھاتے پیتے لوگوں کی اولاد وقف زندگی کی طرف آتی ہی نہیں اور پھر جو لوگ آتے ہیں امراء ان کی طرف تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ ان سے بات کرنا یا ان کے ساتھ چلنا پھرنا ہماری طرف سے ایک قسم کا تذلل ہے ورنہ خود یہ اس بات کے مستحق نہیں ہیں۔ اس طرح ان کی شادیوں اور بیاہوں میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں اور میرے نزدیک یہ امر بہت بڑے قومی تنزل کی ایک علامت ہے۔ اگر واقعہ میں درست ہے کہ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم۱۰ تو خدا تعالیٰ کے حضور جن کو عزت حاصل ہو ہمیں ان ہی کو عزت دینی چاہئے یا تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ جو شخص بڑا دنیادار ہو وہ خدا تعالیٰ کے حضور معزز ہوتا ہے اور اگر یہ بات درست نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ جن کو عزت دیتا ہے یقیناً ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم انہیں کو عزت دیں اور ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت پانے والے کے مقابلے میں دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ نہ قیصر اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت رکھتا ہے نہ کوئی اور بادشاہ یا پریذیڈنٹ اس کے مقابل پر کوئی عزت رکھتا ہے۔ بے شک دینوی بادشاہ بھی عزتیں رکھتے ہیں مگر انہیں دنیا کی عزتیں ہی حاصل ہیں` اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی کوئی عزت نہیں<۔
۲۔ دوسری ضروری بات جو براہ راست واقفین زندگی سے متعلق تھی وہ حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>اس کے مقابلہ میں جو واقف ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ جب غریب لڑکیوں کے رشتے ان کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ ان میں کئی کئی نقص نکالیں گے۔ کبھی کہیں گے تقویٰ اعلیٰ درجہ کا نہیں۔ کبھی کہیں گے تعلیم زیادہ اعلیٰ نہیں۔ کبھی کہیں گے سلسلہ سے انہیں محبت کم ہے لیکن جہاں کسی کھاتے پیتے آدمی کا رشتہ ان کے سامنے آجائے تو وہ فوراً کہہ دیں گے ہاں ٹھیک ہے۔ یہ لڑکی نیک اور دیندار ہے۔ اس وقت انہیں نیکی بھی نظر آنے لگ جائے گی۔ اتقاء بھی نظر آنے لگ جائے گا۔ تعلیم بھی نظر آنے لگ جائے گی اور وہ اس رشتہ پر رضامند ہو جائیں گے<۔۱۱
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے خطبہ کے آخر میں جماعت احمدیہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ۔
>یاد رکھو دنیا انہی لوگوں کے پیچھے پھرا کرتی ہے جو دنیا کو کلی طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ خدا کے لئے دنیا چھوڑتے ہیں اور دنیا کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے اور انسان حیران ہوتا ہے کہ اب میں جائوں کہاں! لیکن جب تک دنیا پر نگاہ رکھی جائے دنیا آگے آگے بھاگتی ہے اور انسان اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے مگر پھر بھی اسے دنیا حاصل نہیں ہوتی<۔۱۲
جذبہ اطاعت کے فروغ کے لئے اہم خطبہ
سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں یہ انتہائی افسوسناک اطلاعات پہنچیں کہ بعض نوجوان سلسلہ کے نظام کا احترام نہیں کرتے اور اپنے افسروں کی اطاعت کرنے کی بجائے سرکشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ چیز چونکہ سلسلہ احمدیہ کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اطاعت کی اہمیت پر ایک مفصل خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا۔
>سلسلہ مقدم ہے سب انسانوں پر` سلسلہ کے مقابلہ میں کسی انسان کا کوئی لحاظ نہیں کیا جائے گا خواہ وہ کوئی ہو۔ حتیٰ کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا بھی مجرم ہو تو اس کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ کوئی انسان بھی سلسلہ سے بالا نہیں ہوسکتا۔ اسلام اور قرآن محمد رسول اللہ~صل۱~ سے بھی بالا ہیں۔ اسی طرح احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بھی بالا ہے۔ اسلام اور احمدیت کے لئے اگر ہمیں اپنی اولادوں کو بھی قتل کرنا پڑے ہم اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں گے لیکن سلسلہ کو قتل نہ ہونے دیں گے۔
پس تم اپنے اندر سلسلہ کی صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کا فضل تم پر نازل ہو۔ اگر تم چاہتے ہو کہ بے دینوں کی موت نہ مرو اور ایسے مقام پر کھڑے نہ ہو کہ موت سے پہلے اللہ تعالیٰ تم کو مرتدین میں داخل کردے تو اپنے اندر صحیح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا کرو۔ احمدیت یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ احمدیت ایک ایسی دھار ہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے گا وہ مٹا دیا جائے گا۔ یہ تلوار کی دھار ہے اور جو بھی اس کے سامنے کھڑا ہوگا وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ جس سسلسلہ کو قائم کرنا چاہے اس کی راہ میں جو بھی کھڑا ہو وہ مٹا دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اس لئے اس کے مقابلہ میں کسی انسان کی پروا نہیں کی جائے گی خواہ وہ کوئی ہو` خواہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا کیوں نہ ہو` خواہ وہ میرا بیٹا کیوں نہ ہو۔ سلسلہ مقدم اور غالب ہے ہر انسان پر<۔۱۳
برصغیر کی احمدی جماعتوں کے لئے >الانذار<
تحریک جدید کے مجاہدین کے ذریعہ سے بیرونی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں احمدیت کی اشاعت کے مراکز قائم ہوچکے تھے اور بعض مقامات پر جماعت کی رفتار ترقی برصغیر کی احمدی جماعتوں کی نسبت تیز تھی اور نظر آرہا تھا کہ اگر مرکزی جماعتوں نے تبلیغ اسلام کی اہمیت نہ سمجھی اور اس بارے میں چستی` ہوشیاری اور فرض شناسی کا ثبوت نہ دیا تو دینی قیادت کی زمام بیرونی جماعتوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی اور وہ اسلامی مسائل میں دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور دین کا وہ نقشہ اپنے یہاں رائج کرنے پر مجبور ہوں گے جو خالص ان کے ذہنوں کی پیداوار ہوگا۔
مستقبل کے اعتبار سے یہ ایک عظیم خطرہ تھا جسے سیدنا المصلح الموعود کی دوربین اور معاملہ فہم آنکھ مدتوں قبل بھانپ چکی تھی اور حضور اسی لئے جماعت کو تبلیغ اسلام کی طرف بار بار توجہ دلاتے آرہے تھے۔ اس سال بھی حضور نے ۱۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں جماعت کو زبردست انذار و انتباہ کیا اور مرکزی جماعتوں کی تبلیغی غفلت کے بھیانک اور خوفناک نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ۔
>اس صورت میں باہر کے لوگوں کی باگ سنبھالنا بھی ان کے لئے سخت مشکل ہو جائے گی۔ وہ لوگ کہیں گے تمہارا کیا حق ہے کہ ہماری رہنمائی کرو۔ ہم تعداد میں تم سے زیادہ ہیں` ہم قربانیوں میں تم سے زیادہ ہیں اور تم ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں رکھتے۔ اس لئے لوگوں کی رہنمائی کا حق ہمیں حاصل ہونا چاہئے اور مرکز ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے تاکہ ہم جس طرح چاہیں دین کی اشاعت کا کام کریں۔ تب احمدیت کے لئے وہی خطرہ کی صورت پیدا ہو جائے گی جو روما میں عیسائیت کے لئے پیدا ہوئی۔ جب فلسطین میں عیسائیوں کی تعداد کم ہوگئی اور اٹلی میں عیسائیت زیادہ پھیلنی شروع ہوئی تو عیسائیت کا مرکز فلسطین نہ رہا بلکہ اٹلی بن گیا اور چونکہ وہ مرکز کفر تھا اس لئے عیسائیت کفر کے رنگ میں رنگین ہونی شروع ہوگئی<۔۱۴
اس ضمن میں حضور نے تبلیغ کا بہترین طریق یہ تجویز فرمایا کہ۔
>انسان اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے پاس چلا جائے اور ان سے کہے کہ اب میں نے یہاں سے مر کر ہی اٹھنا ہے ورنہ یا تم مجھ کو سمجھا دو کہ میں غلط راستہ پر ہوں اور یا تم سمجھ جائو کہ تم غلط راستے پر جارہے ہو۔ اس عزم اور ارادہ سے اگر ساری جماعت کھڑی ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں ابھی ایک سال بھی ختم نہیں ہوگا کہ ہماری ہندوستان کی جماعت میں صرف احمدیوں کے رشتہ داروں کے ذریعہ ہی ایک لاکھ احمدی بڑھ جائیں گے<۔۱۵
یہ تحریک اتنی موثر اور کارگر تھی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے >ناظرین اہلحدیث ہوشیار ہوجائیں۔ مرزائیت کا بم آتا ہے< کے عنوان سے لکھا۔
>خلیفہ قادیان نے اپنے مریدوں کو سخت ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر جائیں اور ان کو احمدیت کی تبلیغ کریں اور کہہ دیں کہ اب میں نے یہاں سے مرکر ہی اٹھنا ہے ورنہ یا تم مجھ کو سمجھا دو کہ میں غلط راستہ میں ہوں اور یا تم خود سمجھ لو کہ تم غلط راستہ پر جارہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظرین >اہلحدیث< مرزائیت کی اس تعلیم کو معمولی نہ سمجھیں<۔۱۶
ایک اور پرچہ میں مزید لکھا۔
>قادیانی خلیفہ اور ان کی وزارت آئے دن ایسے تاکیدی حکم جاری کرتے رہتے ہیں جن سے مرزائیت ترقی کرے۔ ہمارے دوست ان تدبیروں کے جوڑ توڑ سے غافل ہیں۔ غفلت کا نتیجہ جو ہوتا ہے وہ ظاہر ہے<۔۱۷
مولوی محمد علی صاحب کو دعوت مباہلہ اور ان کا گریز
مولوی محمد علی صاحب )امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور( نے ۲۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو احمدیہ بلڈنگس کی مسجد میں منبر پر کھڑے ہوکر یہ بے بنیاد اور ناپاک الزام لگایا کہ۔
>خوب یاد رکھو قادیان والوں نے کلمہ طیبہ کو منسوخ کردیا ہے۔ اس میں تمہارے دل میں شک نہیں ہونا چاہئے<۔۱۸
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس ظالمانہ حملہ کا نوٹس لینا ضروری سمجھا اور اس کے جواب میں ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں مولوی محمد علی صاحب کو دعوت مباہلہ دی اور نہایت پر جلال الفاظ میں فرمایا۔
>یہ ایک ایسا اتہام ہے کہ میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس سے بڑا جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے۔ وہ قوم جو کلمہ طیبہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتی ہو اس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اسے منسوخ قرار دیتی ہے` اتنا بڑا ظلم ہے اور اتنی بڑی دشمنی ہے کہ ہماری اولادوں کو قتل کردینا بھی اس سے کم دشمنی ہے۔ ہماری اولادوں کو قتل کردینا اتنی بڑی دشمنی نہیں جتنا یہ کہنا کہ ہم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے منکر ہیں اور ایسا جھوٹ بولنے والے کے دل میں خدا تعالیٰ اور رسول کریم~صل۱~ کی محبت ہرگز نہیں ہوسکتی جس کے دل میں خدا اور رسول کی محبت ہو وہ ایسا جھوٹ کبھی نہیں بول سکتا۔ یہ ہم پر اتنا بڑا الزام ہے کہ ہمارے کسی بڑے سے بڑے مگر شریف دشمن سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہ کہے گا کہ یہ جھوٹ ہے اور میں سمجھتا ہوں۔ اب فیصلہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے۔ اگر مولوی صاحب میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ اور ان کی جماعت ہمارے ساتھ اس بارہ میں مباہلہ کریں کہ آیا ہم کلمہ طیبہ کے منکر ہیں<۔
اس دعوت مباہلہ کے ساتھ ہی حضرت سیدنا المصلح الموعود نے قبل از وقت یہ بھی بتا دیا کہ۔
>وہ کبھی اپنے آپ کو اور اپنے بیوی بچوں کو اس مقام پر کھڑا نہ کریں گے بلکہ اس عظیم الشان جھوٹ بولنے کے بعد بزدلوں کی طرح بہانوں سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جھوٹوں کی سزا سے بچانے کی کوشش کریں گے<۔۱۹
آخر وہی ہوا جو حضرت امیر المومنینؓ نے پہلے سے فرما دیا تھا یعنی مولوی صاحب موصوف نہ مباہلہ کے لئے آمادہ ہوئے اور نہ اپنا جھوٹا الزام واپس لینے کو تیار ہوئے۔
‏]po [tag
دوسرا باب )فصل دوم(
سیدنا المصلح الموعود کے آخری نکاح کی نہایت مبارک تقریب
تاریخ سلسلہ میں ۲۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کا دن ایک خصوصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس روز حضرت سید عبدالستار صاحبؓ کی پوتی اور حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی صاحبزادی سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ۲۰ سیدنا المصلح الموعود کے عقد میں آئیں۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ایک بہت بڑے مجمع میں جو مسجد مبارک اور اس کے متصل مکانات اور احمدیہ چوک میں جمع تھا ایک ہزار مہر پر اس نکاح کا اعلان فرمایا۲۱ اور نہایت درد بھرے الفاظ میں خطبہ پڑھا جس میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وہ الہامات بتائے جن کی وجہ سے آپ کو اس تقریب کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ چنانچہ فرمایا۔
>ایک دن میں تذکرہ پڑھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۸۔ فروری ۱۹۰۷ء کے حسب ذیل الہامات پڑھے۔
)۱( کل الفتح بعدہ )۲( مظھر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء۔
پھر اس کے بعد ۲۰۔ فروری کے یہ الہام درج ہیں۔
)۱( انی مع الرسول اقوم و الوم من یلوم )۲( پس پاشدہ ہجوم )۳( افسوسناک خبر آئی ہے۔ فرمایا۔ اس الہام پر ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا۔ مگر یہ انتقال ذہن بعد بیداری ہوا۔ الہام بھی شاید اس کے متعلق ہو۔
)۴( بہتر ہوگا کہ اور شادی کرلیں۔ فرمایا۔ معلوم نہیں کس کی نسبت یہ الہام ہے<۔ )تذکرہ صفحہ ۶۴۴(۲۲
۱۸۔ فروری کا الہام مظھر الحق والعلاء وہ الہام ہے جو اس سے پہلے پسر موعود کے متعلق ہوچکا تھا۔ جب میں نے یہ الہام پڑھا تو میرے ذہن میں یہ آیا کہ یہ پیشگوئی دوبارہ بیان کی گئی ہے اور عجیب بات یہ نظر آئی کہ پہلی پیشگوئی بھی فروری میں کی گئی تھی اور یہ الہام بھی فروری کا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا یعنی آپ کی وفات سے قریباً سوا سال قبل اللہ تعالیٰ نے پھر اس پیشگوئی کو دہرایا۔ تا ایک لمبا عرصہ گزر جانے کی وجہ سے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ منسوخ ہوگئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کل الفتح بعدہ کہ اس نشان کے بعد اصل فتوحات ہوں گی۔ پھر آگے اسی سلسلہ میں یہ الہام ہے کہ انی مع الرسول اقوم والوم من یلوم۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس پیشگوئی کا ظہور ہوگا تو چاروں طرف سے دشمن حملہ کرے گا۔ چنانچہ اس طرف مجھ پر اس پیشگوئی کا انکشاف ہوا اور ادھر پیغامیوں نے مخالفت کی آگ پورے زور کے ساتھ بھڑکا دی اور طرح طرح کے اتہامات` جھوٹ اور کذب بیانیوں سے کام لینا شروع کر دیا۔ مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ >پسپا شدہ ہجوم< اس کا مفہوم وہی ہے جو قرآن کریم کی آیت سیھزم الجمع ویولون الدبر کا ہے۔ یعنی سب دشمن جمع ہوکر حملہ کریں گے مگر اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل و رسوا کرے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے۔ یہ الہام اس دوسرے الہام سے جو پسر موعود سے متعلق ہے بہت ملتا ہے کہ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ یعنی جب پسر موعود ظاہر ہوگا تو حق آجائے اور باطل بھاگ جائے گا۔ باطل تو بھاگنے ہی کی اہلیت رکھتا ہے۔ پھر اس الہام کے بعد یہ الہام ہے کہ >افسوسناک خبر آئی< چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس انکشاف کے سوا ماہ بعد ام طاہر مرحومہ کی وفات ہوئی۔ اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ذہن کا انتقال بعض لاہور کے دوستوں کی طرف ہوا۔ گو یہ انتقال ذہنی تھا۔
مگر واقعہ نے بتادیا کہ درحقیقت یہ الہام لاہور ہی کے بارہ میں تھا کیونکہ ام طاہر احمد لاہور میں ہی فوت ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ کے الہامات فضول نہیں ہوتے۔ خالی یہ خبر دینا کہ ایک افسوسناک خبر آئی بغیر ایسے قرینے کے جس سے معلوم ہوسکے کہ وہ خبر کس کے متعلق ہے؟ کس قسم کی ہے؟ بالکل بے معنی ہو جاتا ہے لیکن جب ہم یہ امر دیکھیں کہ یہ سلسلہ الہام ہے۔ پہلے پسر موعود کے ظہور کا ذکر ہے` پھر دشمنوں کے شور کا اور ان کی ناکامی کا` پھر ایک افسوسناک خبر کا جس کا نتیجہ یہ پیدا کیا ہے کہ بہتر ہوگا کہ ایک اور شادی کرلیں تو ان الہامات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ افسوسناک خبر کسی کی بیوی کی وفات کی خبر ہے۔ کیونکہ اگلا الہام کسی مرد کی نسبت کہتا ہے کہ بہتر ہے کہ اور شادی کرلیں۔ پس افسوسناک خبر سے مراد اس شخص کی بیوی کی وفات ہی ہوسکتی ہے اور چونکہ اس سلسلہ الہامات میں پسر موعود کے سوا کسی اور مرد کا ذکر نہیں۔ اس لئے یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ فوت ہونے والی بیوی پسر موعود کی بیوی ہوگی جو پسر موعود کے دعوے کے قریب زمانہ میں لاہور میں فوت ہوگی۔ ان تمام الہامات کو پڑھنے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ ادھر مجھ پر اس پیشگوئی کے میری ذات میں پورا ہونے کا انکشاف ہوا` ادھر پیغامیوں نے پورے جوش کے ساتھ حملے شروع کر دیئے۔ پھر ام طاہر کی وفات واقعہ ہوئی۔ میں نے سمجھا کہ شاید میرا یہ نتیجہ نکالنا کہ بچوں کو کسی اور بیوی کے سپرد نہ کرنا چاہئے صحیح ہے اور اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ اور شادی کرنا بہتر ہوگا۔ تب میرا ذہن اس طرف گیا کہ جو دوسری بیوی بھی آئے گی بچے اسے غیر سمجھیں گے اور مرحومہ کے رشتہ دار بھی اس کے پاس نہیں آسکیں گے اور اس طرح بچوں کو دیکھ نہ سکیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے جو کمزور ہوں گے وہ اس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو مریم مرحومہ کے ساتھ امتہ الحی مرحومہ کے بعض رشتہ داروں نے کیا تھا۔ اس کا جواب کچھ دن تک میں نہ دیکھ سکا۔ اتفاقاً ایک روز میں نے تذکرہ سے فال دیکھی۔ میں فال کا قائل تو نہیں۔ مگر مصیبت کے وقت بعض دفعہ انسان ان باتوں کی طرف بھی توجہ کرلیتا ہے جن کا وہ قائل نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ ناجائز نہ ہوں۔ میں نے تذکرہ کھولا تو اس میں لفظ
بشریٰ
موٹے حروف میں لکھا ہوا نظر آیا۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ وہ کونسا صفحہ تھا۔ اسے دیکھ کر میرا ذہن اس طرف گیا کہ میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم کی لڑکی کا نام بشریٰ ہے مگر اس سے تو میری شادی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے اس کا ذکر مریم مرحومہ کے خاندان کے بعض افراد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اپنا خیال یہ ہے کہ مرحومہ کے گھر میں کوئی بڑا آدمی ضرور ہونا چاہئے اور اس وجہ سے ہم میں سے بعض کی رائے یہی ہے کہ آپ اور شادی کرلیں تو اچھا ہے اور کہ اگر ہمارے ہی خاندان میں ہو جائے تو اور بھی اچھا ہے۔ اس صورت میں بچوں کی نگرانی زیادہ آسان ہوگی۔ تب میرا ذہن اس طرف گیا کہ ان کے خاندان میں بھی ایک لڑکی بشریٰ نام کی ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ بعض بیماریوں کی وجہ سے اس کی شادی اس وقت تک نہیں ہوسکی اور اس کی عمر بھی بڑی ہوگئی ہے اور اس لئے وہ بچوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کا کام زیادہ اچھی طرح کرسکے گی<۔۲۳
اس سلسلہ میں حضور نے یہ بھی ذکر فرمایا کہ افراد خاندان میں سے >میری زیادہ بے تکلفی اپنی ہمشیرہ مبارکہ بیگم سے ہے ان سے میں نے ذکر کیا تو انہوں نے تذکرہ کے یہی الہامات مجھے سنائے اور کہا کہ میں تو خود آپ سے کہنا چاہتی تھی<۔۲۴
الہامات کا تذکرہ کرنے کے بعد مزید بتایا کہ میں نے استخارہ کیا اور اپنے خاندان کے بعض افراد سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی یہی رائے دی کہ سیدہ ام طاہر احمد کے بچوں کے انتظام کے لئے اور شادی ہی مناسب رہے گی۔ علاوہ ازیں مجھے بھی اور نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم۔ اے` اور ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کو بھی واضح خوابیں اس رشتہ کی نسبت آئیں تو میں نے تحریک کے لئے سید ولی اللہ شاہ صاحب کو سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کے والد سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی طرف بھجوایا اور یہ بھی مشورہ دیا کہ لاہور میں اپنے برادر اصغر سید حبیب اللہ شاہ صاحب۲۵ سے بھی ملتے جائیں۔ لاہور پہنچنے پر معلوم ہوا کہ انہیں پہلے ہی کشفاًبتا دیا گیا تھا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کس غرض سے آرہے ہیں۔ نیز القاء ہوا >بشریٰ بیگم حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے<
حضرت سیدہ بشرٰی بیگم صاحبہ سیدنا المصلح الموعودؓ کی حرم سابع ہیں جنہیں خواتین مبارکہ میں شمولیت کے مقدس اعزاز کے علاوہ ایک اور نمایاں خصوصیت بھی حاصل ہے اور وہ یہ کہ حضرت سیدنا المصلح الموعود کو اس رشتہ کے تعلق میں ایک اہم رویاء یہ ہوا تھا >ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ مہر آپا کو بلائو جس کے معنے ہیں محبت کرنے والی آپا<۲۶ اس رویاء کے مطابق حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ خاندان مسیح موعود میں >مہر آپا< ہی کے آسمانی خطاب سے یاد کی جانے لگیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نام میں خبر دی تھی سچ مچ آپ ہر اعتبار سے مہر آپا ہی ثابت ہوئیں۔ سیدنا المصلح الموعودؓ نے اپنے خطبہ نکاح میں اپنے مولا سے ان کی نسبت یہ دعا کی تھی کہ >غریبوں اور مسکینوں کے لئے ہمدرد اور مہمانوں کے لئے خبر گیر ہو۔ اسلام اور سلسلہ کی خدمت میں اپنی زندگی خرچ کرنے والی ہو<۔۲۷ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کا وجود گرامی حضرت سیدنا المصلح الموعود کی اس دعا کی قبولیت کا ایک واضح ثبوت اور آیتہ رحمت ہے۔ اطال اللہ بقاء|ھا۔
رخصتانہ
‏0] ftr[۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی۔ اس موقعہ پر دعا میں شرکت کی دعوت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے کئی ایک بزرگان سلسلہ کو دی جو چھ بجے شام کے قریب حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب کی کوٹھی واقع محلہ دارالانوار میں پہنچ گئے۔ چھ بجے حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ بھی اپنے خاندان کے بعض افراد اور بعض قدیم صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعض دوسرے افراد کے ساتھ تشریف لائے جن کے اسماء درج ذیل ہیں۔
۱۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۲۔ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ۳۔ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۴۔ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب ۵۔ مکرم خان محمد عبداللہ خاں صاحب ۶۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب ناظر اعلیٰ ۷۔ مکرم مرزا رشید احمد صاحب ۸۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ۹۔ حضرت پیر افتخار احمد صاحب ۱۰۔ حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب ۱۱۔ حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی سابق پٹواری ۱۲۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب ۱۳۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ۱۴۔ حضرت میر محمداسمعیل صاحب ۱۵۔ صاحبزادہ میاں عبدالمنان صاحب عمر۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خاندان کی خواتین مبارکہ بھی تشریف لے گئیں۔ تمام مہمانوں کی چائے اور ماکولات سے تواضع کی گئی۔ آخر میں حضور نے تمام مجمع سمیت دعا فرمائی اور پھر زنان خانہ میں تشریف لے جاکر دوبارہ دعا فرمائی۔ اس کے بعد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ کو موٹر میں بٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مبارک الدار میں لے آئیں۔۲۸
ولیمہ
۱۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت سیدنا المصلح الموعود کی طرف سے مسجد مبارک میں بوقت دو بجے دوپہر دعوت ولیمہ دی گئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابہ` کارکنان سلسلہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور خاندان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے افراد اور متعدد غرباء شامل تھے۔۲۹
عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھنے کی تجویز
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نزدیک مسلمان ممالک کی زبوں حالی اور زوال امت عربی زبان کی تروج و اشاعت میں کوتاہی کا نتیجہ تھی۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی مشہور کتاب >الھدی والتبصرہ لمن یری< میں تحریر فرمایا۔
>وکان من الواجب ان یشاء ھذہ اللسان فی البلاد الاسلامیہ فانہ لسان اللہ و لسان رسولہ و لسان الصحف المطھرہ ولا ننظر بنظر التعظیم الی قوم لا یکرمون ھذا للسان ولا یشیعونھا فی بلادھم لیرجموا الشیطان وھذا من اول اسباب اختلالھم<۔۳۰
یعنی واجب تھا کہ اسلامی شہروں میں عربی زبان پھیلائی جاتی اس لئے کہ وہ اللہ` اس کے رسول اور پاک نوشتوں کی زبان ہے اور ہم ان کو تعظیم کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو اس زبان کی تعظیم نہیں کرتے اور نہ اسے اپنے شہروں میں پھیلاتے ہیں تا شیطان کو پتھرائو کریں اور یہی ان کی تباہی کا بڑا سبب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام چونکہ امت مسلمہ میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس لئے حضور نے اپنے عہد مقدس میں عربی زبان کی ترویج کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی اور گھر میں روزمرہ استعمال میں آنے والے فقرے بچوں کو یاد کرائے جو حضور کی زندگی میں رسالہ >تشحیذ الاذہان< کی مختلف اشاعتوں میں شائع ہوئے۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی توجہ مثیل مسیح موعود ہونے کی حیثیت سے اس سال عربی کی ترویج و اشاعت کی طرف پیدا ہوئی اور حضور نے عربی کی اہمیت کے متعلق ۱۹۔ احسان/ جون کو ایک اہم خطبہ دینے کے علاوہ جماعت میں عربی بول چال کا رسالہ تصنیف کرانے کا ارادہ فرمایا۔ چنانچہ حضور نے مجلس عرفان میں ارشاد فرمایا۔
>عربی زبان کا مردوں اور عورتوں میں شوق پیدا کرنے اور اس زبان میں لوگوں کے اندر گفتگو کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک عربی بول چال کے متعلق رسالہ لکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بھی عربی کے بعض فقرے تجویز فرمائے تھے جن کو میں نے رسالہ تشحیذ الاذہان میں شائع کر دیا تھا۔ ان فقروں کو بھی اپنے سامنے رکھ لیا جائے اور تبرک کے طور پر ان فقرات کو بھی رسالہ میں شامل کرلیا جائے۔ درحقیقت وہ ایک طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس راستہ پر چلیں اور اپنی جماعت میں عربی زبان کی ترویج کی کوشش کریں۔ میرے خیال میں اس میں اس قسم کے فقرات ہونے چاہئیں کہ جب ایک دوست دوسرے دوست سے ملتا ہے تو کیا کہتا ہے اور کس طرح آپس میں باتیں ہوتی ہیں۔ وہ باتیں ترتیب کے ساتھ لکھی جائیں۔ پھر مثلاً انسان اپنے گھر جاتا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کے متعلق اپنی ماں سے یا کسی ملازم سے گفتگو کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے کھانے کے لئے کیا پکا ہے یا کونسی ترکاری تیار ہے؟ اس طرح کی روزمرہ کی باتیں رسالہ کی صورت میں شائع کی جائیں۔ بعد میں محلوں میں اس رسالہ کو رائج کیا جائے۔ خصوصاً لڑکیوں کے نصاب تعلیم میں اس کو شامل کیا جائے اور تحریک کی جائے کہ طلباء جب بھی ایک دوسرے سے گفتگو کریں عربی زبان میں کریں۔ اس طرح عربی بول چال کا عام رواج خدا تعالیٰ فضل سے پیدا کیا جاسکتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے ایک مردہ زبان کو اپنی کوششوں سے زندہ کر دیا ہے۔ عبرانی زبان دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں لیکن لاکھوں کروڑوں یہودی عبرانی زبان بولتے ہیں۔ اگر یہودی ایک مردہ زبان کو زندہ کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عربی زبان جو ایک زندہ زبان ہے اس کا چرچا نہ ہوسکے۔ پہلے قادیان میں اس طریق کو رائج کیا جائے۔ پھر بیرونی جماعتوں میں یہ طریق جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ چھوٹے چھوٹے آسان فقرے ہوں جو بچوں کو بھی یاد کرائے جاسکتے ہوں۔ اس کے بعد لوگوں سے امید کی جائے گی کہ وہ اپنے گھروں میں بھی عربی زبان کو رائج کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح قرآن کریم سے لوگوں کی دلچسپی بڑھ جاے گی اور اس کی آیات کی سمجھ بھی انہیں زیادہ آنے لگ جائے گی۔ اب تو میں نے دیکھا ہے۔ دعائیں کرتے ہوئے جب یہ کہا جاتا ہے۔ ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا تو ناواقفیت کی وجہ سے بعض لوگ بلند آواز سے آمین کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ آمین کہنے کا کوئی موقعہ نہیں ہوتا۔ یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ اگر عربی بول چال کا لوگوں میں رواج ہو جائے گا تو یہ معمولی باتیں لوگ خود بخود سمجھنے لگ جائیں گے اور انہیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
‏vat,10.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
سپین میں پرچم اسلام لہرانے سے دور جدید کے پہلے جلسے تک
یہ رسالہ جب شائع ہوجائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتاً فوقتاً نوجوانوں سے امتحان لیتے رہیں۔ یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں۔ مصری زبان میں انشاء الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہوچکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا<۔۳۱
حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد مبارک کی تعمیل معلوم نہیں آج تک کیوں نہیں ہوسکی!!
>ستیارتھ پرکاش< کے مکمل جواب کی سکیم
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش کا مکمل جواب شائع کیا جائے۔ چنانچہ حضور ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور ملک فضل حسین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ >ستیارتھ پرکاش< کا مکمل جواب لکھا جائے۔ اس وقت تک اس کے جس قدر جواب دیئے گئے ہیں وہ سب دفاعی رنگ رکھتے ہیں زیادہ تر لوگوں نے ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو اپنے سامنے رکھا ہے اور اسی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ضرورت ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب سے شروع کرکے آخر تک مکمل جواب لکھا جائے اور اس جواب میں صرف دفاعی رنگ نہ ہو بلکہ دشمن پر حملہ بھی کیا جائے۔ کیونکہ دشمن اس وقت تک شرارت سے باز نہیں آتا جب تک اس کے گھر پر حملہ نہ کیا جائے اس کا ایک طریق تو یہ ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے جتنے نسخے شروع سے لے کر اب تک چھپے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے اور پھر ان نسخوں میں جو جو اختلافات ہیں یا جہاں جہاں آریوں نے ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں کی ہیں وہ سب اختلافات واضح کئے جائیں اور کتاب کا ایک باب اس غرض کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ گویا ایک باب ایسا ہو جس کا عنوان مثلاً یہی ہو کہ >ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں< اور پھر بحث کی جائے کہ آریوں نے اس میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں۔ پھر جہاں جہاں وہ بہانے بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاتب کی غلطی سے ایسا ہوگیا وہاں بھی بحث کرکے واضح کیا جائے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر پنڈت دیانند نے علمی طور پر ہندو مذہب کے متعلق جو باتیں لکھی ہیں ان کے متعلق ویدوں اور ہندوئوں کی پرانی کتابوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ پنڈت جی کا بیان غلط ہے۔ اسی طرح ستیارتھ پرکاش کے ہر باب میں جو کوتاہیاں یا غلطیاں پائی جاتی ہیں` الف سے لے کر ی تک ان سب کو واضح کیا جائے۔ اسلام پر جو حملے کئے گئے ہیں ان کا بھی ضمنی طور پر جواب آجانا چاہئے۔ اس طرح ستیارتھ پرکاش کے رد میں ایک مکمل کتاب لکھی جائے جو کم سے کم سات آٹھ سو صفحات کی ہو اور جس طرح ستارتھ پرکاش ایک معیاری کتاب کے طور پر پیش کی جاتی ہے اسی طرح یہ کتاب نہایت محنت سے معیاری رنگ میں لکھی جائے۔ بعد میں ہر زبان میں اس کتاب کا ترجمہ کرکے تمام ہندوستان میں پھیلائی جائے۔
آپ اس کے لئے ڈھانچہ تیار کریں اور مجھ سے مشورہ لیں اور پھر میرے مشورہ اور میری ہدایات کے مطابق یہ کتاب لکھی جائے۔ پہلا باب مثلاً اس کتاب کی تاریخ پر مشتمل ہونا چاہئے۔ دوسرے باب میں ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب کا جواب دیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کیا غلطیاں ہیں یا اگر ہم ان باتوں کو ہندو مذہب کے لحاظ سے تسلیم کرلیں تو پھر ان پر کیا کیا اعتراض پڑتے ہیں۔ اس طرح شروع سے لے کر آخر تک تمام کتاب کا مکمل جواب لکھا جائے<۔۳۲
اس سکیم کے مطابق حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اس کتاب کے مختلف ابواب پروفیسر ناصر الدین عبداللہ صاحب` مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب میں بغرض جواب تقسیم فرما دیئے۔۳۳
چودھویں باب کی نسبت حضور نے فیصلہ فرمایا کہ اس کا جواب خود تحریر فرمائیں گے۔۳۴
جماعت احمدیہ کے ان سنسکرت دان علماء نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی ہدایت اور نگرانی میں ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں قریباً سات آٹھ ابواب کا جواب مکمل کرلیا۔ چنانچہ حضور نے ۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ۔
>میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہوچکا ہے اور بقیہ تیار ہورہا ہے۔ جو نوجوان اس کام کو کررہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کررہے ہیں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہورہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کرسکتے ہیں۔ اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہوا ہے اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور میں سردست ایڈیٹنگ کرتا ہوں۔ وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کرکے واپس بھیج دیتا ہوں۔ پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوں پر نہیں پڑتا یا یہ کہ بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دلشکنی ہو۔ یا اس بات کو بھی میں مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعہ ناتجربہکاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیربحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں۔ جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے انداز لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے<۔۳۵
سیدنا المصلح الموعود کس باریک نظری اور محققانہ انداز میں ان مسودات پر نظرثانی فرماتے اور ان پر تنقید کرتے تھے اس کی چند مثالیں درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوں گی تا معلوم ہو کہ آپ کن خطوط پر جواب لکھوانا چاہتے تھے۔
ستیارتھ پرکاش کے چوتھے سمولاس )متعلقہ خانہ داری( کا جواب حضور نے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کے سپرد فرمایا تھا۔ مہاشہ صاحب نے حضور کی خدمت میں جب اپنا لکھا ہوا مسودہ پیش کیا تو حضور نے ان پر علاوہ اور ریمارکس دینے کے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل نوٹ لکھے۔
>ان الفاظ کو نرم کیا جائے اور دلیل کو واضح۔ اس مضمون کو زور دار بنایا جاسکتا ہے<۔
>اس پر بار بار زور دیا جائے کہ پنڈت صاحب کھڑے تو ہندو دھرم کی تائید کے لئے ہوئے ہیں لیکن اپنے خود ساختہ خیالات کو پیش کرکے انہوں نے اپنے مذہب کو رائج کیا ہے<۔
>ہم کو صرف وید پر زور دینا چاہئے۔ آریہ سماج کا دعویٰ ہے وید مکمل ہیں۔ پھر دوسری طرف ان کو جانے دینے کا موقعہ دینا درست ہی نہیں<۔
>لکھیں اگر ایک فی ہزار مثالیں بھی اس کی آریہ سماج دے تو اسے دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ جو تعلیم اول خود ساختہ ہے۔ وید میں اس کا نام و نشان نہیں۔ دوم اس پر ایک فی ہزار آریہ سماجی بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسے عالمگیر قرار دینا اور دنیا کی مشکلات کا حل قرار دینا کیسی دیدہ دلیری کی بات ہے<۔
افسوس!! تقسیم ملک کی وجہ سے سیتارتھ پرکاش کے جواب کی یہ کوشش درمیان میں ہی رہ گئی۔
تیسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں تیز تر کر دینے کی تلقین
دوسری جنگ عظیم ابھی پورے زور شور سے جاری تھی کہ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۲۹۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ایک خاص خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں بتایا کہ جنگ کے
بعد دنیا پھر ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے۔ ہمیں اس غلطی کو واضح کرنے اور اسلام کو پھیلانے میں دیوانہ وار مصروف ہو جانا چاہئے۔ اس اجمال کی تفصیل سیدنا المصلح الموعود ہی کے الفاظ مبارک میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے جماعت احمدیہ کے ہرفرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>بالکل ممکن ہے اگر فاتح مغربی اقوام جرمنی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جرمنی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اٹھائیں مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اور قومیں کھڑی کردے جن کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ ہو۔ پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے۔ پھر خدانخواستہ ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے۔ پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا پیدا نہیں ہوسکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے یعنی جرمنی اور جاپان۔ یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ خصوصاً جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریباً دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانہ کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی۔ اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ آئو ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہے۔ پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا۔ اسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھ دار طبقہ کو )اور کوئی ملک ایسے سمجھ دار طبقہ سے خالی نہیں ہوتا( اسلام کی تعلیم کی برتری بتاسکیں گے۔ مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو` جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لئے ہرقسم کے سامان ہمیں میسر ہوں۔ اس طرح یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منظم ہوں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو اس تنظیم میں شامل نہ ہو۔ وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لئے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرنا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹاکر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو` وہ بھول جاتا ہے اپنے بچوں کو` وہ بھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اگر ہم یہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلیں اور اگر ہماری جماعت کا ہرفرد دن اور رات اس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کر دے گا<۔۳۶
حضرت مصلح موعود کی الوداعی نصائح ایک مبلغ کیلئے
ملک احسان اللہ صاحب واقف زندگی )مولوی عبدالخالق صاحب فاضل اور چودھری نذیر احمد صاحب آف رائے ونڈ کی معیت میں( ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو افریقہ میں اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے روانہ ہوئے۔ اس موقعہ پر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ان کو مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں۔
>خدا تعالیٰ پر ایمان` اس کی قضاء و قدر پر یقین` دعائوں پر زور اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں سے محبت` ہمیشہ مابعد الموت کا خیال رکھنا ایمان کے ستون ہیں۔
اس کے بعد نماز باقاعدہ پڑھیں` سنوار کر پڑھیں۔ دین کے بارے میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کہیں` سادہ زندگی بسر کریں۔ خدمت خلق کریں اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو زندگی کا مقصد بنائیں۔ مرکز سے تعلق رہے۔ ساتھیوں سے تعاون رہے` زبان اور ہاتھ ہمیشہ قابو میں رہیں۔
۴۴/۱۱/۲۰ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد<۳۷
مسلمانان چمبہ کی امداد
مکرم مرزا رحیم بیگ صاحب ریاست چمبہ کے نہایت مخلص احمدی اور سلسلہ احمدیہ اور حضرت مصلح موعود کے ممتاز شیدائیوں اور فدائیوں میں سے تھے۔۳۸ اور ہر لحظ مسلمانوں کی بہبودی کا خیال انہیں رہتا تھا۔ مرزا صاحب موصوف نے مرکز احمدیت میں اطلاع دی کہ ریاست چمبہ میں صدر کونسل انتظامیہ۳۹ کے بدلنے پر مسلمانوں کے لئے پہلے سے زیادہ پرآشوب زمانہ آرہا ہے۔ اس اطلاع پر حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل بی واقف زندگی کو ریاست چمبہ میں بھجوایا۔ چودھری صاحب نے مسلمانان چمبہ کے زراعت پیشہ قرار دیا جانے` ان کی مذہبی آزادی اور ٹیکسوں میں تخفیف کے اہم معاملات کے سلسلہ میں ہرممکن کوشش کی۔۴۰
خلفاء کو اہم وصیت
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۸۔ فتح/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو تحریک جدید کے بعض اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے آئندہ آنے والے خلفاء کو وصیت فرمائی کہ۔
>ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے۔ کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں۔ بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمدیت میں خلافت ہمیشہ بغیر دینوی حکومت کے رہنی چاہئے۔ دینوی نظام حکومت الگ ہونا چاہئے اور خلافت الگ تاوہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کرسکے۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے کہ خلفاء کو ہمیشہ عملی سیاسیات سے الگ رہنا چاہئے اور کبھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی چاہئے۔ ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہو جائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کے ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نفاذ نہ ہوا تھا اور چونکہ شریعت کا نفاذ ضروری تھا اس لئے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کر دیا گیا اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ الگ الگ ہوں۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہمیں حکومت دے اس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور اس سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپرد ہی رہنے دیں۔ پس اگر حکم کا سوال ہو تو میرا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری چلے تو میں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے پر بھی خلفاء اسے اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ انہیں اخلاق اور احکام قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہئے<۔۴۱
سرحد کے احمدی طالب علموں کو مرکز میں لانے کی ضرورت
سیدنا المصلح الموعود بیرونی دنیا میں تبلیغ خصوصاً برصغیر کے اندر اشاعت اسلام و احمدیت کا جال بچھا دینے کے لئے خاص طور پر متفکر رہتے تھے۔ اسی تعلق میں حضور نے ۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں اس رائے کا اظہار فرمایا کہ۔
>اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ صوبہ سرحد سے طالب علم قادیان میں آئیں۔ ہم نے اس کے لئے بڑی کوششیں کی ہیں مگر وہاں سے ایسے طالب علم نہیں آتے جو تعلیم کے بعد خدمت دین کریں۔ جو آتے ہیں وہ اس طرف لگ جاتے ہیں کہ نوکریاں کریں۔ صرف ایک مولوی چراغ دین صاحب ہیں۔ باقی سارے پڑھنے کے بعد ملازمتیں کرنے لگ گئے ہیں۔ صوبہ سرحد میں تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ وہاں کا ہی باشندہ ہو جو وہاں کے رسم و رواج اور ان لوگوں کی عادات سے واقف ہو پنجابی مبلغ اس علاقہ میں اس طرح کام نہیں کرسکتا جس طرح کہ اس علاقہ کا باشندہ کرسکتا ہے<۔۴۲
حکومت سندھ کی طرف سے >ستیارتھ پرکاش< کے چودھویں باب کی ضبطی اور حضرت سیدنا المصلح الموعود
سندھ گورنمنٹ نے مسلمانان ہند کے ملک گیر مظاہروں سے متاثر ہوکر ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۲ہش کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت حکم جاری کردیا کہ ستیارتھ پرکاش کی
کوئی کاپی اس وقت تک چھاپی یا شائع نہ ہو جب تک چودھویں باب کو حذف نہ کرلیا جائے۔ اس اعلامیہ پر اگلے روز آریہ سماج وچھو والی اور آریہ سماج انارکلی نے اس ضبطی کے خلاف جلسے کئے جن میں آریہ مقرروں نے دھمکی دی کہ یہ حکم ملک میں بدامنی کا باعث بنے گا۔ ایک ایک آریہ سماجی ستیارتھ پرکاش کی رکھشا کے لئے میدان میں نکلے گا۔ اس کے بعد آریوں نے ایک اینٹی قرآن لیگ بھی قائم کرلی اور قرآن مجید کی ضبطی کا مطالبہ کرنے لگے اور ملک میں ہر طرف ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔
سیدنا المصلح الموعود نے ۲۱۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں >ستیارتھ پرکاش< سے شدید نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے انگریزی حکومت کی مسلسل خاموشی پر سخت تنقید کی اور حکومت سندھ کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
>میرے نزدیک ستیارتھ پرکاش اس وقت ہی قابل ضبطی تھی جب وہ شائع کی گئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے ضبط کیوں کیا گیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس کے ضبط کرنے میں گورنمنٹ اتنی دیر کیوں خاموش رہی۔ پھر جس قانون یعنی ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو ضبط کیا گیا ہے یہ ایک عارضی قانون ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ مسلمانوں اور آریوں میں لڑائی جھگڑا اور شورش تو پیدا ہوجائے گی مگر جب جنگ کے خاتمہ پر ڈیفنس کا قانون منسوخ ہوگا ساتھ ہی ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کی ضبطی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا۔ پس ایسے قانون کے ماتحت اس کتاب کو ضبط کرنا جو عارضی ہے صرف فساد پیدا کرے گا اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا۔
پس اول تو گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ اس کتاب کو اس وقت ضبط کرتی جب یہ شائع کی گئی تھی۔ اتنی دیر کیوں کی گئی۔ پھر اگر اب ضبط کرنا تھا تو عام قانون کے ماتحت ضبط کرتی اور جس طرح میں نے بتایا ہے کہ گورنمنٹ یہ دلیل دیتی کہ ہم اس وجہ سے اس کتاب کو ضبط کرتے ہیں کہ اس میں ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو ان مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اور ایسی باتیں کہہ کر دوسرے مذاہب کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اشتعال دلایا گیا ہے جو خود کتاب لکھنے والے کے مذہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔
اگر سندھ گورنمنٹ اس طرح کرتی کہ عام قانون کے ماتحت اس کتاب کو ضبط کرتی اور اس میں یہ دلیل دیتی جو میں نے بیان کی ہے تو آریوں نے جو اب اینٹی قرآن تحریک شروع کررکھی ہے۔ یہ تحریک جاری کرنے کی انہیں کبھی جرات نہ ہوتی۔ کیونکہ سارے آریہ تو کیا سارے ہندو` سارے جینی` سارے عیسائی اور سارے یہودی مل کر قرآن مجید کی کوئی ایک آیت تو ایسی دکھائیں جس میں قرآن مجید نے کسی مذہب کی طرف کوئی بات منسوب کی ہو اور وہ بات اس مذہب میں نہ پائی جاتی ہو۔ قرآن مجید نے عیسائیوں کے متعلق کوئی ایک بات بھی ایس نہیں کہی جو عیسائیوں میں نہ پائی جاتی ہو۔ قرآن مجید نے کوئی بات بھی یہودیوں کے متعلق ایسی نہیں کہی جو یہودیوں میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ نہایت دیانت داری سے وہی باتیں ان کی طرف منسوب کی ہیں جو ان کے مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ بے شک آج کل یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری موجودہ کتابوں میں وہ باتیں نہیں پائی جاتیں جو قرآن مجید ہماری طرف منسوب کرتا ہے لیکن ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر یہ باتیں آج کل تمہاری کتب میں نہیں پائی جاتیں تو اس کا قرآن ذمہ دار نہیں کیونکہ تمہاری کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے۔ یہ باتیں اس وقت تمہاری کتابوں میں پائی جاتی تھیں جب قرآن مجید نازل ہوا تھا۔ پس قرآن مجید وہی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کے متعلق یا تو ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جس زمانہ میں قرآن مجید نازل ہوا اس وقت یہ باتیں ان مذاہب میں پائی جاتی تھیں اور یا ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کو وہ لوگ اب بھی مانتے ہیں اور وہ باتیں اسی رنگ میں ان کے اندر پائی جاتی ہیں جس رنگ میں قرآن مجید پیش کرتا ہے۔
اسی طرح مخالف قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی ایسی پیش نہیں کرسکتا جس میں کوئی ایسی بات کہہ کر دوسرے مذہب پر اعتراض کیا گیا ہو جس کو قرآن مجید خود بھی مانتا ہو بلکہ دیانت داری سے قرآن مجید دوسرے مذہب کی انہی باتوں پر اعتراض کرتا ہے جن کو خود نہیں مانتا۔ پس یہ دو اصول مدنظر رکھتے ہوئے اگر عام مقررہ قانون کے ماتحت گورنمنٹ ضبطی کا حکم لگاتی تو آریہ سماج کوئی وجہ شور پیدا کرنے کا نہ پاسکتی اور یہ اینٹی قرآن ایجی ٹیشن کا ڈھکوسلہ چل ہی نہ سکتا۔
نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہی حصہ ستیارتھ پرکاش کا ضبط نہ ہونا چاہئے تھا جو اسلام کے خلاف ہے بلکہ وہ حصہ بھی ضبط ہونا چاہئے تھا جو عیسائیت کے خلاف ہے` جو ہندو مذہب کے خلاف ہے` جو جین مذہب کے خلاف ہے` جو سکھ مذہب کے خلاف ہے۔ کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں ان مذاہب کی طرف بھی وہ باتیں منسوب کی گئی ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں یا جو خود آریہ سماج کے مسلمات میں بھی ہیں۔ اگر دل دکھنا ضبطی کی دلیل ہے تو کیا سکھ کا دل نہیں دکھتا؟ کیا عیسائیوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی؟ جس طرح مسلمانوں کا دل دکھتا ہے اسی طرح سکھوں کا دل بھی دکھتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں کا دل بھی دکھتا ہے۔ پس گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ اگر ضبط کرنا تھا تو ایسے سب بابوں کو ضبط کرتی جو دوسرے مذاہب کے بارہ میں ہیں اور ان دو باتوں پر اس کی بنیاد رکھتی۔ محض دل دکھنے پر بنیاد نہ رکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ہمیں چار باتوں پر اعتراض ہے۔
۱۔ پہلی یہ کہ اس کتاب کی ضبطی میں دیر کیوں کی گئی؟ یہ کتاب اس وقت ہی قابل ضبط تھی جس وقت شائع ہوئی۔
۲۔ دوسرے ہمیں اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک عارضی قانون کے ماتحت اس کو کیوں ضبط کیا گیا ہے؟ اس سے ضرور فتنہ پیدا ہوگا اور جب یہ قانون منسوخ ہوگا تو ساتھ ہی ضبطی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا۔
۳۔ تیسرے یہ بات ہمارے نزدیک قابل اعتراض ہے کہ دلیل نہیں دی گئی کہ کیوں ضبط کرتے ہیں؟ محض دل دکھنا کوئی دلیل نہیں۔
۴۔ چوتھے یہ بات بھی قابل اعتراض ہے کہ صرف مسلمانوں کی تائید میں قدم اٹھایا گیا ہے حالانکہ گورنمنٹ کو سب مذاہب کی حاظت کرنی چاہئے تھی۔
پس یہ چار وجوہ ہیں جن کی بناء پر ہم سندھ گورنمنٹ کی ستیارتھ پرکاش کے متعلق موجودہ کارروائی کو غلط سمجھتے ہیں<۔۴۳
تحریک جدید کے دفتر دوم کی بنیاد
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے خدا تعالیٰ کے القاء خاص سے نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید جیسی عالمی تبلیغ اسلام تنظیم قائم فرمائی جس کا پہلا دس سالہ دور اس سال ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ جس پر حضور نے ۲۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اس کے دفتر دوم کی بنیاد رکھی اور دعوت دی کہ۔
>پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے جو اس تحریک میں حصہ لے<۔
نیز فرمایا۔
>میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے جماعت کے دوستوں میں ہمت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتاہی رہ جائے گی اسے وہ اپنے فضل سے پورا کردے گا۔ یہ اسی کا کام ہے اور اسی کی رضاء کے لئے میں نے یہ اعلان کیا ہے۔ زبان گو میری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ رحم کرے اس پر جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے<۔۴۴
تحریک جدید کے دور اول کی شاندار کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور حضرت سیدنا المصلح کے حضور ہدیہ اخلاص پیش کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ قادیان میں ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمائی۔۴۵
‏]sub [tagبیرونی مجاہدین کو بلوانے اور نئے مبلغین بھجوانے کا فیصلہ
تحریک جدید کے دورثانی کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی سیدنا المصلح الموعود نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مجاہدین احمدیت کو جلد سے جلد واپس بلانے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا۔
>ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں جائیں ان کے لئے کافی رقم سفر خرچ کے لئے مہیا کی جائے۔ کافی لٹریچر مہیا کیا جائے اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔ ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہئے اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لئے کافی روپیہ مہیا کرنا ضروری ہے۔ ابھی ہم نے تین نوجوانوں کو افریقہ بھیجا ہے۔ وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور لاریوں میں سفر کریں گے۔ مگر پھر بھی ۱۷` ۱۸ سو روپیہ ان کے سفر خرچ کا اندازہ ہے۔ اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال ۳۳ فیصدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور ۳۳ فیصدی ان کی جگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو صرف یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوگا اور یہ صرف سفر خرچ ہے اور اگر مبلغین کو چار چار سال کے بعد بلائیں تو یہ خرچ پھر بھی ۷۵ ہزار روپیہ ہوگا اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد ان کو بلانا نہایت ضروری ہے۔ تا ان کا اپنا ایمان بھی تازہ ہوتا رہے اور ان کے بیوی بچوں اور خود ان کو بھی آرام ملے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمن صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ جب وہ گئے تو ان کی بیوی حاملہ تھیں۔ بعد میں لڑکا پیدا ہوا۔ اور ان کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے۔ اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس انگلستان گئے ہوئے ہیں اور صدر انجمن احمدیہ اس ڈر کے مارے ان کو واپس نہیں بلاتی کہ ان کا قائم مقام کہاں سے لائیں اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں جو ان کے منتظر ہیں۔ ان کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے کہ میرے ابا کو واپس بلا دیں۔ پھر اتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور آئندہ نسل کا چلنا بند ہو جاتا ہے۔ ایک اور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں ان کے بچہ نے جو خاصا بڑا ہے نہایت ہی دردناک بات اپنی والدہ سے کہی۔ اس نے کہا۔ اماں! دیکھو ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار پڑا تو اس کا ابا اسے پوچھنے کے لئے آیا۔ تم نے ابا سے کیوں شادی کی جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا۔ اس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا اور اسی طرح ہنسی کی بات بن گئی۔ مگر حقیقت پر غور کرو یہ بات بہت ہی دردناک ہے۔ اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم ان کو واپس نہیں بلاسکے۔ پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے<۔۴۶
اس فیصلہ کے بعد بیرونی مجاہدین کی واپسی کے لئے ہرممکن اقدامات کی طرف خاص توجہ دی جانے لگی۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی طرف سے جماعت اسلامی سے متعلق بعض سوالات کے جوابات
شمالی ہند میں >جماعت اسلامی< کے نام سے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت۴۷ تین برس پیشتر معرض وجود میں آئی تھی۔ یہ جماعت سید ابوالاعلیٰ صاحب۴۸ مودودی سابق ایڈیٹر
>الجمعیتہ< دھلی و مدیر رسالہ >ترجمان۴۹ القرآن< لاہور کی قیادت میں ۲۵۔ اگست ۱۹۴۱ء۵۰ کو قائم ہوئی۔
اس جماعت کا پہلا مرکز دفتر رسالہ ترجمان القرآن مبارک پارک پونچھ روڈ لاہور میں تھا۔ ۱۵۔ جون۵۱ ۱۹۴۲ء کو جناب مودودی صاحب اپنے بعض رفقاء سمیت قادیان کے نزدیک ہی ایک قریہ جمال پور )تحصیل پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور( میں منتقل ہوگئے اور اسے اپنا >دارالاسلام< بنا کر اپنی مخصوص دعوت کی اشاعت شروع کر دی۔
۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے آخر میں ایک دوست نے >جماعت اسلامی< کے نظریات و عقائد کی نسبت دو سوالات حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں لکھ کر بھیجے جن کا جواب حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا۔ یہ سوالات مع جوابات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
>سوال اول
تحریک جماعت اسلامی سے حضور واقف ہوں گے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے ساتھی اسلام کے متعلق حسب ذیل نظریہ رکھتے ہیں۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے جو اخلاقی` تمدنی اور سیاسی قوانین کا مجموعہ ہے۔ اسلام اس کی کامل پیروی کا نام عبادت رکھتا ہے۔ جو شخص اس ضابطہ حیات کی بجائے نظام باطل کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا ہے وہ صحیح عبد نہیں ہے یا جو اعتقادی طور پر تو ضابطہ شریعت )قرآن( پر ایمان رکھتا ہے مگر عمل دوسرے قوانین پر کررہا ہو وہ بھی حلقہ عبودیت سے دور ہے۔
دلائل
۱۔ وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین
۲۔ واعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت
۳۔ ولا یشرک بعبادہ ربہ احدا
کیا یہ احمدیت کی رو سے بھی درست ہے؟
جواب
یہ درست ہے کہ قرآن کریم کے ہر ایک حکم پر عمل کرنا اگر طاقت ہو ضروری ہے مگر کلمہ حکمت سے باطل مراد لینا نادرست ہے۔
سوال دوم
قل ان الامر کلہ للہ سے استنباط کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک اور فرمانروا ہے۔ اس کی حکومت میں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ انسان کے لئے ضابطہ حیات بنانے کا حق اسے ہے کیونکہ وہی اس کی ضروریات اور رازوں سے واقف ہے۔ مخلوق کا کام صرف اس کی پیروی میں ہی اس کی فلاح ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص خدا کے قانون کو چھوڑ کر یا جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے )درآنحالیکہ اس کے پاس خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی CHARTER نہیں( یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت )خارج از اطاعت حق( ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی مجرم ہے اور اس کی وفادار رعایا میں سے نہیں ہے۔
دلائل
۱۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔
۲۔
الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ۔
۳۔
ولا تطع الکافرین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۴۔
ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۵۔
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم
۶۔
الم عاھد الیکم یا بنی ادم الا تعبدوا الشیطن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر احمدیت ہمیں غیر الٰہی قوانین کا احترام سکھاتی ہے۔ احترام ہی نہیں بلکہ پیروی کا حکم دیتی ہے۔ یہ تضاد سمجھ میں نہیں آتا۔ وضاحت فرمائی جائے۔
جواب
اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ غیر مذہبی حکومت کے قوانین پر عمل نہیں کرنا تو ابوالعلیٰ خود بھی عمل کرتے ہیں اور ان کے ساتھی بھی<۔۵۲`۵۳
دوسرا باب )فصل سوم(
مصلح موعود کے دور جدید کا پہلا سالانہ جلسہ
جلسہ کی آمد سے قبل دعائوں کی تحریک خاص
دور مصلح موعود کا پہلا جلسہ سالانہ قریب آرہا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین نے ۲۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۳۲ہش کو اپنے خطبہ جمعہ میں اہل قادیان اور بیرونی جماعتوں کو دعائیں کرنے کی خاص تحریک کی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ۔
>یہ موقعہ بہت دعائوں کا اور بہت گریہ و زاری کا ہے۔ قادیان کے دوست بھی بہت دعائیں کرتے رہیں اور باہر سے آنے والے بھی دعائوں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس اجتماع کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ باقی ماندہ ایام اور جلسہ کے ایام کو بھی اور اس کے بعد کے چند ایام کو بھی خصوصیت کے ساتھ دعائوں میں گزاریں<۔۵۴
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی معرکتہ الاراء تقاریر
یہ جلسہ حسب معمول ہائی سکول کی کھلی گرائونڈ میں ہوا اور اس میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے چار معرکتہ الاراء تقاریر فرمائیں۔
افتتاح
حضور ۲۶۔ فتح/ دسمبر کو گیارہ بجے جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے سٹیج پر تشریف لائے۔ تمام مجمع نے کھڑے ہوکر اللہ اکبر اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا۔ حضور نے تمام مجمع کو السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا اور کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔ ازاں بعد حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے نے تلاوت قرآن کریم کی۔ پھر حضور نے افتتاحی تقریر ارشاد فرمائی۔ جس میں بتایا کہ >ہمیں وہ نظارے بھی یاد ہیں جب دو چار آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ تھے اور آج ہم یہ نظارہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں` دنیا کی ہر قوم میں` ہر نسل میں اور ہر زبان بولنے والوں میں احمدی موجود ہیں اور ان میں ہمت اور اخلاص اور فداکاری کے جذبات اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور وہ قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔ آج خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کو روک رہا ہے ورنہ وہ آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پروانے موجود ہیں` شمع ہی انہیں قربان ہو جانے سے روک رہی ہے اور وہ جل جانے کی خواہش اور تمنا میں جل رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تھوڑی سے بڑھ کر اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے اور اتنا وسیع کام اس کے سامنے ہے کہ جو قومیں اس مقام پر پہنچ جاتی ہیں` وہ یا تو اوپر نکل جاتی اور سب روکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہیں یا پھر تنزل کے گڑھے میں گر جاتی ہیں۔ دراصل یہ مقام سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بہت لوگ جب یہاں سے گر جاتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں چلے گئے۔ مگر بہت اس مقام سے آگے بڑھ کر اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کا عرش نظر آنے لگتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سننے اور اس کے خاص انعامات کے مورد بنتے ہیں۔ خدا ان کا ہو جاتا ہے وہ خدا کے ہو جاتے ہیں۔
پس اس نازک وقت اور نازک مقام کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور آج آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ یا تو ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اٹھے گا یا پھر نیچے گر جائے گا<۔۵۵
دوسرے روز خواتین کی جلسہ گاہ میں تقریر
۲۔ دوسرے دن )۲۷۔ فتح/ دسمبر کو( ظہر سے قبل سیدنا المصلح الموعود نے خواتین کی جلسہ گاہ میں )جو حسب سابق مسجد نور سے متصل مشرقی جانب تھی( تقریر فرمائی جس میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ۔
>ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری ۱۹۴۵ء ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں<۔
اس اہم ارشاد کے بعد حضور نے لجنہ کو احمدی خواتین کی تنظیم کی نسبت بیش قیمت ہدایات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>لجنہ اماء اللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب ان کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز` روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اردو و زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے جائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ ان کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر ان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآن مجید آجائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو۔ اس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہوگی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو۔ میری حیثیت استاد کی ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اگر میں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہوجائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں۔ اس لئے جو ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں )حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہوگئیں۔ جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا( بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں۔ الحمدلل¶ہ۔ اب بیٹھ جائو۔ میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں۔ مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں۔ میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی اور مجھے خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہ جانتی ہو بلکہ قرآن مجید کو سمجھتی بھی ہو اور مجھے حقیقی خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو اور پھر اس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہوگا جس دن خدا تعالیٰ تمہارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے<۔۵۶
اہم واقعات پر تبصرہ اور پروگرام
۳۔ اسی روز ۲۷۔ فتح/ دسمبر کو حضور نے مردانہ جلسہ گاہ میں بھی مفصل تقریر فرمائی جس میں حسب دستور سال کے اہم واقعات پر تبصرہ فرمایا اور آئندہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی۔۵۷ یہ تقریر تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی۔۵۸4] ft[r
ظہور مصلح موعود کے موضوع پر پرشوکت تقریر
۴۔ سالانہ جلسہ کے آخری اجلاس )منعقدہ ۲۸۔ فتح/ دسمبر( میں حضرت امیر المومنین نے ساڑھے تین بجے سے لے کر ساڑھے سات بجے یعنی مسلسل چار گھنٹے تک خطاب فرمایا جس میں نہ صرف پیشگوئی مصلح موعود کا پورا ہونا دلائل اور واقعات سے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا بلکہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے اعتراضات کا نہایت اسان پیرایہ میں رد کیا۔ اس انقلاب آفریں تقریر کے آخری حصہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کو نئی ذمہ ¶داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جارہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہوچکی ہے اور اب دشمنان اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کردی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب` محمد رسول اللہ~صل۱~ خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں۔ کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کو کاذب کہتے ہیں۔ خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ ۱۸۸۶ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ وہ اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کا نام دنیا میں پھیلائے گا۔ وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔ وہ جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی قربت اور اس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہوگا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے یہ خبر دی اور پھر اسی خدا نے اس خبر کو پورا کیا۔ اس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔ میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقعہ پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہہ دیا کہ اسے سل ہوگئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اسے بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جاکر میں اداس ہوگیا اور اس وجہ سے جلدی ہی واپس آگیا۔ غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔
دنیا زور لگالے` وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرلے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں۔ یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعائوں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم~صل۱~ کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ~صل۱~ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کرلیا جائے۔
اے میرے دوستو! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں` نہ جب تک خدا تعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار۔ ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا میں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم~صل۱~ اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کچلنے میں میرے گزشتہ یا آئندہ کاموں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہوگا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں سے ایک ایڑی میری بھی ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے۔ یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے۔ یہ سچائی نہیں ٹلے گی` نہیں ٹلے گی اور نہیں ٹلے گی۔ اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا۔ مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی۔ اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچاسکے۔ خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہوگا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا۔
میں اس موقعہ پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کردیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہاں میں آپ لوگوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں
‏vat,10.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
سپین میں پرچم اسلام لہرانے سے دور جدید کے پہلے جلسے تک
یہ رسالہ جب شائع ہوجائے تو خدام الاحمدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اس کے تھوڑے تھوڑے حصوں کا وہ اپنے نظام کے ماتحت وقتاً فوقتاً نوجوانوں سے امتحان لیتے رہیں۔ یہ فقرات بہت سادہ زبان میں ہونے چاہئیں۔ مصری زبان میں انشاء الادب نام سے کئی رسالے اس قسم کے شائع ہوچکے ہیں مگر وہ زیادہ دقیق ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے سکولوں میں انہیں کیوں جاری نہیں کیا گیا<۔۳۱
حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد مبارک کی تعمیل معلوم نہیں آج تک کیوں نہیں ہوسکی!!
>ستیارتھ پرکاش< کے مکمل جواب کی سکیم
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آریہ سماج کے بانی دیانند سرسوتی کی کتاب ستیارتھ پرکاش کا مکمل جواب شائع کیا جائے۔ چنانچہ حضور ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور ملک فضل حسین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ >ستیارتھ پرکاش< کا مکمل جواب لکھا جائے۔ اس وقت تک اس کے جس قدر جواب دیئے گئے ہیں وہ سب دفاعی رنگ رکھتے ہیں زیادہ تر لوگوں نے ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو اپنے سامنے رکھا ہے اور اسی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ضرورت ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب سے شروع کرکے آخر تک مکمل جواب لکھا جائے اور اس جواب میں صرف دفاعی رنگ نہ ہو بلکہ دشمن پر حملہ بھی کیا جائے۔ کیونکہ دشمن اس وقت تک شرارت سے باز نہیں آتا جب تک اس کے گھر پر حملہ نہ کیا جائے اس کا ایک طریق تو یہ ہے کہ ستیارتھ پرکاش کے جتنے نسخے شروع سے لے کر اب تک چھپے ہیں ان سب کو جمع کیا جائے اور پھر ان نسخوں میں جو جو اختلافات ہیں یا جہاں جہاں آریوں نے ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں کی ہیں وہ سب اختلافات واضح کئے جائیں اور کتاب کا ایک باب اس غرض کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ گویا ایک باب ایسا ہو جس کا عنوان مثلاً یہی ہو کہ >ستیارتھ پرکاش میں تبدیلیاں< اور پھر بحث کی جائے کہ آریوں نے اس میں کیا کیا تبدیلیاں کی ہیں۔ پھر جہاں جہاں وہ بہانے بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کاتب کی غلطی سے ایسا ہوگیا وہاں بھی بحث کرکے واضح کیا جائے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ پھر پنڈت دیانند نے علمی طور پر ہندو مذہب کے متعلق جو باتیں لکھی ہیں ان کے متعلق ویدوں اور ہندوئوں کی پرانی کتابوں سے یہ ثابت کیا جائے کہ پنڈت جی کا بیان غلط ہے۔ اسی طرح ستیارتھ پرکاش کے ہر باب میں جو کوتاہیاں یا غلطیاں پائی جاتی ہیں` الف سے لے کر ی تک ان سب کو واضح کیا جائے۔ اسلام پر جو حملے کئے گئے ہیں ان کا بھی ضمنی طور پر جواب آجانا چاہئے۔ اس طرح ستیارتھ پرکاش کے رد میں ایک مکمل کتاب لکھی جائے جو کم سے کم سات آٹھ سو صفحات کی ہو اور جس طرح ستارتھ پرکاش ایک معیاری کتاب کے طور پر پیش کی جاتی ہے اسی طرح یہ کتاب نہایت محنت سے معیاری رنگ میں لکھی جائے۔ بعد میں ہر زبان میں اس کتاب کا ترجمہ کرکے تمام ہندوستان میں پھیلائی جائے۔
آپ اس کے لئے ڈھانچہ تیار کریں اور مجھ سے مشورہ لیں اور پھر میرے مشورہ اور میری ہدایات کے مطابق یہ کتاب لکھی جائے۔ پہلا باب مثلاً اس کتاب کی تاریخ پر مشتمل ہونا چاہئے۔ دوسرے باب میں ستیارتھ پرکاش کے پہلے باب کا جواب دیا جائے اور بتایا جائے کہ اس میں کیا کیا غلطیاں ہیں یا اگر ہم ان باتوں کو ہندو مذہب کے لحاظ سے تسلیم کرلیں تو پھر ان پر کیا کیا اعتراض پڑتے ہیں۔ اس طرح شروع سے لے کر آخر تک تمام کتاب کا مکمل جواب لکھا جائے<۔۳۲
اس سکیم کے مطابق حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اس کتاب کے مختلف ابواب پروفیسر ناصر الدین عبداللہ صاحب` مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب میں بغرض جواب تقسیم فرما دیئے۔۳۳
چودھویں باب کی نسبت حضور نے فیصلہ فرمایا کہ اس کا جواب خود تحریر فرمائیں گے۔۳۴
جماعت احمدیہ کے ان سنسکرت دان علماء نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی ہدایت اور نگرانی میں ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں قریباً سات آٹھ ابواب کا جواب مکمل کرلیا۔ چنانچہ حضور نے ۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے خطبہ جمعہ میں بتایا کہ۔
>میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہوچکا ہے اور بقیہ تیار ہورہا ہے۔ جو نوجوان اس کام کو کررہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کررہے ہیں اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہورہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کرسکتے ہیں۔ اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہوا ہے اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور میں سردست ایڈیٹنگ کرتا ہوں۔ وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کرکے واپس بھیج دیتا ہوں۔ پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوں پر نہیں پڑتا یا یہ کہ بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دلشکنی ہو۔ یا اس بات کو بھی میں مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعہ ناتجربہکاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیربحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں۔ جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے انداز لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے<۔۳۵
سیدنا المصلح الموعود کس باریک نظری اور محققانہ انداز میں ان مسودات پر نظرثانی فرماتے اور ان پر تنقید کرتے تھے اس کی چند مثالیں درج کرنا خالی از فائدہ نہ ہوں گی تا معلوم ہو کہ آپ کن خطوط پر جواب لکھوانا چاہتے تھے۔
ستیارتھ پرکاش کے چوتھے سمولاس )متعلقہ خانہ داری( کا جواب حضور نے مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کے سپرد فرمایا تھا۔ مہاشہ صاحب نے حضور کی خدمت میں جب اپنا لکھا ہوا مسودہ پیش کیا تو حضور نے ان پر علاوہ اور ریمارکس دینے کے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل نوٹ لکھے۔
>ان الفاظ کو نرم کیا جائے اور دلیل کو واضح۔ اس مضمون کو زور دار بنایا جاسکتا ہے<۔
>اس پر بار بار زور دیا جائے کہ پنڈت صاحب کھڑے تو ہندو دھرم کی تائید کے لئے ہوئے ہیں لیکن اپنے خود ساختہ خیالات کو پیش کرکے انہوں نے اپنے مذہب کو رائج کیا ہے<۔
>ہم کو صرف وید پر زور دینا چاہئے۔ آریہ سماج کا دعویٰ ہے وید مکمل ہیں۔ پھر دوسری طرف ان کو جانے دینے کا موقعہ دینا درست ہی نہیں<۔
>لکھیں اگر ایک فی ہزار مثالیں بھی اس کی آریہ سماج دے تو اسے دس ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا۔ جو تعلیم اول خود ساختہ ہے۔ وید میں اس کا نام و نشان نہیں۔ دوم اس پر ایک فی ہزار آریہ سماجی بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اسے عالمگیر قرار دینا اور دنیا کی مشکلات کا حل قرار دینا کیسی دیدہ دلیری کی بات ہے<۔
افسوس!! تقسیم ملک کی وجہ سے سیتارتھ پرکاش کے جواب کی یہ کوشش درمیان میں ہی رہ گئی۔
تیسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں تیز تر کر دینے کی تلقین
دوسری جنگ عظیم ابھی پورے زور شور سے جاری تھی کہ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۲۹۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ایک خاص خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں بتایا کہ جنگ کے
بعد دنیا پھر ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے۔ ہمیں اس غلطی کو واضح کرنے اور اسلام کو پھیلانے میں دیوانہ وار مصروف ہو جانا چاہئے۔ اس اجمال کی تفصیل سیدنا المصلح الموعود ہی کے الفاظ مبارک میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے جماعت احمدیہ کے ہرفرد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>بالکل ممکن ہے اگر فاتح مغربی اقوام جرمنی اور جاپان سے اچھوتوں والا سلوک کریں تو گو جرمنی اور جاپان سے یہ قومیں ذلت نہ اٹھائیں مگر اس ظلم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض اور قومیں کھڑی کردے جن کا مقابلہ ان کے لئے آسان نہ ہو۔ پس دنیا پھر خدانخواستہ ایک غلطی کرنے والی ہے۔ پھر خدانخواستہ ایک ظلم کا بیج بونے والی ہے۔ پھر ایک ایسی حرکت کرنے والی ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا پیدا نہیں ہوسکتا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس غلطی سے حاکم اقوام کو بچائے اور دوسری طرف ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو اس غلطی سے آگاہ کریں اور تبلیغ اسلام کے متعلق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ اس جنگ کے بعد کم سے کم دو ملک ایسے تیار ہو جائیں گے جو ہماری باتوں پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کریں گے یعنی جرمنی اور جاپان۔ یہ دو ملک ایسے ہیں جو ہماری باتیں سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ خصوصاً جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ ہم ان لوگوں کے پاس پہنچیں گے اور انہیں بتائیں گے کہ دیکھو عیسائیت کتنی ناکام رہی کہ عیسائیت کی قریباً دو ہزار سالہ غلامی کے بعد بھی تم غلام کے غلام رہے اور غلام بھی ایسے جن کی مثال سوائے پرانے زمانہ کے اور کہیں نظر نہیں آسکتی۔ اس وقت ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ آئو ہم عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس نے ہمارے دکھوں کا کیا علاج تجویز کیا ہے۔ پس وہ وقت آنے والا ہے جب جرمنی اور جاپان دونوں کے سامنے ہمیں عیسائیت کی ناکامی اور اسلامی اصول کی برتری کو نمایاں طور پر پیش کرنا پڑے گا۔ اسی طرح انگلستان اور امریکہ اور روس کے سمجھ دار طبقہ کو )اور کوئی ملک ایسے سمجھ دار طبقہ سے خالی نہیں ہوتا( اسلام کی تعلیم کی برتری بتاسکیں گے۔ مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہماری طاقت منظم ہو` جب ہماری جماعت کے تمام افراد زیادہ سے زیادہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب کثرت سے مبلغین ہمارے پاس موجود ہوں اور جب ان مبلغین کے لئے ہرقسم کے سامان ہمیں میسر ہوں۔ اس طرح یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب جماعت کے تمام نوجوان پورے طور پر منظم ہوں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو اس تنظیم میں شامل نہ ہو۔ وہ سب کے سب اس ایک مقصد کے لئے کہ ہم نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کو قائم کرنا ہے اس طرح رات اور دن مشغول رہیں جس طرح ایک پاگل اور مجنون شخص تمام جہات سے اپنی توجہ ہٹاکر صرف ایک کام کی طرف مشغول ہو جاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے اپنی بیوی کو` وہ بھول جاتا ہے اپنے بچوں کو` وہ بھول جاتا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اور صرف ایک مقصد اور ایک کام اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اگر ہم یہ جنون کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرلیں اور اگر ہماری جماعت کا ہرفرد دن اور رات اس مقصد کو اپنے سامنے رکھے تو یقیناً خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے کاموں میں برکت ڈالے گا اور اس کی کوششوں کے حیرت انگیز نتائج پیدا کرنا شروع کر دے گا<۔۳۶
حضرت مصلح موعود کی الوداعی نصائح ایک مبلغ کیلئے
ملک احسان اللہ صاحب واقف زندگی )مولوی عبدالخالق صاحب فاضل اور چودھری نذیر احمد صاحب آف رائے ونڈ کی معیت میں( ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو افریقہ میں اعلائے کلمہ اسلام کی غرض سے روانہ ہوئے۔ اس موقعہ پر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ان کو مندرجہ ذیل نصائح لکھ کر دیں۔
>خدا تعالیٰ پر ایمان` اس کی قضاء و قدر پر یقین` دعائوں پر زور اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں سے محبت` ہمیشہ مابعد الموت کا خیال رکھنا ایمان کے ستون ہیں۔
اس کے بعد نماز باقاعدہ پڑھیں` سنوار کر پڑھیں۔ دین کے بارے میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کہیں` سادہ زندگی بسر کریں۔ خدمت خلق کریں اور بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو زندگی کا مقصد بنائیں۔ مرکز سے تعلق رہے۔ ساتھیوں سے تعاون رہے` زبان اور ہاتھ ہمیشہ قابو میں رہیں۔
۴۴/۱۱/۲۰ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد<۳۷
مسلمانان چمبہ کی امداد
مکرم مرزا رحیم بیگ صاحب ریاست چمبہ کے نہایت مخلص احمدی اور سلسلہ احمدیہ اور حضرت مصلح موعود کے ممتاز شیدائیوں اور فدائیوں میں سے تھے۔۳۸ اور ہر لحظ مسلمانوں کی بہبودی کا خیال انہیں رہتا تھا۔ مرزا صاحب موصوف نے مرکز احمدیت میں اطلاع دی کہ ریاست چمبہ میں صدر کونسل انتظامیہ۳۹ کے بدلنے پر مسلمانوں کے لئے پہلے سے زیادہ پرآشوب زمانہ آرہا ہے۔ اس اطلاع پر حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل بی واقف زندگی کو ریاست چمبہ میں بھجوایا۔ چودھری صاحب نے مسلمانان چمبہ کے زراعت پیشہ قرار دیا جانے` ان کی مذہبی آزادی اور ٹیکسوں میں تخفیف کے اہم معاملات کے سلسلہ میں ہرممکن کوشش کی۔۴۰
خلفاء کو اہم وصیت
سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ نے ۸۔ فتح/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو تحریک جدید کے بعض اہم پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے آئندہ آنے والے خلفاء کو وصیت فرمائی کہ۔
>ہمارا نظام بھی محبت اور پیار کا ہے۔ کوئی قانون ہمارے ہاتھ میں نہیں کہ جس کے ذریعہ ہم اپنے احکام منوا سکیں۔ بلکہ میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ احمدیت میں خلافت ہمیشہ بغیر دینوی حکومت کے رہنی چاہئے۔ دینوی نظام حکومت الگ ہونا چاہئے اور خلافت الگ تاوہ شریعت کے احکام کی تعمیل کی نگرانی کرسکے۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں۔ لیکن اگر آئے تو میری رائے یہی ہے کہ خلفاء کو ہمیشہ عملی سیاسیات سے الگ رہنا چاہئے اور کبھی بادشاہت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرنی چاہئے۔ ورنہ سیاسی پارٹیوں سے براہ راست خلافت کا مقابلہ شروع ہو جائے گا اور خلافت ایک سیاسی پارٹی بن کر رہ جائے گی اور خلفاء کی حیثیت باپ والی نہ رہے گی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کے ابتداء میں خلافت اور حکومت جمع ہوئی ہیں مگر وہ مجبوری تھی کیونکہ شریعت کا ابھی نفاذ نہ ہوا تھا اور چونکہ شریعت کا نفاذ ضروری تھا اس لئے خلافت اور حکومت کو اکٹھا کر دیا گیا اور ہمارے عقیدہ کی رو سے یہ جائز ہے کہ دونوں اکٹھی ہوں اور یہ بھی جائز ہے کہ الگ الگ ہوں۔ ابھی تو ہمارے ہاتھ میں حکومت ہے ہی نہیں مگر میری رائے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ ہمیں حکومت دے اس وقت بھی خلفاء کو اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ الگ رہ کر حکومتوں کی نگرانی کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ اسلامی احکام کی پیروی کریں اور اس سے مشورہ لے کر چلیں اور حکومت کا کام سیاسی لوگوں کے سپرد ہی رہنے دیں۔ پس اگر حکم کا سوال ہو تو میرا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ اگر میری چلے تو میں کہوں گا کہ حکومت ہاتھ میں آنے پر بھی خلفاء اسے اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ انہیں اخلاق اور احکام قرآنیہ کے نفاذ کی نگرانی کرنی چاہئے<۔۴۱
سرحد کے احمدی طالب علموں کو مرکز میں لانے کی ضرورت
سیدنا المصلح الموعود بیرونی دنیا میں تبلیغ خصوصاً برصغیر کے اندر اشاعت اسلام و احمدیت کا جال بچھا دینے کے لئے خاص طور پر متفکر رہتے تھے۔ اسی تعلق میں حضور نے ۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں اس رائے کا اظہار فرمایا کہ۔
>اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ صوبہ سرحد سے طالب علم قادیان میں آئیں۔ ہم نے اس کے لئے بڑی کوششیں کی ہیں مگر وہاں سے ایسے طالب علم نہیں آتے جو تعلیم کے بعد خدمت دین کریں۔ جو آتے ہیں وہ اس طرف لگ جاتے ہیں کہ نوکریاں کریں۔ صرف ایک مولوی چراغ دین صاحب ہیں۔ باقی سارے پڑھنے کے بعد ملازمتیں کرنے لگ گئے ہیں۔ صوبہ سرحد میں تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مبلغ وہاں کا ہی باشندہ ہو جو وہاں کے رسم و رواج اور ان لوگوں کی عادات سے واقف ہو پنجابی مبلغ اس علاقہ میں اس طرح کام نہیں کرسکتا جس طرح کہ اس علاقہ کا باشندہ کرسکتا ہے<۔۴۲
حکومت سندھ کی طرف سے >ستیارتھ پرکاش< کے چودھویں باب کی ضبطی اور حضرت سیدنا المصلح الموعود
سندھ گورنمنٹ نے مسلمانان ہند کے ملک گیر مظاہروں سے متاثر ہوکر ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۲ہش کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت حکم جاری کردیا کہ ستیارتھ پرکاش کی
کوئی کاپی اس وقت تک چھاپی یا شائع نہ ہو جب تک چودھویں باب کو حذف نہ کرلیا جائے۔ اس اعلامیہ پر اگلے روز آریہ سماج وچھو والی اور آریہ سماج انارکلی نے اس ضبطی کے خلاف جلسے کئے جن میں آریہ مقرروں نے دھمکی دی کہ یہ حکم ملک میں بدامنی کا باعث بنے گا۔ ایک ایک آریہ سماجی ستیارتھ پرکاش کی رکھشا کے لئے میدان میں نکلے گا۔ اس کے بعد آریوں نے ایک اینٹی قرآن لیگ بھی قائم کرلی اور قرآن مجید کی ضبطی کا مطالبہ کرنے لگے اور ملک میں ہر طرف ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔
سیدنا المصلح الموعود نے ۲۱۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اپنی مجلس علم و عرفان میں >ستیارتھ پرکاش< سے شدید نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے انگریزی حکومت کی مسلسل خاموشی پر سخت تنقید کی اور حکومت سندھ کی کارروائی کو غلط قرار دیتے ہوئے فرمایا۔
>میرے نزدیک ستیارتھ پرکاش اس وقت ہی قابل ضبطی تھی جب وہ شائع کی گئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے ضبط کیوں کیا گیا ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس کے ضبط کرنے میں گورنمنٹ اتنی دیر کیوں خاموش رہی۔ پھر جس قانون یعنی ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کو ضبط کیا گیا ہے یہ ایک عارضی قانون ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ مسلمانوں اور آریوں میں لڑائی جھگڑا اور شورش تو پیدا ہوجائے گی مگر جب جنگ کے خاتمہ پر ڈیفنس کا قانون منسوخ ہوگا ساتھ ہی ستیارتھ پرکاش کے چودھویں باب کی ضبطی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا۔ پس ایسے قانون کے ماتحت اس کتاب کو ضبط کرنا جو عارضی ہے صرف فساد پیدا کرے گا اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا۔
پس اول تو گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ اس کتاب کو اس وقت ضبط کرتی جب یہ شائع کی گئی تھی۔ اتنی دیر کیوں کی گئی۔ پھر اگر اب ضبط کرنا تھا تو عام قانون کے ماتحت ضبط کرتی اور جس طرح میں نے بتایا ہے کہ گورنمنٹ یہ دلیل دیتی کہ ہم اس وجہ سے اس کتاب کو ضبط کرتے ہیں کہ اس میں ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کی گئی ہیں جو ان مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اور ایسی باتیں کہہ کر دوسرے مذاہب کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اشتعال دلایا گیا ہے جو خود کتاب لکھنے والے کے مذہب میں بھی پائی جاتی ہیں۔
اگر سندھ گورنمنٹ اس طرح کرتی کہ عام قانون کے ماتحت اس کتاب کو ضبط کرتی اور اس میں یہ دلیل دیتی جو میں نے بیان کی ہے تو آریوں نے جو اب اینٹی قرآن تحریک شروع کررکھی ہے۔ یہ تحریک جاری کرنے کی انہیں کبھی جرات نہ ہوتی۔ کیونکہ سارے آریہ تو کیا سارے ہندو` سارے جینی` سارے عیسائی اور سارے یہودی مل کر قرآن مجید کی کوئی ایک آیت تو ایسی دکھائیں جس میں قرآن مجید نے کسی مذہب کی طرف کوئی بات منسوب کی ہو اور وہ بات اس مذہب میں نہ پائی جاتی ہو۔ قرآن مجید نے عیسائیوں کے متعلق کوئی ایک بات بھی ایس نہیں کہی جو عیسائیوں میں نہ پائی جاتی ہو۔ قرآن مجید نے کوئی بات بھی یہودیوں کے متعلق ایسی نہیں کہی جو یہودیوں میں نہ پائی جاتی ہو بلکہ نہایت دیانت داری سے وہی باتیں ان کی طرف منسوب کی ہیں جو ان کے مذہب میں پائی جاتی ہیں۔ بے شک آج کل یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری موجودہ کتابوں میں وہ باتیں نہیں پائی جاتیں جو قرآن مجید ہماری طرف منسوب کرتا ہے لیکن ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر یہ باتیں آج کل تمہاری کتب میں نہیں پائی جاتیں تو اس کا قرآن ذمہ دار نہیں کیونکہ تمہاری کتابوں میں تحریف ہوچکی ہے۔ یہ باتیں اس وقت تمہاری کتابوں میں پائی جاتی تھیں جب قرآن مجید نازل ہوا تھا۔ پس قرآن مجید وہی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کے متعلق یا تو ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جس زمانہ میں قرآن مجید نازل ہوا اس وقت یہ باتیں ان مذاہب میں پائی جاتی تھیں اور یا ایسی باتیں دوسرے مذاہب کی طرف منسوب کرتا ہے جن کو وہ لوگ اب بھی مانتے ہیں اور وہ باتیں اسی رنگ میں ان کے اندر پائی جاتی ہیں جس رنگ میں قرآن مجید پیش کرتا ہے۔
اسی طرح مخالف قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی ایسی پیش نہیں کرسکتا جس میں کوئی ایسی بات کہہ کر دوسرے مذہب پر اعتراض کیا گیا ہو جس کو قرآن مجید خود بھی مانتا ہو بلکہ دیانت داری سے قرآن مجید دوسرے مذہب کی انہی باتوں پر اعتراض کرتا ہے جن کو خود نہیں مانتا۔ پس یہ دو اصول مدنظر رکھتے ہوئے اگر عام مقررہ قانون کے ماتحت گورنمنٹ ضبطی کا حکم لگاتی تو آریہ سماج کوئی وجہ شور پیدا کرنے کا نہ پاسکتی اور یہ اینٹی قرآن ایجی ٹیشن کا ڈھکوسلہ چل ہی نہ سکتا۔
نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ وہی حصہ ستیارتھ پرکاش کا ضبط نہ ہونا چاہئے تھا جو اسلام کے خلاف ہے بلکہ وہ حصہ بھی ضبط ہونا چاہئے تھا جو عیسائیت کے خلاف ہے` جو ہندو مذہب کے خلاف ہے` جو جین مذہب کے خلاف ہے` جو سکھ مذہب کے خلاف ہے۔ کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں ان مذاہب کی طرف بھی وہ باتیں منسوب کی گئی ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں یا جو خود آریہ سماج کے مسلمات میں بھی ہیں۔ اگر دل دکھنا ضبطی کی دلیل ہے تو کیا سکھ کا دل نہیں دکھتا؟ کیا عیسائیوں کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی؟ جس طرح مسلمانوں کا دل دکھتا ہے اسی طرح سکھوں کا دل بھی دکھتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں کا دل بھی دکھتا ہے۔ پس گورنمنٹ کو چاہئے تھا کہ اگر ضبط کرنا تھا تو ایسے سب بابوں کو ضبط کرتی جو دوسرے مذاہب کے بارہ میں ہیں اور ان دو باتوں پر اس کی بنیاد رکھتی۔ محض دل دکھنے پر بنیاد نہ رکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ہمیں چار باتوں پر اعتراض ہے۔
۱۔ پہلی یہ کہ اس کتاب کی ضبطی میں دیر کیوں کی گئی؟ یہ کتاب اس وقت ہی قابل ضبط تھی جس وقت شائع ہوئی۔
۲۔ دوسرے ہمیں اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک عارضی قانون کے ماتحت اس کو کیوں ضبط کیا گیا ہے؟ اس سے ضرور فتنہ پیدا ہوگا اور جب یہ قانون منسوخ ہوگا تو ساتھ ہی ضبطی کا حکم بھی منسوخ ہو جائے گا۔
۳۔ تیسرے یہ بات ہمارے نزدیک قابل اعتراض ہے کہ دلیل نہیں دی گئی کہ کیوں ضبط کرتے ہیں؟ محض دل دکھنا کوئی دلیل نہیں۔
۴۔ چوتھے یہ بات بھی قابل اعتراض ہے کہ صرف مسلمانوں کی تائید میں قدم اٹھایا گیا ہے حالانکہ گورنمنٹ کو سب مذاہب کی حاظت کرنی چاہئے تھی۔
پس یہ چار وجوہ ہیں جن کی بناء پر ہم سندھ گورنمنٹ کی ستیارتھ پرکاش کے متعلق موجودہ کارروائی کو غلط سمجھتے ہیں<۔۴۳
تحریک جدید کے دفتر دوم کی بنیاد
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے خدا تعالیٰ کے القاء خاص سے نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید جیسی عالمی تبلیغ اسلام تنظیم قائم فرمائی جس کا پہلا دس سالہ دور اس سال ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ جس پر حضور نے ۲۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اس کے دفتر دوم کی بنیاد رکھی اور دعوت دی کہ۔
>پانچ ہزار دوستوں کی ایک نئی جماعت آگے آئے جو اس تحریک میں حصہ لے<۔
نیز فرمایا۔
>میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے جماعت کے دوستوں میں ہمت پیدا کرے گا اور پھر جو کوتاہی رہ جائے گی اسے وہ اپنے فضل سے پورا کردے گا۔ یہ اسی کا کام ہے اور اسی کی رضاء کے لئے میں نے یہ اعلان کیا ہے۔ زبان گو میری ہے مگر بلاوا اسی کا ہے۔ پس مبارک ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا سمجھ کر ہمت اور دلیری کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ رحم کرے اس پر جس کا دل بزدلی کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہے<۔۴۴
تحریک جدید کے دور اول کی شاندار کامیابی پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور حضرت سیدنا المصلح کے حضور ہدیہ اخلاص پیش کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ قادیان میں ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمائی۔۴۵
‏]sub [tagبیرونی مجاہدین کو بلوانے اور نئے مبلغین بھجوانے کا فیصلہ
تحریک جدید کے دورثانی کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی سیدنا المصلح الموعود نے فیصلہ کیا کہ بیرونی مجاہدین احمدیت کو جلد سے جلد واپس بلانے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ فرمایا۔
>ضروری ہے کہ جو مبلغ بیرونی ممالک میں جائیں ان کے لئے کافی رقم سفر خرچ کے لئے مہیا کی جائے۔ کافی لٹریچر مہیا کیا جائے اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔ ہر تیسرے سال مبلغ کو واپس بھی بلانا چاہئے اور پرانے مبلغوں کو بلانے اور نئے بھیجنے کے لئے کافی روپیہ مہیا کرنا ضروری ہے۔ ابھی ہم نے تین نوجوانوں کو افریقہ بھیجا ہے۔ وہ ریل کے تھرڈ کلاس میں اور لاریوں میں سفر کریں گے۔ مگر پھر بھی ۱۷` ۱۸ سو روپیہ ان کے سفر خرچ کا اندازہ ہے۔ اگر ہم یہ اندازہ کریں کہ ہر سال ۳۳ فیصدی مبلغ واپس بلائے جائیں گے اور ۳۳ فیصدی ان کی جگہ بھیجے جائیں گے اور ہر ایک کے سفر خرچ کا تخمینہ پندرہ سو روپیہ رکھیں تو صرف یہی خرچ ایک لاکھ روپیہ سالانہ کا ہوگا اور یہ صرف سفر خرچ ہے اور اگر مبلغین کو چار چار سال کے بعد بلائیں تو یہ خرچ پھر بھی ۷۵ ہزار روپیہ ہوگا اور کم سے کم اتنے عرصہ کے بعد ان کو بلانا نہایت ضروری ہے۔ تا ان کا اپنا ایمان بھی تازہ ہوتا رہے اور ان کے بیوی بچوں اور خود ان کو بھی آرام ملے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ حکیم فضل الرحمن صاحب کو باہر گئے ایک لمبا عرصہ گزرچکا ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ جب وہ گئے تو ان کی بیوی حاملہ تھیں۔ بعد میں لڑکا پیدا ہوا۔ اور ان کے بچے پوچھتے ہیں کہ اماں ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے۔ اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس انگلستان گئے ہوئے ہیں اور صدر انجمن احمدیہ اس ڈر کے مارے ان کو واپس نہیں بلاتی کہ ان کا قائم مقام کہاں سے لائیں اور کچھ خیال نہیں کرتی کہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں جو ان کے منتظر ہیں۔ ان کا بچہ کبھی کبھی میرے پاس آتا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہتا ہے کہ میرے ابا کو واپس بلا دیں۔ پھر اتنا عرصہ خاوندوں کے باہر رہنے کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں اور آئندہ نسل کا چلنا بند ہو جاتا ہے۔ ایک اور مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں ان کے بچہ نے جو خاصا بڑا ہے نہایت ہی دردناک بات اپنی والدہ سے کہی۔ اس نے کہا۔ اماں! دیکھو ہمارا فلاں رشتہ دار بیمار پڑا تو اس کا ابا اسے پوچھنے کے لئے آیا۔ تم نے ابا سے کیوں شادی کی جو کبھی ہمیں پوچھنے بھی نہیں آیا۔ اس نے بچپن کی وجہ سے یہ تو نہ سمجھا کہ اگر یہ شادی نہ ہوتی تو وہ پیدا کہاں سے ہوتا اور اسی طرح ہنسی کی بات بن گئی۔ مگر حقیقت پر غور کرو یہ بات بہت ہی دردناک ہے۔ اس کے والد عرصہ سے باہر گئے ہوئے ہیں اور ہم ان کو واپس نہیں بلاسکے۔ پس یہ بہت ضروری ہے کہ مبلغین کو تین چار سال کے بعد واپس بلایا جائے<۔۴۶
اس فیصلہ کے بعد بیرونی مجاہدین کی واپسی کے لئے ہرممکن اقدامات کی طرف خاص توجہ دی جانے لگی۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی طرف سے جماعت اسلامی سے متعلق بعض سوالات کے جوابات
شمالی ہند میں >جماعت اسلامی< کے نام سے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت۴۷ تین برس پیشتر معرض وجود میں آئی تھی۔ یہ جماعت سید ابوالاعلیٰ صاحب۴۸ مودودی سابق ایڈیٹر
>الجمعیتہ< دھلی و مدیر رسالہ >ترجمان۴۹ القرآن< لاہور کی قیادت میں ۲۵۔ اگست ۱۹۴۱ء۵۰ کو قائم ہوئی۔
اس جماعت کا پہلا مرکز دفتر رسالہ ترجمان القرآن مبارک پارک پونچھ روڈ لاہور میں تھا۔ ۱۵۔ جون۵۱ ۱۹۴۲ء کو جناب مودودی صاحب اپنے بعض رفقاء سمیت قادیان کے نزدیک ہی ایک قریہ جمال پور )تحصیل پٹھانکوٹ ضلع گورداسپور( میں منتقل ہوگئے اور اسے اپنا >دارالاسلام< بنا کر اپنی مخصوص دعوت کی اشاعت شروع کر دی۔
۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے آخر میں ایک دوست نے >جماعت اسلامی< کے نظریات و عقائد کی نسبت دو سوالات حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں لکھ کر بھیجے جن کا جواب حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا۔ یہ سوالات مع جوابات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
>سوال اول
تحریک جماعت اسلامی سے حضور واقف ہوں گے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کے ساتھی اسلام کے متعلق حسب ذیل نظریہ رکھتے ہیں۔
قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے جو اخلاقی` تمدنی اور سیاسی قوانین کا مجموعہ ہے۔ اسلام اس کی کامل پیروی کا نام عبادت رکھتا ہے۔ جو شخص اس ضابطہ حیات کی بجائے نظام باطل کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرتا ہے وہ صحیح عبد نہیں ہے یا جو اعتقادی طور پر تو ضابطہ شریعت )قرآن( پر ایمان رکھتا ہے مگر عمل دوسرے قوانین پر کررہا ہو وہ بھی حلقہ عبودیت سے دور ہے۔
دلائل
۱۔ وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین
۲۔ واعبدوا اللہ و اجتنبوا الطاغوت
۳۔ ولا یشرک بعبادہ ربہ احدا
کیا یہ احمدیت کی رو سے بھی درست ہے؟
جواب
یہ درست ہے کہ قرآن کریم کے ہر ایک حکم پر عمل کرنا اگر طاقت ہو ضروری ہے مگر کلمہ حکمت سے باطل مراد لینا نادرست ہے۔
سوال دوم
قل ان الامر کلہ للہ سے استنباط کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مالک الملک اور فرمانروا ہے۔ اس کی حکومت میں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ انسان کے لئے ضابطہ حیات بنانے کا حق اسے ہے کیونکہ وہی اس کی ضروریات اور رازوں سے واقف ہے۔ مخلوق کا کام صرف اس کی پیروی میں ہی اس کی فلاح ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص خدا کے قانون کو چھوڑ کر یا جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے )درآنحالیکہ اس کے پاس خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی CHARTER نہیں( یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت )خارج از اطاعت حق( ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی مجرم ہے اور اس کی وفادار رعایا میں سے نہیں ہے۔
دلائل
۱۔
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔
۲۔
الم ترالی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ۔
۳۔
ولا تطع الکافرین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۴۔
ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۵۔
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم
۶۔
الم عاھد الیکم یا بنی ادم الا تعبدوا الشیطن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر احمدیت ہمیں غیر الٰہی قوانین کا احترام سکھاتی ہے۔ احترام ہی نہیں بلکہ پیروی کا حکم دیتی ہے۔ یہ تضاد سمجھ میں نہیں آتا۔ وضاحت فرمائی جائے۔
جواب
اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ غیر مذہبی حکومت کے قوانین پر عمل نہیں کرنا تو ابوالعلیٰ خود بھی عمل کرتے ہیں اور ان کے ساتھی بھی<۔۵۲`۵۳
دوسرا باب )فصل سوم(
مصلح موعود کے دور جدید کا پہلا سالانہ جلسہ
جلسہ کی آمد سے قبل دعائوں کی تحریک خاص
دور مصلح موعود کا پہلا جلسہ سالانہ قریب آرہا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین نے ۲۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۳۲ہش کو اپنے خطبہ جمعہ میں اہل قادیان اور بیرونی جماعتوں کو دعائیں کرنے کی خاص تحریک کی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ۔
>یہ موقعہ بہت دعائوں کا اور بہت گریہ و زاری کا ہے۔ قادیان کے دوست بھی بہت دعائیں کرتے رہیں اور باہر سے آنے والے بھی دعائوں میں لگے رہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کو اس اجتماع کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ باقی ماندہ ایام اور جلسہ کے ایام کو بھی اور اس کے بعد کے چند ایام کو بھی خصوصیت کے ساتھ دعائوں میں گزاریں<۔۵۴
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی معرکتہ الاراء تقاریر
یہ جلسہ حسب معمول ہائی سکول کی کھلی گرائونڈ میں ہوا اور اس میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے چار معرکتہ الاراء تقاریر فرمائیں۔
افتتاح
حضور ۲۶۔ فتح/ دسمبر کو گیارہ بجے جلسہ کا افتتاح کرنے کے لئے سٹیج پر تشریف لائے۔ تمام مجمع نے کھڑے ہوکر اللہ اکبر اور حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعروں سے استقبال کیا۔ حضور نے تمام مجمع کو السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا اور کرسی پر رونق افروز ہوگئے۔ ازاں بعد حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی۔ اے نے تلاوت قرآن کریم کی۔ پھر حضور نے افتتاحی تقریر ارشاد فرمائی۔ جس میں بتایا کہ >ہمیں وہ نظارے بھی یاد ہیں جب دو چار آدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ تھے اور آج ہم یہ نظارہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں` دنیا کی ہر قوم میں` ہر نسل میں اور ہر زبان بولنے والوں میں احمدی موجود ہیں اور ان میں ہمت اور اخلاص اور فداکاری کے جذبات اعلیٰ درجہ کے پائے جاتے ہیں اور وہ قربانی کے انتہائی مقام پر پہنچے ہوئے ہیں۔ آج خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کو روک رہا ہے ورنہ وہ آگے بڑھ کر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ پروانے موجود ہیں` شمع ہی انہیں قربان ہو جانے سے روک رہی ہے اور وہ جل جانے کی خواہش اور تمنا میں جل رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تھوڑی سے بڑھ کر اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے اور اتنا وسیع کام اس کے سامنے ہے کہ جو قومیں اس مقام پر پہنچ جاتی ہیں` وہ یا تو اوپر نکل جاتی اور سب روکاوٹوں کو توڑ ڈالتی ہیں یا پھر تنزل کے گڑھے میں گر جاتی ہیں۔ دراصل یہ مقام سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بہت لوگ جب یہاں سے گر جاتے ہیں تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں چلے گئے۔ مگر بہت اس مقام سے آگے بڑھ کر اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کا عرش نظر آنے لگتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سننے اور اس کے خاص انعامات کے مورد بنتے ہیں۔ خدا ان کا ہو جاتا ہے وہ خدا کے ہو جاتے ہیں۔
پس اس نازک وقت اور نازک مقام کی وجہ سے جماعت کی ذمہ داریاں بہت اہم ہیں اور آج آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ یا تو ہمارا قدم نہایت بلند مقام کی طرف اٹھے گا یا پھر نیچے گر جائے گا<۔۵۵
دوسرے روز خواتین کی جلسہ گاہ میں تقریر
۲۔ دوسرے دن )۲۷۔ فتح/ دسمبر کو( ظہر سے قبل سیدنا المصلح الموعود نے خواتین کی جلسہ گاہ میں )جو حسب سابق مسجد نور سے متصل مشرقی جانب تھی( تقریر فرمائی جس میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ۔
>ایک مہینہ کے اندر اندر یعنی جنوری ۱۹۴۵ء ختم ہونے سے پہلے وہ اپنے دفتر کو منظم کرلیں<۔
اس اہم ارشاد کے بعد حضور نے لجنہ کو احمدی خواتین کی تنظیم کی نسبت بیش قیمت ہدایات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>لجنہ اماء اللہ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ جب ان کی تنظیم ہو جائے تو جماعت کی تمام عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ پھر دوسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ نماز` روزہ اور شریعت کے دوسرے موٹے موٹے احکام کے متعلق آسان اردو و زبان میں مسائل لکھ کر تمام عورتوں کو سکھا دیئے جائیں اور پھر تیسرا قدم یہ ہونا چاہئے کہ ہر ایک عورت کو نماز کا ترجمہ یاد ہو جائے تاکہ ان کی نماز طوطے کی طرح نہ ہو کہ وہ نماز پڑھ رہی ہوں مگر ان کو یہ علم ہی نہ ہو کہ وہ نماز میں کیا کہہ رہی ہیں اور آخری اور اصل قدم یہ ہونا چاہئے کہ تمام عورتوں کو باترجمہ قرآن مجید آجائے اور چند سالوں کے بعد ہماری جماعت میں سے کوئی عورت ایسی نہ نکلے جو قرآن مجید کا ترجمہ نہ جانتی ہو۔ اس وقت شاید ہزار میں سے ایک عورت بھی نہیں ہوگی جس کو قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہو۔ میری حیثیت استاد کی ہے اس لئے کوئی حرج نہیں اگر میں تم سے یہ پوچھ لوں کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہوجائیں اور جن کو ترجمہ نہیں آتا وہ بیٹھی رہیں۔ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم میں سے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں۔ اس لئے جو ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں )حضور کے ارشاد پر بہت سی عورتیں کھڑی ہوگئیں۔ جن کو دیکھ کر حضور نے فرمایا( بہت خوشکن بات ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہیں۔ الحمدلل¶ہ۔ اب بیٹھ جائو۔ میرے لئے یہ خوشی عید کی خوشی سے بھی زیادہ ہے۔ میرا اندازہ تھا کہ جتنی عورتیں کھڑی ہوئی ہیں اس کے دسویں حصہ سے بھی کم عورتیں ہوں گی جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں۔ مگر خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ عورتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ مگر میرے لئے یہ تسلی کا موجب نہیں۔ میرے لئے تسلی کا موجب تو یہ بات ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوگی اور مجھے خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت صرف ترجمہ ہی نہ جانتی ہو بلکہ قرآن مجید کو سمجھتی بھی ہو اور مجھے حقیقی خوشی اس وقت ہوگی جب تم میں سے ہر ایک عورت دوسروں کو قرآن مجید سمجھا سکتی ہو اور پھر اس سے بھی زیادہ خوشی کا دن تو وہ ہوگا جس دن خدا تعالیٰ تمہارے متعلق یہ گواہی دے گا کہ تم نے قرآن مجید کو سمجھ لیا ہے اور اس پر عمل بھی کیا ہے<۔۵۶
اہم واقعات پر تبصرہ اور پروگرام
۳۔ اسی روز ۲۷۔ فتح/ دسمبر کو حضور نے مردانہ جلسہ گاہ میں بھی مفصل تقریر فرمائی جس میں حسب دستور سال کے اہم واقعات پر تبصرہ فرمایا اور آئندہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی۔۵۷ یہ تقریر تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی۔۵۸4] ft[r
ظہور مصلح موعود کے موضوع پر پرشوکت تقریر
۴۔ سالانہ جلسہ کے آخری اجلاس )منعقدہ ۲۸۔ فتح/ دسمبر( میں حضرت امیر المومنین نے ساڑھے تین بجے سے لے کر ساڑھے سات بجے یعنی مسلسل چار گھنٹے تک خطاب فرمایا جس میں نہ صرف پیشگوئی مصلح موعود کا پورا ہونا دلائل اور واقعات سے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا بلکہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے اعتراضات کا نہایت اسان پیرایہ میں رد کیا۔ اس انقلاب آفریں تقریر کے آخری حصہ میں حضور نے جماعت احمدیہ کو نئی ذمہ ¶داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جارہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہوچکی ہے اور اب دشمنان اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کردی ہے اور ان پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب` محمد رسول اللہ~صل۱~ خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں۔ کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کو کاذب کہتے ہیں۔ خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ ۱۸۸۶ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اس کے ہاں نو سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ وہ اسلام اور رسول کریم~صل۱~ کا نام دنیا میں پھیلائے گا۔ وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔ وہ جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی قربت اور اس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہوگا۔ یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا۔ خدا نے یہ خبر دی اور پھر اسی خدا نے اس خبر کو پورا کیا۔ اس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا۔ میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقعہ پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہہ دیا کہ اسے سل ہوگئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اسے بھجوا دیا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جاکر میں اداس ہوگیا اور اس وجہ سے جلدی ہی واپس آگیا۔ غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے۔ پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے۔ وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو۔ خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے۔ خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائوں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں۔
دنیا زور لگالے` وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرلے۔ عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں۔ یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قومیں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعائوں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم~صل۱~ کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ~صل۱~ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کرلیا جائے۔
اے میرے دوستو! میں اپنے لئے کسی عزت کا خواہاں نہیں` نہ جب تک خدا تعالیٰ مجھ پر ظاہر کرے کسی مزید عمر کا امیدوار۔ ہاں خدا تعالیٰ کے فضل کا میں امیدوار ہوں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ رسول کریم~صل۱~ اور اسلام کی عزت کے قیام میں اور دوبارہ اسلام کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور مسیحیت کے کچلنے میں میرے گزشتہ یا آئندہ کاموں کا انشاء اللہ بہت کچھ حصہ ہوگا اور وہ ایڑیاں جو شیطان کا سر کچلیں گی اور مسیحیت کا خاتمہ کریں گی ان میں سے ایک ایڑی میری بھی ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے۔ یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے۔ یہ سچائی نہیں ٹلے گی` نہیں ٹلے گی اور نہیں ٹلے گی۔ اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا۔ مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی۔ اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچاسکے۔ خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سر اٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی اور یا پھر میرے بوئے ہوئے بیج سے وہ درخت پیدا ہوگا جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا دکھائی دے گا۔
میں اس موقعہ پر جہاں آپ لوگوں کو یہ بشارت دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا کردیا جو مصلح موعود کے ساتھ تعلق رکھتی تھی وہاں میں آپ لوگوں کو ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں جو آپ لوگوں پر عائد ہوتی ہیں
‏vat,10.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
سپین میں پرچم اسلام لہرانے سے دور جدید کے پہلے جلسے تک
آپ لوگ جو میرے اس اعلان کے مصدق ہیں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک اسلام اور احمدیت کی فتح اور کامیابی کے لئے بہانے کو تیار ہو جائیں۔ بے شک آپ لوگ خوش ہوسکتے ہیں کہ خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کیا بلکہ میں کہتا ہوں آپ کو یقیناً خوش ہونا چاہئے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود لکھا ہے کہ تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی۔ پس میں تمہیں خوش ہونے سے نہیں روکتا۔ میں تمہیں اچھلنے اور کودنے سے نہیں روکتا۔ بے شک تم خوشیاں منائو اور خوشی سے اچھلو اور کودو لیکن میں کہتا ہوں اس خوشی اور اچھل کود میں تم اپنی ذمہ داریوں کو فراموش مت کرو۔ جس طرح خدا نے مجھے رویاء میں دکھایا تھا کہ میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جارہا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی جارہی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے الہاماً میرے متعلق یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔ پس میرے لئے یہی مقدر ہے کہ میں سرعت اور تیزی کے ساتھ اپنا قدم ترقیات کے میدان میں بڑھاتا چلا جائوں مگر اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں پر بھی یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ اپنے قدم کو تیز کریں اور اپنی سست روی کو ترک کردیں۔ مبارک ہے وہ جو میرے قدم کے ساتھ اپنے قدم کو ملاتا اور سرعت کے ساتھ ترقیات کے میدان میں دوڑتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرے اس شخص پر جو سستی اور غفلت سے کام لے کر اپنے قدم کو تیز نہیں کرتا اور میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے منافقوں کی طرح اپنے قدم کو پیچھے ہٹالیتا ہے۔ اگر تم ترقی کرنا چاہتے ہو` اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر سمجھتے ہو تو قدم بقدم اور شانہ بشانہ میرے ساتھ بڑھتے چلے آئو تاکہ ہم کفر کے قلب میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا گاڑ دیں اور باطل کو ہمیشہ کے لئے صفحہ عالم سے نیست و نابود کردیں اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ زمین اور آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں<۔۵۹
دوسرے مقررین
اس جلسہ میں حضرت سیدنا المصلح الموعود کی ان پرجذب و تاثیر تقاریر کے علاوہ مندرجہ ذیل عنوانات پر بھی تقاریر ہوئیں۔
۱۔ وحی الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر زندہ یقین

)حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے(

۲۔ ذکر حبیب

)حضرت مفتی محمد صادق صاحب(

۳۔ ختم نبوت کی حقیقت کے متعلق بزرگان سلف کا نقطہ نظر

)مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ سلسلہ(

۴۔ غیر احمدیوں پر عقائد احمدیہ کا اثر و نفوذ

)مولوی محمد یار صاحب عارف سابق مبلغ انگلستان(

۵۔ آنحضرت~صل۱~ کی بے مثیل شان احمدیت کے نقطہ نظر سے

)حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب(

۶۔ حضرت کرشن کی آمد ثانی

)مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل مبلغ سلسلہ(

۷۔ خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت

)قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور(

۸۔ اعتراضات کے جوابات

)ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے` ایل ایل۔ بی وکیل گجراتی(

۹۔ اسلامی سیاست کے اصول

)آنریبل چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب(

۱۰۔ تمدن اسلام کا اثر اقوام یورپ پر

)حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب(

۱۱۔ غیر مبائعین کی تبدیلی عقیدہ اور تبدیلی عمل

)قاضی محمد نذیر صاحب لیکچرار تعلیم الاسلام کالج(

۱۲۔ فلسفہ احکام نماز

)حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی(

۱۳۔ احمدی نوجوانوں سے خطاب

)حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب(

۱۴۔ بہائی تحریک کی حقیقت

)مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل(۶۰

صدارت کرنے والے اصحاب
اس جلسہ کے مختلف اجلاسوں میں مندرجہ ذیل اصحاب نے بالترتیب صدارت کے فرائض انجام دیئے۔
۱۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب سکندر آباد )۲( نواب اکبر یار جنگ بہادر حیدر آباد دکن۔ )۳( خان بہادر نواب محمد دین صاحب )۴( خاں بہادر چوہدری نعمت خان صاحب ریٹائرڈ سشن جج۔۶۱
جلسہ کے دوسرے ضروری کوائف
جنگ کے ایام تھے اس لئے گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی سپیشل ٹرینوں کا کوئی انتظام نہ ہوسکا۔ نیز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے عورتوں کو جلسہ میں آنے کی بالعموم ممانعت فرما دی تھی۶۲ مگر اس کے باوجود اس مبارک تقریب پر دور دراز مقامات سے تئیس ہزار کے قریب افراد شامل جلسہ ہوئے۔ افسر جلسہ سالانہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ناظر ضیافت تھے جن کی نیابت کے لئے اندرون قصبہ میں ماسٹر غلام حیدر صاحب بی۔ اے` بی۔ ٹی` دارالعلوم میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور دارالفضل و دارالبرکات میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب بطور ناظم مقرر تھے۔
علاوہ ازیں ایک نظامت سپلائی و سٹور بھی قائم تھی جس کے انچارج حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل تھے۔ منتظم مکانات کے دفاتر مدرسہ احمدیہ اور بورڈنگ تحریک جدید میں تھے۔ پہرہ کے انچارج شیخ نیاز محمد صاحب تھے اور قصر خلافت اور مسجد مبارک میں ملاقات کے وقت ان کے علاوہ میاں غلام محمد صاحب اختر بھی ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ اس سال بھی لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں سٹیج کے شمال مشرقی جانب ایک بلند پول پر جلسہ کے ایام میں لہراتا رہا۔ جلسہ گاہ کے قریب خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے کیمپ بھی موجود تھے۔ طبی انتظام کے لئے نور ہسپتال دن رات کھلا رہتا تھا اور ایک ڈاکٹر اور کمپائونڈر ہر وقت موجود رہتے تھے۔ انچارج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب تھے جن کے ساتھ ڈاکٹر مہر دین صاحب` ڈاکٹر ظفر حسن صاحب` ڈاکٹر رحیم بخش صاحب` صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب` ڈاکٹر عبداللطیف صاحب` ڈاکٹر محمد احمد صاحب )ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب( اور لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ نے کام کیا۔ علاوہ ازیں دو ڈسپنسریاں بورڈنگ تحریک جدید کے مشرقی گیٹ اور بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں کھولی گئیں۔ پہلی کے انچارج ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اور دوسری کے ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب شاد تھے۔
جلسہ میں احمدیوں کے علاوہ غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب نے بھی شرکت کی۔ جن غیر مسلموں کے کھانے کا انتظام جلسہ کے انتظامات کا حصہ تھا ان کی تعداد ۶۳ تھی۔۶۳
جلسہ کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ اور حضرت امیر المومنین کی طرف سے آنحضرتﷺ~ کی ایک دعا پڑھنے کا ارشاد
اس جلسہ میں ایک ناخوشگوار واقعہ بھی ہوا اور وہ یہ کہ بعض مخالفین احمدیت نے عین جلسہ کے ایام میں )۲۵۔ فتح/ دسمبر( کو بعض گزرگاہوں پر لائوڈ سپیکر لگا کر حضرت سیدنا المصلح الموعود
اور جماعت احمدیہ کے متعلق نہایت بدزبانی اور درشت کلامی کا مظاہرہ کیا اور غلیظ گالیاں دینے سے بھی دریغ نہ کیا مگر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اپنی دوسری تقریر میں دوستوں کو نہایت پیار اور محبت کے لب و لہجہ میں فرمایا۔
>ہمارے دوستوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی بنائی ہوئی جماعتیں ہوتی ہی گالیاں کھانے کے لئے ہیں۔ اگر ہمیں گالیاں نہ ملیں تو دوسروں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کہیں کہ اگر تم صداقت پر ہو تو تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں ہوتا جو ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی جماعتوں کی طرفسے مخالفین کی طرف سے ہوتا رہا ہے۔ اس قسم کی مخالفتیں ضروری ہیں اور ان سے گھبرانا مومن کی شان کے خلاف بات ہے۔ ان پر بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔ دوستوں کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کوئی نشان دکھائے<۔۶۴
صبر و تحمل کی اس حکیمانہ تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلسہ کے مبارک ایام بخیر و خوبی گزر گئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔ اس تعلق میں سیدنا المصلح الموعود نے جلسہ کے خاتمہ کے معاًبعد ۲۹۔ فتح/ دسمبر کو تحریک فرمائی کہ >یکم جنوری ۱۹۴۵ء سے چالیس دن تک ہماری جماعت کے دوست متواتر اور باقاعدہ اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم کی دعا عشاء کی آخری رکعت میں پڑھا کریں۔ اس دعا کے معنے یہ ہیں۔ کہ اے خدا! ہم پر دشمن حملہ آور ہوا ہے۔ ہمارے پاس تو مقابلہ کی طاقت نہیں۔ اس لئے ہم دشمن کے مقابلہ میں تجھے پیش کرتے ہیں۔ تو ہی ان کے حملہ کا جواب دے ونعوذ بک من شرورھم ہمیں تباہ کرنے کے لئے دشمن جو شرارت کرتا ہے اس کے بداثرات سے ہمیں بچا۔ یہ رسول کریم~صل۱~ کی دعا ہے<۔۶۵
دوسرا باب )فصل چہارم(
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال جن صحابہ کا انتقال ہوا` ان میں سے حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے حالات فصل دوم میں گزر چکے ہیں۔ باقی صحابہ کے مختصر حالات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم )ولادت: ۲۸۔ اکتوبر ۱۸۹۷ء` وفات: ۲۰۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بوقت شب(۶۶
سلسلہ احمدیہ کے شعلہ بیاں مقرر` بلند پایہ مولف اور قابل اور پرجوش اخبار نویس تھے جنہیں بلند خیالی` اولوالعزمی اپنے والد ماجد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر سے ملی تھی۔ مرحوم کو ذیابیطس کا دیرینہ عارضہ تھا۔ جس نے گو جسمانی طور پر نڈھال کررکھا تھا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں دل و دماغ اتنا مضبوط عطا فرمایا تھا کہ آخری دم تک تندرستوں کی طرح سلسلہ کے کاموں میں مصروف رہے۔
سالہا سال تک مصر میں تبلیغی جہاد کیا اور >اسلامی دنیا< کی ادارت سے ممالک اسلامیہ کی خدمت کرتے رہے بعد ازاں قادیان آکر سخت مالی مشکلات کے باوجود نہ صرف تحریک احمدیت کے سب سے پہلے اخبار >الحکم< کو زندہ رکھا بلکہ تقریری` تحریری اور انتظامی تینوں اعتبار سے سلسلہ احمدیہ کی قابل رشک خدمات انجام دیں۔ آپ کی مشہور تالیفات یہ ہیں۔
تاریخ مالا بار۔ فتح مصر۔ فاروق شاہ مصر۔ مرکز احمدیت قادیان۔ سیرت >حضرت ام المومنینؓ )حصہ اول(
۲۔ حضرت شیخ محمد بخش صاحبؓ رئیس کڑیانوالہ ضلع گجرات
)ولادت: ۱۸۵۶ء` بیعت: ۱۸۹۰ء` وفات: ۱۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
آپ نے ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں اپنی مشکلات کا اظہار کیا اس پر حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے` >اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے< والی مشہور نظم لکھ کر دی جس کی برکت سے آپ کی سب مشکلات دور ہوگئیں۔ ۱۸۹۷ء میں افریقہ میں نو آبادیات قائم ہوئیں تو آپ نے وہاں ٹھیکہ داری کا کام شروع کیا جس سے آپ کو بہت فائدہ ہوتا رہا اور آپ بھی سلسلہ کی امداد دل کھول کر کرتے رہے۔ ایک دفعہ ایک ٹھیکہ میں جب خسارہ نظر آیا تو ایک آنہ فی روپیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نام کا رکھ دیا اور اس کی اطلاع حضرت اقدس کی خدمت میں بھی بھیج دی جس کے جواب میں حضور نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا اگر میری بجائے اشاعت اسلام کے لئے حصہ رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ خدا کے فضل اور مسیح پاک کی دعائوں کی برکت سے خسارہ نے نفع کی صورت اختیار کرلی اور حصہ کی رقم معہ دیگر رقوم حضرت اقدس کی خدمت میں ارسال کر دی گئی۔
حضرت شیخ صاحبؓ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اکثر جب ذی وجاہت لوگوں کو ملتے تو باتوں باتوں میں احمدیت کا پیغام ضرور پہنچا دیتے۔۶۷
۳۔ حضرت شیخ قطب الدین احمد صاحبؓ قریشی
)ولادت: ۱۸۷۳ )اندازاً( بیعت ۱۸۹۲ء۔ وفات: ۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بعمر ۷۱ سال(
نہایت فرشتہ سیرت بزرگ تھے۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود سے خصوصاً اور خاندان حضرت مسیح موعودؑ سے بہت محبت تھی۔ ۱۹۱۴ء میں جب مسئلہ خلافت پر اختلاف ہوا تو مولوی صدر الدین صاحب اپنے دو تین رفقاء سمیت پٹیالہ ¶گئے۔ آپ ان دنوں پٹیالہ شہر کے کوتوال تھے۔ ابھی مولوی صاحب کچھ کہنے بھی نہ پائے تھے کہ حضرت قریشی صاحبؓ نے فرمایا۔ اگر آپ نے خلافت کی مخالفت میں کچھ کہنا ہے تو اس کی اجازت میں آپ کو نہیں دے سکتا۔ اس پر مولوی صاحب موصوف برہم ہوکر چل دیئے۔
۱۹۲۰ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے آپ کو پہلے سپرنٹنڈنٹ آبادکاری جرائم پیشہ چاوا پائل لگایا۔ پھر آباد کاری جرائم پیشہ خانیوال چک A۔R/91۔10 )محمود آباد( کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ جہاں آپ نے چک بسایا۔ مدرسہ بنوایا۔ مسجد تعمیر کرائی اور لوگوں کو احمدیت سے روشناس کرایا۔ چنانچہ چند سال ہی میں کئی لوگ احمدی ہوگئے۔
ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں سخت بیمار ہوگئے۔ اپنے بیٹے قریشی ضیاء الدین احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی ایڈووکیٹ کو تار دے کر دہلی سے کالکا بلوا لیا۔ بیماری سے ذرا فاقہ ہوا تو فرمانے لگے >میں تو خواہ راستہ میں ہی مر جائوں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدموں میں جاکر لیٹوں گا۔ مجھے جس طرح بھی ہو قادیان لے چلو۔ اس پر قریشی ضیاء الدین احمد صاحب انہیں بذریعہ گاڑی قادیان لائے جہاں چند روز بعد یک دم حالت نازک ہوگئی اور ۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں دفن کئے گئے۔۶۸
۴۔ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحبؓ المعروف مولوی عبدالرحیم کٹکی متوطن چک اندورہ کشمیر
)وفات ۱۱۔ احسان/جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
حضرت مولوی صاحب نے عالم شباب میں احمدیت قبول کی۔ آپ ان دنوں قریباً ۹۸۔ ۱۸۹۷ء سے جامع مسجد گلگت میں امام مسجد تھے اور بہت سا وقت خاں بہادر غلام محمد صاحب کے یہاں گزارتے تھے۔ یہیں سلسلہ کا لٹریچر پڑھا اور قریباً دو سال کے بعد خان بہادر صاحب سے مخفی طور پر بیعت کا خط لکھوا دیا۔ بیعت کے دو سال بعد آپ گلگت چھوڑ کر راجہ عطا محمد صاحب یاڑی پورہ کشمیر کے پاس چلے گئے اور غالباً انہیں کی کوشش سے آپ کو چک اندورہ میں زمین بھی مل گئی اور آپ وہیں آباد ہوگئے۔۶۹
آپ مشہور واعظ تھے اور آپ کی سحریبانی مسلم تھی۔ آپ نے ایک بار راجوری میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا۔ ہزاروں مسلمان آپ کے مواعظ حسنہ سے متاثر ہوئے اور رسوم بد کو ترک کرکے اپنی تنظیم کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ جسے دیکھ کر راجوری کے ہندوئوں نے فرقہ وارانہ فساد کروا دیا۔ آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے گئے اور آپ کو اشتہاری مجرم قرار دیا گیا۔ اس پر آپ ریاست سے نکل کھڑے ہوئے۷۰ اور ہجرت کرکے پہلے حیدر آباد پھر ۱۹۱۷ء میں اڑیسہ تشریف لے گئے اور کیرنگ کو اپنا مرکز بناکر پورے جوش و خروش سے تبلیغی و تربیتی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ ۲۰۔۱۹۱۹ء میں آپ کلکتہ تشریف لے گئے۔ کلکتہ میں کوئی مقامی احمدی دوست اس وقت موجود نہیں تھا۔ آپ کی دو تین ماہ کی مسلسل تبلیغ` سحر البیانی اور راتوں کی دعائوں نے یہ اثر دکھایا کہ ابوطاہر محمود احمد صاحب اور مولوی لطف الرحمن صاحب جیسے رئوسائے کلکتہ داخل احمدیت ہوگئے اور کلکتہ کی جماعت ترقی کے راستہ پر گامزن ہونے لگی۔ کلکتہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعد حضرت مولوی صاحب دوبارہ کیرنگ آئے اور ریاست تگریا میں تبلیغ کے لئے چلے گئے۔ تگریا میں احمدیوں کی برادری اور رشتہ داری تھی۔ مگر احمدی کوئی نہیں تھا۔ آپ کی قوت جاذبہ نے وہ اثر دکھایا کہ کٹرراپلی اور تگریا کی تمام آبادی احمدیت میں داخل ہوگئی اور اس دن سے وہاں ایک بڑی جماعت قائم ہے۔
کیرنگ کی جماعت میں تنظیم نہ تھی۔ اکثر لوگ احمدی کہلاتے تھے مگر نہ انہوں نے بیعت کی تھی نہ چندہ دیا کرتے تھے۔ فقط جمعہ اور عیدین میں شامل ہو جانے سے اپنے آپ کو احمدی خیال کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب مرحوم نے سب کا جائزہ لے کر باقاعدہ سلسلہ بیعت میں داخل کرایا۔۷۱
حضرت مولوی صاحب اڑیسہ ہی میں تھے کہ ریاست نے آپ کی جائداد کی ضبطی کا حکم دے دیا۔ آپ کے بعض رشتہ داروں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں اطلاع دی۔ حضور نے آپ کو ریاست کی عدالت میں حاضر ہونے کا ارشاد فرمایا جس کی آپ نے تعمیل کی اور حضرت امیر المومنین کی دعائوں سے حضرت مولوی صاحب کو تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں حضرت صاحب کی دعا کا ایک زندہ معجزہ ہوں کہ حضور کی دعا نے میرے جیسے شخص کو جسے حکومت کشمیر نے اشتہاری مجرم قرار دیا تھا نہ صرف سزا سے بچالیا بلکہ جملہ الزامات سے خود ہی بالکل بری قرار دے دیا۔۷۲
حضرت مولوی صاحب احمدیت کے لئے بے حد غیور` شب بیدار` مونس و غمخوار` عالم باعمل اور نکتہ رس بزرگ تھے۔ سخت سے سخت مخالف آپ کے سامنے مبہوت ہوکے رہ جاتا تھا۔ صورت وجہیہ اور قامت بلند و بالا تھی۔
آخری بیماری میں ان کے فرزند پروفیسر نظیر الاسلام صاحب نے پوری تندہی سے علاج کیا۔ مگر ۱۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کی شام کو آپ یکایک درد گردہ میں مبتلا ہوگئے اور اگلے روز اپنے محبوب حقیقی کو جاملے۔۷۳
۵۔ حضرت سید دلاور شاہ صاحب بخاریؓ سابق ایڈیٹر اخبار >مسلم آئوٹ لک< و سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ لاہور
)ولادت: ۱۸۹۳ء۷۴ بیعت: ۲۶۔ مئی ۱۹۰۴ء۷۵ وفات: ۱۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(۷۶
حضرت شاہ صاحبؓ اپنے خلوص` قربانی اور جذبہ خدمت میں ضرب المثل تھے۔ مرحوم نے فارغ البالی کا زمانہ دیکھا تھا۔ مگر محض قومی خدمت کی خاطر ایک اچھی ملازمت ترک کردی۔ راجپال کے مشہور مقدمہ میں آپ نے شمالی ہند کے مشہور اخبار >مسلم آئوٹ لک (MUSLIMOUTLOOK) کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ۱۴۔ جون ۱۹۲۷ء کے پرچہ میں >مستعفی ہو جائو< کے عنوان سے ایک پرزور اداریہ لکھا جس میں دلیپ سنگھ جج ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف بڑی جرات کے ساتھ رائے زنی کی اس بناء پر آپ کو چھ ماہ قید کی سزا ہوئی جو آپ نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اپنے لئے سعادت سمجھتے ہوئے برداشت کی۔۷۷
صحت خراب ہونے کے زمانہ میں بھی کئی سال تک کام کرتے رہے۔ نہایت قانع اور راضی برضاء رہنے والے بزرگ تھے۔ مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ مذہبی مسائل پر مضامین بھی لکھتے تھے اور لیکچرار بھی نہایت قابل تھے۔ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے جلسوں میں احمدیت پر اعتراضات کے جواب کے لئے سینہ سپر رہتے تھے۔
۶۔ حضرت شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساویؓ
)ولادت: ۱۸۷۴ء )اندازاً( بیعت: ۱۸۹۴ء` وفات: ۲۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بعمر ۷۰ سال(۷۸
مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ابتدائی اور قدیم اساتذہ میں سے تھے۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے رسالہ >تعلیم الاسلام< دسمبر ۱۹۰۶ء میں ان کی نسبت لکھا >اس وقت جتنے استاد مدرسہ میں کام کررہے ہیں ان میں سب سے پرانے شیخ محمد اسمٰعیل صاحب انفنٹ ٹیچر ہیں جو کہ ابتدائی طلباء کو قرآن شریف جلد اور عمدہ پڑھانے میں ایک خاص لیاقت رکھتے ہیں اور تھوڑے عرصہ میں یعنی پہلی جماعت میں سارا قرآن شریف ایک دفعہ پڑھا دیتے ہیں<۔
۷۔ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ
)ولادت: ۱۸۵۴ء` بیعت: جنوری ۱۸۹۷ء` وفات: ۲۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بعمر ۹۰ سال(۷۹
شہید احمدیت مولانا عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس کے والد ماجد تھے۔ بیعت اولیٰ ۱۸۸۹ء سے قبل قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔ جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں شرکت کے معاًبعد اپنے بھائی حافظ غلام محمد صاحب اور استاد مولوی نجم الدین صاحب کے ساتھ قادیان پہنچے اور تینوں نے بیک وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ بیعت کرتے وقت ان تینوں پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ بے ساختہ رونا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دل پر بیٹھ گئی۔۸۰
حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن دنوں کرم دین کے مقدمہ کے لئے گورداسپور میں شریف فرما تھے۔ تو حضور علیہ السلام کے ارشاد پر ایک بار خطبہ جمعہ پڑھا۔ حضرت حافظ صاحبؓ اپنی روایات میں اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>چودھری حاکم علی صاحب پنیاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور آج جمعہ ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب آئے نہیں تو جمعہ کون پڑھائے گا۔ حضور نے فرمایا۔ یہ حافظ صاحب جو ہیں یہ پڑھائیں گے۔ یہ لفظ سن کر میرا بدن کانپ اٹھا اور میں نے دل ہی دل میں کہا کہ میں تو اس لائق نہیں کہ کچھ بیان کرسکوں۔ خیر آخر جمعہ کا وقت آگیا اور خطبے کی اذان ہوگئی تو میں مارے رعب کے سب آدمیوں کے شمال میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب خطبے کی اذان ہوئی تو فرمایا۔ حافظ صاحب کہاں ہیں؟ آخر مجھے مجبوراً لایا گیا۔ میں نے جھک کر عرض کی کہ حضور میں گنہگار اس لائق نہیں کہ حضور کے سامنے کچھ بیان کرسکوں یا امامت کراسکوں۔ حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر مصلیٰ پر کردیا اور فرمایا۔ آپ خطبہ پڑھیں میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں یا فرمایا کروں گا چنانچہ میں کھڑا ہوگیا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس وقت سورہ فرقان کا پہلا رکوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر تک پڑھا۔]4 [stf۸۱
حضرت حافظ صاحب قادیان ہجرت کرکے آگئے تھے اور عرصہ تک مسجد اقصیٰ میں امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آخری عمر میں صاحب فراش ہوگئے۔ سلسلہ احمدیہ کے مشہور پنجابی واعظ خوش بیان تھے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر زنانہ جلسہ گاہ میں اکثر آپ کی تقاریر ہوا کرتی تھیں۔ انداز بیان نہایت موثر ہوتا۔ >یاقوت خالص`< >سفر نامہ ماریشس`< حمد باری` سیرت رسول ہدایت مقبول وغیرہ چھوٹے چھوٹے پنجابی رسائل آپ نے لکھے۔
۸۔ حضرت سید محمد صادق شاہ صاحبؓ لدرون ریاست کشمیر برادر اکبر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ
)بیعت: ۱۹۰۱ء۸۲ وفات: ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا۔
>میرے قادیان آنے کے تھوڑی مدت بعد مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشمیر بھیجا۸۳ تو میں ان بھائی صاحب مرحوم سے ملنے گیا۔ چونکہ ہمارا خاندان پیروں کا خاندان ہے اسلئے میں نے اپنے خاندان میں بالواسطہ تبلیغ کی اور جلدی ہی اللہ تعالیٰ نے اس سفر میں انکو شرح صدر عطا کیا اور اسی وقت انہوں نے بیعت کرلی۔ مجھے مرحوم سے اور مرحوم بھائی صاحب کو مجھ سے خاص محبت تھی<۔۸۴
۹۔ حضرت چودھری محمد عبداللہ صاحبؓ داتہ زید کاتحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ
)ولادت ۱۸۷۴ء )قریباً( بیعت: جون ۱۹۰۲ء` وفات: ۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بعمر ستر سال(
حضرت چودھری نصراللہ خاں صاحبؓ کے برادر نسبتی اور داتہ زید کا کے امیر جماعت تھے۔ چودھری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء حال امیر جماعت احمدیہ لاہور ان کے حالات قبول احمدیت اور اخلاق و شمائل پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>سلسلہ عالیہ حقہ سے آپ کا تعارف پسرور سکول کے ہیڈماسٹر صاحب سے )جو احمدی تھے( ہوا۔ ان سے ہی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کوئی تصنیف لے کر مطالعہ کی اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضور واقعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور حق پر ہیں۔ داتہ زید کا سے ایک میل کے فاصلہ پر جانب مغرب ایک قصبہ قلعہ صوبا سنگھ ہے جہاں اس وقت مولوی فضل کریم صاحب مرحوم اہلحدیث خطیب اور امام الصلٰوۃ تھے اور حکمت اور علم دین کی وجہ سے تمام اردگرد کے علاقہ میں معزز تھے ہمارے ننھیال بھی چونکہ اہل حدیث تھے اس لئے ماموں جان اور مولوی صاحب موصوف کے تعلقات دوستانہ تھے۔ اسی زمانہ میں مولوی صاحب موصوف بھی ان ہی ہیڈماسٹر صاحب کے ذریعہ احمدیت سے متعارف اور صداقت کے قائل ہوچکے تھے گو انہوں نے ابھی کسی سے ذکر نہیں فرمایا تھا۔ ماموں جان نے مولوی صاحب سے ذکر کیا کہ مسیح اور مہدی کے ظہور کی علامات تو سامنے آچکی ہیں اور یہ ہو نہیں سکتا کہ مدعی کے دعوے کے بغیر ہی گواہ شہادت دینی شروع کر دیں۔ خاص کر ایسے گواہ جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے تصرف میں ہوں۔ اس لئے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مدعی بھی مبعوث کیا گیا ہو۔ مولوی صاحب نے جب ایک معزز اور علاقہ کے باررسوخ زمیندار سے اپنے میلانات کی تائید ہوتی دیکھی تو آپ نے بھی اتفاق کیا اور پھر اس امر پر دونوں متفق ہوئے کہ وہ مسیح اور مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلٰوۃ والسلام ہیں۔ چنانچہ دونوں اصحاب نے فیصلہ کیا کہ قلعہ صوبا سنگھ میں مولوی صاحب اور داتہ زید کا میں ماموں جان آئندہ جمعہ کے دن علامات ظہور مہدی پر خطبہ پڑھیں اور اپنے احمدی ہونے کا بھی اعلان کردیں۔ ادھر مولوی صاحب موصوف نے قلعہ صوبا سنگھ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ کی تصدیق کی اور ادھر اپنے گائوں میں ماموں جان نے` مولوی صاحب سے تو مقتدیوں نے یہ سلوک کیا کہ سوائے دو یا تین کے باقی سب مسجد چھوڑ کر دوسری مسجد میں چلے گئے لیکن ماموں جان مرحوم کی برادری کے اکثر افراد نے بعد دریافت مزید حالات اپنی بیعت کے متعلق بھی حضور کی خدمت میں لکھنے کو کہہ دیا اور وہ سب اسی وقت سے احمدی ہیں۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
اس جمعہ سے پہلی رات خواب میں آپ نے دیکھا کہ پانچ سوار سبز رنگ کے عمامے پہنے آپ کی بیٹھک میں داخل ہوئے ہیں اور آپ کے دریافت کرنے پر کہ یہ کون بزرگ ہیں ان میں سے ایک صاحب نے فرمایا کہ حضرت مرزا صاحب قادیان والے ہیں۔ اسی رات ایک اور شخص ساکن داتہ زیدکا جس کو >جلال مہاراں والا< کے نام سے پکارا جاتا تھا نے بھی خواب میں پانچ سز عمامہ پوش سوار اپنے گھر کے پاس سے گزرتے دیکھے جن میں سے ایک نے ماموں جان مرحوم کی بیٹھک کا راستہ دریافت کیا۔ جلال مذکور نے صبح ماموں جان کو اپنا خواب سنایا اور ماموں جان نے اس سے ان بزرگوں کا حلیہ دریافت کرنے پر اپنے ہی دیکھے ہوئے اصحاب کا حلیہ سنا۔ چونکہ آپ نے اپنی رئویا کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا تھا اس لئے آپ کو صداقت احمدیت کا اور بھی پختہ یقین ہوا اور آپ نے اسی دن خطبہ میں اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔
تھوڑے ہی دنوں بعد مولوی فضل کریم صاحب مرحوم موصوف` ماموں جان اور چوہدری پیر محمد صاحب مرحوم ساکن قلعہ صوبا سنگھ قادیان حاضر ہوئے۔ وہاں ماموں جان نے اپنے خواب والے بزرگوں کو پہچان لیا )جن میں سے حضرت مسیح موعودؑ` حضرت حکیم الامت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ کے نام مجھے یاد ہیں۔ باقی دو کے نام یاد نہیں رہے( اور حضور کے دست اقدس پر بیعت سے مشرف ہوئے۔
اس دن سے لے کر اپنی وفات تک آپ نے اپنا قدم ہمیشہ آگے ہی بڑھایا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں بلند مقام عطا فرمائے اور جس طرح آپ نے زندگی بھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی کو اپنے لئے سب سے بڑا فخر سمجھا اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ کو قیامت میں بھی حضور کی غلامی اور محبت میں اٹھائے۔
سلسلہ کے لٹریچر کے مطالعہ کا آپ کو بہت شوق تھا اور تمام اہم تصانیف آپ نے پڑھی ہوئی تھیں اور اخبارات اور رسائل کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے تھے۔ دینی مسائل کا علم آپ کا نہایت راسخ تھا اور میں نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتب سے متعدد مسائل کے متعلق حوالہ جات کا استفادہ آپ سے کیا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
سلسلہ عالیہ حقہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاول` حضرت مصلح موعود خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی اور خاندان نبوت کے ساتھ آپ کو ایک والہانہ محبت اور عقیدت تھی اور جب آپ ان میں سے کسی کا ذکر خیر فرمایا کرتے تھے تو ہر سننے والا بخوبی اندازہ کرسکتا تھا کہ آپ کے دل میں ان کے لئے کس قدر بے پناہ عشق اور محبت کا جذبہ موجزن تھا۔ نظام سلسلہ کا احترام آپ کی فطرت ثانیہ تھا اور دوسروں میں بھی اسی جذبہ کو پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے تھے۔
حضرت خلیفہ اولؓ کے وصال کے موقعہ پر جب جماعت میں اختلاف ہوا تو آپ قادیان موجود تھے اور ان اولین مبائعین میں تھے جن کے متعلق غیر مبائعین نے کہا تھا کہ چند نوجوانوں نے مولوی محمد علی صاحب کی امامت میں نماز ادا نہ کی۔ ماموں جان اس امر کو ہمیشہ فخر سے بیان فرمایا کرتے تھے۔ مسائل کے لحاظ سے تو آپ کا ایمان کبھی بھی جادہ صداقت سے نہیں ہٹا۔ چنانچہ اختلاف کے وقت آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے حضور دلیری سے اس کام کو جاری رکھیں وہ حضور کے ساتھ ہیں )حضرت اقدس نے اس واقعہ کا ذکر اپنے ایک خطبہ میں بھی فرمایا( ماموں جان خود بھی اس معاملہ میں خوب تبلیغ فرمایا کرتے تھے اور ایک بہت بڑی حد تک آپ کی ان مجاہدانہ کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں غیر مبائعین کا قدم کبھی نہیں جم سکا اور سوائے اس پہلی کوشش کے جو ایک مبلغ بھیج کر کی گئی اور جس میں ان کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا` غیر مبائعین نے کبھی اور کوشش اس علاقہ میں کی ہی نہیں<۔۸۵
۱۰۔ حضرت منشی محمد حسین صاحبؓ کاتب قادیان
)وفات ۲۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش(
حضرت منشی صاحب ان خوش نصیب صحابہ میں سے تھے جن کو اخبار الحکم` بدر اور الفضل کی بہت عرصہ تک کتابت کرنے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تازہ وحی لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔۸۶
دوسرا باب )فصل پنجم(
۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
نوابزادہ میاں عباس احمد خان صاحب کا نکاح
۲۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت سیدنا المصلح الموعود نے خطبہ جمعہ سے قبل صاحبزادہ میاں عباس احمد خاں صاحب )ابن حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب( کا نکاح صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ )بنت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ( کے ساتھ پندرہ ہزار روپیہ مہر پر پڑھا۔۸۷ اور خطبہ نکاح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام >تری نسلا بعیدا< کی نہایت لطیف تشریح فرمائی۔ چنانچہ فرمایا۔
>جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا۔ تری نسلا بعیدا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صرف دو بیٹے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ہاں کچھ اور بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو وسیع کیا اور اب ان بیٹوں اور بیٹیوں کی نسلیں الہام الٰہی کے ماتحت شادیاں کررہی ہیں وہnsk] gat[ تری نسلا بعیدا کے نئے نئے ثبوت مہیا کررہی ہیں۔ دنیا میں نسلیں تو پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی نسلیں ہیں جو ان کی طرف منسوب بھی ہوتی ہوں اور منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔ اکثر آدمیوں کی نسلیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ تمہارے پردادا کا نام کیا تھا تو ان کو پتہ نہیں ہوتا۔ مگر تری نسلا بعیدا کا الہام بتارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نسل آپ کی طرف منسوب ہوتی چلی جائے گی۔ اور لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر کہا کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یہ نسل آپ کی پیشگوئی کے ماتحت آپ کی صداقت کا نشان ہے۔
پس تری نسلا بعیدا میں صرف یہی پیشگوئی نہیں کہ آپ کی نسل کثرت سے ہوگی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عظمت شان کا بھی اس رنگ میں اس پیشگوئی میں ذکر ہے کہ آپ کا مرتبہ اتنا بلند اور آپ کی شان اتنی ارفع ہے کہ آپ کی نسل ایک منٹ کے لئے آپ کی طرف منسوب نہ ہونا برداشت نہیں کرے گی اور آپ کی طرف منسوب ہونے میں ہی ان کی شان اور ان کی عظمت بڑھے گی۔
پس اس پیشگوئی میں خالی اس بات کا ہی ذکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کثرت سے ہوگی بلکہ یہ بھی ذکر ہے کہ وہ روز بروز بڑھے گی اور وہ اولاد خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقام اور اعلیٰ مرتبہ تک جاپہنچے اور خواہ ان کو بادشاہت بھی حاصل ہو جائے پھر بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف منسوب کرنے میں فخر محسوس کرے گی<۔۸۸
منارۃ المسیح پر لائوڈ سپیکر کے ذریعہ تبلیغ
۷۔ صلح/ جنوری کو پہلی بار لاوڈ سپیکر نصب کرکے تبلیغ احمدیت کی گئی۔ چنانچہ اس روز نماز جمعہ سے قبل قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی نظمیں نشر کی گئیں۔ نیز مستری محمد اسمٰعیل صاحب صدیقی نے مختصر سی تقریر میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا یہ الہام کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا< جہاں مبلغین اور تحریروں کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک پہنچایا جارہا ہے وہاں انشاء اللہ ایک دن آلہ نشر الصوت کے ذریعہ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچایا جاسکے گا۔ آج اس کی ابتداء اس طرح کی جارہی ہے۔ اس آلہ کے ذریعہ قادیان کے کناروں تک حضور کی آواز پہنچ رہی ہے۔ چنانچہ یہ آواز صرف قادیان کے وسیع محلہ جات میں ہی نہیں بلکہ بعض ملحقہ دیہات میں بھی صفائی کے ساتھ سنی گئی۔
پھر نماز مغرب کے بعد اس آلہ پر جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ ہر سال اور ہر دن جو چڑھتا ہے وہ قادیان میں رہنے والے غیر احمدیوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صداقت ظاہر کررہا ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ سوچیں اور غور کریں۔
آخر میں نماز عشاء کی اذان مولوی بشیر الدین صاحب نے دی۔۸۹
زائرین قادیان
اس سال قادیان میں جو زائرین آئے ان میں سر پیٹرک سپنس چیف جسٹس فیڈرل کورٹ آف انڈیا` مسٹر سی کنگ کمشنر لاہور ڈویژن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سر پیٹرک سپنس چیف جسٹس فیڈرل کورٹ آف انڈیا ۲۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو قادیان آئے اور آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں فروکش ہوئے۔ قادیان میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے مرکزی اداروں اور صنعتی کارخانوں کو دیکھنے کے علاوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں ایک مختصر تقریر کی جس میں طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں جو بہت بڑی جنگ ہورہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ دنیا سے سچا مذہب مفقود ہوگیا ہے۔ تم لوگ ایک مذہبی فضا میں پرورش پارہے ہو جہاں تمہیں خدا کی محبت` حقیقی امن کی تلاش اور باہمی تکریم و ہمدردی کے سبق ملتے ہیں۔ اگر آپ لوگ ان معتقدات پر عمل پیرا ہوں جنہیں آپ مانتے ہیں تو دنیا کی حالت بہت بہتر ہو جائے گی اور دنیا کو حقیقی امن اور خوشحالی دینے میں آپ کامیاب ہو جائیں گے۔۹۰
مسٹری سی کنگ کمشنر لاہور ڈویژن ۲۲۔ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو دوپہر کی گاڑی سے قادیان پہنچے اور مرکزی ادارے دیکھ کر شام کی گاڑی سے واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے مرکزی لائبریری میں مختلف زبانوں کی نایاب کتابوں کے متعلق دلچسپی کا اظہار کیا۔ نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے آپ کو اسلامی لٹریچر بھی ہدیت¶ہ پیش کیا گیا۔۹۱
حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کی صدارت میں آخری یادگار جلسہ
قادیان کی آریہ سماج نے ۴` ۵` ۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو پنڈت لیکھرام کی یاد میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں پنڈت ترلوک چند صاحب اور بعض دوسرے آریہ مقررین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی متعلقہ لیکھرام اور دوسری واضح پیشگوئیوں پر تمسخر اڑایا اور جماعت احمدیہ پر سوقیانہ اعتراضات کئے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دینے کے لئے وقت طلب کیا گیا مگر منتظمین نے انکار کردیا۔۹۲ جس پر ۷` ۸۔ امان/ مارچ کی درمیانی شب کو حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کی زیر صدارت مسجد اقصیٰ میں جوابی جلسہ منعقد کیا گیا۔ حضرت میر صاحب نے اپنی ابتدائی تقریر میں وہ چٹھی پڑھ کر سنائی جو سیکرٹری تبلیغ جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے آریہ سماج کو لکھی گئی اور انہیں دعوت دی گئی کہ اس جلسہ میں آئیں اور ہماری تقریروں پر تہذیب سے سوال و جواب بھی کریں۔ چونکہ منارۃ المسیح کے اوپر بھی لائوڈ سپیکر نصب تھا اور آواز پورے شہر میں گونج رہی تھی اس لئے آریوں کو یہ بلاوا بھی ان کے گھروں تک پہنچ گیا۔
حضرت میر صاحب کی اس دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان متعلقہ لیکھرام سے متعلق مولوی شریف احمد صاحب امینی اور مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے مختصر تقریریں کیں۔ اسی اثناء میں آریوں کی طرف سے پنڈت ترلوک چند صاحب چند ساتھیوں سمیت مسجد اقصیٰ میں آگئے۔ حضرت میر صاحب نے انہیں اپنے پاس بلا کر بٹھایا اور فرمایا کہ آریہ صاحبان اس مجلس میں ہمارے مہمان ہیں۔ ہم ان کا ہر طرح سے لحاظ رکھیں گے اس وقت پہلے ہماری طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب تقریر کریں گے اور مناسب وقت میں پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے آریہ پنڈت صاحب کے اعتراضوں کا جواب بھی دیں گے۔ اس تقریر کے بعد پنڈت ترلوک چند صاحب اس تقریر پر یا پیشگوئی دربارہ لیکھرام پر مناسب وقت میں سوال کریں گے۔ پھر مولوی صاحب جواب دیں گے اور جلسہ ختم ہوگا۔ اس اعلان کے بعد مولانا ابوالعطاء صاحب نے لیکھرام سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قہری نشان پر روشنی ڈالی اور آریوں کے بعض اعتراضوں کا نہایت خوبی سے باطل ہونا ثابت کیا نیز بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کو اپنی ذریت کے پھیلنے اور مصلح موعود کی ولادت کے متعلق اشتہار دیا تو پنڈت لیکھرام نے ۱۸۔ مارچ ۱۸۸۶ء کو بذریعہ اشتہار یہ پیشگوئی کی کہ۔ >آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی<۔۹۳
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد بابرگ و بار ہورہی ہے اور مصلح موعود اپنی پوری شان سے ہمارے درمیان موجود ہے اور احمدیت کی قبولیت و شہرت دنیا کے کناروں تک پہنچ چکی ہے مگر اس کے مقابل پنڈت لیکھرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ۱۸۹۷ء میں قتل ہوگئے اور لاولد رہے۔ ان کے پیچھے ان کا کوئی لڑکا نہیں رہا۔ وہ احمدیت کو مٹانا چاہتے تھے لیکن اس میں بھی سراسر ناکام و نامراد رہے۔۹۴
مولانا ابوالعطاء صاحب کی تقریر کے بعد حضرت میر صاحب نے پنڈت ترلوک چند صاحب کو موقعہ دیا کہ وہ مناسب وقت میں اس کا جواب دیں مگر پنڈت ترلوک چند صاحب نے ادھر ادھر کی باتیں کرکے اپنا وقت ختم کردیا جس پر مولانا ابوالعطاء صاحب نے مختصر تقریر کی اور کہا کہ پنڈت صاحب نے موقعہ ملنے کے باوجود ہمارے کسی بیان یا استدلال کو نہیں توڑا جس سے ہمارے بیان کا درست ہونا ثابت ہے۔ آخر میں آپ نے قادیان کے آریوں اور غیر احمدیوں کو مخاطب کرکے ایک پردرد اپیل کی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانوں کے گواہ ہیں۔ حضور پر ایمان لے آئیں۔
ازاں بعد حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے کھڑے ہوکر فرمایا۔ سب حاضرین نے دونوں طرف کی تقاریر سن لی ہیں۔ میں پنڈت ترلوک چند صاحب سے کہتا ہوں کہ آپ اپنے مذہب کے عالم ہیں۔ مولوی ابوالعطاء صاحب بھی موجود ہیں۔ پنڈت صاحب ذاتی طور پر نہ کہ جماعتی طور پر مولوی صاحب سے پنڈت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی پر تبادلہ خیال کرلیں۔ ہم سب سنیں گے جو شرطیں پنڈت صاحب پیش کریں گے میں ان کے منوانے کا ذمہ دار ہوں۔ اس پر آپ نے پنڈت صاحب کو موقع دیا کہ وہ ہاں کریں۔ لیکن پنڈت صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ نہیں کیا اس لئے معذور ہوں۔
اس مرحلہ پر آپ نے فرمایا کہ میں پنڈت ترلوک چند صاحب سے پوچھتا ہوں کہ آپ کافی عرصہ قادیان میں رہے ہیں کیا پنڈت لیکھرام کی یہ پیشگوئی کہ >آپ )مرزا صاحب( کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی غایت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی< )کلیات صفحہ ۴۹۸( صحیح نکلی یا غلط ثابت ہوئی؟ پنڈت صاحب نے بڑے لیت و لعل کے بعد کہا۔ آریہ سماجی کہتے ہیں کہ یہ اشتہار پنڈت لیکھرام جی کا لکھا ہوا نہیں ہے۔ حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ اول تو ان اشتہارات کے شروع میں شردھانند جی نے تحریر کیا ہے کہ
>ذیل کے دو اشتہارات پنڈت جی )لیکھرام جی( نے اس وقت نکالے تھے جبکہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے الہامی چونچلوں کا ابھی صرف آغاز ہی ہوا تھا<۔ )کلیات صفحہ ۴۹۲(
دوسرے میں پوچھتا ہوں کہ آپ یہ بتائیں کلیات صفحہ ۴۹۸ کی پیشگوئی )خواہ کسی نے لکھی ہو( جھوٹ ثابت ہوئی یا نہیں؟ صرف جواب دیں۔ اس پر پنڈت صاحب کو ان کے ساتھیوں نے اشارہ کرکے بلایا اور چل دیئے۔ اس ایمان افروز نظارہ پر اس جلسہ کا خاتمہ ہوا۔ قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔۹۵][یہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کی زندگی کا آخری جلسہ اور آخری تبلیغی معرکہ تھا۔
احمدی مبلغین گجرات کاٹھیاواڑ میں
گزشتہ سال ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں احمدی مبلغین نے صوبہ یو۔ پی کا طویل اور کامیاب دورہ کیا تھا۔ امسال ماہ صلح/ جنوری میں مرکز احمدیت کی طرف سے گجرات کاٹھیاواڑ کی طرف تبلیغی وفد بھجوایا گیا۔ یہ وفد حسب ذیل علماء پر مشتمل تھا۔
۱۔ مولوی عبدالمالک خاں صاحب فاضل ۲۔ مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل ۳۔ گیانی عباداللہ صاحب ان علماء نے سوامی دیانند کی جنم بھومی سنکارا نامی گائوں ریاست و انکانیز`۹۶ کرشن نگری )دوارکا`۹۷ امرناتھ تیرتھ ریاست جام نگر`۹۸ ریاست راجکوٹ سودت راندھیر`۹۹ بمبئی۔ پونا۔ آنند آشرم۱۰۰ میں کرشن کی آمد ثانی کا پیغام انفرادی تبلیغ اور ہندی` مرہٹے اور گجراتی ٹریکٹوں سے نہایت موثر اور کامیاب طریق پر پہنچایا۔ یہ تبلیغی وفد ۳۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو واپس مرکز احمدیت میں پہنچا۔۱۰۱
بھرت پور میں احمدی مبلغ کی تقریر
۲۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو انجمن اسلامیہ بھرت پور کا جلسہ تھا جس میں سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< نے >اسلام نے ہندوستان پر کیا اثر ڈالا< اور >اسلام اور دیگر مذاہب< کے موضوع پر کامیاب تقریریں کیں جس سے حاضرین بہت مسرور ومحظوظ ہوئے۔ ہزہائی نس والی ریاست بھی اس جلسہ میں موجود تھے۔۱۰۲
چودھری عبدالسلام صاحب کی بی۔ اے میں نمایاں کامیابی
خدا کے فضل سے چودھری عبدالسلام صاحب )ابن چودھری محمد حسین صاحب ہیڈ کلرک دفتر انسپکٹر مدارس جھنگ( نے اس سال بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور بی۔ اے کے امتحان میں نہ صرف یونیورسٹی میں اول رہنے کا امتیاز حاصل کیا بلکہ یونیورسٹی کا گزشتہ ریکارڈ بھی توڑ دیا۔۱۰۳
کشمیر کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ
کشمیر کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ ۱۰` ۱۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو یاڑی پورہ میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں احمدیوں کے علاوہ اہلحدیث اور اہلسنت و الجماعت نے بھی بکثرت شرکت کی۔ جلسہ کا افتتاح صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے فرمایا اور ملا سید محمد شاہ صاحب` مولوی غلام احمد شاہ صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب )مہتمم( تبلیغ جماعت ہائے کشمیر( مولوی احمد اللہ صاحب` چوھدری عبدالواحد صاحب )امیر جماعت ہائے احمدیہ کشمیر( مولوی عبدالرحیم صاحب` مولوی محمد عبداللہ صاحب اور خواجہ غلام نبی صاحب گلکار نے مختلف اہم موضوعات پر تقریریں کیں اور صاحبزادہ صاحب نے اپنے افتتاحی خطاب میں تعلق باللہ کی طرف توجہ دلائی۔۱۰۴
متحدہ ہندوستان میں احمدی نعشوں کی بے حرمتی کے واقعات
۲۰۔ جولائی ۱۹۴۴ء کو ایک مخلص احمدی راجہ فخر الدین صاحب کی اہلیہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ )بہو حضرت صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ ڈی ایس پی سکھر( جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں وفات پاگئیں۔ مخالفین احمدیت نے دو تین دن تک ان کی نعش دفن نہ ہونے دی ازاں بعد قبر اکھاڑ کر کفن کو آگ لگا دی۔ اخبار الفضل )قادیان( نے ۱۳۔ اگست ۱۹۴۴ء کے پرچہ میں اس انسانیت سوز واقعہ کی حسب ذیل تفصیل شائع کی۔
جلال پور جٹاں میں مخالفین احمدیت کا نہایت ہی انسانیت سوز ظلم ایک احمدی خاتون کی لاش کو قبر اکھیڑ کر آگ لگا دیگئی
>احمدیت کی تاریخ مخالفین کے خوفناک مظالم سے بھری پڑی ہے لیکن حال ہی میں جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں جو ظلم روا رکھا گیا ہے۔ وہ شرافت اور انسانیت کے لئے نہایت ہی بدنما
داغ اور ظالموں کی انتہائی قساوت قلبی اور سنگدلی کا مظہر ہے۔ یہ ساری کی ساری داستان اس قدر المناک اور درد انگیز ہے کہ کوئی بھی انسان خواہ وہ ¶کسی مذہب و ملت کا ہو۔ بشرطیکہ اس میں انسانیت کا ذرہ پایا جائے اسے پڑھ کر غمگین اور افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔ اس وقت اس بارے میں شدت غم و الم کی وجہ سے صرف اتنا ہی لکھا جاتا ہے کہ ایک احمدی خاتون جس نے ۲۰۔ جولائی کو نو بجے صبح انتقال کیا۔ اس کی تدفین میں ایک سرحدی ملا کے اشتعال دلانے پر مخالفین نے مزاحمت شروع کی اور ضلع کے ذمہ دار حکام کی موجودگی میں بھی مزاحمت پر اڑے رہے۔ آخر ۲۲۔ جولائی کو رات بارہ بجے تک جب مزاحمت کرنے والوں نے باوجود حکام کے سمجھانے کے شرارت سے باز رہنا منظور نہ کیا تو حکام نے اعلان کیا کہ وہ مناسب قانونی سلوک کریں گے۔ اس کے بعد احمدیوں نے جنازہ اٹھایا اور پولیس گارد اور افسروں کی حفاظت میں قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور چار بجے صبح کو وفات سے ۴۳ گھنٹے بعد لاش دفن کی گئی۔
لاش کی اس قدر بے حرمتی کرنے پر بھی ان انسانیت کے دشمنوں کی تسلی نہ ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے جو قدم اٹھایا۔ وہ ایسا شرمناک۔ اس قدر الم انگیز اور اتنا درد انگیز ہے کہ اس کا خیال کرکے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے اور وہ یہ کہ ۳` ۴۔ اگست کی درمیانی رات کو ان اشرار نے جو نعش کو دفن کرنے میں مزاحمت کرتے رہے۔ متوفیہ کی پختہ قبر کو اکھاڑ ڈالا۔ نعش جس صندوق میں بند تھی۔ اس کے اوپر کے تختوں کو توڑ ڈالا اور تابوت میں خشک ٹہنیاں اور کھجور کی ایک بوسیدہ چٹائی ڈال کر آگ لگادی جس کے نتیجہ میں کفن اور میت کے بعض اعضاء جل گئے۔ صبح کو جب متوفیہ کے خاوند کو اطلاع ہوئی تو انہوں نے جاکر وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ پولیس کو اطلاع دی گئی اور ۵۔ اگست کو میت دوبارہ دفن کی گئی<۔
جیسا کہ >الفضل< نے بتایا اس نوع کے متعدد واقعات سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں موجود ہیں۔ بطور نمونہ صرف خلافت ثانیہ کے دور میں قبل از تقسیم ہند کے گیارہ واقعات پیش کئے جاتے ہیں۔
پہلا واقعہ
۲۰۔ اگست ۱۹۱۵ء کو کنانور )مالا بار( کے ایک احمدی کے ایس حسن کا چھوٹا بچہ فوت ہوگیا۔ ریاست کے راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ چونکہ قاضی صاحب نے احمدیوں کے متعلق کفر کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے اس کی نعش مسلمانوں کے کسی قبرستان میں دفن نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ وہ بچہ اس دن دفن نہ ہوا۔ دوسرے دن شام کے قریب مسلمانوں کے قبرستان سے دو میل دور اس کی ¶نعش کو دفن کیا گیا۔ )الفضل ۱۹۔ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۶ و تاریخ مالا بار صفحہ ۳۵( از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی۔
دوسرا واقعہ
دسمبر ۱۹۱۸ء کو کٹک )صوبہ بہار( کے ایک احمدی دوست کی اہلیہ فوت ہوگئیں انہوں نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا۔ جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ایک احمدی خاتون
‏vat,10.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
سپین میں پرچم اسلام لہرانے سے دور جدید کے پہلے جلسے تک
کی لاش ان کے قبرستان میں دفن کی گئی ہے تو انہوں نے قبر اکھیڑ کر اس لاش کو نکالا اور اس احمدی دوست کے دروازہ پر جاکر پھینک دیا۔ )الفضل ۱۴۔ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۳ بحوالہ اہلحدیث ۶۔ دسمبر ۱۹۱۸ء(
یہ تو ایک مخالف اخبار >اہلحدیث< کی خبر ہے۔ جماعتی اطلاعات یہ تھیں کہ لاش کو غیر احمدیوں نے قبر سے نکال کر کتوں کے آگے ڈال دیا اور احمدیوں کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہوگئے کہ کوئی نکلے تو سہی کس طرح نکلتا ہے اور لاش کو دفن کرتا ہے۔ قریب تھا کہ کتے لاش کو پھاڑ ڈالیں کہ پولیس کو کسی بھلے مانس نے اطلاع دی اور پولیس نے آکر لاش دفن کروائی۔ مقدمہ ہوا تو کسی شخص نے گواہی نہ دی اور صاف کہہ دیا کہ ہم موجود نہ تھے۔ )الفضل ۱۴/۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۷(
کٹک میں اس سے پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہوتا رہا۔ اس کے متعلق یکم فروری ۱۹۱۸ء کے اخبار اہلحدیث میں >کٹک میں قادیانیوں کی خاطر< کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں لکھا گیا کہ۔
>وہ جو کہاوت ہے کہ موئے پر سو درے سو وہ بھی یہاں واجب التعمیل ہورہی ہے۔ مرزائیوں کی میت کا پوچھئے مت۔ شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستان میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کسی کے ہاتھ چھڑی ہے میت کی مٹی پلید ہورہی ہے کہ کھوجتے تابوت نہیں ملتی۔ بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں۔ بانس اور لکڑی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے دفن کے واسطے جگہ تلاش کرتے کرتے پھول کا زمانہ بھی گزر جاتا ہے۔ ہر صورت سے ناامید ہوکر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کر گاڑ دیں تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ غڑپ سے آموجود ہوکر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں<۔ )الفضل ۹۔ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۳(
تیسرا واقعہ
اپریل ۱۹۲۸ء میں کٹک میں ایک چھوٹے بچے کی لاش کو مخالفین نے اس قبرستان میں بھی دفن ہونے سے روک دیا جو گورنمنٹ سے احمدیوں نے اپنے لئے حاصل کیا ہوا تھا اور مقامی حکام نے بھی اس میں احمدیوں کی کوئی مدد نہ کی۔ )الفضل ۱۳۔ اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۵(
چوتھا واقعہ
۱۶۔ مارچ ۱۹۲۸ء کو بھدرک )اڑیسہ( میں ایک احمدی شیخ شیر محمد صاحب کی لڑکی فوت ہوگئی غیر احمدیوں نے اس کی لاش قبرستان میں دفن نہ ہونے دی اور بڑے بھاری جتھہ سے مارنے پیٹنے پر آمادہ ہوگئے آخر انہوں نے میت کو صندوق میں بند کرکے اپنے گھر کے احاطہ میں دفن کر دیا۔ )الفضل ۲۷۔ اپریل ۱۹۲۸ء صفحہ ۸(
پانچواں واقعہ
۲۹۔ جنوری ۱۹۳۴ء کی شام کو کالی کٹ )مالا بار( میں ایک احمدی دوست فوت ہوگئے مخالفین نے سارے شہر میں پراپیگنڈا شروع کردیا کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دینا چاہئے۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فوت شدہ احمدی کے مکان کے اردگرد جمع ہوگئے اور وہاں انہوں نے گالیوں دھمکیوں اور شوروشر سے ایسا طوفان برپا کیا کہ احمدیوں کے لئے مکان کے اندر باہر جانا مشکل ہوگیا۔ رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا۔ مگر اس نے دیکھا کہ وہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاٹھیاں وغیرہ لے کر جمع ہیں اور انہوں نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ فوت شدہ احمدی کو کسی صورت میں بھی اس قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے۔ ذمہ دار حکام کو توجہ دلائی گئی۔ مگر انہوں نے بھی اپنی بے بسی ظاہر کی۔ آخر دوسرے دن رات کے ساڑھے دس بجے ایک ایسی جگہ جو شہر سے بہت دور تھی اور جو موسم برسات میں بالکل زیر آب رہتی تھی۔ احمدیوں نے اپنی لاش دفن کی۔ )الفضل ۲۵۔ فروری ۱۹۳۴ء صفحہ ۴(
چھٹا واقعہ
۱۲۔ مارچ ۱۹۳۶ء کو بمبئی کے ایک احمدی دوست کا خورد سال بچہ فوت ہوگیا۔ جب اسے دفن کرنے کے لئے قبرستان لے گئے تو مخالفین نے جھگڑا شروع کر دیا اور کہا کہ >قبرستان سنی مسلمانوں کا ہے قادیانیوں کا نہیں ہے۔ یہاں قادیانی دفن نہیں ہوسکتے<۔ احمدیوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور رسول کریم~صل۱~ کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر انہوں نے پھر کہا کہ >ہم اس لاش کو یہاں دفن نہیں ہونے دیں گے کیونکہ قادیانی کافر ہیں<۔ پولیس کے ذمہ دار حکام نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو انہوں نے بمبئی میونسپل کے توسط سے ایک الگ قطعہ زمین میں اسے دفن کرادیا۔ مگر میت کو دفن کرنے کے لئے جو جگہ دی گئی وہ شہر سے بہت دور تھی اور اچھوت اقوام کا مرگھٹ تھی۔ روزنامہ >ہلال< بمبئی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب مسلمانوں نے یہ خبر سنی کہ احمدی میت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو اس اطلاع کے سنتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ہر شخص مسرت سے شادماں نظر آتا تھا<۔ >)ہلال< اخبار بمبئی ۱۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء(
اسی طرح اس نے لکھا کہ۔
>ہم مسلمان ہیں اسلام کی عظمت اور نبی کریم~صل۱~ کی حرمت پر مر مٹ جانا ہمارا فرض ہے ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں اس وقت تک کوئی طاقت مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانی میت کو دفن نہیں کرسکتی<۔ روزنامہ ہلال بمبئی ۱۳۔ مارچ ۱۹۳۶ء بحوالہ الفضل ۲۴۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۶ و ۲۵۔ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۱( اسی سال امرتسر میں بھی ایک احمدی بچے کی نعش کے دفن کرنے پر احراریوں نے ہنگامہ بپا کیا۔ )اہلحدیث امرتسر ۲۴۔ جولائی ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۶ ملاپ ۲۱۔ جولائی ۱۹۳۶ء(
ساتواں واقعہ
۲۹۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو بٹالہ میں ایک احمدی لڑکی وفات پاگئی اس پر احرار نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ اس کی نعش کو اس خاندانی قبرستان میں بھی دفن کرنے سے انکار کردیا۔ جہاں کئی احمدی مدفون تھے اور چند احمدیوں کو ساری رات محاصرہ میں رکھا۔ حکام کو توجہ دلائی گئی مگر انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی۔ آخر نعش کو ایک اور قبرستان میں جو میونسپل کمیٹی کا تھا لے گئے مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ جمع ہوکر مزاحم ہوئے آخر متواتر چوبیس گھنٹہ کی جدوجہد کے بعد ایک بیرونی نشیب جگہ میں اس نعش کو دفن کیا گیا۔ )الفضل ۹۔ مئی ۱۹۳۹ء صفحہ ۵(
آٹھواں واقعہ
۱۱۔ نومبر ۱۹۳۹ء کو منشی سندھی شاہ صاحب برانچ پوسٹ ماسٹر میانی افغانان ضلع ہوشیارپور کی ایک سال کی معصوم بچی فوت ہوگئی جسے ظالم طبع مقامی غیر احمدیوں نے دفن نہ ہونے دیا >منشی صاحب میت قادیان لائے< اور یہاں دفن کیا۔ )الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۴(
نواں واقعہ
۱۹۴۲ء میں شیموگہ ریاست میسور میں ایک احمدی عبدالرزاق صاحب کی اہلیہ فوت ہوگئیں اور مسلمانوں نے میت کو قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا۔ چنانچہ تین دن تک میت پڑی رہی آخر حکومت کی طرف سے ایک علیحدہ جگہ میں لاش کو دفن کرنے کا انتظام کیا گیا۔ )الفضل یکم اگست ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۔ ۱۸۔ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۲(
دسواں واقعہ
اگست ۱۹۴۳ء میں ڈلہوزی میں ایک احمدی دوست خان صاحب عبدالمجید صاحب کی لڑکی کی وفات ہوگئی اس موقعہ پر بھی معاندین نے اسے اپنے مقبرہ میں دفن کرنے سے روکا اور مقابلہ کیا۔ )الفضل مورخہ ۲۳۔ ستمبر ۱۹۴۳ء صفحہ ۱(
گیارہواں واقعہ
۱۹۴۶ء میں جماعت احمدیہ کے ایک معزز بزرگ حضرت قاسم علی خان صاحب قادیانی اپنے وطن رام پور میں وفات پاگئے۔ ان کے اعزہ نے انہیں قبرستان میں دفن کر دیا۔ مگر غیر احمدیوں نے ان کی نعش قبر سے نکال کر باہر پھینک دی اور کفن اتار کر جسم کو عریاں کردیا پھر پولیس نے انہیں دوسری جگہ دفن کرنے کا انتظام کیا تو وہاں بھی یہی سلوک کیا گیا۔ اس واقعہ کے متعلق اخبار >زمیندار< میں جو حلفیہ رپورٹ شائع ہوئی وہ ذیل میں ملاحظہ ہو۔
محمد مظہر علی خان صاحب رامپوری اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>میرے مکان کے پیچھے جو کہ شاہ آباد گیٹ میں واقعہ ہے محلہ کا قبرستان تھا۔ صبح کو مجھے اطلاع ملی کہ قبرستان میں لاتعداد مخلوق جمع ہے اور قاسم علی کی لاش جو اس کے اعزہ رات کے وقت چپکے سے مسلمانوں کے اس قبرستان میں دفن کر گئے تھے لوگوں نے باہر نکال پھینکی ہے۔ میں فوراً اس ہجوم میں جا داخل ہوا اور بخدا جو کچھ میں نے دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ لاش اوندھی پڑی تھی منہ کعبہ سے پھر کر مشرق کی طرف ہوگیا تھا۔ کفن اتار پھینکنے کے باعث متوفی کے جسم کا ہر عضو عریاں تھا اور لوگ شور مچا رہے تھے کہ اس نجس لاش کو ہمارے قبرستان سے باہر پھینک دو۔ جائے وقوعہ پر مرحوم کے پس ماندگان میں سے کوئی بھی پرسان حال نہ تھا۔ لیفٹنینٹ کرنل محمد ضمیر کی خوشامدانہ التجا پر نواب صاحب نے فوج اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لئے موقع پر بھیجا۔ کوتوال شہر خان عبدالرحمن خان اور سپرنٹنڈنٹ پولیس خان بہادر اکرام حسین نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لاش دوبارہ دفن کرانے پر مجبور کیا۔ لیکن اس جابرانہ حکم کی خبر شہر کے ہرکونہ میں بجلی کی طرح پہنچ گئی اور غازیان اسلام مسلح ہوکر مذہب و دین کی حفاظت کے لئے جائے وقوعہ پر آگئے۔ حکومت چونکہ ایک مقتدر آدمی کی ذاتی عزت کی حفاظت کے لئے عوام کا قتل و غارت گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ اس لئے پولیس نے لاش کو کفن میں لپیٹ کر خفیہ طور پر شہر سے باہر بھنگیوں کے قبرستان میں دفنا دیا۔ چونکہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب تھے اس لئے انہوں نے بھنگیوں کو اس بات کی اطلاع کردی اور بھنگیوں نے بھی اس متعفن لاش کا وہی حشر کیا جو پہلے ہوچکا تھا۔ پولیس نے یہاں بھی دست درازی کرنی چاہی لیکن بھنگیوں نے شہر بھر میں ہڑتال کر دینے کی دھمکی دی۔ بالاخر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور کوتوال شہر کی بروقت مداخلت سے لاش کو دریائے کوسی کے ویران میدان میں دفن کردینے کی ہدایات کی گئیں۔ سپاہی جو لاش کے تعفن اور بوجھ سے پریشان ہوچکے تھے۔ کچھ دور تک لاش کو اٹھا کر لے جاسکے اور شام ہو جانے کے باعث اسے دریائے کوسی کے کنارے صرف ریت کے نیچے چھپا کر واپس آگئے۔ دوسرے دن صبح کو شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ قاسم علی کی لاش کو گیدڑوں نے باہر نکال کر گوشت کھالیا ہے اور ڈھانچہ باہر پڑا ہے۔ یہ سنکر شہر کے ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق وہاں جمع ہوگئے۔ میں بھی موقعہ پر جاپہنچا` لیکن میری آنکھیں اس آخری منظر کی تاب نہ لاسکیں اور میں ایک پھریری لے کر ایک شخص کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔ قاسم علی کی لاش کھلے میدان میں ریت پر پڑی تھی۔ اسے گیدڑوں نے باہر نکال لیا تھا اور وہ جسم کا گوشت مکمل طور پر نہیں کھا سکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ اور گھٹنوں پر گوشت ہنوز موجود تھا۔ باقی جسم سفید ہڈیوں کا ڈھانچ تھا۔ آنکھوں کی بجائے دھنسے ہوئے غار اور منہ پر ڈاڑھی کے اکثر بال ایک دردناک منظر پیش کررہے تھے۔ آخر کار پولیس نے لاش کو مزدوروں سے اٹھوا کر دریائے کوسی کے سپرد کردیا۔ )زمیندار لاہور ۲۱۔ جنوری ۱۹۵۱ء صفحہ ۹)(بحوالہ >قادیانی مسئلہ کا جواب< صفحہ ۵۹ تا صفحہ ۶۱ مولفہ حضرت مصلح موعود(
مبلغین کی بیرونی ممالک کو روانگی
چودھری احسان علی صاحب جنجوعہ ۱۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو مغربی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے۔۱۰۵ اسی طرح مولوی عبدالخالق صاحب` ملک احسان اللہ صاحب` چودھری نذیر احمد صاحب )رائے ونڈ( ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوائے گئے۔۱۰۶
بیرونی مشنوں کے بعض ضروری واقعات
فلسطین و مصر مشن
اگرچہ مصر میں تبلیغ احمدیت پر سخت پابندیاں تھیں مگر مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین اس سال کے شروع )ماہ تبلیغ/ فروری و امان/ مارچ( میں تبلیغی و تربیتی اغراض کے پیش نظر مصر پہنچنے اور دو ماہ تک مقیم رہنے میں کامیاب ہوگئے۔
مصر میں قیام کے دوران ایک بلند پایہ ازہری اور حجازی شیخ سے مکرم مولوی صاحب کا ایک پرائیویٹ مناظرہ بھی ہوا جس میں بعض احمدی احباب کے علاوہ چند ایک غیر احمدی احباب بھی موجود تھے۔ شیخ صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ احمدی جماعت اور دوسرے اسلامی فرقوں میں بنیادی اختلاف کس امر میں ہے۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ مسئلہ وفات مسیح میں۔ مگر شیخ صاحب نے کہا کہ نہیں بنیادی اختلاف مسئلہ ختم نبوت میں ہے اور کہ آپ اس پر بحث کے لئے تیاری کرکے آئے ہیں۔ بہت سی رد و قدح کے بعد مکرم مولوی صاحب نے اسی مسئلہ پر ان سے تبادلہ خیالات شروع کیا اور اپنے عقیدہ کی تائید میں قرآن مجید سے دس آیات پیش کیں۔ شیخ صاحب نے ان میں سے صرف ایک آیت اما یاتینکم رسل منکم پر جرح کی اور کامل چار گھنٹہ تک اسی پر گفتگو ہوتی رہی۔ جس میں شیخ صاحب ایسے عاجز آگئے کہ کھلے الفاظ میں اقرار کرلیا بلکہ لکھ دیا کہ عقلی طور پر اس آیت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ نبی آسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تائید کا مظاہرہ احباب جماعت کے لئے بہت ایمان پرور تھا۔ اس کے بعد حجازی شیخ صاحب ایک بہانہ تلاش کرکے تشریف لے گئے۔۱۰۷
انگلستان مشن
مولوی جلال الدین صاحب شمس اما مسجد لنڈن نے اس سال لنڈن کی مشہور سیرگاہ ہائیڈ پارک میں مسٹر گرین سے پے در پے سات شاندار اور کامیاب مباحثے کئے جن سے انگلستان مشن کی دھوم مچ گئی۔
۱۔ پہلا مباحثہ : ۱۴۔ شہادت/ اپریل کو >آنحضرت~صل۱~ کے متعلق بائبل میں پیشگوئیاں< کے موضوع پر ہوا۔ مسٹر گرین لاجواب ہوکر اصل بحث کی بجائے مسئلہ دوزخ و بہشت کی بحث میں الجھ گئے مگر مولانا شمس صاحب نے اس موضوع پر بھی عیسائیت کے مقابل اسلام کی برتری اور فوقیت ثابت کر دکھائی۔
۲۔ دوسرے مباحثہ :کا عنوان تھا >کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں<۔ یہ مباحثہ ۲۱۔ شہادت کو ہوا۔ آخر میں جب رائے شماری کا مرحلہ آیا تو انگریز سامعین کی بہت بڑی اکثریت نے احمدی مجاہد کے حق میں ووٹ ڈالے اور صرف ایک ووٹ مسٹر گرین کو ملا۔
۳۔ تیسرا مباحثہ : ۲۸۔ شہادت/ اپریل کو >کیا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۰۸۱۵ کے مصداق یسوع ہیں؟< کے موضوع پر ہوا۔ مولانا شمس صاحب نے مسٹر گرین کے ادعا کو دلائل قطعیہ کے ساتھ باطل ثابت کرکے بتایا کہ اس کے مصداق ہمارے نبی اکرم~صل۱~ ہیں۔ یہ مباحثہ سننے کے بعد کئی انگریزوں کو مزید تحقیق کا شوق مسجد فضل پٹنی میں لے آیا۔۱۰۹
۴۔ چوتھا مباحثہ : ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ہائیڈ پارک میں ہوا۔ موضوع >قرآن و انجیل کی تعلیم کا مقابلہ< تھا۔ مسٹر گرین نے مسیحؑ کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ جب وہ دنیا میں آئیں گے تو امن قائم ہو جائے گا۔ نیز کہا کہ دفاعی جنگ بھی نہیں کرنی چاہئے۔ مولانا شمس صاحب نے قرآن مجید سے جنگ کے متعلق اصول بیان کئے جس کا حاضرین پر اچھا اثر ہوا۔ ایک معزز شخص نے یہ کہتے ہوئے مصافحہ کیا کہ گو میں عیسائی ہوں لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ مجھے آپ کی تقریر بہت پسند آئی ہے۔
۵۔ پانچواں مباحثہ : ۱۲۔ ہجرت/ مئی کو ہوا۔ موضوع مباحثہ تھا >پہاڑی وعظ۱۱۰4] ftr[ کا مقابلہ قرآن مجید کی تعلیم سے< لیکن اصل موضوع پر بحث کرنے سے پہلے مسٹر گرین نے قرآن مجید سے کفار کے قتل کے متعلق آیات پڑھیں۔ مولانا شمس صاحب نے انہی آیات سے ثابت کردیا کہ ان میں قتل کا حکم ان کافروں کے متعلق ہے جو میدان جنگ میں لڑنے کے لئے آئے اور پہلے حملہ آور ہوئے۔ مباحثہ کے بعد سوالات کے موقع پر جب ایک شخص نے جنگوں کے متعلق اعتراض کیا تو مولانا شمس صاحب نے کہا۔ یسوع مسیح نے آسمانی بادشاہت کی مثال بیان کرتے ہوئے خود ظالموں کے قتل کو جائز قرار دیا ہے۔ انہوں نے آسمانی بادشاہت کی ایک بادشاہ سے مثال دی ہے جس نے اپنے لڑکے کی شادی پر لوگوں کو کھانے کے لئے دعوت دی مگر انہوں نے دعوت قبول نہ کی اس نے پھر اپنے نوکر بھیجے مگر پھر انہوں نے انکار کیا اور بعض تو اپنے کاموں پر چلے گئے اور جو باقی رہ گئے` انہوں نے ان پیغام رسانوں کو قتل کردیا۔ تب بادشاہ اپنی فوج بھیجے گا اور ان قاتلوں کو تہ تیغ کر دے گا۱۱۱ اس مثال میں بادشاہ سے مراد خدا ہے۔ پس آنحضرت~صل۱~ کا ظالم حملہ آوروں سے جنگ کرنا اس مثال کی رو سے بالکل جائز تھا۔۱۱۲
۶۔ چھٹا مباحثہ : ۲۔ احسان/ جون کو ہوا۔ قرار یہ پایا تھا کہ مسٹر گرین دو گھنٹے میں قرآن مجید پر جتنے اعتراض کرنا چاہیں پیش کردیں اور مولانا شمس صاحب ان کا جواب دیں۔ مگر اس روز کچھ ایسا الٰہی تصرف ہوا کہ وہ پہلے مباحثات میں جو اعتراض کرتے رہے وہ بھی پیش نہ کرسکے اور جو نوٹ انہوں نے لے رکھے تھے وہ بھی غلط تھے۔
۷۔ ساتواں مباحثہ : ۱۶۔ احسان کو ہوا۔ اس روز مولانا شمس صاحب نے مسٹر گرین پر انجیل کی نسبت اعتراضات کئے جن کے جواب دینے ¶سے وہ قاصر رہے۔ بعض کے متعلق کہا۔ میں نے پہلے کبھی نہیں سنے۔ اس لئے میں جواب نہیں دے سکتا۔ اکثر کے متعلق کہا کہ میں تیاری کرکے جواب دوں گا جس سے حاضرین پر ان کی بے بسی اور لاچاری بالکل بے نقاب ہوگئی۔ اگلے جمعہ پھر مباحثہ تھا جس میں ان کی باری قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کی تھی مگر اس روز مسٹر گرین نے بالکل راہ فرار اختیار کرلی جس کی دلچسپ تفصیل مولانا شمس صاحبؓ کے قلم سے لکھی جاتی ہے:
>مباحثہ شروع ہوا اور میں نے اس کے پہلے سوال کا جو جنوں کے متعلق تھا یہ جواب دیا کہ آیت میں جنوں سے مراد الف لیلہ والے جن نہیں ہیں۔ جیسا کہ مسٹر گرین نے کہا ہے بلکہ اس سے مراد بڑے لوگ اور لیڈر ہیں تو مسٹر گرین نے کہا جب تک آپ کسی انگریزی ترجمہ کو صحیح اور مستند نہیں مان لیتے میں مباحثہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ ترجمے شخصی ہیں۔ میں ان کو صحیح مانتا ہوں لیکن اگر کسی جگہ میں سمجھوں کہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا اور عربی زبان کی رو سے اس کی غلطی ثابت کر دوں تو مجھے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ انجیل کے موجودہ تراجم جو کہ سوسائٹیوں کی طرف سے شائع کئے گئے ہیں۔ ان کے بعض الفاظ کے ترجمے کے متعلق آپ خود کہتے رہے ہیں کہ اصل یونانی لفظ یہ ہے اور اس کا صحیح ترجمہ یوں ہے۔ جب آپ سوسائٹیوں کے مستند ترجمے کی غلطی نکالنے کا حق رکھتے ہیں تو مجھے یہ کیوں حق نہیں کہ کسی ایک شخص کے ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہو تو وہ ظاہر نہ کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاضرین سمجھ گئے کہ مسٹر گرین مباحثہ نہیں کرسکتے<۔۱۱۳
سوسائٹی >فار دی سٹڈی آف ریلیجنز< کے سہ ماہی رسالہ >ریلیجنز< نے ہائیڈ پارک کے مباحثات کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔
‏ open of arena into come has Mosque London the of Imam <The presenting in energetic very is and Recently London in debates۔opponents> Cristian to faith his
یعنی تھوڑے عرصہ سے مسجد لنڈن کے امام لندن میں پبلک مباحثات کے میدان میں نکلے ہیں اور اپنے مذہب کو اپنے عیسائی مخالفوں کے سامنے پورے زور اور قوت و جوش سے پیش کرتے ہیں۔ پھر لکھا۔
‏ and case his presenting in skilful very is Imam <The۔Bible> the from libesally quotes
یعنی امام اپنی بات کو پیش کرنے میں خوب ماہر ہیں اور کثرت سے بائبل کے بھی حوالے پیش کرتے ہیں۔۱۱۴
خود مسٹر گرین نے اپنے رسالہ >دی کنگڈم نیوز< بابت ماہ جون ۱۹۴۴ء میں مبلغ اسلام کی نمایاں کامیابی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا۔
ایڈیٹر ان ایام میں ہر جمعہ کے روز ۶ بجے شام سے ہائیڈ پارک میں امام مسجد لنڈن سے پبلک مباحثہ کرتا ہے جو اس ملک کے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کا نمائندہ ہے۔
‏ the being faith the of order best the of consists who <But۔cultural> and educated most
لیکن وہ اسلام کا تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کے لحاظ سے بہترین فرقہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مختلف طبقات کے لوگ حاضر ہوتے ہیں جن کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہوتی ہے اور اڑھائی گھنٹے تک مسلسل سنتے ہیں<۔
۔Park> Hyd in experienced rarely achievement <An
یہ ایک ایسی بات یا ایسی کامیابی ہے جو ہائیڈ پارک میں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ مباحثہ کے اختتام پر فریقین حاضرین کے سوالات کا جواب دیتے ہیں۔۱۱۵
اٹلی مشن
اٹلی میں جنگی قید کے مصائب سے رہائی پانے کے بعد ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی کا پہلا خط حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی خدمت میں ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو پہنچا۔۱۱۶
مشرقی افریقہ مشن
۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو ٹبورا )مشرقی افریقہ( کی عظیم الشان مسجد >الفضل< کی تقریب افتتاح منعقد ہوئی۔ اس موقع پر سر خلیفہ بن جاروب سلطان زنجبار۔ ہز ایکسیلنسی گورنر چیف سیکرٹری` دیگر اعلیٰ سرکاری حکام` پولینڈ اور ہالینڈ کے قونصل اور مختلف مذاہب کے مشہور و معروف اصحاب نے پیغامات ارسال کئے۔ علاوہ ازیں لنڈن` قاہرہ` لیگوس` حیفا` بغداد` عدن` بمبئی` ماریشس اور سالٹ پانڈ کی احمدیہ جماعتوں کی طرف سے بھی پیغامات آئے۔ شیخ مبارک احمد صاحب انچارج مبلغ نے یہ سب پیغامات پڑھ کر سنائے اور جملہ ہمدردیوں کا شکریہ ادا کیا۔ نیز اعلان کیا کہ یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہر شخص کے لئے کھلی ہے۔ آخر میں صدر جلسہ مسٹر فاسٹر پراونشل کمشنر نے تقریر کی اور کہا کہ یہ مسجد ٹبورا بلکہ تمام علاقہ کے احمدیوں کے لئے باعث فخر ہے۔۱۱۷text] [tag
گولڈ کوسٹ مشن
جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ نے زنانہ سکول کے جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپے کی زمین اس کے لئے وقف کر دی۔ لجنہ اماء اللہ گولڈ کوسٹ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں درخواست کی کہ ہندوستان کی احمدی بہنیں بھی اس کام میں ہماری مدد کریں۔ چنانچہ حضور کی تحریک پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے چار ہزار روپے بھجوانے کا وعدہ کیا جس میں سے پندر سو کا وعدہ تو لجنہ اماء اللہ دہلی نے چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی معرفت کیا اور باقی رقم ملک کی دوسری مختلف لجنات پر ڈال دی گئی۔۱۱۸
۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کی نئی مطبوعات
۱۔ >ظہور مصلح موعود< )مولفہ مولوی شریف احمد صاحب امینی مولوی فاضل مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان( دعویٰ مصلح موعود کے مبارک دور کی یہ پہلی کتاب ہے۔
۲۔ >مقطعات قرآنی< )حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب کے >الفضل< میں شائع شدہ علمی مضامین کا مجموعہ<۔
۳۔ DIN -UD- RIHBAS MIRZA HAZRAT OF WORK AND AHMAD>LIFE MAHMUD
)حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حیات طیبہ اور کارنامے(
چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی ایک بلند پایہ انگریزی تالیف جو نیو بک سوسائٹی )پوسٹ بکس نمبر ۴۷( لاہور نے شائع کی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی اسی اشاعتی ادارے کی طرف سے >مرزا بشیر الدین محمود احمد< کے نام سے چھپا تھا۔
۴۔ >شان محمدﷺ<~ )ابو البشارت مولانا عبدالغفور صاحب فاضل مبلغ سلسلہ کی سالانہ جلسہ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کی کامیاب تقریر(
۵۔ >موعود اقوام عالم< )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر(
اس مختصر مگر جامع کتاب میں ہندو دھرم` عیسائی مذہب` اسلام اور سکھ ازم کے لٹریچر کی رو سے مسیح موعود کی بعثت کے معین زمانہ` مقام ظہور` حسب و نسب اور دوسرے ارضی و سماوی علامات پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی تھی۔
۶۔ >دعوت نامہ بخدمت جمیع علماء کرام و صوفیائے عظام و دیگر ہمدردان اسلام<
)مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر کا لکھا ہوا ایک تبلیغی کتابچہ جو نشر و اشاعت دعوت و تبلیغ قادیان نے شائع کیا(
>ادعیتہ المسیح الموعود< )مرتبہ و شائع کردہ میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان(
۸۔ >ستیارتھ پرکاش ایجی ٹیشن پر تبصرہ< )مولفہ مہاشہ فضل حسین صاحب(
اس رسالہ میں آریہ سماج اور بانی آریہ سماج کے متعلق بہت سی مفید معلومات جمع کرنے کے علاوہ ستیارتھ پرکاش کی ضبطی کے سوال پر بھی بحث کی گئی اور بتایا گیا تھا کہ کن تجاویز کو بروئے کار لا کر اس کتاب کی اشاعت روکی جاسکتی ہے اور مسلمان آریہ سماجی زہر کا مداوا کرسکتے ہیں-
اخبار >انقلاب< لاہور نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ
>ملک فضل حسین صاحب کی اس مختصر کتاب میں ستیارتھ کے متعلق ایسی اہم معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں جو اس معاملے سے خاص شغف رکھنے والوں کے سامنے بھی نہیں ہوں گی۔ مذہبی مباحث سے دلچسپی رکھنے والے تمام احباب اگر اسے کم از کم ایک مرتبہ پڑھ لیں تو یقیناً ان کے علم و نظر میں بڑا قیمتی اضافہ ہوگا<۔۱۱۹
اندرون ملک کے مشہور مناظرے
اس سال میں دہلی` چمبہ` بوہد پور اور ڈلوال میں بہت کامیاب مناظرے ہوئے۔
مباحثہ دہلی
آریہ ترک شانسی سبھا دھلے نے ایک کھلا چیلنج شائع کرکے تمام مذاہب کو دعوت مناظرہ دی تھی جو انجمن احمدیہ دہلی نے منظور کرلی۔ چنانچہ ۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو دیوان ہال دہلی میں >ویدک دھرم عالمگیر ہے یا نہیں< کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے نمائندگی کی۔ جو دو روز قبل اسی جگہ >میرے مذہب میں عورت کا مقام< کے موضوع پر بھی کامیاب لیکچر دے چکے تھے۔ اس مناظرہ میں اسلام کو ایسی بین اور نمایاں فتح نصیب ہوئی کہ غیروں تک نے اس کا اقرار کیا۔ خصوصاً مسلمانوں کو اس عظیم الشان کامیابی سے بہت خوشی ہوئی ہجوم کا یہ عالم تھا کہ تمام دیوان ہال` اس کی گیلریاں` دروازے اور کھڑکیاں تک لوگوں سے پر تھیں۔
مباحثہ چمبہ
چمبہ میں ۴۱۔ ۱۹۴۰ء/ ۲۰۔ ۱۳۹۱ہش سے پادری عنایت مسیح نے اسلام اور احمدیت کے خلاف تقاریر کرنا اپنا شیوہ بنا رکھا تھا۔ آخر جماعت احمدیہ چمبہ نے پادری صاحب مذکور کو چیلنج کیا اور مرکز سے مولوی محمد حسین صاحب` مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور مولوی چراغ الدین صاحب چمبہ پہنچ گئے۔ ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر کو پہلا مناظرہ >کفارہ< پر ہوا۔ مدعی پادری عنایت مسیح نے انجیل اور قرآن مجید سے مسئلہ کفارہ ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی مگر مولوی چراغ دین صاحب نے جواب میں ایسی مدلل تقریر کی کہ حاضرین عش عش کر اٹھے اور دس ایسے سوالات پیش کئے کہ پادری صاحب آخر تک ان کے جواب نہ دے سکے اور اپنی ذلت کو چھپانے کے لئے بدزبانی پر اتر آئے۔ جماعت نے نہایت صبر و تحمل کا ثبوت دیا اور اس طرح پادری صاحب کا دجل پاش پاش ہوگیا۔ حاضرین نے احمدی مناظر کی قابلیت اور کامیابی پر مبارکبادیں دیں۔
دوسرے روز مناظرہ کا موضوع صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا۔ لوگ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوئے مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی نے قرآن مجید سے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ثبوت میں دس آیات اور انجیل سے انتیس حوالے پیش کئے اور پادری صاحب کو توجہ دلائی کہ وہ حسب سابق درشت کلامی سے کام نہ لیں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکنے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ تہذیب اور شرافت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ پادری صاحب نے بجائے اصل موضوع پر آنے کے بے معنی غلط اور بے ربط اعتراضات شروع کر دیئے اور ہندو مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا مولوی صاحب نے پادری صاحب کے ہر سوال کے تحقیقی اور الزامی جوابات دیئے۔ پادری صاحب نے پھر ہندو` مسلمانوں کو بھڑکانا شروع کیا تاکہ لوگ اس گہرے اثر کو جو مولوی صاحب کے جواب سے پیدا ہوا تھا بھول جائیں۔ لیکن نتیجہ کے طور پر اکثر مسلمان پادری صاحب کی اس پالیسی کے خلاف ہوگئے۔ آخر میں مولوی صاحب نے صداقت حضرت مسیح موعودؑ پر ایسی واضح تقریر کی کہ مناظرہ ختم ہوتے ہی مسلمانوں نے بڑے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔۱۲۰
چمبہ میں چاروں طرف احمدیوں کی کامیابی کا چرچا ہوگیا اور احمدی مناظروں کی قابلیت کی دھاک بیٹھ گئی حتیٰ کہ اگر کوئی شخص بے سرو پا بات کرتا تو لوگ ضرب المثل کے طور پر کہہ دیتے تھے کہ >کیوں پادری عنایت مسیح بنتے ہو<!۱۲۱
مباحثہ گوہدپور )ضلع گورداسپور(
مورخہ ۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو جماعت احمدیہ کھوکھر اور اہلسنت و الجماعت گوہدپور کے درمیان موضع گوہدپور )تھانہ دھاریوال ضلع گورداسپور( میں مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر شاندار مناظرہ ہوا۔ شرائط مناظرہ پہلے سے طے شدہ تھیں۔ جن کے مطابق اہلسنت و الجماعت کوئی ایسا مناظر پیش نہ کرسکے جو مولوی فاضل ہوتا اور اپنی سند دکھا کر مناظرہ کرنے کو تیار ہوتا۔ متواتر تین گھنٹے کے مطالبہ کے بعد اہلسنت کو دو صد روپیہ ہرجانہ معاف کیا گیا اور ذیلدار صاحب علاقہ کے کہنے اور سفارش کرنے پر مولوی عبداللہ صاحب امرتسری اہلحدیث کو مناظرہ کی اجازت دی گئی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری مولوی فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ مناظر تھے۔ جنہوں نے شرائط کے مطابق اپنی سند اور تمغہ پنجاب یونیورسٹی میں اول رہنے کا دکھایا اور مناظرہ شروع ہوا۔ پہلی تقریر مولوی عبداللہ صاحب نے کی جس کے جواب میں احمدی مناظر نے ان کی تقریر کے دلائل کو توڑ کر ھباء منثورا کر دیا۔ مزید برآں اور دس مطالبات ایسے کئے کہ جن کا جواب اہلحدیث مناظر آخر وقت تک نہ دے سکے بلکہ اہلحدیث مناظر اپنی عادت کے مطابق اہلسنت و الجماعت کے بزرگان سلف صالحین` حضرت امام ابن قیم~رح`~ حضرت ابن عباس~رح`~ حضرت علامہ ابن جریر~رح~ وغیرہم کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے جس سے اہلسنت و الجماعت کے افراد کو بہت تکلیف ہوئی اور اس کا اثر پبلک پر بہت برا ہوا۔ نیز ان کو قرآنی آیات غلط پڑھنے اور عربی عبارات اور الفاظ کو غلط بولنے کی وجہ سے بہت شرمندگی اٹھانا پڑی۔
مناظرہ ۲/۱ ۱ بجے شروع ہوکر ۲/۱ ۴ بجے ختم ہوا اور اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اخلاقی اور علمی ہر لحاظ سے فتح عطا فرمائی فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔ مناظرہ میں قادیان` اٹھوال` شاہ پور` کنجراں` نارواں` دھرمکوٹ بگہ` ونجواں` وہن فتح` کھوکھر` ستکوہہ` پیرو شاہ` تھہ غلام نبی` ہرسیاں` فیض اللہ چک` تلونڈی جھنگلاں` ممرا` دیا لگڑھ اور دیگر قرب نواح کی جماعتوں کے افراد شامل ہوئے۔۱۲۲
مباحثہ ڈلوال )ضلع جہلم(
ضلع جہلم میں ڈلوال اور دوالمیال دو قصبے ہیں جہاں مولوی لال حسین صاحب اختر نے احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو جماعت احمدیہ نے منظور کرلیا اور اختر صاحب ہی کی شرائط پر ۲` ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو مناظرہ کی تاریخیں تجویز ہوئیں اور مناظرہ ان کی خواہش کے مطابق قصبہ ڈلوال کی جامع مسجد میں قرار پایا۔ جہاں صرف دو احمدی تھے۔ پہلا مناظرہ وفات و حیات مسیحؑ پر زیر صدارت مولوی محمد حسین صاحب ہوا۔ مولوی لال حسین صاحب نے مدعی ہونے کی حیثیت سے جو احادیث و اقوال پیش کئے۔ چوہدری محمد یار صاحب عارف نے ان کے نہ صرف تسلی بخش جواب دیئے بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث سے حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انعامی چیلنج بھی پیش کئے جن کا جواب مولوی لال حسین صاحب آخر تک نہ دے سکے اور پبلک پر یہ اثر ہوا کہ مناظرہ کے بعد بعض غیر احمدیوں نے صاف کہا کہ مولوی لال حسین صاحب احمدی مناظر کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں۔
دوسرے دن >فیضان ختم نبوت< کے مسئلہ میں مدعی جماعت احمدیہ تھی۔ سید احمد علی صاحب احمدی مناظر نے قرآن کریم کی کئی آیات اور احادیث نبویہ سے ثابت کیا کہ آنحضرت~صل۱~ کی اتباع میں نبوت حاصل ہو سکتی ہے۔ مولوی لال حسین صاحب نے جو آیات` احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال پیش کئے ان کا نہایت عمدہ جواب دیا گیا اور اقوال بزرگان پیش کرکے جماعت احمدیہ کے عقیدہ کی صداقت ثابت کی گئی۔ مولوی لال حسین صاحب سوائے درشت کلامی کے کوئی جواب نہ دے سکے۔
تیسرا مناظرہ اسی دن بعد دوپہر تھا اور یہی مناظرہ سننے کے لئے مولوی لال حسین اور اس کے ساتھی لوگوں کو تیار کررہے تھے۔ اس مناظرہ پر پبلک کثرت سے آئی۔ مسجد کی چھت اور اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی کافی ہجوم تھا۔
جب مناظرہ شروع ہوا تو مولوی محمد یار صاحب عارف نے پہلی تقریر ہی ایسے رنگ میں کی کہ پبلک نے خاص توجہ سے سنی۔ آپ نے قرآن مجید کی چار آیات سے صداقت ثابت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کہ۔ ~}~
ہے کوئی کاذب جہاں میں لائو لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار
اور اختر صاحب سے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرنے کا پرزور مطالبہ کیا۔ عارف صاحب نے علاوہ قرآنی آیات کے دس احادیث اور بیس پیشگویاں حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کے ثبوت میں پیش کیں۔ مناظرہ کا مقررہ وقت ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پیشتر ہی غیر احمدی مناظر کے ساتھیوں نے اپنے مناظر کی کمزوری محسوس کرکے نماز کے بہانہ سے مناظرہ ختم کرنا چاہا جو منظور کرلیا گیا مگر ہماری آخری تقریر میں شور کرنا شروع کردیا۔ غیر احمدی شرفاء اور شیعہ معززین نے جماعت احمدیہ کی نمایاں کامیابی کا اقرار کیا۔۱۲۳
دوسرا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳` ۴۔
۲۔
مسلم سپین کی تاریخ کے لئے ملاحظہ ہو >حضارۃ العرب فی الاندلس< تالیف السید عبدالرحمن البرقوقی۔ >نفح الطیب< تالیف مقری۔ >المعجب< تالیف علامہ عبدالواحد مراکشی۔ >الاحاطہ فی اخبار غرناطہ< تالیف الوزیر محمد لسان الدین ابن الخطیب۔ >تاریخ اسپین< تالیف سید قمر الدین احمد قمر سندیلوی۔ >تاریخ اندلس< از حضرت مولانا عبدالرحیم درد۔ >ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ< یعنی اخبار الاندلس از سکاٹ۔ >مورز ان سپین< از لین پول۔ >عبرت نامہ اندلس< از پروفیسر رائن ہارٹ ڈوزی۔
۳۔
سورۃ الحج آیت ۴۰۔
۴۔
الفضل ۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۲۔ ۶۳۔
۶۔
ایضاً صفحہ ۶۵۔
۷۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۸۔
۸۔
مکرم مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب مراد ہیں۔
۹۔
یہ نکاح مکرم قاضی محمد رشید صاحب مرحوم وکیل المال تحریک جدید کی صاحبزادی صفیہ صدیقہ صاحبہ سے ہوا تھا۔ حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے اپنی اس خاص محبت کے پیش نظر جو آپ کو واقفین سے تھی اس رشتہ کا انتخاب بھی خود فرمایا اور پھر قاضی صاحب مرحوم کو تحریک بھی خود ہی فرمائی۔ آپ اس وقت سکندر آباد دکن میں حکومت کے سویلین گزیٹڈ آفیسر تھے۔ حضور نے شادی کے جملہ اخراجات بھی اپنی جیب خاص سے عطا فرمائے اور دعوت ولیمہ ۲۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو قصر خلافت ہی میں ہوئی )الفضل ۲۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱(
۱۰۔
سورۃ الحجرات آیت ۱۴۔
۱۱۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۱۲۔
ایضاً۔
۱۳۔
الفضل ۱۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔
۱۴۔
الفضل ۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵ کالم ۲۔
۱۵۔
الفضل ۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶ کالم ۱ و ۲۔
۱۶۔
اخبار اہلحدیث امرتسر ۳۔ نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۷۔
اخبار اہلحدیث امرتسر ۸۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۸۔
ہفت روزہ پیغام صلح لاہور ۳۱۔ مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۱۹۔
الفضل ۷۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۲۔
۲۰۔
حضرت سیدہ موصوفہ ۷۔ اپریل ۱۹۱۹ء کو بمقام جہلم اپنے ننھیال میں پیدا ہوئیں۔ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں میٹرک کے امتحان کے علاوہ قادیان کی دینیات کی دو جماعتیں بھی پاس کیں۔ پھر جامعہ نصرت ربوہ سے ایف۔ اے کیا۔ اس کے بعد بی۔ اے کے لئے داخلہ لیا مگر حضرت اقدس سیدنا المصلح الموعودؓ کی طویل اور مسلسل علالت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بے پناہ اور غیر معمولی ذمہ داریوں کی بجا آوری کے لئے کالج چھوڑ دیا اور اپنے مقدس شوہرؓ کی خدمت کے لئے آخری لمحات تک وقف ہوگئیں۔ آپ نے شادی کے معاًبعد ہی لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کی ہجرت کے بعد پاکستان میں سیکرٹری خدمت خلق` سیکرٹری تربیت و اصلاح وغیرہ کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ان دنوں لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری خدمت خلق ہونے کے علاو نائب صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے عہدہ پر بھی ممتاز ہیں۔ )یہ حاشیہ وسط ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش میں لکھا گیا ہے(
حضرت سیدہ موصوفہ کے چار بہن بھائی ہیں۔ ۱۔ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ۔ ۲۔ سید کلیم احمد شاہ صاحب۔ ۳۔ سید نعیم احمد شاہ صاحب۔ ۴۔ سید نسیم احمد صاحب۔
۲۱۔
الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۲۲۔
تذکرہ طبع دوم صفحہ ۶۹۱۔ ۶۹۲ و بدر جلد ۶ نمبر ۸ مورخہ ۲۰۔ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ و الحکم جلد ۱۱ نمبر ۷ مورخہ ۲۴۔ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۔
۲۳۔
روزنامہ الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۴۔
الفضل ایضاً صفحہ ۶ کالم ۲۔
۲۵۔
حضرت شاہ صاحب ان دنوں سنٹرل جیل لاہور کے سپرنٹنڈنٹ تھے مگر اسی سال کے آخر میں انہیں اس عہدہ سے ترقی دے کر ڈپٹی انسپکٹر جنرل جیل خانجات پنجاب بنا دیا گیا۔ مدیر و مالک اخبار پرتاپ نے ان کے اس نئے اعزاز پر یہ نوٹ لکھا۔
>شاہ صاحب احمدی ہیں اور میں آریہ سماجی۔ باوجود اس کے میں انہیں اس ترقی پر مبارکباد دیتا ہوں کیونکہ وہ ہر لحاظ سے اس کے مستحق ہیں۔ بہت کم سپرنٹنڈنٹ ہیں جو ہر دلعزیزی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرسکیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا ترس اور فرض شناس ہیں۔ ان کی خداترسی انہیں کسی قیدی پر بے جا سختی کی اجازت نہیں دیتی اور ان کی فرض شناسی اس بات پر تیار کرتی ہے کہ قواعد کی حدود میں رہ کر قیدیوں سے بہترین سلوک کیا جائے۔ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات جلد ریٹائر ہونے والے ہیں۔ کیا معلوم کہ مجھے ایک بار پھر انہیں مبارکباد دینے کا موقعہ ملے<۔ )پرتاپ دسمبر ۱۹۴۴ء بحوالہ الفضل ۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴(
۲۶۔
الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔
۲۷۔
ایضاً صفحہ ۸ کالم ۱۔
۲۸۔
الفضل ۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۲۹۔
الفضل ۱۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔ حضرت اقدس ان دنوں ڈلہوزی میں قیام فرما تھے۔ اس لئے اس دعوت کا اہتمام حضور کے ارشاد کی تعمیل میں )جو بذریعہ تار موصول ہوا( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کیا اور دعا حضرت مولوی شیر علی صاحب امیر مقامی نے کرائی۔ ڈلہوزی میں بھی ایک دعوت ہوئی جس میں حضور کے ہمراہ گئے ہوئے احباب اور دیگر احمدیوں نے شرکت کی۔
۳۰۔
الہدیٰ و التبصرۃ لمن یریٰ صفحہ ۶۵۔ ۶۶ طبع اول۔
۳۱۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۳۲۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۱ تا ۳۔
۳۳۔
الفضل ۹۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔
۳۴۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۴۔
۳۵۔
الفضل ۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۳۶۔
الفضل ۱۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔
۳۷۔
الفضل ۱۹۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۳۸۔
تقسیم ملک کے بعد آپ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
۳۹۔
ریاست چنبہ کے فرمانروا راجہ رام سنگھ جی دسمبر ۱۹۳۵ء میں سرگباش ہوگئے اور ان کی جگہ ان کے بیٹے راجہ لکشمن جی گدی نشین ہوئے۔ لکشمن جی چونکہ ان دنوں ایچی سن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کررہے تھے اس لئے ان کی نابالغی کے زمانہ میں ریاستی انتظام کے لئے ایک کونسل آف ایڈمنسٹریشن مقرر کر دی گئی تھی۔ )تذکرہ رئوسائے پنجاب جلد دوم مولفہ سر لیپل ایچ گریفن و کرنل میسی مترجم سید نوازش علی طبع دوم ۱۹۴۰ء صفحہ ۷۸۳(
۴۰۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء/ ۲۴۔ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۳۰۔
۴۱۔
الفضل ۱۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔ ۳۔
۴۲۔
الفضل ۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔ کالم ۲۔
۴۳۔
الفضل ۱۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔ ۳۔
۴۴۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۸ کالم ۴۔
۴۵۔
الفضل یکم فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔
۴۶۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۸۔
۴۷۔
ترجمان القرآن مئی ۱۹۵۰ء صفحہ ۷ پر صاف لکھا ہے۔ >اس کا دین ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سیاست ہے<۔
۴۸۔
ولادت ۲۵۔ ستمبر ۱۹۰۳ء بمقام اورنگ آباد حیدر آباد دکن۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۱۸۹۶ء میں ملک کے جن مشہور سجادہ نشینوں کو مباھلہ کا چیلنج دیا مگر وہ میدان میں آنے کی جرات نہ کرسکے ان میں آپ کے دادا سید حسین شاہ صاحب مودودی دہلی بھی تھے۔ )انجام آتھم صفحہ ۷۱ طبع اول(
۴۹۔
محرم الحرام ۱۳۴۹ہش )مطابق مئی` جون ۱۹۳۰ء( کا واقعہ ہے ابو محمد مصلح صاحب نے ریاست حیدر آباد دکن کی سرپرستی میں ایک ادارہ عالمگیر قرآنی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ اور ایک رسالہ ترجمان القرآن بھی جاری کیا جس کا انتظام انہوں نے ذی الحجہ ۱۳۵۱ھ )مطابق مارچ` اپریل ۱۹۳۳ء( کے شمارہ کے بعد مودودی صاحب کے سپرد کردیا )قرآنی تحریک کی مختصر تاریخ مرتبہ ابو محمد مصلح سلسلہ اشاعت قرآن حیدر آباد دکن جلد ۴ نمبر ۷` ۸ ترجمان القرآن ذی الحجہ ۱۳۵۱ھ۔
۵۰۔
روئداد جماعت اسلامی حصہ اول صفحہ ۳ طبع اول ناشر مکتبہ جماعت اسلامی دارالاسلام جمال پور پٹھانکوٹ۔
۵۱۔
روئداد جماعت اسلامی حصہ اول صفحہ ۳۴۔
۵۲۔
الفضل ۳۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۵۳۔
ایک شخص نے اسی زمانہ میں مودودی صاحب سے دریافت کیا کہ کیا ایک کافر حکومت کے اندر رہتے ہوئے یہ جائز ہے کہ آدمی لائسنس کے بغیر یا مقررہ موسموں اور اوقات میں شکار کھیلے اور بغیر لیمپ کے راتوں کو موٹر یا بائیسکل چلائے جناب مودودی صاحب نے ترجمان القرآن میں اس کا حسب ذیل جواب دیا۔ >اگر آپ ایک ایسی حکومت کے اندر رہتے ہیں تو انتظام ملکی کو برقرار رکھنے کے لئے جو ضابطے اس نے بنائے ہیں اور جو قوانین بہرحال ایک منظم سوسائٹی کو بحال رکھنے کے لئے ضروری ہیں انہیں خواہ مخواہ توڑنا آپ کے لئے درست نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قانون شکنی کے معنی بدنظمی (DISORDER) پیدا کرنے کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں نظم دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ بدنظمی۔ اس لئے اگر آپ خواہ مخواہ اس کی زمین کا نظم بگاڑیں گے تو اس کی تائید سے محروم رہیں گے<۔ )ترجمان القرآن محرم` صفر ۱۳۶۴ھ )جنوری` فروری ۱۹۴۵ء بحوالہ رسائل و مسائل صفحہ ۴۶۳` ۴۶۴ طابع و ناشر مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی اچھرہ لاہور طبع اول ستمبر ۱۹۵۱ء(
۵۴۔
‏h2] [tag الفضل ۲۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔ کالم ۳۔ ۴۔
۵۵۔
الفضل ۳۰۔ دسمبر/ فتح ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔ ۴۔
۵۶۔
الازھار لذوات الخمار مرتبہ حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ صفحہ ۴۰۹۔ ۴۱۰ طبع دوم۔
۵۷۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۴۲۴ہش صفحہ ۱ و ۳ میں اس کا ملخص شائع ہوچکا ہے۔
۵۸۔
الفضل ۳۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶ کالم ۱ و ۲۔
۵۹۔
‏h2] [tag الموعود )تقریر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرمودہ ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش بمقام قادیان( الناشر۔ الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ۔ طبع اول صفحہ ۲۰۸ تا ۲۱۶۔
۶۰۔
الفضل ۳۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵۔ ۶۔
۶۱۔
الفضل ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۶۲۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش مندرجہ الفضل ۱۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۶۳۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۶۴۔
‏]2h [tag الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۔ ۳۔
۶۵۔
الفضل ۳۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۶۶۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵ )ابتدائی سوانح کے لئے ملاحظہ ہو ان کی کتاب قادیان صفحہ ۶۲` ۶۴(
۶۷۔
الض ۲۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵۔ ۶۔
۶۸۔
الفضل ۵/ ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔ ۵۔
۶۹۔
الفضل یکم اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۷۰۔
الفضل ۲۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۷۱۔
الفضل ۱۰۔ وفا/ ستمبر صفحہ ۳ کالم ۳۔ ۴۔
۷۲۔
الفضل ۲۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۷۳۔
الفضل ۲۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۷۴۔
لاہور تاریخ احمدیت )مولفہ شیخ عبدالقادر صاحبؓ( صفحہ ۳۳۵۔ طبع اول سن اشاعت ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش۔
۷۵۔
ایضاً۔
۷۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۷۷۔
اس واقعہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۵۸۲۔ ۵۸۶ میں آچکی ہے۔
۷۸۔
الفضل ۲۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۷۹۔
الفضل ۲۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۸۰۔
الفضل ۱۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔
۸۱۔
رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۱ صفحہ ۲۴۵ و ۲۴۶۔
۸۲۔
الحکم ۱۷۔ دسمبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۲ کالم ۳۔
۸۳۔
مولف اصحاب احمد کی تحقیق کے مطابق حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے اپریل یا مئی ۱۹۰۱ء میں ہجرت فرمائی اور سفر کشمیر سے ۲۷۔ نومبر ۱۹۰۱ء واپس قادیان تشریف لائے اصحاب احمد جلد پنجم حصہ دوم صفحہ ۱۶` ۱۷ حاشیہ(
۸۴۔
روزنامہ الفضل ۱۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۵۔
الفضل ۲۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴۔ ۔
۸۶۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵۔ منشی احمد حسین صاحب ہیڈ کاتب الفضل ربوہ آپ ہی کے صاحبزادے ہیں۔
۸۷۔
الفضل ۳۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۸۸۔
الفضل ۱۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۔
۸۹۔
الفضل ۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲۔
۹۰۔
الفضل ۲۵` ۲۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ )مفصل تقریر الفضل ۲۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ۳`۴ میں چھپ گئی تھی۔
۹۱۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۲۔
الفضل ۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۹۳۔
کلیات آریہ مسافر صفحہ ۴۹۸۔
۹۴۔
الفضل ۱۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳` ۴۔
۹۵۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۹۶۔
الفضل ۱۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۹۷۔
الفضل ۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۹۸۔
الفضل ۱۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ و الفضل یکم شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔
۹۹۔
الفضل ۱۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔
۱۰۰۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔
۱۰۱۔
الفضل یکم شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۱۰۲۔
الفضل یکم شہادت/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵۔
۱۰۳۔
الفضل ۲۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۰۴۔
ہفت روزہ اصلاح سرینگر ۱۷` ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش )مضمون میر غلام محمد صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت ہائے احمدیہ کشمیر(
۱۰۵۔
الفضل ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۶۔
الفضل ۲۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۷۔
الفضل ۱۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۵۔
۱۰۸۔
اس آیت میں پیشگوئی ہے خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔ ۴ )حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ کے قلم سے مباحثات کی مفصل رپورٹ(
۱۱۰۔
حضرت مسیح کا یہ مشہور وعظ متی باب ۵ تا ۷ میں لکھا ہے۔
۱۱۱۔
یہ تمثیل متی باب ۲۱` مرقس باب ۱۲ اور لوقا باب ۲۰ میں درج ہے۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴۔
۱۱۳۔
الفضل ۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۴۔
ایضاً۔
۱۱۵۔
الفضل ۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۱۱۶۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ پر اس مکتوب کا متن چھپ گیا تھا۔
۱۱۷۔
الفضل ۲۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔
۱۱۸۔
الازھار لذوات الخمار طبع دوم صفحہ ۴۱۱ مرتبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ۔
۱۱۹۔
الفضل ۲۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۱۲۰۔
الفضل ۱۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔
۱۲۱۔
ایضاً۔
۱۲۲۔
الفضل ۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۲۳۔
الفضل ۱۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۶۔
‏vat,10.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
تیسرا باب )فصل اول(
سیدنا المصلح الموعود کی طرف سے انگلستان اور ہندوستان کو باہمی صلح کا پیغام` چودھری محمد ظفر اللہ خاں کا لنڈن کی کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں آزادی کا پرجوش کلمہ حق اور آزادی ہند کی آئینی جدوجہد کے آخری اور فیصلہ کن مرحلہ کا آغاز
آزادی ہند اور قیام پاکستان کے لئے جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات اور مجاہدانہ کارنامے
از صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش تا ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش
۱۹۴۵ء کا سال ہندوستان کے سیاسی مطلع پر ایک نہایت مایوس کن ماحول میں طلوع ہوا۔ آزادی ہند کے تعلق میں کرپس مشن۱ کی ناکامی کے بعد ہندوستان اور انگلستان کے درمیان زبردست تعطل پیدا ہوچکا تھا اور باہمی سمجھوتہ کے امکانات بظاہر ختم ہوچکے تھے اور اس کے لئے ہندوستانی اور انگریز دونوں ہی کوئی نیا قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ اس زمانہ کے قریب قریب عرصہ میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی آزادی سے متعلق سوالات کے جو بھی جوابات دیئے گئے وہ حد درجہ مایوس کن تھے اور عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کا سوال ایک عملی سیاست کے طور پر انگلستان کے سیاسی مدبروں کے سامنے نہیں آسکتا۔ علاوہ ازیں لارڈ ویول جو کرپس مشن کی آمد کے وقت ہندوستان کی فوجوں کے کمانڈر انچیف تھے اور اب وائسرائے ہند کے عہدہ پر تھے۔ ہندوستانی حقوق آزادی کے عموماً اور تحریک پاکستان کے خصوصاً بہت مخالف سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ وہ ۱۴۔ دسمبر ۱۹۴۴ء کو ایسوسی ایٹڈ چیمبر آف کامرس کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے یہاں تک کہہ چکے تھے کہ۔
>اگر ہندوستان سیاسی اختلافات کے بخار میں مبتلا رہا اور اس کے سیاسی ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اس کے جسم پر بڑا آپریش ہونا چاہئے جیسا کہ پاکستان۔ تو ہندوستان ایک بہترین موقعہ کھو دے گا اور یہ عظیم ملک خوشحالی اور فلاح کی جنگ میں ناکامیاب رہے گا<۔۲
ان مخدوش اور سراسر ناموافق حالات میں جبکہ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ نے >اسیروں کے رستگار< حضرت سیدنا المصلح الموعود کو تحریک فرمائی کہ انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کی دعوت دیں اور انہیں توجہ دلائیں کہ انہیں آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس آسمانی دعوت کو جو مختلف الہاموں اور کشوف اور رئویا کے نتیجہ میں تھی۔۳ اگر ہندوستان کی آزادی کا روحانی پس منظر قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ اس کے بعد نہ صرف ہندوستان بلکہ انگلستان کی ملکی سیاسیات میں یکایک غیر معمولی تغیرات و انقلابات پیدا ہوگئے بلکہ صرف ڈھائی سال کے نہایت قلیل عرصہ میں ہندوستان غیر ملکی تسلط سے آزاد ہوگیا اور پاکستان جیسی عظیم اسلامی مملکت معرض وجود میں آگئی۔
حضرت مصلح موعود کا پیغام صلح
چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۱۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مسجد اقصیٰ قادیان کے منبر پر ایک انقلاب انگیز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انگلستان اور ہندوستان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>وقت آگیا ہے کہ انگلستان` برٹش ایمپائر کے دوسرے ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میل جول رکھے اور اس کے ساتھ صلح کرنے کے لئے پرانے جھگڑوں کو بھلا دے۔ اور دونوں مل کر دنیا میں آئندہ ترقیات اور امن کی بنیادوں کو مضبوط کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے انگلستان تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف میں ہندوستان کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بھلا دے<۔
نیز فرمایا۔
>میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں۔ میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آئو! اور ہندوستان سے صلح کرلو اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جائو! اور انگلستان سے صلح کرلو اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دعوت دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے ہر ایک کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کرلو اور میں ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک دینوی تعاون کا تعلق ہے ہم ان کی باہمی صلح اور محبت کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں اور میں دنیا کی ہر قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں۔ ہم کانگرنس کے بھی دشمن نہیں` ہم ہندو مہاسبھا والوں کے بھی دشمن نہیں` مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں۔ اور خاکساروں کے بھی دشمن نہیں۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم تو احراریوں کے بھی دشمن نہیں۔ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف ان کی ان باتوں کو برا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں۔ ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں اور ہم سب سے کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خدا تعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں۔ ساری دنیا سیاسیات میں الجھی ہوئی ہے۔ اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی تبلیغ کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا<۔۴
حضرت امیر المومنینؓ نے انگلستان و ہندوستان کے نام صلح کا پیغام دینے کے ساتھ ہی یہ خبر دی کہ اگرچہ آپ کی دعوت مصالحت کا سیاسی دنیا پر بظاہر کوئی اثر نہیں ہوسکتا مگر خدا تعالیٰ قادر ہے کہ وہ آپ کی آواز کو بلند کرنے اور موثر بنانے کا انتظام فرما دے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔>اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرنا اس زمانہ میں جبکہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جماعت ہے بالکل ایک بے معنی سی چیز نظر آتی ہے۔ میری آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہوسکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثر ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انگلستان کو نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں ہی اڑ جائے اور اب تو ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اڑ جانے کا بھی کیا خوف ہوسکا ہے جبکہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے<۔۵
کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا حریت پرور خطاب
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنالیتا ہے۔ یہی صورت یہاں ہوئی۔ حضرت امیر المومنین کے خطبہ کے معاًبعد
اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ حکومت ہند نے احمدیت کے مایہ ناز فرزند چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو )جو ان دنوں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے جج تھے( کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان بھجوایا۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۴۵ء کو CHATCHANHOUSE) میں( کانفرنس کا افتتاح ہوا جس میں آپ کو بھی بتاریخ ۱۹۔ فروری( خطاب کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ باوجود یہ کہ آپ اس وقت سرکاری نمائندہ تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے تصرف خاص سے آپ کو یہ توفیق بخشی کہ آپ نے حضرت مصلح موعود کے خطبہ کے بیان کردہ مطالب کو نہایت عمدگی اور کمال خوبی سے اپنی زبان میں انگلستان کے سامنے رکھا اور برطانیہ سے ہندوستان کے لئے مکمل درجہ نو آبادیات دیئے جانے کا مطالبہ ایسے پرزور` اثر انگیز اور پرقوت و شوکت الفاظ میں پیش فرمایا کہ پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ چنانچہ انگلستان کے سربرآوردہ اخبارات میں بڑے بڑے لیڈروں نے چوہدری صاحب کی تقریر کے خلاف یا اس کی تائید میں مضامین لکھے۔ انگلستان سے امریکہ کے نمائندوں نے تاروں کے ذریعہ اس آواز کو امریکہ میں پھیلایا اور رائٹر کے نمائندہ نے اسے ہندوستان میں پہنچایا۔ اور پھر ہندوستان کے مختلف گوشوں سے اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ اس طرح تھوڑے دنوں کے اندر اندر حضرت مصلح موعود کی آواز سے ہندوستان` انگلستان اور امریکہ گونج اٹھے۔۶
محترم چودھری صاحب نے کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں جو معرکتہ الاراء تقریر کی اس نے تاریخ آزادی ہند میں ایک نئے اور سنہری باب کا اضافہ کیا۔ آپ نے فرمایا۔
>ہندوستان کو اپنے حصول مقصد سے زیادہ دیر تک روکا نہیں جاسکتا۔ ہندوستان نے برطانوی قوموں کی آبادی کی حفاظت کے لئے پچیس لاکھ فوج میدان میں بھیجی ہے مگر وہ اپنی آزادی کے لئے دوسروں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ ہندوستان کی حالت اب بدل چکی ہے۔ جنگ نے اسے اپنی اہمیت کا پورا احساس کرا دیا ہے۔ اس کے صنعتی ذرائع منظم ہوچکے ہیں اور آج وہ اتحادیوں کے لئے اسلحہ کے گودام کا کام دے رہا ہے۔ اتحادی چین کو بڑی چار طاقتوں میں شمار کرنے لگے ہیں۔ مگر ہندوستان کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں۔ ہندوستان کئی پہلوئوں سے چین سے آگے ہے۔ چین صرف آبادی اور رقبہ کے مقابلے میں آگے ہے ورنہ صنعت` قوت ساخت` اعلیٰ تعلیم` آرٹ` سائنس` رسل و رسائل` صحت` قیام امن و آئین اور دیگر تمام معاملات میں ہندوستان کا درجہ بلند ہے۔ ہندوستان کے اندرونی اختلافات کچھ بھی ہوں مگر وہ چینیوں کے باہمی تفاوت سے زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوسکتے۔ ہندوستان پر کئی بار حملے ہوئے ہیں مگر ہندوستان نے کبھی بھی کسی پر حملہ نہیں کیا۔ ہندوستان کب تک انتظار کرسکتا ہے۔ وہ آزادی کی طرف پیش قدمی کرچکا ہے۔ اب اسے امداد دیں اور اس کے راستہ میں مزاحم ہوں اسے کوئی روک نہیں سکے گا۔ اگر آپ چاہیں گے تو وہ کامن ویلتھ کے اندر رہ کر ہی آزادی حاصل کرے گا<۔
ہندوستان کی جنگی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔
>جنگ سے پہلے ہندوستان مقروض تھا مگر دوران جنگ میں اس نے اتنی مالی امداد دی ہے کہ اب وہ قرض خواہ بن گیا ہے۔ اس نے رضاکارانہ طور پر ۲۵ لاکھ فوج دی ہے۔ آئندہ امن کے قیام میں ہندوستان کی جنگی کوششوں کو خاص اہمیت حاصل ہوگی<۔۷
چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی انگریزی تقریر کامتن
اس معرکہ آراء تقریر کا انگریزی متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
‏ India in place taken have that changes principal The has War The ۔war the to related mainly are 1938 since its of realization vivid and forcible a India to brought potential its of indeed and importance, strategic nwo oceans of area vast that all in domination strategic coast west the and Australia between lies that lands and Harbour, Pearl before long war, the during Early ۔Africa of in supplies of base principal the become had India still served war the into Japan of entry The ۔area that ۔respect that in position vital India`s emphasize to more of sources main the of one be to proved only not has India materials, raw and products primary of respect in suppley its of mobilisation rapid the through has tbu become resources, industrial and capacity manufacturing that in Nations United the of arsenal principal the in effort great India`s of idea Some ۔globe the of part during that fact the from gathered be may respect this India country, debtor a being from yeras, five last the with nation creditor a into itself converted has also, manpower of respect In ۔balances sterling large Without ۔remarkable less no been has effort India`s whatsoever, compulsion of measure any of aid the 1/2۔2 dleif the into putting in succeeded has she nationals, own their by efficered largely men, million account splendid a giving are and given have who need If ۔war the of theatres many in themselves of and doubled be easily could number this arose, India that contriebution The ۔quadrupled even perhaps the of liberties the preserving towards made thus has the safeguarding and Wealth Common the of nations achieved been not had world the of peace future ۔directions many in ferment serious creating twithou been have life economic India,s on repercussions The ۔possibilities beneficent of full also are but grave, have drive manpower the and effort supply the Both skilled and technical of number larger much a created though before, possessed ever has India than personnel potential its of short grossly falls still number the which change welcome very a is This ۔requirements its in India helping towards way long a go should ۔years war ۔post the in economy its balance to efforts economic the to confined not are repercussions the But very felt themselves making are they indeed ۔ sphere impatient growing is India ۔directions other in strongly sense Its ۔Britain Great on dependence political its of political the in frustration and disappointment of be may it that fear the by aggravated being is field the in obsucrity inglorious of position a to relegated of some concerning proposals the arrangements, postwar discussion of matter subject the form will which India,s of noitaicappre The ۔Conference this in by helped be perhaps, may, behalf this in position ۔China and India between comparison a instituting one as recognised freely day ۔to is China upon nations big four the of devolve will whom safeguarding for responsibility principal the human directing and shepherding and peace world the after channels beneficent into effort a to brought been have war the of horrors have it by engendered miseries the and close not does India ۔softened been degree some to
‏ respect in China with unfavourably compare respect other every In ۔area or population of have I ۔India with comparison no stand can China respect, any in China disparage to desire no discount to moment one for wish I do nor due justly admiration and praise the of iota an resistance heroic its for country great that to eight last the during aggression Japanese to recognised freely be sure am I will it but years, and resources natural of respect in that capacity, manufacturing ,tnempolevde their skill, mechanical and technical potential, industrial higher and literacy investments, capital communications, sciences, and arts the in education the services, veterinary and health public the and order and law of maintenance similar of host a and justice of administration China of ahead far stands India matters, the vis ۔a۔ vis position its be may whatever ۔R۔S۔S۔U the and States United the Kingdom, United China of claim the makes that then it is What irresistaible nations tgrea the among ranked be to India of behalf on claim same the makes and doubt no China ￿unentertainable and unacceptable India, does so but culture, ancient and possesses the acknowledge to first the be will China and may It ۔field culture the in India to owes it debt on admitted is claim China`s that said be potentialities India`s but potentialities, its of account be may It ۔greater even submit, to venture I are, and divisions from suffers India that objected India in conflicts and sndivisio the but conflicts, intractable more prove to threaten not do Communists the divide that differences the than made often Though ۔China in Kuomintang the and throughout has India aggression, of victim a aggression of guilty been never history long her than eager and willing less no is She ۔hereself position better far a in is and assume to China obligations the discharge to adequately China than a nations, great the among inclusion her that may entitled, justly is she which to noitposi feature distinguishing the then not Is ۔entail that this, only India and China between own her on stands China ill, for or good for that storms the against contending feet, political her overwhelm to threaten may and threatened have politically is India while independence, the of Statesmen ￿Britain Great upon dependent irony an as you strike not it does Wealth, Common 5۔2 have should India that magnitude first the of struggling and fighting field the in men million the of snoitan the of liberties the preserve to suppliant a be should yet and Wealth Common think, you do long, How ￿freedom own her for on is India ￿wait to prepared be she will hinder may you or her, help may You ۔march the free, be shall India her, stop shall none but her, and her let will you if Wealth, Common the within due; her is that place the her to accord leave you if Wealth Common the without۸alternative> on her
چونکہ برطانوی ہند کی تاریخ میں یہ پہلی مثال تھی کہ حکومت کے ایک سربرآوردہ نمائندہ نے ہندوستانیوں کے سیاسی اور ملکی جذبات کی وضاحت و ترجمانی کا فرض اس جرات اور بے باکی سے ادا کیا ہو۔ اس لئے ہندوستان کے سب سیاسی حلقوں نے اس نعرہ آزادی کے بلند کرنے پر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو زبردست خراج تحسین ادا کیا اور ملک کے مقتدر ہندو اور مسلم پریس نے بکثرت تعریفی مضامین لکھے جن میں سے بعض بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اخبار >انقلاب<
اخبار >انقلاب< مورخہ ۲۲۔ فروری ۱۹۴۵ء نے >سر ظفر اللہ خاں کی صاف گوئی< کے عنوان سے حسب ذیل ایڈیٹوریل لکھا۔
>چودھری سر ظفر اللہ خاں نے کامن ویلتھ کی کانفرنس )منعقدہ لنڈن( میں جو تقریر فرمائی وہ ہر انگریز اور اتحادی ملکوں کے ہر فرد کے لئے دلی توجہ کی مستحق ہے۔ کیا اس ستم ظریفی کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ جس ہندوستان کے پچیس لاکھ بہادر مختلف جنگی میدانوں میں جمعیتہ اقوام برطانیہ کی آزادی کے محفوظ رکھنے کی خاطر لڑرہے ہیں وہ خود آزادی سے محروم ہے!
یہ الفاظ کسی غیر ذمہ دار مقرر کی زبان سے نہیں نکلے جس نے مجمع عام میں عوام سے نعرے لگوانے کے لئے یہ طریق بیان اختیار کیا ہو بلکہ ایک ذمہ دار ہندوستانی وفد کے قائد و رہنما کے الفاظ ہیں اور کوئی شخص ان کی سچائی اور درستی میں ایک لمحہ کے لئے بھی شبہ نہیں کرسکتا۔ گزشتہ ساڑھے پانچ برس میں ایک موقع بھی نہیں آیا کہ ہندوستان نے بحیثیت مجموعی اور بہ اعتبار عمومی جنگ کے سلسلے میں اپنے واجبات و فرائض کی بجاآوری کا بہتر سے بہتر ثبوت نہ دیا ہو۔ جن جماعتوں نے جنگی مساعی میں پورا اور سرگرم حصہ نہ لیا یا جن کی طرف سے ان کی مخالفت ہوئی ان کا عذر بھی اس کے سوا کیا تھا کہ ہندوستان کو آزادی نہیں ملی اور آزادی مل جائے تو اس وسیع سرزمین کے لامتناہی وسائل کو اس پیمانے پر جنگ کے لئے حرکت میں لایا جاسکتا ہے کہ دنیا حیران رہ جائے۔ ان جماعتوں کے طریق و تدابیر سے اور بعض حالتوں میں مقاصد سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود ہم نے بھی ان کی تنقید میں کبھی تامل نہیں کیا۔ لیکن کیا یہ حقیقت حددرجہ رنجدہ نہیں کہ جن جماعتوں نے ہر سعی کو حصول آزادی پر موقوف و ملتوی رکھا ان کے طرز عمل سے اختلاف کیا گیا۔ لیکن جن جماعتوں اور گروہوں نے کسی شرط یا عہد و پیمان کے بغیر ہر قسم کی قربانیوں کو آزادی جمہوریت کی حمایت کے خیال سے نیز ہندوستان کی حفاظت کے خیال سے ضروری قرار دیا۔ وہ بھی اس وقت تک منزل آزادی سے قریب تر نہیں ہوئے۔
بلاشبہ ہندوستان میں اختلافات موجود ہیں اور ان اختلافات کا فیصلہ خود ہندوستانیوں کو کرنا چاہئے اس لئے بھی کہ وہی فیصلہ کے حقدار ہیں اور اس لئے بھی کہ انہی کا فیصلہ پائدار ہوگا۔ چوہدری سر ظفر اللہ خاں نے اس سلسلہ میں چین کی مثال پیش کی کہ وہاں بھی کمیونسٹوں اور مارشل چیانگ کائی شیک کی قومی پارٹی )کونٹانگ( میں اختلافات ہیں۔ ہم اس مثال کو ہر لحاظ سے اپنے حالات کے مطابق نہیں سمجھتے۔ تاہم کیا حکومت برطانیہ کے لئے یہ زیبا ہے کہ ہمارے اختلافات کی وجہ سے سارے سلسلہ کاروبار کو معطل کئے بیٹھی رہے اور چپ چاپ یہ دیکھتی رہے کہ کب ہمارے اختلافات مٹتے ہیں اور کب اسے آزادی ہند کے مسئلے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ کا موقع ملتا ہے<۔۹
۲۔ اخبار >احسان<
اخبار >احسان< نے ۲۲۔ فروری ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں لکھا۔
>سر ظفر اللہ خاں نے لندن میں ایک اور تقریر کی جس میں ایک سرکاری ممبر ہونے کے باوجود آپ نے صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ آپ نے برطانوی مدبروں سے کہا ہے کہ ان نازک لمحات میں برطانیہ کو جو فتوحات ہوئی ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ امریکہ سے برطانیہ نے معاملہ کیا تو اس میں برطانیہ کو کامیابی ہوئی۔ روس سے بات چیت ہوئی تو اس میں بھی برطانیہ کو فتح ہوئی آگے بڑھنے کے لئے جس طرف بھی قدم اٹھے تو برطانیہ کو ناکامی نہ ہوئی۔ لیکن اس لمبی چوڑی دنیا میں کیا برطانیہ صرف ہندوستان کے معاملے میں ہی شکست تسلیم کرنا چاہتا ہے؟ معلوم نہیں برطانیہ کے مدبروں نے سر ظفر اللہ کی ان باتوں کو کن جذبات کے ماتحت سنا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کا احساس آج سر ظفراللہ جیسے انسان کو بھی ہورہا ہے اور کس قدر افسوسناک واقعہ ہوگا۔ اگر برطانوی مدبروں کے دل میں تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ آپ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان آزاد ہونا چاہتا ہے خواہ اسے کامن ویلتھ )دول متحدہ( سے باہر ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ ہندوستان دول متحدہ میں بھی شریک ہوسکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی قسمت کا آپ مالک ہو اور باہر سے کوئی دبائو اس پر نہ پڑے اور دوسری شرط یہ ہے کہ درجہ نو آبادیات میں وہ نسلی امتیاز کا شکار نہ ہو اور اس کا درجہ بالکل مساوی ہو۔ یہ باتیں بالکل صاف ہیں<۔10] ¶[p۱۰
اخبار >پیام<
۳۔ حیدر آباد دکن کے روزانہ اخبار >پیام< )مورخہ ۸۔ ربیع الاول ۱۳۲۴ھ مطابق ۲۲۔ فروری ۱۹۴۵ء( نے >ایک اجنبی کی آواز< کے عنوان سے لکھا۔
>بہت عرصہ ہوا کہ سر ظفر اللہ خاں قومی زندگی سے بیگانہ ہوچکے ہیں۔ ان کی دنیا لال وردیوں والے چوبداروں اور سرخ قالینوں والے حکومت کے ایوانوں کی دنیا ہے` اس لئے حیرت ہوئی ایک خوشگوار حیرت کہ تعلقات دولت مشترکہ کی کانفرنس میں ہندوستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی تقریر میں یہ کیسی عجیب عجیب باتیں فرما دیں کیا وہ کوئی عصبی ہیجان کا لمحہ تھا جب وہ کہہ بیٹھے کہ۔
دولت مشترکہ کے مدبرو! کیا تم اس عجیب طنز کو محسوس نہیں کرتے کہ ہندوستان کے ۳۰ لاکھ سپاہی میدان جنگ میں دولت مشترکہ کی اقوام کی آزادیوں کو محفوظ کرنے کی جدوجہد کررہے ہوں اور پھر خود اپنی آزادی کی بھیک مانگتے رہیں؟<
اور پھر یہ کہ۔
>کب تک تمہارے خیال میں ہندوستان انتظار کرتا رہے گا؟ ہندوستان کا قافلہ اب جادہ پیما ہے خواہ تم اس کی مدد کرو یا اس کا راستہ روکو اس کو اب کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ ہندوستان آزاد ہوکر رہے گا مگر وہ دولت مشترکہ کے اندر رہے گا اگر تم اس کو اندر رہنے دو گے اور اس کو وہ مرتبہ دو گے جو اس کا حق ہے مگر وہ اس حلقہ سے باہر بھی چلا جائے گا اگر تم اس کے لئے کوئی دوسرا چارہ کار باقی نہ رکھو گے<۔
اور پھر
>اپنی سیاسی آزادی کے لئے برطانیہ کی دست نگری کرنے سے اب ہندوستان اکتا گیا ہے۔ سیاسی میدان میں اپنی مایوسی اور ناکامی کا احساس اب اس اندیشہ سے بڑھتا جاتا ہے کہ کہیں ان مابعد جنگ انتظامات میں]0 [stf جن میں سے بعض پر اس کانفرنس میں بحث ہوگی وہ کسی ذلیل بے چارگی کی حالت میں نہ دھکیل دیا جائے<۔
>سر ظفر اللہ کی شخصیت ہمارے ملک کی ایک بہت شاندار شخصیت رہی ہے جب تک وہ دہلی اور شملہ کے سرکاری خلوت خانوں کی آسائشوں سے مانوس نہ ہوئی تھی موصوف کی ذہنی اور دماغی قابلیت کا لوہا سب مانتے ہیں۔ اس قابلیت کے نقوش آج بھی ہماری قومی زندگی میں موجود ہیں۔ مگر یہ آواز جو ہم نے آج لندن کے ایک ایوان میں سنی اب تو ایک اجنبی کی آواز معلوم ہوتی ہے تاہم حقائق کی قوت اس سے ظاہر ہے۔ یعنی یہ حقیقت ظاہر ہے کہ وطن کی اولاد اگر اس سے جدا کسی دوسری دنیا میں بھی آباد ہو۔ تب بھی اس کی زندگی میں ایسے لمحے آتے ہیں کہ وہ اسی ایوان کے فرش پر جس کے اندر اس کی قدرتی صلاحیتیں محفوظ کرلی گئی ہیں ایک کلمہ حق کہہ سکتی ہے۔ سر ظفر اللہ کی اس آواز میں ایک گرج ہے` ایک دھماکا ہے جس کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن کیا وہ بھی نظر انداز نہ کرسکیں گے دولت مشترکہ کے مدبرین! جن کو سر ظفر اللہ نے مخاطب کیا؟
انہوں نے فرمایا کہ کیا ہندوستان کی حالت چین سے بھی بدتر ہے۔ کیا ہندوستان کے اندرونی اختلافات چینی کونٹنانگ اور چینی اشتراکیوں کے اختلافات سے بھی زیادہ ہیں؟ پھر یہ کیا بات ہے کہ آج چین کو چار بڑے اکابر میں شمار کیا جاتا ہے مگر ہندوستان کا مقام کہیں بھی نہیں؟
بہت مشکل ہے اس بات کا سمجھنا اور بتانا کہ سر ظفر اللہ کی زبان سے یہ سب کچھ کن حالات میں کہا گیا اور آیا یہ کہ ان کا کہا ہوا ۱۰ ڈائوننگ اسٹریٹ تک بھی پہنچ سکے گا یا نہیں۔ لیکن یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کے اس نام نہاد وفد کی قیادت کا فرض انجام دیا اس سے آگے ہم نہیں کہہ سکتے کہ پھر بھی وہ کچھ کہیں گے یا نہیں اور ان کے شرکاء کار بھی کچھ کہیں گے یا نہیں یا یہ ایک آواز یورپ کی بین الاقوامی سیاست کے صحرائے لق ودق میں صرف ایک ہی دفع بلند ہوکر گم ہو جائے گی<!۱۱
اخبار >پربھات<
۴۔ روزنامہ >پربھات< )۲۰۔ فروری ۱۹۴۵ء( نے یہ نوٹ شائع کیا۔
>ہندوستان کی طرف سے سرظفر اللہ بطور نمائندہ اس کانفرنس میں تشریف لے گئے ہیں۔ ان کی پہلی تقریر بہت زور دار ہے اور دل خوشکن بھی۔ کیونکہ انہیں نے کامن ویلتھ کے دوسرے ممبروں کو صاف الفاظ میں بتایا کہ بیس پچیس لاکھ سپاہی مہیا کرنے والا ملک اگر آزادی سے محروم رہا تو جنگ کے بعد بھی دنیا میں امن نہیں ہوسکتا۔ ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفر اللہ کا ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جاکر حق کی بات کہہ دی<۔۱۲
اخبار >ویر بھارت<
۵۔ اخبار >ویر بھارت< )۲۰۔ فروری ۱۹۴۵ء( نے ایک طویل مضمون میں یہ تبصرہ لکھا۔
>سر ظفر اللہ نے کامن ویلتھ کانفرنس میں بجاطور پر یہ سوال کیا کہ جس ہندوستان کے پچیس لاکھ سپاہی دنیا کو آزاد کرانے کے لئے لڑرہے ہیں کیا اس کا بدستور غلام رہنا باعث شرم نہیں ہے؟<۱۳
اخبار >پرتاپ<
۶۔ اخبار >پرتاپ< )مورخہ ۲۲۔ فروری ۱۹۴۵ء( نے چودھری صاحب کی معرکتہ الاراء تقریر کا ذکر درج ذیل الفاظ میں کیا۔
>ہندوستان کے فیڈرل کورٹ کے جج سر محمد ظفر اللہ آج کل لنڈن گئے ہوئے ہیں۔ آپ کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں ہندوستانی ڈیلی گیشن کے لیڈر ہیں۔ لنڈن میں آپ نے جو تقریریں کی ہیں ان سے ہندوستان تو کیا` ساری کامن ویلتھ میں تہلکہ مچ گیا ہے۔ کوئی امید نہ کرسکتا تھا کہ سر ظفر اللہ جیسا شخص بھی برطانیہ کی مذمت میں ایسے الفاظ استعمال کرسکتا ہے۔ چند دن ہوئے آپ نے ایک تقریر کی جسے سن کر یو۔ پی کے سابق گورنر سر میلکم ہیلی جو اس وقت لارڈ ہیلی آف سرگودھا ہیں آگ بگولہ ہوگئے اور میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے۔ آپ نے برطانوی حکمرانوں کو وہ کھری کھری سنائیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ برطانوی حکومت کے درجنوں تنخواہ دار ایجنٹوں کے کئے کرائے پر آپ کی ایک تقریر نے پانی پھیر دیا۔
عام سوال یہ کیا جارہا ہے کہ یہ کیسے ہوا کہ ایسے ایسے لوگ بھی جو برطانیہ کی بدولت ان ممتاز عہدوں پر پہنچے ہیں آج اس کے خلاف ہورہے ہیں۔ جواب صاف ہے۔ برطانوی حکومت ہر ایک کو چکمہ دینا چاہتی ہے اور جن لوگوں میں ابھی تک ضمیر باقی ہے وہ ان حالات کو برداشت نہیں کرسکتے<۔۱۴
اخبار >ریاست<
۷۔ اخبار >ریاست< )۲۶۔ فروری ۱۹۴۵ء( نے >برطانیہ کے مخلص دوستوں کی آواز< کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ شائع کیا۔
>چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں جج فیڈرل کورٹ ایک بلند کیریکٹر شخصیت ہیں اور آپ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ آپ کے دل اور زبان میں فرق ہو۔ چنانچہ چودھری صاحب چونکہ برطانیہ کے مخلص دوست ہیں۔ آپ نے اپنے ان اصلی جذبات کو کبھی چھپانے کی کوششش نہ کی اور جب کبھی آپ کو برطانوی پالیسی اور برطانوی مدبروں سے اختلاف ہوا تو آپ نے اس اختلاف کو بھی کھلے طور پر بیان کردیا۔
چودھری سر ظفر اللہ نے برطانیہ کے مخلص دوست ہوتے ہوئے حال میں جو بیان دیا ہے وہ برطانوی مدبروں کی آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا چاہئے۔ آپ نے برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ >ہندوستان کی آزادی کی خواہش کو اب نہیں دبایا جاسکتا۔ کاروان آزادی اب تیزی سے منزل کی طرف رواں ہے۔ تم اس کی مدد کر دیا نہ کرو۔ آزادی کی منزل میں اس کے قدم اب متزلزل نہیں ہوسکتے۔ ۲۵ لاکھ ہندوستانی میدان جنگ میں اقوام دولت مشترکہ کی آزادی قائم رکھنے کے لئے جنگ کررہے ہیں لیکن وہ خود اپنی آزادی سے محروم ہیں<۔
گاندھی اور کانگرسی لیڈروں کو تو خیر برطانیہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ان کی تحریکوں اور مطالبات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر سر ظفر اللہ تو برطانیہ کے دشمن نہیں اور برطانیہ کے نامزد ہوکر کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں شامل ہوئے۔ برطانوی قوم اگر اپنے ان مخلص دوستوں کی رائے پر بھی توجہ نہ کرے تو اس قوم کی بدنصیبی پر کیا شک ہے۔
اے کاش! برطانیہ کے مدبر سر ظفر اللہ کے اس بیان کو آنکھیں کھول کر پڑھیں اور ہندوستان کو آزادی دی جائے<۔۱۵
ریاست >پریت لڑی<
۸۔ سکھوں کے مشہور گورمکھی رسالہ >پریت لڑی< نے اپنے مارچ ۱۹۴۵ء کے پرچہ میں >سر ظفر اللہ< کے زیر عنوان لکھا۔
>لنڈن میں ڈومیننز کی کانفرنس ہورہی ہے۔ سر ظفر اللہ ہندوستان کے نمائندے ہیں اور جو زوردار` بے خوف اور بے لاگ تقریریں انہوں نے کی ہیں انگریز سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ سر ظفر اللہ نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر ہندوستان سے انصاف نہ کیا گیا اور مکمل آزادی کی تاریخ مقرر نہ کی گئی تو انگریز ہندوستان کی دوستی ہمیشہ کے لئے گنوا لیں گے۔ ان کی تقریروں کا تمام دنیا میں چرچا ہورہا ہے۔ ہم اپنے بھائی کے شکر گزار ہیں۔
مدت سے ہم نے یہ امید کرنا چھوڑ دیا ہے کہ سرکاری طور پر بھیجا ہوا ہمارا نمائندہ کبھی ہماری بھی ترجمانی کرے گا۔ ہم نے کبھی دلچسپی سے پڑھا ہی نہیں کہ یہ نمائندے وہاں جاکر کیا کہتے ہیں لیکن سر ظفر اللہ کی دلیری کا ہم فخر کرتے ہیں<۔۱۶
>پریت لڑی< کے تبصرہ کا گورمکھی متن<

