• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 11 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 11 ۔ یونی کوڈ

‏tav.11.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت
جلد ۱۱
یورپ کی روحانی فتح کے لئے
نئے احمدیہ مشنوں کے قیام سے لیکر مسقط مشن کے قیام تک

مولفہ
دوست محمد شاہد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت کی بارہویں جلد
)رقم فرمودہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب صدر عالمی عدالت(
امسال ادارۃالمصنفین کی طرف سے >تاریخ احمدیت< کی بارہویں جلد طبع ہوکر احباب جماعت کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ اس کے بیشتر حصہ کو میں نے دیکھا ہے۔ اس میں صقلیہ` فرانس` سپین` سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ میں اشاعت اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کے نئے مشنوں کے قیام کا ذکر ہے اور اس بات کا مفصل تذکرہ کیاگیا ہے کہ کن حالات میں یہ مشن قائم ہوئے اور احمدی مبشرین نے کس کس رنگ میں اشاعت اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں مساعی جمیلہ کیں اور ان مساعی کے نتیجہ میں اب تک کس قدر سعید روحیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے جھنڈے کے نیچے آجمع ہوئی ہیں۔
۱۹۴۷ء میں ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب لاہور تشریف فرما تھے تو آپ نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں پشاور` راولپنڈی` کوئٹہ اور کراچی میں استحکام پاکستان کے متعلق لیکچر دیئے تھے۔ ان لیکچروں میں حضورؓ نے اس بات کو مفصل طور پر بیان فرمایا کہ پاکستان ایک مضبوط` متحد اور مستحکم مملکت کیسے بن سکتی ہے۔ ان لیکچروں کی تفصیل بھی اس جلد میں بیان کردی گئی ہے۔ اگر آج بھی اہالیان پاکستان ان امور کو مشعل راہ بنائیں تو پاکستان ایک مضبوط اور قابل احترام مملکت بن سکتا ہے۔
اسرائیلی حکومت کے قیام پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسلمانان عالم کو متحد کرنے کی غرض سے ایک بین الاقوامی تحریک اٹھائی تھی جس پر مشرقی وسطی کے مسلم پریس نے بالاتفاق خراج تحسین اداکیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ اس فتنہ پر کاری ضرب لگانے کے لئے حضور رضی اللہ عنہ کی تحریک کو اپنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس جدوجہد کا بھی اس جلد میں ذکر ہے۔
کتاب کے آخر میں پاکستان میں جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ۔۔۔۔ ربوہ ۔۔۔۔ کے قیام اور افتتاح کا ذکر ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کو بکھرنے کے بعد مضبوط شیرازے میں جمع کردیا اور ایسا عظیم مرکز عطا کیا جس سے پھر اعلائے کلمتہ اللہ کا کام شروع ہوگیا اور مبشرین اسلام بیرون پاکستان اشاعت اسلام کے لئے جانے لگے۔ الغرض یہ جلد پہلی ¶جلدوں کی طرح نہایت ضروری اور اہم امور پر مشتمل ہے۔
ہمارے نوجوانوں کا اپنی تاریخ سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے اس لئے میں جماعت کے نوجوانوں سے خصوصاً اور دیگر احباب جماعت سے عموماً درخواست کرتا ہوں کہ وہ نئی جلد کو جلد از جلد حاصل کرلیں اور پہلی شائع شدہ جلدوں کا اگر انہوں نے مطالعہ نہیں کیا تو ان کا مطالعہ بھی کریں تا وہ مقصد جس کے حصول کے لئے ہم نے تن` من` دھن قربان کرنا ہے وہ ہر وقت ہمارے سامنے رہے۔ وباللہ التوفیق۔
والسلام
خاکسار
ظفر اللہ خان
‏]po [tag
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے تاریخ احمدیت کی بارہویں جلد مکمل ہوکر احباب کی خدمت میں پیش ہورہی ہے۔ گیارہویں جلد میں ان واقعات کا ذکر تھا جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کے بعد رونما ہوئے نیز ہجرت کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جس عزم اور بہادری سے جماعت کے نظام کو دوبارہ قائم فرمایا اس کا ذکر کیاگیا تھا۔ اس جلد میں حضورؓ کی اس عظیم جدوجہد کا ذکر ہے جو آپ نے پاکستان میں وارد ہونے کے بعد استحکام پاکستان کے لئے کی۔ آپؓ نے لاہور` کراچی` کوئٹہ اور پشاور کا سفر اختیار کیا اور ملک عزیز کے ان بڑے بڑے شہروں میں پبلک لیکچر دیئے جن میں ان امور کو مفصل طور پر بیان فرمایا جن کو مدنظر رکھنے سے پاکستان مضبوط بنیادوں پر قائم ہوسکتا ہے۔ حضورؓ کے ان بصیرت افروز خطبات سے آپ کی عظیم بصیرت اور ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔
جماعت احمدیہ کا اہم مشن دنیا میں اسلام کی اشاعت ہے۔ اس فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے صقلیہ` فرانس` سپین` سوئٹزر لینڈ اور ہالینڈ میں جن حالات میں تبلیغی مشن قائم ہوئے اور مبلغین کو جو جدوجہد کرنی پڑی اس کا بھی مفصل ذکر جلد کے شروع میں کیاگیا ہے۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ۔۔۔۔ ربوہ ۔۔۔۔ کا قیام ہماری تاریخ میں ایک عظیم واقعہ ہے۔ اس کا افتتاح کس رنگ میں عمل میں آیا اس کا مفصل ذکر بھی اس جلد کا حصہ ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ لگایا گیا ہے جس میں افتتاح ربوہ کے موقع پر افتتاح کی مبارک تقریب میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے والے احباب کے اسماء کا اندراج کیاگیا ہے۔ اسی طرح سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بعض خطوط کا عکس بھی دیاگیا ہے۔
ادارۃ المصنفین تمام ان اصحاب کا جنہوں نے اس جلد کی تیاری میں کسی نہ کسی رنگ میں مدد کی ہے دلی شکریہ ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی محنت کو نوازے اور اپنے فضلوں کا وارث کرے۔)آمین(
خاکسار
ابوالمنیرنورالحق
ادارۃ المصنفین ربوہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب
یورپ` مشرق وسطی اور مشرق بعید کے نئے احمدی مشنوں کی بنیاد سے لیکر ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات تک
غرناطہ کی آخری مسلم ریاست پر نویں صدی ہجری اور پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ کا قبضہ ہوا اور مسلمانوں کے پائوں یورپ سے بالکل اکھڑ گئے۔ اس حادثہ سے لے کر آج تک مغربی ممالک اپنی سیاسی بالادستی اور عالمی اقتدار کے باعث اسلام کے راستہ میں ایک زبردست اور فولادی دیوار بنے ہوئے ہیں جس کا جلد سے جلد پاش پاش کر دینا ملت اسلامیہ کا اولین فرض ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یورپ کی روحانی فتح تحریک احمدیت کا بنیادی مقصد اور اس کے نصب العین کا لازمی حصہ ہے۔ جیسا کہ آنحضرت~صل۱~ کے فرزند جلیل امام الزمان حضرت سیدنا المسیح الموعود والمہدی الموعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں۔
>خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجاگیا۔<۱
حضرت اقدس علیہ السلام کے دل میں یورپ پر اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی کتنی شدید تڑپ تھی؟ اس کا کسی قدر اندازہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ایک چشم وید واقعہ سے ہوتا ہے۔ حضرت مفتی صاحبؓ کی روایت ہے کہ-:
>غالباً ۹۸۔۱۸۹۷ء کا ذکر ہے۔ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس حضورﷺ~ کے اندر کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ باہر سے ایک لڑکا پیغام لایا کہ قاضی آل محمدﷺ~ صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک نہایت ضروری پیغام لایا ہوں حضور خود سن لیں۔ حضورﷺ~ نے مجھے بھیجا کہ ان سے دریافت کرو کیا بات ہے؟ قاضی صاحب سیڑھیوں میں کھڑے تھے میں نے جاکر دریافت کیا انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے بھیجا ہے ایک نہایت ہی عظیم الشان خوشخبری ہے اور خود حضرت صاحب کو ہی سنانی ہے۔ میں نے پھر جاکر عرض کیا کہ وہ ایک عظیم الشان خوشخبری لائے ہیں اور صرف حضورﷺ~ کو ہی سنانا چاہتے ہیں۔ حضور نے فرمایا آپ پھر جائیں اور انہیں سمجھائیں کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں وہ آپ کو ہی سنادیں اور آپ آکر مجھے سنادیں۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور قاضی آل محمد صاحب کو سمجھایا کہ وہ خوشخبری مجھے سنادیں میں حضرت صاحب کو سنادیتا ہوں۔ تب قاضی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک مولوی کا مباحثہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ تھا اور اس مولوی کو خوب پچھاڑا اور لتاڑا گیا اور شکست فاش دی گئی۔ میں نے آکر یہ خبر حضرت صاحب کے حضور عرض کی۔ حضور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا >میں نے سمجھا کہ یہ خبرلائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے۔<۲
‏body] [tagگو جماعت احمدیہ کا قیام ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء۳ کو ہوا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں مغربی دنیا میں تبلیغ اسلام کی بنیاد ۱۸۸۵ء سے رکھی گئی جبکہ حضور نے خدا تعالیٰ کی منشاء مبارک کے مطابق نشان نمائی کی عالمگیر دعوت کے لئے ہزاروں کی تعداد میں انگریزی کا یہ انعامی اشتہار یورپ اور امریکہ کی تمام نامور شخصیتوں کو رجسٹری کرکے بھجوایا۔ اس اشتہار کا متن >سرمہ چشم آریہ< میں شائع شدہ ہے۔
۱۸۹۴ء میں حضورﷺ~ نے مسلمانوں کو یورپ میں واعظ بھجوانے کی پرزور تحریک کی اور فرمایا-:
>قوموالاشاعہ القران وسیروا فی البلدان ولا تصبوا الی الاوطان وفی البلاد الانکلیزیہ قلوب ینتظرون اعانتکم وجعل اللہ راحتھم فی معاناتکم فلا تصموا صموت من راوتعاما ودی وتحاما الا ترون بکاء الاحزان فی تلک البلدان واصوات الخلان فی تلک العمران۔ قوموا لتخلیص العانین وھدایہ الضالین ولا تکبوا علی سیفکم وسنانکم واعرفوا اسلحہ زمانکم فان لکل زمان سلاح اخروحرب اخرفلا تجادلوا فیما ھواجلی واظھر ولاشک ان زماننا ھذا یحتاج الی اسلحہ الدلیل والحجہ والبرھان لاالی القوس والسھم والسنان فاعدوا للاعداء ماترون نافعا عند العقلاء ولن یمکن ان یکون لکم الفتح الا باقامہ الحجہ وازالہ الشبھہ وقدتحزکت الارواح لطلب صداقہ الاسلام فادخلوا الامرمن ابوابہ ۔۔۔۔ فان کنتم صادقین وفی الصلحت راغبین فابعثوا دجالا من زمرہ العلماء لیسیروا الی البلاد الانکلیزیہ کالو عظاء لیتموا علی الکفرہ حجج الشریعہ الغراء۔۔۔۔ ولاشک ان تفھیم الضالین الغافلین واجب علی العلماء العارفین فقومواللہ واشیعوا ھداہ والا توملوا علیھا جزاء من سواہ ۔۔۔۔ فان فعلتم وکما قلت عملتم فبقی لکم ماثرالخیر الی اخرالزمان وتبعثون مع احباء الرحمن وتحشرون فی عباداللہ المجاھدین فاسمعوا رحمکم اللہ وقومواللہ قانتین ۔۔۔۔ ومن ذھب الی البلاد الانکلیزیہ خالصا للہ فھواحد من الاصفیاء وان تذرکہ الوفات فھومن الشھداء۔< ۴
ترجمہ-: قرآن کے شائع کرنے کے لئے کھڑے ہوجائو اور شہروں میں پھرو اور اپنے ملکوں کی طرف میل مت کرو۔ اور انگریزی ولاتیوں میں ایسے دل ہیں جو تمہاری مددوں کے انتظار کررہے ہیں اور خدا نے تمہارے رنج اور ان کے رنج میں راحت رکھی ہے۔ پس تم اس شخص کی طرح چپ مت ہوجو دیکھ کر آنکھیں بند کرے۔ اور بلایا جاوے اور پھر کنارہ کرے۔ کیا تم ان ملکوں میں ان بھائیوں کا رونا نہیں سنتے اور ان دوستوں کی آوازیں تمہیں نہیں پہنچتیں؟ اے لوگو!! قیدیوں کو چھڑانے کے لئے اور گمراہوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوجائو اور تلوار اور نیزوں پر افروختہ ہوکر مت گرو اور اپنے زمانہ کے ہتھیاروں اور اپنے وقت کی لڑائیوں کو پہچانو کیونکہ ہر ایک زمانہ کے لئے ایک الگ ہتھیار اور الگ لڑائی ہے پس اس امر میں مت جھگڑو جو ظاہر ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ ہمارا زمانہ دلیل اور برہان کے ہتھیاروں کا محتاج ہے۔ تیر اور کمان اور نیزہ کا محتاج نہیں۔ پس تم دشمنوں کے لئے وہ ہتھیار تیار کرو جو عندالعقلاء نافع ہیں۔ اور ہرگز ممکن نہیں جو بغیر محبت قائم کرنے اور شبہات دور کرنے کے تمہیں فتح ہو اور بلاشبہ روحیں اسلامی صداقت طلب کرنے کے لئے حرکت میں آگئی ہیں۔ پس تحصیل مقصد کے لئے دروازہ میں سے داخل ہو۔ پس اگر تم سچے ہو اور صلاحیت کی طرف راغب ہو تو علماء میں سے بعض آدمی مقرر کرو تاکہ واعظ بن کر انگریزی ملکوں کی طرف جائیں اور تاکافروں پر شریعت کی محبت پوری کریں اور کچھ شک نہیں کہ گمراہوں کا سمجھانا عالموں پر فرض ہے پس خدا تعالیٰ کے لئے کھڑے ہوجائو اور اس کی ہدایت کو پھیلائو اور اس پر کسی اور کے بدلہ کی امید مت رکھو۔ پس اگر تم نے ایسا کیا اور میرے کہنے پر عمل کیا تو اخیر زمانہ تک نیک یادگار تمہاری باقی رہے گی اور تم مقبولوں کے ساتھ اٹھائے جائو گے اور خدا کے مجاہد بندوں میں تمہارا حشر ہوگا۔ سو! جوانمردی دکھلائو خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ اور فرمانبردار بن کر اٹھ کھڑے ہو۔ اور جو شخص وعظ کے لئے انگریزی ملکوں کی طرف خالصاً لل¶ہ جائے گا پس وہ برگزیدوں میں سے ہوگا۔ اور اگر اس کو موت آجائے گی تو وہ شہیدوں میں سے ہوگا۔<
عصرحاضر کے مجاہد اعظم سیدناالمسیح الموعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے تبلیغی جہاد کی اس پرزور تحریک کے بعد خدا کی پاک وحی سے علم پاکر ایک مسلم یورپ اور مسلم امریکہ کا تخیل پیش کرتے ہوئے یہ خوشخبری دی کہ-:
>خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے ۔۔۔۔ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی توحید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہوچکی ہے۔ اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگادوں۔ اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو خدا نے اپنے ہاتھ سے میری تربیت فرماکر اور مجھے اپنی وحی سے شرف بخش کر میرے دل کو یہ جوش بخشا ہے کہ میں اس قسم کی اصلاحوں کے لئے کھڑا ہوجائوں اور دوسری طرف اس نے دل بھی تیار کردیئے ہیں جو میری باتوں کو ماننے کے لئے مستعد ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے خدا نے مجھے دنیا میں مامور کرکے بھیجا ہے اسی وقت سے دنیا میں ایک انقلاب عظیم ہورہا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی خدائی کے ولدا وہ تھے اب ان کے محقق خودبخود اس عقیدہ سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں۔ اور وہ قوم جو باپ دادوں سے بتوں اور دیوتوں پر فریضتہ تھی بہتوں کو ان میں سے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ بت کچھ چیز نہیں ہیں۔ اور گو وہ لوگ ابھی روحانیت سے بے خبر ہیں اور صرف چند الفاظ کو رسمی طور پر لئے بیٹھے ہیں۔ لیکن کچھ شک نہیں کہ ہزارہا بے ہودہ رسوم اور بدعات اور شرک کی رسیاں انہوں نے اپنے گلے پر سے اتار دی ہیں اور توحید کی ڈیوڑھی کے قریب کھڑے ہوگئے ہیں میں امید کرتا ہوں کہ کچھ تھوڑے زمانہ کے بعد عنایت الٰہی ان میں سے بہتوں کو اپنے ایک خاص ہاتھ سے دھکادے کر سچی اور کامل توحید کے اس دارالامان میں داخل کر دے گی۔ یہ امید میری محض خیال نہیں ہے بلکہ خدا کی پاک وحی سے یہ بشارت مجھے ملی ہے۔<۵
حضرت اقدس علیہ السلام نے اس روحانی انقلاب کو قریب سے قریب ترلانے کے لئے مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا صحیح اور واحد طریق حسب ذیل الفاظ میں بیان فرمایا-:
>آج کل ان ملکوں میں جو اسلام نہیں پھیلتا اور اگر کوئی مسلمان ہوتا بھی ہے تو وہ بہت کمزوری کی حالت میں رہتاہے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ وہ لوگ اسلام کی اصل حقیقت سے واقف نہیں اور نہ ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کیاگیا ہے۔ ان لوگوں کا حق ہے کہ ان کو حقیقی اسلام دکھلایا جائے جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کیاہے۔ وہ امتیازی باتیں جو کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ میں رکھی ہیں وہ ان پر ظاہر کرنی چاہئیں اور خدا تعالیٰ کے مکالمات اور مخاطبات کا سلسلہ ان کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ اور ان سب باتوں کو جمع کیاجائے جن کے ساتھ اسلام کی عزت اس زمانہ میں وابستہ ہے۔ ان تمام دلائل کو جمع کیاجائے جو اسلام کی صداقت کے واسطے خدا تعالیٰ نے ہم کو سمجھائے ہیں۔<۶
سیدناالمصلح الموعودؓ نے حضرت امام الزمان مہدی موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ طریق تبلیغ کو عملی جامہ پہنانے اور مغربی ممالک کے کونے کونے تک حقیقی اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے سب سے پہلا اور بروقت قدم یہ اٹھایا کہ انگلستان میں احمدیہ دارالتبلیغ کا قیام فرمایا اور پے درپے مبلغ بھجوانے شروع کئے۔ جب اسلامی دعوۃ و تبلیغ کی راہ کسی قدر ہموار ہوگئی تو حضور جولائی ۱۹۲۴ء میں بہ نفس نفیس یورپ تشریف لے گئے تا ان ممالک کے تفصیلی حالات و مشکلات کا قریب سے مطالعہ کرنے اور وہاں کے ہر طبقہ اور ہر نقطہ خیال کے لوگوں سے مشورہ کرنے کے بعد تبلیغ اسلام کی ایک مستقل سکیم اور ایک مکمل نظام تجویز فرمائیں۔ اس مبارک سفر نے جو قریباً ساڑھے چار ماہ میں اختتام کو پہنچا۔ نہ صرف یورپ کی اسلامی مہم جو اب تک نہایت محدود اور بالکل ابتدائی اور مختصر صورت میں تھی پہلے سے زیادہ منظم اور تیز کردی بلکہ اس کے اثرات انگلستان سے نکل کر آہستہ آہستہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگے۔ اس کے بعد تحریک جدید جیسی عالمی تحریک کا آغاز ہوا جس کے مجاہد ۱۹۳۶ء میں سپین` ہنگری البانیہ اور یوگوسلاویہ تک اور ۱۹۳۷ء میں اٹلی اور پولینڈ تک جاپہنچے اور یورپ کے ان خطوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے تربیت یافتہ شاگردوں کی زبانوں سے براہ راست اسلام کا پیغام سنا۔ لیکن ابھی یہ تبلیغی مہم ابتدائی مراحل میں سے گزر رہی تھی کہ یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو دوسری عالمگیر اور خوفناک جنگ عظیم چھڑگئی جس کا خاتمہ ۱۵ اگست ۱۹۴۵ء کو ہوا۔ چھ سال کے اس درمیانی عرصہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی پوری توجہ ان مجاہدین تحریک جدید کی تربیت کی طرف رکھی جنہوں نے حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدمت اسلام کے لئے زندگیاں وقف کی تھیں۔ چنانچہ جونہی بیرونی ممالک کے رستے کھلنے شروع ہوئے آپ نے ۱۸ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۴ ہش/۱۹۴۵ء کو نو مجاہدین کا ایک قافلہ قادیان سے انگلستان روانہ فرمایا جس نے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ امام مسجد لنڈن کی نگرانی میں تبلیغی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے فرانس` سپین` سسلی` سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں احمدیہ مشن قائم کردیئے۔ ان مشنوں کو ابتداء میں کیاکیا مشکلات پیش آئیں؟ تبلیغی سرگرمیوں کے شروع کرنے اور جاری رکھنے کے لئے کن ذرائع کو بروئے کار لایاگیا اور ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ وغیرہ ضروری امور کا مفصل ذکر ذیل میں ہر مشن کے تحت کیاجاتا ہے۔
فصل اول
احمدیہ مسلم مشن فرانس کا قیام
اسلام کا دوراول اور فرانس
فرانس کا مشہور ملک براعظم یورپ کے شمال مغرب میں واقع ہے جو سپین کے شمال میں ہے اور اس سے ملحق ہے۔ فرانس میں اسلام کا نام پہلی بار ۹۲ھ/۷۱۰ء میں پہنچا جبکہ مشور عالم مسلمان جرنیل طارق بن زیاد فتحمندی کا جھنڈا لہراتے ہوئے جبل الطارق )جبرالٹر( تک پہنچ گئے۔ ۹۳ھ/۷۱۱ء میں امیر افریقہ موسیٰ بن نصیر نے پورے اندلس پر مسلم حکومت قائم کردی۔ ۷ اس کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز~رح~ )ولادت ۶۱ھ/۶۹۰ء۔ وفات ۲۵ رجب ۱۰۱ھ فروری ۷۲۰ء نے جن کو سیدنا مہدی مسعودعلیہ السلام نے نیک اور عادل بادشاہ قرار دیا ہے۔۸ السمح بن مالک خولانی کو کمانڈر بناکر بھجوایا۔۹ تاریخ سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ اسلامی لشکر حضرت عمر بن عبدالعزیز~رح~ کی خلافت کے پہلے ہی سال ۹۹ھ/۷۱۸ء میں کوہ پیرینیزMOUNTAINS) (PYRENESS کو عبور کرکے فرانس کی سرحد میں داخل ہوچکاتھا اور گال (GAUL) قوم سے معرکہ آزمائی ہورہی تھی۔۱۰ پروفیسر فلپ۔ کے۔ حتی۔ السمح بن مالک خولانی کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ۷۲۰ء میں السمح نے سبتمانیہ (SEPTIMANIA) اور اربونہ کو فتح کرلیا۔ اربونہ کی گڑھی کو بعد میں عربوں نے ایک بڑا قلعہ بنادیا اور اس میں اسلحہ اور اناج کے گوداموں کے ساتھ ایک اسلحہ ساز کارخانہ بھی قائم کردیا۔ اسی سال السمح نے ڈیوک اکوتانیا کے صدر مقام تولوز کو فتح کرنے کی کوشش کی اور یہیں جام شہادت نوش کیا۔ ۱۱ فرانسیسی مولف و محقق ڈاکٹر گستاولی بان لکھتا ہے >آٹھویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے فرانس پر حملہ کیا تو یہ ملک ان بادشاہوں کی حکومت میں تھا جو سلاطین کاہل الوجود کے نام سے مشہور ہیں۔ جاگیرداروں اور امراء کے مظالم سے حالت ابتر ہورہی تھی اور اسی لئے وہ باسانی عربوں کے ہاتھ آگیا اور انہوں نے بلا کوشش بلیغ اکثر جنوبی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ پہلے انہوں نے لانگے ڈاک میں ناربان کے شہر کو فتح کیا اور ۷۲۱ء میں ایکی ٹین کے پایہ تخت ٹورس کا محاصرہ کیا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے کارکاسان` نیم لیان` ماکان` اوتون وغیرہ کو فتح کیا اور دریائے رون صوبہ جات اور ڈافینے اور برکان کے صوبوں تک پہنچ گئے۔ فرانس کا آدھا ملک دریائے لوار کے کنارے سے فرانش کانتے تک بتدریج عربوں کے قبضہ میں آگیا۔۱۲ نیز لکھتا ہے >۷۳۷ء میں مارسیلز کے حاکم نے ان سے پرووانس لے لیا اور انہوں نے اول پر قبضہ کیا ۸۸۹ء میں وہ سینٹ ٹروپے میں موجود تھے اور دسویں صدی تک ان کا دخل پرووانس پر رہا۔ ۱۹۳۵ء میں وہ والے اور سوئٹزرلینڈ تک پہنچ گئے تھے۔ اور بعض مورخین کہتے ہیں کہ وہ مٹس تک آگئے تھے۔ ۱۳
علامہ شہاب الدین ابوالعباس المقری کی کتاب >نفح الطیب< سے معلوم ہوتا ہے کہ عساکر اسلامیہ امیر عبدالرحمن الاوسط بن الحکم اول کی زیرسرکردگی ۲۲۶ھ/۸۴۱۔۸۴۰ء میں فرانس سے پیش قدمی کرتے ہوئے برطانیہ تک جا پہنچے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا قیام فرانس تبلیغ اسلام کے لئے جدوجہد اور پرسوز دعائیں
جماعت احمدیہ کی طرف سے فرانس میں تبلیغ اسلام کی سرگرمیوں کا براہ راست آغاز ۱۹۲۴ء میں ہوا جبکہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے خدام کے ساتھ ویمبلے کانفرنس میں شرکت
اور مسجد فضل لنڈن کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ۲۶۔ اکتوبر سے ۳۱۔ اکتوبر ۱۹۲۴ء تک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں رونق افروز رہے۔۱۴ پیرس کے ریلوے سٹیشن پر مسٹر خالد شیلڈریک امام مسجد پیرس اور مسٹر گوسٹن ڈیورینڈ )نمائندہ HAVER ایجنسی(۱۵ نے حضور کا استقبال کیا( مسٹر گوسٹن ڈیورنڈ نے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا کہ آپ کے سفر کا مقصد کیا ہے؟ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا-:
>میں اس غرض سے یورپ میں سفر کررہا ہوں کہ یورپ کی مذہبی حالت کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر صحیح اندازہ کروں جس سے مجھ کو ان ممالک میں اشاعت اسلام کے لئے ایک مستقل سکیم تیارکرنے میں مددملے۔ اور میرا یہ مقصد ہے کہ چونکہ میں دنیا میں صلح کا جھنڈا بلند کرنا چاہتا ہوں میں دیکھوں کہ مشرق اور مغرب کو کون سے امور ملاسکتے ہیں۔<۱۶
اسی طرح الجیریا کے ممتاز مسلم لیڈر سیدمحمد سماوی ممبر سپریم کونسل کو بھی بتایا کہ مغربی ممالک میں جانے سے میرا مدعا یہ ہے کہ ان ممالک کی مذہبی حالت کا معائنہ کرکے اشاعت اسلام کے لئے ایک سکیم تجویز کروں۔۱۷
جہاں تک فرانس کا تعلق تھا حضور نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے ۲۶۔ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی اور فیصلہ فرمایا کہ پیرس کے صحافیوں` مشرقی دنیا پر لکھنے والے مصنفوں` سیاسی لیڈروں اور غیر ملکی سفیروں کو پیغام اسلام پہنچانے کے لئے تین پارٹیاں سرگرم عمل ہوجائیں۔ اگرچہ وقت مختصر تھا اور زبان کی ناواقفی بہت بڑی سدراہ تھی۔ مگر چونکہ قیام فرانس مشن کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ اسلام کی آواز بہرکیف پیرس کے مختلف حلقوں تک پہنچائی جائے اس لئے انتہائی کوشش کی گئی کہ تبلیغ حق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ نے اخبار نویسوں سے` حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ چوہدری محمد شریف صاحب اور مولوی عبدالرحمن صاحب مصری نے مشرقی مصنفین اور مشرقی ممالک کے سفراء سے اور حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انگریزی اور مغربی سفیروں سے ملاقاتیں کیں۔
خود حضرت مصلح موعودؓ نے قیام پیرس کے دوران مسٹر گوسٹن ڈیورنڈ )نمائندہ ہورس ایجنسی( پرنس آف ویلز کی ایک رجمنٹ کے کپتان لارڈکریوبرٹس منسٹر پیرس اور ایڈیٹر >لی جرنل< کو شرف ملاقات بخشا وزیراعظم فرانس موسیونپکارے POINCARE)۔(M سے بھی ملاقات کا پروگرام تھا مگر انہیں فوری طور پر پیرس سے باہر صدر فرانس کے پاس جانا پڑا اس لئے یہ پروگرام ملتوی کرنا پڑا جس پر ان کی طرف سے معذرت کا خط بھی آیا۔ حکومت فرانس ان دنوں ایک عالی شان اور خوشنما مسجد تعمیرکرا۔ ہی تھی۔ حضور معہ خدام ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو بوقت ڈھائی بجے اس شاندار مسجد میں تشریف لے گئے۔ مسجد میں متعدد فرانسیسی اخبارات کے نامہ نگار اور سینما والے آرٹسٹ بھی موجود تھے۔ دروازہ پر ناظم مسجد نے بہت سے مئوقر مسلمانوں کے ساتھ حضور کا استقبال کیا اور زیر تعمیر مسجد کے تمام حصے دکھائے۔ مسجد مراکش طرز پر تعمیر ہورہی تھی۔ مراکش کے مسلمان کاریگر اور فرانسیسی معمار بھی کام کررہے تھے مگر صناع زیادہ تر مغربی تھے۔ مسجد کے محراب میں حضور نے کھڑے ہوکر اپنی جماعت کے ساتھ ایک لمبی دعا کی۔ بلکہ آپ سب سے پہلے شخص تھے جس نے یہاں دعا کی اور فرمایا۔
>میں نے تو یہی دعا کی ہے کہ یااللہ یہ مسجد ہم کو ملے اور ہم اس کو تیرے دین کی اشاعت کا ذریعہ بنانے کی توفیق پائیں۔<۱۸
فرانس میں تبلیغی مشکلات
سیدنا المصلح الموعودؓ نے فرانسیسی قوم کے کیریکٹر کا قریبی مطالعہ کرتے ہوئے خاص طور پر نتیجہ اخذ کیا کہ فرانسیسیوں میں قومی تعصب انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ چنانچہ حضور نے ۴ ماہ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو فرمایا-:
>فرانس والوں میں اپنی چیز کے متعلق بہت تعصب پایا جاتا ہے۔ انگریزوں کی چونکہ بہت بڑی ایمپائر ہے اور وہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اس لئے ان کا رویہ دوسروں کے متعلق روا وارانہ ہوگیا ہے مگر فرانسیسیوں کا طریق جدا ہے۔ وجہ یہ کہ گو ان کی بھی ایمپائر ہے مگر ان کے مقبوضات اتنے پھیلے ہوئے نہیں۔ اور ان کا رویہ ایسا ہے کہ ان کے ماتحت جتنی اقوام ہیں وہ پمنپ نہیں سکتیں ۔۔۔۔ مجھے خود بھی اس کا تجربہ ہے۔ پیرس میں فرانسیسیوں نے چندہ کرکے ایک اچھی بڑی مسجد بنوائی ہے۔ اس کے ساتھ دکانیں` قہوہ خانے اور ہوٹل وغیرہ بھی ہے تاکہ مراکش وغیرہ سے آنے والے مسلمان ٹھہریں۔ ہم پیرس گئے تو حکام نے دعوت دی کہ ہم مسجد دیکھنے آئیں۔ جب ہم مسجد دیکھنے روانہ ہوئے تو معلوم ہوا کہ موٹر ڈرائیور کو پتہ نہیں کہ مسجد کہاں واقع ہے۔ ایک جگہ دو آدمی کھڑے باتیں کررہے تھے ہم میں سے کسی نے جاکر ایک سے پوچھا مسجد کہاں ہے؟ تو اس نے کندھے ہلاکر کہہ دیا کہ میں نہیں جانتا اور چل دیا۔ دوسرے شخص نے بتایا کہ میں ایٹلین ہوں اور وہ فرانسیسی ہے۔ آپ لوگوں نے چونکہ انگریزی میں اسے سے پوچھا اس لئے اس نے کہہ دیا کہ میں نہیں جانتا۔ وجہ یہ کہ فرانسیسی اپنی زبان کے سوا کسی دوسری زبان میں بات کرنا سخت ناپسند کرتے ہیں اور ایسے شخص کو حقارت سے دیکھتے ہیں جو فرانسیسی نہ جانتا ہوا۔ اٹالین نے کہا وہ انگریزی جانتا تھا اور مجھ سے انگریزی میں ہی باتیں کررہا تھا اور اسے مسجد کا پتہ بھی تھا۔ میرا تو واقف تھا اس لئے باتیں کررہا تھا مگر آپ لوگوں کے انگریزی میں بات کرنے پر برا مناکر چلاگیا۔ تو فرانسیسیوں میں اس قسم کا تعصب پایا جاتا ہے پھر ان کا یہ بھی طریق ہے کہ اپنی بات بہت سختی سے منواتے ہیں ۔۔۔۔ بیشک انگریز نرمی کرتا ہے مگر وہ نرمی ایسی ہی ہوتی ہے جیسی وہ اپنے کتے سے کرتے ہیں۔ اس کے طریق عمل سے پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسرے کو آدمی نہیں سمجھتا بلکہ کتا خیال کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں فرانسیسی بیشک سختی کرتا ہے مگر ایسی ہی سختی جیسی غلام سے کی جاتی ہے۔ اس کے طریق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان تو سمجھتا ہے مگر اپنا غلام )اس کی مثال یہ ہے کہ۔ ناقل( اگر کسی۱۹ انگریز کی دعوت کریں تو میز` کرسی` چھری کانٹے کا انتظام کرنے کی فکر پڑجاتی ہے اور اس طرح گویا ہم انگریز کو ہی اپنے گھر نہیں لاتے بلکہ اس کے گھر کو اور اس کے تمدن کو بھی لانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا انتظام نہ کریں تو انگریز ناک بھوں چڑھاتا ہے اور طبیعت خراب ہے کا بہانہ بناکر کھانے کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں ہوتا۔ مگر فرانسیسی کے لئے ایسا انتظام کیا جائے تو وہ ناپسند کرتا ہے اس لئے اسے بلانے پر کوئی فکر لاحق نہیں ہوتا۔ اور جب اسے بلایا جائے تو ہمارے ساتھ فرش پر بیٹھ کر خوشی سے کھاپی لیتا ہے اور خوب بے تکلف ہوکر باتیں کرتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ جاتے وقت میزبان کو ہتھکڑی لگاکر ساتھ ہی لے جائے غرض انگریز اور فرانسیسی کے کیریکٹر میں یہ ایک نمایاں فرق ہے ۔۔۔۔ اس ماحول میں تبلیغ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ جو شخص دوسرے کو ادنیٰ اور حقیر سمجھتا ہے اس سے بات کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور اگر کوئی بات کی بھی جائے تو وہ اسے کچھ وقعت نہیں دیتا اور اس کا اثر قبول نہیں کرتا۔<۲۰
دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس میں احمدیہ مسلم مشن کا قیام
ان شدید مشکلات کے باوجود خدا تعالیٰ کے اولوالعزم خلیفہ المصلح الموعودؓ نے جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد فرانس میں تبلیغی مشن کھولنے کا ارشاد فرمایا جس پر حضور کے حکم سے لنڈن میں مقیم تحریک جدید کے دو مجاہدین یعنی ۲۱ ملک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی عطاء اللہ صاحب ۱۷ ماہ ہجری / مئی ۱۳۲۵ ہش / ۱۹۴۶ء کو پیرس پہنچ گئے اور ایک ہوٹل کے کمرہ کو اپنا مرکز بناکر نہایت مختصر سے پیمانہ پر کام شروع کردیا۔ مولوی عطاء اللہ صاحب جلد ہی فرانس سے افریقہ بھجوا دیئے گئے اور مشن چلانے کی تمام ذمہ داری ملک عطاء الرحمن صاحب کو سانپ دی گئی۔
احمدی مجاہدین کے پیرس میں پہلے تین روز
مبشرین نے اجنبیت کے ماحول میں پہلے تین دن کس طرح گزارے؟ اس کی تفصیل ملک عطاء الرحمن صاحب کی ایک ابتدائی رپورٹ میں ہمیں ملتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں-:
>شام کے وقت ہم گاڑی سے اترے ۔۔۔۔ رات کا وقت تھا۔ ماحول ہر طرح اجنبی تھا۔ یہاں کے درودیوار` یہاں کے لوگوں اور زبان کے مکمل اجنبیت تھی۔ فرانسیسی قوم بہت متعصب` تنگ دل اور شکی واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ اس دوران میں جو ہمیں ملا اجنبیت کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہمدردی سے پیش آتا ہماری اجنبی شکلوں اور لباس کی وجہ سے ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتا ۔۔۔۔ آخر سڑک سے ہٹ کر ایک ہوٹل میں جانے کا اتفاق ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹھہرنے کے لئے جگہ مل گئی۔
۱۸۔ مئی پیرس اور فرانس میں ہمارا پہلا دن تھا ۔۔۔۔ فی الحال دو کام مدنظر تھے رہائش کا کوئی مستقل انتظام اور فرانسیسی زبان سیکھنے کے لئے معلومات کا حاصل کرنا۔ سب سے پہلے برطانوی سفارت خانہ میں گیا رہائش کے لئے امداد کے سلسلہ میں انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ پیرس میں ان دنوں یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ زبان سیکھنے کے سلسلہ میں بعض اداروں کا پتہ دیا۔ اس کے بعد برطانوی قونصل خانہ میں گیا وہاں بھی انہی امور کے سلسلہ میں بعض معلومات اور پتے حاصل کئے۔ وہاں سے دو تعلیمی اداروں اور ایک پرائیویٹ سکول میں گیا اور ممکن معلومات حاصل کیں۔ اس دوران ایک ایسے ادارہ میں بھی گیا جہاں مختلف ممالک کے طلباء کے لئے مقابلہ بہت ہی کم خرچ پر رہائش اور کھانے کا انتظام ہے۔
۱۹۔ مئی دفاتر بند تھے کہیں جانہ سکتا تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اور دفتر کی مفصل رپورٹ بھجوائی۔ ہمارے سامان میں کتابوں کا ایک بنڈل تھا جو پیرس پہنچنے پر ہمیں نہ ملا تھا۔ کل اور آج پھر ہم متعلقہ دفاتر میں گئے لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کہاں رہ گیا ہے۔ لنڈن میں یا ڈووریا کیلے کی بندرگاہ پر رہ گیا۔ ان تینوں مقامات پر دفتر متعلقہ کی طرف سے خط لکھوائے اور تاریں بھجوائیں۔ ایک فرانسیسی نوجوان سے دو اڑھائی گھنٹہ تبلیغی گفتگو ہوتی رہی ۔۔۔۔۔ وہ نوجوان آبدیدہ ہوگیا اور بڑے درد سے کہنے لگا >افسوس ہم نے یہ مذہب اپنے آباء سے اس رنگ میں پایا ہے کہ ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ میرے والدین نے تو میرے اندر عیسائیت ہمیشہ کے لئے بھرنی چاہی ہے` اور بھردی ہے لیکن مجھے محسوس ہونے لگا ہے کہ آپ کی باتیں میرے عقائد سے مجھے ہلانا چاہتی ہیں۔<
یہ لوگ اپنے مذہب کے لئے اس قدر ضدی اور متعصب واقع ہوئے ہیں کہ تبدیل مذہب کا انہیں وہم بھی نہیں ہوسکتا۔۲۲
۲۰۔ مئی آج صبح پیرس میں مختلف مقامات پر مختلف امور کے سلسلہ میں چند خطوط لکھے۔ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارہ اور ایک دفتر میں بھی گیا۔ اس تعلیمی ادارہ کی منتظمہ سے تعلیم اور رہائش کے سلسلہ میں بعض معلومات حاصل کیں اور آخر میں اسے پون گھنٹہ کے قریب تبلیغ کی۔ اس نے بھی یہی کہا کہ >اسلام کی تعلیم کس قدر خوش نما ہے۔ مدلل اور حقائق پر مبنی ہے۔ لیکن میں رومن کیتھولک ہوں یہ نہ خیال کرنا کہ میں اپنا مذہب کبھی چھوڑوں گی۔<
فرانس کے حالات سیاسی` ملکی` مذہبی اور قومی تبلیغ کی راہ میں روکیں رکھتے ہیں جنہیں صرف اور صرف ہمارا خدا ہی دور کرسکتا ہے جو انشاء اللہ ضرور دور کرے گا اور احمدیت جلد ایک دن اپنے الٰہی مقصد میں کامیاب ہوگی` انشاء اللہ۔<۲۳
فرانس مشن کی پہلی رپورٹ اور حضرت مصلح موعود
مجاہدین فرانس نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت اقدس میں جو پہلی رپورٹ بھیجی اس میں خاص طور پر فرانسیسیوں کے قومی تعصب اور ہوش رباگرانی۲۴ پر اظہار تشویش کیاگیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ۲ ماہ احسان / جون ۱۳۲۵ہش / ۱۹۴۶ء کی مجلس علم و عرفان میں مجاہدین فرانس کی ان مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا-:
>یہ باتیں مبلغین نے لکھی ہیں اور ہمیں یہ پہلے بھی معلوم تھیں ہم نے ناواقفیت میں مبلغین کو نہیں بھیجا اور نہ مبلغین ان سے ناواقف تھے۔ دراصل جو قوم کامیاب ہونا چاہتی ہے اسے ہرقسم کی تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اور ہمارے مبلغ یہی سمجھ کرگئے ہیں کہ انہیں کانٹوں پر چلنا ہے اور کانٹے انہیں پیش بھی آئے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے لئے خوشی سے برداشت کررہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اور بھی جو مبلغ جانے والے ہیں وہ یہی سمجھ کرجائیں گے اور یہی سمجھ کرجانا چاہئے۔ حقیقی لیڈر کا یہ کام ہوتا ہے کہ صاف صاف بتادیتا ہے کہ فلاں کام کرنے میں تکالیف ہوں گی` مشکلات پیش آئیں گی` تلواروں کے سایہ میں چلنا ہوگا۔ ہرقسم کی تکالیف اور مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی جس نے چلنا ہے وہ چلے۔ اس کے بعد جو چلتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ہماری مشکلات اور تکالیف کی تو ابھی ابتداء ہے۔ لوگ ابھی تک ہمیں کھیل سمجھتے ہیں اور ہماری طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے لیکن جب کوئی قوم ترقی کرنے لگتی ہے اور جلدجلد قدم بڑھاتی ہے تو اس کی زیادہ مخالفت کی جاتی ہے اور اسے زیادہ دکھ اور تکالیف دی جاتی ہیں۔ کفار نے جتنا بغض رسول کریم~صل۱~ کی مدینہ کی زندگی میں ظاہر کیا مکہ کی زندگی میں ظاہر نہیں کیا تھا۔<۲۵
فرانسیسی زبان سیکھنے کی طرف خصوصی توجہ
ابتدائی ڈیڑھ سال میں تبلیغ کا کوئی باقاعدہ کام نہ کیا جاسکا۔ سب سے بڑی روک زبان کی تھی۔ انگریزی میں کوئی موثر کام کرنا ممکن نہ تھا۔ اول تو وہاں انگریزی جاننے والے بہت کم ملتے تھے۔ اور جو کوئی انگریزی جانتا تھا وہ اس میں بولنا پسند نہ کرتاتھا۔ اس وقت کے پیش نظر ملک عطاء الرحمن صاحب نے فرانس پہنچتے ہی اپنی پوری توجہ فرانسیسی زبان سیکھنے کی طرف مبذول کردی جس میں انہیں نمایاں کامیابی ہوئی۔ بلکہ قریباً سوا دو سال کے بعد مشہور احمد انگریز مسٹر بشیر آرچرڈ یورپ کے احمدی مشنوں کا دورہ کرتے ہوئے سب سے پہلے پیرس میں ملک صاحب سے ملے تو انہیں فرانسیسی پر خاصہ عبور حاصل ہوچکاتھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سفرنامہ کے تاثرات میں لکھا-:
>میں لنڈن سے ۳ ستمبر ۱۹۴۸ء کو روانہ ہوا اور اسی شام پیرس میں پہنچا۔ میں پیرس میں چند گھنٹے ٹھہرا اور رات کو زیورک )سوئٹزرلینڈ( کے لئے روانہ ہوگیا جہاں ہمارا مشن قائم ہے۔ پیرس ریلوے سٹیشن پر برادرم ملک عطاء الرحمن صاحب موجود تھے۔ برادرم ملک صاحب مجھے اپنے ہمراہ اپنی جائے رہائش پرلے گئے۔ آپ کے پاس صرف دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ دوران گفتگو میں نے ان کے کام کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ آپ اپنے وقت کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے اور نماز فجر سے لے کر رات دیر تک اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ آپ نے فرانسیسی زبان پر اچھا عبور حاصل کرلیا ہے اور ابھی تک زبان کو سیکھنے اور مہارت پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ فرانسیسی زبان میں لٹریچر شائع کرسکیں۔ ان کے کھانا پکانے کے انتظامات بہت سادہ ہیں اور خوراک بھی بالکل سادہ ہے۔< )ترجمہ( ۲۶
تبلیغ کی قانونی اور سرکاری اجازت اور پریس کانفرنس سے تبلیغی سرگرمیوں کا باضابطہ آغاز
‏]j2 [tagملکی قانون کے مطابق تبلیغ اسلام کے لئے حکومت کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا جس کے لئے ملک عطاء الرحمن صاحب ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء سے برابر کوشش کررہے تھے آخر
ایک لمبی جدوجہد کے بعد ماہ تبلیغ / فروری ۱۳۲۷ہش / ۱۹۴۸ء کے آخری عشرہ میں فرانس کی وزارت خارجہ نے اجازت دے دی۔ لیکن ابھی کام شروع کرنے کے لئے پولیس کے محکمہ اعلیٰ کی اجازت ومنظوری حاصل کرنے کی روک سدراہ تھی جو بڑی تک ودو` دوڑ دھوپ اور کئی مشکلات کے بعد ۲۲ ماہ احسان / جون ۱۳۲۷ہش / ۱۹۴۸ء کو دور ہوئی۔ ملک صاحب نے پولیس کی اجازت ملنے سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ملک میں آئندہ تبلیغی پروگرام کا ایک قابل عمل ڈھانچہ بنالیا تھا اور فرانس کو اول مرحلہ پر ہی تحریک احمدیت سے روشناس کرانے کے لئے ایک تبلیغی پریس کانفرنس کے انعقاد اور ایک پمفلٹ اور ایک ٹرپکٹ کی ترتیب واشاعت کی تیاری شروع کردی تھی اور پریس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے رائٹر (REUTER) اور فرانس کی ایک مقامی خبر رساں ایجنسی سے بھی تعلقات پیدا کرلئے۔ چنانچہ جونہی منظوری کی دوسری سرکاری اطلاع پہنچی انہوں نے پریس کانفرنس کا اعلان کردیا۔ بیس ہزار کی تعداد میں چار صفحات پر مشتمل پمفلٹ LEMESSIEESTVENU اور۲۷ پانچ سو کی تعداد میں بارہ صفحات پر مشتمل ٹریکٹ ۲۸ شائع کرنے کے علاوہ دعوت نامے بھی طبع کرائے جو جملہ مشہور بااثر اخبارات کے علاوہ ملک کے دوسرے شہروں کے مستند اخبارات کو خاص اہتمام سے بھجوائے۔
پریس کانفرنس پروگرام کے مطابق ماہ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے دوران پیرس کے ایک بڑے ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں ایک درجن کے قریب اخباری نمائندے شامل ہوئے۔۲۹
رائٹر کے نامہ نگار کا ایک مضمون >اسلام کا نیا حملہ یورپ پر<
پریس کانفرنس کے چند ماہ بعد رائٹر کے نامہ نگار نے ملک عطاء الرحمن صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو لیا اور ایک تفصیلی مضمون تیار کرکے اپنی عالمگیر سروس کے ذریعہ سے تمام ممالک میں بغرض اشاعت بھجوایا۔ اس مضمون کا ملخص یہ تھا کہ-:
>کبھی صرف یہی مشاہدہ میں آتا تھا کہ مغرب مشرق کی تادیب وتعلیم کے لئے مشرق کی ہر وسعت پرچھا رہا ہے۔ عام علم و صنعت میں ہی نہیں بلکہ مغرب مشرق کا معلم دین و روحانیت بھی بن چکا تھا لیکن اب تھوڑے عرصہ سے اس کے برخلاف مشرق اپن دیرنیہ روایات اور تعلیم کے ماتحت مغرب کو تدریس دین اور اسرار روحانیت سے واقف کرانے کے لئے مغربی ممالک کی طرف غیر معمولی اہتمام سے بڑھتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ یہ مہم ایک وقت سے اسلام کے نام پر قرآنی تعلیم کی اشاعت کے لئے مغربی ممالک بالخصوص یورپ میں شروع ہوچکی ہے۔
اسلام کا یہ حملہ یورپ پر تحریک احمدیت کی طرف سے شروع کیاگیا ہے۔ چنانچہ احمدیت کے مبلغ یورپ کے بیشتر ممالک میں اپنے مراکز قائم کرچکے ہیں۔
حضرت احمد )علیہ الصلٰوۃ والسلام( تحریک احمدیت کے بانی ہیں۔ انہوں نے وفات مسیح کا عقیدہ پیش کرکے اس تحقیق کا انکشاف فرمایا ہے کہ مسیح )علیہ السلام( صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ بہیوشی کی حالت میں انہیں صلیب پر سے اتارا گیا اور پھر وہ عراق` ایران` افغانسان سے ہوتے ہوئے تبت و وہندوستان میں آئے اور آخر سرینگر میں مقیم ہوگئے۔ چنانچہ محلہ خانیار سرینگر میں ایسی قبر بھی موجود ہے جو قبر مسیح کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت احمد )علیہ السلام( نے اپنی کتاب >مسیح ہندوستان میں< میں اس انکشاف پر تفصیلی بحث کی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ واقعہ صلیب سے ۷۲۱ سال قبل شاہ اسور یہود کے بعض قبائل کو سمریا میں قید کرکے لے گیا تھا۔ ان میں سے ایک حصہ بالاخر ہندوستان میں آباد ہوگیا۔ حضرت احمد)علیہ السلام( نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ افغان اور کشمیر کے قدیم باشندے دراصل اسرائیلی نسل سے ہیں چنانچہ اس کی تائید میں بعض قابل اعتماد مبصرین کی آراء پیش کی گئی ہیں جن کی روشنی میں ان اقوام کے خدوخال و نقوش اور رسوم وعادات اس تھیوری کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ بعض عیسائی محققین اس انکشاف میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ تحریک احمدیت کے موجودہ امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد )ایدہ اللہ تعالیٰ( بنصرہ العزیز( ہیں۔ اسلامی تبلیغ کی عالمگیر مہم انہی کی قیادت میں عمل میں آرہی ہے۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ تمام حقائق اور تمام صداقتیں خدا کے آخری اور اکمل کلام قرآن شریف میں موجود ہیں اور دنیا میں کوئی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔
یورپ پر اس حملہ کی تیاری آج سے دس سال قبل شروع کی جاچکی تھی مگر لڑائی کی وجہ سے مجوزہ پروگرام ملتوی ہوتا چلاگیا۔ لڑائی کے معاً بعد اس غیر معمولی مہم کے سلسلہ میں اسلام کے مبلغ فرانس` اٹلی` سپین` سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ وغیرہ پہنچ گئے۔ چنانچہ اس تھوڑے عرصہ میں وہ ان ممالک میں اپنے مراکز باقاعدہ قائم کرچکے ہیں۔
)چوہدری( مشتاق احمد صاحب باجوہ اسلام لنڈن مسجد کی زیرنگرانی ایک انگریز نومسلم برائن آرچرڈبرسٹل )انگلینڈ( جن کا اسلامی نام بشیراحمد ہے اسلامی علم پڑھ رہے ہیں انہیں اسلام کی تبلیغ کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ بشیر احمد آرچرڈ قادیان سے لنڈن اس وقت بھجوائے گئے تھے جب قادیان تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں شامل کیاگیا تھا اور اہل قادیان زبردستی وہاں سے نکالے جارہے تھے۔
اس وقت تک سپین اسلامی تحنبید کے لحاظ سے زیادہ ذرخیز ثابت ہورہا ہے۔ غالباً صدیوں کی مورش حکومت کے ورثہ وترکہ کی وجہ سے!
فرانس کے متعلق خیال کیاجاتا ہے کہ اسلامی تعلیم وتبلیغ کے لئے یہ ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ سنگلاخ ہے۔ فرانس میں تبلیغ اسلام کا دشوارترین کام ملک عطاء الرحمن کے سپرد کیاگیا ہے۔ وہ آج کل پیرس میں مقیم ہیں اور حال ہی میں اپنی تبلیغی مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔
ملک عطاء الرحمن )جنہیں دیگر مسلمانوں کی طرح سگرٹ اور شراب سے مکمل پرہیز ہے( کے نزدیک فرانس خاصہ دلچسپ ملک ہے۔ باوجود اس کے مذہبی عقائد کی سختی سے پابندی ان کے لئے فرانس کے مشہور عالم لذیذ کھانوں اور بے مثال شرابوں کے چکھنے میں سختی سے روک ہے۔
جماعت احمدیہ ابھی تک تقسیم پنجاب کو خلاف انصاف و عدل ایک ظالمانہ فیصلہ سمجھتی ہے کہ جس کے ماتحت قادیان کو ہندوستان میں شامل کیاگیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک انہیں انتہائی مظالم اور سختی کے ساتھ اپنے مقدس مرکز سے ہجرت پر مجبور کیاگیا ہے۔ پندرہ ہزار سے بیس ہزار احمدی اپنے مرکز سے ہجرت کرکے پاکستان میں منتقل ہونے پر مجبور کردیئے گئے۔ تمام مرکزی دفاتر اور تنظیم کو وقتی طور پر لاہور میں قائم کیاگیا۔ لیکن جہاں وہ اس ظلم کے خلاف ظاہری لحاظ سے ہرطرح احتجاج کررہے ہیں وہاں ان کے نزدیک یہ ہجرت خدائی نوشتوں کے ماتحت ہے کہ جس کی پیشگوئی حضرت احمد )علیہ السلام( کے الہامات میں پہلے سے موجود تھی اور یہی نہیں بلکہ ان کا ایمان ہے کہ جس طرح یہ ہجرت پہلے سے آسمانی نوشتوں میں موجود تھی ان کے مرکز قادیان کی واپسی کا بھی خدائی وعدوں میں وضاحت سے ذکر ہے اور وہ ایک دن ضرور اپنے مرکز میں واپس لوٹیں گے۔<۳۰
فرانس میں پہلا تبلیغی پبلک جلسہ
تبلیغی پریس کانفرنس نے فرانس میں اشاعت و تبلیغ اسلام و احمدیت کے لئے ایک خوشکن اور نمایاں حرکت سی پیدا کردی تھی۔ ملک صاحب نے اس سے فائدہ اٹھانے اور اپنے تبلیغی حلقہ کو مزید وسعت دینے کے لئے ۱۳ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو وسیع پیمانہ پر ایک پبلک جلسہ کا انتظام کیا جو ملک میں اپنی نوعیت کا پہلا اور کامیاب اجتماع تھا پوسٹر` ریڈیو ۳۱ اور پریس تینوں ذرائع سے جلسہ کا اعلان کیاگیا۔ علاوہ ازیں قریباً ایک ہزار مطبوعہ دعوت نامے بھجوائے گئے۔ مدعوئین میں پیرس کی بعض ادبی سوسائٹیوں کے ممبر اور پیرس یونیورسٹی کے پروفیسر اور بعض مستشرقین بھی تھے۔
یہ جلسہ پیرس کے ایک بڑے پبلک ہال میں پیرس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی صدارت میں ہوا جس میں مجاہد فرانس نے >جنگ اور اس کے بعد ۔۔۔۔۔ آنحضرت~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور پیشگوئیوں کی روشنی میں< کے موضوع پر ایک گھنٹہ تک لیکچردیا جو توجہ` سکون اور دلچسپی سے سناگیا اور سامعین نے کچھ وقفہ کے بعد اس موضوع پر تقریر کرنے کی خواہش کی۔ جلسہ میں تبلیغی ٹریکٹ اور پمفلٹ بھی تقسیم کئے گئے۔ ۳۲ اس جلسہ کے بعد ملک صاحب کو >پیرس کی فلوسافیکل سوسائٹی< کے زیراہتمام >ہستی باری تعالیٰ< اور >وجود ملائکہ< کے مضمونوں پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا۔ ان لیکچروں میں لوگوں نے پہلے سے بھی بڑھ کر دلچسپی لی اور سوالات کے ذریعہ اپنی معلومات میں اضافہ کیا۔ ۳۳
عیسائی لیڈروں کو قبول اسلام کی دعوت
فرانس میں ان دنوں ۵۸ کے قریب مشنری سوسائٹیاں تھیں جن کے ہزاروں مناد دنیا کے اکثر ممالک میں عیسائیت کا پراپیگنڈہ کررہے تھے۔ ان سوسائٹیوں میں سے بعض کے بڑے بڑے فرانسیسی شہروں میں ایک سے زائد مراکز قائم تھے۔ ملک صاحب نے ان سوسائٹیوں اور ان کی شاخوں کو ایک مطبوعہ خد بھجوایا جس میں انہیں بتایا کہ مسیح صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے مگر اسلام کا نبی ~)صل۱(~ رحمتہ للعالمین ہے اور آپﷺ~ کی لائی ہوئی شریعت سارے جہانوں اور زمانوں کے لئے ہے۔
سفر بلجیم
فرانس کے ساتھ ہی بلجیم کا مشہور ملک ہے جہاں زیادہ تر فرانسیسی رائج ہے۔ اور گو اس کے بعض حصوں میں فلیمنگ زبان بھی بولی جاتی ہے مگر شائستہ اور اعلیٰ طبقہ میں فرانسیسی کو ہی پسند کیاجاتا ہے۔ ملک عطاء الرحمن صاحب اس ملک تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ۲۶ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو پہلے اس کے دارالحکومت برسلز میں اور پھر مشہور شہر اینٹورپ میں تشریف لے گئے۔ آپ کو دونوں شہروں میں اخباری نمائندوں سے ملاقات کرنے اور پبلک مقامات پر تبلیغی ٹریکٹ تقسیم کرنے کا موقعہ ملا۔ اس یک روزہ سفر کا یہ اثر ہوا کہ برسلز کے بعض اخبارات نے پہلی بار اسلام اور احمدیت کی نسبت عمدہ نوٹ شائع کئے۔ مثلاً اخبار >فیرڈی مانش DIMANCHE) (PHARE نے یورپ پر اسلام کا حملہ< کے عنوان سے حسب ذیل شدرہ سپرد اشاعت کیا۔
>یورپ پر اسلام کا حملہ<
>کچھ دن ہوئے ایک ذہین النظر` خوش کلام اور سنجیدہ طبع صاحب ہمارے اخبار DIMANCHE> <PHARE کے دفتر میں ملنے کے لئے آئے۔ مسیح کے نمائندہ کے طور پر انہوں نے ہم سے اپنا تعارف کرایا۔
معلوم ہوا کہ ایک >مسیح< ہندوستان میں مبعوث ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے معتقدین کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ زمین کے کناروں تک ان کا پیغام پہنچائیں۔ چنانچہ مسلمان اب اس طرح عیسائیوں کو اسلام کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے ذریعہ نہ کہ پہلے کی طرح تلوار کے ذریعہ۔ چنانچہ یہ اپنے رنگ کا نیا اور جدید طریق ہوگا۔
مسیح کے اس نمائندہ کے بیان کے مطابق حضرت احمد )علیہ السلام( وہ >موعود مسیح< ہیں کہ جن کے متعلق مختلف انبیاء نے کتب سابقہ میں پیشگوئیاں فرمائی تھیں۔ چنانچہ وہ ساری پیشگوئیاں حضرت احمد )علیہ الصلٰوۃ والسلام( کے وجود میں پوری ہوئیں۔ مثلاً گندمی رنگ` قدرے لکنت` کدعہ بستی میں` وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام پیشگوئیاں کے مطابق وہ ہندوئوں کے لئے کرشن ہوئے۔ زرتشتیوں کے لئے عیسودربہمی` عیسائیوں کے لئے مسیح اور مسلمانوں کے لئے مہدی۔
ان تمام امور میں کیونکر شک کیا جاسکتا ہے اور پھر اس پیشگوئی پر کیوں شک ہوگا کہ جو اس مہدی نے فرمائی ہے کہ ساری ہی دنیا اپنے خاتمہ سے پہلے اسلام قبول کرے گی۔
اس نمائندہ کے بیان کے مطابق تحریک احمدیت نے دنیا کی تمام وسعتوں میں اپنے مراکز اور جماعتیں قائم کی ہیں۔ امریکہ اور انگلستان اور فرانس میں بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی بلجیم میں بھی ان کی جماعت قائم ہو۔
چنانچہ اس کے علاوہ ہم اور کیا کرسکتے ہیں کہ خدا ان صاحب کو اس مقصد کے لئے نیک مواقع عطا فرمائے۔ کیا تمام مذاہب اور عقائد اعزازواکرام کے حقدار نہیں؟<۳۴
‏tav.11.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
مرکز پر بوجھ ڈالے بغیر مشن جاری رکھنے کا عزم
پاک وہند کی احمدی جماعتیں چونکہ سانحہ ہجرت کے دوران شدید مالی بحران سے دوچار تھیں اس لئے فیصلہ کیاگیا کہ فرانس مشن اور دوسرے نئے جاری شدہ احمدی مشنوں کو فی الحال بندکردیا جائے مگر مبلغ فرانس ملک عطاء الرحمٰن صاحب نے دوسرے مجاہدین یورپ کی طرح اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مرکز پر مشن کے اخراجات کا بوجھ ڈالے بغیر تبلیغ اسلام کا کام جاری رکھیں گے۔ انہیں اس گہوارہ الحادو دہریت میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ سیدنا المصلح الموعودؓ نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی اور ۲۶ ماہ نبوت / نومبر ۱۳۲۷ہش / ۱۹۴۸ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا-:
>فرانس میں مبلغ بھیجے گئے مگر کامیابی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی۔ وہاں کے بھی مبلغ کو جو لاہور کے ہی ہیں کہاگیا کہ تم واپس آجائو تو انہوں نے بھی کہا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے میں یہاں اپنی کمائی سے کام کروں گا۔ انہیں وہاں چھوڑدیا گیا اور انہیں اپنے خرچ پر کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اب وہاں بھی کام شروع ہوگیا ہے۔ ان کی تار آئی ہے کہ اب وہاں جلسوں اور تقریروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پریس اور دوسرے لوگ بھی توجہ کررہے ہیں۔ آج ہی اطلاع ملی ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اقرارکیا ہے کہ اگر الہام کے متعلق مضامین لکھے جائیں تو وہ خود بھی ان کی اشاعت میں مدد کرے گی۔<۳۵
اہل کلیسا کے غلط نظریات کی تردید کے لئے تبلیغی لیکچروں کا سلسلہ
فرانس اور دوسرے مغربی ممالک میں اہل کلیسا کے تعصب نے اسلام کی خوبصورت اور حسین ودلکش تصویر کو ایسے مکروہ` بھیانک اور
گھنائونے رنگ میں پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ عوام ہی نہیں اچھے پڑھے لکھے اونچے طبقہ کے لوگ بھی اسلام کے بارے میں انتہائی غلط اور بے بنیاد نظریات رکھتے اور ان کی فخریہ اشاعت کرتے ہیں۔ ان دنوں چونکہ افریقہ کے بعض مسلمان ممالک فرانس کے مقبوضات میں شامل تھے اس لئے فرانسیسی عام طور پر اسلام کی بھی سخت حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کے نزدیک اسلام معاذ اللہ صرف زن اور زرپرستوں اور جبروتشدد کا مذہب سمجھا جاتا تھا۔
ملک صاحب چونکہ اپنے مفید لیکچروں کی وجہ سے پیرس کے علمی حلقوں میں کسی حد تک متعارف ہوچکے تھے اس لئے اب آپ اسلام کے خلاف پھیلائے جانے والے اعتراضات کی برسر عام اور پبلک میں ازالہ کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے پیرس کا ایک معروف ہال کرایہ پر لے کر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جو قسط اول کے طور پر مندرجہ ذیل آٹھ عنوانات پر مشتمل تھا۔
)۱( حقیقی اسلام )۲( عیسائیت اور دیگر مذاہب )۳( اسلام میں عورت کی حیثیت )۴( اسلام اور تعدداز دواج )۵( اسلام اور جنگیں )۶( اسلام اور غلامی )۷( اسلام اور صوفی ازم )۸( اسلام کے پانچ ارکان
ان لیکچروں کا پوسٹروں اور پیرس ریڈیو سے بھی اعلان کیاجاتا تھا اور لوگ ہر لیکچر میں پہلے سے زیادہ ذوق و شوق سے شامل ہوتے اور فائدہ اٹھاتے تھے۔ ۳۶
فرانسیسی لٹریچر کی تیاری
مغربی ممالک میں لوگ اس درجہ مصروف رہتے ہیں کہ ان کے لئے روز مرہ کے پروگرام میں سے لیکچروں یا پرائیویٹ ملاقاتوں کے لئے وقت نکالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ان حالات میں تبلیغی میدان کو وسعت دینے کے لئے لٹریچر کی افادیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ملک عطاء الرحمن صاحب نے فرانسیسی زبان میں کچھ دسترس حاصل کرلی تو انہیں جلد سے جلد فرانسیسی لٹریچر تیار کرنے کی فکر دامنگیر ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے پہلے تو پریس کانفرنس کے موقعہ پر پمفلٹ اور ٹریکٹ شائع کئے اور فرانس اور بلجیم دونوں جگہ اس کی اشاعت کی۔ اس کے بعد >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے فرانسیسی ترجمہ پر نظرثانی کی۔ >اسلام کا اقتصادی نظام< کا فرانسیسی ترجمہ کیا۔ علاوہ ازیں اسلام اور تحریک احمدیت سے متعلق تعارفی اور بنیادی معلومات پر مشتمل دو کتابیں تالیف کیں۔۳۷
پہلی فرانسیسی روح کا قبول اسلام
فرانس میں پہلی روح جسے قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک تعلیم یافتہ فرانسیسی خاتون DEMAGANY MARGAERITE MADAME تھیں جو ۲۳ ماہ ہجرت / مئی ۱۳۲۸ہش / ۱۹۴۹ء کو بیعت فارم پر کرکے داخل احمدیت ہوئیں اور حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا اسلامی نامہ عائشہ رکھا۔ ملک صاحب جب تک فرانس میں تبلیغ اسلام کے فرائض بجالاتے رہے یہ خاتون ان کے فرانسیسی تراجم میں ان کا ہاتھ بٹاتی رہیں۔ ۳۸
مجاہد فرانس کی مرکز میں واپسی
ملک عطاء الرحمن صاحب قریباً سوا پانچ برس تک فرانس کی سنگلاخ زمین میں کلمہ حق بلند کرنے کے بعد ۱۱ ماہ نبوت / نومبر ۱۳۳۰ہش / ۱۹۰۱ء کو واپس مرکز میں تشریف لے آئے اور ساتھ ہی یہ مشن بھی بندہوگیا۔
تبلیغی مساعی کا فرانس پراثر
اگرچہ ملک صاحب کی لگاتار اور ان تھک مخلصانہ کوششوں کے باوجود فرانس میں نئے مسلمان ہونے والوں کی تعداد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا مگر ان کو یہ کامیابی ضرور نصیب ہوئی کہ انہوں نے دہریت اور مادہ پرستی کے مرکز میں برسوں تک نہایت استقلال اور پامردی کے ساتھ نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ اہل فرانس کے علمی طبقہ کو اس کے اصولوں کی برتری اور اس کی زندہ طاقت کا احساس دلادیا۔ آپ کا پیغام سن کر جہاں ایک قلیل طبقہ تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے تصور سے لرزاں۔ خوفزدہ اور مبہوت ہوگیا کیونکہ اس کے نزدیک یہ بات کہ اسلام ابھی زندہ موجود ہے ایک ناقابل برداشت صدمہ سے کم نہ تھی وہاں وہ عنصر جو مغربی تہذیب کے گھنائونے` حیاسوز اور شرمناک اثرات اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے مضمحل ہوکر مایوس ہوچکا تھا۔ دعوت اسلام کی زندگی کے نئے پیغام سے تعبیر کرنے لگا۔ چنانچہ جیسا کہ ذکر آچکا ہے فرانس کے ایک اخبار نے اگر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مہم کو >یورپ پر اسلام کا حملہ< قراردیا تو بلجیم کے ایک اخبار نے اسے یورپ کے لئے >زندگی کا نیا پیغام< قرار دیتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ کاش اسلام ہی دنیا میں قیام امن کا ذریعہ ثابت ہوکر دنیا کی مشکلات دور کرنے کا باعث بنے۔
‏body] gat[ملک عطاء الرحمن صاحب نے ۲۹ ماہ نبوت / نومبر ۱۳۳۰ہش / ۱۹۵۱ء کو مجلس ارشاد تعلیم الاسلام کالج کے زیراہتمام ایک تقریر میں اہل فرانس کے اس ملے جلے رد عمل پر تفصیل سے روشنی ڈالی تو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج )ایدہ اللہ تعالیٰ( نے فرمایا-:
>ملک عطاء الرحمن صاحب کی تقریر سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں آج سلام کسمپرسی کی حالت سے نکل کر عیسائیت پر حملہ آور ہونے کے قابل ہوگیا ہے۔ آج جو مذاہب مسلمانوں کی مجرمانہ غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں وہ خود ان کے خیالی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ پس ہمیں اسلام کے خلاف صدیوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے ایسے حملہ آوروں کو بتادینا چاہئے کہ وہ خود کتنے پانی میں ہیں؟ جب ہم اسلام کی اصل تصویر اور ان کے اپنے مذاہب کی موجودہ ہیئت کذائی انہیں دکھانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو وہ کھرے کھوٹے میں خود تمیز کرکے اسلام قبول کرلیں گے۔ ہمار فرض ہے کہ ہم دنیا کو اسلام کے منور چہرے سے روشناس کراتے چلے جائیں اور ساتھ ساتھ دوسرے حملہ آور مذاہب کا چہرہ بھی انہیں دکھاتے رہیں جب دونوں تصویریں بیک وقت دنیا کے سامنے آکر ذہن نشین ہوجائیں گی تو یدخلون فی دین اللہ افواجا کا نقشہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ پس اگر آئندہ بیس تیس برس تک نومسلموں کی تعداد میں اضافہ نہ بھی ہو تب بھی ہمیں اسلام اور دیگر مذاہب کا اصل چہرہ دکھانے میں مصروف رہنا چاہئے۔ جس دن یہ کام باحسن وجوہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اسی دن دنیا دیوانہ وار اسلام کی طرف دوڑ پڑے گی اور ہمیں اپنی تمام مساعی کا اچانک ثمرہ مل جائے گا۔< ۳۹
‏body] [tag
فصل دوم
احمدیہ مسلم سپین مشن کا احیاء۴۰ اور اس کی شاندار اسلامی خدمات
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کے دل میں سپین کے اندر ازسرنو اسلامی حکومت قائم کرنے کی اس درجہ تڑپ تھی کہ جب مارچ ۱۹۴۶ء میں برطانوی وزارتی مشن ہندوستانی سیاست کی گتھیاں سلجھانے کے لئے ہندوستان آیا تو حضور نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ-:
>کیا سپین میں سے نکل جانے کی وجہ سے ہم اسے بھول گئے ہیں؟ ہم یقیناً اسے نہیں بھولے۔ ہم یقیناً ایک دفعہ پھر سپین کولیں گے ۔۔۔۔۔۔ ہماری تلواریں جس مقام پر جاکر کند ہوگئیں وہاں سے ہماری زبانوں کا حملہ شروع ہوگا اور اسلام کے خوبصورت اصول کو پیش کرکے ہم اپنے ۔۔۔۔۔۔ بھائیوں کو خود اپنا جزو بنالیں گے۔<۴۱
اس اعلان پر ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاہد تحریک جدید مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر اور مولوی محمد اسحق صاحب ساقی ۳ احسان )جون( کو سپین کو محمد رسول اللہ کے قدموں پر لانے کا عزم کرکے لنڈن سے روانہ ہوئے اور ۱۰ ماہ احسان )جون( کو اس کے دارالحکومت میڈرڈ ۴۲ میں پہنچ گئے۔۴۳ دونوں احمد جوان قریباً چھ ماہ سے دوسرے مجاہدین کے ساتھ لنڈن میں مقیم تھے اور نہایت بے تابی سے سپین میں داخلہ کی اجازت کا انتظار کررہے تھے۔ یہ مجاہدین میڈرڈ پہنچ کر DIEZ ON PENS ECHEGRAY نامی گلی میں مقیم ہوئے۔
حضرت امیرالمومنین کا نہایت اہم بیان مجاہدین سپین کے پہنچنے پر
سیدنا المصلح الموعود نے فرزندان احمدیت کے سپین میں پہنچنے کی اطلاع پر مسجد مبارک قادیان میں ایک تقریر کرتے ہوئے سپین میں مسلمانوں کے شاندار عروج اور درد ناک زوال کی تاریخ پر نہایت تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا۔
>اسلامی تاریخ میں ایک نہایت ہی اہم واقعہ سپین پر اسلامی لشکر کا حملہ ہے جس سے یورپ میں اسلام کا قیام ہوا۔ یوں تو سارے انسان ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک جیسے ہیں اور کسی جماعت یا کسی طبقہ کو کسی دوسری جماعت پر فوقیت نہیں۔ لیکن یورپ اس اسلامی حملہ کے بعد سارے مشرق پرچھاگیا۔ گویا یہ اسلامی حملہ ایسا تھا جس نے ذوالقرنین کے بند کو توڑ دیا۔ یورپ سویا ہوا تھا اسلامی حملہ نے اسے بیدار کردیا۔ یورپ غافل تھا اسلامی حملہ نے اسے ہوشیار کردیا۔ اس نے بیدار ہوتے ہی ایشیا اور افریقہ پر قبضہ کرلیا۔ مسلمان اگر ہمت دکھاتے اور جو چیز ان کو دی گئی تھی اسے مضبوطی سے پکڑے رکھتے اور اپنی طاقت کو کمزور ہونے سے بچاتے تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی کہ بجائے اس کے کہ ایشیا یورپ پر قابض تھا آج یورپ ایشیا پر قابض ہے۔ اور بجائے اس کے کہ اسلام کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے یورپ میں عیسائیت کا نام ونشان نہ ملتا آج عیسائیت ایشیا میں اسلام کو کمزور کررہی ہے۔۔۔۔ اس ملک میں آج تک مسلمانوں کے بنائے ہوئے عالی شان محلات موجود ہیں۔ غرناطہ میں ہزاروں باغات تھے۔ مسلمانوں کے وقت میں جگہ جگہ لائبریریاں تھیں بعض کتب میں لکھا ہے کہ چھ سات سو کے قریب وہاں لائبریریاں تھیں اور بعض لائبریریوں میں لاکھ لاکھ ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کتابیں تھیں۔ سارا یورپ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتا تھا۔ جس طرح آج لوگ برلن اور انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں یہی حال اس وقت قرطبہ ۴۴ اور غرناطہ۴۵ کا تھا۔ اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں اٹھارہویں صدی تک وہاں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔
جس ملک میں مسلمانوں نے اس شان سے حکومت کی آج وہاں کوئی ایک مسلمان بھی نہیں ملتا۔ کوئی غیرملک سے وہاں تعلیم کے سلسلہ میں یا اور کسی کام کے لئے گیا ہو تو اور بات ہے لیکن اس ملک کا کوئی باشندہ مسلمان نظر نہیں آئے گا۔ وہ لوگ جنہوں نے سینکڑوں سال تک سپین پر حکومت کی وہ آج سپین کے زیرنگیں ہیں اور وہ لوگ جو سپین کے بادشاہ تھے آج سپین کے غلام ہیں۔ یہ واقعات ایسے اہم جن کو کسی وقت بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ آٹھ سوسال کی حکومت کوئی معمولی بات نہیں لیکن آج اس ملک کی یہ حالت ہے۔ اس میں کسی مسلمان کی ہوا تک سونگھنے کو نہیں ملتی۔ اندلس میں مسلمانوں کو جو شان و شوکت حاصل تھی اور پھر اس کے بعد جو سلوک وہاں کے مسلمانوں سے کیاگیا اسی طرح صقلیہ میں مسلمانوں کا جو رعب و دبدبہ تھا اور اس کے بعد جس طرح انہیں وہاں سے نکالا گیا جب میں نے یہ حالات تاریخوں میں پڑھے تو میں نے عزم کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے مبلغین بھجوائوں گا جو اسلام کو دوبارہ ان علاقوں میں غالب کریں اور اسلام کا جھنڈا دوبارہ اس ملک میں گاڑدیں۔
پہلے میں نے ملک محمد شریف صاحب کو اس ملک میں بھیجا لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہاں اندرونی جنگ شروع ہوگئی اور سپین کے انگریزی قنصل نے ان سے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں` پھر میں نے ان کو اٹلی بھیج دیا۔ مگر اب جو وفود گئے ہیں ان میں میں نے سپین کو بھی مدنظر رکھا ہے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغ سپین کے دارالسلطنت میڈرڈ میں پہنچ گئے ہیں جیسا کہ اخبار میں شائع ہوچکا ہے۔ دو آدمی اتنے بڑے علاقہ کے لئے کافی نہیں ہوسکتے اور ہمیں اس کے لئے مزید کوشش جاری رکھنی ہوگی مگر سردست ہم ان دو کو ہی ہزاروں کا قائم مقام سمجھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے کثرت سے اہم مقامات پر نئے تبلیغی رستے کھل رہے ہیں اور وہاں سے پیاسی روحیں پکار رہی ہیں کہ ہماری سیرابی کا کوئی انتظام کیا جائے لیکن ہمارے پاس نہ اتنی تعداد میں آدمی ہیں کہ ہم ہر آواز پر ایک وفد بھیج دیں اور نہ ہی وفود بھیجنے کے لئے اخراجات ہیں۔ ایسے حالات میں ایک مومن کا خون کھولنے لگتا ہے` خصوصاً سپین اور صقلیہ کے واقعات کو پڑھ کر تو اس کا خون گرمی کی حد سے نکل کر ابلنے کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ جہاں ہمارے آباء واجداد نے سینکڑوں سالوں تک حکومتیں کیں اور وہ ان ممالک کے بادشاہ رہے وہاں مسلمانوں سے یہ سلوک کیاگیا کہ ان کو جبراً عیسائی بنالیاگیا اور آج وہاں اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہیں۔ پھر یہ علاقے اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتے ہیں کہ وہاں سے تمام یورپین ملکوں میں تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں۔ پس اس فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے ضرورت ہے اخلاص کی` ضرورت ہے متواتر قربانی کی` ضرورت ہے بلند عزائم کی۔<۴۶
سپین میں تبلیغی مشکلات][مجاہدین سپین کو فرانس کے احمدی مبلغین کی طرح اول قدم پر ہی شدید تبلیغی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی ممالک میں مدتوں سے جو رو چل رہی تھی اس کی ابتداء مسلمانوں کے مکمل اخراج کے بعد سپین ہی سے ہوئی تھی اور یہ ملک صدیوں سے نہایت متعصب اور ظالم و تشدد کیتھولک چرچ CHURCH) (CATHOLIC کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناہوا تھا جہاں کیتھولک فرقہ کے سوا کسی دوسرے مذہب بلکہ عیسائی فرقہ پروٹسٹنٹ (PROTESTANT) تک کو اپنے مخصوص نظریات پھیلانے کی اجازت نہ تھی۔
ملکی آئین کے مطابق دوسرے مذاہب والے اگرچہ حکام کو اطلاع دے کر اپنے مکان کے اندر عبادت تو کرسکتے تھے مگر باہر اپنا بورڈ وغیرہ آویزاں نہیں کرسکتے تھے۔
۱۹۴۵ء میں جرمنی کی شکست کے بعد جب بین الاقوامی سیاست نے پلٹا کھایا تو اس ملک کی خارجہ پالیسی میں بھی کسی قدر لچک پیدا ہوگئی اور اس نے اسلام کے نام سے انتہائی نفرت کے باوجود شام` شرق الاردن` سعودی عرب اور ترکی وغیرہ مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلئے اس طرح خدا کے فضل وکرم سے اگرچہ مبلغین احمدیت کو بھی سپین میں داخلہ کی اجازت مل گئی مگر خفیہ پولیس مشن کی خاص نگرانی پر متعین کردی گئی۔۴۷
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے IDIOMAS DE NACIOUAL ESCULA میں داخلہ لیا اور چھ ماہ میں اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے قابل ہوگئے۔ زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک روسی ترجمان KUZINIW ENVIQUE SR کی خدمات حاصل کرلیں اور پرائیویٹ ملاقاتوں میں اسلام کی آواز بلند کرنا شروع کردی اور نہایت حکیمانہ انداز سے عیسائی عقائد کی حقیقت واضح کرنے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام کے زندہ صلیب سے اترنے اور کشمیر میں چلے آنے کا تذکرہ کرنے لگے۔ سپین میں عیسائیت کے خلاف یہ پہلا علمی محاذ تھا جس کا ہسپانوی عیسائیوں سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑتا تھا جس پر وہ آنحضرت~صل۱~ کی ذات مقدس پر رکیک حملے شروع کردیتے تھے۔ دوسرے مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی یہ اعتراض عام طور پر بڑی شدومد سے کیاجاتا تھا کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے ہوئی۔ مبلغین اسلام نے اس خطرناک غلط فہمی کے ازالہ کی طرف بھی خاص توجہ دینا شروع کردی۔
مجاہدین سپین کی طرف سے جو سب سے پہلی رپورٹ مرکز میں پہنچی وہ ماہ وفا / جولائی ۱۳۲۵ہش / ۱۹۴۶ء کی تھی جس میں مندرجہ بالا ابتدائی سرگرمیوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھا تھا کہ-:
>یہاں کے لوگ دوسرے لوگوں اور دوسری اقوام کی نسبت سخت بغض اور تعصب رکھتے ہیں۔ یہاں کے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا ملک تمام ممالک سے بہرحال عمدہ اور بہتر ہے اور دیگر تمام ممالک کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خصوصاً مسلمانوں سے ایسے بغض ہے کہ انہیں دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے جس کا سب سے بڑا سبب یہاں کے پادریوں کی فتنہ پردازی ہے۔ رعایا کی ضمیر پر پادریوں کا قبضہ ہے۔ کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کرسکتا۔ حتی کہ دفتر میں کام کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ چرچ سے کیتھولک ہونے کا سرٹفیکیٹ حاصل کیا جائے۔<۴۸
روسی ترجمان کا قبول اسلام
ہسپانیہ میں احمدیہ مسلم مشن کا پہلا ثمر ان کے روسی ترجمان کا قبول اسلام تھا جو ۱۳۲۵ہش / ۱۹۴۶ء کے وسط آخر میں حضرت مصلح موعود کے اعجاز قبولیت دعا کے نتیجہ میں حلقہ بگوش اسلام ہوا۔۴۹
دوہسپانوی باشندوں کا قبول اسلام
۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء میں اسلام نے اس ملک کے اصل باشندوں پر براہ راست نفوذ و اثر پیدا کرنا شروع کردیا چنانچہ اس سال کے وسط میں دو ہسپانوی جوانوں پر بھی )جن میں سے ایک کا نام مسٹر میگل۵۰ اور دوسرے کا مسٹرفلپی اوریومینکڑس۵۱ تھا( صداقت اسلام منکشف ہوگئی اور وہ بیعت کرکے داخل احمدیت ہوگئے۔ حضرت مصلح موعود نے ان کا اسلامی نام بالترتیب اجمل احمد اور فلاح الدین تجویز فرمایا۔۵۲
مسٹر فلپی ارویو نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جو مکتوب لکھا وہ چونکہ اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس سے احمدیہ مسلم سپین مشن کے ابتدائی حالات اور ہسپانیہ کے سب سے پہلے نو مسلموں کے کوائف پر روشنی پڑتی ہے اس لئے اس کا اردو ترجمہ فائدہ سے خالی نہیں۔ انہوں نے لکھا۔
>میرے پیارے آقا۔ سنٹرل لینگویج سکول میں ساقی صاحب اور ظفر صاحب سے جہاں وہ سپینش اور خاکسار انگریزی اور فرانسیسی سیکھ رہے ہیں` واقفیت ہوئی۔ اس دوستانہ تعارف کے بعد مجھے ان سے گفتگو کرنے کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ بہت آسانی سے پوری بھی ہوگئی۔ انہوں نے دوسرے روز ہی مجھ سے میرا نام دریافت کیا جواباً میں نے اپنا نام بتایا۔ پھر دوران گفتگو ساقی صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی اور موت کے بارے میں گفتگو شروع کردی لیکن تنگی وقت اور کلاس کا وقت ہونے کی وجہ سے سلسلہ گفتگو ختم نہ ہوسکا۔ مزید گفتگو کے لئے مجھے انہوں نے اپنے مکان پر دعوت دی میں مکان پرگیا اور مذہبی گفتگو ہوئی۔ مزہبی گفتگو کا سلسلہ کئی روز بلکہ مہینوں جاری رہا اور اس اثناء میں میں نے >ٹیچنگز آف اسلام< اور >مسیح ہندوستان میں( کا بھی مطالعہ کیا۔ پہلے پہل تو میں اسلام سے بہت متنفر تھا کیونکہ میرے رگ وریشہ میں کیتھولک مذہب سمایا ہوا تھا لیکن روزانہ کی بحث و گفتگو نے آخر مجھ پر اسلام کی صداقت منکشف کردی۔
میں بے انتہا شکرگزار ہوں اس خدا کا جس نے مجھے اسلام کی تعلیم سے واقفیت کی توفیق بخشی اور جس نے حضور کو دنیا کے مختلف اطراف میں مبلغین بھجوانے کی توفیق عطا فرمائی خصوصیت سے سرزمین سپین میں جہاں اسلام نے کئی صدیوں تک حکومت کی۔
میں نے شرائط بیعت پڑھ لئے ہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مدد سے زندگی بھر ان پر عمل کروں گا اور آپ کے تمام حکموں کو بجالائوں گا۔ آخر میں حضور کی خدمت میں نہایت انکسار سے درخواست کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر حالت میں ان پر عمل کرنے کی اور فرمانبرداری کی توفیق بخشے اور دن بدن ایمان میں زیادہ سے زیادہ ترقی کروں اور میرا ہر دن اطاعت وفرمانبرداری میں بسر ہو اور خدا تعالیٰ مجھے نور روحانیت عطا فرماوے جس کے ذریعہ اور لوگوں کو منور کرسکوں جو ابھی تک ایمان نہیں لائے۔
حضور کا فرمانبردار خادم فلپی ارویومینکڑس ۵۳
لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< کے ہسپانوی ترجمہ کی اشاعت
یہ مشن ابھی ابتدائی مراحل میں تھا کہ ماہ اخاء / اکتوبر ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء میں مبلغین کا خرچ ختم ہوگیا اور مرکز کو اسے بند کردینے کا فیصلہ کرنا پڑا۔۵۴ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے تبلیغ اسلام کا جھنڈا سرنگوں ہونا کسی طرح گوارا نہ کیا اور اخراجات مشن چلانے کے لئے عطر فروخت کرنے کا کام شروع کردیا۔۵۵ میڈرڈ کارپوریشن کی طرف سے پھیری والوں کو مال بیچنے کی ممانعت تھی جس کی وجہ سے بڑی مشکلات پیش آئیں مگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا جو عملاً سپین میں ایک چلتا پھرتا تبلیغی ادارہ تھا جس کو حکومت کے سپاہی مشتبہ نظروں سے دیکھتے تھے بلکہ ایک بار جب آپ خوانچہ لگائے عطریات فروخت کررہے تھے خفیہ پولیس کے پانچ آدمی اپ کو گرفتار کرکے لے گئے اور چار گھنٹہ تک زیر حراست رکھا۔۵۶
ہسپانوی زبان میں کوئی اسلامی لٹریچر موجود نہیں تھا اس خلاء کو جلد سے جلد پر کئے بغیر یہ تبلیغی مساعی ملک پر کوئی نتیجہ خیز اثر نہیں ڈال سکتی تھیں۔ مبلغ اسلام مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے اس شدید کمی کو محسوس کرتے ہوئے پہلے ہی سال حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے مشہور لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< کا ہسپانوی ترجمہ مکمل کیا اور اس کی اشاعت کے لئے وزارت تعلیم میں درخواست کردی اور ساتھ ہی ماہ وفا/جولائی ۱۳۱۶ہش / ۱۹۴۷ء میں اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن محکمہ سنسر شپ میں پیش کردیا خیال تھا کہ چونکہ سپین کی حکومت دن رات کمیونزم کے خلاف پراپیگنڈا کررہی ہے اس لئے اس کتاب کی اشاعت کی ضرور اجازت مل جائے گی خصوصاً اس لئے کہ اس میں دوسرے مذاہب کے خلاف ایک لفظ تک بھی موجود نہیں اور خالص مثبت انداز میں اسلام کے معاشی نظریات کی ترجمانی کی گئی تھی مگر اس معاملہ نے بہت طول کھینچا۔ ہوا یہ کہ چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ کمیونزم کا علاج صرف اسلام ہے۔ سنسر والوں نے اصرار کیا کہ اس فقرہ سے اسلام کا لفظ کاٹ دیا جائے۔ اس پر مولوی صاحب موصوف نے بعض ذمہ دار افسروں سے ملاقات کی اور بار بار درخواستیں دیں کہ عیسائیت کا ذکر کے لئے بغیر اسلامی تعلیم پیش کی گئی ہے۔ آخر خدا خدا کرکے خط و کتابت کے بعد یہ معاملہ وزارت تعلیم تک پہنچا اور کتاب کے اس فقرہ میں کسی قدر ترمیم کے بعد کتاب شائع کرنے کی اجازت مل گئی۔۵۷ پریس نے ماہ ہجرت/ مئی ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء میں اسے چھاپنا شروع کیا اور ۲۳۔ ماہ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء کو اس کا پہلا نمونہ تیار کرکے دیا۔ اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا تین ہزار نسخہ شائع کیاگیا اور اس پانچ سو پونڈ سے بھی زیادہ لاگت آئی جو اصل تخمینہ سے قریباً ایک تہائی حصہ زیادہ تھی۔۵۸
نتیجت¶ہ آپ زیربار ہوگئے۔ اسی دوران آپ کو ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش / ۱۹۴۷ء میں صوبہ اراگون کے قدیم ترین شہر مشاراگوتا کی قومی صنعتی نمائش میں پھیری لگاکر عطر بیچنے کی اجازت مل گئی جس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی آمد ہوئی کہ سب قرضہ بے باق ہوگیا۔۵۹
کتاب کی مقبولیت
ملک میں تبلیغی ٹریکٹوں کی اشاعت اور پبلک اجتماعات کے انعقاد میں بھاری رکاوٹیں تھیں مگر اس کتاب کی اشاعت نے سپین میں تبلیغ کی ایک نئی اور وسیع راہ کھول دی۔ ایک فوری اثر یہ بھی ہوا کہ سپین کے بعض متعصب عیسائیوں نے بھی یہ برملا اقرار کرنا شروع کردیا کہ اسلام کا اقتصادی نظام ہی دنیا کے دکھوں دردوں کا بہترین اور کامیاب علاج ہے۔
کتاب کے متعلق بہت سے خطوط موصول ہوئے جن میں سرکردہ علمی وسیاسی طبقہ کے افراد نے نہایت اعلیٰ تاثرات کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ سپریم ٹریبونل کے پریذیڈنٹ CASTAN JOSE ۔D ۔SY نے کتاب پڑھ کر حسب ذیل مکتوب لکھا-:
>میڈرڈ ۲۴۔ اپریل ۱۹۵۰ء
امیرکرم الٰہی ظفر
نہایت مکرم و محترم
میں آپ کے نوازش نامہ کا بہت شکرگزار ہوں۔ اس کے ساتھ ایک بہترین کتاب ہے جس کے مطالعہ نے میری طبیعت پر نہایت شاندار اور اعلیٰ تاثرات پیدا کئے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ )اللہ تعالیٰ( آپ کو اس ملک )سپین( میں اور اس کے باہر بھاری کامیابی عطا کرے گا۔ کتاب حالات حاضرہ کے متعلق نہایت دلچسپ ہے۔
آپ کا نیاز مند
)دستخط( )ترجمہ(
سپین کے عوامی اور خصوصی حلقوں کے علاوہ ملکی پریس نے بھی کتاب پر بہت عمدہ تبصرے شائع کئے۶۰ جن میں اس کتاب کی بیان کردہ تعلیمات کی برتری کا اقرار کیا۔
مختصر یہ کہ حضور کی اس بلند پایہ تصنیف کی وجہ سے بفضلہ تعالیٰ تبلیغ اسلام کے کام میں بہت وسعت پیدا ہوگئی اور سنجیدہ طبقہ میں اسلامی تعلیمات کی برتری کے احساس کو پیدا کرنے میں بھاری مدد ملی۔۶۱
حضرت مصلح موعود کا اظہار خوشنودی
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے سپین مشن کے انچارج مبلغ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کی تبلیغی کوششوں پر )۲۶۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے( خطبہ جمعہ میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا-:
>ہسپانیہ کے مبلغ نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ جب سلسلہ کی مشکلات بڑھیں اور ان نقصانات کے بعد جو مشرقی پنجاب میں ہوئے ہم مجبور ہوگئے کہ وہاں سے مشن ہٹالیں اور اسے بتایا گیا تو اس نے لکھا کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے بلکہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں اپنے گزارہ سے یہاں کام کروں۔ چنانچہ اس نے پھیری کاکام کرکے گزارہ کیا اور نہ صرف گزارہ کیا بلکہ اس نے ایک کافی رقم جمع کرکے میرے لیکچر >اسلام کا اقتصادی نظام< کا ترجمہ کرکے شائع کیا۔ دو اڑھائی ہزار روپیہ کے قریب اس پر خرچ آیا اور اب وہ اس فکر میں ہے کہ وہ اس کام کو وسیع کرے۔<۶۲
حضرت مصلح موعود کا مکتوب گرامی بارسلونہ کی ایک ہسپانوی خاتون کے جواب میں
ایک خاتون نے جو >اسلام کا اقتصادی نظام< سے بہت متاثر تھی` حضرت سیدنا المصلح الموعود کی خدمت میں ہسپانوی زبان میں ایک خط لکھا جس کے جواب میں حضور نے تحریر فرمایا-:
>ہسپانیہ ایک ایسا ملک ہے جس نے اسلام کی ایک دفعہ پہلے بھی روشنی دیکھی تھی لیکن اس وقت اس کی روشنی جنگ کے ذریعہ ظاہر ہوئی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آخر میں مشتبہ ہوگئی۔ اب وہ روشنی محبت اور صلح کے پیغام کے ذریعہ ظاہر ہوئی ہے اس وجہ سے وہ دائمی ہوگی اور کبھی نہ بجھے گی اور کبھی وہاں سے نکالی نہ جائے گی۔<۶۳
اسلامی اصول کی فلاسفی کے ہسپانوی ترجمہ کی اشاعت
کتاب >اسلام کا اقتصادی نظام< شائع ہوچکی تو مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ سیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی معرکتہ الاراء اور حقائق و معارف سے پر اور قرآنی علوم سے لبریز کتاب >اسلامی اصول کی فلاسفی< کا بھی ہسپانوی ترجمہ شائع کریں۔
لیکن اس کتاب کی اشاعت ایک زبردست معرکہ تھا۔ سب سے دشوار اور حل طلب مسئلہ اجازت کا تھا۔ محکمہ سنسر شپ کے انچارج پروفیسر BENEYTO نے جو >اسلام کا اقتصادی نظام< کی اجازت میں ممدو معاون تھے اپنی ذاتی ذمہ داری پر اس کتاب کی بھی اجازت دے دی اور ساتھ ہی تاکید کردی کہ جلد طبع کرکے شائع کردو تا کوئی روک نہ پڑجائے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ۱۹۵۰ء )۱۳۲۹ہش( میں یہ کتاب بھی اسی مطبع AGUADO) DICIO (AFRO کو دے دی جہاں پہلی کتاب طبع ہوئی تھی۔ کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں چھپ کرتیار ہوچکی تھی اور سرورق لگ رہاتھا کہ سپین حکومت کے وزیر تعلیم ۶۴ نے ایک خاص آرڈر کے ذریعہ مطبع والوں کو حکم جاری کردیا کہ کتاب کی اشاعت روک دی جائے اور اس کی تقسیم شدہ کاپیاں ضبط کرلی جائیں۔ اس پر مولوی صاحب نے وزیر تعلیم سے ملنے کی کوشش کی` خطوط لکھے` تار دیئے` مختلف شخصیتوں سے بار بار ملاقاتیں کیں۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی )جو ان دنوں حکومت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے( ہسپانوی سفراء پر کتاب پر سے پابندی اٹھا لینے کے لئے زور دیا لیکن وزارت تعلیم نے جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔][آخر سپین کی وزارت خارجہ نے ایک روز مولوی صاحب موصوف کو بلا کر کہا کہ اگر آپ اس کتاب میں سے بعض عبارتیں حذف کرنے کو تیار ہوں تو ہم اسے شائع کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ مولوی نے صاحب نے کہا کہ آپ ایک ایسی بات کا مطالبہ کررہے ہیں جسے دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند اور عقلمند انسان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خالص ایک مذہبی کتاب ہے اور اس کے مصنف ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے۔ ان کی کتاب میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔
علاوہ ازیں ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء میں لنڈن کے پاکستان آفس نے بھی بذریعہ چٹھی اطلاع دی کہ اگر کتاب میں ہسپانوی حکومت کی رائے کے مطابق ترمیم و تصحیح کردی جائے تو یہ پابندی اٹھالی جائے گی مگر مبلغ اسلام نے اسے بھی اپنے تار اور مفصل مکتوب میں یہی جواب دیا کہ تبدیلی ناممکن ہے۔
یہ سلسلہ مراسلت ابھی جاری تھا کہ اس اثناء میں سنسرشپ کا محکمہ وزارت تعلیم کی بجائے وزارت اطلاعات کے ساتھ وابستہ کردیاگیا۔ اس تبدیلی سے کتاب کا معاملہ ازسرنو اٹھانا پڑا۔۶۵ جناب ظفر صاحب نے ایک مفصل خط ڈائریکٹر آف پراپیگنڈا کو لکھا اور ملاقات بھی کی مگر انہوں نے چند دنوں کے بعد جواب بھجوایا کہ وہ سابق وزیر تعلیم کا فیصلہ منسوخ نہیں کرسکتے جبکہ دوسرے مذاہب کے بارے میں حکومت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔۶۶ قبل ازیں پریس کے مالک نے وعدہ کررکھا تھا کہ اگر کتاب کی تمام قیمت ادا کردی جائے تو وہ کتاب مشن میں لے جانے کی اجازت دے دے گا مگر اس نے بھی معذرت کردی اور بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ جب تک کتاب پر سے پابندی نہیں اٹھائی جاتی ساری ذمہ داری مطبع والوں پر ہوگی۔ اس پر مبلغ اسلام نے ڈائریکٹر جنرل آف پراپیگنڈا کو پے درپے خطوط لکھے۔ ایک زور وار خط کے ذریعہ ان کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ سچے مذہب کی نشانی یہ ہے کہ غیر مذاہب کو کھلی تبلیغ واشاعت کی اجازت دیتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل صاحب نے بظاہر بڑی ہمدردی کا خط لکھا کہ آپ کی کوششوں کا معترف ہوں مگر ساتھ ہی یہ دو ٹوک جواب دیا کہ سپین میں کیتھولک کے سوا کسی مذہب کو تبلیغ کی قانوناً اجازت نہیں ہے مولوی کرم الیٰ صاحب ظفر نے مختلف شخصیتوں کے ذریعہ سے بھی اس پابندی کے اٹھائے جانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔]4 [stf۶۷
خدا کی قدرت! ان ایام میں جبکہ سپین گورنمنٹ کی طرف سے کتاب پر نہایت سختی سے پابندی عائد تھی خدائے قادر وتوانا ذوالمجدوالعلیٰ نے اہم ہسپانوی شخصیتوں تک کتاب پہنچاننے کا یہ سامان پیدا کردیا کہ لنڈن کے ایک نئے احمدی دوست محمد یٰسین صاحب نے مولوی صاحب موصوف سے وعدہ کیا کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا ہسپانوی ترجمہ اور ہسپانیہ کے چوٹی کے معزز اشخاص کے پتے ہمیں بھجوادیں ہم لنڈن سے یہ کتاب ان کو بھجوادیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کتاب پہنچنے پر لنڈن ہی سے بذریعہ ڈاک ہسپانوی معززین کو پہنچانا شروع کردی۔ اسی دوران میں مولوی صاحب نے >اسلامی اصول کی فلاسفی< کا ایک نسخہ سپین کے صدر جنرل فرانکو کی خدمت میں بھی بھجوادیا۔ جنرل موصوف نے ایک خط کے ذریعہ کتاب کا دلی شکریہ ادا کیا اور لکھا کہ کتاب انہیں بے حد پسند آئی۔ اس خط کے بعد مولوی صاحب نے کتاب کی محدود رنگ میں تقسیم شروع کردی۔ پولیس والے اکثر جواب طلبی کے لئے آتے تھے لیکن جب آپ ان کو جنرل فرانکو کا خط دکھاتے تو وہ خط کی نقل لے کر چل دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے اہم لوگوں نے کتاب سے متعلق اپنے اعلیٰ تاثرات کا اظہار کیا۔
چنانچہ ۱۹۶۴ء میں کارڈینل آرچ بشپ اشبیلہ نے کتاب ملنے پر حسب ذیل مکتوب لکھا-:
>اشبیلہ کا آرچ بشپ کارڈینل` کرم الٰہی ظفر امیرمشن احمدیہ سپین کو سلام کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سلامتی طلب کرتا ہے۔<
>اسلامی اصول کی فلاسفی< کے بھجوانے پر دلی ممنون ہوں اور خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔ کتاب میں نے انتہائی دلچسپی سے پڑھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل آپ پر ہو اور باقی سب پر بھی۔
میں اس حقیقت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے ہر وہ تحریک بہت پسند ہے جو انسان کو مادی زندگی سے نکال کر روحانیت کی رفعتوں پر لے جائے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں ممد ہو۔ صرف اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی امن وسلامتی وباہمی اخوت` نیکی اور خوشی حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں وہ بے لگام مادہ پرستی کا دور ہے جس میں بے شمار لوگ خطرناک طور پر ملوث ہوچکے ہیں اور وہ اس امر کو بھول چکے ہیں کہ اس دنیا کی زندگی حقیقی اور ابدی زندگی نہیں بلکہ دائمی اور روحانی زندگی اللہ تعالیٰ کے سچے تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔
آپ کی کتاب میں بے شمار ایسی عبارتیں موجود ہیں جو ہمیں نیکی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے نام پر ہمارے درمیان اتحاد` اتفاق اور اخوت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔
ان عبارتوں کی وجہ سے ہمارے پختہ عقیدہ پر کہ مسیح خدا کے بیٹے اور تمام دنیا کے نجات دہندہ تھے کوئی اثر یا فرق نہیں پڑتا۔
خدا تعالیٰ سے تمام اسلامی دنیا کی خوشحالی طلب کرتا ہوں۔ اس کی رحمت آپ پر ہو۔
دستخط )ترجمہ(
اس خط کا بھی بہت فائدہ ہوا۔ عوام اور پولیس میں سے جو لوگ مولوی صاحب موصوف کے پاس آتے تو آپ انہیں اس کی فوٹو کاپی دکھا دیتے جس سے ان پر یہ گہرا اثر پڑتا کہ جب ان کے ایک مذہبی رہنما کو کتاب بہت پسند آئی ہے تو کتاب مفید ہی ہوگی۔۶۸
بالاخر چودہ برسوں کے بعد انفارمیشن منسٹر MANUELFRAGA ۔D نے نہ صرف اس کتاب کے شائع کرنے کی بلکہ ایک ٹریکٹ >میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں< ۶۹ کے چھپوانے کی بھی باقاعدہ سرکاری اجازتی دے دی۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں اور دوسرا ایڈیشن چھ ہزار کی تعداد میں چھپ کر سپین کے سرکردہ علمی` سیاسی اور مذہبی طبقوں کے اکثر معزز اشخاص تک پہنچ چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عام طور پر اس کی نسبت بہترین خیالات کا اظہار کیاگیا ہے۔
ذیل میں بطور نمونہ بعض ہسپانوی مقتدر شخصیتوں کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس شاندار کتاب کے وسیع اثرات کا پتہ چلتا ہے۔
)۱( پریذیڈنٹ رائل اکیڈیمی آف قرطبہ ARIZALA) DE MORTIOZ Y CASTEJON RAFAEL۔D نے درج ذیل مکتوب کی صورت میں خراج تحسین ادا کیا۔
قرطبہ۔ ۳۰ نومبر ۱۹۶۵ء
جناب کرم الٰہی ظفر
احمدیہ مسلم مشن میڈرڈ
نہایت واجب الاحترام
آپ کا نوازش نامہ اور کتاب مصنفہ )حضرت( احمد )مسیح موعود علیہ السلام( ملی۔ میں اس تحفہ کے بھجوانے پر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس کتاب کو انتہائی دلچسپی اور توجہ سے پڑھا ہے اس میں بیان کردہ تعلیم حقائق و معارف اور علم و عرفان سے پر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام کی گئی ہے جس کے مطالعہ سے میرا دل و دماغ معطر ہوگیا۔
میں نے ڈائریکٹر آف انسٹی ٹیوٹ CALIFALES) (ESTUDIOS جن کا نام FIGUERA GARICA VICENTE ۔D ہے اور جو چیف آف سٹیٹ کے کرنل بھی ہیں کہ یہ کتاب پڑھنے کے لئے دی۔ ان کو یہ کتاب اس قدر دلچسپ معلوم ہوئی کہ آپ نے اس ماہ کی ۲۰ تاریخ کو رائل اکیڈیمی میں اس کے متعلق ایک لیکچر دیا۔
ہم ایک رسالہ >الملک< شائع کرتے ہیں جس میں عموماً خلفاء بنوامیہ آف قرطبہ کے تاریخی اور آثار قدیمہ سے متعلق مضامین شائع کرتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں رسالہ ریویو آف ریلیجز بھجوادیا کریں تو یہ رسالہ ہم آپ کو بھجوا سکتے ہیں۔
آخر میں پھر دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
دستخط )ترجمہ(
۲۔
کلچر ہسپانی HISPANI) (CULTURE کے ¶ڈائریکٹر صاحب نے لکھا۔ >روحانی علم و عرفان سے پر کتاب پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی۔< ۷۰
۳۔
میڈیکل پروفیسر وممبر رائل اکیڈیمی آف میڈیسن DELAFUENTE) ALFONSO ۔(D نے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے نام لکھا کہ-:
جناب من میں آپ کا اسلامی اصول کی فلاسفی کے بھجوانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ کتاب انسان کی روحانی ترقی کے لئے علم و عرفان اور وعظ و نصیحت سے پر ہے جس کی آج کل شدید ضرورت ہے جبکہ دنیا ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہے اور لوگوں کا الل¶ہ تعالیٰ کی ہستی پر یقین نہیں رہا۔ میں خلوص دل سے آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور آخر میں دوبارہ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کا مطالعہ میرے لئے بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔۷۱ )ترجمہ(
۴۔
ایک میڈیکل سکول کے پرنسپل اور رائل اکیڈیمی کے ممبر سرولا نووا NOVA VILLA SR نے ۵ مئی ۱۹۶۹ء کو لکھا-:
>میں نے بڑی خوشی سے اس کا مطالعہ کیا اور اسے بے حد مفید پایا۔ میں اس کتاب کے مطالعہ سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ نہایت اعلیٰ اخلاقی تعلیم احسن رنگ میں بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب عالمگیر خوبیوں کی حامل ہے جس میں اسلامی تعلیم کا گہرا فلسفہ بیان کیاگیا ہے ہم سب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ میں دوبارہ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خلوص دل سے اپنی دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔<۷۲
احمدیہ مشن کی دیگر ابتدائی نوسالہ عمومی سرگرمیاں )ازماہ ظہور/ اگست ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء تا امان/مارچ ۱۳۳۵ہش/ ۱۹۵۶ء
احمدیہ دارالتبلیغ سپین کی دو ابتدائی اور نہایت اہم اور اثر انگیز مطبوعات کا یکجائی تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم پھر پیچھے پلٹتے ہیں اور اس مشن کی بعض دیگر ابتدائی نوسالہ عمومی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
چونکہ سپین میں تبلیغی مشکلات بے انداز تھیں اس لئے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے جماعت احمدیہ کے مستقل سیاسی مسلک اور روایات کے عین مطابق قانون ملکی کا احترام کرتے اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے ان تمام ذرائع کو حتی الامکان بروئے کارلانے کی انتہائی کوشش فرائی جو ملک کے مختلف حلقوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور ان تک حق و صداقت کی آواز پہنچانے میں کسی طرح بھی مفید و معاون بن سکتے تھے۔ مثلاً-:
۱۔
احمدیہ دارالتبلیغ میں ہر اتوار کو دوپہر کے بعد اسلام کے بارے میں دلچسپی لینے والوں اور معلومات حاصل کرنے والوں کا گویا ہجوم رہتا تھا۔ مولوی صاحب موصوف اس موقع سے کما حقہ` فائدہ اٹھاتے۔ ان کے سامنے موقع محل کے مطابق مختصر تقریر کرتے اور سوال و جواب کی صورت میں اسلام کے خلاف مختلف شبہات کا ازالہ کرتے تھے۔
۲۔
اس عرصہ میں آپ نے سپین کے سفارت خانوں` سرکاری افسروں` تعلیمی اداروں اور ملک کے دیگر مختلف حلقوں اور باہر سے آنے والے لوگوں سے روابط ومراسم پیدا کرنے کی کوششیں برابر جاری رکھیں۔ چنانچہ اس دور کی رپورٹوں میں ہسپانوی مراکش کے ولی عہد شہزادہ مولائی مہدی بن حسن` ۷۳ ہسپانوی کمرشل ایٹچی` سفیر ارجنٹائن` برطانی سفیر` سفیر برائے پاکستان` مصری سفیر فرانسیسی سفیر` وزیر پبلک ورکس اور گوائی کے وزیر مختار` امریکی سفیر` فلپائن کے سفیر` کولمبیا اور لبنان کے صحافیوں` سپین کے مشہور مولف و مورخ MANON GREGNO ۔DR اور سپین کی مختلف خطاب یافتہ شخصیتوں (COUNTS) سے ملاقاتوں کا ذکر ملتا ہے۔ اس زمانہ میں مجاہد اسلام نے سفارت ارجنٹائن کے افسروں سے بالخصوص گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کر لئے تھے اور ان لوگوں کو اکثر خوشگوار ماحول میں تبلیغ کے مواقع ملتے رہتے تھے اسی اثنا میں ملٹری ایٹچی کے سیکرٹری نے سائیکلوسٹائل مشین کا تحفہ احمدیہ مسلم مشن کو پیش کیا۔۷۴
۳۔
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو میڈرڈ ۷۵ )دارالحکومت( ہی میں محدود نہیں رکھا بلکہ وقتاً فوقتاً سپین کے دوسرے مشہور شہروں مثلاً اشبیلہ` ۷۶تاراگوتا`۷۷برشلونہ ۷۸ تشریف لے جاکر پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی۔ بلنیہ۷۹ سپین کا تیسرے نمبر پر بڑا شہر ہے جو بحیرہ روم کے ساحل پر واقع اہم بندرگاہ ہے اور جہاں جابجا اسلامی عہد حکومت کے آثار قدیمہ ملتے ہیں مجاہد اسلام نے ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء میں اس علاقے کی طرف بھی تبلیغی سفر کیا اور ایک گائوں الکھن سیڈل فارو SIDELFORO) (ALKHAN میں اسلام کی منادی کی۔۸۰
۴۔
آپ نے >اسلام کا اقتصادی< اور >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے ہسپانوی ترجموں کے علاوہ عام طور پر ملک میں درج زیل لٹریچر معززین کو بطور تحفہ یا قیمتاً دیا-:
>خطبہ الہامیہ< )عربی(۔ >مسیح ہندوستان میں< )انگریزی(۔ >اسلامی اصول کی فلاسفی< )انگریزی و فرانسیسی(۔ >اسلام کا اقتصادی نظام< )انگریزی(۔ >کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی< )انگریزی ازحضرت مصلح موعود(۔ >مسیح کہاں فوت ہوئے؟< )انگریزی(
ان کتابوں میں سے بعض بیرونی ممالک میں بھی بھجوائی گئیں۔ مثلاً >اسلام کا اقتصادی نظام< پریذیڈنٹ ری پبلک ارجنٹائن کو جنہوں نے کتاب موصول ہونے پر تحریری شکریہ ادا کیا۔۸۱
۵۔
آپ نے تبلیغ اسلام کی وسعت کے لئے ایک کارگر ذریعہ یہ اختیار کیا کہ زیر تبلیغ احباب کے نام بکثرت خطوط لکھے جن میں ان کے شکوک د وساوس کا ازالہ کیا اور صحیح اسلامی تعلیم پیش کی۔۸۲
نو مسلموں کی تعلیم و تربیت
مندرجہ بالا ذرائع کے نتائج خدا کے فضل و کرم سے بہت خوشکن نکلے اور اس کے نتیجہ میں ہر سال نو مسلموں میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ اسلام میں آنے والوں کی اس نئی جماعت نے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر پر ان کی تعلیم تربیت کی بھاری ذمہ داری ڈال دی جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے انہوں نے خاص توجہ دی اور نو مسلموں کو نماز` اذان اور تکبیر سکھانے یسرناالقرآن پڑھانے اور عام دینی مسائل سے آگاہ کرنے کا کام بھی برابر جاری رکھا۔ نتیجت¶ہ سپین کے بعض نئے اسلامی بھائی جن میں مبارک احمد صاحب بہت نمایاں تھے۔ تبلیغ اسلام کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لینے لگے۔