عکس کیلئے


چودھری صاحب کی لنڈن ریڈیو سے اہم تقریر
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ۱۷۔ فروری ۱۹۴۵ء کو صرف کامن ویلتھ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں ہی نعرہ آزادی بلند نہیں کیا بلکہ اس روز عشائیہ کی ایک خصوصی سرکاری تقریب میں بھی اپنے موقف کی تائید میں موثر تقریر فرمائی۔ ازاں بعد اپنے قیام انگلستان کے دوران ایک تقریر لنڈن ریڈیو سے براڈ کاسٹ کی جس میں ہندوستان کی سیاسی مشکلات کا حل پیش فرمایا اور بتایا کہ میں نے حکومت برطانیہ کے سامنے تجویز رکھی ہے کہ اس کی طرف سے اعلان کیا جائے کہ جنگ عظیم کے خاتمہ کے ایک سال بعد تک اگر ہندوستانی جماعتوں میں کوئی سمجھوتہ ہوگیا تو برطانیہ اسے تسلیم کرے گا۔ اگر سمجھوتہ نہ ہوسکا تو ہندوستان میں ایک عبوری آئین کا نفاذ کرکے ملک کو درجہ نو آبادیات دے دے گا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا۔
>میں نے جب سے انگلستان میں قدم رکھا ہے مجھ سے ہندوستان کی آئینی الجھنوں کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جارہے ہیں۔ مثلاً ہندوستان کا سیاسی قضیہ کیوں حل نہیں ہوتا؟ ہندو اور مسلمان کیوں مفاہمت نہیں کرتے؟ ہندوستان کو کب آزادی ملے گی؟ ہندوستان آزاد ہوکر کامن ویلتھ میں شامل رہے گا یا نہیں؟ ان سوالات کا جواب دینا آسان کام نہیں۔ کیونکہ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے وہ کہہ چکا ہے کہ ہندوستانی آپس میں کوئی سمجھوتہ کرکے کوئی آئین بنا لیں برطانیہ اسے منظور کرے گا۔ دوسری طرف ہندوستانی آپس میں سمجھوتہ نہیں کرتے اور یہ مسئلہ ایک الجھن سی بن کر رہ گیا ہے۔ تین سال پیشتر سر سٹیفورڈ کرپس ہندوستان گئے تھے۔ اس وقت سے آج تک ہندوستان میں الجھن سلجھانے کی بڑی کوششیں ہوئیں مگر ناکام رہیں۔
،،،،،،،،، اس وقت محاذ جنگ پر ۲۵ لاکھ ہندوستانی سپاہی دنیا کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ ہندوستان کی طرف سے اس قدر سامان جنگ فراہم کیا گیا ہے کہ آج ہندوستان جیسا مقروض ملک قرض خواہ بن گیا ہے۔ صنعت و حرفت بہت زیادہ ترقی کرگئی ہے مگر اس کے سیاسی مستقبل کا کوئی حل پیدا نہیں ہوا۔ اور اس کے بغیر سب ترقیاں فضول ہیں۔ میں نے برطانوی مدبروں کے سامنے یہ تجویز رکھی ہے کہ ان کی طرف سے یہ اعلان ہونا چاہئے کہ اگر ہندوستان کے لوگ جنگ جاپان کے اختتام کے ایک سال بعد تک کوئی سمجھوتہ پیش کریں تو برطانیہ اسے تسلیم کے گا۔ اگر سمجھوتہ نہ کرسکیں تو برطانیہ اپنی طرف سے آئین تیار کرکے پارلیمنٹ میں پیش کر دے گا۔ اس کی شکل یہی ہوگی کہ ہندوستان کو آسٹریلیا` نیوزی لینڈ` کینیڈا اور جنوبی افریقہ کا سا درجہ دیا جائے گا۔ ہندوستان کی اسمبلی کو پارلیمنٹ کے منظور کردہ آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہوگا تاکہ بعد میں ہندوستانی آپس میں اتحاد کرکے آئین کو اپنے ڈھب کے مطابق لاسکیں۔ بہرحال حکومت کو ایسا اعلان کر دینا چاہئے جس سے دسمبر ۱۹۴۷ء تک ہندوستان کی آئین سازی کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے حکومت برطانیہ سے یہ درخواست کی ہے کہ اگر ہندوستان کی کوئی سیاسی جماعت اس آئین سے علیحدہ رہنے کی خواہش رکھتی ہو تو اس کے لئے ایسا کرنے کی گنجائش رکھی جائے۔ دوسری گنجائشیں بھی رکھی جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت ہندوستان میں ایک جماعت۱۷ ایسی بھی ہے جو مرکزی آئین سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کی کوشش کررہی ہے لہذا برطانوی پارلیمنٹ کی طرف سے جو آئین منظور ہو اس میں اس امر کی گنجائش ضرور رکھنی چاہئے۔ بعض برطانوی مدبر کہتے ہیں کہ ہندوستان کے آئین کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ان کا یہ بہانہ بالکل عذر لنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاسی الجھن کا حل برطانیہ کو دنیا بھر میں سرخرو کردے گا۔ اگر وہ اس کام میں عہدہ برآ ہوگیا تو دنیا میں اس کی عزت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ناکام رہا تو اس کے وقار کو بٹہ لگ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے یونان` یوگوسلاویہ اور پولینڈ جیسے ملکوں کے ناقابل حل سوالات کو حل کر دکھایا ہے۔ کیا ہندوستان کا حق برطانیہ پر اس قدر بھی نہیں جتنا یوگوسلاویہ` پولینڈ اور یونان کا ہے۔ اگر برطانیہ ہندوستان کا مسئلہ حل کردے تو اس سے بہت سی الجھنیں حل ہو جائیں گی۔ خود انگلستان کی بہبود کا تقاضا بھی یہی ہے<۔۱۸
چودھری صاحب نے اپنی یہی تجویز اخبار سپیکٹیٹر >ROTAT<SPEC کے ایک مضمون میں بھی نہایت وضاحت سے بیان فرمائی اور آخر میں لکھا کہ برطانوی حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان کے مسئلہ کے حل پر دنیا کے امن اور تہذیب کے مستقبل کا دارومدار ہے اور اس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ بعض حلقوں کو اس کا احساس نہیں۔۱۹
چودھری صاحب کا >ہندوستان سٹینڈرڈ< کے نمائندہ سے انٹرویو
چودھری صاحب نے ۲۲۔ فروری ۱۹۴۵ء کو >ہندوستان سٹینڈرڈ< کے نمائندہ سے ایک انٹرویو میں کہا کہ میری سرکردگی میں جو وفد یہاں آیا ہے وہ دو سوالات کا قطعی فیصلہ کرانے کے بعد ہندوستان واپس جائے گا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ہم جنوبی افریقہ کے ڈیلیگیشن کا اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک وہ ہندوستانیوں کو شہریت کے مساوی حقوق دینے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ اگر اس نے ہمارا یہ مطالبہ منظور نہ کیا تو اسے ہندوستان کی طرف سے پوری پوری انتقامی کارروائی کے لئے تیار ہوجانا چاہئے دوسرا سوال ہندوستان کی آزادی ہے خواہ ہندوستان برطانوی کامن ویلتھ کے اندر رہنا منظور کرے یا باہر ہو جائے<۔۲۰
برطانوی مدبرین کے خیالات میں زلزلہ
آزادی ہند سے متعلق چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی تجویز نے برطانوی مدبرین کے خیالات میں ایک زبردست زلزلہ برپا کردیا۔ لنڈن کے بااثر اور مشہور روزنامہ لنڈن ٹائمز (LONDONTIMES) کے کالموں میں متعدد انگریزوں کے اس تجویز کی نسبت مراسلات شائع ہوئے اور >لنڈن ٹائم< )۲۰۔ مارچ ۱۹۴۵ء( نے اپنے اداریہ میں ان خطوط کا خلاصہ شائع کرکے ان کی بناء پر دو نکتے پیش کئے۔
ایک یہ کہ برطانیہ کو خود اس کارروائی کے اختیار کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہئے جو ہندوستان کے متعلق اس کی اعلان کی ہوئی پالیسی کو موثر طور پر نافذ کرنے کا یقین حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔
دوسرا یہ کہ موجودہ حالت میں محض کرپس مشن کی پیشکش پر یہ کہہ کر انحصار کرنا کہ >اسے قبول کرلو یا رد کردو< اب کافی نہیں رہا۔ نیز لکھا۔
>یہ حقیقت میں جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد بھی ہندوستانی برطانوی تعاون کے لئے خطرناک ہے<۔۲۱
>لنڈن ٹائمز< کی اسی اشاعت میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ایک مضمون بھی چھپا جس پر اخبار نے اپنے لیڈنگ آرٹیکل میں یہ تبصرہ کیا کہ۔
>آنریبل سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی وہ سکیم جو انہوں نے اپنے اس آرٹیکل میں بیان کی ہے جو دوسری جگہ اسی صفحہ پر درج ہے گو وہ مسلم نقطہ نگاہ سے لکھی گئی ہے۔ لیکن بلاشبہ مدبرانہ نقطہ نگاہ کی مظہر ہے اور سرموصوف کے وسیع تجربہ پر )جو انہیں اپنے ملک کی خدمت کے سلسلہ میں انتظامی ڈپلومیٹک اور جوڈیشل امور میں حاصل ہے( دال ہے۔ اس سے دوسرے نقطہ ہائے نگاہ کے کماحقہ بیان و تفہیم کے لئے یکساں رستہ کھل جاتا ہے۔ اس طرح یہ آرٹیکل ہندوستان کے مسئلہ پر فرقہ وارانہ جھگڑوں اور کشمکش کی بجائے محققانہ اور پراز معلومات مفید بحث کا موقعہ پیدا کرتا ہے<۔۲۲
اخبار >گلاسگو ہیرلڈ< نے ۱۵۔ مارچ ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں چودھری صاحب کی سکیم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اس قسم کے ہر اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔ گو ممکن ہے ابتداء میں مسٹر گاندھی اور )قائداعظم محمد علی( جناح اس سے متفق نہ ہوں۔
وائسرائے ہند کو لندن آنے کی ہدایت
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی حریت پرور اور انقلاب انگیز تقریروں کا اثر برطانیہ کے عوامی اور صحافتی حلقوں سے بڑھ کر خود برطانوی حکومت پر ہوا اور اس نے چودھری صاحب کی نئی سکیم کے پیش نظر لارڈ ویول وائسرائے ہند کو انتقال اقتدار کا نیا فارمولا تجویز کرنے اور ہندوستان کو مصالحت کی پیشکش کرنے کے لئے لندن طلب کرلیا۔
وائسرائے کے دورہ انگلستان کی نسبت ممبران پارلیمنٹ کے تاثرات
برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران نے لارڈ ویول کے انگلستان میں آنے کی تجویز کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ چنانچہ مسٹر پیتھک لارنس لیبر ممبر نے
ایک بیان میں کہا کہ یورپ کی جنگ کا خاتمہ نزدیک نظر آرہا ہے اور اس موقعہ پر لارڈ ویول کا لنڈن آنا ہندوستانی مسئلہ کے حل کی طرف اہم پیش قدمی کا باعث ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ سر محمد ظفر اللہ خاں کی تازہ تجویز زیر غور آئے گی۔ علاوہ ازیں سپرد۲۳ مصالحتی کمیٹی کی تجاویز کا بھی بے تابی سے انتظار کیا جارہا ہے۔ ان کو بھی بھاری اہمیت حاصل ہے مسٹر ایمونل شنویل نے کہا۔ ڈیڈ لاک ختم کرنے اور مسئلہ کے حل کے لئے یہ نہایت موزوں موقعہ ہے اور لارڈ ویول اس وقت ہندوستانی صورت حالات کے متعلق تازہ ترین واقفیت اور اپنے سیاسی تاثرات سے آگاہ کرسکیں گے میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ دنوں مسٹر ایمری نے ہندوستان کے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا وہ بھی پرامید ہیں۔ ان سب چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سمجھوتہ کا کافی امکان ہے۔ برطانیہ اس کا خیر مقدم کرے گا۔ روس اور امریکہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اسے بے حد پسند کریں گے۔ مسٹر آرتھر گرین وڈ لیڈر آف نیشنل اپوزیشن نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ لارڈ ویول کا دورہ ضرور کامیاب رہے گا۔ پارلیمنٹ میں بھی اور پارلیمنٹ کے باہر بھی گزشتہ ہفتوں سے ایسے آثار نمایاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسئلہ کے متعلق فضاء سازگار ہورہی ہے۔ برطانیہ میں بے شمار لوگ اس کے حل کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں۔ لارڈ ویول نہ صرف مشرق بعید کی جنگ کے سلسلے میں صلاح و مشور کریں گے بلکہ ہندوستان کا سیاسی مسئلہ بھی زیر غور آئے گا۔ پروفیسر جارج کاٹلن نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ موجودہ بات چیت سے تعطل ختم ہوکر کوئی تعمیری پروگرام سامنے آئے گا۔۲۴
انگلستان میں آزادی ہند سے متعلق سرگرمیوں کی تفصیل چودھری محمد ظفر اللہہ خاں صاحب کے قلم سے
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی خود نوشت سوانح میں کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس کی تقریب پر اپنی تقاریر اور ان کے ردعمل پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>۱۹۴۵ء کی فروری میں HOUSE ۔CHATCHAN لندن میں ROYAL OFINTERNATIONALAFFARIS INSTITUTE کی سرپرستی میں COMMON WEALTH کے نمائندگان کی ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ ہندوستان کی INSTITUTE کی طرف سے بھی ایک وفد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ وفد کے اراکین میں جناب کنور سر مہاراج سنگھ` جناب میر مقبول محمود` جناب MEHTA ۔L۔C جناب خواجہ سرور حسن اور خاکسار شامل تھے۔ افتتاحی اجلاس میں ہر وفد کے قائد سے پانچ پانچ منٹ کی تقریر میں اختصاراً اپنے اپنے ملک کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے کی استدعا کی گئی۔ ہندوستان کی باری آنے پر میں نے تین منٹ تو ہندوستان کی جنگی سرگرمیوں کا خلاصہ بیان کرنے میں صرف کئے اور بتایا کہ پچیس لاکھ ہندوستانی کسی نہ کسی حیثیت میں جنگ کے مختلف محاذوں پر برطانوی اور اتحادی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور دفاع میں مختلف انواع کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور جسم و جان کی قربانی پیش کرنے میں ان کی طرف سے دریغ نہیں ہوا۔ علاوہ فوجی اور براہ راست جنگی امداد کے` سامان حرب اور ذخائر خوارک مہیا کرنے میں بھی ہندوستان نے نمایاں خدمت کی ہے اور قابل قدر نمونہ قائم کیا ہے۔ اس سلسلے میں چیدہ تفاصیل کا ذکر کرنے کے بعد میں نے کہا۔
سیاست دانایان مملکت! کیا یہ امر آپ کے لئے باعث حیرت نہیں کہ ہندوستان کے پچیس لاکھ فرزند میدان جنگ میں مملکت کی آزادی کی حفاظت کے لئے ہتھیار بند اور کمربستہ ہوں اور ہندوستان ابھی تک اپنی آزادی کا منتظر اور اس کے لئے ملتجی ہو؟ شاید ایک مثال اس کیفیت کو واضح کرنے میں ممد ہوسکے۔ چین کی آبادی اور رقبہ ہندوستان کی آبادی اور رقبے سے بے شک فزوں تر ہیں۔ لیکن وسعت اور آبادی کے علاوہ چین باقی ہر لحاظ سے آج ہندوستان سے کوسوں پیچھے ہے۔ تعلیم` صنعت` حرفت` وسائل آمدورفت` غرض خوشحالی کے تمام عناصر کے لحاظ سے ہندوستان چین کی نسبت کہیں آگے نظر آتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ چین تو آج دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے اور ہندوستان کسی گنتی میں نہیں؟ کیا اس کی صرف یہی وجہ نہیں کہ چین آزاد ہے اور ہندوستان غیر آزاد؟ لیکن یہ حالت اب دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔ ہندوستان بیدار ہوچکا ہے اور آزاد ہوکر رہے گا۔ مملکت کے اندر رہ کر اگر آپ سب کو یہ منظور ہو اور مملکت کو ترک کرکے اگر آپ اس کے لئے اور کوئی رستہ نہ چھوڑیں!
یہ اجلاس سہ پہر کو ہوا تھا۔ اجلاس کے ختم ہونے پر جب ہم HOUSE ۔CHATHAM سے نکلے تو شام کے اخبار STAR میں میری تقریر کا یہ حصہ لفظ بلفظ موٹے حروف میں چھپا ہوا تھا اور لوگ اس پرچے کو بڑے شوق سے خرید رہے تھے۔ کچھ عرصہ بعد جناب آصف علی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا۔ جب لندن میں تم نے یہ تقریر کی۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگرس کے چند سرکردہ اراکین جن میں میں بھی شامل تھا اورنگ آباد دکن کے قلعے میں نظر بند تھے اور کانفرنس کے اس اجلاس کی کارروائی کو ریڈیو پر سن رہے تھے۔ جب تم نے سیاست دانایان مملکت کہہ کر آواز بلند کی تو ہم سب توجہ سے تمہاری تقریر سننے لگے۔ پنڈت نہرو نے تو اپنا کان ریڈیو کے بہت قریب کردیا۔ جب تم نے تقریر ختم کی تو انہوں نے کہا یہ شخص تو ہم سے بھی بڑھ کر صفائی سے انہیں متنبہ کرتا ہے۔
اسی شام حکومت کی طرف سے کانفرنس کے اعزاز میں HOTEL ۔CLARIDGES میں شام کے کھانے کی دعوت تھی۔ حکومت کی طرف سے CRANBOURNE LORD جو اس وقت SEAL PRIVY LORD تھے اور بعد میں اپنے والد کی وفات پر OF MARQUISS SALISBURY ہوئے میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ لیکن وزیراعظم مسٹر چرچل کے سوائے حکومت کے تمام اراکین بشمول نائب وزیراعظم مسٹر اٹیلی اور لارڈ چانسلر لارڈ سائمن دعوت میں موجود تھے اور کھانے میں شامل تھے۔ لارڈ کرنیبورن نے مہمانوں کا جام صحت تجویز کرتے ہوئے WEALTH COMMON کی اہمیت کے بعض پہلوئوں کی وضاحت کی۔ مہمانوں کی طرف سے میزبان کی تقریر کا نیم مزاحیہ جواب تو ایک کینیڈین مندوب مسٹر سٹینفورڈ نے دیا۔ اور وہ ایک اخبار کے ایڈیٹر ہونے کے لحاظ سے اس کے اہل بھی تھے اور سنجیدہ جواب دینے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی۔ میری سہ پہر کی تقریر کا بہت چرچا ہوچکا تھا اور توقع کی جاتی تھی کہ میں ہندوستان کی آزادی کے موضوع پر مزید کچھ کہوں۔ دعوت میں جانے سے پہلے میں یہ بھی سن چکا تھا کہ ہندوستان کی آزادی میں تاخیر کی ذمہ داری تمام تر حکومت برطانیہ پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ کیونکہ ہندو مسلمان اختلاف کے پیش نظر حکومت برطانیہ بہت حد تک معذور گردانی جاسکتی ہے۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران میں آزادی کے موضوع پر کہا کہ حکومت برطانیہ ہندو مسلمان اختلاف کا عذر رکھ کر اپنی ذمہ داری سے گریز نہیں کرسکتی۔ جنگ کے دوران میں برطانیہ بہت سی مشکلات کا حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کیا ہندوستان کی آزادی ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حل دریافت کرنے سے برطانیہ عاجز ہے؟ بے شک یہ مسئلہ مشکل ہے لیکن برطانیہ کی تدبیر اس کا حل تجویز کرنے سے عاجز نہیں آنی چاہئے۔ اگر ہندو مسلمان اختلاف ہی اس مسئلے کا حل تجویز کرنے کے رستے میں سب سے بڑی روک ہے تو برطانیہ اپنی نیک نیتی کا ثبوت اس طور پر پیش کرسکتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ واضح اعلان کر دیا جائے کہ اگر فلاں تاریخ تک ہندو مسلمان اختلافات کا حل متفقہ طور پر تجویز نہ ہوا تو برطانیہ اپنی طرف سے ایک قرین انصاف حل تجویز کرکے اس کی بناء پر ہندوستان کے لئے ایک ایسا آئین وضع کردے گا جس کی رو سے ہندوستان کو دیگر نوآبادیات کا درجہ حاصل ہو جائے اور اس آئین کو جاری کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ آئین عارضی ہوگا۔ جونہی مستقل آئین پر فرقہ وارانہ اختلافات رفع ہوکر اتفاق ہو جائے گا` پارلیمنٹ متفقہ آئین دستور کے مطابق وضع کردے گی اور اسے رائج کر دیا جائے گا۔ اس اعلان کے نتیجے میں ہندوستان بلکہ تمام دنیا برطانیہ کے حسن نیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی۔
دعوت کے اختتام پر بہت سے وزراء نے میری تجویز کے متعلق گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ لارڈ سائمن نے کہا۔ تم جلد کسی دن LORDS OF HOUSE میں لارڈ چانسلر کے فلیٹ میں دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائو۔ میں تمہاری تجویز کے متعلق تم سے بات چیت کرنا چاہتا ہوں۔ تین چار دن کے اندر میں ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ لیکن اس سے قبل میری ان تقریروں کے دو دن بعد ہی سہ پہر کے اجلاس کے لئے اپنے ہوٹل سے HOUSE CHATHAM جارہا تھا۔ راستے میں لبرل پارٹی کے لیڈر DAVIES CLEMENT ۔MR مل گئے۔ وہ بھی کانفرنس کے اجلاس کے لئے جارہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہا۔ مبارک ہو۔ ابھی یہ خبر بصیغہ راز ہے کسی سے ذکر نہ کرنا۔ تمہاری تقریروں کے نتیجے میں کیبنٹ کے زور دینے پر وائسرائے ہنڈ لارڈ ویول کو مشورے کے لئے لندن بلایا گیا ہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی کہ اس نے اس عاجز کی حقیر کوشش کو نوازا اور اسے پراثر بنایا۔ چنانچہ لارڈ ویول لندن تشریف لائے اور ہندوستان کی آئینی جدوجہد کا آخری مرحلہ شروع ہوگیا<۔۲۵
‏vat,10.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
تیسرا باب )فصل دوم(
ویول سکیم` شملہ کانفرنس اور حضرت مصلح موعود کا ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کے نام ولولہ انگیز پیغام
لارڈ ویول وائسرائے ہند` برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر چرچل اور کابینہ کے دوسرے ارکان سے مشورہ کے لئے قریباً دس ہفتہ تک انگلستان میں رہے اور ۵۔ جون ۱۹۴۵ء )۵۔ احسان ۱۳۲۴ہش( کو واپس ہندوستان میں پہنچے۔
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا دوبارہ سفر انگلستان
لارڈویول ابھی کابینہ سے صلاح و مشورہ میں مصروف تھے کہ چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب پھر انگلستان تشریف لے گئے۔ آپ کا یہ سفر اگرچہ محض نجی حیثیت رکھتا تھا مگر آپ کی لندن میں اچانک آمد سے مسئلہ ہندوستان کے مباحث میں خاص طور پر سرگرمی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ دہلی کے بااثر اخبار >ہندوستان ٹائمز< )۱۹۔ مئی ۱۹۴۵ء( نے لکھا۔
‏]ydob >[tagویول مشن کے نتائج کے متعلق جو قیاسات کئے جارہے تھے ان میں سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی لندن میں اچانک آمد سے سرگرمی پیدا ہوگئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا سفر ہندوستان کے متعلق موجود مباحث میں بہت کچھ ممد و معاون ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ دو ماہ قبل سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسٹر ایمری وزیر ہند سے ایک لمبی ذاتی ملاقات کی۔ جس میں وزیر ہند چوہدری صاحب کی لیڈروں کی رہائی اور ہندوستان کے سیاسی ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لئے پرزور تحریک سے متاثر ہوئے۔
سر ظفر الل¶ہ خاں صاحب نے کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس کے نمائندوں کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے اپنی اس تجویز کی وجہ سے برطانوی اخبارات میں ایک ہیجان پیدا کردیا تھا کہ جاپان کے خلاف جنگ کے خاتمہ کے بارہ ماہ تک اگر ہندوستانی کوئی متحدہ مطالبہ کریں تو اس کے مان لینے کا حکومت برطانیہ ابھی اعلان کردے۔ لیکن اگر ہندوستانی اس قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرسکیں تو برطانیہ ہندوستان میں درجہ نو آبادیات پر منتج ہونے والے آئین جاری کردے جو اس وقت تک جاری رہیں جب تک کہ ہندوستانی متحد ہوکر خود اس میں ترمیم نہ کریں<۔
اس امر کے متعلق روشن خیال قدامت پسندوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے >ٹائمز لنڈن< لکھتا ہے۔
>اگر مناسب باہمی سمجھوتہ کو برطانیہ کے خلاف پیھلنے والے جذبات کی جگہ نہ دی گئی تو یہ جذبات اس حد تک پہنچ سکتے ہیں کہ جنگ کے بعد برطانیہ اور ہندوستان کے ان تعلقات کو تباہ کردے جو عالم بعد از جنگ میں دونوں ملکوں میں قائم ہونے چاہئیں اور جن پر دونوں ملکوں کے مستقبل اور عام تحفظ کا اس قدر مدار ہے۔ برطانیہ کے مختلف مفکرین اور سیاست دانوں نے >ٹائمز< اور دیگر اخباروں کے کالموں میں اس مسئلہ کے متعلق سیرکن بحث کی اور فی الحقیقت سر ظفر اللہ خاں صاحب کی تجاویز پر ہندوستان کی نسبت برطانیہ میں زیادہ سنجیدگی سے غور کیا گیا۔
ان لوگوں میں سے اکثر نے جنہوں نے اس بحث میں حصہ لیا اس یقین کا اظہار کیا کہ کرپس کی تجاویز کے متعلق برطانیہ کی موجودہ پالیسی یعنی >سب لے لو یا سب چھوڑ دو< میں جنگ کے دوران میں اور جنگ کے بعد ہندوستان کے مطالبے سے تعلقات خراب کرنے کے خطرات سے پر ہے برطانوی نامہ نگاروں نے دو تجاویز پیش کی ہیں۔ اول مکمل طور پر ہندوستان کو اختیارات دے دینے کے سلسلے میں برطانیہ کو ہندوستان کی طرز حکومت میں بتدریج تبدیلی شروع کے دینی چاہئے۔ دوم حکومت برطانیہ کی فرقہ وارانہ سوالات کے حل پر دوسرے زاویہ نگاہ سے اس احساس کے ماتحت غور کرنا چاہئے کہ یہ اختلافات ہندوستانی سیاست دانوں کے علاوہ برطانوی سیاستدانوں کے لئے بھی موجب ملامت ہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے برطانیہ کے لوگوں میں اس قسم کے شدید جذبات پیدا ہورہے ہیں کہ جنوب مشرقی ایشیا میں امن قائم رکھنے کے لئے ہندوستان کا اتحاد ایک بنیادی پتھر کا کام دے گا۔ نیز یہ کہ صرف متحد ہندوستان ہی آئندہ کی حفاظتی سکیم میں موثر ہوسکتا ہے۔
برطانیہ کے سیاست دان کوئی حل تلاش کرنے کے لئے سرظفر اللہ صاحب ایسے لوگوں سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو کسی خاص سیاسی پارٹی سے گہرا تعلق نہیں رکھتے۔ بہرکیف سر ظفر اللہ خاں صاحب کے سفر ولایت پر ان کی تجاویز کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ برطانیہ کے ہندوستان کو خود مختاری کے وعدے کے لئے وقت کی تعیین ہو جانی چاہئے۔ نیز یہ کہ جاپانیوں سے جنگ ختم ہونے پر ایک سال تک کا وقت ایک معقول مدت ہے۔ دہلی میں عام طور پر خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ طرز حکومت میں تبدیلی یقینی ہے۔ نیز یہ کہ برطانیہ کو اپنے مفاد کے پیش نظر جلد کوئی قدم اٹھانا چائے<۔۲۶
>ہندوستان ٹائمز< کے اس بیان سے یہ امر بالکل عیاں ہے کہ برطانوی حکومت اپنے نمائندہ )لارڈ ویول( سے مشورہ کے ساتھ ہندوستان کی جلد آزادی کا جو فارمولا بھی تیار کررہی تھی وہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اٹھائی ہوئی تحریک کے زیر اثر تھا جس نے ہندوستان سے زیادہ برطانیہ کو فوری توجہ دینے پر مجبور کردیا تھا۔
لارڈ ویول کا فارمولا
المختصر لارڈ ویول آزادی کا نیا فارمولا لئے وارد ہند ہوئے اور آپ نے ۱۴۔ جون ۱۹۴۵ء کو آٹھ بجے شام آل انڈیا ریڈیو سٹیشن سے تقریر کی جس میں وہ تجاویز پیش کیں جو ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کے لئے وہ برطانوی حکومت کی طرف سے لائے تھے۔ لارڈ ویول نے اپنی تقریر میں کہا۔
>مجھے ملک معظم کی حکومت نے اختیار دیا ہے کہ میں وہ تجاویز جن کا مقصد ہندوستان کی موجودہ پولیٹیکل صورت حالات کو بہتر بنانا ہے اور مکمل سیلف گورنمنٹ کی منزل کی طرف ہندوستان کو لے جانا ہے` ہندوستان کے پولیٹیکل لیڈروں کے سامنے رکھوں ۔۔۔۔۔۔۔ ملک معظم کی حکومت کو امید تھی کہ فرقہ وارانہ مسئلہ کے متعلق ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں میں کوئی نہ کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا لیکن یہ امید پوری نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں ملک معظم کی حکومت کی طرف سے پورے اختیارات کے ساتھ یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ ہندوستان کی منظم پولیٹیکل پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل نئی ایگزیکٹو کونسل مرتب کرنے کے لئے میں مرکزی اور صوبائی پولیٹیکل پارٹیوں کے لیڈروں کو دعوت دوں گا کہ وہ اپنے مشوروں سے مجھے مستفید کریں۔ مجوزہ ایگزیکٹو کونسل میں تمام بڑے بڑے فرقوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ اس میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں اور مسلمانوں کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔ اگر یہ عالم وجود میں آگئی تو یہ موجودہ آئین کے ماتحت کام کرے گی۔ سوائے وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے جو ایگزیکٹو کونسل کے جنگی ممبران کے طور پر کام کریں گے۔ ساری ایگزیکٹو کونسل ہندوستانی ہوگی۔ یہ تجویز بھی منظور کرلی گئی ہے کہ جہاں تک برٹش انڈیا کا تعلق ہے امور خارجہ کا محکمہ جو اس دن تک وائسرائے کے ہاتھ میں رہتا آیا ہے ایگزیکٹو کونسل کے ہندوستانی ممبر کے سپرد کر دیا جائے گا۔ ملک معظم کی حکومت نے ایک اور قدم اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دیگر نو آبادیات کی طرح ہندوستان میں بھی ایک برٹش ہائی کمشنر مقرر کیا جائے گا جو ہندوستان میں برطانوی تجارتی اور دیگر مفاد کی حفاظت کرے گا۔ ایگزیکٹو کونسل تقریباً مکمل طور پر ہندوستانی ہوگی۔ کیونکہ پہلی بار ہندوستان کا ہوم ممبر اور فنانس ممبر دونوں ہندوستانی ہوں گے اور ہندوستان کے خارجہ امور کے انتظامات کا انچارج بھی ایک ہندوستانی ممبر ہی ہوگا- علاوہ بریں ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کا انتخاب وائسرائے ہند آئندہ ہندوستان کے پولیٹیکل لیڈروں کے مشورہ سے کریں گے۔ ایگزیکٹو کونسل کے ممبران کی شرائط کی منظوری ملک معظم سے لی جایا کرے گی۔ اس عارضی گورنمنٹ کے قیام کا ہندوستان کے قطعی آئینی تصفیہ پر کسی طرح بھی اثر نہ پڑے گا۔ نئی ایگزیکٹو کونسل کا بڑا کام یہ ہوگا۔ )۱( جاپان کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑے جائے حتیٰ کہ اسے مکمل شکست ہو جائے )۲( ہندوستان کے مستقل آئین کے فیصلہ ہونے تک برطانوی ہند کی حکومت کے کام کو ان تمام ذمہ داریوں کو سامنے رکھ کر جو جلد از جلد جنگ کے بعد کی تعمیر کے سلسلہ میں ہندوستان کے سامنے پڑے ہیں چلایا جائے۔ )۳( جب ممکن ہو اس بات پر غور کریں کہ کن وسائل کو اختیار کرنے سے ہندوستانی پارٹیاں باہمی سمجھوتہ کرسکتی ہیں۔ میری رائے میں یہ کام بہت اہم ہے۔ میں اس بات کو چھپانا نہیں چاہتا کہ ان تجاویز سے ملک معظم کی حکومت کا مقصد ہندوستانی لیڈروں میں باہمی سمجھوتہ کو آسان بنانا ہے<۔
وائسرائے ہند لارڈ ویول نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا۔ ہمارے راستہ میں کئی نشیب و فراز ہیں۔ ہر طرف ہمیں معاف کرو اور بھول جائو کے سنہری اصول پر عمل کرنا پڑے گا۔۲۷
حضرت مصلح موعود کا پیغام ہندوستانی لیڈروں کے نام
سیدنا حضرت مصلح موعود نے جو ہندوستان کی آزادی کے دن کو قریب تر دیکھنے کے دلی طور پر آرزو مند تھے` ویول تجاویز کو ازحد اہمیت دی اور ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۲۳۲۴ہش کے خطبہ جمعہ میں نہایت درد دل کے ساتھ ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کو پیغام دیا کہ انگلستان ہندوستان کی طرف اپنا صلح کا ہاتھ بڑھا رہا ہے اس برطانوی پیشکش کو قبول کرنا اپنے پر اور اپنی آئندہ نسلوں پر احسان عظیم کرنا ہے۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ہندوستانی لیڈر باوجود اس کے کہ ان میں بعض بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عقلمند ہیں کس طرح اس بات کو نظر انداز کررہے ہیں کہ انگریزوں کے ہاتھ میں سو فیصدی اختیارات کے ہوتے ہوئے اگر وہ آزادی کی امید رکھتے ہیں تو نوے فیصدی اختیارات اگر ان کے اپنے ہاتھ میں آجائیں تو کیوں وہ آزادی کی امید نہیں رکھ سکتے۔ اگر انگریزوں کو دشمن سمجھ لیا جائے تو بھی یہ غور کرنا چاہئے کہ اگر کسی دشمن کے پاس سو بندوقیں ہوں لیکن دوسرے شخص کے پاس کوئی ایک بندوق بھی نہ ہو اور اس حالت میں بھی وہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے دشمن کا مقابلہ کرکے جیت جائوں گا تو اگر فرض کرو اس کا دشمن اسے کہے کہ نوے بندوقیں تم مجھ سے لے لو اور دس میرے پاس رہنے دو تو ایسی حالت میں اگر وہ کہے کہ میں نوے نہیں لوں گا جب دو گے سو ہی لوں گا تو کیا ایسے شخص کو کوئی بھی عقل مند کہہ سکتا ہے۔ یقیناً ہر شخص اسے نادان اور ناسمجھ ہی قرار دے گا۔ اسی طرح خواہ کچھ کہہ لو اس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہندوستان کو جو بھی اختیارات ملیں زیادہ ملیں تب بھی وہ اختیارات بہرحال ہندوستان کے لئے مفید اور بابرکت ہوں گے اور وہ ہندوستان کو پہلے کی نسبت آزادی کے زیادہ قریب کردیں گے۔
پس میرے نزدیک ہندوستان کا اس پیشکش کو قبول کرنا انگریزوں سے صلح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ پر اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کرنا ہے۔ دو سو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں کے اندر رکھا جائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں۔ غلامی ان کے قریب بھی نہیں آتی۔ مگر بیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے جو ظاہری غلامی کے ساتھ دلی غلام بھی بن جاتا ہے۔ ہم ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں` جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کون شخص ہندوستانیوں کی غلامی سے انکار کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اگر انگریز کسی کو مارتا بھی چلا جائے تو اس میں جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس کے مقابلہ میں اپنی زبان ہلاسکے۔ اب تو پھر بھی لوگوں میں کچھ آزادی کی روح پیدا ہوگئی ہے لیکن آج سے چند سال پہلے یہ حال تھا کہ کسی انگریز کے ساتھ لوگ ریل کے ایک کمرہ میں بھی سوار نہیں ہوسکتے تھے۔ اگر کسی ڈبہ میں انگریز بیٹھا ہوتا تھا تو بڑے بڑے ہندوستانی افسر وہاں سے ٹل جاتے تھے کہ صاحب بہادر اندر بیٹھے ہیں۔ خواہ صاحب بہادر ان کے نوکروں سے بھی ادنیٰ ہوں۔ ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں۔ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہے ہوں یا جیل خانوں میں بند ہوں۔ تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں کیونکہ اصل آزادی جسم کی آزادی نہیں بلکہ دل کی آزادی ہے۔ آزاد قوموں کے جرنیل جب لڑائی میں پکڑے جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو وہ غلام بن جاتے ہیں۔ وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتے ہیں بے شک انہیں بند جگہوں میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن بند جگہوں میں رہنے کے باوجود وہ آزاد ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان وہ ملک ہے جس کا بیشتر حصہ بلکہ ننانوے فیصدی حصہ یقیناً غلام ہو چکا ہے۔ اس قسم کی حالت کو اگر لمبا کیا جائے تو اس سے زیادہ اپنی قوم کے ساتھ اور کوئی دشمنی نہیں ہوسکتی۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایک ویٹو کیا اگر وائسرائے کو دس ویٹو بھی دے دیئے جائیں تب بھی اس تغیر کی وجہ سے ہندوستان میں جو آزادی کی روح پیدا ہوگی وہ اس قابل ہے کہ اس کو خوشی سے قبول کیا جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نہیں نکل جائے گا )اور ہندوستانیوں سے مراد جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں عوام الناس ہیں نہ کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ( کہ وہ انگریزوں کے غلام ہیں اس وقت تک ہندوستان سے کسی بہتری یا کسی بڑے کام کی امید رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے۔ لیڈر ہونا اور بات ہے لیکن کام عوام الناس کیا کرتے ہیں۔ ہٹلر نے انگلستان سے لڑائی کی اور بے شک بڑی جرات اور بہادری دکھلائی۔ مگر لڑا ہٹلر نہیں بلکہ جرمن قوم لڑی۔ سٹالن نے بے شک ایک اعلیٰ مہارت جرنیل کی دکھائی اور لوگ سٹالن کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن سٹالن سٹالن نہیں بن سکتا تھا۔ جب تک روس کا ہر آدمی بہادر اور دلیر نہ ہوتا۔
انگلستان میں مسٹر چرچل نے بے شک بڑا کام کیا ہے لیکن مسٹر چرچل کیا کام کرسکتے تھے اگر ہر انگریز اپنے اندر و اخلاق نہ رکھنا جو عام طور پر انگریزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مسٹر روز ویلٹ کو بھی بڑی عزت اور شہرت حاصل ہوئی مگر ان کو عزت اور شہرت اسی وجہ سے حاصل ہوئی کہ امریکن لوگوں نے قربانی کی ایک بے نظیر روح دکھائی۔ ہندوستان )میں( بھی بے شک گاندھی جی کو اونچا کرنے کے لئے لوگ کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی اکیلا گاندھی یا دو درجن گاندھی یا بیس درجن گاندھی یا ہزار گاندھی بھی ہندوستان کو آزاد نہیں کراسکتا جب تک عوام الناس میں آزادی کی روح پیدا نہ ہو۔ پس صرف گاندھی اور نہرو کو دیکھ کر یہ خیال کرلینا کہ ہندوستان ترقی کررہا ہے محض حماقت ہے۔ چند بڑے بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہوگئی ہے ویسی ہی جہالت کی بات ہے جیسے بلی کبوتر پر حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں امن میں آگیا ہوں جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کرلیتے` جب تک ہندوستان کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کرلیتے` جب تک ہندوستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کرلیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور حرکت پیدا نہیں کرلیتے اس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہوسکتا ہے نہ ہندوستان حقیقی معنوں میں کوئی کام کرسکتا ہے۔ اور یہ آزادی پیدا نہیں ہوسکتی جب تک موجودہ دور بدل نہ جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں۔ جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل جائے گا اس دن ان میں تعلیم بھی آجائے گی` ان میں جرات اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی اور ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی۔ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کا غلام ہوں تو وہ کہتا ہے مجھے کیا زمین الٹی ہو یا سیدھی` آسمان گرے یا قائم رہے` فائدہ تو مالک کو ہے۔ میں کیوں تکلیف اٹھائوں۔ میں سمجھتا ہوں وہ لیڈر لیڈر نہیں ہوں گے بلکہ اپنی قوم کے دشمن ہوں گے جو ان حالات کے بدلنے کے امکان پیدا ہونے پر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ضد کرکے بیٹھ جائیں اور ان معمولی معمولی باتوں میں اس اہم ترین موقع کو ضائع کردیں کہ فلاں کو کانفرنس میں کیوں لیا گیا اور فلاں کو کیوں نہیں لیا گیا۔ لوگ تو اپنے جسم کو بچانے کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کے اعضاء تک کٹوا دیتے ہیں۔
لیکن یہاں یہ سوال پیدا کئے جارہے ہیں کہ فلاں کو نمائندہ سمجھا جائے اور فلاں کو نہ سمجھا جائے۔ فلاں کو شامل کیا جائے اور فلاں کو شامل نہ کیا جائے۔ حالانکہ جس شخص کے دل میں حقیقی درد ہوتا ہے وہ ہر قسم کی قربانی کرکے اپنی قیمتی چیز کو بچانے کی کوشش کیا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں چالیس کروڑ انسان غلامی میں مبتلا ہے۔ چالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے۔ نسلاً بعد نسل وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کررہا ہے لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑرہے ہیں کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے۔ لیکن ہماری جماعت یہ دعا ضرور کرسکتی ہے کہ اے خدا خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تو ان کی آنکھیں کھول اور انہیں اس بات کی توفیق عطا فرما کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہے بلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے۔ اگر اس موقعہ پر لڑنا جائز ہوتا تو انگریز کو لڑنا چاہئے تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں۔ انگلستان کا صناع جو ہندوستان کو لوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی وہ ٹوری گورنمنٹ جو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی چلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی لیبر پارٹی جو نئی پارٹی ہے اور جسے برسر اقتدار آنے کا پہلا موقع ملنے والا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کے بعد ملنے والا ہو` وہ بھی اعلان کررہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہیں۔ انگلستان کے پریس کا بیشتر حصہ خواہ ٹوری ہو یا لیبر ہو یا لیبرل ہو` شور مچارہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ امریکہ اور فرانس اور دوسرے ممالک جن کا براہ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہے تو ہندوستان کے اپنے بعض سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زنجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ثابت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<۔۲۸
اخبار >اہلحدیث< کا تبصرہ
اخبار اہلحدیث کے ایڈیٹر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اس خطبہ جمعہ پر اس خیال کا برملا اظہار کیا کہ امام جماعت احمدیہ نے ہندوستان کی آزادی کے لئے جس جرات` دلیری اور حق گوئی کے ساتھ مطالبہ کیا ہے اور جس زور اور ولولہ کے ساتھ حکومت کو اہل ہند کا حق آزادی دینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کی مثال ہندوستان کے کسی بڑے سے بڑے آزادی پسند کی تقریروں بھی نہیں مل سکتی۔ چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>اب خلیفہ قادیان کا مسلک بھی سننے کے قابل ہے۔ یہ وہی مسلک ہے جو عام کانگرسیوں اور دیگر سیاسی لوگوں کا ہے۔ یعنی سیاسی لوگ ہندوستانیوں کو حالت موجودہ میں غلامی کی ذلت میں مبتلا سمجھتے ہیں اس لئے آزادی کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں بعض دفعہ وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں۔ قید و بند کے مصائب بھی برداشت کرتے ہیں تاکہ غلامی کی زنجیریں کٹ جائیں اور ہندوستانی آزادی کی ہوا میں خوش و خرم رہیں۔ خلیفہ قادیان )نے( حکومت کی جدید سکیم کے متعلق اظہار خیالات کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ہندوستانیوں کی ذلت غلامی کا ذکر کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ پڑھنے اور سننے کے قابل ہے۔ آپ نے لیڈروں کو اتفاق کرکے کام کرنے کا مشورہ دیا اور کہا )آگے حضرت مصلح موعود کے خطبہ جمعہ سے اقتباس دے کر لکھا۔ ناقل(
یہ الفاظ کس جرات اور حیرت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ کانگرسی تقریروں میں اس سے زیادہ نہیں ملتے۔ چالیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کا ولولہ جس قدر خلیفہ جی کی اس تقریر میں پایا جاتا ہے وہ گاندھی جی کی تقریر میں بھی نہیں ملے گا<۔۲۹
سیاسی لیڈروں میں خطبہ جمعہ کی اشاعت
حضرت مصلح موعود کا یہ خطبہ جمعہ اگلے ہی روز >الفضل< ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں شائع کردیا گیا اور ساتھ ہی اس کا الگ انگریزی ترجمہ بھی شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نمائندہ >الفضل< نے شملہ پہنچ کر )جہاں لارڈ ویول کی دعوت پر سیاسی لیڈروں کی کانفرنس ہونے والی تھی( راشٹر پتی مولانا ابوالکلام آزاد صدر آل انڈیا نیشنل کانگرس` قائداعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ` مسٹر گاندھی` ڈاکٹر خاں صاحب` مسٹر حسین امام` میاں افتخار الدین` پنڈت گوبند ولبھ پنت` سری کرشن سنہا اور دوسرے بہت سے سیاسی لیڈروں تک پہنچا دیا۔۳۰
شملہ کانفرنس کی ناکامی اور ملکی انتخابات کا اعلان
سیاسی لیڈروں کی کانفرنس ۲۵۔ جون سے لے کر ۱۴۔ جولائی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔ مذاکرات کے دوران قائداعظم محمد علی جناح نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح کانگرسی لیڈر مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کرکے کوئی آبرومندانہ سمجھوتہ کرلیں اور قومی حکومت قائم ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں واضح بیان بھی دیا کہ اگرچہ مسلم لیگ کوویول تجاویز منظور نہیں۔ پھر بھی ہم عارضی طور پر قومی حکومت کی تشکیل میں حصہ لینے کو تیار ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مسلم نمائندوں کا حق انتخاب صرف مسلم لیگ کو حاصل ہو۔۳۱ مگر کانگرس نہ صرف یہ کہ اس پر آمادہ نہ ہوئی بلکہ اس نے مسلم لیگ کے اس موقف کو سبوتاژ کرنے اور ان کی نمائندہ حیثیت کو چیلنج کرنے کے لئے دہلی میں نیشنلسٹ مسلمانوں کی ایک کانفرنس کا انتظام کیا جس میں جمعیتہ العلماء` مسلم مجلس` مومن کانفرنس` آزاد پارٹی اور انجمن وطن بلوچستان کے نمائندوں سے ایک قرارداد منظور کرائی کہ مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی نمائندہ نہیں۔۳۲ بنابریں کانگرس نے نیشنلسٹ مسلمانوں کے عبوری حکومت میں لئے جانے پر بہت زور دینا شروع کردیا اور اپنا نقطہ نظر یہ پیش کئے رکھا کہ اگر پانچ مسلمان ممبران کونسل ہوں تو اس میں سے دو غیر لیگی قوم پرست )کانگرسی یا کانگرس نواز( مسلمان ضرور ہونے چاہئیں-
کانگرس کے علاوہ خود لارڈویول نے بھی اصرار کیا کہ مسلم لیگ کو پنجاب کے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر ملک خضر حیات خاں کا ایک آدمی ضرور لینا پڑے گا۔ مگر یہ امر چونکہ مسلم لیگ کی جڑ پر کلہاڑا چلانے بلکہ اس کو اپنے ہاتھوں میں قبر میں اتارنے کے مترادف تھا۔ اس لئے قائداعظم نے ایگزیکٹو کونسل کے لئے اپنے امیدواروں کی فہرست وائسرائے کو دینے سے صاف انکار کردیا۳۳ اور مطالبہ کیا کہ یا تو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے یا ملک میں انتخابات کراکے مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کا فیصلہ کرلیا جائے جس کا جواب وائسرائے نے کانفرنس کے دوران تو یہ دیا کہ عام انتخابات کرنے کا اختیار لیڈروں کی کانفرنس کو دے دیا گیا ہے۔ نئی گورنمنٹ چاہے تو ایسا کرسکے گی۔ اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔۳۴ مگر بعد ازاں لارڈ ویول نے ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۵ء کو نئی برطانوی مزدور حکومت سے لندن جاکر صلاح مشورہ کرنے کے بعد اعلان کردیا کہ مرکزی اور صوبائی مجالس آئین ساز کے انتخابات جلد عمل میں لائے جائیں گے۔ ان انتخابات کے بعد ہندوستان کا مستقل دستور تیار کرنے کے لئے دستور ساز اسمبلی کے ارکان کا انتخاب ہوگا۔
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا سفر ارض مقدس
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالم اسلام کے لئے ہندوستان اور فلسطین کی آزادی کے مسائل بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ جسٹس سر محمد ظفر الل¶ہ خاں نے ان دونوں مسائل میں اعلیٰ قابلیت کے ساتھ مسلمانوں کے لئے تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔ ہندوستانیوں کے حقوق کے بارے میں تو آپ کی معلومات مکمل بھی تھیں اور ان پر آپ کی نگاہ بھی بہت گہری تھی۔ لیکن ارض مقدس فلسطین کے سلسلہ میں آپ کو گہری معلومات کی ضرورت تھی چنانچہ اکتوبر ۱۹۴۵ء میں امریکہ و انگلستان میں اپنے مفوضہ فرائض کی انجام دہی کے بعد آپ ارض مقدسہ میں وارد ہوئے۔ برطانیہ سے قاہرہ۔ قاہرہ سے دمشق۔ وہاں سے بیروت اور پھر یکم اکتوبر کو ارض فلسطین میں وارد ہوئے۔ ارض مقدسہ میں آپ کے شب و روز کی تفاصیل نہ صرف فلسطین کے تینوں روزانہ اخبارات میں شائع ہوتی رہیں >مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن< سے بھی روزانہ تین دفعہ آپ کی مصروفیات کے بلیٹن نشر ہوتے رہے۔ )ایڈیٹر(
سفر سے متعلق بیت المقدس کے ممتاز جریدہ >الوحدۃ العربیہ< نے اس تاریخی سفر کی مفصل رپورٹ سپرد اشاعت کی جسے اس اخبار کے خصوصی وقائع نگار الکیلانی نے مرتب کیا تھا جو چوہدری صاحب کے قیام فلسطین کے دوران آپ کے رفیق سفر تھے۔ اس رپورٹ کا ترجمہ جناب ابو طاہر فارانی کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>میں اور جناب مولوی >صبری عابدین< صاحب جناب مینجر صاحب >عرب بینک و پریذیڈنٹ عرب نیشنل فنڈ< کے حکم پر ان کی طرف سے ہندوستان کے لیڈر سر ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے ۱۹۳۷ء میں برطانوی ہائوس آف لارڈز میں اپنی مشہور تقریر میں فلسطین کے عربوں کی مدد اور نصرت پر بہت زور دیا تھا کی خدمت میں سلام و خوش آمدید کہنے کے لئے گئے تو وہاں اچانک ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ہم قانون کے ایک علامہ کے سامنے ہیں جو یوروپین سوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ گندمی رنگ` عمر کے پانچویں دہاکہ میں اور چمکدار آنکھیں جن سے ذہانت کی چمک نظر آرہی تھی۔ انگریزوں کی سی روانی کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں ۔۔۔ اور فصیح عربی زبان ۔۔۔۔ قرآن شریف کی عربی پر بھی خوب عبور حاصل ہے اس وقت وہاں ان کے پاس بڑے بڑے سرکردہ احباب کی ایک جماعت موجود تھی جو ہماری طرح انہیں >سلام و خوش آمدید< کہنے کے لئے آئی تھی۔ چونکہ موصوف کا قیام فلسطین میں بہت تھوڑے عرصے کے لئے ہوگا اس لئے آپ نے اپنے ملاقاتیوں سے کہا کہ ان میں سے کوئی ایک اس قیام کے دوران ان کا رفیق بن جائے اور عربوں کی سکیمیں دیکھنے۔ ان کا جائزہ لینے اور ان سے متعلقین کے ساتھ ملاقات وغیرہ کے پروگرام مرتب کر دے ۔۔۔۔۔۔ اس پر تمام بھائیوں نے ازراہ نوازش و اعتمادیہ خدمت میرے سپرد کی جسے میں نے بطیب خاطر قبول کرلیا۔ کیوں کہ ایک سوال کے جواب میں )چودھری صاحب( موصوف کا یہ جواب میں نے اپنے کانوں سے سنا تھا کہ۔
مجھے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ میں فلسطین جاکر خود اس کا جائزہ لوں کہ یہودیوں کے اس دعوے میں کہاں تک صداقت ہے کہ وہ فلسطین کو ترقی دے رہے ہیں اور خوب صورت بنا رہے ہیں۔
مجھے )راقم الحروف( کو یہ احساس ہے کہ میری ذمہ داری بڑی اہم اور مشکل ہے۔ کیونکہ موصوف کے پاس وقت بہت کم ہے مسئلہ زیر تحقیق بہت مشکل ہے اور انہیں اس وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات مجھے بہم پہنچانا ہوں گی۔ میرے لئے یہ کام اس لئے بھی بہت مشکل ہے کہ دوسری طرف میرے مقابلہ میں باقاعدہ ایک >جیوئش ایجنسی< ہے۔ جس کے متعلق سب کو معلوم ہے اور سب خوب جانتے ہیں کہ اسں ایجنسی کے پاس ایسے مواقع کے لئے باقاعدہ ماہوار تنخواہ دار ملازم ہیں۔ جو صیہونیت کی مصلحتوں کے مطابق ہر قسم کے فرضی اعداد و شمار اور محرف معلومات مہیا کرنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں اور عربوں کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں کہ بیرونی زائرین کے سامنے جامع و مانع شکل میں اپنے جائز سچے اور حقیقت پر مبنی دعوے کو بھی پیش کیا جاسکے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے عرب آفس )لنڈن( میں بھی ایسا کوئی اتہمام نہیں۔ حالانکہ ایسا عرب آفس آج سے کئی سال قبل ہی قائم ہوجانا چاہئے تھا۔ جس میں ہر وقت اس مسئلہ سے متعلق تمام حقائق مستند اعداد و شمار اور دیگر امور مسائل کی تشریحات )جو عربوں کے بہترین اغراض و مقاصد کی آئینہ دار ہوں( کتابچوں اور پمفلٹوں کی شکل میں موجود ہوں۔
میں نے مہمان عزیز )ہندوستانی رہنما( سے برسبیل تذکرہ عرض کیا آپ کے خیال میں )ان تمام سکیموں اور منصوبوں سے جو بینہ طور پر یہودیوں نے عربوں کی فلاح و بہبود کے لئے تیار کی ہیں( مثلاً بحیرہ مردار۔ پوٹاس کمپنی۔ تجربہ گاہ ویران اور یہودی بستیاں وغیرہ( ان سے عربوں کو بھی فائدہ حاصل ہوا ہے؟ تو آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
>۔۔۔۔ میں نے یہودیوں کو بتلا دیا تھا کہ میں نے تمہاری ان سکیموں میں ایک عرب بھی نہیں دیکھا جو ان میں تمہارے ساتھ شریک ہوا اور ان سے اسے فائدہ پہنچ رہا ہو۔ تمہاری یہ تمام ترقی اور آباد کاری صرف اپنے ہی فائدہ کے لئے ہے اور مجھے یقین ہے کہ عرب اس زمین کے لئے آباد رہنے کو ترجیح دیں گے بجائے اس کے کہ تم اسے عالمگیر صیہونی فنڈ سے خرید کر آباد کرو اور رفتہ رفتہ ان کے ملک میں اپنا ایک قومی وطن تعمیر کرلو ۔۔۔۔۔<
علامہ احمد سامع الخالدی کی طرف سے >ویر عمرو< میں یتیموں کے لئے قائم کردہ زرعی فارم کو دیکھنے کی دعوت مہمان عزیز نے قبول فرمائی اور اس خوب صورت منصوبے کے معائنہ کے بعد مجھ سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>لاریب علامہ خالدی صاحب انسائیکلو پیڈیا ہیں اور یہ فارم اس امر کی شہادت ہے کہ اگر میرے عرب بھائی متحدہ طور پر محکم مساعی فرمائیں تو مغربی فلسطین کے پہاڑوں اور ٹیلوں سے یہاں دوسرا سوئٹزرلینڈ بنایا جاسکتا ہے<۔
دوسرے دن میں آپ کے ہمراہ >حرم شریف< کی زیارت کے لئے گیا جہاں مولانا ضیاء الدین خطیب نے آپ کا خیر مقدم کیا۔ آپ کو اس امر سے از حد مسرت ہوئی کہ آپ اور مولانا دونوں ہی ایک ہی درس گاہ )عظیم الشان لنڈن یونیورسٹی( کے فارغ التحصیل ہیں۔
یہاں آپ نے مولانا صاحب سے >صنحرۃ المشرفہ< >مسجد اقصیٰ< اور >حرم شریف< سے متعلق ضروری معلومات حاصل کیں۔ اور نماز کے بعد آپ مولانا محمد علی۳۵ اور شاہ حسین مرحوم و مغفور کی قبروں پر گئے۔ اور اصحاب البنی شداد بن اوسؓ اور >عبادۃ بن الصامت< کی قبروں پر دعا کرنے کے بعد دیوار براق و گریہ دیکھنے لگے اس وقت وہاں بعض یہودی علماء کھڑے گریہ و زاری کررہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ۔
>یہ کیوں رو رہے ہیں؟<
بتلایا گیا ۔۔۔۔۔۔ کہ یہ >ہیکل سلیمان ہے< جس کے کھنڈارت پر مسجد اقصیٰ بنی ہوئی ہے یہ یہودی علماء اس کے لئے رو رہے ہیں اور اس کے دوبارہ بننے کے لئے عاجزانہ دعائیں کررہے ہیں۔ اور ان کا یہ رونا ان کا لالچ اور خوابیں اسلامی ورثہ کے لئے ایک پنہاں خطرہ کا حکم رکھتی ہیں۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا۔ نعوذ باللہ۔
اس دعوت چائے میں جو آپ کے اعزاز میں جناب عوفی عبدالہادی نے دی ہنری کتن۔ محمد یونس الحسنی۔ حجاج نوبہض۔ عادل جبر اور محمد کمال نامی وکلاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ جناب ہنری کتن نے اپنے رفیق وکلاء کی مدد سے قضیہ فلسطین پر یہودیوں کی فلسطین کی طرف ہجرت اور اراضی فلسطین کی خرید و فروخت دونوں پہلوئوں سے روشنی ڈالی آپ نے یہ بحث سننے کے بعد فرمایا۔
>یہاں پہلی دفعہ آنے سے قبل میرا یہ خیال نہیں تھا کہ یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے۔ اب مجھے محسوس ہوا ہے کہ اصل مسئلہ جو میں نے خیال کیا تھا یہ نہیں کہ ملک میں کس قدر یہودی مزید آسکتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سرزمین کی اصل اور قدیم قوم کو فنا کیا جارہا ہے اور ایک اجنبی قوم کو زندہ کیا جارہا ہے۔ کہ وہ ان کی جگہ وہاں رہے<۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ >عرب اداروں کو چاہئے کہ وہ فلسطین کے اصل حالات سے اپنے ہندوستان کے مسلمان بھائیوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے قائد جناب محمد علی جناح کے ذریعہ پیشکریں کیوں کہ جو کچھ آپ نے بیان کیا ہے اس بارے میں انہیں کچھ علم نہیں ہے انہیں تو فقط یہی علم ہے کہ فلسطین خطرے میں ہے! کیوں خطرے میں ہے؟ اور کیسے خطرے میں ہے؟ اس بارے میں انہیں کچھ بھی آگاہی نہیں >روز میری ہوٹل< کی طرف سے واپس آتے ہوئے جہاں سے میں نے آپ کو عدن ہوٹل میں منتقل کیا تھا مجھے مخاطب کرکے فرمایا ۔۔۔۔۔۔ >میں اپنے اس عرب بھائی سے اتفاق کرتا ہوں جس نے کہا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے ہجرت کرنے کی مثال اس موٹر کار کے مشابہ ہے۔ جس میں چھ آدمی بیٹھ سکتے ہوں اگر اس میں تین یا چار آدمی اور بھی ایسے بھر لئے جائیں۔ جن کا اس موٹر کار سے کوئی تعلق نہ ہو تو اس کا سوائے اس کے کوئی مطلب نہ ہوگا کہ کار کے اصل سواروں کو تنگ اور بے آرام کیا جائے جو قانون اور منطق کے بھی خلاف اور ناروا ہے<۔
ڈاکٹر خالدی نے آپ سے مل کر مسئلہ فلسطین کی سیاست بالا پر روشنی ڈالی اور حکومت برطانیہ کی طرف سے جو کمیشن اور کمیٹیاں آتی رہیں ان کی رپورٹوں کا خلاصہ پیش کیا اور >قرطاس ابیض< ۱۹۲۹ء کی بڑے دلچسپ پیرائے میں تشریح و وضاحت کی۔
جب آپ حرم جد الانبیاء خلیل اللہ کی زیارت کے لئے گئے تو وہاں آپ کی ملاقات صدر ٹائون کمیٹی خلیل مولوی محمد علی الجیری سے ہوئی آپ نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ فلسطین کے مسلمانوں کو اپنی موجودہ مشکلات سے نجات حاصل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ دین حنیف اسلام کی طرف رجوع ہوں اور قرآن مجید کے احکام پر عمل کریں< آپ نے یہ جواب سن کر اس سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا۔
مجھے اس بارے میں آپ سے اتفاق ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مڈل ایسٹ )شرق اوسط( کے مسلمان اس گمان میں مبتلا ہیں کہ مغرب کا تمدن اختیار کرنے ہی میں ان کی ترقی کا راز ہے اور وہ اسی میں غرق ہیں حالانکہ مشرق کی نجات اپنی پہلی روحانیت کی طرف لوٹ آنے میں ہے۔۳۶body] gat[
قائداعظم محمد علی جناح کا پیغام مسلمانان ہند کے نام
اس اعلان پر مسلم لیگ کے صدر قائداعظم محمد علی جناح نے کوئٹہ میں مسلمانان ہند کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
>ہمارے پیش نظر اہم مسئلہ آئندہ انتخابات کا ہے۔ موجودہ حالات میں انتخابات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انتخابات ہمارے لئے ایک آزمائش کی صورت رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم رائے دہندگان کی اس امر کے بارے میں رائے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ پاکستان چاہتے ہیں یا ہندو راج کے ماتحت رہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے خلاف بعض طاقتیں کام کررہی ہیں اور کانگرس ارادہ کئے بیٹھی ہے کہ ہماری صفوں کو ان مسلمانوں کی امداد سے پریشان کردیا جائے جو ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ یہ مسلمان ہمارے خلاف مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے کام میں بطور کارندے استعمال کئے جارہے ہیں۔ یہ مسلمان سدھائے ہوئے پرندے ہیں۔ یہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے ہی مسلمان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگرس کے پاس دولت کے وسیع خزانے ہیں۔ ان کے پاس مضبوط تنظیم اور پریس ہے مگر حق ہمارے ساتھ ہے۔ اگر خدائے عزوجل نے ہماری اعانت کی تو ہم انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہوں گے<۔۳۷
تیسرا باب )فصل سوم(
جماعت احمدیہ کی طرف سے مرکزی اور صوبائی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پرجوش حمایت اور عدیم النظیر تعاون اور پراپیگنڈا ہندوئوں کی برہمی اور مسلم زعماء کا شاندار خراج تحسین
۴۶۔ ۱۹۴۵ء/ ۲۵۔ ۱۳۲۴ہش کا معرکہ انتخاب تحریک پاکستان کا اہم ترین سنگ میل تھا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنے مقدس امام سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کی زیر قیادت مسلم لیگ کی زبردست تائید و حمایت کرکے قیام پاکستان کی منزل کو قریب تر لانے میں نمایاں اور تاریخی رول ادا کیا۔
حضرت امیر المومنین کی طرف سے آئندہ الیکشن میں جماعتی پالیسی کا واضح اعلان
قائداعظم محمد علی جناح نے مسلمانان ہند سے انتخابات میں مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کی جو تحریک کوئٹہ میں فرمائی اس کی تائید میں سب
سے پہلی اور پرزور اور ملک گیر آواز قادیان سے بلند ہوئی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو >آئندہ الیکشنوں کے متعلق جماعت احمدیہ کی پالیسی< کے عنوان پر ایک مفصل مضمون لکھا جو >الفضل< کی ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں شائع کر دیا گیا۔ اس حقیقت افروز مضمون میں حضور نے نہایت واشگاف الفاظ میں مسلم لیگ کے موقف کا مدلل اور محکم ہونا ثابت کرنے کے بعد ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہزاروں احمدیوں کو قطعی ارشاد فرمایا کہ وہ آئندہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ۳۸ کی پالیسی کی ایسی پرزور حمایت کریں کہ مسلم لیگ الیکشن کے بعد ڈٹ کر یہ اعلان کرسکے کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت ہے۔ چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا۔
>جیسا کہ احباب کو معلوم ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں تمام ہندوستان میں اول تو ہندوستان کی دونوں کونسلوں کے ممبروں کے انتخاب کی مہم شروع ہونے والی ہے اور اس کے بعد صوبجاتی انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ میری اور جماعت احمدیہ کی پالیسی شروع سے یہ رہی ہے کہ مسلمانوں` ہندوئوں اور سکھوں اور دوسری اقوام میں کوئی باعزت سمجھوتہ ہوجائے اور ملک میں محبت اور پیار اور تعاون کی روح کام کرنے لگے۔ مگر افسوس کہ اس وقت تک ہم اس غرض میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
شملہ کانفرنس ایک نادر موقعہ تھا مگر اسے بھی کھو دیا گیا اور بعض لوگوں نے ذاتی رنجشوں اور اغراض کو مقدم کرتے ہوئے ایسے سوال پیدا کردیئے کہ ملک کی آزادی کئی سال پیچھے جاپڑی اور چالیس کروڑ ہندوستانی آزادی کے دروازہ پر پہنچ کر پھر غلامی کے گڑھے کی طرف دھکیل دیئے گئے۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔
جہاں تک میں نے خیال کیا ہے اصل سوال ہندوئوں اور مسلمانوں کے اختلافات کا ہے میرا مطلب یہ نہیں کہ دوسری اقوام کے مفاد نظر انداز کئے جاسکتے ہیں بلکہ میرا یہ مطلب ہے کہ دوسری اقوام کے مفاد اس جھگڑے کے طے ہو جانے پر نسبتاً سہولت سے طے ہوسکتے ہیں۔ سب سے مشکل سوال ہندو مسلم سمجھوتے کا ہی ہے اور یہ سوال پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے مسائل سے بہت پہلے کا ہے۔ اصل مسائل وہی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا ذہن پاکستان کی طرف پھیرا ہے اور اکھنڈ ہندوستان کے خیالات کے محرک بھی وہی مسائل ہیں جو اس سے پہلے مسلمانوں کے مطالبات کو رد کرانے کا موجب رہے ہیں۔ کسی شاعر نے جو کچھ اس شعر میں کہا ہے کہ۔ ~}~
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم
وہی حال اس وقت پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے دعووں کا ہے۔ پس اگر کسی طرح ہندو اور مسلمان قریب لائے جاسکیں تو پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کا آپس میں قریب لانا بھی مشکل نہ ہوگا۔ ورنہ پاکستان یا اکھنڈ ہندوستان ہوں یا نہ ہوں` پاکھنڈ ہندوستان بننے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔
اس ہندو مسلمان سمجھوتے کی ممکن صورت یہی ہوسکتی تھی کہ ایک جماعت مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو اور ایک جماعت ہندوئوں کی اکثریت کی نمائندہ ہو یا ہندوئوں کی اکثریت کی نمائندہ تو نہ ہو یا ایسا کہلانا پسند نہ کرتی ہو مگر اکثر ہندوئوں کی طرف سے سمجھوتہ کرنے کی قابلیت رکھتی ہو اور یہ دونوں جماعتیں مل کر آپس میں یہ فیصلہ کرلیں- شملہ میں ایسا موقعہ پیدا ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے مسلم لیگ اور ہندوئوں کے جذبات کی نمائندگی کے لئے کانگریس` یہ دونوں پارٹیاں ایک مجلس میں جمع ہوگئی تھیں۔
کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب اقوام کے حقوق کی محافظ ہے اور ہم اس دعویٰ کو رد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ مگر باوجود اس کے کانگریس اس امر کا انکار نہیں کرسکتی کہ جو مسلمان یا سکھ یا عیسائی کانگریس میں شامل ہیں وہ مسلمانوں یا سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں ہیں۔ پس کانگرس اگر یہ دعویٰ کرے کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں سارے ملک کی بہتری کے لئے سوچتے ہیں یا ہم جو سکیم بناتے ہیں اس میں اسی طرح سکھوں عیسائیوں اور مسلمانوں کا خیال رکھتے ہیں جس طرح ہندوئوں کا خیال رکھتے ہیں تو ہم اس دعویٰ کو بحث ختم کرنے کے لئے سچا تسلیم کرلینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کو دیانتداری سے ادا کردینا یا ایسا کرنے کا دعویدار ہونا اسے اس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا۔ کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعویٰ کے ساتھ پیش ہوسکتا ہے کہ مدعی یا مدعیٰ علیہ کے مقرر کردہ وکیل سے زیادہ سمجھ اور دیانت داری سے میں اس کے حقوق پیش کرسکوں گا۔ کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعویٰ کو باوجود سچا سمجھنے کے قبول کرسکے گی اور کیا اس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیموکریسی کہلا سکتی ہے؟
ڈیموکریسی یا جمہوریت کے اصول کے لحاظ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کسی جماعت کی نمائندگی کرنے کا کون اہل ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس جماعت کی اکثریت کس کو اپنا نمائندہ قرار دیتی ہے۔
ان حالات میں کانگرس کو ہندوئوں کے سوا تمام دوسری اقوام کا نمائندہ اسی صورت میں قرار دیا جاسکتا ہے اگر ان اقوام کے اکثر افراد کانگرس میں شامل ہوں۔ جہاں تک ہمارا علم ہے کانگریس میں ہندو قوم کی اکثریت کے نمائندے تو ہیں لیکن مسلمانوں سکھوں یا عیسائیوں کی اکثریت کے نمائندے نہیں ہیں۔ اس لئے خواہ کانگریس مسلمانوں` سکھوں اور عیسائیوں کے حقوق کی سکیم مسلمانوں` سکھوں یا عیسائیوں کے نمائندوں سے بہتر تجویز کرسکے` جمہوری اصول کے مطابق مسلمانوں` سکھوں اور عیسائیوں کی نمائندہ نہیں بن سکتی لیکن باوجود غیر جانبدار اور ملکی تحریک ہونے کے ہندوئوں کی نمائندگی کرسکتی ہے کیونکہ ہندوئوں کی اکثریت اسے تسلیم کرچکی ہے۔
جب حالات یہ ہیں تو عقلاً اور جمہوری اصول کے مطابق قطع نظر اس کے کہ کانگرس کی سکیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے متعلق بہتر ہے یا مسلم لیگ کی مسلم لیگ کی سکیم ہی کو مسلمانوں کی پیش کردہ سکیم سمجھا جائے گا اور کانگرس کو میدان چھوڑ کر ہندو مسلم سمجھوتے کے لئے ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کو باہمی سمجھوتے کی دعوت دینی ہوگی یا پھر خود ہندو اکثریت کی نیابت میں مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ اس کے سوا اور کوئی معقول صورت نہیں ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ اگر کانگرس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے تو مسلم لیگ کے نمائندہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ کو نمائندہ قرار دینے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ گاندھی جی ایک طرف اور وائسرائے ہند دوسری طرف اسے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت سمجھ کر اس سے اسلای حقوق کے بارہ میں گفت و شنید کے لئے تیار ہوگئے تھے۔ مسلم لیگ نمائندہ ہے یا نہیں ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اب کانگرس اور گورنمنٹ اس کے سوا کوئی دوسرا نظریہ اختیار نہیں کرسکتی۔ اگر مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں ہے تو کیا وہ مسلمانوں کے حقوق کا ایک غیر نمائندہ جماعت کے ساتھ تصفیہ کرکے مسلمانوں کو تباہ کرنے کی فکر میں تھے۔
لیکن فرض کرو مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ نہیں تو پھر کون مسلمانوں کا نمائندہ ہے؟ کیا آزاد مسلمان کانفرنس` کیا احرار` کیا کوئی اور جماعت جو صرف اسلامی نام کا لیبل اپنے اوپر چسپاں کئے ہوئے ہے؟ اگر ان میں سے کوئی ایک یا سب کی سب مل کر مسلمانوں کی نمائندہ ہیں تو کیا کونسلوں میں ان لوگوں کی کثرت ہے؟ مرکزی کونسلوں میں مسلم لیگ کے مقابل پر ان کی کیا تعداد ہے اور صوبہ جاتی کونسلوں میں ان کی تعداد کیا ہے؟ جہاں تک مجھے علم ہے صوبہ جاتی کونسلوں میں بھی اور مرکزی کونسلوں میں بھی غیر لیگی ممبروں کی تعداد لیگی ممبروں سے بہت کم ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبت صوبہ جاتی نسبت سے بھی کم ہے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ صوبہ جاتی کونسلوں میں غیر لیگی ممبروں کی نسبتی زیادتی مقامی مناقشات اور رقابتوں کی وجہ سے ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ انہی ووٹروں نے صوبہ جات میں ایک پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے اور مرکز کے لئے نمائندے بھجواتے ہوئے دوسری پالیسی کے حق میں ووٹ دیئے۔ پھر مثلاً پنجاب ہے۔ اس میں یونینسٹ ممبر اصولاً اپنے آپ کو مسلم لیگ کے حق میں قرار دیتے ہیں اور پاکستان کی علی الاعلان تائید کرتے ہیں۔ پس ہر یونینسٹ ہندو مسلم سمجھوتے کے سوال کے لحاظ سے درحقیقت مسلم لیگی ہے بلکہ وہ تو اس امر کا مدعی ہے کہ مجھے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ایک طبقہ نے باہر کردیا ہے ورنہ میں تو پہلے بھی مسلم لیگی تھا اور اب بھی مسلم لیگی ہوں۔ ان حالات میں صوبہ جاتی غیر لیگی ممبروں کی تعداد مسلم لیگی ممبروں کے مقابل پر اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ غرض جس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھیں اس وقت مسلمانان ہند کی اکثریت مسلم لیگ کے حق میں ہے۔ کانگریس` گورنمنٹ اور پبلک ووٹ سب کی شہادت اس بارہ میں موجود ہے اور ان حالات میں اگر ہندوستان میں صلح کی پائدار بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو مسلم لی اور کانگرس کے سمجھوتے سے ہی رکھی جاسکتی ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود اس کے شملہ کانفرنس کی ناکامی سے بددل ہوکر کانگریس نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اب وہ مسلم لیگ سے گفتگو نہیں کرے گی بلکہ براہ راست مسلمانوں کی اکثریت سے خطاب کرے گی۔ عام حالات میں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ اگر کانگرس شروع سے ہی اس نظریہ پر کاربند ہوتی تو کم سے کم میں اسے بالکل حق بجانب سمجھتا لیکن اب جبکہ مسلمان ایک متحدہ محاذ قائم کرچکے ہیں کانگریس کا یہ فیصلہ ان لوگوں کے لئے بھی تکلیف دہ ثابت ہوا ہے جو اس وقت تک کانگریس سے ہمدردی رکھتے تھے۔ مجھے کانگرس سے اختلاف ہے اور بہت سخت اختلاف ہے۔ مگر میں اس امر کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد ہندوئوں کی طرف سے کانگرس کے ذریعہ سے ہی پڑسکے گی اور اس اتحاد کی آرزو میں شملہ کانفرنس کے ایام میں شکوہ مجھے مسلمان نمائندوں سے ہی پیدا ہوتا رہا ہے اور بار بار میرے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ چالیس کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے اگر مسلمان اپنے کچھ اور حق چھوڑ دیں تو کیا ہرج ہے۔ لیکن کانگرس کے اس اعلان نے کہ اب وہ مسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلم افراد سے خطاب کرے گی میرے جذبات کو بالکل بدل دیا ہے اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے معنے مسلم لیگ کی تباہی نہیں بلکہ مسلم کیریکٹر اور مسلم قوم کی تباہی ہے۔ پس اسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ جب تک یہ صورت حالات نہ بدلے ہمیں مسلم لیگ یا مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے۔ گو ہم دل سے پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان ہی کے قائل تھے جس میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی ایک حکومت قائم ہوتا باہمی فسادات دور ہوں اور انسانیت بھی اپنے جوہر دکھانے کے قابل ہو۔ مگر ہم اس کو آزاد قوموں کی آزاد رائے کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبر اور زور سے کمزور کو اپنے ساتھ ملانے سے یہ مقصد نہ دنیا کے بارہ میں پورا ہوسکتا ہے اور نہ ہندوستان اس طرح اکھنڈ ہندوستان بن سکتا ہے۔
میں نے یہ امور اس لئے بیان کئے ہیں تا ہماری جماعت اور ہندوستان کی دوسری جماعتیں میری اس رائے کو بخوبی سمجھ سکیں جو میں آئندہ انتخابات کے متعلق دینے والا ہوں۔
جو صورت حالات میں نے اوپر بیان کی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک ان کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقل مند آدمی اس حالت کی ذمہ داری اپنے پر لینے کو تیار ہو<۔۳۹
حضرت مصلح موعود نے جماعت احمدیہ کو انتخابات کے میدان میں مسلم لیگ کی پرزور حمایت
‏vat,10.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
کرنے کا ارشاد فرمانے کے بعد مزید لکھا کہ۔
>میں اس اعلان کے ذریعہ ۔۔۔۔۔۔۔ تمام صوبہ جات۴۰ کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی مدد کریں اس طرح کہ )۱( جس قدر احمدیوں کے ووٹ ہیں وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدوار کو دیں۔
)۲( میرا تجربہ ہے کہ احمدیوں کی نیکی اور تقویٰ اور سچائی کی وجہ سے بہت سے غیر احمدی بھی ان کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام احمدی اپنے ووٹ مسلم لیگ کو دیں بلکہ جو لوگ ان کے زیر اثر ہیں ان کے ووٹ بھی مسلم لیگ کے امیدواروں کو دلائیں۔
)۳( ہماری جماعت چونکہ اعلیٰ درجہ کی منظم ہے اور قربانی اور ایثار کا مادہ ان میں پایا جاتا ہے اور جب وہ عزم سے کام کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر دلوں کو ہلا دیتے ہیں` ہر احمدی سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر سے باہر جاکر اپنے علاقہ کے ہر مسلمان کو اس وقت مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے کی تلقین کرے اور اس قدر زور لگائے کہ اس کے حلقہ اثر میں مسلم لیگ امیدوار کی کامیابی یقینی ہو جائے۔
میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد کیا مرد اور کیا عورتیں` مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جاکر ان کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اس امر کو اس قدر اہم سمجھیں گے کہ تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اس کام میں مقامی مسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں گے اور جائز ہوگا کہ وہ اس کے ممبر ہوجائیں اگر ان کے نزدیک اور مسلم لیگ کے کارکنوں کے نزدیک ان کا شامل ہونا وہاں کے حالات کے لحاظ سے باہر رہنے سے زیادہ مفید ہو۔ جماعت کی تعداد اور اس کے رسوخ کے لحاظ سے سندھ` صوبہ سرحد` یوپی` بنگال اور بہار میں احمدی جماعتیں خوب اچھا کام کرسکتی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اس موقع پر بھی اپنے روایتی ایثار اور قربانی کا نمایاں ثبوت مہیا کریں گی<۔۴۱
مسلم لیگ کے مورخ اور حضرت مصلح موعود کا اہم بیان
مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے صف اول کے مورخین نے حضرت مصلح موعود کے اس اہم بیان کو خاص اہمیت دی ہے۔ چنانچہ خالد اختر افغانی نے ۱۹۴۶ء میں >حالات قائداعظم محمد علی جناح< کے نام سے ایک اہم کتاب لکھی جو علمیہ بکڈپو بھنڈی بازار بمبئی ۳ نے شائع کی۔ اس کتاب کے صفحہ ۳۱۴ و ۳۱۵ پر اس بیان کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح برصغیر کے نامور ادیب اور مسلم لیگ کے مستند اور شہرہ آفاق مورخ جناب رئیس احمد جعفری نے اپنی معرکتہ الاراء کتاب >حیات محمد علی جناح< )جو بعد کو >قائداعظم اور ان کا عہد< کے نام سے بھی شائع ہوئی( میں >اصحاب قادیان اور پاکستان< کے زیر عنوان لکھا۔
>اب ایک اور دوسرے بہت بڑے فرقہ` اصحاب قادیان کا مسلک اور رویہ پاکستان کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے۔ حقائق ذیل سے اندازہ ہو جائے گا کہ اصحاب قادیان کی دونوں جماعتیں یعنی احمدیہ اور قادیانی مسلم لیگ کی مرکزیت` پاکستان کی افادیت اور مسٹر جناح کی سیاسی قیادت کی معترف اور مداح ہیں۔
جماعت احمدیہ )لاہور( کے امیر جماعت مولانا محمد علی صاحب )جن کا مشہور انگریزی ترجمہ قرآن عالمگیر شہرت کا حامل ہے( نے ۹۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو متعدد اردو روزناموں کو حسب ذیل تار ارسال فرمایا۔
>آئندہ انتخابات میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے تمام اصحاب مسلم لیگ کے امیدواروں کو ووٹ دیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں کیونکہ موجودہ وقت بہت نازک ہے اور اگر مسلم لیگ کو شکست ہوگئی تو مدتوں کے لئے مسلمانوں کی قسمت تاریک ہو جائے گی<۔
مرزا محمود احمد صاحب کا بیان
قادیانی گروہ کے امام جماعت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو ایک طویل بیان اس سلسلہ میں شائع فرمایا جس کے جستہ جستہ حصے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
>کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے مفاد کا دیانت داری سے خیال رکھنا یا ایسا کرنے کا دعویٰ دار ہونا اسے اس کی نیابت کا حق نہیں دے دیتا۔ کیا کوئی وکیل کسی عدالت میں اس دعوے کے ساتھ پیش ہوسکتا ہے کہ مدعی یا مدعا علیہ کے وکیل سے زیادہ سمجھ دار ہوں اور دیانت داری سے اس کے حقوق کو پیش کرسکوں گا۔ کیا کوئی عدالت اس وکیل کے ایسے دعویٰ کو باوجود سچا سمجھنے کے قبول کرسکے گی؟ اور کیا اس قسم کی اجازت کی موجودگی میں ڈیموکریسی ڈیموکریسی کہلا سکتی ہے؟<
آگے چل کر موصوف فرماتے ہیں۔
>کانگرس کے اس اعلان نے کہ اب وہ مسلم لیگ سے بات نہیں کرے گی بلکہ مسلمان افراد سے خطاب کرے گی میرے جذبات کو بالکل بدل دیا اور میں نے محسوس کیا کہ جو لوگ دروازہ سے داخل ہونے میں ناکام رہے ہیں اب وہ سرنگ لگا کر داخل ہونا چاہتے ہیں اور اس کے معنی مسلم لیگ کی تباہی کے نہیں بلکہ مسلم کیریکٹر اور مسلم قوم کی تباہی ہے۔ بس اسی وقت سے میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ جب تک یہ صورت حالات نہ بدلے ہمیں مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے<۔
جناب موصوف اپنی جماعت کے اصحاب کو ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
>آئندہ انتخابات میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے تاکہ انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوف تردید کانگرس سے یہ کہہ سکے کہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔ اگر ہم اور دوسری جماعتیں ایسا نہ کریں گی تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہوگی اور ایسا سیاسی اور اقتصادی دھکا مسلمانوں کو لگے گا کہ اور چالیس پچاس سال تک ان کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی عقلمند آدمی اس حالت کی ذمہ داری اپنے اوپر لینے کو تیار ہو۔ پس میں اس اعلان کے ذریعہ تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر پورے زور اور قوت کے ساتھ` آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ کی مدد کریں<۔
یونینسٹوں کے بارہ میں جناب مرزا صاحب نے فرمایا۔
>جب تک یونینسٹ پارٹی اپنی پالیسی کی ایسی وضاحت نہیں دیتی جس سے اس کا مسلم لیگ کی مرکزی پالیسی سے پورا تعاون اور تائید ثابت ہو اور جس کے بعد شملہ کانفرنس والے حالات کا اعادہ ناممکن ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی احمدی کو یونینسٹ ٹکٹ پر کھڑا نہیں ہونا چاہئے<۔
مسلم قوم کی مرکزیت پاکستان` یعنی ایک آزاد اسلامی حکومت کے قیام کی تائید` مسلمانوں کے پاس انگیز مستقبل پر تشویش` عامتہ المسلمین کی صلاح و فلاح نجاح و مرام کی کامیابی` تفریق بین المسلمین کے خلاف برہمی اور غصہ کا اظہار کون کررہا ہے؟ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور جماعت حزب اللہ کا داعی اور امام الہند؟ نہیں! پھر کیا جانشین شیخ الہند اور دیوبند کا شیخ الحدیث؟ وہ بھی نہیں! پھر کون؟ وہ لوگ جن کے خلاف >کفر< کے فتووں کا پشتارہ موجود ہے۔ جن کی نامسلمانی کا چرچا گھر گھر ہے۔ جن کا ایمان` جن کا عقیدہ مشکوک مشتبہ اور محل نظر ہے۔ کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے۔ ~}~
کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندان قدح خوار ہوئے<۴۲
چونکہ تحریک پاکستان کے اعتبار سے اس الیکشن کو ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونے والی تھی اس لئے حضور نے اس مفصل اعلان کے علاوہ نجی ملاقاتوں` پرائیویٹ خطوط کے علاوہ بعض دوسرے بیانات میں بھی احمدیوں کو بار بار مسلم لیگ کی تائید و حمایت کرنے کا ارشاد فرمایا اور مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے انفرادی طور پر قربانی کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس تعلق میں بطور مثال بعض واقعات کا تذکرہ ضروری ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کی طرف سے حضرت مصلح موعود کے ایک خط کی پریس میں اشاعت
۱۔ محمد سرور صاحب دانی )مالگزار پرداضلع رائے پور( کا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت میں شروع اکتوبر ۱۹۴۵ء میں ایک مکتوب پہنچا جس میں انہوں نے الیکشن کے بارہ
‏body2] ga[tمیں رہنمائی کے لئے درخواست کی تھی۔ حضرت مصلح موعود نے ان کو تحریر فرمایا کہ مسلم لیگ کی ہرممکن طریق سے بھرپور مدد کریں۔ مسلمانوں کو موجودہ سیاسی بحران میں ایک متحدہ محاذ کی شدید ضرورت ہے۔ ناظر امور عامہ قادیان نے اس جوابی خط کو جو حضرت مصلح موعود کی طرف سے مسلم لیگ کے الیکشن کے سلسلہ میں اپنے مفصل مضمون کی اشاعت سے بھی قبل لکھا تھا` مسلم لیگ کے صدر قائداعظم محمد علی جناح کی خدمت میں بھجوا دیا۔ قائداعظم نے اس جوابی خط کو اس درجہ اہمیت دی کہ اسے اپنی طرف سے پریس میں اشاعت کے لئے دے دیا۔ چنانچہ دہلی کے مسلم لیگی اخبار >ڈان< نے اپنی ۸۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا کے حوالہ سے جو خبر شائع کی اس کا متن ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
)قائداعظم محمد علی جناح کی طرف سے جماعت احمدیہ قادیان کی مرکزی مراسلت پریس میں(
‏1943: 8, OCTOBER MONDAY, DELHI,
‏TO COMMUNITY AHMADIYA
‏LEAGUE MUSLIM SUPPORT
‏GUIDANCE LEADER`S QADIAN
‏ released has Jinnah A۔M ۔Mr ۔۔7 ۔Oct QUETTA, Press: the to pondence ۔corres following the
‏ of Moarifa ۔ul ۔Nazir the from Letter addressed Qadian movement Ahmadiya the ۔۔Jinnah; ۔Mr the to
‏ the of copy a with here enclose to beg I Sir Dear village of Dani Sarwar Mohd from letter to addressed ۔Raipur district ۔Purda Malguzar ۔Masih Khalifatul Momineen Amirul Hazrat the and community Ahmadiya the of head second ۔perusal kind your for to there reply۔faithfully> Yours
‏ Dani Sarwar ۔Mohd from letter the of text The make to honour the have We " ۔above to referred Ahmadiyas few a are We ۔querry a and request a electioneering present the in and town this in here League the by both approached been have We ۔compaign and contributions for Congress the and and parties respective the to "assistance۔support should we whom us guide kindly candidates
‏ "You Community Ahmadiya the of head the from Reply elections present the in League Muslim support to ought operation ۔co of means whatever them offer and ۔afford ylbpossi can you assistance and present the in front united a require do Muslims exist to allowed if differences Their ۔cirsis of hundreds for adversely them affect I>will۔P۔A ۔۔۔ come" to years
جماعت احمدیہ مسلم لیگ کی حمایت کرے گی۔
امام جماعت احمدیہ قادیان کی ہدایت
کوئٹہ ۷۔ اکتوبر۔ قائداعظم محمد علی جناح نے درج ذیل خط و کتابت پریس کو بھجوائی ہے۔
ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان کا خط جناح )قائداعظم( کے نام
جناب عالی!
محمد سرور دانی DANI) RAWRAS (MOHAMMAD ساکن مالگزار پردہ PURDA) (MALGUZAR ضلع رائے پور کا حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں ایک خط اور )حضور کی طرف سے( اس کا جواب آں محترم کے ملاحظہ کے لئے ملفوف ہے۔
آپ کا مخلص
محمد سرور دانی کے متذکرہ بالا خط کا متن۔
>ہمیں ایک معاملہ میں حضور کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس قصبہ میں ہم چند ایک احمدی رہتے ہیں۔ موجودہ انتخابی مہم میں مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے ہم سے رابطہ قائم کیا ہے کہ ہم چندوں کے ذریعہ اور )دیگر ذرائع سے( ان کی پارٹی اور ان کے امیدواروں کی امداد و حمایت کریں۔ از راہ نوازش ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں کس پارٹی کی حمایت کرنی چاہئے<۔
امام جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب
>آپ کو موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنی چاہئے۔ جس طرح بھی ممکن ہو مسلم لیگ سے تعاون کریں اور مسلم لیگ کی ہرممکن مدد کریں۔ مسلمانوں کو موجودہ بحران میں ایک متحدہ محاذ کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ان کے اختلافات موجود رہے تو صدیوں تک ان کے برے اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا<۔
‏sub] gat[تحصیل صوابی میں مسلم لیگ کی تنظیم نو
ان دنوں تحصیل صوابی ضلع مردان )صوبہ سرحد( میں مسلم لیگ جسد بے جان کی طرح ہوچکی تھی حضرت مصلح موعود نے ڈلہوزی میں ٹوپی تحصیل صوابی کے ایک نہایت سربرآوردہ اور بااثر احمدی صاحبزادہ عبدالحمید خاں کو ملاقات کے دوران ارشاد فرمایا کہ مسلم لیگ کی تنظیم مضبوط کریں۔ اس ارشاد کی تعمیل میں انہوں نے پورے علاقہ کا دورہ کیا اور مسلم لیگ میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک ڈالی۔
اس جدوجہد کی تفصیل ایک خط میں ملتی ہے جو انہوں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں ۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو لکھا۔ اس خط کے جستہ جستہ مقامات درج ذیل ہیں۔
>پیارے امام! ڈلہوزی سے واپسی کے بعد میں نے مقامی لوگوں کی تنظیم مسلم لیگ کے ماتحت شروع کر دی ہے۔ تحصیل صوابی میں مسلم لیگ کا وجود ایک عرصہ سے تھا مگر کوئی باقاعدہ کام نہ تھا۔ میں نے اپنے وارڈ میں ایک مجلس عاملہ بنائی اور ان کی ڈیوٹی یہ مقرر کی کہ وہ تمام علاقہ میں پھر کر مسلم لیگ کی کمیٹیاں بنائے۔ چنانچہ میں نے خود ان کے ساتھ ہوکر تمام علاقہ کا دورہ کیا<۔
صاحبزادہ عبدالحمید خاں صاحب نے ۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو حضرت امیر المومنین کی خدمت میں صوبہ سرحد کے حالات و کوائف سے متعلق دوبارہ یہ مفصل اطلاع دی کہ۔
>حضور کا ارشاد الفضل کے ذریعہ پڑھا تھا۔ اس کے علاقہ میں نے حضور سے بالمشافہ ڈلہوزی میں گفتگو کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں حضور کے ارشاد سے یہی سمجھا تھا کہ جیسے بھی ہو مسلم لیگ کے ماتحت لیگ کی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لئے کام کیا جاوے۔ چنانچہ جیسا کہ میں نے پہلے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا تھا۔ ڈلہوزی سے واپسی پر میں نے مسلم لیگ کے ماتحت کام شروع کیا اور مقامی مسلم لیگ کو منظم کیا اور علاقہ کا دورہ کیا۔ چنانچہ فضا بہت اچھی بن گئی اور لوگ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ دوست خوش تھے کہ عبدالحمید کامیاب ہو جائے گا اور دشمنوں کو فکر پیدا ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے ہر طرح مخالف پراپیگنڈا کیا اور جب کوئی صورت کامیابی کی نظر نہ آئی تو انہوں نے احمدیت کی آڑ لے کر لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لئے انہوں نے ہمارے علاقہ کے ایک گوشہ نشین کو آلہ کار بنایا۔ چنانچہ تمام مخالفین اس کے پاس گئے کہ ایک قادیانی میدان میں نکلا ہے اور یہ دین اسلام کی ہتک ہے آپ میدان میں نکلیں۔ پیر صاحب خود میدان میں نکلنے کے لئے تیار نہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۴۵/۱۱/۲ کو ہم نے اپنے علاقہ کی میٹنگ بلائی جس میں تقریباً ۳۰۰ آدمی تھے جو تمام بااثر لوگ تھے۔ سیلیکشن بورڈ کا ایک ممبر بھی موجود تھا۔ پیر صاحب بھی تشریف لائے تھے اور اس سے پہلے لوگوں نے پوری کوشش کی تھی کہ جس طرح بھی ہو پیر صاحب خود کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو جائیں ۔۔۔۔۔۔ ایک دوست نے میرا نام پیش کیا۔ دوسرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے پیر صاحب کا نام پیش کیا۔ ہمارے ایک دوست نے اعتراض کیا کہ پیر صاحب گوشہ نشین آدمی ہیں یہ ایسے لوگوں کا کام نہیں۔ ¶مگر اس کے جواب میں ایک دوسرے مخالف نے کہا کہ انبیاء اور اولیاء نے ہمیشہ اسلام کے لئے جہاد کیا ہے۔ پیر صاحب ان سے بڑے نہیں ہیں ان کو ضرور کھڑا ہونا چاہئے۔ میں نے بحث کو ختم کرنے کے لئے نیز اس خیال سے کہ پیر صاحب خود کھڑے نہیں ہوتے` اس لئے میں نے کھڑے ہوکر کہا کہ بحث کی ضرورت نہیں` میری ضرور کچھ نہ کچھ مخالفت ہوگی اور پیر صاحب اگر خود کھڑے ہوں تو میں اول خود دستبردار ہوتا ہوں اور کوئی اور بھی مقابلہ نہ کرے گا اور لیگ کے ٹکٹ پر صرف پیر صاحب جائیں گے اور اگر پیر صاحب خود کھڑے نہیں ہوتے تو پھر ان کا نام پیش کرنا یا اس پر بحث کرنا وقت ضائع کرنا ہے۔ چنانچہ میرے یہ کہنے کی دیر تھی کہ ہمارے مخالف ان کے پیچھے پڑ گئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے اعلان کروا دیا کہ میں خود کھڑا ہوتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پیر صاحب بلامقابلہ لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتخاب سے پہلے پیر صاحب یا تو سخت مخالف تھے یا انتخاب کی شام کو میرے پاس اندھیرے میں آئے اور کہا۔ یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ اب اس کے لئے تم ہی کوئی صورت نکالو۔ چنانچہ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ گھبرائیں نہیں۔ اب جو کچھ ہوگیا وہ ہوگیا۔ اب آپ کو کامیاب کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کے لئے کام شروع کر دیا ہے<۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اس مکتوب پر اپنے قلم سے لکھا۔
>اس وقت سرحد میں لیگ منسٹری کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ سرحد سے کسی طرح کانگریس کو ضرور نکالنا چاہئے<۔
مسلم لیگی امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے جماعت احمدیہ بہلولپور کو حضرت امیر المومنین کا تاکیدی ارشاد
چوہدری عبدالمالک صاحب پنشنر تحصیلدار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ بہلولپور چک نمبر ۱۲۷ ضلع لائل پور نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حافظ
عبداللہ صاحب کھڑے ہورہے ہیں۔ حضور نے ان کے خط کا یہ جواب لکھوایا کہ۔
>بہرحال جو شخص مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑا ہے اس کو ووٹ دیں اور نہ صرف ووٹ دیں حالانکہ عبداللہ ہمارا سخت مخالف ہے لیکن پھر بھی پور کوشش کریں کہ وہی جیتے<۔۴۳
سندھ کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی خاطر قربانی کرنے کی ہدایت
احباب جماعت کوٹ احمدیاں )ڈاکخانہ کوٹ عبداللہ تحصیل ماتلی ضلع حیدر ¶آباد سندھ( نے ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو حضرت امیر المومنین کے حضور لکھا کہ >گزارش ہے کہ حضور کے ارشاد کے مطابق الیکشن کے سلسلہ میں ہمیں مسلم لیگ کی حمایت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کی اندرونی حالت عرض ہے کہ اس علاقہ میں مسلم لیگ نے ٹکٹ بانٹتے وقت کام کرنے والے افراد کو اور رائے عامہ کے میلان کو مدنظر نہیں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔ اب حضور اپنے ارشاد سے ممنون فرمائیں<۔
حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا۔
>بہرحال مسلم لیگ کو ووٹ دینے ہیں بلکہ آغا صاحب کی شرافت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملا تو بیٹھ جائیں اور اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ تمام مسلمانوں کی طاقت بڑھے فرد کو ہمیشہ قوم کے لئے قربانی کرنی چاہئے<۔
حضرت امام جماعت احمدیہ کا ایک اور اہم بیان مسلم لیگی موقف کی حمایت میں
حضرت مصلح موعود نے ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو حسب ذیل الفاظ میں بیان دیا۔
>ہم کانگرس کے متعلق تو یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس کی حکومت قائم ہوئی تو وہ تبدیلی مذہب کے متعلق ہرگز آزادی نہیں دے گی۔ کیونکہ اس بارہ میں اس سے ہم نے جتنی دفعہ سوال کیا ہے اس نے صاف جواب نہیں دیا بلکہ بہانے بناتی رہی ہے۔ مسلم لیگ کے متعلق ہماری یہ رائے ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ غیر مسلم جماعتیں مسلمانوں کو اس وقت تک ان کے حقوق نہیں دیں گی جب تک پاکستان کے مطالبہ پر زور نہ دیا جائے اور مسلمان اپنے حقوق کا آزادانہ طور پر فیصلہ کرنے کے قابل نہ ہوسکیں۔ مسلمانوں کا سو سالہ تلخ تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ گو ملک کا ایسا تجزیہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے لیکن اس کے سوا چارہ ہی نہیں کیونکہ غالب قوموں نے مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ایسا مطالبہ پیش کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں کانگرس اور مسلم لیگ کے دعووں میں صرف یہ فرق ہے کہ کانگرس کہتی ہے کہ مسلمان پہلے اس حکومت میں شامل ہو جائیں جس میں ہندو اکثریت ہو پھر اپنا مطالبہ پیش کریں۔ اور مسلم لیگ کہتی ہے کہ پہلے ہمیں آزادی دو۔ پھر برابر بیٹھ کر سمجھوتہ کرو اور صاف ظاہر ہے کہ اکثریت میں شامل ہوکر الگ ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی اور الگ ہوکر شامل ہونا عقل کے عین مطابق ہے<۔۴۴
بنگال` یو۔پی` بہار` سی۔ پی اور بمبئی کے احمدیوں کو لیگ کی مدد کرنے کا فرمان
موضع پائونی ضلع بجنور کے ایک احمدی دوست نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں بذریعہ مکتوب استفسار کیا کہ >یہاں پر کانگرس کا
بہت زور ہے۔ اکثر حصہ مسلمانوں کا کانگرس کو ووٹ دے گا کیونکہ جمعیتہ علماء کی طرف سے کانگرس کے واسطے بہت کوشش ہے۔ لہذا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشاد عالی سے مطلع فرمایا جائے کہ اس وقت ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے<۔
حضرت امیر المومنین نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا کہ۔
>لیگ کی ہر طرح امداد کریں۔ اپنے ووٹ بھی دیں اور جن جن پر اثر پڑسکتا ہو ان سے بھی دلوائیں۔ بنگال` یوپی` بہار` سی پی اور بمبئی وغیرہ میں ووٹ مسلم لیگ کو دیئے جائیں<۔۴۵
حضرت امام جماعت احمدیہ کی صوبہ سرحد کے احمدیوں کو خصوصی ہدایت
صوبہ سرحد میں کانگرسی وزارت مسلط تھی اور خدشہ تھا کہ مسلم اکثریت کا یہ صوبہ جو گویا ہندوستان کی چھائونی قرار دیئے جانے کا مستحق
ہے` مسلم لیگ کے ہاتھ سے کہیں نکل نہ جائے۔ حضرت امیر المومنین نے اس تشویشناک صورت حال کا جائزہ لے کر صوبہ سرحد کے احمدیوں کے نام مندرجہ ذیل ہدایت جاری فرمائی۔
>صوبہ سرحد کے احمدیوں کو میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مسلمانوں کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دفعہ اس صوبہ میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے اور سب لوگوں کو مرکزی مسلم لیگ کی شاخ کے نمائندوں کو ووٹ دینے چاہئیں اور ان ہی کی مدد کرنی چاہئے۔ ان کے خلاف جو لوگ آزاد مسلم لیگی ٹکٹ پر کھڑے ہوئے ہیں وہ ذاتی رنجشوں کی بناء پر کھڑے ہوئے ہیں۔ کوئی سیاسی قومی سوال ان کے سامنے نہیں اس وقت ان ذاتی رنجشوں کو بھول جانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس صوبہ سرحد جو گویا ہندوستان کی چھائونی ہے اس میں مسلمانوں میں اختلاف کو میں بالکل نامناسب سمجھتا ہوں اور ہر احمدی سے امید کرتا ہوں کہ جہاں بھی ہو صوبہ سرحد کی مرکزی لیگ کی شاخ کے مقرر کردہ امیدوار کی حمایت کرے۔ اس کے حق میں ووٹ دے اور اپنے زیر اثر لوگوں سے اسے ووٹ دلوائے اور اس کے حق میں اپنے علاقہ میں پورے زور سے کارروائی کرے<۔۴۶
مرکزی انتخابات میں جماعت احمدیہ کا عدیم النظیر اور روح پرور ملی مظاہرہ اور مسلم لیگ کی شاندار فتح
سرکاری پروگرام کے مطابق نومبر ۱۹۴۵ء کے آخر میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ جماعت احمدیہ نے ان انتخابات میں بلا استثناء مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کی۔ حتیٰ کہ سلسلہ
احمدیہ کے بزرگ )جن میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی خاں صاحب اور دوسری مرکزی شخصیتیں بھی شامل تھیں( ۲۴۔ نومبر کو بٹالہ پولنگ اسٹیشن پر تشریف لے گئے۔۴۷ جہاں اگرچہ مسلم لیگیوں نے اپنے کیمپ کے دریوں پر سے احمدیوں کو اٹھا دیا۔۴۸ مگر احمدی بزرگوں نے مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر زمیندار جیسے معاند احمدیت کو محض اس لئے ووٹ دیا کہ وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے۔ مرکزی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے اس بے نظیر تعاون کا کسی قدر اندازہ مجلس احرار اسلام قادیان کے ایک کتابچہ >مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ< سے باسانی لگ سکتا ہے۔ یہ کتابچہ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں شائع کیا گیا اور اس میں مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کے قدیمی روابط او مراسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
>صرف مسلم لیگ پارٹی ہی ایسی پارٹی تھی جس کے ساتھ مرزائیوں کو کچھ توقعات تھیں۔ کیونکہ سر ظفر اللہ خاں مرزائی ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہ چکے تھے۔ مسلم لیگ سے مرزائیوں کے کچھ تعلقات تھے۔ وہ بھی خفیہ خفیہ۔ ملاحظہ ہو۔
شملہ میں حرم حضرت صاحب خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے خفیہ پارٹی دی جس میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ملٹرھنگ کی خاتون` مسسز جناح` سروجنی نیڈو` کپورتھلہ کی شاہی خواتین۔ نفیس ماکولات و مشروبات کا بندوبست تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پارٹی میں نواب مبارکہ بیگم نے بڑا کام کیا۔ یہ واقعات تخم ریزی ہیں سلسلہ کی آئندہ شاندار ترقیات کی۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۳۷ء۴۹
سر ظفر اللہ خاں کی صدارت اور خفیہ پارٹیوں کے اثرات مسلم لیگ میں باقی تھے۔ مگر مرزائیوں کو علانیہ مسلم لیگ سے پینگ بڑھانے کا موقع نہ تھا۔
کانگرس اور مسلم لیگ میں تلخیاں بڑھیں اور پاکستان کا مطالبہ شروع ہوا۔ پہلے پہلے پنجاب لیگ نے مرزائیوں کو منہ نہ لگایا۔ لاہور پاکستان کانفرنس میں بھی ختم نبوت کے متعلق کچھ ذکر آیا۔ مرزائی سیخ پا ہوگیا۔ مسٹر جناح سے شکایت کی۔ انہوں نے کہہ دیا کہ پنجاب کی زمین نرالی ہے۔ فی الحال میری مداخلت جلتی پر تیل کا کام دے گی۔ لہذا پنجاب مسلم لیگ کی طرف ہی رجوع کرو۔ پاکستان کے مطالبہ کو تقویت کی ضرورت تھی۔ پنجاب میں مرزائیوں کے پاس پریس موجود تھا لاہور میں پریس مرزائی نواز بھی موجود تھا۔ لہذا اس سے بھی پروپیگنڈا کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پہلے پہل پنجاب مسلم لیگ کے صدر نواب ممدوٹ کے علاقہ فیروزپور میں پیر اکبر علی مرزائی کو پاکستان کانفرنس کمیٹی کا صدر بنایا گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر مرزائی درپردہ کوشش کرتے رہے کہ مسلم لیگ میں اپنا سکہ جمائیں اور مسلم لیگ سے اپنے اسلام کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزا محمود اور اس کی پراپیگنڈہ ایجنسی نے مسٹر جناح سے خط و کتابت کی۔ مسٹر جناح نے یہ نہ سوچا کہ یہ پولیٹیکل پالیسی اسلام کو کیا نقصان پہنچائے گی۔ آخر مسٹر جناح نے مرزائیوں کو مسلم لیگ میں شامل کرلیا۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔ مسلم رائے عامہ کو کند چھری سے ذبح کیا گیا اور لیگی اخباروں میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا گیا۔ اور چوکٹھے میں اس خبر کو نمایاں شائع کیا گیا۔
مرزائی بھی لیگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
مسٹر جناح کا بیان
لاہور ۳۔ مئی۔ جماعت احمدیہ قادیان کے ناظر امور عامہ لکھتے ہیں کہ جماعت کے صدر مقام میں پچھلے دنوں اس مسئلے پر غور ہوتا رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ممبروں کو مسلم لیگ میں اجازت دی جائے یا نہ۔ حال ہی میں مسلم لیگ کے صدر نے پیر اکبر علی )مرزائی ناقل( ایم ایل اے کو ایک انٹرویو لیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تازہ ترین آئین کی رو سے لیگ میں شرکت کے لئے احمدیوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ بھی دوسرے فرقے کے مسلمانوں کی طرح تمام حقوق سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
>احسان< لیگی اخبار ۵۔ مئی ۱۹۴۴ء
اس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ مرزائی اور لیگی برسر عام ہم آغوش ہوئے۔ لیگ میں مرزائیوں کو شامل کرلیا گیا اور مسلم رائے عامہ سرپیٹ کر رہ گئی۔ چنانچہ بعض مخلص لیگی مسلمانوں کو بھی مسٹر جناح کی اس غیر اسلامی حرکت پر غصہ آیا۔
۳۰۔ جولائی ۱۹۴۴ء کو لاہور میں مسلم لیگ کی آل انڈیا کونسل کا اجلاس ہوا۔ مولانا عبدالحامد بدایونی جن کے دل میں تھوڑی بہت اسلامی تڑپ اور غیرت موجود تھی۔ انہوں نے اس کونسل کے اجلاس میں ایک قرارداد پیش کرنے کا نوٹس دیا کہ مرزائی چونکہ مسلمان نہیں ہیں اس لئے ان کو لیگ سے نکال دیا جائے۔ قرار داد کے الفاظ کو زمیندار لاہور نے جلی الفاظ سے لکھا جو حسب ذیل ہیں۔
قادیانیوں کے اخراج کے متعلق قرارداد
مولانا عبدالحامد بدایونی نے لکھا ہے کہ دنیائے اسلام اور ہر طبقہ و خیال کے مقتدر علماء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیرو دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ لہذا انہیں مسلم لیگ کے دائرے میں ہرگز شرکت کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اب قادیانیوں کی مسلم لیگ میں شمولیت یا عدم شمولیت کے متعلق بعض حلقوں میں بڑا چرچا ہے۔ اس لئے آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ علمائے اسلام کے متفقہ فیصلہ کے احترام میں کوئی قادیانی مسلم لیگ میں شریک نہیں ہوسکتا۔
جب یہ قرار داد پیش ہوئی تو مسٹر جناح نے اس پر بحث کی اجازت نہ دی۔۵۰ بھلا لیگی نقار خانے میں مذہبی باتیں کس طرح کامیاب ہوسکتی ہیں۔ وہاں تو ہر بات میں مسٹر جناح یا جناح نما لیگی امراء کے رحم پر لیگ میں رہنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ سال ۱۹۴۵ء میں جب ویول کانفرنس کے بعد انتخابات کا زمانہ شروع ہوا۔ تو مرزائیوں اور لیگیوں میں خفیہ ساز باز شروع ہوئی۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگوکے مصداق مزائیوں کو عام مسلمانوں پر مسلط کرنے کی امداد کا یقین دلایا گیا اور ہرممکن طریق پر ان ذرائع سے کام لئے جانے کے پروگرام بنائے گئے جن سے مرزائی مسلمان ثابت ہوں۔
مرزا محمود خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کیا جو اس کے اخبار میں چھپا جس کا عنوان تھا۔
آئندہ الیکشنوں میں جماعت احمدیہ کی پالیسی رقم فرمودہ حضرت امیر المومنین )مرزا محمود قادیانی( پنجاب کے سوا تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی انتخابات میں مدد کرنی چاہئے۔ جس قدر ووٹ احمدیوں کے ہیں وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدواروں کو دیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد` کیا مرد اور کیا عورتیں` مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں عورتوں کے پاس جاکر ان کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے اور اس امر کو اس قدر اہم سمجھیں کہ تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اس کام میں مقامی مسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں اور جائز ہوگا کہ وہ اس کے ممبر بن جائیں۔
خاکسار مرزا محمود احمد ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء )الفضل ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء(
یہ مقالہ کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی پالیسی )متعلق انتخابات ۴۶۔ ۱۹۴۵ء ناقل( کو سراہا۔ اس کے بعد جب سنٹرل اسمبلی کے الیکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے۔ یہاں تک کہ جب مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار لاہور جو کسی زمانے میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن تھے ان کا مسٹر گابا سے مقابلہ ہوا تو دفتر ضلع لیگ گورداسپور نے مرزا محمود احمد قادیانی کو ایک چٹھی لکھی جس کی نقل مطابق اصل درج کی جاتی ہے جس میں مرزائیوں کو صاف طور پر مسلمان قوم تسلیم کیا گیا۔ وھو ھذا
>دفتر ضلع مسلم لیگ گورداسپور
بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب
محترمی و مکرمی! السلام علیکم
مسلم لیگ اور مسلمانان ہند کا مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے جہاں مسلمان زیادہ ہیں وہ خود مختار حکومت پاکستان قائم ¶کریں اور اپنے علاقہ میں آزاد ہو جائیں یہ تجویز انگریز اور ہندو کو پسند نہیں )۔۔۔۔۔۔۔۔۔(۵۱ مگر چونکہ اس صورت میں ہندو اور مسلمان اپنی جگہ مضبوط ہو جائیں گے ان میں باہمی تنازعہ نہ ہونے کے باعث انگریز شہنشاہیت کے مذہبی اصول >پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو< پر عمل کرنے سے قاصر ہوگا۔ ہندو اس لئے مخالف ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دائمی طور پر مغلوب اور محکوم بنانے کے مرغوب نصب العین کے حصول سے ناکام رہے گا۔ گویا قیام پاکستان میں انگریزی حکومت اور ہندو اپنی اپنی تمنا کا خون دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جواہر لال نہرو نے کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ مسلم لیگ کو کچل کر رکھ دیں گے۔ اس خظرناک اعلان جنگ میں احرار خاکسار یونینسٹ اور نام نہادمسلمانوں نے ہندوئوں کی ظاہرہ امداد کا عزم کرلیا ہے۔ یہ سب جماعتیں پاکستان اور ترقی اسلام کی راہ میں کانٹے ہیں۔ مسلمانوں کو ان سب سے دامن بچا کر آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ انتخابات میں مسلم لیگی نمائندے اگر کامیاب ہوگئے تو قیام پاکستان اور آزادی اسلام کو نہ انگریز اور نہ ہندو روک سکیں گے اور اگر ہم اپنی غفلت سے خدانخواستہ ناکام رہے تو ہماری سیاسی موت لازمی ہے گویا موجودہ انتخابات مسلمانوں کی آئندہ باوقار زندگی یا ذلیل موت کا سوال ہے۔ ہر مسلمان کو ذاتی منفعت اور برادری کی کشمکش سے بلند ہوکر ملت کی بہتری کے لئے سب کچھ قربان کردینا چاہئے۔ مرکزی اسمبلی دہلی کے لئے حضرت مولانا ظفر علی خاں مالک اخبار زمیندار لاہور پرانے خادم اسلام مسلم لیگ کے امیدوار ہیں۔ آپ ووٹر ہیں۔ آپ کی ووٹ قوم کی امانت ہے۔ قوم آپ سے ووٹ کی بھیک مانگتی ہے۔ بروز ہفتہ بتاریخ ۴۵۔ ۱۲۔ ۲۳ بمقام بنگلہ ڈسٹرکٹ بورڈ بٹالہ ووٹ پڑیں گے۔ برائے نوازش آپ مع دیگر ووٹران تشریف لاکر مولانا کے حق میں ووٹ دیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
عبدالعزیز ملک ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ضلع گورداسپور شائع شدہ اخبار سیرت باغبانپورہ لاہور۔ ۲۔ جنوری ۱۹۴۶ء۔
اس چٹھی پر تمام مرزائی بٹالہ گئے۔ بٹالہ کے مسلم لیگی کارکنوں نے ان سے معانقے کئے۔ ووٹ مولانا ظفر علی خاں کے حق میں گزارے گئے۔ دیگر بعض مسلم لیگ کے لیڈر لاہور سے بذریعہ کار تشریف لاکر اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھتے رہے<۔۵۲
مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ
‏0] f>[rtچنانچہ سال ۱۹۴۵ء میں جب ویول کانفرنس کے بعد انتخابات کا زمانہ شروع ہوا۔ تو مرزائیوں اور لیگیوں میں خفیہ ساز باز شروع ہوئی من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو کے مصداق۔ مرزائیوں کو عام مسلمانوں پر مسلط کرنے کی امداد کا یقین دلایا گیا اور ہر ممکن طریق پر ان ذرائع سے کام لئے جانے کے پروگرام بنائے گئے۔ جن سے مرزائی مسلمان ثابت ہوں۔
مرزا محمود خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینہ میں ایک اہم اعلان کیا جو اس کے اخبار میں چھپا۔ جس کا عنوان تھا۔
آئندہ الیکشنوں میں جماعت احمدیہ کی پالیسی رقم فرمودہ حضرت امیر المومنین
)مرزا محمود قادیانی(
پنجاب کے سوا تمام صوبہ جات کے احمدیوں کو مسلم لیگ کی انتخابات میں مدد کرنی چاہئے۔ جس قدر ووٹ احمدیوں کے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ کے مسلم لیگی امیدواروں کو دیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ احمدی جماعت کے تمام افراد۔ کیا مرد اور کیا عورتیں مرد مردوں تک پہنچ کر اور عورتیں` عورتوں کے پاس جاکر ان کے خیالات درست کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اس امر کو اس قدر اہم سمجھیں کہ تمام جگہوں پر مسلم لیگ کے کارکنوں کو یہ محسوس ہو جائے کہ گویا احمدی یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کا امیدوار کھڑا نہیں ہوا۔ کوئی احمدی امیدوار کھڑا ہوا ہے اور اس کام میں مقامی مسلم لیگ کے ساتھ پوری طرح تعاون کریں اور جائز ہوگا کہ وہ اس کے ممبر بن جائیں۔
خاکسار مرزا محمود احمد ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء )الفضل ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء(
یہ مقالہ کسی تشریح کا محتاج نہیں۔ اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود کی پالیسی کو سراہا۔ اس کے بعد جب سنٹرل اسمبلی کے الیکشن شروع ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیئے۔ یہاں تک کہ جب مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر زمیندار لاہور جو کسی زمانے میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن تھے ان کا اور مسٹر گابا کا مقابلہ ہوا تو دفتر ضلع مسلم لیگ گورداسپور سے مرزا محمود قادیانی کو ایک چٹھی لکھی جس کی نقل مطابق اصل درج کی جاتی ہے۔ جس میں مرزائیوں کو صاف طور پر مسلمان قوم تسلیم کیا گیا۔ وھو ھذا۔
دفتر ضلع مسلم لیگ گورداسپور
بخدمت جناب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب
محترم و مکرمی السلام علیکم
مسلم لیگ اور مسلمانان ہند کا مطالبہ یہ ہے کہ ہندوستان کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے جہاں مسلمان زیادہ ہیں۔ وہ خود مختار حکومت پاکستان قائم کریں اور اپنے علاقہ میں آزاد ہو جائیں یہ تجویز انگریز اور ہندو کو پسند نہیں )یہ تجویز مرزا محمود کو بھی پسند نہیں تھی( دیکھو الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء مضمون مرزا محمود(
گو ہم پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے۔ جن میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضا ورغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے۔ بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی حکومت ایک ہو۔
مگر چونکہ مسلم لیگ اس کو مسلمان کا سرٹیفکیٹ دینے والی تھی۔ اس لئے ناپسندیدگی کی صورت میں بھی ووٹ مسلم لیگ کو دیئے مگر چونکہ اس صورت میں ہندو انگریز شہنشاہیت کے مذہبی اصول۔ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو پر عمل کرنے سے قاصر ہوگا۔ ہندو اس لئے مخالف ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دائمی طور پر مغلوب اور محکوم بنانے کے مرغوب نصب العین کے حصول سے ناکام رہے گا۔ گویا قیام پاکستان میں انگریزی حکومت اور ہندو اپنی اپنی تمنا کا خون دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جواہر لال نہرو نے کھلا چیلنج دے دیا ہے کہ مسلم لیگ کو کچل کر رکھ دیں گے۔ اس خطرناک اعلان جنگ میں احرار خاکسار یونینسٹ اور نام نہاد مسلمانوں نے ہندوئوں کی ظاہرہ امداد کا عزم کرلیا ہے۔ یہ سب جماعتیں پاکستان اور ترقی اسلام کی راہ میں کانٹے ہیں۔ مسلمانوں کو ان سب سے دامن بچا کر آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ انتخابات میں مسلم لیگ کے نمائندے اگر کامیاب ہوگئے تو قیام پاکستان اور آزادی اسلام کو نہ انگریز اور نہ ہندو روک سکیں گے اور اگر ہم اپنی غفلت سے خدانخواستہ ناکام رہے تو ہماری سیاسی موت لازمی ہے۔ گویا موجودہ انتخابات مسلمانوں کی آئندہ باوقار زندگی یا ذلیل موت کا سوال ہے۔ ہر مسلمان کو ذاتی منفعت اور برادری کی کش مکش سے بلند ہوکر ملت کی بہتری کے لئے سب کچھ قربان کر دینا چاہئے۔ مرکزی اسمبلی دہلی کے لئے حضرت مولانا ظفر علی خاں مالک اخبار زمیندار لاہور پرانے خادم اسلام و مسلم لیگ کے امیدوار ہیں۔
آپ ووٹر ہیں آپ کی ووٹ قوم کی امانت ہے
قوم آپ سے ووٹ کی بھیک مانگتی ہے۔ بروز ہفتہ بتاریخ ۴۵/۱۲/۲۳ بمقام )ڈسٹرکٹ بورڈ بٹالہ ووٹ پڑیں گے<(
مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کی سو فیصدی کامیابی
مرکزی اسمبلی میں مسلم نشستیں ۳۰ تھیں۔ مسلم لیگ نے ہر نشست کے لئے امیدوار کھڑے کئے تھے اور سب نشستوں پر قبضہ کرلیا اور اس طرح اس نے ایسی فقید المثال کامیابی حاصل کی جس کی نظیر دنیا کے کسی ملک کی دستوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ ذیل میں ان تمام مسلم لیگی نمائندوں کی فہرست دی جاتی ہے جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے اور جن کی تائید جماعت احمدیہ نے کی۔
یو۔ پی۔ نواب محمد اسمعیل خاں` راجہ امیر احمد خاں آف محمود آباد` نواب زادہ لیاقت علی خاں۔ ڈاکٹر ضیاء الدین احمد صاحب۔ خان بہادر غضنفر علی خاں صاحب۔ سر محمد یامین خاں صاحب۔
پنجاب۔ میر غلام بھیک نیرنگ۔ نواب سر محمد مہر شاہ۔ حاجی شیر شاہ صاحب۔ کیپٹن عابد حسین صاحب۔ مولوی ظفر علی خاں صاحب آف زمیندار۔ حافظ محمد عبداللہ صاحب۔
بنگال۔ عبدالرحمن صاحب صدیقی۔ سر حسن سہروردی۔ شیخ رفیع الدین صاحب صدیقی۔ چودھری محمد اسمعیل خان صاحب۔ مولوی تمیز الدین صاحب۔ عبدالحمید شاہ صاحب۔
بمبئی و سندھ۔ محمد موسیٰ قلعہ دار )بلا مقابلہ( قائداعظم محمد علی جناح۔ احمد ای۔ ایچ جعفر۔ یوسف ہارون۔
مدراس۔ ایم جے جمیل محی الدین )بلا مقابلہ( حاجی عبدالستار اسحٰق۔
بہار و اڑیسہ۔ محمد نعمان )بلا مقابلہ( چودھری عابد حسین )بلا مقابلہ( خان بہادر حبیب الرحمن۔۵۳
قائداعظم محمد علی جناح کی تحریک پر ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۶ء کو ہندوستان بھر میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ >یوم فتح< منایا گیا اور صوبائی انتخابات میں کامیابی کے لئے دعائیں کی گئیں۔
صوبائی انتخابات میں جماعت احمدیہ کا مسلم لیگ سے مخلصانہ تعاون
مسلم لیگ کانگرس کی ریشہ دوانیوں اور مسلمانوں کو روپے کے بل بوتے پر خریدنے کی تمام سازشوں کے باوجود تمام مسلم نشستوں پر
قابض ہوگئی تھی۔ اس فتح مبین نے کانگرسی لیڈروں کو آتش زیرپا کردیا اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ صوبائی نشستوں میں مسلم لیگ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور پاکستان کے مطالبہ کو پیوند خاک کرکے دم لیں گے۔ چنانچہ مسٹر پٹیل نے ۱۴۔ جنوری ۱۹۴۶ء کو احمد آباد میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>مرکز میں مسلم لیگ نے تمام نشستوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اب بے شک مسلم لیگ >یوم فتح< مناتی رہے لیکن یہ سمجھ لے کہ اس طرح پاکستان حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان برطانیہ کے ہاتھوں میں نہیں۔ پاکستان کے حصول کے لئے ہندوئوں اور مسلمانوں کو میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہونا پڑے گا اور اس صورت میں خانہ جنگی ہوکر رہے گی۔ پٹیل نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کانگرس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ صوبائی مجالس آئین ساز کے انتخابات میں ہر مسلم نشست کے لئے اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور انتخابات کے نتائج ظاہر کر دیں گے کہ آخری فتح کانگرس کی ہوگی۔ ہم دیکھیں گے کے پاکستان کیسے قائم ہوتا ہے اور مسلم لیگ کس طرح یوم فتح مناتی ہے؟<۵۴
صوبائی انتخابات کے خوشکن نتائج
کانگرسی لیڈر دھمکیاں دے رہے تھے کہ فروری ۱۹۴۶ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات شروع ہوگئے۔ کانگرس نے ہر صوبہ میں مسلم لیگ کا مقابلہ کیا۔ مگر اس کے باوجود صوبائی مجالس آئین ساز میں مسلم لیگ کو زبردست فتح ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے۔
آسام۔ مجلس آئین ساز میں ۳۴ مسلم نشستیں تھیں ان میں سے ۳۱ نشستوں پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
سرحد۔ یہاں ۳۶ مسلم نشستوں میں سے ۱۷ مسلم لیگ نے جیت لیں۔
سندھ۔ ۳۴ مسلمان نشستیں تھیں جن میں سے ۲۹ پر مسلم لیگ کامیاب ہوئی۔
یوپی۔ ۶۶ مسلم نشستیں تھیں۔ ۵۴ پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
بہار۔ ۴۰ مسلم نشستیں تھیں۔ ۳۶ پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
مدراس۔ ۲۹ مسلم نشستیں تھیں۔ تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
اڑیسہ۔ ۴ مسلم نشستیں تھیں تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
بمبئی۔ ۳۰ مسلم نشستیں تھیں۔ تمام پر مسلم لیگ نے قبضہ کرلیا۔
پنجاب۔ کل ۸۶ مسلم نشستیں تھیں۔ جن میں سے ۷۹ نشستوں پر مسلم لیگ کامیاب ہوگئی۔
احمدیوں کی طرف سے مسلم لیگ کی حمایت
احمدیوں نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد کی تعمیل میں آسام` سندھ` یوپی` بہار` مدراس` اڑیسہ اور بمبئی میں سب مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کی اور پنجاب کے ۳۳ حلقوں میں مسلم لیگ کے حق میں ووٹ ڈالا اور ان حلقوں کی ۳۲ نشستوں پر مسلم لیگ کامیاب ہوئی۔۵۵ جن مسلم لیگی ممبران کو جماعت احمدیہ نے پنجاب میں ووٹ دیئے ان میں سے بعض کے نام )مع حلقہ کے( یہ ہیں۔
خواجہ غلام صمد صاحب )جنوبی شہری حلقہ جات( سردار شوکت حیات خان صاحب )جنوبی مشرقی حلقہ جات( ملک برکت علی صاحب )شرقی شہری حلقہ جات( خاں بہادر شیخ کرامت علی صاحب )شمال مشرقی حلقہ جات( سر فیروز خاں نون )قسمت راولپنڈی( ملک وزیر محمد صاحب )اندرون لاہور مرداں( بیگم تصدق حسین صاحب )اندرون لاہور حلقہ نسواں( محمد رفیق صاحب )بیرون لاہور حلقہ مرداں( بیگم شاہ نواز صاحبہ )بیرون لاہور حلقہ نسواں( شیخ صادق حسن صاحب )امرتسر شہر و چھائونی` چودھری علی اکبر صاحب پلیڈر )کانگڑہ و مشرقی ہوشیارپور( محمد عبدالسلام صاحب )شمالی جالندھر( نواب افتخار حسین صاحب ممدوٹ )وسطی فیروزپور( میاں افتخار الدین صاحب )تحصیل قصور( چوہدری غلام فرید صاحب پلیڈر )مشرقی گورداسپور( چوہدری محمد حسین صاحب ایڈووکیٹ )تحصیل شیخوپورہ( خان بہادر روشن دین صاحب )تحصیل شاہدرہ( چوہدری فضل الٰہی صاحب وکیل )شمالی گجرات( چوہدری بہاول بخش صاحب )جنوب مشرقی گجرات( چوہدر جہان خاں صاحب )شمال مغربی گجرات( چوہدری غلام رسول صاحب تارڑ )جنوب مغربی گجرات( رانا عبدالحمید صاحب )تحصیل پاک پٹن( سردار بہادر خاں دریشک )ڈیرہ غازی خاں جنوبی( غلام جیلانی صاحب گورمانی تحصیل لیہ( سید بڈھن شاہ )خانیوال( خان بہادر شیخ فضل حق صاحب پراچہ )تحصیل بھلوال( میاں عبدالحق صاحب )تحصیل اوکاڑہ(۵۶
احمدیوں نے ان لیگیوں کے علاوہ صوبہ پنجاب میں بعض ایسے موزون اور قابل امیدواروں کو بھی کامیاب بنانے میں پوری طاقت صرف کردی جن کو اگرچہ پنجاب مسلم لیگ نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تھا۔ مگر چونکہ وہ اصولاً مسلم لیگ کے حق میں تھے اور انہیں اپنے حق سے محروم رکھا گیا تھا10] [p۵۷ اس لئے جماعت کو یقین کامل تھا کہ وہ انتخابی مہم جیتنے کے بعد یقیناً مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں گے۔ مثلاً حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ سے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )ناظر اعلیٰ قادیان( کو جب مسلم لیگی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیابی نہ ہوئی تو انہیں مجبوراً آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونا پڑا۔ اس حلقہ میں برسر اقتدار یونینسٹ پارٹی نے اپنے نمائندہ کے حق میں صوبہ بھر میں سب سے زیادہ زور لگایا۔ سرکاری افسروں نے قدم قدم پر مداخلت کی اور احمدیوں کے خلاف ہرممکن ہتھکنڈے استعمال کئے اور دھن` دھونس اور دھاندلی کی حد کردی مگر اس کے باوجود چودھری صاحب ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔۵۸ پنجاب اسمبلی کی یہ سیٹ اگرچہ احمدی مردوں اور عورتوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے مثال قربانی پیش کرکے خالص احمدیت کے ٹکٹ پر حاصل کی تھی۔۵۹ مگر حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کے ارشاد پر چودھری صاحب اسمبلی کا ممبر منتخب ہوتے ہی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور اس سلسلہ میں آپ نے صدر پنجاب مسلم لیگ کے نام حسب ذیل تار ارسال کیا۔
>گو الیکشن سے پہلے لیگ نے مجھے اپنا ٹکٹ نہیں دیا تھا لیکن اب جبکہ میں خدا کے فضل سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوگیا ہوں میں اپنی جماعت کی ہدایت کے ماتحت پھر دوبارہ اپنے آپ کو مسلم لیگ کی ممبری کے لئے پیش کرتا ہوں<۔۶۰
اس ضمن میں دوسری مثال شیخ فیض محمد صاحب پلیڈر کی ہے جو یونینسٹ ٹکٹ پر )حلقہ ڈیرہ غازی خاں وسطی سے( کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔۶۱ جماعت احمدیہ نے شیخ صاحب سے بھی تعاون کیا۔۶۲
پنجاب کی ہندو صحافت کی برہمی اور شرمناک پراپیگنڈا
جماعت احمدیہ کی طرف سے مسلم لیگی ممبروں سے تعاون پر کانگرسی حلقے سخت بوکھلا گئے اور ہندو صحافت کھلم کھلا دشنام طرازی اور افتراء پردازی پر اتر آئی۔ اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ سردار شوکت حیات خاں مسلم لیگی امیدوار تھے۔ احمدی مردوں اور عورتوں نے انہیں مسلمانوں کا بہترین سیاسی نمائندہ سمجھتے ہوئے ووٹ دیئے۔ بات صرف اس قدر تھی۔ مگر ہندو اخبار >پرتاپ< ۱۵۔ فروری ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں اس واقعہ کو اخلاق سوز اور شرمناک رنگ سے جگہ دی۔ چنانچہ اس نے لکھا کہ۔
لدھیانہ ۱۴۔ فروری۔ آج ٹانگوں اور لاریوں میں پولنگ اسٹیشن پر مسلمان عورتوں کو لایا گیا۔ سردار شوکت حیات کے حق میں ووٹیں ڈلوانے کے لئے قادیان سے احمدیہ لڑکیوں اور ہیرا منڈی سے بازاری عورتوں کو لایا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے سروں پر سبز رنگ کے دوپٹے لئے ہوئے تھے<۔۶۳
نیشنلسٹ اور کانگرس نواز علماء کی مسلم لیگ پر تنقید
انتخابات میں جماعت احمدیہ اور مسلم لیگ کے باہمی تعاون پر نیشنلسٹ اور کانگرس نواز علماء کی طرف سے مسلم لیگ اور قائداعظم پر بہت تنقید کی گئی۔ چنانچہ ناظم اعلیٰ مرکزیہ جمعیتہ علماء ہند نے >تحریک پاکستان پر ایک نظر< نامی رسالہ میں لکھا۔
>آج مسٹر جناح بیرسٹر کی بجائے مفتی کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں اور سر ظفر اللہ قادیانی۔ راجہ محمود آباد شیعہ کو جو پاکستان کے حامی ہیں۔ مسلمان دیانتدار قرار دیتے ہیں۔ اور مولانا حسین احمد صاحب مفتی کفایت اللہ صاحب جیسے عمائدین ملت کو بددیانت بے ایمان کہہ دیتے ہیں اور لیگی اخبارات ان جملوں کو نہایت آب و تاب سے شائع کرتے ہیں اور لیگی نوجوان مسٹر جناح کے فتوے پر اعتقاد رکھتے ہیں<۔۶۴
جناب مولوی طفیل احمد صاحب مولوی فاضل دیوبند نے روزنامہ >شہباز< لاہور >مورخہ ۲۰۔ نومبر ۱۹۴۵ء( میں لکھا۔ >یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت حکیم الامت )مولوی اشرف علی صاحب تھانوی۔ ناقل( مسلم لیگ جیسی جماعت کی حمایت کریں۔ اب تو وہ قادیانیوں` دہریوں اور تبرائیوں کی مجسم جماعت ہے۔ لہذا تمام متوسلین کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ حضرت والا کا اتباع کرتے ہوئے لیگ سے علیحدگی اختیار کریں<۔
‏vat,10.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
اسی طرح جمعیتہ علماء ہند نے مسلم لیگ کے خلاف انتخابی مہم کے دوران ایک دو ورقہ >مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے< کے نام سے تقسیم کیا جس میں قائداعظم محمد علی جناح کو محض اس وجہ سے انانیت پسند اور آمر قرار دیا کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور ۱۹۴۴ء میں احمدیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کئے جانے سے متعلق ایک قرار داد کو پیش تک نہیں ہونے دیا۔
ممتاز مسلم لیگی عالم جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے روزنامہ >نوائے وقت< میں ایک اعلان شائع کیا تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے سفینہ نجات ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔ اس پر امرتسر کے ایک نیشنلسٹ عالم )مولوی بہاء الحق صاحب قاسمی( نے جناب مولوی شبیر احمد صاحب کی خدمت میں لکھا کہ۔
>آپ کو معلوم ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیگ کے ممبر ہیں اور ان کی دونوں پارٹیاں )قادیانی اور لاہوری( الیکشن میں لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے سر توڑ کوشش اور انتہائی جدوجہد کررہی ہیں بلکہ مرزا محمود قادیانی نے اعلان کر دیا ہے کہ مسلم لیگ کی کامیابی >احمدیت< کی کامیابی ہے۔ ان کے علاوہ آج لیگ کی سیاست پر وہ شیعہ لیڈر چھائے ہوئے ہیں جنہوں نے تبرا ایجی ٹیشن میں تبرائیوں کو ہر طرح امداد دی۔ جس جماعت کی تشکیل اس قسم کے بے دینوں اور مرتدوں سے عمل میں لائی گئی ہو اور جو جماعت کمیونسٹوں اور مرزائیوں کو >مسلمان< ہونے کا سارٹیفکیٹ دیتی ہو۔ اس جماعت کو >سفینہ نجات< قرار دینا آپ کی ذات گرامی سے بعید معلوم ہوتا ہے<۔۶۵
سرگرم اور ممتاز مسلم لیگی علماء کی طرف سے مدلل جواب
جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے اس کا جواب ایک مفصل مکتوب میں دیا۔ چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>اللہ تعالیٰ کی ہزاران ہزار رحمت امام محمد بن الحسن شیہانی پر کہ انہوں نے یہ مشکل میں ڈالنے والا مسئلہ پہلے سے صاف کردیا اور تصریح کردی کہ اہل حق مسلمان خوارج کے ساتھ ہوکر مشرکین سے لڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ جنگ دفع فتنہ کفر اور اظہار اسلام کے لئے ہوگی اور اس میں اعلائے کلمتہ اللہ اور اثبات اصل طریق ہے<۔
>اب رہ گیا کلمہ گو مرتدین کا معاملہ` ان کی تعداد لیگ میں لایعبابہ ہے جن کے غلبہ کی کوئی صورت نہیں اور خدا نہ کردہ آئندہ ایسا ہو تو اس وقت جو حکم ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا۔ اب الیکشن کے موقعہ پر اگر مرزا محمود وغیرہ نے بدوں لیگ میں شرکت کے لیگ کی تائید کا اعلان کردیا یہ ان کا فعل ہے جو ہمارے لئے مضر نہیں<۔
>ایک چیز اور بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ مرتدین اور ملحدین اس طرح کے نہیں جو نفس کلمہ اسلام ہی سے اعلانیہ بیزار ہوں وہ بھی بزعم خود مشرکین سے اسی نام پر لڑتے ہیں کہ مشرکین کے غلبہ و تسلط سے مسلم قوم کو بچایا جائے اور کلمہ اسلام کو ان کے مقابلہ میں پست نہ ہونے دیا جائے اور مسلمانوں کے قومی و ملی استقلال کی حفاظت ہو<۔ )شبیر احمد عثمانی از دیوبند۔ ۱۹۔ ذی الحجہ ۶۴ھ ۲۵۔ نومبر ۱۹۴۵ء(۶۶
جناب مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے مراد آباد کے ایک صاحب )حکیم رشید علی( کے نام بھیجا` چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو اکابر مسلم لیگ میں شمار کرتے ہوئے لکھا۔
>جن کو آج گورنمنٹ پرست کہا جاتا ہے اور وہ ہی اکابر لیگ سمجھے جاتے ہیں۔ ان ہی کی قیادت و سعادت اس وقت )۱۹۳۷ء میں ناقل( تھی۔ مسٹر جناح` نواب اسماعیل خاں صاحب` راجہ محمود آباد` چودھری خلیق الزمان اور سر ظفر اللہ خاں قادیانی سب اس میں شریک تھے۔ انہیں سے اکثر آج اس کے قائد ہیں<۔۶۷
ان دنوں سیالکوٹ کے ایک عالم نے بھی احمدیوں کی مسلم لیگ میں شرکت و تعاون پر اعتراض کیا جس پر مشہور اہلحدیث عالم جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے جو جواب دیا وہ ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا۔ آپ نے کہا۔
>احمدیوں کا اس اسلامی جھنڈے کے نیچے آجانا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ وجہ یہ کہ احمدی لوگ کانگرس میں تو شامل ہو نہیں سکتے کیونکہ وہ خالص مسلمانوں کی جماعت نہیں ہے اور نہ احرار میں شامل ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ سب مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ صرف اپنی احراری جماعت کے لئے لڑتے ہیں جن کی امداد پر کانگریسی جماعت ہے اور حدیث الدین النصیحہ کی تفصیل میں خود رسول مقبول نے عامہ مسلمین کی خیر خواہی کو شمار کیا ہے۔ )صحیح مسلم(
ہاں اس وقت مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خالص مسلمانوں کی ہے۔ اس میں مسلمانوں کے سب فرقے شامل ہیں۔ پس احمدی صاحبان بھی اپنے آپ کو ایک اسلامی فرقہ جانتے ہوئے اس میں شامل ہوگئے جس طرح کہ اہلحدیث اور حنفی اور شیعہ وغیرہم شامل ہوئے اور اس امر کا اقرار کہ احمدی لوگ اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہیں مولٰنا ابوالکلام صاحب کو بھی ہے۔ ان سے پوچھئے۔ اگر وہ انکار کریں گے تو ہم ان کی تحریروں میں دکھا دیں گے<۔۶۸
گوجرانوالہ کے ایک مشہور اہلحدیث عالم مولوی محمد اسماعیل صاحب نے ایک دو ورقہ۶۹ میں مسلم لیگ پر طعن کیا کہ اس میں قادیانی` رافضی` اسماعیلی اور بریلوی شامل ہیں اور انہی فرقوں کی جماعت بندی کا دوسرا نام مسلم لیگ ہے۔ جناب مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اس اعتراض کا بھی مسکت جواب دیا۔ جو یہ تھا۔
>امت مرحومہ کے ان سب فرقوں نے اصل اسلام جو سب میں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ یعنی کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر اجتماع کیا ہے اور اس کلمہ طیبہ کے قائلین کو مشرکین و کفار کے تغلب سے خواہ وہ صنم پرست ہوں یا صلیب پرست ہوں بچانے پر متفق ہوئے ہیں۔ خواہ وہ تغلب اس وقت موجود ہے` خواہ اس کا آئندہ اندیشہ ہے اور پاکستان کے نظام کی بناء اسی بات پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ سے پوشیدہ نہیں کہ سوائے اس کے مسلمانوں کی تنظیم کی کوئی صورت نہیں۔ جو خوبی تھی آپ نے اسے طعن بنا دیا جو سراسر بے جا ہے<۔۷۰
>پاکستان کے مفہوم پر جو اعتراضات مجھے پہنچے ہیں میں ان کو صحیح نہیں سمجھتا۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ اس کے بانی رافضی ہیں` بدعتی ہیں اور مرزائی بھی شریک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میرے خیال میں یہ اعتراضات سیاسی اصول سے بالاتر ہیں۔ سیاسیات میں قوم کو بحیثیت نوع کے دیکھا جاتا ہے اصناف کا لحاظ نہیں ہوتا<۔۷۱
جماعت احمدیہ کی طرف سے یونینسٹ وزارت کے خلاف احتجاج
۴۶۔۱۹۴۵ء کے انتخابات سے اگرچہ مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت بالکل واضح ہوگئی مگر کانگرس نے پنجاب میں سرگلانسی گورنر پنجاب کی شہ اور اشارہ پاکر یونینسٹ پارٹی کے لیڈر سر خضر حیات خاں سے تعاون کرلیا۔ سرگلانسی نے مسلم اکثریت کو نظر انداز کردیا اور ملک خضر حیات کی قیادت میں کانگرس` اکالی اور یونینسٹوں کے سات مسلمان ممبر ملا کر ایک کولیشن بنادی گئی۔ ہندوستانی عیسائیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لئے انہیں سپیکر شپ کی پیش کش کی گئی۔ اس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ۷۹ ممبر رکھنے کے باوجود مسلم لیگی وزارت نہ بن سکی اور عوام کی مرضی کے خلاف دوبارہ وہ حکومت ٹھونس دی گئی جو وہ انتخابات میں مسترد کرچکے تھے۔
اس غیر نمائندہ اور غیر آئینی وزارت کے خلاف ۱۰۔ مارچ ۱۹۴۶ء کو قادیان میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کی صدارت میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ نے حسب ذیل قرارداد پیش کی جو بالاتفاق پاس کی گئی۔
>مسلمانان قادیان کا یہ عظیم الشان اجتماع گورنر پنجاب کے اس طریق کو جو اس وقت وزارت قائم کرنے کے لئے اختیار کیا جارہا ہے` صوبہ پنجاب میں مسلمانوں کی حق تلفی یقین کرتا ہے۔ اس وزارت میں صوبہ کی مسلم اکثریت کی کوئی نمائندگی نہیں۔ حکومت کا فرض تھا کہ مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کو تشکیل وزارت کے لئے دعوت دے کیونکہ اسی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ لیکن گورنر صاحب نے اس مسلم اکثریت والے صوبہ کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی پارٹی کی وزارت مرتب کرانے کی کوشش کی ہے جو مسلمانان پنجاب کی بالکل نمائندہ نہیں ہوگی۔ ہم اس طریق کو غیر آئینی اور غیر رسمی اور خلاف عرف تصور کرتے ہیں اور اس کے خلاف پرزور صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کیونکہ اس میں صوبہ کی اکثریت کی حق تلفی ہے<۔۷۲
تیسرا باب )فصل چہارم(
ہندوستان میں پارلیمنٹری مشن کی آمد
حضرت مصلح موعود کی رہنمائی` مخلصانہ مشورہ اور مسلم لیگ اور قائداعظم کے موقف کی زبردست حمایت` عبوری حکومت کا قیام اور مسلم لیگ کا احتجاج اور فیصلہ راست اقدام
مرکزی و صوبائی انتخابات ختم ہوئے تو برطانیہ کی لیبر حکومت نے جس کے وزیراعظم مسٹر اٹیلی تھے ہندوستان کے سیاسی تعطل کو دور کرنے کے لئے ایک سکیم دے کر لارڈ پینتھک لارنس )وزیر ہند( سر سٹیفورڈ کرپس )لارڈ پریوی سیل( اور الیگزینڈر )وزیر بحر( پر مشتمل ایک وزارتی مشن ہندوستان بھیجا۔ یہ وفد ۲۵۔ مارچ ۱۹۴۶ء کو دہلی پہنچا اور آتے ہی مسلم لیگ اور کانگرس کے زعماء سے بات چیت میں مصروف ہوگیا۔
وزارتی مشن کے منصوبے کا مختصر خاکہ یہ تھا کہ ملک کو تین علاقوں میں ترتیب دی جائے۔ )ا( صوبہ جات مدراس` بمبئی` یوپی` بہار` سی پی اور اڑیسہ )ب( پنجاب` سندھ` صوبہ سرحد )ج( بنگال اور آسام ان تین علاقوں کی اپنی اپنی علاقائی حکومت ہو اور تمام ملک کی وفاقی حکومت ہو جس میں یہ تین علاقے منسلک ہوں مرکزی حکومت کے اختیارات` امور خارجہ` امور متعلقہ دفاع` صیغہ مواصلات اور ان محکمہ جات کے متعلقہ مالیات پر مشتمل ہوں اور ان تک محدود ہوں۔ بقیہ تمام امور اور صیغہ جات علاقائی حکومتوں کے سپرد ہوں۔ یہ نظام دس سال تک جاری رہے۔ دس سال کی میعاد پوری ہونے پر علاقہ ب و ج کو اختیار ہو کہ اگر ان میں سے ایک یا دونوں چاہیں تو وفاقی نظام سے علیحدہ ہوکر اپنی اپنی مستقل آزاد حکومت قائم کرلیں۔ اس امر کا فیصلہ علاقے کی مجلس قوانین ساز کے اختیار میں ہو۔ علاقہ ج کے متعلق یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اگر علاقائی مجلس علیحدگی کا فیصلہ کرے تو آسام کے نمائندگان کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کریں کہ وہ علاقے میں نہیں شامل رہنا چاہتے اور علاقہ سے علیحدگی پر وہ علاقہ ا میں شامل ہو جائیں گے۔
پارلیمنٹری مشن کی ہندوستان میں آمد پر حضرت مصلح موعود نے ایک دینی اور روحانی پیشوا کی حیثیت سے برطانوی ارکان` مسلم لیگ اور کانگرس سب کو ان کی نازک ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور ہندوستان کی گتھی کو عدل و انصاف اور اخلاق کے تقاضوں کے مطابق سلجھانے کا مخلصانہ مشورہ دیا۔ نیز مسلم لیگ کے موقف کی زبردست حمایت کی اور کانگرس کے بے بنیاد پراپیگنڈا کی حقیقت واقعات کی روشنی میں واضح فرمائی اور اسے مشورہ دیا کہ وہ تبدیلی مذہب کے متعلق اپنا زاویہ نگاہ بدل لے۔ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے جس مضمون میں یہ سب امور بیان فرمائے اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔۷۳
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
پارلیمنٹری مشن اور ہندوستانیوں کا فرض
پارلیمنٹری وفد ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے ہندوستان میں وارد ہوچکا ہے۔ مجھ سے کئی احمدیوں نے پوچھا ہے کہ احمدیوں کو ان کے خیالات کے اظہار کا موقعہ کیوں نہیں دیا گیا۔ میں نے اس کا جواب ان احمدیوں کو یہ دیا کہ اول تو ہماری جماعت ایک مذہبی جماعت ہے )گو مسیحیوں کی انجمن کو کمیشن نے اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی ہے( دوسرے جہاں تک سیاسیاست کا تعلق ہے جو حال دوسرے مسلمانوں کا ہوگا وہی ہمارا ہوگا۔ تیسرے ہم ایک چھوٹی اقلیت ہیں اور پارلیمنٹری وفد اس وقت ان سے بات کررہا ہے جو ہندوستان کے مستقبل کو بنایا بگاڑ سکتے ہیں۔ دینوی نقطہ نگاہ سے ہم ان جماعتوں میں سے نہیں ہیں۔ اس لئے باوجود اس امر کے کہ جنگی سرگرمیوں کے لحاظ سے اپنی نسبت آبادی کے مدنظر ہم تمام دوسری جماعتوں سے زیادہ قربانی کرنے والے تھے کمیشن کے نقطہ نگاہ سے ہمیں کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ چوتھے یہ کہ خواہ کمیشن کے سامنے ہمارے آدمی پیش ہوں یا نہ ہوں ہم اپنے خیالات تحریر کے ذریعہ سے ہر وقت پیش کرسکتے ہیں۔
سو جواب کے آخری حصہ کے مطابق میں چند باتیں پہلی قسط کے طور پر پارلیمنٹری وفد اور ہندوستان کے نمائندوں سے کہنا چاہتا ہوں۔
وفد کے ممبران کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کا فساد سب سے زیادہ اس امر سے ترقی کررہا ہے کہ حکومتیں اخلاقی اصول کی پیروی سیاسیات میں ضروری نہیں سمجھتیں۔ حالانکہ سیاست افراد کو تسلی دینے کے لئے برتی جاتی ہے اور افراد جو اخلاق کی بناء پر سوچنے اور غور کرنے کے عادی ہیں۔ جب ایک فیصلہ ایسا دیکھتے ہیں کہ جس کی بنیاد عام جانے بوجھے ہوئے اخلاقی نظریات کے خلاف ہوتی ہے تو وہ اس سے تسلی نہیں پاتے اور ان کے دل کی خلش انہیں شورش اور فساد پر آمادہ کردیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی امیدوں اور امنگوں کے پورا نہ ہونے پر بھی شورش ہوتی ہے لیکن وہ شورش دیرپا نہیں ہوتی اور اس کا ازالہ کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن اخلاقی اصول کے خلاف کیا گیا فیصلہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک فساد اور بے چینی کو لمبا کئے جاتا ہے۔ پس انہیں چاہئے کہ ہندوستان کی الجھنوں کا حل صرف سیاست کی مدد سے کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخلاق کے اصول کے مطابق اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تا اگر اس حل سے کوئی فساد پیدا ہو تو وہ دیرپا نہ ہو۔
دوسرے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی وعدے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں۔ مثلاً ایک گورنمنٹ سے کسی دوسری گورنمنٹ کا کوئی معاہدہ ہو۔ لیکن بعد میں اس ملک کی اکثریت اپنی گورنمنٹ کے خلاف ہو جائے تو معاہد حکومت یقیناً پابند نہیں کہ اول الذکر حکومت کا ان حالات میں بھی ساتھ دے۔ کیونکہ معاہدہ اس امر کی فرضیت پر مبنی تھا کہ وہ حکومت اپنے ملک کی نمائندہ ہے۔ جب وہ نمائندہ نہ رہے تو معاہد حکومت کا حق ہے کہ اپنے سابق معاہدہ کو تبدیل کردے جیسا کہ پولینڈ کی حکومت کے بارہ میں انگلستان نے کیا )اس امر کو میں نظر انداز کرتا ہوں کہ انگلستان نے پوری تحقیق اس امر کی کرلی تھی کہ نہیں کہ پولینڈ کی اکثریت سابق حکومت کے ساتھ ہے یا خاص حالات پیدا کرکے اس سے خلاف رائے لے لی گئی ہے( لیکن اگر حالات وہی ہوں جیسے کہ پہلے تھے تو پھر یہ کہہ کر سابق وعدہ کو نظر انداز کردینا کہ حالات بدلنے پر وعدے بھی بدل سکتے ہیں اخلاق کے خلاف ہوگا۔ حکومت انگریزی کو اپنے سابق وعدوں میں کسی تبدیلی سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں کوئی وعدہ انہوں نے کیا تھا اور اب کون سے نئے حالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا طبعی نتیجہ وعدہ کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں ان کا یہ کہہ دینا کہ اب حالات بدل گئے ہیں صرف متعلقہ جماعت کے دلوں میں شکوک اور جائز شکوک پیدا کرنے کا موجب ہوگا۔ اخلاق کی طاقت یقیناً انگلستان اور ہندوستان بلکہ تمام دنیا کی مجموعی طاقت سے بھی زیادہ ہے۔ پس اگر حقیقتاً حالات نہ بدلے ہوں تو گول مول الفاظ استعمال کرنے کی بجائے پارلیمنٹری وفد کو اعلان کرنا چاہئے کہ ہم سے پہلی حکومت بددیانتی سے ہندوستانیوں کو لڑوانے کے لئے بعض اقوام سے کچھ وعدے کرچکی ہے جو ہم برسر اقتدار ہونے کے بعد پورا کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن یہ درست نہیں کہ وہ ایک ہی سانس میں پہلی حکومت کی دیانت کا بھی اظہار کرے اور اس کے وعدوں کو یہ کہہ کر توڑ بھی دے کہ بدلے ہوئے حالات میں وعدے بھی بدل جاتے ہیں۔ )حالانکہ جن حالات میں وہ وعدے کئے گئے تھے وہ بالکل نہ بدلے ہوں( عوام الناس فقروں میں آجاتے ہیں۔ لیکن عقلمند لوگ صرف فقروں سے دھوکا نہیں کھاتے۔
تیسری بات میں مشن کے ممبروں سے یہ کہنی چاہتا ہوں کہ کوئی ایسی حالت پیدا کردینا جس کے نتیجہ میں ایک اقلیت اپنے حقوق لینے سے محروم رہ جائے خود انگلستان کو ہی مجرم بنائے گا۔ انگلستان یہ کہہ کر بچ نہیں سکتا کہ اس نے یہ نتیجہ پیدا نہیں کیا۔ نتائج کی ذمہ داری ذرائع کے پیدا کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔
چوتھی بات کمشن کے ممبروں سے میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اگر وہ انصاف کو قائم رکھیں گے تو یقیناً ہندو مسلم سمجھوتہ کرانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ میں اس امر کا قائل نہیں کہ انگلستان کا بنایا ہوا ہندوستان اصل ہندوستان ہے۔ لیکن میں اس امر کا بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہندوستان میں جس قدر اتحاد بھی باہمی سمجھوتہ سے ہوسکے` وہ یقیناً ہندوستان اور دوسری دنیا کے لئے مفید ہوگا۔ میں برٹش ایمپائر کے اصول کا دیرینہ مداح ہوں۔ میرے نزدیک برطانوی امپائر کا اصول اس وقت تک کی قائم کردہ انٹرنیشنل لیگ یا یو۔ این۔ اے سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی اصلاح کی تو ضرورت ہے۔ لیکن اس کے حصہ دار بننے کا نام غلامی رکھنا ایک جذباتی مظاہرہ تو کہلا سکتا ہے` حقیقت نہیں کہلا سکتا۔ مگر بہرحال ہندوستان کے مختلف حصوں کا باہمی تعاون اور ہندوستان کا برطانوی امپائر سے تعاون باہمی سمجھوتے پر مبنی ہونا چاہئے۔
پانچویں ہر سیاسی اصل ضروری نہیں کہ ہرجگہ اپنی تمام شقوں کے ساتھ چسپاں ہوسکے۔ میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کے اکثر مدبر اپنے ملک کے تجربہ کو ہندوستان پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کے حالات یقیناً انگلستان سے مختلف ہیں۔ یہاں آزادی کا بھی اور مفہوم ہے اور انصاف کا بھی اور مفہوم ہے۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے مسٹر گاندھی سے سوال کیا کہ کیا آزاد ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کی اجازت ہوگی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ مذہب کی آزادی ضرور ہوگی مگر مذہب کی تبدیلی ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ اس بارہ میں حکومت مناسب رویہ اختیار کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ آزادی کے صریح خلاف ہے۔ میں نے اس امر کی تحقیق کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی عہدہ داروں سے کہا کہ وہ کانگرس سے اس کا نقطہ نگاہ دریافت کریں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ جماعت کے سیکرٹری نے اس بارہ میں جو چٹھی لکھی اس کا جواب کانگرس کے سیکرٹری نے نہیں دیا۔ پھر رجسٹری خط گیا۔ اس کا بھی جواب نہیں دیا۔ اس پر تیسرا خط رجسٹری کرکے ارسال کیا گیا مگر اس کا جواب بھی نہ دیا گیا۔ تب تار دی گئی کہ اگر اب بھی جواب نہ دیا گیا تو معاملہ مسٹر گاندھی کے سامنے رکھا جائے گا اس پر کانگرس کے سیکرٹری نے جواب دیا کہ مسٹر بوس کو افسوس ہے کہ اب تک جواب نہیں دیا گیا )اس وقت سبھاش چندربوس کانگرس کے پریذیڈنٹ تھے( اب جواب بھجوایا جارہا ہے۔ یہ جواب جب موصول ہوا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ آپ کو کانگرس کے کراچی ریزولیوشن نمبر فلاں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ جب لکھا گیا کہ اس ریزولیوشن کی تعبیر کے متعلق تو ہمارا سوال ہے۔ تو اس کا یہ جواب دیا گیا کہ کانگرس ہی اپنے ریزولیوشن کی تعبیر کرسکتی ہے۔ جب اس پر کہا گیا کہ کانگرس سے تو اس کے عہدہ دار ہی پوچھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کونسا ذریعہ ہے تو اس پر جواب دیا گیا کہ ہم نہیں پوچھ سکتے` آپ ہی دریافت کریں۔ اس واقعہ نے ثابت کردیا کہ کانگرس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یورپ کے زمانہ وسطیٰ والا ہے جسے مسلمان کسی صورت میں تسلیم نہیں کرسکتے۔ چنانچہ عملاً اس کا یہ نمونہ موجود ہے کہ ہندو ریاستوں میں ایک ہندو اگر مسلمان ہو جائے` تو اول بغیر مجسٹریٹ کی اجازت کے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ دوم اسے اپنے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کانگرس سے جو ہماری گفت و شنید ہوئی ہے اس نے ریاستوں کے اس رویہ پر مہر تصدیق لگا دی ہے۔ غرض صرف ڈیموکریسی کے لفظ پر نہیں جانا چاہئے۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ڈیموکریسی کا مفہوم کسی قوم میں کیا ہے۔ اس وقت روس مغربی حکومتوں کے خلاف بار بار یہ اعلان کررہا ہے کہ مغربی ممالک کے ری ایکشنری لوگ ہمارے خلاف یونان اور ایران اور چین کی تائید کے نام سے غلط فضا پیدا کررہے ہیں۔ لیکن کیا صرف ری ایکشنری کے لفظ کے استعمال کی وجہ سے انگلستان اور امریکہ کے لوگ اپنی منصفانہ پالیسی چھوڑ دیں گے۔ اگر نہیں تو صرف ڈیموکریسی کے لفظ کے استعمال سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو جانی چاہئے۔
میں مسلمانوں کے نمائندوں کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان ہمارا بھی اسی طرح ہے جس طرح ہندوئوں کا۔ ہمیں بعض زیادتی کرنے والوں کی وجہ سے اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس ملک کی عظمت کے قیام میں ہمارا بہت کچھ حصہ ہے۔ ہندوستان کی خدمت ہندوئوں نے تو انگریزی زمانہ میں انگریزوں کی مدد سے کی ہے۔ لیکن ہم نے اس ملک کی ترقی کے لئے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے۔ پشاور سے لے کر منی پور تک اور ہمالیہ سے لے کر مدراس تک ان محبان وطن کی لاشیں ملتی ہیں جنہوں نے اس ملک کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دی تھیں۔ ہر علاقہ میں اسلامی آثار پائے جاتے ہیں۔ کیا ہم ان سب کو خیرباد کہہ دیں گے کیا ان کے باوجود ہم ہندوستان کو ہندوئوں کا کہہ سکتے ہیں۔ یقیناً ہندوستان ہندوئوں سے ہمارا زیادہ ہے قدیم آریہ ورت کے نشانوں سے بہت زیادہ اسلامی آثار اس ملک میں ملتے ہیں۔ اس ملک کے مالیہ کا نظام` اس ملک کا پنچائتی نظام` اس ملک کے ذرائع آمدورفت سب ہی تو اسلامی حکومتوں کے آثار میں سے ہیں۔ پھر ہم اسے غیر کیونکر کہہ سکتے یں۔ کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں ہم یقیناً اسے نہیں بھولے۔ ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کو لیں گے۔ اسی طرح ہم ہندوستان کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ ملک ہمارا ہندوئوں سے زیادہ ہے۔ ہماری سستی اور غفلت سے عارضی طور پر یہ ملک ہمارے ہاتھ سے گیا ہے۔ ہماری تلواریں جس مقام پر جاکر کند ہوگئیں۔ وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کرکے ہم اپنے ہندو بھائیوں کو خود اپنا جزو بنا لیں گے۔ مگر اس کے لئے ہمیں راستہ کو کھلا رکھنا چاہئے۔ ہمیں ہرگز وہ باتیں قبول نہیں کرنی چاہئیں جن میں اسلام اور مسلمانوں کی موت ہو۔ مگر ہمیں وہ طریق بھی اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے ہندوستان میں اسلام کی حیات کا دروازہ بند ہو جائے۔ میرا یقین ہے کہ ہم ایک ایسا منصفانہ طریق اختیار کرسکتے ہیں۔ صرف ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ اسلام نے انصاف اور اخلاق پر سیاسیات کی بنیاد رکھ کر سیاست کی سطح کو بہت اونچا کر دیا ہے۔ کیا ہم اس سطح پر کھڑے ہو کر صلح اور محبت کی ایک دائمی بنیاد نہیں قائم کرسکتے۔ کیا ہم کچھ دیر کے لئے جذباتی نعروں کی دنیا سے الگ ہوکر حقیقت کی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتے تا ہماری دنیا بھی درست ہو جائے اور دوسروں کی دنیا بھی درست ہو جائے۔
میں مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ وقت اتحاد کا ہے۔ جس طرح بھی ہو اپنے اختلافات کو مٹا کر مسلمانوں کی اکثریت کی تائید کریں اور اکثریت اپنے لیڈر کا ساتھ دے اس وقت تک کہ یہ معلوم ہو کہ اب کوئی صورت سمجھوتہ کی باقی نہیں رہی اور اب آزادانہ رائے دینے کا وقت آگیا ہے۔ مگر اس معاملہ میں جلدی نہ کی جائے تا کامیابی کے قریب پہنچ کر ناکامی کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔
میں ہندو بھائیوں سے اور خصوصاً کانگرس والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کانگرس کے لئے مسٹر گاندھی نے اور کچھ بھی نہ کیا ہو تو بھی انہوں نے اس پر یہ احسان ضرور کیا ہے کہ اسے اس اصل کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے کہ ہمارے فیصلوں کی بنیاد اخلاق پر ہونی چاہئے۔ تفصیل میں مجھے خواہ ان سے اختلاف ہو مگر اصول میں مجھے ان سے اختلاف نہیں۔ کیونکہ میرے آقا محمد رسول اللہ~صل۱~ نے اس اصل کو جاری کیا ہے۔ آپ لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ ایک طرف تو آپ لوگ عدم تشدد کے قائل ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے مقابل پر اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں بعض لیڈر دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ میں نے آج ہی ایک کانگرسی لیڈر کا اعلان پڑھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ۔
>کوئی اسے اچھا سمجھے یا برا` اس کے نتیجہ میں ملک میں شدید فساد ہوگا<۔
پھر لکھتے ہیں۔
>مگر جو کوئی بھی ملک کے موجودہ جذبات کو جانتا ہے اس بات کو معلوم کرسکتا ہے کہ کوئی طاقت اس )فساد( کو روک نہیں سکتی اور ممکن ہے کہ یہ )فساد( ایک ایسی شکل اختیار کرلے جسے ہم میں سے کوئی بھی روک نہ سکے<۔
اس لیڈر نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مسٹر جناح نے بھی خون خرابہ کی دھمکی دی ہے۔ یہ درست ہے۔ مسٹر جناح نے غلطی کی یا درست کام کیا` وہ عدم تشدد کے قائل نہیں۔ ان پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ مگر کانگرس جو عدم تشدد کی قائل ہے اگر اس کا ایک لیڈر ایسی بات کرتا ہے تو وہ یقیناً دو باتوں میں سے ایک کو ثابت کرتا ہے۔ یا تو اس امر کو کہ کانگرس کی عدم تشدد کی پالیسی صرف اس لئے تھی کہ جب وہ جاری کی گئی کانگرس کمزور تھی۔ اس لئے اس پالیسی کے اعلان کے ذریعہ دنیا پر یہ اثر ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدم تشدد کرنے والے ہیں۔ ہماری گرفتاریاں کرکے برطانیہ ظلم کررہا ہے یا ہندوستانی گورنمنٹ کی آنکھوں میں خاک ڈالنا مقصود تھا کہ ہم تو عدم تشدد کے بڑے حامی ہیں۔ ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ ہم آپ کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرتے یا پھر اس اعلان کے یہ معنے ہیں کہ پبلک پر اثر کا دعویٰ کرنے میں کانگرس حقیقت کے خلاف جاتی ہے کیونکہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے خلاف ضرور جاسکتے ہیں لیکن قوم کا اتنا حصہ لیڈروں کے خلاف نہیں جاسکتا جو ملک کے حالات کو قابو سے باہر کردے۔ یہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ لیڈر لیڈر ہی نہ ہو اور اپنے اثر اور قبضہ کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہو۔ کانگرس کے لیڈروں کو اس موقعہ پر بہت ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے ورنہ انہیں یاد رہے کہ سیاسی حالات یکساں نہیں رہتے۔ اس قسم کے بیج کبھی نہایت تلخ پھل بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ کیونکہ خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور وہ تعداد میں زیادہ` مال میں زیادہ حکومت میں طاقتور قوم کو تھوڑے اور کمزور لوگوں پر ظلم نہیں کرنے دے گا۔ اسلام ہر حالت میں زندہ رہے گا خواہ مسلمانوں کی غلطیوں کی وجہ سے عارضی طور پر تکلیف اٹھالے۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ ہوسکے تو باہمی سمجھوتے سے ہم لوگ اسی طرح اکٹھے رہیں جس طرح کئی سو سال سے اکٹھے چلے آتے ہیں لیکن فرض کرو مسلمان کلی طور پر باقی ہندوستان سے انقطاع کا فیصلہ کریں اور برطانیہ انہیں مجبور کرکے باقی ہندوستان سے ملا دے اور جیسا کہ مسٹر جناح نے کہا ہے مسلمان بزور اس فیصلہ کا مقابلہ کریں تو یقیناً وہ قانوناً باغی نہیں کہلا سکتے۔ کیونکہ یہ ایک نیا انتظام ہوگا اور نئی گورنمنٹ۔ سابق گورنمنٹ کو کوئی حق نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جو اس ملک کے اصل حاکم تھے۔ دوسروں کے ماتحت ان کی مرضی کے خلاف کردے۔ اس حکومتی ردو بدل کے وقت ہر حصہ ملک کو نیا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اپنے حق کو بزور لینے کا فیصلہ کرتے وقت وہ انٹرنیشنل قانون کے مطابق ہرگز باغی نہیں کہلا سکتے۔ مگر کیا ہندوئوں کو بھی قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ وہ کب اس شکل میں مسلم صوبوں کے حاکم ہوئے تھے کہ انہیں دستور قدیمہ کو قائم رکھنے کا قانونی حق حاصل ہو۔ حکومتوں کے بدلنے پر سٹیٹس کا کوئی سوال ہی نہیں رہتا۔ پس مسلمان خدانخواستہ اگر ایسا کرنے پر مجبور ہوں تو قانونی لحاظ سے وہ جائز کام کریں گے۔ ہندو اگر جبراً ان کو اپنے ماتحت لانا چاہیں تو قانونی لحاظ سے وہ ظالم ہوں گے۔ اگر انگریز مسلمانوں کو ان کی مرضی کے خلاف بقیہ ہندوستان سے ملا دیں تو وہ بھی ظالم ہوں گے۔ کیونکہ مسلمان بھیڑ بکریاں نہیں کہ انگریز جس طرح چاہیں ان سے سلوک کریں۔
پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس مشکل کو محبت سے سلجھانے کی کوشش کی جائے زور اور خود ساختہ قانون سے نہیں۔ میں ہندوئوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا دل ان کے ساتھ ہے ان معنوں میں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہندو مسلمانوں میں آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے اور یہ سوتیلے بھائی اس ملک میں سگے بن کر رہیں۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ میں اس امر کے حق میں ہوں کہ جس طرح ہو ہندوستان کے متحد رکھنے کی کوشش کی جائے خواہ ہماری جدائی اصلی جدائی نہ ہو بلکہ جدائی اتحاد کا پیش خیمہ ہو۔ مگر میں اپنے ہندو بھائیوں سے یہ بھی ضرور کہوں گا کہ غلط دلائل کسی حقیقت کو ثابت نہیں کرسکتے بلکہ بہت دفعہ حقیقت کو اور بھی مشتبہ کردیتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ پنجاب سندھ وغیرہ صوبوں کے الگ ہو جانے سے ہندوستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا۔ کینیڈا کے الگ ہو جانے سے کیا یونائیٹڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہوگیا ہے؟ میکسیکو کی آزادی سے کیا یونائیٹڈ سٹیٹس کا ڈیفنس کمزور ہوگیا ہے؟ ارجنٹائن کے الگ ہونے سے کیا برازیل کا ڈیفنس کمزور ہوگیا ہے؟ اگر مسلم صوبے الگ بھی ہو جائیں تو باقی ہندوستان کا کیا بگڑ سکتا ہے۔ اس وقت بھی ہندوستان کی آبادی روس سے قریباً دگنی` یونائیٹڈ سٹیٹس سے قریباً اڑھائی گنی` سابق جرمنی سے قریباً چار گنی ہوگی اور ملک کی وسعت بھی کافی ہوگی۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم صوبے الگ ہوکر ترقی نہیں کرسکیں گے۔ دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے الگ ہو جانے سے ہندوستان اپنی عظمت کھو بیٹھے گا۔ اگر ہندوستان کی عظمت اسلامی صوبوں سے ہے تو ان کے الگ ہونے پر اسلامی صوبوں کو نقصان کیونکر پہنچے گا۔ یہ تو وہی دلیل ہے جو روس اس وقت پولینڈ` رومانیہ` بلغاریہ` ٹرکی اور ایران کے بعض صوبوں پر قبضہ کرنے کی تائید میں دیتا ہے۔ روس اپنی تمام طاقت کے ساتھ تو جرمنی اور اٹلی کے حملہ سے جو تباہ شدہ ملک ہیں نہیں بچ سکتا۔ نہ افغانستان اور جنوبی ایران جیسے زبردست ملکوں کے حملوں سے بچ سکتا ہے۔ اس کے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ پولینڈ اور رومانیہ اور بلغاریہ اس کے زیر تصرف ہو جائیں یا ٹرکی کے بعض صوبے اور ایران کا شمالی حصہ اسے مل جائے۔ کیا یہ دلیل ہے؟ کیا ایسی ہی دلیلوں سے ہندو مسلمانوں کے دلوں میں اعتبار پیدا کرسکتے ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس نازک موقعہ پر اخلاق پر اپنے دعووں کی بنیاد رکھیں بھلا اس قسم کے دعووں سے کہ مسلم لیگ مسلم رائے کی نمائندہ نہیں کیونکہ اس کے منتخب ممبر جو کونسلوں میں آئے اکثر بڑے زمیندار ہیں۔ کیا بنتا ہے کیا عوام الناس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ بڑے زمیندار کو اپنا نمائندہ مقرر کریں۔ اس دلیل سے تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنڈت نہرو صاحب کے نزدیک جنہوں نے یہ امر پیش کیا ہے مسلمان اپنا نمائندہ چننے کے اہل نہیں۔ اگر ان کا یہ خیال ہے تو دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یوں کہیں کہ مسلمان چونکہ اپنے نمائندے چننے کے اہل نہیں اس لئے موجودہ ملکی فیصلہ میں ان سے رائے نہیں لینی چاہئے۔ اگر وہ ایسا کہیں تو خواہ یہ بات غلط ہو یا درست مگر منطقی ضرور ہوگی۔ مگر یہ کہنا کہ مسلمانوں نے چونکہ اپنا نمائندہ چند بڑے زمینداروں کو چنا ہے اس لئے وہ لوگ موجودہ سوال کو حل کرنے کے لئے مسلمانوں کے نمائندے نہیں کہلا سکتے ایک ایسی غیر منطقی بات ہے کہ پنڈت نہرو جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان کا یہ مطلب نہیں تو انہوں نے اس امر کا ذکر اس موقعہ پر کیا کیوں تھا۔ درحقیقت ان کا یہ اعتراض ویسا ہی ہے جیسا کہ بعض مسلمان کہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی عموماً مسٹر برلا کے مکان پر کیوں ٹھہرتے ہیں۔ یقیناً مسٹر گاندھی کو مسٹر برلا کے مکان پر ٹھہرنے کا پورا حق ہے کیونکہ وہاں ان سے ملنے والوں کے لئے سہولتیں میسر ہیں۔ ان کے وہاں ٹھہرنے سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ مالداروں کے قبضہ میں ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ کے امیدوار اگر بڑے زمیندار ہوں اور مسلم پبلک ان کو منتخب کرلے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ لوگ مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے لئے غلط قسم کا نمائندہ چنتا ہے تو وہ اپنے کئے کی سزا خود بھگتے گا۔ دوسرے کسی شخص کو اس کے نمائندہ کی نمائندگی میں شبہ کرنے کا حق نہیں۔ یہ باتیں صرف لڑائی جھگڑے کو بڑھانے کا موجب ہوتی ہیں اور کوئی فائدہ ان سے حاصل نہیں ہوتا۔
پھر یہ بات ہے بھی تو غلط کہ مسلم لیگ کے اکثر نمائندے بڑے زمیندار ہیں۔ پنجاب ہی کو لے لو اس میں ۷۹ ممبر اس وقت مسلم لیگ کے نمائندے ہیں اور چھ یونینسٹ پارٹی کے جن سے کانگرس نے سمجھوتہ کیا ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے چھ ممبروں میں سے ملک سر خضر حیات` ملک سرالہ بخش اور نواب مظفر علی بڑے زمیندار ہیں۔ گویا پچاس فیصدی ممبر بڑے زمیندار ہیں۔ دوسرے تین کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ ممکن ہے ان میں سے بھی کوئی بڑا زمیندار ہو۔ اس کے مقابل پر مسلم لیگ کے ۷۹ ممبروں میں سے صرف چار بڑے زمیندار ہیں۔ یعنی نواب صاحب ممدوٹ` نواب صاحب لغاری` مسٹر ممتاز دولتانہ اور مسٹر احمد یار دولتانہ۔ دو اور ہیں جو میرے علم میں بڑے زمیندار نہیں۔ مگر شاید انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کیا جاسکتا ہو وہ سرفیروز خاں اور میجر عاشق حسین ہیں۔ اگر ان کو بھی بڑے زمینداروں میں شامل کرلیا جائے تو یونینسٹ پارٹی جو کانگرس کی حلیف ہے اس کے ممبروں میں سے پچاس فیصدی بڑے زمینداروں کے مقابلہ پر لیگ کے ۷۹ میں سے چھ بڑے زمیندار صرف ساڑھے سات فیصدی ہوتے ہیں۔ اور کیا یہ نسبت اس بات کا ثبوت کہلا سکتی ہے کہ کوئی پارٹی بڑے زمینداروں کی پارٹی ہے۔ بڑے زمینداروں کا طعنہ مدت سے کانگرس کی طرف سے مسلمانوں کو دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بڑا خواہ زمیندار ہو یا تاجر` اگر وہ برے معنوں میں بڑا ہے تو ہر شکل میں برا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے حلقہ کا نمائندہ ہے تو جب تک ملک کا قانون اس کی دولت اس کے پاس رہنے دیتا ہے اور جب تک کہ اس کا حلقہ اس کا انتخاب کرتا ہے وہ نمائندگی میں کسی دوسرے سے کم نہیں۔ پنجاب میں گورنمنٹ رپورٹ کے مطابق صرف تیرہ زمیندار ایسے ہیں جو آٹھ ہزار سے زیادہ ریونیو دیتے ہیں )یعنی جن کی آمد رائج الوقت مالگذاری کے اصول کے مطابق سولہ ہزار سالانہ سے زائد ہے۔ اس سے کم آمد ہرگز کسی کو بڑا زمیندار نہیں بناسکتی بلکہ یہ آمد بھی بڑی نہیں کہلا سکتی۔ اتنی آمد تو معمولی معمولی دوکانداروں کی بھی ہوتی ہے گو وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ظاہر کریں یا نہ کریں۔ زمیندار کا صرف یہی قصور ہے کہ وہ اپنی حیثیت ظاہر کرنے پر مجبور ہے( ان میں غالباً کچھ غیر مسلم بھی ہوں گے۔ اگر سب مسلمان ہی ہوں تو بھی یہ کوئی بڑی تعداد نہیں۔ اور جب یہ دیکھا جائے کہ یہ لوگ جس قدر ریونیو ادا کرتے ہیں وہ پنجاب کے کل ریویو کے سویں حصہ سے بھی کم ہے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ پنجاب کی اکثر زمین چھوٹے زمینداروں کے پاس ہے بڑے زمینداروں کے پاس نہیں ہے۔ بڑا زمیندار صرف یو۔پی اور بنگال میں ہے۔ لیکن وہاں کے بڑے زمینداروں میں اکثریت ہندوئوں کی ہے جن میں سے اکثر کانگرس کی تائید میں ہیں۔ مگر اس کے بھی یہ معنے نہیں کہ ہندو اکثریت کانگرس کے ساتھ نہیں اور زمینداروں کے ساتھ شامل ہوتے ہوئے بھی کانگرس کی نمائندگی پر کوئی حرف نہیں آتا۔
ایک نصیحت میں کانگرس کو خصوصاً اور عام ہندوئوں کو عموماً یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغ مذہب اور تبدیلی مذہب کے متعلق وہ اپنا رویہ بدل لیں۔ مذہب کے معاملہ میں دست اندازی کبھی نیک نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی۔ وہ مذہب کو سیاست میں بدل کر کبھی چین نہیں پاسکتے۔ تبلیغ مذہب اور مذہب بدلنے کی آزادی انہیں ہندوستان کے اساس میں شامل کرنی چاہئے اور اس طرح اس تنگ ظرفی کا خاتمہ کر دینا چاہئے جو ان کی سیاست پر ایک داغ ہے اور اس تنگی کو کوئی آزاد شخص بھی برداشت نہیں کرسکتا جب تک ملک کی ذہنیت غلامانہ ہے ایسی باتیں چل جائیں گی۔ لیکن جب حریت کی ہوا لوگوں کو لگی ایسے غلط نظریوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ تبدیلی تو ہوکر رہے گی۔ لیکن جو لوگ اس تنگ ظرفی کے ذمہ دار ہوں گے وہ ہمیشہ کے لئے اپنی اولادوں کی نظروں میں ذلیل ہو جائیں گے۔ وہ فطرت کے اس تقاضا کو اس حقیقت سے سمجھ بھی سکتے ہیں کہ بادشاہ اورنگ زیب کو سب سے زیادہ بدنام کرنے والا وہ غلط الزام ہے کہ اس نے مذہب میں دست اندازی کی۔ ان کا یہ خیال کہ ہم دوسرے کا مذہب بدلوانے پر زور نہیں دیتے ایک غلط خیال ہوگا۔ کیونکہ بدھؑ` کرشنؑ` عیسیٰؑ اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے وقت کے لوگ بھی دوسرے کا مذہب نہیں بدلواتے تھے۔ ان کو تبلیغ سے اور اپنے ہم مذہبوں کو مذہب تبدیل کرنے سے روکتے تھے اور تبلیغ کرنے والوں` مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزائیں دیتے تھے۔ اگر ایسا ہی ارادہ آپ لوگوں نے کیا تو اسی *** کے آپ حصہ دار ہوں گے جس *** کا بوجھ پہلوں پر پڑ چکا ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ وقت ایسا نہیں کہ غلط اور سنی سنائی باتوں کو لے کر پبلک میں ہیجان پیدا کیا جائے یا پارلیمنٹری مشن پر اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ کوئی خدا کو مانے یا نہ مانے مگر فطرت صحیحہ کی مخالفت کبھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ یہ وقت سنجیدگی سے اس امر پر غور کرنے کا ہے کہ کس طرح ہمارا ملک آزاد ہوسکتا ہے اور کس طرح ہر قوم خوش رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم صرف قید خانہ بدلنے والے ہوں گے۔
میں نے اس مخلصانہ مشورہ میں صرف اشارات سے کام لیا ہے۔ اگر مجھے مزید وضاحت کی ضرورت ہوئی تو ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پروا ہوکر میں انشاء اللہ اپنا مخلصانہ مشورہ مشن یا پبلک کے اس حصہ کے آگے پیش کروں گا جو سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دماغ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پارلیمنٹری وفد کو بھی اور ہندو` مسلمان اور دوسری اقوام کے نمائندوں کو بھی صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
خاکسار مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ قادیان ۴۶/۴/۵<۷۴
عارضی حکومت کے قیام کا اعلان
پارلیمنٹری مشن اور مسلم لیگی اور کانگرسی لیڈروں کی باہمی بحث و تمحیص اور گفت و شنید تقریباً دو ماہ تک جاری رہی مگر اب بھی کوئی مفاہمت نہ ہوسکی۔ جس پر پارلیمنٹری مشن نے وائسرائے سے مشورہ کے بعد ۱۶۔ جون ۱۹۴۶ء کو ملک میں عارضی حکومت سے متعلق مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا۔
۱۔ >کچھ عرصہ سے ہزایکسیلنسی وائسرائے وزارتی مشن کے ارکان کے مشورہ سے ایک ایسی حکومت مشترکہ کی تشکیل کے امکانات تلاش کررہے تھے جو بڑی جماعتوں اور بعض اقلیتوں کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔ ایسی حکومت کی تشکیل میں دونوں بڑی جماعتوں کے باہمی سمجھوتہ میں جو دشواریاں تھیں وہ گفت و شنید میں ظاہر ہوئیں۔
۲۔ وائسرائے اور وزارتی مشن کو ان دشواریوں اور دقتوں کا احساس ہے اور ان کوششوں کا بھی اندازہ ہے جو دونوں جماعتوں نے ان کو حل کرنے کے واسطے کیں۔ وائسرائے اور مشن کا خیال ہے کہ اس بحث اور گفت و شنید کو طوالت دینے سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ یہ نہایت ضروری ہے ہے کہ ایک قومی اور نمائندہ عارضی حکومت بنا دی جائے تاکہ نہایت ضروری اور اہم کام کئے جاسکیں۔
۳۔ وائسرائے اس مقصد کے لئے حسب ذیل حضرات کے نام دعوت نامے جاری کررہے ہیں کہ وہ عارضی حکومت کے ارکان کی حیثیت سے کام کریں اور ۱۶۔ مئی ۱۹۴۶ء کے بیان کے مطابق آئین سازی کا کام شروع کر دیں۔
)۱( سردار بلدیو سنگھ )۲( سر این۔ پی انجینئر )۳( مسٹر جگجیون رام )۴( پنڈت نہرو )۵( مسٹر محمد علی جناح )۶( نواب زادہ لیاقت علی خاں )۷( مسٹر ایچ۔ کے مہتاب )۸( ڈاکٹر جان متھائی )۹( نواب محمد اسمٰعیل خاں )۱۰( خواجہ سر ناظم الدین )۱۱( سردار عبدالرب خاں نشتر )۱۲( مٹر سی راجگوپال اچاریہ )۱۳( ڈاکٹر راجندر پرشاد )۱۴( سردار ولبھ بھائی پٹیل(
اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص ذاتی وجوہ کی بناء پر اس دعوت کو قبول نہ کرسکیں تو وائسرائے مشورہ کے بعد ان کی جگہ کسی دوسرے شخص کو مدعو کریں گے۔
‏body2] ga[t۴۔ وائسرائے شعبوں کی تقسیم دونوں بڑی جماعتوں کے مشورہ سے کریں گے۔
۵۔ عارضی حکومت کی تشکیل کو کسی فرقہ وارانہ سوال کا حل نہ تصور کیا جائے۔ اس کا مقصد صرف موجودہ دشواری کو فوری حل کرنا اور بہترین مشترکہ حکومت بنانا ہے۔
۶۔ وائسرائے اور وزارتی مشن کو یقین ہے کہ ہندوستان کے تمام فرقے اس مسئلہ کو جلد از جلد طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دستور سازی کا کام شروع ہو جائے اور درمیانی عرصہ میں ہندوستان کی حکومت کا نظام حتی الامکان بہترین طریقہ سے چلتا رہے۔
۷۔ اس لئے انہیں امید ہے کہ تمام جماعتیں خصوصاً دونوں بڑی جماعتیں موجودہ جمود کو دور کرنے کے خیال سے ان تجاویز کو قبول کرلیں گی اور عارضی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلانے میں مدد کریں گی۔ اگر ان تجاویز کو قبول کرلیا گیا تو وائسرائے ۲۶۔ جون تک عارضی حکومت کا افتتاح کرنے کی کوشش کریں گے۔
۸۔ اس صورت میں کہ دونوں بڑی جماعتیں یا ان میں سے کوئی مندرجہ بالا سطور پر مشترکہ حکومت کی تشکیل میں تعاون اور اشتراک کے لئے تیار نہ ہوں تو وائسرائے کا ارادہ ہے کہ ان لوگوں کے اشتراک سے جو ۱۶۔ مئی کا بیان قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ایک عارضی حکومت بنائی جائے گی اور حتی الامکان اس میں نمائندگی کا لحاظ رکھا جائے گا۔
۹۔ وائسرائے صوبوں کے گورنروں کو بھی ہدایتیں جاری کررہے ہیں کہ صوبائی مجالس آئین ساز کے خاص اجلاس بلائے جائیں تاکہ ۱۶۔ مئی کے بیان کے مطابق دستور سازجماعت کے لئے ضروری انتخابات جاری کردیئے جائیں<۔۷۵
مسلم لیگ اور کانگرس کا ردعمل
مسلم لیگ کونسل قبل ازیں ۶۔ جون ۱۹۴۶ء کو فیصلہ کرچکی تھی کہ >مسلم لیگ معاملہ کے خطرناک سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے اور اگر ممکن ہو تو ہندوستانی دستوری مسئلہ کے پرامن حل کی خواہش سے متاثر ہوکر وزارتی مشن کی مجوزہ اسکیم سے اشتراک عمل پر تیار ہے کیونکہ مشن کے پلان میں چھ مسلم صوبوں کے سیکشن )ب( اور )ج( میں درج لازمی جتھہ بندی پاکستان کی بنیاد کے طور پر موجود ہے<۔۷۶
مسلم لیگ کے برعکس ۱۴۔ جون ۱۹۴۶ء کو صدر کانگرس نے وائسرائے کے نام ایک مکتوب میں یہ لکھا کہ کانگرس اگرچہ کابینہ وفد کی سفارشات کو قبول کرتی ہے لیکن وہ صرف دستور ساز اسمبلی میں شریک ہوگی۔ عبوری حکومت میں شریک نہیں ہوگی۔ کیونکہ نہ وہ مرکزی کابینہ میں ہندو مسلم مساوات تسلیم کرسکتی ہے نہ آسام اور بنگال کے یورپینوں کا حق رائے وہی مجلس دستور ساز اسمبلی میں قبول کرسکتی ہے۔ نیز مطالبہ کیا کہ دستور ساز اسمبلی کو شاہی اختیارات منتقل کر دیئے جائیں اور صوبوں کی جبری زمرہ بندی بھی اڑا دی جائے۔۷۷
اب جو وزارتی مشن کا اعلان ہوا اور وائسرائے نے مسلم لیگ اور کانگرس کو عبوری حکومت میں شرکت کی دعوت دی تو مسلم لیگ نے اپنی قرارداد کی روشنی میں عبوری حکومت میں شمولیت منظور کرلی مگر کانگرس نے یہ دعوت رد کردی۔ اس صورت میں وائسرائے ہند کو اپنے اعلان اور جمہوری اصولوں کے مطابق عبوری حکومت کی زمام اقتدار مسلم لیگ کو سونپ دینی چاہئے تھی۔ چنانچہ اس مرحلہ پر حضرت مصلح موعود نے بھی اپنے ایک بیان میں فرمایا کہ۔
>کانگرس نے گو مستقل انتظام کے متعلق وزارتی مشن کی سکیم منظور کرلی ہے لیکن عارضی گورنمنٹ کے متعلق تجویز مسترد کردی ہے۔ مشن نے اعلان کیا تھا کہ اگر عارضی حکومت کے متعلق کسی پارٹی نے ہماری تجاویز منظور نہ کیں تو پھر ہم حکومت قائم کردیں گے۔ اس اعلان کے مطابق اب اس کا فرض ہے کہ وہ کانگرس کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کے تعاون کے ساتھ عارضی حکومت قائم کردے<۔۷۸
حضور نے کانگرسی رویہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا۔
>مسلم لیگ نے اپنے بعض مطالبات چھوڑ دیئے ہیں اور یہ قابل تعریف بات ہے۔ لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ کانگرس نے سمجھوتے کی خاطر کونسا مطالبہ چھوڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اس موقعہ پر جو رویہ دکھایا ہے وہ یقیناً عقل اور سیاست کے اصول کے خلاف ہے<۔۷۹
الغرض کانگرس کا رویہ کسی طرح درست نہ تھا اور اس کے عارضی حکومت کی پیشکش کو رد کردینے کے بعد وائسرائے ہند لارڈویول کو اپنے اعلان کے مطابق مسلم لیگ کو عارضی حکومت کی دعوت دینی چاہئے تھی مگر انہوں نے نقض عہد کرکے دعوت واپس لے لی جس پر مسلم لیگ کونسل نے اپنے اجلاس بمبئی میں طور احتجاج اپنی پہلی قرار داد رضامندی بھی منسوخ کردی۔
عبوری حکومت کا قیام
اب )جیسا کہ چودھری سردار محمد خاں نے اپنی کتاب >حیات قائداعظم< میں بالصراحت لکھا ہے( بساط سیاست کا نقشہ بالکل دگرگوں تھا۔ لیگ کے فیصلہ نے کانگرس کے لئے راستہ صاف کر دیا تھا اور عبوری حکومت کی تشکیل میں وہ شرکت کی مستحق نہ رہی تھی۔ ان حالات میں جہاں تک آئینی نقطہ نظر کا تعلق تھا کانگریس ہی ایک ایسی پارٹی تھی جو وزارتی مشن کی پیش کردہ شرائط کے قریب پہنچ کر عارضی حکومت کی تشکیل کی دعویدار بن سکتی تھی۔ وائسرائے ہند نے جو اسی موقعہ کی تاک میں تھے کانگرس سے گٹھ جوڑ کرکے بالاخر صدر آل انڈیا کانگریس )پنڈت جواہر لال نہرو( کو عبوری حکومت کی تشکیل کی دعوت دے دی۸۰ جو پنڈت جی نے فوراً قبول کرلی اور اعلان پر اعلان کرنا شروع کردیا کہ جو ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا چاہے اسے ہم مجبور نہیں کرسکتے۔ اس کا انتظار نہیں کرسکتے۔ ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ہم برابر بڑھتے رہیں گے۔ ہم دستور سازی کا کام شروع کریں گے۔ ہم عبوری حکومت کو کامیابی سے تنہا چلا لیں گے اور پھر انہوں نے ۲۔ ستمبر ۱۹۴۶ء کو عبوری حکومت کا چارج بھی لے لیا۔
عبوری حکومت کی تشکیل سے کانگرس کی دلی آرزو برآئی تھی مگر مسلمانوں کے لئے اس کا وجود مسلمانوں کے قومی جسم میں خنجر پھونکنے کے مترادف تھا۔ ان کے ساتھ بدعہدی کی گئی` فریب کیا گیا اور انہیں یکسر نظر انداز کرکے ہندو اکثریت کو اقتدار کی باگ ڈور سپرد کردی گئی تھی۔ چنانچہ قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ۔
>آج کانگریس خوش ہے کہ اس کی دلی مراد پوری ہوگئی اور مسلم لیگ کو نظرانداز کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اگر برطانوی حکومت کانگریس کو نخوت و خود نمائی کو محرک کرکے خوش ہے اور اس سے سودا بازی کی متمنی ہے تو ہم بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں<۔۸۱
مسلمانان ہند کا ملک گیر احتجاج
مسلمانان ہند نے مسلم لیگ کے فیصلہ کے مطابق پورے ملک میں حکومت کی بدعہدی کے خلاف دوبارہ منظم احتجاج کیا۔ ۱۶۔ اگست کو یوم راست اقدام منایا اور یکم ستمبر کو )یعنی عبوری حکومت کے قیام سے ایک روز قبل >یوم سیاہ< منایا اور ساتھ ہی دفعتاً پہلے کلکتہ میں اور پھر بمبئی میں ہولناک فسادات پھوٹ پڑے۔
راست اقدام کا فیصلہ اور حضرت مصلح موعود کی ہدایت عام مسلمانوں کو
مسلم لیگ نے احتجاجی مظاہروں کے علاوہ حکومت کے خلاف ڈائریکٹ ایکشن کا بھی فیصلہ کرلیا تھا۔ سیدنا حضرت مصلح موعود نے اس
موقعہ پر قومی مفاد کے پیش نظر یہ ہدایت فرمائی کہ اس بارہ میں قیاس آرائیوں سے قطعی اجتناب کیا جائے ورنہ مسلم لیگ کی سکیم کو فیل کرنے کی تدابیر سوچی جائیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن کی کیا صورت ہوگی؟ اس کے متعلق لیگ کے فیصلہ سے قبل قیاس آرائی کرنے سے اجتناب کرنا چائے۔ کیونکہ اگر قبل از وقت ڈائریکٹ ایکشن پر بحث شروع کر دی جائے کہ اس طرح ہونا چاہئے اور اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو اس سے فریق مخالف فائدہ اٹھائے گا اور سکیم کو ناکام کرنے کی تدابیر سوچ لے گا۔ اسے معلوم ہو جائے گا کہ مدمقابل کے کون کون سے پہلو کمزور ہیں۔ اس کے برعکس اگر اس موقعہ پر خاموشی اختیار کی جائے اور ذمہ دار لوگوں کو موقع دیا جائے کہ وہ تمام نشیب و فراز کو سمجھ کر مناسب فیصلہ کریں تو اس سے فریق مخالف ہر وقت ڈرتا رہے گا کہ نہ جانے لیگ نے کیا قدم اٹھانا ہے۔ پس اس موقعہ پر ڈائریکٹ ایکشن کی تفصیل پر علی الاعلان بحث کرنا لیگ سے خیر خواہی نہیں بلکہ دشمنی ہے اور اس کے ہاتھ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہاں اگر کوئی مفید تجویز ذہن میں ہو تو ذمہ دار لیڈروں سے اپنے طور پر بیان کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن علی الاعلان بحث کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے<۔۸۲
حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کی جناب حمید نظامی سے اہم ملاقات
انہی ایام کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعود نے صوفی عبدالقدیر صاحب )سابق مبلغ جاپان( ایڈیٹر رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< کو ارشاد فرمایا کہ لاہور جاکر مکرم حمید نظامی صاحب ایڈیٹر
>نوائے وقت< سے فوری طور پر ملاقات کریں اور اس کے بعد دہلی روانہ ہو جائیں۔
اس ملاقات کی غرض و غایت کیا تھی` اس کی تفصیل محترم صوفی صاحب کی اپنی ایک غیر مطبوعہ انگریزی یادداشت میں ملتی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
>لاہور میں جس خاص امر کے متعلق میں نے جناب حمید نظامی صاحب سے ملاقات کرنی تھی۔ وہ یہ تھا کہ پشاور سے اسلحہ اور گولہ بارود خفیہ طور پر ایک ہندو سیاسی لیڈر کی کار میں لاہور اور امرتسر میں لایا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ذمہ یہ فرض تفویض کیا گیا تھا کہ میں مکرم نظامی صاحب کو بعض ایسی تجاویز اور مشورے پیش کروں جن سے اس قسم کے سامان کی آمد پر پابندی عائد ہو سکے اور اس کی روک تھام ہوسکے۔ ایک غرض یہ بھی تھی کہ لاہور میں مسلم لیگ کے ذمہ دار حلقوں کو اس عظیم خطرہ کا بروقت احساس ہوسکے جو سر پر منڈلا رہا تھا تاکہ اس سے محفوظ رہنے کے لئے جو بھی تیاری ممکن ہو وہ وقت پر کرلی جائے بلکہ مسلم لیگ ہائی کمان کو بھی اس سے باخبر اور آگاہ کر دیا جائے تاکہ وہ بھی ضروری اقدامات کرسکیں۔ کیونکہ یہ مہیب خطرہ اتنا قریب آچکا تھا کہ خود مسلم لیگی ہائی کمان کے بعض ممبروں کو بھی اس کی شدت کا پوری طرح احساس نہیں تھا۔
محترم نظامی صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ سوال و جواب کے چند ابتدائی مرحلوں ہی میں انہوں نے بھانپ لیا کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ حقیقت اور سچائی پر مبنی ہے۔ چنانچہ گفتگو اور ملاقات کے دوران ان کا رویہ ہمدردی اور شفقت سے بھرپور رہا۔ ہم نے جی کھول کر ان حالات کا تفصیلی جائزہ لیا کہ جن کے تحت انگریزی حکومت` ہندوستان کا انتظام اور اس کا اقتدار ہندوستان کی مرکزی حکومت کو سونپنے والی تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی زیر غور آیا کہ کیا کوئی ایسی صورت بھی ممکن ہے جس سے مسلم لیگ اور ملک خضر حیات خاں صاحب )یونینسٹ( کی حکومت کے درمیان کوئی مفاہمت پیدا ہوسکے۔ خود نظامی صاحب بھی اس قسم کی مفاہمت کو پسند کرتے تھے۔ مگر انہیں اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم میرا مقصد اس بارے میں کوئی آخری سمجھوتہ کرانا نہیں تھا بلکہ ان کے ذہن میں صرف یہ خیال پیدا کرنا تھا کہ وہ اس بارے میں مزید غور کریں اور جس حد تک ممکن ہو اس کو عملی جامہ
‏vat,10.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
پہنائیں۔ میں لاہور میں اپنے قیام کو طول دنیا نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ ان سے ملاقات کے بعد میں دہلی روانہ ہوگیا<۔
حضرت مصلح موعود کے قیمتی مشورے راست اقدام کمیٹی کے ارکان کو
مسلم لیگ کی راست اقدام کمیٹی کا اجلاس دہلی میں ہونے والا تھا۔ حضرت مصلح موعود کا منشاء مبارک صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کو دہلی
بھجوانے سے یہ بھی تھا کہ وہ اجلاس سے پہلے پہلے کمیٹی کے تمام ممبران سے فرداً فرداً ملاقاتیں کرکے انہیں خاص طور پر مندرجہ ذیل امور کے متعلق آگاہ کردیں۔
۱۔
اگر راست اقدام شروع کیا گیا اور خدانخواستہ اس کا مقصد پورا نہ ہوا یا اس کی عملی شکل میں نقائص رہ گئے تو اس کا اثر مسلم لیگ پر انتہائی برا ہوگا اور اس کی ساکھ اور عزت و تکریم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ لہذا راست اقدام کے پروگرام کی ہر شق کو انتہائی احتیاط سے ترتیب دینا ضروری ہے۔
۲۔
ہمیں فریق مخالف کی قوت کے متعلق کوئی غلط اندازہ نہیں لگانا چاہئے اور نہ اپنی صلاحیتوں کے متعلق کوئی مبالغہ آمیز رائے قائم کرنی چاہئے۔
۳۔
کوئی بھی کام عجلت میں نہیں ہونا چاہئے اور ان طاقتوں کا صحیح اور مکمل اندازہ ہونا چاہئے جو راست اقدام کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں کے خلاف حرکت میں آجائیں گی۔
۴۔
جب راست اقدام کا فیصلہ کرلیا جائے تو پھر پوری کوشش اور انتہائی سرگرمی اور استقلال کے ساتھ اس کے پروگرام پر پورا پورا عمل ہونا چاہئے تاکہ اس کی کامیابی یقینی ہو جائے اور ایک اندھا بھی اس کو دیکھ لے کہ جو کچھ کہا گیا تھا اس پر پوری طرح عمل کیا گیا ہے۔
۵۔
راست اقدام کے پروگرام میں کسی قسم کے تذبذب یا شش و پنج کی کیفیت نہیں ہونی چاہئے۔ ارادہ اٹل ہو۔ عزم پختہ ہو اور تخت یا تخت والا معاملہ ہو۔
جناب صوفی عبدالقدیر صاحب کا بیان ہے کہ میں نے دہلی میں جناب نوابزادہ لیاقت علی خاں صاحب سے ملاقات کی۔ ان کے حسن تدبیر` لیاقت اور معاملہ فہمی کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ جو اہم امور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوکر گوش گزار کرنا چاہتا تھا انہیں ان کی اہمیت کا پہلے ہی کافی احساس ہے اور مجھے یہ معلوم کرکے اور بھی مسرت ہوئی کہ محترم نواب صاحب حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود امام جماعت احمدیہ کی ان کوششوں کو بہ نظر استحسان دیکھتے تھے جو حضور مسلمانوں کی قومی مشکلات کو دور کرنے کے لئے شب و روز کررہے تھے۔ ان تمام باتوں نے میرے دل میں یہ احساس پیدا کیا کہ محترم جناب لیاقت علی خاں ایک زیرک انتہائی سمجھ دار اور نہایت ہی متوازن دل و دماغ کے آدمی ہیں جو وقت اور حالات کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ راست اقدام کے جن دوسرے ممبروں سے میری ملاقات ہوئی ان میں محترم خواجہ ناظم الدین صاحب` سردار عبدالرب صاحب نشتر اور نواب اسماعیل خاں صاحب میرٹھی مجھے خوب یاد ہیں۔۸۳
تیسرا باب )فصل پنجم(
حضرت مصلح موعود کا سفر دہلی اور مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں شامل کرانے کی کامیاب کوشش اور وزیراعظم اٹیلی کی طرف سے ۲۰۔ فروری ۱۹۴۷ء کو مکمل آزادی کا واضح اعلان
ملکی فضاء روز بروز پہلے سے زیادہ مکدر ہورہی تھی اور کلکتہ اور بمبئی کے فسادات کے اثرات ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلتے جارہے تھے اور دور رس نگاہ رکھنے والے مدبر دیکھ رہے تھے کہ یہ آگ بڑھتے بڑھتے سارے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس کی زد سے کوئی شہر` کوئی قریہ اور کوئی گائوں محفوظ نہیں رہے گا۔ اس ماحول میں مسلمانوں کی ہستی سب سے زیادہ خطرہ میں تھی کیونکہ اقتدار پر کانگرس کا قبضہ ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کی جیتی ہوئی جنگ بظاہر شکست میں بدلتی نظر آرہی تھی اور مسلم لیگ کے لئے آبرومندانہ طور پر عبوری حکومت میں داخلہ کے راستے مسدود ہوگئے تھے۔ سید رئیس احمد جعفری کے بقول مسلم لیگ نے اگرچہ حالات سے مجبور ہوکر جنگ کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن وہ صلح پر اب بھی تیار تھی۔ قائداعظم~رح~ نے ایک بیان میں فرمایا کہ ہم نے اگرچہ مجبور ہوکر جنگ کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن ہم صلح پر اب بھی تیار ہیں۔ کانگرس یا حکومت کی طرف سے پہل اور پیش قدمی ہونی چاہئے۔ اگر ہمارا جائز اور معقول مطالبہ مان لیا گیا تو ہم بلاتامل جنگ کے خیال سے دستبردار ہو جائیں گے اور صلح کرلیں گے۔ مگر صلح کی تحریک کسی طرف سے نہیں ہوئی بلکہ مسلم لیگ کے اعلان جنگ کا مذاق اڑایا گیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ محض گیدڑ بھبکی ہے۔ حکومت سے ٹکر لینا آسان نہیں۔ یہ عیش و عشرت کے خوگر لوگ جنگ نہیں لڑسکتے اور اگر لڑیں گے تو ہار جائیں گے۔ اس لئے کہ حکومت بھی ان کے مقابلہ کے لئے چوکس ہے اور وہ ڈٹ کر ان نئے سرکشوں اور باغیوں کا مقابلہ کرے گی۔۸۴
مایوسی اور ناامیدی کے اس تاریک ترین ماحول میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعود کو خبر دی کہ اس مشکل کا حل خدا نے آپ کے ساتھ بھی وابستہ کیا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ۲۲۔ ستمبر ۱۹۴۶ء۸۵ کی شب کو ملت اسلامیہ کی بے بسی کو دیکھتے اور خدا کے حضور دعائیں اور التجائیں کرتے ہوئے قادیان سے دلی تشریف لے گئے۔ اور تین ہفتوں تک دہلی میں قیام فرمایا۔ اس سفر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` حضرت خان صاحب مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب` چوہدری اسداللہ خاں صاحب اور چوہدری مظفر الدین صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے۔ علاوہ ازیں صوفی عبدالقدیر صاحب بی۔ اے پہلے ہی دہلی میں سرگرم عمل تھے اور اس سلسلہ میں علی گڑھ جاکر نواب صاحب چھتاری سے ملاقات بھی کرچکے تھے۔
حضرت مصلح موعود نے دہلی پہنچتے ہی ملک کے مشہور سیاسی لیڈروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ چنانچہ ۲۴۔ ستمبر کو قائداعظم محمد علی جناح~رح~ سے اور ۲۷۔ ستمبر کو مسٹر گاندھی سے ملاقات کی اور ملک کی سیاسی صورت حالات کے متعلق گفتگو فرمائی۔۸۶ قائداعظم سے ملاقات کا وقت حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز نے طے کیا۔ یہ ملاقات نہایت مخلصانہ اور دوستانہ ماحول میں اور پرتپاک طریق پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی۔۸۷ جس کی خبر اورینٹ پریس کی طرف سے اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔ ۳۔ اکتوبر کو آپ نے مولانا ابوالکلام صاحب آزاد سے تبادلہ خیالات فرمایا۔۸۸ ازاں بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چانسلر و چیمبر آف پرنسز سے ہوئی۸۹ جنہوں نے قیام دہلی کے دوران مسلم لیگ اور کانگرس سے رابطہ قائم کرنے اور اس کے لیڈروں کے درمیان مفاہمت کرانے میں حضور کی بالواسطہ نمائندگی اور سفارت کا حق ادا کردیا۔ انہی دنوں ایک دعوت کے موقعہ پر خواجہ ناظم الدین آف بنگال اور سردار عبدالرب صاحب نشتر آف سرحد سے بھی حضور کی گفتگو ہوئی۔ ان ملاقاتوں کے بعد حضور نے مولانا ابوالکلام آزاد سے دوبارہ ملاقات کرنے کے علاوہ سرفیروز خاں نون سابق ڈیفنس ممبر گورنمنٹ آف انڈیا اور نواب سر احمد سعید خاں چھتاری سابق گورنر یو۔ پی۹۰ اور ۱۰۔ اکتوبر کو پنڈت جواہر لال نہرو سے گفت و شنید کی۔۹۱]4 [rtf پریس کے نمائندوں میں سے چیف رپورٹر اخبار >ڈان`< ڈائریکٹر اورینٹ پریس اور سری کرشن صاحب نمائندہ >اندرا پترا< بھی حضور سے ملے۔ بعض سیاسی لیڈروں سے ملاقات کے لئے حضور نے اپنے خصوصی نمائندے بھی بھجوائے۔ چنانچہ حضور کی طرف سے چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے نے جناب نوابزادہ لیاقت علی خاں صاحب` سر سلطان احمد صاحب` نواب چھتاری صاحب اور سرفیروز خاں صاحب نون سے ملاقات کی۔ اسی طرح صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز نے امریکن اور انگریزی پریس کے نمائندوں میں سے کرنل برٹر )نمائندہ >لنڈن ٹائمز(< ریلف ازرڈ )نمائندہ >ڈیلی میل(< اور >کرسچن سائنس مانیٹر< کی ایک نامہ نگار خاتون سے ملاقات کرکے ان پر مسلمانان ہند کا نقطہ نظر واضح کیا۔۹۲
اس موقعہ پر حضرت سیدنا المصلح الموعود کی اگرچہ وائسرائے ہند لارڈ ویول سے بالمشافہ گفتگو نہیں ہوئی مگر حضور نے خط و کتابت کے ذریعہ سے ان کے ساتھ مضبوط رابطہ قائم کرلیا۔ چنانچہ حضور نے ۵۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو پہلی چٹھی ان کے نام یہ بھجوائی کہ گو جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہونے کی وجہ سے من حیث الجماعت لیگ میں شامل نہیں مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام تر مسلم لیگ کے ساتھ ہے۔ دوسری چٹھی میں وائسرائے ہند پر واضح فرمایا کہ اگر خدانخواستہ موجودہ گفت و شنید ناکام ہوتی نظر آئے تو مایوس ہوکر اسے ناکام قرار دینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دی جائے تا اس عرصہ میں مسلم لیگی اور کانگرسی لیڈر بھی مزید غور کرسکیں اور پبلک خصوصاً آزاد پبلک کو بھی اپنا اثر ڈالنے کا موقع مل سکے۔ مگر اس صورت میں ضروری ہوگا کہ جس نکتہ پر ناکامی ہورہی ہو اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کیا جائے۔ اس مضمون کی وضاحت کے لئے حضرت کی طرف سے مولانا عبدالرحیم صاحب درد نے وائسرائے ہند کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بھی ملاقات کی۔۹۳
حضور نے وائسرائے ہند کے نام تیسری چٹھی اس مرحلہ پر لکھی جبکہ ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کی شام کو لیگ اور کانگرس کی گفت و شنید بہت نازک صورت اختیار کرگئی اور مفاہمت کی کوشش کے ناکام ہونے کا سخت خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس پر حضرت مصلح موعود نے اگلے روز ایک طرف تو جمعہ کے خطبہ۹۴ میں جماعت کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی اور دوسرے وائسرائے ہند کو توجہ دلائی کہ اگر ہزہائی نس نواب صاحب بھوپال کی نیک مساعی کانگرس سے براہ راست سمجھوتہ کے متعلق کامیاب نہیں ہوسکیں تو اس پر مایوس ہوکر اصلاح احوال کی کوشش ترک نہیں کردینا چاہئے بلکہ انہیں چاہئے کہ وہ حسب سابق اس معاملہ کو پھر اپنے ہاتھ میں لے لیں تاکہ کوشش کا سلسلہ جاری رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کامیابی کا دروازہ کھول دے۔
حضرت مصلح موعود کی یہ روحانی اور مادی تدابیر بالاخر کامیاب ہوگئیں اور وائسرائے ہند نے اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۹۵]ybod [tag اور مسلم لیگ ہائی کمان نے نہایت درجہ فہم و فراست اور حیرت انگیز معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے کانگرس سے سمجھوتہ کئے بغیر اور باقی سوالات کو کھلا رکھتے ہوئے عبوری حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا اور ۱۳۔ اکتوبر کو اس کی اطلاع وائسرائے ہند تک بھی پہنچا دی۔ چنانچہ پنڈت نہرو نے ۱۳۔ اکتوبر کو قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ۔
>وائسرائے نے مجھے مطلع کردیا ہے کہ مسلم لیگ نے اپنی طرف سے پانچ ارکان عارضی حکومت میں نامزد کرنا قبول کرلیا ہے<۔۹۶
یہ فیصلہ انتہائی غیر موافق اور غیر متوقع حالات میں ہوا۔ اور اس نے کانگرس کے حلقوں میں کھلبلی مچا دی۔ اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے مسلم لیگ کے خصوصی ترجمان >نوائے وقت< کے دو اقتباس ملاحظہ ہوں۔ اخبار >نوائے وقت< نے اپنے ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کے اداریہ میں دہلی کے سیاسی مذاکرات کو بے نتیجہ قرار دیتے ہوئے لکھا۔
>دہلی کی کانفرنس بلکہ کانفرنسوں کا بھی وہی حشر نظر آتا ہے جو شملہ کانفرنس ۴۵ء اور شملہ کانفرنس ۴۶ء کا ہوا۔ آج ایسوسی ایٹڈ پریس کی اطلاع تو یہ ہے کہ نواب بھوپال کی کوششیں ناکام رہیں۔ ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی مگر ہمارا اپنا قیاس یہی ہے کہ یہ خبر درست ہوگی۔ دونوں شملہ کانفرنسوں میں بارہا ایسے مراحل آئے جب اچھے اچھے باخبر اور فہمیدہ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ بس اب سمجھوتہ کے مشترکہ اعلان پر دستخط ہونے رہ گئے ہیں اور وہ صبح تک ہو جائیں گے۔ باقی ساری بات پکی ہوچکی ہے۔ مگر صبح معلوم ہوا کہ ہنوز روز اول ہے اور ابھی مبادیات کا فیصلہ بھی نہیں ہوا<۔
لیکن اسی >نوائے وقت< میں اس کے سیاسی نامہ نگار کے حوالہ سے یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ۔
>مسلم لیگ اور کانگرس کی گفتگوئے مصالحت کی ناکامی کے بعد سیاسی حالات نے یک لخت حیرت انگیز پلٹا کھایا ہے۔ اور اس گفتگو کی ناکامی کے باوجود لیگ کی مرکزی حکومت میں شرکت یقینی خیال کی جارہی ہے۔ باخبر حلقوں کی رائے یہ ہے کہ لیگ نئی حکومت میں اپنے پانچ نمائندے بھیج دے گی اور اندر جاکر اس حکومت کو تباہ کردے گی۔ لیگ کی عارضی حکومت میں شرکت پر آمادگی کے فوراً بعد حکومت ازسرنو مرتب کی جائے گی۔ لیگ کو اب اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا کہ کانگرس اپنے کوٹا میں سے کوئی مسلمان نامزد کرتی ہے یا نہیں۔ لیگ ہر قدم پر مزاحمت کی نیت سے حکومت میں شامل ہورہی ہے۔ کانگرسی حلقوں کے لئے یہ صورت حال بالکل غیر متوقع ہے اور آج بھنگی کالونی۹۷ میں کچھ سراسیمگی سی نظر آتی ہے۔ بعض کانگرسی لیڈروں نے کھلم کھلا یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر لیگ اس طرح کانگرس سے سمجھوتہ کئے بغیر ہی حکومت میں شامل ہوگئی تو ہمارے سب کئے دھرے پر پانی پھر جائے گا<۔۹۸
الغرض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کی مساعی جمیلہ اور دعائوں کی برکت سے مسلم لیگ فاتحانہ شان کے ساتھ عبوری حکومت میں شامل ہوگئی اور حضور ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو دہلی سے روانہ ہوکر اگلے روز گیارہ بجے کے قریب قادیان دارالامان واپس تشریف لے آئے۔۹۹
حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے سفر دہلی کی تفصیل
سفر دہلی کے نہایت مختصر سے کوائف پر روشنی ڈالنے کے بعد اب اس کی تفصیل حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے درج کی جاتی ہے۔ حضور نے ۱۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو فرمایا۔
>میں نے دہلی کا سفر کیوں کیا۔ اس کی وجہ درحقیقت وہ خوابیں تھیں جو >الفضل< میں چھپ چکی ہیں۔ ان خوابوں سے مجھے معلوم ہوا کہ اس مسئلہ کے حل کو اللہ تعالیٰ نے کچھ میرے ساتھ بھی وابستہ کیا ہوا ہے۔ تب میں نے اس خیال سے کہ جب میرے ساتھ بھی اس کا کچھ تعلق ہے تو مجھے سوچنا چاہئے کہ میں کس رنگ میں کام کرسکتا ہوں۔ اس مسئلہ پر غور کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ممکن ہے برطانوی حکومت اس غلطی میں مبتلا ہوکہ اگر مسلم لیگ کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو مسلمان قوم بحیثیت مجموعی ہمارے خلاف نہیں ہوگی بلکہ ایسے مسلمان جو لیگ میں شامل نہیں اور ایسی جماعتیں جو لیگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں ان کو ملا کر وہ ایک منظم حکومت ہندوستان میں قائم کرسکے گی۔ اس خیال کے آنے پر میں نے مزید سوچا اور فیصلہ کیا کہ ایسے لوگ جو لیگ میں شامل نہیں یا ایسے لوگ جنہیں تعصب کی وجہ سے لیگ والے اپنے اندر شامل کرنا پسند نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کو چاہئے کہ آپس میں مل جائیں اور مل کر گورنمنٹ پر یہ واضح کردیں کہ خواہ ہم لیگ میں نہیں لیکن اگر لیگ کے ساتھ حکومت کا ٹکرائو ہوا تو ہم اس کو مسلمان قوم کے ساتھ ٹکرائو سمجھیں گے اور جو جنگ ہوگی اس میں ہم بھی لیگ کے ساتھ شامل ہوں گے۔ یہ سوچ کر میں نے چاہا کہ ایسے لوگ جو اثر رکھنے والے ہوں خواہ اپنی ذاتی حیثیت کی وجہ سے اور خواہ قومی حیثیت کی وجہ سے ان کو جمع کیا جائے۔ دوسرے میں نے مناسب سمجھا کہ کانگرس پر بھی اس حقیقت کو واضح کر دیا جائے کہ وہ اس غلطی میں مبتلا نہ رہے کہ مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر وہ ہندوستان پر حکومت کرسکے گی۔ اسی طرح نیشنلسٹ خیالات رکھنے والوں پر بھی یہ واضح کر دیا جائے کہ وہ کانگرس کے ایسے حصوں کے سنبھال کر رکھیں اور ان کے جوشوں کو دبائیں جن کا یہ خیال ہو کہ وہ مسلمانوں کو دبا کر یا ان کو آپس میں پھاڑ پھاڑ کر حکومت کرسکتے ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے ایک تار نواب صاحب چھتاری کو دیا۔ وہ بھی لیگ میں شامل نہیں لیکن مسلمانوں میں بہت رسوخ رکھنے والے آدمی ہیں۔ یو۔ پی کے گورنر رہ چکے ہیں اور اب حکومت آصفیہ کے وزیراعظم کے عہدہ سے واپس آئے ہیں۔ اس تار کا جواب آنے پر میں نے انہیں لکھا کہ میرا اب ایسا ایسا ارادہ ہے` کیا آپ اس میں شریک ہوسکتے ہیں۔
دوسرا تار میں نے کانگرس سے میل جول کے لئے مسز نائیڈو کو دیا۔ مسز نائیڈو میری پرانی واقف ہیں اور وہ ہمیشہ کہا کرتی ہیں کہ میرے دل میں مسلمانوں کا بہت درد ہے اور میں ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ مگر افسوس کہ انہوں نے تار کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر دوبارہ تار دیا گیا تو اس کا بھی جواب نہ دیا جس کے معنی یہ تھے کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونا پسند نہیں کرتیں۔ جب یہ باتیں ہوچکیں تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے جلدی قادیان پہنچنا چاہئے اور اس سکیم کے متعلق مزید کارروائی کرنی چاہئے۔ یہاں پہنچ کر جب میں نے غور کیا تو میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ خواب میں میں نے دیکھا ہے کہ صلح اور سمجھوتہ کرانے کے لئے میں بیچ میں ہوں بیچ میں ہونے کے یہی معنے نہیں ہوتے کہ ضرور کوئی شخص بیچ میں ہو۔ بلکہ یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کا ان باتوں سے کوئی اشتراک اور تعلق ہے۔ اس پر میں نے سوچا کہ چونکہ دلی میں فیصلے ہورہے ہیں۔ مجھے بھی دلی چلنا چاہئے۔ دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہوگا کہ دلی میں ہمیں تازہ بتازہ خبریں ملتی رہیں گی اور اگر حالات بگڑتے معلوم ہوئے تو ہم فوراً دعا کرسکیں گے۔ قادیان میں تو ممکن ہے ہمیں ایسے وقت میں خبر ملے جب واقعات گزر چکے ہوں اور دعا کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو کیونکہ دعا ماضی کے لئے نہیں ہوتی۔ مستقبل کے لئے ہوتی ہے۔ نیز مجھے یہ بھی خیال آیا کہ بعض اور بارسوخ لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنا چاہئے۔ جیسے سرآغا خاں ہیں۔ گو سرآغا خاں ہندوستان میں نہیں تھے مگر میں نے سمجھا کہ چونکہ ان کی جماعت بھی مسلمان کہلاتی ہے` اگر ان کو بھی شریک ہونے کا موقعہ مل جائے تو گورنمنٹ پر یہ امر واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کی ایک اور جماعت بھی ایسی ہے جو اس بارہ میں مسلم لیگ کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ چنانچہ لنڈن مشنری کی معرفت میں نے سرآغا خاں کو بھی تار بھجوا دیا۔ اس دوران میں میں نے قادیان سے اپنے بعض نمائندے اس غرض کے لئے بھجوائے کہ وہ نواب صاحب چھتاری سے تفصیلی گفتگو کرلیں اور انہیں ہدایت کی کہ وہ لیگ کے نمائندوں سے بھی ملیں اور ان پر یہ امر واضح کردیں کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ لیگ کے مقاصد کے خلاف کوئی کام کریں۔ اگر یہ تحریک لیگ کے مخالف ہو تو ہمیں بتا دیا جائے ہم اس کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور اگر مخالف نہ ہو تو ہم شروع کردیں۔ اس پر لیگ کے بعض نمائندوں نے تسلیم کیا کہ یہ تحریک ہمارے لئے مفید ہوگی` بالکل باموقعہ ہوگی اور ہم یہ سمجھیں گے کہ اس ذریعہ سے ہماری مدد کی گئی ہے` ہمارے رستہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے۔ چنانچہ میں دلی پہنچ گیا۔ وہاں جو کچھ کام ہوا۔ اس کی تفصیلات میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا۔
میرا خیال ہے کہ میں ایک کتاب >سفر دہلی< پر لکھوں کیونکہ بہت سی باتیں ہیں جو اس سفر کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آئندہ کام کے رستے کھولنے والی ہیں۔ سردست میں صرف اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں دلی گیا تو سر آغا خاں کی طرف سے بھی جواب آگیا۔ اور وہاں بعض اور لیڈروں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جیسے سر سلطان احمد ہیں۔
مسلمانوں میں سے صرف ایک صاحب نے جواب نہیں دیا۔ حالانکہ ان کو دو دفعہ تار دیا گیا تھا اور وہ سر محمد عثمان ہیں۔ ان کے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ تعلقات ہیں اور مجھ سے ملنے کا بھی موقعہ ہوا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وہم میں مبتلا رہے ہوں کہ ہمارا کام کہیں لیگ کے لئے مضر نہ ہو۔ لیکن ہم نے لیگ کے نمائندوں سے پہلے مشورہ کرلیا تھا اور ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہماری یہ کوششیں ان کے نزدیک مضر ہوں تو ہم ان کے ترک کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بہرحال جیسا کہ ظاہر ہے ہم نہ لیگ میں شامل تھے نہ کانگرس میں۔ نہ لیگ نے ہمیں اپنا نمائندہ بنایا تھا نہ کانگرس نے۔ اس لئے یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ انہیں کی طرح باقاعدہ ہم بھی مشورہ کی مجالس میں شامل ہوتے۔ ہماری جماعت کے بعض ناواقف دوستوں نے لکھا ہے کہ وائسرائے` پنڈت جواہر لال نہرو` مسٹر جناح کے مشوروں کا ذکر تو اخباروں میں آتا ہے` آپ کا کیوں نہیں آتا۔ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ وہ تو ان سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہیں جنہوں نے باہمی فیصلہ کرنا تھا۔ اور ہم کسی سیاسی جماعت کے نمائندہ نہیں تھے بلکہ ہم اپنا اثر ڈال کر انہیں نیک راہ بتانے کے لئے گئے تھے۔ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی نہ ہمارا کام تھا اور نہ گورنمنٹ یا کوئی اور اس رنگ میں ہمیں بلا سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جو کوشش صلح کے لئے ہوسکتی تھی وہ میں نے کی اور اسی سلسلہ میں میں مسٹر گاندھی سے بھی ملا۔ میرا منشاء تھا کہ میں ان سے تفصیل سے بات کروں گا اور انہیں بتائوں گا کہ آپس کا تفرقہ ٹھیک نہیں۔ ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ کچھ وہ چھوڑ دیں اور کچھ لیگ چھوڑ دے تاکہ ملک کی بدامنی خطرناک رنگ اختیار نہ کرلے۔ میں نے ان سے کہا کہ لڑتے آپ ہیں لیکن آپ لوگوں کی جان پر اس کا وبال نہیں بلکہ ان ہزاروں ہزار لوگوں پر ہے جو قصبوں میں رہتے ہیں یا دیہات میں رہتے ہیں اور تہذیب اور شائستگی کو نہیں سمجھتے وہ ایک دوسرے کو ماریں گے` ایک دوسرے کو لوٹیں گے اور ایک دوسرے کے گھروں کو جلا دیں گے )جیسے جھگڑا لیگ اور کانگرس کا تھا لیکن مسجد اور لائبریری ڈھاکہ میں ہماری جماعت کی جلا دی گئی حالانکہ نہ ہم لڑے اور نہ ہم بدامنی پیدا کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ مگر وہاں کے ہندوئوں نے ہماری مسجد اور ہماری لائبریری کو جلا کر یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے بڑا تیر مارا ہے اور یہ خیال کرلیا کہ انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لے لیا ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جب اس قسم کے اختلافات پیدا ہو جائیں تو انسانی عقل ماری جاتی ہے اور سیاہ اور سفید میں فرق کرنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے(
غرض گاندھی جی پر میں نے یہ بات واضح کی اور انہیں کہا کہ آپ کو اس بارہ میں کچھ کرنا چاہئے اور صلح کی کوشش کرنی چاہئے۔ گاندھی جی نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں میں نہیں کرسکتا۔ میں تو صرف گاندھی ہوں۔ یعنی میں تو صرف ایک فرد ہوں اور آپ ایک جماعت کے لیڈر ہیں۔ میں نے کہا میں تو صرف پانچ سات لاکھ کا لیڈر ہوں اور ہندوستان میں پانچ سات لاکھ آدمی کیا کرسکتا ہے۔ مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ جو کچھ کرسکتے ہیں آپ ہی کرسکتے ہیں میں نہیں کرسکتا۔ جب میں نے دیکھا کہ گاندھی جی اس طرف نہیں آتے تو میں نے اس بات کو چھوڑ دیا اور پھر میں انہیں دوسری نصیحتیں کرتا رہا جن کی خدا نے مجھے اس وقت توفیق عطا فرمائی۔ میں اس موقعہ پر صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جاتی ہے۔ جب رسول کریم~صل۱~ کے بعد عرب اور ایران میں لڑائی چھڑی تو اس وقت ایران کے بادشاہ نے اپنے بعض رئوساء سے کہا کہ عرب ایک چھوٹا سا غیر آباد جزیرہ ہے اور وہاں کے باشندے متفرق اقوام میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کس طرح ہمارے ملک پر حملہ کرکے چڑھ آئے ہیں۔ لوگوں نے کہا۔ اس قوم میں نئی بیداری پیدا ہوئی ہے اور اس وجہ سے اس میں جوش پایا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ ان لوگوں کو کچھ دے دلا کر واپس کر دینا چاہئے۔ چنانچہ اس نے اسلامی جرنیل کو لکھا کہ تم ایک وفد ہمارے پاس بھیج دو ہم اس سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے رسول کریم~صل۱~ کے ایک صحابی اور بعض دوسرے آدمیوں پر مشتمل ایک وفد بناکر شاہ ایران کے دربار میں بھجوا دیا۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا شورش برپا کررکھی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کچھ روپیہ لے لو اور واپس چلے جائو۔ انہوں نے کہا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم روپیہ لے کر واپس چلے جائیں۔ اس کی حماقت دیکھو جو قوم اس کے ملک پر چڑھ کر آئی تھی اس قوم کے متعلق اس نے یہ فیصلہ کیا کہ دو دو اشرفیاں سپاہیوں کو اور دس دس اشرفیاں افسروں کو دے کر رخصت کر دیا جائے۔ گویا لالچ بھی دی تو اتنی چھوٹی اور حقیر کہ چوہڑے بھی اس کو قبول نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیا لغو بات ہے کہ تم نے خود لڑائی چھیڑی ہے ہم نے نہیں چھیڑی۔ اب اس کا فیصلہ میدان میں ہی ہوگا اور ہم جانتے ہیں کہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے ایک شخص سے کہا۔ ایک تھیلی میں مٹی بھر کرلائو۔ جب وہ مٹی بھر کر لایا تو اس نے اسے حکم دیا کہ یہ مٹی کا بورا اس مسلمان افسر کے سر پر رکھ دو۔ اس صحابیؓ نے جب یہ دیکھا تو اس نے نہایت خاموشی سے اپنا سر جھکایا اور مٹی کا بورا اپنے سر پر اٹھا لیا۔ بادشاہ نے اسے کہا۔ اب جائو۔ اس کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا۔ گویا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں۔ کھیہہ کھائو )اردو میں یوں کہہ لو کہ تمہارے سر پر خاک( ویسا ہی اس بادشاہ نے کہا اور مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر لادتے ہوئے کہا۔ جائو اس کے سوا تمہیں اور کچھ نہیں مل سکتا۔ ایسے موقعہ پر اللہ تعالیٰ مومن کو بھی اپنے فضل سے ایک نور اور روشنی بخش دیتا ہے۔ جب اس نے مٹی کا بورا مسلمان افسر کے سر پر رکھوایا تو انہوں نے فوراً اس کو نیک تفاول پر محمول کرتے ہوئے اٹھالیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے دربار سے نکل بھاگے کہ آجائو` ایران کے بادشاہ نے خود اپنے ہاتھ سے ایران کی زمین ہمیں سونپ دی ہے۔ مشرک بزدل بھی بڑا ہوتا ہے۔ جب انہوں نے بلند آواز سے یہ فقرہ کہا تو اس نے گھبرا کر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا۔ اس نے کہا ہے کسریٰ نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کردی ہے یہ سن کر بادشاہ گھبرا گیا اور اس نے کہا۔ جلدی جائو اور اس شخص کو پکڑ کر حاضر کرو۔ مگر اتنے میں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہوکر کہیں کے کہیں جاچکے تھے۔ گاندھی جی نے بھی کہا کہ میں تو کچھ نہیں کرسکتا جو کچھ کرسکتے ہیں آپ ہی کرسکتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کردیا اور میرے وہاں ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے کا تصفیہ ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تصفیہ میں نے کیا۔ گو کوششیں ہم برابر کررہے تھے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پہلے چار پانچ دفعہ صلح کی کوشش ہوچکی تھی۔ گورنمنٹ نے بھی زور لگایا۔ مگر اس معاملہ کا کوئی تصفیہ نہ ہوا۔ آخر میرے وہاں ہونے اور دعائیں کرنے سے نہ معلوم کون سے دلوں کی کنجیاں کھول دی گئیں کہ میرے وہاں جانے سے وہ کام جو پہلے بار بار کی کوششوں کے باوجود نہیں ہوا تھا` ہوگیا اور گاندھی جی کا یہ فقرہ درست ثابت ہوا کہ میں تو یہ کام نہیں کرسکتا تھا آپ ہی کرسکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس نقطہ پر لڑائی تھی گاندھی جی نے اسے تسلیم کرلیا تھا اور بالکل ممکن تھا کہ اگر گاندھی جی کی بات مانی جاتی تو آپس میں صلح ہو جاتی۔ چنانچہ جب گاندھی جی سے نواب صاحب بھوپال نے ملاقات کی اور یہ فارمولا پیش کیا کہ لیگ کو مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جائے گا تو گاندھی جی نے اس کو تسلیم کرلیا اور اس پر دستخط بھی کر دیئے۔ لیکن جب دستخط ہوچکے تو پنڈت نہرو صاحب نے کہہ دیا کہ ہم گاندھی جی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس طرح وہ بات جو گاندھی جی نے کہی تھی پوری ہوگئی کہ میں تو صرف گاندھی ہوں۔ میری بات کون مانتا ہے۔ چنانچہ پنڈت نہرو صاحب نے یہی کہا کہ اس معاملہ میں گاندھی جی سے ہمارا کیا تعلق۔ یہ گاندھی جی کا اپنا فیصلہ ہے` ہمارا فیصلہ نہیں۔ میرے نزدیک گاندھی جی نے محض بات کو ٹلانے کی کوشش کی تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ میں اس تحریک میں حصہ لینا ضروری نہیں سمجھتا۔ حالانکہ میں وہاں محض ہندوئوں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے گیا تھا۔ ورنہ وزارتوں میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ کانسٹی ٹیوٹ اسمبلی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ پس میں وہاں اپنے لئے نہیں گیا تھا۔ بلکہ اس لئے گیا تھا کہ وہ ہزاروں ہزار ہندو جو مختلف علاقوں میں مارا جارہا ہے` ان کی جان بچ جائے۔ وہ ہزاروں ہزار مسلمان جو مختلف علاقوں میں مارا جارہا ہے` ان کی جان بچ جائے۔ نہ وہ میرے رشتہ دار ہیں نہ واقف ہیں نہ دوست ہیں۔ کوئی بھی تو ان کا میرے ساتھ تعلق نہیں سوائے اس تعلق کے کہ میرے پیدا کرنے والے خدا نے ان کو بھی پیدا کیا ہے۔ اور میرا فرض ہے کہ میں ان کی جانوں کی حفاظت کروں۔ صرف اس دکھ اور درد کی وجہ سے میں نے ان کوششوں میں حصہ لیا۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ گاندھی جی نے میرے اخلاص کی قدر نہ کی اور انہوں نے کہہ دیا کہ میری بات کون مانتا ہے` میں تو صرف گاندھی ہوں۔ انہوں نے یہ فقرہ محض ٹالنے کے لئے کہا تھا۔ مگر خدا تعالیٰ نے واقع میں ایسا کر دکھایا اور پنڈت نہرو صاحب نے گفتگو کرنے والوں سے صاف کہہ دیا کہ یہ ہمارا فیصلہ نہیں۔ گاندھی جی کا فیصلہ ہے اور ہم گاندھی جی کا یہ فیصلہ ماننے کو تیار نہیں۔
جب حالات یہ رنگ اختیار کر گئے تو مسٹر جناح نے نہایت ہوشیاری اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے وائسرائے کو لکھ دیا کہ کانگرس سے تو ہمارا فیصلہ نہیں ہوسکا لیکن ہم آپ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کام بھی ہوگا اور بات بھی بن گئی اور مسٹر گاندھی اس معاملہ میں خالی گاندھی بن کر رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہماری غرض بھی پوری کردی۔ خدا تعالیٰ کی قدرت کہ ہمارا دہلی سے جمعہ کو چلنے کا ارادہ تھا اور ہم سیٹیں بھی بک کراچکے تھے۔ مگر بدھ کے دن ہمیں معلوم ہوا کہ مصالحت کی گفتگو میں خرابی پیدا ہورہی ہے۔ چونکہ ہمارے تعلقات تمام لوگوں کے ساتھ تھے۔ اس لئے قبل از وقت ہمیں حالات کا علم ہو جاتا تھا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ کام بگڑ رہا ہے۔ تو میں نے پھر دوستوں کو بلایا اور ان سے مشورہ لیا اور انہیں کہا کہ ہم اتنی مدت یہاں رہے ہیں۔ اب ہمیں پیر تک اور ٹھہرنا چاہئے۔ پہلے تو اتوار تک ٹھہرنے کا ارادہ تھا لیکن معلوم ہوا کہ اتوار کو گاڑی ریزرو نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہم نے پیر کے دن چلنے کا فیصلہ کیا اور عین پیر کے دن صبح کے وقت فیصلہ ہوگیا اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس جھگڑے کو نپٹا کر اپنے گھر واپس آئے۔
اس سفر میں یہ ایک نہایت ہی خوشی کی بات مجھے معلوم ہوئی ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے تفرقہ اور نکمے پن کی وجہ سے مشہور ہیں ان میں بھی اب اخلاص اور بیداری پیدا ہوچکی ہے اور وہ اپنے فرائض کو سمجھنے لگ گئے ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب چھتاری` سر آغا خاں او رسر سلطان احمد نے نہایت بے نفسی کے ساتھ اس موقعہ پر کام کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر ان کی بے نفسی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا حال پبلک کو معلوم ہو جائے تو وہ ان کی قدر کئے بغیر نہ رہے پھر سب سے زیادہ کام نواب صاحب بھوپال نے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلامی تعلیم کی رو سے سب انسان برابر ہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کی دیر سے عزتیں قائم ہوچکی ہیں وہ معمولی کام کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ لیکن نواب صاحب نے باوجود ایک مقتدر ریاست کا نواب ہونے کے جو ادنیٰ سے ادنیٰ کام بھی ان کو کرنا پڑا انہوں نے کیا۔ یہاں تک کہ منتیں بھی کیں۔ وہ گاندھی جی کے پاس گئے اور بھنگی کالونی میں ان سے ملاقات کی۔ پہلی ملاقات بے شک بڑودہ ہائوس میں ہوئی تھی اور نواب صاحب کے مشیر نے کہا تھا کہ ہم یہ پسند نہیں کرسکتے کہ نواب صاحب بھنگی کالونی میں جائیں۔ لیکن بعد میں انہوں نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ صرف بڑودہ ہائوس میں ملاقات ہو بلکہ خود ان کے گھروں پر گئے اور رات اور دن کوشش کی کہ کسی طرح صلح ہو جائے۔ یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب مسلمانوں میں بھی قربانی اور بیداری کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ خواہ دنیا کی نگاہ سے نواب صاحب بھوپال` نواب صاحب چھتاری` سر سلطان احمد اور سر آغا خاں کی قربانی اوجھل رہے مگر الل¶ہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور تمام رازوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے یقیناً ان لوگوں کے ایثار اور ان کی قربانی کو دیکھا ہے اور خدا کی درگاہ سے یہ لوگ بدلہ لئے بغیر نہیں رہیں گے کیونکہ خدا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ مضمون تو اور بھی بیان کرنا تھا۔ مگر چونکہ وقت زیادہ ہوگیا ہے اس لئے اسی پر ختم کرتا ہوں<۔۱۰۰
مسلم لیگ نے پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی
تحریک پاکستان کے اعتبار سے مسلم لیگ کا عبوری حکومت میں شمولیت اختیار کرنا ۴۶۔ ۱۹۴۵ء کے انتخابات کے بعد سب سے بڑا معرکہ ہے کیونکہ مسلم لیگ نے اس کے نتیجہ میں صرف سوا چار ماہ کے اندر اندر پاکستان کی آئینی جنگ جیت لی اور کانگرس کا یہ دیرینہ خواب کہ وہ مسلم لیگ کو نظر انداز کرکے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر تنہا ملک کے نظام حکومت کو چلائے گی ہمیشہ کے لئے دھرے کا دھرا رہ گیا اور برطانوی حکومت کو بالاخر مطالبہ پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈال دینا پڑے۔
جیسسا کہ اشارۃ ذکر آچکا ہے جب تک مسلم لیگ عبوری حکومت سے باہر تھی کانگرسی حلقے خوشی کے شادیانے بجارہے تھے۔ مگر جونہی مسلم لیگ نے اس میں داخلہ قبول کرلیا ان پر سخت سراسیمگی طاری ہوگئی اور انہیں بھی پاکستان کی منزل صاف قریب آتے دکھائی دینے لگی۔ چنانچہ >ملاپ< نے صاف لفظوں میں رائے دی کہ۔
>میں سمجھتا ہوں یہ جواہر لال جی اور ان کے ساتھیوں کے جوش آزادی کو تار پیڈو کرنے کا جتن ہے<۔۱۰۱
اخبار >پرتاپ< نے یہ نوٹ لکھا کہ۔
>لیگ وائسرائے کی پیشکش کو قبول کرکے حکومت میں شامل ہورہی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسے پانچ نمائندے نامزد کرنے کا ادھیکار ہوگا۔ محکموں کی تقسیم ازسرنو ہوگی اور وائسرائے اس بات کے لئے ذمہ دار ہوں گے کہ نئی حکومت کثرت کے بل بوتے پر اس کی رائے کو مسترد نہیں کرتی۔ مسٹر جینا کا کہنا یہ ہے کہ لیگ حکومت میں شامل ہورہی ہے تو ۱۹۱۹ء کے آئین کے ماتحت جس میں وائسرائے سب کچھ ہے اس کے ممبر اس کے مشیر ہیں اور بس۔ ہر ایک ممبر اپنے اپنے محکمہ کے لئے ذمہ دار ہے اور وائسرائے کے مشورہ سے سب کچھ کرسکتا ہے۔ نہرو وزارت نے مشترکہ ذمہ داری کے اصول پر کام شروع کیا تھا۔ مسٹر جینا نے کہہ دیا ہے کہ لیگ مشترکہ ذمہ داری کے اصول کو نہیں مانتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی شولیت کے تین نتیجے ہوسکتے ہیں۔ )۱( اکثریت کے ساتھ مل کر کام کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ )۲( مزاحمت کرے۔ اس پر گورنمنٹ ٹوٹ جائے یا کانگرس اس سے نکل جائے۔ )۳( گورنمنٹ ٹوٹ جائے تو لیگ کا مقصد حل ہوگیا اور اگر کانگرس کے نکل آنے پر گورنمنٹ نے حکومت لیگ کے حوالے کردی تو پوبارہ ہوگئے<۔۱۰۲
>پرتاپ< نے اپنے ایک اور ادارتی نوٹ میں لکھا کہ۔
>عارضی حکومت میں لیگ کی شمولیت سے وہ عمارت جو پنڈت جواہر لال اور ان کے رفقاء نے اپنی تقریروں کے ذریعے قائم کی تھی خودبخود گر پڑے گی۔ کسی بھی مسئلہ پر ہندوستانی پالیسی کا تصور تباہ ہو جائے گا<۔۱۰۳
ہندو پریس کے بالمقابل برطانوی اخبارات نے مسلم لیگ کی اس تاریخی کامیابی کو خوب سراہا۔ چنانچہ لندن کے مشہور روزنامہ >ڈیلی ٹیلیگراف< نے قائداعظم کی خدمت میں مبارکباد پیش کی اور لکھا کہ >اب کانگرس اور پنڈت نہرو کو بھی یہ احساس ہوگیا ہوگا کہ مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ہندوستان میں صحیح معنوں میں امن قائم نہیں ہوسکتا<۔۱۰۴
انڈونیشین ری پبلک کے وزیراعظم ڈاکٹر سلطان شہریار نے قائداعظم محمد علی جناح کو ایک پیغام میں ہندوستان کی مرکزی حکومت میں شمولیت پر اظہار مسرت کیا اور لکھا کہ۔
>ہمیں امید ہے کہ مرکزی حکومت میں مسلم لیگ کی شمولیت سے ہندوستان کی مکمل آزادی قریب تر ہو جائے گی<۔۱۰۵
چنانچہ آئندہ پیش آمدہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ >ہندوستان کی مکمل آزادی< )جو قائداعظم کی اصطلاح میں پاکستان کا دوسرا نام تھا(۱۰۶ واقعی آن پہنچی ہے۔ ہوا یوں کہ قائداعظم کے اس واضح اعلان کے باوجود کہ ہم مشترک ذمہ داری کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ کوئی فرد واحد اس عارضی حکومت کا لیڈر ہے جناب پنڈت جواہر لال نہرو نے مسلم لیگ کے حکومت میں شامل پانچ ممبروں کو یہ دعوت بھیج دی۱۰۷ کہ صبح دس بجے میری کوٹھی پر کابینہ کا اجلاس ہوگا وہ اس میں شامل ہوں۔ لیگ بلاک کے پارٹی لیڈر نوابزادہ لیاقت علی خاں ن شامل اجلاس ہونے سے انکار کردیا جس پر ہندو پریس نے سخت احتجاج کیا کہ مسلم لیگ نے پہلے دن ہی پنڈت جی کی قائم کردہ کنونشن قائم توڑ ڈالی۔ >ہندوستان ٹائمز< نے تو وائسرائے تک سے فریاد کی اور مسلم لیگ پر نکتہ چینی کی کہ وہ مشترک ذمہ داری کے اصول کو پائوں سے روند رہی ہے۔۱۰۸
اس قضیہ کے بعد مسلم لیگ اور کانگرس اور وائسرائے میں سب سے بڑا مابہ النزاع مسئلہ دستور ساز اسمبلی کا اٹھ کھڑا ہوا۔ پنڈت نہرو کو اصرار تھا کہ اسمبلی کا اجلاس ۹۔ دسمبر ۱۹۴۶ء کو ضرور بلایا جائے۔ وائسرائے کی رائے میں انعقاد اجلاس کا یہ مناسب وقت نہ تھا۔۱۰۹ پنڈت نہرو اور ان کے کانگرسی رفقاء نہ صرف بضد تھے کہ اسے بہرحال منعقد کیا جائے بلکہ انہوں نے دوبارہ مستعفی ہونے کی دھمکی بھی دی اور پنڈت نہرو نے کانگریس سیشن کی سبجیکٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا کہ >ہمارے صبر کا پیمانہ نہایت سرعت کے ساتھ لبریز ہوتا جارہا ہے۔ اگر حالات یہی رہے تو نہایت وسیع پیمانے پر جدوجہد ناگزیر ہوجائے گی< انہوں نے وائسرائے پر یہ الزام بھی لگایا کہ >انہوں نے جس سپرٹ میں حکومت چلانا شروع کی تھی اب وہ اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ مسلم لیگ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے برطانوی تائید حاصل کررہی ہے۔۱۱۰
اب وائسرائے اور برطانوی حکومت نے بھی پنڈت نہرو سے متاثر ہوکر ۹۔ دسمبر ۱۹۴۶ء کو دستور ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا۔ جس پر قائداعظم نے اسمبلی کا بائیکاٹ کردیا اور اعلان کیا کہ >وائسرائے کانگرس کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں۔ وہ مسلم لیگ اور ہندوستان کی دوسری جماعتوں اور ملک کی قومی زندگی کے مختلف عناصر کو بالکل نظر انداز کرکے صرف کانگرس کو مطمئن کررہے ہیں۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ مسلم لیگ کا کوئی نمائندہ دستور ساز اسمبلی میں شامل نہ ہوگا<۔۱۱۱ مسلم لیگ کے بائیکاٹ پر برطانوی مدبرین کی آنکھیں کھل گئیں کہ مسلم لیگ کی عدم موجودگی میں جو دستور بنے گا وہ مسلم قوم پر نافذ نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ملک معظم کی حکومت ۶۔ دسمبر ۱۹۴۶ء کو مندرجہ ذیل واضح اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی کہ۔
>مجلس دستور ساز اسمبلی کی کامیابی کا مدار متفقہ لائحہ عمل پر ہے۔ اگر ایسا آئین مرتب ہوگیا جس میں ہندوستانی آبادی کے کسی کثیر حصہ کو نمائندگی نہیں دی گئی تو ملک معظم کی حکومت اس آئین کو نارضامند علاقوں پر مسلط کرنے کو تیار نہیں ہوگی<۔
اس اعلان کا صاف مطلب یہ تھا کہ پنڈت نہرو اور ان کی دستور ساز اسمبلی جو قوانین بھی چاہے مرتب کرے۔ وہ اس آئین کو ہندو اکثریت کے علاقوں میں جہاں چاہیں نافذ کریں۔ لیکن جہاں تک پاکستانی علاقوں کا تعلق ہے یہ آئین پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔۱۱۲
وزیر ہند سر سٹیفورڈ نے ۱۲۔ دسمبر ۱۹۴۶ء کو دارالعوام میں تقریر کی جس میں اپنے وعدہ کا اعادہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ >اگر مسلم لیگ دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے پر آمادہ نہ کی جاسکے تو ان حصوں کو جہاں مسلم لیگ اکثریت میں ہے موجودہ دستور ساز اسمبلی کے مرتب کردہ آئین کا پابند نہیں سمجھا جائے گا<۔۱۱۳]body [tag
قائداعظم اور مسلم لیگ اسمبلی کے مقاطعہ پر ڈٹے ہوئے تھے کہ مسٹر اٹیلی وزیراعظم برطانیہ نے قائداعظم محمد علی جناح` نوابزادہ لیاقت علی خاں` پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار بلدیو سنگھ کو صلاح و مشورہ اور مفاہمت کے لئے لندن طلب کیا۔ اس موقعہ پر سیدنا المصلح الموعود نے مسٹر اٹیلی کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں استدعا کی کہ۔
>ہندوستانی مسلمانوں کے مفاد کو قربان کرکے کانگرس کے حلیف نہ بنیں<
یہ خط چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے مسٹر اٹیلی کے حوالہ کیا۔۱۱۴
لندن میں ان لیڈروں کی ایک مختصر سی گول میز کانفرنس بھی منعقد ہوئی مگر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بالاخر کراچی میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ یا تو ہندو دستور ساز اسمبلی منسوخ کی جائے ورنہ مسلم دستور ساز اسمبلی کے قیام کا بھی اعلان کیا جائے۔۱۱۵
مسٹر اٹیلی کی طرف سے ۲۰۔ فروری ۱۹۴۷ء کو مکمل آزادی دینے کا اعلان
جب ملک میں متحدہ دستور ساز اسمبلی کے امکانات یکسر ختم ہوگئے تو ۲۰۔ فروری۱۱۶ ۱۹۴۷ء کو مسٹر اٹیلی وزیراعظم نے ہندوستان کی
جون ۱۹۴۸ء تک مکمل آزادی کا مندرجہ ذیل اعلان کیا۔
>ملک معظم کی حکومت کو یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا ہے کہ ہندوستان پارٹیوں میں ابھی تک اختلافات موجود ہیں جو دستور ساز اسمبلی کو اس طرح کام کرنے سے روک رہے ہیں جس طرح کہ اسے کام کرنا چاہئے تھا۔ وزارتی اسکیم کی حقیقی مغزیت یہ ہے کہ اسمبلی )مختلف جماعتوں کی( پوری پوری نمائندہ ہو۔ ملک معظم کی حکومت کی خواہش یہ ہے کہ وزارتی وفد کی اسکیم کے مطابق ایسے بااختیار اداروں کو ذمہ داری منتقل کر دی جائے جو ہندوستان کی تمام پارٹیوں کے منظور کردہ آئین کی رو سے قائم کئے گئے ہوں۔ لیکن سردست بدقسمتی سے ایسی کوئی واضح امید نظر نہیں آتی کہ ایک ایسا دستور اور ایسے بااختیار ادارے وجود میں آجائیں گے۔ موجودہ غیر یقینی حالت خطروں سے پر ہے اور اسے غیر معین عرصہ کے لئے طول نہیں دیا جاسکتا۔ ملک معظم کی حکومت یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ان کا یہ قطعی ارادہ ہے کہ ۸۔ جون ۱۹۴۸ء تک ہندوستان کے ذمہ دار ہاتھوں میں اختیارات منتقل کرنے کی غرض سے ضروری تدبیریں عمل میں لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ تمام جماعتیں اپنے اختلافات مٹادیں تاکہ ان بھاری ذمہ داریوں کو جو ان پر آئندہ سال آنے والی ہیں اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں<۔۱۱۷
اس اعلان میں کانگرس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کی تسلی کا جواز موجود تھا۔ کیونکہ ایک طرف اس میں ہندوستان کی آزادی کی فیصلہ کن تاریخ مقرر کر دی گئی تھی جو کانگرس کے لئے موجب اطمینان چیز تھی۔ دوسری طرف واضح کیا گیا تھا کہ اگر دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ شریک نہ ہوئی تو اس کی نمائندہ حیثیت قانوناً ختم کر دی جائے گی بالفاظ دیگر اکھنڈ بھارت کا کانگرسی نظریہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور پاکستان قائم ہوکر رہے گا۔
تیسرا باب )فصل ششم(
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی طرف سے خضر وزارت کے استعفاء کی کامیاب جدوجہد اور قائداعظم کا اظہار مسرت و شکریہ۔
تقسیم پنجاب کے خلاف جماعت احمدیہ کا پرزور احتجاج۔ پاکستان کے حق میں حضرت مصلح موعود کا پرشوکت بیان۔ انتقال اقتدار سے متعلق ۳۰۔ جون ۱۹۴۷ء کی برطانوی سکیم اور قائداعظم~رح~
پنجاب کی یونینسٹ وزارت
اگرچہ برطانوی حکومت ۸۔ جون ۱۹۴۸ء تک تمام اختیارات ہندوستان کو سپرد کردینے کا اعلان کرچکی تھی۔ مگر چونکہ اٹیلی حکومت کے اعلان اور وزارتی مشن کے فارمولا کے مطابق یہ اختیارات ابتداًء صوبوں کو منتقل ہونے والے تھے اس لئے مسلم لیگ کے لئے پاکستان کے حصول میں ایک بہت بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی اور وہ یہ کہ ان دنوں پنجاب میں یونینسٹ وزارت قائم تھی جس کی موجودگی میں صوبہ کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جانا قطعی طور پر ناممکن تھا۔ یہ صورت حال قائداعظم~رح~ اور دوسرے تمام ذمہ دار مسلم لیگیوں کے لئے حد درجہ تشویش انگیز اور پریشان کن تھی اور بظاہر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔۱۱۸
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب میدان عمل میں
تحریک پاکستان کے اس انتہائی نازک موقعہ پر چودھری محمدظفراللہ خاں صاحب ایک بار پھر میدان عمل میں نکل آئے اور آپ نے یونینسٹ حکومت کے وزیراعظم ملک خضر حیات خاں ٹوانہ کو ایک خط میں انہیں مخلصانہ مشورہ دیا کہ موجودہ مرحلے پر انہیں وزارت سے استعفاء دے کر مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے رستہ صاف کردینا چاہئے۔ بعد ازاں چوہدری صاحب موصوف ملک صاحب کی دعوت پر بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور ان سے ملاقات کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آپ کی تحریک پر ۲۔ مارچ ۱۹۴۷ء کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہوگئے اور اگلے روز لاہور کے اخبارات میں یہ اطلاع شائع بھی ہوگئی کہ گزشتہ چند روز سے آنریبل سر محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ نے خضر حیات خاں صاحب سے متعدد ملاقاتیں فرمائیں اور ان پر برطانوی حکومت کے تازہ اعلان کی آئینی اہمیت واضح فرمائی۔ موجودہ وزارتی تبدیلی میں آپ نے بہت نمایاں حصہ لیا ہے۔۱۱۹
اس سے واضح الفاظ میں اخبار >ٹریبیون< نے اپنی ۵۔ مارچ ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں یہ خبر دی کہ >معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ خضر حیات خاں صاحب نے یہ فیصلہ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے مشورہ اور ہدایت کے مطابق کیا ہے<۔۱۲۰
اخبار >ملاپ< )مورخہ ۲۰۔ فروری ۱۹۵۱ء( نے لکھا۔
>یہ ایک واضح بات ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں نے خضر حیات کو مجبور کرکے اس سے استعفاء دلایا۔ خضر حیات کا استعفاء مسلم لیگ کی وزارت بننے کا پیش خیمہ تھا اگر خضر حیات کی وزارت نہ ٹوٹتی تو آج پنجاب کی یہ حالت نہ ہوتی<۔۱۲۱
قائداعظم~رح~ کا بمبئی سے بیان اور شکریہ
مسلمانوں نے خضر حیات کے استعفاء پر جشن مسرت منایا اور قائداعظم محمد علی جناح~رح~ نے بمبئی سے بیان جاری کیا۔ >مجھے آج صبح یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ ملک خضر حیات خاں نے اپنا اور اپنے کابینہ کا استعفیٰ داخل کردیا ہے۔ اس کا یہ فیصلہ دانشوارانہ ہے اور مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر خاں صاحب )وزیراعظم سرحد ناقل( اس نیک مثال کی تقلید کریں گے<۔
اس کے بعد جب ناظر امور خارجہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد قائداعظم~رح~ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے جماعت احمدیہ کی اس کوشش کا بہت شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ نے نہایت آڑے وقت ہماری مدد کی ہے اور کہا۔
>۔it forget never can <I
یعنی میں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔۱۲۲
‏vat,10.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
ملک خضر حیات کے استعفیٰ کا پس منظر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے قلم سے
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات میں ملک خضر حیات کے استعفاء کے پیش منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے قلم سے تحریر فرماتے ہیں کہ۔
‏]ybod >[tagوزیراعظم اٹیلی نے اپنے ۲۰۔ فروری ۱۹۴۷ء کے بیان میں اعلان فرمایا کہ تقسیم ملک کے بغیر چارہ نہیں اور یہ کہ ملک معظم کی حکومت ہندوستان کے نظم و نسق کے اختیارات ہندوستان کو سپرد کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اس پر عملدرآمد کا طریق یہ ہوگا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں یا کسی متوازی ادارے کے سپرد کر دیئے جائیں گے اور اس طور پر تقسیم کی کارروائی کی تکمیل کی جائے گی۔
جہاں اس بیان سے مجھے یہ اطمینان تو ہوا کہ آخر حکومت برطانیہ نے قیام پاکستان کو تسلیم کرلیا وہاں مجھے اس اعلان کے اس حصے سے سخت پریشانی بھی لاحق ہوئی کہ حکومت کے اختیارات عبوری مرحلے میں صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جانے کا امکان ہے۔ جب جناب قائداعظم نے برطانوی وفد کے منصوبے کو منظور فرمالیا تھا اس وقت ان کے اس فیصلے سے میرا حوصلہ بہت بڑھ گیا تھا کہ وہ میرے اندازے سے بھی بڑھ کر صاحب تدبیر ثابت ہوئے۔ میری نگاہ میں برطانوی وفد کے منصوبے کا ایک قابل قدر پہلو یہ تھا کہ پہلے دس سال میں اکثریت کو موقعہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنے منصفانہ رویے اور حسن سلوک کے ذریعے اقلیتوں کا اعتماد حاصل کریں کہ آزاد ہندوستان میں ان کے جائز حقوق کی مناسب نگہداشت ہوگی اور ان کے جذبات اور احساسات کا احترام ہوگا۔ ہر چند کہ سابقہ تجربہ کچھ ایسا امید افزا نہیں تھا پھر بھی جناب قائداعظم کا اس منصوبے کو عملاً آزمانے پر تیار ہوجانا اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کا موقف کسی قسم کی ضد پر مبنی نہیں تھا۔ بعد کے حالات سے یہ بھی ترشح ہوتا ہے کہ ممکن ہے کانگرس کے بعض عناصر نے وفد کے منصوبے کو تسلیم کرنے کی تائید اس توقع میں کی ہو کہ مسلم لیگ اسے رد کردے گی اور وفد کی ناکامی کی ذمہ داری لیگ پر ڈالی جائے گی جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی نظروں میں پاکستان کا مطالبہ کمزور ہوجائے گا۔ جب لیگ نے وفد کا منصوبہ تسلیم کرلیا تو ان عناصر کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور انہوں نے منصوبے کو ناکام کرنے کی راہیں تلاش کرنا شروع کیں۔ بہرصورت آخر نتیجہ یہ ہوا کہ ہر صاحب فہم کی نظر میں وفد کی ناکامی کی ذمہ داری کانگرس پر عائد ہوئی اور پاکستان کا مطالبہ مضبوط تر ہوگیا۔ لیکن اس مقصد تک پہنچنے کا پہلا مرحلہ جب یہ قرار دیا گیا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں کو تفویض کئے جائیں گے تو پنجاب کے حالات کے پیش نظر میری طبیعت نہایت کرب میں مبتلا ہوئی۔
جناب سر سکندر حیات خاں صاحب کی وفات کے بعد جناب ملک سر خضر حیات خاں صاحب پنجاب میں وزیراعظم ہوئے۔ یہ جناب سردار صاحب کے رفقاء میں سے تھے اور ان کی جگہ یونینسٹ پارٹی کے سربراہ ہوئے۔ لیکن یونینسٹ پارٹی کے عناصر میں جلد جلد تبدیلی ہورہی تھی۔ پارٹی کی رکنیت میں بتدریج مسلم عنصر کم ہورہا تھا اور غیر مسلم عنصر بڑھ رہا تھا۔ صوبے میں مسلم لیگ کی تنظیم مضبوط ہورہی تھی اور لیگ کا رسوخ بڑھتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ لیگ نے عدم تعاون کے ذریعے یونینسٹ پارٹی کو حکومت سے برطرف کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں تو لیگ بظاہر کامیاب نہ ہوئی لیکن لیگ کی وقعت رائے عامہ میں بہت بڑھ گئی اور شہری حلقوں میں خصوصاً لیگ کا اثر ہر جگہ پھیل گیا۔ جناب قائداعظم نے اس سے قبل ہی جناب ملک صاحب پر زور دینا شروع کیا تھا کہ وہ لیگ میں شامل ہوکر اور لیگ سے مل کر کام کریں۔ لیکن وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے سکندر جناح پیکٹ کی آڑ لینے کی کوشش کی۔ لیکن جناب قائداعظم نے اسے ٹھکرا دیا۔ جناب ملک صاحب کا موقف تھا کہ پاکستان کا مطالبہ مرکز سے متعلق ہے اور ہم سو فیصدی اس کی تائید میں ہیں۔ لیکن صوبے کے حالات کے پیش نظر یونینسٹ پارٹی جو ایک غیر فرقہ وارانہ پارٹی ہے اور جس کی تشکیل اقتصادی مقاصد کی بناء پر رکھی گئی تھی اور انہیں مقاصد کے حصول کے لئے وہ کوشاں رہی ہے` ایک موزوں پارٹی ہے اور مسلم حقوق کا بخوبی تحفظ کرسکتی ہے اور کرتی ہے۔
اسی کشمکش کے دوران میں برطانوی وزیراعظم کا ۲۰۔ فروری ۱۹۴۷ء کا اعلان ہوگیا جس کا ایک پہلو یہ تھا کہ پنجاب کے صوبے میں مرکزی اختیارات بھی صوبائی حکومت کو تفویض ہوں۔ اس وقت تک یونینسٹ پارٹی میں رکنیت کی کثرت غیر مسلم اراکین کو حاصل ہوچکی تھی۔ اگر اب بھی یہی پارٹی برسر اقتدار رہتی تو مسلم لیگ کے رستے میں اور پاکستان کے قیام کے رستے میں ایک بہت بڑی روک پیدا ہو جاتی۔ میں جناب ملک سر خضر حیات خاں صاحب کو عرصے سے جانتا تھا اور میرے ان کے درمیان دوستانہ مراسم تھے۔ جب تک میں حکومت ہند کا رکن رہا مجھے گرمیوں کے موسم میں جناب ملک صاحب کے ساتھ شملے میں ملاقات کے مواقع میسر آتے رہتے تھے۔ جب میں حکومت سے علیحدہ ہوکر عدالت میں چلا گیا تو ہمارے ملاقات کے مواقع کم ہوگئے اور میں نے سیاسی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لینا کم کردیا۔ گو قومی معاملات میں میری دلچسپی میں کوئی کمی نہ آئی۔
اب اس مرحلے پر بہت بڑی شدت سے میری طبیعت اس طرف مائل ہوئی کہ مجھے جناب ملک صاحب کی خدمت میں گزارش کرنا چاہئے کہ اب وہ صورت نہیں رہی کہ پاکستان کے مطالبے کا تعلق مرکزی حکومت کے ساتھ ہے اور صوبائی حکومتیں اس سے الگ ہیں کیونکہ وزیراعظم اٹیلی کے اعلان کے بعد صوبائی حکومتیں لازماً اس کشمکش میں کھینچ لی جائیں گی اور مسلم لیگ اور پاکستان کے لئے یہ امر بہت کمزوری کا باعث ہوگا کہ پنجاب میں اختیارات حکومت ایک ایسی پارٹی کے ہاتھ میں ہوں جس کی اکثریت غیرمسلم ہے۔ ساتھ ہی مجھے کچھ حجاب بھی تھا کہ میں سیاسیات سے باہر ہوتے ہوئے اور پنجاب کے تفصیلی حالات سے واقفیت نہ رکھتے ہوئے جناب ملک صاحب کی خدمت میں کوئی ایسی گزارش کروں جسے وہ بے جا جسارت شمار کرتے ہوئے قابل التفات شمار نہ کریں۔ ادھر ہر لحظہ جوں جوں میں وزیراعظم برطانیہ کے اعلان پر غور کرتا میری پریشانی میں اضافہ ہوتا۔ دو دن اور راتیں میں نے اسی کشمکش میں گزاریں۔ مجھے بہت کم کبھی ایسا اتفاق ہوا ہے کہ میں رات آرام سے نہ سو سکوں۔ لیکن یہ دونوں راتیں میری بہت بے چینی کی نذر ہوئیں۔ آخر میں نے تیسری صبح جناب ملک صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا اور انہیں ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے گزارش کی کہ انہیں اس مرحلے پر وزارت سے استعفاء دے کر مسلم لیگ کا رستہ پنجاب میں صاف کردینا چاہئے اور اپنی ذمہ داری سے سرخرو ہوجانا چاہئے۔ اس عریضہ کے ارسال کرنے کے تیسرے دن جناب ملک صاحب نے ٹیلیفون پر مجھے فرمایا۔ تمہارا خط مجھے مل گیا ہے۔ میں ٹیلیفون پر مختصر بات ہی کرسکتا ہوں۔ مجھے اصولاً تمہارے ساتھ اتفاق ہے۔ لیکن میں مزید مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ تم ایک دن کے لئے لاہور آجائو۔ میں نے گزارش کی ` میں انشاء اللہ آج رات روانہ ہوکر کل صبح حاضر خدمت ہو جائوں گا۔
میرے حاضر ہونے پر جناب ملک صاحب نے فرمایا۔ جیسے میں نے ٹیلیفون پر تم سے کہا تھا۔ مجھے اصولاً تمہارے ساتھ اتفاق ہے لیکن میں تمہاری یہاں موجودگی میں بھائی اللہ بخش )نواب سر اللہ بخش خاں ٹوانہ( کے ساتھ مشورہ کرنا چاہتا ہوں اور پھر مظفر )نواب سر مظفر علی قزلباش( سے بھی مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ مظفر نے ہر مرحلے پر میرا ساتھ دیا ہے۔ میں بغیر ان دو کے مشورہ کے کوئی پختہ فیصلہ نہیں کرسکتا۔
جناب نواب سر اللہ بخش خاں صاحب تو جناب ملک صاحب کے بنگلے کے باغ میں خیمے میں فروکش تھے۔ ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ملک صاحب نے فرمایا۔ بھائی جان! میں نے ظفر اللہ خان کی چٹھی کل آپ کو پڑھ کر سنا دی تھی۔ اب آپ فرمائیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ جناب نواب صاحب نے فرمایا۔ میں نے کل بھی کہا تھا اور آج بھی کہتا ہوں کہ مجھے ظفر اللہ خاں کے ساتھ اتفاق ہے۔ اس مرحلے پر صحیح طریق یہی ہے کہ تم اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائو۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد وہیں سے جناب ملک صاحب نے جناب نواب سر مظفر علی خاں صاحب کے ہاں ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا نواب صاحب اسٹیٹ تشریف لے گئے ہیں۔ وہاں ٹیلیفون نہیں تھا۔ جناب ملک صاحب نے اپنے سائق کو ارشاد فرمایا فوراً کار میں جاکر نواب سر مظفر علی خاں صاحب کو ان کی اسٹیٹ سے لے آئو۔ جناب نواب صاحب کی تشریف آوری پر جناب ملک صاحب نے خاکسار کے خط کا ذکر جناب نواب صاحب سے کیا اور ان کی رائے دریافت کی۔ اس پر انہوں نے فرمایا۔ ہم مسلم لیگ کی تحریک عدم تعاون کو ناکام کرچکے ہیں۔ مجلس میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے۔ بجٹ کا اجلاس چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے۔ اس بات سے تو مجھے اتفاق ہے کہ ہمیں حکومت سے دست بردار ہوجانا چاہئے لیکن میری رائے یہ ہے کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دینا چاہئے۔ یہ سنتے ہی جناب نواب اللہ بخش صاحب نے فرمایا۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ مشورہ طلب امر یہ نہیں کہ استعفاء کب دیا جائے۔ مشورہ طلب امر یہ ہے کہ اس وقت استعفاء دیا جائے یا نہیں۔ فیصلہ یہ ہونا چاہئے استعفاء دیا جائے یا پھر یہ ہونا چاہئے استعفاء نہ دیا جائے۔ یہ کوئی فیصلہ نہیں آج سے ڈیڑھ ماہ یا دو ماہ بعد استعفاء دیا جائے۔ آپ کیا کہہ سکتے ہیں اس درمیانی عرصے میں کیا واقعات ہوں اور کیا مراحل پیش آئیں اور کن حالات کا آپ کو سامنا ہو۔ اگر اس وقت استعفاء نہیں ہونا چاہئے تو بس اسی پر اکتفا کرو` استعفاء نہیں دینا چاہئے۔ کل کیا ہوگا یا ایک مہینہ بعد کیا ہوگا` یہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔ پھر ایک اور امر بھی قابل غور ہے۔ اگر آپ آج یہ فیصلہ کریں۔ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دیں گے تو یہ خلاف دیانت ہے۔ بجٹ آپ پارٹی کی مدد سے پاس کریں گے۔ اس وقت تو آپ انہیں بتائیں گے نہیں کہ آپ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ بجٹ پاس کرنے کے بعد استعفاء دے دیں گے۔ اگر اس وقت آپ انہیں بتائیں گے تو ابھی سے پارٹی منتشر ہو جائے گی اور خود ہی آپ کا استعفاء ہو جائے گا۔ اور اگر اس وقت نہیں بتائیں گے اور ان کی مدد سے بجٹ پاس کرنے کے بعد ان کی خلاف مرضی استعفاء دے دیں گے تو گویا آپ نے ان سے فریب کیا کہ ان کی مدد سے بجٹ پاس کرلیا اور پھر ان کی خلاف مرضی استعفاء دے دیا۔ اس لئے میری تو یہی رائے ہے کہ اس وقت صرف یہ طے ہونا چاہئے کہ اس مرحلے پر آپ استعفاء دیں یا نہ دیں۔ میں اپنی رائے بتا چکا ہوں کہ آپ کو استعفاء دینا چاہئے۔ آگے جیسے آپ مناسب سمجھیں۔
اس کے بعد جناب نواب مظفر علی خاں صاحب چند منٹ ٹھہر کر تشریف لے گئے۔ جناب ملک صاحب نے اسی سہ پہر کے لئے پارٹی کا اجلاس اپنے دولتکدے پر طلب فرمایا اور خود گورنر صاحب KINS) NJE EVANS (SIR کو ملنے تشریف لے گئے۔ گورنر سے کہا۔ وزیراعظم اٹیلی کے اعلان کے پیش نظر میں سوچ بچار کے بعد اس رائے کی طرف مائل ہوں کہ مجھے اس مرحلے پر استعفاء دے دینا چاہئے۔ لیکن پختہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے آج سہ پہر پارٹی کا اجلاس طلب کیا ہے۔ اگر پارٹی کے ساتھ گفتگو کے بعد میں اس رائے پر قائم رہا تو میں آج شام پھر آپ سے ملنے کے لئے آئوں گا اور اپنے فیصلے سے آپ کو مطلع کردوں گا۔ گورنر صاحب نے فرمایا۔ یہ امر خالصت¶ہ آپ کی مرضی پر موقوف ہے۔ حالات کے پیش نظر میں آپ کی رائے پر کوئی اثر ڈالنا نہیں چاہتا۔ لیکن کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے خود بخود یہ رائے قائم کی ہے یا کسی طرف سے آپ کو کوئی تحریک ہوئی ہے۔ اس پر ملک صاحب نے فرمایا کہ فیصلہ تو میرا جو کچھ ہوگا اپنا ہی ہوگا لیکن وزیراعظم اٹیلی کے اعلان کے نتیجے میں توجہ مجھے ظفر اللہ خاں نے دلائی ہے۔
پارٹی کا اجلاس تین بجے سہ پہر سے چھ سات بجے تک رہا۔ میں تو اس میں شامل نہیں تھا۔ لیکن میرے کمرے تک بعض دفعہ آواز پہنچتی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ بحث گرم ہورہی ہے۔ شام کے کھانے پر جناب ملک صاحب نے بتایا کہ پارٹی کے غیر مسلم اراکین میرے فیصلے پر بہت آزردہ تھے اور اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ میرا مجوزہ اقدام درست نہیں۔ لیکن میرا موقف یہی رہا کہ برطانوی وزیراعظم کے اعلان کے بعد میرے لئے اور کوئی رستہ کھلا نہیں رہا۔
کھانے کے بعد جناب ملک صاحب گورنر صاحب سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور اپنا استعفیٰ پیش کردیا اور ساتھ ہی گورنر صاحب کو مشورہ دیا کہ جناب نواب صاحب ممدوٹ کو بحیثیت قائد مسلم لیگ پارٹی دعوت دی جائے کہ وہ نئی وزارت کی تشکیل کریں۔
جناب ملک صاحب کے استعفاء کا اعلان ریڈیو پر ہوگیا۔ مسلم لیگ حلقوں میں اس خبر سے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور صبح ہوتے ہی شہر بھر میں خضر حیات زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے۔ جناب راجہ غضنفر علی صاحب اور جناب سردار شوکت حیات خاں صاحب کی سرکردگی میں بہت سے مسلم لیگ کے سرکردہ اصحاب جناب ملک صاحب کے بنگلے پر تشریف لائے اور ملک صاحب کو مبارک باد دی` گلے لگایا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ اس کے برعکس غیر مسلم حلقوں میں اس خبر سے بہت بے چینی پھیل گئی اور ان کی طرف سے مخالفانہ مظاہرے شروع ہوگئے۔ یہ رو صوبے بھر میں پھیل گئی اور بعض مقامات پر فرقہ وارانہ افسوسناک وارداتیں بھی ہوئیں۔ میں اسی دن دلی واپس چلا گیا۔
صوبائی مسلم لیگ قیادت کی طرف سے جناب ملک صاحب پر زور دیا گیا کہ وہ مسلم لیگ پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے وضاحت سے فرما دیا کہ وہ سیاسیات سے الگ رہنا چاہتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی ذہن میں بھی یہ غلط اندازہ کیا جائے کہ انہیں وزارت یا کسی سیاسی اعزاز یا منصب کی خواہش ہے۔ مسلم لیگ پارٹی کے متعلق انہوں نے اپنی نیک خواہی کا ثبوت یوں دے دیا کہ انہوں نے جناب نواب مظفر علی خاں صاحب قزلباش کو مشورہ دیا کہ وہ مسلم لیگ پارٹی میں شامل ہو جائیں چنانچہ وہ شامل ہوگئے۔
جناب ملک سر خضر حیات خاں صاحب کا پہلا موقف درست تھا یا غلط` اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اس مرحلے پر ان کا استعفاء دینا ایک نہایت قابل ستائش فعل تھا۔ جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ کا رستہ صاف ہوگیا اور پاکستان کے استحکام کی صورت پیدا ہوگئی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بہت سی مشکلات کا امکان تھا۔ اس کے مقابل پر پاکستان کے قیام کے بعد جناب ملک صاحب کے ساتھ وہ انصاف اور حسن سلوک روا نہ رکھا گیا۔ جس کا ہر شہری بلاامتیاز حقدار ہے<۔۱۲۳
جماعت احمدیہ کی طرف سے تقسیم پنجاب کے خلاف پرزور احتجاج
خضر وزارت کے استعفاء پر صرف چند دن ہی گزرے تھے` کہ کانگرس ورکنگ کمیٹی نے اپنے اجلاس دہلی )منعقدہ ۴ تا ۸۔ مارچ ۱۹۴۷ء( میں
یہ قرارداد پاس کی کہ پنجاب کو مسلم اور غیر مسلم پنجاب میں تقسیم کر دیا جائے۔۱۲۴ ازاں بعد ۱۴۔ اپریل کو آل انڈیا ریڈیو سے سرکاری طور پر بھی اعلان ہوگیا کہ ایسی تجویز حکومت کے زیر غور ہے۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے یہ اعلان سنتے ہی وائسرائے ہند کے نام حسب ذیل ایکسپرس تار ارسال کیا۔
>آل انڈیا ریڈیو میں آج رات )یعنی مورخہ ۱۵۔ اپریل سے قبل کی رات( اعلان ہوا ہے کہ پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کر دینے کی تجویز زیر غور ہے۔ میں اور میری جماعت تقسیم پنجاب کی تجویز کے خلاف پرزور احتجاج کرتے ہیں اور خصوصاً اس تجویز کے خلاف کہ وسطی پنجاب کو مغربی پنجاب سے علیحدہ کر دیا جائے۔ ہم مسلمان پنجاب کے وسطی حصوں میں کامل اکثریت رکھتے ہیں اور ہمیں ایسے ہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو دنیا کے کے کسی حصے میں کسی قوم کو حاصل ہوسکتے ہیں۔ یقیناً ہمارے ساتھ تجارتی اموال کا سا سلوک نہیں ہونا چاہئے<۔۱۲۵
لیکن افسوس جلد ہی ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے تقسیم پنجاب کا مطالبہ اس درجہ زور پکڑ گیا کہ اسے قریباً ناگریز خیال کیا جانے لگا۔ جس پر شروع مئی ۱۹۴۷ء میں ناظر اعلیٰ قادیان کی طرف سے قائداعظم جناب محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کے نام مندرجہ ذیل تار بھجوایا گیا۔
>جماعت احمدیہ پنجاب کی تقسیم کے خلاف ہے لیکن اگر یہ تقسیم ناگزیر ہو تو ہماری رائے میں اسے تین اصولی شرطوں کے ساتھ مشروط کرنا ضروری ہے۔
اول تمام ان علاقوں کو اسلامی علاقہ میں شامل کیا جاوے جہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں کی اکثریت ہے خواہ اس کے لئے اضلاع کی حدود توڑنی پڑیں یا تسلسل کو ترک کرکے معقول جداگانہ جزیرے بنانے پڑیں۔
دوم۔ تمام علاقوں کو اسلامی علاقے قرار دیا جائے۔ جہاں مسلمان انفرادی طور پر سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ جہاں مسلمانوں` ہندوئوں اور سکھوں کی رائے معلوم ہے اچھوت اقوام اور عیسائیوں کی رائے ریفرینڈم یعنی حصول رائے عامہ کے طریق پر کی جائے۔
سوم۔ نہروں کے ہیڈ اور بجلی کے پاور سٹیشن اور پہاڑی صحت افزا مقامات کو ان علاقوں کے ساتھ کم از کم پندرہ سال کے عرصہ کے لئے ملحق رکھا جائے جنہیں وہ اس وقت زیادہ تر فائدہ پہنچا رہے ہیں خواہ مقامی آبادی کا تناسب اس کے خلاف ہو<۔۱۲۶
ناظر اعلیٰ قادیان نے جہاں قائداعظم کو یہ تار دیا وہاں مسٹر اٹیلے وزیراعظم برطانیہ اور مسٹر چرچل لیڈر حزب اختلاف کے نام بھی تار ارسال کیا جس کی نقل قائداعظم محمد علی جناح دہلی` اورینٹ پریس اور ایسوسی ایٹڈ پریس لاہور کو بھی بھجوائیں۔ تار کے الفاظ یہ تھے۔
>احمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اور اس کا طبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے۔ اگر صوبوں یعنی قدرتی یونٹوں کو اس لئے تقسیم کیا جارہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے تو اس صورت میں یوپی کے ۸۴ لاکھ اور بہار کے ۴۷ لاکھ اور مدراس کے ۳۹ لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں۔ یہ دلیل کہ ان صوبوں کی مسلمان آبادیاں کسی حصہ میں بھی اکثریت نہیں رکھتیں ایک بالکل غیر متعلق اور غیر موثر دلیل ہے کیونکہ اگر تقسیم کو قدرتی یونٹوں کے اصول کی بجائے اقلیتوں کی حفاظت کے اصول پر مبنی قرار دینا ہے` تو پھر اس وقت ان مسلمان آبادیوں کا منتشر صورت میں پایا جانا ہرگز انصاف کے رستہ میں روک نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ اس وجہ سے ان کی حفاظت کا حق اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ سکھوں کو بھی جیسا کہ ان کا اہل الرائے اور سنجیدہ طبقہ خیال کرتا ہے پنجاب کی تقسیم سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ وہ اپنی آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اور دونوں حصوں میں اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کرلیتے ہیں۔ یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائداد کی بناء پر ہونی چاہئے نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پر فوقیت بھی حاصل ہوتی ہے جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے<۔۱۲۷
پاکستان کی تائید میں سیدنا المصلح الموعود کا پرشوکت بیان
دہلی کے اخبار >ریاست< نے اپنے ایک ادارتی نوٹ میں احمدیوں کی پاکستان نواز پالیسی پر تنقید کی جس کا ملخص یہ تھا کہ احمدی پاکستان کی تائید کررہے ہیں مگر جب پاکستان قائم ہوگیا تو ان کے ساتھ دوسرے مسلمان وہی سلوک روا رکھیں گے جو کابل میں افغان حکومت کی طرف سے کیا گیا تھا۔
حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جب اخبار >ریاست< کے اس شذرہ کی اطلاع پہنچی تو حضور نے ۱۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو نماز مغرب کے بعد مسجد مبارک قادیان میں ایک پرشوکت تقریر فرمائی جس میں مطالبہ پاکستان کی معقولیت و ضرورت کو مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے بڑی شرح و بسط سے واضح کیا اور اعلان فرمایا کہ مسلمان مظلوم ہیں اور ہم تو بہرحال مظلوموں کا ساتھ دیں گے خواہ ہمیں تختہ دار پر ہی لٹکا دیا جائے۔ حضور کی یہ یادگار تقریر بجنسہ ذیل میں دی جاتی ہے۔ فرمایا۔
>آج مجھے ایک عزیز نے بتایا کہ دلی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیا ہے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے برے سلوک کئے تھے۔ جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا اور اس وقت احمدی کہیں گے کہ ہمیں ہندوستان میں شامل کرلو۔
کہنے والے کی اس بات کو کئی پہلوئوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب پاکستان بن جائے گا تو ہمارے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے وہی سلوک ہوگا جو آج سے کچھ عرصہ پیشتر افغانستان میں ہوا تھا اور فرض کرو ایسا ہی ہو جائے` پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب` اخلاق اور انصاف پر ہے۔ کیا وہ اس کے متعلق اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ میرا اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطہ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امر میں دوسرے کا حق کیا ہے۔ یقیناً وہ ایسے معاملہ میں موخر الذکر نقطہ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی۔ مثلاً ایک مجسٹریٹ ایسے علاقہ میں عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے جس میں اس کے بعض قریبی رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور اس کے ان رشتہ داروں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ تنازعات بھی ہیں۔ اس کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش ہوتا ہے جس میں اس کے رشتہ داروں کا ایک دشمن مدعی ہے۔ اگر اس کے پاس روپیہ ہو تو وہ اس کے رشتہ داروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر یہ مجسٹریٹ اسی مدعی کے حق میں فیصلہ کردے تو اس مدعی کے پاس روپیہ آجاتا ہے اور پھر وہ اس مجسٹریٹ کے رشتہ داروں کو دق کرسکتا ہے تو کیا ایک دیانت دار مجسٹریٹ اس ڈر سے کہ کل کو یہ روپیہ ہمارے خلاف استعمال کرے گا` اس حقدار مدعی کے خلاف فیصلہ کردے گا؟ اگر وہ ایسا کرے گا تو یہ اس کی صریح ناانصافی ہوگی اور اگر وہ حق پر قائم رہتے ہوئے شہادت کو دیکھتے ہوئے اور مواد مسل کی روشنی میں مدعی کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو کیا کوئی دیاتندار دنیا میں ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اس کے فیصلہ پر یہ کہے کہ اس نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا اور اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر ظلم کیا ہے۔ کوئی شریف اور دیانتدار مجسٹریٹ یہ نہیں کرسکتا کہ وہ کسی مقدمہ کا حصر اپنے آئندہ فوائد پر رکھے اور کوئی دیانتدار مجسٹریٹ ایسا نہیں ہوسکتا جو مواد مسل کو نظر انداز کرتے ہوئے آنکھیں بند کرکے فیصلہ دے دے بلکہ ایمانداری اور دیانتداری متقاضی ہے اس بات کی کہ وہ حق اور انصاف اور غیر جنبہ داری سے کام لے کر مقدمہ کا فیصلہ سنائے۔ وہ یہ نہ دیکھے کہ جس شخص کے حق میں میں ڈگری دے رہا ہوں۔ یہ طاقت پکڑ کر کل کو میرے ہی خاندان کے خلاف اپنی طاقت استعمال کرے گا۔ پس انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ وہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر نظر انداز کردے اس بات کو کہ میں کس کے خلاف اور کس کے حق میں فیصلہ دے رہا ہوں۔ وہ نظر انداز کردے اس بات کو کہ جس روپیہ کے متعلق میں ڈگری دے رہا ہوں وہ روپیہ کل کو کہاں خرچ ہوگا اور وہ بھول جائے اس بات کو کہ فریقین مقدمہ کون ہیں کیونکہ انصاف اور ایمانداری اسی کا نام ہے۔ پس قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بدتر معاملہ کریں گے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور ناحق پر کون۔ آخر یہ بات آج کی تو ہے نہیں۔ یہ تو ایک لمبا اور پرانا جھگڑا ہے جو بیسیوں سال سے ان کے درمیان چلا آتا ہے۔ ہم نے بار بار ہندوئوں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کررہے ہیں۔ یہ امر ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے بار بار ہندوئوں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کردینا بعید از انصاف ہے اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ ناانصافی آخر رنگ لائے گی۔ مگر افسوس کہ ہمارے توجہ دلانے ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا۔ ہندو سختی سے اپنے اس عمل پر قائم رہے۔ انہوں نے اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کے حقوق کا گلا گھونٹا۔ انہوں نے حکومت کے غرور میں اقلیت کی گردنوں پر چھری چلائی اور انہوں نے تعصب اور ہندووانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ مسلمانوں کے جذبات کا خون کیا اور ہندو لیڈروں کو بار بار توجہ دلانے کے باوجود نتیجہ ہمیشہ صفر ہی رہا۔
ایک مسلمان جب کسی ملازمت کے لئے درخواست دیتا تو چاہے وہ کتنا ہی لائق کیوں نہ ہوتا اس کی درخواست پر اس لئے غور نہ کیا جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کے مقابلہ میں ہندو چاہے کتنا ہی نالائق ہوتا اس کو ملازمت میں لے لیا جاتا۔ اسی طرح گورنمنٹ کے تمام ٹھیکے مسلمانوں کی لیاقت` قابلیت اور اہلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہندوئوں کو دے دیئے جاتے۔ تجارتی کاموں میں جہاں حکومت کا دخل ہوتا ہندوئوں کو ترجیح دی جاتی سوائے قادیان کے کہ یہاں بھی ہم نے کافی کوشش کرکے اپنا یہ حق حاصل کیا ہے باقی تمام جگہوں میں مسلمانوں کے حقوق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ہندوئوں کے خلاف ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے نفرت پیدا ہوتی رہی اور آخر یہ حالت پہنچ گئی جو آج سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ صورت حالات کس نے پیدا کی۔ جس نے یہ صورت حالات پیدا کی وہی موجودہ حالات کا ذمہ دار بھی ہے۔ یہ سب کچھ ہندوئوں کے اپنے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا ہے اور یہ فسادات کا تناور درخت وہی ہے جس کا بیج ہندوئوں نے بویا تھا اور اسے آج تک پانی دیتے رہے اور آج جبکہ اس درخت کی شاخیں سارے ہندوستان میں پھیل چکی ہیں۔ ہندوئوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ہندوئوں کو اس وقت اس بات کا کیوں خیال نہ آیا کہ ہم مسلمانوں کے حقوق کو تلف کررہے ہیں اور ہر محکمہ میں اور ہر شعبہ میں ان کے ساتھ بے انصافی کررہے ہیں۔ مجھے پچیس سال شور مچاتے اور ہندوئوں کو توجہ دلاتے ہوگئے ہیں کہ تمہارا یہ طریق آخر رنگ لائے بغیر نہ رہے گا۔ لیکن افسوس کہ میری آواز پر کسی نے کان نہ دھرا اور اپنی من مانی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ہمارا احرار سے جھگڑا تھا تو ہندوئوں نے احرار کی پیٹھ ٹھونکی اور حتی الوسع ان کی امداد کرتے رہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ جھگڑا تو ہمارے اور احرار کے درمیان مذہبی مسائل کے متعلق تھا۔ تمہیں اس معاملہ میں کسی فریق کی طرف داری کی کیا ضرور تھی اور تمہیں ختم نبوت یا وفات مسیح کے مسائل کے ساتھ کیا تعلق تھا۔ کیا تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے بعد نبوت کو بند مانتے تھے کہ ہمارے اجرائے نبوت کے عقیدہ پر تم برہم ہوئے تھے؟ کیا تم حیات مسیح کے قائل تھے کہ ہماری طرف سے وفات مسیح کا مسئلہ پیش ہونے پر تم چراغ پا ہوگئے تھے؟ ہندوئوں کا ان مسائل کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ احرار کی طرف سے ہندو وکلاء مفت پیش ہوتے رہے۔ میں نے اس بارہ میں پنڈت نہرو کے پاس اپنا آدمی بھیجا کہ آپ لوگوں کی احرار کے ساتھ ہمدردی کس بناء پر ہے اور یہ طرفداری کیوں کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا۔ سیاسیات میں ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب جن لوگوں کی ذہنیت اس قسم کی ہو ان سے بھلا کیا امید کی جاسکتی ہے۔ یہ جو کچھ آج کل ہورہا ہے۔ یہ سب گاندھی جی پنڈت نہرو اور مسٹر پٹیل کے ہاتھوں سے رکھی ہوئی بنیادوں پر ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کا بھی اس میں ہاتھ تھا۔ ان کو بھی بار بار اس امر کے متعلق توجہ دلائی گئی کہ ہندوستان کے کروڑوں کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کیا جارہا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور باوجود یہ جاننے کے ہوتا رہا کہ مسلمانوں کے حقوق تلف ہورہے ہیں اور باوجود اس علم کے کہ مسلمانوں سے ناانصافی ہورہی ہے مسلمان ایک مدت تک ان باتوں کو برداشت کرتے رہے۔ مگر جب یہ پانی سر سے گزرنے لگا تو وہ اٹھے اور انہوں نے اپنے لمبے اور تلخ تجربہ کے بعد جب یہ سمجھ لیا کہ ہندوئوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے حقوق خطرے میں ہیں تو انہوں نے اپنے حقوق کی حفاظت اور آرام اور چین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے الگ علاقہ کا مطالبہ پیش کردیا کیا وہ یہ مطالبہ نہ کرتے اور ہندوئوں کی ابدی غلامی میں رہنے کے لئے تیار ہو جاتے۔ کیا وہ اتنی ٹھوکروں کے باوجود بھی نہ جاگتے۔
پھر میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان اتنے طویل اور تلخ تجربات کے بعد ہندوئوں پر اعتبار کرسکتے تھے۔ ایک دو باتیں ہوتیں تو نظر انداز کی جاسکتی تھیں۔ ایک دو واقعات ہوتے تو بھلائے جاسکتے تھے۔ ایک دو چوٹیں ہوتیں تو ان کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ ایک آدھ صوبہ میں مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو اس کو بھی بھلایا جاسکتا تھا۔ لیکن متواتر سو سال سے ہر گائوں میں` ہر شہر میں` ہر ضلع میں اور ہر صوبہ میں` ہر محکمہ میں` ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دکھ دیا گیا۔ ان کے حقوق کو تلف کیا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا اور ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو زر خرید غلام کے ساتھ بھی کوئی انصاف پسند آقا نہیں رکھ سکتا کیا اب بھی وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب نہ تھے کیا اب بھی وہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے تگ و دو نہ کرتے۔ کیا اب بھی وہ اپنی عزت کی رکھوالی نہ کرتے اور کیا اب بھی وہ ہندوئوں کی بدترین غلامی میں اپنے آپ کو پیش کرسکتے تھے؟ مسلمانوں کو ہمیشہ باوجود لائق ہونے کے نالائق قرار دیا جاتا رہا۔ ان کو باوجود اہل ہونے کے نااہل کہا جاتا رہا اور ان کو باوجود قابل ہونے کے ¶ناقابل سمجھا جاتا رہا۔ ہزاروں اور لاکھوں دفعہ ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔ لاکھوں مرتبہ ان کے احساسات کو کچلا گیا اور متعدد مرتبہ ان کی امیدوں اور امنگوں کا خون کیا گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا اور وہ چپ رہے۔ یہ سب کچھ ان پہ بیتا اور وہ خاموش رہے۔ انہوں نے خاموشی کے ساتھ ظلم سہے اور صبر کیا۔ کیا اب بھی ان کے خاموش رہنے کا موقعہ تھا؟ یہ تھے وہ حالات جن کی وجہ سے وہ اپنا الگ اور بلا شرکت غیرے حق مانگنے کے لئے مجبور نہیں ہوئے بلکہ مجبور کئے گئے۔ یہ حق انہوں نے خود نہ مانگا بلکہ ان سے منگوایا گیا۔ یہ علیحدگی انہوں نے خود نہ چاہی بلکہ ان کو ایسا چاہنے کے لئے مجبور کیا گیا اور اس معاملہ میں وہ بالکل معذور تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ باوجود لیاقت رکھنے کے` باوجود اہلیت کے اور باوجود قابلیت کے انہیں نالائق اور ناقابل کہا جارہا ہے تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس ناانصافی کے انسداد کا سوائے اس کے اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ان سے بالکل علیحدہ ہو جائیں۔
میں ہندوئوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمان فی الواقع نالائق` ناقابل اور نااہل تھے؟ ان کو جب کسی کام کا موقعہ ملا انہوں نے اسے باحسن سرانجام دیا۔ مثلاً سندھ اور بنگال میں ان کو حکومت کا موقعہ ملا ہے انہوں نے اس کو اچھی طرح سنبھال لیا ہے اور جہاں تک حکومت کا سوال ہے ہندوئوں نے ان سے بڑھ کر کونسا تیر مار لیا ہے جو انہوں نے نہیں مارا۔ مدراس` بمبئی` یوپی اور بہار وغیرہ میں ہندوئوں کی حکومت ہے۔ جس قسم کی گورنمنٹ ان کی ان علاقوں میں ہے اسی قسم کی گورنمنٹ سندھ اور بنگال میں بھی ہے اگر لڑائی جھگڑے اور فساد وغیرہ کی وجہ سے کسی گورنمنٹ کو نااہل قرار دینا جائز ہے تو لڑائی تو بمبئی میں بھی ہورہی ہے۔ یوپی میں بھی ہورہی ہے اور بہار میں بھی ہورہی ہے۔ اگر نالائقی اور نااہلی کی یہی دلیل ہو تو بمبئی` یوپی اور بہار وغیرہ کی گورنمنٹوں کو کس طرح لائق اور اہل کہا جاسکتا ہے اور اگر کسی جگہ قتل و غارت کا ہونا ہی وہاں کی گورنمنٹ کو نااہل قرار دینے کا موجب ہوسکتا ہے تو کیوں نہ سب سے پہلے بمبئی اور بہار کی گورنمنٹوں کو نااہل کہا جائے ایک ہی دلیل کو ایک جگہ استعمال کرنا اور دوسری جگہ نہ کرنا سخت ناانصافی اور بددیانتی ہے۔ اگر یہی قاعدہ کلیہ ہو تو سب جگہ یکساں چسپاں کیا جانا چاہئے نہ کہ جب اپنے گھر کی باری آئے تو اس کو نظرانداز کر دیا جائے۔ کسی علاقہ میں قتل و غارت اور فسادات کا ہونا ضروری نہیں کہ حاکم کی غلطی ہی سے ہو۔
میں پچھلے سال اکتوبر نومبر میں اس نیت سے دہلی گیا تھا کہ کوشش کرکے کانگریس اور مسلم لیگ کی صلح کرادوں۔ میں ہر لیڈر کے دروازہ پر خود پہنچا اور اس میں میں نے اپنی ذرا بھی ہتک محسوس نہ کی اور کسی کے پاس جانے کو عارنہ سمجھا صرف اس لئے کہ کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ ان کے درمیان انشقاق اور افتراق رہنے کی وجہ سے ملک کے اندر کسی قسم کا فتنہ و فساد ہونے نہ پائے۔ میں مسٹر گاندھی کے پاس گیا اور کہا کہ اس جھگڑے کو ختم کرائو لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا اور کہا میں تو صرف ایک گاندھی ہوں آپ لیڈر ہیں آپ کچھ کریں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ کیا واقعہ میں گاندھی ایک آدمی ہے اور اس کا اپنی قوم یا ملک کے اندر کچھ رعب نہیں۔ اگر وہ صرف ایک گاندھی ہے تو سیاسیات کے معاملات میں دخل ہی کیوں دیتا ہے۔ وہ صرف اسی لئے دخل دیتا ہے کہ ملک کا اکثر حصہ اس کی بات کو مانتا ہے۔ مگر میری بات کو ہنس کر ٹلا دیا گیا اور کہہ دیا گیا میں تو صرف گاندھی ہوں اور ایک آدمی ہوں۔ حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تیس کروڑ کے لیڈر ہیں اور میں ہندوستان کے صرف پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں۔ کیا میرے کوئی بات کہنے اور تیس کروڑ کے لیڈر کے کوئی بات کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ بے شک میں پانچ لاکھ کا لیڈر ہوں اور میری جماعت میں مخلصین بھی ہیں جو میری ہدایات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مجھے واجب الاطاعت تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن بہرحال وہ پانچ لاکھ ہیں اور پانچ لاکھ کے لیڈر اور تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ایک سی نہیں ہوسکتی۔ تیس کروڑ کے لیڈر کی آواز ضرور اثر رکھتی ہے اور ملک کے ایک معتدبہ حصہ پر رکھتی ہے۔ لیکن افسوس کہ وہی گاندھی جو ہمیشہ سیاسیات میں حصہ لیتے رہتے ہیں میری بات سننے پر تیار نہ ہوئے۔ اسی طرح میں پنڈت نہرو کے دروازہ پر گیا اور کہا کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان صلح ہونی نہایت ضروری ہے۔ لیکن انہوں نے بھی صرف یہ کہہ دیا کہ یہ ٹھیک تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر اب کیا ہوسکتا ہے` کیا بن سکتا ہے۔ اسی طرح میں نے تمام لیڈروں سے ملاقاتیں کرکرکے سارا زور لگایا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان صلح ہو جائے مگر افسوس کہ کسی نے میری بات نہ سنی اور صرف اس لئے نہ سنی کہ میں پانچ لاکھ کا لیڈر تھا اور وہ کروڑوں کے لیڈر تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب ملک کے اندر جگہ جگہ فسادات ہورہے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ اگر یہ لوگ اس وقت میری بات کو مان جاتے اور صلح صفائی کی کوشش کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ مگر میری بات کو نہ مانا گیا اور صلح سے پہلو تہی اختیار کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد بہار اور گڑھ مکتیسر کا واقعہ ہوا اور اب پنجاب میں ہورہا ہے۔ اگر اب بھی ان لوگوں کی ذہنیتیں نہ بدلیں تو یہ فسادات اور بھی بڑھ جائیں گے اور ایسی صورت اختیار کرلیں گے کہ باوجود ہزار کوششوں کے بھی نہ رک سکیں گے۔ اس وقت ضرورت صرف ذہنیتیں تبدیل کرنے کی ہے۔ اگر آج بھی ہندو اقرار کرلیں کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی۔ آئو مسلمانو! ہم سے زیادہ سے زیادہ حقوق لے لو تو آج ہی صلح ہوسکتی ہے اور یہ تمام جھگڑے رفع دفع ہوسکتے ہیں۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ بغض پر بغض کی بنیادیں رکھتے چلے جاتے ہیں اور انجام سے بالکل غافل بیٹھے ہیں۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں۔ اگر وہ پنپنا چاہیں اور اگر وہ گلے ملنا چاہیں تو یہ سب کچھ آج ہی ہوسکتا ہے مگر اس کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے ذہنیتوں میں تبدیلی۔ پس آج یہ سوال نہیں رہا کہ ہمارے ساتھ پاکستان بن جانے کی صورت میں کیا ہوگا` سوال تو یہ ہے کہ اتنے لمبے تجربہ کے بعد جبکہ ہندو حاکم تھے` گو ہندو خود تو حاکم نہ تھے بلکہ انگریز حاکم تھے` لیکن ہندو حکومت پر چھائے ہوئے تھے۔ جب ہندو ایک ہندو کو اس لئے ملازمت دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے۔ جب ہندو اس لئے ایک ہندو کو ٹھیکہ دے دیتے تھے کہ وہ ہندو ہے اور جب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوئوں کو صرف اس لئے قابل اور اہل قرار دیتے تھے کہ وہ ہندو تھے اور جب ہندو انگریز کی نہیں بلکہ اپنی حکومت سمجھتے ہوئے ہندوئوں سے امتیازی سلوک کرتے تھے اور جب وہ نوکری میں ہندو کو ایک مسلمان پر صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ہندو ہے فوقیت دیتے تھے اس وقت کے ستائے ہوئے دکھائے ہوئے اور تنگ آئے ہوئے مسلمان اگر اپنے الگ حقوق کا مطالبہ کریں تو کیا ان کا یہ مطالبہ ناجائز ہے؟ کیا یہ ایک روشن حقیقت نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا جو نہایت ناواجب نہایت ناروا اور نہایت نامنصفانہ تھا۔ حال کا ایک واقعہ ہے۔ ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے۔ باوجودیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے اس سکھ کو اوپر کردیا گیا اور احمدی کو گرا دیا گیا جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اس نے کہا۔ واقعی آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ تم درخواست لکھ کر میرے پاس لائو لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کر انگریز افسر کے پاس پہنچا تو اس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اسے اوپر نہ بھجوایا۔ کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایا نہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس حکم کے خلاف اوپر نہ بھجوائی جائے۔ جس قوم کے ساتھ اتنا لمبا عرصہ یہ انصاف برتا گیا ہو کیا وہ اس امر کا مطالبہ نہ کرے گی کہ اسے الگ حکومت دی جائے۔ ان حالات کے پیش نظر ان کا حق ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اس میں اس کا نقصان ہو` مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے۔
پس ایک نقطہ نگاہ تو یہ ہے جس سے ہم اس اخبار کے متعلقہ مضمون پر غور کرسکتے ہیں۔ دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے۔ لیکن میں ہندوئوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سکھ دیا تھا۔ تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی۔ کیا بہار میں بے گناہ احمدی مارے گئے یا نہیں؟ کیا ان لوگوں کی جائدادیں تم لوگوں نے تباہ کیں یا نہیں؟ کیا ان کو بے جا دکھ پہنچایا یا نہیں؟ کیا گڑھ مکتیسر میں شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کا لڑکا تمہارے مظالم کا شکار ہوا یا نہیں؟ حالانکہ وہ ہیلتھ آفیسر تھا اور وہ تمہارے میلے میں اس لئے گیا تھا کہ اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کرے۔ اگر تم میں سے کسی کو زخم لگ جائے تو اس پر مرہم پٹی کرے اور اگر تم میں سے کوئی بخار سے مررہا ہو تو اسے کونین کھلائے۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ ہے جس کو فرقہ وارانہ حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ وہ بیچارا تمہارے علاج معالجہ کے لئے گیا تھا اس کو تم نے کیوں قتل کردیا؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی شقاوت قلبی کی کوئی اور مثال ہوسکتی ہے؟ کیا اس سے آگے بھی ظلم کی کوئی حد ہے؟ پھر اس کی بیوی نے خود مجھے اپنے دردناک حالات بتائے اس نے بتایا کہ غنڈوں نے اس کے منہ میں مٹی ڈالی۔ اسے مار مار کر ادھ مئوا کردیا۔ اس کے کپڑے اتار لئے اور اسے دریا میں پھینک دیا اور پھر اسی پر بس نہ کی بلکہ دریا میں پھینک کر سوٹیوں کے ساتھ دباتے رہے تاکہ اس کے مرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ تیرنا جانتی تھی اور وہ ہمت کرکے ہاتھ پائوں مار کر دریا سے نکل آئی اور پھر کسی کی مدد سے ہسپتال پہنچی۔۱۲۸
کیا اس سے بڑھ کر بے دردی کی کوئی مثال ہوسکتی ہے کہ ایک ناکردہ گناہ شخص اور پھر عورت پر اس قسم کے مظالم توڑے جائیں؟ کیا اس قسم کی حرکات سفاکانہ نہیں ہیں؟ ان حالات کی موجودگی میں اگر ہمارے لئے دونوں طرف ہی موت ہے تو ہم ان لوگوں کے حق میں کیوں رائے نہ دیں جن کا دعویٰ حق پر ہے۔
پھر تیسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اگر ہم ان تمام حالات کی موجودگی میں جو اوپر ذکر ہوچکے ہیں انصاف کی طرفداری کریں گے تو کیا خدا تعالیٰ ہمارے اس فعل کو نہ جانتا ہوگا کہ ہم نے انصاف سے کام لیا ہے۔ جب وہ جانتا ہوگا تو وہ خود انصاف پر قائم ہونے والوں کی پشت پناہ ہوگا۔ لکھنے والوں نے تو لکھ دیا کہ احمدیوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہاں ہے امان اللہ؟ اگر اس نے احمدیوں پر ظلم کیا تھا تو کیا خدا تعالیٰ نے اس کے اسی جرم کی پاداش میں اس کی دھجیاں نہ اڑا دیں؟ کیا خدا تعالیٰ نے اس کی حکومت کو تباہ نہ کردیا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کے تار وپود کو بکھیر کر نہ رکھ دیا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کی ذریت سمیت ذلیل اور رسوائے عالم نہ کردیا؟ کیا خدا تعالیٰ نے مظلوموں پر بے جا ظلم ہوتے دیکھ کر ظالموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا؟ اور کیا اللہ تعالیٰ نے امان اللہ کے اس ظلم کا اس سے کماحقہ بدلہ نہ لیا؟ ہاں کیا اللہ تعالیٰ نے اس کی شان و شوکت رعب اور دبدبہ کو خاک میں نہ ملا دیا؟
پھر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارا وہ خدا جس نے اس سے پیشتر ہر موقعہ پر ہم پر ظلم کرنے والوں کو سزائیں دیں کیا نعوذباللہ اب وہ مرچکا ہے؟ وہ ہمارا خدا اب بھی زندہ ہے اور اپنی ساری طاقتوں کے ساتھ اب بھی موجود ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم انصاف کا پہلو اختیار کریں گے اور اس کے باوجود ہم پر ظلم کیا جائے گا تو وہ ظالموں کا وہی حشر کرے گا جو امان اللہ کا ہوا تھا۔ اگر ہم پہلے خدا پر یقین رکھتے تھے تو کیا اب چھوڑ دیں گے؟ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے۔ وہ انصاف کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے اور ظالموں کو سزا دیتا ہے۔ وہ اب بھی اسی طرح کرے گا جس طرح اس سے بیشتر وہ ہر موقعہ پر ہماری نصرت اور اعانت فرماتا رہا۔ اس کی پکڑ` اس کی گرفت اور اس کی بطش اب بھی شدید ہے جس طرح کہ پہلے شدید تھی۔ کیا اب ہم نعوذ باللہ یہ سمجھ لیں گے کہ ہمارے انصاف پر قائم ہو جانے سے وہ ہمارا ساتھ چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں۔ یہ احمدیت کا پودا کوئی معمولی پودا نہیں۔ یہ اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کرے گا اور مخالف حالات کے باوجود کرے گا۔ دشمن پہلے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے مگر یہ پودا ان کی حسرت بھری نگاہوں کے سامنے بڑھتا رہا۔ تاریکی کے فرزندوں نے پہلے بھی حق کو دبانے کی کوشش کی مگر حق ہمیشہ ہی ابھرتا رہا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح ہوگا یہ چراغ وہ نہیں جسے دشمن کی پھونکیں بجھا سکیں یہ درخت وہ نہیں جسے عداوت کی آندھیاں اکھاڑ سکیں۔ مخالف ہوائیں چلیں گی` طوفان آئیں گے` مخالفت کا سمندر ٹھاٹھیں مارے گا اور لہریں اچھالے گا مگر یہ جہاز جس کا ناخدا خود خدا ہے پار لگ کر ہی رہے گا۔ امان اللہ کا واقعہ یاد دلانے سے کیا فائدہ۔ کیا تمہیں صرف امان اللہ کا ظلم ہی یاد رہ گیا اور تم نے اس کے انجام کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔ تمہیں وہ واقعہ یاد رہ گیا۔ مگر اس واقعہ کا نتیجہ تم بھول گئے۔ کیا امان اللہ کی ذلت اور رسوائی کی کوئی مثال تمہارے پاس موجود ہے۔ تم نے وہ واقعہ یاد دلایا تھا تو تم اس کا انجام بھی دیکھتے۔ جب وہ یورپ روانہ ہوا تو خود اس کے ایک درباری نے خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ یہ جو کچھ ہماری ذلت ہوئی وہ اسی ظلم کی وجہ سے ہوئی ہے جو ہم نے احمدیوں کے ساتھ کیا تھا۔ امید ہے کہ اب جبکہ ہمیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے لئے بددعا نہ کریں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اس کے درباریوں کو یہ یقین تھا کہ اس کی ذلت کا سبب اس کا ظلم ہے۔ آج وہی امان اللہ جو ایک بڑی شان و شوکت` رعب و جلال اور دبدبہ کا مالک تھا اپنے ظلم کی وجہ سے اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ وہ اٹلی میں بیٹھا اپنی ذلت کے دن گزار رہا ہے وہ کتنا چالاک اور ہوشیار بادشاہ تھا کہ اس نے اپنی باجگذار ریاست کو آزاد بنادیا۔ مگر جب اس نے غریب احمدیوں پر ظلم کیا تو اس کی ساری طاقت اور قوت مٹا دی گئی اور اس نے اپنے ظلم کا نتیجہ پالیا اور ایسا پایا کہ آج تک اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایک طالب حق اور انصاف پسند آدمی کے لئے یہی ایک نشان کافی ہے۔ کاش! لوگ اس پر غور کرتے۔
شاید یہاں کوئی شخص یہ اعتراض کردے کہ امان اللہ کے باپ نے بھی تو احمدی مروائے تھے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے ناواقفی سے ایسا کیا تھا اور امان اللہ نے جان بوجھ کر۔ کیونکہ ہمارے استفسار پر اس کی حکومت کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ بے شک احمدی مبلغ بھجوا دیئے جائیں اب وہ وحشت کا زمانہ نہیں رہا` ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن جب ہمارے مبلغ وہاں پہنچے تو اس نے انہیں قتل کرا دیا۔ پھر یہ بھی نہیں کہ حبیب اللہ کو سزا نہیں ملی۔ وہ بھی اس سزا سے باہر نہیں رہا کیونکہ اس کی ساری نسل تباہ ہوگئی۔ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے صرف امان اللہ کا بدلہ نہیں لیا بلکہ اس بدلہ میں حبیب اللہ اور عبدالرحمن بھی شامل ہیں۔
پس یہ ہے ہمارا تیسرا نقطہ نگاہ۔ ان تینوں نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمارے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ ہم نے تو اس معاملہ کو انصاف کی نظروں سے دیکھنا ہے اور انصاف کے ترازو پر تولنا ہے۔ ہندوئوں کے ہاں انصاف کا یہ حال ہے کہ برابر سو سال سے ہندو مسلمانوں کو تباہ کرتے چلے آرہے تھے اور صرف ہندو کا نام دیکھ کر ملازمت میں رکھ لیتے رہے اور مسلمان کا نام آنے پر اس کی درخواست کو مسترد کردیتے رہے۔ جب درخواست پر رلارام کا نام لکھا ہوتا تو درخواست کو منظور کرلیا جاتا رہا۔ اور جب درخواست پر عبدالرحمن کا نام آجاتا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا۔ اس بات کا خیال نہ رکھا جاتا رہا کہ رلارام اور عبدالرحمن میں سے کون اہل ہے اور کون نااہل۔ اس بات کو ملحوظ نہ رکھا جاتا رہا کہ رلارام اور عبدالرحمن میں سے کون قابل ہے اور کون ناقابل` اور اس امر کو پیش نظر نہ رکھا جاتا رہا کہ رلارام اور عبدالرحمن میں سے کون لائق ہے اور کون نالائق۔ صرف ہندئوانہ نام کی وجہ سے اسے رکھ لیا جاتا اور صرف اسلامی نام کی وجہ سے اسے رد کردیا جاتا۔
ہم نے ان حالات کی وجہ سے بار بار شور مچایا۔ ہندو لیڈروں سے اس ظلم کے انسداد کی کوشش کے لئے کہا مگر کسی کے کان پرجوں تک نہ رینگی اور رینگتی بھی کیسے` وہ اپنی اکثریت کے نشے میں چور تھے` وہ اپنی حکومت کے رعب میں مدہوش تھے اور وہ اپنی طاقت کی وجہ سے بدمست تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہر جہت سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کی ہر ترقی کی راہ میں روکاوٹیں اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہرممکن سازشیں کیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم مظلوم قوم کی مدد کریں۔ چاہے وہ ہمیں ماریں یا دکھ پہنچائیں۔ ہمیں تو ہر قوم نے ستایا اور دکھ دیا ہے۔ لیکن ہم نے انصاف نہیں چھوڑا۔ جب ہندوئوں پر مسلمانوں نے ظلم کیا ہم نے ہندوئوں کا ساتھ دیا۔ جب مسلمانوں پر ہندوئوں نے ظلم کیا ہم نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ جب لوگوں نے بغاوت کی ہم نے حکومت کا ساتھ دیا۔ اور جب حکومت نے ناواجب سختی کی ہم نے رعایا کی تائید میں آواز اٹھائی اور ہم اسی طرح کرتے جائیں گے خواہ اس انصاف کی تائید میں ہمیں کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ ہمیں سب قوموں کے سلوک یاد ہیں۔ کیا ہمیں وہ دن بھول گئے ہیں جب سردار کھڑک سنگھ صاحب نے تقریر کی تھی کہ ہم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور قادیان کے ملبہ کو دریا برد کردیں گے۔ پھر کیا لیکھرام ہندو تھا یا نہیں؟ وہ لوگ جنہوں نے احراریوں کا ساتھ دیا تھا وہ ہندو تھے یا نہیں؟
مگر ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ جو شخص یا جماعت خدا تعالیٰ کا پیغام لے کر کھڑی ہو اس کی ساری دنیا دشمن ہوتی ہے۔ اس لئے لوگوں کی ہمارے حق کے ساتھ دشمنی ایک طبعی امر ہے ہم نے ملکانہ میں جہاں لاکھوں مسلمانوں کو آریوں نے مرتد کر دیا تھا اور شدھ بنا لیا تھا جاکر تبلیغ کی اور انہیں پھر حلقہ بگوش اسلام کیا اور جب وہاں اسلام کو غلبہ نصیب ہوگیا اور آریہ مغلوب ہوگئے تو وہی لوگ جو ملکانوں کے ارتداد کے وقت شور مچاتے تھے کہ احمدی کہاں گئے اور کہتے تھے وہ اب کیوں تبلیغ نہیں کرتے` وہی شور مچانے والے ملکانوں کے دوبارہ اسلام لانے پر ان کے گھر گھر گئے اور کہتے پھرے تم آریہ ہو جائو مگر مرزائی نہ بنو۔ ادھر ہندو ریاستوں نے ظلم پر ظلم کئے۔ الور والوں نے بھی ظلم کیا اور بھرت پور میں بھی یہی حال ہوا۔ جب ہمارے آدمی وہاں جاتے تو راجہ کا حکم پہنچ جاتا کہ تمہاری وجہ سے امن شکنی ہورہی ہے جلد از جلد اس علاقے سے نکل جائو۔
ملکانہ کے ایک گائوں میں ایک بڑھیا مائی جمیا شدھ ہونے سے بچی تھی باقی اس کے تین چار بیٹے آریوں نے مرتد کرلئے تھے اور بیٹوں نے اس بڑھیا ماں سے کہا تھا کہ ماں! ہم دیکھیں گے کہ اب مولوی ہی آکر تمہارا فصل کاٹیں گے۔ کسی نے مجھے لکھا کہ ایک بڑھیا کو اس قسم کا طعنہ دیا گیا ہے اور ¶اب اس کی فصل پک کر تیار کھڑی ہے۔ میں نے کہا۔ اسلام اور احمدیت کی غیرت چاہتی ہے کہ اب مولوی اور تعلیم یافتہ لوگ ہی جاکر اس بڑھیا کا کھیت کاٹیں۔ چنانچہ میں نے اس کے لئے تحریک کی تو بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ جن میں جج بھی تھے اور بیرسٹر بھی` وکلاء بھی تھے اور ڈاکٹر بھی` مولوی بھی تھے اور مدرس بھی۔ اور انہیں میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد مرحومؓ بھی گئے اور خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب سیشن جج بھی گئے ان سب تعلیم یافتہ لوگوں نے جاکر اس بڑھیا کا کھیت کاٹا۔ ان کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے۔ مگر اس بات کا اتنا رعب ہوا کہ اس سارے علاقہ میں احمدیوں کی دھاک بیٹھ گئی مگر وہاں کے راجہ نے اتنا ظلم کیا کہ یہ لوگ چار پانچ میل گرمی میں جاتے تھے تو رات کو واپس سٹیشن پر آکر سوتے تھے۔ چودھری نصر اللہ خاں صاحبؓ باوجودیکہ بڈھے آدمی تھے ان کو بھی مجبوراً روزانہ گرمی میں چار میل جانا اور چار میل آنا پڑتا تھا۔ آخر میں نے اپنا ایک آدمی گورنمنٹ ہند کے پولیٹیکل سیکرٹری کی طرف بھجوایا کہ اتنا ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ اس ریاست میں جو چار پانچ لاکھ ہندو ہے وہ فساد نہیں کرتا اور ہمارے چند آدمیوں کے داخلہ سے فساد کا اندیشہ ہے۔ اس وقت پولیٹیکل سیکرٹری سر تھامسن تھے۔ انہوں نے جواب دیا میں اس میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں راجہ سے کہوں گا۔ اگر وہ مان جائے تو بہتر ہے۔ سر تھامسن نے ہمدردی کی مگر ساتھ معذوری کا اظہار بھی کیا۔ لیکن ابھی اس پر پندرہ دن بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ راجہ پاگل ہوگیا اور اس کو ریاست سے باہر نکال دیا گیا۔ اور پاگل ہونے کی حالت میں ہی وہ مرا۔ اسی طرح اس وقت کے الور والے راجہ کو بھی بعد میں سیاسی جرائم کی وجہ سے نکال دیا گیا۔
پس ہمارا خدا جو علیم اور خبیر ہے وہ اب بھی موجود ہے۔ اگر ہم انصاف سے کام لیں گے اور پھر بھی ہم پر ظلم ہوگا تو وہ ضرور ظالموں کو گرفت کئے بغیر نہ چھوڑے گا۔ ظلم تو ہمیشہ سے نبیوں کی جماعتوں پر ہوتا آیا ہے۔ مگر یہ نہایت ذلیل احساسات ہیں جو اس اخبار نے پیش کئے ہیں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی ہم پر ہمیشہ ظلم کیا۔ شروع شروع میں جب احمدی تالاب سے مٹی لینے جاتے تھے تو یہاں کے سکھ وغیرہ ڈنڈے لے کر آجاتے تھے۔ آخر ہمارے ساتھ کس نے کمی کی۔ مگر ہر موقعہ پر خدا ہماری
‏vat,10.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
مدد کرتا رہا۔ ہمارا دشمن اگر ہمارے ساتھ ظلم اور بے انصافی بھی کرے تو ہم انصاف سے کام لیں گے اور جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے خدا ہمارا ساتھ نہیں دے گا۔ پس ہم دیکھیں گے کہ حق کس کا ہے۔ ہندو کا ہوگا تو اس کی مدد کریں گے۔ سکھ کا ہوگا تو اس کی مدد کریں گے۔ مسلمان کا ہوگا تو اس کی مدد کریں گے۔ ہم کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں دیکھیں گے بلکہ اس معاملہ کو انصاف کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور جب انصاف پر قائم ہونے کے باوجود ہم پر ظلم ہوگا تو خدا کہے گا انہوں نے دشمنوں کے ساتھ انصاف کیا تھا کیا میں ان کا دوست ہوکر ان سے انصاف نہ کروں گا اور اس کی غیرت ہمارے حق میں بھڑکے گی جو ہمیشہ ہمارے کام آئے گی۔ )انشاء اللہ(۱۲۹
۳۔ جون کا برطانوی اعلان
ملک کے حالات روز بروز ابتر ہورہے تھے اور مفاہمت کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اسی لئے انگریزی حکومت نے انتقال اقتدار کی مہم کو جلد از جلد سر کرنے کے لئے آخری قدم یہ اٹھایا کہ لارڈ ویول کو لندن واپس بلالیا اور ان کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن کو وائسرائے بنا کر بھیج دیا جنہوں نے ۳۔ جون ۱۹۴۷ء کو وہ سکیم نشر کی جو کابینہ کی مکمل تائید کے ساتھ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ اس سکیم میں اختیارات کے تفویض کرنے کا یہ ڈھانچہ تجویز کیا گیا کہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں سے سندھ` سرحد اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں سے استصواب کیا جائے کہ وہ موجودہ دستور ساز اسمبلی میں رہنا چاہتی ہیں یا ایک جدید اور جداگانہ دستور ساز اسمبلی میں جانا چاہتی ہیں۔ جہاں تک بنگال اور پنجاب کا تعلق ہے ان کی مجالس قانون ساز )یورپین ممبروں کے علاوہ( دو حصوں میں تقسیم ہو کر مجتمع ہوں۔ ایک حصے میں مسلم اکثریت والے اضلاع کے نمائندے ہوں اور دوسرے حصے میں باقی اضلاع کے۔ اور اگر ان دو حصوں میں سے کسی حصہ کی معمولی اکثریت نے بھی تقسیم کی موافقت میں رائے دی تو اس صوبہ کو تقسیم کر دیا جائے گا اور ان کی حد بندی کے لئے گورنر جنرل ایک حد بندی کمیشن مقرر کریں گے جو حد بندی اس بنیاد پر کرے گا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت والے رقبے باہمی یکسانیت رکھتے ہوں۔ فرقہ وارانہ یکسانیت و اختلاط کے علاوہ دوسرے امور FACTORS) (OTHER بھی ملحوظ رکھنے ہوں گے۔
اس سکیم میں یہ بھی تصریح کر دی گئی کہ اضلاع کی آبادی معلوم کرنے کے لئے ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار قطعی سمجھے جائیں گے۔ سکیم میں پنجاب و بنگال کے مندرجہ ذیل اضلاع مسلم اکثریت والے اضلاع تسلیم کئے گئے۔
پنجاب )قسمت لاہور( اضلاع گوجرانوالہ۔ گورداسپور۔ لاہور۔ شیخوپورہ۔
)قسمت راولپنڈی( اضلاع اٹک۔ گجرات۔ جہلم۔ میانوالی۔ راولپنڈی۔ شاہ پور
)قسمت ملتان( اضلاع ڈیرہ غازی خاں۔ جھنگ۔ لائل پور۔ منٹگمری۔ ملتان
بنگال )قسمت چاٹگام( اضلاع چاٹگام۔ نواکھلی۔ پٹرا۔
)قسمت ڈھاکہ( اضلاع باقر گنج۔ ڈھاکہ۔ میمن سنگھ
)قسمت پریسیڈنسی( اضلاع جیسور۔ مرشد آباد۔
)قسمت راجشاہی( اضلاع بوگرا۔ دیناج پور۔ پینہ۔ راجشاہی۱۳۰
قائداعظم کا بیان
قائداعظم نے اس سکیم کے نشر ہونے کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔
>میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وائسرائے نے اسی سلسلے میں مختلف قوتوں کے ساتھ نہایت بہادری سے جنگ کی ہے اور ان کی جدوجہد نے میرے خیالات پر جو اثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر ایک کام نہایت منصفانہ اور غیر جانب دارانہ طور پر انجام دیا ہے اور اب اس کا دارومدار ہم پر ہے کہ وائسرائے کی مہم کو قدرے آسان کریں اور جہاں تک ہمارے اختیار میں ہو ہندوستان کو اقتدار منتقل کرنے کے لئے انہوں نے جس مقصد کا ذمہ لیا ہے اس میں پوری پوری مدد کریں تاکہ کامل امن اور سکون کے ساتھ یہ اقتدار ہندوستانیوں کے سپرد کر دیا جائے<۔۱۳۱]4 [rtf
تیسرا باب )فصل ہفتم(
حضرت مصلح موعود کی طرف سے سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا معرکتہ الاراء مضون >خالصہ ہوشیار باش<
۳۔ جون کی برطانوی سکیم کے بعد مطالبہ تقسیم پنجاب کو آئینی حیثیت حاصل ہوگئی اور حکومت نے اس کے فیصلہ کے لئے ۲۳۔ جون ۱۹۴۷ء کا دن مقرر کیا۔ یہ فارمولا چونکہ بظاہر سکھوں کے ایماء اور ان کے فائدہ کے لئے تسلیم کیا گیا تھا اس لئے حضرت مصلح موعود نے >سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل< کے عنوان سے ایک ٹریکٹ لکھا جو دس دس ہزار کی تعداد میں بزبان اردو و گورمکھی شائع کیا گیا۔۱۳۲ حضور نے اس ٹریکٹ میں سکھوں سے نہایت درجہ درد مند دل کے ساتھ اپیل فرمائی کہ وہ سنجیدگی اور متانت اور حقیقت پسندی سے اپنے موقف پر نظر ثانی کریں اور پنجاب کو تقسیم کرانے کی بجائے قائداعظم اور مسلم لیگ سے سمجھوتہ کرلیں۔ نیز قبل از وقت انتباہ بھی کر دیا کہ تقسیم پنجاب کے فیصلہ سے انہیں قومی اعتبار سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور ان کا مستقبل مخدوش ہو ¶جائے گا۔ حضور کا یہ ٹریکٹ آپ کے سیاسی فہم و تدبر اور بصیرت و فراست کا زندہ شاہکار ہے جس کی تاریخی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ذیل میں حضرت مصلح موعود کا یہ مضمون بجنسہ درج کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
سکھ قوم کے نام دردمندانہ اپیل
پنجاب کے بٹوارے کا برطانوی فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب خود اہل پنجاب نے اس کے متعلق اپنی آخری منظوری دینی ہے یا اس سے انکار کرنا ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس کے متعلق کوئی قدم اٹھایا جائے مناسب ہے کہ ہم اس کے متعلق پوری طرح سوچ لیں۔ ایک دفعہ نہیں دس دفعہ۔ کیونکہ تقسیم کا معاملہ معمولی نہیں بہت اہم ہے۔ اس وقت تک جو تقسیم کا اعلان ہوا ہے اس کا حسب ذیل نتیجہ نکلا ہے۔
ہندو )انگریزی علاقہ کے( ۲۱ کروڑ میں سے ساڑھے انیس کروڑ ایک مرکز میں جمع ہوگئے ہیں اور صرف ڈیڑھ کروڑ مشرقی اور مغربی اسلامی علاقوں میں گئے ہیں۔ گویا اپنی قوم سے جدا ہونے والے ہندوئوں کی تعداد صرف سات فی صدی ہے۔ بانی ترانوے فیصدی ہندو ایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے ہیں۔ مسلمان )انگریزی علاقہ کے( آٹھ کروڑ میں سے پانچ کروڑ دو اسلامی مرکزوں میں جمع ہوگئے ہیں اور تین کروڑ ہندو اکثریت کے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔ گویا اپنی قوم سے جدا ہونے والے مسلمان سینتیس فیصدی ہیں۔ سکھ )انگریزی علاقہ میں رہنے والے( ۲۱۔ لاکھ مشرقی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور سترہ لاکھ مغربی پنجاب میں رہ گئے ہیں۔ گویا ۴۵ فیصدی سکھ مغربی پنجاب میں چلے گئے ہیں اور ۵۵ فیصدی مشرقی پنجاب میں اور تینوں قوموں کی موجودہ حالت یہ ہوگئی ہے۔ ہندو ننانوے فیصدی اپنے مرکز میں جمع ہوگئے ہیں۔ مسلمان چونسٹھ فیصدی اپنے دو مرکزوں میں جمع ہوگئے ہیں۔ سکھ پچپن فیصدی اور پینتالیس فیصدی ایسے دو مرکزوں میں جمع ہوگئے ہیں جہاں انہیں اکثریت کا حاصل ہونا تو الگ رہا پچیس فیصدی تعداد بھی انہیں حاصل نہیں۔ کیا اس صورت حالات پر سکھ خوش ہوسکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ اس بٹوارہ سے ہندوئوں کو بے انتہاء فائدہ پہنچا ہے۔ مسلمانوں کو اخلاقی طور پر فتح حاصل ہے لیکن مادی طور پر نقصان سکھوں کو مادی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچا ہے۔ گویا سب سے زیادہ گھاٹا سکھوں کو ہوا ہے اور اس سے کم مسلمانوں کو۔ ہندوئوں کو ¶کسی قسم کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ صرف اس غنیمت میں کمی آئی ہے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔
لیکن ابھی وقت ہے کہ ہم اس صورت حالات میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ۲۳۔ تاریخ کے بعد پھر یہ سوال آسانی سے حل نہ ہوسکے گا۔ سکھ صاحبان جانتے ہیں کہ احمدیہ جماعت کو کوئی سیاسی اور مادی فائدہ اس یا اس سکیم سے حاصل نہیں ہوتا۔ احمدی جماعت کو ہر طرف سے خطرات نظر آرہے ہیں۔ ایک پہلو سے ایک خطرہ ہے تو دوسرے پہلو سے دوسرا۔ پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں عام سیاسی نظریہ اور سکھوں کی خیر خواہی کے لئے کہہ رہا ہوں۔ میں جس علاقہ میں رہتا ہوں گو اس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن سکھ اس علاقے میں کافی ہیں اور ہمارے ہمسائے ہیں اور ان کی نسبت آبادی کوئی ۳۳ فیصدی تک ہے۔ اس لئے سکھوں سے ہمارے تعلقات بہت ہیں۔ بعض سکھ رئوساء سے ہمارا خاندانی طور پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ سے بھائی چارہ اب تک چلا آتا ہے۔ اس لئے میری رائے محض خیر خواہی کی بناء پر ہے۔ میرا دل نہیں چاہتا کہ سکھ صاحبان اس طرح کٹ کر رہ جائیں۔ اگر تو کوئی خاص فائدہ سکھوں کو پہنچتا تو میں اس تجویز کو معقول سمجھتا۔ مگر اب تو صرف اس قدر فرق پڑا ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمان تعداد میں اول تھے` ہندو دوم اور سکھ سوم۔ اور اب مشرقی پنجاب میں ہندو اول` مسلمان دوم اور سکھ سوم ہیں۔ سکھ اگر اس بٹوارے سے دوم ہو جاتے تو کچھ معقول بات بھی تھی۔ مگر صرف مسلمان اول سے دوم ہوگئے ہیں اور ہندو دوم سے اول سکھوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے اپنے حق سے ساڑھے پانچ فیصدی سکھوں کو دے دیا تھا۔ اب تک ہندوئوں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا کہ وہ کتنا حصہ اپنے حصہ میں سے سکھوں کو دینے کو تیار ہیں۔ پرانے پنجاب میں چودہ فیصدی سکھوں کو اکیس فیصدی حصہ ملا ہوا تھا۔ اب اٹھارہ فیصدی سکھ مشرقی پنجاب میں ہوگئے ہیں۔ اگر ہندو جو تعداد میں اول نمبر پر ہیں مسلمانوں کی اس طرح اپنے حق سے سکھوں کو دیں تو سکھوں کو نئے صوبہ میں چھبیس فیصدی حق ملنا چاہئے۔ گو سکھ پرانے انتظام پر خوش نہ تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے صوبہ تقسیم کروایا ہے۔ اس لئے انہیں ہندوئوں سے تیس فصدی ملے تو وہ تب دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو پرانے پنجاب سے ہم زیادہ فائدہ میں رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیں ڈیوڑھا حق دیا تھا۔ اب ہندوئوں نے اپنے حق سے کاٹ کر ہمیں پونے دوگنا دے دیا ہے۔ اس لئے ہمارا بٹوارہ پر زور دینا درست تھا لیکن اگر ایسا نہ ہو اور ہندوئوں نے اپنے حصہ سے اس نسبت سے بھی سکھوں کو نہ دیا جس نسبت سے پرانے پنجاب میں مسلمانوں نے سکھوں کو دیا تھا تو سکھ قوم لازماً گھاٹے میں رہے گی۔ نئے صوبہ میں اٹھارہ فیصدی سکھ ہوں گے۔ بتیس فیصدی مسلمان اور پچاس فیصدی ہندو۔ اگر ہندو اسی نسبت سے اپنا حق سکھوں کو دیں جس طرح مسلمانوں نے پنجاب میں دیا تھا تو سکھوں کو چھبیس فیصدی حق مل جائے گا اور نمائندگی کی یہ شکل ہوگی کہ بتیس فیصدی مسلمان` چھبیس فیصدی سکھ اور بیالیس فیصدی ہندو۔ لیکن اول تو ایسا کوئی وعدہ ہندوئوں نے سکھوں سے اب تک نہیں کیا۔ وہ غالباً یہ کوشش کریں گے کہ مسلمانوں کے حق سے سکھوں کو دینا چاہئے۔ لیکن سکھوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے فتنہ کا دروازہ کھلے گا۔ جب مسلمان زیادہ تھے انہوں نے اپنے حصہ سے سکھوں کو دیا۔ اب ہندو زیادہ ہیں اب انہیں اپنے حصہ سے سکھوں کو دینا چاہئے ورنہ تعلقات ناخوشگوار ہو جائیں گے۔
فرض کرو کہ ہندو سکھوں کو اپنی نیابت کے حق سے دے بھی دیں جتنا انہیں مسلمانوں نے اپنے حق سے دیا ہوا تھا تو پھر بھی سکھ صاحبان کو ان امور پر غور کرنا چاہئے۔
)۱( تمام سکھ امراء منٹگمری` لائل پور اور لاہور میں بستے ہیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ لائل پور منٹگمری اور لاہور کے سکھ زمیندار کو ملا کر فی سکھ آٹھ ایکڑ کی ملکیت بنتی ہے۔ لیکن لدھیانہ` ہوشیارپور` فیروزپور` امرتسر کی سکھ ملکیت کے لحاظ سے ایک ایکڑ فی سکھ ملکیت ہوتی ہے۔ کیونکہ لدھیانہ اور جالندھر میں سکھوں کی ملکیت بہت کم ہے اور اسی وجہ سے وہ زیادہ تر مزدوری پیشہ اور فوجی ملازم ہیں یا ملک سے باہر جاکر غیر ممالک میں کمائی کرتے ہیں۔
اس وجہ سے اگر یہ تقسیم قائم رہی تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلے گا کہ مالدار سکھ مغربی پنجاب سے جاملیں گے اور اگر مسلمانوں کا رویہ ان سے اچھا رہا اور خدا کرے اچھا رہے تو ان کی ہمدردی مشرقی سکھ سے بالکل جاتی رہے گی اور کوئی مالی امداد وہ اسے نہ دیں گے اور مشرقی علاقہ کا سکھ جو پہلے ہی بہت غریب ہے اپنی تعلیمی اور تہذیبی انجمنوں کو چلا نہ سکے گا۔ دوسرے اسے یہ نقصان ہوگا کہ سکھ قوم مشرقی حصہ میں اقتصادی طور پر اپنا سر اونچا نہ رکھ سکے گی۔ تیسرے اس سے یہ نقص پیدا ہوگا کہ ہوشیارپور` فیروزپور` جالندھر اور لدھیانہ کے سکھ پہلے سے بھی زیادہ غیر ملکوں کی طرف جانے کے لئے مجبور ہوں گے اور مشرقی پنجاب کے سکھوں کی آبادی روز بروز گرتی چلی جائے گی اور شاید چند سال میں ہی مشرقی پنجاب میں بھی سکھ چودہ فیصدی پر ہی آجائیں۔
پانچویں اس امر کا بھی خطرہ ہے کہ اس بٹوارے کی وجہ سے مغربی پنجاب کی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ وہ زمین جو مشرقی پنجاب کے لوگوں کو مغربی پنجاب میں جنگی خدمت کی وجہ سے دی گئی ہے وہ اس بناء پر ضبط کرلی جائے کہ اب ان خدمات کا صلہ دینا نئے ہندو مرکز کے ذمہ ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ لوگ الگ ہوگئے ہیں تو اس خدمت کا صلہ جو درحقیقت مرکزی خدمت تھی وہ صوبہ دے جس کا وہ شخص سیاسی باشندہ بھی نہیں ہے۔ زمیندارہ نقصان کے علاوہ کہ سکھوں کی دو تہائی جائیداد مغربی پنجاب میں رہ جائے گی ایک اور بہت بڑا خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو سکھ تجارت کرتے ہیں ان میں سے اکثر حصہ کی تجارت مغربی پنجاب سے وابستہ ہے سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت ہندو علاقہ سے وابستہ ہے` باقی سب سکھ تجارت مسلمان علاقہ سے وابستہ ہے۔ سکھوں کی تجارت جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں پنجاب میں راولپنڈی` کوئٹہ` جہلم اور بلوچستان سے وابستہ ہے اور تجارت کی ترقی کے لئے آبادی کی مدد بھی ضروری ہوتی ہے۔ جب سکھوں کی دلچسپی مغربی پنجاب اور اسلامی علاقوں سے کم ہوگی تو لازماً اس تجارت کو بھی نقصان پہنچے گا سوائے سردار بلدیو سنگھ صاحب کے جن کی تجارت بہار سے وابستہ ہے اور کونسا بڑا سکھ تاجر ہے جو مشرقی پنجاب یا ہندوستان میں وسیع تجارت رکھتا ہو۔ ساری کشمیر کی تجارت جو راولپنڈی کے راستہ سے ہوتی ہے یا جہلم کے ذریعہ سے ہوتی ہے سکھوں کے پاس ہے۔ ایران سے آنے والا مال اکثر سکھوں کے ہاتھ سے ہندوستان کی طرف آتا ہے اور اس تجارت کی قیمت کروڑوں تک پہنچتی ہے۔ اگر یہ تاجر موجودہ افراتفری میں اپنی تجارتوں کو بند کریں گے تو نئی جگہ کا پیدا کرنا ان کے لئے آسان نہ ہوگا اور اگر وہ اپنی جگہ پر رہیں گے تو اسلامی حضہ ملک میں ان کی آبادی کے کم ہو جانے کی وجہ سے وہ اس سیاسی اثر سے محروم ہو جائیں گے جو اب ان کی تائید میں ہے اور پھر اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے علاقہ میں ہی رہیں تو آہستہ آہستہ ان کی ہمدردی اپنے مشرقی بھائیوں سے کم ہو جائے گی اور سکھ انجمنیں ان کی امداد سے محروم رہ جائیں گی۔ یہ امر بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ مشرقی صوبہ کا دارالحکومت لازماً دہلی کے پاس بنایا جائے گا اور اس طرح امرتسر اپنی موجودہ حیثیت کو کھو بیٹھے گا۔ اس وقت تو لاہور کے قریب ہونے کی وجہ سے جہاں کافی سکھ آبادی ہے امرتسر تجارتی طور پر ترقی کررہا ہے لیکن اگر دارالحکومت مثلاً انبالہ چلا گیا تو انبالہ بوجہ امرتسر سے دور ہونے کے قدرتی طور پر اپنی تجارتی ضرورتوں کے لئے امرتسر کی جگہ دہلی کی طرف دیکھے گا اور لاہور حکومت کے اختلاف کی وجہ سے امرتسر پہلے ہی جدا ہوچکا ہوگا۔ پھر امرتسر کی تجارت ۳/۱ حصہ اس مال کی وجہ سے ہے جو افغانستان بخارا اور کشمیر سے آتا ہے یہ مال بھی اپنے لئے نئے راستے تلاش کرے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امرتسر کی تجارتی حیثیت بہت گر جائے گی اور یہ شاندار شہر جلد ہی ایک تیسرے درجہ کا شہر بن جائے گا۔
اگر مغربی پنجاب نے مشرقی پنجاب کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو وہ اٹھارہ لاکھ سکھ جو مغربی پنجاب میں بستے ہے` ایک بڑا کالج مغربی پنجاب میں بنانے پر مجبور ہوں گے اور چونکہ بڑے زمیندار اور بڑے تاجر سکھ مغربی پنجاب میں ہیں` ان کے لئے ایک بہت بڑا کالج بنانا مشکل نہ ہوگا۔ اس طرح خالصہ کالج امرتسر بھی اپنی شان کھو بیٹھے گا اور سکھوں کے اندر دو متوازی سکول اقتصادی اور سیاسی اور تمدنی فلسفوں کے پیدا ہو جائیں گے۔
بے شک ساری قوموں کو ہی اس بٹوارہ سے نقصان ہوگا لیکن چونکہ ہندوئوں کی اکثریت ایک جگہ اور مسلمانوں کی اکثریت ایک جگہ جمع ہو جائے گی انہیں یہ نقصان نہ پہنچے گا۔ یہ نقصان صرف سکھوں کو پہنچے گا جو قریباً برابر تعداد میں دونوں علاقوں میں بٹ جائیں گے اور دونوں میں سے کوئی حصہ اپنی بڑائی کو دوسرے حصہ پر قربان کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ آبادی کے تبادلہ سے یہ مشکل حل کی جاسکے گی لیکن یہ درست نہیں۔ لائل پور` لاہور` منٹگمری` شیخوپورہ` گوجرانوالہ اور سرگودھا کے سکھ اپنی نہری زمینوں کو چھوڑ کر بارانی زمینوں کو لینے کے لئے کب تیار ہوں گے اور اگر وہ اس پر راضی ہوگئے تو مالی لحاظ سے یہ ان کے لئے بڑا اقتصادی دھکا ہوگا جس کی وجہ سے قومی انحطاط شروع ہو جائے گا۔
پس پیشتر اس کے کہ سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے متعلق کوئی فیصلہ کریں انہیں ان سب امور پر غور کرلینا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ بعد میں اس مشکل کا حل نہ نکل سکے اور پچھتانا پڑے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اگر مشکلات پیدا ہوئیں اور ان کا کوئی علاج نہ نکلا تو اس وقت پھر سکھ صاحبان مغربی پنجاب میں آسکتے ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ اس لئے کہ اگر اب سکھ صاحبان پنجاب کے بٹوارے کے خلاف رائے دیں تو ان کے ووٹ مسلمانوں کے ووٹوں سے مل کر بٹوارے کو روک سکتے ہیں۔ لیکن اگر بعد میں انہوں نے ایسا فیصلہ کیا تو یہ صاف بات ہے کہ انبالہ ڈویژن ان کے ساتھ شامل نہ ہوگا اور اگر مغربی پنجاب سے ملا تو صرف جالندھر ڈویژن ملے گا اور اس وقت پنجاب کی یہ حالت ہوگی کہ اس میں پندرہ فیصدی سکھ ہوں گے اور پندرہ فیصدی ہندو اور ستر فیصدی مسلمان۔ حالانکہ متحدہ پنجاب کی صورت میں بیالیس فیصدی ہندو اور سکھ ہوں گے اور چھپن فیصدی مسلمان اور دو فیصدی دوسرے لوگ۔ ظاہر ہے کہ چونتالیس فیصدی لوگ حکومت میں جو آواز اور اثر رکھتے ہیں وہ تیس فیصدی لوگ کسی صورت میں نہیں رکھ سکتے۔ پس بعد کی تبدیلی کسی صورت میں سکھوں کو وہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو اس وقت کی تبدیلی پہنچا سکتی ہے کیونکہ ایک دفعہ پنجاب بانٹا گیا تو پھر انبالہ ڈویژن کو واپس لانا سکھوں کے اختیار سے باہر ہو جائے گا۔
سکھ صاحبان کو یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ابھی سے ہندوئوں کی طرف سے یہ آواز اٹھائی جارہی ہے کہ یوپی کے چند اضلاع ملا کر مشرقی پنجاب کا ایک بڑا صوبہ بنا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس نئے صوبہ میں ہندو ساٹھ فیصدی` مسلمان تیس فیصدی اور سکھ صرف دس فیصدی رہ جائیں گے۔ بعض سکھ صاحبان یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ جالندھر ڈویژن کی ایک سکھ ریاست بنا دی جائے گی۔ بے شک اس صورت میں سکھوں کی آبادی کی نسبت اس علاقہ میں بڑھ جائے گی۔ مگر اس صورت میں بھی مختلف قوموں کی نسبت آبادی یوں ہوگی ۶۰ء۲۵ سکھ` ۵۰ء۳۴ مسلمان اور تقریباً چالیس فیصدی ہندو۔ اس صورت حالات میں بھی سکھوں کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ پرانے پنجاب میں بھی تو سکھوں کو بائیس فیصدی نمائندگی ملی ہوئی تھی۔ پس اگر جالندھر ڈویژن کا الگ صوبہ بھی بنا دیا گیا۔ تو اس سے ہندوئوں اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ انبالہ ڈویژن کے الگ ہو جانے کی وجہ سے انبالہ صوبہ پر کلی طور پر ہندوئوں کا قبضہ ہو جائے گا اور جالندھر ڈویژن میں بوجہ چالیس فیصدی رہ جانے کے سکھ ان سے اپنے لئے زیادہ نمائندگی کا مطالبہ نہیں کرسکیں گے اور توازن بہت مضبوطی سے ہندوئوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا اور وہ انبالہ کے صوبہ میں بغیر کسی سے سمجھوتہ کرنے کے حکومت کرسکیں گے اور جالندھر میں کچھ سکھوں یا مسلمانوں کو ملا کر حکومت کرسکیں گے۔ ایک اور سخت نقصان سکھوں کو اس صورت میں یہ پہنچے گا کہ جالندھر ڈویژن کے سکھوں میں کمیونزم بہت زیادہ زور پکڑ رہی ہے۔ فیروزپور` لدھیانہ اور ہوشیارپور اس کے گڑھ ہیں۔ اس علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں کی آواز بہت طاقت پکڑ جائے گی۔ اور اکالی پارٹی چند سالوں میں ہی اس خطرناک بلا کا مقابلہ کرنے سے اپنے آپ کو بے بس پائے گی۔ خصوصاً جب کہ سیاسی چالوں کی وجہ سے بعض خود غرض پارٹیاں کمیونسٹوں کی مدد کرنے پر آمادہ ہو جائیں گی۔ جیسا کہ گزشتہ الیکشن پر سکھ صاحبان کو تلخ تجربہ ہوچکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ میں نے کافی روشنی ان خطرات پر ڈال دی ہے جو سکھوں کو پیش آنے والے ہیں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ۲۳۔ جون کو ہونے والی اسمبلی کی میٹنگ میں وہ ان امور کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ سب سے زیادہ اثر عوام سکھوں پر پڑنے والا ہے۔ وہ بھی اپنے لیڈروں پر زور دیں گے کہ اس خودکشی کی پالیسی سے ان کو بچایا جائے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ میں بوجہ ایک چھوٹی سی جماعت کا امام ہونے کے کوئی سیاسی غرض اس مشورہ میں نہیں رکھتا۔ اس لئے سکھ صاحبان کو سمجھ لینا ¶چاہئے کہ میرا مشورہ بالکل مخلصانہ اور محض ان کی ہمدردی کی وجہ سے ہے۔ اگر سیاست میرے اختیار میں ہوتی تو میں انہیں ایسے حقوق دے کر بھی جن سے ان کی تسلی ہو جاتی` انہیں اس نقصان سے بچاتا۔ مگر سیاست کی طاقت میرے ہاتھ میں نہیں اس لئے میں صرف نیک مشورہ ہی دے سکتا ہوں۔ ہاں مجھے امید ہے کہ اگر سکھ صاحبان مسٹر جناح سے بات کریں تو یقیناً انہیں سکھوں کا خیر خواہ پائیں گے۔ مگر انہیں بات کرتے وقت یہ ضرور مدنظر رکھ لینا چاہئے کہ ہندو صاحبان انہیں کیا کچھ دینے کو تیار ہیں۔ کیونکہ خود کچھ نہ دینا اور دوسروں سے لینے کے مشورے دینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس میں مشورہ دینے والے کا کچھ حرج نہیں ہوتا۔ پس اچھی طرح اونچ نیچ کو دیکھ کر وہ اگر مسلم لیگ کے لیڈروں سے ملیں تو مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ کے لیڈر انہیں ناامید نہیں کریں گے۔ اگر مجھ سے بھی اس بارہ میں کوئی خدمت ہوسکے تو مجھے اس سے بے انتہاء خوشی ہوگی۔
آخر میں میں سکھ صاحبان کو مشورہ دیتا ہوں کہ سب کاموں کی کنجی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ گورونانک دیو جی اور دوسرے گوروئوں کے طریق کو دیکھیں۔ وہ ہر مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس ¶وقت ان کو بھی اپنی عقل پر سارا انحصار رکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی چاہئیں تا اللہ تعالیٰ انہیں وہ راستہ دکھا دے جس میں ان کی قوم کی بھی بھلائی ہو اور دوسری قوموں کی بھی بھلائی ہو یہ دن گزر جائیں گے۔ یہ باتیں بھول جائیں گی۔ لیکن محبت اور پریم کے کئے ہوئے کام کبھی نہیں بھولیں گے اگر بٹوارہ بھی ہونا ہے تو وہ بھی اس طرح ہونا چاہئے کہ ایک قوم کا گائوں دوسری قوم کے گائوں میں اس طرح نہ گھسا ہوا ہو کہ جس طرح دو کنگھیوں کے دندانے ملا دیئے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو سرحد میں چھائونیاں بن جائیں گی اور سینکڑوں میل کے بسنے والے لوگ قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے اور علاقے اجڑ جائیں گے۔ یہ میری نصیحت سکھوں ہی کو نہیں مسلمانوں کو بھی ہے۔ میرے نزدیک تحصیلوں کو تقسیم کا یونٹ تسلیم کرلینے سے اس فتنہ کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس سے چھوٹا یونٹ بنایا گیا تو جتنا جتنا چھوٹا وہ ہوتا جائے گا اتنا اتنا نقصان زیادہ ہوگا۔ ایک عرب شاعر اپنی معشوقہ کو مخاطب کرکے کہتا ہے۔ ع
فان کنت قد از معت صرما فاجملی
یعنی اے میری محبوبہ! اگر تو نے جدا ہونے کا فیصلہ ہی کرلیا تو کسی پسندیدہ طریق سے جدا ہو۔
میں بھی ہندو` مسلمان` سکھ سے کہتا ہوں کہ اگر جدا ہونا ہی ہے تو اس طرح جدا ہو کہ سرحدوں کے لاکھوں غریب باشندے ایک لمبی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ میں نے ہندوئوں کو کیوں مخاطب نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے ہندو بھی ہمارے بھائی ہیں اور میں ان کا کم ہمدرد نہیں۔ مگر ہندو چونکہ اپنے مرکز کی طرف گئے ہیں۔ ان کا فوری نقصان تو ہوگا مگر بوجہ اس کے کہ وہ اکثر تاجر پیشہ ہیں وہ جلد اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں گے۔ اس لئے انہیں یہ کہنا کہ اس تقسیم سے آپ کا دائمی نقصان ہوگا جھوٹ بن جاتا ہے۔ اس لئے میں نے انہیں مخاطب نہیں کیا ورنہ ان سے مجھے کم ہمدردی نہیں۔
آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب! میرے اہل ملک کو سمجھ دے اور اول تو یہ ملک بٹے نہیں اور اگر بٹے تو اس طرح بٹے کہ پھر مل جانے کے راستہ کھلے رہیں۔ اللہم آمین۔
خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان
)۱۷۔ جون ۱۹۴۷ء(۱۳۳
>خالصہ ہوشیار باش<
حضرت مصلح موعودؓ کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اس موقعہ پر پے در پے مضامین۱۳۴ لکھے جن میں حقائق و دلائل کی روشی میں آپ نے تقسیم پنجاب کے مطالبہ کے عوامل و نتائج کا مفکرانہ طریق سے تجزیہ فرمایا اور سکھ بھائیوں کو نہایت مخلصانہ مشورے دیئے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کے قلم سے نکلے ہوئے یہ سب حقیقت افروز مضامین سلسلہ کے لٹریچر میں محفوظ ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ یوں تو یہ سب معرکتہ الاراء مضامین اپنے اپنے رنگ میں نہایت درجہ معلومات افزا اور مدلل اور منفرد علمی شان کے حامل تھے مگر جس مضمون نے سکھوں میں ایک زبردست جنبش پیدا کردی۱۳۵ وہ مسلم لیگ کے ترجمان >پاکستان ٹائمز< میں چھپا۔ اس مضمون کا عنوان تھا PUNJAB> DIVIDED IN SIKHS OF <POSITION >منقسم پنجاب میں سکھوں کی حیثیت<۔ نواب مظفر علی خاں صاحب آف واہ نے ۲۔ مئی ۱۹۴۷ء کو اس مضمون کی نسبت بذریعہ خط مندرجہ ذیل تاثرات کا اظہار کیا۔
آپ کا مضمون بڑی دلچسپی سے پڑھا۔ یہ نہایت بہترین مضمون ہے جو سکھوں اور مسلمانوں دونوں کو اپیل کرتا ہے۔ میں نے عزت ماب خان لیاقت علی خاں اور دوسرے مسلم لیگی قائدین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے۔ مجھے خدشہ صرف یہ ہے کہ مسلمان اخبار کے اس مضمون کو بہت کم سکھ مطالعہ کریں گے۔ حیرت ہے کہ باوجود فیاضانہ سلوک کے سکھ بہت کم توجہ دے رہے ہیں<۔
اس انگریزی مضمون کا ترجمہ اخبار >الفضل< قادیان )۹۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش( اور اخبار >خادم< پٹیالہ )۱۶۔ جون ۱۹۴۷ء( میں بھی >خالصہ ہوشیار باش< کے عنوان سے شائع ہوا اور بذریعہ پمفلٹ اردو` انگریزی اور گورمکھی زبانوں میں بھی پنجاب کے طول و عرض میں وسیع طور پر پھیلایا گیا۔۱۳۶`۱۳۷
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے محققانہ مضمون میں تحریر فرمایا۔
>سیاسی حالات بھی عجیب طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی ۱۹۴۶ء کے اوائل کی بات ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے کہ سکھ قوم اس بات پر ہندوئوں سے سخت بگڑی ہوئی تھی کہ وہ کانگرس کے نظام کے ماتحت ان کی پنتھک حیثیت اور پنتھک وقار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مستقل قومی حیثیت کو مٹا کر اپنے اندر جذب کرلینے کے درپے ہیں۔ چنانچہ اسی زمانہ کے بعد کا واقعہ ہے کہ سکھوں کے مشہور لیڈر ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے >سنت سپاہی< نامی گورمکھی رسالہ کے اگست ۱۹۴۶ء کے نمبر میں >ہندو مسلماناں نال ساڈے سمبندھ< کے مضمون کی ذیل میں لکھا تھا کہ۔
>مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں مگر تہذیب اور برادری کے تعلقات ہندوئوں سے زیادہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں میں ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں نگل جانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں سے ہمارے تعلقات بھی کم ہیں اور خطرہ بھی کم ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مسلمانوں سے سمجھوتہ اور بہتر تعلقات پیدا کرنے کے حق میں ہوں ۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں میں ایسے لوگ ہیں جو ڈھنگ یا استادی سے سکھوں کو نگل جانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوئوں کا پچھلا وطیرہ اور تاریخ ہمیں پورا بھروسہ نہیں دیتی اور ہمیں خبردار ہی رہنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔ یقین رکھو کہ کانگرس اور ہندوئوں نے ہماری علیحدہ پولیٹیکل ہستی کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے۔ پچھلے انتخابات میں یہ کوشش بہت زور سے کی گئی تھی لیکن ہم بچ گئے۔ اگر آج پنجاب اسمبلی کے سارے سکھ ممبر کانگرس ٹکٹ پر ہوتے تو ہم ختم تھے<۔
یہ الفاظ جن کے لکھے جانے پر ابھی بمشکل نو ماہ کا عرصہ گزرا ہے ایک ایسے سکھ لیڈر کے قلم سے نکلے ہیں جو ہندو سے سکھ بنا ہے اور ہم ان الفاظ پر قیاس کرکے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت قدیم سکھوں اور خصوصاً جاٹ سکھوں میں ہندوئوں کے متعلق کیا خیالات موجزن ہوں گے۔ مگر آج یہی پنجاب کا نامور خالصہ ہندوئوں کی آغوش میں راحت محسوس کرہا ہے۔ مجھے تسلیم کرنا چاہئے کہ اس غیر معمولی تبدیلی کی ذمہ داری کسی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری توجہ اور جدوجہد سے کام نہیں لیا۔ مگر اس انقلاب کا اصل سہرا ہندو سیاست کے سر ہے جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اپنی گہری تدبیر کے ذریعہ سکھ کو گویا بالکل اپنا بنالیا ہے۔ لیکن جس اتحاد کی بنیاد محض دوسروں کی نفرت و عداوت کے جذبہ پر ہو وہ زیادہ دیرپا نہیں ہوا کرتا اور سمجھ دار سکھوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کے دیکھنے کے لئے کھل رہی ہیں کہ ان کے لئے پنجاب میں ہندوئوں کی سانجھ سو فیصدی خسارہ کا سودا ہے۔ >پنجاب کی تقسیم< یا >پنجاب کا بٹوارہ< ایک ایسا نعرہ ہے جس کے وقتی طلسم میں ہندو سیاست نے سکھ کو مخمور کر رکھا ہے۔ مگر کیا کبھی کسی دانشمند سکھ نے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ پنجاب کی مزعومہ تقسیم کے نتیجہ میں سکھ کیا لے رہا ہے اور کیا دے رہا ہے۔ یہ دو ٹھوس حقیقتیں بچے بچے کے علم میں ہیں کہ )۱( پنجاب میں سکھ تیرہ فیصدی ہے اور )۲( پنجاب کے ۲۹ ضلعوں میں سے کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جس میں سکھوں کی اکثریت ہو۔ کیا اس روشن صداقت کے ہوتے ہوئے پنجاب کی کوئی تقسیم سکھ مفاد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ جو قوم ہر لحاظ سے اور ملک کے ہر حصہ میں اقلیت ہے۔ وہ ملک کے بٹنے سے بہرحال مزید کمزوری کی طرف جائے گی اور ملک کی ہر تقسیم خواہ وہ کسی اصول پر ہو اس کی طاقت کو کم کرنے والی ہوگی نہ کہ بڑھانے والی۔ یہ کہنا کہ فلاں حصہ کے الگ ہو جانے سے اس حصہ میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا ایک خطرناک سیاسی دھوکا ہے۔ کیونکہ بہرصورت پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھ ایک کمزور اقلیت رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ایک حصہ کے اندر تناسب آبادی میں خفیف سی زیادتی کی وجہ سے اپنی مجموعی طاقت کو بانٹ لینا خود کشی سے کم نہیں۔ برطانوی پنجاب میں سکھوں کی موجودہ آبادی ساڑھے سینتیس لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب تیرہ فیصدی ہے۔ اب موجودہ تجویز کے مطابق پنجاب اس طرح بانٹا جارہا ہے کہ ایک حصے میں پونے سترہ لاکھ سکھ چلا جاتا ہے اور دوسرے میں پونے اکیس لاکھ۔ اور جس حصے میں پونے اکیس لاکھ جاتا ہے وہاں ان کی آبادی قریباً اٹھارہ فیصدی ہو جاتی ہے اور دوسرے حصہ میں قریباً دس فیصدی رہ جاتی ہے تو کیا اس صورت میں دنیا کا کوئی سیاستدان یہ خیال کرسکتا ہے کہ ایسی تقسیم سکھوں کے لئے مفید ہوگی جہاں وہ تیرہ فیصدی سے قریباً اٹھارہ فیصدی ہو جائیں گے وہاں بھی بہرحال وہ ایک کمزور اقلیت رہیں گے اور ان کے لئے تناسب آبادی کا خفیف فرق عملاً بالکل بے نتیجہ اور بے سود ہوگا۔ مگر دوسری طرف یہ تقسیم ان کی مجموعی طاقت کو دو حصوں میں بانٹ کر )یعنی ۳۷ کی بجائے ۱۶ اور ۲۱ کے دو حصے کرکے( ان کی قومی طاقت کو سخت کمزور کردے گی۔ یہ ایک ٹھوس اور بین حقیقت ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمہ سیاسی اصول رد نہیں کرسکتا۔ اگر پنجاب ایک رہے تو سکھ قوم ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک زبردست متحد جماعت ہے جس کا سارا زور ایک ہی نقطہ پر جمع رہتا ہے۔ لیکن اگر پنجاب بٹ جائے تو خواہ وہ کسی اصول پر بٹے سکھوں کی طاقت بہرحال دو حصوں میں بٹ جائے گی اور دوسری طرف ان کے آبادی کے تناسب میں بھی کوئی معتدبہ فرق نہیں آئے گا اور وہ بہرصورت دونوں حصوں میں ایک کمزور اقلیت ہی رہیں گے۔ کیا یہ حقائق اس قابل نہیں کہ سمجھ دار سکھ لیڈر ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں؟
یہ کہنا کہ پنجاب کے مختلف ضلعے یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ مختلف حصے آبادی کی نسبت سے نہیں بٹنے چاہئیں بلکہ مختلف قوموں کی جائداد اور مفاد کی بنیاد پر بٹنے چاہئیں ایک طفل تسلی سے زیادہ نہیں کیونکہ۔
اول تو یہ مطالبہ دنیا بھر کے مسلمہ سیاسی اصولوں کے خلاف ہے اور جمہوریت کا بنیادی نظریہ اس خیال کو دور سے ہی دھکے دیتا ہے۔
دوسرے جائدادیں ایک آنی جانی چیز ہیں اور ان پر اس قسم کے مستقل قومی حقوق کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی جو انسانی جانوں اور ان جانوں کے تحفظ اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔
تیسرے اس سوال کو اٹھانے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے نئے دور کی سیاست کی بنیاد مساوات انسانی پر رکھنے کی بجائے روز اول سے ہی انفرادی برتری اور جماعتی تفوق اور جبر و استبداد پر رکھی جائے جس کے خلاف غریب ہندوستان صدیوں سے لڑتے ہوئے آج خدا خدا کرکے آزادی کا منہ دیکھنے لگا ہے۔
چوتھے سکھوں کی یہ جائدادیں بڑی حد تک ان کی حکومت کے زمانہ کی یادگار ہیں جبکہ ان میں سے کئی ایک نے اولاً اپنی طوائف الملوکی کے زمانہ میں اور بعدہ اپنی استبدادی حکومت کے دوران میں دوسرے حقداروں سے چھین کر ان جائیدادوں کو حاصل کیا۔ تو کیا یہ انصاف و دیانتداری کا مطالبہ ہے کہ اس رنگ میں حاصل کئے ہوئے اموال پر آئندہ سیاست کی بنیاد رکھی جائے ہم ان کی یہ جائیدادیں ان سے واپس نہیں مانگتے۔ جو مال ان کا بن چکا ہے وہ انہیں مبارک ہو مگر ایسے اموال پر سیاسی حقوق کی بنیاد رکھنا جو آج سے چند سال قبل کسی اور کی ملکیت تھے` دیاتنداری کا طریق نہیں ہے۔
پانچویں۔ دنیا کا بہترین مال انسان کی جان ہے جو نہ صرف سارے مالوں سے افضل اور برتر ہے بلکہ ہر قسم کے دوسرے اموال کے پیدا کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ پس جان اور نفوس کی تعداد کے مقابلہ پر پیسے کو پیش کرنا ایک ادنیٰ ذہنیت کے مظاہرہ کے سوا کچھ نہیں۔
چھٹے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سکھوں کی جائیداد کی مالیت واقعی زیادہ ہے کیونکہ جائیداد کی قیمت عمارتوں کی اینٹوں یا زمین کے ایکڑوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعی نتیجہ ہوا کرتی ہے اور جب تک ان ساری باتوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ نہ لیا جائے۔ سکھوں کا یہ دعویٰ کہ ہماری جائیدادیں زیادہ ہیں۔ ایک خالی دعویٰ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا خصوصاً جبکہ ابھی تک ایکڑوں کا صحیح قوم وار تناسب بھی گنتی میں نہیں لایا جاسکا۔
سکھ صاحبان کا یہ خیال کہ ہندو اور ہم ایک ہیں اور اس لئے ان کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب میں ہماری اکثرت ہو جائے گی پہلے دھوکے سے بھی زیادہ خطرناک دھوکا ہے کیونکہ اس میں ایک ایسے پیچدار اصول کا واسطہ پڑتا ہے جس کا حل نہ ہندو کے پاس ہے اور نہ سکھ کے پاس۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اور سکھ ایک قوم ہیں؟
اس سوال کے امکاناً دو ہی جواب ہوسکتے یں۔ ایک یہ کہ ہاں وہ ایک قوم ہیں اور دوسرے یہ کہ نہیں بلکہ وہ دو مختلف قومیں ہیں جن کا مذہب اور تہذیب و تمدن جداگانہ ہے مگر ان کا آپس میں سیاسی سمجھوتہ ہے۔ اب ان دونوں جوابوں کو علیحدہ علیحدہ لے کر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر سکھ اور ہندو ایک قوم ہیں تو ان کا اس غرض سے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کہ انہیں اس ذریعہ سے ایک علیحدہ گھر اور وطن میسر آجاتا ہے۔ بالبداہت باطل ہو جائے گا کیونکہ جب سکھ اور ہندو ایک ہیں تو ظاہر ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں جتنے بھی صوبے ہوں گے وہ جس طرح ہندوئوں کا گھر اور وطن ہوں گے اسی طرح سکھوں کا بھی گھر اور وطن ہوں گے اور اگر یہ کہو کہ پنجابی سکھوں کا وطن کونسا ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جب ہندو اور سکھ ایک قوم تسلیم کئے گئے تو پنجابی سکھ کے علیحدہ وطن کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا۔ جب سکھ بھی ہندوستان کی وسیع ہندو جاتی کا حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب ہندو جاتی کو وطن مل گیا تو لازماً سکھ کو بھی مل گیا اور اس کا علیحدہ مطالبہ سراسر باطل ہے۔ دوسرے اگر ہندو قوم کے ساتھ ایک ہوتے ہوئے پنجابی سکھ کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے تو یوپی اور بہار اور مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کو کیوں علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ پنجاب کے ۳۷ لاکھ سکھ کے مقابل پر یوپی کا مسلمان ۸۴ لاکھ اور بہار کا مسلمان ۴۷ لاکھ ہے۔ اگر مسلمان اپنے سوا کروڑ کمزور بھائیوں کو یو۔ پی اور بہار میں ہندوئوں کے رحم پر چھوڑ سکتے ہیں تو پنجاب کے ۳۷ لاکھ سکھ جو بقول خود بہادر بھی ہیں اور صاحب مال و زر بھی` پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے۔
دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ سکھ ہندوئوں سے ایک الگ اور مستقل قوم ہیں اور علیحدہ مذہب اور علیحدہ تمدن رکھتے ہیں جس کی علیحدہ حفاظت کی ضرورت ہے تو اس صورت میں سوال یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے کونسا حفاظت کا رستہ کھولتی ہے؟ وہ بہرحال پنجاب کے مشرقی حصہ میں بھی ایک اقلیت ہوں گے جو وسیع ہندو اکثریت کے رحم پر ہو گی اور اکثریت بھی وہ جو صرف ان ہی کے علاقہ میں اکثریت نہیں ہوگی بلکہ سارے ہندوستانی صوبوں کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر ہوگی۔ یہ ماحول کس زندہ اور مستقل قوم کو چین کی نیند سونے دے سکتا ہے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قومیں دو ہیں تو پھر ان کا موجودہ سیاسی سمجھوتہ بھی کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ اسے کل کے حالات بدل کر کچھ کی کچھ صورت دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اوپر والے مضمون میں ہی ماسٹر تارا سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ۔
>لڑائی جھگڑے تو زمانہ کے حالات کے ماتحت ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ نہ کبھی کسی قوم سے دائمی لڑائی ہوسکتی ہے اور نہ دائمی صلح۔ اب بھی ہمارا مسلمانوں کے ساتھ کبھی جھگڑا ہوگا اور کبھی صلح ہوگی۔ یہی صورت ہندوئوں کے ساتھ ہونی ضروری ہے<۔
)سنت سپاہی اگست ۱۹۴۶ء(
اور ماسٹر تارا سنگھ صاحب کے خیال پر ہی بس نہیں` دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ دو مستقل قوموں میں اس قسم کے عارضی سیاسی سمجھوتے ہرگز اس قابل نہیں ہوا کرتے کہ ان کے بھروسہ پر ایک قوم اپنی طاقت کو کمزور کرکے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو دوسری قوم کے رحم پر ڈال دے اور سکھ صاحبان تو اپنی گزشتہ ایک سالہ تاریخ میں ہی ایک تلخ مثال دیکھ چکے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وہ پھر بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے۔ اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا۔ میں گزشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا۔ مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور زیادہ ذمہ داری پہل کرنے والے پر ہوا کرتی ہے اور فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں جو ایک جگہ سے شروع ہوکر سب حصوں میں پھیل جاتی ہیں اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو۔ بعد کے شعلے بلاامتیاز سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں۔ میں اس دعویٰ کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی۔ لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی؟ آخر امرتسر میں چوک پراگداس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندوئوں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے اور بالاخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار میں ہزارہا کمزور اور بالکل بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت برپا نہیں کی تھی جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی یا کوئی اور علاقہ۔ پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن اگر ملک کی بہتری کی خاطر >معاف کردو اور بھول جائو< کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا رستہ کھلا ہے۔ میں تو شروع سے ہی اپنے دوستوں سے کہتا آیا ہوں کہ موجودہ فسادات کا سلسلہ ایک دور سوء CIRCLE VICIOUS کا رنگ رکھتا ہے۔ احمد آباد کے بعد کلکتہ اور کلکتہ کے بعد نواکھلی اور نواکھلی کے بعد بہار اور گڑھ مکتیسر اور بہار اور گڑھ مکتیسر کے بعد پنجاب و سرحد اور اس کے بعد خدا جانے کس کس کی باری آنے والی ہے اور جب تک کوئی قوم جرات کے ساتھ اس زنجیر کی کسی کڑی کو درمیان سے توڑ نہیں دے گی اس آگ کا ایک شعلہ دوسرے شعلہ کو روشن کرتا جائے گا۔ جب تک یا تو یہ دونوں قومیں آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائیں گی اور یا قتل و غارت سے تھک کر انسان بننا سیکھ لیں گی۔ انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرات کے ساتھ اور عفو اور درگزر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جاسکتی ہے ورنہ یہ ایک دلدل ہے جس میں سے اگر ایک پائوں پر زور دے کر اسے باہر نکالا جائے تو دوسرا پائوں اور بھی گہرا دھنس جاتا ہے۔ پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو تو مسلمانوں کو بہار اور گڑھ مکتیسر کو بھلانا ہوگا اور ہندو اور سکھ کو نواکھلی اور پنجاب کو۔ ہاں ان واقعات سے بہت سے سبق بھی سیکھنے والے ہیں جو دونوں قومیں انتقام کے جذبہ کو قابو میں رکھ کر ہی سیکھ سکتی ہیں۔
میں سکھ صاحبان سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ موجودہ جوش و خروش کی حالت میں اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ عموماً دو قوموں کے درمیان تین بنیادوں پر ہی سمجھوتے ہوا کرتے ہیں۔ اول یا تو ان کے درمیان مذہبی اصولوں کا اتحاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں۔ اور یا دوم ان کا تہذیب و تمدن ایک ہوتا ہے اور یا سوم ان کے اقتصادی نظریئے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اب اگر ان تینوں لحاظ سے دیکھا جائے تو سکھ کا سمجھوتہ مسلمان سے ہونا چاہئے نہ کہ ہندو کے ساتھ۔ کیونکہ اول تو سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں کیونکہ دونوں قومیں توحید کی قائل ہیں اور ان کے مقابل پر ہندو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں جن کے ساتھ سکھوں کا مذہبی لحاظ سے کوئی بھی اشتراک نہیں اور اسی لئے ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے صاف طور پر مانا ہے کہ۔
>مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں<۔
دوسرے تہذیب و تمدن بھی مسلمانوں اور سکھوں کا بہت ملتا جلتا ہے کیونکہ دونوں سادہ زندگی رکھنے والے اور فیاض جذبات کے مالک اور قدیم مہمان نوازی کے اصولوں پر قائم ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو تمدن اس سے بالکل مختلف ہے۔
تیسرے اقتصادی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں کیونکہ دونوں کی اقتصادیات کا اسی فیصدی حصہ محاصل اراضی اور فوجی پیشے اور ہاتھ کی مزدوری سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سکھ اور مسلمان زمیندار آپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی ہیں۔ مگر یہ ذہنی اور قلبی اتحاد ایک ہندو اور سکھ کو نصیب نہیں ہوتا۔
پس میں اپنے سکھ ہم وطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ واقعات کو بھلا کر اپنے مستقبل اور فطری مفاد کی طرف توجہ دیں۔ دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جاسکتے ہیں۔ مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائدار ثابت نہیں ہوا کرتے۔ اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے۔ مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہوگا آم کا پیوند آم کے ساتھ ہی قائم ہوگا۔ دو لڑنے والے بھائی لڑائی کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں۔ مگر دو غیر آدمی عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جاسکتے۔ ہم ہندوئوں کے بھی خلاف نہیں۔ وہ بھی آخر اسی مادر وطن کے فرزند ہیں اور بہت سی باتوں میں ان سے بھی ہمارا اشتراک ہے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ کاش ہندوستان بھی ایک رہ سکتا۔ لیکن اگر ہندوستان کو مجبوراً بٹنا پڑا ہے تو کم از کم پنجاب تو تقسیم ہونے سے بچ جائے تا اسے مسلمان بھی اپنا کہہ سکیں اور سکھ بھی اور اس کے اندر بسنے والے ہندو بھی اور شاید پنجاب کا خمیر آئندہ چل کر ہندوستان کو بھی باہم ملا کر ایک کردے لیکن جب تک یہ بات میسر۱۳۸ نہیں آتی۔ اس وقت تک کم از کم مسلمان اور سکھ تو ایک ہوکر رہیں۔ یہ جذبہ خود سمجھدار سکھ لیڈروں میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ گیانی شیر سنگھ فرماتے ہیں۔
>شمالی ہندوستان کے امن کی ضمانت سکھ مسلم اتحاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی شخص سکھ مسلم فساد کے زہر کا بیج بوتا ہے تو وہ ملک کا اور خدا کا اور نسل انسانی کا دشمن ہے<۔
)اخبار >پنجاب< امرتسر ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۴ء(
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندو کو ہندوستان کے باقی صوبوں میں وطن مل رہا ہے اور مسلمان کو پنجاب وغیرہ میں۔ کیا اچھا ہوتا کہ سکھ بھی اتنی تعداد میں ہوتا اور اس صورت میں آباد ہوتا کہ اسے بھی ایک وطن مل جاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حالات میں اس کمی کا ازالہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ پنجاب کو خواہ کسی صورت میں بانٹا جائے سکھ بہرحال اقلیت میں رہتا ہے بلکہ دو حصوں میں بٹنے سے اپنی طاقت کو اور بھی کم کر دیتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ وہ اس قوم کے ساتھ جوڑ ملائے جس کے ساتھ اس کا پیوند ایک طبعی رنگ رکھتا ہے اور پھر اس کے بعد محبت اور تعاون کے طریق پر اور ترقی کے پرامن ذرائع کو عمل میں لاکر اپنی قوم کو بڑھائے اور اپنے لئے جتنا بڑا چاہے وطن پیدا کرے۔
آج سے پچاس سال قبل سکھ پنجاب میں صرف بیس بائیس لاکھ تھے مگر اب اس سے قریباً ڈیڑھ دو گنے ہیں۔ اسی طرح آج سے چالیس سال قبل مسلمان پنجاب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ ایک قطعی اکثریت میں ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو برابر کم ہوتا گیا ہے۔ پس اس قدرتی پھیلائو اور سیکٹر کو کون روک سکتا ہے؟ پس سکھوں کو چاہئے کہ غصہ میں آکر اور وقتی رنجشوں کی رو میں بہہ کر اپنے مستقل مفاد کو نہ بھلائیں۔ انہیں کیا خبر ہے کہ آج جس قوم کے ساتھ وہ سمجھوتہ کرکے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کل کو اپنی وفاداری کا عہد نہ نبھا سکے اور پھر سکھ نہ ادھر کے رہیں اور نہ ادھر کے۔ ان کے لئے بہرحال حفاظت اور ترقی کا بہترین رستہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کرلیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے جائز اور معقول مطالبات کو فراخدلی کے ساتھ قبول کریں۔
بالاخر سکھ صاحبان کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ خواہ کچھ ہو سکھوں کے لاتعداد مفاد وسطی اور شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے بہت سے مذہبی مقامات ان علاقوں میں واقعہ ہیں۔ ان کی بہترین جائدادیں ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے بہت سے قومی لیڈر انہیں علاقوں میں پیدا ہوئے اور انہیں میں جوان ہوئے اور انہیں میں بس رہے ہیں اور پھر ان کی قوم کا بہترین اور غالباً مضبوط ترین حصہ جسے سکھ قوم کی گویا جان کہنا چاہئے انہیں علاقوں میں آباد ہے۔ تو کیا وہ ہندو قوم کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جس کا حشر خدا کو معلوم ہے اپنے ان وسیع مفاد کو چھوڑ کر مشرقی پنجاب میں سمٹ جائیں گے؟
خالصہ! ہوشیار باش۔ خالصہ! ہوشیار باش<۔۱۳۹
پنجاب کی قسمت کا فیصلہ
ان لاجواب مضامین سے )جو اس دور کی تحریک پاکستان کا انتہائی قیمتی اور موجب صد افتخار علمی سرمایہ ہیں( یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جماعت احمدیہ نے آخری مرحلہ تک تقسیم پنجاب کو رکوانے کی سرفروشانہ کوششیں برابر جاری رکھیں لیکن چونکہ فرقہ وارانہ کشیدگی انتہاء کو پہنچ چکی تھی اور کانگرس نے سکھوں کے دل و دماغ میں پاکستان کے خلاف نفرت و حقارت کی بے پناہ آگ بھر دی تھی اس لئے ۲۳۔ جون ۱۹۴۷ء کو غیر مسلم ممبران اسمبلی کی اکثریت نے پنجاب کی تقسیم کے حق میں ووٹ ڈالے اور پانچ دریائوں کی سرزمین اپنی وحدت کھو بیٹھی اور پھر مسلمانوں کی آزمائش کا ایسا خونین باب کھل گیا جس کے سامنے مسلم سپین کی تباہی کے المناک ترین مناظر بھی ہیچ نظر آنے لگے۔
‏vat,10.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
تیسرا باب )فصل ہشتم(
حد بندی کمیشن کے لئے تیاری کے ابتدائی اقدامات۔ امریکہ اور برطانیہ سے بذریعہ ہوائی جہاز قیمتی لٹریچر کی درآمد۔ لنڈن سکول آف اکنامکس کے ممتاز جغرافیہ دان مسٹر سپیٹ کی خدمات کا حصول۔ نائب وزیر ہند کے بیان پر شدید احتجاج۔ جماعت احمدیہ کا میمورنڈم اور جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی وکالت۔ استصواب سرحد کے لئے جماعت احمدیہ کی سنہری خدمات
خفیہ سرکلر
۲۴۔ جون ۱۹۴۷ء کو یعنی تقسیم پنجاب کے دوسرے ہی روز اخبار >ٹریبیون< نے اپنے نامہ نگار خصوصی کے قلم سے یہ خبر شائع کی کہ ایک خفیہ سرکلر کے ذریعہ سکھ تنظیموں کی تمام صوبائی شاخوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ہندو اور سکھ وکلاء حد بندی کمیشن کے روبرو مندرجہ ذیل خطوط پر اپنا کیس پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
۱۔
پاکستانی حدود کم سے کم کر دی جائیں تا زیادہ سے زیادہ علاقہ مشرقی پنجاب میں شامل ہوسکے۔
۲۔
آبادی اور جائدادوں کے تبادلہ کا سوال بہت اہم ہے۔
۳۔
رہتک` گڑگائوں` کرنال اور حصار کے دو حصے جہاں ہندی بولی جاتی ہے صوبہ میرٹھ اور دلی کے ساتھ ملحق کئے جائیں اور باقی ماندہ مشرقی پنجاب کو جس میں پنجابی بولنے والے سکھوں اور ہندوئوں کی اکثریت ہے سکھوں کا قومی گھر بنا دیا جائے۔
۴۔
سکھوں کی دفاعی خدمات اور قربانیوں کے پیش نظر مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں ان کی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور انہیں خاص وزن دیا جائے۔
۵۔
ان کے مقدس مقامات کی زیارت کا حق اور ان کی جائدادوں کا انتظام ان ہی کے کنٹرول میں ہو اور قومی معاہدات کے ذریعہ ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔
۶۔
اس بات کی انتہائی جدوجہد کی جائے کہ شہیدی بار )بشمول ننکانہ صاحب` تحصیل شیخوپورہ` تحصیل گوجرانوالہ اور ضلع لائل پور( کا الحاق مشرقی پنجاب سے کیا جائے۔
۷۔
گزشتہ ساٹھ برس میں سکھوں نے لائل پور` سرگودھا` شیخوپورہ` ملتان اور منٹگمری کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ تنہا لائل پور کا ضلع` جالندھر اور انبالہ کی ڈویژنوں سے زیادہ مالیہ ادا کرتا ہے۔ سکھوں نے یہاں نہریں کھدوائیں اور تمام سرمایہ ان علاقوں میں لگا دیا۔ لہذا وہ ان اضلاع کے آدھے رقبہ کے یقیناً حقدار ہیں۔
۸۔
وہ علاقے جو مشرقی پنجاب میں شامل نہ کئے جائیں ان میں فسادات کی روک تھام کے لئے تبادلہ آبادی کی سہولت ضرور مہیا کی جانی چاہئے۔ )ملخصاً(
حد بندی کمیشن کے ارکان اور صدر کا تقرر اور دریائے چناب کو مشرقی حد مقرر کرنے کا سکھ مطالبہ
۳۰۔ جون کو پنجاب اور بنگال کے سرحدی کمشنوں کے ممبروں کا اعلان کر دیا گیا۔ پنجاب کے کمیشن کے ممبر جسٹس دین محمد` جسٹس محمد منیر` جسٹس مہر چند مہاجن اور جٹس تیجا سنگھ مقرر کئے
گئے۔ ۱۴۰ ازاں بعد ۵۔ جولائی کو پنجاب اور بنگال کمشنوں کا صدر سر سیرل ریڈ کلف کو مقرر کیا گیا۔۱۴۱ اور ۸۔ جولائی کو سکھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ حد بندی کمیشن کو چاہئے کہ وہ مشرقی پنجاب کی حد دریائے چناب کو مقرر کرے ورنہ سکھ ۳۔ جون کی برطانوی سکیم کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ اس تجویز نے پنتھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔۱۴۲
محضر نامے بھجوانے کی آخری تاریخ
حد بندی کمیشن کا پہلا اجلاس ۱۴۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو لاہور میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جو جماعتیں صوبے کی تقسیم کے متعلق کوئی میمورنڈم کمیشن کے سامنے پیش کرنا چاہیں وہ زیادہ سے زیادہ ۱۸۔ جولائی کو چار بجے بعد دوپہر تک پیش کردیں۔ ہر میمورنڈم کے ساتھ چار زائد نقول اور ایسے نقشے بھی پیش کئے جائیں جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ صوبے کی حد کس جگہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تمام میمورنڈم کمیشن کے سیکرٹری کے دفتر واقع پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں پیش کئے جائیں۔ کسی پرائیویٹ شخص کا میمورنڈم وصول نہیں کیا جائے گا۔۱۴۳
متنازعہ فیہ اضلاع کا اعلان
کمیشن نے اس روز صوبہ کے ۲۹ اضلاع میں سے پندرہ اضلاع کو متنازعہ فیہ اضلاع قرار دیا۔ جن میں گورداسپور اور لاہور کے ضلعے بھی شامل تھے حالانکہ ۳۔ جون کی برطانوی سکیم میں ان کو قطعی طور پر مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کیا گیا تھا۔ ان متنازعہ فیہ اضلاع میں فوج متعین کر دی گئی۱۴۴ تا ان کی نسبت فیصلہ نشر ہونے پر امن و امان برقرار رکھا جاسکے۔
حد بندی کمیشن کا پروگرام
حد بندی کمیشن نے ۱۵۔ جولائی کے دوسرے اجلاس میں یہ پروگرام طے کیا کہ وہ ۲۱۔ جولائی سے مختلف پارٹیوں کے دعاوی کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں شروع کر دے گا۔ پہلے چار دن ہندوئوں اور سکھوں کے وکلاء اور اس کے بعد چار دن مسلمانوں کے وکلاء اپنے دلائل دیں گے۔ پھر ایک دن ہندوئوں اور سکھوں کو مسلم لیگ کے دلائل کا جواب دینے کے لئے دیا جائے گا۔ اسی ضمن میں پریس نے یہ اطلاع بھی دی کہ مسلم لیگ کی طرف سے چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب` ہندوئوں کی طرف سے بمبئی کے مشہور بیرسٹر سر سیتلواد اور سکھوں کی طرف سے سردار ہرنام سنگھ ایڈووکیٹ پیش ہوں گے۔۱۴۵
کمیشن کے متعلق خبر کی اشاعت پر گورنر پنجاب کی پابندی
۱۹۔ جولائی کو گورنر پنجاب نے ایک حکم جاری کیا جس میں سرکاری اعلان کے سوا حد بندی کمیشن سے متعلق کوئی اطلاع یا تبصرہ سنسر کئے بغیر شائع کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔۱۴۶
جماعت احمدیہ کے کیس کی تیاری میں بھاری مشکلات
جہاں ہندوئوں اور سکھوں کو اپنا کیس تیار کرنے میں بہت آسانیاں میسر تھیں وہاں مسلم لیگ اور جماعت احمدیہ کے لئے یہ انتہائی سنگین اور ازحد کٹھن مرحلہ تھا۔ اول تو حد بندی کے اصول و قواعد جاننے والے ماہروں کا فی الفور دستیاب ہونا مشکل تھا۔ دوسرے پنجاب کی مردم شماری )۱۹۴۱ء( کا ریکارڈ مہیا کرکے ایسے اعداد و شمار مرتب کرنا جن سے زیادہ سے زیادہ علاقہ مغربی پنجاب میں شامل ہوسکے` اور مختلف پاور اسٹیشنوں` نہروں اور دریائوں پر مغربی پنجاب کے حقوق اور کنٹرول ثابت کرنا یہ سب کام ایک زبردست مہم کی حیثیت رکھتے تھے۔ تیسرے بین الاقوامی قوانین کی کتابیں اور مشہور بائونڈری کمیشنوں کی ضروری اور تازہ رپورٹیں جو اس مقصد کی تکمیل کے لئے درکار تھیں وہ ملک میں ناپید تھیں اور ان کا نہایت تنگ وقت میں بیرونی ممالک سے منگوایا جانا بہت دشوار تھا اور اخراجات کا مسئلہ مزید برآں تھا۔
حضرت مصلح موعود کی زیر ہدایت تیاری کے ابتدائی اقدامات
حضرت مصلح موعود نے اس معاملہ میں جس حیرت انگیز ذہانت اور غیر معمولی فہم و تدبر کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ابھی پنجاب کی تقسیم کا فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ حضور نے صوبہ پنجاب کی مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار جمع کرنے اور متعلقہ ضروری تیاری کرنے کا ابتدائی کام نہایت باقاعدگی سے شروع کرا دیا اور اس کی نگرانی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ناظر اعلیٰ کے سپرد فرمائی۔ اس سلسلہ میں >قیام امن و صلح< کے نام سے ایک خاص دفتر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال اور سلسلہ کے بعض دوسرے بزرگ اور مخلص خدام اس قومی اور ملی خدمت کے لئے ۳۱۔ جولائی ۱۹۴۷ء یعنی حد بندی کمیشن کی سماعت کے آخری اجلاس تک برابر مصروف عمل رہے۔ قادیان ہندی مسلمانوں کی واحد بستی تھی جہاں پاکستانی حدود کے آئینی تحفظ کے لئے جانفروشوں کی ایک جماعت )جن میں احمدی پروفیسر` ڈرافسمین اور نقشہ نویس خاص طور پر شامل تھے( دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور دل سے متمنی تھی کہ ان کا مقدس مرکز بہرحال پاکستان میں شامل رہے۔ اس دور کا اکثر ریکارڈ اگرچہ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں غارت ہوگیا ہے مگر اس کے بعض کاغذات اب بھی تعلیم الاسلام کالج کی پرانی فائلوں میں محفوظ ہیں۔ ان کاغذات میں حلقہ پٹواری پٹھانکوٹ و شکر گڑھ کے ہر گائوں کی تفصیلی مردم شماری مندرجہ ذیل نقشہ کی صورت میں درج ہے۔
ضلع تحصیل
حلقہ گرداور ]0 [stf حلقہ پٹواری
نقشہ کے لئے
مردم شماری کی ان تفصیلات کے علاوہ ترکی عراق حد بندی کے متعلق لیگ آف نیشنز کمیشن ۲۶۔۱۹۲۴ء کی پیش کردہ سفارشات کا مکمل متن بھی موجود ہے جو فل سکیپ سائز کے ۳۱ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے سرورق پر یہ الفاظ درج ہیں۔
‏ IRAQ AND TURKEY BETWEEN SETTLEMENT <FRONTIER ON COMMISSION NATION,S OF LEAGUE BY RECOMMENDED۔26> ۔1924 BOUNDRY IRAQ ۔TURKO
‏]ybod )[tagسفارشات حد بندی مابین ترکی و عراق پیش کردہ لیگ آف نیشنز کمیشن ۲۶۔ ۱۹۲۴ء(
اس ریکارڈ میں اس معاہدہ کا متن بھی شامل ہے جو ۱۹۲۶ء میں کردوں کے متعلق برطانیہ اور عراق کے مابین قرار پایا۔
امریکہ سے بین الاقوامی بائونڈری لٹریچر کی درآمد اور برطانیہ کے ایک ماہر جغرافیہ دان کی خدمات کا حصول
حضرت مصلح موعود نے مرکز میں کام شروع کرانے کے ساتھ ہی امریکہ اور یورپ کے مبلغین کو فوری ہدایت بھجوائی کہ وہ بین الاقوامی قانون حد بندی سے متعلق مشتمل لٹریچر بھجوانے
کے علاوہ کوئی ماہر خصوصی تلاش کریں اور اس سے ہندوستان آنے جانے کے اخراجات اور فیس وغیرہ کا تصفیہ کرکے اطلاع دیں۔
بین الاقوامی بائونڈری لٹریچر مہیا کرنے اور اس کے باہر کی تلاش میں جماعت احمدیہ کو کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا کسی قدر اندازہ چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی امام مسجد لندن کے ایک خط )مورخہ ۱۷۔ جن ۱۹۴۷ء( سے باسانی لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں لکھا >بائونڈری کے ماہر کی تلاش کی جارہی ہے۔ کل ہماری سالیسٹرز کی فرم نے مسٹر کیپویل کے۔ سی کا نام تجویز کیا جن کو انگلستان کی بائونڈریز کے معاملات میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ سالیسٹرز نے کل کیپویل کے کلرک کو اور مجھے بلایا تا تفصیلی گفتگو کی جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ بین|الاقوامی حدود کا ماہر یہاں سے کوئی نہیں مل سکتا۔ لیکن دیگر ذرائع سے تلاش جاری ہے۔ لارڈ ہیلی نے خط لکھا ہے کہ وہ فارن آفس انفارمیشن سے پتہ کراسکتے ہیں۔ ان کو لکھا گیا ہے کہ وہ پتہ کرادیں۔ یونائیٹڈ نیشنز انفارمیشنز سنٹر والوں نے جنیوا میں لیگ آف نیشنز کے دفتر کو بائونڈری کمیشن کی رپورٹوں کے بارہ میں لکھنے کو کہا۔ >ٹائمز< اور >نیوز کرانیکل< نے تلاش میں مدد دینے وعدہ کیا ہے۔ ہزمیجسٹی سٹیشنری آفس سے جو رپورٹ ملی تھی وہ حضور کی خدمت میں بھیج دی گئی تھی۔ مزید مہیا کرنے سے اس نے لاعلمی کے باعث معذوری ظاہر کی۔ یہ رپورٹیں بائونڈری کمیشن کے نام کے ماتحت شائع نہیں ہوئیں اور نہ ہی بائونڈری انڈکس میں موجود ہیں۔ اس لئے جب تک دیگر عنادین جن کے ماتحت یہ شائع ہوئیں یا جن دیگر مطبوعات میں یہ شامل ہیں علم نہ ہو ان کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ نے حضور کی خدمت میں ایمری کی تجویز تحریر کی تھی کہ سروالٹرمیکناٹن مشیر قانونی حیدرآباد کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے<۔
امام مسجد لنڈن نے ایک دوسرے مکتوب میں اطلاع دی کہ PENNEY> ۔M۔T <COL جو کہ ہندوستان میں سروے کے محکمہ میں ایک لمبا عرصہ رہا ہے اور آج کل کیبنٹ آفس میں جنگ کی تاریخ کے نقشوں کی تیاری پر متعین ہے پانچ ہزار روپیہ تنخواہ پر اور آمدورفت کے خرچ اور رہائش کے انتظام پر آنے کے لئے تیار ہے<۔
آخر انتہائی جدوجہد اور بہت تلاش کے بعد امریکہ اور برطانیہ سے بائونڈری لٹریچر دستیاب ہوگیا جو بذریعہ ہوائی جہاز ہندوستان پہنچا جس کے ڈاک خرچ پر ہزار روپیہ سے زائد رقم ادا کرنا پڑی۔
جہاں تک کسی بائونڈری ایکسپرٹ کا تعلق تھا جماعت احمدیہ لنڈن سکول آف اکنامکس کے ایک ممتاز جغرافیہ دان ڈاکٹر اوسکر ایچ۔ کے سپیٹ SPATE) K۔H۔(O کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ مسٹر سپیٹ جلد ہی لنڈن سے ہندوستان پہنچ گئے اور یہ وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان کے تمام اخراجات جماعت احمدیہ نے برداشت کئے۔ مٹر سپیٹ نے اپنی مشہور کتاب PAKISTAN) AND (INDIA )انڈیا اور پاکستان( کے متعدد مقامات پر قادیان کے حالات لکھے ہیں اور حاشیہ میں اپنے اس سفر کا بھی تذکرہ کیا ہے۔۱۴۷
جماعت احمدیہ کی طرف سے ضروری معلومات کی فراہمی اور نقشوں کی تیاری
جماعت احمدیہ کے مرکز کی طرف سے مسٹر سپیٹ کو جو ضروری معلومات بہم پہنچائی گئیں۔ ان کا مختصر خاکہ یہ تھا۔
۱۔
مسلم لیگ اور مسلمانوں کی نگاہ میں ہندوستان اور پاکستان )انڈیا اور مسلم انڈیا( کا حقیقی تصور کیا ہے؟
۲۔
مسلم اکثریت کے سترہ)۱۷( اضلاع کون سے ہیں اور بارہ)۱۲( غیر مسلم اکثریت کے اضلاع کون سے؟
۳۔
مردم شماری ۱۹۴۱ء کے تفصیلی اعداد و شمار
۴۔
پنجاب بائونڈری کمیشن کی تحقیقات کے لئے دائرہ کار REFERENCE) OF (TERMS کیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ایک اہم انگریزی نوٹ بھی سپرد قلم فرمایا۔ جس کا ترجمہ >الفضل< )۱۹۔ جولائی ۱۹۴۷ء( میں بھی شائع ہوا۔
۵۔
گورداسپور واضح مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور قادیان میں جو اس کی تحصیل بٹالہ میں واقع ہے مسلمانوں کا تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ مگر ان حقائق کے باوجود پاکستان کے مخالفوں کی نگاہیں ضلع گورداسپور اور خصوصاً تحصیل بٹالہ پر لگی ہوئی ہیں تا جماعت احمدیہ کے مرکز کو پاکستان سے الگ کرکے اس کی طاقت کو کمزور کر دیا جائے۔
۶۔
حد بندی کمیشن کے آئینی اختیارات کیا ہیں؟
یہ اور اس نوعیت کی دوسری وسیع معلومات کے فراہم ہونے پر مسٹر سپیٹ حیران رہ گئے۔ چنانچہ جب وہ حد بندی کمیشن کا کام ختم کرکے انگلستان واپس گئے تو انہوں نے ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن اور اوورسیز لیگ کے ایک مشترکہ اجلاس میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
>اس جماعت کی دعوت پر میں ایک ماہر جغرافیہ دان کی حیثیت سے ہندوستان گیا تھا۔ جہاں تک میرے فن کا تعلق ہے۔ میرا وہاں جانا ازدیاد علم کا باعث ہوا اور میرے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ نہ صرف یہ کہ احمدیہ جماعت کی طرف سے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی بلکہ فنی امداد میں بھی کمال حسن کارکردگی کا جو معیار پیش کیا گیا وہ حیرت میں ڈالنے والا تھا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی تنظیم اور وہ جذبہ جس پر پوری تنظیم کی بنیاد ہے یقیناً ازحد قابل تعریف ہے<۔۱۴۸
جماعت احمدیہ نے مسٹر سپیٹ کی مدد سے حد بندی کے لئے تمام ضروری مواد کو آخری شکل دی اور تحصیل بٹالہ اور ضلع گورداسپور کے الگ الگ ایسے نقشہ تیار کرائے جن میں گائوں` ذیل` قانونگو کے حلقہ اور تھانوں کو یونٹ قرار دیا گیا تھا۔
حضرت مصلح موعود کی طرف سے قائداعظم کو خصوصی پیغام
بائونڈری کمیشن کے لئے تیاری کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے۔ جن کا ذکر کرنا از بس ضروری ہے۔
پہلا واقعہ یہ ہے کہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اپنی طرف سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو یہ پیغام دے کر قائداعظم محمد علی جناح کے پاس بھیجا کہ۔
>بے شک آپ ستلج۱۴۹ پر اصرار کریں لیکن یہ ساتھ ہی کہہ دیں کہ اگر ہمیں بیاس سے ورے دھکیلا گیا تو ہم نہ مانیں گے اور واقعہ میں نہ مانیں تب کامیاب ہوں گے ورنہ وہ بیاس سے ورے بھی دھکیل دیں گے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ سارا پنجاب ہی تقسیم نہ ہو۔ تاہم تقسیم کو تسلیم کرلیں تو محفوظ موقف ہمارا بیاس ہے ستلج نہیں<۔۱۵۰
نائب وزیر ہند کے بیان پر قائداعظم اور جماعت احمدیہ کا شدید احتجاج
دوسرا اہم واقعہ یہ ہے کہ مسٹر آرتھر ہنڈرسن نائب وزیرہند نے ۱۴۔ جولائی کو برطانوی پارلیمنٹ میں ہندوستان کی آزادی کے بل پر
بحث کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ بائونڈری کمیشن کا بڑا اصول یہ ہوگا کہ مسلم و غیر مسلم اکثریت کے متصل علاقوں کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل کر دیا جائے۔ لیکن خاص حالتوں میں >دیگر امور< مثلاً سکھوں کی پوزیشن کا خاص خیال رکھا جائے گا۔
اس فتنہ انگیز بیان نے مسلمانوں میں تشویش و اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی اور قائداعظم نے وائسرائے ہند کے پاس اس پر احتجاج کیا جو اسی دن برطانوی کابینہ تک پہنچا دیا گیا اور قائداعظم کو یقین دلایا گیا کہ مسٹر ہنڈرسن کے فقرے حد بندی کمیشن کے لئے ہدایت کا درجہ نہیں رکھتے۔۱۵۱
اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ۱۹۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو مسٹر اٹیلی وزیراعظم برطانیہ کے نام مندرجہ ذیل احتجاجی تار بھیجا گیا۔
>مسٹر ہینڈرسن نے پارلیمنٹ میں جو یہ بیان دیا ہے کہ بائونڈری کمیشن کی ٹرمز آف ریفرنس میں جو >دوسرے حالات< کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ سکھوں کے مقدس مقامات کا خیال رکھنے کی غرض سے استعمال کئے گئے ہیں۔ یہ بیان نہایت بے موقع سراسر نامناسب اور بالکل بے بنیاد ہے۔ اس بیان سے کمیشن کے کام پر ناجائز اثر پڑنے کے علاوہ مسلمانوں کے ساتھ بھی انتہائی بے انصافی کا دروازہ کھلتا ہے جن کے مقدس مقامات سکھوں کے مقدس مقامات سے تعداد اور اہمیت دونوں میں بہت زیادہ ہیں۔ یہ بات بالکل خیال میں نہیں آسکتی کہ جب وائسرائے نے ٹرمز آف ریفرنس کا اعلان ہندوستانی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے کیا تھا اور ان ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق کمیشن اپنا کام بھی شروع کرچکا ہے تو مسٹر ہینڈرسن کو اس بیان کی کیا ضرورت تھی۔ ہینڈرسن صاحب اس بات کو بھی بھولے ہوئے ہیں کہ >دوسرے حالات< کے الفاظ صرف پنجاب کے بائونڈری کمیشن کے لئے ہی استعمال نہیں کئے گئے بلکہ بنگال کے کمیشن کے لئے بھی استعمال کئے گئے حالانکہ بنگال میں کوئی سکھ نہیں ہیں۔ لہذا مسٹر ہینڈرسن کے اس بیان کی فوری تردید ہونی چاہئے<۔۱۵۲
مسلم لیگ کی طرف سے جماعت احمدیہ کو اپنا علیحدہ محضر نامہ شامل کرنے کی تحریک
بائونڈری کمیشن کی تشکیل پر تجویز کی گئی کہ جتنے زیادہ محضر نامے مسلمانوں کی طرف سے پیش کئے جائیں بہتر ہیں۔ اس خیال کے ماتحت
جماعت احمدیہ سے بھی کہا گیا کہ وہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرے۔ چنانچہ جماعت احمدیہ اور اس کے علاوہ مسلم لیگ گورداسپور نے بھی علیحدہ محضر نامہ تیار کیا جو غلام فرید صاحب ایم ایل اے` شیخ کبیر الدین صاحب سابق نمائندہ مسلم لیگ۔ شیخ شریف حسین صاحب وکیل۔ شیخ محبوب عالم صاحب اور مرزا عبدالحق صاحب کی مشترکہ کوشش سے مرتب کیا گیا تھا۔
لیکن اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اصل فریق مسلم لیگ اور کانگرس ہیں اس لئے اپنا کیس پیش کرنے کا وقت صرف انہیں کو دیا جائے گا۔ جب یہ فیصلہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے بھی علیحدہ محضر نامہ پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا لیکن بعد میں جب کانگرس نے اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں اور اچھوتوں کو بھی دے دیا تو مسلم لیگ نے اس خیال سے کہ شاید اس کا تقسیم ملک پر کچھ اثر ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوبارہ تجویز کیا کہ وہ بھی چند محضر نامے پیش کرا دے۔ چنانچہ اس نے اپنے وقت میں احمدیوں اور عیسائیوں کو علیحدہ۱۵۳ میمورنڈم پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ جس کا پس منظر یہ تھا کہ کانگرس نواز علماء خاص طور پر ۱۹۴۵ء کے الیکشن سے یہ پراپیگنڈا کررہے تھے کہ احمدی مسلمان نہیں اور یقینی خدشہ تھا کہ ہندو یا سکھ بائونڈری کمیشن کے سامنے اپنی بحث کے دوران یہ سوال اٹھا دیں گے کہ احمدی چونکہ مسلمان نہیں اس لئے ضلع گورداسپور کی مردم شماری میں ان کو مسلمانوں میں سے خارج کر دیا جائے تو یہ ضلع لازماً غیر مسلم اکثریت کا ضلع قرار پاتا ہے اور مسلمان اقلیت میں رہ جاتے ہیں۔ اس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر مسلم لیگ چاہتی تھی کہ جماعت احمدیہ بھی مسلم لیگ کے وقت میں ایک علیحدہ محضر نامہ ضرور پیش کردے تاحد بندی کمیشن پر یہ ثابت ہو جائے کہ احمدی اگر مسلمان قرار نہ بھی دیئے جائیں تب بھی یہ لوگ پاکستان میں آنا چاہتے ہیں۔
یہ محضر نامہ چونکہ مسلم لیگ کے کیس کو مضبوط بنانے اور اس کے موقف کو تقویت دینے کے لئے تیار کیا گیا تھا اس لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود بنفس نفیس قادیان سے لاہور تشریف لائے اور اپنے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو لے کر جسٹس محمد منیر صاحب کی کوٹھی پر پہنچے۔ جہاں جسٹس دین محمد صاحب بھی آگئے۔
پنجاب کے ان ممتاز مسلم قانون دانوں کو جو ریڈکلف ایوارڈ میں بطور رکن بھی شامل کئے گئے۔ تیار شدہ محضر نامہ کی ٹائپ شدہ کاپیاں دی گئیں اور سب نے شروع سے لے کر آخر تک اس پر قانونی طور پر بحث و تمحیص کی۱۵۴ کی اور اس بات کا پورا پورا اطمینان کرلیا گیا کہ میمورنڈم کا کوئی فقرہ بلکہ لفظ ایسا نہ ہو جس سے مسلمانوں کے مقاصد کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ غرض کہ جب ہر طریق سے تسلی و تشفی ہوگئی۔ تب اس کو ریڈ کلف ایوارڈ کے سیکرٹری تک پہنچا دیا گیا۔۱۵۵
جماعت احمدیہ کا محضر نامہ
ذیل میں اس تاریخی دستاویز کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سلسلہ احمدیہ جو مسلمانوں کا ایک اہم مذہبی فرقہ ہے اور جس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں` اس کا مرکز گورداسپور کے ضلع میں واقع ہے۔ مغربی اور مشرقی پنجاب کی جو عارضی تقسیم ہوئی ہے اس میں یہ ضلع پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحد پر واقع ہے۔ اس لئے سرحدی نزاع میں فریقین اس ضلع کے دعویدار ہیں۔ پس اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ بھی اپنا نقطہ نگاہ بائونڈری کمیشن کے سامنے پیش کرے۔
پیشتر اس کے کہ ہم ان خاص امور پر روشنی ڈالیں جن سے ہماری جماعت کو اس کے مرکز کے ضلع گورداسپور میں واقع ہونے کی وجہ سے واسطہ پڑا ہے` ہم چاہتے ہیں کہ کمیشن کے سامنے بعض بنیادی امور رکھیں جن کا تعلق ان مطالبات سے ہے جو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ہمارا یقین ہے کہ کمشن کا یہ فرض ہے کہ وہ علاقہ جات کو پنجاب کی مذہبی آبادی پر تقسیم کرے۔ اس کا یہ کام نہیں کہ وہ صوبے کو سیاسی یا اقتصادی اعتبار سے تقسیم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہوتا تو کمشن کی ہدایات میں قدرتی حدود اور اقتصادی وسائل پر خاص زور دیا جانا چاہئے تھا یا پھر انتظامی لحاظ سے جو ملک کے حصے ہوسکتے ہیں ان کو مدنظر رکھا جاتا۔ لیکن نہ ہی اس عارضی تقسیم میں جو ہوچکی ہے اور نہ ہی کمشن کے فرائض میں سوائے آبادی کے کسی اور بنیادی امر کا ذکر ہے۔ عارضی تقسیم میں تقسیم کی حد بندی ضلع کو قرار دیا گیا ہے۔ جن اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کو مغربی پنجاب میں اور جن میں غیر مسلموں کی اکثرت ہے۔ ان کو مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اگر انتظامی امور کا لحاظ رکھا جاتا تو امرتسر کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اس عارضی تقسیم میں بیاس کے بائیں جانب صرف امرتسر کا ضلع ہی ایسا ہے جو مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ انتظامی لحاظ سے اگر تقسیم ہوتا تو قدرتی حدود مثلاً دریائوں اور پہاڑوں کو خاص اہمیت دی جاتی۔ اسی طرح اگر اقتصادی امور کو تقسیم میں مدنظر رکھا جاتا تو پھر کانگڑہ کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ ذرائع نقل و حمل کے لحاظ سے کانگڑہ ریلوے لائن کے ذریعہ مغربی پنجاب سے ملحق ہے اور تجارتی لحاظ سے بھی اس کا تعلق مغربی پنجاب سے ہے۔ مگر اس حقیقت کے پیش نظر کہ امرتسر اور کانگڑہ کے اضلاع مشرقی پنجاب میں شامل کئے گئے ہیں یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم کا بنیادی اصول صرف آبادی ہی کو قرار دیا گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کمیشن کے دائرہ عمل میں >دیگر امور< کے الفاظ آتے ہیں۔ لیکن یہ >دیگر امور< ظاہر ہے کہ آبادی سے کم مرتبہ پر اور اس کے تحت میں یہ کوئی متوازی یا دوسرا بنیادی اصول نہیں ہے۔ بلکہ پہلے اصول کے ضمنیات میں ہی شامل ہے۔ یہ >دیگر امور< اسی وقت متعلقہ امور قرار دیئے جاسکتے ہیں جبکہ مسلم اور غیر مسلم آبادی بالکل برابر ہویا جبکہ ایک فریق کی آبادی کا تسلسل دوسرے فریق کی آبادی کے تھوڑے سے رقبے کے بیچ میں آنے کی وجہ سے ٹوٹ جائے اور جبکہ یہ روکاوٹ ایک آبادی کے تسلسل میں دوسری آبادی کی موجودگی کے سبب اتنی کم ہو کہ اسے کوئی اہمیت نہ دی جاسکتی ہو۔
اگر ان >دیگر امور< کو وہی اہمیت حاصل تھی جو آبادی کو ہے تو پھر عارضی تقسیم میں بھی ان کا لحاظ رکھا جاتا۔ بجائے اس کے صرف کمشن کے دائرہ عمل میں شامل کیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ آبادی کے ضمن کے طور پر زیر غور لائے جائیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف >دیگر امور< سے مراد وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں تھیں جنہیں حد بندی کے وقت مدنظر رکھا جانا مقصود تھا۔ اور یہ بات طے شدہ تھی کہ آبادی کے سوال کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہے گی۔ کمشن کا تعلق بنیادی طور پر آبادی کے سوال اور اس کے تسلسل سے ہے۔ اس امر کو نظر انداز کرنا یا کسی اور امر کو اتنی اہمیت دینا کمشن کے اختیارات اور دائرہ عمل سے باہر ہے۔
پریس کانفرنس کے موقعہ پر وائسرائے نے صاف طور پر بیان دیا تھا کہ۔
>ملک معظم کی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ زرعی جائیداد کی بناء پر تقسیم ملک کی حمایت کرے گی۔ موجودہ انگریزی حکومت کسی صورت میں بھی ایسا نہیں کرسکتی<۔
>)ٹریبیون< ۵۔ جون و >ڈان< ۶۔ جون ۱۹۴۷ء(
اسی پریس کانفرنس میں وائسرائے سے یہ سوال کیا گیا۔
>آپ نے اپنی کل کی نشری تقریر میں یہ فرمایا تھا کہ تقسیم شدہ صوبوں کی آخری حد بندی یقینی طور پر اس کے عین مطابق نہیں ہوگی جو عارضی طور پر اختیار کی گئی ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کہا؟<
اس کے جواب میں وائسرائے نے فرمایا۔
>محض اس وجہ سے کہ گورداسپور کے ضلع میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی میں تناسب ۴ء ۵۰ اور ۶ء ۴۹ اور فرق صرف ۸ء ۰ فیصد کا ہے۔ پس یہ ایک عام فہم بات ہے آپ خود سمجھ لیں گے کہ اس کا امکان نہیں کہ کمشن تمام ضلع کو مسلمانوں کی اکثریت والے علاقوں میں شامل کردے۔ اسی طرح سے بنگال کے ایک ضلع میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان اضلاع کی اقلیتی باشندے یہ فرض کرلیں کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ ان کو ایسے علاقوں میں شامل کیا جارہا ہے جن میں ان کے فرقے کی اکثریت نہیں ہے<۔
)سول اینڈ ملٹری گزٹ ۵۔ جون ۱۹۴۷ء(
اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ وائسرائے نے جن اعداد و شمار کا حوالہ دیا ہے یہ درست نہیں ہیں )دیکھو پنجاب مردم شماری کی رپورٹ ۱۹۴۱ء( مندرجہ بالا سوال اور جواب سے یہ واضح ہے کہ کمشن کسی اکثریت والے علاقے کو ملحقہ علاقے سے جدا کرکے کسی دوسرے علاقے سے نہیں ملائے گا اور یہ کہ اگر عارضی تقسیم سے کوئی انحراف ہوا تو اس کا فیصلہ ملحقہ اکثریت والے علاقوں کی بناء پر ہوگا اس لئے کہ وائسرائے کے اعلان میں >دیگر امور< مثلاً جائداد کی قسم کی تصریحات ہرگز شامل نہیں۔ نیز اعلان میں یہ بھی فیصلہ شدہ بات ہے کہ کمیشن کسی ایسے علاقے کو جس میں ایک فرقہ کی اکثریت ہے کسی ایسے علاقے سے نہیں ملائے گا جس میں اس فرقہ کی اکثریت نہیں۔
نیز ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہندوستان کے مسئلہ کے حل کے لئے اور فرقوں کے باہمی تنازعات کے فیصلہ کے لئے >دیگر امور< میں جائداد اور اس قسم کی اور باتیں شامل تھیں تو کیوں اس وقت پنجاب اور بنگال کی اسمبلیوں کے یورپین ممبروں کو اپنے رسمی ووٹنگ کے حق سے محروم کیا گیا جبکہ پنجاب اور بنگال کی اسمبلیاں دستور ساز اسمبلی کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے لئے منعقد ہوتی تھیں۔ نیز اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آیا وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں۔ کیا اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ یورپین ممبروں کی اسمبلی میں نمائندگی کی بڑی وجہ ان کی جائداد اور ان کے تجارتی اور صنعتی مفادات ہیں؟ یہی وجہ تھی کہ جب بنیادی سیاسی حقوق کے فیصلے کا وقت آیا تو ان یورپین ممبروں کو جنہیں ان کی جائداد اور ان کے اقتصادی مفادات کی بناء پر نمائندگی دی گئی تھی اس فیصلہ کے وقت ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیا گیا کہ وہ کس دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اسی طرح اگر کسی ملک کی تقسیم جائیداد کی بناء پر جائز ہے تو پھر ہمیں سندھ کے صوبے کو بھی تقسیم کرنا پڑے گا۔ اس صوبے میں بڑے بڑے زمینداروں میں ہندوئوں کی اکثریت ہے۔ مزید برآں تقسیم کے لئے اگر جائیداد جائز بنیاد ہوسکتی ہے تو پھر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی زحمت نہیں کرنی چاہئے تھی اسے ہندوئوں اور سکھوں کے حوالے کر دینا چاہئے تھا کیونکہ پنجاب میں تجارت` صنعت اور تعلیم وغیرہ تقریباً تمام ان کے قبضے میں ہیں۔ اس صورت میں مسلمان کسی ایک ضلع کے لئے بھی مطالبہ نہیں کرسکتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان یا اس کے کسی حصے کی تقسیم کا سوال محض اس لئے اٹھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ جائز شکایت تھی کہ غیر مسلموں کے ہاتھ میں ان کے سیاسی حقوق محفوظ نہیں۔ اس صوبے میں بھی جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے زمینیں` ٹھیکے اور تعلیم کے لئے حکومت کی طرف سے مالی عطیات غیر مسلموں کو ہی ملتے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ترقی کے کوئی راستے باقی نہیں رہے۔ اس لئے مسلمانوں کے مفاد کے لئے یہ ضروری تھا کہ ان کے اکثریت والے علاقوں کو ملک کے باقی ماندہ حصے سے جدا کیا جائے تاکہ وہ اس قابل ہوں کہ اپنی ترقی کے منصوبے بنائیں اور اپنی قسمت کا آپ فیصلہ کریں۔ سالہا سال کے تصادم اور کشمکش کے بعد انگریزی حکومت اور ہندو کانگرس نے مسلمانوں کے اس مطالبہ کو قبول کیا ہے۔ اب وہی دلیل جس کی بناء پر مسلمانوں کو اکثریت والے علاقوں میں علیحدہ رہنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس بات کے لئے استعمال نہیں کی جانی چاہئے کہ ان کے علاقوں میں سے کچھ حصے چھینے جاسکیں گے۔ اگر پاکستان کا تصور یہ تھا کہ مسلمانوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی سیاسی اور اقتصادی زندگی کے نقصانات کی تلافی کرسکیں اور اگر تقسیم کا خیال جسے انگریزی حکومت اور کانگرس دونوں نے تسلیم کیا ہے درست ہے تو پھر جائداد اور اقتصادی حالت کی فوقیت کی بناء پر مسلمانوں کے علاقوں کی تقسیم کی کوشش پاکستان کے نظریہ کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے اس لئے ایسی تقسیم بنیادی طور پر غلط ہونے کی بناء پر رد کر دینے کے قابل ہے۔
کانگرس متنازعہ فیہ مسئلے میں سب سے اہم فریق مخالف ہے۔ لیکن کانگرس نے پہلے ہی یہ نظریہ تسلیم کرلیا ہے کہ سیاسی حقوق کے تعین میں جائیداد کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ان تمام صوبوں میں جن پر کانگرس حکمران ہے زمینداری سسٹم منسوخ کیا جارہا ہے۔ یوپی` مدراس اور بہار میں اس قسم کے قوانین پاس کرائے جارہے ہیں جو بڑے زمینداروں کے اراضیاتی مفاد کو ضبط کرنے کے مترادف ہیں۔ اگر زمینداروں کے مفادات سیاسی حقوق کے لئے پیمانہ قرار دیئے جاسکتے ہیں تو چاہئے تھا کہ یوپی` مدراس اور بہار میں کانگرس بڑے زمینداروں کو اسی نسبت سے زیادہ سیاسی حقوق دیتی لیکن اس کی بجائے کانگرسی حکومتیں زمینداری سسٹم کو ختم کرنے کے لئے قانون بنارہی ہیں۔ بنگال میں زمین کا بیشتر حصہ ہندوئوں کی ملکیت ہے اور اس لحاظ سے یہ صوبہ ہندوئوں کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا اور عارضی تقسیم میں بنگال کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے حوالہ کردیا گیا ہے۔
بفرض محال )جو بہرحال امر محال ہی ہے( اگر >دیگر امور< میں ایسی باتیں شامل کرلی جائیں جیسے جائیداد` تجارتی مفادات` انکم ٹیکس` تعلیمی ترقی وغیرہ امور شامل کرلئے جائیں تو ہمیں یہ دریافت کرنا پڑے گا کہ کن حالات اور کن ذرائع سے غیر مسلموں نے زمین` تعلیم اور تجارت میں یہ تفوق حاصل کیا ہے؟
جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ یہ غیر مسلموں کا تفوق صرف اس وجہ سے ہے کہ انگریزوں کے ہندوستان میں وارد ہونے کے وقت غیر مسلموں نے حصول دولت اور اقتصادی برتری کے تمام سرکاری وسائل اور اداروں پر قبضہ کرلیا۔ انگریزوں سے پہلے مسلمان ہندوستان کے حکمران تھے۔ انگریزوں نے ملک مسلمانوں سے لیا۔ لارڈ کرزن کے زمانہ تک انگریزوں کی یہ پالیسی رہی کہ مسلمانوں کو کمزور رکھا جائے۔ لارڈ کرزن نے پہلی مرتبہ یہ سوال اٹھایا کہ کیا ایسا کرنا جائز اور درست ہے؟ اس میں شک نہیں کہ لارڈ کرزن کو اس آواز کے اٹھانے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی لیکن اس نے یہ ثابت کردیا کہ ایسے اور انگریز بھی موجود تھے جو حق اور انصاف کی حمایت میں اپنی ذاتی شہرت اور ترقی کو خطرے میں ڈال کر بھی اپنی ہی حکومت کی پرانی انتظامی روایات اور حکمت عملی کی مخالفت کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ پس اقتصادی اور تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی گورنمنٹ کی پالیسی اور سیاسی اغراض کا نتیجہ تھی۔ اب یہ وقت آیا ہے کہ انہیں ان محرومیوں اور دشواریوں سے نجات دلائی جائے۔ لیکن اس کی بجائے تجویز یہ ہورہی ہے کہ جو کچھ ان کے قبضہ میں ¶باقی رہ گیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی بہانے ان سے چھین لیا جائے۔
سکھوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں پنجاب کی نہری نو آبادیات میں )ان کی ملکیت میں برتری کی بناء پر( زائد رقبہ دیا جائے۔ اس کی تردید بھی ہمارے مندرجہ بالا جواب سے ہو جاتی ہے۔ نہری آبادیاں سرگودھا۔ لائل پور` منٹگمری` شیخوپورہ` ملتان کے اضلاع میں ہیں۔ نہروں کی کھدائی سے پہلے ان لوگوں میں جو یہاں آکر آباد ہوئے تھے بمشکل ۵ فیصدی غیر مسلم تھے۔ اس لئے یہ علاقے مسلمانوں کے تھے۔ قلیل آبادی کی وجہ سے یہاں کے مقامی باشندے زمینوں کے کثیر حصے کو اپنے مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے کیونکہ پانی کی قلت کی وجہ سے تمام زمین زیر کاشت نہیں لائی جاسکتی تھی۔ نہروں کی تعمیر کے موقعہ پر گورنمنٹ نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ چونکہ زمینیں ویران ہوگئی تھیں اس لئے اب وہ حکومت کی ملکیت ہوگئی ہیں۔ اپنی مقبوضہ زمینوں میں سے کچھ زمین سکھوں کو ان کی خدمات کے عوض گورنمنٹ نے مفت عطا کردی اور کچھ علاقے پرائیویٹ خریداروں کے پاس بیچ دیئے گئے۔ اس طرح سے زمین کا ایک معتدبہ حصہ سکھوں کی ملکیت میں چلا گیا۔ اس سے زیادہ ناانصافی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ زمین جو مسلمانوں کی تھی وہ تو غیر مسلموں کے حوالہ کر دی گئی اور اب مسلمانوں کو اس بناء پر ان کے آبائی علاقوں سے محروم کیا جاتا ہے کہ غیر مسلموں کے پاس ان سے زیادہ زمین ہے۔ ہم یہ بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ یہ عطیہ جات مرکزی حکومت کی خدمت کے صلہ میں دیئے گئے تھے کیونکہ یہ فوجی خدمات کا معاوضہ تھا۔ اب جبکہ ہندوستان کی تقسیم ہوچکی ہے مغربی پنجاب یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ہندوستان سے ان زمینی عطیہ جات کے نقد معاوضے کا مطالبہ کرے۔
ہندوئوں کے قبضے میں آج زمینیں ہیں۔ یہ ہندو ساہوکاروں کے سودی کاروبار اور ان کی حد سے بڑھی ہوئی شرح سود کا نتیجہ ہیں جو وہ زمینداروں کو قرض دے کر وصول کرتے تھے۔ ہمارے اس دعوے کی تصدیق پنجاب کی عدالتوں کے ریکارڈ سے ہوسکتی ہے۔ کئی مثالیں ایسی ہیں کہ چالیس یا پچاس روپیہ اصل زر کا معمولی قرضہ آخر کار بیچارے زمیندار کی ہزاروں روپے کی زمین سے محرومی کا باعث ہوگیا۔ زمینداروں کی اس زبوں حالی کو دور کرنے کے لئے حکومت پنجاب نے اور اس کے بعد دوسری صوبائی حکومتوں نے قانون انتقال اراضی پاس کئے لیکن ان قوانین کا اطلاق ماضی پر نہ ہوا۔ اس لئے جو زمینیں ہندو ساہوکاروں کے قبضے میں چلی گئی تھیں وہ اصل مالکوں کو واپس نہ مل سکیں۔ اب پرانی بے انصافی کی بناء پر نئی بے انصافی کی جارہی ہے۔ کیونکہ یہ کہا جارہا ہے کہ وہ زمین جو ہندوئوں کے ہاتھوں میں ان کے قابل اعتراض سودی کاروبار کے نتیجہ میں چلی گئی تھی انہیں یہ حق دلاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے مزید ان کے علاقے حاصل کرلیں۔
مختصر یہ کہ کوئی مطالبہ جو مشرقی پنجاب والے مغرب پنجاب سے زمین کے حقوق یا تعلیمی برتری کی بناء پر کریں وہ اس اصول ہی کے خلاف ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بونڈری کمشن کا کام یہ نہیں کہ اس اصول کو بدلنے کی سعی کرے بلکہ اس کی غرض اس اصول کو منصفانہ طور پر عملی جامہ پہنانا ہے۔
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر >دیگر امور< سے مراد جائداد اور اس قسم کی اور چیزیں نہیں تو پھر ان سے کیا مراد ہوسکتی ہے اور ان کے کیا معنی ہیں؟ ہمارے خیال میں اس فقرے کا مطلب معلوم کرنے کے لئے ہمیں کمشن پر عائد کردہ فرائض کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ چنانچہ اس کے فرائض میں واضح طور پر درج ہے کہ۔
>بونڈری کمشن کو یہ ہدایت ہے کہ وہ دونوں پنجابوں کے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ملحقہ اکثریت والے علاقوں کی تحقیق کی بناء پر حد بندی کرے۔ ایسا کرنے کے لئے وہ دیگر امور کو بھی مدنظر رکھیں گے<۔
مندرجہ بالا الفاظ سے ظاہر ہے کہ >دیگر امور< سے مراد وہ امور ہیں جو اس وقت ظاہر ہوں گے جبکہ کمشن حد بندی کرے گا اور فرقہ وار اکثریت والے علاقوں کی تعیین کرے گا۔ اس لئے >دیگر امور< سے مراد جائداد یا اسی قسم کی اور چیزیں نہیں ہوسکتیں نہ ہی وہ اکثریت کے حقوق کی نفی کرسکتا ہے۔ ان سے مراد صرف وہ مطالبات یا قابل غور باتیں ہیں جن کا حد بندی کی معمولی تفاصیل طے کرتے وقت خیال رکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے ذہن میں اس کی چند مثالیں بھی ہیں۔ مثلاً اگر کسی ایک فرقے کا اکثریت والا بڑا علاقہ اقلیت کے دیہات کے تنگ حلقے میں ہے تو ایسی حالت میں کمشن کے لئے یہ جائز ہوگا کہ یہ فیصلہ دے کر اگرچہ ایک مخصوص آبادی نے دوسرے فرقہ کی بڑی آبادی کے گرد حلقہ ڈال رکھا ہے یہ تنگ حلقہ دوسرے فرقہ کے اکثریت والے وسیع رقبہ کو اس کی زیادہ آبادی والے علاقے سے ملحق کر دیا جائے۔ یا ایک اور مثال لیجئے۔ ایک وسیع علاقہ جس میں کسی ایک فرقہ کی اکثریت آباد ہے اپنے فرقے کی اکثریت والے علاقے سے ایک ایسے چھوٹے سے علاقے سے جدا ہوتا ہے جس میں دوسرے فرقے کے لوگ آباد ہیں تو اس صورت میں ایک بڑی آبادی کی وحدت کے راستے میں چھوٹا علاقہ روک نہ بن سکے گا۔ ایک تیسری مثال بھی ہے۔ یعنی فرض کریں کہ سرحد پر ایک ایسا قصبہ آجاتا ہے جس کے متعلق جھگڑا ہے تو اس صورت میں ہماری رائے یہ ہے کہ اس قصبہ کی آبادی کی اکثریت پر فیصلہ ہونا چاہئے۔
باونڈری کمیشن نے عام طور پر یہ تسلیم کیا ہے کہ قصبہ تعلیمی اور سماجی ترقی کا ایک ذریعہ ہے۔ جب کسی کے مفاد اور ملحقہ دیہاتی علاقے کے مفاد میں تصادم ہو تو اس صورت میں قصبے کے مطالبات کو ترجیح ہوگی۔
>دیگر امور< کی آخری اور چوتھی مثال جسے کمشن کو آبادی کے علاوہ مدنظر رکھنا ہوگا یہ ہے کہ اگر ایک فرقہ کی آبادی کا تسلسل اس وجہ سے ٹوٹ جائے کہ بیچ میں دوسرے فرقے کا علاقہ آجاتا ہے جو بہت بڑا نہ ہو اس علاقہ کے پرے نزدیک ہی اکثریت والے فرقے کا کوئی مذہبی مرکز واقع ہو تو اس صورت میں یہ درست نہ ہوگا کہ اس مذہبی مرکز کو اس فرقہ سے صرف اس وجہ سے جدا کر دیا جائے کہ درمیان میں ایک چھوٹا سا رقبہ دوسرے فرقہ کا آجاتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثریت کے ساتھ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے بیانوں کی آڑ لے کر اکثریت کو وسیع علاقوں سے محروم نہ کیا جائے۔ اس قسم کا تطابق اقدام کے لئے صرف نہایت ہی قلیل رقبوں کے لئے ہونا چاہئے۔
پس >دیگر امور< سے صرف اسی قسم کے امور مراد لئے جاسکتے ہیں جن کی اوپر مثالیں دی گئی ہیں۔ ان سے یہ مراد ہرگز نہیں لی جاسکتی کہ بعض سرحدی اضلاع مثلاً گورداسپور اور لاہور کے بعض حصوں کو صرف اس وجہ سے مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے کہ مغربی پنجاب کے بعض اور حصوں میں ہندوئوں کا تجارت میں زیادہ حصہ ہے یا سکھوں کے قبضے میں مسلمانوں سے زیادہ زمین ہے۔ اس بارے میں وائسرائے کا اعلان بالکل واضح ہے۔ وائسرائے کا یہ اطمینان دلانا ہندوئوں` مسلمانوں اور سکھوں سب کے لئے یکساں ہے۔
ہم یہاں ایک اور سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ >دیگر امور< سے مراد وہی ہے جو غیر مسلم لے رہے ہیں۔ اس صورت میں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم آبادی کے علاوہ دوسرے مطالبوں کی اصل قیمت کس طرح لگائیں؟ ہمیں ان مطالبات کا اندازہ لگانے کی کوئی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ اگر مغربی پنجاب کا ایک حصہ مشرقی پنجاب سے اس لئے ملایا جاسکتا ہے کہ مغربی پنجاب میں ہندوئوں اور سکھوں کے پاس مسلمانوں سے زیادہ زمین` زیادہ تجارتی ادارے اور زیادہ کالج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوگا کہ کتنے مسلمان کس قدر زمین` تجارتی اداروں` ٹیکس یا کالجوں کے برابر شمار ہوں گے؟ بہرحال ہمیں بتانا چاہئے کہ مغربی پنجاب کے کتنے مسلمانوں کی آزادی لائل پور میں ہندوئوں کی زمینوں یا راولپنڈی میں غیر مسلم کالجوں یا سیالکوٹ میں غیر مسلم کارخانوں کے عوض سلب ہوگی۔ جب تک آزادی کی قیمت طے نہ ہو ہم پنجاب کو جائیداد کی بناء پر تقسیم نہیں کرسکتے۔ ہم آزادی کے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کوئی شخص بھی اتنی جرات کرسکے اور کہے کہ وہ الف فرقے کے اتنے افراد کو ان کی مرضی کے خلاف ب فرقے کے علاقے میں دھکیل دے گا صرف اس لئے کہ ب فرقہ کے قبضے میں الف فرقہ سے زیادہ زمین یا زیادہ کالج ہیں یا وہ زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ایسا اقدام غلاموں کی تجارت کے مترادف ہوگا بلکہ غلاموں کی تجارت میں ایک بدترین قسم کی مثال ہوگی۔
مختصر طور پر حقیقت یہ ہے کہ۔
)۱( بونڈری کمیشن کا کام پنجاب کو تقسیم کرنا نہیں ہے بلکہ پہلے سے تقسیم شدہ پنجاب کی حد بندی میں معمولی تفصیلات کو طے کرنا ہے اور اس میں ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی ترمیمیں کرنا ہے جو ضروری اور انصاف پرمبنی ہوں۔
)۲( ان ترمیموں کے بارے میں کمشن کو یہ ہدایت ہے کہ وہ ان >دیگر امور< کو مدنظر رکھے جو آبادی کی بناء پر حد بندی کے لئے ضروری ہوں۔
)۳( >دیگر امور< کے الفاظ کا تعلق مغربی اور مشرقی پنجاب کی درمیانی حدود سے ہے نہ کہ صوبہ کے باقی ماندہ حصوں سے۔
)۴( وائسرائے نے پریس کانفرنس میں جو اعلان کیا ہے وہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کمشن کا صرف یہ کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اگر کوئی سرحدی ضلع آبادی کے لحاظ سے مجموعی طور پر کسی ایک فرقے کا ہے تو اس صورت میں اس ضلع کے وہ حصے جن کا رقبہ کافی ہو اور جن میں دوسرے فرقے کے لوگوں کی اکثریت ہو اس ضلع سے جدا کئے جائیں اور ان کا الحاق ان کے اپنے فرقے کے ساتھ والے علاقے سے کیا جائے۔ اس اعلان سے یہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا کہ ایک فرقہ کی اکثریت والا حصہ دوسرے فرقے کی اکثریت والے حصہ سے ملا دیا جائے۔
)۵( غیر مسلموں کا یہ دعویٰ کہ >دیگر امور< سے مراد دولت جائداد وغیرہ ہیں` وائسرائے کے اعلان کے علاوہ انسانی عقل اور ضمیر کے بھی خلاف ہے۔
ان عام خیالات کے اظہار کے بعد اب ہم اس سوال کو لیتے ہیں جس میں کہ سلسلہ احمدیہ کو خاص دلچسپی ہے یعنی وہ سوال جس کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو قادیان اور اس کے گرد و نواح سے متعلق ہیں اور جن کو مشرقی اور مغربی پنجاب کے درمیان حد فاصل قائم کرتے وقت ضرور مدنظر رکھنا چاہئے۔ اس بارے میں ہم مندرجہ ذیل معروضات پیش کرتے ہیں۔
۱۔ قادیان تھانہ بٹالہ تحصیل بٹالہ اور ضلع گورداسپور میں واقع ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یہ دعویٰ کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے اس قدر واضح اور مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کہ اس کے متعلق بحث بونڈری کمشن کے دائرہ عمل سے باہر ہے۔ بے شک پریس کانفرنس کے موقع پر وائسرائے نے یہ کہا تھا کہ اس ضلع میں مسلمانوں کو ۸ء ۰% اکثریت حاصل ہے اور اس لئے یقینی طور پر اس کے بعض حصوں میں غیر مسلموں کی اکثریت ہوگی مگر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ وائسرائے اس بارہ میں صحیح حالات سے آگاہ نہیں۔ ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کی رپورٹ میں ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کا ۱۴ء ۵۱ فیصد ہے اور اس طرح سے مسلمانوں کو دوسروں پر ۲۸ء ۲% کی اکثریت حاصل ہے نہ کہ ۸ء ۰ فیصد۔
اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ ہندوستانی عیسائی اور اچھوت ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل ہیں تو بھی مسلمان غیر مسلموں سے ۲۸ء ۲% اکثریت میں ہیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ عیسائی لیڈر مسٹر ایس۔ پی سنگھا نے جو بٹالہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے ہیں۔ غیر مبہم طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کا فرقہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دے گا۔ سنٹرل کرسچین ایسوسی ایشن نے سنگھا صاحب کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ گورداسپور کے ضلع میں عیسائیوں کی آبادی ۴۶ء۴% ہے۔ اگر ہم عیسائی آبادی کو مسلمان آبادی میں شامل کردیں تو اس صورت میں ضلع گورداسپور کے وہ لوگ جو پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں ان کی تعداد ۶۰ء ۵۵ فیصد ہو جاتی ہے۔ یہ فرق درحقیقت نمایاں فرق ہے۔ برٹش گورنمنٹ کی تجویز میں جالندھر کا ضلع مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا ہے۔ جالندھر میں غیر مسلم صرف ۷۴ء ۵۴% ہیں۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ گورداسپور کا ضلع جس میں آبادی کا ۶۰ء ۵۵% پاکستان کی حمایت میں ہے ایک متنازعہ فیہ علاقہ قرار دیا جائے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں کو ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ شامل کرنے کے فیصلہ پر عیسائیوں کی رائے اثر انداز نہیں ہوسکتی تو پھر ہمیں کہنا پڑے گا کہ حقائق کو بدلا نہیں جاسکتا۔ اگر عیسائی کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عیسائی پاکستان جانا نہیں چاہتے۔ بے شک گورنمنٹ یہ تو کہہ سکتی ہے کہ ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ عیسائی کہاں جانا چاہتے ہیں اور یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان حد بندی کے لئے عیسائیوں کی رائے کو وقعت نہیں دی جائے گی۔ لیکن یہ بات معقول نظر نہیں آتی کہ گورنمنٹ عیسائیوں کے پاکستان کی طرف رجحان کو خلاف پاکستان قرار دے۔ اگر ہم عیسائیوں کو شامل نہ بھی کریں پھر بھی مسلمان ۲۸ء ۲% کی اکثریت میں ہیں۔ مسلمانوں کی اس نمایاں اکثریت کو یقیناً وہ اہمیت دینی چاہئے جس کی وہ مستحق ہے۔
۲۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت ضلع گورداسپور میں کم ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹھانکوٹ کی تحصیل میں مسلمان ۸۸ء ۳۸% ہیں۔ لیکن جب ہم باقی تین تحصیلوں کو دیکھتے ہیں تو بٹالہ میں ۰۷ء ۵۵% مسلمان ہیں` گورداسپور میں ۱۵ء ۵۲ اور شکر گڑھ میں ۳۲ء ۵۱ )رپورٹ مردم شماری ۱۹۴۱ء( ان اعداد و شمار کی رو سے یہ واضح ہے کہ اگر ہم تحصیل بٹالہ کے عیسائیوں کو ہندوئوں اور سکھوں میں شامل کر بھی دیں تو پھر بھی تحصیل بٹالہ میں مسلمان ۱۴ء۱۰% کی اکثریت میں ہیں۔ تحصیل گورداسپور میں ۳۰ء ۴% اور تحصیل شکر گڑھ میں ۲۸ء ۶% کی۔ اگر عیسائیوں کو مسلمانوں کے ساتھ ملا دیا جائے تو تب بٹالے کی تحصیل میں سے جو لوگ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کی تعداد ۵۳ء ۶۰% ہو جاتی ہے اور جو ہندوستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کی تعداد گھٹ کر ۴۷ء ۳۹% رہ جاتی ہے۔ گورداسپور کی تحصیل میں مسلم اور عیسائی آبادی مل کر ۲۴ء ۵۹% اور باقی لوگ ۷۶ء ۴۰% کی اقلیت میں ہو جاتے ہیں۔ شکر گڑھ کی تحصیل میں مسلم اور عیسائی آبادی ۸۴ء ۵۴% ہو جاتی ہے اور غیر مسلم ۱۶ء۴۵% ہو جاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم فی الحال پٹھانکوٹ کو زیر غور نہ لائیں تو یہ ظاہر ہے کہ گورداسپور کے باقی کسی حصے کے مشرقی پنجاب کے ساتھ الحاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ تینوں تحصیلوں میں مسلم عیسائی آبادی ۵۸% ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وائسرائے کے اعلان کو مدنظر رکھتے ہوئے گورداسپور` بٹالہ اور شکر گڑھ کی تحصیلوں میں سے کوئی بھی مغربی پنجاب سے جدا کرکے مشرقی پنجاب میں شامل نہیں کی جاسکتی۔ ایسا اقدام سراسر بے انصافی پر مبنی ہوگا اور غیر آئینی بھی۔
۳۔ تحصیل پٹھانکوٹ کے متعلق ہماری رائے ہے کہ یہ باوجود مسلم اقلیت کا علاقہ ہونے کے مغربی پنجاب میں شامل ہونی چاہئے۔ پٹھانکوٹ کی پوزیشن نرالی ہے۔ >دیگر امور< والا اصول یہاں بالکل اطلاق پاتا ہے۔ دریائے راوی اس تحصیل سے ہوتا ہوا مغربی پنجاب میں داخل ہوتا ہے اور اس دریا میں سے نہریں نکالی گئی ہیں جن کے ہیڈ ورکس مادھوپور میں ہیں۔ یہ نہریں زیادہ تر مغربی پنجاب کو سیراب کرتی ہیں۔ اگر یہ تحصیل جس میں غیر مسلم ۳۵۰۰۰ کی اکثریت میں ہیں مغربی پنجاب سے جدا کر دی جائے تو اس کا اثر مغربی پنجاب کی تیس لاکھ آبادی پر جس میں ہندو اور سکھ بھی شامل ہیں بہت تباہ
‏vat,10.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
کن ہوگا۔ اس لئے یہ بالکل مناسب ہوگا کہ تیس لاکھ کے مفاد کو ۳۵۰۰۰ کے مفاد پر قربان نہ کیا جائے۔ اس لئے پٹھانکوٹ کا معاملہ بالکل استشنائی صورت کا ہے اور اس کی پنجاب کے دوسرے حصوں میں نظیر نہیں ملتی۔ اس لئے یہ تحصیل خاص غور کی مستحق ہے اور >دیگر امور< کے تحت میں شمار کیا جانے والا مناسب کیس ہے۔ ضمناً یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ اس تحصیل کے کچھ حصے ریاست چمبہ کی ملکیت ہیں اور ان میں ہندوئوں کی غالب اکثریت ہے۔ اگر ان علاقوں کو جدا کر دیا جائے تو دوسرے حصوں کی اکثریت میں متعدبہ کمی آجائے گی۔ اگر کمشن کے آخری فیصلہ میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت والی تحصیلیں جو عارضی تقسیم میں مشرقی پنجاب میں شامل کر دی گئیں ہیں پاکستان کو واپس نہ ملیں تو پٹھانکوٹ ہندوستان کو دیئے جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوگا۔
۴۔ اگلا سوال یہ ہے کہ اگر تقسیم کی اکائی ایک تحصیل سے کم علاقہ قرار دیا جائے تو اس کا قادیان اور اس کے ملحقہ علاقہ پر کیا اثر ہوگا؟ اس کے متعلق ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تقسیم کی اکائی یا تو ضلع ہو یا تحصیل۔ تحصیل سے کم اکائی سے مطلب حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ۔
)ا( اگر تقسیم کی اکائی تحصیل سے کم ہو تو ملک کی حفاظت اور اندرونی تجارت پر کنٹرول زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
)ب( وائسرائے کے اعلان میں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو تسلیم کیا گیا ہے اور مردم شماری کی رپورٹ میں تحصیلوں سے کم علاقوں کے اعداد نہیں ہیں۔ اس لئے یہ ظاہر ہے کہ جب مردم شماری کی رپورٹ کو آبادی کی بنیاد قرار دینا ہے تو پھر تقسیم کی اکائی یا ضلع چاہئے یا تحصیل جس کے اعداد مردم شماری کی مطبوعہ رپورٹ میں درج ہیں۔
)ج( اگر ہم بغرض بحث یہ فرض کرلیں کہ بونڈری کمیشن تقسیم کی خاطر تحصیل سے کم علاقہ کو اکائی کے طور پر استعمال کرے تو ایسی اکائی صرف تھانہ ہوسکتا ہے یا گرداور کا حلقہ یا ذیل یا گائوں۔ پس اگر گائوں کو اکائی قرار دیا جائے تو مسلم علاقے امرتسر` فیروزپور` جالندھر` ہوشیارپور` لدھیانہ اور انبالہ کے اضلاع میں کیکڑے کے بہت سے پنجوں کی طرح پھیل جائیں گے۔ اسی طرح غیر مسلم علاقے ٹکڑوں میں لاہور اور گورداسپور کے اضلاع میں مل جائیں گے۔ اس قسم کی تقسیم قیام امن کے لئے مفید نہیں۔ اس سے سرحد پر رہائش کی تکالیف میں اضافہ ہوگا۔
اس سے ذرا بڑی اکائی ذیل ہے۔ ذیل میں پچاس ساٹھ گائوں شامل ہوتے ہیں۔ ذیل کا فائدہ صرف یہ ہے کہ دیہات کو اطلاع اور گورنمنٹ کے اعلانات پہنچانے میں آسانی ہوتی ہے۔ ذیلدار کوئی گورنمنٹ کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک زمیندار ہوتا ہے جو اعزازی طور پر ذیلدار کی حیثیت میں کام کرتا ہے۔ اس کا کام ہوتا ہے کہ پولیس اور محکمہ مال کے افسروں کی عام طور پر مدد کرے۔ ذیل بھی ایک غیر مناسب اکائی ہے۔ لیکن اگر بونڈری کمشن ذیل کو ہی ایک یونٹ کے طور پر ماننے کے لئے تیار ہو تو پھر ڈلہ ذیل میں جس میں قادیان شامل ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت ۱۰ء۶۱% ہے۔ درحقیقت قادیان کے مشرق میں دریائے بیاس تک اور مغرب میں بٹالہ تک تمام ذیلیں ایسی ہیں جن میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے۔ الغرض اگر ذیل کو بھی تقسیم کے لئے یونٹ تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھی قادیان لازمی طور پر مغربی پنجاب میں شامل رہنا چاہئے کیونکہ قادیان کے قانونگو کے حلقہ میں مسلمانوں کو ۲۴/۵۴% کی اکثریت حاصل ہے۔ دراصل قادیان سے بیاس تک ایسے حلقوں میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے۔
قانونگو کے حلقے سے بڑا حلقہ تھانے کا حلقہ ہے۔ سو اس کی حیثیت انتظامی ہوتی ہے۔ عام لوگوں کے لئے اس حلقہ کو یونٹ تسلیم کرنے سے لامتناہی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ لیکن اگر تھانے کو ہی یونٹ تسلیم کرنا ہے تو پھر بھی قادیان مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ بٹالہ کے تھانے میں جس میں قادیان واقع ہے مسلمانوں کی تعداد ۹۸ء ۵۵% ہے۔ بٹالہ کے شمال مشرق میں جو تھانہ ہے اس میں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ صرف تھانہ سری گوبند پور میں جو قادیان سے جنوب مشرق میں ہے غیر مسلم اکثریت میں ہیں۔ لہذا قادیان لازمی طور پر مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہئے خواہ تقسیم کا یونٹ ضلع ہو یا تحصیل` تھانہ ہو یا حلقہ قانونگو یا ذیل۔ اسے مغربی پنجاب سے جدا کرنا حد درجے کی ناانصافی اور غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔
لیکن اگر گائوں کو تقسیم کا یونٹ قرار دیا جائے تو قادیان کی پوزیشن ذرا مختلف ہو جاتی ہے۔ بٹالہ سے شروع کرکے ہم گائوں بہ گائوں جائزہ لیں تو لگاتار مسلمانوں کے اکثریت والے گائوں آتے ہیں۔ صرف قادیان کے شمال میں ایک گائوں میں غیر مسلموں کی تعداد مسلمانوں سے بقدر ۲۴ زیادہ ہے۔ وہاں سے قادیان کی جانب ایک سالم گائوں مسلمانوں کا ہے۔ اس کے بعد قادیان آتا ہے جس میں ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کی رو سے دس ہزار سے زیادہ آبادی ہے۔ لیکن اس وقت اس کی آبادی پندرہ ہزار سے زائد ہے اور اس میں مسلمانوں کی اکثریت ۹۰% سے زیادہ ہے۔ اس لئے یہ معقول دلیل ہے کہ ایسا گائوں جس میں صرف غیر مسلم ۲۴ کی اکثریت میں ہوں اردگرد کے مسلمان اکثریت کے علاقے اور قادیان کے درمیان جس میں قریباً چودہ ہزار مسلمان ہیں` روک نہیں سمجھا سکتا۔ اس کے علاوہ ہم نے پہلے ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ گائوں مناسب اکائی نہیں۔ لیکن اگر گائوں کو یونٹ قرار دینا ہے تو پھر یہ یونٹ بطور قاعدہ سارے پنجاب میں استعمال ہونا چاہئے۔ لیکن گائوں کو یونٹ تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صوبے کو نہایت ہی برے طور پر نامناسب اور نامکمل ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
نقشوں کے پانچ سیٹ جو تحصیل` تھانے` قانون گو سرکل اور ذیل کی بناء پر تیار کئے گئے ہیں ضمیمہ ۱ کے طور پر ساتھ شامل کئے جاتے ہیں تاکہ باسانی بطور حوالہ استعمال کئے جاسکیں۔
ہم پہلے ہی بالوضاحت بتاچکے ہیں کہ >دیگر امور< صرف اس وقت زیر غور لانے چاہئیں جب حد فاصل کی تعیین میں معمولی تفصیلات کا فیصلہ کیا جارہا ہو۔ اس لئے اگر گائوں کو یونٹ قرار دیا جائے گا تو >دیگر امور< کے اس اصول کو جائز طور پر استعمال کرکے اس صورت میں قادیان کا تسلسل دوسری مسلم اکثریت کے علاقوں کے ساتھ معمولی طور پر ٹوٹتا ہے۔ اسے دیگر امور کے اصول کو جائز طور پر استعمال کرکے دور کیا جاسکتا ہے۔
ہماری رائے میں اور بھی بہت سے >دیگر امور< ہمارے اس دعوے کی حمایت میں پیش کئے جاسکتے ہیں کہ قادیان مغربی پنجاب کا حصہ ہونا چاہئے۔
۱۔ قادیان سلسلہ احمدیہ کا مرکز اور صدر مقام ہے اور اسے معمولی مذہبی مقامات سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ سکھوں اور ہندوئوں کے مقدس مقامات کو جو تقدیس حاصل ہے وہ فرقہ وارانہ روایات کی بناء پر ہے لیکن قادیان کی تقدیس اور عظمت کی بنیاد خدا تعالیٰ کے الہام اور گزشتہ انبیاء کی بہت سی پیشگوئیوں پر ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد کی نگاہ میں قادیان کی تقدیس مکہ اور مدینہ کی تقدیس سے دوسرے درجہ پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے سوا اور کوئی ایسا مقام نہیں جس کی تقدیس مذہبی کتب یا خدا تعالیٰ کے الہام پر مبنی ہو جیسا کہ مکہ اور مدینہ کو سب نبیوں کے سردار حضرت محمد~صل۱~ کی وجہ سے غیر فانی تقدیس حاصل ہوئی ہے۔ قادیان نے بھی یہ تقدیس آنحضرتﷺ~ کے روحانی شاگرد اور جانشین تحریک احمدیت کے بانی حضرت احمدؑ کے طفیل اسلام کی خدمت کے لئے حاصل کی ہے۔ بانی سلسلہ احمدیہ جنہوں نے قادیان کو اس تحریک کا مرکز قرار دیا ہے احمدیوں کے نزدیک آخری زمانے کے وہ عظیم الشان مصلح ہیں جن کے وجود میں حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ نیز وہ حضرت رسول کریمﷺ~ کے روحانی شاگرد اور ان کے خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرد خلیفہ ہیں اور ان کے وجود میں وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں جو گزشتہ انبیاء نے آخری زمانہ کے متعلق کی ہیں۔ اس لئے ہمارے نزدیک ہندوستان کے کسی اور مذہبی مقام کا تقدیس کے لحاظ سے قادیان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے فرقے بے شک اس وقت تعداد میں زیادہ ہیں لیکن جس اصول پر ان کے مذہبی مقامات کو تقدیس حاصل ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جس کی بناء پر احمدیوں کے مرکز کی تقدیس کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے فرقے کو اپنے مرکز سے وہ لگائو نہیں جو احمدیوں کو قادیان سے ہے۔
اس وقت ہندوستان میں احمدیوں کی تعداد قریباً ۵ لاکھ ہے۔ مگر ان احمدیوں کی تعداد جو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان میں جمع ہوتے ہیں دوسرے مذاہب کے اسی قسم کے اجتماعوں کے مقابلہ میں نسبتاً بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ محکمہ ریلوے کو زائرین کی آمدورفت کے لئے چار دن تک سپیشل گاڑیاں چلانی پڑتی ہیں۔ دور دراز کے علاقوں سے لوگ ہجرت کرکے قادیان آباد ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جبکہ اسی صدی کے شروع میں قادیان کی آبادی صرف چند نفوس پر مشتمل تھی اس وقت یہ آبادی ۱۴۰۰۰ سے کم نہیں اور یہ صرف ہندوستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ غیر ممالک کے لوگ بھی یہاں آکر آباد ہوئے ہیں اور سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لوگوں کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے زندگی وقف کرکے قادیان آکر آباد ہوں۔ دنیا کے تمام علاقوں سے لوگ یہاں مذہبی اور روحانی تربیت کے لئے آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوئوں کی تعداد تیس کروڑ اور سکھوں کی پچاس لاکھ کے قریب ہے لیکن ہندوستان سے باہر تبدیلی مذہب کرکے مزید اقوام کے لوگ ان میں شامل نہیں ہوتے۔ لیکن سلسلہ احمدیہ کی شاخیں امریکہ` کینیڈا` ارجنٹائنا` انگلستان` فرانس` سپین` اٹلی` شام` فلسطین` ایران` افغانستان` چین` لنکا` ماریشس` برما` ملایا` انڈونیشیا` کینیا` ٹانگا نیکا` یوگنڈا` ابی سینیا` سوڈان` نائیجیریا` گولڈ گوسٹ اور سیرالیون میں پائی جاتی ہیں۔ بعض ممالک میں مقامی جماعتوں کی شاخیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں امریکن شہری احمدیت کے معتقد ہیں۔ اس وقت بھی قادیان میں ایک انگریز سابق لیفٹیننٹ اور ایک شامی بیرسٹر دینی تعلیم کے لئے موجود ہیں۔ ایک جرمن سابق فوجی افسر عنقریب قادیان میں بطور مسلم مشنری ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے آرہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ` سوڈان اور ایران سے بھی نو مبائع دینی تعلیم کے لئے قادیان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی انڈونیشیا` افغانستان` چین اور افریقہ سے طالب علم ہمارے مرکز میں آئے ہیں۔ اس لئے قادیان کو جو مقام مذہبی مرکز ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے وہ بہت بلند ہے۔ اگر مذہبی مقامات >دیگر امور< میں شامل ہیں تو بلاشک و شبہ قادیان کا نمبر اول ہے۔
۲۔ تحریک احمدیت کے ہندوستان میں ۷۴۵ مقامی مراکز ہیں جن میں ۵۴۷ یعنی ۷۴% کے قریب پاکستان میں واقع ہیں )ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۲( اس لئے قادیان کو مغربی پنجاب سے جدا کرنا تحریک کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہوگا۔
۳۔ تحریک احمدیت کے مقدس بانی قادیان میں پیدا ہوئے اور اکثر کتابیں جو انہوں نے اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے لکھیں` اردو زبان میں ہیں۔ آپ کی بعض کتابیں عربی اور فارسی میں ہیں۔ ہندوستان کی حکومت نے پہلے سے ہی اردو کو ختم کر دینے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے۔ ہندوستان ریڈیو جو زبان استعمال کررہا ہے وہ ابھی سے ایسی ہے کہ ایک عام مسلمان کی سمجھ سے بالا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ زبان اردو بولنے والوں کے لئے بالکل اجنبی ہو جائے گی۔ اگر قادیان کا الحاق مشرقی پنجاب سے کر دیا گیا تو اس کا مطلب ان دو میں سے ایک ہوگا یا تو قادیان احمدیوں میں اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے جدوجہد کو جاری رکھے اور اس طرح اپنے نوجوانوں کو گورنمنٹ کی ملازمتیں حاصل کرنے سے محروم کردے اور اپنے افراد کو صنعت اور تجارت میں ترقی کرنے سے روک دے یا قادیان اردو کو خیرباد کہہ دے جس میں سلسلہ کا مذہبی لٹریچر ہے اور اس طرح اپنے مذہبی مستقبل کے لحاظ سے خود کشی کرلے۔ سلسلہ احمدیہ کے لئے ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بھی قابل قبول اور ممکن نہیں نہ کوئی معقول انسان ان کو قبول کرنے کا مشورہ دے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سلسلہ احمدیہ کی ہندوستان سے باہر بیسیوں شاخیں ایسی ہیں جو قدرتی طور پر پاکستان سے زیادہ گہرے تعلقات کی خواہاں ہوں گی۔
پیشتر اس کے کہ ہم اگلا امر پیش کریں یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں سکھ قوم کا مطالبہ کہ ان کی یکجہتی کو تحفظ دیا جائے۔ اکثریتی علاقے کے طے شدہ اصول کے خلاف ہے۔ ہمارا یکجہتی کے تحفظ کا مطالبہ اس اصول کی تائید میں ہے۔
۴۔ احمدیوں کا صرف ایک ہی کالج ہے اور وہ قادیان میں واقع ہے۔ اگر قادیان کو مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ایک مملکت کے )ایک فرقے کے( طلباء کی اکثریت کو دوسری مملکت میں واقع کالج میں تعلیم حاصل کرنا پڑے گی۔ یہ امر نہایت ہی نقصان دہ ہوگا اور مثبت طور پر طلباء اور ادارے کے معیار کو تباہ کرنے کا موجب ہوگا۔
۵۔ تحریک احمدیت کے مقدس بانی کا یہ ارشاد ہے کہ احمدیہ فرقے کا مرکز ہمیشہ قادیان ہوگا۔ اس لئے نہ تو جماعت کے لئے اور نہ ہی موجودہ امام کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جماعت کے مرکز کو قادیان سے کسی اور جگہ منتقل کریں۔
۶۔ اس تحریک کے مقدس بانی قادیان کی سرزمین میں مدفون ہیں۔ بعض انتظامات کے ماتحت جن کا بیان کرنا یہاں غیر ضروری ہے سلسلہ کے سرکردہ افراد کی نعشیں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے یہاں دفن کرنے کے لئے لائی جاتی ہیں۔ اس لئے احمدیوں کے لئے اپنے مرکز کو قادیان سے کسی اور جگہ لے جانا ممکن نہیں ہے۔
۷۔ متعدد مقدس عمارتیں اور یادگاریں قادیان میں موجود ہیں اس لئے بھی احمدی اپنا مرکز تبدیل نہیں کرسکتے۔
۸۔ اس فرقے کی جائیداد کا قریباً ۹۰% مغربی پنجاب اور پاکستان میں واقع ہے اور اگر قادیان کو مشرقی پنجاب سے ملا دیا جائے تو اس جماعت کے مرکز کو مالی وسائل کے اعتبار سے بے حد نقصان پہنچے گا۔
۹۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان میں ہے۔ پس اگر قادیان کو مشرقی پنجاب سے ملا دیا گیا تو یہ دیگر مسلمانوں کے لئے عموماً اور احمدیوں کے لئے خصوصاً تباہ کن اقدام ہوگا۔
۱۰۔ بعض ذمہ دار انگریز حکام کے بیانات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ >دیگر امور< کے الفاظ خاص طور پر سکھوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے حکومت انگریزی کی بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔ لیکن اگر دونوں جماعتوں کی تعداد کو مدنظر رکھا جائے تو اگرچہ احمدیوں کی تعداد سکھوں سے بہت تھوڑی ہے۔ لیکن انہوں نے جو بے لوث خدمت دونوں عالمگیر جنگوں میں سرانجام دی ہیں وہ کسی طرح بھی سکھوں کی خدمت سے کم نہیں۔ قادیان نے جس کی آبادی ۱۴۰۰۰ ہے دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر فوج کے لئے ۱۴۰۰ رنگروٹ مہیا کئے۔ جماعت احمدیہ اگرچہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن ۲۰۰ سے زائد احمدیوں نے شاہی کمیشن حاصل کیا )ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳( اس لحاظ سے اگر تعداد کی نسبت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو احمدیہ جماعت ہندوستان کی تمام جماعتوں سے اول نمبر پر آتی ہے۔
بیسیوں احمدی والدین نے اپنے تمام بالغ بیٹوں کو اپنے واجب الاحترام امام کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے جنگی خدمات کے لئے پیش کردیا۔ ذیل کے دو اقتباسات ان خدمات پر جو احمدی احباب نے جنگ کے موقع پر سرانجام دی ہیں بطور بلیغ شہادت کے پیش کئے جاسکتے ہیں۔
>میں آپ کے نوٹس میں وہ عظیم الشان کام لانا چاہتا ہوں جو ہزہائی نس مہاراجہ صاحب پٹیالہ اور ان کے افسروں` نیز کنور جس جیت سنگھ اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ ناظر امور عامہ و خارجہ جماعت احمدیہ قادیان اور سردار کرتار سنگھ دیوانہ نے ٹیکنیکل بھرتی کے سلسلے میں کیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ پرزور سفارش کرتا کہ ان کی خدمت میں سنہری گھڑیاں بطور انعام پیش کی جاتیں۔ لیکن یہ چونکہ بزرگ ہستیاں ہیں میں صرف اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ ڈائریکٹر آف ریکروٹنگ ان کی قابل قدر خدمات اور امداد کے اقرار کا اعلان فرما دیں<۔ )اقتباس از خط بصیغہ راز مورخہ ۴۲/۱۰/۲۶ از اے ٹی۔ آر۔ او جالندھر بنام ڈی۔ ٹی۔ آر او سب ایریا نمبر ۲ لاہور(
نیز کیپٹن سجان سنگھ صاحب اسسٹنٹ ٹیکنیکل ریکروٹنگ آفیسر جالندھر چھائونی سیکرٹری امور عامہ و خارجہ جماعت احمدیہ قادیان کو لکھتے ہیں۔
>میں شکریئے کے ساتھ آپ کی ان بے بہا خدمات کا اعتراف کرتا ہوں جو آپ نے ٹیکنیکل آدمیوں کی بھرتی کے سلسلے میں سرانجام دی ہیں۔ آپ نے جنگی کوششوں میں گہری دلچسپی لی ہے اور ایک بڑی تعداد کاریگروں` کلرکوں اور جنگی کاموں کی تربیت لینے والے نوجوانوں کی مہیا کی ہے اور آپ نے پبلک میں اپنے ذاتی اثر و رسوخ سے بھی کام لیا ہے اور محکمہ بھرتی کے سٹاف سے فراخدلی کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ مجھے اس امداد کا بھی اعتراف ہے کہ جو آپ کے مقامی سیکرٹریوں اور معاونین کی طرف سے میرے حلقہ میں ہر جگہ مجھے ملی ہے۔ آپ کی کوششوں کے نتیجے میں قریباً سات ہزار رنگروٹ فوجی خدمات کے لئے بھرتی ہوئے ہیں۔
مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ اگر آپ اپنے ماتحتوں کو ہدایت جاری کردیں کہ وہ اپنی کوششوں کو دو چند کردیں تاکہ ہم اتنی ہی مدت میں پہلے سے دگنے رنگروٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ میں یقیناً امید رکھتا ہوں کہ آپ آئندہ بھی اسی طرح امداد جاری رکھیں گے،۔
)ڈی۔ او نمبر جے ایم/ ۱۴/ ۲۹۳۶ دفتر ٹیکنیکل بھرتی جالندھر مورخہ ۲۔ اپریل ۱۹۴۷ء(
اس خط میں صرف ان احمدی رنگروٹوں کا ذکر ہے جو کہ اپریل ۱۹۴۳ء تک پنجاب کے صرف ایک ڈویژن میں بھرتی ہوئے تھے۔ اگر دوسرے ڈویژنوں اور بعد میں بھرتی ہونے والے رنگروٹوں کو شامل کیا جائے تو تعداد ۱۵۰۰۰ سے بہت زیادہ ہو جائے۔
پس ہمارے نزدیک اگر سکھوں کی خدمات ان کو پنجاب کی تقسیم میں کسی قسم کے خاص لحاظ کا حقدار بنا دیتی ہیں تو جماعت احمدیہ بھی اپنی خدمات کے عوض اسی طرح کے لحاظ کی حقدار ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ سکھوں کی خدمات کا اور طرح سے بھی بدلہ دیا جاتا رہا ہے لیکن جماعت احمدیہ نے کبھی اپنی خدمات کے عوض کسی بدلے کی خواہش نہیں کی ہے۔
۱۱۔ قادیان ایک شہر ہے۔ اس لئے شہر کے مطالبات کو اردگرد کے کسی ایک دہ یا کئی دیہات کے مطالبات پر ترجیح ملنی چاہئے۔
الغرض آبادی کے تسلسل کے علاوہ دیگر اس قدر امور قادیان کے اس مطالبے کے حق میں ہیں کہ اسے مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے کہ کسی صورت میں بھی اس کے خلاف کوئی اور مطالبہ قابل غور قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس جگہ ہم ایک اور امر کی بھی تردید کردینا ضروری خیال کرتے ہیں جن کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ گورداسپور کو مغربی پنجاب میں شامل کرنا ممکن نہیں۔ بعض سرکاری حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ اقتصادی زندگی اور ذرائع رسل و رسائل کے پیش نظر اس ضلع کا الحاق مشرقی پنجاب سے ہونا چاہئے مگر یہ خیال درست نہیں کیونکہ آبادی کی اکثریت کے بنیادی اصول کو نظر انداز کرنا بونڈری کمیشن کے اختیارات اور مفوضہ فرائض سے باہر ہے۔ یہ کمیشن اس لئے مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ پسماندہ آبادیوں کے مفاد کی حفاظت کرے اور یہ فیصلہ کرے کہ ان کی صحیح ضروریات کیا ہیں۔ اس کے ذمہ یہ کام ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مسلسل اکثریت والے علاقوں کی تعیین کرکے ان کے درمیان حد فاضل قائم کرے اور اگر اس سے اس ضلع کے باشندوں کو کوئی تکلیف ہو تو یہ صرف گورداسپور کے ضلع کی اکثریت کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہے کہ اس کے راستے غیر ممالک میں سے گزریں اور اگر وہ اسے برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو کسی اور کو اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور نہ ان کے اس حق سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اسے استعمال کریں۔
علاوہ ازیں یہ کوئی ناقابل حل مشکل بھی نہیں ہے جیسا کہ ان ممالک کے عمل سے ظاہر ہے جہاں کامیابی سے اس دقت کو حل کیا گیا ہے۔ اس قسم کا ایک مسئلہ اس بونڈری کمیشن کو بھی درپیش تھا جسے لیگ آف نیشنز نے شام اور عراق کی حد بندی کے لئے مقرر کیا تھا کیونکہ عراق کی مجوزہ ریلوے لائن کا ایک حصہ مجبوراً شام کے بعض حصوں میں سے ہوکر گزرتا تھا۔ عراق اس وقت انگریزوں کے زیر حکومت تھا اور شام فرانسیسیوں کے۔ کمیشن نے اس کا جو حل تجویز کیا وہ یہ تھا۔
>اگر انگریزی ریلوے لائن کے کسی حصے کا بعض ٹیکنیکل وجوہات کی بناء پر فرانسیسی علاقے میں سے گزرنا ناگزیر ہو تو اس صورت میں فرانسیسی حکومت ایسے حصے کو جو ان کے علاقے میں واقع ہوگا۔ پورے طور پر اس مقصد کے لئے غیر جانبدار علاقہ قرار دے دے گی کہ انگریزی حکومت اور اس کے ٹیکنیکل ماہرین کو ریلوے ضروریات کے لئے وہاں تک پہنچنے میں پوری پوری سہولتیں بہم پہنچائے<۔