حضرت مصلح موعود کا پرمعارف خطبہ مبلغ سپین کے نکاح پر
۲۵ جنوری ۱۹۵۴ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود نے چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر مجاہد سپین کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ آپ کا نکاح محترمہ رقیہ شمیم بشریٰ صاحبہ بنت ماسٹر محمد اسحاق صاحب ہیڈماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول فورٹ عباس ساکن )ریاست بہاولپور( سے ہوا۔ اس موقع پر حضور نے اپنے پرمعارف خطبہ میں اس نکتہ پر خاص طور پر زور دیا کہ آنحضرت~صل۱~ کا ارشاد ہے کہ شادی دین کی خاطر کی جائے۔ خطبہ کے آخر میں حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا >یہ لڑکی جس کے نکاح کا میں اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ بھائی عبدالرحیم صاحب کی نواسی ہے اور اس سے قبل ان کی دوسری لڑکی کے سوتیلے بیٹے ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب باوجود اس کے کہ وہ مالدار شخص ہیں اور اڑھائی تین ہزار روپیہ آمد پیدا کررہے ہیں اپنی لڑکی کے لئے مبلغ کو چنا ہے اور مبلغ کو پچاس ساٹھ روپیہ ملتے ہیں۔ پس موجودہ افسوسناک حالات کے باوجود یہ نہایت نیک نمونہ ہے جو ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب نے دکھایا ہے اور اس موقع پر بھی اگرچہ یہ نسبتاً پہلے واقعہ سے کم درجہ رکھتا ہے ایک مبلغ سے تعلق پیدا کرنے کی خواہش نمایاں پائی جاتی ہے اور یہ ایک نیکی کی بات ہے بشرطیکہ اس دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں۔۸۳
حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز مکتوب مبلغ اسلام سپین کی بیگم صاحبہ کینام )مورخہ ۲۔ امان/ مارچ ۱۳۳۳ہش/ ۱۹۵۴ء(
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر اپنی اہلیہ کے ساتھ سپین روانہ ہونے لگے تو حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے ان کی اہلیہ صاحبہ کے نام حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا۔
اغوزباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
تم اس ملک جارہی ہو جس پر مسلمانوں نے پہلی صدی میں قبضہ کیا اور سات سو سال تک وہاں قابض رہے۔ اس ملک کا مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانا ایک بڑے دکھ کی بات ہے مگر ملک تو نکلتے ہی رہتے ہیں وہاں سے اسلام کا نکل جانا اصل صدمہ ہے اور ایسا صدمہ جسے کسی مسلمان کو بھلانا نہیں چاہئے۔ شیعہ امام حسینؓ کی یاد میں ہر سال تازئے نکالتے ہیں یہ ایک بدعت ہے مگر اگر کسی صورت میں بھی یہ جائز ہوتا تو مسلمانوں کو سپین کا ماتم ہر سال کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ ہر بچے اور ہر بوڑھے کے دل پر زخم کا اتنا گہرا نشان پڑجاتا کہ کوئی مراہم اسے مندمل نہ کرسکتی۔
تم خوش قسمتی سے وہاں جارہی ہو اپنے فرض کو یاد رکھو اور اپنے خاوند کو یاددلاتی رہو تمہارا جانا تمہارے خاوند کو تبلیغ میں سست نہ کردے مگر آگے سے بھی چست بنائے۔ صحابیات جب جنگوں میں جاتی تھیں تو اپنے خاوندوں کو خیموں میں نہیں گھسیٹتی تھیں بلکہ خیموں سے باہر نکالتی تھیں اسی وجہ سے ان کا نام عزت سے یاد کیاجاتا ہے اور قیامت تک یاد کیا جائے گا۔ مل بیٹھنے کا وقت مرنے کے بعد بہت لمبا ملنے والا ہے اس کی یاد میں ان کام کے دنوں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانا چاہئے۔ آمین۔
مرزا محمود احمد
54)۔3۔(2
اغوزباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
تم اس ملک جارہی ہو جس پر مسلمانوں نے پہلی صدی میں قبضہ کیا اور سات سو سال تک وہاں قابض رہے۔ اس ملک کا مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانا ایک بڑے دکھ کی بات ہے مگر ملک تو نکلتے ہی رہتے ہیں وہاں سے اسلام کا نکل جانا اصل صدمہ ہے اور ایسا صدمہ جسے کسی مسلمان کو بھلانا نہیں چاہئے۔ شیعہ امام حسینؓ کی یاد میں ہر سال تازئے نکالتے ہیں یہ ایک بدعت ہے مگر اگر کسی صورت میں بھی یہ جائز ہوتا تو مسلمانوں کو سپین کا ماتم ہر سال کرنا چاہئے تھا یہاں تک کہ ہر بچے اور ہر بوڑھے کے دل پر زخم کا اتنا گہرا نشان پڑجاتا کہ کوئی مراہم اسے مندمل نہ کرسکتی۔ تم خوش قسمتی سے وہاں جارہی ہو اپنے فرض کو یاد رکھو اور اپنے خاوند کو یاددلاتی رہو تمہارا جانا تمہارے خاوند کو تبلیغ میں سست نہ کردے مگر آگے سے بھی چست بنائے۔ صحابیات جب جنگوں میں جاتی تھیں تو اپنے خاوندوں کو خیموں میں نہیں گھسیٹتی تھیں بلکہ خیموں سے باہر نکالتی تھیں اسی وجہ سے ان کا نام عزت سے یاد کیاجاتا ہے اور قیامت تک یاد کیا جائے گا۔ مل بیٹھنے کا وقت مرنے کے بعد بہت لمبا ملنے والا ہے اس کی یاد میں ان کام کے دنوں کو زیادہ سے زیادہ مفید بنا)نا( چاہئے۔ آمین۔
مرزا محمود احمد
54)۔3۔(2
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کا گرامی نامہ )مورخہ ۲ امان/مارچ ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء(
قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی ایک مکتوب سپرد قلم کیا جو یہ تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
عزیزہ مکرمہ بیگم کرم الٰہی صاحب ظفر السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کی شادی ظاہری حالات کے لحاظ سے دعائوں اور برکات کے ساتھ ہوئی ہے مگر ابھی تک یہ صرف ایک جسم ہے اور اس کے اندر حقیقت کی روح ڈالنا یا تو ہمارے خدا کے ہاتھ میں ہے جو تمام فضلوں اور رحمتوں کا سرچشمہ ہے اور یا وہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے عمل سے خدائی نصرت و رحمت کی جاذب بنیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو فضلوں اور رحمتوں کا مورد بنائے اور حسنات دارین سے نوازے۔ آمین۔
سپین کا ملک جہاں آپ اپنے شوہر عزیز کرم الٰہی صاحب ظفر کے ساتھ جارہی ہیں۔ اسلام کا کھویا ہوا ورثہ ہے جہاں اسلام کے پودے نے ساتھ آٹھ سو سال اپنے بزرگ وبار کی شاندار بہاردکھائی ہے مگر اب اس پر خزاں کا دور دورہ ہے آپ اسے اپنی درد مندانہ کوششوں اور دعائوں کے ساتھ پر پھولوں اور پھلوں سے شاداب اور آراستہ کریں اور ثابت کردیں کہ ہمارے آقا~صل۱~ کی بعثت ثانی عالمگیر اور ہمہ گیر بہار کا پیغام لے کر آئی ہے۔ سپین کا دوبارہ اسلام سے مشرف ہونا اسلام کا وہ روحانی انتقام ہوگا جس کے لئے اندلسی بزرگوں کی روحیں پکاررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے سرتاج کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ فقط
خاکسار
مرزا بشیراحمد
54)۔3۔(2
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
عزیزہ مکرمہ بیگم کرم الٰہی صاحب ظفر السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کی شادی ظاہری حالات کے لحاظ سے دعائوں اور برکات کے ساتھ ہوئی ہے مگر ابھی تک یہ صرف ایک جسم ہے اور اس کے اندر حقیقت کی روح ڈالنا یا تو ہمارے خدا کے ہاتھ میں ہے جو تمام فضلوں اور رحمتوں کا سرچشمہ ہے اور یا وہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے عمل سے خدائی نصرت و رحمت کی جاذب بنیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو فضلوں اور رحمتوں کا مورد بنائے اور حسنات دارین سے نوازے۔ آمین۔
سپین کا ملک جہاں آپ اپنے شوہر عزیز کرم الٰہی صاحب ظفر کے ساتھ جارہی ہیں۔ اسلام کا کھویا ہوا ورثہ ہے جہاں اسلام کے پودے نے ساتھ آٹھ سو سال اپنے بزرگ وبار کی شاندار بہاردکھائی ہے مگر اب اس پر خزاں کا دور دورہ ہے آپ اسے اپنی درد مندانہ کوششوں اور دعائوں کے ساتھ پر پھولوں اور پھلوں سے شاداب اور آراستہ کریں اور ثابت کردیں کہ ہمارے آقا~صل۱~ کی بعثت ثانی عالمگیر اور ہمہ گیر بہار کا پیغام لے کر آئی ہے۔ سپین کا دوبارہ اسلام سے مشرف ہونا اسلام کا وہ روحانی انتقام ہوگا جس کے لئے اندلسی بزرگوں کی روحیں پکاررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے سرتاج کے ساتھ ہو اور دین و دنیا میں ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ فقط
خاکسار
مرزا بشیراحمد
54)۔3۔(2
‏tav.11.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
اسلام پرسرکاری پابندی
سپین میں مبلغ اسلام کیی تبلیغی سرگرمیاں اگرچہ شروع ہی سے کیتھولک پادریوں کے لئے ناقابل برداشت تھیں لیکن اب جو اسلام کا اثرونفوذ بڑھنے لگا اور سعید روحیں حق وصداقت قبول کرنے لگیں توانہوں نے ماہ مارچ ۱۹۵۶ء میں سرکاری حلقوں سے گٹھ جوڑ کرکے تبلیغ اسلام پر پابندی لگوادی۔۸۴ پاکستانی سفارت خانہ کی طرف سے ۲۶ مارچ ۱۹۵۶ء کو اس کی اطلاع بھی پہنچ گئی۔ اس افسوسناک اور رنجدہ اقدام کی تفصیل مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
>ماہ مارچ کے شروع میں ایک روز صبح سفارت پاکستان کے فرسٹ سیکرٹری< مسٹر افضل اقبال نے مجھے بلایا کر کہا کہ ہسپانوی حکومت آپ کی طرف سے لوگوں کو قبول اسلام کی دعوت دینے کو اپنے ملک کی کانسٹی ٹیوشن کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے۔ میرا بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ کوئی ایسا کام نہ کریں جسے حکومت ملک کے قانون کی خلاف ورزی تصور کرے۔ بعد میں انہوں نے یہ نوٹس کی صورت میں لکھ کر بھی بھجوادیا۔ میں نے ان کو کہا کہ مذہبی آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے جسے دنیا کی ہر مہذب حکومت تسلیم کرتی ہے۔ اگر سپین کی کوئی ایسی CONSTITUTION ہے تو اسے انہیں تبدیل کرناچاہئے۔ ورنہ پاکستان کو بھی ان کے مشنریوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ اگر وہ مجھے ملک سے باہر نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں تو ہماری حکومت ان کے مشنریوں کو بھی نکل جانے کا نوٹس دیدے۔ کہنے لگے ہمارا ملک مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے مگر ان کا ملک تسلیم نہیں کرتا ہم ان کو ان کے ملکی قانون بدلنے کے لئے کیسے مجبور کرسکتے ہیں؟
خاکسار نے ہسپانوی وزیر خارجہ کو ایک خط لکھا کہ میں دس سال سے سپین میں مقیم ہوں اب تک میرے خلاف کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اب حکومت میری سرگرمیوں کو کیوں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے؟ہپسانوی حکومت سرکاری طور پر کیتھولک گورنمنٹ ہے اس کا دعویٰ ہے کہ یہ مذہب سچا ہے جو خدا تعالیٰ قائم کرنے کا ذریعہ اور اعلیٰ اخلاق کا حامل ہے۔ میری تبلیغی کا مقصد بھی محض اعلیٰ اخلاق کا قیام اور نبی نوع انسان کا خدا تعالیٰ سے حقیقی تعلق قائم کرنا ہے۔ میری تبلیغ کا واحد مقصد یہ ہے کہ خدائے وحدہ لاشریک کو تمام مخلوق پہچان لے۔ نیز میں نے اس بات پر زور دیا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلام ہرگز ملک سپین کے لئے کسی قسم کا خطرہ نہیں بلکہ اس سرزمین کی حقیقی فلاح و بہبود کا خواہش مند ہے۔ خط کا جواب ملاکر وزیر خارجہ صاحب نے آپ کے خط کا اچھا اثر لیا ہے۔
>دراصل ساری شرارت پادریوں کی ہے کہ انہوں نے پولیس والوں اور حکام کو انگیخت کی ہے۔<۸۵
حضرت مصلح موعود کی طرف سے خطبہ جمعہ میں زبردست احتجاج
حکومت سپین کے اس فیصلہ کی اطلاع ملنے پر حضرت مصلح موعود نے ۲۰ شہادت/اپریل ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء کو ربوہ میں ایک پرجلال خطبہ پڑھا جس میں فرمایا-:
>کرم الٰہی صاحب ظفر کو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس دیاگیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ چونکہ تم لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہو جو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہے اس لئے تمہیں وارننگ دی جاتی ہے کہ تم اس قسم کی قانون شکنی نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں۔ ہمارا ملک اسلامی ملک کہلاتا ہے لیکن یہاں عیسائی پادری دھڑلے سے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور کوئی انہیں عیسائیت کی تبلیغ سے نہیں روکتا لیکن وہاں ایک مبلغ کو اسلام کی تبلیغ سے روکا جاتا ہے اور پھر بھی ہماری حکومت اس کے خلاف کوئی پروٹسٹ نہیں کرتی۔ وہ کہتے ہیں میں نے پاکستان کے ایمبیسڈر سے کہا کہ تمہیں تو ہسپانوی حکومت سے لڑنا چاہئے تھا اور کہنا چاہئے تھا کہ تم اسلامی مبلغ پر کیوں پابندی عائد کرتے ہو؟ جبکہ حکومت پاکستان نے اپنے ملک میں عیسائی پادریوں کو تبلیغ کی اجازت دے رکھی ہے اور وہ ان پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کرتی۔ اس نے کہا یہ تو درست ہے مگر سپین کی وزارت خارجہ کا سیکرٹری یہ کہتا تھا کہ تم اپنے ملک میں لوگوں کو جو بھی آزادی دینا چاہتے ہو بیشک دو ہمارے ملک کی کانسٹی ٹیوشن اس سے مختلف ہے اور ہمارے ملک کا یہی قانون ہے کہ یہاں کسی کو اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بہرحال یہ ایک افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت دوسری حکومتوں سے اتنا ڈرتی ہے کہ وہ اسلام کی حمایت بھی نہیں کرسکتی۔ حالانکہ اس کا فرض تھا کہ جب ایک اسلامی مبلغ کو ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس دیا تھا تو وہ فوراً پروٹسٹ کرتی اور اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی مگر پروٹسٹ کرنے کی بجائے ہسپانوی حکومت نے یہ نوٹس بھی ہمارے مبلغ کو پاکستانی نمائندہ کے ذریعہ ہی دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ایک وزیر سے کہا کہ مجھے یہ نوٹس دیاگیا براہ راست کیوں نہیں دیاگیا تو اس نے کہا یہ نوٹس براہ راست تمہیں اس لئے نہیں دیاگیا کہ اگر ہم تمہیں نکال دیں تو پاکستانی گورنمنٹ ہم سے خفاہو جائے گی پس ہم نے چاہا کہ پاکستانی سفیر تمہیں خود یہاں سے چلے جانے کے لئے کہتے تاکہ ہمارے خلاف حکومت پاکستان کو کوئی خفگی پیدا نہ ہو۔۔۔
پاکستانی گورنمنٹ کے نمائندے کے ذریعہ ہسپانوی گورنمنٹ کی طرف سے ہمارے مبلغ کو یہ نوٹس دیاگیا ہے کہ چونکہ تم اسلامی مبلغ ہو اور ہمارے ملک کے قانون کے ماتحت کسی کو یہ اجازت نہیں کہ وہ دوسرے کا مذہب تبدیل کرے اس لئے تم اسلام کی تبلیغ نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں۔ شاید کوئی محبت اسلام رکھنے والا سرکاری اور افسر میرے اس خطبہ کو پڑھ کر اس طرف توجہ کرے اور وہ اپنی ایمبیسی سے کہے کہ تم ہسپانوی گورنمنٹ کے پاس اس کے خلاف پروٹسٹ کرو اور کہوکہ اگر تم نے اسلام کے مبلغوں کو اپنے ملک سے نکالا تو تم بھی عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں گے۔
بیشک اسلام ہمیں مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے مگر اسلام کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ جزاء سیئہ سیئہ مثلھا یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی غیر منصفانہ سلوک کرتا ہے تو تمہیں بھی حق ہے کہ تم اس کے بدلہ میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ پس اگر کوئی حکومت اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کو روکتی ہے تو مسلمان حکومتوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کے مبلغوں کو اپنے ملک میں تبلیغ نہ کرنے دیں۔ اسی طرح چاہئے کہ ہماری گورنمنٹ انگلستان کی گورنمنٹ کے پاس بھی اس کے خلاف احتجاج کرے اور کہے کہ یا تو سپین کی حکومت کو مجبور کرو کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت دے نہیں تو ہم بھی اپنے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کو بالکل روک دیں گے۔ اسی طرح وہ امریکہ کے پاس احتجاج کرے اور کہے کہ وہ ہسپانوی گورنمنٹ کو اپنے اس فعل سے روکے ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ عیسائی مبلغوں کو اپنے ملک سے نکال دیں۔ بہرحال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ ایک ایسا ملک جو پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے ایک اسلامی مبلغ کو نوٹس دیتا ہے کہ تم ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کیوں کرتے ہو؟۸۶ ایک دفعہ پہلے بھی پانچ سات نوجوان ہمارے مبلغ کے پاس بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے کہ سی۔آئی۔ ڈی کے کچھ آدمی وہاں آگئے اور انہوں نے کہا کہ تم مسلمان ہوگئے ہو۔ ان نوجوانوں نے کہا ہم حکومت کے تم سے بھی زیادہ وفادار ہیں۔ لیکن اس امر کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا دراصل پادریوں نے حکومت کے پاس شکایت کی ہے کہ یہاں اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے اور گورنمنٹ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہاری نگرانی کریں۔ انہوں نے کہا تم ہمیں دوسرے کی باتیں سننے سے نہیں روک سکتے اگر ہمارا دل چاہا تو ہم مسلمان ہوجائیں گے لیکن تمہیں کوئی اختیار نہیں کہ تم دوسروں پر جبر سے کام لو۔ اس وقت سے یہ مخالفت کا سلسلہ جاری تھا جو آخر اس نوٹس کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بہرحال یہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے کہ بعض عیسائی ممالک میں اب اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ پہلے عیسائی ممالک محمد رسول اللہ~صل۱~ کے خلاف رات اور دن جھوٹ بولتے رہتے تھے ہم نے ان افترائوں کا جواب دینے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حقیقی شان دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے اپنے مبلغ بھیجے تو اب ان مبلغوں کی آواز کو قانون کے زور سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسلام کی تبلیغ سے انہیں جبراً روکا جاتا ہے مسلمان حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کی بلندی کے لئے عیسائی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ سپین کو اس سے روکیں ورنہ ہم بھی مجبور ہوں گے کہ ہم عیسائی مبلغوں کو اپنے ملکوں سے نکال دیں۔
دیکھو سویز کے معاملہ میں مصر کی حکومت ڈٹ گئی اور آخر اس نے روس کو اپنے ساتھ ملالیا۔ اگر سویز کے معاملہ میں مصر ڈٹ سکتاہے تو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کی بلندی کے لئے پاکستان کی حکومت اگر ڈٹ جائے تو کیا وہ دوسری اسلامی حکومتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملاسکتی۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عزت یقیناً کروڑ کروڑ سویز سے بڑھ کرہے۔ اگر ایک سویز کے لئے امریکہ اور برطانیہ کے مقابلہ میں مصر نے غیرت دکھائی اور وہ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تو کیا دوسری اسلامی حکومتیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے لئے اتنی غیرت بھی نہیں دکھاسکتیں۔ انہیں عیسائی حکومتوں سے صاف صاف کہہ دیناچاہئے کہ یا تو تم اسلامی مبشرین کو اجازت دو کہ وہ تمہارے ملکوں میں اسلام کی اشاعت کریں ورنہ تمہارا بھی کوئی حق نہیں ہوگا کہ تم ہمارے ملکوں میں عیسائیت کی تبلیغ کرو۔ اگر تم ہمارے ملک میں عیسائیت کی تبلیغ کرسکتے ہو۔ تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم کہو کہ اسلام کی باتیں سن سکتے۔ بیشک ہمارے مذہب میں رواداری کی تعلیم ہے مگر ہمارے مذہب کی ایک یہ بھی تعلیم ہے کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بے انصافی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ یہ ایک نہایت صاف اور سیدھا طرز ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمان حکومتوں کا ذہن ادھر نہیں جاتا اور وہ اسلام کے لئے اتنی بھی غیرت نہیں دکھاتیں جتنی کرنل ناصر نے سویز کے متعلق غیرت دکھائی۔ اگر مسلمان حکومتیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے لئے سویز جتنی غیرت بھی دکھائیں تو سارے جھگڑے ختم ہو جائیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل جائیں۔ اور جب اسلام کی تبلیغ کے راستے کھل گئے تو یقیناً سارا یورپ اور امریکہ ایک دن مسلمان ہوجائے گا۔۸۷
جماعت احمدیہ کی طرف سے منظم احتجاج
حضور کے اس خطبہ نے جماعت احمدیہ میں تشویش واضطراب کی لہر دوڑا دی۔ اس کی شہری اور دیہاتی شاخوں کی طرف سے احتجاج قراردادیں پاس کی گئیں۔ سفارت خانوں کی یاد داشتیں بھجوائی گئیں۔ احمدی اخبارات ورسائل نے مضامین اور اداریے لکھے۔
مشرقی پاکستان کے مسلم پریس کا احتجاج
احمدی مسلمانوں کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے مسلم پریس نے بھی اس موقعہ پر غیرت ایمانی کا نمایاں ثبوت دیا اور اس پر بندش کے خلاف پر زور اور موثر آواز بلند کی چنانچہ مشرقی پاکستان کے مشہور روزنامہ >آزاد< نے اپنی ۲۶ جون ۱۹۵۶ء کی اشاعت میں >سپین اور اسلام< کے عنوان کے تحت ایک پرمغز اداریہ سپرد قلم کیا جس میں لکھا کہ۔
سپین میں چونکہ حکومت کا مذہب RELIGION) (STATE صرف عیسائیت ہے اس لئے وہاں دوسرے مذاہب کی تبلیغ کی اجازت روک دی گئی ہے۔ اس بناء پر سپین کی حکومت نے جماعت احمدیہ کے مبلغ کو جو وہاں تبلیغ اسلام کا کام کررہا تھا نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ حکومت سپین کے اسی حکم کے خلاف جماعت احمدیہ صدائے احتجاج بلند کررہی ہے۔ اس کی طرف سے کثرت سے احتجاج خطوط بھجوائے جارہے ہیں۔ ان میں سے ایک احتجاجی خط کراچی میں غیرملکی سفارت خانوں کو بھی یادداشت کے طور پر دیاگیا ہے۔ احمدیہ جماعت کی بے چینی بالکل طبعی امر ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا جماعت احمدیہ کے بڑے سے بڑے نقاد بھی انکار نہیں کرسکتے کہ مغربی ممالک میں اسلام کا پیغام صرف جماعت احمدیہ ہی اپنی ان تھک کوششوں کے ذریعہ پہنچارہی ہے۔ قریباً ہر ایک ملک میں ہر ایک مذہب کو اپنی اشاعت کا کم و بیش موقعہ ملتا ہے اور یہی بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے۔ لٰہذا سپین کی حکومت کا اس بنیادی حق کو چھیننا ایک ایسا امر ہے کہ جس پر جماعت احمدیہ کے ممبران بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اس معاملہ میں دوسرے مذاہب کے مشنری اور تمام رواداری برتنے والے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی حفاظت کے خواہاں اصحاب بھی جماعت احمدیہ کی ہمنوائی کریں گے۔
حکومت سپین کا قابل نفرت حکم ہمارے سامنے پرانے زمانہ کے ایسابیلا ISABELLA اور فرڈی نینڈ FERDINAND کی حکومت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ نیز ہمیں سپین میں عرب تمدن کے سنہری زمانہ اور طارق و موسیٰ بن نصیر کی بے نظیر جرات بھی یاد دلاتا ہے۔ درحقیقت عربوں نے ہی سپین کی تاریخ کو بنایا تھا۔ انہوں نے اپنے زمانہ میں عمارت سازی` انڈسٹری` علم موسیقی` ادب اور علوم وفنون کو ترقی دی تھی مگر وقتی طور پر عربوں کی یہ جلائی ہوئی شمعیں ناموافق حالات کی وجہ سے بجھادی گئیں مگر کچھ عرصہ بعد وہی یورپ کے ظلمت کدوں میں روشن ہوگئیں۔ اسی کی تاریخ میں یورپ کی نئی زندگی (RENAISSENCE) کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ سپین سے عرب حکومت کو اور مسلمانوں کو بہ نوک شمشیر نکال دیا گیا مگر ایسا کرنے والوں نے اسلام کو سپین سے نکال کر عربوں سے زیادہ خود یورپ کے تمدن کو نقصان پہنچایا۔ اسی وجہ سے مشہور عیسائی مورخ لین پول لکھتا ہے۔
>اسی طرح سے سپین والوں نے اس عرب ہنس کو قتل کردیا جو روزانہ ایک سنہری انڈا دیا کرتا تھا۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کا تمدن پانچ سو سال پیچھے پڑگیا۔<
مندرجہ بالا تمام حقائق سپین کے موجودہ مدبر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اور آج کل جنرل فرانکو سپین کی اس پرانی غلطی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ان کی مساعی سے آشکار ہورہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے تمدن مشنز بھجوا کراہ افریقہ میں اپنے مقبوضہ مسلم علاقہ کی آزادی کا اعلان کرکے اسی بات کا واضح ثبوت فراہم کیا ہے آج کل سپین میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ پیرا نیز پہاڑ سے ہی افریقہ شروع ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سپین اور افریقہ میں گہرا تمدنی تعلق ہے۔
ماضی اور حال کے ان مختلف حقائق وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج سپین گورنمنٹ کا یہ حکم خاص طور پر اسلامی دنیا کے لئے حیران کن اور انتہائی تکلیف دہ ہے اور طبعاً دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سپین اور اسلامی دنیا کی دوستی اور تعلقات کیا صرف ایک کھوکھلی نمائش ہے اور کیا آج بھی سپین میں پرانے زمانہ کی طرح اسلام کے متعلق بغض موجود ہے۔
اگر ان حقائق کو نظر انداز کردیا جائے تو پھر بھی مذہب کی تبلیغ ہر ایک انسان کا بنیادی حق ہے جس کو حکومت سپین نے اپنے حکم کے ذریعہ سے ختم کرنا چاہا ہے۔ اس کے متعلق حکومت پاکستان کو خود وفکر کرنا چاہئے اور اس کے جواب میں اسے سفارتی کارروائی اور حکومتی خط وکتابت کے علاوہ حکومت کو اپنے ملک میں دوسرے مذاہب کے مبلغین کے بارے میں بھی نئے سرے سے اصول وضع کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں ہماری ہمسایہ حکومت بھارت کا رویہ بھی قابل غور ہے۔ نہ معلوم اس سلسلہ میں ہماری حکومت نے بھی کچھ غوروفکر کیا ہے یا نہیں۔ )ترجمہ(۸۸
مشرقی پاکستان کے دوسرے مشہور اخبار >اتفاق< نے ۲۹ جون ۱۹۵۶ء کے پرچہ میں لکھا کہ-:
>حکومت فرانکو نے حال ہی میں سپین میں صرف عیسائیت کو STATERELIGION ہونے کا اعلان کیا ہے اور دوسرے مذہب کی تبلیغ پر پابندی عائد کردی ہے اسی وجہ سے میڈرڈ میں مقیم مبلغ اسلام کو سپین سے چلے جانے کا حکم جاری کیاگیا ہے۔
حکومت سپین کا یہ فعل بین الاقوامی حقوق انسانیت پر ایک کاری ضرب ہے اور تمام عالم اسلام کے لئے خصوصاً انتہائی طور پر تکلیف دہ ہے۔ سپین ایک زمانہ میں یورپ میں اسلامی تمدن کا مرکز تھا اور یہاں فلسفہ` ادب` علوم وفنون اور علم صنعت و حرفت نے اس حد تک ترقی کرلی تھی کہ بعد میں یہی چیز یورپ کی نئی زندگی کا باعث بنی۔ بلامبالغہ کہا جاستکا ہے کہ دراصل سپین میں عربوں کے ذہنی ارتقاء نے ہی موجودہ ماڈرن یورپ کو جنم دیا۔ پھر بین الاقوامی اصول کی رو سے بھی مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لئے تسلیم کیاگیا ہے۔ سپین کی موجودہ حکومت عالم اسلام کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کی خواہاں ہے لیکن اگر اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو عالم اسلام کو تکلیف دینے والا ہو تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ یہ محض ایک نمائشی خواہش ہے۔ حکومت کا یہ حکم پرانے زمانہ کے ایسا بیلا اور فرڈی نینڈ کے بغض و تعصب سے کم نہیں ہے۔ حکومت فرانکو نے مذہبی آزادی کو ختم کرنے لئے جو حکم جاری کیا ہے اس پر حکومت پاکستان کو بیدار ہونا چاہئے اور ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر سیاسی گفت و شنید سے اس اہم معاملہ کو طے کرے۔ )ترجمہ(۸۹
مشرقی پاکستان کے ایک اور موقر جریدہ >ملت< )۲۱ جون ۱۹۵۶ء نے لکھا-:
>ایک خبر سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومت سپین نے اپنے ملک سے مبلغ اسلام کو نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حکم پاکستانی سفارت خانہ کے ذریعہ سے دیاگیا ہے۔ یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مذہبی مبلغ کی آزادی کا ہر ملک میں ہونا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان میں عیسائی مبلغین عیسائیت کی تبلیغ نہایت آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک کررہے ہیں۔ ہمیں یہ امید ہے کہ ہماری حکومت اس حکم کے ازالہ کے لئے مناسب کارروائی فرمائے گی۔< )ترجمہ(۹۰
تبلیغ اسلام پر پابندی کے بعد سے خلافت ثانیہ کے اختتام تک ۱۳۳۵ہش/ ۱۹۵۶ء تا ۱۳۴۴ہش/ ۱۹۶۵ء
اب اگرچہ حکومت کی طرف سے تبلیغ اسلام کی راہیں قانوناً بند کردی گئیں اور مسلم مشن پر پولیس کی خفیہ نگرانی اور بھی سخت
ہوگئی تھی جس نے عوامی زہن پر ایک ہیبت سی طاری کردی تاہم خدا کا یہ فضل خاص ہوا کہ ملک کے چھوٹے اور بڑے` نچلے اور اونچے حلقوں کی اسلام سے دلچسپی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لوگوں کے اس ملے جلے قلبی رجحان کی ایک ابتدائی جھلک مبلغ اسلام کی ایک ماہانہ رپورٹ )بابت ماہ احسان / جون ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۶ء کے مندرجہ ذیل چند فقروں سے خوب نمایاں ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
>روزانہ دو یا چار وردی والے پولیس کے آدمی میرے پاس آجاتے ہیں۔ دو دفعہ خفیہ پولیس والوں نے بھی دخل اندازی کی۔ لوگ جب اسلام کے متعلق شوق اور دلچسپی کا اظہار کرتے اور کتب خریدتے تو خاکسار ان سے ان کا پتہ مانگتا تو ان میں سے بعض کی حالت قابل رحم ہوتی۔ پولیس کے ڈر سے ہاتھ کانپ رہے ہوتے تھے اور بعض تو جلدی سے بھاگ جانے کی کرتے۔<۹۱
مرعوبیت اقتدار اور تلاش حق کی اس کشاکش میں احمدی مبلغ کی تبلیغی مساعی محدود پیمانہ پر خلافت ثانیہ کے اختتام تک نہایت باقاعدگی سے برابر جاری رہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔][اسلامی لٹریچر کی اشاعت-: سپین کے طول و عرض میں مندرجہ ذیل اسلامی لٹریچر کی اشاعت کی گئی۔ انگریزی ترجمہ قرآن مجید` ۲۔اسلام کا اقتصادی نظام` ۳۔لائف آف محمدﷺ`~ ۴۔کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی` ۵۔کشتی نوح` ۶۔احمدیہ موومنٹ` ۷۔نظام نو` ۸۔مسیح کشمیر میں` ۹۔مسیح کہاں فوت ہوئے` ۱۰۔میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں` ۱۱۔اسلامی اصول کی فلاسفی` ۱۲۔رسالہ ریویو آف ریلیجنز
اس سلسلہ میں جن لوگوں کو مشن کی طرف سے لٹریچر دیاگیا ان میں مندرجہ ذیل شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سپین کے وائس پریذیڈنٹ` ان کے پرائیویٹ سیکرٹری اور ملٹری ڈاکٹر اور پانچ لیفٹیننٹ کرنل فوجی افسر` صدر امریکہ جانسن` سپین سول گورنر۹۲ سول گورنر آف DADAJOZ اور شہر ALMERIDA کے میئر جائنٹ سیکرٹری وزارت رفاہ عام` جائنٹ سیکرٹری انفارمیشن منسٹری` چیف آف پروٹوکل وزارت خارجہ` وائس پریذیڈنٹ وون AGUSTIN)۔(D انفارمیشن منسٹر MANUELFRAGA)۔(D پروفیسر ڈاکٹر DEGBOZ `LOPEZ پروفیسر JUANBENCYTS ۔D مشہور وکیل BRANO `JUAN وزیراعظم اطالیہ` وزیر خارجہ اٹلی` چلی کے قونصل SANPER) CARLOS۔D۔`(S عرب` اطالیہ اور پرتگال کے قونص خانوں کے سربر آوردہ اصحاب` میلگا (MALGA) شہر کے آرچ بشپ` یونیورسٹی کے لاء پروفیسر MARIN) PASCUAL۔`(D جوڈیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر `EGRU)وزیرتعلیم CEN ISIDROAR۔(D SALHMAHEH`(BURGOS) یونیورسٹی کے وائس چانسلر` جنرل ڈانکو کے جنرل سول سیکرٹری` جج سپریم کورٹ۔۹۳
پرائیویٹ ملاقاتیں-: اس دور میں مبلغ اسلام نے بھاری تعداد میں اہل سپین سے ملاقاتیں کر کے ان تک پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی۔ ملک کے نامور معززین میں سے صدر مملکت جنرل فرانکو` محکمہ امور عامہ کے چیف` وزارت خارجہ کے جنرل سیکرٹری` سول گورنر `BADAGAZ المیریڈا ALMERIDA کے میئر` سپین کے واحد سرکاری خبررساں ایجنسی کے ڈائریکٹر` ٹیلی گراف آفس کے آفیسر ڈائریکٹر جوڈیشنل انسٹی ٹیوٹ سے ملاقاتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔۹۴
اس کے علاوہ نائب صدر مملکت سے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے ۱۶ ماہ تبلیغ /فروری ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء کو ایک خصوصی ملاقات کی جس کی تفصیل انہیں کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔
>۱۶ فروری سوا ایک بجے ہزایکسی لینسی نے ملاقات کے لئے وقت دیا اور مجھے اپنے دفتر میں بلالیا۔ خاکسار نے ان کی خدمت میں قرآن کریم )انگریزی( کا تحفہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقدس اور مکمل کلام ہے جو اس کے پیارے نبی سیدنا حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ پر نازل ہوا اور قرآن کریم اصلی تورات اور انجیل کی سچائی کو تسلیم کرتا ہے۔ بائیبل کے بیان کردہ تمام انبیاء کو خدا تعالیٰ کے سچے مبعوث کردہ رسول مانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قرآن کی سچائی پر آپ ایمان لائیں تا آسمانی برکات سے آپ اور آپ کی قوم بھی حصہ لے۔
میں نے ایڈریس میں مزید لکھا کہ قادیان کی ایک چھوٹی سی گمنام بستی میں سیدنا حضرت احمد علیہ الصلٰوۃ والسلام مبعوث ہوئے ہیں جن کے مقدس وجود میں مسیح موعود کی آمد ثانی کی پیشگوئی پوری ہوگئی ہے۔ آپﷺ~ کی آمد کے ساتھ ایک نئے روحانی دور کا آغاز اور مردہ پرستی اور ضلالت و گمراہی کے دور کا خاتمہ ہوتا ہے۔
وائس پریذیڈنٹ صاحب نے نہایت شوق اور غور سے ہماری باتوں کو سنا` ان کی خدمت میں` لائف آف محمد` احمدیہ موومنٹ` کشتی نوح` اور اسلام کا اقتصادی نظام` کا ہسپانوی ترجمہ بھی پیش کیا۔ دروازہ تک الوداع کہتے آئے اور اسلامی طریق پر السلام علیکم کہا۔
ان کے پرائیویٹ سیکرٹری` ان کے ملٹری ڈاکٹر اور پانچ لیفٹیننٹ کرنل` فوجی افسروں کو بھی تبلیغ کا موقعہ ملا اور >اسلامی اصول کی فلاسفی< )ہسپانوی ترجمہ( مطالعہ کے لئے بطور تحفہ پیش کیں۔ اہم مذہبی اور علمی شخصیتوں کو >اسلامی اصول کی فلاسفی< بطور تحفہ بھجوائی گئی۔۹۵
علاوہ ازیں مبلغ اسلام کو اس عرصہ میں ریاست اینڈورا (ANDORA) جرمنی` ہالینڈ` برطانیہ` جنوبی امریکہ` کولمبیا` پرتگال اور منیزولا کے بعض باشندوں کو تبلیغ کرنے اور مندرجہ ذیل ممالک کے سفیروں یا نمائندوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کرانے کا موقع ملا-:
چلی` برطانیہ` یونان` شام` مراکش` الجیریا` ٹیونس` مصر` عراق` لبنان` سعودی عرب` لیبیا` امریکہ` ٹرکی` انڈیا` جرمنی` ارجنٹائن۔
تقاریب واجتماعات میں شرکت
مختلف تقاریب واجتماعات تبلیغ کا موثر ذریعہ بنتے ہیں۔ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے سپین میں ہمیشہ اس ذریعہ سے ہر ممکن فائدہ اٹھایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانہ میں بھی جبکہ تبلیغ اسلام پر سرکاری پابندی عائد تھی ملک کی صنعتی ۹۶ نمائش` ویجی ٹیرین سوسائٹی کے سینٹر`۹۷ سپین یونیورسٹی` ۹۸ اخوان کیتھولک تنظیم ۹۹ اور پاکستان نیشنل ڈے۱۰۰ کے اجتماعات میں شرکت کرکے تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا۔
سفر
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے اس دور میں بعض تبلیغی سفر بھی کئے۔ مثلاً گرینگا (GRANGA) میڈرڈ کے نواح میں ایک گائوں ہے جہاں آپ ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء میں تین ہفتہ تک چرچ کی شدید مخالفت کے باوجود اشاعت اسلام میں مصروف رہے۔۱۰۱
تبلیغ بذریعہ خطوط
اس عرصہ میں تبلیغی خط و کتابت کا سلسلہ بھی باقاعدہ جاری رہا۔ خصوصاً بارسیلونہ کے باشندوں سے۔۱۰۲
چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی سپین میں تشریف آوری`
اس دور کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی دو مقتدر شخصیتوں یعنی چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب )صدر عالمی اسمبلی( اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب
)وکیل الاعلیٰ والتبشیر تحریک جدید( نے احمدیہ مسلم مشن سپین میں مختصر قیام فرمایا۔
چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب روم میں O۔A۔F کے اجلاس کی صدارت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ میڈرڈ ہوائی مستقر پر چوہدری کرم الٰہی صاحب ظفر` اسلامی ممالک کے اکثر سفراء اور وزارت خارجہ سپین کے ڈائریکٹر جنرل DENERNA) MARQUES (SIR نے اسقتبال کیا۔ چوہدری صاحب ایک گھنٹہ کے لئے احمدیہ مشن ہائوس میں تشریف لے گئے۔ ہسپانوی نو مسلم آپ کی ملاقات سے بے حد خوش ہوئے۔ اس موقعہ پر میڈرڈ کے پریس` ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی احمدیہ مشن کا ذکر آیا۔۱۰۳
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو ان دنوں مغربی افریقہ کے مشنوں کا دورہ کررہے تھے واپسی پر ایک روز کے لئے سید مسعود احمد صاحب مبلغ انچارج سیکنڈے نیویا کی معیت میں ۲۳۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء کو میڈرڈ پہنچے۔ آپ کی تشریف آوری بھی ہسپانوی احمدیوں کے لئے غیر معمولی مسرت کا موجب ہوئی۔ احمدیوں کے علاوہ ایک ہسپانوی کرنل (AFADE) اور ایک ہسپانوی مصنف (ALARCON) کو بھی آپ سے ملاقات کا موقعہ ملا۔۱۰۴
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب قبل ازیں بھی ایک بار سپین میں تشریف لے گئے تھے۔ اس دورہ میں بشیراحمد صاحب رفیق امام مسجد لنڈن ان کے ہمراہ تھے۔۱۰۵
سپین مشن کی نشاۃ ثانیہ خلافت ثالثہ میں
خلافت ثالثہ کے عہد مبارک سے سپین مشن ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جبکہ نہ صرف اس کی تبلیغی سرگرمیوں کی وسعت پذیری اور رفتار ترقی دونوں میں بہت اضافہ ہوا اور ہورہا ہے بلکہ اب اس کا طریق کار اور پروگرام پہلے سے زیادہ معین` واضح اور نمایاں صورت اختیار کرچکا ہے۔
اسلام لٹریچر کی وسیع پیمانہ پر ترسیل اور اس کے اثرات
خلافت ثالثہ کے ابتدائی چار پانچ سال میں اس مشن کی طرف سے سب سے زیادہ توجہ اس امر کی طرف دی گئی کہ ملک کے مشہور اداروں اور نامور شخصیتوں تک اسلامی لٹریچر بکثرت پہنچا دیا جائے۔۱۰۶ اس لٹریچر میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا >پیغام امن اور حرف انتباہ< خاص طور پر شامل تھا۔ چنانچہ اس عرصہ میں جن ممتاز اور مشہور لوگوں کو اسلامی لٹریچر دیاگیا ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
۱۔
ہزایکسی لینسیSHICK) RENE ۔(SR پریذیڈنٹ نکرابوآ (NICRABUA) وسطی امریکہ۔
۲۔
ملٹری ایٹچی صاحب PROTOCOL) OF FEIHC( افسر رابطہ نکرابوآ۔
۳۔
ہزلیجسٹی JUANDEBOSTION) ۔(D جلاوطن بادشاہ سپین مقیم پرتگال۔
۴۔
سپین کے مشہور ڈاکٹر JIMENEZ CARLOS۔D وزیر اقتصادیات سپین۔
۵۔
ہزایکسی لینسی VILLABLE PEDROCUAL ۔D وزیراعظم پرتگال۔
۶۔
‏SALAZAR OLIVIERA MIS ANTO۔D پریذیڈنٹ رائل اکیڈیمی فزیکل سائنس۔
۷۔
سیکرٹری پرسن ایسوسی ایشن۔۱۰۷]4 [rtf
۸۔
سابق وزیرخارجہ سپین ARTAJO MARTIN ALBERTO۔D ۱۰۸
۹۔
‏ BENEYTO JUAN۔D پریذیڈنٹ کونسل آف پریس سپین۔
۱۰۔
‏ SHDIDOVAL FELIPEXIMENEX۔D
۱۱۔
لیفٹیننٹ جنرل CASALOJA DE CON SR
۱۲۔
لیبر یونین کے وزیر RAMAL GAREIS EMIGNE۔D
۱۳۔
ہزایکسی لینسی جنرل فرانکو صدر مملکت سپین مع وزراء کونسل BAHAMONDE FRANCO FRANCISCO۔D SR, E,۔S
۱۴۔
پریذیڈنٹ فرانس ہزایکسی لینسی موسیوجارج پومپیڈو POMPIDO) (GEORGE۱۰۹
ان شخصیتوں نے اسلامی لٹریچر کے مہیا کئے جانے پر نہ صرف شکریہ ادا کیا بلکہ اس کا دلچسپی سے مطالعہ کرکے نہایت عمدہ تاثرات کا اظہار کیا۔ مثلاً لیبر یونین کے وزیر RAMAL) GAREIS EMIGNE ۔(D نے >اسلامی اصول کی فلاسفی< >کمیونزم اینڈ ڈیموکریسی< >اسلام کا اقتصادی نظام< >پیغام امن اور ایک حرف انتباہ< کی نسبت لکھا-:
>میں خط کا جواب دیر سے دے رہا ہوں۔ کیونکہ نیا چارج لینے کی وجہ سے بے حد مصروفیت رہی ہے۔ لیکن یہ کتب پڑھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ کچھ دن ہوئے میں نے کتب پڑھ لی ہیں۔ آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کتب علوم روحانی کا خزانہ ہیں اور انتہائی دلچسپ ہیں۔ آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔۱۱۰
سربراہ مملکت سپین کے نام تبلیغی مکتوب
مبلغ اسلام مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے ماہ فتح/دسمبر ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء میں مملکت سپین کے سربراہ ہزایکسی لینسی جنرل فرانکو کی خدمت میں ایک اہم تبلیغی مکتوب لکھا جس میں اسلام اور احمدیت کے اہم بنیادی عقائد کا خلاصہ بیان کیا۔ اور آخر میں انہیں آنحضرت~صل۱~ کے فرزند جلیل مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لانے کی دعوت دی۔
صدر مملکت جنرل فرانکو نے اس مکتوب کے موصول ہونے پر ۲۴۔ دسمبر ۱۹۶۹ء کو شکریہ کا خط لکھا۔
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا مبارک سفر سپین
۲۵۔ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کا دن سپین کی پوری تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ اس روز آنحضرت~صل۱~
کے فرزند جلیل سیدنا احمد المسیح الموعود کا تیسرا خلیفہ راشد مغربی افریقہ کے نہایت درجہ کامیاب اور بے شمار برکتوں سے معمورر دورہ سے واپسی پر لنڈن سے بذریعہ ہوائی جہاز سپین کے دارلحکومت میڈرڈ )ماترید( میں رونق افروز ہوا۔ ۱۱۱
اس مبارک سفر میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید` چوہدری ظہوراحمد باجوہ`۱۱۲ پروفیسر چوہدری محمدعلی صاحب ایم۔ اے`۱۱۳ بشیراحمد خاں صاحب رفیق۱۱۴ اور محمد سلیم صاحب ناصر کو بھی حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔۱۱۵
جناب بشیراحمد صاحب رفیق کا بیان ہے کہ-:
>ہوائی جہاز میں یہ سفر قریباً دو گھنٹے میں طے ہوا۔ جوں جوں میڈرڈ قریب آتاگیا حضور کی طبیعت میں ایک اضطراب کی سی کیفیت نظرآنے لگی۔ میڈرڈ کا ہوائی اڈہ نظروں کے سامنے آیا تو حضور نے پیچھے مڑکر فرمایا-:
>مجھے تو طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کیا تم کو بھی سنائی دے رہی ہیں۔<۱۱۶
حضور نے اس سرزمین کو )جس کا ذرہ ذرہ مسلمانوں کی شوکت رفتہ اور عظمت پارینہ کا وائمی نشان اور ان کی عبرت ناک شکست اور الم انگیز پسپائی پر خون کے آنسولارہا ہے( قریباً ایک ہفتہ تک اپنے مبارک قدموں سے برکت بخشی۔
حضور کے اس مبارک سفر سپین کی تفصیلات تو خلافت ثالثہ کے عہدمبارک کی تاریخ میں بیان ہوں گی یہاں ہمیں مختصراً صرف اس قدر بتانا ہے کہ حضور انور پہلے دو روز میڈرڈ )ماترید( میں قیام فرمارہے بعدازاں دوسرے تاریخی مقامات قرطبہ` غرناطہ اور طلیطلہ کی طرف تشریف لے گئے۔
قرطبہ میں ورودمسعود
چنانچہ حضور مع قافلہ ۲۷۔ ہجرت / مئی کی صبح کو میڈرڈ سے روانہ ہوکر شام کے وقت قرطبہ پہنچے۔۱۱۷ حضور کا قیام میلیا (MELIA) ہوٹل میں تھا۔ مختصر وقفہ کے بعد حضور شام کو مسجد قرطبہ میں تشریف لے گئے۔ اس موقع پر حضور کے پر انوار اور خدانما چہرہ کی زبردست مقناطیسی اور روحانی کشش کے بعض عجیب اثرات دیکھنے میں آئے۔ ایک تو یہ کہ جب حضور پہنچے تو قرطبہ کالج کے ایک پروفیسر پہلے ہی موجود تھے جو حضور کے رخ مبارک سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ازخود مسجد دکھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کردیں۔ دوسرے یہ کہ محراب کے گرد لوہے کا جنگلہ لگاہوا تھا اور کسی کو محراب کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی مگر مسجد کے عیسائی محافظ نے بغیر کسی درخوات کے بلاتاتل حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور جنگلہ کے اندر محراب میں تشریف لے چلیں اور ساتھ ہی آہنی جنگے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ محراب میں داخلے کا نظارہ نہایت دردناک تھا۔ حضور تو مجسم دعا بنے ہی ہوئے تھے قافلہ کے باقی تمام افراد پر بھی رقت طاری تھی۔ حضور نے محراب میں کھڑے ہوکر نہایت الحاح وزاری سے دعا کی۔
غرناطہ میں آمد
حضور نے قرطبہ میں دعائوں سے معمور ایک شب گزارنے کے بعد اگلے روز علی الصبح مسجد قرطبہ اور قرطبہ کے مشہور محل >القصر< کو دوبارہ ملاخطہ فرمایا اور پھر غرناطہ۱۱۸ روانہ ہوئے اور شام کو غرناطہ پہنچے۔ حضور کا قیام قصر >الحمراء< کے ایک حصہ )یعنی غرناطہ پیلس ہوٹل( میں تھا۔ اگلے روز حضور نے الحمراء کا پرشکوہ محل دیکھا۔۱۱۹
شوکت اسلام کیلئے حضور کی پرسوز دعائیں اور ان کی قبولیت پرآسمان بشارت
حضور انور نے لندن سے سپین کے لئے روانگی کے وقت سے ہی اپنے پیارے رب کے حضور پرسوز دعائوں کا جو خاص سلسلہ شروع کر
رکھا تھا وہ غرناطہ میں نقطہ عروج تک پہنچ گیا۔ اور غرناطہ ہی میں رب جلیل نے اپنے پاک الہام سے ان کی قبولیت کی بھاری بشارت عطا فرمائی۔ اس ایمان افروز واقعہ کی تفصیل امیرالمومنین سیدنا حضرت فاتح الدین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا-:
>میں بہت پریشان تھا۔ سات سوسال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ اس وقت کے بعض غلط کارعلماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا۔ ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمد مسلمان ہوئے۔ وہاں جاکر شدید ذہنی تکلیف ہوئی۔ غرناطہ جو بڑے لمبے عرصہ تک دارالخلافہ رہا` جہاں کئی لائبریریاں تھیں` یونیورسٹی تھی` جس میں بڑے بڑے پادری اور بشپ مسلمان استادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے مسلمان وہاں سے مٹا دیئے گئے۔ غرض اسلام کی ساری شان و شوکت مادی بھی اور روحانی بھی اور خلاقی بھی مٹادی گئی ہے۔ طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیاکہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے درودیوارے درود کی آوازیں اٹھتی تھیں آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں۔ طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا۔ چنانچہ میں نے ادارہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تاکہ کچھ تو کفارہ ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے۔ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لاالہ الا انت اور لا الہ الا ھو پڑھ رہا تھا۔ یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے۔ تب میں نے سوچا کہ اصل تو توحید ہی ہے۔ حضرت نبی اکرم~صل۱~ کی بعثت بھی قیام توحید کے لئے تھی۔ میں نے فیصلہ تو درست کیا تھا یعنی یہ کہ مجھے کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں لیکن الفاظ خود منتخب کرلئے تھے درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے زیادہ مقدم ہے۔ چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا۔
ہم غرناطہ میں دو راتیں رہے۔ دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر کھل جاتی اور میں دعا میں مشغول ہوجاتا۔ ساری رات میں سو نہیں سکا۔ ساری رات اسی سوچ میں گزرگئی کہ ہمارے پاس مال نہیں یہ بڑی طاقتور قومیں ہیں۔ مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں` وسائل نہیں ہیں` ہم انہیں کس طرح مسلمان کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہوکر حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی خادم بن جائیں گی۔ یہ بھی اقوام عالم میں سے ہیں یہ کس طرح اسلام لائیں گی اور یہ کیسے ہوگا؟ غرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی حال رہا۔ چند منٹ کے لئے سوتا تھا پھر جاگتا تھا۔ پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا۔ ایک کرب کی حالت میں میں نے رات گزاری۔ وہاں دن بڑی جلدی چڑھ جاتا ہے۔ میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو یکدم میرے پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہوگئی-:
ومن یتوکل علی اللہ فھوحسبہ ان اللہ بالغ امرہ قد جعل اللہ لکل شئی قدرا )الطلاق آیت ۴(
اس بات کا بھی جواب آگیا کہ ذرائع نہیں کام کیسے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر توکل رکھو اور جو شخص اللہ پر توکل رکھتا اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ اس کے لئے کافی ہے۔ ان اللہ بالغ امرہ۔
اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بناتا ہے اسے ضرور پورا کرکے چھوڑتا ہے اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہئے یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ یہ نہیں ہوسکتا یہ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کی وحدت اسلامی کے اندر جکڑدیا جائے اور حضرت نبی کریم~صل۱~ کے پائوں میں لاکر کھڑا کردیا جائے۔
دوسرا یہ خیال تھا اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدایا یہ ہوگا کب؟ اس کا جواب بھی مجھے مل گیا۔
قد جعل اللہ لکل شئی قدرا
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے جس وقت وہ وقت آئے گا ہوجائے گا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مادی ذرائع اگر نہیں ہیں تو تم فکر نہ کرو اللہ کافی ہے وہ ہوکر رہے گا۔ چنانچہ میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہوگئی۔<۱۲۰
غرناطہ سے طلیطلہ تک
حضور انور غرناطہ میں دو روزہ قیام کے بعد طلیطلہ ۱۲۱ تشریف لے گئے طلیطلہ میں اب تک چار قدیم مساجد باقی ہیں جو سپینن کے نیشنل ٹرسٹ کی تحویل میں ہیں۔ ان مساجد میں وہ چھوٹی سی مسجد بھی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں طارق بن زیاد نے اس سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلی نماز پڑھی تھی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے طلیطلہ کی اس تاریخی مسجد میں دعا کی۔ حضرت اقدس جب دعا کے بعد مسجد کے قریبی دروازہ سے گزرکر باہر تشریف لائے تو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بتایا کہ یہ وہ دروازہ ہے جو مسلمانوں کے دور حکومت کے خلیفہ کے لئے مخصوص تھا۔۱۲۲
دورہ طلیطلہ کی ایک بھاری خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سپین میں اسلام اور مسلمانوں کو گم گشتہ عظمت و شوکت کی بازیابی کے لئے ایک خاص سکیم بھی تجویز فرمائی جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب بھی سپین میں تشریف لے جاچکے ہیں۔
حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲۔ احسان/جون ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء میں اس خاص سکیم کی طرف اشارہ کرتے اور اس کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا-:
>سپین کے متعلق میں ایک اور کوشش کررہا ہوں جس کو ظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں لیکن جس کے لئے دعا کرنا آج ہی ضروری ہے۔ اس لئے بڑی کثرت سے یہ دعا کریں کہ جس مقصد کے لئے میں سپین گیا تھا اور جس کے پورا ہونے کے بظاہر آثار پیدا ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کردے کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ہیں۔ پھر وہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے بڑی خوشی کا دن ہوگا۔ بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے بعض پہچانیں گے یہ ان کی بدقسمتی ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے خوشی کا دن ہوگا۔<۱۲۳
مراجعت
حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالٰی طلیطلہ کی یادگار مسجدوں کو دیکھنے اور دعا کرنے کے بعد شام کو واپس میڈرڈ پہنچے اور اپنی نیم شبی دعائوں اور اشکبار اور پرنم آنکھوں سے آسمان پر مسلم سپین کی ایک بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد یکم ماہ احسان/جون ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو میڈرڈ سے بذریعہ ہوائی جہاز لنڈن تشریف لے گئے اور یہ مبارک سفر بخیرو خوبی اختتام پذیر ہوا۔
حضرت امیرالمومنین کے انٹرویو کی اشاعت میڈرڈ کے مشہور اخبار میں
اگرچہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ سپین نہایت مختصر تھا تاہم ہسپانوی پریس میں حضورانور کی آمد کا خوب چرچا
ہوا۔ چنانچہ میڈرڈ کے ایک کثیرالاشاعت اخبار پوایبلو (PUEBLO) نے اپنی ۲۔ جون ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں حضور کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا جس کا ترجمہ درج ذیل کیاجاتا ہے۔
اسلام کے ایک شہزادے کا میڈرڈ میں ورودمسعود
>مجھے اپنی زندگی بھر میں ایک زندہ مجسمہ کے اتنا قریب ہونے کا موقعہ نہیں ملا جتنا آج حضرت امام جماعت احمدیہ سے مل کر نصیب ہوا۔ حضرت اقدس کا نورانی چہرہ دیکھ کر میں ورطئہ حیرت میں پڑگیا۔ میں جو میڈرڈ میں دینوی مشاغل اور لہوولعب میں مصروف زندگی دیکھنے کا عادی ہوں مجھے حضرت امام جماعت احمدیہ کے ساتھ جو دس ملین جماعت کے روحانی مقتدار ہیں ان سے بات کرنے کے لئے کافی ذہنی تیاری کی ضرورت پیش آئی۔ ہوٹل ہلٹن کے جس کمرے میں حضور تشریف رکھتے ہیں خوشبو سے معطر تھا۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی حضور اقدس کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی نظر نے مجھ پر اثر کیا میں اس کی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
جماعت احمدیہ جو دنیائے اسلام کا ایک جدید فرقہ اور زبردست منظم تبلیغی اور فعال جماعت ہے۔ ان کے افراد کی تعداد دس ملین ہے۔
حضور اقدس کا نام حضرت مرزا ناصراحمد ہے۔ حضور اس جماعت کے امام ہیں جو اسلام میں ایک نیا فرقہ ہے اور زبردست منظم تبلیغی اور فعال جماعت ہے جو اس صدی میں ظاہر ہوئی۔ یہ دس ملین کی جماعت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس جماعت کے متعلق مشہور ہے کہ عیسائیت کا یہی ایک جماعت )خصوصاً( افریقہ میں مقابلہ کررہی ہے۔
میں اس پراثرشخصیت اور بزرگ مقدس ہستی ہے جن کی سفیدریش مبارک اور سفیدعمامہ میں تقدس کا نشان پایاجاتا ہے گفتگو کے نیاز حاصل کرتاہوں۔ میں اس حقیقت کا دلی طور پر اظہار کرتاہوں کہ حضور اقدس کا وجود حقانیت کا زندہ ثبوت ہے۔
ہم سب برابر ہیں
جماعت احمدیہ اور باقی مسلمانوں میں بنیادی عقائد کا کوئی فرق )نہیں( ان کے لئے قرآن کریم کامل کتاب اور اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے جس سے عقائد صحیحہ` اعلیٰ کامل اصول اور احکامات کا روحانی چشمہ بہتا ہے جس کی تعلیم سب مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام کی تعلیم غیر متبدل ہے۔ خدا تعالیٰ کو واحد مانتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کے تثلیث کے عقیدہ کو نہیں مانتے اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان براہ راست تعلق قائم کرتا ہے۔ اسلام میں خدا تعالیٰ کو اللہ کہتے ہیں۔ حضرت امام جماعت احمدیہ کے خیالات اور افکار میں انسانیت کے لئے گہری ہمدردی اور محبت کے جذبہ کا نمایاں اثر پایا جاتا ہے۔ بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی اور سچی محبت اس امر میں اسلام اور عیسائیت کی تعلیم )میں( کوئی فرق نہیں۔
اسلام کا پیغام محبت کا پیغام ہے
فرمایا۔ ہم نے اپنے مبلغوں کے ذریعہ اس محبت کا پیغام اہل افریقہ تک پہنچایا۔ ہم نے کئی لاکھ دلوں کو فتح کرلیا ہے۔
سوال-: دنیا میں بدامنی` قتل و غارت کا جو فساد برپا ہے اس کا کیا علاج ہے؟
جواب-: دنیا میں انشاء اللہ امن وسلامتی کا نظام قائم ہوکررہے گا۔ دنیا کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں کہ سچی محبت کا پیغام ناکام ہوا ہو محبت کا پیغام ہمیشہ ہی کامیاب ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان انسان سے محبت کرنا سیکھے اور حقیقی ہمدردی سے پیش آئے۔
سوال-: آپ کے نزدیک امن و انصاف کی کیا تعریف ہے؟
جوابiq]-: gat[ امن و امان اور ظلم و تعدی دو متضاد چیزیں ہیں۔ دنیا میں کئی لوگ امن قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ ظلم اور بے انصافی سے کام لیتے ہیں اور اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ وہ دل سے حقیقی طور پر دنیا میں امن قائم کرنا نہیں چاہتے۔ جب میں امن و سلامتی کے الفاظ استعمال کرتا ہوں تو دل سے حقیقی طور پر امن و سلامتی کا خواہش مند ہوں۔
افریقہ کے باشندے ہمارے متعلق سچی گواہی دے سکتے ہیں کہ ہم دنیا میں سچے دل سے امن و سلامتی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پچاس سال کے عرصہ میں جب سے ہم نے وہاں مشن کھولے ہیں ہم وہاں سے ایک پائی تک بھی نہیں لائے۔ ہم نے ہزاروں پونڈ اہل افریقہ کی بہتری اور بھلائی کے لئے خرچ کئے ہیں۔ افریقہ کے احمدی احباب کا غیر ازجماعت احباب پر نہایت ہی اچھا اثر پڑا ہے۔ وہ محض ان کے نیک نمونہ کی وجہ سے ہے۔
آخری سالوں میں جماعت احمدیہ نے ڈنمارک` سوئٹزرلینڈ` جرمنی` ہالینڈ وغیرہ میں اپنی مسجدیں بنائی ہیں۔ میڈرڈ میں بھی ایک چھوٹی سی جماعت موجود ہے۔ ان کا اپنا مشن کھلا ہوا ہے۔ یہ آخری گفتگو ہے جو حضرت امام جماعت احمدیہ سے کرسکا۔ مجھے بتایا گیا کہ پاکستانی سفیر نے بلایا ہے۔ اسی طرح آپ ساتھ والے کمرے میں داخل ہوگئے اور خوشبو کی دلربا مہک اور اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔<۱۲۴
احمدیہ مسلم مشن سپین رجسٹرڈ ہوگیا
خلافت ثالثہ کے مبارک دور کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ ۱۳۳۹ہش/۱۹۷۰ء سے حکومت سپین نے >احمدیہ مسلم مشن سپین< کو باقاعدہ رجسٹرڈ کرلیا ہے جس کے بعد اب پولیس کی طرف سے کڑی نگرانی اور بے وجہ تنگ کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے اور تبلیغ اسلام پر بھی اب قانوناً کوئی پابندی نافذ نہیں ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک۔۱۲۵
دارالتبلیغ سپین کی شاندار خدمات پر ایک طائرانہ نظر
احمدیہ مشن نے اس وقت تک اسلام کی جو شاندار خدمات انجام دیں ان سے اس ملک میں اسلام کا مستقبل صاف طور پر روشن نظر آنے لگا ہے جس کا بھاری ثبوت یہ ہے کہ چرچ کی اسلام کے خلاف جاری شدہ نفرت کی ظالمانہ مہم آہستہ آہستہ بے اثر ہوتی جارہی ہے اور قلوب واذہان میں آنحضرت~صل۱~ اور قرآن مجید اور مسلمانوں سے نفرت و حقارت کے خیالات و جذبات میں بتدریج نمایاں کمی واقع ہورہی ہے اور ان کی جگہ روا داری اور محبت نے لینی شروع کردی ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا جبکہ سپین کا ملکی پریس اسلام اور مسلمانوں کو نظر انداز کردیتا تھا مگر اب پریس کا رجعت پسندانہ انداز فکر و طرز عمل بھی بدل رہا ہے۔ اس خوشگوار تغیر و تبدل کا ایک نمونہ بارسیلونہ کے ہفتہ وار رسالہ REVISTA کا وہ مفصل مضمون بھی ہے جو اس نے اپنی ۱۹ تا ۲۵۔ جولائی ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں شائع کیا۔۱۲۶
یہ مضمون چونکہ اسلام سے متعلق سپین کے موجودہ بدلتے ہوئے رجحانات کی ایک واضح تصور پیش کرتا ہے اس لئے اس کے ایک حصہ کا ترجمہ دیا جانا ضروری ہے۔ اخبار مذکور نے >کرم الٰہی ظفر مبلغ اسلام< کے جلی عنوان سے لکھا-:
>احمدیت کے بنیادی اصول سمجھنے مشکل نہیں ہیں ہاں ہمارے لئے ان کا قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ یورپ کو زیادہ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ سب اقتدار ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہمار مقصد صاف ہے جیسا کہ گزشتہ وقتوں میں دہرایا جاچکا ہے۔ کیا مشرقی ہی ہمیں اخلاق حسنہ سکھائے؟ ہوسکتا ہے مشرق ہی ہمیں آکر اخلاق حسنہ سکھائے جبکہ TOYNBEE کہتا ہے کہ آخر میں یہ دو متوازی تمدن اکٹھے ہوجائیں گے۔ BERTRAND RUSSELL کہتا ہے کہ یورپ اپنی مادہ پرستی کی وجہ سے اپنی تہذیب کا گلاگھونٹ رہاہے اس لئے خیال گزرتا ہے کہ شاید یہ سچ ہی ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ انتہائی ضلالت اور خوفناک مصائب کے اندر ایک نیا تہذیب و تمدن جنم لے رہا ہے ہمیں اس کو اس کی علامات سے پہچاننا چاہئے تاکہ انسان کا حقیقی وقار و عزت قائم ہو۔<
‏tav.11.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
افریقہ اور مشرق وسطی کے مسلمان سفیروں کو پیغام حق
سپین مشن کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ سپین سے باہر افریقہ اور مشرق وسطی تک وسیع ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس مشن کی طرف سے سفیر مصر )مصطفیٰ لطفیٰ( سفیرشام )نشاۃ الجسی( سفیرمراکو` نمائندہ لیبیا` نمائندہ الجزائر` نمائندہ موری طانیہ کو` >اسلامی اصول کی فلاسفی< )عربی( >اسلام کا اقتصادی نظام< )عربی(۔ >نحن مسلمون< )عربی(۔ >سفینہ نوح< >دعوت احمدیت و غرضہا< اور دیگر کتب اور پمفلٹ پیش کئے گئے۔ ان ممالک کے سفارتی عملہ کے باقی ممبروں کو بھی سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کے لئے دیاگیا اور >لما اعتقد الاسلام< کی وسیع تقسیم کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں انور سادات )صدر مصر(۔ بومحی الدین )صدر الجزائر(۔ حسن ثانی )والی مراکش(۔ حبیب بورقبیہ )صدر ٹیونس(۔ میجر جنرل جعفرنمیری )صدر سوڈان(۔ کرنل قزافی )صدرلیبیا(۔ جنرل حافظ الاسد )صدر شام( کو بھی >فلسفہ اصول الاسلامیہ<۔ >نظام الاقتصادفی الاسلام<۔ >سفینہ نوح<۔ >دعوۃ احمدیت و غرضہا< وغیرہ عربی لٹریچر بھجوایاگیا۔
احمدیہ مشن کی کوششوں کا یہ بھی نتیجہ ہے کہ خدا کے فضل سے مراکو کے دو تعلیم یافتہ مسلمان محمدﷺ~ بن عیسیٰ CENTA) شمالی افریقہ مقبوضہ سپین( اور احمد عروشی )ربط( حلقہ بگوش احمدیت ہوچکے ہیں۔
احمدیہ مشن کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہونیوالوں کے اسماء
احمدیہ مشن کے ثمرات و نتائج کا اندازہ اس سے لگ سکتاہے کہ سرکاری پابندیوں اور کیتھولک چرچ کی پر زور مخالفت کے باوجود وسط احسان/جون ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء سپین کے مندرجہ ذیل )۲۹( انتیس افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔
فہرست
اسلامی نام
ہسپانوی نام
۱۔ مکرم محمدﷺ~ احمد صاحب آف استھونیا
‏KUZMIN EURIQUE SR
۲۔ مکرم انوراحمد صاحب
‏BUENO MANNEL SR
۳۔ مکرم اجمل احمد صاحب
‏MIRANDA MIGUEL SR
۴۔ مکرم بشیراحمد صاحب )ڈاکٹر(
‏CARENO LUIS SR
۵۔ مکرم فلاح الدین صاحب
‏ARROYO JCLIPE JESUS SR
۶۔ مکرم مبارک احمد صاحب
‏CHICARANDA FERNANDO SR
۷۔ مکرم عطاء اللہ ناصر صاحب
‏LAGUNA IGLESIA ANTONIO SR
۸۔۹ مکرم سعیداحمدصاحب وسعیدہ صاحبہ
‏NARES COLME CARLOS SRS
۱۰۔ مکرم عبداللطیف صاحب
‏DEVAL LUIS SR
۱۱۔ مکرم بشیرالدین صاحب
‏CARBALLO VICENTE SR
‏]ni [tag۱۲۔ مکرم عبدالرحیم صاحب بارسلونہ
‏ABAD JOSE SR
۱۳۔ مکرم انیس عبدالباقی صاحب غرناطہ )وکیل(
‏ALBERDI SR
۱۴۔ مکرم منصوراحمد صاحب
‏GARZON MARIA JOSE SR
۱۵۔ مکرمہ نصیرہ صاحبہ )جرمنی میں فوت ہوگئیں(
‏CARMEN TA SR
۱۶۔ مکرم سیف الاسلام صاحب
‏PRELLEZO BUENO MANUEL SR
۱۷۔ مکرم عبدالسلام صاحب وناصرہ صاحبہ
‏(CEUTA) CASTILLOS FMILIO SRS
۱۸۔ مکرم ظفراللہ صاحب
‏POZO FRANCISCO SR
۱۹۔ مکرمہ امتہ اللہ صاحبہ )اہلیہ(
۲۰۔ مکرم عطاء المنان صاحب
‏GARCIA MORENO ANGEL SR
۲۱۔ مکرم بشارت الرحمن صاحب
‏DUCHEN FRANCISCO SR
۲۲۔ مکرمہ منصورہ عائشہ صاحبہ
‏RIO CARMENDEL SRTA
۲۳۔ مکرم محمدﷺ~ احمد صاحب
‏GARCTA XAVIERICARTI SR
۲۴۔ مکرم عبدالواحد محمود صاحب
‏CORDOBA DE EDUARDO SR
۲۵۔ مکرم عبدالاحد ناصر صاحب
‏UOJERRBA FERNEMDO SR
۲۶۔ مکرم منورہ احمد صاحب
‏ALVAREZ BRIZ VICENTE SR
۲۷۔ مکرم عبدالحی صاحب واہلیہ صاحبہ
‏SINDO RESTITUTO SR
۲۸۔ مکرم بشیراحمد صاحب
‏GOUZALEZ REQUENA JOSE SR
۲۹۔ مکرم نورالحق صاحب
‏SEQUI MIGUEL SR
سپین کی نسبت حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی پرشوکت پیشگوئی
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے سپین کے مستقبل کی نسبت ایک نہایت پرشوکت پیشگوئی ماہ احسان/جون ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو فرمائی جس کو درج کرکے سپین مشن کے حالات وکوائف ختم کئے جاتے ہیں۔ حضور نے ارشاد فرمایا-:
>ہم مسلمان سپین میں تلوار کے ذریعہ داخل ہوئے اور اس کا جو حشر ہوا وہ ظاہر ہے۔ اب ہم وہاں قرآن لے کر داخل ہوئے ہیں اور قرآن کی فتوحات کو کوئی طاقت زائل نہیں کرسکتی۔<۱۲۷
فصل سوم
صقلیہ )سسلی( میں اشاعت اسلام
صقلیہ اٹلی کے نچلے حصہ میں ایک جزیزہ ہے جہاں یورپ میں سپین کے بعد دوسرے نمبر کی اسلامی حکومت قائم تھی اور جس کے ذریعہ مسلمانوں کی ہسپانوی سلطنت کے خاتمہ کے بعد بھی قریباً دو صدیوں تک پوری شان و شوکت سے اسلام کا جھنڈا لہراتا رہاتھا۔ صقلیہ کے اسلامی دور میں بکثرت اصحاب فضل وکمال پیدا ہوئے جو اپنے علم وفن میں ہسپانوی علماء کے ہم پلہ` نابغتہ الدہر اور یکتائے روزگار تھے اور یہ جزیزہ ہر قسم کی اسلامی یونیورسٹیوں کا مرکز تھا لیکن افسوس جو دردناک حشر ہسپانوی مسلمانوں کا ہوا وہی اس خطہ کے برگشتہ نصیب مسلمانوں کا ہوا۔ ۴۸۴ھ / ۹۲۔۱۰۹۱ء میں عیسائی بادشاہ راجر اول نے صقلیہ کے آخری مسلمان تاجدار ابن البعباع کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مسلمان عیسائی حکومت کی رعایا قرار پائے۔ ۶۴۷ھ / ۵۰۔۱۲۴۹ء میں فریڈرک نے تمام صقلوی مسلمانوں کو اٹلی کے علاقہ )بوجارہ( نوسیرا میں جلاوطن کردیا مگر یہاں عیسائی بادشاہوں نے ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور یہ غریب اور نہتے مسلمان ناقابل برداشت تکالیف برداشت کرتے کرتے بالاخر جبراً عیسائی بنالئے گئے۔ ۷۰۰ھ / ۱۳۰۰ء میں یہ پورا علاقہ اسلام کے نام لیوائوں سے خالی ہوگیا۔<۱۲۸
حضرت مصلح موعود کا عزم بالجزم
حضرت مصلح موعود نے جب اندلس اور صقلیہ میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ اور پھر ان کے اخراج کی دردناک تاریخ پڑھی تو آپ نے مصمم ارادہ کیا کہ ان علاقوں میں ضرور احمدی مبلغین بھجوائیں گے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
>اگر کوئی مسلمان مردہ دل ہو تو اور بات ہے ورنہ ایک غیرت رکھنے والے مسلمان کے دل پر ان حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو زخم لگتے ہیں ان کے اندمال کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی سوائے اس کے کہ وہ اپنا خون دل پیتا رہے ۔۔۔۔ جب میں نے یہ حالات تاریخوں میں پڑھے تو میں نے عزم کیاتھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی تو میں ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنے مبلغین بھجوائوں گا جو اسلام کو دوبارہ ان علاقوں میں غالب کریں اور اسلام کا جھنڈا دوبار اس ملک میں گاڑدیں۔<۱۲۹
مبلغین اسلام کا سسلی میں ورود
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی اس دیرنیہ خواہش کی تکمیل کے لئے ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل اور مولوی محمد عثمان صاحب حضور کے حکم پر ۱۴۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو لنڈن سے اٹلی اور صقلیہ کے لئے روانہ ہوئے۔۱۳۰
یہ پہلے مبلغین تھے جو جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد یورپ کی روحانی فتح کے لئے لنڈن سے بھجوائے گئے۔۱۳۱ ان مبلغین نے کچھ وقت فلارنس )اٹلی( میں پیغام حق پہنچایا بعدازاں مسینہ )سسلی( کو اپنا مرکز بناکر اشاعت اسلام کی مہم کا آغاز کردیا۔۱۳۲ جس کے نتیجہ میں یہاں ایک حرکت سی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ اٹلی اور سسلی کے پریس۱۳۳ میں اسلام کا چرچا ہوا اور ان کے متعلق مضامین شائع کئے بلکہ بعض لوگوں نے قبول اسلام کی سعادت بھی پائی۔ مجاہدین اسلام کی تبلیغی سرگرمیاں ابھی بالکل ابتدائی حالت میں تھیں کہ سسلی کی کتھولک حکومت نے ان کو ملک میں مزید قیام کی اجازت دینے سے انکار کردیا جس پر پہلے مولوی محمد عثمان صاحب آخر ستمبر ۱۹۴۷ء میں مسینہ کو خیربار کہہ کے فلارنس )اٹلی( چلے آئے پھر ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل بھی ۲۱۔ نومبر ۱۹۴۷ء کو جنیوا پہنچ گئے جہاں ان کا قیام ۱۳۔ جنوری ۱۹۴۸ء تک رہا۱۳۴ جس کے بعد آپ حضور انور کے حکم سے فری ٹائون )سیرالیون( میں تشریف لے گئے۔ آپ کو سیرالیون میں گئے ہوئے۔ تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ مولوی محمد عثمان صاحب بھی اعلائے حق کے لئے سیرالیون پہنچ گئے اور تبلیغ اسلام میں مصروف ہوگئے۔۱۳۵
سیدنا المصلح الموعودؓ کی طرف سے اظہار خوشنودی
اس تفصیل سے ظاہر ہے کہ صقلیہ میں اگرچہ مبلغین اسلام کا قیام نہایت مختصر تھا مگر اس قلیل سے عرصہ میں خدا کے فضل وکرم سے اسلام کا بیج بو دیاگیا۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود ان مبلغین کے سسلی میں پہنچنے پر کس درجہ مسرور محفوظ ہوئے۔ اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جب حضور کی خدمت میں مبلغین اٹلی کی طرف سے یہ خوشکن اطلاع پہنچی کہ پہلے دو روز میں ہی خدا کے فضل و کرم سے دو نفوس۱۳۶ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ہیں تو حضور نے انہی دنوں مجلس علم و عرفان میں اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
>صقلیہ کے لوگ آج کل اپنی آزادی کے لئے کوشش کررہے ہیں۔ اس علاقے کے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنایاگیا تھا لیکن امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ اب اپنے آبائی مذہب کو بالکل بدل گئے ہیں۔ صقلیہ میں رہنے والوں میں سے لاکھوں ایسے ہیں جو مخلص` دیندار اور پرہیزگار مسلمانوں کی اولادیں ہیں ان کے آبائواجداد اسلام کے فدائی اور بہت مثقی لوگ تھے لیکن یہ لوگ اسلام سے بالکل غافل ہیں اور عیسائیت کو ہی اپنا اصلی مذہب سمجھتے ہیں۔ میں نے اٹلی کے مبلغین کو لکھا کہ آپ اس علاقہ میں تبلیغ پر زور دیں` کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے آبائواجداد کی ارواح کی تڑپ اور ان کی نیکی ان کی اولادوں کو اسلام کی طرف لے آئے۱۳۷ پہلا خط ان کا جو مجھے پہنچا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم اب روم سے آگئے ہیں اور صقلیہ کی طرف جارہے ہیں۔ پھر ان کا دوسرا۱۳۸ خط مجھے پہنچا کہ ہم مسینہ میں پہنچ گئے ہیں۔ لوگ ہمارے لباس کو دیکھ کر جوق در جوق ہمارے اردگرد جمع ہوجاتے ہیں۔ ہم ان کو یہ وعظ کرتے ہیں کہ تمہارے باپ دادا تو مسلمان تھے تمہیں کیاہوگیا کہ تم اسلام سے دور چلے گئے ہو۔ اب دوسرا مسیح آگیا ہے آئو اور اس کے ذریعہ حقیقی اسلام میں داخل ہوجائو۔ تیسرا خط ان کا مجھے آج ملا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں کے دو نوجوان احمدی ہوگئے ہیں۔ دونوں بہت جوشیلے احمدی ہیں۔ احمدیت کی تبلیغ کا بہت جوش رکھتے ہیں۔ ایک کا نام ہم نے محمود رکھا ہے اور دوسرے کا نام ہم نے بشیر رکھا ہے۔ ان کا خط بھی مجھے آیا ہے جس میں انہوں نے بیعت کا لکھا ہے۔ ہمارے لئے یہ حالات خوش کن ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے کہ یہ دونوں ملک )سپین اور صقلیہ ناقل( ہمارے ذریعہ پھر اسلام کا گہوارہ بن جائیں۔< اس کے ساتھ ہی حضور نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ-:
>جہاں ہمارے مبلغین بیرونی ممالک میں تبلیغ کے لئے جارہے ہیں اور وہ ہماری طرف سے فریضہ تبلیغ ادا کررہے ہیں وہاں ہم پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ان کی امداد صحیح طور پر کریں۔ اور ان کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔ ہمارے مبلغین کا تو بیرونی ممالک میں یہ حال ہے کہ ان میں سے ایک یعنے ماسٹر محمد ابراہیم صاحب نے جنگل میں جاکر درختوں کے پتے کھا کر پیٹ بھرا اور دوسرے بھی نہایت تنگی کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں۔<۱۳۹
علاوہ ازیں حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ایک اہم مضمون بھی سپرد قلم فرمایا جس میں سسلی کے نومسلموں کے خطوط کا چربہ اور ترجمہ دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ۔
>یہ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے اسلام کی شوکت گزشتہ کو واپس لانے کے لئے ہماری جماعت کو قائم کیا ہے اور پھر ہمارے نوجوانوں میں اخلاص اور قربانی کی روح پیدا کی ہے اور آج ہم سپین اور سسلی دونوں جگہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔ الحمدللہ علے ذالک۔<۱۴۰
گو صقلیہ مشن نامساعد حالات کی وجہ سے جلد بند کردینا پڑا مگر یورپ میں قیام توحید سے متعلق خدائی بشارتوں کی بناء پر ہمیں یقین ہے کہ جلدیا بدیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے خدام ایک بار پھر اس علاقہ میں پہنچیں گے اور اس کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت قائم کرکے ہی دم لیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
فصل چہارم
سوئٹزر لینڈ مشن کا قیام
سوئٹزرلینڈ وسطی یورپ کا مشہور ملک ہے جو عیسائیت کی عالمگیر تبلیغی مہم میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس ملک میں درجن کے لگ بھگ ایسی مشنری سوسائٹیاں ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں عیسائیت کا پرچار کررہی ہیں۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اس ملک کے اٹھارہ سو کیتھولک پادری دنیا میں صلیبی مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے ساتھ جرمنی` فرانس` اٹلی اور آسٹریا کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس ملک کا بہتر فیصد علاقہ جرمن زبان بولتا ہے اور بقیہ حصہ میں فرانسیسی اور اطالوی زبان رائج ہے۔ یہ ملک اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر چونکہ بین الاقوامی اعتبار سے اسے ایک خاص مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے یہاں سے اٹھائی ہوئی آواز کا اثر ہمسایہ ممالک خصوصاً جرمنی پر بہت خوشگوار پڑتا ہے۔ وجہ یہ کہ سوئٹزرلینڈ کے اپنے پڑوسی ملکوں سے ہمیشہ گہرے اور عمدہ تعلقات رہے ہیں۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح المصلح الموعود کی دور رس نگاہ انتخاب نے ۱۳۲۵ھ/۱۹۴۶ء میں قلب یورپ کے اس اہم ملک کو بھی اشاعت اسلام کے لئے چنا اور اس میں مضبوط تبلیغی مرکز قائم کرنے کے لئے لنڈن سے شیخ ناصر احمد صاحب )چوہدری عبداللطیف صاحب۱۴۱ اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر ۱۴۲ کے ہمراہ( سوئٹزرلینڈ بھجوا دیا تا نہ صرف اس ملک میں پیغام حق پہنچایا جائے بلکہ جرمنی سے آنے جانے والوں میں بھی تبلیغ کا رستہ جلد کھل جائے اور جرمنی میں داخلہ کی اجازت ملتے ہی وہاں بھی احمدیہ مسلم مشن کھولا جاسکے۔
مجاہدین تحریک جدید کا یہ وفد ۱۰۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو لنڈن کے وکٹوریہ اسٹیشن سے بوقت دس بجے صبح بذریعہ گاڑی روانہ ہوا اور پیرس میں مجاہدین فرانس کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی اور مختصر قیام کے بعد ۱۳۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو دوپہر کے وقت سوئٹزرلینڈ کے مشہور شہر زیورچ پہنچا۔ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں اس کی اطلاع ۱۵۔ اخاء/اکتوبر کو سفر دہلی سے واپسی پر بذریعہ تار قادیان موصول ہوئی اور ان کا تذکرہ بھی حضور نے اسی شام مجلس علم و عرفان میں اول نمبر پر کیا نیز فرمایا۔
>جرمنی میں احمدیہ تبلیغی مشن قائم کرنے کے لئے بار بار کوشش کی گئی کہ احمدی مبلغین کو جرمنی میں جانے کی اجازت دی جائے مگر امریکہ نے بھی اور برطانیہ نے بھی اجازت نہیں دی۔ اس پر میں نے اپنے جرمنی جانے والے مبلغین کو ہدایت کی کہ وہ ہالینڈ چلے جائیں جو جرمنی کی سرحد پر ہے اور وہاں سے جرمنی میں بھی تبلیغ کی جاسکتی ہے مگر یہ کوشش بھی بہت لمبی ہوگئی۔ ہالینڈ کی گورنمنٹ کو برطانوی گورنمنٹ نے بھی توجہ دلائی مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ صورت بھی پیدا ہوتی نظر نہیں آتی تو میں نے یہ ہدایت بھجوائی کہ سوئٹزرلینڈ کا علاقہ ایسا ہے جہاں لوگوں کی حالت اچھی ہے اور جنگ کی وجہ سے وہاں سیاسی حالات اس قسم کے پیدا نہیں ہوئے کہ نازک صورت ہو اس لئے وہاں جانے کی کوشش کی جائے۔ چونکہ پہلے یہ بات تجربہ میں آچکی تھی کہ غیر ممالک کا سکہ مشکل سے ملتا ہے اٹلی کے مبلغ اس وجہ سے سخت تکلیف اٹھاچکے تھے اس لئے میں نے ہدایت کی کہ سوئٹزرلینڈ کا سکہ اتنا حاصل کرلیاجائے کہ کم از کم چھ ماہ گزارا ہوسکے اور پھر سوئٹزرلینڈ کو جائیں۔ سپین میں جانے کا راستہ خدا تعالیٰ نے اس طرح کھول دیا کہ وہاں ایک ہندوستانی رہتا تھا اس کے پاس کافی سکہ تھا اور وہ واپس آنا چاہتا تھا اسے انگریزی سکہ کی ضرورت تھی اتفاقاً وہ ہمارے مبلغین سے ملا اور اس نے کہا اگر تمہیں ضرورت ہو تو میرے پاس یہاں کے کافی سکے ہیں انگریزی سکہ سے تبادلہ کرلیں چنانچہ تبادلہ کرلیاگیا اور اس طرح سپین کے مبلغین کے ایک سال کے خرچ کا انتظام ہوگیا۔
اٹلی کے لئے کوشش کی گئی جس کا نتیجہ نکل چکاہو گزشتہ مہینوں کا خرچ ¶بھیجنے کی گورنمنٹ نے اجازت نہیں دی تھی اس لئے ہمارے مبلغین کو محنت و مشقت کرکے پیٹ پالنا پڑا۔ مگر اس طرح تبلیغ کا کام اچھی طرح نہ کرسکتے تھے اب انہیں خرچ بھیجنے کا انتظام ہوگیا ہے۔ اس تلخ تجربہ کی وجہ سے میں نے ہدایت کردی تھی کہ سوئٹزرلینڈ کے خرچ کا انتظام ہوسکے تو مبلغ جائیں۔ اب انتظام ہونے پر جرمنی جانے والا وفد سوئٹزرلینڈ چلاگیا ہے اور ایسی جگہ جاکر ٹھہرا ہے جو جرمنی کے سرحد پر ہے۔<۱۴۳
زیورچ میں احمدی مجاہدین کے ابتدائی چھ ایام
‏text] g[taشیخ ناصراحمد صاحب نے انچارج احمدیہ مشن سوئٹزرلینڈ کی حیثیت سے ابتدائی چھ ایام کی جو مختصر رپورٹ ۱۸۔ اخاء/اکتوبر بروز جمعہ مرکز میں بھیجی اس میں تحریر کیا کہ۔
>۱۳۔ اخاء بروز اتوار دوپہر ایک بج کر اٹھارہ منٹ کی گاڑی سے ہم تینوں )برادرم چوہدری عبداللطیف صاحب۔ برادرم مولوی غلام احمدبشیر صاحب اور خاکسار ناصراحمد( سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورچ پہنچے۔ گاڑی سے اترنے سے قبل ہم نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ وہ اپنی خاص قدرتوں اور طاقتوں کے ذریعہ ہمیں کامیاب فرمائے اور ہر قدم پر اس کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال ہو۔ تاہم اس نہایت ہی عظیم الشان ذمہ داری کو باحسن وجوہ ادا کرسکیں جس کا باروقف کے گراں قدر فریضہ نے ہمارے کمزور کندھوں پر رکھا ہے۔ سرزمین سوئٹزرلینڈ پر قدم رکھتے وقت خاموش دعا کی گئی اور نیک فال کے طور پر پہلا کلمہ تبلیغ حق کا اس نئی سرزمین کو مخاطب کرکے منہ سے نکالا کہ خدا ہماری آواز میں برکت رکھ دے اور ہمارا طرز تبلیغ نیک طبائع کی کشش کا موجب بنے۔ سامان کی پڑتال کرنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں گئے جس میں ابتدائی تین ایام کے لئے جگہ کا انتظام کیاتھا۔ سٹیشن اور ہوٹل کے درمیان چند سوگز کا فاصلہ تھا لیکن اس قلیل فاصلہ کے طے کرنے کے دوران میں بے شمار افراد ہمارے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ انہیں ہم اپنی پگڑیوں اور اچکنوں میں عجوبہ نظرآئے۔ اکثر نے اس لباس میں کسی انسان کو پہلی بار دیکھا ہوگا۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اور کہاں سے آئے ہیں؟ بعض ہنس دیتے۔ غرضکہ شہر میں قدم رکھتے ہی ہمیں ایک حیران اور ششدر پبلک کا سامنا کرنا پڑا۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا عوام کی حیرت کم ہوتی جائے گی لیکن ابھی ان کی حیرت کے بہت سے مواقع ہیں۔ کچھ وقت ہمیں زبان کی دقت سرکرنے کے لئے درکا ہے۔ ہم اپنے ساتھ دو قسم کے ٹریکٹ جرمن زبان میں طبع کراکرلائے ہیں جن میں اپنے آنے کی عرض` اسلام کی صداقت` حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تشریف آوری اور قبر میسح کا اعلان وغیرہ امور درج ہیں۔ ہم ابھی یہ ٹریکٹ تقسیم نہیں کررہے کیونکہ جب تک ہم ان کی زبان میں تفصیل کے ساتھ بات کرنے اور لٹریچر کی اشاعت کے لازمی نتیجہ کے طور پر پیش کئے جانے والے سوالات کا جرمن زبان میں جواب دینے کے قابل نہ ہوجائیں۔ اس وقت تک ان ٹریکٹوں کی اشاعت سے کما حقہ فائدہ نہیں ہوسکتا۔ امید ہے کہ انشاء اللہ العزیز جلد ہی ہم اس قابل ہوجائیں گے۔ وباللہ التوفیق ۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک بڑے بنک کے ایک ڈائریکٹر مسٹر آرنی کے ساتھ ہمارا غائبانہ تعارف ہوچکا تھا جو مکرم چوہدری سرمحمد ظفراللہ خاں صاحب کے ایک دوست کے دوست ہیں ہم اگلے روز ان سے ملے بہت خوش خلقی سے پیش آئے۔ ہم نے سب سے پہلے انہیں کسی مکان کا انتظام کرنے کے لئے کہا کیونکہ اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہماری یہی تھی بصورت دیگر یورپ کے اس حددرجہ گراں ملک میں جہاں دنیا بھر سے عموماً اور جنگ کے مصیبت زدہ یورپ سے خصوصاً لوگ تفریح کے لئے آتے ہیں ہمارا بہت خرچ ہورہا ہے اور اشیاء یہاں لندن سے بہت مہنگی ہیں۔ چائے کی ایک پیالی کی قیمت قریباً ۸ پنس ہے اور اسی نسبت سے ہوٹلوں اور دوسرے بورڈنگ ہائوسوں کے کرائے ہیں۔ مسٹر آرنی نے بتایا کہ زیورچ میں مکان ملنا بہت دشوار ہے تاہم وہ کوشش کریں گے۔
ہم ٹامس کک کے دفتر میں بھی گئے اور وہاں سے کچھ معلومات حاصل کیں اور بعض ضروری امور سرانجام دیئے۔ ۱۵۔ تاریخ کو برطانوی کونسل جنرل کے دفتر میں جاکر ہم نے اپنے نام رجسٹرڈ کرائے اور اس کے بعد شہر میں پھرتے رہے تا حالات کی واقفیت حاصل کریں ۔۔۔۔ ابھی ابھی جبکہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ہم شہر سے باہر جاکر نماز جمعہ ادا کرکے واپس آئے ہیں۔ ہم کسی کھلی جگہ کی تلاش میں دور نکل گئے۔ پہاڑیوں پر چڑھ کر چلتے چلتے جب کوئی جگہ نہ ملی تو جنگلات کا رخ کیا اور قریباً ۴/۱/۱ گھنٹہ کی تلاش کے بعد گھنے جنگلات میں بلند اور خوبصورت درختوں کے جھنڈ تلے جاکر ہم نے اذان کہی جو اس طور پر پہلی اذان ہوگی کہ نماز جمعہ کے لئے دی گئی۔ اس کے بعد ہم نے نماز ادا کی اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ وہ ہمیں اس علاقے میں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے۔ ہمیں یہ نماز جمعہ ہمیشہ یاد رہے گی۔ یہ ہماری بے کسی اور ابتدائی کمزور حالت کا نشان ہوگی۔ اور ہم اپنے خدا سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری عاجزانہ دعائوں کو ضرور قبول فرمائے گا اور ہمیں اپنے اعلیٰ اور مقدس نام کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے گا۔<۱۴۴
ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء تا آخر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کا زمانہ سوئٹزرلینڈ مشن کی داغ بیل کا زمانہ تھا جبکہ ملک میں بے سرو سامانی کے عالم میں نہایت مختصر پیمانہ پر تبلیغی جدوجہد کا آغاز کیاگیا جو بوجہ اجنبی ماحول کے گردوپیش کے حالات کے جائزہ لینے` رہائش کا انتظام کرنے اور غیر زبان سیکھنے اور پرائیویٹ ملاقاتوں میں پیغام حق پہنچانے تک محدود رہی۔۱۴۵ اس ابتدائی زمانہ میں مبلغین اسلام نے جن لوگوں کو تبلیغ اسلام کی ان میں )اینگوانڈین( ہیفیلی` مسٹرمڈسن` )ڈنمارک( مسٹرلیبرمین` مسز سٹمائل` مسٹر شیف اکنکٹ` مسزفلر` کیتھولک پادری شرانر` مسٹر ایگرمین` مسٹر برونر )زیورچ( یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر اور پروفیسر فارا بھی تھے۔ ان ملاقاتوں کے علاوہ مبلغین نے بعض تبلیغی خطوط بھی لکھے۔ مثلاً زیورک سے باہر سینٹ گالن سے ایک صاحب نے بذریعہ خط معلومات طلب کیں جن کو مفصل مکتوب لکھا۔ ایک روز انہیں یہودیوں کی ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ یہ سنکر حیران وششدر رہ گئے کہ کیا مسلمان مبلغ بھی اپنا دین پھیلانے کے لئے یہاں آنے کی >جسارت< کرسکتے ہیں۔ یہودیوں ہی کو نہیں اکثر سولیس باشندوں کو مبلغین اسلام کے آنے کی غرض معلوم کرکے حددرجہ حیرت ہوتی تھی اور وہ کہتے تھے کہ اسلام دنیا میں کیسے پھیل جائے گا۔ اسی زمانہ میں شیخ ناصراحمد صاحب سے ایک بڑے ڈاکٹر نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سوئٹزرلینڈ کے لوگ اسلام کو قبول کرلیتے ہیں۔ غرضکہ ان ابتدائی ایام میں لوگ احمدی مبلغین کی باتیں اکثر ہنسی میں اڑا دیتے تھے اور اس ملک میں اشاعت اسلام کو ناممکن تصور کرتے تھے۔
ٹریکٹ >قبر مسیح< کی اشاعت اور احمدی مبلغین کو ملک سے باہر نکالنے کی مسیحی سازش
کفر کی آنکھ بھی تیز ہوتی ہے۔ اگرچہ ان دنوں احمدیہ مسلم مشن اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے گزررہا تھا مگر چرچ نے شروع ہی میں بھانپ لیا کہ سوئٹزر لینڈ سے اٹھنے والی اسلام کی
بظاہر کمزور آواز صلیبی مذہب کے لئے مہیب خطرہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ جونہی مجاہدین اسلام نے >قبر مسیح< کے ٹریکٹ کی اشاعت شروع کی تو چرچ احمدی مبلغین کو ملک سے باہر نکالنے کی سازشیں کرنے لگا۔ یہ وقت مجاہدین کے لئے بہت صبرآزما تھا۔ ذیل میں شیخ ناصراحمد صاحب کے قلم سے اس کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔ شیخ صاحب نے ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کی رپورٹ میں لکھا۔
گزشتہ سال یہاں قبر مسیح کے اعلان پر مشتمل ٹریکٹ کی اشاعت کے نتیجہ میں مخالفت کا ایک غبار اٹھاتھا۔ سخت کلامی سے لبریز خطوط ہمیں آئے۔ اخبارات میں مضامین ہمارا مضحکہ اڑانے اور مشن کی مخالفت کی غرض سے لکھے گئے۔ پادری طبقہ بالخصوص بوجہ اپنی نوعیت۱۴۶ کے ہمارا مخالف ہوگیا۔ چنانچہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک پادری صاحب نے ہماری مالکہ مکان کو کہلا بھیجا کہ وہ حیران ہے کہ اس نے ہمیں رہنے کے لئے جگہ کیوں دے رکھی ہے۔ اکتوبر کے شروع میں ہم نے جبکہ برادران غلام احمد بشیر اور چوہدری عبداللطیف صاحبان ابھی یہیں تھے اپنے ویزا کی توسیع کی درخواست دی۔ چار ہفتہ کے بعد ہر دو صاحبان ہالینڈ تشریف لے گئے۔ قریباً چار ماہ تک اس درخواست کا کوئی جواب نہ آیا۔ یہ دیر غیر معمولی اور تشویشناک تھی۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں خاکسار کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ میرے یہاں قیام کی اجازت کا معاملہ چرچ کونسل کے سامنے ہے۔ اس خبر میں مجھے خطرہ کی سرخی نظر آئی چنانچہ احتیاطی طور پر بعض تدابیر اختیار کیں۔ ۱۶۔ فروری کو خاکسار ایک کام کے سلسلہ میں پولیس کے دفتر میں گیا وہاں سے معلوم ہوا کہ پولیس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میری درخواست کو رد کردیا جائے اور یکم مارچ تک ملک چھوڑ دینے کے احکام جاری کئے جائیں۔ نادان پولیس میں نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آپ کا مشن پورا ہوگیا ہے اور ایک سال کا عرصہ اس کے لئے کافی ہے اس لئے اب آپ کو چلے جانا چاہئے۔ میں نے کہا کہ آپ نے عیسائی مشنوں کو بھی مصر وغیرہ ملک سے واپس بلالیں۔ کہنے لگا ہمارے مشنوں اور آپ کے مشنوں میں فرق ہے میں نے کہا بہت اچھا` اور اس کا شکریہ ادا کرکے واپس آگیا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ کاغذات تصدیق کے لئے برن )دارالحکومت( بھجوائے ہوئے ہیں جہاں سے آخری احکام جاری ہوں گے۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے لوگوں میں ایک خاص قسم کی کجی پائی جاتی ہے جو شاید یورپ کے کسی اور ملک میں مفقود ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بوجہ مخصوص اور معلوم حالات کے یہ ملک ¶ایک عرصہ سے جنگوں سے محفوظ رہا ہے اور اس امر نے انہیں ایک بے جا فخر عطا کیا ہے اور یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ ان کی ذاتی خوبیاں` ان کا حسن تدبر اور نہ جانے کیا کچھ ان کے امن کے ضمانت ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔ ملک کے افراد میں اس غرور کی جھلک نمایاں ہے اور انانیت کے جذبہ کو ان کی اس حالت نے بہت تقویت دی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی انفرادی مرضی کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں اور ہمچوما دیگرے نیست کا راگ الاپتے ہیں۔
دوسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ یہاں کی پولیس جو غیر ملکوں سے متعلق ہے اس کے اختیارات بہت وسیع ہیں کیونکہ ان کا صیغہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت نہیں اس لئے یہ لوگ من مانی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اور غیر ملکوں کے لئے قوانین بھی سخت ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ بسا اوقات پولیس نے اپنے اس رویہ کے باعث غیر ملکیوں کو خواہ مخواہ تکلیف پہنچائی ان پر اور تو کسی شعبہ حکومت کا اقتدار نہیں اس لئے انجام کا فیڈرل کورٹ میں جاکر پولیس کے خلاف فیصلہ ہوا اور بیچارے غیرملکیوں کے حقوق کی حفاظت ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ پولیس کے چھوٹے بڑے میں میرے خلاف مخالفت کی آگ لگی ہوئی ہے۔ اسی تنگ دلی اور کم ظرفی سے یہاں کے چرچ کو خاطر خواہ حصہ ملا ہے۔ وہ جنہوں نے صدیوں تک اپنے جھوٹے عقائد کے خلاف کوئی زبان ہلتی اور کوئی قلم چلتی نہ دیکھی تھی آج یہ کیا ہوا کہ اچانک ان کے >ایمان< کی جڑوں پر تبررکھ دیاگیا اور مسیح سپاہی قلم وزبان سے باطل کا بطلان کرنے لگے۔ ان کے نزدیک تو ہمارا ایک سال کا عرصہ ہی ہمارے مشن کی تکمیل کے لئے کافی ہے۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں عیسیٰؑ کی جھوٹی خدائی کا بت ہے وہ کب برداشت کرسکتے ہیں کہ کوئی اس بت کو توڑے۔ نہ صرف توڑے بلکہ بے دردی سے توڑے۔ ہم محمود کے سپاہی بفضل خدا اس سومنات کے بت کو توڑیں گے` توڑیں گے۔ اے خدا! ہمارے ہتھوڑے کو بھاری اور اس کی ضرب کو کاری بنا۔ آمین ۔۔۔۔ اس سلسلہ میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ پولیس والوں نے اپنی پوزیشن کو بیرونی دنیا کی نظروں میں محفوظ بنانے کے لئے ایک جعلی عذر کی آڑلی اور کہا کہ چونکہ مرکز احمدیت اب مشن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا اس لئے آپ یہاں ٹھہرنہیں سکتے۔ اب یہ تو مستقبل بتائے گا کہ ہم ان کے اس باطل عذر کو کس طرح باطل ثابت کریں گے اور پولیس کو اس آخری دلیل کا سہارا بھی نہ ملے گا۔ انشاء اللہ العزیز۔ تاہم خاکسار اس امداد کو ریکارڈ کرنا چاہتا ہے جو اس نازک وقت میں ہماری لواحمدی بہن محترمہ محمودہ کی طرف سے ملی۔ ان ایام میں ایک رقم کی ضرورت تھی جسے بطور ثبوت کے پیش کیا جاسکتا )بوقت ضرورت( کو سلسلسہ ہمارے اخراجات کا کفیل ہے۔ محترمہ محمودہ نے کہا کہ ان کے پاس تین صد فرینک کی ایک رقم ٹیکس کی ادائیگی کے لئے موجود ہے جس کی فی الحال ضرورت نہیں۔ چنانچہ یہ رقم لے کر اپنے نام پر بنک میں جمع کرادی گئی تا ہمارا کیس مضبوط ہوجائے۔ اس رقم کے ساتھ محترمہ محمودہ نے لکھا >خدا آپ کی مدد کرے۔ خدا بالخصوص اس موقعہ پر آپ کے ساتھ ہو۔<۱۴۷
تبلیغی اجلاسوں کا نہایت مفید سلسلہ
سوئٹزرلینڈ میں اشاعت اسلام کا باقاعدہ کام ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء سے شروع ہوا جبکہ شیخ ناصراحمد صاحب نے تبلیغی اجلاسوں کا سلسلہ جاری کیا۔ اس ضمن میں پہلا اجلاس ۲۰۔ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ایک ہوٹل کے کمرہ میں منعقد کیاگیا۔ گو اس پہلے اجلاس کی حاضری تو بہت کم تھی مگر اس نئے تجربہ نے ملک میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا۔۱۴۸ حلقہ واقفیت میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور اسلام میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ ابتداء میں یہ اجلاس زیورچ میں کئے جاتے تھے۔ مگر بعدازاں برن` بازل` باڈن` ونٹرتمور` سینٹ گالن` شاف ہائوزن میں بھی ان کا انعقاد عمل میں لایا گیا۱۴۹ اور یہ ہر مقام پر کامیاب رہے اور ان سے تبلیغ واشاعت اسلام کی مہم کو تیز کرنے میں بھاری مدد ملی۔
سوئٹزرلینڈ مشن کے ذریعہ جرمنی میں اشاعت اسلام
جرمنی میں ابھی مستقل مشن کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا کہ خط و کتابت کے ذریعہ کم و بیش بیس افراد پر مشتمل ایک جماعت قائم ہوچکی تھی جس کی دیکھ بھال کے لئے شیخ ناصراحمد صاحب کنٹرول کمشن جرمنی سے اجازت لے کر گاہے گاہے تشریف لے جاتے رہے۔۱۵۰ اس دوران میں آپ کو جرمنی میں اشاعت اسلام کے متعدد مواقع میسر آئے بلکہ ایک بار تو ہمبرگ ریڈیو نے آپ کی ایک تقریر بھی نشر کی` تقریر کا موضوع تھا >یورپی ممالک میری نظر میں۔< اس تقریر کے بعض اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں تامعلوم ہوسکے کہ مجاہدین احمدیت مغربی دنیا کو کس جذبہ اور قوت و شوکت سے خدائے واحد دیگانہ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔
>آج یورپ خستہ حالی میں ہے ۔۔۔۔۔ جرمنی میں جو تباہی اور ہولناک بربادی نظر آرہی ہے وہ یورپین اقوام کی معروف محنت و قابلیت کی متناقض ہے۔ اس صورت حالات کی اس قوت استعماری سے مطابقت دکھلانا مشکل ہے جس کی بدولت یورپ کو صنعتی ترقی حاصل ہوئی۔ میں اپنے نفس سے یہ سوال کرتا ہوں کہ یورپ کی صنعت و سائنس کس کام کی اگر اس کے نتیجہ میں پائدار امن حاصل نہیں ہوا؟ اس میں سائنس کا قصور نہیں` ہم اسے ملزم نہیں کرسکتے۔ بنیادی طور پر کہیں کوئی نقص ہے۔ یورپ نے مادی ترقی کو ایک خوشحال سوسائٹی کی بنیاد سمجھا۔ آج یورپ مادیت میں اس قدر مستغرق ہوچکا ہے کہ روح کی طرف توجہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔۔۔۔ روحانی دائرہ میں میں یورپ کو بہت قلاش پاتا ہوں۔ اس موقع پر مجھے خدا کے رسول محمد~صل۱~ کا ایک قول یا آگیا ہے جو آپ نے کئی صدیاں پیشتر فرمایا کہ ایک شخص نمودار ہوگا جو بہت جھوٹ بولے گا اور ایک آنکھ سے کانا ہوگا۔ کیا اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ محمد~صل۱~ نے یورپ میں مادیت کے ظہور کو قبل از وقت بھانپ لیاتھا۔ وہ مادیت جو اب خستگی اور بدحالی کے عالم میں ٹھوکریں کھاتی ہے کیونکہ ایک آنکھ سے کانی ہے۔ اور روح کی طرف نظر نہیں کرتی۔ مغرب کے خلاف یہ کوئی تواہین آمیز کلمہ نہیں جب یہ کہا جائے کہ یورپ کی ایک آنکھ تو تیز اور صاف دیکھتی ہے لیکن دوسری ظلمت سے نور کو شناخت نہیں کرسکتی۔ کیا یہ تعجب انگیز امر نہیں کہ مغربی اقوام نے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندروں کی گہرائیاں تو سرکرلیں پر نہ سمجھیں تو اپنے نفس کو۔ وہ ہر حادثہ کا سبب تلاش کرتے ہیں اور واقعات کو سائنس کی تحقیقات کی روشنی میں دیکھنا پسند کرتے ہی۔ تحقیق کے اس جنون کو براقرار نہ دیا جاتا اگر زندگی کے دوسرے پہلو کی جستجو بھی اسی جوش و خروش سے ہوتی۔ یہ لوگ اگر سمندروں کی گہرائیوں سے موتی نکال لاتے ہیں تو ان کے لئے خدا کی تلاش کیوں ممکن نہیں؟ ۔۔۔۔ انسان کو اب نئے سرے سے کوشش کرنی چاہئے اور ایک نئی بنیاد پر` اگر اتحاد عالم کی کوئی بنیاد مل سکے تو سب اقوام کی یہ خوش قسمتی ہوگی۔ ہاں یہ بناء محض اسی صورت میں قابل اعتماد ہوسکتی ہے جب یہ انسنای دماغ کی اختراع نہ ہو بلکہ آسمانی الہام پر مبنی ہو ۔۔۔ انسان پو بوجہ آزاد ہونے کے بھاری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے آپ کو انسان ثابت کرے۔ صنعت` سائنس اور تمدن تبھی مفید ہیں اگر ہم اپنی خواہشات کو صحیح راستوں پر چلائیں۔ یہ چیز ہے جس کی مغربی ممالک کو بالخصوص ضرورت ہے۔ میں دوہراتا ہوں کہ ہم پاکستانی مادیت کے عالم میں یورپ کو قطعاً حقیر نہیں جانتے۔
ہمارے لئے مایوس ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں۔ ایک مومن ہمت نہیں ہارسکتا۔ وہ اس یقین کی چٹان پر قائم ہے کہ خدا ہماری مدد کرے گا۔ خدا صرف ہندوستانیوں یا مصریوں ہی کا خدا نہیں` وہ یورپ کا بھی خدا ہے` ہم خواہ اس چھوڑ دیں لیکن وہ ہمیں ترک نہیں کرتا۔ وہ صرف ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے فرمانبردار رہیں۔ جونہی انسانیت خدا کی طرف جھکے گی اس کی سب مشکلات خود بخود رفع ہوجائیں گی۔
شاید یورپ اس میدان میں بھی ایک مثال قائم کرسکتا ہے۔ اگر یورپ سچے خدا کی تلاش اسی جوش` محنت اور توجہ سے شروع کردے جس محنت اور جوش اور توجہ سے وہ دوسرے امور کی جستجو کرتا ہے اور دیگر سب اقوام کے لئے بھی راہبر بن جائے گا۔<۱۵۱ )ترجمہ(
ابتدائی دور میں قبول اسلام واحمدیت کرنے والے خوش نصیب
مجاہد سوئٹزرلینڈ شیخ ناصراحمد صاحب کی ان تھک تبلیغی مساعی اور دیوانہ وار کوششوں کے عملی نتائج ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آغاز میں رونما ہونے لگے چنانچہ ۱۲۔ ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۷/۱۹۴۸ء کو اس ملک کی پہلی روح نے قبول اسلام کیا اور اس کا نام محمودہ رکھا گیا۔۱۵۲ محمودہ کے بعد شیخ صاحب کے ذریعہ سے جو خوش نصیب حلقہ بگوش اسلام واحمدیت ہوئے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
)۱( پی۔ جے۔ ایف کے )۲( عبدالرحمن المہدی بن کوپی )۳( ہرایرک وٹیسٹائن WETISTEIN) ERICH (HERR )اسلامی نام حمید رکھا گیا( ۱۵۳ )۴( محمد اسمعیل ابراہیم راشد مصری۔ 4] f[st۱۵۴ )۵( ہرکارل سکمیڈٹ SCHMIDT) CARL (HERR )اسلامی نام عبدالرشید رکھاگیا( ۱۵۵ )۶( ہراگسٹ بارڈر BARDER) AUGUST (HERR )اسلامی نام بشیر رکھاگیا(۱۵۶ )۷( ہراینڈر بٹزی BITZI) ANDRE (HERR )اسلامی نام سعید رکھاگیا( )۸( ہرہیروزئیر ZEIER) HARRO (HERR )اسلامی نام امین رکھاگیا( ۱۵۷ )۹( کمال فولمار۔۱۵۸
رسالہ >الاسلام< کا اجراء اور اس کی مقبولیت
اشاعت اسلام کی مہم کو چلانے کے لئے چونکہ لسانی جہاد کے ساتھ قلمی جہاد بھی ضروری تھا اس لئے شیخ صاحب موصوف نے ایک مخلص احمدی محمد راشد صاحب مصری کے مالی تعاون سے ایک سائیکلوسٹائل مشن کا انتظام کرکے ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۸ہش/۱۹۴۹ء سے ISLAM> <DER )الاسلام( نامی ایک ماہوار رسالہ جاری کیا۔ اس رسالہ کا پہلا پرچہ تین اوراق پر مشتمل تھا جس میں اسلام کی تعلیم` قرآن کریم` احادیث النبیﷺ~ اور ملفوظات حضرت مسیح موعود کے اقتباسات درج تھے۔۱۵۹ یہ رسالہ جس کی ابتداء نہایت سادہ اور مختصر صورت میں ہوئی اپنے اثرونفوذ میں بہت جلد ترقی کرگیا اور اس کے علمی اور مدلل مضامین اسلام سے دلچسپی لینے والے حلقہ میں نمایاں اضافہ کا موجب ہوئے ISLAM> <DER )الاسلام( نے سوئٹزرلینڈ کے پڑھے لکھے طبقہ پر کتنا گہرا اثر ڈالا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے بعض سویس لوگوں کی آراء کا مطالعہ کافی ہوگا۔
۱۔
ایک شخص نے لکھا-:
>آپ کے رسالہ >الاسلام< کا دسمبر کا ایشوع میرے لئے ایک نہ بولنے والی یادگار بن کررہ گیا ہے۔ اس رسالہ کے ذریعہ آپ مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور تعصبات کے پہاڑ کو اٹھا رہے ہیں۔<
۲۔
ایک صاحب نے اپنی رائے یہ دی کہ-:
>مجھے بغداد میں تین سال بطور پروفیسر رہنے کا موقعہ ملا۔ رسالہ >اسلام< ہر بار میرے لئے وہاں کی خوشگوار یاد کو تازہ کردیتا ہے۔<
۳۔
پرچہ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے ایک دوست نے خط لکھا کہ-:
>مجھے تین سال سے رسالہ >اسلام< کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ اس کے مضامین میرے لے حددرجہ دلچسپ اور امید افزاء ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کی مذہبی اور فرقہ دارانہ جماعتوں کی طرف سے اسلام کے خلاف کس قدر خطرناک غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں! وقت آگیا ہے کہ ایک بار اس بڑے مذہب صحیح روشنی ڈالی جائے۔ اور اس کی تعلیم کو صحیح وضاحت کے ساتھ پیش کیاجائے۔<
۴۔
قارئین >الاسلام< میں سے ایک کا تاثر یہ تھا کہ-:
>اگرچہ رسالہ >اسلام< ہر نوع کے لوگوں کے مذاق کے مطابق تیار کیاجاتا ہے تاہم میرے لئے یہ پرچہ ہرماہ خاص رنگ میں تسلی بخش مواد لاتا ہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کو خاطر خواہ رنگ میں پیش کیا جاتاہے بلکہ ایک مسلمان کے طرز خیال اور اسکے فلسفہ حیات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔<۱۶۰
۵۔
ایک اور صاحب نے اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کئے کہ-:
>رسالہ اسلام کا جوبلی نمبر شائع کرنے پر میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ آپ کے کام میں مستقبل میں بھی برکت ڈالے۔ کام کے دوران میں آپ کو بہت سے مواقع خوشی کے اور بہت سے مواقع مایوسی کے بھی آئے ہوں گے تاہم اپ اس امر پر یقیناً خوش ہوسکتے ہیں کہ آپ کو متعدد مقامات پر اسلام کے خلاف بالکل بے بنیاد اور غلط باتوں کی تردید کی توفیق ملی۔ میں اس امر کا اندازہ بخوبی لگاسکتا ہوں کہ آپ کا کام آسان نہیں۔ وہ متعصب نظریات جو صدیوں سے چلے آتے ہیں وہ ایک دن میں دور نہیں کئے جاسکتے۔ یہ بہت صبر ۔۔۔۔ چاہتا ہے کیونکہ بہت سی طاقتیں محض اس کام پر لگی ہوئی ہیں تا لوگوں کے سامنے اسلام کو ممکن ترین بھدی شکل میں پیش کیاجائے۔ مثال کے طور پر اکثر ایسے مضامین پڑھنے میں آتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ محمدﷺ~ اگرچہ مذہبی آدمی تھے تاہم آپ )نعوذباللہ( بہت چالاک تھے۔ حیرت ہے کہ یہ باتیں ایک ایسے شخص کے متعلق کہی جاتی ہیں جس کے متعلق اس کی بیوی )جو اسے یقیناً سب سے زیادہ جانتی تھی( یہ شہادت دیتی ہے کہ آپﷺ~ کی زندگی آپ کی تعلیم کے مطابق اور آپ کی تعلیم آپ کی زندگی کے مطابق تھی۔<۱۶۱
۶۔
ایک صاحب نے لکھا-:
>میں >رسالہ اسلام< کے نئے پرچہ کا ہر دفعہ شوق سے انتظار کرتا ہوں۔ آپ کا یہ رسلاہ مہینہ میں دو بار بلکہ ہر ہفتہ شائع ہونا چاہئے تا اسلام مقدس کے خلاف یورپین پریس کے ذریعہ پھیلائے جانے والی غلط فہمیوں اور تعصبات کا جواب دیا جاسکے۔<
۷۔
ڈنمارک سے ایک شخص نے لکھا کہ-:
>تحریک احمدیت پر شائع ہونے والے سلسلہ مضامین کو پڑھ کر انہیں حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا یقین ہوگیا ہے۔ آپ محض محدث نہ تھے۔ اور خلافت اسلامی تعلیم` احادیث اور بانی سلسلہ احمدیہ کی تحریرات کے مطابق صراط مستقیم ہے۔<۱۶۲
۸۔
ایک سولہ سال نوجوان نے لکھا-:
>اسلام سے مجھے دلچسپی ہے کیونکہ یہ ایک اہم عالمگیر مذہب ہے۔ ان ممالک میں اسلام کو لوگ نہیں جانتے بلکہ بہت سی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ جماعت احمدیہ اسلام کی بہت خدمت کررہی ہے۔ یہ جماعت اسلام کی عزت کو دوبارہ قائم کرتی ہے۔ آپ کی کوششوں کا بہت بہت شکریہ۔ سوئٹزرلینڈ کی نوجوان سرگرم عمل جماعت احمدیہ کو میرے دلی جذبات پہنچا دیں۔ یہ لوگ ہر احترام کے اہل ہیں ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے۔<۱۶۳
۹۔
ایک اسی سالہ شخص نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا-:
>اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے رسالہ >اسلام< کے ذریعہ معرفت الٰہی کا علم ہوا۔ خدا تعالیٰ کے قوانین کے بارے میں پڑھا۔ ہاں خدائی قانون نہ کہ انسانی۔ اپنی یہ کوشش جاری رکھتے تا اس تاریکی کے زمانہ میں خدائی نور کا جلوہ قائم رہے۔ میری زندگی میں آپ پہلے شخص ہیں جو خدائی صداقت کو جانتے ہیں۔ آپ کے پاس خدائی نور ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت ہے اور آپ اس روشنی کو تاریکی کے درمیان روشن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تاریکی بہت حمیق ہے اور تاریک انسانی ارواح میں اس روشنی کو جلانے کے لئے آپ کی جرات کے باعث خاموش طور پر آپ کو شاباش کہتا ہوں۔10]< p[۱۶۴
رسالہ >الاسلام< نہایت باقاعدگی کے ساتھ بلاناغہ پہلے چھ سال سائیکلوسٹائل کرکے نکلا کرتا تھا مگر پھر پریس میں چھپنے لگا شروع میں اسے اگرچہ سوئٹزرلینڈ کے مخصوص حالات وکوائف کو پیش نظر رکھ کر ہی مرتب کیا جاتا تھا اور زیادہ تر اسی میں اشاعت پذیر ہوتا تھا مگر جوں جوں تبلیغی دنیا میں اس کی اہمیت و ضرورت بڑھتی گئی اور اس کے مندرجات و مضامین میں خاص تنوع اور محققانہ رنگ نمایاں ہوتاگیا تو اسے سویڈن` ڈنمارک` ناروے` آسٹریا` جرمنی` ہالینڈ` فرانس` مشرقی جرمنی` انگلستان` سپین` یوگوسلاویہ` پولیند` ٹرکی` فلسطین` مصر` افریقہ کے ممالک` شمالی امریکہ` کینڈا` انڈونیشیا` پاکستان میں بھی بھجوایا جانے لگا۔۱۶۵
یہ ماہنامہ اب تک نہایت باقاعدگی اور اہتمام کے ساتھ جاری ہے اور اس کی ادارت کے فرائض مکرم چوہدری مشتاق احمدصاحب باجوہ مجاہد اسلام سوئٹزرلینڈ` مکرم مسعوداحمد صاحب ایم۔ اے۔ اور ڈاکٹر ایم۔ اے۔ ایچ۔ چوسی CHIUSSI) ۔H۔A۔(M بجالارہے ہیں۔
تبلیغی ٹریکٹوں اور جرمنی ترجمہ قرآن کی اشاعت اور اس کے وسیع اثرات
‏0] ft[rبلاشبہ ان دو جرمن زبان کے پمفلٹوں نے جو مجاہدین اسلام لنڈن سے چھپوا کر لائے تھے سوئٹزرلینڈ کے باشندوں میں صحیح اسلامی
خیالات وافکار کا پہلا بیج بودیا تھا مگر خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے اس بیج کے بڑھانے اور بالاخر ایک ایسے تناور درخت کی شکل دینے کے لئے جس کی دور دور تک پھیلی ہوئی شاخوں پر حق جوئی کے پرندے آرام کرسکیں ایک نہایت بلند پایہ` علمی اور وسیع لٹریچر درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ ناصراحمد صاحب نے جرمن زبان پر عبور حاصل کرتے ہی جرمن لٹریچر کی طرف اپنی پوری توجہ مبذول کردی اور سب سے پہلے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت` مقام` اعلان قبرمسیح` کرسمس اور سال نو کے پیغامات پر مشتمل چار ٹریکٹ۱۶۶ مشن کی طرف سے چھپوا کر ملک میں تقسیم کئے نیز ان اخبارات ورسائل کو بھجوائے جن میں احمدیہ مسلم مشن سوئٹزرلینڈ کی نسبت مضامین شائع ہوئے تھے اور جن کی تعداد باون تھی۔۱۶۷ ان ٹریکٹوں کے بعد آپ نے آنحضرت~صل۱~ کی حیات طیبہ پر ایک کتابچہ بھی شائع کیا اور زیورک کے علاوہ لوزان اور برن نیز دوسرے مقامات پر بھی اس کی اشاعت کی۔ علاوہ ازیں فلسطین` شمالی امریکہ اور ہالینڈ کے احمدی مشنوں کو بھی بھجوایا کیونکہ ان ممالک میں بھی جرمنی زبان بولنے والے لوگ بستے ہیں۔۱۶۸ اس کتابچہ کا نام محمدﷺ~ تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے ایک اخبار نے اس پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا۔
>اسلام حملہ آور ہوتا ہے! >ہم عیسائی کیا کہہ رہے ہیں؟< یہ ایک لیکچر کا عنوان تھا جسے سننے کے لئے خاکسار گیا۔ مقرر نے حاضرین کو بتایا کہ اسلام یہاں بھی پھیلایا جارہا ہے۔<۱۶۹
جرمن لٹریچر کے ضمن میں سب سے اہم قدم جو شیخ ناصراحمد صاحب نے اٹھایا وہ یہ تھا کہ آپ نے جرمنی ترجمہ قرآن کے اس مسودہ پر جو حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی زیرنگرانی انگلستان میں تیارہوا تھا سالہا سال تک اس پر کمال محنت و جانفشانی سے نظرثانی کی اور ۱۴۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء کو اس کی طباعت مکمل ہوئی۱۷۰ اور AN>۔۔QUR HEILIGE <DER کے نام سے اسے شائع کردیاگیا۔ یہ پہلا ترجمہ قرآن تھا جو جماعت احمدیہ کی طرف سے جنگ عظیم دوم کے بعد یورپ کی کسی زبان میں چھپا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت مقبول ہوا اور بہت جلد نایاب ہوگیا جس پر شیخ صاحب نے >تفسیر صغیر< کی روشنی میں دوبارہ نظر ڈالی اور یہ ترمیم شدہ ترجمہ بھی نہایت مفید اصلاحات و ترمیمات کے ساتھ اور نہایت دیدہ زیب اور نفیس شکل میں ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء میں منظرعام پر آگیا۔۱۷۱ جناب شیخ ناصراحمد صاحب اس ترجمہ کی خصوصیات اور طباعت سے متعلق بعض ضروری تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>تفسیر صغیر کے ترجمہ کی روشنی میں پہلا ترجمہ قرآن کریم کا جرمن زبان میں شائع کرنے کی اس مشن کو توفیق ملی۔ ہمارے جرمن ترجمہ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۵۴ء میں شائع ہوا تھا۔۱۷۲ جس پر خاکسار نے کئی سال محنت کی تھی۔ جب ایڈیشن ختم ہونے کے قریب آیا تو خاکسار نے نئے ایڈیشن کی نظرثانی کا کام شروع کردیا۔ اس کا پر ایک سال گزرنے کے بعد تفسیر صغیر چھپ گئی اس لئے ایک بار پھر اس نئے ترجمہ کی روشنی میں جرمن ترجمہ کی نظرثانی کا کام شروع کیاگیا اور ساتھ ساتھ نوٹ بھی لکھے گئے۔۔۔۔ مختلف آیات کے ۲۴۲ تشریحی نوت کتاب میں شامل کئے گئے۔ چھوٹے چھوٹے حاشیہ کے نوٹ اس کے علاوہ ہیں۔ کتاب کی ظاہری خوبصورتی کے لئے ایک موزوں ٹائپ خرید کیا۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مقامات پر مفید اصلاحات ترجمہ میں کی گئیں اور جرمن زبان کے اسلوب کے مطابق مضمون کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ترجمہ میں مزید روانی آگئی۔ ہمارا پہلا ترجمہ بھی بہت اچھا تھا اور اس کی بہت تعریف ہوئی تھی۔ تاہم یہ دوسرا ایڈیشن خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مفید اصلاحات کا حامل ہے۔ اور بعض افراد نے دونوں ترجموں کا مقابلہ کرکے بہت سے مشکل مقامات پڑھنے والے کے لئے ¶حل ہوگئے ہیں۔ کتاب کا حجم آٹھ صد صفحات سے اوپر ہے۔
اس کام میں علاوہ دوسری مشکلات کے مالی مشکلات بھی تھیں۔ ادھر قرآن کریم کی مانگ بہت تھی اور آرڈر پر آرڈر جمع ہورہے تھے۔ تاجران کتب بار بار پوچھتے تھے انہیں مختلف میعادیں دی گئیں۔ بالاخر نومبر تک کتاب کو مارکیٹ میں لانے کا خاکسار نے تہیہ کرلیا۔ اگست تک مطبع والوں نے کام شروع نہ کیا تھا۔ وقت بہت تھوڑا تھا صرف پروف دیکھنے اور اصلاح کرنے کا کام ہی اس قدر وقت طلب تھا کہ روزانہ نصف دن اس کام پر لگانے سے یہ کام چار مہینوں میں ختم ہوتا تھا۔ کام کے آخری مراحل کو تیز تر کرنے کے لئے وسط اکتوبر میں خاکسار نے ہالینڈ جاکر مطبع والوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ یہ وقت بے حد مصروفیت کا تھا۔ آخر اس تمام تگ ودو کا نتیجہ کام کے بروقت ختم ہونے کی صورت میں نکل آیا جو خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہ تھا۔ پہلے ایڈیشن کی طباعت کے وقت قرآن کریم کی مانگ اتنی زیادہ نہ تھی جتنی اب جبکہ وہ ایڈیشن نایاب ہوگیا تھا۔ پہلے ایڈیشن نے مارکیٹ کو تیار کرنے میں مدد دی اور جب مارکیٹ تیار ہوگئی تو کتاب ختم ہوگئی اس لئے دوسرے ایڈیشن کو ملتوی کرنا بہت مضر ہوتا۔ علاوہ ازیں دوسرے لوگ بھی ترجمہ کو مارکیٹ میں لارہے تھے جس کے نتیجہ میں ایک تو لوگ غلط ترجمہ پڑھتے اور اسلام سے دور ہوجاتے دوسرے ہمارا ترجمہ فروخت نہ ہوتا یہ سب امور خاکسار کے نئے کام کو جملہ مشکلات کے باوجود ایک معین وقت تک ختم کرنے میں متحرک ثابت ہوئے۔ مورخہ ۱۱۔ نومبر کو ہیگ کی مسجد میں ایک خاص تقریب کے دوران میں مطبع کی فرم کے ڈائریکٹر STOOK ۔MR نے خاکسار کو پہلا تیار شدہ نسخہ قرآن کریم کا پیش کیا۔ اس پر خاکسار نے قرآن کریم کی خوبیوں اور نئے ایڈیشن کی تیاری اور ضرورت پر مختصر تقریر کی۔ اس کام پر خاکسار کے کم وبیش تین سال صرف ہوئے۔ اور اگر پہلے ایڈیشن کے کام کو بھی ساتھ ملالیا جائے تو یہ کام گیارہ برس کی محنت کے بعد بحمداللہ ختم ہوا۔ سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کو ترجمہ کی طباعت مکمل ہونے کی اطلاع ہوئی تو حضور نے ازراہ ذرہ نوازی حسب ذیل تار خاکسار کو ارسال فرمایا۔
ترجمہ-: >میں مبارکباد دیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے کام کو یورپ میں اسلام کی اشاعت کے لئے ایک نہایت موثر ذریعہ بنائے۔< )خلیفہ المسیح(
علاوہ ازیں حضور نے خط کے ذریعہ فرمایا-:
> جزاک اللہ بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو قبول کرے۔<
ایک اور خط میں حضور نے فرمایا-:
>اللہ تعالیٰ واقعہ میں اس کو یورپ کے لئے فائدہ مند بنائے۔ ~}~
آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج
اس کے ذریعہ وہ لوگ جن کو تعصب نہیں اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے۔ آمین۔<۱۷۳
جرمن ترجمہ قرآن پر سویس پریس کے شاندار تبصرے
جرمن ترجمہ قرآن کی اشاعت سوئٹزرلینڈ کی مذہبی تاریخ میں ایک اہم اور انقلابی واقعہ تھا جس نے ملک بھر میں دھوم مچادی۔ سوئٹزرلینڈ کے اہل قلم نے اس کارنامہ کو خوب سراہا اور سویس پریس نے دل کھول کر اس پر بڑے مفصل اور شاندار تبصرے شائع کئے۔ بطور نمونہ بعض اخبارات ورسائل کی آراء وافکار کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔
)۱( ایک مشہور بدھ جماعت کے ماہنامہ EINSICHT> <DIE ۱۹۵۴ء کے آٹھویں شمارہ کے صفحہ ۱۲۶۔۱۲۷ پر جرمن ترجمہ قرآن کریم کی نسبت حسب ذیل ریمارکس شائع ہوئے۔
۸۰۰ صفحات پر مشتمل جرمن ترجمہ قرآن بمع عربی متن ۔۔۔۔ پہلا مستند اور قابل اعتماد ترجمہ ۔۔۔۔ قیمت ۱۸ مارک۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے زیورچ اور ہمبرگ کے مشنوں کے نام سے شائع شدہ یہ ترجمہ قرآن کریم اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے اس کے شروع میں ۱۵۰ صفحات پر مشتمل ایک دیباچہ تصنیف کیا ہے جو بہت دلچسپ امور پر اس لحاظ سے روشنی ڈالتا ہے کہ اسلام کا مطمح نظر دیگر مذاہب کی تعلیمات کے بارہ میں کیا ہے۔ اس دیباچہ کے پہلے حصہ میں قرآن کریم کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے اور بائبل اور ویدوں کے ہستی باری تعالیٰ کے متعلق نظریات کی وضاحت کی گئی ہے۔ خاص طور پر یسوع مسیح CHRIST) (JESUS کی پوزیشن کو واصح کیاگیا ہے کہ وہ عالمگیر نبی نہ تھے کیونکہ انہوں نے خود واضح الفاظ میں >میں صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے آیا ہوں< )متی ۲۴۔۱۵( کہ کر اس امر کو ظاہر کیا ہے کہ ان کی بعثت کا مقصد بنی اسرائیل کے لئے محدود تھا اور وہ تمام دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے۔
صفحہ ۲۳ پر یہ بھی تحریر ہے کہ حضرت بدھ بھی عالمگیر تعلیمات نہیں لائے۔ اگرچہ ان کی تعلیمات ان کی وفات کے بعد چین میں پھلیں لیکن ان کا اپنا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں۔
آگے چل کر تمدن و تہذیب اور کلچر کی اہمیت کے بارہ میں اسلامی نظریات کو پیش کیاگیا ہے اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے >کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہورہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا۔<
نئے اور پرانے عہدنامہ میں سے متعدد حوالے پیش کرنے کے بعد اس سوال کا جواب مثبت میں دیاگیا ہے اور واضح کیاگیا ہے کہ اس بات کی واقعی ¶ضرورت تھی >کہ خدا تعالیٰ ایک نئے الہام کو ازل کرتا جو غطلیوں سے منزہ ہوتا اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جانے والا ہوتا اور وہ کتاب اور الہام قرآن کریم ہے۔<
اسی طرح ویدوں کی ظالمانہ تعلیمات` توہمات` تناقض اور خلاف اخلاق تعلیمات پر سیرکن بحث کی گئی ہے تاکہ ان قابل اعتراض تعلیمات کی روشنی میں قرآن کریم جو کہ ان باتوں سے بالا اور منزہ ہے` کی تعلیمات کی اہمیت واضح کی جائے۔
دوسرے حصے میں جمع القرآن پر بحث کی گئی ہے اور اسلامی تعلیمات کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان میں سے بعض ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔
>قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان کیسا لانا چاہئے۔ اس کی ہستی کے ثبوت کیا ہیں۔ اور وہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی تاریکی کے وقتوں میں اپنا کلام نازل کرکے اور اپنی غیرمعمولی قدرتوں کو ظاہر کرکے اپنی ہستی کو ثابت کرتا رہتا ہے۔<
>نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ نجات تین قسم کی ہے۔ کامل` ناقص اور ملتوی نجات` کامل نجات انسان اس دنیا سے حاصل کرتا ہے۔<
>قرآن تعلیم اور دماغی نشوونما پر خاص زور دیتا ہے۔ وہ فکر اور غور کرنے کو مذہبی فرائض میں سے قراردیتا ہے۔ وہ لڑائیوں اور جھگڑوں سے روکتا ہے اور کسی حالت میں بھی حملہ میں ابتداء کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔<
>قرآن کریم غلامی کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ صرف جنگی قیدیوں کے پکڑنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس کے لئے بھی یہ شرط مقرر کرتا ہے کہ ہر قیدی اپنے حصہ کا حرجانہ ادا کرکے آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے۔<
>قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو انسان کی روح اور اس کی پیدائش کے متعلق مکمل بحث کرتی ہے اس بارہ میں دوسری کتب یا تو خاموش ہیں یا قیاس آرائیوں پر اکتفا کرتی ہیں۔<
>قرآن کریم یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمام اشیاء کی علت العلل بھی ہے یعنی تمام کی تمام مفردات اس سے نکلی ہیں اور سب کی سب مخلوق اس کی طرف لوٹتی ہے۔<
>انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم بتاتا ہے کہ تورات اور انجیل کے دعوئوں کے خلاف انسان کی پیدائش تدریجی طور پر ہوئی ہے۔<
>انسانی پیدائش سے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس لئے پیدا کیاگیا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اس کا نمونہ بنے۔<
اس تمہید کے آخر میں مرزا محمود احمد صاحب نے جماعت احمدیہ کے بانی کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں پیدا شدہ اختلافات کا ذکرکیا ہے جن کی وجہ سے جماعت کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا یہاں تک کہ خدا نے انہیں خود مصلح موعود بنایا اور توفیق دی کہ وہ جماعت کے شیرازہ کو دوبارہ قائم کرسکیں اور انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا۔ مندرجہ ذیل فقرات قابل غور ہیں۔
>یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلادیا اور قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے میری راہنمائی کی اور بیسیوں مواقع پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشرف فرمایا یہاں تک کہ ایک دن اس نے مجھ پر یہ ظاہر کردیا کہ میں ہی وہ موعود فرزند ہوں جس کی خبر حضرت مسیح موعود نے ۱۸۸۶ء میں میری پیدائش سے پانچ سال پہلے دی تھی۔ اس وقت سے خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد اور بھی زیادہ زور پکڑ گئی۔ اور آج دنیا کے ہر براعظم پر احمدی مشنری اسلام کی لڑائیاں لڑرہے ہیں۔<
اس کتاب کا بیشتر حصہ عربی اور جرمن تین پر مشتمل ہے۔ عربی جاننے والے احباب کے لئے یہ امر لذت کا باعث ہوگا کہ وہ جرمنی ترجمہ کا اصل عربی تین سے مقابلہ کرسکیں گے۔ اس کتاب کے شروع میں جو یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ یہ ترجمہ ایک قابل اعتماد تمہید پر مشتمل ہے اور علمی طبقہ کے لئے اپنے عربی متن کے ساتھ جس کے وجہ سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی دنیا کو جاننے کے لئے ایک نیا دروازہ کھولتا ہے سے ہمیں اس سے کلی اتفاق ہے۔ )ترجمہ(
)۲( ایک مشہور علمی اور ادبی ماہوار رسالہ POLITIK GEO )اگست ۱۹۵۴ء( میں انڈونیشیا میں مقیم جرمن سفیر HENTIG VON OTTO ۔DR کے قلم سے حسب ذیل تبصرہ شائع ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے قرآن کریم کے مستند جرمن ترجمہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی رہی ہے۔ جرمنی سے قریبی اور مشرقی وسطی کے ممالک سے دوبارہ تعلقات قائم ہونے کے باعث جرمن عوام میں قرآن کریم کے مطالعہ کا شوق بڑھ رہا ہے۔ احمدیہ جماعت کے زیورک اور ہمبرگ کے مشنوں نے اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ )پاکستان( کی طرف سے ممنونانہ انداز میں قرآن کریم کے مستند جرمن تراجم کی کمی پورا کرنے کی سعی کی ہے۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ صاف ستھرے باریک کاغذ پر ہالینڈ میں چھپا ہے اور اس کے دائیں طرف اصل عربی متن محبت اور پوری احتیاط کے ساتھ ایک ماہر تحریر کے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور اپنی تحریر کی خوبی کی وجہ سے اس ترجمہ کو کتابی متاع کا موجب بناتا ہے جرمن ترجمہ ہر صفحہ کے بائیں طرف درج کیاگیا ہے۔ ہر سورۃ کے شروع میں سورۃ کا عربی نام اور اسی طرح سورۃ کے نزول کا مقام )مکہ یا مدینہ(۔ آیت کا نمبر اور رکوع درج کیاگیا ہے۔ قرآن کریم کے دو زبانوں کے متنوں )جنہیں ۶۲۹ صفحات میں مکمل کیاگیا ہے( سے پہلے مفصل دیباچہ دو حصوں میں درج کیاگیا ہے۔ اس دیباچہ کے مصنف جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب ہیں۔ اس دیباچہ کے پہلے حصہ میں قرآنی تعلیمات کا دوسرے بڑے مذاہب عیسائیت` یہودئیت اور ہندو ازم کی تعلیمات سے موازنہ کیاگیا ہے۔ دوسرے حصہ میں جمع القرآن اور اس کے نزول کی تفاصیل کے ساتھ ساتھ اس کی تعلیمات کی خصوصیات پر بحث کی گئی ہے۔ قرآن کریم کے اس جرمن ترجمہ کے متعلق شائع کرنے والوں نے لکھا ہے کہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ یہ ترجمہ بہترین ہے۔ قدامت پسند علماء کی رائے کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ دوسری زبانوں میں محال ہے۔ اس بارہ میں تمام کوششیں تفسیر قراردی جاسکتی ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یقیناً اس ترجمہ کے متعلق کہیں کہیں اعتراض کی گنجائش ہوگی لیکن چونکہ اس ترجمہ کو اصل عربی متن کے ساتھ شائع کیاگیا ہے اس لئے اس کے شائع کرنے والوں نے اس احتیاط اور یقین کا سامان بہم پہنچادیا ہے کہ اس کو پڑھنے والے اسلام کی صحیح تصویر حاصل کر سکیں گے۔ قرآن کریم کی مستند اور مشہور علماء کے ہاتھ سے لکھی ہوئی مختلف تفاسیر اس بات کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن کریم کا ایسا ترجمہ شائع کرنا جو سب کی رائے میں درست ہو کتنا مشکل کام ہے۔ اس ترجمہ کے لئے ایڈیشن کے متعلق اس امر کا اہتمام غالباً مناسب ہوگا کہ ہر سورۃ کا جرمن ترجمہ بھی درج کیا جائے اور مختصر طور پر یہ بھی واضح کیا جائے کہ یہ نام کیوں تجویز کیاگیا ہے۔ جرمن پبلک کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ مشکل اور اہم آیات کا مطلب تفصیلی فٹ نوٹ کی صورت میں درج کیا جائے۔ )ترجمہ(
)۳( مشہور سویس اخبار ZEITUNG> ZURCHER <NEUE نے اپنے ۳۱۔ اگست ۱۹۵۴ء کے ایشوع میں لکھا۔
گزشتہ کئی سال سے زیورخ میں احمدیہ مسلم مشن کی ایک شاخ قائم ہے۔ جماعت احمدیہ اسلام ہی کا ایک روشن خیال فرقہ ہے جس کا نام اس کے بانی مرزا غلام احمد آف قادیان پنجاب )۱۸۳۵ء۔۱۹۰۸ء( کے نام پر رکھاگیا ہے۔ آپ کا دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو الہام الٰہی کے ذریعہ اسلام اور )حضرت( محمد ~)صل۱(~ کی خدمت کے لئے مامور کیا ہے۔ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رسالت و نبوت کے بھی دعویدار تھے۔ لیکن نبوت کے باوجود آپ کا دعویٰ تھا کہ آپ قرآنی شریعت اور )حضرت( محمد ~)صل۱(~ کے کامل متبع ہیں۔ اور آپ کوئی نیا قانون لے کر نہیں آئے۔ گویا اس طرح وہ اپنے آپ کو صرف >تنبیہہ کرنے والا< سمجھتے رہے جسے نبی پاک کے بروز کامل کے صورت میں قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح اور مہدی ہوکر آنا تھا اور جس کا کام مادی دنیا میں صرف روحانی بیج بونا تھا۔ آپ نے اپنی پیشگوئی کے ذریعہ اطلاع دی تھی کہ آپ کی جماعت زمین کے کناروں تک پھیلے گی اور آپ کے متبعین کو قرب الٰہی حاصل ہوگا۔
اس پیغام ربانی کے ساتھ آپ کا ظہور ۱۸۸۰ء میں آپ کے اپنے گائوں میں ہوا اور آپ نے اس وقت ان نشانات و معجزات کا ذکرکیا جن سے آپ کے مشن اور پیشگوئیوں کی صداقت کا اظہار ہوتا تھا ابتدائی مخالفت کے باوجود آپ کی جماعت پھیلتی ہی گئی حتیٰ کہ ہندوستان اور بیرونی مسلم دنیا میں اسکی شاخیں قائم ہوگئیں۔
۱۸۸۹ء میں آپ نے جماعت کے خلیفہ )امام( کی حیثیت سے بیعت لینی شروع کی۔ ۱۹۱۴ء میں آپ کے پہلے خلیفہ )حضرت حکیم الامت( مولانا نورالدین )رضی اللہ عنہ( کی وفات پر جماعت میں کچھ اختلافات پیدا ہوگیا اور کچھ لوگ جنہیں بعد میں لاہوری پارٹی کے نام سے موسوم کیاگیا اس وجہ سے الگ ہوگئے کہ وہ حضرت احمد کو نبی ماننا پسند نہ کرتے تھے بلکہ صرف مصلح سمجھتے تھے۔ جماعت قادیان متفقہ طور پر حضرت احمد کے فرزند )حضرت( مرزا محمود احمد کے ہاتھ پر جمع ہوئی اور آپ کو خلیفہ تسلیم کرلیا۔ کہاجاتا ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی خدا تعالیٰ نے آپ کے موعود خلیفہ ہونے کے متعلق خبردے دی تھی۔ آپ ہی کے عہد خلافت میں اسلام کا مشن یورپ میں قائم ہوا جس کا مرکز انگلستان ہے۔ لیکن مشن کا کام فرانس` سپین` ہالینڈ` جرمنی اور کچھ سال سے سوئٹزرلینڈ میں بھی جاری ہے اسی طرح شمال اور جنوبی امریکہ میں بھی جماعت تبلیغ کا کام کررہی ہے۔
جماعت احمدیہ کے عقائد کی بنیاد اسلام کی معروف تعلیم پر ہے۔ صرف تین امور میں اختلافات پایا جاتا ہے۔
اول-: یسوع مسیح جو خدا کے نبی اور )حضرت( محمد )مصطفیٰ~صل۱(~ سے قبل بطور ارہاص آئے تھے۔ وہ صلیب پر فوت ہوئے بلکہ ان کی حالت وفات یافتہ شخص کے مشابہ ہوگئی تھی۔ وہ اپنی قبر سے اٹھ کر مشرق کی جانب روانہ ہوگئے تاکہ کشمیر میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں )مسیح کی زندگی کے بارہ میں اسی طرح کے اور غلط خیالات بھی ان میں پائے جاتے ہیں(
آپ نے ۱۲۰ سال کی عمر کے بعد کشمیر میں وفات پائی جہاں سرینگر شہر میں دفن ہوئے اب تک ان کا مقبرہ موجود ہے لیکن غلطی سے اس مقبرہ کو یوز آصف کی طرف منسوب کیاجاتا ہے۔
دوم-: جہاد یعنی جنگ مقدس کا استعمال منکرین کے استیصال کے لئے ناجائز ہے۔ اسلام کی تبلیغ قرآنی دلائل کی روشنی میں صرف امن وآشتی سے ہی کی جانی چاہئے۔
سوم-: موعود مہدی حضرت احمد ہیں جو یسوع کے مثیل اور حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے نقش حقیقی ہیں برخلاف عام مسلمانوں کے جو ایسا عقیدہ نہیں رکھتے ہیں۔
گو جماعت احمدیہ قرآن کریم کی تشریحات کے بارہ میں آزادی کی قائل ہے لیکن ان کا کوئی عقیدہ اسلام کے منافی نہیں۔ مسلمانوں کے عام فرائض نماز` روزہ اور زکٰوہ کے علاوہ جماعت احمدیہ کی طرف سے دین دار اور اخلاق فاضلہ پر خاص زور دیا جاتا ہے اور ہر فرد قوم کے ساتھ پر امن برتائو کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس طور پر جماعت احمدیہ جو اسلام ہی کا ایک فرقہ ہے اور اصلاحی تحریک ہے اپنے آپ کو دلچسپ طریق پر پیش کرتی ہے۔ پرانی رسومات کے خلاف یہ جماعت اسلام کو محض مذہب تک محدود رکھتی ہے اور ان کا یہ استدلال قرآن تعلیم پر مبنی ہے۔
حکومت برطانیہ نے بھی جماعت احمدیہ کے اس موقف کو تسلیم کیا ہے کہ جماعت ۱۹۰۰ء سے ہی اپنی تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہی ہے اور انہوں نے سیاسیات ملکی میں حصہ نہ لے کر یہ کام اور لوگوں کے سپرد رکھا ہے۔
‏tav.11.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
حالیہ ترجمتہ القرآن بھی ان کی تبلیغی کارروائیوں کا ہی ایک اہم حصہ ہے۔ مشہور و معروف مشرقی علوم کی اشاعت کی ذمہ دار فرم HARRASSONSITZ OTTO نے جو پہلے پہل LEIPZIG میں قائم ہوئی تھی اس کتاب کو خوبصورتی اور نفاست کا لباس پہنایا ہے۔ یہ ترجمہ جو عربی متن کے ساتھ ہے انڈکس` مبسوط دیباچہ اور تشریح الفاظ کے ساتھ رکسون کی لچک دار جلد میں خوبصورت طباعت کے ساتھ اور باریک کاغذ پر شائع کیاگیا ہے اور اپنی تمام خصوصیات کے باوجود نہایت تھوڑی قیمت پر میسر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا جامع ترجمہ ہے جو مسلمانوں کے زعم میں یورپین اقوام کے سامنے محمد~)صل۱(~ کی تعلیم پیش کرتا ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اسلوب ومحاورات کو جانچنے اور اس کی جزئیات پر نظر رکھنے کے قابل وہی شخص ہوسکتا ہے جس کی تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی ہو دراصل یہ ترجمہ بھی پرانے تراجم سے کوئی خاص اختلافات نہیں رکھتا اور جہاں کہیں تھوڑا بہت اختلافات بھی ہے اسے کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں۔ سورۃ فاتحہ کے مطالعہ کے وقت بھی کوئی خاص فرق معلوم کرنا مشکل ہے۔
جہاں نئے ترجمہ کا ہر لحاظ سے خیر مقدم کیاگیا ہے وہاں ۱۶۰ صفحات پر مشتمل دیباچہ جسے مرزا محمود احمد )خلیفہ ثانی( نے تصنیف کیا ہے ایسے تبلیغی پراپیگنڈا پر مبنی ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ ناشرین کو واقعی اس کا حق پہنچتا ہے۔ لیکن کیا ہم بھی اس پروپیگنڈا کو جانچنے اور اس پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں؟
دیباچہ کا دوسرا حصہ مجمل طور پر قرآن تعلیمات کو پیش کرتا ہے جو یسوع مسیح کی مخصوص تعلیم سے ٹکراتی ہیں۔ پہلے حصہ میں بتایاگیا ہے کہ پرانی کتب مقدسہ کے ہوتے ہوئے نئی کتاب۔ قرآن مجید کی کیا ضرورت تھی۔ پرانے مذاہب کا اختلاف اور اس بات کا متقاضی تھا کہ کوئی نیا مذہب ان کی جگہ لے جس کا دائرہ عمل تمام اقوام عالم ہوں کیونکہ بائبل اور انجیل کے خدا خاص خاص اقوام کے قومی خدا تھے۔ حتیٰ کہ جب مسیح بپتسمہ دینے کے لئے اقوام کا ذکر کرتے تو ان کا مطلب بنی اسرائیل کے قبائل ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح ویدوں` زرتشت اور کنفیوشس کا حلقہ` عمل خاص اقوام تک محدود رہا صرف اسلام ہی توحید الٰہی کا معلم ہے اور اس کا پیغام ساری دنیا کے لئے ہے۔ پہلی کتب میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ متضاد امور سے بھرپور ہیں۔ خالص الٰہی الفاظ متن میں قائم نہیں رہے۔
ان کی تعلیم وحشیانہ` غیرمعقول اور غلط فلسفہ الٰہیات پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک کامل و مکمل کتاب کی ضرورت پیش آئی جو قرآن مجید کے وجود سے پوری ہوئی۔ باقی تمام مذاہب مکمل اور آخری مذہب ہونے کے دعویدار نہیں ہیں بلکہ ان سب میں ایک موعود نبی کی خبر موجود ہے جو )حضرت( محمد~)صل۱(~ ہیں جن کے ذریعہ آخری فتح اسلام کے حق میں مقدر ہوچکی ہے۔
تاریخ کے یہ اوراق خواہ کتنے ہی حیران کن ہوں لیکن یہ تصویر کس طور پر سامنے آئی؟ اس بارہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ )حضرت( مرزا احمد )علیہ السلام( ان معاملات کو ناموزوں پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ وہ اپنے خیال میں اگر کوئی معمولی سی خامی ان کتب میں دیکھتے ہیں جو مقابلہ کے وقت انہیں نظرآتی ہے اس کے متعلق وہ یک طرفہ نظریہ قائم کرلیتے ہیں اور اکثر اوقات ان کا فیصلہ معمولی اور نامناسب طریق پر ہوتا ہے۔
واقعت¶ہ یہ امر صداقت پر مبنی نہیں کہ عہدنامہ عتیق جس کو جمع کرنے پر ایک ہزار برس لگے متضاد امور پر مشتمل اور عہدنامہ جدید میں بہت سے اور لوگوں کے کلام کو دخل ہے۔ ہر وہ بات جس سے قومی حدبندی کی تنقیض ہوتی ہے اس سے احتراز کیاگیا ہے۔ مثلاً یسعیاہ ۲۔۵/۲ یا ملاقی ۱:۱۱ یا اس کی غلط تعبیریں کی گئی ہیں۔ مثلاً متی ۲۸:۱۹۔
دوسری طرف فریضئہ جہاد پر خاموشی اختیار کی گئی ہے جس کے ذریعہ اسلام کو محمد رسول اللہ~صل۱~ کی شروع مدنی زندگی سے ہی بزور شمشیر پھیلایاگیا۔ اسلام کے اس اہم مسئلہ میں بڑی آسانی سے اصلاح کردی گئی ہے۔ مزید یہ زور دیاگیا ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے جادوگری کے مرتکب کو جو موت کی سزا کا حکم توریت نے دیا ہے )خروج ۱۸:۲۲( یہ وحشت وبربریت پر مبنی ہے کیونکہ حقیقی جادوگر کبھی صفحہ ہستی پر ظاہر نہیں ہوئے۔ البتہ توریت کی اس تعزیر کا اطلاق ان فن کاروں پر ہوتا ہے جو اپنی شعبدہ بازیوں سے لوگوں کے لئے سامان تفریح بہم پہنچاتے ہیں۔
لیکن آخری دنوں سورتوں کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ خود )حضرت( محمد سحرکاری یا اس سے ملتی جلتی کسی شے کے وجود کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔
عہدنامہ جدید کے پیرے۔ متی ۱۲:۴۷ اور یوحنا ۲:۳ پر سخت نقطہ چینی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس میں ماں کی عزت کو برقرار نہیں رکھاگیا لیکن حقوق نسواں سے متعلق قرآنی دلائل )صفحہ ۱۳۴( چوتھی سورت کے ہوتے ہوئے بہت کم سچائی پر مبنی نظرآتے ہیں۔
اس طرح نہ صرف اسلام بلکہ قرآن کی ایک معیاری اور خوبصورت تصویر کو پیش کیاگیا ہے اور سارے قرآن کو ایسے ربط باہمی سے منسلک قراردیاگیا ہے جس سے )پڑھنے والے کو( مکی اور مدنی زندگی میں نازل ہونے والی سورتوں میں کوئی اختلاف نظرنہیں آسکتا۔ نہ اسے ان اہم مقامات کا پتہ لگ سکتاہے جہاں موضوع سے ہٹ کر نیا موضوع چھیڑاگیا ہے۔ نہ قاری کو ان دلچسپ تبدیلیوں پر آگاہی ہوسکتی ہے جو محمد ~)صل۱(~ کے خیالات میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً دوسرے حصہ میں توحید الٰہی پر بہت زور دیاگیا ہے اور الحاد پر سخت حملے کئے گئے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف سخت رویہ روا رکھا گیا ہے لیکن جہاں فردوس کی نعماء کا ذکر کرتے وقت صرف وفادار بیویوں کو نہ کہ سیاہ چشم حوروں کو مجاہدین شہداء کا منتظر دکھایا گیاہے۔ اگرچہ محمد~)صل۱(~ کو جو >جھوٹے نبی کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اس کی کتنی ہی پر زور تردید کیوں نہ کی جائے۔ جیسا کہ بیل )ELAB(]ydob [tag کا پادری ہر اتوار کو بلاناغہ پرانے طریق کے مطابق اپنے منبر سے یہ آواز اٹھاتا ہے کہ جھوٹے محمد کے قلعوں کو مسمار کردو۔< تب بھی عہدنامہ عتیق کے نبیوں اور )حضرت( محمد ~)صل۱(~ کا موازنہ ان کے )حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱(~ کے حق میں بہت غیر مفید ثابت ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جو باتیں محمد رسول اللہ ~)صل۱(~ کی زندگی میں منصہ شہود پر آگئی تھیں ان کے حصول کے لئے یہودیت اور عیسوئیت کو صدیوں کی مساعی کرنی پڑیں اور وہ بھی مختلف طریق عمل پر۔
اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ محمد رسول اللہ ~)صل۱(~ مکی زندگی میں بلاشبہ نبی تھے۔ ان کا سراپا ان کے مشن میں محوتھا اور انہوں نے دیانتدار مصلح یا ریفارمر کی زندگی بسر کی لیکن جونہی آپ مدینہ میں منتقل ہوئے آپ میں وہ تمام صلاحیتیں نظر آنے لگیں جو ایک کہنہ مشق سیاستدان میں ہونی چاہئیں۔ جو اپنے مقصد کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کر گزرتے۔ وہ اس زمانہ میں خدا کی طرف سے ایسی وحی کے بھی مدعی ہیں جن میں ان کے ذاتی مراعات کا جواز یا ذکر ہے اور ان مراعات کا دائرہ کسی حد تک اخلاقیات پر بھی حاوی ہے۔ اسی طرح طرح سورۃ ۳۳:۴۹ جس میں آپ کے لئے ازواج کی تعداد کا ذکر ہے یا جب آپ کی نظر خوبصورت زینب پر جاپڑی جو آپ کے متبنیٰ کی بیوی تھی۔ آپ کی خواہش تھی کہ زید کے عقد سے آزاد ہونے کے بعد اس سے شادی کرلیں تو ایک >وحی< کے ذریعہ تمام شک و مخالفت کو دبادیاگیا )۳۶۔۳۸/۳۳( اسی طرح سورۃ نمبر۶۶ میں ذکر ہے کہ فرشتئہ وحی آپ کو رنج واندوہ کے پنجوں سے آزاد کرانے کے لئے حرم نبویﷺ~ میں بھی اترا کرتا تھا۔
>بائبل اور قرآن )کریم( کی اصلیت کا موازنہ اور ان پر بحث کرتے ہوئے بھی جدا جدا پیمانے استعمال کئے گئے ہیں۔<
)۴( آسٹریا کے موقر جریدہ UNDLITURGIE BIBLE نے اپنی اشاعت اگست و ستمبر ۱۹۵۴ء میں قرآن کریم کے جرمن پر درج ذیل الفاظ میں ریویو شائع کیا۔
>قرآن کریم کا نیا شائع کردہ ترجمہ عربی زبان اور اس کے لٹریچر کو سمجھنے میں کافی مدد دینے کا موجب ہوگا۔ آسٹریا میں الٰہیات اور مشرقی علوم کے طالب علموں کو جو عربی میں ڈاکٹری کے امتحان میں شامل ہورہے ہیں ادب عربی میں مہارت پیدا کرنے کے لئے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔<
)۵( زیورخ کے بااثر اخبار BLATT BUCHER DAS نے اپنی ۲۴۔ ¶ستمبر ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھا۔
>۸۰۳ صفحات پر مشتمل خوبصورت رکسون کی جلد میں قرآن کریم کا ترجمہ عربی زبان سے جرمن زبان میں احمدیہ مسلم مشن زیورخ کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔ اصل کتاب کے ساتھ الفاظ کی تشریح اور انڈکس کے علاوہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب )خلیفہ المسیح الثانی( کے قلم سے ایک مبسوط دیباچہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ کئی سال سے سوئٹزرلینڈ میں احمدیہ مسلم مشن قائم ہے جس کا صدر مقام زیورخ میں ہے عربی اور جرمنی زبان کے حالیہ ترجمے کی اشاعت کا سہرا اسی مشن کے سرہے۔ اصل کتاب سے پہلے تقریباً ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل ایک لمبا دیباچہ شامل ہے جس کے فاضل مصنف کا ذکر اوپر آچکا ہے جو مسیح موعود کے دوسرے خلیفہ اور جماعت احمدیہ کے موجودہ امام ہیں۔ مسلمان اس بات کے دعویدار ہیں کہ اسلام کے ظہور کا مقصد یہودیت و عیسوئیت کا استیصال ہے اور ان کا یہی دعویٰ نیم مخاصمت کی وجہ ہے۔ عربی متن اور اس کے ترجمہ کے بارہ میں علمی حلقوں سے تنقید کی آوازیں سنی گئی ہیں لیکن ان کا ذکر اس موقع پر بے جا ہوگا۔ ہم اس ترجمہ کی اشاعت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ HENNING نے جو ترجمہ REKLAME, YTIUNIVERS کی لائبریری کے لئے کیا تھا وہ بھی چونکہ اب نایاب ہے اس لئے بھی یہ ترجمہ ان لوگوں کی ضرورت پورا کرنے کا موجب ہے جو اسلام کا اصل چہرہ اور اس کی روح ان کی کتاب مقدس سے دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ )ترجمہ(
)۶( اخبار STUTLTGUST> BESINNUNG ARDERTUND <FIER نے یکم فروری ۱۹۵۵ء کو ایک طویل تبصرہ سپرد قلم کیا جس کا ملخص درج ذیل کیاجاتا ہے۔
انیسیویں صدی میں اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس جماعت نے حال ہی میں قرآن کریم کا ترجمہ جرمن زبان میں شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلا نہیں بلکہ اس کی خوبی یہ ہے کہ اسے ایک اسلامی جماعت نے خود اپنے زیر اہتمام شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے اور جرمن ترجمہ کے ساتھ عربی متن بھی دیاگیا ہے۔ احمدیہ جماعت کی بنیاد )حضرت( مرزا غلام احمد صاحب )علیہ الصلٰوۃ والسلام( نے ۱۸۸۰ء میں رکھی جو ۱۸۳۵ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ حضرت نبی کریم~صل۱~ کی پیشگوئی کے مطابق چودھویں صدی کے سر پر بطور مسیح اور مہدی ظاہر ہوئے ہیں وہ ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے اور ۱۹۱۴ء سے حضرت مرزا بشیراحمد محمود صاحب جماعت کے دوسرے خلیفہ اور امام ہیں۔ اس ترجمہ قرآن کریم کا دیباچہ انہی کی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ اس دیباچہ میں اس بات پرزور دیاگیا ہے کہ اسلام سے پہلے مذاہب وقتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آئے تھے لیکن حضرت نبی کریمﷺ~ اور اسلام کے ذریعہ مذہب کی تکمیل ہوئی۔ مثال کے طور پر حضرت مسیح صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو اکٹھا کرنے آئے تھے۔ گو ان کے حواریوں نے بعد میں دوسروں کو تبلیغ کرنی بھی شروع کی لیکن حضرت مسیح کا یہ مشن نہ تھا کیونکہ متی ۲۳۔۱۰ میں صاف لکھا ہے۔
>میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا۔<
پس نبی کریم~صل۱~ اور قرآن کے ذریعہ اسلام سے پہلے قائم شدہ مذاہب کے اختلافات کو دور کیاگیا جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پیدا ہوگئے تھے۔ پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے رستہ میں روک نہیں بلکہ ان کا وجود ہی ایک ایسی عالمگیر اور کامل تعلیم کا متقاضی ہے۔
عہدنامہ قدیم انسانی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس میں تناقضات اور اختلافات موجود ہیں اور اس میں مصنف نے اپنے خیالات کو بھی درج کردیا ہے۔ پھر عہدنامہ قدیم میں ظالمانہ احکام موجود ہیں۔ غلاموں کے لئے سخت اور انسان سوز احکام درج ہیں۔ چنانچہ خروج ۲۰۔۲۱/۲۱ میں لکھا ہے۔
>اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اور وہ مار کھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے لیکن اگر وہ ایک دن یا دو دن جئے تو اسے سزا دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے۔<
اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے۔ پھر بائبل میں خلاف عقل تعلیم بھی موجود ہے۔ چنانچہ احبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے۔
>مرد یا عورت جس میں جن ہو یا وہ جادوگر ہو تو وہ قتل کئے جادیں چاہئے کہ تم ان پر پتھرائو کرو اور ان کا خون انہیں پر ہووے۔<
یہ کیسی تعلیم ہے۔ یہ سب اختلافات ظالمانہ اور خلاف عقل تعلیمات قرآن کریم کی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں۔ عہدنامہ جدید یعنی اناجیل مسیح کے اقوال پر مشتمل نہیں کیونکہ مسیح اور ان کے حواری یہودی النسل تھے اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول محفوظ ہوسکتا ہے تو عبرانی زبان میں لیکن انجیل کا کوئی نسخہ عبرانی زبان میں محفوظ نہیں بلکہ تمام اناجیل یونانی زبان میں ہیں۔ اناجیل کے اندر بھی اختلافات اور توہمات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مرقس ۱۲۔۱۳/۱ میں لکھا ہے۔
>اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کر شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اس کی خدمت کرتے تھے۔<
وہ انسان جو حضرت مسیح کی عظمت اور ان کے مقام کا قائل ہے اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہے کہ یہ مقامات اناجیل میں بعد میں داخل کئے گئے ہیں۔ پھر مسیح نے اناجیل میں اپنے نہ ماننے والوں کے خلاف جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں مثلاً انہیں سور اور کتے قراردیا اور اپنی والدہ کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اس کی بے ادبی کی۔ یہ سب امور ہماری رائے میں بعد کے آنے والے لوگوں نے ایجاد کئے ہیں جبکہ مسیح اس دنیا سے جاچکے تھے اور ایک مصنوعی اور خیالی مسیح اس زمانہ کے نادان اور دین سے ناواقف لوگ بنارہے تھے۔ ان سب امور کے پیش نظر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نئے الہام کی ضرورت تھی جو اس قسم کی غلطیوں سے پاک ہو اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن مجید ہے۔ قرآن کریم ایک مکمل اور عالمگیر شریعت ہے جو کامل نبی ~)صل۱(~ کے وجود باجود سے معرض وجود میں آئی۔
بائبل میں حضرت نبی کریم~صل۱~ کی آمد کے بارہ میں متعدد پیشگوئیاں بھی موجود ہیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ کے حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے وعدے جس طرح حضرت موسیٰ کے ذریعہ پورے ہوئے۔ اسی طرح حضرت اسمعیلؑ کی نسل سے جو وعدے تھے وہ آنحضرت~صل۱~ کے وجود سے پورے ہوئے۔ اس طرح یسعیاہ اور دانیال کی پیشگوئیوں کے مصداق آنحضرت~صل۱~ ہیں اور استشناء ۱۶۔۲۰/۱۸ کی پیشگوئی نبی کریم~صل۱~ کے وجود میں نہ کہ مسیح کے وجود میں پوری ہوئی کیونکہ اس پیشگوئی کے مطابق آنحضرت~صل۱~ ایک نئی شریعت کے حامل ہیں اور مسیح کو کوئی شریعت نہیں دی گئی۔ اور پھر اس پیشگوئی کے مطابق آنحضرت~صل۱~ کو مکمل تعلیم دی گئی۔
اسی طرح متی ۳۳۔۴۶/۲۱ کی پیشگوئی کے مصداق آنحضرت~صل۱~ ہیں۔ آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکرائی اور پاش پاش ہوگئی۔ یہ سب امور دیباچہ میں بیان کئے گئے ہیں۔
قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو ۲۳ سال کے عرصہ میں آنحضرت~صل۱~ پر نازل ہوا۔ حضرت مسیح خدا کے بیٹے نہیں بلکہ دیگر انبیاء کی طرح ایک نبی تھے اور وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے۔ اسلام اور قرآن کے ذریعہ ہی دین وایمان کی تکمیل ہوسکتی ہے۔
عیسائی دنیا اس سوال کا جواب کیا دے گی کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور نبی کریمﷺ~ کے ذریعہ دین کی تکمیل ہوئی۔ امام جماعت احمدیہ اس دیباچہ میں عیسائی دنیا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں چیلنج کرتے ہیں۔
>اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بشپوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر مشتمل ہو تو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہوجائے گی۔<
امام جماعت احمدیہ اپنے آپ کو مصلح موعود قرار دیتے ہیں جن کی پیدائش کی خبر حضرت مسیح موعود نے ان کی پیدائش سے پانچ سال قبل ۱۸۸۶ء میں دی تھی۔ وہ اپنے الہامات کو اسلام اور قرآن کی صداقت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ قرآن کے نئے علوم ان پر کھولے گئے ہیں اور دوسرے مسلمان جماعت احمدیہ کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ افغانستان میں ۱۹۲۴ء میں دو احمدیوں کو شہید کیاگیا جماعت احمدیہ جہاد کی تعریف دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ نہیں کرتی کہ آنے والا مسیح اور مہدی کافروں کا تلوار سے قلع قمع کرے گا۔ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب سے زندہ اترے اور پھر مرہم عیسیٰ کے ذریعہ سے شفاء پائی اور بعد میں کشمیر گئے اور سرینگر میں فوت ہوئے۔ یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم معجزات کا قائل نہیں بلکہ قرآن کریم پورے یقین کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ اور امام جماعت احمدیہ نے دیگر امور کے علاوہ نبی کریم کی پیشگوئیاں کو بھی معجزات قراردیا ہے۔ ہاں قرآن کریم اس قسم کی جاہلانہ باتیں نہیں کہتا کہ محمد رسول اللہ حقیقی مردے زندہ کیاکرتے تھے یا سورج اور چاند کی رفتار کو ٹھہرادیا کرتے تھے یا پہاڑوں کو چلایا کرتے تھے` یہ تو بچوں کی کہانیاں ہیں۔ ان باتوں کو قرآن کریم نہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی طرف منسوب کرتا ہے اور نہ کسی اور نبی کی طرف بلکہ اگر پہلی کتب میں اس قسم کی باتیں استعمال ہوئی ہیں تو قرآن کریم ان کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ باتیں محض استعارۃ استعمال ہوئی ہیں اور لوگوں نے انہیں حقیقی رنگ دینے میں غلطی کی ہے۔ مسیح کی الوہیت اور ان کی طرف خدائی قوتوں کو منسوب کرنے کا بھی جماعت احمدیہ نے رد کیا ہے۔ جماعت احمدیہ اس بات کو بھی پیش کرتی ہے کہ حضرت نبی کریم~صل۱~ نے اپنے دائرہ رسالت میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کے برعکس تمام دنیا کو مدنظر رکھا۔ ان کی تعلیمات میں حضرت موسیٰ کی تعلیمات اور حضرت عیسیٰ کی نرمی اور بردباری اور محبت کی تعلیمات کامل طور پر موجود ہیں۔ وہ دشمنوں سے صلح کرنے اور اہلی زندگی کے لئے بالخصوص عالمگیر اور کامل مثال ہیں۔
)حضرت( مسیح موعود نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ انہوں نے قرآنی مسیح )حضرت عیسیٰ علیہ السلام( کے خلاف کبھی نہیں لکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی تھے بلکہ جہاں جہاں انہوں نے مسیح پر حملے کئے ہیں وہاں انجیل کے مسیح پر انجیل کی تعلیمات کے مطابق الزامات لگائے ہیں جسے وہ دنیا کا نجات دہندہ اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ اگر نجات مسیح کے دامن سے ہی وابستہ ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جو انبیاء اور راست باز لوگ مسیح سے پہلے گزرے ان کی نجات کیسے ہوئی جبکہ مسیح پر ایمان نہیں لائے تھے۔
اسلام اب عیسائیت کے خلاف زور سے حملہ آور ہے اور احمدیت کے مرکز میں یہ پروپیگنڈا پورے زور سے جاری ہے۔ اور یہ امر عیسائی دنیا کی آنکھوں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ )ترجمہ(
)۷( ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب ماضی مینجر مدارس دینیہ مصر نے جرمن ترجمہ قرآن کے متعلق مندرجہ ذیل رائے تحریر کی۔
>اماالترجمہ نفسھا فقد اختبرتھا فی مواضع مختلفہ وفی کثیر من الایات فی مختلف السور فوجدتھا من خیرالترجمات التی ظھرت للقران الکریم فی اسلوب دقیق محتاط ومحاولہ بارعہ لاداء المعنی الذی یدل علیہ التعبیرالعربی المنزل لایات القران الکریم۔<۱۷۴
یعنی جہاں تک ترجمہ کا تعلق ہے میں نے مختلف مقامات اور مختلف سورتوں کی بہت سی آیات کا ترجمہ بنظر غائر دیکھا ہے۔ میں نے اس ترجمہ کو قرآن مجید کے جملہ تراجم سے جو اس وقت منصئہ شہود پر آچکے ہیں بہترین پایا ہے۔ اس ترجمہ کا اسلوب نہایت محتاط علمی رنگ لئے ہوئے ہے۔ باریک بینی کو مدنظر رکھا گیا ہے اور معانی قرآن کی ادائیگی میں انتہائی علمی قابلیت کا اظہار کیاگیا ہے تاکہ عربی میں نازل شدہ قرآنی آیات کی کما حقہ ترجمانی ہوسکے۔۱۷۵
حضرت سیدنا المصلح الموعود کا زیورچ میں ورودمسعود
سوئٹزرلینڈ کو اپنی زندگی کے نویں سال یہ دائمی فخر نصیب ہوا کہ حضرت سیدنا المصلح الموعود جب دوسری بار یورپ تشریف لے گئے تو حضور زیورچ )سوئٹزرلینڈ( میں بھی ۹۔ ماہ ہجرت/مئی سے ۱۰ ماہ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء تک جلواہ افروز ہے۔ حضور کی رہائش سے متعلق جملہ انتظامات کی سعادت شیخ ناصر احمد صاحب کے حصہ میں آئی جس پر حضور نے درج ذیل الفاظ میں بذریعہ تار اظہار خوشنودی فرمایا کہ-:
>ہم خدا کے فضل سے اہل وعیال کے ساتھ بخیریت پہنچ گئے ہیں۔ جنیوا سے آگے تمام انتظامات شیخ ناصر احمد )مبلغ سلسلہ( نے کئے تھے جو کہ بہت عمدہ تھے۔ شروع میں تازہ روغن ہونے کی وجہ سے کچھ تکلیف ہوئی لیکن چند گھنٹے کے بعد یہ تکلیف رفع ہوگئی۔<۱۷۶
سیدنا المصلح الموعود کا سوئٹزرلینڈ میں ورودمسعود ڈاکٹر پروفیسر روسیو کی نگرانی میں معائنہ اور علاج کی غرض سے تھا۔۱۷۷ اور حضور نے نہ صرف ان سے طبی مشورہ لیا بلکہ زیورچ میں ڈاکٹر پروفیسر روزئیر` ہومیوپتھ ڈاکٹر گیزل اور مشہور معالج ڈاکٹر BOSIO)۔(DR سے اور جنیوا میں ہومیوپتھ ڈاکٹر شمڈٹ SCHMIDT) ۔(DR سے مشورہ فرمایا۔ تمام طبی ٹسٹ مکمل ہوچکے تو ڈاکٹر بوسیو نے ۲۳ مئی ۱۹۵۵ء کو طبی رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی تشخیص بتائی۔ چنانچہ حضور انور نے اسی روز حسب ذیل خصوصی پیغام بذریعہ تاراسال فرمایا۔
>خدا کا شکر ہے کہ تمام طبی ٹسٹ مکمل ہوگئے ہیں اور بیماری متعین کرلی گئی ہے۔ مشہور معالج ڈاکٹر بوسیو BOSIO) ۔(DR نے رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص سے مطلع کردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہے لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہئے اور اگر ممکن ہوسکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہئے۔ پھر یہ کہ میری تصویریں زیادہ مختصر ہونی چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ سال حملے کے نتیجے میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا۔ اور یہ کہ سرجن کی رائے درست نہیں تھی` ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو اب بھی اندر ہی موجود ہے اور ریڑھ کی ہڈی )سپائینل کارڈ( کے قریب ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ جن خطرناک معائنوں سے بچنے کی کوشش کی جارہی تھی اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔4]< f[st۱۷۸
زیورچ میں حضرت مصلح موعود کی نہایت اہم دینی مصروفیات
طبی تشخیص کے بعد حضرت سیدنا المصلح الموعود زیورچ میں مزید ڈھائی ہفتے رونق افروز ہے۔ اگرچہ قبل ازیں بھی حضور کی دینی مصروفیات برابر جاری رہیں چنانچہ حضور مرکزی ڈاک ملا خطہ فرمانے اور یورپ میں تبلیغ اسلام کو کامیاب طور پر وسیع کرنے کی سکیم تیار کرنے میں شب و روز منہمک رہے نیز لندن میں یورپ اور امریکہ کے مبلغین کی تبلیغی کانفرنس بلوانے کا فیصلہ سوئٹزرلینڈ ہی میں فرمایا۱۷۹]4 [rtf لیکن قیام زیورچ کے آخری ایام میں حضور کی دینی مصروفیات یکایک بڑھ گئیں اور اہل سوئٹزرلینڈ کو عموماً اور سویس احمدیوں کی خصوصاً اپنے مقدس و محبوب آقا کی مبارک و روح پر ورمجالس سے فیضیاب ہونے اور حضور کے روح پر ور کلمات وارشادات سننے کے ایسے ایسے قیمتی مواقع میسر آئے جو ہمیشہ کے لئے اس سرزمین کے فرزندوں کے لئے سرمایہ افتخار رہیں گے۔ اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کی دینی سرگرمیوں کا مختصر اور تاریخ وار خاکہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
۲۴۔ ہجرت )مئی( حضور نے عیدالفطر کی تقریب پر جماعت کے نام یہ پیغام دیا کہ
>ایک دوست نے لکھا ہے کہ آپ عید پر کوئی پیغام دیں چنانچہ میں یہ پیغام بھجواتا ہوں اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کے روزے قبول فرمائے اور عید ان کے لئے بہت بہت مبارک کرے۔<۱۸۰
۳۔ احسان )جون( آج حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔۱۸۱
۴۔ احسان )جون( آج حضرت اقدس زیورچ کے احمدیہ مشن میں تشریف لائے اور معائنے کے بعد اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا کہ
>خدا تعالیٰ سوئٹزرلینڈ کے باشندوں کی اپنے دین کی طرف رہنمائی فرمائے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔<۱۸۲
۵۔ احسان )جون( آج حضور کی طبیعت نسبتاً بہتر رہی۔ حضور نے آج سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب کو بیلوائر پارک PARK) (BELVOIR میں چائے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے۔ اس تقریب کو باپ اور بیٹوں کی ملاقات سے تعبیر فرمایا۔ سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب نے اپنے آقا اور روحانی باپ کو اپنے درمیان رونق افروز پاکر بے حد خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔۱۸۳]4 [rtf
۵۔ احسان )جون( حضور نے آج چائے پارٹی کے موقع پر سوئٹزرلینڈ کے احمدی احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا! اے میرے روحانی بچو میں تم سے مل کر بہت خوش ہوا ہوں۔ بیشک سوئٹزرلینڈ ایک چھوٹا ساملک ہے لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر عمل کروگے تو بڑے بڑے ملک بھی تم پر رشک کریں گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والی عزت عطا کرے گا۔ حضور نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا اور شیخ ناصراحمد صاحب )مبلغ سوئٹزرلینڈ( کو جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔۱۸۴
۸۔ احسان )جون( آج سوئس ٹیلیویژن کے ذریعہ حضور انور کا انٹرویو نشر ہوا۔ حضور نے یہ انٹرویو انگریزی زبان میں دیا جس کا ترجمہ مکرم شیخ ناصراحمد صاحب ہی نے جرمن زبان میں کرکے سنایا۔ حضور نے سفر یورپ کی غرض` رمضان المبارک کی اہمیت` جماعت احمدیہ کی تبلیغی جدوجہد اور اس کی ضرورت سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے۔ یوگوسلاویہ کا ایک باشندہ حضور کے دست مبارک پر بیعت کرکے داخل احمدیت ہوا۔۱۸۵ آج شب کو حضور کا ایک انٹرویو بھی سوئس ٹیلیویژن کے ذریعہ نشر ہوا اور اس ملک کے خوش نصیب باشندوں نے خدا کے مقدس مصلح موعود کا پر انوار اور مقدس چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حضور کو اسلام کے حقیقی تصور اور اس کی اہمیت پر گفتگو فرماتے ہوئے سنا۔۱۸۶
۱۰۔ احسان )جون( آج حضور نے نماز جمعہ پڑھائی۔۱۸۷
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود تیس دن تک سوئٹزرلینڈ کی سرزمین کو اپنے مقدس وجود سے برکت عطا کرنے اور اس کو باشندوں کو نور اسلام سے منور کرنے کے بعد ۱۰۔ احسان )جون( کو ڈھائی بجے بعد دوپہر زیورچ سے جنوبی سوئٹزرلینڈ کے مقام لوگانو (LOGANO) تشریف لے گئے جہاں سے روانہ ہوکر ۱۱۔ احسان )جون( کو اٹلی کی مشہور بندرگاہ وینس میں پہنچے ۱۸۸ اور سوئٹزرلینڈ کی اسلامی تاریخ کا ایک زریں ورق الٹ گیا۔
رومن کیتھولک کے یورپ کو تبلیغ اسلام
جون بست وسوم XXIII) JOHN (POPE کا انتخاب ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء کے آخر میں عیسائیوں کے رومن کیتھولک فرقے کے نئے یورپ کی حیثیت سے ہوا تو محترم شیخ ناصراحمد صاحب )مبلغ اسلام سوئٹزرلینڈ( نے آنحضرت~صل۱~ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ان کے نام ایک مفصل تبلیغی مکتوب لکھا جس میں مروجہ عیسائی معتقدات و نظریات کا غلط ہونا ثابت کرنے کے بعد انہیں دعوت اسلام دی اور توجہ دلائی کہ وہ اسلام کی دائمی تعلیمات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کی مقدس زندگی اور پاک سیرت کا یورپ کے روایتی تعصب سے بالا ہوکر مطالعہ کریں اور بانی تحریک احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت پر غور کرکے اس صداقت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کریں جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اکناف عالم میں پھیلانے کے ¶لئے مبعوث فرمایا ہے۔۱۸۹ اس خط کے بعد شیخ صاحب نے بعض اور تبلیغی خطوط بھی پوپ کے نام لکھے۔
احمدیہ مشن کی اسلامی خدمات اور حلقہ مخالفین
احمدیہ مشن کی لسانی و قلمی اسلامی خدمات سوئٹزرلینڈ کے حلقہ مخالفین کو کس طرح گوارا نہیں تھیں۔ اور چرچ جو ابتداء ہی سے مبلغین اسلام کی آمد کو اپنے لئے زبردست چیلنچ سمجھتا تھا اسلام کے روحانی انقلاب کی راہ روکنے کے لئے اب آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آنے لگا۔ چنانچہ اخبار LUCERNE GNUTIEZKIRCHEN نے اپنی ۶۔ فروری ۱۹۵۸ء کی اشاعت میں مجاہدین احمدیت کی سرگرمیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کو چرچ کے لئے خطرہ قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ۔
>مسلمانوں کی ایک جماعت اس کوشش میں ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو ہر جگہ پہنچائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمان مبلغین ہمارے ملک میں بھی مقرر کئے جائیں کیونکہ سوئٹزرلینڈ بھی اب ان علاقوں میں شامل ہوچکا ہے جن میں اسلامی مبلغین مصروف عمل ہیں۔ مختلف طریقے جو یہ جماعت اس جدوجہد کے سلسلہ میں عمل میں لائے گی؟ ظاہر ہے۔ وہ نام جس کا گزٹ میں ذکر کیا گیا ہے وہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ ہمیں اس امر کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ کبھی FREI JAKOB یا BADER AUGUST بھی اسلام کی خدمت میں لگ جائیں گے یہ زیادہ دیر کی بات نہیں جب اس امر کا علم ہوا کہ اسلام کا منظم تبلیغی کام سوئٹزرلینڈ میں بھی شروع ہورہا ہے۔ اس امر کا بھی اعلان ہوچکا ہے کہ یہ جماعت زیورک میں ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔ گو ہمیں اس سے خائف نہیں ہونا چاہئے لیکن بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مناسب وقت کے اندر اندر اس کے مقابلہ کے لئے تیار کرلیں اور اسے یہ سمجھ کر نہ چھوڑیں کہ وہ کسی عملی خطرہ کا پیش خیمہ نہیں ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر وہ خطرہ معلوم نہیں ہوتا تاہم ہمیں اس امر کی ترغیب دلا رہے ہیں کہ ہم اپنی دینی معلومات اور مذہبی طریقہ زندگی کے متعلق گہرا مطالعہ شروع کردیں۔<۱۹۰
اسی طرح اخبار GALLE ۔ST WEIZ OSESCH نے اپنے ۷۔ مارچ ۱۹۵۸ء کے ایشوع میں لکھا۔
>آج مسلمانوں کے ثقافتی حلقوں میں تبلیغ واشاعت کی شدید خواہش پیدا ہورہی ہے۔ یہ خواہش جو اپنے جوش کی وجہ سے اچانک پھوٹ پڑی ہے۔ یورپین مبصرین کے لئے سنسی خیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا اچانک اپنی قوت سے دوبارہ آگاہ ہوگئی ہے۔ ایسی قوت سے جو سیاسی نہیں بلکہ نظریاتی ہے۔ ایک ایسی خواہش جو تین صدیوں تک دبی رہی اچانک شعلہ بن کر یورپ کے ثقافتی حلقوں کو متاثر کرنے کے عزم صمیم میں تبدیل ہوچکی ہے تاکہ مسلمان قرآن اور ہلال کے لئے موجودہ ترقی یافتہ تبلیغی کام کے ذریعہ نئے آفاق تلاش کرسکیں۔ اسلام عرصہ سے اپنی اشاعت کے اس نئے جوش اور نئے ولولہ کی وجہ سے یورپ کو اپنی کوششوں کا مرکز قراردے چکا ہے اور محض یہی نہیں بلکہ اپنے قدموں کو مضبوطی سے جمارہا ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو خوش فہمی سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرے تو اسے ان حقائق پر غور کرنا چاہئے۔ زیورک میں چند سالوں سے ایک اسلامی تبلیغی مرکز قائم ہے جو اپنا رسالہ خود شائع کرتا ہے۔ اور جو اپنے لیکچروں اور خطبات کے ذریعہ سوئٹزرلینڈ کی ہر سوسائٹی اور ایسوسی ایشن سے ہر ممکن تعلق پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ اسلامی لٹریچر کی سرگرم اشاعت کے کسی موقع کو ضائع نہیں ہونے دیتا` خاص طور پر نوجوانوں میں ایسے مواقع کو کسی صورت میں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ زیورک کا یہ اسلامی مرکز کسی لحاظ سے بھی ایک الگ الگ تھلگ کوشش نہیں بلکہ ایک بہت بڑی منظم سکیم کی ایک شاخ ہے۔ اب ہر ایک شخص کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی پڑے گی کہ سرخ دیو آہنی پردے کے پیچھے آڑ لئے بیھٹا ہے اور وہ اپنی تمام تر طاقتوں کو مجتمع کئے ہوئے منتظر ہے کہ کب اسے موقع میسر آئے اور وہ مغرب کا گلا گھونٹنے کے لئے میدان میں آئے اس اثناء میں اسلام بھی یورپ کا مقابلہ کرنے کے لئے نہایت اطمینان کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہے مگر اس کی پیش قدمی اس کی محتاط` محرک اور موثر قوت کے ساتھ ہے جو اس کا خاصہ ہے۔4]< fts[۱۹۱
۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء میں سوئٹزرلینڈ کے مخالف اسلام طبقے کیا سوچ رہے تھے اور کیا کررہے تھے؟ اس کا نقشہ شیخ ناصر احمد صاحب نے اپنی ماہ تبرک/ستمبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۶۱ء کی رپورٹ میں بایں الفاظ کھینچا۔
>مخالفین کے حلقہ میں سے ایک شخص نے گمنام خط لکھا کہ اپنا بستر بوریا باندھ کر واپس چلے جائو اور پھر نہ لوٹو۔ ایک رسالہ میں ہمارے ایک مضمون پر کڑی تنقید شائع ہوئی لیکن مضمون نگار نے بات کو محض بگاڑ کر پیش کیا اور لوگوں کو ہمارے خلاف ابھارنا چاہا ہم نے مختصر رنگ میں اس کا جواب دیا۔ ان ہی دنوں خاکسار کو پولیس والوں نے ایک بیان کے لئے بلایا اور مضمون مذکورہ بالا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں لوگوں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ خاکسار نے انہیں جواباً کہا کہ ہمیں اس امر سے سخت حیرت ہے کہ اس مضمون میں جو اسلام میں خدا تعالیٰ کے تصور کے موضوع پر لکھاگیا ہے کسی صحیح الدماغ انسان کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے۔ خاکسار کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پولیس افسر نے ہمارے مضمون کو خود پڑھا تک نہ تھا۔ لٰہذا خاکسار نے مناسب سمجھا کہ انہیں نفس مضمون سے آگاہ کردیا جائے چنانچہ خاکسار نے بتایا کہ ہم نے مضمون یہ لکھا ہے کہ اسلام میں خدا صرف ایک وجود ہے جس کا نہ بیٹا ہے نہ بیوی۔ خدا تعالیٰ کا یہ تصور عیسائیت کے تصویر تثلیث سے بالکل مختلف ہے۔ شاید ایک عیسائی توحید باری تعالیٰ کے تصور کو نہ سمجھ سکے لیکن ہم مسلمان تثلیث کو نہیں سمجھ سکتے نہ ہی خدا تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک کرسکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مشکل یا مصیبت کے اظہار کے وقت >یسوع خدا< پکارنا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے۔ نہ ہی ہم ابنیت کے قائل ہیں نہ ہی صلیبی موت کے۔ اسلام کے خدا کو کسی مدد کی حاجت نہیں وہ کسی کام کو کرنے پر مجبور نہیں وغیرہ۔ اس پر پولیس افسر نے کہا کہ آپ کو یہ سب باتیں کہنے کا حق ہے اور یہ مذہبی آزادی کے عین مطابق ہے۔ خاکسار نے کہا کہ آپ کے نزدیک مخالف مضمون نگار نے کوئی معقول بات بھی پیش کی ہے یا صرف جذباتی طور پر ہمارے خلاف لوگوں کو ابھارا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اس کے نزدیک بھی مضمون متعلقہ کو جرنلزم سے کوئی تعلق نہیں۔ خاکسار نے کہا کہ اگر اس قسم کے بے ضرر مضمون پر بھی اعتراض ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کی تبلیغ ہی بند کردینی چاہئے۔ قرآن کریم کی اشاعت ممنوع قراردینی چاہئے بلکہ ہر بات جو موجودہ چرچ کے خلاف ہے اسے حکما روک دینا چاہئے۔ لیکن پھر ملک میں مذہبی آزادی نہیں رہے گی بلکہ مسلمان تو الگ رہے یہودیوں کو بھی خلاف قانون قرار دینا پڑے گا کیونکہ مسلمان تو بہرحال حضرت مسیح کی عزت کرتا اور انہیں خدا تعالیٰ کا نبی مانتا ہے برعکس اس کے یہودی آپ کو نعوذ باللہ کذاب اور ملعون سمجھتے ہیں۔ خاکسار کی باتوں کو پولیس افسر اچھی طرح سمجھ گیا۔<۱۹۲
نیز لکھتے ہیں-:
>مخالفت کے ذکر کے سلسلہ میں عیسائی مشنری کونسل کے ایک رسالہ کا ذکر بہت ضروری ہے جو انہوں نے گزشتہ عرصہ میں شائع کیا ہے۔ یہ ایک دوماہی رسالہ ہے جس کا نام <WONDERER> ہے۔ اسے شائع کرنے والی کونسل کے اراکین دس مشنری سوسائٹیز ہیں جو اس ملک کی طرف سے دنیا کے مختلف حصوں میں عیسائیت کا پرچار کررہی ہیں۔ )سوئٹزرلینڈ کا ملک عیسائیت کی عالمگیر تبلیغی مہم میں خاص حیثیت رکھتا ہے۔ صرف کیتھولک فرقہ کے ہی اٹھارہ صد مبلغ دنیا بھر میں کام کررہے ہی۔ ایک شہر بازل کی ایک تبلیغی انجمن نے ہی ۲۲۵ مبلغ بھجوا رکھے ہیں( لطف یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا رسالہ ہماری تبلیغی مساعی کے بیان پر مشتمل ہے اور اس مشن کی کارروائیوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور لوگوں کو ہماری جانب سے خطرہ سے خبردار کرکے لکھاگیا ہے کہ یہ احمدی لوگ ایک خاص جذبہ سے سرشار ہیں ان کی سکیموں کو حقیر نہ جانو اور نہ ہی ان کی کارروائیوں سے لاپرواہی برتو بلکہ اپنے آپ کو ان کے مقابلہ کے لئے تیار کرلو کیونکہ اگر یہ لوگ ایک غلط بات کی تائید میں اس قدر محنت اور قربانی کا نمونہ دکھا سکتے ہیں تو کیا ہم عیسائی لوگ اس کی خاطر ان سے بھی زیادہ قربانی نہیں دکھا سکتے جس نے ہمارے لئے اپنی جان تک دے دی! رسالہ مذکورہ میں ایک صفحہ پر ہمارے قبر مسیح والے اشتہار کی فوٹو دی گئی ہے۔ ایک صفحہ پر قرآن کریم کے جرمن ترجمہ کا ایک پورا صفحہ دیاگیا ہے اور جماعت کی تاریخ حضرت مسیح موعود کے دعاوی حضور کی پیشگوئیوں۔ مشنوں کے قیام۔ یورپ کی مساجد۔ مسجد زیورک وغیرہ امور کا ذکرکیاگیا ہے۔
یورپ میں تبلیغ اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ چرچ نے اس تفصیل اور شدت کے ساتھ ہمارا نوٹس لیاہے۔ پہلے یہ لوگ ہمیں کم مایہ اور حقیر سمجھتے تھے لیکن اب ان کے تفکرات میں ایک نمایاں انقلاب آرہاہے اور یہ اپنے لوگوں کو ہمارے مقابلہ کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ضمنی طور پر یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری کمزور کوششوں کی فوقیت اور اثر کا اعتراف بھی ہے۔
>گزشتہ دنوں ایک مشہور اخبار میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان ایک بحث کا سلسلہ چل پڑا ہمارے لئے اس مباحثہ میں دلچسپ پہلویہ ہے کہ ایک مضمون نگار نے لکھا کہ اسلام اس قدر سرعت سے آگے بڑھ رہا ہے اور اب اس ملک میں بھی قدم جماچکا ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے اندرونی اختلافات کو بھلا کر اس بیرونی خطرہ کا مقابلہ کریں۔ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران میں اطلاع ملی ہے کہ ایک کتاب اسلام کے متعلق ایک مخالف نے شائع کی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اسلام کا چرچا اس قدر بڑھتا جاتا ہے کہ عوام کو اس کی اصل تعلیم سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔<۱۹۳
سوئٹزرلینڈ کے علمی طبقوں میں اسلام کا عام چرچا
۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں سویس کے علمی حلقوں میں اسلام کا خوب چرچا ہوا۔ چنانچہ شیخ ناصراحمد صاحب نے لکھا۔
>ان دنوں سوئٹزرلینڈ میں مختلف مواقع پر اسلام پر لیکچر ہورہے ہیں۔ اخبارات میں مضامین بھی آئے دن چھپتے رہتے ہیں۔ دراصل ہماری تحریک پر ہی زیورک کی یونیورسٹی میں ایک سلسلہ تقاریر کا جاری ہوا جس میں ایک پروفیسر نے اسلام پر لیکچر دیئے۔ احمدیت کا ذکر بھی کیا۔ آخری لیکچر کے دن ہم نے ایک اشتہار سائیکلوسٹائل کرکے سامعین میں تقسیم کیا اور انہیں دعوت دی کہ اسلام پر مزید معلومات ہم سے حاصل کریں اور رسالہ >اسلام< طلب کریں۔ چنانچہ اس پر بہت سے لوگوں نے اپنے پتے اس غرض کے لئے ہمیں بھجوائے۔ یوں ریڈیو پر بھی چند مہینوں سے ایک سلسلہ لیکچروں کا شروع ہے جس کا عنوان ہے >اسلام اور مغرب<۔ اس پروگرام میں حصہ لینے والوں نے بعض دفعہ اسلام کے بارہ میں بہت اچھی باتیں کہی ہیں۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے احمدیہ صاحب جماعت کی تبلیغی مساعی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ صرف ایک ہی تنظیم ایسی ہے جو اسلام کی تبلیغ کا کام کررہی ہے۔ یہ لوگ تربیت یافتہ نوجوانوں کے ذریعہ تحریر و تقریر کے ہتھیاروں سے اسلام کو پھیلارہے ہیں۔ آسٹرین ریڈیو پر بھی ایک پروفیسر نے اسلام پر ایک لیکچر نشرکیا جس کی نقل ہم نے منگوائی۔<۱۹۴
آسٹریا میں تبلیغ اسلام
سوئٹزرلینڈ مشن کے ذریعہ جرمنی کے علاوہ آسٹریا تک بھی اسلام کا پیغام پہنچا۔ اس سلسلہ میں شیخ ناصراحمد صاحب نے ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء میں آسٹریا کے دورے بھی کئے۱۹۵ جن میں سے دو کی رپورٹ خود شیخ صاحب کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔
پہلا دورہ-:وہ تحریر فرماتے ہیں۔
>آسٹریا کے دورہ کے سلسلہ میں مورخہ ۹۔ جون کو اتربروک کی یونیورسٹی میں خاکسار نے >اسلام کی روحانی دنیا< کے موضوع پر ایک مفصل لیکچر دیا۔ اس لیکچر کے بعد سامعین کو مزید معلومات حاصل کرنے کی دعوت دی گئی چنانچہ رہائش گاہ پر ایک گروپ سامعین کا آیا اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ تقریر کے موقعہ پر مسلمان ممالک کے بہت سے طلباء بھی موجود تھے جنہوں نے ہماری مساعی کو بہت تحسین و قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ تقریر سے پہلے بھی انفرادی گفتگو ہوتی رہی۔ اس لیکچر کا اعلان لوکل اخبارات میں شائع ہوا۔ نیز ریڈیو پر بھی متعدد بار اس کا اعلان نشرکیاگیا۔ خاکسار اس موقعہ پر ایک پروفیسر ڈاکٹر FRANZ LEONHARD سے بھی ملا اور یونیورسٹی میں مزید لیکچروں کے مواقع پر گفتگو ہوئی۔ چنانچہ دسمبر میں وہاں دو لیکچروں کا انتظام ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں آسٹریا کے دوسرے شہروں میں بھی لیکچروں کے انتظام کے لئے خط و کتابت ہورہی ہے۔ جون کے مہینہ میں وی آنا گیا اور وہاں مقامی احمدی افراد سے متعدد انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کرکے تبلیغی کام کو وسیع کرنے کی ایک سکیم پر غور کیاگیا انشاء اللہ العزیزیہ سکیم تیار کرکے اس پر عمل شروع کردیا جائے گا۔ وی آنا میں خدا کے فضل سے ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہوچکی ہے۔ اپریل میں ایک خاندان نے بیعت کی۔ جون میں ایک اور خاتون نے۔ اس خاتون کے خاوند ڈاکٹر خالد رسیڈلر چند سال سے احمدیت قبول کرچکے ہیں۔
مورخہ ۱۴۔ جون کو خاکسار آسٹریا کے فیڈرل صدر SCHARB ADOLF ۔DR سے ان کے ایوان خاص میں ملاقات کے لئے گیا۔ اس موقعہ پر ان کی خدمت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ پیش کیاگیا۔ گفتگو کے دوران میں صدر محترم نے خود ہی اس امر کا اعتراف کیا کہ مسلمانوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں عیسائی حکومتوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ رواداری کا نمونہ دکھایا ہے۔ اس سے ایک روز قبل خاکسار نے وی آنا کے صدر بلدیہ JONAS FRANZ HERN کو بھی ایک نسخہ قرآن کریم کا بطور تحفہ پیش کیا۔ وی آنا کے ایک اخبار میں ایک نوٹ شائع کرایاگیا تو اسلام سے دلچسپی رکھنے والے حضرات خاکسار سے مل کر مزید معلومات حاصل کریں۔ ایک روز ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ گفتگو کرنے اور لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا۔ وی آنا میں ہی خاکسار ایک لیکچروں کی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سے ملا اور اسلام پر تقاریر کا انتظام کروایا۔ آسٹریا کے دورہ کی خبر یونائیٹڈ پریس` آسٹرین پریس ایجنسی` رائٹر اور وی آنا کے اخبارات کو دی گئی۔۱۹۶
دوسرا دورہ-:
>آسٹریا کے دورہ کے سلسلہ میں مورخہ ۶۔ اکتوبر کو ایک جگہ HOLLABRUNN میں پبلک یونیورسٹی میں خاکسار کا لیکچر >اسلام کی روحانی دنیا< کے موضوع پر ہوا۔ حاضری بہت خوش کن تھی اور سامعین نے یہ مفصل لیکچر بہت شوق اور توجہ کے ساتھ سنا۔ مورخہ ۱۳۔ اکتوبر کو وی آنا میں ایک لیکچر >اسلام اور نبیﷺ~ اسلام< کے موضوع پر ہوا۔ اس کے بعد اسلام پر ایک اور لیکچر وی آنا میں مورخہ ۲۰۔ اکتوبر کو ہوا۔ بعد میں سامعین کو ان کی خواہش پر لٹریچر پیش کیاگیا۔ اس سفر کے دوران میں خاکسار نے سالزبرگ` وی آنا` ہولابرن اور گرانر میں مختلف اداروں سے ملاقاتیں کرکے آئندہ لیکچروں کا اجمالی پروگرام طے کیا۔ وی آنا کے احمدی افراد سے متعدد ملاقاتیں انفرادی اور اجتماعی رنگ میں کی گئیں۔ تبلیغ کے کام کو وسعت دینے کے ذرائع پر غور کیاگیا۔ وہیں ایک آسٹرین نومسلم میاں بیوی کا نکاح ان کی خواہش پر اسلامی طریق پر بھی پڑھا گیا۔ ان کی شادی قبول اسلام سے پہلے کی ہے۔
>دسمبر ۱۹۶۰ء میں شہر آنزبرگ کی یونیورسٹی میں دو لیکچروں کا انتظام تھا جن کا اعلان علاوہ اخبارات کے ریڈیو کے ذریعہ بھی کیاگیا۔ اکتوبر والے لیکچروں کا اعلان بھی پوسٹروں اور ریڈیو کے ذریعہ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ مورخہ ۶۔ دسمبر کو آنحضرت~صل۱~ کی حیات طیبہ نیز تعلیم الاسلام پر ایک تقریر ہوئی۔ بعد میں بعض سامعین نے علیحدہ بیٹھ کر مزید سوالات کے ذریعہ معلومات حاصل کیں۔<۱۹۷
احمدیہ گزٹ کا اجراء
ملک میں قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد جب بتدریج بڑھنے لگی تو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ سویس احمدیوں کی دینی روحانی تربیت` مرکز اور مشن سے مضبوط رابطہ اور تعلق پیدا کرنے اور ان کے سامنے جماعت کے مالی جہاد کی تحریکات رکھنے کے لئے ایک مخصوص پرچہ شائع کیا جائے۔ چنانچہ شیخ ناصراحمد صاحب نے اس اہم ضرورت کی تکمیل کے لئے ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء کے شروع سے >احمدیہ گزٹ< جاری کیا جس سے نہ صرف نئے مسلمانوں کی تربیت واصلاح میں بھاری مدد ملی بلکہ رسالہ >اسلام< کے صفحات پر جو دبائو قلت حجم کے باعث تھا وہ بھی کم ہوگیا۔۱۹۸
زیورچ میں تعمیرمسجد کیلئے قطعہ زمین کاحصول
مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کا بہترین ذریعہ مسجد کا قیام ہے کیونکہ یہ اسلام کے روحانی انقلاب اور آسمانی نوبت خانے کا علامتی نشان ہونے کے علاوہ اسلامی درسگاہ بھی ہے اور خدائے واحد کی عبادت کا مرکز بھی۔ جناب شیخ ناصراحمد صاحب مسجد کی اس خصوصی اہمیت سے بخوبی واقف تھے اور شروع ہی سے دلی تڑپ رکھتے تھے کہ سوئٹزرلینڈ میں اسلام کی پنجوقتہ منادی کے لئے جلد سے جلد مسجد تعمیر کی جائے۔ چنانچہ اس غرض سے شیخ صاحب نے ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء کے وسط اول میں سب سے پہلے شہر کے میئر سے ملاقات کی بعدازاں دوسرے مقامی حکام سے متعدد بار مل کر موزون قطعہ زمین کے حصول کی کوشش کی۔ آخر ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء کی شبانہ روز جدوجہد کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے معجزانہ طور پر مدد فرمائی اور نہایت نامساعد حالات میں ایک گرجا گھر کے سامنے نہایت باموقع قطعہ زمین کا انتظام ہوگیا۔۱۹۹ قطعہ زمین کے انتظامات کے ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد ماہ شہادت/اپریل ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء میں بلڈنگ پرمٹ کی درخواست دی گئی جو تعمیر کے پروگرام میں مشکل ترین مرحلہ تھا۔ یہ مرحلہ کس طرح طے ہوا؟ اس کی تفصیل شیخ صاحب موصوف کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں۔
>پہلے ایک اعلان گزٹ میں شائع ہوتا ہے تا اعتراض کرنے والے اپنے اعتراض کورٹ میں پیش کریں اس کے بعد ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں فائلیں جاتی اور باریک نکتہ چینی اور جرح قدح ہوتی ہے جس پر کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ استشنائی حالات میں معاملہ بالائی حکومت کے پاس بھی جاتا ہے۔ خاکسار نے ہر مرحلہ پر اپنی درخواست کا جائزہ لیااور قدم قدم پر افسران سے ملا۔ آرکیٹیکٹوں` کارپوریشن کے محکمہ جائداد والوں` تعمیر کے محکمہ کے افسران۔ غرض ہر قسم کے اراکین کے ساتھ قدم قدم پر تعلق قائم رکھا۔ معاہدہ کی رو سے مسجد کی تعمیر کا کام دسمبر )۱۹۶۰ء( تک ایک خاص مرحلہ پر پہنچ جانا چاہئے ۔۔۔۔ ایک مرحلہ پر چرچ والوں نے بھی مداخلت کی اور حکومت کو لکھا کہ ان لوگوں کو مسجد نہ بنانے دی جائے کیونکہ اسی جگہ ایک چرچ بھی ہے حکومت نے چرچ کی اس درخواست کو رد کردیا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ بالخصوص اعلیٰ حکام سے مفید رنگ میں ملنے کی توفیق ملی اور چرچ کی مخالفت بے ثمررہی۔<۲۰۰
قطعہ زمین پر کھدائی اور دعا
جس طرح قطعہ زمین کے حصول کی سعادت محترم جناب شیخ ناصراحمد صاحب کے حصہ میں آئی اسی طرح اس پر تعمیر مسجد کے جملہ انتظامات سوئٹزرلینڈ مشن کے دوسرے انچارج اور مجاہد تحریک جدید محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی زیرنگرانی پایہ تکمیل کو پہنچے جو مرکز کے حکم سے ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء کے آغاز میں لنڈن سے سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے اور وہاں اب تک خدمات دینیہ بجالارہے ہیں۔ چوہدری صاحب نے ۳۱۔ وفا/جولائی ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ کو بل دور کے ذریعہ کھدائی کا کام شروع کرایا۔ کھدائی سے پہلے جماعت احمدیہ زیورچ نے اجتماعی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مسجد کی تعمیر کو بابرکت فرمائے اور یہ سوئٹزرلینڈ میں اشاعت و غلبئہ اسلام کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہو۔۲۰۱
اخراجات کے تعلق میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا فوری اقدام
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اخراجات مسجد کے تعلق میں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے فوری اقدام کا تذکرہ
کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>وکیل التبشیر ہونے کے باعث تمام مشنوں سے طبعاً ایک گہرا رابطہ ہے لیکن اس مسجد محمود کے ساتھ تو آپ کا ایک خاص تعلق ہے وہ یہ کہ زیورک میں تعمیر کے بلند معیار کے تقاضا کے باعث ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی اور پھر زرمبادلہ کا سوال تھا۔ حکومت پاکستان سے نصف سے بھی کم رقم کا زرمبادلہ ملا۔ بقیہ رقم بیرونی ممالک سے جہاں زرمبادلہ کی پابندی نہیں` مہیا ہونی تھی۔ مرکز کی عظیم ذمہ داریوں کے پیش نظر یہ بوجھ اتنا زیادہ محسوس ہوتا تھا کہ خود مجھے اس پر اصرار کی ہمت نہ تھی۔
خوش نصیبی سے اس شعبہ کے انچارج محترم میاں صاحب تھے انہیں غیرمعمولی جرات اور توکل حاصل تھا۔ محترم میاں صاحب کی منظوری کا تار ملا جس کے بعد گرامی نامہ مورخہ ۲۵۔ جولائی کو ملا۔ اس میں آپ نے تحریر فرمایا۔
>مسجد کی تعمیر کے متعلق وکالت مال صاف انکاری تھی۔ مجلس تحریک ذمہ داری لینے کو تیار نہ تھی میں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے خود فیصلہ کردیا۔ خدا تعالیٰ سامان بھی پیدا فرمادے گا۔ ایک شریف انسان بھی دوسرے کے اعتماد کو ضائع نہیں کرتا تو پھر وہ قادر کامل اپنے پر کئے گئے اعتماد کو کیسے ضائع کرے گا اس لئے مجھے تو کامل یقین ہے کہ سب راہیں آسان ہوجائیں گی۔ گو اس وقت کوئی رستہ نظر نہیں آتا لیکن لطف بھی اسی میں ہے کہ کامل تاریکی سے انسان کامل روشنی میں آجائے۔ اب آپ اللہ کا نام لے کر بنیادی رکھیں۔<۲۰۲
حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے دست مبارک سے سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد
۲۵۔ ظہور/اگست ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء کو سوئٹزرلینڈ کی اس پہلی یادگار مسجد کا سنگ بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے
اپنے دست مبارک سے رکھا اور دعا فرمائی۔ اس مقدس تقریب کے ایمان افروز کوائف واحوال مجاہد اسلام سوئٹزرلینڈ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے قلم سے لکھے جاتے ہیں۔
>دنیا میں بے شک تقدیر اور تدبیر دونوں الٰہی قانون جاری ہیں لیکن مجھے اپنی زندگی میں تقدیر اس طرح تدبیر حاوی نظر آئی ہے گویا تدبیر کا وجود ہی نہین- سوئٹزرلینڈ میں مبلغ مقرر کئے جانے کا خیال میرے دماغ کے کسی گوشے میں بھی نہیں آسکتا تھا لیکن تقدیر یہاں پر لے آئی۔ اور پھر وہم میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مبشر اولاد میں سے کسی کے ہاتھوں مسجد زیورک کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ غیر متوقع طور پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا محض تقدیر الٰہی کا ایک کرشمہ ہے۔
عاجز نے یہاں سخت نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ کام شروع کیا اور جملہ مراحل یکے بعد دیگرے محض اس کے کرم سے سرانجام پاگئے حتیٰ کہ مسجد کے پلاٹ پر کام شروع کرنے کا دن آگیا۔ میں نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر سے درخواست کی تھی کہ وہ خودسنگ بنیاد کے لئے تشریف لاویں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میرے لئے امسال یورپ آنا ممکن نہیں آپ خود ہی بنیاد رکھ لیں۔ میں نے پھر اپنی اس شدید خواہش کا اظہار کیا کہ مسجد کی بنیاد ایسے ہاتھوں سے رکھی جائے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوہرا تعلق ہو۔ نہ صرف یہ کہ وہ سلسلہ کا خادم ہو بلکہ جسمانی طور پر بھی حضور کے برگ وبار میں سے ہو۔ سنگ بنیاد رکھنے کا وقت قریب آرہا تھا کوئی انتظام نہ ہونے کے باوجود قلب کو اطمینان تھا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی جناب سے سامان پیدا کردے گا۔
اچانک ایک دن محترم امام صاحب مسجد لنڈن چوہدری رحمت خان صاحب کا مکتوب گرامی آیا جس میں حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی تشریف آوری کا ذکر تھا۔ یہ خبر اتنی غیر متوقع اور خوشکن تھی کہ اس کے سچا ہونے پر یقین نہ آتا تھا۔ میں نے یہ خط اہلیہ ام کو دیا انہوں نے بھی پڑھ کر تعجب کا اظہار کیا۔ خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں بذریعہ تار یورپ تشریف آوری پر خوش آمدید عرض کیا اور مسجد زیورک کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی آپ نے کمال شفقت سے اسے منظور فرمایا اور تحریر فرمایا کہ وہ اسے بڑی سعادت سمجھتی ہیں۔
میں نے سوئٹزرلینڈ کے تمام احمدی احباب سے جن میں سے اکثر زیورک سے باہر رہتے ہیں رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اس تقریب میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کریں۔ آسٹریا کے احمدیوں کو بھی مدعو کیاگیا۔ اخبارات اور نیوز اینجسیوں سے بھی رابطہ قائم کیا۔ پھر اپنی جماعت کے احباب کے علاوہ زیورک یا اس کے نواح میں مقیم مختلف ممالک کے مسلمانوں کو بھی اس تاریخی تقریب میں مدعو کیا۔ اس موقعہ پر پریس کے لئے جرمن زبان میں ایک تفصیلی بیان تیار کیاگیا۔ اس دوران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مدظلہ` اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے پیغامات بھی موصول ہوگئے` ان کا بھی جرمن ترجمہ تیار کروایا گیا۔
حضرت بیگم صاحبہ ممدوحہ حسب پروگرام مورخہ ۲۴۔ اگست بروز جعمہ پونے بارہ بجے ڈنمارک سے محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ تشریف لائیں۔ ہوائی اڈہ پر صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب معہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھے جو ایک دن قبل ہمبرگ پہنچ گئے تھے۔ ائرپورٹ پر پرتپاک خیرمقدم کیاگیا طے شدہ پروگرام کے مطابق اسی روز دو بجے ایک نیوز ایجنسی نے ایک خاتون کو تیپ ریکارڈ کے ساتھ حضرت بیگم صاحبہ کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے بھجوایا۔ حضرت بیگم صاحبہ سے اس خاتون نے مختلف سوالات کئے اور حضرت بیگم صاحبہ کی زبان مبارک سے جواب ریکارڈ کرنے کے بعد عزیزہ امتہ المجیدبنت چوہدری عبداللطیف صاحب امام مسجد ہمبرگ نے اس کا جرمن ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ بھی ریکارڈ کیاگیا۔
حضرت بیگم صاحبہ نے اپنے بیان کے آخر میں فرمایا کہ سویس لوگوں کے لئے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ اسلام کا مطالعہ کریں اور ہمارے مبلغ مشتاق احمد صاحب باجوہ سے رابطہ پیدا کرکے لٹریچر حاصل کریں۔ اس کی اولین سعادت نیوز ایجنسی کے مینجر کو حاصل ہوئی اس نے فوراً فون کیا کہ میں لٹریچر دیکھنا چاہتا ہوں مجھے بھجوایا جائے۔ چنانچہ بذریعہ ڈاک اسے لٹریچر بھجوایاگیا۔ حضرت بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو زیورک کے ایک اخبار میں من و عن شائع ہوا۔
۲۵۔ اگست کو ساڑھے دس بجے صبح مسجد کی بنیاد کا وقت مقرر تھا۔ صبح اٹھے تو مطلع ابر آلود تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ خاکسار صبح ہی وہاں پہنچ گیا کیونکہ بعض دوست جو باہر سے آرہے تھے ان سے مسجد کے قریبی ایک ریسٹوران میں ہی ملاقات کرنے کا اہتمام کیاگیاتھا۔ خاکسار بعض احباب و خواتین کے ہمراہ پلاٹ پر مہمانوں کا منتظر تھا کہ بارش میں کچھ اضافہ ہوگیا۔ اس اثناء میں حضرت بیگم صاحبہ کے ریسٹوران میں تشریف لے آنے کی اطلاع موصول ہوئی۔ اب کافی دوست جمع ہوچکے تھے۔ بردرام چوہدری عبداللطیف صاحب بھی ہمبرگ سے پہنچ گئے تھے آپ کی بڑی خواہش تھی کہ اس مبارک تقریب میں شریک ہوں۔ حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں درخواست بھجوائی گئی کہ اب تشریف لے آویں۔ چند منٹ میں آپ کی کار آگئی۔ خاکسار نے آگے بڑھ کر کارکا دروازہ کھولا۔ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی محترمہ صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ` محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب` عزیزہ امتہ المجید اور اہلیہ ام کی معیت میں اترے۔ یہ نظارہ سویس آنکھوں کے لئے عجیب تھا۔ پریس فوٹو گرافروں کے کمیرے حرکت میں آگئے۔ سب سے پہلے جماعت احمدیہ سوئٹزرلینڈ کی طرف سے السلام علیکم اور خوش آمدید عرض کرنے کے لئے ہماری نو مسلمہ بہن مس فاطمہ ہولٹز شو آگے بڑھیں اور ان سے مصافحہ کے بعد پھول پیش کئے۔ ان کے ساتھ دوسری نومسلم بہن مس جمیلہ سوسترنک تھی۔ حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی دونوں کے ہمراہ سٹیج کی طرف تشریف لے گئیں چند منٹ وہاں خواتین کے ساتھ ٹھہرنے کے بعد خاص طور پر تیار شدہ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے بنیاد کی جگہ پر تشریف لے گئیں۔ خاکسار آپ کے ہمراہ تھا۔ ایک بالٹی میں سیمنٹ رکھا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں مسجد مبارک کی وہ اینٹ جو سیدنا حضرت امیرالمومنین اطال اللہ بقاء واطلع شموس طالعہ سے دعا کے ساتھ بنیاد میں رکھ دی پھر اس کے اوپر تھوڑا سا سیمنٹ لگایا۔ خاکسار نے اس کے بعد مزید پلستر لگاکر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی لخت جگر اور مبشرہ صاحبزادی کے دست مبارک کی رکھی ہوئی بنیاد کو محفوظ کردیا۔ اس کے بعد حضرت بیگم صاحبہ سیڑھیوں پر سے ہوتی ہوئی اوپر سٹیج پر تشریف لائیں۔ خاکسار نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد کعبہ کے موقع کی دعائیں تلاوت کیں۔ سویس ریڈیو کا نمائندہ اس کارروائی کو ریکارڈ کرنے کے لئے آیا ہوا تھا اس نے اپنا مائیک میرے سامنے رکھ دیا۔ ہمارے نومسلم بھائی مسٹر رفیق چانن نے جو اس تقریب کے لئے لمبا سفر کرکے آئے تھے ان کا جرمن ترجمہ پڑھ کر سنایا۔
حضرت بیگم صاحبہ نے اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور دعا فرمائی اور پھر برادرم چوہدری عبداللطیف صاحب نے اس کا جرمن ترجمہ سنایا اور آخر میں خاکسار نے حضرت بیگم صاحبہ اور حاضرین سمیت ہاتھ اٹھاکر لمبی دعا کی اس طرح یہ تاریخی تقریب انجام پذیر ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب قدرت تھی کہ حضرت بیگم صاحبہ کی آمد سے قبل بارش ہورہی تھی لیکن اس تقریب کے آغاز کے ساتھ ہی بارش بالکل رک گئی۔ حضرت بیگم صاحبہ اپنے قافلہ سمیت مشن ہائوس تشریف لے گئیں اور باقی احباب و خواتین جن میں سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے احمدی بہن بھائیوں کے علاوہ مختلف ممالک کے مسلمان بھی موجود تھے` ریستوران میں تشریف لے گئے۔ یہاں پر ریڈیو کے نمائندہ نے بعض سوالات دریافت کئے برادرم لطیف صاحب نے ان کے جوابات ریکارڈ کروائے۔
مسجد کے پلاٹ کے ساتھ جلد سازی کی ایک بہت بڑی فرم کا کارخانہ ہے اس کے ڈائریکٹر نے ۲۳۔ اگست کو جب خاکسار انجنیئروں کے ہمراہ پلاٹ پر بنیاد کی سکیم طے کررہا تھا آکر ملاقات کی اور ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک خوبصورت بیضوی البم تیار ¶کروایا اس البم کو اس تاریخی تقریب میں شریک ہونے والے احباب و خواتین کی یاد محفوظ رکھنے کے لئے دستخطوں کے واسطے استعمال کیا گیا۔
۲۵۔ کی شام کو جب ریڈیو نے ہماری اس مسجد کے افتتاح کی خبر نشر کی تو اس کے ساتھ ہی ایک پادری کا مسجد کے بارہ میں تبصرہ بھی براڈ کاسٹ کیاگیا۔ ایک نومسلم خاتون نے اس بارہ میں اپنا تاثر دیتے ہوئے بتایا کہ اس پادری کی آواز کی لرزش سے اس کی سراسیمگی ہویدا تھی۔ اس نے کہا کہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ عین گرجا کے سامنے کیوں مسجد بنائی جارہی ہے!
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر ہے جس میں کسی انسانی تدبیر کا دخل نہ تھا۔ اتفاق سے ہمیں مسجد کے لئے پلاٹ ایسی جگہ ملا ہے جو عین گرجا کے سامنے ہے۔ مسجد خدائے واحد کا گھر ہے اور اس سے پانچوں وقت اس کی توحید کی منادی ہوتی ہے۔ اس کے بالمقابل مسیجی گرجا تثلیث کا مرکز ہے۔ ان کے ایک دوسرے کے مقابل پر ہونے سے تصویری زبان میں توحید و تثلیث کے مقابلہ کا اظہار ہے اور یہی چیز ہے جس کو سوئٹزرلینڈ میں فطری طور پر محسوس کیا جارہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے سوالات ان کے اس احساس کے آئینہ دار ہیں۔
سویس پریس نے اس واقعہ کو غیرمعمولی اہمیت دی ہے۔ ملک کے ایک سرے سے لیکر دوسرے تک جرمن۔ فرنچ اور اطالوی زبان کے اخبارات نے یہ خبر شائع کی۔ بعض نے تبصرہ بھی کیا ہے اور بعض نے مضمون لکھے ہیں۔ بعض اخبارات نے تقریب کی تصاویر شائع کی ہیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۷۲ ایسے اخبارات یا ان کے تراشے موصول ہوچکے ہیں جن میں یہ خبر شائع ہوئی ہے` الحمدلل¶ہ۔
پریس کے نقطہ نظر سے سویس کے لئے اس خبر کی اہمیت کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ہوسکتا ہے۔ اخبار ٹسرشر (ZURCHERWOCHE) نے جو زیورک کا اپنی تعداد اور اثر کے لحاظ سے بہت وقیع ۲۴ صفحات کا ہفت روزہ ہے` ۲۸ اگست کو اس بناء پر میرا انٹرویو لیاکہ مسجد کے باعث لوگوں میں اسلام اور جماعت کے متعلق کوائف معلوم کرنے کی جستجو پیدا ہوگئی ہے۔ یہ انٹرویو ۳۱ اگست کے پرچہ میں شائع ہوا۔ یہ اخبار ہر ہفتہ نیا پرچہ شائع ہونے پر پوسٹر شائع کرتا ہے جس میں اس ہفتہ کے پرچہ کے اہم مضامین کے عنوان دیئے ہوئے ہوتے ہیں تا لوگوں میں اس کو خریدنے کے لئے کشش پیدا ہو۔ یہ پوسٹر تمام ٹراموں اور بسوں میں لٹک رہا ہوتا ہے اور اس اخبار کے بیچنے والے ایجنٹ اپنی دکانوں کے باہر نمایاں جگہ پر اسے لگاتے ہیں۔][۳۱ اگست کو یہ پوسٹر زیورک میں تمام جگہوں پر ایک ہفتہ کے لئے لگادیاگیا۔ اس پوسٹر کا پہلا جلی عنوان یہ تھا >زیوریک میں مسجد کیوں؟<
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سے ایک کے اس موقعہ پر لمبا سفر کے سوئٹزرلینڈ میں پہنچ جانا اور اپنے دست مبارک سے یورپ کے اس امیر ترین اور حسین ترین خطہ میں جسے بعض قلب یورپ کہتے ہیں مسجد کی بنیاد رکھنا زیورک یا سوئٹزرلینڈ کے عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم نہ صرف مسجد کی اس اینٹ وکنکریٹ کی عمارت کو شایان شان طریق پر مکمل کریں اور فرنش کریں بلکہ اس کو ہمیشہ نمازیوں سے آباد رکھیں اور اسے اسلام کی تبلیغ واشاعت کے ایک موثر مرکز کے طور پر قائم رکھنے کی سعی کریں جس کے لئے طویل اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔
حضرت بیگم صاحبہ ممدوحہ نے اپنے ایک نوٹ میں تحریر فرمایا۔
>۔۔۔۔ بنیاد کے تعلق کی بناء پر کچھ ایسی ذمہ داری محسوس ہورہی ہے جیسے میرے ہی کاندھوں پر بوجھ ہے۔<
جو ذمہ داری ہمارے پیارے آقا کی صاحبزادی پر بنیاد رکھنے سے عائد ہوئی ہے ہم سب احمدی اپنی آقا سے تعلق کی نسبت سے اس میں شریک ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے باحسن عہدہ برآ ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین!
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ نے بہت نکتہ سنج طبیعت بخشی ہے آپ نے اس موقعہ پر یہ دعا تحریر فرمائی ہے۔
>اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عزیزہ امتہ الحفیظ بیگم کے سنگ بنیاد رکھنے کو مبارک اور مثمر ثمرات حسنہ کرے اور ہمشیرہ کے نام کی طرح اس مسجد کو یورپ کے اس علاقہ کے لئے حفاظت کا قلعہ بنادے۔ آمین۔<
حضرت بیگم صاحبہ مدظلہاالعالی اپنے ایک مکتوب میں لنڈن سے تحریر فرماتی ہیں۔
>مجھے بے حد خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مسجد کو شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ورنہ مبلغ تو اس ملک میں عرصہ دراز سے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص احسان ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ ہی کے ہاتھوں سے یہ پائیہ تکمیل کو پہنچے اور اس کا افتتاح بنیاد کے موقعہ سے بھی شاندار اور خوشی کا موجب ہو میں تو یہ دعا کررہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ سیدنا بھائی صاحب ہی کو کامل صحت عطا فرمائے اور رسم افتتاح ان کے مبارک ہاتھوں سے انجام پائے۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے اگر ایسا ہوجائے تو آپ کی خوش نصیبی قابل رشک ہوگی۔<
حضرت بیگم صاحبہ کے قلب مطہر سے جو دعا نکلی ہے وہ ہراحمدی کے دل میں درد کی ٹیس پیدا کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوگئی ہے کہ کاش ایسا ہی ہو اگر اللہ تعالیٰ یہ دن لے آئے تو میری خوش نصیبی میں کیا شبہ! یہ مبارک دن ساری دنیا کے احمدیوں کے لئے ایک مسرت کا دن ہوگا۔ کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسیح پاک علیہ السلام کے جگہ گوشہ کی یہ پرسوز دعا` ایک دردمند بہن کی بارگاہ الٰہی میں پکار` ایک مخلصہ کے قلب کی صدا جس سے ہراحمدی کے قلب کی صدا ہم آہنگ ہے` سن لے!