اس حوالے کو درج کرنے کے بعد مسٹر سٹیفن بی جونز اپنی کتاب موسومہ MAKING BOUNDRY میں لکھتے ہیں۔
>یہ عبارت بتاتی ہے کہ آمد و رفت کے ذرائع کی وحدت حدود میں تبدیلی کئے بغیر بھی قائم رکھی جاسکتی ہے۔ مختلف قسم کے غیر علاقوں میں آمد و رفت کے حقوق کا جن میں گلوں کی موسمی نقل و حرکت بھی شامل ہے عہد و پیمان کے ذریعے تصفیہ کرلیا جاتا ہے<۔
پس اگر لاہور سے نگروٹہ تک ریلوے لائن مغربی پنجاب کے حصے آئے یا مشرقی پنجاب کے حصے میں` اس لائن کا امرتسر سے نگروٹہ تک کا ٹکڑا آئے یا ہر ایک اس حصے پر ہی قابض ہو جو اس کے علاقے میں سے گزرتی ہے بہرصورت اس مشکل کو آپس میں تصفئیے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ پس صرف اس مشکل کی بناء پر اکثریت کی خواہشات کو ٹھکرانے اور اس علاقے کو پنجاب کے دوسرے حصہ میں شامل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
اگر ایسا سمجھوتہ ممکن نہ ہو تو گورداسپور کے ضلع کو براہ راست پاکستان سے اس طرح ملایا جاسکتا ہے کہ بٹالے سے چھوٹی سی ریلوے لائن ڈیرہ بابا نانک تک بنا دی جائے جو پہلے ہی نارووال کے راستے پاکستان سے ملا ہوا ہے۔
اب ہم اس سوال پر غور کرنا چاہتے ہیں کہ آبادی کی اکثریت کی بناء پر گورداسپور کو مغربی پنجاب سے الحاق کا جو حق پہنچتا ہے اس کے علاوہ بھی اور دیگر امور ایسے ہیں جن سے اس حق کی تائید ہوتی ہے۔
۱۔ اول امرتسر کو مشرقی پنجاب میں شامل کرکے قدرتی حدود کے اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ صرف ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے جس کی بناء پر ایسا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کی خواہشات کا خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن اس طرح سے مشرقی پنجاب کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے فوجی انتظامات کو دریائے بیاس سے پرے تک اس علاقے میں لے جائیں جو جائز طور پر مغربی پنجاب کا ہے۔ اب اگر باوجود اس امر کے کہ وہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے اگر گورداسپور کا ضلع یا اس کا کوئی حصہ بھی مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا جائے تو یہ نہ صرف اکثریت کی خواہشات کی قربانی ہوگی بلکہ اس کی مدد سے مشرقی پنجاب امرتسر کو آسانی سے مغربی پنجاب پر حملہ آور ہونے کے لئے بطور مرکز استعمال کرسکتا ہے۔ اس کے تو یہ معنی ہوں گے کہ مغربی پنجاب کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے مشرقی پنجاب کے حوالے کر دیا جائے۔
بے شک اس وقت ہندوستان اور پاکستان دونوں اعلان کررہے ہیں کہ ان کا ارادہ پرامن ہمسائیوں کی طرح رہنے کا ہے۔ لیکن اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ آئندہ دونوں ملکوں کے درمیان الجھنیں پیدا نہ ہوں گی۔ اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ پس اگر ضلع گورداسپور یا اس کا کوئی حصہ مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا تو جنگ کی صورت میں امرتسر جنگی کارروائیوں کا بڑا مرکز بن جائے گا اور چونکہ وہاں سے مغربی پنجاب کا دارالحکومت صرف ۱۸ میل کے فاصلے پر واقع ہے اس لئے یہ مغربی پنجاب کے خلاف فوجی دبائو کے لئے بہترین مقام بن جائے گا۔ اس لئے اس نکتہ نگاہ سے لاہور کے تحفظ اور مغربی پنجاب کے تحفظ کے لئے جس کا لاہور صدر مقام ہے یہ نہایت ضروری ہے کہ گورداسپور کا ضلع مغربی پنجاب میں شامل ہو تاکہ دریائے بیاس کے اس طرف جو مشرقی پنجاب کے علاقے ہیں ان کو پاکستان پر جب اور جس وقت چاہیں حملہ کرنے کی کھلی چٹھی نہ مل جائے۔ لیکن اگر امرتسر کے علاوہ گورداسپور کا ضلع بھی مشرقی پنجاب میں شامل کر دیا گیا تو فوجی نقطہ نگاہ سے پوزیشن بالکل بدل جائے گی اور اس صورت میں مشرقی پنجاب نہ صرف لاہور کی شہ رنگ کے قریب اور اس لئے تمام مغربی پنجاب کی شہ رگ کے قریب اپنی مضبوط فوجی چوکیاں قائم کرنے کے قابل ہو جائے گا بلکہ ضلع گورداسپور کے ملحقہ علاقے میں نقل و حرکت کے لئے جگہ مل جائے گی اور یہ امر مغربی پنجاب کے تحفظ کے لئے ایسا خطرہ ہوگا جو اس کے سارے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا موجب ہوسکے گا۔ اس لئے مغربی پنجاب کا حق ہے کہ وہ گورداسپور کے ضلع کو جو مسلم اکثریت کا ضلع ہے )اور یہ اکثریت مغربی پنجاب میں شامل ہونا چاہتی ہے( اپنے میں شامل کرنے پر مصر ہو کیونکہ یہ اس کے مشرق سے حملہ کے خلاف دفاعی نظام کے لئے نہایت ضروری ہے۔ نیز حدود کی تعیین میں جھگڑوں کو طے کرنے کے لئے یہ منصفانہ اصول تسلیم شدہ ہے کہ جہاں کوئی متنازعہ فیہ علاقہ ایسی جنگی پوزیشن کا حامل ہو کہ ایک دعویٰ دار ملک کے لئے اس کا حصول مدافعانہ حیثیت سے ضروری ہو اور دوسرے کے لئے جارحانہ حیثیت سے اور باقی امور دونوں کے لئے یکساں ہوں تو اس فریق کے دعویٰ کو ترجیح دی جائے گی جس کے لئے اس کی اہمیت مدافعانہ پہلو سے ہے۔
۲۔ گورداسپور کے مسلمانوں کی اکثریت جاٹ قوم سے تعلق رکھتی ہے جس کا بیشتر حصہ مغربی پنجاب کے اضلاع سیالکوٹ` شیخوپور` لائل پور اور لاہور میں بستا ہے۔ اس لئے گورداسپور کے مسلمانوں کو ایسے علاقے سے جدا نہیں کرنا چاہئے جس میں ان کی ذات کی اکثریت آباد ہے۔ بے شک انبالے کی کمشنری میں بھی جاٹ آباد ہیں لیکن وہ اکثر ہندو ہیں اور گورداسپور کے جاٹوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ پس گورداسپور کے ضلع کو مغربی پنجاب سے جدا کرنے سے گورداسپور کے مسلمانوں کی سماجی زندگی کے راستے میں ناقابل حل مشکلات حائل ہو جائیں گی۔
۳۔ گورداسپور میں جو زبان بولی جاتی ہے جہاں وہ لاہور` سیالکوٹ اور دیگر ملحقہ علاقوں مثلاً شیخوپورہ اور گجرانوالہ کی زبان سے بہت ملتی ہے وہاں یہ اس زبان کے مشابہ نہیں ہے جو مشرقی اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے الے لوگوں کی اکثریت چونکہ مغربی پنجاب میں رہے گی اس لئے گورداسپور کے مسلمان بھی اسی طرف جانے چاہئیں۔
آخر میں ہم قدرتی حدود کی خوبیوں اور نقائص کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ قدرتی روک کا کام دیتی ہیں اور ان کا تحفظ آسانی سے ہوسکتا ہے۔ تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ اکثر کئی قسم کے تکلیف دہ تنازعات کا دائمی موجب بھی بن جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں کہیں دریا دو ملکوں کے درمیان حد فاضل ہوتا ہے تو جب بھی اس میں طغیانی دیہاتی علاقہ کو متاثر کرتی ہے یا یہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ متاثرہ علاقے کی ملکیت کے متعلق جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب مقامی بند تعمیر کرنے کا سوال درپیش ہو تو پھر بھی بڑی دقت کا سانا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ماہی گیری اور جہاز رانی سے متعلقہ حقوق کے جھگڑوں کا ایک سلسلہ لامتناہی پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم یہ سفارش کرتے ہیں کہ اگر کہیں دریا کو حد فاضل بنانے کا فیصلہ ہو تو لمبائی کی بجائے اس کی تقسیم چوڑائی کے اعتبار سے ہونی چاہئے اس طرح سے اس قسم کے جھگڑوں کے مواقع میں بہت حد تک کمی ہو جائے گی۔
آخر میں ہم خدا تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ کمیشن کے ممبروں کی رہنمائی فرمائے اور انہیں ایسے فیصلے کی توفیق دے جس سے تمام متعلقہ علاقوں کی آبادی کے تمام عناصر مطمئن ہوسکیں اور ساتھ ہی ہماری یہ بھی دعا ہے کہ خداوند کریم ہمارے سمیت ان تمام لوگوں کی بھی رہنمائی فرمائے جو اپنے خیالات کو کمیشن کے سامنے رکھ کر اس کی مدد کی کوشش کررہے ہیں۔ خدا کرے کہ اس بحران میں ہمارا مقصد قیام امن` خدمت خلق اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔
۱۔
مرزا بشیر احمد ایم۔ اے ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ قادیان۔
۲۔
عبدالرحیم درد ایم۔ اے سابق امام مسجد لنڈن ناظر تعلیم و تربیت جماعت احمدیہ قادیان۔
۳۔
مرزا عزیز احمد ایم۔ اے ناظر دعوت و تبلیغ جماعت احمدیہ قادیان۔
۴۔
سید زین العابدین ولی اللہ شاہ )سابق پروفیسر ایوبیہ کالج یروشلم( ناظر امور عامہ و خارجہ جماعت احمدیہ قادیان۔
۵۔
عبدالباری بی۔ اے آنرز ناظر بیت المال جماعت احمدیہ قادیان۔
۶۔
قاضی محمد عبداللہ بی۔ اے ناظر ضیافت جماعت احمدیہ قادیان۔
۷۔
شیر علی بی۔ اے ناظر تالیف و تصنیف جماعت احمدیہ قادیان۔
۸۔
فتح محمد سیال ایم۔ اے ایم ایل اے نائب ناظر دعوت و تبلیغ جماعت احمدیہ قادیان۔
ممبران صدر انجمن احمدیہ قادیان
میمورنڈم کے آخر میں تین ضمیمے بھی شامل کئے گئے۔
پہلا ضمیمہ مندرجہ ذیل چھ اہم نقشوں پر مشتمل تھا جنہیں باونڈری ایکسپرٹ مسٹر سپیٹ کی رہنمائی میں نہایت محنت و کاوش سے تیار کیا گیا تھا۔
۱۔
نقشہ پنجاب )تحصیل کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں(
۲۔
نقشہ ضلع گورداسپور )تحصیل کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں(
۳۔
نقشہ ضلع گورداسپور )تھانہ کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں(
۴۔
نقشہ ضلع گورداسپور )حلقہ قانونگو کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں(
۵۔
نقشہ ضلع گورداسپور )ذیل کو تقسیم کا یونٹ قرار دینے کی صورت میں(
‏in] ga[t۶۔
نقشہ اضلاع گورداسپور` امرتسر اور سیالکوٹ کے بعض حصوں کا )بعد میں شامل کیا گیا(
دوسرے ضمیمے میں پاکستان )بشمول حلقہ قادیان` گورداسپور` جموں کشمیر( میں موجودہ ۵۴۷ احمدی جماعتوں کی فہرست دی گئی تھی۔
اور تیسرے ضمیمہ میں ان ۱۹۹ احمدی افسروں کی فہرست درج تھی جنہیں جنگ عظیم ثانی میں شاہی کمشن دیا گیا تھا۔۱۵۶
حضرت مصلح موعود کی لاہور میں تشریف آوری
۱۸۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو مختلف جماعتوں کے محضر نامے حد بندی کمیشن کو پہنچ گئے جس کے دو روز بعد ان کے وکلاء کی بحث کا آغاز ہوگیا۔ یہ موقعہ مسلمانان ہند کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصاً زندگی اور موت کے سوال کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لئے حضرت سیدنا المصلح الموعود مع خدام کمشن کی کارروائی دیکھنے اور سننے کے لئے ۲۲۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو صبح کی گاڑے سے لاہور تشریف لے گئے۱۵۷ اور پانچ دن کے قیام کے بعد ۲۷۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو نو بجے صبح کی گاڑی سے وارد قادیان ہوئے۔۱۵۸ مگر اگلے روز )۲۸۔ جولائی کو( دوبارہ معہ خدام ۲/۱ ۶ بجے صبح بذریعہ کار لاہور تشریف لائے۔۱۵۹ اور لیگ کے کیس کی بحث مکمل ہونے کے بعد ۳۱۔ جولائی کو بذریعہ کار ۲/۱ ۷ بجے شام قادیان پہنچ گئے۔۱۶۰ الغرض حضور نے ایوارڈ کی کارروائی بچشم خود ملاحظہ فرمائی۔
حضرت مصلح موعود کا ایک ارشاد فرمودہ نوٹ بائونڈری کمیشن سے متعلق
جماعت احمدیہ کے پرانے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۸۔ اگست ۱۹۴۷ء کو بائونڈری کمیشن
ایوارڈ کے تعلق میں مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے کے لئے جو حضور انور کے خصوصی نمائندہ کی حیثیت میں ان دنوں قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقاتیں کررہے تھے حسب ذیل نوٹ لکھوایا۔
۱۔ >اگر اپر باری چناب نہر کا نظام علاقہ کو آبادی کی بناء پر تقسیم کرنے پر روک ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں کی کثرت آبادی کو قربان کرنے کا خیال پیدا ہورہا ہے تو بے شک مسلمانوں کی اکثریت والے رقبہ کے حصہ نہر کو بند کر دیا جائے۔ وہ اس نقصان کے باوجود اپنی آبادی کی اکثریت والے علاقہ کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور نہر کے لئے اپنی آزادی کو قربان نہیں کرنا چاہتے۔
۲۔ ضلع گورداسپور کو نہر کا حصہ اتنا قلیل لگتا ہے )یعنی وہ کل رقبہ زیر کاشت قریباً ساڑھے نو لاکھ ایکڑ کے مقابلہ پر صرف ایک لاکھ پندرہ ہزار کے قریب ہے( اور پھر اس نہری حصہ میں بھی مسلمانوں کا بہت معقول حصہ ہے۔ پس غیر مسلموں کے اتنے قلیل نہری حصہ کی وجہ سے جو ضلع کے رقبہ کا ایک بالکل مفید جز ہے۔ تحصیل بٹالہ و گورداسپور کو جس میں مسلمانوں کی مجموعی اکثریت قریباً ۵۴% ہے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں کی یہ اکثریت عیسائی آبادی کو ملا کر جو مسلمانوں کے ساتھ ہے قریباً ۶۰% ہو جاتی ہے۔
۳۔ ضلع لاہور اور ضلع گورداسپور جو مسلم اکثریت کے ضلع ہیں۔ ان میں نہری علاقہ قریباً ساڑھے نو لاکھ ایکڑ ہے۔ اس کے مقابل پر امرتسر کے ضلع میں صرف چار لاکھ ایکڑ نہری رقبہ ہے پس ڈبل رقبہ کو نصف رقبہ کے تابع نہیں کیا جاسکتا جبکہ ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ بھی مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور ضلع امرتسر کے ساڑھے چار لاکھ نہری ایکڑوں میں اجنالہ کا بھی معقول حصہ شامل ہے۔
۴۔ اگر پھر بھی امرتسر کے ضلع کو اہمیت دینی ضروری سمجھی جائے تو گورداسپور کے نہری پانی کو بقیہ نہری پانی سے الگ کر دیا جائے اور اس تبدیلی پر جو خرچ ہو وہ مغربی پنجاب سے لے لیا جائے۔ اسی طرح لاہور کی نہر بھی اجنالہ کے واسطے سے الگ ہوسکتی ہے جو پانی قصور کی طرف امرتسر کی طرف سے جاتا ہے وہ اجنالہ کے نہری پانی کی مقدار بڑھا کر لاہور کی طرف سے قصور کی طرف منتقل کیا جاسکتا ہے بغیر اس کے کہ امرتسر کے پانی کو کوئی نقصان پہنچے۔ یہ خیال رہے کہ ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ میں مسلم اکثریت ہے اور قصور میں تقسیم کئے جانے والے پانی کو اس تحصیل کے ذریعہ سے تحصیل لاہور میں سے گزارا جائے۔ تحصیل لاہور کا پانی پہلے سے ہی اس نہر کے ذریعہ سے ہی جاتا ہے۔
۵۔ اگر کسی وجہ سے یہ صورت بھی تسلی بخش نہ سمجھی جائے تو جہاں تک نہر کے انتظام کا تعلق ہے یہ انتظام مشرقی اور مغربی پنجاب کی حکومتوں کا مشترکہ رکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آبادی کی اکثریت کو قربان کرنے کے بغیر ایک صورت پیدا کی جاسکتی ہے اور اس قسم کے انتظام یورپ کے کئی ممالک میں دریائوں کے متعلق کئے جاچکے ہیں۔
۶۔ اسی طرح جہاں ریلوے لائن کے بارہ میں اس قسم کی دقت ہو اور ریل کا راستہ بدلا نہ جاسکے تو متعلقہ حصہ میں ریل کا انتظام بھی دونوں حکومتوں کو مشترکہ طور پر دیا جاسکتا ہے مگر کثرت آبادی کو دوسری قوم کے ماتحت کرکے تباہ نہیں کرنا چاہئے۔
۷۔ اوپر کے اصولوں سے جو اصول بھی اختیار کیا جائے وہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں پر یکساں طور پر چسپاں ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ایک جگہ غیر مسلموں کو اس سے فائدہ پہنچتا ہو تو اس کو استعمال کرلیا جائے مسلمانوں کو فائدہ پہنچتا ہو تو چھوڑ دیا جائے۔
۸۔ اگر بہرحال سکھوں کو خوش کرنا ہے تو بٹالہ تحصیل کا وہ حصہ جو دریائے بیاس پر واقع ہے۔ کوئی چار پانچ میل چوڑا اور اتنا لمبا کہ سری گوبند پور اس میں آجائے ضلع امرتسر میں ملا دیا جائے اسی طرح بٹالہ تحصیل کے بقیہ حصہ میں مسلمانوں کی آبادی کی نسبت اور بھی بڑھ جائے گی جو ویسے بھی یہ آبادی سالم تحصیل میں ۵۵% ہے۔ اسی طرح پٹھانکوٹ کی تحصیل کا وہ حصہ جو اپر باری دوآب کی نہر سے اوپر کی طرف واقع ہے مسلم لیگ کی تجویز کے مطابق کاٹ کر مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ضلع گورداسپور کے بقیہ حصہ میں مسلم اکثریت جو پہلے ہی معقول ہے اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔
۹۔ جو اعداد و شمار صدر صاحب کے سامنے بغیر ہمارے علم میں آئے پیش کئے جائیں وہ ہمیں بھی دکھائے جائیں کیونکہ کمیشن کے سامنے یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ جو اعداد و شمار اس وقت افسران نے تیار کئے ہیں وہ تحقیق پر غلط ثابت ہوئے ہیں چنانچہ لاہور کے غیر مسلم زمینداروں کی تعداد غلط ثابت ہوئی۔ اسی طرح گورداسپور کے غیر مسلم زمینداروں کے اعداد و شمار غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح شیخوپورہ کی دو ذیلوں کی غیر مسلم آبادی زیادہ بتائی گئی تھی یہ بھی تحقیق پر غلط ثابت ہوئی۔ یہ سب اعداد و شمار ہندو افسروں نے تیار کئے تھے۔ پس ہوسکتا ہے کہ کوئی پرائیویٹ نقشہ یا اعداد و شمار جو پریذیڈنٹ تیار کروائے اس کے سامنے غلط نقشہ یا اعداد و شمار پیش کر دیئے جائیں۔ پس ایسا نقشہ یا اعداد و شمار ہمیں دکھا لینے چاہئیں تاکہ ہم اپنا اعتراض پیش کرسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔<۔
جماعت احمدیہ کے موقف کی وضاحت جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی طرف سے
حد بندی کمیشن کے سامنے ۲۱۔ جولائی سے لے کر ۲۴۔ جولائی تک پہلے مسٹر سیتلواڈ )بمبئی کے مشہور بیرسٹر( نے ہندوئوں کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کی۔ پھر سردار ہرنام سنگھ صاحب نے][سکھوں کا کیس پیش کیا۔ ۲۵۔ جولائی سے لے کر ۳۰۔ جولائی تک کے اجلاس مسلم لیگ کے لئے مخصوص رہے۔ مسلم لیگ کی ہائی کمان نے اپنے وقت میں سب سے پہلے جناب شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور کو جماعت احمدیہ کا موقف پیش کرنے کا موقعہ دیا۔ جناب شیخ صاحب موصوف نے ۲۵ اور ۲۶۔ جولائی کے اجلاسوں میں نہایت عمدگی اور قابلیت سے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کی جس کی تفصیل بائونڈری کمیشن کے انگریزی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ آپ کی اس یادگار اور ناقابل فراموش بحث کا مکمل اردو ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
۲۵۔ جولائی ۱۹۴۷ء
اس کے بعد مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہوئے۔ آپ نے فرمایا۔
>میں اپنے بیان اور دلائل کو صرف اس معین معاملہ تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ قادیان کو )جو جماعت احمدیہ کا مرکز ہے( مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے۔ جناب سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو مسلم لیگ کی طرف سے سینئر وکیل اور مختار اعلیٰ ہیں آپ کے سامنے ان امور پر بحث فرمائیں گے جو جغرافیائی` اقتصادی اور بعض دوسری بنیادوں پر غیر مسلموں کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ضلع گورداسپور کا معاملہ بھی ان اضلاع میں سے ہے جن کے متعلق اس کمشن کے سامنے بڑی سرگرمی سے بحث ہوتی رہی ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ اور مسلم لیگ کے مابین بعض پہلو مشترک ہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ان کا ذکر میں اس لئے چھوڑ رہا ہوں کہ جب سر محمد ظفر اللہ صاحب مسلم لیگ کا موقف آپ کے سامنے پیش کریں گے تو اس بحث میں وہ امور اور مشترک پہلو لازماً آجائیں گے۔
اب جیسا کہ میں نے کمشن کا دائرہ کار اور اس کے مقاصد آپ کے سامنے پڑھ ¶کر سنائے ہیں۔ کمشن کا کام یہ ہے کہ وہ مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان ان حدود کی تعیین کرے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر حد فاضل کے طور پر کام دے سکیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں لازماً بعض دوسرے عناصر کو بھی ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ چنانچہ حدود کی تعیین کے نہایت اہم مقصد کے پیش نظر میں بڑے ادب کے ساتھ یہ بنیادی اور مرکزی اصول آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ >آبادی کی اکثریت< ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر حدوں کی تعیین منحصر ہے۔ باقی تمام امور کسی نہ کسی رنگ میں اسی ایک بنیادی اصول کے ماتحت آجاتے ہیں اور اس بنیادی اصول کو میں اپنے اس دعویٰ کی بنیاد قرار دیتا ہوں کہ قادیان کو مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے۔
سب سے پہلی بات جس سے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے` وہ یہ ہے کہ قادیان اس علاقے میں شامل ہے جو مسلم آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے اور جس کی سرحدیں مغربی پنجاب کے اصل علاقے سے ملتی ہیں۔ اس غرض کے لئے میں آپ کی خدمت میں وہ نقشہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ میمورنڈم کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ آپ اس میں ملاحظہ فرمائیں گے کہ تحصیل بٹالہ جسے سبز رنگ دے کر مسلمانوں کی اکثریت والا علاقہ دکھایا گیا ہے اس میں قادیان شامل ہے۔ پھر جو عام مسلم اکثریت والا علاقہ ہے اس کے ساتھ ہی تحصیل بٹالہ کی حدود ملتی ہیں۔ آپ خواہ تقسیم کے کسی اصول کی بنیاد پر اس کو ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی خواہ تحصیل یا ذیل کے علاقے کے طور پر یا تھانے اور قانونگو کے حلقہ کے طور پر۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ بہرحال مسلم اکثریت والے علاقے میں شامل ہے اور قادیان جغرافیائی طور پر بہرصورت اسی مسلم اکثریت والے علاقے میں ہی واقع ہے میں تو کہوں گا کہ اور سب باتوں کو جانے دیجئے` صرف یہی دلیل کہ قادیان اسی علاقے میں شامل ہے جو مسلم آبادی کی اکثریت والا علاقہ ہے اور جس کی سرحدیں اس علاقے کے ساتھ بالکل متصل ہیں جو مغربی پنجاب کا اصل علاقہ ہے` یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ قادیان کو مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہونا چاہئے۔
مگر اس کے علاوہ بعض اور پہلو بھی قابل غور ہیں جن سے مندرجہ بالا دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔ تحصیل اجنالہ اور تحصیل نارووال کے علاقے تحصیل بٹالہ کے ساتھ بالکل ملے ہوئے ہیں اور ضلع گورداسپور کی تمام تحصیلوں میں صرف تحصیل بٹالہ ہی ایسی تحصیل ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہایت نمایاں اور واضح ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ۶ء ۵۵ فیصدی ہے۔ تحصیل نارووال میں مسلم آبادی ۹۳ء ۵۴ فیصدی ہے اور تحصیل اجنالہ میں ۴۶ء ۵۰ فیصدی ہے۔ یہ تمام اعداد و شمار سرکاری ہیں اور آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ تحصیل بٹالہ کے ساتھ ملنے والی دونوں تحصیلوں میں مسلم اکثریت ہے۔ پس اگر اکثریت والی تحصیلوں کی باہمی سرحدات کو ہی بنیاد قرار دیا جائے تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ قادیان جو تحصیل بٹالہ میں واقع ہے اور جس میں واضح طور پر مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہونے کا پورا حق رکھتا ہے۔
میں نہایت ادب سے عرض کروں گا کہ فریق مخالف کے وکلاء نے آپ کا خاصا وقت صرف اس بحث میں صرف کیا کہ بعض >دوسرے عناصر< ہیں جن پر غور کیا جانا ضروری ہے مگر میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ >تقسیم< اور >حدود کی تعیین< کا معاملہ صرف اور صرف >آبادی کی اکثریت< پر منحصر ہے۔ مخالف وکلاء >اکثریت والے علاقوں کی متصل سرحدات< پر تو بحث کرتے رہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس محمد منیر: کیا آپ نے اس نقطہ نظر بھی غور کیا ہے جس کی بناء پر آپ کے مخالف وکلاء نے اس علاقے کو >مسلم اکثریت والے علاقہ< قرار نہیں دیا جسے آپ >مسلم علاقہ< کہہ رہے ہیں۔ اس کے متعلق آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
شیخ بشیر احمد: جناب والا! مجھے علم ہے کہ اس علاقہ میں کچھ تھوڑا سا حصہ غیر مسلموں سے بھی آباد ہے اور بعض دوسری قوموں کے لوگ بھی کچھ رقبے پر سکونت رکھتے ہیں۔ لیکن جب ایک واضح اکثریت ہمارے سامنے ہو تو ایک معمولی سے حصے پر قابض اقلیت اس کے مقابلے پر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور پھر ایک اور طریق سے بھی اگر اس صورت حال کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ علاقہ مسلم اکثریت والا علاقہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس محمد منیر: میرا خیال ہے کہ جس انداز سے فریق مخالف نے یہ معاملہ پیش کیا ہے آپ نے اس پر غور نہیں کیا۔
شیخ بشیر احمد: میں اس وقت یہاں موجود نہیں تھا۔
جسٹس محمد منیر: وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس تحصیل سے صرف تین ایسے قصبات الگ کر لئے جائیں۔ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے یعنی قادیان۔ بٹالہ۔ اور فتح گڑھ چوڑیاں۔ تو باقی تمام تحصیل >غیر مسلم اکثریت والا علاقہ< بن جاتی ہے۔
شیخ بشیر احمد: جناب میری عرض یہ ہے کہ اس قسم کے قصبات کو الگ کرنے کے لئے کوئی اصول یا معیار بھی تو ہو۔ آخر یہ کیسے معلوم کیا جائے کہ فلاں علاقہ >مسلم اکثریت< والا ہے یا >غیر مسلم اکثریت<والا ہے میری گزارش یہ ہے کہ خواہ آپ تھانہ بطور یونٹ تسلیم کریں یا >قانونگو رقبہ< بطور یونٹ تسلیم کریں۔ خواہ آپ >ذیل< کو معیار مانیں یا >تحصیل< کو۔ آپ کو بہرحال کوئی نہ کوئی اصول بطور >بنیاد< کے ماننا پڑے گا یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس دین محمد: کل آپ ہمارے سامنے مفصل نقشہ پیش فرمائیں۔
شیخ بشیر احمد: جہاں تک >دوسرے امور< کا تعلق ہے میں آپ کے سامنے سکھوں کے دعویٰ کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کل ننکانہ صاحب اور امرتسر میں سکھوں کے مقدس مقامات کے متعلق اچھی خاص بحث ہوئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ننکانہ صاحب حضرت بابا گورونانک کی جنم بھومی ہے۔ نیز امرتسر اور سری گوبند پور میں سکھوں کے مقدس تاریخی مقامات ہیں۔ ان تاریخی مقامات کا ذکر سکھ میمورنڈم کے صفحہ ۵۲ اور پیراگراف نمبر ۵۶ میں یوں کیا گیا ہے۔
>سکھوں کے لئے نہر اپر باری دوآب کا متصل علاقہ نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے۔ امرتسر جہاں سکھوں کا مشہور سنہری گوردوارہ )دربار صاحب( واقع ہے سکھ مذہب کی روایات اور تاریخ کا مرکز ہے۔ یہاں سب سے پہلے گورو رامداس ۱۵۷۴ء میں تالاب کے کنارے آباد ہوئے جہاں مغل بادشاہ اکبر کی طرف سے انہیں ۱۵۷۷ء میں پانچ صد بیگھہ زمین عطا فرمائی گئی۔ تالاب کا نام >امرت۔ سر< یا >آب حیات کا چشمہ< رکھا یا۔ گو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس نام کی وجہ سے ایک گروا مرداس تھے جو گورورامداس سے پہلے گزر چکے تھے۔
گوروارجن نے یہ سنہری گوردوارہ )دربار صاحب( تعمیر کیا اور پھر رفتہ رفتہ اس کی مذہبی اور سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوتیا گیا۔ ۱۷۶۲ء میں احمد شاہ ابدالی کی واپسی کے وقت جبکہ اس کے درودیوار تقریباً کھنڈارت کی شکل اختیار کرچکے تھے اس نے پھر ترقی کرنی شروع کی اور جلد ہی یہ ایک آزاد سکھ جماعت کا مستقل اور معروف مرکز بن گیا۔ >اکال بنگہ< کا مقام اور اس کی عمارت جس کا رخ دربار صاحب کی طرف ہے` سکھوں کے لئے ایک روحانی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور >بابا اٹل< کی سات منزلہ عمارت جس کو بنے ہوئے اب تقریباً ایک صدی ہوگئی ہے گورو ہرگوبند صاحب کے ایک لڑکے کی یادگار کے طور پر قائم ہے۔
امرتسر سے ایک پختہ سڑک جس کی لمبائی ۱۴ میل ہے اس شہر کو ترن تارن سے ملاتی ہے اور ترن تارن کا قصبہ امرتسر کے >ماجھا< علاقہ کا مشہور ترین مقام ہے مگر اس کی تمام تر اہمیت مذہبی رنگ رکھتی ہے۔ اس تقدس کا مرکز وہ تالاب ہو جو تقریباً تین سو مربع گز ہے اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے گوروارجن صاحب نے تعمیر کروایا۔ تالاب کے چاروں طرف چلنے پھرنے کے لئے پختہ روشیں قائم ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ترن تارن کے گوردوارہ سے بے حد عقیدت تھی۔ یہ گوردوارہ ۱۷۶۸ء میں تعمیر ہوا اور مہاراجہ کے حکم سے اس پر تانبے کی چمکدار پتریاں چڑھائی گئیں ۔۔۔۔۔ جہاں تک گورداسپور کا تعلق ہے >امپیریل گزٹ آف انڈیا پنجاب< کی جلد دوم صفحہ ۵۹ میں لکھا ہے کہ اس ضلع کی تمام تاریخی اہمیت زیادہ تر اس وجہ سے ہے کہ اس ضلع کا تعلق سکھوں کے عروج کے ساتھ وابستہ ہے۔ دریائے راوی کے کنارے ڈیرہ بابا نانک کے مقام پر سکھوں کے مقدس مقامات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
)عدالت برخاست ہوگئی(
اگلے روز مورخہ ۲۶۔ جولائی ۱۹۴۷ء بائونڈری کمیشن کا اجلاس لاہور کی ہائیکورٹ کی عمارت میں صبح ۱۰ بجے شروع ہوا۔
شیخ بشیر احمد : کل عدالت کے برخاست ہونے سے پہلے میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کررہا تھا` کہ جہاں تک کمیشن کے دائرہ کار اور اس کے مقاصد کا تعلق ہے۔ حدود کی تعیین کے بارے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تعیین صرف >اکثریت والے علاقے< کے اصول کی بناء پر ہی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ حدود کی تعیین کے لئے خواہ آپ >تحصیل< کو معیار بنائیں یا >ذیل< کو` >تھانے کے حلقے< کو معیار مقرر کریں یا >قانون گو کے حلقے کو` ہر صورت میں قادیان >مسلم اکثریت والے علاقے< میں آتا ہے۔ جہاں تک >دوسرے عناصر< کا تعلق ہے` میں نے عرض کیا تھا کہ سکھوں کی طرف سے بعض
‏vat,10.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ جن کی بنیاد ان کے مقدس مذہبی مقامات کی تاریخی اہمیت پر ہے۔ یہ مقامات ننکانہ صاحب` امرتسر اور سری ہرگوبند پور میں واقع ہیں۔ میں یہاں اس امر کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ >مذہبی مقامات< کی اہمیت` خود انگلستان کے >ایوان جمہور< یا >ہائوس آف کامنز< میں بھی تسلیم کی گئی ہے اور اب یہ فاضل ججوں پر منحصر ہے کہ وہ ان مذہبی مقامات کی اہمیت کو کتنی دقعت دیتے ہیں۔
بہرکیف اگر >مذہبی مقامات< کے تقدس اور ان کی اہمیت کو پیش نظر رکھا جائے تو میں یہ عرض کروں گا کہ قادیان جیسے عظیم الشان مذہبی مرکز کو بعض ایسی خصوصیات حاصل ہیں جن کی بناء پر اسے اولین استحقاق کا حامل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی >شمولیت< کے سوال پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔
قادیان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مولد اور مرکز ہے۔ جناب بانی سلسلہ احمدیہ نے دعویٰ کیا کہ وہ اس آخری زمانے میں مسیح اور مہدی کے مقام پر فائز ہیں۔ بے شک آپ کے اس دعویٰ کی سخت مخالفت ہوئی۔ مگر اس مخالفت کے باوجود تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کے اردگرد دور و نزدیک سے بہت سے لوگ آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ آپ کو یہ بلند ترین روحانی مرتبہ حضرت محمد عربی~صل۱~ کی اتباع کے نتیجہ میں ملا اور آپ ان ہی کے خادم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی عالمگیر تحریک کا مرکز قادیان ہے۔ آپ کی تحریک کے آغاز سے ہی اس مقدس مقام سے روشنی اور ہدایت کی کرنیں چار دانگ عالم میں بکھرنا شروع ہوگئیں۔ چنانچہ دنیا کے تمام حصوں سے بے شمار لوگ اپنی روحانی پیاس بجھانے اور اپنے علم و معروفت میں اضافہ کے لئے اس مقام پر آنا شروع ہوگئے۔ آج اسی مقام پر آپ کا جسم اطہر دفن ہے اور حضور کے ساتھ ہی سینکڑوں کی تعداد میں جماعت کے چیدہ اور سربرآوردہ افراد کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی اشاعت کے لئے صرف کردیں اور اسلام کی خاطر مسلسل قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا یہاں دفن ہیں۔ جماعت کے علماء یہاں مسلسل تعلیم و تربیت کے کام میں مشغول ہیں اور جماعت کی مرکزی انجمن کا جو صدر انجمن احمدیہ کہلاتی ہے یہاں مستقل مرکز موجود ہے۔ اسی طرح جماعت کا خزانہ جہاں لاکھوں روپے چندے کے طور پر وصول ہوتے ہیں اسی مقام پر ہے۔ یہاں مبلغین کا ایک کالج بھی موجود ہے۔ جہاں جماعتی ضروریات کے مطابق مختلف مربیان اور معلمین تیار کئے جاتے ہیں اور پھر ان سب سے بڑھ کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے خلیفہ ثانی کہ جن کے وعظ و نصیحت کو سننے کے لئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں یہاں قادیان میں موجود ہیں۔ غرض کہ قادیان جماعت احمدیہ کا ایک زندہ اور فعال مرکز ہے اور یہ جماعت کی دینی اور ملی سرگرمیوں کی آماجگاہ ہے کیونکہ جماعت کے افراد یہاں متعدد مرتبہ اپنی روحانی اور علمی پیاس کو بجھانے اور اپنی مذہبی تہذیبی اور تمدنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیں۔
جسٹس محمد منیر : جماعت کی تعداد کتنی ہے؟
شیخ بشیر احمد : پانچ لاکھ
جسٹس تیجا سنگھ : کیا گزشتہ مردم شماری میں انہیں علیحدہ طور پر شمار کیا گیا تھا۔
شیخ بشیر احمد : گزشتہ مردم شماری میں احمدی اور غیر احمدی میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ ہاں البتہ اگر کسی نے اصرار کیا کہ میرے نام کے ساتھ >شیعہ< لکھا جائے تو اس کے نام کے ساتھ >شیعہ< لکھ لیا گیا اور اگر کسی نے کہا کہ اس کے نام کے ساتھ >حنفی< لکھا جائے تو >حنفی< لکھ لیا گیا۔
جلسہ سالانہ کے موقعہ پر عموماً پچاس ہزار سے زیادہ افراد قادیان آتے ہیں اور اس حقیقت کا ثبوت خود ریلوے کے ٹکٹوں کی فروخت سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جلسے میں عملاً شرکت کرنے والے پچاس ہزار سے بھی زائد ہیں۔
جسٹس تیجا سنگھ : پچاس ہزار تو برطانوی پنجاب میں ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر کتنے ہیں؟
شیخ بشیر احمد : کل تعداد غالباً دس لاکھ ہوگی اور یہ بڑا محدود اندازہ ہے جیسا کہ میں ابھی آپ کے سامنے اعداد و شمار پیش کروں گا۔ بہت سے غیر ممالک میں رہنے والے افراد اپنے آپ کو >احمدی< کہلانا پسند کرتے ہیں۔
جسٹس دین محمد : آپ کے پیش کردہ اعداد و شمار کی ترتیب میں کسی قدر غلط فہمی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ ۵ لاکھ احمدی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ۵ لاکھ دوسرے علاقوں سے۔ پھر آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پچاس ہزار احمدی جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں۔
شیخ بشیر احمد : جناب! یہ حقیقت ہے اور اس کی تصدیق ریلوے کے حکام سے کی جاسکتی ہے۔
جسٹس تیجا سنگھ : آپ کو یہ اعداد و شمار کیسے معلوم ہوئے جب کہ مردم شماری سے اتنی تعداد ثابت نہیں ہوتی۔
شیخ بشیر احمد : جب پچاس ہزار افراد جلسہ سالانہ میں شرکت کرتے ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ جماعت کی اصل تعداد کیا ہوگی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جماعت ایک عالمگیر پیغام کی حامل ہے اور دائرہ اسلام میں اس کی حیثیت ایک بہت بڑی بین الاقوامی تحریک کی سی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کے سامنے بعض مقتدر اصحاب کی وہ آراء پیش کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق ظاہر کی ہیں۔ سب سے پہلے تو میں انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے چودھویں ایڈیشن کا حوالہ پیش کرتا ہوں۔ جس کی جلد ۱۰ کے صفحات ۷۱۱۔ ۷۱۲ پر لکھا ہے۔
جماعت احمدیہ : اشاعت اسلام کے سلسلے میں اس جماعت کی سرگرمیاں صرف ہندوستان` مغربی افریقہ` ماریشس اور جاوا تک ہی محدود نہیں بلکہ برلن` زیکو سلویکیا اور لنڈن تک پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے بہت سے یوروپین اصحاب کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے میں خاصی کامیابی حاصل کی ہے<۔
اس کے بعد ایک مصنف جس کا نام کریون ہے۔ رسالہ >مسلم ورلڈ< جلد ۲۱ نمبر ۲ کے صفحہ ۵۱۰ پر لکھتا ہے۔
>آب ہم احمدی اصحاب کا ذکر کرتے ہیں جو کٹر ہندوئوں کے بالمقابل مسلمانوں میں بھی ویسے ہی پختہ عقیدے کے مالک ہیں۔ ان کا جوش` اخلاص اور جذبہ قربانی نہایت قابل تعریف ہے<۔
ڈاکٹر مرے (MURRAY) اپنی کتاب >انڈین اسلام< کے صفحہ ۲۲۳ پر رقم طراز ہے۔
>احمدی صاحبان اس وقت دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے مدعی اور اس کی سب سے زیادہ اشاعت کرنے والے ہیں<۔
ڈاکٹر لیسی بیری BEERY) (LACEY اپنی کتاب CROSS THE AT (ISLAM ROADS) کے صفحہ ۹۹ پر لکھتے ہیں۔
>احمدی مبلغ نہ صرف ہندوستان کے مختلف حصوں میں بھیجے جاتے ہیں بلکہ انہیں شام` مصر اور انگلستان میں بھی بھیجا جاتا ہے اور پھر ان کا کام صرف یہی نہیں کہ وہ لوگوں کو اسلام میں داخل کریں بلکہ وہ برطانوی عوام کے نقطہ نظر کو اسلام کے بارے میں نہایت بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ان کے دلوں میں اسلام کے متعلق ہمدردی` خلوص اور یگانگت کے جذبات پیدا کرکے وہ تمام غلط فہمیاں اور کدورت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دلوں میں پیدا ہوگئی ہوں ان کی کوشش ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے<۔
پھر جناب سر ٹامس آرنلڈ اپنی کتاب FAITH> <ISLAMIC کے صفحہ ۷۰۔ ۷۱ پر لکھتے ہیں۔
>حضرت احمد )علیہ السلام( کی جماعت کا اکثر حصہ تو پنجاب میں ہے۔ لیکن ان کے مبلغین نہایت سرگرمی سے اشاعت اسلام کا کام انگلستان` جرمنی` برطانوی مقبوضات کے علاقوں میں اور ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف عام مسلمانوں کو نئے سرے سے اسلام میں داخل کیا ہے بلکہ وہ بہت سے عیسائیوں کو بھی حلقہ بگوش اسلام کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں<۔
پھر پروفیسر ایچ۔اے۔گب GIBB)۔A۔H۔(PROF اپنی کتاب <WHITHERISLAM> کے صفحہ ۲۱۴ پر تحریر فرماتے ہیں۔
>تحریک احمدیت نے اپنی فعالیت اور کشش کے باعث تمام دنیا میں اپنے پیروکار پیدا کرلئے ہیں۔ اس تحریک کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب تھے جو قادیان )پنجاب( کے رہنے والے تھے۔ جاوا اور سماٹرا کے ممالک میں اس تحریک نے دوسری اسلامی تنظیموں کے بالمقابل اپنے آپ کو بہت زیادہ موثر بنا لیا ہے۔ احمدیت کے عقائد ایک خاص اخلاقی رنگ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل دانش کے لئے یہ تحریک بہت زیادہ کشش کا باعث ہے<۔
پھر اس کے بعد ولیم کیش CASH) (WILLIAM اپنی کتاب <EXPANSION ISLAM> OF کے صفحہ ۲۲۲ پر تحریر فرماتے ہیں۔
>یہ فرقہ )جماعت احمدیہ( مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سب سے زیادہ اشاعت اسلام کی تڑپ رکھنے والا ہے<۔
جناب باسل میتھیوز MATHEWS) (BASIL اپنی کتاب ISLAM (YOUNG INTREK) کے صفحہ ۱۳۶ پر لکھتے ہیں۔
>باوجود اس کے کہ اس جماعت )جماعت احمدیہ کی تعداد تھوڑی ہے مگر اس کا اثر و نفوذ اس کے مقابل پر بہت زیادہ ہے<۔
ان تمام حوالہ جات کو پیش کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں آپ کی خدمت میں یہ واضح کروں کہ دوسرے مقتدر اصحاب جماعت احمدیہ کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں اور یہ بالکل سچ ہے کہ جماعت احمدیہ اپنا ایک خاص اور منفرد مقام رکھتی ہے اور اس جماعت کا مرکز قادیان تمام دنیا کے احمدیوں کی سرگرمیوں اور ان کی تبلیغی مساعی کا مرکز ہے کیونکہ اسی مقام سے انہیں ایک روحانی کشش حاصل ہوتی ہے اور یہی جماعت کی تبلیغی تڑپ کی جان ہے۔ میں آپ کے سامنے بالکل سادہ حقائق پیش کررہا ہوں۔ چنانچہ اسی سلسلے میں جب میں آپ کے سامنے سکھ صاحبان کے تین مقدس مذہبی مقامات کا ذکر کروں گا تو آپ پر قادیان اور ان مذہبی مقامات کا فرق واضح ہو جائے گا۔
جماعت احمدیہ کے افراد کو جو بے پناہ عقیدت اور محبت اپنے امام یعنی بانی سلسلہ احمدیہ سے ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۰۰ء میں قادیان کی آبادی بمشکل چالیس پچاس احمدی گھرانوں پر مشتمل تھی۔ یہ بستی فقط ایک معمولی سا گائوں تھا جس کی کوئی بھی خصوصیت قابل ذکر نہ تھی۔ نہ یہاں ذرائع آمدورفت تھے اور نہ کوئی سلسلہ رسل و رسائل۔ غرض کہ اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ بستی کسی وقت ایک عظیم الشان اور ترقی یافتہ قصبہ کی شکل اختیار کرلے گی۔
جسٹس تیجا سنگھ : اس فرقے کی بنیاد کب پڑی؟
شیخ بشیر احمد : یہ فرقہ ۱۸۸۹ء میں قائم ہوا۔ میں عرض کررہا تھا کہ ۱۹۰۰ء میں اس کی آبادی چند گھروں سے زائد نہیں تھی۔ مگر اس کے بعد رفتہ رفتہ لوگوں نے دور و نزدیک سے اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آباد ہونا شروع کیا تاکہ وہ اپنے مقدس امام کے قدموں میں بیٹھ کر روحانی فیض حاصل کریں اور اپنے علم اور معرفت کی تشنگی کو بجھائیں۔ آج قادیان کی آبادی پندرہ ہزار نفوس سے زائد ہے جس میں تقریباً ۹۰ فیصدی احمدی ہیں۔ میں یہ وضاحت اس لئے کررہا ہوں تاکہ آپ کو علم ہوسکے کہ جماعت کے لوگوں کو اپنے مرکز سے کس قدر محبت اور عقیدت ہے۔ آج قادیان میں بنگال` آسام` بہار` اڑیسہ` یوپی` سی پی` حیدرآباد دکن` مدراس` بمبئی` سندھ` لنکا` افغانستان` ماریشس` انڈونیشیا` ترکی` شام` چین اور انگلستان تک سے آنے والے لوگ آباد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اپنے وطن سے پہلے تو اس نیت کے ساتھ آئے کہ یہاں عارضی رہائش رکھ کر دین سیکھیں مگر ان میں سے بڑی اکثریت یہیں مستقلاً آباد ہوگئی اور انہوں نے قادیان کو اپنا وطن بنالیا۔
مرکز احمدیت کی عالمگیر کشش اور تحریک کی ہمہ گیری کا اندازہ آپ اس امر سے بھی کرسکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی شاخیں امریکہ` کینیڈا` ارجن ٹائن` انگلستان` فرانس` سپین` اٹلی` شام` فلسطین` ایران` افغانستان` چین` لنکا` ماریشس` برما` ملایا` انڈونیشیا` کینیا` ٹانگا نیکا` یوگنڈا` ابی سینیا` سوڈان` نائیجیریا` گولڈ کوسٹ اور سیر الیون میں قائم ہیں۔ ان میں سے بعض مقامات پر سینکڑوں کی تعداد میں مقامی احمدی احباب موجود ہیں جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت نہ صرف گنتی کے لحاظ سے مضبوط ہے بلکہ اس کو ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
جناب والا! اب میں آپ کے سامنے سکھوں کے ان دعاوی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جن کی بنیاد ان کے مقدس مذہبی مقامات پر ہے۔ ان کے نزدیک ننکانہ صاحب کا مقام اس لئے مقدس ہے کہ وہاں حضرت بابا گورونانک کی پیدائش ہوئی۔ سری گوبند پور اس لئے مقدس ہے کہ وہ سکھوں کے تیسرے گورو کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے اور امرتسر کے مقام کو اس لئے تقدیس حاصل ہے کہ اس کا تعلق سکھوں کے چوتھے گورو صاحب کے ساتھ ہے۔ میں ان دعاوی کے متعلق سکھ صاحبان کے مذہبی جذبات کے پیش نظر کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا۔ مگر میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اگر آپ ان مقامات کی آبادی کا نقشہ اور ان کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امرتسر میں سکھوں کی آبادی کا تناسب ۰۳ء ۱۵ فیصدی ہے۔ ننکانہ صاحب میں جہاں کہ حضرت بابا گورونانک صاحب کی پیدائش ہوئی سکھوں کی تعداد تیرہ ہزار کی آبادی میں سے صرف ۵۴۳۷ ہے اور سری گوبند پور تو ایک معمولی گائوں ہے اور کسی جہت سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ بے شک یہ مقامات مقدس ہیں مگر سکھ صاحبان سے کوئی روحانی فیض حاصل نہیں کررہے۔
سردار دربارا سنگھ : میں شیخ بشیر احمد صاحب کے ان الفاظ کے خلاف پرزور احتجاج کرتا ہوں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ >سکھ ان مقامات سے کوئی فیض حاصل نہیں کررہے< سکھوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ میں بڑی تحدی کے ساتھ یہ کہوں گا کہ یہ مقامات سکھوں کے مقدس مقامات ہیں اور وہ ان سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔
جسٹس دین محمد : وہ کسی فرقے کے جذبات کو مجروح نہیں کررہے۔ وہ صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان مقامات پر سکھ نہایت مختصر تعداد میں ہیں۔
سردار دربارا سنگھ : اپنے جوش کے عالم میں انہوں نے یقیناً سکھوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔
جسٹس تیجا سنگھ : یہ کمشن کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ ان کے دلائل میں کس قدر وزن ہے۔
سردار دربارا سنگھ ; جو کچھ شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا ہے میں اس کے خلاف پرزور احتجاج کرتا ہوں۔
جسٹس دین محمد : آپ کا >احتجاج< نوٹ کرلیا گیا ہے۔ میں شیخ بشیر احمد صاحب سے کہوں گا کہ وہ اپنی طرف سے نتائج نکالنے پر زور نہ دیں۔ صرف اصل اعداد و شمار پیش کریں۔
شیخ بشیر احمد : جماعت احمدیہ کی ۷۴۵ شاخیں ہیں اور ان میں سے ۵۴۷ پاکستان میں واقع ہیں گویا تقریب¶ا ۷۴ فیصدی شاخیں اس علاقے میں آتی ہیں جہاں پاکستان قائم ہوگا۔ پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جماعت کا مالی نظام چندوں کی ان رقوم پر قائم ہے جو جماعت کے افراد اپنی خوشی اور رضاء و رغبت سے اپنی مرکزی انجمن کو بھیجتے ہیں۔ پس اقتصادی لحاظ سے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ قادیان کو پاکستان کے علاقے میں شامل کیا جائے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی واقعہ ہے کہ مرکزی انجمن احمدیہ کا تقریباً ۱۵ ہزار ایکٹر رقبہ اراضی جو اس کا اپنا خرید کردہ ہے پاکستان کی حدود میں واقع ہے اور اس اراضی سے کئی گنا زیادہ قیمت کی جائدادیں جو جماعت احمدیہ کے افراد کی ملکیت ہیں پاکستان کی حدود میں واقع ہیں۔ ان حقائق کی رو سے بھی قادیان پاکستان میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔
اب میں جماعت احمدیہ کے لٹریچر کے متعلق بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس حقیقت پر چنداں زور دینے کی ضرورت نہیں کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا کثیر حصہ اردو زبان میں ہے اور جماعت کے ادبی اور ثقافتی سرمائے کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ اس زبان کا یہ تعلق قائم رکھا جائے۔ جہاں تک ہمیں معلوم ہوا ہے بھارت میں جس زبان کو ترقی دی جارہی ہے اس کا اردو زبان سے کوئی واسطہ نہیں اور اگر جماعت کے افراد کو مجبور کیا گیا کہ وہ ہندی زبان سیکھیں جو انڈین یونین کی ملکی زبان ہوگی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جماعت اپنا تمام ادبی اور ثقافتی اثاثہ تباہ کردے یا اس کی اہمیت کو بالکل ختم کردے۔ اس کے برعکس اگر وہ اردو زبان کے ساتھ بدستور اپنا تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کریں تو وہ اقتصادی طور پر سخت نقصان اٹھا رہے ہوں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ لسانی اعتبار سے بھی جماعت احمدیہ کا مرکز پاکستان کے علاقے میں ہو۔
جسٹس تیجا سنگھ : جماعت احمدیہ کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
شیخ بشیر احمد : تمام احمدی اول سے آخر تک مسلمان ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ایک دنیا جانتی ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقصد اسلام کی اشاعت ہے اور وہ اسلام کے پیغام کو دنیا کے ہر کنارے تک پہنچانا اپنا فرض اور سعادت سمجھتے ہیں۔ پس اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ان کے لئے ایسے حالات نہ پیدا کئے جائیں جو انہیں خواہ مخواہ مشکلات میں دھکیل دیں۔ جیسا کہ آپ صاحبان جانتے ہیں بھارت کے ہندوئوں میں ایک فرقہ >سناتن دھرمی< کہلاتا ہے اور یہ لوگ تبدیلی مذہب کے شدید مخالف ہیں۔ پس اگر جماعت احمدیہ کے مرکز کو بھارت کے ماتحت رکھا گیا تو قدرتاً جماعت احمدیہ کے مقصد کو سخت ضعف پہنچے گا اور میں یہ واضح کردوں کہ شاید جماعت اسے برداشت نہ کرسکے۔
اس کے علاوہ ایک اور ضروری امر ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا مناسب سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ کمشن کی طرف سے بعض الفاظ کی حدود اور ان کی تعیین کے سلسلے میں >مسلم < اور >غیر مسلم< کی اصطلاحات کی تعریف کی گئی ہے۔
>غیر مسلم< ایک منفی قسم کی اصطلاح ہے اور اس وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنے آپ کو >اسلام< کے دائرے سے باہر سمجھتے ہیں۔ لہذا خود کمیشن کے نقطہ نظر کے پیش نظر بھی یہ ضروری ہے کہ تمام مسلمان کہلانے والوں کو ایک جماعت کے طور پر الگ حیثیت دی جائے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ >مسلمان< اور >غیر مسلمان< کا اطلاق جن لوگوں پر ہوسکتا ہے ان میں قدرتاً ایک امتیاز اور تفریق پیدا ہو جائے گی اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔ میں یہ بھی عرض کروں گا کہ >غیر مسلم< کا لفظ >مسلم< کے لفظ کی طرح کس ایک جماعت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ غیر مسلموں میں پارسی` عیسائی اور ہندو وغیرہ سب ہی لوگ آجاتے ہیں )اور یہ سب قومیں ہندوستان میں آباد ہیں( چونکہ کمشن کا کام یہ ہے کہ وہ >مسلم اکثریت والے علاقے< اور >غیر مسلم اکثریت والے علاقوں< کی واضح طور پر نشان دہی کرے اس لئے تمام مسلمانوں کو بہرحال ایک ہی وحدت` کے طور پر شمار کرنا زیادہ مفید ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صرف >مسلمان< ہی وہ جماعت ہیں جو خود علیحدہ طور پر شمار کئے جانے کا حق رکھتے ہیں )سکھ صاحبان >غیر مسلموں< کے زمرے میں آتے ہیں( اور کمشن کے فرائض و مقاصد کی رو سے صرف مسلمان ہی ہیں جن کی اکثریت والے علاقے کی تعیین اس وقت ہمارا کام ہے یاد رہے کہ ملک کی تقسیم >مذہب< کے اصول کی بناء پر ہورہی ہے اور قادیان کی حیثیت اس وقت بین الاقوامی یونٹ کی سی ہے جو دنیائے اسلام کے ساتھ ایک مضبوط اور گہرا تعلق رکھتا ہے اور میں یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ جب پاکستان بنے گا تو بہرحال اسلامی ملکوں سے اس کے گہرے روابط قائم ہوں گے اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اسے بہرحال ان ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنے میں زیادہ سہولت حاصل ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ میری درخواست ہے کہ جماعت احمدیہ کے اس مطالبے پر نہایت ہمدردانہ غور فرمایا جائے۔میں آخری گزارش کے طور پر یہ بھی عرض کروں گا کہ سکھوں کو بوجہ اس حسن خدمت کے جو انہوں نے انگریزی حکومت کے لئے سرانجام دی ایک وسیع و عریض نہری رقبہ بطور عطیہ کے عطا فرمایا گیا۔ اسی طرح جماعت احمدیہ بھی یہ کہنے کا حق رکھتی ہے کہ وہ بھی اپنی خدمات میں ہرگز پیچھے نہیں۔ ضمیمہ ۳ کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ جماعت احمدیہ کے ۱۹۹ ممتاز افراد نے فوج میں کمشن حاصل کیا اور انہوں نے حکومت کے لئے نہایت قابل تعریف خدمات سرانجام دیں۔ پس اس بناء پر جماعت احمدیہ کا مطالبہ اولین اہمیت کا حامل ہے اور اس قابل ہے کہ اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق پورا پورا حق دیا جائے۔
میں یہ بھی عرض کروں گا کہ جماعت احمدیہ نے اپنی خدمات کے عوض کبھی انعام یا عطیہ جات کی خواہش یا مطالبہ نہیں کیا۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ ہم حکومت وقت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرتے ہیں۔ ہم آئندہ بھی قانون کا پورا احترام کریں گے اور حکومت وقت کے ساتھ دلی تعاون اور اطاعت کے جذبے سے کام لیں گے۔
ہمارے سکھ دوستوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ان کی اقتصادی بہبود پر کسی صورت میں بھی آنچ نہیں آنی چاہئے اور انہوں نے اس سلسلے میں انکم ٹیکس وغیرہ کے اعداد و شمار بھی پیش کئے ہیں۔ میں فقط یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انکم ٹیکس کے پیش کردہ اعداد و شمار ان کی اقتصادی برتری یا بہبود کی دلیل نہیں۔ یہ عطیہ جات تو ان کی خدمات کے عوض بطور انعام کے ہیں جو انہیں دیئے گئے۔ اب وہ اگر ان اعداد و شمار کو مزید رقبہ حاصل کرنے کے لئے بطور دلیل کے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو یہ صریح زیادتی ہوگی کیونکہ ان کی خدمات کا حق انہیں پہلے ہی مل چکا ہے۔
پس انہی الفاظ کے ساتھ میں جماعت احمدیہ کا کیس آپ کی پوری توجہ کے لئے پیش کرتا ہوں اور اسے ختم کرتا ہوں۔۱۶۱
صوبہ سرحد کا استصواب اور جماعت احمدیہ کے وفد کشمیر کا تعاون
۳۔ جون ۱۹۴۷ء کی برطانوی سکیم میں صوبہ سرحد کے عوام کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان دستو ساز اسمبلی میں شرکت کرنے کے لئے رائے دیں۔
قائداعظم نے صوبہ سرحد کے معرکہ استصواب کی خصوصی اہمیت کے مدنظر صوبہ سرحد مسلم لیگ کے مسلمانوں اور تمام لیگی لیڈروں کو ہدایت فرمائی کہ وہ سرحد کے مسلمانوں کو اس طرح منظم کریں کہ سرحد اس رائے شماری میں متفقہ طور پر پاکستانی دستور سازاسمبلی میں شمولیت کا فیصلہ کرلے۔ قائداعظم کی اپیل کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۱۷۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو تمام سرحد کے تمام حلقہ جات انتخاب میں پولنگ ختم ہوا اور قریباً دو لاکھ انانوے ہزار ووٹروں نے پاکستان کے حق میں اور قریباً دو ہزار ووٹروں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے اور صوبہ سرحد پاکستان میں شامل ہوگیا۔۱۶۲
اس استصواب عامہ میں جماعت احمدیہ نے سرحد مسلم لیگ کا ہاتھ بٹانے اور سرحدی مسلمانوں کو پاکستان میں شریک کرنے کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا۔ چنانچہ جناب خواجہ غلام نبی صاحب گلکار ایم ایل اے کشمیر اسمبلی کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کشمیر کا ایک خصوصی وفد ان دنوں سرحد میں پہنچا اور اس نے اپنی خدمات سرحد مسلم لیگ کے سپرد کیں اور سنہری خدمات انجام دیں جس کا اقرار مسلم لیگ ریفرنڈم کمیٹی کے پریذیڈنٹ نے حسب ذیل الفاظ میں کیا۔
>وفد نے ہمارا بہت ہاتھ بٹایا اور صحیح اسلامی روح کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا یہ جذبہ اعانت و اخوت کشمیر اور سرحد کے تعلقات کے لئے بہت مفید ثابت ہوگا۔ ان کی یہ مساعی بہت ہی قابل شکریہ ہیں<۔10] p[۱۶۳
تیسرا باب )فصل نہم(
قائداعظم کی طرف سے مسلم لیگ کی ترجمانی کے لئے چودھری محمدظفراللہ خاں کا انتخاب آپ کا حقیقت افروز محضر نامہ اور مدلل اور فاضلانہ بحث
قائداعظم کی خوشنودی اور اخبار >نوائے وقت< جسٹس محمد منیر اور جسٹس کیانی کا زبردست خراج تحسین
سکھ اور ہندو پریس کا واضح اعتراف
قائداعظم سے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی اہم ملاقات اور مسلم لیگ کی وکالت کے لئے آپ کا تقرر
جماعت احمدیہ کی طرف سے امریکہ اور برطانیہ میں بائونڈری لٹریچر اور اس کے ماہر کی تلاش کا کام ابھی ابتدائی مراحل ہی میں تھا کہ پنجاب مسلم لیگ نے تجویز کیا کہ پنجاب بائونڈری کمیشن
کے سامنے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وکیل کے فرائض انجام دیں۔ پنجاب مسلم لیگ نے دہلی میں قائداعظم کی خدمت میں اپنی رائے کی اطلاع دی جس پر قائداعظم کی خصوصی ہدایت پر نوابزادہ لیاقت علی خاں نے چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو تار دیا کہ قوم کو آپ کی خدمات کی ضرورت ہے۔ آپ فوراً قائداعظم سے ملیں۔ چودھری صاحب موصوف ان دنوں حضرت مصلح موعود کی اجازت خاص سے نواب سر حمید اللہ خاں صاحب والی بھوپال کے آئینی مشیر کی حیثیت سے بھوپال میں مقیم تھے اور عنقریب ریاستوں کے آئینی مستقبل کی وضاحت کے لئے انگلستان روانہ ہورہے تھے۔
چنانچہ ملت اسلامیہ کا یہ نڈر` جانباز اور قابل فخر سپاہی )جو ۱۹۲۷ء میں >مسلم آئوٹ لک< کے مشہور مقدمہ۱۶۴ ناموس رسول کی شاندار وکالت کرنے کے بعد سے اب تک قوم و ملک کی انتہائی بے لوث اور بے حد مخلصانہ خدمت میں برابر مصروف تھا اور آزادی ہند کے معرکہ میں ایک انقلابی اور فیصلہ کن کردار ادا کرچکا تھا` مسلمانان ہند کے مقبول و محبوب سیاسی رہنما کی دعوت پر لبیک کہتا ہوا ۱۷۔ جون ۱۹۴۷ء کو بھوپال سے دہلی پہنچ گیا۔
قائداعظم نے دوران ملاقات آپ کو حد بندی کمیشن کے سامنے پنجاب مسلم لیگ کی وکالت کا اہم اور نازک فریضہ سونپا اور بتایا کہ اگر کمیشن میں باہمی کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا تو پھر یہ معاملہ ایک آزاد ثالث کے ذریعہ سے طے کرایا جائے گا۔ قائداعظم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ پاکستان دستور ساز اسمبلی کے لئے انگلستان سے ایک ماہر دستور اور ایک عمدہ ڈرافسمین بھی ساتھ لائیں جو اس سلسلہ میں مفید کام کرسکے۔
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے قائداعظم سے ملاقات کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مسلم لیگی کارکنوں کو بائونڈری کمیشن کے سلسلہ میں بعض ضروری ہدایات دیں اور پھر پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جون کے آخری ہفتہ میں۱۶۵ انگلستان تشریف لے گئے جہاں آپ ہندوستانی ریاستوں کے حکمرانوں کے اہم اجلاس میں شرکت اور مسٹر اٹیلی وزیراعظم برطانیہ اور دوسرے برطانوی افسروں سے مذاکرات کے بعد ۱۱۔ جولائی کو۱۶۶ انگلستان سے روانہ ہوکر ۱۳۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو لاہور پہنچے اور اگلے روز حد بندی کمیشن کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے جس میں فیصلہ ہوا کہ تمام جماعتیں اپنے اپنے میمورنڈم ۱۸۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو چار بجے دوپہر تک پیش کر دیں۔
مسلم لیگ کا محضر نامہ پنجاب حد بندی کمیشن میں
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے تین چار روز کے مختصر وقت میں مسلم لیگ کا محضر نامہ کن مشکلات کے ہجوم میں لکھا` کمیشن کے صدر ریڈ کلف نے کیا طرز عمل اختیار کیا اور پھر کس طرح حق و انصاف کا خون کیا اس کی تفصیل اگلے اوراق میں چودھری صاحب کے الفاظ میں آرہی ہے۔ اس مقام پر آپ کے لکھے ہوئے حقیقت افروز محضر نامے کا ترجمہ دینا چاہتے ہیں جو حد بندی کمیشن میں مسلم لیگ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
یہ میمورنڈم مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب بونڈری کمیشن کو پیش کیا گیا
۱۔ ان اختیارات کی رو سے جو ملک معظم کی حکومت کی طرف سے ان کے اعلان مجریہ ۳۔ جون ۱۹۴۷ء کی رو سے بائونڈری کمشن کو تفویض کئے گئے ہیں` اس کمشن نے ان اہم ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا ہے جو ملک کی موجودہ نازک صورت حالات میں اس کے سامنے ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کمشن کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس پس منظر کو بھی سامنے رکھے جس کی بناء پر اس ملک کی تقسیم لازمی قرار دی گئی ہے اور جس کے نتیجہ میں اس وقت پنجاب کی تقسیم بھی پیش نظر ہے۔
۲۔ وہ بڑے بڑے علاقے جو اس وقت صوبہ پنجاب میں شامل ہیں انتظامی لحاظ سے بھی اور تمدنی اور لسانی اعتبار سے بھی ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام صوبہ ایک >اقتصادی یونٹ< کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اس کے مختلف حصے اپنی اقتصادی اور ثقافتی بہبود کے لئے ایک دوسرے پر مکمل انحصار رکھتے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے لوگوں کی طرز رہائش اور ان کا معیار زندگی آپس میں ایک دوسرے سے مسلسل میل جول اور تعلقات کی وجہ سے بہت حد تک یکساں ہوگیا ہے اور اس کی وجہ سے پنجاب کی >وحدت< ایک ٹھوس حقیقت بن گئی ہے۔
۳۔ اس بناء پر پنجاب کی تقسیم اصولاً خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ >خطرناک< اس لئے کہ اگر اس صوبے کو تقسیم کر دیا جائے تو لوگوں کی ترقی و خوشحالی اور مجموعی طور پر اس صوبہ کی بہبودی اور اس کے مستقبل پر اس کا نہایت ہی ناخوشگوار اثر پڑے گا۔
۴۔ ملک معظم کی حکومت نے پنجاب کی تقسیم کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اپنی خوشی اور رغبت سے نہیں کیا اور پھر یہ بھی نہیں کہ وہ اس کے نتائج سے بے خبر تھی بلکہ یہ فیصلہ مجبوراً ملک میں سیاسی پارٹیوں کی آویزش اور اس کے باہمی سمجھوتے کی راہ میں پیدا ہونے والے تعطل کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ملک معظم کی حکومت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس تعطل کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے پیش نظر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی حالات سے قطع نظر کمشن موجودہ حالات کے ان خاص پہلوئوں کو سامنے رکھے جن میں سے بعض کی نشاندہی جناب وائسرائے کی طرف سے نشر کردہ اعلان مورخہ ۳۔ جون ۱۹۴۷ء میں کی گئی ہے۔ یہ نشری اعلان درحقیقت ملک معظم کی حکومت کے اسی تاریخ کے اعلان کے لئے بطور تمہید کی ہے۔ جناب وائسرائے صاحب نے فرمایا ہے۔
>مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں نہ تو کیبنٹ مشن کی تجاویز پر اور نہ ہی کسی اور تجویز پر کوئی ایسا سمجھوتہ ممکن ہوسکا ہے جس سے ہندوستان کی وحدت اور سالمیت برقرار رہے ہم ایسے علاقوں میں جہاں ایک فرقہ کی اکثریت آباد ہے انہیں مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف کسی دوسرے فرقے کی اکثریت کی حکومت کے ماتحت زندگی بسر کریں۔ اس کا لازمی نتیجہ ملک کی تقسیم ہے۔
چنانچہ جب مسلم لیگ نے ملک کی تقسیم کا مطالبہ کیا تو کانگرس نے انہی دلائل اور انہی وجوہات کی بناء پر بعض صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ بھی پیش کر دیا۔ میرے نزدیک یہ دلائل بالکل معقول ہیں۔ کسی بھی فریق نے اپنے اکثریت والے علاقے کو دوسرے کی حکومت میں تحویل کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ پنجاب` بنگال اور آسام کے ایک حصے میں رہنے والے لوگوں کی رضامندی کی خاطر یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان صوبوں میں >مسلم< اور >غیر مسلم< اکثریت والے علاقوں کی حدود کی تعیین کر دی جائے۔ گو یہ وضاحت بھی میں کر دینا چاہتا ہوں کہ معین طور پر ان حدود کو مقرر کرنا بائونڈری کمشن کا کام ہوگا اور یہ ضروری نہیں ہوگا کہ کمشن انہی حدود کو تسلیم کرلے جو آج عارضی طور پر طے کر لی گئی ہیں۔
ہم نے سکھوں کی پوزیشن پر بھی کماحقہ غور کیا ہے۔ یہ بہادر فرقہ اس وقت پنجاب کی آبادی کا ۸/۱ ہے مگر ان کی رہائش اور آبادی اتنی بکھری ہوئی ہے کہ پنجاب کو خواہ کسی طریق پر تقسیم کر دیا جائے سکھ بہرحال تقسیم ہوکر رہ جائیں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ تقسیم جس کا خود سکھ بھی مطالبہ کرتے ہیں انہیں ٹکڑوں میں بانٹ دے گی۔ مگر یہ فیصلہ کہ معین طور پر تقسیم کس طرح عمل میں لائی جائے گی بائونڈری کمشن کا کام ہوگا اور اس کمشن میں سکھوں کو نمائندگی دی جائے گی<۔
جناب وائسرائے کے اعلان کے مندرجہ بالا اقتباسات سے ثابت ہے کہ صوبہ پنجاب کی تقسیم غیر مسلم اصحاب کے اس اصرار اور ان کی عدم رضا مندی کا نتیجہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی اپنے اکثریت والے علاقوں کو صوبے کی اس حکومت کے سپرد نہیں کرنا چاہتے جس میں کہ مسلمانوں کو مجموعی لحاظ سے اکثریت حاصل ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے علاقے جہاں انہیں اکثریت حاصل ہے اور جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں پنجاب سے بالکل الگ کر دیئے جائیں۔ جناب وائسرائے صاحب نے فرمایا تھا کہ جن دلائل کی بناء پر مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا ان ہی دلائل کی بناء پر کانگرس بھی بعض صوبوں کی تقسیم عمل میں لانا چاہتی ہے۔
مسلم لیگ کی طرف سے تقسیم کا مطالبہ اس اصول پر تھا کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان میں مسلمانوں کی الگ اور آزاد حکومت قائم کی جائے۔ علیحدگی کا یہ مطالبہ نہ تو ان علاقوں کے مذہبی تقدس کی بناء پر تھا اور نہ ہی تاریخی روابط پر تھا` نہ ہی اس میں کوئی جذباتیت تھی` نہ ہی جائدادوں کا کوئی سوال تھا اور نہ ہی اس مطالبے کا محرک کوئی تہذیبی یا تمدنی امور تھے جن کی بناء پر یہ علیحدگی ضروری ہوتی۔ ملک کی تقسیم کا یہ مطالبہ فقط اس اصول پر تھا کہ جن صوبوں میں ایک فرقہ کو اکثریت حاصل ہے اس فرقے کو انسانی اور جمہوری حقوق کی بناء پر یہ حق بھی دیا جائے کہ وہ اپنے قائم کردہ نظام کے مطابق اس میں زندگی بسر کرسکے۔ مسلم لیگ کو علم تھا کہ علیحدگی کے اس اصول کے مطابق اسے اپنے بہت سے عظیم الشان اور نہایت ہی اہم تاریخی اور تمدنی ورثہ سے بھی محروم ہونا پڑے گا جو اس کی تہذیب و ثقافت کا طغرائے امتیاز ہے۔ مثال کے طور پر دہلی کی جامع مسجد` لال قلعہ` قطب مینار` تغلق آباد` حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور دیگر اولیاء اللہ کے عظیم الشان مقابر اور ان کی یادگاریں` شاہ ہمایوں اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے عالیشان مقبرے اور پھر تاج محل جیسی حسین تخلیق جو صرف فن تعمیر کے اعتبار سے ہی یگانہ روزگار نہیں بلکہ اپنے جمالیاتی ذوق کی بناء پر بھی مرجع خلائق ہے اور اہل نظر و بینش کے لئے ایک عجیب روحانی کیف کا سامان رکھتی ہے۔ شہنشاہ اکبر جیسے بلند ترین انصاف پسند بادشاہ کا عالیشان مقبرہ جو سکندرہ کے مقام پر دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے` حضرت اعتماد الدولہ کا مقبرہ` فتح پور سیکری کا شاہی مقام اور آگرے کے گرد و نواح میں قلعے` محلات` مساجد اور دیگر یادگاری عمارتوں اور مقابر کا عظیم المرتبت سلسلہ۔ اس کے علاوہ لکھنئو کے گردو نواح میں عظیم الشان یادگاری مقامات` اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کا مقدس اور عالیشان مقبرہ جس کے اردگرد کئی اولیاء اللہ کے مقابر اور ان کی مقدس یادگاریں قائم ہیں۔ بنارس میں حضرت شہنشاہ اورنگ زیب کی دیدہ زیب مسجد` پٹنہ اور بہار شریف میں کئی تاریخی مقدس یادگاریں` مقابر اور عمارات جو تاریخ کے ابواب میں سنہری آب و تاب کا حکم رکھتی ہیں اور مسلمانوں کے زریں دور حکومت کے لئے ایک مشعل راہ کا کام دیتی ہیں اور جن کے ساتھ عام مسلمانوں کو ایک خاص جذباتی اور روحانی وابستگی ہے` ان تمام یادگاروں کے متعلق مسلم لیگ کو علم تھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت انہیں ان سب سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ پھر اس کے علاوہ وہ لاکھوں اور کروڑوں روپے کی جائدادیں` بالخصوص اودھ میں وہ وسیع و عریض تعلقے جن پر رئیسان اودھ برسوں سے قابض ہیں اور ہزاروں مسلمانوں کی بے اندازہ جائداد اور وسیع تر اراضیات جو اس صوبے میں اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا سرمایہ ہیں اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ کس طرح صدیوں سے مسلمانوں کی برتری کا پرچم اور ان کی حکمرانی کا جھنڈا یہاں کی سرزمین پر لہراتا رہا۔ یہ تمام عظیم الشان ورثہ انہیں چھوڑنا پڑے گا۔ ان تمام امور کے باوجود مسلم لیگ نے اور عامتہ المسلمین کے ذہن نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ انسانی اقدار دولت اور مادی وسائل سے زیادہ اہم ہیں اور انسانی روح کی عظمت ان تمام مادی اور جسمانی ذخائر پر حاوی ہے۔ مسلم لیگ کا ان متذکرہ امور کے بارے میں طرز عمل یا نقطہ نگاہ کچھ بھی ہو۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کی طرف سے تقسیم کے مطالبے کی فقط ایک ہی بنیاد تھی اور وہ >آبادی کی اکثریت< کا اصول تھا۔ خود ہزایکسیلنسی وائسرائے صاحب بہادر نے بھی یہ فرمایا ہے کہ جو دلائل مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم کے لئے پیش کئے گئے ہیں انہی دلائل کی بناء پر کانگرس نے بھی بعض صوبوں کی تقسیم کا مطالبہ پیش کیا ہے اور لیگ کئے مطالبے کی بنیاد جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے آبادی کی اکثریت کا اصول ہے۔ لہذا صاف ثابت ہے کہ یہی اصول غیر مسلموں کے مطالبے میں بھی کار فرما ہے اور اسی اصول کے متعلق ملک معظم کی حکومت کے اعلان مجریہ ۳۔ جون ۱۹۴۷ء میں اشارہ بھی کیا گیا ہے۔
اس اعلان کا پیراگراف ۹ حسب ذیل ہے۔
>تقسیم کے جملہ امور کے تصفیہ کے لئے بنگال اور پنجاب کی لیجسلیٹو )قانون ساز( اسمبلیوں کے ممبران دو گروپوں میں منقسم ہو جائیں گے۔ ایک گروپ ان ضلعوں سے متعلق ہوگا۔ )جیسا کہ ضمیمہ سے ظاہر ہے( جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسرا گروپ ان ضلعوں سے تعلق رکھنے والا ہوگا جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے فی الحال یہ اقدام ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صوبوں کی حدود کی تعیین کا سوال جو بعض امور کی تحقیقات کے بعد کیا جائے گا اس بائونڈری کمیشن کے فیصلے پر منحصر ہوگا۔ جسے گورنر جنرل مقرر فرمائیں گے۔ گورنر جنرل ہی اس کمیشن کے ممبران کو مقرر کریں گے اور وہی اس کا دائرہ کار تجویز فرمائیں گے۔ جب یہ کمشن مقرر ہوجائے گا تو وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی حدود کی تعیین کرے گا جس کی بنیاد >مسلم اکثریت والے علاقے اور >غیر مسلم اکثریت والے علاقے< ہوں گے۔ یعنی ایسے علاقے جہاں دونوں قوموں کی الگ الگ اکثریت ہو اور وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحدات سے ملتے ہوں۔ کمشن کو یہ بھی ہدایت ہوگی کی وہ بعض >دوسرے امور< کو بھی پیش نظر رکھے۔ یہی ہدایات بنگال بائونڈری کمشن کے لئے بھی واجب العمل ہوں گی اور جب تک دونوں کمشن پنجاب اور بنگال کے اندرونی حدود کی تعیین مکمل نہیں کرلیتے۔ اس وقت تک وہ عارضی حدود )جن کا ضمیمہ میں ذکر موجود ہے( قابل عمل سمجھی جائیں گی<۔
۶۔ جیسا کہ مندرجہ بالا اعلان سے واضح ہے بائونڈری کمشن کا مقصد یہ ہے کہ >مسلم< اور >غیر مسلم اکثریت والے علاقوں< کی حدود کی تعیین کی جائے اور اس مقصد کے پیش نظر بعض >دوسرے امور< کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں اگر سرحدات کی تعیین کے بارے میں کوئی معمولی ردوبدل کی ضرورت ہو تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ ایسا نہ ہو کہ کسی علاقے کی آبادی کا کثیر حصہ جو اکثریت والے علاقے سے تعلق رکھتا ہے` تبدیل کرکے ایسے علاقے میں ڈال دیا جائے۔ جہاں وہ اقلیت میں رہ جائیں۔ چنانچہ کمشن کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے۔ اس امر پر خاص زور دیا گیا ہے۔
>کمشن کا کام یہ ہوگا کہ وہ پنجاب کے دونوں حصوں کی سرحدات کو معین کرے اور حدود کی تعیین کی بنیاد اس اصول پر ہو کہ >مسلم< اور >غیر مسلم< اکثریت والے علاقوں کی حدود ان دونوں حصوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملتی ہوں۔ اس غرض کے لئے بعض >دوسرے امور< کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے<۔
بائونڈری کمشن کے دائرہ کار اور اس کے قیام کے مقصد سے یہ بات واضح ہے کہ کمشن اس امر کی تعیین کرے گا کہ وہ کون سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ کون سے علاقے ہیں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور پھر یہ بھی کہ ان علاقوں کی سرحدات پنجاب کے دونوں حصوں سے کہاں کہاں ملتی ہیں؟ جب ایک مرتبہ ان سرحدات کی تعیین ہو جائے تو پھر تقسیم کا خط کھینچنا آسان ہوگا۔ مگر اس خط کھینچنے سے پہلے ضروری ہے کہ بعض >دوسرے امور< کو بھی ملحوظ رکھا جائے کیونکہ ان امور کے پیش نظر ہوسکتا ہے کہ کہیں کہیں کچھ معمولی ردوبدل کی ضرورت پڑے اور اعلان میں اس امر کی پوری گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کے ماتحت سرحدات میں کہیں معمولی ردوبدل کی ضرورت ہو تو اس پر عمل کرلیا جائے۔
اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ معین طور پر علاقوں کی تقسیم کا سوال صرف تب ہی پیدا ہوتا ہے` جب >اکثریت والے علاقوں< کی تعیین مکمل ہو جائے اور اس امر کی صراحت ہو جائے کہ ان علاقوں کے >قرب< سے کیا مراد ہے۔ یعنی وہ کونسا اصول ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ فلاں >اکثریت والا علاقہ< فلاں وجہ سے >قرب< کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اسے پنجاب کے فلاں حصے کے ساتھ شامل کردیا جائے۔ ظاہر ہے کہ بائونڈری کمشن کو اس لفظ کی مکمل تعریف اور توضیح کرنی پڑے گی۔ کیونکہ صرف اسی تعریف کی بناء پر ہی کمشن متذکرہ علاقوں کی شمولیت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ البتہ جب ایک دفعہ ہمارے سامنے معین طور پر اس لفظ کی >تشریح< آجائے تو پھر بڑی آسانی سے ہم ۱۹۴۱ء کی مردم شماری کی بناء پر ان >اکثریت والے علاقوں< کے متعلق فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس مقام پر یعنی جہاں تک الفاظ کی تشریح اور توضیح کا سوال ہے >دوسرے امور< کو بیچ میں لانا ہرگز مناسب اور ضروری نہیں ہوگا۔ >دوسرے امور< پر غور کرنے کا معاملہ صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے جب عملاً سرحدوں کی تعیین کا کام شروع ہو جائے اور ابتدائی امور بکلی طے ہو جائیں۔
۷۔ اب کمشن نے یہ دیکھنا ہے کہ اکثریت والے علاقوں کے >قرب< سے کیا مراد ہے! اگر صوبائی وحدت` کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تمام پنجاب کا علاقہ اور تمام بنگال کا علاقہ >مسلم اکثریت والے علاقے< ہیں کیونکہ واضح طور پر ان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مگر چونکہ ان دونوں صوبوں کی اندرونی تقسیم کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے اس لئے ہمیں چھوٹے پیمانے پر ایک اور معیار مقرر کرنا پڑے گا۔ تقسیم کے فیصلہ کے وقت ایک خیال یہ بھی تھا کہ ¶ہم >ضلع< کو معیار مقرر کرلیں اور اسی بناء پر اکثریت والے علاقے طے کرلیں۔ اگر یہ خیال قطعی اور آخری ہوتا تو بائونڈری کمیشن کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ تمام ضلعوں کی حدود ہر شخص کو معلوم ہیں اور اس بناء پر اکثریت والے علاقے طے کئے جاسکتے تھے۔ لیکن کمشن کے ذمہ کام یہ ہے کہ وہ نہ صرف اکثریت والے علاقوں کو معین کرے بلکہ پنجاب کے دونوں حصوں کے ساتھ ان اکثریت والے علاقوں کی >ملحق< سرحدات کا مسئلہ بھی طے کرے یعنی یہ واضح کرے کہ فلاں علاقے کے >قرب< کی وجہ سے وہ علاقہ یا خطہ اس قابل ہے کہ اسے پنجاب کے فلاں حصے کے ساتھ شامل کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ کمشن کو اس مقصد کے حصول کے لئے تقسیم کا ایسا معیار قائم کرنا پڑے گا جس سے پنجاب کے دونوں حصے جو دو علیحدہ علیحدہ صوبوں کی حیثیت سے کام کریں گے آزادانہ طور پر اپنے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔ اس مقصد کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ حدود کی تعیین اور سرحدی لائن کا قیام اتنا مکمل ہو اور ایسا قابل عمل ہو کہ دونوں صوبے عمدہ پڑوسیوں کی طرح اپنی اپنی انتظامی ذمہ داریوں کو نبھا سکیں اور خوش اسلوبی کے ساتھ رہتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ >سرحدی لائن< محض ایک تخیل کا کرشمہ ہو یا ایک نقاش کے موئے قلم کی طرح آڑھی ترچھی ہوتی ہوئی کسی ایک گائوں کے پیٹ میں سے تو گزر جائے اور دوسرے کو بالکل ہی ادھ موا چھوڑ دے۔ کمشن کو ہر حالت میں ایک >انتظامی یونٹ< بنانا پڑے گا جس کی بناء پر تمام سرحدی امور کو طے کیا جاسکے۔ چونکہ >ضلع< کو انتظامی یونٹ سلیم نہیں کیا گیا اس لئے اب ایک ہی صورت باقی ہے اور وہ یہ کہ >تحصیل< کو >انتظامی یونٹ< مان لیا جائے۔
۸۔ >تحصیل< کو انتظامی یونٹ تسلیم کرلینے اور اسے تقسیم کا معیار بنا لینے کے بعد کمشن کا کام یہ ہوگا کہ وہ صوبے کا ایک ایسا نقشہ تیار کرے جس میں تحصیل وار مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی کے اعداد و شمار بتائے گئے ہوں اور پھر اس آبادی کے تناسب سے تقسیم کا خط اس طرح کھینچا جائے کہ جس تحصیل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس کی سرحدیں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے سے ملتی ہیں اسے مسلمانوں کے علاقے کے ساتھ` اور جس تحصیل میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اور اس کی سرحدیں غیر مسلموں کے اکثریت والے علاقے سے ملتی ہیں اسے غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے کے ساتھ ملا دیا جائے۔ اس اصول کے مطابق معمولی کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے یعنی تحصیل کے رقبہ جات میں ایسے ٹکڑے جہاں مسلمانوں یا غیر مسلموں کی اکثریت بائونڈری لائن کے بالکل قریب ہو وہاں انہیں اپنے اپنے اکثریت والے علاقے کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔
۹۔ جب یہ ابتدائی مراحل طے پاچکیں تب بائونڈری کمیشن اس امر کا مجاز ہوگا کہ وہ >دوسرے امور< پر غور کرنے کے نتیجہ میں اگر مقامی طور پر سرحدات کی تعیین کے سلسلہ میں کوئی ردوبدل کرنا چاہے تو کر دے۔ مگر یہ ردوبدل بہرحال مقامی ہوگا یعنی مقامی ضروریات کے پیش نظر کیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے تقسیم کے اصل معیار پر ہرگز کوئی حرف نہیں آئے گا۔ مثال کے طور پر اگر علاقوں کی تقسیم کے وقت یہ معلوم ہو کہ آب پاشی کے نظام کا منبع کسی دوسرے ملک میں ہے اور جن زمینوں کو اس منبع سے نکلنے والی نہریں سیراب کرتی ہیں وہ کسی اور ملک میں آجاتی ہیں تو نہروں کے منبع اور نہری زمینوں کو ایک ہی ملک میں یکجا کر دیا جائے گا اور ایسا کرنا بالکل جائز اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق بالکل درست ہوگا۔
۱۰۔ اگر تقسیم کے لئے یہ اصول تسلیم کرلئے جائیں تو معلوم ہوگا کہ )بہ استثناء ان حالات کے جو >دوسرے امور< پر غور کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوں( ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ مغربی پنجاب کے علاقے سے نکل کر مشرقی پنجاب کی تحویل میں دے دی جائے گی۔ مگر ضلع گورداسپور کی باقی تمام تحصیلیں اور اسی طرح بقیہ سولہ اضلاع کی تمام تحصیلوں میں مسلمان مجموعی لحاظ سے اکثریت میں ہوں گے۔ تحصیل اجنالہ جو ضلع امرتسر کی تحصیل ہے اور جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور جس کی سرحدیں` لاہور` سیالکوٹ اور ضلع گورداسپور کی حدود سے ملتی ہیں` مغربی پنجاب میں شامل ہوگی۔
۱۱۔ اسی اصول کے مطابق یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ ضلع جالندھر کی دو تحصیلوں یعنی تحصیل نکودر اور تحصیل جالندھر جن کی سرحدات آپس میں بھی ملتی ہیں اور ضلع فیروزپور کی دو تحصیلوں یعنی تحصیل زیرہ اور تحصیل فیروزپور سے بھی ملتی ہیں۔ ان دونوں میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
۱۲۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ دریائے ستلج کے بائیں کنارے کے ساتھ کا علاقہ جو تحصیل فیروزپور کے ساتھ ملا ہوا ہے اور مکتسر اور فاضلکا تحصیلوں میں سے گزرتا ہوا ریاست بہاولپور تک چلا گیا ہے` مسلمانوں کی اکثریت سے آباد ہے۔ اسی علاقہ میں وادی ستلج کا مشہور سلیمانکی ہیڈ ورکس قائم ہے جہاں سے نہروں کا جال نہ صرف منٹگمری اور ملتان کے اضلاع کو سیراب کرتا ہے بلکہ مغربی پنجاب اور ریاست بہاولپور کے نظام آبپاشی کے لئے بھی روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ علاقہ ضلع منٹگمری کے ساتھ ملحق ہے اور واقعہ یہ ہے کہ دریا کے دونوں طرف مسلمانوں کے مشہور قبیلہ >وٹو< کے لوگ کثرت سے آباد ہیں۔
‏vat,10.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
۱۳۔ اسی طرح اگر ہم ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر اور ضلع فیروزپور کی تحصیل زیرہ کے درمیان سے دریائے ستلج کے دونوں کناروں کے علاقے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ پنجاب اور ریاست نالا گڑھ کی حد تک کا تمام علاقہ جس میں روپڑ کا شہر بھی آباد ہے ایک ہی قسم کے مسلمان قبائل سے آباد ہے۔][۱۴۔ تحصیل جالندھر کی مخالف جانب کی سرحد کے ساتھ کا علاقہ جو ضلع ہوشیارپور کی دو تحصیلوں کی تحصیل دسوہہ اور تحصیل ہوشیارپور کے ساتھ ملحق ہے` کثرت سے مسلمانوں سے آباد ہے۔ اس علاقے کا کچھ حصہ دریائے بیاس کے ساتھ ساتھ تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ساتھ بھی ملا ہوا ہے اور تحصیل جالندھر تحصیل بٹالہ اور تحصیل گورداسپور کے ساتھ بھی ملحق ہے۔
۱۵۔ پس ان >دیگر امور< سے قطع نظر کہ جن کی بابت میں ابھی کچھ بیان کروں گا۔ مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب کے درمیان تقسیم کا خط اس طرح کھینچا جانا چاہئے جیسا کہ میمورنڈم کے ساتھ والے نقشہ میں اسے ظاہر کیا گیا ہے یعنی مقام <A> سے لے کر <B> <C> کے ساتھ ساتھ اور اسی طرح >ڈی<۔ >ایف<۔ >جی<۔ >ایچ<۔ >آئی<۔ >جے<۔ >کے< سے لے کر >ایل< کے مقام تک جیسا کہ اس گراف پر سبز لائن سے ظاہر ہے جو اس میمورنڈم کے ساتھ منسلک ہے۔
۱۶۔ اگر مندرجہ بالا طریق پر سرحدات کی تعیین کی جائے تو ضلع امرتسر کی دو تحصیلیں تحصیل امرتسر اور تحصیل ترنتارن جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہے۔ مسلم اکثریت والے علاقوں میں گھر کر رہ جائیں گی اور وہ مشرقی پنجاب کے ساتھ ملحق نہیں رہیں گی۔ یہی حالت ضلع گوڑ گائوں کی دو تحصیلوں فیروزپور جھرکا اور نوح تحصیلوں کی ہوگی جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ دونوں تحصیلیں بھی غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے میں گھر کر رہ جائیں گی اور وہ مغربی پنجاب کے ساتھ ملحق نہیں رہیں گی۔ پس ان کا حل یہی ہے کہ ضلع امرتسر کی دونوں تحصیلیں مغربی پنجاب کے ساتھ اور ضلع گوڑ گائوں کی دونوں تحصیلیں مشرقی پنجاب کے ساتھ شامل کر دی جائیں اور >مسلم< اور >غیر مسلم< دونوں اس تصفیہ پر رضامند ہو جائیں۔
۱۷۔ >دیگر امور< کے سلسلے میں ایک اہم امر جو قابل غور ہے اور جس کا حل بڑی سنجیدگی اور دانشمندی سے ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا طریق پر علاقے کی تقسیم کے نتیجہ میں اپر باری دوآب کی نہروں کا ہیڈ ورکس جو ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ میں مادھوپور کے مقام پر واقع ہے مشرقی پنجاب میں آجاتا ہے اور تمام وہ علاقہ جس کو مادھوپور سے نکلنے والی نہریں سیراب کرتی ہیں )سوائے چند میل کے علاقے کے( مغربی پنجاب میں آجاتا ہے۔ یہ صورت حال ایسی نازک ہوگی کہ اس سے دونوں حکومتوں کے درمیان مستقل جھگڑے اور مخاصمت کی بنیاد قائم ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپر باری دوآب کے علاقہ میں بسنے والی تمام مسلم اور غیر مسلم آبادی کی معیشت اور ان کی روزی کا انحصار نہری ہیڈ ورکس کی مکمل غور و پرداخت پر منحصر ہوگا۔ اگر ہیڈ ورکس کا نظام خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے تب تو نہری علاقوں کی آبادی کی معیشت برقرار رہے گی وگرنہ اقتصادی لحاظ سے انہیں شدید دھکا لگے گا۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے یہ تجویز نہایت ضروری ہے کہ مادھوپور کے ہیڈورکس کا نظام اس جگہ سے دو میل اوپر کے مقام سے لے کر نہر اپر باری دوآب کے ساتھ ساتھ اس مقام تک جہاں تحصیل پٹھانکوٹ کی حد تحصیل گورداسپور سے مل جاتی ہے۔ مغربی پنجاب میں شامل کر دیا جائے۔ )یہ خط مقام >ایل< سے لے کر مقام >ایم< تک سبز رنگ کے ساتھ نقشہ میں دکھایا گیا ہے( اس طریق سے ۷۷۴`۱۰`۱ نفوس مغربی پنجاب میں شامل ہو جائیں گے اور ان میں سے ۵۰۲۸۴ مسلمان ہوں گے گویا تقریباً ۴ء ۴۵ فیصدی آبادی مسلمان ہوگی۔
۱۸۔ سکھ اصحاب کی طرف سے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ مغربی پنجاب میں مختلف جگہوں پر ان کی مقدس مذہبی یادگاریں اور مقدس مقامات موجود ہیں۔ مگر ہمیں یہ علم نہیں ہوسکا کہ ان کی یہ دلیل کس اصول پر قائم ہے۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مغربی پنجاب میں جہاں جہاں سکھوں کے مقدس مقامات موجود ہیں وہ تمام علاقے مشرقی پنجاب میں شامل کر دیئے جائیں۔ ہرگز نہیں۔ اگر یہی اصول کارفرما ہو تو ضلع کیمبلپور میں حسن ابدال کا مقام جہاں >پنجہ صاحب< واقع ہے مشرقی پنجاب میں شامل کرنا پڑے گا پس >دیگر امور< پر غور کرنے کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ ہم اس قسم کی بنیادوں پر تقسیم کا کام شروع کردیں۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ سکھوں کے مذہبی مقامات میں پٹنہ کا مقام بھی شامل ہے۔ )جہاں گوروگوبند سنگھ صاحب کی ولادت ہوئی( اور نندھیر کا مقام بھی شامل ہے )جہاں ان کی آخری آرامگاہ اور کچھ تبرکات موجود ہیں( اسی طرح مغربی پنجاب کی حدود سے باہر کئی ایسے مقامات ہیں جو سکھوں کے نزدیک مقدس ہیں۔ نندھیر کو ہی لے لیجئے جو حضور نظام دکن کی ریاست کی حدود کے اندر واقع ہے۔ ان میں سے کبھی بھی کسی کے متعلق یہ نہیں کہا گیا کہ اسے سکھوں کے مذہبی مقدس مقام ہونے کی وجہ سے پنجاب کے ساتھ ملحق کر دیا جائے۔ بالخصوص نندھیر کا مقام اس لئے قابل ذکر ہے کہ وہ ایک مسلمان حکمران کی راجدھانی میں واقع ہے مگر آج تک سکھوں کی طرف سے کبھی ایسی شکایت نہیں آئی کہ اس مقام کے بارے میں مسلمانوں کی طرف سے انہیں کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہو یا وہاں کی حکومت نے ان کے ساتھ کوئی متعصبانہ برتائو کیا ہو۔
۱۹۔ پھر اگر کسی فرقے کے مقدس مقامات یا ان کی مذہبی عبادت گاہیں یا یادگاریں تقسیم کے اصول کی بنیاد بن سکتی ہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشرقی پنجاب کے اضلاع میں وہ تمام مقامات جہاں مسلمان بزرگوں اور بادشاہوں کے مزار` ان کی بنائی ہوئی مسجدیں اور ان کے مقدس مقامات موجود ہیں مغربی پنجاب میں شامل کر دیئے جائیں۔ آپ کو علم ہے کہ مشرقی پنجاب میں بیسیوں مقامات پر جہاں مسلمان بزرگوں اور ان کے مشائخ اور ان کے اولیاء کے مزار اور ان کی مقدس یادگاریں موجود ہیں۔ ہر سال بڑی تعداد میں میلے اور عرس منعقد ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض اتنے اہم ہوتے ہیں کہ گورنمنٹ کے مقامی دفاتر میں ان دنوں میں تعطیلات کر دی جاتی ہیں تاکہ عوام ان میں شامل ہوسکیں۔ پس مسلمانوں میں بھی عقیدت کے جذبات کی ہرگز کمی نہیں اور اگر یہی اصول کارفرما ہو تو ہمیں بہرحال ان کی عقیدت اور ان کے مذہبی جذبات کا ویسے ہی احترام کرنا پڑے گا جیسے کہ سکھ صاحبان کے جذبات کا۔
۲۰۔ ان دنوں اخبارات میں اس امر کا بھی خاصہ چرچا ہے اور اسے باقاعدہ ایک مہم کی صورت میں چلایا جارہا ہے کہ پنجاب کی تقسیم جائداد کے اصول کی بناء پر عمل میں لائی جائے۔ یعنی >مسلموں< اور >غیر مسلموں< کے مابین پنجاب کو ہر دو قوموں کے درمیان ملکیتی جائیداد کے معیار کے مطابق تقسیم کر دیا جائے۔ یہ دلیل بھی کسی طے شدہ بنیاد کے نہ ہونے کے سبب بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ جناب وائسرائے صاحب اپنی پریس کانفرنس منعقدہ ۴۔ جون ۱۹۴۷ء میں صاف اور واضح الفاظ میں اعلان فرما چکے ہیں۔
>ملک معظم کی حکومت تقسیم کے اصول کو ملکیتی جائداد کی بناء پر طے کیا جانا ہرگز پسند نہیں کرتی<۔
۲۱۔ اس ضمن میں بائونڈری کمشن کے دائرہ کار اور ان کے مقاصد کا ذکر کردینا بھی مناسب ہوگا۔ جناب وائسرائے صاحب نے مندرجہ بالا کانفرنس سے صرف ایک روز پیشتر مورخہ ۳۔ جون ۱۹۴۷ء کو ریڈیو پر ملک معظم کی حکومت کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کمشن کی مفوضہ ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرمایا تھا چنانچہ وائسرائے کے بیان کے پیراگراف ۹ میں کمشن کی ان ذمہ داریوں کا ذکر موجود ہے۔ اس پیراگراف میں جو الفاظ اور مضمون بیان کیا گیا ہے اس پر لیگ اور کانگرس دونوں کا اتفاق رائے موجود ہے۔ چنانچہ وائسرائے صاحب نے جو وضاحت اور تشریح فرمائی اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ >دیگر امور< کا جائداد یا ملکیتی زمین سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تشریح کے پیش نظر مسلم لیگ نے بائونڈری کمشن کے دائرہ کار اور اس کے مقاصد کی توثیق کردی۔ اب جبکہ مسلم لیگ اور کانگرس دونوں کمشن کے معین دائرہ کار کے متعلق متفق ہوچکے ہیں کمشن کے لئے ہرگز مناسب نہیں کہ وہ اپنے دائرہ کار کی حدود سے تجاوز کرے۔
۲۲۔ اس کے علاوہ یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلم لیگ کے ¶مطالبات میں جو اس میمورنڈم میں پیش کئے گئے ہیں تقسیم کا بنیادی اصول >آبادی< کو قرار دیا گیا ہے اور یہی اصول >غیر مسلم< اصحاب نے بھی تسلیم کیا ہے اور وائسرائے صاحب کا ۳۔ جون والا اعلان بھی اسی بنیاد کی توثیق کرتا ہے۔ چنانچہ وائسرائے صاحب نے فرمایا کہ غیر مسلم اصحاب کی طرف سے بعض صوبوں کی تقسیم کا جو مطالبہ کیا گیا ہے اس کی بنیاد بھی اسی اصول پر قائم ہے کہ جن علاقوں میں غیر مسلم اصحاب کی اکثریت ہے انہیں ان کی مرضی کے خلاف ہرگز ان علاقوں میں مدغم نہ کیا جائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ لہذا حقیقیت یہی ہے کہ >آبادی کی اکثریت< والا اصول ہی تمام تقسیم کی جان ہے اور ملک یا صوبہ جات کی اندرونی تقسیم تقاضا کرتی ہے کہ اسی اصول کو حقیقی بنیاد تصور کیا جائے۔ کسی اور معیار کو تقسیم کی بنیاد قرار دینا بالکل غیر متعلق ہوگا اور طے شدہ امور کے قطعی منافی ہوگا۔ ہز ایکسیلنسی وائسرائے صاحب نے صاف فرمایا ہے کہ۔
>کسی بھی بڑے علاقہ کو جہاں ایک فرقہ کی اکثریت ہے وہاں کے رہنے والوں کی مرضی کے خلاف کسی دوسرے بڑے علاقے میں جہاں وہ اقلیت میں ہو جاتے ہوں مدغم کرنا ہرگز درست نہیں ہوگا<۔
‏body2] [tag۲۳۔ چنانچہ اس اصول کے پیش نظر اگر جائداد کی بناء پر کسی بڑے علاقے کو جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اکثریت کی مرضی کے خلاف مشرقی پنجاب میں شامل کیا گیا اور انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ غیر مسلموں کی حکومت میں زندگی بسر کریں تو یہ تقسیم ملک اور تقسیم صوبہ جات کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
۲۴۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی نہایت مناسب ہوگی کہ جس حد تک زرعی زمینوں کی ملکیت کا سوال ہے )گو اس کا تقسیم ملک سے ہرگز کوئی تعلق نہیں اور نہ ہونا چاہئے( غیر مسلموں کا یہ دعویٰ کہ وہ مسلمانوں پر برتری رکھتے ہیں درست نہیں۔ صوبہ کے ان حصوں میں جہاں نئی آباد کاری ہوئی ہے اور جن میں ترقیاتی سکیمیں نافذ کی جارہی ہیں مسلمانوں کا حصہ دوسروں پر غالب ہے اور یقیناً ان کی تعداد کے لحاظ سے ان کی ملکیت اور آباد کاری کا تناسب بہت زیادہ ہے۔
۲۵۔ یہاں یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب مسلمانوں نے تقسیم ملک کا مطالبہ کیا تو منجملہ دیگر وجوہات کے تقسیم کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غیر مسلموں نے مسلمانوں کی دولت` ان کی ملکیت اور ان کے وسائل کو انتہائی ناجائز طریقے سے ہتھیانا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی دولت اور ان کی ملکیت آہستہ آہستہ کم ہوگئی اور غیر مسلموں کی دولت اور ملکیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب اگر تقسیم کا اصول >آبادی کی اکثریت< مان لیا جائے تو یہ انتہائی ستم ظریفی ہوگی کہ مسلمانوں کو ان علاقوں سے بھی محروم کر دیا جائے جہاں ان کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ بائونڈری کمیشن کے لئے اس حقیقت پر غور کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ اضلاع شاہ پور` لائل پور` شیخوپورہ` منٹگمری اور ملتان کے نوآبادیاتی رقبے درحقیقت مسلمانوں کی ملکیت تھے اور ان مسلمان قبائل کا گزارہ ان کے مویشیوں پر اور ان کی زرعی زمینوں پر موقوف تھا لیکن جب ان علاقوں میں نہری آبپاشی کا طریق رائج ہوا تو یہ تمام علاقہ حکومت کی ملکیت قرار دے دیا گیا اور اسے دوسرے اضلاع کے لوگوں کے ہاتھ یا تو فروخت کردیا گیا یا بطور عطیہ جات دے دیا گیا۔ یہ حقیقت اتنی درد انگیز ہے کہ ان علاقوں کے مسلمان مالکان اراضی اس پر انتہائی احتجاج کرتے آئے ہیں۔
بہت سے غیر مسلم اصحاب جنہوں نے مذکورہ بالا اضلاع میں اراضی خریدی اور پھر اس پر مالکانہ حقوق حاصل کئے۔ انہوں نے اس زمین کی قیمت اس روپیہ میں سے دی جو وہ سودی کاروبار کے ذریعے حاصل کرچکے تھے۔ اس کاروبار کی تفصیل خود حکومت کے کاغذات ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ غریب کسان جو ان زمینوں پر آباد تھے۔ بنیوں کے سودی ہتھکنڈوں میں پھنس کر غربت` افلاس اور محرومی کی کس خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی حالت زار اس قدر نازک اور اتنی ناگفتہ بہ ہوچکی تھی کہ حکومت کو بھی مداخلت کرنا پڑی اور ۱۹۰۰ء میں ایک قانون >پنجاب اراضی ایکٹ ۱۹۰۰ء< بنایا گیا جس کی رو سے سودی بنیاد پر زمین کا حصول ناجائز قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوئی مسٹر کیلورٹ اور سر میلکم ڈارلنگ کی تحقیقاتی رپورٹوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں کسانوں کی حالت بدستور ابتر رہی۔ حتیٰ کہ صرف چند برس پیشتر پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کو ایسے اقدامات اختیار کرنے پڑے جن سے ان عام زمینداروں اور مزارعین کو اشک شوئی کے طور پر کچھ امداد ملنا مقصود تھی اور ان کی تکالیف کا کسی قدر ازالہ ہوتا تھا۔ لہذا ایسے حالات میں ان تمام حقائق کے باوجود اگر تقسیم کی بنیاد پھر بھی >جائداد< ہی تصور کی جائے تو یہ زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات ہوگی۔
‏]2ydob [tag۲۶۔ جہاں تک مغربی پنجاب کا تعلق ہے میں واضح طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مغربی پنجاب میں کسی فرقے کے ساتھ اس کی مملوکہ جائداد کی بنیاد پر سلوک نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی وہاں کی حکومت کسی کی جائداد میں مداخلت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لہذا جائداد کو پنجاب کے دو)۲( حصوں کی تقسیم کی بنیاد قرار دینا بالکل بعید از قیاس ہے۔
۲۷۔ اس ضمن میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ غیر مسلم اصحاب یا سکھ صاحبان پر پنجاب کی تقسیم ٹھونسی نہیں جارہی بلکہ اس تقسیم کا مطالبہ وہ خود کررہے ہیں اور جیسا کہ وائسرائے صاحب نے اعلان فرمایا ہے صوبہ میں اس تقسیم کی بنیاد >غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے< ہیں۔ پس غیر مسلم اصحاب کا اس بنیاد کو چھوڑ کر دوسرے معیار اختیار کرنا اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ کشمکش اور تعصب کی فضا پیدا کرنا ہرگز درست نہیں۔
۲۸۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ >مشرقی پنجاب< نے بھارت کی حکومت کا ایک حصہ بننا منظور کیا ہے اور اس لحاظ سے وہ اپنی آبادی` وسائل اور سرحدات کے اعتبار سے بھارت کی حکومت کا ایک نہایت موثر اور دور رس جزو بن جائے گا۔ یہ پوزیشن پاکستان کے دونوں حصوں میں سے کسی ایک صوبے کو بھی اتنی مستحکم طور پر حاصل نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان کے وسائل ہندوستان کے مقابلہ میں نسبتاً بہت تھوڑے ہوں گے۔ پس >آبادی کی اکثریت< والے معیار کو چھوڑ کر دوسری بنیادوں کو وقوع میں لانا فقط اس لئے کہ مشرقی پنجاب کی سرحدات اور زیادہ آگے بڑھ جائیں یا یہ علاقہ مغربی پنجاب کے تھوڑے سے علاقے میں سے بھی کچھ اور ہتھیالے` ہرگز قرین انصاف نہیں۔ بھارت کی حکومت کے پاس تو پہلے ہی اتنا علاقہ ہے اور اتنے وسائل ہیں کہ وہ پاکستان کے علاقے کے وسائل اور اس کے رقبے سے کہیں زیادہ ہے۔
۲۹۔ یہاں ایک اور بات بھی خصوصیت سے نوٹ کرنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ سکھ صاحبان نے اپنے آپ کو بحیثیت قوم ہندو قوم میں مدغم ہونا قبول کرلیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ان کے نزدیک ان کے قومی مفادات وہی ہیں جو ہندو قوم کے ہیں۔ پس جب وہ اپنے قومی مفادات کو ہندو مفادات میں مدغم کردینا پسند کرتے ہیں تو پھر علیحدہ طور پر اپنے مخصوص مطالبات کیوں پیش کرتے ہیں؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اگر تقسیم خود ان پر ٹھونسی جاتی اور اس لحاظ سے وہ محسوس کرتے کہ وہ ایک کمزور اقلیت کی شکل میں تبدیل ہوگئے ہیں تب تو علیحدہ طور پر ان کے مطالبات کا پیش کیا جانا معقول بھی تھا اور مناسب بھی۔ لیکن سکھوں نے تقسیم کا مطالبہ خود کیا ہے اور انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے معاملہ میں بھی ہندوئوں کی مکمل ہمنوائی کی ہے۔ لہذا تقسیم کے مقاصد کے پیش نظر ہم سکھوں کو کوئی علیحدہ حیثیت ہرگز نہیں دے سکتے۔ وہ اصولی طور پر >غیر مسلم بلاک< میں ہی شامل ہیں کیونکہ انہوں نے خود اس میں شامل ہونا پسند کیا ہے۔
۳۰۔ اس میمورنڈم کے آغاز میں تقسیم کی جو بنیاد تجویز کی گئی ہے وہ دونوں صوبوں میں تحصیل دار >مسلمانوں< اور >غیر مسلموں< کی آبادی کے تناسب کے لحاظ سے تھی۔ یعنی تجویز یہ تھی کہ جس تحصیل میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اسے مغربی پنجاب کے ساتھ اور جس تحصیل میں غیر مسلموں کی اکثریت ہو اسے مشرقی پنجاب کے ساتھ شامل کر دیا جائے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ عیسائی صاحبان کی یہ خواہش ہے کہ پنجاب کی تحصیلوں میں عیسای آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد کا زیادہ سے زیادہ حصہ )جس حد تک ممکن ہوسکے( مغربی پنجاب میں شامل کر دیا جائے۔ اس نقطہ نظر سے تحصیلوں میں آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں اور عیسائیوں کا تناسب حسب ذیل ہوگا۔
تحصیل مسلم عیسائی میزان
۱۔ اجنالہ ۴ء ۵۹ % ۳ء ۵ % ۷ء ۶۴ فیصدی
۲۔ جالندھر ۱ء ۵۱ % ۵ء ۱ % ۶ء ۵۲ "
۳۔ نکودر ۴ء ۵۹ % ۶ء ۰ % ۰ء ۶۰ "
۴۔ زیرہ ۶ء ۶۵ % ۶ء ۱ % ۲ء ۶۷ "
۵۔ فیروز پور ۲ء ۵۵ % ۹ء ۱ % ۱ء ۵۷ "
۳۱۔ اس نقطہ نظر سے اگر ہم صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں سرحدات میں کچھ تھوڑی سی ترمیم کرنی پڑے گی ضلع ہوشیارپور کی تحصیل دوسوہہ میں کل آبادی ۲۷۳۲۴۶ ہے جس میں سے مسلمان ۱۳۲۱۰۵ ہیں۔ گویا کہ مسلمانوں کی آبادی ۴ء ۴۸ فیصدی ہے۔ عیسائیوں کی تعداد ۴۷۲۹ ہے۔ اب اگر مسلمانوں کی تعداد میں عیسائیوں کی تعداد بھی شامل کر دی جائے تو یہ تعداد ۱۳۶۸۳۴ بن جاتی ہے گویا کہ کل آبادی کے نصف سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے اس بناء پر تحصیل دوسوہہ کا حق ہے کہ اسے مغربی پنجاب میں شامل کیا جائے۔
۳۲۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بائونڈری کمشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے پنجاب کے دونوں حصوں کی تقسیم ایسے طریق پر کرے کہ اس کے عمل پر کسی جہت سے بھی وہ امور یا مصالح اثر انداز نہ ہوں جن کا تقسیم کی بنیاد سے کوئی تعلق نہیں اور تقسیم کی اصل بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی اکثریت والے علاقے جو مغربی یا مشرقی پنجاب کی سرحدات سے ملتے ہوں اپنی اپنی نوعیت کے لحاظ سے پنجاب کے ان دونوں حصوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق کر دیئے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ >دیگر امور< پر غور کرتے ہوئے یہ خطرناک فروگذاشت سرزد ہو جائے کہ ایسا علاقہ جو مسلمانوں یا غیر مسلموں کی اکثریت والا علاقہ ہے کسی ایسی حکومت کے ساتھ شامل کر دیا جائے جس کے ماتحت رہنا اس علاقے کی اکثریت پسند نہ کرتی ہو۔ اسی طرح ان >دیگر امور< کے پیش نظر ایسا بھی نہ ہو کہ علاقوں کی کتر و بیونت ایسے انداز سے کی جائے کہ جو اکثریت والا علاقہ ہے وہ تبدیل ہوکر اقلیت میں رہ جائے۔ یہ ہر دو صورتیں انصاف کے صریح خلاف ہوں گی۔
۳۳۔ یہ وہ خطوط ہیں جن کی بناء پر ہم بائونڈری کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی بناء پر پنجاب کو مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ہمیں اپنی نیک نیتی پر پورا یقین ہے اور اس کے ساتھ اپنے مقصد کی سچائی پر پورا بھروسہ ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر جو ارحم الراحمین ہے اور جو مشرق و مغرب کا مالک ہے` کامل یقین ہے اسی خدا کے حضور ہم عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ کمشن کے ممبران کی خود رہنمائی فرمائے اور ان لوگوں کو بھی صحیح اور سچا راستہ دکھائے جو اس تمام کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے بندوں کی صحیح خدمت کرسکیں۔ اور امن و امان کے ساتھ آپس میں مل جل کر زندگی بسر کرسکیں تاکہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو اور اس کی عزت اور شان و شوکت تمام قلوب میں راسخ ہو جائے کیونکہ وہی ہستی ہے جو تمام چیزوں سے بالا ہے اور ہر لحاظ سے واجب عزت اور لائق صد احترام ہے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ آمین۔
گوشوارہ نمبر ۱
مغربی پنجاب کے اضلاع میں فرقہ وارانہ نقشہ آبادی
عیسائی اور اونچی ذات کے اچھوت اقوام سکھ مسلمان کل آبادی کل رقبہ
دوسرے لوگ ہندو )مربع میل میں(
۴۵۰۰۹۷ ۲۰۳۶۱۷۶ ۳۳۶۹۴۳ ۱۶۸۳۸۵۳ ۱۳۳۲۳۵۸۵ ۱۶۸۳۰۶۵۴
۷ء ۲ % ۱ء ۱۲ % ۰ء ۲ % ۰ء ۱۰ % ۲ء ۷۳ % ۱۰۰ %
گوشوارہ نمبر ۲
نقشہ آبادی مغربی پنجاب بلحاظ ان تجاویز کے جو میمورنڈم میں پیش کی گئی ہیں
عیسائی اور اونچی ذات کے اچھوت اقوام سکھ مسلمان کل آبادی کل رقبہ
دوسرے لوگ ہندو )مربع میل میں(
۵۰۴۷۲۵ ۲۴۹۸۴۷۳ ۵۴۸۳۶۰ ۲۶۰۴۷۱۲ ۱۴۲۷۱۶۷۶ ۲۰۴۲۷۹۴۶
۴۷ء ۲ % ۲۴ء ۱۲ % ۶۸ء ۲ % ۷۵ء ۱۲ % ۸۶ء ۶۹ % ۱۰۰ %
گوشوارہ نمبر ۳
تحصیل ہائے اجنالہ` فیروزپور` نکودر` زیرہ` جالندھر اور ملحقہ مسلم اکثریت والے علاقوں میں نقشہ آبادی
عیسائی اور اونچی ذات کے اچھوت اقوام سکھ مسلمان کل آبادی کل رقبہ
دوسرے لوگ ہندو )مربع میل میں(
۳۹۹۰۲ ۳۰۶۴۶۵ ۱۹۶۱۵۲ ۴۷۹۷۰۷ ۱۴۴۰۵۹۹ ۲۴۶۲۸۲۵
۶۲ء ۱ % ۴۴ء ۱۲ % ۹۷ء ۷ % ۴۸ء ۱۹ % ۴۹،۵۸ % ۱۰۰%
)ترجمہ(۱۶۷
ملک محمد یونس خان صاحب کا بیان
جناب ملک محمد یونس خاں صاحب ایمن آبادی ریٹائرڈ سنیئر سپرٹنڈنٹ پولیس تحریر فرماتے ہیں کہ۔
>۱۹۴۷ء میں تقسیم پاکستان کے وقت جب چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب بائونڈری کمیشن کے سامنے پیش ہورہے تھے۔ اہم مواد قادیان سے لانے کے لئے جانا تھا۔ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے مطابق مسلح ہونا منع تھا۔ خاکسار اس وقت A۔I۔C اکبری گیٹ میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس لاہور میں تعینات تھا۔ خاکسار حضور )حضرت مصلح موعودؓ( کے ساتھ تین دن کی چھٹی لے کر )لاہور سے( قادیان گیا۔ امرتسر سے پیر صلاح الدین صاحب بھی ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ دوسرے دن ریکارڈ لے کر ہم واپس لاہور آگئے<۔۱۶۸
)پیر صلاح الدین صاحب ۱۹۴۶ء سے امرتسر میں بحیثیت مجسٹریٹ متعین تھے۔ مرتب(
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبکی قائداعظم سے ملاقات اور مسلم لیگ کے محضرنامہ اور حد بندی کمیشن کے مفصل واقعات
چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات میں حد بندی کمیشن کے سلسلہ میں قائداعظم سے ملاقات` مسلم لیگ کے محضر نامہ اور ریڈ کلف ایوارڈ سے
متعلق اپنے پیش آمدہ اور چشم دید واقعات پر نہایت شرح و بسط سے قلم اٹھایا ہے اور اس سلسلہ میں بعض نہایت پراسرار گوشوں کو پہلی بار بے نقاب کیا ہے۔
جناب چودھری صاحب موصوف کے بیان فرمودہ واقعات تحریک پاکستان کا ایک اہم باب ہیں اور ان کے بغیر ہماری کوئی قومی و ملی تاریخ مکمل نہیں قرار دی جاسکتی۔ لہذا ان کا موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کیا جانا ضروری ہے۔
حضرت چودھری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ۔
>لارڈ موئنٹ بیٹن وائسرائے بن کر آئے تو آزادی کے متعلق ضروری انصرامات اور درمیانی مراحل جلد جلد طے ہونا شروع ہوئے۔ ۱۹۴۷ء کے دوران میں کیا کیا اتار چڑھائو ہوئے۔ کیا کیا چالیں چلی گئیں۔ کونسے منصوبے کامیاب ہوئے اور کون سے ناکام` بنی نوع انسان کا کن بلند گھاٹیوں اور کن پست وادیوں سے گزر ہوا اور یہ سال اپنے پیچھے کتنی نیک یادیں اور منحوس ورثے چھوڑ گیا۔ ان کا شمار کرنا اور ان کی صحیح تصویر پیش کرنا ایک دیانت دار` راست جو` محنتی اور خداترس مورخ کو چاہتا ہے جو کسی وقت ضرور پیدا ہوگا لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا۔
برطانوی وزیراعظم نے اپنے ۳۔ جون ۱۹۴۷ء کے بیان میں تقسیم ملک کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کے ہوتے ہی میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے فیڈرل کورٹ سے علیحدہ ہو جانا چاہئے چنانچہ میں نے اپنا استعفاء بھیج دیا کہ ۱۰۔ جون سے میں عدالت سے علیحدہ ہو جائوں گا اس وقت میرا ارادہ تھا کہ تقسیم کے بعد میں لاہور میں وکالت کی پریکٹس شروع کروں گا۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ ان دنوں عالی جناب نواب سر حمید اللہ خاں صاحب معلیٰ القاب والئی بھوپال دلی میں فروکش تھے۔ جب انہیں میرے ارادے سے اطلاع ہوئی تو انہوں نے کمال شفقت سے فرمایا کہ تم کچھ عرصے کے لئے بھوپال میرے پاس آجائو تاکہ میں اس مشکل مرحلے میں جو والیان راست کو درپیش ہے تم سے مشورہ کرسکوں۔ جناب نواب صاحب کی طرف سے میں پہلے بھی بہت کریمانہ الطاف کا مورد رہا تھا۔ ان کا ارشاد میرے لئے واجب التعمیل تھا۔ چنانچہ میں عدالت سے علیحدہ ہوتے ہی بھوپال چلا گیا۔ چونکہ ابھی کوئی صحیح اندازہ نہیں تھا کہ بھوپال میں کتنا عرصہ قیام ہوگا اور اس کے بعد کیا حالات ہوں گے۔ اس لئے ہم نے اپنا ذاتی سامان سترہ بڑے بڑے کھوکھوں میں احتیاط کے ساتھ محفوظ کرکے ایک دوست کے ہاں پرانی دلی میں رکھوا دیا۔ چند دن بعد ہی دلی میں بے چینی اور بدامنی کے آثار شروع ہوگئے اور جوں جوں تقسیم کی تاریخ قریب آتی گئی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ اس کے بعد معلوم نہ ہوسکا ہمارے سامان کا کیا حشر ہوا۔ جہاں انسانی جان` عزت آبرو کی کوئی قدر باقی نہیں رہ گئی تھی اور لاکھوں انسان ہر نوع کی وحشت اور بہیمیت کا شکار ہورہے تھے وہاں محض سامان کے متعلق دریافت بھی کرنا سنگدلی کے مترادف ہوتا۔ نہ ہم نے پوچھا نہ کچھ معلوم ہوا۔
بھوپال میں ہمارے لئے مکان` سامان ہر سہولت عالی جناب نواب صاحب کے فرمان سے مہیا کر دی گئی تھی اور جتنا عرصہ ہم بھوپال میں ٹھہرے ہم نے بفضل اللہ بہت آرام پایا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ جب آزادی ہند کے ایکٹ کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش ہونے کا وقت قریب آیا تو عالی جناب نواب صاحب نے خاکسار کو ارشاد فرمایا۔ تم دو ہفتے کے لئے لندن چلے جائو۔ تمہاری وہاں بہت سے اراکین پارلیمنٹ سے شناسائی ہے۔ تم وہاں یہ جائزہ لینا کہ مسودے پر بحث کے دوران میں کیا کسی ایسی وضاحت کا امکان ہے جس سے نئے آئین میں والیان ریاست ہائے ہند کے حقوق کی حفاظت ہوسکے۔ اگر ایسا کوئی موقعہ ہو تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا۔ میں جناب نواب صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں سفر انگلستان کے لئے تیار ہوا۔ تو دلی سے پیغام آیا کہ جناب قائداعظم نے خاکسار کو طلب فرمایا ہے۔ چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا۔ پنجاب میں جو کمیشن حد بندی کے لئے قائم کیا جانے والا ہے اس کے روبرو مسلم لیگ کی طرف سے وکالت کی ذمہ داری ہم تمہارے سپرد کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے گزارش کی` میں حاضر ہوں لیکن جناب نواب صاحب کے ارشاد کے ماتحت میں عازم انگلستان ہونے والا ہوں۔ مجھے معلوم نہیں کمیشن کی کارروائی کب شروع ہوگی اور مجھے تیاری کے لئے کتنا وقت ملے گا۔
قائداعظم: تم انگلستان کتنا عرصہ ٹھہرو گے؟
ظفر اللہ خاں: میرا اندازہ تو پندرہ دن کا ہے۔
قائداعظم: پھر تمہیں کوئی فکر نہیں ہونا چاہئے۔ کمشن کی کارروائی کے شروع ہونے میں ابھی خاصی دیر ہے۔ ابھی تو کوئی امپائر بھی مقرر نہیں ہوا۔
ظفر اللہ خاں: امپائر کے متعلق میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں ہمیں کسی ایسے شخص کے تقرر پر مصر رہنا چاہئے جس کی دیانت پر پورا اعتماد ہوسکے۔ آپ لندن کی رہائش کے زمانے میں پریوی کونسل کے روبرو پریکٹس کرتے رہے ہیں۔ آپ کو اتفاق ہوگا کہ برطانوی APPEAL OF LORDS اپنے ماحول اور اپنے فرائض کے لحاظ سے نہایت دیانتدار اور غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ آپ زور دیں کہ ان میں سے کسی کو امپائر مقرر کیا جائے۔ ہر انسان غلطی کرسکتا ہے لیکن ہمیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ جو صاحب مقرر ہوں وہ کسی کے اثر رسوخ کے ماتحت یا کسی کے کہنے کہلانے کے نتیجہ میں کوئی فیصلہ نہ کریں۔
قائداعظم: میں تمہارے مشورے کو ذہن میں رکھوں گا۔
ظفر اللہ خاں: آپ کو کوئی اندازہ بتایا گیا ہے کہ مجھے تیاری کے لئے کتنا عرصہ درکار ہوگا؟
قائداعظم: جیسے میں نے کہا ہے تمہیں کافی وقت میسر ہوگا۔ لاہور کے وکلاء نے پورا کیس تیار کرلیا ہوگا تمہیں صرف اپنے دلائل کو ترتیب دینا ہوگا اور اسلوب بحث طے کرنا ہوگا۔
ظفر اللہ خاں: میں لندن سے واپسی پر کراچی سے سیدھا لاہور چلا جائوں گا۔ وہاں میں کس کو اطلاع دوں؟
قائداعظم: نواب ممدوٹ سب انتظام کریں گے۔
جناب قائداعظم سے رخصت ہوکر لندن چلا گیا۔ جب وزیراعظم اٹیلی نے ایکٹ آزادی ہند کا مسودہ ایوان عام میں پیش کیا تو میں ایوان کی گیلری میں موجود تھا۔ وزیراعظم کی تقریر بہت صاف اور واضح تھی لیکن ایک امر سے مجھے حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بیان کیا` ہم تو چاہتے تھے کہ لارڈ مونٹ بیٹن ہندوستان اور پاکستان دونوں کے آزادی کے بعد پہلے گورنر جنرل ہوں لیکن افسوس ہے کہ مسٹر جناح رضامند نہ ہوئے۔ قائداعظم کے متعلق افسوس کا اظہار مجھے پسند نہ ہوا۔ اس تفصیل کا ذکر اول تو ضروری نہیں تھا اور اگر وزیراعظم کی رائے میں یہ ذکر ضروری اور مناسب تھا تو ساتھ ہی یہ بھی مناسب تھا کہ وہ کہتے کہ اس تجویز پر اتفاق نہ ہوا۔ قائداعظم کا نام لے کر اظہار افسوس سے ترشح ہوتا تھا کہ وزیراعظم کو اس تجویز کے ناکام رہنے پر قائداعظم سے ذاتی رنج تھا اور انہوں نے ایوان کے سامنے اس رنج کو یوں تشہیر کیا۔ بعد میں متعدد مواقع پر ان سے ایسی حرکات سرزد ہوئیں جن سے میرے اس قیاس کو تقویت پہنچی یوں بھی مسٹر اٹیلی حسن خلق کا نمونہ شمار نہیں ہوتے رہے۔
سر سیموئیل ہورجو گول میز کانفرنس کے دوران میں وزیر ہند ہوئے تھے بعد میں وزیر بحر اور پھر وزیر خارجہ ہوئے اورPACT LAUAL ۔HOAR کے ردعمل کے نتیجے میں مستعفی ہوئے۔ اپنی ہسپانوی سفارت کا عرصہ میڈرڈ میں گزار کر واپس آچکے تھے۔ میڈرڈ میں حسن کارکردگی کے صلے میں وہ VISCOUNT بنا دیئے گئے تھے اور اب TEMPLEWOOD LORD کے نام سے ایوان الامراء کے رکن تھے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے لندن آنے کی غرض بیان کی۔ انہوں نے فرمایا۔ میں اس معاملے میں ایوان الامراء میں کچھ وضاحت حاصل کرنے کی سعی کروں گا۔ جب مسودہ ایوان عام سے منظور ہوکر ایوان الامراء میں زیر بحث آیا تو دوران بحث میں لارڈ ٹیمپل وڈ نے سوال کیا کہ والیان ریاست ہائے سے متعلق شق سے کیا یہ مراد ہے کہ آزادی کے بعد ایک والئی ریاست کو اختیار ہوگا کہ ہندوستان کے ساتھ ریاست کی طرف سے الحاق کرے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے یا اگر پسند کرے تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق نہ کرے۔ آزاد رہے؟
ایوان الامراء میں مسودے کی نگہداشت نائب وزیر ہند LISTOWEL LORD کے سپرد تھی۔ انہیں اس سوال کی توقع بھی نہیں تھی اور یہ سوال ان کے لئے پریشان کن بھی تھا۔ وزیراعظم بہت محتاط تھے کہ پارلیمنٹ میں مسودے کے زیر بحث آنے پر والیان ریاست کے متعلق کسی ایسی بات پر زور نہ دیا جائے جس پر کانگریس بگڑ بیٹھے۔ شق متعلقہ کے الفاظ واضح تھے اور ان کی صحیح تعبیر وہی تھی جو لارڈ ٹیمپل وڈ نے اپنے سوال میں پیش کی لیکن لارڈ لسٹوئیل کھلے الفاظ میں اسے تسلیم کرنے سے جی چراتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جواباً صرف اپنے سر کو اثباتی جنبش دے دی جس پر لارڈ ٹیمپل وڈ نے فوراً یہ کہہ کر ان کی جنبش سر کو ریکارڈ پر ثبت کر دیا۔THE THAT IT TAKE I ASSUMPTION MY CONFIRMS NOD LORD`S NOBLE جناب نواب صاحب نے بعض نجی امور کے متعلق مجھے ہدایت فرمائی تھی کہ میں ان کی طرف سے ہزہائی نیس جناب آغا خاں کی رائے دریافت کروں۔ لندن پہنچنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ہزہائی نیس پیرس میں ہیں۔ میں نے وہاں ان کی خدمت میں گزارش ارسال کی کہ خاکسار شرف ملاقات کا متمنی ہے۔ ان کا تار آیا۔ کل شام مجھے RITZ میں ملو اور میرے ساتھ کھانا کھائو۔ دوسرے دن جب میں RITZ پہنچا اور CONCIERGE سے اطلاع کرنے کو کہا تو GEORGE نے مجھ سے کہا۔ ہزہائی نس ابھی ابھی پہنچے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کے دل میں تمہاری بہت قدر ہے کیونکہ آج پیرس کے گھوڑ دوڑ کے میدان LONGCHAMPS میں پرنس علی خاں کا گھوڑا PRIZE GRAND میں اول آیا ہے اور اس وقت جو ڈنر پرنس علی خاں کے اعزاز میں دیا جارہا ہے اس میں ہزہائی نیس کی شمولیت دونوں باپ بیٹوں کے لئے بہت خوشی اور فخر کا موجب ہوتی لیکن ہزہائی نیس تمہیں ملنے کے لئے یہاں چلے آئے ہیں مگر ہیں بہت خوش۔ تم اوپر جاتے ہی سب سے پہلے اس جیت پر مبارک باد دینا )جارج سترہ سال سے مجھے جانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ ہزہائی نیس میرے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتے ہیں۔ جارج اور RITZ ایک قسم کے توام تھے۔ بڑا لمبا عرصہ ان کا جوڑ رہا۔ جارج کی سرگزشت جو ایک لحاظ سے RITZ اور RITZ میں ٹھہرنے والوں کی سرگزشت ¶ہے RITZ THE OF GEORGE کے نام سے چھپ چکی ہے(
ہزہائی نیس خاکسار کے ساتھ اسی شفقت سے پیش آئے۔ جو آپ کا خاصہ تھی۔ امور مشورہ طلب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرماتے رہے۔ لیکن یہ گفتگو ایک مجلس میں ختم نہ ہوسکی۔ فرمایا کل دوپہر مجھے واپس پیرس جانا ہے۔ یہاں سے روانہ ہوکر BANK COUTTS میں جائوں گا۔ اگر تم دس بجے صبح مجھے وہاں مل جائو تو میں بقیہ امور کے متعلق وہاں تمہیں نوٹ لکھوا دوں گا BANK) COUTTS پرائیویٹ بینک ہے۔ بڑی مدت سے قائم ہے اور نہایت قابل اعتماد ہے۔ شاہی خاندان کے حسابات بھی اسی بینک کے ساتھ ہیں( میں وقت مقررہ پر STRAND میں بینک کے وقت میں حاضر ہوگیا۔ الگ بیٹھ کر ہز ہائی نیس نے بقیہ امور کے متعلق بھی اپنا مشورہ نوٹ کروا دیا اور وہیں سے واپس پیرس روانہ ہوگئے۔
میں ابھی لندن میں ہی تھا کہ RADCLIFFE CYRIL SIR کے حد بندی کمشن کے امپائر ہونے کا اعلان ہوگیا۔ مجھے MALL PALL کا وہ مقام خوب یاد ہے۔ جہاں میں نے یہ اعلان اخبار میں دیکھا اور یہ بھی خوب یاد ہے کہ میری طبیعت اس خیال سے بہت پریشان ہوئی کہ جناب قائداعظم نے ایک پریکٹس کرتے ہوئے بیرسٹر کو جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں کیسے امپائر تسلیم کرلیا۔ ان پر تو کئی قسم کا اثر ڈالا جانے کا امکان ہوسکتا ہے۔ پھر خیال آیا کہ محض قیاس کی بناء پر پریشان ہونا بے کار ہے۔ کیوں نہ ان سے مل کر ان کے متعلق رائے قائم کی جائے۔ میں نے حاضر خدمت ہونے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اپنے مکان واقع HIGHGATE پر ملنے کا وقت عطا فرمایا۔ اس سے مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ سفر کی تیاری میں مصروف ہونے کے باوجود عدم فرصت کی بناء پر عذر نہیں کیا۔ پھر اپنے دفتر یا ایوان عام میں طلب نہیں فرمایا جس سے ترشح ہوتا کہ رسمی علیک سلیک کے سوائے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ تو نہ میری نیت تھی نہ مناسب تھا کہ میں ان سے ان کے فرائض سے متعلق کوئی ایسی بات چیت کرتا جو ان کی رائے یا فیصلے پر اثر انداز ہوسکتی۔ لیکن وہ مجھے جانتے نہیں تھے اس لئے میری نیت یا ارادے کے متعلق کوئی قیاس نہیں کرسکتے تھے۔ پھر بھی ان کا مجھے ملاقات کے لئے وقت دینا کم سے کم یہ ظاہر کرتا تھا کہ انہیں اپنے پر ضرور اعتماد ہے جو میرے لئے باعث اطمینان تھا۔ چنانچہ میں حاضر خدمت ہوا۔ گفتگو بالکل سرسری تھی۔ اپنے پروگرام کے متعلق اتنا فرمایا کہ میں جلد روانہ ہونے والا ہوں۔ لیکن جہاں تک میں اندازہ کرسکا ان کی طبیعت پر ان کے فرائض کی اہمیت اور ان کے سرانجام دینے کے متعلق کسی قسم کے شوق یا جوش کا تاثر نہیں تھا۔ میں ان کی ملاقات کے لئے پریشان لیکن کچھ اطمینان حاصل کرنے کی توقع میں گیا اور پریشان تر واپس آیا۔
لندن میں کم سے کم عرصہ ٹھہرنے کے بعد میں واپس روانہ ہوگیا اور کراچی ے سیدھا لاہور گیا۔ میں اپنے اندازے سے ایک دن قبل لاہور پہنچا۔ سٹیشن پر اصحاب کرام کا بہت ہجوم تھا۔ جناب نواب صاحب ممدوٹ یہ سن کر کہ RADCLIFFE CYRIL SIR لاہور پہنچ چکے ہیں اور دوسری صبح گیارہ بجے فریقین کے وکلاء کو طلب فرمایا ہے۔ حیرت اور پریشانی ہوئی۔ ساتھ ہی جناب نواب صاحب نے فرمایا۔ کل ۲/۱۔۲ بجے بعد دوپہر میرے مکان پر تمہاری ملاقات وکلاء کے ساتھ ہوگی۔ اس سے مجھے کچھ ڈھارس ہوئی کہ گو وقت تھوڑا ہے۔ مجھے اور تو کوئی کام ہے نہیں۔ وکلاء کے ساتھ متواتر مشورے کا پروگرام طے کرکے اللہ تعالیٰ کے فضل اور صبح شام تیاری میں صرف کرکے اور اس کی عطا کردہ توفیق سے بحث کے شروع ہونے تک کیس کا ڈھانچہ تیار ہوجائے گا۔ نواب صاحب نے ارشاد فرمایا۔ تمہارا قیام تو میرے ہاں ہی ہوگا؟ میں نے گزارش کی میں اپنے دیرینہ کرمفرما جناب سرسید مراتب علی صاحب کے ہاں ٹھہرنے کا انتظام کرچکا ہوں۔ ان کا مکان آپ کے دولت کدے سے بہت قریب ہی ہے )اس گفتگو کے دوران میں ہم سٹیشن سے باہر نکل رہے تھے۔ جناب نواب صاحب میری بائیں جانب تھے اور جناب ملک سرفیروز خاں نون صاحب میرے دائیں ہاتھ پر تھے۔ جناب ملک صاحب نے جناب نواب صاحب کا آخری جملہ سنتے ہی جھک کر میری کان میں کہا ان کے ہاں نہ ٹھہرنا۔ ان کا مکان تو ریلوے جنکشن کی طرح ہر وقت پرہجوم رہتا ہے۔ تمہیں کام کی طرف توجہ کرنا دشوار ہوگا اور بالکل یکسوئی حاصل نہیں ہوگی۔ میں نے جو گزارش نواب صاحب کی خدمت میں کی تھی جناب ملک صاحب سے دوہرا دی۔ ان کا اطمینان ہوگیا( پھر نواب صاحب نے فرمایا۔میرے پاس دو کاریں ہیں۔ بڑی کار میں تمہارے استعمال کے لئے تمہاری جائے قیام پر بھیج دوں گا۔ میں نے گزارش کی نواب صاحب میں یہاں کام کرنے کے لئے آیا ہوں سیر کرنے نہیں آیا۔ اپنے کام کے متعلق جو آنا جانا ہوگا۔ اس کے لئے سواری کی ضرورت بے شک ہوگی` اس کا جو بھی مناسب انتظام ہو آپ فرما دیں۔ اس کے علاوہ مجھے کسی سواری کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ یہ سوموار کی شام تھی۔
منگل کی صبح ۱۱ بجے ہم سرسیرل ریڈ کلف کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ کمشن کے اراکین جناب خان بہادر شیخ دین محمد صاحب` جناب مسٹر محمد منیر صاحب` جناب لالہ مہر چند ` چند مہاجن صاحب اور جناب سردار تیجا سنگھ صاحب بھی موجود تھے۔ سرسیرل نے کمشن کا پروگرام یہ بتایا کہ سب فریق آئندہ جمعہ کی دوپہر تک اپنے تحریری بیان داخل کر دیں۔ آئندہ سوموار کو کمشن زبانی بحث کی سماعت شروع کرے گا۔ میں خود سماعت میں شریک نہیں ہوں گا کیونکہ اگر کمشن بالاتفاق یا کثرت رائے سے حد بندی کردے تو میری طرف سے کسی دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہوگی۔ میرا کام صرف اس صورت میں فیصلہ دینا ہے کہ کمشن کے اراکین کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکیں نہ بالاتفاق نہ کثرت رائے سے۔ لیکن کمشن کے روبرو جو کچھ بیان کیا جائے گا۔ اس کی تفصیلی رپورٹ ہر روز مجھے بھیج دی جایا کرے گی۔ یہ پروگرام بھی میرے لئے پریشانی کا باعث تھا۔ منگل کی دوپہر ہوچکی تھی اور تحریری بیانات جمعہ کی دوپہر تک داخل کئے جانے تھے۔ مجھے اتنا بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ کون وکلاء صاحبان کام کریں گے۔ آیا انہوں نے تحریری بیان تیار کرلیا ہے یا کس حد تک تیار کیا ہے۔ مجھے بحث کی تیاری کے لئے کیا کرنا ہوگا؟ اس تیاری کے لئے میرے رفقاء کہاں تک میری مدد کرسکیں گے؟ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہماری طرف سے کمشن کے روبرو کیا ادعا پیش ہونا چاہئے۔ میں اب بہت بے تابی سے ڈھائی بجے سہ پہر کا منتظر تھا کہ اپنے رفقاء اور مشیران سے مل کر ان سب امور کے متعلق تفاصیل معلوم کروں اور ہم سب مستعدی سے اپنے اپنے کام کے پیچھے لگ جائیں۔ اول تو جو کچھ بقیہ کام تحریری بیان کی تکمیل کے لئے ضروری ہو اسے سرانجام دیا جائے اور پھر بحث کی تیاری کی جائے۔
میں وقت مقررہ پر ممدوٹ ولا میں حاضر ہوگیا۔ وکلاء اصحاب کی تو کوئی کمی نہیں تھی۔ اکثر اصحاب کے ساتھ میں اپنی پریکٹس کے زمانے میں کام کرچکا تھا اور انہیں اچھی طرح سے جانتا تھا۔ بعض ان میں سے برسوں میرے سینئر تھے۔ ان کے علاوہ بھی بعض کے ساتھ میری جان پہچان تھی۔ یہ اجتماع ممدوٹ ولا کے گول کمرے میں تھا اور مجھے کسی قدر حیرت ہوئی کہ اتنی تعداد میں قانون دان اصحاب کو کیوں جمع کیا گیا ہے۔ میں نے سب صاحبان کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد کہا۔ صاحبان آپ میں سے کون کون صاحب اس کیس میں میرے رفیق کار ہیں؟ اس پر جناب ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین صاحب نے فرمایا کس کیس میں؟
ظفر اللہ خاں یہی تقسیم کے کیس میں جس کے لئے میں حاضر ہوا ہوں!
خلیفہ شجاع الدین ہمیں کسی کیس کا علم نہیں۔ ہم سے تو صرف یہ کہا گیا کہ تم تقسیم کے کیس کے لئے آئے ہو۔ اور مسلم لیگ کا کیس کمشن کے روبرو تم پیش کرو گے اور تمہیں ملنے کے لئے ہمیں اس وقت یہاں آنے کی دعوت دی گئی۔
میں نے جناب نواب صاحب کی طرف استفساراً دیکھا۔ آپ مسکرا دیئے!
میں نہایت سراسیمگی میں اٹھ کھڑا ہوا اور گزارش کی۔ آپ صاحبان سے معذرت چاہتا ہوں۔ وقت بہت کم ہے اور مجھے کیس کی تیاری شروع کرنا ہے۔ آپ کی تکلیف فرمائی کا ممنون ہوں۔ لیکن اب رخصت چاہتا ہوں جناب نواب صاحب کمر سے میرے ساتھ ہی باہر آئے اور میں نے ان کی خدمت میں گزارش کی۔ اس وقت تو مجھے کچھ سوجھ نہیں رہا۔ لیکن بہرصورت آئندہ دو دنوں میں تحریری بیان تیار کرنا ہے اور پھر اس کی تائید میں بحث کی تیاری کرنا ہے۔ کل صبح سے مجھے کچھ نہ کچھ لکھوانا ہوگا۔ آپ یہ انتظام فرما دیں کہ کل صبح دو اچھے ہشیار تیز رفتار سٹینو گرافر میرے پاس پہنچ جائیں اور کاغذ پنسل قلم دوات ٹائپ کی مشینیں وغیرہ تمام دفتری سامان ساتھ لیتے آئیں۔ میں انہیں باری باری لکھوانا شروع کروں گا۔ نواب صاحب نے فرمایا۔ تم فکر نہ کرو۔ زودنویس اور تمام دفتری سامان صبح سات بجے تمہاری قیامگاہ پر موجود ہوگا۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور اپنی بے کسی اور بے سروسامانی کے بوجھ سے لدا ہوا قیام گاہ پر واپس ہوا نماز میں درگاہ رب العزت میں فریادی اور ملتجی ہوا۔ الٰہی میں تن تنہا عاجز اور بے کس اور ذمہ داری اس قدر بھاری` اس امانت کی کماحقہا ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟ تو جانتا ہے میں تو بالکل خالی اور صفر ہوں لیکن تجھے ہر قدرت ہے تو اپنے فضل و رحم سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرما اور خود میرا ہادی و ناصر ہو۔
مجھے اپنی پریکٹس کے زمانے میں کئی بار بہت تھوڑے عرصے میں پیچیدہ مقدمات کی بحث کی تیاری کرنا پڑی تھی۔ لیکن یہ کوئی پریشان کن تجربہ نہیں تھا۔ ضروری کاغذات مہیا کر دیئے جاتے تھے۔ اہم مقدمات میں کوئی رفیق کار ساتھ شامل ہوتا تھا۔ موافق مخالف مواد اور عناصر پیش نظر ہوتے تھے۔ صرف یکسوئی اور توجہ درکار ہوا کرتے تھے۔ یہاں ذمہ داری تو اس قدر اہم اور گراں اور باقی صفر! اگر جناب قائداعظم لاہور میں تشریف فرما ہوتے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ہدایات طلب کرتا لیکن وہ دلی تشریف فرما تھے۔ ٹیلیفون پر بات ہوسکتی تھی۔ لیکن ٹیلیفون پر ہدایات حاصل کرنا مشکل تھا اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی احساس تھا کہ جو تیاری کیس کے متعلق ہونا تھی وہ تو مسلم لیگ کی لاہور کی قیادت کے ذمے تھی۔ میں اگر قائداعظم کی خدمت میں کچھ گزارش بھی کروں تو وہ ایک رنگ کا شکوہ ہوگی جو ان کی پریشانی کا موجب ہوگی۔ مجھے تو اس سے کچھ مدد مل نہیں سکے گی۔
میں نماز سے فارغ ہوا تو معلوم ہوا جناب خواجہ عبدالرحیم تشریف لائے ہیں۔ جناب خواجہ صاحب ان دنوں کمشنر راولپنڈی تھے لیکن لاہور میں پناہ گزینوں کے استقبال اور ان کی خبر گیری کا انصرام ان کے سپرد تھا۔ ان کا دفتر میری قیام گاہ کے مقابل کے بنگلے کے سامنے دو خیموں میں تھا۔ جناب خواجہ صاحب نے فرمایا۔ تمہارا وقت بہت قیمتی ہے۔ میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا۔ ایک تو میں یہ کاغذات لایا ہوں۔ میں کچھ عرصے سے اپنے طور پر سرکاری ریکارڈ میں سے دیہات` تھانہ جات` تحصیلوں اور اضلاع کے فرقہ وارانہ آبادی کے اعداد و شمار جمع کرنے کی طرف متوجہ تھا۔ یہ تمام صوبے کی آبادی کے نقشہ جات ہیں۔ ممکن ہے تمہیں کیس کی تیاری میں ان سے کچھ مدد مل سکے۔ دوسرے اگر تمہیں کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو میرے اختیار اور بس میں جو کچھ ہوگا میں حاضر ہوں۔ میرا دفتر سامنے ہی ہے اور یہ میرا ٹیلیفون نمبر ہے۔
میں نے خواجہ صاحب کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور وہ تشریف لے گئے۔ میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے لبریز ہوگیا اور میں نے یوں محسوس کیا کہ اس قادر و رحیم نے میری بے کسی پر رحم کی نظر ڈالی اور اپنی طرف سے ایک بے بہا خزانہ مجھے عطا فرمایا۔ میرے دل کی ڈھارس بندھی کہ جس قادر ہستی نے چند لمحوں کے اندر غیب سے اس قدر قیمتی مواد مجھے عطا فرمایا ہے جس کے بغیر میں ایک قدم بھی اٹھا نہیں سکتا تھا وہ ضرور بقیہ مراحل میں بھی میری دستگیری فرمائے گا اور اپنی رحمت سے مجھے فہم اور توفیق عطا فرمائے گا۔ ساتھ ہی چار وکلاء صاحبان تشریف لے آئے۔ جناب صاحبزاد نصرت علی صاحب اور جناب شیخ نثا راحمد صاحب منٹگمری سے۔ جناب سید محمد شاہ صاحب پاک پٹن سے اور جناب چوہدری علی اکبر صاحب ہوشیارپور سے اور فرمایا ہم تمہارے ساتھ شریک کار ہوں گے۔ جو خدمت چاہو ہم سے لو۔ یہ مزید فضل اللہ تعالیٰ کا ہوا کہ اس نے چار بااخلاص مستعد کام کرنے والوں کے دل میں تحریک کی کہ وہ میرے ساتھ آکر شامل ہوں اور میرے مشیر اور معاون ہوں۔ لاہور کے وکلاء میں سے جناب احمد سعید صاحب کرمانی وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے اور جس کام کے لئے ان کی خدمت میں گزارش کی جاتی اس کی طرف توجہ فرماتے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین۔
میرے چاروں رفقائے کار نے نہایت محنت` مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ دن رات میرے کام میں تعاون کیا۔ ہر قسم کی تکلیف برداشت کی لیکن نہ صرف یہ کہ حرف شکایت زبان پر نہ آیا بلکہ ماتھے پر کبھی تیور بھی نہ آیا اور تمام وقت پوری بشاشت کے ساتھ مصروف کار رہے۔ ہر مرحلے پر ان کا مشورہ میرے لئے حوصلہ بڑھانے کا موجب ہوا اور ان کا مشفقانہ تعاون میرے لئے قلبی اطمینان کا موجب ہوا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
جناب چوہدری علی اکبر صاحب کے سپرد آبادی کے اعداد و شمار کی تصدیق اور ضروری معلومات کا بہم پہنچانا تھا۔ انہوں نے اپنے فرائض کو بڑی مستعدی سے نباہا۔ اگرچہ انہیں ان کی سرانجام دہی میں بہت دوڑ دھوپ کرنا پڑی۔ جولائی کے مہینے میں لاہور کا موسم بہت ناسازگار رہتا ہے۔ لیکن جناب چوہدری صاحب کے رستے میں موسم کی شدت کسی قسم کی روک پیدا نہ کرسکی۔ چور ہوکر آتے اور اپنے کام کی رپورٹ سناکر فرش پر ہی دراز ہو جاتے اور کوفت سے آرام حاصل کرتے۔ کمشن کے روبرو بحث کے دوران میں جب کبھی آبادی کے اعداد و شمار کے متعلق فریقین کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا تو ایک صاحب فریق مخالف کی طرف سے اور جناب چوہدری صاحب ہماری طرف سے نامزد کئے جاتے کہ دفتر آبادی میں جاکر متنازعہ اعداد و شمار کی تصدیق کریں اور بفضل اللہ ہر بار ہمارے پیش کردہ اعداد و شمار کی تصدیق ہوتی۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جناب خواجہ عبدالرحیم صاحب نے جو نقشہ جات ہمیں عنایت فرمائے تھے وہ بہت محنت اور توجہ سے تیار کئے گئے تھے۔
جناب خواجہ صاحب کے تشریف لے جانے اور وکلاء صاحبان کی تشریف آوری کے بعد ہم نے طبعاً پہلا کام یہ کیا کہ طریقہ تقسیم کے متعلق سرکاری بیان کا مطالعہ کیا اور اس کا تجزیہ کیا اور ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کے لئے معیار کا تجویز کرنا لازم ہے۔ گائوں تو عملاً ایسا معیار
‏vat,10.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
بن نہیں سکتا تھا کیونکہ بعض علاقوں میں ایک گائوں میں اگر مسلم اکثریت تھی تو ساتھ کے گائوں میں غیر مسلم اکثریت تھی۔ اس بناء پر کوئی معقول حد بندی تجویز نہیں ہوسکتی تھی۔ تھانہ کو اگر معیار تجویز کیا جاتا تو اس صورت میں بھی یہی مشکل بہت جگہ درپیش تھی۔ دراصل انتخاب تحصیل اور ضلع کے درمیان تھا گو ہم نے یہ بھی طے کیا کہ بحث کے دوران میں ہماری طرف سے کمشنری اور دوآبوں کو معیار اختیار کرنے کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے۔ صوبے بھر کے اخبارات میں ملحقہ اکثریت کے علاقوں پر بحث بازی ہورہی تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے لدھیانہ تک کا علاقہ مسلم اکثریت کا علاقہ بیان کیا جاتا تھا اور غیر مسلموں کی طرف سے جہلم تک کا علاقہ غیر مسلم اکثریت کا علاقہ بیان کیا جاتا تھا۔ عارضی انتظام تقسیم میں راولپنڈی اور ملتان ڈویژن اور لاہور ڈویژن کے جملہ اضلاع سوائے ضلع کانگڑہ کے مغربی پنجاب میں شامل کئے گئے تھے۔ اگر ہماری طرف سے ضلع کو معیار قرار دیا جاتا تو ان اضلاع میں سے امرتسر کو ترک کرنا پڑتا۔ ایک خدشے کا اظہار کیا گیا کہ اگر ہم نے ضلع کو معیار قرار دیا تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ ہم انتظامی تقسیم سے کم علاقہ لینے پر رضا مند ہیں اور اس کے نتیجہ میں ممکن ہے ہمارے علاقے کو اور بھی کم کر دیا جائے۔
تحصیل کو معیار قرار دینے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا تھا کہ ضلع فیروزپور کی دو تحصیلیں فیروزپور اور زیرہ` ضلع جالندھر کی دو تحصیلیں نواں شہر اور جالندھر مسلم اکثریت کے علاقے میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے ساتھ آگے مشرق کی طرف ملحقہ تحصیل دسوہہ ضلع ہوشیارپور تھی۔ اس تحصیل میں نہ مسلمانوں کی کثرت تھی نہ ہندوئوں اور سکھوں کی کثرت تھی۔ عیسائی آبادی جس طرف شامل کی جاتی اس فریق کی کثرت بن جاتی۔ اس تحصیل کے عیسائیوں کی طرف سے سر سیرل ریڈ کلف کی خدمت میں محضر نامہ ارسال کیا گیا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔ اگر تحصیل کو معیار قرار دیا جاتا تو فیروزپور` زیرہ` نواں شہر` جالندھر اور عیسائیوں کے شامل ہونے کے ساتھ دسوہہ` پانچوں تحصیلیں مسلم اکثریت کے علاقے میں شمار ہوتیں۔ ریاست کپورتھلہ میں بھی مسلمانوں کی کثرت تھی وہ بھی ان تحصیلوں سے ملحق علاقہ تھا۔ ضلع امرتسر میں اجنالہ تحصیل میں مسلمانوں کی کثرت تھی اور امرتسر اور ترنتارن میں غیر مسلموں کی کثرت تھی۔ لیکن اگر فیروزپور` زیرہ` نواں شہر` جالندھر اور کپورتھلہ پاکستان میں شامل کئے جاتے تو امرتسر اور ترنتارن غیر مسلم اکثریت کے ملحق علاقے نہ رہتے کیونکہ وہ چاروں طرف سے مسلم اکثریت کے علاقوں سے گھرے ہوئے تھے۔ ضلع گورداسپور میں بٹالہ` گورداسپور اور شکر گڑھ کی تحصیلوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تحصیل پٹھانکوٹ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی اور یہ تحصیل ضلع کانگڑہ اور ضلع ہوشیار پور سے ملحق بھی تھی جو غیر مسلم اکثریت کے اضلاع تھے۔
ہم سب کا میلان اسی طرف ہوا کہ تحصیل کو معیار قرار دیئے جانے پر زوردیا جائے لیکن ہمارا میلان فیصلہ کن عنصر نہیں تھا۔ ہم مسلم لیگ کی طرف سے کیس تیار کررہے تھے۔ ہماری طرف سے کیا کیس پیش کیا جائے اس کا فیصلہ کرنا مسلم لیگ کے اختیار میں تھا۔ ہمارے اختیار میں نہیں تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر جناب نواب صاحب ممدوٹ تھے۔ ان سے استصواب لاحاصل تھا۔ وہ شدت تواضع اور انکسار کی وجہ سے خود کوئی فیصلہ فرماتے ہی نہیں تھے اور چونکہ ہر امر میں اپنے قریبی مشیران کی رائے کو قبول فرماتے تھے۔ اس لئے تفاصیل پر غور کرنے بلکہ تفاصیل کا علم حاصل کرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔ ان ایام میں ان کے قریب ترین مشیران جناب میاں ممتاز محمد خاں صاحب دولتانہ اور جناب سردار شوکت حیات خاں صاحب تھے۔ جناب سردار صاحب کی طبیعت علیل تھی۔ جناب میاں صاحب کی خدمت میں خاکسار نے گزارش کی کہ میرے تحریری بیان تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس امر کا فیصلہ کیا جائے کہ ملحقہ اکثریت کے علاقوں کی تشخیص کے لئے ہماری طرف سے کیا معیار پیش کیا جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ جو تم تجویز کرو وہی بہتر ہوگا۔ میں نے کہا یہ امر لیگ کی طرف سے طے ہونا چاہئے۔ میں تو ایک فرد واحد ہوں اور میری حیثیت وکیل کی ہے۔ مجھے جو ہدایات لیگ کی طرف سے دی جائیں مجھے ان کی پابندی کرنا ہوگی۔ جناب میاں صاحب نے میری رائے دریافت کی۔ میں نے مختصر طور پر اپنا اور اپنے رفقائے کار کا رجحان بیان کردیا۔ جناب میاں صاحب نے فرمایا تو بس یہی ٹھیک ہے۔ اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے۔ بعد میں قسم قسم کی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں جن کی بنیاد کسی حقیقت پر نہیں۔ کہا گیا ہے کہ چونکہ جناب نواب صاحب ممدوٹ کی خاندانی جاگیر کا بیشتر حصہ تحصیلوار بٹوارے میں پاکستان میں شامل کئے جانے کی امید کی جاسکتی تھی اس لئے انہوں نے تحصیلوار بٹوارے پر زور دیا۔ یہ محض اتہام ہے اور بالکل بے بنیاد اتہام ہے۔ خاکسار کی دانست میں جناب نواب صاحب ان تفاصیل سے بالکل ناواقف تھے اور اگر واقف تھے بھی تو یہ واقعہ ہے کہ ان کی طرف سے خاکسار کو ایک لفظ بھی اس بارے میں نہیں کہا گیا۔ نہ خاکسار نے ان سے دریافت کیا نہ انہوں نے خود کچھ فرمایا نہ کسی قسم کا اشارہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب واقعات اس سرعت سے پیش آتے گئے اور صوبے کے حالات میں اس تیزی کے ساتھ ابتری پیدا ہونا شروع ہوگئی کہ طبائع میں انتشار اور سراسیمگی سرائت پذیر ہوتے گئے اور کسی امر پر سنجیدگی سے غور کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ ان امور کے متعلق پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی گئی تھی نہ ان پر سنجیدہ غور ہوا تھا اس لئے فیصلہ مشکل تھا۔ بعد کے پیدا ہونے والے حالات ابھی پردہ غیب میں تھے۔ اس وقت ان کے متعلق صحیح اندازہ ممکن نہیں تھا۔ آرزوئوں اور خدشات` قیاسات اور تخیلات کی فراوانی تھی۔ صحائف اور جرائد ان ہی سے پر تھے۔ آج جو ابوالحکم ہونے کے مدعی ہیں اس وقت خاموش اور دم بخود تھے۔
میں اپنے رفقاء کار کے ساتھ تادیر مشورے اور تیاری میں مصروف رہا۔ ان کے تشریف لے جانے کے بعد بھی کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر اعداد و شمار کی پڑتال اور سرکاری اعلان کے مختلف پہلوئوں پر غور کرنے اور تحریری بیان کے لئے نوٹ تیار کرنے میں بہت سا وقت صرف ہوا۔ غرض منگل کا دن بہت پریشانیوں میں صرف ہوا لیکن سوتے وقت تک میری طبیعت میں کسی قدر سکون پیدا ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے بنیادی مواد بھی میسر فرما دیا اور مخلص رفقائے کار بھی عطا فرمائے اور میری بے علمی اور جہالت کی تاریکی میں کچھ اجالا بھی کر دیا۔
بدھ کی صبح کو میں جلد تیار ہوکر ناشتے سے فارغ ہوگیا۔ سات بج چکے تھے لیکن جناب نواب صاحب کے ارسال کردہ زود نویس ابھی تشریف نہیں لائے تھے۔ ان کی انتظار میں میں مزید دیکھ بھال اور تیاری میں مصروف رہا۔ ۲/۱ ۷ بج گئے` پونے آٹھ بجے` آٹھ بج گئے۔ اب پھر میں پریشان ہوا۔ جناب خواجہ عبدالرحیم صاحب کی خدمت میں ٹیلیفون پر گزارش کی۔ انہوں نے فرمایا۔ میں ابھی انتظام کرتا ہوں۔ چند منٹ کے بعد انہوں نے اطلاع دی۔ میرے دونو سٹینو گرافر مع ضروری سامان نو بجے تک تمہارے پاس پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ یہ دونوں صاحبان نو بجے سے قبل ہی تشریف لے آئے اور میں نے تحریری بیان کا مسودہ املاء کروانا شروع کر دیا۔ اتنے میں میرے رفقائے کار بھی تشریف لے آئے اور میرے ساتھ شامل ہوگئے۔ میں املاء کرواتا اور وہ چوکس نگرانی رکھتے اور جہاں ضرورت ہوتی مشورہ دیتے یا اصلاح کرتے۔ دونوں زود نویس اپنے فن میں ماہر تھے اور بہت توجہ` محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہے جس سے ہمارے لئے بہت سہولت ہوگئی۔ فجزا ہما اللہ احسن الجزاء۔
جناب نواب صاحب کے تجویز کردہ زود نویس بحث کے آخر تک ہمیں میسر نہ آئے اور نہ ہی نواب صاحب کی طرف سے کوئی اطلاع ملی کہ وہ کیا ہوئے۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانیؓ ان دنوں لاہور ہی میں تشریف فرما تھے۔ بدھ کی سہ پہر کو جناب مولانا عبدالرحیم درد صاحب خاکسار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا۔ حضرت صاحب نے مجھے بھیجا ہے کہ تم سے دریافت کروں کہ حضرت صاحب کس وقت تشریف لاکر تمہیں تقسیم کے بعض پہلوئوں کے متعلق معلومات بہم پہنچا دیں۔ خاکسار نے گزارش کی` خاکسار جس وقت ارشاد ہو۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہو جائے گا۔ جناب درد صاحب نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے۔ تم نہایت اہم فرض کی سرانجام دہی میں مصروف ہو۔ تمہارا وقت بہت قیمتی ہے` تم اپنے کام میں لگے رہو ہم وہیں آجائیں گے۔ یہی مناسب ہے۔ چنانچہ حضور تشریف لائے اور بٹوارے کے اصولوں کے متعلق بعض نہایت مفید حوالوں کی نقول خاکسار کو عطا کیں اور فرمایا۔ اصل کتب کے منگوانے کے لئے ہم نے انگلستان فرمائش بھیجی ہوئی ہے۔ اگر بروقت پہنچ گئیں تو وہ بھی تمہیں بھیج دی جائیں گی۔ نیز ارشاد فرمایا ہم نے اپنے خرچ پر حد بندی کے ایک ماہر پروفیسر کی خدمات انگلستان سے حاصل کی ہیں۔ وہ لاہور پہنچ چکے ہیں اور نقشہ جات وغیرہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ تم تحریری بیان تیار کرلینے کے بعد ان کے ساتھ مشورے کے لئے وقت نکال لینا وہ یہاں آکر تمہیں یہ پہلو سمجھا دیں گے۔ چنانچہ متعلقہ کتب انگلستان سے قادیان پہنچیں اور وہاں سے ایک موٹر سائیکل سوار CAR ۔SIDE میں رکھ کر انہیں لاہور لائے اور دوران بحث میں وہ ہمیں میسر آگئیں اور ان سے ہمیں بہت مدد ملی۔ پروفیسر SPATE نے دفاعی پہلو خاکسار کے ذہن نشین کر دیا۔ ہندو فریق کی طرف سے ہندوستان کے دفاع کی ضروریات کی بناء پر مسٹر ایم ایل سیتلواڈ نے بڑے زور سے دریائے جہلم تک کے علاقے کا مطالبہ کیا لیکن میری طرف سے پروفیسر SPATE کے تیار کردہ نقشہ جات کے پیش کرنے اور ان کی اہمیت واضح کرنے کے بعد فریق مخالف کی طرف سے ایک لفظ بھی جواباً اس موضوع پر نہ کہا گیا۔ بحث کے دوران میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیحؓ خود بھی اجلاس میں تشریف فرما رہے اور اپنی دعائوں سے مدد فرماتے رہے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
بدھ کی شام کو جناب خان بہادر شیخ دین محمد صاحب تشریف لائے۔ نہایت پریشان تھے۔ فرمایا تم اپنی تیاری کرو اور جیسے بن پڑے بحث بھی کرنا اور منیر اور میں جو کچھ ہم سے ہوسکے گا ہم کریں گے لیکن میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ یہ سب کچھ محض کھیل ہے۔ حد بندی کا فیصلہ ہوچکا ہوا ہے اور اسی کے مطابق حد بندی ہوگی۔ نہ تم کچھ کرسکتے ہو نہ ہم کچھ کرسکتے ہیں۔
ظفر اللہ خاں۔ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟
جناب شیخ دین محمد صاحب۔ کل جب تم لوگ چلے آئے تو سر سیرل ریڈ کلف کے ساتھ جو ہماری گفتگو ہوئی` اس کے دوران میں اس نے ذکر کیا۔ کل صبح میں ہوائی جہاز میں اردگرد کا علاقہ دیکھنے کے لئے جارہا ہوں۔ اس پر میں نے کہا اگر آپ حد بندی کے سلسلے میں علاقہ دیکھنے جارہے ہیں تو آپ ضرور کچھ تاثر اس معائنہ سے اخذ کریں گے ادھر بطور امپائر آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنا فیصلہ اسی مواد کی بناء پر کریں جو کمشن کے روبرو پیش کیا جائے اور جو کمشن آپ کی خدمت میں ارسال کرے۔ اس پر واز سے جو تاثر آپ حاصل کریں گے اس کا علم کمشن کو کیسے ہوگا؟ اس پر سرسیرل نے کہا۔ مجھے اس غرض کے لئے جو ہوائی جہاز مہیا کیا گیا ہے وہ فوجی نوع کا ہے اور اس میں زیادہ گنجائش نہیں۔ لیکن اگر آپ پسند کریں تو آپ میں سے دو اراکین میرے ساتھ چل سکتے ہیں۔ چنانچہ طے ہوا کہ منیر اور تیجا سنگھ آج صبح ریڈ کلف کے ساتھ جائیں۔ ان کی روانگی آج صبح سات بجے والٹن کے ہوائی میدان سے تھی۔ جب یہ سب وہاں جمع ہوئے تو پائیلٹ نے کہا۔ صاحبان آپ دیکھتے ہیں کہ آسمان گرد آلود ہورہا ہے۔ میں آپ کو لے تو چلتا ہوں لیکن گرد کی وجہ سے اوپر سے آپ کو کچھ نظر تو آئے گا نہیں محض آپ کا وقت ضائع ہوگا۔ اس پر ریڈ کلف نے پرواز منسوخ کر دی۔ وہاں سے چلتے وقت منیر نے پائیلٹ سے کہا۔ اگر مطلع صاف ہوتا تو تم ہمیں کہاں لے جانے والے تھے؟ اس نے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک پرزہ کاغذ نکال کر منیر کے حوالے کیا اور کہا یہ تھیں میری ہدایات` ان سے تم خود اندازہ کرلو۔ منیر وہ پرزہ لے آیا اور مجھے دکھایا۔ اس میں درج تھا۔ مشرق کی طرف جاکر دریائے راوی کے اس مقام کے اوپر پہنچو جہاں دریا پہاڑی علاقے سے نکل کر میدان میں بہنا شروع کرتا ہے۔ وہاں سے دریائے راوی کے اوپر پرواز کرتے ہوئے فلاں مقام تک آئو جو ضلع لاہور میں ہے۔ وہاں سے دریا کو چھوڑ کر بائیں جانب ہو جائو اور فلاں سمت میں دریائے ستلج کے پار تک پرواز کرکے فلاں مقام کے اوپر سے لوٹ کر لاہور واپس آجائو۔ میں اس کاغذ کو دیکھنے کے وقت سے نہایت پریشان ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جو لائن اس کاغذ میں درج ہے وہی حد بندی کی لائن ہے اور یہ طے شدہ بات ہے۔ اب تم تو اپنا تحریری بیان داخل کرو گے اور اجلاس عام میں بحث کرو گے۔ تمہارا موقف واضح ہوگا اور ہر شخص اس کا اندازہ کرلے گا ہمارا کام پس پردہ ہوگا۔ جب حد بندی کا اعلان ہوگا تو مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوگا۔ اور وہ منیر کو اور مجھے ذمہ دار ٹھہرائیں گے اور مورد الزام کریں گے۔ چنانچہ ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں آج رات دلی جائوں` اور کل صبح قائداعظم سے مل کر یہ سارا ماجرا انہیں سنائوں اور ان سے اجازت طلب کروں کہ منیر اور میں کمشن سے مستعفی ہو جائیں۔ اس کے بعد قائداعظم جیسے بن پڑے اس گتھی کو سلجھا لیں۔
ظفر اللہ خان۔ اس بات پر تو مجھے آپ کے ساتھ اتفاق ہے کہ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہے کہ حد بندی کی تعیین پہلے سے ہوچکی ہے اور یہ باقی تمام کارروائی محض فریب دہی ہے اور میں آپ کی پریشانی میں بھی شریک ہوں۔ آپ ضرور دلی تشریف لے جائیں۔ لیکن قائداعظم کی خدمت میں گزارش کرتے ہوئے یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ وہ بہت قانونی طبیعت کے مالک ہیں۔ اس لئے آپ اپنے استعفاء کی بنیاد کسی قانونی عذر پر رکھیں ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ رضامند نہ ہوں گے۔
جناب شیخ دین محمد صاحب۔ تمہارے ذہن میں کوئی قانونی عذر آتا ہے۔
ظفر اللہ خاں۔ آپ اجازت دیں تو میں اپنے خیال کا اظہار کر دیتا ہوں۔
جناب شیخ دین محمد صاحب۔ کہو۔
ظفر اللہ خان۔ آپ قائداعظم صاحب کی خدمت میں یہ گزارش کریں۔ ہم نے سرسیرل ریڈ کلف کو امپائر تسلیم کیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔ لیکن امپائر کا فرض ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر پہنچنے میں کسی دوسرے شخص کی رائے یا مشورے سے متاثر نہ ہو۔ یہ کاغذ ظاہر کرتا ہے کہ کسی جانب سے امپائر کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب کی حد بندی کی یہ لائن ہو۔ اب آپ کا یہ حق ہے کہ آپ مطالبہ کریں کہ آپ کا یہ اطمینان کیا جائے کہ امپائر کی اس مجوزہ پرواز سے کیا غرض تھی اور اس پرواز کی لائن کی کیا اہمیت ہے۔ اگر آپ کا اطمینان ہو جائے کہ یہ محض امپائر کی طبیعت کا لطیفہ ہے تو فبہا ورنہ آپ مطالبہ کریں کہ اس پرواز کا مشورہ اسے کس نے دیا اور اس میں کیا راز پنہاں ہے؟ اگر کسی دوسرے شخص کا تداخل ثابت ہو تو آپ حق بجانب ہوں گے کہ آپ کہہ دیں ہمیں امپائر کی غیر جانبداری پر اطمینان نہیں۔ اس پر ہم دونوں اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گے۔
جناب شیخ دین محمد صاحب۔ میں اپنی طرف سے تو ہر کوشش کروں گا۔ پرسوں صبح دلی سے واپسی پر میں تمہیں اپنی ملاقات کا نتیجہ بتا دوں گا۔
جمعرات کی سہ پہر کو جناب کرنیل محمد ایوب خاں صاحب )موجودہ۱۶۹body] ga[t صدر پاکستان( تشریف لائے اور حالات حاضرہ پر اپنے تبصرہ سے خاکسار کو مستفید فرمایا۔
جمعرات کی شام تک تحریری بیان کا مسودہ تیار ہوگیا۔ میں نے جناب سردار شوکت حیات خاں صاحب کے دولت خانے پر ٹیلیفون کیا تو معلوم ہوا جناب سردار صاحب کی طبیعت علیل چلی جارہی ہے۔ اور درجہ حرارت ۱۰۲ ہے پلنگ پر ہیں۔ اور طبعاً تشریف آوری سے معذور ہیں۔ پھر میں نے جناب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ صاحب کو دولت کدے پر ٹیلیفون کیا۔ کہ میں چاہتا تھا آپ دونوں صاحب تشریف لاکر مسودے کا ملاحظہ فرمالیں۔ لیکن جناب سردار صاحب تو ناسازی طبع کی وجہ سے معذور ہیں۔ آپ بہرحال ضرور تشریف لے آئیں۔ چنانچہ وہ تشریف لے آئے۔ میں نے تحریری بیان کا مسودہ ان کی خدمت میں پیش کردیا اور گزارش کی آپ اسے پڑھ لیں جو ترمیم یا تبدیلی آپ اس میں پسند فرمائیں وہ خاکسار کو بتا دیں تاکہ آپ کے ارشاد کے مطابق اصلاح کر دی جائے۔ انہوں نے از راہ نوازش فرمایا جیسے تم نے لکھا ہے ٹھیک ہوگا مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے اصرار کیا آپ ضرور توجہ سے اسے پڑھیں اور آزادی سے تنقید کریں۔ میں مسلم لیگ کی طرف سے بحث کرنے کی خاطر اطمینان کرنا چاہتا ہوں کہ لیگ کی طرف سے مجھے کیا ہدایت ہے۔ جس مسودے کی آپ تصدیق فرما دیں گے وہی میرا ہدایت نامہ ہوگا اور اسی کے مطابق میں بحث کروں گا۔ میرے اصرار پر جناب میاں صاحب نے مسودہ توجہ اور غور سے پڑھا۔ پڑھنے کے دوران بھی پسندیدگی کا اظہار فرماتے رہے اور آخر میں فرمایا اس سے بہتر نہیں ہوسکتا۔
جمعہ کی صبح کو میں نے مسودے کی آخری نظر ثانی کی اور صاف ٹائپ ہونے کے لئے دے دیا۔ جناب شیخ دین محمد صاحب دلی سے واپسی پر سٹیشن سے ہی تشریف لائے اور بتایا کہ قائداعظم استعفاء کی تجویز پر رضا مند نہیں ہوئے۔ فرمایا ہے تم سب لوگ اپنی طرف سے پوری کوشش کرو اور فکر نہ کرو سب کچھ ٹھیک ہوگا۔
مسودہ صاف ٹائپ ہوچکا تو میں نے آخری بار پڑھ کر جناب شیخ نثار احمد صاحب کے سپرد کیا اور وہ جاکر اسے کمشن کے دفتر میں بارہ بجے سے قبل داخل کر آئے۔
جمعہ کے خطبے میں میں نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا کہ پنجاب میں مسلمانوں پر وہی وقت آرہا ہے جو سپین میں آیا تھا۔ اس لئے آستانہ الٰہی پر گرے رہو اور بہت خشوع سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور اس مصیبت کو ٹال دے۔
بقیہ حصہ دن اور ہفتہ اور اتوار کے دونوں دن بحث کی تیاری میں صرف ہوئے۔ سوموار کو کمشن کے روبرو بحث شروع ہوگئی۔ تحریری بیان اور تقریری بحث کمشن کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ جو صاحب واقف حقیقت ہونا چاہیں انہیں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ہندو فریق کی طرف سے بحث مسٹر سیتسلواڈ نے کی۔ ان کے مشیروں اور معاونوں میں ہندو قانون دانوں کے چیدہ دماغ شامل تھے جن میں جناب بخشی ٹیک چند صاحب پیش پیش تھے۔ بحث کے خاتمے پر مجھ سے ایک معزز مسلم قانون دان دوست نے ذکر کیا کہ جناب بخشی صاحب نے ان سے فرمایا۔ اگر حد بندی کا فیصلہ دلائل اور بحث ہی کی بناء پر ہوا تو تم لوگ بازی لے گئے۔
میرے قیام لاہور کے عرصے میں معزز اور محترم میزبان جناب سرسید مراتب علی صاحب نے میرے اور میرے رفقاء کی خدمت اور تواضع میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ہم سب کے دل ان کے بے شمار احسانات اور عنایات کے احساس سے پر تھے۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء چونکہ ان کا دولت کدہ ان ایام میں کمشن کے روبرو مسلم لیگ کی نمائندگی کا مرکز بن گیا تھا اس لئے خورد و نوش کے صیغے میں خاص طور پر ان کی مہمان نوازی بہت وسیع ہوتی چلی گئی۔ لیکن یہ امر ان کی دلی راحت ہی کا موجب ہوا اور انہوں نے نہایت فراخدلی اور خندہ پیشانی سے اسے سرانجام دیا۔ بحث کے دوران ہم سب کے عدالت جانے اور عدالت سے لوٹنے کا انتظام بھی جناب سید صاحب ہی فرماتے رہے۔ غرض تواضع کا کوئی پہلو کسی وقت ان کی باریک بین نگاہ سے اوجھل نہ ہوا۔ امن اور سکون کے حالات میں ان کی پیہم نوازش کا سلسلہ نہایت ممتاز حیثیت رکھتا ہے لیکن انہوں نے یہ تمام خدمت اور تواضع اس اعلیٰ پیمانے پر ایسے حالات میں سرانجام دی جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا اور یہ سب فرائض انہوں نے خالصت¶ہ رضاکارانہ طور پر اپنے ذمے لے لئے تھے۔
میں بحث کے سلسلے میں ابھی لاہور ہی میں تھا کہ مجھے جناب قائداعظم کا پیغام پہنچا کہ فارغ ہونے پر بھوپال جاتے ہوئے میں دلی ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بھوپال جائوں۔ انہوں نے کمال شفقت سے خاکسار کو شام کے کھانے کی دعوت دی۔ حاضر ہونے پر خاکسار کو معانقے کا شرف بخشا اور فرمایا میں تم سے بہت خوش ہوں اور تمہارا نہایت ممنون ہوں کہ جو کام تمہارے سپرد کیا گیا تھا تم نے اسے اعلیٰ قابلیت اور نہایت احسن طریق سے سرانجام دیا۔ کھانے کے دوران میں طریقہ تقسیم اور کارروائی تقسیم کے موضوع پر گفتگو رہی۔ آپ سے رخصت ہوکر میں بھوپال چلا گیا۔
حد بندی کے فیصلے میں تعویق ہوتی گئی جب فیصلے کا اعلان ہوا میں بھوپال ہی میں تھا۔ فیصلے کا اعلان میں نے ریڈیو پر سنا اور سنتے ہی مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہوگیا۔ آہستہ آہستہ یہ خیال میرے دل میں پختہ ہوتا گیا کہ اس واضح ظلم اور بے انصافی کی مصیبت کی تہہ میں اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہے جسے وہی جانتا ہے اور جو اپنے وقت پر ظاہر ہو جائے گی۔ حد بندی کی آخر وہی لائن قائم ہوئی جس کا اندازہ جناب شیخ دین محمد صاحب نے فریقین کے تحریری بیانات داخل ہونے سے بھی دو دن پہلے کرلیا تھا سوائے اس کے کہ اس اندازے میں فیروزپور اور زیرہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل تھیں اور آخری فیصلے میں انہیں پاکستان سے الگ کرکے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اس کی زبردست تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ فیصلے کے اعلان سے اندازاً دس دن پہلے گورنر جنرل کے پرائیویٹ سیکرٹری ABEL GEORGE ۔MR نے مغربی پنجاب کے گورنر JENKINS EVANS SIR کو ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ پنجاب کی حد بندی کی لائن یوں ہوگی۔ گورنر صاحب نے ان کے کہنے کے مطابق لائن نوٹ کرتے گئے۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا۔ یہ امپائر کا فیصلہ ہے۔ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اس کا اعلان ہو جائے گا۔ آپ اپنے حاکم پولیس کے ساتھ مشورہ کرکے اس کے عملی نفاذ کا انتظام کرلیں۔ اس لائن کے مطابق بھی فیروزپور اور زیرہ کی تحصیلیں پاکستان میں شامل تھیں۔ فیصلے کا اعلان اڑتالیس گھنٹے بعد نہیں بلکہ دس دن بعد ہوا اور آخری فیصلے میں ان تحصیلوں کو پاکستان سے علیحدہ کرکے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا۔
پس پردہ اس عرصے میں کیا کارروائی ہوئی اور کون سی چال کارگر ہوئی یہ غیب کی بات ہے جس کی حقیقت ابھی ظاہر نہیں ہوئی۔ لیکن بعض امور غور طلب اور نتیجہ خیز ہیں۔ جو اطلاع پرائیویٹ سیکرٹری نے مغربی پنجاب کے گورنر کو دی وہی اطلاع انہوں نے مشرقی پنجاب کے گورنر مسٹر تریویڈی کو بھی دی ہوگی۔ جناب پنڈت جواہر لال نہرو اس وقت سربراہ حکومت تھے۔ یہ قرین قیاس ہے کہ مسٹر تریویڈی نے وہ اطلاع جناب پنڈت صاحب کو پہنچائی۔ اب صورت یہ تھی کہ دریائے ستلج سے جاری ہونے والی نہروں کے WORKS HEAD تحصیل فیروزپور میں تھے۔ ان نہروں کے پانی کا ۸۳ فیصدی پانی پاکستان میں جاتا تھا۔ فقط ۱۷ فیصدی نہر بیکانیر کے ذریعے ریاست بیکانیر میں جاتا تھا۔ ریاست بیکانیر میں صرف یہی ایک نہر تھی اور ریاست کی خوشحالی میں اس نہر کا بہت بڑا حصہ تھا۔ ریاست بیکانیر اگر ایک طرف ہندوستان سے ملحق تھی تو دوسری طرف پاکستان سے ملحق تھی۔ مہاراجہ بیکانیر کانگریس کے استبداد سے پریشان تھے۔ اگر ان کی نہر کا دہانہ پاکستان میں چلا جاتا تو عین ممکن تھا کہ اس وقت کے حالات میں وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکان پر غور کرنا شروع کردیتے۔ بیکانیر سے آگے ریاست جیسلمیر تھی۔ جس کی آبادی کی کثرت مسلمان تھی اور مہاراجہ جیسلمیز کے تعلقات اپنی ریاست کے مسلمانوں کے ساتھ بہت خوشگوار تھے۔ وہ بھی مہاراجہ بیکانیر کی طرح کانگریس سے خائف تھے۔ اگر مہاراجہ بیکانیر پاکستان کے ساتھ الحاق کے امکان پر غور کرسکتے تھے تو مہاراجہ جیسلمیر کے ذہن میں بھی یہ امکان پیدا ہوسکتا تھا۔ یہ امکان جناب پنڈت صاحب اور ان کے رفقاء کے لئے بہت پریشانی کا موجب ہوتا۔ ادھر اگر WORKS HEAD ہندوستان کے تسلط میں آجاتے تو گویا ہندوستان کے ہاتھ میں پاکستان کی ایک رگ جان آجاتی اور یوں بھی فیروزپور اور زیرہ کی تحصیلوں کے پاکستان میں شامل ہو جانے سے پاکستان کا قدم اس مقام پر ستلج اور بیاس کے پار پہنچ جاتا۔ یہ جملہ امکانات لازم¶ا جناب پنڈت صاحب کے لئے پریشانی اور اذیت کا موجب تھے۔ جناب پنڈت صاحب کے ذاتی تعلقات لارڈ مئونٹ بیٹن کے ساتھ نہایت گہرے دوستانے کے تھے اور اب یہ حقیقت مسلم ہوچکی ہے کہ لارڈ مئونٹ بیٹن جناب قائداعظم کے ہاتھوں بہت آزردہ تھے کیونکہ جناب قائداعظم نے یہ تجویز رد کردی تھی کہ آزادی حاصل ہونے پر وہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے گورنر جنرل ہوں۔ اگر جناب پنڈت صاحب نے امپائر کی تجویز کردہ لائن کی اطلاع پاکر فیروزپور اور زیرہ کی تحصیلوں کے پاکستان میں شامل کئے جانے پر لارڈ مونٹ بیٹن کے پاس پرزور احتجاج کیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ اس صورت میں ہم تقسیم کے تمام منصوبے ہی کو سرے سے رد کر دیں گے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لارڈ مئونٹ بیٹن کو اس صورت میں اپنی تمام کوششوں کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا اور آزاد ہندوستان کا گورنر جنرل بننا بھی ایک خواب ثابت ہوتا جو شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ امپائر کے فیصلے کی اطلاع تو انہیں پہلے سے ہی تھی۔ جناب شیخ دین محمد صاحب کو جو کاغذ جناب شیخ محمد منیر صاحب نے دیا یا دکھایا تھا وہ اس امر کی شہادت ہے کہ حد بندی کی لائن امپائر کے ہندوستان پہنچنے سے پہلے طے پاچکی تھی اور یقیناً لارڈ مئونٹ بیٹن کے ایماء سے طے پائی ہوگی۔ جناب پنڈت صاحب کے احتجاج کے نتیجے میں امپائر کو اس ترمیم پر رضامند کرنا کوئی مشکل امر نہ تھا۔
لارڈ مئونٹ بیٹن کی طرف سے یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حد بندی کے فیصلہ کے اعلان سے قبل انہیں فیصلے کا کوئی علم نہیں تھا اس بیان کے قبول کرنے کے رستے میں بعض مشکلات ہیں۔
۱۔ امپائر کی لاہور میں مجوزہ پرواز جو طوفان گرد کی وجہ سے ترک ہوئی کس نے تجویز کی تھی اور اس کی کیا غرض تھی؟
۲۔ اس پرواز کی سمت اور حدود وہی تجویز کی گئی تھیں جو حد بندی کی اس لائن کی تھیں جو گورنر جنرل کے پرائیویٹ سیکرٹری نے مغربی پاکستان کے گورنر کو بتائیں اور جن کے متعلق کہا گیا یہ حد بندی کا فیصلہ ہے جن کا اعلان اڑتالیس گھنٹے کے اندر ہو جائے گا۔ آپ اپنے حاکم پولیس کے مشورے کے ساتھ اس کے عملی نفاذ کی تجویز تیار کرلیں۔ یہ توارد کیسے ہوا؟ پرواز کی سمت اور حدود کس نے تجویز کی تھیں اور کس غرض کے لئے تجویز کی تھیں؟
۳۔ امپائر کے فیصلے کا اعلان اپنے وقت پر کیوں نہ ہوا؟ آٹھ دن کی تاخیر کی کیا وجہ تھی؟
۴۔ بقول پرائیویٹ سیکرٹری گورنر جنرل جن حدود کی اطلاع انہوں نے گورنر مغربی پنجاب کو دی۔ ان کی تعیین پرائیویٹ سیکرٹری نے ان دستاویزات سے کی جو امپائر کے سیکرٹری BEANMONT ۔MR نے تیار کی تھیں۔ یہ اطلاع اور یہ دستاویزات مسٹر بومائونٹ نے مسٹر ایبل کو ان کے منصب اور حیثیت کی وجہ سے دیں جس کی غرض صرف یہ ہوسکتی تھی کہ گورنر جنرل کو امپائر کے فیصلے کی اطلاع کر دی جائے۔
۵۔ مسٹر ایبل نے جو اطلاع گورنر مغربی پنجاب کو دی وہ گورنر جنرل کے حکم سے ہی دی جاسکتی تھی ایسے اہم معاملے میں پرائیویٹ سیکرٹری اپنی مرضی سے بغیر ارشاد گورنر جنرل کے یہ اقدام نہیں کرسکتا تھا۔
یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ جب مسٹر ایبل نے گورنر مغربی پنجاب کو حد بندی کی لائن کی اطلاع دی اور فرمایا یہ امپائر کا فیصلہ ہے اس وقت یا تو امپائر اپنا فیصلہ کرچکا تھا اور اس کے سیکرٹری نے فیصلہ گورنر جنرل کی اطلاع کے لئے مسٹر ایبل کو بھیج دیا۔ یا معاملہ ابھی امپائر کے زیر غور تھا۔ پہلی صورت میں جب امپائر نے فیصلہ مکمل کرلیا اور اس کی اطلاع گورنر جنرل کو بذریعہ اس کے پرائیویٹ سیکرٹری کے کردی تو امپائر کے اختیارات ختم ہوگئے۔ اس کے بعد امپائر کو فیصلے میں ترمیم اور تبدیلی کا کوئی اختیار نہ رہا۔ دوسری صورت میں اگر معاملہ ابھی اس کے زیر غور تھا تو امپائر نے یہ اطلاع گورنر جنرل کے سیکرٹری کو کس غرض کے لئے دی؟ اس کی ایک ہی غرض ہوسکتی تھی کہ وہ گورنر جنرل کی رضامندی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس صورت میں وہ ایک ناجائز بات کا مرتکب ہوا جو اس کے منصب اور اس کی غیر جانبدارانہ حیثیت کے متناقض تھی اور جس سے اس کا مزعومہ فیصلہ باطل ہوتا ہے اور قابل نفاذ نہیں رہتا<۔۱۷۰
ایک اہم واقعہ
‏text] g[taحضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے مذکورہ بالا خود نوشتہ حالات و واقعات سے تقسیم برصغیر کے دوران لارڈ مئونٹ بیٹن` سر سیرل ریڈ کلف اور ہندوئوں کی باہمی سازش بے نقاب ہو جاتی ہے نیز اس امر پر کافی روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح پاکستان کو مسلم اکثریت کے علاقوں سے محروم کرکے عدل و انصاف کا خون کیا گیا ہے۔ اسی ضمن میں ذیل میں ایک اہم واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفہ~ن۲~ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
>۱۹۴۷ء میں جب بائونڈری کمیشن بیٹھا تو اس کمشن کے سامنے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دجل کیا گیا۔ ہندوئوں نے یہ دجل کیا کہ انہوں نے بائونڈری کمشن کے سامنے یہ بات پیش کر دی کہ گو ضلع گورداسپور کی مجموعی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن ضلع کی بالغ آبادی میں اکثریت ہندوئوں کی ہے اور چونکہ ووٹ بالغ آبادی نے دینا ہے اس لئے یہ ضلع بھارت میں شامل ہونا چاہئے۔ ہم جب وہاں سے واپس آئے تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اگر ہمیں ۱۹۳۵ء کی سنسز رپورٹ REPORT CENSUS مل جائے کہ اس وقت تک سب سے آخر میں ۱۹۳۵ء میں ہی سنسز CENSUS ہوئی تھی اور ایک کلکولیٹنگ مشین CALCULATING MACHINE مل جائے جو جلد جلد ضرب اور تقسیم کرتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے راتوں رات ایک ایسا نقشہ تیار کرسکتا ہوں کہ اس سے ضلع گورداسپور کی بالغ آبادی کی صحیح تعداد سنسز CENSUS پر اصول کے مطابق معلوم ہو جائے گی۔ سنسز CENSUS کے متعلق انہوں نے بعض اصول مقرر کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کے لحاظ سے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر گروپ کی وفات کی فی صد انہوں نے مقرر کی ہوئی ہے۔ وہ تو ایک سال کی عمر سے شروع کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی عمر سے یہ کام شروع کرنا تھا کہ انہیں ۱۹۴۷ء میں بلوغت تک پہنچا دیں۔ مثلاً انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے چار سال کی عمر کے ہونے تک سو میں سے پچانوے رہ جائیں گے۔ پھر چار سال سے پانچ سال کی عمر ہونے تک دو سو میں سے اٹھانوے رہ جائیں گے۔ پھر انہوں نے بعض اسی قسم کے اصول وضع کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر گروپ کو ضربیں اور تقسیمیں دے کر ہندوئوں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نکالنی تھی اور وہ تعداد معلوم کرنی تھی جو ۱۹۴۷ء میں بالغ ہوچکی تھی اور جو پہلے بالغ تھے ان کی تعداد تو پہلے ہی دی ہوئی تھی۔ میں نے حضرت فضل عمرؓ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فوراً مناسب انتظام کر دیا۔ راتوں رات مجھے شاید پچاس ہزار یا ایک لاکھ ضربیں دینی پڑیں اور تقسیمیں کرنی پڑیں۔ لیکن بہرحال ایک نقشہ تیار ہوگیا اور اس نقشہ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلم بالغ آبادی کی فیصد مجموعی لحاظ سے کچھ زائد تھی کم نہیں تھی۔ اگلے دن صبح جب مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ حساب پیش کیا تو ہندو بہت گھبرائے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے اور انہیں خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا<۔۱۷۱
چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی فاضلانہ اور مدلل بحث پر خراج تحسین
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خود نوشت سوانح کا ایک طویل مگر نہایت اہم` معلومات افزا اور ضروری اقتباس اوپر درج کرنے کے
بعد اب ہم بتاتے ہیں کہ حضرت چودھری صاحب موصوف نے حد بندی کمیشن کے سامنے ۲۶۔ جولائی سے لے کر ۳۰۔ جولائی ۱۹۴۷ء۱۷۲]2body [tag تک مسلم لیگ کا نقطہ نگاہ غیر معمولی قابلیت و لیاقت سے واضح فرمایا۔۱۷۳ آپ کی فاضلانہ اور مدلل بحث بھی ریڈکلف ایوارڈ کے ریکارڈ سے منسلک ہے اور اگر کتاب کی تنگ دامانی مانع نہ ہوتی تو یہاں اس بے مثال آئینی و سیاسی دستاویز کا ترجمہ ضرور دے دیا جاتا۔ مگر افسوس ہمیں بالاخر مختصراً صرف اس بات پر اکتفاء کرنا پڑے گا کہ دنیائے اسلام کے اس بطل جلیل اور پاکستان کے مایہ ناز فرزند نے مسلمانان ہند کے اس انتہائی نازک موڑ میں ان کی ترجمانی کا حق اس شان سے ادا کیا کہ مسلمانوں کے ہر سنجیدہ` مخلص اور دردمند طبقے نے یکزبان ہوکر آپ کی تعریف کی۔ چنانچہ آپ کے اس ملی اور قومی کارنامہ پر جو خراج تحسین ادا کیا گیا اس کے چند نمونے یہ ہیں۔
اخبار >نوائے وقت< کا ادارتی نوٹ
بائونڈری کمیشن کے اجلاس کے خاتمہ پر اخبار >نوائے وقت< یکم اگست ۱۹۴۷ء نے ایک ادارتی نوٹ میں چودھری صاحب کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا۔
>حدبندی کمیشن کا اجلاس ختم ہوا۔ سنسر کی پابندیوں کی وجہ سے ہم نہ اس اجلاس کی کارروائی چھاپ سکے نہ اب اس پر تبصرہ ہی ممکن ہے۔ کمیشن کا اجلاس دس دن جاری رہا۔ ساڑھے چار دن مسلمانوں کی طرف سے بحث کے لئے مخصوص رہے۔ مسلمانوں کے وقت میں سے ہی ان کے دوسرے حامیوں کو بھی وقت دیا گیا۔ اس حساب سے کوئی چار دن سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلل` نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی۔ کامیابی بخشنا خدا کے ہاتھ میں ہے مگر جس خوبی اور قابلیت کے ساتھ سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مسلمانوں کا کیس پیش کیا۔ اس سے مسلمانوں کو اتنا اطمینان ضرور ہوگیا کہ ان کی طرف سے حق و انصاف کی بات نہایت مناسب اور احسن طریقہ سے ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے۔ سر ظفر اللہ خاں صاحب کو کیس کی تیاری کے لئے بہت کم وقت ملا مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلا لحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکرگزار ہوں گے<۔۱۷۴
قائداعظم کی خوشنودی
مسلم لیگی ترجمان اخبار >نوائے وقت< لاہور نے ۲۴۔ اگست ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں )جبکہ قائداعظم زندہ تھے( حسب ذیل نوٹ لکھا۔
>جب قائداعظم نے یہ چاہا کہ آپ پنجاب بائونڈری کمیشن کے سامنے مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں تو ظفر اللہ خاں نے فوراً یہ خدمت سرانجام دینے کی حامی بھری۔ جو افراد کمشن کے ارکان کی حیثیت سے جج بناکر بٹھائے گئے تھے وہ باعتبار تجربہ و صلاحیت آپ کے مقابلہ میں طفلان مکتب سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ لیکن قائداعظم کی خواہش تھی کہ ظفر اللہ کمیشن کے سامنے ملت کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں اس لئے آپ نے بلاتامل یہ کام اپنے ذمہ لیا اور اسے ایسی قابلیت سے سرانجام دیا کہ قائداعظم نے خوش ہوکر آپ کو یو این او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کر دیا جس طرح آپ نے ملت کی وکالت کا حق ادا کیا تھا اس سے آپ کا نام پاکستان کے قابل احترام خادموں میں شامل ہوچکا تھا۔ آپ نے ملک و ملت کی جو شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائداعظم انہیں حکومت پاکستان کے اس عہدے پر فائز کرنے پر تیار ہوگئے جو بااعتبار منصب وزیراعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے قائداعظم نے چوہدری صاحب کو بلاتامل پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا۔ لیکن ظفر اللہ کے ہاتھوں وہ زبردست کارنامہ سرانجام دینا باقی تھا جس سے ان کا نام تاریخ پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا )یعنی یو۔ این۔ او میں مسئلہ کشمیر کی وکالت۔ ناقل<(۱۷۵
جسٹس محمد منیر کا اعلان حق
جسٹس محمد منیر نے جو ریڈکلف ایوارڈ کے مسلمانوں کی طرف سے ممتاز رکن اور پنجاب کی >تحقیقاتی عدالت< کے صدر تھے` اپنی عدالت رپورٹ میں لکھا۔
عدالت ہذا کا صدر جو اس )بائونڈری( کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی۔ یہ حقیقت بائونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس مسئلہ سے دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کرسکتا ہے چودھری ظفر اللہ خاں نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابل شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے<۔۱۷۶
سکھ اور ہندو پریس کا واضح اعتراف
اب سکھ اور ہندو پریس کی زبانی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی فقید المثال جدوجہد کا اعتراف پڑھئے والفضل ماشھدت بہ الاعداء
۱۔ سکھوں کے ہفت روزہ گورومکھی اخبار >گرج< نے آزادی ایڈیشن میں لکھا۔
>مجھے خوب یاد ہے کہ سردار ہرنام سنگھ سکھوں کا کیس کمیشن کے سامنے پیش کررہے تھے تو وہ جائیدادوں` باروں اور بلڈنگوں کو ہی گناتے رہے لیکن جب سر ظفر اللہ کی باری آئی تو انہوں نے ایک فقرے میں بات ختم کر دی کہ میرا قابل دوست سروں کے بدلہ میں اینٹوں کی گنتی کرتا رہا ہے۔
‏HEADS> TSNIAAG BRICKS <COUNTING
اور یہاں آج سروں سے فیصلے ہوں گے` ان کی بات درست تھی۔ قوم پتھروں کے ساتھ ہی ٹکرا رہی تھی۔ سکھ لیڈر قوم کی کشتی میں اتنے پتھر ڈال چکے تھے کہ اس کا ہندو پاک سمندر سے تیر آنا مشکل سی بات تھی<۔۱۷۷
۲۔ اخبار >ہندو< جالندھر نے اپنی ۲۷۔ ستمبر ۱۹۵۲ء کی اشاعت میں لکھا۔ >اب ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد کی سنئے >سر محمد ظفر اللہ خاں اور جماعت احمدیہ کے سرکاری ادھیکاری اس بات پر بضد تھے اور ہرممکن کوشش کررہے تھے کہ ضلع گورداسپور بھی پاکستان میں آئے۔ وہ تو قادیان کو پاکستان میں لانا چاہتے تھے نہیں تو اپنا سنٹر قادیان چھوڑنا پڑتا تھا چنانچہ اعلان آزادی سے تین دن پہلے تو عارضی طور پر ضلع گورداسپور بھی پاکستان میں آچکا تھا۔ ان تین دنوں میں قادیان کو خوب سجایا گیا اور خوشیاں منائی گئیں<۔۱۷۸
تیسرا باب
حواشی
۱۔
سر سٹیفورڈ کرپس ۱۹۴۲ء میں ہندوستان آئے اور ہندوستان کی آزادی کا ایک جدید فارمولا پیش کیا جسے مسلم لیگ اور کانگرس دونوں نے مسترد کردیا۔ کرپس کی تجاویز میں اگرچہ ہندوستان کو دو یا دو سے زیادہ وفاقوں کے قیام سے اصول پاکستان کو تسلیم کرلیا گیا مگر اساسی طور پر یہ تجاویز چونکہ ناقابل ترمیم تھیں اور کسی متبادل تجویز کے لئے بھی دعوت نہیں دی گئی تھی اس لئے مسلم لیگ نے متعدد وجوہ کی بناء پر ان کو ناقابل قبول قرار دیا۔ دوسری طرف کانگرس کا مطالبہ قومی حکومت کی آڑ میں یہ تھا کہ اسے فوراً ملک کا اقتدار سونپ دیا جائے مگر جب یہ مطالبہ ٹھکرا دیا گیا تو کانگرس نے ۸۔ اگست ۱۹۴۲ء کو سول نافرمانی کی قرار داد پاس کی اور ۹۔ اگست ۱۹۴۲ء کی صبح کو تمام کانگرسی لیڈر گرفتار کرلئے گئے۔
۲۔
قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۳۴۴ )از رئیس احمد صاحب جعفری ندوی ناشر مقبول اکیڈمی شاہ عالم گیٹ لاہور(
۳۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۴۔
الفضل ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۵۔
الفضل ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔ ۲۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے حضرت مصلح موعود کے اس خطبہ کے ضروری اقتباس پر مشتمل ایک انگریزی دو ورقہ انگلستان میں شائع کیا جو برطانیہ کے وزراء اور دارالعوام اور دارالامراء کے چھ سو ممبران کے علاوہ دیگر عمائدین و اکابر کو بھی بھجوایا۔ جس پر سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا` ارل لسٹوول پارلیمنٹری انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا` سرجان وارڈ لاملن رکن پارلیمنٹ کے پرائیویٹ سیکرٹری` الفرڈ بارنز رکن پارلیمنٹ` لارڈ لنلتھگو سابق گورنر جنرل و وائسرائے ہند` سر پیٹرک ہینن رکن پارلیمنٹ` بریگیڈیر ایف میڈلیکاٹ سی۔ بی۔ ای رکن پارلیمنٹ اور لارڈ nsk1] gat[رینکلر اور دوسرے مدبرین برطانیہ نے تحریری شکریہ ادا کیا اور حضرت مصلح موعود کی نصیحت کو خاص دلچسپی سے مطالعہ کیا )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو >الفضل< ۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵( انگلستان کے علاوہ گورنر مشرقی افریقہ سر فلپ مچل کی تحریک پر چودھری محمد شریف صاحب بی۔ اے نے مشرقی افریقہ ریڈیو سے بھی حضور کے خطبہ کا خلاصہ نشر کیا۔ )الفضل ۶۔ ستمبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۷( اس طرح خدا تعالیٰ نے حضور کی آواز کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کا انتظام فرما دیا۔
۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۷۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔ اخبار آبزرور (OBSERVER) لنڈن کے سٹاف رپورٹر نے اس تقریر پر یہ تبصرہ کیا کہ تمام مقررین میں سے زیادہ صاف گو انڈین ڈیلی گیشن کے قائد سر محمد ظفر اللہ خاں تھے آپ نے اپنی تقریر میں کہا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہندوستان کے ۲۵ لاکھ فرزند کامن ویلتھ کی اقوام کی آزادی کی حفاظت کے لئے لڑرہے ہیں مگر ہندوستان خود اپنی آزادی کے لئے درخواستیں کررہا ہے۔ )ترجمہ(
۸۔
‏ MAJESTY`S HER LONDON ۔648 ۔646 ۔P 5 VOL: 7 ۔1942 POWER> OF TRANSFER (<THE
)۔1974 OFFICE STATIONERY
۹۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۴۔
۱۰۔
بحوالہ الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۷ کالم ۱۔
۱۱۔
بحوالہ الفضل ۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۹ کالم ۱ تا ۳۔
۱۲۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۲ و ۳۔
۱۳۔
ایضاً۔
۱۴۔
بحوالہ الفضل ۲۴۔ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۴۔
۱۵۔
بحوالہ الفضل ۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۶۔
ترجمہ پریت لڑی مارچ ۱۹۴۵ء۔
۱۷۔
یعنی مسلم لیگ )مرتب(
۱۸۔
اس تقریر کے ملخص کا ترجمہ ان ہی دنوں اخبار >الفضل< نے اپنے ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے پرچہ میں شائع کر دیا تھا۔ مندرجہ بالا اقتباس اسی پرچہ سے ماخوذ ہے۔
۱۹۔
اس مضمون کا خلاصہ اخبارات میں بھی شائع ہوگیا تھا جس کا ترجمہ >الفضل< ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں بھی چھپ گیا تھا۔
۲۰۔
الفضل ۲۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸ کالم ۲۔
۲۱۔
الفضل ۲۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸۔
۲۲۔
بحوالہ الفضل ۲۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸۔
۲۳۔
سرتیج بہادر سپرو کا شمار اعتدال پسند ہندوئوں میں سے ہوتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے نعرہ سے سہم کر اپنی صدارت میں ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل کی تھی۔ جس میں سر وزیر حسن` سر رادھا کشن` مسٹر جیکنز` مسٹر این۔ آر سرکار وغیرہ لوگ شامل کئے۔ کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسا حل دریافت کیا جائے جو مسلم لیگ اور کانگرس دونوں کے لئے وجہ اشتراک بن سکے اور ہندوستان کے آئندہ دستور کی بنیاد قرار دیا جاسکے۔ سپرد کمیٹی کی رپورٹ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۵ء کو شائع ہوئی جس میں کانگرسی نقطہ نگاہ کی ترجمانی کی گئی تھی۔
۲۴۔
الفضل ۲۴۔ مارچ ۱۹۴۵ء صفحہ ۸ کالم ۴۔
۲۵۔
خود نوشت سوانح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب )غیر مطبوعہ( بعد ازاں ۱۹۷۱ء میں >تحدیث نعمت< کے نام سے شائع ہوگئی۔
۲۶۔
الفضل ۲۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۷۔
الفضل ۱۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
۲۸۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ تا ۷۔
۲۹۔
اخبار اہلحدیث امرتسر ۶۔ جولائی ۱۹۴۵ء صفحہ ۴۔
۳۰۔
الفضل ۲۷` ۲۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲۔
۳۱۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحہ ۱۵۳ مصنفہ محمد اشرف خاں عطاء مدیر معاون زمیندار اشاعت منزل بل روڈ لاہور۔
۳۲۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی مصنفہ محمد اشرف خاں عطاء مدیر معاون زمیندار اشاعت منزل بل روڈ لاہور صفحہ ۱۵۲۔
۳۳۔
الفضل ۱۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸۔
۳۴۔
الفضل ۱۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۸۔
۳۵۔
گول میز کانفرنس )جنوری ۱۹۳۱ء( میں شرکت کے بعد لندن میں وفات پائی اور بیت المقدس میں دفن کئے گئے۔
۳۶۔
مطبوعہ ہفت روزہ لاہور ۳۰۔ جولائی ۱۹۹۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۳۷۔
اخبار انقلاب لاہور ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۸۔
۳۸۔
یہاں ضمناً یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ اگرچہ جماعت احمدیہ کانگرس کے مقابل آل انڈیا سوال پر ہمیشہ مسلم لیگ ہی کی موید رہی تھی اور اسی کا پراپیگنڈا کرتی تھی۔ مگر ان دنوں پنجاب مسلم لیگ پر بعض ایسے ارکان کا قبضہ ہوگیا تھا جو احمدیوں کو من حیث الجماعت مسلم لیگ میں شامل ہونے کی اجازت تک دینے کے لئے تیار نہ تھے اور جن کا رویہ جماعت احمدیہ کی نسبت حددرجہ اشتعال انگیز تھا۔ حتیٰ کہ لاہور مسلم لیگ کے بعض پبلک جلسوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا جارہا تھا۔ مگر یہ بات صرف صوبہ پنجاب کی حد تک محدود تھی۔ جہاں تک مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کا تعلق ہے وہ احمدیوں سے ہم آہنگ تھی۔ چنانچہ یہ مشہور واقعہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور ۳۰۔ جولائی ۱۹۴۴ء میں مولوی عبدالحامد صاحب بدایونی نے ایک قرارداد پیش کرنا چاہی جس کا مقصد یہ تھا کہ قادیانیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ لوگ باتفاق علماء دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ لیکن قائداعظم محمد علی جناح نے یہ قرارداد پیش کرنے کی قطعاً اجازت نہ دی۔ )زمیندار ۱۱۔ شعبان ۶۳ھ مطابق یکم اگست ۱۹۴۴ء بحوالہ پمفلٹ مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے مرتبہ جمعیتہ علماء صوبہ دہلی شائع کنندہ سید انظار الدین قاسمی(
قائداعظم کے اس جرات مندانہ اقدام پر ہندو پریس نے بہت غوغا مچایا۔ چنانچہ پرتاپ )۲۔ اگست ۱۹۴۵ء( نے لکھا گویا بطور مصلحت کم از کم کچھ عرصہ کے لئے غیر مسلم بھی مسلم لیگ میں رہ سکتے ہیں۔ اسلام کو پولیٹیکل مصلحتوں کے ماتحت کر دیا گیا ہے اور لطف یہ ہے کہ اسلام کے بڑے بڑے مولانائوں کو بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں۔ اسی طرح اخبار ویر بھارت )۴۔ اگست ۱۹۴۵ء( نے طنز کی کہ قائداعظم ٹھہرے نئی روشنی کے آدمی! ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت محمد صاحب کے سوائے کسی دوسرے شخص کو پیغمبر ماننے والے مسلمان کیوں نہیں رہتے۔ مسلمان تو تب نہ رہیں جب وہ مسٹر جناح کو اپنا قائداعظم اور مسلم لیگ کو اپنی نمائندہ جماعت نہ مانیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرنے کے بعد کوئی پیغمبر اسلام کے پاس جائے یا خلیفہ قادیان کے پاس مسٹر جناح اس سے خواہ مخواہ جھگڑا کیوں کریں۔ قادیانی مسلم لیگ میں شامل رہے تو فائدہ ہی ہے۔ مسٹر جناح کو قیامت کے روز رسول خدا کی سفارش کے علاوہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے قادیانی نبی کا پاسپورٹ بھی مل جائے گا<۔ اس تمسخر و استہزاء کے علاوہ جس کا مقصد تحریک پاکستان کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ ایک ہندو اخبار آریہ گزٹ )۲۷۔ اگست ۱۹۴۴ء( نے اس کا پس منظر بیان کرتے ہوئے یہ فسانہ بھی تراشا کہ کشمیر کے بعض احمدی کارکنوں نے مسٹر جناح کو مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت کا یقین دلایا ہے بشرطیکہ وہ پاکستان میں احمدیوں کے کعبہ کو ایک خود مختار صوبہ تسلیم کرلیں۔ اور اس صوبہ کی اسلامی پنجاب میں وہی حیثیت ہو جو اٹلی میں پوپ کے دارالخلافہ ویٹیگن کی ہے۔ انہوں نے قادیان میں مطبوعہ مجوزہ قادیان سٹیٹ کا ایک نقشہ بھی مسٹر جناح کے سامنے پیش کیا۔ جس میں دریائے بیاس سے لے کر پوری بٹالہ تحصیل اور گورداسپور تحصیل کا بڑا حصہ دکھایا گیا۔ مسٹر جناح سے کہا گیا کہ قادیان سٹیٹ کا سرکاری مذہب احمدی ہوگا اور خلیفہ قادیان اس کے مذہبی پیشوا اور بحیثیت عہدہ گورنر ہوں گے۔
۳۹۔
الفضل ۲۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۴۰۔
حضور نے پنجاب کے متعلق )جہاں بعض احمدی بھی بطور امیدوار کھڑے ہورہے تھے( یہ فیصلہ فرمایا کہ یہاں اگر کوئی احمدی کھڑا ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ مسلم لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ٹکٹ حاصل نہ کرسکے اور وہ سمجھے کہ احمدی ووٹ یا اس کی قوم کا ووٹ زیادہ ہے اور اس کا جائز حق دینے سے انکار کیا جارہا ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ یہ اعلان کرکے ممبری کے لئے کھڑا ہو جائے کہ میں پالیسی کے لحاظ سے مسلم لیگ سے متفق ہوں مگر مجبوراً آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہورہا ہوں۔ )الفضل ۲۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴(
اس موقعہ پر سیدنا المصلح الموعود نے پنجاب میں مسلم لیگ کو یہاں تک پیشکش کردی تھی کہ اگر وہ یہ فیصلہ قطعی طور پر کردے کہ مسلم لیگ میں احمدی شامل ہوسکتے ہیں اور اسی طرح انکے حقوق ہوں گے جس طرح دوسرے لوگوں کے ہیں تو آپ سب احمدی امیدواروں کو بٹھا دیں گے۔ مگر افسوس انہوں نے نیشنلسٹ مسلمانوں سے ڈرکر اس فیصلہ کی جرات نہ کی گو فرداً فرداً دو درجن سے زیادہ مسلم لیگی نمائندوں نے اور بعض ضلع لیگوں نے جماعت احمدیہ سے مدد طلب کی اور جماعت نے ان سے بھرپور تعاون کیا اور وہ خدا کے فضل سے ووٹوں کی بھاری تعداد سے کامیاب ہوگئے۔ )الفضل یکم تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ۱(
۴۱۔
الفضل ۲۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۲۔
۴۲۔
قائداعظم اور ان کا عہد مصنف سید رئیس احمد جعفری )ندوی( صفحہ ۴۲۰ تا ۴۲۲۔
۴۳۔
اصل خط )مرقومہ ۶۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء( محفوظ ہے۔
‏vat,10.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
قیام پاکستان کیلئے جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارنامے
۴۴۔
الفضل ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۴۵۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۴۶۔
الفضل یکم تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۴۷۔
الفضل ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۴۸۔
‏]2h [tag حضرت مصلح موعود کے ایک مکتوب بنام پیر اکبر علی صاحب مرقومہ ۲۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش سے ماخوذ۔
۴۹۔
اس مقام پر رسالہ کی عبارت مدھم ہے۔ صحیح تاریخ پڑھی نہیں جاتی۔ )مرتب(
۵۰۔
اخبار مدینہ بجنور )۵۔ اگست ۱۹۴۴ء صفحہ ۱( میں ہے۔ >قادیانیوں کے اخراج کے متعلق جو تجویز پیش ہونے والی تھی اسے بھی مسٹر جناح نے پیش ہونے سے روک دیا<۔
۵۱۔
یہاں بریکٹ کے اندر مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہے۔ یہ تجویز مرزا محمود احمد کو بھی پسند نہیں تھی۔ دیکھو الفضل ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء۔ مضمون مرزا محمود۔ گو ہم پہلے بھی ایسے اکھنڈ ہندوستان کے قائل تھے جن میں مسلمان کا پاکستان اور ہندو کا ہندوستان برضاء و رغبت شامل ہوں اور اب بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ ساری دنیا کی حکومت ایک ہو۔ مگر چونکہ مسلم لیگ اس کو مسلمان کا سرٹیفکیٹ دینے والی تھی۔ اس لئے ناپسندیدگی کی صورت میں بھی ووٹ مسلم لیگ کو دیئے۔ صفحہ ۲۴۔
۵۲۔
مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ شائع کردہ مجلس احرار اسلام قادیان )۱۹۴۶ء( صفحہ ۱۸۔ ۱۹۔ یہ رسالہ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے۔
۵۳۔
قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۶۵۸ تا ۶۶۲ )از سید رئیس احمد جعفری(
۵۴۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحہ ۱۷۸۔ ۱۷۹ )مصنفہ محمد اشرف خاں عطاء مدیر معاون زمیندار لاہور )۱۹۴۶ء(
۵۵۔
الفضل ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۸
۵۶۔
ملاحظہ ہو الفضل ۲۸۔ صلح` ۲۹۔ صلح۔ ۲۔ تبلیغ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۵۷۔
مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر مختصر تبصرہ میں لکھا ہے کہ تحصیل بٹالہ میں فتح محمد سیال مرزائی نے مرزا محمود کے کہنے کے مطابق پنجاب مسلم لیگ سے لیگ کا ٹکٹ مانگا اور تحصیل شکر گڑھ میں عبدالغفور قمر مرزائی نے لیگ کا ٹکٹ مانگا مگر ان میں سے صرف عبدالغفور قمر ایم۔ اے مرزائی کو ہی تحصیل شکر گڑھ کا ٹکٹ ملا صفحہ ۱۹۔
۵۸۔
الفضل ۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۶۔ ۲۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔ یکم امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۴۔
۵۹۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سیدنا المصلح الموعود کا خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل یکم امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۶۰۔
الفضل ۲۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۶۱۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحہ ۱۸۳۔
۶۲۔
الفضل ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۶۔
۶۳۔
اخبار الفضل ۱۹۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش( نے اس شرمناک پراپیگنڈا کے جواب میں آریہ سماجی اخلاق کا جنازہ کے عنوان سے ایک شذرہ سپرد قلم کیا جس میں لکھا اس خبر سے سوائے اس کے کہ نامہ نگار کے ناپاک اخلاق اور ایڈیٹر کی گندی ذہنیت آشکار ہو جائے ہمیں تو اور کوئی فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اتنا ہم ضرور پوچھیں گے کہ اگر یہی خبر نامہ نگار کی بہو بیٹیوں یا ایڈیٹر پرتاپ کی ماں بہنوں کے متعلق شائع ہو تو کیا وہ ان کو ناگوار نہیں گزرے گی اور ان کے دلوں کو صدمہ نہیں پہنچے گا اور خصوصاً اس وقت جبکہ اس خبر میں صداقت کا ایک ذرہ بھی نہ ہو۔ اگر تمہارے اخلاق اس قدر گندے ہوچکے ہیں کہ ان میں شرافت اور انسانیت کا ایک شمہ بھی باقی نہیں رہا تو بے شک ایک دوسرے کو گالیاں دو اور درندگی کا مظاہرہ جیسے چاہو کرو مگر خدا کے لئے شریف پردہ نشین لڑکیوں کو تو درمیان میں نہ لائو۔
۶۴۔
صفحہ ۴۰ ناظم جمعیتہ علماء ہند۔ مطبوعہ دہلی پرنٹنگ ورکس دہلی۔
۶۵۔
انوار عثمانی صفحہ ۱۴۲ )مکتوبات شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی( مرتبہ پروفیسر محمد انوار الحسن صاحب انور شیر کوٹی۔ ۱۸۹۔ اے پیپلز کالونی لائل پور۔ ناشر مکتبہ اسلامیہ مولوی مسافر خانہ بندر روڈ کراچی نمبر ۱۔
۶۶۔
ایضاً۔
۶۷۔
انوار عثمانی صفحہ ۱۸۶ )مکتوبات شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی( مرتبہ پروفیسر محمد انوار الحسن صاحب انور شیر کوٹی۔
۶۸۔
پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ صفحہ ۱۱۲۔ ۱۱۳` مرتبہ مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی )جنوری ۱۹۴۶ء( مطبوعہ ثنائی پریس امرتسر۔
۶۹۔
ناشر مولوی عطاء اللہ صاحب بھوجیانی خطیب جامع اہلحدیث شہر فیروزپور۔
۷۰۔
پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ صفحہ ۱۹۲۔
۷۱۔
پیغام ہدایت در تائید پاکستان و مسلم لیگ صفحہ ۱۷۰۔
۷۲۔
الفضل ۱۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲ کالم ۳ و ۴۔
۷۳۔
اس اہم مضمون کا ایک حصہ اخبار انقلاب لاہور نے اپنی ۱۹۔ اپریل ۱۹۴۶ء )صفحہ ۳( کی اشاعت میں بھی دیا تھا۔
۷۴۔
الفضل ۶۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ تا ۷۔
۷۵۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی مصنفہ محمد اشرف خاں عطاء صفحہ ۲۳۶ تا ۲۳۹۔
۷۶۔
قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۷۳۱۔
۷۷۔
قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۷۳۵۔
۷۸۔
الفضل ۲۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۷۹۔
ایضاً۔
۸۰۔
حیات قائداعظم صفحہ ۶۴۸۔ ۶۴۹ )از چودھری سردار محمد خان صاحب بی۔ اے۔ ناشر پبلشرز یونائیٹڈ انارکلی لاہور۔
۸۱۔
حیات قائداعظم صفحہ ۶۵۰۔
۸۲۔
الفضل ۱۹۔ ستمبر/ تبوک ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۸۳۔
یہ واقعہ جناب صوفی عبدالقدیر صاحب کی اہم یادداشت سے ماخوذ ہے۔ اصل یادداشت انگریزی میں ہے۔
۸۴۔
قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۷۳۹۔ ۷۴۰۔
‏]h1 [tag۸۵۔
الفضل ۲۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۸۶۔
الفضل ۳۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۸۷۔
یادداشت صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کے مطابق۔
۸۸۔
الفضل ۳۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۸۹۔
الفضل ۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۹۰۔
الفضل ۱۱` ۱۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۹۱۔
الفضل ۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۹۲۔
الفضل ۷۔ اکتوبر/ اخاء ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔ نامہ نگاروں کے نام جناب صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز کی یادداشت سے لئے گئے ہیں۔
۹۳۔
الفضل ۷۔ اکتوبر/ اخاء ۱۹۴۶ء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۹۴۔
الفضل ۳۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں مفصل خطبہ جمعہ چھپا ہوا ہے۔
۹۵۔
الفضل ۱۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۸۔
۹۶۔
حالات قائداعظم محمد علی جناح صفحہ ۶۰۶ )از خالد اختر افغانی( طبع دوم ۱۹۴۶ء۔
۹۷۔
مسٹر گاندھی کی رہائش گاہ۔
۹۸۔
نوائے وقت لاہور ۱۳۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۹۔
الفضل ۱۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۰۰۔
الفضل ۱۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۴ تا ۶۔
۱۰۱۔
بحوالہ نوائے وقت ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۰۲۔
بحوالہ نوائے وقت ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔
۱۰۳۔
بحوالہ نوائے وقت ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۰۴۔
بحوالہ نوائے وقت ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۵۔
بحوالہ نوائے وقت ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۴۔
۱۰۶۔
حیات قائداعظم )طبع دوم( صفحہ ۶۵۴ )از چودھری سردار احمد خاں(
۱۰۷۔
نواب زادہ لیاقت علی خاں )مالیات( راجہ غضنفر علی خاں )حفظان صحت( مسٹر آئی۔ آئی چندری گر بمبئی )کامرس( مسٹر عبدالرب نشتر سرحد )ڈاک اور پرواز( اچھوت ممبر مسٹر جوگندر ناتھ منڈل بنگال )وضع قانون(
۱۰۸۔
نوائے وقت ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔][۱۰۹۔
نوائے وقت ۲۱۔ نومبر ۱۹۴۶ء۔
۱۱۰۔
نوائے وقت ۲۱۔ نومبر ۱۹۴۶ء۔
۱۱۱۔
نوائے وقت ۲۲۔ نومبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۱۲۔
حیات قائداعظم صفحہ ۶۵۳ )از چوہدری سردار محمد خاں( طبع دوم۔
۱۱۳۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحہ ۲۵۰ )از محمد اشرف خاں عطا(
۱۱۴۔
الفضل ۱۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۱۵۔
قائداعظم اور ان کا عہد )سید رئیس احمد جعفری صفحہ ۷۶۴(
۱۱۶۔
یاد رہے ۲۰۔ فروری وہی تاریخ ہے جبکہ حضرت مسیح موعودؑ کو اسیروں کے رستگار سیدنا المصلح الموعود کی آسمانی بشارت ملی تھی۔
۱۱۷۔
قائداعظم اور دستور ساز اسمبلی صفحہ ۲۶۴۔ ۲۶۵۔
۱۱۸۔
حق یہ ہے کہ مسلم لیگی زعماء ایک عرصہ سے اس تگ و دو میں مصروف تھے کہ سر خضر حیات خاں وزیراعظم یونینسٹ حکومت کو مسلم لیگ میں شامل کریں۔ چنانچہ پنجاب لیگ کے اکابر نے خان افتخار حسین ممدوٹ صدر پنجاب مسلم لیگ کی قیادت میں ستمبر ۴۶ء کے آخری ہفتہ میں ان سے مذاکرات بھی کئے۔ سر خضر حیات خاں ان دنوں شملہ میں تھے۔ یہ مذاکرات قائداعظم کے مشورہ پر ہوئے تھے مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ )انقلاب ۳۰۔ ستمبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۱(
۱۱۹۔
الفضل ۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۲۰۔
بحوالہ الفضل ۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۲۱۔
بحوالہ الفضل ۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش۔
۱۲۲۔
قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ صفحہ ۵۰ )از تقریر علامہ مولانا جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن ناشر مہتمم نشر و اشاعت نظارت دعوۃ و تبلیغ صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔
۱۲۳۔
خود نوشت سوانح حیات چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب صفحہ ۳۸۳ تا ۳۹۰۔
۱۲۴۔
الفضل ۱۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸ کالم ۱۔ یاد رہے قبل ازیں پنڈت جواہر لال نہرو بمبئی میں ۱۱۔ نومبر ۱۹۴۵ء کو ایک تقریر کے دوران کہہ چکے تھے کہ سوال یہ ہے کہ اگر غیر مسلم پاکستان میں رہنے سے انکار کریں تو مسٹر جناح کیا کریں گے۔ ان لوگوں کو پاکستان میں رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے اور وہ ہے دبائو کا یا پاکستانی صوبوں کے حصے بخرے کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔ کیا مسٹر جناح بنگال اور پنجاب کے حضے بخرے کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے چیلنج کیا کہ بنگال اور پنجاب منقسم نہیں ہوسکتے کیونکہ دونوں میں ایک تمدنی ایکتا ہے۔ )پرتاپ ۱۳۔ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۳(
۱۲۵۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۲۔
۱۲۶۔
الفضل ۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۳۔
‏h1] [tag۱۲۸۔
مورخ پاکستان سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب قائداعظم اور ان کا عہد میں اس دردانگیز واقعہ کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔ >ڈاکٹر ہارون الرشید جو محکمہ صحت کے انچارج تھے بے دردی سے قتل کر دیئے گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کے کپڑے اتار دیئے گئے اور مجمع میں سے کسی ایک شخص کو بہ حیثیت شوہر منتخب کرلینے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے انکار کیا تو انہیں مارتے مارتے ادھ موا کر دیا گیا۔ یہ واقعہ دریا کے کنارے پیش آیا تھا۔ ان کی سمجھ میں کچھ اور تو نہ آیا۔ وہ دریا میں کود پڑیں اور نیم بے ہوش حالت میں بہت دور جانکلیں ایک آدمی نے انہیں دیکھ لیا۔ وہ ان کی بہتی ہوئی لاش کو گھسیٹتا ہوا کنارے لایا۔ کچھ رمق زندگی کی باقی تھی۔ علاج معالجہ سے اچھی ہوگئیں۔ اب اپنے وطن لاہور میں ہیں۔ گڑھ مکتیسر کے شہیدوں کے بے گورو کفن لاشیں کئی دن تک شارع عام میں پڑی سڑتی رہیں۔ کوئی ان کی نماز پڑھنے والا` انہیں دفن کرنے والا بھی نہ تھا۔ آہ۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را<
)صفحہ ۷۵۴۔ ۷۵۵(
۱۲۹۔
الفضل ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱ تا ۶۔
۱۳۰۔
ملخصاً از قائداعظم اور ان کا عہد صفحہ ۷۸۵ تا ۷۹۳۔
۱۳۱۔
ایضاً صفحہ ۷۹۴۔
۱۳۲۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ پاکستان بابت سال ۴۸۔ ۱۹۴۷ء/ ۲۷۔ ۱۴۳۲۶ہش صفحہ ۷۔
۱۳۳۔
یہ مضمون الفضل ۱۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱ تا ۴ میں بھی چھپ گیا تھا۔ افسوس اس دردمندانہ اپیل اور مخلصانہ مشورہ پر بعض سکھ حلقوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور حضور کو نہایت سخت الفاظ میں خطوط لکھے۔
۱۳۴۔
ملاحظہ ہو الفضل ۱۰` ۱۹` ۲۲۔ ہجرت/ مئی و ۱۴` ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔
۱۳۵۔
اس مضمون پر اخبار شیر پنجاب ۱۵۔ جون ۱۹۴۷ء صفحہ ۷۔ ۸ نے اپنے اداریہ )بعنوان مرزا بشیر احمد صاحب کے پیغام کا جواب( میں سخت جرح اور تنقید کی جس کے جواب میں آپ نے ایک نہایت مدلل و مفصل مضمون الفضل )۲۰۔ جون ۱۹۴۷ء( میں لکھا جو قابل مطالعہ ہے۔
۱۳۶۔
الفضل ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
مشہور سکھ اخبار شیر پنجاب نے ۲۵۔ فروری ۱۹۵۱ء کو اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور احمدیوں کی تائید پاکستان سے متعلق سابقہ جدوجہد پر طنز کرتے ہوئے زیر عنوان پاکستان کے احمدیوں پر مصائب لکھا کہ۔
احمدیوں کو پاکستان میں اس غیر محفوظ و خطرناک پوزیشن اور مصائب کا کون ذمہ دار ہے۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے۔ ع اے باد صبا ایں ہمہ آوردہ تست
اس کے ذمہ دار خود احمدی لیڈر ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کی سرگرم حمایت کی اور اپنے ساتھ ڈوبنے کی سکھوں کو بھی ترغیب دینے کی جسارت کی۔ اس سلسلہ میں جون ۴۷ء میں سول ملٹری گزٹ لاہور میں قادیان کے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے نے ایک مضمون تقسیم شدہ پنجاب میں سکھوں کی پوزیشن کے عنوان سے چھپوایا۔ اس مضمون کا ترجمہ احمدیوں کے سرکاری اخبار الفضل میں اور بعد میں ایک پمفلٹ خالصہ ہوشیارباش میں بھی چھپوا کر تقسیم کیا گیا جس میں سکھوں کو یہ دوستانہ مشورہ دیا گیا کہ وہ پنجاب کی تقسیم کو روکیں کیونکہ اس طرح سکھ پنتھ بھی تقسیم ہو جائے گا اور وہ کہیں کے نہ رہیں گے نیز سکھوں اور مسلمانوں کے عقائد میں یکسانیت ہے۔ اس لئے انہیں مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہئے۔ اگر سکھ اس وقت اس مشورہ کو قبول کرکے کوئی غلط قدم اٹھا لیتے تو اب احمدی حضرات ہی سوچیں کہ اس کا انجام کتنا خطرناک ہوتا۔ اگر پاکستانی مسلمان احمدیوں کی پاکستان کے لئے قربانیوں ان کی مسلمانوں کی سی شکل و صورت` ان کے مسلمانوں کے سے نام` ان کا مسلمانوں کی کتاب اور پیغمبر پر ایمان اور شریعت اسلامیہ پر ان کے عمل کے باوجود بھی انہیں مرتد کافر جہنمی دجال مکار فریبی ہی سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ اقتصادی سیاسی معاشرتی شادی و غمی کے تعلقات رکھنے کو تیار نہیں تو وہ سکھوں سے کیونکر انصاف کرسکتے۔ )شیر پنجاب ۲۵۔ فروری ۱۹۵۱ء بحوالہ الفضل ۲۱۔ امان/ مارچ ۱۹۵۱ء/ ۱۳۲۰ہش(
۱۳۸۔
سہو کتابت سے تیسرے لکھا گیا۔ )ناقل(
۱۳۹۔
الفضل ۹۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۱۔
الفضل ۷۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۲۔
الفضل ۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔
۱۴۳۔
الفضل ۱۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۴۔
الفضل ۲۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۵۔
الفض ۱۷۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۶۔
الفضل ۲۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۴۷۔
صفحہ ۱۸۴۔ ۱۸۹ تا ۱۹۲۔ ۴۷۸۔ یہ کتاب پہلی بار ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی اور اس کے ناشرین مندرجہ ذیل ہیں۔
‏Inc: ۔Co and Dutton P۔E York: New ۔Ltd Co& and LONDON:Methuen
۱۴۸۔
الفضل ۱۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔
۱۴۹۔
یاد رہے سکھوں کے مقابل بعض مسلم لیگی زعماء نے ان دنوں مطالبہ کیا تھا کہ دریائے ستلج کے پار تک کا علاقہ پاکستان میں شامل کیا جائے کیونکہ پاکستان کی یہی قدرتی حد بنتی ہے۔ )الفضل ۱۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸(
۱۵۰۔
اقتباس از مکتوب حضرت مصلح موعود مرقومہ ۱۱۔ اگست ۱۹۴۷ء۔
۱۵۱۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۵۲۔
الفضل ۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۲۔
۱۵۳۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۲۷۔ دسمبر ۱۹۵۰ء کی تقریر میں بڑی شرح و بسط سے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ نیز بتایا کہ مسلم لیگ کی طرف سے ہمیں جو علیحدہ میمورنڈم دیئے جانے کی اجازت دی گئی اس کے گواہ نواب افتخار حسین ممدوٹ` خواجہ عبدالرحیم صاحب سابق کمشنر` چوہدری اکبر علی صاحب اور دیگر مسلم لیگی کارکن ہیں۔ )الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش صفحہ ۴۔ ۵(
۱۵۴۔
الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۵۱ء/ ۱۳۳۰ہش )ملخصاً از خطاب سیدنا المصلح الموعود(
۱۵۵۔
جماعت احمدیہ کے علاوہ مسلم لیگ کی تائید کے لئے بہاولپور سٹیٹ` پنجاب مسلم فیڈریشن` سٹی مسلم لیگ منٹگمری` بٹالہ مسلم ڈسٹرکٹ مسلم لیگ لدھیانہ` تحصیل جالندھر مسلم لیگ` مسلم راجپوت کمیٹی گڑھ شنکر تحصیل وغیرہ نے محضر نامے داخل کرائے۔
۱۵۶۔
۔470 to 428 P: I VOL 1947 PUNJAB THE OF PARTITION THE
۔1983 ۔LAHORE DOCOMENTATION NATIONAL
۱۵۷۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔
۱۵۸۔
الفضل ۲۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔
۱۵۹۔
الفضل ۲۹۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۶۰۔
الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۶۱۔
)ترجمہ( ۔252 ۔240 PAGE 2 VOL ۔1947 PUNJAB THE OF PARTITION THE
۱۶۲۔
الفضل ۲۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸ کالم ۲۔
۱۶۳۔
الفضل ۱۲۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۶۴۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم )صفحہ ۵۷۷۔ ۵۹۶( میں برصغیر کے اس مشہور مقدمہ کی روداد آچکی ہے۔ لاہور کے مسلمان وکلاء کے متفقہ فیصلہ پر آپ اس مقدمہ کی وکالت کے لئے پیش ہوئے تھے آپ نے اپنی عدالتی تقریر ان تاریخی الفاظ پر ختم فرمائی کہ۔
>حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ جن کے احکام کے سامنے دنیا کی چالیس کروڑ آبادی کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ` عظیم الشان وزراء` مشہور عالم جرنیل اور کرسی عدالت پر رونق افروز ہونے والے جج )جن کی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے( فخر کرتے ہیں۔ ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی ذلیل تحریر کو کسی جج کا یہ قرار دینا کہ اس سے نبی کریم کی کوئی ہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آئوٹ لک کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کو کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی ہم صائب الرائے ٹھہراتے ہیں<۔
اس موقعہ پر مولوی ظفر علی خاں صاحب فرط جوش سے آبدیدہ ہوگئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چودھری صاحب کا ہاتھ چوم کر آپ کو گلے سے لگا لیا۔ )دور جدید لاہور ۱۶۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء صفحہ ۳۔ ۴(
۱۶۵۔
بعض کاغذات سے آپ کی روانگی کی تاریخ ۲۴۔ جون متعین ہوتی ہے۔
۱۶۶۔
الفضل ۱۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۸۔
۱۶۷۔
‏h2] g[ta مسلم لیگ کے محضر نامہ کا متن اور ایوارڈ کے سامنے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی مکمل بحث بھی کتاب THEPARTITIONOFTHEPUNJAB میں شائع ہوچکی ہے ملاحظہ ہو )محضر نامہ( جلد۱ صفحہ ۲۸۱ تا ۲۹۸ )بحث( جلد ۲ از صفحہ ۲۵۲ تا ۵۳۷۔
۱۶۸۔
غیر مطبوعہ تحریر مورخہ ۳۱۔ مارچ ۱۹۹۴ء )ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ(
۱۶۹۔
حضرت چوہدری صاحب نے جس وقت یہ تحریر لکھی اس وقت محمد ایوب خان ہی صدر پاکستان تھے۔ )مرتب(
۱۷۰۔
خود نوشت سوانح عمری حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب صفحہ ۳۹۰ تا ۴۰۸ )غیر مطبوعہ(
یہ سوانح عمری بعد میں حضرت چودھری صاحب کی زندگی میں ہی تحدیث نعمت کے نام سے دو بار اشاعت پذیر ہوگئی۔ دوسرے ایڈیشن کے صفحہ ۵۰۹ سے صفحہ ۵۳۱ پر ریڈ کلف ایوارڈ اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی شرمناک جانبداری کو بے نقاب کیا گیا۔ )ناشر اعجاز احمد۔ بشیر احمد مطبع پاکستان پرنٹنگ ورکس ناشر( اے ودود احمد ۴۸ جوہر محمود روڈ نیو سمن آباد لاہور دسمبر ۱۹۸۲ء۔
۱۷۱۔
الفضل ۶۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۹ء/ ۱۳۴۸ہش ضفحہ ۷۔ ۸۔
‏h1] g[ta۱۷۲۔
اس روز آپ نے مسلم لیگ کی ہدایت پر بہاولپور کی طرف سے بھی کیس پیش فرمایا۔ )الفضل یکم اگست ۱۹۴۷ء صفحہ ۸(
۱۷۳۔
بحث کی تیاری کے سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ چوہدری صاحب نے میمورنڈم داخل کمشن کرانے کے اگلے دن ۱۹۔ جولائی ۱۹۴۷ء کو قادیان فون کیا کہ گیانی واحد حسین صاحب اور گیانی عباداللہ صاحب مسلمانوں نے اپنے عہد حکومت میں سکھوں کے ساتھ جو نیک سلوک کیا اور جاگیریں دیں ان کے حوالے اور اصل کتب لے کر جلد لاہور آجائیں۔ چنانچہ اس کی تعمیل میں سکھ لٹریچر کے یہ دونوں ممتاز فاضل ضروری کتابیں لے کر لاہور پہنچ گئے اور مسلم لیگ کے کیس کی تائید میں مطلوبہ مواد فراہم کردیا۔
۱۷۴۔
روزنامہ نوائے وقت یکم اگست ۱۹۴۷ء۔
۱۷۵۔
روزنامہ نوائے وقت ۲۴۔ اگست ۱۹۴۸ء۔
۱۷۶۔
رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۲۰۹۔
۱۷۷۔
ہفت روزہ گرج دہلی آزادی ایڈیشن متعلقہ اقتباس کا چربہ ملاحظہ ہو۔

یہاں اقتباس آئے گا

۱۷۸۔
بحوالہ الفضل ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۲ء/ ۱۳۳۱ہش صفحہ ۲۔
‏vat,10.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
چوتھا باب )فصل اول(
>حجتہ اللہ< حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے انتقال اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< سے لے کر یورپ میں نئے احمدیہ مشنوں کے قیام اور تحریک آزادی انڈونیشیا کی پرجوش حمایت تک۔
از صفر ۱۳۶۴ھ مطابق ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش تا شوال ۱۳۶۵ھ مطابق ظہور/ اگست ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش
خلافت ثانیہ کا بتیسواں)۳۲( سال
حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کا انتقال
اس سال کا نہایت اندوہناک واقعہ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا انتقال پرملال ہے جو ماہ تبلیغ/ فروری میں ہوا۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے خاندانی حالات
حضرت نواب محمد علی خان صاحب ریاست مالیر کوٹلہ کے فرمانروا خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو نسلاً شیروانی افغان ہے اور جس کے جدا مجد ایک باخدا بزرگ حضرت شیخ صدر جہاں ۱۴۶۹ء میں جلال آباد سے ہندوستان تشریف لائے اور سلطان بہلول لودھی کی بیٹی سے بیاہے گئے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔
>حبی فی اللہ نواب محمد علی خان صاحب رئیس خاندان ریاست مالیر کوٹلہ یہ نواب صاحب ایک معزز خاندان کے نامی رئیس ہیں۔ مورث اعلیٰ نواب صاحب موصوف کے شیخ صدر جہان۱ ایک باخدا بزرگ ¶تھے جو اصل باشندہ جلال آباد سروانی قوم کے پٹھان تھے۔ ۱۴۶۹ء میں عہد سلطنت بہلول لودھی میں اپنے وطن سے اس ملک میں آئے۔ شاہ وقت کا ان پر اس قدر اعتقاد ہوگیا کہ اپنی بیٹی کا نکاح شیخ موصوف سے کر دیا اور چند گائوں جاگیر میں دے دیئے چنانچہ ایک گائوں کی جگہ میں یہ قصبہ شیخ صاحب نے آباد کیا جس کا نام مالیر ہے۔ شیخ صاحب کے پوتے بایزید خاں نامی نے مالیر کے متصل قصبہ کوٹلہ کو تقریباً ۱۵۷۳ء میں آباد کیا جس کے نام سے اب یہ ریاست مشہور ہے۔ بایزید خاں کے پانچ بیٹوں میں سے ایک کا نام فیروز خاں تھا اور فیروز خاں کے بیٹے کا نام شیر محمد خاں اور شیر محمد خان کے بیٹے کا نام جمال خان تھا۔ جمال خاں کے پانچ بیٹے تھے مگر ان میں سے صرف دو بیٹے تھے جن کی نسل باقی رہی یعنی بہادر خاں اور عطاء اللہ خاں۔ بہادر خاں کی نسل میں سے یہ جوان صالح خلف رشید نواب غلام محمد خاں صاحب مرحوم ہے جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادر کرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدر جہاں کے رنگ میں لادے۔ سردار محمد علی صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر ان کے دماغی اور دلی قوی پر نمایاں ہے۔ ان کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود عین شباب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی ان کے نزدیک آئے معلوم نہیں ہوتے<۔۲
ولادت اور قبل از بیعت خدمات ملیہ
حضرت نواب محمد علی خاں کی ولادت یکم جنوری ۱۸۷۰ء کو ہوئی ابتدائی تعلیم چیفس کالج )انبالہ و لاہور( میں حاصل کی۔ ساڑھے سات برس کے تھے کہ والد بزرگوار کا سایہ اٹھ گیا اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ساری ذمہ داری ان پر آپڑی۔ شروع ہی سے دینی شغف رکھتے تھے اسلام اور مسلمانوں کے لئے فیاض تھے۔ مالی قربانی کرنے میں ہمیشہ فخر محسوس کرتے تھے۔ ۱۸۸۷ء سے ۱۸۹۴ء تک محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے وابستہ رہے اور جیسا کہ اس کے سالانہ جلسوں کی روئدادوں سے ظاہر ہے ہمیشہ چندہ دیتے رہے۔ علی گڑھ کے مشہور سٹریچی ہال کی تعمیر میں جن اصحاب نے پانچ سو روپیہ دیا ان میں آپ بھی تھے۔ چنانچہ ہال میں تیسرے نمبر پر آپ کی یادگار مندرجہ ذیل الفاظ میں موجود ہے۔
>پانصد روپیہ عطیہ خان صاحب محمد علی خاں رئیس مالیر کوٹلہ بشکریہ ولادت برخوردار محمد عبدالرحمن خاں ۱۹۔ اکتوبر ۱۸۹۴ء<۔
حضرت مسیح موعود سے خط و کتابت عقیدت اور بیعت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے آپ کے سلسلہ خط و کتابت کا آغاز ۱۸۸۹ء کے دوران آپ کے استاد مولوی عبداللہ صاحب فخری کاندھلوی کی تحریک پر ہوا جو خود ۴۔ مئی ۱۸۸۹ء کو بیعت کرچکے تھے چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا اور نہایت انکسار اور تواضع سے اپنے روحانی علاج کی درخواست کی۔ جس پر حضور نے تحریر فرمایا کہ دعا بلا تعلق نہیں ہوسکتی آپ بیعت کرلیں۔ مگر انہوں نے عرض کیا کہ میں شیعہ ہوں اور اہل تشیع ائمہ اثنا عشر کے سوا کسی کو دلی یا امام نہیں تسلیم کرتے اس لئے میں آپ کی بیعت کیسے کرسکتا ہوں؟ اس کا مفصل جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے لدھیانہ )محلہ اقبال گنج مکان شاہزادہ حیدر( سے ۷۔ اگست ۱۸۸۹ء کو تحریر فرمایا جو مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم کے شروع میں درج ہے۔ حضور نے اس خط میں نواب صاحب کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ۔
>اگر یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ تمام برکتوں اور امامتوں اور ولایتوں پر مہر لگا چکا ہے اور آئندہ کے لئے وہ راہیں بند ہیں تو خدائے تعالیٰ کے سچے طالبوں کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی دل توڑنے والا واقعہ نہ ہوگا گویا وہ جیتے ہی مر گئے اور ان کے ہاتھ میں بجز چند خشک قصوں کے اور کوئی مغزوار بات نہیں<۔ نیز آیت اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا >یہ آیت صاف بتلاتی ہے کہ کمالات امامت کا راہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا اس عاجز نے اسی راہ کے اظہار ثبوت کے لئے بیس ہزار اشتہار مختلف دیارو امصار میں بھیجا ہے اگر یہی کھلا نہیں تو پھر اسلام میں فضیلت کیا ہے؟ یہ تو سچ ہے کہ بارہ امام کامل اور بزرگ اور سید القوم تھے۔ مگر یہ ہرگز سچ نہیں کہ کمالات میں ان کے برابر ہونا ممکن نہیں۔ خدائے تعالیٰ کے دونوں ہاتھ رحمت اور قدرت کے ہمیشہ کے لئے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور جس دن اسلام میں یہ برکتیں نہیں ہوں گی اس دن قیامت آجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک آدمی آپ لوگوں میں اس مدعا کے ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہے کیا آپ لوگوں میں سے کسی کو خیال آتا ہے کہ اس کی آزمائش کروں؟<۳
اس خط کے بعد اگلے سال جولائی ۱۸۹۰ء میں پہلی بار قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فیض یاب ہوئے۔ ازاں بعد اگست ۱۸۹۰ء میں آپ حضور اقدس کی زیارت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے اور بالاخر جب پوری طرح اطمینان قلب نصیب ہوگیا تو ۱۹۔ نومبر۴ ۱۸۹۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی اور لکھا کہ۔
>ابتدا میں گو میں آپ کی نسبت نیک ظن ہی تھا۔ لیکن صرف اس قدر کہ آپ اور علماء اور مشائخ ظاہری کی طرح مسلمانوں کے تفرقہ کے موید نہیں ہیں بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل پر کھڑے ہیں مگر الہامات کے بارہ میں مجھ کو نہ اقرار تھا اور نہ انکار۔ پھر جب میں معاصی سے بہت تنگ آیا اور ان پر غالب نہ ہوسکا تو میں نے سوچا کہ آپ نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیں یہ سب جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ تب میں نے بطور آزمائش آپ کی طرف خط و کتابت شروع کی جس سے مجھ کو تسکین ہوتی رہی اور جب قریباً اگست میں آپ سے لودھیانہ ملنے گیا تو اس وقت میری تسکین خوب ہوگئی اور آپ کو ایک باخدا بزرگ پایا اور بقیہ شکوک کا پھر بعد کی خط و کتابت میں میرے دل سے بکلی دھویا گیا اور جب مجھے یہ اطمینان دی گئی کہ ایک ایسا شیعہ جو خلفائے ثلاثہ کی کسر شان نہ کرے سلسلہ بیعت میں داخل ہوسکتا ہے۔ تب میں نے بیعت کرلی۔ اب میں اپنے آپ کو نسبتاً بہت اچھا پاتا ہوں اور آپ گواہ رہیں کہ میں نے تمام گناہوں سے آئندہ کے لئے توبہ کی ہے۔ مجھ کو آپ کے اخلاق اور طرز معاشرت سے کافی اطمینان ہے کہ آپ ایک سچے مجدد اور دنیا کے لئے رحمت ہیں<۔۵
حضرت نواب صاحب کا ذکر >ازالہ اوہام< میں
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ذی الحجہ ۱۳۰۸ھ مطابق جولائی ۱۸۹۱ء میں >ازالہ اوہام< حصہ دوم شائع فرمائی تو اس میں اپنے دوسرے مجبین کے علاوہ نمبر ۸ پر حضرت نواب صاحب کا ذکر خاص فرمایا اور اس میں ان کے خاندانی حالات بیان کرنے کے بعد اور مندرجہ بالا خط کا اقتباس دینے سے قبل تحریر فرمایا۔
>میں قادیان میں جبکہ وہ ملنے کے لئے آئے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیزگار معلوم ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتوفیقہ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر آپ زور دے کر رئیسوں کے بے جا طریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کرلی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ جو کچھ ناجائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں اور جس قدر تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عملدرآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کرکے انہوں نے علیحدگی اختیار کرلی ہے<۔۶4] [rtf
حضرت نواب صاحب نے جماعت احمدیہ میں شمولیت کے بعد اپنے اوقات و اموال حضرت مسیح موعودؑ اور سلسلہ حقہ کے لئے عملاً وقف کر دیئے۔
حضرت نواب صاحب کی خدمات سلسلہ
حضرت نواب صاحب کی زمانہ مسیح موعود سے متعلق خدمات کا سلسلہ بہت وسیع ہے۔ مختصراً صرف یہ بتانا کافی ہوگا کہ آپ نے آئینہ کمالات اسلام اور اس سے پہلی تصانیف کی خریداری میں بھاری اعانت کی جس پر حضرت اقدس نے اپنے اشتہار ۱۰۔ اگست ۱۸۹۲ء میں خوشنودی کا اظہار فرمایا۔۷]text [tag اسی سال دسمبر ۱۸۹۲ء میں جماعت کا دوسرا مشہور سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ حضرت مسیح موعود کے خصوصی ارشاد کی تعمیل میں شریک ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ میں آنے والے ۳۲۷ صحابہ کی فہرست میں نمبر ۳۰۱ پر آپ کا نام درج فرمایا۔۱۸۹۶۸ء میں آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست کی کہ میں حضرت حافظ مولانا نور الدن صاحب سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ حضور کے ارشاد پر حکیم الامت مع اہلبیت مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور چند ماہ تک قیام فرمایا اس دوران میں حضرت نواب صاحب نے حکیم الامت اور آپ کے شاگردوں کی خاطر تواضع کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ۹۷۔ ۱۸۹۶ء میں آپ نے >الدار< کی توسیع کے لئے دل کھول کر چندہ دیا۔ ۱۸۹۸ء کے آغاز میں قادیان میں تعلیم الاسلام سکول کا اجرا ہوا۔ جس کے بہت سے اخراجات سالہا سال تک آپ اپنی گرہ سے ادا فرماتے رہے۔ اسی سال )۱۸۹۸ء میں( آپ کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیفٹینٹ گورنر پنجاب کے نام میموریل بھیجا جس کے آخر پر اپنے جن ۳۱۶ صحابہ کے نام رقم فرمائے ان میں سرفہرست آپ کا نام لکھا۔4] [stf۹ ۴۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء کو حضرت مسیح موعود نے اشتہار >من انصاری الی اللہ< میں اپنے صحابہ کے اخلاص کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی نسبت یہ الفاظ لکھے کہ۔
>یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حبی فی اللہ سردار نواب محمد علی خاں صاحب بھی محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور فراست صحیحہ شہادت دیتی ہے کہ وہ بہت جلد قابل رشک اخلاص اور محبت کے منار تک پہنچیں گے اور وہ ہمیشہ حتی الوسع مالی امداد میں بھی کام آتے رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو فدا کریں گے<۔۱۰
حضور کی یہ فراست بعد کے آنے والے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر دی چنانچہ جولائی ۱۹۰۰ء میں >منارۃ المسیح< کی آسمانی تحریک پر آپ نے سو روپیہ چندہ دیا۔ اور حضور نے اپنے دست مبارک سے فہرست چندہ دہندگان میں پہلا نام حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب طبیب شاہی کا اور دوسرا آپ کا درج فرمایا۔۱۱ نومبر ۱۹۰۱ء میں آپ فونو گراف لے کر قادیان حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور علیہ السلام نے اس کے لئے ایک لطیف تبلیغی نظم کہی جو حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کی آواز میں حضور کی بعض دوسری منظومات کے ساتھ فونو گرافی میں محفوظ کی گئی اور قادیان کے غیر مسلموں کو سنائی گئی۔ یکم مارچ ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود کے سامنے کشفاًآپ کی تصویر آئی اور الہام ہوا >حجتہ اللہ< صبح کی سیر کے وقت حضور نے نواب صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ چونکہ آپ اپنی برداری اور قوم میں سے اور سوسائٹی میں سے الگ ہوکر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا۔ یعنی آپ ان پر حجت ہوں گے۔ قیامت کے دن کو ان کو کہا جاوے گا کہ فلاں شخص نے تم سے نکل کر اس صداقت کو پرکھا اور مانا تم نے کیوں ایسا نہ کیا یہ بھی تم میں سے ہی تھا اور تمہاری طرح کا ہی انسان تھا<۔۱۲
۸۔ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو مجسٹریٹ لالہ آتما رام صاحب نے مقدمہ کرم دین کے فیصلہ میں سحضرت مسیح موعودؑ کو پانچ سو روپیہ اور حکیم فضل الدین صاحب کو دو سو روپیہ جرمانہ کیا۔ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے اپنے ایک آدمی کے ہاتھ اس روز احتیاطاً نو سو روپیہ کی رقم بھجوا دی تھی جس میں سے سات سو روپیہ کی رقم فی الفور ادا کر دی گئی۔ جنوری ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی مقبرہ کی آمد کے انتظام کے لئے صدر انجمن احمدیہ قادیان کا قیام فرمایا اور اس کی مجلس معتمدین کے ۱۴ ممبروں میں آپ کو بھی نامزد فرمایا آپ صف اول کے موصیوں میں سے تھے اور ۶۔ ستمبر ۱۹۰۶ء کو اپنی آمد کے دسویں حصہ کی وصیت کردی تھی۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ یعنی جہاں آپ کے مورث اعلیٰ کے گھر میں بادشاہ وقت کی بیٹی آئی وہاں آپ سے مسیح الزمان و مہدی دوران علیہ السلام کی مقدس صاحبزادی )حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ( کا نکاح ہوا اور رخصتانہ کی تقریب سعید )حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال مبارک کے بعد( ۱۴۔ مارچ ۱۹۰۹ء کو عمل میں آئی۔ اس روز حضرت نواب صاحب نے اپنی ڈائری میں اپنے قلم سے لکھا۔
>الحمدلل¶ہ کہ آج وہ دن ہے جس روز میرا نکاح حضرت کی بڑی صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ سے بعد نماز عصر مسجد اقصیٰ میں بالعوض )۵۶۰۰۰ ہزار۔ ناقل( روپیہ ہوگیا یہ وہ فضل اور احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ اگر میں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھسا دوں تو بھی خداوند کے شکر سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ میرے جیسا نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور۔ یہ خدا تعالیٰ کا خاص رحم اور فضل ہے اے خدا اے میرے پیارے مولا جب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نور بنا دے تاکہ اس کے قابل ہوسکوں<۔۱۳
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے خلافت اولیٰ کے زمانہ میں نہ صرف نظام خلافت کے استحکام میں نمایاں حصہ لیا بلکہ سلسلہ احمدیہ کی مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ چنانچہ جماعتی چندوں کے ساتھ ساتھ سلسلہ احمدیہ کے پہلے باتنخواہ مبلغ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ کے سب اخراجات برداشت کئے` دارالضعفاء کے ۲۲ مکانوں کے لئے ایک وسیع قطعہ زمین عطا فرمایا اور وسط ۱۹۱۳ء میں الفضل کے اجرا پر مالی اعانت کی اور اس کے دفتر کے لئے اپنے مکان کی نچلی منزل مخصوص کر دی۔ چنانچہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔
>تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خاں صاحب ہیں آپ نے کچھ روپیہ نقد ادا کیا۔ کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔ پس وہ بھی اس رو میں جو اللہ تعالیٰ نے الفضل کے ذریعہ سے چلائی حصہ دار ہیں اور سابقون الاولون میں ہونے کے سبب اس امر کے اہل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہر قسم کی مصائب سے محفوظ و مامون رکھ کر اپنے فضل کے دروازے ان کے لئے کھولے<۔۱۴
حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنے وصال سے چند روز قبل ۴۔ مارچ ۱۹۱۴ء کو اپنے آئندہ خلیفہ کی نسبت جو مشہور وصیت لکھی اس پر حضرت خلیفہ اول کے حکم سے حضرت نواب صاحب نے بھی بطور گواہ دستخط فرمائے۔
خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں آپ تیس سال بقید حیات رہے اس دوران میں بھی آپ نے خلیفہ وقت کی ہر اہم تحریک میں نمایاں حصہ لیا خصوصاً ۱۹۲۳ء کے زمانہ ارتداد ملکانہ میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک ہزار روپیہ کی خطیر رقم دینے کے علاوہ پیرانہ سالی کے باوجود اپنے خرچ پر حضرت شیخ یعقوب صاحب عرفانی اور حضرت شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سب جج علیگڑھ کو لے کر ملکانہ قوم کے علاقوں میں تشریف لے گئے جہاں حکام اضلاع سے ملاقاتیں بھی کیں اور شدت گرما میں کئی کئی دن پیدل چل کر علاقہ ملکانہ کا دورہ فرمایا۔ واقعات کا قریب سے جائزہ لیا اور میدان جہاد میں کام کرنے والے مبلغین کو قیمتی ہدایات دیں۔
نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز ہوا تو آپ اس کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہوگئے اور اس کے پہلے سال سے دسویں سال تک )جو آپ کی زندگی کا آخری سال تھا( آپ کی طرف سے جو چندہ اس مد میں دیا گیا اس کی میزان تین ہزار تین سو ساٹھ روپے بنتی ہے۔ آپ کے اہل بیت اور صاحبزادگان کا چندہ اس کے علاوہ ہے الغرض حضرت نواب محمد علی خان صاحب زندگی بھر سلسلہ احمدیہ کی نہایت اہم خدمات بجا لاتے رہے اور ناممکن ہے کہ سلسلہ احمدیہ کی کوئی تاریخ آپ کی ان سنہری خدمات کے تذکرہ کے بغیر مکمل قرار دی جاسکے۔
حضرت نواب صاحب کی مرض الموت اور تجہیز و تکفین
حضرت نواب صاحب کی طبیعت اگست ۱۹۴۴ء سے علیل چلی آتی تھی پیشاب میں خون آنے کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے نقاہت بہت زیادہ ہوگئی۔ اور بالاخر یہی عارضہ مرض الموت بن گیا اور آپ مسلسل چون سال تک اسلام و احمدیت کی مہمات میں شاندار اور نمایاں حصہ لینے کے بعد ۱۰۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو اپنے مولائے حقیقی کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔
وفات کی خبر ملتے ہی قادیان کے مرد اور خواتین حضرت نواب صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئے اسی طرح حضرت امیر المومنین مصلح موعودؓ بھی تشریف لے گئے اور رات کے گیارہ بجے تک وہیں رہے۔ اگلے دن دوپہر کی گاڑی سے آپ کے بعض عزیز جن میں نوابزادہ خورشید علی خاں صاحب خلف سر ذوالفقار علی خان صاحب سر موصوف کی بیگم صاحبہ اور اس خاندان کی بعض دیگر خواتین تشریف لائیں۔ نواب زادہ احسان علی خاں صاحب کئی روز پیشتر سے ہی جب سے کہ حضرت نواب صاحب کی طبیعت زیادہ کمزور ہوگئی تھی۔ قادیان میں تشریف رکھتے تھے۔ حضرت نواب صاحب کے فرزند اکبر نواب زادہ عبدالرحمن خان صاحب بھی کئی روز سے یہاں تشریف فرما تھے۔ نواب سر ذوالفقار علی خاں صاحب کی صاحبزادی بیگم اعزاز رسول صاحب آف سندیلہ بھی کئی روز سے یہیں تھیں۔ ان کے علاوہ لاہور` امرتسر` کپورتھلہ` جالندھر وغیرہ سے بعض احمدی احباب اور صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچ گئے۔ تین بجے جنازہ باہر لایا گیا۔ اس وقت تک احمدی احباب کی کثیر تعداد جمع ہوچکی تھی۔ جنازہ کوٹھی کی بیرونی ڈیوڑھی میں رکھا گیا۔ جہاں ہزاروں احباب نے ایک ترتیب کے ساتھ حضرت نواب صاحب کی آخری زیارت کی۔ اس کے بعد چارپائی کے ساتھ لمبے بانس باندھ دیئے گئے۔ تاکہ کندھا دینے والوں کو سہولت ہو۔ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے جناز کو کندھا دیا اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے کندھا دینے کا ثواب حاصل کیا۔ جنازہ دارالفضل اور دارالعلوم کی درمیانی سڑک پر سے شہر اور پھر وہاں سے باغ متصل مقبرہ بہشتی لے جایا گیا۔ جہاں جانب غرب نماز جنازہ پڑھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ قریباً تین ہزار افراد شریک ہوئے۔ نماز جنازہ حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے پڑھائی اور تمام مجمع نے رقت اور خشیت کے ساتھ حضرت نواب صاحب کے لئے دعائیں کیں۔ بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار والے احاطہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے بائیں جانب آپ کو دفن کیا گیا۔۱۵
ولی عہد ریاست مالیر کوٹلہ کی قادیان میں بغرض تعزیت تشریف آوری
۱۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو حضرت نواب صاحب کی تعزیت کے لئے ہز ہائینس نواب صاحب مالیر کوٹلہ )ہزہائینس نواب
محمد احمد علی خان صاحب( کی طرف سے ریاست کے ولی عہد نواب زادہ افتخار علی خاں صاحب بذریعہ موٹر قادیان میں تشریف لائے آپ کے ساتھ ہز ہائی نس نواب صاحب آف مالیر کوٹلہ کے میر منشی جناب عبداللہ شاہ صاحب بھی تھے۔ ان کے علاوہ سر ذوالفقار علی خاں کے دوسرے فرزند نوابزادہ رشید علی خاں بھی تشریف لائے۔۱۶
۱۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو ہز ہائی نس کے چھوٹے صاحبزادہ نواب زادہ الطاف علی خان صاحب مع اپنی ہمشیرہ کے بذریعہ کار تشریف لائے۔۱۷
مزار کا کتبہ
حضرت نواب صاحب کے مزار مبارک پر جو کتبہ نصب کیا گیا اس کی عبارت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے تجویز فرمائی تھی جو یہ ہے۔
>مزار
حضرت نواب محمد علی خاں صاحبؓ
آف مالیر کوٹلہ
جو یکم جنوری ۱۸۷۰ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے اور ۱۰۔ فروری ۱۹۴۵ء کو قادیان میں وفات پاکر اپنے مولا کے حضور پہنچ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص صحابہ میں سے تھے جنہیں خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام میں >حجتہ اللہ< کے نام سے یاد فرمایا اور حضور نے اپنی صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے ذریعہ انہیں اپنی دامادی سے مشرف کیا اور ان کے متعلق ازالہ اوہام میں لکھا۔
جواں` صالح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی خداداد فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے۔ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے ۔۔۔۔۔۔۔ منکرات و مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر شک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو<۔
اور اپنے خط میں نواب صاحب مرحوم کو مخاطب کرکے فرمایا۔
>میں آپ سے ایسی محبت رکھتا ہوں جیسا کہ اپنے فرزند عزیز سے محبت ہوتی ہے اور دعا کرتا ہوں کہ اس جہان کے بعد بھی خدا تعالیٰ ہمیں دارالسلام میں آپ کی ملاقات کی خوشی دکھائے<۔۱۸
حضرت نواب صاحب کی سوانح پر مفصل تالیف
حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی سوانح اور فضائل و خدمات پر جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے >اصحاب احمد< کی جلد دوم میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور اپنی اس قابل قدر تالیف میں حضرت نواب صاحب کی عبادت گزاری دین سے محبت` دعائوں سے شغف` غرباء پروری` فیاضی` انکسار` خدام سے حسن سلوک` مالی مجاہدات` شوق تبلیغ` غیبت سے نفرت` صاف گوئی` جرات` احترام سلسلہ احمدیہ` نظام خلافت سے محبت` اپنوں اور غیروں سے حسن سلوک۔ غرض کہ آپ کی سیرت و شمائل کے متعدد واقعات قلمبند کئے ہیں جو از حد ایمان افروز ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
دیہاتی مبلغین کی سکیم اور اس کے ابتدائی مجاہد
۹۔ جنوری ۱۹۴۵ء کو حضرت مصلح موعود~رح~ نے ارشاد فرمایا کہ جماعت کو مڈل یا پرائمری پاس نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایک دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور دیہاتی مبلغ کام کریں۔ )الفضل ۲۳۔ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم ۳( اس مبارک تحریک پر جن خوش نصیب نوجوانوں نے ابتداء میں اپنے مقدس امام کی آواز پر لبیک کہا ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے۔
)پہلا گروپ(
نمبرشمار نام