>حضور اطال اللہ بقاء کی ولادت با سعادت سے قبل سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد کی دیوار پر محمود لکھا دیکھا تھا۔ بیشک یہ جماعت کی امامت کی پیشگوئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بھی اس کو پورا کیا کہ سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ الودود کو مشرق و مغرب میں جابجا مساجد تعمیر کروانے کی توفیق بخشی۔ گویا اس لحاظ سے ان مساجد کی دیوار پر محمود کا نام ہی تحریر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پیشگوئیوں کے ماتحت اس پسر موعود` اس اولوالعزم امام کو مراکز تثلیث میں خدائے واحد کے نام کی منادی کے لئے مساجد بنانے اور روحانی لحاظ سے ایک وسیع عالمی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے اب وہ خدائے قدیر اپنی قدرت کاملہ سے اسے حضور کی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھنا بھی دکھائے۔ کامل صحت بخشے اور صحت وعافیت کے ساتھ لمبی` کامیاب` بامراد عمردے تانہ صرف زیورک کی مسجد میں آپ کی تلاوت قرآن پاک گونج پیدا کرے بلکہ یورپ اور دنیا بھر میں ان مقدس ہونٹوں سے نکلی ہوئی تلاوت دیر تک گونج پیدا کرتی رہے۔ آمیں۔<۲۰۳
‏tav.11.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
چندہ مسجد کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی پرزور اور موثر تحریک
مسجد سوئٹزرلینڈ کی تعمیر میں دنیا بھر کے احمدیوں نے اپنی گزشتہ رویات کے مطابق سرگرم حصہ لیا۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے ایک
مکتوب گرامی میں جو آپ نے ۱۶۔ تبوک/ستمبر ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء کو وکیل المال کے نام رقم فرمایا چندہ مسجد میں حصہ لینے کے لئے ایک پرزور اور موثر تحریک فرمائی۔ چنانچہ آپ نے لکھا۔
>الحمدلل¶ہ کہ جماعت احمدیہ کے دوست اس مبارک تحریک میں دل کھول کر حصہ لے رہے ہیں دراصل یہ مسجد لندن کی مسجد کے بعد یورپ کی مسجدوں میں ایک خاص امتیاز رکھتی ہے کیونکہ ایک تو یہ مسجد یورپ کے وسطی ملک میں واقع ہے جس کا چاروں طرف اثر پڑتا ہے اور دوسرے یہ مسجد ایک ایسے ملک میں بنائی جارہی ہے جو عرصہ دراز سے امن کا گہوارہ رہا ہے۔ پس درحقیقت یہ مسجد نہ صرف ہماری بڑی دعائوں کی مستحق ہے بلکہ اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی امداد کے لئے دل کھول کر چندہ دیا جائے۔<۲۰۴
سوئٹزرلینڈ کے عیسائی چرچ کا ردعمل
سوئٹزرلینڈ کے پادری جو مبلغ اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں خصوصاً جرمن ترجمہ قرآن کے باعث سخت پریشان ہو رہے تھے مسجد کے سنگ بنیاد پر اور بھی مشتوش ہوگئے۔ عیسائی چرچ کا خانہ خدا کا تاسیس پر کیا ردعمل تھا اس کا اندازہ سوئٹزرلینڈ کے مشہور عیسائی اخبار EUANGELIST SCWEIZER )۷۔ اکتوبر ۱۹۶۲ء( کے درج ذیل نوٹ سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔
>ہمیں ایک اعلان کے ذریعہ پتہ چلا ہے کہ حال ہی میں مختلف یورپی ممالک میں ۳۷ مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان میں سے اکثر نومسلم سکنڈے نیوین ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان تمام مساجد کو مدنظر رکھ کر جو گزشتہ سالوں میں یورپ کے ان عیسائی ممالک میں تعمیر ہوئی ہیں دیکھیں تو نو مسلموں کی یہ تعداد بہت تھوڑی ہے۔ جرمنی میں تعمیر شدہ اور زیرتعمیر مساجد کی مجموعی تعداد سات ہے۔ لندن` دی ہیگ اور ہلسنکی میں بھی مساجد تعمیر ہوچکی ہیں اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورک میں بھی ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھاگیا ہے۔<
ان مساجد میں سے اکثر مساجد گزشتہ تین سال کے عرصہ میں ہی تعمیر ہوئی ہیں یا انہیں تعمیر کرنے کی تجویز منصہ شہود پر آئی ہے۔ یہ مساجد اس امر کی آئینہ دار ہیں کہ یورپ میں اسلامی مشنوں کا ایک جال پھیلایا جارہا ہے۔ ان مشنوں کے قائم کرنے والے مسلمانوں کے صف اول کے دو بڑے گروہوں یعنی شیعہ اور سنی فرقوں سے تعلق نہیں رکھتے` ان کا تعلق مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت سے ہے جنہیں بالعموم >بدعتی< سمجھا جاتا ہے۔ اس جماعت کا نام جماعت احمدیہ ہے۔ یورپ کی اکثر مساجد اس جماعت نے ہی تعمیر کی ہیں۔ یہ جماعت آج سے سترسال قبل برصغیر پاک وہند میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اس جماعت کے افراد کی تعداد میں دس لاکھ کے قریب ہے۔ اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی علمبردار ہے۔ اپنے اس دعویٰ کی رو سے یہ نوع انسان کی فلاح اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔ احمدیہ تحری اول و آخر ایک مشنری تحریک ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ہر خاندان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے میں سے کم از کم ایک فرد ایسا پیش کرے جو تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف رکھے یہ عقل کو اپیل کرنے کی بنیاد پر اپنے مشن بالعموم اسلامی ممالک میں نہیں بلکہ افریقی ممالک میں اور ان میں سے بھی زیادہ تر مغربی افریقہ میں اور پھر یورپ اور امریکہ میں قائم کررہے ہیں۔ ان کے یورپی مراکز زیورک` لندن اور کوپن ہیگن میں قائم ہیں۔ ان میں سے زیورک کا مرکز وسطی یورپ اور اٹلی کے علاقہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ لندن کے مرکز کا رابطہ سارے مغربی یورپ سے ہے اور کوپن ہیگن کے مرکز کے دائرہ عمل میں شمالی یورپ کا تمام علاقہ شامل ہے۔
ان اسلامی مشنوں کو اب تک جو کامیابی ہوئی ہے اسے کوئی عظیم یا نمایاں کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ڈنمارک کا نومسلم گروپ ۴۲ ڈینش مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کوپن ہیگن میں جو دوسرے مسلمان رہتے ہیں وہ زیادہ تر عرب باشندے ہیں۔ ۱۹۶۰ء کے دوران زیورک میں عیسائیوں کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے صرف ۱۵۷ باشندے شمار کئے گئے تھے۔ ان کا ایک قلیل حصہ اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ یورپ کی مساجد صرف اس غرض کے لئے ہی قائم نہیں کی گئی ہیں کہ مسلمان ان میں عبادت کریں بلکہ تبلیغ اسلام کی ساری مہم ان مساجد کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ مساجد سے ملحق کلب کے کمرے اور لائبریریاں وغیرہ بھی ہوتی ہیں تاکہ ان میں جماعت کے افراد باہم مل کر اپنی مساعی اور سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔۔۔۔ یورپ کے عیسائی ممالک میں اسلام کے یہ نمائندے بدھ مت والوں کے برخلاف عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں بہت پیش پیش ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ مسیح کی اصل تعلیم عہدنامہ جدید کے واسطہ سے تحریف کا شکار ہونے کے بعد بدلی ہوئی شکل میں آگے پھیلی ہے۔ یہ مسیح کی صلیبی موت کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح سے یہ لوگ بائبل کے مندرجات اور عیسائی معتقدات کے بارہ میں نئی توجیہات پیش کرکے ناقص علم رکھنے والے سامعین اور قارئین کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرمن زبان میں ان کی جو مطبوعات شائع ہوئی ہیں ان میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام میں زمانہ حال کے جدید مسائل کا پورا حل موجود ہے اور اسلام ہی انسانی ضرورتوں کے مناسب حال وہ اکیلا مذہب ہے جو وسعت فکر` تعمیر وترقی اور آزاد خیالی کا علمبردار ہے۔ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں انہیں اسلامی روایات کی نئی تشریح کرنی پڑتی ہے۔ جرمنی میں مسلم طلبہ کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ کسی کا مسلمان ہونا ہر لحاظ سے بہتر اور اعلیٰ وافضل ہے۔ اسی طرح ان پر واضح کیا جاتا ہے کہ تقدیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مستقبل میں جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہے اور یہ کہ مستقبل کے بارہ میں ہمیں چنداں فکر پالنے کی ضرورت نہیں۔ تقدیر کا یہ مفہوم ہرگز درست نہیں ہے۔ تقدیر کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ سرگرمی اور جدوجہد سے منع نہیں کرتا بلکہ یہ بذات خود نسبتاً زیادہ سرگرمی اور جدوجہد کا متحمل ہے۔
جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کا جو جرمن ترجمہ شائع کیا ہے اس کے شروع میں ایک دیباچہ بھی درج کیاگیا ہے یہ دیباچہ اپنے مندرجات کی رو سے بائبل اور عیسائیت کے خلاف ایک بھر پور حملہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن مجید کے ترجمہ میں الفاظ کے انتخاب کا خاص خیال رکھ کر یورپی دماغوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس لئے اس میں لفظی ترجمہ پر اکتفاء نہیں کیاگیا۔ اس کے باوجود اس میں اس بات پر بہت زور دیاگیا ہے کہ عربی زبان ہی ایک ایسی زبان ہے جو گوناگوں اور باریک درباریک معانی ومطالب کے اظہار پر پوری قدرت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اسلام قبول کریں تو ساتھ ہی ہمیں عرب ثقافت کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ اس لحاظ سے ایک ایسا مسلمان جو عربی نہ جانتا ہو صحیح معنوں میں پورا مسلمان نہیں بن سکتا۔ اندریں حالات یورپ میں ان اسلامی مشنوں کا مقصد مشتبہ اور ناقابل نظر آنے لگتا ہے۔ تاہم اگر یہ لوگ افریقہ میں ہی اپنے پائوں جمانے کی کوشش کریں تو یہ بات قرین قیاس ہوتے ہوئے سمجھ میں آسکتی ہے۔<۲۰۵
مسجد کی تکمیل اور اخبارات میں چرچا
یہ مسجد قریباً نو ماہ میں مکمل ہوئی۔ ابھی اس کے مینار۲۰۶ بھی پوری طرح نہیں بنے تھے کہ سویس اخبارات کی دلچسپی کا خصوصی مرکز بن گئی چنانچہ زیورک کے وقیع روزنامہ GNUTZEI ZURCHER NEU نے جو نہ صرف سوئٹزرلینڈ میں بلکہ جرمنی اور آسٹریا میں بھی بکثرت پڑھا جاتا ہے ۱۷ اپریل ۱۹۶۳ء کے پرچہ میں گرجا کے خاکستری لیکن بہت اونچے مینار کے ساتھ` مسجد کے مینار کی تصویر شائع کی اور اس کے ساتھ حسب ذیل نوٹ بھی سپرد قلم کیا۔
جب کوء شخص مختلف دیاروامصار میں سیاحت کے بعد اپنے وطن واپس آتا ہے تو وہ ان چیزوں کو خصوصاً دیکھتا ہے جن سے ہمارے اس شہر کی عظمت میں حاصل ہوتی ہے اور دیکھنے والے کے سامنے ایک نیا منظر آتا ہے۔ عام خاکستری پتھروں کی عمارتوں کے درمیان ۔۔۔۔ عین بالگرسٹ (BALGRIST) کے گرجا کے بالمقابل سوئٹزرلینڈ کی اولین مسجد کا چھوٹا سا مینار جو تقریباً مکمل ہوچکا ہے سفید چمکتا نظرآتا ہے۔ ایک اجنبی ہمارے گھروں کے اندر گھونسلا بناتا ہے اور ہمیں اس کا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔ )ترجمہ(
زیورک کے اس اخبار کے علاوہ بازل` برن` باڈن` اراڈر وغیرہ کے جرمن زبان کے اخبارات میں سفید مینار کی تصویر کے ساتھ نوٹ شائع ہوئے۔ ایک تراشہ سے جو آسٹریا کے اخبار کا ہے معلوم ہوتا ہے قریبی ملکوں میں بھی یہ امر دلچسپی کا موجب ہوا۔ فرانسیسی زبان کے جنیوا کے مشہور اخبار ٹریبیون نے بھی مینار کی تصویر اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کی۔ بازل کے اخبار ZEITUNG> <NATIONAL مورخہ ۱۹۔ اپریل ۱۹۶۳ء کے نوٹ کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں مذہبی آزادی مختلف مذہبی جماعتوں کو پنپنے کا موقع دیتی ہے ۔۔۔۔ سوئٹزرلینڈ کی پہلی مسجد زیورک میں پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے۔ احمدیہ مشن جس کا مرکز مغربی پاکستان میں ہے اس مسجد سے اپنے خطبات سنایا کرے گا۔ ہماری تصویر میں مسجد کا نفیس مینارہ جس کے اوپر ترکی انداز کا ہلال ہے نورخ سٹرک زیورک پر نظرآرہا ہے۔۲۰۷
مورخہ ۳۔ مئی ۱۹۶۳ء کو جب مینار کے علاوہ مسجد کی عمارت پر بھی پینٹ ہوچکا تھا زیورک کے مشہور روزنامہ DIETAT نے بڑے سائز کی تصویر اخبار کے آخری سرورق پر نمایاں طور پر شائع کی اور نیچے لکھا کہ زیورک کی چھتوں کے اوپر ہلال۔ زیورک میں بالگرسٹ کے محلہ میں مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی۔۲۰۸
مسجد محمود سوئٹزرلینڈ کا چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب )صدرجنرل اسمبلی( کے ہاتھوں پر شوکت افتتاح
سیدنا المصلح موعود کے عہدمبارک کی اس اہم مسجد کا نام مسجد محمود تجویز کیاگیا اور اس کی شاندار افتتاحی تقریب ۱۲۔ احسان/جون ۱۳۴۲ہش /۱۹۶۳ء کو چوہدری محمد ظفراللہ خاں
صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی جس کی مفصل روداد چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ انچارج سوئٹزرلینڈ مشن کے الفاظ میں دی جاتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
>ماہ جون کے شروع میں پریس کے نام ایک چار ورقہ چٹھی تیار کرکے بھجوائی گئی جس میں احمدیت کی مختصر تاریخ اس کی عالمگیر علمی و تبلیغی تربیتی سرگرمیوں کا خاکہ دیاگیا۔ افتتاح کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی تقاریب کے پروگرام میں نمائندگان پریس کو شمولیت کی دعوت دی گئی` الحمدلل¶ہ اس طریق سے پریس` ریڈیو` ٹیلیویژن سب ہماری فعال جماعت سے متعارف ہوگئے نہ صرف زیورک بلکہ باہر کے بعض اخبارات نے بھی اپنے نوٹوں میں اس سے استفادہ کیا۔ محترم حافظ قدرت اللہ صاحب کے تعاون سے جرمنی اور ہالینڈ کے پریس کو بھی یہ چٹھی پہنچادی گئی۔
سویس ٹیلیویژن نے یہ خواہش کی کہ اس تقریب سے قبل مسجد محمود کے بارہ میں انہیں فلم تیارکرنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ ۱۸۔ جون کو دن کے وقت اور پھر رات کو فلش لائٹ کی روشنی میں کئی گھنٹے لگاکر انہوں نے یہ فلم تیار کی جسے ۱۹۔ جون کی شب کو دکھایاگیا۔ احمدیت کی مختصر تاریخ سے تو وہ پہلے ہی واقف ہوگئے تھے لیکن انہیں فوٹو بھی مطلوب تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیردے محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی اور خدام الاحمدیہ کراچی کو کہ گزشتہ سال انہوں نے اپنا البم خاکسار کو بھجوادیا تھا وہ اس موقعہ پر کام آیا۔ اس میں سے ٹیلیویژن نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام` حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت مصلح الموعود اطال اللہ بقاء کے فوٹو لئے۔ افتتاح کی خبر کے لحاظ سے محترم چوہدری ظفر اللہ تعالیٰ اور حضرت مصلح الموعود اطال اللہ بقاء کے فوٹو لئے۔ افتتاح کی خبر کے لحاظ سے محترم چوہدری ظفر اللہ صاحب کے فوٹو کی ضرورت تھی جو ان کی اسلام کے بارہ میں تازہ شہرہ آفاق تصنیف کے مگردپوش سے لایاگیا۔ مسجد کی دیوار پر مسجد محمود کے نیچے کلمہ طیبہ کی عبارت اسی طرح سبزدھات کے حروف میں نصب کی گئی ہے۔ یہ کتبہ محترم شیخ رحمت اللہ صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے بڑی محنت سے کم سے کم وقت میں تیار کروا کے بھجوادیا تھا۔ ۱۸۔ اگست کو آرٹسٹ اسے چوبی چبوترہ پر کھڑا نصب کررہا تھا اس مرحلہ پر بعض حروف کی درستی کے لئے میں خود چبوترہ پرگیا۔ خود درستی کی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ کس کمیرہ کا اس طرف رخ ہے لیکن معلوم ہوا کہ یہ منظر بھی فلمایاگیا تھا۔ پس اخبارات اور ٹیلیویژن کے چرچا کے باعث سوئٹزرلینڈ کے لوگوں میں اس مسجد کے دیکھنے کا اشتیاق اور بڑھ گیا۔
مورخہ ۲۱۔ جون کو ریڈیو نے خواہش کی کہ میں ان کے سٹوڈیو میں احمدیت اور مسجد کی تاریخ کے بارہ میں مختصر پیغام ریکارڈ کروا دوں تا ۲۲ کو وہ افتتاح کی تقریب کے بارہ میں خبر دیتے ہوئے اسے بھی شامل کر سکیں۔ میں نے اس کی تعمیل میں پیغام ریکارڈ کروادیا۔ محترم چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب پر اگ سے تشریف لارہے تھے ایئرپورٹ پر خاکسار` محترم حافظ قدرت اللہ صاحب اور محترم چوہدری عبداللطیف صاحب )مبلغین کے نمائندگان کے طور پر( اور جماعت کے کچھ احباب موجود تھے۔ پریس کے نمائندے اور فوٹو گرافر بھی پہنچ گئے تھے۔ حکومت سوئٹزرلینڈ کی طرف سے چیف پراٹوکول موجود تھے۔ اقوام متحدہ میں سوئٹزرلینڈ کے مبتصر آج کل یہاں رخصت پر ہیں وہ بھی استقبال کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ محترم چوہدری محمد ظفراللہ صاحب کا جہاز تقریباً پونے ایک بجے اترا۔ آپ روس اور مشرقی یورپ کے ایک لمبے سفر سے واپس آرہے تھے مگر آپ کے چہرہ پر تکان کے اثرات نہ تھے حسب معمول ہشاش بشاش تھے۔ آپ جب مشن ہائوس پہنچے تو احباب باہر استقبال کے لئے منتظر تھے۔
محترم چوہدری صاحب اڑھائی بجے پریس کانفرنس میں تشریف لائے جو مشن کے دفتر کے کمرہ میں منعقد ہو رہی تھی۔ کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بین الاقوامی پریس ایجنسیوں` سویس پریس ایجنسیوں` زیورک اور سوئٹزرلینڈ کے دیگر مقامات کے بعض اہم اخبارات کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ہم نے مسیحی اخبارات کو بھی دعوت بھجوائی تھی۔ بعض ان کے نمائندے بھی شریک تھے۔ چنانچہ ایک ایسے ہی صاحب نے اپنے ان تاثرات کا اظہار کیا کہ مسجد میں پریس کانفرنس بلائی گئی تو اتنے لوگ آگئے کہ کھڑے ہونے کے لئے بھی جگہ نہیں لیکن جب چرچ کی طرف سے کانفرنس بلائی جاتی ہے اس وقت یہ لوگ توجہ ہی نہیں دیتے۔ محترم چوہدری صاحب نے پریس کے سوالات کے جوابات دیئے۔ مسٹر عبدالسلام میڈیسن اور خاکسار بھی ساتھ موجود تھے۔ بعض سوالات جو مشن سے تعلق رکھتے تھے ان کے جوابات خاکسار نے دیئے۔ ریڈیو کے نمائندہ اور ہمارے امام مسجد فرینکفورٹ میاں مسعود احمد صاحب جہلمی نے یہ پریس کانفرنس ٹیپ ریکارڈ کی۔
افتتاح کی تقریب کے لئے تین بجے کا وقت مقرر تھا۔ مختلف ملکوں کے مسلمان کثیرتعداد میں جمع تھے۔ اپنے احمدی احباب دور دور سے آئے ہوئے تھے۔ مبلغین یورپ میں سے تین کا ذکر اوپر کرچکا ہوں ان کے علاوہ محترم چوہدری رحمت خاں صاحب امام مسجد لندن` محترم کرم الٰہی صاحب ظفر مبلغ سپین` محترم میر مسعود احمد صاحب رئیس التبلیغ سکنڈے نیویا` محترم عبدالسلام میڈسن صاحب مبلغ ڈنمارک` محترم محمود سیف الاسلام ارکس صاحب مبلغ سویڈن بھی شریک تقریب تھے۔ محترم چوہدری عبدالرحمان صاحب واقف زندگی بھی تشریف لائے تھے۔ جرمنی سے احمدی مصنف اور جرنلسٹ محمد ایس عبداللہ اپنی بیگم صاحبہ اور بعض جرنلسٹ احباب اور ساربروکن ریڈیو کے نمائندہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ اسی طرح ایک اور جرمن خاتون محترمہ وینڈلٹ بھی تشریف لائی تھیں۔
زیورک اور اس کے نواح بلکہ دور دور کے شہروں سے جو معززین شریک ہوئے ان کی فہرست طویل ہے۔ ان میں اس شہر کے پریذیڈیٹ` اس کانٹول کے صدر وسابق صدر` اراکین پارلیمنٹ` شہر کی کونسل کے اراکین` ڈاکٹر صاحبان` سفارت طونس اور سفارت پاکستان کے فرسٹ سیکرٹری` ڈچ قنصل` برطانوی قنصلیٹ کے نمائندہ` ڈومینکین قنصل وغیرہ ایک کثیرتعداد میں معززین موجود تھے۔ یونیورسٹی اور فیڈرل درس گاہ کے طلبہ کے علاوہ مختلف کارخانوں وغیرہ میں کام کرنے والے مختلف ملکوں کے احباب بھی موجود تھے۔ مسلمان احباب نے میزبانی کے جذبہ کا مظاہرہ کیا اور لیکچر روم کی اکثر نشستیں غیرمسلموں کے لئے خالی کردی گئیں۔ باہر کے دروازہ سے لے کر اوپر کی منزل کو آنے والی سیڑھیاں مسجد کے آگے خالی جگہ ہر طرف لوگ موجود تھے۔ لائوڈ سپیکر کا اہتمام تھا۔
اس مبارک تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو خاکسار کے قدیمی رفیق کار محترم حافظ قدرت اللہ صاحب نے مخصوص پر اثر انداز میں فرمائی اس کے بعد خاکسار نے اپنے افتتاحی خطاب میں منجملہ دیگر امور کے احمدیت کی مختصر تاریخ اور مصلح موعود کی پیشگوئی بیان کی جو انگریزی اور جرمن دونوں زبانوں میں سائیکلوسٹائل کرکے شائع کردی گئیت تھی۔ اس کے بعد محترم چوہدری محمدظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی تقریر پڑھ کر سنائی۔ اس کا جرمن ترجمہ پریس اور پبلک کے پاس تھا اس لئے غیرزبان میں ہونے کے باوجود حاضرین کی دلچسپی قائم رہی۔ پھر محترم ڈاکٹر ایمل لانڈالٹ )TLOEMILLAND۔(DR پریذیڈنٹ زیورک مائیکرو فون پر تشریف لائے اور ایک دلچسپ تقریر فرمائی جس میں مذہبی آزادی اور جماعت احمدیہ کو مسجد کے لئے پلاٹ دیئے جانے کا ذکر فرمایا۔
آخر میں محترم عبدالرشید فوگل (VOGEL) نے سیدنا حضرت امیرالمومنین اطال اللہ بقاء ہ` حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مدظلہالعالیٰ` حضرت سیدہ محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے پیغامات مختصراً پڑھ کر سنائے۔ اس کے بعد مستشرقین انگلستان` ہالینڈ` جرمن کے پیغامات میں سے اقتباسات پیش کئے۔ تمام پیغامات اپنے اپنے رنگ میں اچھے تھے اور ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان ممالک میں احمدیت کے ذریعے موثر رنگ میں اسلام کی تبلیغ ہورہی ہے۔ ڈاکٹر منٹگمری واٹ MONTGAMERYWALT)۔(DR کا پیغام جو آنحضرت~صل۱~ کے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے )دو جلدوں میں سیرت کی تصنیف ہے( عالم اسلام میں غیرمعمولی شہرت حاصل کرچکے ہیں` بہت ہی اچھا تھا۔۔۔۔
آخر میں بعض عائدین حکومت کی طرف سے موصولہ پیغامات پیش کئے گئے۔ مملکت لائبیریا کے صدر زیورک تشریف لائے ہوئے تھے خاکسار انہیں ملا اور انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ۲۲ کو انکی روانگی کا پروگرام بن چکا ہے جس کے باعث افتتاح کی تقریب میں شرکت ممکن نہیں ورنہ وہ ضروری شامل ہوتے تاہم وہ اپنا پیغام روانگی سے قبل ضرور بھجوادیں گے۔ چنانچہ ان کی طرف سے طویل پیغام موصول ہوا جس میں ہمارے مبلغ )محترم مبارک احمد صاحب ساقی( کے کام کا بھی ذکر ہے۔
سیرالیون کے رئیس التبلیغ مولوی بشارت احمدصاحب بشیر نے سیرالیون کے نائب وزیراعظم اور وزیرتجارت` اور فری ٹائون کے میئر کے اس تقریب کے لئے پیغامات بھجوائے۔ نائجیریا کے وزیرداخلہ نے بھی اپنا پیغام بھیج دیا۔ پیغامات سوائے دو تین کے جو آخر میں موصول ہوئے جرمن زبان میں شائع کردئے گئے تھے۔ اس تقریب پر مندرجہ ذیل ملکوں کے مبلغین کرام کی طرف سے بھی پیغامات موصول ہوئے۔
سیرالیون` نائجیریا` برما` ملایا` سنگاپور` لائبیریا` ٹوگو` ٹانگانیکا` بورنیو` غانا۔
کانو نائجیریا سے محترم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اور سائوتھ افریقہ کے ڈاکٹر عمرسیلمان صاحب نے لندن سے اپنے محبت بھرے پیغامات سے نوازا )اس تقریب کے بعد فجی سے بھی پیغام موصول ہوا۔ اللہ تعالٰے سب کو اپنے فضل سے جزائے خیربخشے۔ آمین(
مسٹر عبدالرشید فوگل کے پیغامات پیش کرنے کے ساتھ تقاریر کا پروگرام ختم ہوا۔ خاکسار نے میٹنگ کے سٹیج پر ہی مسجد محمود کی چابی زیورک کے پریذیڈنٹ محترم ڈاکٹر ایمل لانڈالٹ کو دی کہ وہ اس قصبہ کے میزبان کے جذبہ کے اظہار کے طور پر محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو پیش کریں۔ انہوں نے مائیکروفون پر آکر چند کلمات کے ساتھ چاندی کی طشتری میں یہ چابی محترم چوہدری صاحب کوپیش کی۔ چوہدری صاحب یہ چابی لیتے ہوئے انبوہ کثیر کے ساتھ مسجد کے دروازہ کی طرف بڑھے اور اللہ کے نام کے ساتھ اس خدا کے گھر کا دروازہ کھولا۔ محترم کرم الٰہی صاحب ظفر مبلغ سپین نے مائیکروفون پر جو بالکونی میں رکھا ہوا تھا پہلی اذان دی۔ محترم چوہدری صاحب نے نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں اور اس طرح مسجد محمود کی تقریب افتتاح تکمیل پذیر ہوئی` الحمدلل¶ہ۔
اوپر کی منزل میں مسجد ہے اور نیچے کی منزل میں رہائش کمرے ہیں۔ افتتاحی تقریب کے بعد مہمانوں کے لئے )کل و شہرب کا انتظام تھا۔ برادران و خواتین کی کمروں میں ڈیوٹیاں تقسیم تھیں۔ مبلغین کرام بھی اس خدمت میں حصہ لے رہے تھے۔ جگہ کی تنگی اور مہمانوں کی کثرت کے باعث انتظامات میں خاصی دقت تھی۔ اور پھر بعض چیزیں اپنے طور پر بھی تیار کرنی تھیں۔ تین خواتین نے دن رات کام کیا۔ ان میں سے ایک جس نے حال ہی میں بیعت کی ہے خاکسار کی امداد کے لئے پندرہ دن کی اپنے دفتر سے رخصت حاصل کرلی ہوئی تھی۔ اور ٹائپ` سائیکلوسٹائل` خطوط` پریس سے رابطہ وغیرہ سیکرٹری کا جملہ کام شب و روز محنت سے کیا۔
تمام امور کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا۔ اس موقعہ پر میاں مسعود احمد صاحب جہلمی امام مسجد فرینکفورٹ نے مسلسل بہت ہمت سے کام کیا` جزاکم اللہ۔ محترم چوہدری عبداللطیف صاحب مبلغ جرمنی کا آغاز کار میں خاکسار کی امداد فرماتے رہے ہیں اور اب افتتاح کے ضمن میں انہوں نے بہت امداد کی۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی جناب سے جزائے خیربخشے` آمین۔ ۲۲۔ جون کو شام چوہدری صاحب اور مبلغین کرام کے اعزاز میں ڈنر کا اہتمام تھا جس میں احباب جماعت اور بعض دیگر دوست شریک ہوئے۔ ۲۳۔ جون بروز اتوار صبح نوبجے۔ یورپین مشنز کانفرنس شروع ہوئی۔ محترم چوہدری صاحب نے دعا اور تقریر سے اس کا افتتاح فرمایا۔
اسی روز اڑھائی بجے مجلس تقاریر منعقد ہوئی جس میں محترم چوہدری صاحب کی صدارت میں مندرجہ ذیل یورپین احمدی احباب نے تقاریر فرمائیں۔
)۱( مسٹر محمد ایس عبداللہ جرمنی )۲( مسٹر عبدالسلام میڈسن ڈنمارک
)۳( مسٹررفیق چانن سوئٹزرلینڈ )۴( مسٹر عبدالرشید فوگل سوئٹزرلینڈ
پہلے تین مقررین نے >یورپ میں اسلام کا کردار< کے موضوع پر تقاریر فرمائیں اور علی الترتیب ماضی` حال اور مستقبل کے بارہ میں بیان کیا۔ چوتھے مقرر نے افریقہ میں اسلام کے موضوع پر تقریر فرمائی محترم چوہدری صاحب کے ریمارکس کے بعد جن کا ترجمہ ساتھ محترم چوہدری عبداللطیف صاحب فرماتے رہے اس علمی مجالس کا اجلاس ختم ہوا۔
محترم چوہدری محمد ظفراللہ صاحب کا جہاز ساڑھے پانچ بجے ائرپورٹ سے روانہ ہونا تھا آپ احباب سے رخصت ہوئے۔ محترم رفیق چانن صاحب لندن اپنی شادی کے لئے جارہے تھے اور چوہدری عبدالرحمن صاحب آپ کے اس سفر میں ہم رکاب تھے خاکسار نے ائرپورٹ پر دلی شکریہ کے ساتھ الوداع کہا۔
ابھی یورپین مشنز کی کانفرنس کا کام باقی تھا۔ کانفرنس نے متعدد اہم امور پر غورکیا اور محترم عبدالسلام میڈسن صاحب کارروائی کاریکارڈ رکھتے رہے اور اس کے اختتام پر رپورٹ تیار کی ۔۔۔۔۔۔
مورخہ ۲۵) جون اڑھائی بجے دوپہر پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں شریک ہونے والوں کو تیار کردہ بلیٹن دے دیا گیا اور ساتھ ہی ان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے۔ مسٹر محمودارکن نے نے بڑی توجہ سے ٹائپ کاکام کیا۔ اسی طرح محترمہ ناصرہ رینڈلٹ نے بھی اس کام میں امداد فرمائی۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
ٹیلی ویژن` ریڈیو اور اخبارات میں چرچا کے باعث مسجد محمود کی شہرت دور نزدیک پہنچ چکی ہے زائرین کا تانتا بندھ رہا ہے۔ ایک طبقہ میں واقعی حق کی جستجو کا جذبہ نظرآتا ہے وہ عیسائیت سے مطمئن نہیں` ان کے قلوب میں صراط مستقیم کے لئے تڑپ ہے۔<۲۰۹
مسجد محمود کے ملک گیر اثرات وبرکات
مسجد محمود کی تعمیر سے ملک میں اسلام اور احمدیت کی شہرت دور دور تک پھیل چکی ہے اور اس کے ملک گیر اثرات وبرکات روز بروز نمایاں ہوتے جارہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض ممتاز شخصیتوں کے تاثرات ملاخطہ ہوں۔
)۱( ڈاکٹر محمد عزالدین حسن البانوی نژاد۲۱۰ نے ایک تقریب سعید پر جو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے اعزاز میں منعقد کی گئی مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار فرمایا۔
>ساری دنیا میں احمدیت اسلام کی علمبردار ہے اور اس نے اب تک بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔ قبل ازیں عثمانی سلطنت کے دور میں اسلامی دنیا میں ترکی ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا اور ترکی کی ہر چھوٹی بڑی سفارت کے ساتھ ایک مسلمان عالم ہوتا تھا جو اس ملک میں مسلمانوں کی ضروریات کا خیال رکھتا تھا۔ بدقسمتی سے پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ دستور عموماً مسلمان حکومتوں نے ترک کردیا۔ اب یہ جماعت احمدیہ کی بڑی خوبی ہے کہ اس نے پیش قدمی کی اور وہ ہر جگہ اسلام کے مراکز قائم کررہی ہے۔ بہت سے ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے لئے یہ مساعی بہت خوش کن ہے۔ زیورک میں اس مسجد کی تعمیر احمدیت کی مساعی کی ایک روشن مثال ہے اس کی اہمیت کا اظہار مسلمانوں کی بڑی تعداد سے ہوتا ہے جو عیدین پر یہاں جمع ہوتے ہیں یہاں پر مقیم مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کا بھی جماعت نے بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ جماعت کا ایک اور بڑا کام قرآن کریم کے بہت سی زبانوں میں تراجم ہے اور حال ہی میں قرآن کریم کے یہ تراجم ان ممالک میں جہاں کی زبان عربی نہیں ہے مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے بڑی قیمت رکھتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ باقی مسلمان بھی احمدیوں کا اپنے معتقدات پر عمل اور مسلمان بھائیوں کی امداد کی مثال کی تقلید کریں گے۔<۲۱۱
)۲( ایک ترک دوست قہرمان تونا۲۱۲ بلو نے کہا۔
>مجھے سوئٹزرلینڈ میں رہتے پانچ سال ہوگئے ہیں۔ میرے لئے اپنے والدین اور وطن عزیز سے دور رہنا بڑا مشکل تھا۔ اپنے والدین اور وطن سے دوری کو والدین` عزیزوں اور دوستوں سے خط و کتابت کم کردیتی۔ لیکن ایک مسجد کی آرزو جہاں تمام مسلمان جمع ہوسکیں کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہ آئی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ۲۲۔ جون ۱۹۶۳ء کو جماعت احمدیہ کی اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی` اب تمام ترک اور دوسرے مسلمان یہاں جمع ہوسکتے اور نمازیں ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارے امام کے پر اثر خطبات اور تشریحات نہ صرف میرے لئے بلکہ بہت سے ترک احباب کے لئے بہت ممدثابت ہوتے ہیں۔ مجھے یہ بھی ذکر کرنا ہے کہ قرآن مجید کے تراجم اور ایسا ہی اور بہت سی کتب کے تراجم مثلاً دیباچہ تفسیر القرآن کا ترکی زبان میں ترجمہ ہمارے لئے بہت ہی قابل قدر ہے۔ یہاں ہماری یہ مسجد ہمیں قبلی سکون اور مسرت بخشتی ہے اور پھر ہم خوش ہیں کہ اسلام کا نور دور دراز علاقوں میں پھیلتا اور روشن سے روشن تر ہوتا جارہا ہے۔<۲۱۳
)۳( سوئٹزرلینڈ کے ایک کیتھولک دوست مسٹر فرودن فرولا ۲۱۴ نے مسجد کی اہمیت و عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا۔
>ہم اسے خوش قسمتی تصور کرتے ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر سے ایک ایسا مرکز قائم ہوگیا جو نہ صرف وسطی یورپ کے مسلمانوں کے لئے مقام اجتماع ہے بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی مذہبی تبادلہ خیالات کے لئے ایک ادارہ کاکام دیتا ہے۔ اس سے باہمی مفاہمت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ مسجد محمود کی شہرت نے ہر جگہ بڑی کشش پیدا کی ہے۔ درحقیقت یہاں پر نہ صرف زیورک بلکہ سوئٹزرلینڈ کے مختلف حصوں اور ہمسایہ ممالک جرمنی اور آسٹریا سے لوگ آتے ہیں۔ کچھ چھوٹے چھوٹے گروپ تعلیم عربی کے حصول اور قرآن و بائبل کے موازنہ اور تاریخ و ادب سے بہتر واقفیت حاصل کرنے کے لئے بن گئے۔ میں خود ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتا ہوں جو ہر ہفتہ عربی تعلیم کے حصول کے لئے جمع ہوتا ہے۔۔۔ ہم نے عربی کی تعلیم کی بنیاد کے طور پر قاعد یسرنا القرآن کو استعمال کیا ہے جو پاکستان میں طلبہ مدارس کے لئے ابتدائی کتاب کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔ بڑی مشکل کے بعد اپنے استاد باجوہ صاحب کی راہ نمائی میں جو ہم سے ناقابل یقین محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں اس قاعدہ کو ختم کردیا ہے۔ ہم اب قرآن کو گرامر اور لغت اور محاورات کے ساتھ پڑھ رہے ہیں۔ اس حاصل کئے ہوئے علم کو استعمال کرنے اور ان ممالک اور ان کے لوگوں کو دیکھنے کے لئے ہم میں سے تین اب تک مشرق وسطی کی سیاحت کرچکے ہیں انہوں نے ان ممالک کو اپنی توقعات سے بڑھ کر پایا۔ میں خود بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ کسی مناسب موقع پر مسلم ممالک دیکھوں۔<۲۱۵
)۴( ہزایکسی لینسی سید توفیق عبدالفتاح سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ نے ایک الوداعی دعوت میں )جوان کے اعزاز میں جماعت احمدیہ زیورچ کی طرف سے دی گئی( تقریر کرتے ہوئے کہا۔
>سوئٹزرلینڈ میں میرے پہلے سال کے قیام کے دوران مجھے زیورک میں مسجد کا علم نہ تھا اس کے بعد مجھے ایک لبنانی ڈاکٹر سے مسجد کا علم ہوا اور ان کی تحریک پر ہم عیدالاضحیٰ کی تقریب میں شریک ہوئے اس کے بعد میں آتا رہا اور امام مسجد نے ہمیشہ مجھے خوش آمدید کہا۔ یہاں ہمیں بہت سے سویس مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں سے تعارف کا موقعہ ملا جن کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں اور صحیح رابطہ قائم ہوچکا ہے۔ جب بھی امام نے مجھے بلایا میں نے کبھی آنے میں تامل نہیں کیا۔ امام کی سرگرمی عمل کو شدت سے محسوس کرتا رہا ہوں اور اس مجلس میں اس تاثر کے اظہار سے مجھے خوش ہے۔
>امام! میں پھر آپ کے اس پرتپاک خوش آمدید کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کبھی مجھے بھولے نہیں جب مجھے قاہرہ جانے کا موقعہ ملا میں آپ کا ذکر کرتا رہا۔ الازہر کے امام سے کئی دفعہ آپ کے متعلق بات ہوئی اور میں نے انہیں آپ کے مشن کی کارگزاری سے آگاہ کیا۔ ابھی گزشتہ رمضان میں میں قاہرہ میں تھا وہ آپ کا اور آپ کے مشن کا ذکر بڑی دلچسپی سے سنتے رہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ یہاں کس قدر کامیاب ہیں۔ آپ اور آپ کے سوئٹزرلینڈ میں کارہائے نمایاں کے لئے اپنے ممنونیت کے جذبات کا اظہار ایک حقیر خدمت ہے جو میں بجالاتا ہوں۔< ۲۱۶
صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب وکیل التبشیر سوئٹزرلینڈ میں
۱۳۴۴ہش/ ۱۹۶۵ء کا ایک قابل ذکر واقعہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمدصاحب کی سوئٹزرلینڈ میں آمد ہے۔ صاحبزادہ صاحب مغربی افریقہ کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے جاتے ہوئے ۲۳۔ ماہ شہادت کو زیورک پہنچے اور ۲۷۔ ماہ شہادت تک ٹھہرے آپ کے اس مختصر سے قیام سے نہ صرف سوئٹزرلینڈ کی احمدیہ جماعت کو بہت فائدہ پہنچا بلکہ آپ کی موثر گفتگو نے زیر تبلیغ اصحاب اور جماعت سے اخلاص واحترام رکھنے والے دوسرے دوستوں کو بھی بہت متاثر کیا۔ صاحبزادہ صاحب دورہ مغربی افریقہ سے واپسی پر لندن سے استنبول جاتے ہوئے دوبارہ سوئٹزرلینڈ سے گزرے اور ایک اثر انگیز خطاب فرمایا۔ ۲۱۷
حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا مبارک سفر سوئٹزرلینڈ
سوئٹزرلینڈ کی سرزمین کو ۱۳۳۴ہش/ ۱۹۵۵ء میں اگر سیدنا حضرت مصلح الموعود کے مبارک قدموں نے برکت بخشی تو ۱۳۴۶ہش/ ۱۹۶۷ء
میں اسے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے خدا نما اور مقدس وجود سے براہ راست انوارو فیوض حاصل کرنے کا سنہری موقعہ میسرآیا۔
حضور پر نور اپنے دورہ یورپ کے دوران ۱۰۔ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء کو پیر کے روز صبح گیارہ بجے کے قریب زیورک میں رونق افروز ہوئے۔ ہوائی مستقر پر سوئٹزرلینڈ کے معززین اور سربرآور دہ مسلمانوں نے حضور کا استقبال کیا۔ اسی روز شام کو حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں معززین بکثرت شامل ہوئے اور اس موقعہ پر مختلف ملکوں نے مسلمانوں نے حضور ایدہ اللہ تعالٰے کی خدمت اقدس میں اپنے جذبات محبت وعقیدت پیش کئے۔۲۱۸
اگلے روز )مورخہ ۱۱۔ جولائی بروز منگل( سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک ظہرانہ کا اہتمام کیاگیا جس میں سات ملکوں کے سفیروں` متعدد دیگر سفارتی نمائندوں اور سوئٹزرلینڈ کے سربرآور دہ حضرات نے شرکت کی۔ سویس ریڈیو نے حضور کا ایک خصوصی انٹرویو اور استقبالیہ تقریب کی فلم تیار کی۔ انٹرویو کے مناظراسی شام ٹیلیویژن پر دکھائے گئے۔۲۱۹
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ زیورک میں چار روز قیام کے بعد ۱۴۔ ماہ وفا/جولائی کو ہیگ )ہالینڈ( تشریف لے گئے۔۲۲۰
مسجد محمود میں ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کی تقریب عیدالاضحیٰ
‏0] ft[rمسجد محمود میں ۱۷۔ تبلیغ/فروری ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو تقریب عیدالاضحیہ منائی گئی۔ اس عید کو یہاں پہلی بار یہ خصوصیت حاصل تھی کہ زیورک ریڈیو نے کافی وقت پہلے طے کئے ہوئے پروگرام کے مطابق نصف گھنٹہ سے بھی زیادہ وقت اس تقریب کے لئے مخصوص کیا۔ ریڈیو پروگرام میں )جو آسٹریا` جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کا اکٹھا چھپتا ہے( اس کا ذکر بھی شائع شدہ تھا۔ اس میں انچارج مبلغ سوئٹزرلینڈ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کا مکمل خطبہ ریکارڈ کیاگیا اور مختصر تبصرہ و تعارف کے ساتھ نشر کیاگیا۔ اس پروگرام میں دلچسپی رکھنے والے کروڑوں لوگوں نے اسے سنا۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شہرہ آفاق خطبہ الہامیہ اور کتاب برکات الدعا کے اقتباسات اور اپنے محبوب امام حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے برقی پیغام کا ترجمہ بھی سنایاگیا۔۲۲۱
عید کے روز سخت سردی تھی اور برفباری ہورہی تھی اور پھر کام کا دن تھا تاہم حاضری اچھی ہوگئی۔ حتیٰ کہ اس موسم میں برن سے الجزائر کے سفیرہزایکسی لینسی محمد یوسفی اور انڈونیشین سفارت کے سیکنڈ سیکرٹری نے بھی شرکت کی۔ مقامی ترکی قنصل کے نمائندے بھی اس وقت موجود تھے۔ اس یادگار تقریب کی رپورٹ جرمن اور فرنچ دونوں حصوں کے پریس میں شائع ہوئی۔ اخبار ٹاگس اینائگر ANZEIGER> <TAGES نے اپنی ۱۲۔ فروری ۱۹۷۰ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس تقریب میں بکثرت شرکت سے ان کے مختلف رنگوں` نسلوں اور مذہبوں کے باعث اپنی اپنی الگ زبانوں اور انوکھے آداب سے ایسا عجیب اور رنگین امتزاج پیدا ہوگیا تھا کہ زیورک کے ایک عام باشندے کو گودہ اس حلقہ میں دلی مسرت کے ساتھ قبول کرلیاگیا ہو ضرور قدرے اجنبیت کا احساس ہوگا۔< ۲۲۲4] ftr[
المختصر وہ سرزمین جو ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء میں کبھی مجاہدین احمدیت کے لئے بالکل اجنبی تھی اب اس میں اسلام ایک موثر اور طاقتور تحریک کی صورت میں ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ قرآن مجید اور دوسرا اسلامی لٹریچر سویس مفکروں` دانشوروں` صحافیوں` سیاستدانوں اور صاحب علم طبقوں کی توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے` شاندار مسجد ۔۔۔ مسجد محمود ۔۔۔ تعمیر ہوچکی ہے` دل اسلام کے لئے جیتے جارہے ہیں اور سعید روحیں آہستہ آہستہ آنحضرت~صل۱~ کے قدموں میں آرہی ہیں اور یہ تثلیث کدہ بھی اذانوں سے گونجنے لگا ہے۔ فالحمدللہ علی ذالک
فصل پنجم
احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کا قیام
تبلیغی نقطئہ نگاہ سے ہالینڈ نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وہ ملک ہے جس نے تین سو پچاس سال تک جزائر مشرق۲۲۳ الہند کے دس کروڑ باشندوں پر حکمرانی کی ہے۔ ان باشندوں کی بھاری اکثریت مسلمان ہے اور ان کا ایک حصہ ہالینڈ میں ہی مستقل بودوباش اختیار کرچکا ہے۔ ا ملک کا تعلق جنوبی امریکہ کی بعض نو آبادیات سے بھی ہے جہاں مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ کی لائیڈن یونیورسٹی UNIVERSITY) (LEIDEN مشرقی علوم کے >مغربی مرکز< کی حیثیت سے نہ صرف پورے یورپ بلکہ دنیا بھر میں بہت مشہور ہے اور علمی دنیا میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام رکھتی اور بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ لہذا یہاں کے مستشرقین کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے سے یورپ کے اونچے علمی طبقوں میں زبردست انقلاب آسکتا ہے اور اسلام کی روحانی فتح کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اگرچہ ہالینڈ سے انڈونیشی مسلمانوں کے ایک عرصہ سے تعلقات چلے آرہے تھے اور ایک بڑی تعداد اس میں مقیم ہوگئی تھی لیکن اتنے لمبے زمانہ میں یہاں اشاعت اسلام کی کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی حتیٰ کہ کسی مسلمان کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ اپنی مرکزیت کو برقرار رکھنے اور خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے اس سرزمین میں کوئی خانہ خدا ہی تعمیر کردیں۔
ہالینڈ میں اسلام واحمدیت کی پہلی آواز مسجد فضل لنڈن کے افتتاح کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے مبلغ انگلستان کے ذریعہ سے پہنچی جنہوں نے ۱۹۲۶ء میں بلجیم اور اس ملک کا دورہ کیا اور وہاں کی متعدد سوسائیٹیوں میں لیکچر دیئے۔۲۲۴ ۳۴۔۱۹۳۳ء میں آپ نے ہالینڈ کے پروفیسر ونسنک سے خط و کتابت کی۔۲۲۵ ۳۵۔۱۹۳۴ء میں بعض ڈچ سفراء سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ جاوا میں ہمارا مشن قائم ہے جس پر انہوں نے احمدیت سے متعلق واقفیت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اور جب آپ دوسری مرتبہ ملنے کے لئے تشریف لے گئے تو ان کے پاس احمدیت کا لٹریچر موجود تھا۔۲۲۶ مولانا کی سالانہ رپورٹ ۳۶۔۱۹۳۵ء سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈچ سفیر سے انہوں نے مسلسل رابطہ قائم رکھا۔۲۲۷ لنڈن مشن کی سالانہ رپورٹ ۳۸۔۱۹۳۷ء میں ہالینڈ کے دو پادریوں کے مسجد فضل لنڈن میں آنے کا ذکر ملتا ہے۔۲۲۸ مولانا درد انگلستان ہی میں تھے کہ ۵۔ اپریل ۱۹۳۰ء کو مسٹر انڈریا سا ڈچ قنصل قادیان گئے۔ یہ پہلے ولندیزی باشندے تھے جنہیں مرکز احمدیت میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ مسٹر انڈری سا سماٹرا میں ڈچ آفیسر مقرر تھے اور انہیں مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا وسماٹرا کے کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ کے حالات کا علم ہوا تھا۔۲۲۹4] f[rt مسٹر انڈریاسا مرکز احمدیت کے پر انوار ماحول اور اہل قادیان کی اسلامی اخوت و روا داری سے بے حد متاثر ہوئے چنانچہ انہوں نے واپسی پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے نام ڈچ زبان میں حسب ذیل خط لکھا۔
>ہم نے قادیان میں نیکی کے سوا اور کچھ نہیں پایا۔ سو ہندوستان سے جو بہت سے اثرات میرے دل پر ہوئے ہیں ان میں سے خاص اثرات قادیان کے ہیں جنہوں نے میرے دل میں خاص جگہ حاصل کی ہے۔ سب سے اول آپ لوگوں کی مہمان نوازی ہے جس سے میں مسرور ہوا اور میں آپ کا ممنون ہوں گا اگر آپ میرا شکریہ اپنے سب احباب کو پہنچادیں۔ خاص بات جو مجھ پر اثر کرنے والی ہوئی وہ ایک طبعی ایمان اور سچی برادری ہے جو لل¶ہی محبت سے پیدا ہوکر قادیان کو رسولوں کی سی ایک فضا بخش رہی ہے جو عیسائی حلقوں میں شاذو نادر ہے۔ آپ کے فاضل ذوالفقار علی خاں صاحب )ناظر اعلیٰ( نے )جن کے ساتھ مجھے خاص محبت حاصل ہوگئی ہے( جو کتب مجھے عطا فرمائی ہیں ان کے پڑھنے کے بعد پھر آپ کو اطلاع دوں گا۔<۲۳۰
مولانا عبدالرحیم صاحب درد کی انگلستان سے مراجعت کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس کے قیام لنڈن کا زمانہ آتا ہے جو ہالینڈ میں احمدیت کی داغ بیل کے اعتبار سے ایک سنہری دور ہے۲۳۱ جس میں دوسری یوروپین زبانوں کے تراجم کے علاوہ ڈچ ترجمہ قرآن بھی آپ کے زیر نگرانی مکمل ہوا۔ اس ترجمہ کی سعادت ایک ولندیزی خاتون مسز زمرمان کے حصہ میں آئی جو ڈچ کے علاوہ انگریزی اور جرمن زبان کی بھی ماہر ہیں اور ایٹلین پر بھی ایک حد تک عبور رکھتی ہیں۔ اس خاتون نے اس مقدس فریضہ کی بجاآوری کے دوران صداقت اسلام کے بعض قہری نشان دیکھے اور بالاخر اللہ کے فضل اور احمدی مبلغوں کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں داخل اسلام ہوگئیں اور آج تک نہایت خلوص سے ہالینڈ میں مبلغین اسلام کے دوش بدوش شاندار اسلامی خدمات بجالارہی ہیں مسز ناصرہ زمرمان ZIMMERMAR) ۔(N نے اپنے قبول اسلام کی ایمان افروز سرگزشت اپنے قلم سے لکھی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
۱۹۴۵ء کا سال میرے لئے تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کے شروع میں میں بمباری سے مسمار شدہ لنڈن میں پہنچی ہی تھی کہ مجھے ایک ترجمہ کرنے والے محکمہ BUREAU) (TRANSLATION کی طرف سے ملاقات کے لئے پیغام ملا۔ مجھے بتایاگیا کہ یہ ملاقات قرآن کریم کے ڈچ ترجمہ کے سلسلہ میں ہے۔ مجھے آخری تین سو صفحات کا ترجمہ کرنے کے لئے کہاگیا اس پر مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ میں یہ دیکھوں کہ پہلے حصہ کا ترجمہ کیسا ہوا ہے؟ میں پہلے حصہ کے چند صفحات کو لے کر گھر لوٹی اور ان کا بنظر غائر مطالعہ کیا۔ اس ترجمہ کا میری طبیعت پر بہت برا اثر ہوا۔ مترجم نے قدیم ڈچ زبان میں جس کو آج کل سمجھنا بھی مشکل ہے ترجمہ کیا ہوا تھا۔ اور پھر اس کا انداز بھی کوئی اچھا نہ تھا اس لئے میں نے ترجمہ کرنے سے انکارکردیا۔ میرے لئے یہ کام اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ میری پیدائش اور تربیت عیسائی ماحول میں ہوئی تھی جس میں سرے سے گناہ کا تصور ہی بالکل آورہے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ حضرت یسوع ہمارے گناہوں کی خاطر مصلوب ہوگئے قرآن کریم کی تعلیمات میرے لئے صدمہ کا موجب ہوئیں کیونکہ قرآن کریم میں اعمال پر بہت زور دیاگیا ہے اور گناہوں کی پاداش میں سزا کا بھی ذکر ہے اس لحاظ سے بھی قرآن کریم کا ترجمہ کرنا میرے لئے محال تھا۔ آخر لمبی سوچ اور گہرے غور کے بعد میں نے اس مبارک کام کو سرانجام دینے کا فیصلہ کیا اور میں نے دفتر کے ڈائریکٹر سے تمام قرآن کا ترجمہ اپنے طرز اور موجودہ ڈچ زبان میں کرنے کی اجازت لے لی۔ میں نے اس کام کر سرانجام دینے کے لئے دن رات ایک کردیا اور ابتدائی ۳۰` ۴۰ صفحات کا ترجمہ کرکے میں ڈائریکٹر کے پاس لے کر گئی۔
اس موقعہ پر اس امر کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ جب میں ڈائریکٹر کو ملنے گئی تو ہماری قرآن کریم کے متعلق طویل گفتگو ہوئی۔ ڈائریکٹر نے اس مقدس کتاب کے متعلق نہایت ہی توہین آمیز کلمات استعمال کئے` بعد میں بھی اس کا رویہ یہی رہا اور اس نے وہاں کئی بار متواتر اور مسلسل قرآن کریم کی توہین جاری رکھی جن کا میری طبیعت پر بہت ناگوار اثر ہوا لیکن جلد ہی جب میں دوبارہ اسے ملنے گئی تو میں نے اسے نہایت ہی المناک کیفیت میں پایا۔ اسے LAMBAGO کا شدید حملہ ہوا میں نے اسے فوری طور پر گھر پہنچانے کا انتظام کیا۔ جہاں اگلے ہی روز وہ چل بسا۔ چند روز بعد دوسری ڈائریکٹرس بھی جس نے اس گفتگو میں حصہ لیاتھا بیمار ہوئی اور اس مقدس کتاب کی توہین کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچ سکی اور ہسپتال میں اس جہان سے رخصت ہوگئی۔ ان واقعات نے میری طبیعت پر گہرا اثر کیا۔ لیکن ابھی خدا تعالیٰ نے اس مقدس کتاب کی صداقت کو میرے قلب پر اور منقوش کرنا تھا۔ خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان واقعات کے بعد اس دفتر کا ٹائپسٹ جس نے اس توہین آمیز اور مضحکہ خیز گفتگو میں حصہ لیا تھا جنوبی امریکہ گیا۔ تین ہفتہ کے اندر اندر ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ بھی خدائی عذاب کا شکار ہوکر اس دنیا سے کوچ کرگیا ہے۔ ایک اور سیکرٹری جس نے اس توہین میں کبھی حصہ نہ لیا تھا صحیح و سلامت رہی۔
ان واقعات نے میری دنیا یکسر بدل ڈالی۔ میری طبیعت پر قرآن کریم کی صداقت اور حقانیت کا سکہ بیٹھنا شروع ہوا اور اس کتاب کی عظمت کا میرے دل پر گہرا اثر ہوا انہی واقعات نے میری توجہ اسلام کی طرف مبذول کی۔ میں نے ان واقعات کا اس لئے بھی ذکرکردیا ہے تاکہ یہ مخالفین کے لئے حجت کا باعث ہوسکیں۔ میں اپنے مولا کریم کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس کام کے کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ میں نے ترجمہ کے دوران میں اس مقدس کتاب سے جو روحانی شیرینی اور پرکیف روحانی اثرات حاصل کئے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا۔ جو روشنی میں نے قرآن کریم سے حاصل کی وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ بالخصوص اپنی رحمت کا سلوک فرمایا۔ میں ترجمہ کے دوران قرآن کریم کی صداقت کی دل سے قائل ہوچکی تھی چنانچہ میں نے قرآن شریف سے لگائو اور تعلق کو بڑھانے کے لئے لنڈن مسجد میں گاہے گاہے جانا اور احمدیت کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ میرے ساتھ ہر دفعہ برادرانہ اخوت اور محبت کا سلوک کیاگیا اور میری روحانی تشنگی دور کرنے کے سامان مہیا کئے جاتے رہے۔ اس محبت اور اخوت بھرے سلوک نے مجھے احمدیت کے بہت ہی قریب کردیا۔
ہالینڈ آنے پر تھوڑے عرصہ میں ہی یہاں مشن قائم ہوگیا۔ یہاں تینوں مبلغین نے میری تربیت کے لئے اخلاص اور محنت سے کام کیا` مجھے کتب مطالعہ کے لئے انہوں نے دیں۔ لمبی لمبی دیر تک اپنا قیمتی وقت مجھ پر صرف کرتے رہے۔ ان کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے مجھے احمدیت جیسی نعمت ملی۔ میں ہمیشہ اپنے ان تینوں بھائیوں کی ممنون رہوں گی جن کے ہاتھوں میری نجات کے سامان ہوئے۔۲۳۲
مسززمرمان کے علاوہ جن کے لنڈن مشن سے تعلق بالاخر قبول اسلام پر منتج ہوا حضرت مولانا شمس صاحب کے ذریعہ ایک ڈچ طالب علم مسٹرکاخ بھی حلقہ بگوش السلام ہوئے۔ یہ پہلے ولندیزی نومسلم تھے جنہوں نے آنحضرت~صل۱~ کی غلامی کا فخر حاصل کیا اور ان کا نام ظفراللہ رکھاگیا۔ مسٹرکاخ کا شمار آج یورپ کے ان پرجوش نومسلموں میں ہوتا ہے جنہیں اسلام اور سلسلہ احمدیہ سے انتہائی اخلاص اور انس ہے۔
مستقل مشن کا قیام
ہالینڈ میں مستقل احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد حافظ قدرت اللہ صاحب کے ہاتھوں پڑی جو دوسرے مجاہدین تحریک جدید کے ساتھ کچھ عرصہ انگلستان میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ماہ وفا/جولائی ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو ہالینڈ میں پہنچے۔۲۳۳ آپ نے ہیگ کی کولمبس سٹریٹ )۔STR (COLAMBUS میں ایک کمرہ کرایہ پر لے کر اشاعت اسلام کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔
ایک مبلغ اسلام کے آنے کا واقعہ اس ملک کی تاریخ میں چونکہ ایک انوکھا اور نرالا واقعہ تھا اس لئے ڈچ پریس نے اس میں خاصی دلچسپی لی۔۲۳۴ ہالینڈ میں جب پہلی بار اسلامی مشن کے قیام کی خبر منظر عام پر آئی تو ڈچ عوام نے اگرچہ اس خبر کو دلچسپی کے ساتھ پڑھا مگر اس دلچسپی میں تعجب اور تعصب کے ملے جلے جذبات تھے۔ چنانچہ ہیگ کے ایک بااثر ہفت روزہ )POST (HAAGSCHE نے >ایشیا کی بیداری< کے زیر عنوان یہ لکھا۔
>یورپ کے لئے ایشیا کی یہ بیداری بالکل غیرمتوقع ہے۔ آج مروجہ پہلے طریق کے بالکل الٹ مشرق سے اسلام کے مبلغ مغرب کو بھیجے جارہے ہیں اور جماعت احمدیہ اس کوشش میں پیش پیش ہے۔<
جہاں تک کیتھولک پبلک کا تعلق ہے اس نے اسلامی مشن کا استقبال دوسروں سے بھی بڑھ کر انقباض کے ساتھ کیا۔ چنانچہ وہاں کا ایک کیتھولک ہفتہ وار اخبار TIMOTHEUS )جولائی ۱۹۴۷ء( نے اپنے ایک نوٹ پر سرخی دی کہ۔
>کیا ہالینڈ کے آسمان پر ہلال اسلامی کا طلوع گوارا کیا جاسکتا ہے؟<
نیزلکھا۔
>ہمیں ذاتی طور پر ان مبلغ اسلام صاحب سے تعرض کرنے کی چنداں ضرورت نہیں مگر ہم ان کو یہ ضرور بتادینا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے تبلیغی ارادوں کے ضمن میں ڈچ لوگوں سے کوئی خاص امید نہیں وابستہ کرنی چاہئے۔ اور اگر وہ کوئی ایسی امید لے کر آئے ہیں تو ہمیں ڈر ہے کہ انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ وہ اپنا بستربوریا ابھی سے باندھ لیں اور واپسی کی ٹھان لیں۔<۲۳۵
پریس کے علاوہ سرکاری حلقوں نے بھی انتہائی تعصب کا مظاہرہ کیا بلکہ ڈچ وزیراعظم نے شروع میں ایک بار حافظ قدرت اللہ صاحب سے دوران ملاقات یہاں تک کہہ ڈالا کہ ہالینڈ میں آپ کو وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہوگا آپ اپنے لئے کوئی اور ملک انتخاب کرلیں۔۲۳۶
مبلغ اسلام کی ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں
حافظ قدرت اللہ صاحب نے ہالینڈ کی سرزمین میں انوار قرآنی پھیلانے کے لئے اولین توجہ ہیگ کے مختلف ڈچ خاندانوں اور شخصیتوں سے خوشگوار تعلقات پیدا کرکے انہیں دعوت اسلام دینے کی طرف دی۔ ازاں بعد آہستہ آہستہ ہالینڈ کے دوسرے شہروں اور علاقوں کی طرف بھی تبلیغی سفر کئے اور پیغام حق پہنچایا۔ حافظ صاحب کی ان مساعی کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ کے اندر اندر مشرقی ہالینڈ کی ایک مخلص خاتون اسلام میں داخل ہوگئیں جس نے قبول حق کرتے ہی مالی قربانی کا ایسا بہترین نمونہ پیش کیا کہ قرن اول کی مسلم خواتین کی مالی قربانیوں کی یاد تازہ ہوگئی۔
مذکورہ بالا ابتدائی سرگرمیوں کا ذکر حافظ صاحب کی ایک رپورٹ میں ملتا ہے جو اخبار الفضل کی ۲۴و۶۲۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کی اشاعتوں میں موجود ہے۔ اس اہم رپورٹ کے ضروری حصے ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں۔ آپ نے لکھا کہ۔
>اس عرصہ میں خاص ملاقاتوں اور بعض مشہور احباب سے تعلقات پیدا کرنے کے علاوہ ۱۰ مختلف خاندانوں سے تعلقات پیدا کئے۔ ان افراد میں سے ایک صاحب مسٹر کوننگ ہیں جو میری آمد کی خبر پڑھتے ہی مجھے ملنے کے لئے آگئے اور کہا کہ میں ایک عرصہ تک انڈونیشیا میں آزاد خیال پادری کے فرائض انجام دے چکا ہوں اور کہ میں ہر مذہب و ملت کی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ہر ایک شخص کو خواہ وہ کسی مذہب سے متعلق ہو اپنا بھائی خیال کرتا ہوں۔ چنانچہ اس نے اپنی مدد کا ہاتھ میرے لئے بڑھادیا۔ اسی طرح اسی سٹریٹ میں ایک خاندان سے وافقیت پیدا ہوگئی جس سے زبان کے حصول میں کافی مدد ملی۔
ایک دفعہ روٹرڈم جانے کا موقعہ ملا تو وہاں اتفاقاً ایک دوست سے بات چل نکلی۔ چنانچہ اس مختصر سے تعارف کے بعد انہوں نے چائے پر مجھے بلایا اور پھر تعلقات وسیع ہوتے گئے۔ آخر اپنے اس دوست کی تقریب نکاح اور بعض دیگر خاندانی اجتماعوں میں شرکت کا موقعہ ملا جس سے بہت سے لوگوں سے تعارف کا موقعہ پیدا ہوگیا۔ اسی طرح ایک انڈونیشین فیمیلی سے تعلقات قائم کرنے کا موقعہ ملا انہیں مسلمانوں کے ساتھ خاص الفت ہے اور طبیعت بہت ہی مہمان نواز۔ چنانچہ دونوں عیدوں کا انتظام اس فیملی نے بخوشی اپنے ہاں کیا اور مہمانوں کی تواضع کی۔
ایک اور خاندان جس کا جماعت احمدیہ کی تاریخ کے ساتھ بھی ایک گونہ تعلق قائم ہوچکا ہے اور ڈچ مشن کے ساتھ مزید قرب کا تعلق ہے یہ وہ فیمیلی ہے جس نے ہمارا قرآن کریم ڈچ زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ پہلے ان کی رہائش لندن میں تھی مگر تھوڑا عرصہ ہوا )میرے آنے کے بعد( وہ اس ملک میں مقیم ہوگئے۔ مسززمرمان جنہوں نے یہ مقدس کام سرانجام دیا ڈچ ہیں جو انگریزی` جرمن اور فرنچ زبانوں کے متعلق خوب مہارت رکھتی ہیں اور ایٹلین سے ایک گونہ واقفیت ہے۔ آپ کے خاوند مسٹر زمرمان انگریز ہیں جنہوں نے وقتاً فوقتاً اس مقدس کام میں اپنی بیگم کو امداد دی۔ ان کے ساتھ تعلقات کچھ برادرانہ سا رنگ اختیار کرگئے ہیں۔ دونوں احباب بڑے احترام اور محبت سے پیش آتے ہیں۔ اسی طرح بعض اور خاندان ہیں جن کا وجود کسی نہ کسی رنگ میں مفید ضرور ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے قبل مسٹر کوپے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن سے غائبانہ تعارف لندن میں ہی ہوچکا تھا۔ آپ کی والدہ جرمن ہیں اور والد ڈچ۔ ایک عرصہ آپ نے جرمنی میں بسرکیا پھر ایک خاصہ عرصہ اسلامی ممالک میں گزارا۔ اسی ماحول کا اثر تھا کہ آپ نے اسلام قبول کرلیا اور تب سے آپ اسلام کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور ارکان اسلام کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔ آپ نے میرے ساتھ برادرانہ ہمدردی کا پورا ثبوت دیا اور ابتدائی ایام میں ہفتہ وار اور کبھی پندرہ روزہ ایمسٹرڈم سے صرف ملنے کی خاطر آتے رہے۔ آپ کو احمدیت کی تعلیمات اور عقائد سے پوری واقفیت ہے اور قریباً ہر مسئلہ میں احمدیہ نقطہ نگاہ کے ساتھ متفق ہیں۔ تمام اختلافات اور تفصیلات کو سمجھنے کے باوجود نماز میرے پیچھے ادا کرتے ہیں مگر ابھی آخری قدم اٹھانے میں کچھ ہچکچاہٹ سی محسوس کرتے ہیں خدا کرے کہ انہیں علی الاعلان احمدیت کا اعلان کرنے کی جلدی ہی توفیق ملے۔ آمین ۲۳۷
دوسرے دوست مسٹرالعطاس ہیں جن کی مدد اور دوستانہ اور برادرانہ ہمدردی شروع سے میرے شامل حال رہی۔ آپ لائیڈن یونیورسٹی میں تعلیم پاتے ہیں۔ رہائش بھی لائیڈن میں ہے۔ آپ کا اصل وطن حضرموت ہے مگر آپ کے والد انڈونیشیا میں تاجر ہیں۔ مسٹر العطاس کی وجہ سے لائیڈن میں بہت سے تعلقات قائم کرنے کا موقعہ ملا۔
مسٹر العطاس نے کچھ عرصہ ہوا اپنے ہاں بعض مسلم طلبہ کو اس غرض کے لئے جمع کرنا شروع کیا )دو ہفتہ یا تین ہفتہ کے وقفہ کے بعد( تا میں انہیں اسلام کے متعلق بعض مسائل سمجھا سکوں۔ چنانچہ چار پانچ دفعہ ایسی مجلس میں شامل ہونے کا موقع ملا جو اپنے مقاصد کے لحاظ سے بہت مفید رہا۔ مسٹر کوپے بھی بعض دفعہ ایمسٹرڈم سے اس درس میں شریک ہونے کے لئے آجاتے رہے اور رات وہی قیام رہا۔
اس ملک میں صوفی موومنٹ کا بھی کافی اثر ہے۔ گوان کا اصلی ہیڈکوارٹر تو سوئٹزرلینڈ میں ہے مگر ماحول اچھا پیدا ہوجانے کی وجہ سے ان کی مساعی کا عمل دائرہ عمل زیادہ تر اسی ملک میں ہے۔ ان کا ایک رسالہ بھی ایمسٹرڈم سے نکلتا ہے اس کے ایڈیٹر خان بک نے جب میری خبراخبار میں پڑھی تو مجھے ملاقات کے لئے انہوں نے اپنے مکان واقع واسے نار )مضافات ہیگ( میں دعوت دی۔ چنانچہ مسٹر کوپے کی معیت میں ان سے ملاقات کی۔
اس موومنٹ کے ایک اور خاص ممبر مسٹر ہوبک ہیگ میں مقیم ہیں جنہوں نے کافی کتب تصنیف کی ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا انہوں نے ایک کتاب QURAN UNKNOWN THE لکھ کر اہل یورپ کو قرآن کریم کے بعض مضامین سے متعارف کرایا ہے۔ ان سے کئی بار میری ملاقات ہوچکی ہے۔ ان کو اپنے صوفیانہ رنگ کے فلسفہ پر ناز ہے۔ مگر تبادلہ خیالات نے جب کبھی گہرا رنگ اختیار کیا تو جواب سے عاجز ضرور آگئے۔ تصنیف کے علاوہ آپ کا کام بسااوقات پبلک میں لیکچر سے اپنے خیالات کی اشاعت کرنا بھی ہے۔
ان ملاقاتوں کے علاوہ مسٹر گوبے سابق قونصل جدہ` لائیڈن یونیورسٹی کے بعض پروفیسرز خصوصاً مشہور پروفیسر کرام جو علوم شرقیہ کے ہیڈ کے طور پر یونیورستی میں منعین ہیں نیز ریورنڈ ڈاکٹر ترائو۔ نیز ایک بشپ اور بعض پادریوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
روٹرڈم کے نزدیک سنحیڈم جگہ میں بعض ہندوستانی جہازیوں کی خواہش پر جانے کا موقعہ ملا۔ یہ جہازی ایک ڈچ جہاز میں ملازم ہیں۔ عرصہ تین ماہ سے ان کا قیام یہاں ہے اور شائد ایک ماہ مزید وہ یہاں رہیں۔ ان جہازوں کی تعداد چوبیس کے قریب ہے۔ سوائے ایک کے سب کے سب مسلمان ہیں۔ اکثر میرپور کشمیر سے اور کچھ بمبئی کے علاقہ سے۔ انہوں نے تحفہ کے طور پر کچھ رقم بھی میرے لئے جمع کرکے مجھے دی مگر میں نے ایسا ذاتی تحفہ لینے سے انکار کردیا کیونکہ میں نے انہیں کہا کہ میں اپنی کسی ذاتی ضرورت کے پیش نظر یہاں نہیں آیا بلکہ تبلیغ اسلام کے فریضہ کو لے کر یہاں آیا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اس تحفہ کی صورت کو تبدیل کرتے ہوئے تبلیغ اسلام کے لئے یہ رقم پیش کی چنانچہ پھر میں نے اسے قبول کرلیا جس سے وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اگر میں عید پڑھانے کے لئے ان کے ہاں پھر آسکوں۔ مگر میں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ عید کا انتظام میں نے ہیگ میں اپنے بعض دوستوں کی معیت میں کیا ہے اس لئے میرے لئے یہاں آنا مشکل ہے ہاں اگر آپ میں سے کسی کو فرصت ہوتو ہیگ میں اس دن آسکتے ہیں۔
ان ملاقاتوں کے علاوہ لائیڈن کے بعض طلبہ نیز ہارلم اور ڈیلفٹ کے بعض اشخاص سے بھی واقفیت پیدا ہوئی۔ پچھلے دنوں ایک نہایت ہی قابل عورت مسز WOLTURE کا پتہ چلا اور نیز معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں مگر انہیں مسلمانوں کے ساتھ گہری ہمدردی ہے چنانچہ ان سے وقت مقرر کرکے ملاقات کی۔ واقعہ میں )نہیں اسلامی کلچر اور اسلامی مسائل سے دلچسپی ہے اور وہ اپنی تقریر و تحریر میں اپنے تاثرات کو پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔
عرصہ قریباً تین سال کا ہوا جبکہ محترم مولانا شمس صاحب لندن میں فریضہ تبلیغ اسلام انجام دینے میں مصروف تھے ایک ڈچ طالب علم مسٹر کاخ آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے خدا کے فضل سے بہت نیک اور مخلص نوجوان ہیں۔ ابھی آپ کی تعلیم جاری ہی تھی کہ مجھے ہالینڈ آنے کا ارشاد ہوا۔ اتفاقاً مسٹر کاخ بھی ان دنوں اپنی رخصتیں گزارنے کے لئے ہالینڈ میں تھے۔ گو آپ کی رہائش ہیگ سے کافی دور فاصلہ پر تھی مگر پھر بھی بہت حد تک مفید رہی۔ برادرم مسٹر کاخ کا قیام کچھ عارضی سا قیام نظر آتا تھا اس لئے طبعاً ایک گہری خواہش تھی کہ خدا جلدی ہی کوئی اور مخلص احمدی عطا کردے تو بڑے لطف کا باعث ہو اپنے اعمال تو اس قابل نہ تھے کہ کسی ایسی نعمت سے نوازا جاتا مگر خدا کی رحمت نے جلدی ہی ایسا سامان کردیا۔ میری آمد کی خبر پڑھ کر مشرقی ہالینڈ سے ایک خاتون کا خط ملا جو عرصہ سے اس ملک میں کسی اچھے مسلم بھائی کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ اس خط میں اس نے ملنے کی خواہش کی۔ گو فاصلہ کافی دور کا تھا مگر قلیل عرصہ میں چار پانچ دفعہ ملنے آئی۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ۔ ٹیچنگز آف اسلام۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ انگریزی ریویو کے بعض پرچے اور احمدیت کا بعض دوسرا لٹریچر نہایت شوق سے چند ہی ایام میں مطالعہ کرلیا اور پھر ایک دن خود ہی اپنے احمدی ہونے کی خواہش کا اظہار کردیا۔ یہ خاتون اپنے مذہبی رجحان کے باعث اپنے خاوند سے بھی الگ ہوچکی ہیں اور ایک حد تک کسمپرسی میں دن گزار رہی ہیں۔ ان کے پاس اپنی ضروریات کے لئے کچھ سرمایہ تھا مگر خدمت اسلام کا جذبہ کچھ عجیب ہی رنگ میں موجزن ہوا اپنے اعلان احمدیت کے ساتھ ایک ہزار گلڈر )یکصد پونڈ( کا مختصر سرمایہ بطور چندہ پیش کردیا۔ میں نے ان کی تنگ حالی کے پیش نظر اسے لینے سے جب کچھ گریز کیا تو نہایت رقت آمیز لہجہ میں اس کے قبول کرنے پر اصرار کرتے ہوئے یہ کہا کہ میری گزشتہ عمر گنہگاری میں گزری ہے اور خدا جانے میں نے اپنے پروردگار کو ناراض کرنے کا کس قدر سامان کیا آج مجھے سکون قلب عطا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں تبلیغ اسلام کے لئے میری یہ پونجی بالکل بے حقیقت ہے آپ اس کو قبول کرلیں۔ پھر سختی سے انہوں نے یہ کہا کہ قربانی کے راستہ میں آپ کا میرے لئے روک بننا کسی طرح بھی جائز نہیں` یہ آپ کی ذات کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی خاطر پیش کررہی ہوں۔ آپ اگر اسلام کے لئے اپنی تمام مصروفیات کو قربان کرسکتے ہیں تو کیا میں یہ چھوٹی سی رقم اس کے لئے پیش نہیں کرسکتی؟
آخر میں نے وہ رقم لے لی اور حضور انور کی خدمت میں اس کا بیعت نامہ اور اس کا چندہ پیش کردیا۔ خدا تعالیٰ اس کے ایمان اور اخلاص کو ترقیات عطا فرماوے۔ آمین خدا کے فضل سے یہ خاتون شریعت اسلامی کی پورے طور پر پابند ہیں۔ پنجوقتہ نمازیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتی ہیں۔ ماہ رمضان میں باوجود مشکلات کے آپ نے سارے روزے رکھے اور راتوں کو عبادت میں صرف کیا۔ الحمدلل¶ہ کہ خدا نے بعض نہایت عمدہ خوابوں اور بشارات کے ذریعہ سے اس کے ایمان کو تقویت دی۔
عرصہ زیر رپورٹ میں بعض دیگر تقاریب میں بھی وقتاً فوقتاً شامل ہونے کا موقعہ ملا مگر اپنے طور پر جو تقاریب منعقد کیں۔ وہ عیدین کی تقاریب تھیں۔ ان دونوں موقعوں کے انتظام میں برادرم مسٹر العطاس نے نہایت اخلاص سے حصہ لیا۔ پہلی عید پر تو چھ سات افراد ہی تھے مگر دوسری عید میں چودہ پندرہ احباب شامل ہوگئے۔ برادرم مسٹرکاخ بارن سے` نو احمدی خاتون رضیہ سلطانہ خواسل سے` مسٹر کوپے ایمسٹرڈم سے` بعض طلبہ لائیڈن سے اور بعض ہیگ سے۔ خدا کے فضل سے یہ اجتماع اچھا کامیاب رہا۔ عید کے بعد کھانے کا انتظام بھی کیاگیا تھا۔ چنانچہ دو گھنٹہ کی دلچسپ گفتگو کے بعد سب نے اکٹھے ظہر و عصر کی نماز پڑھی پھر کھانا کھایا پھر اس اجتماع کا فوٹو لیاگیا۔
اس عید کے موقعہ پر سوئٹزرلینڈ سے دو واقفین برادران کی آمد کی خبر بھی ملی گئی تھی چنانچہ خطبہ میں ہی میں نے یہ خبراحباب کو بتادی جس سے احباب بہت خوش ہوئے۔
تبلیغی اغراض کے ماتحت عرصہ زیر رپورٹ میں بعض علاقوں کا سفر بھی مجھے اختیار کرنا پڑا۔ گوحتیٰ الوسع ایسے سفروں سے محبتنب ہی رہا مگر پھر بھی بارن` ارن ہم` بسم` ہلفرسم` وارنمنڈ` روٹرڈم` سنجیڈم` فولن ڈم نیز بعض دفعہ ہیگ کے مضافات اور اکثر دفعہ لائیڈن جانا پڑا۔
ملکی لوگوں سے تعلقات کے نتیجہ میں خط وکتابت نے بھی کافی وقت لیا۔ ایک دفعہ کیلیفورنیا سے ایک خط آیا جس میں خط آیا جس میں خط بھیجنے والے نے اپنا تعارف یوں کرایا کہ >میں چونکہ ڈچ مسلم ہوں اس لئے ایک امریکن رسالہ میں آپ کی آمد کی خبر پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی خدا تعالیٰ آپ کو آپ کے کام میں کامیابی عطا کرے< چنانچہ ان کے ساتھ بعد میں خط وکتابت جاری رہی۔ اس کے علاوہ ایک خط ڈچ گی آنا )جنوبی امریکہ( سے ایک مسلم لیڈر کا موصول ہوا جس میں اس نے مجھ سے تعلقات پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیاتھا۔ اسی طرح اس ملک سے بعض اور خطوط اسی رنگ کے موصول ہوئے۔<۲۳۸
دو مجاہدین تحریک جدید کی آمد اور حلقہ تبلیغ میں وسعت
حافظ قدرت اللہ صاحب کو ہالینڈ میں تشریف لائے ابھی صرف چار ماہ ہی ہوئے تھے کہ حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر چوہدری عبداللطیف صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر ۴۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو ہیگ پہنچ گئے اور تبلیغ اسلام کی مہم میں اضافہ اور حلقہ تبلیغ میں وسعت پیدا ہونے لگی۔ چوہدری عبداللطیف صاحب دسمبر ۱۹۴۷ء تک ہالینڈ میں رہے اور ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۹ء ہو ہمبرگ پہنچ کر یورپ کے نئے اسلامی مشن کا بنیاد رکھی مگر مولوی غلام احمد صاحب بشیر حضرت مصلح موعود کے طفیل ماہ صلح/جنوری ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء تک تبلیغی خدمات بجالاتے رہے۔۲۳۹
لائیڈن یونیورسٹی کے مسلم طلبہ کے اجلاس
۱۹۴۷ء کے آخر میں مجاہدین اسلام نے لائیڈن یونیورسٹی کے مسلمان طلباء کی صحیح اسلامی تربیت کرنے اور ان کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کرانے کے لئے اجلاسوں کا ایک سلسلہ جاری کیا طلباء ان اجلاسوں میں اسلامی تعلیمات سے متعلق سوالات دریافت کرتے جن کا تسلی بخش جواب دیا جاتا۔ ۲۴۰
ہالینڈ میں تبلیغی ٹریکٹوں کی اشاعت اور ان کا اثر
دسمبر ۱۹۴۷ء میں مبلغین احمدیت کی طرف سے انگلینڈ میں تبلیغی ٹریکٹ دو ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں اس کی مزید پانچ ہزار کاپیاں طبع کرائی گئیں۔۲۴۱ اس ٹریکٹ کے بعد >ڈچ لوگوں کے نام ایک پیغام< کے عنوان سے ایک اور انگریزی ٹریکٹ شائع کیاگیا جو پہلے زیادہ ہیگ کے اندر بعد ازاں ایمسٹرڈم میں تقسیم کیاگیا۔ اس ٹریکٹ کا پبلک پر ایسا اثر ہوا کہ بہت سے خطوط موصول ہوئے۔ بلکہ ایک اخبار نے >سمندر کے کنارے تبلیغ اسلام< کے عنوان سے ایک طویل اداریہ بھی لکھا۔۲۴۲ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۲۸ء میں اس ٹریکٹ کا ایک اور ایڈیشن حضرت میسح کی صلیبی موت کے مسئلہ پر اضافہ کے بعد سات ہزار کی تعداد میں شائع کیاگیا اور ملک کے مختلف حصوں میں اسے باقاعدہ پروگرام کے ساتھ تقسیم کیاگیا۲۴۳ مبلغین احمدیت کی یہ ابتدائی تحریری مہم تھی جس کے بعد آہستہ آہستہ اسلام کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی۔
تبلیغی اجلاسوں کا آغاز
یورپ کے دوسرے اسلامی مشنوں کے دوش بدوش ہالینڈ میں بھی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء سے تبلیغی اجلاس منعقد کئے جانے لگے۔ اس غرض کے لئے ابتداء میں دعوت نامہ سائیکلوسٹائل کئے جاتے اور روزناموں میں اعلان کرایا جاتا تھا۔۲۴۴ یہ تجربہ اس ملک میں بھی بہت مفید ثابت ہوا ہے۔
ابتدائی ولندیزی احمدی
شروع شروع میں جن ولندیزی باشندوں کو مبلغین اسلام کی مساعی کے نتیجہ میں شناخت حق کو توفیق ملی ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
)۱( مسززمرمان )آپ کے قبول اسلام کی تفصیل آچکی ہے(
)۲( مسٹر پی` جے` ایف` کے المہدی عبدالرحمن بن کوپے۔۲۴۵
)۳( مسٹرولی اللہ جانسن۲۴۶
)۴( مسز لافان پرتون پن اوپن۲۴۷
‏tav.11.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
ملکہ ہالینڈ اور پرنسس کے نام تبلیغی خطوط
ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں تخت ہالینڈ سے دستبردار ہونے والی بلکہ WILHELMINA QUEEN کے پچاس سالہ عہد حکومت کے اختتام پر جوبلی کی تقریب اور اسی طرح نئی بلکہ JULIANA QUEEN کی تاجپوشی کی رسم نہایت تزک و احتشام سے منائی گئی۔ مبلغین اسلام نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں کی خدمت میں تہنیت نامے اور ارسال کئے اور پیغام حق پہنچایا۔ ملکہ WILHELMINA نے جواباً جماعت احمدیہ ہالینڈ کا شکریہ ادا کیا اور جماعت احمدیہ کی مساعی کے متعلق خراج تحسین ادا کرتے ہوئے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔۲۴۸
پریس کے رویہ میں خوشگوار تبدیلی
احمدیہ مشن کو قائم ہوئے ابھی تین ہی سال کا عرصہ گزرا تھا کہ پریس کے رویہ میں بھی ایک نمایاں تبدیلی پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ ہالینڈ کے ایک موقر روزنامہ COURANT DEAMSTERDAMSE نے اپنی ایک اشاعت میں چار کالمی سرخی دے کر لکھا۔
>آشتی اور تحمل جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے۔ جماعت احمدیہ جہاد کے غلط تصور کی اصلاح کرتی ہے۔ اس کے مشن نہ صرف ہندوستان اور ایشیا میں بلکہ افریقہ` یورپ اور امریکہ میں بھی موجود ہیں۔ اس جماعت سے وابستہ ہونے والے زیادہ تر پڑھے لکے مسلمان ہیں جو اس کے لئے مالی قربانی بھی کرتے ہیں۔<۲۴۹ )ترجمہ(
مبلغین اسلام کی ہالینڈ میں سہ روزہ کانفرنس
ماہ ظہور/اگست ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء میں ہالینڈ مشن کے زیراہتمام یورپ کے مبلغین اسلام کی سہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس میں جرمنی` سوئٹزرلینڈ` ہالینڈ` اسپین` فرانس` اٹلی اور انگلستان کے مجاہدین اسلام نے شرکت فرمائی۔ یورپ میں تبلیغ اسلام کی مہم کو تیز کرنے کے سلسلہ میں بعض نہایت اہم تجاویز زیر غور آئیں اور آئندہ کے لئے ایک جامع پروگرام تجویز کیاگیا۔ کانفرنس کے آخر میں ایک استقبالیہ دعوت کا بھی اہتمام کیاگیا جس میں ہالینڈ کی نامور شخصیتوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے علاوہ متعدد پاکستانیوں نے شمولیت کی۔۲۵۰
حافظ قدرت اللہ صاحب نے کانفرنس کے کوائف پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
>اس کانفرنس میں یورپ میں کام کرنے والے ہمارے سات مشنوں نے حصہ لیا۔ نمائندہ حضرات کے اسماء درج ذیل ہیں۔ برادرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ )لنڈن`( برادرم بشیراحمد صاحب آرچرڈ )سکاٹ لینڈ( برادرم ملک عطاء الرحمن صاحب )فرانس`( برادرم عبداللطیف صاحب )جرمنی`( برادرم شیخ ناصر احمد صاحب )سوئٹزرلینڈ`( برادرم چوہدری کرام الٰہی صاحب ظفر )سپین( اور خاکسار ہالینڈ سے۔ علاوہ ازیں اس موقعہ پر چوہدری عبدالرحمن صاحب )لنڈن( اکائونٹنٹ کی ملاقات بھی مسرت کا باعث ہوئی۔ ہماری کانفرنس یہاں کے ہوٹل پومونا میں تین روز تک منعقد رہی۔ کل کارروائی )سب کمیٹیوں کے وقت کے علاوہ( کوئی ۱۶ گھنٹے تھی جو ۶ اجلاس پر مشتمل تھی۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق برادرم چوہدری ظہور احمد باجوہ سیکرٹری کے فرائض انجام دیتے رہے اور کانفرنس کے اجلاس` انتخاب کے مطابق مختلف احباب کی صدارت میں منعقد ہوئے۔ کانفرنس میں تمام مشنوں کے تبلیغی حالات اور مساعی کا ایک جائزہ لیا گیا۔ گزشتہ سال کے فیصلہ جات پر نظرثانی کی گئی اور اس سلسلہ میں جو امور خاص طور پر قابل توجہ نظر آئے یا جن نئے امور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی گئی انہیں سامنے لایاگیا۔ مثال کے طور پر یورپ میں یوم پیشوایان مذاہب کا انعقاد یا ایک ماہوار اعلٰے انگریزی اخبار کا اجماء وغیرہ۔ ہماری کانفرنس بفضلہ تعالیٰ بہررنگ کامیاب رہی اور شامل ہونے والے نمائندگان نے مختلف وجوہ سے اس اجتماع کا فائدہ اٹھایا۔ خصوصاً تبادلہ خیالات اس پہلو کی رو سے کہ آئندہ یورپ میں تبلیغ کو کس کس رنگ میں کامیاب طریق سے کیا جاسکتا ہے؟ بہت ہی مفید ثابت ہوئی۔۔۔۔ حاضری کوئی ۱۳۰ احباب پر مشتمل تھی جو اچھی تعلیم یافتہ طبقہ سے متعلق تھی۔ پاکستانی اور ایرانی منسٹرز کے علاوہ ڈچ ایسٹرن فارن دیپارٹمنٹ کے چیف` مڈل ایسٹ براڈ کاسٹ محکمہ کے افسر اعلیٰ` جاوا کی ایک ریاست کے حکمران اور کئی سوسائٹیوں کے ہیڈز اور سرکاری محکمہ جات سے مختلف افسران اس میں شامل ہوئے۔ ان تمام احباب کی چائے وغیرہ سے تواضع کی گئی۔ پریس نمائندگان کی ایک تعداد بھی تھی جنہوں نے اپنے فرائض اچھی طرح سرانجام دیئے۔ ایک حصہ حاضرین میں سے مستشرقین کا بھی تھا جنہوں نے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس تقریب میں خاکسار نے پہلے مختصر طور پر احباب کرام کو خوش آمدید کہا جس کے بعد جملہ مبلغین کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ صدارت کے فرائض محترم جناب سید لال شاہ صاحب بخاری نے انجام دیئے۔ مسجد کے قیام کے سلسلے میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد دیر سے زیرغور تھا جسے مبلغین یورپ کی کانفرنس کے موقعہ پر پورا کرنے کی توفیق ملی۔ پریس کانفرنس کے لئے جگہ وہی مقرر کی گئی جس میں بعض مبلغین کی رہائش کا انتظام تھا اور اسی ہوٹل میں مبلغین کی تین روز سے کانفرنس بھی منعقد ہورہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے جس نے اس کانفرنس کو کامیاب دیکھنے کی توفیق دی۔ اٹھارہ نمائندگان پریس نے شمولیت کی جو قریباً تمام ہی کے تمام ایسے تھے جو مختلف ایجنسیوں کے اعلیٰ نمائندہ تھے۔ محکمہ براڈ کاسٹ کے دو نمائندگان )ورتھ براڈ کاسٹ اور محکمہ براڈ کاسٹ پاکستان و انڈیا( موجود تھے۔ نیز یہاں کی بڑی ڈچ نیوز ایجنسی ۔P۔N۔A رائٹر` فرنچ اور بلجیئم نیوز ایجنسیز کے نمائندگان کے علاوہ بعض سرکردہ اخبارات کے رپوٹرز بھی موجود تھے جس کے نتیجہ میں ہماری کانفرنس کی خبر دور و نزدیک پھیل گئی۔
کانفرنس کے شروع میں خاکسار نے مختصر الفاظ میں اپنے آنے والے مبلغین کا تعارف کرایا جس کے بعد برادرم شیخ ناصر احمد صاحب نے ہماری تبلیغی مساعی کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا کام اسلام کو صحیح رنگ میں یورپ کے سامنے پیش کرنا ہے نیز یہ کہ دنیا کی موجودہ بدامنی کا علاج اسلامی تعلیم میں مضمر ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔
اس مختصر سے تعارف کے بعد نمائندگان پریس کو موقعہ دیاگیا کہ وہ اس سلسلہ میں جو جو استفسارات کرنا چاہیں کریں۔ چنانچہ جملہ مبلغین نے اس تبادلہ خیالات اور گفتگو میں حصہ لیا اور یہ کانفرنس کوئی پونے دو گھنٹہ تک جاری رہی۔<۲۵۱
اس کانفرنس کے بعد مشن کی تبلیغی سرگرمیاں پہلے سے تیز تر ہوگئیں اور ہیگ کے علاوہ دوسرے متعدد اہم شہروں میں بھی اسلام پھیلنے لگا۔
ڈچ ترجمہ قرآن کی طباعت واشاعت
ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۲ہش/۱۹۵۳ء سے ہالینڈ کے اسلامی مشن کی ترقی کامیابی اور شہرت کے نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جبکہ قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ نظر ثانی اور طباعت کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔ سیدنا المصلح الموعود نے ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید کے ڈچ ترجمہ کی طباعت سے متعلق فوراً معلومات حاصل کی جائیں چنانچہ حافظ قدرت اللہ صاحب لائیڈن کی ایک ممتاز ومشہور فرم BRILL کے ڈائریکٹر صاحب اور بعض ممتاز مستشرقین سے ملے اور چوہدری عبداللطیف صاحب نے ہیگ کی مختلف فرموں سے رابطہ قائم کیا۔۲۵۲ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک ڈچ ترجمہ کی تین کاپیاں ٹائپ کرلی گئیں جس کے بعد ترجمہ کے بعض حصوں پر ادبی نقطہ سے ناقدانہ نظرڈالی گئی۔۲۵۳
مسودہ پر تسلی بخش صورت میں نظرثانی کا کام مکمل ہوچکا تو اسے پریس میں دے دیاگیا اور ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۲ہش/۱۹۵۳ء میں یہ چھپ کرتیار ہوگیا۔ یہ ترجمہ جو ہالینڈ ہی میں طبع ہوا چونکہ سابقہ تمام ڈچ۲۵۴ تراجم قرآن سے ظاہری اور معنوی دونوں اعتبار سے فوقیت رکھتا تھا اس لئے اسے بہت جلد قبول عام کی سند حاصل ہوگئی اور آج یہ ملک بھر میں بنظر استحسان دیکھا جاتا ہے۔ ترجمہ ڈچ کا دوسرا ایڈیشن ربوہ سے شائع کیاگیا ہے۔ اس ترجمہ کی اشاعت نے ہالینڈ کے عوام و خواص کی آنکھیں کھول دیں اور ان کو نہ صرف یہ محسوس کرادیا کہ اسلام آج بھی ایک زندہ اور ناقبال شکست طاقت ہے بلکہ انہیں جماعت احمدیہ کی اس ٹھوس اور شاندار اسلامی خدمت کا کھلے بندوں اقرار کرنا پڑا۔ اس حقیقت کے ثبوت میں بطور مثال ڈچ اخبارات کے چند نوٹ` تبصرے اور خبریں ملاخطہ ہوں۔
)۱( روٹرڈم )ہالینڈ( کے اخبار COURANT ROTTERDAMSE NIEUWE نے اپنے ۱۴۔ جنوری ۱۹۵۴ء کے ایشوع میں لکھا۔
>قرآن مجید کا نیا ترجمہ جس کے چھپنے کی خبر ہم اپنے اخبار کی ۲۴۔ اکتوبر کی اشاعت میں دے چکے ہیں اب چھپ کر منظر عام پر آگیا ہے۔ ایسی شکل وصورت میں کہ ہم اسے مذہبی کتاب کے لئے بطور نمونہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کی ظاہری خوبصورتی جو گہرے سبزرنگ کے چمڑے پر سنہری عربی حروف اور دلکش کتابت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کا مناسب سائز۔ یہ سب امور اس پر دال ہیں کہ اس کی طرف خاص توجہ مبذول کی گئی ہے۔ ہم پریس اور پبلشر کو جنہوں نے دی اورنٹیل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ اور احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کے کہنے پر اسے شائع کیا ہے اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
جب ہم اس کتاب کو کھولتے ہیں تو اس کے صفحات کے دائیں طرف عربی متن اور بائیں طرف ڈچ ترجمہ پاتے ہیں۔ ہر سورت کی ابتداء میں نہایت خوبصورت بلاکس میں صورت کا عربی نام درج کیاگیا ہے۔ قرآن )مجید( سے پہلے جو حصہ چھ سو پینتیس صفحات پر مشتمل ہے ۱۸۰ صفحات کا دیباچہ ہے جو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے لکھا ہے۔ آپ حضرت احمد کے دوسرے جانشین ہیں جو ۱۸۸۹ء میں پیدا ہوئے۔
چونکہ یہ موقع اسلام اور عیسائیت پر بحث کرنے کا نہیں ہے اس لئے ہم اس عالمانہ لکھے ہوئے دیباچہ پر تنقید کئے بغیر آگے چلتے ہیں۔ ہم یہ بیان کرنا مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس میں اسلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے اور مشنری تحریک کے رنگ میں بعض سوالات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔
احمدیت اپنے اندر ایک عالمگیر رنگ رکھتی ہے۔ وہ مذاہب کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا اعلیٰ الہام اور گزشتہ مذاہب کا جزو قرار دیتی ہے جہاں باقی بڑے بڑے مذاہب اپنی اتنہاء پاتے اور اپنے وجود کو کھودیتے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے اس دیباچہ میں بیان کئے ہوئے نظریات کا۔
اس ترجمہ کی نظر انداز نہ ہونے والی خصوصیت یہ ہے کہ اسے چار ڈچ زبان دانوں کی مدد سے تیار کیاگیا ہے جنہوں نے انتخاب الفاظ میں نہایت ہی اعلیٰ معیار پیش نظررکھا ہے۔ اس کی زبان واضح اور سادہ ہے` مگر قابل قدر اور اعلیٰ۔ اس ترجمہ کے لئے جماعت احمدیہ مرکزیہ کی طرف سے ۱۹۴۷ء میں شائع ہونے والے انگریزی ترجمہ کو بطور بنیاد رکھا گیا ہے اور ترجمہ کے دوران میں مسلمان عربی دانوں کے ساتھ خاص طور پر مشورہ کیاجاتا رہا ہے جس کی وجہ سے اصل تین کو قابل اعتبار طور پر ترجمہ میں پیش کیاگیا ہے۔ ہمیں بتلایا گیا ہے کہ جہاں تک ایک مشرقی زبان کے متن میں اتحاد ہوسکتا ہے اس ترجمہ کا دوسرے تراجم سے کوئی اصولی فرق نہیں ہے اس لئے اس کا پرانے تراجم کے ساتھ ملانا اور بھی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
جو ترجمہ ۱۹۳۴ء میں قرآن فنڈ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے کہنے پر بٹاویہ )جاکرتا( میں VISSER کی طرف سے شائع ہوا تھا وہ ایک کمیشن نے کیا تھا جس میں مسٹرسودیوو بھی شامل تھے۔ اس کے ساتھ ایک دیباچہ اور مولانا محمد علی صاحب کے نوٹس بھی شامل ہیں۔ اس ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والے پورے طور پر ڈچ زبان نہیں جانتے تھے اس وجہ سے نیا ترجمہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں الفاظ مختصر` زیادہ قابل فہم اور صحیح تر ہیں۔ سورتوں کے فقرات میں جو تعلق اور بندش تھی اسے بھی قائم رکھاگیا ہے جس کی وجہ سے مختلف آیات ایک مجموعہ کی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں۔ اسی طرح الفاظ کا انتخاب بھی نمایاں طور پر بہتر ہے۔ آیتوں میں یہ نسبت بٹاویہ میں چھپنے والے ترجمہ کے زیادہ سلاست ہے۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ پہلی بار اس ترجمہ میں ہی خدا کا نامGOD کی بجائے اللہ پیش کیاگیا ہے۔ گزشتہ تراجم میں لفظ GOD ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔
مسٹر سودیوو کے ترجمہ میں عیسائیت کے اثر کے وجہ سے پرانے عہدنامہ کی طرز پر کلام کو اختیار کیاگیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مقامات ہماری توجہ کو زبور کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں یا بائبل کے دوسرے ترجمہ کا مطابق گزشتہ انبیاء کی طرف۔ حتیٰ کہ ۱۸۵۹ء میں جو ترجمہ پروفیسر کیزر (KEYZER) کی زیرنگرانی چھپا تھا اس میں بھی لفظ GOD ہی استعمال ہوا ہے۔ اس وجہ سے نئے ترجمہ نے کامل طور پر ایک الگ حیثیت اختیار کرلی ہے جو کہ پڑھنے والے کو اسلام کے اثر ونفوذ کے دائرہ میں لاکھڑا کرتی ہے۔
یہ ترجمہ پروفیسر کیزر (KEYZER) کے ترجمہ کے مقابلہ میں بہت بڑی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے اپنے کام کے لئے بہت سے غیرزبان والوں کا ساتھ ملایا تھا۔ جس کی وجہ سے ڈچ زبان مبہم سی ہوکر رہ گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی چھپوائی بہت ردی تھی اور پبلشر آخری ایڈیشن میں بھی اصلاح نہ کرسکا۔
یہ کوئی قابل تعجب امر نہیں ہے کہ عربی الفاظ کے بہت سے معانی میں سے اس ترجمہ میں ان معانی کو ترجیح دی گئی ہے جو ایک ترقی کرنے والی جماعت )جیسا کہ جماعت احمدیہ ہے( کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہم اس کے متعلق صرف چند ایک باتیں ہی بیان کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔
مثلاً عورتوں کے معاشرتی حقوق میں انصاف ومساوات کے دوسرے تراجم کی نسبت واضح طور پر پیش کیاگیا ہے۔ اسی طرح مصنوی امور کو ظاہر پر ترجیح دی گئی ہے۔
اخلاقیات کے معاملہ میں بھی معنویات کی طرف زیادہ میلان نظر آتا ہے۔ افسوس ہے کہ مفصل فقرات کا درج کرنا بہت زیادہ جگہ کا متقاضی ہے )لہذا ہم ایسا نہیں کرسکتے( اور قارئین کرام کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس ترجمہ کا دوسرے تراجم کے ساتھ ضرور مقابلہ کریں۔ خواہ صرف ان مقامات کا ہی کیا جائے جو پہلے واضح نہ تھے اور اب واضح اور عام فہم ہو گئے ہیں۔
اس ترجمہ کا کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر کرامرس کے ترجمہ کے ساتھ مقابلہ کرنا بہت بڑی دلچسپی کا باعث ہوگا جوکہ ELSVIER شائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جماعت احمدیہ جو اپنے اندر ایک زبردست مشنری روح رکھتی ہے اس نے نہایت ہی اچھا کام کیا ہے کہ قدامت پسند مسلمانوں کے اعتراضات کی پروانہ کرتے ہوئے قرآن مجید کا دوسری یورپین زبانوں اور ڈچ زبان میں ترجمہ کردیا ہے ہم اس معاملہ میں ہر حیثیت اسے کامیاب یقین کرتے ہیں۔<۲۵۵
‏]body )[tag۲( ریفارمڈ چرچ کے ہفت روزہ WOARD> ADBLASSER, <KERKBODE, نے اپنی ۳۰۔ جنوری ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھا۔
>اس وقت مسلمانوں کی مقدس کتاب >قرآن< ہمارے زیر نظر ہے جو عربی اور ڈچ زبان میں چھپی ہے ترجمہ نہایت سلیس ہے۔ یہ ایڈیشن نہایت ہی اچھا تیار کیاگیا ہے۔ کاغذ عمدہ جلد پر سنہری حروف کا ٹھپہ لگاہوا ہے۔ اگرچہ قرآن میں بہت کچھ بائبل سے لیاگیا ہے تاہم دیباچہ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ )حضرت( محمد )مصطفٰے( کی تعلیم بائبل سے اچھی ہے۔ اس کا اندازہ کرنے کے لئے صرف ورق اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جو شخص مسلمانوں کے مذہب سے دلچسپی رکھتا ہو یا دوسرے لوگوں کے مذاہب سے اس کے لئے یہ بہترین ذریعہ ہے۔< )ترجمہ(
)۳( ہالینڈ کے مشہور اور بااثر روزنامہ VOLK VRIJE HET )۸۔ مارچ ۱۹۵۴ء( نے ڈچ ترجمہ قرآن پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ شائع کیا۔
>قرآن مجید ڈچ ترجمہ کے ساتھ حضرت مرزا بشیر محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی زیر ہدایت دی اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ ربوہ پنجاب نے شائع کیا ہے` اور MOLLAND) (ZUID کی پبلشنگ کمپنی نے ہالینڈ میں اس کی اشاعت اپنے ذمہ لی ہے یہ ایڈیشن ایک دیباچہ` عربی متن اور ڈچ ترجمہ پر مشتمل ہے۔ دیباچہ میں اس امر پر مفصل بحث کی گئی ہے کہ یہود ونصاریٰ کے مذاہب کے بعد اسلام کی کیا ضرورت تھی؟
>اس میں اس بات پر بھی زور دیاگیا ہے کہ مسیح صرف یہود کے لئے تھے نہ کہ ساری دنیا کے لئے جیسا کہ محمدﷺ~۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں متی ۲۱`۲۶/۱۵ اور ۶/۷ کو پیش کیاگیا ہے۔< )ترجمہ(
)۴( ایک ہفت روزہ WEEGSCHALL DE IN نے اپنی ۱۵۔ مارچ ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں لکھا۔
‏iq] g>[taاحمدیہ مسلم مشن نے قرآن مجید کا ڈچ ترجمہ تیار کیا ہے اس میں عربی حروف کو خاص قاعدہ کے مطابق لکھاگیا ہے جس کی وجہ سے قرآن کو Q لکھا گیا ہے )عام طور پر K سے لکھا جاتا ہے( اس ایڈیشن میں اصل عربی متن اور اس کا ڈچ ترجمہ اکٹھا دیاگیا ہے۔ اس کے دیباچہ میں جو حضرت میر مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا لکھا ہوا ہے قرآن کی عالمگیری کا بائبل اور ویدوں کی قومی تعلیم سے بالا قراردیاگیا ہے۔ اس دیباچہ کے مطابق عہد قدیم کی بہت سی پیشگوئیاں مسیح سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تعلق اسلام کے نبی پاک سے بتلایا جاتا ہے جو مسلمانوں کی اس پاک کتاب سے واقفیت حاصل کرنا چاہے اب ڈچ زبان میں کرسکتا ہے۔< )ترجمہ(
ملکہ ہالینڈ اور عمائد مملکت کو قرآن مجید کا تحفہ اور پریس
احمدیہ مشن ہالینڈ کی طرف سے ملکہ ہالینڈ کے علاوہ محترم وزیراعظم` وزیر تعلیم` میئر آف روٹرڈم دی ہیگ اور ایمسٹرڈم کی خدمت
میں ڈچ ترجمہ کی ایک ایک کاپی بھی پیش کی گئی جس کا ذکر ہالینڈ کے پانچ چھ چوٹی کے اخباروں نے کیا۔ چنانچہ HANDELSBLAD>> <ALGEMEEN نے اپنی ۱۵۔ اپریل ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں >قرآن نئے ڈچ ترجمہ کے ساتھ< کے عنوان کے ماتحت لکھا۔
>کل دوپہر کے بعد احمدیہ مسلم مشن نے نئے ڈچ ترجمہ کی ایک کاپی وزیرتعلیم کی خدمت میں پیش کی ہے۔ اس سے قبل ملکہ جولیانا` وزیراعظم ڈاکٹر والیس میئر آف روٹرڈم اور میئر آف دی ہیگ کی خدمت میں بھی اس کی ایک ایک کاپی پیش کی جاچکی ہے۔
وزیرتعلیم کے نام ایک خط میں احمدیہ مسلم مشن کے انچارج غلام احمد صاحب بشیر نے ان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروائی ہے کہ ہالینڈ میں بھی دوسرے مغربی ممالک کی طرح سکولوں میں بچوں کو اسلام کے متعلق غلط تعلیم دی جاتی ہے۔ مسٹر بشیر کے خیال کے مطابق تاریخ کی کتب میں یہ بیان کیاجاتا ہے کہ اسلام اپنے متبعین کو اس تعلیم کے جبری پھیلانے کی تلقین کرتا ہے یہ بالکل صحیح نہیں۔ اس لئے وزیرتعلیم کی خدمت میں یہ درخواست کی گئی ہے کہ ان درستی کتابوں پر نظرثانی کی جائے۔<
اخبار COURANT> <HAAGSCHE نے ۱۵۔ اپریل ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں یہ خبربایں الفاظ شائع کی۔
>وزیرتعلیم مسٹر کالیس کی خدمت میں قرآن پیش کیاگیا۔< اسلام کے متعلق بہتر معلومات بہم پہنچانے کی درخواست۔<
>کل دوپہر کے بعد احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کی طرف سے وزیرتعلیم کی خدمت میں نئے ڈچ ترجمہ کی کاپی پیش کی گئی۔ اس کے ساتھ وزیرتعلیم کی خدمت میں ایک تحریری درخواست بھی پیش کی گئی ہے جس میں یہ عرض کیاگیا ہے کہ ڈچ درستی کتب میں اسلام کے متعلق بہتر اور زیادہ صحیح معلومات بہم پہنچائی جائیں۔
علاوہ ازیں ملکہ ہالینڈ` وزیرتعلیم` میئر آف دی ہیگ اور روٹرڈم کی خدمت میں بھی اس ترجمہ کی ایک ایک کاپی پیش کی گئی ہے۔<
محولہ بالاخبر کو ہارلم کے روزانہ اخبار نے بھی دوہرایا۔ اسی طرح >نیوہاگسے کرانت< ہیت فادر لینڈ نیوے روٹردمس کرانت میں بھی نقل کیا۔
مندرجہ ذیل خبر چار ڈچ اخبارات میں چھپی۔
>۲۴۔ اپریل کو قرآن مجید کی ایک کاپی ایمسٹرڈم کے میئر کی خدمت میں پیش کی گئی جنہوں نے اسے بہت ہی پسند کیا اور کافی دیر تک اس کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔<
اخبار HANDELSBLAD ALGEMEEN نے لکھا۔
>آج مسٹر بشیر انچارج احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ نے قرآن کے نئے ڈچ ترجمہ کی ایک کاپی جو کہ نہایت ہی خوبصورت تھی ایمسٹرڈم کے میئر کی خدمت میں پش کی ہے۔ اس کتاب میں جس میں ایک دیباچہ اور تمہیدی مضمون بھی ہے ڈچ ترجمہ کے ساتھ اصل عربی متن بھی طبع کیاگیا ہے۔ )۲۴۔ اپریل ۱۹۵۴ء ایمسٹرڈم<(
ایک کیتھولک اخبار ROTTERDAM MAASBODE میں اس کی ۲۶۔ اپریل ۱۹۵۴ء کی اشاعت میں یہ خبر چھپی۔
>قرآن کا نیا ایڈیشن< گزشتہ ہفتہ کے روز احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کے انچارج مسٹر بشیر نے ایمسٹرڈم کے میئر کی خدمت میں ڈچ ترجمہ کا نیا ایڈیشن پیش کیا۔ یہ کتاب ایک تمہیدی مضمون اور دیباچہ کے علاوہ عربی متن )جس کے مقابل پر ڈچ ترجمہ دیاگیا ہے( پر مشتمل ہے۔<][اخبار AMSTERDAM DEUDRSKARANT نے اپنے ۲۶۔ اپریل ۱۹۵۴ء کے نمبر میں یہ خبر شائع کی۔
>گزشتہ ہفتہ کے روز احمدیہ یہ مسلم مشن ہالینڈ کے انچارج مسٹر بشیر نے ایمسٹرڈم کے میئر کی خدمت میں قرآن کے نئے ڈچ ترجمہ کی ایک کاپی پیش کی تھی جو کہ نہایت ہی خوبصورت ہے اس کتاب میں عربی متن کے مقابل پر ڈچ ترجمہ دیاگیا۔<
یہ خبر AMSTERDAM TELEGRAAF میں بھی انہی الفاظ میں شائع ہوئی۔۲۵۶ )الغرض ڈچ ترجمہ قرآن کا ولندیزی حکومت کے عمائدین کے ہاتھوں پہنچنے کی دیر تھی کہ پریس کے ذریعہ اس واقعہ کی خبر آنا فانا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ گئی۔ یہ خدائی نصرت کا گویا ایک نیا سامان تھا جس نے ملک بھر میں قرآن مجید اور اسلام کی عظمت کا سکہ دلوں میں بٹھادیا اور کیتھولک چرچ پر جماعت احمدیہ کا علمی رعب طاری ہوگیا۔
مسجد ہالینڈ کے لئے قطعہ زمین کا حصول
سیدنا حضرت مسیح موعود کو ۱۸۸۸ء میں کشفی طور پر دیوار مسجد پر مصلح موعود کا مبارک نام محمود دکھایاگیا تھا۲۵۷]4 [rtf جس میں یہ اشارہ بھی کیاگیا تھا کہ دور مصلح موعود کو تعمیر مساجد کے ساتھ گہرا تعلق ہوگا چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور حضرت مصلح موعود نے اپنے عہدمبارک میں یورپ` امریکہ` افریقہ` ایشیا غرضکہ جملہ براعظموں میں متعدد مسجدیں بنوائیں اور ہمیشہ ہی جماعت کو یہ نصیحت فرماتے رہے کہ >ہمیں ہر اہم جگہ پر ہی نہیں ہر جگہ پر مسجدیں بنانی ہوں گی۔<۲۵۸
جہاں تک ہالینڈ کا تعلق ہے حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر اس سرزمین پر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء میں ایک شاندار اور عالی شان مسجد کی تعمیر کی گئی۔ مسجد فضل لنڈن کی طرح یہ مسجد بھی خواتین احمدیت کے چندوں سے تیار ہوئی۔
مسجد ہالینڈ کے لئے زمین کا حصول ایک بڑا معرکہ تھا۔ ہالینڈ کے کیتھولک چرچ نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ ہیگ بلکہ ملک کے کسی گوشہ میں مسجد تعمیر نہ ہونے پائے مگر اللہ تعالیٰ نے اپن قدرت طاقت کا ایسا غیبی ہاتھ دکھایا کہ چرچ کی تمام کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئیں اور ۷ ماہ وفا/جولائی ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء بروز جمعہ ہیگ میں ایک موزوں قطعہ کی باضابطہ منظوری ہوگئی۔۲۵۹ چنانچہ حافظ قدرت الل¶ہ صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ۔
۱۹۵۰ء میں جب مسجد کے لئے زمین خریدنے کا معاملہ زیر غور تھا تو اس وقت بھی بعض حالات ایسے رنگ میں ظاہر ہوئے جو ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہیں۔ ہیگ میں مسجد کے لئے مناسب جگہ کی تلاش کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ آخر حسن اتفاق ایسا ہوا کہ ہماری توقعات سے بڑھ کر ایک نہایت عمدہ جگہ اس غرض کے لئے ہمیں مل گئی۔ یہ جگہ ایک چرچ اور ایک اہم کیتھولک انسٹی ٹیوٹ کے نہ صرف قریب تھی بلکہ ان کے راستہ پر پڑتی تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مذہبی حلقوں کی طرف سے اس کی مخالف ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مگر ہیگ کی مینوسپل کمیٹی کا جو ذمہ دار شخص تھا اس نے اس تمام مخالفت کا ایسا ذمہ دارانہ مقابلہ کیا کہ آج بھی اس کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان مشکلات کا علم اس وقت ہوا جب فیصلہ ہوکر پریس کے ذریعہ یہ خبر منصہ شہود پر آگئی کہ کمیٹی کے ایک ہنگامی اجلاس میں یہ امر بالاخر ملے پاگیا ہے کہ مجوزہ جگہ پر مسجد تعمیر کرلی جائے۔ کمیٹی کے اس تاریخی اجلاس میں کیتھولک مخالفت کے باوجود ڈاکٹربا کے سخت SCHUT) (BAKKE جو کمیٹی کے چیف ٹائون پلیز تھے ان کی پارٹی کو فتح حاصل ہوئی فالحمدللہ علی ذالک۔<۲۶۰
مسجد ہیگ کی ابتدائی خبر ڈچ اخبارات میں
مسجد کے لئے زمین کا حصول ایک ایسا اہم واقعہ تھا کہ ولندیزی پریس نے اس کا خاص طور پر چرچا کیا۔ چنانچہ یہ خبر ہالینڈ کے قریباً ساٹھ اخباروں نے شائع کی جن میں ہالینڈ کے چوٹی کے اخباروں سے لے کر صوبہ جاتی اخبار تک شامل تھے۔ مثلاً ایک اخبار نے لکھا۔
>بزائودن ہائوت محلہ میں مسلم مشن کی طرف سے مسجد کی تعمیر چند سالوں کے اندر اندر ہالینڈ میں دو مسجدیں ہوجائیں گی۔ پہلی مسجد ہیگ میں COSTDUINLAAN )سٹرک پر( M۔P۔B بلڈنگ کے مدمقابل تعمیر ہوگی )یہ ایک کمپنی کی بلڈنگ کے مدمقابل تمعیر ہوگی(۲۶۱ یہ جگہ اب تک فارغ پڑی رہی تھی اور اس جگہ کے اردگرد بہت دیر سے مکان تعمیر ہوچکے ہیں۔ شاید خدا تعالیٰ نے اس جگہ کو اس لئے خالی رہنے دیا ہوگا کہ اس جگہ مسجد تعمیر ہوگی۔ دوسری مسجد ایمسٹرڈم میں TALPPLEIN چوک کے پاس تعمیر کی جائے گی۔ اس طرح مسلم مشن ہمارے ملک میں اپنی دو عمارتوں کا مالک ہوجائے گا جو نبی اکرم کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے نقطہ مرکزی کی حیثیت اختیار کریں گی۔<
اس قسم کی خبریں احمدیہ مسلم مشن ہالینڈ کے انچارج مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب کے ذریعہ سے نشر ہوتی ہیں۔ مسجد ہیگ کی تعمیر میں اب امام جماعت احمدیہ کی اجازت کا انتظار ہے۔ ان کی خدمت میں مسٹروالیون سے ایک نقشہ تیار کروا کے بھجوایا جاچکا ہوا ہے۔ اس نقشہ کی منظوری پر کام شروع ہوجائے گا۔ مسجد کے لئے زمین کسی پرائیویٹ مالک سے ۲۸ ہزار گلڈرز میں خریدی گئی ہے جس کا رقبہ ۸۰۰ مربع میٹر ہے۔ تعمیر پر قریباً ایک لاکھ گلڈرز خرچ ہوگا تب جاکر ایک سفید مسجد بلند ہوسکے گی جس میں دو سو کے قریب مومنین اپنی عبادت کرسکیں گے۔ اسی طرح ایک وسیع ہال بھی تعمیر ہوگا جس میں دو سو افراد بیٹھ سکیں گے۔ اس کی تعمیر کے ایک سال بعد امید کی جاتی ہے کہ ایمسٹرڈم میں بھی مسجد کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔
جماعت احمدیہ اس وقت حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کی زیر قیادت کام کررہی ہے۔ آپ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت احمد )علیہ السلام( کے سب سے بڑے فرزند ہیں۔ حضرت احمد نے ۱۸۸۹ء ۲۶۲ میں بمقام قادیان مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ کی حین حیات میں جماعت نے کافی ترقی کی اور آپ کے فرزند ارجمند کی قیادت میں اور بھی بڑھ چڑھ کر ترقی کی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ افریقہ` ایشیا اور انڈونیشیا میں اس جماعت کے بہت سے افراد پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کے مشن اٹلی` ارجنٹائن` لنڈن` واشنگٹن` پیرس` زیورچ` ہیڈرڈ` ہیمبرگ میں بھی پائے جاتے ہیں۔
حافظ صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہالینڈ جیسے ملک میں ان کا کام کوئی آسان نہیں ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ پیغام جو ہم لے کر آئے ہیں محبت` صلح و آشتی کا پیغام ہے۔ کیونکہ اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ خدا اور انسانوں کے ساتھ صلح۔ اس لئے ہم کامیابی کی امید کرتے ہیں۔
جماعت کی تعداد ہمارے ملک میں ابھی تک بہت ہی تھوڑی ہے لیکن یہاں ایک اور تحریک بھی ہے جس میں بہت سے انڈونیشین شامل ہیں۔ اس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد روم صاحب ہائی کمشنر برائے انڈونیشیا کی رہائش گاہ واقع و اسناء میں اپنے اجتماعات کرتے ہیں اور اسی جگہ انہوں نے عید کی نماز بھی ادا کی تھی۔ ہیگ` ایمسٹرڈم` اور ترخت وغیرہ میں لوگوں نے بہت دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور بہت سے لوگ ان کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں مگر ابھی تک ڈیڑھ درجن کے قریب لوگوں نے بیعت کی ہے۔ ہالینڈ سے ایک ماہانہ دو ورقہ پرچہ بھی نکالا جاتا ہے جو ممبران جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی مستورات ہیگ کی مسجد کے لئے اور امریکہ کی مسجد کے لئے چند جمع کررہے ہیں۔<۲۶۳ )ترجمہ(
حضرت مصلح موعود کی طرف سے چندہ کی تحریک اور احمدی مستورات کا شاندار مالی جہاد
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے تحریک فرمائی کہ ہالینڈ کی مسجد احمدی عورتوں کے چندہ سے تعمیر کی جائے۔ احمدی خواتین نے اپنی گزشتہ مثالی روایات کے
عین مطابق اس مالی تحریک کا ایسا والہانہ اور پر جوش خیر مقدم کیا کہ اس پر حضرت مصلح موعود نے تقریروں اور خطبوں میں اپنی زبان مبارک سے متعدد بار اظہار خوشنودی کیا۔ مثلاً ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>ہالینڈ کی مسجد کے متعلق عورتوں میں تحریک کی گئی تھی انہوں نے مردوں سے زیادہ قربانی کا ثبوت دیا ہے۔ گو ان کی تحریک بھی چھوٹی تھی۔ عورت کی آمدن ہمارے ملک میں تو کوئی ہوتی ہی نہیں۔ اگر اسلامی قانون کو دیکھا جائے تو عورت کی آمد مرد سے آدھی ہونی چاہئے کیونکہ شریعت نے عورت کے لئے آدھا حصہ مقرر کیا ہے اور مرد کے لئے پورا حصہ۔ پس اگر مردوں نے چالیس ہزار روپیہ دیا تو چاہئے کہ عورتیں بیس ہزار روپیہ دیتیں مگر واقعہ یہ ہے کہ مردوں نے اگر ایک روپیہ چندہ دیا ہے تو عورتوں نے سوا روپے کی قریب دیا ہے انہوں نے زمین کی قیمت ادا کردی ہے اور ابھی چھ سات ہزار روپیہ ان کا جمع ہے جس میں اور روپیہ ڈال کر ہالینڈ کی مسجد بنے گی۔ پھر یہ چندہ انہوں نے ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ لجنہ کا دفتر بنانے کے لئے بھی انہوں نے چودہ پندرہ ہزار روپیہ جمع کیا تھا۔<۲۶۴
سالانہ جلسہ ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے موقعہ پر بتایا۔
>مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے۔ مردوں کے ذمہ واشنگٹن کی مسجد لگائی گئی ہے اور اس کا خرچ مسجد بناکر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمہ کام لگایا تھا مسجد ہالینڈ کا اس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملاکر کوئی اسی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے انہوں نے اپنے اسی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کردیا ہے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو توجہ دلانے کی اتنی ضرورت نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس مختصر تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اس نیک کام کو تکمیل تک پہنچادیں گی۔ میں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے۔ اپنی اس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھولنا۔ اس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے۔ ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا تیس ہزار کے قریب تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اس سے کم نہیں دیتے۔ پس زمین کی قیمت مل کر نوے ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہوگا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اس وقت تک ادا کرچکی ہیں۔<۲۶۵
احمدی عورتوں نے اپنے آقا کے اس ارشاد پر مسجد ہالینڈ کے لئے عطیات کی مہم تیز ترکردی۔
کھدوائی کا مرحلہ][تعمیر مسجد کے لئے چندہ کی ایک معقول رقم احمدی مستورات کی طرف سے فراہم ہوچکی تھی اس لئے حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر ۱۲۔ ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب جج عالمی عدالت انصاف >حال چیف جسٹس( نے دعا کے ساتھ مسجد کی بنیادیں اٹھانے کے لئے کھدوائی کا کام شروع کرادیا۔ اس موقع پر مقامی جماعت احمدیہ کے اکثر احباب کے علاوہ مختلف اخبارات کے نمائندے اور پریس فوٹو گرافر بھی موجود تھے۔ سب سے پہلے حضرت چوہدری صاحب نے تمام احباب سمیت اجتماعی دعا کرائی پھر آپ نے کدال چلائی بعدازاں مبلغ ہالینڈ جناب مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے کچھ زمین کھودی۔ پھر بعض دوسرے احمدیوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ ۲۶۶
سنگ بنیاد
کھدائی کا ابتدائی مرحلہ بخیر وخوبی طے ہوچکا تو ۲۰۔ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو حضرت چوہدری صاحب ہی کے مبارک ہاتھوں سے سرزمین ہالینڈ کی اس پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھاگیا۔ اس موقعہ پر بہت سے مسلم ممالک کے نمائندوں اور ممتاز صحافیوں نے شرکت کی۔۲۶۷
حضرت مصلح موعود کا پیغام
مبلغ انچارج ہالینڈ مشن کی طرف سے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مسجد کے سنگ بنیاد کی خوشخبری پہنچی تو حضور کو ازحد مسرت ہوئی اور حضور نے ایک خصوصی پیغام بھجوایا جس میں فرمایا کہ۔
>جزاک اللہ مبارک ہو آپ کو بھی اور سب احمدی نومسلموں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کے لئے یہ خدمت عظیم بہت بہت مبارک کرے اور ثواب کا موجب بنائے سچ وہی ہے جو سرعبدالقادر نے مسجد لنڈن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا۔ ~}~
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی اور اس کے بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کی عزت بخشی۔ یہ وہ عزت ہے جو بہت بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہوگی۔ ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ آج دنیا اس کی قدر کو نہیں جانتی ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ جلد ہالینڈ کے اکثر لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشے۔<۲۶۸
افتتاح کی بابرکت تقریب
سیدنا حضرت مصلح موعود کی خاص توجہ اور نگرانی کے تحت مسجد ہالینڈ کی تعمیر پائیہ تکمیل تک پہنچ چکی تو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ۹۔ فتح/دسمبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو اس کا افتتاح فرمایا۔ افتتاحی تقریب میں متعدد ممالک کے سربر آوردہ حضرات کثیر تعداد میں شامل ہوئے۔ مدعوین میں پاکستان` مصر` شام اور انڈونیشیا کے سفارتی نمائندے` یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان` مشہور فرموں کے ڈائریکٹرز` میونسپل افسران اور جرمنی` سوئٹزرلینڈ اور انگلستان کے مبلغین احمدیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں ہیگ اور بعض دوسرے مقامات کے احمدی اور پریس اور ریڈیو کے نمائندگان بھی اس تقریب میں موجود تھے۔۲۶۹
ہالینڈ میں مسجد کی تعمیر کو غلبہ اسلام کی شاہراہ میں ہمیشہ سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی۔ اس سرزمین میں خانہ خدا کی اہمیت کو ہالینڈ کے اونچے طبقے نے خاص طور پر محسوس کیا ہے چنانچہ ہیگ کا ایک کثیرالاشاعت روزنامہ COURANT> HEAGSE <NIEUWE نے مسجد ہیگ میں نماز کی حالت کا ایک بڑا سا فوٹو دیتے ہوئے لکھا کہ۔
>یہ فوٹو کراچی` قاہرہ یا بغداد کی نہیں بلکہ یہ مسجد خودہیگ میں ہے جس میں لوگ نماز ادا کررہے ہیں۔<
اور پھر اسی مضمون کو جاری رکھتے ہوئے اخبار مذکور لکھتا ہے کہ۔
>مسلمان دو دفعہ اس سے پہلے بھی یورپ میں آئے۔ ایک دفعہ آٹھویں صدی میں اور دوسری دفعہ پندرھویں صدی میں۔ مگر دونوں دفعہ ان کا آنا سیاسی نوعیت کا تھا مگر اس دفعہ ہمارے زمانہ میں ان کی آمد یورپ میں عقبی دروازہ سے ہوئی ہے اور اس طرف سے انہیں کسی لشکریا فوج کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ اس کے برعکس انہیں وہ خالی دل ملے ہیں جن سے عیسائیت عرصہ ہوا نکل چکی ہے۔<
تکمیل مسجد کے لئے مزید چندہ کی تحریک
مسجد ہالینڈ پر چونکہ اندازہ سے زیادہ خرچ ہوچکا تھا اس لئے حضرت مصلح موعود نے احمدی خواتین کو چندہ کی تحریک برابر جاری رکھی اور اس پر بہت زوردیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>اس سال ہالینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف احمدی مستورات کے چندہ سے ہی ایک نہایت عظیم الشان مسجد تعمیر ہوتی ہے لیکن اس پر جو خرچ ہوا ہے وہ ابتدائی اندازے سے بہت بڑھ گیا ہے۔ اس وقت تک مستورات نے جو چندہ دیا ہے ۹۱ ہزار روپیہ اس سے زائد خرچ ہوگیا ہے مستورات کو چاہئے کہ جلد یہ رقم جمع کردیں۔<۲۷۰
ایک اور موقعہ پر فرمایا۔
>عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازاہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا ۷۸ ہزار ان کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی ۹۶ ہزار باقی ہے۔ پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ ۹۶ ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہوجائے۔<۲۷۱
بعدازاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ۔
>میں نے مسجد ہالینڈ کی تعمیر کے لئے عورتوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی جس میں سے ۹۹ ہزار عورتیں اس وقت تک دے چکی ہیں لیکن جو اندازہ وہاں سے آیا تھا وہ ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تھا اور عملاً اب تک ایک لاکھ پچھہتر ہزار روپیہ خرچ ہوچکا ہے۔ تحریک جدید کا ریکارد کہتا ہے عورتیں ننانوے ہزار روپیہ دے چکی ہیں۔۔۔۔ میں نے وکالت مال کے شعبہ بیرون کے انچارچ چوہدری شبیراحمد صاحب کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہوکہ جب ہیگ سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تخمینہ آیا تھا تو میں نے عورتوں سے اس قدر چندہ کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ عورتوں کا حق تھا کہ چندہ لینے سے پہلے ان سے پوچھ لیا جاتا کہ کیا وہ یہ چندہ دے بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا افسوس ہے کہ اس وقت ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے حضور سے دریافت نہ کیا کہ آیا مزید رقم بھی عورتوں سے جمع کی جائے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جس کی رو سے زیادہ رقم اکٹھی کرنے کی منظوری لی گئی ہو۔ میں نے کہا میں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ کی جمع کرنے کی منظوری مجھ سے نہ لی لیکن جب وہ رقم ایک لاکھ پچھہتر ہزار بن گئی تو پھر تو آپ نے مجھ سے منظوری لینی تھی کیا آپ نے مجھ سے منظوری لی۔ انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہم نے اس کے متعلق بھی حضور سے کوئی منظوری نہیں لی اور ہمارے پاس کوئی ایسا کاغذ نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ عورتوں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار یا ایک لاکھ پچھہتر ہزار روپیہ جمع کرنا منظور ہے۔ اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لجنہ اماء اللہ اس سال صرف چھتیس ہزار روپیہ چندہ کرکے تحریک جدید کردے دے اور باقی روپیہ تحریک جدید خود ادا کرے۔ لجنہ اماء اللہ چھتیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں دے گی اور مسجد ہالینڈ ہمیشہ کے لئے عورتوں کے نام پر ہی رہے گی۔<۲۷۲
حضرت مصلح موعود نے تعمیر مسجد ہیگ کے لئے ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک خاص فرمائی تھی مگر خواتین احمدیت نے اپنے آقا کے حضور ایک لاکھ تینتالیس ہزار چھ سو چونسٹھ روپے کی رقم پیش کردی بلکہ بعض مستورات تو اس مد کی ختم ہونے کے بعد بھی چندہ بھجواتی رہیں۔4] f[st۲۷۳
ہالینڈ میں حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری
مسجد ہیگ ابھی زیرتعمیر تھی کہ ہالینڈ مشن کو اپنی تاریخ کا ایک ایسا عظیم اعزاز نصیب ہوا جس پر ہالینڈ کے احمدی خصوصاً اور دوسرے ولندیزی باشندے عموماً جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ یہ اعزاز حضرت مصلح موعود کا ورود ہالینڈ ہے۔
حضرت اقدس دوسرے سفر یورپ کے دوران سوئٹزرلینڈ کو اپنے مبارک نزول سے برکت دینے کے بعد ۱۸۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو ہیگ میں بھی رونق افروز ہوئے۔۲۷۴]4 [rtf حضور یہاں ایک ہفتہ قیام فرما رہنے کے بعد ۲۵۔ احسان/جون کو ہمبرگ تشریف لے گئے۔ دوران قیام مسجد کی زیر تعمیر عمارت کے انٹرنس ہال میں ایک لمبی اور پرسوز دعا فرمائی۔۲۷۵
مرکزاحمدیت سے دوسرے مجاہدین اسلام کی آمد
حافظ قدرت اللہ صاحب قریباً ساڑھے تین سال تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۶۹ہش/۱۹۵۰ء کو ہالینڈ سے پاکستان روانہ ہوگئے اور آپ کے بعد مولوی غلام احمد صاحب بشیر اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری نے مشن کی تبلیغی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مقدم الذکر مشن کے انچارج مقرر ہوئے۔ یہ دونوں مبلغین ایک ہفتہ پیشتر ۱۱۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء کو لنڈن سے ہالینڈ میں پہنچے تھے۔۲۷۶ مولوی ابوبکر صاحب سماٹری قریباً ساڑھے چھ برس تک نہایت خلوص اور محبت سے تبلیغ اسلام کی خدمت بجالاتے رہے اور ۱۶۔ ماہ وفا/جولائی ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء کو ہالینڈ سے تشریف لے آئے۔ ۲۷۷
مولوی ابوبکر صاحب ابھی ہالینڈ میں تھے کہ حافظ قدرت اللہ صاحب ۲۹۔ ماہ صلح/جنوری ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء کو دوبارہ اس ملک میں اشاعت اسلام کی غرض سے بھجوا دیئے گئے۔ اب چونکہ تعمیر مسجد کے بعد ہالینڈ مشن کا کام پہلے سے بہت بڑھ چکا تھا اور روز بروز بڑھ رہا تھا اس لئے مرکز سے ۶۔ تبوک/ستمبر ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء کو مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل ہالینڈ بھجوائے گئے اور قریباً ساڑھے تین برس تک حافظ صاحب کا ہاتھ بٹانے اور اہم تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد ۲۳۔ امان/مارچ ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء کو واپس تشریف لائے اور آپ کی جگہ پر صلاح الدین خان صاحب بنگالی مورخہ ۴۔ ظہور/اگست ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء ہالینڈ روانہ کئے گئے جنہوں نے وہاں تین سال تک فریضہ تبلیغ ادا کیا اور ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء کو وارد ربوہ ہوئے۔ آپ کے بعد دوبارہ مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل ۶۔ ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء کو عازم ہالینڈ ہوئے۔ تین سال بعد صلاح الدین خان صاحب بھی ۷۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء کو ہالینڈ تشریف لے گئے اور ۲۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء کو واپس آئے۔
لنڈن مشن کی طرح اس مشن کو بھی چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی بلند پایہ علمی و دینی شخصیت سے بہت فائدہ اٹھانے کا موقعہ ملا اور مل رہا ہے اور یقیناً اس مشن کی شہرت و ترقی میں ان کے مبارک وجود کا بھی بفضلہ تعالیٰ نمایاں دخل ہے۔ علاوہ ازیں خود مجاہدین ہالینڈ تبلیغ اسلام کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے نتیجہ ہوا کہ خدا کے فضل و کرم سے ہالینڈ کے طول و عرض میں اسلام کے چرچے عام ہونے لگے اور اسلام کا اثر ونفوذ یہاں تک بڑھا کہ عام ملکی پریس کے علاوہ عیسائی رسالوں ۲۷۸ میں بھی مبلغین احمدیت کے قلم سے اسلام کی نسبت بکثرت مضامین شائع ہونے لگے۔
حافظ قدرت اللہ جنہیں ہالینڈ مشن کی بنیاد رکھنے کے علاوہ مجموعی اعتبار سے قریباً ۱۴ برس تک خدمت کرنے کا فخر بھی نصیب ہوا۔ مشن کا چارج مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کو سونپ کر ۲۱۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء کو مرکز میں تشریف لے آئے۔ آپ کے بعد جناب اکمل صاحب تین سال تک تبلیغی فرائض بجا لاتے رہے اور پھر مسن کا چارج جناب صلاح الدین خاں صاحب کو دے کر ۲۰۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو مرکز میں پہنچ گئے۔۲۷۹ آپ کی آمد کے چند ماہ بعد مولوی ابوبکر ایوب صاحب سماٹری ۱۳۔ ماہ وفا/جولائی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء کو ایک بارپھر ہالینڈ تشریف لے گئے اور اب تک اس ملک کو نور اسلام سے منور کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔
ڈچ رسالہ >الاسلام< کا اجزاء
حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انچارج کی کوشش سے اوائل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء میں مشن کی طرف سے >الاسلام< کے نام سے ایک ڈچ ماہنامہ جاری کیاگیا۔۲۸۰ یہ رسالہ اب تک سائیکلوسٹائل ہوکر آرٹ پیپر کے سادہ مگر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اس رسالہ کے اجزاء کی غرض و غایت یہ تھی کہ ہالینڈ کے مسلمان حلقوں کو باقاعدگی سے بعض ضروری اور علمی مضامین پر مختصر نوٹ مہیا کئے جائیں تا وہ ان سے عندالضرورت فائدہ اٹھاسکیں اور خدا کے فضل و کرم سے یہ رسالہ اپنے اس مقصد کو بخوبی پورا کررہا ہے۔ یہ واحد رسالہ ہے جو ہالینڈ میں اسلام کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک کی مشہور لائبریریوں یونیورسٹیوں اور گرجا گھروں میں منگوایا جاتا ہے اور مستشرقین اپنے اضافہ معلومات کی خاطر اسے خرید کر پڑھتے ہیں۔ ہالینڈ کے علاوہ سورینام )ڈچ گی آنا( اور انڈونیشیا میں بھی اس کے خریدار موجود ہیں۔
ایک مشہور عیسائی پادری سے پبلک مناظرہ
مبلغین احمدیت نے ہالینڈ میں آج تک عیسائی پادریوں سے متعدد کامیاب مناظرے کئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء کی پہلی ششماہی میں بھی ایک کامیاب پبلک مناظرہ ہوا۔ مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی نمائندگی مبلغ اسلام حافظ قدرت اللہ صاحب نے کی اور عیسائیوں کی طرف سے مشہور پادری ڈاکٹر ایڈن برج BURG) IDEN ۔(DR پیش ہوئے جو چرچ سوسائٹی میں بائبل کے پروفیسر اور جاوا سماٹرا کے ایک سابق گورنر جنرل کے بیٹے اور مذہبی حلقوں میں اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ جناب عبدالحکیم صاحب اکمل مجاہد ہالینڈ اس دلچسپ مناظرہ کی روداد پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
>اس دفعہ مشن ہائوس میں ایک کامیاب مناظرہ ہوا۔ عیسائیوں کی طرف سے جناب ڈاکٹر ایڈن برج BURG) IDEN ۔(DR پیش ہوئے۔ ڈاکٹر موصوف انڈونیشیا کے ایک سابق گورنر جنرل کے لڑکے ہیں اور یہاں مذہبی حلقہ میں اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ ہماری طرف سے مکرم جناب حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج مبلغ ہالینڈ مشن نے حصہ لیا۔ مباحثہ سے چند دن قبل ہم نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو مشن ہائوس بلاکر مناظرہ کے لئے جملہ شرائط طے کیں۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد >حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام< موضوع بحث قراردیا۔
جلسہ کا اعلان اخبارات میں دیاگیا۔ لوگ اس کثرت کے ساتھ آئے کہ بعض لوگوں کو سیڑھیوں میں بیٹھ کر اور انٹرنس ہال میں کھڑے ہوکر کارروائی سننا پڑی۔ پہلے وقت میں ڈاکٹر صاحب موصوف کو اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقعہ دیاگیا اور بعد میں مکرم برادرم حافظ صاحب نے اسلامی نقطہ نگاہ پیش فرمایا۔ اس کے بعد لوگوں کو سوالات کی کھلی اجازت تھی جس کا اعلان اخبار میں خاص طور پر کیاگیا تھا۔ چنانچہ اکثر سوالات کا رخ ڈاکٹر صاحب موصوف کی طرف رہا کیونکہ انہوں نے عیسائیت کے اصل معتقدات پیش کرنے کی بجائے اپنے پاس سے دلائل پیش کرکے اس مسئلہ کو کسی قدر قابل فہم بنانے کی کوشش کی تھی جس سے ایک حد تک وہ اسلامی نظریہ کے ہی قریب ہوگئے تھے۔ حاضرین میں عیسائی پادری اور ڈاکٹر صاحبان بھی موجود تھے۔ لہذا ڈاکٹر موصوف کے لئے سوالات کا یہ مرحلہ کافی کٹھن ثابت ہوا۔ ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے بھی پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ڈاکٹر صاحب موصوف صرف اس قدر کہہ سکے کہ میں ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا۔ غرض خدا تعالیٰ کے فصل سے اسلامی نظریات کا لوگوں پر اچھا اثر رہا۔<۲۸۱
کیتھولک اور پراٹسٹنٹ عیسائیوں کا اسلام کے خلاف گٹھ جوڑ اور حضرت مصلح موعود کا پر حکمت ارشاد
مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کا بیان ہے کہ >ایمسٹرڈم میں عیسائی منادوں کی ایک بڑے پیمانہ کی کانفرنس ہوئی جس میں افریقہ` یورپ اور بعض دیگر ممالک کے پادری
صاحبان شامل ہوئے۔ کیتھولک اور پراٹسٹنٹ دونوں فرقوں کے لوگ شامل تھے۔ موضوع یہ تھا کہ افریقہ میں اسلام بڑی سرعت سے ترقی کررہا ہے اور یورپ میں بھی اب پائوں جمانے لگا ہے اس لئے ان نئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئی کوشش کی ضرورت ہے۔ تجویز یہ ہے کہ کیتھولک اور پراٹسٹنٹ فرقے مل کر اور متحدہ محاذ بناکر مقابلہ کی کوئی صورت بنائیں تا احسن رنگ میں کوششیں بار آور ہوسکیں۔ لمبی کارروائی کے بعد کیتھولک فرقہ کی پادریوں نے کہا کہ دراصل مذہب تو کیتھولک ازم ہی ہے دوسرے لوگ تو احتجاجاً الگ ہوئے ہیں اگر وہ واپس آجائیں تو ہم ہر طرح مقابلہ کے لئے تیار ہیں۔ یہ بات دوسرے فرقوں کو ناگوار گزری اور وہ اتحاد احسن صورت میں نہ ہوسکا البتہ پھر بھی مالی امور کے بارہ میں کچھ سمجھ تہ ہوگیا۔ یہ خبر خاکسار نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوائی تو اس پر حضور نے اپنے خط ۵۹۔۲۔۱/۱۰۴۲۔P۔P میں تحریر فرمایا۔
>ہالینڈ میں پراٹسٹنٹ زیادہ میں مگر باقی یورپ میں رومن کیتھولک مذہب والوں کا زور ہے ان کی طرف توجہ دیں۔ رومن کیتھولک کا روم میں یورپ ہے وہ بھی ایک قسم کا خلیفہ ہے۔ اسلامی خلافت اور عیسائی خلافت کی ٹکر میں اسلام کی فتح ہوگی اس لئے رومن کیتھولک کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ یہ لوگ دیر سے مزہب بدلتے ہیں مگر جب بدلتے ہیں تو بڑے پکے ہوتے ہیں۔ بدھ مذہب ان میں بہت پھیل رہا ہے۔۲۸۲4] [rtf
تبلیغی دورے
۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء کی پہلی ششماہی میں حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ انچارج اور مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے ملک کے مندرجہ ذیل نوشہروں کا تبلیغی دورہ کیا۔
پابندریخت`۲۸۳ فلاردنگن` ۲۸۴ روٹرڈم` ۲۸۵ ڈیلفٹ`۲۸۶ ہارلم` ۲۸۷ ایمسٹرڈم`۲۸۸ اوت ریخت` ]10 [p۲۸۹ ہلفرسوم` ۲۹۰ واغنگن۔۲۹۱
اس دورہ میں مبلغین اسلام کو ممبران جماعت سے ملاقات` تبلیغی مجالس میں شمولیت اور مختلف سوسائٹیوں میں تقاریر کے مواقع میسرآئے۔۲۹۲
مذاہب عالم کانفرنسوں میں اسلام کی موثر نمائندگی
۲۰۔ صلع/ جنوری ۱۳۳۹ہش/ ۱۹۶۰ء کو ہالینڈ کے مرکزی شہر اوت ریخت (UTRECHT) کے آزاد خیال لوگوں کی طرف سے ایک مذاہب کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اسلام` ہندودھرم` بدھ مت اور یہودیت سے متعلق تقاریر کا وسیع پیمانہ پر انتظام تھا۔ اس موقعہ پر اسلام کی طرف سے حافظ قدرت اللہ صاحب نے موثر رنگ میں نمائندگی فرمائی۔۲۹۳ ازاں بعد اخاء/اکتوبر ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء میں ایمسٹرڈم کے قریب ہیم ستیدے (HEEMSTEDE) کے سب سے قدیم اور بڑے گرچے کی عمارت میں بھی ایک مذاہب عالم کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ۲۷۔ اخاء کو اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے حافظ قدرت اللہ صاحب نے نماز کے موضوع پر لیکچر دیا۔ اس کانفرنس کی یہ خصوصیت تھی کہ ہر لیکچرار کو جملہ معلومات اپنی مقدس کتاب ہی سے پیش کرنا ضروری تھیں۔ ۲۹۴
اس کے علاوہ ہالینڈ کے ایک اور اہم شہر آرنہم (ARNHEM) کے اندر ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۵ہش/۱۹۶۶ء کے آخری ہفتہ میں ایک اور بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسلام` عیسائیت` بدھ ازم` ہندومت` صوفی موومنٹ` ویجیٹرین گروپ اور ہونسٹ خیالات کے نمائندوں نے حصہ لیا۔ اس کانفرنس میں بھی حافظ قدرت اللہ صاحب نے اسلام کی ترجمانی کے فرائض ادا کئے۔ حافظ صاحب کی پوری تقریر گہری دلچسپی اور انہماک سے سنی گئی۔ تقریر کے اختتام پر وقفہ سوالات تھا۔ صدر مجلس نے حاضرین کو سوالات کے لئے کہا مگر لوگ تھے کہ مبہوت ہوئے بیٹھے تھے کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔۲۹۵
حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سرزمین ہالینڈ میں دوبار وردومسعود
حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے مبارک سفر یورپ کے دوران زیورک سے ہالینڈ تشریف لائے۔ حضور
نے ہیگ کی مسجد میں خطبہ جعمہ ارشاد فرمایا۔ بعدازاں حضور نے ایک پریس ¶کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں ڈچ ریڈیو کے نمائندہ کے علاوہ اخباری نمائندے بکثرت شامل ہوئے۔ ڈچ پریس نے حضور کے بیان کو غیر معمولی اہمیت دی اور بڑی سنجیدگی سے اسے پبلک کے سامنے پیش کیا۔ اگلے روز حضور اقدس کے اعزاز میں نماز ظہر کے بعد ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیاگیا جس میں احباب جماعت کے علاوہ بہت سے دیگر غیراز جماعت مسلمان دوستوں اور معززین شہر نے شرکت کی جن میں ہالینڈ کے مشہور مستشرقین پروفیسر ڈاکٹر پپر PIPER) ۔DR۔(PRO اور مشہور انجنیئر پروفیسر THIJSSEN ۔body2]PRO ga[t ہالینڈ کے صوفی گروپ` بدھسٹ گروپ اور پروٹسٹنٹ گروپ کے لیڈر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی روز حضور کا ریڈیو سے خصوصی انٹرویو بھی نشر ہوا اور ۱۶ ماہ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء کو حضور ہالینڈ کا نہایت موثر` مبارک اور کامیاب دورہ مکمل کرنے کے بعد ہمبرگ تشریف لے گئے۔۲۹۶
ڈھائی تین سال بعد جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ نے مشہور عالم دورہ افریقہ فرمایا تو واپسی پر حضور جن یورپین ممالک میں بھی تشریف لے گئے ان میں سب سے پہلا ملک ہالینڈ تھا جہاں حضور ۱۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو بذریہ ہوائی جہاز سوا نو بجے پہنچے۔ ڈچ نومسلم دور دور کے شہروں سے آکر مشن ہائوس میں جمع تھے اور حضور سے شرف ملاقات حاصل کرکے پھولے نہ سماتے تھے۔ اس موقعہ پر ایک پورا خاندان SUFFNER) ۔(FAM اور ایمسٹرڈم کے ایک صحافی حضور کے دست مبارک پر بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ علاوہ ازیں ایک آزاد خیال عیسائی فرقہ سونگ لی (SWINGLI) کے لیڈر ڈاکٹر بائوٹ کیمپ BUITKAMP)۔(DR اپنے فرقہ کے چیدہ چیدہ ممبروں کا ایک گروپ لے کر حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے حضور نے انہیں نصف گھنٹہ تک نہایت ایمان افروزرنگ میں تبلیغ اسلام کی۔ ڈاکٹر صاحب حضور کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ اس عرصہ قیام میں ایک اسلامی ملک کے سفیر نے حضور اور افراد قافلہ کو کھانے پر مدعو کیا اور جماعت احمدیہ ہالینڈ کی طرف سے بھی ایک ڈنردیاگیا نیز صدر عالمی عدالت انصاف چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے حضور کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں متعدد ممالک کے معزز جج صاحبان تھے۔ حضور دو روزہ مختصر قیام کے بعد )جو ہالینڈ مشن کے لئے بہت بابرکت ثابت ہوا( ۱۷۔ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو انگلستان تشریف لے گئے۔ ۲۹۷
خدائے ذوالجلال کی قدرت کے ایک نشان کا ظہور
۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء کا واقعہ ہے کہ ہالینڈ مشن کی طرف سے مسیح کشمیر میں >کے نام سے ڈچ زبان میں ایک مختصر ساپمفلٹ شائع کیاگیا۔ یہ کتابچہ جب ایک کیتھولک اخبار کے چیف ایڈیٹر کو ملا تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے اپنے اخبار میں اس کے خلاف ایک مضمون لکھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ یہاں کیا کرنے آئے ہیں اور انہیں یہاں آنے کی کس نے اجازت دی ہے؟ جب یہ مضمون اخبار میں چھپا تو ہالینڈ کے ایک مستشرقین ڈاکٹر فان لیون VANLEEUWEN)۔TH۔A۔(DR نے اس پر ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ اور اس کی تبلیغی واشاعتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اخبار کے ایڈیٹر کے بارہ میں لکھا۔
ہمارے ملک کے چرچ اخبارات میں سے ایک بڑے اخبار کے چیف ایڈیٹر نے احمدیہ مسلم مشن کے ایک پمفلٹ پر جو ان کے گھر کے لیٹر بکس میں ڈالاگیا تھا بڑے غیظ و غضب کا اظہار کیا ہے اور وہ اس پر بڑے چیں بجبیں ہوئے ہیں۔ اس مضمون سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب اب تک یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ اسلام کا نام بحرروم کے اس پار افریقہ` مشرق بعید یعنی انڈونیشیا میں جو کبھی ڈچ مقبوضات میں شامل تھا` لیا جاتا ہے۔ اور یہ امر ان کی حیرت اور اچنبھے کا موجب ہے کہ اسلام اب یورپ میں بھی اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کرچکا ہے بلکہ اب ان کے گھر تک آن پہنچا ہے۔
‏I) PAGE III (ORIENTATIEREEK
اسی طرح ایک اور اخبار PAROOL HET نے مسلمان پادری صاحبان سے مناظرہ چاہتے ہیں کے عنوان سے لکھا۔
>احمدی مسلمان پادریوں کو للکارتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ہالینڈ کے اندر ہورہا ہے۔ چنانچہ احمدیہ مسلم مشن ہیگ کے مبلغین کی طرف سے پادری صاحبان کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ان کے اعتقادات کے بارہ میں دس سوالات کئے گئے ہیں۔<
۱۹۶۶ء میں ہالینڈ کے رہنے والے ایک متعصب مستشرق ڈاکٹر HOUBEN نے اسلام کے خلاف ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے اسلام کے خلاف یہ اعتراضات اٹھائے تھے کہ
۱۔
جماعت احمدیہ اور مسجدہیگ کو ہالینڈ میں اسلام کا نمائندہ تصور کرنا غلط ہے اس لئے کہ اسلام کی جو تشریح و توضیح ان کی طرف سے کی جاتی ہے اسے ہم کسی صورت بھی اسلام کہنے کو تیار نہیں۔
۲۔
دوسرا اعتراض انہوں نے یہ کیا کہ اسلام کا خدا جابر اور قاہر خدا ہے اور یہ کہ مسجدہیگ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں جو پروپیگنڈا کیاجاتا ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں یہ درست نہیں۔ کیونکہ ان کا مسیح پر وہ ایمان نہیں جو ہم عیسائیوں کا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت ادھر مخالفت سے بھرا ہوا یہ مضمون نکلا ادھر اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب کے لئے بھی بعض مخالفین کو ہی تیار کردیا۔ چنانچہ ہالینڈ کے ایک کیتھولک اخبار 66>۔<M نے مارچ ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں
>جماعت احمدیہ عیسائی علماء کے لئے خوف وہراس کا باعث ہے<
کا عنوان دیتے ہوئے اس مضمون کا مفصل جواب دیا۔۲۹۸ چنانچہ اس نے لکھا۔
>پروفیسر ڈاکٹر ہیوبن (HOUBEN) نے ہمیں اپنا مضمون جو انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق لکھا ہے غور سے پڑھنے کے لئے کہا ہے اور ان کے اس ارشاد کی تعمیل میں ہم نے اس مضمون کو غور سے پڑھا۔ اس کے مطالعہ سے مندزجہ ذیل دو اہم اعتراضات کا پتہ چلتا ہے جو انہوں نے اسلام اور احمدیت پر کئے ہیں۔
اول یہ کہ اسلام ایک جابر اور قہار خدا کا تصور پیش کرتا ہے اور یہ کہ جماعت احمدیہ اور مسجدہیگ کو ہالینڈ میں اسلام کا نمائندہ تصور نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس جماعت کے بانی پر دوسرے مسلمان کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ اس طرح ان کی طرف سے اسلام کی جو تشریح اور توضیح کی جاتی ہے وہ اسلام نہیں کہلا سکتا۔۲۹۹
دوم یہ کہ مسجدہیگ سے مسیح ناصری کے بارہ میں جھوٹا پروپیگنڈا کیاجاتا ہے کیونکہ ظاہری طور پر تو یہ کہاجاتا ہے کہ ہم مسلمان مسیح ناصری پر ایمان رکھتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا ایمان اس ایمان سے بہت مختلف ہوتا ہے جو عیسائی رکھتے ہیں۔<اخبار مذکور ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے۔
>پروفیسر ڈاکٹر ہیوبن کا اسلام کے متعلق یہ لکھنا کہ وہ ایک جابر اور قہار خدا کا تصور پیش کرتا ہے سراسر مغالطہ انگیز ہے۔ اور یہ کہنا کہ اسلام میں تجدید واحیاء کی قوت کا فقدان ہے دوراز حقیقت ہے۔ کیونکہ خود جماعت احمدیہ تجدید واحیاء اسلام کا ایک زندہ ثبوت ہے اور شاید اسی لئے وہ عیسائی علماء کے لئے خوف وہراس کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا پروفیسر ڈاکٹر کمپس (CAMPS) نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور اس جماعت کی طرف سے ہوشیار رہنے کی طرف توجہ دلائی تھی۔<
آگے چل کر اخبار مذکور نے لکھا ہے کہ۔
>جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلام کی تجدید واحیاء کی کوشش اس کی بنیادی تعلیمات یعنی قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔ اس میں خدا تعالیٰ کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے۔ یہ جماعت اس تعلیم کے نتیجہ میں بین الاقوامی اخوت کی دعویدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت نے ہاتھ پر ہاتھ دھرکر بیٹھے رہنے والے مسلمانوں میں سے پانچ لاکھ کے قریب لوگوں کے قلوب میں تبلیغ واشاعت اسلام کی روح پھونک کر تبلیغی مساعی کی حقیقی تڑپ پیدا کردی ہے اور اس جماعت نے عیسائیت یا مارکسزم سے یہ نظریات مستعار نہیں لئے بلکہ خالص اسلام کے پیغام کو لے کر ایک طرف پرانے خیالات کے مسلمانوں کی اصلاح کا کام شروع کیا ہے تو دوسری طرف اس پیغام کے ذریعہ عیسائی دنیا اور دہریوں پر اتمام حجت کردی ہے۔
یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ ساڑھے سینتیس کروڑ مسلمانوں میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ اسلام میں ان معنوں میں ORTHODOX اور متحدہ اکثریت موجود ہی نہیں جن معنوں میں کیتھولک عیسائی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اسلام میں تو کیتھولک مذہب کی طرح DOGMAS )اندھے عقائد( موجود ہی نہیں اور نہ ہی اسلام اپنی تعلیمات پر کسی اور کو حکم تسلیم کرتا ہے۔ اس کی تعلیم کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور وہ ہے قرآن۔ جس طرح اصلاح یافتہ عیسائیوں کے نزدیک ان کی مذہبی کتاب بائیبل ہے اور جس طرح بائیبل کی آیات کی مختلف تشریحات و توضیحات سے متعدد فرقے پیدا ہوئے ہیں جو سب کے سب عیسائی ہی ہیں بعینہ اسی طرح قرآن کی تشریح اور تفسیر سے بھی مختلف و متعدد مکاتیب فکر معرض وجود میں آئے۔ لہذا کسی فرقہ کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیاجاسکتا۔ دراصل تجدید واحیاء کی بنیاد پر چرچ اور فرقہ میں فرق اور امتیاز کرنا ہمیشہ سے ہی ایک نہایت مشکل اور نازک مسئلہ رہا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی بھی علماء کو حکم نہیں مانا )جس طرح چرچ اور یورپ مذہبی عقائد میں اجادہ داری رکھتے ہیں نہ کہ کتاب( اور پھر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن جو ایک ہی وجود محمد ~)صل۱(~ کی لائی ہوئی کتاب ہے بائیبل کی نسبت زیادہ واضح زبان میں بات کرتی ہے۔ اور بائیبل کا یہ حال ہے کہ اس میں مختلف لوگوں کی باتوں کو بعد میں جمع کیاگیا ہے۔
احمدیت اسلام کی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے مگر یہ اسلام کی ایک ایسی ہی صورت ہے جو اسلام کی نمائندگی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔ اس تحریک کو یقیناً مخالف خیالات رکھنے والے مسلمانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر یہ مخالفت کرنے والے علمی رنگ میں بات کرنے سے تہی اور کیتھولک ذہنیت ہی کے مظہر نظر آتے ہیں جو اپنے خیالات سے اختلافات رکھنے والوں کو کافر اور دائرہ مذہب سے خارج قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ہیوبن نے اپنے مضمون میں گیارہ نکات ایسے بیان کئے ہیں جو ان کے خیال میں احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کے درمیان مابہ النزاع ہیں لیکن ان کی یہ بات بھی ایسی ہی ہے جیسے کیتھولک مکتب فکر کی موجودہ مغالعہ انگیز شکل ہے۔ احمدیہ جماعت کو اسلام سے منحرف صرف اس وقت قراردیا جاسکتا ہے جبکہ وہ قرآنی تعلیمات سے رو گردانی کرے مگر جماعت احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں نہ آئندہ ہوسکتی ہے۔ نیز یہ کہ اگر کہیں یہ محسوس ہوکر ایک آیت کسی دوسری آیت کی مخالف ہے تو وہاں پر وہ تضاد کسی غلط تشریح کی وجہ سے پیدا ہوا ہوگا۔< ۳۰۰ )ترجمہ(
کیتھولک سنٹر کو دعوت مقابلہ
یورپین پادریوں نے اسلام اور بانی اسلام~صل۱~ کے نورانی چہرہ کو بگاڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ مشہور ڈچ مستشرق سی۔ ایس۔ ہرخرن لے HURGRONJE)۔S۔(C >محمد ازم< میں لکھتے ہیں۔
>ہر وہ بات جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اختیار کی جاتی یا گھڑی جاتی تھی یورپ ایک لالچی اور حریص آدمی کی طرح اسے اچک لیتا تھا حتی کہ ازمنہ وسطیٰ میں ہمارے آبائواجداد کے ذہنوں میں محمد کا جو تصور قائم تھا وہ آج ہمیں ایک انتہائی طور پر مکروہ اور گھنائونی شکل کے مترادف نظر آتا ہے۔< )ترجمہ(
اس سلسلہ میں صدیوں سے خاص طور پر یہ اعتراض وسیع پیمانہ پر پھیلایا اور ہرنسل میں اچھی طرح راسخ کیاگیا کہ اسلام تلوار کا مذہب ہے۔
ہالینڈ مشن نے ٹیلی ویژن` ریڈیو` اخبارات کے انٹرویو اور اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ اس جھوٹ کی خوب قلعی کھولی ہے۳۰۱ مگر متعصب پادری ہیں کہ آج تک یہ مظالعہ دیئے جارہے ہیں۔ چنانچہ ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء کا ذکر ہے کہ ہالینڈ کے کیتھولک سنٹر APASTORALL نائمیخن (NIJMEGEN) کے ایک ماہوار پمفلٹ میں ایم مستشرق صاحب نے اسلام کے خلاف اسی خیال کی بناء پر ایک مضمون لکھا جس کا احمدیہ مشن کے انچارج جناب عبدالحکیم صاحب اکمل نے فوری نوٹس لیا اور انہیں ایک مکتوب مفتوح کے ذریعہ سے للکارا کہ اگر ان کے موقف میں ذرا برابر صداقت موجود ہے تو وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی ایک آیت قرآنی ہی اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں پیش کر دکھائیں۔ مگر مستشرق صاحب مذکور اس چیلنج کا جواب تک نہ دے سکے اور کا سرصلیب کے شاگردوں کے مقابل بالکل چپ سادھ لی۔۳۰۲
‏tav.11.8
‏tav.11.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
جیسلٹن میں پہلا جلسہ پیشوایان مذاہب
اب تک جزیرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کسی جلسہ کا باقاعدہ انتظام نہیں کیا جاسکا تھا ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کی کوشش سے ۲۸۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء کو جیسلٹن میں پہلا جلسہ پیشوایان مذاہب منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے جلسہ سے قریباً بیس روز قبل تمام عیسائی مشنوں کو بذریعہ خطوط دعوت دی کہ وہ جلسہ میں شرکت کریں اور جس پیشوا کی سیرت پرچاہیں لیکچر دیں لیکن کسی نے جواب تک نہ دیا۔ عیسائیوں کی اس بے رخی کے بعد بہت کم امید تھی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ جو ہر طرح سے عیسائیوں کے زیر اثر اور ان سے مرعوب اور دبے ہوئے تھے اس تقریب میں حصہ لینے کی جرات کریں گے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جیسلٹن کی ریکری ایشن کلب CLUB) RECREATION (JESSELTON نے جہاں تمام پبلک تقریبات کا انعقاد ہوتا تھا کلب میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کو اپنی قیام گاہ پر ہی اس کا انتظام کرنا پڑا۔ تیس آدمی شریک جلسہ ہوئے۔ جلسہ کی کارروائی تلاوت قرآن سے شروع ہوئی جس کے بعد حضرت بدہ کے سیرت پر ایک ہندو مدراسی نے` آنحضرت~صل۱~ کی حیات طیبہ پر ایک مدراسی مسٹر نیئر NAIR) ۔(MR نے` حضرت مسیح کے بارے میں ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب نے اور کرشن علیہ السلام پر انچارج مبلغ بورنیو مولوی محمد زہدی صاحب نے تقریریں کیں۔ یہ جلسہ اگرچہ پرائیویٹ احاطہ اور نہایت محدود تعداد کے ساتھ ہوا مگر بحمداللہ توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔۳۵۷
جیسلٹن میں پہلا پبلک جلسہ
اس پرائیویٹ جلسہ کے چھ ماہ بعد احمدیہ مشن نے ایک اور قدم آگے بڑھایا اور ۲۶۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء کو جیسلٹن میں ہی سیرت النبیﷺ~ کے سلسلہ میں ایک اور جلسہ میں کامیابی ہوئی۔ یہ جلسہ بورنیو مشن کی تاریخ میں پہلا پبلک جلسہ تھا۔ یہ جلسہ ایک چینی کلب کے ہال HALL) UNION SERVICE CIVIL (JUNIOR میں منعقد ہوا اور اس میں مسٹر آر۔ پرائس PRICE)۔R ۔(MR مسٹر اے۔ کے۔ کے۔ نیئر NAIR)۔K۔K۔A۔(MR ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب اور مولوی محمد سعیدہ صاحب انصاری نے بالترتیب سیرت النبیﷺ`~ سوانح رسولﷺ`~ صحابہؓ کی آنحضرتﷺ~ ساے والہانہ عقیدت` اور آنحضرتﷺ~ شہزادہ امن کی حیثیت سے کے عنوان پر خطاب کیا۔ مولوی محمد سعید صاحب انصاری کے سوا جنہوں نے ملائی زبان میں تقریر کی باقی سب مقررین نے انگریزی میں لیکچردیا۔ اس جلسہ کے لئے جنگ نام پرنٹنگ کمپنی جیسلٹن JESSELTON) COMPANY PRINTING NAM (CHUNG سے چار سو انگریزی اشتہارات چھپوا کر تعلیم یافتہ طبقہ میں تقسیم کئے گئے۔۳۵۸ علاوہ ازیں ایک مقامی چینی اخبار میں بھی اعلان کیاگیا۔ مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے یکم دسمبر ۱۹۵۰ء کی رپورٹ میں اس جلسہ کی تفصیلی اطلاع مرکز کودیتے ہوئے لکھا نارتھ بورنیو کا ملک ایک پسماندہ ملک ہے اور اس ملک کی روایت میں غالباً کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب کسی مذہبی تقریب کو ایسی پبلک پورت دی گئی ہو۔ اس لئے اس ملک کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ توقع رکھنا کہ سامعین کی کثیریا معقول تعداد کسی ایسی تقریب کو مل جاویگی غالباً بے جا توقع سے کم نہیں لیکن پھر بھی سیرت النبیﷺ~ کے اس جلسہ میں باوجود اس دن شدید بارش کے ۴۲ دوست حاضر تھے ۔۔۔۔ جلسہ کا اثر پبلک پر من حیث المجموع اچھا پڑا اور ایک ایسے ملک میں جو مذہبی تقریبات کو قائم کرنے کے لحاظ سے بے جان سا ملک ہے کسی حد تک کچھ انفاس حیات بھرنے کا موقعہ مل گیا۔
رسالہ PEACE کا اجراء
جماعت احمدیہ بورنیو کی طرف سے مقامی احمدی جاعتوں کو منظم کرنے` ان کی معلومات میں اضافہ کرنے اور غیر سلموں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے ماہ فتح/دسمبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء میں ایک سہ ماہی رسالہ PEACE مولوی محمد سعید صاحب انصاری کی ادارت میں جاری کیاگیا۔ یہ رسالہ انگریزی اور ملائی زبانوں میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے انگریزی حصہ کی ادارت ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کرتے اور ملائی حصہ مولوی محمد سعید صاحب انصاری ترتیب دیتے تھے۔ یہ رسالہ عموماً پانچ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اور بورنیو کے علاوہ سنگاپور اور فلپائن وغیرہ میں بھی بھجوایا جاتا تھا۔ یہ رسالہ جماعت احمدیہ بورنیو کے واحد ترجمان کی حیثیت سے بہت عمدہ اثرات پیدا کرنے کا موجب ہوا اور اس کے ذریعہ بعض سعید روحوں کو قبول حق کی بھی توفیق ملی۔ افسوس مولوی محمد سعید صاحب انصاری کی مراجعت پاکستان ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء کے بعد اس مفید رسالہ کا صرف ایک ایشوع نکل سکا اور پھر اسے بند کردینا پڑا۔
رانائو میں احمدی مبلغ اور جماعت احمدیہ کے خلاف فتنہ
۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کا ذکر ہے کہ مبلغ بورنیو مرزا محمد ادریس صاحب ایک نئے تبلیغی میدان کی تلاش میں رانائو کے دور افتادہ علاقہ میں تشریف لے گئے۔ عیسائی حکومت نے جو پہلے ہی اس تاک میں تھی کہ کسی طرح احمدی مبلغین کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کا اسے بہانہ ہاتھ آئے بغیر کسی قانون کے محض ایک روایتی قاعدہ کی آڑ لے کر انہیں بھی اور جناب مولوی محمد سعید صاحب انصاری کو بھی۔ جو بعد میں وہاں تشریف لے گئے اس علاقہ سے نکل جانے کا نوٹس دے دیا۔ چونکہ اس ظالمانہ کارروائی سے حکومت کی غرض محض یہ تھی کہ اس علاقہ میں تبلیغ اسلام کی سرگرمیاں روک دی جائیں۔ اس لئے اسلام کی عزت و حرمت اور احمدیت کے وقار کے لئے یہ ضروری سمجھاگیا کہ لک میں مذہبی آزادی کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے آئینی جدوجہد کی جائے چنانچہ احمدیہ بورنیو اور حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر عرصہ تک خط وکتابت اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر حکومت کو احمدی مبلغین سے یہ پابندی اٹھانا پڑی اور جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے تمام برٹش بورنیو میں احمدیوں کو قانوناً تبلیغ کی آزادی حاصل ہوگئی اگرچہ حکومت اندر ہی عوام کو احمدیوں کے خلاف برابر اکساتی رہی۔ مرزا محمد ادریس صاحب کا بیان ہے کہ۔
>بورنیو کے ایک علاقہ رانائو میں ۔۔۔۔ صرف ایک قوم ڈوسون نامی آباد ہے۔ یہ قوم پہلے لامذہب تھی۔ یہاں عیسائیوں کے دو مشن ایک لمبے عرصہ سے کام کررہے ہیں۔ حکومت کی یہی پالیسی تھی کہ یہ علاقہ عیسائیت کی آغوش میں چلاجائے اس لئے حکومت کی طرف سے ہمیشہ مسلمانوں پر جو اس علاقہ میں داخل ہونا چاہیں پابندیاں لگائی جاتی تھیں۔
جب میں اس علاقہ میں گیا تو وہاں کے مقامی مسلمانوں نے میری آمد پر بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ بہت سے لوگوں نے قرآن مجید اور نماز سیکھنی شروع کردی۔ رانائو میں داخل ہونے کے معاً بعد عیسائیوں سے ایک پبلک جگہ میں مباحثہ ہوا جس کا خدا کے فضل سے غیر مسلموں اور غیر احمدیوں پر اچھا اثر پڑا۔ ایک غیر مسلم چینی دوست نے بعد میں ایک غیر مسلم کو بتایا کہ وہ خود مباحثہ میں موجود تھے ان پر یہی اثر ہے کہ عیسائیت اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حکومت نے دیکھا کہ رانائو کے مقامی مسلمانوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے اور انہوں نے احمدی مبلغ سے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ہے اور نیز یہ کہ احمدیت عسیائیت کا برملا مقابلہ کر رہی ہے۔ رانائو میں ہر ماہ کی پچیس تاریخ کو منڈی لگتی ہے جس میں علاقہ کے دور دراز کے لوگ کثرت سے اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ اس موقع پر اس علاقہ کا انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر بھی دورہ پر ہمیشہ آتا ہے۔ جب منڈی کے موقع پر انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر آیا تو اس نے مجھے اپنے آفس میں بلاکر پوچھا کہ کیا تمہارے پاس ریذیڈنٹ کی طرف سے اس علاقہ میں داخل ہونے کا اجازت نامہ ہے؟ میں نے کہا یہ علاقہ بھی بورنیو کا حصہ ہے کوئی نئی دوسری حکومت ہونے کا اجازت نامہ ہے؟ میں نے کہا یہ علاقہ بھی بورنیو کا حصہ ہے کوئی نئی دوسری حکومت نہیں۔ ریذیڈنٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حکومت کا یہ قانون ہے کہ رانائو میں داخل ہونے سے قبل ریذیڈنٹ کی اجازت حاصل کی جائے؟ کہنے لگا کہ قانون تو نہیں مگر چونکہ یہاں کے لوگ جاہل ہیں اس لئے حفاظت کی خاطر ضروری ہے کہ ریذیڈنٹ سے اجازت حاصل کی جائے۔ میں نے کہا کہ یہاں کے لوگ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑے شوق سے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں مجھے ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ ریذیڈنٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کیا حکومت کا یہ قانون ہے کہ رانائو میں داخل ہونے سے قبل ریذیڈنٹ کی اجازت حاصل کی جائے؟ کہنے لگا کہ قانون تو نہیں مگر چونکہ یہاں کے لوگ جاہل ہیں اسے لئے حفاظت کی خاطر ضروری ہے کہ ریذیڈنٹ سے اجازت حاصل کی جائے۔ میں نے کہا کہ یہاں کے لوگ مجھ سے بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑے شوق سے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں مجھے ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ بعد میں ڈسٹرکٹ آفیسر نے وہاں کے امام اور نیٹوچیف کو آفس میں بلاکر میرے متعلق پوچھا کہ ادریس یہاں کیا کام کرتا ہے اور کہاں کہاں جاتا ہے؟ امام اور چیف دونوں نے میری تعریف کی اور کہا کہ ادریس اچھا آدمی ہے یہاں مفت دینی تعلیم دیتا ہے۔ ڈسٹرکٹ آفیسر نے جب دیکھا کہ اس طریق سے مبلغ کو رانائو سے نکالنے کی کوئی صورت نہیں بنی تو جیسلٹن ریذیڈنٹ کو میرے متعلق تمام حالات سے اطلاع دی۔ ریذیڈنٹ نے خود اور پولیس کے ذریعہ ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی کہ ادریس کو رانائو کے علاقہ سے واپس بلالو۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی حکومت کو جواب دیا کہ ادریس مبلغ ہے تبلیغ کی ہر شخص کو آزادی ہے اس لئے ہم ادریس کو واپس نہیں بلاسکتے۔ رانائو میں میرا قیام ایک ہیڈماسٹر امیرنامی کے گھر میں تھا ہیڈماسٹر صاحب کو ہر روز تبلیغ کا موقع ملتا تھا۔ میرے کچھ عرصہ قیام کے بعد ہیڈماسٹر صاحب اور ایک اور سابق سکول ماسٹر صاحب نے بیعت کرلی۔ یہ دونوں احمدی دوست رانائو میں صاحب اثرور سوخ تھے۔ ہیڈماسٹر صاحب وہاں میرے قیام کے دوران جبکہ ابھی وہ احمدی نہ ہوئے تھے وہاں کی مسلم ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری تھے۔ عید کے دن مسلم ایسوسی ایشن کی جنرل میٹنگ تھی انہوں نے اپنی مجلس عاملہ سے پوچھا کہ اجلاس کہاں کیا جائے؟ مجلس عاملہ نے فیصلہ کیا کہ عید کی نماز کے بعد مسجد میں اجلاس ہوگا۔ ہمارے احمدی دوست نے بتایا کہ میں چونکہ احمدی ہوگیا ہوں میں عید کی نماز احمدی مبلغ کے ساتھ اپنے گھر میں پڑھوں گا عید کی نماز پڑھنے کے بعد ہی میں مسجد میں میٹنگ کے لئے حاضر ہو سکوں گا ہمارے احمدی دوست عید کی نماز ہمارے ساتھ پڑھنے کے بعد جب مسجد میں میٹنگ کے لئے گئے اور وہاں اجلاس شروع ہوا تو امام نے وہاں پر میٹنگ میں گڑبڑ کی کہ تم قادیانی کیوں ہوگئے ہو؟ اسی گڑبڑ میں ایسوسی ایشن کی میٹنگ کی کارروائی بھی مکمل نہ ہوسکی۔ میں چونکہ رانائو میں مسلسل تین ماہ سے قیام پذیر تھا۔ رانائو میں خوراک مناسب حال نہ ہونے کی وجہ سے نیز دوسری جماعتوں کا دورہ کرنے کے لئے رانائو میں عید پڑھا کر میں جیسلٹن آگیا۔ اس دوران جبکہ میں ابھی جیسلٹن میں تھا بعد میں حکومت نے امام کی طرف سے ہمارے احمدیوں پر مقدمہ دائر کروادیا کہ احمدیوں نے مسجد میں آکر فتنہ وفساد اور گڑبڑ کی ہے۔ دو دن تک مقدمہ کی سماعت ہوتی رہی جس میں ہمارے احمدی دوستوں سے سوالات کئے گئے کہ تم احمدی کیوں ہوگئے ہو؟ تم مسجد میں آکر غیر احمدی امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ تم نے ایک غیر ملکی احمدی مبلغ کو اپنے گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ وغیرہ۔ تمام سوالات کے جواب خدا کے فضل سے ہمارے احمدی دوستوں نے نہایت عمدگی سے دیئے۔ حکومت کا چونکہ مقصد یہ تھا کہ احمدیوں کو ڈرا دھمکاکر احمدیت سے انکار کروایا جائے دوسرے یہ کہ وہاں کہ جاہل پبلک کو احمدیت سے متنفر کیا جائے اور ان کے دل میں یہ ڈالا جائے کہ جب حکومت ان سے نفرت کرتی ہے تو ضرور کوئی مخفی برائی ان میں ہوگی جس کی وجہ سے حکومت بھی ان کو پسند نہیں کرتی۔ ہمارے احمدی دوستوں نے کہا کہ ہم احمدیت کو حقیقی اسلام سمجھتے ہیں احمدیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ ہمارے احمدیوں کو پچیس پچیس ڈالر جرمانہ کی سزادی گئی۔
جب رانائو میں ہمارے احمدی دوستوں پر مقدمہ ہوا اس وقت میں لنکونگن کی جماعت سے چندہ وصول کرنے کے لئے وہاں دورہ پر گیا ہوا تھا۔ جب وہاں سے جیسلٹن پہنچا تو مجھے حکومت کی طرف سے تحریری نوٹس دیاگیا کہ حکومت کی فلاں دفعہ کے تحت تم رانائو کے علاقہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اس پر جماعت کی طرف سے احتجاج کیاگیا اور سنگاپور اور انڈونیشیا کی جماعتوں نے بھی احتجاج تاریں بورنیو کی حکومت کی بھجوائیں تو خود گورنر رانائو کے علاقہ میں تحقیق کے لئے گیا رانائو سے جیسلٹن واپسی پر اس نے ہمیں بلایا اور وعدہ کیا کہ ہم اپنا نوٹس واپس سے لیں گے۔ چنانچہ گورنر کے وعدہ کے مطابق جلد ہی حکومت کی طرف سے تحریری اطلاع آگئی کہ جماعت احمدیہ کا مبلغ جب چاہئے رانائو جاسکتا ہے۔
حکومت کے فتنہ اور احمدیوں کو جرمانہ کی سزا دینے کی وجہ سے رانائو کے عوام ایک لمبا عرصہ تک ہم سے ڈرتے رہے مگر پھر وہاں خدا کے فضل سے حالات اچھے ہوگئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ وہاں کے علاقہ کا چیف امام جو ہمارا شدید مخالف تھا اور ہمارے راستہ میں ایک بڑی روک تھا فوت ہوگیا اور اس کے فوت ہوجانے کی وجہ سے یہ روک دور ہوگئی ہے۔ اب اس کا قائم مقام امام اس کا لڑکا ہے۔ اپنے امام منتخب ہونے کے بعد اس نے جو پہلی تقریر کی اس میں اس نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئندہ سے وہ احمدیت کے خلاف کوئی بات نہیں کہے گا۔<۳۵۹
مباحثہ رانائو
مندرجہ بالا بیان میں جس مباحثہ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے وہ مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے ۲۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو کیا جس کی تفصیل مرزا محمد ادریس صاحب کی ایک دوسری رپورٹ )مورخہ ۲۰۔ جون ۱۹۵۵ء( میں بایں الفاظ ملتی ہے۔
>۳۰۔ مئی ۱۹۵۵ء کو مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری جیسلٹن سے رانائو تشریف لائے ان کی آمد کے ساتھ رانائو میں کافی رونق پیدا ہوگئی۔ انصاری صاحب کی آمد سے تین چار دن قبل ہی عیسائی مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے بلارہے تھے۔ ایک عیسائی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اکیلا ہزار مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔
مقامی مسلمانوں نے اور عیسائیوں نے آپس میں فیصلہ کرکے دو جون کا دن تبادلہ خیالات کے لئے مقرر کیا۔ مسلمان خود تو عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ان کی ہم سے ہی امیدیں وابستہ تھیں۔ مقامی مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرف سے وہ خط ہمیں دیا جس میں مسلمانوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ ۲۔ جون ۱۹۵۵ء کو فلاں مقام پر تبادلہ خیالات کے لئے حاضر ہوجائیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی خواہش پر مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری اور خاکسار میدان مقابلہ میں پہنچ گئے۔ ہم نے مقامی مسلمانوں کے ذریعہ نیٹوچیف اور پولیس کی طرف سے انتظام کرالیا تا کسی قسم کا کوئی فتنہ اور شرارت پیدا نہ ہو۔ ہم نے نیٹوچیف اور پولیس کے افسر کو وہ خط دکھادیا کہ عیسائیوں کی دعوت پر اور مقامی مسلمانوں کی خواہش پر ہم تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آئے ہیں۔ کافی انتظار کے بعد پادری تو بوجہ عدیم الفرصتی کے تشریف نہ لائے البتہ ان کے نمائندے پہنچ گئے۔ عیسائیوں کے نمائندوں کے ساتھ مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے قریباً دو گھنٹہ تبادلہ خیالات کیا۔ موضوع گفتگو تثلیث تھا۔ اس مباحثہ کے ذریعہ مقامی مسلمانوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ عیسائیت کا مقابلہ صرف جماعت احمدیہ ہی کرسکتی ہے۔<
حکومت کی مسلم کشن پالیسی کے خلاف موثر آواز
نارتھ برٹش بورنیو کی عیسائی حکومت نے رانائو کے مسلمانوں کے اپنے زیر اثر رکھنے اور ان کے مذہبی ماحول کو اپنے رنگ میں ڈھالنے اور ان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے یہ طریق جاری رکھا تھا کہ وہ رانائو کا چیف قاضی اور امام خود مقرر کرتی تھی اور اردگرد کے دیہات میں اس کے منظور شدہ امام کے بغیر کوئی دوسرا شخص نہ امام بن سکتا تھا اور نہ مسلمانوں کو دینی تعلیم دینے کا مجاز تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے تھے اور اس علاقہ کا امام محض حکومت کا آلہ کاربن کے رہ گیا تھ حکومت جو چاہتی اس سے کہلواتی اور پبلک اس پر اندھا دھند آمنا وصدقنا کہہ دیتی۔
مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے حکومت کی اس مسلم کش پالیسی کے خلاف بورنیو کے واحد روزنامہ TIMES SABAH میں مفصل مضمون شائع کرایا جس میں مسلمانوں کو حکومت کے مقرر کردہ امام اور چیف قاضی کے نقصانات بتائے اور نہایت وضاحت سے بیان کیا کہ اس سے حکومت کا مقصد در پردہ مسلمانوں کی وحدت کو کمزور کرنا اور ان میں فتنہ پیدا کرنا ہے۔
رانائو کے نئے احمدی نیٹوچیف۳۶۰ امان ان دنوں سنڈاکن کی سرکاری کانفرنس میں مدعو تھے۔ مرزا محمد ادریس صاحب نے ان کو بھی خاص طور پر اس معاملہ کی اہمیت بتلائی اور مسلمانوں کے موقف کے بارے میں بعض دلائل دیئے تا اگر یہ مسئلہ حکومت کی طرف سے پیش ہو تو اس کے خلاف موثر آواز بلند کی جا سکے۔۳۶۱ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی حکومت اپنے اس ارادہ میں کامیاب نہ ہوسکی۔
مشرقی ساحل میں احمدیت کی آواز
مارچ ۱۹۵۵ء میں مولوی محمد سعید صاحب انصاری نے بورنیو کے مشرقی ساحل تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ایک کامیاب دورہ کیا۔ اس علاقہ سے سب سے پہلے سنڈاکن کے ڈنٹل مورا یوسف۳۶۲ نے قبول احمدیت کا اعلان کیا۔ یہ نوجوان نسلاً فلپینی ہیں۔ انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک ہر طرح کے شدائد کا نہایت پامردی اور جرات سے مقابلہ کیا اور مبلغ کے ساتھ مل کر دن رات تبلیغ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ہوا کہ اب سنڈاکن کی جامعت بورنیو کی سب سے بڑی جماعت ہے اور ڈنٹل مورا یوسف صاحب اس کے پریذیڈنٹ ہیں۔
حضرت مصلح موعود کی بعض خصوصی ہدایات
۳۵۔۱۳۳۴ہش/۵۶۔۱۹۵۵ء میں جبکہ رانائو میں انگریزی حکومت کی مشینری جماعت احمدیہ اور اس کے مبلغین کے خلاف پورے زور سے حرکت میں آچکی تھی حضرت مصلح موعود نے ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کو وقتاً فوقتاً درج ذیل ہدایات دیں۔
۱۔
ڈاکٹر صاحب کے مراسلہ یکم تبوک/ستمبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء پر ارشاد فرمایا۔
>احتجاج کا کیا سوال تھا کہہ دیتے ہم نہیں نکلتے ہمیں بھی وہی حق حاصل ہے جو اور لوگوں کو ہے۔ اصل طریق یہ ہے کہ بورنیو کے لوگوں میں پراپیگنڈا کریں کہ ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں تبھی یہ لوگ سیدھے ہوں گے۔<
۲۔
انہوں نے اپنے مکتوب ۲۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۳۴ہش میں تبلیغی صورت حال کی اطلاع دی تو حضور نے اس پر لکھا۔
>صحابہ کی طرح تبلیغ کریں` جس طرح جونک چمٹ جاتی ہے` منتیں کریں` غیرت دلائیں` جوش دلائیں` اور ایک ایک کو نہیں ہزاروں کو۔<
۳۔
ڈاکٹر صاحب کے مکتوب ۲۲۔۲۳ تبوک/ستمبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء پر فرمایا۔
>اصل اہم بات یہ ہے کہ آپ کو نہ نکالیں۔ آپ کہہ دیتے کہ بے شک ادریس کو قید کرلو میرا کوئی تعلق نہیں۔ اگر ادریس قید ہوجاتا اور کہہ دیتا کہ ڈاکٹر بدرالدین کو مجھ پر کیا اختیار ہے؟ نومسلموں سے کہتا کہ میں تمہارے ایمان کی خاطر قید ہونے لگا ہوں تو ساری دنیا میں تہلکہ مچ جاتا۔ ہم سارے افریقہ اور امریکہ میں شور مچوا دیتے۔ ڈچ بورنیو میں بھی شور مچوائیں اور کہیں کہ انگریز نکل جائیں ہم بورنیو انگریزوں کے ماتحت نہیں چاہتے۔ جب انگریز نے تبلیغ کو پولیٹیکل معاملہ قرار دیا ہے تو آپ کیوں نہیں پولیٹیکل معاملہ قرار دیتے؟ سارے افریقہ میں لوگ بطور قوم آباد ہیں انہوں نے گورنمنٹ سے ٹکرلی ہے اور ان کو شکست دی۔
جب میں لیگوس کے چیف سے ذکر کیا کہ میرا ایک رسالہ جو عیسائیت کے خلاف ہے گورنمنٹ کہیں اسے ضبط نہ کرلے تو اس نے مٹھی بھینچ لی اور اس کو ہلاکر کہا ہم مسلمان اکثریت میں ہیں ہم گورنر کی گردن بھینچ دیں گے اس کو طاقت کیا ہے ۔۔۔۔ چاہتے تھا کہ عقل سے کام کرتے مگر ساتھ ہی پبلک کو ایسے حاکموں کے خلاف کھڑا کردیتے جو ظلم اور تعدی سے کام لیں۔<
۴۔
ان کے ۲۶۔ ستمبر ۱۹۵۵ء کے ایک مکتوب پر تحریر فرمایا۔
>آپ بار بار گورنر کو ملتے رہیں اس سے اثر پیدا ہوتا ہے۔ اب آپ اس علاقہ کو ہرگز نہ چھوڑیں اور اس موقعہ سے پورا فائدہ اٹھائیں اور اس میں تبلیغ پر زور دیں۔ اس وقت ایسا موقعہ ہے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوجائیں۔<
۵۔
ڈاکٹر صاحب موصوف کا ایک خط )مورخہ ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو( حضور کی خدمت میں موصول ہوا جس پر حضور نے جوہدایات فرمائیں وہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے الفاظ میں درج ذیل ہیں۔
‏]iq )[tagالف( >گورنر کے نام جو چٹھی لکھی گئی ہے بے شک بھجوادی جائے مگر اس میں یہ امر وضاحت سے تحریر کردیا جائے کہ نئی بلڈنگز وغیرہ کے متعلق جو قوانین عیسائی مشنوں کے متعلق ہیں وہ جب تک ان پر عائد ہوں گے ہم بھی ان کی پابندی کریں گے۔ اس بارہ میں حضور نے یہ تاکید فرمائی ہے کہ اس کے نتیجہ میں تبلیغ پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہئے۔ تبلیغ ہم جہاں چاہیں کریں گے۔
)ب( مقدمہ کی اپیل کے متعلق کل ہی لکھا جاچکا ہے۔ اگر تو گورنمنٹ نے اس مقدمہ کو آئندہ ہمارے خلاف استعمال نہیں کرنا تو پھر بے شک اپیل نہ ¶کریں ورنہ اپیل کی جائے۔
)ج( اگر کسی علاقہ سے مبلغ کو تبلیغ سے روکنے کے لئے نکلنے کا حکم دیا جائے تو مبلغ ہرگز اپنی جگہ نہ چھوڑیں خواہ قید کرلئے جائیں۔ اس صورت میں یہ طریق اختیار کیا جائے کہ پبلک سے ایجی ٹیشن کروایا جائے کہ مذہب میں حکومت دخل دے رہی ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ جلد سے جلد لوکل مبلغ تیار کئے جائیں کیونکہ اگر حکومت غیر ملکیوں کو نکال ہی دے تو لوکل مبلغین کو تو نہیں نکال سکتی اس طرح تبلیغ کا راستہ بند نہ ہوگا بلکہ کھلا رہے گا۔<
۶۔
ایک اور مکتوب پر ارشاد فرمایا۔
>ان کو۳۶۳ سمجھائیں کہ جس علاقہ میں جائیں پہلے ان سے دوستیاں کریں` تعلقات بڑھائیں` ہلکی ہلکی تعلیم دیں پھر تبلیغ آسان ہوجائے گی` یاد رکھیں ذوالقرنین پہلے مغرب میں گیا پھر مشرق میں۔ سو پہلے تبلیغ مغرب سے شروع ہوئی اب مشرق کی طرف شروع ہورہی ہے۔ یہ جو ہے کہ سورج مغرب سے چڑھے گا اگر امریکہ سے رو شروع ہوئی تو راستہ میں آپ کا ملک آتا ہے۔< )۲۱۔ صلح/جنوری ۱۳۳۵ہس/۱۹۵۶ء(
وسیع تبلیغی دورہ
مرزا محمد ادریس صاحب نے ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء کی پہلی سہ ماہی میں رانائو کے علاوہ مندرجہ ذیل دیہات کا تبلیغی دورہ کیا۔ لیبانگ` تگوڈن` کتینتل` کینی راسن` پروپوٹ رنڈاگنگ` موکاب` پرنگ` سنگیٹن` توپنگ` پرنچانگن` لنگست` کنڈاسنگ` بنڈوتوہن۔ ان دیہات کی مجموعی آبادی مسلمان` عیسائی اور لامذہب لوگوں پر مشتمل ہے۔ مرزا صاحب موصوف نے ان مختلف الخیال لوگوں کو محبت و پیار سے حقیقی اسلام کی طرف دعوت دی` تعلیم یافتہ غیرمسلموں کو >اسلامی اصول کی فلاسفی< کا تحفہ دیا اور مسلمانوں کو امام مہدی کی بشارت سنانے کے علاوہ نماز اور قرآن مجید پڑھنے کی طرف توجہ دلائی۔۳۶۴
ڈاکٹر بدرالدین احمدصاحب کا سفرفلپائن
جماعت احمدیہ بورنیو کے ذریعہ ایک عرصہ سے فلپائن کے مسلمانوں تک پیغام حق پہنچ رہا تھا اور کئی سعید روحیں حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوچکی تھیں۔ مرکز احمدیت نے فلپائن میں مبلغ بھجوانے کی مسلسل کوششیں کیں مگر فلپائن کی حکومت کسی مسلمان مشنری کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دیتی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب نے اپنی خدمات حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کیں چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں آپ ماہ وفا/جولائی ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء میں فلپائن تشریف لے گئے جہاں تھوڑے ہی عرصہ میں دو سو سے زائد اشخاص ان کی تبلیغ سے داخل سلسلہ ہوگئے جس پر حضور نے سالانہ جلسہ کی تقریر کے دوران خوشنودی کا اظہار فرمایا۔۳۶۵
برونائی اسٹیٹ میں احمدیت
ماہ وفا/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء میں برونائی )میں جو شمالی بورنیو سے ملحق مسلم ریاست ہے( مکرم مولوی محمد سعید صاحب انصاری کے ذریعہ احمدیت کی داغ بیل پڑی اور سب سے پہلے یوسف بن بولت کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی۔
پاکستانی باشندوں میں تنظیم کی جدوجہد
بورنیو میں پاکستانیوں کو بھی خاصی تعداد موجود ہے ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب کی سالہاسال کی کوشش سے ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء میں ان کو متحد و منظم کرنے کے لئے پاکستانی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اتفاق رائے سے اس کی صدارت ڈاکٹر صاحب ہی کو سونپی گئی۔ آپ کی وفات کے بعد ایک مقامی پاکستانی حاجی کا لاخاں صاحب صدر منتخب کئے گئے اور مبلغ بورنیو مرزا محمد ادریس صاحب سیکرٹری تجویز ہوئے۔ ۱۴۔ اگست ۱۹۶۱ء کو بورنیو میں پہلی بار پاکستانیوں نے اپنا یوم آزادی اہتمام سے منایا جس کے جملہ انتظامات مرزا صاحب موصوف نے کئے۔ اس تقریب کی رپورٹ مقامی اخبار TIMES> <SABAH میں شائع ہوئی۔ ۳۶۶
سراوک کے خیر سگالی وفد کو پیغام حق
ماہ احسان/جون ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء میں سراوک سے ساتھ افراد مشتمل ایک خیر سگالی وفد سرکاری طور پر آیا جو چینی اور سراوک کے مسلمان ممبروں میں مشتمل تھا مرزا محمد ادریس صاحب نے ان ممبروں کو سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا۔ وفد کے لیڈر نے سراوک سے شکریہ کا خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ آج کل کی دہریت کی فضا میں مذہب کی تبلیغ قیام امن کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ یہ کام انجام دیکر انسانیت کی عظیم خدمت بجالارہے ہیں۔۳۶۷
مبلغین کی تعارفی دورہ
۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہوی مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے بورنیو تشریف لے گئے۔ مرزا محمد ادریس صاحب نے ان کے ساتھ لنکونگن` تنوم اور ساپونگ کا دورہ کرکے احمدی دوستوں سے متعارف کرایا۔ اس سلسلہ میں یہ دونوں مبلغ ساباہ کے دو بڑے انگریزی روزناموں کے ایڈیٹروں سے بھی ملے۔۳۶۸
افریقی ایشیائی جرنلسٹوں سے ملاقات
انہیں ایام میں جیسلٹن افریقی ایشیائی جرنلسٹوں کا ایک وفد حکومت کی دعوت پر ساباہ آیا جنہیں مرزا صاحب موصوف نے عربی اور انگریزی اسلامی لٹریچر پیش کیا۔ وفد کے ایک مسلمان ممبر نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ایک مسلمان مشنری ملنے کے لئے آیا ہے نیز کہا کہ آپ پہلے مسلمان ہیں جو مجھے یہاں ایک مسلمان بھائی کی حیثیت سے خاص طور پر ملنے آئے ہیں۔۳۶۹
نئی مشکلات
ماہ ظہور/اگست ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء میں یہ جزیرہ انگریزی تسلط واقتدار سے آزاد ہوگیا تو خیال کیا جاتا تھا کہ تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہوجائیں گی مگر اس کے برعکس جماعت احمدیہ کو پہلے سے بھی زیادہ مشکلات سے دو چار ہونا پڑا حتی کہ مختلف مقامات میں احمدیوں کو ورغلانے` لالچ دے کر اپنے ساتھ شامل کرنے اور دھمکیاں دے کر مرعوب کرنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
ریڈیوپر احمدیت کے خلاف پراپیگنڈا اور اس پر احتجاج
ساباہ کی آزادی پر ابھی چند ماہ گزرے تھے کہ بعض متعصب لوگوں نے ساباہ ریڈیو سے احمدیت کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا۔ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم نے ۹۔ جنوری ۱۹۶۴ء کو ڈائریکٹر صاحب براڈ کاسٹنگ اینڈ انفارمیشن حکومت ساباہ اور سرواک کو احتجاج خطوط لکھے جن کی نقول فیڈرل سیکرٹری اور حکومتوں کے چیف سیکرٹری صاحبان کو بھی ارسال کیں جس پر ان کی طرف سی معذرت کا خط آیا۔۳۷۰
احمدیہ مسلم سالانہ کانفرنس کی بنیاد
۱۹۔ فتح/دسمبر ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء کا دن ساباہ مشن کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے اس لئے کہ اس روز ساباہ میں سالانہ احمدیہ مسلم کانفرنس کی بنیاد پڑی۔
اس پہلی کانفرنس کے انعقاد کے لئے ملکی حالات کے پیش نظر یک روزہ پروگرام بنایاگیا۔ احمدیہ مسلم مشن ہائوس جیسلٹن کی عمارت ہی میں جلسہ ہوا اور اسی میں مہمانوں کے قیام وطعام کا انتظام کیاگیا۔ احمدی احباب ۱۸۔ فتح/دسمبر کی صبح سے ہی آنے شروع ہوگئے۔ قریبی جماعتوں کے احمدیوں نے دور سے تشریف لانے والے دوستوں کی رہائش اور طعام کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ احمدی بہنوں نے کھانا تیار کرکے اور احمدی بھائیوں نے کھانا پیش کرکے اور حسب ضرورت خوردنی اشیاء شہر سے مہیا کرکے اخلاص کی عمدہ مثال قائم کی۔ اس کانفرنس میں پوتاتن` لوکاوی` رامایہ` ساپونگ` تمالنگ` تیلی پوک` رینانم` ساساگاسا` کوالابلائیت` برونائی اسٹیٹ اور سنڈاکن کے احمدیوں نے شرکت فرمائی۔ پروگرام کے مطابق تین اجلاس ہوئے جن میں مولوی بشارت احمدیہ صاحب نسیم مبلغ ساباہ کے علاوہ بوجنگ بن رئووف صاحب` محمد شریف تیوسوچنگ صاحب آف برونائی` ڈنٹل مورا یوسف آف سنڈاکن نے بھی خطاب فرمایا۔ رات کو شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں شادی بیاہ` چندوں کی ادائیگی اور بچوں کی دینی تعلیم کے لئے درس گاہ وغیرہ اہم امور زیربحث آئے۔۳۷۱ ۱۹۶۷ء کی سالانہ کانفرنس میں مبلغ انچارج ملیشیا مولوی محمد سعید صاحب انصاری اور مولوی محمد عثمان صاحب چینی ملبغ سنگاپور بھی شریک ہوئے۔
خدا کے فضل و کرم سے یہ کانفرنس باقاعدگی سے ہرسال منعقد ہوتی ہے اور اس میں مختلف دینی و تربیتی موضوعات پر تقاریر کے علاوہ مجلس شوریٰ کا بھی انعقاد ہوتا ہے جس میں تبلیغ و تربیت کے سلسلہ میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ یہ کانفرنس اس علاقہ کے احمدیوں میں بیداری پیدا کرنے کا عمدہ ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔
ساباہ کی احمدی جماعتوں
اس وقت اس ملک میں جسے اب ساباہ کہاجاتا ہے حسب ذیل مقامات پر خدا کے فضل سے احمدی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔
۱۔ کوتاکینابالو )جیسلٹن(
‏(JESSELTON) KINABALU KOTA
۲۔ رامایہ )پینمپنگ ضلع(
‏(PENAMPANG) RAMAYAN ۔KG
۳۔ تمالانگ )توران ضلع(
‏eng2] g(TUARAN)[ta TELIPOK TAMALAG ۔KG
۴۔ رانائو
۵۔ )۱(لنکونگن )۲( کے ہیڈوپ آن` انومان` ہیونورٹ ضلع( لنکونگن اسٹیٹ
‏ESTATE) (LINGKUNGAN INUMAN KEHIDUPAN, LINGKUNGAN, ۔KG
۶۔ ساساگا ساپونگ اسٹیٹ )ٹینم ضلع(
‏ESTATE) (SAPONG SASAGA ۔KG
۷۔ لابوان
‏LABUAN
۸۔ سنڈاکن
‏SANDAKAN
۹۔ توائو
‏TAWAU
۱۰۔ برونائی اسٹیٹ )ملک ساباہ سے متصل علیحدہ ملک ہے(
‏ESTATE BRUNEI
بعض مخلصین کا تذکرہ
ساباہ کے احمدیوں کی تعداد اگرچہ بہت تھوڑی ہے مگر ان میں ایثار اور خلوص وفداکاری کی روح کارفرما ہے۔ چنانچہ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہوی مبلغ ساباہ تحریر فرماتے ہیں۔
>تمالانگ جماعت کے پریذیڈنٹ مکرم عبدالہادی صاحب مخلص احمدی ہیں۔ سلسلہ کے کاموں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں اور اپنی جماعت کی تربیتی و تعلیمی نگرانی اپنی دینی قابلیت کے مطابق پورے جوش اور شوق سے کرتے ہیں۔
لنکونگن میں مکرم مانڈور محمد یعقوب صاحب بن پہنگیران احمد صاحب جماعت احمدیہ کے ہیڈوپ آن اور لنکونگن کے پریذیڈنٹ بھی ہیں اور بہت پرانے اور مخلص احمدی ہیں۔ ابتدائی زمانہ میں احمدیت کی بدولت مشکلات کے دور سے گزرے ہیں اور ثابت قدم رہے ہیں۔ اب ماشاء اللہ ان کے خاندان کے سارے ہی لوگ احمدیت کی آغوش میں ہیں۔
سنڈاکن میں مکرم ڈینٹل مورا یوسف صاحب جو حال ہی میں حج بھی کرکے آئے ہیں۔ جماعت احمدیہ سنڈاکن کے پریذیڈنٹ اور لوکل مرکزی نظام کے وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ محکمہ جنگلات میں اچھے عہد پر فائز ہیں۔ پرانے اور نہایت مخلص نوجوان ہیں۔ >معاندین سلسلہ کے ہاتھوں خاصے مشکل دور سے گزرچکے ہیں۔ اپنی اہلیہ اور قریبی رشتہ داروں سے ہی ایک لمبا زمانہ انہوں نے پریشان کن حالات میں گزارا لیکن صبر سے کام لیا۔ ثابت قدم رہے اب ان کی اہلیہ صاحبہ بھی حلقہ بگوش احمدیت ہیں اور بچے بھی سارے ہیں۔
اس جماعت کے دوسرے دوست مکرم حسین۔ ائے آمل صاحب اگرچہ نئے احمدی ہیں لیکن مخلص اور دیندار نوجوان ہیں۔ آپ کی اہلیہ اور بچگان بھی نظام سلسلہ اور نظام خلافت سے وابستہ ہیں۔ آپ کی اہلیہ پہلے عیسائی تھیں اور ایک لمبا عرصہ عیسائی رہیں۔ آپ کے احمدیت قبول کرنے کے ایک سال بعد اسلام کی سچائی کی قائل ہوکر احمدیت کی آغوش میں آگئیں۔ اب مخلص احمدی خاتون ہیں۔
اسی جماعت کے ایک اور نوجوان مکرم منصور بن سلیم شاہ صاحب میرین پولیس POLICE) (MARINE میں سب انسپکٹر ہیں۔ اپنے والد مرحوم مکرم سلیم شاہ صاحب آف لابوان کی طرح نہایت مخلص اور دیندار نوجوان ہیں۔ سلسلہ کے کاموں میں خاص دلچسپی لیتے ہیں۔ چندوں میں باقاعدہ ہیں۔ آپ کے خاندان کے سب افراد خدا کے فضل و کرم سے نظام سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ ہیں۔
جماعت احمدیہ لابوان کے پریذیڈنٹ مکرم سکرمان صاحب اس ملک کے سب سے پہلے احمدی ہیں۔ مخلص ہیں۔ آپ جاوا انڈونیشیا کے باشندہ ہیں لیکن ایک لمبے زمانہ سے اس ملک میں آباد ہیں۔ خاموش طبع ہیں۔ اس سے قبل آپ کمیونسٹ تھے۔
جماعت احمدیہ توائو کے پریذیڈنٹ مکرم محمد جینی ابراہیم صاحب اور اسمعیل سلیم صاحب ہر دو نوجواں اگرچہ نومبائع ہیں لیکن بہت مخلص ہیں۔ یوں ۱۹۶۶ء کی ان کی بیعتیں ہیں۔ اخلاص میں ترقی کررہے ہیں۔ ان کی بیویاں بھی ان کے بعد بیعت کرچکی ہیں۔ تبلیغ کا شغل جاری رہتا ہے۔ اپنی مخلصانہ جدوجہد سے سعید روحوں کی کشش کا سامان بنے رہتے ہیں۔
برونائی اسٹیٹ میں جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ مکرم محمد شریف صاب تیوسو چیانگ پرانے اور مخلص دوست ہیں۔ آپ چینی النسل ہیں۔ آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی چینی النسل ہیں اور آپ کی طرح مخلص اور دیندار خاتون ہیں۔ اس سے قبل آپ بدھسٹ تھے۔ مکرم کے عبدالقادر صاحب مرحوم اور مکرم سکرمان صاحب آف لابوان`مکرم سلیم صاحب مرحوم لابوان ان کے پرانے ہم جلیس تھے۔ اور اسی نیک صحبت کی بدولت انہیں اسلام اور احمدیت ایسی دولت پالینے کی توفیق میسر آئی۔ آپ قادیان اور ربوہ کی زیارت بھی کرچکے ہیں۔<۳۷۲
‏body] ga[t
فصل ہفتم
عدن مشن کا قیام
عدن کا محل وقوع اور تبلیغی اہمیت
بہرعرب کے جنوب مغربی ساحل اور اس کے بالائی حصوں میں ایک مشہور مملکت عدن و حضر موت واقع ہے جو مختلف چھوٹے چھوٹے بائیس ٹکڑوں میں مل کر بنتی ہے اور جو کسی وقت بالواسطہ طور پر برطانوی اقتدار کے زیر انتظام تھی مگر اب آزاد ہوچکی ہے اور اس پر مقامی شیوخ حکمران ہیں۔ عدن خاص اور اس کے قرب وجوار کی آبادی میں عرب مسلمانوں کی کثرت ہے گو عیسائی` پارسی` یہودی اور ہندو بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ عدن عرب کا دروازہ اور جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی مرکز ہے جہاں سے دنیا کے چاروں طرف ہوائی اور بحری راستے نکلتے ہیں لہذا یہ اسلام کی تبلیغ واشاعت کا بہترین مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جماعت احمدیہ عدن اگرچہ ۱۹۳۶ء سے قائم ہے مگر اس کے اکثر ممبر بیرونی تھے۔ باقاعدہ طور پر اس مشن کا قیام ماہ ظہور/اگست ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء میں ہوا۔
عدن مشن کے قیام کاپس منظر
اس مشن کے قیام کاپس منظریہ ہے کہ یہاں کچھ عرصہ سے پانچ نہایت مخلص احمدی ڈاکٹر قومی اور ملی خدمات بجالارہے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر فیروزالدین صاحب۔ ڈاکٹر محمد احمد صاحب۔ ڈاکٹر محمد خاں صاحب۔ ڈاکٹر صاحبزادہ محمد ہاشم خاں صاحب اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب۔ ڈاکٹر فیروزالدین صاحب جو اس زمانے میں جماعت عدن کے پریذیڈنٹ تھے عدن سے قادیان آئے تو انہیں ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے اپنے خط مورخہ ۲۳۔ صلح/جنوری ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء اور تار مورخہ ۲۳۔ صلح/جنوری ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء میں عدن مشن کھلوانے کی تحریک کی نیز لکھا کہ میں مبلغ کے لئے اپنا مکان چھ ماہ تک دینے کے لئے تیار ہوں اس عرصہ میں دارالتبلیغ کے لئے کسی اور مکان کا انتظام ہوسکے گا۔ ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے اس کے ساتھ ہی پانچ سو روپیہ اخراجات سفر کے لئے بھی بھجوا دیئے اور ڈاکٹر عزیز بشیری صاحب نے اتنی ہی رقم کا وعدہ اخراجات قیام کے طور پرکیا۔ چنانچہ ڈاکٹر فیروزالدین صاحب جماعت عدن کی نمائندگی میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب کا خط اور تار پیش کیا اور درخواست کی کہ کوئی موزوں مبلغ عدن کے لئے تجویز فرمایا جائے ہم پنچوں ڈاکٹر اور دارالتبلیغ کا بار اٹھانے میں مدد کریں گے۔ اس پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل نوجوان مولوی غلام احمد صاحب مبشر کو اس خدمت کے لئے نامزدفرمایا۔
مبشراسلامی کا عدن میں ورود
مولوی غلام احمد صاحب مبشر ۱۵۔ ماہ ظہور/اگست ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو قادیان سے روانہ ہوکر تیسرے دن ۶۔ ظہور/اگست کو بمبئی پہنچے جہاں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر اور دوسرے احباب جماعت نے ان کا استقبال کیا۔ بعدازاں ۹۔ ظہور/اگست کو جہاز میں سوار ہوئے اور ۱۹۔ ظہور/اگست بروز سوموار عدن پہنچے۔ بندرگاہ پر ڈاکٹر فیروزالدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب آپ کو لینے کے لئے پہلے سے موجود تھے۔
ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں
مولوی غلام احمد صاحب مبشر حسب فیصلہ ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے ہاں مقیم ہوئے اور جلد ہی ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ڈاکٹر فیروزالدین صاحب اور ڈاکٹر عبداللطیف صاحب کے ساتھ وفد کی صورت میں عدن سے دس میل کے فاصلہ پر واقع شیخ عثمان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عربی تصانیف مثلاً الاستفتاء الخطاب الجلیل` التبلیغ ` اور سیرہ الابدال وغیرہ مختلف اشخاص کو پڑھنے کے لئے دس اور زبانی بھی پیغام حق پہنچایا۔ علاوہ ازیں عدن میں عربوں` عیسائیوں اور یہودیوں میں التبلیغ` سیرۃ الابدال` نظام نو )انگریزی`( اسلام اور دیگر مذاہب` میں کیوں اسلام کو مانتا ہوں وغیرہ کتب اور ٹریکٹ تقسیم کئے۔ احمدی ڈاکٹروں نے ابتداء ہی سے یہ خاص اہتمام کیا کہ وہ اولین فرصت میں اپنے حلقہ اثر کے دوستوں کو مبشر اسلامی سے متعارف کرائیں۔ اس غرض کے لئے انہوں نے بعض خاص تقریبات بھی منعقد کیں جن میں عدن کے باشندوں خصوصاً نوجوانوں کو مدعو کیا۔ خود مولوی صاحب بھی اشاعت میں ایسی برکت ڈالی کہ پہلے مہینہ میں ہی ایک دوست احمد علی صاحب نامی جو ہندوئوں سے مسلمان ہوئے تھے اور شیخ عثمان کے نواحی علاقہ کے باشندے اور عدن کے رہنے والے تھے حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے۔ حضرت مصلح موعود نے ان کی بیعت قبول فرمائی اور مولوی غلام احمد صاحب کو ارشاد فرمایا >تبلیغ پر خاص زوردیں< اس پر مولوی صاحب نے عدن` شیخ عثمان اور تواہی۳۷۳ )سٹیمرپوائنٹ( میں باقاعدہ پروگرام کے مطابق انفرادی ملاقاتوں اور تقسیم لٹریچر کے ذریعہ سے زور شور سے تبلیغ شروع کردی اور گرجوں اور معززین کے گھروں اور بازاروں میں عربی` اردو اور انگریزی لٹریچر تقسیم کرنے لگے۔ چنانچہ آپ نے عربی کتب میں سے سیرۃ الابدال` اعجاز المسیح` التبلیغ` الاستفتاء۔ اردو میں احمدی اور غیراحمد میں فرق` پیغام صلح اور انگریزی میں احمدیہ موومنٹ` پیغام صلح` اور تحفہ شہزادہ ویلز` بعض عربوں` ہندوستانیوں اور انگریزوں کو پڑھنے کے لئے دیں جس سے خصوصاً انگریزوں اور عیسائیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے حکام بالا تک رپورٹ کردی۔
سرکاری مخالفت
انسپکٹر سی۔ آئی۔ ڈی نے مولوی غلام احمد صاحب کو بلایا اور وہ لٹریچر جو آپ نے تقسیم کیا تھا اس کی ایک ایک کاپی ان سے طلب کی نیز حکم دیا کہ آپ اپنا لٹریچر بازاروں میں تقسیم نہ کریں صرف اپنے گھر میں لوگوں کو بلا کر اور دعوت دے کر لیکچر یا لٹریچر دے سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء میں پیش آیا جس کے ڈیڑھ مہینہ بعد کیتھولک چرچ کے ایک پادری نے شکایت کردی کہ مولوی صاحب پبلک لیکچر دیتے اور کیتھولک چرچ میں لٹریچر تقسیم کرتے ہیں۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس عدن نے مولوی صاحب موصوف کو تنبیہہ کی کہ وہ آئندہ نہ کیتھولک چرچ میں کوئی لٹریچر تقسیم کریں نہ پبلک لیکچر دیں ورنہ نہ انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ پبلک لیکچر دینے کا الزام غلط ہے البتہ لٹریچر میں ضرور دیتا ہوں مگر صرف اسی طبقہ کو جو علمی دلچسپی رکھتا ہے۔ مولوی صاحب نے ان سے کہا کہ عیسائی مشنری تو کھلے بندوں دندناتے پھررہے ہیں کیا انہیں چھٹی ہے اور صرف مجھ پر یہ پابندی ہے؟ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس نے جواب دیا کہ یہ پابندی آپ پر ہی عائد کی جارہی ہے عیسائیوں پر اس کا اطلاق نہ ہوگا۔
علماء کی مخالفت
عیسائیوں کی انگیخت اور شرارت کے بعد ماہ ہجرت/مئی ۱۳۶۲ہش/۱۹۴۷ء میں بعض مقامی علماء نے بھی مخالفت کا کھلم کھلا آغاز کردیا۔ بات صرف یہ ہوئی کہ ایک مجلس مولود میں مولوی غلام احمد صاحب نے آنحضرت~صل۱~ کی قوت قدسیہ پر روشنی ڈالی۔ اور ضمناً آپ کے فرزند جلیل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ذکر کیا جس پر دو علماء اور ان کے دو ساتھیوں نے آپ کو سٹیج سے اتارنے کے لئے ہنگامہ برپا کردیا۔ مجلس میں اٹھانوے فیصد شرفاء موجود تھے جو خاموش رہے اور انہی کے ایماء پر مولانا نے اپنی تقریر ختم کردی۔ بعدازاں شیخ عثمان کے ائمہ مساجد نے روزانہ نمازوں خصوصاً عشاء کے بعد لوگوں کو بھڑکانا شروع کیا کہ وہ احمدی مبلغ کی نہ کتابیں پڑھیں اور نہ باتیں سنیں کیونکہ وہ کافرو ملعون ہے یہی نہیں انہوں نے پوشیدہ طور پر گورنمنٹ کو بھی احمدی مبلغ کے خلاف اکسانا شروع کردیا۔ ایک مرتبہ رستے میں مسجد کے ایک فقیہہ نے آپ کو بلند آواز سے پکارا اور آپ سے ایک کتاب یعنی استفتاء عربی مانگی جو آپ نے اسے دے دی۔ کتاب لینے کے بعد اس نے پہلے سوالات شروع کر دیئے اور پھر اونچی آواز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان مبارک میں سخت بدزبانی کی مولوی غلام احمد صاحب نے پورے وقار اور نرم اور دھیمی آواز سے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ جب آپ وہاں سے واپس آنے لگے تو اس فقیہہ نے آپ کے پیچھے لڑکے لگادیئے جنہوں نے آپ کو پتھرمارے مگر مولوی صاحب ان کی طرف التفات کئے بغیر سیدھے چلتے گئے۔ قبل ازیں بھی اس مسجد والوں نے آپ سے یہی سلوک کیا تھا۔
مخالفت کے اس ماحول میں آہستہ آہستہ ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہونے لگا جو مولوی صاحب کی باتوں کو غور سے سنتا تھا۔ خصوصاً عرب نوجوانوں میں حق کی جستجو کے لئے دلچسپی اور شوق پڑھنے لگا مگر چونکہ عرب کا یہ حصہ حریت مزاج` آزاد منش اور اکثربدوی لوگوں پر مشتمل ہے اس لئے عام طور پر فضا بہت مخالفانہ رہی۔
شیخ عثمان میں دارالتبلیغ کا قیام اور اس کے عمدہ اثرات
اب تک مولوی غلام احمد صاحب مبشر` ڈاکٹر محمد احمد صاحب کے یہاں مقیم تھے لیکن ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہس/۱۹۴۷ء میں جماعت
احمدیہ نے ۶۵ روپے ماہوار کرایہ پر ایک موزوں مکان حاصل کرلیا۔ مولوی صاحب موصوف نے یہاں دارالتبلیغ قائم کرکے اپنی تبلیغ سرگرمیوں کو پہلے سے زیادہ تیز کردیا اور خصوصاً نوجوانوں میں پیغام حق پھیلانے کی طرف خاص توجہ شروع کردی کیونکہ زیادہ دلچسپی کا اظہار بھی انہی کی طرف سے ہونے لگا تھا۔ عدن شیخ عثمان اور تواہی کے علماء کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان تک امام مہدی کے ظہور کے خوشخبری پہنچائی علاوہ ازیں ایک عیسائی ڈاکٹر کو جو پہلے مسلمان تھا اور پھر مرتد ہوگیا ایک تبلیغی مکتوب کے ذریعہ دعوت اسلام دی۔
مستقل دارالتبلیغ کا ایک بھاری فائدہ یہ بھی ہوا کہ عوام سے براہ راست رابطہ اور تعلق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا اور سعید الفطرت لوگ روزانہ بڑی کثرت سے دارالتبلیغ میں جمع ہونے اور پیغام حق سننے لگے۔
عبداللہ محمد شبوطی کی قبول احمدیت
۱۷۔ ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بروز جمعتہ المبارک عدن مشن کی تاریخ میں بہت مبارک دن تھا جبکہ ایک یمنی عرب عبداللہ محمد شبوطی جو ان دنوں شیخ عثمان میں بودوباش رکھتے تھے ساڑھے گیارہ بجے شب بیعت کا خط لکھ کر داخل احمدیت ہوگئے اور اپنے علم اور خلوص میں جلد جلد ترقی کرکے تبلیغ احمدیت میں مولوی صاحب کے دست راست بن گئے۔ اس کامیابی نے شیخ عثمان کے علماء اور فقہاء کو اور بھی مشتعل کردیا اور وہ پہلے سے زیادہ مخالفت کی آگ بھڑکانے لگے۔ مگر مولوی غلام احمد صاحب اور عبداللہ محمد شبوطی نے اس کی کوئی پروانہ کی اور نہایت بے جگری` جوش اور فداکاری کی روح کے ساتھ ہر مجلس میں اور ہر جگہ دن اور رات زبانی اور تحریری طور پور پیغام احمدیت پہنچاتے چلے گئے اور امراء غرباء` علماء اور فقہاء غرض کہ ہر طبقہ کے لوگوں کو ان کے گھروں میں جاکر نہایت خاکساری اور عاجزی سے دعوت حق دینے لگے۔ نتیجہ فرمودہ تفسیر کو سن کر عش عش کرنے لگے حتی کہ بعض نے یہ اقرار کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیان فرمودہ تفسیر واقعی الہامی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے آپ کو علم لدنی سے نوازا ہے۔
علماء کی طرف سے کمشنر کو عرضی اور اس کا ردعمل
ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں علماء نے عدن` شیخ عثمان اور تواہی کے مختلف لوگوں سے ایک عرضی دستخط کروا کر کمشنر کو دی کہ ہم اس مبشر قادیان کا یہاں رہنا پسند نہیں کرتے یہ ہمارے ایمانوں کو خراب کررہا ہے۔ شیخ عثمان کے بعض نوجوانوں کو اس شکایت کا پتہ چلا تو انہوں نے علماء کے اس رویہ کی جو انہوں نے اپنی کم علمی و بے بضاعتی کو چھپانے اور اپنی شکست خوردہ ذہنیت پر پردہ ڈالنے کے لئے` کیا تھا دل کھول کر ندمت کی اور ان کے خلاف زبردست پراپیگنڈا کیا۔ بلکہ قریباً پچاس آدمیوں نے یہ لکھا کہ ہم اس مبشر اسلامی کو دیگر سب علماء سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور واقعی یہ حقیقی مسلمان ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت کے فقیہوں اور فریسیوں نے حضرت مسیح کی مخالفت کی تھی یہ لوگ بھی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اگر اس شخص کا نفوذ وسیع ہوگیا تو ہماری کوئی وقعت نہ رہے گی۔ غرض کہ اس مخالفت کا خدا کے فضل سے اچھا نتیجہ نکلا۔
ڈاکٹر فیروزالدین صاحب کا انتقال
ان دنوں عدن میں یہود اور عرب کی کشمکش بھی یکایک زور پکڑگئی جس کا اثر تبلیغی سرگرمیوں پر بھی پڑنا ناگزیر تھا۔ علاقہ ازیں عدن کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب ڈاکٹر فیروزالدین صاحب عین فسادات کے دوران میں داغ مفارقت دے گئے جس سے مشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مرحوم نہایت مخلص` نہایت پرجوش اور بہت سی صفات حمیدہ کے مالک تھے۔ تبلیغ کا جوش اور شغف ان میں بے نظیر تھا۔ اگر کوئی مریض ان کے گھر پر آتا تو وہ اس تک ضرور محبت` اخلاص اور ہمدردی سے احمدیت کا پیغام پہنچاتے۔ احمدیت کے مالی جہاد میں بھی آمدنی میں کمی کے باوجود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ مولوی غلام احمد صاحب مبشر نے اپنے ۲۷۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کی رپورٹ میں ان کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا۔
>احمدیت کی مالی خدمت کا جو جوش اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھا ہوا تھا اس کی نظیر بھی کم ہی پائی جاتی ہے۔۔۔ ہمارا اندازہ ہے کہ وہ ہرسال )اپنی آمدکا( ساٹھ فیصدی اشاعت اسلام کے لئے خرچ کررہے تھے۔ مساکین` غرباء سے ہمدردی اور خدمت خلق کا جزبہ تو کوٹ کوٹ کر ان کے دل میں بھرا ہوا تھا۔ اگر کوئی مسکین بھی ان کے دروازے پر آجاتا اور وہ سوال کرتا تو آپ ضرور اس کی حاجت کو پورا کردیتے۔ بعض اوقات اپنی نئی پہنی ہوئی قمیض وہیں اتار کردے دیتے اور یہی باتیں بعض اوقات ان کے گھر میں کشمکش کا باعث ہوجاتیں۔ غرضکہ آپ کی زندگی حقیقت میں یہاں کی جماعت کے لئے ایک عمدہ نمونہ تھی۔<
ایک اور عالم آغوش احمدیت میں
اوائل ۱۳۲۷ہش/۱۹۲۸ء میں مولوی غلام احمد صاحب نے مرکز میں لکھا کہ اس علاقہ کے لوگ بالکل ہی اسلام سے بے بہرہ اور بدویانہ زندگی بسرکررہے ہیں حتی کہ انہیں نماز تک نہیں آتی قرآن شریف الگ رہا اگر آپ اجازت دیں تو خاکسار درویشانہ فقیرانہ صورت میں اندرونی حصہ عرب میں چلا جائے اور ان لوگوں تک اسلام واحمدیت کا حقیقی پیغام بذریعہ تربیت ہی پہنچائے تو عدن کی نسبت زیادہ کامیابی کی امید ہے لیکن مرکز نے اس کی اجازت نہ دی۔ اس تجویز کے ایک ماہ بعد محمد سعید احمد نامی ایک اور عرب عالم سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے جس کے بعد جماعت عدن کے بالغ افراد کی تعداد ۳۷۴ ۹ تک پہنچ گئی۔ محمد سعید لحج کے رہنے والے تھے جو کہ محمیات عدن میں سے ہے۔
ماہ شہادت /اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں مولوی غلام احمد صاحب شیخ عثمان )عدن( کے نواح میں ایک گائوں >معلا< نامی میں تبلیغ کے لئے گئے جو کہ شیخ عثمان سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے وہاں ایک فقیہہ عالم سے گفتگو کا موقع ملا۔ مولوی صاحب نے انہیں امام مہدی علیہ السلام کی خوشخبری دی اور احادیث صحیحہ اور قرآن کریم سے آپ کی آمد کی علامات بتاکر صداقت ثابت کی اور آخر میں مسئلہ وفات مسیح پر دلائل دیئے۔ قریباً ایک گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی۔ آخر انہوں نے تمام لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہوچکے ہیں اور باقی مسائل پر گفتگو کرنے سے بالکل انکار کردیا۔
عیسائی مشنری کا تعاقب
ماہ نبو/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے کہ ایک عرب نوجوان جو عیسائی مشنریوں کے زیر اثر اور ان کے پاس آتا جاتا تھا آپ کو گفتگو کے لئے ایک پادری کے مکان پر لے گیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ چار نوجوان عرب بیٹھے اناجیل پڑھ رہے ہیں۔ گفتگو شروع ہوئی تو مولوی صاحب نے اناجیل ہی کے حوالوں سے ثابت کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں کوئی خدائی صفات نہ پائی جاتی تھیں۔ پادری صاحب لاجواب ہوکر کہنے لگے کہ آپ ہماری کتابوں سے کیوں حوالے دیتے ہیں؟ مولوی صاحب نے جواب دیا ایک اس لئے کہ آپ کو وہ مسلم ہیں دوسرے آپ ہمیں انجیلوں کی طرف دعوت دیتے ہیں لہذا تنقید کرنا ہمارا حق ہے۔ آخر پادری صاحب ناراض ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور مزید گفتگو سے انکار کرکے الگ کمرے میں چل دیئے اس پر سب عرب نوجوانوں نے آپ کا دلی شکریہ ادا کیا کہ آج آپ نے ان کا جھوٹ بالکل واضح کردیا ہے۔
مباحثے اور انفرادی ملاقاتیں
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے وسط آخر میں مولوی صاحب کے عدن کے علماء سے وفات مسیح` مسئلہ ناسخ ومنسوخ` مسئلہ نبوت اور یا جوج ماجوج کے مضامین پر متعدد کامیاب مباحثے ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ نے عدن کی بعض شخصیتوں مثلاً سیدحسن صافی` محمدعلی اسودی تک پیغام حق پہنچایا۔ ماہ تبوک/ستمبر میں آپ نے جعار ۳۷۵ اور لحج ۳۷۶ کا تبلیغی دورہ کیا۔ جعار میں حاکم علاقہ علی محمد کو تبلیغ کی اور لحج میں بعض امراء مثلاً وزیر معارف سلطان فضل عبدالقوی` وزیر تموین سلطان فضل بن علی وغیرہ سے ملے اور ان سے نیز مقامی علماء سے تعارف پیدا کیا۔
بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق
عدن ایک اہم تجارتی شاہراہ پر واقع ہے جہاں مختلف اطراف سے لوگ بکثرت آتے ہیں جن میں گردونواح کے علاقوں کے شیوخ وحکام بھی ہوتے ہیں مولوی غلام احمد صاحب مبشر اور عبداللہ محمد شبوطی ہمیشہ بیرونی شخصیتوں تک پیغام حق پہنچاتے رہتے تھے۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں مولوی غلام احمد صاحب نے عدن کے مشہور سادات میں سے ایک عالم شمس العلماء سید نرین العدروس سے ان کے مکان میں ملاقات کی اور ان کے سامنے بڑی تفصیل سے حضرت مسیح موعود کے دعویٰ اور اس کے دلائل وبراہین بیان کئے۔
مبلغ عدن کی واپسی
مولوی غلام احمد صاحب ایک ان تھک اور پرجوش مبشر اسلامی کی حیثیت سے ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کے آخر تک مملکت عدن میں اسلام و احمدیت کا نور پھیلاتے رہے اور عدن میں کئی سعید روحوں کو حق و صداقت سے وابستہ کرنے کا موجب بنے مگر آپ کی دیوانہ وار مساعی اور جدوجہد نے صحت پر سخت ناگوار اثر ڈالا اور آپ کو اس تبلیغی جہاد کے دوران ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء میں دماغی عارضہ بھی لاحق ہوگیا۔ احمدی ڈاکٹروں نے علاج معالجہ میں دن رات ایک کردیا۔ جب طبیعت ذرا سنبھل گئی اور آپ سفر کے قابل ہوئے تو آپ عدن سے ۲۲۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو بذریعہ بحری جہاز روانہ ہوگئے ۲۸۔ فتح/دسمبر کو بمبئی پہنچے اور ۱۲۔ ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء کو ربوہ میں تشریف لے آئے۔
آپ کے بعد عدن کے مخلص احمدیوں خصوصاً عبداللہ محمد شبوطی اور میجر ڈاکٹر محمد خاں شیخ عثمان عدن نے اشاعت اسلام و احمدیت کا کام برابر جاری رکھا اور آہستہ آہستہ جماعت میں نئی سعید روحیں داخل ہونے لگیں۔ مثلاً ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء میں محمد سعید صوفی` ہاشم احمد` رائل حائل نے بیعت کی۔ وسط ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء میں چار نئے احمدی ہوئے۔ ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء میں علی سالم بادربن سالم عدنی داخل احمدیت ہوئے۔
ایک عربی مکتوب کی اشاعت
وسط ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء میں عبداللہ محمد الشبوطی نے ایک عالم الشیخ الفاضل عبداللہ یوسف ہروی کے نام >مطبعہ الکمال عدن< سے ایک عربی مکتوب چھپوا کے شائع کیا جس میں حضرت میسح موعود کی بعثت اور اختلافی مسائل پر نہایت مختصر مگر عمدہ پیرایہ میں روشنی ڈالی گئی تھی۔
محمود عبداللہ شبوطی کا عزم ربوہ
چونکہ عدن میں کسی نئے مبشرو مبلغ کی اجازت کا ملنا ایک مشکل مسئلہ بن کے رہ گیا تھا اس لئے جماعت عدن کے مشورہ سے عبداللہ محمد شبوطی نے اپنے ایک فرزند محمود عبداللہ شبوطی کو بتاریخ ۱۹۔ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ مرکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے عدن سے روانہ کیا۔ محمود عبداللہ شبوطی ۲۵۔ ہجرت/مئی کو ربوہ پہنچے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔
پہلا پبلک جلسہ
۲۰۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء کو جماعت احمدیہ عدن کا پہلا پبلک جلسہ سیرۃ النبیﷺ~ منعقد ہوا۔ جلسہ کا پنڈال دارالتبلیغ کے سامنے تھا اور اس میں مائیکروفون کا بھی انتظام کیاگیا۔ قبل ازیں احمدیوں کے جلسے محدود اور چار دیواری کے اندر ہوتے تھے مگر اس سال یہ جلسہ عام منانے کا فصیلہ کیاگیا اور علاوہ اخباروں میں اشتہار دینے کے قریباً ۵۰۰ دعوتی کارڈ جاری کئے گئے۔ ایک روز قبل مخالف علماء نے جمعہ کے خطبوں میں نہایت زہرآلود تقریریں کرکے لوگوں کو جلسہ میں آنے سے منع کیا لیکن ان مخالفانہ کوششوں کے باوجود جلسہ بہت کامیاب رہا۔ حاضرین کے لئے تین سو کرسیاں بچھائی گئی تھیں جو مقررہ پروگرام سے بھی بیس منٹ پہلے پر ہوگئیں۔ اس لئے جلسہ کی کارروائی بھی پہلے ہی شروع کردی گئی۔ صدر جلسہ عبدہ` سعید صوفی تھے جن کے صدارتی خطاب کے بعد بالترتیب منیر محمد خاں )ابن میجر ڈاکٹر محمد خاں( اور عبداللہ محمد شبوطی نے موثر تقریریں کیں۔ کرسیوں پر بیٹھنے والوں کے علاوہ جلسہ گاہ کے اردگرد قریباً ایک ہزار نفوس نے پوری خاموشی اور دلچسپی سے تقریریں سنیں اور نہایت عمدہ اثر لے کرگئے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا۔۳۷۷4] ftr[ اس کامیاب تجربہ سے عدنی احمدیوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انہوں نے ہرسال جلسہ سیرت النبیﷺ~ منعقد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
محمود عبداللہ شبوطی کی مراجعت وطن اور تبلیغ حق
محمود عبداللہ شبوطی نے جو سالہا سال سے مرکز سلسلہ میں دینی تعلیم حاصل کررہے تھے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۴۔ ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء کو اپنی زندگی خدمت اسلام کے لئے وقف کردی اور حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ان کا وقف قبول فرمالیا اور ساتھ ہی عدن میں مبلغ لگائے جانے کی منظوری بھی دے دی۔ چنانچہ آپ حضور کے حکم پر ۱۴۔ ظہور/اگست ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء کو کراچی سے روانہ ہوکر ۱۵۔ ظہور/اگست کو عدن پہنچ گئے۔ آپ نے اگلے سال عدن سے پہلا احمدی رسالہ >الاسلام< جاری کیا اور علمی حلقوں میں اسلام واحمدیت کی آواز بلند کرنے کے علاوہ جماعتی تربیت و تنظیم کے فرائض بھی بجالانے لگے۔ آپ اب تک اعلائے کلمئہ حق میں مصروف رہیں۔۳۷۸
فصل ہشتم
کوائف قادیان
)از ۱۶۔ ماہ نبوت/نومبر تا ۳۱ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء(
تاریخ احمدیت کی گیارہویں جلدی میں ماحول قادیان کے فسادات پر مفصل روشنی ڈالنے کے بعد بتایا جاچکا ہے کہ کس طرح ۱۶۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو عہد درویشی کا آغاز ہوا۔ اب اس فصل میں سال ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے بقیہ کوائف قادیان کا ذکر کرنا مقصود ہے۔
درویشان قادیان کے لیل و نہار
ان اولین ایام میں درویشان قادیان کے لیل ونہار خاص طور پر باجماعت تہجد` پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی` درس میں شمولیت` مسجد اقصیٰ` بیت الدعا اور بہشتی مقبرہ نیز دوسرے مقامات مقدسہ میں دعائوں اور ذکر الٰہی کے انوارو برکات سے معمور تھے۔ اور ہر درویش حفاظت مرکز سے متعلق ہر چھوٹی اور بڑی مفوضہ ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے مجسم اطاعت وایثار ہوا تھا۔ محصوریت کے یہ ایام انتہا درجہ گھٹن اور بے بسی کے روح فرسا ماحول میں گھرے ہوئے تھے مگر یہ قدوسی پوری بشاشت ایمان اور جذبہ اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتے اور اس سلسلے میں کسی کام کو خواہ وہ بظاہر کتنا ہی معمولی یا حقیر کیوں نہ ہو خادمان شان کے ساتھ انجام تک پہنچانے کو اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے۔ چنانچہ جیسا کہ مرزا محمد حیات صاحب سابق نگران درویشاں ۳۷۹ کی غیر مطبوعہ ڈائری سے معلوم ہوتا ہے درویشوں نے ان ابتدائی ایام میں دن رات کام کیا۔ مثلاً درویش لنگرخانہ میں سامان پہنچاتے` مہاجر احمدیوں کے گھر سے اصحاب بحفاظت جمع کرتے` بہشتی مقبرہ میں معماری کاکام کرتے` بیرونی محلوں سے جمع شدہ کتابوں کو مرتب اور مجلد کرتے اور اپنے حلقہ درویشی کے ہر اہم مقام پر نہایت باقاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پہرہ دیتے تھے۔ درویشوں کی روزانہ ایک معین وقت پر اجتماعی حاضری بھی لی جاتی تھی۔ چونکہ احمدی حقلہ کے چاروں طرف غیر مسلم آباد ہوچکے تھے اور حکومت اور عوام دونوں طرف سے خطرات ہی خطرات نظر آتے تھے اس لئے ۲۲۔ ماہ نبوت/نومبر کو حفاظتی نقطہ نگاہ سے دارالشیوخ والی گلی کا دروازہ اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان کے سامنے والی گلی کا دروازہ اینٹوں سے اور احمدیہ چوک سے مسجدمبارک جانے کا راستہ لوہے کا گیٹ لگاکر بند کردیاگیا اور تمام آمدورفت دفتر تحریک جدید` مرزا محمد اسمعیل صاحب کے مکان اور میاں عبدالرحیم صاحب دیانت سوڈا واٹر کی دکان سے ہونے لکی۔ ۲۳۔ ماہ نبوت/نومبر کو نو درویش ہندوئوں اور سکھوں کی آبادی میں سے ہوتے ہوئے اسٹیشن تک گئے اور لنگر کے لئے ایک سو بیس من کوئلہ لاد کرلائے۔ ۲۷۔ ماہ نبوت/نومبر کو سکھوں کا پروگرام جلوس نکالنے کا تھا اس لئے تمام درویشوں کو ان کے مکانات میں ہی متعین کردیاگیا۔ اسی اثناء میں ایک درویش بابا جلال الدین صاحب اپنے مکان سے باہر نکلے تو ملٹری کے ایک سپائی نے انہیں دو تین تھپڑ رسید کئے اور کہا کہ باہر کیوں نکلے ہو؟ شام چار بجے کے قریب یہ جلوس چوک میں پہنچا۔ اس موقعہ پر انتہائی اشتعال انگیز نظمیں پڑھی گئیں۔ ایک سکھ نے ہاتھ میں برہنہ تلوار لے کر کہا کہ یہ اسی تلوار کا اثر ہے کہ یہاں پاکستان نہیں بن سکا۔ یکم ماہ فتح/دسمبر کو بیمار اور معذور درویشوں کے سوا سب نے حضرت مصلح موعود نے ارشاد کی تعمیل میں روزہ رکھا۔ ۵۔ ماہ فتح/دسمبر کو مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے نماز فجر کے بعد بہشتی مقبرہ کی چار دیواری کے شمال مشرقی کو نہ پر ایک کمرے کی بنیاد رکھی جو درویشوں کے تعاون سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ ۹۔ ماہ فتح/دسمبر کو درویشوں نے دفتر امور عامہ کے جنوبی جانب اجتماعی وقار عمل کیا۔ اس جگہ دو تین ہزار مسلمان پناہ گزین ہوگئے تھے جن کے فضلے سے بہت سٹراند پھیل گئی تھی۔ درویشوں نے اپنے ہاتھ سے اس جگہ کی صفائی کی اور گڑھوں کو مٹی سے پر کردیا۔ ۲۳۔ ماہ فتح/دسمبر کو مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے مولوی برکات احمد صاحب راجیکی ناظر امور عامہ` ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے`۳۸۰ فضل الٰہی خاں صاحب اور ۹ دیگر درویشوں کو دارالعلوم اور دارالفضل میں بھجوایا تا قرآن مجید کے جو مقدس اوراق مسجد نوریا دارالفضل کے کھیتوں میں غیر مسلموں نے نہایت بے دردی سے بکھیر رکھے تھے وہ سپرد آتش کرکے دفن کردیئے جائیں۔ چنانچہ ان اصحاب نے نہایت محنت سے اس منقوضہ خدمت کو انجام دیا۔ ان لوگوں نے نور ہسپتال کے سامنے بیت البرکات کی دیوار پر مندرجہ ذیل فقرارت لکھے ہوئے دیکھے >مسلمانوں سے بچ کررہو۔< >قادیان کے ہندوئو! قادیان سے خبردار ہو اور مسلمان کاناس کرو۔< ۱۳۔ فتح/دسمبر کو کپٹن شیرولی صاحب نگران حفاظت قادیان کی تحریک پر بہشتی مقبرہ کے اردگرد دیوار کی تعمیر کا پہلا مرحلہ شروع کیاگیا۔ درویشوں نے اس کچی دیوار کو مکمل کرنے میں ازحد جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ یہ دیوار کئی برس تک قائم رہی۔ بعدازاں اس جگہ پختہ دیوار تعمیر کرلی گئی۔ اس طرح بہشتی مقبرہ اور اس سے متصل بڑا باغ بھی )جو سلسلہ کی عظیم تاریخ روایات کا حامل ہے( غیروں کی دست برد سے محفوظ ہوگیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے اہم خطوط
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب نے انہی دنوں اپنے قلم سے مولوی عبدالرحمن صاحب امیرمقامی قادیان اور جناب ملک صلاح الدین صاحب کو جو متعدد خطوط تحریر فرمائے وہ مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم میں محفوظ ہوچکے ہیں ان مکتوبات سے اس دور کے احوال و کوائف پر خوب روشنی پڑتی ہے اور باسانی اندازہ لگ سکتا ہے کہ ان ہوش ربا ایام میں دیار حبیب کے ان عشاق اور فدائیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا؟ بدلے ہوئے حالات میں انہیں کون سے نئے مسائل پیش تھے؟ اور وہ کس طرح اپنی جان ہتھیلی میں لئے ہوئے حفاظت مرکز کا فریضہ بجالانے کے علاوہ دیگر اہم اسلامی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ذیل میں حضرت میاں صاحب کے بعض خطوط کے چند اقتباسات بطور نمونہ درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔
)بنام مکرمی مولوی عبدالرحمن صاحبجٹ امیر جماعت قادیان(
>آپ نے اپنے متفرق خطوط میں چار اغوا شدہ )مسلمان( عورتوں کا ذکرکیا ہے جو واپس ہوکر آپ کے پاس پہنچ چکی ہیں مگر اعلان اور تلاش ورثاء کے لئے آپ نے پورے کوائف درج نہیں کئے۔ مہربانی کرکے ایک نقشہ کی صورت میں اطلاع دیں کہ ان عورتوں کے نام اور ولدیت یا زوجیت اور عمر اور اصل سکونت وغیرہ کیا ہے تاکہ ورثاء کی تلاش میں مدد مل سکے۔ یہ رپورٹ ایک نقشہ کی صورت میں بناکر بھجوادیں۔< )۱۶۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۲۔
)بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
>آپ نے لکھا ہے کہ بہشتی مقبرہ کی دیواروں اور کمرے کی تعمیر کا کام کرایا جارہا ہے اور یہ کہ اس غرض کے لئے وہ اینٹیں لی گئی ہیں جو ڈاکٹر حاجی خاں صاحب کے مکان کے پاس ہمارے مشترکہ حساب کی لکھی ہوئی تھیں۔ الحمدلل¶ہ اس سے بہتر مصرف ان اینٹوں کا کیا ہوسکتا ہے مگر آپ مجھے بواپسی مطلع فرمائیں کہ بہشتی مقبرہ )میں( کونسا تعمیری کام ہورہا ہے۔ اور بہتر ہوگا کہ دیوار اور کمرے کا جائے وقوع ایک سرسری نقشہ کی صورت میں تیار کرکے بھجوائیں۔ اس تعمیر کی وجہ سے آپ کا وقار عمل تو خوب ہورہا ہوگا۔<
>قادیان کی ایک رپورٹ میں یہ ذکر تھا کہ بڑا باغ بھی سکھوں کے قبضہ میں ہے اس سے فکر ہوا کیونکہ بڑا باغ حضرت اماں جان والا پرانا باغ کہلاتا ہے اور وہ اس رقبہ میں شامل ہے جس پر ہم اپنا قبضہ سمجھتے رہے ہیں اور قادیان میں حکام کو جو نقشہ دیاگیا تھا اس میں بھی بڑا باغ ہمارے قبضہ میں دکھایا گیا تھا۔ علاوہ ازیں یہ باغ حلقہ مسجد مبارک اور بہشتی مقبرہ کے درمیان واقع ہے اور اگر اس پر دوسروں کا قبضہ ہو تو بہشتی مقبرہ اور ہمارے آدمیوں کی آمدورفت دونوں خطرہ میں پڑسکتے ہیں آپ اس کے متعلق بواپسی جواب دیں۔ اور اگر وہ خدانخواستہ قبضہ سے نکل چکا ہو تو اس کے متعلق پروٹسٹ کرکے دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔<۳۸۱
‏tav.11.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
>آپ نے کاشت کے واسطے بیلوں کی جوڑی وغیرہ کے لئے لکھا ہے۔ آپ زمین کا انتظام کریں پھر یہ انتظام بھی انشاء اللہ ہوجائے گا۔ مگر زمین ایسی حاصل کرنی چاہئے جو ہماری مقبوضہ آبادی سے ملتی ہوتا کہ آنے جانے اور نگرانی میں آسانی رہے اور مشن شکنی کا خطرہ بھی نہ ہو۔ دارالانوار میں میرا کنواں اور ساتھ والی میاں رشید احمد کی زمین اور دوسرے ملحقہ قطعات اس غرض کے لئے اچھے ہیں۔ چاہ جھلاروالا بھی اچھا ہے مگر اس میں اتنا نقص ہے کہ اس کے کھیت ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ مخلوط ہیں۔ اراضی تکیہ مرزا کمال الدین مناسب نہیں کیونکہ وہ بالکل ایک طرف نظروں سے اوجھل ہے اور ایسی جگہ میں فساد کا زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے۔ آپ زمین کے زیادہ اچھا ہونے کا خیال نہ کریں بلکہ آنے جانے کی سہولت اور انتظامی سہولت کے پہلو کو مقدم رکھیں۔<۳۸۲
>مولوی عبدالرحمن صاحب نے لکھا کہ قادیان میں کوئی ایندھن کا ٹال نہیں ہے یہ کام آپ آسانی سے قادیان میں کراسکتے ہیں کسی احمدی کو کہہ دیاجائے کہ وہ محمد دین حجام والی زمین۳۸۳ متصل مکان بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی میں ٹال کھول دے یا احمدیہ چوک کے کسی حصہ میں کھول دیا جائے۔
میں نے آپ کے حسب منشاء قادیان میں احمدی دوستوں کی خیریت کا اعلان الفضل میں کرادیا تھا۔ آئندہ بھی گاہے گاہے کروادیا جائے گا۔
میں نے آپ کی تجویز کے مطابق ڈاک خانہ اور ٹیلی فون گھر کے کرایہ کے متعلق گورداسپور چٹھی لکھ دی ہے مگر پوسٹ ماسٹر کی بجائے سپرنٹنڈنٹ کو لکھی ہے۔ معلوم نہیں آپ نے پوسٹ ماسٹر کا نام کیوں تجویز کیا تھا۔۳۸۴
مولوی عبدالرحمن صاحب نے اغواء شدہ عورتوں میں سے جو قادیان واپس آگئی ہیں ان کے متعلق اعلان کرنے کے بارہ میں لکھا تھا مگر ابھی تک ایسی عورتوں کی مکمل فہرست مجھے نہیں ملی جس میں نام و پتہ و زدجیت و عمر وغیرہ کے کوائف درج ہوں۔ آپ ایسا نقشہ بناکر بھیج دیں تو انشاء اللہ اعلان وغیرہ کے ذریعہ ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔<
)موصولہ قادیان ۲۰۔ دسمبر ۱۹۴۷(
‏in] [tag۳۔
)بنام مولوی عبدالرحمن صاحب امیر قادیان(
>آپ نے لکھا ہے یا شاید ملک صاحب نے لکھا تھا کہ حکومت نے چھینی ہوئی موٹروں کا ٹیکس مانگا ہے۔ آپ کو اس کا یہ جواب دینا چاہئے کہ موٹریں ہمیں واپس دے دی جائیں ہم بڑی خوشی سے ان کا ٹیکس ادا کردیں گے۔ یا کم از کم ہمیں تسلی کرادی جائے کہ وہ عنقریب واپس کردی جائیں گی تو پھر بھی ہم ان کا ٹیکس ادا کردیں گے۔<۳۸۵
>اس کے علاوہ جو موٹریں قادیان میں حکومت کے افسروں نے ہم سے لے لی ہوئی ہیں ان کے متعلق درخواست دینی چاہئے کہ اب جبکہ ہنگامی حالات بدل چکے ہیں تو مہربانی کرکے ہمیں یہ موٹریں واپس دلائی جائیں۔ جتنی موٹریں یا ٹرک چھینے گئے ہوں خواہ وہ انجمن کے ہوں یا احمدی افراد کے ان کے متعلق مطالبہ ہونا چاہئے مگر فہرست احتیاط سے بنائی جائے تاکہ مالکوں کے نام اور موٹروں کی قسم اور نمبر میں غلطی نہ لگے۔ یہ خیال رہے کہ جو کمانڈ کار فیض اللہ چک کے پاس پکڑی گئی تھی وہ کیپٹن عبداللہ باجود کی تھی اور انہی کے نام پر مطالبہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح ایک یا دو موٹر سائیکل بھی ضبط شدہ ہیں انہیں بھی اپنے مطالبہ میں شامل کرلیا جائے۔< )۱۸۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۴۔
)بنام مولوی عبدالرحمن صاحب امیر مقامی قادیان(
>اس سوال کا جواب کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبروں کے متعلق مشرقی پنجاب کے رجسٹرار کو اطلاع دینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ناظر اعلیٰ لاہور سے پوچھ کر بھجوائوں گا۔ عموماً ایسی اطلاع ہر سال کے شروع میں دی جاتی ہے۔ پس وسط جنوری کے قریب ایسی اطلاع دینی کافی ہوگی اور قاضی عبدالرحمن صاحب سے کہہ دوں گا کہ وہ عبادت بناکر آپکو بھجوادیں۔
آپ نے خط نہ پہنچنے کی شکایت کی ہے مگر جب سے مجھے علم ہوا ہے کہ ڈاک کھل گئی ہے میں بالعموم روزانہ خط لکھتا ہوں مگر لازماً یہ خط پانچ پانچ چھ چھ دن میں پہنچتے ہیں۔ امید ہے اب تک آپ کو خط مل چکے ہوں گے۔
لاری یا ٹرک بھجوانے کی ہمیں خود فکر ہے اور اس کے متعلق مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن بعض روکیں ہیں۔ آپ بالکل یہ خیال نہ کریں کہ ہم اس کی طرف سے غافل ہیں۔ دراصل اس کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں۔ اول موٹروں کا ملنا جو اس وقت گورنمنٹ کے ہاتھ میں ہیں۔ دوسرے گورنمنٹ کی اجازت کا ملنا اور تیسرے فوجی اسکورٹ کا ملنا۔
جو واپس شدہ مسلمان عورتیں آپ کے پاس پہنچی ہوئی ہیں آپ ان کو حفاظت سے رکھیں اور ان کی خدمت کا ثواب کمائیں۔ انشاء اللہ جلدی کا نوائے بھجوایا جائے گا اس وقت ان کو لاہور بھجوادیں۔
مختاراں بی بی سے کہہ دیں کہ اس کے رشتہ داروں کا لاہور میں پتہ لگ گیا ہے اور میں نے ان کو اطلاع دے دی ہے اور وہ اس کا انتظار کررہے ہیں۔ زہرہ کے متعلق لاہور ریڈیو پر اعلان کروایا ہے اور الفضل میں بھی کرارہا ہوں۔ جب بھی اس کے رشتہ داروں کا پتہ لگا آپ کو اطلاع دی جائے گی۔ مگر میں نے آپ کو لکھا تھا کہ واپس شدہ عورتوں کی ایک یکجائی فہرست پورے کوائف کے ساتھ تیار کرکے بھجوادیں۔
مسماۃ سرداراں جو سوجان پور سے زخمی ہوکر آئی ہے اس کے متعلق حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ خاوند کا پتہ لئے بغیر نکاح کس طرح ہوسکتا ہے اس کا اعلان بھی اچھی طرح ہونا چاہئے۔ سو آپ مجھے مسماۃ سرداراں کے جملہ کوائف نوٹ کرکے بھجوادیں تاکہ میں اعلان کرواسکوں۔ یعنی خاوند کا نام` باپ کا نام` ماں باپ کے گائوں کا نام` سسرال کے گائوں کا نام وغیرہ وغیرہ۔ آپ کی طرف سے کوائف آنے پر انشاء اللہ اخبار میں بھی اور ریڈیو پر بھی اعلان کرادیا جائے گا۔۳۸۶
آپ نے پوچھا ہے کہ جن احمدیوں کے مکانوں سے کچھ سامان برآمد ہورہا ہے اس سامان کو کیاکیا جائے۔ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سامان علیحدہ علیحدہ فہرستیں بناکر مالک مکان کے نام پر بطور امانت محفوظ رہنا چاہئے کیونکہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ ایسی فہرست مجھے بھجوادیں تو میں مالکوں کو پوچھ کر ان کا منشاء بتاسکوں گا۔ اسی طرح پارچات کے متعلق بھی۔
ہمارے بیرونی محلوں میں جو دروازوں` کھڑکیوں اور چھتوں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے آپ اس کے متعلق افسروں کو زبانی اور تحریری توجہ دلاتے رہیں۔ مکانوں کی حتی الوسع حفاظت ہونی چاہئے ورنہ بعد میں جماعت کو بھاری خرچ کرنا ہوگا۔۳۸۷
حنط )گندم( کے متعلق میں پہلے لکھا چکا ہوں کہ ضرورت سے کچھ زائد رکھ کرباقی فروخت کردی جائے مگر ایسی احتیاط کے ساتھ فروخت کی جائے کہ کسی قسم کا خطرہ یا نقصان کا اندیشہ نہ پیدا ہو۔ یہ صورت آپ مقامی طور پر خود سوچ سکتے ہیں۔
>ننگل باغباناں )متصل قادیان۔ مرتب( کی احمدیہ مسجد کے جو مینارے گرائے گئے ہیں اور اس میں سکھ پناہ گزین رہتے ہیں اور اس کے اوپر کانگریس کا جھنڈا لگادیاگیا ہے۔ آپ اس کے متعلق مقامی پولیس اور علاقہ مجسٹریٹ اور ڈی۔ سی کو لکھ کر توجہ دلائیں۔ اس بات کا بھی پتہ لے کر رپورٹ کریں کہ ہمارے قادیان والی مسجدیں اور عیدگاہ کس حال میں ہیں۔ نمبروار رپورٹ کریں۔ موجودہ حالات میں انہیں پولیس کی موجودگی میں مقفل کردینا چاہئے اور کنجیاں اپنے پاس محفوظ رکھی جائیں<
>ضیاء الاسلام پریس کے متعلق انشاء اللہ یہاں ضروری کارروائی کی جائے گی آپ بھی اس کے متعلق احتجاج کریں۔۳۸۸
عبداللطیف کے بھٹہ کی اینٹیں آپ بے شک وہاں سے اٹھوا کر کچھ بہشتی مقبرہ میں اور کچھ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کروالیں۔ اس کا خرچ امانت سے برآمد کرلیں۔
مقبرہ بہشتی کے اردگرد جو چار دیواری بنائی جارہی ہے اس میں صرف قبروں والاہ حصہ ہی شامل نہ کریں بلکہ قبروں کے ساتھ جو مقبروں کی خرید کردہ زمین ہے وہ بھی شامل کرلیں۔< )۲۲۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۵۔
)بنام مولوی عبدالرحمن صاحب امیر مقامی قادیان(
>آج ملک صلاح الدین صاحب کا فون ملا جس میں یہ ذکر تھا کہ حضرت صاحب کا جلسہ سالانہ والا پیغام ابھی تک نہیں پہنچا۔۳۸۹ میں یہ پیغام تین نقلیں کروا کے ۲۳۔ دسمبر کو ہوائی ڈاک کے ذریعہ تین مختلف دوستوں کے نام بھجوا چکا ہوں۔ آیک آپ کے نام جو اصل ہے دوسرے عزیز ظفراحمد کے نام اور تیسرے ملک صلاح الدین صاحب کے نام۔ امید ہے آپکو ان میں سے کوئی نہ کوئی خط ۲۶۔۲۷ تاریخ تک مل جائے گا۔
جلسہ کا پروگرام فون پر معلوم ہوا میں پہلے لکھ چکا ہوں اور آج اس کے متعلق تار بھی دے رہا ہوں کہ ایک تقریر جماعت احمدیہ کی پچاس سالہ تعلیم پر ہونی چاہئے کہ احمدی جس حکومت کے ماتحت بھی ہوں اس کے وفاداربن کررہیں اور اب جبکہ قادیان انڈین یونین میں آگیا ہے۔ قادیان میں رہنے والے احمدی پاکستان کے وفادار ہوں گے اور لنڈن میں رہنے والے احمدی برطانیہ کے وفادار ہوں گے اور امریکہ میں رہنے والے احمدی امریکہ کی حکومت کے وفادار ہوں گے وعلیٰ ہذا القیاس۔<
>منشی محمد صادق صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ساتھ جو نیا دو منزلہ کمرہ تعمیرہوا تھا وہ پھٹ کر ایک طرف کو جھک گیا ہے۔ اس کی ضروری مرمت ہونی چاہئے ورنہ گر کر مزید نقصان کا اندیشہ ہے۔<
۶۔
)بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان(
>عزیز مرزا مظفر احمد سیالکوٹ سے آئے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ڈی۔ سی گورداسپور کو فون کیا تھا اور ہمارے مکان کی جو سکھوں نے گرا کر مکان گوردوارے میں شامل کرلیا ہوا ہے اس کے متعلق فون پر بات کی تھی۔ ڈی۔ سی صاحب گورداسپور نے کہا کہ میں نے حکم دے دیا ہوا ہے کہ اگر احمدی اپنی دیوار تعمیر کرائیں اور کوئی سکھ مزاحم ہوتو اسے گرفتار کیا جائے۔ مظفر نے کہا کہ موجودہ حالات اور موجودہ فضا میں بہتر یہ ہے کہ حکومت خود اپنے انتظام میں دیوار تعمیر کرادے اور ہم سے خرچ لے لے۔ ڈی۔ سی صاحب نے ¶اتفاق کیا کہ ایسی ہدایات جاری ۔۔۔۔۔۔ کردیں گے۔<۳۹۰ )۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۷۔
)بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
>جو دوست اپنی خوشی سے اگلی ٹرم میں قادیان ٹھہرنا چاہیں انہیں اجازت دی جائے۔ جزاھم اللہ خیرا وکان معھم۔ لیکن احتیاطاً حضرت صاحب سے بھی پوچھ لوں گا اور پھر اطلاع دوں گا۔
آپ نے لکھا ہے کہ مسجد نور میں تین من کے قریب قرآن شریف کے اوراق منتشر پائے گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ اس کے متعلق ڈی۔ سی گورداسپور اور کمشنر جالندھر اور وزیراعظم مشرق پنجاب اور پنڈت نہرو صاحب نئی دہلی اور گاندھی جو نئی دہلی کو لکھیں کہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات ان کے مذہبی احساسات کو صدمہ پہنچانا ہے۔ یہ آنحضرت~صل۱~ کے اسی ارشاد کی عملی توجہیہ ہے کہ دشمن کے ملک میں قرآن شریف نہ لے جائو۔
ڈاکٹر صاحب اور کمپوڈران کی تبدیلی کا انتظام کیا جارہا ہے۔
اغواء شدہ مسلمان عورتوں کے متعلق جو قادیان کے ماحول میں ہیں پاکستان کے متعلقہ محکمہ کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ وہ اپنا نمائندہ ہندوستان بھجوائیں۔< )۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۸۔
)بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
>مسجد نور مین جو قرآن کریم کے تین من اوراق پھٹے ہوئے پائے گئے ان کا فوٹو مجھے احتیاط کے ساتھ بھجوادیا جائے۔< )۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
۹۔
)بنام ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
>آپ نے فون پر کہا تھا کہ عزیز مرزا ظفر احمد کے مضمون ۳۹۱ نے لوگوں کو بہت رلایا۔ میں نے اس کے جواب میں کہاتھا کہ یہاں تو حضرت صاحب نے رونے سے منع کردیا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ دعا میں رقت کا پیدا ہونا منع ہے۔ حضرت صاحب کا منشاء تھا کہ قادیان سے باہر آنے والے احمدی قادیان کی یاد میں رونے کی بجائی اپنی درد اور جوش کو قوت عملیہ میں منتقل کرنے کی کوشش کریں۔<
فصل نہم
۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے بعض متفرق مگراہم واقعات
الحمدلل¶ہ ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے وہ حالات جو تاریخ احمدیت جلد دہم کے آخر سے شروع ہوئے تھے اختتام تک آپہنچے ہیں آب صرف بعض متفرق اور مختصر مگر اہم واقعات کا ذکر باقی ہے۔
‏]j1 [tagچوہدری محمدظفراللہ صاحب کی اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین سے متعلق پر شوکت تقریر
ان بقیہ واقعات میں سے ایک اہم اور قابل ذکر واقعہ احمدیت کے مایہ ناز فرزند حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی اقوام متحدہ
میں مسئلہ فلسطین سے متعلق وہ پر شوکت تقریر ہے جو آپ نے پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے ۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو فرمائی۔ اس ضمن میں تفصیل گزر چکی ہے مگر بعض پہلو ابھی تشنہ کے جن کا تذکرہ اب کیا جاتا ہے۔ مسٹر الفرڈایم لنتھل اپنی کتاب ISRAEL> PRICE <WHAT میں )جوہنری ویگزی کمپنی شکاگو نے شائع کی( لکھتا ہے کہ >پاکستان کے مندوب نے تقسیم کی تجویز کے خلاف عربوں کی طرف سے زبردست جنگ لڑی۔ انہوں نے کہا فلسطین کے بارہ لاکھ عربوں کو اپنی مرضی کی حکومت بنانے کا حق چارٹر میں دیاگیا ہے۔ ادارہ اقوام متحدہ صرف ایسی موثر شرائط پیش کرسکتا ہے جن سے فلسطین کی آزاد مملکت میں یہودیوں کو مکمل مذہبی` لسانی` تعلیمی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو اس کے لئے عربوں پر کوئی اور فیصلہ مسلط نہیں ہوسکتا )صفحہ ۱۷( نیز لکھا< جنرل اسمبلی میں پاکستانی نمائندے کی خطابت جاری رہی< مغربی طاقتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کل انہیں مشرق وسطی میں دوستوں کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ان ملکوں میں اپنی عزت اور وقار تباہ نہ کریں۔ جو لوگ انسانی دوستی کے زبانی دعوے کرتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اپنے دروازے بے گھر یہودیوں پر بند کئے ہوئے ہیں اور انہیں اصرار ہے کہ عرب فلسطین میں یہودیوں کو نہ صرف پناہ دیں بلکہ ان کی ایک ایسی ریاست بھی بننے دیں جو عربوں پر حکومت کرے۔< حمید نظامی کے ۱۹۵۴ء کے خطوط )مطبوعہ >نشان منزل< صفحہ ۴۹( میں یہ ¶ذکر ملتا ہے کہ جب وہ وحی آنا عالمی صحافی کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو ان کے جہاز میں ایک یہودی عالم اور ایک یہودی ایڈیٹر بھی سوار تھے جو چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی سخت ندمت کرتے اور آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ یہودی حلقے آپ کی شخصیت سے اتنا بعض وعناد کیوں رکھتے ہی؟ مندرجہ بالا پس منظر کی روشنی میں اس کا سبب باسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ کس موثر رنگ میں پیش کیا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے اخبار >نوائے وقت< میں شائع شدہ دو خبروں کا مطالعہ کافی ہوگا۔])[پہلی خبر(
>سر ظفراللہ کی تقریر سے اقوام متحدہ کی کمیٹی میں سکتے کا عالم طاری ہوگیا امریکہ` روس اور برطانیہ کی زبانیں گنگ ہوگئیں
لیک سیکس ۱۰۔ اکتوبر۔ رائٹر کا خاص نامہ نگار اطلاع دیتا ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی میں جو فلسطینی مسئلہ کو حال کرنے کے لئے بیٹھی تھی کل پاکستانی مندوب سر ظفراللہ کی تقریر کے بعد ایک پریشان کن تعطل پیدا ہوچکا ہے اور جب تک امریکہ اپنی روش کا اعلان نہ کردے دیگر مندوبین اپنی زبان کھولنے کے لئے تیار نہیں۔ امریکن نمائندہ جو اس دوران میں ایک مرتبہ بھی بحث میں شریک نہیں ہوا اس وقت تک بولنے کے لئے آمادہ نہیں جب تک کہ صدر ٹرومین وزیرخارجہ مسٹر جارج مارشل اور خو وفد ایک مشترکہ اور متفقہ حل تلاش نہ کرلیں۔
کمیٹی میں کل کی بحث میں کمیٹی کے صدر ڈاکٹر ہربرٹ ایوات )آسٹریلیاں( نے بہت پریشانی اور خفت کا اظہار کیا۔ جب بحث مقررہ وقت سے پہلے ہی آخری دموں پر پہنچ گئی اور امریکن مندوب اس طرح خاموش بیٹھا رہا گویا کسی نے زبان سی دی ہو۔ اقوام متحدہ کے تمام اجلاس میں یہ واقعہ اپنی نظیر آپ ہے۔
پاکستانی مندوب نے ایک لفظ میں دوسرے مندوبین کے واردات قلب کا اظہار کردیا جب اس نے اکتا کر یہ مشورہ دیا کہ چونکہ بعض سرکردہ مندوبین تقریر کرنے سے واضح طور پر >ہچکچارہے ہیں< اس لئے فلسطین پر عام بحث فوراً بند کردی جائے۔ امریکن وفد دو دن سی اس بحث میں مبتلا ہے کہ اسے کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے لیکن ابھی تک وہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔ وفد کے ایک رکن نے دریافت کرنے پر یہ بتانے سے گریز کیا کہ امریکن صدر مقام میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ مندوبین جس طرح اس مسئلہ پر اب تک اظہار خیال کرتے ہیں اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کافی وجوہات ہیں کہ مندوبین میں نہ صرف عرب اور یہودی مطالبات اور دلائل کی صحت اور حقانیت کے بارہ میں ہی عارضی اختلافات ہیں بلکہ بعض مندوبین کو اس امر کا بھی احساس ہے کہ روس سے متعلق امریکہ کی موجودہ حکمت عملی کے لئے عربوں کی حمایت اور ہمدردی انتہائی اور فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے۔
روس نے بھی ابھی تک اس مسئلہ پر اپنی روش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ امریکہ کی خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ روش کو اپنی خاموشی سے تھکا کر بولنے پر مجبور کرنا چاہتا ہے اور خود سب سے آخر میں تقریر کرنا چاہتا ہے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینی مسئلہ اب بری طرح روس اور امریکہ کی باہمی کشمکش میں الجھ جائے گا۔ رائٹر(۳۹۲
)دوسری خبر(
>فلسطین کے متعلق سر ظفراللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی عرب لیڈروں کی طرف سے سر ظفراللہ خاں کو خراج تحسین
نیویارک ۱۰۔ اکتوبر۔ مجلس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سرمحمدظفراللہ خاں رئیس الوفد پاکستان نے جو تقریر کی وہ ہر لحاظ سے افضل واعلیٰ تھی۔ آپ تقریباً ۱۱۵ منٹ بولتے رہے۔ اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ جب آپ تقریر ختم کرکے بیٹھے تو ایک عرب ترجمان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر عربوں کے معاملہ کے متعلق یہ ایک بہترین تقریر تھی۔ آج تک میں نے ایسی شاندار تقریر نہیں سنی۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے اپنی تقریر میں زیادہ زور تقسیم فلسطین کے خلاف دلائل دینے میں صرف کیا۔ جب آپ تقریر کررہے تھے تو مسرت وابتہاج سے عرب نمائندوں کے چہرے تمتما اٹھے۔ تقریر کے خاتمے پر عرب ممالک کے مندوبین نے آپ سے مصافحہ کیا اور ایسی شاندار تقریر کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ ایک انگریز مندوب نے سرظفراللہ کو پیغام بھیجا کہ آپ کی تقریر نہایت شاندار تھی مجھے اس کی نقل بھیجئے میں انہماک سے اس کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ تقریر کے بعد سرظفراللہ خاں بہت تھکے ماندے نظرآتے تھے۔<۳۹۳
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کے اس تاریخی خطاب نے اقوام عالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کا مسئلہ حقیقی خدوخال کے ساتھ نمایاں کردیا اور متعدد ممالک نے تقسیم فلسطین کے خلاف رائے دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن بعد میں انہوں نے دنیا کی بعض بڑی طاقتوں کی طرف سے دبائو میں آکر اپنی رائے بدل لی اور ۳۰۔ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عبر اور یہودی دو علاقوں میں تقسیم کرنے کی امریکی روسی قرار دار پاس کردی۔
چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے ۹۔ دسمبر ۱۹۴۷ء کو گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک فاضلانہ خطاب فرمایا جس میں مسئلہ تقسیم فلسطین کی سازش پر مفصل روشنی ڈالی۔ اس تقریر کا ملخص اخبار >نوائے وقت< نے درج ذیل الفاظ می شائع کیا۔
لاہور ۹۔ دسمبر۔ ادارہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے قائد چوہدری سرمحمد ظفراللہ خاں نے آج مسئلہ فلسطین کے تمام پہلوئوں پر مفصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کے فیصلہ کو سخت نامنصفانہ قراردیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں تقریر کرتے ہوئے سر ظفراللہ نے سخت افسوس ظاہر کیا کہ امریکی حکومت نے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کے نمائندگان پر ناجائز دبائو ڈال کر تقسیم فلسطین کے حق میں فیصلہ کرالیا۔ سرظفراللہ نے کہا کہ امریکہ کی انتخابی سیاسیات نے فلسطین کو ایک مہرہ بنایا۔ آپ نے فرمایا کہ سرزمین فلسطین کی مجوزہ یہودی ریاست میں نہ صرف ایک مضبوط عرب اقلیت ہمیشہ کے لئے یہودیوں کی غلام بن جائے گی بلکہ ملک کی اقتصادیات پر بین الاقوامی کنٹرول قائم ہوجائے گا جو قطعاً غیرقانونی حرکت ہے۔
چوہدری سرمحمد ظفراللہ نے بتایا کہ کس طرح امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہودی اثر کے ماتحت چھوٹی چھوٹی اقوام پر ناجائز دبائو ڈالا اور دو تین فیصلہ کن ووٹ حاصل کرلئے جس کے مطابق ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کا نامنصفانہ فیصلہ ہوا۔
سرظفراللہ نے بتایا کہ ۲۶- نومبر کو ہمیں یقین ہوگیا تھا کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں اور مخالف فریق کو اپنی شکست کا یقین ہوگیا تھا لیکن عین آخری وقت رائے شماری بلاوجہ ۲۸۔ نومبر پر ملتوی کردی گئی تاکہ دوسرے ممالک پر دبائو ڈال کر فلسطین کے متعلق ان کا رویہ تبدیل کیا جاسکے۔ چنانچہ جب ہیٹی کے مندوب نے رائے شماری کے بعد مجھ سے ملاقات کی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس نے افسوس ظاہر کیا کہ اسے آزادی کے ساتھ ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اکثر ایسے مندوبیں نے جنہوں نے تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے یہ اعتراف کیا کہ انہوں نے نہایت مجبوری کے عالم میں تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالے اور اسی سپرٹ میں تقسیم فلسطین کا فیصلہ ہوا۔<
>سرظفراللہ نے بتایا کہ جنرل اسمبلی میں کس طرح شروع میں عربوں کو تقسیم فلسطین کی سکیم کے استرداد کا یقین تھا لیکن بعدازاں زبردست سازشیں کی گئیں کہ عربوں کی حامی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیاگیا۔ صدر اسمبلی نے رائے شماری کو ۲۶۔ نومبر سے ۲۸۔ نومبر پر ملتوی کردیا۔ دریں اثناء امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بعض مندوبین پر ان کی حکومتوں کی مدد سے دبائو ڈالا اور عربوں کے حامی ۱۷ مندوبین میں سے ۴ مندوب دوسرے فریق سے جاملے۔ لائبیریا کے نمائندے نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن میں ان کے سفیر نے انہیں تقسیم فلسطین کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہیٹی کے نمائندے نے ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ بتایا کہ وہ اپنی حکومت کی تازہ ہدایات کے ماتحت اب تقسیم فلسطین کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس طرح بالاخر تقسیم فلسطین کے حق میں امریکی اور یہودی سازش کامیاب ہوگئی اور تقسیم فلسطین کا فیصلہ کردیا گیا۔< )نوائے وقت ۱۱۔ دسمبر ۱۹۴۷ء(
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا سفر انگلستان
اس سال کے آخر کا ایک واقعہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کا سفر انگلستان ہے حضرت صاحبزادہ صاحب ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں اپنے بعض رفقاء سمیت انگلستان تشریف لے گئے اور شروع وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں واپس پاکستان پہنچے۔۳۹۴ حضرت مصلح موعود نے آپ کو ہدایت فرمائی تھی کہ انگلستان میں لیبارٹری کاسامان حاصل کرنے کی بھی کوشش کریں۔ چنانچہ آپ نے اس کی تعمیل کی۔ کہتے ہیں کہ سفرانگلستان کے دوران آپ کے ایک انگریزسیکرٹری نے بتلایاکہ فنڈ ختم ہورہاہے اور سفرجاری رکھنا مشکل ہے۔ آپ نے اللہ سے دعا کی اور فرمایا فکر نہ کرو انشاء اللہ انتظام ہوجائے گا۔ چنانچہ اگلے ہی روز جب آپ ایک بازار میں سے گزرہے تھے ایک شخص آپ کودیکھتے ہی بے ساختہ سینٹ (SAINT) یعنی ولی` خدا رسیدہ کہہ کر پکارنے لگا اور ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کرکے دعا کی درخواست کی۔ انگریز سیکرٹری اس واقعہ سے بہت حیران ہوا اور کہنے لگا واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے۔ ۳۴۵
بیرونی مشنوں کے حالات
نائیجیریا مشن-: جماعت احمدیہ اور مخالفین کے درمیان عرصہ سے ایک مقدمہ چل رہا تھا جس کا فیصلہ اس سال جماعت احمدیہ کے حق میں ہوگیا۔۳۹۶
شام مشن-: اس سال جماعت احمدیہ دمشق کو اپنے ناظم تبلیغ السید محمدعلی بک الارنائوط جیسے مخلص اور مقتدر احمدی کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ السید محمدعلی پر صداقت احمدیت کا انکشاف بذریعہ خواب ہوا تھا چنانچہ انہوں نے عالم رئویا میں دیکھا کہ ایک شخص آپ سے کہہ رہا ہے >احمدالقادیانی صادق< یعنی احمد قادیانی سچے ہیں۔ اس کے بعد الاستاذ منیر الحصنی صدر جماعت احمدیہ دمشق کی تحریک و تبلیغ پر آپ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے شروع میں آپ کا انتقال ہوا۔ دمشقی پریس نے مرحوم کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اہل شام کا پرانا اور حقیقی دوست ان سے جدا ہوگیا ہے۔ >الف باء< >الایام< >القبس< >الکفاح< >النصر< >المناد< >النضال< وغیرہ شامی اخبارات نے اپنے کالموں میں آپ کے دینی و ملی کارناموں کو خراج تحسین پیش کیا۔۳۹۷
سیرالیومشن-: اس سال جماعت احمدیہ سیرالیون کا قدم ایسی تیزی سے آگے بڑھا کہ عیسائیوں کو مجبوراً اپنے بعض مشن بند کردینے پڑے۔ چنانچہ ایک عیسائی مبصر اور سیرالیون امریکن مشن کے پادری ویورڈگار نے اعتراف کیا۔
>پورٹ لوکوہ میں انگریزی چرچ کے پیرو بہت کم ہیں حالانکہ یہ چرچ اس علاقہ میں بیسیوں سال سے کام کررہا ہے۔ اور امریکن مشن نے بھی لوگوں کو عیسائی بنانے کی بے حد کوشش کی ہے۔ مگر جب ہم اس مشن کا معائنہ کرنے کے لئے گئے تو ہم نے دیکھا کہ یہ مشن اپنا کاروبار بندکررہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کام کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ اے۔ ایم۔ ای مشن کی ایک چھوٹی سی شاخ بھی وہاں موجود ہے۔ اسی طرح انگریزی مشن اور اس کا ایک متحدہ سکول بھی ہے لیکن عملاً پورٹ لوکوہ کے تمام طالب علم نیٹو ایڈمنسٹریشن سکول واقعہ اولڈ پورٹ لوکوہ میں اس کثرت سے چلے گئے ہیں کہ ان کا وہاں سمانا مشکل ہوگیا ہے۔ چونکہ لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف ہے اس لئے لوگ ایسے سکولوں سے نفرت کرتے ہیں جن کے ناموں میں عیسائیت کا نشان پایا جاتا ہو۔ اور نیٹو ایڈمنسٹریشن سکول کو پسند کرتے ہیں جہاں ان کو عربی پڑھائی جاتی ہے۔ جنگل` دلدل اور دریا گویا سب نے سازش کی ہوئی ہے کہ لوگوں کو توہمات میں مصروف رکھیں کیونکہ ان کا پس منظر ہی قدامت پسندانہ ہے جس کا انحصار بے شمار دیوتائوں کی پوچا پر ہے۔ جب تک جنگل اور جھاڑیاں صاف نہ ہوجائیں اور دلدلوں میں کھیتی باڑی نہ ہونے لگے اور تعلیم اور تمدن اور اقتصادی حالت ترقی نہ کرجائے۔ اس وقت تک صرف توہمات کو برا بھلا کہنے سے عیسائیت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ان حالات میں یہ بہتر ہے کہ لوگوں کو اسلام کی آغوش میں جانے کے لئے چھوڑدیا جائے جس کی طرف انہیں پہلے ہی دلی رغبت ہے۔ اسلام کی شریعت بہت اعلیٰ اخلاقی اصول پر مبنی ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مسیحیت اس کے مقابلہ پر میدان میں شکست پر شکست کھانے کے باوجود لڑتی رہے۔ لڑائی ابھی تک جاری ہے۔ اصول کا تصادم دونوں طرف سے سختی سے جاری ہے لیکن حال میں احمدیہ تحریک کی طرف سے جو کمک اسلام کو پہنچی ہے اور جو روکوپر کے علاقے میں کافی مضبوطی سے قائم ہوچکی ہے وہ اسلام کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ شہر کا مبیہ میں امریکن مشن کا بند ہوجانا بھی اسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔< ۳۹۸ )ترجمہ(
مجاہدین احمدیت کی بیرونی ممالک کو روانگی ادرواپسی
اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت تبلیغ اسلام کے لئے قادیان سے مشرقی افریقہ روانہ ہوئے۔ ۱۔ میرضیاء اللہ صاحب )روانگی ۹ صلح( ۲۔ مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر )روانگی ۹ صلح( ۳۔ مولوی جلال الدین صاحب قمر )روانگی ۹ تبلیغ( ۴۔ سیدولی اللہ صاحب ) " ۹ تبلیغ( ۵۔ مولوی عنایت اللہ صاحب خلیل ) " ( ۶۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب ) " (۳۹۹
مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت نہایت کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد ۱۳۶۲ہش/۱۹۴۷ء میں واپس تشریف لائے۔
۱۔ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر )واپسی ازگولڈ کوسٹ ۷۔ ماہ صلح(۴۰۰
۲۔ الحاج حکیم مولوی فضل الرحمن صاحب )نائیجیریا ۳۔ ماہ فتح(۴۰۱
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کا تقرر وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے مورخہ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۷ء کو چوہدری محمدظفر اللہ خاں صاحب کو پاکستان کا وزیر خارجہ
مقرر فرمایا۔ اس تقرر سے قبل چوہدری صاحب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ کو میری لیاقت اور دیانت پر پورا اعتماد ہے تو میں وزارت کے علاوہ کسی بھی اور حیثیت میں پاکستان کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ قائداعظم کا جواب صرف یہ تھا کہ تم پہلے شخص ہو جس نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے میں جانتا ہوں کہ تم عہدے کے طلبگار نہیں ہو۔۴۰۲
پاکستان کے صحافتی حلقوں میں چوہدری صاحب کے اس تقرر کا نہایت گرم جوشی سے خیرمقدم کیاگیا۔ چنانچہ۔
۱۔
کراچی کے وقیع انگریزی اخبار ڈان (DAWN) نے لکھا۔
>یہ انتخاب نہایت ہی پسندیدہ ہے اسے عالمگیر تائید حاصل ہوگی اور اس سے وزارت کی ذہانت اور حکومت کرنے کی اہلیت میں بیش بہا اضافہ ہوا ہے۔< ]4 [stf۴۰۳ )ترجمہ(
۲۔
روزنامہ >احسان< لاہور نے ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں لکھا۔
>چوہدری صاحب کو معاملات خارجہ اور ریاستی تعلقات کا محکمہ سونپا گیا ہے ۔۔۔ بین الاقوامی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت کے لحاظ سے چوہدری ظفراللہ کا انتخاب برا نہیں۔ پچھلے دنوں یو۔ این۔ او کے رئیس وفد کی حیثیت سے انہوں نے جو کام کیا ہے وہ اس بات کی بہت بڑی ضمانت ہے کہ معاملات خارجہ کی اہم اور نازک ذمہ داری کو سنبھالنے کی صلاحیت ان میں پوری طرح موجود ہے۔<
۳۔
اخبار >طاقت< )لاہور( نے لکھا۔
>اتحادی قوموں کی اسمبلی کے اجلاس میں پچھلے دنوں چوہدری ظفراللہ خاں نے پاکستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے اپنی آئینی قابلیت اور سیاسی تدبر کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے موصوف کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنائے جانا چنداں باعچ تعجب نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ چوہدری ظفراللہ نے فلسطین کے مسئلے پر اتحادی قوموں کے اجلاس میں جو معرکہ آراء تقریریں کیں ان کی گونج ساری دنیا میں پھیلی اور خاص طور پر عربی دنیا نے چوہدی ظفراللہ خاں کی ان تقریروں پر اتنی داد دی اور وہاں کے اخبارات نے ان پر اتنا لکھا کہ آج موصوف کا نام ہر عربی بولنے والے کی زبان پر ہے اور یوں بھی چوہدری ظفراللہ خاں کی قانون دانی کا ان کا سخت سے سخت دشمن بھی معترف ہے اور سفارتی کاموں کا ان کو کافی تجربہ ہے۔ چنانچہ انگریزی راج کے زمانہ میں وہ بعض اہم سیاسی مہموں پر بھیجے گئے اور ہمارا خیال ہے کہ ان کو بین الاقوامی سیاسیات کے نشیب و فراز سے کافی واقفیت ہے۔<۴۰۴
۴۔
روزنامہ >سفینہ< )لاہور( نے حکومت پاکستان کو اس صحیح انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے لکھا۔
>چوہدری سرمحمدظفراللہ خاں کو پاکستان وزارت میں لے لیاگیا ہے اور ان کے سپرد امور خارجہ اور دولت مشترکہ کے تعلقات کے محکمے کردیئے گئے ہیں۔
ہم چوہدری صاحب موصوف کی وزارت پاکستان میں شمولیت کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کی سیاسی فراست اور معاملہ فہمی اس عہدے کے لئے ہرلحاظ سے مناسب ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ادائے فرض میں ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ثابت ہوں گے چوہدری صاحب بیرونی سیاست کے فہم میں ناقابل تردید مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپ کی قانونی قابلیت ملک کے داخلہ اور خارجہ امور میں ہمیشہ قابل اعتماد رہی ہے۔ ہم حکومت پاکستان کو اس صحیح انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ہمیں توقع ہے کہ وہ مجوزہ نئے وزراء کے انتخاب میں بھی اسی طرح مردم شناسی کا ثبوت دے گی۔<۴۰۵
۵۔
لاہور کے روزنامہ >انقلاب< نے >چوہدری ظفراللہ خاں کا نیا عہدہ< کے عنوان سے مندرجہ زیل شذرہ سپرد قلم کیا۔
>حکومت پاکستان نے چوہدری ظفراللہ خاں کو وزارت خارجہ پر مامور کرکے حقیقت میں اپنی مردم شناسی کا ثبوت دیا ہے اور تمام حلقوں میں اس تقرر کی تعریف و تحسین کی گئی ہے۔ آج پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس کو بیرونی خطرات اور فساد علائق سے محفوظ کردیا جائے تاکہ ہمارا ملک امن واطمینان کے ساتھ ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرسکے۔ چوہدری ظفراللہ خاں کی قابلیت` ان کا تجربہ اور ان کے وسیع تعلقات ہمارے امور خارجہ کے لئے نہایت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گی۔۔۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ چوہدری صاحب بہت جلد صحیح اصول پر کام شروع کردیں گے اور ان کا عہد وزارت پاکستان کے لئے بہت بابرکت ثابت ہوں گا۔<۴۰۶
‏]0 [stf۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کی نئی مطبوعات
اس سال قادیان سے تفسیر القرآن انگریزی کی پہلی جلد اور حیدرآباد دکن سے >اسماء القرآن فی القرآن< چھپی۔ موخرالذکر کتاب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر کی تصنیف تھی۔ علاوہ ازیں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے ۸۵۰ صفحات کی ایک انگریزی کتاب شائع کی۔ ۴۰۷ )نام CEITS PRECIOUS (8500
بعض جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں حضرت مصلح موعود کی ہجرت کے بعد مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ نے انتقال کیا۔
۱۔ حضرت مولوی محمد رحیم الدین صاحب متوطن جیب والا ضلع بجنور )وفات ۴ تبوک/ستمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بعمر ۸۷ سال بمقام قادیان(۴۰۸
۲۔ حضرت میاں امام دین صاحب کپور تھلوی )وفات ۲۷۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بمقام لاہور(۴۰۹
۳۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس )وفات ۱۸۔۱۷ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بمقام لاہور(۴۱۰
۴۔ چوہدری حکم دین صاحب دیالگڑھی )وفات ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بعمر ۸۸ سال بمقام لاہور(۴۱۱
۵۔ مرزا غلام نبی صاحب مس گرامر تسری )وفات ۱۱۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بمقام لاہور(۴۱۲
۶۔ حضرت مولانا شیرعلی صاحب )وفات ۱۳۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بمقام لاہور(۴۱۳
۷۔ حضرت مرزا محمد اشرف صاحب بلانوی )وفات ۱۴۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء بعمر ۸۰ سال بمقام جہلم(۴۱۴
‏18] t[nskfonحواشی
۱۔
>الوصیت< صفحہ ۶ طبع اول ۲۴۔ دسمبر ۱۹۰۵ء میگزین پریس قادیان
۲۔
ذکر حبیب مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ صفحہ ۵۲ طبع اول۔ ایضاً >سیرت المہدی< حصہ اول صفحہ ۲۸۹۔۲۹۰ )مرتبہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب( طبع ثانی ستمبر ۱۹۳۵ء ناشر احمدیہ کتاب گھر قادیان
۳۔
اس سلسلہ میں ملاخطہ ہو تحقیقی مقالہ بعنوان >بیعت اولی کی تاریخ< مطبوعہ >الفرقان< ربوہ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء صفحہ ۱۷۔۳۱
۴۔
‏]2h >[tagنورالحق< حصہ ثانیہ صفحہ ۵۰ تا ۵۵ طبع اول۔ ذی القدر ۱۳ء مئی جون ۱۸۹۴ء۔ مطبع مفیدعام لاہور۔
۵۔
لیکچر >اسلام اور ملک کے دیگر مذاہب< صفحہ ۳۴۔۳۵ طبع اول مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور۔ ۳ ستمبر ۱۹۰۴ء
۶۔
بدر قادیان ۲۱۔ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۴ کالم نمبر۱
۷۔
ابن خلدون حصہ پنجم باب ۲۳ )تالیف علامہ عبدالرحمن ابن خلدون المغربی۔ ولادت ۷۳۲ھ/۱۳۳۲ء۔ وفات ۸۰۸ھ/۱۴۰۶ء
۸۔
تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۲۵ طبع اول
۹۔
ترجمہ >نفح الطیب< صفحہ ۶۵ از علامہ شہاب الدین ابوالبعاس التلمسانی المقری )۱۵۹۲ء ۔ ۱۶۱۸ء( مترجم مولوی خلیل الرحمن سرادھوی۔ مطبع مسلم یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ علیگڑھ ۱۹۲۱ء۔
۱۰۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا BRITANICA) (ENCYCLOPAEDIA زیر لفظ سپین جلد ۲۱ صفحہ ۱۱۹۔ پروفیسر کے حتی کے تحقیق کے مطابق جبال البرانس کو سب سے پہلے الحربن عبدالرحمن الثقفی نے ۷۱۷ء میں عبور کیا تھا HISTORY) SHORT ARABS (THE ابن جبان نے لکھا ہے کہ حضرت امیرالمومنین سیدنا عمربن عبدالعزیز کے حکم سے قرطبہ میں ایک شاندار پل تعمیر کیاگیا تھا اور آپ ہی کے فرمان شاہی سے قرطبہ دارالسلطنت قرار پایا >)نفح الطیب< مولفہ علامہ مقری(
۱۱۔
>عرب اور اسلام< صفحہ ۸۶ >دی عربس۔ اے شارٹ ہسٹری< مترجم پروفیسر سیدمبارزالدین صاحب رفعت ایم۔ اے محمد معین خان صاحب بی۔ اے ناشر ندوۃ المصنفین۔ دہلی
۱۲۔
>تمدن عرب< )ترجمہ( صفحہ ۲۸۷۔۲۸۵ از ڈاکٹر گستاولی بان۔
۱۳۔
ایضاً
۱۴۔
حضور انور مولانا عبدالرحیم صاحب درد۔ چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب اور حضور کے ٹائپسٹ کا قیام >گرانڈ ہوٹل ڈی یورا< میں تھا اور باقی تمام قافلہ خدام روسبونامی گلی کے چار ہوٹلوں میں فروکش ہوا )الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵ کالم نمبر۳(
۱۵۔
ریوٹر (REUTER) کی طرح ایک خبررساں ایجنسی کا نام
۱۶۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶ کالم نمبر۱ یہ گفتگو ایک ترجمان کے توسط سے ہوئی۔ حضور انگریزی میں ارشاد فرماتے تھے اور ترجمان اس کا فرانسیسی میں مطلب بیان کرتا تھا۔
۱۷۔
الفضل ۱۸۔ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴ کالم نمبر۲۔
‏h1] [tag ۱۸۔
الفضل ۱۸۔ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۹۔
یہ مثال شامیوں نے ۱۹۲۴ء میں حضرت مصلح موعود کے سامنے ایک مجلس میں بیان کی تھی۔
۲۰۔
الفضل ۴۔ ماہ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۴
۲۱۔
۵۔ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کو ان مبلغین کے اعزاز میں جماعت احمدیہ لنڈن کی طرف سے ایک الوداعی تقریب عمل میں آئی۔
۲۲۔
اگرچہ فرانس میں اسلام کے خلاف صدیوں سے شدید تعصب پایا جاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے عہد حکومت کے گہرے اثرات آج تک فرانس کے علم و تمدن میں موجود ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ فرانس کے ایک فاضل مصنف موسیوڈوزی نے تسلیم کیا ہے۔ فرانسیسی سرمایہ علم و ادب میں ہمیں بے شمار عربی الفاظ و مصطلحات ملتی ہیں۔ یہی بات موسیوسری یو نے لکھی ہے ڈاکٹر گستاولی بان نے >تمدن عرب< کے آخر میں بعض ایسے عربی الفاظ کی فہرست بھی دی ہے جو آج تک فرانسیسی زبان میں مروج ہیں۔ سترھویں صدی عیسوی تک مسلم اطباء کی تالیفات فرانس کی درستی کتابیں بنی رہیں۔ انگلستان کا مورخ سنگر تو یہاں تک لکھتا ہے کہ پیرس کی یونیورسٹی میں پروفیسر کو قسم کھا کر یہ عہد کرنا پڑتا تھا کہ ہم کوئی لفظ ایسا نہ پڑھائیں گے جو ارسطو اور اس کے ترجمان ابن رشد کی تعلیم کے خلاف ہو۔ اگرچہ اس سنہری دور پر صدیاں گزرگئیں مگر مسلم خون کا اثر اب تک فرانسیسیوں میں باقی ہے۔ چنانچہ جیسا کہ فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاولی بان نے >تمدن عرب< میں لکھا ہے۔ فرانس کے بعض علاقوں میں عربوں کی اولاد باسانی پہچانی جاسکتی ہے >)تمدن عرب< از ڈاکتر گستاولی بان۔ >عرب اور اسلام<۔ پروفیسر فلپ کے۔ حتی >طب العرب< مسٹر ایڈورڈ جی۔ برآئون۔ >یورپ پر اسلام کے احسان< ڈاکٹر غلام جیلانی برق<
۲۳۔][ الفضل ۲۷۔ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۲۴۔
دوسری جنگ عظیم میں جرمن فوج نے فرانس کی میجینو(MAGINOT) لائن توڑ کر رکھ دی اور ۱۶۔ جون ۱۹۴۰ء کو پیرس میں داخل ہوگئی جس کے بعد مارشل پٹیان کی نئی حکومت نے جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ جرمن نے فرانس پر قبضہ کرکے ملک میں سخت لوٹ مار کی اور فرانس کئی سال تک قحط کا شکارہوگیا۔ روزمرہ استعمال کی چیزوں کے نرخ تین گنا سے بھی بڑھ گئے اور آٹا تک کمیاب ہوگیا۔ غرضکہ جنگ کی وجہ سے فرانس کی غذائی صورت حال حددرجہ نازک صورت اختیار کرگئی۔
۲۵۔
الفضل ۴۔ ماہ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔
۲۶۔
الفضل ۳۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۲ کالم نمبر ۳۔۴
۲۷۔
الفضل ۱۵۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر۴ پمفلٹ کے پہلے صفحہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک تھی جس کے اوپر الہام >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا< درج تھا اور اسے تصویری زبان میں واضح کرنے کے لئے دنیا کے نقشہ پر قادیان سے نور کی شعاعیں ان ممالک تک دکھائی گئی تھیں جہاں جہاں احمدیت کی خبر پہنچ چکی ہے حضور کی شبیہ مبارک کے بعد مختصر تمہید کے ساتھ حضور کا اقوام عالم کے نام صلح و آشتی اور امن وسلامتی کا پیغام دیاگیا تھا جو >الوصیت< >مسیح ہندوستان میں< اور >اسلامی اصول کی فلاسفی< کے تین اقتباسات کی صورت میں تھا۔ آخر میں اسلامی پیغام سننے اور مامور وقت سے وابستہ ہونے کی موثر اپیل کی گئی تھی )الفضل ۱۲۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲( اس پمفلٹ کی ایک کاپی فرانس مشن کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
۲۸۔
اس ٹریکٹ میں اختصار کے ساتھ حضرت میسح موعود علیہ السلام کی بعثت سے متعلق انبیاء سابق کی پیشگوئیوں اور نشانات کا تذکرہ کرنے کے علاوہ خود حضور کی بعض پیشگوئیاں بھی دی گئی تھیں اور سلسلہ احمدیہ کی مختصر تاریخ بھی )الفضل ۱۶۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲(
۲۹۔
ان دنوں ملک صاحب کا پتہ یہ تھا PEAEIRE BOULEVARD 220 ٹیلیفون نمبر ۴۱۶۵ تھا اور ٹیلیگرام کے لئے احمدآباد۔ پیرس PARIS) (AHMADABAD, کے الفاظ رجسٹرکرائے گئے تھے۔
۳۰۔
اخبار الفضل مورخہ ۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۸
۳۱۔
ملک صاحب کی ایک مطبوعہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں پریس پر یہود کا کافی اثر ونفوذ تھا۔ اور ریڈیو پر تو وہ گویا مسلط تھے۔ بعض دوستوں نے کہا یہ اسرائیلی کسی اسلامی جلسہ کا کہاں اعلان کرنے دیں گے لیکن ملک صاحب نے کوشش برابر جاری رکھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کے فضل سے ریڈیو کے اسرائیلی افسر اعلان جلسہ پر رضا مند ہوگئے۔ ازاں بعد جب آپ نے اپنی آٹھ تبلیغی تقاریر کا سلسلہ جاری کیا تو ان تقریروں کا اعلان بھی ریڈیو سے نشرکیاگیا جس سے یہودیت نواز عیسائی ریڈیو پر اسلام کی بالواسطہ رنگ میں تبلیغ بھی ہوگئی )الفضل ۲۷۔ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء(
۳۲۔
الفضل ۲۷۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵۔
۳۳۔
الفضل ۳۱۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم نمبر۳۔۴` ۲۷۔ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵ کالم نمبر ۲۔۳
۳۴۔
الفضل ۱۳۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴ یورپ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی
۳۵۔
الفضل ۵۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴ کالم نمبر۱
۳۶۔
الفضل ۲۷۔ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء۔
۳۷۔
الفضل ۱۵۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۸۔
الفضل ۹۔ ظہور/اگست ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴
۳۹۔
الفضل ۳۰۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۷۔۸
۴۰۔
جیسا کہ >تاریخ احمدیت< جلد ہشتم میں آچکا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے حکم سے سپین میں پہلا مشن ملک محمد شریف صاحب گجراتی نے مارچ ۱۹۳۶ء میں قائم کیا تھا جو اندرونی خانہ جنگی کے باعث بند کردینا پڑا اور ملک صاحب سپین سے نکل کر اٹلی میں تشریف لے گئے۔
۴۱۔
الفضل ۶۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء
۴۲۔
‏MADRID اسلامی نام ماترید یا مجریط
۴۳۔
الفضل ۵`۱۷۔ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۲
۴۴۔
‏CORDOVA
۴۵۔
‏OGARANADA
۴۶۔
الفضل ۱۷۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۲`۵
۴۷۔
الفضل ۱۹۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۴۸۔
الفضل ۱۵۔ ظہور/اگست ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۲
۴۹۔
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کی رپورٹ میں اس خوش قسمت جو ان کا ذکر بایں الفاظ ملتا ہے۔
>یہ سعید نوجوان ملک روس کا اصل باشندہ ہے اس کا باپ زار کے زمانہ میں جنرل سٹاف میں کمانڈنٹ کے عہدہ پر مامور تھا۔ یہ نوجوان خارکوف میں پیدا ہوا۔ انقلاب روس کے بعد اس کے باپ کو روس سے بھاگ کر جان بچانی پڑی اور اتھونیا میں چلے گئے جو آزاد ریاست تھی۔ پھر جلد ہی وہاں سے جنوبی امریکہ آگئے اور اس نوجوان نے ارجنٹائن میں تعلیم حاصل کی۔ اور وہاں چونکہ ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے اور انگریزی بھی۔ اس لئے دونوں زبانیں وہاں سکھیں۔ ۱۹۳۶ء میں اتھونیا واپس آیا۔ کیونکہ اس کو اس ملک کے حقوق شہرت حاصل تھے۔ اتھونیا میں جب روس کا قبضہ جرمنی سے معاہدہ ہوجانے پر ہوگیا تو اس کا وہاں ٹھہرنا ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ سپینش زبان جاننے کی وجہ سے سپینش محکمہ اطلاعات میں جرمنی میں ملازم ہوگیا۔ بعد میں ایک کرنیل کی مدد سے ۱۹۴۴ء میں سپین آگیا۔ ہم جس روز لنڈن سے روانہ ہوئے تو وکٹوریہ سٹیشن پر خاکسار نے نہایت الحاح سے دعا کی کہ اے مولا کریم اپنے گناہوں اور کمزوریوں کا مجھے اعتراف ہے مگر ان کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدنا حضرت المصلح الموعود کی قوت قدسیہ کے طفیل ہی ایسا نشان دکھلا کہ ینصرک رجال نوحی الیھم من السماء کا نشان پورا ہو۔ چنانچہ تھا مس کک ایجنسی سے اس نوجوان کو ہمارے ساتھ کردیا کہ ہمیں کوئی نہایت سستی سی رہائش کی جگہ تلاش کردے۔ یہ ملک بیکاری کے لحاظ سے بالکل ہندوستان کے مثابہہ ہے۔ باوجود اس کے کہ نوجوان ہر لحاظ سے قابل ہے۔ ٹائپ` شارٹ ہینڈ اور اس کے علاوہ پانچ چھ زبانیں جانتا ہے لیکن عرصہ سے باوجود انتہائی کوشش کے بیکار تھا اور اسے اسی روز ہی ملازمت اس ایجنسی میں بطور ترجمان ملی تھی اور اس کا پہلا کام ہمارے ساتھ ہی شروع ہوا۔ یہ بعض مشکلات میں تھا۔ جس ہمدردی اور حسن سلوک سے بوجہ اجنبی ہونے کے یہ ہمارے ساتھ پیش آیا اس سے متاچر ہوکر خاکسار نے فوراً حضرت اقدس المصلح الموعود اطال اللہ بقاء واطلع شموس طالعہ کی خدمت میں خصوصیت سے درد مندانہ طور پر دعا کے لئے درخواست کی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی مشکلات دور ہوگئیں اور حضور کی دعائوں کی قبولیت کو دیکھ کر اس نے اسلام قبول کرلیا` الحمدللہ علی ذالک<۔ الفضل ۲۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۳
۵۰۔
‏MIRANDA MIGUEL RS][ ۵۱۔
‏ARROYO FELIPE JESUS SR
۵۲۔
الفضل ۳۔ وفا/جولائی ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۵
۵۳۔
الفضل ۳۔ وفا/جولائی ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۵
۵۴۔
چوہدری محمد اسحق صاحب ساقی ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں سپین سے پاکستان بلوالئے گئے۔
۵۵۔
مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر تحریر فرماتے ہیں۔
>برصغیرہندو پاکستان کی تقسیم کے وقت جب فسادات کی وجہ سے جماعت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور قادیان سے ہجرت کرکے پاکستان جانا پڑا تو مالی تنگی کی وجہ سے سیدنا حضرت المصلح الموعود نے یورپ کے بعض مشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ فرمایا ان میں سپین کا مشن بھی تھا۔ خاکسار نے حضور پر نور کی خدمت مبارک میں عرض کیا کہ مشن نہ بند کریں خاکسار خود اخراجات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ لنڈن میں جو عطر کا کام سیکھا تھا کام آیا۔ عطر کی شیشیاں بھرکر بعض دوستوں کے ذریعہ فروخت کرنے کی کوشش کی مگر آمد بہت قلیل ہوتی تھی۔ میڈرڈ یونیورسٹی کے ایک انگریز پروفیسر MORRIS SR سے تعارف تھا۔ ان کی اہلیہ ہسپانوی خاتون تھیں انہوں نے تحریک کی کہ RASTRO سنڈے مارکیٹ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ ایک ہسپانوی دوست کے ساتھ سنڈے مارکیٹ جانا شروع کردیا۔ خدا کے فضل سے ہر اتوار کو تین چار پونڈ بکری ہوجاتی تھی۔ اسی طرح ایک واقف فیملی نے رائے دی کہ آپ نیشنل انڈسٹری نمائش ZARAGOZA جائیں چنانچہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں وہاں گیا` الحمدلل¶ہ وہاں اچھی بکری ہوئی۔ ۱۹۴۹ء میں اشبیلیہ بھی گیا۔ ماہ مئی ۱۹۴۹ء میں VALEHEIA کی صنعتی نمائش میں بھی شامل ہوا اور اس سال BARCELONA کی صنعتی نمائش میں بھی حصہ لیا اور کچھ رقم بھی جمع کرلی۔< )اقتباس از مکتوب محررہ ۱۴۔ احسان/جون ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء بنام مولف >تاریخ احمدیت(<
۵۶۔
الفضل یکم تبوک/ستمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۵۷۔
ان دنوں پروفیسر PEREZ BENEYTO JUAN۔D SR محکمہ سنسرشپ کے انچارج تھے جو پریس کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے اور آج کل سپین کی پریس کنوسل کے صدر ہیں۔ چونکہ سنسرشپ نے بہت سی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تھا اس لئے پروفیسر صاحب مذکور نے مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کو بلاکر کہا کہ خواہ خفیف سی ہوکر کوئی تبدیلی بہرحال کردیں۔ چنانچہ دیباچہ میں جہاں یہ لکھا تھا کہ >اسلام جو سب سے زیادہ سچا اور مکمل مذہب ہے< مولوی صاحب نے >اسلام< کے بعد >جو میری نزدیک< کے الفاظ کا اضافہ کردیا جس پر کتاب شائع کرنے کی اجازت مل گئی۔ اس سلسلہ میں ROCAMORA۔R۔S۔EXEMO PEDRO ڈائریکٹر جنرل پراپیگنڈا اور CERDERO ۔SR )حال جج سپریم کورٹ سپین و ممبر رائل مارل اور پولیٹکل سائنس اکیڈیمی کے ممبر( نے گرانقدر امداد دی۔ یہ کتاب AGUADOAFRO DICIO پریس میں چھپی۔
۵۸۔
سپین مشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کتاب پر )مع ترجمہ کی قیمت کے( قریباً چار سو پونڈ اخراجات ہوئے تھے۔
۵۹۔
الفضل ۱۹۔ فتح ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۵
۶۰۔
بطور نمونہ میڈرڈ کے مشہور اور صخیم رسالہ >انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹکل سائنس< کا مفصل ریویو >تاریخ احمدیت< جلد دہم صفحہ ۴۶۹` ۴۷۰ پر نقل کیا جاچکا ہے۔
۶۱۔
ایک عرصہ سے سی آئی ڈی نے مبلغ اسلام کی نگرانی ترک کردی تھی مگر کتاب >اسلام کا اقتصادی نظام< کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا سلسلہ دوبار شروع ہوگیا۔ چنانچہ ایک بار خفیہ پولیس کا ایک آدمی کیتھولک چرچ کی رپورٹوں کی بناء پر آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم نے کوئی کتاب شائع کی ہے؟ اس کے بعد سنسرشپ کا اجازت نامہ دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اسے نہایت وضاحت سے بتایا کہ >جب بندہ اسلام کا مبلغ ہے تو میرا کام اسلام کی تبلیغ کرنا ہے آپ لوگوں کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ بند ہرگز ہرگز ملک کے سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ میرا سپین میں پانچ سالہ قیام اس بات پر شاہد ہے۔< )الفضل ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم نمبر۱۔۲
۶۲۔
الفضل ۵۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۶۳۔
الفضل ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۴
۶۴۔
نام MARTIN ILEANOZ JOSE SR )یہ صاحب اب فوت ہوچکے ہیں(
۶۵۔
الفضل ۲۷۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۴ کالم نمبر۲
۶۶۔
الفضل ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم نمبر۱
۶۷۔
الفضل ۱۹۔ شہاد/اپریل ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم نمبر۴
۶۸۔
سپین مشن کی مطبوعہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے اس کتاب کی عام اشاعت تک مشن ہائوس میں اس کتاب کا درس جاری رکھا۔ )الفضل ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۴ کالم نمبر۴(
۶۹۔
اس ٹریکٹ کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار اور دوسرا ایڈیشن چھ ہزار کی تعدا میں چھپ کر تقسیم ہوچکا ہے اور ہسپانوی عوام نے اسے بے حد پسند کیا ہے۔ ایک اعلٰے سرکاری افسر نے اسے پڑھ کر مبلغ اسلام سے کہا کہ میں دستخط کردیتا ہوں کہ میں ٹریکٹ میں بیان کردہ اسلامی تعلیم سے سوفیصدی اتفاق کرتا ہوں۔ مبلغ اسلام نے طرگونہ TARAGONA میں یہ ٹریکٹ تقسیم کئے۔ ایک نوجوان یہ ٹریکٹ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے جن کا نام حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے محمود احمد رکھا۔
۷۰۔
ماہنامہ >تحریک جدید< ربوہ فتح/دسمبر ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء صفحہ ۱۵ )ایڈیٹر مولانا نسیم سیفی صاحب(
۷۱۔
الفضل ۱۲۔ وفا/جولائی ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱ کالم نمبر۱
۷۲۔
الفضل ۱۲۔ وفا/جولائی ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۳
۷۳۔
ان ایام میں مراکش کے بیشتر حصہ پر فرانس نے قبضہ کررکھا تھا مگر ایک حصہ سپین کے ماتحت تھا۔ اس علاقے میں ایک مورش سردار حکمران تھے جن کا نام المولائی حسن تھا جو خلیفہ سپینش مراکو کے نام سے ملقب تھے۔ یہاں انہی کے ولیعہد کا ذکر ہے۔
۷۴۔
الفضل ۱۹۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۴ وتفصیلات کے لئے ملاخطہ ہو الفضل ۲۷۔ نبوت/نومبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۵` ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء` ۲۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء` ۸۔ وفا/جولائی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۳۔
۷۵۔
اسلامی نام ماترید یا مجریط
۷۶۔
‏SEVILLA
۷۷۔
‏AZOGARAZ
۷۸۔
‏BARCELONA
۷۹۔
‏VALENCA
۸۰۔
الفضل ۱۲۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۷
۸۱۔
الفضل ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۶ کالم نمبر۱
۸۲۔
الفضل ۲۷۔ نبوت/نومبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۴` ۲۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۷۔
۸۳۔
خطبات محمود جلد سوم صفحہ ۶۴۹ طبع اول مارچ ۱۹۷۹ء ناشر فضل عمر فاونڈیشن ربوہ
۸۴۔
انہیں دنوں کا واقعہ ہے کہ جناب ظفر صاحب ایک روز گلی میں اسلام کی عام اخلاقی تعلیم بیان فرمارہے تھے کہ ایک صاحب نے کہا کہ تم ہمارے ملکی قانون کے خلاف اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے ہو؟ سامعین نے اس کی مداخلت پر ملامت کی مگر وہ سیدھے پولیس والوں کے پاس پہنچے۔ پولیس افسر صاحب نے ایک سپاہی بھیج کر آپ کو بلوایا اور تنبیہہ کی کہ آپ کو شارع عام میں ہرگز کوئی بات نہیں کرنی چاہئے ورنہ حکومت سپین آپ کو ملک سے نکالنے پر مجبور ہوگی۔ کیتھولک مجلس عمل CATNOLIC ACTION کے ممبر نے بھی کہا کہ وہ اپنا پورا زور صرف کریں گے کہ آپ کو ملک سے نکال دیا جائے۔ خود شکایت کنندہ نے بتایا کہ چرچ آپ کی ہر حرکت و نقل کی نگرانی کررہا ہے اور سپین چرچ کو اس ملک میں آپ کی موجودگی کسی طرح گوارا نہیں۔
۸۵۔
الفضل ۸۔ وفا/جولائی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۳
۸۶۔
یہ واقعہ ۲۹۔ صلح/جنوری ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء کا ہے۔
۸۷۔
الفضل ۱۵۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء خطبہ نمبر۲ صفحہ ۲۔۳
۸۸۔
الفضل ۴۔ وفا/جولائی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۳
۸۹۔
الفضل ۶۔ وفا/جولائی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۵
۹۰۔
الفضل ۶۔ وفا/جولائی ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۵
۹۱۔
الفضل ۱۳۔ وفا/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۹۲۔
سپین میں قریباً ۵۲ صوبے ہیں۔ اوائل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء تک ستائیس گورنروں تک >اسلامی اصول کی فلاسفی< اور >اسلام کا اقتصادی نظام< بھجوایا جاچکا تھا۔ )الفضل ۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۳
۹۳۔
الفضل ۱۴۔ شہادت ۱۳۳۸ہش صفحہ ۳` ۱۷۔ احسان ۱۳۳۸ہش صفحہ ۳` یکم وفا ۱۳۳۹ہش صفحہ ۴` ۶۔ شہادت ۱۳۴۲ہش صفحہ ۵` ۲۔ ہجرت ۱۳۴۲ہش صفحہ ۳` ۲۳۔ صلح ۱۳۴۵ہش صفحہ ۳` ۱۰۔ احسان ۱۳۴۴ہش صفحہ ` ۶۔ وفا ۱۳۴۴ہش` ۲۳۔ صلح ۱۳۴۵ہش
۹۴۔
الفضل ۱۳۔ وفا/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳` ۱۰۔ احسان/جون ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۹۵۔
الفضل ۲۰۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۹۶۔
الفضل ۱۳۔ وفا/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۹۷۔
الفضل ۱۴۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳` ۲۸۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۹۸۔
الفضل ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۹۹۔
الفضل ۲۸۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۱۰۰۔
ایضاً صفحہ ۴
۱۰۱۔
الفضل ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۱۰۲۔
الفضل ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۱۰۳۔
الفضل ۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۳ کالم نمبر۱
۱۰۴۔
الفضل ۶۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳ کالم نمبر۲
۱۰۵۔
الفضل ۵۔ ہجرت/مئی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء صفحہ ۳ کالم نمبر۳
۱۰۶۔
مثلاً ۷۔۱۳۴۸ہش میں رائل میڈیکل اکیڈیمی` رائل اکیڈیمی آف ہسٹری` جوڈیشل رائل اکیڈیمی` رائل اکیڈیمی آف فارمیسی کے ۱۰۳ ممبروں کو اسلام اصول کی فلاسفی بھجوائی اور بعض کو اسلام کا اقتصادی نظام بھی۔
۱۰۷۔
رسالہ >تحریک جدید< وفا/جولائی ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء
۱۰۸۔
الفضل ۱۲۔ وفا/جولائی ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۳
۱۰۹۔
الفضل ۷۔ احسان/جون ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۳
۱۱۰۔
)ترجمہ( الفضل ۱۷۔ احسان/جون ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۳
۱۱۱
الفضل ۲۸۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۱
۱۱۲
حال ناظر امور عامہ و خارجہ ربوہ
۱۱۳
حال پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ
۱۱۴
سابق امام مسجد فضل لنڈن حال پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ المسیح۔
۱۱۵
الفضل ۵۔ ہجرت/مئی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء صفحہ ۲
۱۱۶
ایضاً صفحہ ۲ کالم نمبر۱
۱۱۷
‏CORDOVA
۱۱۸
‏OGRANADA
۱۱۹
الفضل ۶۔ ہجرت/مئی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء صفحہ ۴
۱۲۰
الفضل ۱۵۔ وفا/جولائی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۱۳
۱۲۱
‏]7 TOLEDO[p
۱۲۲
الفضل ۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء صفحہ ۴
۱۲۳
الفضل ۱۵۔ وفا/جولائی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء
۱۲۴
الفضل ۸۔ ظہور/اگست ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۵
۱۲۵
مبلغ اسلام مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کا مکتوب بنا مولف >تاریخ احمدیت< )مورخہ ۱۴۔ احسان/جون ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء
۱۲۶
‏REVISTA نے اس مضمون کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بھی شائع کیا جس میں مبلغ اسلام مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کے ساتھ سابق سفیر سپین مقیم کراچی۔ سابق وزیر محنت سپین۔ سابق وزیر خارجہ سپین MARTIN SR ARTAJO )حال DRRIO SANZ ۔R۔S جنرل سیکرٹری آف سٹیٹ کونسل( اور سابق سفیر پاکستان مقیم میڈرڈ سیدمیراں محمد شاہ صاحب بھی کھڑے تھے۔
۱۲۷
الفضل ۷۔ وفا/جولائی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۳ کالم نمبر۲
۱۲۸
تفصیلی حالات کے لئے ملاخطہ ہو >تاریخ صقلیہ< از جناب مفتی انتظام اللہ صاحب شہابی اکبر آبادی۔ ناشر ندوۃ المصنفین اردو بازار جامع مسجد دہلی
۱۲۹
الفضل ۱۷۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم نمبر۲
۱۳۰
الفضل ۲۰۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۵۔۶
۱۳۱
جناب ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل مجاہد سسلی کا بیان ہے کہ >ہم پہلے لنڈن گئے تین ماہ وہاں رہے۔ اٹلی کے ویزا کی کوشش کی حکومت اٹلی نے لکھا کہ کسی مبلغ کو اٹلی جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا۔ آخر معجزانہ طور پر ویزا مل گیا اور ہم دونوں ٹرین کے ذریعہ پیرس سے روم پہنچے۔ جب سوئٹزرلینڈ کے ملک سے ہماری گاڑی جارہی تھی تو وہاں کی حکومت نے ہماری تلاشی لی اور ہمارے بستر وہاں ہی رکھ لئے۔ ہم حیران و پریشان` وہ سوس زبان بولیں ہم نہ سمجھیں۔ آخر تسلی کرنے کے بعد ایک ماہ تک ہمارے بستر بخیریت فلورنس پہنچ گئے۔
۱۳۲
شروع میں ملک محمد شریف صاحب گجراتی مبلغ اٹلی ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل کے ساتھ مسینہ ۱۹۴۶ء میں تشریف لے گئے۔ یہ ۱۹۔ احسان/جون ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کا واقعہ ہے۔ یہ مبلغین ایٹلین اور انگریزی زبان کے ٹریکٹ بھی ساتھ لے گئے تھے )الفضل ۴۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۴(
۱۳۳
مثلاً پراٹسٹنٹ عیسائیوں کے اخبار >لالوشے< )روشنی۔نور( روم نے ۱۵۔ ستمبر ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں >مسلمان مبلغ< کے عنوان سے احمدیہ مشنوں کے تبلیغی کارناموں کا مختصر تذکرہ شائع کیا سسلی میں >محمد< کے عنوان سے تورین سے چھپنے والے ایک اخبار POPOLS) DEL (ILLUSTRAJIENE نے ۲۔ مارچ ۱۹۴۷ء کے ایشوع میں ایک مضمون سپرد اشاعت کیا اور اس میں مبلغین سسلی کے فوٹو بھی دیئے۔ اس کے علاوہ بلونیا سے شائع ہونے والی ایک کتاب ISLAM) DELL, (CADOTTRAINA کے صفحہ ۱۳۵ تا ۱۳۸ میں تحریک احمدیت اک ذکر کیاگیا۔ کتاب کے مصنف کا نام MORENO)۔M۔M( ہے۔
۱۳۴
ان تاریخوں کا تعین مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل کے ویزا سے ہوتا ہے جو شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ< کے پاس محفوظ ہے۔
۱۳۵
آپ ۳۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو لندن سے فری ٹائون کے لئے روانہ ہوئے تھے )الفضل ۳۱۔ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۱(
۱۳۶
سسلی کے ابتدائی نومسلموں کا نام محمود اور بشیر رکھاگیا۔
۱۳۷
یہ دونوں خط جن میں سے ایک ملک محمد شریف صاحب کا اور دوسرا ماسٹر محمد ابراہیم صاحب خلیل کا لکھا ہوا تھا الفضل کی ۴۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کی اشاعت میں محفوظ ہیں۔ حضور نے یہ خط ملاخطہ فرمانے کے بعد اپنے قلم سے تجویز فرمایا >اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کی اس وقت سپین اور سسلی دونوں سابق اسلامی ملکوں میں ہمارے مبلغ پہنچ گئے ہیں اور تبلیغ اسلام کاکام شروع ہوچکا ہے۔<
۱۳۸
ایضاً
۱۳۹
الفضل ۱۷۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۳۔۴
۱۴۰
الفضل ۴۔ وفا/جولائی ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۳ کالم نمبر۲
۱۴۱
چوہدری عبداللطیف صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب بشیر ۱۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو سوئٹزرلینڈ سے ہالینڈ بھجوادیئے گئے جہاں حافظ قدرت اللہ صاحب کے ہاتھو ۲۔ وفا/جولائی ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو احمدیہ مشن کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ چوہدری عبداللطیف صاحب نے کچھ عرصہ سوئٹزرلینڈ میں تبلیغی خدمات بجالانے کے بعد ۲۰۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو جرمنی میں مستقل مشن کی بنیاد رکھی جیسا کہ آگے مفصل ذکر آئے گا۔ )الفضل ۱۸۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵` الفضل یکم امان/مارچ۱۳۲۸۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲(
۱۴۲
ایضاً
۱۴۳
الفضل ۱۸۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۳
۱۴۴
الفضل ۲۶۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۴
۱۴۵
الفضل ۱۲۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۴`۵` الفضل ۲۸۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۵
۱۴۶
نقل مطابق اصل
۱۴۷
الفضل ۱۸۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۱۴۸
ملک عطاء الرحمن صاحب مجاہد فرانس کو ۱۵۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے اجلاس میں شمولیت کا موقع ملا تو وہ اس کی کامیابی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور لکھا >اجلاس بفضلہ تعالیٰ خوب کامیاب تھا۔ مغربی ممالک کی مذہب سے بے رغبتی اور اسلام سے تعصب کے پیش نظر حاضری غیر معمولی تھی۔< )الفضل ۱۸ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۳( ان اجلاسوں کے لئے دعوت نامے بھجوانے کے علاوہ اخبارات میں اعلان شائع کئے جاتے تھے۔ اجلاس میں بالعموم پہلے شیخ ناصر احمد صاحب کسی اہم موضوع پر خطاب فرماتے پھر حاضرین کو سوالات کے ذریعہ اسلام سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا۔ بعض اجلاسوں میں اسلامی لٹریچر بھی تقسیم کیاگیا۔ سال میں ایک بار دیگر مذاہب کے نمائندوں کو بھی ایک پلیٹ فارم اور ایک ہی موضوع پر بولنے کی دعوت دی جاتی تھی تا لوگ اسلام اور دیگر مذاہب کا باسانی تقابلی مطالعہ کرسکیں۔ )الفضل ۷۔ ظہور/اگست ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۳(
۱۴۹
الفضل ۷۔ ظہور/اگست ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا مقامات میں ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء تک تبلیغی اجلاس منعقد کئے جاچکے تھے۔
۱۵۰
چوہدری عبداللطیف صاحب )انچارج مبلغ جرمن مشن( کے مکتوب مورخہ ۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء سے ماخوذ۔
‏tav.11.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
تعلیم الاسلام کالج کا احیاء اور مشکلات کے باوجود ترقی
۱۵۱۔
الفضل ۱۳۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴۔۵
۱۵۲۔
یہ ایک کیتھولک عقیدہ رکھنے والی جرمن نژاد خاتون تھیں جن کا پیدائشی نام فرائو والی ولڈہابر تھا۔ ابتداء میں ان کے سوس خاوند نے ان کے اسلامی رحجان کو پسند نہ کیا لیکن یہ امر ان کے شوق میں کمی کا باعث نہ بن سکا۔ شیخ صاحب موصوف کی متعدد مواقع پر لمبی گفتگوئوں اور خطوط کے ذریعہ تبلیغ کے بعد ان کے دل میں انشراح پیدا ہوا اور بیعت فارم پر کرنے کے ساتھ ہی فی الفور ممنوعات کا استعمال ترک کردیا اور بذریعہ خط اس عزم کا اظہار کیا کہ >اب میں بھی بہائو کے خلاف تیرنے کی کوشش کروں گی۔< )الفضل ۲۵۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(
۱۵۳۔
الفضل ۱۶۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵` الفضل ۱۸۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۱۵۴۔
الفضل ۱۲۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۱۵۵۔
الفضل ۲۴۔ احسان/جون ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۸
۱۵۶۔
الفضل ۱۷۔ ظہور/اگست ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۶
۱۵۷۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۵
۱۵۸۔
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ )موجودہ انچارج سوئٹزرلینڈ کمال فولمار مرحوم کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت برن کی یونیورسٹی میں ان کے والد صاحب قانون کے پروفیسر تھے۔ مرحوم کو ان کے مضمون سے شغف پیدا نہ ہوا۔ فنی` تجارتی تعلیم حاصل کی اور پھر زرعی انجنیئرنگ میں لگ گئے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ ٹریکٹروں کی فرم میں ملازم ہوگئے اور مسلمان ملکوں خصوصاً مراکش اور ترکی میں اس فرم کی نمائندگی کے سلسلہ میں جاتے رہے اور اس طرح اسلام میں دلچسپی پیدا ہوگئی مجھے باقی ممالک کا تو علم نہیں لیکن یورپ کے ممالک میں خاصی تعداد ان احمدیوں کی ہے جو مختلف ملکوں میں گھومتے رہے ہیں۔ یہ بھی ایک طیوری صفت ہے۔ اللہ کی تقدیر اس طرح ان میں وسعت نظر پیدا کردیتی ہے اور ان کو ایک نئے ماحول سے قدرے مانوس کردیتی ہے اور ان کے لئے صداقت کی شناخت میں سہولت پیدا کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو خدمت مرحوم ہے لینا چاہتا تھا اس کے لئے مزید تربیت کی ضرورت تھی۔ ان کی شادی جرمن میں ایسے باپ کی بیٹی سے ہوئی جو اخبار نویس تھا اور وہ خود اخبار ایڈٹ کرنے لگے جنگ کے بعد وہ سوئٹزرلینڈ آگئے اور ایک فارم خرید لیا۔ زمیندارہ اور صحافت ان کا شغل ہوگیا۔ ۱۹۵۹ء میں )جبکہ برادرم شیخ ناصر احمد صاحب یہاں مبلغ انچارج تھے( کا واقعہ ہے کہ ان کی ہمشیرہ نے جو معلمہ ہیں اپنے ایک مضمون >اسلام میں عورت کی حیثیت< کی تیاری کے سلسلہ میں ان سے قرآن کریم کے حوالہ جات میں مدد چاہی۔ ان کے پاس اس وقت قرآن کریم کا کوئی نسخہ موجود نہ تھا انہیں مشن کا پتہ کسی اخبار سے مل گیا اور انہوں نے مشن سے قرآن کریم طلب کیا۔ اس طرح مشن سے رابطہ پیداہوا اور ۱۷۔ دسمبر ۱۹۵۹ء کو انہوں نے بیعت کرلی` الحمدلل¶ہ ۔۔۔۔۔ برادرم فولمار ہماری ہر مجلس کی زینت ہوتے۔ میرے بار بار کہنے پر بیوی بچوں کو بھی ہمراہ لانا شروع کردیا۔ ایک دفعہ ہم نے گھر میں ان کے بیوی بچوں کو مدعو کیا۔ برادرم فولمار مرحوم نے مجھے کہا کہ اس سفر نے سینکڑوں صفحات کے مطالعہ سے زیادہ کام دیا۔ ایک موقعہ پر عربوں کی حمایت میں اجلاس تھا۔ مقصود یہ تھا کہ حالات بتائے جائیں اور چندہ کی اپیل کی جائے۔ برادرم کمال فولمار کو بلایا مگر نہ آئے۔ بعد میں مجھے بتایا کہ انہیں عربوں پر ظلم وستم کا اس قدر رنج ہے کہ انہیں ڈر تھا کہ وہ اپنے پر ضبط نہ رکھ سکیں گے اس لئے نہ آئے۔
۱۹۶۷ء میں جب سیدنا حضرت میرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تشریف لائے تو انہیں جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور جب اس موقعہ پر ان سے ملے اور معلوم ہوا کہ وہ کینسر سے بیمار ہیں تو فرمایا میں آپ کے لئے ایک بوٹی بھیج دوں گا وہ استعمال کیجئے۔ چنانچہ حضور نے بوتی بھجوائی۔ برادرم کمال مرحوم نے جذبات تشکر کے ساتھ اس کا استعمال شروع کیا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت فائدہ ہوا۔ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے بوٹی میں کچھ تاثیر رکھی ہے یا بوٹی بھجوانے والے کی دعا کی تاثیر تھی۔ صحت پڑ بڑا اچھا اثر پڑا۔ برادرم مرحوم نے چاہا کہ وہ ہدایت کے مطابق استعمال کرتے ہی رہیں۔ محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بعد میں بھجواتے رہے۔ اور آخری بار تو انہوں نے اکٹھی دو سو خوراکیں بھجوائیں وہ ختم نہ کرپائے تھے کہ مرحوم ان کی ضرورت سے بے نیا ہوگئے۔
برادرم فولمار طویل القامت` گرانڈیل` بارعب انسان تھے۔ میں نے جب بھی پوچھا کیا حال ہے؟ الحمدلل¶ہ کہا۔ خطوط میں بھی الحمدلل¶ہ ہی لکھتے۔ لیکن کینسر کی مرض ختم نہ ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی دعائوں اور حضور کی محبت سے تجویز فرمائی ہوئی بوٹی سے تو ان کی حالت کچھ بہتر رہی مگر پھر کینسر کے زخم سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ مسز فولمار کو اہلیہ ام نے ہفتہ عشرہ کے لئے اپنے ہاں مدعو کیا تا وہ اس ماحول میں کچھ عرصہ رہ کر اسلام کا مطالعہ کرسکیں۔ اس دوران میں مسز فولمار نے زور دیا کہ اس کے شوہر کو ضرور ہسپتال جانا چاہئے۔ میرے اصرار پر وہ آمادہ ہوگئے مگر افسوس ہے کہ کوئی علاج ان کی زندگی کو لمبا نہ کرسکا۔ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔< )الفضل ۲۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء(
۱۵۹۔
الفضل ۱۹۔ اخاء/اکتوبر و ۲۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء۔ >الاسلام< کا پہلا نسخہ اقبال احمد خاں صاحب ایم۔ ایس سی )سکالر فضل عمر انسٹی ٹیوٹ( نے جو ان دنوں انگلستان میں تھے دو پونڈ میں خریدا )الفضل ۲۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵(
۱۶۰۔
الفضل ۲۷۔ وفا/جولائی ۱۳۳۶ہش/۱۹۴۵۷ء صفحہ ۳
۱۶۱۔
الفضل ۲۹۔ صلح/جنوری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۱۶۲۔
یہ صاحب بعد میں حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے۔
۱۶۳۔
الفضل ۲۶۔ وفا/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۱۶۴۔
الفضل ۳۰۔ نبوت/نومبر ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳
۱۶۵۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۱
۱۶۶۔
الفضل ۱۸۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵۔ موخرالذکر ٹریکٹ کا نام >ندائے آسمانی< تھا جس میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے چھ مختلف اقتباسات جمع کئے گئے تھے۔ یہ ٹریکٹ بذریعہ ڈاک ممتاز شخصیتوں کو بھجوایا گیا۔ اس ٹریکٹ کے اخراجات کا بڑا حصہ چوہدری ظہوراحمد صاحب باجوہ مبلغ انگلستان نے اپنے دادا مرحوم کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ادا کئے۔ )الفضل ۲۱۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴
۱۶۷۔
الفضل ۲۱۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴
۱۶۸۔
الفضل ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۶
۱۶۹۔
الفضل ۲۳۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۵
۱۷۰۔
الفضل ۱۷۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۳ہش/۱۹۴۵ء صفحہ ۱
۱۷۱۔
یہ دوسرا ایڈیشن ۶۵۳ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے ابتداء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قلم مبارک کے لکھے ہوئے شہرہ آفاق دیباچہ تفسیر القرآن کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی شامل کیاگیا ہے جو ۵۳ صفحات کو محیط ہے اور جس نے اس ترجمہ کی افادیت و عظمت کو چار چاند لگادیئے ہیں۔ یہ ایڈیشن ہیگ )ہالینڈ( میں طبع ہوا اور ZURICH ISLAM> <DER VERLAG کی طرف سے شائع کیاگیا۔
۱۷۲۔
جرمن ترجمہ قرآن کا پہلا ایڈیشن کن کٹھن مراحل میں سے گزر کر منظرعام پر آیا اس کی تفصیل مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کے قلم ہے۔ ۱۰۔ احسان/جون ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء کے الفضل میں شائع شدہ ہے۔
۱۷۳۔
الفضل ۱۸۔ امان/مارچ ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۳
۱۷۴۔
مجلتہ الازھر فروری ۱۹۵۹ء
۱۷۵۔
بحوالہ الفضل ۳۱۔ امان/مارچ ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۷
۱۷۶۔
الفضل ۱۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱۔ مکرم جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے )جنہیں اس سفر میں حضرت مصلح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کا شرف حاصل ہوا( حضور کے قیام زیورچ کی ایک رپورٹ میں تحریر فرمایا۔
>۹ مئی کو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ تقریباً ایک بجے زیورچ پہنچے اور کاروں میں سوار ہوکر قافلہ اپنی جائے رہائش STRASSEZ BEGONIAN میں آیا۔ یہ ایک چار منزلہ مکان ہے جس کے نیچے کی دو فلیٹیں شیخ ناصر احمد صاحب نے کوشش کرکے مالک سے جلدی جلد تیار کروالیں۔ بقیہ حصہ ابھی زیر مرمت ہے اور ان فلیٹوں کے آگے کی سیڑھیاں ہال وغیرہ میں ابھی پینٹ ہورہا ہے۔ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کی جو علوم آسانی کے امین اور عارف اسرار ربانی ہوتے ہیں حسیں بہت تیز ہوتی ہیں۔ حضور کو بدبو بہت ناگوار گزری اور ایسا معلوم ہوا کہ یہاں رہنا ممکن نہیں۔ مگر فلیٹ کے اندر ایسی بو نہ تھی۔ آہستہ آہستہ اس فلیٹ کی خوبیاں بھی حضور کے سامنے آئیں اور حضور نے جب میں شام کو مائکرو بس پر جنیوا سے زیورچ پہنچا یہی خیال ظاہر فرمایا کہ فلیٹ اچھی ہے اور کرایہ کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔< )الفضل ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۳ کالم نمبر۱(
۱۷۷۔
ڈاکٹر پروفیسر روسیوزیورک کے ہسپتال KANTONSPITZAL میں کام کرتے تھے اور سوئٹزرلینڈ کے مشہور ڈاکٹر تھے ہزایکس لینسی مسٹر غلام محمد گورنر جنرل پاکستان انہیں کے زیرعلاج رہے۔
۱۷۸۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۷۹۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۳
۱۸۰۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۱۔
الفضل ۷۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۲۔
الفضل ۷۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۳۔
الفضل ۸۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۴۔
ایضاً
۱۸۵۔
الفضل ۱۱۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۶۔
ایضاً
۱۸۷۔
الفضل ۱۴۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۱۸۸۔
ایضاً
۱۸۹۔
الفضل ۵۔ نبوت/نومبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۱۔ شیخ صاحب نے اس مکتوب کا جرمن ترجمہ ایک چھوٹی تقطیع کے رسالہ کی صورت میں چھپوالیا اور اس کے نسخے سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کے نئے احمدیوں کو بغرض تقسیم بھجوائے۔ )الفضل ۱۵ ہجرت/مئی ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء(
۱۹۰۔
)ترجمہ( بحوالہ >مغرب کے افق پر< )تقریر سالانہ جلسہ ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید ربوہ( صفحہ ۲۸۔۲۹
۱۹۱۔
)ترجمہ( بحوالہ >مغرب کے افق پر< صفحہ ۲۹۔۳۰
۱۹۲۔
الفضل ۳۰۔ نبوت/نومبر ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳
۱۹۳۔
الفضل ۳۰۔ نبوت/نومبر ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳۔۴
۱۹۴۔
الفضل ۵۱۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۴
۱۹۵۔
قبل ازیں شیخ صاحب موصوف کی آسٹریا کے بعض دوستوں سے تبلیغی خط و کتابت کرنے اور کتب بھجوانے کا سلسلہ جاری تھا جیسا کہ مشن کی رپورٹ )از وفا/جولائی تا تبوک/ستمبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء( سے ثابت ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔
>آسٹریا سے بھی خطوط سوالات پر مشتمل آئے جن کے تفصیلی جوابات خاکسار نے بھجوائے اور لٹریچر کی ترسیل نیز خطوط کے ذریعہ وہاں بھی تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔< )الفضل ۲۳۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء(
۱۹۶۔
الفضل ۲۵۔ ظہو/اگست ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۵
۱۹۷۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳
۱۹۸۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۴
۱۹۹۔
الفضل ۲۷۔ وفا/جولائی ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء و ۱۵۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء
۲۰۰۔
الفضل ۲۵۔ ظہور/اگست ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۳
۲۰۱۔
الفضل ۵۔ ظہور/اگست ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء صفحہ ۱
۲۰۲۔
الفضل ۲۴۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۲۰۳۔
الفضل ۲۸۔ تبوک/ستمبر ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔۴
۲۰۴۔
الفضل ۲۰۔ تبوک/ستمبر ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء صفحہ ۴
۲۰۵۔
ترجمہ بحوالہ رسالہ >انصاراللہ< ربوہ نبوت/نومبر ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء صفحہ ۴۲ تا ۴۴۔
۲۰۶۔
مسجد سوئٹزرلینڈ کا مینار قریبا ۶۸ فٹ بلند ہے۔
۲۰۷۔
الفضل ۱۷۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۳۔۴
۲۰۸۔
الفضل ۱۷۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء
۲۰۹۔
الفضل ۱۸۔ وفا/جولائی ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴۔۵
۲۱۰۔
ڈاکٹر صاحب ایک مسلم انجنیئر ہیں جن کا خاندان پہلی جنگ عظیم میں سقوط ترکی کے بعد یورپ اور مصر میں آباد ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب خود سویس شہری ہیں۔ پانچ زبانیں بول سکتے ہیں اور ملک کے مختلف طبقوں میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
۲۱۱۔
الفضل ۲۵۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۲۱۲۔
زیورک کی فیڈرل یونیورسٹی کے ایم۔ ایس سی!! جو ان دنوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھے۔
۲۱۳۔
)ترجمہ( الفضل ۲۵۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۲۱۴۔
ایک ممتاز الیکٹریکل انجنیئر
۲۱۵۔
)ترجمہ( الفضل ۲۵۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء صفحہ ۳
۲۱۶۔
الفضل ۲۴۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۳
۲۱۷۔
چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا۔
>۲۴۔ اپریل کو محترم میاں صاحب کی آمد متوقع تھی چنانچہ استقبال کی ہم تیاری میں مصروف تھے۔ ۲۳۔ اپریل کو محترم میاں صاحب کے سیکرٹری مکرم میر مسعود احمد صاحب پہنچ گئے۔ ان کے استقبال کے بعد واپس آئے ہی تھے کہ اچانک محترم میاں صاحب بھی غیر متوقع طور پر پروگرام سے ایک دن قبل تشریف لے آئے۔ اس اچانک آمد سے بہت خوشی ہوئی۔ معلوم ہوا کہ بعض وجوہ کے باعث پروگرام میں کچھ تبدیلی کرنی پڑی اور اس لئے ایک دن پہلے پہنچ گئے۔
آپ زیورک میں ۲۷۔ اپریل کے دوپہر تک ٹھہرے۔ ۲۵۔ کو آپ کے عزاز میں عصرانہ دیاگیا۔ احباب جماعت کے علاوہ زیر تبلیغ اصحاب اور جماعت سے اخلاص واحترام کا تعلق رکھنے والے دیگر دوست مدعو کئے گئے تھے۔ اس موقع پر محترم میاں صاحب کی ازحد موثر گفتگو سے حاضرین کے قلوب پر گہرا اثر ہوا۔ اس تقریب کے علاوہ ہمارے بعض احباب خصوصاً نو احمدی حبیب احمد سینرش اور پرانے مخلص احمدی عبدالرشید فوگل کو ان کی صحبت سے بہت مستفید ہونے کا موقع ملا۔ حبیب احمد سینرش نے ۲۹۔ دسمبر ۱۹۶۴ء کو بیعت کی اور میں نے نام حبیب احمد رکھا۔ ان کی والدہ نے مخالفت شروع کی میں نے ان کو مدعو کیا اور وہ کافی نرم پڑگئیں مگر ان کے پادری نے انہیں اکسایا اور کہا کہ مذہب کی تبدیلی کا سوال نہیں لیکن اسلام بھی کوئی مذہب ہے۔ یہ تو یورپ کے لوگوں کے لئے قطعاً موزوں نہیں۔ یہ قرون وسطی کا مذہب ہے۔ ان پادری صاحب نے اس فرم کے مالک سے بھی بات کی جہاں وہ ملازم تھے۔ وہ پہلے ہی ایک متعصب کیتھولک تھا اس نے ان کو پندرہ یوم کا نوٹس دے دیا انہوں نے کہا کہ پندرہ یوم کا سوال نہیں میں مستقل طور پر ہی فارغ ہوتا ہوں۔ اس پر والدین نے اور مخالفت شروع کردی۔ میں فون کرتا تھا تو حبیب کو بات نہ کرنے دینے اور خط لکھتا تو اس تک پہنچنے نہ دیتے آخر تنگ آکر ایک دن میں ان کے ہاں گیا۔ وہ زیورک سے دور رہتے ہیں۔ ان کے گھر پہنچا۔ اہلیہ اور عزیزم یحیی بھی ہمراہ تھے۔ یہ ان کی والدہ کے پاس بیٹھے اور مجھے حبیب اپنے کمرہ میں لے گیا۔ دیکھا کہ سامنے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا کتبہ لگایا ہوا ہے۔ مسجد کی تصویر دیوار پر آویزاں ہے اور عیدکا دعوتی کارڈ بھی زینت کے طور پرلگا ہوا ہے۔ اس نے بتایا کہ کس طرح اس کی مخالفت ہورہی ہے اور یہ کہ وہ اللہ کے فضل سے اسلام پر قائم ہے۔ میں نے آئندہ کے لئے ایک ترک دوست کی معرفت ڈاک بھجوانے کا انتظام کیا اور اس کو ہدایت کی کہ وہ خود مجھے گاہے بگاہے فون کرلیا کرے۔ یہ نوجوان کئی گھنٹے محترم میاں صاحب کے ساتھ رہے۔
ہمارے ایک دوست جو پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار تھے اور اب یہاں ڈاکٹریٹ کررہے ہیں استقبالیہ تقریب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ محترم میاں صاحب کے اعزاز میں اپنے ہاں عشائیہ کا اہتمام فرمایا۔ محترم میاں صاحب انہیں اور باقی حاضرین کو لطیف انداز میں جماعت کی اسلامی خدمات بتاتے رہے۔
محترم میاں صاحب نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ واپسی پر ہفتہ عشرہ قیام کرسکیں گے۔ چنانچہ اس امید پر کہ جلد ہی پھر ملاقات ہوگئی ۲۷۔ اپریل کو انہیں الوداع کہا۔
واپسی کے لئے مختلف تقاریب کا پروگرام زیر غور تھا کہ فون پر لندن سے معلوم ہوا کہ وہ تو ۶۔ جون کی شب کو پہنچیں گے اور ۷۔ جون کو پونے دو بجے کے جہاز پر استنبول کو روانہ ہوجائیں گے۔ میں نے اپنے خاص دوستوں کو فون پر اطلاع دی۔ ائرپورٹ پر محترم میاں صاحب کے استقبال کے لئے خاکسار بعض احباب کے ساتھ موجود تھا۔ ہمارے نو احمدی بھائی ضیاء اللہ مایر (MEIER) نے جماعت کی طرف سے گلدستہ پیش کیا ایک تقریب کا انعقاد کیاگیا جو اپنے رنگ میں فروعی تھا۔ میں نے اپنے مختلف طبقات کے احباب کو تھوڑا تھوڑا وقت دیا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں اور بعد میں محترم میاں صاحب نے تقریر فرمائی۔< )الفضل ۲۴۔ وفا/جولائی ۱۳۴۴ہش/۱۹۶۵ء(
۲۱۸۔
الفضل ۱۳۔ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۱
۲۱۹۔
الفضل ۱۴۔ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۱
۲۲۰۔
الفضل ۱۸۔ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۱
۲۲۱۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ۳
۲۲۲۔
)ترجمہ(الفضل ۲۳۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ۳
۲۲۳۔
انڈونیشیا شرق الہند کے اسی مجمع الجزائر کا دوسرا نام ہے جو سترھویں صدی عیسوی کے آغاز سے لیکر ۱۹۴۹ء تک ہالینڈ کے مقبوضات میں شامل رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی فوجوں نے ولندیزی فوجوں کو زیر کرکے ان جزائر پر قبضہ جمالیا۔ ۱۹۴۵ء میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیئے تو ملک میں تحریک آزادی اٹھ کھڑی ہوئی اور آخر بڑی کشمکش کے بعد حکومت ہالینڈ نے ریاست ہائے متحدہ انڈونیشیا کی آزاد تسلیم کرلی اور آزاد انڈونیشیا کے ساتھ اتحاد و اشتراک عمل کا ایک پختہ معاہدہ طے کرلیا جس کی رو سے ہالینڈ اور انڈونیشیا تاج ولندیزی کے دو مساوی رتبہ ملک قرارپائے۔ ان ملکوں نے طے کیا کہ خارجہ امور` وفاع اور اہم اقتصادی معاملات میں دونوں ملک باہمی مشورہ سے پالیسی طے کیا کریں گے۔ )تایخ اقوام عالم از جناب مرتضیٰ احمد خاں میکش صفحہ ۷۹۴۔۷۹۵(
۲۲۴۔
>جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات< صفحہ ۱۸ )از حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اہم۔ اے ناظر دعوت >تبلیغ قادیان( ماہ دسمبر ۱۹۲۷ء مطبوعہ اسلامیہ سٹیم پریس دہلی دروازہ لاہور۔
۲۲۵۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۴۔۱۹۳۳ء صفحہ ۱۹۶
۲۲۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۵۔۱۹۳۴ء صفحہ۴۲
۲۲۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۶۔۱۹۳۵ء صفحہ ۳۱
۲۲۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۸۔۱۹۳۷ء صفحہ ۱۶
۲۲۹۔
الفضل ۸۔ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۱ کالم نمبر۱
۲۳۰۔
الفضل ۹۔ مئی ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ کالم نمبر۲۔۳
۲۳۱۔
لنڈن مشن کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا شمس نے لندن پہنچنے کے بعد ڈچ باشندوں میں تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری کردیا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنے قیام انگستان کے پہلے سال ہالینڈ` جرمن اور سویڈن کے سکولوں کی ہائی کلاسز کے قریباً ستر طلباء کو ایک تقریب پر مدعو کیا )رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۵۵(
۲۳۲۔
الفضل ۱۶۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۲۳۳۔
الفضل ۲۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۵ کالم نمبر۱
۲۳۴۔
ایضاً
۲۳۵۔
مضمون حافظ قدرت اللہ صاحب مطبوعہ رسالہ خالد ربوہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۵
۲۳۶۔
الفضل ۲۸۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۲۳۷۔
مسٹر کوپی نے جنوری ۱۹۴۸ء میں اسلام قبول کرلیا )الفضل ۶۔ امان ۱۳۲۷ہش صفحہ ۵(
۲۳۸۔
ملخصا ازالفضل ۲۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء
۲۳۹۔
یادرہے تحریک جدید نے انہیں ۴ ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء کو وقف سے فارغ کردیا جس کے بعد وہ نظام خلافت سے برگشتہ ہوکر غیر مبائعین میں جا شامل ہوئے۔
۲۴۰۔
الفضل ۱۶۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر۳
۲۴۱۔
الفضل ۱۶۔ امان ۱۳۲۷ہش صفحہ ۵ کالم نمبر ۴
۲۴۲۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۷ہش صفحہ ۵ کالم نمبر۱` ۲۸۔ وفا ۱۳۲۷ہش صفحہ ۶
۲۴۳۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۷ہش صفحہ ۲
۲۴۴۔
الفضل ۲۸۔ اخاء ۱۳۲۷ہش صفحہ ۲
۲۴۵۔
جناب حافظ قدرت اللہ صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مسٹر کوپے کے حالات زندگی پر مفصل روشنی ڈالی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ۔
آپ کا پورا نام مسٹر پی۔ جے۔ ایف۔ کے المہدی عبدالرحمن ابن کوپے ہے۔ آپ جرمن میں پیدا ہوئے۔ والدہ آپ کی جرمن ہیں اور باپ ڈچ۔ اسلام کے ساتھ دلچسپی کچھ بچپن سے ہی پیدا ہوچکی تھی۔ ۱۹۳۳ء میں کچھ یمنی سیلرز اس ملک میں آنکلے۔ عربی سے دلچسپی کی وجہ سے ان کے ساتھ میل ملاقات ہونے لگی اور آخر ان کے اثر سے متاثر ہوکر ۱۹۳۴ء میں برلن میں مسلمان ہوگئے اس کے بعد فرانس میں بعض عربوں اور الجیرین سے وقتاً فوقتاً ملاقات کے مواقع میسر آتے رہے۔ آپ کے یمنی دوست علوی طریقہ کے پابند تھے۔ چنانچہ آپ پر بھی وہی رنگ غالب تھا اور آپ کے تعلقات الجیرین علوی مشن کے ساتھ مضبوط تر ہوتے گئے۔
عرصہ قریباً اڑھائی سال کا ہوا۔ مسٹر کوپے نے ایک خط انجمن احمدیہ کو لکھا اور وہ خط محترم مولانا شمس صاحب کو لندن بھیج دیاگیا۔ چنانچہ محترم موصوف نے پھر مسٹر کوپے سے خط وکتابت جاری رکھی۔ انہیں اسلامی لٹریچر بھجواتے رہے اور احمدیت کی تعلیم سے آگاہی دیتے رہے۔ محترم مولانا شمس صاحب کا ارادہ بھی تھا کہ وہ ایک دفعہ خود ہالینڈ آکر مسٹر کوپے سے ملاقات کریں مگر اس کے لئے حالات سازگار نہ ہوسکے۔ حضور )مصلح موعود( ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جب مجھے ہالینڈ جانے کا ارشاد فرمایا تو اس موقع پر مسٹر کوپے بہت کثرت کے ساتھ ایمسٹرڈم سے مجھے ملنے کے لئے آتے رہے۔ اسلامی امور کے متعلق تو انہیں ایک حد تک کافی معلومات تھیں مگر احمدیت کے متعلق بہت سے حقائق ان سے پوشیدہ تھے۔ آہستہ آہستہ ان کے شکوک کا ازالہ ہوتا رہا اور حقیقت کھلتی گئی۔ اڑھائی ماہ کا عرصہ ہوا الجیرین علوی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے مسٹر کوپے کو ایک ہدایت موصول ہوئی اور ان سے خواہش کی گئی کہ وہ ہالینڈ میں ان کی طرف سے علوی طریقہ کا ایک مشن کھول کر تبلیغ کا کام شروع کردیں۔ مسٹر کوپے ابھی اس معاملہ پر غور ہی کررہے تھے کہ انہیں کیا جواب دیا جائے کہ دوسری طرف ہماری نوجوان احمدی خاتون رضیہ نے ایک دن پوچھا کہ مسٹر کوپے اب احمدیت میں داخل کیوں نہیں ہوجاتے؟ میں نے اس سے کہا کہ وہ اپنے علوی دوستوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں چھوڑ نے پر آمادہ نہیں۔ اس پر انہیں جوش آیا اور کہا کہ انہیں اپنی ایمانی جرات سے کام لینا چاہئے اور دوستوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے اخلاص بھرے دو تین خطوط مسٹر کوپے کو لکھے۔ فطرت نیک تھی۔ خود بھی دعائیں کیں بزرگوں کی دعائیں بھی شامل حال تھیں۔ ایک روز ایمسٹرڈم سے آئے اور آکر اپنے احمدی ہونے کا اعلان کردیا۔< )ملخصاً ازالفضل ۲۳۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵(
۲۴۶۔
مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے باتصور مجلہ بابت ۱۳۳۱ہش/۱۹۶۲ء صفحہ ۸۴ پر آپ کے خود نوشت حالات شائع شدہ ہیں۔
۲۴۷۔
مسز لافان پرتون پن لوپن ایک اعلٰے فوجی افسر کی بیوی ہیں۔ ان کے والدین آسٹریلین ہیں اور ان کے دادا مصری اور دادی آئرلینڈ کی رہنے والی تھیں۔ یہ دونوں شادی کے بعد آسٹریلیاں چلے گئے اور انہوں نے آپس میں عہد کرلیا کہ بچوں کو اسلام یا عیسائیت قبول کرنے پر مجبور نہیں کیاجائے گا سن بلوغت پر پہنچنے پر وہ خود فیصلہ کریں گے کہ انہیں کونسا مذہب پسند ہے؟ چنانچہ خاتون موصوفہ کے والد جوان ہوئے تو انہیں موقعہ دیاگیا کہ دونوں میں سے جو پسند آئے اسے قبول کرلیں۔ انہوں نے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی اور کہا کہ ان کے نزدیک دونوں ہی اچھے ہیں لہذا وہ نہ مسلمان ہوئے اور نہ ہی عیسائیت پر عمل پیرا۔ انہوں نے بھی اپنے خاندان کی اس روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو آزادانہ مذہب اختیار کرنے کی اجازت دی۔ ان کے تین بچوں میں سے دو نے عیسائیت کو قبول کرلیا اور ایک خاتون موصوفہ نے اسلام کو ترجیح دی ۔۔۔۔۔ ایک ڈچ فوجی افسر سے شادی کرنے کے بعد ہالینڈ تشریف لائیں جہاں انہیں آئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ مارمن چرچ کے دو مشنری ان کے مکان پر انہیں بھی تبلیغ کرنے لگے۔ محترمہ موصوفہ نے انہیں بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اس لئے انہیں تبلیغ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
یہ مشنری ایک دفعہ مبلغ ہالینڈ سے مل چکے تھے اس پر انہوں نے کہا کہ یہاں مسلمان مشنری بھی ہیں وہ سن کر حیران رہ گئیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسلام اور مشنری؟ انہوں نے یقین دلایا کہ ہیگ میں موجود ہیں اور انہیں مشن کا ایڈریس وغیرہ دیا۔ کچھ دنوں کے بعد فون کے ذریعہ وقت مقرر کرکے تشریف لائیں۔ دو تین گھنٹہ تک گفتگو کرتی رہیں۔ انہیں اپنے سلسلہ کے حالات بتائے گئے۔ قبر مسیح کے متعلق گفتگو ہوئی۔ انہیں بعض کتب مطالعہ کے لئے دی گئیں جو انہوں نے غور سے مطالعہ کیں اس کے بعد دو تین دفعہ حافظ قدرت اللہ صاحب سے ملاقات کی اور ہر دفعہ اور کتب مطالعہ کے لئے لے گئیں۔ آخر غور کرکے فارم بیعت پرکردیا۔ )ملخصاً الفضل ۳۰۔ وفا/جولائی ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴(
۲۴۸۔
الفضل ۲۸۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۸ء صفحہ۲
۲۴۹۔
بحوالہ >خالد< ربوہ بابت ماہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۵
۲۵۰۔
الفضل ۲۹۔ ظہور/اگست ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۱
۲۵۱۔
الفضل ۲۸۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۴
۲۵۲۔
الفضل ۱۶۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶` الفضل ۱۷۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۲۵۳۔
الفضل ۲۸۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۲۵۴۔
یادرہے ڈچ زبان میں سب سے پہلا ترجمہ >وعریش القرآن< کے نام سے شویگر کے ترجمہ کی بناء پر ۱۹۴۱ء میں ہمبرگ سے شائع کیاگیا۔ ایک اور ترجمہ دورائر کے ترجمہ سے جے ایچ گلیس سیکر نے لیڈن میں ۱۶۵۸ء میں چھاپا۔ ڈیلفٹ )ہالینڈ( کے پروفیسر شرع محمدی ڈاکٹر کیرز نے بھی ایک ترجمہ ۱۸۶۰ء میں ہارلم سے شائع کیا۔ بعدازاں ڈاکٹر ڈی کیر نے سیل کے انگریزی ترجمہ کو ڈچ زبان کا لباس پہنا کر چھاپا۔ ۱۹۳۰ء میں ایک اورترجمہ ڈچ زبان میں ہیگ کے ایک ڈچ مسلمان فاض نے شائع کیا۔ )پیام امین از محمد عبداللہ منہاس(
۲۵۵۔
بحوالہ المصلح کراچی ۲۴۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء صفحہ ۳
۲۵۶۔
الفضل ۱۳۔ احسان/جون ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء صفحہ ۵
۲۵۷۔
>تریاق القلوب< صفحہ ۴۰ طبع اول
۲۵۸۔
الفضل ۲۔ صلح/جنوری ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۱
۲۵۹۔
الفضل ۲۸۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۴