ابتدائی مرکز

۱۔ ماسٹر مہدی شاہ صاحب

اجنالہ ڈاک خانہ خاص ضلع امرتسر

۲۔ چوہدری عطاء اللہ صاحب

عینو والی ڈاک خانہ خاص ضلع سیالکوٹ

۳۔ مولوی شیر محمد صاحب

میاوی ڈوگراں ضلع سیالکوٹ

۴۔ مولوی رحیم بخش صاحب

جوڑا ڈاکخانہ قصور ضلع لاہور

۵۔ خواجہ خورشید احمد صاحب مجاہد

ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ

۶۔ سید محمد امین شاہ صاحب

کتھو والی چک نمبر ۳۱۲ براستہ گوجرہ ضلع لائل پور

۷۔ سید علی اصغر شاہ صاحب

‏]3lco [tag ہیلاں ضلع گجرات

۸۔ مولوی جمال الدین صاحب

پھلرواں تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا

۹۔ حافظ ابوذر صاحب

روڈہ تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا

۱۰۔ مولوی شیخ محمد صاحب

علی پور ضلع مظفر گڑھ

۱۱۔ مولوی عبدالمجید صاحب

دھاریوال ضلع گورداسپور

۱۲۔ مولوی غلام رسول صاحب
‏]2lco [tag
غازی کوٹ ضلع گورداسپور

۱۳۔ حافظ بشیر احمد صاحب

مانگٹ اونچے ضلع گجرانوالہ

)گروپ نمبر ۲(
۱۔ مولوی ممتاز احمد صاحب بنگالی

۲۔ مولوی عبدالرحمن صاحب

۳۔ مولوی محمد علی صاحب

۴۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب

۵۔ مولوی حمید احمد صاحب سنیاسی

۶۔ مولوی محمود احمد صاحب

۷۔ مولوی غلام رسول صاحب

۸۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب فائق

۹۔ مولوی عبدالعزیز صاحب

۱۰۔ مولوی غلام حیدر صاحب

۱۱۔ مولوی محمد عالم صاحب

۱۲۔ مولوی سید مہتاب شاہ صاحب

۱۳۔ مولوی حکیم عبدالرحیم صاحب

۱۴۔ میر ولی صاحب ہزاری

۱۵۔ مولوی غلام حیدر صاحب خاں

۱۶۔ مرزا محمد حسین صاحب

۱۷۔ مولوی غلام قادر صاحب

۱۸۔ سید سردار علی شاہ صاحب

۱۹۔ مستری محمد ابراہیم صاحب

۲۰۔ حکیم محمد لطیف صاحب

۲۱۔ مولوی غلام احمد صاحب

۲۲۔ مولوی عبدالواحد ہیرو شرقی

۲۳۔ مولوی غلام محمد گجراتی

۲۴۔ مولوی قریشی عبداللطیف صاحب

۲۵۔ ماسٹر احمد خاں صاحب

۲۶۔ مولوی حسن محمد خان صاحب

۲۷۔ مولوی عبدالکریم صاحب رند

۲۸۔ مولوی احمد علی صاحب

۲۹۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب بھینی

۳۰۔ مولوی شریف احمد صاحب

۳۱۔ مولوی عبدالواحد منٹگمری

۳۲۔ مولوی محمد الدین صاحب

۳۳۔ الکاف خاں صاحب

۳۴۔ قاضی عبدالوحید صاحب

۳۵۔ حکیم محمد الدین صاحب

۳۶۔ چوہدری نور محمد صاحب

۳۷۔ مولوی عبدالرحیم صاحب

۳۸۔ مولوی محسن خاں صاحب اڑیسوی

۳۹۔ مولوی مبارک احمد صاحب

۴۰۔ مولوی حمید اللہ صاحب کشمیری

۴۱۔ مولوی عبدالسلام صاحب

۴۲۔ مولوی محمد سعید صاحب

۴۳۔ مولوی محمد صدیق صاحب

۴۴۔ مولوی حکیم علی احمد صاحب

۴۵۔ مولوی غلام محمد صاحب رشک

۴۶۔ مولوی کریم بخش رند

۴۷۔ مولوی ملک فخر الدین صاحب

۴۸۔ قاضی محمد حنیف صاحب

۴۹۔ مولوی عنایت اللہ صاحب

۵۰۔ سید فضل عمر صاحب

۵۱۔ ماسٹر نذیر احمد صاحب][
۵۲۔ حکیم محمد سعید صاحب

۵۳۔ مولوی غلام نبی صاحب

۵۴۔ مولوی طیب علی صاحب

۵۵۔ سید غلام مہدی صاحب ناصر

۵۶۔ مولوی احمد ارم صاحب

۵۷۔ سید ادریس احمد صاحب

۵۸۔ مولوی عمر علی صاحب

۵۹۔ مولوی نجات حسین صاحب

۶۰۔ مولوی مظہر علی صاحب

‏col1] [tag ۶۱۔ مولوی آیت اللہ صاحب

۶۲۔ مولوی رشید احمد صاحب
چوتھا باب )فصل دوم(
حضرت مصلح موعود کا معرکتہ الارا لیکچر
>اسلام کا اقتصادی نظام< اور اس کے وسیع اثرات
احمدیہ ہوسٹل لاہور میں جلسہ
۲۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا دن تاریخ احمدیت کا ایک ناقابل فراموش اور یادگار دن ہے۔ کیونکہ اس روز حضرت مصلح موعود نے احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام )احمدیہ ہوسٹل (۳۲ ڈیوس روڈ( لاہور کے وسیع احاطہ میں >اسلام کا اقتصادی نظام< کے موضوع پر ایک معرکتہ الاراء اور انقلاب انگیز تقریر فرمائی جو قریباً ساڑھے چار بجے سے شروع ہوکر سوا سات بجے شام تک جاری رہی۔ صدارت کے فرائض مسٹر رام چند مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے ادا کئے۔
گویہ جلسہ پبلک نہ تھا بلکہ اس میں صرف کالجوں کے پروفیسر طلباء اور دیگر معززین کو دعوت نامہ کے ذریعہ مدعو کیا گیا تھا تاہم ہر مذہب و ملت کے تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ مسلم` عیسائی` ہندو اور سکھ شرفاء کے علاوہ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک خاصی تعداد بھی موجود تھی۔ اور لاہور کے بیرونجات مثلاً قادیان` امرتسر` فیروزپور` قصور` گجرات اور شاہدرہ سے بھی دوست جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ سامعین کی کل تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ حضور کی تقریر تحقیقی اور علمی ہونے کے باوجود اس قدر دلچسپ اور موثر تھی کہ باوجودیکہ دو گھنٹہ پینتیس منٹ تک جاری رہی سب حاضرین نے اسے نہایت دلچسپی` متانت اور شوق کے ساتھ سنا اور پروفیسر اور طلباء خاص طور پر اس سے لطف اندوز ہوئے۔ دوران تقریر میں بکثرت مسلم اور غیر مسلم احباب حضور کی تقریر کے نوٹ لکھتے رہے۔۱۹
حضرت مصلح موعود کا انقلاب انگیز خطاب
حضرت مصلح موعود نے اپنے فاضلانہ خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے نہایت لطیف پیرایہ میں اسلام کی اقتصادی تعلیم کا ماحول بیان فرمایا اور پھر اموال سے متعلق اسلامی نظریہ کی وضاحت کی اور نہایت تفصیل سے بتایا کہ اسلام نے کس طرح دولت کے غلط استعمال ہی کو نہیں روکا اس کے ناجائز طور پر حصول کا بھی موثر سدباب فرمایا ہے۔
‏body] [tagاپنی تقریر کے دوسرے حصے میں حضور نے کمیونزم کی تحریک کا مذہبی اور اقتصادی اور سیاسی نظریاتی اور عملی ہر لحاظ سے تفصیلی جائزہ لیا اور آخر میں روس کے متعلق بائیبل )حزقیل ب ۳۸۔ ۳۹( کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کا اردو متن سنانے کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اپنی پیشگوئی کا بھی ذکر فرمایا۔
حضرت مصلح موعود چونکہ اسلام کی نمائندگی فرما رہے تھے اس لئے حضور نے کمیونزم پر تنقید کرتے ہوئے کمیونزم کے ان حصوں کو خاص طور پر لیا جو مذہب پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ حصہ اس پوری تقریر کا نقطہ عروج تھا۔ جس کو بیان کرتے ہوئے آپ کی آواز میں جلال اور قوت و شوکت کا ایک نمایاں رنگ پیدا ہوگیا۔ ذیل میں اس مقام کے بعض ضروری اقتباسات درج کئے جاتے ہیں تا اندازہ ہوسکے کہ پوری تقریر کس شان کی تھی اور کس جذبہ سے کی گئی۔ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>سب سے پہلا اعتراض جو کمیونسٹ نظام پر مجھے اور ہر موت کے بعد کی زندگی کے ماننے والے کو ہونا چاہئے یہ ہے کہ اس میں شخصی طوعی جدوجہد جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ظاہر ہوکر انسان کو اخروی زندگی میں مستحق ثواب بناتی ہے اس کے لئے بہت ہی کم موقعہ باقی رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مثلاً اسلام ان مذاہب میں سے ہے جو اپنے پیرووں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جائو اور دنیا میں تبلیغ کرو۔ جائو اور لوگوں کو اپنے اندر شامل کرو کیونکہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے۔ وہ شخص جو اسلام سے باہر رہے گا نجات سے محروم رہے گا اور اخروی زندگی میں ایک مجرم کی حیثیت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا۔ تم ایک مسلمان کو یہ عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پاگل کہہ لو۔ بے وقوف کہہ لو۔ جاہل کہہ لو۔ بہرحال جب تک وہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتا ہے۔ جب تک وہ بنی نوع انسان کی نجات صرف اسلام میں داخل ہونے پر ہی منحصر سمجھتا ہے اس وقت تک وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ میں اپنے ہر اس بھائی کو جو اسلام میں داخل نہیں اسلام کا پیغام پہنچائوں۔ اسے تبلیغ کروں اور اس پر اسلام کے محاسن اس عمدگی سے ظاہر کروں کہ وہ بھی اسلام میں داخل ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کمیونسٹ نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اول تو وہ سیاسی طور پر تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن چونکہ یہ اقتصادی مضمون ہے اس لئے اسے نظر انداز بھی کر دو تو سوال یہ ہے کہ ایک اقلیت اکثریت کے مذہب کو بدلنے کے لئے کس قدر قربانی کے بعد لٹریچر وغیرہ مہیا کرسکتی ہے۔ مثلاً ہماری جماعت ہی کو لے لو۔ ہم اقلیت ہیں۔ مگر ہم دنیا میں اسلام کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ ہمارے آدمی اگر روس میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتے ہیں تو ہر شخص یہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ۱۷ کروڑ رشین کو مسلمان بنانے کے لئے کتنے کثیر لٹریچر کی ضرورت ہے اور کتنا مال ہے جو اس جدوجہد پر خرچ آسکتا ہے۔ ہماری جماعت اس جدوجہد کو اسی صورت میں جاری رکھ سکتی ہے جب اس کی کمائی اس سے پوری نہ چھین لی جائے اور کھانے پینے اور پہننے کے علاوہ بھی اس کے پاس روپیہ ہوتا وہ اس سے ایسے اخراجات کو پورا کرسکے جن کو وہ اپنی اخروی بھلائی کے لئے ضروری سمجھتی ہے لیکن کمیونزم کا اقتصادی نظام تو کسی کے پاس زائد روپیہ رہنے ہی نہیں دیتا کیونکہ وہ اس جدوجہد کو کام ہی نہیں سمجھتا اس کے نزدیک مادی کام کام ہیں لیکن مذہبی کام کام نہیں ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کمیونسٹ یہ کہتے کہ ہم مذہب کے مخالف ہیں اور اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں تو گو پھر بھی ہمیں اختلاف ہوگا مگر ہمیں افسوس نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ جو کچھ ان کا دل میں عقیدہ ہے اسی کو اپنی زبان سے ظاہر کررہے ہیں مگر ہمیں افسوس ہے تو یہ کہ کمیونسٹ یہ بات ظاہر نہیں کرتے۔ وہ کھلے بندوں یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے نظام کے ماتحت تمہارے مذہب کو اپنے ملک میں پھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بلکہ وہ گھر کے پچھلے دروازہ سے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر مذہب کے ماننے والے اس وقت ان کی اس چالاکی سے واقف ہوتے ہیں جبکہ وہ اپنی شخصیت کھو چکے ہوتے ہیں اور کمیونزم سے ان کی ہمدردی اور محبت اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔ کمیونزم اگر کھلے بندوں کہے کہ ہم اخروی زندگی کو کوئی قیمت نہیں دیتے ہم اس کے پرچارک کے لئے کوئی سامان تمہارے پاس نہیں چھوڑنا چاہتے تو آنکھوں کھلے لوگ اس میں داخل ہوں۔ مگر دوسرے ممالک میں اس حصہ کو پوری طرح مخفی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمیونزم صرف ایک اقتصادی نظام ہے۔ مذہب سے اس کا کوئی ٹکرائو نہیں۔ حالانکہ مذہب نام ہے تبلیغ کرنے کا۔ مذہب نام ہے ایک دوسرے کو خدا تعالیٰ کے احکام پہنچانے کا خواہ یہ تقریر کے ذریعہ ہو یا تحریر کے ذریعہ ہو۔ لٹریچر کے ذریعہ ہو یا کتابوں کے ذریعہ ہو۔ مگر کمیونزم تو کسی انسان کے پاس کوئی زائد روپیہ چھوڑتا ہی نہیں۔ پھر ایک مذہبی آدمی ٹریکٹ کس طرح چھپوائے اور کتابیں کس طرح ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیلائے۔ اس پابندی کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مذہب کی اشاعت رک جائے اور لامذہبیت کا دور دورہ ہو جائے۔
اب اس سوال کا دوسرا پہلو لے لو۔ ہر مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں روپیہ نہیں مانگتا۔ لیکن میں اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہوں۔ وہ کہتا ہے کہ میں سارے روس میں پھروں گا اور اپنے خیالات ان لوگوں پر ظاہر کروں گا۔ میں گائوں بہ گائوں اور قصبہ بہ قصبہ اور شہر بہ شہر جائوں گا اور لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کمیونسٹ گورنمنٹ ایک مسلمان کو اپنی زندگی وقف کرنے اور اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے ملک میں پھرنے کی اجازت دے گی۔ یا جبراً اسے اس کام سے روکے گی اور اسے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں محبوس کر دے گی یقیناً اس کا ایک ہی جواب ہے کہ کمیونسٹ گورنمنٹ اسے جبراً اس کام سے روکے گی اسے دین اور مذہب کا کام نہیں کرنے دے گی<۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولتکن منکم امہ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر )آل عمران ع ۲/۱۱( یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت پورے طور پر مذہبی نگرانی کے لئے دینوی کاموں سے فارغ ہونی چاہئے اور اس جماعت کے افراد کا یہ کام ہونا چاہئے کہ وہ نیک باتوں کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ عمدہ باتوں کی تعلیم دیں اور برے اخلاق سے لوگوں کو روکیں۔ پس اسلامی تعلیم کے ماتحت ایک حصہ کلی طور پر اس غرض کے لئے وقف ہونا چاہئے۔ یہ صحیح بات ہے کہ اسلام زندگی وقف کرنے والوں کو کوئی خاص حقوق نہیں دیتا مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک خاص کام ان کے سپرد کرتا ہے۔ اسلام پادریت (PRIESTHOOD) کا قائل نہیں۔ مگر وہ مذہبی نظام کا ضرور قائل ہے۔ عیسائیت تو جن لوگوں کے سپرد تبلیغ کا کام کرتی ہے ان کو دوسروں سے بعض زائد حقوق بھی دے دیتی ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو کوئی زائد حق نہیں دیں گے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کریں گے لیکن یہ ضرور ہے کہ زندگی وقف کرنے والے کے سپرد خاص طور پر یہ کام ہوگا کہ وہ اسلام کو پھیلائے اور تبلیغی و تربیتی نقطہ نگاہ سے ہر وقت اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھے۔ اس قسم کے لوگوں کی نفی کرکے نظام اسلام کبھی باقی نہیں رہ سکتا۔ آخر ایک تفصیلی آئین بغیر اس کے ماہروں اور بغیر اس کے مبلغوں کے کس طرح چل سکتا ہے۔ اسلام وہ مذہب ہے جو دنیا کے تمام مذاہب میں سے سب سے زیادہ مکمل ہے اور وہ ایک وسیع اور کامل آئین اپنے اندر رکھتا ہے۔ وہ عبادات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ اقتصادیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ سیاسیات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ آقا اور ملازمین کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے۔ وہ معلم اور متعلم کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے۔ وہ میاں اور بیوی کے حقوق کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے وہ تجارت اور لین دین کے معاملات کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے۔ وہ ورثہ کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے۔ وہ بین الاقوامی جھگڑوں کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے۔ وہ قضاء کے متعلق بھی تعلیم دیتا ہے غرض ہزاروں قسم کی تعلیمیں اور ہزاروں قسم کے قانون ہیں جو اسلام میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک امر مکمل تعلیم اور کامل معلموں کو چاہتا ہے جو رات دن اسی کام میں لگے رہیں جب تک اس تفصیلی آئین کو سکھانے والے لوگ اسلام میں موجود نہیں ہوں گے۔ لوگ سیکھیں گے کیا اور کس سے اور اسلام پر مسلمان عمل کس طرح کریں گے اور اسلام دنیا میں پھیلے گا کس طرح!
تفسیر کا علم خود ایک مکمل علم ہے۔ جب تک مفسر نہ ہو یہ علم زندہ نہیں رہ سکتا اور مفسر بننے کے لئے سالہا سال تک تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لغت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف و نحو کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ احادیث کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر پرانی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے مذاہب کی کتب اور ان کی تاریخ خصوصاً تاریخ عرب اور تاریخ بنی اسرائیل اور بائیبل کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ بغیر ان باتوں کے جاننے کے کوئی شخص قرآن کریم کے مطالب کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی کو سمجھائے۔ مگر ایسے آدمی دنیا میں کتنے ہوتے ہیں۔ صدیوں میں کوئی ایک آدھ ایسا پیدا ہوتا ہے باقی تو کسب سے جو تقویٰ کے ساتھ ہو یہ مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن کمیونسٹ تو اس کام کو کام ہی نہیں سمجھتے۔ وہ کسی کو قرآن کریم اور تفسیر اور عربی بارہ سال تک پڑھنے اور پھر دوسروں کو پڑھانے کا موقعہ کب دے سکتے ہیں۔ وہ تو ایسے شخص کو یا قید کردیں گے یا اس کا کھانا پینا بند کر دیں گے کہ وہ نکما اور قوم پر بوجھ ہے۔ اسی طرح حدیث کا علم بھی علاوہ درجنوں حدیث کی کتب کے` درجنوں ان کی تشریحات کی کتب کے اور اس کے ساتھ لغت اور صرف و نحو اور اسماء الرجال کی کتب پر مشتمل ہے۔ بغیر حدیث کے علم کے مسلمانوں کو اسلام کی تفصیلات کا علم ہی نہیں ہوسکتا۔ اور بغیر اس علم کے ماہرین کے جو اپنی عمر اس علم کے حصول میں خرچ کریں۔ مسلمانوں میں اس علم کی واقفیت پیدا ہی نہیں ہوسکتی مگر کمیونزم تو اس علم کے پڑھنے کو ہی لغو اور فضول اور بیکار قرار دیتی ہے۔ وہ اس علم کے پڑھنے اور پڑھانے والوں کو اپنی عمر اس علم کے حصول میں قطعاً خرچ نہ کرنے دے گی۔ یا ایسے آدمی کو قید کرے گی یا اسے فاقوں سے مارے گی۔ کیونکہ وہ اس کے نزدک بیکار وجود ہے اور قوم پر بار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نزدک جو شخص مشین چلا رہا ہے وہ بھی کام کررہا ہے اور جو شخص مذہب پھیلا رہا ہے وہ بھی کام کررہا ہے ور جو مذہب کی تعلیم دے رہا ہے۔ وہ بھی کام کررہا ہے اور جو مذہب کی تعلیم حاصل کررہا ہے وہ بھی کام کررہا ہے مگر ان کے نزدیک جو شخص مشین چلاتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے مگر جو شخص مذہب پڑھتا یا پڑھاتا ہے یا پھیلاتا ہے وہ نکما اور بے کار ہے ان کے نزدک لوگوں کو الف اور باء سکھانا کام ہے مگر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اگر لوگوں کو سکھایا جائے تو یہ کام نہیں۔ بلکہ نکما پن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دیکھو ہمارے نظریہ اور ان کے نظریہ میں کتنا بڑا فرق ہے اور مشرق و مغرب کے اس قدر بعد کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔
اس تفصیل کے ماتحت کمیونزم نظام میں وہ شخص جس کے پیروں کی میل کے برابر بھی ہم دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کو نہیں سمجھتے جس کے لئے ہم میں سے ہر شخص اپنی جان کو قربان کرنا اپنی انتہائی خوش بختی اور سعادت سمجھتا ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ جو رات اور دن خدا کی باتیں سنا کر بنی نوع انسان کی روح کو روشن کیا کرتے تھے۔ اسی طرح مسیحؑ` موسیٰؑ` ابراہیمؑ` کرشنؑ` رام چندرؑ` بودھؑ` زرتشتؑ` گورونانکؑ` کنفیوشسؑ۔ یہ سب کے سب نعوذ باللہ نکمے اور قوم پر بار تھے اور ایسے آدمیوں کو ان کے قانون کے ماتحت یا تو فیکڑیوں میں کام کے لئے بھجوا دینا چاہئے تاکہ ان سے جوتے بنوائے جائیں یا ان سے بوٹ اور گرگابیاں تیار کرائی جائیں یا ان سے کپڑے سلائے جائیں۔ یا ان کو لوگوں کے بال کاٹنے پر مقرر کیا جائے اور اگر یہ لوگ اس قسم کا کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ان کا کھانا پینا بند کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لوگ نکمے اور قوم پر بار ہیں۔ کمیونسٹ نظام تصویر بنانے کو کام قرار دیتا ہے۔ وہ سٹیچو (STATUE) بنانے کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی اصلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا بلکہ اسے نکما پن سمجھتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ روٹی ہی انسان کا پیٹ نہیں بھرا کرتی اور صرف غذا ہی اس کے اطمینان کا موجب نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کو عبادت سے روک دو تو وہ کبھی بھی چین نہیں پائیں گے خواہ ان کی غذا اور لباس کا کس قدر خیال رکھا جائے۔
تعجب ہے کہ کمیونٹ نظام چھ گھنٹہ فیکٹریوں میں کام کرکے سنیما اور ناچ گھروں میں جانے والے اور شراب میں مست رہنے والے کو کام کرنے والا قرار دیتا ہے۔ وہ فوٹو گرافی اور میوزک کو کام قرار دیتا ہے مگر وہ روح کی درستی اور اخلاق کی اصطلاح کو کوئی کام قرار نہیں دیتا پچھلے دنوں مارشل مالی نوو سکائی NOVSKY) (MOLI سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے لڑکے کس کام میں دلچسپی لیتے ہیں تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ۔
‏ AND MUSIC PHOTOGRAPHY, IN INTERESTED ARE ><THEY۔RABBITS KEEPING
گویا کمیونزم نظام میں ایک پندرہ سال کا بچہ جو فوٹوگرافی میں اپنے وقت کو گزار دیتا ہے۔ جو میوزک میں دن رات مشغول رہتا ہے جو خرگوشوں کو پال پال کر ان کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہے وہ تو کام کرنے والا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے روٹی دی جائے۔ لیکن محمد رسول اللہ~صل۱`~ مسیحؑ` موسیٰؑ` کرشن` بدھؑ` زرتشت` گورونانکؑ۔ یہ اگر خدا کے نام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ تو وہ جاہل کہتے ہیں کہ یہ )نعوذ باللہ من ذالک( پیرا سائی ٹس (PARASITES) ہیں۔ یہ سوسائٹی کو ہلاک کرنے والے جراثیم ہیں۔ یہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو کام کرنے والا قرار دیا جائے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دن کو بھی کام کیا اور رات کو بھی کام کیا۔ انہوں نے دن کو دن نہیں سمجھا اور راتوں کو رات نہیں سمجھا۔ تعیش کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بنی نوع انسان کی علمی اور اخلاقی اور روحانی اصلاح کے لئے کام کیا۔ مگر یہ لوگ ان کے نزدیک نکمے اور قوم پر بار تھے۔ وہ سنیما میں اپنے رات اور دن بسر کرنے والے تو کام کرنے والے ہیں اور یہ لوگ جو دن کو بنی نوع انسان کی اصلاح کا کام کرتے اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں یہ کوئی کام کرنے والے نہیں تھے۔ وہ لوگ جو مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے۔ جو اخلاق درست کیا کرتے تھے۔ جو ہر قسم کی تکالیف برداشت کرکے دنیا میں نیکی کو پھیلاتے اور بدی کو مٹاتے تھے وہ تو نکمے تھے اور یہ سنیما میں جانے والے اور شرابیں پی پی کر ناچنے والے اور بانسریاں منہ کو لگا کر پیں پیں کرنے والے کام کرنے والے ہیں۔
غرض جہاں تک واقعات کا سوال ہے۔ کمیونسٹ نظام میں ان لوگوں کی کوئی جگہ نہیں۔ میں دوسری دنیا کو نہیں جانتا۔ مگر میں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ ¶وہ نظام جس میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی جگہ نہیں خدا کی قسم اس میں میری بھی جگہ نہیں۔ ہم اس ملک کو اپنا ملک اور اس نظام کو اپنا نظام سمجھتے ہیں جس میں ان لوگوں کو پہلے جگہ ملے اور بعد میں ہمیں جگہ ملے۔ وہ ملک اگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کے لئے بند ہے تو یقیناً ہر سچے مسلمان کے لئے بند ہے۔ وہ حقیقت پر پردہ ڈال کر مذاہب پر عقیدت رکھنے والوں کو اس نظام کی طرف لاسکتے ہیں۔ مگر حقیقت کو واضح کرکے کبھی نہیں لاسکتے<۔۲۰
جناب لالہ رامچند مچندہ صاحب کی صدارتی تقریر
حضرت مصلح موعود کی اس پرشوکت تقریر کے بعد صدر جلسہ جنات لالہ رام چند مچندہ صاحب نے ایک مختصر تقریر کی جس میں کہا۔
>میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقعہ ملا اور مجھے اس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کررہی ہے اور نمایاں ترقی کررہی ہے۔ جو تقریر اس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اس کے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضور نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی ان قیمتی معلومات سے بہت فائدہ اٹھایا ہوگا۔ مجھے اس بات سے بھی بہت خوشی ہوئی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہوئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں۔ جماعت احمدیہ کے بہت سے معزز دوستوں سے مجھے تبادلہ خیالات کا موقعہ ملتا رہتا ہے۔ یہ جماعت اسلام کی وہ تفسیر کرتی ہے جو اس ملک کے لئے نہایت مفید ہے پہلے تو میں سمجھتا تھا اور یہ میری غلطی تھی کہ اسلام صرف اپنے قوانین میں مسلمانوں کا ہی خیال رکھتا ہے۔ غیر مسلموں کا کوئی لحاظ نہیں رکھتا مگر آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا
‏vat,10.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
۶۰ فیصدی عمارتیں پیوند خاک ہوگئیں۔ اور بم گرنے کے بعد اتنی شدید گرمی پیدا ہوئی کہ اس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہی۔ کیا انسان کیا حیوان کیا چرند اور کیا پرند سب کے سب جھلس کر خاک ہوگئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو الہاماً خبر دی گئی تھی کہ >ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا<۔۳۸ یہ دردناک نظارہ چشم فلک نے پہلی دفعہ جاپان میں دیکھا۔ بعد ازاں ۷۔ اگست کو ناگاساکی شہر میں بم نے ہیروشیما سے بھی زیادہ تباہی مچائی۔۳۹
حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۱۰۔ اگست ۱۹۴۵ء کو ڈلہوزی میں ایک خطبہ دیا۔ جس میں ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اور بتایا کہ۔
>ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا<۔
نیز فرمایا کہ۔
>ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ایٹومک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کرسکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ لا یعلم جنود ربک الا ھو۔ یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹومک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کرے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹیوں کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹومک بم کا بدلہ لینے لگ جائے<۔
حضور نے اس ضمن میں اہل عالم کو آنحضرت~صل۱~ کے اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب و تکلیف دیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم~صل۱~ نے لڑائیوں کے کم کرنے کا راستہ بتایا تھا۔ جب تک دنیا اس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم~صل۱~ کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک آنحضرت~صل۱~ کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں ان آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہئے۔ اس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہوگا<۔۴۰
اٹامک بم کے خلاف بلند ہونے والی یہ پہلی آواز تھی جس کے بعد خود یورپ میں اس کی تائید شروع ہوگئی۔ چنانچہ ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ نے لنڈن سے یہ خبر شائع کی کہ۔
>برطانیہ کے ۳۱ سرکردہ پادریوں` مصنفوں اور معلموں نے ایک عرض داشت میں جاپان پر اٹامک بم کے حملہ کے خلاف پروٹسٹ کیا۔ ان کے دستخطوں سے یہ پڑوٹسٹ لنڈن بھر میں تقسیم کیا گیا۔ ان لوگوں نے لکھا ہے کہ ایٹامک بم کا استعمال انسانیت کے ان پاک اصول پر ایک کھلا اور زور دار حملہ ہے جو مسیحی تہذیب اور جمہوری سوسائٹی نے تمام انسانوں کے لئے مساوی طور پر تجویز کئے ہیں۔ ان دستخط کنندگان میں وزیرہند کی بیوی لیڈی پینتھک لارنس بھی شامل ہے<۔۴۱
۱۹۶۵ء تک جماعت احمدیہ کیلئے ایک نئے اور انقلابی دور آنے کی حیرت انگیز پیشگوئی
حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے مستقبل کی نسبت جو خبریں دی گئیں ان میں ایک عظیم
الشان انکشاف یہ بھی کیا گیا کہ جماعت اندازاً ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک ایک جدید انقلابی دور میں داخل ہونے والی ہے اور اس عرصہ میں اس کی قومی پیدائش کا ہونا مقدر ہے۔ چنانچہ حضور نے ۲۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو خاص اسی موضوع پر ڈلہوزی میں خطبہ پڑھا۔ جس میں پیشگوئی فرمائی کہ۔
>میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع میں آئی ہیں جس طرح میں نے بیان کی تھیں۔ اب میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ اندازاً بیس سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی۔۴۲ بچوں کی تکمیل تو چند ماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے۔ لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں آئندہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے۔ جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے قت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا ہے اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے۔ پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اس بات کو میخ کے طور پر گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے۔ اب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مردہ۔ اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارا` محبت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دے گا<۔
نیز فرمایا۔
>خوب یاد رکھو جس دن کسی قوم میں قربانی بند ہوئی وہی دن اس قوم کی موت کا ہے قوم کی زندگی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ قربانیوں میں ترقی کرتی چلی جائے اور قربانیوں سے جی نہ چرائے۔ اگر ہم ساری دنیا کو بھی فتح کرلیں پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہوگا۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے۔ اس لئے اپنے ایمانوں کی فکر کرو کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے۔ اس کے نفس کا دھوکہ ہے۔ جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا۔ جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی اس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے۔ خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کرچکا ہو۔ اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوگا کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے<۔۴۳
حضرت مصلح موعود کی اہم ہدایات ولائت جانے والے مبلغین کو
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی اور چوہدری عبداللطیف صاحب بی۔ اے ۲۹۔ ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو انگلستان تشریف لے جارہے تھے۔۴۴ اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے ہر دو مبلغین کو اپنے قلم سے نہایت قیمتی ہدایات لکھ کر دیں۔
چنانچہ چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو ارشاد فرمایا کہ۔
۱۔
>اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور اس پر توکل کا ملکہ پیدا کریں۔
۲۔
محمد رسول اللہ~صل۱~ سے ذاتی تعلق اور کمال محبت۔
۳۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مشن کو نہ بھولیں۔
۴۔
امام وقت خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس سے ذاتی تعلق روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
۵۔
ہر واقف اور مجاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ستون سمجھے اور اپنے آپ کو سلسلہ کی روایات کے قیام کا ذمہ دار قرار دے۔ اس کے بغیر وقف کی نہ غرض پوری ہوتی ہے اور نہ روایات میں تسلسل پیدا ہوتا ہے جو ضروری ہے۔
۶۔
یاد رکھیں کہ کام اور محنت سے کام اور عقل سے کام کرنا اہم ترین فریضہ ہے۔
۷۔
علم کی توسیع کرو<۔
چوہدری عبداللطیف صاحب کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات تحریر فرمائیں۔
۱۔
>اللہ پر توکل کرتے ہوئے جائو۔ اس پر ایمان کو مضبوط کرو اور اس کی محبت کو بڑھاتے رہو۔ یہاں تک کہ دل کی آنکھوں۔ دماغ کی آنکھوں اور ماتھے کی آنکھوں سے وہ نظر آنے لگے اور دل و دماغ اور بیرونی کانوں سے اس کی آواز سنائی دینے لگے۔
۲۔
محمد رسول اللہ~صل۱~ سب نبیوں کے سردار ہیں۔ مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کے خادم ہیں۔ خادم کو آقا سے جدا نہ سمجھو مگر آقا کو آقا اور خادم کو خادم کا مقام دو اور دونوں کی محبت میں سرشار رہو۔
۳۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں خلیفہ ہی نہیں بنایا بلکہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کا کام خاص طور پر ہمارے سپرد کیا ہے اور اسلام کی ترقی ہم سے وابستہ کی ہے اس لئے ہمارا مقام عام خلافت سے بالا ہے۔ ہمارا کام خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ میں ہے۔ ہماری ذاتی عظمت کوئی نہیں۔ نہ ہم اپنے لئے کوئی خاص عزت چاہتے ہیں۔ مگر ہم اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں جو ہمارے سایہ میں لڑتا ہے وہ اپنے لئے جنت کا دروازہ کھولتا ہے جو ہم سے ایک انچ بھی دور ہٹتا ہے وہ اسلام سے دشمنی کرتا ہے اور اس کی ترقی میں روک ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور ہدایت بخشے۔ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا جس کے یہ معنے ہیں کہ خود اس کا وجود پیش کرنا ہی اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہے۔
۴۔
نمازوں کی پابندی۔ دعائوں پر زور کو اپنا شعار بنائو۔
۵۔
اطاعت خواہ کوئی افسر ہو ایمان کا جزو ہے۔ خود افسر ہو تو نیک سلوک کرو۔ دوسرا افسر ہو تو اس کا اس قدر اعزاز اور احترام کرو کہ دیکھنے والے بغیر کہے کے ان کا اعزاز کرنے لگیں۔ اسلام کی روح کو ہر ملک میں اور ہر زمانہ میں زندہ رکھنے اور وسیع کرنے کی کوشش کرو<۔۴۵
جماعت احمدیہ میں اعلیٰ تعلیم کی توسیع کے لئے سکیم
حضرت مصلح موعود جماعت احمدیہ کی قیادت اوائل خلافت ہی سے اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ احمدیوں کا علمی معیار بلند سے بلند تر ہوتا جائے۔ اس سلسلہ میں آپ ایک نہایت اہم قدم ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں >تعلیم الاسلام کالج< کے دوبارہ اجراء کی صورت میں اٹھا چکے تھے۔ اب اس سال حضور نے ۱۹ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو احمدیوں میں اعلیٰ تعلیم کے عام کرنے کے لئے ایک نہایت اہم سکیم تیار کی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ >جس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندہ کرتی ہے اسی طرح ہر گائوں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کرلیا جائے جس سے اس گائوں کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے۔ اس طرح کوشش کی جائے کہ ہر گائوں میں دو تین طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں<۔ حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جو احمدی اپنے بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ کم از کم مڈل تک اور جو مڈل تک تعلیم دلوا سکے ہیں وہ کم از کم انٹرنس تک اور جو انٹرنس تک پڑھا سکتے ہیں وہ اپنے لڑکوں کو کم از کم بی۔ اے کرائیں<۔ نیز فرمایا کہ >چونکہ ہم تبلیغی جماعت ہیں اس لئے ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سو فیصدی تعلیم یافتہ ہوں<۔ اسی ضمن میں حضرت مصلح موعود نے صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ۔
>وہ فوری طور پر نظارت تعلیم و تربیت کو ایک دو انسپکٹر دے جو سارے پنجاب کا دورہ کریں اور جو اضلاع پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کے ملتے ہیں اور ان میں احمدی کثرت سے ہوں ان کا دورہ بھی ساتھ ہی کرتے چلے جائیں۔ یہ انسپکٹر ہر ایک گائوں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور لسٹیں تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں کیا ہیں ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں<۔۴۶
اس خطبہ کی اشاعت پر نہ صرف بیرونی جماعتوں نے توسیع تعلیم سے متعلق اعداد و شمار کے مطلوبہ نقشے بھجوائے بلکہ اس سکیم کو جلد سے جلد نتیجہ خیز کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود کی منظوری سے مولوی سلطان احمد صاحب اور سید اعجاز شاہ صاحب )انسپکٹران بیت المال( نظارت تعلیم و تربیت میں منتقل کر دیئے گئے۔
تعلیمی اعداد و شمار جب حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ساتھ کے ساتھ ان علاقوں میں تعلیم پر زور دیا جائے۔ جو تعلیم حاصل نہیں کررہے انہیں تعلیم پر مجبور کیا جائے اور جو کررہے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم پر<۔
انسپکٹران کی تقرری کے موقع پر یہ ہدایت خاص فرمائی کہ۔
>پانچ ماہ کے لئے منظور ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کو منظم کیا جائے تو باقی صیغوں کی طرح اس صیغہ کے سکرٹری یہ کام سنبھال سکیں گے<۔۴۷
چنانچہ ان ہر دو احکام کی تعمیل کی گئی اور جب جماعت میں تعلیم کی اشاعت و فروغ کی ایک رو چل نکلی تو پانچ ماہ کے بعد یہ کام سیکرٹریان تعلیم و تربیت کے سپرد کر دیا گیا۔
حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت کو تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے علاوہ مرکزی درسگاہوں کے احمدی اساتذہ کو بچوں کی نگرانی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا کہ۔
>میرے نزدیک اس کی کلی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے۔ اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عذر کرے تو میں یہ کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے اگر لڑکے ہوشیار نہیں تھے اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑکے پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے۔ اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں۔ ہماری جماعت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول اب بہت ضروری ہے۔ اگر ہم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی<۔۴۸
مہتہ عبدالخالق صاحب اور قائداعظم محمد علی جناح
مہتہ عبدالخالق صاحب جیالوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وسط ۱۹۴۵ء میں وارد ہندوستان ہوئے۔ چونکہ انہوں نے قومی اہمیت کے ایک نسبتاً غیر معروف شعبہ میں خصوصی مہارت حاصل کی تھی اس لئے ہندوستانی پریس نے ان کی آمد پر نمایاں خبریں شائع کیں کلکتہ کے اخبار ایڈوانس )EC(ADVAN نے ۲۴۔ جون ۱۹۴۵ء کے پرچہ میں آپ کی تصویر اس سرخی کے ساتھ شائع کی کہ IN SPECIALIST INDIAN <FIRST GEOLOGY> PETROLEUM یعنی پیٹرولیم جیولوجی میں ہندوستان کے پہلے سپیشلسٹ یہاں آنے کے بعد انہیں یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ جواہر لال نہرو سے ملیں۔ مگر ان کی تمام ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ تھیں اس لئے انہوں نے ۴۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی خدمت میں خط لکھا جس میں مستقبل میں رونما ہونے والی پاکستانی ریاست کی معدنی توانائی اور قوت کے بارہ میں تفصیلات بتائیں اور ساتھ ہی پاکستان کی خدمت کے لئے اپنی غیر مشروط خدمات پیش کیں۔
قائداعظم اس خط پر بہت خوش ہوئے کیونکہ مسلم لیگ ایسے دلائل کی تلاش میں تھی جن کی مدد سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ پاکستان اپنے معدنی وسائل کے اعتبار سے ایک پائیدار ریاست ہوگی۔ قائداعظم نے ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مہتہ صاحب کو حسب ذیل مراسلہ تحریر فرمایا۔
عکس کے لئے جگہ
ترجمہ۔ مستونگ
۱۴۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء
پیارے مسٹر مہتہ!! آپ کا مکتوب مورخہ ۴۔ اکتوبر موصول ہوگیا ہے جس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے مراسلہ میں جو باتیں لکھی ہیں میں نے وہ نوٹ کرلی ہیں۔ آپ کی محبتانہ پیش کش جو آپ نے ایک ٹیکنالوجسٹ کی حیثیت سے مجھے کی ہے لائق تحسین ہے۔ میں آپ کے خیالات کو اپنے دماغ میں قطعی طور پر محفوظ رکھوں گا۔ مجھے خوشی ہوگی کہ اگر میرے ساتھ رابطہ قائم رکھیں اور اگر ممکن ہو تو دوبارہ یاد دہانی بھی کرا دیں۔
امید ہے کہ آخر اکتوبر تک بمبئی واپس پہنچوں گا اور غالباً نومبر کے پہلے ہفتہ میں دہلی جائوں گا۔ اس وقت میں ایسی پوزیشن میں ہوں گا کہ آپ کی تجاویز کی طرف عملی توجہ دے سکوں۔ شکریہ۔
)آپ کا مخلص۔ محمد علی جناح(
مہتہ صاحب کی زیر غور تجاویز ان حقائق پر مبنی تھیں جن کو پرکھا جاسکتا تھا اور ان سے یہ انکشاف ہوتا تھا کہ پاکستانی علاقہ باقی ماندہ ملک کی نسبت قدرتی ذخائر )تیل اور گیس کے سلسلے میں( کئی گنا زیادہ مالا مال ہے۔ اس لئے قائداعظم نے ان کی تجاویز قبول فرمالیں` ان کے شوق اور جذبہ کو سراہا اور ابھرتی ہوئی ریاست کے لئے ان کی خدمات قبول کرلیں۔ قائداعظم نے انہیں رابطہ قائم رکھنے کی ہدایت فرمائی اور نومبر ۱۹۴۵ء میں نئی دہلی میں ان کو شرف ملاقات بخشا۔ دونوں نے مسلم علاقوں میں موجود تیل` گیس اور دوسری معدنیات کے بارے میں تفصیل سے تبادلہ خیالات کیا۔ قائداعظم نے انہیں برطانوی نوکری قبول نہ کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد مہتہ صاحب کی صلاحیتوں سے بلا شرکت غیرے بھرپور فائدہ اٹھائیں قائداعظم نے ان کی تحقیقات جاری رکھنے اور ان غیر ملکی فرموں اور سائنس دانوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی ہدایت بھی کی جو ہمارے ملک کی ترقی اور نشوونما میں دلچسپی رکھتے ہوں چنانچہ انہوں نے اس کی تعمیل کی۔ قائداعظم سے ان کی دوبارہ ملاقات کلکتہ کے اصفہانی ہائوس میں ہوئی۔ مہتہ صاحب نے اس ملاقات میں قدرتی وسائل سے متعلق ترقی کی تازہ ترین صورت حال اور اس سے ممکنہ استفادہ کرنے کے طریقوں کے بارے میں مختصراً بتایا جس کے بعد برطانوی حکومت اور پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے پیش کردہ بہت سی نفع بخش ملازمتوں کو ٹھکرا دیا۔۴۹
قیام پاکستان کے بعد اگرچہ آپ کی قائداعظم سے ملاقات نہ ہوسکی تاہم مشرقی پاکستان` مغربی پنجاب اور ریاست بہاولپور وغیرہ کی حکومتیں جناب مہتہ صاحب کی اعلیٰ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی رہیں اور وقتاً فوقتاً ان سے تیل` گیس اور دیگر معدنیاتی امور پر مشورہ لیتی رہیں اور ان کی ملی خدمات کا اعتراف بھی کرتی رہیں۔
یورپ کی روحانی فتح کیلئے نو)۹( مبلغین کا سفر انگلستان اور پریس میں چرچا
۱۸۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اعتبار سے ایک غیر معمولی دن تھا کیونکہ اس دن خدا کے فضل و کرم
سے پونے تین بجے کی گاڑی سے نوواقفین۵۰ یورپ کی روحانی فتح کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ مرکز احمدیت سے اتنی بڑی تعداد میں مبشرین اسلام کا قافلہ بیرونی ممالک کی طرف بھیجا گیا ہو۔ قافلہ میں حسب ذیل واقفین شامل تھے۔
ملک عطاء الرحمن صاحب )امیر قافلہ( چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ۔ حافظ قدرت اللہ صاحب۔ چوہدری اللہ دتہ )عطاء اللہ( صاحب۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر۔ چوہدری محمد اسحق صاحب ساقی۔ مولوی محمد عثمان صاحب۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب بشیر۔۵۱
مجاہدین تحریک جدید کا یہ قافلہ ۱۴۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو انگلستان کی بندرگاہ لورپول پر اترا۔ یوسٹن اسٹیشن پر مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے معہ احباب جماعت اس کا پرتپاک استقبال کیا اور انگلستان کے اخبارات مثلاً >ڈیلی سکیچ<۔ >دی سٹار<۔ >ڈیلی ایوننگ پیپر<۔ نے ان کی آمد کا جلی عنوان سے ذکر کیا اور تصویر شائع کی۔۵۲
برطانوی پریس کے علاوہ مشہور امریکن خبر رساں ایجنسی >گلوب< نے کسی قدر تفصیلی اور رائیٹر نے قدرے مختصر الفاظ میں وفد کے سرزمین انگلستان میں آنے کی خبر دی۔ چنانچہ >گلوب< نے لکھا۔
>انگلستان میں پٹنی کی مسجد کو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کے مرکز دعوت و تبلیغ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جنگ کی وجہ سے یورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کا سلسلہ رکا ہوا تھا مگر اب اسے پھر شروع کر دیا گیا ہے )اس میں اضافہ کیا گیا ہے( ملک عطاء الرحمن کے زیر قیادت نو مبلغوں کا دستہ قادیان سے یہاں پہنچ چکا ہے۔ جنہیں برطانیہ` فرانس` ہسپانیہ` جرمنی اور اٹلی میں بھیج دیا جائے گا۔ جماعت احمدیہ کا مرکز قادیان ہے جو پنجاب میں واقع ہے۔ توقع ہے کہ وہاں سے اور مبلغ بھی یہاں پہنچ جائیں گے اور انہیں ہنگری` ہالینڈ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھیجا جائے گا۔
یہ مبلغین کا دستہ پٹنی کی مسجد میں فروکش ہے۔ تبلیغ کے لئے باہر بھیجے جانے سے پہلے انہیں اس مسجد میں تربیت دی جائے۔ اس تربیت میں ان ممالک کی زبان بھی شامل ہے جہاں انہیں تبلیغ کے لئے جانا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں مغربی رسم و رواج اور مغربی طرز زندگی سے بھی آگاہی حاصل کرنی ہے۔
مسجد کے امام مولوی جلال الدین شمس سیکھوانی نے >گلوب< کے نمائندے سے بیان کیا کہ ہمارے خیال میں اسلام کو یہ بہت بڑا موقع ملا ہے کہ یورپ میں امن بحال کرے۔ جنگ نے یورپ کا کچومر نکال دیا ہے۔
ہمارے مبلغ پرامن طریقوں سے اسلام کے نصب العین اور نظریوں کی تبلیغ کریں گے۔ کتابیں تقسیم کی جائیں گی اور تقریریں ہوں گی۔ مختلف انجمنوں سے وابستگی کا سلسلہ قائم کرکے تبادلہ خیال ہوتا رہے گا۔ مغربی مصنفوں نے ہمارے مذہب کو غلط پیش کیا ہے۔ ہم نے اس کے خلاف بھی مصروف جہاد ہونا ہے۔ اہل مغرب نے اسلام کو غلط سمجھا ہے۔ اب ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔
جماعت احمدیہ کا صرف یورپین شعبہ ہی اپنی سرگرمیوں کو تیز تر نہیں کررہا بلکہ کرہ ارض کے طول و عرض میں مبلغ بھیجے جارہے ہیں۔ ایک احمدی تبلیغ وفد سید سفیر الدین بشیر احمد کی زیر قیادت مغربی افریقہ جانے والا ہے۔
پٹنی کی مسجد میں تربیت کا انتظام مسٹر مشتاق احمد باجوہ کے سپرد ہے جو حال ہی میں قادیان سے یہاں پہنچے ہیں۔ آپ امام جلال الدین شمس کے جانشین ہوں گے جو مراجعت فرمائے قادیان ہورہے ہیں۔ رائٹر نے خبر دی کہ۔
>لورپول سے بارہ احمدی مبلغین کی ایک جماعت کل بہت رات گئے لورپول سے لنڈن پہنچی اور پٹنی کی مسجد میں تبلیغی نقشہ تیار کررہی ہے۔ یہ حضرات ہندوستان سے >سٹی آف اگزیٹر< جہاز میں لورپول پہنچے تھے۔ مسجد پٹنی کے امام اس جماعت کے تیرھویں ممبر ہیں۔ یہ تیرہ کے تیرہ مسجد کے خوشنما صحن میں چہل قدمی کرتے رہے اور تجویزیں مرتب کرتے رہے۔ یہ حضرات انگلستان میں چھ مہینے گزاریں گے اور یورپ کی زبانیں سیکھیں گے۔ انہیں تین سال یورپ میں گزارنے ہوں گے اس کے بعد وہ قادیان واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ اور لوگ آجائیں گے۔ اس جماعت کا سب سے کم عمر رکن مسٹر چوہدری )۲۲ سال( اور سب سے بڑے کی عمر ۴۴ سال ہے۔ یہ سب کے سب احمدی ہیں اور ان کی آمد سے برطانوی جرائد نگاروں کے لئے دلچسپی کا نیا سامان پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا لباس خوشنما ہے اور ان کے سروں پر سفید اور سبز پگڑیاں بھلی معلوم ہوتی ہیں<۔۵۳
مصر کے اخبارات میں ذکر
مصر کے مشہور اور ممتاز مجلہ >اخبار العالم< ۶۔ فروری ۱۹۴۶ء نے ان مجاہدین اسلام کے تین وٹو شائع کئے اور >مسلمانان ہند کا وفد لنڈن میں< کے عنوان سے لکھا۔
>گزشتہ ماہ جنوری کے آغاز میں انگلستان میں ہندوستان سے ایک اسلامی تبلیغی وفد پہنچا ہے تاکہ وہ اہل یورپ اور انگلستان کو دین اسلام کے متعلق علم دے سکے۔ اس وفد کے ممبران مسلمانان پنجاب کی ایک جماعت سے تعلق رکھتے ہیں-
اس ہندوستانی تبلیغی وفد نے مسجد لنڈن کی زیارت کی اور مولانا شمس صاحب امام مسجد لنڈن نے ان کو اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا۔ ہم اسی صفحہ پر بعض تصاویر جو وفد کے قیام لنڈن کے دوران لی گئی ہیں شائع کررہے ہیں۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تبلیغی وفد میں سے ایک گروپ اٹلی جائے گا اور دوسرا فرانس کو اور تیسرا جرمنی اور چوتھے گروپ کا قیام برطانیہ میں ہی ہوگا۔ یہ یقینی امر ہے کہ اس تبلیغی وفد کی قابل رشک مساعی سے اہل یورپ اسلام کو شناخت کرسکیں گے<۔ )اس کے بعد تین وٹو مختلف مناظر کے دیئے( دوسرا جریدہ اخبار >الیوم<۔ >التبشیر بالاسلام فی اروبا< کے عنوان سے لکھتا ہے۔
>یورپ میں تبلیغ اسلام< لنڈن )یورپ( میں تیرہ مسلمانان ہند تشریف لائے ہیں۔ ان کے آنے کا مقصد اہل یورپ کو جنہیں مادیات نے بالکل تباہ و برباد کر دیا ہے تبلیغ اسلام کرنا ہے۔ یہ وفد مخلص نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنے مذہب کے شیدائی اور عاشق ہیں اور دین اسلام کے پھیلانے میں بڑے دلیر۔ اس وفد کے ممبران میں سب سے بڑی عمر والا ۴۴ سال کا ایک فرد ہے باقی سب اس سے چھوٹی عمر کے ہیں۔
سب سے پہلے لنڈن میں ان کا ورود ہوا۔ یہاں ان کا قیام چھ ماہ ہوگا۔ اس دوران میں وہ یورپ کی اہم زبانوں کی تعلیم حاصل کریں گے۔ بعد ازاں وہ دو دو اور تین تین افراد کی پارٹیوں میں تقسیم ہوکر یورپ کے مختلف اطراف میں تبلیغ اسلام کریں گے۔ سب سے پہلے ایک پارٹی سپین میں جائے گی۔ وہ سپین میں جس کے اکثر باشندوں میں ابھی تک عربی خون باقی ہے اور جو ہمیشہ اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد دین اسلام پر قائم تھے۔ یہ وفد بطور مہمان کے اس وقت مولانا شمس صاحب امام مسجد لنڈن کے ہاں مقیم ہے۔ مولانا شمس ایک ہندوستانی عالم ہیں اور علوم اسلامیہ کے فاضل۔ آپ کا برطانیہ میں قیام تبلیغ اسلام کی خاطر ہے۔ آپ کی مساعی سے بعض انگریزوں نے مذہب اسلام قبول کیا ہے جن میں سے بعض اچھے اور مشہور ادیب ہیں۔
مولانا شمس نے بیان دیتے ہوئے فرمایا یورپ کو مذہب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ یورپ اپنا علاج کرسکے اور اپنے مضطرب قلب کو تسکین دے سکے۔ اس مقصد کی ادائیگی کے لئے اسلام اپنے اندر بہت بڑی طاقت رکھتا ہے جس کا مقصد دنیا کو امن کے راستہ پر چلانا ہے اور ان مبلغین کا کام یہی ہوگا کہ وہ اسلامی عقائد کی تفصیل اور اغراض بیان کریں۔
یورپ کے مذہبی اداروں نے اس تحریک کے متعلق خاص اہتمام کا اظہار کیا ہے۔ جس کی مثال سابقہ زمانے میں نہیں پائی جاتی اور اس خوف و خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اہل یورپ میں سے ایک معقول تعداد مذہب اسلام قبول کرلے۔ کیونکہ اس وقت اکثر لوگوں کا عقیدہ )عیسائیت( تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ انگلش چرچ بھی اس امر پر مجبور ہورہا ہے کہ وہ اہل برطانیہ میں مسیحیت کی تبلیغ قائم رکھنے کے لئے دس لاکھ پائونڈ خرچ کرے۔
ایک معزز انگریز پادری نے مجھے کہا کہ میں ہر اس تحریک کو خوش آمدید کہتا ہوں جو کسی دینی عقیدہ کے اختیار کرنے کی طرف دعوت دیتی ہو کیونکہ میں ہمیشہ اسلامی فیلسوف ابن رشد کے اس نفیس قول کو یاد رکھتا ہوں کہ۔
>دیندار انسان کا اعتماد کر۔ اگرچہ وہ تمہارے عقیدہ پر نہ ہو اور بے دین انسان کا اعتماد نہ کر۔ اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ میں تمہارے مذہب پر قائم ہوں<۔
جامعہ ازہر میں بھی اس تبلیغی وفد کی وجہ سے ہلچل پیدا ہوئی اور لکھا گیا کہ یہ کام دراصل ہمارا ہے۔ گو ظاہری الفاظ میں تو جماعت احمدیہ کے متعلق اظہار نہیں کیا گیا۔ مگر حقیقت شناس اصحاب سے یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مصر کے مشہور ادبی مجلہ >الرسالت و الروائت< )۴۔ مارچ ۱۹۴۶ء( میں احمد الشریاصی المدرس الازہر الشریف کا ایک مکتوب بنام >الاستاذ الاکبر شیخ الجامع الازہر< شائع ہوا اس میں آپ نے رئیس الازہر کی خدمت میں واضح طور پر لکھا کہ ازہر کا ایک فرد بھی تبلیغ اسلام کی خاطر بیرون مصر نہیں بھیجا گیا۔ حالانکہ یہ کام جامعہ ازہر سے زیادہ تعلق رکھتا ہے بہ نسبت دوسری جماعتوں کے۔ چنانچہ مفصل خط میں سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ موصوف نے لکھا۔
>اما الازھر الشریف الذی یحتاج الی البعاث اکثر من غیرہ فلم نرمن ابنائہ فردا واحدا یرسل الی الخارج فی بعثتہ من البعثات<
یعنی ازہر شریف کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ بیرون مصر تبلیغی وفد بھیجے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جامعہ ازہر سے ایک فرد بھی باہر نہیں بھیجا جاتا<۔
پھر لکھا۔
ان الازھرین فی امس الحاجہ الی دراسہ اللغات الا جنبیہ والی الوقوف علی شبہ المستشرقین و الملحدین لید فعوا عن دینھم والی معرفہ الو ان الحیاہ الا اجتماعیہ والثفافیہ عنوالغربیین<۔
یعنی طلباء ازہر کو اجنبی زبانیں سیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ نیز متشرفین و ملحدین کے اعتراضات معلوم کرنے کی بھی تاکہ جامعہ ازہر کے طلباء دین اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دے سکیں اور اہل مغرب کی ثقافت` تمدن اور سوشل زندگی کی معلومات حاصل کرسکیں۔
پھر حسرب بھرے الفاظ میں اس خط کو ان الفاظ پر ختم کیا۔
فمتی یتمکنون من تحقیق ھذہ الاھداف<۔
اہل ازہر کب اس مقصد اور غرض کو حاصل کرسکیں گے! )ترجمہ(۵۴
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی اہم تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے موقعہ پر
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا پورا سال اشتراکیت کے خلاف قلمی و علمی جہاد کا سال تھا۔ جس میں جماعت احمدیہ کے اہل قلم اصحاب نے اپنے محبوب امام ہمام کی زیر ہدایت اشتراکیت کی
حقیقت کو بے نقاب کرنے کی مخلصانہ جدوجہد کی۔ اس سلسلہ میں پہلی بار سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک خاص تقریر >اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ< کے اہم موضوع پر رکھی گئی۔ جو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے جلسہ کے دوسرے دن )۲۷۔ ماہ فتح/ دسمبر کو( ارشاد فرمائی۔
حضرت صاحبزادہ صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے اپنی تقریر کے آغاز میں بتایا کہ اشتراکیت صبح کاذب ہے جو صبح صادق کے آنے کی خوشخبری دیتی ہے جس کے سامنے صبح کاذب کا وجود نہیں ٹھہر سکتا۔ اس بنیادی نقطہ کی وضاحت کے بعد آپ نے کارل مارکس کے معاشی نظریہ مساوات کے مندرجہ ذیل سات اصول کا تذکرہ فرمایا۔
۱۔ پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضہ ۲۔ طاقت کے مطابق کام ۳۔ ضرورت کے مطابق آمد ۴۔ نفع ممنوع اور سود جائز ۵۔ ورثہ ناجائز ۶۔ نظام زر کی تباہی ۷۔ ¶شخصی ملکیت کا خاتمہ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان میں سے ایک ایک اصول کو لیا اور پھر واقعات سے ثابت کیا کہ یہ سب اصول بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
مارکس نظریہ اور اس کے مبادیات کا واقعاتی اور عقلی جائزہ لینے کے بعد آپ نے اسلامی اقتصادیات کے اہم اصولوں پر مفصل روشنی ڈالی اور اس ضمن میں سب سے پہلے بتایا کہ اسلام میں مساوات کی صحیح تعریف یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے حصول میں سب مساوی ہوں اور ان کے جسمانی اور دماغی قویٰ کو کمال تک پہنچانے کے سامان مہیا ہوں۔ ازاں بعد آپ نے نہایت شرح و بسط سے غلامی کا انسداد` نظام وراثت کا قیام اور سود` احتکار` قیمتیں گرانے یا کم قیمت پر مال خریدنے کی ممانعت وغیرہ متعدد اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالی اور اس نقطہ پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلامی اقتصادیات میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تمدن کی بنیاد رکھتی ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی اقتصادی تحریک جاری نہیں ہوئی جسے صحیح معنوں میں بین الاقوامی کہا جاسکتا ہو۔ سرمایہ داری اور اپریلزم کے ملکی ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوسکتا۔ اشتراکیت جسے لوگ بین الاقوامی تحریک سمجھتے ہیں اور جس کا کبھی خود بھی یہی دعویٰ تھا بین الاقوامی تحریک نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس لئے کہ آج اشتراکیت۔ روسی اشتراکیت کا نام ہے اور روسی اشتراکیت کے مقاصد میں سے یہ ایک مقصد نہیں کہ دنیا میں اشتراکیت کو قائم کیا جائے۔ مارچ ۱۹۳۶ء میں جب مسٹر آر۔ ہاورڈ نے سٹالن سے یہ سوال کیا کہ کیا سویٹ یونین نے عالمگیر اشتراکی انقلاب کے ارادے اور اس کا پروگرام اب چھوڑ دیا ہے؟ تو سٹالن نے جواب دیا کہ دنیا میں اس قسم کا انقلاب پیدا کرنے کا ہمارا کبھی بھی ارادہ نہ تھا۔ )سویٹ یونین ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۰۔ ۵۱( ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اس کے برعکس بوجہ ایک مذہبی تحریک ہونے کے ملک ملک` نسل نسل اور قوم قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ اسلام عالمگیر تبلیغ اور اشاعت کی بنیادوں پر قائم ہے اور اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح وہ اپنے پہلے دور میں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور ایک شاندار بین الاقوامی برداری اس نے قائم کی اپنے دور ثانی میں بھی وہ تمام دنیا پر چھا جائے گا<۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ اہم تقریر مندرجہ ذیل پرشوکت الفاظ پر ختم ہوئی۔
>دراصل احمدیت کا آخری ٹکرائو اشتراکی روس کے ساتھ مقدر ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ زار روس کا عصا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اشتراکی نظام میں یقیناً یہ خوبی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی بھیانک تصویر کے خلاف ایک بھاری ردعمل ہے مگر پنڈولم کی حرکت کی طرح وہ دوسری انتہا کی طرف نکل گیا ہے اور شائد سرمایہ داری سے بھی زیادہ خطرناک بننے والا ہے<۔۵۵
چوتھا باب )فصل چہارم(
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں انتقال کرنے والے
مشہور اور جلیل القدر صحابہ
اس سال جن صحابہ نے انتقال کیا ان میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی تھی جن کے حالات پر اس باب کے شروع میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ اب ذیل میں دوسرے جلیل القدر صحابہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ حضرت مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان:۔
)ولادت ۱۸۷۷ء اندازاً۔ بیعت جون ۱۹۰۱ء۔ وفات ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۵۶ دہلی میں پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم اپنے ماموں حکیم فدا محمد صاحب طبیب شاہی مہاراجہ جموں و کشمیر کے زیر تربیت جموں میں حاصل کی اور اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاول مولانا نور الدینؓ سے نیاز حاصل ہوئے۔ سلسلہ احمدیہ سے آپ کا تعارف حضرت حکیم انوار حسین صاحب آف بلب گڑھ کے والد ماجد کے ذریعہ ہوا اور آپ نے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تصانیف لے کر مطالعہ کیں اور ۱۹۰۱ء میں بیعت کرلی۔ آپ کا نام بیعت کنندگان کی فہرست میں اخبار الحکم ۱۰۔ جون ۱۹۰۱ء کے صفحہ ۱۶ پر درج ہے۔ آپ ان دنوں جگادھری ضلع انبالہ میں پوسٹماسٹر تھے۔ ۱۹۰۳ء میں آپ پہلی بار قادیان میں تشریف لائے اور سیدنا حضرت مسیح موعود کی زیارت سے فیض یاب ہوئے اور پھر بالالتزام ہر سالانہ جلسہ پر آتے رہے۔
حضرت مرزا محمد شفیع صاحب موصوف کو سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا بہت شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب اور خلفاء کی کتابیں آپ نے پڑھی ہوئی تھیں۔ آپ کا معمول تھا کہ جو کتاب نئی شائع ہوتی فوراً خرید لیتے اور جب تک اسے ختم نہ کرلیتے آپ کو چین نہ آتا تھا۔ کتب حضرت مسیح موعود کے علاوہ اس مبارک زمانہ میں شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل کا بھی باقاعدہ سے مطالعہ کیا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ تاکید فرماتے رہتے تھے کہ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا کرو۔ یہ تمہیں بہت فائدہ دے گا۔
سلسلہ احمدیہ` حضرت مسیح موعود` حضرت مصلح موعود` حضرت ام المومنین اور دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود سے آپ کو غایت درجہ محبت و عقیدت تھی اور ان کی خدمت اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔ جب آپ پہلے دہلی میں مقیم تھے تو خاندان مسیح موعود کے اکثر افراد کی خدمت آپ ہی انجام دیتے تھے۔ پھر جب ۱۹۲۳ء میں قادیان ہجرت کرکے تشریف لے آئے تو اپنی اس روایت کو پوری شان سے جاری رکھا قادیان میں آپ نے یکم جنوری ۱۹۲۴ء سے اپریل ۱۹۳۲ء تک بحیثیت آڈیٹر کام کیا اور اس کے بعد وفات تک محاسب صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ پر فائز رہے اور اس کام کو قابل رشک طریق پر نہایت عمدگی سے نبھایا۔
۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں آپ پر نمونیہ کا حملہ ہوا۔ پھر گردے کی تکلیف ہوگئی۔ دو دفعہ موتیا بند کا اپریشن کرانا پڑا اور ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں حبس البول کی تکلیف میں بھی مبتلا ہوگئے۔ جس کے علاج کے لئے ۱۸۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو دہلی۵۷ تشریف لے گئے اور ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے لے کر وفات تک قریباً پندرہ بیس دفعہ اپنے فرزند مرزا منور احمد صاحب )مجاہد تحریک جدید( کو تاکید فرمائی کہ >دیکھو مرنا جینا ہر ایک کے ساتھ ہے اگر میں مر جائوں تو مجھے ہرگز یہاں امانتا دفن نہ کرنا بلکہ قادیان لے جانا اور اگر خدانخواستہ لے جانے میں کوئی روک ہو یا باوجود کوشش کے کوئی انتظام نہ ہوسکے تو پھر حضرت صاحب سے پوچھ کر امانتا دفن کرنا اور پھرے لگے رہنا جب تک کہ مجھے قادیان نہ پہنچا دینا<۔
آخر خدا کی مشیت پوری ہوکر رہی اور ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو آپ دہلی میں ہی انتقال فرما گئے ۱۹۔ صلح/ جنوری کو آپ کی نعش قادیان پہنچائی گئی اور حضرت مصلح موعود نے بعد نماز جمعہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جنازہ پڑھایا اور کندھا دیا اور آپ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیئے گئے۔۵۸` ۵۹
۲۔ چوہدری بدر الدین صاحب آف راہوں ضلع جالندھر محلہ دارالبرکات قادیان سابق مبلغ ساندھن ضلع آگرہ۔
)بیعت و زیارت ۱۹۰۵ء۔ وفات ۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۶۰
چوہدری صاحب نے یکم دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے حالات قلمبند کئے جن میں لکھا۔
>یہ خاکسار آریہ سماج کے زہریلے اثر سے پورے طور پر متاثر ہوچکا تھا۔ ۱۹۰۳ء کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لیکھرام کے مباہلہ کے ذریعہ سے زندہ ہوکر ۱۹۰۵ء تک احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرکے بیعت میں داخل ہوا۔ حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہونے کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے خوش ہونے کا کون سا ذریعہ ہے؟ مولوی صاحب ممدوح نے فرمایا کہ میں تو ذریعہ پوچھنے سے ہی خوش ہوگیا اور حضرت صاحب کو بار بار خط لکھنا ان کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ اس لئے میں نے حضرت کے حضور بے شمار خط لکھے بعض دفعہ ہفتہ میں چار پانچ خط تحریر کرتا تھا۔ میں نے یہ کام جب تک قادیان میں نہیں پہنچا حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے حضور برابر خط لکھنے کا جاری رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۱۹۱۳ء سے قادیان میں ہوں اب تک صدر انجمن کے مختلف شعبوں میں کام کرتا رہا ہوں اور اس وقت یکم دسمبر ۱۹۳۷ء کو ساندھن علاقہ آگرہ کا انچارج مبلغ ہوں<۔۶۱
۳۔ حضرت حافظ محمد الدین صاحب ساکن چہور مغلیاں )چک ۱۱۷ متصل سانگلہ ہل(
‏]ydbo [tag وفات:۔ ۱۷۔ ماہ احسان ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۶۲
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے حضرت حافظ صاحب کے جنازہ غائب کے موقعہ پر فرمایا۔
حافظ محمد الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور مخلص احمدی تھے<۔
آپ کے داخل احمدیت ہونے کی موجب پنجابی اشعار کی ایک کتاب >سچ بیان< تھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر اتنے پراثر رنگ میں کیا گیا تھا کہ آپ نے فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی۔ آپ کے ذریعہ چک چہور میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی آپ کے علم و تقویٰ کا غیر احمدیوں پر بھی بہت اثر تھا اور وہ آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حضرت حافظ صاحب نے ۲۔ اپریل ۱۹۰۶ء کو وصیت کر دی تھی۔ آپ کا وصیت نمبر ۸۴ تھا۔ جونہی حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کی خبر چک چہور میں پہنچی۔ آپ نے محض اپنی فراست و بصیرت کی بناء پر اپنے خدا کے حضور سیدنا محمود کی بیعت کا اقرار کیا اور اس وقت تک چین نہ آیا جب تک دوسری اطلاع نہیں مل گئی کہ جماعت نے حضور کو ہی خلیفہ چنا ہے۔ حضرت حافظ صاحب شہادت/ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں عارضہ فالج میں مبتلا ہوئے اور ۱۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو سرسام بھی ہوگیا اور چند گھنٹوں میں خالق حقیقی سے جاملے اگلے روز آپ کے فرزند قریشی محمود احمد صاحب۶۳ شام کی گاڑی سے نعش لاہور سے قادیان لائے اور دوسرے دن صبح بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔۶۴
۴۔ ابوالمنظور حضرت مولوی حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی:۔
بیعت: قریباً ۱۹۰۵ء۶۵ وفات: ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۶۶
ڈاکٹر منظور احمد صاحبؓ بھیرونی اپنے والد ماجد کی سوانح پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>آپ کا نام والدین نے محمد امین رکھا تھا۔ بچپن میں جب آپ کریما پڑھا کرتے اور آپ نے یہ شعر پڑھا ~}~
زباں تابود درد ہاں جائے گیر
ثنائے محمدﷺ~ بود دلپذیر
تو اس وقت آپ نے ارادہ کیا کہ اگر مجھے بھی شعر کہنا آجائے تو میں اپنا تخلص دلپذیر رکھوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے شعر و شاعری میں وہ کمال حاصل کیا کہ پنجابی زبان میں آپ سے پہلے شعراء ہیں اتنا سلیس اور اتنا دلچسپ رنگ کسی نے پیدا نہیں کیا۔ آپ کا نام پنجاب میں اتنا مشہور اور معروف ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے اور پنجاب کے لوگ جہاں جہاں بھی گئے آپ کی تصانیف بھی وہاں پر پہنچیں۔ چنانچہ عرب میں بھی جہاں اس زبان کو کوئی جانتا تک نہیں جب آپ پہلی مرتبہ ۱۹۲۱ء/ ۱۳۳۶ھ میں حج کعبہ سے مشرف ہونے کے لئے گئے تو جتنے دن وہاں رہے وہ پنجابی احباب جو خاص مکہ میں سکونت قائم کرچکے تھے صبح و شام برابر دعوتیں کرتے رہے۔ انہوں نے صرف تصانیف کے ذریعہ سنا ہوا تھا کوئی ذاتی واقفیت نہ تھی۔ آپ نے سارے سفر اور حج کے احکام کو پنجابی میں نظم میں لکھا جو رہنمائے حج کے نام سے شائع ہوچکی ہے اور دوسری دفعہ ۱۹۳۵ء/ ۱۳۵۳ھ میں صرف زیارت مدینہ کے لئے گئے کیونکہ پہلی دفعہ وہاں حاضر نہ ہوسکے تھے۔ اس سفر اور مدینہ طیبہ کے حالات کو جنہیں آپ نے گلزار مدینہ کے نام سے ایک کتاب منظوم میں مفصل لکھا ہے۔ وہ بھی چھپ چکی ہے۔ آپ نے ایک سو سے اوپر کتابیں نظم میں لکھی ہیں اور آج تک کسی پنجابی شاعر کی اس قدر تصانیف ثابت نہیں۔ قریباً ستر سال آپ نے قلم چلایا۔ آپ کی جس قدر بھی تصانیف ہیں سب کی سب مذہبی تعلیم کی کتابیں ہیں۔ مسلمانوں کی دنیاوی اور دینی بہبودی کو ہر تصنیف میں آپ نے مدنظر رکھا۔ شرک اور بدعت کو ہر رنگ میں قوم سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
آپ نے قرآن کریم کی آیات کی بناء پر خطبات جمعہ اور عیدین مرتب کرکے پنجابی نظم میں پہلی بار پیش کئے۔ اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے اور وہ خطبات اس قدر رائج ہوئے کہ پرانی طرز کے خطبے اب بالکل مفقود ہیں اور آپ کے ہی خطبات غیر احمدی علماء اکثر مساجد میں پڑھ کر سنایا کرتے ہیں۔
سارے قرآن کریم کی تفسیر بھی آپ نے پنجابی نظم میں لکھی ہے جو پنجاب کے بچے اور بچیوں کے لئے نہایت مفید ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے۔ حضور کی زندگی میں کئی کئی دن قادیان میں آکر رہا کرتے۔ آپ پہلی دفعہ قادیان میں اس وقت آئے جب حضرت خلیفہ اولؓ جموں سے قادیان آگئے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ آپ کی والدہ صاحبہ کے رضائی بھائی تھے اور آپ کے والد صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔ ماں بیٹا قادیان میں حضرت خلیفہ اولؓ کو ملنے کے لئے آئے اور بیعت کرکے واپس گئے۔ بعد میں کئی بار قادیان میں حضور کی زندگی میں آئے اور کئی کئی دن حضور کی صحبت میں رہے اور جلسہ سالانہ پر بھی ضرور اہتمام کے ساتھ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ادہ اللہ بنصرہ العزیز کی ملاقات کرنے کے سوا واپس نہ جاتے۔ آپ نے آخری وقت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں آخری سلام عرض کرنے کی وصیت فرمائی جو حضور کی خدمت میں پہنچا دیا گیا۔
آپ کا وعظ اور آپ کی تصانیف غیر احمدیوں میں بہت ہی مقبول ہوئیں۔ آپ ہمیشہ تصانیف وعظوں اور ملاقاتوں میں ایسے رنگ میں احمدیت کا ذکر کرتے کہ جسے لوگ شوق سے سن لیا کرتے<۔۶۷ابوالمنظور حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب کا پیدا کردہ پنجابی لٹریچر:۔
معجزات محمدی۔ کامن النساء )اول۔ دوم( خوان یغما۔ گلزار محمدی۔ گلزار یوسف۔ شرح دیوان حافظ۔ کشف غطا۔ تفسیر پارہ عم۔ شرح کبریت احمر۔ درود ارواحی۔۶۸ احوال الاخرات۔ نماز مترجم منظوم پنجابی۔ چٹھی مسیح دی۔ اقبال مہدی۔ وفات نامہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ دربار مہدی۔ اسلامی شادی معہ تردید رسومات ختنہ۔ شہادت نامہ شہید فی سبیل اللہ حضرت مولوی نعمت اللہ خاںؓ مبلغ احمدی۔ جندڑی۔ نیرہ احمدی )اول۔ دوم( حق آوازہ۔ فقیر دی صدا۔ فریاد اسلام۔ ڈھنڈورہ احمدی۔ گلزار بھیرہ۔ خیال دلپذیر۔ گلزار مکہ۔ رقعات دلپذیر۔ تفسیر ترجمتہ القرآن )اتا۔ ۱۰ پارہ(۶۹ مورکھ سیدھ۔
۵۔ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری:۔
)ولادت۶۳۔ ۱۸۶۲ء/ ۸۰۔ ۱۲۷۹ھ۔ بیعت ۱۹۰۷ء۔ وفات ۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۷۰
حضرت مولانا عبدالماجد صاحب نے مڈل اسکول پورینی )ضلع بھاگلپور( سے ۱۸۷۵ء میں مڈل ورنیکلر کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ اسکالر شپ حاصل کیا۔ درس نظامیہ میں عربی تعلیم کی تکمیل حضرت مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی سے کی۔ بعد ازاں ۱۹۰۳ء میں علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ )جو مولانا صاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست تھے( علی گڑھ کالج میں بعہدہ ڈین۷۱ OF (DEAN FACULTY) مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۴ء میں بھاگلپور کالج کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ۱۹۳۸ء میں ریٹائر ہوکر اپنے وطن مالوف موضع پورینی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔
‏vat,10.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
۶۰ فیصدی عمارتیں پیوند خاک ہوگئیں۔ اور بم گرنے کے بعد اتنی شدید گرمی پیدا ہوئی کہ اس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہی۔ کیا انسان کیا حیوان کیا چرند اور کیا پرند سب کے سب جھلس کر خاک ہوگئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو الہاماً خبر دی گئی تھی کہ >ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا<۔۳۸ یہ دردناک نظارہ چشم فلک نے پہلی دفعہ جاپان میں دیکھا۔ بعد ازاں ۷۔ اگست کو ناگاساکی شہر میں بم نے ہیروشیما سے بھی زیادہ تباہی مچائی۔۳۹
حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۱۰۔ اگست ۱۹۴۵ء کو ڈلہوزی میں ایک خطبہ دیا۔ جس میں ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اور بتایا کہ۔
>ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا<۔
نیز فرمایا کہ۔
>ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ایٹومک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کرسکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ لا یعلم جنود ربک الا ھو۔ یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹومک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کرے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹیوں کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹومک بم کا بدلہ لینے لگ جائے<۔
حضور نے اس ضمن میں اہل عالم کو آنحضرت~صل۱~ کے اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب و تکلیف دیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم~صل۱~ نے لڑائیوں کے کم کرنے کا راستہ بتایا تھا۔ جب تک دنیا اس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم~صل۱~ کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک آنحضرت~صل۱~ کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں ان آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہئے۔ اس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہوگا<۔۴۰
اٹامک بم کے خلاف بلند ہونے والی یہ پہلی آواز تھی جس کے بعد خود یورپ میں اس کی تائید شروع ہوگئی۔ چنانچہ ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ نے لنڈن سے یہ خبر شائع کی کہ۔
>برطانیہ کے ۳۱ سرکردہ پادریوں` مصنفوں اور معلموں نے ایک عرض داشت میں جاپان پر اٹامک بم کے حملہ کے خلاف پروٹسٹ کیا۔ ان کے دستخطوں سے یہ پڑوٹسٹ لنڈن بھر میں تقسیم کیا گیا۔ ان لوگوں نے لکھا ہے کہ ایٹامک بم کا استعمال انسانیت کے ان پاک اصول پر ایک کھلا اور زور دار حملہ ہے جو مسیحی تہذیب اور جمہوری سوسائٹی نے تمام انسانوں کے لئے مساوی طور پر تجویز کئے ہیں۔ ان دستخط کنندگان میں وزیرہند کی بیوی لیڈی پینتھک لارنس بھی شامل ہے<۔۴۱
۱۹۶۵ء تک جماعت احمدیہ کیلئے ایک نئے اور انقلابی دور آنے کی حیرت انگیز پیشگوئی
حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے مستقبل کی نسبت جو خبریں دی گئیں ان میں ایک عظیم
الشان انکشاف یہ بھی کیا گیا کہ جماعت اندازاً ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش تک ایک جدید انقلابی دور میں داخل ہونے والی ہے اور اس عرصہ میں اس کی قومی پیدائش کا ہونا مقدر ہے۔ چنانچہ حضور نے ۲۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو خاص اسی موضوع پر ڈلہوزی میں خطبہ پڑھا۔ جس میں پیشگوئی فرمائی کہ۔
>میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع میں آئی ہیں جس طرح میں نے بیان کی تھیں۔ اب میرے دل میں یہ بات میخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ اندازاً بیس سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہوگی۔۴۲ بچوں کی تکمیل تو چند ماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے۔ لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں آئندہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے۔ جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے قت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا ہے اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے۔ پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اس بات کو میخ کے طور پر گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ بیس سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے۔ اب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مردہ۔ اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارا` محبت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل ہمارے لئے آسان کر دے گا<۔
نیز فرمایا۔
>خوب یاد رکھو جس دن کسی قوم میں قربانی بند ہوئی وہی دن اس قوم کی موت کا ہے قوم کی زندگی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ قربانیوں میں ترقی کرتی چلی جائے اور قربانیوں سے جی نہ چرائے۔ اگر ہم ساری دنیا کو بھی فتح کرلیں پھر بھی ہمیں اپنے ایمان کو سلامت رکھنے اور اپنے ایمان کو ترقی دینے کے لئے قربانیاں کرتے رہنا ہوگا۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ جماعت ایک نازک ترین دور میں سے گزرنے والی ہے۔ اس لئے اپنے ایمانوں کی فکر کرو کسی شخص کا یہ سمجھ لینا کہ دس پندرہ سال کی قربانی نے اس کے ایمان کو محفوظ کر دیا ہے۔ اس کے نفس کا دھوکہ ہے۔ جب تک عزرائیل ایمان والی جان لے کر نہیں جاتا۔ جب تک ایمان والی جان ایمان کی حالت میں ہی عزرائیل کے ہاتھ میں نہیں چلی جاتی اس وقت تک ہم کسی کو محفوظ نہیں کہہ سکتے۔ خواہ وہ شخص کتنی بڑی قربانیاں کرچکا ہو۔ اگر وہ اس مرحلہ میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ساری قربانیاں باطل ہو جائیں گی اور وہ سب سے زیادہ ذلیل انسان ہوگا کیونکہ چھت پر چڑھ کر گرنے والا انسان دوسروں سے زیادہ ذلت کا مستحق ہوتا ہے<۔۴۳
حضرت مصلح موعود کی اہم ہدایات ولائت جانے والے مبلغین کو
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی اور چوہدری عبداللطیف صاحب بی۔ اے ۲۹۔ ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو انگلستان تشریف لے جارہے تھے۔۴۴ اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے ہر دو مبلغین کو اپنے قلم سے نہایت قیمتی ہدایات لکھ کر دیں۔
چنانچہ چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کو ارشاد فرمایا کہ۔
۱۔
>اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور اس پر توکل کا ملکہ پیدا کریں۔
۲۔
محمد رسول اللہ~صل۱~ سے ذاتی تعلق اور کمال محبت۔
۳۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مشن کو نہ بھولیں۔
۴۔
امام وقت خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس سے ذاتی تعلق روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
۵۔
ہر واقف اور مجاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ستون سمجھے اور اپنے آپ کو سلسلہ کی روایات کے قیام کا ذمہ دار قرار دے۔ اس کے بغیر وقف کی نہ غرض پوری ہوتی ہے اور نہ روایات میں تسلسل پیدا ہوتا ہے جو ضروری ہے۔
۶۔
یاد رکھیں کہ کام اور محنت سے کام اور عقل سے کام کرنا اہم ترین فریضہ ہے۔
۷۔
علم کی توسیع کرو<۔
چوہدری عبداللطیف صاحب کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات تحریر فرمائیں۔
۱۔
>اللہ پر توکل کرتے ہوئے جائو۔ اس پر ایمان کو مضبوط کرو اور اس کی محبت کو بڑھاتے رہو۔ یہاں تک کہ دل کی آنکھوں۔ دماغ کی آنکھوں اور ماتھے کی آنکھوں سے وہ نظر آنے لگے اور دل و دماغ اور بیرونی کانوں سے اس کی آواز سنائی دینے لگے۔
۲۔
محمد رسول اللہ~صل۱~ سب نبیوں کے سردار ہیں۔ مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ان کے خادم ہیں۔ خادم کو آقا سے جدا نہ سمجھو مگر آقا کو آقا اور خادم کو خادم کا مقام دو اور دونوں کی محبت میں سرشار رہو۔
۳۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں خلیفہ ہی نہیں بنایا بلکہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کا کام خاص طور پر ہمارے سپرد کیا ہے اور اسلام کی ترقی ہم سے وابستہ کی ہے اس لئے ہمارا مقام عام خلافت سے بالا ہے۔ ہمارا کام خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ میں ہے۔ ہماری ذاتی عظمت کوئی نہیں۔ نہ ہم اپنے لئے کوئی خاص عزت چاہتے ہیں۔ مگر ہم اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں جو ہمارے سایہ میں لڑتا ہے وہ اپنے لئے جنت کا دروازہ کھولتا ہے جو ہم سے ایک انچ بھی دور ہٹتا ہے وہ اسلام سے دشمنی کرتا ہے اور اس کی ترقی میں روک ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور ہدایت بخشے۔ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا جس کے یہ معنے ہیں کہ خود اس کا وجود پیش کرنا ہی اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہے۔
۴۔
نمازوں کی پابندی۔ دعائوں پر زور کو اپنا شعار بنائو۔
۵۔
اطاعت خواہ کوئی افسر ہو ایمان کا جزو ہے۔ خود افسر ہو تو نیک سلوک کرو۔ دوسرا افسر ہو تو اس کا اس قدر اعزاز اور احترام کرو کہ دیکھنے والے بغیر کہے کے ان کا اعزاز کرنے لگیں۔ اسلام کی روح کو ہر ملک میں اور ہر زمانہ میں زندہ رکھنے اور وسیع کرنے کی کوشش کرو<۔۴۵
جماعت احمدیہ میں اعلیٰ تعلیم کی توسیع کے لئے سکیم
حضرت مصلح موعود جماعت احمدیہ کی قیادت اوائل خلافت ہی سے اس رنگ میں فرما رہے تھے کہ احمدیوں کا علمی معیار بلند سے بلند تر ہوتا جائے۔ اس سلسلہ میں آپ ایک نہایت اہم قدم ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں >تعلیم الاسلام کالج< کے دوبارہ اجراء کی صورت میں اٹھا چکے تھے۔ اب اس سال حضور نے ۱۹ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو احمدیوں میں اعلیٰ تعلیم کے عام کرنے کے لئے ایک نہایت اہم سکیم تیار کی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ >جس طرح ہماری جماعت دوسرے کاموں کے لئے چندہ کرتی ہے اسی طرح ہر گائوں میں اس کے لئے کچھ چندہ جمع کرلیا جائے جس سے اس گائوں کے اعلیٰ نمبروں پر پاس ہونے والے لڑکے یا لڑکوں کو وظیفہ دیا جائے۔ اس طرح کوشش کی جائے کہ ہر گائوں میں دو تین طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں<۔ حضور نے اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جو احمدی اپنے بچوں کو پرائمری تک تعلیم دلوا سکتے ہیں وہ کم از کم مڈل تک اور جو مڈل تک تعلیم دلوا سکے ہیں وہ کم از کم انٹرنس تک اور جو انٹرنس تک پڑھا سکتے ہیں وہ اپنے لڑکوں کو کم از کم بی۔ اے کرائیں<۔ نیز فرمایا کہ >چونکہ ہم تبلیغی جماعت ہیں اس لئے ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم سو فیصدی تعلیم یافتہ ہوں<۔ اسی ضمن میں حضرت مصلح موعود نے صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ۔
>وہ فوری طور پر نظارت تعلیم و تربیت کو ایک دو انسپکٹر دے جو سارے پنجاب کا دورہ کریں اور جو اضلاع پنجاب کے ساتھ دوسرے صوبوں کے ملتے ہیں اور ان میں احمدی کثرت سے ہوں ان کا دورہ بھی ساتھ ہی کرتے چلے جائیں۔ یہ انسپکٹر ہر ایک گائوں اور ہر ایک شہر میں جائیں اور لسٹیں تیار کریں کہ ہر جماعت میں کتنے لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں کیا ہیں ان میں کتنے پڑھتے ہیں اور کتنے نہیں پڑھتے۔ ان کے والدین کو تحریک کی جائے کہ وہ انہیں تعلیم دلوائیں اور کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کریں اور ہائی سکولوں سے پاس ہونے والے لڑکوں میں سے جن کے والدین استطاعت رکھتے ہوں ان کو تحریک کی جائے کہ وہ اپنے بچے تعلیم الاسلام کالج میں پڑھنے کے لئے بھیجیں<۔۴۶
اس خطبہ کی اشاعت پر نہ صرف بیرونی جماعتوں نے توسیع تعلیم سے متعلق اعداد و شمار کے مطلوبہ نقشے بھجوائے بلکہ اس سکیم کو جلد سے جلد نتیجہ خیز کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود کی منظوری سے مولوی سلطان احمد صاحب اور سید اعجاز شاہ صاحب )انسپکٹران بیت المال( نظارت تعلیم و تربیت میں منتقل کر دیئے گئے۔
تعلیمی اعداد و شمار جب حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے تو حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ساتھ کے ساتھ ان علاقوں میں تعلیم پر زور دیا جائے۔ جو تعلیم حاصل نہیں کررہے انہیں تعلیم پر مجبور کیا جائے اور جو کررہے ہیں انہیں اعلیٰ تعلیم پر<۔
انسپکٹران کی تقرری کے موقع پر یہ ہدایت خاص فرمائی کہ۔
>پانچ ماہ کے لئے منظور ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کو منظم کیا جائے تو باقی صیغوں کی طرح اس صیغہ کے سکرٹری یہ کام سنبھال سکیں گے<۔۴۷
چنانچہ ان ہر دو احکام کی تعمیل کی گئی اور جب جماعت میں تعلیم کی اشاعت و فروغ کی ایک رو چل نکلی تو پانچ ماہ کے بعد یہ کام سیکرٹریان تعلیم و تربیت کے سپرد کر دیا گیا۔
حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت کو تعلیمی میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھانے کے علاوہ مرکزی درسگاہوں کے احمدی اساتذہ کو بچوں کی نگرانی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے فرمایا کہ۔
>میرے نزدیک اس کی کلی طور پر ذمہ داری سکول کے عملہ پر ہے اور کالج کے لڑکوں کی ذمہ داری کالج کے عملہ پر ہے۔ اگر سکول یا کالج کا نتیجہ خراب ہو اور کالج یا سکول کا عملہ اس پر عذر کرے تو میں یہ کہوں گا یہ منافقانہ بات ہے اگر لڑکے ہوشیار نہیں تھے اگر لڑکے محنت نہ کرتے تھے اور اگر لڑکے پڑھائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے تو ان کا کام تھا کہ وہ ایک ایک کے پاس جاتے اور ان کی اصلاح کرتے۔ اگر وہ متوجہ نہ ہوتے تو ان کے والدین کو اس طرف متوجہ کرتے اور ان کو مجبور کرتے کہ وہ تعلیم کو اچھی طرح حاصل کریں۔ ہماری جماعت کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول اب بہت ضروری ہے۔ اگر ہم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں گے تو ساری سکیم فیل ہو جائے گی<۔۴۸
مہتہ عبدالخالق صاحب اور قائداعظم محمد علی جناح
مہتہ عبدالخالق صاحب جیالوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وسط ۱۹۴۵ء میں وارد ہندوستان ہوئے۔ چونکہ انہوں نے قومی اہمیت کے ایک نسبتاً غیر معروف شعبہ میں خصوصی مہارت حاصل کی تھی اس لئے ہندوستانی پریس نے ان کی آمد پر نمایاں خبریں شائع کیں کلکتہ کے اخبار ایڈوانس )EC(ADVAN نے ۲۴۔ جون ۱۹۴۵ء کے پرچہ میں آپ کی تصویر اس سرخی کے ساتھ شائع کی کہ IN SPECIALIST INDIAN <FIRST GEOLOGY> PETROLEUM یعنی پیٹرولیم جیولوجی میں ہندوستان کے پہلے سپیشلسٹ یہاں آنے کے بعد انہیں یہ تجویز پیش کی گئی کہ وہ جواہر لال نہرو سے ملیں۔ مگر ان کی تمام ہمدردیاں مسلم لیگ کے ساتھ تھیں اس لئے انہوں نے ۴۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی خدمت میں خط لکھا جس میں مستقبل میں رونما ہونے والی پاکستانی ریاست کی معدنی توانائی اور قوت کے بارہ میں تفصیلات بتائیں اور ساتھ ہی پاکستان کی خدمت کے لئے اپنی غیر مشروط خدمات پیش کیں۔
قائداعظم اس خط پر بہت خوش ہوئے کیونکہ مسلم لیگ ایسے دلائل کی تلاش میں تھی جن کی مدد سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ پاکستان اپنے معدنی وسائل کے اعتبار سے ایک پائیدار ریاست ہوگی۔ قائداعظم نے ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو مہتہ صاحب کو حسب ذیل مراسلہ تحریر فرمایا۔
عکس کے لئے جگہ
ترجمہ۔ مستونگ
۱۴۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء
پیارے مسٹر مہتہ!! آپ کا مکتوب مورخہ ۴۔ اکتوبر موصول ہوگیا ہے جس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے مراسلہ میں جو باتیں لکھی ہیں میں نے وہ نوٹ کرلی ہیں۔ آپ کی محبتانہ پیش کش جو آپ نے ایک ٹیکنالوجسٹ کی حیثیت سے مجھے کی ہے لائق تحسین ہے۔ میں آپ کے خیالات کو اپنے دماغ میں قطعی طور پر محفوظ رکھوں گا۔ مجھے خوشی ہوگی کہ اگر میرے ساتھ رابطہ قائم رکھیں اور اگر ممکن ہو تو دوبارہ یاد دہانی بھی کرا دیں۔
امید ہے کہ آخر اکتوبر تک بمبئی واپس پہنچوں گا اور غالباً نومبر کے پہلے ہفتہ میں دہلی جائوں گا۔ اس وقت میں ایسی پوزیشن میں ہوں گا کہ آپ کی تجاویز کی طرف عملی توجہ دے سکوں۔ شکریہ۔
)آپ کا مخلص۔ محمد علی جناح(
مہتہ صاحب کی زیر غور تجاویز ان حقائق پر مبنی تھیں جن کو پرکھا جاسکتا تھا اور ان سے یہ انکشاف ہوتا تھا کہ پاکستانی علاقہ باقی ماندہ ملک کی نسبت قدرتی ذخائر )تیل اور گیس کے سلسلے میں( کئی گنا زیادہ مالا مال ہے۔ اس لئے قائداعظم نے ان کی تجاویز قبول فرمالیں` ان کے شوق اور جذبہ کو سراہا اور ابھرتی ہوئی ریاست کے لئے ان کی خدمات قبول کرلیں۔ قائداعظم نے انہیں رابطہ قائم رکھنے کی ہدایت فرمائی اور نومبر ۱۹۴۵ء میں نئی دہلی میں ان کو شرف ملاقات بخشا۔ دونوں نے مسلم علاقوں میں موجود تیل` گیس اور دوسری معدنیات کے بارے میں تفصیل سے تبادلہ خیالات کیا۔ قائداعظم نے انہیں برطانوی نوکری قبول نہ کرنے کی ہدایت کی کیونکہ ان کا ارادہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد مہتہ صاحب کی صلاحیتوں سے بلا شرکت غیرے بھرپور فائدہ اٹھائیں قائداعظم نے ان کی تحقیقات جاری رکھنے اور ان غیر ملکی فرموں اور سائنس دانوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی ہدایت بھی کی جو ہمارے ملک کی ترقی اور نشوونما میں دلچسپی رکھتے ہوں چنانچہ انہوں نے اس کی تعمیل کی۔ قائداعظم سے ان کی دوبارہ ملاقات کلکتہ کے اصفہانی ہائوس میں ہوئی۔ مہتہ صاحب نے اس ملاقات میں قدرتی وسائل سے متعلق ترقی کی تازہ ترین صورت حال اور اس سے ممکنہ استفادہ کرنے کے طریقوں کے بارے میں مختصراً بتایا جس کے بعد برطانوی حکومت اور پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے پیش کردہ بہت سی نفع بخش ملازمتوں کو ٹھکرا دیا۔۴۹
قیام پاکستان کے بعد اگرچہ آپ کی قائداعظم سے ملاقات نہ ہوسکی تاہم مشرقی پاکستان` مغربی پنجاب اور ریاست بہاولپور وغیرہ کی حکومتیں جناب مہتہ صاحب کی اعلیٰ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتی رہیں اور وقتاً فوقتاً ان سے تیل` گیس اور دیگر معدنیاتی امور پر مشورہ لیتی رہیں اور ان کی ملی خدمات کا اعتراف بھی کرتی رہیں۔
یورپ کی روحانی فتح کیلئے نو)۹( مبلغین کا سفر انگلستان اور پریس میں چرچا
۱۸۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے اعتبار سے ایک غیر معمولی دن تھا کیونکہ اس دن خدا کے فضل و کرم
سے پونے تین بجے کی گاڑی سے نوواقفین۵۰ یورپ کی روحانی فتح کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ مرکز احمدیت سے اتنی بڑی تعداد میں مبشرین اسلام کا قافلہ بیرونی ممالک کی طرف بھیجا گیا ہو۔ قافلہ میں حسب ذیل واقفین شامل تھے۔
ملک عطاء الرحمن صاحب )امیر قافلہ( چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ۔ حافظ قدرت اللہ صاحب۔ چوہدری اللہ دتہ )عطاء اللہ( صاحب۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر۔ چوہدری محمد اسحق صاحب ساقی۔ مولوی محمد عثمان صاحب۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب بشیر۔۵۱
مجاہدین تحریک جدید کا یہ قافلہ ۱۴۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو انگلستان کی بندرگاہ لورپول پر اترا۔ یوسٹن اسٹیشن پر مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے معہ احباب جماعت اس کا پرتپاک استقبال کیا اور انگلستان کے اخبارات مثلاً >ڈیلی سکیچ<۔ >دی سٹار<۔ >ڈیلی ایوننگ پیپر<۔ نے ان کی آمد کا جلی عنوان سے ذکر کیا اور تصویر شائع کی۔۵۲
برطانوی پریس کے علاوہ مشہور امریکن خبر رساں ایجنسی >گلوب< نے کسی قدر تفصیلی اور رائیٹر نے قدرے مختصر الفاظ میں وفد کے سرزمین انگلستان میں آنے کی خبر دی۔ چنانچہ >گلوب< نے لکھا۔
>انگلستان میں پٹنی کی مسجد کو ہندوستان کی جماعت احمدیہ کے مرکز دعوت و تبلیغ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جنگ کی وجہ سے یورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام کا سلسلہ رکا ہوا تھا مگر اب اسے پھر شروع کر دیا گیا ہے )اس میں اضافہ کیا گیا ہے( ملک عطاء الرحمن کے زیر قیادت نو مبلغوں کا دستہ قادیان سے یہاں پہنچ چکا ہے۔ جنہیں برطانیہ` فرانس` ہسپانیہ` جرمنی اور اٹلی میں بھیج دیا جائے گا۔ جماعت احمدیہ کا مرکز قادیان ہے جو پنجاب میں واقع ہے۔ توقع ہے کہ وہاں سے اور مبلغ بھی یہاں پہنچ جائیں گے اور انہیں ہنگری` ہالینڈ اور دوسرے مغربی ممالک میں بھیجا جائے گا۔
یہ مبلغین کا دستہ پٹنی کی مسجد میں فروکش ہے۔ تبلیغ کے لئے باہر بھیجے جانے سے پہلے انہیں اس مسجد میں تربیت دی جائے۔ اس تربیت میں ان ممالک کی زبان بھی شامل ہے جہاں انہیں تبلیغ کے لئے جانا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں مغربی رسم و رواج اور مغربی طرز زندگی سے بھی آگاہی حاصل کرنی ہے۔
مسجد کے امام مولوی جلال الدین شمس سیکھوانی نے >گلوب< کے نمائندے سے بیان کیا کہ ہمارے خیال میں اسلام کو یہ بہت بڑا موقع ملا ہے کہ یورپ میں امن بحال کرے۔ جنگ نے یورپ کا کچومر نکال دیا ہے۔
ہمارے مبلغ پرامن طریقوں سے اسلام کے نصب العین اور نظریوں کی تبلیغ کریں گے۔ کتابیں تقسیم کی جائیں گی اور تقریریں ہوں گی۔ مختلف انجمنوں سے وابستگی کا سلسلہ قائم کرکے تبادلہ خیال ہوتا رہے گا۔ مغربی مصنفوں نے ہمارے مذہب کو غلط پیش کیا ہے۔ ہم نے اس کے خلاف بھی مصروف جہاد ہونا ہے۔ اہل مغرب نے اسلام کو غلط سمجھا ہے۔ اب ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔
جماعت احمدیہ کا صرف یورپین شعبہ ہی اپنی سرگرمیوں کو تیز تر نہیں کررہا بلکہ کرہ ارض کے طول و عرض میں مبلغ بھیجے جارہے ہیں۔ ایک احمدی تبلیغ وفد سید سفیر الدین بشیر احمد کی زیر قیادت مغربی افریقہ جانے والا ہے۔
پٹنی کی مسجد میں تربیت کا انتظام مسٹر مشتاق احمد باجوہ کے سپرد ہے جو حال ہی میں قادیان سے یہاں پہنچے ہیں۔ آپ امام جلال الدین شمس کے جانشین ہوں گے جو مراجعت فرمائے قادیان ہورہے ہیں۔ رائٹر نے خبر دی کہ۔
>لورپول سے بارہ احمدی مبلغین کی ایک جماعت کل بہت رات گئے لورپول سے لنڈن پہنچی اور پٹنی کی مسجد میں تبلیغی نقشہ تیار کررہی ہے۔ یہ حضرات ہندوستان سے >سٹی آف اگزیٹر< جہاز میں لورپول پہنچے تھے۔ مسجد پٹنی کے امام اس جماعت کے تیرھویں ممبر ہیں۔ یہ تیرہ کے تیرہ مسجد کے خوشنما صحن میں چہل قدمی کرتے رہے اور تجویزیں مرتب کرتے رہے۔ یہ حضرات انگلستان میں چھ مہینے گزاریں گے اور یورپ کی زبانیں سیکھیں گے۔ انہیں تین سال یورپ میں گزارنے ہوں گے اس کے بعد وہ قادیان واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ اور لوگ آجائیں گے۔ اس جماعت کا سب سے کم عمر رکن مسٹر چوہدری )۲۲ سال( اور سب سے بڑے کی عمر ۴۴ سال ہے۔ یہ سب کے سب احمدی ہیں اور ان کی آمد سے برطانوی جرائد نگاروں کے لئے دلچسپی کا نیا سامان پیدا ہوگیا ہے۔ ان کا لباس خوشنما ہے اور ان کے سروں پر سفید اور سبز پگڑیاں بھلی معلوم ہوتی ہیں<۔۵۳
مصر کے اخبارات میں ذکر
مصر کے مشہور اور ممتاز مجلہ >اخبار العالم< ۶۔ فروری ۱۹۴۶ء نے ان مجاہدین اسلام کے تین وٹو شائع کئے اور >مسلمانان ہند کا وفد لنڈن میں< کے عنوان سے لکھا۔
>گزشتہ ماہ جنوری کے آغاز میں انگلستان میں ہندوستان سے ایک اسلامی تبلیغی وفد پہنچا ہے تاکہ وہ اہل یورپ اور انگلستان کو دین اسلام کے متعلق علم دے سکے۔ اس وفد کے ممبران مسلمانان پنجاب کی ایک جماعت سے تعلق رکھتے ہیں-
اس ہندوستانی تبلیغی وفد نے مسجد لنڈن کی زیارت کی اور مولانا شمس صاحب امام مسجد لنڈن نے ان کو اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا۔ ہم اسی صفحہ پر بعض تصاویر جو وفد کے قیام لنڈن کے دوران لی گئی ہیں شائع کررہے ہیں۔
سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تبلیغی وفد میں سے ایک گروپ اٹلی جائے گا اور دوسرا فرانس کو اور تیسرا جرمنی اور چوتھے گروپ کا قیام برطانیہ میں ہی ہوگا۔ یہ یقینی امر ہے کہ اس تبلیغی وفد کی قابل رشک مساعی سے اہل یورپ اسلام کو شناخت کرسکیں گے<۔ )اس کے بعد تین وٹو مختلف مناظر کے دیئے( دوسرا جریدہ اخبار >الیوم<۔ >التبشیر بالاسلام فی اروبا< کے عنوان سے لکھتا ہے۔
>یورپ میں تبلیغ اسلام< لنڈن )یورپ( میں تیرہ مسلمانان ہند تشریف لائے ہیں۔ ان کے آنے کا مقصد اہل یورپ کو جنہیں مادیات نے بالکل تباہ و برباد کر دیا ہے تبلیغ اسلام کرنا ہے۔ یہ وفد مخلص نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنے مذہب کے شیدائی اور عاشق ہیں اور دین اسلام کے پھیلانے میں بڑے دلیر۔ اس وفد کے ممبران میں سب سے بڑی عمر والا ۴۴ سال کا ایک فرد ہے باقی سب اس سے چھوٹی عمر کے ہیں۔
سب سے پہلے لنڈن میں ان کا ورود ہوا۔ یہاں ان کا قیام چھ ماہ ہوگا۔ اس دوران میں وہ یورپ کی اہم زبانوں کی تعلیم حاصل کریں گے۔ بعد ازاں وہ دو دو اور تین تین افراد کی پارٹیوں میں تقسیم ہوکر یورپ کے مختلف اطراف میں تبلیغ اسلام کریں گے۔ سب سے پہلے ایک پارٹی سپین میں جائے گی۔ وہ سپین میں جس کے اکثر باشندوں میں ابھی تک عربی خون باقی ہے اور جو ہمیشہ اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد دین اسلام پر قائم تھے۔ یہ وفد بطور مہمان کے اس وقت مولانا شمس صاحب امام مسجد لنڈن کے ہاں مقیم ہے۔ مولانا شمس ایک ہندوستانی عالم ہیں اور علوم اسلامیہ کے فاضل۔ آپ کا برطانیہ میں قیام تبلیغ اسلام کی خاطر ہے۔ آپ کی مساعی سے بعض انگریزوں نے مذہب اسلام قبول کیا ہے جن میں سے بعض اچھے اور مشہور ادیب ہیں۔
مولانا شمس نے بیان دیتے ہوئے فرمایا یورپ کو مذہب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ یورپ اپنا علاج کرسکے اور اپنے مضطرب قلب کو تسکین دے سکے۔ اس مقصد کی ادائیگی کے لئے اسلام اپنے اندر بہت بڑی طاقت رکھتا ہے جس کا مقصد دنیا کو امن کے راستہ پر چلانا ہے اور ان مبلغین کا کام یہی ہوگا کہ وہ اسلامی عقائد کی تفصیل اور اغراض بیان کریں۔
یورپ کے مذہبی اداروں نے اس تحریک کے متعلق خاص اہتمام کا اظہار کیا ہے۔ جس کی مثال سابقہ زمانے میں نہیں پائی جاتی اور اس خوف و خدشہ کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اہل یورپ میں سے ایک معقول تعداد مذہب اسلام قبول کرلے۔ کیونکہ اس وقت اکثر لوگوں کا عقیدہ )عیسائیت( تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ انگلش چرچ بھی اس امر پر مجبور ہورہا ہے کہ وہ اہل برطانیہ میں مسیحیت کی تبلیغ قائم رکھنے کے لئے دس لاکھ پائونڈ خرچ کرے۔
ایک معزز انگریز پادری نے مجھے کہا کہ میں ہر اس تحریک کو خوش آمدید کہتا ہوں جو کسی دینی عقیدہ کے اختیار کرنے کی طرف دعوت دیتی ہو کیونکہ میں ہمیشہ اسلامی فیلسوف ابن رشد کے اس نفیس قول کو یاد رکھتا ہوں کہ۔
>دیندار انسان کا اعتماد کر۔ اگرچہ وہ تمہارے عقیدہ پر نہ ہو اور بے دین انسان کا اعتماد نہ کر۔ اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرتا ہو کہ میں تمہارے مذہب پر قائم ہوں<۔
جامعہ ازہر میں بھی اس تبلیغی وفد کی وجہ سے ہلچل پیدا ہوئی اور لکھا گیا کہ یہ کام دراصل ہمارا ہے۔ گو ظاہری الفاظ میں تو جماعت احمدیہ کے متعلق اظہار نہیں کیا گیا۔ مگر حقیقت شناس اصحاب سے یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ مصر کے مشہور ادبی مجلہ >الرسالت و الروائت< )۴۔ مارچ ۱۹۴۶ء( میں احمد الشریاصی المدرس الازہر الشریف کا ایک مکتوب بنام >الاستاذ الاکبر شیخ الجامع الازہر< شائع ہوا اس میں آپ نے رئیس الازہر کی خدمت میں واضح طور پر لکھا کہ ازہر کا ایک فرد بھی تبلیغ اسلام کی خاطر بیرون مصر نہیں بھیجا گیا۔ حالانکہ یہ کام جامعہ ازہر سے زیادہ تعلق رکھتا ہے بہ نسبت دوسری جماعتوں کے۔ چنانچہ مفصل خط میں سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ علامہ موصوف نے لکھا۔
>اما الازھر الشریف الذی یحتاج الی البعاث اکثر من غیرہ فلم نرمن ابنائہ فردا واحدا یرسل الی الخارج فی بعثتہ من البعثات<
یعنی ازہر شریف کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ ضرورت ہے کہ وہ بیرون مصر تبلیغی وفد بھیجے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جامعہ ازہر سے ایک فرد بھی باہر نہیں بھیجا جاتا<۔
پھر لکھا۔
ان الازھرین فی امس الحاجہ الی دراسہ اللغات الا جنبیہ والی الوقوف علی شبہ المستشرقین و الملحدین لید فعوا عن دینھم والی معرفہ الو ان الحیاہ الا اجتماعیہ والثفافیہ عنوالغربیین<۔
یعنی طلباء ازہر کو اجنبی زبانیں سیکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ نیز متشرفین و ملحدین کے اعتراضات معلوم کرنے کی بھی تاکہ جامعہ ازہر کے طلباء دین اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دے سکیں اور اہل مغرب کی ثقافت` تمدن اور سوشل زندگی کی معلومات حاصل کرسکیں۔
پھر حسرب بھرے الفاظ میں اس خط کو ان الفاظ پر ختم کیا۔
فمتی یتمکنون من تحقیق ھذہ الاھداف<۔
اہل ازہر کب اس مقصد اور غرض کو حاصل کرسکیں گے! )ترجمہ(۵۴
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی اہم تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے موقعہ پر
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا پورا سال اشتراکیت کے خلاف قلمی و علمی جہاد کا سال تھا۔ جس میں جماعت احمدیہ کے اہل قلم اصحاب نے اپنے محبوب امام ہمام کی زیر ہدایت اشتراکیت کی
حقیقت کو بے نقاب کرنے کی مخلصانہ جدوجہد کی۔ اس سلسلہ میں پہلی بار سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ایک خاص تقریر >اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ< کے اہم موضوع پر رکھی گئی۔ جو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے جلسہ کے دوسرے دن )۲۷۔ ماہ فتح/ دسمبر کو( ارشاد فرمائی۔
حضرت صاحبزادہ صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے اپنی تقریر کے آغاز میں بتایا کہ اشتراکیت صبح کاذب ہے جو صبح صادق کے آنے کی خوشخبری دیتی ہے جس کے سامنے صبح کاذب کا وجود نہیں ٹھہر سکتا۔ اس بنیادی نقطہ کی وضاحت کے بعد آپ نے کارل مارکس کے معاشی نظریہ مساوات کے مندرجہ ذیل سات اصول کا تذکرہ فرمایا۔
۱۔ پیداوار اور ذرائع پیداوار پر قبضہ ۲۔ طاقت کے مطابق کام ۳۔ ضرورت کے مطابق آمد ۴۔ نفع ممنوع اور سود جائز ۵۔ ورثہ ناجائز ۶۔ نظام زر کی تباہی ۷۔ ¶شخصی ملکیت کا خاتمہ۔
حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان میں سے ایک ایک اصول کو لیا اور پھر واقعات سے ثابت کیا کہ یہ سب اصول بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
مارکس نظریہ اور اس کے مبادیات کا واقعاتی اور عقلی جائزہ لینے کے بعد آپ نے اسلامی اقتصادیات کے اہم اصولوں پر مفصل روشنی ڈالی اور اس ضمن میں سب سے پہلے بتایا کہ اسلام میں مساوات کی صحیح تعریف یہ ہے کہ ضروریات زندگی کے حصول میں سب مساوی ہوں اور ان کے جسمانی اور دماغی قویٰ کو کمال تک پہنچانے کے سامان مہیا ہوں۔ ازاں بعد آپ نے نہایت شرح و بسط سے غلامی کا انسداد` نظام وراثت کا قیام اور سود` احتکار` قیمتیں گرانے یا کم قیمت پر مال خریدنے کی ممانعت وغیرہ متعدد اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالی اور اس نقطہ پر خاص طور پر زور دیا کہ اسلامی اقتصادیات میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تمدن کی بنیاد رکھتی ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی اقتصادی تحریک جاری نہیں ہوئی جسے صحیح معنوں میں بین الاقوامی کہا جاسکتا ہو۔ سرمایہ داری اور اپریلزم کے ملکی ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوسکتا۔ اشتراکیت جسے لوگ بین الاقوامی تحریک سمجھتے ہیں اور جس کا کبھی خود بھی یہی دعویٰ تھا بین الاقوامی تحریک نہیں سمجھی جاسکتی۔ اس لئے کہ آج اشتراکیت۔ روسی اشتراکیت کا نام ہے اور روسی اشتراکیت کے مقاصد میں سے یہ ایک مقصد نہیں کہ دنیا میں اشتراکیت کو قائم کیا جائے۔ مارچ ۱۹۳۶ء میں جب مسٹر آر۔ ہاورڈ نے سٹالن سے یہ سوال کیا کہ کیا سویٹ یونین نے عالمگیر اشتراکی انقلاب کے ارادے اور اس کا پروگرام اب چھوڑ دیا ہے؟ تو سٹالن نے جواب دیا کہ دنیا میں اس قسم کا انقلاب پیدا کرنے کا ہمارا کبھی بھی ارادہ نہ تھا۔ )سویٹ یونین ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۰۔ ۵۱( ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام اس کے برعکس بوجہ ایک مذہبی تحریک ہونے کے ملک ملک` نسل نسل اور قوم قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ اسلام عالمگیر تبلیغ اور اشاعت کی بنیادوں پر قائم ہے اور اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ جس طرح وہ اپنے پہلے دور میں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور ایک شاندار بین الاقوامی برداری اس نے قائم کی اپنے دور ثانی میں بھی وہ تمام دنیا پر چھا جائے گا<۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی یہ اہم تقریر مندرجہ ذیل پرشوکت الفاظ پر ختم ہوئی۔
>دراصل احمدیت کا آخری ٹکرائو اشتراکی روس کے ساتھ مقدر ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ زار روس کا عصا میرے ہاتھ میں آگیا ہے۔ اشتراکی نظام میں یقیناً یہ خوبی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی بھیانک تصویر کے خلاف ایک بھاری ردعمل ہے مگر پنڈولم کی حرکت کی طرح وہ دوسری انتہا کی طرف نکل گیا ہے اور شائد سرمایہ داری سے بھی زیادہ خطرناک بننے والا ہے<۔۵۵
چوتھا باب )فصل چہارم(
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں انتقال کرنے والے
مشہور اور جلیل القدر صحابہ
اس سال جن صحابہ نے انتقال کیا ان میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی تھی جن کے حالات پر اس باب کے شروع میں روشنی ڈالی جاچکی ہے۔ اب ذیل میں دوسرے جلیل القدر صحابہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ حضرت مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان:۔
)ولادت ۱۸۷۷ء اندازاً۔ بیعت جون ۱۹۰۱ء۔ وفات ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۵۶ دہلی میں پیدا ہوئے اور اپنی تعلیم اپنے ماموں حکیم فدا محمد صاحب طبیب شاہی مہاراجہ جموں و کشمیر کے زیر تربیت جموں میں حاصل کی اور اسی زمانہ میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاول مولانا نور الدینؓ سے نیاز حاصل ہوئے۔ سلسلہ احمدیہ سے آپ کا تعارف حضرت حکیم انوار حسین صاحب آف بلب گڑھ کے والد ماجد کے ذریعہ ہوا اور آپ نے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تصانیف لے کر مطالعہ کیں اور ۱۹۰۱ء میں بیعت کرلی۔ آپ کا نام بیعت کنندگان کی فہرست میں اخبار الحکم ۱۰۔ جون ۱۹۰۱ء کے صفحہ ۱۶ پر درج ہے۔ آپ ان دنوں جگادھری ضلع انبالہ میں پوسٹماسٹر تھے۔ ۱۹۰۳ء میں آپ پہلی بار قادیان میں تشریف لائے اور سیدنا حضرت مسیح موعود کی زیارت سے فیض یاب ہوئے اور پھر بالالتزام ہر سالانہ جلسہ پر آتے رہے۔
حضرت مرزا محمد شفیع صاحب موصوف کو سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا بہت شوق تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب اور خلفاء کی کتابیں آپ نے پڑھی ہوئی تھیں۔ آپ کا معمول تھا کہ جو کتاب نئی شائع ہوتی فوراً خرید لیتے اور جب تک اسے ختم نہ کرلیتے آپ کو چین نہ آتا تھا۔ کتب حضرت مسیح موعود کے علاوہ اس مبارک زمانہ میں شائع ہونے والے اخبارات اور رسائل کا بھی باقاعدہ سے مطالعہ کیا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ تاکید فرماتے رہتے تھے کہ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا کرو۔ یہ تمہیں بہت فائدہ دے گا۔
سلسلہ احمدیہ` حضرت مسیح موعود` حضرت مصلح موعود` حضرت ام المومنین اور دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود سے آپ کو غایت درجہ محبت و عقیدت تھی اور ان کی خدمت اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔ جب آپ پہلے دہلی میں مقیم تھے تو خاندان مسیح موعود کے اکثر افراد کی خدمت آپ ہی انجام دیتے تھے۔ پھر جب ۱۹۲۳ء میں قادیان ہجرت کرکے تشریف لے آئے تو اپنی اس روایت کو پوری شان سے جاری رکھا قادیان میں آپ نے یکم جنوری ۱۹۲۴ء سے اپریل ۱۹۳۲ء تک بحیثیت آڈیٹر کام کیا اور اس کے بعد وفات تک محاسب صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ پر فائز رہے اور اس کام کو قابل رشک طریق پر نہایت عمدگی سے نبھایا۔
۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں آپ پر نمونیہ کا حملہ ہوا۔ پھر گردے کی تکلیف ہوگئی۔ دو دفعہ موتیا بند کا اپریشن کرانا پڑا اور ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں حبس البول کی تکلیف میں بھی مبتلا ہوگئے۔ جس کے علاج کے لئے ۱۸۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو دہلی۵۷ تشریف لے گئے اور ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ ہسپتال میں داخل ہونے سے لے کر وفات تک قریباً پندرہ بیس دفعہ اپنے فرزند مرزا منور احمد صاحب )مجاہد تحریک جدید( کو تاکید فرمائی کہ >دیکھو مرنا جینا ہر ایک کے ساتھ ہے اگر میں مر جائوں تو مجھے ہرگز یہاں امانتا دفن نہ کرنا بلکہ قادیان لے جانا اور اگر خدانخواستہ لے جانے میں کوئی روک ہو یا باوجود کوشش کے کوئی انتظام نہ ہوسکے تو پھر حضرت صاحب سے پوچھ کر امانتا دفن کرنا اور پھرے لگے رہنا جب تک کہ مجھے قادیان نہ پہنچا دینا<۔
آخر خدا کی مشیت پوری ہوکر رہی اور ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو آپ دہلی میں ہی انتقال فرما گئے ۱۹۔ صلح/ جنوری کو آپ کی نعش قادیان پہنچائی گئی اور حضرت مصلح موعود نے بعد نماز جمعہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جنازہ پڑھایا اور کندھا دیا اور آپ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کر دیئے گئے۔۵۸` ۵۹
۲۔ چوہدری بدر الدین صاحب آف راہوں ضلع جالندھر محلہ دارالبرکات قادیان سابق مبلغ ساندھن ضلع آگرہ۔
)بیعت و زیارت ۱۹۰۵ء۔ وفات ۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۶۰
چوہدری صاحب نے یکم دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے حالات قلمبند کئے جن میں لکھا۔
>یہ خاکسار آریہ سماج کے زہریلے اثر سے پورے طور پر متاثر ہوچکا تھا۔ ۱۹۰۳ء کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لیکھرام کے مباہلہ کے ذریعہ سے زندہ ہوکر ۱۹۰۵ء تک احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرکے بیعت میں داخل ہوا۔ حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہونے کے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے خوش ہونے کا کون سا ذریعہ ہے؟ مولوی صاحب ممدوح نے فرمایا کہ میں تو ذریعہ پوچھنے سے ہی خوش ہوگیا اور حضرت صاحب کو بار بار خط لکھنا ان کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ اس لئے میں نے حضرت کے حضور بے شمار خط لکھے بعض دفعہ ہفتہ میں چار پانچ خط تحریر کرتا تھا۔ میں نے یہ کام جب تک قادیان میں نہیں پہنچا حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے حضور برابر خط لکھنے کا جاری رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۱۹۱۳ء سے قادیان میں ہوں اب تک صدر انجمن کے مختلف شعبوں میں کام کرتا رہا ہوں اور اس وقت یکم دسمبر ۱۹۳۷ء کو ساندھن علاقہ آگرہ کا انچارج مبلغ ہوں<۔۶۱
۳۔ حضرت حافظ محمد الدین صاحب ساکن چہور مغلیاں )چک ۱۱۷ متصل سانگلہ ہل(
‏]ydbo [tag وفات:۔ ۱۷۔ ماہ احسان ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۶۲
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے حضرت حافظ صاحب کے جنازہ غائب کے موقعہ پر فرمایا۔
حافظ محمد الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور مخلص احمدی تھے<۔
آپ کے داخل احمدیت ہونے کی موجب پنجابی اشعار کی ایک کتاب >سچ بیان< تھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا ذکر اتنے پراثر رنگ میں کیا گیا تھا کہ آپ نے فوراً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلی۔ آپ کے ذریعہ چک چہور میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی آپ کے علم و تقویٰ کا غیر احمدیوں پر بھی بہت اثر تھا اور وہ آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ حضرت حافظ صاحب نے ۲۔ اپریل ۱۹۰۶ء کو وصیت کر دی تھی۔ آپ کا وصیت نمبر ۸۴ تھا۔ جونہی حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کی خبر چک چہور میں پہنچی۔ آپ نے محض اپنی فراست و بصیرت کی بناء پر اپنے خدا کے حضور سیدنا محمود کی بیعت کا اقرار کیا اور اس وقت تک چین نہ آیا جب تک دوسری اطلاع نہیں مل گئی کہ جماعت نے حضور کو ہی خلیفہ چنا ہے۔ حضرت حافظ صاحب شہادت/ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں عارضہ فالج میں مبتلا ہوئے اور ۱۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو سرسام بھی ہوگیا اور چند گھنٹوں میں خالق حقیقی سے جاملے اگلے روز آپ کے فرزند قریشی محمود احمد صاحب۶۳ شام کی گاڑی سے نعش لاہور سے قادیان لائے اور دوسرے دن صبح بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔۶۴
۴۔ ابوالمنظور حضرت مولوی حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی:۔
بیعت: قریباً ۱۹۰۵ء۶۵ وفات: ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۶۶
ڈاکٹر منظور احمد صاحبؓ بھیرونی اپنے والد ماجد کی سوانح پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>آپ کا نام والدین نے محمد امین رکھا تھا۔ بچپن میں جب آپ کریما پڑھا کرتے اور آپ نے یہ شعر پڑھا ~}~
زباں تابود درد ہاں جائے گیر
ثنائے محمدﷺ~ بود دلپذیر
تو اس وقت آپ نے ارادہ کیا کہ اگر مجھے بھی شعر کہنا آجائے تو میں اپنا تخلص دلپذیر رکھوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے شعر و شاعری میں وہ کمال حاصل کیا کہ پنجابی زبان میں آپ سے پہلے شعراء ہیں اتنا سلیس اور اتنا دلچسپ رنگ کسی نے پیدا نہیں کیا۔ آپ کا نام پنجاب میں اتنا مشہور اور معروف ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے اور پنجاب کے لوگ جہاں جہاں بھی گئے آپ کی تصانیف بھی وہاں پر پہنچیں۔ چنانچہ عرب میں بھی جہاں اس زبان کو کوئی جانتا تک نہیں جب آپ پہلی مرتبہ ۱۹۲۱ء/ ۱۳۳۶ھ میں حج کعبہ سے مشرف ہونے کے لئے گئے تو جتنے دن وہاں رہے وہ پنجابی احباب جو خاص مکہ میں سکونت قائم کرچکے تھے صبح و شام برابر دعوتیں کرتے رہے۔ انہوں نے صرف تصانیف کے ذریعہ سنا ہوا تھا کوئی ذاتی واقفیت نہ تھی۔ آپ نے سارے سفر اور حج کے احکام کو پنجابی میں نظم میں لکھا جو رہنمائے حج کے نام سے شائع ہوچکی ہے اور دوسری دفعہ ۱۹۳۵ء/ ۱۳۵۳ھ میں صرف زیارت مدینہ کے لئے گئے کیونکہ پہلی دفعہ وہاں حاضر نہ ہوسکے تھے۔ اس سفر اور مدینہ طیبہ کے حالات کو جنہیں آپ نے گلزار مدینہ کے نام سے ایک کتاب منظوم میں مفصل لکھا ہے۔ وہ بھی چھپ چکی ہے۔ آپ نے ایک سو سے اوپر کتابیں نظم میں لکھی ہیں اور آج تک کسی پنجابی شاعر کی اس قدر تصانیف ثابت نہیں۔ قریباً ستر سال آپ نے قلم چلایا۔ آپ کی جس قدر بھی تصانیف ہیں سب کی سب مذہبی تعلیم کی کتابیں ہیں۔ مسلمانوں کی دنیاوی اور دینی بہبودی کو ہر تصنیف میں آپ نے مدنظر رکھا۔ شرک اور بدعت کو ہر رنگ میں قوم سے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
آپ نے قرآن کریم کی آیات کی بناء پر خطبات جمعہ اور عیدین مرتب کرکے پنجابی نظم میں پہلی بار پیش کئے۔ اس سے پہلے کسی نے نہیں کئے اور وہ خطبات اس قدر رائج ہوئے کہ پرانی طرز کے خطبے اب بالکل مفقود ہیں اور آپ کے ہی خطبات غیر احمدی علماء اکثر مساجد میں پڑھ کر سنایا کرتے ہیں۔
سارے قرآن کریم کی تفسیر بھی آپ نے پنجابی نظم میں لکھی ہے جو پنجاب کے بچے اور بچیوں کے لئے نہایت مفید ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے۔ حضور کی زندگی میں کئی کئی دن قادیان میں آکر رہا کرتے۔ آپ پہلی دفعہ قادیان میں اس وقت آئے جب حضرت خلیفہ اولؓ جموں سے قادیان آگئے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ آپ کی والدہ صاحبہ کے رضائی بھائی تھے اور آپ کے والد صاحب کے شاگردوں میں سے تھے۔ ماں بیٹا قادیان میں حضرت خلیفہ اولؓ کو ملنے کے لئے آئے اور بیعت کرکے واپس گئے۔ بعد میں کئی بار قادیان میں حضور کی زندگی میں آئے اور کئی کئی دن حضور کی صحبت میں رہے اور جلسہ سالانہ پر بھی ضرور اہتمام کے ساتھ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ادہ اللہ بنصرہ العزیز کی ملاقات کرنے کے سوا واپس نہ جاتے۔ آپ نے آخری وقت میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں آخری سلام عرض کرنے کی وصیت فرمائی جو حضور کی خدمت میں پہنچا دیا گیا۔
آپ کا وعظ اور آپ کی تصانیف غیر احمدیوں میں بہت ہی مقبول ہوئیں۔ آپ ہمیشہ تصانیف وعظوں اور ملاقاتوں میں ایسے رنگ میں احمدیت کا ذکر کرتے کہ جسے لوگ شوق سے سن لیا کرتے<۔۶۷ابوالمنظور حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب کا پیدا کردہ پنجابی لٹریچر:۔
معجزات محمدی۔ کامن النساء )اول۔ دوم( خوان یغما۔ گلزار محمدی۔ گلزار یوسف۔ شرح دیوان حافظ۔ کشف غطا۔ تفسیر پارہ عم۔ شرح کبریت احمر۔ درود ارواحی۔۶۸ احوال الاخرات۔ نماز مترجم منظوم پنجابی۔ چٹھی مسیح دی۔ اقبال مہدی۔ وفات نامہ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ دربار مہدی۔ اسلامی شادی معہ تردید رسومات ختنہ۔ شہادت نامہ شہید فی سبیل اللہ حضرت مولوی نعمت اللہ خاںؓ مبلغ احمدی۔ جندڑی۔ نیرہ احمدی )اول۔ دوم( حق آوازہ۔ فقیر دی صدا۔ فریاد اسلام۔ ڈھنڈورہ احمدی۔ گلزار بھیرہ۔ خیال دلپذیر۔ گلزار مکہ۔ رقعات دلپذیر۔ تفسیر ترجمتہ القرآن )اتا۔ ۱۰ پارہ(۶۹ مورکھ سیدھ۔
۵۔ حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری:۔
)ولادت۶۳۔ ۱۸۶۲ء/ ۸۰۔ ۱۲۷۹ھ۔ بیعت ۱۹۰۷ء۔ وفات ۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۷۰
حضرت مولانا عبدالماجد صاحب نے مڈل اسکول پورینی )ضلع بھاگلپور( سے ۱۸۷۵ء میں مڈل ورنیکلر کا امتحان پاس کرکے گورنمنٹ اسکالر شپ حاصل کیا۔ درس نظامیہ میں عربی تعلیم کی تکمیل حضرت مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی سے کی۔ بعد ازاں ۱۹۰۳ء میں علامہ شبلی نعمانی کے ذریعہ )جو مولانا صاحب کے زمانہ طالب علمی کے دوست تھے( علی گڑھ کالج میں بعہدہ ڈین۷۱ OF (DEAN FACULTY) مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۴ء میں بھاگلپور کالج کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ۱۹۳۸ء میں ریٹائر ہوکر اپنے وطن مالوف موضع پورینی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔
‏vat,10.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی خبر آپ کو مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری محمڈن مشنری سے ملی تھی۔ داخل احمدیت ہونے کے بعد آپ کو مولوی محمد علی کانپوری ثم مونگیری سے سخت مقابلہ کرنا پڑا۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں >مرۃ العربیہ< >القواعد< اور >القائے ربانی< خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موخر الذکر کتاب مولوی محمد علی صاحب کی کتاب >فیصلہ آسمانی< کے جواب میں ہے اور ایک بیش قیمت تصنیف اور قابل قدر چیز ہے۔
حضرت مولوی صاحب کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے آپ کی دختر نیک اختر سارہ بیگم صاحبہ کو اپریل ۱۹۳۵ء میں اپنی زوجیت کا شرف بخشا۔۷۲
۶۔ حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب پنشنر محلہ دارالعلوم قادیان۔ وطن مالوف دھرمکوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور
)وفات:۲۰۔ ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۷۳
حضرت ڈاکٹر صاحب احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی جیتی جاگتی تصویر اور بہترین نمونہ تھے۔ اپنی شکل و شباہت۔ اخلاق و عادات` غریب پروری اور غیروں سے حسن سلوک کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی مجسم تبلیغ تھی۔ کیپٹن کے عہدہ پر ممتاز ہونے کے باوجود آپ کا لباس بالکل سادہ تھا` سر پر پگڑی` لمبا کوٹ` سیدھا پاجامہ اور پائوں میں دیسی جوتی۔ ایک بار مکیریاں ضلع ہوشیارپور میں تبلیغ کے لئے گئے تو مخالفین نے آپ پر گند پھینکا اور بہت زدوکوب کیا۔ جب آئے تو ڈاکٹر ملک ممتاز احمد خان صاحب نے افسوس کا اظہار کیا فرمانے لگے۔ >ایہہ ماراں تے گالیاں کیتھوں<۔ یعنی یہ ماریں اور گالیاں کہاں۔ حالانکہ تکلیف سخت تھی اور ماتھے اور آنکھ کی چوٹیں سامنے نظر آرہی تھیں۔۷۴
حضرت شاہ صاحب کیمل پور میں بھی کیپٹن کے اعلیٰ عہدہ پر ممتاز رہے۔ یہاں بھی آپ کو محض احمدیت کے باعث اذیتیں دی گئیں۔ مگر آپ نے احمدیت کا ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہوگئے۔ آپ نے بلامعاوضہ ہر کس و ناکس کو دن رات چوبیس گھنٹوں میں مکمل اجازت دے رکھی تھی کہ جس وقت بھی ضرورت پڑے آجائیں۔ آپ کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی چوہڑا بھی آپ کے پاس حاضر ہوا تو اس کو بھی آپ کہ کر نہایت پیار اور محبت سے لبریز آواز سے مخاطب فرماتے تھے۔ انجمن احمدیہ کیمل پور ہسپتال سے تین میل کے فاصلہ پر تھی اور پھر رستہ خراب تھا مگر آپ صبح` عصر اور شام کی نماز کے لئے پا پیادہ بلاناغہ تشریف لے جاتے اور ہر قابل امداد کی امداد اس کو علم دیئے بغیر لگاتار کرتے رہتے تھے۔ کبھی اونچی نظر اٹھا کر نہ دیکھتے۔ غرباء سے ان کا حسن سلوک انتہائی عمدہ تھا۔ کیمل پور کی احمدیہ جماعت ان کو فرشتہ شاہ صاحب کے نام سے یاد کیا کرتی تھی۔ آپ کی آمد سے کیمل پور کی جماعت میں پھر سے زندگی کے نمایاں آثار پیدا ہوگئے۔۷۵
۷۔ حضرت میاں خدا بخش صاحب گوندل نمبردار موضع کوٹ مومن ضلع سرگودھا:۔
)وفات ۱۵` ۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(
علاقہ کریانہ بار کے اولین صحابہ میں سے تھے اور حافظ قرآن تھے` حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کی کتابوں خصوصاً آپ کی تفسیر کبیر کے مطالعہ کا خاص التزام فرماتے اور رات کا بیشتر حصہ نوافل کی ادائیگی اور تلاوت کلام الٰہی میں بسر ہوتا تھا۔ آپ موصی بھی تھے اور احمدیت اور نظام خلافت سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعود نے وقف جائیداد کی تحریک فرمائی تو آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا۔
>میرے مکرم و مرشد سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`۔ حضور کے غلام نے آپ کا خطبہ جمعہ مورخہ ۱۸۔ ربیع الاول کا کل مورخہ ۴۴/۳/۱۷ کو پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کا اعلان خدا تعالیٰ کے دین کے لئے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک پڑھ کر دل کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ میری جائیداد قریب قریب اس وقت بوجہ جنگ کے دو لاکھ کی ہے۔ )۔/۲۰۰۰۰۰ روپیہ( میں خدا کے دین کی اشاعت کے لئے بسم اللہ کرکے وقف کرتا ہوں۔ یہ جائیداد کیا چیز ہے میرا سر بھی اس کام کے لئے حاضر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تابعدار میاں خدا بخش نمبردار کوٹ مومن تحصیل بھلوال ضلع شاہ پور سرگودھا۔
۲۴۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو آپ نے اپنی زرعی زمین سے ایک کنال کا رقبہ صدر انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کرا دیا اور اس میں مسجد احمدیہ کی تعمیر شروع کی مگر ادھر یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچی ادھر واپسی کا بلاوا آگیا۔ اپنی زندگی کے آخری دن جمعہ کی نماز ادا کرے دوستوں کو تاکید کی کہ سالانہ جلسہ کے بابرکت ایام قریب آرہے ہیں۔ چندہ جلسہ جلد سے جلد ادا کر دیا جائے نیز مجھ سے بھی جلد وصول کرلیا جائے۔ یہ چندہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے صاحبزادہ میاں گل محمد صاحب بی۔ اے )داماد میاں شریف صاحب ریٹائرڈ ای۔ اے۔ سی نے ادا کردیا۔۷۶
‏]2ydob [tag۸۔ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یادگیر ضلع گلبرگہ حیدر آباد دکن:۔
)ولادت ۱۲۵۱ھ/ ۳۶۔ ۱۸۳۵ء( بیعت قریباً ۱۸۹۹ء۔ )وفات ۱۷۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۷۷ بمقام مدینہ منورہ(
حضرت سیٹھ صاحبؓ حضرت مولوی میر محمد سعید صاحب حیدرآبادی کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے۔ قبول حق سے قبل پنج وقتہ نماز کے بھی عادی نہ تھے مگر احمدی ہونے کے بعد آپ میں ایسا زبردست روحانی انقلاب پیدا ہوگیا کہ بقول مورخ احمدیت حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی آپ زمرہ ابدال میں شامل ہوگئے۔ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کو تین بار زیارت قادیان کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت اقدس کی پاک صحبت سے فیض اٹھانے کا موقعہ ملا۔ آپ کا معمول مبارک تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے کثرت سے غیر احمدیوں کو اپنے اخراجات پر قادیان لے جایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ نے تھوڑے ہی عرصہ بعد یکے بعد دیگرے دینی تعلیم کے لئے قادیان کو طلباء کے دستے بھیجنے شروع کر دیئے اور ان کے ہر قسم کے اخراجات کی ذمہ داری خود قبول فرمائی اور اس سلسلہ میں پہلے طالب علم عبدالکریم صاحب ولد عبدالرحمن صاحب یادگیر تھے جو حضرت مسیح موعود کے معجزہ شفایابی کے زندہ نشان بنے اسی طرح مولوی محمد اسمٰعیل صاحب مولوی فاضل یادگیر بھی اسی زمرہ میں شامل تھے جو پوری عمر خدمت سلسلہ کے لئے وقف رہے۔ نیز سیٹھ معین الدین صاحب چنتہ کنٹہ بھی!
حضرت عرفانی نے >حیات حسن< میں ان ۴۵ طلبہ کی فہرست دی ہے جن کو حضرت سیٹھ صاحب نے قادیان میں تعلیم دلوائی نیز تحریر فرمایا کہ۔
>سلسلہ کی تاریخ میں یہ سنہری الفاظ میں لکھا جائے گا اور اس کی کوئی نظیر سلسلہ کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ ایک شخص واحد نے وقت واحد میں قریباً پچاس طالب علموں کے تمام اخراجات کی ذمہ داری لے کر ان کو دینی تعلیم کے لئے بھجوایا ہو<۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کو حضرت سیٹھ حسن کے جذبات ایثار و سلسلہ کے لئے قربانی اور فدائیت کا اس قدر یقین تھا کہ حضور سلسلہ کی اہم مالی ضروریات کے لئے بہ نفس نفیس آپ کو مخاطب فرماتے اور اپنے قلم سے خطوط لکھتے تھے۔ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے >اصحاب احمد< جلد اول میں حضور کے متعدد اہم مکتوبات کا چربہ دیا ہے۔
آپ کو تبلیغ سلسلہ کا بے پناہ جوش اور شوق تھا۔ آپ نے ۱۹۱۹ء سے یادگیر میں سالانہ جلسوں کی بنیاد رکھی۔ پہلا جلسہ آپ نے اپنے کارخانہ چاند مارک بیٹری واقعہ محلہ دستگیر پیٹھ میں کیا۔ جلسوں کا یہ سلسلہ اب تک نہایت کامیابی سے جاری ہے۔ ان جلسوں کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بعض اخص صحابہ بھی شرکت فرما چکے ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت حافظ روشن علی صاحب` حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی` حضرت شیخ محمد یوسف صاحب مدیر >نور`< حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیز` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب کٹکی وغیرہ۔ حضرت سیٹھ صاحب ان سالانہ جلسوں کو اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے یوم عید سمجھتے تھے۔ چنانچہ ارشاد فرماتے۔ >مومن کی عید یہی ہے کہ وہ خدا کے پیغام کو پہنچائے۔ یہی اس کی خوشی کا دن ہے<۔ آپ نے سلسلہ کی اشاعت اور عوام میں مذہبی اور علمی مذاق پیدا کرنے کے لئے یادگیر کے بازار میں ایک شاندار احمدیہ لائبریری بھی قائم کی۔ احمدیہ لیکچر ہال اور احمدیہ مہمان خانہ تعمیر کرایا۔ یادگیر اور چنتہ کنتہ میں مساجد بنوائیں۔ تبلیغ سلسلہ کے لئے آپ نے ایک انتظام یہ بھی فرمایا کہ ۱۹ مقامات پر اپنے کارخانہ کی شاخیں قائم کیں اور ان کارخانوں کے انتظام و اہتمام کے لئے سب ملازم احمدی مقرر کئے تاکہ وہ اپنے حلقہ اثر میں سلسلہ کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں بعض جگہ نئی جماعتیں بھی قائم ہوگئیں جن میں چنتہ کنتہ ضلع محبوب نگر دکن کی جماعت بھی ہے۔ جو بجائے خود ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اوٹکرا ضلع محبوب نگر کرنول )صوبہ مدراس( کی تمام جماعتیں آپ کی تبلیغ سے قائم ہوئیں۔ سیٹھ محمد حسین صاحب چنتہ کنتہ )آپ کے برادر نسبتی( اور حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب )آپ کے چچیرے بھائی( آپ ہی کے اثر سے شامل احمدیت ہوئے۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلفائے احمدیت و علماء سلسلہ کی تالیفات خرید کر تقسیم کر دیتے تھے اور مرکزی اخبارات کی اعانت کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے۔ دینی کتب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ سینکڑوں قرآن شریف اور دوسری دینی کتابیں غریبوں اور ناداروں میں مفت تقسیم کیں۔
حضرت سیٹھ صاحب عمر بھر سلسلہ احمدیہ کی ہر تحریک میں نہایت کشادہ دلی اور انشراح صدر کے ساتھ نمایاں اور سرگرم حصہ لیتے رہے۔ مئی ۱۹۳۴ء میں اپنی جائیداد کے دسویں حصہ کی وصیت فرمائی۔ نیز مجاہدین تحریک جدید میں بھی شامل ہوئے اور اس مالی جہاد میں قریباً چار ہزار ایک سو چھیاسی روپے پیش کئے۔ اس کے علاوہ آپ نے مندرجہ ذیل مرکزی تحریکات کے لئے بھی چندہ دیا۔ مسجد نور` دارالضعفا۔۷۸ تحریک تراجم قرآن )پانچ ہزار روپیہ( کمرہ نور ہسپتال )پانچ سو روپیہ( مینارۃ المسیح )ایک سو روپیہ( مزید برآں آپ نے مقامی طور پر سلسلہ احمدیہ اور مفاد عامہ کے لئے بے دریغ اخراجات کئے۔ جن سب کی مجموعی رقم حضرت عرفانی صاحب کے تخمینہ کے مطابق ۳ لاکھ تریپن ہزار تک جاپہنچتی ہے۔ حضرت سیٹھ صاحب کو ایک بار تجارت میں لاکھوں روپے کا شدید نقصان ہوا۔ مگر آپ نے اس مالی ابتلاء میں بے نظیر صبر و استقلال کا نمونہ دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی کہ آپ فوت نہیں ہوں گے جب تک آپ کی تجارت پہلے جیسی نہیں ہو جائے گی۔ چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے پہلے یہ آسمانی بشارت پوری ہوتی دیکھ لی۔
حضرت سیٹھ صاحب ۱۶۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو اپنی زوجہ محترمہ رسول بی بی صاحبہ اور اپنے داماد مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل وکیل کے ہمراہ سفر حج پر تشریف لے گئے۔ مرکز اسلام مکہ معظمہ )دام اللہ برکاتہا( میں آپ کا قیام رباط حسین بی میں تھا۔ ایک مہینہ سے زائد مکہ مکرمہ میں رہے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ قیام مکہ کے دوران اپنے داماد مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل وکیل سے فرمایا >اس مقام کے آدمی تو آدمی ہیں۔ جانور بھی پیارے لگتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارے رسول کی تخت گاہ میں بسنے والے جانور ہیں اگر ہوسکے تو ہمیں یہاں کے چھوٹے بڑے جانور ایک ایک ہندوستان لے جانے چاہئیں۔ ابھی آپ مکہ معظمہ میں ہی فروکش تھے کہ بخار میں مبتلا ہوگئے۔ اور نقاہت بھی بہت ہوگئی۔ اسی حالت میں مدینہ منورہ کا سفر کیا اور مسجد نبوی کے قریب >رباط افضل الدولہ< میں مقیم ہوئے۔ یہاں پہنچ کر آپ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی۔ بیماری کے دوران فرمایا کہ میں حضرت رسول اللہ~صل۱~ کی خدمت میں پیر یا جمعہ کو جائوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ مدینہ النبی میں پہنچنے کے تیرھویں دن مورخہ ۱۲۔ محرم ۱۳۶۵ھ مطابق ۱۷۔ دسمبر ۱۹۴۵ء بروز پیر انتقال فرما گئے اور جنت البقیع میں حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے پیچھے اور سیدنا حضرت عثمانؓ کے مزار مبارک کے قریب دفن کئے گئے۔ اس طرح سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کا ایک جلیل القدر صحابی آنحضرت~صل۱~ کے قدموں میں پہنچ گیا۔ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب برصغیر کے پہلے صحابی ہیں جنہیں آنحضرت~صل۱~ کے جسمانی قرب کا یہ اعزاز نصیب ہوا۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔
حضرت سیٹھ صاحب مستجاب الدعوات` شب بیدار اور صاحب کشف و رویاء بزرگ تھے` سادگی اور انکساری میں یکتائے روزگار اور جرات و غیرت۷۹ میں نابغہ الدھر۔ آپ کی زندگی غرباء پروری اور خدمت خلق کا ایک مثالی نمونہ تھی اور آپ اکثر اوقات صدقات و خیرات مخفی طور پر دینے کے عادی تھے۔ ہمیشہ یہی فرماتے کہ یہ میری دولت نہیں بلکہ یہ خدا کے فضلوں کی دولت ہے یہ اسی کی ہے اور اسی کے بندوں پر خرچ ہونی چاہئے۔
حضرت سیٹھ صاحب کی وفات ایک عظیم قومی المیہ تھا جس کو جماعت احمدیہ کے افراد ہی نے محسوس نہیں کیا بلکہ غیر احمدی اور غیر مسلم طبقوں نے بھی اس پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور اس بلند پایہ شخصیت کو زبردست خراج تحسین ادا کیا۔۸۰`۸۱
۹۔ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب نیلہ گنبد لاہور۔
)ولادت ۱۸۷۲ء(۸۲body] gat[ )بیعت ۱۹۰۳ء( وفات ۲۴۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۸۳
حضرت حاجی صاحبؓ اپنے قبول احمدیت کے حالات میں لکھتے ہیں۔
>بیعت کرنے سے چھ سات ماہ پہلے میں قادیان گیا اس وقت میرے رشتہ داروں نے وہاں پر جانے کی سخت مخالفت کی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں وہاں پر جاکر مرزا صاحب کے گھر سے کوئی کھانا نہ کھائوں اور نہ ہی بیعت کروں ۔۔۔۔۔۔۔ قادیان میں جاکر میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا اور حضور علیہ السلام کی ملاقات بھی ہوئی اور حضور سے مصافحہ کیا اور کچھ باتیں بھی کیں جواب زیادہ زمانہ گزر جانے کی وجہ سے یاد نہیں رہیں۔ تین نمازیں بھی حضور کے ہمراہ مولوی عبدالکریم صاحب کی اقتدا میں پڑھیں مجھ پر اس وقت آپ کی صداقت کا بہت اثر ہوا گو میں نے اپنے رشتہ داروں سے وعدہ کرنے کی وجہ سے بیعت نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھ سات ماہ کے بعد میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ عام لوگوں کے لئے آپ کی صداقت کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے آپ قسم کھاکر تحریر فرماویں کہ آپ وہی مسیح موعود ہیں جن کی دنیا کو انتظار ہے۔ اس پر حضور نے اس لفافہ کی پشت پر تحریر فرمایا کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جن کا وعدہ آنحضرت~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ *** اللہ علی الکاذبین۔ خاکسار مرزا غلام احمد بقلم خود۔ یہ خط جب یہاں پہنچا تو مجھے منشی محبوب عالم صاحب نے آواز دے کر کہا کہ آپ کا خط آگیا ہے میں وہ خط لے کر اندر گیا اور اپنے اہل و عیال کو صاف صاف کہہ دیا کہ میں اب بیعت کرنے لگا ہوں۔ اگر کسی کو عذر ہو تو وہ اس وقت بیان کردے یا وہ علیحدہ ہو جائے چنانچہ میری بیوی اور بچوں نے سب نے اس وقت بیعت منظور کرلی اور میں نے سب کی طرف سے خط لکھ دیا۔ میری والدہ صاحبہ زندہ موجود تھیں مگر وہ اس وقت لاہور میں نہ تھیں انہوں نے پھر بعد میں بیعت کی اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ میں قریباً ایک ہفتہ کے بعد قادیان گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس موقعہ پر میں وہاں پر چند روز ٹھہرا اور حضور علیہ السلام کی دستی بیعت بھی کی<۔۸۴
حضرت حاجی صاحبؓ ابتداء ہی میں نظام الوصیت میں شامل ہوگئے تھے اور جیسا کہ آپ کا بیان ہے آپ کی وصیت کا پہلا نمبر ۱۶ تھا مگر چونکہ پل کا چندہ دیر سے بھیجا گیا تھا اس لئے ۶۵ نمبر پر آپ کا نام لکھا گیا۔
ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی دکان واقع نیلا گنبد پر بھی تشریف لائے۔ حضور کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد ایک کرسی پر دکان سے باہر رونق افروز ہوئے اور پانی نوش فرمایا۔ اس موقعہ پر حضرت حاجی صاحب نے حضور کی خدمت میں ایک پونڈ بھی پیش کیا جسے حضور نے دو ایک دفعہ عذر کرنے کے بعد قبول فرمالیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ ایک بار آپ لاہور سے قادیان گئے اور اپنے ہمراہ بستر نہ لے جاسکے۔ حضرت حافظ حامد علی صاحب کے ذریعہ سے حضور کو اطلاع پہنچی تو حضور نے اپنی رضاعی ان کو بھجوا دی۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی تقریب نکاح پر حضرت مسیح موعود نے لاہور سے جن مخلصین کو بلایا ان میں آپ بھی شامل تھے۔ ایک بار حضرت اقدس نے اپنے ایک کمرہ کی تعمیر کی نگرانی کا فریضہ بھی آپ کے سپرد فرمایا۔ آپ کو کئی دفعہ حضور کو دابنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔۸۵
حضرت حاجی صاحب کی زندگی کا ایک خاص واقعہ یہ بھی ہے کہ آپ نے ۱۹۱۵ء سے لے کر ۱۹۲۴ء تک کوشش کی کہ قادیان میں ریل جاری ہو جائے۔ اس کوشش میں آپ کا قریباً بارہ تیرہ ہزار روپیہ صرف ہوا۔ آپ نے اس غرض کے لئے دندوٹ کالری کی لائن کی نیلامی پر بولی دی جو بارہ میل کی لائن تھی۔ ایسا ہی ایک دفعہ آگرہ کی طرف بھی بولی میں شامل ہوئے اور اس کے بعد ڈپٹی کمشنر گورداسپور اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے پاس بھی بارہا دفعہ پہنچے اور اس لائن کے لئے سوال اٹھایا بلکہ ایک انجینئر ساتھ لے کر سری گوبند پور تک سروے بھی کیا اور باقاعدہ نقشہ تیار کروا دیا۔ ایک تجویز یہ بھی کی کہ ایک کمپنی جاری ہو جس کے حصہ دار ہوں اور وہ اس ریلوے کو جاری کر دیں آخر جب اس قسم کی درخواست ریلوے بورڈ میں دی گئی تو جواب ملا کہ یہ منصوبہ خود ہمارے زیر تجویز ہے اور اس کا نمبر ۱۷ مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس پر آپ نے ذاتی جدوجہد ترک کر دی کیونکہ آپ کا مقصد کسی منافع کا کمانا نہیں تھا بلکہ ریل جاری کرانا تھا۔ چنانچہ تین سال کے بعد قادیان میں ریل جاری ہوگئی۔ چنانچہ جب امرتسر سے قادیان کی جانب پہلی گاڑی چلنے لگی تو اس وقت حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تمہاری کوشش کامیاب ہوگئی۔۸۶
حضرت حاجی صاحب نے تحریک جدید کی مالی قربانی میں بھی حصہ لیا۔ چنانچہ >تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین< کی فہرست کے صفحہ ۲۴۲ پر آپ کے چندہ کی تفصیل درج ہے۔4] [stf۸۷
۱۰۔ حضرت حافظ نور محمد صاحب آف فیض اللہ چک:۔
)ولادت ۱۸۴۵ء )اندازاً( )بیعت ۲۱۔ ستمبر ۱۸۸۹ء( وفات ۲۷۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(
حضرت حافظ صاحب سلسلہ احمدیہ کے دور اول کے بہت ممتاز بزرگوں میں تھے۔ آپ کو ۱۸۸۳ء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے اور برکت حاصل کرنے کا فخر حاصل تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام >آئینہ کمالات اسلام< کی فہرست میں ۱۷۶ نمبر پر اور >ضمیمہ انجام آتھم< کی فہرست میں ۵۸ نمبر پر درج فرمایا ہے۔ اسی طرح حضور کے اشتہارات مورخہ ۲۴۔ فروری و ۷۔ مارچ ۱۸۹۸ء میں بھی آپ کا ذکر ملتا ہے۔۸۸ ۲۵۔ ستمبر ۱۹۰۷ء کو آپ ۲۶۷ نمبر پر وصیت کرکے نظام الوصیت سے وابستہ ہوئے۔ فیض اللہ چک اور اس کے نواحی دیہات میں اشاعت احمدیت کے لئے آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ پر بہت شفقت فرماتے یہاں تک کہ ایک بار آپ کے گائوں فیض اللہ چک میں بھی تشریف لے گئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات پر جماعت فیض اللہ چک کے اکثر احباب کو ابتلا آگیا مگر حضرت حافظ صاحب نے فوراً حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کی بیعت کرلی اور پھر دوسروں کو تبلیغ کرتے رہے۔ آخر خدا کے فضل سے دوسرے اکثر احباب بھی خلافت ثانیہ کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔ حضرت مصلح موعود کے مبارک وجود سے آپ کو بہت عقیدت تھی۔ حتیٰ کہ مرض الموت کے ایام میں بھی جب ہوش آتا تو اپنے بیٹے جناب شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر )سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل( سے دریافت فرماتے کہ حضور کی طبیعت کیسی ہے اور اپنی شدید تکلیف کے دوران بھی حضور کی صحت کے لئے دعائیں کرتے رہے۔
ایک لمبے عرصہ سے تمام دنیاوی مشاغل ترک کرکے اپنی زندگی تعلیم القرآن کے لئے وقف کر دی تھی۔ نماز فجر کے بعد سے لے کر عشاء کی نماز کے بعد تک مختلف لوگوں کو قرآن مجید معہ ترجمہ و تفسیر پڑھاتے۔ جو خود نہ آسکتے خود ان کے گھر پر تشریف لے جاتے اور اس کے لئے کسی معاوضہ کے خواہاں نہ تھے۔۸۹
مندرجہ بالا مشہور صحابہ کے علاوہ حسب ذیل صحابہ نے بھی اس سال وفات پائی۔
)۱( بابو محمد رشید صاحب ریٹائرڈ ماسٹر۔ وفات ۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔۹۰ )۲( میاں محمد وارث صاحب متوطن بھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ )بیعت و زیارت ۱۹۰۵ء(۹۱ ہجرت اندازاً ۱۹۲۴ء۔ وفات ۸۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش بمقام قادیان(۹۲ )۳( میاں غلام محمد صاحب خادم مسجد احمدیہ بٹالہ )تاریخ وفات ۱۳۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۹۳ )۴( میاں روشن دین صاحب دارالرحمت قادیان )بیعت و زیارت ۱۹۰۲ء(۹۴ وفات ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۹۵ )۵( میاں عبدالرحیم صاحب سابق باورچی لنگر خانہ قادیان )وفات ۱۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۹۶ )۶( حکیم ہدایت اللہ صاحب محلہ دارالعلوم قادیان )وفات ۳۰۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۹۷ )۷( ملک امیر بخش صاحب لاہور )وفات یکم احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش بعمر ۸۲ سال(۹۸ )۸( سید عبدالعزیز شاہ صاحب آف کاہنو وان )وفات ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۹۹ )۹( چوہدری محمد ابراہیم صاحب ساکن گوہدپور ضلع سیالکوٹ۔ )بیعت ۱۹۰۳ء۔ وفات ۴۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۱۰۰ )۱۰( منشی غلام محمد صاحب مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول پنشنر محلہ دارالفضل قادیان بعمر ۸۲ سال قریباً )وفات ۳۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش(۱۰۱
چوتھا باب )فصل پنجم(
۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے متفرق مگر اہم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب
۱۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو خطبہ جمعہ سے قبل مسجد نور میں صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب۔ صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب۔ صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ کے نکاحوں کا اعلان فرمایا جو بالترتیب صاحبزادی امتہ المجید صاحبہ )بنت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب( سیدہ تنویر اسلام صاحبہ )بنت سید عبدالسلام صاحب سیالکوٹ( سید دائود مظفر صاحب )ابن حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول اور سید دائود احمد صاحب )ابن حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ( کے ساتھ ایک ایک ہزار روپیہ مہر کے عوض پڑھے گئے۔
اس تقریب پر حضور پرنور نے ایک نہایت لطیف خطبہ ارشاد۱۰۲ فرمایا۔ جس میں فرمایا۔
>نکاح انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ نے نکاح کے بارے میں استخارہ کرنے۔ غور و فکر سے کام لینے اور جذبات کی پیروی کرنے سے روکنے کی تعلیم دی ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح ایسے رنگ میں ہونے چاہئیں کہ نیک اور قربانی کرنے والی اولاد پیدا ہو<۔
خطبہ نکاح کے آخر میں فرمایا۔
>میں آج جن چند نکاحوں کا اعلان کرنے لگا ہوں ان میں سے چار میرے اپنے بچوں کے نکاح ہیں۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس قول کو پورا کرنے کے لئے کہ۔
غموں کا ایک دن اور چار شادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی
یہ چار نکاح اکٹھے رکھے ہیں۔ یہ چار نکاح خلیل احمد` حفیظ احمد` امتہ الحکیم اور امتہ الباسط کے ہیں۔ ان میں سے تین کی والدہ فوت ہوچکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اس کے قبضہ میں ہے کہ اس نے جس طرح ہمیں غموں کا ایک دن اور چار شادیاں دکھائی ہیں وہ ان کی روحوں کو بھی خوش اور مسرور کردے۔ میں نے اپنے بچوں کے نکاحوں میں کبھی بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا کہ ان کے نکاح آسودہ حال اور مالدار لوگوں میں کئے جائیں اور میں نے ہمیشہ جماعت کے لوگوں کو بھی یہی نصیحت کی ہے مگر جماعت کے لوگ اس بات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ انہیں ایسے رشتے ملیں جو زیادہ کھاتے پیتے اور آسودہ حال ہوں ہمیں ایسے رشتے ملے ہیں مگر ہم نے ان کو رد کر دیا تاکہ ہمارا جو معیار ہے وہ قائم رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے بچوں کی عمروں کی ترتیب کے لحاظ سے نام لئے ہیں اس ترتیب کے لحاظ میں نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں<۔۱۰۳
۲۔ میجر مرزا دائود احمد صاحب )ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب( کے ہاں ۱۷۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو صاحبزادی امتہ الناصر کی ولادت ہوئی۔۱۰۴
۳۔ نواب زادہ میاں عباس احمد خاں صاحب کا نکاح گزشتہ سال ۲۹۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو پڑھا گیا تھا۔ اس سال ۱۵۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو آپ کی تقریب شادی عمل میں آئی جس میں صحابہ مسیح موعودؑ خصوصیت سے مدعو تھے۔ غرباء کی بھی ایک خاصی تعداد نے شرکت کی۔ مہمانوں کی تواضع کرنے میں حضرت مسیح موعود اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے خاندان کے صاحبزادگان بھی شامل تھے۔۱۰۵
المناک حادثہ
۲۳۔ ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ )بنت مرزا رشید احمد صاحب( دیان کنڈ اور ڈلہوزی کے درمیان ایک حادثہ میں اپنے مولا کو پیاری ہوگئیں اور اگلے روز حضرت مسیح موعود کے مزار کی چار دیواری میں دفن کی گئیں۔ مرحومہ کی عمر بیس سال کے قریب تھی` نہایت کم گو` سنجیدہ مزاج تھیں۔ فوت ہونے سے پہلے اس نے جو آخری نماز ادا کی اس میں رقت کے ساتھ دعائیں کرتی رہی۔۱۰۶ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ان کے حادثہ انتقال پر ایک مفصل مضمون رقم فرمایا جو الفضل )۱۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش( میں شائع ہوا۔
ضلع وار نظام کے اولین امراء
ضلع وار نظام کے قیام کا فیصلہ پچھلے سال ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں کیا گیا تھا۔ امسال حضرت سیدنا المصلح الموعود نے آٹھ اضلاع میں حسب ذیل امراء کا تقرر فرما دیا۔
۱۔ خان بہادر چودھری نعمت خاں صاحب ریٹائرڈ سیشن جج بیگم پور سڑوعہ )ضلع ہوشیار پور(
۲۔
چودھری فضل احمد صاحب اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز سرگودھا۔ )ضلع سرگودھا(
۳۔
پیر اکبر علی صاحب فیروزپور )ضلع فیروزپور(
۴۔
چوہدری عبدالمجید صاحب آف راہوں۔ )ضلع جالندھر(
۵۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے` ایل ایل۔ بی وکیل گجرات۔ )ضلع گجرات(
۶۔
‏]dni [tag خان بہادر نواب چوہدری محمد الدین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر۔ )ضلع سیالکوٹ(
۷۔
میر محمد بخش صاحب وکیل گوجرانوالہ۔ )ضلع گوجرانوالہ(
۸۔
شیخ فضل الرحمن صاحب اختر ملتان۔ )ضلع ملتان(۱۰۷
ضلع وار نظام کے یہ اولین امراء تھے جن سے اس نہایت مفید نظام کی ابتداء کی گئی۔ ان امراء نے اس تجربہ کو کامیاب بنانے کے لئے ایسی پرخلوص جدوجہد فرمائی کہ اس کے عمدہ اثرات کو دیکھ کر آہستہ آہستہ بہت سی جماعتوں نے بھی اسے اپنا لیا۔
پنجاب حج کمیٹی میں احمدی ممبر
اس سال >پنجاب حج کمیٹی< نے اپنے ممبروں میں جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ کی حیثیت سے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو بھی شامل کیا۔۱۰۸
پوپ کو دعوت حق
مولوی عبدالقادر صاحب دانش دہلوی نے جو اٹلی میں جنگی خدمات کے سلسلہ میں مقیم تھے اس سال کے شروع میں پوپ سے ملاقات کی اور انہیں حضرت مسیح کی آمد ثانی کی اطلاع دی۔۱۰۹
مولوی عبدالقادر صاحب دہلوی اس ملاقات کی تفصیل میں رقم طراز ہیں کہ۔
>سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے پچاسوں نوجوان باہر جاچکے تھے۔ باعزت روزگار میسر آنے کی وجہ سے وہ مالی جہاد میں بھی حصہ لے رہے تھے اور اسلام و احمدیت کی تبلیغ کے مواقع بھی میسر آئے تھے۔ میں نے ۱۹۴۱ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور اسی نظریہ کے تحت رائل انڈین آرمی سروس کور کے محکمہ سپلائی میں بھرتی ہوگیا اور جلد ہی مصر چلا گیا اور قاہرہ` اسکندریہ` طبروق` بن غازی` ٹریپولی` سفیکس` ٹیونس` فلسطین` لبنان` شام` یونان اور اٹلی کے ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا اور سب ملکوں میں اسلام و احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ اٹلی پہنچ کر خیال آیا کہ پوپ کو بھی اسلام کی دعوت اور مسیح کی آمد ثانی کی خبر دینی چاہئے۔ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء میں اٹلی میں قیام رہا۔ اس وقت دنیائے عیسائیت کے مذہبی رہنما پاپائے روم پیٹس دواز دہم کارڈینل پیسلی پوپ کے عہدہ پر فائز تھے۔ پوپ کا شہر ویٹیکن بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ اس میں بہت سے مشہور گرجے اور مقدس یادگاریں قائم ہیں۔ پوپ کا محل سات ہزار کمروں پر مشتمل ہے اور اس میں ایک وسیع و عریض نہایت شاندار ہال ہے۔ اس کے ساتھ ہی سینٹ پال کا عظیم الشان چرچ ہے۔ جو اپنی زیبائش اور حضرت مسیح کی دیو قامت تصاویر اور ان کے حواریوں کے حالات و تاریخی واقعات تصویری زبان میں دیواروں پر منقش ہونے کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ اس زمانہ میں پوپ سوموار کو ہال میں آکر لوگوں کو خطاب کرتے اور پھر انہیں برکت دیتے ہوئے واپس محل میں چلے جاتے تھے۔ میں بھی سوموار کے دن ہال میں چلا گیا۔ جہاں ہزاروں لوگ پوپ کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے پائے گئے۔ نہایت خاموشی کا عالم تھا۔ ہال میں بادشاہوں جیسا رعب اور ہیبت کا سماں تھا۔ سب لوگ بڑے ادب اور سلیقہ سے دیواروں کے قریب صف آراستہ تھے اور ہال کا درمیانہ حصہ خالی چھوڑا ہوا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ہال کے ایک کونہ سے باوردی نوجوان ایک تخت اٹھائے ہوئے آرہے ہیں جس پر پوپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ تخت کے دائیں بائیں اور آگے گارڈ آف آنر کے نوجوان مارچ کررہے تھے۔ ہال کے عین وسط میں تخت فرش پر رکھا گیا اور شریعت لئے ہوئے پادری دائیں بائیں اور بیچ میں پوپ چلنے شروع ہوئے اور آگے پہنچ کر پوپ کرسی نشین ہوگئے۔ پھر انہوں نے مائیک پر امن عالم کے متعلق تقریر کی اور پھر دعا کے بعد پادریوں کے جھرمٹ میں پوپ صف آراستہ زائرین کے ساتھ ہوکر گزرتے جارہے تھے۔ لوگ صرف ان کے ہاتھ کو چھو دیتے تھے اور اکثر لوگ نظریں نیچی کرکے کھڑے ہوئے تھے۔ وہ پوپ کے جلال و ہیبت کی وجہ سے اس کی طرف دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ جب پوپ لوگوں کے ساتھ سے گزرتے ہوئے میرے قریب پہنچے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پوپ کا ہاتھ لے لیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے ان کو مخاطب کرکے انگریزی میں جو تقریر کی اس کا ملخص یہ ہے کہ۔
اسلام سچا مذہب ہے۔ یہی انسانیت کا نجات دہندہ ہے۔ میں آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ مسیحؑ نے اپنی دوبارہ آمد کا جو وعدہ کیا تھا۔ میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ اس کے مطابق وہ قادیان پنجاب انڈیا میں مبعوث ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں ان کو ماننے والوں میں سے ہوں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ اسلام قبول کریں۔ مسیح موعود پر ایمان لائیں۔ نجات پائیں گے۔
پوپ بڑے اطمینان سے کھڑے رہے اور توجہ سے میری تقریر سنتے رہے۔ جب میں تقریر ختم کرچکا تو پوپ نے پوچھا کہ کس ملک کے رہنے والے ہو۔ میں نے بتایا ہندوستان کا رہنے والا ہوں۔ پوپ نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے پھر میں نے ان کا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہ دوسرے زائرین کی طرف بڑھ گئے۔ جب میں ہال سے باہر آیا تو امریکہ اور برطانیہ کے بہت سے لوگ میرے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ اتنی جرات کہ پوپ سے باتیں کیں۔ ہم ان کے جلال کی وجہ سے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے ان لوگوں کو بھی تبلیغ کی۔
قادیان سے لٹریچر منگوا کر امریکن اور برطانوی اور دوسرے یورپین ممالک کے باشندوں میں تقسیم کرتا تھا۔۱۱۰
حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی۔ پیر کوٹ اور مانگٹ اونچے میں کامیاب تبلیغی جدوجہد پر
حضرت مصلح موعود نے ہدایت دے رکھی تھی کہ ایسی جماعتوں میں جماعت بیعت کی رو پیدا ہو جائے مرکز سے مبلغ بھجوایا جائے جو جماعت کے تعاون سے وہاں تبلیغ کرے۔ اس ارشاد کی
تعمیل میں نظارت دعوت و تبلیغ قادیان نے مولوی سید احمد علی صاحب کو پیر کوٹ اور مانگٹ اونچے )ضلع گوجرانوالہ( کی جماعتوں میں بھجوایا۔ شاہ صاحب وہاں تقریباً چودہ روز رہے اور ان کی زیر قیادت دونوں جماعتوں نے متحدہ طور پر اپنے غیر احمدی رشتہ داروں اور اردگرد کے دیہات میں مستعدی سے تبلیغ کی جس کے نتیجہ میں بفضل اللہ ۱۹ نئی بیعتیں ہوئیں جس پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔۱۱۱
قائداعظم محمد علی جناح سے احمدیہ وفد کی ملاقات
۲۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا واقعہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ سے کوئٹہ میں ایک احمدی وفد نے ملاقات کی۔ یہ وفد میاں بشیر احمد صاحب ایم۔ اے امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ` مولوی ابوالعطاء صاحب` مولانا غلام احمد صاحب فرخ` حافظ قدرت اللہ صاحب` مرزا محمد صادق صاحب اور عطاء الرحمن صاحب طاہر پر مشتمل تھا۔ قائداعظم مسکراہٹ اور خندہ پیشانی سے قریباً ۱۵ منٹ تک بے تکلفانہ گفتگو فرماتے رہے۔ گفتگو کا زیادہ حصہ نئے انتخابات اور مسلم لیگ کی مساعی سے متعلق تھا۔ دوران گفتگو جماعت احمدیہ کا تذکرہ بھی ہوا۔۱۱۲
مسجد احمدیہ سرینگر کے نزدیک سنیما ہال کی اجازت کے خلاف جلسہ سالانہ پر احتجاج
حکومت کشمیر نے مسجد احمدیہ سری نگر کے ساتھ ایک سنیما ہال کی تعمیر کی منظوری دے دی تھی۔ سالانہ جلسہ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش پر ملک
عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے ایل ایل۔ بی پلیڈر نے ایک ریزولیوشن پیش کیا جس میں حکومت کے اس فیصلہ پر پرزور صدائے احتجاج کیا گیا تھا۔ یہ ریزولیوشن باتفاق رائے پاس ہوا۔۱۱۳
بیرونی مشنوں کے اہم واقعات
گولڈ کوسٹ مشن: اوائل ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں جماعت احمدیہ گولڈ کسٹ کی جنرل کانفرنس ایسی ام )MAISSE( مقام پر منعقد کی گئی جو بہت کامیاب رہی۔ کانفرنس کے دوران میں ایسی ام کی احمدیہ مسجد کا افتتاح بھی عمل میں آیا یہ مسجد گولڈ کوسٹ کی پہلی تمام احمدیہ مساجد میں بلحاظ وسعت سب سے بڑی تھی۔۱۱۴
فلسطین مشن:۔ جماعت احمدیہ فلسطین کو اس سال ایک نہایت افسوسناک حادثہ سے دوچار ہونا پڑا۔ یعنی اس کے ایک نہایت مخلص رکن الشیخ سلیم الربانی ۱۶۔ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو داغ مفارقت دے گئے۔
مرحوم حیفا کے نزدیک الطیرہ کے رہنے والے تھے۔ یہ گائوں احمدیت کی مخالفت میں مشہور ترین گائوں تھا۔ الشیخ ربانی نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کے وقت میں قبول احمدیت کی اور آخر تک نہایت اخلاص اور وفاداری سے عہد بیعت پر قائم رہے۔ بہت جفاکش اور محنتی نوجوان تھے۔ تقویٰ پرہیزگاری اور سلسلہ کے لئے غیرت میں اپنی مثال آپ تھے۔ لوگ انہیں ولی اللہ سمجھتے تھے اور فی الواقعہ آپ ایک خدا رسیدہ انسان تھے۔ مولانا ابوالعطاء صاحب سابق مبلغ فلسطین نے ان کے انتقال پر الفضل کی ۳۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا جس میں بتایا کہ۔
>مجھے فلسطین میں قریباً ۲/۱ ۴ برس رہنے کا موقعہ ملا ہے اس عرصہ میں احمدیت کی اشاعت اور تبلیغ میں جس رنگ کا تعاون شیخ سلیم الربانی مرحوم نے پیش وہ کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ جب وہاں پر مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اس مدرسہ میں پڑھانے کی خدمت سرانجام دیں تو انہوں نے اسے بلاچون و چرا منظور کیا حالانکہ مالی طور پر بھی انہیں اس میں خسارہ تھا۔ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے مرحوم کو عشق تھا اور آپ کی ہر تحریک پر لبیک کہنا سعادت سمجھتے تھے۔ بسا اوقات ایسا اتفاق ہوا کہ میں کسی جگہ جانے لگا ہوں تو وہ اپنا کام کاج چھوڑ کر بھی ساتھ ہو لیتے تھے اور اکثر کہتے تھے کہ مولوی صاحب آپ ان علاقوں میں اکیلے سفر نہ کریں۔ کیونکہ آپ یہاں کے لوگوں کو نہیں جانتے۔
الشیخ سلیم الربانی مرحوم جماعت کے کاموں میں چندہ دینے میں سبقت لے جانے والے مخلصین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے ہر جماعتی تحریک میں حصہ لیا اور اپنی وسعت سے بڑھ کر حصہ لیا بلکہ بعض دفعہ تو مجھے اصرار سے انہیں کم چندہ دینے کے لئے کہنا پڑتا تھا ان کی زندگی متوکلانہ زندگی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا کہ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ سلسلے کے لئے ہاتھ سے کام کرنے میں وہ لذت محسوس کرتے تھے۔ مسجد محمود کبابیر کی تعمیر میں پورے شوق سے کام کرنے والوں میں سے ایک تھے تبلیغ کا بہت جوش تھا اور عملاً وہ اپنی زندگی تبلیغ کے لئے وقف رکھتے تھے۔ متعدد آدمی ان کی تبلیغ سے احمدیت میں داخل ہوئے اردگرد کے دیہات میں بھی تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور جب لوگ گالیاں دیتے اور مارتے تو اس میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ قادیان آنے کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ علم دین کے سیکھنے کے لئے پوری جدوجہد کرتے تھے۔ دن کو کام کرنے کے بعد رات کو قرآن شریف اور دوسری دینی کتابیں پڑھتے تھے اور اردو سیکھنے کا بھی پورا شوق تھا بلکہ میرے ذریعہ سے اردو کی پہلی کتاب منگوا کر پڑھی تھی ان کا خیال تھا کہ ہمیں اتنی اردو زبان آنی ضروری ہے جس سے ہم خود الفضل کا مطالعہ کرسکیں۔ مرحوم کے پانچ بچے ہیں۔ تین لڑکیاں اور دو لڑکے۔ چند ماہ گزرے انہوں نے سیدنا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں لکھا کہ میں اپنے بڑے لڑکے کی زندگی وقف کرتا ہوں اور جنگ کے خاتمہ پر یا جب بھی سہولت مہیا ہو اسے تعلیم دین کے لئے ہندوستان بھیجنا چاہتا ہوں۔ ان کا ارادہ تھا کہ بچے کی تعلیم کے جملہ اخراجات خود برداشت کریں میں جانتا ہوں کہ ان کی مالی حالت ایسی اچھی نہ تھی مگر یہ ان کا اخلاص تھا جس کے ماتحت وہ ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس وقف کو منظور فرماتے ہوئے لکھوایا تھا کہ بے شک بچے کو تعلیم کے لئے قادیان بھیج دیں۔
الشیخ سلیم الربانی مخالفین میں بھی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کے گائوں کے لوگ عقائد میں احمدیت کے دشمن تھے۔ مگر الشیخ سلیم الربانی کی عزت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تقویٰ شعار اور پابند شریعت نوجوان تھے۔ مرحوم ایک وجہیہ شکل رکھتے تھے۔ ان کی شکل اور ڈاڑھی بالکل اس شکل کے مشابہ تھی جو عیسائیوں کی طرف سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی شائع کی گئی ہے اور ہمارے احمدی دوست بطور لطیفہ یہ بات ان کے سامنے ذکر کیا کرتے تھے۔ مرحوم کی عمر ۴۵ برس کے قریب ہوگی۔ مرحوم ذاتی طور پر بھی بہت وفادار دوست تھے۔ اپنے ساتھیوں کی خاطر تکلیف برداشت کرنا انہیں خوشگوار معلوم ہوتا تھا۔ ۱۱۔ فروری کو بعارضہ نمونیا بیمار ہوئے اور ۱۴۔ فروری کو اپنے مولا حقیقی سے جاملے۔ مرحوم بہت سی اعلیٰ خوبیوں کے مالک تھے اور ان کا وجود فلسطین میں جماعت احمدیہ کے لئے بہت بابرکت وجود تھا<۔۱۱۵
لنڈن مشن:۔ )۱( ۱۴۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے کنگ زاغ شاہ البانیہ سے ملاقات کی۔ مختلف امور پر ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب گفتگو ہوئی جس کے دوران احمدیت کا ذکر بھی آیا۔ شاہ نے بعض سوالات کئے جن کے جوابات چودھری صاحب نے دیئے۔۱۱۶]4 [rtf
۲۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن نے پچھلے سال ہائڈ پارک میں بعض اہم مذہبی مسائل پر پادری گرین سے متعدد مناظرے کئے تھے جو سامعین کے لئے دلچسپی اور معلومات میں اضافہ کا موجب ہوئے اور پادری صاحب کو اپنی شکست تسلیم کرنا پڑی۔ مسٹر گرین سے مباحثات کا یہ اہم سلسلہ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں دوبارہ جاری کیا گیا۔ چنانچہ پہلا مباحثہ ۲۰۔ ماہ شہادت/ اپریل کو >کیا اناجیل الہامی ہیں< کے موضوع پر ہوا۔ مسٹر گرین مولانا شمس کے سوالوں کا کوئی بھی معقول جواب نہ دے سکے۔ ۴۔ ماہ ہجرت/ مئی کو مسئلہ طلاق اور رجم پر گفتگو ہوئی جس میں ان کو کوئی جواب نہ بن پڑا۔ ۱۱۔ ماہ ہجرت/ مئی کا موضوع یہ تھا کہ >کیا قرآن مجید الہامی کتاب ہے<۔ مولانا شمس نے قرآن مجید سے اس کے الہامی ہونے کا دعویٰ اور دلائل پیش کئے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس کا بے نظیر ہونا مخالفوں کا مثل لانے میں عاجز رہنا وغیرہ بطور دلیل بیان کیا۔ مسٹر گرین کسی دلیل کو توڑ نہ سکے۔ البتہ انہوں نے قرآن مجید میں تناقض ثابت کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ قرآن نے ایک جگہ مسیح کو مصلوب کہا ہے اور دوسری جگہ اس سے انکار کیا ہے۔ اس پر مولانا شمس نے چیلنج کیا مگر وہ آخر وقت تک مسیح کے صلیب پر فوت ہو جانے کا کوئی قرآنی حوالہ پیش نہ کرسکے۔ ۱۸۔ ماہ ہجرت/ مئی کو >کیا عہد نامہ جدید الہامی ہے<۔ کے موضوع پر بحث ہوئی مولانا شمس صاحب نے پیشگوئیوں کے معیار کی رو سے ثابت کیا کہ موجودہ اناجیل ہرگز الہامی نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے اس کی پیشگوئیوں میں تضاد کی متعدد مثالیں پیش کیں جن کا اقرار مسٹر گرین کو بھی کرنا پڑا۔ ۲۵۔ ماہ ہجرت/ مئی کو قرآن مجید کے الہامی ہونے کا مسئلہ زیر بحث آیا مولانا شمس صاحب نے قرآن مجید کی متعدد ایسی پیشگوئیاں بتائیں جو اس کی صداقت پر ناقابل تردید نشان ہیں۔ مسٹر گرین ان پیشگوئیوں کے خلاف تو کچھ نہ کہہ سکے۔ البتہ کہا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ پہلے انبیاء کی کتابوں پر ایمان لائو جس کا مبلغ اسلام نے تفصیل سے جواب دیا۔ ۱۵۔ ماہ احسان/ جون کو موضوع بحث >بعث بعد الموت< تھا۔ دونوں مناظرین نے اپنے اپنے مذہب کا نقطہ نگاہ پیش کیا مگر حاضرین میں سے بعض نے یہ رائے دی کہ اسلامی زاویہ نظر معقول ہے۔ ۲۹۔ ماہ احسان/ جون کو پھر اسی موضوع پر تبادلہ خیالات ہوا۔ ایک امریکن سپاہی نے مولانا شمس صاحب کی تقریر سن کر کہا۔ آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے میں بھی یہی مانتا ہوں۔ لیکن مسٹر گرین کا نظریہ کفارہ ایک لغو خیال ہے۔ سامعین میں سے بعض احمدیہ مسجد فضل میں مزید تحقیق کے لئے آئے جنہیں مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا گیا۔۱۱۷
۶۔ ماہ وفا/ جولائی کو مسٹر گرین سے >حضرت مسیح کی صلیبی موت< پر مباحثہ ہوا۔ مولانا شمس صاحب نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کسی مسلمان کا حوالہ پیش کریں کہ اس نے مسیح کے صلیب پر مرنے کو تسلیم کیا ہو۔ انہوں نے جارج سیل کی تفسیر پڑھنی شروع کی مگر اس نے بھی یہ قول نقل کیا تھا کہ بعض مسلمان اس کی طبعی موت کے قائل ہیں اور یہ کہ مرنے کے بعد وہ اٹھایا گیا۔ اس پر انہیں اتنا شرمندہ ہونا پڑا کہ پلیٹ فارم سے اتر کر نیچے بیٹھ گئے۔ ۱۳۔ وفا/ جولائی کو موضوع یہ تھا کہ حضرت مسیح واقعہ صلیب کے بعد کہاں گئے؟ مولانا شمس صاحب نے اس سلسلہ میں تاریخی حقائق سے حضرت مسیح کے یروشلم سے دمشق آنے اور وہاں سے نصیبین اور ایران کے رستے سرینگر تک پہنچنا ثابت کیا۔ جن کا کوئی معقول جواب مٹر گرین سے نہ بن پڑا۔ ۲۷۔ وفا/ جولائی کو مسٹر گرین نے حضرت مسیح کے مردوں سے جی اٹھنے کے متعلق اپنا موقف پیش کیا جس پر مولانا شمس صاحب نے اناجیل دکھا دکھا کر ان کی غلطی پبلک پر ایسی واضح کر دی کہ آئندہ انہوں نے مباحثہ کا سلسلہ بند کردیا۔۱۱۸ مگر مولانا شمس صاحب بدستور ہائیڈ پارک میں تشریف لے جاتے اور اسلام کی آواز بلند کرتے رہے۔
۳۔ ۱۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مولانا جلال الدین صاحب شمس کی ہائیڈ پارک میں یہودیوں سے لاجواب گفتگو ہوئی یہودی نمائندوں نے فلسطین میں داخل ہونے کے متعلق اپنا مذہبی حق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مجاہد اسلام نے ان کے دلائل کو ایسی عمدگی اور خوبی کے ساتھ رد کیا کہ یہودی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور اس مجلس میں جس قدر مسلمان اور عرب موجود تھے وہ نہایت ہی خوش ہوئے۔ اس واقعہ کی تفصیل حضرت مولوی صاحب موصوف کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
>اس روز یہودی بہت سے جمع ہوگئے اور انہوں نے فلسطین کے متعلق سوالات شروع کر دیئے۔ میں نے کہا ہر عقلمند یہی کہے گا کہ باشندگان فلسطین کا حق ہے کہ وہ وہاں حکومت کریں۔ غیر اقوام کا یہ حق نہیں کہ وہ ان کی خلاف مرضی یہودیوں کو وہاں بسائیں۔ ایک یہودی نے کہا کہ ہمارا حق ہے کیونکہ بائیبل میں خدا نے ابراہام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے ایسا دوں گا کہ وہ دائمی ملکیت ہو جائے۔ میں نے کہا یہ درست ہے لیکن ابراہیم علیہ السلام کی نسل تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی تھے جیسا کہ پیدائش ۱۳/ ۲۱ سے ظاہر ہے۔ جب یہود صحیح راستہ سے دور جا پڑے اور حضرت مسیحؑ کو نہ مانا تو ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی کرا دی کہ اب یہود سے آسمانی بادشاہت چھین لی جائے گی اور دوسری قوم کو دی جائے گی اور وہ بنی اسمٰعیل ہیں جو عرب ہیں۔ پس پیشگوئی کے مطابق کنعان مسلمان عربوں کے قبضہ میں رہی۔
ایک یہودی نے کہا جب مسیح کے بعد یہود سے یہ زمین لے لی گئی تو مسلمانوں کے قبضہ میں کب آئی؟ وہ تو رومیوں کے پاس چلی گئی۔ میں نے کہا حضرت ابراہیم سے کنعان کی زمین کے دینے کا جو وعدہ خدا نے کیا تھا وہ کب پورا ہوا۔ وہ اس وعدہ کے تقریباً پانچ چھ سو سال بعد جاکر پورا ہوا تھا۔ جب یہود کو بادشاہت ملی۔ اس طرح جب ان سے فلسطین کا ملک دوسرے کے قبضے میں چلا گیا اور حضرت ابراہیمؑ کی دوسری نسل کو ملنے کا فیصلہ ہوا تو وہ بھی چھ سو سال کے عرصہ کے بعد ملا۔ ایک نے کہا یہ ملک ہمارا تھا ہم اس میں ایک ہزار سال تک رہے۔ میں نے کہا اس سے یہود کا حق ثابت نہیں ہو جاتا۔ جو حوالہ تم نے پیش کیا ہے اسی سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم کنعان کی زمین میں پردیسی تھے۔ وہ بابل کے علاقہ سے آئے تھے اور جس رنگ میں یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا بائیبل کی رو سے انہوں نے دوسروں کی تباہی کے وہی طریق اختیار کئے تھے جو اس جنگ میں جرمنوں نے کئے۔ اگر اس طرح کسی ملک پر قبضہ کرنے سے وہ ملک حملہ آوروں کا ہوسکتا ہے تو پھر ہٹلر بھی حق دار بن سکتا تھا۔
غرض یہ کہ اس روز یہودی سخت ناراض دکھائی دیتے تھے جو مسلمان حاضر تھے جن میں سے بعض عرب بھی تھے وہ بہت خوش ہوئے<۔۱۱۹
۴۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے سال نو کے تحفہ کے طور پر ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو ہز میجسٹی کنگ جارج ششم کی خدمت میں ایک تبلیغی خط معہ احمدیہ لٹریچر ارسال کیا جس کے جواب میں انہوں نے شکریہ ادا کیا مگر چونکہ انگلستان میں مروجہ قانون کے مطابق بادشاہ صرف وہی کتاب قبول کرتا ہے جو مولف کی طرف سے پیش کی گئی ہو اس لئے انہوں نے صرف مولانا شمس صاحب کی تالیف >اسلام< رکھی اور دوسرے مصنفین کی کتب ۱۹۔ جنوری ۱۹۴۶ء کو شکریہ کے خط کے ساتھ واپس بھجوا دیں۔۱۲۰
لیگوس مشن:۔ لیگوس کی احمدیہ مسجد کے امام سلیمان ۱۹۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو ۷۷ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ آپ ۱۹۲۱ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کی تبلیغ سے شامل سلسلہ ہوئے تھے۔ ساری عمر نہایت درجہ مستقل مزاجی سے مرکز احمدیت اور خلیفہ وقت کے ساتھ وابستہ رہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد نہایت وفاداری سے نباہا۔۱۲۱
سیر الیون مشن:۔ سیر الیون کے ایک نہایت مخلص احمدی مسٹر عثمان کوک اس سال ماہ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں وفات پا گئے۔ آپ سیر الیون کے زیر حمایت علاقہ کے باشندے تھے۔ ۱۹۳۸ء کے لگ بھگ مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے تھے اور سیر الیون کے ان معدودے چند السابقون الاولون میں سے تھے جنہوں نے سیرالیون کے باشندوں کی متفقہ مخالفت احمدیت کے باوجود نہایت جرات اور دلیری سے حق قبول کیا۔ مرحوم تہجد گزار تھے۔ سلسلہ کی ہر تحریک پر گرمجوشی سے حصہ لیتے تھے۔ قادیان اور حضرت مصلح موعود کی زیارت کا ازحد شوق تھا۔ کمشنر مہتمم صاحب بہادر پر )جن کے ہاں آپ ملازم تھے( ان کی نیکی اور دیانتدار کا خاص اثر تھا۔۱۲۲
نائیجیریا مشن:۔ ۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو الحاج حکیم فضل الرحمن مجاہد نائیجیریا نے اڈونمگبو
‏vat,10.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
اڈونمگبو اونیو )لیگوس( میں احمدیہ دارالتبلیغ کا سنگ بنیاد رکھا اور ایڈریس پڑھا جس میں اس مشن کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی تھی اور آئندہ عزائم کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس تقریب پر افریقن احمدی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ اعلیٰ حکام اور دوسرے معززین بھی شامل ہوئے۔۱۲۳ اور ملکی پریس نے اپنے صفحات میں نہایت جلی عنوانات کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔ چنانچہ اخبار >نائیجیرین ڈیلی ٹائمز< )۹۔ اگست ۱۹۴۵ء( اخبار >ڈیلی سروس< )۸۔ اگست ۱۹۴۵ء( اخبار >سدرن نائیجیریا یا ڈیفنڈر< )۸۔ اگست ۱۹۴۵ء( نے اس پر طویل نوٹ شائع کئے۔۱۲۴
برما مشن:۔ ماہ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں مرکز کو یہ خوشخبری پہنچی کہ رنگون کے احمدی دوستوں نے کمایٹ میں اپنی مسجد اور انجمن قائم کرلی ہے۔۱۲۵
مشرقی افریقہ مشن:۔ ۱۹۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو شیخ مبارک احمد صاحب فاضل کا کسموں کے گوردوارہ میں حضرت بابا نانک دیو جی کی سیرت پر لیکچر ہوا۔ مسلمانوں` ہندوئوں اور سکھوں سب نے یہ لیکچر بہت پسند کیا۔ ایک سکھ کہنے لگا میں اس معزز دوست پر قربان جس نے خدا اور گورو صاحب کی تعریف ایسے اچھے پیرایہ میں بیان کی ہے۔۱۲۶
مبلغین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی
نو مبلغین کے قافلہ کے علاوہ جس کا مفصل ذکر پچھلی فصل میں گزر چکا ہے اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین تحریک جدید بیرونی ممالک میں تشریف لے گئے۔
)۱( شیخ عبدالواحد صاحب مولوی فاضل )۱۹۔ وفا/ جولائی کو( ایران کے لئے۔۱۲۷ )۲( شیخ ناصر احمد صاحب انگلستان کے لئے )۳۰۔ ماہ وفا/ جولائی کو(۱۲۸ )۳( چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر بی۔ اے )۲۰۔ ظہور/ اگست کو امریکہ کے لئے(۱۲۹ )۴( شیخ نور احمد صاحب منیر )۱۳۔ ماہ اخاء/ اکتوبر کو( فلسطین کے لئے۔۱۳۰]ydob [tag )۵( مولوی نور الحق صاحب انور )۲۲۔ ماہ اخاء/ اکتوبر کو( یوگنڈا )مشرقی افریقہ(۱۳۱ )۶( سید سفیر الدین احمد صاحب انگلستان کے لئے )۶۔ ماہ فتح/ دسمبر کو(۱۳۲
نئی مطبوعات
اس سال جو لٹریچر شائع ہوا اس میں >سیرت ام المومنین< حصہ دوم خاص طور پر قابل ذکر ہے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اپنی کتاب >سیرت ام المومنین< کے دوسرے حصے کا مواد جمع کرچکے تھے کہ پیغام اجل آگیا۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے نہایت ہمت و محنت سے مرحوم کی یادداشتوں اور نوٹوں کو ترتیب دیا اور ماہ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں اس کو شائع کر دینے میں بھی کامیاب ہوگئے یہ تالیف درسی کتب کی تقطیع پر ۴۳۲ صفحات پر مشتمل تھی۔ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں قیمی اضافہ ہوا۔ سیرت کے یہ دونوں حصے انتظامی پریس حیدر آباد دکن میں چھپے۔
غیر مسلموں کے اجتماعات اور کانفرنسوں میں احمدی مبلغین کے لیکچر
اس سال احمدی مبلغین کو جن غیر مسلم اداروں اور کانفرنسوں میں تبلیغ اسلام و احمدیت کرنے کا موقعہ ملا ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ خالصہ کالج امرتسر:۔ خالصہ مشنری کالج امرتسر کے پرنسپل سردار گنگا صاحب نے نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کو لکھا کہ اپنے دو مبلغ خالصہ مشنری کالج کے طلبہ میں لیکچر دینے کے لئے روانہ کریں اس پر گیانی عباداللہ صاحب اور )ابوالبشارت( مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے ۱۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو بالترتیب >اسلام< اور >احمدی اور غیر احمدی میں فرق< کے موضوع پر لیکچر دیئے جن سے سردار گنگا صاحب بہت متاثر ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا۔
>میں نے تمام مذاہب کے نمائندوں کو دعوتی خطوط لکھے تھے مگر سوائے جماعت احمدیہ کے کسی نے قولی یا فعلی کوئی جواب نہیں دیا اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کیسی منظم اور ٹھوس تبلیغی جدوجہد کرنے والی جماعت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے ان کے لیکچر سنے ہیں۔ کس طرح محنت اور کوشش سے تیاری کی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے ان کے طرز بیان کو بھی دیکھا کہ کس ٹھوس طریقہ سے اپنی دلیل پیش کرتے ہیں۔ دلائل کو فلسفیانہ رنگ دے کر کیسے سجایا ہے۔ موجودہ زمانہ میں دہریت کی تیز و تند آندھیاں کس طرح ہر مذہب پر حملہ آور ہوکر ان کو اڑائے لئے جارہی ہیں اور ہم پیچھے ہٹتے جارہے ہیں۔ آج اگر کوئی مذہب فلسفیانہ رنگ سے اپنے مذہب کو پیش نہیں کرتا تو وہ قائم بھی نہیں رہ سکتا۔ ہم احمدی علماء کے بہت ممنون ہیں کہ انہوں نے اپنے خیالات سے ہمیں مستفیض کیا اور ان کے ذریعہ جماعت احمدیہ اور نظارت متعلقہ کے ممنون ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست کو قبول کیا اور اپنے لیکچرار بھیجے۔ اس رنگ میں تقریریں نہایت مفید اور آپس میں خوشگوار تعلقات پیدا کرنے نیز رواداری کی فضا بنانے میں بہت مفید ہوسکتی ہیں۔ ایک دوسرے کے مذہبی خیالات اور عقائد کو سننا اور ان پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس قسم کے اجتماع ہر مذہب و ملت کے لوگ کریں<۔۱۳۳
۲۔ ست دھرم سیمیلین کانپور:۔ کانپور میں ۲۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو بدھوں نے >ست دھرم سیمیلین< کے نام پر ایک جلسہ منعقد کیا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے >اسلام ہی عالمگیر مذہب ہے< پر نصف گھنٹہ تقریر کی اور آخر میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کا )خطبہ( >پیغام صلح< بھی تمام حاضرین میں تقسیم کیا۔ احمدی مبلغ کی تقریر کو پبلک نے بہت پسند کیا۔۱۳۴
۳۔ نیشنل کالج لاہور:۔ ۹۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو گیانی واحد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ کا سکھ نیشنل کالج لاہور میں سکھ مسلم اتحاد پر نہایت دلچسپ لیکچر ہوا جسے بہت سراہا گیا اور چیئرز دیئے گئے۔ لیکچر کے بعد صاحب صدر رتن سنگھ صاحب پروفیسر نیشنل کالج نے انگریزی میں بہت اچھے ریمارکس دیئے اور شکریہ ادا کیا۔۱۳۵
۴۔ مذاہب عالم کانفرنس دہلی:۔ ۳۱۔ امان/ مارچ و یکم شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو دہلی میں بمقام دیوان ہال مذاہب عالم کانفرنس منعقد ہوئی جس کے لئے مضمون یہ رکھا گیا تھا کہ مذاہب میں اختلافات کے باوجود صلح کیونکر ہوسکتی ہے اور کس طرح امن قائم ہوسکتا ہے؟ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے یکم شہادت/ اپریل کی شب کو اس موضوع پر نصف گھنٹہ تقریر فرمائی جس میں صلح کے دس اہم نکات پیش کئے۔ چونکہ دوسرے مقررین میں سے کسی نے بھی کوئی ٹھوس بات پیش نہ کی اس لئے سامعین نے جناب مولوی صاحب کی تقریر کو ہمہ تن گوش ہوکر سنا اور اس بات کا اقرار کیا کہ یہ ایک ایسی تقریر ہے جس میں صحیح علاج بتایا گیا ہے۔ ہال کے باہر کئی ہندو نوجوانوں نے جناب مولوی صاحب سے ملاقات کی اور مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے پتہ نوٹ کیا۔۱۳۶
۵۔ آریہ سماج نئی دہلی مذہبی کانفرنس:۔ آریہ سماج نئی دہلی نے اپنے سالانہ جلسہ پر ایک مذہبی کانفرنس آریہ سماج مندر نئی دہلی میں امن عالم کے موضوع پر اظہار خیالات کے لئے منعقد کی جس میں انجمن احمدیہ دہلی کی طرف سے جناب عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ نے ایک مدلل اور ٹھوس مقالہ پڑھا۔۱۳۷
۶۔ تھیوسافیکل سوسائٹی کانپور:۔ ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مولوی غلام احمد صاحب ارشد نے تھیوسافیکل سوسائٹی کانپور کے ہال میں ایک لیکچر دیا جس میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی کہ قرآن مجید کی رو سے پیدائش انسانی میں تفاوت اور اختلاف کیوں ہے؟
صاحب صدر نے اس لیکچر پر حسب ذیل ریمارکس دیئے۔
>مولانا صاحب نے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ جو اصول اپنی الہامی کتاب سے احمدی نکتہ نگاہ سے پیش کیا کہ تمام بزرگوں کی عزت کرو۔ یہ نہایت شاندار ہے اور ہم نے پہلے کسی مسلمان سے ایسا نہیں سنا۔ یہ آج پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ قادیان کے نمائندہ سے سننے کا موقعہ میسر آیا ہے کہ قرآن مجید کے اندر ایسا زریں اصول بھی موجود ہے کہ تمام مذاہب کے بزرگوں اور پیشوائوں کی عزت کرو۔ ہم مولانا کا بہت بہت شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہم نے اس قسم کی تقریر پہلے کسی مسلمان سے نہیں سنی۔ مولانا صاحب نے جو توحید کا مسئلہ پیش کیا ہے کہ تمام انبیاء اسی توحید کو پیش کرتے آئے ہیں واقعی آپ کا فرمانا اپنے اندر معقولیت رکھتا ہے۔ باقی رہا یہ جھگڑا کہ پیغمبروں میں سے کون بڑا اور کون چھوٹا ہے۔ اس مسئلہ کو ہم باسانی نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ہر مذہب کے اندر پیغمبر آتے رہے ہیں۔ دوسرے مسلمان اس اصول پر ہرگز عمل نہیں کرتے بلکہ دوسروں کے بزرگوں کو برا کہنا ثواب خیال کرتے ہیں۔ اگر جماعت احمدیہ اس آیت قرآنی کے ماتحت زور دے تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے تاکہ دوسرے مسلمانوں کے اندر اس کی اہمیت پیدا ہو جائے اور دنیا میں امن قائم ہو۔ جماعت احمدیہ کے اس اصول پر جو کہ مولانا نے پیش کیا ہے ہم مولانا کو مبارکباد دیتے ہیں<۔۱۳۸
۷۔ آریہ سماج مندر بیلون )ڈلہوزی:(۔ آریہ سماج بیلون )ڈلہوزی( نے اپنے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر ۲۵` ۲۶۔ ظہور/ اگست کو ایک دو روزہ مذہبی کانفرنس منعقد کی۔ پہلے دن کانفرنس کا موضوع تھا >میرے مذہب میں خدا تعالیٰ کا تصور<۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے اس مضمون پر مولوی محمد یار صاحب عارف نے لیکچر دیا۔ صدر جلسہ پنڈت ٹھاکردت صاحب شرما موجد امرت دھارا نے احمدی مقرر کو مقررہ وقت سے پندرہ منٹ زائد دیئے اور کہا عارف صاحب نے عمدہ طریق پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور آریہ سماج پر حملہ کئے بغیر اس کے اصول کی تردید کی ہے اسی وجہ سے میں نے انہیں زیادہ وقت دے دیا ہے۔ دوسرے صاحبان بھی یہی طریق اختیار کریں تو مناسب ہے۔ آخری تقریر آریہ سماجی کی تھی جس نے عارف صاحب کی تقریر کا جواب دینے کی کوشش ہی کی تھی کہ یکدم خاموش ہوگیا اور باوجود صدر صاحب کے ہمت دلانے کے کچھ نہ بول سکا اور نصف وقت بھی نہ ہوا تھا کہ بیٹھ گیا۔
دوسرے روز کا مضمون >مذہب اور سیاست< تھا جس میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی گیانی عباداللہ صاحب نے کی۔ آپ کے بعد ایک آریہ لیکچرر نے اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے اعتراضات شروع کر دیئے جس پر صدر جلسہ نے یہ تقریر بند نہ کرا دی اور اقرار کیا کہ مقررین میں سے صرف گیانی صاحب کی تقریر اصل موضوع پر تھی۔ افسوس ہمارے لیکچرار نے اصل موضوع چھوڑ دیا ہے۔ آخری تقریر بھی ایک آریہ کی تھی جس نے اسلام پر اعتراضات شروع کر دیئے لیکن صدر جلسہ نے اس اقرار کے باوجود کہ تقریر اصل موضوع کے برعکس ہے تقریر بند نہ کرائی جس پر گیانی عباداللہ صاحب اور دوسرے تمام مسلمان مندر سے باہر آگئے اور آریوں کے اعتراضات کے جوابات دیتے رہے۔ ہندوئوں نے بعد میں اس بات کا کھلا اظہار کیا کہ دونوں دن احمدی لیکچراروں کی تقریریں سننے کے قابل تھیں۔۱۳۹
۸۔ >شری گورو سنگھ سبھا< صدر بازار ڈلہوزی:۔ شری گورو سنگھ سبھا صدر بازار ڈلہوزی کا سالانہ جلسہ ۳۱۔ اگست و یکم ستمبر ۱۹۴۵ء کو منعقد ہوا جس میں احمدی مبلغ گیانی عباداللہ صاحب نے >حضرت بابا نانک اور توحید< کے موضوع پر تقریر کی اور حضرت مسیح موعود کے شعر ~}~
بتایا گیا اس کو الہام میں
کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں
کی تشریح میں گورو گرنتھ صاحب کے شبدوں اور قرآن کریم کی آیات سے حضرت بابا نانک صاحب کی تعلیم پر روشنی ڈالی اور ثابت کر دکھایا کہ حضرت بابا نانک صاحب اسلامی توحید ہی کے علمبردار تھے۔ یہ تقریر بہت دلچسپی سے سنی گئی۔ یہاں تک کہ تقریر کے لئے مقررہ وقت سے زیادہ وقت دیا گیا۔ آپ کی تقریر کے بعد امرتسر کے ایک مفسد اور شرارت پسند نے سکھوں کو یہ کہہ کر بھڑکانے کی کوشش کی کہ جماعت احمدیہ بابا نانک کو مسلمان کہتی ہے اور ایک احمدی کو اس جرم کی پاداش میں قید کی سزا بھی ہوئی تھی۔ گیانی صاحب نے دوبارہ وقت لے کر سکھ لٹریچر سے حوالہ جات پیش کئے کہ مسلمانوں کی طرف سے حضرت بابا صاحب~رح~ کے مسلمان ہونے کا اعلان سکھ گورو صاحبان کی زندگی میں کیا گیا تھا۔۱۴۰
اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے
سال ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے بعض مشہور مناظروں کی مختصر روداد آئندہ سطور میں درج کی جاتی ہے۔
۱۔ مباحثہ قلعہ گلانوالی ضلع گورداسپور:۔ قلعہ گلانوالی ضلع گورداسپور میں بعض احباب کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے پر علاقہ میں ایک شور پڑ گیا اور غیر از جماعت علماء کئی روز تک احمدیت کے خلاف تقریریں کرتے رہے اور آخر >ختم نبوت< اور >صداقت حضرت مسیح موعود< کے موضوع پر ۳۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو مناظرہ طے پاگیا۔ چنانچہ فیصلہ کے مطابق پہلا مناظرہ ختم نبوت پر ہوا جو سید احمد علی صاحب اور مولوی عتیق الرحمن صاحب میں ہوا۔ احمدی مناظر نے آیات قرآنی` احادیث اور اقوال بزرگان سے ثابت کیا کہ شریعت محمدیہ کے تابع انبیاء آسکتے ہیں۔ فریق ثانی بار بار مطالبہ کے باوجود کسی آیت یا حدیث سے اپنا مدعا ثابت نہ کرسکا۔ اس مناظرہ کا اثر حاضرین پر بہت اچھا رہا۔ دوسرے مناظرے میں جماعت احمدیہ کی طرف سے چوہدری محمد یار صاحب عارف مناظر تھے اور دوسرے فریق کی طرف سے منشی عبداللہ صاحب معمار امرتسری۔ احمدی مناظر نے اپنی پہلی تقریر میں قرآن مجید کی آیات پیش کرکے صداقت حضرت مسیح موعود پر موثر رنگ میں استدلال کیا اور اپنی تائید میں مخالفین سلسلہ کی کتب کے حوالہ جات پیش کئے اسی طرح اپنی بعد کی تقریروں میں تمام اعتراضات کے جواب دے کر اپنے دلائل دہرائے اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو آشکار کیا۔ پبلک نے جس میں مسلمان` ہندو` سکھ شامل تھے تسلیم کیا کہ دوسرے مولوی احمدی مناظرین کے دلائل کا جواب نہیں دے سکے۔۱۴۱
۲۔ مباحثہ بھٹیاں )ضلع گورداسپور:(۔ موضع بھٹیاں کے ایک مخلص احمدی میاں عبدالحق صاحب۱۴۲ )نور( نے حضرت مصلح موعود کی تحریک پر جب اپنے گائوں میں تبلیغ پر زور دیا تو گائوں کے لوگوں نے مباحثہ کے لئے اپنے علماء بلوائے۔ دوسری طرف مرکز احمدیت سے قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری` مولانا ابوالعطاء صاحب` گیانی واحد حسین صاحب` ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا اور مولوی دل محمد صاحب بھی پہنچ گئے۔ مگر انہیں بولنے کی اجازت نہ دی گئی اور کہا گیا کہ صرف میاں عبدالحق صاحب ہی سوال کرسکتے ہیں۔ ہاں احمدی عالم ان کو یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا کہیں۔ اس پر میاں عبدالحق صاحب ہی کو مناظرہ کرنا پڑا اور انہوں نے وفات مسیح کے مسئلہ پر مولوی عبداللہ معمار صاحب سے نہایت معقول اور مدلل سوال کئے مگر وہ آخر تک ان کے دلائل کو توڑ نہ سکے۔ اور گائوں والوں نے اس دن صداقت احمدیت کا یہ نشان دیکھا کہ احمدیوں میں سے ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی ان کے چوٹی کے مناظر کو لاجواب اور ساکت کرسکتا ہے۔۱۴۳ یہ ۱۹۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کا واقعہ ہے۔
۳۔ مباحثہ چک دھیدو ضلع شیخوپورہ:۔ ۳۔ ماہ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو چک دھیدو میں ایک عیسائی پادری سے ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا کا >الوہیت مسیح< پر دلچسپ مناظرہ ہوا جس میں پادری صاحب کو لاجواب ہونا پڑا۔۱۴۴
۴۔ مباحثہ موضوع بھدے )ضلع امرتسر:(۔ ۱۳` ۱۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو موضع بھدے ضلع امرتسر میں احمدیوں اور عیسائیوں کے درمیان تین مناظرے ہوئے۔ جماعت کی طرف سے >صداقت مسیح موعود< پر سید احمد علی صاحب نے اور >الوہیت مسیح< اور >مسیح کی صلیبی موت اور زندگی< پر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا نے بحث کی عیسائیوں کے مناظر پادری عنایت اللہ صاحب تھے۔ جنہوں نے غیر احمدی مسلمانوں کو احمدیت کے خلاف بھڑکانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔۱۴۵
۵۔ مباحثہ علی پور گھلواں )ضلع مظفر گڑھ:(۔ ۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو علی پور گھلواں میں احمدی مبلغین نے خدا کے فضل سے تین نہایت کامیاب مناظرے کئے۔ )۱( سید احمد علی صاحب نے مسئلہ وفات مسیحؑ پر۔ مولوی محمد حیات صاحب سے مناظرہ کیا۔ شاہ صاحب کی تقریر نہایت برجستہ تھی۔ )۲( مولوی عبدالغفور صاحب نے مولوی لال حسین اختر سے صداقت مسیح موعود< پر بحث کی۔ آپ نے حدیث کی ایک کتاب پیش کرکے کہا کہ اگر میرا مدمقابل یہ حدیث پڑھ دے تو اسے دس روپیہ انعام دیا جائے گا۔ بار بار کے مطالبہ کے باوجود انہوں نے حدیث تو نہ پڑھی۔ البتہ ادھر ادھر کی چند باتیں کرکے کہا کہ بانی احمدیت کی نسبت انہیں زیادہ عربی آتی ہے۔ اس پر مولوی عبدالغفور صاحب نے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود کا ادنیٰ ترین خادم ہوں۔ آپ میرے ساتھ عربی میں مقابلہ کرلیجئے۔ آپ بھی عربی میں تقریر کریں میں بھی عربی میں کروں گا۔ اس پر اختر صاحب خاموش ہوگئے۔ )۳( اسی روز تیسرا مناظرہ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیال گڑھی نے >مسئلہ ختم نبوت< پر کیا۔ احرار کی طرف سے مولوی لال حسین صاحب اختر ہی پیش ہوئے۔ احمدی مبلغ کی پہلی تقریر نہایت معقول` مسکت اور مدلل تھی۔ احراری صدر قاضی احسان احمد صاحب شجاع آبادی نے مناظرہ بند کرانے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر عوام کے اصرار پر مناظرہ جاری رہا گو پانچ پانچ تقریروں کی بجائے تین اور دو تقریروں پر بتراضی فریقین مناظرہ کی کارروائی ختم کر دی گئی۔
اس مناظرہ میں علی پور کے علاوہ ڈیرہ نواب` اوچ شریف` جتوئی` ضلع مظفر گڑھ۔ ضلع ملتان` ضلع ڈیرہ غازی خاں اور ریاست بہاولپور سے بکثرت احمدی و غیر احمدی دوست شامل ہوئے جن کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔ ہر دو فریق کی طرف سے امن کی ذمہ داری ملک شیر محمد صاحب رئیس گھلواں نے لی۔ اس مناظرہ کے بعد احمدیت کی دعوت دور دور تک پہنچی۔ سمجھدار طبقہ تحقیق کی طرف مائل ہوگیا۔ مناظرہ کے دو روز بعد ایک صاحب داخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے اور سنجیدہ طبقہ نے یہ تاثر لیا کہ احمدی مبلغین کی تقریریں تو خالص علمی رنگ رکھتی تھیں مگر ان کے مقابل محض فحش کلامی اور بدزبانی میں مشاقی کا مظاہرہ کیا گیا۔۱۴۶
۶۔ مباحثہ بھدرواہ )ضلع اودھم پور:(۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں بھدرواہ کے مقام پر مولوی ابو البشارت عبدالغفور صاحب کا مولوی لال حسین صاحب اختر سے مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعود پر مناظرہ ہوا۔ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ طبقہ نے اقرار کیا کہ احمدی مبلغ کے دلائل کو توڑا نہیں جاسکا۔ فریق ثانی کا سارا زور عبارات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور بدزبانی کرنے میں صرف ہوا۔ جس پر ذمہ دار افسروں کو بار بار انتباہ کرنا پڑا۔۱۴۷
۷۔ مباحثہ کنری سندھ:۔ کنری میں ۵` ۶۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کو حنفیوں اور احمدیوں کے درمیان تینوں اختلافی مسائل پر نہایت شاندار اور کامیاب مناظرے ہوئے۔ حنفیوں کی طرف سے مولوی محمد عمر صاحب شیخوپوری اور احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد اسٰمعیل صاحب دیال گڑھی اور مولوی سید احمد علی صاحب مناظر تھے۔ سامعین کی تعداد سات سو سے ہزار تک ہوگی۔ ان مناظروں کے نتیجہ میں پبلک میں احمدیت سے متعلق خاص دلچسپی اور بیداری پیدا ہوگئی۔۱۴۸` ۱۴۹
چوتھا باب )فصل ششم(
تحصیل بٹالہ کا الیکشن اور احمدیہ جماعت۔ مسئلہ فلسطین پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر۔ اشاعت الفضل کی تحریک۔ سندھ میں بزرگوں کی یادگاریں۔ احمدیت کا پہلا انگریز واقف زندگی۔ یورپ میں نئے مشنوں کا قیام` انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی اور جماعت احمدیہ
خلافت ثانیہ کا تینتیسواں سال )۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش(
تحصیل بٹالہ کے اسمبلی الیکشن میں احمدی خواتین اور احمدی مردوں کے اخلاص کے شاندار کارنامے
اس سال کے شروع میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن ہوئے جس میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے خالص احمدیت کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے
اس الیکشن میں احمدی خواتین اور احمدی مردوں نے قربانی` ایثار اور اخلاص کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا کہ حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>عورتوں نے الیکشن میں قربانی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے اور بار بار جماعت کے سامنے اس واقعہ کو لایا جائے۔ انہوں نے بے نظیر قربانی اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کر دیا کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل گئی ہیں<۔4] ft[s۱۵۰
>عورتوں نے واقعہ میں نہایت اعلیٰ کام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں مجھے ایک اور مثال کا پتہ لگا جو حیرت انگیز تھی اور جس نے قادیان کی مثالوں کو بھی مات کر دیا۔ ہمارے جو آدمی الیکشن کے کام کے لئے گئے ہوئے تھے ان میں سے ایک نے سنایا کہ ایک گائوں میں ایک احمدی عورت ووٹر تھی جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔ ووٹ دینے کی مقررہ تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے اسے اسقاط حمل ہوگیا اور چونکہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وہ ووٹر ہے اس لئے ہم نے وہاں کوئی سواری نہ بھجوائی۔ اس دن جب کئی گھنٹے ووٹنگ پر گزر گئے تو ایک آدمی نے آکر بتایا کہ فلاں جگہ ایک عورت بے ہوش پڑی تھی اور لوگ اس کو اٹھا کر اس کے گائوں واپس لے گئے ہیں۔ اس کی باتوں سے پتہ لگتا تھا کہ وہ ووٹ دینے آئی تھی۔ چنانچہ ہمارے آدمی وہاں گئے لیکن وہ وہاں نہیں تھی۔ اس پر انہوں نے فوراً اس کے لئے اس کے گائوں میں سواری بھیجی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی اس بیماری کی حالت میں ہی چل پڑی اور اپنے گائوں سے دو میل دور آکر بے ہوش ہوکر گر پڑی۔ گائوں والوں نے اسے اٹھایا اور واپس لے گئے۔ لیکن جب اسے ہوش آیا تو وہ اٹھ کر پھر دوڑنے لگی اور کہا کہ میں نے تو ووٹ دینا ہے۔ اس اثناء میں سواری بھی پہنچ گئی اور وہ اس پر سوار ہوکر ووٹ دینے آگئی۔ اس نے بتایا کہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ خلیفہ~ن۲~ المسیح نے کہا ہے کہ جس سے ممکن ہو وہ ووٹ دینے کے لئے ضرور پہنچ جائے اس لئے میں اپنا سارا زور لگانا چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح ووٹ دے آئوں۔ اس عرصہ میں بیرونجات سے آنے والے لوگوں میں سے بھی بعض کی مثالیں بڑی شاندار معلوم ہوئی ہیں۔ کل ہی مجھے ایک فوجی کا خط ملا ہے۔ وہ انبالہ میں تھا یہاں سے اسے تار گیا کہ تمہارا ووٹ ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے جو چٹھی جاتی ہے وہ نہیں گئی۔ وہ خط میں لکھتے ہیں کہ جب تار وہاں پہنچا تو دفتر کا افسر جو ہندو تھا چونکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں ووٹ کے لئے جائوں اس نے تار دبا دی۔ کرنل چھٹی پر جارہا تھا جب وہ چلا گیا تو اس نے تار مجھے دکھائی میں نے وہ تار اپنے نچلے افسر کو دکھائی وہ کہنے لگا کہ میں تو رخصت نہیں دے سکتا بڑے افسر کے پاس جائو۔ میں اس بڑے افسر کے پاس گیا تو اس نے کہا کہ کرنل کی موجودگی میں چھٹی مل سکتی تھی مگر اب کیا ہوسکتا ہے۔ پھر اس نے کہا یہ تو بناوٹی تار ہے۔ میں نے کہا میرا ووٹ ہے اور وہاں سے تار آیا ہے۔ بناوٹی نہیں۔ انہوں نے کہا کچھ بھی ہو تمہیں چھٹی نہیں مل سکتی۔ میں وہاں سے آکر سیدھا سٹیشن کی طرف بھاگا اور ریل میں سوار ہوا۔ امرتسر پہنچا تو بٹالہ کی ریل روانہ ہوچکی تھی وہاں سے دوڑ کر لاری لی۔ جب لاری بٹالہ پہنچی تو قادیان کی ریل روانہ ہوچکی تھی۔ اس پر بٹالہ سے قادیان پیدل روانہ ہوا اور دوڑتے ہوئے قادیان پہنچ کر اپنا ووٹ دیا۔ انہوں نے جگہ کا نام تو نہیں بتایا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیان میں ہی آئے تھے کیونکہ وہ لکھتے ہیں کہ میں ووٹ دے کر خلیل احمد صاحب ناصر کے پاس جو انچارج تھے آیا اور کہا کہ ایسا واقع ہوا ہے انہوں نے کہا کوئی بات نہیں تم چلے جائو۔ میں واپس آیا تو پہلے تو مجھے قید کر دیا گیا کہ تم بغیر چھٹی کیوں گئے تھے۔ پھر میرا رینک توڑ کر مجھے سپاہی بنا دیا گیا۔ اب دیکھو یہ دوست فوجی تھے اور جانتے تھے کہ اگر میں بلا اجازت چلا گیا تو مجھے قید کی سزا ملے گی۔ مگر باوجود اس کے وہ بھاگ کر یہاں پہنچے اور ووٹ دیا۔ یہی اخلاص ہے جو قوموں کو کامیاب کیا کرتا ہے۔ لوگ تو مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ تم جنت کا لالچ دیکر یا دوزخ سے ڈرا کر کام لیتے ہو حالانکہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرانے کے قائل ہی نہیں۔ نہ مذہبی طور پر اور نہ سیاسی طور پر۔ اگر ہم دشمن کو دوزخ سے ڈرائیں تو احمدیوں کو تو ووٹ ملنا بالکل ہی ناممکن ہو جائے۔ کیونکہ احمدیوں کی تعداد دوسرے مسلمانوں سے بہت ہی کم ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمیں یہ ضرورت ہی نہیں کہ ہم کسی کو دوزخ سے ڈرائیں یا جنت کا لالچ دلا کر کام کرائیں کیونکہ ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قومی بیداری اس قسم کی پیدا ہوچکی ہے کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ فلاں کام دینوی ہے۔ اکثر لوگ اس کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ دینوی حقوق کو محفوظ کرنا بھی ثواب کا کام ہوتا ہے۔ اسی طرح میرے خطبہ کے بعد قادیان والوں نے بھی فرض شناسی سے کام لیا اور انہوں نے چالیس کے قریب سائیکل چند گھنٹوں کے اندر اندر میاں بشیر احمد صاحب کے پاس پہنچا دیئے۔ اسی طرح بہت سے آدمیوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور فوراً بیرونجات میں چلے گئے۔ آج الیکشن کے سلسلہ میں ہمارے کارکن مجھے ملنے آئے تو انہوں نے کہا کہ گائوں کے احمدیوں نے تو کمال کردیا۔ وہ سارے علاقہ میں ٹڈی دل کی طرح پھیل گئے تھے بالخصوص گائوں کے لوگوں نے اور اس سے بھی زیادہ خصوصیت کے ساتھ ونجواں کھوکھر اور لودی ننگل` خاں فتح ننگل` اٹھوال` گلانوالی` دھرم کوٹ` قلعہ ٹیک سنگھ وغیرہ وغیرہ۔ تلونڈی والوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ لیکن اتنا نہیں جتنی ان سے امید کی جاتی تھی۔ مگر بہرحال انہوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ نکموں میں سے نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض اور جماعتوں نے بھی بڑا عمدہ کام کیا ہے لیکن اس وقت مجھے ان کے نام یاد نہیں رہے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء ان سب نے اس بات کا ثبوت دے دیا ہے کہ جب مومن کام کرنے پر آتا ہے تو وہ ہر قسم کے عواقب سے نڈر ہوکر کام کرتا ہے۔ ونجواں میں مخالفین کی شرارت پر پولیس نے احمدیوں کے ووٹوں کو روکنے کی کوشش کی۔ مگر نوجوان مقابلہ کے لئے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تو اپنے آدمی لے کر جانے ہیں خواہ پولیس دخل اندازی ہی کیوں نہ کرے۔ پولیس نے ایک دو ووٹروں کو روکے رکھا اور باقیوں کو چھوڑ دیا۔ لیکن جب ہمارے دوسرے آدمی پہنچ گئے تو باقیوں کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ بہرحال جماعت نے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے۔ جہاں تک الیکشن کروانے کا سوال ھا جماعت نے اپنی قربانی میں کوئی نہیں چھوڑی اور بے مثال قربانی کرکے جماعت کی ترقی کے لئے ایک راستہ کھول دیا ہے<۔۱۵۱
مسئلہ فلسطین پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر
چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا نے >مسئلہ فلسطین< کے مضمون پر وائی ایم سی اے ہال لاہور میں ۲۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو ایک نہایت اہم اور معلومات افزا تقریر فرمائی جس کا اہتمام نوجوانان احمدیت کی بین الکلیاتی تنظیم >احمدیہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن< نے کیا اور صدارت کے فرائض جناب ڈاکٹر ای۔ ڈی لوکس وائس پرنسپل ایف سی کالج لاہور نے انجام دیئے۔
اخبار >انقلاب< )لاہور( نے اس تقریر کا ملخص حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا۔
>برطانیہ اور امریکہ یہودی سرمایہ کے اثر کے باعث آزادانہ طور پر کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔ سیاسی حلقہ میں بھی یہودیوں کا اثر کم نہیں ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کے دارالعوام میں ۲۵ یہودی ممبر ہیں۔ دو یہودی وزیر اور ایک یہودی سیکرٹری آف سٹیٹ۔ اسی طرح امریکہ میں بھی وہ ملک کی سیاسی مشین پر اثر انداز ہیں۔
آپ نے کہا کہ یہ سوال کہ کیا فلسطین ان ملکوں میں شامل تھا جن کے بارے میں گزشتہ جنگ کے آغاز میں حکومت برطانیہ نے عربوں کو آزادی کا یقین دلایا تھا۔ آج تیس سال کے بعد بھی حل نہیں ہوسکا۔ فلسطین میں گزشتہ ۲۱ سال کی بدامنی اور ناخوشگوار حالات کے باوجود حکومت برطانیہ اس مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کرسکی۔ پہلی عالمگیر جنگ سے موجودہ وقت تک فلسطین کی سیاسیات کا جائزہ لینے کے بعد سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کہا کہ فلسطین کے عرب حسب ذیل چار وعدوں کی بناء پر جو کہ حکومت برطانیہ نے ان سے کئے تھے فلسطین میں ایک عرب ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اول:]0 [stf پہلی عالمگیر جنگ کے شروع میں برطانیہ نے جن عرب ممالک سے آزادی کا مطالبہ کیا تھا فلسطین بھی ان میں شامل تھا۔
دوئم: حکومت برطانیہ نے اپنے پہلے وعدے کو اس اعلان سے مضبوط کیا کہ جنگ کے بعد عرب ممالک میں وہاں کے لوگوں کے مشورہ کے بغیر کوئی حکومت قائم نہیں کی جائے گی۔
سوئم: بالفور اعلان کا یہ مفہوم نہیں تھا جو یہودی اخذ کرتے ہیں کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔
چہارم: عربوں کا مطالبہ ہے کہ ۱۹۳۹ء کا قرطاس ابیض ایک قسم کا آخری فیصلہ تھا اور یہودی اس کی مخالفت میں حق بجانب نہیں ہیں۔
سر محمد ظفر اللہ خاں نے شریف مکہ اور مصر میں برطانی ہائی کمشنر کے مابین عرب ممالک کی آزادی کے بارے میں خط و کتابت کا بتفصیل ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شریف مکہ نے مطالبہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر عرب ممالک کو آزاد کیا جائے اور کہا تھا کہ عربوں کا یہ مطالبہ ان کی زندگی کا جزو اعظم بن چکا ہے اور اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ حکومت برطانیہ نے ہائی کمشنر کی معرفت اس مطالبہ کو پورا کرنے کا یقین دلایا تھا۔ آج عرب اسی خط و کتابت کی بناء پر فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ فلسطین بھی ان ممالک میں شامل تھا جن کے بارے میں شریف مکہ نے حکومت برطانیہ سے ضمانت مانگی تھی۔
فلسطین میں یہودیوں کے قیام کے متعلق دیگر عرب ممالک کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ عرب یہودیوں کے نام سے متنفر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم ہوگئی تو پھر وہ ہمسایہ عرب ممالک سے بھی علاقوں کا مطالبہ کریں گے اور نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
اگرچہ یہودی اس امر کا یقین دلائیں اس لئے کہ وہ عربوں کے مفاد کی حفاظت کریں گے لیکن باہمی عناد کا جذبہ اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ کسی مفاہمت کی کوئی امید نہیں ہے۔ یہودی اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ اگر ممکن ہوسکے تو طاقت کے استعمال سے یہودی ریاست قائم کریں گے۔
سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کہا کہ فلسطین کی سترہ لاکھ پچاس ہزار کی کل آبادی میں چھ لاکھ اور پچاس ہزار یہودی ہیں۔ اور وہ ملک کی اقتصادی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں اور اگر یہودیوں کا فلسطین میں داخلہ بند بھی کر دیا گیا تو وہ سیاسی اور اقتصادی طور پر عربوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بنا رہے ہیں۔ عرب اس صورت حالات سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس خطرہ کو مٹانے کا عزم کئے ہوئے ہیں<۔۱۵۲
سلسلہ احمدیہ کے مخلص اور فدائی بزرگوں کی سندھ میں یادگاریں
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود ۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو قادیان سے سندھ تشریف لے گئے اور ۳۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو قادیان میں رونق افروز ہوئے۔۱۵۳
اس سفر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ حضور نے ۲۲۔ امان کو محمد آباد اسٹیٹ کی بعض اور گوٹھوں )یعنی گائوں( کے نام بزرگان سلسلہ کے ناموں پر تجویز فرمائے جو یہ تھے۔ نورنگر` کریم نگر` لطیف نگر` روشن نگر` برہان نگر` اسحٰق نگر۔ چنانچہ حضور نے اسی روز خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کی یادگار کو تازہ رکھنے کے لئے میں نے سلسلہ کی جائیداد کے مختلف گائوں کے نام` بزرگوں کے ناموں پر رکھنا تجویز کیا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ چونکہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے آپ کے نام پر اس گائوں کا نام جو تحریک کی جائیداد کا مرکز ہے محمد آباد رکھا گیا ہے۔ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کے مرکز کا نام احمد آباد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نام پر رکھا گیا ہے۔ محمد آباد آٹھ ہزار ایکڑ کا رقبہ ہے۔ اس لحاظ سے میرا خیال ہے اس میں چھ سات گائوں اور آباد ہوسکتے ہیں۔ اس وقت جو آبادیاں یہاں قائم ہوچکی ہیں ان میں سے ایک کا نام پہلے سے حضرت خلیفہ اولؓ کے نام پر نور نگر ہے۔ اب شمالی حلقہ کی ایک آبادی جو سٹیشن کے پاس ہے اس کا نام کریم نگر رکھا گیا ہے اور مغربی طرف کی دو آبادیوں میں سے ایک کا نام لطیف نگر صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی یاد میں اور ایک کا نام روشن نگر حافظ روشن علی صاحبؓ کی یادگار میں رکھا گیا ہے۔ پہلے میں نے ان ناموں کے ساتھ آباد لگایا تھا مگر پھر اسے نگر میں تبدیل کر دیا تاکہ محمد آباد نام کے لحاظ سے بھی اپنے حلقہ میں ممتاز ہو جس طرح رسول کریم~صل۱~ سورج ہیں اور یہ لوگ ستارے ہیں اسی طرح محمد آباد بطور سورج کے ہو اور اس کے اردگرد باقی گائوں بطور ستاروں کے ہوں میرا ارادہ بعض اور نام بھی رکھنے کا ہے مثلاً برہان نگر مولوی برہان الدین صاحب کے نام پر اور اسحٰق نگر میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم کے نام پر۔ اسی طرح ایک دو گائوں احمد آباد کی زمین میں بھی آباد ہوسکتے ہیں ان کے ساتھ بھی نگر لگایا جائے گا اور جو گائوں احمد آباد میں آباد ہوں گے ان کے نام بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے والوں کے نام پر رکھے جائیں گے۔ ان گائوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں گے۔ کیونکہ ایک وہ دن تھا کہ قادیان میں اگر تین چار سو روپیہ چندہ آجاتا تھا تو بڑی ترقی سمجھی جاتی تھی اور آج یہ دن آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سلسلہ کو لاکھوں لاکھ کی جائیدادیں دی ہیں اور قربانی کرنے والوں کے نام پر گائوں آباد ہورہے ہیں<۔۱۵۴
احمدیت کا سب سے پہلا انگریز واقف زندگی
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ یورپین لوگوں میں سے احمدیت کے لئے زندگی وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے چنانچہ حضور نے ۲۳۔ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
>ہم ہمیشہ دعا کرتے ہیں اور ہماری ہمیشہ سے یہ آرزو ہے کہ یورپین لوگوں میں سے کوئی ایسا نکلے جو اس سلسلہ کے لئے زندگی کا حصہ وقف کرے لیکن ایسے شخص کے لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ صحبت میں رہ کر رفتہ رفتہ وہ تمام ضروری اصول سیکھ لیوے جن سے اہل اسلام پر سے ہر ایک داغ دور ہوسکتا ہے اور وہ تمام قوت و شوکت سے بھرے ہوئے دلائل سمجھ لیوے جن سے یہ مرحلہ طے ہوسکتا ہے۔ تب وہ دوسرے ممالک میں جاکر اس خدمت کو ادا کرسکتا ہے۔ اس خدمت کے برداشت کرنے کے لئے ایک پاک اور قوی روح کی ضرورت ہے جس میں یہ ہوگی وہ اعلیٰ درجہ کا مفید انسان ہوگا اور خدا کے نزدیک آسمان پر ایک عظیم الشان انسان قرار دیا جاوے گا<۔۱۵۵
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعائوں کا پہلا ثمر عہد مصلح موعود میں جان برین آرچرڈ ORCHARD) BREN (JOHN بنے جو ۱۹۴۴ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لیفٹیننٹ تھے اور ہندوستان اور برما کی سرحد پر لڑنے والی ۱۴ آرمی میں متعین تھے کہ اسی دوران میں انہیں ایک احمدی حوالدار کلرک عبدالرحمن صاحب دہلوی کے ذریعہ اسلام و احمدیت کا پیغام ملا جس پر آپ ۱۹۴۵ء میں خفیہ طور پر قادیان پہنچے اور حضرت مصلح موعود کی زیارت سے مشرف ہوئے اور پھر دوبارہ قادیان آکر حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ حضور نے آپ کا اسلامی نام بشیر آرچرڈ رکھا۔
بشیر آرچرڈ صاحب کا پہلا سفر قادیان اور اس کا پس منظر
بشیر آرچرڈ کو احمدیت کا پیغام کیسے پہنچا اور ان کو قادیان جانے کی تحریک کیسے ہوئی اس کی تفصیل جناب عبدالرحمن صاحب دہلوی۱۵۶ کے الفاظ میں لکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آپ لکھتے ہیں۔
>جس کمپنی کے ساتھ ہم نے اشتراک کیا اس میں ایک انگریز لیفٹیننٹ تھے جن کا نام ORCHARD BREN JOHN تھا۔ یہ پہلے ڈوگرہ رجمنٹ میں تھے۔ اس کے بعد آئی۔ اے۔ او۔ سی میں ATTACH )منسلک( ہوگئے تھے۔ یہ افسر ہر ہفتہ اپنے والد صاحب کو چھ سات صفحہ کا ایک خط لکھا کرتے تھے۔ جس میں وہ ہندوستان کی تاریخ مرتب کیا کرتے تھے۔ غالباً ان کا ارادہ ہندوستان کی تاریخ چھپوانے کا تھا۔ جب ۱۹۴۴ء میں جاپانیوں نے اتحادیوں پر سخت حملہ کر دیا اور رمفال کو گھیرے میں لے لیا اور ان ایام کی ایک شام کا ذکر ہے کہ میں گارڈ کمانڈر تھا۔ لیفٹیننٹ آرچرڈ اپنے بنکر (BUNKER) سے باہر نکلے۔ میں نے ان کو سلیوٹ کیا اور ان سے کہا کہ میں نے سنا ہے آپ ہندوستان کی تاریخ لکھ رہے ہیں لیکن آپ کی تاریخ اس وقت تک نامکمل رہے گی جب تک کہ آپ تاریخ کے اس اہم واقعہ کو درج نہ کریں جو ہندوستان کی سرزمین پر واقع ہوا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ وہ اہم واقع کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مسیح نے نئے عہد نامہ میں جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگیا یعنی مسیح نے کہا تھا >اس وقت تک انتظار کرو کہ میں دوبارہ آئوں<۔ لٰہذا مسیح ہندوستان کی سرزمین کے ایک گائوں قادیان میں آگیا ہے۔ آپ اس واقع کو اپنی تاریخ میں ضرور بیان کریں۔ انہوں نے جواب دیا >اس وقت تو میں حاضری CALL) (ROOL پر جارہا ہوں کیونکہ آج میں آرڈرلی آفیسر(OFFICEROFTHEDAY) ہوں۔ پھر کسی وقت بات کروں گا کیونکہ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی اس کے بعد وہ شام کی گنتی )حاضری( سے فارغ ہوکر آئے اور انہوں نے بہت سے سوالات کئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ احمدیہ لٹریچر پڑھنا چاہتے ہیں۔ چونکہ فوج میں مذہب کی تبلیغ اس وقت بھی منع تھی اور آج بھی منع ہے۔ لٰہذا میں نے ان سے کہا کہ ہماری جماعت کے مبلغین میں سے ایک مبلغ ڈاکٹر مفتی محمدصادق صاحب ہیں آپ ان سے خط و کتابت کریں وہ آپ کو نہ صرف یہ کہ لٹریچر پڑھنے کے لئے دیں گے بلکہ آپ کے شکوک و شبہات بھی دور فرمائیں گے۔ لیفٹیننٹ صاحب نے کہا کہ اچھا مفتی صاحب سے میرا تعارف کروا دو۔
مفتی محمد صادق صاحب کی خدمت میں میں نے تحریر کیا کہ براہ مہربانی آپ ان لیفٹیننٹ صاحب کو ایک جلد >اسلامی اصول کی فلاسفی< اور ایک جلد >احمدیت یا حقیقی اسلام< روانہ کر دیں۔ کتابوں کی قیمت اور خط و کتابت کے سلسلہ میں جو خرچ ہوگا وہ میں آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ تقریباً ایک ڈیڑھ ہفتہ کے بعد لیفٹیننٹ صاحب کو مفتی صاحب کی طرف سے ایک خط اور ایک کتابوں کا پارسل موصول ہوا جس کا انہوں نے مجھ سے تذکرہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ شروع کر دیا۔
ایک دن لیفٹیننٹ صاحب کھڑے ہوئے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھ رہے تھے۔ میں ادھر سے گزرا۔ انہوں نے مجھ سے باتیں شروع کر دیں کہ اسلام کی تعلیم تو اچھی ہے مگر ایک بری بات یہ تھی کہ اسلام عیسائیت پر حملے بہت کرتا ہے۔ جواباً میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ کا فرض یہ ہے کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں کہ اسلام کے یہ حملے صحیح ہیں یا غلط۔ اتنے میں ایک اور لیفٹیننٹ صاحب جن کا نام محمد غفار علوی ہے )یہ صاحب پاکستان آرمی میں میجر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے ہیں( ادھر آنکلے۔ آرچرڈ صاحب نے ان سے کچھ گفتگو شروع کر دی اور ان سے بھی یہی مذکورہ بالا سوال دھرایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ باتیں آپ عبدالرحمن سے ہی پوچھیں۔ یہی آپ کو بتائے گا۔ میں نے کہا کہ اگر کوئی شخص چور ہو تو اسے چور کہنا حملہ کرنا نہیں ہے بلکہ امر واقعہ کا اظہار ہے۔ ہاں کسی ایسے شخص کو چور کہنا جو چور نہ ہو یہ الزام اور حملہ ہے اور ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اب آپ اس کتاب کو اس نظریہ کے ساتھ مطالعہ کریں کہ کیا اسلام عیسائیت کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے وہ حقیقت ہے یا نہیں اگر حقیقت ہے تو اس کو حملہ نہیں کہہ سکتے اور اگر حقیقت نہیں تو واقعی حملہ ہے اور اسلام کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
ایک دن لیفٹیننٹ آرچرڈ نے مجھ سے کہا کہ کیا تم مجھے اردو پڑھا دو گے۔ میں نے جواب دیا کہ دفتر کے وقت تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔ ہاں اگر آپ صبح پی۔ ٹی )فزیکل ٹریننگ( کے وقت چاہیں تو میں آپ کی خدمت کرسکتا ہوں۔ چنانچہ میرے سیکشن آفیسر COMMANDING) RECIF(OF کیپٹن راجندر سنگھ نے مجھے اجازت دے دی اور میں نے آرچرڈ صاحب کو اردو پڑھانی شروع کر دی۔ ایک دن لیفٹیننٹ صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمہاری جماعت دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کچھ کررہی ہے مثلاً یہی کہ اتنا قیمتی لٹریچر مفت تقسیم کرتی ہے۔ کیا میں اس کا ممبر بن سکتا ہوں؟ میں نے کہا شوق سے۔ کہنے لگے مگر میں مسلمان نہیں بنوں گا۔ میں نے کہا کہ جب آپ اس جماعت میں داخل ہوں گے تو پہلی چیز جس کا آپ کو اقرار کرنا ہوگا وہ ہے۔ >اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔ اور جو شخص اس کلمہ کو پڑھ کر اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہوتا ہے کہنے لگے تو پھر میں اس جماعت میں داخل نہیں ہوتا۔ اگر میں اس جماعت کی کچھ روپے سے مدد کرنا چاہوں تو کیا میرا روپیہ قبول کیا جائے گا؟ میں نے کہا یقیناً۔ اس پر وہ بولے کہ میں سو روپیہ دینا چاہتا ہوں۔ ایک صبح جب وہ مجھ سے اردو پڑھ رہے تھے تو باتوں باتوں میں آواگون کا ذکر چھڑ گیا کہنے لگے کہ آواگون کے مسئلہ کا میں قائل ہوں۔ میں نے ایک مثال پیش کی کہ اگر ایک سپاہی کوئی غلطی کرے اور اس کی پاداش میں اس کو سزا دی جائے لیکن سزا دینے سے قبل آپ اگر اس کے دماغ کو مسمرائز کردیں )کیونکہ لیفٹیننٹ صاحب مسمریزم کے ماہر تھے( اور اس کی سزا بھگتنے کے بعد اگر آپ مسمریزم کا وہ اثر اس کے دماغ سے دور کردیں تو کیا اس سپاہی کو سزا دینا کوئی عقلمندی کی بات ہے یا اس کا کوئی معقول نتیجہ نکل سکتا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں۔ میں نے کہا۔ بس یہی حالت آواگون کی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ جانتا کہ وہ پچھلے جنم میں کیا تھا اور کس گناہ یا نیکی کے بدلے میں موجودہ جون اختیار کی گئی ہے تو پھر خداوند تعالیٰ کا یہ فعل درست تھا لیکن موجودہ صورت میں جبکہ کسی ذی روح کو اپنی گزشتہ جون کی نیکی یا بدی کا کوئی علم نہیں۔ خداوند تعالیٰ کا یہ فعل عبث ٹھہرتا ہے۔ وہ اسی وقت بول اٹھے کہ ٹھیک ہے۔ میں سمجھ گیا کہ آواگون کا مسئلہ غلط ہے۔
ایک دفعہ آرڈر آیا کہ یورپین فوجی جو ہندوستان میں چھٹی گزارنا چاہتے ہیں وہ ۲۸ دن کی چھٹی پر ہندوستان جاسکتے ہیں۔ ایک دن لیفٹیننٹ صاحب دفتر میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں ہندوستان چھٹی جارہا ہوں میں نے دریافت کیا کہ ہندوستان میں چھٹی کہاں گزاریں گے۔ کہنے لگے کہ میرا ایک ہندو دوست ہے۔ وہ ڈوگرہ رجمنٹ میں لیفٹیننٹ ہے اور خرجہ]10 [p۱۵۷ میں رہتا ہے اس کے مکان پر۔ میں نے کہا یہ تو بہت اچھا موقع ہے آپ قادیان بھی دیکھتے آئیں۔ مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسرے دن صبح جب میں انہیں پڑھانے گیا تو اس وقت پھر قادیان کا تذکرہ ہوا۔ کہنے لگے کہ خرجہ سے قادیان تک کا اگر فرسٹ کلاس کا کرایہ دلوائو تو میں چلا جائوں میں نے کہا آپ ریلوے کا پاس بجائے خرجہ کے قادیان کا بنوالیں۔ کہنے لگے وہ تو اب تیار ہوچکا ہے۔ میں نے کہا کہ میں اسے منسوخ کروا کے دوسرا بنوا دوں گا۔ بولے کہ میں کسی کو یہ بتانا بھی نہیں چاہتا کہ میں قادیان جارہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ اچھا پھر وہ سو روپیہ جو آپ انجمن احمدیہ کو دے رہے تھے آپ اس میں سے ٹکٹ خرید لیں اس پر ہنستے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم روپیہ دینا نہیں چاہتے۔ پھر انہوں نے دریافت کیا کہ قادیان میں میرے ٹھہرنے کا کیا بندوبست ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ اگر آپ دیسی رہائش اور دیسی کھانا پسند کریں تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر ٹھہرنے کا بندوبست ہو جائے گا اور اگر آپ انگریزی کھانا اور رہائش چاہتے ہیں تو پھر چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہاں مفتی صاحب آپ کا بندوبست کردیں گے۔ )بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے مہمان خانے کی رہائش کو ترجیح دی اور وہیں قیام کیا( لیفٹیننٹ صاحب نے مجھے پروگرام دے دیا اور وہ پروگرام میں نے مفتی صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیا۔ جس میں مفتی صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ وقت مقررہ پر کسی آدمی کو ریلوے سٹیشن پر بھیج دیں۔
لیفٹیننٹ صاحب کے پروگرام کے مطابق انہیں قادیان صبح کی گاڑی سے پہنچنا تھا مگر کسی غلط فہمی کی بناء پر پروگرام کے خلاف وہ بارہ گھنٹے قبل شام کی گاڑی سے قادیان پہنچ گئے اور اسٹیشن پر کسی لڑکے سے انہوں نے مفتی صاحب کے مکان کا پتہ دریافت کیا۔ اس سعادت مند لڑکے نے لیفٹیننٹ صاحب کو اپنے ہمراہ لیا اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے مکان پر پہنچا دیا<۔
بشیر آرچرڈ صاحب کے خود نوشت حالات
بشیر آرچرڈ صاحب نے انگریزی میں اپنے قبول احمدیت کے مختصر حالات لکھے ہیں۔ جن کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>جن حالات میں مجھ کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو سمجھنے کی توفیق ملی وہ غیر معمولی تھے۔ ہوا یوں کہ میں جب ۱۹۴۴ء میں ہند برما کی سرحد پر ۱۴ آرمی میں متعین تھا۔ مجھ کو فوج کی طرف سے دو ہفتے کی چھٹی کا حق دیا گیا کہ کہیں جاکر آرام کرسکوں۔ لیکن ہندوستان میں میری کہیں واقفیت نہ تھی کہ وہاں جاکر وقت گزار سکتا۔ اندریں حالات میری یونٹ کے ایک حوالدار کلرک نے مجھ کو تحریص دلائی کہ میں یہ چھٹیاں قادیان میں جاکر ایک شریف النفس انسان )محمد( صادق کے ساتھ گزاروں۔ برما کی سرحد سے قادیان کا فاصلہ اس قدر زیادہ تھا کہ اتنے لمبے سفر کے خیال سے میں تذبذب میں پڑ گیا۔ لیکن اس کے چہرہ پر سخت ناخوشگواری کے آثار دیکھ کر آخر کار مجھ کو اس کی بات ماننا ہی پڑی۔ منی پور کے جنگی محاذ کی پہاڑیوں سے پنجاب کے وسیع و عریض میدانوں تک کا سفر آٹھ دن میں ختم ہوا۔ قادیان کے ریلوے
‏vat,10.32
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر اطمینان کا سانس لیا اور ایک تانگے والے سے کہا کہ مجھ کو مفتی صادق صاحب کے گھر لے چلو۔ ان کے گھر پہنچ کر میں ایک سفید ریش بزرگ سے متعارف ہوا اور میرے خیال میں ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ایک خاص محویت طاری ہوگئی۔
قادیان کی زیارت نے مجھ پر ایک گہرا اثر ڈالا کیونکہ اسلام کو اس روشنی میں دیکھنے کا موقع ملا جو اس سے پیشتر کہیں میسر نہ آئی تھی۔ اس نیک اثر سے جو اس جگہ نے اور وہاں کے لوگوں نے جن سے مجھ کو ملنے کا موقع ملا میرے دلمیں ایک خاص رشتہ الفت پیدا کر دیا۔ اس وقت مجھ کو نہ اسلام کی دینیات سے پوری طرح آگاہی تھی اور نہ ہی میں نے مذاہب کے بارے میں تقابلی مطالعہ کیا تھا اس لئے دلائل و براہین کی بحث میرے لئے اسلام کا اثر قبول کرنے میں اس قدر ممد ثابت نہ ہوئی جتنا کہ اس کے ثمرات نے مجھ کو متاثر کیا جو مجھ کو کہیں اور نہ ملے تھے۔
میرے اس مختصر قیام کے دوران مجھ کو تقدس ماب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کو دیکھتے ہی مجھ کو یہ احساس ہوا کہ میں ایک روحانی شخصیت کے حضور بیٹھا ہوں۔ یہ احساس آپ کی کسی گفتگو کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اس کے دو نہایت قوی موجبات تھے۔ ایک تو آپ کی روحانی وضع قطع تھی اور دوسرے غیر مرئی طور پر آپ کے وجود سے نہایت تیز روحانی کرنیں نکلتی محسوس ہورہی تھیں۔ اگرچہ آپ اس مادی دنیا میں رہ رہے تھے لیکن صاف ظاہر تھا کہ آپ کا تعلق عالم روحانیت سے ہے۔
چونکہ مجھ کو اپنا بیان نہایت مختصراً عرض کرنا ہے گویا کہ اس لمبی کہانی کو کہ میں کس طرح گرجا سے مسجد کی طرف آیا۔ بیان کرنے میں دریا کو کوزہ میں بند کرنا مراد ہے تو پھر اس پر اکتفا کرتا ہوں کہ مجھ کو تو بس اسلام نے اپنی مقناطیسی قوت سے ازخود اپنی طرف کھینچ لیا۔۱۵۸
حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے بشیر آرچرڈ کی پہلی ملاقات اور قبول اسلام کا ایمان افروز واقعہ
حضرت مصلح موعود ان کی پہلی ملاقات اور پھر قبول اسلام کے بعد ان کے اندر تغیر عظیم کے پیدا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتیہیں۔
>گزشتہ جنگ میں بشیر آرچرڈ ایک انگریز احمدی ہوئے۔ پہلے پہل جب وہ قادیان مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے خیالات اس قسم کے تھے کہ میں ایک نیا مذہب نکالوں گا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اسلام کا بھی مطالعہ کیا ہے اور مجھے اس میں کئی اچھی باتیں نظر آئی ہیں اور میں نے ہندو مذہب کو دیکھا تو مجھے اس میں بھی کئی اچھی باتیں نظر آئی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسا طریق نکالوں جس میں تمام اچھی باتوں کو جمع کر دیا جائے۔ میں انہیں سمجھاتا رہا مگر وہ یہی کہتے رہے کہ میری تسلی نہیں ہوئی۔
جب وہ یہاں سے چلے گئے تو کچھ عرصہ کے بعد مجھے ان کا خط ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا بات ہے۔ وہ تو کسی مذہب پر خوش نہ تھے۔ بعد میں وہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے تمام واقعات سنائے اور بتایا کہ یہاں رہ کر مجھے احساس نہیں ہوا کہ میں کس فضا میں اپنے دن گزار رہا ہوں۔ مگر جب یہاں سے گیا اور امرتسر پہنچا تو چونکہ قادیان میں سات آٹھ دن میں نے شراب نہیں پی تھی اس لئے مجھے شراب پینے کا شوق تھا۔ وہاں بعض اور انگریز دوستوں کے ساتھ میں کھانے کے کمرہ میں گیا انہوں نے بھی شراب کا آرڈر دیا اور میں نے بھی شراب کا آرڈر دے دیا مگر پھر مجھے خیال آیا کہ سات آٹھ دن میں نے شراب نہیں پی تو مجھے کچھ نہیں ہوا۔ اگر کچھ اور دن بھی میں شراب چھوڑ کر دیکھوں تو کیا حرج ہے۔ چنانچہ میں نے شراب کا آرڈر منسوخ کر دیا۔ یہ پہلی تبدیلی تھی جو میرے اندر واقع ہوئی۔ اس کے بعد میں برابر شراب سے بچتا رہا۔ فوج میں گیا تو وہاں میرے انگریز دوستوں نے مجھ سے تمسخر شروع کر دیا اور کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ تم کب تک شراب نہیں پیو گے۔ اس سے میں اور زیادہ پختہ ہوگیا اور آخر رفتہ رفتہ میری ایسی حالت ہوگئی کہ مجھے شراب کی حاجت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی اس کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ یہ محض قادیان جانے کی برکت ہے کہ شراب کی عادت جاتی رہی۔ پھر میں نے زیادہ سنجیدگی سے اسلام اور احمدیت کا مطالعہ کیا۔ حقیقت مجھ پر کھل گئی اور میں نے اسلام قبول کرلیا۔ وہاں سے ان کی راولپنڈی تبدیلی ہوگئی وہاں بھی انگریز ان کو برابر تنگ کرتے اور قسم قسم کی تدابیر سے ان کو اپنی طرف مائل ¶کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اسلام پر زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتے چلے گئے۔ نمازیں انہوں نے باقاعدگی کے ساتھ شروع کر دیں اور ڈاڑھی بھی رکھ لی۔ اس پر انگریز انہیں اور زیادہ تنگ کرتے۔ کبھی نماز پر تمسخر شروع کر دیتے` کبھی ڈاڑھی پر اعتراض کرتے کبھی کھانے پر جھگڑا شروع کر دیتے۔ آخر انہوں نے ملازمت چھوڑی اور اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کر دی۔ اب وہ انگلستان میں اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں اور محض روٹی کپڑا ان کو دیا جاتا ہے۔ اس شخص کی حالت یہ ہے کہ یہ باقاعدہ تہجد پڑھتا ہے۔ نمازیں باجماعت ادا کرتا ہے۔ لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے منہ پر ڈاڑھی رکھتا ہے اور اس کی شکل دیکھ کر سوائے چہرہ کے رنگ کے کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ انگریز ہے بلکہ ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ یہ بہت پرانا مسلمان ہے۔ اگر یورپ کا رہنے والا ایک شخص اپنے اندر اتنا تغیر پیدا کرسکتا ہے کہ وہ نمازوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ تہجد ادا کرتا ہے اور تمام شعار اسلامی کو خوشی کے ساتھ اختیار کرتا ہے تو ہندوستان یا کسی اور ملک کا رہنے والا کیوں ان باتوں پر عمل نہیں کرسکتا<۔۱۵۹
خاتمہ جنگ کے بعد مسٹر بشیر آرچرڈ ۲۱۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو انگلستان پہنچے اور انگلستان کی مادی فوج سے نکل کر محمد رسول اللہﷺ~ کی آسمانی فوج میں داخل ہوگئے۔ یعنی آپ نے اپنی زندگی اسلام و احمدیت کے لئے وقف کر دی۔۱۶۰ جس پر آپ یکم ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر مرکز احمدیت قادیان میں بغرض تعلیم تشریف لائے۔۱۶۱
حضرت مصلح موعود کی تقریر مسٹر بشیر آرچرڈ کی دعوت کی تقریب پر
۴۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو آپ کے اعزاز میں ایک دعوت دی گئی جس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں مسٹر بشیر آرچرڈ نے حسب ذیل تقریر کی۔
>پہلی دفعہ میں جب قادیان آیا تو میرا قیام صرف دو روزہ تھا۔ اس اثناء میں میں نے بہت سے دوستوں سے تبادلہ خیالات کیا اور مذہبی معلومات حاصل کیں مگر کوئی خاص اثر میری طبیعت پر نہ ہوا۔ گاڑی پر سوار ہوکر میں قادیان سے رخصت ہوگیا مگر ابھی چند میل بھی طے نہ کئے ہوں گے کہ یہ واقعات یکے بعد دیگرے میرے ذہن میں آنے شروع ہوئے اور وہ نوازش` مہربانی اور شفقت جس کا اظہار میرے ساتھ کیا گیا۔ خوشگوار یادیں بن کر میرے دل میں چکر لگانے لگی جس سے لمحہ بہ لمحہ میری طبیعت متاثر ہوتی جارہی تھی۔ گاڑی جب امرتسر پہنچی تو اس وقت مشاہدات قادیان کا گہرا نقش میرے دل پر کندہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد میں جس شہر میں بھی گیا میں جماعت کے لوگوں کو تلاش کرتا۔ خوش قسمتی سے وہ ہر شہر میں مجھے مل جاتے اور وہاں بھی مجھے وہی شفقت اور محبت کا نظارہ دیکھنے میں آتا جس کا نظارہ میں نے قادیان میں دیکھا تھا۔ حتیٰ کہ ایک دن ایسا بھی آیا جب میں خود احمدیت کی آغوش عاطفت میں جاچکا تھا۔
مجھے ایک سال مسجد احمدیہ لنڈن میں رہنے کا موقعہ ملا۔ وہاں بھی میں نے اسی شفقت اور ہمدردی کا مشاہدہ کیا جو قادیان میں دیکھنے میں آئی تھی۔ اخوت کی یہ روح جو جماعت احمدیہ کے ہر فرد میں پائی جاتی ہے اس کی صداقت کو پھیلانے کے لئے کافی ہے۔ اگر احمدیت سچی نہ ہوتی تو یہ روح بھی مفقود ہوتی جو کسی اور جماعت اور قوم کو دیکھنے میں نہیں آتی<۔
بشیر آرچرڈ کے بعد حضرت امیرالمومنین نے انگریزی میں ایک پرمعارف تقریر کی جس میں فرمایا۔
>بشیر احمد آرچرڈ صاحب چونکہ اردو نہیں جانتے اس لئے اس خیال سے کہ وہ پوری بات کو سمجھ سکیں میں اپنے خیالات کا انگریزی میں اظہار کر دیتا ہوں۔
ایک وقت تھا جب عیسائی قوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم پر عمل پیرا تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیاوی ترقیات میں بھی پیش پیش تھی لیکن اس کے بعد عیسائی قوم نے حضرت مسیحؑ کو بھلا دیا اور جو تعلیم وہ لائے تھے اسے پس پشت ڈال کر سراسر دنیاوی معاملات میں مشغول ہوگئے اور مادیات میں منہمک ہوگئے۔ ایسے وقت میں کبھی کبھی ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا ہلکا سا تصور آشکار ہوتا مگر عارضی اور غیر دائمی اور پھر اپنی دنیا میں لگ جاتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے ایک پیغمبر کا بھیجنا ضروری سمجھا اور ادہر مسلمان اپنے مذہب کو بھول کر افتراق و شقاق کا شکار ہوچکے تھے۔ انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ کوئی مصلح آئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سب اقوام کے اکٹھا کرنے کے لئے بھیج دیا اور تم وہ پہلے شخص ہو جسے اپنی قوم میں سے اسے قبول کرنے کا موقع ملا ہے اور ان کے لائے ہوئے دین کی اشاعت کے لئے وقف زندگی کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ہم آپ کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے اور ہر روز آپ کے اخلاص اور جوش کو بڑھاتا رہے۔
بے شک وہ مقصد جس کے لئے آپ کھڑے ہوئے ہیں بہت عظیم الشان ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت تمہیں تمہارے ملک کے لوگ بھی نہیں جانتے چہ جائیکہ دوسری دنیا۔ لیکن وہ وقت آئے گا کہ جب خدائے واحد کا نام دنیا پر قائم ہوچکا ہوگا اور ہر طرف احمدیت ہی احمدیت ہوگی تو اس وقت تمہارے ملک کے لوگ تاریخ کی کتابوں کی چھان بین کریں گے اور وہ تلاش کرنے لگیں گے کہ کیا ابتدائی دور میں کوئی انگریز احمدی ہوا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ہاں ایک شخص مسٹر بشیر احمد آرچرڈ تھا جس نے ابتداء میں احمدیت کو قبول کیا اور غیر معمولی قربانیاں کیں یہ دیکھ کر ان کے دل خوشی سے بھر جائیں گے اور ان کے قلوب اطمینان سے پر ہو جائیں گے اور نہایت مسرت سے کہیں گے کہ انگریز قوم نے اپنا حق خدمت ادا کر دیا۔ اس وقت بے شک تم نامعلوم اور غیر معروف ہو لیکن وہ زمانہ آئے گا اور جلد آئے گا جو قومیں تمہارے نام پر فخر کریں گی اور تمہارے کارناموں کو سراہیں گی۔ پس تم اپنی حرکات و سکنات کو معمولی نہ سمجھو اور یہ نہ سمجھو کہ یہ حرکات صرف میری ہیں بلکہ یہ ساری انگریز قوم کی ہیں۔ وہ لوگ جو بعد میں آئیں گے وہ تمہاری ہر حرکت کی نقل کریں گے اور تمہارے ہر لفظ کی پیروی کریں گے۔
کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا کہ آج مسیح علیہ السلام کے حواریوں کو ایسا بلند درجہ حاصل ہے کہ ساری انگریز قوم ان کی پیروی اور نقل میں فخر محسوس کرتی ہے اور اسی طرح مسلمان بھی صحابہ کی جو رسول کریم~صل۱~ کے ساتھ رہے اور بے نظیر قربانیاں کیں عزت کرتے ہیں اور ان کی ہر حرکت اور ہر لفظ کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر تمہاری حرکات و سکنات اسلام کے مطابق ہوں گی اور بلند مرتبہ و ذی شان ہوں گی تو یاد رکھو اس وجہ سے تمہاری قوم بھی ترقی کر جائے گی لیکن اگر وہ صحیح اسلامی معیار کے مطابق نہ ہوں گی بلکہ ناقص ہوں گی تو تمہاری قوم ترقی سے محروم رہ جائے گی۔ پس ہمیشہ کوشش کرو کہ آنے والوں کے لئے بہترین نمونہ قائم کرجائو اور اعلیٰ درجہ کی یاد چھوڑ جائو ورنہ اللہ تعالیٰ کسی اور شخص کو کھڑا کر دے گا جو اس کام کو سرانجام دے گا۔
اس زمانہ میں جب احمدیت دنیا پر غالب آئے گی اور ضرور غالب آکر رہے گی اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی اس وقت لوگوں کے دلوں میں تمہاری عظمت بہت بڑھ جائے گی۔ حتیٰ کہ بڑے سے بڑے وزیراعظم سے بھی زیادہ ہوگی۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاص اور جوش سے کام کرو اور آنے والی نسلوں کے لئے بہترین نمونہ چھوڑ جائو۔ آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنا فضل اور رحم تمہارے شامل حال رکھے اور وہ مقصد جس کی ابتداء تم نے کی ہے اس کی انتہا وہ کامیابی کرے۔ آمین<۔۱۶۲
مسٹر بشیر آرچرڈ ۱۱۔ ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک قادیان دارالامان میں رہے۱۶۳ ازاں بعد پاکستان اور پھر انگلستان آگئے اور گلاسگو میں نئے احمدی مشن کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں ڈچ گیانا بغرض اعلائے کلمتہ اللہ تشریف لے گئے۔ آج کل گلاسگو میں ہی نہایت اخلاص و سرفروشی کے ساتھ تبلیغ اسلام کے فرائض بجا لارہے ہیں۔
حضرت امیر المومنین کی طرف سے مالی وجانی` قربانیوں اور ہجرت کے لئے تیار رہنے کا فرمان
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے مجلس مشاورت ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ ہش کے موقعہ پرفرمایا۔
>میں نے قدم بقدم جماعت میں ان قربانیوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے وقف جائیداد کا طریق جاری کیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت کے تمام افراد کم سے کم یہ احساس اپنے اندر پیدا کریں کہ ہم سے جب بھی کسی قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا ہم اس کو پیش کر دیں گے اور اپنے دل میں سے نکال دیں کہ بار بار جانی اور مالی قربانی کا مطالبہ کرنے کے باوجود ابھی تک جان اور مال کو قربان کرنے کا وقت نہیں آیا۔ زمانہ اس وقت کو قریب سے قریب تر لارہا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آج سے دس سال بعد یا بیس سال بعد یا پچاس سال بعد وہ زمانہ آنے والا ہے۔ مگر بہرحال وہ منزل ہمارے قریب آرہی ہے اور جب تک ہماری جماعت اس دروازہ میں سے نہیں گزرے گی وہ صحیح معنوں میں ایک مامور کی جماعت کہلانے کی بھی حقدار نہیں ہوسکتی یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہم اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے ہوئے خطروں کے طوفانوں سے گزریں گے۔ اسی طرح یہ قطعی اور یقینی اور لازمی بات ہے کہ ہمیں ایک دفعہ ہجرت کرنی پڑے اور اپنے مکانوں اور جائیدادوں سے محض اللہ کے لئے دست بردار ہونا پڑے۔ مگر ابھی تک ہم اس امتحان سے بھی نہیں گزرے۔ بہرحال یہ دن جلد یا بدیر آنے والا ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اس دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ ہمیں کیا معلوم کہ وہ دن کب آنے والا ہے<۔۱۶۴
حفاظ پیدا کرنے کی تحریک
حضرت مصلح موعود نے ۲۹۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو ترجمہ پڑھا دیں اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جاسکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کرسکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے<۔10] p[۱۶۵
۴۷۔ ۱۹۴۶ء/ ۲۶۔ ۱۳۲۵ہش میں نئے مشنوں کا قیام
۴۷۔ ۱۹۴۶ء/ ۲۶۔ ۱۳۲۵ہش میں متعدد نئے مشنوں کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ جو واقفین گزشتہ سال انگلستان پہنچے تھے ان میں سے بعض ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں یورپ کے دیگر ممالک میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے کے لئے روانہ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ۱۴۔ ہجرت/ مئی کو مولوی محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی محمد عثمان صاحب اٹلی مشن کے کام میں توسیع کے لئے روانہ ہوئے۔۱۶۶ ملک عطاء الرحمن صاحب اور چوہدری عطاء اللہ صاحب نے ۱۷۔ ماہ ہجرت/ مئی کو پیرس )فرانس( میں قدم رکھا۔۱۶۷ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر اور مولوی محمد اسحٰق صاحب ساقی ۱۰۔ ماہ احسان/ جون کو میڈرڈ )سپین( میں پہنچے۔۱۶۸ سوئٹزرلینڈ کی طرف چوہدری عبداللطیف صاحب` شیخ ناصر احمد صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر بھجوائے گئے۔ جو ۱۳۔ اخاء/ اکتوبر کو زیورچ میں وارد ہوئے۔ اگلے سال حافظ قدرت اللہ صاحب ۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو ہالینڈ پہنچے۔ ان کے علاوہ ۴۷۔ ۱۹۴۶ء/ ۲۶۔ ۱۳۲۵ہش میں مولوی غلام احمد صاحب نے عدن میں یوسف سلیمان صاحب نے جنوبی افریقہ میں اور مولوی محمد زہدی صاحب نے بورنیو میں نئے مشن قائم کئے جن کی تفصیل آگے اپنے موقع پر آرہی ہے۔
احیاء >موتیٰ< کا ایک چمکتا ہوا نشان
سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں میاں غلام محمد صاحب ثالث آف لاہور نے بذریعہ مراسلہ اطلاع دی کہ۔
>خاکسار کے والد صاحب بزرگوار حضرت بابو غلام محمد صاحب ثانی کے انتقال پر ملال کے باعث ہمارے تایا ابا میر کریم بخش صاحب پہلوان )جن کی عمر اس وقت سو برس سے اوپر ہے یعنی تقریباً ۱۰۳ سال( سخت مغموم رہنے لگے اور روزانہ مجھے کہتے کہ میرے آنسو تھمتے ہی نہیں تم اب بابو جی مرحوم و مغفور کی طرف سے تو فارغ ہوگئے ہو۔ میرا خیال اب رکھا کرو۔ بابو جی مرحوم کی وفات سے نویں روز چار بجے کے قریب ہمارے گھر پیغام آیا کہ بابا جی یعنی پہلوان صاحب جہاں جاکر ورزش کیا کرتے تھے۔ وہاں بے ہوش ہوکر گر گئے ہیں اور ان کی حالت خراب ہے۔ کوئی آدمی بھیجو جو انہیں اٹھا کر لاسکے۔ گھر پر صرف اکیلی میری بیوی تھی اور کوئی تھا نہیں وہ سخت گھبرائی کہ کیا کرے ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دوسرا پیغامبر آیا کہ پہلوان صاحب کا کوئی کوئی سانس باقی ہے۔ جلدی کوئی آدمی بھیجو۔ گھر پر تو کوئی آدمی تھا نہیں جاتا کون؟ پھر تھوڑی دیر بعد تیسرا پیغامبر آیا کہ پہلوان صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ وصیت کر گئے ہیں کہ میرے جنازے کو کوئی احمدی ہاتھ نہ لگائے۔ اور مجھے یہاں اکھاڑے میں ہی دفن کر دیا جائے۔ میں احمدیت سے تائب ہوتا ہوں۔ احمدیت سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میری تمام جائیداد جو مکانوں اور دو ہزار روپیہ نقد پر مشتمل ہے۔ انجمن نعمانیہ کو دے دی جائے اور میرے جنازے کو کسی احمدی کا ناپاک ہاتھ ہرگز ہرگز نہ لگنے دیا جائے میں سنی مسلمان ہوں۔ اس پیغام کے پہنچنے پر میری بیوی سخت گھبرائی اور پریشان ہوئی اتفاقاً اس وقت ہمارے کرایہ دار ماسٹر ابراہیم صاحب جو احمدی ہیں آگئے اور یہ سنسنی خیز پیغام سن کر بھاگے بھاگے وہاں پہنچے۔ جہاں پہلوان صاحب کی نعش پڑی تھی۔ وہاں پر بہت سے غیر احمدیوں کا جمگھٹا تھا۔ انہوں نے ماسٹر ابراہیم صاحب کو احمدی سمجھ کر پہلوان صاحب کے قریب بھی نہ آنے دیا اور مرزائی مرزائی کہتے ہوئے دھکے مار کر باہر نکال دیا۔ وہ بے چارے بھاٹی دروازہ کے احمدی دوستوں کے پاس مدد کے لئے آئے۔ نیز امیر صاحب جماعت احمدیہ لاہور مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب کو فون پر سارے واقعہ کی اطلاع دی اور جنازہ کے حصول کے لئے مدد چاہی۔ مکرمی شیخ صاحب نے بھاٹی دروازہ کے دوستوں کو ہدایت کی کہ لڑائی وغیرہ سے بچتے ہوئے پولیس کے ذریعہ کوشش کریں اور سارے واقعہ کی تصدیق کرائیں اور ثالث کو دفتر >سن رائز< میں فوری طور پر اطلاع دیں۔ بھاٹی دروازہ کے تمام دوست پولیس گارڈ بھاٹی گیٹ میں گئے۔ اور وہاں رپورٹ درج کرائی۔ وہاں کے انچارج چوکی ملک باغ علی صاحب انسپکٹر پولیس معہ حوالدار اور دو پولیس کانسٹیبلوں کے موقع پر فوری طور پر گئے۔ اور پہلوان صاحب کی نعش کو جسے نعش سمجھ لیا گیا تھا۔ دراصل وہ ابھی تک بے ہوش تھے۔ غیر احمدیوں کے کندھوں پر اٹھوا کے ان کے گھر بھجوایا۔ کیونکہ وہ شیاطین کا گروہ احمدیوں کو ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔ سات بجے شام کے قریب مجھے پتہ لگا۔ میں سخت حیران اور پریشان ہوا۔ امیر صاحب سے فون پر مشورہ کیا کہ نعش کس طرح غیر احمدی شریروں کے قبضہ سے نکالی جائے تو انہوں نے فرمایا کہ وصیت کے کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کرو اور انہیں مکمل کرکے پولیس کے ذریعہ حصول نعش کی کوشش کرو۔ اگر شریر آمادہ فساد ہوں تو اس کا سدباب بھی پولیس کے ذریعہ کرائو۔ قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ لاہور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لیں۔
حضرت امیر صاحب کی ہدایات حاصل کرنے کے بعد میں پہلوان صاحب کے مکان پر گیا تا وصیت کے کاغذات پر قبضہ کروں۔ وہاں کوئی پچاس ساٹھ غیر احمدیوں کا جمگھٹا تھا اور پہلوان صاحب بالکل بے ہوش زبان بند پڑے تھے۔ ہمارے تمام غیر احمدی رشتے دار مرد اور عورتیں اور سارا محلہ وہاں جمع تھا اور سب کی زبان پر یہ تھا کہ دیکھو جی خدا نے انجام کیسا اچھا کر دیا۔ توبہ کی توفیق دے دی اور مسلمان بنا کر مارا۔ کوئی کہتا خداوند کریم نے انجام دیکھو کیسا اچھا کیا پتہ نہیں کون سی نیکی پسند آگئی اور خدا نے ایمان نصیب کردیا۔ آخیر وقت پر خدا نے مسلمان بنا کر مارا۔
غرض تمام غیر احمدی رشتہ دار اور ہمسایہ عجیب رنگا رنگ کی بے ہودہ گویوں میں مشغول تھے۔ میری پھوپی زاد ہمشیرہ جو سخت معاند ہے۔ وہ مجھے بلا کر ہمارے غیر احمدی رشتہ داروں میں لے گئی اور کہنے لگی >دیکھ وے انہوں خدا نے ایمان نصیب کر دتا ای تے اے مسلمان ہوکے سویا ای ایہہ ستارے گواہ تے ایسدے مسلمان ہون دے۔ ایہہ کہہ گیا ای کہ میرے جنازہ نوں کوئی مرزائی کتا ہتھ نہ لگائے تو ہن دس میں انیہوں اپنے گھر لے جاواں کیونکہ ایہہ تے ہن ساڈا ہویا ناں اگے اسی توں بابو دا مردہ کھو کے لے گئی سیں۔ ہن ایہدے مردے نوں تے کوئی مرزائی ہتھ نہیں لگا سکدا<۔ یعنی دیکھو یہ تو اب مسلمان ہوکر فوت ہورہے ہیں اور ان کے اسلام قبول کرلینے کے یہ تمام حاضرین گواہ ہیں اب ان کے جنازے کو کسی احمدی کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ اب ہم میں سے ہیں۔ اس لئے اب ہم انہیں اٹھا کر اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ پہلے تم بابو جی مرحوم کا جنازہ ہم سے چھین کر قادیان لے گئے تھے۔ اب ہم کسی کتے مرزائی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیں گے۔
میں نے اپنی پھوپی زاد بہن سے صرف یہ کہا جب تک سانس تب تک آس۔ ابھی تو انہیں سانس آرہا ہے۔ ہم مایوس نہیں دیکھو خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا کرشمہ دکھاتا ہے۔ یہ الفاظ کہہ کر میں ڈاکٹر عبدالحق صاحب کو لینے چلا گیا۔ میرے بعد سنا ہے ان غیر احمدی رشتے داروں نے خوب مضحکے اڑائے کہ دیکھو جی یہ اب مردے کو دوائی دے گا۔ بھلا ڈاکٹر نے کیا کرنا ہے آکر۔ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور معائنہ کیا۔ ان کی تشخیص یہ تھی کہ فالج کا شدید حملہ ہوا ہے اور کوئی دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے۔ عمر چونکہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے اب صحت کی کوئی امید نہیں۔ رات کو حکیم سراج دین صاحب بھاٹی گیٹ کو بلایا۔ انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ فالج کا شدید حملہ ہے صحت تو مشکل ہے کیونکہ زبان پر بھی فالج گر چکا ہے۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہ ان غیر احمدیوں نے جو طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر خدا تعالیٰ پہلوان صاحب کو اتنی مہلت دے دے اور ان کی زبان چل پڑے کہ ان کی اس بیہودہ بکواس کا جواب دے سکیں۔ تمام احمدی دوست یہی دعا کرتے رہے کہ یا الٰہی ان کی زبان چند منٹ کے لئے چلا دے۔ تا یہ ان لوگوں کی بیہودہ بکواس کا خود جواب دے دیں۔
ساری راست پیشاب جاری رہا اور بے ہوشی طاری رہی۔ صبح تک ہم ایک منٹ نہ سوئے اور خداوند کریم کے حضور گریہ و زاری کرتے رہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت نے صبح عجیب کرشمہ دکھایا کہ >مردہ< زندہ ہوگیا۔ خدائے عزوجل نے اپنے دین متین کی صداقت کی شہادت دینے کے لئے ایک >مردہ< کو دوبارہ زندہ کر دیا اور اس نے اپنی زبان سے تمام بیہودہ بکواسوں کا جواب دیا۔ الحمدلل¶ہ علیٰ ذالک الحمدلل¶ہ علیٰ احسانہ۔ صبح خود بخود بغیر کسی قسم کی کوئی دوائی استعمال کرنے کے اللہ تعالیٰ نے پہلوان صاحب کو صحت عطا فرما دی اور میری عدم موجودگی میں ہمارے غیر احمدی رشتے داروں نے ان سے تمام باتیں وصیت وغیرہ توبہ تائب ہونے کے متعلق دریافت کیں انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی برائت ظاہر کی۔ اور ان تمام ۔۔۔۔۔۔۔ بہتان طرازیوں پر *** اللہ علی الکاذبین کہا۔
ہمارے تمام رشتے دار اور غیر احمدی ہمسائے اس عجیب و غریب واقعہ سے حیران و ششدر رہ گئے اور مبہوت سے ہوگئے ہیں۔ کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ ایک مردہ کس طرح احمدیت کی حقانیت پر گواہی دینے کے لئے زندہ ہوگیا۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ فالج کی وجہ سے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ ضرور معطل ہوجاتا ہے اور انسان لاچار ہوکر رہ جاتا ہے۔ مگر یہاں خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت نمائی دیکھی گئی کہ قطعاً کسی عضو پر کوئی اثر نہیں تھا۔ تمام اعضاء خدا کے فضل و رحم سے صحیح و سالم و درست تھے۔ اس غیر معمولی واقعہ پر جس قدر بھی خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
صبح کو بازار میں جب میں سودا سلف لینے کے لئے گیا تو تمام دکاندار مجھ سے یہ کہتے ہوئے مسکرا کر اظہار افسوس کرتے۔ یار بڑا افسوس ہے ایک ہفتہ میں تم کو دو مردے سنبھالنے پڑ گئے۔ مگر شکر ہے خدا کا کہ پہلوان صاحب کو خدا نے مسلمان کرکے مارا اور ایمان نصیب کر دیا۔ توبہ کرکے بے ایمانی کی موت سے تو بچ گئے اچھا خدا تم کو بھی مسلمان بنائے۔
مگر جب ان سے کہا جاتا کہ ذرا میرے ساتھ چل کر خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا زندہ نشان تو دیکھو۔ خدا تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھایا ہے۔ اور ایک مردے کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ تاکہ وہ حقانیت احمدیت کی صداقت کا چمکتا ہوا زندہ نشان ثابت ہو تو بالکل ساکت اور مبہوت ہوکر رہ جاتے۔
کل دوپہر کو ہی ایک بدترین دشمن احمدیت ملا۔ جس کا کام ہی گالیاں دینا اور بکواس کرنا ہے۔ دور سے مجھے دیکھ کر کہنے لگا >او بے ایمان آہن تے مسلمان ہو جا اوہ وڈا بے ایمان تے اخیر ویلے مسلمان ہوگیا سی توں وی ہن مسلمان ہو جا۔ ویکھ کس طرح خدا نے انہوں مسلمان کرکے ماریا ای<۔
یعنی اوبے ایمان اب تو بھی مسلمان ہو جا۔ وہ بڑا بے ایمان )یعنی پہلوان صاحب( اخیر وقت مسلمان ہوکر فوت ہوا۔ مگر جب میرا جواب سنا اور زندہ معجزہ دیکھنے کے لئے میں نے اسے للکارا تو پھر مبہوت ساہوکر بھاگ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ پیارے آقا یہ سارا واقعہ نہایت ہی عجیب ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا عجیب کرشمہ۔ جس سے ایمان تازہ ہوتے اور روح کو وہ سرور` لذت اور کیفیت نصیب ہوتی ہے کہ انسان وجد میں آجاتا ہے اور بے اختیار ہوکر آستانہ الوہیت پر گر جاتا ہے<۔۱۶۹
میاں بیوی کے جھگڑوں کو سنجیدگی سے سلجھانے کی اہم تحریک
سیدنا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بعض ایسے مقدمات بھی آتے رہتے تھے جن میں میاں بیوی کی طرف سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ نزاع بنا لیا جاتا اور طلاق اور خلع تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔
حضرت مصلح موعود نے اس نہایت افسوس ناک اور ناپسندیدہ طریق کی روک تھام کے لئے ۲۱۔ ماہ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کو مفصل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں احباب جماعت اور قاضیان سلسلہ دونوں کو بہت پرحکمت ہدایات دیں اور انہیں زوجین کے جھگڑوں کو سنجیدگی سے سلجھانے کی تلقین کی۔ چنانچہ فرمایا۔
>چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلقات خراب کرنا عقلمندوں کا کام نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک اگر بیوی میں کوئی غلطی ہے تو اس کی اخلاقی اصلاح ہونی چاہئے۔ لیکن اسے چھوڑ دینے پر آمادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہیڈ ماسٹر لڑکوں کو سبق دیتا ہے کیا جو لڑکے سبق یاد نہیں کرتے انہیں سکول سے نکال دیتا ہے۔ اسی طرح انسانوں میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں۔ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ لیکن مومن کا کام ہے کہ ان کو دور کرنے کی کوشش کرے اور وہ جنس جسے اللہ تعالیٰ نے مقدس بنایا ہے اسے بازار میں بکنے والی جنس نہ بنادے۔ پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے ایسے جھگڑے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں ایسے معاملات میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ میں قاضیوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے معاملات میں وہ کسی فریق کے وکیل کو قریب بھی نہ آنے دیں اور وہ بجائے قاضی کے باپ بننے کی کوشش کریں اور لڑکے کو اپنا بیٹا سمجھیں اور لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھیں جس طرح باپ اپنے بچوں کو سمجھاتا ہے اسی رنگ میں ان کو سمجھائیں اور شریعت کے مسائل انہیں بتائیں اور انہیں طلاق اور خلع کے نقصانات بتائیں کہ اس کے عام ہونے سے قوم کے اخلاق گر جاتے ہیں۔ جن کی اولاد موجود ہوگی جب وہ بڑے ہوں گے تو ان پر کیا اثر پڑے گا کہ ہمارے ماں باپ نے معمولی سی بات پر جدائی اختیار کرلی تھی اور وہ اپنے ماں باپ سے کون سا نیک نمونہ حاصل کریں گے اور ایسی اولاد کیسے ترقی حاصل کرسکتی ہے۔ پس یہ چیزیں اخلاق کو سنوارنے والی نہیں بلکہ اخلاق کو بگاڑنے والی ہیں۔ جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنی چاہئے کیونکہ میرے نزدیک یہ اہم امور سے بھی بالا چیز ہے۔ جب بھی قاضی کے پاس کوئی ایسا معاملہ پیش ہو اس کا دل کانپ جانا چاہئے کہ کہیں میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کردوں جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو اور اسے معاملہ کے تمام پہلوئوں پر غور کرکے فیصلہ کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب کوئی ایسا جھگڑا ہو جائے تو نہ مرد کے ماں باپ اور نہ ہی عورت کے ماں باپ اس میں دخل دینے کی کوشش کریں اور وہ قاضی پر پورا اعتماد رکھیں۔ اگر انہیں فیصلہ میں کوئی سقم معلوم ہو تو وہ ہمیں لکھ سکتے ہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ اس فیصلہ میں واقع میں کوئی سقم موجود ہے یا نہیں<۔۱۷۰
یورپ کا پہلا احمدی شہید شریف دوتسا اور حضرت مصلح موعود
اس سال کا ایک نہایت اہم اور قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ البانیہ کے ممتاز احمدی شریف دوتسا اپنے خاندان سمیت کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دیئے گئے۔ شریف دوتسا یورپ کے پہلے احمدی تھے جنہوں نے جام شہادت نوش کیا۔
حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ملک محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی نے اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی۔ اس پر حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل مضمون رقم فرمایا۔
>اٹلی سے عزیزم ملک محمد شریف صاحب مبلغ نے اطلاع دی ہے کہ شریف دوتسا ایک البانوی سرکردہ اور رئیس جو البانیا اور یوگوسلاویہ دونوں ملکوں میں رسوخ اور اثر رکھتے تھے )دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور البانیہ کی سرحد پر رہنے والے یوگوسلاویہ کے باشندے اکثر مسلمان ہیں اور بارسوخ ہیں اور دونوں ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ عزیزم مولوی محمد الدین صاحب اس علاقہ میں رہ کر تبلیغ کرتے رہے ہیں۔ ان کے ذریعہ سے وہاں کئی احمدی ہوئے۔ بعد میں مسلمانوں کی تنظیم سے ڈر کر انہیں یوگوسلاوین حکومت نے وہاں سے نکال دیا اور وہ اٹلی آگئے( اور جو یوگوسلاویہ کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ تھے۔ جنگ سے پہلے احمدی ہوگئے تھے اور بہت مخلص تھے۔ انہیں البانیہ کی موجودہ حکومت نے جو کمیونسٹ ہے ان کے خاندان سمیت قتل کروا دیا ہے ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ کمیونسٹ طریق حکومت کے مخالف تھے اور جو مسلمان اس ملک میں اسلامی اصول کو قائم رکھنا چاہتے تھے ان کے لیڈر تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرتے تو سب ہی ہیں اور کوئی نہیں جو الٰہی مقررہ عمر سے زیادہ زندہ رہ سکے۔ مگر مبارک ہے وہ جو کسی نہ کسی رنگ میں دین کی حمایت کرتے ہوئے مارا جائے۔ شریف دوتسا کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ یورپ کے پہلے احمدی شہید ہیں اور الفضل للمتقدم کے مقولہ کے ماتحت اپنے بعد میں آنے والے شہداء کے لئے ایک عمدہ مثال اور نمونہ ثابت ہوکر وہ ان کے ثواب میں شریک ہوں گے۔ برادرم شریف کے خاندان میں سے ان کا بڑا لڑکا بہرام زندہ ہی ہے اور وہ اس وقت مسلمانوں کے ایک ایسے گروہ کا جو البانیہ میں اسلامی حکومت کا خواہاں ہے سردار ہے۔ وہ اس وقت پہاڑوں میں بیٹھ کر مسلمانوں کی قیادت کررہا ہے اور کمیونسٹ حکومت سے برسر پیکار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عزیز کی حفاظت کرے اور اگر اس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو اسے کامیاب کرے اور اگر بظاہر بری نظر آنے والی البانین کمیونسٹ حکومت آئندہ اسلام کے لئے مفید اور کارآمد ثابت ہونے والی ہے تو اسے اس سے صلح اور اتحاد کی توفیق بخشے کہ علم غیب اللہ ہی کو ہے اور عسی ان تکرھوا شیا وھو خیرلکم۔ نہ صرف الٰہی فرمان ہے بلکہ بار بار انسان کے تجربہ میں آچکا ہے۔ اللھم آمین۔ دوست اپنی دعائوں میں عزیزم بہرام کے لئے دعا کرتے رہا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حافظ و ناصر ہو اور اسے صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے۔
بعض اور ذمہ دار فوجی افسر بھی البانیہ میں احمدی ہیں نہ معلوم ان کا کیا حال ہے۔ احباب ان کے لئے بھی دعا کرتے رہا کریں۔
یہ واقعہ ہمارے لئے تکلیف دہ بھی ہے اور خوشی کا موجب بھی۔ تکلیف کا موجب اس لئے کہ ایک بارسوخ آدمی جو جنگ کے بعد احمدیت کی اشاعت کا موجب ہوسکتا تھا ہم سے ایسے موقعہ پر جدا ہوگیا جب ہماری تبلیغ کا میدان وسیع ہورہا تھا اور خوشی کا اس لئے کہ یورپ میں بھی احمدی شہداء کا خون بہایا گیا۔ وہ مادیت کی سرزمین جو خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر دور بھاگ رہی تھی اور وہ علاقہ جو کمیونزم کے ساتھ دہریت کو بھی دنیا میں پھیلا رہا تھا وہاں خدائے واحد کے ماننے والوں کا خون بہایا جانے لگا ہے۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس کا ایک ایک قطرہ چلا چلا کر خدا تعالیٰ کی مدد مانگے گا۔ اس کی رطوبت کھیتوں میں جذب ہوکر وہ غلہ پیدا کرے گی جو ایمان کی راہ میں قربانی کرنے کے لئے گرم اور کھولتا ہوا خون پیدا کرے گا جو لوگوں کی رگوں میں دوڑ دوڑ کر انہیں میدان شہادت کی طرف لے جائے گا۔ اب یورپ میں توحید کی جنگ کی طرح ڈال دی گئی ہے۔ مومن اس چیلنج کو قبول کریں گے اور شوق شہادت میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو اور سعادتمندوں کے سینے کھول دے تا اسلام اور احمدیت کی فوج میں کمی نہ آئے اور اس کے لئے روزبروز زیادہ سے زیادہ مجاہد ملتے جائیں۔ اللھم آمین۔
اے ہندوستان کے احمدیو! ذرا غور تو کرو تمہاری اور تمہارے باپ دادوں کی قربانیاں ہی یہ دن لائی ہیں۔ تم شہید تو نہیں ہوئے مگر تم شہید گر ضرور ہو۔ افغانستان کے شہداء ہندوستان کے نہ تھے مگر اس میں کیا شک ہے کہ انہیں احمدیت ہندوستانیوں ہی کی قربانی کے طفیل ملی۔ مصر کا شہید ہندوستانی تو نہ تھا۔ مگر اسے بھی ہندوستانیوں ہی نے نور احمدیت سے روشناس کروایا تھا۔ اب یورپ کا پہلا شہید گو ہندوستانی نہ تھا مگر کون تھا جس نے اس کے اندر اسلام کا جذبہ پیدا کیا۔ کون تھا جس نے اس صداقت پر قائم رہنے کی ہمت دلائی؟ بے شک ایک ہندوستانی احمدی! اے عزیز و فتح تمہاری سابق قربانیوں سے قریب آرہی ہے مگر جوں جوں وہ قریب آرہی ہے تمہاری سابق قربانیاں اس کے لئے ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ نئے مسائل نئے زاویہ نگاہ چاہتے ہیں۔ نئے اہم امور ایک نئے رنگ کی قربانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب ہماری سابق قربانیاں بالکل ویسی ہی ہیں۔ جیسے ایک جوان کے لئے بچہ کا لباس۔ کیا وہ اس لباس کو پہن کر شریفوں میں گنا جاسکتا ہے یا عقلمندوں میں شمار ہوسکتا ہے۔ اگر نہیں تو جان لو کہ اب تم بھی آج سے پہلے کی قربانیوں کے ساتھ وفاداروں میں نہیں گنے جاسکتے اور مخلصوں میں شمار نہیں ہوسکتے۔ اب جہاد ایک خاص منزل پر پہنچنے والا ہے۔ پہلا دور مصیبتوں کا جو رسول کریم~صل۱~ کے دعویٰ رسالت کے ابتدائی دور کے مشابہ تھا گزر گیا۔ اب دوسرا دور چل رہا ہے جو رسول کریم~صل۱~ کے وادی میں نظر بند ہونے کے مشابہ ہے۔ آج اگر ہم نے اس دور کے مطابق قربانیاں نہ کیں تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہ ہوگا۔ ہماری مثال اس صورت میں اس شخص کی سی ہوگی جو منار کی چوٹی پر پہنچ کر گر جاتا ہے۔ مبارک ہے وہ جو منار پر چڑھ جاتا ہے مگر اس سے زیادہ بدقسمت بھی کوئی نہیں جو مینار کی چوٹی پر چڑھ کر گر جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان قربانیوں کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ الحمدلل¶ہ۔ لیکن ہمارے چندہ دہندگان اپنے بٹوئوں کو کھولنے کی بجائے ان کا منہ بند کررہے ہیں۔ اناللہ۔
اے غافلو جاگو! اے بے پروا ہو ہوشیار ہو جائو! تحریک جدید نے تبلیغ اسلام کے لئے ایک بہت بڑا کام کیا ہے۔ مگر اب وہ کام اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ موجودہ چندے اس کے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتے۔ مبارک ہے وہ سپاہی جو اپنی جان دینے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔ مگر بدقسمت ہے اس کا وہ وطنی جو اس کے لئے گولہ بارود مہیا نہیں کرتا۔ گولہ بارود کے ساتھ ایک فوج دشمن کی صفوں کو تہ و بالا کرسکتی ہے۔ مگر اس کے بغیر وہ ایک بکروں کی قطار ہے جسے قصائی یکے بعد دیگرے ذبح کرتا جائے گا۔ تمہارے بیٹے ہاں بیٹوں سے بھی زیادہ قیمتی وجود جان دینے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کیا تم اپنے مالوں کی محبت کی وجہ سے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کو مرتا ہوا دیکھو گے۔ اگر وہ اس حالت میں مرے کہ تم نے بھی قربانی کا پورا نمونہ دکھا دیا ہوگا۔ تو وہ اگلے جہان میں تمہارے شفیع ہوں گے اور خدا کے حضور میں تمہاری سفارشیں کریں گے لیکن اگر وہ اس طرح جان دینے پر مجبور ہوئے کہ ان کی قوم نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کے وطن نے ان کو مدد نہ پہنچائی تو وہ تو شہید ہی ہوں گے مگر ان کے اہل وطن کا کیا حال ہوگا؟ دنیا میں ذلت اور عقبیٰ میں؟ اس سوال کا جواب نہ دینا جواب دینے سے اچھا ہے۔ اس دنیا کی ذلت سے تو انسان منہ چھپا کر گزارہ کرسکتا ہے مگر اس دنیا میں وہ کیا کرے گا؟ غالب نے خوب کہا ہے ~}~
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
جو ذلت صرف اس دنیا کے متعلق ہو موت اس سے نجات دے سکتی ہے مگر جو دونوں جہانوں سے متعلق ہو اس میں کیا فائدہ دے گی۔ وہ تو کلنک کے ٹیکہ کو اور بھی سیاہ کر دے گی۔
پس اے عزیزو! کمریں کس لو اور زبانیں دانتوں میں دبالو۔ جو تم میں سے قربانی کرتے ہیں وہ اور زیادہ قربانیاں کریں۔ اپنے حوصلہ کے مطابق نہیں دین کی ضرورت کے مطابق اور جو نہیں کرتے قربانی کرنے والے انہیں بیدار کر دیں۔ ہر تحریک جدید کا حصہ وار اپنے پر واجب کرلے کہ وہ دفتر دوئم کے لئے ایک نیا حصہ دار تیار کرے گا اور جب تک وہ ایسا نہ کرسکے وہ سمجھ لے کہ میری پہلی قربانی بیکار گئی اور شاید کسی نقص کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے دربار سے واپس کر دی گئی۔ وہ پھل جو درخت بن گیا وہی پھل ہے جو کسی کے پیٹ میں جاکر فضلہ بن گیا۔ اور اپنی نسل کو قائم نہ رکھ سکا۔ وہ کیا پھل ہے خدا ہی اس پر رحم کرے۔
والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد<۔۱۷۱
جماعت احمدیہ کی پنجاہ سالہ رفتار ترقی پر اخبار >ریاست< کا دلچسپ نوٹ
جماعت احمدیہ کے مشہور محقق ملک فضل حسین صاحب نے اخبار الفضل )۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش( میں حضرت مسیح موعود
علیہ السلام کا ایک غیر مطبوعہ مکتوب شائع کیا جو حضرت اقدس علیہ السلام نے ۵۔ ستمبر ۱۸۹۶ء کو حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے نام تحریر فرمایا تھا اور جس میں >الدار< کے اندر کنواں لگانے کے لئے دو آنہ چندہ بھیجنے کی تحریک فرمائی تھی۔
سردار دیوان سنگھ مفتون صاحب نے اپنے اخبار >ریاست< )۱۲۔ اگست ۱۹۴۶ء( میں اس مکتوب پر >قادیان کے احمدیوں کی پچاس سالہ رفتار< کے زیر عنوان حسب ذیل اداریہ لکھا۔
>قادیان کی احمدی جماعت کے اس وقت کئی لاکھ ممبر ہیں اور ان ممبروں میں چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں جیسے جج فیڈرل کورٹ اصحاب بھی شامل ہیں جو اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ رفاہ عام کاموں کے لئے اس جماعت کی معرفت صرف کرتے ہیں اور یہ جماعت مختلف شعبوں کے ذریعہ ہر سال لاکھوں روپیہ ہندوستان وغیرہ ممالک میں مذہب و اخلاق کی تبلیغ کے لئے صرف کرتی ہے۔ مگر آج سے پچاس برس پہلے اس جماعت کے بانی کے پاس ایک کنواں لگوانے کے لئے اڑھائی سو روپیہ بھی نہ تھا اور آپ نے دو دو آنے جمع کرکے رفاہ عام کے لئے ایک کنواں لگوایا۔
اگر احمدی جماعت کی اس کامیابی پر غور کیا جائے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جماعت جو روپیہ صرف کرتی ہے وہ ایک ایک پائی پبلک کے لئے صرف کیا جاتا ہے۔ اس روپیہ کے جمع یا صرف کرنے میں ذاتی اغراض کو دخل نہیں اور پبلک جب دیکھتی ہے کہ کارکن دیانتدار اور مخلص ہیں تو وہ اپنی جائیداد فروخت کرکے بھی روپیہ فراہم کرتی ہے جو لوگ پبلک مفاد کے لئے کوئی کام کرتے ہوئے روپیہ نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں ان کے لئے مرحوم مرزا غلام احمد کا یہ واقعہ آنکھیں کھولنے کا باعث ہونا چاہئے۔ کیونکہ پبلک ان لوگوں کے لئے روپیہ نہیں آنکھیں بچھانے کے لئے بھی تیار ہے جو دیانتدار اور مخلص ہوں۔ مگر ان لوگوں کے لئے پبلک کے پاس پیسہ نہیں جو پبلک فنڈوں کو ہڑپ کرنے کے لئے پبلک کے سامنے گداگری کریں اور مالی مشکلات کا رونا روتے رہیں<۔۱۷۲
انڈونیشیا کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ
انڈونیشیا شرق الہند کے اس مجمع الجزائر کا نام ہے جو سولہویں صدی عیسوی سے ہالینڈ کے مقبوضات چلے آرہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے ان جزیروں پر قبضہ جمالیا تھا۔ ۱۵۔ اگست ۱۹۴۵ء کو جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتیھار دال دیئے۔ جس پر ملک کی قومی پارٹی نے ڈاکٹر عبدالرحیم ¶سکارنو اور ڈاکٹر عطاء کی قیادت میں ۱۷۔ اگست ۱۹۴۵ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان حسب ذیل الفاظ میں کر دیا۔
>اس اعلان کے ذریعہ ہم انڈونیشین اپنے ملک انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کرتے ہیں۔ تمام امور جو اختیارات کے منتقل کرنے سے تعلق رکھتے ہیں نہایت احتیاط اور سرعت سے کئے جارہے ہیں<۔ ٹباویہ )جکرتا( ۱۷۔ اگست ۱۹۴۵ء۔۱۷۳
اس اعلان کے بعد ہالینڈ کی ڈچ افواج نے ملک کو پہلے کی طرح اپنے زیر نگیں کرنے کے لئے مہم شروع کردی۔
اس اہم مرحلہ پر مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ مقیم پیڈانگ )سماٹرا( نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں انڈونیشیا کی تحریک آزادی سے متعلق چار اہم استفسارات بھیجے جن کے حسب ذیل جواب حضور نے اپنے قلم سے تحریر فرمائے۔
سوال:۔ پہلے انڈونیشیا میں ڈچ حکومت تھی اس کے بعد جاپانی حکومت قائم ہوئی۔ پھر جاپانی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ چونکہ اتحادی فوجوں کے آنے میں دیر ہوئی اس لئے انڈونیشیا کے لوگوں نے اپنی آزادی کا اعلان کرکے اپنی حکومت قائم کرلی۔ آزادی کا اعلان اور حکومت کا قیام اتحادیوں کے مشورہ کے بغیر ہوا اس لئے اتحادیوں نے آج تک انڈونیشین آزادی اور حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ اس صورت میں کیا اسلام کی رو سے انڈونیشیا واقعی آزاد قرار پاتا ہے؟ اور کیا انڈونیشین حکومت واقعی وہ حکومت ہے جس کی اطاعت رعیت پر فرض ہے یا کہ باغی جمعیت ہے؟
جواب:۔ واقعی حکومت تو وہی ہوگی جس کو ملک کی اکثریت قبول کرے گی۔ باقی اگر ملک کی اکثریت آزاد حکومت بنائے تو شرعاً باغی نہیں کہلائے گی بلکہ حق پر سمجھی جائے گی کیونکہ ملک کو کلی طور پر فتح کرکے سابق حکومت کے قبضہ سے نکال لیا گیا تھا۔ باقی رہا سوال مصلحت اور حکمت کا۔ اسے وہاں کے لوگ خود سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مغربی حکومت کلی آزاد حکومت نہیں رہنے دی گی۔ اس لئے سمجھوتا کرنا مفید ہوگا۔
سوال:۔ آزادی کی تحریک اور دوسرے سیاسی امور میں احمدی حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟ مثلاً انڈونیشین حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ڈچ لوگ دفتروں اور کارخانوں پر قابض ہوگئے تو ہم ان سے بائیکاٹ اور سٹرائیک کریں گے۔ کیا ایسے بائیکاٹ اور سٹرائیک میں شریک ہونا جائز ہے؟
جواب:۔ اگر انڈونیشین حکومت واقعی اکثریت کی حکومت ہے تو اوپر لکھا جاچکا ہے کہ وہ جائز حکومت ہے اس صورت میں اس کے احکام کی تعمیل شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔
سوال:۔ اگر ڈچ لوگ اس علاقہ میں داخل ہوں اور انڈونیشین ان کا مقابلہ کریں تو جماعت احمدیہ کو کس طرف ہونا چاہئے؟
جواب:۔ میں کہہ چکا ہوں کہ مصلحت اس میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کرکے صلح کرلی جائے کیونکہ سب مغربی حکومتیں منہ سے کچھ بھی کہیں ڈچ کے ساتھ ہوں گی لیکن اگر فی الواقعہ ملک میں اکثریت کی حکومت قائم ہوچکی ہے تو چونکہ وہ جائز حکومت ہے احمدیوں کو اس کا ساتھ دینا جائز ہی نہیں پسندیدہ ہوگا۔ مگر یہ فعل انڈونیشین کا ہوگا خلاف حکمت۔
سوال:۔ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے ہوئے مرنے والا شہید ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو من قتل دون اھلہ ومالہ فھو شھید کا کیا مطلب ہے؟
‏]18 [pجواب:۔ آزادی کی کوشش میں حصہ لینے والا شہید تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ شہادت دینی نہیں۔ ورنہ ہر انگریز اور جرمن بھی شہید ہونا چاہئے۔ شہید سے مراد یہ ہے کہ قوم کا ہیرو ہوگا۔ یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کا ہیرو ہوگا۔ خدا تعالیٰ کا ہیرو وہی ہوگا جو دین کے لئے شہید ہو<۔۱۷۴
ان جوابات کے علاوہ حضرت مصلح موعود نے ۱۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش کے خطبہ جمعہ میں انڈونیشیا کی آزادی کے حق میں پرزور آواز بلند کی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک فرمائی کہ وہ مسلمانان انڈونیشیا کی تحریک آزادی۱۷۵ کی زبردست تائید کریں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ساری دنیا میں صرف انڈونیشیا ایک ایسا علاقہ ہے جس میں چھ سات کروڑ مسلمان ایک زبان بولنے والے اور ایک قوم کے بستے ہیں اور جن کے علاقے میں غیر لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں اور جن میں اتحاد کی روح اس وقت زور سے پیدا ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں اور کوئی علاقہ اسلامی مرکز ہونے کی اس قدر اہلیت نہیں رکھتا۔ پس اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اخباروں میں` رسالوں میں اور اپنے اجتماعوں میں مسلمان اپنے ان بھائیوں کے حق میں آواز اٹھائیں اور ان کی آزادی کا مطالبہ کریں۔ اگر اب ان کی امداد نہ کی گئی اور اگر اب ان کی حمایت نہ کی گئی تو مجھے خدشہ ہے کہ ڈچ ان کی آواز کو بالکل دبا دیں گے۔ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کررہے ہیں کہ آہستہ آہستہ انڈونیشیا کے شور پر قابو پالیں اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔ اور دنیا کی نظریں اب انڈونیشیا کی طرف سے ہٹ گئی ہیں اور انڈونیشیا کے لوگ خود بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب ہم اکیلے رہ گئے ہیں لیکن اگر دنیا میں ان کی حمایت اور ان کی تائید میں آوازیں بلند ہوں ایک شور برپا ہوجائے تو وہ دلیری اور بہادری سے مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ ہم اکیلے نہیں لڑرہے بلکہ ہمارے کچھ اور بھائی بھی ہماری پشت پر ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک انسان یہ سمجھتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے مقابلہ کو دیکھ رہے ہیں تو وہ زیادہ جوش کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا تو اس کے جوش میں کمی آجاتی ہے۔ پس اگر انڈونیشیا کے لوگوں کے کانوں میں یہ آوازیں پڑتی رہیں کہ تمہاری ہر قسم کی امداد کریں گے اور جہاں تک ممکن ہوگا ہم تمہارے لئے قربانی کریں گے۔ اس آزادی کی جنگ میں آپ لوگ اکیلے نہیں لڑرہے۔ بلکہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہیں اور پھر جہاں تک ممکن ہو دنیا کے مسلمان اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی کوشش کریں تو وہ اپنی آزادی کے لئے بہت زیادہ جدوجہد کریں گے اور امید کی جاسکتی ہے کہ ان کو جلد آزادی مل جائے<۔۱۷۶
حضرت مصلح موعود کے گزشتہ فتویٰ کی روشنی میں انڈونیشیا کے مبلغین انڈونیشیا کے دوسرے ملکی باشندوں کے دوش بدوش جنگ آزادی میں شامل ہوگئے تھے۔ اب حضور کے اس تازہ خطبہ کے بعد قادیان کے مرکزی پریس کے علاوہ دنیا بھر کے احمدی مشنوں نے بھی انڈونیشیا کی تحریک آزادی کے حق میں موثر آواز بلند کی یہاں تک کہ ۱۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۹ء/ ۱۳۲۸ہش کو انڈونیشیا کو آزادی مل گئی۔
‏vat,10.33
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< اور تحریک آزادی انڈونیشیا
چوتھا باب
حواشی
۱۔
سر لیبل ایچ گرفن اور کرنل میسی نے پنجاب چیفس میں ریاست مالیر کوٹلہ کے خاندان کا شجرہ نسب دیکر مفصل تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح مولانا ضیاء الدین صاحب علوی وکیل امروھوی اپنی کتاب >مراۃ الانساب< میں لکھتے ہیں کہ۔
شیخ صدر الدین یا صدر جہاں ۸۷۶ھ میں مقام ڈرابھن سے )جو ملیح قتال نے آباد کیا تھا( بطور سیاحت ہندوستان آئے اور جہاں اب مالیر آباد ہے یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا یہاں ایک پھونس کا گھر بنا کر مشغول عبادت ہوئے اتفاقاً سلطان بہلول لودھی ان کی زیارت کو آیا اور دعا کی استدعا کی اور دل میں خیال کیا کہ اپنی لڑکی کا نکاح ان سے کردوں گا۔ چنانچہ بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور شیخ صدر الدین کو نذر میں ۶۸ دیہات دیئے۔ شیخ صدر الدین نے بعد نکاح اس گائوں کو آباد کیا اور مالیر نام رکھا۔ بعمر ۷۱ سال ۱۵۱۵ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ بڑے کامل بزرگ تھے اب بھی مالیر میں ان کی قبر زیارت گاہ عام ہے۔ )مرۃ الانساب صفحہ ۱۳۰ حاشیہ طبع اول ۳۰۔ اپریل ۱۹۱۷ء مطبع رحیمی(
۲۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۸۷۔ ۷۸۸۔
۳۔
مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ ۲۔ ۳ )مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی( سن اشاعت یکم فروری ۱۹۳۳ء(
۴۔
رجسٹر بیعت۔
۵۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۸۹۔ ۷۹۰۔
۶۔
ایضاً صفحہ ۷۸۸۔ ۷۸۹۔
۷۔
تبلیغ رسالت جلد دوم صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۵۔ ایضاً مکتوبات جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ ۱۷۔
۸۔
ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام ضمیمہ صفحہ ۱۶۔
۹۔
تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۲۰۔
۱۰۔
تبلیغ رسالت جلد ہشتم صفحہ ۶۹۔
۱۱۔
تبلیغ رسالت جلد نہم صفحہ ۵۹۔
۱۲۔
الحکم ۱۰۔ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۳۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۱۴۔
الفضل ۴۔ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۱۵۔
الفضل ۱۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔
۱۶۔
الفضل ۱۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۷۔
الفضل ۱۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۸۔
اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۶۲۲۔ ۶۲۳ )مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے(
۱۹۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فرور ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵ کالم ۳ و ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲۔
‏]1h [tag۲۰۔
اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ ۶۰ تا ۷۰ طبع اول۔
۲۱۔
روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵۔
۲۲۔
الفضل ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ و الفضل ۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ و الفضل ۱۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶ کالم ۲۔ ۳۔
۲۳۔
حضرت مصلح موعود کا ارادہ دو تین ماہ میں کمیونزم اور مذہب کے عنوان پر بھی ایک تقریر ارشاد فرمانے کا تھا اور اس کے لئے ایک رات بیٹھ کر اس کے نوٹ بھی لکھ لئے تھے مگر افسوس لاہور میں اس کے لئے کوئی مناسب تقریب پیدا نہ ہوسکی اور دنیا ایک لازوال اور انمول علمی خزانے سے محروم رہی۔ )الفضل ۱۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶(
۲۴۔
روزنامہ الفضل قادیان مورخہ ۱۸۔ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۲۵۔
)ترجمہ( الفضل ۳۰۔ امان` ۳۰۔ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔
۲۶۔
لیکچر کا دوسرا اردو ایڈیشن امان/ مارچ ۱۳۴۸ہش/ ۱۹۶۹ء میں نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ نے نہایت دیدہ زیب کتاب و طباعت اور و بیزی سرورق سے شائع کیا ہے۔ اس کے بعد تیسرا ایڈیشن وقف جدید ربوہ کی طرف سے اسی سال چھپ چکا ہے۔
۲۷۔
روزنامہ الفضل لاہور مورخہ ۱۶۔ ستمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔
۲۸۔
تجویز نمبر ۵ یہ تھی۔ قادیان دارالامان میں ہر سال نظارت دعوت و تبلیغ کے زیر انتظام ایک ریلیجس کانفرنس منعقد ہوا کرے جیسا کہ تعمیر منارۃ المسیح کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا منشاء مبارک تھا اور اس کے لئے مناسب اخراجات کی بجٹ میں گنجائش رکھی جائے۔
۲۹۔
سب کمیٹی کے ممبران پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب )صدر( حضرت مرزا شریف احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ )سیکرٹری( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب )ناظر تعلیم و تربیت( پیر صلاح الدین صاحب )ملتان( چوہدری سعد الدین صاحب اے۔ ڈی۔ آئی راولپنڈی۔ مرزا غلام حیدر صاحب )نوشہرہ چھائونی( سید امجد علی صاحب )سیالکوٹ( مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ۔ مولوی عبدالواحد صاحب )کشمیر( ڈاکٹر عبدالاحد صاحب )فضل عمر ریسرچ( ماسٹر عطا محمد صاحب )امرتسر( مولوی عبدالقادر صاحب صدیقی )حیدر آباد دکن( سید ارشد علی صاحب )لکھنو( چوہدری محمد شریف صاحب وکیل منٹگمری۔ چوہدری ابوالہاشم صاحب )حیدر آباد دکن( مولوی ابوالعطاء صاحب۔ حکیم عبدالرشید صاحب )گھنو کے ججہ( عبدالکریم صاحب کوئٹہ۔ مرزا احمد بیگ صاحب۔ مولوی الحاج نذیر احمد علی صاحب مبلغ سیر الیون۔
۳۰۔
اس نام کے چار دوست کوٹ کریم بخش` اسماعلیہ )گجرات( مسجد فضل قادیان اور ننگل سے مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں بطور نمائندہ شامل تھے مگر یہ رپورٹ سے یہ وضاحت نہیں ملتی کہ اس کارروائی میں حصہ لینے والے کون تھے؟
۳۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۵۵ تا صفحہ ۱۶۱۔
۳۲۔
الفضل یکم ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۔
۳۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۷۔ ۳۸۔
۳۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ تا ۴۔ ایضاً المبشرات۔
۳۵۔
الفضل ۱۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ و ۲۔
۳۶۔
الفضل ۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۳۷۔
الفضل ۵۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳` ۴۔
۳۸۔
بدر ۲۱۔ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۴` الحکم ۱۷۔ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۷۔
۳۹۔
اس سلسلہ میں لنڈن کے اخباروں میں سے ڈیلی ایکسپریس ڈیلی میل۔ ڈیلی ٹیلیگراف کے نامہ نگاروں نے جو تفصیلات شائع کیں وہ شیخ ناصر احمد صاحب نے الفضل ۱۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش میں شائع کرا دی تھیں۔
۴۰۔
الفضل ۱۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔ ۳۔
۴۱۔
پربھات ۲۰۔ ستمبر ۱۹۴۵ء )بحوالہ الفضل ۲۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔ ۲(
۴۲۔
فرمایا بیعت کا وقت ۔۔۔۔۔۔ نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے۔ )رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۸۔
۴۳۔
الفضل ۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ تا ۴۔
۴۴۔
الفضل یکم اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۴۵۔
الفضل یکم اخاء/ اکوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۔
۴۶۔
الفضل ۳۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ و ۵۔
۴۷۔
الفضل ۵۔ ماہ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۳ و ۴۔
۴۸۔
الفضل ۳۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶۔
۴۹۔
‏(RAWALPINDI) 1987 ۔15 OCTOBER POINT VIEW
۵۰۔
انگلستان جانے والے واقفین کے ساتھ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم بھی تھے جن کی روانگی کا فیصلہ اسی روز ہوا اور ان کو صرف چند گھنٹوں کے اندر اندر تیار ہوکر عازم افریقہ ہونا پڑا۔ علاوہ ازیں مولوی نذیر احمد علی صاحب رئیس التبلیغ مغربی افریقہ )معہ اہل و عیال( صبح کی گاڑی سے لاہور تشریف لے گئے اور لاہور سے شریک قافلہ ہوگئے۔ اس طرح جماعت مبلغین کی تعداد گیارہ تک پہنچ گئی۔
۵۱۔
الفضل ۱۸` ۱۹۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء۔ الفضل ۱۴۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ و ۸۔
۵۲۔
الفضل ۱۷۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۵۳۔
بحوالہ الفضل ۱۹۔ صلح ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۹ کالم ۳۔ ۴۔
۵۴۔
الفضل ۱۱۔ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔ )ملخص از مضمون جناب شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ(
۵۵۔
تقریر کا مکمل متن الفضل )۳` ۴۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء( میں درج ہے۔
۵۶۔
الفضل ۱۸۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۵۷۔
آپ نے دہلی روانہ ہونے سے دو روز قبل اپنے ہاتھ سے مندرجہ ذیل وصیت لکھی تھی۔
>بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ` چونکہ میں اپریشن کے لئے دہلی جارہا ہوں اور زندگی کا انحصار نہیں اس لئے یہ یادداشت تحریر کرتا ہوں میں ایمان لاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آنحضرت~صل۱~ خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود` مہدی مسعود نبی اللہ ہیں۔ اے اللہ میری وفات ان کی غلامی میں ہو اور میں مقبرہ بہشتی میں دفن ہو جائوں۔ یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے۔ مرزا محمد شفیع ۴۴/۱۰/۱۶<۔
۵۸۔
مرزا منور احمد صاحبؓ مجاہد تحریک جدید نے اپنے والد ماجد کے مفصل حالات لکھتے تھے جو الفضل ۲۹` ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء میں شائع شدہ ہیں اس سلسلہ میں متن اور حاشیہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے اس مضمون کا ملخص سمجھنا چاہئے۔
۵۹۔
حضرت مرزا محمد شفیع صاحب کی اولاد )۱( امتہ اللطیف صاحبہ حرم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسٰمعیل صاحب و والدہ ماجدہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ )۲( مرزا محمد احمد صاحب مرحوم )۳( مرزا احمد شفیع صاحب )شہید ۳۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء( )۴( رشیدہ بیگم صاحبہ زوجہ مرزا عزیز احمد صاحب آف لاہور )۵( مرزا منور احمد صاحبؓ مبلغ امریکہ )۶( حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد اسمعیل صاحب بقاپوری کراچی۔
۶۰۔
الفضل ۱۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۱۔
روایات صحابہ جلد ۱ صفحہ ۱۳` ۱۵ ایضاً روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۹۸۔ ۱۰۰۔ نرینہ اولاد۔ چوہدری عطاء اللہ صاحب۔ چوہدری قمر الدین صاحب۔ چوہدری جمال الدین صاحب۔
۶۲۔
الفضل ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۔
۶۳۔
حال ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور۔ آپ ایک عرصہ تک قائد مجلس لاہور کے کامیاب فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
۶۴۔
الفضل ۹۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔
۶۵۔
سنہ بیعت کی تعیین حضرت مولوی صاحب کے مندرجہ ذیل تحریری پیغام سے کی گئی ہے۔
قادیان ۴۵/۱۲/۲۸ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرصہ چالیس سال سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا ہوں اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے تمام دعاوی کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کو سچا مانتا ہوں آپ لوگوں کو بھی چاہئے کہ مان لیں یہ وقت غنیمت ہے۔ فقط )دستخط( محمد دلپذیر بھیروی مصنف کتاب گلزار یوسف وغیرہ۔ )مطبوعہ الفضل ۱۹۔ فروری ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۰(
۶۶۔
الفضل ۶۔ تبلیغ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔
۶۷۔
الفضل ۶۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔ پنجابی شاعراں دا تذکرہ از مولا بخش کشتہ ٹمپل روڈ لاہور۔
۶۸۔
ان سب کتابوں کا تذکرہ حضرت مولوی صاحبؓ نے اپنی کتاب منظوم احوال الاخرت صفحہ ۱۷۲` ۱۷۳ پر فرمایا ہے۔ احوال الاخرت کا سن تصنیف شوال ۱۳۱۶ھ مطابق فروری` مارچ ۱۸۹۹ء ہے اور اسے سب سے پہلے ملک ہیرا تاجر کتب کشمیری بازار لاہور نے شائع کیا تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولوی صاحب اس وقت تک سلسلہ احمدیہ میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ گو انہوں نے اس میں کھلے لفظوں میں لکھا کہ چاند سورج گرہن کا نشان رمضان ۱۳۱۱ھ میں آنحضرت کی پیشگوئی کے عین مطابق پورا ہوچکا ہے۔ )صفحہ ۴۸ طبع اول(
۶۹۔
رسالہ >واذا الصحف نشرت< صفحہ ۴۳۔ ۴۴ مرتبہ جناب میاں عبدالعظیم صاحب تاجر کتب قادیان۔
۷۰۔
الفضل ۶۔ اخاء/ اکوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۶۔
۷۱۔
شعبہ کا سربراہ۔
۷۲۔
الفضل ۲۳۔ اخاء/ اکوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ )ملخصاً از مضمون محمد احسان الحق صاحب آف پورینی ضلع بھاگلپور(
۷۳۔
الفضل ۲۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۴۔
الفضل ۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۷۔
۷۵۔
الفضل ۱۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۳ و ۴۔
۷۶۔
الفضل ۸۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔ الفضل ۱۱۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔
۷۷۔
الفضل ۲۶۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۔
۷۸۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے اپنے منظوم سفر نامہ مطبوعہ ۱۹۱۹ء میں یادگیر پہنچنے اور سیٹھ صاحب کے چندہ دینے کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔
۷۹۔
اس سلسلہ میں سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی کا بیان کردہ ایک واقعہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۲۲۴ پر لکھا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
۸۰۔
حضرت سیٹھ صاحب کی نرینہ اولاد سیٹھ محمد عبدالحی صاحب )مرحوم( سیٹھ محمد الیاس صاحب )امیر جماعت احمدیہ یادگیر(
۸۱۔
حضرت سیٹھ صاحب کے مفصل حالات کے لئے ملاحظہ ہو )۱( حیات حسن )مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی( مطبوعہ اسلامی پریس بازار نور الامراء حیدر آباد دکن یوم النحر ۱۳۷۰ھ مطابق ستمبر ۱۹۵۱ء۔ )۲( اصحاب احمد جلد ۱ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے( مطبوعہ ۱۹۵۱ء۔ مطبع گیلانی لاہور۔
۸۲۔
تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۲۹۶۔ مرتبہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحبؓ۔ مطبوعہ فروری ۱۹۶۶ء۔
۸۳۔
الفضل ۲۵۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۴۔
روایات صحابہ جلد ۱۱ صفحہ ۷۔ ۸ )غیر مطبوعہ(
۸۵۔
روایات صحابہ جلد ۱۱ صفحہ ۱۱ تا ۱۵ )غیر مطبوعہ( حضرت حاجی صاحب کی یہ خود نوشت روایات حضرت شیخ عبدالقادر صاحب نے تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۲۹۶ تا ۳۰۱ میں بھی شائع فرما دی ہیں۔
۸۶۔
روایات صحابہ جلد ۱۱ صفحہ ۱۲۔
۸۷۔
حضرت حاجی صاحبؓ کی نرینہ اولاد۔ میاں عبدالمجید صاحب )صحابی( میاں عبدالماجد صاحب )صحابی( میاں محمد احمد صاحب۔ میاں محمد یحییٰ صاحب۔ میاں مبارک احمد صاحب۔ )تاریخ احمدیت لاہور صفحہ ۳۰۱۔ ۳۰۲۔(
۸۸۔
تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۲۷۔ ۳۴۔
۸۹۔
الفضل ۷۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔ حضرت حافظ صاحب نے اپنے پیچھے دو بیٹے یادگار چھوڑے۔ )۱( شیخ عبداللہ صاحب جو ۱۹۴۷ء کے فسادات میں شہید کر دیئے گئے۔ )۲( شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر آپ کی ولادت ۱۹۰۱ء میں ہوئی ۱۹۲۷ء میں مستقل طور پر قادیان آئے اور ادارہ الفضل سے منسلک ہوکر ایک لمبے عرصہ تک سلسلہ احمدیہ کی علمی اور انتظامی خدمات بجا لاتے رہے اور ۱۹۵۰ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کے متعدد خطبات و ملفوظات اور تقاریر آپ کی کوشش سے سلسلہ کے لٹریچر میں محفوظ ہوئیں۔ مجلس مشاورت کی روئدادوں کے قلمبند کرنے میں بھی آپ حصہ لیتے رہے۔ نیشنل لیگ قادیان کے سرگرم ممبران میں سے تھے۔ مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے اور سرفروشان اسلام آپ کی مشہور تالیفات ہیں۔ اول الذکر کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جن میں سے ایک انجمن ترقی اسلام حیدر آباد دکن نے چھاپا ہے۔ )تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ۱۳ صفحہ ۲۴۳ تا ۲۴۷ مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
۹۰۔
الفضل ۶۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۹۱۔
روایات صحابہ جلد ۵ صفحہ ۱۴۱۔
۹۲۔
الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۳۔
الفضل ۱۵۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۹۴۔
رویات صحابہ جلد ۸ صفحہ ۹۳۔ ۹۴ میں آپ کے خود نوشت حالات درج ہیں۔
۹۵۔
الفضل ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۶۔
الفضل ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۷۔
الفضل ۳۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۹۸۔
الفضل ۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۹۔
الفضل ۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۰۔
الفضل ۶۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۱۔
الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۲۔
الفضل ۳۱۔ امان/ مارچ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۱۰۳۔
الفضل ۶۔ اپریل ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ کالم ۳ و ۴۔
‏]h1 [tag۱۰۴۔
الفضل ۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۷۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۷۔ ماہ فتح/ دسمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۸۔
۱۰۶۔
الفضل ۲۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۔
۱۰۷۔
الفضل ۱۲۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۱۰۸۔
الفضل ۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۳۔ تبلیغ/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲۔
۱۱۰۔
الفضل ۲۳۔ تبلیغ ۱۳۲۴ہش مطابق ۲۳۔ فروری ۱۹۴۵ء صفحہ ۲۔
۱۱۱۔
نمایاں کام کرنے والے مقامی احمدیوں کے نام۔ حکیم محمد اسمعیل صاحب پریذیدنٹ جماعت احمدیہ پیر کوٹ۔ عبدالرحمن صاحب سیکرٹری تبلیغ پیر کوٹ۔ چوہدری جہان خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ مانگٹ اونچے۔ چوہدری حیات محمد صاحب نائب امیر مانگٹ اونچے۔ )الفضل ۱۴۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۱(
۱۱۲۔
الفضل ۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔
۱۱۳۔
الفضل ۳۱۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۱۴۔
الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۵۔
۱۱۵۔
الفضل ۳۔ امان/ مارچ ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء۔
۱۱۶۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۱۱۷۔
الفضل ۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۱۸۔
الفضل ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۹۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔
۱۲۰۔
الفضل ۱۸۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۴۔ مکمل مکتوب الفضل ۹۔ امان ۱۳۲۵ہش میں شائع شدہ ہے۔
۱۲۱۔
حضرت مولوی حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ لیگوس نے ۲۲۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بذریعہ مکتوب ان کی وفات کی خبر لکھی تھی۔ یہ مکتوب الفضل ۱۱۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ پر چھپا ہوا ہے۔
۱۲۲۔
الفضل ۲۰۔ وفا / جولائی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۲۳۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۔۴ پر یہ ایڈریس درج ہے۔۔
۱۲۴۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۳۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۲۶۔
الفضل ۹۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۲۸۔
الفضل ۷۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۲۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
‏h1] gat[۱۳۰۔
الفضل ۱۵۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱۔
۱۳۱۔
الفضل ۲۳۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۳۲۔
الفضل ۷۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۳۳۔
الفضل ۲۲۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔
۱۳۴۔
الفضل ۱۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۳۶۔
الفضل ۹۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۴ہش / ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۷۔
تفصیل الفضل ۴۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۴ہش / ۱۹۴۵ء صفحہ ۳ میں مندرج ہے۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۳۔ جون ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۲۔
۱۳۹۔
الفضل ۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش / ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش / ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۳` ۴۔
۱۴۱۔
الفضل ۱۴۔ ماہ شہادت / اپریل ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۲۔
مولوی نذیر احمد صاحب شاہد ریحان مربی سلسلہ کے خسر نہایت مخلص` پابند صوم و صلٰوۃ یک رنگ بزرگ اور اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کے عشاق میں سے تھے۔ ہجرت کے بعد کرونڈی ضلع نواب شاہ میں آباد ہوگئے جہاں ۲۲۔ فتح ۱۳۴۵ہش مطابق ۲۲۔ دسمبر ۱۹۶۶ء کو ایک شخص حاجی محمد مانک حر کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے شہید کر دئے گئے۔ اللھم اغفرلہ و ادخلہ فی جنتک النعیم۔
۱۴۳۔
مناظرہ کی مفصل روئداد مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل کے قلم سے الفضل ۲۳۔ ماہ شہادت ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵۔۶ پر درج ہے۔
۱۴۴۔
الفضل ۲۰۔ احسان/ جون ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۴۵۔
الفضل ۲۱۔ احسان/ جون ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۳` ۴۔
۱۴۶۔
الفضل ۲۵۔ ظہور / اگست ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۶۔ ۷۔ ملخصاً از مضمون فیض بخش صاحب نون نائب مہتمم تبلیغ مظفر گڑھ۔
۱۴۷۔
الفضل ۲۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء صفحہ ۵ کالم ۳` ۴۔
۱۴۸۔
الفضل ۱۴۔ نبوت۱۳۲۴ہش صفحہ ۵۔
۱۴۹۔
اس مناظرہ کا ایک واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ احمدی مناظر نے ۶۔ نومبر کو دوران بحث حنفی مناظر کو موکد بعذاب حلف اٹھانے کی انعامی دعوت دی۔ جب جماعت احمدیہ کنری نے اس حلف نامہ کو الفضل میں شائع کرنے کے لئے لکھا تو ادارہ الفضل نے اس بغرض استصواب حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں بھیجا جس پر حضور کے ارشاد پر نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے سلسلہ کے علماء سے مشورہ کیا گیا۔ علماء کی متفقہ رائے حضور کی خدمت میں پیش ہوئی تو حضور نے فیصلہ فرمایا کہ۔
>میں تو ایسے مطالبہ کو جائز نہیں سمجھتا۔ شرائط حلف تو درست ہیں لیکن یہ امر بھی تو واضح ہے کہ شرائط کا وجود صرف بہت بڑا اہل شخص ہی ثابت کرسکتا ہے۔ اس لئے یا امام یا جماعت مسلمہ اس کا فیصلہ کرنے کی اہل ہے نہ ایک مبلغ<۔ اس فیصلہ کی روشنی میں نظارت دعوت و تبلیغ نے الفضل ۱۰۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۴ پر مفصل اعلان شائع کیا کہ آئندہ کوئی جماعت یا جماعت کا فرد بغیر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے حلف یا مباہلہ کے بارہ میں کوئی اقدام نہ کرے<۔
۱۵۰۔
الفضل ۱۵۔ تبلیغ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵ کالم ۴۔
۱۵۱۔
الفضل یکم امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۵۲۔
بحوالہ الفضل ۳۱۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۱۵۳۔
الفضل ۱۱۔ امان ۱۳۲۵ہش/ ۱۱۔ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ و ۴۔ شہادت ۱۳۲۵ہش/ ۴۔ اپریل ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۵۴۔
الفضل ۱۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۱۵۵۔
البدر مورخہ ۲۹۔ اکتوبر و ۸۔ نومبر ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۲۳۔
۱۵۶۔
ابن حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحبؓ دہلوی۔ ولادت ۲۸۔ اکتوبر ۱۹۱۰ء۔ ۱۰۔ جنوری ۱۹۴۳ء کو فوج میں بھرتی ہوئے جہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد مئی ۱۹۵۹ء میں بیت المال ربوہ کے کارکن بنے اب نظارت امور عامہ ربوہ میں کام کررہے ہیں۔
۱۵۷۔
دہلی کے پاس ایک قصبہ۔
۱۵۸۔
ترجمہ از مجلہ تحریک جدید باتصویر مرتبہ مولانا نور الدین صاحب منیر ایم۔ اے
۱۵۹۔
قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں۔ صیغہ نشر و اشاعت لاہور ۱۹۴۸ء )صفحہ ۱۸ تا ۲۰(
۱۶۰۔
الفضل ۱۸۔ ہجرت ۱۳۲۵ہش/ ۱۸۔ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ پر وقف زندگی سے متعلق آپ کی درخواست کا ترجمہ شائع شدہ ہے۔
۱۶۱۔
الفضل ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۱۶۲۔
الفضل ۶۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء )مندرجہ بالا تقریروں کا انگریزی متن رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی بابت ماہ جون ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۶۲ تا ۱۶۸ میں شائع شدہ ہے۔ اس رسالہ میں مسٹر بشیر آرچرڈ کی تصویر بھی موجود ہے(
۱۶۳۔
جناب آرچرڈ صاحب نے ان دنوں قادیان کے بعض مناظر کی فلم بھی تیار کی مگر افسوس کہ انہوں نے ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو بذریعہ مکتوب شعبہ تاریخ کو اطلاع دی کہ اس کے نقوش بہت مدھم ہوگئے ¶ہیں۔
۱۶۴۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/ اپریل ۱۳۴۱ہش/ ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء صفحہ ۴۔
۱۶۶۔
الفضل ۲۰۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۱۶۷۔
الفضل ۲۷۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۶۸۔
الفضل ۱۷۔ احسان / جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۱۶۹۔
الفضل ۲۸۔ جون ۱۹۴۶ء صفحہ ۴` ۵۔
۱۷۰۔
الفضل ۲۵۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ تا ۳۔
۱۷۲۔
بحوالہ الفضل ۱۹۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۴۔
۱۷۳۔
الفضل ۴۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۱۷۴۔
الفضل ۲۵۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔
۱۷۵۔
مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا نے انہی دنوں >انڈونیشیا کی آزاد حکومت کے آئین کی تفصیل< کے عنوان سے ایک مضمون بھی لکھا تھا جو الفضل ظہور/ تبوک ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء میں بالاقساط شائع ہوا۔
‏]1h [tag۱۷۶۔
الفضل ۲۷۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ )مبلغ انگلستان( نے انڈونیشین لیڈر حاجی سلیم مقیم لندن کو یہ خطبہ بھیجا تو انہوں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا اس قدر شاندار خطبہ کی بہت وسیع پیمانہ پر اشاعت ہونی چاہئے۔ )غیر مطبوعہ مکتوب باجوہ صاحب مورخہ ۶۔ نومبر ۱۹۴۷ء(
‏vat,10.34
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
پانچواں باب )فصل اول(
مسلمانان عالم کو قبل از وقت انتباہ اور اتحاد اسلامی
کی پر زور تحریک سے لے کر حضرت مصلح موعود
کی ہجرت پاکستان تک
)از شوال ۱۳۶۵ھ مطابق ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء تا شوال ۱۳۶۶ھ(
)مطابق ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء(
مسلمانان عالم کو اتحاد کی تحریک۔ حضرت مصلح موعود کی اہم دینی مصروفیات دہلی میں۔ نواکھالی اور بہار میں فسادات اور جماعت احمدیہ کی خدمت خلق۔ متحدہ ہندوستان کا آخری سالانہ اجتماع اور سالانہ جلسہ۔ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء میں انتقال کرنے والے بزرگ صحابہ
کلکتہ کے فسادات میں احمدیوں کا شدید نقصان
کلکتہ اگرچہ ایک عرصہ سے ہنگاموں اور بلووں کا مرکز بنا ہوا تھا مگر اس سال ۱۶ تا ۱۸ ظہور/ اگست کے فرقہ وارانہ فسادات نے گزشتہ تمام ریکارڈ مات کر دیئے۔ سرسری اندازہ کے مطابق دو تین ہزارکے درمیان نفوس ہلاک اور چار پانچ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ شہر کے چپہ چپہ میں لوٹ مار اور آتش زنی کے بے شمار واقعات ہوئے ہزاروں دکانیں اور مکانات جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ ان فسادات میں جماعت احمدیہ کلکتہ کے سب افراد خدا کے فضل سے بخیریت رہے البتہ تین لاکھ روپیہ کے قریب انہیں مالی نقصان ہوا۔ سب سے زیادہ بلوائیوں کی لوٹ مار کا تختہ مشق >کانٹی نینٹل موٹر ہائوس< کی احمدی فرم۱ کو بننا پڑا۔ جس کے مالک سیٹھ محمد صدیق صاحب و محمد یوسف صاحب تھے۔ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جب کلکتہ کے احمدیوں کے مالی نقصان کی اطلاع پہنچی تو حضور نے اپنے قلم سے لکھا۔
>اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اگر وہ سچے صبر اور توکل علی اللہ سے کام لیں تو نقصان میں زور نہ ہوگا۔ انشاء اللہ ترقی ملے گی<۔
چنانچہ خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوا۔
مصیبت اور ابتلا کے ان پرخطر ایام میں بھی احمدیوں نے دوسرے مصیبت زدوں کی ہر ممکن امداد کی چنانچہ تین بچوں اور چھ خواتین کو فساد زدہ علاقہ سے نکال کر ایک احمدی کے گھر پناہ دی گئی۔ اسی طرح ایک احمدی نے ایک سکھ فوجی افسر کو )مع اہل و عیال( اور ایک ہندو کو ایک دن رات اپنے یہاں رکھا اور دوسرے روز بعض اور معززین کی مدد سے ان کو ان کے گھروں تک بخیریت پہنچایا۔ علاوہ ازیں احمدی دوست اپنے اپنے حلقہ میں حتی المقدور ہر مذہب و ملت کے لوگوں کو ہرممکن امداد دیتے رہے۔۲
ڈھاکہ کے احمدیہ دارالتبلیغ میں آتشزدگی
فسادات کلکتہ کا سلسلہ پورے بنگال میں پھیل گیا تھا جس کے دوران صوبائی جماعت احمدیہ بنگال کے دارالتبلیغ کو )جو نمبر ۴ بخشی بازار روڈ ڈھاکہ میں ہندو آبادی کی اکثریت کے درمیان واقع تھا( کو پہلے لوٹا گیا پھر ۲۲۔ تبوک/ ستمبر کی شام کو نذر آتش کر دیا گیا جس سے مسجد احمدیہ بالکل خاکستر ہوگئی اور دارالتبلیغ کے پختہ حصہ کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ دفتر کا سامان` دفتری ریکارڈ` بنگالی ترجمہ` قرآن کا مسودہ۔ الفضل کے فائل اور بہت سا مذہبی لٹریچر بالکل جل گیا۔ صوبائی مرکز عارضی طور پر برہمن بڑیہ ضلع پٹرہ میں منتقل کر دینا پڑا۔۳
مسلمانان عالم کو بروقت آسمانی انتباہ اور متحد ہونے کی تحریک
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ >اسلام کے لئے ایک بہت ہی نازک وقت آنے والا ہے اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات میں آپس میں اتحاد کرلیں جن میں اختلاف کرنے پر ان کا مذہب اور ان کا عقیدہ انہیں مجبور نہیں کرتا<۔
اس الٰہی اشارہ پر حضور نے >الانذار< کے نام سے الفضل میں ایک مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں نہایت تفصیل سے پوری خواب درج فرمائی پھر لکھا۔
>اس رویاء نے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کے لئے ایک نہایت ہی نازک دور آرہا ہے اور مسلمانوں کو دنیوی اور سیاسی معاملات میں اپنے آپ کو متحد کرلینا چاہئے اور ہر شخص کو دوسرے تمام امور کی نسبت اتحاد کو مقدم کرلینا چاہئے کیونکہ اسی میں مسلمانوں کی نجات ہے۔ یہ نہایت ہی مشکل بات ہے۔ آسان بات نہیں۔ اس وقت مختلف مسلمان گروہوں کی طبائع میں اس قدر اختلاف پیدا ہوچکا ہے کہ وہ اختلافی مسائل پر زور دینا زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت اتحاد کی کوشش کے۔ بحیثیت مجموعی انہیں مسلمانوں کی بہبودی کی اتنی فکر نہیں جتنی ہر پارٹی کو اپنی پارٹی کی فکر ہے۔
میں اس خواب کو ظاہر کرتے ہوئے ہر احمدی کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائے کہ تمہاری پھوٹ تمہاری تباہی کا موجب ہوگی۔ اس وقت تمہیں اپنی ذاتوں اور اپنے خیالوں اور اپنی پارٹیوں کو بھول جانا چاہئے اور ہر ایک مسلمان کہلانے والے کو اسلام کی حفاظت کے لئے متحد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اختلاف کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔ ہر ایک سے یہ مت خواہش کرو کہ وہ سو فیصدی تمہارے ساتھ مل جائے بلکہ اس سے یہ پوچھو کہ اس جدوجہد میں تم کتنی مدد کرسکتے ہو۔ جتنی مدد وہ کرنے کے لئے تیار ہو اس کو خوشی سے قبول کرلو اور اس وجہ سے کہ وہ سو فیصدی تمہارے ساتھ نہیں اس کو دھتکارو نہیں اور اسلام کی صفوں میں رخنہ پیدا مت کرو۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس آواز کو اٹھائے اور رات اور دن اس کام میں لگ جائے حتیٰ کہ سیاسی پارٹیاں آپس میں اتحاد کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ میں یقین کرتا ہوں کہ اگر اب بھی مسلمان اختلاف پر زور دینے کی بجائے اتحاد کے پہلوئوں پر جمع ہو جائیں تو اسلام کا مستقبل تاریک نہیں رہے گا ورنہ افق سماء پر مجھے سپین کا لفظ لکھا ہوا نظر آتا ہے<۔۴4] [rtf
یہ کشفی نظارہ کس طرح ۱۹۴۷ء میں حقیقت بن گیا۔ اس کی درد انگیز تفصیل آگے آرہی ہے۔ یہاں ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کے پریس اتاشی ایلن کیمبل جانسن کی ۶۔ نومبر ۱۹۴۷ء کی ڈائری کے چند الفاظ درج کرنا ضروری ہے۔ لکھا ہے۔
گورنمنٹ ہائوس۔ نئی دہلی جمعرات ۶۔ نومبر ۱۹۴۷ء
آج سویرے امپیریل ہوٹل میں ایلن مور ہیڈ سے میری ملاقات ہوئی۔ دی آبزرور کے ایڈیٹر ڈیوڈ اسٹور نے ان سے ہندوستان اور پاکستان کے چند خصوصی مضامین لکھنے کی درخواست کی تھی۔ ہندوستان میں ان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
میں نے سوال کیا۔ ہندوستان میں آپ کا پہلا ردعمل کیا ہوا؟ جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا >یہاں مجھے اسپین کے مناظر دکھائی دئے۔ ایک شخص دوسرے شخص سے متنفر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔<۔۵
مسلمانان عالم کے لئے دعائے خاص کا ارشاد
حضرت مصلح موعود نے >الانذار< کے تسلسل میں بمقام بیت الفضل )ڈلہوزی( ۳۰۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو ایک خطبہ بھی دیا جس میں مسلمانان عالم کے لئے دعائے خاص کی تحریک کی چنانچہ ارشاد فرمایا۔
>آج کل جس قسم کے حالات میں سے مسلمان گزر رہے ہیں وہ نہایت ہی تاریک ہیں۔ ہندوستان` فلسطین` مصر` اندونیشیا۔ ان سب جگہوں میں مسلمانوں کی ہستی نہایت ہی خطرہ میں ہے۔ ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایران میں روسی حکومت اپنا اثر و نفوذ پیدا کررہی ہے۔ اس لئے ایرانی حکومت کو نہایت خطرناک حالات کا سامان کرنا پڑرہا ہے۔ انڈونیشیا میں ڈچ حکومت مسلمانوں کو غلام بنانے کی خاطر تمام قسم کے ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ ملایا میں چینیوں کو زبردستی ٹھونسا جارہا ہے۔ ہندوستان سے چل کر ایران۔ پھر فلسطین۔ مصر۔ انڈونیشیا ان سارے ہی علاقوں میں مسلمان سخت خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔ پس تمام دوستوں کو چاہئے ان دنوں خاص طور پر دعائیں کریں۔ دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کرنی چاہئے کہ وہ بھی دعائوں میں لگ جائیں۔ سوائے اس کے مسلمانوں کے لئے کوئی چارہ نہیں<۔۶
دہلی میں حضرت مصلح موعود کی دینی مصروفیات
حضرت مصلح موعود نے اس سال )۲۱۔ تبوک/ ستمبر تا ۱۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء( سفر دہلی اختیار فرمایا جس کی سیاسی تفصیلات تیسرے باب میں آچکی ہیں۔ اس موقعہ پر قیام دہلی کے دوران حضور کی بعض اہم دینی مصروفیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
حضرت مصلح موعود کا قیام کوٹھی نمبر ۸ یارک روڈ میں تھا۔ جہاں حضور روزانہ مغرب و عشاء کی نماز کے بعد مجلس علم و عرفان میں رونق افروز ہوتے تھے اور احمدی غیر احمدی بلکہ غیر مسلم بھی بکثرت حضور کی مجلس میں حاضر ہوتے اور استفادہ کرتے تھے۔ قیام دہلی کے دوران حضور نے مسئلہ دعا` موت کے بعد روح` اسلامی عبادات اور چاند` قدامت روح و مادہ` ڈبوں کا گوشت` معجزہ شق القمر` حضرت صالح کی اونٹنی` ملکہ سبا کا تخت` احمدی نام` موعودہ خلافت` قومی رسوم و رواج وغیرہ متعدد مسائل پر لطیف روشنی ڈالی۔
حقائق و معارف کے اس سلسلہ کے علاوہ جو عموماً روزانہ ہی جاری تھا اور جو سرچشمہ ہدایت تھا۔ حضور نے مسجد احمدیہ دریا گنج میں تین خطبات جمعہ بھی دیئے۔ جن میں دہلی کی جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔۷ جماعت احمدیہ کے جملہ افراد کو یہ فرض یاد دلایا کہ وہ دنیا کی ہر قوم اور ہر فرد کو مخاطب کرے۔۸ اور دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے خصوصیت سے دعائوں میں لگ جائے۔۹ دہلی میں حضور کی تین خاص تقریریں بھی ہوئیں۔ ۲۹۔ تبوک/ ستمبر کو خدام الاحمدیہ دہلی کے جلسہ میں تقریر فرمائی اور انہیں اپنے اندر نیک تبدیلی` تنظیم مضبوط بنانے۔ دین کے لئے قربانی کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی قیمتی نصائح سے نوازا۔۱۰ یکم اخاء/ اکتوبر کو حضور نے دہلی کی احمدی خواتین سے خطاب فرمایا جس میں انہیں تبلیغ کرنے اور صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی پرزور نصیحت کی۔]4 [stf۱۱ ۹۔ اخاء/ اکتوبر کو حضور نے اپنی فرودگاہ میں اس اہم موضوع پر لیکچر دیا کہ >اسلام دنیا کی موجودہ بے چینی کا کیا علاج پیش کرتا ہے<۔ اس پر معارف لیکچر میں مسلم اور غیر مسلم معززین بکثرت موجود تھے جو آخر وقت تک نہایت توجہ اور سکون سے سنتے رہے۔۱۲ اخبار >تیج< دہلی نے اپنی ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں اس تقریر کے بارہ میں حسب ذیل نوٹ شائع کیا۔
>نمبر ۸ یارک روڈ پر ایک عظیم الشان جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے احمدیوں کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود )احمد( نے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ امن اور شانتی کا مسئلہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ خود انسان۔ کیونکہ انسانی فطرت کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کا قیام مطلوب ہے تو اس کے لئے جذبہ دشمنی و نفرت کو ختم کرنا پڑے گا۔ یہ مسئلہ سیاسی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے اور اگر ہم خدا کی خدائی سے باخبر ہوں اور روٹی کا پیار۔ لالچ وغیرہ کو چھوڑ دیں تو اس کے بعد ہم نفرت اور لالچ کی بجائے برادری اور محبت کے جذبات پیدا کرسکتے ہیں۔ مذہبی دنیا کے اختلافات ختم ہوسکے ہیں بشرطیکہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر قوت برداشت پیدا کریں۔ جس طرح مذہبی معاملات میں تحمل کی ضرورت ہے ٹھیک اسی طرح دنیاداری کے معاملات میں بھی اس کا ہونا لازمی ہے۔ ہمیں قومیت و رنگ کے جھگڑوں کو ختم کرکے عالمگیر برادری کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے<۔۱۳
اگلے روز )۱۰۔ اخاء کو( جناب خواجہ حسن نظامی نے حضرت امیر المومنین سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ جس کا ذکر خواجہ صاحب موصوف نے اخبار >منادی< )۲۴۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۱( پر >بے غرض مخلص اور دور اندیش لیڈر< کے عنوان سے بھی کیا چنانچہ انہوں نے لکھا۔
>آج شام کو نئی دہلی میں چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب کے مکان پر جناب مرزا محمود احمد صاحب خلیفہ جماعت احمدیہ سے ملنے گیا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ تک باتیں کیں ان کو مسلمان قوم کے ساتھ جو مخلصانہ ہمدردی ہے وہ سنکر میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج ایک ایسے لیڈر سے ملاقات ہوئی جس کو میں نے بے غرض مخلص سمجھا۔ ورنہ جو لیڈر ملتا ہے کسی نہ کسی غرض میں مبتلا نظر آتا ہے۔ مرزا صاحب مخلص بھی ہیں۔ دانشمند بھی ہیں۔ دور اندیش بھی ہیں اور بہادرانہ جوش بھی رکھتے ہیں<۔۱۴
چونکہ ۱۴۔ ماہ اخاء/ اکتوبر حضور کی روانگی کا دن تھا اس لئے آپ نے ایک روز قبل نماز ظہر کے بعد جماعت احمدیہ دہلی سے الوداعی خطاب فرمایا جو بعد کو حضور کی زندگی کا دہلی میں آخری خطاب ثابت ہوا۔ حضور نے اس موقعہ پر نہایت مفید اور قیمتی نصائح کرتے ہوئے آخر میں فرمایا۔
>اس وقت تمام دنیا میں اسلام پھیلانے اور لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ یہ خیال کبھی دل میں نہیں لانا چاہئے کہ یہ ذمہ داری کسی اور کی ہے۔ جب تم یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلو گے تو دنیا بھر میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ تم جہاں جائو گے تمہارے رستہ سے رکاوٹیں خود بخود دور ہوتی چلی جائیں گی۔ مثل مشہور ہے ہر فرعونے را موسیٰ۔ جس طرح ہر موسیٰ کا مقابلہ ہر فرعون نہیں کرسکتا اسی طرح ہر محمد ~)صل۱(~ کا مقابلہ بھی ہر ابوجہل نہیں کرسکتا۔ تم اگر چھوٹے محمد ~)صل۱(~ بن جائو گے تو کتنے بھی ابوجہل تمہارے مقابلہ کے لئے اٹھیں` مارے جائیں گے۔ پس آج آپ سب لوگ عہد کریں کہ اس دہلی میں جہاں پہلے پہل اسلام پھیلا اور دور دراز تک پہنچ گیا تھا آپ بھی اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کر دیں گے۔ اس وقت تمام مسلمان کہلانے والے تبلیغ سے بالکل غافل پڑے ہیں۔ اگر تبلیغ جاری رہتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ اسلام پر زوال آسکتا۔ پہلی پانچ صدیوں میں مسلمانوں نے ہندوستان میں تبلیغ پر زور دیا۔ مگر وہ پچھلی پانچ صدیوں والے سست ہوگئے۔ مگر اب خدا تعالیٰ کا منشاء ہے پھر تمام دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے۔ ہندوستان مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مولد ہے۔ اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ دہلی ہندوستان کا صدر مقام ہے دہلی والوں پر خاص کر بہت زیادہ ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت چالیس کروڑ آدمی بستے ہیں ان میں سے دس کروڑ مسلمان ہیں گویا ۴/۱ حصہ آبادی کو حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ۔ حضرت نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ اور دوسرے بزرگان نے مسلمان کیا۔ اب تمہارے لئے موقعہ ہے کہ اس کام کو سنبھالو۔ تین چوتھائی کام تمہارے حصہ میں آیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو اس فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین<۔۱۵
بالاخر یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضرت مصلح موعود قریباً تین ہفتے تک دہلی میں تشریف فرما رہے اس دوران میں جماعت احمدیہ دہلی نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا جس پر حضور نے اپنی اس آخری تقریر میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>جماعت دہلی نے جس مہمان نوازی کا نمونہ دکھایا ہے گو اسے مکمل نہ کہا جاسکے مگر یقیناً وہ دوسری جماعتوں کے لئے نمونہ ہے۔ ہماری مہمان نوازی چودھری شاہ نواز صاحب نے کی جس میں ان کی اہلیہ صاحبہ کا بہت سا حصہ ہے۔ فجزاھا اللہ احسن الجزاء۔ باقی ساتھیوں اور مہمانوں کی مہمان نوازی تین ہفتے متواتر جماعت احمدیہ دہلی نے کی اور بعض لوگ تو رات دن کام پر رہے اور بعض دوست کھانا کھلانے کے لئے اکثر آتے رہے۔ مثلاً بابو عبدالحمید صاحب سیکرٹری تبلیغ دہلی۔ اسی طرح اور کئی دوست کام میں لگے رہے۔ امیر صاحب جماعت دہلی۔ ڈاکٹر عبداللطیف صاحب۔ چودھری بشیر احمد صاحب۔ اسی طرح کئی اور دوست ان دنوں اسی طرح کام پر لگے رہے کہ گویا ان کا کام مہمان نوازی اور ہماری امداد کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹر لطیف صاحب اور سید انتظار حسین صاحب کی موٹریں رات دن ہماری کوٹھی پر رہیں اور چودھری شاہ نواز صاحب کی کار کے ساتھ ہر وقت سلسلہ کے کام کرتی رہیں اور یہ قربانی ان لوگوں نے متواتر تین ہفتہ تک رات اور دن پیش کی۔ یقیناً یہی ایمان کا تقاضا تھا اور ایمان کے آنے پر اس قسم کا اخلاص دکھائے بغیر کوئی جماعت اپنے ایمان کے دعوی میں سچی نہیں ہوسکتی۔ یہ کوئی اخلاص نہیں کہ امام آیا ہوا ہے اور لوگ اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو دین سے استغناء کا مظاہرہ ہے اور جو دین سے استغناء کرتا ہے وہ ایماندار کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اکثر احباب جماعت مغرب و عشاء میں متواتر تین ہفتہ شامل ہوتے رہے۔ میرے نزدیک جماعت کا ۴/۳ حصہ روزانہ نماز میں آتا تھا اور کافی تعداد کوئی ۴/۱ کے قریب باوجود دفتروں کا وقت ہونے کے ظہر و عصر میں شامل ہوتی تھی۔ ان میں سے بعض کو پانچ چھ بلکہ سات میل سے آنا پڑتا تھا۔ کثرت سے جماعت کے دوست دوسروں کو ملاقات کے لئے لاتے رہے اور مفید سوال و جواب سے اپنے اور دوسروں کے ایمان تازہ کرتے رہے۔ بہت سوں نے اس غرض سے دعوتیں کیں تامعزز غیر احمدیوں اور ہندوئوں کو ملنے کا موقعہ ملے کئی کی دعوتیں ہم قبول کرسکے اور کئی کی قلت وقت کی وجہ سے نہ کرسکے۔
عورتوں کی خدمات اور اخلاص بھی قابل تعریف تھا۔ انہوں نے قابل رشک نمونہ دکھایا۔ بہرحال میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے اخلاص اور تقویٰ کی زیادتی کے لئے اور دینی و دنیوی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں۔ اللھم آمین<۔۱۶
مولانا جلال الدین صاحب شمس کی کامیاب مراجعت اور ایک پیشگوئی کا ظہور
مولانا جلال الدین صاحب شمس مجاہد انگلستان دس سال تک تثلیث کے مرکز میں تبلیغ اسلام کا کامیاب جہاد کرنے کے بعد ۱۵۔ ماہ اخاء/ اکتوبر
۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو )معہ سید منیر الحصنی صاحب( امیر جماعت احمدیہ دمشق( قادیان میں تشریف لائے تو اہل قادیان نے ان کا نہایت پرتپاک اور پرجوش خیر مقدم کیا۔ ۱۶۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو ان کے اور السید منیر الحصنی کے اعزاز میں جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے دعوت عصرانہ دی۔ جس میں حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ایک پرمعارف تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ۔
>اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں اور ہر بطن اپنے اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے۔ رسول کریم~صل۱~ نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کے سات بطن ہیں اور سات بطنوں میں سے آگے ہر بطن کی الگ الگ تفاسیر ہیں۔ اسی طرح ایک ایک آیت سینکڑوں اور ہزاروں معانی پر مشتمل ہے<۔
>رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مغرب سے سورج کا طلوع ہوگا اور جب یہ واقع ہوگا تو اس کے بعد ایمان نفع بخش نہیں رہے گا۔ ۱۹۳۴ء میں احرار نے ہمارے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے احمدیت کا خاتمہ کر دیا ہے اور ۱۹۳۴ء سے ہی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک نئی زندگی بخشی اور اسے ایک ایسی طاقت عطا فرمائی جو اس سے پہلے اسے حاصل نہ تھی۔ اس نئی زندگی کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں قربانی کا نیا مادہ پیدا ہوا۔ ہماری جماعت میں اپنے نفوس اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا نیا جوش پیدا ہوا اور ہماری جماعت میں دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کے لئے باہر جانے کا نیا ولولہ اور نیا جوش موجزن ہوا چنانچہ پہلے بیسیوں اور پھر سینکڑوں نوجوانوں نے اس غرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور میں نے خاص طور پر ان کی دینی تعلیم کا قادیان میں انتظام کیا تاکہ وہ باہر جاکر کامیاب طور پر تبلیغ کرسکیں۔ اس عرصہ میں جنگ کی وجہ سے ہمارے پہلے مبلغ باہر رکے رہے اور نئے مبلغوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم نے ساری دنیا میں اپنے مبلغ اس طرح پھیلا دئے کہ احمدیت کی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی باقی مسلمانوں میں تو اس کی کوئی مثال تھی ہی نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی جو قربانی کی عادی ہے اس قسم کی کوئی مثال پہلے نظر نہیں آتی۔ جب مبلغ تیار کرکے بیرونی ممالک میں بھیجے گئے تو خدا تعالیٰ کی مشیت اور رسول کریم~صل۱~ کی پیشگوئی کے ماتحت ہمارا جو لشکر گیا ہوا تھا اس میں سے سب سے پہلے شمس صاحب مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے۔ پس اس پیشگوئی کا ایک بطن یہ بھی تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح اور اسلام کی کامیابی اور اسلام کے غلبہ اور اسلام کے استعلاء کے لئے ایسے سامان پیدا کریگا جن کی مثال پہلے مسلمانوں میں نہیں ملے گی۔ اور اس وقت سورج یعنی شمس مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا۔ ہمارے مولوی جلال الدین صاحب کا نام شمس ان کے والدین نے نہیں رکھا۔ ماں باپ نے صرف جلال الدین نام رکھا تھا مگر انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ شاعر بھی نہیں تھے یونہی اپنے نام کے ساتھ شمس لگا لیا تاکہ اس ذریعہ سے رسول کریم~صل۱~ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب شمس مغرب سے مشرق کی طرف آئے گا<۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ زمانہ بھی آجائے گا جب اس پیشگوئی کا دوسرا بطن پورا ہوگا اور مغرب سے اسلام کے مبلغ نکلنے شروع ہوں گے اور مغرب میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بجائے اسلام کو مٹانے کے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ پھر وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس دنیا پر صرف اشرار ہی اشرار رہ جائیں گے اور جب سورج بھی مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی۔ یہ سارے بطن ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک بطن یہ بھی ہے جو شمس صاحب کے آنے سے پورا ہوا اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا اس وقت کا روحانی حملہ جارحانہ حملہ ہوگا جو زیادہ سے زیادہ قوی ہوتا چلا جائے گا۔ پس ہماری جماعت کے دوستوں پر بھی اور جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی ہے- جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو یکے بعد دیگرے قوم کے نوجوانوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ جب لڑائی نہیں ہوتی اس وقت فوجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لیکن جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو جس طرح ایک تنور والا اپنے تنور میں پتے جھونکتا چلا جاتا ہے اسی طرح نوجوانوں کو قربانی کی آگ میں جھونکنا پڑتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ان میں سے کون بچتا ہے اور کون مرتا ہے۔ ایسے موقعہ پر سب سے مقدم سب سے اعلیٰ اور سب سے ضروری یہی ہوتا ہے کہ جیسے پروانے شمع پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کے احیاء کے لئے قربان کر دیں۔ کیونکہ ان کی موت کے ساتھ ان کی قوم اور ان کے دین کی زندگی وابستہ ہوتی ہے اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اگر قوم اور دین کی زندگی کے لئے دس لاکھ یا دس کروڑ یا دس ارب افراد بھی مر جاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی جاسکتی۔ اگر ان کے مرنے سے ایک مذہب اور دین زندہ ہو جاتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے۔
شمس صاحب پہلے مبلغ ہیں جو جنگ کے بعد مغرب سے واپس آئے۔ یوں تو حکیم فضل الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں۔ مولوی محمد شریف صاحب بھی مغرب میں ہیں۔ صوفی مطیع الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں اور ہوسکتا تھا کہ کوئی اور پہلے آجاتا۔ ہم نے حکیم فضل الرحمن صاحب کو آج سے نو ماہ پہلے واپس آنے کا حکم دے دیا تھا مگر ان میں سے کسی کو واپس آنے کی توفیق نہیں ملی۔ توفیق ملی تو شمس صاحب کو ملی۔ تا اس ذریعہ سے رسول کریم~صل۱~ کی یہ پیشگوئی پوری ہوکہ جب آخری حملے کا وقت آئے گا اس وقت شمس نامی ایک شخص مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا اور اس کے آنے کے ساتھ اسلام کے جارحانہ اقدام اور اس کے حملہ عظیمہ کی ابتداء ہوگی اور نوجوان ایک دوسرے کے پیچھے قربانی کے لئے بڑھتے چلے جائیں گے۔ پروانہ کیا بے حقیقت اور بے عقل جانور ہے مگر پروانہ بھی شمع پر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اگر پروانہ شمع کے لئے اپنی جان قربان کرسکتا ہے تو کیا ایک عقلمند اور باغیرت انسان خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنی جان دینے کو تیار نہ ہوگا؟<۱۷
نواکھالی اور بہار میں خونریز فسادات اور جماعت احمدیہ کی خدمت خلق
فسادات کلکتہ کا ردعمل پہلے نواکھالی اور پھر بہار میں ایسی سفاکی` درندگی اور بہیمیت کی صورت میں ہوا کہ انسانیت روپوش ہوگئی۔ نواکھالی
میں اگر بے گناہ ہندو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تو بہار کے بے بس اور معصوم مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ فسادیوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور ان کے دیہات کے دیہات نذر آتش کر دیئے۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ہزاروں زخمی ہوئے اور ہزاروں بے خانماں ہوکر بنگال` سندھ یا پنجاب میں آبسے اور ہزاروں دیہاتوں سے بھاگ بھاگ کر شہروں میں پہنچے اور ڈاکٹر سید محمود کے بیان۱۸ کے مطابق ایک لاکھ دس ہزار مسلمان پناہ گزینوں کے کیمپ میں مقیم ہوگئے۔ چنانچہ بھاگل پور سے مولوی اختر علی صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس اور پروفیسر عبدالقادر صاحب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۴۔ ماہ نبوت/ نومبر کو مندرجہ ذیل تار بھجوایا جو ۷۔ ماہ نبوت کو موصول ہوا۔
>مسلمانان بہار پر مظالم کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ مظالم توڑنے میں عورت` مرد اور بچے بوڑھے کا کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا اصل حالات کو مخفی رکھا جارہا ہے۔ سپین کی خونی داستان تمام صوبہ میں دہرائی جارہی ہے۔ ذرائع رسل و رسائل اور خط و کتابت بند ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف مظالم کا ایک تند طوفان اٹھ رہا ہے۔ مہربانی فرما کر دعا فرمائیں اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اور پبلک میں اصل حقیقت کے اظہار کے ذریعہ امداد فرمائیں۔ ہماری جانوں کی حفاظت کے لئے یہ ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی صدا سمجھیں<۔۱۹
حضرت مصلح موعود نے نواکھالی اور بہار کے ان خونریز فسادات پر اولین قدم یہ اٹھایا کہ نواکھالی کے فلاکت زدوں کی امداد کے لئے آل انڈیا نیشنل کانگرنس کو پانچ ہزار۲۰ اور مظلوم مسلمانان بہار کے ریلیف فنڈ میں قائداعظم محمد علی جناح کی خدمت میں پندرہ ہزار روپیہ کی پہلی قسط بھجوائی۔ یہ قسط نظارت امور عامہ کی طرف سے ارسال کی گئی جس کے ساتھ حسب ذیل خط بھی تھا۔
>جناب!! حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر ہدایت احمدیہ جماعت قادیان پندرہ ہزار روپے بہار کے مظلومین کے لئے پیش کرتی ہے۔ یہ رقم جماعت احمدیہ کی طرف سے صرف بطور قسط اول ہے۔ جو اپنی تعدادی طاقت کے لحاظ سے تین گنا ہے۔ یعنی کل ہندی مسلم آبادی کا چھیاسٹھواں حصہ۔ حالانکہ ایک احمدی کے مقابل دو سو غیر احمدی مسلمان ہیں<۔
قائداعظم محمد علی جناح نے جواباً لکھا۔
>نیو دہلی ۲۳۔ نومبر بنام ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ قادیان۔ آپ کا خط اور چیک مل گیا ہے۔ آپ کی امداد کے لئے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہار کی امداد کے لئے حتی الوسع کوشش کررہا ہوں۔ ہر طرف سے امداد کی سخت ضرورت ہے۔ صورت حال بڑی نازک ہے۔ بہت بڑی مہم درپیش ہے۔ جناح<۔۲۱
اس پہلی قسط کے بعد جماعت احمدیہ نے تیس ہزار روپیہ مزید >بہار ریلیف فنڈ< کے سلسلہ میں بھجوایا۔۲۲ اس مالی امداد کے علاوہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حکم سے ۱۴۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو قادیان سے ایک طبی وفد )معہ ضروری ادویہ و سامان( بہار کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی فوری امداد کے لئے بھجوا دیا گیا جو حسب ذیل اصحاب پر مشتمل تھا۔
۱۔
مولوی برکات احمد صاحب بی۔ اے نائب ناظر امور عامہ و امیر وفد )ابن حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی(
۲۔
پروفیسر سید فضل احمد صاحب ایم۔ اے تعلیم الاسلام کالج قادیان۔
۳۔
ڈاکٹر احمد صاحب پسر حضرت صوفی غلام محمد صاحب )سابق مجاہد ماریشس(
۴۔
ڈاکٹر مسعود احمد صاحب )پسر حضرت بھائی محمود احمد صاحب قادیان(
۵۔
عبدالغفار صاحب کمپونڈر۔۲۳
اس پہلے وفد کے بعد حضرت مصلح موعود نے ۶۔ فتح/ دسمبر کو تحریک خاص فرمائی کہ احمدی ڈاکٹر مصیبت زدگان بہار کی امداد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ جس پر کیپٹن ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب ایم بی بی ایس اور کیپٹن ڈاکٹر سید محمد جی صاحب آئی۔ ایم۔ ایس۲۴ نے اپنے نام دیئے اور ۱۰۔ ماہ فتح/ دسمبر۲۵ کو قادیان سے روانہ ہوکر بہار میں پہنچے اور پہلے طبی وفد کا ہاتھ بٹانے لگے۔۲۶ ان کے بعد تیسرا وفد ۱۸۔ ماہ صلح/ جنری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو بہار گیا۔ جو ڈاکٹر فضل کریم صاحب اور ڈاکٹر اعظم علی صاحب پر مشتمل تھا۔۲۷
پہلے احمدی طبی وفد نے بہار میں پہنچتے ہی اپنی خدمات ضلع مسلم لیگ مونگھیر کے سپرد کر دیں اور انہیں تاراپور اور کھڑک پور وغیرہ کے ان علاقوں میں متعین کیا گیا جو سب سے زیادہ تباہ شدہ تھے۔ احمدی ڈاکٹروں نے نہایت محنت اور ہمدردی سے قریباً آٹھ سو مریضوں کا علاج کیا۔ تارا پور کیمپ میں راشن کی تقسیم کا انتظام کانگرسی رضا کاروں کے ہاتھ میں تھا۔ احمدیہ وفد کی کوشش سے مسلم لیگی نمائندوں کو بھی نگرانی کی اجازت مل گئی۔ قبل ازیں پناہ گزینوں کو چاول اور مکی ملتی تھی۔ اب دال بھی میسر آنے لگی۔ دودھ کی تقسیم کا انتظام پہلے کی نسبت بہت تسلی بخش ہوگیا۔ اسی طرح آخر نومبر سے پہلے خیموں کا انتظام نہ تھا۔ اب خیمے آنے شروع ہوگئے اور ان میں روشنی کا انتظام بھی ہوگیا۔
احمدیہ طبی وفد نے تارا پور کیمپ کے علاوہ غازی پور اور اورین میں بھی وسیع پیمانہ پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں اور مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے دن رات ایک کردیا اور غازی پور` بھاگل پور` مونگھیر` اورین` سورج گڑھ اور پٹنہ میں مستحقین کی روپیہ سے بھی امداد کی۔
احمدیہ طبی وفد کی ان طبی خدمات کو صدر مونگھیر ضلع مسلم لیگ اور کنٹرولر مونگھیر ڈسٹرکٹ سنٹرل ریلیف ڈائریکٹرز دونوں نے بہت سراہا اور بطور شکریہ امیر وفد مولوی برکات احمد صاحب کو حسب ذیل خط لکھے۔
)ا( >از دفتر ضلع مسلم لیگ۔ مونگھیر۔ ۶۔ دسمبر ۱۹۴۶ء۔ پیارے محترم۔ آپ نے اور آپ کی پارٹی نے اس ضلع کے مختلف کیمپوں میں پناہ گزینوں کے ساتھ جو قابل ستائش خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی وجہ سے میں بہت ہی ممنون ہوں۔ آپ کی امداد اور ریلیف اس ضلع کے پناہ گزینوں کی انتہائی ضروریات تھیں اور انہیں آپ نے پورے طور پر عمدہ طریق سے سرانجام دیا۔ جس طرز پر آپ نے کام کیا ہے اس کے متعلق مسلم لیگ کی طرف سے پورے اطمینان اور گہرے امتنان کے جذبات ظاہر کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ آپ کا مخلص )دستخط( ایس۔ ایس رشید احمد۔ مولوی۔ پریذیڈنٹ مونگھیر ضلع مسلم لیگ۔ بخدمت مولوی برکات احمد صاحب نائب ناظم امور عامہ۔ قادیان پنجاب<۔