۲۶۰۔
رسالہ خالد ربوہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۷ اس مسجد کا رقبہ آٹھ سو مربع میٹر کے قریب ہے۔ حضرت مصلح موعود کا منشاء مبارک تو اس سے زیادہ رقبہ لینے تھا مگر حالات نے اس کی اجازت نہ دی۔ زمین با موقع اور اچھے علاقہ میں ہے اور اوست ڈائون لان LAAN) DUIN (OOST نامی سڑک پر واقع ہے۔
۲۶۱۔
یہ ایک کمپنی کی بلڈنگ ہے اور ہالینڈ میں بہت مشہور ہے۔
۲۶۲۔
اصل ۱۸۹۱ء )ناقل(
۲۶۳۔
الفضل ۳۰۔ ظہور/اگست ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۶
۲۶۴۔
اخبار الفضل ۲۰۔ فتح/دسمبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۵
۲۶۵۔
الفضل ۳۱۔ فتح/دسمبر ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۳
۲۶۶۔
الفضل ۱۸۷۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۲۶۷۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۲
۲۶۸۔
الفضل ۲۳۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ۳ کالم نمبر۱
‏h1] gat[ ۲۶۹۔
الفضل ۱۳۔ فتح/دسمبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۲۷۰۔
الفضل ۴۔ صلح/جنوری ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۱
۲۷۱۔
الفضل ۹۔ امان/مارچ ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۴
۲۷۲۔
الفضل ۲۳۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۲۷۳۔
یہ اعدادوشمار حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہا العالی کے مکتوب مورخہ ۲۰۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء سے ماخوذ ہیں۔
۲۷۴۔
الفضل ۲۱۔ احسان۔ ۲۶۔ احسان۔ ۲۸۔ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء
۲۷۵۔
الفضل یکم تبوک/ستمبر ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۵ کالم نمبر۱
۲۷۶۔
الفضل ۲۸۔ صلح/جنوری ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۵
۲۷۷۔
الفضل ۱۳۔ نبوت/نومبر ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۳
۲۷۸۔
مثلاً مشہور کیتھولک ماہنامہ داہیرائوت HERAUT) (DE نے فروری ۱۹۶۸ء کے شمارہ میں مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل انچارج مشن ہالینڈ کا پر مغز مقالہ >اسلام اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام< سپرد اشاعت کیا۔ اسی طرح ایک اور عیسائی رسالہ <TIFA> )بابت دسمبر ۱۹۶۹ء( میں بھی آپ کا ایک نوٹ شائع ہوا جس کا عنوان تھا >اسلامی تعلیم کی روشنی میں مسیح ناصری علیہ السلام اور کرسمس< ISLAM) DE VAN LIGHT HET IN KERSTFEEST HET EN CHRISTUS (JEZUS
ہالینڈ کی وزارت دفاع کا ترجمان AKSENT چھپتا ہے اس کے مارچ ۱۹۷۰ء کے پرچہ میں جناب اکمل صاحب کے دو مضامین کی اشاعت ہوئی۔ ایک مضمون کا عنوان تھا >اسلام کا اثر ونفوذ ہالینڈ میں۔< دوسرے مضمون میں آپ نے مدلل طور پر ثابت کیا کہ اسلام تلوار سے ہرگز نہیں پھیلا۔
اسی طرح نائمیخن (NIJMEGEN) کے ایک ماہنامہ کیتھولک آپسٹورال )LAAPOSTORA (KATHOLIC نے اپنے ایک خاص شمارہ میں مشن کے سابق امام حافظ قدرت اللہ صاحب کا ایک مضمون >اسلامی طریق تدفین< انگریزی` جرمن` فرانسیسی اور ہسپانوی زبانوں میں شائع کیا۔
۲۷۹۔
قیام ہالینڈ کے دوران جناب اکمل صاحب کی اہلیہ مسعودہ اکمل صاحبہ ڈچ احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی لیتی رہی چنانچہ ان کی کوشش سے نہ صرف ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء میں لجنہ اماء اللہ ہالینڈ کا قیام عمل میں آیا بلکہ احمدی بچوں کو السلام و احمدیت کے مسائل سکھانے کے لئے ایک )سنڈے( تعلیمی کلاس بھی کھولی گئی جو اب تک جاری ہے۔ لجنہ اماء اللہ ہالینڈ بیرونی ممالک کی فعال لجنات میں سے ہے۔ سال ۷۰۔ ۱۹۶۹ء میں جبکہ مسعودہ اکمل صاحبہ لجنہ ہالینڈ کی صدر اور مس امتہ الحفیظ (JOEMMEMBAKS) صاحبہ نے سیکرٹری کے فرائض انجام دئے اس لجنہ نے مرکزی چندہ` خاص تحریکات` نصرت جہاں ریزروفنڈ` وقف جدید اور چندہ اطفال احمدیہ کی مدات میں ۷۱۸ گلڈرز (GILDERS) جمع کئے۔ P:69) 1969-70 IMAILLAH LAJNA CENTRAL THE OF REPORT (ANNUAL
۲۸۰۔
الفضل ۹۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳
‏]h1 [tag ۲۸۱۔
الفضل ۵۔ وفا/جولائی ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۴ کالم نمبر۱
۲۸۲۔
غیرمطبوعہ
۲۸۳۔
‏PAPENDRECHT
۲۸۴۔
‏FLAARDINGEN
۲۸۵۔
‏ROTTERDAM
۲۸۶۔
‏DELFT
۲۸۷۔
‏HAARLEM
۲۸۸۔
‏AMSTERDAM
۲۸۹۔
‏UTRECHT
۲۹۰۔
‏HILVERSUM
۲۹۱۔
‏WAGENINGEN
۲۹۲۔
الفضل ۱۴۔ وفا/جولائی ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳
۲۹۳۔
الفضل ۸۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۳
۲۹۴۔
الفضل ۱۰۔ صلح/جنوری ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳
۲۹۵۔
الفضل ۱۳۔ صلح/جنوری ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء صفحہ ۳
۲۹۶۔
ملخصاً الفضل ۱۸۔وفا ۱۹۔وفا ۱۳۔ظہور ۱۳۴۶ہش صفحہ ۱`۳`۴
۲۹۷۔
الفضل ۱۷۔۲۱۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۱۔۲۔ حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے دوروں کی تفصیل اپنے اپنے مقامات پر آئے گی۔ وباللہ التوفیق۔ قیام ہالینڈ کے محولہ بالا کوائف مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل سابق انچارج مشن ہالینڈ کی ایک غیر مطبوعہ تحریر سے ماخوذ ہیں۔
۲۹۸۔
ترجمہ بحوالہ >بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نتائج< صفجہ ۱۳۔۱۵
۲۹۹۔
اب عیسائیوں کی طرف سے دلائل سے عاجز آکر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اختلافات کو ہوادے کر توجہ ہٹائی جائے۔ خصوصاً جماعت احمدیہ کے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ یہ تو مسلمان ہی نہیں یہ اسلام کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں۔ گویا یہ عیسائی اسلام کو زیادہ سمجھتے ہیں۔
۳۰۰۔
بحوالہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ واشاعت صفحہ ۱۶` ۲۰ لیکچر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل الاعلیٰ ووکیل التبشیر برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۶۷ء
۳۰۱۔
ڈاکٹر دیونگ )ہیگ( نے حافظ قدرت اللہ صاحب کی کتاب ISLAM) IS (WHAT کے دیباچہ میں لکھا
>اسلام کے بارے میں یہاں لوگوں کو بہت ہی کم صحیح معلومات مہیا ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم بار بار پڑھتے ہیں کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنا مذہب تلوار کے ذریعہ پھیلائیں لیکن اس کے برعکس قرآن کریم میں واضح طور پر فرمان ہے کہ لااکراہ فی الدین۔<
اسلام کے جملہ مکاتیب فکر میں سے صرف جماعت احمدیہ ہی ایک ایسا اسلامی فرقہ ہے جس نے اسلام کی مکمل اور واضح تصویر پیش کی ہے۔<
دیباچہ ISLAM> IS <WHAT 1958 JULY 2 JONG DE۔E۔H۔K ۔DR
۳۰۲۔
الفضل ۳۰۔ ظہور/اگست ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء صفحہ ۳
۳۰۳۔
الفضل ۳۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۴
۳۰۴۔
الفضل ۱۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء صفحہ ۳
۳۰۵۔
‏h2] [tagالفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر۴
۳۰۶۔
بحوالہ رسالہ خالد ربوہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۵ تا ۱۹۔
۳۰۷۔
رسالہ خالد ربوہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۲۵۔۲۶
۳۰۸۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۵ کالم نمبر۲
۳۰۹۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر۳
۳۱۰۔
الفضل ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء
۳۱۱۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر۴
۳۱۲۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر۴
۳۱۳۔
ایضاً
۳۱۴۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۵ کالم نمبر۱
۳۱۵۔
ایضاً
۳۱۶۔
الفضل ۱۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۴ کالم نمبر۳
۳۱۷۔
بحوالہ >جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام اور اس کے نتائج< صفحہ ۴۲ تا ۴۴ لیکچر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب برموقع جلسہ سالانہ ۱۹۶۲ء
۳۱۸۔
بحوالہ الفضل ۳۔ ہجرت/مئی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۴
۳۱۹۔
الفضل ۷۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳
۳۲۰۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۲۰۔
رسالہ خالد ربوہ امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۵۔۱۹
۳۲۱۔
الفضل ۸۔ ظہور/اگست ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳۔۴
۳۲۲۔
الفضل ۱۵۔ وفا/جولائی ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۵ کالم نمبر۵
۳۲۳۔
مسز عزیزہ والٹر WALTER) AZIZAH ۔(MRS کا انتقال ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء میں ہوا۔ آپ ہالینڈ کی نہایت مخلص نومسلمہ اور سچ مچ ولیہ تھیں جو ۱۹۵۰ء سے احمدیہ مشن کے ساتھ وابستہ ہوئیں۔ اس خاتون کو مسجد سے ایک والہانہ تعلق تھا۔ مسجد ہیگ کے محراب کی تزئین اور دیواروں پر آیات قرآنی کے قطعات انہیں کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہن بہت دعاگو اور مستجاب الدعوات تھیں۔ بسااوقات جب کوئی مشکل درپیش ہوتی تو انہیں دعا کی تحریک کی جاتی۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب بھی بسااوقات انہیں دعا کے لئے کہتے اور جناب الٰہی سے ان کی قبولیت کی بشارت بھی پاتیں۔ حضرت چوہدری محمدظفر اللہ خاں صاحب نے ان کی وفات پر خطبہ جمعہ میں ان کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور اس نیک خاتون کو >ایک نہایت صالحہ` عابدہ` زاہدہ` صاحبہ رئویاوکشوف اور مستجاب الدعوات< کے الفاظ سے یاد فرمایا۔ )الفضل ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء )مضمون حافظ قدرت اللہ صاحب( الفضل ۱۲۔ نبوت/نومبر ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء صفحہ ۳ )مشن رپورٹ از جناب عبدالحکیم صاحب اکمل(
۳۲۴۔
رسالہ خالد امان/مارچ ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۱۵۔۱۹
۳۲۵۔
زائرین کی آمد کی کثرت دیکھ کر جون ۱۹۷۱ء میں مسجد کو ظاہری طور پر مزید دلکش بنانے کی کوشش کی گئی مسجد اور مشن ہائوس ایک ہی عمارت پر مشتمل ہے۔ مسجد کو دوسرے حصہ عمارت سے نمایاں کرنے کے لئے ایک مختلف رنگ یعنی ہلکا سبزرنگ سے روغن کردیاگیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ مسجد پہلے سے زیادہ دیدہ زیب اور نمایاں ہوگئی ہے اور زائرین کے لئے اس کی ظاہری صورت میں پہلے سے زیادہ کشش پیدا ہوگئی ہے۔ یہ کام مبلغ ہالینڈ صلاح الدین خاں صاحب نے اپنی نگرانی میں ہیگ کی ٹائون کمیٹی کے ایک ممتاز انجنیئر VERHOECKS ۔MR کے رضاکارانہ تعاون سے کرایا۔ یہ انجنیئر احمدی تو نہیں ہیں مگر پھر بھی ہماری مسجد کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے۔ اور تعمیری نوعیت کے کاموں میں بلا معاوضہ تعاون کرتے ہیں۔
۳۲۶۔
آمد دسمبر ۱۹۵۸ء )تفصیل کوائف کے لئے ملاخطہ ہوا الفضل ۷۔ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء صفحہ ۳۔۴(
۳۲۷۔
آمد ۲۶۔ مئی ۱۹۶۰ء )تفصیل الفضل ۱۵۔ وفا/جولائی ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء صفحہ ۵ پر شائع شدہ ہے(
۳۲۸۔
آمد اگست ۱۹۵۹ء )تفصیل الفضل ۸۔ ظہور/اگست ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء(
۳۲۹۔
الفضل ۱۸۔ وفا/جولائی ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء صفحہ ۴ پر آپ کی آمد کا مفصل ذکر ہے۔
۳۳۰۔
ملیشیا فیڈریشن کے غرک تنکو عبدالرحمن صاحب )سابق وزیراعظم ملایا( تھے جنہوں نے یہ تحریک ۱۹۶۱ء میں پیش کی فیڈریشن میں ملایا کی گیارہ ریاستوں کے علاوہ سراوک اور سباہ بھی شامل ہیں جو جزیرہ بورنیو کا حصہ ہیں سباہ کی موجودہ واحد سیاسی اور برسراقتدار پارٹی O۔W۔S۔U ہے۔ سباہ کے مشہور شہروں کے نام یہ ہیں۔ کوتا کینا بالو )جیسلٹن( سنڈاکن۔ توائو۔ لاحدداتو۔ سمپورنا۔ لابوان۔ گننگائو۔ بیفرٹ۔ رانائو توران۔ قریب تازہ اعدادوشمار کے مطابق سباہ کی آبادی ۶۰۱۴۴۸ نفوس پر مشتمل ہے۔ کدازن قوم (KADAZAN) کل آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے اور اس کی اکثریت مشرک ہے۔ اس کے علاوہ ملائی` چینی` باجائو` مورت` یورپین` پاکستانی اور انڈین لوگ بھی آباد ہیں۔ پاکستانی` ملائی اور باجائو سب کے سب اور کدازن اور انڈین لوگوں میں سے بھی بعض مسلمان ہیں۔ عیسائی بھی بھاری تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ہندو` سکھ اور بدھ بھی موجود ہیں۔
۳۳۱۔
>تاریخ اشاعت اسلام< صفحہ ۵۴۰۔۵۴۱ )مولفہ مولانا شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی( ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور ۱۳۸۰ہش/۱۹۶۲ء
۳۳۲۔
الفضل ۴۰۔ ظہور/اگست ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء صفحہ ۶
۳۳۳۔
وفات ۱۷۔ صلح/جنوری ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء جماعت احمدیہ لابوان کے پریذیڈنٹ اور موصی تھے۔ آپ کی تبلیغ سے بہت سے لوگ شامل احمدیت ہوئے۔ جماعت کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے )الفضل ۳۔ تبلیغ/فروری ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۵(
۳۳۴۔
بورنیو میں دکاندار کو توکے )سیٹھ( کے نام سے پکارتے ہیں۔
۳۳۵۔
الفضل ۳۔ امان/مارچ ۱۳۴۳ہش/۱۹۲۴ء
۳۳۶۔
ولادت ۳۱۔ جنوری ۱۸۹۸ء وفات ۳۱۔۳۰ جنوری ۱۹۶۱ء۔ حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے فرزند اکبر تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی بذریعہ خط بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے۔ ۱۹۱۵ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کا اور ۱۹۲۶ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم۔بی۔بی۔ایس کا امتحان پاس کیا۔ اور کالج کے زمانہ میں آپ احمدیہ ہوسٹل میں رہے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں آپ مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ بیرونی` کمپالہ اور میگاڈی میں رہنے کے بعد ۱۹۳۵ء میں واپس آئے اور کراچی میں پریکٹس شروع کردی۔ کراچی میں تین سال گزارنے کے بعد پھر مشرقی افریقہ چلے گئے اور میگاڈی وغیرہ میں پانچ سال تک رہے۔ یہ زمانہ دوسری جنگ عظیم کا تھا۔ حکومت کو ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت تھی چنانچہ ڈاکٹر صاحب کیپٹن کے عہدہ پر فوج میں متعین ہوگئے۔ اس دوران میں انہوں نے زیادہ تر وقت مشرق بعید کے مختلف ممالک میں گزارا۔ ۱۹۴۶ء میں فوج سے سبکدوش ہوکر قادیان واپس آگئے۔ )الفرقان )ربوہ( شہادت/اپریل ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء(
۳۳۷۔
الفضل ۴۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۱
۳۳۸۔
الفضل ۱۰۔ صلح/جنوری` ۲۔ تبلیغ/فروری ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء
۳۳۹۔
کوالالمپور )ملایا( میں ۱۳۔ ستمبر ۱۹۱۸ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۷ء میں حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سنگاپور کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ۲۴۔ جنوری ۱۹۳۸ء کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان آئے اور ۱۹۴۶ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد اپنی زندگی حضرت مصلح موعود کی تحریک جدید کے ذیر انتظام تبلیغی جہاد میں مصروف عمل رہے۔
۳۴۰۔
الفضل ۲۹۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء صفحہ ۱
۳۴۱۔
آپ نسلاً چینی اور پیدائشی اعتبار سے ساباہ کے باشندہ ہیں۔ ابتداء میں بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔ لابوان میں مقیم احمدی بزرگوں )توکے عبدالقادر صاحب` سوکارمن صاحب اور سلیم شاہ صاحب( کے ذریعہ دولت احمدیت نصیب ہوئی۔ ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء میں آپ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لئے پہلے ربوہ میں اور پھر دیار حبیب کی برکات سے مستفید ہونے کے لئے قادیان تشریف لے گئے۔ ساباہ مشن کے نہایت اور مفید اور مخلص وجودوں میں ممتاز شخصیت ہیں۔ مبلغین احمدیت کا خاص احترام کرتے ہیں۔ دینی معلومات میں اضافہ کرنے اور دوسروں تک پیغام حق پہنچانے کا بہت شوق ہے۔
۳۴۲۔
یہ علاقہ آج تک احمدیت کے خلاف تعصب میں حدسے بڑھا ہوا ہے۔ یہاں کے عوام احمدیوں سے بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔
۳۴۳۔
الفضل ۲۳۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۳۴۴۔
الفضل ۶۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۸
۳۴۵۔
محترم زہدی صاحب کے خودنوشت غیرمطبوعہ حالات سے ماخوذ۔
۳۴۶۔
الفضل ۲۳۔ نبوت/نومبر۔ ۱۰۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۳۴۷۔
الفضل ۲۳۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۳۴۸۔
الفضل ۱۶۔ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۳۴۹۔
الفضل ۹۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۵۰۔
ایضاً
۳۵۱۔
الفضل ۳۔ احسان/جون ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۵۲۔
الفضل ۹۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۵۳۔
رپورٹ مولوی محمد سعید صاحب انصاری محررہ ۱۵۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء )آپ کی تشریف آوری کا تذکرہ آگے آرہا ہے(
۳۵۴۔
الفضل ۳۔ احسان/جون ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۵۵۔
مکتوب مولوی محمد سعید صاحب انصاری محررہ ۷۔ صلح/جنوری ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء از لابوان۔
۳۵۶۔
رپورٹ ہائے مولوی محمد سعید صاحب انصاری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء
۳۵۷۔
رپورٹ مولوی محمد سعید صاحب انصاری محررہ یکم احسان/جون ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء از لابوان
۳۵۸۔
اس اشتہار کی ایک کاپی مولوی صاحب موصوف کے فائل بابت ۳۰۔۱۳۲۹ہش/۵۱۔۱۹۵۰ء میں )جو وکالت تبشیرتحریک جدید ربوہ کی تحویل میں ہے( آج تک محفوظ ہے۔
۳۵۹۔
غیرمطبوعہ رپورٹ )وکالت تبشیرتحریک جدید ربوہ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے(
۳۶۰۔][رانائو کے علاقہ میں پانچ نیٹوچیف تھے ان میں مسلمان یہی ایک تھے جو مرزا محمد ادریس صاحب کے قیام رانائو کے دوران ۱۸۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ کو بیعت کرکے داخل سلسلہ احمدیہ ہوگئے۔ مرزا محمد ادریس صاحب کی طرف سے جب ان کا بیعت فارم حضرت مصلح موعود کی خدمت میں موصول ہوا تو حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ان کو کہیں کہ ہمیں تو آپ لوگ آگے نہیں آنے دیتے اب آپ کا کام ہے کہ اپنے قبیلے کو احمدی بنائیں اللہ تعالیٰ آپ کو پائیز (POINEER) بنائے اور دیتی برکات عطا فرمائے۔
نیٹو چیف امان پر بعد میں بڑی سختی کی گئی اور انگریز ڈسٹرکٹ آفیسر اور مسلمان نائب افسر دونوں نے الگ الگ دھمکی دی کہ احمدی ہوجانے سے تم چیف نہ رہو گے مگر وہ نہایت پامردی سے حق پر قائم رہے۔
۳۶۱۔
تبلیغی رپورٹ مرزا محمد ادریس صاحب ۱۹۵۵ء
۳۶۲۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی غیرمعمولی ترقی دی۔ احمدیت کو قبول کرتے وقت وہ محکمہ جنگلات میں معمولی کلرک تھے لیکن اب وہ اسی محکمہ میں اعلیٰ افسر ہیں۔ ابھی حال ہی میں گورنمنٹ کے خرچ پر وہ ہالینڈ میں مزید ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے ہیں اور مزید ترقی حاصل کی ہے۔
۳۶۳۔
مبلغین بورنیو کی طرف اشارہ ہے )مولف(
۳۶۴۔
الفضل ۵۔ احسان/جون ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۳
۳۶۵۔
ریکارڈ کالت تبشیر` الفرقان )بوہ( شہادت/اپریل ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳۴
۳۶۶۔
الفضل ۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳
۳۶۷۔
ایضاً
۳۶۸۔
ایک روزنامہ اخبار >ساباہ ٹائمز اینڈ نارتھ بورنیو< کے ایڈیٹرو مالک مسٹرڈونلڈ سیٹفنز STEPHANS) (DONALD تھے جو ملک کی آزادی کے بعد ملیشیابن جانے پر ساباہ کے پہلے وزیراعلیٰ چنے گئے اور اب آسٹریلیا میں ملیشیا کے ہائی کمشنر ہیں۔
۳۶۹۔
ایضاً
۳۷۰۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/فروری ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء صفحہ ۳
۳۷۱۔
الفضل ۳۰۔ صلح/جنوری ۱۳۵۵ہش/۱۹۶۶ء صفحہ ۱
۳۷۲۔
مکتوب مورخہ یکم نبوت/نومبر ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء بنام مولف تاریخ احمدیت
۳۷۳۔
ان مقامات کا انتخاب اس لئے کیاگیا تھا کہ ان میں احمدی ڈاکٹر قیام پذیر تھے۔ چنانچہ عدن میں ڈاکٹر فیروز الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد احمد صاحب` شیخ عثمان میں ڈاکٹر محمد خاں صاحب اور تواہی میں ڈاکٹر کیپٹن عزیز بشیری صاحب رہتے تھے۔ مولوی صاحب موصوف ہفتے میں دو دو دن شیخ عثمان اور تواہی میں اور تین دن عدن میں تبلیغی فرائض سرانجام دیتے تھے اور جمعہ بھی یہیں پڑھاتے تھے۔
۳۷۴۔
عرب ۲۔ ہندی گجراتی ۱۔ پنجابی ۲
۳۷۵۔
عدن سے ۵۰ میل کے فاصلہ پر
۳۷۶۔
شیخ عثمان سے ۱۶ میل دور ایک چھوٹی سی آزاد ریاست! جس کا مرکز حوط ہے۔
۳۷۷۔
میجر ڈاکٹر محمد خاں` عبداللہ محمد شبوطی` عبدہ سعید صوفی` محمد سعیدصوفی` احمد محمد شبوطی` سیف محمد شبوطی نے اس جلسہ کی کامیابی میں نمایاں حصہ لیا۔
۳۷۸۔
عدن مشن کے مرکزی ریکارڈ سے ماخوذ
۳۷۹۔
حال سیالکوٹ
۳۸۰۔
محترم ملک صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ >یہ میری ذاتی تحریر تھی اس کے لئے وہاں دوبار جانا پڑا۔ دوسری بار تھانیدار کو لے کر مسجد دارالفضل کی۔۔۔۔ تصویر بھی لی< غیرمطبوعہ مکتوب
۳۸۱۔
مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے کا بیان ہے کہ
یہ باغ ایک سکھ نے الاٹ کروالیا تھا لیکن ہماری طرف سے اس کو قبضہ نہیں لینے دیاگیا۔ پھر سردار امولک سنگھ صاحب مجسٹریٹ درجہ اول )متعین قادیان( نے اس بارہ میں مقدمہ کی سماعت کی اور بطور متبرک بہشتی مقبرہ کا حصہ تسلیم ہوکر ہمیں مل گیا لیکن گزشتہ سال )۱۹۶۳ء ناقل( جو احمدیہ محلہ کے نکاس مکانات کی قریباً سوا دو لاکھ روپیہ قیمت طلب کی گئی اور عدم ادائیگی کی صورت میں مرکزی وزارت آبادی نے نیلام کرنے کی دھمکی دی تھی یہ رقم صدر انجمن ادا کررہی ہے جس میں اس سکھ کی نیش زنی سے بڑے باغ کی قیمت چوالیس ہزار روپیہ بھی شامل کردی گئی ہے۔ )مکتوبات اصحاب احمد جلددوم(
۳۸۲۔
مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے نے مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم میں لکھا ہے۔
اس وقت تواراضی کا انتظام نہ ہوسکا چند سال بعد بعض درویشوں نے اردگرد کے غیرمسلم مہاجرین سے ٹھیکہ پر اراضی لے کر کاشت کرنا شروع کی اور اب تک کرپاتے ہیں۔ صدر انجمن احمدیہ نیز اس کے صیغہ پراویڈنٹ فنڈ اور بعض درویشوں نے بہشتی مقبرہ کے قریب اراضی خریدیں مگر اب دور دور بھی خریدلی گئی ہیں۔
۳۸۳۔
یہاں اب ملک محمدبشیر صاحب کا ٹال ہے۔ علاوہ ازیں پرائیویٹ رنگ میں بھی متعدد درویش فروخت ایندھن کاکام کررہے ہیں۔ )مکتوب اصحاب احمد جلددوم(
۳۸۴۔
اس سلسلہ میں طویل خط و کتابت ہوئی لیکن بعد کو کسٹوڈین کے قوانین جاری ہونے کے باعث کرایہ نہیں ملا اور یہ عمارتیں نکاس قرارپائیں۔ )مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم(
۳۸۵۔
یہ سب موٹریں جو ایام فسادات میں عارضی طور پر احمدیوں سے حاصل کی گئی تھیں مستقل طور پر ضبط کرلی گئیں۔
۳۸۶۔
یہ مستورات بحفاظت قادیان سے پاکستان بھجوادی گئی تھیں )مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم(
۳۸۷۔
بہت سے مکان بطور ملبہ فروخت ہوگئے تھے مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مرحوم نے بہت محنت کرکے تمام ایسے مکانات کی محلہ وار فہرست حکومت کی مع اس تفصیل کے بھجوائی کہ ان کا کونسا حصہ منہدم ہے؟ بفضلہ تعالیٰ اس کے بعد مکانات کی ناجائز فروخت اور منہدم کرنے کا سلسلہ ختم ہوگیا )مکتوبات اصحاب احمد جلد دوم(
۳۸۸۔
صدر انجمن احمدیہ نے بعد میں مکمل محکمانہ ثبوت نہ ہونے کے باعث دعوی ترک کرکے یہ پریس خرید لیا تھا )مکتوبات اصحاب احمدجلد دوم(
‏]h1 [tag ۳۸۹۔
تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۱ صفحہ ۴۱۱ و صفحہ ۴۳۹ میں اس پیغام کا متن سالانہ جلسہ قادیان ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے کوائف کے تحت درج ہوچکا ہے۔
۳۹۰۔
ملک صلاح الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں >کچھ عرصہ بعد سردار امولک سنگھ مجسٹریٹ نے سکھوں کو بلاکرنا ناجائز قبضہ والا حصہ خالی کرنے اور ہمیں قبضہ کرنے کو کہا اور اسی روز کی مہلت ہمیں دی گئی۔ غیر مسلم اس حصہ سے ملبہ اٹھانے میں تاخیر کرنا چاہتے تھے۔ بحمداللہ خاکسار کی تجویز کامیاب ہوئی کہ ہم خود مل کر طبہ ان کی طرف ڈال کر درمیانی دیوار شام تک کھڑی کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔< ۳۹۱۔
تفصیل کے لئے ملاخطہ ہو >تاریخ احمدیت< جلد نمبر۱۱ صفحہ ۴۴۴
۳۹۲۔
نوائے وقت ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۱
۳۹۳۔
نوائے وقت ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء صفحہ ۲ کالم نمبر۲
۳۹۴۔
الفضل ۶۔ وفا۔ ۳۰ وفا ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء حضرت میاں صاحب ۲۰۔ نومبر ۱۹۴۷ء کو وارد انگلستان ہوئے۔ چنانچہ مشتاق احمد صاحب باجوہ اور لندن کے دوسرے احمدیوں نے آپ کا استقبال کیا۔
۳۹۵۔
>سیرت حضرت مرزا شریف احمد< صفحہ ۸۵۔۸۶ )مولفہ چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی۔ ناشر مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ(
۳۹۶۔
الفضل ۲۴۔ تبوک ۱۹۲۶ء صفحہ ۳
۳۹۷۔
الفضل ۱۶۔ ہجرت ۱۳۴۶ہش صفحہ ۳
۳۹۸۔
بحوالہ الفضل ۷۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۴
۳۹۹۔
الفضل ۸۔ صلح۔ ۱۰۔ صلح` ۱۰۔ تبلیغ ۱۳۲۶ہش صفحہ ۳
۴۰۰۔
الفضل ۸۔ صلح ۱۳۲۶ہش
۴۰۱۔
الفضل ۴۔ فتح ۱۳۲۶ہش
۴۰۲۔
افتتاحیہ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۲۔ اگست ۱۹۵۲ء )ترجمہ(
‏]h1 [tag ۴۰۳۔
ڈان ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۷ء
۴۰۴۔
>طاقت< ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۷ء
۴۰۵۔
>سفینہ< ۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۷ء
۴۰۶۔
روزنامہ >انقلاب< لاہور یکم جنوری ۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر۱
۴۰۷۔
الفضل ۳۱۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۴
۴۰۸۔
الفضل ۵۔ تبوک ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱ ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نمبر ۳۰۲ نمبر پردرج ہے )ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۳۲۸( ۱۸۹۴ء میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ پہلی مرتبہ اگست ۱۸۹۶ء میں قادیان کی زیارت کی اور ایک ہفتہ مقیم رہے۔ دوسری بار فروری ۱۸۹۸ء میں آئے اور پورا مہینہ رمضان المبارک کا مرکز احمدیہ میں گزارا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت مجلس سے مستفیذ ہوئے۔ ۱۸۹۹ء سے مرکز سلسلہ کے تمام اخبارات و کتب ورسائل باقاعدہ منگوانے شروع کئے۔ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اگرچہ منکرین خلافت کے ٹریکٹ قبل از وقت پہنچے مگر اپنے رئویا ومکاشفات کی بناء پر پر بلاتا مل بیعت خلافت کرلی۔ حضرت منشی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ >حضرت اقدس کے اکثر خطوں کا ذخیرہ میرے پاس محفوظ تھا جن کو میں نہایت محبت اور احتیاط سے رکھا کرتا لیکن افسوس ایک دفعہ سیلاب آنے کے باعث جبکہ میں اپنی جائے رہائش پر موجود نہ تھا تمام اسباب کوٹھے سمیت دریابرد ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون< )الفضل ۲۷۔ وفا ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ مضمون میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان(
۴۰۹۔
الفضل ۲۸۔ تبوک ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱
۴۱۰۔
الفضل ۱۹۔ اخاء ۱۳۴۶ہش صفحہ ۲ کالم نمبر۲ آپ مچھرالہ تحصیل ننکانہ میں ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئے۔ ہوش سنبھالی تو باپ کا سایہ سرسے اٹھ گیا اور آپ حضرت چوہدری رستم علی صاحب مدار ضلع جالندھر کی کفالت میں آگئے جو ان دنوں منٹگمری میں کورٹ انسپکٹر تھے۔ جلسہ سالانہ ۱۸۹۳ء میں پہلی بار قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ مئی ۱۸۹۵ء میں بیعت کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخلہ لے لیا ۱۹۰۵ء میں تعلیم الاسلام کالج قادیان سے ایف۔ اے کا امتحان پاس کیا اور اکتوبر ۱۹۰۵ء میں ایم او کالج علی گڑھ میں داخل ہوگئے۔ ۱۹۰۷ء میں تعلیم کے دوران حضرت مسیح موعود کی پہلی تحریک وقف زندگی پر لبیک کہی۔ ۱۹۱۲ء میں آپ نے حضرت خلیفہ اول کی ہدایت پر چھ ماہ کے اندر قرآن مجید حفظ کرلیا۔ ۲۰۔ فروری ۱۹۱۵ء کو جزیرہ ماریشس میں بغرض تبلیغ بھجوائے گئے اور ۱۶۔ مارچ ۱۹۲۷ء کو قادیان میں واپس تشریف لائے۔ بعدازا بیس سال تک پہلے مدرستہ البنات میں پھر ہائی سکول میں بعدازاں عمومی رنگ میں جماعت کی تعلیمی و تربیتی خدمات انجام دیتے رہے۔ >)روایات صحابہ< غیرمطبوعہ جلد نمبر۷ صفحہ ۲۶۹ الفضل ۳۔ فتح ۱۳۲۶ہش ۱۱۔ ہجرت ۱۳۲۷ہش(
۴۱۱۔
الفضل ۱۳ امان ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴ )والد ماجد مولانا محمد اسعمیل صاحب دیا لگڑھی مربی سلسلہ احمدیہ حال انچارج شعبہ رشتہ ناطہ اصلاح و ارشاد ربوہ( ۱۹۰۰ء میں مولوی حکیم نوالدین صاحب مرحوم ساکن ہجکہ ضلع شاہ پور کی تبلیغ سے حضرت میسح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کا شرف ہاصل کیا اور آپ کے ذریعہ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کی جماعت کی بنیاد پڑی۔ ۳۔۱۹۰۲ء میں مقدمہ گورداسپور کے دوران گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی زیارت اور حضور کی روحانی مجلس سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل کی۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ آپ تبلیغ میں لگے رہیں مومن کبھی اکیلا نہیں رہتا چنانچہ خدا کے فضل سے دیال گڑھ میں آہستہ آہستہ ۶۰۔۶۵ نفوس پر مشتمل ایک مخلص اور فعال جماعت پیدا ہوگئی۔ چوہدری صاحب نہایت راست گو` پاکباز` بے نفس اور منکسرالمزاج بزرگ تھے۔ آپ تحریک جدید دفتر اول کے مجاہد اور موصی تھے اور وصیت کا حصہ اپنی زندگی میں ہی ادا کردیاتھا۔ ۱۱۔۱۲ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے سب سے بڑے کا نوائے میں قادیان سے ہجرت کرکے لاہور آرہے تھے کہ لاہور کے قریب چلتی بس سے نیچے گر پڑے۔ سر اور پائوں میں نہایت سخت چوٹیں آئیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔ )الفضل ۳۔۴۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(
۴۱۲۔
الفضل ۱۲۔ ماہ نبوت ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱
‏]1h [tag ۴۱۳۔
الفضل ۱۴۔ نبوت ۱۳۲۶ہش صفحہ ۱۔ سلسلہ احمدیہ کے نہایت قیمتی وجود` سیدنا حضرت مسیح موعود کے مخلص ترین صحابہ میں سے ایک نمایاں شخصیت اور مترجم قرآن مجید انگریزی۔ ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آئے اور آخر دم تک سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجالاتے رہے۔ >تاریخ احمدیت< جلد دوم اور اس کے بعد کی جلدوں میں آپ کا ذکر متعدد باد آچکا ہے )تفصیلی حالات کے لئے ملا خطہ ہو< سیرت حضرت مولانا شیرعلی< از ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ریاض(
۴۱۴۔
الفضل ۲۔ شہادت ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴ حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی حضرت مرزا جلال الدین صاحب بلانوی )اصحاب کبار ۳۱۳ میں نمبر اول( کے منجھلے بیٹھے تھے۔ ۱۹۰۶ء میں مستقل ہجرت کرکے قادیان میں دھونی رمادی اور افسر جائداد اور محاسب کی حیثیت سے گرانقدر خدمات انجام دینے کے بعد جب ۱۹۳۲ء میں ریٹائر ہوئے تو حضرت مصلح موعود نے آپ کے اعزاز میں دی گئی الوداعی پارٹی میں نہایت شاندار الفاظ میں آپ کی تعریف فرمائی۔ آپ صاحب کشف والہام تھے۔ آپ کو بتایاگیا کہ آپ کی وفات ۸۰ برس کی عمر میں دو صحابیوں کے انتقال کے بعد مقدر ہے۔ چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا )الفضل ۲۔ شہادت ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴( حضرت مصلح موعود نے ۲۱ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو لاہور میں نماز جمعہ کے بعد آپ کا جنازہ غائب پڑھا اور خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>مرزا محمد اشرف صاحب پنشز جو قادیان کے رہنے والے تھے جہلم میں وفات پاگئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون الاولون صحابہ میں سے ایک مرزا جلال الدین صاحب بلانی ضلع گجرات کے ہوتے تھے یہ ان کے لڑکے تھے اور بڑی دیر تک قادیان میں محاسب رہے۔ نہایت مخلص اور نیک انسان تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی تھے۔ ان کے والد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قرآن کریم کی کلید لکھنے پر مامور فرمایا تھا اور انہوں نے ایک مکمل کلید لکھی بھی جو افسوس ہے کہ اب تک شائع نہیں ہوسکی۔< )الفضل ۹۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء صفحہ ۶(
‏tav.11.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
دوسرا باب
حضرت مصلح موعود کی استحکام پاکستان سے متعلق مغربی پاکستان کے مشہور شہروں میں پبلک تقاریر
سے لیکر
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد تک
)خلافت ثانیہ کا چونتیسواں سال ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کا سال اپنی گونا گوں تعمیری خصوصیات کے باعث ایک نہایت بابرکت اور غیرمعمولی اہمیت کا حامل سال ہے جس کی بشارت رب رحیم نے اپنے خلیفہ برحق سیدنا المصلح الموعود کو برسوں قبل دے رکھی تھی چنانچہ حضور نے ۲۔ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو رتن باغ میں اس سال کا پہلا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ۔
>جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۴ء میں مجھے ایک رئویا میں بتایا تھا یہ سال اپنے اندر نئی نئی امیدیں رکھتا ہے۔<
حضرت امیرالمومنین نے اس اجمال کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔
>مارچ ۱۹۴۴ء میں میں نے ایک رئویا دیکھا جبکہ بعض لوگ میرے متعلق ایسی خبریں شائع کررہے تھے اور کچھ احمدی دوست بھی نہ معلوم کن اثرات کے ماتحت یہ خوابیں دیکھ رہے تھے کہ میری زندگی کے دن ختم ہورہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے جب میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو مجھے ایک نظارہ دکھایاگیا کہ ایک سمندر ہے اور اس میں کچھ بائے (BUOY) ہیں۔ بوائے انگریزی کا لفظ ہے اور چونکہ یہ صنعتی شے ہے اس لئے اردو زبان میں اس کا کوئی ترجمہ نہیں )یہ بوائے ڈھول سے ہوتے ہیں جنہیں آہنی زنجیروں سے سمندر میں چٹانوں کے ساتھ باندھا ہوتا ہے اور وہ سمندر میں تیرتے پھرتے ہیں اور جو جہاز وہاں سے گزرتے ہیں ان کو دیکھ کر جہاز ران یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ اس بوائے سے چٹان قریب ہے اور اس سے بچ کر چلنا چاہئے۔ اور اگر سمندر کے اندر چٹانوں کے نشان بتانے کے لئے بوائے نہ لگے ہوئے ہوں اور جہاز آجائے تو جہاز کے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔( تو میں نے دیکھا کہ سنمدر میں اسی قسم کے بوائے لگے ہوئے ہیں اور ان کی زنجیریں بہت لمبی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں۔ خواب میں میں خیال کرتا ہوں کہ اس بوائے کا تعلق میری ذات سے ہے اور تمثیلی رنگ میں وہ بوائے میں ہی ہوں اور مجھے بتایاگیا کہ یہ نظارہ پانچ سال کے عرصہ سے تعلق رکھتا ہے تب میں نے سمجھا کہ آئندہ پانچ سال کے اندر کوئی اہم واقعہ اسلام کے متعلق پیش آنے والا ہے اور گویا مسلمانوں کو اس آفت سے بچانے کے لئے میں بطور بائے ہوں۔ اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب تک وہ واقعہ پیش نہ آئے مجھے زندہ رکھا جائے گا۔ اس رئویا کے پورا ہونے کا ایک پہلو تو یہ بھی نظر آتا ہے کہ ہمارا ملک اس عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آزاد ہوچکا ہے اور ایسے حالات میں آزاد ہوا ہے جن کی موجودگی میں آزادی مل جانا خلاف توقع تھا اور کسی کو یہ وہم بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ اتنی جلدی ہمارا ملک آزاد ہوجائے گا۔ پھر آزادی ملنے کے ساتھ ہی ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو آج سے تھوڑا عرصہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہ تھے۔ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آئی اور بہت بڑی آفت کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔ گویہ تباہی ہندوئوں پر بھی آئی مگر اس زمانہ میں جب مجھے رئویا دکھایا گیاتھا کسی شخص کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ ہمارے ملک میں اتنا بڑا اور عدیم المثال تغیر آئے گا اور ہمارا ملک چند سالوں کے اندر اندر آزادی حاصل کرلے گا اور وہ آزادی ایسی ہوگی جو اپنے ساتھ بہت سی تاریکیاں اور ظلمتیں بھی رکھتی ہوگی۔ اس رئویا کے ساتھ ایک اور رئویا بھی تھی ۔۔۔ اس رئویا میں ایک مضمون بار بار مجھ پر نازل ہوا وہ پورا مضمون تو مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ اس میں بار بار بیالیس اور اڑتالیس کا لفظ آتا تھا۔۔۔۔
بہرحال اڑتالیس کا لفظ پنج سالہ زمانہ کی طرف توجہ دلاتا تھا۔ یہ رئویا میں نے مارچ ۱۹۴۴ء میں دیکھی تھی اور یہ پنج سالہ زمانہ مارچ ۱۹۴۹ء میں ختم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے رئویا کی تعبیر میں اگر پورا سال ہو تو اس کی کسر بھی ساتھ ہی شامل ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ پانچ سال کی کسر بھی یعنی چھ ماہ اور ملاکر یہ پنج سالہ زمانہ اکتوبر ۱۹۴۹ء کے بعد پانچواں سال شروع ہوجائے گا۔ پس یہ سال اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے۔<۱
سیدنا حضرت مصلح موعود کی بیان فرمودہ تعبیر بالکل دوست ثابت ہوئی اور ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں رونما ہونے والے متعدد واقعات خصوصاً ربوہ جیسے عالمی اور بین الاقوامی شان رکھنے والے اسلامی مرکز کی بنیاد نے اس پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت کردی اور ساتھ ہی بتادیا کہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ ایک ایسے آسمانی قافلہ کی تاریخ ہے جس کی ہر نئی منزل کے فیصلے آسمانوں پر خدا کے شاہی دفتر میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان کے مطابق زمین پر تنقیذ ہوتی ہے۔
فصل اول
مسئلہ کشمیر سے متعلق چوہدری محمدظفراللہ خان صاحب کی شاندار ترجمانی
۱۹۴۸ء کا سال ایک ہنگامہ پرور سال تھا جس کا آغاز قضیئہ کشمیر سے متعلق حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی O۔N۔U میں شاندار ترجمانی سے ہوا۔ اس سلسلہ میں پاکستانی پریس نے خاص طور پر بہت تفصیلی خبریں سے شائع کیں جن میں سے نمونتہ چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ اخبار زمیندار نے اپنی اشاعت ۲۱۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں آپ کی تقریر کی خبر کئی شہ سرخیوں کے ساتھ دی اور لکھا۔
لیک سکسیس۔ ۱۸۔ جنوری سلامتی کونسل میں پاکستان کے وزیرخارجہ سر محمد ظفراللہ خاں نے آج کے اجلاس میں اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے ان کوششوں کا ذکر کیا جس سے پاکستان اور ہندوستان میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکتا تھا۔ آپ نے ان تجاویز کو رد کرتے یا جو حکومت پاکستان کی طرف سے گورنر جنرل ہندوستان کو پیش کی گئی تھیں۔
سرمحمد ظفراللہ خاں سے بتایا۔ کہ ہم نے تجویز پیش کی تھی کہ لڑائی فوراً بندکردی جائے۔ کشمیر سے ہندوستانی افواج اور اس کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں کو فوراً کشمیر سے نکال دیا جائے۔ اور مشترکہ کنٹرول میں آزادانہ استصواب رائے کیا جائے۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے حکومت ہندوستان کے رویہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔ کہ وہ چاہتی تھی کہ طاقت کے ذور سے مسلمانوں کو کشمیر سے نکال کر وہاں قائم کرے۔ سمجھوتے کی تمام کوششیں صرف پاکستان کی طرف سے ہی کی گئیں۔ سب سے پہلے ایک کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ حکومت پاکستان نے اس دعوت کو قبول کرلیا۔ اور کشمیر کے وزیراعظم کو کراچی آنے کی دعوت دی۔ لیکن بنوں نے وہاں آنے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نے یہ تجویز پیش کی۔ کہ حکومت ہندوستان کے وزیراعظم اور ان میں ایک مشترکہ کانفرنس کے ذریعے کشمیر کی مسئلہ کا مناسب حل تلاش کیا جائے اس کا ہمیں ہر جواب بتایا کہ انہیں اس معاملہ میں تمام بات چیت شیخ عبداللہ سے کی جائے۔ سرمحمد ظفراللہ نے کہا کہ شیخ عبداللہ تو ایک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا ان سے سمجھوتہ کی بات چیف غیر ۔۔۔۔۔ جا سکتی تھی۔
خاطر خواہ حل
سرمحمد ظفر اللہ خاں نے کہا۔ کہ ۱۷۔ نومبر کو ہم نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر کشمیر اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کو ادارہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا جائے۔ سرمحمد ظفراللہ خاں نے بتایا کہ حکومت ہندوستان نے اس تجویز کو بھی ٹھکرا دیا۔ اور اس طرح ہماری چھٹی کوشش بھی ناکام کرکے رکھ دی گئی۔
جارحانہ حکمت عملی
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا کہ میرے پاس بھی آپ کے کافی ثبوت موجود ہیں۔ کہ حکومت ہندوستان نے کشمیر کے کبھی ۔۔۔۔۔۔میں شامل ہونے ناجائز اثر اور دبائو ڈالا۔ آپ نے بتایا۔ کہ حکومت ہندوستان کو یہ معلوم تھا کہ کشمیر نے پاکستان سے معاہدہ کررکھا ہے۔ لیکن اسی کے باوجود کبھی اس نے ڈاک اور تار کے محکمہ کو ایک لیٹر افسر کے سپرد کردیا۔ آپ نے مسلسلہ عزم جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ ہندوستان کے پوسٹ اینڈ ٹیلی گرافس کے ڈائریکٹر جنرل نے لیٹر میں ڈائریکٹر جنرل برٹش پوسٹ آفس کو بتایا تھا کہ آئندہ سے کشمیر کے لئے تمام ڈاک انڈین یونین کے راستے آئے گی۔ سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا۔ کہ یہ سب کچھ چار ہفتہ پہلے ہوا۔ اور اس کے بعد مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے ہندوستانی یونین میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔
پاکستان کے وزیرخارجہ سرمحمدظفراللہ خاں نے اسلامتی کونسل میں اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ حکومت پاکستان مہاجرین کو ازسرنو بسانے میں کامیاب ہورہی ہے۔ کہ میں دوبارہ یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ کہ حکومت ہندوستان کا مقصد صرف یہی ہے۔ کہ کشمیر پر مستقل طور پر قبضہ جمایا جائے اور وہ چاہتی یہ ہے۔ کہ وہاں سے مسلمانوں کا مکمل طور پر اخراج کردیا جائے۔
سرمحمد ظفرالل¶ہ خاں نے سلامتی کی کونسل میں بتایا۔ کہ ایک وقت تھا۔ کہ حکومت ہندوستان یہ کہتی تھی کہ اس مسئلہ میں حکومت پاکستان کو براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے فوراً ہی بعد اس نے کہا کہ اس باہمی تنازعہ کو سیکورٹی کونسل میں پیش کردیا جائے گا۔ حکومت پاکستان نے چھ بار کی سمجھوتہ کے لئے کوشش کی لیکن ہندوستان نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہ رہائی کے بعد شیخ عبداللہ کس مقصد کے حصول کے لئے دہلی گئے تھے۔ کہ وہ اس لئے دہی گئے کہ کشمیر کے یونین میں شامل ہونے کے لئے حکومت ہندوستان سے کوئی سازباز کریں۔
پاکستانی وفد کے قائد نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حکومت ہندوستان کے یہ الزامات طور پر ناجائز اور بے بنیاد ہیں۔ کہ حکومت پاکستان نے ضروری اشیاء کی نقل و حمل کو روک دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی مشکلاحات کی ناساز گاری تھی میرا مقصد ریاست پر کوئی ناجائز بوجھ ڈالنا نہ تھا۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا کہ دراصل کشمیر میں ڈوگرہ افواج مسلمانوں پر بدستور کررہی تھیں۔ چنانچہ ان حالات میں مسلمان ڈرائیوروں نے کشمیر میں حفاظتی فوج کے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
مجھے سخت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس وقت حکومت ہندوستان سے کسی سوال کا جواب بن نہیں پڑتا۔ تو اس کی یہ عادت ہے کہ وہ صاف انکار کردیتی ہے۔
سرمحمد ظفراللہ خان نے کہا۔ کہ فسادات کے دوران میں ہیں ادارہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کررہا تھا۔ میں نے ہندوستان کے نمائندوں مسز وجے لکشمی پنڈت سے ان فسادات کا ذکر کیا۔ آپ نے اپنے بھائی پنڈت نہرو کو تار بھیجا۔ پنڈت نہرو نے جوابی اطلاع دی کہ اس ضلع میں بالکل امن تھے۔ اور کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ میں پوچھتا ہوں۔ کہ ایسی حکومت پر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
اس کے بعد آپ نے ان الزامات کا ذکر کیا۔ جو حکومت ہندوستان نے پاکستان پر لگائے تھے۔ یونین نے کہا۔ کہ پاکستان کشمیر میں حملہ آوروں کو پٹرول اور دوسرا فوجی سامان مہیا کررہی ہے۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا۔ کہ جنگ کے بعد کئی ایک فوجی ذخائر تھے۔ لیکن اگر کوئی اسلحہ وہاں سے حاصل کرے تو اس کی ذمہ داری حکومت پاکستان پر کیوں عائد کی جارہی ہے۔ حکومت ہندوستان کو یہ بخوبی علم ہے۔ کہ فوجی ذخائر کی تقسیم کے بعد پر حصہ پاکستان کو ملنا تھا۔ وہ ابھی تک ہمارے پاس نہیں پہنچا۔ حکومت ہندوستان پر الزامات تراش کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کررہی ہے۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا۔ کہ حکومت ہندوستان نے یہ الزام لگایا ہے۔ کہ پاکستان افواج کے فوجی کشمیر میں آزمائیں۔ تمام پس منظر کو علیحدہ رکھئے۔
یہ سوال ایک انسانیت کا سوال ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ مشرقی پنجاب سے تمام مسلمانوں کا صفایا کردیاگیا۔ پچاس لاکھ کے قریب مسلمان مشرقی پنجاب سے زبردستی نکال دیئے گئے اور دس لاکھ کے قریب شہید کردیئے گئے ہیں۔
قبائل اور کشمیر
اسی قسم کا ہنگامہ کشمیر میں بھی جاری کردیاگیا کیا ان حالات میں کوئی غیر جانبدار رہ سکتا ہے۔ کئی ایک فوجیوں کو جانی ومالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کیا ان حالات میں ان پر کوئی اثر نہ ہوسکتا تھا۔
پاکستانی وفد کے قائد سرمحمد ظفراللہ خاں سے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے ان الزامات کا ذکر کیا جو ہندوستان نے پاکستان پر عائد کئے اور کہا تھا۔ کہ پاکستان قبائلیوں کو کشمیر میں آنے سے نہیں روک سکا۔ اور انہیں پاکستان کی سرحدات گزرنے کی اجازت دے رہی ہے۔ سر ظفراللہ خاں کے حکومت سرحد کے ایک سرکاری تار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قبائلیوں کو روکنے کے لئے ہر ممکن اقدام اختیار کئے گئے تھے۔ اس تار میں طے کیاگیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی جغرافیائیی مشکلات کی وجہ سے ہم صوبہ کے طول و عرض میں قبائلیوں کی نقل و حمل کو کس طرح روک سکتے ہیں۔
برت کا فراڈ
سرگوپال سوامی آئینگر سابق وزیراعظم کشمیر نے مسٹر گاندھی کے جس برت کا ذکر کیاتھا۔ سرمحمد ظفراللہ خاں نے اس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے۔ کہ مسٹر گاندھی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ آپ پاکستان اور ہندوستان میں ایک نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ اس صورت میں ہمدردی ظاہر کرنے کے لئے ہم بالکل ایک ہیں لیکن میں یہ امر واضح کردینا چاہتا ہوں۔ کہ مسٹر گاندھی کا یہ برت پاکستان کو اس کے ضمیر کے خلاف کوئی بات منظور کرنے پر رضا مند نہ کرسکے گا۔ مجھے امید ہے کہ مسٹر گاندھی بھی میرے ان خیالات کی ہمنوائی کریں گے۔
پاکستان کا روپیہ در جو ناگرہ
اطلاع موصول ہوتی ہے کہ حکومت ہندوستان نے پاکستان کو وہ روپیہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جو اس نے روک لیا تھا اس کے اس رویہ سے ہمارے اختلاف میں کافی کمی پیدا ہوگئی ہے۔ اب تو انڈین یونین جو ناگرہ میں استصواب رائے بڑی رضامند ہوگئی ہے۔ یہ وہ ریاست ہے جس نے پاکستان میں شمول کا اعلان کیا تھا۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا۔ کہ اس مسئلہ کا حل صرف اسی طرح سے تلاش کیا جاسکتا ہے کہ کشمیر کے عوام کو یہ یقین دلادیا کہ ان کے ساتھ وہ سلوک ردا نہیں رکھا جائے گا۔ جو ان کے ہم مذہب بھائیوں سے دوسری ریاستوں میں کیا جاچکا ہے جب ایک بار انہیں یہ یقین اور اطمینان ہوگیا کہ اب ہم پر کوئی بیرونی دبائو نہیں۔ تو اس کے بعد وہ آزاد طور پر یہ فیصلہ کریں کہ وہ کس نوآبادیات میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ پاکستانی نمائندہ نے کہا کہ اب ہندوستان کی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ میں نے اپنی فوجیں اس لئے کشمیر میں بھیجیں۔ کہ وہاں امن قائم کیاجا سکے لیکن کر وہ بھی کشمیر میں جاکر امن کے لئے وبال جان ثابت ہوئے۔ اس پوچھتا ہوں کہ حکومت ہندوستان نے اس ضمن میں کیا کیا ہے۔ سرظفراللہ خان نے کہا۔
استصواب رائے کا مسئلہ
کہ میرے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کے سمجھوتہ کے لئے ہر ممکن کوشس کی۔ ہم اس امر کا مطلب کرتے ہیں کہ جو لوگ کشمیر میں داخل ہوئے ہیں۔ انہیں وہاں سے نکال دیا جائے اس میں ہندوستانی فوج بھی شامل ہے۔
سرمحمد ظفراللہ خاں نے استصواب رائے کے متعلق اپنا نقطہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواہ مشترکہ نظام کے ماتحت استصواب رائے کیا جائے لیکن اس سے پہلے ریاست میں عام حالت کا پیدا کرنا ضروری ہے۔
پاکستان کے نمائندہ سرمحمد ظفراللہ خاں نے کہا کہ مجھے اس امر کا احساس ہے کہ میں نے آپ کا کافی وقت لیا۔ لیکن مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر مجھے اپنے نقطہ نظر کو واضح کرنا تھا اس مسئلہ سے لاکھوں اشخاص کا مستقبل وابستہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس تفصیلی تقریر کے لئے جو وقت مں نے آپ کا لیا آپ اس کے لئے مجھے معاف فرمائیں گے۔
آج کی تقریر میں سرمحمد ظفراللہ خاں دو گھنٹہ اور پچس منٹ تک مسلسل روتے رہے۔ آپ کی کل تقریر پانچ گھنٹہ اور ۲۵ منٹ تک جارہی۔
صدر مجلس کا اعلان
سرمحمد ظفراللہ خاں کی تقریر کے بعد کے نمائندہ )جو سلامتی کونسل کے صدر ہیں( نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ معاملہ نہایت نازک ہے کشمیر کا معاملہ چونکہ ۔۔۔۔۔ کوشش کریں پچیدہ سے نے اس دونوں پارٹیوں سے
لیک سکسیس ۹۔ جنوری مجلس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شرکت کرنے والے پاکستانی اور ہندوستانی وفد کے قائدین سرمحمد ظفراللہ خاں اور سر گوپال سوامی آئینگر کے مابین مسئلہ کے متعلق تیسری گول میزکانفرنس آج بعد دوپہر شروع ہوگئی اس کانفرنس کا دوسرا اجلاس سیکورٹی کونسل کے صدر کی صدارت میں منعقد ہوا۔ معلوم ہوا ہے کہ انڈنیشیا اور ہالینڈ کے مابین سمجھوتہ کرانے کے لئے سلامتی کونسل نے جو طریقہ اختیار کیا تھا۔ کشمیر کے مسئلہ میں بھی اس طریقہ کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اس امر کا خیال ظاہر کیا جارہا ہے۔ کہ سیکورٹی کونسل ایک کمیٹی مقید کردے گی جس کے تین ارکان ہوں گے۔ کمیٹی کشمیر جاکر جنگ بند کرانے کے لئے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن کیا جارہا ہے کہ یہ کمیٹی تین ارکان پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کے دو ارکان میں سے ایک کو پاکستان اور دوسرے کو ہندوستان منتخب کریگا۔ تیسرا ارکن سیکورٹی کونسل کو فیصلہ منتخب کرے گا۔ یہ رکن ایسا ہوگا جس پر ہندوستان اور پاکستان جنہوں کو اعتماد ہوگا۔ یہ کمیٹی فوراً کشمیر روانہ ہوجائے گی اور اپنا کام شروع کردے گی۔ پاکستا اور ہندوستان کے قائدین وفد کی ملاقاتوں کے متعلق یہ کہا جارہا ہے یہ ملاقاتیں سمجھوتہ کے لئے نیو خیز ثابت ہوں گی۔ سیکورٹی کونسل کے ہندوستانی وفد کے دفتر سے ایک کمیونک ¶جاری کیاگیا ہے۔ جس میں اس امر کا اظہار کیاگیا ہے کہ گاندھی جی کے برت توڑنے کا جو خوشگوار اثر ہندوستان پر ہوا ہے یہی اثر لیک سکسیس ہوگا۔ اور مسئلہ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کے نمائندوں کے مابین کوئی نہ کوئی سمجھوتہ طے پاجائے گا۔
سیکورٹی کونسل کے صدر سے سرمحمد ظفراللہ خاں اور سرگوپال سوامی آئینگر سے ابتدائی تو شہید کرنے کے بعد اس امر کا اعلان کیا ہے۔ کہ دونوں پارٹیاں یہ کمیٹی تین ارکان پر مستمل ہوگی۔ صدر اس امر کا اظہار بھی کیا۔ کہ دونوں پارٹیاں ابھی تک بنیادی مسائل کے تصفیہ کے سلسلہ میں مختلف نقط نظر رکھتی ہیں۔ صدر نے دونوں پارٹیوں سے اس امر کی استدعا کی۔ کہ دونوں پارٹیوں کو اصل مسئلہ کو حل کرنے سے قبل دیگر تنازعہ مسائل کے متعلق بات چیت کرلینی چاہئے۔ بات چیت بار آور ثابت ہوگی۔ اس بنا پر گول میزکانفرنس کا اجلاس جو آج گیارہ بجے قبل دوپہر منعقد ہونا تھا۔ وہ ساڑھے چار بجے شام پر ملتوی کردیا گیا۔ تاکہ دونوں نمائندے اس سلسلہ میں اپنی دوستوں سے مشورہ کرلیں۔ اور کمیٹی کی تشکیل کے سلسلہ میں ان کی رائے دریافت کرلیں یہ معلوم ہوا ہے کہ کمیٹی کے اختیارات کے سلسلہ میں بھی دونوں حکومتوں کے نمائندوں کے مابین اختلاف ہے۔ ان کا خیال ہے۔ کہ موقع پر صورت حال سے نپٹنے کے لئے کمیٹی کو وسیع اختیارات دیئے جائیں۔ اگر دیئے جائیں۔ تو ان اختیارات کی نوعیت کیا ہو۔ اگر آج اس سلسلہ میں کوئی سمجھوتہ ہوگیا۔ تو سیکورٹی کونسل اس سلسلہ میں منگل کے روز دیگر امور کا فیصلہ کردے گی۔ اس کے فوراً بعد کمیٹی کو کشمیر روانہ کردیا جائے گا۔
نیویارک ۹۔ جنوری آج سلامتی کونسل کے صدر نے تجویز پیش کی ہے۔ کہ اگر انڈیا اور پاکستان دونوں مملکتوں کے نمائندے رضامند ہوں۔ تو پھر جنگ کشمیر بند کرانے کے لئے سلامتی کمیٹی فوراً بھیجی جائے۔ اس وقت دونوں مملکتوں کے نمائندے اپنی اپنی حکومتوں سے تجویز کے بارے میں صلاح مشورہ کررہے ہیں۔ آج رات تجویز پر غور کریں گے۔ اس تجویز کا پس منظر یہ ہے۔ کہ آج جب کونسل پر یہ بات ظاہر کی۔ کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے نمائندوں میں بنیادی امور کے کی تجویز پیش کی۔ کمیٹی تین ارکان پر ہوگی۔ جن میں سے ایک کو پاکستان نامزد کرے گا۔ اور دوسرے کو ہندوستان تیسرے رکن کو کونسل کا صدر پاکستان اور ہندوستان کی منظوری سے نامزد کرے گا۔۲
اخبار آغاز لاہور نے مورخہ ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۸ء میں حسب ذیل خبر شائع کی۔
اسلامتی کونسل میں سرظفراللہ نے اپنی قابلیت کا لوہا منوالیا
کونسل کے صدر نے پاکستانی وفد کے رئیس سے معافی مانگ لی!
لیک سکسیس ۲۸۔ جنوری سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں سرمحمد ظفراللہ خاں نے قرار دار کے غلط عنوان جمون اور کشمیر کے مسئلہ پر قراردار >کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ الفاظ جموں اور کشمیر< صحیح نہیں اور معاہدہ کے منافی ہیں۔ صدر نے اس سے اتفاق کیا اور ان الفاظ کے سہواً درج ہوجانے پر معافی چاہی اور انہیں حذف کردیا۔
مسٹر آئینگر نے ایک پر زور تقریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ کہ ان الفاظ کو رکھنے یا انہیں حذف کردینے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آخرکار انہوں نے ان الفاظ کو حذف کردینے پر اتفاق کیا۔
سرظفراللہ خاں اپنی نلخصیت اور قابلیت کا برابر لوہا منوارہے ۔ مجلس اقوام متحدہ کے ایک اعلٰے افسر نے کہا۔ >یہ وہ جگہ ہے۔ جہاں دنیا کے بہترین دماغ جمع ہوتے ہیں۔ تاہم ایسے آدمی یہاں کبھی کبھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ بڑے آدمیوں میں بھی آپ کی شخصیت بہت ممتاز ہے اور ممتاز رہے گی۔ )نامہ نگار(۳
اخبار پاکستان ٹائمز نے ۱۲۔ فروری ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں لکھا۔
‏letter UNO Our
‏advocacy brilliant Zafrullah's
‏Indian case: Pakistan of
‏tactics delaying delegation's
‏UNO deleation Kashmir Azad with Corresondent Special our From
‏ the on karachi left we Mail): Air (By SUCCESS, LAKE American,۔Pan the by ,۔m۔a 12:55 at exactly 14, Jan of morning ۔m۔a 8 at Damascus was stop first Our >۔<Intrepid liner Service local the with chatted and there fasted break We ۔day same the on Palestine the of briefing able Zafrullah's of thanks countries, Arab۔in keenly are Syrians The ۔high very risen has stock Our ۔case broken plus phrases Arabic Broken question Kashmir the in terested quickly communication established phrases French plus English ۔manner fraternal very a in Arabs the with chafting were we and
۔real very is countries Arab into penetration Jewish of fear Arab The the dna differences political no have Syria of Muslims and Christians The compromising without minorilies their of trust the wonn have Muslims the as Syrians, ardent and Muslims ardent are The ۔principles Islamic Khouri, Dr ۔Syrians ardent also as Christians ardent are Christians Council, Security UNO the in Syria represents and Christian a is Who had Damascus of shops the of boards۔sign the all how on) (later me told and schools the hwo and Arabic adopted and French dropped overnight ۔Arabic in stcesubj their all teaching were colleges
‏ over flying and there, lunch had istanbul, to Damascus from flew We the in late day same the London reached Alps, the and Rome Athens, successful so been had Karachi at conference Press Sahib's Sirdar۔evening hopped we London From ۔him of full were papers English the that plane the of servicing proper after and (Ireland) Islands Shannon to morning, the in Early ۔Allantie the over flight all-night our started we But ۔time first the for us by decnetrepxe were bumps slight some leebergs The ۔Quetta near gets one jerks the than lighter were they but bumps these of cause the were forests, plane huge like looked which ۔hour an half than more for last not did they
‏NEWS BAD FIRST
‏ here And ۔form perfect in (Newfoundland) Gander, reached We would we that told were We ۔journey the of news bad first the came the comed hours, six for Gander at stop to have arrangement transport and us snapped newspapermen and time our of tbi streets York New the through passed we when But ۔us delayed roads the along plying were taxis and fro and to walking were people And ۔morning the In 3:30 at customers, of full were houses eating and۔sky a into went We ۔day as brihgt as light with flooded was Broadway ۔floor 47th hotel, scraper
‏CASE OPENS IYYENGAR
‏ the Success, Lake of village the to rushed and late rather up woke We ۔m۔p thirty۔two At ۔York New from away miles 23 quarters, UNO was He ۔ylevitceeff speaks engar Iyy India> for case the opened Iyyengar Zafrullah, Mohammad Sir ۔it for time ample had had He ۔prepared well straight almost flown had and Burma from hastily come had knew, I him, with team good a has he though But ۔York New to thee from on Kashmir's was Iyyengar ۔stronger seemingly is delegation Indian the picturesqa a is Sheikh, the Abdullah, ۔years eight for Minister Prime them with also is IIasksar ۔adviser legal the is Setalwad ۔stooge Pandit, Kashmiri another is Zulshi ۔out inside Kashmir knows he and is Pandit, another yet Kaul, Colonel and work Relations Public does who Foreign Indian the Vellodi, ۔Embassy Indian the to Attache Military the chance mere it is ۔team the complete other three and Secretary Asaf even that and them amongst Muslim only the is Abdullah that ￿apperarance an in put not has Ali
‏ Kashmir Azad The ۔point onne on concentrated was brief Iyyengar's arson and loot and massaeres the know You ۔fire case should forces of out making yeht were What audience, foreign a before rape, and of composed is it ۔meeting public a not is Council Security The ￿it China, USSR, UK, USA, ۔۔۔ countries 11 of diplomats headed۔hard Belgium, Canada, UKralne, and members permanent as France, was Belgium ۔members temporary as colombia and Syria Argentina, There ۔reactions outward any show not do members The ۔chair the in ۔smiles or frowns even or interruptions or boos or cheers no are for turn their till silence, Inscrutable In sit members ehT end the at quikly too bit a spoke Zafrullah ۔comes speaking ۔incident after incident quoting on went He ۔day first the of was He ۔it in quality a had words of quantity this all But the as simples as not was issue the that prove to trying seemingly a in represent to trying was Brahmin India۔South after spoke who delegate Every ۔complexily its man guileless Kashmir The ۔complex very all was it that admitting while him, deeply was which disease the of symptom a only was struggle said rodassabma an As ۔relations Pakistan۔Indo the in rooted his quoting not am I therefore and record,> the <off me to go and Junagadh <disregard ۔example for cannot, you name, >۔alone Kashmir for in
‏ replied Zafrullah and Zafrullah to retort the gave Sctalvad shone lucidity Zafrullah's that reply this in was It ۔back all into go not need <we ۔said Sctalvad ۔brightest its at simple a asking are we once; at and now problems, these in tribal the cheek cannot it admits Pakistan ۔question <if said, hallZafru And >۔Pakistan for it do us Ict rush; handad a push you not do why that aff as brave as are you when stands the engage you can how Kashmir; of out them of >۔country their outside them of few a with deal cannot you the of some of Insecutatallily the broke almost relort This referred I When ۔smilling almost were them of Some ۔delegates not were they them with Interviews Press my inn point this to most the of one be to considered now is Zafrullah ۔relicent so ۴۔shod very all are they And ۔UNO at spakers effective
چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب کا بیان قضیہ کشمیرسے متعلق
حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی خود نوشت تحدیث نعمت میں O۔N۔U میں قضیہ کشمیر کے مسئلہ کی تفصیلات پر بلیغ روشنی ڈالی ہے چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
قضیہ کشمیر کے لئے تحریری بیان کی تیاری
کراچی سے ہم رات کے وقت پین امریکن جہاز سے روانہ ہوئے انداز تھا کہ ۱۰۔ جنوری کو ہم بفضل الل¶ہ نیو یارک پہنچ جائیں گے لیکن ۹۔ کی شام کو لندن پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ طیارے کے ایک انجمن میں کوئی نقص پیدا ہوگیا ہے اس لئے لندن چند گھنٹے رکنا ہوگا۔ دوسری صبح اندازہ ہوسکے گا کہ کب روانگی ہوگی۔ دوسری صبح دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سہ پہر یا شام کو روانگی ہوگی۔ ہم نے اس تاخیر سے یہ فائدہ اٹھایا کہ پاکستان ہائی کمیشن میں بیٹھ کر ان دستاویزات کے تحریری جواب کی تیاری شروع کردی جو حکومت ہندوستان نے مجلس امن میں اپنی درخواست کے ہمراہ پیش کی تھیں۔ چودھری محمد علی صاحب کی مدد سے کچھ نوٹ بھی مرتب کئے اور پھر ان کی موجودگی اور نگرانی میں پاکستان کی طرف سے تحریری بیان بھی تیار کروایا۔ اتنے میں شام ہوگئی اور مطار سے بلاوا آگیا۔ لندن سے روانہ ہوکر جب گینڈر پہنچے تو وہاں برفانی طوفان جاری تھا۔ رات مطار پر گزری لیکن سونے کی جگہ میسر آگئی فالحمدلل¶ہ۔ لندن میں جو مضمون املا کروایا گیا تھا اسے ہمارے سٹینو گرافر نے راتوں رات ٹائپ کرلیا۔ انہیں اس کام کے لئے رات کا اکثر حصہ جاگنا پڑا فجزاہ اللہ۔ ان کی کوٹھڑی اور میری کوٹھڑی کے درمیان صرف ایک لکڑی کی دیوار تھی۔ ٹائپ کی مشین کی آواز نے مجھے بھی کچھ زیادہ سونے نہیں دیا۔ ۱۲۔ کی صبح کو گینڈر سے روانہ ہوکر سہ پہر کو ہم نیویارک پہنچے۔ یہاں بھی بہت برف باری ہوچکی تھی لیکن ہمارے پہنچنے تک برف پگھلنی شروع ہوچکی تھی۔ مرزا ابوالحسن صاحب اصفہانی سفیر پاکستان متعینہ واشنگٹن اور لاری شفیع صاحب قونصل پاکستان متعینہ نیویارک مطار پر موجود تھے۔ ہمیں پریشانی تھی کہ مطار سے ہی سیدھے مجلس امن کے اجلاس میں شمولیت کے لئے لیک سکسیس جانا ہوگا۔ علاوہ تکان اور شب بیداری کے ہماری دستاویزات بھی ابھی تیار نہیں تھیں اور اصل مسئلے کے متعلق غور اور تیاری کا تو ابھی کوئی موقع میسر نہ آیا تھا لیکن طیارے سے اترتے ہی سفیر صاحب نے فرمایا کہ فکر نہ کرو جب تمہارے سفر میں ہر مقام سے تاخیر کی اطلاع آنا شروع ہوئی تو ہم نے اندازہ کرلیا کہ تم بروقت نہیں پہنچ سکوگے۔ چنانچہ ہم نے مجلس امن کے صدر کے خدمت میں گذارش کی کہ اندریں حالات اجلاس ملتوی کیا جائے۔ انہوں نے ہماری درخواست پر اجلاس پندرہ جنوری تک ملتوی کردیا ہے۔ ہمارے لئے یہ خبر ایک خوش کن مژدہ تھی۔ ہم مطار سے بجائے لیک سکسیس جانے کے سیدھے بارکلے ہوٹل گئے اور آرام کا سانس لیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر کے خلاف ہے۔ پاکستان کو اس سے روکنا لازم ہے۔ پاکستان قبائلیوں کی مدد بند کرے اور انہیں واپس جانے پر آمادہ کرے۔ الحاق کے متعلق ہندوستان کا موقف یہ ہے کہ جہاں فرمانروائے ریاست ایک مذہب کا ہو اور رعایا کی کثرت دوسرے مذہب کی ہو وہاں فرمانروا کا فرض ہے کہ وہ الحاق کا فیصلہ رعایا کی کثرت رائے کی مطابق کرے۔ ہندوستان اس اصول پر پختہ طریق سے کاربند ہے۔ چنانچہ جب ریاست کشمیر میں امن قائم ہوجائے گا تو ہم کشمیر کی رعایا کے منشاء کے مطابق الحاق کے معاملے میں آخری فیصلہ کریں گے۔ ان کی تقریر کے بعد اجلاس دو دن کے لئے ملتوی ہوگیا۔
پاکستان کی طرف سے جوابی تقریر
دوسرے اجلاس میں میں نے جوابی تقریر میں کہا ہندوستان کے نمائندے نے اپنی تقریر میں عمداً اس قضیے کی پیچدگیوں کو پس پردہ رہنے دیا ہے اور صرف پاکستان کے خلاف الزامی پہلو پر زور دیا ہے۔ ہماری طرف سے اس اہم اور پیچیدہ قضیے کے پس پردہ حالات کو ظاہر کرنا اور ہندوستان کو مجرم کی حیثیت میں دکھانا ضروری ہے۔ اس لئے لازماً بہت سے امور کی وضاحت ناگزیر ہے جن کا بیان ہندوستان کی طرف سے اس لئے نہیں کیاگیا کہ وہ ان کے خلاف جاتے ہیں۔ ان تمام واقعات کا مختصر بیان بھی وقت چاہتا تھا اور مجلس امن کے ایک اجلاس میں تقریر کے لئے صرف سوا دو گھنٹے میسر آتے تھے اس لئے میری تقریر تین اجلاسوں میں مکمل ہوئی۔
چند سالوں کے بعد کولمبیا کے نمائندے نے ایک دفعہ مجھے سے کہا۔ کشمیر کے معاملے میں ہندوستانی نمائندے کی پہلی تقریر سننے کے بعد مجلس امن کے اراکین کے کثرت کا یہ تاثر تھا کہ پاکستان نے آزادی حاصل کرتے ہی فساد کا رستہ اختیار کرلیا ہے اور دنیا کے امن کے لئے ایک خطرے کی صورت پیدا کردی ہے۔ لیکن جب جواب میں تمہاری طرف سے اصل حقیقت کے رخ سے پردہ ہٹایا گیا تو ہم سب نے سمجھ لیا کہ ہندوستان مکاری اور عیاری سے کام لے رہا ہے اور کشمیر کی رعایا پر ظلم ہورہا ہے اور ہمارا یہ تاثر بعد میں کسی وقت بھی زائل نہیں ہوا۔
قضیہ کشمیر مسٹر سیتلواڈ کی طرف سے درشت کلامی
دو تین دن بعد میری تقریر کا جواب مسٹر سیتلواڈ نے دیا۔ اپنی تقریر کے شروع میں انہوں نے میرے متعلق کچھ درشت کلامی بھی کی۔ مسٹر سیتلواڈ بڑے قابل وکیل ہیں انہوں نے اپنی قابلیت کا ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن ایک مردہ کیس میں جان ڈالنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ ممکن ہے مجلس کے بعض اراکین نے کچھ اثر قبول کیا ہو۔ کیونکہ ہمارے وفد میں سے سفیراصفہانی صاحب کچھ مشوش نظرآتے تھے مباوا کوئی رکن مسٹر سیتلواڈ کے فریب میں آجائے۔ مسٹر سیتلواڈ نے ہندوستان کے دامن کو پاک اور بے داغ ثابت کرنے کے لئے یہاں تک کہہ دیا کہ مہاراجہ کشمیر کی الحاق کی درخواست قبول کرتے ہوئے ہم نے خود ان پر واضح کردیا ہے کہ یہ الحاق عارضی ہے اور مستقل تب ہوگا جب کشمیر کی رعایا کی کثرت آزادانہ طور پر اس کی تائید میں اظہار رائے کردے گی۔ اس سے بڑھ کر انصاف پسندی کا ثبوت ہم کیادے سکتے ہیں؟ وہ بہت سی کھوکھلی اور بے بنیاد باتیں بھی کہہ گئے۔ میرا تاثر یہ تھا کہ انہوں نے ہمارے لئے موقع پیدا کردیا ہے کہ ہم اراکین مجلس پر ثابت کردیں کہ ہندوستان کا دعوی کچھ ہے اور عمل بالکل اس کے خلاف ہے۔ میرا یہ بھی تاثر تھا اور اب تک ہے کہ مسٹر سیتلواڈ نے اپنی طرف سے کوئی بات فریب یا بددیانتی سے نہیں کی تھی۔ البتہ بہت سے واقعات کا انہیں علم نہیں تھا اور میری طرف سے ان واقعات کے پیش کئے جانے پر انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ یہ واقعات صحیح ہوسکتے ہیں۔
تیسرے اجلاس میں بعض اراکین مجلس امن اور بہت سے حاضرین کو خیال تھا کہ میں مسٹر سیتلواڈ کی درشت کلامی کے خلاف احتجاج کروں گا اور جواباً >ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں< کا تھوڑا بہت ثبوت سیتلواڈ صاحب کی خدمت میں پیش کروں گا۔ لیکن میں ان کی درشت کلامی پر قطعاً بر افروختہ نہیں تھا بلکہ مجھے اس خیال سے کچھ اطمینان تھا کہ اراکین مجلس نے اندازہ کرلیا ہوگا کہ اگر مسٹر سیتلواڈ کو درشت کلامی پر اترنا پڑا ہے تو یہ ان کے موقف کی کمزوری کا ثبوت ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں میں نے اپنی جوابی تقریر میں صرف اتنا ہی کہا۔ جناب صدر واراکین مجلس پچھلے اجلاس میں میرے فاضل دوست مسٹر سیتلواڈ نے اپنی تقریر میں میرے متعلق کچھ درشت الفاظ استعمال کئے تھے ان کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ میں مسٹر سیتلواڈ کو عرصہ سے جانتا ہوں جب میں ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کا جج تھا تو مجھے بارہا ان کے دلائل سننے کا اتفاق ہوا۔ میری رائے میں مسٹر سیتلواڈ ہندوستان کے قابل ترین وکیل ہیں اور درشت کلامی ان کا شعار نہیں۔ اس موقع پر ان کے موقف کی کمزوری کو جانتے ہوئے میں ان کی مشکلات کا اندازہ کرسکتا ہوں۔ مسٹر سیتلواڈ کی درشت کلامی ایک استثنائی صورت تھی جو قابل اعتناء نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان کی تقریر کی طرف توجہ دلائی ان کے دلائل اور واقعات پر مسلسل اور بفضل اللہ موثر تنقید کی۔
اس کے بعد کئی بار مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی ہے لیکن میری موجودگی میں نہ تو کبھی پاکستان کی طرف سے نہ ہی ہندوستان کی طرف سے کبھی درشت کلامی کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں یہ بات مثال بن گئی کہ باوجود شدید اختلاف کے دونوں فریق کے نمائندے ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور واقعات اور دلائل کی مضبوطی سے پیش کرنے کے ساتھ یہ التزام رہتا تھا کہ کلام میں بے جا تلخی نہ ہو۔
مسٹر کرشنامین
لیکن افسوس ہے کہ جب مسٹر کرشنامین نے ہندوستان کے نمائندے کے طور پر کشمیر کے مسئلے کی بحث میں حصہ لینا شروع کیاتو ان کی طرف سے یہ معیار قائم نہ رہا۔ لیکن وہ بھی اتنی احتیاط کرتے تھے کہ میری موجودگی میں کوئی بے جالفظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ جن دنوں میں پہلی بار بین الاقوامی عدالت کارکن تھا تو مجلس امن میں پاکستان کی طرف سے یہ تجویز دہرائی گئی کہ کشمیر کمیشن کی تجاویز کی تعبیر کے متعلق فریقین کے درمیان جو اختلافات ہے اس کے لئے بین الاقوامی عدالت سے استصواب کیا جائے اور کمیشن کی تجاویز کی جو تعبیر عدالت کرے دونوں فریق اسے قبول کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ مسٹر کرشنامین نے ہندوستان کی طرف سے اس تجویز کو رد کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ وہ >مذہبی دیوانہ< )خاکسار( عدالت کا رکن ہے اور اگرچہ وہ اس معاملے میں اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا لیکن اس کارکن ہونا ہی ہمارے لئے بے اطمینانی کا موجب ہوگا۔ بعد میں جب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ تھا تو میں نے پھر اس تجویز کا اعادہ کیا اور کہا کہ اب تو وہ >مذہبی دیوانہ< بین الاقوامی عدالت کارکن بھی نہیں اب اس تجویز کو مان لینے میں کیا عذر ہے؟ اس پر مسٹر کرشنا مین نے اپنی نشت پر بیٹھے بیٹھے مڑکر اپنے ایک سیکرٹری سے دریافت کیا >کیا میں نے اسے >مذہبی دیوانہ< کہا تھا؟< سیکرٹری نے اثبات میں سرہلایا۔
مجلس امن کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مسٹر کرشنامین نے فرمایا میرے وزیراعظم نے کشمیر کے متعلق کبھی رائے شماری Plebiscite کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ میں نے جواب میں پنڈت نہروجی کے بیانات سے دس مثالیں پیش کیں جن میں پنڈت جی نے کشمیر میں eticsibelP کے ذریعے رائے عامہ معلوم کرنے کا علان کیا ہوا تھا اور کہا کہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں لیکن جو مثالیں میں نے بیان کی ہیں وہ اراکین مجلس بلکہ خود ہندوستان کے محترم نمائندے کے اطمینان کے لئے کافی ہوں گی کہ ہندوستان کے قابل احترام وزیراعظم نے تنازعہ کشمیر کے متعلق یہ لفظ بڑی کثرت سے استعمال فرمایا ہے۔ جب مسٹر کرشنامین کی باری آئی تو انہوں نے اس امر کے متعلق صرف اتنا فرمایا میں اس امر کا اعادہ کرتا ہوں کہ میرے وزیراعظم نے کشمیر کے قضیے کے سلسلے میں کبھی لفظ Plebisciteاستعمال نہیں کیا۔ ایسی ڈھائی کا کیا علاج؟
سرگوپالا سوامی آئینگر
اس کے خلاف سرگوپالاسوامی آئینگر اگرچہ اپنی ہٹ کے پکے تھے لیکن واقعات میں ایجاد اور تصرف نہیں کرتے تھے۔ میں نے اپنی پہلی تقریر میں کشمیر میں ڈوگرہ مظالم کی داستان کے سلسلے میں بیان کیا کہ ۱۹۳۴ء تک ریاست کشمیر میں کسی شخص کا اپنی گائے ذبح کرنا نہ صرف جرم تھا بلکہ اس قدر سنگین جرم کہ اس کی سزا عمرقید تھی۔ ۱۹۳۴ء میں اس تعزیر میں تخضیف ہوئی لیکن اب بھی اس جرم کی سزا غالباً سات سال قید بامشقت ہے۔ اجلاس کے اختتام پر جب ہم کمرے سے باہر نکلے تو سرگوپالاسوامی نے اپنا بازو میرے بازو میں ڈال لیا اور فرمایا ان تفاصیل میں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے کہا ضرورت کا فیصلہ تو مجھ پر رہنے دیجئے لیکن آپ تو ایک عرصہ کشمیر کے وزیراعظم رہے ہیں آپ ہی فرمائیں کہ اس وقت کشمیر میں گائو کشی کی کیا سزا ہے؟ انہوں نے فرمایا بھائی واقعہ تو یہی ہے کہ اب بھی اس جرم کی سزا سات سال نہیں بلکہ دس سال قید بامشقت ہے۔ لیکن تم یہ بتائو تم ملک کی تقسیم پر پاکستان کیوں منتقل ہوگئے۔ تمہارا وطن تو تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب میں ہے۔ اگر تم ہندوستان میں رہتے تو ہندوستان کی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ہوتے۔ میں نے کہا میں جانتا ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ نام کو تو میں چیف جسٹس ہوتا لیکن عملاً میں نظر بندی میں ہوتا۔ کہنے لگے یہ تمہارا وہم ہے۔
جانبین کی دو دو تقریریں سننے کے بعد مجلس امن نے یہ طے کیا کہ ماہ جنوری کے صدر مجلس پروفیسر لنگن ہوف اور ماہ فروری کے صدر مجلس جنرل میکناٹن فریقین کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کے بعد تصفیہ کی کوئی عملی تجویز مجلس ۔۔۔۔۔ کی گئی اور اس پر اظہار رائے ہونے لگا۔ اس قراردار کی رو سے جو کچھ ہم چاہتے تھے وہ سب تو میسر نہیں آتا تھا لیکن اصولاً ہمارا موقف تسلیم ہوجاتا تھا اس لئے بعض تفاصیل کی وضاحت چاہنے اور بعض پر تنقید کرنے کے ساتھ ہم نے اسے قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن ہندوستانی وفد نے قراردار کی مخالفت کی اور اس کی مرکزی تجویز کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ وہ تجویز یہ تھی کہ رائے شماری کو آزاد اور غیرجانبدار رکھنے کی لئے ضروری ہے کہ ریاست کی حکومت کی تشکیل بھی غیرجانبداری کے اصول پر ہو۔ مسٹر نوئیل بیکر قراردار کی بڑے زور سے حمایت کررہے تھے اور اس کوشش میں بھی تھے کہ ہندوستانی وفد کو اور ان کی وساطت سے پنڈت جواہر لال صاحب کو قراردار کو قبول کرلینے پر آمادہ کرلیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ایک ملاقات میں امریکہ کے نمائندہ سینیٹروارن آسٹن نے بتلایا کہ ہندوستانی وفد اس بات پر زور دے رہا ہے کہ مجلس امن صرف قبائلیوں اور رضا کاروں کو ریاست سے واپس کرانے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے لڑائی سے ہاتھ روکنے کا انتظام کردے باقی سب کچھ ان پر چھوڑ دیا جائے وہ سب انتظام کرلیں گے۔ سینیٹر نے کہا ہم نے ان پر واضح کردیا ہے کہ مجلس امن اس قضیے میں اپنے فرائض کو اس رنگ میں نہیں دیکھتی۔ مجلس امن کا فرض ہے کہ وہ اس تمام قضیے کی تہہ کو پہنچے اور یہ معلوم کرے کہ آزاد کشمیر کے لوگوں کو ہتھیار بند ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ واضح ہے کہ جب انہوں نے حق خود اختیاری کو زائل ہوتے دیکھا تو وہ ہتھیار بند ہونے پر مجبور ہوگئے۔ اب لڑائی بند کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ ان لوگوں کا اطمینان کرادیا جائے کہ جس حق کے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لڑائی شروع کی تھی وہ حق اب انہیں بغیر لڑائی کے حاصل ہوجائے گا۔ اس کے بغیر جنگ بندی کا اور کوئی طریق نہیں۔
ہندوستان کی طرف سے اجلاس ملتوی کرنے کی درخواست
آخر تبادلہ خیالات کا سلسلہ ختم ہونے پر مجوزہ قراردار کے متعلق رائے شماری کا وقت آیا۔ اس وقت تک جتنے اراکین مجلس نے قراردار کے متعلق اظہار خیال کیا تھا سب نے قراردار کی تائید کی تھی اور یہی اندازہ تھا کہ قراردار اگر بالاتفاق نہیں تو گیارہ میں سے دس آراء کی تائید کے ساتھ منظور ہوجائے گی۔ روس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ شائد غیر جانبدار رہے۔ عین اس مرحلے پر سرگوپالا سوامی آئینگر نے بولنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر انہوں نے فرمایا ہمیں اپنی حکومت کی طرف سے ہدایت موصول ہوئی ہے کہ ہم مزید ہدایات کے لئے لدی واپس جائیں اس لئے ہم رخصت کی اجازت چاہتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ہماری واپسی تک اجلاس ملتوی کیا جائے۔ اراکین مجلس اس درخواست پر حیران بھی ہوئے اور آزردہ بھی۔ یہ تو سب نے سمجھ لیا کہ ہندوستان کی نیت بخیر نہیں۔ اکثر نے تو اتنا ہی کہنے پر اکتفاء کیا کشمیر میں جنگ جاری ہے اور جانیں تلف ہورہی ہیں ضروری ہے کہ اس صورت حالات کا جلد کچھ مداوا کیا جائے اور اس امید کا اظہار کیا کہ ہندوستانی وفد بہت جلد واپس آجائے گا تاکہ مجلس اپنی کارروائی کو بغیر غیر ضروری توقف کے جاری رکھ سکے۔ لیکن بعض اراکین نے اپنی آزردگی کا اظہار بھی کیا۔ مثلاً کولمبیا کے مندوب نے کہا صاحب صدر! آپ کو اور اراکین مجلس کو یاد ہوگا کہ ابھی چند دن ہوئے ہندوستان کے فاضل نمائندے نے شکوے کے طور پر کہا تھا کہ کشمیر جلا رہا ہے اور مجلس امن ستار بجارہی ہے۔ کیا میں ہندوستان کے فاضل نمائندے سے دریافت کرنے کی جرات کرسکتا ہوں کہ اب کیا کشمیر کو جلانے والی آگ ٹھنڈی ہوگئی ہے؟ اور اگر نہیں تو اب کون ستار بجارہا ہے؟ سرگوپالاسوامی آئینگر نے اس قسم کی تنقید سے زچ ہوکرکہا مجھے یہ دیکھ کر رنج ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایک معزز رکن کی ایک جائز درخواست پر اس قسم کے تکلیف دہ خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے مجلس کے اراکین کے ان احساسات کے باوجود مجلس کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ اجلاس ملتوی کیا جائے۔
مسئلہ کشمیر۔ دلی اور لند میں رابطہ و سازباز
جب التواء کی مدت کچھ طول پکڑنے لگی تو چودھری محمد علی صاحب نے مجھے کہا۔ ہمارا ہندوستانی وفد کے انتطامات ۔۔۔ پاکستان کا حمایتی کوئی نہ تھا مقابلہ بالکل غیر متوازن تھا۔ میں نے قریب پون گھنٹہ ان کی خدمت میں صرف کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے ایک بار بھی مجھ سے نظر ملاکر بات نہ کی۔ کبھی ادھر جھانکتے کبھی ادھر۔ یہی کہتے فکر نہ کرو۔ ہندوستانی وفد جلد نیویارک پہنچ جائے گا۔ میں اس کوشس میں تھا کہ انہیں آمادہ کروں کہ ہندوستان کے ساتھ اپنا رسوخ استعمال کرکے انہیں ایفائے عہد پر مائل کریں اور اس میلان کا ثبوت مجلس امن کے سامنے پیش شدہ قراردار کو تسلیم کرنے سے مہیا کریں اور وہ اس طرف آنے کا نام نہ لیتے تھے۔ کہنے لگے تمہیں اس قراردار پر کیوں اصرار ہے اصل غرض اور طریق سے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ مثلاً اگر یوں کردیا جائے یا یوں کردیا جائے یا یوں کردیا جائے۔ میں ان کی ہر ایک >یوں< پر تنقید کرتا گیا لیکن وہ راہ پر نہ آئے۔ میں بے نیل مرام لوٹ آیا اور اپنے رفیق کار سے کیفیت بیان کردہ اور نوابزادہ صاحب کی خدمت میں بھی رپورٹ بھیج دی۔ چودھری محمدعلی صاحب اور میں نیویارک واپس ہوئے۔
مسئلہ کشمیر ۔۔ سماں بدل گیا
کچھ دن بعد ہندوستانی وفد کی واپسی پر مجلس امن کے اجلاس پھر شروع ہوئے۔ لیکن اب سماں بدلا ہوا تھا۔ جیسے میں ذکر کر چکا ہوں روس تو اس مرحلے پر غیر جانبدار تھا کہ یہ کامن ویلتھ کا آپس کا معاملہ ہے ہم اس میں دخل نہیں دیتے۔ امریکہ اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ مجلس کے باقی اراکین بیشک اپنی اپنی رائے رکھتے تھے لیکن ان دونوں کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ امریکہ بہت حد تک کامن ویلتھ کا معاملہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کے مشورہ سے پر چلتا تھا۔ برطانہ کے نمائندے مسٹر فلپ نوئیل بیکر فریقین کی باہمی مفاہمت سے کسی موثر مونٹ بیٹن اور سرسٹیفورڈ کرپس کا اثر اپنا کام کرچکا تھا۔ ہمارے وفد کے سیکرٹری مسٹر ایوب کو مسٹر نوئیل بیکر کے سیکرٹری نے بتایا کہ وزیراعظم ایٹلی اور مسٹر نوئیل بیکر کے مابین اختلاف اور قدر بڑھ چکا ہے کہ مسٹر بیکر مستعفی ہونے کی سوچ رہے ہیں۔ اس امر کی تصدیق ۵۱ء میں خود مسٹر نوئیل بیکر نے کی۔ وہ اس وقت وزارت سے علیحدہ ہوچکے تھے۔ میرے ان کے ۳۳ء سے دوستانہ مراسم تھے۔ ۱۹۵۱ء میں اقوام متحدہ کی اسمبلی کا اجلاس پیرس میں ہورہا تھا۔ مسٹر نوئیل بیکر کا گزر پیرس سے ہوا تو وہ مجھے ملنے تشریف لائے۔ باتوں باتوں میں کشمیر کا ذکر چھڑ گیا۔ فرمایا میرے لئے یہ امر نہایت تکلیف دہ ہے کہ اس قضیے کے خاطر خواہ تصفیہ کی صورت میں پیدا ہوئی مگر بات بنتے بنتے بگڑ گئی۔ فرمایا ۱۹۴۸ء میں نیویارک میں میں نے بڑی کوشش سے سرگوپالا سوامی آئینگر اور باجپائی کو آمادہ کرلیا تھا کہ وہ پنڈت نہرو کو قراردار منظور کرنے پر رضا مند کریں۔ انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ پوری کوشس کریں گے۔ چنانچہ ہفتہ کے روز دونوں الگ الگ مجھے ملنے کے لئے آئے اور کہا ابھی پختہ اطلاع تو نہیں آئی لیکن ہمارے پیغام کا رد عمل خوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ امید ہے دو ایک دن تک واضح ہدایت آجائے گی اور ہمارا اندازہ ہے کہ سوموار یا منگل وار تک ہم آپ کو پختہ اطلاع دے سکیں گے۔
‏eng] from[tag telegram disastrous that received I Monday on Then۔everything upsetting Atlee
)اور پھر سوموار کے دن مجھے ایٹلی کا وہ منحوس تار وصول ہوا جس نے سارے معاملہ کو بگاڑ کے رکھ دیا(
میں نے سخت احتجاج کیا لیکن ایٹلی نے میری ایک نہ مانی بلکہ اس بات سے میرے خلاف دل میں گرہ باندھ لی۔ تھوڑے عرصے بعد مجھے کامن ویلتھ کی وزارت سے علیحدہ کرکے بجلی اور ایندھن کا وزر بنادیا اور کچھ عرصہ بعد وزارت سے ہی الگ کردیا۔ شروع کیا اور اس کوشش میں لگ گئے کہ جہاں تک ہوسکتے نئی قراردار کو مضبوط کیا جائے۔ چینی صدر صاحب کے ساتھ متواتر مشورے ہوئے۔ بعض معمولی سی ترامیم اور وضاحتیں انہوں نے تسلیم بھی کیں لیکن قراردار کا ڈھانچہ وہی رہا جو وزیراعظم ایٹلی تجویز کراچکے تھے۔ آخر یہ قراردار اپریل میں کولمبین مندوب کی صدارت میں منظور ہوئی۔ اسی قراردار میں یہ تجویز تھی کہ تین اراکین کا ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو برعظیم پاکستان وہند جاکر قراردار کی مختلف تجاویز کو فریقین کے مشورے اور ان کی رضامندی کے ساتھ عملی جامہ پہنائے اور کشمیر کے باشندگان کی آزادانہ رائے شماری کا اہتمام کرے۔ کولمبین صدر صاحب کی تجویز پر کمیشن کے اراکین کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کردی گئی۔ طے پایا کہ اس کمیشن میں دور کن مجلس امن نامزد کرے اور وہ دونوں ایک تیسرا رکن نامزد کریں ان کے علاوہ ایک رکن پاکستان اور ایک ہندوستان نامزد کرے۔ مجلس امن نے بلجیم اور کولمبیا کو نامزد کیا اور ان دونوں نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو نامزد کیا۔ پاکستان نے ارجنٹائن کو اور ہندوستان نے چیکو سلواکیہ کا نامزد کیا۔ کمیشن کا اصطلاح نام۔
‏(UNCIP) Pakistan & India on Commission Nations United
قرار پایا کیونکہ کشمیر کے علاوہ جونا گڑھ کا قضیہ اور بعض اور امور بھی جو پاکستان کی طرف سے پش کئے گئے تھے اس کمیشن کے سپرد تھے لیکن عرف عام میں اس کمیشن کا نام کشمیر کمیشن ہی مشور ہوا۔
>کشمیر کا فیصلہ کشمیر میں ہوگا<
قراردار کے منظور ہونے تک ہندوستان کا یہی موقف تھا کہ مجلس امن لڑائی بند کرانے کا انتظام کردے باقی سب امور وہ خود طے کرلیں گے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مجلس امن اصل نزاع کا فیصلہ اپنی نگرانی میں کرانے پر مصر ہے تو انہوں نے اپنی فوجی سرگرمیوں کو تیز کرنے کا تہیہ کرلیا۔ جب حکومت ہند کے اس عزم کی بھنک ہمارے کانوں میں پڑی تو ہم ابھی نیویارک ہی میں تھے۔ چنانچہ چودھری صاحب نے اور میں نے اس اقدام کے متعلق مشورہ کیا اور میری یہ پختہ رائے ہوئی کہ ہمیں ہندوستان کے اقدام کی روک تھام کے لئے اپنی فوج محاذ پر بھیج دینی چاہئے اور میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنی رائے کی اطلاع وزیراعظم لیاقت علی خاں کی خدمت میں بھیج دوں۔ چودھری صاحب کو اگرچہ حالات کے لحاظ سے یہ خدشہ تو محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان جنگی فیصلے کی کوشش کرے گا لیکن انہیں ایسا مشورہ تار کے ذریعہ بھیجنے میں تامل تھا ان کے خیال میں Cypher کے ذریعے سے پیغام بھیجنا محفوظ طریق نہ تھا۔ انہیں خدشہ تھا کہ بات ظاہر ہوجائے گی اور ہم مجلس امن کے روبرو زیر الزام ہوں گے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ وزیراعظم کی خدمت میں پیغام ایک خاص قاصد کے ہاتھ بھیجا جائے۔ میں نے کہا مرحلہ بہت نازک ہے اور ممکن ہے تاخیر خطرے کا موجب ہو۔ بات نکل جانے میں کوئی حرج نہیں۔ مجلس امن اپنا وقار بہت حد تک کھوچکی ہے۔ اگر انہیں پنڈت جواہرلال نہرو کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں تو ہمیں کیا کہہ لیں گے۔ اگر ہم مجلس امن کے خوف سے غافل بیٹھے رہے تو جو نقصان ہمیں پہنچے گا اس کا ازالہ بعد میں نہیں ہوسکے گا۔ ممکن ہے چودھری صاحب مجھ سے متفق نہ ہوئے ہوں لیکن انہوں نے ناچار رضا مندی کا اظہار کردیا اور میں نے اس مضمون کا Cypher تار وزیراعظم کی خدمت میں ارسال کردیا >کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر میں ہوگا< نیویارک میں نہیں ہوگا لہذا ہندوستان کی فوجی تیاری کے پیش نظر لازم ہے کہ ہم اپنی باقاعدہ فوج محاذ پر بھیج دیں۔
کمانڈر انچیف کی رپورٹ کا خلاصہ
وزیراعظم صاحب نے میرا تار ملنے پر کمانڈر انچیف سرڈگلس گریسی کو ہدایت دی کہ وہ کشمیر کے محاذ کے متعلق موجودہ حالت کی رپورٹ پیش کریں۔ چنانچہ انہوں نے رپورٹ پیش کی۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہندوستانی افواج بڑی مستعدی سے اور بڑے پیمانے پر آگے بڑھنے کی تیاری کررہی ہیں۔ اس صورت میں آزاد کشمیر کے فوجی دستے ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اور نہ صرف آنا کشمیر کے علاقہ تک روبرو اس امر کو تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ کمیشن کو اس اقدام کی اطلاع ہم نے خود کی تھی اور ان کے کراچی پہنچنے پر پہلی ملاقات میں کردی تھی۔
اقوام متحدہ کی کشمیر کمیشن کے اراکین
کمیشن کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ نہایت ہی اہم اور بہت ذمہ داری کا تھا لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ حکومتوں نے اس کام کی اہمیت کو مناسب وقعت نہ دی اور اپنے نمائندوں کے انتخاب میں نہایت سہل انگاری سے کام لیا کمیشن کے اراکین بلاشبہ شرفاء تھے لیکن سیاسی سوجھ بوجھ ہمت اور حوصلے کے لحاظ سے اس درجہ تک نہیں پہنچتے تھے جو ان کے فرائض کی کماحقہ ادائیگی کے لئے ضروری تھا۔ ان میں سے صرف ایک رکن ان خوبیوں کے مناسب حد تک حامل ثابت ہوئے جو ان کے فرائض کی کامیاب ادائیگی کے لئے لازم تھیں۔ وہ چیکو سلواکیہ کے نمائندے ڈاکٹر جوزف کوربیل تھے جنہوں نے کمیشن سے علیحدگی کے بعد کمیشن کی سرگرمیوں کے متعلق ایک کتاب Kashmir in Danger شائع کی اس کتاب کا نیا ایڈیشن ۱۹۶۶ء کے شروع میں شائع ہوا ہے۔ بلجیم کے پہلے نمائندے ایک عمررسیدہ Boron تھے جنہیں صرف کھانے پینے اور سونے سے سروکار تھا۔ اگر کسی وقت کمیشن کے کام کی طرف توجہ فرماتے تو یہ دیکھنے کے لئے کہ کمیشن کا کوئی اقدام پنڈت جواہر لال نہرو کی طبع نازک پر گرا تو نہیں ہوگا۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے نمائندے کچھ توجہ فرماتے تھے لیکن ان کی شرافت ان کی ہمت پر غالب تھی۔ کولمبیا کے نمائندے ڈاکٹر کوربیل سے دوسرے درجے پر تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کا کچھ ثبوت دیا لیکن ان کے لئے بڑی مشکل تھی کہ انگریزی زبان کی واقفیت بہت محدود تھی۔ ارجنٹائن کے نمائندے پرلے درجے کے شریف اور اس درجہ باحیا تھے کہ ان کے لئے بات کرنا دوبھر تھا۔ کمیشن نے جس حد تک اپنے فرائض کو سرانجام دیا اس میں ساٹھ فیصدی ڈاکٹر کوربیل کا حصہ تھا بیس فیصدی امریکی نمائندے کا اور بیس فیصدی کولمبین نمائندے کا۔ ڈاکٹر کوربیل ۱۹۴۹ء کے شروع میں کمیشن سے علیحدہ ہوگئے۔ ان کی علیحدگی کے بعد کمیشن نیم مردہ ہوگئی اور تھوڑے سے عرصے بعد اس نے دم توڑدیا۔
ڈاکٹر جوزف کوربیل رکن کشمیر کمیشن
ڈاکٹر جوزف کوربیل کمیشن پر تقرری کے وقت چیکوسلواکیہ کے سفیر متعینہ بیلگراڈ تھے۔ چیکوسلواکیہ کو ہندوستان نے کمیشن کا رکن نامزد کیا تھا۔ ان کی رکنیت کے دوران میں چیکو سلواکیہ اشتراکیت کے زیر اثر آنا شروع ہوگیا۔ اپنے وطن کے رحجان سے خائف ہوکر انہوں نے ۱۹۴۹ء کے شروع میں ہی یہ انتظام کیا کہ ان کے بیوی بچے لندن چلے جائیں۔ کمیشن سے مستعفی ہونے پر وہ خود بھی لندن چلے گئے اور وہاں سے بیوی بچوں سمیت امریکہ چلے گئے۔ وہاں ڈینور یونیورسٹی کے شعبہ سوشل سائنس فونڈیشن میں پروفیسر ہوگئے اور اب چند سالوں سے فیڈریشن کے ڈائریکٹر اور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ہیں۔ میرے جو مراسم ان کے ساتھ کمیشن کے سلسلے میں قائم ہوئے تھے وہ ان کے کمیشن سے مستعفی ہونے کے بعد بھی قائم رہے۔ اور بتدریج مضبوط ہوتے گئے۔ حتی کہ ان مراسم نے گہرا دوستانہ رنگ اختیار کرلیا۔ مجھے کئی بار ان کے توسط کے ڈینور یونیورسٹی میں تقریر کے لئے اور دیگر تقاریب کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ہر موقع پر ان کی طرف سے بڑی تواضع اور شفقت کا سلوک ہوا۔ جزاء اللہ۔ ایک موقع پر میں ڈینور میں ان کے ہاں گیا ہوا تھا` ان کے بیوی بچوں کے ساتھ بے تکلفی ہوچکی تھی۔ میں نے باتوں باتوں میں ان کے صاحبزادے سے کہا جب تمہارے ابا کمیشن میں پہلے پہل مجھ سے ملے تو یہ مجھے کچھ شبہ کی نظر سے دیکھتے تھے اور واقعات پر بھی جب تک پورے طور پر اور دونوں حکومتوں کو پیش کی۔ اس سال اسمبلی کا اجلاس پیرس میں ہورہا تھا۔ کمیشن بھی پیرس متقل ہوگیا تھا اور وہیں یہ قراردار تیار ہوئی۔ دسمبر ۱۹۴۸ء کے آخری ہفتے میں دونوں حکومتوں نے دونوں قرار داروں کو قبول کرلیا۔ اس پر کمیشن نے دونوں کو دعوت دی کہ جب اصل نزاع کے طریق فیصلہ پر اتفاق ہوگیا ہے تو اب جنگ جاری رکھنا بے وجہ نفوس اور امول کا ضیاع ہے۔ چنانچہ کمیشن کی تحریک پر یکم جنوری ۱۹۴۹ء کو جنگ بند ہوگئی۔ کمیشن کی دوسری قراردار اگرچہ آخر دسمبر میں قبول ہوچکی تھی لیکن اس کی تاریخ ۴ جنوری ۱۹۴۹ء قرار پائی۔ اس کے بعد کمیشن موقع پر طرفین کی فوجوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی۔ اب تیرہ اگست کی قراردار کے مطابق ٹروس ایگریمنٹ Agreement True یعنی فوجی انخلاء کے معاہدے کے ترتیب دینے کا مرحلہ درپیش تھا۔ کمیشن نے کراچی میں اس کے متعلق کچھ تبادلہ خیالات کیا اور پھر دلی پہنچ کر طرفیق کے فوجی نمائندوں کو طلب کیا کہ وہ ۱۳ اگست کی قراردار کے مطابق فوجی انخلاء کا منصوبہ تیار کرکے ساتھ لائیں۔ تاریخ مقررہ پر جب طرفین کے نمائندے کمیشن کے روبرو پیش ہوئے تو پاکستانی نمائندوں نے تو حسب ہدایت کمیشن اپنا منصوبہ کمیشن کی خدمت میں پیش کردیا لیکن ہندوستانی نمائندوں نے کہا کہ ان کا منصوبہ تیار تو ہے لیکن ابھی کمانڈر انچیف اور وزیراعظم اسے ملاخطہ نہیں کرسکے اس لئے کچھ مہلت درکار ہے۔ آخر ہفتہ عشرہ کی تاخیر کے بعد ان کی طرف سے منصوبہ پیش کیاگیا مگر بدیں شرط کہ کمیشن تو اسے ملاخطہ کرے لیکن پاکستان بلکہ مجلس امن کو بھی اس کی اطلاع نہ ہو۔ چنانچہ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہندوستان نے کیا منصوبہ پیش کیا تھا۔
فوجی انخلاء کے متعلق قراردار یہ تھی کہ قبائلیوں اور رضا کاروں کے ریاست کی حدود سے اخراج کے بعد پاکستانی فوج تمام کی تمام اور ہندوستانی فوج کا کثیر حصہ Bulk ریاست سے نکل جائے۔ جنگ بندی کے بعد قبائلی اور رضا کار جو ریاست کے باہر سے لڑائی میں شامل ہوئے تھے ریاست سے چلے گئے اور کمیشن کو قراردار کے اس حصے کی تعمیل کے متعلق اطمینان ہوگیا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ کشمیر میں جو ہندوستانی فوجیں داخل ہوئی تھیں ان کا کثیر حصہ Bulk کیا قراردیا جائے۔ اس بات پر کمیشن اور ہندوستانی نمائندوں کا اتفاق نہ ہوسکا۔ چنانچہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہم ہندوستان کے پیش کردہ منصوبے پر تو اپنی رپورٹ میں بحث کرنے کے مجاذ نہیں کیونکہ ہندوستان کی طرف سے ہم پر یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ ہم منصوبے کی تفاصیل کا اظہار نہ کریں۔ لیکن منصوبے پر غور کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے ہندوستان کا پیش کردہ منصوبہ قرار دار کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا۔ کمیشن کے الفاظ حسب ذیل تھے۔
‏Plan the does qualitatively nor quantitively Resolution><Neither the of terms the with comply
اس مرحلے پر کمیشن نے یہ بھی کہہ دیا کہ جنگ بندی ہوکر حدفاصل مقرر ہوگئی ہے۔ ہماری رائے میں اب مزید کارروائی کی نگرانی کے لئے کمیشن کی بجائے ایک فرد واحد زیادہ موزوں ہوگا۔
سراوون ڈکسن کا تقرر بطور نمائندہ اقوام متحدہ
مجلس امن نے کمیشن کی یہ سفارش منظور کرتے ہوئے آسٹریلیا کی عدالت عالیہ کے جج سراوون ڈکسن کو جو بعد میں آسٹریلیا کے چیف جسٹس بھی ہوئے کشمیر کے قضیہ میں اقوام متحدہ کا نمائندہ مقرر کیا۔ انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ رائے عامہ کے استصواب کی شرائط طے کرنے کے بعد استصواب کا انصرام کریں یا فریقین کی رضامندی سے اس قضیہ کے طے کرنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔ سراوون ڈکسن نہایت قابل اور پختہ کار شخص تھے۔ وہ کراچی تشریف لائے اور پھر کر خوب جانتے تھے اس لئے مصر ہوئے کہ انہیں بذریعہ تار ضرور مطلع کیا جائے۔ ان کے اصرار پر سراوون تار بھیجنے پر رضامند ہوگئے اور اسی شام سراوون نے پنڈت جی کو تار دے دیا کہ جس تجویز کے خاکے کا میں نے آپ سے ذکر کیا وزیراعظم پاکستان بھی آپ کی طرح اس کی تفاصیل تیار ہونے پر اس پر میرے اور آپ کے ساتھ تبادلہ خیالات کے لئے آمادہ ہیں اس لئے میں اب اس تجویز کی تفاصیل تیار کرکے آپ کو مطلع کروں گا۔ دوسرے دن سراوون تشریف لائے۔ بڑے آزردہ تھے۔ فرمایا تمہیں معلوم ہے پنڈت نہرو نے میرے تار کا کیا حیرت انگیز جواب دیا ہے۔ دریافت کرنے پر فرمایا پنڈت جی نے جواب دیا ہے۔ >مجھے تمہارے تار کی سمجھ نہیں آئی۔ مجھے تمہاری کسی تجویز کا علم نہیں۔ میرے لئے یہ بالکل نیامعاملہ ہے تم دلی آئو تو اس پر بات چیر کریں گے۔< سراوون نے فرمایا۔ اس تجویز کے متعلق میری اور پنڈت نہرو کی جو گفتگو ہوئی وہ بالکل واضح تھی اور اس میں کسی قسم کی غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ مزید غور کرنے پر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ میری تجویز پر تبادلہ خیالات کرنا ان کے مفاد کے خلاف ہے اور وہ اب اس پر آمادہ نہیں لیکن ان کا یہ کہنا کہ انہوں نے پہلے کسی ایسی تجویز کا ذکر بھی نہیں سنا اور ان کے لئے یہ ایک بالکل نئی بات ہے خلاف واقعہ ہے بہرصورت اگرچہ میرا دلی جانا بے سود ہے لیکن میں ان کی دعوت کو رد بھی نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا بدخلقی ہوگی۔ لہذا میں کل دلی جارہا ہوں شاید اس معمے کا حل وہاں جاکر معلوم ہو۔ تیسرے دن وہ کراچی واپس آئے اور بتلایا کہ دلی پہنچنے پر سر گرجاشنکرباجپائی ان کی پیشوائی کے لئے مطار پر آئے ہوئے تھے۔ فرمایا جب ہم کار میں بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا آپ کے وزیراعظم کا اپنی رائے بدل لینا تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن انہوں نے یہ کیسے لکھا کہ انہیں میری کسی تجویز کا علم ہی نہیں اور ان کے لئے یہ بالکل نئی بات ہے۔ اس لئے جواب میں سرگرجاشنکرباجپائی نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔
‏ have must Minister Prime the conceive I Owen! Amnesia><Sir temporary of attach an suffered
)سراوون! میرا خیال ہے میرے وزیراعظم پر شاید عارضی نسیان کا حملہ ہوگیا ہو(
سرگرجاشنکر کا یہ فقرہ دہرانے کے بعد سراوون نے جو کچھ کہا وہ پنڈت جی کی وفات کے بعد ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیں۔
‏tav.11.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
ڈاکٹر فرینک گراہم کا تقرر
سراوون ڈکسن نے اپنی ناکامی کی رپورٹ مجلس امن کو بھیج دی۔ مجلس امن نے فریقین کے بیانات سنکر کینیڈا کے مندوب جنرل میکناٹن سے درخواست کی کہ وہ فریقین کے ساتھ بات چیت کے بعد اس قضیے کے تصفیہ کے لئے کوئی عملی تجویز پیش کریں۔ جنرل میکناٹن نے جو تجویز پیش کی اس کا مقصد بھی عملا وہی تھا جو سراوون کی تجویز کا تھا۔ لیکن ہدوستان نے اسے بھی رد کردیا۔