)۲( مونگھیر مورخہ ۱۹۴۶ء۔ ۱۲۔ ۱۴
قادیان میڈیکل ریلیف کا کارکنان نومبر کے تیسرے ہفتہ میں مونگھیر وارد ہوئے اور انہوں نے مونگھیر کے متعدد کیمپوں میں کام کیا۔ ان کا گروہ باتنظیم اور ٹرینڈ کارکنوں پر مشتمل ہے اور ان کے لیڈر مولوی برکات احمد بہت باشعور انسان اور ایمان دار کارکن ہیں۔
کاش ان جیسے کارکنوں کا ایک گروہ مجھے مستقل طور پر مونگھیر کے لئے مل جائے۔ اس وفد کو خاص طور پر مشکل حالات میں کام کرنا پڑا اور بعض اوقات حصول ریلیف کے لئے سرکاری احکام کے ساتھ لڑنا پڑا۔ مجھ سے ان کا تعارف حکیم خلیل احمد صاحب نے کرا دیا جو خود دیانتدار اور مخلص کارکن ہیں۔
)دستخط( ایس۔ ایم سہیل کنٹرولر مونگھیر ڈسٹرکٹ سنٹرل ریلیف ڈائرکٹرز<(۔۲۸
یہ تو احمدیہ طبی وفد کی اہم خدمات تھیں۔ جہاں تک بہار اور بنگال کے احمدیوں کا تعلق تھا انہوں نے بھی مصیبت زدہ ہونے کے باوجود قتل و غارت کے اس طوفان میں اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت کا عمدہ نمونہ دکھایا۔
مونگھیر:۔ چنانچہ مونگھیر میں حضرت حکیم خلیل احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ مونگھیر نے پنجاب اور بنگال سے آنے والے طبی وفود کو احمدی کالونی میں رکھا اور ان سے ہر طرح تعاون کیا اور اپنے گھر میں بہت سے مسلمانوں کو پناہ دی اور مسلم لیگ کی شاخ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ممبر کی حیثیت سے سرگرم عمل رہے۔ درحقیقت ]kns [tagمونگھیر میں مسلم لیگ کی تمام امدادی سرگرمیوں میں آپ روح رواں تھے۔ آپ کے ساتھ مولوی محمد ظریف صاحب وکیل بھی کام کرتے رہے۔ اسی طرح سید غلام نبی صاحب نے ضلع مسلم لیگ کے سالار اعلیٰ کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر حبیب اللہ صاحب اور ملک محی الدین صاحب )پسر ملک نواب الدین صاحب مرحوم قادیان( نے اس علاقہ میں پنجاب کے مسلم لیگی وفد کے ساتھ مل کر کام کیا۔
بھاگلپور:۔ پوفیسر عبدالقادر صاحب ایم۔ اے کرفیو آرڈر کے اوقات میں بھی مسلمانوں کے مفاد کی خاطر حکام سے بار بار ملتے رہے اور شہر کے محلوں میں پولیس اور ملٹری متعین کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نیز ان امور کے تعلق میں >مارننگ نیوز< )کلکتہ( میں ایک مضمون بھی بھجوایا۔ مولوی اختر علی صاحب بھی آپ کے دست و بازو تھے جنہوں نے حکام سے رابطہ قائم کرنے یا خط و کتابت کرنے میں انتہائی بیدار مغزی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا۔ ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر صاحب نہایت مخدوش حالات میں دوسرے دو مسلمان ڈاکٹروں کو ساتھ لے کر بھاگلپور کے علاوہ تاراپور کے فساد زدہ علاقہ میں بھی گئے۔ مجروحین کی مرہم پٹی کی۔ ڈاکٹر عبدالحی صاحب آف برمایور جنرل ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کرتے رہے اور ان کی دیگر ضروریات کی طرف متوجہ رہے۔
غازی پور:۔ غازی پور کے احمدی لیاقت حسین صاحب نے غازی پور کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اگرچہ محمد عاشق حسین صاحب صدر جماعت غازی پور کا پچاس ہزار روپیہ کا نقصان ہوا تھا پھر بھی انہوں نے کئی مسلمان خاندانوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور بستی کے دوسرے لوگوں کی بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ یکم فتح )دسمبر( کو گورنر صاحب بہادر اس بدنصیب بستی کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تو ایک احمدی اصغر حسین صاحب نے انہیں لاشوں کے مقامات دکھائے اور گائوں کے مسلمانوں کی نمائندگی میں مفصل حالات پیش کئے اور درخواست کی کہ حالات کے معمول پر آجانے تک فوج کو بدستور متعین رکھا جائے۔ جس میں مسلمان اور گورے ہوں۔ دھان کاٹنے میں حکومت کی طرف سے مدد دی جائے۔ نیز اجڑے ہوئے مسلمانوں کو ایک مقام پر اکٹھا بسایا جائے اور حفاظت کے لئے اسلحہ دیا جائے۔ غازی پور کے احمدیوں نے اپنے گائوں کے مسلمانوں کی لاشیں باقاعدہ دفن کیں جبکہ دوسرے دیہات کے مردے جلا دئے گئے۔
غازی پور کے احمدیوں کی یہ خدمت غیر مسلموں کو بہت ناگوار گزری اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وہ یہ کہ چونکہ یہ احمدی دیگر مسلمانوں کی تکلیف میں مدد دیتے تھے اور ان کی جائز شکایات افسران بالا تک پہنچاتے تھے اس لئے پولیس نے ان میں سے چار کو جعلی الزام کی بناء پر گرفتار کرلیا۔۲۹
پٹنہ:۔ یہاں پروفیسر سید اختر احمد صاحب اورینوی کی وجہ سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ خدمت خلق کا فریضہ ادا کیا اور آپ اس کے روح رواں تھے آپ کے اہلبیت بھی مستورات میں ریلیف کا کام کرتے رہے۔
بہار کے ان مخلص احمدیوں کے علاوہ ڈاکٹر عبدالصمد صاحب انچارج پاکستان ایمبولنس کور کلکتہ اور ڈاکٹر عنایت اللہ شاہ صاحب انچارج علی گڑھ میڈیکل پارٹی مقیم ڈیگھا کیمپ نے بھی خدمت خلق میں نمایاں حصہ لیا۔ موخر الذکر کی جدوجہد سے ہی یہ کیمپ جاری ہوا۔ ان ایام میں جہاں جہاں احمدی افسر موجود تھے وہاں وہاں انہوں نے نہایت اخلاص اور دیانتداری اور جانفروشی سے یہ خدمت کی۔۳۰
جماعت احمدیہ کے مرکزی طبی وفود اور دوائیوں اور دوسرے امدادی کاموں پر دس ہزار سے زائد روپیہ خرچ ہوا۔۳۱
حضرت مصلح موعود سے ڈاکٹر یوسف سلیمان کی ملاقات اور کیپ کالونی جنوبی افریقہ میں تبلیغ احمدیت کی داغ بیل
ڈاکٹر محمد یوسف سلیمان کیپ کالونی جنوبی افریقہ کے ایک نہایت معزز اور بااثر خاندان کے چشم و چراغ تھے جو ۱۹۱۶ء۳۲ سے احمدیت میں شامل تھے اور جماعت احمدیہ انگلستان کے مشہور و
معروف اور مخلص و ممتاز فرد` خاندان مسیح موعود کے عاشق صادق اور اسلام و احمدیت کا عملی نمونہ تھے۔ انگلستان میں بچپن سے رہائش رکھنے کی وجہ سے انگریزی زبان تو گویا ان کی مادی زبان تھی۔ علاوہ ازیں جرمن` فرنچ` ڈچ اور افریقی زبانیں بھی جانتے تھے اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے تھے اور انگلستان میں عام لوگوں کے علاوہ مختلف ممالک کے سفیروں اور وزیروں کو موثر طور پر پیغام حق پہنچاتے رہتے تھے۔
جنوبی افریقہ میں جس کے وہ اصل باشندے تھے نئے ہندوستانیوں کے داخلہ بند تھا اور پرانے ہندوستانی باشندوں سے شرمناک سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ حضرت مصلح موعود سالہا سال سے حسرت کی نگاہ سے اس علاقہ کو دیکھ رہے تھے کہ کوئی ذریعہ وہاں مبلغ بھجوانے کا نکل آئے۔ لیکن اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ میں احمدیت کی اشاعت و تبلیغ کا غیبی سامان یہ کیا کہ ڈاکٹر یوسف سلیمان شروع ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء میں اچانک قادیان تشریف لائے اور حضرت مصلح موعود سے ملاقات کی اور بتایا کہ وہ آئندہ جنوبی افریقہ میں رہائش پذیر ہوکر تبلیغ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی کسی بیرونی مبلغ کو منگوانے کا وعدہ بھی کیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود نے اپنے خطبہ جمعہ )۸۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء( میں اس ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ۔
>ڈاکٹر صاحب نے اپنی ساری عمر انگلستان میں گزاری ہے۔ انہوں نے ڈاکٹری پاس تو کی تھی لیکن ڈاکٹری پیشہ اختیار نہیں کیا۔ ان کے والد صاحب امیر آدمی تھے اور اتنی جائیداد انہوں نے چھوڑی ہے کہ وہ اسی پر گزارہ کرتے ہیں۔ ان کے والد کیپ ٹائون کے علاقہ کے ویسے ہی لیڈر تھے جیسے مسٹر گاندھی نٹال کے اور دونوں مل کر کام کیا کرتے تھے- جب ڈاکٹر صاحب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ مسٹر گاندھی کئی دفعہ ہمارے گھر آکر ٹھہرتے اور کئی دفعہ ہم ان کے گھر جاکر ٹھہرتے۔ ان کے دوسرے بھائی بھی احمدی ہیں۔ لیکن ہمشیرہ احمدی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ میں اصل میں سائوتھ افریقہ جارہا تھا اور میں نے وہیں کا پاسپورٹ لیا ہوا تھا۔ جب میں کلکتہ پہنچا تو ارادہ ہوا کہ ہندوستان میں ٹھہر جائوں۔ کیونکہ کلکتہ کی غلاظت دیکھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں نے ارادہ کیا کوئی علاقہ تجویز کرکے ہندوستان کے لوگوں کو صفائی کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالوں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔<
پھر انہوں نے کہا۔
>یہاں کی گورنمنٹ مجھے بوجہ سائوتھ افریقن ہونے کے ملک میں رہنے کی اجازت نہیں دیتی میں بھی چاہتا ہوں کہ میں اپنے وطن میں رہوں اور سلسلہ کی تبلیغ کروں۔ میں نے کہا کیا کسی طرح ہم اپنا مبلغ وہاں بھیج سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں وہاں انہیں استاد کرکے بھیج سکتے ہیں۔ میں کہوں گا کہ مجھے اپنے لئے دین کے استاد کی ضرورت ہے اس طرح وہ میرے استاد بن کر جاسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ جائیں اور استاد کے لئے درخواست دے دیں اجازت ملنے پر ہم وہاں اپنا مبلغ انشاء اللہ بھیج دیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھو یہ خدائی سامان ہیں نہ ارادہ` نہ خیال` مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ آرہے ہیں۔ اچانک ان کا یہاں آنا معلوم ہوا اور اچانک خدا تعالیٰ کی طرف سے سائوتھ افریقہ میں تبلیغ احمدیت کے سامان پیدا ہوگئے<۔۳۳
ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب قادیان سے انگلستان پہنچے جہاں سے آپ ۱۳۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو جنوبی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوگئے۔ اخبار >ڈان< نے ان کی روانگی کی خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی۔
>لنڈن ۱۳۔ اکتوبر۔ رائیٹر کا ایک تار مظہر ہے کہ مسجد لنڈن کے ڈاکٹر یوسف سلیمان کل جنوبی افریقہ روانہ ہوئے۔ جہاں وہ کیپ ٹائون میں ایک مسلم مشن قائم کریں گے۔ یہ مشن جنوبی افریقہ کی یونین میں اپنی قسم کا واحد ادارہ ہوگا۔ ڈاکٹر سلیمان نے رائٹر کو بتایا کہ گو مشرقی اور مغربی افریقہ میں ہمارے بہت سے اسلامی تبلیغی مشن اور مسجدیں قائم ہیں مگر جنوبی افریقہ میں اب تک کوئی ایسا مشن نہیں ہے۔ مسجد لنڈن کے ارباب اختیار نے جنوبی افریقہ میں مسلمانوں کی کثیر آبادی کے پیش نظر جو وہاں کے ملکی باشندے بن چکے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان کو کیپ ٹائون میں مشن قائم کرنے کی ذمہ داری سپرد کی ہے ڈاکٹر سلیمان نے کہا کہ مشن کے لئے مناسب جگہ منتخب کرنے میں کسی جانب سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جائے گا<۔۳۴
)مشن کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں(
متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ میں حضرت مصلح موعود کی روح پرور تقریر
۱۸` ۱۹` ۲۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو مجلس خدام الاحمدیہ کا آٹھواں سالانہ اجتماع محلہ دارالشکر کے وسیع میدان میں ہوا۔ جس میں بیرونی مقامات سے ۱۷۵ خدام آئے اور ۲۳
مجالس مقامی اور ۳۱ مجالس بیرون نے شرکت کی۔ یہ اجتماع متحدہ ہندوستان کا آخری اجتماع تھا۔ جس کا اختتام حضرت مصلح موعود کے روح پرور خطاب سے ہوا۔ حضور نے اپنے خطاب میں نہایت شروح و بسط سے اس امر کی طرف خدام کو توجہ دلائی کہ اپنی ساری طاقتیں اور صلاحیتیں کام اور صرف کام کے لئے وقف کر دیں اور اپنے خیالات و افکار اور کردار میں ایسی پاک تبدیلی پیدا کریں کہ اسلام کا نمونہ بن جائیں۔ کیونکہ دنیا ان کے چہروں سے اس نور کو مشاہدہ کرنا چاہتی ہے جس کے لئے وہ سرگرداں ہے۔ وہ ان کے قلوب میں سے نکلی ہوئی تسکین کی وہ شعاعیں دیکھنا چاہتی ہے جو گناہوں کی آگ کو بالکل سرد کر دیں۔۳۵
خلیفہ وقت کی کامل اطاعت کرنے کی تاکیدی ہدایت
حضرت مصلح موعود ایک عرصہ سے یہ افسوس ناک صورت دیکھ رہے تھے کہ بعض مرکزی ادارے ایک دوسرے سے عدم تعاون بلکہ رقابت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ چونکہ اس طریق سے حضور کی جاری فرمودہ تحریکات کو براہ راست نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ اس لئے حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ )۲۵۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء( میں جماعت کو انتباہ کیا اور فرمایا۔
>ہمارے سپرد ایک بہت بڑا کام ہے اور وہ کام کبھی سرانجام نہیں دیا جاسکتا جب تک ہر شخص اپنی جان اس راہ میں لڑا نہ دے۔ پس تم میں سے ہر شخص خواہ دنیا کا کوئی کام کررہا ہو اگر وہ اپنا سارا زور اس غرض کے لئے صرف نہیں کر دیتا` اگر خلیفہ وقت کے حکم پر ہر احمدی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار نہیں رہتا۔ اگر اطاعت اور فرمانبرداری اور قربانی اور ایثار ہر وقت اس کے سامنے نہیں رہتا۔ تو اس وقت تک نہ ہماری جماعت ترقی کرسکتی ہے اور نہ وہ اشخاص مومنوں میں لکھے جاسکتے ہیں۔ یاد رکھو ایمان کسی خاص چیز کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے۔ اگر اسلام اور ایمان اس چیز کا نام نہ ہوتا تو محمد~صل۱~ کے ہوتے کسی مسیح کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اگر محمد~صل۱~کے ہوتے مسیح موعود کی ضرورت تھی تو مسیح موعود کے ہوتے ہماری بھی ضرورت ہے۔ ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں۔ ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں۔ خدا کے حضور اس کے ان دعوئوں کی کوئی قیمت نہیں ہوگی۔ جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ جب تک جماعت کا ہر شخص پاگلوں کی طرح اس کی اطاعت نہیں کرتا اور جب تک اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہر لمحہ بسر نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حق دار نہیں ہوسکتا<۔۳۶
نوجوانان احمدیت کو قربانیاں پیش کرنے کی خاص تحریک
حضرت مصلح موعود اپنے عہد خلافت میں ہمیشہ قربانی پر زور دیتے تھے کہ یہی زندہ قوموں کی زندگی کی علامت اور ترقی کا نشان ہے۔ اس سال ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کو اس پہلو کی طرف بار بار اور مختلف پیرایوں میں زبردست توجہ دلائی۔ اس سلسلہ میں حضور نے ۱۳۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو خطبہ جمعہ میں نوجوانوں کو خاص طور پر مخاطب کیا اور اس بات کی تلقین فرمائی کہ ہماری ہر دوسری نسل کو پہلی نسل سے بڑھ چڑھ کر قربایان پیش کرنی چاہئیں۔ نیز بتایا کہ۔
>وہ دن ہماری جماعت پر خدا کے فضل سے بہت جلد آنے والا ہے کہ جماعت میں ایسے مصنف پیدا ہو جائیں گے جو ہمارے زمانہ کے حالات لکھیں گے اور وہ اسی طرح کرید کرید کر ہمارے حالات کو دریافت کیا کریں گے جس طرح پہلے مصنفین نے صحابہ کے حالات دریافت کئے تھے اور ہر طبقہ کے قربانی کرنے والے احمدیوں کے حالات لکھیں گے۔ وہ ایک احمدی مزدور کے حالات بھی لکھیں گے وہ ایک احمدی لوہار کے حالات بھی قلمبند کریں گے اور وہ ایک احمدی ترکھان کے حالات بھی محفوظ کریں گے۔ غرض وہ ایک ایک مخلص احمدی کے حالات تلاش کر کر کے بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں اسلام کی خدمت کرنے والے صحابہ یا بعد میں ہمارے زمانہ والے تمام احمدیوں کے حالات کتابوں میں محفوظ کئے جائیں گے اور ان سب کے نام یقیناً قیامت تک محفوظ رہیں گے اور جب ان کی نسل ختم ہوچکی ہوگی۔ جب ان کا نسب نامہ ختم ہوچکا ہوگا اور جب ان کی اولادوں میں سے ان کا کوئی نام لیوا بھی باقی نہ ہوگا اس وقت لوگ ان کے کتابوں میں لکھے ہوئے حالات کو پڑھیں گے اور ان کے ناموں کو نہایت عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جائے گا اور ٹھیک اسی طرح یاد کیا جائے گا جس طرح آج ہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ناموں کو عزت اور فخر کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور تمہاری آنے والی نسلیں جب تمہاری قربانیوں کے حالات پڑھیں گی تو ادب اور احترام کے ساتھ ان کے سر جھک جایا کریں گے<۔۳۷
متحدہ ہندوستان کے آخری سالانہ جلسہ کے مختصر عمومی کوائف
متحدہ ہندوستان کا آخری سالانہ جلسہ ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو منعقد ہوا۔ جس میں انتالیس ہزار سات سو کے لگ بھگ اصحاب شامل ہوئے۔ مردانہ جلسہ گاہ حسب معمول تعلیم الاسلام کالج کے میدان میں اور زنانہ جلسہ گاہ کالج کی عمارت کے عقب والے میدان میں تھی۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب )ناظر دعوت و تبلیغ( نے افسر جلسہ اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے نے ناظم اعلیٰ جلسہ گاہ کے فرائض انجام دیئے۔ خوراک کی پرچی کے اجرا کے انتظام کی نگرانی حضرت نواب زادہ محمد عبداللہ خاں صاحب کے سپرد تھی۔ قصر خلافت اور کمرہ ملاقات میں حفاظت خاص کے افسر انچارج میاں غلام محمد صاحب اختر اور بیرون قصر خلافت میں حفاظت خاص کے افسر انچارج چوہدری اسداللہ خاں صاحب تھے۔ حضرت مصلح موعود سے ملاقات کا انتظام چودھری مظفر الدین صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور ان کے نائب مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز کی نگرانی میں تھا۔ ایام جلسہ میں نظارت ضیافت اور دوسری
‏vat,10.35
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
نظارتوں میں رابطہ` تعاون اور اتحاد کا اہم فریضہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سال بھی لوائے احمدیت جلسہ گاہ میں سٹیج کے شمال مشرقی جانب ایک بلند پول پر لہراتا رہا۔ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصار اللہ کے کیمپ بھی حسب دستور جلسہ گاہ کے قریب قائم تھے۔ سال گزشتہ کی طرح اس سال بھی شعبہ صنعت و حرفت )تحریک جدید( کی صنعتی نمائش منعقد کی گئی۔ جس کا افتتاح ۲۶۔ فتح/ دسمبر کو حضرت نواب محمد الدین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر نے کیا۔ نمائش میں قادیان کے قریباً سب کارخانہ جات نے اپنی مصنوعات۳۸ نمونہ کے طور پر پیش کیں۔ تحریک جدید کے اپنے کارخانہ آئرن سٹیل مینو فیکچرنگ کمپنی کی مصنوعات بھی شامل تھیں۔ نمائش گاہ اور ہال کے باہر تجارتی وقف کے متعلق بطور تحریص و ترغیب مختلف قطعات آویزاں کئے گئے تھے۔ نیز جماعت میں تجارت و صنعت کو فروغ دینے کے لئے چار قسم کے مختلف ہینڈبل بھی اس موقعہ پر شائع کئے گئے تھے۔ جلسہ میں شرکت کرنے والے مہمانان خاص کی تعداد ۵۳ تھی جن میں حکومت کے اعلیٰ افسر` امراء` رئوساء اور دیگر معززین شامل تھے۔ سالانہ جلسہ سے چند روز قبل موسم ابر آلود تھا اور دو دن قبل بارش بھی ہوئی۔ لیکن پھر مطلع صاف ہوگیا۔ لیکن جلسہ کے آخری دن صبح ہی سے بارش ہونی شروع ہوگئی۔ کچھ ژالہ باری بھی ہوئی لیکن جلسہ کی کارروائی حسب پروگرام جاری رہی۔ سامعین کے لئے جلسہ گاہ کے علاوہ اردگرد کی عمارتوں میں بھی لائوڈ سپیکر نصب کر دیئے گئے لیکن پھر بھی ایک کثیر تعداد نے بارش اور ژالہ باری کے باوجود جلسہ گاہ میں کھڑے ہوکر حضرت سیدنا المصلح الموعود کی آخری تقریر سنی اور دعا اور اجازت کے بعد جلسہ گاہ کو چھوڑا۔۳۹
حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز تقریریں پرشوکت پیشگوئی اور جماعت احمدیہ کو قیمتی نصائح
متحدہ ہندوستان کے اس یادگار جلسہ میں حضرت مصلح موعود نے چار اہم تقاریر فرمائیں۔ )۱( افتتاحیخطاب:۔ حضور نے ۲۶۔ فتح/ دسمبر کی افتتاحی تقریر میں نہایت پرشوکت الفاظ
میں پیشگوئی فرمائی۔
>عیسائیت نے سر اٹھایا اور ایک لمبے عرصہ تک اس نے حکومت کی مگر اب عیسائیت کی حکومت اور اس کے غلبہ کا خاتمہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہو جائے تا وہ کہہ سکیں کہ دنیا پر جو آخری جھنڈا لہرایا وہ عیسائیت کا تھا۔ مگر ہمارا خدا اس امر کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمارا خدا یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا پر آخری جھنڈا عیسائیت کا لہرایا جائے۔ دنیا میں آخری جھنڈا محمد رسول اللہ~صل۱~ کا گاڑا جائے گا اور وہ یقیناً یہ دنیا تباہ نہیں ہو گی جب تک محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں لہرائے گا<۔۴۰
)۲( خواتین سے خطاب:۔ ۲۷۔ فتح/ دسمبر کو قبل از ظہر حضرت مصلح موعود کا خواتین میں لیکچر ہوا جس میں حضور نے انہیں ہدایت فرمائی کہ۔
>لجنات بنائی جائیں پھر تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ اپنی تنظیم کرو اگر تم صحیح طور پر لکھنا پڑھنا سیکھ لو گی تو اپنے علاقہ میں آسانی سے تبلیغ کرسکو گی تو اس کے بعد تم دیکھو گی کہ جماعت کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنے بڑھ جائے گی<۔۴۱
)۳( سال کے اہم واقعات پر مفصل تبصرہ:۔ نماز جمعہ کے بعد حضور مردانہ جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے اور سال گزشتہ کے اہم واقعات پر معرکتہ الارا تقریر فرمائی جس میں تفسیر کبیر` انگریزی ترجمہ قرآن کریم` تراجم قرآن` تحریک جدید اور اس کے بیرونی مشنوں` فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور دیہاتی مبلغین کی سکیم پر مفصل روشنی ڈالی اور جماعت احمدیہ سے غیر معمولی قربانیوں کا مطالبہ فرمایا۔۴۲
اس تقریر پر اخبار >زمزم< لاہور نے اپنی ۳۔ جنوری ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں >عمل اور فتویٰ< کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا۔
>مرزا صاحب قادیانی کے جانشین مرزا محمود احمد صاحب نے اپنے سالانہ جلسہ پر تقریر کرتے ہوئے جن اہم امور پر روشنی ڈالی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوچکا ہے۔ قرآن کریم کے مختلف سات زبانوں کے جو ترجمے ہورہے تھے وہ بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گئے ہیں۔ تراجم کے سلسلہ میں قادیانی مرکز کو دو لاکھ چالیس ہزار روپے وصول ہوئے۔ جس میں سے تراجم پر ۳۵ ہزار روپے صرف ہوئے۔ باقی دو لاکھ پانچ ہزار بمد حفاظت جمع ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے تبلیغی مشنوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انگلستان میں سات مبلغ کام کررہے ہیں۔ اسپین میں دو مبلغ فرض تبلیغ ادا کررہے ہیں۔ فرانس۔ اٹلی۔ سوئیٹزرلینڈ۔ شمالی اور جنوبی )امریکہ( افریقہ۔ مصر۔ فلسطین۔ عراق۔ ایران۔ جزائر شرق الہند وغیرہ میں بھی دو دو چار چار مبلغ متعین ہیں۔ سن رہے ہیں ہمارے علمائے کرام! دنیا فتوئوں` مناظروں اور مشاجرات کی کتابوں کو دیکھے یا عملی کار گزاریوں کو!
علماء چاہتے ہیں کہ صرف مناظروں سے کام نکل جائے۔ مگر ان کا حریف اتنی دور نکل چکا ہے کہ تعاقب کے لئے بھی ہمت چاہئے<۔۴۳
غیر مبائع اخبار >پیغام صلح< لاہور نے لکھا >ہجوم بہت بڑا تھا۔ جلسہ بہت بارونق تھا۔ تقریریں اچھی طرح تیار کی ہوئی تھیں۔ خلیفہ صاحب کی تقریر بہت لمبی تھی۔ تمام دنیا کو تسخیر کرنے کا پروگرام بیان ہورہا تھا۔ لاتعداد مبلغین کی یورش تھی۔ ۔۔۔۔۔۔ خلیفہ صاحب بڑے لسان پرلے درجہ کے ذہین اور پبلک کی نفسیات کے ماہر کامل ہیں۔ مجمع پر چھائے رہے تھے اور مجمع مسحور ہورہا تھا<۔۴۴body] g[ta
)۴( الوداعی تقریر:۔ حضرت مصلح موعود نے ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو آخری تقریر فرمائی جس کے آغاز میں فرمایا کہ۔
>میرا ارادہ کل تو یہ تھا کہ میں آج علمی مضمون پر تقریر کروں گا لیکن اس ارادہ سے پہلے متواتر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اس دفعہ زیادہ تر جماعت کو اپنی عملی اصلاح اور اسلام کی آئندہ جنگ کے لئے تیاری کی طرف توجہ دلائوں۔ کل جب تقریر کرنے کے بعد میں واپس گیا تو رات کو پھر متواتر میرے دل میں خیال آیا کہ بجائے علمی مضمون پر تقریر کرنے کے میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور اس جنگ کے لئے تیار رہیں جو قریب سے قریب تر آرہی ہے<۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد حضور نے جماعت کے دوستوں کو نہایت اختصار سے مگر پراثر الفاظ میں نماز باجماعت کی پابندی۔ لجنات اماء اللہ کے قیام اور ان کی اصلاح کرنے نیز سچائی اور محنت کی عادت پیدا کرنے کی طرف دلائی۔ جن کا خلاصہ حضور کے الفاظ میں یہ تھا کہ۔
>نماز باجماعت کی پابندی سوائے کسی خاص مجبوری کے یہاں تک کہ اگر گھر میں بھی فرض نماز پڑھی جائے تو اپنے بیوی بچوں کو شامل کرکے جماعت کرالی جائے۔ یا اگر بچے نہ ہوں تو بیوی کو ہی اپنے ساتھ کھڑا کرکے نماز باجماعت ادا کی جائے۔
دوسرے سچائی پر قیام۔ ایسی سچائی کہ دشمن بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے۔ تیسرے محنت کی عادت ایسی محنت کہ بہانہ سازی اور عذر تراشی کی روح ہماری جماعت میں سے بالکل مٹ جائے اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس کام کو پوری تندہی سے سرانجام دے یا اسی کام میں فنا ہو جائے۔ چوتھے عورتوں کی اصلاح- ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کا قیام اور عورتوں میں دینی تعلیم پھیلانے کی کوشش۔ یہ چار چیزیں ہیں جن کے متعلق میں نے اس وقت تک توجہ دلائی ہے<۔۴۵
آخر میں فرمایا۔
>یہ چار نصیحتیں آپ لوگوں کو کرنے کے بعد میں دعا کے ساتھ آپ سب کو رخصت کرتا ہوں اگر آپ لوگ ان باتوں پر عمل کرلیں گے تو پھر خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی تبلیغ میں بھی برکت پیدا کر دے گا۔ آپ کے کاموں میں بھی برکت پیدا کر دے گا اور اسلام کی فتح کو قریب سے قریب تر لے آئے گا یہ چار دیواریں ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے<۔۴۶
سالانہ جلسہ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کے دوسرے مقررین
حضرت مصلح موعود کی بصیرت افروز تقاریر کے علاوہ مندرجہ ذیل علماء سلسلہ کی بھی تقریریں ہوئیں۔
۱۔
مولوی محمد سلیم صاحب فاضل۔ >)اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کے متعلق اسلامی تصور(<
۲۔
میاں عبدالمنان صاحب عمر۔ >)قرآن مجید بلحاظ کامل شریعت آنحضرت~صل۱~ کی صداقت کا زندہ ثبوت ہے(<
۳۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب >)ذکر حبیب(<
۴۔
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل >)ضرورت عبادت اور وہ ¶غرض اسلامی عبادت سے کس طرح پوری ہوتی ہے(<
۵۔
مولوی عبدالمالک خان صاحب۔ >)حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت آنحضرت~صل۱~ کی بعثت ثانیہ ہے(<
۶۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس۔ >)انگلستان میں تبلیغ اسلام(<
۷۔
السید منیر الحصنی آفندی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ دمشق۔ >)جلسہ کے مبارک۴۷ اجتماع سے متعلق میرے مشاہدات و تاثرات(<
۸۔
حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب۔ >)فلسفہ احکام پردہ(< >)احمدی نوجوانوں سے خطاب(<۴۸
۹۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ >)حضرت مسیح ناصری کا سفر کشمیر(<
۱۰۔
جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ام۔ اے۔ >)تھیو سافیکل تحریک پر تبصرہ(<
۱۱۔
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب >)اسلام میں دنیا کے اقتصادی مسائل کا حل(<۴۹
۱۲۔
سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر >نور< >)اسلام رواداری` امن اور برکات کا مرکز(<
۱۳۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے` ایل ایل۔ بی >)مصلح موعود کے لئے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں اور الہامات کے مطابق خلیفہ ثانی ہونا ضروری ہے(<۵۰
ایک معزز غیر مسلم دوست کے تاثرات
اس جلسہ کے شرکاء میں سے نیو دہلی کے ایک معزز تعلیم یافتہ ہندو دوست بی۔ کے۔ بھٹاچاریہ بھی تھے جنہوں نے حسب ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات بیان فرمائے:۔
‏ the record in put to pleasure me gives tI" the during Qadian at gathered I impressions held Community Ahmadiyya the of session annual۔1946 December, of month the of week last the during
‏ first the Ahmadi an than other visitor every To bit little a and surprise of that be will impression to difficult is It ۔misunderstanding of different from people of thousands why realise the of corner remote this to come India of parts of difficulties much so undertaking Punjab they What ۔otherwise or train by journey difficulties suomrone the of exchange in gain pondering little a But ۔year every undergo they conviction the to lead facts following the over that such in movement the of spirit very the that unselfishly community the of member every and each the of progress the to contribute to tries have they which of propagation the Movement۔life their of motto a as taken
‏ their of details into go to like not do I controversial many so cover which objectives an convince to effort my not is it and topics caste of evitirrespec everybody, But ۔unbeliever this from lesson some gain will creed or۔conference annual
‏ practical was there conference the During big every that truth the of demonstration each from sacrifices and help requires work Everyone ۔community the of member every and cause common the to mite his contribute to has found I why, is That ۔movement the of doing low, and high poor, and rich everybody trace no found I There ۔ungrudgingly work his ۔sort any of dissatisfaction or complaint fo some of midst the in even happy were All fellow and tolerance of spirit A inconveniences, ۔atmosphere whole the pervaded feeling
‏ conference the of feature noteworthy most The ۔system volunteer the of efficiency the was of stage every in Qadian to Amritsar From vistors the help to people were there journey there itself Qadian At ۔other or way one in corps volunteer organised and strong a was with duties respective their performing ۔occasion the to suited dignity and efficiency gboardin and lodging free of arrangement The a doubt no is people 000 30, nearly for left managenment the But ۔task herculean other or Muslims ۔Non ۔desired be to nothing exceptionally received guests Ahmadi ۔Non the of followers the form reception warm pleasant a is it and Qadian of Prophet۔mind in cherish to memory
‏ authorities the for admirations my all With the of running smooth the for responsible some out pointing help cannot I conference proceedings the in defects glaring the of opinion my in which gathering the of the In ۔consideration active require could speakers few very instance first ۔limit time the within speech the finish way half speech the left either They valuable the upon encroach to had or should this Why ۔speaker other the of time￿arranged ۔pre is everything when so, be
‏ erected stage the except place second the In whole the speakers, the and president the for It ۔sun and rain to exposed was auditorium cannot Shamiana a why understand to difficult is gallery The ۔too audience the for arranged be three or two caused bricks by built temporarily be can same The ۔session the during accidents the as basis permanent the on strongly built۔annually place takes function
‏ found were people of number good a Thirdly, stalls tea and shops about near loitering period a was there that fact the of spite in bad a gives This ۔recess for hour 1/2 1 of۔occasion the of solemnity the to odour
‏ of sense my in lacking be will I ,yllaniF something speak not do I if appreciation Mirza Community, the of Head present the about pleasant a is His ۔Ahmed Mahmud Din ۔ud ۔Bashir ۔performance whole the dominated which personality details minutest the about keen him found I visitors the of inconveniences the regarding ۔incident one quote can I ۔followers his and to came he which crowd the in lost was girl A proceeding without Caliph The ۔immediately know appealed gathering the to address his in further report to and girl the tuo find to duty on all to girl`s the until hour every him to therefore is, It ۔traced were whereabouts to go to people the for while worth so is who one to homage their pay and Qadian۵۱"۔people his towards loving and kind
۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء میں انتقال کرنے والے جلیل القدر صحابہ
اس سال مندرجہ ذیل مشہور صحابہ کا انتقال ہوا۔
)۱( حضرت حکیم عبدالعزیز خاں صاحب مالک طبیہ عجائب گھر قادیان۔ بیعت ستمبر ۱۹۰۵ء۔ وفات ۲۹۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۵۲
صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب نے آپ کے انتقال پر لکھا۔
>مکرمی حکیم عبدالعزیز خان صاحب میں چونکہ دو خصوصیتیں تھیں یعنی ایک تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی تھے۔ دوسرے ان کو حضرت مسیح وموعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خاندان سے خاص طور پر محبت تھی اور یہ فخر بھی انہیں حاصل تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اپنی اولاد کو اور پھر آگے ان کی اولاد کو پڑھاتے رہے تھے<۔۵۳
)۲( حضرت منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری اوجلہ ضلع گورداسپور۔ )وفات ۱۱۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۵۴
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست میں نمبر ۳۳ پر درج فرمایا ہے۔ اپنے خاندان میں سب سے پہلے آپ ہی کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی معرفت نصیب ہوئی۔ پھر آپ کے ذریعہ تمام افراد یکے بعد دیگرے حلقہ بگوش احمدیت ہوتے چلے گئے۔ التزام نماز میں خوب اہتمام فرماتے اور تہجد و ذکر الٰہی تو گویا آپ کی غذا تھی۔ مالی جہاد میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ لیتے۔ حضرت مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود سے والہانہ عشق تھا اور خاندان مسیح موعود کے سب افراد کو شعائر اللہ میں یقین کرتے اور ان کی بہت عزت و تکریم کرتے تھے۔۵۵
۳۔ حضرت میاں غلام محمد صاحب فورمین۔ )وفات۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۵۶
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ان کی وفات پر فرمایا۔
>بابو غلام محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔ حکیم محمد حسین صاحب قریشی کے ساتھ انہیں بڑی محبت تھی اور دونوں مل کر قادیان آیا کرتے تھے۔ اختلاف کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ابتدا سے ہی اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ ہر قسم کی ٹھوکر اور ابتلاء سے بچے رہے حالانکہ اثر ڈالنے کے سامان ان کے اردگرد بہت زیادہ تھے۔ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ سے ان کی دوستیاں اور تعلقات تھے اور غریب آدمی بڑے آدمی کے تعلقات کے اثر کو بہت جلد قبول کرلیا کرتا ہے۔ مگر باوجود ہر قسم کی شورش کے وہ محفوظ رہے<۔4] [stf۵۷
۴۔ حضرت مولوی سید عبدالحکیم صاحب کٹکی )ولادت ۱۸۸۶ء )اندازاً( وفات ۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء بعمر ساٹھ سال(
اڑیسہ کے مشہور بزرگ اور بلند پایہ صحابی حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب کے فرزند اکبر اور عالم باعمل انسان تھے سلسلہ کی ہر اہم تحریک میں نمایاں اور سرگرم حصہ لینا آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ حصہ وصیت اپنی زندگی میں ادا فرما دیا تھا۔
جماعت احمدیہ سونگھڑا کے نائب امیر اور قاضی بھی رہے۔۵۸
۵۔ شیخ اللہ بخش صاحب امرتسری۔ )ولادت قریباً ۱۸۶۰ء۔ بیعت ۱۸۹۱ء۔ وفات ۱۸۔ ماہ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۵۹
امرتسر کے پرانے مخلص احمدی بزرگوں میں سے تھے۔ آپ کو حضرت مرزا قطب الدین خان صاحب مسگر مرحوم امرتسری کے ذریعہ سے احمدیت کی طرف توجہ ہوئی۔ آپ >جنگ مقدس< کے مشہور مباحثہ میں بھی موجود تھے۔ ہر سال کا چندہ یکمشت اور پیشگی ادا فرما دیتے تھے۔ نماز پنجگانہ کے علاوہ نوافل و تہجد کے بہت سختی سے پابند تھے۔ دعا پر آپ کو زبردست یقین حاصل تھا۔ آپ کا معمول تھا کہ ہر سال قادیان کے غرباء کے لئے امرتسر سے گرم کپڑے بھجوایا کرتے تھے۔ اپنی ساری کتابیں مقامی احمدیہ لائبریری میں جمع کرا دی تھیں اور آخری عمر میں قادیان دارالامان میں ہجرت کرکے آگئے تھے اور زیادہ وقت مسجد مبارک میں یاد خدا میں گزارتے تھے۔۶۰
۶۔ میاں رحیم بخش صاحب گنج لاہور۔ )وفات ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۶۱
۷۔ حاجی شیر خان صاحب۔ سیالکوٹ )۵` ۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔ بعمر ۷۳/ ۷۲ سال(
زمانہ طالبعلمی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے دوران بیعت کی۔ سلسلہ احمدیہ کی ہر اہم تحریک میں سرگرم حصہ لیتے۔ لاہور` ملتان اور سیالکوٹ میں سیکرٹری مال یا محاسب کا کام آپ کے سپرد رہا۔۶۲
۸۔ میاں حیات محمد صاحب جہلمی۔ )وفات ۱۳` ۱۴۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(
بہت پرجوش احمدی تھے تبلیغ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ جب ملازمت سے رخصت ملتی۔ وطن جانے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر برکت و فیض حاصل کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنوری ۱۹۰۳ء میں جہلم تشریف لائے تو آپ رخصت لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ۱۹۲۰ء میں ہجرت کرکے قادیان چلے آئے تھے۔۶۳
۹۔ وزیرعلی صاحب ہوشیارپوری محلہ دارالشکر قادیان۔ )وفات ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش(۶۴
۱۰۔ حافظ مشتاق احمد صاحب پشاور۔ )وفات ۲۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش(۶۵
۱۱۔ حضرت مولوی محمد عثمان صاحب لکھنوی۔ )بیعت ۱۹۰۶ء۔ وفات ۲۹۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۶۶
حضرت مولوی صاحب کا سلسلہ نسب پینتیسویں پشت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تک جاپہنچتا ہے۔ آبائی وطن قصبہ بائولی ضلع ہر دوئی تھا۔ مگر تین پشتوں سے لکھنو میں قیام تھا۔ آپ کی پیدائش پرتاپ گڑھ اودھ میں ہوئی اور لکھنو میں دفن کئے گئے۔۶۷
۱۲۔ حکیم سید شاہ نواز صاحب کھرڑ ضلع انبالہ۔ )وفات ۲۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۶۸
۱۳۔ مستری اللہ دین صاحب جہلمی۔ )وفات ۳۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۶۹
۱۴۔ حکیم جمال الدین صاحب آف فیض اللہ چک۔ مغلپورہ۔ )وفات ۲۶۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۷۰
۱۵۔ حضرت حافظ مولوی ابو محمد عبداللہ صاحب ساکن کھیوہ۔ باجوہ۔
)ولادت قریباً ۱۸۵۶ء۔ بیعت ۱۸۹۸ء۔ فات ۲۶۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء بعمر ۹۰ سال(
علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ اعلائے کلمتہ اللہ میں صرف ہوا۔ شروع میں اہلحدیث عالم کی حیثیت سے شرک و بدعت کے خلاف وعظ کرتے رہے پھر داخل احمدیت ہونے کے بعد تبلیغی جہاد میں پورے جوش سے مصروف عمل ہوگئے۔ سیالکوٹ` لائل پور` سرگودھا` منٹگمری` شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے سینکڑوں اشخاص آپ کے ذریعہ احمدی ہوئے اور کئی انجمنیں آپ کی کوشش سے قائم ہوئیں۔ صاحب الہام و کشوف تھے اور حددرجہ کے منکسر المزاج اور کم گو۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کی ساری عمر میں ان کی زبان ایک بار بھی جھوٹ سے ملوث نہیں ہوئی۔ دس سال کی عمر سے لے کر اخیر وقت تک ان کی کوئی نماز یا روزہ قضا نہیں ہوا۔۷۱
۱۶۔ حضرت مولوی سید ضیاء الحق صاحب بی۔ اے` بی ٹی )امیر جماعت احمدیہ سونگڑہ اڑیسہ(
)زیارت قادیان ۱۹۰۲ء۔ وفات ۳۱۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۹۴۶ء(
اڑیسہ میں جماعت احمدیہ ۱۸۹۱ء میں قائم ہوئی اور حضرت مولوی صاحب اڑیسہ کے بارہ مشہور۷۲ صحابہ میں سے ایک تھے جو ۱۹۰۲ء میں قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود سے فیض حاصل کیا۔ ان کی زندگی کا شعار تبلیغ احمدیت تھا۔ جس کی خاطر انہوں نے کبھی جانی` مالی اور عزت و آبرو غرض کہ کسی نوع کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا۔ جماعت احمدیہ سونگڑہ کے لئے ۱۹۳۵ء۔ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۵ء کے سال نہایت نازک تھے جن میں مخالفت کے طوفان امڈ آئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے مومنانہ جرات کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ ۱۹۴۵ء میں ظالم آپ کے قتل کا منصوبہ کرکے آپ کے مکان پر حملہ آور ہوگئے اور کہا کہ ہم آپ کا خون چاہتے ہیں۔ آپ چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر یہ سنتے ہی آپ نے پورے جوش سے جواب دیا کہ ہاں میں بھی تو خون ہی ہونا چاہتا ہوں۔ مگر افسوس کہ نہ یہ میری قسمت میں ہے اور نہ تم میں جرات!!
عربی` اردو` فارسی اور اڑیا زبانوں کے ماہر تھے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور دوسرے کئی علماء سے مناظرے کئے اور انہیں لاجواب کیا۔ نہایت منکسر المزاج` خوش اخلاق` غریب پرور` مہمان نواز اور غیور بزرگ تھے قرآن کریم کا درس ایسی عمدگی سے دیتے کہ قادیان دارالامان کے مرکزی درس کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آجاتا۔۷۳
پانچواں باب )فصل دوم(
۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب
)۱( مرزا ظفر احمد صاحب کے ہاں ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو مرزا قمر احمد صاحب پیدا ہوئے۔۷۴
)۲( صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے ہاں ۱۰۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو مرزا مظہر احمد صاحب کی ولادت ہوئی۔۷۵
)۳( ۱۰۔ ماہ نبوت/ نومبر کو سیدہ امتہ الحکیم صاحبہ )صاحبزادی حضرت سیدنا المصلح الموعود( کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔۷۶
‏0] ft[sاحمدی مبلغوں کی تقریریں غیر مسلموں کے جلسوں میں
۱۔ گوردوارہ صاحب کلاں نابھہ سٹیٹ کی کمیٹی نے گورو گوبند سنگھ جی کے جنم دن پر تقریر کے لئے ایک احمدی مبلغ بھجوانے کی درخواست کی تھی جس پر گیانی واحد حسین صاحب مرکز سے بھجوائے گئے۔ سکھ صاحبان گیانی صاحب کو جلوس میں شامل کرنے کے واسطے سرکاری بگھی میں لے گئے۔ جلوس سرکاری ساز و سامان سے مزین تھا اور جناب کنور صاحب )برادر خورد مہاراجہ صاحب بہادر نابھہ( بھی جلوس میں شامل تھے۔ دوران جلسہ گیانی صاحب کی تقریر کرائی گئی جو نہایت دلچسپی سے سنی گئی۔ اسی رات کو دوسرے سکھ لیکچراروں کے ساتھ گیانی صاحب کی بھی تقریر تھی۔ آپ وقت مقررہ پر دس بارہ احمدیوں کے ساتھ گوردوارہ میں پہنچے۔ ہال کمرہ فوجی اور سول ملازموں اور معززین شہر سے بھرا ہوا تھا۔ سیکرٹری صاحب گوردوارہ نے گیانی صاحب کو معہ رفقاء نہایت احترام سے آگے جگہ دی۔ شبد پارٹیوں کا وقت ختم ہونے پر سب سے پہلے گیانی صاحب موصوف نے >سکھ مسلم اتحاد< پر ایک گھنٹہ تک تقریر کی۔ آپ نے تاریخ کی روشنی میں سکھ مسلم خوشگوار تعلقات کی مثالیں دیتے ہوئے گوروگوبند سنگھ کا وہ خط بھی سنایا جو انہوں نے حضرت شہنشاہ اورنگ زیب کے نام لکھا تھا اور جو گرنتھ صاحب میں >ظفر نامہ< کے نام سے موسوم ہے اور جس میں نہایت محبت و اخلاص کا اظہار کیا تھا۔ آپ نے ظفر نامہ کا اردو ترجمہ پنجابی زبان میں کیا اور ایسے انداز میں قرآنی تعلیم کی تطبیق گورو نانک صاحب کے اقوال سے کی۔ شبد سنائے اور آیات قرآنی پڑھیں کہ سامعین پر ایک سماں بندھ گیا اور تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں۔
دوسرے دن سیکرٹری کمیٹی نابھہ کے احمدیوں کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کے مولوی صاحب کی تقریر اور واقفیت کو پنتھ نے نہایت پسند کیا ہے اور مہنت صاحب گوردوارہ نے دھن باد کا پیغام دیا ہے۔۷۷
۲۔ کوٹ سید محمود متصل امرتسر میں سکھوں کی طرف سے ۶ویں بادشاہی کے گوردوارہ >بوڑھی صاحب< میں دیوان کے موقعہ پر گیانی عباداللہ صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ نے لیکچر دیا جو بہت مقبول ہوا۔ سکھ پریذیڈنٹ نے کہا کہ اس وقت ملک کو ایسی تقریروں کی بہت ضرورت ہے۔۷۸
۳۔ آریہ سماج دہلی نے ۱۲۔ فروری ۱۹۴۶ء )۱۲۔ تبلیغ ۱۳۲۵ہش( کو ایک مذہبی کانفرنس کا انتظام کیا جس کے لئے یہ مضمون مقرر کیا کہ۔
>میرا مذہب ملک کی ترقی کی راہ میں روک نہیں ہے<۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب نے اس کانفرنس میں حصہ لیا۔ آپ کی تقریر سامعین نے نہایت اطمینان اور توجہ سے سنی اور دوران تقریر کئی بار نعرہ ہائے حسین بلند کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ مقامی اخبار >تیج< نے اس تقریر کا خلاصہ بھی شائع کیا۔۷۹
خدام الاحمدیہ قادیان کے پہلے قائد
دستور اساسی خدام الاحمدیہ کے مطابق قادیان کی مجلس مقام خدام الاحمدیہ کے لئے الگ قائد نہ تھا بلکہ حضرت صدر مجلس ہی کے سپرد قیادت قادیان کے فرائض تھے۔ مگر اس سال حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی ہدایت پر قائد مقامی کا انتخاب ۳۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۲۶ء کو عمل میں لایا گیا جس میں صاحبزادہ میاں عباس احمد خاں صاحب کثرت رائے سے سب سے پہلے قائد قادیان منتخب ہوئے۔ صاحبزادہ صاحب قبل ازیں معتمد مجلس مرکزیہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اب یہ نئی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہوگئی۔۸۰ جسے آپ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء تک انجام دیتے رہے۔
مرزا منصور احمد صاحب کا سفر انگلستان
صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب پریسین مینو فیکچرنگ کمپنی قادیان کی طرف سے ٹیکنیکل ٹریننگ اور ولائت کی فیکٹریوں میں صنعتی تجربہ حاصل کرنے کے لئے ۱۹۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو انگلستان تشریف لے گئے۔۸۱ اور ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ۲۸۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو بخیریت قادیان پہنچے۔۸۲
پریسین مینو فیکچرنگ کمپنی کی بنیاد
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۳۔ ماہ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانہ پریسین مینو فیکچرنگ کمپنی کی بنیاد رکھی اور دعا فرمائی۔ یہ کارخانہ قادیان اسٹیشن کے قریب جنرل سروس کمپنی کی زیر نگرانی تعمیر ہوا۔۸۳
مرزا ابوسعید صاحب کا المناک قتل
مرزا محمد ابوسعید صاحب سپرنٹنڈنٹ پنجاب ریلوے پولیس لاہور نہایت مخلص احمدی اور حکومت پنجاب کے فرض شناس افسر تھے۔ ۱۱۔ ماہ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو ایک سکھ کنسٹبل ہرکرم سنگھ نے ان کو دن دہاڑے گولی مار کر قتل کر دیا جو سکھ لیڈروں کی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کے نتیجہ میں تھا۔
حضرت مصلح موعود نے ۱۳- ماہ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو مجلس علم و عرفان میں اس ہولناک حادثہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
>یہ قتل ان شورشوں کا نتیجہ ہے جو وزارتی کمیشن کے آنے پر ملک میں ہورہی ہیں۔ خصوصاً حال ہی میں سکھوں کی جو میٹنگ امرتسر میں ہوئی وہ بہت اشتعال انگیز تھی۔ یہ گورنمنٹ کی غلطی ہے کہ جب کوئی شرارت کرتا ہے تو یہ دیکھتی ہے کہ شرارت کرنے والا کمزور ہے یا طاقتور۔ اگر طاقتور ہو تو خاموش رہتی ہے اور اگر کمزور ہو تو کارروائی کرتی ہے` حالانکہ زیادہ تر فساد طاقتور ہی کرتے ہیں۔ جس شخص نے ابوسعید صاحب کو قتل کیا وہ پہلے امرتسر گیا پھر لاہور آکر اس نے حملہ کیا۔
امرتسر میں جو تقریریں کی گئیں ان سے ابوسعید صاحب کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر حملہ کرنے کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے اس میں بھی کوئی معقولیت نہیں۔ چھ ماہ قبل تبدیلی کی درخواست منظور نہ ہونے کا اثر اب نکلنا تھا۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاتل نے اس تحریک کا اثر لیا جو سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جارہی ہے اور سمجھا جس پر حملہ کرنے لگا ہوں وہ ابوسعید ہے۔ یہ نہ سمجھا کہ احمدی ہے اور احمدی تو پہلے ہی مارے ہوئے ہیں ان کو کیا مارنا۔ مرحوم میں اخلاص تھا اور ان کی ساری ملازمت دیانتداری سے گزری۔ جب وہ تھانیدار تھے اس وقت بھی افسروں نے بتایا کہ دیانتداری کے لحاظ سے صوبہ میں وہ ایک مثال رہے۔ مگر باوجود اس کے ان کی ترقی وغیرہ میں رکاوٹ پیدا ہوتی رہی۔ ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا اس کی کیا وجہ ہے؟ تو کہنے لگے پولیس میں کوئی دیانتدار ترقی کرہی نہیں سکتا۔ ایک بات انہوں نے یہ بتائی کہ ہر وقوعہ کی تحقیقات تھانیدار کے ذمہ ہوتی ہے۔ مگر عملی طور پر ایسا کیا نہیں جاسکتا۔ دوسرے لوگ حوالداروں وغیرہ سے تحقیقات کراکر اپنے نام لکھ دیتے ہیں۔ میں ایسا نہیں کرتا اس لئے جواب طلبی ہوتی رہتی ہے۔ ان کی طبیعت میں ایک قسم کا حجاب تھا اور جماعت کے لوگوں سے کم ملتے تھے۔ تاکہ کوئی سفارش نہ کر دے۔ ہے تو یہ غلط بات کیونکہ اگر سفارش جائز اور درست بات کے متعلق ہو تو اس کے قبول کرنے میں کیا حرج ہے اور اگر غلط ہو تو پھر اس کے ماننے کے کیا معنی۔ بہرحال ان کا طریق یہی تھا۔ اب بھی سنا ہے کہ دیانتداری میں وہ مثال تھے<۔۸۴
مسلم ایسوسی ایشن )سربایا(
‏ISLAM>) UMMET SOSIL IKATAN (<PERSER
صوبہ سرحد کے ایک دوست محمد عبدالغفور صاحب )ہومیوپیتھک ڈاکٹر( تھے جنہوں نے ۲۸۔ دسمبر ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کی۔ پھر ۱۹۲۷ء میں جاوا کے شہر سربایا (SURABAIA) چلے گئے اور اپنے بھائی حکیم عبدالحمید صاحب کے ساتھ پریکٹس شروع کر دی۔ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا انہیں شوق تھا اور دوسروں تک پیغام حق پہنچانے کی بہت تڑپ رکھتے تھے ان کی تبلیغ سے ان کے سگے بھائی اور دو چچا زاد بھائیوں کو بھی قبولیت احمدیت کی توفیق ملی۔
اگست ۱۹۴۶ء میں ڈاکٹر صاحب نے سربایا کے انڈین مسلمانوں کو جن میں یوپی` پنجاب` سندھ` سرحد` بمبئی` گجرات اور دکن جنوبی ہند کے مسلمان شامل تھے اپنے مکان پر مدعو کیا اور انڈونیشین زبان میں تقریر کی کہ آئو ہم لوگ اسلامی خدمت کے لئے اللہ` محمدﷺ`~ قرآن اور اسلام کے نام پر متحد ہو جائیں۔ اس پر سب نے لبیک کہی اور آپ کی تحرک پر >مسلم ایسوسی ایشن< کے نام پر ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں انڈونیشی مسلمانوں اور ان کے اداروں کی خدمت اور مساجد کی نگہداشت تھی۔ اس تنظیم کے پہلے صدر آپ ہی منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۳ء میں انڈونیشیا کی مرکزی وزارت قانون نے تنظیم کی مساعی جمیلہ کی بناء پر اسے رجسٹرڈ باڈی کے طور پر منظور کرلیا ۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۹ء تک ڈاکٹر صاحب ہی کو صدارت سونپی جاتی رہی ازاں بعد ۱۹۷۳ء میں دوبارہ آپ صدر تجویز کئے گئے۔ آپ کی قیادت میں اس مفید تنظیم نے قابل قدر خدمات انجام دیں- افسوس ۱۹۷۵ء میں بعض ممبروں نے آپ کے خلاف محض احمدی ہونے کے باعث مخالفت اور عدم اعتماد کی ایک رو پیدا کردی۔ ارکان کی ایک خاصی تعداد آپ کی موید یا حامی تھی مگر اس خیال سے از خود مستعفی ہوگئے کہ جس اسلامی تنظیم کی آپ اٹھائیس سال سے آبیاری کرتے آرہے ہیں اسے نقصان نہ پہنچ جائے لیکن چونکہ روح رواں آپ ہی تھے اس لئے آپ کے استعفاء کے صرف پانچ ماہ بعد یہ مفید تنظیم خود بخود ختم ہوگئی جس کا آپ کو سخت صدمہ ہوا۔۸۵
حضرت مسیح موعودؑ کے بتائے ہوئے طریقوں کو استعمال کرنے کا اہم ارشاد
تبلیغ` احمدیت کی روح رواں اور جان ہے۔ جس کو کامیاب بنانے کا موثر ذریعہ یہ ہے کہ جماعت کے مبلغین خصوصاً اور دیگر افراد عموماً تبلیغ
کے ان طریقوں پر عمل کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں۔ لیکن ایک عرصہ سے ان کو نظر انداز کیا جارہا تھا جس پر حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو اس فروگذاشت کی طرف خاص توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر قوم میں تبلیغ کرنے کے لئے کچھ گر بتائے ہیں اور وہ ہر قوم کے لئے الگ الگ ہیں اور اگر موقعہ اور محل کے مناسب ان کو استعمال کیا جائے تو ہم ہر قوم میں تبلیغ کرکے بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ان میں سے مسلمانوں کے اندر تبلیغ کرنے کے لئے سب سے بڑا گر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے مسئلہ کو باطل ثابت کیا جائے عیسائیوں میں تبلیغ کے لئے یہ گر ہے کہ نقلی اور عقلی دلائل سے ان پر یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھے تو ضرور تھے مگر صلیب پر سے زندہ اترے اور بعد میں طبعی موت مرے۔ سکھوں میں تبلیغ کے لئے یہ گر ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے بزرگ حضرت بابا نانک صاحب اسلام کو مانتے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں اسلام کی خدمت میں کمر باندھی ہوئی تھی اور ہندوئوں میں تبلیغ کا گر یہ ہے کہ ان کی کتابوں سے جن کو وہ الہامی یا مقدس مانتے ہیں ان کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ ان کے اوتاروں نے یہ خبر دی تھی کہ وہ دوبارہ اس دنیا میں ایک خاص زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور یہ کہ اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت ہے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے تشریف لانے سے وہ خبر پوری ہوچکی ہے۔ یہ تمام گر گویا تبلیغ کی جان ہیں اور یہ ایسے کارآمد ہتھیار ہیں جو ہم ہر قوم کے خلاف استعمال کرسکتے ہیں اور ان کے صحیح استعمال سے ہماری ہر میدان میں فتح یقینی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مختلف علاقوں کے لوگ مختلف طبائع کے ہوتے ہیں اور ان طبائع کے مطابق ذرائع بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ جس طرح لڑائی کے میدان میں دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کے اندفاع کے لئے بھی ایک پہلو بدلنا پڑتا ہے کبھی دوسرا پہلو اختیار کرنا پڑتا ہے اور جو شخص نادانی سے ایک ہی پہلو اختیار کئے رکھتا ہے وہ دشمن پر فتح نہیں پاسکتا اور جو شخص ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے وہ دوسرے کے مطابق اپنا پہلو بدلتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح تبلیغ میں بھی پہلو بدلنا پڑتا ہے۔ مگر تبلیغ میں اصولی باتوں کو نظر انداز کر دینا جائز نہیں<۔۸۶
میاں عباس احمد خان صاحب کا سفر انگلستان
صاحبزادہ میاں عباس احمد خان صاحب حضرت مصلح موعود کے ارشاد کے ماتحت بغرض تعلیم یکم ماہ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو بذریعہ ہوائی جہاز انگلستان روانہ ہوئے۔4] ft[s۸۷
قیام یورپ کے دوران آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ بعض برطانوی پروفیسروں اور دوسرے اکابر تک بھی پیغام حق پہنچایا۔ علاوہ ازیں آپ کو ہالینڈ کی مشہور یونیورسٹی کے صدر مقام لائیڈن میں بھی جانے کا موقعہ ملا اور دو مشہور مستشرقین )کریمر اور کرامر( سے ملاقات کرکے اسلام اور احمدیت سے متعلق گفتگو کی اور مقدم الذکر کو >اسلامی اصولوں کی فلاسفی< اور >احمدیت یعنی حقیقی اسلام< کا تحفہ بھی پیش کیا۔۸۸
۲۹۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو آپ لنڈن سے روانہ ہوکر ۳۱۔ وفا کو کراچی اور ۳۔ ماہ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو قادیان پہنچے۔ سٹیشن پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے افراد خاندان حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کا خیر مقدم فرمایا۔۸۹
لنکا اور مدراس کے بعض مخلص احمدیوں کا انتقال
کولمبو میں جناب سی۔ ایچ مختارا صاحب سیلون کے اولین احمدیوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت خلیفہ اولؓ کے عہد خلافت میں بیعت کی تھی۔ آپ نے اس سال ۶۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو وفات پائی۔۹۰
آپ کے علاوہ سانٹا کولم مدراس کے رہنے والے اے ایم سعید احمد صاحب جو جنوبی ہند کے نہایت مخلص و ممتاز اور مشہور اور پرجوش احمدی تھے۔ ۱۰۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو اپنے محسن حقیقی سے جاملے۔
آپ نے سان تان کولم میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی۔
آپ نے ابتداء میں احمدیت کی خاطر بہت تکلیفیں اٹھائیں تمام گائوں والوں نے علاقہ کے سب سے بڑے مفتی کے فتویٰ پر بائیکاٹ کر دیا تھا۔ مگر آپ خدا کے فضل سے ہمیشہ تبلیغ احمدیت کرتے رہتے۔ ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور بہت محبت و پیارے سے باتیں کرتے۔
گائوں کے غیر احمدی کہا کرتے تھے کہ آپ ہیں تو ولی مگر یہ غلطی کر بیٹھے ہیں کہ قادیانی ہوگئے ہیں۔ ۱۹۳۲ء میں مدراس کے ایک تاجر نے تقریباً دس ہزار روپے خرچ کرکے سان تان کولم میں جلسہ کرایا اور اردگرد کے دیہات سے ہزاروں کی تعداد میں غیر احمدی مدعو کئے۔ علاقہ کے بڑے بڑے علماء نے آپ کو اور مولوی عبداللہ صاحب مبلغ مالا بار و علاقہ مدراس کو مناظرہ کے لئے چیلنج دیا۔ مولوی صاحب اور مرحوم مناظرہ کے لئے ان کے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے ایک شرط یہ لگا دی کہ فیصلہ غیر احمدی کریں گے اس پر مولوی صاحب نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ فیصلہ دشمن کرے۔ اتنے میں تمام سامعین نے جو کہ اردگرد کے دیہات سے بلائے گئے تھے شور مچا دیا اور مناظرہ نہ ہوسکا ادہر جلسہ گاہ میں غیر احمدیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کو اور ایم سعید احمد صاحب کو قتل کر دیا جائے اور احمدیت کو سان تان کولم سے مٹا دیا جائے۔ یہ ارادہ کرکے کچھ لوگ انجمن احمدیہ کی طرف آرہے تھے کہ رستہ میں دو غیر احمدی بھاگتے ہوئے ان کو ملے۔ ان کو احمدی سمجھ کر خوب زدوکوب کیا گیا جب بالکل نڈھال ہوگئے تو مارنے والے چھوڑ کر بھاگ گئے۔
۱۹۳۳ء میں آپ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت امیر المومنین المصلح الموعود سے ایک اینٹ پر دعا کراکر لائے۔ چونکہ ان دنوں احمدیوں کے لئے زمین خریدنی بہت مشکل تھی اس لئے مسجد احمدیہ کے لئے آپ نے نہ صرف زمین دی بلکہ تمام خرچ بھی خود برداشت کیا اور اس مسجد کی بنیاد اس اینٹ سے رکھی گئی۔
آپ نے احمدیت کے متعلق بہت سی کتابیں اور ٹریکٹ تامل (TAMIL) میں شائع کئے تھے۔ آپ نے مسجد نگمبو )سیلون( کے بنانے میں بھی بہت بڑا حصہ لیا۔
۳۰۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۴ہش/ ۱۹۴۵ء کی صبح کو آپ کو ضعف قلب کا عارضہ ہوا۔ ۳۱۔ فتح کو ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۹۴۶ء کو شام کو وفات پائی اور ۱۱۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو احمدیہ قبرستان نگمبو میں سپرد خاک کئے گئے۔۹۱
بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں
فلسطین مشن
مولانا محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین نے اس سال حسب ذیل لٹریچر شائع کیا۔ )۱( تجلیات الٰہیہ۔ نصیحہ امام الجماعہ الاحمدیہ للبریطانیہ والھند )امام جماعت احمدیہ کا ہندوستان اور انگلستان کو پیغام صلح( ایہ من ایات ربنا الکبری )جنگ یورپ سے متعلق حضرت مصلح موعود کی پیشگوئیاں( رسالہ اخلاص الی کل مسیحی متدین )مولوی ابوالعطاء صاحب کا لکھا ہوا رسالہ( البیان الواضح فی ابطال الوھیہ المسیح )عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال از شیخ نور احمد صاحب منیر( السید ظفر اللہ خان فی بلاد الشام )باتصویر(۹۲
انگلستان مشن
مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ماہ امان ۱۳۲۵ہش۹۳ )مارچ ۱۹۴۶ء( کے شروع میں >مسیح کہاں فوت ہوئے< DIE) JESUS DID (WHERE کے نام سے ایک اہم ٹریکٹ شائع کیا جس کا برطانوی پریس نے بہت چرچا کیا۔ چنانچہ اخبار ومبلڈن برو نیوز< )۲۲۔ فروری ۱۹۴۶ء( نے لکھا۔
>یہ عقیدہ کہ حضرت یسوع مسیحؑ تختہ دار پر لٹکائے تو گئے۔ مگر فوت نہ ہوئے تھے بلکہ صحت یاب ہوکر ہندوستان کا دور دراز کا سفر اختیار کیا جہاں آپ نے طبعی طور پر وفات پائی مولوی جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن سائوتھ فیلڈ نے اپنی کتاب حضرت مسیح نے وفات کہاں پائی میں بیان کیا ہے۔
یہ عقیدہ جماعت احمدیہ کا بنیادی نقطہ ہے ان خیالات کی درس گاہ کی بنیاد حضرت احمد قادیانی نے رکھی جس کی ایک شاخ اس ملک میں بھی قائم ہے اور اس کا مرکز مسجد لنڈن ہے امام شمس صاحب نے ان حقائق اور واقعات کو بالاختصار چھوٹے سے ٹریکٹ کی شکل میں مرتب کیا ہے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اسے اس وسیع پیمانہ میں بشمولیت ومبلڈن تقسیم کررہے ہیں۔ )ترجمہ(
بشپ آف لنڈن نے کرسچن ایویڈنس سوسائٹی کی سالانہ میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ۔
>ابھی تک ہم یہی خیال کرنے کے عادی رہے ہیں کہ میدان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے مگر اب ہم اس امر کو محسوس کررہے ہیں کہ صرف ہم ہی اپنے مذہب کا پروپیگنڈہ نہیں کررہے بلکہ اور لوگ بھی ہمارے مقابل پر ہیں جو اس کام کو سرگرمی سے کررہے ہیں۔ پھر مضمون نگار اپنے مضمون کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ بشپ آف لنڈن کے یہ خیالات اس واقعہ سے متاثر ہیں کہ اس نے ایک ٹیوب سٹیشن میں چند ہندوستانیوں کو مسیحؑ کے مقبرہ کے فوٹو پر مشتمل ایک ٹریکٹ کو تقسیم کرتے ہوئے دیکھا۔
لنڈن کے ہفتہ وار میگزین FAITH> OF <LIFE نے >مسلمانوں کا حملہ انگلستان پر< کے عنوان سے لکھا۔
>ہم عیسائیوں کے لئے بڑے شرم کی بات ہے کہ ہمارا ملک اب مسلمانوں کے اس قسم کے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ برطانوی رواداری کی وجہ سے ممکن ہے یہ تحریک پھیل جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے لئے ہمیں اچھی طرح مسلح ہونے کی ضرورت ہے۔۹۴
سپر چولسٹوں کے کثیر الاشاعت اخبار سائیکک نیوز نے ¶اپنی ۲۰۔ اپریل ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں بھی اس پر مفصل تبصرہ کیا اور اس پر حسب ذیل عنوانات دئے۔
ایسٹر کے موقعہ پر مسلمانوں کی ایک جماعت کا حیرت انگیز دعویٰ۔ حضرت مسیح مصلوب نہیں ہوئے بلکہ بقید حیات ہندوستان گئے اور ایک دوسرے نام کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے۔۹۵
ہندوستان کے بعض مشہور اخبارات نے بھی اس پر تبصرہ کیا چنانچہ مدراس کے مشہور اخبار >ہندو< نے )۱۲۔ مارچ ۱۹۴۶ء کی اشاعت میں( لکھا۔
>اس عجیب و غریب ادعا کا اعلان کہ حضرت یسوع ناصری سرزمین ہند میں دفن ہوئے تھے جناب مولوی جلال الدین صاحب امام مسجد پٹنی لندن کی طرف سے کیا گیا ہے جیسا کہ ہمارے لندنی نامہ نگار کی اطلاع مظہر ہے کہ امام شمس صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری کی قبر خانیار محلہ سرینگر )کشمیر( میں واقع ہے یہ دعویٰ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ نے کیا ہے اور حضرت مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی کو اپنے اوپر منطبق کیا ہے۔ امام شمس صاحب نے اس امر کا اعلان کرتے ہوئے کہ یہ قبر مسیح ناصری کی ہی ہے مزید کہا ہے کہ اس قبر کو کھولا جائے اور تحقیق کی جائے تو متعدد دستاویزات اور الواح اس صداقت کی شہادت میں دستیاب ہوں گی۔ اس مضمون کو چھوٹا سا ٹریکٹ جس میں قبر مسیح کا فوٹو بھی ہے ہزاروں کی تعداد میں انگلستان بھر میں تقسیم کی جارہا ہے<۔۹۶
اسی طرح کلکتہ کے مشہور اخبار >امرت بازار پتریکا< نے ۴۔ مارچ ۱۹۴۶ء کے شمارہ میں اپنے نامہ نگار خصوصی کی طرف سے درج ذیل آرٹیکل شائع کیا۔ )ترجمہ(
>حال ہی میں امام مسجد لنڈن نے ایک پمفلٹ شائع کیا ہے جس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر ہندوستان میں پائی گئی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کے مذہبی حلقوں میں غصہ کا اظہار کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر کیتھولک چرچ میں بقول امام صاحب مسجد احمدیہ لندن حضرت مسیح کی پیشگوئی بعثت ثانی حضرت احمد قادیانی بانی عالمگیر سلسلہ احمدیہ کی ذات میں پوری ہوئی۔ نیز آپ نے ٹھوس دلائل سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یسوع مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے جسم عنصری کے ساتھ غار سے نکل آئے تھے امام صاحب فرماتے ہیں۔ انجیل کی روایت کے مطابق یسوع مسیح دریائے نائبریس کے کنارے اپنے حواریوں سے آخری بار ملے۔ نیز اپنے حواری >پیٹر< کو ہدایت کی کہ >میری بھیڑوں کی پرورش کرنا< اس ہدایت کے بعد وہ اپنے حواریوں سے جدا ہوئے اور ایک نامعلوم علاقہ کی طرف چلے گئے۔ یہ مشہور واقعہ ہے کہ یسوع مسیح کے بارہ حواریوں میں سے ایک حواری مسمیٰ طامس ہندوستان میں آئے اور یہیں فوت ہوئے آج کل ان کا مقبرہ مدراس میں موجود ہے۔
حضرت احمد قادیانی مسیح موعودؑ کا یہ انکشاف کہ >مسیح ابن مریم کی قبر کشمیر میں موجود ہے< عیسائیوں کے آسمان کی طرف یسوع مسیح کے اٹھائے جانے کے عقیدہ کو بالکل باطل کر دیتا ہے اور یقینی طور پر ثابت کرتا ہے کہ یہ قبر عیسیٰ بن مریم کی ہے اور وہی اس میں مدفون ہیں۔ یہ قبر سری نگر محلہ خانیار میں موجود ہے جس کے قرب و جوار میں گم شدہ بنی اسرائیل پہلے بھی آباد تھے اور آج بھی آباد ہیں۔ اگر اس قبر کی محکمہ آثار قدیمہ والے تحقیق کریں تو کئی ایسے کتبے وغیرہ مل سکتے ہیں جو اس بات کا بین پتہ دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اس قبر میں وہی شخص مدفون ہے جس کی صدیوں سے خدا کی طرح پرستش کی جاتی ہے۔
اس پمفلٹ میں ایک تصویر بھی ہے جس میں پانچ مسلمان قبر کی حفاظت کررہے ہیں۔
کیتھولک چرچ کے ہفتہ وار اخبار >یونی ورس< نے اس خبر کے متعلق ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ )بحوالہ الفضل ۲۶۔مارچ ۱۹۴۶ء مطابق ۲۶۔ امان ۱۳۲۵ہش(
۲۔ ۲۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو حافظ قدرت اللہ صاحب نے لنڈن مشن کی تاریخ میں پہلی بار نماز تراویح میں قرآن مجید ختم کیا۔۹۷
۳۔ ویدانتا سوسائٹی لنڈن کے زیر اہتمام ۲۵ تا ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو ایک مذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسلام کی نمائندگی چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے کی ایک نہایت کامیاب لیکچر دیا جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔۹۸
۴۔ لنڈن کی >انڈین کلچرک یونٹی< نے ۲۔ نبوت/ نومبر کو اپنا ایک خاص پروگرام ہندوستان کے مسئلہ اتحاد پر مقرر کیا تھا جس میں ہندو` سکھ` پارسی` عیسائی اور مسلمان مقررین نے حصہ لیا۔ مسلمانوں کی طرف سے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد لنڈن نے کامیاب اور موثر نمائندگی کی۔۹۹
مشرق افریقہ مشن
)۱( ٹبورا کے عیسائی مشن نے >یسوع یا محمدﷺ(~ کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کررکھا تھا۔ جس میں آنحضرت~صل۱~ کی ذات پاک کے خلاف اعتراضات کئے گئے تھے۔ مشرقی افریقہ کے احمدیہ مشن کی طرف سے اس رسالہ کا مدلل جواب سواحیلی میں شائع کیا گیا۔ جسے ملک بھر کے مسلمانوں نے بہت سراہا متعدد افریقنوں نے لکھا کہ ہمارے ہاتھ میں یہ رسالہ ایک ایسا ہتھیار ہے کہ ہم عیسائیوں کو مسکت جواب دینے کے قابل ہوگئے ہیں۔۱۰۰
۲۔ مشرقی افریقہ کے پرانے احمدی سیٹھ عثمان یعقوب صاحب نوری ۳۰۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء مرکز احمدیت میں تشریف لائے۔۱۰۱
مولانا محمد صادق صاحب کی واپسی
‏text] g[taمولانا جلال الدین صاحب شمس کے علاوہ جن کا ذکر قبل ازیں آچکا ہے اس سال مولانا محمد صادق صاحب مجاہد سماٹرا بھی آٹھ سال تک تبلیغ احمدیت کا فریضہ انجام دینے کے بعد ۲۸۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کو قادیان تشریف لائے۔۱۰۲
مبلغین اسلام کی قادیان سے روانگی
اس سال مندرجہ ذیل مبلغین قادیان سے اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے روانہ ہوئے۔
)۱(
مولوی صدر الدین صاحب فاضل ایران کے لئے )۱۱۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۳
)۲(
مرزا منور احمد صاحب واقف زندگی برائے امریکہ )مورخہ ۵۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۴
)۳(
چوہدری غلام یٰسین صاحب برائے امریکہ )۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۵
)۴(
مولوی غلام احمد صاحب برائے عدن )۵۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۶
)۵(
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی برائے فلسطین )۲۳۔ ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۷
)۶(
مولوی محمد زہدی صاحب برائے بورنیو )۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(۱۰۸
۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء کی نئی مطبوعات
اس سال مرکز سے حسب ذیل لٹریچر شائع ہوا۔
۱۔ طریقہ تعلیم:۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جامعہ احمدیہ میں ایک معلومات افزا لیکچر دیا تھا جو جامعہ احمدیہ کی طرف سے شائع کیا گیا۔
۲۔ >ہندو اقتدار کے منصوبے یا اچھوت ادھار کی حقیقت< )از جناب ملک فضل حسین صاحب احمدی مہاجر( >اخبار انقلاب< )۲۶۔ فروری ۱۹۴۷ء( نے اس کتاب پر حسب ذیل تبصرہ شائع کیا۔
>ملک فضل حسین صاحب )قادیان( اپنی بعض مفید کتابوں کے سلسلہ میں کافی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب >اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہندو اقتدار کے منصوبے< بھی ان کی دوسری کتابوں کی طرح نہایت قیمتی معلومات سے لبریز ہے ملک صاحب ایک موضوع تجویز کرکے اس کے متعلق نہایت صبر و استقلال سے اخباروں کے تراشے اور افراد کی تقریریں اور تحریریں جمع کرتے رہتے ہیں اور کچھ مدت کے بعد موضوع زیر بحث کے متعلق اتنا اچھا مواد مرتب کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس موضوع پر مختلف حلقوں کی آراء و تاثرات کا اندازہ کرنا چاہے تو صرف ایک کتاب پڑھ کر کرسکتا ہے اس کتاب میں کانگرسی ہندوئوں کے ان دعاوی کا تار پود بکھیرا گیا ہے۔ جو وہ اچھوتوں کی اصلاح کے متعلق کرتے رہتے ہیں اور بتایا ہے کہ ہندوئوں کا یہ تمام شور و شغب محض اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لئے ہے۔ ورنہ انہیں اچھوتوں سے کوئی خاص ہمدردی نہیں ضخامت ڈھائی سو صفحے سے زیادہ ہے۔ قیمت کتاب پر لکھی نہیں لیکن ملک صاحب کی کتابیں چونکہ عام طور پر ارزاں ہوتی ہیں اس لئے غالباً ایک روپے سے زیادہ نہ ہوگی۔۱۰۹
۳۔ لطائف صادق )مرتبہ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی(
اس کتاب میں وہ تمام دلچسپ اور پرلطف باتیں جمع کر دی گئیں۔ جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ہندوستان انگلستان اور امریکہ میں پیش آئیں۔
۴۔ تعلیم البنات حصہ اول پارہ اول مترجم بطرز جدید مع نماز مترجم )از مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر(
۵۔ سکھوں اور مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات )از گیانی واحد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ(
۶۔ >گزشتہ اور موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں< )تالیف مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر و مولانا جلال الدین صاحب شمس(
مباحثہ دہلی
اس سال دہلی میں دو یادگار مناظرے ہوئے جن کی تفصیل یہ ہے کہ آریہ سماج دہلی نے اپنے سالانہ جلسہ کے موقع پر جملہ مذاہب کو مناظرہ کا چیلنج دیا اور ایک پوسٹر بھی شائع کیا کہ جس کا جی چاہے آکر ویدک دھرم کی صداقت آزمالے۔ جماعت احمدیہ نے یہ چیلنج قبول کرلیا اور >آریہ دھرم میں عورت کا مقام< کے موضوع پر مناظرہ قرار پایا جس میں مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ نے کامیاب بحث کی۔ آپ کے زبردست دلائل اور شوکت بیان کے سامنے آریہ مناظر صاحب کے کمزور اور غیر معقول جوابات کا یہ اثر تھا کہ آریہ سماج کو مناظرہ کا ڈیڑھ گھنٹہ مقررہ وقت گزارنا مشکل ہوگیا اور ان کی کیفیت >نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن< کی مصداق تھی۔ اختتام مناظرہ پر مسلمانوں نے انبساط و مسرت کے جوش میں بے اختیار >اللہ اکبر< >اسلام زندہ باد< کے نعرے بلند کئے۔۱۱۰
اس مناظرہ میں آریہ سماج کو زک اٹھانا پڑی اس کا داغ دھونے کے لئے آریہ سماج نے دوبارہ اس موضوع پر مباحثہ کی طرح ڈالی۔ چنانچہ ایک ہفتہ کے اندر نئی دہلی میں دوسرا مناظرہ ہوا اور اس میں کئی ہزار تعلیم یافتہ لوگ شامل ہوئے جماعت احمدیہ کی طرف سے حسب سابق مولوی ابوالعطاء صاحب نے بحث کی اور آریہ سماج کی طرف سے پنڈت پر بھی لال صاحب پیش ہوئے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بدزبانی میں بہت مشاق تھے۔ یہ مناظرہ بھی پہلے کی طرح نہایت کامیابی سے ختم ہوا۔ خود پنڈت رام چندر صاحب دہلوی نے جو صدر تھے اعلان کیا کہ جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے نہایت تہذیب و شرافت سے مناظرہ کیا ہے اور کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ہمارے مسلمات کے خلاف ہو۔ مسلمانوں نے مناظرہ کے اختتام پر تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کئے۔ بعض آریہ سماجیوں نے کہا کہ نیوگ کا بیان ستیارتھ پرکاش میں سے نکال دینا چاہئے اس کی وجہ سے ہمیں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔
مناظرہ کے بعد کئی معزز مسلمان مولوی ابوالعطاء صاحب کی قیامگاہ پر تشریف لائے اور مبارکباد دی۔۱۱۱
‏vat,10.36
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
پانچواں باب )فصل سوم(
خلافت ثانیہ کا چونتیسواں سال ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء
مولوی نذیر احمد صاحب مبشر انچارج گولڈ کوسٹ مشن کی واپسی اور مساعی پر ایک نظر
مجاہد افریقہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر گیارہ سال تک مغربی افریقہ میں کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۷۔ جنوری ۱۹۴۷ء
کو واپس مرکز احمدیت قادیان میں تشریف لائے۔ اسٹیشن پر بزرگان سلسلہ اور کثیر احباب نے آپ کا پرخلوص استقبال کیا۔ ۱۳۔ جنوری ۱۹۴۷ء کو بعد نماز عصر آپ کے اعزاز میں وکالت تبشیر کی طرف سے دعوت چائے دی گئی۔ جس میں حضرت مصلح موعود نے بھی شرکت فرمائی۔ اس موقعہ پر مولوی عبدالمغنی صاحب وکیل التبشیر نے اپنے تفصیلی ایڈریس میں بتایا۔
>مولوی نذیر احمد صاحب مبشر جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے محلہ اراضی یعقوب کے ایک قدیم مخلص خاندان کے فرزند رشید ہیں۔ ان کی والدہ صاحبہ کو جب علم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخلص خدام کو یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کو دین کی خدمت کے لئے اپنے بچے بھی پیش کرنے ہوں گے تو اسی وقت انہوں نے اپنے اس بچہ کو` جن کی عمر اڑھائی ماہ تھی` دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور باوجود اس کے کہ ان کا کوئی اور بیٹا نہ تھا۔ اس وقف پر مرتے دم تک قائم رہیں۔ مولوی نذیر احمد صاحب کو جب تعلیم کے لئے قادیان بھیجا جانے لگا تو انہوں نے بچپن ہی کی حالت میں اپنے والد صاحب کو کہا کہ آپ نے وقف تو کیا ہے۔ مگر میرے سب اخراجات خود اٹھائیں۔ چنانچہ ان کے والد صاحب نے اپنے خرچ پر تعلیم دلائی۔ مولوی فاضل پاس کرکے اور مبلغین کلاس میں تعلیم پاکر وہ کچھ عرصہ شہر و ضلع سیالکوٹ میں حسب ضرورت ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ کے ماتحت آنریری طور پر تبلیغ کرتے رہے۔ ان کو معلوم ہوا کہ مولوی نذیر احمد صاحب علی )حال رئیس مبلغ مغربی افریقہ( نے جو گولڈ کوسٹ میں تبلیغ کرکے رخصت پر آئے ہوئے تھے۔ یہ درخواست کی ہے کہ عربی زبان اور دینی تعلیم کے لئے انہیں گولڈ کوسٹ میں تین سال کے لئے ایک مدرس دیا جائے۔ اس پر مولوی نذیر احمد صاحب نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ کچھ شرائط کرلی جائیں۔ مگر انہوں نے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے کوئی شرط نہ کی۔ اور کہا کہ میں اپنی خدمات بلا شرط پیش کرتا ہوں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کو یہ بات پسند آئی اور حضور نے فرمایا کہ انہیں منتخب کیا جائے۔ جو لوگ شرطیں پیش کرتے ہیں` کام کم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ منتخب ہوگئے اور دوسرے مبلغین کے ساتھ ۲۔ فروری ۱۹۳۶ء کو گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ اس وقت چھ مبلغین مولوی جلال الدین صاحب شمس` ملک محمد شریف صاحب حال مبلغ اٹلی` مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری مبلغ جاوا` مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ایک ساتھ روانہ ہوئے۔
۲۳۔ اپریل کو مولوی نذیر احمد علی صاحب گولڈ کوسٹ پہنچے اور کام پر لگ گئے۔ مولوی نذیر احمد علی صاحب نے انہیں بیس پونڈ چارہ ماہ کا خرچ مقامی چندہ سے دیا۔ مگر کچھ دنوں بعد ناظر صاحب بیت المال نے وہ رقم واپس طلب کی کیونکہ وہ چندہ کی رقم تھی۔ اس وقت مولوی صاحب کو حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وہ الفاظ یاد آئے کہ >تجارت کی طرف بھی توجہ دینا< چنانچہ مولوی صاحب نے صرف دس روپیہ سے تجارت شروع کی۔ جس میں بعد کو مولوی نذیر احمد علی صاحب بھی شامل ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ چھ ماہ تک انہوں نے وہ بیس پونڈ واپس کر دیئے اور اپنے اخراجات خود چلاتے رہے۔ جب ایک استاد سکول کا فوت ہوگیا تو مولوی صاحب کو اپنے مبلغین کلاس کے علاوہ مدرسہ میں بھی پڑھانا پڑتا تھا۔ عصر کے بعد فراغت ہوتی تو تجارت کا کام نماز مغرب سے پہلے تک کرلیا کرتے۔
اکتوبر ۱۹۳۷ء میں مولوی نذیر احمد علی صاحب کو سیرالیون مشن کھولنے کے لئے جانے کا حکم ہوا تو مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے اسی اپنی تجارت سے مبلغ پینسٹھ پونڈ انہیں کرایہ جہاز اور اس ضمانت کے لئے دیئے جو سیرالیون میں داخل ہونے پر دی جاتی تھی اور اس کے بعد بھی اسی تجارت کے منافع سے انہیں اور رقم بھی سیرالیون بھیجی۔ جب جنگ کی وجہ سے تجارت بند ہوگئی۔ اس وقت ان کو پانچ پونڈ ماہوار مرکز کے الائونس سے ملنا شروع ہوئے<۔
اس کے بعد وکیل التبشیر صاحب نے گولڈ کوسٹ مشن کی وسیع دینی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔
>احمدی آبادی بارہ حلقوں میں تقسیم ہے۔ ہر حلقہ میں متعدد جماعتیں ہیں۔ کل تعداد جماعتوں کی دو سو کے قریب ہے۔ ۱۲۴ مساجد اب تک بن چکی ہیں۔ چندہ دہندگان کی تعداد سات ہزار پانصد ہیں۔ مردم شماری مکمل نہیں ہوسکی۔ مگر چندہ دینے والوں کی تعداد سے کل احمدی آبادی کا اندازہ بیس ہزار سے تیس ہزار تک کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت گولڈ کوسٹ میں ہندوستان سے گئے ہوئے تین مبلغ کام کرتے ہیں۔ ایک مبلغ علاقہ کالونی میں اور یہی امیر التبلیغ ہیں۔ دوسرا مبلغ اشانٹی علاقہ میں اور تیسرا مبلغ ناردرن ٹیریٹری ہیں۔ ٹوگولینڈ کے علاقہ میں کوئی مبلغ نہیں۔ ان تین ہندوستانی مبلغوں کے ساتھ سولہ افریقن مبلغ کام کرتے ہیں۔
گولڈ کوسٹ کی تبلیغ کا یہ طریق ہے کہ مرکز سالٹ پانڈ میں ہیڈمبلغ کی زیر نگرانی ایک مبلغین کی کلاس میں افریقن مبلغ تیار کئے جاتے ہیں۔ پورا قرآن شریف باترجمہ معہ تفسیری نوٹوں کے پڑھایا جاتا ہے۔ حدیث میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم پڑھائی جاتی ہے۔ عربک لٹریچر اور صرف و نحو اور چند عربی کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھائی جاتی ہیں۔ تعلیم ختم ہونے کے بعد یہ مبلغ مختلف جماعتوں میں مقرر کئے جاتے ہیں۔ جہاں جماعت کی دینی تربیت اور تبلیغ اور مدرسوں میں دینیات پڑھاتے ہیں۔ ان طلباء کو زمانہ تعلیم میں ۱۰۔ شلنگ ماہوار اور فارغ ہونے پر` جب کام پر لگتے ہیں صرف دو پونڈ ماہوار دیئے جاتے ہیں۔ یہ گزارہ اس قدر کم ہے کہ اس پر گزر کرسکنے والے طلباء کم ملتے ہیں۔ اگر اس گزارہ میں کچھ زیادتی ہو تو طلباء اور مبلغین کی تعداد بہت بڑھ سکتی ہے۔ مگر اس وقت آمد خرچ کو پورا نہیں کررہی ہے۔ گولڈ کوسٹ کا اس سال کا مقامی بجٹ >جس میں مرکز کا کوئی روپیہ شامل نہیں` ۔/۳۶۶۴ پونڈ یعنی پچاس ہزار روپیہ کے قریب قریب ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مغربی افریقہ کے ایک دور دراز ملک میں ہمارے مبلغ کی سعی سے اتنی بڑی جمعیت پیدا ہوگئی۔ جس کی خالص اپنی آمد سالانہ پچاس ہزار روپیہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ جو بجٹ اوپر درج کیا ہے۔ وہ ان کے اپنے مرکزی کاموں کا ہے۔ علیحدہ علیحدہ دور دور کی جماعتیں جو اپنے اپنے مقام پر خرچ کرتی ہیں۔ وہ اس میں شامل نہیں۔ یہ سب روپیہ جماعت کے تبلیغی و تعلیمی اور تنظیمی کاموں میں خود وہاں کے لوگوں کی اپنی مجلس عاملہ کے فیصلوں سے زیر نگرانی ہیڈ مبلغ خرچ ہوتا ہے۔ تاجماعت بحیثیت مجموعی اپنے علم و اخلاص و تنظیم و تعداد میں ترقی کرے<۔۱۱۲
اس ایڈریس کے بعد حضرت مصلح موعود نے ایک مختصر مگر پرمعارف خطاب فرمایا جس میں آیت واذا الوحوش حشرت )التکویر: ۶( کی روشنی میں افریقہ کی بیداری کا تذکرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ >ہم نے نہایت کمزور ذرائع کے باوجود غیر معمولی فتح حاصل کی ہے حتیٰ کہ عیسائیت کی اشاعت ہی بند ہوگئی ہے چنانچہ چرچ آف انگلینڈ کو سخت تشویش ہوئی اور اس نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک وفد بھیجا جس نے یہ رپورٹ کی کہ عیسائیت کی اشاعت احمدی مبلغین کی مقبولیت کی وجہ سے رک گئی ہے<۔
اس پس منظر میں مزید فرمایا۔
سو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں سب اقوام کی بیداری کے سامان پیدا کر دئے ہیں اور و اذا الوحوش حشرت کی پیشگوئی پورا کرنے کا ہمیں بھی ذریعہ بنایا اور مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی جس کو ہم نے وہاں قائم کرنا ہے<۔۱۱۳
حضرت مصلح موعود کی زریں ہدایات ایک واقف زندگی کو
ایک واقف زندگی تجارت کی غرض سے ۱۹۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو قادیان سے روانہ ہوئے تو حضرت مصلح موعود نے ان کو اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل ہدایات لکھ کر عطا فرمائیں-
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
آپ واقف زندگی ہیں۔ تعلیم یافتہ ہیں ایک فن جانتے ہیں نوکری کرتے یا اپنا کام کرتے تو اپنی حد کے اندر دنیا کماتے۔ رشتہ داروں کی ترقی کا موجب ہوتے لیکن اب آپ نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ارادوں کو قربان کر دیا ہے۔ یہ نازک مرحلہ ہے ایک قدم ادھر سے ادھر ہوکر قعر مذلت میں گرا سکتا ہے۔ اپنے عہدہ پر قائم رہیں تو دین و دنیا آپ کی ہے۔ اس میں ذرا سی لغزش ہو تو تباہی اور بربادی ہے آپ نے دین کے لئے زندگی وقف کی ہے لیکن آپ کو تجارت کے لئے بھجوایا جارہا ہے۔ یہ عجیب بات نہیں۔ ساری فوج لڑے تو شکست یقینی ہے۔ کچھ لوگ گولہ بارود بناتے ہیں۔ کچھ روٹی پکاتے ہیں۔ کچھ بندوقیں تیار کرتے ہیں۔ کچھ کپڑے` کچھ بوٹ` کچھ موٹر بناتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے کام پر خوش نہ ہوں اور جوش سے حسب ضرورت بلکہ زائد از ضرورت کام نہ کریں تو لڑائی میں شکست یقینی ہے ان کے بغیر سپاہی قیدی ہے۔ مقتول ہے۔ فاتح اور غالب نہیں۔ پس آپ کا کام مبلغوں سے کم نہیں۔ مبلغ اپنی جگہ پر لڑتا ہے۔ آپ لوگ ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کا ذریعہ بنیں گے۔ پس اپنے کام کو وسیع کریں۔ اپنے نفع کو کروڑوں اربوں اور پھر کھربوں تک پہنچائیں تا سینکڑوں سے ہزاروں` ہزاروں سے لاکھوں مبلغ مقرر ہوں اور کروڑوں کے بعد اربوں ٹریکٹ اور کتب ہر سال شائع اور تقسیم ہوں۔
اپنے حوصلہ کو بلند کریں۔ چھوٹی کامیابیوں پر خوش نہ ہوں۔ دنیا کی فتح اپنا مقصود بنالیں۔ دنیا کو دنیا نے اپنے لئے ہزاروں سال کمایا ہے۔ اب کیوں نہ سب تجارت اور صنعت دین کے لئے فتح کرلی جائے۔ تاکہ یہ ذاتی جھگڑے بالکل ختم ہو جائیں۔ کمیونسٹ قوم کے لئے لیتے ہیں اور اس طرح ذاتی لڑائی کو قومی لڑائی میں بدل دیتے ہیں چونکہ قومیں نہیں بدلتیں۔ لڑائی کی بنیاد ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتے ہیں۔ لیکن ہم اگر تجارت و صنعت کو مذہب کے لئے جیت لیں گے تو لڑائی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ کیونکہ مذہب بدل سکتا ہے اور اسلام تبلیغی مذہب ہے جب سب لوگ ایک مذہب کے ہو جائیں گے اور تجارت مذہب کے ہاتھ میں ہوگی تو دین و دنیا ایک ہی ہاتھ میں جمع ہوکر لڑائی کا خاتمہ کر دیں گے۔
مطالعہ وسیع کریں۔ صرف ایک تاجر نہیں ایک ماہر اقتصادیات کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
صرف ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ہی تجارت وسیع کرنے کا سوال نہیں اپنے مغربی مشنوں سے تبادلہ خیالات کرکے وہاں تجارت کو وسیع کیا جاسکے تو اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری غرض عقل کے ساتھ سوچ کر ساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرنا ہے اور کوشش کرنا ہے کہ تبلیغ اسلام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اس قدر روپیہ کما لیں کہ روپیہ اور مال کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو صرف سماوی آفات رہ جائیں۔ ارضی آفات کا خاتمہ ہو جائے اور سماوی آفات دل کی اصلاح سے دور ہوسکتی ہیں ان کا دور کرنا آسان ہے کہ اس کا روکنا رحیم و کریم خدا کے ہاتھ میں ہے۔
افسروں کی اطاعت` باقاعدہ رپورٹ کام کے اہم جزو ہیں جو اس میں غفلت کرتا ہے اس کا سب کام عبث جاتا ہے۔ دعا` عبادت` دیانت` امانت` محنت` تعاون باہمی ضروری امور ہیں۔ ان کے بغیر دین نہیں` دین کا چھلکا انسان کے پاس ہوتا ہے اور چھلکا کوئی نفع نہیں دیتا۔ والسلام
خاکسار )دستخط مبارک(
مرزا محمود احمد )خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی<(۱۱۴
احمدی لیڈر اخبار >ریاست< کا دلچسپ نوٹ
سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون ایڈیٹر >ریاست< )دہلی( نے اپنے اخبار >ریاست< )۲۴۔ فروری ۱۹۴۷ء( میں احمدی لیڈر< کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ شائع کیا۔
>یہ مذہب پر فریفتہ ہے۔ بہت سخت جان واقع ہوا ہے۔ اسے گالیاں کھا کر بھی غصہ نہیں آتا۔ مسلمان اس کی ہر جگہ مخالفت کرتے ہیں۔ مگر یہ پروا نہیں کرتا۔ چندہ جمع کرنے میں بہت مشاق ہے۔ فطرتاً نیک ہے یہ ہندوئوں اور سکھوں کے بزرگوں کی عزت کرتا ہے۔ تبلیغ پر جان دیتا ہے اور دوسروں کو احمدی بنانا اس کی زندگی کا واحد مقصد ہے اپنی دھن کا پکا ہے۔ نماز روزے کا سخت پابند ہے اور شرع کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا۔ اسے دعا پر بہت یقین ہے اگر اسے بھوک محسوس ہو تو یہ چاہتا ہے کہ روٹی کی جگہ دعا سے پیٹ بھر جائے۔ سیاسی عقیدہ سے بے نیاز ہے۔ یہ تمام دنیا کو احمدی بنانے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ تبلیغ کے لئے بڑے سے بڑے خطرے کی پروا نہیں کرتا<۔۱۱۵
فسادات پنجاب اور مسلمانان امرتسر کے لئے جماعت احمدیہ کا ریلیف کیمپ][جوں جوں انتقال اقتدار کے ایام قریب سے قریب تر آرہے تھے ملک فرقہ وارانہ کشیدگی کے نئے سے نئے خونی چکر میں پھنستا جارہا تھا۔
احمد آباد۔ بمبئی۔ کلکتہ۔ بہار اور گڑھ مکتیسر کے لرزہ خیز واقعات ۱۹۴۷ء کے شروع میں جبکہ ۳۔ مارچ ۱۹۴۷ء کو خضر وزارت مستعفی ہوگئی پنجاب میں بھی دوہرائے جانے لگے اور لاہور` امرتسر` ملتان` گوجرانوالہ اور گوڑگانواں میں فتنہ فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ خصوصاً امرتسر میں آتشزدگی کی ایسی خوفناک وارداتیں ہوئیں کہ ایک انگریز افسر نے )جو دوسری جنگ کے دوران لنڈن میں تھا( بیان کیا کہ امرتسر کی حالت لنڈن کے ہر اس حصہ کی نسبت جس پر جنگ میں بمباروں کا مجموعی حملہ کیا گیا ہو بدتر تھی۔۱۱۶
ان فسادات سے امرتسر کے پچاس ہزار مسلمانوں پر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ اس دردناک صورت حالات سے حضرت مصلح موعود بہت مضطرب اور مشوش ہوئے اور حضورؓ نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک ہزار مسلمانوں کے خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لئے فوری طور پر امرتسر میں ایک ریلیف کیمپ کھول دے اور اپنے مظلوم اور بے بس بھائیوں کی مدد و اعانت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔
چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ قادیان کی زیر نگرانی امرتسر میں یہ امدادی کیمپ قائم کیا گیا جو کئی ماہ تک نہایت اہم خدمات انجام دیتا رہا۔
حضرت مصلح موعود نے صوبہ کے سربرآوردہ احمدی اصحاب کو اپنے قلم مبارک سے اس کیمپ کی اعانت کے لئے ایک خاص مکتوب تحریر فرمایا جس سے جماعت احمدیہ کی امدادی سرگرمیوں کی نوعیت و اہمیت کا اندازہ بھی لگ سکتا ہے۔ حضورؓ نے لکھا۔
>برادرم مکرم سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
امرتسر میں مسلمانوں پر جو سختی ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے پچاس ہزار مسلمان بے گھر بے در ہیں اور نوکری سے محروم ۔ کھانے کو آٹا تک نہیں ملتا اگر ان کی امداد نہ کی گئی تو سب شہر چھوڑ کر دوڑ جائیں گے اور مسلمانوں کا سخت نقصان ہوگا۔ ان حالات کو دیکھ کر میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ مسلم لیگ سے شہر کا ایک حصہ لیکر اس کے ریلیف کا انتظام کریں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
یہ مصیبت اتنی بڑی ہے کہ شہر والوں کی طاقت سے باہر ہے اصل میں پنجاب کے سب ضلعوں اور انجمنوں کو چاہئے تھا کہ مقامی لیگ کا اس امداد میں ہاتھ بٹائیں اور شہر کے مختلف حصوں کے امداد کا کام اپنے ذمہ لیں مگر اب تک اس طرف توجہ نہیں ہوئی۔ اب خدام الاحمدیہ نے میری ہدایت سے سردست ایک ہزار آدمی کے لئے ریلیف کی ذمہ داری تین ماہ کے لئے لی ہے۔ ارادہ ہے کہ سامان میسر آجائے تو سال بھر کے لئے اس کی ذمہ داری کو ادا کیا جائے گا اور اگر جماعت کا تعاون زیادہ ہو تو ایک ہزار سے بڑھا کر ڈیڑھ دو ہزار یا اس سے زیادہ آدمیوں کی امداد کا کام کیا جاوے۔
اس سلسلہ میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی جماعت کے علاوہ دوسرے ہمدردی رکھنے والوں سے سارے ضلع میں غلہ جمع کریں اور پھر اسے وہیں فروخت کرکے امرتسر ریلیف فنڈ کے نام بھجوا دیں۔ یہ فنڈ صدر انجمن احمدیہ کی نگرانی میں قائم کر دیا گیا ہے >امرتسر ریلیف فنڈ< کے نام رقوم بھجواتے رہیں۔
اگر صرف ایک ہزار آدمی کے ریلیف کا انتظام کیا جائے تو سال میں سوا تین ہزار من غلہ خرچ ہوگا چونکہ امرتسر میں غلہ کی قیمت گیارہ سے بارہ روپے تک ہے اس لئے اس کی قیمت چالیس ہزار روپے تک ہوگی چونکہ اضلاع میں غلہ آٹھ روپے سے نو روپے من تک بکے گا اس لئے پانچ ہزار من غلہ امرتسر میں سوا تین ہزار من پہنچے گا۔ اگر کام دوگنا ہو جائے تو دس ہزار من چاہئے ہم نے گورداسپور میں یہ کام شروع کروا دیا ہے اور اب سیالکوٹ۔ شیخوپورہ۔ گوجرانوالہ۔ لائل پور۔ سرگودھا۔ منٹگمری اور ملتان کی جماعتوں کو تحریک کی جاتی ہے کہ وہ اس بارے میں جلد سے جلد روپیہ بھجوانا شروع کر دیں۔
یہ بات یاد رہے کہ اس قسم کے لفظ نہ بولے جائیں کہ ہم لیگ کی طرف سے یہ کام کررہے ہیں۔ ہاں یہ بے شک بتایا جائے کہ لیگ کے کام کو ہلکا کرنے کے لئے ہم نے یہ کام شروع کیا ہے جو لوگ اس میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیں کرسکتے ہیں اور اس میں ان کو بھی ثواب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ کہا گیا کہ یہ تحریک لیگ کی طرف سے ہے تو اس سے فتنہ پڑنے کا امکان ہے اور لیگ اعتراض کرے گی کہ ہمارے نام سے ناجائز فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔
میں تجویز کرتا ہوں کہ ملتان` منٹگمری` لائل پور اور سرگودھا کی جماعتیں تمام علاقہ میں تین تین ہزار من غلہ جمع کرنے کی کوشش کریں اور شیخوپورہ` گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کی جماعتیں دو دو ہزار من۔ اس طرح حساب کی رو سے تو اٹھارہ ہزار من ہو جاتے ہیں لیکن چونکہ بعض جماعتیں شاید پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں اس لئے اس قدر حصہ مقرر کر دیا گیا ہے تاکہ اگر کسی جماعت کو پوری کامیابی نہ ہو تب بھی نقصان نہ ہو۔ والسلام۔
مرزا محمود احمد خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی
مسلم لیگ ڈیفنس کمیٹی امرتسر
جماعت احمدیہ نے ریلیف کیمپ امرتسر میں مسلمانوں کی خدمت بجا لانے کے بعد مسلم لیگ کی قائم کردہ ڈیفنس کمیٹی میں بھی شرکت کی جس کا مسلمانان امرتسر پر گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ قریشی ضیاء الدین احمد صاحب )ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور( تحریر فرماتے ہیں۔:
>۱۹۴۷ء میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور غیر مسلموں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے تھے اور قتل و غارت لوٹ مار اور آتش زدگی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا مسلم لیگ نے مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کے لئے مسلم وکلاء کی ایک کمیٹی مقرر کی تھی جس کا نام مسلم لیگ ڈیفنس تھا۔
اس موقعہ پر حضور نے قومی خدمت کے مدنظر اس کام میں حصہ لینے کا فیصلہ فرمایا اور خاکسار کو حکم فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ڈیفنس کمیٹی میں شامل ہوکر مقدمات کی پیروی کروں۔ وہاں کام کرنا بہت ہی خطرناک تھا۔ انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہ تھی اور ہر صبح جب ہم شہر سے مقدمات کی پیروی کے لئے کچہری جاتے تو دائیں بائیں آگے پیچھے بم پھٹتے تھے اور ہر قدم پر موت کا مقابلہ تھا۔
مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی کے علاوہ حضور کی قیادت میں کئی قسم کی امداد بھی کی جاتی تھی۔ مثلاً بیوگان کو گھر پر راشن مہیا کرنا۔ مسلمان زخمیوں کی طبی امداد۔ افسران سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی مشکلات کا حل کرنا وغیرہ۔
امرتسر احمدیت کی مخالفت کا پرانا مرکز تھا اور یہ وہی مقام تھا جہاں ایک دفعہ جلسہ عام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر برسائے گئے تھے۔ مگر حضرت مصلح الموعود~رح~ کی زیر صدارت جو خدمات احمدیوں نے امرتسر میں سرانجام دیں اور جو احسانات مسلمانوں پر کئے۔ ان کا ایسا زبردست اثر ہوا کہ مسلمان پرانی مخالفت کو بھول گئے اور جماعت احمدیہ کے بے حد مداح بن گئے چنانچہ ہر روز یہی نظارہ نظر آتا تھا کہ جب شام کو میں کچہری سے واپس آتا تھا تو مسلمان میرے گرد جمع ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ سنائو جی >آج مرزا صاحب نے کیا فرمایا ہے کیا نئی ہدایت دی ہے۔
یہ ان احسانات کا ہی اثر تھا کہ جب حضور لاہور تشریف لے جارہے تھے۔ تو حضور کی زیارت کے لئے مسلمان سینکڑوں کی تعداد میں امرتسر سٹیشن پر جمع تھے۔ حضور پچھلی سیٹ پر تشریف فرما تھے میں نے عرض کیا کہ حضور یہ لوگ حضور کی زیارت کے متمنی ہیں۔ حضور اگلی سیٹ پر تشریف فرما ہوئے۔ ایک جم غفیر تھا۔ اکثر نے زیارت کی بعض نے مصافحہ بھی کیا۔ یہ وہی نظارہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دیکھنے میں آتا تھا۔ یعنی جہاں کہیں حضور سفر پر تشریف لے جاتے تھے۔ ہر ایک سٹیشن پر حضور کی زیارت کے لئے ایک بڑا مجمع ہوتا تھا۔
۸۔ اگست ۱۹۴۷ء کو میں امرتسر سے واپس قادیان آیا۔ اس وقت قادیان میں صورت حال بھی غیر مسلموں کے حملوں کی وجہ سے قادیان کے گردونواح میں جتنے مسلمان آباد تھے۔ وہ اپنے اپنے گائوں چھوڑ کر قادیان میں جمع ہوگئے تھے۔ یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ حتیٰ کہ اسی ہزار تک پہنچ گئی۔ اس موقع پر حضور نے مجھے نظارت امور عامہ میں تعینات فرمایا۔ میری ڈیوٹی مہاجرین کے بیانات لکھنے۔ زخمی مہاجرین کی مرہم پٹی کرانا۔ ان کی امانتوں کو دفتر میں محفوظ کرانا۔ روزانہ کی رپورٹ باقاعدہ حضور کی خدمت میں بھجواتا تھا حضرت مصلح موعود~رح~ کا کتنا بڑا احسان تھا کہ محدود وسائل کے ہوتے ہوئے مہاجرین کی عظیم تعداد کی امداد کے انتظام کر دیئے گئے۔ حضور کی دوربین نظر اور ہدایات کے مطابق جماعت نے دو سال کی ضروریات کے لئے سامان خوارک جمع کر رکھا تھا۔ دو ماہ مہاجرین قادیان میں رہے اور حضور کے ارشاد کے مطابق اس سے مہاجرین کی ہر قسم کی ضروریات پوری کر دی گئیں۔
انہیں دنوں میں حضور معہ افراد خاندان مسیح موعودؑ لاہور تشریف لے گئے اور جماعت پر ایک عظیم احسان کیا۔ آپ نے ۸۰ ٹرک قادیان بھجوائے اور ان میں سب سے پہلے ہم نے غیر احمدی مہاجرین کو سوار کرا کر پاکستان پہنچایا اور اس طرح سے مسلمان قوم کی عورتوں کی عزتوں اور عصمتوں کو بچا لیا۔ اور ہزارہا روپیہ کی امانتیں پاکستان پہنچا کر مالی تباہی سے بھی ان کو بچایا۔ جو قوم مسلم پر ایک احسان عظیم ہے<۔ )مجلہ الجامعہ ربوہ ستمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۵۴ تا ۵۶(
ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے فسادات اور قادیان
شروع ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۶ ہش/ ۱۹۴۷ء کے فسادات کی وجہ سے قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھا کیونکہ نہ ریل آتی تھی نہ تار نہ ٹیلی فون یہ وہ ایام تھے جن میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ سندھ تشریف رکھتے تھے۔ مختلف مقامات سے تار دلوا کر حالات سے مطلع رکھنے کی کوشش کی گئی مگر بعد کو معلوم ہوا کہ بہت کم تار حضور تک پہنچ سکے ہیں۔ اسی طرح جو تار بیرونی جماعتوں کی خیریت دریافت کرنے اور مرکز سلسلہ کی خیریت کی خبر پہنچانے کے لئے دیئے گئے وہ بھی بہت کم پہنچ سکے البتہ گاہے گاہے لاہور اور امرتسر کی جماعت کے ساتھ بعض ذرائع سے رابطہ قائم کرنے کا موقعہ ملا رہا اس دوران میں آٹھ روز کے لئے الفضل کو بھی یک ورقہ صورت میں بدل دیا گیا کیونکہ اس کے باہر بھجوانے کی کوئی صورت نہ تھی اور نہ باہر سے خبریں موصول ہونے کا کوئی انتظام تھا۔ ماہ امان/ مارچ کے تیسرے ہفتے میں حالات وقتی طور پر معمول پر آگئے اور تانگوں سے ڈاک بھی آنے لگی پھر روزانہ ڈیزل کار کی ایک سروس بھی قائم ہوگئی۔ اطلاع پہنچی کہ نہ صرف حضرت امیر المومنین المصلح الموعود بخیریت ہیں بلکہ لاہور ملتان اور امرتسر میں بھی ایک احمدی جماعتیں بخیریت ہیں۔ البتہ امرتسر کے احمدیوں کا کچھ مالی نقصان بھی ہوا اور ایک احمدی کو خفیف سی ضربیں آئیں۔
قادیان میں فسادات کے ابتداء میں ہی ایک امن کمیٹی بنا دی گئی تھی جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوئوں نے بھی شرکت کی جس کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا اور فضا پرسکون رہی۔۱۱۷
متحدہ پنجاب میں آگ کی خوفناک لڑائی کی نسبت رویاء
حضرت مصلح موعود کو ۲۶/ ۲۵۔ تبلیغ ۱۳۲۶ ہش/ ۱۹۴۷ء کو عالم رویاء میں دکھایا گیا کہ۔:
>دوزخ میں بچھو ہیں لیکن وہ بچھو اس دنیا کی طرح نہیں۔ یہاں تو بچھو عام طور پر انگلی سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن وہاں جو میں نے بچھو دیکھے ہیں وہ چھ سات گز کے قریب لمبے ہیں۔ پہلے مجھے صرف دو بچھو نظر آئے جو علاوہ سات آٹھ گز لمبے ہونے کے موٹے بھی ہیں۔ جیسے ہوائی جہاز ہوتا ہے۔ ایسے لگتے ہیں۔ مگر ہوائی جہاز جتنے جسم نہیں جو کہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک دوسرے پر گرا ہے۔ جس طرح جانور جفتی کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ جب ایک دوسرے پر کودنے کی کوشش کرتا ہے تو میں نے دیکھا کہ دوسرے نے اوپر گرنے والے بچھو کو زور سے ڈنگ مارا اور وہ اچھل کر سامنے جاپڑا پھر اس نے دوسرے کی طرف منہ کرکے آگ کا شعلہ نکالنا شروع کیا جو کہ دور اوپر تک جاتا ہے اور دوسرے نے بھی اس کے جواب میں آگ کا شعلہ نکالنا شروع کر دیا اور وہ دونوں شعلوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ اور بچھو پیدا ہوگئے۔ ان کے قد بھی اسی طرح سات آٹھ گز کے قریب ہیں۔ پھر انہوں نے بھی آگ کے شعلوں سے لڑائی شروع کر دی اور ان کے شعلوں کا نظارہ نہایت ہیبت ناک تھا میں نے دیکھا کہ یکدم ایک بچھو نے پلٹا کھایا اور آدمی کی شکل اختیار کرلی اور اس نے اسی کمرہ کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں میں بیٹھا تھا۔ میں گھبرا کر وہاں سے چل پڑا ہوں۔ اس وقت مجھے پیچھے سے آواز آئی ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ فرشتے کی آواز ہے یا کسی کی۔ >قرآن پڑھو۔ قرآن پڑھو<۔ اس آواز کے آتے ہی میں نے قرآن شریف بلند اور سریلی آواز سے پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری آواز بہت سریلی اور بلند ہے۔ اور میں جس طرف سے گزرتا ہوں میری آواز پہاڑوں اور میدانوں میں گونج پیدا کر دیتی ہے۔ گویا ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور جس کے کانوں میں وہ آواز پڑتی وہ بھی قرآن کریم پڑھنے لگ جاتا ہے میں چلتا جارہا ہوں اور قرآن کریم پڑھتا جارہا ہوں چاروں طرف سے قرآن کریم پڑھنے کی صدائیں میرے کانوں میں آرہی ہیں<۔۱۱۸
‏]j1 [tagحضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے رویاء کے پورا ہونے کی تفصیل
حضرت مصلح موعود نے ۴۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ میں اس آسمانی نشان کے لفظاً لفظاً پورا ہونے کی تفصیل مندرجہ
ذیل الفاظ میں بیان فرمائی۔
>اب دیکھو بعینہ یہی نقشہ گزشتہ فسادات میں دیکھنے میں آیا۔ پہلے ہندوئوں اور سکھوں نے لاہور میں جلسہ کیا اور اس جلسہ میں انہوں نے بڑے زور کے ساتھ اعلان کیا کہ ہم مسلمانوں کو تلوار کے زور سے سیدھا کر دیں گے۔ یہاں تک کہ ایک لیڈر کے متعلق میں نے ہندو اخباروں میں پڑھا کہ تقریر کرتے ہوئے جوش سے دروازہ کے پاس آگیا اور اپنی تلوار ہوا میں گھما کر کہا کہ اس تلوار کے ساتھ ہم مسلمانوں کو سیدھا کر دیں گے۔ گویا لڑائی کی ذہنیت کو اللہ تعالیٰ نے بچھو سے مشابہت دی بچھو کے متعلق مشہور ہے کہ۔
ینش عقرب نہ از پئے کیں است
مقتضائے طبعش ایں است
یعنی یہ جانور حملہ کرتے وقت کوئی وجہ نہیں دیکھتے بلکہ بلاوجہ حملہ کرتے ہیں اور کوئی بھی ان کے آگے آجائے اسے ڈنگ مار دیتے ہیں پس خواب میں بچھو دکھا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ ملک کے ایک طبقہ کے لوگوں کی ذہنیت ایسی ہوچکی ہے کہ وہ بلاوجہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ لوگ نقصان پہنچانے کے لئے کوئی وجہ اور دلیل مدنظر نہیں رکھیں گے بلکہ بلاوجہ ہی وہ بچھو کی طرح ڈنگ ماریں گے اور ایسے لوگ ہندوئوں میں بھی ہیں اور مسلمانوں میں بھی۔ پھر خدا تعالیٰ نے رویاء میں اس طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ جو لوگ حملہ میں ابتداء کریں گے انہیں مخالف فریق اٹھا کر پرے پھینک دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہندوئوں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے میں ابتداء کی مگر وہ کامیاب نہ ہوئے اور مسلمانوں نے انہیں اٹھا کر پرے پھینک دیا۔ پھر دونوں فریق کی آپس میں لڑائی شروع ہوگئی اور جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا تھا آگ کے شعلوں سے لڑائی ہوئی اور یہ نظارہ لاہور` امرتسر اور کئی دوسری جگہوں میں دیکھنے میں آیا اور آگ کے ساتھ ایک دوسرے کو اس قدر نقصان پہنچایا گیا کہ اس کی کوئی مثال ہی نہیں مل سکتی۔ ایک انگریزی اخبار کا ایک انگریز نامہ نگار جس نے لاہور اور امرتسر کے تباہ شدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا اس نے بیان کیا کہ پانچ سال کی جرمنوں کی وحشیانہ گولہ باری کے نتیجہ میں جتنے مکانات لنڈن میں تباہ ہوئے تھے اس سے زیادہ مکانات لاہور اور امرتسر کے دو تین ماہ کے فسادات میں تباہ ہوگئے ہیں۔ گویا پانچ سال کے لمبے عرصہ میں جتنا ظلم جرمنوں نے انگلینڈ کے سب سے بڑے شہر لنڈن پر کیا تھا اس سے زیادہ ظلم دو تین ماہ کے قلیل عرصہ میں لاہور اور امرتسر میں ہوا۔ ان فسادات کی ابتداء ۳۱۔ مارچ سے ہوئی گویا ان فسادات سے چھ یا سات دن پیشتر خدا تعالیٰ نے مجھے بتا دیا تھا کہ اب عنقریب آگ کی لڑائی شروع ہونے والی ہے چنانچہ یہ لڑائی اتنی شدت کے ساتھ ہوئی کہ بعض شہروں میں تو محلوں کے محلے خالی ہوچکے ہیں اور جہاں بڑی بڑی عمارتیں تھیں وہاں اب ملبہ کے ڈھیروں کے سوا کچھ نہیں رہا۔ لاہور کے متعلق ایک خبر ملی ہے کہ شاہ عالمی دروازہ کے اندر دو دو سو گز تک بازار کے دو رویہ مکانات بالکل بھسم ہوچکے ہیں گویا صرف ایک جگہ ایک بڑے گائوں یا ایک چھوٹے قصبہ کے برابر مکانات تباہ ہوئے ہیں پھر ان فسادات میں ایک ایک محلہ میں کروڑوں کروڑ روپیہ کا نقصان ہوا ہے۔ بعض جگہیں تو ان شہروں میں تباہی کا عجیب منظر پیش کرتی ہیں اور کوئی شخص انہیں دیکھ کر پہچان ہی نہیں سکتا کہ یہ وہی جگہیں ہیں جہاں چار چار پانچ پانچ منزلہ مکانات ہوا کرتے تھے۔ پھر ان فسادات کے دوران میں ایسے ایسے دردناک اور جگر پاش واقعات ہوئے ہیں کہ ان کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ سنگدل سے سنگدل انسان بھی ان کو سن کر اپنے آنسوئوں کو روک نہیں سکتا مجھے پرسوں ہی کسی دوست نے بتایا کہ جب آگیں لگی تھیں تو جن کے گھروں کو آگیں لگائی جاتی تھیں ان کے بچے اور عورتیں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے اور نہایت عاجزانہ طور پر آگ لگانے والوں سے کہتے تھے کہ ہم تو پانچ چھ سو سال سے یہاں رہ رہے ہیں ہمیں کیوں بے در اور بے گھر کرتے ہو مگر اس وقت غصہ کی وجہ سے کسی کو ان درد بھرے الفاظ کی پروا نہ ہوتی تھی اور یہ صرف اس لئے ہوتا رہا کہ خدائی فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ آگ کی لڑائی لڑی جائے اور یہ ایک اٹل فیصلہ تھا جو بچھوئوں کی سی ذہنیت والوں کے لئے مقدر ہوچکا تھا۔ پس آگ کی لڑائی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اس نے بہت سے شہروں کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ محلوں کے محلے اور گائوں کے گائوں تباہ و ویران ہوگئے اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئی نہایت عظیم الشان طور پر پوری ہوئی۔۱۱۹ نیز فرمایا۔:
>ہندوستان کی گزشتہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے بلکہ دنیا کی تاریخ بھی اس آگ کی کوئی نظیر نہیں پیش کرسکتی دنیا کے کسی انسان کے وہم و گمان اور خیال میں بھی نہ آسکتا تھا کہ اتنی آگ لگے گی کہ وہ شہروں کے شہر اور محلوں کے محلے تباہ کردے گی۔
جماعت احمدیہ کے لئے ایک اہم سبق
اس خواب میں جماعت احمدیہ کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی چنانچہ حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطبہ جمعہ کے آخر میں فرمایا کہ۔
>خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہ لڑائیاں اور فتنے اور فسادات سوائے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے دور نہیں ہوسکتے۔ قرآن پڑھو کا صرف یہی مطلب نہیں کہ قرآن کریم کھول کر تلاوت کرلی جائے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا جائے اور اس کے حکمت بھرے احکام کی تمام دنیا میں اشاعت کی جائے کیونکہ یہ آگیں اس وقت تک بجھ نہیں سکتیں جب تک فطرتوں کے اندر تبدیلی پیدا نہ ہو جائے اور بنی نوع انسان کی صحیح معنوں میں اصلاح نہ ہو جائے اور ان کی فطرتوں کے اندر نرم دلی اور رحمدلی نہ پیدا ہو جائے<۔۱۲۰]4 [rtf
حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت مرکز اور سلسلہ کے لئے مالی قربانیوں` روزوں اور دعائوں کی تحریک خاص
جناب الٰہی کی طرف سے سیدنا المصلح الموعود کو کئی سال قبل مستقبل میں ہونے والے ایک اہم ملکی اور جماعتی تغیر و انقلاب کی نسبت خبر دی چکی تھی اور وہ یہ کہ دعویٰ مصلح موعود کے پانچ سال
کے عرصہ میں جماعت احمدیہ ایک خطرناک طوفانی دور میں سے گزرنے والی ہے۔ چنانچہ حضور نے ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۳ہش/ ۱۹۴۴ء میں بذریعہ رئویا دیکھا کہ >ایک وسیع سمندر ہے اس میں کچھ بوائے ہیں )بوائے وہ صندوق سا ہوتا ہے جو سمندروں میں جہازوں کو خطرات سے آگاہ کرنے کے لئے پانی پر` تیرتا رہتا ہے( ایک بوائے کے ساتھ کوئی لمبی سی چیز بندھی ہوئی ہے جس کا بہت سا حصہ سمندر میں غائب ہے اس کو کھینچتا جاتا ہوں اور دل میں خیال کرتا ہوں کہ اس کا میری زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو پانچ سال میں ہوگا<۔۱۲۱
اس اہم انکشاف کی تفصیلات میں حضور کو متعدد ایسے نظارے بھی دکھائے ¶گئے۔ جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا تھا کہ مشرقی پنجاب میں بڑی خوفناک تباہی آئے گی` اور قادیان اور اس کے گرد و نواح میں دشمن یکایک حملہ کرکے آجائے گا اور حلقہ مسجد مبارک کے سوا شہر کے سب حصوں پر اس کا قبضہ ہو جائے گا اور حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود اپنی جماعت کو اس طوفان میں سے صحیح سالم پار نکالنے اور پہاڑی کے دامن میں ایک نیا مرکز بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ اخبار الفضل ۲۱۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۰ہش/ ۱۹۴۱ء کے حوالہ سے >تاریخ احمدیت< جلد نہم )صفحہ ۲۷۳۔ ۲۷۶( پر ذکر آچکا ہے۔
۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے شروع میں برطانوی حکومت نے ۲۰۔ فروری کو جب یہ اعلان کیا کہ وہ جون ۱۹۴۸ء تک ملک کا اقتدار ہندوستانیوں کو سونپ دے گی تو حضرت مصلح موعود کی توجہ یکایک ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے مندرجہ بالا خواب کی طرف منتقل ہوگئی۔ جس میں جماعت کے ایک طوفانی دور میں داخل ہونے پانچ سال کے اندر اندر ایک اہم جماعتی تغیر کا انکشاف کیا گیا تھا۔۱۲۲ چنانچہ حضور نے ۲۵۔ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو فرمایا کہ جماعت احمدیہ >حفاظت مرکز< کے چندہ میں نمایاں قربانی کا نمونہ پیش کرے اور آنے والے پرخطر ایام کے لئے تیار ہو جائے اس تعلق میں حضور نے فرمایا۔
>ان ہولناک ایام کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی بچائے تو بچائے مسلمانوں کی وہ تیاری نہیں ہے اور نہ ہی وہ قربانی کا جذبہ ان میں پایا جاتا ہے جو ایک زندہ رہنے والی قوم میں ہونا چاہئے۔ عام مسلمانوں کو جانے دو ابھی آپ لوگوں میں بھی وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی جو مومن کے شایان شان ہے۔ مومن اپنے کاموں میں بہت محتاط ہوتا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں بھی اپنے ہزاروں روپے صرف کرنے سے دریغ نہیں کرتا مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس ضمن میں ایمان کا مظاہرہ نہیں کیا اور مرکز احمدیت کی حفاظت کے لئے جس رقم کا جماعت سے مطالبہ کیا گیا تھا اس میں جماعت نے بہت کم حصہ لیا ہے بلکہ اکثروں نے تو بالکل اس کی اہمیت کو ہی نہیں سمجھا اگر ایک شخص کو کوئی مقدمہ آپڑے تو وہ ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے۔ بیماری گھر میں آجائے تو سینکڑوں صرف ہو جاتے ہیں مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم اپنی حفاظت کے لئے اور اپنے عزیزوں کے لئے تو ہزاروں روپے صرف کردو لیکن دین کی حفاظت کے لئے چند سو بھی قربان نہ کرسکو۔
مجھے حیرت آتی ہے کہ قادیان کے بعض لوگوں سے جب چندہ مانگا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہمیں حفاظت کی ضرورت نہیں حالانکہ یہ جھوٹ تھا وہ یہ سمجھتے تھے کہ جب یہ اپنی حفاظت کریں گے تو ہماری خود بخود ہو جائے گی یہ منافقت کی علامت ہے۔
اس ضمن میں زبردست انتباہ کرتے ہوئے مزید فرمایا۔ >آپ لوگوں کو آنے والے خطرناک ایام کے لئے تیار ہو جانا چاہئے اور بجائے اس کے کہ دشمن سب کچھ تباہ کر دے خود اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے مومن کا کام تو کام کرنا ہوتا ہے انجام سے غرض نہیں ہوتی بعض وقت محنت رائیگان جاتی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ خدا تعالیٰ قربانی کا اجر ضرور دیتا ہے<۔۱۲۳
حضرت مصلح موعود نے اس تاکیدی فرمان کے تین روز بعد ۲۸۔ تبلیغ/ فروری کو ملکی حالات کے پیش نظر تحریک فرمائی کہ تمام احمدی ۲۰۔ ماہ مارچ سے لے کر یکم ماہ ہجرت مئی تک ہر جمعرات کو روزہ رکھیں اور باقاعدگی اور تعہد کے ساتھ دعائوں میں لگ جائیں چنانچہ فرمایا۔
>ان دنوں تمام جماعت کو چاہئے کہ خصوصیت کے ساتھ دعائوں میں لگ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے انصاف سے پیش آنے کی توفیق دے اور وہ آپس میں تعاون اور مفاہمت کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور ہر ایک قوم دوسری قوم کے متعلق عفو` درگزر سے کام لے تاکہ ہمارا ملک کامل آزادی کا منہ دیکھ سکے اور ہمارا ملک بھی آزاد ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکے اور تبلیغ کے لئے جو آسانیاں اور سہولتیں اب ہمیں میسر ہیں ان میں جھگڑے اور فساد کی وجہ سے کوئی روک واقع نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ رو رو کر دعائیں کرو تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہندوستان کو لڑائی اور جھگڑے سے بچالے اور تمہاری دعائیں لوگوں کے دلوں میں تبدیلی کا باعث بن جائیں اور ان کے دلوں کی میل دھو دی جائے وہ رات کو غم و غصہ کے خیالات لے کر سوئیں اور صبح اٹھیں تو ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوچکی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ایسے طور سے خشوع اور خضوع کے ساتھ دعائیں کی جائیں کہ اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جائے اور اس کے فرشتے ہماری تائید میں لگ جائیں اور جس کام کو دوسری طاقتیں نہیں کرسکتیں ہم اسے کرلیں<۔۱۲۴
پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کا قادیان میں سالانہ اجلاس اور
حضرت مصلح موعود کا پیغام
قادیان کو ملک میں علمی حیثیت سے جو نمایاں مقام حاصل تھا اس کے مدنظر پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کا دوسرا سالانہ اجلاس اس سال ۱۳۲۶ ہش کے شروع میں قادیان میں
منعقد ہوا جو ۲۸۔ ماہ تبلیغ/ فروری سے لیکر ۲۔ ماہ امان/ مارچ تک جاری رہا۔ جس میں پنجاب کے سکولوں کے ہیڈ ماسٹر` منیجر اور چند کالجوں کے پرنسپل اور بعض تعلیمی اداروں سے وابستہ دیگر افراد کم و بیش ایک سو کی تعداد میں شریک ہوئے مندوبین کے قیام و طعام کا انتظام سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ذمہ تھا جو ایسوسی ایشن کے وائس ۱۲۵پریذیدنٹ اور مجلس استقبالیہ کے صدر تھے جنہوں نے اپنے عملہ اور طلبہ کے ساتھ اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا فرمایا۔
کانفرنس میں شامل ہونے والے بعض نمائندگان نے آتے ہی اس خواہش کا اظہار کیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس کانفرنس کا افتتاح حضرت امام جماعت احمدیہ کریں۔ چنانچہ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر اوم پرکاش چیدہ چیدہ ممبران کا ایک نمائندہ وفد لے کر )جس میں مولانا محمد یعقوب خاں صاحب ہیڈ ماسٹر مسلم ہائی سکول لاہور بھی شامل تھے( حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
لیکن حضور نے فرمایا کہ ایسی مجالس میں شریک ہونا ہماری روایات کے خلاف ہے اور اگر ہم ایسی دعوتوں کو قبول کرنا شروع کردیں تو پھر یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہ آئے اور اس طرح ہمارے اصل کام میں حرج واقع ہو۔ تاہم حضور نے اس خواہش پر کہ اس کانفرنس کی کارروائی حضور کے الفاظ اور دعا سے شروع کی جائے` اپنا ایک پیغام لکھ کر بھیج دیا۔ جو خان بہادر میاں افضل حسین صاحب سابق وائس انسلر پنجاب یونیورسٹی کی صدارت میں پنڈت شام نرائن بی۔ اے` بی ٹی آرگنائزنگ سیکرٹری نے پڑھ کر سنایا۔ پیغام حسب ذیل تھا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علے رسولہ الکریم
نمائندگان پنجاب پروانشنل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگ صوبہ کی تعلیمی حالت کی درستی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کوششیں ملک میں اچھی فضا پیدا کرنے کا موجب ہوں گی اور ایسے نوجوان ہمارے قومی اداروں سے نکلیں گے جو نہ صرف اپنے ملک کے لئے مفید ہوں گے۔ بلکہ ساری دنیا میں نیک نامی پیدا کرنے والے ہوں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ انگلستان کی شہرت کے خلاف جہاں گورنمنٹ تعلیمی سکول پبلک سکولوں سے بہت ادنیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے پبلک سول گورنمنٹ سکولوں سے گھٹیا سمجھے جاتے ہیں یا انہیں ایسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ پرائیویٹ سکولوں کے کارکن قومی خدمت کے جذبہ سے معمور ہوتے ہیں اور یقیناً ملک اور حکومت کے شکریہ کے مستحق۔ میری دعا ہے کہ اگر ہمارے قومی اداروں میں کوئی نقص ہے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس کے دور کرنے کی توفیق بخشے اور اگر محض رقابت کی روح ایسے اداروں کو بدنام کررہی ہے تو اللہ تعالیٰ حکومت کو ان سکولوں کے بنانے والوں اور چلانے والوں کے نیک جذبات کی قدر کرنے کی توفیق بخشے۔
بہرحال چونکہ آپ لوگ ملکی ترقی کے ایک اہم کام میں مصروف ہیں۔ کوئی شخص آپ کے کام کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کام کے چلانے` بڑھانے اور کامل کرنے میں آپ کی مدد فرمائے۔ آمین۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
قادیان ۴۷/۳/۱۲۶۱][
پانچواں باب )فصل چہارم(
حضرت مصلح موعود کا متحدہ ہندوستان میں آخری سفر سندھ
سیدنا حضرت مصلح موعود قریباً ہر سال سندھ تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں حضور سفر سندھ کے لئے یکم امان/ مارچ کو )حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو امیر مقامی مقرر فرما کر( ڈیڑھ بجے بذریعہ کار قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲/۱ ۴ بجے لاہور پہنچے۔ حضور کے ہمراہ حضرت ام المومنینؓ` حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` حضرت ام متین صاحبہ` حضرت ام وسیم صاحبہ` حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ` صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ` صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ` صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ` صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` چوہدری مظفر الدین صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے بہت سے کارکنان اور دیگر دفاتر کے متعدد ارکان بھی تھے۔
حضور دوسرے دن ۲۔ امان/ مارچ کو بذریعہ کراچی میل روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب` شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور اور دیگر بہت سے دوستوں نے حضور کو الوداع کہا۔
لاہور کے بعض دوست رائے ونڈ تک ساتھ گئے۔ اوکاڑہ کی جماعت حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئی۔ اس کے بعد منٹگمری سٹیشن پر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب` میاں عبدالرحیم احمد صاحب` چوہدری محمد شریف صاحب وکیل اور دیگر افراد جماعت منٹگمری حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ گاڑی چلنے سے پیشتر حضور نے دعا فرمائی۔ ملتان کے اسٹیشن پر ملک عمر علی صاحب کھوکھر رئیس ملتان اور شیخ فضل الرحمان صاحب اختر امیر جماعت ملتان مع دیگر دوستوں کے موجود تھے جماعت ملتان کی طرف سے چار بجے شام کی چائے اور ملک عمر علی صاحب کی طرف سے شام کا کھانا پیش کیا گیا۔ اس کے بعد لودھراں۔ سمرسٹہ۔ بہاولپور۔ ڈیرہ نواب۔ خانپور۔ رحیم یار خاں۔ سکھر۔ روہڑی وغیرہ میں جماعت کے دوست ملاقات کے لئے آتے رہے۔
ایک بجکر ۳۵ منٹ پر گاڑی کراچی شہر کے سٹیشن پر پہنچی۔ جماعت احمدیہ کراچی کے احباب کے علاوہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بھی اپنے آقا کے استقبال کے لئے سٹیشن پر آئے ہوئے تھے۔ جماعت کی طرف سے مہمانوں کو قیام گاہ تک پہنچانے کے لئے کاروں کا انتظام تھا اور سامان وغیرہ بذریعہ ٹرک قیام گاہ پر پہنچایا گیا۔ حضور دو بجے اپنی قیام گاہ پر پہنچ گئے۔ اس طرح حضور کا یہ مبارک سفر بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا۔۱۲۷
کراچی میں اہم دینی مصروفیات
حضور قریباً ایک ہفتہ تک کراچی۱۲۸ میں قیام فرما رہے حضور کی رہائش کا انتظام جماعت کراچی کے ذمہ تھا جو ایک بنگلہ میں سٹیشن سے تین میل دور کیا گیا تھا۔ وسیع صحن میں سائبان نصب کرکے باجماعت نمازوں کا التزام کیا گیا کراچی شہر کے علاوہ مضافات کے احمدی دوست بھی بکثرت شرکت کرتے رہے۔][قیام کراچی کے ایام میں حضرت سیدنا المصلح الموعود تقریباً ہر روز نمازوں کے بعد مجلس عرفان منعقد فرماتے رہے۔ جس میں احمدی احباب کے علاوہ انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
۵۔ مارچ کو حضور نے جماعت کے عہدیداران کو ضروری نصائح فرمائیں اور صوبہ سندھ میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ضروری ہدایات دیں۔
۶۔ مارچ کو احمدی احباب بہت سے غیر احمدی دوستوں کو اپنے ہمراہ لائے ہوئے تھے تھے جنہیں حضور نے مجلس عرفان میں قیمتی ارشادات سے مستفیض فرمایا۔ جماعت کے تاجروں کو بھی حضور نے ضروری نصائح فرمائیں اور اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس روز سر غلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیراعظم سندھ نے حضور کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی۔
۷۔ امان/ مارچ کو جمعہ تھا نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے مزید سائبان نصب کئے گئے۔ جس میں ساڑھے تین سو کے قریب احمدی مرد و زن شامل ہوئے۔ خطبہ جمعہ میں حضور نے جماعت پر تبلیغ کی اہمیت واضح کی اور کراچی میں اس غیر معمولی ترقی پر اظہار خوشنودی فرمایا اور تبلیغی مہم کو وسیع کرنے کی تحریک فرمائی۔
۸۔ امان/ مارچ کو حضور نے ضروری مشاغل کے علاوہ احمدیہ دارالتبلیغ اور مسجد وغیرہ کے لئے زمین کا معائنہ فرمایا۔ اسی روز شام کو ایک احمدی دوست نے دعوت طعام کا اہتمام کیا تھا جسے حضور نے قبول فرمایا۔ مغرب اور عشاء کے بعد مجلس عرفان منعقد فرمائی اور اس سے فارغ ہوکر حضور نے واپسی کا عزم فرمایا اور کار میں سوار ہوکر اسٹیشن پر مع قافلہ تشریف لے گئے۔ جہاں سے دس بجے شب کی ٹرین سے ناصر آباد کے لئے روانہ ہوگئے اسٹیشن پر احمدی احباب بکثرت موجود تھے اور انہوں نے اپنے پیارے آقا کو نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان رخصت کیا۔ حضور نے روانگی سے قبل خدام کو شرف مصافحہ بخشا اور دعا کی۔
‏vat,10.37
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
حضور کے قیام کراچی کے دوران جماعت کے احباب نے نہایت مخلصانہ خدمات سرانجام دیں اور شبانہ روز مختلف فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے اور باوجود دینوی مصروفیات کے حضور کی مصاحبت کا زیادہ سے زیادہ شرف حاصل کرتے رہے۔ ان ایام میں چھ اصحاب حضور کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ احمدیت ہوئے۔۱۲۹
ناصر آباد` کنری` احمد آباد اور محمد آباد میں قیام کے مختصر کوائف
حضرت مصلح موعود مع قافلہ ۹۔ امان/ مارچ کو ناصر آباد میں پہنچے جہاں حضور اسٹیٹ کے باغ اور ملحقہ اراضیات کا ملاحظہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور عملہ کو ضروری ہدایات دیں ۱۰۔ امان/ مارچ کو صبح گیارہ بجے سے ۳ بجے بعد دوپہر تک اسٹیٹ کے معاملات کا جائزہ لیا نیز شام سے کچھ پہلے اسٹیٹ کے باغ میں سیر کے لئے تشریف لے گئے۔۱۳۰text] [tag ۱۲۔ امان/ مارچ کو ناصر آباد میں باغ اور اراضیات کا ملاحظہ فرمایا اور ضروری ہدایات دیں اس کے علاوہ کنری جننگ فیکٹری کی توسیع سے متعلق بھی تبادلہ خیالات فرمایا۔۱۵۱۳۱۔ امان/ مارچ کو حضور )مع افراد خاندان و حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب( بذریعہ کار دس بجے صبح کنری پہنچے باقی خدام بذریعہ ریل آئے۔ حضور نے فیکٹری کا ملاحظہ فرمایا اور کارکنوں کو اہم ہدایات سے نوازا۔ دوپہر کا کھانا جماعت کنری نے پیش کیا جس کے بعد نماز ادا کی گئی اور پھر تمام قافلہ محمود آباد اسٹیٹ کے لئے روانہ ہوگیا۔۱۳۲ اور شام تک بخیریت پہنچ گیا۔ حضور نے شام سے قبل اسٹیٹ کی اراضیات کا ملاحظہ فرمایا اور رات کو اسٹیٹ کے معاملات کی پڑتال فرمائی۔ حضور اسٹیٹ کے معاملات کا معائنہ فرماکر اور ضروری ہدایات دے کر ۱۸۔ امان/ مارچ کو بارہ بجے دوپہر احمد آباد روانہ ہوئے تھوڑی دیر بعد کنری ٹھہرے اور ۲۔ بجے احمد آباد پہنچ کر اراضیات کا معائنہ فرمایا اور وہاں کے ضروری معاملات نپٹا کر بذریعہ کار ساڑھے سات بجے شام محمود آباد میں وارد ہوئے۔۱۳۳text] gat[ ۲۰۔ امان کو حضور روزہ کے باوجود گھوڑے پر سوار ہوکر دوپہر کے وقت تین گھنٹہ تک اسٹیٹ کا معائنہ فرماتے رہے اور نماز کے بعد مجلس علم و عرفان میں بھی رونق افروز رہے۔ اگلے تین دنوں میں حضور نے محمد آباد خاص` روشن نگر` لطیف نگر` کریم نگر` نور نگر کی اراضیات کا معائنہ فرمایا۔ ۲۱۔ امان/ مارچ کو حضور نے خطبہ جمعہ میں احباب کو سندھ میں منظم تبلیغ کرنے کی اور پوری طاقت سے اپنے فرائض ادا کرنے کی تحریک فرمائی۔ نماز جمعہ کے بعد بارہ اصحاب نے اور نماز عشاء کے بعد چار اصحاب نے بیعت کی۔ نماز جمعہ کے لئے ناصر آباد` کنری` نصرت آباد` محمود آباد اور دیگر مقامات سے احباب آئے ہوئے تھے۔ میاں عبدالرحیم احمد صاحب اسٹیٹ کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ اسٹیٹ کے مختلف معاملات حضور کی خدمت میں پیش کرتے رہے اور حضور نیز حضور کے اہل بیت اور دیگر خدام کی مہمان نوازی میں مصروف رہے۔۱۳۴
اگلے روز ۲۲۔ امان/ مارچ کو حضور مع قافلہ محمد آباد سے دوبارہ ناصر آباد میں رونق افروز ہوئے۱۳۵ اور ۲۸۔ امان/ مارچ تک قیام پذیر رہے۔ سفر میں شروع ہی سے حضور کو دانت درد کی تکلیف تھی جو ۲۸۔ امان کو بہت شدت اختیار کرگئی۔ مگر اس کے باوجود حضور اس روز تین گھنٹہ تک سندھ اسٹیٹ کے معاملات کے انتظام اور ترقیات کے متعلق منیجر صاحبان اور دیگر کارکنوں سے تبادلہ خیالات کرنے اور ہدایات دینے میں مصروف رہے پھر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں دین کے لئے قربانی کرنے پر بہت زور دیا۔ نماز جمعہ کے بعد چار اصحاب داخل احمدیت ہوئے۔ نماز جمعہ میں کنری محمود آباد اور دیگر اسٹیٹ کے احمدی احباب نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔۱۳۶
‏2] mr[lکنجیجی سے سکھر تک
۲۹۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء واپسی کا دن تھا۔ اس روز حضور مع خاندان کار میں سوار ہوکر پونے چار بجے کے قریب کنجیجی سٹیشن پر تشریف لائے اور مسافر خانہ میں نماز ظہر و عصر جمع کیں۔ نمازوں کے بعد حضور خدام کے درمیان رونق افروز ہوکر مختلف حالات کے متعلق اظہار خیال فرماتے رہے۔ اس موقعہ پر دو دوستوں نے بیعت بھی کی۔ دوران گفتگو میں سندھ میں بسنے والی نیچ اقوام میں تبلیغ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ نیچ اقوام مثلاً بھیل` کوہلی وغیرہ ہندوستان کی پرانی اور اصلی قومیں ہیں جو ہندوئوں کے ظلم و تعدی کی وجہ سے اس ذلت کو پہنچی ہیں۔ اس وقت انہیں اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مسلمان اگر ان میں تبلیغ کریں اور حسن سلوک سے پیش آئیں- تو وہ بہت جلد اسلام کو قبول کرسکتی ہیں۔ ان کا اپنا مذہب کوئی نہیں ہے۔ ہندو صرف سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے انہیں اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں حالانکہ وہ ان کے دھتکارے ہوئے ہیں اور ان کے مظالم کی بدولت ہی اس حالت تک پہنچے ہیں۔ سندھ میں مسلمانوں کے اکثر مزار عین یہی لوگ ہیں۔ اگر وہ ان پر ذرا سا بھی دبائو ڈالیں تو وہ مسلمان ہوسکتے ہیں اور اس وقت سندھ میں ہندوئوں کی جو آبادی نہایت سرعت سے بڑھ رہی ہے وہ رک جائے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جب یہ قومیں باہر سے آتی ہیں۔ تو ہندو انہیں ہتھیا لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ شاملات زمین کی طرح ہیں۔ ہر مذہب ان پر آسانی سے قبضہ کرسکتا ہے۔ مگر ہندو فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان توجہ نہیں کرتے اسی وجہ سے ہندوئوں کی آبادی روز بروز سندھ میں بڑھتی جاتی ہے۔ اگر مسلمانوں نے اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے اس کا تدارک نہ کیا تو سندھ میں بھی مسلمان اقلیت ہو جائیں گے۔
‏body] g[taان اقوام کے ساتھ کھانا کھانے کے ذکر میں حضور نے فرمایا کہ اگر یہ مسلمان ہو جائیں پھر ضرور کھانا چاہئے۔ بلکہ نمایاں طور پر ایسے مواقع پیدا کرنے چاہئیں تاکہ دوسروں کو بھی ہمدردی حاصل ہو اور تبلیغ میں آسانی ہو۔
سلسلہ گفتگو کے دوران ہندو مسلم فسادات کا بھی ذکر آیا جس پر حضور نے فرمایا مسلمانوں میں تنظیم کی بہت کمی ہے اس موقعہ پر ان کی کوئی تیاری نہ تھی۔ معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ انہیں زندہ رکھنا چاہتا ہے باوجود اس کے کہ سکھوں اور ہندوئوں کی بہت تیاری تھی انہوں نے امرتسر میں جو ان کا مرکز تھا مسلمانوں سے بہت زک اٹھائی۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمان ایمان اور تنظیم کی طرف توجہ نہیں کرتے ورنہ خدا نے انہیں طاقت دی ہے۔ تقریباً ہر جگہ فسادات میں پہل سکھوں یا ہندوئوں کی طرف سے ہوئی ہے۔ جس سے پتہ لگتا ہے انہیں اپنی طاقت کا بہت زعم تھا۔
گاڑی آنے پر حضور مع خاندان و خدام اس میں سوار ہوگئے شام کے قریب گاڑی براستہ پتھورو میر پور خاص پہنچی جہاں احمدی احباب استقبال کے لئے موجود تھے کار پر سوار ہوکر حضور مع قافلہ جناب مہدی حسین شاہ صاحب کے بنگلہ پر تشریف لے گئے جہاں طعام و رہائش کا خاطر خواہ انتظام تھا بنگلہ کے وسیع احاطہ میں نماز مغرب و عشاء جمع کرنے کے بعد حضور خدام کے درمیان ہی تشریف فرما رہے اور دیر تک مقامی امور کے متعلق گفتگو فرماتے رہے اور سندھ میں نئی زمینوں کے متعلق مبادلہ خیالات فرماتے رہے۔
۳۰۔ امان/ مارچ کو علی الصبح حضور مع خاندان بذریعہ کار سٹیشن پر پہنچے گاڑی میں سوار ہوکر صبح دس بجے حیدر آباد پہنچے۔۱۳۷
یہاں سے ساڑھے بارہ بجے کے قریب مع قافلہ سندھ ایکسپریس میں سوار ہوئے۔ پڈعیدن اسٹیشن پر کمال ڈیرہ` جمال پور` شریف آباد فارم دیہہ ماکھنڈ` دہیہ مموئی` باندھی` اکرہ` کرونڈی` مصر جی واہ وغیرہ کے مخلصین جماعت کے علاوہ متعدد غیر احمدی دوست بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ جماعت کی طرف سے معزز مہمانوں کی خدمت میں سوڈا واٹر پیش کیا گیا۔ بعض دوستوں نے حضرت امیر المومنین کا تبرک حاصل کرنے کے لئے شربت کے گلاس پیش کرنے شروع کئے۔ یہ سلسلہ لمبا ہوتا چلا گیا۔ مگر حضور نے ہر پیشکش کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ گاڑی روانہ ہونے کو تھی مگر خدام اپنے آقا کے گرد گھیرا ڈالے بدستور کھڑے تھے وہ اس تھوڑے سے وقت میں اپنے پیارے آقا کا زیادہ سے زیادہ قرب حاصل کرنا چاہتے تھے گاڑی کے روانہ ہوچکنے پر اس مختصر سی ملاقات کو ناکافی سمجھ کر انہوں نے ساتھ ساتھ دوڑنا شروع کر دیا مگر ان کی خواہشات اور ان کے جذبات کے خلاف گاڑی بہت جلد آگے نکل گئی۔ والہانہ عقیدت کا یہ منظر قریباً ہر سٹیشن پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی` نظر آتا۔ نواب شاہ کے اسٹیشن پر اگردگرد کی جماعتوں کے بہت سے دوست موجود تھے۔ چوہدری محمد سعید صاحب نے حضور کی خدمت میں دوپہر کا کھانا پیش کیا۔ ۶ بجے کے قریب گاڑی روہڑی پہنچی۔۱۳۸ جہاں سے موٹر کاروں پر سکھر تشریف لائے اور سید غلام مرتضیٰ شاہ صاحب ایگزیکٹو انجینئر کے بنگلہ پر قیام فرمایا۔
سکھر میں باڈہ` گنبٹ` روہڑی` صوبو ڈیرو` کمال ڈیرو` اکرہ` شریف آباد فارم` ریاض اسٹیٹ اور کوئٹہ سے احباب جماعت )مرد اور عورتیں( ڈیڑھ سو کے قریب حضور کی زیارت اور ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔
رات کو جماعت سکھر کی طرف سے ایک دعوت طعام کا انتظام کیا گیا۔ جس میں شہر کے معززین اور سرکاری عہدیداران خاص طور پر مدعو تھے۔ حضور نے اس موقعہ پر تقریباً تین گھنٹے تک علمی مذاکرہ فرمایا اور سوال کرنے والوں کو شافی جوابات ارشاد فرماتے رہے۔
اگلے روز ۳۱۔ امان/ مارچ کو گیارہ بجے کے قریب حضور مع اہل بیت لائڈ جارج بیرج دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور کافی وقت تک ٹیکنیک کے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔
بعد ازاں اپرینگ بیرج کو حضور نے ٹرالی پر عبور فرمایا۔ اس کے بعد کشتیوں پر سوار ہو کر دریا کی سیر کو تشریف لے گئے۔ اسی دوران میں حضور نے ہندوئوں کے مشہور مندر سادھ بیلے کو جو دریا کے درمیان ایک جزیرہ کی صورت میں ہے اندر جاکر دیکھا۔
اس دن دوپہر کو جناب حسین صاحب ایکسائز سپرنٹنڈنٹ نے حضور کو مع قافلہ و احباب جماعت دعوت طعام پیش کی۔ جس میں کئی معززین شر مدعو تھے اور تقریباً اڑھائی گھنٹہ تک حضور نے مختلف مذہبی` سیاسی اور اقتصادی سوالات کے متعلق حقائق و معارف بیان فرمائے۔ ان تقریبوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ ہوا اور حضرت امیر المومنین کی بلند پایہ شخصیت اور تبحر علمی کا گہرا اثر معززین کی طبائع پر ہوا جس کے بعد میں انہوں نے اظہار بھی کیا۔
حضور کے قیام سکھر کے دوران میں احباب جماعت سکھر خصوصاً صوفی محمد رفیع صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سید غلام مرتضیٰ شاہ صاحب ایگزکٹو انجینئر چوہدری محمد عبداللہ صاحب ایمپلائمنٹ ایکسچینج نہایت اخلاص سے کام کرتے رہے حضور کے قیام کے دوران میں آٹھ موٹر کاریں بیک وقت بنگلہ پر موجود رہتیں اور آنے والے مہمانوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام بھی جماعت سکھر نے کیا۔۱۳۹ جناب سید غلام مرتضیٰ صاحب ایگزیکٹو انجینئر نے حضور کے اعزاز میں عشائیہ اور ظہرانہ کا انتظام کیا جس میں بہت سے عمائدین شہر بھی شامل ہوئے۔۱۴۰
سکھر سے قادیان تک
سکھر میں مختصر قیام کے بعد حضور ۳۱۔ امان/ مارچ کو ساڑھے چھ بجے شام بذریعہ سندھ ایکسپریس قادیان کے لئے روانہ ہوئے ۹۔ بجے شب کے قریب گاڑی رحیم یار خاں پہنچی جہاں اردگرد کی احمدی جماعتیں آئی ہوئی تھیں احباب کی طرف سے چائے پیش کی گئی۔ اس کے بعد چیچا وطنی سٹیشن پر کچھ دوست موجود تھے منٹگمری میں بہت سے دوست موجود تھے جنہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا۔ چوہدری محمد شریف صاحب وکیل نے چائے پیش کی۔ اوکاڑہ سٹیشن پر بھی بہت سے دوست جمع تھے پتوکی سٹیشن پر کھریپڑ۔ علی پور اور شمس آباد کے متعدد دوست آئے ہوئے تھے۔
‏]ydob [tagدوسرے روز یکم شہادت/ اپریل ساڑھے گیارہ بجے دوپہر گاڑی لاہور پہنچی۔ جہاں جماعت لاہور کے بہت سے احباب حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور مع اہل بیت کاروں میں سوار ہو کر جناب شیخ بشیر احمد صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے۔ جہاں کھانا تناول فرمانے کے بعد دو بجے دوپہر روانہ ہوئے اور سات کاروں پر مشتمل یہ قافلہ ۵ بجے کے قریب قادیان پہنچ گیا۔۱۴۱
متحدہ ہندوستان کی آخری مجلس مشاورت اور مخلصین احمدیت کی شاندار قربانی کا ایمان افروز منظر 0] [rtf
متحدہ ہندوستان کی آخری مجلس مشاورت ۴` ۵` ۶۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو منعقد ہوئی۔ جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے ۴۶۱ نمائندگان نے شرکت فرمائی۔۱۴۲ اس
مشاورت کا اہم ترین واقعہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے حفاظت مرکز کے لئے مالی تحریک اور اس پر مخلصین جماعت کا شاندار رنگ میں لبیک کہنے کا ایمان افروز نظارہ ہے۔ جو مشاورت کے دوسرے دن ۵۔ ماہ شہادت/ اپریل کو نماز مغرب و عشاء کے بعد دیکھنے میں آیا۔
اس روز تیسرا اجلاس ۹ بجے شب شروع ہوا جس کے آغاز میں حضرت مصلح موعود نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا >حفاظت مرکز کے لئے جماعت سے دو لاکھ کی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مگر اس وقت تک صرف ۳۶ ہزار کے قریب رقم جمع ہوئی ہے۔ میں حیران ہوں کہ موجودہ ہولناک تباہیوں اور خونریزیوں کے دیکھتے ہوئے جماعت نے کس طرح اتنی رقم پر اکتفا کیا۔ کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ یہ حقیر رقم شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے کافی ہے اور ہم اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ اس سے سینکڑوں گنا زیادہ تو تم سال بھر میں اپنے بیماروں پر خرچ کر دیتے ہو۔ کیا شعائر اللہ کو اتنی بھی اہمیت حاصل نہیں؟
اب آپ مجھے بتائیں کہ بقیہ رقم کس طرح پوری ہوسکتی ہے؟ حضرت مصلح موعود کے اس ارشاد پر حسب ذیل دوستوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کریم الدین صاحب۔ محمد شریف صاحب نمائندہ لجنہ اماء اللہ۔ شیخ صاحب دین صاحب گوجرانوالہ فیض احمد صاحب` غلام مصطفیٰ صاحب نذر محمد صاحب۔ نور الدین صاحب۔ شیخ بشیر احمد صاحب۔ حافظ نور الٰہی صاحب۔ مولوی غلام قادر صاحب۔ میاں عطاء اللہ صاحب وکیل۔ ان میں سے بعض دوستوں نے مختلف تجاویز پیش کیں اور اکثر اصحاب نے اپنی کوتاہی اور غفلت کا اقرار کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین کے حضور معافی کی درخواست کی۔ اس موقعہ پر جناب شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت لاہور نے جماعت کے خیالات کی نہایت عمدہ پیرایہ میں ترجمانی کی۔ چنانچہ آپ نے فرمایا۔
>پیارے آقا! یہ درست ہے کہ ہم نے حفاظت مرکز کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اس طرف توجہ نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی اول تو ہمیں صحیح طور پر آگاہ نہیں کیا گیا۔ دوسرے ہمیں وہ بصیرت اور پیش بینی حاصل نہیں جو حضور کو حاصل ہے۔ حضور نے بے شک ہمیں قبل از وقت خطرے سے آگاہ کر دیا تھا۔ مگر ہم سے کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔ اب جبکہ خطرہ ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا ہے تباہیوں اور خونریزیوں کا ہولناک منظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر چکا ہے تو آج ہماری حالت وہ نہیں ہے جو پہلے تھی۔ آج ہم محسوس کرچکے ہیں کہ ہم اور ہمارے عزیزوں کی جانیں اور ہماری مقدس و محبوب ترین چیزیں خطرہ میں ہیں۔ ہمیں یہ یقین ہوگیا ہے کہ قربانی کا وقت آن پہنچا ہے اور اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے مال و دولت کو نثار کرنے کی گھڑی آپہنچی ہے ہم سے جو غفلت اور کوتاہی ہوئی اس کے لئے معذرت خواہ ہیں اور آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ آئندہ ہم آپ کے ادنیٰ اشارے پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کے لئے تیار ہیں اور انشاء اللہ آئندہ کبھی شکایت کا موقعہ پیدا نہ ہونے دیں گے موجودہ وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی ساری آمدنیں اور جائدادیں حضور کے قبضہ میں دے دیں اور حضور ہمیں معمولی سا گزارہ دے کر باقی رقوم کو جہاں چاہیں خرچ کر دیں ہمیں کوئی عذر نہ ہوگا<۔
احباب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرچکے تو سیدنا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے فرمایا۔ >اگر یہ سلسلہ انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوتا۔ تو میں یہ سمجھتا کہ جماعت کی اس معاملہ میں عدم توجہی حقیقی کمزوری ایمان کے نتیجہ میں ہے۔ لیکن جبکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور وہ خود اس کا محافظ ہے تو میں یہ نہیں خیال کرسکتا کہ موجودہ سستی` حقیقی غفلت کے نتیجہ میں ہوئی ہے جیسا کہ آپ میں سے اکثر نے اپنے عدم توجہی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ میرا مقصد بھی یہی تھا کہ اس نازک دور کا احساس ہو اور آپ اپنی غفلت کو چھوڑ کر آنے والے مصائب کے لئے تیار ہو جائیں۔ قبل از وقت میں آپ کو جو کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کی بناء پر تھا اور خدا کی باتیں جھوٹی نہیں ہوسکتیں۔ اس کی طرف سے دی ہوئی غیب کی خبریں۔ ایک ایک کرکے پوری ہورہی ہیں اور جس جس طرح بدلنے والے حالات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ وہ بعینہ پورے ہورہے ہیں۔
دنیا میں ہر شخص کے لئے آزادی ہے سوائے ہمارے کہ ہم اپنے مقدس مقامات کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ ایک عمارت جو مٹی اور اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اس سے ایک مومن کی جان کہیں قیمتی ہوتی ہے لیکن جب وہ عمارت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور شعائر اللہ بن جائے تو اس کی حفاظت کے لئے سینکڑوں مومنوں کی جان بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور انہیں خوشی سے قربان کیا جاسکتا ہے۔ پس جماعت نے اگر ان باتوں کو مدنظر نہیں رکھا تھا تو یہ میرا فرض تھا کہ میں انہیں احساس ذمہ داری دلائوں اور ان کے مونہوں سے کہلوائوں کہ ہم سے غفلت ہوئی۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ وہ غرض پوری ہوگئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کمی کس طرح پوری کی جائے۔ ہمارے عام چندے تو ان اخراجات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں کوئی اور ہی طریق اختیار کرنے ہوں گے۔ سو اس کے لئے جماعت سے میرا سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ وہ دوست جن کی رقوم باہر بنکوں میں جمع ہیں وہ بطور امانت قادیان بھیج دیں۔ تاکہ سلسلہ کو اگر کوئی فوری ضرورت پڑے تو وہ اس میں سے خرچ کرسکے اور پھر آہستہ آہستہ اس کمی کو پورا کردے۔ یہ رقوم بطور امانت کے ہوں گی اور بوقت ضرورت واپس مل سکیں گی۔ اس طرح سلسلہ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور آپ لوگوں کے ایمان کا امتحان بھی ہو جائے گا۔ جو دوست اس تحریک پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوں وہ اپنے نام اور رقوم لکھا دیں<۔
حضور کی زبان سے ان الفاظ کا نکلنا ہی تھا کہ مخلصین نے نہایت ذوق و شوق سے اپنے نام لکھانے شروع کر دئے۔ ہر چہرہ سے یہی اضطراب ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دوسروں سے سبقت لینا چاہتا ہے اور ہر دل مضطر تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقوم اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دے۔ قریباً نصف گھنٹہ کے عرصہ میں /-۳۷۱۰۰۰ روپے کے وعدے ہوئے۔ جس کا حضور نے کھڑے ہوکر اعلان کیا اور فرمایا >ابھی کچھ دوست رہتے ہیں- جو سوچ رہے ہوں گے اور اکثر ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے مشورہ وغیرہ کرنا ہوگا۔ اور ابھی ہزاروں ہزار دوست ایسے ہیں جو ہم سے کسی طرح اخلاص میں کم نہیں ہیں مگر وہ اس وقت دور بیٹھے ہیں۔ جب آپ لوگ جاکر ان کو اطلاع دیں گے تو وہ کبھی بھی آپ سے پیچھے نہ رہیں گے اور ممکن ہے مطلوبہ رقم سے بہت زیادہ روپیہ جمع ہو جائے<۔
اس کے بعد فرمایا >سب سے پہلے میں جائیداد کے وقف کو لیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کے ماتحت جاری کیا گیا ہے۔ مگر میں نہایت افسوس سے کہتا ہوں کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی اور صرف دو ہزار آدمیوں نے اس وقت تک اس میں حصہ لیا ہے۔ حالانکہ لاکھوں کی جماعت ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے لاکھوں ہی کو وقف کرنا چاہئے تھا۔ آپ میں سے جن دوستوں نے اپنی آمد یا جائیداد وقف کی ہوئی ہے وہ کھڑے ہو جائیں<۔ ) اس پر ۴۵۵ میں سے جو ہال میں تھے ۱۶۷ کھڑے ہوئے( فرمایا >یہ تعداد ہے جو ۳۵ فیصدی کے قریب بنتی ہے۔ اس پر دوسری جماعت کا بھی اندازہ کرلیں۔ آپ میں سے جو لوگ اس وقت وقف کرنا چاہیں وہ بھی اپنے نام اور جائداد کی قیمت وغیرہ لکھا دیں۔ اس پر ہر طرف سے ناموں کی آواز آنے لگی اور کارکنوں نے نام لکھنے شروع کئے۔
اس سلسلہ کے ختم ہونے پر حضور نے کھڑے ہوکر فرمایا کہ اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ جماعتوں میں جاکر دوسرے لوگوں کو بھی اس کارخیر میں شریک کریں۔ ہم اس بات سے خوش نہیں ہوسکتے کہ ہم میں سے اتنے لوگوں نے حصہ لیا بلکہ ہمیں تب ہی خوشی ہوسکتی ہے کہ جب جماعت کے ہر فرد نے اس میں شرکت کی ہو اور کوئی بھی اس سے باہر نہ رہا ہو۔ یہی زندہ جماعتوں کی علامت ہے اس ضمن میں فرمایا >اس وقت میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ وقف جائداد والے دوست اپنی جائیداد کی کل قیمت کاایک فیصدی چھ ماہ کے اندر اندر مرکز میں جمع کرا دیں اور وہ جنہوں نے ایک ماہ یا دو ماہ کی آمد وقف کی ہوئی ہے وہ ایک ماہ کی آمد بھیج دیں۔ اور جن لوگوں نے وقف نہیں کی وہ بھی اس چندہ میں حصہ ضرور لیں۔ وہ اپنی کل جائداد کی قیمت کا ۲/۱ فیصدی اور اپنی ایک ماہ کی آمد کا نصف چھ ماہ کے اندر اندر یہاں بھیج دیں<۔
بالاخر حضور نے نہایت پرجوش کلمات میں نمائندگان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>پس جائو اور کوئی فرد باقی نہ رہنے دو جو اپنی جائیداد یا آمد وقف نہ کرے اور وہ لوگ جو انکار کریں ان سے کہ دو کہ ہم تمہارے حرام مال سے اپنے پاکیزہ مال کو ملوث نہیں کرنا چاہتے۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ وصیتوں کی تحریک کی جائے اور جماعت کا کوئی فرد نہ رہے جس نے وصیت نہ کی ہو۔ وصیت بے شک طوعی چیز ہے۔ مگر اب وقت آرہا ہے جب طوعی چیزیں بھی فرضی بن جاتی ہیں۔
چوتھی تجویز یہ ہے کہ جو لوگ پہلے ہی موصی ہیں وہ اپنی وصیتوں کو بڑھائیں۔ جو ۱۰/۱ کے موصی ہیں وہ ۹/۱ ویں اور جو ۹/۱ دیتے ہیں اور ۸/۱ دیں و علی ہذا۔
چوتھی تجویز قادیان کی جائیدادوں کے متعلق ہے کہ جب وہ بیچی جائیں تو جو نفع ہو اس نفع کا ۱۰۰/ ۵۰ سلسلہ کو دیا جائے اور جن کے پاس پہلی جائیدادیں ہیں وہ منافع کا ۱۰/۱ فیصدی سلسلہ کو دیں۔ میں آئندہ کے لئے یہ قانون مقرر کرتا ہوں کہ کوئی جائیداد امور عامہ کے علم اور مرضی کے خلاف فروخت نہ ہو۔ اس حکم کا اطلاق آج سے شروع ہوگا<۔ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا >اب رہا یہ سوال کہ اگر ان تجاویز کے باوجود مطلوبہ رقم جس کی اس وقت سلسلہ کے کام چلانے اور مرکز کی حفاظت کے لئے ضرورت ہے پوری نہ ہو تو میری کوٹھی دارالحمد کو بیچ کر کمی پوری کی جائے۔ کوٹھی کے ساتھ بہت سی زمین اور باغ بھی ہے جس کی مالیت چند لاکھ کے قریب ہے۔ میرے پاس نقد روپیہ نہیں ہے۔ جماعت کے دوست یہ کریں کہ اسے خرید لیں<۔
اپنے پیارے آقا کی قربانی کا یہ فقید المثال جذبہ دیکھ کر ہر مومن نے یہی سمجھا کہ جس طرح اپنے پیارے امام کے مقابلہ میں ہماری جانوں کی کوئی قیمت نہیں اسی طرح اس کی جائیداد کے مقابلہ میں ہماری جائیدادوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہر طرف سے اس قسم کی صدائیں آنے لگیں یہ نہیں ہوگا بلکہ پہلے ہماری جائدادیں فروخت ہوں گی۔ پہلے ہمارا سب کچھ قربان ہوگا۔ اس پر حضور نے فرمایا >اگر آپ لوگ قربانی کرنا چاہیں تو میرے ساتھ شامل ہو جائیں مجھے قربانی سے کیوں محروم کرتے ہیں۔ سب سے مقدم فرض میرا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کروں۔ آپ لوگ جائیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک کریں صرف چند افراد میں یہ روح فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ ساری قوم میں یہ روح ہونی چاہئے۔ چند افراد تو مشرکوں اور عیسائیوں میں سے بھی غیر معمولی قربانیاں پیش کر دیا کرتے ہیں لیکن اصل چیز یہ ہے کہ قوم کا ہر فرد اس میں شریک ہو< اس خطاب کے بعد حضور نے دعا کرائی اور مشاورت کا آخری اجلاس گیارہ بجے شب ختم ہوا۔۱۴۳
تحریک وقف جائیداد و آمد کی کامیابی اور اس کے مفید نتائج
ملکی حالات چونکہ بد سے بدتر ہورہے تھے اور مرکز احمدیت کے خطرات میں اضافہ ہورہا تھا اس لئے جماعت احمدیہ کے اولوالعزم قائد اور امام حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت کے بعد بھی بار بار جماعتوں کو تحریک وقف جائداد و آمد میں حصہ لینے اور جلد از جلد فہرستیں مکمل کرکے بھجوانے کی تحریک مسلسل جاری رکھی اور ان کو بتایا کہ یہ تحریک آئندہ عظیم الشان اسلامی عمارات کی بنیاد بنے گی۔ چنانچہ ۱۶۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا >میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک بھی ہمارے سلسلہ کی اور تحریکوں کی طرح اپنے اندر خدا تعالیٰ کی بہت بڑی حکمتیں رکھتی ہے اور اس کی خوبیاں صرف اس کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایک بنیاد ہے آئندہ بہت بڑے اور عظیم الشان کاموں کو سرانجام دینے کی اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی تحریک نہیں بلکہ اس تحریک کے ذریعہ ہماری جماعت کی ترقی اور سلسلہ کے مفاد کے لئے بعض نہایت ہی عظیم الشان کاموں کی بنیاد رکھی جارہی ہے گو اب تک لوگ اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھے لیکن دو چار سال تک اس کے کئی عظیم الشان فوائد جماعت کے سامنے آنے شروع ہو جائیں گے جیسے تحریک جدید کو جب شروع کیا گیا تھا تو اس تحریک کی خوبیاں جماعت کی نگاہ سے مخفی تھیں مگر اب نظر آرہا ہے کہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کا کام نہایت وسیع پیمانے پر جاری ہے<۔ >اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے جتنے کام مجھ سے لئے ہیں ان تمام کاموں کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ درحقیقت وہ بنیاد ہوتے ہیں بعض آئندہ عظیم الشان کاموں کی۔ اسی طرح یہ تحریک بنیاد ہوگی آئندہ تعمیر ہونے والی عظیم الشان اسلامی عمارات کی۔ جس طرح میں نے وقف جائیداد کی تحریک کی تھی جو درحقیقت بنیاد تھی آج کی تحریک کے لئے مگر اس وقت لوگ اس تحریک کی حقیقت کو نہیں سمجھے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو اپنی جائدادیں وقف کر دی تھیں مگر باقی لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں وہ بھی بار بار مجھے لکھتے تھے کہ آپ نے وقف کی تو تحریک کی ہے اور ہم اس میں شامل بھی ہوگئے ہیں لیکن آپ ہم سے مانگتے کچھ نہیں۔ انہیں میں کہتا تھا کہ تم کچھ عرصہ انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت بھی آجائے گا۔ جب تم سے جائیدادوں کا مطالبہ کیا جائے گا۔ چنانچہ دیکھ لو اس تحریک سے خدا تعالیٰ نے کتنا عظیم الشان کام لیا ہے۔ اگر عام چندہ کے ذریعہ اس وقت جماعت میں حفاظت مرکز کے لئے تحریک کی جاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ لاکھ دو لاکھ روپیہ کا اکٹھا ہونا بھی بہت مشکل ہوتا مگر چونکہ آج سے تین سال پہلے وقف جائیداد کی تحریک کے ذریعہ ایک بنیاد قائم ہوچکی تھی۔ اس لئے وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک میں اس وقت حصہ لیا تھا وہ اس وقت مینار کے طور پر ساری جماعت کے سامنے آگئے اور انہوں نے اپنے عملی نمونہ سے جماعت کو بتایا کہ جو کام ہم کرسکتے ہیں وہ تم کیوں نہیں کرسکتے۔ چنانچہ جب ان کی قربانی پیش کی گئی تو ہزاروں ہزار اور لوگ ایسے نکل آئے۔ جنہوں نے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں۔ پس جس طرح وہ تحریک جدید بنیاد تھی بعض اور عظیم السان کاموں کے لئے اسی طرح حفاظت مرکز کے متعلق جو تحریک چندہ کے لئے کی گئی ہے یہ بھی آئندہ بعض عظیم الشان کاموں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور جس وقت یہ تحریک اپنی تکمیل کو پہنچے گی اس وقت مالی لحاظ سے جماعت کی قربانیاں اپنے کمال کو پہنچ جائیں گی درحقیقت جانی قربانی کا مطالبہ وقف زندگی کے ذریعے کیا جارہا ہے اور مالی قربانی کے ایک بہت ہی بلند مقام پر کھڑا کیا جارہا ہے پھر شاید وہ وقت بھی آجائے کہ سلسلہ ہر شخص سے اس کی جان کا بھی مطالبہ کرے اور جماعت میں یہ تحریک کی جائے کہ ہر شخص نے جس طرح اپنی جائداد خدا تعالیٰ کے لئے وقف کی ہوئی ہے اسی طرح وہ اپنی زندگی بھی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کردے تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جاسکے<۔۱۴۴
اس کے بعد ایک اور خطبہ میں دوبارہ یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا۔
>جن خطرات میں سے اس وقت ہمارا ملک گزر رہا ہے اور جن خطرات میں سے اس وقت ہماری جماعت گزر رہی ہے ان میں سے جو خطرات ظاہر ہیں وہ سب دوستوں کو معلوم ہیں مگر بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو آپ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور میں ان باتوں کو اس لئے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں کمزور لوگ دل نہ چھوڑ بیٹھیں ورنہ ان دنوں ہماری جماعت ایسے خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ ان کے تصور سے مضبوط سے مضبوط انسان کا دل بیٹھ جاتا ہے اور اس کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ صرف جماعت کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے اور بعض دوسرے مصالح کی وجہ سے میں وہ باتیں پردہ اخفاء میں رکھتا ہوں ورنہ ان دنوں میں بعض اوقات اس طرح محسوس کرتا ہوں جیسے کسی عظیم الشان محل کی دیواریں نکل جائیں اور اس کی چھت کے سہارے کے لئے ایک سرکنڈا کھڑا کر دیا جائے تو جو حال اس سرکنڈے کا ہوسکتا ہے۔ یہی حال بسا اوقات ان دنوں میں اپنا محسوس کرتا ہوں وہ بوجھ جو اس وقت مجھ پر پڑرہا ہے اور وہ خطرات جو جماعت کے مستقبل کے متعلق مجھے نظر آرہے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان کا اظہار ہی مشکل ہے اور ان کا اٹھانا بھی کسی انسان کی طاقت میں نہیں۔ محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے میں اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں ورنہ کوئی انسان ایسا نہیں ہوسکتا جس کے کندھے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ اس بوجھ کو سہار سکیں اور ان تفکرات کا مقابلہ کرسکیں ہماری جماعت کے حصے میں تو صرف چندے ہی ہیں تفکرات میں اس کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تفکرات ان تک پہنچتے ہی نہیں جیسے خطرہ کے وقت ماں اپنے بچے کو گود میں سلا لیتی ہے اور سارا بوجھ خود اٹھا لیتی ہے ایسی ہی حالت اس وقت میری ہے کہ ان خطرات سے جو اس وقت مجھے نظر آرہے ہیں جماعت کو آگاہ نہیں کرسکتا اور سارا بوجھ اپنے دل پر لے لیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے کام تو بہرحال خدا تعالیٰ نے ہی سرانجام دینے ہیں میں جماعت کے لوگوں کو کیوں پریشان کروں۔ اللہ تعالیٰ جس رنگ میں چاہے گا اس کی مشیت پوری ہوکر رہے گی۔ درحقیقت جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے جو رتبہ مجھے عطا کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے سب سے پہلا اور آخری ذمہ دار میں ہی ہوں اور جماعت کے بوجھ اٹھانے کا حق میرا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں ذوالقرنین کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے کہا تھا اتونی زبر الحدید یعنی لوہے کے ٹکڑے میرے پاس لائو وہی بات میں نے بھی پیش کر دی ہے کہ تم اپنی جائیدادوں کا ایک فیصدی قربانی میں پیش کردو۔ وہ خود جماعت کی حفاظت کے سامان پیدا کردے گا۔ اس وقت تمہارا کام صرف زبر الحدید پیش کرنا ہے ورنہ اصل اور اہم کام تو خدا تعالیٰ اور اس کے مقرر کردہ افراد نے ہی کرنا ہے بلکہ افراد نے بھی کیا کرنا ہے خدا نے خود ہی کرنا ہے جماعت تو ان مصائب اور مشکلات کے مقابلہ کی طاقت ہی نہیں رکھتی کیونکہ انکو دور کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے۔ پس سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے اور کوئی ہستی ان کو دور کر ہی نہیں سکتی لیکن جو چھوٹا سا کام ہماری جماعت کے ذمہ ہے اگر جماعت اس میں بھی سستی اور غفلت سے کام لے تو یہ نہایت ہی افسوس ناک امر ہوگا<۔۱۴۵
تفسیر القرآن انگریزی کی اشاعت
جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کی انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی ایک عرصہ سے جو مخلصانہ کوششیں جاری تھیں اس کا پہلا شیریں پھل احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں تفیسر القرآن انگریزی جلد اول کی شکل میں ظاہر ہوا جو سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ کہف تک کے مطالب پر مشتمل اور ساڑھے بارہ سو صفحات پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کے ابتداء میں حضرت مصلح موعود کے قلم سے لکھا ہوا ایک نہایت پرمعارف دیباچہ بھی شامل تھا۔ جس میں دوسرے صحف سماوی کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت اور آنحضرت~صل۱~ کی حیات طیبہ اور جمع القرآن اور قرآنی تعلیمات پر بالکل اچھوتے اور دلاویز پیرایہ میں روشنی ڈالی گئی تھی یہ دیباچہ مستقل کتابی صورت میں انگریزی کے علاوہ اردو` انڈونیشی` جرمن اور ڈچ زبانوں میں بھی چھپ چکا ہے۔ حضرت مصلح موعود نے اس دیباچہ کے آخر میں >شکریہ و اعتراف< کے زیر عنوان تحریر فرمایا کہ >میں اس دیباچہ کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی ان بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں۔ اسی طرح ملک غلام فرید صاحب۔ خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ترجمہ پر تفسیری نوٹ میری مختلف تقریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکال کر درج کئے ہیں۔ مجھے ان انگریزی نوٹوں کے دیکھنے کا موقعہ نہیں ملا مگر ان لوگوں کے تجربہ اور اخلاص پر یقین کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے صحیح طور پر ان مضامین کی ترجمانی کی ہوگی جو میں نے براہ راست خدا تعالیٰ کے افضال کے ماتحت قرآن کریم سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے افاضات سے حاصل کئے ہیں۔
میں اس موقعہ پر قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جن دونوں نے اس دیباچہ کو انگریزی زبان کا جامہ پہنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو اپنی برکات کے عطر سے ممسوح کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر ہو۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اولؓ کا شاگرد ہونے کی وجہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازماً ایسے آئے ہیں جو میں نے ان سے سیکھے اس لئے اس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تفسیر بھی حضرت خلیفہ اول کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آجائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اپنی روح سے ممسوح کرکے ان علوم سے سرفراز فرمایا تھا جو اس زمانہ کے لئے ضروری ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سی بیماریوں کو شفا دینے کا موجب ہوگی۔ بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے۔ بہرے سننے لگ جائیں گے گونگے بولنے لگ جائیں گے۔ لنگڑے اور اپاہج چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کرے گی جس غرض کے لئے یہ شائع کی جارہی ہے<۔۱۴۶4] ft[r اللھم امین۔
حضرت امیر المومنین سیدنا المصلح الموعود نے ۲۰۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں یہ بھی خوشخبری سنائی کہ >قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کی پہلی جلد چھپ کر آگئی ہے۔ یہ جلد آج سے کچھ عرصہ پہلے آجانی چاہئے تھی۔ مگر لاہور کے فسادات کی وجہ سے پریس بند رہے یا بہت کم کام ہوتا رہا۔ اس لئے بجائے اپریل میں مکمل ہونے کے یہ جلد جون میں مکمل ہوئی ہے۔ یہ جلد ساڑھے بارہ سو صفحات کی ہے۔ ابتدائی مضامین کا دیباچہ جو کہ میں نے لکھا ہے وہ ۲۷۲ صفحات کا ہے یعنی یہ مضمون اردو کے عام کتابی سائز کے لحاظ سے پانچ چھ سو صفحات میں آجائے گا اس دیباچے کے کچھ حصہ کا ترجمہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب نے کیا ہے اور کچھ حصہ کا ترجمہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کیا ہے۔ یہ دونوں احباب ہماری جماعت میں انگریزی کی اچھی قابلیت رکھتے ہیں اور نہایت عمدہ طور پر لکھنے والے ہیں جس کی وجہ سے ترجمہ بہت اعلیٰ ہوا ہے۔ گو میں اس دیباچہ کے ترجمہ کی نظر ثانی نہیں کرسکا اور میرا خیال ہے کہ اگر نظر ثانی ہو جاتی تو نظرثانی میں بعض جگہ ترجمہ زیادہ سادہ ہوسکتا تھا جو کہ اب نسبتاً پیچیدہ ہوگیا ہے۔ لیکن پھر بھی ترجمہ نہایت لطیف ہے۔ کتاب کے چھپنے کے بعد میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو وہ مجھے ایسا دلچسپ معلوم ہوا کہ باوجود غیر زبان میں ترجمہ ہونے کے بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ مضمون ہی انگریزی میں لکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں اس کی یہ تقسیم کرچکا ہوں کہ آدھی ہندوستان کے لئے اور آدھی غیر ممالک کے لئے جو دوست یہ کتاب خریدیں انہیں چاہئے کہ خود پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی پڑھوائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کا دیباچہ ایسا شاندار لکھا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب بن سکتا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد میں اس دیباچہ کو الگ چھپوایا جائے نہ صرف انگریزی بلکہ اردو` ہندی` گورمکھی اور دوسری زبانوں میں اس کے تراجم شائع کئے جائیں۔ اس دیباچہ میں اسلام کی صداقت کے ایسے دلائل بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ قرآن کریم اور رسول کریم~صل۱~ کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی۔ اور پھر دیباچہ کے ساتھ جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے نوٹ بھی پڑھے گا۔ تو یہ سونے پر سہاگہ اور موتیوں میں دھاگہ والی مثال ہوگی<۔۱۴۷][دوسری جلدوں کی اشاعت
اس پہلی جلد کے تیرہ سال بعد فتح/ دسمبر ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء میں دوسری جلد شائع ہوئی جو سورۃ مریم سے سورۃ جاثیہ تک کی سورتوں پر مشتمل تھی ازاں بعد تیسری اور آخری جلد امان/ مارچ ۱۳۴۲ہش/ ۱۹۶۳ء میں اشاعت پذیر ہوئی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ۲۲۔ امان/ مارچ ۱۳۴۳ہش/ ۱۹۶۳ء کو چوبیسویں مجلس مشاورت کی کارروائی کے آغاز میں فرمایا >میں دوستوں کو یہ بشارت دینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی انگریزی تفسیر جو آج سے اکیس سال پہلے شروع ہوئی تھی اور جس کے ابتدائی حصہ میں مجھے بھی کچھ خدمت کا موقعہ ملا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی اس کام کو کرتے رہے ہیں درد صاحب مرحوم بھی یہ کام کرتے رہے۔ مگر زیادہ کام ملک غلام فرید صاحب کے ذمہ رہا ہے اور اب تو کلیت¶ہ ان کے ذمہ ہے اس تفسیر کا آخری حصہ جو باقی تھا اب مکمل ہوکر آگیا ہے اور اس طرح خدا کے فضل سے یہ کام تکمیل کو پہنچ گیا ہے<۔۱۴۸
تفسیر القرآن انگریزی کی تاریخ پر ایک نظر
مکرم شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی نے اپنی کتاب >حیات قمر الانبیاء< میں تفسیر القرآن انگریزی پر ایک مختصر مگر جامع نوٹ سپرد قلم کیا ہے جو درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>صدر انجمن احمدیہ قادیان نے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے قرآن کریم کا جو انگریزی ترجمہ شروع میں کر دیا تھا۔ وہ تو جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے ۱۹۱۴ء میں لے کر لاہور آگئے اور یہاں احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور نے اسے اپنے طور پر شائع کر دیا۔ اس کے بعد حضرت امیر المومنین نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو نیا ترجمہ مع تفسیری فوٹوں کے مرتب کرنے کا حکم دیا۔ ۱۹۳۳ء میں حضرت امیر المومنین نے اس کام میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو بھی شامل فرما دیا۔ اب دونوں نے مل کر اس خدمت کو سرانجام دینا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت میاں صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ مل کر قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کا کام کرہی رہے تھے کہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانی نے جن کو اس کام سے بے حد دلچسپی تھی مناسب سمجھا کہ اس کام کی تکمیل کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے لندن بھیج دیا جائے وہاں چونکہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بعض ایسی کتابیں موجود ہیں جو یہاں نہیں مل سکتی لہذا وہاں یہ کام نسبتاً آسانی سے ہوسکے گا۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین کے ارشاد کے ماتحت حضرت مولوی شیر علی صاحب لندن جانے کے لئے قادیان سے ۲۶۔ فروری ۱۹۳۶ء کو روانہ ہوگئے۔۱۴۹ اور وہاں تقریباً تین سال تک رہ کر یہ کام کرتے رہے۔ اس عرصہ میں بے شمار نوٹ ترجمتہ القرآن کے متعلق انہوں نے جمع کئے جو بعد کے ایام میں اپنی اپنی جگہ تفسیر القرآن انگریزی میں درج کئے گئے۔
وہاں سے واپسی کے بعد بھی حضرت مولوی صاحب اسی کام میں مشغول رہے مگر چونکہ حضرت امیر المومنین کو اس کام کی تکمیل کی بڑی فکر تھی اور آپ چاہتے تھے کہ جس طرح بھی ہو یہ ضروری کام جلد سے جلد ختم ہو جائے اس لئے آپ نے کام کے مسلسل اور باقاعدہ جاری رہنے اور جلد تر پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے یہ انتظام کیا کہ مئی ۱۹۴۲ء میں جماعت کے قابل اور فاضل حضرات کا ایک بورڈ مقرر فرمایا جو سرعت۔ تیزی۔ روانی۔ عمدگی۔ خوبی اور انتہائی احتیاط کے ساتھ ایک دوسرے کے تعاون سے اس کام کو انجام تک پہنچائے۔ بہرحال یہ کام ۱۹۴۲ء میں شروع ہوا اور مسلسل ہوتا رہا۔ قادیان میں کوٹھی دارالحمد ترجمہ قرآن کا دفتر تھا۔ یہاں راقم الحروف نے بارہا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب کو نہایت انہماک اور محنت کے ساتھ ایک میز پر یہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے ایک ایک لفظ پر بحثیں ہوتی تھیں۔ ایک ایک فقرہ بڑی احتیاط کے ساتھ باہمی تبادلہ خیال کے بعد لکھا جاتا تھا۔ ایک ایک آیت کے متعلق دیکھا جاتا کہ قدیم مفسرین نے اس کے کیا معنی کئے ہیں؟ احادیث میں اس کے متعلق کیا لکھا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی کیا تفسیر فرمائی ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے اس کی کیا تشریح کی ہے؟ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے اس کا کیا مطلب بیان کیا ہے؟ پھر الفاظ کے متعلق بڑی بحث ہوتی تھی یعنی لغت میں اس لفظ کے کیا کیا معنی ہیں؟ محاورہ میں یہ لفظ کس طرح استعمال ہوا ہے؟ زیر بحث آیت میں اس کے کون سے معنی نسبتاً زیادہ درست بیٹھتے ہیں؟ آیت کا مطلب قدیم اورجدید مفسرین نے کیا بتایا ہے؟ اور ان میں قریب بہ صحت کون سا مطلب ہے؟ آیت پر مخالفین کی طرف سے کیا کیا اعتراض ہوتے ہیں۔ اور ان کے کیا کیا جواب ہیں؟ آیت کا تعلق اس کی ماسبق اور بعد آیتوں سے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کن کن معارف کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے؟ یہ آیت کہاں اور کس وقت اتری؟ اور اس کا شان نزول کیا ہے؟ اس آیت یا اس سورۃ کے متعلق یورپین تحقیقات کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہر بات کے متعلق بہت طول طویل بحثیں ہوتی تھیں جب جاکر ایک آیت کا ترجمہ اور تفسیر لکھی جاتی تھی اور پھر اس میں ملک غلام فرید صاحب آخر وقت تک برابر ترمیم و تنسیخ کرتے رہتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ جو کچھ لکھا جائے انتہائی تحقیق کے بعد لکھا جائے۔ اور ایسا لکھا جائے کہ دل کو اطمینان اور سکینت سے بھر دے۔ اکثر اوقات چھپے چھپائے فرمے ردی کرنے پڑے ہیں۔ بہت دفعہ پریس میں جاکر مشین پر غلطیاں درست کرنی پڑی ہیں اور ہر قسم کی دقت` صعوبت اور تکلیف اس کے ترجمہ اور اس کی طباعت میں برداشت کی ہے تب جاکر ۲۸۔ فروری۱۵۰ ۱۹۴۷ء کو اس کی پہلی جلد بڑی تقطیع کے ۹۶۸ صفحات پر مشتمل ہے بہت اعلیٰ ٹائپ اور نہایت نفیس کاغذ پر سول اینڈ ملٹری گزٹ پریس لاہور میں چھپ کر شائع ہوئی۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے کمال تحقیق کے ساتھ جو عالمانہ اور بسیط مقدمہ اس پر لکھا وہ اصل کتاب کے علاوہ ۲۷۶ صفحات پر محیط ہے اور بجائے خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پہلی جلد میں سورہ فاتحہ سے سورہ توبہ تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ یعنی اس میں دس مکمل پارے آگئے ہیں۔
ابھی پہلی جلد کے فرموں کی جز بندی نہیں ہوئی تھی اور سارے فرمے سول اینڈ ملٹری پریس لاہور میں رکھے ہوئے تھے کہ ملک کے سیاسی حالات بڑے مخدوش ہوگئے ۔۔۔۔۔۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ احتیاط اور حفاظت کا اقتضاء یہ ہے کہ قرآن مجید کے فرموں کو لاہور سے قادیان لے آیا جائے اور یہیں ان کی جزبندی اور جلد سازی ہو۔ چنانچہ حضور کے حکم کے مطابق فوراً قرآن مجید کے فرمے قادیان آگئے اور خاکسار راقم الحروف کے سپرد کر دئے گئے۔ میں اس زمانہ میں بکڈپو تالیف اشاعت مرکزیہ کا نگران اعلیٰ تھا۔ میں نے ان تمام فرموں کو کوٹھی دارالحمد میں رکھوا دیا اور ایک دفتری سے اس کی جز بندی شروع کرا دی۔
اب ملکی حالات اور بھی زیادہ مخدوش اور خطرناک ہوگئے تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔ قادیان میں خطرہ ہر لحظہ بڑھتا جارہا تھا اس لئے حضرت امیر المومنین نے پھر حکم دیا کہ غیر معمولی عجلت کے ساتھ تمام قرآن شریف فوراً لاہور پہنچا دیا جائے چنانچہ میں نے یہ تمام فرمے ایک بڑی لاری میں بھر کر لاہور بھیج دئے اور فرمے محترمی شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی کے ایک کمرہ میں امانتا رکھ دئے گئے۔ میں ۸۔ ستمبر ۱۹۴۷ء کو قادیان سے لاہور پہنچا اور فرمے شیخ صاحب کے ہاں سے لے کر جلدبندی کے لئے کشمیر آرٹ پریس کو دے دیئے اور جب سارے قرآن مجید کی جلدیں بندھ گئیں تو پھر ۱۹۴۸ء کے شروع سے ان کی فروخت شروع کی تقسیم کے بعد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب بھی لاہور آگئے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رتن باغ میں رہنے لگے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو ڈیوس روڈ پر ایک کوٹھی میں جگہ ملی۔ ملک غلام فرید صاحب ٹمپل روڈ کی کوٹھی نمبر ۸ میں آباد ہوئے اور ترجمہ قرآن مجید کا دفتر جودھامل بلڈنگ میں بنایا گیا۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کی ذاتی نگرانی میں دوسری جلد کی تیاری کا کام شروع ہوگیا مگر صد ہزار افسوس کہ بورڈ ترجمتہ القرآن کے سب سے سینئر ممبر حضرت مولانا شیر علی صاحب کا ۱۳۔ نومبر ۱۹۴۷ء کو انتقال ہوگیا۔
اب صرف دو آدمی رہ گئے ایک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے حضرت ملک غلام فرید صاحب۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قادیان سے آتے ہی حفاظت مرکز اور خدمت درویشاں کے کاموں میں ایسے مصروف ہوئے کہ انہیں دن رات میں کسی لمحے بھی فرصت نہ ملتی۔ اب اس عظیم الشان اور نہایت ہی مشکل کام کو سارا بار صرف حضرت ملک غلام فرید صاحب پر آپڑا اور حضرت امیر المومنین نے بھی ان سے یہ فرمایا کہ >اب صرف آپ ہی کلیت¶ہ میرے سامنے ترجمتہ القرآن کے تمام کام کے جوابدہ اور ذمہ دار ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر محسوس کرتے ہوئے اس کام کو جلد سے جلد ختم کرنے کی کوشش فرمائیں گے۔ جو بے حد ضروری اور نہایت اہم ہے<۔
>اگرچہ مشکلات بے حد تھیں اور ایک اکیلے شخص سے اس عظیم الشان کام کا سرانجام پانا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا مگر حضرت ملک غلام فرید صاحب نے اس پیرانہ سالی اور مختلف عوارض میں مبتلا ہونے کے باوجود اس خالص مذہبی خدمت کو بجا لانے کا عزم بالجزم کرلیا اور ہمہ تن اس کام کی تیاری میں منہمک ہوگئے اور دن رات کی لگاتار محنت کے بعد ۱۹۴۹ء میں ترجمتہ القرآن کی دوسری جلد کا پہلا حصہ مرتب کرلیا۔ جس میں سورہ یونس سے سورہ کہف تک تفسیر آگئی ہے ان ایام میں ترجمتہ القرآن انگریزی کے متعلق حضرت ملک صاحب کو چار قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا پڑتا تھا۔
)۱(
‏]ind [tag کتاب کی ترتیب و تدوین جس میں بے انتہا محنت کرنی پڑتی تھی۔
)۲(
پروف ریڈنگ جو کئی کئی مرتبہ بڑی احتیاط کے ساتھ کرنی پڑتی تھی۔
)۳(
طباعت کی نگرانی جو بڑی ہی بھاگ دوڑ اور مصیبت کا کام تھا۔
)۴(
طباعت اور تیاری کے بعد قرآن کریم کی فروخت اور تقسیم کی نگرانی جو بڑے جھمیلے کا کام تھا۔
ظاہر ہے کہ اکیلے ملک صاحب کے لئے ان چاروں کاموں کی سرانجام دہی کس قدر درد سری کا باعث تھی لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جناب ملک صاحب نے ایام میں بڑے ہی استقلال اور مستعدی اور محنت کے ساتھ تمام کاموں کو سرانجام دیا اور قطعاً شکایت نہیں کی۔
اگرچہ اس تمام عرصہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سلسلہ کے بہت سے متفرق کاموں میں سخت مشغول رہے تاہم نہایت عدیم الفرصتی کے باوجود بھی ترجمہ انگریزی کی نظر ثانی کے کام میں برابر جناب ملک صاحب کے شریک رہے۔ مگر جبکہ جنوری ۱۹۵۱ء میں حضرت میاں صاحب رتن باغ سے مستقل طور پر ربوہ تشریف لے گئے تو آخری مراحل پر حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم نظر ثانی کے کام میں حضرت ملک صاحب کی مدد فرماتے رہے لیکن جب وہ بھی سلسلہ کی ضرورت اور سلسلہ کے تعلیمی اداروں کی نگرانی کے لئے ربوہ چلے گئے تو تنہا ملک صاحب نے سارے کام سرانجام دئے۔ ملک صاحب نے اکیلے رہ جانے پر بھی ہمت نہ ہاری اور خاموشی کے ساتھ کام میں مصروف رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور مہتم بالشان کام آہستگی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ دسمبر ۱۹۶۰ء میں قرآن کریم کی انگریزی تفسیر کی جلد دوئم کا دوسرا حصہ شائع ہوگیا۔ یہ سورہ مریم سے سورہ جاثیہ تک ہے۔
اس دوران میں حضرت ملک صاحب کے لئے ایک آسانی یہ پیدا ہوگئی کہ تفسیر انگریزی تقسیم اور فروخت کا کام اورئینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ ربوہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور حضرت ملک صاحب کو اس بڑے جھمیلے کے کام سے نجات ملی اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ تصنیفی دماغ آنے پائیوں کا حساب کتاب رکھنے اور ایک ایک کتاب کو بار بار گن کر رکھنے سے بڑا گھبراتا ہے۔ حضرت ملک صاحب نے اس نئے انتظام کو نہایت غنیمت سمجھا اور اطمینان اور سکون کے ساتھ تصنیفی کام میں مشغول ہوگئے جو ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
دیکھئے مختلف اور متعدد ذمہ داریوں کی موجودگی میں کام کی رفتار کتنی سست رہی کہ تفسیر کی دوسری جلد کا پہلا حصہ ۱۹۳۹ء میں چھپا تھا مگر اس کا دوسرا حصہ گیارہ سال بعد ۱۹۶۰ء میں شائع ہوا لیکن جب کام کی ذمہ داریاں ہلکی ہوئیں اور حضرت ملک صاحب کو اطمینان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو تفسیر القرآن انگریزی کی تیسری اور آخری جلد ۱۹۶۳ء میں چھپ گئی۔ جو سورہ احقاف سے سورہ الناس تک کے مضامین پر مشتمل تھی۔ اس جلد کے ساتھ تمام قرآن مجید کی انگریزی تفسیر ختم ہوگئی جو بڑی تقطیع کے ۲۹۱۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور عجیب و غریب قرآنی معارف کا حسین و دلفریب مرقع ہے۔ حضرت امیر المومنین نے تمام تفسیر پر جو نہایت فاضلانہ اور محققانہ مقدمہ لکھا ہے اس کے صفحات ۲۷۶ اصل کتاب کے صفحات سے علیحدہ ہیں یعنی کل تفسیر القرآن انگریزی کے صفحات کی مجموعی تعداد ۳۱۹۳ ہے۔
‏vat,10.38
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا حصہ اس مقدس کام میں بہت کافی تھا تفسیر القرآن کی پہلی جلد جو ابتدائی پندرہ پاروں پر مشتمل تھی ساری کی ساری حضرت میاں صاحب کی نگرانی میں مرتب ہوئی اور اس میں کسی نہ کسی شکل میں ان کی شرکت اور معاونت اور امداد شامل رہی لیکن قادیان سے آنے کی پریشانیوں اور بہت سی مختلف مصروفیتوں کے باعث جو اس دور ابتلاء میں وقتاً فوقتاً پیش آتی رہیں حضرت میاں صاحب مجبوراً تفسیر القرآن انگریزی کے کام کی طرف اپنی پوری توجہ منعطف نہ کرسکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ترجمہ کی نظر ثانی کا کام آپ حضرت ملک غلام فرید صاحب کے ساتھ مل کر ان کی صلاح مشورے سے آخر تک کرتے رہے۔ اس کا اظہار ملک صاحب نے بھی ترجمتہ القرآن کے متعلق اپنے ایک بیان میں جو خاکسار راقم الحروف کو لکھ کر دیا صاف طور پر کیا ہے۔
خدا تعالیٰ کا ہزار شکر و احسان اور فضل و کرم ہے کہ جو مہتم بالشان کام حضرت مولوی شیر علی صاحب نے ۱۹۱۵ء میں شروع کیا تھا وہ قریباً پچاس سال کی مسلسل سعی و کوشش کے بعد ۱۹۶۳ء میں حضرت ملک غلام فرید صاحب کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا۔۱۵۱
مغربی مفکرین کے تاثرات
انگریزی تفسیر قرآن کے دینی اور ادبی محاسن نے یورپ اور امریکہ کے چوٹی کے اہل علم کو متاثر کیا ہے اور انہوں نے اس پر شاندار ریویو کئے ہیں۔ مثلاً مسٹر اے۔ جے۔ آربری ARBERRY) ۔J۔(A نے لکھا۔
‏Translation English on stnemmoC]of[
‏QURAN HOLY THE
‏ new a of volume first this of publication "The a marks Quran the of translation annotated great very a of accomplishment the in satge the since years fifteen some now is It ۔enterprise of Community Ahmadiyya the of scholars learned His of leadership inspiring the under Qadian, embarked Ahmad, Mahmud Din ۔ud۔ Bashir Holiness of edition an produce to plan ambitious an upon faithful a by accompanied Quran, the of text the This ۔commentary full a and noittransla English Suras, nine first the comprises volume first introduction general long a with together the that explains who Holiness, His of pen the from of interpretation the on based is commentary the of Founder the by established Quran the and Successor, first his Movement, Ahmadiyya translation The ۔Successor second the himself, the as accepted be thus may commentary toand is It ۔Movement Ahmadiyya the of voice authentic۔volumes more two in completed be
‏ a as work this ebircsed to exaggeration no is It A ۔scholarship Islamic of monument veritable consulted been has authorities of list formidable translators the and undertaking, the of stages all at of only not views the account into taken have European of also but exegesis Arab traditional and faultless in is translation The ۔criticism۔English dignified
‏ closelyprinted large, 275 in introduction, general The prophet te of biography a comprises pages, the of compilation the of history a Muhammad, of serutafe chief the of account an and Quran, incidentally contains it teachings; Quranic the by expressed Islam on views of refutation detailed a ۔religions other of criticism a and Muslims, ۔non somewhat seems perhaps apologetics the of Much reader; Muslim ۔non the to captious even and partisan careful merits and animated, sincerely is it but pious of reactions the on light throwing as study objectionable find they what to Muslims learned and۔faiths other of doctrines traditional the in
‏ eht when time a at volume first this of appearance The ۔۔grievously most suffering was India in Community Ahmadiyya more be to needs persecution senseless this of story the disturbing most a was it for known, widely of symbol a itself is ۔۔power of transfer the of feature such been have which devotion and fortitude the since Movement the of characteristics outstanding wish must will good of men All ۔inception its its in enterprise the to fortune good and prosperity high the recognise and ,sestag remaining pious of product fine this of "importance۔learning good and endeavour
)۔ARBERRY ۔J۔(A
>قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ موجودہ جلد اس کارنامہ کی گویا پہلی منزل ہے۔ کوئی پندرہ سال کا عرصہ ہوا۔ جماعت احمدیہ قادیان کے محقق علماء نے یہ عظیم الشان کام شروع کیا اور کام حضرت اقدس مرزا بشیر الدین محمود احمد کی حوصلہ افزاء قیادت میں ہوتا رہا۔ کام بہت بلند قسم کا تھا۔ یعنی یہ کہ قرآن شریف کے متن کی ایک ایسی ایڈیشن شائع کی جائے۔ جس کے ساتھ ساتھ اس کا نہایت صحیح صحیح انگریزی ترجمہ ہو اور ترجمہ کے ساتھ آیت آیت کی تفسیر ہو` پہلی جلد جو اس وقت سامنے ہے۔ قرآن شریف کی پہلی نو سورتوں پر مشتمل ہے۔ شروع میں ایک طویل دیباچہ ہے جو خود حضرت مرزا بشیر الدین نے رقم فرمایا ہے اس دیباچہ میں حضرت اقدس نے لکھا ہے کہ جو کچھ اس تفسیر میں بیان ہوا ہے۔ وہ ان معارف کی ترجمانی ہے۔ جو بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتابوں اور مواعظ میں بیان فرمائے یا پھر آپ کے خلیفہ اول یا خود حضرت ممدوح نے جو بانی سلسلہ کے خلیفہ ثانی ہیں بیان فرمائے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ ترجمہ اور یہ تفسیر جماعت احمدیہ کے فہم قرآن کی صحیح ترجمانی کرنے والی ہے۔ موجودہ جلد کے بعد دو جلدیں اور شائع ہوکر یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا` اگر ہم اس کام کو اسلام کے ذوق علم تحقیق کی عظیم یادگار کہہ کر پیش کریں تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اس کی تیاری کے ہر مرحلہ پر مستند کتب تفسیر و لغت و تاریخ وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کتب کی طویل فہرست پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے تیار کرنے والوں نے نہ صرف تمام مشہور عربی تفسیروں کو زیر مطالعہ رکھا ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ یورپین مستشرقین نے تنقیدی رنگ میں جو کچھ لکھا ہے۔ اسے بھی مدنظر رکھا ہے۔ اگرچہ صرف ترجمہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترجمہ کی انگریزی غلطیوں سے پاک اور بڑی پروقار ہے۔
تفسیر سے پہلے جو دیباچہ ہے وہ ۲۷۵ بڑے سائز کے صفحات کا ہے اس کی چھپائی باریک ٹائپ کی ہے اس میں نبی اسلام حضرت محمدﷺ~ کی پوری سوانح عمری درج ہے۔ قرآن شریف کس طرح نازل ہوا اور پھر کس طرح موجودہ شکل میں جمع ہوا۔ اس کی تاریخ دی گئی۔ اصولی تعلیمات قرآن کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ غیر مسلم معترضین کے اعتراضوں کا رد بھی اس میں ہے اور دوسرے مذاہب پر مناسب تنقید بھی` غیر مسلم پڑھنے والوں کو اس کے کئی حصے یکطرفہ اور معترضانہ رنگ لئے ہوئے معلوم ہوں گے لیکن یاد رہے یہ حصے بھی خلوص نیت سے لکھے گئے ہیں اور نہایت توجہ سے پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ ان سے پتہ لگتا ہے کہ متقی اور اہل علم مسلمان جب دوسرے مذاہب کی روایتی تعلیموں پر اعتراض کرتے ہیں۔ تو ایسا کیوں کرتے ہیں۔
اس ترجمہ اور تفسیر کی پہلی جلد ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے۔ جبکہ جماعت احمدیہ ہندوستان میں شدید آلام و مصائب کا شکار ہورہی ہے۔ ان مجنونانہ مظالم کی داستان زیادہ لوگوں کو معلوم ہونی چاہئے۔ ہندوستان میں اقتدار کی منتقلی کا بھیانک پہلو یہی مظالم ہیں۔ لیکن جس طرح جماعت احمدیہ نے ان مظالم کا مقابلہ کیا۔ اس سے اس صبر اور ثبات اور شجاعت کا ثبوت ملتا ہے جو اس جماعت کا شروع ہی سے طرہ امتیاز رہا ہے۔ دنیا بھر کے نیک خیال لوگ دل سے چاہیں گے کہ یہ شاندار ترجمہ تفسیر جلد تکمیل کو پہنچے۔ علم اور تحقیق اور للہیت کے اس شاہکار کو کون ہے جو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھے گا؟
رسالہ دی کرسچین سینچری
رسالہ دی کرسچین سینچری شکاگو CHRISTIAN (THE CENTURY) نے حسب ذیل ریویو کیا۔
‏ AND TRANSLATION ENGLISH WITH ۔QURAN HOLY "THE Ahmadiyya the by Distributed ۔I ۔VOL ۔COMMENTARY ۔50 ۔$12 Chicago, ,۔St State ۔S 220 Islam in Movement
‏ the under "published is work impressive This Mahmud Din ۔ud۔ Bashir Mirza Hazrat of auspices Messiah, Promised the of Successor Second Ahmad, "۔India Qadian, Ahmadiyya, Anjuman Sadr the by (the volume present The ۔aiInd in produced was It introduction of pages 276 contains three) of first English), in readers most to (Koran Quran the to English parallel with text Arabic of pages 968 and ۔theological and Linguistic commentary, and translation sufficiently are paper this of readers few perhaps Since of themselves avail to language Arabic the with familiar the study, its to offered here aids remarkable the more be may book the issues which organisation The ۔itself book the than them to interesting yranmissio active only the Movement, Ahmadiyya 1890 in founded was Islam, in work at now movement claimed "He ۔Punjab the in Ahmad, Ghulam Mirza Hazrat by the by foretold was advent whose Mahdi the be to had advent whose Messiah the and Muhammad Prophet "Holy۔Scriptures Moselm the in and Bible the in foretold been son, This ۔son his is above, named successor," "second The described was Pakistan, in resident now and 1889 in born of expectation The "۔God of Word "the as prophecy in of people eth of part greater "The is: followers his Promised the Ahmad, Hazarat in believe will Europe to place give will religions other All ۔Mahdi and Messiah almost end the in will and Ahmadiyyat, and Islam Hazarat by inherited be shall earth The ۔exist to cease other of followers the and followers, s Ahmad` occupy shall and number in few be shall religions been have communities Many "۔positions humble splendid this of publication the and established, not are they that evidence is Quran the of no"editi۔resources without
‏CENTURY) CHRISTIAN (THE
یہ شاندار کام حضرت مرزا بشیر الدین محمود کی زیر نگرانی سرانجام پایا ہے۔ جن کو مسیح موعود کا دوسرا جانشین اور خلیفہ کہا جاتا ہے اسے صدر انجمن احمدیہ قادیان ہندوستان نے شائع کیا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی پہلی جلد ہے دو جلدیں اور شائع ہوں گی۔ اس پہلی جلد میں ۲۷۶ صفحات کا دیباچہ ہے۔ جس میں قرآن شریف کا تعارف کرایا گیا ہے۔ دیباچہ کے بعد ۹۶۸ صفحات میں آمنے سامنے کالموں میں متن قرآن اور اس کا انگریزی ترجمہ اور تفسیری نوٹ )حل لغات اور معانی دونوں پر مشتمل( درج کئے گئے ہیں۔ گویا ناظرین کے لئے قرآن فہمی کا بیش بہا سامان مہیا کیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس میں سے اکثر عربی نہ جاننے کی وجہ سے اس سے پورا فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ اس لئے وہ تحریک اور تنظیم جس کی ہمت سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے ان کے لئے زیادہ کشش اور دلچسپی کا موجب ہوگی۔ سو مختصراً یہ کہ دینا کافی ہے کہ احمدیہ تحریک کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد نے پنجاب میں ۱۸۹۰ء میں رکھی۔ احمدی عقیدہ کے مطابق مرزا صاحب موصوف نے دعویٰ کیا کہ وہ وہی مہدی ہیں۔ جس کی آمد کی پیشگوئی نبی اکرم حضرت محمدﷺ~ نے کی اور وہ وہی مسیح ہیں جس کی آمد کی خبر بائیبل میں اور اسلامی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ خلیفہ ثانی )جن کی نگرانی میں یہ ترجمہ و تفسیر شائع ہوئی ہے( بانی احمدیت کے بیٹے ہیں۔ آپ خود ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے اور اب پاکستان میں آچکے ہیں اور پاکستان میں رہتے ہیں۔ آپ کو بانی احمدیت کی پیشگوئیوں میں کلمتہ اللہ کہا گیا ہے۔ احمدیہ جماعت کا ایمان ہے کہ یورپ کا اکثر حصہ مسلمان ہو جائے گا اور حضرت احمد مسیح موعود و مہدی معہود پر ایمان لے آئے گا۔ دوسرے مذاہب اپنا موجودہ مقام کھو بیٹھیں گے۔ ان کی جگہ اسلام اور احمدیت کا دور دورہ ہوگا حضرت احمد کے ماننے والے دنیا پر چھا جائیں گے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے کمزور اور کسمپرسی کی حالت میں آجائیں گے۔
احمدیہ جماعت کے کئی مرکز قائم ہوچکے ہیں اور قرآن شریف کا یہ شاندار ایڈیشن اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پاس کام کرنے کے وسائل کی کمی نہیں۔
ڈاکٹر چارلس ایس بریڈن امریکہ
ڈاکٹر چارلس ایس بریڈن صدر شعبہ تاریخ و ادب مذہبیات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی ایونسٹن امریکہ نے لکھا۔
‏]gne [tag easily good, is type The ۔printed well very is book "The eddition valuable very a is it Altogether ۔readable The ۔tongue English the in Islam of literature the to it" for Movement Ahmadiyya the to indebted greatly is world Literature and History Chairman, Braden, ۔S Charles ۔(Dr۔III) Evanston, University western North ۔Deptt Religions of
>کتاب کی طباعت نہایت عمدہ ہے۔ ٹائپ بھی اعلیٰ ہے اور سہولت سے پڑھا جاسکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی انگریزی زبان کے اسلامی لٹریچر میں یہ ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ جس کے لئے دنیا جماعت احمدیہ کی ازحد ممنون ہے<۔
پروفیسر ایچ` اے` آر` گب
پروفیسر ایچ` اے` آر` گب نے لکھا۔
‏ for and translation the to turned I it, reading "After attempt previous any than better as edition this commending۔version" English an present to
‏GIBB) ۔R۔A۔(H
>اس کے پڑھنے کے بعد میں نے اس کے ترجمہ کا مطالعہ کیا۔ یہ ترجمہ قرآن مجید کو انگریزی زبان کا جامہ پہنانے کی ہر سابقہ کوشش کے مقابلے میں زیادہ قابل تحسین ہے<۔
رچرڈ بیل
رچرڈ بیل نے لکھا:۔
۔few remarkable are misprints and faultless, is English "The in Quran the present to spared been have pains no Evidently۔possible" as form a mperfect as
‏ authoritatively thus Teachings Quranic of characteristics "The respects most in and modern certainly are expounded the to up act could Nations United the If ۔admirable some regain might it down, laid here principles۔"eprestig its of
‏ fine a shows often and full is Commentary "The۔values" spiritual of sense
‏ But ۔controversy weaken may which details many are "There here have we that recognise to not ungracious be would it It ۔enterprise meritorious and great a of part first the۔authors" its to love of labour a been doubt no has
‏ Quran the of teaching the present to attempt present,"This the of needs the to adapted form a in Missionary and life spiritual of sign a is and enlightened whole the no is and Bell)enterprise, (Richard "۔progressive
زبان کے لحاظ سے اس کی انگریزی نقائص سے پاک ہے اور طباعت کی غلطیاں غیر معمولی طور پر کم ہیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا۔ قرآن کو مکمل طور پر پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ یقیناً قرآنی تعلیمات کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کا یہ انداز جدت کا حامل اور ہر طرح تحسین کے قابل ہے۔ اگر انجمن اقوام متحدہ اس میں بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہوسکے تو یقیناً کسی حد تک وہ اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ تفسیر جامع ہے اور بہت حد تک روحانی اقدار اور ان کی احسن تفہیم کی آئینہ دار ہے اگرچہ بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں اختلافی بحث کا دروازہ کھل سکتا ہے تاہم اس امر کا اعتراف نہ کرنا احسان ناشناسی ہوگی کہ ایک عظیم اور قابل تحسین کوشش کا یہ پہلا ثمرہ ہے جو ہمیں )اس ترجمہ اور تفسیر کی شکل میں( میسر آیا ہے۔ یہ کوشش مصنفین کے حق میں بلاشبہ ایک محبت آمیز شفقت کا درجہ رکھتی ہے۔ قرآنی تعلیمات کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کہ جو موجودہ زمانہ کی ضروریات کے مناسب حال ہو روحانی زندگی اور تبلیغی جدوجہد کی آئینہ دار ہے اور مجموعی لحاظ سے روشن خیالی اور ترقی پسندی پر دلالت کرتی ہے۔
ریجس بلا شہر پروفیسر ادبیات عربی
ریجس بلا شہر پروفیسر ادبیات عربی مدرسہ السنہ شرقیہ پیرس نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
۔۔ French in say we as ۔۔ is translation "The enough praise could one No ۔text the to sticking elucidate to helps that exactitude this of merit the Blachere, (Regis ۔language" Quranic the of difficulties any latneOri of School Arabic, Literary of Professor۔Paris) at Languages
‏ that, saying in far too going am I think not do I a in Quran the of translation no now, to up endeavours its pushed has language European of scholar no is who reader the instruct to far so as well as explicit the to regard with Arabic ۔translated text the of contents implicit that work a of publication the that wish would One of popularization the in making epoch be (Ibib)will soon" completed be may Europe in Islam of kobo the
یہ ترجمہ جیسے کہ فرانسیسی زبان کی ایک مثال ہے >متن کا ہوبہو چربہ ہے<۔ ترجمہ کی یہ صحت جس سے قرآن کے مبہم اور مشکل مقامات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ہر تعریف سے بالا ہے۔ اس ترجمہ کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اس سے قبل قرآں کریم کے یورپی زبانوں میں جس قدر تراجم ہوئے ہیں وہ اس اہتمام سے عاری ہیں کہ وہ لوگ بھی جو عربی متن کے ظاہری اور باطنی مطالب سے نابلد ہوں اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ ایسی کتاب )تفسیر( جو یورپ میں صحیفہ اسلام کو مقبول بنانے میں تاریخی حیثیت اختیار کرے گی جلد سے جلد پایہ تکمیل کو پہنچے<۔
شامی پریس اور اکابر دمشق کا خراج تحسین
مشہور مسیحی اخبار النصر نے لکھا کہ:۔
>جماعت احمدیہ نے امریکہ اور یورپ کے براعظموں میں ثقافت اسلامیہ کی اشاعت کا نمایاں کام کیا ہے اور یہ کام لگاتار مبلغین کی روانگی سے ہورہا ہے اور مختلف کتب و اشتہارات کی اشاعت سے بھی جن کے ذریعہ فضائل اسلام اور حضرت رسول کریم~صل۱~ کی صداقت کو بیان کیا جاتا ہے۔
ہمیں قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی ہے یہ ترجمہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی زیر نگرانی کیا گیا ہے۔ ترجمہ قرآن مجید جاذب نظر اور ناظرین کے لئے قرۃ العیون ہے۔ یہ ترجمہ بلند پایہ خیالات کا حامل ہے۔ کاغذ نہایت عمدہ ہے۔ قرآنی آیات ایک کالم میں درج ہیں اور دوسرے کالم میں بالمقابل انکا ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ بعد ازاں مفصل تفسیر کی گئی ہے مطالعہ کرنے والا ان تفاسیر جدیدہ میں مستشرقین اور یورپین معاندین کے اعتراضات کے مفصل جوابات پاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس ترجمہ کے ساتھ حضرت رسول کریم~صل۱~ کی سیرت بھی تحریر فرمائی ہے اور یہ سیرت و ترجمہ بے نظیر ہیں<۔۱۵۲
۳۔ >الاخبار )دمشق( نے مندرجہ ذیل عنوان سے خبر شائع کی۔
>جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اپنی مثال آپ ہے<۔۱۵۳
۴۔ اخبار >وکالہ~ن۲~ الانباء العربیہ< )عمان شرق اردون )۶۔ فروری ۱۹۴۹ء( کا انگریزی ترجمہ قرآن پر تبصرہ۔
ترجمہ القران الکریم
>عمان۔ تلقی فضیلہ المیرزا رشید احمد جغتائی المبشر الاسلامی المعروف وعضو الجماعہ الاحمدیہ والمقیم حالیا بعمان نسخہ من الکتاب القیم الذی اصدرتہ الجماعہ فی الھند باللغہ الا نکلیزیہ حاویا ترجمہ القران المجید۔ ویقع الکتاب فی ۹۶۸ صفحہ تضم ترجمہ السور المجیدہ الفاتحہ و البقرہ و ال عمران و النساء و المائدہ والانعام والاعراف والانفال والتوبہ۔ وقد قدم لھا بمقدمہ قیمہ تقع فی ثلاثمائہ صفحہ کتبھا امام الجماعہ حضرہ میرزا بشیر الدین محمود احمد تضم مصادر الکتاب و بحوثا قیمہ عن قیمہ القران المجید و سیرہ الرسول الاعظم و شخصیہ و کیفیہ جمع القران و غیرھا والترجمہ الانکلیزیہ تفوق کل ترجمہ سبقتہا من حیث الاتقان و جودہ الورق و الطبع والانسجام و صدق الترجمہ الحرفیہ و تفسیرھا تقسیرا مسھبا باسلوب جدید یدل علی علم غزیر و اطلاع واسع علی۔ حقائق الدین الاسلامی الخفیف وتعالیمہ السامیہ۔
والکتاب الثمین فی مجموعہ دفاع عن الاسلام ورد علی خصومہ و خاصہ المستشرقین یبطل مزاعمہم باسلوب علمی وائع۔
وقد علمنا من حضرہ الاستاذ میرزا رشید احمد انہ سیضع ھذا الکتاب القیم فی مکان عام بحیث یتیسر لجمیع طلاب العلم و للعرفہ الاطلاع علیہ و قراء تہ
ومما یجدر ذکرہ ان المسزز مرمات الکاتبہ الھولندیہ المعروفہ قامت بترجمہ القران المجید من الا نکلیزیہ الی الھولندیہ وما کادت تفرغ من ترجمتھا حتی کانت قد اعتنقت الاسلام<۔
ملک میں جھوٹی افواہیں اور حضرت مصلح موعود کی طرف سے اس کا تجویز فرمودہ علاج
ملک کے سیاسی تغیرات کے باعث حکومت نے اعلانوں اور خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے ملک میں ہر طرف جھوٹی افواہیں پھیلنا شروع ہوگئی تھیں جس پر حضرت
مصلح موعود نے ۲۳۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں ہی حکومت کو مشورہ دیا کہ بجائے اس کے کہ گورنمنٹ اخباروں پر خبروں کی اشاعت کے متعلق کوئی پابندیاں عائد کرے اسے چاہئے کہ وہ ایسے موقع پر عملہ کو زیادہ بڑھا دے اور اخباروں میں جو جھوٹی خبریں شائع ہوں وہ عملہ ان جھوٹی خبروں کی تردید کرتا رہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا اس کا ایک طریق یہ تھا کہ گورنمنٹ خود سچی خبروں کو شائع کرا دیتی ۔۔۔۔۔۔ یا پھر تیسرا طریق یہ تھا کہ واقعات اور خبریں تو حسب سابق اخبارات میں شائع ہوتی رہیں مگر ہندو اور مسلمان اخبارات کے متضاد بیانات کی صورت میں جو بھی سچا واقعہ ہوتا گورنمنٹ اس کی تصدیق کردیتی اور اگر دونوں کی باتیں غلط ہوتیں تو گورنمنٹ دونوں کی تردید کردیتی اس طریق سے یقیناً افواہیں اپنا برا اثر نہ پھیلا سکتیں ۔۔۔۔۔۔ جمہوری حکومتوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ایسی خبروں کو نہیں روکتیں بلکہ جو خبر غلط ہوتی ہے اس کی تردید کر دیتی ہیں اور اصل مصلحت بھی اس بات میں ہوتی ہے کہ گورنمنٹ اخبار والوں سے کہہ دے کہ جو مرضی ہے شائع کرو لیکن اگر جھوٹی خبر شائع کی تو ہم تمہیں سزا دیں گے ۔۔۔۔۔۔ سزا کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چھ ماہ یا سال دو سال کی قید ہی ہو بلکہ قید کی سزا دینے میں یہ نقص ہوتا ہے کہ اس طرح سزا بھگتنے سے ایک شخص قوم کا لیڈر اور سردار بن جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس نے قوم کی خاطر قید کاٹی میرے نزدیک ایسے اخبار کے لئے صرف یہی سزا کافی ہے کہ اس کے متعلق عدالت یہ فیصلہ کرے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا اور پھر اخبار والوں کو مجبور کیا جائے کہ تم اپنے اخبار میں یہ شائع کرو کہ میں نے فلاں معاملہ میں جھوٹ بولا تھا۔ اصل خبر یہ تھی۔ پس میرے نزدیک اخبارات کو پورا موقع دینا چاہئے کہ وہ خبروں کو شائع کریں۔ جب لوگوں کے پاس ساری خبریں پہنچ جائیں گی تو جھوٹی افواہیں فساد نہیں پھیلا سکیں گی<۔۱۵۴
قادیان کے غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کی حفاظت کا عہد
حضرت مصلح موعود نے اپنے بابرکت زمانہ خلافت میں ہمیشہ کوشش کی کہ قادیان میں امن قائم رہے اور دشمنوں کی اشتعال انگیزیوں اور فتنہ سامانیوں کے باوجود آپ کی یہ کوششیں ہمیشہ کامیاب رہیں اب جبکہ جلد ہی انگریز جارہے تھے اور ملک کی باگ ڈور ملکی باشندوں کو سپرد ہونے والی تھی فرقہ وارانہ تلخیوں نے پورے ملک کی فضا کو مکدر کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ قادیان اور اس کا ماحول اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ۲۳۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں واضح لفظوں میں اعلان فرمایا کہ قادیان کے غیر احمدی` سکھ اور ہندو ہماری امانتیں ہیں ہم اپنے عزیزوں سے بڑھ کر ان کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ فرمایا۔
>یہ ایک حقیقت ہے کہ قادیان کے امن کی ذمہ داری درحقیقت مجھ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ قادیان کی ۸۵ فیصدی آبادی احمدی ہے یعنی انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر حکم میں میری اطاعت کریں گے۔ ان حالات میں قادیان کے امن کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں ایک انسان ہوں۔ غیب کا علم نہیں رکھتا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جماعت کا کوئی فرد کسی وقت اشتعال میں آکر کوئی غلطی کر بیٹھے اور اگر کوئی شخص ایسا کرے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہوگا جماعت اس کے اس فعل سے بیزار ہوگی۔ ہماری جماعت کی انتہائی کوشش یہی ہوگی کہ قادیان میں مکمل طور پر امن رہے لیکن اگر کوئی شخص میری ہدایات کے باوجود غلطی کرتا ہے تو یہ اس کی جزوی اور انفرادی ¶غلطی ہوگی جماعت اس سے بری الذمہ ہوگی۔ ہاں چونکہ میں امن کی تعلیم دیتا ہوں یہ نہیں ہوسکتا کہ کہ جماعت کی اکثریت فساد میں مبتلا ہو جائے لیکن اس کے ساتھ ہی جو باقی پندرہ فیصدی لوگ ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اردگرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ فساد نہ کریں اور اگر ان تمام باتوں کے باوجود خدانخواستہ باہر کے لوگ کوئی فساد کھڑا کریں تو اس فساد کی ذمہ داری ہم پر نہیں بلکہ دوسروں پر ہوگی۔ جو شخص کسی کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے وہ اس کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر تھپڑ مارا جائے مگر ظالم کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف ظلم بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی توقع رکھتا ہے کہ میرے منہ پر تھپڑ نہ مارا جائے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا تو کرتے ہیں کہ وہ ہمیں فساد سے محفوظ رکھے لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہوگیا تو شرعاً اور اخلاقاً جماعت احمدیہ کا حق ہوگا کہ ظالم کے منہ پر اسی طرح تھپڑ مارے جیسا کہ اس نے مارا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض مواقع پر ہم نے امن کو قائم رکھنے کے لئے بہت زیادہ نرمی اختیار کی ہے۔ احرار کی شورش کے ایام میں ہی میں نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص دیکھے کہ اس کے باپ یا بھائی کو مارا جارہا ہے تو وہ بھی چپ کرکے گزر جائے لیکن اسلامی قانون یہ تقاضا نہیں کرتا کہ ہر موقع پر تم ایک ہی طریق اختیار کرو۔ نہ ہی اسلامی تمدن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر موقع پر خاموشی اختیار کی جائے بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ مناسب حال جو موقع ہو ویسا کرو۔ پس میرا فرض ہے کہ میں قادیان میں امن قائم رکھوں لیکن اگر دشمن کی طرف سے حملہ ہو اور جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرے تو اس کا ذمہ دار دشمن ہوگا نہ جماعت احمدیہ۔ اور اس فساد کی ذمہ داری اس پر ہوگی نہ کہ جماعت احمدیہ پر رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں البادی اظلم اصل ظالم وہ ہوتا ہے جو فساد کی ابتداء کرتا ہے۔ پس گو ہم کوشش کررہے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے صلح اور امن کو قائم رکھا جائے اور ہم اردگرد کے علاقہ میں بھی یہی کوشش کررہے ہیں اور دور ونزدیک کے سب لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کوئی فریق ابتداء نہ کرے لیکن اس امر کو ہندو سکھ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر فساد ہوا تو صرف ہمارے لئے نہیں ہوگا بلکہ سب کے لئے ہوگا اور سب کو مل کر امن قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ فساد نہیں ہوگا اور ہماری کوششیں ضرور کامیاب ہوں گی۔
یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جوشیلا فریق اشتعال میں آکر اخلاق اور روحانیت کا ظلم و استبداد کے استھان پر چڑھاوا چڑھاوے ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ قادیان فساد کی لپیٹ میں آجائے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ایسا وقت نہ آئے لیکن اگر خدانخواستہ فساد ہو جائے تو میں قادیان کے احمدی سے کہوں گا کہ بہادری اور جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دو اور یہ ثابت کردو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانی سب سے آسان قربانی ہے۔ ہم کسی سے لڑنے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ کبھی اس قسم کا خیال ہمارے دلوں میں آنا چاہئے۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں لا تتمنوا لقاء العدو۔ تم دشمن سے لڑائی کی خواہش بھی نہ کرو اپنے خیالات امن اور صلح والے رکھو کیونکہ جس شخص کے دل میں لڑائی کے خیالات موجزن ہوں ے وہ ذرا سی بات سے ہی مشتعل ہو جائے گا اور جس شخص کے دل میں آشتی کے خیالات ہوں گے وہ جلدی مشتعل نہیں ہوگا۔ یہ قدرت کا ایک قانون ہے کہ انسان اپنی حالت کو یکدم نہیں بدل سکتا۔ فرض کرو کوئی شخص قہقہ مار کر ہنس رہا ہو اور اسے یہ خبر دی جائے کہ تمہارا بیٹا مر گیا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ اسی وقت یکدم رونا شروع کردے بلکہ اس کی ہنسی تھوڑی دیر میں رکے گی۔ پھر وہ کچھ دیر کے بعد افسردہ ہوگا۔ پھر آنسو بہانا شروع کر دے گا اسی طرح جس شخص کے دل میں صلح و آشتی کے خیالات ہوں وہ یکدم مشتعل نہیں ہوسکتا۔ جب ریل اپنا کانٹا بدل لیتی ہے تو وہ بھی آہستہ ہو جاتی ہے اور سست رفتار ہو کر اس جگہ سے گزرتی ہے۔ اگر وہ تیزی سے کانٹا بدلے تو اس کے الٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی کے لئے یہ قانون بنانا ہے کہ وہ اپنی حالت کو آہستہ آہستہ بدلتی ہے۔ اگر فوراً حالت بدل جاتی تو ہسٹیریا یا جنون ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ پس جو دماغ پہلے سے لڑائی کے خیالات میں منہمک ہوتا ہے وہ فوراً مشتعل ہو جاتا ہے۔ لیکن جس دماغ میں صلح اور امن کے خیالات ہوتے ہیں وہ کچھ دیر کے بعد مشتعل ہوتا ہے اور اتنی دیر میں مجرم کا جرم ثابت ہو جاتا ہے پس میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ فساد ہی سے نہ بچو بلکہ جھگڑے والے خیالات بھی اپنے دماغ میں پیدا نہ ہونے دو۔ لیکن ہماری تمام کوششوں کے باوجود جو ہم صلح اور امن کے قیام کے لئے کررہے ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ ہو جائے جو فساد کی بنیاد رکھنے والا ہو تو یاد رکھو کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے کہ جرم کوئی کرے اور سزا کسی کو دی جائے ہماری شریعت ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ جہاں تم رہتے ہو وہاں تم ایک دوسرے کے لئے امانت ہو۔ اس لحاظ سے قادیان کے ہندو` سکھ اور غیر احمدی ہمارے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کریں اور ہندو` سکھ اور احمدی` غیر احمدیوں کے لئے بمنزلہ امانت ہیں اور ان کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کریں۔ اسی طرح جہاں ہندو یا سکھ زیادہ طاقت ور ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کریں کیونکہ مسلمان ان کے پاس بطور امانت ہیں۔ اسلامی شریعت کے لحاظ سے ہر شریف انسان کا فرض ہے کہ وہ امانت کو دیانتداری سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔ پس اگر خدانخواستہ قادیان خطرے میں پڑے تو میں قادیان کے ہندوئوں اور سکھوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان کی اپنے عزیزوں سے بڑھ کر حفاظت کریں گے اور اپنی طاقت کے مطابق ہر ممکن ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں گے<۔۱۵۵
مسلمانان ہند کو تدبیر کامل اور یقین کامل سے کام لینے کی پرزور تلقین
‏j2] ga[tحضرت مصلح موعود ایک طرف جماعت احمدیہ کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا رہے تھے۔ تو دوسری طرف دوسرے مسلمانان ہند کو >نذیر
مبین< کی حیثیت سے بیدار کررہے تھے چنانچہ ۲۹۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو حضور نے مجلس علم و عرفان میں مسلمانان ہند کو جھنجھوڑا کہ وہ اپنی ملی زندگی کے نازک ترین دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ انہیں شدید خطرے کے ان ایام میں تدبیر کامل اور یقین کامل سے کام لینا چاہئے چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ان ایام میں مسلمان ایک نہایت ہی نازک دور میں سے گزر رہے ہیں اور ان کے اندر موجودہ حالات کی نزاکت کا اتنا احساس نہیں پایا جاتا جتنا کہ پایا جانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ ان ایام میں ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے مسلمان پنجاب اور بنگال میں اکثریت رکھتے ہیں مگر جب کبھی حقوق کا سوال اٹھتا ہے یورپین قومیں دشمن کے حق میں اور ان کے خلاف رائے رکھتی ہیں اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ سے بھی جو آواز اٹھتی ہے وہ عام طور پر مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت انگلستان کے لوگوں کے مدنظر کوئی مصلحت ہے یا حکومت کی طرف سے انہیں ایسا کرنے کے لئے کوئی اشارہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ہندوستان کے اندر انگریز افسر عام طور پر ہندوئوں اور سکھوں کی تائید کرتے ہیں مسلمانوں کی نہیں کرتے جہاں تک زیادتی اور ظلم کا سوال ہے اس کا دونوں قوموں نے ارتکاب کیا ہے ہم برے فعل کو ضرور برا کہیں گے مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوا ہے اس کے خلاف بھی آواز اٹھنی چاہئے ۔۔۔۔۔۔ جو اٹھتا ہے وہ کہتا ہے نواکھلی کے مظالم کو دیکھو راولپنڈی اور ملتان کے مظالم کو دیکھو۔ مگر یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ بمبئی` بہار` گڑھ مکتیسر` احمد آباد` امرتسر اور لاہور کے مظالم کو بھی دیکھو۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو مسلمانوں کی آنکھ کھولنے کے لئے کافی ہیں اور وہ مسلمانوں کو اس خطرہ اور مصیبت سے آگاہ کررہی ہیں جو ان پر آنے والا ہے مگر مسلمان ہیں کہ خواب خرگوش سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے زمانہ ان کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگارہا ہے لیکن وہ جاگنے کا نام نہیں لیتے مصائب کے سیاہ بادل امڈے چلے آتے ہیں لیکن مسلمان اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں مخالفت کے طوفان ان کے سفینے پر بار بار تباہ کر دینے والی لہریں اچھالتے ہیں لیکن وہ ابھی تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کچھ خواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے دعووں کی جھوٹی امید لگائے بیٹھے ہیں اور جب انہیں سمجھایا جائے کہ اس وقت مسلمانوں کو سخت خطرہ درپیش ہے تو کہیں گے نہ نہ نہ اس بات کا نام نہ لینا ورنہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے اور ان کی دلیری جاتی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اپنے اندر ایک دوسرے کی ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتے اور جہاں کہیں کسی مسلمان کو دکھ پہنچتا وہ جتھوں کی صورت میں اس کے پاس پہنچتے اس کے نقصان کی تلافی کرتے اور اس کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے تو دشمن کبھی بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکتا مگر افسوس کہ وہ اپنی اصلاح کی طرف سے بالکل غافل بیٹھے ہیں اور دعووں پر دعوے کرتے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مسلمان ایسے ہیں جن پر کلی طور پر خوف کی حالت طاری ہے اور وہ امید کے راستہ سے بھٹک چکے ہیں وہ لوگ کانگرس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں اس ڈر سے کہ اگر کانگرس ہم سے ناراض ہوگئی تو خدا جانے ہم پر کونسی آفت ٹوٹ پڑے گی اور کانگرس کی مخالفت سے ہمیں کیا کیا نقصانات برداشت کرنے پڑیں گے۔ پس ایک طبقہ مسلمانوں کا ایسا ہے جو غلط خوف کی طرف جھکا ہوا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا ہے جو غلط امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ حالانکہ مومن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو راستہ تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر بیک وقت خوف ورجا کی حالت طاری ہے۔ ایک طرف اس کے دل میں دشمن کی طرف سے یہ خدشہ ہے کہ کب وہ اچانک اس پر حملہ کر دیتا ہے اور وہ اس کے لئے تدبیریں سوچتا رہے۔ دوسری طرف وہ اپنی طرف سے تمام تدبیریں کرچکنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو جائے رسول کریم~صل۱~ نے جب مکہ سے ہجرت کی تو رات کے وقت کی اور آپ دشمن کی نظروں سے بالکل چھپ کر نکلے حالانکہ آپﷺ~ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آپﷺ~ کو دشمن کے منصوبوں سے بچانے کے بے شمار وعدے تھے اور آپﷺ~ نے ان وعدوں کے ہوتے ہوئے بھی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور دشمنوں سے محفوظ و مصئون رکھے گا۔ حتی الامکان دشمن کی نظروں سے بچ کر نکلنے کی کوشش کی۔ یہ نہیں کہا کہ آجائو مکے والو! مجھے پکڑلو مگر اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں ہوسکتا کہ آپ ڈرتے تھے بلکہ آپ نے صرف احتیاطی پہلو اختیار کیا تھا ورنہ آپ کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ جب آپﷺ~ اپنے رفیق حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار ثور کے اندر تھے تو دشمن عین غار کے منہ پر پہنچ گیا اور اس کے ساتھ کھوجی بھی تھے جو پائوں کے نشانوں کا کھوج لگاتے وہاں تک پہنچے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی حکومت کے ماتحت جب آپﷺ~ غار کے اندر داخل ہوگئے تو ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جھٹ جالا تن دیا۔ دشمنوں نے یہ دیکھ کر کہ غار کے منہ پر تو مکڑی کا جالا ہے اس میں سے کسی آدمی کے گزرنے کا امکان نہیں ہوسکتا یہ خیال کرلیا کہ آپﷺ~ کسی اور طرف چلے گئے ہیں حالانکہ مکڑی دو یا چار منٹ کے اندر نہایت تیزی کے ساتھ اپنا جالا تیار کرلیتی ہے اور میں نے خود مکڑی کو جالا تنتے دیکھا ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ پردہ ڈالنا چاہتا تھا اس لئے دشمن کی سمجھ میں ہی یہ بات نہ آسکی اور انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو وہ غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں کیونکہ پائوں کے نشانات غار تک پہنچ کر ختم ہو جاتے تھے اس وقت جبکہ دشمن یہ کہہ رہے تھے کہ یا تو محمد ~)صل۱(~ اور اس کا ساتھی غار کے اندر ہیں یا آسمان پر چلے گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ اندر ان کی باتیں سن رہے تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا اور آہستہ سے آپ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ~)صل۱(~ دشمن تو سر پر آپہنچا ہے۔ اس واقعہ کو قرآن کریم نے بھی بیان کیا۔ آپﷺ~ نے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا ابوبکرؓ ڈرتے کیوں ہو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے پس ایک طرف تو آپ نے اتنی احتیاط کی کہ آپﷺ~ مکہ سے چھپ کر نکلے اور دوسری طرف آپ کی امید کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس کے کہ دشمن ہتھیاروں سے مسلح تھا اور اگر وہ ذرا بھی جھک کر غار کے اندر دیکھتے تو وہ آپﷺ~ کو دیکھ سکتے تھے کیونکہ غار ثور کا منہ بڑا چوڑا ہے اور دو تین گز کے قریب ہے۔ آپ نہایت دلیری اور حوصلہ کے ساتھ فرماتے ہیں ابوبکر! ڈرتے کیوں ہو ان اللہ معنا جب خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کس بات کا ڈر ہے۔ ادھر حضرت ابوبکرؓ کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ~)صل۱(~ میں اپنے لئے تو نہیں ڈر رہا میں تو اس لئے ڈر رہا ہوں کہ اگر آپ خدانخواستہ مارے گئے تو خدا تعالیٰ کا دین تباہ ہو جائے گا۔ نیز فرمایا۔ >پس آپ کو ایک طرف تو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا اور کامل یقین تھا اور دوسری طرف یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ غنی بھی ہے۔ آپ کو خوف بھی تھا مگر اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ احتیاط کی طرف سے کلی طور پر پہلو تہی کرتے ہوئے صرف امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ تو فرماتے ہیں مومن کو امید کی بھی اور احتیاط کی بھی سخت ضرورت ہے مگر مسلمان کہتے ہیں دیکھا جائے گا آج کل کے مسلمان دونوں حدود کے سر پر پہنچے ہوئے ہیں حالانکہ اصل طریق جو ان کو اختیار کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ خوف اور امید کی درمیانی راہ تلاش کریں اور خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بتائی ہوئی تجویزوں پر عمل کریں۔ ایک طرف انہیں انتہا درجہ کی تنظیم کرنی چاہئے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھنا چاہئے<۔۱۵۶
تمام احمدی بالغ مردوں اور عورتوں کو باقاعدہ تہجد پڑھنے کی تحریک
حضرت مصلح موعود نے ۱۳۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو ملک کی تشویشناک صورت حال کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا۔ >آج کل ہمارے ملک پر ابتلا کے بعد ابتلا آرہا ہے ہر آنے والا معاملہ پہلے کی نسبت زیادہ سنگین اور شدید صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس وقت تقسیم ملک کا سوال درپیش ہے اور اس کے متعلق جس جس رنگ میں تجویزیں پیش ہورہی ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہمارا ملک کہیں ایسی شکل نہ اختیار کرجائے جیسا کہ ہزار پائے کے پائوں ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ملک کے چھوٹے چھوٹے حصے کر دیئے گئے تو کوئی حصہ بھی آزادی کے ساتھ ترقی نہیں کرسکے گا۔ اگر یہی جوش و خروش رہا تو ملک کا چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں۔ درحقیقت یہ تقسیم ایسے رنگ میں ہونی چاہئے کہ ملک کے باشندوں کے لئے آرام دہ اور نفع مند ثابت ہو لیکن جیسا کہ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ بتایا ہے ان باتوں میں ہمارا کوئی دخل نہیں کیونکہ ہم تو ایک اقلیت ہیں اور فیصلہ اکثریت نے کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جو بات سیاسی مشورہ کے طور پر بیان کرتے ہیں وہ محض لوگوں کی بہتری اور بہبودی کے لئے بیان کرتے ہیں ورنہ سیاسی طور پر ہم اسے جاری نہیں کرسکتے کیونکہ اگر ہماری جماعت سیاسی کاموں میں لگ جائے تو دین کا خانہ خالی رہ جائے اور مذہب کا پہلو کمزور ہو جائے<۔ ازاں بعد حضور نے احمدی بالغ مردوں اور عورتوں کو باقاعدہ تہجد پڑھنے اور دعائیں کرنے کی خصوصی تحریک کی۔ چنانچہ فرمایا: ۔: >ان حالات میں ہمارے لئے صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دن رات دعائیں کریں جیسا کہ آج تک ہماری جماعت ایسے نازک موقعوں پر ہمیشہ دعائیں کرتی رہی ہے اور اکثر اوقات اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعائوں کو قبول فرمایا ہے یہ موقع بھی نہایت نازک مواقع میں سے ہے اس لئے تمام جماعت کو التزام کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ان ناقابل برداشت فتنوں سے بچائے عام طور پر ہمارے ملک کے لوگ جغرافیہ سے ناواقف ہیں اور اس وجہ سے وہ ایسی باتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے اب بھی جو صورت حالات پیدا ہونے والی ہے آپ لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نقشے نہیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے سب نقشے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کس میدان میں لڑائی لڑی جارہی ہے اگر اس قسم کے خطرناک اقدام کئے گئے تو اس سے دونوں فریق ہی نقصان اٹھائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے بٹوارے سے زیادہ مصیبت ان حد بندیوں کی وجہ سے پیدا ہوگی اور ملک کی آزادی پہلی غلامی سے بھی بدتر ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومتوں کی تبدیلی عوام الناس پر اتنی اثر انداز نہیں ہوتی جتنی کہ سرحدوں کی تبدیلی ان پر اثر انداز ہوتی ہے اس قسم کے بٹوارے کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسا کہ دو ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ پس ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت کو خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں بلکہ تمام بالغ مرد اور عورتوں کو تہجد کے لئے اٹھنا چاہئے اور اگر زیادہ نہیں تو دو نفل ہی پڑھ لینے چاہئیں اور جو مرد اور عورتیں اس سے پہلے تہجد نہیں پڑھتے انہیں باقاعدگی کے ساتھ تہجد پڑھنی شروع کر دینی چاہئے اور نہایت تضرع اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان مشکلات کا حل پیدا کرے اور یہ مصیبت ہمارے ملک کے لئے باعث رحمت بن جائے<۔ )الفضل ۱۶۔ احسان ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء(
پانچواں باب )فصل ششم(
چار ممتاز اور مشہور بزرگوں کی المناک رحلت
اس سال )تقسیم ہند سے قبل( جماعت احمدیہ کو یکے بعد دیگرے چار ایسے ممتاز اور مشہور بزرگوں کی مفارقت کے پے در پے صدمات سہنے پڑے جن کی پوری زندگی اسلام اور احمدیت کی بے لوث خدمت میں گزری اور جن کا وجود سلسلہ احمدیہ کے لئے آیہ رحمت تھا۔ ان بزرگوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ ][ حضرت سیٹھ محمد غوث صاحبؓ حیدر آبادی )وفات ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء بعمر قریباً ۷۰ سال(۱۵۷
۲۔
حضرت بابو عبدالرحمن صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ انبالہ )وفات ۱۱۔ امان / مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء(۱۵۸
۳۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ )وفات ۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء(۱۵۹
۴۔
حضرت ڈاکٹر محمد اسٰمعیل صاحبؓ )وفات ۱۸۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء(۱۶۰
حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدر آبادی
حضرت سیٹھ صاحب ایک تجارت پیشہ خاندان میں پیدا ہوئے آپ حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب احمدی )صحابی( یادگیر کے چچا زاد بھائی تھے اور ان ہی کی تحریک و تبلیغ سے خلافت اولیٰ میں احمدیت سے منسلک ہوئے۔
حضرت سیٹھ صاحب نے بیعت کے بعد جس احساس و اضطراب کو اپنے اندر پایا وہ حضرت مسیح موعود کے عصر سعادت کو پانے کے باوجود اس کی برکات سے محروم رہ جانے کا کرب تھا۔ یہ احساس انہیں ہر وقت بے قرار رکھتا۔ یہی عاشقانہ جذبہ ان کو صحابہ مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ملاقات کرتے وقت بے تاب کردیتا اور جیسا کہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ان کے مفصل سوانح میں لکھا ہے اس خصوص میں ان کی حالت حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ سے ملتی ہے جو بعد وصال مسیح موعود سونے کے سکے نذر پیش کرنے کے لئے آئے اور بے تاب ہوگئے۔۱۶۱
حضرت سیٹھ صاحبؓ نے اپنے ایمان کی ترقی اور اس متاع گم گشتہ کو پانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت خصوصاً حضرت مصلح موعود سے محبت و اخلاص اور فدائیت و شیدائیت میں یہاں تک ترقی کی اور اپنے مخلصانہ تعلق کو اس قدر بڑھایا کہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود اور دوسرے افراد خاندان مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں اپنے خاندان ہی کا فرد سمجھا اور بارہا اپنی تقریروں اور مختلف تقریبوں میں اس کا اظہار بھی فرمایا۔۱۶۲
حضرت مصلح موعود نے ۴۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ غائب پڑھایا اور خطبہ ثانیہ میں آپ کی نسبت فرمایا۔
>حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں میری ان سے واقفیت ہوئی اور میں جب حج کے لئے گیا تو میں نے ان کو بمبئی میں دیکھا کہ اس وقت انہوں نے ایسے اخلاص اور محبت کا ثبوت دیا کہ اس وقت سے ان کے تعلقات میرے ساتھ خانہ واحد کے تعلقات ہوگئے میں اپنے سامان کی تیاری کے لئے جہاں جاتا وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگے رہتے اور جہاز تک انہوں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان کا اخلاص اتنا گہرا تھا کہ عبدالمحی صاحب عرب نے )جن کو میں اپنے ساتھ بطور ساتھی لے گیا تھا( ایک دفعہ پانی پینے کے لئے ایک خوبصورت گلاس نکالا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ پہلے تو آپ کے پاس نہیں تھا اب آپ نے کہاں سے لیا ہے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے سیٹھ صاحب نے لے کر دیا تھا کہ جب اس میں پانی پیو گے تو میں یاد آجائوں گا اس وقت ان کو میرے لئے دعا کے لئے یاد کرا دینا۔ دوسری دفعہ جب میں بمبئی گیا تو سیٹھ صاحب پھر حیدر آباد سے بمبئی پہنچ گئے حالانکہ حیدر آباد سے بمبئی بارہ چودہ گھنٹے کا راستہ ہے لیکن پتہ چلتے ہی فوراً وہاں پہنچ گئے اور آخر دن تک ساتھ رہے بلکہ مجھے ان کا ایک لطیفہ اب تک یاد ہے وہ ایسے ساتھ ہو لئے کہ ان کا ساتھ دینا گراں گزرنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جہاں جاتے کھانے کا وقت آتا وہ اسی جگہ کسی اچھے سے ہوٹل میں تمام قافلہ کے لئے کھانے کا انتظام کر دیتے اور کھانا کھانے پر مجبور کرتے۔ آخر میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو حد سے زیادہ مہمان نوازی ہوگئی ہے۔ ایک دن میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ سیٹھ صاحب کو کیوں ساتھ لے لیتے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں وہیں کھانے کا انتظام کردیتے ہیں اور اب تو مہمان نوازی بہت لمبی ہوچکی ہے۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ آج وقت سے دو گھنٹے پہلے ہی یہاں سے نکل جائیں تاکہ جب سیٹھ صاحب آئیں تو ان کو ہمارے متعلق علم نہ ہوسکے۔ ہم لوگ موٹروں میں بیٹھ کر دو گھنٹے پہلے ہی گھر سے روانہ ہوگئے۔ کچھ دور جاکر پھر ہم ریل میں سوار ہوئے۔ جب ریل اس سٹیشن پر جاکر کھڑی ہوئی جہاں ہم نے اترنا تھا تو ہم نے دیکھا کہ سیٹھ صاحب بھی وہاں کھڑے ہیں۔ جب ہم اترے تو انہوں نے آتے ہی السلام علیکم کہا اور کہا چلئے کھانا تیار ہے۔ ہم حیران ہوئے کہ ان کو ہمارے پروگرام کا کس طرح علم ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے جب بھی بمبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ سیٹھ صاحب بھی بمبئی پہنچ جاتے اور قیام کے دوران میں میرے
‏vat,10.39
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
ساتھ رہتے۔ اس عرصہ میں ان کی بیویوں کے میری بیویوں سے اور ان کی بچیوں کے میری بچیوں سے اور میرے بچوں کے ان کے بچوں سے تعلقات ہوگئے اور آہستہ آہستہ یہ تعلقات ایک گھر کی مانند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچوں اور بچیوں میں بھی بہت اخلاص ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق دے رہا ہے۔ ان کے بڑے لڑکے محمد اعظم صاحب سیکرٹری مال ہیں اور جماعت کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے بیٹے معین الدین صاحب ہیں۔ وہ حیدرآباد میں خدام الاحمدیہ کے قائد ہیں اور تیسرا بچہ ابھی چھوٹا ہے اور تعلیم حاصل کررہا ہے اور ان کی لڑکیوں کے میری بیوی امتہ الحی مرحومہ سے بھی بہت تعلقات تھے<۔۱۶۳`۱۶۴
حضرت بابو عبدالرحمن صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ انبالہ
حضرت بابو عبدالرحمن صاحب انبالوی اپنی سوانح اور قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>مجھ کو میرے والد مرحوم و مغفور سے معلوم ہوا کہ اندازاً یہ عاجز ۱۸۶۶ء میں پیدا ہوا یعنی غدر دہلی ۱۸۵۷ء سے نو سال بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب انبالہ چھائونی تشریف لائے تھے تو والد صاحب مرحوم بھی حضور کی زیارت کو گئے تھے۔ اس وقت حضرت صاحب نے دعویٰ نہیں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ والد صاحب نے آکر فرمایا کہ مرزا صاحب اہل حدیث کے بڑے جید عالم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔<
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے حضرت بابو صاحبؓ کا جنازہ غائب بھی ۴۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو نماز جمعہ کے بعد پڑھایا اور خطبہ ثانیہ میں سب سے اول آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>بابو عبدالرحمن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابی تھے اور نہایت نیک اور مخلص انسان تھے۔ منشی رستم علی صاحب کی تبلیغ سے آپ احمدی ہوئے اور پھر اس کے بعد تمام عمر جماعت کی تربیت میں مصروف رہے۔ ان کی زندگی نیکی اور تقویٰ کی ایک مثال تھی۔ ایسے لوگوں کا گزر جانا قوم کے لئے ابتلاء کا موجب ہوتا ہے اور آنے والی نسلوں کا فرض ہوتا ہے کہ ان کی یاد کو اپنے دلوں میں تازہ رکھیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور ان کے روحانی وجود کو دنیا میں قائم رکھیں<۔۱۶۵
غضنفر احمدیت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب جنہیں حضرت مسیح موعودؑ نے اعجازی احمدی میں >غضنفر< )شیر( کے لقب سے ملقب فرمایا حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ اس خاندان کی شاخیں خانیار )کشمیر( `داتہ` سجی کوٹ` پیر کوٹ` پشاور` مظفر آباد` جہانگیر آباد )دکن`( گھنڈی` نور سیری` کٹھائی` لباسی` سندگراں` بوئی` دہنی` انبور اور سیالکوٹ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس خاندان کے ایک درخشندہ گوہر اور مشہور بزرگ حضرت سید شاہ محمد غوث صاحب کا مزار لاہور میں ہے۔
حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب ۱۸۵۵ء کے لگ بھگ موضع گھنڈی ضلع مظفر آباد میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ دینی تعلیم ہندوستان کی مشہور درسگاہ دیوبند سے حاصل کی۔ دوم مدرس مولوی خلیلالرحمن انبیٹھوی نے آپ کو سند دی جس میں مولوی محمود حسن صاحب اول مدرس نے تحریر کیا تھا کہ میں تئیس سال سے اس مدرسہ میں پڑھاتا رہا ہوں۔ اس عرصہ میں تین بے مثل طالب علم میرے پاس آئے ہیں۔ ایک مولوی محمد بنگالی کہ اسے اعتراض پیدا کرنے میں بہت کمال حاصل تھا۔ جس بات کے متعلق ہمارے وہم میں بھی یہ بات نہ آتی ہو کہ اس پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے اس میں بھی وہ کوئی اعتراض پیدا کرلیتے تھے۔ دوسرے پنجابی مولوی کہ مشکل اور پیچیدہ عبارت کو بھی بہت صحیح طور پر حل کرلیتے تھے اور تیسرے سرور شاہ صاحب کہ ان کا ذہن کبھی غلط بات کی طرف جاتا ہی نہیں۔ جو نئی بات کہتے ہیں وہ نہایت معقول ہوتی ہے لیکن حضرت مولوی صاحب نے یہ سند واپس کردی اور کہا کہ آپ یہ دعا کریں کہ جو سند اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے وہ سند قائم رہے اور زبان پکڑ کر بتایا کہ یہ میری سند ہے۔
ایبٹ آباد میں ایک دوست بابو غلام محی الدین احمدی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں وفات پاگئے تھے۔ حضرت مولوی صاحب نے ان سے بیعت پر آمادگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ سردست آپ بیعت نہ کریں۔ اس علاقہ کے لوگ ہنوز احمدیت سے بکلی ناآشنا ہیں اور اگر آپ نے بیعت کرلی تو یہ لوگ آپ سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے۔ لیکن اگر آپ اسی حالت پر رہ کر انہیں سمجھاتے رہیں گے تو جب آپ بیعت کریں گے۔ سب نہیں تو اکثر آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گے مگر حضرت مولانا صاحب کی طبیعت اسے پسند نہ کرتی تھی اور تاخیر برداشت سے باہر تھی۔ آخر آپ نے مناسب سمجھا کہ حضور سے مشورہ لے کر اس پر عمل کریں۔ چنانچہ آپ نے لکھا کہ یہ امر یقینی ہے کہ میرے اعلان احمدیت پر یہ لوگ میرے مخالف ہو جائیں گے اور اس ملازمت سے برخاست کردیں گے۔ برخاستگی مجھے ناپسند ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پہلے استعفیٰ دوں اور پھر اعلان کروں۔ احمدی احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ دو تین ماہ تک اسی حالت میں رہوں اور اس کے بعد بیعت کروں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ حق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھول دیا ہے اور میں بیعت کرلوں۔ آپ کو حضرت مولوی عبدالکریمؓ کے قلم سے حضور علیہ السلام کا جواب ملا کہ احمدی احباب کا مذکورہ مشورہ صحیح نہیں کیونکہ اپنے نفس کا حق اپنے اوپر دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنی اصلاح دوسروں کی اصلاح سے مقدم ہوتی ہے۔ پس آپ فوراً بیعت کا اعلان کردیں اور استعفیٰ کے متعلق خیال صحیح نہیں۔ شریعت کا حکم ہے الاقامہ فیما اقام اللہ۔body] g[ta اور اگر کوئی اس کے خلاف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے گزارہ کو خود چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میں نے دیا تھا وہ تم نے چھوڑ دیا اب تم خود اپنے لئے کچھ کرو اور انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے لیکن اگر خدا خود چھڑا دیتا ہے تو پھر وہ خود کفیل ہوتا اور اس کے لئے کوئی صورت نکال دیتا ہے۔ پس آپ استعفیٰ مت دیں اور جب وہ نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور انتظام کر دے گا۔
چنانچہ ظہر کی نماز پڑھا کر آپ حنفی طریق پر ہاتھ اٹھا کر دعا اللھم انت السلام الخ پڑھ رہے تھے کہ کسی نے حضور کا مذکورہ خط آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پہلا لفظ یہ تھا کہ آپ فوراً بیعت کا اعلان کردیں۔ آپ نے اتنا پڑھ کر اگلا حصہ پڑھے بغیر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردیا کہ میری بیعت کی قبولیت کا خط قادیان سے آگیا ہے اور آج سے میں احمدی ہوگیا ہوں۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم لوگوں نے میری امامت میں جتنی نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے زیادہ قابل قدر اور لائق قبولیت وہ ہیں جو میرے احمدی ہونے کے بعد آپ نے میرے پیچھے پڑھی ہیں لیکن اگر تعصب کی وجہ سے کسی کو نماز دوہرانے کا شوق ہو تو وہ اپنی نماز دہرا سکتا ہے۔
آپ کے اعلان بیعت کے بعد ایبٹ آباد بلکہ علاقہ بھر میں شور پڑ گیا۔ یہ ۶۔ مارچ ۱۸۹۷ء سے قبل کا واقعہ ہے۔ ایبٹ آباد میں آپ جامع مسجد کے مدرسہ میں پڑھاتے تھے اور پچیس روپے اور کھانا معاوضہ ملتا تھا۔ لیکن جب آپ پشاور میں آگئے تو مشن کالج سے ایک سو روپیہ اور پادری ڈے سے اسی روپے ماہوار یعنی کل ایک سو اسی روپے ملتے تھے۔ اس کے بعد آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی اجازت سے اپریل یا مئی ۱۹۰۱ء میں مستقل طور پر قادیان ہجرت کرکے آگئے اور نہایت قلیل گزارہ پر قانع ہوکر نہایت درجہ خلوص` فدائیت کے ساتھ سلسلہ کی اہم علمی خدمات بجا لانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلوص میں بے انداز برکت ڈالی اور آپ کو مسلسل چھیالیس سال تک نہایت جلیل القدر اور بے شمار خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا ہوئی مثلاً سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں آپ نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور موضع مد میں مولوی ثناء اللہ صاحب سے کامیاب مناظرہ کیا۔ قائم مقام نائب ناظم بہشتی مقبرہ` رسالہ تعلیم الاسلام اور رسالہ تفسیر القرآن کی ادارت میں مصروف عمل ہوئے۔
خلافت اولیٰ میں مدرس و پروفیسر کے فرائض کے علاوہ تبلیغ احمدیت کی۔ ہندوستان کی مختلف اسلامی درسگاہوں کا معائنہ و مطالعہ کیا۔ امام الصلٰوۃ و خطیب جمعہ کی حیثیت سے کام کیا۔ مجلس برائے نصاب مدرسہ احمدیہ کے رکن منتخب ہوئے۔ رسالہ تفسیر القرآن کے بدستور مدیر رہے۔
خلافت ثانیہ میں رکن مجلس معتمدین و افسر مدرسہ احمدیہ` پروفیسر اعلیٰ` سیکرٹری بہشتی مقبرہ` جنرل سیکرٹری` ناظر تعلیم و تربیت` سیکرٹری مجلس منتظمہ جلسہ سالانہ` ناظم جلسہ اندرون شہر` افسر بیت المال` رکن شوریٰ` ۱۹۲۴ء کی انتظامیہ کمیٹی کے ممبر` افسر مساجد مرکزیہ` مفتی سلسلہ` پرنسپل جامعہ احمدیہ اور پرنسپل جامعتہ الواقفین۔ غرض کہ متعدد شعبوں کے انچارج کی حیثیت سے مثالی کام کیا اور ہر شعبہ کو اپنے ایثار` خلوص` محنت اور دعائوں سے نمایاں ترقی دی اور آنے والی نسلوں کے لئے خدمت دین کا ایسا فقید المثال شاندار نمونہ قائم کیا جو رہتی دنیا تک مشعل راہ کی حیثیت سے یادگار رہے گا۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین سیدنا المصلح الموعود نے حضرت مولانا صاحب کے وصال کے تیسرے روز ۶۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو مفصل خطبہ دیا جس میں آپ کے سنہری کارناموں پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی اور فرمایا۔
>اس زمانہ میں ہماری جماعت میں کوئی اچھے پایہ کا فلسفی اور منطقی دماغ رکھنے والا آدمی نہ تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب کو ہدایت دے دی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے اس کے بعد آپ پشاور میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد قادیان کی محبت نے غلبہ کیا اور آپ قادیان تشریف لے آئے اور دستی بیعت کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب سے فرمایا۔ آپ یہیں رہ جائیں چنانچہ آپ یہیں رہنے لگ گئے۔ بعض لوگوں نے زور دیا کہ مولوی صاحب کالج میں پروفیسر ہیں اور اچھی جگہ کام کررہے ہیں ان کی ملازمت سے سلسلہ کو فائدہ ہوگا اور ان کے ذریعہ تبلیغ ہوگی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو واپس جانے کی اجازت دے دی۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر واپس آگئے اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی صاحب کا مد کا مباحثہ مشہور چیز ہے۔
اس زمانہ میں مولوی صاحب مدرسہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے۔ آپ نے کالج کی پروفیسری چھوڑ کر سکول کی مدرسی اختیار کی۔ اس وقت آپ کو پندرہ بیس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ میں بھی ان دنوں سکول میں پڑھتا تھا اور کچھ عرصہ میں نے بھی مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب مدرسہ احمدیہ کالج کی شکل اختیار کر گیا تو آپ کو اس کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ یہ حالت ان کی قابلیت کے معیار کے کسی حد تک مطابق تھی۔ ظاہری لحاظ سے مدرسی تعلیم میں مولوی صاحب سب سے زیادہ ماہر فن تھے۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ درسی کتب کے بعض مشکل مقامات کے متعلق مولوی سید سرور شاہ صاحب سے فرماتے کہ آپ اس کا مطالعہ کرکے پڑھائیں مجھے اس کی مشق نہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب وہ مشکل مقامات طالب علموں کو پڑھاتے۔ مجھے یاد ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے سیبویہ کتاب کے متعلق بھی مولوی صاحب کو فرمایا کہ اس کے بعض مقامات مجھ پر حل نہیں ہوئے۔ اس لئے آپ یہ کتاب طالب علموں کو پڑھائیں ایسی ایک دو اور کتابوں کے متعلق بھی حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ مولوی صاحب آپ یہ طالب علموں کو پڑھا دیں اور جب مولوی صاحب طالب علموں کو پڑھاتے تو حضرت خلیفہ اولؓ بھی سنا کرتے<۔
>غرض مولوی صاحب نے مدرسی تعلیم کو کمال تک پہنچا دیا تھا اور قدرتی طور پر ان کا دماغ بھی فلسفیانہ تھا۔ جس مسئلہ کے متعلق دریافت کیا جاتا خواہ وہ عام مسئلہ ہی ہوتا مولوی صاحب اسے فلسفیانہ رنگ میں خوب کھول کر بیان کرتے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پوچھنے والے کو ان کے بیان کردہ فلسفہ سے اتفاق ہو یا نہ ہو۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا ہو اور انہوں نے اس کا فلسفیانہ رنگ میں جواب نہ دیا ہو۔ آپ صرف یہی نہیں بیان کرتے تھے کہ فلاں نے اس کے متعلق یہ لکھا ہے اور فلاں کی اس کے متعلق یہ رائے ہے بلکہ یہ بھی بتاتے تھے کہ اس مسئلہ کی بنیاد کس حکمت پر مبنی ہے اور اس کے چاروں کونے خوب نمایاں کرتے تھے اور پھر اس مسئلہ کی جزئیات کی بھی تشریح کرتے<۔
>حضرت خلیفہ اولؓ کی خلافت کے آخری ایام میں ایک وفد باہر گیا۔ اس وفد نے بعض ایسی باتیں کیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان اور آپ کے درجہ کے منافی تھیں۔ چنانچہ جب وہ وفد واپس آیا تو یہ سوال میں نے اٹھایا کہ وفد کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کے متعلق جو بیانات باہر دیئے گئے ہیں وہ آپ کی شان کے منافی ہیں اور آپ کے درجہ میں کمی کی گئی ہے۔ مولوی سید سرور شاہ صاحب بھی اس وفد میں شامل تھے۔ جب انہوں نے اس بات کو سنا تو انہوں نے کہا کہ واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی گئی ہے اور ہم سے چوک ہوئی ہے۔ لیکن اس دن سے لے کر وفات تک مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہمیشہ ہی صحیح مقام بیان کرتے تھے اور آپ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام بیان کرتے تو آپ کی طبیعت میں ایک خاص قسم کا جوش پیدا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی آخری ملاقات جس کو آٹھ دس دن ہوئے ہیں مجھ سے اس سلسلہ میں ہوئی مولوی صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کمی کی جاتی ہے اور آپ کو صرف مسیح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مہدی کی شان مسیح کی شان سے کہیں بلند ہے جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر کئی جگہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ صرف مسیح موعود لکھنے کا کہیں یہ نتیجہ نہ ہو کہ آہستہ آہستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حقیقی مقام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے۔ میں نے مولوی صاحب کو کہا کہ آپ یہ بات مجھے لکھ کر بھیج دیں میں اس پر غور کروں گا۔ چنانچہ اس کے تیسرے یا چوتھے دن مولوی صاحب کی طرف سے ایک تحریر اسی مضمون کی مجھے مل گئی۔ گویا مولوی صاحب کو اپنی وفات کے قریب بھی یہی فکر رہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں کہیں کمی نہ ہو جائے۔
جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے میں مولوی صاحب کا شاگرد رہا ہوں۔ عمر کے لحاظ سے مولوی صاحب مجھ سے بہت بڑے تھے اور میں ان سے بہت چھوٹا تھا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ میرے استاد تھے` باوجود اس کے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے تھے` باوجود اس کے کہ وہ مدرسی تعلیم میں بہت زیادہ دسترس رکھتے تھے میں نے اکثر دیکھا کہ مولوی صاحب کاغذ پسنل لے کر بیٹھتے تھے اور باقاعدہ میرا لیکچر نوٹ کرتے رہتے ¶تھے۔ ان میں محنت کی اتنی عادت تھی کہ میں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا تھا تو وہ مولوی صاحب ہی تھے۔ بسا اوقات میں بیماری کی وجہ سے باہر نماز کے لئے نہیں آسکتا تھا اور اندر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتا تھا۔ لیکن مسجد سے مولوی صاحب کی قرات کی آواز کانوں میں آتی تو میرا نفس مجھے ملامت کرتا کہ میں جو عمر میں ان سے بہت چھوٹا ہوں میں تو گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ اسی سال کا بڈھا مسجد میں نماز پڑھا رہا ہے۔ میرے زمانہ خلافت میں میری جگہ اکثر مولوی صاحب ہی نماز پڑھاتے تھے۔ صرف آخری سال سے میں نے ان کو نماز پڑھانے سے روک دیا تھا کیونکہ گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ بعض دفعہ بیہوش ہو جاتے تھے اور مقتدیوں کی نماز خراب ہو جاتی تھی اس لئے میں نے ان کو جبراً ہٹا دیا ورنہ وہ کام سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ سینکڑوں آدمیوں نے دیکھا ہوگا کہ وہ روزانہ بلاناغہ مجلس عرفان میں شامل ہوتے تھے حتیٰ کہ وفات سے صرف دو رات پہلے وہ مجلس میں آئے اور بیٹھے رہے۔ ان کو مجلس میں ہی بے ہوشی شروع ہوگئی اور میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب بیٹھے ہوئے بنچ پر جھکے جارہے ہیں۔ میں نے ان کے بعض شاگردوں سے کہا مولوی صاحب بیمار معلوم ہوتے ہیں ان کا خیال رکھنا۔ اسی دن سے آپ پر بیہوشی طاری ہوئی اور آپ تیسرے دن فوت ہوگئے۔
ایسے عالم کی زندگی نوجوان علماء کے لئے بہت ہی کارآمد تھی۔ نوجوان علماء کی وہ نگرانی کرتے تھے اور نوجوان علماء ان سے اپنی ضرورت کے مطابق مسائل پوچھ لیتے تھے۔ مجھے کئی سال سے یہ فکر تھا کہ جماعت کے پرانے علماء اب ختم ہوتے جارہے ہیں- ایسا نہ ہو کہ یکدم جماعت کو مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور جماعت کا علمی معیار قائم نہ رہ سکے۔ چنانچہ اس کے لئے میں نے آج سے تین چار سال قبل نئے علماء کی تیاری کی کوشش شروع کر دی تھی۔ کچھ نوجوان تو میں نے مولوی صاحب سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے مولوی صاحب کے ساتھ لگا دیئے اور کچھ نوجوان باہر بھجوا دیئے تاکہ وہ دیوبند وغیرہ کے علماء سے ظاہری علوم سیکھ آئیں۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت کی بات ہے کہ ان علماء کو واپس آئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے جب وہ واپس آگئے تو مولوی صاحب فوت ہوگئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت تک وفات نہ دی جب تک کہ علم حاصل کرکے ہمارے علماء واپس نہیں آگئے۔ اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ رکھا تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کی تائید و نصرت کرتا ہے اور خود اس کا قائم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن تک ہماری جماعت کے ایک چوٹی کے عالم کو فوت نہیں ہونے دیا جب تک کہ نئے علماء کی بنیاد نہیں رکھی گئی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ نوجوان ابھی اس مرتبہ کو نہیں پہنچے۔ لیکن وہ جوں جوں علمی میدان میں قدم رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اتنا ہی وہ ان علماء کے قائم مقام ہوتے جائیں گے مولوی صاحب جب کالج سے فارغ ہوکر آئے تھے تو اس وقت ان کی اور حالت تھی اور جب انہوں نے یہاں آکر لمبی لمبی دعائیں کیں اور روحانیت سے اپنا حصہ لیا تو وہ بالکل بدل گئے اور ایک نیا وجود بن گئے۔ اسی طرح ہمارے نوجوانوں کو علم تو حاصل ہوگیا ہے۔ مگر اب وہ جتنا جتنا روحانیت کے میدان میں بڑھیں گے اور اپنے تقویٰ اور نیکی کو ترقی دیں گے اتنا ہی وہ بلند مقام کی طرف پرواز کریں گے۔
جہاں تک کام کرنے کا تعلق ہے مولوی صاحب میں کام کرنے کی انتہائی خواہش تھی۔ لیکن تنظیم کے معاملہ میں وہ زیادہ کامیاب نہ تھے۔ ہاں ایک کام ہے جو ان کے سپرد ہوا اور انہوں نے اس میں کمال کردیا اور وہ کام ان کی ہمیشہ یادگار رہے گا۔ جس طرح لنگر خانہ اور دارالشیوخ میر محمد اسحاق صاحب کے ممنون احسان ہیں اسی طرح وصیت کا انتظام مولوی سید سرور شاہ صاحب کا ممنون احسان ہے۔ مولوی صاحب نے جس وقت وصیت کا کام سنبھالا ہے اس وقت بمشکل وصیت کی آمد پاس ساٹھ ہزار تھی مگر مولوی صاحب نے اس کام کو ایسے احسن طور پر ترقی دی کہ اب وصیت کی آمد پانچ لاکھ روپیہ سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ آپ کو وصیت کے کام میں اس قدر شغف تھا کہ آپ بہت جوش و خروش کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیتے تھے کیونکہ نظام وصیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قائم کردہ ہے اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں کوئی کمزوری واقع ہو جائے۔ یہ آپ ہی کی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہے کہ اب ہمارے چندہ عام سے چندہ وصیت زیادہ ہے۔ یہ کام ہمیشہ کے لئے آپ کی یادگار رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال مولوی صاحب کی وفات سے جماعت کا ایک بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کی اولاد کا تو دوہرا نقصان ہوا ہے بلحاظ اولاد ہونے کے بھی اور بلحاظ احمدی ہونے کے بھی ان کو دوھرا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ مولوی صاحب باوجود ۸۴ سال عمر پانے کے آخری دم تک کام کرتے رہے<۔۱۶۶]ydbo [tag
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل لٹریچر بطور علمی یادگار چھوڑا۔
۱۔ القول المحمود فی شان المحمود ۲۔ خلافت حقہ ۳۔ کشف الاختلاف ۴۔ الفاروق ۵۔ تفسیر سروری ۶۔ حمائل شریف مترجم۔۱۶۷
حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب ۱۸۔ جولائی ۱۸۸۱ء کو پیدا ہوئے۔۱۶۸ آپ حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کے والد ماجد حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب نے ۱۵۔ جون ۱۸۹۱ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور اس طرح آپ ان کے ساتھ داخل احمدیت ہوئے۔ حضرت مسیح موعودؑ ہونے آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب کبار میں نمبر ۷۰ پر درج فرمایا۔۱۶۹
۴۔ اپریل ۱۹۰۵ء کو جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو آپ ان دنوں میڈیکل کالج لاہور میں تعلیم حاصل کررہے تھے اس روز لاہور سے کئی دوستوں کے خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے کہ ہم کو خداوند تعالیٰ نے اس آفت سے بچالیا مگر حضرت میر صاحب سے متعلق کوئی خیریت نامہ تین دن تک موصول نہ ہوا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی تو الہام ہوا >اسسٹنٹ سرجن<۱۷۰ خدا کی قدرت! آپ اسی سال میڈیکل کالج لاہور کے آخری امتحان میں پنجاب بھر میں اول نمبر پر پاس ہوکر اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے اور ۱۹۲۸ء میں سول سرجن لگ کر ۱۹۳۶ء میں ریٹائر ہوئے۔
جنوری ۱۹۰۶ء میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کا قیام عمل میں آیا تو حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو بھی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۔۱۷۱4] ft[r
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے آپ کو سفر یورپ )۱۹۲۴ء( کے دوران ناظر اعلیٰ تجویز فرماتے ہوئے ۱۱۔ جولائی ۱۹۲۴ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ ان میں پیدا ہوگیا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکر سے دوسروں کو لگ جاتی ہیں یا لگ سکتی ہیں خدا نے ان کو محفوظ کیا ہوا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو برکات ان پر نازل ہوتی ہیں ان کے باعث جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے<۔۱۷۲
حضرت میر صاحب پنشن لینے کے بعد قادیان تشریف لے آئے تھے اور آپ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان )واقع دارالعلوم( سے متصل اپنے مکان >دارالصفہ< میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔۱۷۳ یوں تو آپ پنشن کے بعد قریباً بیمار ہی چلے آرہے تھے مگر ماہ امان۔ شہادت/ مارچ ۔ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں آپ کو دمہ کے شدید دورے شروع ہوگئے اور وسط ماہ احسان/ جون میں آپ کی حالت بہت زیادہ نازک ہوگئی اور نیم بیہوشی کی حالت طاری ہوگئی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۴۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو آپ کے لئے تحریک دعا کرتے ہوئے فرمایا۔
>ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب قریباً ایک ماہ سے سخت بیمار ہیں اور اب وہ بہت ہی کمزور ہوچکے ہیں اور دو دن سے ان پر قریباً بیہوشی کی سی حالت طاری ہے۔
ہماری جماعت ابھی تک بہت سی تربیت کی محتاج ہے اور تربیت کے لئے صحابہ کا وجود بہت ضروری ہے۔ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بہت تھوڑے صحابہ باقی رہ گئے ہیں خصوصاً ایسے صحابہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے حالات سے واقف ہیں اور جنہوں نے آپ کے ابتدائی ایام سے ہی آپ کی صحبت سے فیضان حاصل کئے تھے ان کی تعداد بہت ہی کم رہ گئی ہے اس لئے ایسے لوگوں کا وجود جماعت کی ایک قیمتی دولت ہے اور جتنا جتنا یہ لوگ کم ہوتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی جماعت کی روحانی ترقی بھی خطرہ میں پڑتی چلی جاتی ہے۔ اور چونکہ صحابہ کا وجود ایک قومی دولت اور قومی خزانہ ہوتا ہے۔ اس لئے جماعت کے افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر خاص طور پر دعائیں کریں تاکہ یہ خزانہ ہمارے ہاتھوں سے جاتا نہ رہے اور اللہ تعالیٰ صحابہ کے وجود کو ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھے تاکہ جماعت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ وہ روحانی طور پر اپنے پائوں پر آپ کھڑی ہوسکے اور جماعت کے اندر ایسے نئے وجود پیدا ہو جائیں جو اپنی قربانی اپنے اخلاص اور اپنے تقویٰ کے لحاظ سے صحابہ کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہوں۔ جہاں تک جانی اور مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اور اس کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ جوش بھی پایا جاتا ہے مگر روحانی رنگ ظاہری قربانیوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا` اس کے کلام پر غور کرنا` اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دوسروں کے اندر بھی ان صفات کو پیدا کرنا اس کا نام روحانیت ہے۔ محض قربانیاں تو غیر اقوام اور غیر مذاہب کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ جو چیز دنیا کی دوسری قوموں کے اندر نہیں پائی جاتی اور صرف الٰہی جماعتوں میں ہی پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور صفات الٰہیہ کو اپنے اندر جذب کرنا اور لوگوں کو ان چیزوں کی طرف توجہ دلانا ہے اور یہی اصل روحانیت ہے۔ اس کے بعد دوسری چیزوں کا نمبر آتا ہے<۔۱۷۴
حضرت میر صاحبؓ کے علاج معالجہ کی ہر ممکن کوششیں جاری تھیں۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` کیپٹن ڈاکٹر شاہ نواز صاحب اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب شب و روز اس خدمت پر متعین تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹل سرجن لاہور سے اور ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب ماہر ایکس رے امرتسر سے بلوائے گئے۔ مگر منشاء الٰہی کچھ اور تھا۔
۶` ۷۔ وفا )جولائی( کو آپ پر نمونیہ کا سخت حملہ ہوا جس سے پھیپھڑے بھی بہت متاثر ہوگئے اور غشی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اسی عالم میں ۱۸۔ وفا/ جولائی جمعہ کا دن آگیا اور حالت تیزی سے بگڑنے لگی اس تشویشناک مرحلہ پر حضرت مصلح موعود ان کی کوٹھی )دارالصفہ( میں تشریف لے گئے۔ نور ہسپتال کے تمام ڈاکٹر بھی پہنچ گئے معائنہ کے بعد علاج کا مشورہ ہوا۔ حضور نے سب سے پہلے فرمایا کہ آکسیجن دی جائے جو لاہور کے سوا نہ مل سکتا تھا۔ آخر معلوم ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانہ میں کمرشل آکسیجن ہے وہ لا کر شروع کر دی گئی جس سے چہرہ کی نیلاہٹ سرخی میں تبدیل ہوگئی۔ پھر پنسلین کا ایک لاکھ یونٹ دیا گیا اور ساتھ ہی کونین کا ٹیکہ بھی۔ مگر بے ہوشی میں کمی نہ ہوئی اور ساتھ ہی ۱۰۴` ۱۰۵ تک بخار ہوگیا۔ اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نہایت صبر اور اطمینان سے ڈاکٹروں کو ضروری ہدایات دیتے رہے۔ ساڑھے چھ بجے شام کے قریب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے سورہ یٰسین کی تلاوت نہایت سوز اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ شروع کر دی۔ خاندان مسیح موعودؑ کی قریباً سب خواتین اور بزرگان اور صاحبزادگان خاموشی سے اپنا اپنا آخری حق خدمت ادا فرما رہے تھے جن میں پیش پیش حضرت میر صاحبؓ کی اہلیہ ثانی تھیں۔ ساڑھے سات بجے کے قریب جبکہ حضرت امیر المومنین المصلح الموعود اور ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحب صحن میں حضرت میر صاحب کی حالت پر تبصرہ کررہے تھے کہ اچانک اندر سے آواز آئی کہ جلدی آئیں حالت خطرناک ہے۔ اس پر حضور مع ڈاکٹر صاحب اندر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ حضرت میر صاحب کا سانس اکھڑ رہا ہے اور نبض باکل بند ہے۔ سات بجکر چالیس منٹ پر آپ نے آخری سانس لیا۔ آہ! وہ سانس کیا تھا` صرف مبارک اور پیارے لبوں کی آخری معمولی سی جنبش تھی اور قلب کی حرکت ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔
اس سانحہ ارتحال کے بعد حضرت مصلح موعود نے وضو فرما کر خدام کو نماز مغرب پڑھائی اور حضور نے آپ کی وصیت کے مطابق فیصلہ فرمایا کہ آپ کو حضرت نانی اماں کی قبر اور دیوار کے درمیان قطعہ خاص میں جگہ دی جائے۔ پھر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ >میں شام کے قریب ڈاکٹر )شاہ نواز خاں۔ ناقل( صاحب کو ساتھ لے کر ٹہل رہا تھا کہ میری نگاہ سامنے کے مکان پر پڑی جہاں زرد سی دھوپ نظر آرہی تھی گویا تین چار منٹ سورج غروب ہونے میں تھے۔ اس وقت میں نے اس خیال سے کہ شاید میر صاحب کی طبیعت پر کسی خواب کی بناء پر یہ اثر ہو کہ جمعہ وفات کا دن ہے اور اگر یہ تین چار منٹ خیریت سے گزر جائیں تو ایک ہفتہ )یعنی اگلے جمعہ تک( زندگی اور بڑھ سکتی ہے اور دعا کرنی شروع کی مگر جلد ہی اندر سے بلاوا آگیا کہ میر صاحب کا سانس اکھڑ رہا ہے<۔۱۷۵
حضرت میر صاحبؓ کی المناک وفات کی خبر آناً فاناً قادیان کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور بہت سے احباب آپ کی کوٹھی پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ آپ نے عرصہ ہوا اپنی تجہیز و تکفین سے متعلق خود مفصل ہدایات وصیت کے طور پر تحریر فرما دی تھیں حتیٰ کہ اپنے کفن کا بھی انتظام فرما لیا تھا۔ چنانچہ رات ہی کو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی` جناب شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی اور جناب حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی نے آپ کو غسل دیا اور تجہیز و تکفین کی۔ اگلے دن )۱۹۔ وفا/ جولائی( کو صدر انجمن احمدیہ کے تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل کر دی گئی۔ صبح ہی سے احباب اور خواتین آپ کی کوٹھی پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ آٹھ بجے کے قریب سیدنا حضرت امیر المومنین بھی تشریف لے آئے۔ اور ایک بڑے مجمع کے درمیان آپ کا جنازہ اٹھایا گیا۔ راستے میں مجمع ہر لمحہ بڑھتا چلا گیا۔ ہر شخص جنازہ کو کندھا دینے اور اس طرح ایک ایسے وجود کا آخری حق الخدمت ادا کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جو عمر بھر نہایت بے نفسی کے ساتھ بنی نوع انسان کی دینی اور دینوی خدمت کرتا رہا۔ جب جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں پہنچا تو حضرت امیر المومنین نے اپنی نگرانی میں صفوں کو درست کرایا اور پھر ایک بہت بڑے مجمع کے ہمراہ جو انیس لمبی صفوں پر مشتمل تھا نماز جنازہ ادا فرمائی۔ نماز جنازہ میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ چھ اور سات ہزار کے درمیان ہے۔
نماز جنازہ کے بعد حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اپنے دست مبارک سے کفن کا منہ کھولا اور حضرت میر صاحب کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اور پھر خاندان مسیح موعود کے دیگر افراد نے باری باری بوسہ دیا۔ اس کے بعد حضور جنازہ کے قریب ہی زمین پر خدام کے ہمراہ تشریف فرما ہوگئے اور احباب کو تنظیم کے ماتحت حضرت میر صاحب کا چہرہ آخری بار دیکھنے کا موقعہ دیا گیا۔ آپ کا چہرہ باوجود طویل علالت کے بہت بارونق شگفتہ اور نورانی نظر آتا تھا۔ بعد ازاں جنازہ اٹھایا گیا۔ حضرت امیر المومنین نے قبر تک نعش کو کندھا دیا۔ حضور خود قبر میں اترے اور میر دائود احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحٰق صاحب اور میر سید احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب نے نعش کو لحد میں اتارا۔ حضرت میر صاحب کی قبر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی۔ قبر تیار ہو جانے پر حضور نے دعا فرمائی اور پھر واپس تشریف لے آئے<۔۱۷۶
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب سلسلہ کے چوٹی کے بزرگ ولی اللہ` نہایت بلند صایہ صحابی اور ایک زبردست ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ کا انتقال ایک زبردست قومی صدمہ تھا جس کو جماعت احمدیہ نے عموماً اور صحابہ مسیح موعود نے خصوصاً بہت محسوس کیا اور آپ کی وفات پر نہایت گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ بطور مثال صرف تین اکابر صحابہ کے تاثرات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے تحریر فرمایا۔
>حضرت ڈاکٹر میر صاحب مرحوم کے ریٹائر ہوکر قادیان آنے کے وقت سے باقاعدہ آپ کی ہمسائیگی بندہ کو میسر آئی۔ اس عارضی اور مستعار زندگی کے دوران میں آپ نے ہمسائیگی کے تعلق کو جس خوبی اور عمدگی سے نباہا ہے بندہ اس کے بیان سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے۔ آپ ان تمام حقوق کی ادائیگی میں جن کو کہ اسلامی شریعت ایک مسلمان ہمسایہ پر واجب قرار دیتی ہے نہایت ہی اعلیٰ` بلند پایہ اور اخلاق پر قائم تھے یہاں تک کہ بندہ نے دیکھا کہ آپ کی طرف سے ہمسائیگی کا تعلق یگانگت اور شفقت اور محبت میں تبدیل ہوگیا تھا اور اس پاک وجود نے دوئی کے تمام پردوں کو چاک کرکے رکھ دیا تھا۔آپ بلاتکلف بلا احساس غیریت نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی مشفقانہ اور برادرانہ رنگ میں بندہ کے مکان پر تشریف لاتے۔ گھریلو قسم کے ادنیٰ ادنیٰ معاملات پر گفتگو فرماتے اور ہر چھوٹے بڑے امر میں دلچسپی لیتے۔
آپ کی ذات میں میں نے بہترین قسم کا ساتھی` ہر کام کا عمدہ مشیر اور ہر دکھ میں بہترین غمگسار پایا >بندہ کو علمی رنگ میں بھی آپ سے دو دفعہ خصوصیت کے ساتھ استفاضہ حاصل کرنے کا موقع پیش آیا۔ دو مضمونوں کی تیاری کے لئے میں نے آپ سے امداد چاہی۔ آپ نے نہ صرف بغیر سوچنے کے ان مضمونوں کے لئے مجھے ضروری مصالح بہم پہنچا دیا )گویا ان مضمونوں کے متعلق تمام معلومات پہلے ہی سے ان کے دماغ میں موجود تھیں( بلکہ جو مصالح انہوں نے بہم پہنچایا وہ صرف عام باتوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ نہایت ہی قیمتی اور نادر نکات پر مشتمل تھا<۔۱۷۷
۲۔ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری نے فرمایا۔
>حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب دونوں بھائی اپنے رنگ میں بے نظیر تھے اور سلسلے کے آفتاب و ماہتاب تھے۔
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب نہایت متقی اور نہایت متواضع تھے۔ مخلوق خدا کی دینی و دینوی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ اپنی تکلیف نظر انداز کرکے بھی دوسروں کا کام کردینا ان کی عادت تھی۔ جو شخص ایک بار آپ سے ملتا تھا آپ سے دوبارہ ملنے اور باتیں کرنے کی خواہش رکھتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آپ کو ایک خاص قسم کا تعلق تھا آپ کی نظر بہت باریک بین تھی<۔]4 [stf۱۷۸
۳۔ ابو البرکات حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی راجیکی نے آپ کے فضائل و مناقب پر ایک مفصل مضمون لکھا جس میں تحریر کیا کہ۔
>حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے وجود باجود میں دونوں طرح کے نمونے اس اعلیٰ مقصد حیات کے بشان اجلی نمایاں طور پر پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت اور معرفت کے لحاظ سے آپ کے اندر عبد مسلم کا بہترین نمونہ پایا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی شفقت کی رو سے آپ کے ڈاکٹری معالجات کا فن جو انواع و اقسام کے مریضوں اور بیماروں کے علاج کے طور پر شب و روز مسلسل فائدہ بخش ہوتا رہتا شفقت علیٰ خلق اللہ کے معنوں میں احسانات کا ایک وسیع سلسلہ تھا جس کے رو سے آپ کا عبد محسن ہونا نمایاں شان رکھتا تھا۔ چنانچہ جس جس علاقہ میں بھی آپ نے اپنے اوقات کو اس طرح گزارا وہاں کے بیمار اور تیمار دار اب تک آپ کے حد درجہ مداح پائے جاتے ہیں۔ اور حدیث نبوی کی رو سے علاوہ اور لوگوں کے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خصوصیت کے ساتھ آپ کا مداح ہونا علاوہ برکات وصیت کے بیان فرمودہ علامات کے یہ بھی آپ کے جنتی ہونے کی ایک بین علامت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ قرآنی حقائق اور لطائف سے خاص طور پر لطف اندوز ہوا کرتے تھے اور مجھ سے زیادہ تر آپ کی محبت قرآن کریم کی وجہ سے ہی تھی۔ گو آپ میرے محبوبوں میں سے ایک محبوب ہستی تھے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ خدا تعالیٰ کے پیارے بندوں کی نظر محبت و نگاہ شفقت کبھی نہ کبھی مجھ جیسے غریب اور حقیر پر بھی پڑ جایا کرتی۔
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
قرآنی حقائق کا فہم دقیق آپ کو عطا کیا گیا تھا۔ آپ قرآنی معارف کے غواص تھے اور آپ کا فہم رسا دقائق کی گہرائیوں میں دور تک نکل جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ روحانی تعلقات کے لحاظ سے بھی مجھے آپ سے ایک گہرا تعلق تھا۔ جس کا ثبوت ذیل کے ایک واقعہ سے بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خاکسار کو دو ہفتہ سے کچھ زائد عرصہ تک درد گردہ کا شدید دورہ رہا جس کا سلسلہ کسی قدر اب بھی چلا جارہا ہے۔ ہاں نسبتاً آج کل کچھ افاقہ ہی ہے اور یہ مضمون بھی بحالت علالت لکھا جارہا ہے۔ ۱۲` ۱۳۔ جولائی کی درمیانی شب کو بوجہ شدیدہ دورہ درد گردہ کے میں سو نہ سکا اور شدت درد کے باعث آنکھ نہ لگی۔
اسی سلسلہ میں مجھ پر اچانک ایک ربودگی اور غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی۔ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرے کانوں کے بالکل قریب ہی کوئی کلام کرنے لگا ہے۔ نہایت فصیح اور موثر لہجہ میں کلام کا طرز ہے۔ اس وقت مجھے یہی محسوس کرایا جارہا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آواز ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی نہایت ہی حلم اور رحم کے پیرایہ میں یوں کلام فرمایا۔
>میر محمد اسماعیل ہمارے پیارے ہیں۔ ان کے علاج کی طرف فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی ان کا علاج ہیں<
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مبشرہ میں ایک امر تو حضرت میر صاحب کے لئے بطور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا پیارا اور محبوب قرار دیا ہے۔ دوسرے حضرت میر صاحب طبی اور ڈاکٹری علاج سے بالا اپنے لئے علاج کے خواہاں معلوم ہوتے تھے جس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے دوسرے علاجوں سے ان کے استغناء کا اظہار فرما کر اس اصل علاج کا ذکر فرما دیا جس کی طبعی طور پر بلحاظ جذبات محبت و ذوق فطرت ان کو شدید خواہش تھی اور وہ علاج اللہ تعالیٰ نے خود ہی ذکر فرما دیا کہ ہم خود ہی ان کا علاج ہیں۔ گویا وہ بقول حضرت امیر خسرو ~}~
از سر بالین من برخیز اے ناداں طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
حضرت میر صاحب جیسے عاشق وجہ اللہ کا علاج اللہ تعالیٰ کا دیدار اور وصال ہی ہوسکتا تھا جو بالاخر آپ کو حسب پسند خاطر نصیب ہوگیا۔ رزقنا اللہ ما رزقہ عشقا و وصلا<۱۷۹
حضرت میر صاحب کے مزار کا کتبہ
حضرت میر صاحبؓ کے مزار مبارک کا کتبہ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اپنے قلم سے تحریر فرمایا جو یہ تھا >میر محمد اسمٰعیل صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے پیدا ہوئے حضرت ام المومنین سے سولہ سال چھوٹے تھے۔ حضرت ام المومنین کی پیدائش کے بعد پانچ بچے تولد ہوئے جو سب کے سب چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد میر محمد اسماعیل صاحب پیدا ہوئے اور زندہ رہے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے جب پنشن لے کر قادیان میں رہائش اختیار کی تو بوجہ اس کے کہ قادیان میں کوئی سکول نہیں تھا انہوں نے ان کو لاہور پڑھنے کے لئے بھجوا دیا اور ساری تعلیم انہوں نے لاہور میں ہی حاصل کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ان سے بہت محبت تھی اور ان کے تمام کاموں میں آپ دلچسی لیتے تھے۔ اسی طرح حضرت میر صاحبؓ کا بھی آپ کے ساتھ عاشقانہ تعلق تھا۔ بھائیوں میں حضرت ام المومنین کو میر محمد اسماعیل صاحبؓ سے زیادہ محبت تھی نہایت ذہین اور ذکی تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جب خطبہ الہامیہ دیا تو آپ نے اس ارشاد کو سن کر کہ لوگ اسے یاد کریں انہوں نے چند دنوں میں ہی سارا خطبہ یاد کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو سنا دیا تھا۔ باوجود نہایت کامیاب ڈاکٹر ہونے کے اور بہت بڑی کمائی کے قابل ہونے کے زیادہ تر پریکٹس سے بچتے تھے اور غرباً کی خدمت کی طرف اپنی توجہ رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ملازمت کے بعد کئی اچھے مواقع آپ نے کھوئے کیونکہ گو ان میں آمدن زیادہ تھی اور رتبہ بڑا تھا مگر خدمت خلق کا موقعہ کم تھا۔ میری بیوی مریم صدیقہ ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو توام پیدا ہوئیں۔ پنشن کے بعد قادیان آگئے لیکن بوجہ صحت کی خرابی کے کوئی باقاعدہ عہدہ سلسلہ کا نہیں لے سکے بلکہ جب طبیعت اچھی ہوتی >الفضل< میں مضامین لکھ دیا کرتے۔ بہرحال میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے اور آپ کے منظور نظر تھے۔ آپ کی وفات کے بعد تمام ابتلائوں میں سے محفوظ گزرتے ہوئے سلسلہ کی بہت سی خدمات بجا لانے کا آپ کو موقعہ ملا۔ اللہ تعالیٰ ان کی روحانی مدارج کو بلند فرمائے۔ آمین<۔۱۸۰
حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی تالیفات
حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مندرجہ ذیل لٹریچر بطور یادگار چھوڑا۔
۱۔ تاریخ مسجد فضل لنڈن ۲۔ کر نہ کر ۳۔ مقطعات قرآنی ۴۔ اربعین اطفال ۵۔ تحفہاحمدیت ۶۔ جامع الاذکار ۷۔ بخار دل حصہ اول و دوم ۸۔ مذہب کی ضرورت ۹۔ حفاظتریش ۱۰۔ آپ بیتی ۱۱۔ دکھ سکھ۱۸۱
پانچواں باب )فصل ہفتم(
جماعت احمدیہ کو دعائوں کی بار بار تحریک
حضرت مصلح موعود اگرچہ اس سال ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے شروع ہی سے جماعت کو بار بار اپنے خطبات اور ملفوظات میں دعائوں کی طرف توجہ دلاتے آرہے تھے مگر ماہ اگست/ ظہور کے آتے ہی حضور پہلے سے بھی زیاد زور دعائوں پر ہی دینے لگے۔
اول۔ چنانچہ یکم ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>خدا ہی کی طرف توجہ کرو اور اس سے دعائیں کرو کہ اس نازک موقعہ پر تم اسلام کے لئے شرمندگی کا موجب نہ بنو بلکہ تمہارے دلوں میں ایسی طاقت پیدا ہو جائے کہ موت تو کیا چیز ہے۔ بڑے سے بڑے ابتلاء کو بھی تم کھیل سمجھنے لگ جائو تاکہ اگر ہم نے مرنا ہے تو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہنستے ہوئے مریں اور اس کے نام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے مریں اور ہماری موتیں اسلام کی آئندہ ترقی کی بنیادیں نہایت مضبوطی سے گاڑ دینے والی اور اس کے جھنڈے کو دنیا میں بلند کرنے والی ہوں<۔۱۸۲
دوم۔ چار روز بعد حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کو لاہور سے یہ اطلاع پہنچی کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے سامنے ہندو وکیل مسٹر سیتلواڈ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کیا جائے۔ اس تشویشناک اطلاع پر حضرت مصلح موعود نے اس روز مغرب کے فرض پڑھانے کے معاًبعد احباب کو خاص طور پر دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
>حد بندی کمیشن کے سامنے ہندوئوں کے وکیل نے تین چار گھنٹے اس امر پر زور دیا کہ ضلع گورداسپور کو ہندوستان میں شامل کیا جائے۔ سکھوں کے وکیل نے بھی اپنا آدھا وقت اسی موضوع پر صرف کیا حالانکہ ہندوئوں اور سکھوں کا کوئی اقتصادی اور تمدنی مفاد اس ضلع سے وابستہ نہیں۔ اقتصادی اور تمدنی لحاظ سے انہوں نے اپنے مفاد کو لاہور` لائل پور` منٹگمری وغیرہ سے وابستہ بتلایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ضلع گورداسپور کا مطالبہ کرنا بتلاتا ہے کہ ان کی کوئی خاص غرض ہے۔ اس لئے ان ایام میں دوستوں کو خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں۔ حد بندی کمیشن نے مورخہ ۴` ۵` ۶۔ اگست کو اپنے دلائل صدر کمیشن کی خدمت میں پیش کرنے ہیں۔ دو روز گزر چکے ہیں۔ صرف ۶۔ اگست کا دن باقی ہے اس دن دوست خاص طور پر دعائیں کریں۔ صدر کمیشن نے ۱۱۔ اگست تک فیصلہ کرنا ہے۔ اس لئے گیارہ اگست تک بھی خاص طور پر دعائیں کی جائیں۔ اگرچہ صدر کمیشن ممبران کمیشن کی آراء و دلائل سن کر ۶۔ اگست تک اپنا ارادہ قائم کرلے گا۔ لیکن دلوں پر تصرف تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ بعد میں بھی تصرف کرکے صدر سے فیصلہ تبدیل کرا سکتا ہے۔ اس لئے دوستوں کو گیارہ اگست تک خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں کہ جو بھی فیصلہ ہو ہمارے لئے مفید ہو اور شماتت اعداء کا باعث نہ ہو۔ سب دوست جو موجود ہیں اپنے اپنے محلوں میں جاکر اس کا اعلان کرا دیں<۔
)حضور کے حکم کی تعمیل میں اسی وقت محلوں میں دوستوں کو بھجوا کر اعلان کرا دیا گیا(۱۸۳
سوم۔ پنجاب حد بندی کمیشن کی کارروائی کے خاتمہ کے دوسرے دن ۸۔ اگست/ ظہور کے خطبہ جمعہ میں حضور نے درد و سوز اور تضرع اور ابتہال میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں فرمایا۔
>موجودہ ایام میں ہماری جماعت ایسے سخت خطرات میں سے گزر رہی ہے کہ اگر تمہیں ان خطرات کا پوری طرح علم ہو اور اگر تمہیں پوری طرح اس کی اہمیت معلوم ہو تو شاید تم میں سے بہت سے کمزور دل لوگوں کی جان نکل جائے لیکن تم کو وہ باتیں معلوم نہیں اس لئے تم اپنی مجلسوں اور گلیوں میں ہنستے کھیلتے نظر آتے ہو۔ تمہاری مثال اس بچے کی سی ہے جس کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور اس کی ماں رات کے وقت مر گئی جب وہ صبح کو اٹھا تو وہ اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔ لوگوں نے جب دروازہ کھولا تو انہوں نے دیکھا کہ بچہ اپنی ماں کے منہ پر تھپڑ مار کر ہنس رہا تھا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ اس کا نہ بولنا مذاق کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ مری پڑی تھی۔ جس قسم کی حالت میں سے اور جس قسم کی بے وقوفی اور نادانی کی کیفیات میں سے وہ بچہ گزر رہا تھا اسی قسم کی حالت میں سے تم بھی گزر رہے ہو۔ میں نے دو دن ہوئے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی اور آج پھر اسی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ آج بیسویں رمضان کی ہے اور حضرت خلیفہ اولؓ کے عقیدہ کی رو سے اعتکاف صبح سے شروع ہوچکا ہے لیکن عام حنفی عقیدہ کی رو سے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی عمل تھا۔ اعتکاف آج شام کو شروع ہوگا۔ جہاں تک نوجوانوں کا تعلق ہے جن کو آج کل کام پر لگایا جانا ضروری ہے ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس دفعہ اعتکاف نہ بیٹھیں۔ ان کا اعتکاف نہ بیٹھنا زیادہ ثواب کا موجب ہوگا بہ نسبت اعتکاف بیٹھنے کے۔ ایک دفعہ جہاد کے موقعہ پر رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا۔ آج روزہ داروں سے بے روز بڑھ گئے ہیں کیونکہ بے روز تو میدان جہاد میں پہنچتے ہی کام کرنے لگ گئے اور روزہ دار لیٹ کر ہانپنے لگے۔
آج کل پہرے کے دن اور ادھر ادھر گھومنے کے ایام ہیں۔ اس لئے ان دنوں نوجوانوں کا اور نوجوانوں کی طرح کام کرسکنے والوں کا اعتکاف نہ بیٹھنا بہ نسبت اعتکاف بیٹھنے کے زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ پس ایسے لوگوں کو جن کی سلسلہ کو ہنگامی کاموں کے لئے ضرورت ہے اعتکاف نہ بیٹھنا چاہئے۔ اگر وہ اعتکاف بیٹھیں گے تو یہ ان کی نیکی نہ ہوگی بلکہ ان کے نفس کا دھوکہ ہوگا لیکن جو لوگ اس عمر کے نہیں اور نوجوانوں کی طرح پہرہ وغیرہ کا کام نہیں کرسکتے ان سے میں کہتا ہوں کہ جتنے زیادہ اعتکاف میں بیٹھ سکیں اتنے ہی زیادہ بیٹھ جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی دعائیں کریں اتنی دعائیں کریں کہ جیسے محارہ میں کہتے ہیں کہ اس کے ناک رگڑے جائیں اور ان کے ماتھے گس جائیں تمہیں چاہئے کہ آج یونسؑ نبی کی قوم کی طرح تمہارے بچے اور تمہاری عورتیں اور تمہارے نوجوان اور تمہارے بوڑھے سب کے سب خدا تعالیٰ کے سامنے روئیں تاکہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو تباہی سے بچالے اور اپنے فضل سے ہماری دست گیری کرے۔ دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی سفارش کرنے والا موجود ہے۔ کسی کی تجارتیں اس کی سفارش کررہی ہیں۔ کسی کے بنک اس کی سفارش کررہے ہیں کسی کے اعداد و شمار اس کی سفارش کررہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی جماعت دنیا میں زندہ رہنے کی مستحق ہے اور اگر کوئی جماعت دنیا میں پرامن کام کررہی ہے تو وہ ہماری جماعت ¶ہے مگر تمہاری پشت پر کوئی نہیں جو تمہاری سفارش کرنے والا ہو سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے۔ اس لئے اگر ہم اپنی دعائوں اور گریہ و زاری سے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لیں تو یقیناً دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ہمارے حقوق کو تلف نہیں کرسکتی۔ لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے فضل کو نہ کھینچ سکیں تو ہم سے زیادہ بے یارو مددگار دنیا میں اور کوئی نہیں ہوگا۔ محض عقلی دلائل پر انحصار رکھنا نادانی اور حماقت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقلی طور پر ہماری بات معقول ہے اس لئے ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ ہماری بات مانی جائے گی۔ لیکن اس دھینگا مشتی کے زمانہ میں عقل کو کون پوچھتا ہے۔ اگر لوگ عقل کو پوچھتے تو آج خدا اور اس کا رسول بے کسی کی حالت میں کیوں ہوتے اور اگر لوگ عقل کی بات کو پوچھتے تو آج محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت کی جگہ مشرکوں کی حکومت کیوں ہوتی؟ تمہاری تائید میں جو دلائل ہیں ان سے بہت زیادہ دلائل قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کی تائید میں ہیں۔ اسی طرح تمہارے تائیدی دلائل سے بہت زیادہ دلائل محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تائید میں ہیں۔ لیکن آج عقل کو کوئی نہیں پوچھتا۔ آج لوگ لٹھ کو دیکھتے ہیں اور لٹھ تمہارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے تم خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو۔ خدا تعالیٰ اگر آج بھی چاہے تو وہ آسمان سے صرف ایک کن کہہ کر ساری دنیا کے نقشوں کو بدل سکتا ہے۔
اس لئے ہر شخص دعائوں میں مشغول ہو جائے۔ خصوصاً پہلے ایک دو دن ایسے ہیں جن میں دعائوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ آج یا کل یا حد سے حد پرسوں کا دن ایسا ہوگا جس میں فیصلے ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ماضی میں تغیر نہیں کیا کرتا بلکہ مستقبل میں تغیر کرتا ہے۔ ماضی کے متعلق تو وہ کہتا ہے کہ جدوجہد کرو اور پھر ہم سے مدد طلب کرو اور آئی ہوئی چیز کے بدلنے میں خدا تعالیٰ کا قانون
‏vat,10.40
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
جو وقت چاہتا ہے وہ ضرور لگتا ہے۔ پس خدا جانے اس پر کتنا وقت لگے اور کتنی تکلیفوں میں سے ہمیں گزرنا پڑے لیکن ہمیں اپنی تکلیفوں کا بھی اتنا احساس نہیں جتنا سلسلہ کی تکالیف کا احساس ہے۔ اگر ہماری زندگیوں کا ہی سوال ہوتا تو ہم میں سے بہت سے اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جانی پیش کر دیتے اور کہتے کہ ہماری جانیں اس غرض کے لئے حاضر ہیں لیکن یہاں جانوں کا سوال نہیں بلکہ سلسلہ کی عزت کا سوال ہے۔ میں نے اس دفعہ مصلحتاً عورتوں کو اعتکاف بیٹھنے سے منع کردیا ہے کیونکہ ہم ہنگامی کاموں میں بہت زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے ان کی حفاظت کا صحیح طور پر انتظام نہیں کرسکتے۔ لیکن مردوں میں سے جو بڑی عمر کے ہیں انہیں چاہئے کہ اگر ہوسکے تو ساری ساری رات جاگیں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کریں` اکیلے بھی اور مشترکہ طور پر بھی۔ اسی طرح عورتوں کو چاہئے کہ وہ گھروں میں بیٹھ کر دعائیں کریں اور اتنی تضرع اور گریہ و زاری سے دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ کا عرش ہل جائے۔ بلکہ یونس نبی کی قوم کی طرح اگر وہ اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھوکا رکھ کر انہیں بھی دعائوں میں شامل کرلیں تو یہ بھی کوئی بڑی قربانی نہیں ہوگی۔ ہمارے خدا میں سب طاقتیں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ ہوگا آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہوگا۔ لیکن آخر سلسلہ کے لئے بہتر ہوگا اور اب بہتر ہو جائے` اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آخر میں تو ضرور ایسا ہوگا کہ ہمارے سلسلہ کو کامیابی حاصل ہو۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ ہماری غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے درمیانی عرصہ میں ہزاروں جانوں کو دکھ برداشت کرنا پڑے اور ہزاروں عزتوں کو برباد کرنا پڑے اور ہزاروں نوجوانوں کو قربان ہونا پڑے۔ پس دعائیں کرو۔ دعائیں کرو اور دعائیں کرو کیونکہ اس سے زیادہ دینوی طور پر نازک وقت ہماری جماعت پر کبھی نہیں آیا۔ خدا ہی ہے جو اس گھڑی کو ٹلا دے اور اپنے فضل سے ایسے راستے پیدا کردے کہ جن سے جلد سے جلد ہماری کامیابی کی صورتیں پیدا ہونے لگ جائیں<۔۱۸۴
امرتسر کے مسلمان پناہ گزین قادیان میں اور ان کے قیام و طعام کا مرکزی انتظام ]0 [rtf
۳۔ جون ۱۹۴۷ء کی سکیم کے مطابق ضلع گورداسپور مغربی پنجاب )پاکستان( میں شامل کیا گیا تھا اس لئے جونہی مشرقی پنجاب کے دوسرے
اضلاع یعنی امرتسر` ہوشیار پور` لدھیانہ وغیرہ میں مسلمانوں پر منظم حملے شروع ہوگئے۔ مسلمان اس ضلع میں پنازہ گزین ہوگئے اور بالخصوص امرتسر کے پناہ گزینوں کی ایک بھاری تعداد بٹالہ اور قادیان میں آپہنچی۔
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے ۱۲۔ اگست ۱۹۴۷ء کو مولانا جلال الدین صاحب شمس مبلغ بلاد عربیہ و انگلستان کو انچارج مہاجرین مقرر فرما دیا تا آنے والے مظلوم` بے بس اور نہتے مسلمان بھائیوں کے کھانے اور رہائش کا بہتر انتظام کیا جاسکے۔
قادیان کے غیر مسلم باشندوں کا وفد حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں
۱۳۔ اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان کے غیر مسلم باشندوں کا ایک وفد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور
اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ پناہ گزینوں کی داستانیں سن کر یہاں کوئی فساد ہی نہ ہو جائے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس وفد سے کیا گفتگو ہوئی؟ اس کی تفصیل آپ نے وفد کے جانے کے معاًبعد حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوا دی جو مندرجہ ذیل الفاظ میں تھی۔
>ابھی ابھی قادیان کے ہندوئوں اور سکھوں کا وفد مجھے مل کر گیا ہے۔ یہ لوگ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں تسلی دلائی کہ جب حضرت صاحب اور ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم کسی کے خلاف پہل نہیں کریں گے بلکہ اگر قادیان کے غیر مسلم ہمارے ساتھ وفادار رہیں گے تو ان کی بھی حفاظت کریں گے تو گھبراہٹ کیسی؟ انہوں نے کہا کہ حالات کی خرابی کے باعث ہم تسلی کے لئے دوبارہ ملنے آئے ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ قادیان میں باہر سے بہت سے پناہ گزین آرہے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ان کی وجہ سے اور ان کی باتوں کو سن کر کوئی فساد کی صورت نہ پیدا ہو جائے۔ میں نے کہا جہاں تک احمدی پناہ گزینوں کا تعلق ہے وہ ہماری جماعت کا حصہ ہیں اور ہمارے نظام کے ماتحت ہیں۔ باقی رہے غیر احمدی پناہ گزین تو وہ تو خود بیچارے ظلموں سے بھاگے ہوئے ہیں ان سے کسی کو کیا ڈر ہوسکتا ہے؟ اور ہم نے ان کے انتظام کے لئے پہلے سے ایک افسر مقرر کر دیا ہے تاکہ ایک طرف انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور دوسری طرف اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ان کی وجہ سے اشتعال کی صورت نہ پیدا ہو۔
بہرحال یہ وفد تسلی پاکر گیا ہے اور یہ بھی کہہ گیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہر طرح وفادار رہیں گے<۔
گورداسپور کے مسلمانوں کا حوصلہ بلند رکھنے کی جدوجہد
علاقہ بھر میں سخت ابتری اور افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ضلع گورداسپور اور بالخصوص قادیان کے اردگرد کے علاقہ میں مسلمانوں کے حوصل بلند رکھے جائیں اور انہیں آنے والے حالات میں ثابت قدم رہنے اور اپنے اندر تنظیم اور یک جہتی پیدا کرنے کی تلقین کی جائے۔ اس اہم ملی تقاضا کے پیش نظر اگست کے وسط میں کئی ایسی پارٹیاں اردگرد کے علاقہ میں بھجوائی گئیں۔ اس سلسلہ میں پہلی پارٹی موضع تلونڈی جھنگلاں میں بھیجی گئی۔ موضع تلونڈی قادیان سے شمال مغربی جانب پانچ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں اکثریت احمدیوں کی تھی۔ سولہ گھر سکھوں اور بیس کے قریب مہتروں کے تھے۔ کل آبادی دو ہزار کے قریب تھی۔ گڑبڑ کے دنوں میں ہی تین ہزار مسلمان پناہ گزین ہوکر یہاں آگئے تھے۔ جب ہنگامے اٹھنا شروع ہوئے تو تلونڈی کے باشندوں کی درخواست پر قادیان سے ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کو چودہ نوجوان بھجوائے گئے اور انہیں کھلے لفظوں میں ہدایت کی گئی کہ ان کا مقصد مسلمانوں کے حوصلہ کو بلند رکھنا اور ان کی تنظیم کرنا ہے۔
دوسری پارٹی ۱۶۔ اگست ۱۹۴۷ء کو آٹھ بجے شام جو بارہ افراد پر مشتمل تھی` کڑی` بھیٹ` بیری وغیرہ مسلمان علاقوں کی طرف بھجوائی گئی۔ جب یہ پارٹی روزانہ ہوئی تو رات سخت اندھیری اور تاریک تھی اور بارش ہونے کے باعث دلدل کا یہ حال تھا کہ ایک ایک فٹ تک پائوں دھنستے جاتے تھے مگر یہ پارٹی حکم کی تعمیل میں آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی۔ کڑی` بھیٹ کے تین مسلمان گھڑ سوار پارٹی کی راہ نمائی کر رہے تھے اور پارٹی پیدل جارہی تھی۔ خدا خدا کرکے دو بجے شب کڑی` بھیٹ کی زمین نظر آئی جہاں دوسرے دن صبح گائوں کے معتبر افراد کو اکٹھا کیا گیا اور انہیں خود حفاظتی کی نہایت موثر رنگ میں تلقین کی گئی مگر انہوں نے کہا کہ سکھوں کے ساتھ ہمارے پرانے تعلقات ہیں ان سے ہمیں کئی خطرہ نہیں ہے شام کو پارٹی بیری وغیرہ کی طرف روانہ ہونے لگی تو بھیٹ والوں نے ان کا راستہ روک لیا اور انہیں نہایت بھولے پن سے یہ مشورہ دیا کہ آج کی بجائے صبح چلے جانا۔ پارٹی نے اپنا ارادہ صبح پر ملتوی کردیا اور سمجھا کہ شاید انہیں ہماری گزارشات کے متعلق کچھ احساس پیدا ہوگیا ہے مگر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ان کی زبان سے یہ بات سنی کی ہم اپنے گائوں کے کمی چوہڑے آپ کے ساتھ بھیج رہے ہیں تا آپ راستہ میں سکھ دیہات پر حملہ کرکے انہیں بھگا دیں اور ہمارے مسلمان بھائی گندم کی لوٹ سے >فیض یاب< ہوسکیں۔ پارٹی کے افراد نے جھنجھلا کر کہا کہ ایسا کرنا شرافت کے صریح خلاف ہے اور یہ کہہ کر ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا اور دوسرے دن علی الصبح ۵ بجے بیری کی طرف روانہ ہوپڑے۔ راستہ میں اولکھ اور سونچ )دو سکھ دیہات( میں یہ عجیب خبر مشہور ہوگئی کہ کوئی جتھہ آرہا ہے جس پر اولکھ وغیرہ کے سکھوں نے بیری کے مسلمان نمبردار اور دو تین معتبرین کو اپنے پاس بلا کر اصل کیفیت پوچھی۔ ان میں سے ایک مسلمان نے جواب دیا کہ یہ قادیان والے ہیں جو عوام کو پرامن طور پر رہنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ان کا قیام میرے ہاں سے اس لئے آپ کو کسی قسم کا فکر نہ کرنا چاہئے یہ سن کر سکھوں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے اگر قادیان والے ہیں تو وہ یہاں رہیں ان سے کسی قسم کی خرابی کی ہرگز کوئی توقع نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ پارٹی جب ۱۷۔ اگست کو ایک بجے شب کے بعد واپس قادیان آرہی تھی تو بیری اور قادیان کے رستہ میں نہر کے پل پر سکھوں کا ایک جتھہ ان کا راستہ روکنے کے لئے موجود تھا مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت! جب پارٹی کے افراد پل پر پہنچے تو پہلی ڈیوٹی والے دوسری ڈیوٹی والے سکھوں کو نزدیک کے باغ میں جگانے کے لئے چلے گئے اور پارٹی خاموشی سے پل پار کرکے چار بجے صبح مرکز میں پہنچ گئی۔
حضرت مصلح موعود کا ایک الہام
حضرت مصلح موعود ۱۲۔ ظہور/ اگست کو نماز عشاء کے لئے تشریف لائے تو حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
>جس امر کے متعلق میں دوستوں کو پہلے بھی دعا کی طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ اس امر کے متعلق آج پھر دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک جو خبریں آرہی ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرمائے جن سے ہماری مشکلات دور ہوں اور جماعت کو ترقی حاصل ہو<۔
اس کے بعد حضور نے اپنے بعض تازہ الہامات و رئویا کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔
>اسی طرح آج عصر کے بعد مجھے الہام ہوا کہ۔
>اینما تکونو ایات بکم اللہ جمیعا<
‏]ydbo [tagاس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا بھی۔ تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہوگیا ہے۔ یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئی ہیں اور کچھ ہندوستان کی طرف۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کردے۔ اگر ہمارا قادیان ہندوستان کی طرف چلا جائے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں کیونکہ ہماری جماعتوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں ہے۔ اس لئے دوستوں کو اس معاملہ میں خاص طور پر دعائوں سے کام لینا چاہئے۔ جب کسی شخص کا بچہ بیمار ہوتا ہے تو اسے دعا کا کتنا بڑا احساس ہوتا ہے اور یہ معاملہ کسی ایک شخص سے نہیں بلکہ جماعت کے لاکھوں آدمیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے تمام دوستوں کو نہایت تضرع اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں ہماری مدد فرمائے اور ایسے سامان پیدا فرمائے جو ہماری بہتری اور ترقی کا موجب ہوں<۔۱۸۵
پاکستان اور بھارت کے قیام پر حضرت سیدنا المصلح الموعود کی دعا
۱۴۔ اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان انگریزی اقتدر سے آزاد ہوکر پاکستان اور بھارت کی دو آزاد حکومتوں میں تقسیم ہوگیا اور ساتھ ہی وسطی پنجاب میں خونریز فسادات شروع ہوگئے۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے آزادی کے دوسرے روز ۱۵۔ اگست )ظہور( کو خطبہ جمعہ میں اس تغیر عظیم کا ذکر کرتے ہوئے پہلے تو مشرقی پنجاب میں قتل و غارت اور فساد پر نہایت درجہ غم و اندوہ کا اظہار کیا اور فرمایا۔
>اس آزادی کے ساتھ ساتھ خونریزی اور ظلم کے آثار بھی نظر آتے ہیں خصوصاً ان علاقوں میں جن کے ہم باشندے ہیں۔ وسطی پنجاب اس وقت لڑائی جھگڑے اور فساد کا مرکز بنا ہوا ہے ان فسادات کے متعلق روزانہ جو خبریں آرہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور ایک بڑی جنگ میں جتنے آدمی روزانہ مارے جاتے تھے اتنے آج کل اس چھوٹے سے علاقہ میں قتل ہورہے ہیں اور ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ پس ان حالات کے ماتحت جیسے عید کے دن اس عورت کے دل میں خوشی نہیں ہوسکتی جس کے اکلوتے بچے کی لاش اس کے گھر میں پڑی ہوئی ہے اور جیسے کسی قومی فتح کے دن ان لوگوں کے دل فتح کی خوشی میں شامل نہیں ہوسکتے جن کی نسل فتح سے پیشتر اس لڑائی میں ماری گئی۔ اسی طرح آج ہندوستان کا سمجھ دار طبقہ باوجود خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے اپنے دل میں پوری طرح خوش نہیں ہوسکتا<۔
اس اظہار تاسف کے بعد حضور نے فرمایا۔
>یہ دو حکومتیں جو آج قائم ہوئی ہیں ہمیں ان دونو سے ہی تعلق ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں کسی ایک ملک یا حکومت سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ہماری جماعت کے افراد پاکستان میں بھی ہیں اور ہماری جماعت کے افراد انڈیا میں بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ گو ہماری جماعت کے افراد پہلے بھی غیر ملکوں میں رہتے تھے مگر وہ تو پہلے ہی ہم سے الگ رہتے تھے۔ مگر اب جو ہمارے بھائی ہم سے الگ ہورہے ہیں وہ ایک عرصہ سے اکٹھے رہتے آرہے تھے۔ اب ہم ایک دوسرے سے اس طرح ملا کریں گے جیسے غیر ملکی لوگ آپس میں ملتے ہیں۔ پس ہم اس آزادی اور جدائی کے موقعہ پر خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں ہی کو ترقی بخشے ان دونوں ملکوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی توفیق بخشے اور ان دونوں ملکوں کے لوگوں کے دلوں میں محبت اور پیار کی روح بھردے۔ یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں مگر برادرانہ طور پر اور ہمدردانہ طور پر اور مخلصانہ طور پر اور جہاں ان میں روح مقابلہ پائی جائے وہاں ان میں تعاون اور ہمدردی کی روح بھی پائی جائے اور یہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک حال ہوں۔ خدا تعالیٰ انہیں ہر شر سے بچائے اور اپنے فضل سے امن اور صلح اور سمجھوتے کے ذریعہ سے ایسے سامان پیدا کردے کہ ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو اسلام کی روشنی کے پھیلانے کا مرکز بنا سکیں۔ اللھم امین<۱۸۶
قادیان میں یوم آزادی کی تقریب
۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان میں پورے وقار سے یوم آزادی کی تقریب منائی گئی۔ قادیان کی سرکاری عمارتوں` ڈاک خانہ` ایکسچینج آفس` پولیس چوکی وغیرہ پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا گیا اور اسے سلامی دی گئی۔ نیز غرباء میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور کھانا کھلایا گیا۔
علاوہ ازیں نماز جمعہ کے بعد مسجد اقصیٰ میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے )ایم۔ ایل۔ اے( کی صدارت میں ایک جلسہ بھی منعقد ہوا۔ جس میں حضرت سید زین العابدن ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ اور حضرت چوہدری صاحب نے تقریریں فرمائیں اور ان اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جو آزاد ہونے کے بعد اہل ملک پر عائد ہوتی ہیں۔ اجتماعی دعا پر یہ جلسہ برخاست ہوا۔۱۸۷]ybod [tag
پانچواں باب )فصل ہشتم(
قادیان کے ہندوستان میں شامل کئے جانے کا فیصلہ اور حضرت سیدنا المصلح الموعود کا پرشوکت اعلان
اب ہم تاریخ احمدیت کے ایک ایسے سنگین اور پرفتن موڑ میں داخل ہورہے ہیں جس کی ہولناکیوں کا تصور آج بھی لرزہ براندام کر دیتا ہے اور جس دور کے اثرات صدیوں تک قائم
رہیں گے۔
جماعت احمدیہ کے مقدس امام اور خدا کے پیارے مصلح موعود آنے والے خوفناک خطرات کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اور ان پر فتن ایام میں مجسم گریہ و بکابنے ہوئے تھے۔ حضرت مصلح موعود کی انتہائی خواہش تھی کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو اور اس کی تکمیل کے لئے آپ نے ایک فقید المثال اور سرفروشانہ جدوجہد بھی کی اور بے شمار اقتصادی مشکلات اور محدود ذرائع کے باوجود ہزاروں روپے اس سلسلہ میں قربان کر ڈالے۔ بہترین علمی قابلیتیں اور فنی صلاحیتیں صرف کیں اور ریڈکلف ایوارڈ کے سامنے حق و صداقت کی ترجمانی کا حق ادا کردیا مگر خدائی تقدیر جس کے اندر بے شمار مصلحتیں اور حکمتیں مضمر تھیں بہرکیف پوری ہوکے رہی یعنی ریڈکلف ایوارڈ میں ۱۷۔ اگست ۱۹۴۷ء )مطابق ۱۷۔ ظہور ۱۳۲۶ہش( کو نہایت ظالمانہ طور پر بٹالہ` گورداسپور اور پٹھانکوٹ کی مسلم اکثریت کی تحصیلیں ہندوستان کا حصہ بنا دی گئیں جس کے نتیجہ میں قادیان کی مقدس بستی بھی بھارت میں شامل کر دی گئی۔
اس فیصلہ کا اعلان سن کر قادیان کے احمدیوں پر کیا گزری؟ اس کا اندازہ آج نہیں لگایا جاسکتا۔ اس دن ہر آنکھ اشکبار` ہر چہرہ اترا ہوا` ہر سینہ زخم رسیدہ` ہر جسم نڈھال اور ہر روح لرزہ براندام تھی اس ہوشربا قیامت کے دوران شام ہوئی تو حضرت امیر المومنین المصلح الموعود مسجد مبارک میں تشریف لائے۔ نماز مغرب پڑھائی اور پھر مجلس علم و عرفان میں رونق افروز ہوکر نہایت تفصیل سے بتایا کہ ہم کئی دنوں سے قادیان کے پاکستان میں شامل ہونے کے لئے دعائیں کررہے تھے اور بعض کو اس سلسلہ میں مبشر خوابیں بھی آئی تھیں۔ اس ضمن میں فرمایا۔
>جن دوستوں نے اپنی کی ہوئی تعبیروں کے خلاف ہوتے دیکھا ہے انہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ اور نہ یہ سمجھنا چاہئے کہ کہ ان کی خوابیں شیطانی تھیں۔ جنہوں نے اپنی خوابوں کی تعبیر کی تھی کہ قادیان پاکستان میں شامل ہوگا۔ ان کی تعبیریں ابھی غلط نہیں ہوئیں اور اپنے وقت پر سچی ثابت ہوں گی<۔
اس سلسلہ میں مزید فرمایا۔
>ہم تم تو شطرنج پر ایک مہرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی تاریخ کا مالک ہے اور اسلام قیامت تک کی تاریخ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اگر اس دنیا کے دو پرت فرض کرلئے جائیں تو یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک پرت قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے اور ایک پرت اسلام اور احمدیت کا ہے گویا ورق عالم کا ایک صفحہ قبل از اسلام اور احمدیت کا ہے اور دوسرا صفحہ اسلام اور احمدیت کا ہے اور اس صفحہ پر ہماری حیثیت زیر اور زبر بلکہ نقطہ کی بھی نہیں کیونکہ کروڑوں کروڑ احمدیوں کے مقابلہ میں چند لاکھ کی کیا حیثیت ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ آئندہ کیا نتائج نکلنے والے ہیں اور ہم میں سے کون زندہ رہ کر دیکھے گا اور کون مر جائے گا لیکن فتح بہرحال احمدیت کی ہوگی۔ پس خدا تعالیٰ کے اس فعل کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل ہمارے لئے مضر نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ہماری ترقیات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اللہ تعالیٰ مخالف حالات میں ہماری تائید اور نصرت فرما کر یہ بات واضح کردے گا کہ وہ ہماری جماعت کے ساتھ ہے۔ ممکن ہے خدا تعالیٰ ہمارے ایمانوں کی آزمائش کرنا چاہتا ہے اور ہمیں ابتلائوں میں ڈال کر یہ دیکھنا چاہتا ہو کہ ہم میں سے کون اپنے ایمان میں کچے ہیں اور کون ہیں جو مجھ پر اور میری نصرت پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر حال میں ہمارا حامی و ناصر ہو اور اپنے فضل کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمیں ہر ابتلاء میں ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے<۔۱۸۸
حضرت مصلح موعود کا ولولہ انگیز خطبہ عید الفطر
دوسرے دن ۱۸۔ ظہور/ اگست کو عیدالفطر تھی عید کے اس اجتماع میں افسردگی طاری تھی۔ ہر احمدی احمدیت اور قادیان کے مستقبل کے متعلق مشوش اور پریشان خاطر تھا کہ حضرت مصلح موعود رونق افروز ہوئے` نماز عید پڑھائی اور اپنے پرشوکت خطبہ سے اسلام اور احمدیت کی ترقی اور غلبہ پر ایک زندہ ایمان اور زندہ ولولہ پیدا کردیا اور زخم رسیدہ بلکہ مردہ دلوں میں پھر سے زندگی کی زبردست روح پھونک دی۔ حضور نے فرمایا۔
>جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اور جب سے اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں آنے شروع ہوئے ہیں یہ الٰہی سنت چلی آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے لگائے ہوئے درخت ہمیشہ آندھیوں اور طوفانوں کے اندر ہی ترقی کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ ان آندھیوں اور طوفانوں کو صبر سے برداشت کرے اور کبھی ہمت نہ ہارے۔ جس کام کے لئے الٰہی جماعت کھڑی ہوتی ہے وہ کام خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے بندوں کا نہیں ہوتا۔ پس وہ آندھیاں اور طوفان جو بظاہر اس کام پر چلتے نظر آتے ہیں درحقیقت و بندوں پر چل رہے ہوتے ہیں اس کام پر نہیں چل رہے ہوتے اور یہ محض نظر کا دھوکہ ہوتا ہے۔ جیسے تم نے ریل کے سفر میں دیکھا ہوگا کہ چل تو ریل رہی ہوتی ہے مگر تمہیں نظر یہ آتا ہے کہ درخت چل رہے ہیں۔ اسی طرح جب آندھیاں اور طوفان الٰہی سلسلوں پر آتے ہیں تو جماعتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ یہ آندھیاں اور طوفان ہم پر نہیں بلکہ سلسلہ پر چل رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ سلسلہ پر نہیں آرہے ہوتے بلکہ افراد پر آرہے ہوتے ہیں۔ ان افراد پر جو اس سلسلہ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔ ان آندھیوں اور طوفانوں کو بھیج کر اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کا امتحان لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے کلام اور خدا تعالٰی کی بھیجی ہوئی تعلیم کا امتحان لینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ امتحان تو انسانوں کا لیا جاتا ہے۔ پس یہ آندھیاں اور یہ طوفان انسانوں پر آتے ہیں۔ مگر انسان کم عقلی سے یہ سمجھتا ہے کہ کسی اور پر آرہے ہیں اور وہ طوفان جو اس کو ہلارہے ہوتے ہیں ان کے متعلق وہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ خدائی سلسلہ کو ہلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس ہماری جماعت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ پودا جو خدا تعالیٰ نے لگایا ہے وہ بڑھے گا` پھلے گا اور پھولے گا اور اس کو کوئی آندھی تباہ نہیں کرسکتی۔ ہاں ہماری غفلتوں یا ہماری سستیوں یا ہماری لغزشوں کی وجہ سے اگر کوئی ٹھوکر آجائے تو وہ ہمارے لئے ہوگی سلسلہ کے لئے نہیں ہوگی۔ جب ہم اپنے توازن کو درست کرلیں گے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرلیں گے تو وہ حوادث خود بخود دور ہوتے چلے جائیں گے بلکہ وہ حوادث ہمارے لئے رحمت اور برکت کا موجب بن جائیں گے۔
رسول کریم~صل۱~ نے جب مکہ سے ہجرت کی تو لوگوں نے سمجھا کہ ہم نے ان کے کام کا خاتمہ کر دیا ہے اور یہ حادثہ محمد رسول اللہ~صل۱~ اور ان کے ساتھیوں کے لئے زبردست حادثہ ہے لیکن جس کو لوگ حادثہ سمجھتے تھے کیا وہ حادثہ ثابت ہوا یا برکت۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ حادثہ ثابت نہ ہوا بلکہ وہ الٰہی برکت بن گیا اور اسلام کی ترقیات کی بنیاد اسی پر پڑی۔ پس ہماری جماعت کو اپنے ایمانوں کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر تم اپنے ایمانوں کو بڑھا لوگے اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرلو تو تمہارے لئے سال میں صرف دو عیدیں ہی نہیں آئیں بلکہ ہر نیا دن تمہارے لئے عید ہوگا اور ہر نئی رات تمہارے لئے نیا چاند لے کر آئے گی۔ تم خدا تعالیٰ کی برگزیدہ جماعت ہو اور خدا تعالیٰ اپنی برگزیدہ جماعت کو اٹھانے اور بڑھانے کے لئے ہروقت تیار رہتا ہے<۔۱۸۹]4 [rtf
حضرت مصلح موعود نے اپنے اس خطبہ عید کے آخر میں جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ >تم اپنے متعلق صرف یہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں قربانی کا بکرا بنایا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ عیدان بکروں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عید بالکل الگ چیز ہے اور بکرے الگ چیز ہیں۔ پس تم اپنے دلوں کے اندر یہ یقین رکھو کہ تم صرف قربانی کے بکرے ہو اور جو کچھ ہے وہ تمہارا خدا ہی ہے تم کچھ بھی نہیں۔ جس دن تم اس انکسار کے مقام پر کھڑے ہو جائو گے اور جس دن تم اعتراف نصرت باری کا مقام حاصل کرلوگے تو گو نصرت الٰہی اب بھی تمہارے شامل حال ہے مگر اس وقت جو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے آئے گی وہ اس سے کہیں بالا ہوگی۔ پس تم اپنے آپ کو الٰہی قدرتوں کا آلہ بنا لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم خدا تعالیٰ کی تلوار بن جائو۔ ہتھیار بے شک ایک بے جان چیز ہے مگر یہ نہ سمجھو کہ تم بے جان ہوکر گر جائو گے۔ اگر ایک بادشاہ کی جوتی یا کسی بادشاہ کا قلم یا شکسپیئر کی کتابیں کچھ حیثیت رکھتی ہیں تو تم سمجھ لو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا ہتھیار بن جائے اس کی کیا حیثیت ہوگی۔ پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر اور بڑائی کا خیال چھوڑ دو اور اپنے نفسوں پر ایک موت وارد کرلو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا ہتھیار بنالے<۔۱۹۰
پانچواں باب )فصل نہم(
قادیان کے ماحول میں فسادات اور قتل و غارت` اغوا اور آتشزنی کا خطرناک سلسلہ
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے اوائل ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں لاہور` امرتسر اور ملتان وغیرہ میں فرقہ وارانہ فسادات اٹھ کھڑے ہوئے
جن کی وجہ سے پنجاب بھر میں خوف وہراس پھیل گیا اور سکھوں کی طرف سے آئندہ فسادات کے لئے زبردست تیاریاں شروع ہوگئیں۔ چنانچہ کتاب >سکھوں کا منصوبہ< میں ماہ مئی ۱۹۴۷ء کے واقعات کی ذیل میں مستند معلومات کی بناء پر لکھا ہے۔
>مہینے کے آخر میں سکھوں کی تیاریاں موگا` مالوہ اور دوآبہ میں مکمل ہوگئیں۔ ماجھا ابھی تیار نہ تھا لیکن علاقہ تھانہ سرہالی` ترنتارن` بیاس اور ویرووال کے باشندوں کو مسلح کرنے کی طرف توجہ کی گئی۔ قادیان کے آس پاس رہنے والے سکھ بالکل تیار ہوچکے تھے لیکن تحصیل بٹالہ میں ان کی تیاری اب تک پوری نہ ہوئی تھی<۔]01 [p۱۹۱
قادیان کے ماحول میں فساد کا پہلا واقعہ ۲۴` ۲۵۔ جولائی ۱۹۴۷ء )وفا ۱۳۲۶ہش( کی درمیانی شب کو پیش آیا۔ پچیس تیس سکھوں نے وڈالہ گرنتھیاں سٹیشن پر قادیان کی طرف جانے والی گاڑی کو روک کر اس پر حملہ کردیا جس کی وجہ سے ڈرائیور اور پانچ چھ اشخاص زخمی ہوگئے۔ فائرمین نے نہایت ہوشیاری سے گاڑی چلا دی اور اس طرح گاڑی کو قادیان لے آنے میں کامیاب ہوگیا۔۱۹۲
۱۲۔ اگست )ظہور( ۱۹۴۷ء کو قادیان کی ریل بند کردی گئی اور اس کے ساتھ ہی ڈاک کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا اور پھر جلد ہی تار کا سلسلہ بھی عملاً کٹ گیا۔
۱۷۔ اگست/ ظہور ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء ریڈکلف ایوارڈ کے فیصلہ کے مطابق قادیان کو ہندوستان یونین میں شامل کر دیا گیا۔ اور قادیان >بھاری خدائی امتحان< میں داخل ہوگیا۔ چنانچہ اگلے روز ہی ۱۸۔اگست/ ظہور ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو ضلع گورداسپور کے مسلمان دیہات پر سکھوں کے حملوں کا آغاز ہوا۔ جس کے ساتھ قتل و غارت` لوٹ مار` اغوا اور آتشزنی کے بھیانک حادثات شامل تھے اور یہ سلسلہ روز بروز زیادہ وسیع اور زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ بالاخر ضلع بھر کے سب مسلمان دیہات قتل و غارت کے ذریعہ خالی کرائے گئے۔ انہی ایام میں سکھوں نے قادیان کے اردگرد سب راستے اور نہروں کے پل مسدود کرنا شروع کردیئے اور آمد ورفت پرخطر اور سخت مخدوش ہوگئی۔
۲۱۔ اگست )ظہور( کو قادیان سے غربی جانب واقع احمدی گائوں ونجواں پر سکھوں نے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں قریباً ۵۰ آدمی شہید اور ۳۹ زخمی ہوئے اور لوٹ مار سے گائوں خالی کرا لیا گیا۔
۲۲۔ اگست )ظہور( کو میجر چودھری شریف احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی سیفٹی آرڈی نینس کے تحت گرفتار کرلئے گئے۔۱۹۳]body [tag
حفاظت قادیان کا انتظام
صوبیدار عبدالمنان صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
> )۲۴` ۲۵۔ جولائی ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب( بٹالہ سے قادیان شام کو آنے والی ریل گاڑی پر وڈالہ گرنتھیاں کے قریب سکھوں نے حملہ کردیا اور حملہ کے بعد سے قادیان کے محلہ جات میں حفاظتی انتظام مستحکم کر دیا گیا۔
محلہ دارالفضل اور ملحقہ علاقہ کا حفاظتی انتظام میرے سپرد کیا گیا۔ میں نے پندرہ سے چالیس سال تک عمر کے نوجوانوں کی فہرست تیار کرنے کے بعد نماز مغرب سے نماز فجر تک پہرہ کا مستقل انتظام کردیا دن کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کام کاج میں مصروف رہتے سوائے چند ایک گشتی دستوں کے جن کے ذمہ سرحدی نگرانی سونپی جاتی تھی۔
یہ حفاظتی انتظام باقاعدگی سے جاری رہا میں نماز فجر سے نماز مغرب تک اپنی عینکوں کی دکان پر بیٹھتا اور مغرب کے بعد سے نماز فجر تک خدام کو جمع کرنے اور انہیں حفاظتی پوسٹوں پر بھیجنے اور ان کی ڈیوٹیاں بدلنے اور چیکنگ میں تمام شب آنکھوں میں گزار دیتا تھا نماز فجر کی اذان کے ساتھ بیت دارالفضل میں آکر فرش پر لیٹ جاتا تھا اذان کے نصف گھنٹہ بعد جماعت کھڑی ہوتی تھی صرف اس نصف گھنٹہ میں تمام رات کی تھکن اور نیند پوری کرتا پھر جونہی موذن تکبیر کہتا فوراً اٹھ کر وضو کرتا اور نماز میں شریک ہو جاتا۔
نماز سے فارغ ہوکر گھر پہنچتا تو میری بیوی میرے انتظار میں ناشتہ لئے بیٹھی ہوتی ناشتہ دے کر میرے پاس بیٹھ جاتی جب تک میں ناشتہ سے فارغ نہ ہوجاتا پاس سے نہ ہلتی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اکثر دیکھا تھا کہ میں ناشتہ کے دوران سو جاتا ہوں اور چائے کا گرم گرم بھرا ہوا کپ میرے اوپر گر جاتا تھا اور کپڑے لت پت ہو جاتے روٹی کا لقمہ منہ میں ڈال کر چائے کا گھونٹ بھرنا اور ایک دفعہ نوالہ چبانا اچانک نیند نے غلبہ پالینا مسلسل ڈیوٹیاں اور جاگنا اور ناشتہ کی یہ کیفیت کئی ماہ تک جاری رہی۔
محترم اخوند فیاض احمد صاحب زعیم خدام الاحمدیہ دارالفضل قادیان کی تحریک پر میں نے ان کے وسیع و عریض صحن میں محلہ کی مستورات کو پردہ کے پیچھے رہتے ہوئے رائفل` ریوالور سے گولی چلانا آڑ اور زمین کا استعمال کرکے فائر پوزیشن کی روزانہ صبح شام تربیت دیتا رہا تاکہ مردوں کی عدم موجودگی میں مستوارت سکھ اور ہندو حملہ آوروں کا منہ توڑ جواب دے سکیں اور انہیں ان کے ناپاک عزائم کے سے باز رکھ سکیں اور یوں قرون اولی کی مستورات کے نقش قدم پر چل کر مسلمان عورت کے مقام عظمت کو چار چاند لگاتے ہوئے دنیا سے اس بات کا اقرار کروا لیں اور عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرکے دکھا دیں کہ احمدی عورتیں مردوں سے کسی صورت میں پیچھے نہیں ہیں وقت آنے پر خدا کے فضل سے آخری سانس تک ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں دشمن سمجھ لے کہ ان کی عورتوں کی طرف بڑھنا موت کو دعوت دینا ہے۔
برادرم حوالدار نور احمد صاحب ساکن شکار ماچھیاں کی شادی حال ہی میں محترم چوہدری فقیر محمد صاحب ساکن اونچے مانگٹ کی صاحبزادی سے ہوئی تھی حوالدار صاحب قیام امن کی ڈیوٹی پر قادیان میں آئے ہوئے تھے اور ان کا محلہ دارالرحمت کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ تھا حوالدار صاحب بہت ہی سرگرم کارکن تھے اس وجہ سے اکثر دیہاتوں میں جاکر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔
ایک دن ان کے محلہ پر سکھوں نے ہلہ بول دیا اور ان کی عدم موجودگی میں بہت سے مویشی ہانک کر لے گئے انہیں سن کر بہت دکھ ہوا۔ اگر یہ موجود ہوتے تو سکھوں کی کیا مجال تھی کہ چڑیا کا ایک بچہ بھی لے جاتے بلاشبہ نور احمد صاحب دلیری اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہی تھے ہزار کی موجودگی میں بھی مرعوب نہ ہوتے تھے اسی بنا پر ان کا نام جن مشہور تھا کہ >جن ہے جن< جسے چمٹ گیا جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔
حوالدار صاحب اور میں ۱۵/ ۸ پنجاب رجمنٹ میں ایک طویل عرصہ تک اکٹھے کام کرتے رہے ہیں ایک دوسرے سے بخوبی واقفیت کی بنا پر ایک دن میرے پاس زیوارت سے بھرا ہوا بڑا سا ڈبہ لائے اور فرمانے لگے۔ صوبیدار صاحب آپ کا گھر اندرون محلہ میں واقع ہے اور محفوظ ہے یہ زیورات میری شادی کے ہیں کہیں ضائع نہ ہو جائیں انہیں اپنے گھر میں رکھ لیں۔
میں نے دل میں خیال کیا کہ میں بھی تو قیام امن کا کارکن ہوں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مجھے اپنے گھر یا قادیان سے باہر نہ بھیجا جائے گا۔ موجودہ حالات میں کوئی گھر اور کوئی محلہ محفوظ نہیں ہے ان کے زیورات کا تو صرف مجھے ہی علم ہوگا کہ میرے پاس کیا ہے اور کہاں رکھا ہوا ہے؟ اور کس نے دیا ہے اور کیا ثبوت ہے؟ ملٹری کرفیو نافذ کرکے کسی وقت بھی مکانات کی تلاشی لے سکتی ہے یا مکانات خالی کروا سکتی ہے۔ ایسی حالت میں نور احمد صاحب اور میرے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے اور بدمزگی الگ ہوگی۔
لہذا میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اپنے تمام زیورات صدر انجمن احمدیہ کے خزانہ میں لے جاکر انہیں چیک کرائیں وزن کرائیں اور اپنے روبرو سیل کروا کے امانت میں جمع کروا کے رسید حاصل کریں اس طرح آپ کے زیورات محفوظ رہیں گے انہوں نے میرے مشورہ پر عمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور پہنچنے پر نور احمد صاحب کو ان کے زیورات بحفاظت مل گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند روز بعد مجھ کو محلہ دارالفضل سے حلقہ بیت مبارک میں منتقل کر دیا گیا یہاں پر مجھے نگران حلقہ کے فرائض سونپے گئے اس حلقہ کی سرحدیں حضرت مولانا محمد سرور شاہ صاحب کے مکان سے شروع ہوکر حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب کے مکان اور پھر ڈھابوں کے ساتھ ساتھ سے گزرتے ہوئے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ ناصر آباد سڑک ننگل باغباں بہشتی مقبرہ سڑک موضع لیلاں اور بیت فضل کی طرف جانے والا راستہ شامل تھا ان کی سرحدوں پر حفاظتی پوسٹیں مقرر کرنا ان کی چیکنگ کے علاوہ اندرون حلقہ میں گشتی دستے بھیج کر اندر کا بھی پورا خیال رکھنا تھا میرے ہمراہ نائب کے طور پر بیت مبارک کے برادرم بشارت احمد ابن مولوی عبدالرحمان صاحب جٹ ممد و معاون تھے۔
اندرون حلقہ بیت مبارک میں حضرت مسیح موعود کے مکانات کے علاوہ قصر خلافت بیت مبارک خزانہ صدر انجمن احمدیہ دفاتر۔ احمدیہ بک ڈپو۔ بیت اقصیٰ قصر خلافت والی گلی )اس گلی میں سکھوں کے مکانات اور زیر قبضہ بیت بھی تھی( دفتر روزنامہ الفضل` پریس احمدیہ چوک` لاہوریوں والا چوک۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح اول کے مکانات` لنگر خانہ` مہمان خانہ` مدرسہ احمدیہ و بورڈنگ بیت فضل والی گلی شامل تھے۔ بورڈنگ احمدیہ اس حلقہ کا حفاظتی مرکز تھا دفتر کے نگران برادرم فیاض احمد صاحب کرمانی آف ٹی سٹال ڈیوٹی پر آنے والے خدام کے ناموں کا رجسٹر میں اندراج کرتے اور خدام کی حاضری لگاتے تھے۔
حلقہ بیت مبارک میں رات کی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد نماز فجر ادا کی اور اب ناشتہ کرنے کے لئے اپنے گھر محلہ دارالفضل جارہا تھا راستہ میں تھانہ پولیس تھا میرے ہاتھ میں ہاکی سٹک تھی میں نے سڑک سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ہزارہ سنگھ تھانیدار اپنے سر اور ڈاڑھی کے بال کھولے ہوئے تھانے کے برآمدے میں ایک چارپائی کے جھلنگے میں کپڑا اوڑھے بیٹھا ہے اس نے مجھے دیکھتے ہی ڈوگرا سپاہی سے کہا اسے بلا یہ کون جارہا ہے سپاہی کے بلانے پر میں تھانہ کے گیٹ میں جاکر کھڑا ہوگیا ہزارہ سنگھ یوں مخاطب ہوا کہ تجھے معلوم نہیں کہ قادیان انڈیا میں آچکا ہے اور تو ہاکی پکڑے پھررہا ہے جا دوڑ جا حالانکہ ہزارہ سنگھ میرا اچھا خاصہ واقف تھا جب کوئی ایس پی یا ڈی ایس پی قادیان آتا تو ہزارہ سنگھ خود میرے پاس آتا اور ان کی عینکیں مفت میں درست کروا کر لے جاتا تھا اور مجھ سے بہت ادب و احترام سے گفتگو کرتا تھا اور اب اس کا یہ حال ہے کہ ملک تقسیم ہوتے ہی آنکھیں بدل گئیں اور یوں سکھا شاہی زمانہ کی یاد دوبارہ تازہ کرکے دکھا دی۔
ایک دن کا ذکر ہے نماز عشاء کے بعد میں بہشتی مقبرہ کے باغ میں تقریباً دس بجے ڈیوٹی چیک کررہا تھا اس وقت میں نے محسوس کیا کہ درختوں کے سایہ میں کوئی آدمی گھوڑے پر سوار باغ میں پھررہا ہے میں نے اس پر ٹارچ سے لائٹ دالی تو دیکھا کہ ہزارہ سنگھ تھانیدار باوردی سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار ہے اور اس کے کندھے میں تھری نٹ تھری بور کی دو عدد رائفلیں لٹک رہی ہیں اور وہ اس راستہ سے لیلاں قصبہ کی طرف جارہا ہے دو رائفلیں لے جانے کا مطلب یہ نظر آرہا تھا کہ وہ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو اور سکھ ریٹائرڈ فوجیوں میں اسلحہ تقسیم کرتا پھرتا ہے تاکہ ہر سمت سے قادیان پر حملہ ہوسکے۔
ایک دن دوپہر کے وقت اطلاع ملی کہ موضع پنجگراں پر سکھوں نے حملہ کرکے اسے لوٹ لیا ہے یہ پیغام ملنے پر مجھ کو حضرت سید میر محمد احمد صاحب ناصر کے ہمراہ ہوائی جہاز پر پنجگراں کے لوگوں کی فوری مدد کے لئے بھیجا گیا۔ جب ہمارا ہوائی جہاز فضا میں پرواز کررہا تھا اس وقت ہمیں حد نگاہ تک آگ ہی آگ لگی اور دھوئیں کے گھٹا ٹوپ بادل آسمان کی طرف بلند ہوتے نظر آرہے تھے۔ علاقے کی کوئی ایک بستی ایسی نظر نہیں آئی جس میں کوئی بشر موجود ہو سب لوگ پراگندہ حالت میں اپنا ساز و سامان سروں پر اٹھائے گھومتے نظر آئے` کسی نے سامان تو کسی نے معذروں بوڑھوں اور بچوں کو کندوں پر اٹھایا ہوا ہے` کوئی مویشی ہانکتا چلا جارہا ہے` کسی نے بستر اور چارپائیاں اٹھائی ہوئی ہیں۔
برستا کا موسم ہے گھر سے بے گھر سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں نہ ہی کسی قسم کا حفاظتی بندوبست نہ کوئی یارومددگار۔
قادیان کے گردونواح کے باشندوں کو منارۃ المسیح دور سے نظر آرہا تھا۔ انہوں نے قادیان کا رخ کیا ہوا تھا یہ سمجھتے ہوئے کہ قادیان والے ہماری مدد ضرور کریں گے اور مدد بھی کررہے تھے ان کے لئے دن رات لنگر پر کھانا دیا جارہا تھا اور بے کس بے بس مسلمان بھائیوں کو پناہ دی جارہی تھی یہ ایسا نازک وقت تھا جس میں احمدی اور غیر احمدی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا جبکہ دشمن بلاتمیز و تفریق مسلمان کو ذبح کررہا تھا۔
نہنگ سکھوں کی تنظیم نے ہر طرف ہیبت پھیلا رکھی تھی اوپر سے میں نے دیکھا ایک نہنگ سکھ اپنے مخصوص لباس میں بلم پکڑے ہوئے گھوڑا سر پٹ دوڑائے چلا جارہا تھا نہ معلوم کیوں اور کدھر؟
یہ قیامت خیز نظارہ دیکھتے ہوئے جب ہمارا جہاز پنجگراں پر سے گزار تو اس گائوں میں کوئی حرکت نہیں تھی بلکہ یوں نظر آرہا تھا کہ گائوں سے انخلاء ہوچکا ہے گائوں سے کچھ فاصلہ پر بڑ کا ایک بہت بڑا درخت نظر آیا جس کے نیچے چند آدمی دبکے بیٹھے تھے۔
اب ہمارا جہاز یہاں سے بٹالہ شہر تک گیا شہر کے باہر کثرت فوجی ٹرک لائن میں کھڑے نظر آئے انہیں دیکھ کر ہمارے جہاز نے بلندی کا رخ اختیار کیا اور ایک دو چکر لگاتے ہوئے اس جگہ کا بغور معائنہ کیا شہر کے باہر دور دور تک لوگ ہراساں و پریشاں گردش کرتے ہوئے نظر آئے۔
اس کے بعد جہاز کا رخ یہاں سے قادیان کی طرف پھیر دیا دیکھا کہ تمام علاقہ اجڑ چکا تھا بہرحال جہاز منارۃ المسیح کے اوپر سے گزر کر براستہ بیت دارالفضل محلہ دارالانوار میں آاترا پانچ بجے شام کی خبریں شروع تھیں یہاں ہمیں اطلاع ملی کہ ابھی ریڈیو پر اعلان ہوا ہے کہ تحصیل بٹالہ کو بھی ہندوستان میں مدغم کر دیا گیا ہے۔
مجھے یہ خبر سن کر بڑا قلق ہوا اب سوائے صبر اور انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون کے اور کیا ہوسکتا تھا اس سے اگلے روز عید کا دن تھا ہماری عید تو اس بات پر منحصر تھی کہ تحصیل بٹالہ بھی میرے پیارے آقا محمد عربی~صل۱~ کی عملداری میں آجاتا اور آپ ہی کا علم اس پر سربلند نظر آتا بس میں تو دل تھام کر ہی رہ گیا اور یہاں سے سیدھا بیت مبارک پہنچا یہاں میں نے دیکھا کہ ریڈیو پر خبر سن کر میری ہی طرح بکثرت دوست و احباب بیت مبارک تشریف لائے ہوئے ہیں۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح بیت میں تشریف لائے نماز مغرب پڑھانے کے بعد حضور نے فرمایا آپ لوگ صبر اور دعائوں سے کام لیں فرمایا کہ میں رئویا میں دیکھ رہا تھا کہ میں جالندھر ہوشیارپور کی طرف مربی بھیج رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو وہی بہتر سمجھتا ہے۔ حضرت مصلح موعود کے دلی جذبات ملاحظہ فرمائیں۔
درد نہاں کا حال کس کو سنائیں کیا
طوفان اٹھ رہا ہے جو دل میں بتائیں کیا<۱۹۴
محاسب صدر انجمن احمدیہ کے دفتر کا قیام پاکستان میں
ریڈ کلف ایوارڈ کے فیصلہ کے بعد سیدنا حضرت المصلح الموعود نے سب سے پہلا اور اہم قدم یہ اٹھایا کہ جماعت احمدیہ کا خزانہ پاکستان میں منتقل کرنے کا فوری انتظام فرمایا اور ۲۳۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو دفتر محاسب دفتر انجمن احمدیہ کی ایک شاخ ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور میں کھول دی گئی اور راجہ علی محمد صاحب ناظر بیت المال نے بذریعہ مطبوعہ سرکلر )مورخہ ۲۱۔ اگست ۱۹۴۷ء( تمام امراء و صدر صاحبان کو اطلاع دی کہ۔
>آئندہ تمام جماعتیں جو مغربی پنجاب اور صوبہ سرحد اور سندھ میں واقع ہیں وہ تا اطلاع ثانی صدر انجمن احمدیہ کے ہر قسم کے چندے اور حفاظت مرکز کی تحریک کے متعلق تمام رقمیں بنام محاسب صاحب صدر انجمن احمدیہ ۱۳ ٹمپل روڈ لاہور بھیجیں اور ہر مقامی جماعت کے ذمہ جس قدر چندے اور وعدے قابل ادائیگی ہیں وہ فوراً ادا کئے جائیں<۔
قریشی محمد عبداللہ صاحب )حال سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج( کا بیان ہے کہ۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کا ارشاد تھا کہ محاسب صدر انجمن احمدیہ )مرزا عبدالغنی صاحب( فوراً لاہور بذریعہ ہوائی جہاز چلے جائیں اور اپنے ساتھ کوئی ہوشیار کارکن جسے وہ پسند کریں ساتھ لے جائیں اور وہاں دفتر محاسب و امانت Set کریں اور اپنے ساتھ روپیہ بھی لیتے جائیں۔
چنانچہ مرزا عبدالغنی صاحب ۱۹۔ اگست ۱۹۴۷ء کو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے دفتر خزانہ صدر انجمن احمدیہ سے خزانہ کا روپیہ لے کر دارالانوار پہنچ گئے اور بذریعہ ہوائی جہاز لاہور روانہ ہوگئے۔ آپ نے روانگی سے قبل خاکسار کو جو اس وقت دفتر محاسب و امانت کا ہیڈ کلرک تھا۔ ہدایت فرمائی کہ کل صبح نماز فجر کے معاًبعد حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ سے ہدایات لے کر لاہور پہنچ جائوں جس کی تعمیل میں خاکسار دوسرے دن ۲۰۔ اگست کو ہفتہ کے روز نماز فجر مسجد اقصیٰ میں ادا کرتے ہی حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوا اور اندر چٹ اپنے نام کی بھیج کر ہدایت چاہی جس پر حضرت میاں صاحب نے سرخی سے نوٹ فرمایا۔
>لاہور ابھی چلے جائیں جہاز دارالانوار میں تیار ہوگا۔ اپنے ساتھ صرف دفتر کا ضروری سامان دفتر چلانے کے لئے جو دس سیر سے زائد نہ ہو لے جاسکتے ہیں<۔
میں بجائے اس کے کہ گھر جاتا جو وہاں سے صرف پانچ چھ منٹ کا راستہ تھا دفتر محاسب پہنچا اور وہاں سے کچھ رسیدات اور دو ایک ضروری رجسٹر ساتھ لئے اور خزانہ کے پہرہ دار کو کہا کہ میرے گھر پیغام دے دیں کہ میں حضور کے ارشاد کی تعمیل میں لاہور جارہا ہوں۔ میں بھاگا بھاگا دارالانوار پہنچا۔ وہاں مسجد دارالانوار کے پاس جہاز اڑان کے لئے سٹارٹ ہوچکا ہوا تھا۔ اس کے پائلٹ سید محمد احمد صاحب تھے۔ میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی چٹ سید محمد احمد صاحب کو دی۔ انہوں نے جو آدمی پہلے جہاز میں لاہور جانے کے لئے بیٹھا تھا اسے اتار دیا۔ اور مجھے اس میں بیٹھنے کو فرمایا۔ میں نے رجسٹر وغیرہ جہاز میں رکھے اور جہاز میں بیٹھ گیا۔ میرے بیٹھتے ہی جہاز لاہور کے لئے اڑان کرگیا اور میں نے جہاز میں بیٹھے بیٹھے وطن کو آخری سلام کیا۔ اس دن بارش ہورہی تھی۔ راستے میں سید صاحب موصوف مختلف جگہوں پر سکھوں اور ہندو حملہ آوروں کے ہجوم بھی دیکھتے تھے تاکہ وہ اس کی اطلاع حضرت امیر المومنینؓ کو دے سکیں۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا۔ میں جہاز کی کھڑکیاں مذکورہ اطلاع لینے کے لئے کھول رہا ہوں جم کر بیٹھے رہو۔ کھڑکیاں کھل گئیں۔ نیچے جگہ جگہ حملہ آوروں کے ہجوم مختلف دیہات میں دیکھے گئے۔ کئی جگہ آگ لگ رہی تھی۔
ہمارا جہاز امرتسر کے بالکل اوپر سے نہیں گزرا کیونکہ امرتسر میں تو ہمارے جہاز کو اڑا دینے کے پورے سامان موجود تھے۔ اس لئے جہاز امرتسر سے ذرا ہٹ کر گزرا۔ قادیان سے لاہور ہم صرف نصف گھنٹہ میں پہنچ گئے۔ یہاں ہوائی اڈہ پر مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ تشریف لائے ہوئے تھے۔ وہی اس وقت لاہور میں مقامی امیر تھے۔ میں نے انہیں اپنی آمد اور آمد کے مقصد سے اطلاع دی۔ مجھے انہوں نے اپنی کار میں بٹھایا۔ اور کوٹھی ۱۳۔ ٹمپل روڈ لاہور میں )جو صدر انجمن احمدیہ کی ملکیتی ہے( پہنچے۔ یہاں اس وقت لاہور شہر اور بیرونجات سے احمدی احباب فسادات کے سلسلہ میں حملوں اور شہر میں جو لوٹ مار ہورہی تھی کے باعث مکرم شیخ صاحب سے مشورے کرنے آرہے تھے۔ مجھے تو حکم ہوا کہ میں وہاں کوٹھی میں دفتر قائم کرلوں اور جو احباب چندہ جات وغیرہ دیتے ہیں لینے شروع کردوں۔ میں نے باوجودیکہ کوٹھی میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی ایک کونے میں کرسی لگا کر کام شروع کردیا۔ چونکہ ابھی قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں سامان اور رضاکار بھجوائے جارہے تھے جس کے لئے شیخ صاحب مکرم پہلے پرچی جاری کرتے اور محاسب صاحب کی تصدیق سے میں ادائیگی کردیتا تھا۔ مذکورہ ضروریات کے لئے حضورؓ کے ارشاد کے مطابق حبیب بینک لمیٹڈ لاہور میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان لاہور کے نام سے اکائونٹ کھولا گیا جس کے آپریٹر شیخ بشیر احمد صاحب اور مرزا عبدالغنی صاحب محاسب قرار پائے تھے۔
مجھے بنک سے حسب ضرورت پچاس ساٹھ ہزار روپیہ نکلوا دیا گیا۔ میں روزانہ جو آمد چندہ جات وصول ہوتی اسے بنک مذکور میں جمع کرادیتا اور بنک سے برآمد شدہ رقم ہر دو افسران کی ہدایات کے تحت خرچ کرتا اور اس کا حساب رکھتا جاتا۔
لاہور میں اس وقت مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب )جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے( اور جماعت احمدیہ کی ہر طرف تعریف ہورہی تھی کہ یہی ایک مسلمانوں کی جماعت ہے جو ہندو سکھوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے<۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کا پہلا پیغام بیرونی احمدی جماعتوں کے نام
قادیان کا تعلق باقی دنیا سے کٹ چکا تھا جس کی وجہ سے بیرونی جماعتوں کا مشوش اور پریشان ہونا لازمی امر تھا حضرت سیدنا المصلح الموعود
نے ان حالات کو دیکھ کر بیرونی احمدیوں کے لئے اپنے قلم مبارک سے بعض پیغامات لکھے تا دوسری احمدی جماعتیں نہ صرف مرکز کی مخدوش صورت حال سے باخبر ہوں بلکہ نئے تقاضوں کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو مومنانہ جرات سے نباہنے کے لئے سرتاپا عمل ہوجائیں۔
اس ضمن میں حضور نے سب سے پہلا پیغام ۲۲۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو تحریر فرمایا اور بذریعہ ہوائی جہاز شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کو بھیجا کہ وہ اسے چھپوا کر پاکستان اور اس سے باہر ممالک کی جماعتوں کو پہنچا دیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پوری تعمیل کی۔ اس اہم پیغام کا متن یہ تھا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
فسادات بڑھ رہے ہیں۔ قادیان کے گرد دشمن گھیرا ڈال رہا ہے۔ آج سنا گیا ہے۔ ایک احمدی گائوں پوری طرح تباہ کردیا گیا ہے۔ اس گائوں کی آبادی چھ سو سے اوپر تھی۔ ریل` تار` ڈاک بند ہے۔ ہم وقت پر نہ آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں اور نہ جو لوگ قادیان سے باہر ہوں اپنے مرکز کے لئے کوئی قربانی ہی کرسکتے ہیں-
میں نے احتیاطاً خزانہ قادیان سے باہر بھجوا دیا ہے۔ پھر بھی اگر ان فسادوں کی وجہ سے بعض کو روپیہ ملنے میں دیر ہو تو انہیں صبر سے کام لینا چاہئے کہ یہی وقت ایمان کی آزمائش کے ہوتے ہیں مجھے بعض لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر چلا جائوں۔ ان لوگوں کے اخلاص میں شبہ نہیں لیکن میری جگہ قادیان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ تفسیر کا کام اور کئی اور کام پڑے ہیں۔ لیکن ان کاموں کے لئے خدا تعالیٰ اور آدمی پیدا کردے گا یا وہ مجھے قادیان میں ہی دشمن کے حملہ سے بچالے گا۔ لیڈر کو اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے۔ یہ خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا اور ہمیں فتح دے گا مگر پھر بھی حضرت مسیح موعودؑ کی عزت اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض مستوارت کو باہر بھجوانے کا ارادہ ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ نے انتظام کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے وعدوں کے مطابق آگئی تو یہ سب خدشات صرف ایک احمقانہ ڈر ثابت ہوں گے۔ لیکن اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے سمجھنے میں غلطی کی ہے تو یہ احتیاطیں ہمارے لئے ثواب کا موجب ہوں گی۔
آخر میں میں جماعت کو محبت بھرا سلام بھجواتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ اگر ابھی میرے ساتھ مل کر کام کرنے کا وقت ہو تو آپ کو وفاداری سے اور مجھے دیانت داری سے کام کرنے کی توفیق ملے اور اگر ہمارے تعاون کا وقت ختم ہوچکا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کے قدم کو ڈگمگانے سے محفوظ رکھے۔ سلسلہ کا جھنڈا نیچا نہ ہو۔ اسلام کی آواز پست نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کا نام ماند نہ پڑے۔ قرآن سیکھو اور حدیث سیکھو اور دوسروں کو سکھائو اور خود عمل کرو اور دوسروں سے عمل کرائو۔ زندگیاں وقف کرنے والے ہمیشہ تم میں سے ہوتے رہیں اور ہر ایک اپنی جائداد کے وقف کا عہد کرنے والا ہو۔ خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لئے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو۔ صداقت تمہارا زیور` امانت تمہارا حسن` تقویٰ تمہارا لباس ہو۔ خدا تعالیٰ تمہارا ہو اور تم اس کے ہو۔ آمین ۔
میرا یہ پیغام ہندستان کے باہر کی جماعتوں کو بھی پہنچا دو اور انہیں اطلاع دو کہ تمہاری محبت میرے دل میں ہندوستان کے احمدیوں سے کم نہیں۔ تم میری آنکھ کا تارا ہو۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ جلد سے جلد اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کا جھندا گاڑ کر آپ لوگ دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دیں گے اور ہمیشہ خلیفہ وقت کے جو ایک وقت میں ایک ہی ہوسکتا ہے فرماں بردار رہیں گے اور اس کے حکموں کے مطابق اسلام کی خدمات کریں گے۔ والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد ۴۷۔ ۸۔ ۲۲<
پاکستان اور بیرونی ملکوں میں حضرت مصلح موعود کا پیغام اور دوسری مرکزی اطلاعات پہنچانے کا انتظام
حالات کے تبدیل ہوتے ہی امیر جماعت احمدیہ لاہور )شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ( نے جماعت کراچی سے رابطہ قائم کرلیا جہاں جماعت احمدیہ کے ناظر امور عامہ مولانا عبدالرحیم
صاحب درد مقیم تھے اور قادیان کی صورت حال کے متعلق پاکستان کے وزراء سے ملاقاتیں کررہے تھے۔ کراچی کی جماعت غیر ملکی جماعتوں تک اطلاعات پہنچا دیتی تھی۔ یورپ کے تمام مشنوں تک اطلاعات کے ارسال کرنے کا طریق یہ اختیار کیا گیا کہ لندن مشن کو کراچی سے اطلاعات موصول ہوتیں اور یہاں سے اسے یورپ کے دوسرے مشنوں تک پھیلا دیا جاتا۔ اسی طریق کے مطابق سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ پیغام بھی پہلے لاہور پہنچا جہاں سے جماعت احمدیہ لاہور نے بذریعہ فون اسے کراچی تک پہنچا دیا اور جماعت کراچی نے اسے بیرونی جماعتوں تک پہنچانے کا انتظام کیا اور دہلی اور رنگون دونوں سے بذریعہ سرکلر یہ پیغام نشر کیا گیا۔ پاکستان اور پاکستان کے باہر دوسرے ممالک تک اطلاعات پہنچانے کا جو طریق اختیار کیا گیا وہی طریق ہندوستان کی جماعتوں کے لئے معرض عمل میں لایا گیا۔ یعنی کراچی سے براہ راست دلی کو اطلاعات دی جاتی رہیں۔ جب فسادات شروع ہوئے تو جناب صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب نمبر ۷۱ دریا گنج دہلی میں تھے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے قائد تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر کہ قادیان کی اطلاعات جماعتوں تک نہیں پہنچ رہیں` ۲۱۔ اگست ۱۹۴۷ء سے مندرجہ ذیل امراء جماعت کو سرکلر لیٹر بھجوانے کا انتظام فرمایا۔
آگرہ۔ انبالہ۔ بمبئی۔ بھوپال۔ بریلی۔ پٹیالہ۔ پانی پت۔ جالندھر۔ حیدر آباد دکن۔ ڈیرہ دون۔ منصوری۔ رہتک۔ شاہجہان پور۔ کلکتہ۔ کانپور۔ کراچی۔ کوئٹہ۔ لکھنو۔ لدھیانہ۔ کپورتھلہ۔ مالیر کوٹلہ۔ امرتسر۔ اٹک۔ نوک کنڈی۔ بنگلور۔ بھاگلپور۔ پشاور۔ پٹیالہ۔ جے پور۔ رانچی حیدر آباد سندھ۔ راولپنڈی۔ جہلم۔ چمن۔ چٹاگانگ۔ سکندر آباد۔ سرگودھا۔ سیالکوٹ۔ سورت۔ سرینگر۔ کرنال کاٹھیا واڑ۔ گجرات۔ قصور۔ لاہور۔ مدراس۔ میانوالی۔ مالابار۔ وزیر آباد۔
چنانچہ دہلی کے پہلے سرکلر لیٹر میں تحریر کیا گیا کہ ہمیں مرکز سے کوئی اطلاعات نہیں موصول ہورہیں۔ مگر احباب کو چاہئے کہ حضور کے خطبہ جمعہ کے ارشاد کے مطابق بار بار دعائیں کریں۔
دوسرے سرکلر میں بتایا گیا کہ ہم ایک خادم کو ہفتہ میں ایک بار بذریعہ ہوائی جہاز لاہور بھجوایا کریں گے نیز لکھا کہ ہم مرکز سے بالکل بے خبر ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہر وقت تعلق رکھیں۔ جس جماعت کو بھی کوئی قابل اعتبار خبر ملے وہ دوسری جماعتوں تک فوراً پہنچائے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کی جماعتوں کے لئے مندرجہ ذیل سات مرکز تجویز کئے ¶گئے جن کے ذمہ فرض عائد کیا گیا کہ وہ روزانہ دھلی سے اطلاعات حاصل کرکے اپنے قرب و جوار کی جماعتوں تک پہنچائیں۔
۱۔ حیدر آباد )برائے جنوبی ہند( ۲۔ بمبئی )برائے صوبہ بمبئی۔ گجرات۔ کاٹھیاواڑ( ۳۔ ناگپور )برائے جنوبی راجپوتانہ( ۴۔ بنگال )برائے بنگال۔ آسام۔ اڑیسہ( ۵۔ پٹنہ )برائے صوبہ بہار( ۶۔ لکھنئو )برائے صوبہ یو۔ پی( ۷۔ کراچی )برائے سندھ` بلوچستان(
یہ دوسرا سرکلر لیٹر لکھا جاچکا تھا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی طرف سے کراچی سے ۲۴۔ اگست کو مندرجہ ذیل پہلا تار موصول ہوا )اس مضمون کے مختلف تار کراچی سے دیگر ممالک کی جماعتوں کو بھی دیئے گئے(
۔off cut completely Qadian with "Communications populations hostile with surrounded Being upon Impress ۔moment any by feared attack of need wires urgent by Betton Mount Lord respect for measures immediate and decisive takeing and headquarters our of security and and ۔P۔U Inform communications, restore۔DARD ۔action simmilar bihar
۲۸۔ اگست ۱۹۴۷ء کے سرکلر میں بتایا گیا کہ حال ہی میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے گورنر جنرل انڈین یونین سے ملاقات کرکے قادیان کی حفاظت کے سلسلہ میں فوری انتظام کا مطالبہ کیا
‏vat,10.41
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۹
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
ہے۔ مولوی محمد سلیم صاحب )مبلغ کلکتہ( نے پنڈت نہرو` سردار بلدیو سنگھ اور مولانا آزاد سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ قادیان سے سلسلہ مواصلات جاری کیا جائے۔ نیز جماعتوں سے کہا گیا کہ وہ لارڈ مونٹ بیٹن` قائداعظم جناح` پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان کو درخواست کریں کہ ہمیں اپنے پیارے امام اور مرکز کی کوئی اطلاع نہیں مل رہی۔ براہ کرم انتظام فرمایا جائے۔
اس سے قبل ایک اور سرکلر میں بتایا گیا کہ احباب سے بذریعہ سرکلر ہم نے وعدہ کیا تھا کہ مرکز سے متعلقہ تمام معلومات جوں جوں ہمیں معلوم ہوں گی فوراً دوستوں تک پہنچا دی جائیں گی۔ اب تک حسب ذیل اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔ ) اس کے بعد کچھ معلومات درج ہیں اور پھر لکھا( مولوی محمد سلیم صاحب مبلغ اپنے ہیڈ کوارٹر سے بذریعہ ہوائی جہاز کل یہاں پہنچے تاکہ مرکز سے متعلق خبریں جماعت کلکتہ کو بھیجیں )اس کے بعد کلکتہ` بمبئی` کراچی اور حیدر آباد کی جماعتوں کے پتے درج کئے گئے(
صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب ۳۱۔ اگست ۱۹۴۷ء کو بذریعہ ہوئی جہاز لاہور تشریف لے آئے تو دہلی کی مجلس خدام الاحمدیہ کے سیکرٹری رشید احمد ملک نے یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لے لی کہ وہ ہندوستان کی جماعتوں کو مرکزی اطلاعات سے ضرور باخبر رکھیں گے اور متعدد سرکلر بھجوائے۔
غرض کہ قادیان کی مقدس بستی ریڈ کلف ایوارڈ کے فیصلہ سے قبل ہی باقی دنیا سے منقطع ہوچکی تھی مگر اس کے فدائی اور شیدائی اس صورت حال کو نہایت اضطراب کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہر اس ممکن کوشش میں مصروف تھے کہ ہمیں اپنے محبوب آقا اور محبوب مرکز کے حالات کا علم ہو جائے۔
شیخ بشیر احمد صاحب کے نام پہلا اہم مکتوب
پریس میں مسٹر غضنفر علی خاں وزیر خوارک پاکستان کے متعلق یہ خبر شائع ہوئی کہ آپ ۲۳۔ اگست ۱۹۴۷ء کو کراچی سے لاہور آرہے ہیں اور وہ جالندھر میں پنڈت جواہر لال نہرو وزیراعظم بھارت سے مشرقی پنجاب کے فسادات کے سلسلہ میں مشورہ کریں گے نیز شائع ہوا کہ دونوں اصحاب نے مشرقی پنجاب میں قیام امن کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ فساد زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے اور اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا۔۱۹۵
سیدنا حضرت المصلح الموعود نے اس اطلاع پر شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کے نام اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا۔
>مکرمی شیخ بشیر احمد صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
بار بار باتیں لکھی جاتی ہیں۔ ایسا نہ ہو مشوش ہو جائیں۔ ایک کاپی بنا کر اس پر لکھوا لیا کریں۔ کراچی سے راجہ غضنفر علی آرہے ہیں ان سے ضرور مل کر مندرجہ ذیل باتیں کریں۔
۱۔ سارے مشرقی پنجاب میں صرف گورداسپور میں ہی مسلم اکثریت کا ضلع ہے اس لئے اسے تباہ کرنے کی طرف سکھ لگ گئے ہیں اور اس وقت تک پچاس ہزار آدمی بھاگ چکا ہے اور عملاً یہ ضلع اقلیت کا ہوگیا ہے۔ یہی ان لوگوں کا منشاء تھا۔ یہ حالت اس طرح پیدا ہوئی ہے۔
الف۔ فوراً ہی سب مسلمان پولیس واپس چلی گئی۔
ب۔ ملٹری بھی ہندو لگائی گئی۔
ج۔ افسر مسلمان سب چلے گئے۔
د۔ گاڑیاں` تار` ڈاک بند ہوگئے۔ عوام نے سمجھا۔ ہمیں بند کرکے مارنے لگے ہیں۔ اس لئے بھاگو۔ سکھوں نے پراپیگنڈا کیا کہ اب یا سکھ ہونا پڑے گا یا ملک چھوڑنا پڑے گا۔ مسلمانوں نے گائوں چھوڑا تو گائوں جلا دیئے۔ اب واپس بھی نہیں جاسکتے۔
و۔ مغربی و مشرقی حکومتوں کی طرف سے پے درپے اعلان ہوئے کہ تبادلہ آبادی کا انتظام کیا جارہا ہے۔ اس سے لوگ بالکل ہی دل ہار بیٹھے اور اب تو بزدلی کی یہ حالت ہے کہ ایک سکھ نیزہ والا نظر آجائے۔ چوڑھا دھمکی دے دے تو سارا گائوں کا گائوں خالی کرکے بھاگ پڑتا ہے۔ ظلم بھی بے انتہا کیا ہے۔ بوڑھے` بچے` عورتیں اس قدر مارے گئے ہیں کہ الامان! یہ لوگ دوسری جگہ جاتے ہیں تو اپنی داستانوں سے اور لوگوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔
آپ انتظام کرنے آئے ہیں۔ خدا کرے کامیاب ہوں۔ مگر اسلام اور مسلمانوں کی مدد کرنی ہے تو اسی طرح اسلام کی بے حرمتی کو روکئے۔ سکھوں کے آگے سے محمد رسول اللہﷺ~ کے نام لیوا بھاگے جارہے ہیں۔ اس سے دل سخت دکھی ہوتا ہے۔ ترکیب یہ ہے کہ۔
۱۔
فوراً تار` ڈاک اور ریل کے جاری کرنے پر زور دیجئے۔ یہ روک مشرقی پنجاب کی طرف سے ہے اور مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے۔
۲۔
اول تو سارے مشرقی پنجاب کے متعلق کہہ دیجئے کہ اپنی اپنی جگہ مسلمانوں کو بسائو۔ ہم ہندوئوں کو بسائیں گے۔ نہ ان کو ادھر جانے دیں گے نہ ان کو ادھر آنے دیں گے۔ ہم ان لوگوں کو بے وطن نہیں کرنا چاہتے۔ اگر دوسری جگہ کے مسلمان ایسا نہیں کرسکتے تو گورداسپور کے متعلق ضرور ہی زور دیں۔ اس سے مسلمان بھی کچھ ٹھہرنے لگ جائیں گے۔ میں نے دیکھا ہے۔ پناہ گزینوں کے نکالنے میں ہندو سکھ افسر ایسی دلچسپی لیتے تھے کہ صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس میں وہ اپنا فائدہ سمجھتے ہیں۔
۳۔
فوراً ایک دو ہزار پولیس کا مسلمان فارغ کرکے ادھر بھجوایئے اور زور دیجئے کہ فوراً مسلمان علاقوں میں پھیلا دیں۔ اتنا ہی ہندو اپنی طرف لے کر ہندوئوں کے علاقے میں لگا دیں۔
۴۔
ملٹری اس وقت خطرہ کا موجب بن رہی ہے۔ فوراً مسلمان ملٹری خواہ ۳/۱ ہو پر زور دیجئے نیز اس پر کہ افسر غیر مسلم ہو تو نائب مسلمان ہو۔ نائب غیر ہو تو افسر مسلمان ہو۔
۵۔
ہوائی جہازوں کی سہولت پیدا کی جائے تا ادھر ادھر لوگ جاسکیں۔
۶۔
آپ گورداسپور میں ضرور آئیں۔ قادیان بھی ہوسکے تو` ورنہ گورداسپور بٹالہ ضرور` تایہ اکثریت کا ضلع اقلیت کا نہ ہو جائے۔ والسلام۔
خاکسار
مرزا محمود احمد۱۹۶
فیض اللہ چک ملٹری اور فسادیوں کے نرغہ میں
قادیان کے شمال مغرب میں واقع احمدی گائوں ۱۷۔ اگست کو فوجیوں اور فسادیوں کی یورشوں میں گھر گیا جس کے خونچکاں واقعات کی تفصیل جناب سعید احمد صاحب کوکب کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔
فرماتے ہیں۔ >ہمارا گائوں فیض اللہ چک` تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں قادیان سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر تھا۔ پورے کا پورا گائوں مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ بس عیسائیوں کے چند گھر تھے۔ لوگ زیادہ تر فوج` پولیس اور دوسرے محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ جب گورداسپور کا ضلع پاکستان کے ساتھ شامل ہوا تو گائوں بھر میں خوشی منائی گئی۔ مٹھائی تقسیم کی گئی۔ گائوں کی مساجد پر پاکستانی پرچم لہرائے گئے لیکن تمام خوشیاں عارضی ثابت ہوئیں کیونکہ دوبارہ اعلان ہوا کہ گورداسپور کا ضلع انڈیا میں شامل ہوگیا ہے۔
اب یہ علاقہ ہمیں چھوڑنا ہوگا۔ ہر فرد کو یہ سوال پریشان کررہا تھا۔ کسی چیز کو پاکر کھونا اس سے بڑا صدمہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ماحول پر افسردگی اور مایوسی سی طاری ہوگئی تھی۔ عیدالفطر کی نماز عجیب و غریب ماحول میں ادا ہوئی` کیونکہ خطرہ تھا کہ ہندو اور سکھ گائوں پر مسلح حملہ نہ کردیں۔ بڑے شہروں امرتسر` جالندھر وغیرہ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی۔ ہمارے قریبی گائوں ارجن پور میں سکھوں اور ہندوئوں نے کچھ گڑبڑ کی` لیکن ہمارے گائوں اور اردگرد کے دیہات کے مسلمانوں نے ان کی سرکوبی کی۔ اس سے علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی۔ مخبروں کے ذریعے ہرروز اطلاع ملتی رہتی تھی کہ ہندو اور سکھ گائوں پر حملہ کرنے کے لئے جتھہ بندی کررہے ہیں اپنے دفاع کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں۔ اردگرد کے دیہات کے مسلمانوں سے بھی صلاح مشورہ کیا گیا طے پایا کہ مسلمانوں کو دفاعی اعتبار سے زیادہ مضبوط کرنے کے لئے اردگرد کے مسلمان بھی ہمارے گائوں میں آکر جمع ہوجائیں۔ چنانچہ دانیاں والی` بہول چک` وزیر چک` ارجن پور` سیکھواں اور منڈی کرالاں وغیرہ سے مسلمان ہمارے گائوں میں آگئے۔ گائوں میں دو منزلہ اور تین منزلہ کئی مضبوط عمارتیں تھیں` ان کو محفوظ سمجھتے ہوئے خطرے کے وقت ان میں پناہ لینے کا پروگرام بنایا گیا۔ مکانوں کے اندر پانی اور اینٹوں وغیرہ کا انتظام کررکھا تھا۔ جتھہ بندی کی اطلاع ہرروز ملتی تھی۔ لیکن ان کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں پڑرہی تھی۔ غالباً انہیں ہماری طاقت کا اندازہ تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ ایک تو خود ہمارا گائوں مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل تھا` نیز دوسرے دیہات کے مسلمان بھی یہاں آچکے تھے` چنانچہ وہ ہماری افرادی قوت سے خوفزدہ تھے۔
میرے والد محترم ماسٹر غلام محمد گائوں میں مدرس تھے۔ ہمارا مکان گائوں کے مغربی حصے کا آخری مکان تھا۔ مکان سے صرف تین گز کے فاصلے پر مسجد کا کنواں تھا اس سے ملحق غسل خانے اور نو دس گز پرے گائوں کی چھوٹی مسجد تھی۔ مسجد سے آگے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر کھیت شروع ہو جاتے تھے۔
۱۷۔ اگست ۱۹۴۷ء کو تقریباً نو دس بجے اطلاع ملی کی انہی کھیتوں میں گائوں سے ذرا دور ملٹری کی دو جیپیں آکر رکی ہیں۔ گائوں کے سرکردہ لوگوں کو فوراً جمع کیا گیا جن میں گائوں کے نمبردار ملک عبداللطیف بھی تھے۔ سب سرکردہ مسجد کے صحن میں اکٹھے ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کیا کرنا چاہئے ہمارے کسی آدمی نے بارہ بور کی بندوق سے فائر کردیا۔ پھر کیا تھا۔ دور جیپوں میں بیٹھے ہوئے فوجی بجلی کی تیزی سے جیپوں میں سے اترے اور توپ سے مشابہ چیزیں زمین پر رکھ کر اسے سیٹ کرنے لگے )اب جب کہ مختلف مواقع پر اسلحے کی نمائش دیکھی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ مارٹر گنیں تھیں( تمام لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور اپنے آخری وقت کو یاد کرنے لگے۔ چند ثانیوں میں فیصلہ کیا گیا کہ گائوں کے میاں لطیف نمبردار کو ان فوجیوں کی طرف بھجوایا جائے۔ چنانچہ میاں لطیف صاحب نے سفید رومال اپنے ہاتھ میں پکڑا اور کمال جرات اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے لہراتے ہوئے ان فوجیوں کی طرف تیزی سے بڑھنے لگے۔ انہوں نے جب ایک آدمی کو سفید جھنڈی لہراتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا تو ان کی نقل و حرکت میں ٹھہرائو آگیا اور وہ ہمارے آدمی کا انتظار کرنے لگے۔ میاں صاحب کے جانے سے ہم سب مکمل تباہی سے دوچار ہوتے ہوئے بچے` ورنہ پورے کا پورا گائوں اپنے مکینوں کے ساتھ پیوند زمین ہو جاتا۔ نمبردار اور فوجیوں کے درمیان جو بات چیت ہوئی جو ہمیں بعد میں معلوم ہوئی وہ یوں تھی۔
فوجی افسر:۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے گائوں میں بہت سا اسلحہ موجود ہے۔
نمبردار:۔ حضور ایسی تو کوئی بات نہیں۔ ہمارے پاس اسلحہ کہاں سے آسکتا ہے۔
فوجی افسر:۔ تو پھر یہ فائر کس چیز کا ہوا؟
نمبردار:۔ وہ لائسنس شدہ بندوق تھی۔
فوجی افسر:۔ یہ فائر ہم پر کیوں کیا گیا؟
نمبردار:۔ حضور یہ فائر آپ پر نہیں کیا گیا بلکہ غلطی سے یونہی ہوگیا ہے۔
فوجی افسر:۔ خیر ہم گائوں کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔
نمبردار-: میں تو خود عرض کرنے والا تھا کہ آپ بچشم خود ملاحظہ فرمالیں۔
چنانچہ چھ سات فوجی نمبردار کے ہمراہ گائوں کی طرف آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ہمارا گھر اس طرف سب سے پہلے آتا تھا اس لئے وہ سب ہمارے گھر کے قریب آکر رک گئے۔ والد صاحب وہاں موجود تھے۔ نمبردار صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ ہمارے گائوں میں مدرس ہیں۔ وہ ہمارے گھر میں داخل نہ ہوئے۔ ایک فوجی کہنے لگا کہ دیکھئے ہم مسلمان ملٹری کے آدمی ہیں۔ ہم آپ کے دشمن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر ایک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ نمبردار انہیں ڈاکٹر ظہیر الحق )آرمی( کے گھر کی طرف لے گئے۔ ابا جان جلدی سے گھر میں داخل ہوئے۔ ہماری بڑی ہمشیرہ نے استفسار کیا تو والد صاحب کہنے لگے۔ فکر کی کوئی بات نہیں` مسلمان ملٹری ہے ہمشیرہ رونے لگی اور کہنے لگی۔ ابا جان یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ ہندو دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہمیں ضرور نقصان پہنچائیں گے۔ والد صاحب کہنے لگے۔ نہیں تمہیں خواہ مخواہ وہم ہے۔ ادھر ان فوجیوں کو ڈاکٹر ظہیر الحق کے گھر میں بٹھایا۔ جلدی جلدی چائے اور بسکٹ پیش کئے لیکن انہوں نے چائے پینے سے انکار کردیا۔ انہیں سگریٹ سلگا سلگا کر پیش کئے گئے لیکن انہوں نے ہاتھ تک نہ لگایا اور مسلسل انکار کرتے رہے۔ دراصل وہ تمام ہندو تھے اور گائوں کا جائزہ لینے کے لئے آئے تھے۔ وہ ہمیں دھوکا دے رہے تھے کہ وہ مسلمان ہیں ادھر ادھر گھوم پھر کر تسلی کرنے کے بعد انہوں نے واپس جانا چاہا چنانچہ ان کو گائوں سے کافی دور تک ساتھ جاکر رخصت کیا۔
۱۸۔ اگست کو قبل دوپہر اطلاع ملی کہ ہندوئوں اور سکھوں کی بہت بڑی تعداد حملہ کرنے کی نیت سے گائوں کے مشرقی جانب ڈیڑھ دو میل دور نصف دائرے کی صورت میں جمع ہوچکے ہیں۔ گویا ہمارے شبہات کو تقویت مل گئی کہ ہندو ملٹری کے اطمینان کرلینے پر کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہندوئوں اور سکھوں کو جرات ہوگئی تھی اور وہ حملہ کرنے آئے تھے۔ تمام افراد محفوظ مکانوں میں جمع ہوگئے۔ ہم جس مکان میں تھے وہ مولوی محمد شفیع صاحب مرحوم کا مکان تھا۔ یہ تین منزلہ پختہ مکان اسی ماہ مکمل ہوا تھا۔ رنگ و روغن ابھی خشک نہ ہونے پایا تھا۔ مکان میں کافی پانی جمع کرلیا گیا تھا۔ تاکہ آگ لگنے کی صورت میں قابو پایا جاسکے۔ اس کے علاوہ پختہ اینٹیں بھی کافی مقدار میں جمع کی ہوئی تھیں۔ میں نے آخری منزل کی چھت پر کھڑے ہوکر دور نظر دوڑائی۔ مشرقی جانب ہندو سکھ چیونٹیوں کی طرح کھڑے دور ہی سے تلواریں لہرا رہے تھے۔ سورج مغرب کی طرف آچکا تھا۔ اس لئے لہراتی ہوئی تلواریں روشنی میں چمک کر آنکھوں کو خیرہ کر دیتیں۔
جونہی سورج ڈھلنے لگا حملہ آوروں نے اپنا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ مکان کی آخری منزل اور دوسری منزل کی طرف فائر آنے لگا۔ یہ فائر تھری ناٹ تھری کا تھا۔ میرے دوسرے بھائی دوسری منزل پر کھڑے تھے۔ جونہی انہوں نے پردے کی دیوار سے سر اونچا کیا۔ ایک گولی سنسناتی ہوئی آئی اور پختہ دیوار میں لگی۔ نشانہ خطا گیا تھا۔ بھائی نے گولی اٹھائی جو گھونگھے کی صورت اختیار کرچکی تھی۔ وہ اسے اٹھانے لگے تو ہاتھ جل گیا۔ انہوں نے کرتے سے پکڑا اور نیچے آگئے۔ دشمن کا اسلحہ ضائع کرانے کی غرض سے ہم ایلومینیم کی دیگچی لاٹھی کے اوپر رکھ کر اونچی کر دیتے۔ سیاہ رنگ کا تلا دور سے انسانی سر معلوم ہوتا اور زناٹے سے گولی آکر لگتی۔ اسی دوران ہماری طرف سے جوابی فائر داغ دیا جاتا` لیکن آخر کب تک؟ حملہ آور گائوں میں داخل ہوچکے تھے۔ نہتے مسلمانوں پر تلواریں اٹھ رہی تھیں۔ ہمارے پاس کچھ ہینڈ گرنیڈ تھے۔ ایک گرنیڈ پھینکا جو پانی اور کیچڑ میں دھنس گیا۔ بارشوں نے زمین کو گیلا کیا ہوا تھا۔ ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا اب ایک ترکیب اختیار کی گئی۔ پہلے کافی پختہ اینٹیں دور دور پھینکیں پھر ان اینٹوں پر گرنیڈ پھینکے۔ ادھر ادھر پھرتے ہوئے کئی سکھ اور ہندو جہنم کو سدھارے۔ ویسے بھی وہ خوفزدہ ہوگئے اور مکان سے دور بھاگ گئے۔
اسی دوران مکان کے دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ ایسی صورت میں دروازہ کھولنا خطرناک تھا۔ ہوسکتا تھا کہ دشمن کے آدمی ہوں بڑی مشکل سے اوپر جھانک جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اپنے ہی چند آدمی اندر داخل ہونا چاہتے ہیں۔ جلدی جلدی دروازہ کھولا وہ چلانے لگے۔ مسلمان ملٹری آگئی ۔۔۔۔۔ مسلمان ملٹری آگئی۔ وہ خوشی سے دیوانے ہوئے جارہے تھے۔ ہر مرد اور عورت کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔
تھوڑی دیر بعد گائوں ہی کے دو جوان سعید احمد )آرمی( اور محمد شفیق )ائیر فورس( پوری طرح مسلح ہاتھوں میں سٹین گن لئے داخل ہوئے۔ انہیں دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوگئے۔ ہر طرف سے ان کے والدین کو مبارکباد ملنے لگی۔ کسی نے ہماری والدہ کو بھی مبارک باد دی کہ آپ کا لڑکا غلام احمد )آرمی( بھی آیا ہے۔ ہمیں پہلے سے بھی زیادہ خوشی ہوئی کہ اب ہم سب حفاظت سے رہیں گے۔ تاہم مکان کے اندر ہم نے صرف سعید اور شفیق کو ہی دیکھا دونوں جلدی جلدی مکان کی بالائی منزل پر چڑھ گئے اور چاروں طرف سٹین گنوں سے فائر کرنے لگے۔ ساتھ ساتھ ہینڈ گرنیڈ پھینکے۔ مسلمان ملٹری کے آنے کی خبر دشمن تک بھی پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ہماری طرف سے مسلسل فائر نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ جب خطرہ ٹل گیا تو دونوں پہلی منزل میں آئے۔ والدہ نے شفیق اور سعید سے پوچھا کہ ہمارا غلام احمد کہاں ہے؟ ان کے جواب نے ہم پر گویا بجلی گرا دی۔ شفیق نے پہلے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن بعد میں بتایا کہ >گائوں میں داخل ہوتے وقت غلام احمد )ہمارے سب سے بڑے بھائی( کو گولی لگ گئی تھی اور وہ شہید ہوگیا<۔ جو خطرہ ہماری اپنی جانوں کو لاحق تھا وہ تو ہم بھول گئے۔ اب ہمیں بھائی کی یاد آنے لگی کہ وہ کہاں سے موت کے منہ میں آگئے۔
والدہ کی حالت سب سے زیادہ غیر ہورہی تھی۔ انہیں فوراً خونی دست آنے شروع ہوگئے۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں اور والدہ صاحبہ زار و قطار رو رہے تھے۔ والد صاحب نہ جانے کس طرح ضبط کئے ہوئے تھے۔ چونکہ حملہ آور مسلمان ملٹری کے خوف سے گائوں خالی کرگئے تھے اس لئے مرد اپنے اپنے گھروں کی حالت دیکھنے کے لئے چلے گئے۔ عصر کا وقت ہوچکا تھا کئی مکانوں کو نذر آتش کیا جاچکا تھا۔ کچھ مسلمان بھارتی سامراجیوں سے جنگ کرتے ہوئے پاکستان کی بنیادوں میں اپنا خون` اپنا تن` اپنا من اور دھن ڈال چکے تھے۔ گھر میں داخل ہوئے تو بھینس دیوار سے ٹکریں مار رہی تھی۔ اسے کسی نے ابھی تک کھولا نہیں تھا۔ گندم کی بوریوں کو آگ لگ گئی تھی۔ صندوقوں میں سے کپڑے نکال نکال کر ادھر ادھر بکھیرے ہوئے تھے۔ کہیں کہیں آگ لگی ہوئی تھی گھر کے ساتھ ہی کنواں تھا پانی لاکر آگ بجھائی اور بھینس کو پانی پلایا۔ کتا رسی توڑ کر باہر کھڑا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی پائوں میں آکر لوٹنے لگا۔ زیوارت ایک خفیہ جگہ پر رکھے ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ڈبہ نکال کر دیکھا زیورات بالکل محفوظ تھے۔ دوبارہ اسی جگہ رکھ دئے تمام کاموں سے فارغ ہوکر دروازہ بند کیا اور قریبی مسجد کی طرف گئے۔ مسجد کا موذن جان کنی کی حالت میں تھا۔ گائوں کا ایک اور آدمی مسجد کے حجرے میں صفوں کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ والد صاحب کی آواز پہچان کر باہر نکل آیا اور موذن کے شہید ہونے کا منظر بیان کرنے لگا۔ سکھ اس پر وار کرتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے کیوں اوئے توں بانگاں دینداسی؟ ہور دے بانگاں<۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کی شہ رگ کاٹ دی۔ گائوں ہی کے ایک اور لڑکے عبدالرحمن کی شہ رگ کٹی ہوئی تھی۔ وہ ہمارے مکان کی دیوار کے ساتھ پڑا تھا اور پانی پانی کہہ رہا تھا۔ بھائی جان نے پانی اس کے منہ میں ڈالا` مگر پانی کیا پیتا شہ رگ کٹی ہوئی تھی تھوڑی دیر میں اس نے بھی اپنی جان کا نذرانہ پاکستان کو پیش کردیا۔
شام ہونے لگی تھی کہ گائوں کے تمام مرد واپس مکانوں میں آگئے۔ ادھر گائوں کے عیسائیوں نے ہندوئوں اور سکھوں کے پاس جاکر مخبری کی کہ ملٹری وغیرہ کوئی نہیں۔ گائوں ہی کے نوجوان جو فوج میں ہیں وہ آئے ہیں چنانچہ حملہ آوروں نے دوبارہ منظم ہونا شروع کردیا۔ آخر یہ طے پایا کہ چونکہ حالات بہت خراب ہورہے ہیں۔ بہتر ہے کہ گائوں چھوڑ کر قادیان کا رخ کیا جائے۔ کیونکہ وہاں ابھی تک امن تھا اور ہمارے لئے محفوظ مقام تھا۔ مغرب کے بعد تمام لوگ گائوں کی بڑی مسجد میں آکر جمع ہوگئے۔ اب سب پر واضح ہوگیا کہ گھروں کو مستقل طور پر چھوڑنا پڑرہا ہے۔ اندھیرے میں دوبارہ زیورات اور روپیہ پیسہ لینے کے لئے جانا مشکل تھا۔ والد صاحب کہنے لگے میں گھر جاتا ہوں کم از کم زیورات ہی اٹھا لاتا ہوں۔ ہماری ہمشیرہ نے ابا جان کا دامن پکڑلیا اور کہنے لگیں۔ بھاڑ میں جائے زیور آپ کو اس خطرے میں گھر نہیں جانے دوں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ والد صاحب کو اس طرح سے روکنا معجزہ سے کم نہ تھا کیونکہ چند لوگ جو اس وقت مسجد سے زیورات اور روپیہ لینے کے لئے ایک بار پھر گھروں کو گئے وہ دوبارہ کبھی بھی ہمارے ساتھ نہ مل سکے` کیونکہ وہ حملہ آوروں کے ہاتھوں اپنے اپنے گھروں میں مارے گئے۔ قادیان جاتے ہوئے راستے میں بڑی نہر >تتلیاں والی< پڑتی تھی۔ نہر کے بڑے پل )تتلیاں والا کے قریب( کا رخ قصداً نہ کیا گیا۔ خطرہ تھا کہ اس پل کی ناکہ بندی ہوگی۔ چنانچہ بٹراں والے چھوٹے پل کی طرف رخ کیا۔ جب اس پل کے قریب پہنچے تو وہاں دو سکھ تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے۔ پل کے حفاظتی جنگلے توڑ دئے گئے۔ سعید نے پل سے تھوڑے فاصلے پر گولی چلا دی۔ آواز سن کر چند اور سکھ پل پر پہنچ گئے۔ وہ کہنے لگے ہم پر گولی کیوں چلائی ہے؟ واقعی ایسے وقت گولی چلا کر خواہ مخواہ مصیبت میں پڑنے والی بات تھی چنانچہ سعید اور شفیق اپنی سٹین گنیں آگے کئے ہوئے پل کی طرف بڑھے۔ سعید نے رعب دار آواز میں کہا کہ ہم فوج کے آدمی ہیں اور اس قافلے کو بحفاظت قادیان لے جارہے ہیں۔ دونوں چونکہ مسلح اور باوردی تھے اس لئے سکھ ڈر گئے۔ سعید اور شفیق خود پل پر اس طریقے سے کھڑے ہوگئے کہ ان کی نظر سکھوں پر بھی رہے اور وہ ان کی گنوں کی زد میں بھی رہیں جو آدمی تیرنا جانتے تھے انہوں نے عورتوں اور بچوں کو کندھوں پر اٹھا اٹھا کر پانی میں چل کر نہر عبور کروائی۔ پل مصلحتاً استعمال نہ کیا۔ جب تمام افراد نہر سے دوسری طرف چلے گئے تو سعید اور شفیق بھی پل کو چھوڑ کر قافلے کے ساتھ آملے۔ نہر عبور کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ پانی کافی تیز بہہ رہا تھا اور کافی گہرا بھی تھا۔ اب سعید قافلے کے آگے اور شفیق پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
قادیان کی حدود میں پہنچے تھے کہ اذان ہونے لگی۔ والدہ کہنے لگیں۔ فیض اللہ چک سے مغرب کے بعد چلے تھے اور عشاء کے وقت قادیان پہنچ گئے ہم نے بڑی جلدی سفر طے کرلیا مگر جونہی موذن نے الصلٰوۃ خیر من النوم کہا والدہ رونے لگیں۔ کیا ہم تمام رات چلتے رہے؟ جب کہ تین میل کا فاصلہ تھا دراصل گائوں کی آبادیوں سے بچتے بچاتے نہ جانے کس کس طرف گھوم پھر کر کتنا فالتو سفر کرنا پڑا۔
اگلے روز سعید اور شفیق ہمارے والد صاحب کو ہمراہ لے کر بذریعہ جیپ دوبارہ بھائی غلام احمد کی تلاش میں گئے۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ دو تین دن کے بعد ہم آرمی کے ٹرک میں لاہور چلے آئے۔ ہمارے چچا چوہدری فضل کریم لاہور سول سیکرٹریٹ میں ملازم تھے۔ سب سے پہلے یہ ہمیں ملے ہم نے یک زبان ہوکر بھائی جان کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ غلام احمد ٹھیک ہے اور خیریت سے ہے۔ خوشی کے مارے ہم رونے لگے۔ قریب ہی پولیس سٹیشن تھا۔ چچا جان نے بھائی جان کو چھائونی میں ٹیلی فون کیا اور بتایا کہ تمام گھر والے لاہور پہنچ گئے ہیں۔ نیز انہیں جلدی گھر آنے کی تاکید کی۔ ہم پاکستان کی سرزمین پر پہنچ چکے تھے۔ اس سرزمین پر جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے عملاً اپنے خون کی ندیاں بہا دیں۔ ان کے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا۔ مائوں` بہنوں` بہو بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئیں۔ ہاں وہی پاکستان جس کے لئے ہم نے سب کچھ قربان کردیا۔][ہاں تو عشاء کی نماز کے بعد بھائی جان گھر آئے۔ ایک بار ہم پھر خوب روئے۔ اب ذرا بھائی جان کے شہید ہونے والی بات خود ان ہی کی زبانی سنئے۔
>شفیق سعید اور میں نے مشورہ کیا کہ ملکی حالات چونکہ خراب ہیں۔ اس لئے والدین کو بحفاظت پاکستان لانے کے لئے گائوں جائیں۔ ہم نے تین ٹرک لئے ان کے ڈرائیور اگرچہ سکھ تھے` لیکن ان کے ساتھ دو دو فوجی بھی حاظت کے لئے ساتھ تھے۔ جب ہمارے ٹرک نوشہرہ کے گائوں کے قریب پہنچے تو کیچڑ میں پھنس گئے۔ بارشوں کی وجہ سے تمام راستے خراب ہوچکے تھے۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ ٹرک آگے چلے جائیں` مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس لئے مجبوراً ہم نے ٹرک وہیں چھوڑے اور پیدل گائوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ سعید سب سے آگے` اس کے پیچھے شفیق اور سب سے پیچھے میں تھا۔ ہم میں سے ہر ایک کے درمیان دس بارہ گز کا فاصلہ تھا۔ سعید گائوں کے پہلے مکان سے تھوڑی ہی دور تھا کہ ہماری بائیں جانب سے رائفل کا فائر آیا۔ میں جلد سے لیٹ گیا وہ دونوں بھی نیچے جھک گئے اور جلدی جلدی گائوں کے اندر داخل ہوگئے انہوں نے غالباً مجھے زمین پر گرتے ہوئے دیکھ لیا ہوگا۔ اور سمجھا ہوگا کہ مجھے گولی لگ گئی ہے۔ تھوڑی دیر زمین پر پڑا رہنے کے بعد میں نے گائوں کی طرف جانے کی بجائے اپنے داہنے ہاتھ گنے کے کھیت کی طرف رینگنا شروع کردیا۔ قریب جاکر میں ایک کھیت میں گھس گیا۔ فصل کے اندر غضب کا حبس تھا۔ گیلی زمین سے گرم بخارات اٹھ رہے تھے۔ میں نے قمیض اتارلی اور اپنے آپ کو فصل کے ایسے حصے میں چھپا لیا جس کے باہر کی طرف کم گنے تھے۔ اس طرح دور سے گزرنے والا ہر شخص مجھے دکھائی دے سکتا تھا۔ جونہی کوئی سکھ` ہندو گائوں کی طرف جاتے ہوئے میری بندوق کی زد میں آتا` میں اس پر فائر کردیتا ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی سوچتا کہ گھر پہنچ کر بھی میں گھر والوں کی مدد نہ کرسکا۔ دوسرے ایمونیشن کے بڑے تھیلے جن میں سٹین گن کی گولیاں بھی تھیں تھے۔ سعید اور شفیق کے پاس چھوٹے تھیلے تھے۔ خیر میں گاہے گاہے فائر کرتا اور یوں ہندو اور سکھ واصل جہنم ہوتے رہے۔ کافی دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کھیت کے دونوں طرف آدمی چل پھر رہے ہیں۔ میں غور سے آواز پر کان لگائے بیٹھا تھا کہ اچانک آواز آئی تم جو بھی ہو ہتھیار ڈال دو۔ تم ہمارے گھیرے میں ہو ادھر ادھر حرکت کرنے یا بھاگنے کی کوشش کی تو گولی مار دی جائے گی<۔
ان کے الفاظ اور لہجے سے اندازہ ہوا کہ یہ صرف فوج کے لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔ میں اسی طرح ہاتھ اوپر اٹھائے اپنی رائفل سمیت کھیت سے باہر نکلا تو پانچ چھ ہندو فوجی پوری طرح مسلح کھڑے تھے۔ انہوں نے میری طرف بندوقیں تان رکھی تھی۔ مجھ سے رائفل اور ایمونیشن کے تھیلے وغیرہ چھین لئے اور کھیت سے پرے ہوگئے ایک بولا۔ >فوج سے بھاگا ہوا ہے<۔ میں نے فورا کہا۔ >بھاگا ہوا نہیں<۔ دوسرا بولا۔ >گولی مار دو موسلے کو<۔ اتنی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انگریز تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہے۔ وہ شہریوں کے لباس میں تھا۔ میں نے ان ہندو فوجیوں سے کہا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اس کے پاس لے گئے۔ میں نے اسے انگریزی میں کہا کہ دیکھئے یہ میرا گائوں ہے۔ یہ آگ میں جل رہا ہے۔ میں رخصت لے کر اور اجازت لے کر آیا ہوں۔ میرے ٹرک یہاں سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر کیچڑ میں پھنس گئے ہیں` اس لئے وہ یہاں نہیں آسکے۔ میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو لینے آیا ہوں۔ میں نے اپنی پاس بک اور اجازت نامہ اسے دکھایا اس نے میری پوری بات سنی اور پھر ان ہندو فوجیوں سے کہنے لگا۔
اسے گورداسپور لے چلو۔ دراصل دور آم کے پیڑ کے نیچے ہندو ملٹری نے باقاعدہ اپنا ایک اڈا بنایا ہوا تھا۔ یہ فوجی وہیں سے مجھے ڈھونڈنے آئے تھے۔ خیر میں ان کے ساتھ جیب میں بیٹھ گیا۔ تمام راستہ انہوں نے اپنی سنگینیں مجھ پر تانے رکھیں۔ ایک بار جیپ رکی` میں نے پیشاب کرنے کے لئے کہا تو ایک نے رائفل کا بٹ میرے کندھے پر مارا اور بولا۔ >بھاگنا چاہتا ہے<۔ میں اسی طرح بیٹھ بیٹھا رہا۔ گورداسپور پہنچ کر انہوں نے لاہور سے میرے متعلق تصدیق کی` جب ان کی ہر طرح سے تسلی ہوگئی تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میں لاہور پہنچ گیا<۔۱۹۷
فیض اللہ چک پر حملہ اور انخلاء
ان ہوشربا واقعات کے چند روز بعد ۲۳۔ اگست کو فیض اللہ چک پر ہزاروں مسلح سکھوں نے پولیس اور ملٹری کی موجودگی میں حملہ کیا جس میں بہت سے احمدی اور غیر احمدی شہید ہوئے اور کئی مسلمان عورتیں اغوا کرلی گئیں اور سارا گائوں معہ ملحقہ دیہات کے خالی کرالیا گیا اور ایک احمدی جو فیض اللہ چک کی خیریت دریافت کرنے کے لئے موٹر پر جارہا تھا اس کے ڈرائیور کو گولی سے زخمی کرکے موٹر ضبط کرلی گئی۔
شیخ بشیر احمد صاحب کے نام دوسرا اہم مکتوب
‏0] f[rtاس سانحہ ہوشربا کے معاًبعد حضرت مصلح موعود نے شیخ بشیر احمد صاحب کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا۔
>مکرمی شیخ صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
کل رات سے فیض اللہ چک احمدی گائوں پر حملہ ہوا۔ دو دفعہ وہ لوگ پسپا ہوئے۔ مگر پھر پولیس کی مدد سے جو جب بھی فیض اللہ چک کو غلبہ ملتا سکھوں کی مدد کرتی۔ آخر کل قصبہ تباہ ہوا۔ بہت سے آدمی مارے گئے۔ دو ہزار پناہ گزین قادیان رات کو آیا ہے۔ اس وقت قادیان کی حالت بالکل بے بسی کی ہے کیونکہ ملٹری اور پولیس کا رویہ خطرناک ہورہا ہے گو ظاہراً نہیں۔ اس وقت پیر احسن الدین پر زور دیں کہ ایک ریفیوجی سنٹر قادیان بھی کھلوا دیں۔ جہاں چھ ہزار سے زائد پناہ گزین ہوچکا ہے اور اور لوگ آرہے ہیں۔ اس طرح یہاں مسلمان ملٹری اور ایک مسلمان افسر رہ سکے گا۔ جبکہ گورنمنٹ خود مخالفت کررہی ہے میں سوچ رہا ہوں کہ آیا مقامات سے زیادہ آدمیوں کی حفاظت کی ضرورت نہیں؟ حضرت صاحب کا ایک الہام بھی ہے کہ یاتی علیک زمن کمثل زمن موسی یعنی موسیٰ کی طرح تجھ پر بھی ایک زمانہ آنے والا ہے۔ سو ممکن ہے عارضی ہجرت اس سے مراد ہو۔ لیکن اب تک تو کنوائے ہی نہیں آیا۔ حالانکہ کل اطلاع آئی تھی کہ آرہا ہے بٹالہ سے ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بچے نکالے جارہے ہیں۔ پیر احسن الدین صاحب کو کہہ کر کنوائیز کا انتظام کروا دیں تو قادیان سے بھی عورتوں بچوں کو نکلوا دیا جائے مگر نارووال کی طرف<۔
جماعت احمدیہ کے ہوائی جہازوں پر پابندی
۲۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو جماعت احمدیہ کے دونوں جہازوں کا قادیان میں آنا جانا ممنوع قرار دیا گیا جو قادیان اور پاکستان سے رابطہ کا واحد ذریعہ تھے۔
حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہکی پاکستان میں تشریف آوری
حالات چونکہ لحظہ بلحظہ تشویشناک ہورہے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ دشمن عنقریب قادیان پر حملہ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔ اس لئے حضرت
سیدنا المصلح الموعود نے صحابہ مسیح موعود سے مشورہ طلب کیا کہ حضرت ام المومنین اور خاندان مسیح موعود کی دوسری مبارک خواتین کو پاکستان میں بھجوانا مناسب ہے یا نہیں؟ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۲۳۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا۔
>حضرت ام المومنین اور خواتین مبارکہ کے کسی محفوظ مقام پر پہنچانے کے لئے میں نے اپنے محلہ >دارالرحمت< کے ۲۴ صحابہ سے اپنی طرف سے تجویز پیش کرکے آج بعد نماز ظہر مشورہ کیا تھا۔ ان سب نے باتفاق یہی مشورہ دیا کہ حضرت سیدۃ النساء اور خواتین مبارکہ کو کسی محفوظ جگہ پہنچانا مناسب ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اس مشورہ کے بعد دوسرے اشخاص سے بھی مشورہ کروں لیکن بھائی عبدالرحیم صاحب نے فرمایا کہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس کے متعلق مشورہ کی بجائے صرف حضور ہدایات دے دیں۔ اسے اشاعت دینے کی ضرورت نہیں<۔
اس پر حضرت مصلح موعود نے فیصلہ فرمایا کہ خواتین مبارکہ کو جلد سے جلد قادیان سے پاکستان پہنچانے کا انتظام کیا جائے چنانچہ ۲۵۔ ظہور/ اگست۱۹۸ کو یہ انتظام ہوگیا اور حضرت ام المومنین اور دوسری خواتین مبارکہ )باستثناء حضرت سیدہ ام متین صاحبہ و حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ( لاہور تشریف لے آئیں۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود کا تیسرا اہم مکتوب شیخ بشیر احمد صاحب کے نام
ابھی جماعت احمدیہ کے ہوائی جہازوں پر پابندی کی اطلاع حضرت مصلح موعود تک نہیں پہنچی تھی کہ حضور نے اپنے قلم مبارک سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ایک اہم مکتوب
لکھا جو پیش آمدہ حالات کے مدنظر نہایت بیش قیمت ہدایات پر مشتمل تھا۔ اس مکتوب سے جو دراصل شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور کیلئے لکھا گیا چونکہ ان پرخطر اور پرفتن ایام کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی ہے اس لئے اسے بجنسہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>یہ مضمون پڑھ لیں۔۱۹۹ جب بھی موقع ملے یہ مضمون شیخ بشیر احمد صاحب کو چھپوا کر شائع کروانے اور اخباروں کو اطلاع دینے کے لئے بھجوا دیا جائے۔ انہیں اطلاع دی جائے کہ )قادیان میں(۲۰۰ امن کی رپورٹ )جو بعض افسروں۲۰۱ نے کی ہے( بالکل غلط ہے` اس کی تردید کریں۔ کچھ دنوں سے فسادات کی صورت ترقی کی طرف ہے کمی پر نہیں۔ ہاں مسلمان کچھ زیادہ مقابلہ کرنے لگے ہیں )یہاں حضور نے اپنے قلم سے حاشیہ میں لکھا >ہاں چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی کسی طرح تار دے کر بلوایا جائے تا وہ حالات خود دیکھ کر وائسرائے` نہرو` سر تردیدی وغیرہ کو مل سکیں۔ حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں( پس اس وجہ سے اب سکھ ذرا سوچنے لگا ہے۔ دوسرے ایک دو دن سے سکھ کیز ویلٹی CASUALTY بڑھ گئی ہے )قادیان میں(۲۰۲ مسلمان ملٹری آگئی ہے۔ )جس۲۰۳ کا افسر ہندو ہے( مگر کوئی خاص فائدہ اب تک نظر نہیں آتا۔ ہاں سکھ کچھ محتاط ہوگیا ہے مگر ساتھ اس کے حیلے سے زیادہ کام لینے لگ گیا ہے جو زیادہ خطرناک ہے۔ جماعت کو جھوٹے الزامات سے نقصان پہنچانے کی تدبیریں ہورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے سپرد قافلہ کو فوراً واپس کرنے کا انتظام کیا جائے۔ ڈاکٹر احد کو بھی۔ )ہمارے مردوں کے جانے کی وجہ سخت ضعف ہورہا ہے۔ کام کرنے والے کم ہوگئے ہیں۔ ان لڑکوں نے سخت غلطی کی ہے کہ مل کر باہر چلے گئے سلسلہ کی عظمت اپنی ذاتی خواہشات پر مقدم ہونی چاہئے۔ اب اگر ان کی عدم موجودگی میں حملہ ہوا تو یہ لوگ ثواب سے اس طرح محروم رہ جائیں گے۔
مظفر سے فون یا خط وغیرہ سے باقاعدہ تعلق رکھیں۔ وہ پولیس کے چند آدمی حسب فیصلہ بھجوا دیں۔ بہت ہوشیار ہوں۔ وہ ڈیرہ بابا نانک سے قادیان تک کا مناسب راستہ دیکھتے آئیں اور قادیان آکر اطلاع دیں۔ ڈیرہ کے دوسری طرف یا جہاں سے سیالکوٹ کو راستہ ہے ایک باقاعدہ چوکی لگوا دیں مسلح پولیس کی` تا جانے والوں کی حفاظت ہوسکے۔ ڈیرہ کا تھانیدار شرارتی ہے وہ ضرور شرارت کرے گا۔ اگر کسی بہانے سے ملٹری کا کوئی نہ کوئی سپاہی ادھر آتا رہے تو اس کا بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ ملٹری کے اسکورٹ سے سیالکوٹ سے بھی کنوائے CONVOY آسکے تو مفید ہے۔ آنے والوں کے لئے رہائش کی جگہ ایک علاقہ کے مختلف گائوں میں ہو جائے۔ داتہ زید کاکے آس پاس کے گائوں میں احمدی زیادہ ہیں۔ اگر وہاں کئی درجن مکان لئے جائیں کچھ نئے احمدیوں سے گارے کے تعمیر کروائے جائیں تو کام چل سکتا ہے۔ ۴۷/۹/۲۶
نیز آپ ایک سوسائٹی سیاسی کام کے لئے فوراً بنا لیں۔ اس کا اعلان ہو۔ چند مخلص نوجوانوں کو شامل کرلیں۔ ان کی طرف سے آمدہ اطلاعات کی بناء پر جن لوگوں سے شرارت کا شبہ ہو انہیں تنبیہہ ہوتی رہے تاکہ ان کی اصلاح ہو جائے۔ مثلاً پٹیالہ` فرید کوٹ اور کپورتھلہ نے فوجیں بھجوا دی تھیں اور اعلان کر دیا ہے کہ فوجیں بھاگ گئی ہیں۔ انہیں اس سوسائٹی کی طرف سے خط چلے جائیں کہ اگر آپ اپنی سو دو سو یا ہزار فوج کو نہیں سنبھال سکے تو چار کروڑ مسلمان کو کون سنبھال سکتا ہے۔ اس کا خمیازہ پھر آپ ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ اسی طرح مسلمانوں کو ادھر کے حالات کی خبر ملتی رہی مگر فساد نہ ہو۔
عزیزم مظفر احمد کو کہیں ایک اسکورٹ اپنی کار کے نام پر لاویں۔ پھر وہاں سے بھجوا کے وہ سیالکوٹ کے قریب ترین راستہ اور محفوظ دیکھ کر قادیان آئے اور معلومات دے جائے وگرنہ اگر وسیع پیمانے پر ہجرت کا سوال ہوا تو ناقابل برداشت مشکلات ہوں گی اور اس صورت میں ملٹری اسکورٹ ضروری ہے ورنہ یہاں کی ملٹری راستہ میں حملہ کرے گی۔ غالباً اتنا بڑا قافلہ کوئی چار دن میں نارووال بارڈر کو پار کرسکے گا۔ کوئی پینتالیس میل کا فاصلہ ہے یا پچاس میل کا۔ کیا ایسا اسکورٹ وہاں سے آسکتا ہے۔ اصل غرض یہ ہے کہ خود ملٹری اور پولیس شرارت نہ کرے۔ عورتوں اور بچوں پر جو آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ ادھر ادھر سے فائرنگ نہ ہو۔ خطرہ ہے کہ جہاز بھی ضبط کئے جائیں گے تب آپ لوگوں کو وہاں سے جہاز لاکر روزانہ خبر لانی ہوگی۔ والسلام
خاکسار مرزا محمود احمد<
ایک یادگار تاریخی واقعہ
جناب فضل الٰہی خاں صاحب درویش قادیان رقمطراز ہیں کہ >۱۴۔اگست ۱۹۴۷ء کو تقسیم ملک میں قادیان کا ضلع گورداسپور پاکستان میں آگیا۔ میں ان ایام میں مکرم عبدالعزیز بھامڑی صاحب کے ساتھ امور عامہ کا آنریری کارکن تھا۔ مجھے محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ کی طرف سے لاہور جانے کی ہدایت ہوئی تاکہ دہلی وغیرہ کو تاریں بھجوائوں کیونکہ تار وڈاک اور ریل کا رابطہ قادیان کا منقطع ہوچکا تھا۔ چنانچہ حضرت ڈپٹی محمد شریف صاحب کے فرزند محترم میاں محمد لطیف صاحب نے چھوٹے جہاز میں مجھ اکیلے کو فٹ بال گرائونڈ دارالانوار سے اڑا کر لاہور پہنچایا۔ امرتسر سے ایک ہوائی جہاز کا تعاقب ہوائی اڈہ لاہور تک گیا۔ پھر واپس گیا۔ میرے توجہ دلانے پر میاں صاحب نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں۔ یہ ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ میں نے اڈہ ہوائی جہاز لاہور سے باہر کے تار گھر سے تاریں روانہ کیں۔ عید سے ایک دن پہلے یہ اعلان نشر ہوا کہ ضلع گورداسپور کا ایک حصہ جس میں قادیان بھی شامل تھا` ہندوستان میں شامل کیا گیا ہے۔
میرا قیام حضرت شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی کوٹھی پر تھا۔ میں واپس آنا چاہتا تھا لیکن نظارت امور عامہ قادیان نے یہ ہدایت دی کہ میں وہیں ٹھہروں۔ میں لاہور کے عام حالات نظارت امور عامہ کو روزانہ ہوائی جہاز سے بھجواتا تھا۔ قادیان میں دو ہوائی جہاز جماعت کے تھے دونوں میں سے ایک جہاز روزانہ قادیان سے لاہور جاکر واپس آتا تھا۔ دوسرا جہاز محترم سید محمد احمد صاحب خلف حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب چلاتے تھے۔ اس عرصہ میں میں اور محترم صاحبزادہ حمید احمد صاحب ساکن ٹوپی نے ایوب خان صاحب سے لاہور میں ملاقات کرکے قادیان کے حالات بتائے اور قادیان کی حفاظت کے لئے کہا۔ ایوب خان صاحب غالباً اس وقت بونڈری فورس میں بریگیڈیئر تھے اور بعد میں صدر پاکستان ہوگئے تھے۔
اپنے قیام میں میں نے شیخ بشیر احمد صاحب کو تحریک کی وہ جماعت کے لئے کوئی بلڈنگ الاٹ کروالیں۔ چنانچہ انہوں نے جودھامل بلڈنگ الاٹ کروالی۔ اور چند دن بعد قادیان سے پہلا قافلہ لاہور پہنچا۔ جس میں حضرت اماں جان اور خواتین خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بھی تھے اور اس قافلہ کو اسی بلڈنگ میں اتارا گیا تھا۔ ایسی بے سروسامانی کی حالت تھی کہ دوسرے روز حضرت نواب صاحب نے مجھ سے کہا کہ کہیں سے ان کو کرایہ پر ٹی سیٹ حاصل کردوں اپنا سامان بند کرکے قادیان چھوڑ آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
۲۶` ۲۷۔ اگست ۱۹۴۷ء کو ایک ٹرک جناب کیپٹن چوہدری غلام احمد صاحب۲۰۴ الاٹ کروا کے اپنے وطن موضع دولت پورنز و پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور لے جارہے تھے تاکہ اہل و عیال کو وہاں سے لاہور لے جاسکیں۔ سلسلہ کی ہدایت کے مطابق نہایت ضروری سامان کی کئی پیٹیاں اس ٹرک میں چوہدری صاحب نے رکھوالیں جن کے اوپر دریاں اور پھر بستر رکھے گئے۔ اور حسب ہدایت خاکسار فضل الٰہی خاں ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ دیگر چند افراد قادیان آنے والے بھی اس میں سوار ہوئے۔ ان میں محترم مولوی لالہ چراغ دین صاحب فاضل مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور محترم نیک محمد خاں صاحب بھی تھے۔
ہم بٹالہ سے آتے ہوئے جب موضع تتلے کے قریب نہر کی پٹڑی سے ٹیوب ویل سڑک کی طرف جانے لگے تو تتلے والے پل نہر کو عبور کرکے بونڈری فورس کی ایک جیپ پل عبور کرکے ہمارے ٹرک کو روکنے کی خاطر اس کے آگے آکھڑی ہوئی اور اس میں سوار فوجیوں نے ہمارے ٹرک کے اندر جھانکا اور پوچھا تو چوہدری غلام احمد صاحب نے بتایا کہ میں پٹھانکوٹ کی طرف اپنے اہل و عیال لینے جارہا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ پٹھانکوٹ کا راستہ ہے۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ یہ دوسری سواریاں قادیان جارہی ہیں۔ ان کو میں وہاں پہنچا کر اسی نہر کی پٹڑی سے پٹھانکوٹ چلا جائوں گا۔ ہم بھی اس وقت نیچے اتر آئے۔ نیک محمد خان صاحب نے جیپ والوں کو پٹھان پاکر پشتو میں کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں تو پشتو زبان میں جواب ملا۔ اچھا ٹھیک ہے۔
چنانچہ ہم روانہ ہوئے اور جب ریلوے کراسنگ عبور کرکے ہم عصر کے وقت دارالشکر پہنچے تو چوہدری صاحب نے میرے اور نیک محمد خان صاحب کے سوا دیگر سب احمدی افراد کو اتار دیا اور چوہدری صاحب نے ملٹری ٹرک کو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی دارالسلام کی پورج میں لاکھڑا کروایا اور چوہدری صاحب کے ماتحت فوجی عملہ نے یہ ساری بہت ہی بھاری پیٹیاں اتار کر اندر پہنچا دیں۔ اس موقعہ پر مکرم عبدالکریم صاحب فاضل )خلف حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل ہلالپوری حال مقیم لندن بھی وہاں آگئے تھے۔ جو حفاظت کی خدمت مرکز پر متعین تھے۔ لاہور سے ہمارا ہوائی جہاز بھی ساتھ ساتھ آیا تھا اور کوٹھی دارالسلام کے کئی چکر لگا کر گویا ہمارے بحفاظت قادیان پہنچ جانے کا اطمینان کرکے واپس چلا گیا۔ سامان اتروا کر بغیر چائے ¶تک پیئے چوہدری صاحب محترم ٹرک لے کر موضع دولت پور کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس وقت مغرب کا وقت قریب تھا۔
خاکسار فضل الٰہی درویش قادیان۔
نوشتہ بقلم ملک صلاح الدین صاحب درویشن مولف اصحاب احمد قادیان۔ ۱۳۵۷ہش/ ۱۹۷۸ء۔۱۱۔۲۰ فضل الٰہی صاحب درویش ولد حکیم الٰہی صاحب آف کوئٹہ۔
اس سلسلہ میں چوہدری غلام احمد صاحب کا تحریری بیان ہے کہ۔
>ایک بات جسے میں بہت اہمیت دیتا ہوں وہ ان دنوں کے تین عجیب و غریب واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جو معجزہ کا رنگ رکھتا ہے وہ واہگہ بارڈر پر ہندوستانی فوج کی تلاشی کے وقت رونما ہوا۔ اسے خان فضل الٰہی صاحب نے فوجی بند گاڑی میں بیٹھے ہونے کی وجہ سے شاید محسوس نہ کیا ہو جس کا گاڑی کے انجن کے چالو ہونے کی وجہ سے امکان ہے یا پھر یہ واقعہ ان سے ویسے ہی لکھنے سے رہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اس وقت وہ )سامان( ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو گاڑی میں لوڈ تھا پکڑا جاتا تو میرا اور میرے ساتھیوں کا حشر کیا ہوتا ہم ہندوستان کی جیلوں میں مر جاتے مولیٰ کریم نے مجھے جرات اور ہمت دی میں نے ہندوستانی صوبیدار کو خوب لتاڑا جس سے اگلے گیٹ پر کھڑا سنتری بھی مرعوب ہوا اور اس نے گیٹ کھول دیا اور گاڑی کی تلاشی نہ ہوسکی< ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۵
حضرت امیر المومنین کی ضروری ہدایات احباب قادیان کے لئے
حضرت مصلح موعود نے ۲۹۔ ظہور )اگست( ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ پڑھایا۔ یہ حضور کا قادیان میں آخری خطبہ تھا۔ جس میں حضرت اقدس نے اہل قادیان کو خصوصیت سے مندرجہ ذیل ہدایات دیں۔
۱۔ حالات خواہ کچھ ہوں مومن کو بہرحال انصاف` انکسار` محبت` شفقت اور رحم پر قائم رہنا چاہئے اور اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک رکھنا چاہئے کہ نیک نمونہ دشمن کو بھی خیر خواہ بناسکتا ہے۔ ہمیں ہر ہندو اور سکھ عورت اور بچے کی اپنی بہن اور بچے کی طرح حفاظت کرنی چاہئے۔
۲۔ ایک خاص حد تک ظلم برداشت کرنے کے بعد اسلام نے ظلم کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی اور دنیا کی کوئی حکومت اسے ناجائز قرار نہیں دے سکتی۔ ظالم کے مقابلہ کے وقت ایک مومن دس دس اشخاص پر بلکہ بعض اوقات ساٹھ ساٹھ` ستر ستر اشخاص پر غالب ہوتا ہے۔ پس ظلم کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے۔ خطرے کے وقت بھاگنا خود ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
۳۔ قادیان میں پناہ گزینوں کی کثرت ہے۔ اس لئے ضروریات زندگی گندم` لکڑی` مٹی کے تیل کو چاندی کی طرح سنبھال کر رکھنا چاہئے اور کم سے کم استعمال کرنا چاہئے۔
۴۔ دعائوں میں کمی نہیں آنے دینی چاہئے۔ حالات خواہ کچھ ہوں لیکن بندے کا کام یہی ہے۔ کہ وہ دعا مانگتا چلا جائے اور پھر خدا تعالیٰ جو کچھ کرے اس پر راضی رہے<۔۲۰۶
اس تعلق میں حضور نے آنحضرت~صل۱~ کی مندرجہ ذیل اہم دعائوں کو خصوصیت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔
۱۔ اعوذ بکلمت اللہ التامات من شرما خلق۔ میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ذریعہ مخلوق کے شر سے پناہ چاہتا ہوں۔
۲۔ بسم اللہ الذی لا یضرمع اسمہ شیی فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے جس کے ہوتے ہوئے نہ زمین میں کوئی چیز ضرر پہنچا سکتی ہے اور نہ آسمان میں اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
۳۔ اللھم انی اعوذ بک من جھد البلاء ودرک الشقاء و سوء القضاء و شماتہ الاعداء۔ اے اللہ میں بلاء کی شدت سے` شقاوت کا شکار بننے سے` تقدیر کے برے مقدر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
۴۔ اللھم استر عوراتنا وامن من روعاتنا۔ اے اللہ ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمارے خطرات کو امن سے بدل دے۔
۵۔ اللھم سجدلک سوادی و خیالی و امن بک فوادی و اقرلک لسانی فیھا انا ذابین یدیک یا عظیم یاغافر الذنب العظیم۔ اے اللہ میرا جسم بھی اور میرا خیال بھی تیرے لئے سجدہ کررہے ہیں اور میرا دل تجھ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور میری زبان تیرے احسانوں کی مقر ہے۔ اب میں تیرے سامنے ہوں۔ اے باعظمت بادشاہ۔ اے گناہ عظیم بخشنے والے خدا۔۲۰۷
بزرگان جماعت کی خدمت میں دعا کی تحریک خاص
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان ایام میں بعض بزرگوں کو خاص طور پر تحریک فرمائی کہ وہ حضرت مصلح موعود` مرکز سلسلہ اور جماعت کی حفاظت کے لئے دعائیں کریں اور آگے دوسرے اصحاب اور اپنے اہل و عیال میں بھی یہی تحریک کریں اور اگر کوئی امر ظاہر ہو تو اس سے مطلع فرمائیں۔ ان احباب کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
۱۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب
۲۔ حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب

۳۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی
۴۔ حضرت میاں خیر دین صاحب سیکھوانی

۵۔ حضرت پیر منظور محمد صاحب
۶۔ حضرت پیر افتخار احمد صاحب

۷۔ حضرت بابا حسن محمد صاحب
۸۔ حضرت منشی محمد اسمٰعیل صاحب سیالکوٹی

۹۔ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب
۱۰۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب

۱۱۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب
۱۲ حضرت میاں محمد شریف صاحب

۱۳۔ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب
۱۴۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب

۱۵۔ حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری
۱۶۔ حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس

۱۷۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب
۱۸۔ حضرت میاں محمد دین صاحب کھاریاں

۱۹۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب
۲۰۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب ماریشس

۲۱۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی
۲۲۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر

۲۳۔ حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب
۲۴۔ حضرت سید محمود عالم صاحب

۲۵۔ حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری
۲۶۔ حضرت شیخ فضل احمد صاحب

۲۷۔ حضرت ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کوئٹہ
۲۸۔ حضرت عبدالسمیع صاحب امروہی

۲۹۔ حضرت ملک مولا بخش صاحب
۳۰۔ حضرت چودھری غلام محمد صاحب سابق
۳۱۔ حضرت مولوی عبدالقادر صاحب۔ )ایم۔ اے
ہیڈماسٹر
بھاگلپوری مراد ہیں۔ )ناقل(

خاکسار مرزا بشیر احمد
۱۹۴۷۔ ۸۔ ۲۹
بیرونی جماعتوں کیلئے حضرت مصلح موعود کا دوسرا پیغام
حضرت مصلح موعود نے قادیان سے ۳۰۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو بیرونی جماعت کے لئے حسب ذیل دوسرا اور آخری پیغام دیا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
جماعت کو ہدایات جو فوراً شائع کردی جائیں۔
باوجود بار بار زور دینے کے لاہور کی جماعت نے کنوائے نہیں بھجوائے جس کی وجہ سے قادیان کا بوجھ حد سے زیادہ ہوگیا۔ اگر کنوائے آتے تو شاید میں بھی چلا جاتا اور جب مسٹر جناح اور پنڈت جی آئے تھے ان سے کوئی مشورہ کرتا مگر افسوس کہ فرض شناسی نہیں کی گئی۔
اگر قادیان میں کوئی حادثہ ہو جائے تو پہلا فرض جماعت کا یہ ہے کہ شیخوپورہ سیالکوٹ میں ریل کے قریب لیکن نہایت سستی زمین لے کر ایک مرکزی گائوں بسائے مگر قادیان والی غلطی نہیں کہ کوٹھیوں پر زور ہو۔ سادہ عمارات ہوں۔ فوراً ہی کالج اور سکول اور مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کی تعلیم کو جاری کیا جائے۔ دینیات کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے پر ہمیشہ زور ہو۔ علماء بڑے سے بڑے پیدا کرتے رہنے کی کوشش کی جائے۔
۲۔ تبلیغ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔ وقف کے اصول پر جلد سے جلد کافی مبلغ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ اگر میں مارا جائوں یا اور کسی طرح جماعت سے الگ ہو جائوں تو پہلی صورت میں فوراً خلیفہ کا انتخاب ہو اور دوسری صورت میں ایک نائب خلیفہ کا۔
۴۔ جماعت باوجود ان تلخ تجربات کے شورش اور قانون شکنی سے بچتی رہے اور اپنی نیک نامی کے ورثہ کو ضائع نہ کرے۔
۵۔ ہمارے کاموں میں ایک حد تک مغربیت کا اثر آگیا تھا یعنی محکمانہ کارروائی زیادہ ہوگئی تھی۔ اسے چھوڑ کر سادگی کو اپنانا چاہئے اور تصوف اور سادہ زندگی اور نماز و روزہ کی طرف توجہ اور دعائوں کا شغف جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
۶۔ قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر انگریزی و اردو جلد جلد شائع ہوں۔ میں نے اپنے مختصر نوٹ بھجوا دیئے ہیں۔ اس وقت تک جو ترجمہ ہوچکا ہے اس کی مدد سے اور تیار کیا جاسکتا ہے۔ ترجمہ کرنے والا دعائیں بہت کرے۔
۷۔ ان مصائب کی وجہ سے خدا تعالیٰ پر بدظنی نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو کبھی ضائع نہ کرے گا پہلے نبیوں کو بڑی بڑی تکالیف پہنچ چکی ہیں۔ عزت وہی ہے جو خدا اور بندے کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ مادی اشیاء سب فانی ہیں خواہ وہ کتنی ہی بزرگ یا قیمتی ہوں۔ ہاں خدا تعالیٰ کا فضل مانگتے رہو شاید کہ وہ یہ پیالہ ٹلا دے۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد
۴۷۔ ۸۔ ۳۰<
قادیان کے تشویشناک ماحول کا ذکر اخبار >ڈان< کراچی میں
اخبار >ڈان< کراچی نے ان ہی دنوں قادیان کے تشویشناک ماحول کی خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی۔
‏SURROUNDED QADIAN
‏by
‏DANGER IN LIFE HEAD`S SIKHS: HOSTILE
‏ headquarter the Qadian, reporter: staff Dawn By by surrounded is movement, Ahmadiyya of ۔days few last the during sikhs of mob hostile a from off cut been have communications All attack of fear a is There ۔world outside the neighbouring the mofr muslims 2000 About ۔moment any at the of view In ۔Qadian in refuge taken had villages to proposed now is it situation grave a says place, safer a to children and women shift the of Amir acting Ahmad ۔Dr by received telegram the of Head the from Karachi Jammat Ahmadiyya ۔Qadian in Community Ahmadiyya that said interview an in Ahmad ۔Dr and Karachi in community his of members and perturbed graveiy were elsewhere the and Head their of safety the about prevails anxiety grave community fo members young Several ۔Qadian in forcommunity leave to decided have۔dangers all disregarding immediately Qadian
)ترجمہ(
‏vat,10.42
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۰
اتحاد اسلامی کی پر زور تحریک سے ہجرت پاکستان تک
قادیان سکھوں کے گھیرے میں
سربراہ کی زندگی خطرے میں
)ڈان کے سٹاف رپورٹر سے(
گزشتہ چند دنوں سے جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان کو سکھوں کے ایک مخالف گروہ نے محاصرہ میں لے لیا ہوا ہے۔ باہر کی دنیا سے سلسلہ مواصلات بالکل منقطع ہے۔ کسی گھڑی بھی حملہ ہوسکتا ہے گرد و نواح کے دو ہزار مسلمانوں نے یہاں پناہ لی ہوئی ہے۔ جماعت احمدیہ قادیان کے سربراہ نے ڈاکٹر احمد امیر جماعت احمدیہ کراچی کو بذریعہ تار اطلاع دی ہے کہ خطرے کے پیش نظر تجویز ہے کہ عورتوں اور بچوں کو کسی محفوظ مقام پر بھجوا دیا جائے۔
ڈاکٹر احمد نے ایک بیان میں کہا کہ ممبران جماعت کراچی و دیگر مقامات تشویش میں ہیں کہ مبادا حضرت امام جماعت احمدیہ کو کوئی گزند پہنچے جماعت کے سینکڑوں نوجوانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ خطرات کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ قادیان ضرور جائیں گے۔
قادیان اور اس کے ماحول کی المناک کیفیت ظہور/ اگست ۱۳۲۶ ہش / ۱۹۴۷ء میں
اگست کے آخر میں قادیان اور اس کے ماحول کی کیفیت کیا تھی` اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مندرجہ ذیل مکتوب سے باسانی
معلوم ہوسکتی ہے جو آپ نے سیدنا حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے کے نام تحریر فرمایا۔
>حضور کا ارشاد ہے کہ فوراً بٹالہ جائیں وہاں پنڈت جواہر لال صاحب نہرو اور نواب لیاقت علی خاں صاحب آئے ہوئے ہیں۔ آپ ان دونوں سے الگ الگ ملیں۔ لیکن اگر الگ الگ ملنے کا موقعہ نہ ہو تو پھر بے شک اکٹھے مل لیں اور انہیں قادیان` اور اس کے ماحول کے حالات بتائیں اور خصوصاً مندرجہ ذیل باتوں کا ذکر کریں۔
۱۔ معلوم ہوا ہے کہ آپ ضلع گورداسپور کے حالات دیکھنے کے لئے گورداسپور جارہے ہیں اور وہاں ڈی۔ سی صاحب اور دوسرے افسروں سے مل کر حالات معلوم کریں گے۔ اصل کام یہ ہے کہ آپ تباہ شدہ علاقے یا خطرے والے علاقے کو دیکھیں اور میں آپ کو دعوت دینے آیا ہوں کہ آپ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان کو چل کر دیکھیں کہ اس کا ماحول کس طرح تباہ شدہ ہے اور خود قادیان کس خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ قادیان ایک ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت کا مرکز ہے اور بہت سے علمی اور تحقیقاتی اداروں کا صدر مقام ہے۔ اور ضلع میں سب سے زیادہ اہم جگہ ہے۔ اس کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام ہونا چاہئے۔ جو اس طرح ہوسکتا ہے کہ وہاں ہمدرد اور کافی تعداد میں ملٹری مقرر کی جائے اور اس ملٹری کو واضح ہدایت دی جائے کہ اس نے بہرحال قادیان اور اس کے ماحول میں امن قائم رکھنا ہے اور کہہ دیا جائے کہ امن شکنی ہوئی تو تم ذمہ دار ہوگے۔
قادیان جیسی جگہ پر تباہی کا آنا حکومت کے لئے ساری دنیا میں بدنامی کا موجب ہوگا ورنہ ہم عارضی طور پر مرکز بھی دوسری جگہ بناسکتے ہیں۔ گو اپنے مقدس مقامات کو بھی چھوڑا نہیں جاسکتا۔
۲۔ قادیان میں اس وقت سات آٹھ ہزار پناہ گزین ہے جو اردگرد کے مسلمان دیہاتوں سے بے خانماں ہوکر یہاں بیٹھا ہوا ہے اس کے لئے نہ تو حکومت کی طرف سے پناہ گزینوں کا کمپ ہے اور نہ ان پناہ گزینوں کو دوسرے علاقہ میں منتقل کرنے کا کوئی انتظام موجود ہے اس کے علاوہ خود قادیان کی رہنے والی ہزاروں مستورات اور بچے ایسے ہیں جنہیں خطرے کے وقت میں دوسری جگہ منتقل کرنا ضروری ہے پس اس تعلق میں دو قسم کے انتظامات فوری طور پر درکار ہیں۔ اول پناہ گزینوں کے کیمپ کا قیام` دوسرے قادیان سے عورتوں اور بچوں اور پناہ گزینوں کو لاہور یا سیالکوٹ منتقل کرنے کا انتظام۔
۳۔ قادیان میں ایک عرصہ سے ریل اور تار بند ہے اور ٹیلیفون گو چند دن بند رہنے کے بعد اب کھلا ہے مگر عملاً اس کا کنکشن نہیں ملتا اور چونکہ سڑک کا راستہ مسافروں کے لئے بغیر انتظام کے خطرناک ہے اس لئے ہمارا مرکز ایک عرصہ سے باہر کے علاقہ سے بالکل کٹا ہوا ہے اور ڈاک اور اخبارات کا سلسلہ بالکل بند ہے` ضروری ہے کہ پبلک میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ریل اور تار کو جلد تر کھول دیا جائے اور ٹیلیفون کے رستہ میں جو عملی روکیں ہیں کہ امرتسر کا ایکسچینج کنکشن نہیں دیتا اسے دور کیا جائے۔
۴۔ ہمارے پاس دو جہاز تھے جن سے ہم اپنی ڈاک و تاریں لاہور بھجواتے تھے اور لاہور سے اپنی ڈاک اور تاریں منگوا لیتے تھے یا دوائیاں اور دیگر ضروریات زندگی لاہور سے منگوا لیتے تھے۔ یا کسی سواری کو کسی کام پر لاہور بھجوانا ہو تو اسے بھجوا دیتے تھے۔ مگر چند دن سے مقامی افسروں نے ہمارے جہازوں پر بھی پابندی لگا دی ہے اور اب وہ لاہور میں بند پڑے ¶ہیں۔۲۰۸ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ یہ جہاز سکھ دیہات پر پھر کر ان میں دہشت پیدا کرتے تھے اور ہوا سے بم گراتے اور شوٹ کرتے تھے۔ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں اور خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتے ہیں کہ یہ الزامات بالکل غلط ہیں اور ایک بہانہ بنا کر ہمارے اس آخری تعلق کو کاٹ دیا گیا ہے جو لاہور وغیرہ کے ساتھ ہمیں حاصل تھا اور اب تو ہم ضلع کے حکام کے ساتھ بھی کوئی ملاپ کی صورت نہیں رکھتے۔ حالانکہ ہم نے اس بات کی آمادگی ظاہر کی تھی کہ ہمارے جہازوں کی حرکات پر جو بھی معقول پابندی لگائی جائے ہم اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بہرحال ضلع کے عملی حالات اس بات کو واضح کررہے ہیں کہ ظلم کس قوم پر ہورہا ہے اور ہمارے جہازوں نے عملی نتیجہ کیا پیدا کیا ہے۔
۵۔ ہمیں یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ قادیان میں جو جائز لائسنس والا اسلحہ ہے اسے ضبط کرلیا جائے گا۔ ہم انصاف کے نام پر ایک اپیل کرنا چاہتے ہیں جب دوسری قوم کا ایک طبقہ ناجائز اسلحہ سے علاقہ میں قتل و غارت کررہا ہے تو کیا مظلوم قوم کا جائز اسلحہ ضبط کرنا قرین انصاف ہے۔
۶۔ موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے لئے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا میں اول تو مستقل طور پر ورنہ کم از کم عارضی طور پر اقلیت والی قوم کے افسر اور فورس مناسب تعداد میں مقرر ہونے چاہئیں۔ یعنی انڈیا میں سول اور پولیس مناسب تعداد مسلمان افسروں کی ہو اور پاکستان میں ہندو اور سکھ افسروں کی مناسب تعداد ہو جب تک کہ نارمل حالات پیدا نہیں ہو جاتے۔ بلکہ یہ انتظام مستقل طور پر قائم ہوسکے تو اور بھی بہتر ہے۔ یہ افسر اور یہ پولیس جو مشرقی پنجاب میں ہوگی بے شک مشرقی پنجاب کی حکومت کے ماتحت ہوگی مگر پھر بھی اقلیت کو ایک سہارا ہوگا اور اعتماد ¶کی صورت ہوگی۔
۷۔ اسی طرح موجودہ غیر معمولی حالت میں یہ ضروری ہے کہ مشرقی پنجاب میں کچھ مسلمان ملٹری ہو اور مغربی پنجاب میں کچھ غیر مسلم ملٹری ہو جو بے شک علاقہ کی حکومت کے ماتحت ہو مگر اس کا وجود اقلیت کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں مفید ہوگا۔
۸۔ قادیان میں رسد ختم ہورہی ہے اور ہمیں پناہ گزینوں اور مقامی آبادی کو رسد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہورہا ہے۔ اس کے لئے بھی مناسب انتظام ہونا چاہئے جن میں سے ایک یہ ہے کہ کم از کم پناہ زینوں کے لئے حکومت جنس مہیا کرے۔
۹۔ چونکہ سارے انتظامات کے باوجود ایک حصہ آبادی کو قادیان سے لاہور۔ سیالکوٹ کی طرف منتقل کرنا ہوگا اس لئے کافی تعداد میں اور تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کنوائے کا انتظام ہونا چاہئے جس کے ساتھ مسلح گارڈ ہو جس میں کافی حصہ بلکہ موجودہ حالات میں سالم حصہ مسلمانوں کا ہو۔ اس کنوائے کے ذریعہ قادیان کی عورتوں اور بچوں اور کمزور بیمار مردوں کے علاوہ پناہ گزینوں کو بھی باہر نکالنے کا انتظام ہوگا۔
۱۰۔ یہ بھی کہا جائے کہ احمدیہ جماعت ہندوستان اور پاکستان دونوں میں موجود ہے اور طبعاً ہم دونوں حکومتوں سے تعلق اور دلچسپی رکھتے ہیں اور دونوں پر حقوق بھی۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ۴۷/ ۸/۳۰<
)افسوس حضرت چودھری صاحب پنڈت جواہر لال صاحب نہرو سے مل نہ سکے(
احباب قادیان کے لئے ضروری اعلان
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی ہدایت پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو قادیان کے صدر صاحبان کو حسب ذیل اعلان بھجوایا گیا۔
>بخدمت صدر صاحبان! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا ہے کہ موجودہ خطرے کے ایام میں جو احمدی عورتیں اور چھوٹی عمر کے بچے قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ میں جانا چاہیں انہیں اس کی اجازت ہے بشرطیکہ لاہور میں ان کی رہائش کا انتظام ہوسکے یا لاہور سے آگے جانے کا انتظام موجود ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ قادیان سے باہر پاکستان کے علاقہ تک پہنچنے کے لئے مسلم ملٹری گارڈ کا انتظام موجود ہو مگر قادیان کا کوئی احمدی مرد آج کل بغیر اجازت باہر نہیں جاسکتا۔ جس شخص کو کوئی مجبوری پیش ہو وہ اپنی مجبوری بیان کرکے اجازت حاصل کرے۔
یہ بات بھی قابل وضاحت ہے کہ سلسلہ کی طرف سے مسلم کنوائے کا انتظام کیا جارہا ہے جو کبھی کبھی قادیان آیا کرے گا اور اس میں حسب گنجائش مستورات اور بچوں اور اجازت والے مردوں کو موقع دیا جائے گا۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے باری باری ہی موقع مل سکتا ہے۔ جو غیر احمدی اصحاب باہر جانا چاہیں وہ بھی اس انتظام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کا کانوائے آئے تو وہ بلا کرایہ لے جائے گا۔ لیکن اگر اپنے کانوائے کا استعمال کیا جائے تو اس کے لئے مناسب کرایہ لگے گا مگر غرباء کو سہولت دی جائے گی۔
صدر صاحبان اپنے اپنے محلہ میں یہ بھی بتا دیں کہ ایسے بچوں` عورتوں` مردوں کی فہرست شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی۔ اے کی نگرانی میں تیار ہوتی ہے۔ پس تمام درخواستیں ان کے پاس جانی چاہئیں جو بعد منظوری نظارت باری باری لوگوں کو موقعہ دیں گے۔
صدر صاحبان کو یہ بھی چاہئے کہ اس کام میں گھبراہٹ کا رنگ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ وقار اور انتظام کے ماتحت سارا کام سرانجام پائے۔ فقط والسلام
مرزا بشیر احمد ۴۷/۸/۳۱
محلوں میں اجتماعی دعا
صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے بواسطہ مولوی ابوالعطاء صاحب تجویز پیش کی تھی کہ ۳۱۔ ظہور/ اگست کو محلوں کی مساجد میں اجتماعی طور پر دعا کی جائے۔ چنانچہ اس روز ۲/۱ ۸ بجے سے ۹ بجے تک تمام مساجد میں دعا کی گئی۔
قادیان کے مرکزی افسروں اور کارکنوں کا خلوص
ان تکلیف دہ ایام میں قادیان کے مرکزی احمدی افسروں اور کارکنوں نے نہایت درجہ خلوص کا ثبوت دیا۔ چنانچہ سیدنا المصلح الموعود فرماتے ہیں۔
>قادیان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کارکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ سب کے سب اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے ہوئے خدا تعالیٰ کے شعائر کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں بالعموم بائیس بائیس گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے خود مجھ پر بہت راتیں ایسی گزری ہیں کہ صبح تک میں آنکھ بھی جھپک نہیں سکا کیونکہ ماتحت عملہ کی ڈیوٹی تو بدلتی رہتی ہے لیکن اوپر جو عملہ ہوتا ہے اور جس کا فرض دوسروں سے کام لینا ہے` اس کی ڈیوٹی بدل نہیں سکتی۔ رات کو کام کرنے والے آتے ہیں تو وہ کام بھی کرتے ہیں اور اپنے افسر کو بھی بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیا کام کیا۔ اسی طرح دن کو کام کرنے والے کام کرتے ہیں تو وہ اپنے افسر کو بھی کام کی رپورٹ دیتے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں<۔۲۰۹
پانچواں باب )فصل دہم(
حضرت مصلح موعود کا سفر ہجرت اور پاکستان میں ورود مسعود
اب ہم متحدہ ہندوستان کے اس آخری یادگار اور اہم واقعہ تک آپہنچے ہیں جس سے جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک نئے اور انقلابی دور کا آغاز ہوا۔ ہماری مراد سیدنا حضرت مصلح موعود کے سفر ہجرت سے ہے جو حضور نے جماعتی مشورہ کے بعد ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو اختیار فرمایا۔
‏0] [stfالوداعی پیغام
حضرت مصلح موعود خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے اپنی روانگی سے ایک روز قبل یعنی ۳۰۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کی رات کو قادیان و جماعت ہائے احمدیہ ضلع گورداسپور کے نام حسب ذیل الوداعی پیغام لکھا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنے پیچھے امیر مقامی مقرر کرتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ حضور کے قادیان سے روانہ ہونے کے بعد جماعت تک پہنچا دیا جائے چنانچہ آپ نے اس کی نقلیں کروا کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں قادیان کی تمام احمدی مساجد میں بھجوا دیں جو پڑھ کر سنا دی گئیں۔ پیغام یہ تھا۔
اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی تمام پریذیڈنٹان انجمن احمدیہ قادیان و محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان و دیہات تحصیل بٹالہ و تحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کے اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہئے کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کرسکے حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات ہیں۔ تار اور فون بھی جاسکتا ہے۔ ریل بھی جاتی ہے اور ہوائی جہاز بھی جاسکتا ہے۔ میں مان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہباً حکومت کی وفادار جماعت ہے تو وہ ایسا انتظام نہ کریں کہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے اردگرد رہتے ہیں حفاظت نہ کی جائے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آئے ہیں ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا۔ ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہوگیا ورنہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورہ کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے۔ غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یکدم فسادات ہوگئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی۔ ان حالات میں میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جاسکے۔ اگر ایسا ہوگیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے جہاں وہ ضروتاً آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ان امور کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جاکر کوشش کروں۔ شاید اللہ تعالٰی میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شر جو اس وقت پیدا ہورہا ہے دور ہو جائے۔ میں نے اس امر کے مدنظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوں نے کرنا ہے یا میں نے` اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں تو میں اسے مانوں گا لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیار میں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہوگا کہ چون و چرا کریں۔ اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں۔ دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوں میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا۔ ان کی جدائی تو دائمی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے۔ مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں۔ وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے۔ پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفادار رہو۔ اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھائو کہ دنیا عش عش کر اٹھے جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقیناً دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور خدا تعالیٰ کی *** کا مستحق۔ تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منور جلوہ دیکھا ہے اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے۔ میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائم مقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ ان کی فرماں برداری اور اطاعت کرو اور ان کے ہر حکم پر اس طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ~صل۱~ نے فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں من اطاع امیری فقد اطاعنی و من عصی امیری فقد عصانی یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا۔ اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم~صل۱~ کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں۔
اے عزیزو! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہوگا کہ سچا مومن کونسا ہے۔ پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھائو کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آئندہ نسلیں تم پر فخر کریں۔ شاید مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہوں گے۔ اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجوا چکا ہوں۔ تم ان پر بدظنی نہ کرو وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کرکے لے گیا۔ پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقیناً کمزور ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور سچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے۔ اے عزیزو! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں سچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے۔
خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد اور ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ والسلام۔
خاکسار
)دستخط حضرت( مرزا محمود احمد
خلیفہ~ن۲~ المسیح ۴۷/۸/۳۰<۲۱۰
اگلے روز )۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو( حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے روانگی سے قبل اپنے لخت جگر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو قصر خلافت کا بالائی کمرہ سپرد فرمایا۔ اور انہیں اپنے بعد اس میں قیام پذیر ہونے کی ہدایت فرمائی۔ ازاں بعد حضور کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آف دوالمیال کی اسکورٹ میں قریباً ایک بجے احمدیہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کوٹھی دارالسلام قادیان میں پہنچے جہاں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور نوابزادہ میاں عباس احمد خاں )جو حضور کے ساتھ ہی کوٹھی دارالسلام میں آئے تھے( اور ان کے علاوہ خاندان مسیح موعود کے بعض اور افراد نے حضور کو الوداع کہا اور حضور یہاں سے بذریعہ موٹر روانہ ہوکر ۲/۱ ۴ بجے کے قریب شیخ بشیر احمد صاحب امیر مقامی جماعت احمدیہ لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچ گئے۔ اس تاریخی سفر میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ )حرم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب( بھی حضور کے ہمراہ تھیں۔۲۱۱
حضرت مسیح موعودؑ کی ہجرت سے متعلق ایک اہم پیشگوئی کا شاندار ظہور
حضرت سیدنا فضل عمر خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کی ہجرت پاکستان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ۸۶۔ ۱۸۸۵ء کی ایک
خواب پوری ہوئی جس میں حضور پر انکشاف کیا گیا تھا کہ آپ خود یا آپ کا کوئی خلیفہ ہجرت کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ۔
>ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ ایک شخص میرا نام لکھ رہا ہے تو آدھا نام اس نے عربی میں لکھا ہے اور آدھا انگریزی میں لکھا ہے۔ انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رویاء نبی کے اپنے زمانہ میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعے سے پورے ہوتے ہیں۔ مثلاً آنحضرت~صل۱~ کو قصر و کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمر کے زمانہ میں فتح ہوئے<۔۲۱۲
اس پیشگوئی کی تفصیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض اور الہامات بھی ہوئے جو حضور نے براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۱ پر درج کئے۔ اور >دافع البلاء< )مطبوعہ اپریل ۱۹۰۲ء کے صفحہ ۲۱ پر ان کا ترجمہ مع تشریح مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع فرمایا(
>عیسائی لوگ ایذا رسانی کے لئے مکر۲۱۳ کریں گے اور خدا بھی مکر کرے گا اور وہ دن آزمائش کے دن۲۱۴ ہوں گے اور کہہ کہ خدایا پاک۲۱۵ زمین میں مجھے جگہ دے۔ یہ ایک روحانی طور کی ہجرت ہے<۔
سفر ہجرت کے حالات حضرت مصلح موعود کی زبان مبارک سے
حضرت امیر المومنین المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں۔
>جماعتی طور پر ایک بہت بڑا ابتلاء ۱۹۴۷ء میں آیا اور الٰہی تقدیر کے ماتحت ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا۔ شروع میں میں سمجھتا تھا کہ جماعت کا جرنیل ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ قادیان میں لڑتا ہوا مارا جائوں ورنہ جماعت میں بزدلی پھیل جائے گی اور اس کے متعلق میں نے باہر کی جماعتوں کو چھٹیاں بھی لکھ دی تھیں۔ لیکن بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے مجھ پر یہ امر منکشف ہوا کہ ہمارے لئے ایک ہجرت مقدر ہے اور ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے۔ ویسے تو لوگ اپنی جگہیں بدلتے ہی رہتے ہیں مگر اسے کوئی ہجرت نہیں کہتا۔ ہجرت ہوتی ہی لیڈر کے ساتھ ہے۔ پس میں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی مصلحت یہی ہے کہ میں قادیان سے باہر چلا جائوں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات کے مطالعہ سے میں نے سمجھا کہ ہماری ہجرت یقینی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجھے قادیان چھوڑ دینا چاہئے تو اس وقت لاہور فون کیا گیا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے لیکن آٹھ دس دن تک کوئی جواب نہ آیا اور جواب آیا بھی تو یہ کہ حکومت کسی قسم کی ٹرانسپورٹ مہیا کرنے سے انکار کرتی ہے اس لئے کوئی گاڑی نہیں مل سکتی۔ میں اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کررہا تھا۔ الہامات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایک الہام نظر آیا >بعد گیارہ< میں نے خیال کیا کہ گیارہ سے مراد گیارہ تاریخ ہے اور میں نے سمجھا کہ شاید ٹرانسپورٹ کا انتظام قمری گیارہ تاریخ کے بعد ہوگا مگر انتظار کرتے کرتے عیسوی ماہ کی ۲۸۔ تاریخ آگئی لیکن گاڑی کا کوئی انتظام نہ ہوسکا۔ ۲۸۔ تاریخ کو اعلان ہوگیا کہ ۳۱۔ اگست کے بعد ہر ایک حکومت اپنے اپنے علاقہ کی حفاظت کی خود ذمہ دار ہوگی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈین یونین اب مکمل طور پر قادیان پر قابض ہوگئی ہے۔ میں نے اس وقت خیال کیا کہ اگر مجھے جانا ہے تو اس کے لئے فوراً کوشش کرنی چاہئے ورنہ قادیان سے نکلنا محال ہو جائے گا اور اس کام میں کامیابی نہیں ہوسکے گی ان لوگوں کے مخالفانہ ارادوں کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ ایک انگریز کرنل جو بٹالہ لگا ہوا تھا میرے پاس آیا اور اس نے کہا مجھے ان لوگوں کے منصوبوں کا علم ہے جو کچھ یہ ۳۱۔ اگست کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کریں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ باتیں کرتے وقت اس پر رقت طاری ہوگئی لیکن اس نے جذبات کو دبا لیا اور منہ ایک طرف پھیر لیا۔ جب میں نے دیکھا کہ گاڑی وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں ہوسکتا اور میں سوچ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہام >بعد گیارہ< سے کیا مراد ہے تو مجھے میاں بشیر احمد صاحب کا پیغام ملا کہ میجر جنرل نذیر احمد صاحب کے بھائی میجر بشیر احمد صاحب کے لئے ملنے آئے ہیں۔
دراصل یہ ان کی غلطی تھی وہ میجر بشیر احمد صاحب نہیں تھے بلکہ ان کے دوسرے بھائی کیپٹن عطاء اللہ صاحب تھے۔ جب وہ ملاقات کے لئے آئے تو میں حیران تھا کہ یہ تو میجر بشیر احمد نہیں ان کے چہرے پر تو چیچک کے داغ ہیں مگر چونکہ مجھے ان کا نام میجر بشیر احمد ہی بتایا گیا تھا اس لئے میں نے دوران گفتگو میں جب انہیں میجر کہا تو انہوں نے کہا میں میجر نہیں ہوں کیپٹن ہوں اور میرا نام بشیر احمد نہیں بلکہ عطاء اللہ ہے۔ کیپٹن عطاء اللہ صاحب کے متعلق پہلے سے میرا یہ خیال تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر خدمت کا موقعہ مل سکتا ہے تو اپنے بھائیوں میں سے یہی اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ میں نے انہیں حالات بتائے اور کہا کہ کیا وہ سواری اور حفاظت کا کوئی انتظام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آج ہی واپس جاکر کوشش کرتا ہوں۔ ایک جیپ میجر جنرل نذیر احمد کو ملی ہوئی ہے اگر وہ مل سکی تو دو اور کا انتظام کرکے میں آئوں گا کیونکہ تین گاڑیوں کے بغیر پوری طرح حفاظت کا ذمہ نہیں لیا جاسکتا کیونکہ ایک جیپ خراب بھی ہوسکتی ہے اور اس پر حملہ بھی ہوسکتا ہے لیکن ضرورت ہے کہ تین گاڑیاں ہوں تا سب خطرات کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ باتیں کرکے وہ واپس لاہور گئے اور گاڑی کے لئے کوشش کی۔ مگر میجر جنرل نذیر احمد صاحب کی جیپ انہیں نہ مل سکی۔ وہ خود کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ آخر انہوں نے نواب محمد دین صاحب مرحوم کی کارلی اور عزیز منصور احمد کی جیپ اسی طرح بعض اور دوستوں کی کاریں حاصل کیں اور قادیان چل پڑے۔ دوسرے دن ہم نے اپنی طرف سے ایک اور انتظام کرنے کی بھی کوشش کی اور چاہا کہ ایک احمدی کی معرفت کچھ گاڑیاں مل جائیں۔ اس دوست کا وعدہ تھا کہ ملٹری کو ساتھ لے کر آٹھ نو بجے قادیان پہنچ جائیں گے لیکن وہ نہ پہنچ سکے یہاں تک کہ دس بجے گئے۔ اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ شاید گیارہ سے مراد گیارہ بجے ہوں اور یہ انتظام گیارہ بجے کے بعد ہو۔ میاں بشیر احمد صاحب جن کے سپرد ان دنوں ایسے انتظام تھے۔ ان کے بار بار پیغام آتے تھے کہ سب انتظام رہ گئے ہیں اور کسی میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ میں نے انہیں فون کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ¶الہام >بعد گیارہ< سے میں سمجھتا ہوں کہ گیارہ بجے کے بعد کوئی انتظام ہوسکے گا۔ پہلے میں سمجھتا تھا کہ اس سے گیارہ تاریخ مراد ہے لیکن اب میرا خیال ہے کہ شاید اس سے مراد گیارہ بجے کا وقت ہے۔ میرے لڑکے ناصر احمد نے بھی جس کے سپرد باہر کا انتظام تھا۔ مجھے فون کیا کہ تمام انتظامات فیل ہوگئے ہیں۔ ایک بدھ فوجی افسر نے کہا تھا کہ خواہ مجھے سزا ہو جائے میں ضرور کوئی نہ کوئی انتظام کروں گا اور اپنی گارد ساتھ روانہ کروں گا لیکن عین وقت پر اسے بھی کہیں اور جگہ جانے کا آرڈر آگیا اور اس نے کہا کہ میں اب مجبور ہوں اور کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتا۔ آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں نے فون اٹھایا اور چاہا کہ ناصر احمد کو فون کروں کہ ناصر احمد نے کہا کہ میں فون کرنے ہی والا تھا کہ کیپٹن عطاء اللہ یہاں پہنچ چکے ہیں اور گاڑیاں بھی آگئی ہیں۔ چنانچہ ہم کیپٹن عطاء اللہ صاحب کی گاڑیوں میں قادیان سے لاہور پہنچے۔ یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ فوراً ایک نیا مرکز بنایا جائے اور مرکزی دفاتر بھی بنائے جائیں<۔۲۱۶
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود کی ہجرت کے بعد کس طرح انتہائی زہرہ گداز اور جگر پاش حالات میں قادیان کے مخلص احمدیوں اور جانفروش درویشوں نے مشرقی پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا بلند رکھا۔ نیز پاکستان میں خدا تعالیٰ کے پاک وعدوں اور بشارتوں کے عین مطابق اس کے اولوالعزم اور مقدس خلیفہ موعود کے مبارک ہاتھوں سے نئے سرے سے احمدیت کا باغ لگایا گیا یعنی ربوہ جیسا عالمگیر شہرت کا حامل` مثالی اور شاندار مرکز تعمیر ہوا اور طیور ابراہیمی آسمانی قرناء کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوبارہ جمع ہو گئے ان سب ایمان افروز واقعات کی تفصیل انشاء اللہ العزیز وبتوفیقہ تعالیٰ اگلی جلدوں میں آئے گی۔
حضرت مصلح موعودؓ کے قلم مبارک سے
تاریخ احمدیت سے متعلق بعض اہم سوالات کا جواب
)مولف کتاب ھذا نے ظہور/اگست ۱۹۵۴ء/۱۳۳۳ہش میں حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بذریعہ مکتوب عرض کیا کہ حضور از راہ شفقت )۱( اپنے تاریخی سفر دہلی )۱۹۴۶ء( )۲( جون ۱۹۴۷ء کے امرت سر ریلیف کیمپ )۳( لٹریچر بابت بائونڈری کمیشن اور )۴( احمدیہ میمورنڈم کی تفصیلی معلومات کے تعلق میں احقر کی رہنمائی فرمائیں حضرت امیر المومنین نے )جو ان دنوں صوبہ سندھ میں تشریف فرما تھے( اپنے قلم مبارک سے ان استفسارات کا بالترتیب مندرجہ ذیل جواب تحریر فرمایا:۔
)۱(
بہرحال سب امور اخبارات میں یا امور عامہ کی رپورٹوں میں آچکے ہوں گے مگر ربوہ آکر درد صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب سے بات کرکے نوٹ لکھوائے جاسکتے ہیں۔
)۲(
یہ کام دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ مرزا ناصر احمد اور میاں بشیر احمد زیادہ بتا سکتے ہیں۔



)۳(
لٹریچر امریکہ سے ہوائی جہاز میں ایک ہزار سے زائد خرچ ڈاک کا لگا۔
)۴(
احمدیہ میمورنڈم پہلے تیار کیا اس کا پیش کرنا لیگ کے اشارہ پر ملتوی کیا۔ پھر جب ہندوئوں نے سکھوں اور اچھوت کا ڈھونگ رچایا تو تعداد نمائندگی بڑھانے کے لئے لیگ کے اشارہ پر پیش کیا چونکہ پیش کروانا لیگ کے اختیار میں تھا۔ اس لئے بغیر اس کی مرضی کے ہم پیش ہی نہ کرسکتے تھے۔
نوٹ:۔ مندرجہ بالا جواب میں نمبروں کا اضافہ قارئین کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے حضرت امیرالمومنینؓ کے الفاظ میں یہ نمبر نہیں ہیں۔
)۲( جواب پر ۲۷۔ اگست ۱۹۵۴ء کی مہر ثبت ہے۔
ضیاء الاسلام پریس ربوہ
ناشر ادارۃ المصنفین ربوہ
۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء
فتح ۱۳۴۸ ہش
پانچواں باب
حواشی
۱۔
سب سے زیادہ نقصان اسی فرم کو پہنچا جس کا تخمینہ دو لاکھ تھا۔
۲۔
الفضل ۲۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ و ۲۸۔ نبوت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲۔
۳۔
الفضل یکم اخاء/ اکتوبر صفحہ ۲ و ۴۔ اخاء اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۴۔
۴۔
الفضل ۲۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۵۔
عہد لارڈ مائونٹ بیٹن صفحہ ۲۵۴۔ مولفہ ایلن کیمبل جانسن پیلس اتاشی لارڈ مائونٹ بیٹن وائسرائے ہند۔ ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی۔
۶۔
الفضل ۱۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۲ و ۳۔
۷۔
الفضل ۹۔ اخاء ۱۳۲۵ہش۔
۸۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۵ہش۔
۹۔
الفضل ۳۰۔ اخاء ۱۳۲۵ہش۔
۱۰۔
الفضل ۴۔ اخاء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ و ۲۔ مکمل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۹۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء صفحہ ۲ تا ۶۔
۱۱۔
ایضاً۔
۱۲۔
الفضل ۱۰۔ اخاء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔ اس تقریر کا مکمل متن الفضل ۱۵` ۱۶` ۱۸` ۲۰۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء میں شائع شدہ ہے۔
۱۳۔
بحوالہ الفضل ۲۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۱۴۔
بحوالہ الفضل ۸۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۱۵۔
الفضل ۱۶۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔ آخری کالم۔
۱۶۔
الفضل ۱۶۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۷۔
الفضل ۲۹۔ صلح/ جنوری ۱۳۴۰ہش ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۔
۱۸۔
یہ بیان انہوں نے پٹنہ ٹائمز میں شائع کرایا تھا۔
۱۹۔
الفضل ۹۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۲۰۔
الفضل ۲۱۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۲۱۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۲۲۔
الفضل ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۲۳۔
الفضل ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸۔
۲۴۔
الفضل ۴۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۲۵۔
الفضل ۱۱۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۶۔
حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں:۔
>سیدنا حضرت اقدس نے تحریک فرمائی کہ بہار میں مسلمان مظلوموں کی امداد کے لئے ابھی اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر محمد جی صاحب اور عاجز دونو نے اپنے آپ کو پیش کردیا اور چند دنوں کے بعد ہم بہار پہنچ گئے۔ سب سے اول حضرت حکیم خلیل احمد صاحب کے مکان پر مونگھیر پہنچے۔ مونگھیر کو تو ہم بڑا شہر جانتے تھے۔ مگر سٹیشن پر سوائے گھوڑا گاڑی کے اور کوئی سواری نہ تھی اور یہ گھوڑے پنجابی گدھے کے ایک دو سالہ بچے کی مانند دبلے پتلے اور نحیف تھے۔ خیر ہم سیدھے حکیم صاحب کے ہاں پہنچ گئے دیکھا تو بوجہ فسادات سب طرف خوف کی حالت طاری تھی۔ حکیم صاحب کے ہاں کچھ سامان غرباء میں تقسیم کے لئے موجود تھا۔ ہم دو تین روز ٹھہرے۔ حضرت حکیم صاحب کی معیت میں ہم مسلمان منتظمین امداد مظلومین کے پاس پہنچے۔ مگر ان مسلمانوں میں ہم نے کوئی خاص قوت عمل نہیں پہچانی۔ مگر حکیم صاحب بالخصوص عاجز کے باریش وجود کو بطور تبلیغ استعمال فرما رہے تھے۔ پھر حکیم صاحب کی معیت میں ہم OFFICER DISTRICT کے پاس گئے۔ وہ مسلمان معمر شخص تھے مگر ہندوئوں کا زور تھا O۔D کو بھی ہندوئوں کے دبائو میں رہنا پڑتا تھا۔ دیکھا کہ ایک ہندو آپ کے پاس بیٹھا ہے۔ اور کوئی ایک گھنٹہ تک برابر بولتا ہی چلا جاتا تھا۔ گویا کہ وہ O۔D کی بجائے اپنی ہی حکومت جان رہا تھا۔ خیر بمشکل ہمیں وقت ملا۔ مگر O۔D صاحب نے فرمایا کہ اس وقت حالات درست ہوچکے ہیں اور مظلومین کی امداد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان سے ناامید ہوکر واپس ہوئے۔ آخر حکیم صاحب کی معیت میں ہم بذریعہ ریل PATNA پہنے۔ وہاں ہمارا ایک وفد جناب مولوی برکات احمد صاحب )ابن حضرت مولوی راجیکی صاحب( کی قیادت میں آیا ہوا تھا اور وہ وہاں امیر جماعت کے مکان پر مقیم تھے۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ آخر ان کی مدد سے ہم نے ادویہ خریدیں اور پھر ان کی قیادت میں بذریعہ ریل اس علاقہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں ہمارے ایک احمدی گائوں کی جماعت آباد تھی۔ ایک خاص سٹیشن پر اتر کر لاری میں بیٹھے۔ ہمارے امیر صاحب کچھ خائف تھے۔ اور خطرہ ہی کے علاقہ سے ہم گزر رہے تھے اور بار بار ہم میں سے ہر ایک کے پاس آکر ہدایات دیتے رہے کہ اترنے کے وقت اس طریق سے جائیں گے۔ غرض ہم تسبیح و تحمید اور درود پڑھتے ہوئے اس جگہ آن پہنچے اور سڑک سے اتر کر کھیتوں میں سے ہوکر اپنے گائوں میں پہنچ گئے۔ اس وسیع علاقہ میں صرف یہی گائوں بمعہ مسجد کے محفوظ رہا تھا ورنہ چاروں طرف تباہی سے مسلمان نابود ہوگئے تھے۔ اس حالت کو دیکھ کر صاف اور بین طور پر نشان الٰہی نظر آرہا تھا کہ کیونکہ جب کہ چاروں طرف سینکڑوں گائوں کے مسلمان تباہ ہوگئے۔ یہ صرف ایک گائوں بمع اپنی مسجد کے محفوظ رہا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہاں ملائکہ کا پہرہ تھا۔
ہماری جماعت کے احباب ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہاں ابھی پولیس کے دو خیمے لگے ہوئے خالی پڑے تھے ہم وہیں مقیم ہوگئے۔
وہاں ہمیں بتایا گیا کہ جب ہجوم اس طرف کو بڑھا تھا تو احمدی احباب نے اپنے مکانوں کے اندر سے پٹاخے چلانے شروع کردئے اور ایک آدھی بندوق بھی تھی مگر پٹاخوں کی آواز کو سنکر ہجوم اس طرف جرات نہ کرسکا۔ صرف ایک نوجوان ہمارا شہید ہوا تھا۔ جس مقام پر وہ بے چارا گرا تھا وہ ہم نے جاکر دیکھی اور دعا کی۔ کچھ مسلمانوں کو ساتھ لے کر ہم نے اس علاقہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ اردگرد کے گائوں کے گائوں ظالموں نے تباہ کر دیئے تھے اور عورتوں اور بچوں کو مکانوں میں بند کرکے آگیں لگا دی تھیں اور لاشوں کو بالوں سے کھینچ کھینچ کر کنوئوں میں ڈال دیا گیا۔ کنوئوں کے اندر سے ابھی تک بدبو آرہی تھی اور ارد گرد کا سارا علاقہ ہڈیوں` پنجروں اور کھوپڑیوں سے اٹا پڑا تھا۔ سنا گیا کہ ایک اور جگہ عورتوں اور بچوں کو کہا گیا کہ تمہارے مرد تو مر گئے ہیں چلو ہم تمہیں حفاظت کی جگہ لے جائیں۔ باہر جا کے ان کے سروں پر چٹائیاں ڈال دی گئیں اور مٹی کا تیل ڈال کر آگیں لگا دی گئیں۔ غرض یہ کہ ہمارا تو دل واللہ غیرت اور دکھ سے بھر گیا اور مسلمانوں کی اس بے بسی اور تباہی پر روتا رہا۔
۲۷۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۲۸۔
الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۲۹۔
الفضل ۱۴۔ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۸۔
۳۰۔
میڈیکل ریلیف وفد کے دورہ بہار کی رپورٹ سے ملخص )مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے سیکرٹری بہار کمیٹی مطبوعہ ۱۶` ۲۰` ۲۵۔ فتح ۱۳۲۵ہش/ دسمبر ۱۹۴۶ء(
۳۱۔
الفضل ۴۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۳۲۔
الفضل ۱۳۔ ماہ امان ۱۳۲۵ہش/ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۳۳۔
الفضل ۲۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ و ۸۔
۳۴۔
ڈان دہلی مورخہ ۱۴۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء )بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو نومبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ و ۸(
۳۵۔
مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۔ نبوت/ نومبر ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء صفحہ ۲ تا ۶۔
۳۶۔
الفضل ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۳۷۔
الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۴ کالم ۳ و ۴۔
۳۸۔
بجلی کے گھریلو سامان بٹن` عطریات` تالے` ٹارچز` ٹوکے` فرنیچر` پمپ` بجلی کے پنکھے اور دیگر پرزے اور مشینیں۔
۳۹۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ و ۵۔
۴۰۔
الفضل ۲۷۔ فتح ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۱۔
الفضل ۹۔ صلح ۱۳۲۶ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۴۲۔
الفضل ۲۸۔ فتح ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔۴۔
۴۳۔
اخبار زمزم )لاہور( ۳۔ جنوری ۱۹۴۷ء۔ بحوالہ الفضل ۶۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۴۴۔
پیغام صلح ۲۹۔ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۴۵۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۔
۴۶۔
ایضاً۔
۴۷۔
اصل تقریر عربی میں تھی۔ الفضل )۱۰۔ صلح ۱۳۲۶ہش صفحہ ۶( اس کا مکمل ترجمہ شائع شدہ ہے۔
۴۸۔
حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۲۷۔ فتح کے پہلے اجلاس میں پہلے عنوان پرادر ۲۸۔ فتح کے پہلے اجلاس میں دوسرے عنوان پر تقریر فرمائی۔
۴۹۔
یہ دونوں تقریریں بارش کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں۔
۵۰۔
ایضاً۔
۵۱۔
‏h2] gat[ P:7 1947 18, JANUARY LAHORE SUNRISE THE
۵۲۔
الفضل ۲۱۔ ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۳۔
الفضل ۹۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷۔
۵۴۔
الفضل ۱۲۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۵۔
اصحاب احمد جلد اول۔ صفحہ ۹۷ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے( و الفضل ۱۲۔ احسان ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵۔
۵۶۔
الفضل ۲۶۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۵۷۔
‏]2h [tag الفضل ۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۔
۵۸۔
الفضل ۱۱۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۵۹۔
الفضل ۲۰۔ احسان ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۰۔
مضمون سید بہاول شاہ صاحب امرتسر سے ملخصاً )مطبوعہ الفضل ۲۹۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء(
۶۱۔
الفضل ۳۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۶۲۔
الفضل ۹۔ وفا ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ و الفضل ۲۲۔ وفا ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴۔
۶۳۔
الفضل ۲۰۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۶۴۔
الفضل ۲۴۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۶۵۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۶۶۔
الفضل ۲۹۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۶۷۔
الفضل ۴۔ اخاء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵۔
۶۸۔
الفضل ۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۶۹۔
الفضل ۳۔ اخاء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۷۰۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔][۷۱۔
الفضل ۲۴۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔ )ملخصاً از مضمون چوہدری غلام قادر صاحب پریذیدنٹ جماعت احمدیہ منٹگمری(
جناب شیخ نور احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی )مغلپورہ لاہور نے انہی دنوں حضرت مولوی صاحب کی سیرت کے متعدد ایمان افروز واقعات قلمبند کئے تھے جو الفضل ۱۹` ۲۱۔ شہادت ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں چھپ چکے ہیں۔
۷۲۔
نام۔ حضرت مولوی سید عبدالرحیم صاحب اولین مبلغ اڑیسہ۔ حضرت مولوی سید سعید الدین صاحب۔ مولوی سید احمد حسین صاحب۔ مولوی سید نیاز الدین صاحب۔ مولوی سید تفضل حسین صاحب۔ مولوی سید شفق الدین صاحب۔ مولوی سید عبدالستار صاحب۔ )یہ بزرگ ۱۹۰۰ء میں قادیان گئے( حضرت مولوی سید ضیاء الحق صاحب۔ حضرت مولوی سید نیاز حسین صاحب۔ حضرت مولوی سید اکرام الدین صاحب۔ )یہ تینوں ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے( حضرت مولوی سید حاجی احمد صاحب۔ حضرت مولوی سید اختر الدین صاحب )۱۹۰۷ء میں پہلی بار قادیان کی زیارت کی(
۷۳۔
الفضل یکم تبلیغ و ۱۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۷۴۔
الفضل ۲۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۷۵۔
الفضل ۱۱۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۷۶۔
الفضل ۱۱۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۷۷۔
الفضل ۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۹۔ )ملخصاً مضمون قدرت اللہ صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ نابھہ(
۷۸۔
الفضل ۲۵۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۸ کالم ۱ و ۲۔
۷۹۔
الفضل ۲۱۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۸۰۔
الفضل ۶۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۸ کالم ۳۔
۸۱۔
الفضل ۲۳۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۶۔
۸۲۔
الفضل ۳۰۔ اخاء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۸۳۔
الفضل ۴۔ احسان ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۸۴۔
الفضل ۱۵۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۸۵۔
مراسلہ محمد عبدالغفور صاحب )مقیم پبی پشاور معرفت ڈاکٹر منیر احمد صاحب دارالفضل دواخانہ پبی( مورخہ ۲۱۔ ستمبر ۱۹۵۳ء بنام مولف کتاب۔
۸۶۔
الفضل ۲۲۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
‏]h1 [tag۸۷۔
الفضل ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۸۸۔
الفضل ۱۷۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۸۹۔
الفضل ۳۱۔ وفا صفحہ ۲ و ۴۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۹۰۔
الفضل ۹۔ صلح ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۹۔
۹۱۔
الفضل ۲۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷۔
۹۲۔
الفضل ۱۱۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔
۹۳۔
بحوالہ الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۲۔
۹۴۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء۔
۹۵۔
مفصل تبصرہ کا ترجمہ الفضل )یکم ظہور ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲( میں درج ہے۔
۹۶۔
الفضل ۲۴۔ وفا ۱۳۲۵ہش )جولائی ۱۹۴۶ء(
۹۷۔
الفضل ۱۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۹۸۔
الفضل ۲۴۔ تبوک ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۴۔
۹۹۔
الفضل ۲۶۔ نبوت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۰۰۔
الفضل ۲۳۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۷ کالم ۲۔ ۳۔۔
۱۰۱۔
الفضل ۳۔ فتح/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۰۲۔
الفضل ۳۰۔ شہادت ۱۳۲۵ہش صفحہ ۸۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۲۔ احسان/ جون ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۴۔
الفضل ۶۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۰۵۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۔
۱۰۶۔
الفضل ۶۔ ظہور ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۴۔ اخاء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی زندگی سے قبل حضرت مصلح موعود کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کے غریب خانہ پر تشریف لائیں چنانچہ حضور علالت طبع کے باوجود ان کے مکان )واقع دارالرحمت( میں تشریف لے گئے اور دعا کرائی )الفضل ۲۱۔ اخاء ۱۳۲۵ہش صفحہ ۲(
۱۰۸۔
الفضل ۲۹۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۱۰۹۔
اخبار انقلاب ۲۶۔ فروری ۱۹۴۷ء۔
۱۱۰۔
الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۳۲۵ہش/ ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۱۱۱۔
الفضل ۳۰۔ امان ۱۳۲۵ہش صفحہ ۹۔
۱۱۲۔
الفضل ۱۰` ۱۵` ۱۸۔ جنوری ۱۹۴۸ء۔
۱۱۳۔
الفضل ۱۵۔ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۴۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔ )چوہدری منیر احمد صاحب واقف زندگی کے نام(
۱۱۵۔
ریاست ۲۴۔ فروری ۱۹۴۷ء بحوالہ الفضل ۸۔ فروری ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۱۱۶۔
سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ۴۔ جون ۱۹۴۷ء۔
۱۱۷۔
الفضل ۲۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ )نوٹ رقم فرمودہ حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب سے ملخصاً(
اس کمیٹی کے اٹھارہ ممبر تھے جن میں سات احمدی چھ غیر احمدی اور پانچ ہندو یا سکھ تھے۔
۱۰۔ ماہ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کو کمیٹی کی طرف سے ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا جس کا عنوان تھا ہندو مسلمانوں اور سکھوں سے دردمندانہ اپیل آئو ہم سب اکٹھے ہو جائیں۔ ۱۶۔ ماہ امان کو اس کمیٹی کے زیر اہتمام حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی صدارت میں ایک جلسہ عام بھی ہوا۔ جس میں اتحاد و اتفاق سے رہنے کی تلقین کی گئی۔ کمیٹی کے سیکرٹری مولوی برکات احمد صاحب بی۔ اے راجیکی تھے۔
۱۱۸۔
الفضل ۲۰۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱ تا ۲۔
۱۱۹۔
الفضل ۷۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔ ۳۔
۱۲۰۔
الفضل ۷۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۔
۱۲۱۔
الفضل ۱۶۔ شہادت ۱۳۲۳ہش/ ۱۹۴۴ء صفحہ ۲ الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۲۲۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۲۳۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم ۴۔
۱۲۴۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳` ۴۔
‏]h1 [tag۱۲۵۔
ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ بی ایل رلیا رام تھے۔
۱۲۶۔
الفضل ۴۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۔
۱۲۷۔
الفضل ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۲۸۔
قیام کراچی کے دوران حضور کے قیمتی ارشادات )الفضل ۲۱` ۲۲` ۲۴` ۲۷۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء میں شائع شدہ ہیں۔۔
۱۲۹۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۳۰۔
الفضل ۱۴۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۱۔
الفضل ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۲۔
الفضل ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۳۔
الفضل ۲۱۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۵۔
الفضل ۲۵۔ امان/ مارچ ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۶۔
الفضل یکم شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
الفضل ۱۱۔ شہادت ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۳۸۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۳۹۔
الفضل ۸۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۴۰۔
الفضل ۱۹۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۴۱۔
الفضل ۲۲۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۱۴۲۔
الفضل ۹۔ ماہ شہادت / اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۱۴۳۔
الفضل ۹۔ ماہ شہادت / اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱` ۲۔
۱۴۴۔
الفضل ۲۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۴۵۔
‏]2h [tag الفضل ۲۱۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳` ۴۔
۱۴۶۔
دیباچہ تفسیر القرآن )اردو( صفحہ ۵۰۲` ۵۰۳ طبع دوم دسمبر ۱۹۵۳ء۔ ناشر صیغہ تالیف و تصنیف ربوہ طبع لاہور آرٹ پریس انارکلی لاہور۔
۱۴۷۔
اخبار الفضل ۲۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱` ۲۔
۱۴۸۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۲۲` ۲۳` ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۳۶۳ہش/ ۱۹۴۲ء صفحہ ۹` ۱۰۔
۱۴۹۔
تفصیل تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۳۰۰` ۳۰۱ میں آچکی ہے۔
۱۵۰۔
یہ سہو ہے ۲۰۔ ماہ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش کو حضرت مصلح موعود نے اس کی اشاعت کا اعلان فرمایا تھا۔ ملاحظہ ہو الفضل ۲۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۵۱۔
حیات قمر الانبیاء صفحہ ۱۱۰ تا ۱۲۳ مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی ناشر محمد احمد اکیڈیمی رام گلی نمبر ۳ لاہور طبع اول ۱۹۶۴ء۔
۱۵۲۔
روزنامہ النصر ۱۲۔ ستمبر ۱۹۴۸ء اس اخبار کے ایڈیٹر الاستاذ و دیع فیراوی ہیں جو امریکن یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۳۲۷ہش صفحہ ۵ سے ماخوذ و مضمون شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ۔
۱۵۴۔
الفضل ۲۹۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۵۵۔
الفضل ۲۹۔ ہجرت/ ۱۳۲۶ہش )۲۹۔ مئی ۱۹۴۷ء(
۱۵۶۔
الفضل ۱۷۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۵۷۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۱۵۸۔
الفضل یکم شہادت/ اپریل ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۱۵۹۔
الفضل ۱۴۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۸۔
۱۶۰۔ ][ الفضل ۱۹۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۱۶۱۔
الفضل ۱۱۔ شہادت/ اپریل و ۵۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء )مضمون حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
۱۶۲۔
ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۶۱۹ و تاریخ احمدیت جلد نہم صفحہ ۲۴۲۔ )طبع اول(
۱۶۳۔
الفضل ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۶۴۔
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے آپ کے بارے میں ۱۲۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۳۰ہش/ ۱۹۵۱ء کے خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ بھی بیان فرمایا ¶تھا۔
ایک جلسہ پر میں نماز پڑھانے لگا۔ عموماً لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوں۔ سیٹھ غلام غوث )محمد غوث( مرحوم جو حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے نہایت مخلص احمدی تھے۔ ان کے بیٹے سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی نہایت مخلص نوجوان ہیں اور جماعت حیدر آباد دکن کے سیکرٹری مال ہیں۔ سارا خاندان ہی مخلص ہے۔ ان کا وطن قادیان سے ضرور بارہ سو میل فاصلہ پر ہے۔ وہ جب جلسہ پر آتے تو نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ انہیں دعائیں کرنے کا زیادہ موقعہ مل سکے۔ اس جلسہ کے موقعہ پر بھی وہ میرے ساتھ کھڑے تھے کہ گجرات کے ایک احمدی آگے بڑھے اور انہیں پیچھے دھکیل کر کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو تو یہ موقع روز ملتا ہے۔ ہم لوگ دور سے آتے ہیں ہمیں بھی حضور کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع دیں۔ اب گجرات قادیان سے ۷۰۔ ۸۰ میل پر واقعہ ہے اور حیدر آباد دکن اور قادیان کے درمیان ہزار بارہ سو میل کا فاصلہ ہے لیکن انہوں نے بغیر تحقیقات کے اسے اپنا حق سمجھ لیا۔ )الفضل ۲۹۔ شہادت/ اپریل ۱۳۴۰ہش/ ۱۹۶۱ء( )الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۳۴ء(
۱۶۵۔
الفضل ۲۔ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔ آپ کے خود نوشت حالات الحکم ۲۸۔ جنوری` ۱۴۔ فروری ۱۹۴۴ء میں شائع شدہ ہیں۔
۱۶۶۔
الفضل ۱۳۔ احسان/ جون ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ تا ۵۔
۱۶۷۔
نرینہ اولاد:۔ سید محمد ناصر شاہ صاحب سکول ٹیچر آزاد کشمیر۔ سید مبارک احمد شاہ صاحب سرور انسپکٹر وصایا ربوہ۔
۱۶۸۔
الفضل ۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱` سیرت نصرت جہان بیگم حصہ اول صفحہ ۱۷۶ )از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر الحکم(
۱۶۹۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۲۔
۱۷۰۔
بدر ۲۰۔ جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ ۷۔
۱۷۱۔
بدر ۲۳۔ فروری ۱۹۰۶ء صفحہ ۶` ۷۔
۱۷۲۔
الفضل ۲۲۔ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۷۳۔
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ شروع میں دارالمسیح اور اس کے قرب و جوار میں رہتے تھے۔ ۱۹۱۳ء کے آخر میں آپ نے دارالعلوم میں اپنے رہائشی مکان کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد جلد ہی نانا جان حضرت میر نواب صاحب نے حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کا مکان دارالصفہ بنوایا جہاں پہلے پہل حضرت ڈاکٹر صاحب کے بسلسلہ ملازمت باہر رہنے کے ایام میں آپ کے چھوٹے بھائی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اپنے خاندان سمیت لمبے عرصہ تک قیام فرما رہے۔ )الفضل ۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱ کالم ۱(
۱۷۴۔
الفضل ۷۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱` ۲۔
۱۷۵۔
الفضل ۹۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔ ۵۔ )ملخصاً از مضمون ڈاکٹر کیپٹن شاہنواز خان صاحب(
۱۷۶۔
الفضل ۲۱۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۱۷۷۔
الفضل ۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
‏]h1 [tag۱۷۸۔
الفضل ۲۳۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۱۷۹۔
الفضل ۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۸۰۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۳۳۱ہش/ ۱۹۵۲ء۔
۱۸۱۔
منقول از کتابچہ واذ الصحف نشرت صفحہ ۳۳۔ ناشر میاں عبدالعظیم صاحب پروپرائٹر احمدیہ بکڈپو۔
۱۸۲۔
الفضل ۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۔
۱۸۳۔
الفضل ۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۱۸۴۔
الفضل ۱۱۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ تا ۳۔
۱۸۵۔
الفضل ۱۸۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۲۔
۱۸۶۔
الفضل ۱۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱ و ۲۔
۱۸۷۔
ایضاً۔
۱۸۸۔
الفضل ۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم ۲ تا ۴۔
۱۸۹۔
الفضل ۲۵` ۲۶۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء۔
۱۹۰۔
ایضاً۔
۱۹۱۔
صفحہ ۱۶۔ ناشر سول ملٹری گزٹ لمیٹد لاہور۔
۱۹۲۔
الفضل ۲۰۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۸۔
۱۹۳۔
الفضل ۶۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔
۱۹۴۔
احمدی بچہ نمبر ۱ )صوبیدار عبدالمنان دہلوی(
۱۹۵۔
الفضل ۲۵۔ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۹۶۔
مسٹر غضنفر علی خاں ۲۴۔ اگست کو لاہور میں پہنچے اور آپ نے مشرقی پنجاب کی صورت حال کی نسبت وزرائے مغربی پنجاب سے طویل ملاقات کی اور قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کے مطابق اہم ہدایات دیں۔
۱۹۷۔
‏h2] g[ta رسالہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۲۰` ۲۴۔
۱۹۸۔
الفضل ۶۔ صلح/ جنوری ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء۔
۱۹۹۔
اس صفحہ پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ نوٹ دیا >میں نے پڑھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر نتائج پیدا کرے ولاحول ولا قوہ الا باللہ العظیم مرزا بشیر احمد ۴۷/۸/۲۶<
۲۰۰۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے قلم سے اضافہ۔
۲۰۱۔
ایضاً۔
۲۰۲۔
ایضاً۔
۲۰۳۔
ایضاً۔
۲۰۴۔
حال ۱۰۱۔ ڈی ماڈل ٹائون لاہور )پاکستان(
۲۰۵۔
مکتوب بنام مولف مورخہ ۸۔ فروری ۱۹۹۳ء۔
۲۰۶۔
الفضل یکم تبوک/ ستمبر ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۲۰۷۔
یکم تبوک/ ستمبر ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء صفحہ ۱۔
۲۰۸۔
ان جہازوں کے پائلٹ میر محمد احمد صاحب )ابن حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ( اور محمد لطیف صاحب )ابن حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب ریٹائرڈ ای۔ اے۔ سی( تھے جنہوں نے ان ایام میں نہایت درجہ اخلاص اور کمال فدائیت اور جانفروشی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔
۲۰۹۔
الفضل ۳۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء کالم ۲۔ ۳ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء بمقام مسجد احمدیہ لاہور(
۲۱۰۔
الفضل ۸۔ احسان/ جون ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔
۲۱۱۔
الفضل ۱۸۔ احسان/ جون ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔
۲۱۲۔
>بدر< ۷۔ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۲` الحکم ۱۰۔ ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳۔
۲۱۳۔
مکر عربی زبان میں باریک اور خفیہ تدبیر کو کہا جاتا ہے جس میں ریڈ کلف ایوارڈ کے عیسائی منصوبے کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔
۲۱۴۔
حضرت مصلح موعود کی ہجرت کے ایام عام مسلمانوں کے لئے عموماً اور جماعت احمدیہ کے لئے خصوصاً ابتلاء اور آزمائش کے ایام تھے۔
۲۱۵۔
پاک زمین۔ یعنی پاکستان۔
۲۱۶۔
الفضل ۳۱۔ وفا/ جولائی ۱۳۲۸ہش/ ۱۹۴۹ء صفحہ ۵۔ ۶۔
 
Top