اس کے بعد ڈاکٹر فرینک گراہم کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کے نمائندے مقرر کئے گئے وہ کئی بار کراچی تشریف لائے اور دلی بھی تشریف لے گئے۔ جنیوا میں فریقین کے ساتھ تبادلہ خیالات کیا۔ ایک چھوڑ چھ رپورٹیں مجلس امن میں پیش کیں۔ ہر رپورٹ میں اس امر پر بحث تھی کہ فوج کے انخلاء کا کیا طریق ہو۔ عموماً یہی ہوا کہ جو طریق بھی انہوں نے تجویز کیا پاکستان اس پر عمل کرنے کو تیار ہوگیا لیکن ہندوستان نے انکار کردیا۔ مجلس امن کی مساعی بھی ہندوستان کو اپنی ضد ترک کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔ ایک عرصے تک تو یہی امر زیر بحث رہا کہ ہندوستان اپنی افواج متعینہ کشمیر میں سے کتنی افواج کے انخلاء پر رضامند ہونے کو تیار ہے۔ ہندوستان کی طرف سے ہرنوع کا بہانہ اور کردیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ جو اسباب پاکستان کے ظہور میں آنے کا موجب ہوئے تھے وہی اسباب کشمیر اور ہندوستان کے اتحاد کے رستے میں روک ہیں بلکہ بعض وجوہ سے کشمیر کے رستے میں یہ روک اور بھی ناقابل عبور ہے۔ برعظیم ہندو پاک میں اگرچہ مسلمانوں کو ہندو ذہنیت کا بہت کچھ تلخ تجربہ ہوا لیکن مسلمانو پر ہندو ذہنیت کی >کرم فرمائی< کے رستے میں برطانوی اقتدار ایک حد تک حائل رہا تھا۔ اس کے برعکس کشمیر میں ڈگرہ راج ایک سو سال سے مسلم آبادی کو بے دردی سے کچلنے میں بلا روک ٹوک مصروف رہا تھا۔ یہ امید رکھنا کہ ڈوگرہ مظالم کی یاد کشمیر کے مسلمانوں کے دل و دماغ سے محوکی جاسکے گی عبث ہے۔ پھر تقسیم ملک کے بعد خود ہندوستان میں جو سلوک مسلم اقلیت کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے وہ کشمیر کے مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ تیسرے ہندوستانی فوج کی طرف سے جو ظلمانہ اور حیا سوز سلوک کشمیر کی مسلم آبادی کے ساتھ ہورہا ہے وہ ہندوستان اور کشمیر کے مسلمانوں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج قائم کرنے والا ہے۔ ہندوستان کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہی امر کافی ہونا چاہئے کہ وہی شیر کشمیر شیخ عبداللہ جن کو پنڈت نہرو بڑے فخر سے کشمیر کے متعلق اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا کرتے تھے آخر کار ہندوستان کے سلوک اور پنڈت صاحب کی وعدہ خلافیوں سے سبق حاصل کرکے کشمیر کے حق خود اختیاری کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ جس کی پاداش میں پنڈت جی نے انہیں بغیر مقدمہ چلائے بارہ سال تک جیل میں رکھا۔ اس طویل حراست سے رہا ہونے کے بعد وہ پھر اس حق کے حصول کے لئے انتہائی جدوجہد کررہے ہیں۔ حال ہی میں شیخ صاحب نے کشمیری عوام کی کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے صاف صاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پنڈت جی کے وعدوں پر اعتبار کرنے میں غلطی کی اور الزام لگایا ہے کہ پنڈت جی نے نہ صرف ان سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا بلکہ اقوام متحدہ کی مجلس امن میں جو کچھ انہوں نے منظور کیا اس سے بھی منحرف ہوگئے اور کشمیر کو ہندوستان کی کالونی بنانے کی پالیسی اختیار کرلی۔
ہندوستان نے جو اقدام کشمیر کا الحاق اپنے ساتھ کرنے کے سلسلے میں کئے ان میں سے ایک کشمیر میں آئین ساز مجلس کا قیام تھا۔ جونہی اس کے متعلق ہندوستان کی طرف سے ابتدائی اعلان ہوا پاکستان نے مجلس امن میں اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے جواب میں سر بی۔ این۔ رائو نے جو اس زمانے میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ تھے حکومت ہند کی طرف سے ایک بیان مجلس امن کے روبرو پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان مجوزہ مجلس آئین ساز کو الحاق کے مسئلے پر اظہار رائے کرنے سے روک نہیں سکتا لیکن چونکہ یہ مسئلہ مجوزہ مجلس کے اختیار سے باہر ہوگا اس لئے اگر وہ مجلس اس مسئلے پر کسی رائے کا اظہار کرے تو اس کا کوئی اثر اس قضیے پر نہیں ہوگا جو مجلس امن کے سامنے ہے۔ لیکن حکومت ہند کے اس اعلان اور اقرار کا بھی وہی حشر ہوا جو ان کے باقی معاہدوں کا ہوتا رہا ہے۔ اور بالاخر ہندوستان نے یہ کہنا شروع کردیا کہ چونکہ کشمیر کی نام نہاد مجلس آئین ساز ہندوستان کے ساتھ الحاق کی تائید کرچکی ہے اس لئے اب اس مسئلے پر کسی استصواب رائے عامہ کی ضرورت نہیں رہی۔
مجلس امن میں کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کی نمائندگی جب مسٹر کرشنامین کرنے لگے تو انہوں نے سرے سے ہندوستان کی تمام ذمہ داری سے ہی انکار کردیا۔ اول تو کہا کہ ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ پہلے دن سے ہی غیر مشروط` پختہ اور مستقل ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش ہی نہیں۔ دوسرے کمیشن کی قراردار کی رو سے ہندوستانی افواج کا انخلاء اسی صورت میں لازم آتا ہے جب پاکستا کی تمام افواج آزاد کشمیر سے واپس ہوجائیں۔ چونکہ پاکستان نے اس تمام عرصے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہیں کیا اس لئے ہندوستان اپنی ذمہ داری سے آزاد ہوچکا ہے۔ تیسرے چونکہ اس تمام عرصے میں حالات بہت حد تک بدل چکے ہیں اس لئے ہندوستان اب قرارداروں کا پابند نہیں رہا۔ چوتھے چونکہ اب ہندوستان نے آئینی طور پر ریاست کو ہندوستان کا جزو قرار دے دیا ہے اس لئے کشمیر کا قضیہ حل ہوگیا ہے اور تنازعہ باقی نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادارے کو کچھ کہنے یا کرنے کا حق ہو۔ ان سب باتوں کا کافی و
بترس از آہ مظلوماں کو ہنگام دعا کردن
اجابت ازدرحق بہراستقبال می آمید
کشمیر کی مسلمان آبادی ایک صدی سے زائد عرصہ تک ڈوگرہ مظالم کا شکار رہی اور اس کے بعد زائد از بیس سال سے ہندوستانی مظالم سہ رہی ہے۔ ان مظالم میں تخضیف ہونے کی بجائے ان کی شدت بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی ملک کسی قوم کسی فرد کا محض ان کے نام کی وجہ سے حمایتی نہیں۔ اس کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ لیکن وہ حق اور راستی` امن اور انصاف` شفقت اور رحم` عجز اور انکسار سے ضرور محبت رکھتا ہے اور جبر اور تعدی` ظلم اور سختی` ایذادہی اور ضرررسانی اس کے غضب کو بھڑکاتی ہیں۔ وہ عقوبت میں دھیما ہے لیکن مظلوم کی فریاد کو سنتا اور آخر ظالم کو پکڑتا ہے۔ وہ شدید البطش ہے اس کی گرفت بہت سخت ہے۔۵
فصل دوم
استحکام پاکستان کیلئے کراچی` پشاور` راولپنڈی اور کوئٹہ میں نہایت ولولہ انگیز پبلک تقریریں` بیش قیمت ارشادات نیز دوسری جماعتی و دینی مصروفیات
پچھلے سال ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے پنجاب کے دارالسلطنت لاہور میں >پاکستان کا مستقبل< کے عنوان پر متعدد کامیاب اور معرکتہ الاراء لیکچر دیئے جن کو چوٹی کے اہل علم طبقوں نے نہایت ذوق و شوق سے سنا اور زبردست خراج تحسین ادا کیا۔ اس سال حضور مغربی پاکستان کے دوسرے متعدد مرکزی مقامات میں تشریف لے گئے اور پاکستان کے ہزاروں باشندوں کو براہ راست اپنے بصیرت افروز خیالات اور تعمیری افکار سے روشناس کرایا۔ چنانچہ حضور نے سب سے پہلے سیالکوٹ۶اور جہلم۷ میں بعدازاں ۱۴۔ امان/مارچ کو کراچی میں` ۵۔۸ شہادت/ اپریل کو پشاور میں` ۱۲۔ شہادت/اپریل کو راولپنڈی میں اور ۱۶۔ احسان/جون کو کوئٹہ میں نہایت معلومات افزاء اور روح پرور پبلک تقاریر فرمائیں جن میں پاکستان کے پیش آمد اہم ملکی مسائل میں پاکستانیوں کی راہنمائی کرتے ہوئے نہایت شرح وبسط سے انہیں اپنی قومی و ملی ذمہ داریوں کی بجا آوری کی طرف توجہ دلائی اور اپنے پرجوش اور محبت بھرے الفاظ` بے پناہ قوت ایمان اور ناقابل تسخیر عزم وولولہ سے لاکھوں پژمردہ اور غمزدہ دلوں میں زندگی اور بشاشت کی ایک زبردست روح پھونک دی۔
سفر سیالکوٹ
سیدنا حضرت مصلح موعود فروری ۱۹۴۹ء کے پہلے ہفتہ لاہور سے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ ۳۔ فروری ۱۹۴۹ء کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے ایک عصرانہ۸ کا انتظام کیا جس میں چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے ایک اہم تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ ہمبرگ )جرمنی( میں گیارہ بارہ احمدی ہیں اور جرمن لوگوں میں اسلام کے متعلق خاص طور پر رغبت پائی جاتی ہے اور وہ سلام کی تحقیق کررہے ہیں جو قربانی اور کام کی روح ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام قبول کریں گے تو اسلام کے لئے ویسی ہی قربانیاں کریں گے جس طرح یہ لوگ دنیا کے لئے قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انگلستان کی نسبت جرمن اسلام کی طرف بہت زیادہ راغب معلوم ہوتے ہیں۔
حضور نے دوران تقریر مبلغ انگلستان مسٹر بشیر آرچرڈ کی قربانی اور تبلیغی خدمات پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی قربانی کے نتیجہ میں دوسرے لوگوں میں بھی ایک قسم کی بیداری پیدا ہوگئی ہے اور انہیں دیکھ کر میں امید کرتا ہوں کہ ان کے اندر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہوجائے گی اور وہ اسلامی تمدن کے مطابق کام کرنے لگے جائیں گے۔ آخر میں حضور نے حاضرین کو نصیحت فرمائی کہ
>آپ کوشش کریں کہ ہمارے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پائی جائے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ پاکستانی ہے۔ کسی مجلس میں ہم چلے جائیں وہ فوراً ہمیں شناخت کرکے کہہ سکے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں۔ جیسے یوروپین لوگوں کو فوراً پہچان لیا جاتا ہے۔<۹
اگلے روز ۴۔ فروری ۱۹۴۹ء کو ۸ بجے شب جناح ہال میں خواجہ محمد صفدر صاحب پریذیڈنٹ مسلم لیگ سیالکوٹ کے زیر صدارت ایک جلسہ منعقد ہوا جس سے سیدنا حضرت مصلح موعود نے خطاب فرمایا اور >پاکستان اور اس کے بین المملکتی تعلقات< کے عنوان پر نہایت معلومات افروز لیکچر دیا۔ حضرت سیدنا مصلح موعود نے اپنے لیکچر کے آغاز میں تعلقات کی اقسام پر روشنی ڈالی مثلاً تعلقات عامہ` تعلقات خاصہ )مدافعانہ` جارحانہ` صنعتی وغیرہ(۔
قیام پاکستان کے اس ابتدائی دور میں پاکستان کو دوسرے ممالک سے کن خطوط پر معاہدات کرنے چاہیں؟ اس بارہ میں حضور نے رہنمائی فرمائی اور پھر پاکستان کی ترقی واستحکام کے لئے بہت سی مفید تجاویز حاضرین کے سامنے رکھیں مثلاً۔
۱۔
مذہب زبان اور جغرافیائی ماحول کے اعتبار سے کشمیر کو لازمی طور پر شامل ہونا چاہئے۔ اگر عقل سے کام لیا جائے تو یہ ہوجائے گالیکن اس کے حاصل کرنے کے لئے جس بیداری کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتی۔ یہ کام کشمیری مہاجرین کا ہے جن کو ہم نے مطمئن کرنا ہے جب تک ان سے صحیح معاملہ نہ کیا جائے ان کے ووٹ حاصل کرنا مشکل ہیں۔
۲۔
افغانستان سے تعلقات نہایت ضروری ہیں تا دشمن ہمارے ملک کو دو طرف سے خراب نہ کرسکے۔
۳۔
سیلون سے معاہدہ کیا جائے تا ہمارے جہاز مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جاتے ہوئے وہاں تھہرسکیں۔
۴۔
برما سے تعلقات بڑھائے جائیں تا پاکستانی نیوی کے جہازوں کے لئے بندرگاہ مل سکے۔
۵۔
نیوی اور ہوائی بیڑے کو مضبوط کیا جائے۔
۶۔
انڈسٹری کو بڑھانا چاہیے تا انہیں خارجی اثر سے آزاد کیا جائے۔
۷۔
عربی تعلیم کا رواج ضروری ہے تا یہ لینگو آفرنیکا کا کام دے سکے۔
۸۔
تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اپنی حالت کو اسلام کے مطابق بنانا چاہیے۔
۹۔
سیاحت کے فروغ کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ کالجیئٹ طلباء کو مختلف سوسائٹیاں بنالینی چاہیں اور ہر ایک سوسائٹی ایک ایک ملک میں جائے اور وہاں کے طلباء کو پاکستان میں آنے کی طرف مائل کرے۔ اس طرح تعلقات بڑھ جائیں گے اور تمام اسلامی ممالک ایک خاندان کی طرح ہوجائیں گے۔ مضامین بھی لکھے جائیں اور اخباروں میں پراپیگنڈا بھی کیا جائے۔ دوسرے ممالک کے ذرائع نقل و حرکت میں آسانی پیدا کی جائے۔
۱۰۔
اسلامی ممالک کا بلاک بنایا جائے جس میں یہ ممالک شامل ہوں۔ ترکی` مصر` لبنان` شام` شرق اردن` سعودی عرب` افغانستان` عراق` ایران` انڈونیشیا` ملایا` سوڈان` الجزائر اور چین کے بعض حصے۔
فرمایا۔ اگر یہ سب باتیں ہوجائیں تو اسلامی سیاسیات کے بنیاد پڑسکتی ہے۔ یہ بلاک ایسا ہوگا کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ بلاک اگر واقع میں صنعتی بن جائے` ہوشیار بن جائے اور اس کا دفاع مضبوط ہوجائے تو بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کے ساتھ تعلقات رکھتے میں مجبور ہوگی۔۱۰
حضرت بابو قاسم دین صاحب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیالکوٹ میں حضور کا ایک لیکچر خان بہادر خواجہ برکت علی صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر جنرل سیالکوٹ کی صدارت میں ہوا۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں۔
>حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لیکچر >استحکام پاکستان< کے سلسلہ میں موتی محل سنیما میں بصدارت خان بھائو خواجہ برکت علی صاحب ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر جنرل سیالکوٹ رات ۸ بجے کے قریب شروع ہوا۔ یہ سنیما سرائے مہاراجہ جموں و کشمیر کے ساتھ ہی واقع ہے جس میں ۲۔ نومبر ۱۹۰۴ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا >لیکچر سیالکوٹ< )بصدارت حضرت مولوی نوردین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ( حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھ کر سنایا تھا۔
لیکچر کے سننے کے لئے شہر سیالکوٹ میں ایک عام منادی کرائی گئی تھی۔ ہماری بیرونی جماعتوں کے لوگ بھی کشرت سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ تقریر کے وقت ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا اور حاضری ہمارے اندازہ سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جلسہ نہایت پر امن ماحول میں ہوا اور نہایت کامیاب ہوا۔
خاکسار جلسہ کے دوسرے دن مکرم چوہدری محمد اکرم صاحب سول سپلائی افسر سیالکوٹ کے ہاں گیا وہاں خان بہادر چوہدری قاسم علی صاحب` ذیلدار` سب رجسٹرار` پراونشل درباری ساکن بدر کی چیمہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تشریف رکھتے تھے میں ان کو ملا۔ آپ نے حضرت مصلع موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جلسہ کی تقریر کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ خلیفہ صاحب کا سیاسی` جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے بہت وسیع علم اور مطالعہ ہے۔ ہال میں ایک نقشہ ضلع سیالکوٹ کا لٹکایا ہوا تھا جس کے ذریعہ سے پاکستان اور جموں و کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کی نشان دہی کرکے دوران تقریر میں بتاتے جاتے تھے۔ مکرم چوہدری صاحب نے مجھ کو فرمایا کہ رات کا لیکچر سن کر میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ اب ہم کو خلیفہ صاحب کی بیعت کرلینی چاہئے۔
دوران قیام سیالکوٹ حضور نے سیالکوٹ۔ جموں کا بارڈر بھی جاکر دیکھا۔ حضور وہاں جیپ پر تشریف لے گئے تھے۔< )قاسم الدین محلہ حکیم حسام الدین سیالکوٹ(
سفر جہلم
اس سفر کا ذکر حضور کے ایک خطبہ کراچی میں ملتا ہے حضور نے فرمایا۔
>میں نے گزشتہ ایام میں جہلم میں ایک تقریر کی جس میں مسلمانوں کو نصیحت کی کہ انہوں نے جو پاکستان مانگا تھا تو اس لئے مانگا تھا کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کو آزادانہ طور پر قائم کرسکیں۔ اب جبکہ پاکستان قائم ہوچکا ہے کم از کم پانچ وقت کی نماز ہی مسلمان مسجد میں آکر ادا کرنا شروع کردیں۔ اگر وہ پانچوں وقت نماز بھی نہیں پڑھتے تو پاکستان مانگ کہ انہوں نے کیا لیا۔ اس پر ایک شخص نے پریذیڈنٹ کو رقعہ لکھا کہ میں والنیٹرز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بعد میں مجھے موقعہ دیا جائے۔ چنانچہ بعد میں اسے بولنے کا موقعہ دیاگیا۔ اتفاق سے پریذیڈنٹ ایک ایسے دوست تھے جو احمدیت کے مخالف رہے ہیں۔ وہ شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا۔ مرزا صاحب نے باتیں تو بڑی اچھی کہی ہیں لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اگر نماز کا انہیں اتنا ہی احساس ہے تو اب ہماری نماز ہونے والی ہے مرزا صاحب چلیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھ کردکھادیں غرض ایک لمبی تقریر اس نے صرف اسی بات پر کی۔ اس وقت میرے دل میں بدظنی پیدا ہوئی کہ شاید پریذیڈنٹ کی مرضی اور ایماء سے یہ تقریر ہورہی ہے۔ بعد میں پریذیڈنٹ صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے تو رقعہ میں یہ دکھایا گیا تھا کہ میں والنیٹروں کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر تقریر کسی اور بات پر شروع کردی گئی ہے میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تقریر کرنے والے صاحب کا منشاء کیا ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنی چاہئے۔ نماز محمد رسول اللہ~صل۱~ کا حکم ہے اور مسجدیں بھی ہماری اپنی ہیں۔ انہوں نے صرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپنے رسولﷺ~ کی بات مانو اور مسجدوں میں نمازیں پڑھا کرو۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اگر تو انہوں نے یہ کہا ہوتا کہ مسلمانوں کو میرے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی کوئی بات تھی وہ کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پیچھے پڑھیں۔ یا اگر کہتے کہ مسلمانوں کو احمدیوں کے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی یہ بات ان کے منہ پر سج سکتی تھی کہ اگر ہمیں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھی ہمارے پیچھے پڑھیں لیکن انہوں نے تو ہمارے آقا کی ایک بات ہمیں یاد دلائی ہے۔ کیا ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اپنے آقاﷺ~ کی بات پر عمل کریں یا یہ کام ہے کہ ہم کہیں جب تک تم ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو ہم اپنی آقاﷺ~ کے حکم پر بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ غرض انہوں نے اسے خوب رگیدا اور لتاڑا۔<۱۱
سفر سندھ کراچی
حضرت امیرالمومنین سیدنا المصلح الموعود نے استحکام پاکستان اور جماعتی تنظیم و تربیت کے اہم اغراض ومقاصد کی تکمیل کے لئے پہلا طویل سفر سندھ کی طرف اختیار فرمایا۔ یہ انوار و فیوض سے معمور سفر ۱۴۔ ماہ تبلیغ/فروری سے شروع ہوا اور ۲۰۔ امان/مارچ کو بخیرو خوبی اختتام تک پہنچا۔
لاہور سے ناصر آباد تک
حضرت امیرالمومنین ۱۴۔ ماہ تبلیغ/فروری بروز ہفتہ اہلیت و خدام لاہور سے روانہ ہوئے۔ پورا قافلہ ۳۷ نفوس۱۲ پر مشتمل تھا۔ حضور پونے آٹھ بجے صبح بذریعہ کار رتن باغ سے روانہ ہوکر لاہور سٹیشن پر تشریف لائے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت نواب میاں عبداللہ خاں صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` جناب شیخ بشیراحمد اصحب امیر جماعت احمدیہ لاہور` جناب چوہدری اسد اللہ خاں صاحب اور جماعت احمدیہ کے دیگر بہت سے افراد حضور کی مشایعت کے لئے سٹیشن پر موجود تھے حضور نے دوستوں کو شرف مصافحہ بخشا اور آٹھ بجے کراچی میل روانہ ہوگئی۔ سفر کی اطلاع چونکہ پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے ان تمام جماعتوں کو دے دی گئی تھی جو اس لائن پر واقع تھیں اس لئے جب بھی گاڑی کسی سٹیشن پر پہنچتی عموماً جماعت کے کثیر دوست مرد` عورتیں اور بچے وہاں استقبال اور حضور کی زیارت کے لئے موجود ہوتے۔ لاہور کے بعد اول رائیو ونڈ کے سٹیشن پر جماعت کے دوست حضور کے استقبال کے لئے تشریف لائے۔ اس کے بعد پتوکی` اوکاڑہ` منٹگمری` چیچہ وطنی` میاں چنوں` خانیوال` ملتان چھائونی` لودھراں` سماسٹہ` خانپور` رحیم یارخاں` روہڑی` اور حیدرآباد سندھ کے سٹیشنوں پر مختلف جماعتیں موجود تھیں۔ اوکاڑہ` منٹگمری اور خانیوال کے سٹیشنوں پر تو حضور نے گاڑی سے نیچے اتر کر جماعت کے دوستوں سے مصافحہ فرمایا مگر باقی سٹیشنوں پر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی حضور مصافحہ فرماتے رہے۔ بعض مقامات پر جماعت کی درخواست پر حضور نے ہاتھ اٹھا کر دعا بھی فرمائی۔ گاڑی جب اوکاڑہ سٹیشن پر پہنچی تو جماعت کے بعض دوستوں نے خوشی میں بندوق سے ہوا میں فائر کئے۔ حضور دوستوں کا اژدحام دیکھ کر مصافحہ کرنے کے لئے گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر تشریف لے آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد شروع کی۔ ابھی حضور دعا کر رہی رہے تھے کہ گاڑی حرکت میں آگئی اور دو ایک ڈبوں کے سوا باقی تمام گاڑی پلیٹ فارم سے آگے نکل گئی اس اثناء میں حضور بدستور مصروف دعا رہے۔ آخر زنجیر کھینچ کر گاڑی رکوائی گئی اور حضور اپنے ڈبے میں سوار ہوئے۔ منٹگمری سٹیشن پر چوہدری نورالدین صاحب ذیلدار نے عرض کیا کہ حضور راستہ میں چک نمبر۶ کی جماعت آتی ہے اس جماعت کے دوست لائن کے ساتھ حضور کی زیارت کے لئے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ اس پر حضور نے دفتر کو ہدایت فرمائی کہ جب وہ مقام قریب آجائے جہاں جماعت کے دوست کھڑے ہوں تو مجھے اطلاع دی جائے۔ چنانچہ چلتی گاڑی میں حضور کی خدمت میں اطلاع عرض کی گئی اور حضور نے کھڑکی کے قریب تشریف لاکر زائرین کو اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔
دفتر کی طرف سے جماعتوں کو یہ اطلاع دی گئی تھی کہ چونکہ سفر لمبا ہے اس لئے رات کے دو بجے تک جو جماعتیں اسٹیشن پر آسکتی ہیں وہ آجائیں ملاقات صرف دو بجے تک ہوسکتی ہے اس کے بعد نہیں۔ مگر جب گاڑی روہڑی اسٹیشن پر پہنچی تو باوجود اس کے کہ اس وقت چار یا پونے چار بجے شب کا وقت تھا پھر بھی دوست اپنے اخلاص اور عقیدت کی وجہ سے اسٹیشن پر موجود تھے۔ چونکہ حضور اس وقت آرام فرمارہے تھے اس لئے وہ بھی صرف حضور کے ڈبے کے سامنے کھڑے رہے انہیں ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔
اس سفر میں ۱۴۔ فروری اور دوپہر کا کھانا منٹگمری کی جماعت نے اور شام کا کھانا ملتان کی جماعت نے پیش کیا جو حضور اور حضور کے تمام ہمراہیوں کے لئے تھا۔ حضور ۱۵۔ فروری کو ۱۰ بجے صبح حیدرآباد سندھ رونق افروز ہوئے اور پھر معمہ اہل بیت اور ۱۱ بجے بذریعہ کار عازم میرپور خاص ہوئے اور دو بجے کے قریب حضور میرپورخاص پہنچ گئے۔
میرپورخاص میں خان بہادر غلام حسین صاحب کی کوٹھی پر حضور نے قیام فرمایا۔ پانچ بجے خان بہادر غلام حسین صاحب نے حضور کے اعزاز میں اپنے رہائشی مکان پر دعوت چائے دی جس میں حضور شریک ہوئے۔ اور بھی بہت سے مقامی معززین اس دعوت میں شریک تھے۔
۶ بجے شام کے قریب حضور امیرالمومنین المصلح الموعود میرپورخاص کے بعض محبوس احمدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ احمدی دوست جن میں سے اکثر واقف زندگی تھے۔ عرصہ چھ سات ماہ سے محمد آباد اسٹیٹ کی زمیں میں ایک فساد کے سلسلہ میں زیر الزام تھے۔ حضور کے تشریف لے جانے پر جیل کے افسر صاحب کے حکم کے مطابق سب ماخوذین کو برآمدہ میں لائے جانے کی اجازت دی گئی۔ اس جگہ سب دوستوں نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحح کا شرف حاصل کیا۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھتے میں سہولت ہے یعنی وضو وغیرہ کے لئے پانی مل جاتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نماز کی سہولت ہے ہم نماز ادا کرلیتے ہیں۔ وضو کے لئے قریب کی جگہ سے پانی لے آتے ہیں۔ پھر حضور نے فرمایا ماہ رمضان میں بھی آپ اس جگہ تھے روزے رکھ سکتے تھے یا نہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھے تھے۔ ہم شام کو ہی دونوں وقت کا کھانا پکا لیا کرتے تھے کیونکہ سحری کے وقت آگ وغیرہ جلانے کی اجازت نہ تھی۔ پھر کچھ سکوت کے بعد حضور نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا ملخص یہ تھا کہ آپ لوگوں کو استغفار اور دعا کرتے رہنا چاہئے اور یہ کبھی خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم بے قصور ہیں خواہ موجودہ الزام غلط ہی ہو۔ کیونکہ بسااوقات اللہ تعالیٰ مومن غلطیوں کی سزا دہی میں پردہ پوشی سے کام لیتا ہے اور بظاہر ایسے الزام کے ذریعہ تکلیف میں ڈال دیتا ہے جس الزام کے متعلق مومن جانتا ہے کہ یہ الزام غلط ہے۔ اس طرح اس کو تکلیف تو اس غلطی کی وجہ سے جو پہلے اس سے ہوئی ہے پہنچ جاتی ہے مگر سزا یا تکلیف ایسے رنگ میں اسے پہنچتی ہے جس کی وجہ سے اول تو وہ خود کہتا ہے کہ میں بے قصور ہوں پھر دنیا بھی اس الزام کو درست نہیں سمجھتی اس لئے اس کی رسوائی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح اس پہلی غلطی کے الزام میں پھنس جانے اور الزام کے صحیح ثابت ہونے سے ہوتی۔ آپ اس وقت جس حالت میں ہیں وہ بیشک تکلیف دہ ہے کیونکہ قید میں ہونے کے باعث ہر قسم کی آزادی سے محروم ہیں لیکن آپ لوگوں کو راضی برضا رہنا چاہئے اور اس حالت کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی جو بہرے` گونگے اور اندھے ہیں۔ وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور ہر قسم کی قید ان پروارد ہے۔ وہ آپ لوگوں کی نسبت بدر جہا سخت قید میں ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی زندگی کو بسر کررہے ہیں اور انہیں چاہتے کہ ان کی زندگی ختم کردی جائے۔ آپ لوگوں پر جو یہ حالت آئی ہے یہ خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آئی ہے آپ کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ جب اس حالت سے آپ لوگ باہر آئیں تو آپ کی حالت وہ نہ ہو جو داخل ہونے کے وقت تھی بلکہ اپنے نفس کی اصلاح کی اعلی درجہ کی حالت میں آپ لوگ باہر آئیں اور ایسے پاک اور صاف ہوکر نکلیں کہ جس سے دنیا کو روحانی نفع پہنچے۔
اس ارشاد کے بعد حضور واپس قیام گاہ پر تشریف لائے اور مغرب وعشاء کی نمازیں ادا فرمائیں نماز سے فارغ ہونے کے بعد نازنول ریاست پٹیالہ کے ایک غیراحمد دوست نے جو مسلم لیگ کے سرگرم کارکن رہے تھے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر بہت سی باتیں ایسی کھلتی رہتی ہیں جن سے لوگوں کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اس لئے میں بھی حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا ہوں میری گزارش یہ ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں پر جو بیثمال تباہی آئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اب اسلام اور مسلمانوں کا کیا بنے گا اور وہ کس طرح ترقی کرسکیں گے۔
حضرت امیرالمومنین نے فرمایا یہ کہنا درست نہیں کہ مسلمانوں پو جو تباہی آئی ہے یہ اپنی ذات میں بے مثال ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ملسمانوں پر ¶بڑی بڑی تباہیاں آچکی ہیں چنانچہ اس ضمن میں سپین اور بغداد کی تباہی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ سپین میں تباہی آئی تھی وہ اس قسم کی تھی کہ کوئی ایک فرد بھی مسلمانوں میں سے نہیں بچا حالانکہ سپین میں مسلمانوں کا وہ عروج تھا کہ تمام یورپ پرانکا رعب اور دبدبہ چھایا ہوا تھا۔ پھر پنجاب کو کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہیں تھی مگر بغداد جب تباہ ہوا تو وہ مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ پس اس تباہی اور اس تباہی میں بڑا فرق ہے۔ اس وقت گو لاکھوں مسلمان مارے گئے مگر لاکھوں بچ کر بھی نکل آئے ہیں حالانکہ سپین میں سے کوئی بھی ¶بچ کر نہیں نکل سکا تھا۔
رہا یہ سوال کہ مسلمانوں کا اب کیا بنے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم اسلام اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں تو ہمارے لئے یہ سوال کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا قرآن کریم کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مسلمان کے تنزل کی بھی پیشگوئیاں ہیں اور مسلمانوں کی ترقی کی بھی پیشگوئیاں ہیں جب ہم نے اپنی آنکھوں سے قرآن کریم کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھ لی ہیں جو مسلمانوں کی تباہی اور ادبار کے متعلق تھیں تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ پیشگوئیاں بھی ضرور پوری ہوکر رہیں گی جو مسلمانوں کے دوبارہ عروج اور ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔
باقی رہا یہ امر کہ مسلمان غلبہ حاصل کرسکیں گے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ غلبہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اسلام کی صحیح تصویر ان میں نظر آنے لگے گی۔ افسوس ہے کہ ابھی تک مسلمانوں نے اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کی۔ مثلاً اگر اس وقت حکومت پاکستان یہ چاہے کہ تمام سینمائوں کو بندکرادے تو مسلمان اس کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہی حال پردہ اور سود وغیرہ مسائل کا ہے۔ اگر مسلمان اسلامی احکام پر عمل کرنا اپنے لئے فرض قرار دے لیں تو ان کی ترقی بالکل قطعی اور یقینی ہے مگر مسلمانوں میں یہ زندگی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرلیں اور اس سلسلہ میں شامل ہوجائیں جو اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے قائم فرمایا ہے۔
اس موقع پر غیر احمدی دوست نے عرض کیا کہ اب تو جماعت احمدیہ اور عام مسلمانوں میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں رہا۔ اس پر حضرت امیرالمومنین نے مسلمانوں کے ان عقائد کا ذکر فرمایا کہ وہ قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کے قائل ہیں اور وحی کو منقطع سمجھتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ ایسا ہے کہ اگر اس کو درست تسلیم کرلیا جائے تو امان اٹھ جاتا ہے اور قرآن کریم پر عمل کرنا سخت مشکل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جب یہ اعتقاد پیدا کر لیاجائے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں تو نہیں کہا جاسکتا کہ یہ منسوخ ہے یا وہ منسوخ ہے۔ اسی طرح مسلمان وحی کو منقطع سمجھتے تھے حالانکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جس سے اسلام کا روشن چہرہ لوگوں کو نظر آتا ہے۔ اگر آسمان سے تازہ وحی کے نزول کا سلسلہ جاری نہ ہو تو اسلام کا مصفی چہرہ غبار آلود ہوجائے۔
رات کا کھانا شیخ بشیراحمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر کے ہاں تھا اور حضور ان کی کوٹھی پر کھانے کے لئے تشریف لے گئے۔
۱۶۔ تبلیغ/فروری دس بجے صبح حضور معہ قافلہ میرپورخاص سے کنجیجی بذریعہ ٹرین روانہ ہوئے راستہ میں جیمس آباد۔ ڈگری۔ جھڈو۔ نوکوٹ۔ فضل بھمبرو۔ ٹالہی۔ نبی سر روڈ اور کنری اسٹیشن پر جماعت کے دوست حضور کے استقبال اور زیارت کے لئے موجود تھے۔ ہر جگہ دوستوں کو حضور نے مصافحہ کا شرف بخشا۔ ڈگری کی جماعت نے کھانا پیش کیا۔ اسی روز ۳ بجے بعد دوپہر حضور معہ اہل بیت کنجیجی اسٹیشن کیا گیا۔ حضور معہ اہل بیت کار میں سوار ہوئے اور ناصر آباد اسٹیٹ تشریف لے آئے۔۱۳
ناصرآباد میں قیام اور کراچی کے لئے روانگی
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود اس علاقہ میں قریباً تین ہفتہ تک ٹھہرے اور ناصر آباد` حیدرآباد` میرپورخاص` کنجیجی` احمدآباد` محمودآباد کا دورہ کرنے اور اہم جماعتی معاملات کو اپنی زیرنگرانی طے کرنے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد ۱۱۔ امان/مارچ کو ۲/۱/۱۰ بجے کے قریب بذریعہ ٹرین ناصر آباد سے کراچی روانہ ہوئے۔ اسٹیشن پر بہت سے مقامی احباب الوداع کہنے کے لئے موجود تھے۔ راستہ میں کنری` نبی سر روڈ` ٹالہی اور فضل بھمبرو کے اسٹیشنوں پر بکثرت احمدی مرد` عورتیں اور بچے حضور کی زیارت کے لئے موجود تھے۔ میرپور خاص اور حیدرآباد میں بھی بہت سے احباب حضور کا خیرمقدم کرنے کے لئے حاضر تھے۔ کنری کی جماعت نے حضور کے لئے اور حضور کے ہمراہیوں کے لئے دوپہر کا کھانا پیش کیا۔ میرپور خاص کے سٹیشن پر مکرم ڈاکٹر حاجی خاں صاحب نے شام کے کھانے اور چائے کا اچھا انتظام کررکھا تھا۔ حیدرآباد کے دوستوں نے چائے پیش کی۔ حیدرآباد سٹیشن پر حضور کچھ وقت ویٹنگ روم میں تشریف فرمارہے جہاں بعض احباب نے حضور سے ملاقات اور گفتگو کا شرف حاصل کیا۔
کراچی میں آمد
صبح ساڑھے چار بجے ٹرین حیدرآباد سے کراچی روانہ ہوئی اور بارہ بجے کے قریب حضور معہ قافلہ بخیریت کراچی پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر حضور کا خیرمقدم کرنے کے لئے آنے والے دوستوں کو حضور نے مصافحہ کا شرف عطا فرمایا۔ حیدرآباد اور کراچی میں بعض دوستوں نے حضور کو ہار پہنانے چاہے لیکن حضور نے انہیں منع کردیا۔ جماعت کراچی نے حضور کی رہائش کے لئے ایک ہندو کی کوٹھی کا انتظام کیا تھا جو مخصوص طور پر مذہبی امور کی انجام دہی کے لئے بنائی گئی تھی حضور نے وہاں رہائش کو پسند نہ فرمایا اور اس کی بجائے چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب بالقانہ کی کوٹھی >پردین ولا< واقع ہوشنگ روڈ میں فروکش ہوئے۔۱۴
خطبہ جمعہ میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا اختیار کرنے کی تحریک
۲ بجے کے قریب حضور باوجود درد نقرس کی تکلیف کے نماز جمعہ کیلئے تشریف لے گئے نماز جمعہ کا انتظام بند روڈ پر ایک وسیع میدان
میں کیا گیا تھا۔ حضور نے خطبہ جمعہ کے شروع میں یہ بتایا کہ۔
>جماعت کے دوستوں نے ہماری رہائش کے لئے یہاں ایک جگہ تجویز کی تھی جس کا نام مندر ہے۔ لوگ کہتے ہیں وہ مندر نہیں تھا بلکہ مذہبی امور کے لئے وہ جگہ بنائی گئی تھی لیکن بہرحال میں نے اس مکان میں رہنے سے انکار کردیا ہے ۔۔۔۔ جب میں لاہور آیا تو چونکہ ہمیں کالج اور دوسری ضروریات کی لئے جگہ کی تلاش تھی۔ حکومت پنجاب کی بعض افسروں نے یہ تجویز کیا اور بعض لوگ متواتر اس غرض کے لئے مجھے ملے کہ ہم ننکانہ لے لیں اور اس پر قبضہ کرلیں۔ جب بھی ہم اپنی صروریات ان کی سامنے رکھتی وہ زور دیتی کہ ہم ننکانہ آپ کو دے دیتی ہیں لیکن میں آہستہ اس سے انکار کیا اور کہا کہ جو قانون ہم اپنے جذبات کے متعلق ضروری سمجھتے ہیں۔ چونکہ ننکانہ سکھوں کی ایک مذہبی جگہ ہی اس لئے ہم اس پر قبضہ کرکے دوسروں پر یہ اثر ڈالنا نہیں چاہتے کہ ہم بھی ضرورت کے موقع پر دوسروں کے مذہبی مقامات پر قبصہ کرلینا جائز سمجھتے ہیں۔ ہمیں کہا گیا کہ یہ مکانات خالی ہیں اور بہرحال کسی نے لینے ہیں آپ ہی لے لیں۔ ہم نے کہا کوئی لے لے سوال تو ہمارے جذبات کا ہے۔ کسی دوسرے شخص کے اگر وہ جذبات نہیں جو ہمارے ہیں یا ایسے مقامات پر قبضہ کرلینا کوئی شخص جائز سمجھتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ فلاں شخص کے جذبات کے لحاظ سے یہ کوئی بری بات نہیں یا چونکہ ایسے مقامات پر قبضہ کرلینا اور لوگ جائز سمجھتے ہیں اس لئے آپ بھی قبضہ کرلیں۔ ان کا معاملہ ان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کہ ہم بھی اس معاملہ میں وہی کچھ کریں جو اور لوگ کرتے ہیں۔ دوسرے ہم یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ عبادت گاہ ہی ہو تو اس پر قبضہ کرلینے سے جذبات کوٹھیس لگتی ہے بلکہ عبادت گاہ کے بغیر بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے چھینے جانے یا جن پر دوسرے مذاہب کے قبضہ کرلینے سے جذبات کوٹھیس لگتی ہے۔ اس نقطہ نگاہ کے ماتحت قطع نظر اس سے کہ اس کا نام صرف مندر تھا چونکہ وہ ایک ہندو کی عمارت ہے اور یہ عمارت مذہبی مجلسوں اور مذہبی انجمنوں کے نعقاد کے لئے استعمال کی جاتی تھی اس لئے اپنے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ہم اس عمارت میں ٹھہریں تاکہ ہماری وہ دلیل جو ہم قادیان کے متعلق دے رہے ہیں کمزور نہ ہوجائے اور ہمارا وہ اصول نہ ٹوٹے جو مذہبی مقامات کی تقدیس اور ان کے احترام کے متعلق ہم دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ بعض دوستوں نے کہا ہے کہ وہ اس عمارت کو خرید نے کا انتظام کررہے ہیں۔ بلکہ مجھے کہا گیا ہے کہ خود مالک مکان اسے فروخت کرنا چاہتا ہے چونکہ یہ ایک اہم امر ہے اس لئے اس معاملہ میں اگر کوئی قدم مقامی جماعت کی طرف سے اٹھایا جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پوری طرح تمام حالات کو میرے سامنے رکھے اگر میری تسلی ہوگئی اور مجھے اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نظر نہ آتی تب بھی میرے نزدیک مناسب یہی ہوگا کہ ہم یہ عمارت نہ لیں کیونکہ اپنے اصول کی پابندی ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔<۱۵
اس وضاحت کے بعد حضور نے جماعت کراچی کو مسجد` مہمان خانہ اور لائبریری کے لئے ایک موزوں قطعہ تلاش کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ بعدازاں ارشاد فرمایا۔
>دوسری چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں نے آج سٹیشن پر دوستوں کو منع کردیا تھا کہ وہ میرے گلے میں ہار نہ ڈالیں۔ یوں بھی ہار پہننے میں مجھے حیاسی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس امر کو اگر نظر انداز کردیا جائے تب بھی میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی ضرورتوں کو سمجھنے والے افراد کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے زمانہ کے مطابق قدم اٹھانا چاہئے۔ ہمارے لئے اس وقت ایک ایسا زمانہ آیا ہوا ہے جس میں ہم اپنے مقدس مقام سے محروم ہیں اور دشمن اس پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ ہار پہننے کے معنے خوشی کی حالت کے ہوتے ہیں۔ میں جہاں جماعت کو یہ نصیحت کیا کرتا ہوں کہ ان کے دلوں میں پژمردگی پیدا نہیں ہونی چاہئے` ان کے اندر کم ہمتی نہیں ہونی چاہئے ان کے اندر کم ہمتی نہیں ہونی چاہئے` ان کے اندر پست ہمتی نہیں ہونی چاہئے وہاں میں اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جماعت اس صدمہ کو بھول جائے اور ایسی غیر طبعی خوشیاں منانے میں محوہوجائے۔ جن کی وجہ سے وہ ذمہ داری اس کی آنکھ سے اوجھل ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہے۔ نمائشی باتیں تو یوں بھی ناپسندیدہ ہوتی ہیں مگر کم سے کم اس وقت تک کے لئے ہمارے نوجوانوں میں یہ احساس زندہ رہنا چاہئے جب تک ہمارا مرکز ہمیں واپس نہیں مل جاتا۔ آخر کوئی نہ کوئی چیز ہوگی جس کے ساتھ نوجوانوں کو یہ بات یاد دلائی جاسکے گی۔ اگر ایسے مظاہروں سے نوجوانوں کو روکا جائے تو چونکہ پہلے ہم روکا نہیں کرتے تھے اس لئے قدرتی طور پر ہر احمدی کے دل میں یہ بات تازہ رہے گی کہ میں نے اپنے مرکز کو واپس لینا ہے۔ مجھے غیرطبعی خوشیوں کی طرف مائل نہیں ہونا چاہئے۔ اگر خدانخواستہ ہم بھی غیر طبعی خوشیوں میں محوہوگئے اور نوجوانوں کو ہم نے یہ محسوس نہ کرایا کہ کتنا بڑا صدمہ ہمیں پہنچا ہے تو ان کے اندر اپنے مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد اور کوشش کی سچی تڑپ زندہ نہیں رہ سکے گی اس لئے میں سمجھتا ہوں میرے لئے یا کسی اور کے لئے ایسے مظاہروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔<۱۶
خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ہماری جماعت صلح کی بنیادوں پر قائم ہے اور جہاں تک ہوسکے گا ہم صلح سے ہی اپنے مرکز کو واپس لینے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے ہمارے ہاتھ میں حکومت نہیں اور جنگ کا اعلان حکومت ہی کرسکتی ہے افراد نہیں کرسکتے۔ گویا اس وقت اگر جنگ کا اعلان ہو تو دوہی حکومتیں کرسکتی ہیں یا انڈین یونین کرسکتی ہے یا پاکستان کرسکتا ہے۔ ہم پاکستان گورنمنٹ نہیں کہ انڈین یونین سے اعلان جنگ کرسکیں۔ ہم آزاد علاقہ کے بھی نہیں کہ ہم ایسا اعلان کرنے کے مجاذ ہوں۔ اس لئے اگر جنگ کے ذریعہ ہی ہمارے مرکز کا ملنا ہمارے لئے مقدر ہے تب بھی جنگ کے ۔۔۔۔۔ سامان خدا ہی پیدا کرسکتا ہے ہمارے اندر یہ طاقت نہیں نہیں کہ ہم ایسا کرسکیں اور نہ شریعت ہمیں جنگ کی اجازت دیتی ہے۔ شریعت جنگ کا اختیار صرف حکومت کو دیتی ہے اور حکومت ہمارے پاس نہیں۔ پس جنگ سے بھی اسی صورت میں فائد اٹھایا جاسکتا ہے جب خدا ایسے سامان پیدا فرمائے اور انڈین یونین سے کسی اور حکومت کی لڑائی شروع ہوجائے۔ بہرحال خواہ صلح سے ہمارا مرکز ہمیں واپس ملے یا جنگ سے دونوں معاملات میں ظاہری تدابیر کام نہیں دے سکتیں صرف خدا ہی ہے جو ہماری مدد کرسکتا اور ہمارے لئے غیب سے نصرت اور کامیابی کے سامان پیدا فرما سکتا ہے۔ اگر دلائل کو لو تو دلائل کا اثر بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کرسکتا ہے ورنہ جونشہ حکومت میں سرشار ہو اور جسے اپنی طاقت کا گھمنڈ ہو اس کے سامنے کتنے بھی دلائل پیش کئے جائیں وہ سب کو ٹھکرا دیتا ہے اور کہتا ہے ہم ان باتوں کو نہیں مانتے اور اگر طاقت کو لو تو اول تو مادی طاقت ہمارے پاس ہے ہی نہیں اور اگر ہو بھی اور فرض کرو ہماری جماعت موجودہ تعداد سے پچاس یا سوگنے بھی بڑھ جاتی ہے اور پانچ دس کروڑ تک پہنچ جاتی ہے تب بھی گورنمنٹ ہمارے قبضہ میں نہیں اور ہم شرعی نقطہ نگاہ سے جنگ نہیں کرسکتے۔ گویا ہماری حالت صلح کی صورت میں بھی اور جنگ کی صورت میں بھی کلی طور پر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کو اختیار کرنا ہمارا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے۔ اگر ہم اپنے اس فرض کو ادا کرلیں تو یقیناً وہ کام جو ہم نہیں کرسکتے خدا اسے خود پور فرمائے گا۔ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ خدائی طاقت اور قوت کی کوئی حدبندی نہیں۔ بندے کی بڑی سے بڑی جدوجہد اور کوشس بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب خدا کرنے پر آتا ہے تو باجود اس کے کہ دنیا ایک کام کو ناممکن سمجھ رہی ہوتی ہے وہ ممکن ہوجاتا ہے۔ شام کو وہ اس حالت میں سوتی ہے جب وہ اسے ناممکن سمجھ رہی ہوتی ہے مگر جب صبح اٹھتی ہے تو اسے وہ ناممکن امر ممکن نظر آرہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ صبح وہ ایک کام کا ممکن سمجھتی ہے مگر جب شام ہوتی ہے تو وہی ممکن امر اسے ناممکن نظر آنے لگتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ہمارے سب کام کرنے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرنا ہمارا اولین کام ہونا چاہئے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے کاموں اور اپنی خوشیوں اور اپنی ہر قسم کی مصروفیتوں میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ راضی کرنے کی کوشش کریں۔<۱۷
خالق دنیا ہال میں عظیم الشان پبلک لیکچر
حضرت مصلح موعود نے قیام کراچی کے تیسرے روز ۱۴۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ساڑھے پانج بجے شام خالق دنیا ہال میں >پاکستانیوں سے چند صاف صاف باتیں< کے عنوان سے ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی۔ صدارت کے فرائض آنریبل حاتم بی طیب جی چیف جسٹس سندھ چیف کورٹ نے انجام دیئے ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا بلکہ سینکڑوں احباب کو باہر کھڑے ہوکر لیکچر سننا پڑا۔ سامعین کا اکثر حصہ کالجوں کے طلباء پروفیسروں` ڈاکٹروں اور وکلاء وغیرہ پر مشتمل تھا۔ مسٹر ایم۔ ایچ گزدر ایم۔ ایل۔ اے ایڈوائزر حکومت سندھ مسٹرمدنی ڈپٹی سیکرٹری حکومت پاکستان۔ خان بہادر نذیر احمد ریٹائرڈ چیف جسٹس کشمیر مسٹر حاتم علوی۔ مسٹر واسطی وائس پرنپسل سندھ کالج اور مرکزی و صوابئی حکومت کے متعدد دیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ حضور کی تقرر ڈیڑھ گھنٹہ تک کامل انہماک و سکوم اور گہری دلچسپی سے سنی گئی۔
تقریر کے آغاز میں حضور نے مقررہ موضوع کی وسعت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ موضوع دراصل ایک طویل داستان کی حیثیت رکھتا ہے تاہم چونکہ یہ کراچی میرا پہلا لیکچر ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ کراچی کے باشندے کس حد تک میری باتیں سننے کے لئے تیار ہوسکتے ہیں اس لئے میں مضمون کے بہت سے حصوں کو چھوڑ کر چند ضروری امور بیان کرنے پر اکتفاء کروں گا۔
سب سے پہلے حضور نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ پاکستان ایک نئی حکومت ہی نہیں بلکہ ایک نیا ملک بھی ہے اس لئے پاکستانیوں کو وطنیت کا وہ جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے جو پہلے موجود نہ تھا۔ وطنیت کا جذبہ ایک ایسی چیز ہے جو قدم کو اکٹھا رکھنے` اسے بھارنے اور ملک کے دفاع کے لئے اسے ہر ممکن قربانی کرنے پر آمادہ کردیتا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ جذبہ پیدا کرنے میں ہم کامیاب نہ ہوئے تو ذرا سا اختلاف ہمارے اتحاد کو توڑنے کا موجب بن جائے گا۔ وطنیت کے جذبہ کے بغیر کبھی ملک میں سے غداری کی روح نہیں کچلی جاسکتی۔
حضور نے اصل موضوع پر تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ پاکستان کا مطالبہ کیوں کیاگیا تھا؟ یہ مطالبہ اس لئے نہیں کیاگیا تھا کہ ہندوستان میں نسلی طور پر دو قومیں آباد تھیں۔ کیونکہ یہ ایک واضح بات ہے کہ ہندوستان میں بہت سی ایسی قومیں موجود ہیں جن کا ایک حصہ ہندو ہے اور ایک مسلمان۔ پھر زبان کے اختلاف کی بناء پر بھی یہ مطالبہ نہ کیا گیا تھا کیونکہ ہر صوبے میں رہنے والے ہندو اور مسلمان ایک ہی زبان بولتے تھے۔ پھر آخر کیا چیز تھی جس کی بناء پر پاکستان کا مطالبہ کیاگیا؟ ظاہر ہے کہ صرف اسلام ہی اس مطالبہ کی بنیاد تھا اور اسلامی کلچر کی حفاظت کرنے کے لئے ہی مسلمان علیحدہ حکومت کے طالب تھے۔ پس مطالبہ پاکستان کے پس پردہ جو چیز کام کررہی تھی وہ صرف اسلام تھا۔ یعنی مسلمان یہ چاہتے تھے کہ جس جگہ ان کی اکثریت ہو وہاں` نہیں ایک ایسی آزاد حکومت قائم کرنے کا موقعہ دیا جائے جس میں وہ اسلامی تعلیم اور اسلامی تہذیب کے مطابق ¶ترقی کر سکیں اور آزادی کے ساتھ دیگر اسلامی ممالک کی مدد کر سکیں۔
حضور نے فرمایا اسلامی حکومت کے الفاظ سے بہت سے غیر مسلموں کو دھوکہ لگتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید غیر مسلموں کو بھی اسلام احکام پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ حالانکہ یہ درست نہیں۔ دنیا کے سب مذاہب میں سے صرف اور صرف اسلامی احکام پر عمل کرنے کی پابندی صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروئوں کو نہ صرف یہ کہ اسلام کے احکام پر چلنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلام کہتا ہے کہ ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی مذہبی کتابوں کے مطابق عمل کریں کیونکہ اگر وہ اپنے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں اور پھر اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ منافق ہیں اور منافق کبھی بھی اچھے شہری نہیں بن سکتے۔ پس مسلمانوں کو غیر مسلموں کی غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ اسلامی حکومت کا مطلب صرف یہ ہے کہ مسلموں کے لئے قرآن مجید کے قوانین ہوں گے نہ کہ غیر مسلموں کے لئے بھی۔
کیا پاکستانی اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کرنے میں سنجیدہ ہیں؟ حضور نے اس اہم سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا جب ایک فرد کہتا ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئے تو بالفاظ دیگروہ یہ کہہ رہا ہوتا ہی کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اسلامی ہوں۔ اب اگر اسلامی ہوں۔ اب اگر اسلام پر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام کے نزدیک فرد کے اعمال کے تین حصے ہوتے ہیں۔ اول خود اس کی ذات سے تعلق رکھنے والے احکام` دوسرے اس کے ہمسایوں سے تعلق رکھنے والے احکام پوری طرح نہیں لیکن کسی قدر اس کے بس میں ہیں۔ البتہ اس کی ذات سے تعلق رکھنے والے احکام پوری طرہ اس کی اختیار مین ہیں۔ اب جو مسلمان اسلامی حکومت کا مطالبہ کرتا ہے اس کے مطالبہ کی سنجیدگی کا ثبوت یہی ہوسکتا ہے کہ جو احکام پوری طرح اس کے بس میں ہیں کم از کم ان پر وہ پوری طرح عمل کرکے دکھادے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وہ صرف سیاسی اغراض کے ماتحت کسی کو گرانی یا کسی کو بدنام کرنے کے لئے یہ مطالبہ کرتا ہے۔
حضور نے فرمایا۔ قرآن مجید` احادیث اور رسول کریم~صل۱~ کا عمل واضح الفاط میں ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام نے نماز کا حکم دیا ہے۔ پردے کا حکم دیا ہے۔ روزہ کا حکم دیا ہے۔ سود کی ممانعت کی ہے اور مرد عورت کے آزادانہ اختلاط کو روکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ سود کی ممانعت اور پردے کے احکام کی کیا حدود سمجھتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنی اپنی جگہ ان احکام کا بھی بھی مفہوم سمجھتے ہیں کیا اس پر وہ عمل کرتے ہیں؟ اگر وہ ان احکام پر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرتے ہیں تو پھر تو بے شک وہ اسلامی حکومت کے قیام کے مطالبہ میں سنجیدہ سمجھی جا سکتے ہیں کیونکہ جن احکام کو پورا کرنا ان کے اختیار میں تھا ان پر انہوں نے عمل کرکے دکھادیا لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر یقیناً وہ اسلامی حکومت کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔
حضور نے فرمایا۔ مسلمان ہندو کی مقابلہ پر کہا کرتے تھے کہ اسلامی کلچر خطرہ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی وہ اپنے اپنے بیٹے` اپنے اپنے بھائی اور اپنی اپنی بیوی کو یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ اگر تم نے اسلامی احکام پر عمل نہ کیا تو اسلامی کلچر خطرہ میں پڑ جائے گا؟ اگر آپ لوگ یہاں سے اٹھنے سے پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ اسلام کے جن احکام پر عمل کرنا آپ کے اپنے بس میں ہے اور جن پر عمل کرنے کے لئے کسی حکومت` کسی قانون اور کسی طاقت کی صرورت نہیں ان پر فوراً عمل کرنا شروع کردیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شام سے پہلے پہلے اسلامی حکومت قائم ہوجائے گی۔ لیکن اگر لوگ منہ سے اسلامی حکومت کا مطالبہ کریں اور عملاً اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھیں تو جس طرہ کچی ایٹنوں کے ایک محل کو پکا نہیں کہا جاسکتا اسی طرح غیراسلامی اعمال کرنے والے افراد کے مجموعہ کا نام ہرگز اسلامی حکومت نہیں رکھا جاسکتا۔
زبان کے مسئلہ پر پاکستان میں جو اختلافات نمودار ہورہے ہیں ان پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے حضور نے فرمایا یہ مسئلہ بالکل سادہ اور صاف تھا لیکن افسوس ہے کہ خواہ مخواہ اسے پیچیدہ بنایا جارہا ہے اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ جب پاکستان کے سب صوبوں نے اپنی مرضی سے مل کر اور اکٹھے ہوکر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس صورت میں کسی ایک صوبے کی زبان سے کام نہیں چل سکتا۔ مل کر کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی زبان ہو جو سب پاکستانی صوبوں کے باشندے جانتے ہوں۔ انگریزوں کے عہد میں اس قسم کی مشترکہ زبان کا کام انگریزی سے لیا جاتا تھا اب ان کے جانے کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ انگریزی کی قائم مقام کونسی زبان ہو۔ ظاہر ہے کہ چونکہ انگریزی کی نسبت اردو قرآن مجید کو سمجھنے اور اسلامی ممالک سے اتحاد پیدا کرنے کی زیادہ صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے اس لئے ہمیں اس زبان کو ہی مشترکہ طور پر کام کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ حضور نے اس امر پر زور دیا کہ یہ سراسر غلط بحث ہے کہ بنگالی کی جگہ اردو کودی جائے گی یا سندھی کی جگہ اردو لے لے گی۔ کی انگریزی نے بنگالی یا سندھی کی جگہ لے لی تھی؟ اصل سوال تو صرف یہ ہے کہ جس طرح پہلے مل کر کام کرنے کے لئے انگریزی سے کام لیا جاتا تھا اب کونسی زبان سے کام لیا جائے۔
حضور نے پاکستان کے دفاع کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ریلوے لائنیں ایسے رخ پر واقع ہیں جو دفاع کے لحاظ سے خطرناک ہیں۔ حضور نے اس سلسلے میں یہ تجویز پیش فرمائی کہ سندھ کے اس پار راولپنڈی سے کراچی تک ایک ئی ریلوے لائن بنائی جائے جس کے ذریعے خطرہ کے اوقات میں سندھ کا پنجاب کے ساتھ تعلق قائم رہ سکے۔
کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا پاکستان کے دفاع کے نقطہ نگاہ سے یہ ایک اہم سوال ہے۔ اگر کشمیر انڈین یونین میں چلا گیا تو انڈین یونین کی روس کے ساتھ سرحد مل جانے کی وجہ سے اسے ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور مغربی پنجاب کا فوجی خطہ محصور ہوجائے گا۔ حضور نے بحری طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا پاکستان کے نوجوانوں کو بحری سفر کرنے اور بیرونی ممالک کی سیر کرنے کا شوق اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہئے۔
حضور نے زرعی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا زراعت کو پاکستان کی سب سے بڑی دولت سمجھا جارہا ہے لیکن ہمیں ایک بہت بڑے خطرے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ پاکستان کے زرعی علاقوں کے متعلق ماہرین کا یہ اندازہ ہے کہ پچاس سال میں یہ علاقے بالکل بے کار ہوجائیں گے اور اس کے آثار بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ اس خطرہ کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں ضرررساں نمک بڑی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ نہروں کی وجہ سے پانی کی سطح اونچی ہورہی ہے اور زمین شور اور سیم والی ہوتی جاتی ہے۔۱۸ حضور کی یہ ایمان افروز تقریر سات بجے شام ختم ہوئی۔
تھیوسافیکل ہال میں خواتیں اسلام سے انقلاب انگیزخطاب
۱۸۔ امان/مارچ کو حضرت امیرالمومنین نے مقامی لجنہ اماء اللہ کی درخواست پر تھیوسافیکل ہال بند روڈ کراچی میں مستورات کو خطاب فرمایا اس جلسہ میں ¶تقریباً ساڑھے چھ سو احمدی وغیرہ احمدی خواتین شریک ہوئیں جنہوں نے ہمہ تن گوش ہوکر تقریر سنی اور بہت متاثر ہوئیں۔۱۹
حضور کی اثر انگیز تقریر کا بنیادی مقصد خواتین اسلام کو دعا اور قربانی اور ایثار کے لئے سرگرم عمل کرنا تھا۔ چنانچہ حضور نے اپنی اس تقریر میں سورہ کوثر کی نہایت ایمان افروز تفسیر کرتے ہوئے نہایت لطیف پیرایہ میں استنباط فرمایا کہ پاکستان کا استحکام دعا اور قربانی سے وابستہ ہے۔ حضور نے تقریر کے اختتامی حصہ میں نہایت پر جلال اور پرشوکت الفاظ میں فرمایا۔
>میں جب قادیان سے لاہور آیا تو بعض بڑے بڑے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے کہا اب تو لاہور بھی خطرہ میں ہے۔ بتائیے کیا کیا جائے؟ میں نے کہا لاہور کو ہی خطرہ نہیں سارا پاکستان خطرہ میں ہے۔ جب تم پاکستان مانگا تھا تو یہ سمجھ کر مانگا تھا کہ صرف اتنا ٹکڑہ ہمیں ملے گا اس سے زیادہ نہیں۔ اور یہ سمجھ کر مانگا تھا کہ روپیہ ہمارے پاس کم ہوگا` سامان ہمارے پاس کم ہوگا اور ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بہت بڑی جدوجہد سے کام لینا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ آپ نے مانگا زیادہ تھا اور ملاکم۔ یا آپ نے تو ہندوستان کا اکثر حصہ مانگا تھا اور آپ کو اس کا ایک قلیل حصہ دے دیا گیا ہے بلکہ جو کچھ آپ لوگوں نے مانگا تھا وہ قریب قریب آپ کو مل گیا ہے۔ اور یہ خطرات جو آج آپ کو نظرآرہے ہیں اس وقت بھی آپ کے سامنے تھے اس لئے یہ کوئی نئے خطرات نہیں۔ پاکستان کے لئے یہ خطرات ضروری تھے۔ اور اب جبکہ پاکستان قائم ہوچکا ہے پاکستان کے لئے دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہے یا تو وہ فتح پائے گا یا مارا جائے گا۔
اگر تم فتح حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں بھاگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اور اگر تم شکست کھانا چاہتے ہو تو یاد رکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو مغربی پاکستان کے تین کروڑ مسلمانوں کو پناہ دے سکے یا مغربی اور مشرقی پاکستان کے سات کروڑ مسلمانوں کو پناہ دے سکے۔ مشرقی پنجاب میں سے صرف ساٹھ لاکھ مسلمان ادھر منتقل ہوئے تھے مگر ابھی تک لاکھوں لاکھ آدمی ادھر ادھر پھررہا ہے اور اسے رہنے کے لئے کوئی تھکانا نہیں ملا۔ حالانکہ وہ لاکھوں آدمی اپنی مرضی سے نہیں آیا تھا خو پاکستان کی حکومت نے ان کو بلوایا تھا یہ کہہ کر بلوایا تھا کہ ہم مشرقی پنجاب کی حکومت سے معاہدہ کر چکے ہیں کہ اس طرف کے مسلمان ادھر آجائیں اور اس طرف کے ہندو ادھر چلے جائیں۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے` تمہارے لئے زمینوں اور مکانوں کا انتظام کریں گے تم اپنے گھروں کو چھوڑو اور مغربی پنجاب میں آجائو۔ اسی اپر انہوں نے اپنے وطن چھوڑے اور اسی امید پر وہ مغربی پنجاب میں آئے۔ ہم جو قادیان کے رہنے والے ہیں صرف ہماری ایک مثال ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ قادیان کو چھوڑیں۔ ہم ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے تھے اور ہمارا ارادہ تھا کہ اگر اردگرد کے دیہات اور شہروں میں رہنے والے مسلمان اتحاد کرلیں تو اس علاقہ کو نہ چھوڑا جائے مگر چند دنوں کے اندر اندر سارا مشرقی پنجاب خالی ہوگیا۔ مگر باوجود اس کے کہ وہ وہاں سے بھاگے اور اس خیال سے بھاگے کہ پاکستان میں ہمارے لئے جگہ موجود ہے پھر بھی وہ آج چاروں طرف خانہ بدوش قوموں کی طرح پھررہے ہیں اور انہیں کوئی ٹھکانا نظر نہیں آتا۔ ان کا یہ خیال کہ ہمیں پاکستان میں جگہ مل جائے گی غلط تھا یا صحیح؟ سوال یہ ہے کہ اگر مشرقی پنجاب کے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو پاکستان پناہ نہیں دے سکا تو پاکستان کے تین کروڑ مسلمانوں کو کیا بلوچستان پناہ دے گا؟ اس کی اپنی آبادی چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ کیا ایران پناہ دے گا؟ جس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے۔ کیا عرب پناہ دے گا؟ جس کی آبادی ۷۰`۸۰ لاکھ ہے۔ کیا افغانستان پناہ دے گا؟ جس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں۔ آکر کوسا اسلامی ملک ہے جس میں تین کروڑ مسلمانوں کے سمانے کی گنجائش موجود ہے۔
اگر پاکستان نے شکست کھائی تو یقیناً اس کے لئے موت ہے۔ پاکستان میں بھی موت ہے اور پاکستان سے باہر بھی موت ہے۔ اور جب موت ایک لازمی چیز ہے تو اب سوال یہ نہیں رہ جاتا کہ مسلمان جائیں کہاں؟ بلکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لاہور کے آگے لڑتے ہوئے مارے جائیں یا کراچی کے سمندر میں غرق ہوکر مریں۔ میں نے کہا یہ دونوں موتیں۔ آپ لوگوں کے سامنے ہیں اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں آپ کونسی موت قبول کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ لاہور کے سامنے دشمن سے لڑتے ہوئے مرنا زیادہ پسند کرتے ہیں یا یہ پسند کرتے ہیں کہ بھاگتے ہوئے کراچی کے سمندر میں غرق ہوجائیں اور مارے جائیں؟ بہرحال پاکستان کے لئے با سوائے اس کے اور کوئی چیز نہیں کہ یا فتح یا موت۔ دوسرے ملکوں کے لئے تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ تبدیل کرلیں کیونکہ ان کی آبادی تھوڑی ہے لیکن پاکستان کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں جو پاکستان کے لوگوں کو پناہ دے سکے۔ کسی ملک سے پاکستان کی آبادی دوگنی ہے اور کسی ملک سے تین گنی۔ اس لئے کوئی ملک ایسا نہیں جس میں پاکستان کے لوگ سماسکیں بلکہ ان ممالک میں پاکستان کی بیس فیصدی آبادی کا بسانا بھی ناممکن ہے۔ کجا یہ کہ کسی ملک سے دوگنی یا تگنی آبادی کو وہاں بسایا جاسکے۔ پس پاکستان کے ہر مسلمان مرد اور عورت کو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے یا تو عزت اور فتح کی زندگی بسر کرنی ہے یا عزت اور فخر کی موت اس نے مرنا ہے۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر ہر شریف انسان کو چلنا چاہئے کہ یا وہ دشمن پر فتح پائے یا عزت کی موت مرے۔
حیدرالدین میسور کا ایک مسلمان بادشاہ تھا جسے انگریزوں نے بہت بدنام کیا اور اس کے نام پر انہوں نے اپنے کتوں کا ٹیپو نام رکھا۔ یہ آخری مسلمان بادشاہ تھا جس میں اسلامی غیرت پائی جاتی تھی۔ حیدرآباد جو آج کئی قسم کی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے اس نے ہر دفعہ میسور کی اس حکومت کو تباہ کرنے کے لئے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ جب بنگلور پر انگریزون نے آخری حملہ کیا تو سلطان حیدالدین قلعہ کی ایک جانب فصیل کے پاس اپنی فوجوں کو لڑائی کے لئے ترتیب دے رہا تھا کہ ایک جرنیل اس کے پاس بھاگا بھاگا آیا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت! اس وقت کہیں بھاگ جائیے کسی غدار نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا ہے اور انگریزی فوج قلعہ کے اندر داخل ہوکر مارچ کرتی ہوئی آگے بڑھتی چلی آرہی ہے` ابھی کچھ رستے کالی ہیں آپ آسانی سے ان رستوں کے ذریعہ بھاگ سکتے ہیں۔ حیدرالدین نے نہایت حقارت کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور کہا تم کہتے ہو میں بھاگ جائوں۔ یاد رکھو شیر کی دو گھنٹہ کی زندگی گیڈر کی دو سو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ کہا اور تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور سپاہیوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے لڑتا ہوا مارا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔
تو جرات اور بہادری ایسی چیز ہے جو دنیا میں انسان کا نام عزت کے ساتھ قائم رکھتی ہے۔ تاریخوں میں کبھی تم نے بزدلوں کے قصے بھی پڑھے ہیں کہ فلاں نے جنگ کے موقع پر اس اس طرح بزدلی دکھائی۔ کبھی تم ے بھگوڑوں کے قصے بھی پڑھے ہیں جن کو تاریخ نے یاد رکھا ہو۔ کبھی تم نے کام چوروں کے قصے بھی پڑھے ہیں۔ تاریخ میں جن لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو قوم کے لئے قربانیاں کرتے اور اپنی جانوں اور مالوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ یہ قربانیاں کرنے والے مرد بھی ہوتے ہیں` عورتیں بھی ہوتی ہیں اور بچے بھی ہوتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں بھی ان قربانیوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں اور یورپین تاریخ میں بھی ان قربانیوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اور تو بعض نابالغ بچوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں جن کی مثال بڑے بڑے بہادروں میں بھی نہیں ملتی۔ پس انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر ان شانئک ھوالابتر کے الفاظ گو ایک رنگ میں رسول کریم~صل۱~ پر چسپاں ہوتے ہیں مگر ایک رنگ میں آج پاکستان کے ہر فرد کے سامنے یہ الفاظ رہنے چاہئیں۔ انا اعطینک الکوثر خدا نے آپ لوگوں کو ایک آزاد حکومت دے دی ہے جس میں اسلامی طریقوں پر عمل کرنے کا آپ لوگوں کے لئے موقع ہے۔ اب اس دوسرے حصہ کو پورا کرنا مسلمانوں کا کام ہے کہ فصل لربک وانحر وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں` عبادتیں بجالائیں اور اپنی زندگی کو اسلامی زندگی بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے ملک اور اپنی قوم اور اپنے مذہب کی عزت بچانے کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ اگر مسلمان ان پر عمل کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ان شانئک ھوالابتر وہ دشمن جو آج انہیں کچلنا چاہتا ہے خود کچلا جائے گا۔ وہ دشمن جو انہیں تباہ کرنا چاہتا ہے خود تباہ ہوجائے گا۔ صرف اس احسان کے بدلے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کیا ہے کہ اس نے انہیں کوثر بخشا۔ اللہ تعالیٰ ان سے دو باتیں چاہتا ہے کہ ایک یہ وہ اپنا دین درست کرلیں اور عبادت اور دعائوں اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوجائیں اور دوسرے یہ کہ وہ اپنے دین اور مذہب کے لئے ہر قسم کی قربانیاں پیش کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان شانئک ھو الابتر ]qi [tag یہ مت خیال کرو کہ تم تھوڑے ہو۔ یہ مت خیال کرو کہ تم کمزور ہو۔ اگر اس جذبہ اور نظریہ اور ایمان سے تم کھڑے ہوگے تو خدا بے غیرت نہیں` خدا بے وفا نہیں وہ چھوڑے گا نہیں جب تک وہ اس زبردست دشمن کو جو تم پر حملہ کررہا ہے تباہ اور برباد نہ کردے۔
یہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے مگر قومی فرائض اور ذمہ داریوں کی وہ تفصیل جو اس سورۃ میں بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ سے امداد حاصل کرنے کے وہ ذرائع جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ آج ہر پاکستانی کے سامنے رہنی چاہئے۔ خصوصاً ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس سورۃ کے مضامین پر غور کرے اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی بنائے کیونکہ جماعت احمدیہ نے ایک نیا عہد خداتعالیٰ سے باندھا ہے اور نئے عہد پرانے عہدوں سے زیادہ راسخ ہوتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے سامنے اعلان کیا ہے کہ ہم اسلام کی خدمت کریں گے اور ہم اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو قربان کرکے اسلام کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑدیں گے۔ جب تک اپنے عمل سے وہ یہ ثابت نہیں کردیتے کہ ان میں سے ہر مرد اور عورت اس عہد کے مطابق اپنی زندگی بسر کررہا ہے۔ جب تک وہ یہ ثابت نہیں کردیتے کہ اسلام کے لئے فدائیت اور جاں نثاری کا جذبہ ان کا ایک امتیازی نشان ہے اور وہ اپنی ایک ایک حرکت اسی جذبہ کے ماتحت رکھیں گے اس وقت تک ان کا یہ دعویٰ کہ ہم اسلام کی خدمت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ایک باطل دعویٰ ہوگا اور ہر دوست اور دشمن کی نگاہ میں انہیں ذلیل کرنے والا ہوگا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہر احمد مرد اور عورت کو اور دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں سچے طور پر اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی قربانی کرنے کے طاقت بخشے تاکہ وہ اپنے منہ سے ہی یہ کہنے والے نہ ہوں کہ ہم قربانی کررہے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی آسمان پر ان کی قربانیوں کو دیکھ کر تعریف کریں اور ان کی ترقی اور درجات کی بلند کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ موجودہ مصائب سے بچاکر مسلمانوں کو عزت` آزادی اور ترقی کی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔<۲۰
کراچی میں پریس کانفرنس
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔
>میں جب کراچی میں تھا تو ایک پریس کانفرنس کے دوران میں مجھ سے پریس کے بعض نمائندوں نے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ سیکیورٹی کونسل کشمیر کے مسئلہ کے متعلق کیا فیصلہ کرے گی؟ میں نے انہیں جواب دیا کہ میرے خیال میں سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ عقل اور انصاف پر مبنی نہیں ہوگا بلکہ جو فریق ان کی جھولی میں زیادہ خیرات ڈالے گا وہ اس کے حق میں ووٹ دیں گے میں نے ان سے کہا کہ میرے خیال میں انڈین یونین نے ان کی جھولیوں میں کچھ ڈال دیا ہے۔ اس لئے مجھے اچھے آثار نظر نہیں آتے۔ پریس کے ایک نمائندہ نے کہا کہ پھر آپ سرظفر اللہ کو تاریکیوں نہیں دیتے؟ میں نے جواباً کہا کہ سرظفر اللہ میرے ملازم نہیں بلکہ پاکستان حکومت کے ملازم ہیں ان کی ملازمت کی ذمہ داریوں میں دخل دینا میرے لئے ہرگز جائز نہیں یہ پاکستان حکومت کا کام ہے کہ وہ ان کو مشورہ دے کر اس موقع پر ان کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔<۲۱
جماعت احمدیہ کو تین بنیادی نصائح
۱۹۔ امان/مارچ کو حضور کو کراچی سے روانہ ہونا تھا۔ اس روز حضور نے اپنے خطبہ جمعہ میں جماعت احمدیہ کو تین بنیادی نصائح فرمائیں جن کی تفصیل حضور ہی کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا۔
>جس طرح انسان پر بچپن کا زمانہ آتا ہے اسی طرح قوموں پر بھی ایک بچپن کا زمانہ آتا ہے۔ جب خدا کسی جماعت کو دنیا میں قائم کرتا ہے تو کچھ عرصہ اسے سیکھنے کا موقعہ دینا ہے مگر پھر اس پر ایک دوسرا زمانہ آتا ہے جب وہ قوم بالغ ہوجاتی ہے اور اس پر ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں جیسے بالغوں پر عائد ہوتی ہیں تب بہت سی باتیں جو طفولیت میں معاف ہوتی ہیں اور غلطی ہونے پر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے بلوغت کے زمانہ میں نہ وہ باتیں اسے معاف ہوتی ہیں اور نہ غلطی واقعہ ہونے پر اس سے چشم پوشی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہماری جماعت پر بھی بلوغت کا زمانہ آرہا ہے اور خدا تعالیٰ کے فعل نے بتادیا ہے کہ ہماری جماعت اب ان راستوں پر نہیں چل سکتی جن پر وہ پہلے چلا کرتی تھی بلکہ اب اسے وہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو قربانی اور ایثار کا راستہ ہے اور جس پر چلے بغیر آج تک کوئی قوم بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں احمدیوں کی آبادی کا زیادہ تر حصہ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ستر فیصدی حصہ پنجاب میں تھا۔ اب چونکہ مشرقی پنجاب کے مسلمان بھی ادھر آچکے ہیں اس لئے اب اسی فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ حصہ ہماری جماعت کے افراد کا پاکستان میں آچکا ہے اور بوجہ آزاد گورنمنٹ کا ایک حصہ ہونے کے ان پر بھی ویسی ہی ذمہ داریاں عائد ہیں جیسی آزاد قوموں پر عائد ہوتی ہیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ آزاد قوموں کو جنگ بھی کرنی پڑتی ہے یہ تو نہیں کہ جنگ کے اعلان پر وزیر جاکر لڑا کرتے ہیں یا سیکرٹری جاکر لڑا کرتے ہیں۔ بہرحال افراد ہی لڑا کرتے ہیں اور اگر کسی ملک کے افراد اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھیں تو جنگ میں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
‏tav.11.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہوتا ہے کہ افراد میں قومیت کا احساس ہو۔ اگر لڑنے والے افراد میں قومیت کا احساس نہیں ہوگا تو لازماً ان میں کمزوری پیدا ہوگی اور یہ کمزوری ان کی کامیابی میں حائل ہوجائے گی۔ پس بوجہ اس کے کہ اسی بلکہ پچاس فیصدی احمدی آزاد اسلامی حکومت میں آگئے ہیں ان کا فرض ہے کہ اب وہ پورے طور پر اپنے اندر تغیر پیدا کریں تاکہ اگر ملک اور قوم کے لئے کوئی خطرہ در پیش ہو تو وہ اس وقت قربانی اور ایثار کا نمونہ دکھا سکیں اور اس طرح ملک کی کامیابی کی صورت پیدا کردیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملکی دفاع کے لئے ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بعض بعض انسانوں اور جماعتوں کو لیڈر بننے کی توفیق عطا کی جاتی ہے۔ اگر لیڈر آگے آجاتے ہیں تو ساری قوم ان کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ اور اگر لیڈر آگے نہیں تو قوم میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ لیڈر بعض دفعہ افراد ہوتے ہیں اور بعض دفعہ قومیں ہوتی ہیں۔ وہ قومیں ایسی حیثیت اختیار کرلیتی ہیں کہ لوگ ہر اہم موقع پر ان کی طرف دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا کررہی ہیں۔ ہماری جماعت کی بھی خواہ لوگ کتنی مخالفت کریں اسے ایسی پوزیشن ضرور حاصل ہوگئی ہے کہ لوگ ہماری جماعت کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ اس جستجو میں رہتے ہیں کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں۔ اگر آئندہ آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری جماعت ہر وقت آمادہ رہے گی اور پاکستان کو جب کوئی خطرہ پیش آیا وہ سب سے بڑھ کر اس کے لئے قربانی کرے گی تو لازمی طور پر دوسرے مسلمان بھی ہماری جماعت کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اس طرح لوگوں کو بتائیں کہ ملک اور قوم کی خدمت کے معاملہ میں ہم جماعت احمدیہ کے افراد سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کو فائدہ پہنچ جائے گا چاہے وہ ایسا طریق ہمارے بغض کی وجہ سے اختیار کریں یا رشک کی وجہ سے کریں یا مقابلہ کی خواہش کی وجہ سے کریں۔ بہرحال جتنے لوگ آگے آئیں گے اتنا ہی یہ امر ملک کے لئے مفید اور بابرکت ہوگا پس جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنی چاہئیں مگر ذمہ داریوں کا احساس آپ ہی آپ پیدا نہیں ہوجاتا۔ اس کے لئے پہلے اپنی ذہنیت میں تغیر پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب تک وہ ذہنیت پیدا نہ ہو اس وقت تک لوگوں کا وجود نفع رساں نہیں ہوسکتا اس ذہنیت کو پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز جس کو مدنظر رکھنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔ وقت کی قیمت کا احساس ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کو وقت ضائع کرنے کی عام عادت ہے۔ بازار میں جاتے ہوئے کوئی شخص مل جائے تو السلام علیکم کہہ کر اس سے گفتگو شروع کردیں گے اور پھر وہ دو دو گھنٹے تک باتیں کرتے چلے جائیں گے۔۲۲
۔۔۔۔۔۔ میں اس کے لئے آپ لوگوں کو ایک موٹا طریق بتاتا ہوں۔ اگر آپ لوگ اسے اختیار کرلیں تو یقیناً آپ سمجھ سکیں گے کہ آپ اپنے وقت کا بہت بڑا حصہ غیر ضروری بلکہ لغو باتوں میں ضائع کردیتے ہیں۔ وہ طریق یہ ہے کہ چند دن آپ اپنے روز مرہ کے کام کی ڈائری لکھیں جس میں یہ ذکر ہو کہ میں فلاں وقت اٹھا۔ پہلے میں نے فلاں کام کیا پھر فلاں کام کیا۔ دن کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں اور ہر حصہ کے ختم ہونے پر ۵۔۱۰ منٹ تک نوٹ کریں کہ آپ اس عرصہ میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اس طرح آٹھ دس دن مسلسل ڈائری لکھنے کے بعد دوبارہ اپنی ڈائری پر نظر ڈالیں اور نوٹ کریں کہ ان میں سے کون کون سے کام غیر ضروری تھے۔ اس کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ روزانہ ۲۴ گھنٹوں میں سے کتنا وقت آپ نے ضروری کاموں میں صرف کیا اور کتنا غیرضروری کاموں میں صرف کیا۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ بہت جلد یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ آپ کی بہت سی زندگی رائیگاں چلی جارہی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف آٹھ دس دن ایسا کرنے سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جن کاموں کو آپ بوجھ محسوس کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ بھر یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ مرگئے بہت بڑا بوجھ آپڑا ہے ذرا بھی فرصت نہیں ملتی۔ ان کاموں میں آپ بہت تھوڑا وقت صرف کرتے ہی اور اکثر حصہ لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔ پس ایک تو یہ تبدیلی اپنے اندر پیدا کرو کہ وقت ضائع کرنے سے بچو اور اسے زیادہ سے زیادہ قیمتی کاموں میں صرف کرنے کی کوشش کرو۔ دوسری چیز جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنی چاہتا ہوں )بلکہ اصل میں تو یہ پہلی نصیحت ہونی چاہئے تھی( وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو قرآن کریم پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہماری ساری ضرورتیں قرآن کریم سے پوری ہوسکتی ہیں۔ اور یہ ایک ایسی قطعی اور یقینی حقیقت ہے جس میں شبہ کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ آپ لوگ میرے مرید ہیں اور مرید کے نگاہ میں اپنے پیر کی ہر بات درست ہوتی ہے۔
بعض دفعہ اس کی کوئی بات اسے بری بھی لگتی ہے تو وہ کہتا ہے سبحان اللہ کیا اچھی بات کہی گئی ہے۔ پس آپ لوگوں کا سوال نہیں کہ آپ میرے متعلق کیا کہتے ہیں؟ میں کہتا ہوں غیروں کا میرے متعلق کیا تجربہ ہے۔ غیر احمدیوں کی کوئی مجلس ہو۔ خواہ پروفیسروں کی ہو خواہ سائنس کے ماہرین کی ہو خواہ علم الاقتصادی کے ماہرین کی ہو میرے ساتھ مختلف دینوی علوم سے تعلق رکھنے والے افراد نے جب بھی بات کی ہے انہوں نے محسوس کیا ہے کہ میرے ساتھ گفتگو کرکے انہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا بلکہ فائدہ ہی اٹھایا ہے۔ کثرت کے ساتھ ہر طبقہ کے لوگ مجھ سے ملتے رہتے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے علمی برتری اور فوقیت کو تسلیم نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے ماہر فوجیوں کو بھی میں نے دیکھا ہے مجھ سے گفتگو کرکے وہ یہی محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یوں میری تعلیم کے متعلق جب وہ مجھ سے سوال کرتے ہیں مجھے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میں نے پرائمری بھی پاس نہیں کی لیکن جب علمی رنگ میں گفتگو شروع ہو تو انہیں میری علمی فوقیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی یا ایک پروفیسر یا ایک ڈاکٹر یا ایک فوج کا ماہر بعض دفعہ وہ کچھ بیان نہیں کرسکتا جو خدا تعالٰے میری زبان سے بیان کروا دیتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کے علم کا منبع زید اور بکر کی کتابیں ہیں لیکن میرے سارے علم کا منبع خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ قرآن کریم کو دوسرے لوگوں کی عینک لگا کر پڑھتے ہیں۔ اور چونکہ وہ اس مفسریا اس مفسر کی عینک لگاکر قرآن کریم پڑھتے ہیں اس لئے ان کی نظر قرآنی معارف کی تہہ تک نہیں پہنچتی۔ وہ وہیں تک دیکھتے ہیں جہاں تک اس مفسر نے دیکھا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے شروع سے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ میں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو کبھی انسان کی عینک سے نہیں دیکھا۔
جس دن سے میں نے قرآن کریم پڑھا ہے میں نے یہ سمجھ کر نہیں پڑھا کہ ممجھے یہ قرآن رازی کی معرفت ملا ہے یا علامہ ابوحیا کی معرفت ملا ہے یا ابن جریر کی معرفت ملا ہے بلکہ میں نے یہ سمجھ کر اسے پڑھا ہے کہ مجھے یہ قرآن براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے۔ محمد رسول اللہ ~صل۱~ کو خدا تعالیٰ نے بے شک واسطہ بنایا ہے لیکن مجھے اس نے خود مخاطب کیا ہے اور جب اس نے مجھے خود مخاطف کیا ہے تو معلوم ہوا کہ میرے سمجھنے کے لئے تمام سامان اس میں رکھ دیا ہے۔ اگر سامان نہ ہوتا تو مجھے مخاطب ہی نہ کرتا۔ اس رنگ میں قرآن کریم کو پڑھنے کی وجہ سے جو فائدہ میں نے اٹھایا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد اور کسی نے نہیں اٹھایا کیونکہ میں نے اپنے تصور میں خدا تعالیٰ کو اپنے سامنے بٹھا کر اس سے قرآن کریم پڑھا ہے اور دوسرے لوگوں نے انسانوں سے قرآن کریم کو پڑھا ہے اسی لئے مجھے قرآن کریم سے وہ علوم عطا ہوئے ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے اور اسی وجہ سے ہر علم والے پر اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی دیتا چلا آیا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوا ہے کہ فریق مخالف نے مجھ سے گفتگو کرکے تسلیم کیا ہے کہ وہی بات درست ہے جو میں پیش کررہا ہوں اور اگر کوئی ضدی بھی تھا تو بھی وہ میری برتری کلام کا انکار نہیں کرسکا۔ غرض قرآن کریم میں ایسے علوم موجود ہیں جو دوسری کتب میں نہیں۔ پھر یہ کیسی بدقسمتی ہوگی کہ ہمارے گھر میں تو خزانہ پڑا ہوا اور ہم دوسروں سے پیسہ پیسہ مانگ رہے ہوں۔ ہمارے گھر میں سونے کی کان پڑی ہو اور ہم دوسروں سے علم حاصل کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خزانہ رکھنے والا دوسروں سے ایک پیسہ مانگنے لگ جائے۔ پس قرآن کریم پڑھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے لئے کسی لمبے غور اور فکر کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ایسے علوم عطا فرمائے ہیں جس سے بہت آسانی کے ساتھ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ میری کتابیں پڑھیں ان سے بہت جلد وہ قرآن علوم سے آگاہ ہوجائیں گے۔<۲۳
‏]ydbo >[tagتیسری بات جس کی میں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے افراد اپنے عمل میں درستی پیدا کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کے چھوڑنے میں کوئی بھی دقت نہیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک انہی باتوں کو ہماری جماعت کے افراد نہیں چھوڑ سکے۔ مثلاً ڈاڑھی رکھنا ہے۔ میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت میں ایسے کوئی لوگ موجود ہیں۔ جو ڈاڑھی نہیں رکھتے حالانکہ اس میں کونسی دقت ہے۔ آخر ان کے باپ دادا ڈاڑھی رکھتے تھے یا نہیں؟ اگر رکھتے تھے تو پھر اگر وہ بھی ڈاڑھی رکھ لیں تو اس میں کیا حرج ہے پھر باپ دادا کو جانے دو سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ ڈاڑھی رکھتے تھے یا نہیں۔ اگر رکھتے تو آپ کی طرف منسوب ہونے والے افراد کیوں ڈاڑھی نہیں رکھ سکتے۔ مجھے سے ایک دفعہ ایک نوجوان نے بحث شروع کردی کہ ڈاڑھی رکھنے میں فائدہ کیا ہے۔ وہ میرا عزیز تھا اور ہم کھانا کھاکر اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چونکہ فراغت تھی اس لئے بڑی دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ کج بحثی کررہا ہے تو میں نے اسے کہا میں مان لیتا ہوں کہ ڈاڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ آخر تم مجھ سے یہی منوانا چاہتے ہو سو میں مان لیتا ہوں کہ ڈاڑھی رکھنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ اس پر وہ خوش ہوا کہ آخر اس کی بات تسلیم کرلی گئی ہے۔ میں نے کہا میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی خوبی نہیں مگر تم بھی ایک بات مان لو اور وہ یہ کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ بے شک ڈاڑھی رکھنے میں کوئی بھی خوبی نہ ہو مگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی بات مان لینے میں ساری خوبی ہے۔ جب محمد رسول اللہ~صل۱~ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی رکھو تم بے شک سمجھو کہ یہ چیز ہر رنگ میں مضر اور نقصان دہ ہے مگر کیا بیسیوں مضر چیزیں ہم اپنے دوستوں کی خاطر اختیار نہیں کرلیا کرتے۔ اول تو مجھے ڈاڑھی رکھنے میں کوئی ضرر نظر نہیں آتا لیکن سمجھ لو کہ یہ مضر چیز ہے پھر بھی جب محمد رسول اللہ~صل۱~ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی رکھو تو ہماری خوبی آیا اس میں ہے کہ ہم ڈاڑھی نہ رکھیں یا اس میں ہے کہ ڈاڑھی رکھیں۔ آخر ایک شخص کو ہم نے اپنا آقا اور سردار تسلیم کیا ہوا ہے جب ہمارا آقا اور سردارﷺ~ کہتا ہے کہ ایسا کرو تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے حکم کے پیچھے چلیں خواہ اس کے حکم کی ہمیں کوئی حکمت نظر نہ آئے۔ صحابہؓ کو دیکھو ان کے دلوں میں رسول کریم~صل۱~ کا کتنا عشق تھا۔ ڈاڑھی رکھنے کی معقولیت بھی ثابت کرسکتے ہیں لیکن صحابہؓ بعض دفعہ اس طرح رسول کریم~صل۱~ کی بات سنکر اس پر عمل کرنے کے لئے بے تاب ہوجاتے تھے کہ بظاہر اس کی معقولیت کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم~صل۱~ تقریر فرمارہے تھے کہ آپ نے کناروں پر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ بیٹھ جائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس وقت گلی میں سے آرہے تھے۔ رسول کریم~صل۱~ کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں بھی پڑگئے اور وہ وہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوں نے مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا۔ ایک دوست ان کے پاس سے گزرے تو انہیں کہنے لگے عبداللہ بن مسعود تم اتنے معقول آدمی ہوکر یہ کیا کررہے ہو؟ انہوں نے کہ ابھی رسول کریم~صل۱~ کا خطاب آپ سے تو نہیں تھا انہوں نے تو یہ بات ان لوگوں سے کہی تھی جو مسجد میں آپﷺ~ کے سامنے کھڑے تھے۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو بے شک آپﷺ~ کا یہی مطلب ہوگا لیکن مجھے یہ خیال آیا کہ اگر میں مسجد پہنچنے سے پہلے پہلے مرگیا تو ایک بات رسول کریم~صل۱~ کی بغیر عمل کے رہ جائے گی اس لئے میں گلی میں ہی بیٹھ گیا تاکہ آپ کا حکم پر عمل کرنے کا ثواب حاصل کرسکوں۔
یہ ایمان ہے جو صحابہؓ کے اندر پایا جاتا تھا اور یہی ایمان ہے جو انسان کی نجات کا باعث بنتا ہے۔۔۔۔
پس تیسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم ہر قسم کے اسلامی احکام کو قائم کرو اور ایسا نمونہ پیش کرو جو لوگوں کو خود بخود عمل کی تحریک کرنے والا ہو۔ شیعہ ہو` سنی ہو` کوئی ہو ہر ایک کے پاس جائو اور اسے منت سے` سماجت سے` ادب سے` محبت سے کہو اور بار بار کہو کہ یہ اسلامی حکم ہے میرا نہیں آپ کو اگر حضرت مرزا صاحب سے مخالفت ہے تو کیجئے مخالفت۔ اگر احمدیت کو آپ جھوٹا سمجھتے ہیں تو کہئے جھوٹا۔ مگر یہ حکم محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہے میرا یا کسی اور کا نہیں اس لئے اس حکم پر عمل خود آپ کے لئے بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ کسی اور کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہی طریق ہے جو اسلامی احکام کو قائم کرنے کے لئے تمہیں اختیار کرنا چاہئے۔ تم مسلمانوں سے کہو کہ ہمیں بے شک گالیاں دیجئے۔ ہمیں برا بھلا کہئے مگر یہ حکم ہمارا نہیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ہے اس لئے ہماری خاطر نہیں بلکہ اپنے آقا اور مطاع کی خاطر اس حکم پر عمل کریں۔<۲۴
سفر پشاور
کراچی کا شہر اگر بحری شاہراہ پر واقع ہونے کے باعث پاکستان بھر میں ایک خاص امتیاز رکھتا ہے تو پشاور کو درہ خیبر کا دروازہ ہونے کی قدیم تاریخی حیثیت حاصل ہے جہاں سے اٹھائی ہوئی تحریک کے اثرات پاکستان کے پورے شمال مغربی سرحدی علاقے پر ہی نہیں پاکستان کے ہمسایہ ممالک چین` افغانستان` ایران اور روس پر بھی ہوسکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود نے اسی اہمیت کے پیش نظر کراچی کے بعد پشاور کی سرزمین کو اپنے وجود سے برکت بخشی اور قریباً ایک ہفتہ تک قیام فرمارہے۔
حضرت امیرالمومنین ۳۔ ماہ شہادت/اپریل کو نماز عشاء کے بعد لاہور کے اسٹیشن پر تشریف لائے لاہور کے احمدی حضور کو الوداع کہنے کے لئے وہاں موجود تھے۔ حضور احباب کی خاطر گاڑی کی روانگی تک ٹرین کے دروازہ میں ہی کھڑے رہے۔ گاڑی ساڑھے نو بجے رات روانہ ہوکر گوجرانوالہ پہنچی تو متعدد احمدی دوست اپنے محبوب آقا کی زیارت واستقبال کے لئے پلیٹ فارم پر موجود تھے اسی طرح وزیر آباد` لالہ موسیٰ` جہلم اور راولپنڈی کی جماعتوں کے دوست بھاری تعداد میں اسٹیشنوں پر حضور کے استقبال کے لئے آتے رہے۔
کیمبل پور اسٹیشن پر نہ صرف احمدی موجود تھے بلکہ غیر احمدی دوست بھی حضور کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ یہ سب قطاروں میں کھڑے تھے حضورؓ نے ٹرین سے نیچے اتر کر ہر ایک سے مصافحہ کیا اور مصافحہ کے دوران میں چوہدری اعظم علی صاحب سب جج درجہ اول ہر آدمی کا تعارف کراتے جاتے تھے۔ ایک دوست کا نام چوہدری اعظم صاحب نے محمد جہاں بتایا اس دوست کے پاس حضور کھڑے ہوگئے اور پوچھا آپ کا نام محمد جعفر نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور میرا نام محمد جعفر ہی ہے۔ اس پر چوہدری صاحب نے کہا کہ حضور میں نام ادا نہیں کرسکا۔ لاکھوں کی جماعت کے امام کو اپنے خدام کے اس طرح نام یاد ہونا حیرت انگیز چیز تھی۔
نوشہرہ چھائونی پر چالیس احمدی اور تیس غیر احمد دوست حضور کی زیارت کے لئے موجود تھے جنہوں نے ان سب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور مصافحہ کے دوران میں مرزا اللہ دتہ صاحب سیکرٹری مال دوستوں کا تعارف کراتے جاتے تھے۔ اس کے بعد جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت میں اور آپ کے ساتھ والے قافلہ کو ناشتہ پیش کیاگیا۔ مرزا غلام حیدر صاحب امیر جماعت مقامی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور غیر احمدی دوست اس بات کو خواہشمند ہیں کہ حضور ان کو کچھ نصائح فرمائیں۔ اس پر حضور نے ٹرین سے اتر کر مختصر خطاب فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ زندوں کی خرابیاں اگر دور ہوجائیں گی تو خدا تعالیٰ ان کے مرے ہوئے بزرگوں کو قبروں کی درستی اور حفاظت کے سامان بھی کردے گا اور مسلمانوں کے استحکام کے سامان پیدا ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ اسلام کے ساتھ محبت کرنے والوں کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا۔ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں گے اور اپنے بظاہر کو درست کرلیں گے اور نمازوں کو قائم کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کے باطن کو بھی درست کردے گا۔
اس مختصر مگر درد انگیز اور پراثر خطاب کے بعد حضور ٹرین کے ڈبہ میں بیٹھ گئے۔ سیکرٹری مال صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ جو لوگ فوج سے ریلیز ہورہے ہیں ان کے متعلق حضور کی کیا ہدایت ہے؟ حضور نے فرمایا ان کو ریلیز نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے بعد تکبیر کے نعروں میں ٹرین پشاور کے لئے روانہ ہوگئی۔
گاڑی پشاور شہر کے اسٹیشن پر
جب گاڑی پشاور شہر کے اسٹیشن پر رکی تو پشاور کی جماعت کے چالیس کے قریب دوست استقبال کے لئے وہاں موجود تھے انہوں نے قطار میں کھڑے ہوکر حضور سے مصافحہ کیا ازاں اور گاڑی پشاور چھائونی اسٹیشن پر پہنچی۔ جہاں صوبہ سرحد کی مختلف جماعتوں مثلاً کوہاٹ` چارسدہ` مردان` پشاور اور اردگرد کے دیہات کے احمدی احباب قریباً ۵۰۰ کی تعداد میں موجود تھے پچاس کے قریب غیر احمدی دوست بھی زیارت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے۔ یہ سب کے سب صف بستہ کھڑے تھے۔ جس ڈبہ میں حضور سوار تھے چونکہ وہ جماعت کے متوقع مقام سے پرے کھڑا اس لئے صفوں کو وہاں سے ہلاکر پیچھے لانا پڑا اور ازسرنو ترتیب کی ضرورت محسوس ہوئی اس میں پانچ سات منٹ کے قریب وقت صرف ہوا اس دوران میں حضور جماعت کے مشورہ کے مطابق گاڑی کے ڈبہ کے دروازہ میں ہی کھڑے رہے اور میجر جنرل نذیر احمد صاحب سے گفتگو فرماتے رہے۔ حضور نے گاڑی کے دونوں طرف آبادی کو دیکھ کر فرمایا آج یہ نظارہ دیکھ کر مجھے اپنا ایک پرانا خواب یاد آگیا ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں پشاور ٹرین میں بیٹھ کر آیا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گاڑی ایک شہر کی گلی میں سے گزررہی ہے چنانچہ اس وقت گاڑی کے دونوں طرف آبادی دیکھ کر مجھے اپنا رئویا یاد آگیا ہے اور میرے آنے سے آج پورا آگیا ہے۔
اتنے میں صفوں کو دوبارہ ترتیب دے دی گئی اور شیخ مظفرالدین صاحب امیر جماعت مقامی نے حضور کی خدمت میں گاڑی سے اترنے کے لئے عرض کیا۔ حضور گاڑی سے اترے اور دوستوں سے مصافحہ کرنا شروع کیا۔ مصافحہ کے دوران میں قاضی محمد یوسف صاحب آف ہوتی امیر جماعت خان شمس الدین صاحب نائب امیر مقامی اور محمد اکرم خاں صاحب تعارف کراتے جاتے تھے۔ مصافحہ ختم ہونے پر حضور معہ قافلہ ۴۔ اپریل کو پونے دس بجے صبح شیخ مظفرالدین صاحب کے بنگلہ پر رہائش کے لئے تشریف لے گئے۔<۲۵][پشاور میں پہلا پبلک لیکچر
۵۔ ماہ شہادت/اپریل کو حضرت مصلح موعود کا سپیشل گورنمنٹ ہال بیرون کچہری دروازہ )پشاور شہر( میں >پاکستانیوں سے کھلی کھلی باتیں< کے عنوان سے ایک شاندار لیکچر ہوا۔ ہال اور بیرونی احاطہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لائوڈ سپیکر کا بھی انتظام تھا۔ اہل پشاور نے نہایت خاموشی سے حضور کی تقریر سنی اور حضور کے خطاب کے دوران حاضرین پر سناٹا چھاگیا۔ اس لیکچر کا لوگوں پر نہایت خوشگوار رد عمل ہوا اور انہوں نے برملا ایک دوسرے سے کہا کہ جس شخص کو کافر کہا جاتا تھا اس نے تو آنحضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ارشادات پیش کئے۔۲۶
تورخم میں ورود مسعود
۶۔ ماہ شہادت/اپریل کو حضور تورخم تشریف لے گئے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک مشہور جگہ ہے۔ مولانا عبدالرحیم صاحب ورد کے ایک غیر مطبوعہ مکتوب سے اس سفر کے حالات پر مختصر روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ حضور نے اس سفر کے دوران فرمایا چار سو سال ہوئے جب ہمارے باپ دادا اس راستہ سے برصغیر میں آئے تھے۔ تورخم میں جماعت کی طرف سے ایک فوٹو گرافر کا پہلے سے خصوصی انتظام تھا۔ حضور نے پشاور کالج سے لے کر لنڈی کوتل کیمپ تک کی مساجد` قلعے اور سٹیشن موٹر سے دیکھے اور اس ورد کا اظہار فرمایا کہ حکومت کی امداد کے سوا اس علاقہ کے باشندوں کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ حضور نے تجویز فرمائی کہ ان علاقوں میں انڈسٹری جاری کرنی چاہئے۔ تورخم سے واپسی پر حضور لنڈی کوتل پہنچے جہاں حضور کے اعزاز میں ایک وسیع اور پرتکلف ضیافت کا اہتمام تھا اور بہت سے سربرآورد لوگ جن میں پاسپورٹ آفیسر` خیبر کے ایک لیفٹیننٹ کرنل اور سوات کے شہزادہ بھی شامل تھے بکثرت مدعو تھے۔ لنڈی کوتل سے حضور جمرود آئے اور مختصر سے قیام کے بعد واپس پشاور میں رونق افروز ہوگئے۔
لنڈی کوتل کے شنواری اور آفریدی سرداروں کے ایک وفد کی ملاقات
اگلے روز ۷۔ شہادت/اپریل کو لنڈی کوتل کے شنواری اور آفرید سرداروں کے ایک وفد کو )جو بارہ معززین پر مشتمل تھا( حضرت مصلح
موعود کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اورینٹ پریس کے نامہ نگار نے اس وفد کی آمد پر حسب ذیل لفظوں میں خبردی۔
جماعت احمدیہ کی بے مثال شجاعت کا اعتراف
پشاور ۹۔ اپریل اورینٹ پریس کا نامہ نگار قمطراز ہے کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے لنڈی کوتل کے شنواری اور آفریدی سرداروں کے ایک وفد نے ملاقات کی۔ آپ نے ان پٹھان سرداروں سے پوچھا کہ وہ ملاقات کرنے کی کیوں خواہش رکھتے تھے؟ انہوں نے جواب میں کہا قادیان کے احمدیوں نے نہایت جانبازی سے اپنے شہر کی حفاظت کی۔ ہم مسلمانوں کے اس بہادر فرقے کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ حضرت امام جماعت احمدیہ نے پٹھان سرداروں کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا مسلمان بہادری ہی ہوتے ہیں وہ کبھی بزدلی نہیں دکھاتے۔ پاکستان کی اقتصادی حالت کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا میرے خیال میں ہندوستان کے مقابلہ میں پاکستان کی اقتصادی حالت بہت بہتر ہے کیونکہ ہمارے وسائل اور ذرائع بہت وسیع ہیں۔ کشمیر کے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب کشمیر پاکستان کا ایک حصہ بن جائے گا۔ ابتداء میں انڈین یونین کشمیر کے معاملہ کو ایک آسان کا سمجھتی تھی لیکن اس سلسلہ میں اسے نہایت تلخ تجربہ ہوا ہے۔ مسلمان عوام بالعموم اور قبائلی پٹھان بالخصوص کشمیر کو پاکستان میں شامل کرانے کا تہیہ کرچکے ہیں کیونکہ وہ پاکستان حکومت کو اپنی حکومت سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس سے علیحدہ تصور نہیں کرتے۔ درحقیقت پاکستان کا دارو مدار کشمیر پر ہی ہے۔)او` پی` آئی(۲۷
اخبار>الجمعیتہ< )پشاور( میں حضرت مصلح موعود کا اہم بیان
اس وفد کے بعد ہفت روزہ اخبار >الجمعیتہ< )پشاور( کے مدیر سید محمد حسن گیلانی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے دوران ملاقات حضور نے جو بیان دیا وہ >الجمعیتہ< )۷۔اپریل ۱۹۴۷( میں شائع ہوا جس کا متن حسب ذیل ہے۔
>امیر جماعت احمدیہ پشاور میں<
جناب مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب قادیانی ان دنوں پشاور میں تشریف فرما ہیں آپ نے بڑی عنائت فرما کر مجھے ملاقات کا شرف بخشا اور ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا >آج آفریدی قبائلی کے ایک نمائندہ وفد نے ملاقات کی جس میں خان بہادر ملک مراد خان` نواب زادہ محمدعلی خان` ملک لطیف خان` ملک ولی خان` ملک امیرخان` اکبرحسین` ملک جان` ملک نیاز محمد خان` ملک ہوات خان دحاجی عامل خان` شہزادہ نواب دین شامل تھے۔ اور میں نے لوگوں سے سوال کیا کہ آپ لوگ مجھے ملنے کی کیوں خواہش کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے قادیان کے بھائیوں نے جس استقلال بہادری اور جوانمردی کا گزشتہ چندہ ماہ میں ثبوت دیا ہے اس کی مثال ملنی اگر محال نہیں تو مشکل ضرور ہے اور ہم پورے دثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس فرقہ یا قوم میں اس قسم کی بہادری پائی جائے یقیناً اس کا لیڈر )امیر یا پیر( ضرور بہادر ہوگا اور ہمیں بہادر ہونے کا دعویٰ ہے اس لئے اس کو اپنا فرض جانتے ہیں کہ بہادروں کی قدر کریں اور ان کے رہبر کے سامنے اپنی عقیدت پیش کریں۔ اس پر میں نے جواب میں کہا کہ مسلمان ہمیشہ سے بہادر ہیں اور اس وقت تک وہ بہادر رہیں گے اور بزدلی ان کے نزدیک نہ پھٹکے گی جس وقت تک وہ اپنے عقیدے سے منحرف نہ ہوجائیں۔
)۲( اس کے بعد میں نے پاکستان کی اقتصادی حالت کے متعلق آپ کی رائے دریافت کی۔ جواباً فرمایا کہ یقیناً پاکستان کی اقتصادی اور مالی حالت ہندوستان سے بدرجہا بہتر ہے اور پاکستان کے باشندے ہندوستان کے رہنے والوں کی بہ نسبت اب بھی بہترین زندگی بسر کررہے ہیں اور آئندہ اور بھی اچھا ہوجانے کی امید ہے۔ اس کے ثبوت میں آپ نے یہ تفصیلی بیان فرمایا کہ پاکستان کے وسائل ہزار درجہ ہندوستان سے بہترین ہیں۔
آخر میں میں نے کشمیر کے متعلق پوچھا تو فرمایا انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جبکہ کشمیر پاکستان کا ایک بہترین حصہ ہوگا۔ ہندوستان کی گورنمنٹ اس کو ابتداء میں )ترنوالہ( سمجھتی تھی لیکن اب تلخ تجربہ کے بعد ان کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ اور یہ بات واضح ہے کہ مسلمان عوماً اور سرحدی قبائل کے پٹھان خصوصاً عہد کرچکے ہیں کہ کشمیر کو فتح کرکے پاکستان کا حصہ بنائیں گے کیونکہ ان قبائلی لوگوں نے پاکستان کو اسلامی حکومت مان کر اپنی حکومت تسلیم کرلیا ہے اور اپنے آپ کو اس کا ضروری حصہ تسلیم کرتے ہیں۔<۲۸
پاکستان خبررسا ایجنسی اور پہلی تقریر
حضرت کی پہلی تقریر پشاور کا خلاصہ پاکستان کی ایک خبررساں ایجنسی نے یہ دیا کہ >پشاور ۶۔ اپریل۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو ختم کردینے کے لئے ان پر حملہ ایک سوچی سمجھی ہوئی سکیم کے ماتحت تھا تاکہ ایک خالص بضر سکھ ریاست قائم کردی جائے۔ اس غرض کے لئے مشرقی پنجاب کے غیر مسلموں نے جنگ کا ایک خاکہ تیار کیا جس کے ماتحت قادیان کے ستر نواحی دیہات پر حملہ کرکے چند دنوں کے اندر اندر وہاں سے تمام مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا۔ جب پنڈت جواہرلال نہرو سے مدد کے لئے کہاگیا تو انہوں نے حالات میں دخل دینے سے صاف انکار کردیا جس پر مجبوراً مسلمانوں کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی۔ آپ نے فرمایا کہ اس سازش کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ پاکستان میں رہنے والے تمام غیر مسلموں کو ہندوستان بلالیا جائے تاکہ تجارت میں خلاء پیدا ہوکر اقتصادی توازن درہم برہم ہوجائے مگر پاکستان کے دشمن اپنے منصوبوں میں نامراد رہے۔ انہوں نے پاکستان کے مسلمانوں کی پیدائشی جرات و بہادری کو غلط قیاس کیا۔ پاکستان کے لئے اسلامی آئین کے مطالبہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لوگوں سے کہا کہ پہلے اپنے آپ کو شریعت اسلامی کے مطابق بنائو اور پھر قانون شریعت کا مطالبہ کرو۔ اپ نے فرمایا لوگ خود تو اسلامی شریعت کو جاری کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔<۲۹
پشاور میں دوسرا پبلک لیکچر
۸۔ ماہ شہادت/اپریل کو حضرت امیرالمومنین نے مشن کالج پشاور میں ۵ سے ۷ بجے شام تک دوسری پبلک تقریر فرمائی جس میں حضور نے نہایت پر جوش انداز میں پاکستان کے طلبہ اور عوام کو نہایت زریں ہدایات دیں۔ صدر جلسہ غلام صمدانی صاحب )پولیٹیکل ایجنٹ کے والد( تھے۔ حاضرین میں ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ممبران اسمبلی` پروفیسرز اور سرکاری افسران بکثرت شامل ہوئے ۔۳۰
حضرت امیرالمومنین کے ارشادات خصوصی تقاریب میں
ان پبلک تقریروں کے علاوہ پشاور کے مخلص احمدیوں نے اپنے محبوب آقا کے اعزاز میں تقریباً روزانہ ہی پرائیویٹ تقاریب کا انتظام کئے رکھا جس کے نتیجہ میں بہت سے معززین اور سربرآور دہ شخصیتوں کو حضور سے تبادلہ خیالات کرنے اور حضور کے مقدس ملفوظات سے بہرہ در ہونے کی سنہری مواقع میسر آئے اور وہ حضور کے تجر علمی` خداداد ذہانت اور غیر معمولی فراست وبصیرت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ ۶۔ ماہ شہادت/اپریل کی شام کو خان بہادر دلاور خاں صاحب کے ہاں دعوت تھی جس میں وزیراعظم سرحد خان عبدالقیوم خاں کے سوا سرحد کے چوٹی کے سرکاری افسر مدعو تھے۔ علاوہ ازیں پشاور کے مسٹر عباس خاں صاحب چیف جسٹس` ایڈووکیٹ جنرل ملک خدا بخش صاحب` ۳۱ جنرل نذیر احمد صاحب` کرنل احمد صاحب اور انسپکٹر جنرل ہاسپٹل بھی موجود تھے۔ کھاے سے پہلے اور بعد میں بہت دیر تک سلسلہ سوال و جواب جاری رہا۔ خصوصیت سے اسلامی آئین کے مختلف گوشے زیر بحث آئے اور بہت دلچسپی کا مرکز بنے رہے۔ رات کے سوا گیارہ بجے کے قریب واپسی ہوئی۔۳۲
اگلی شام کو حضور میجر جنرل نذیر احمد کے ہاں دعوت پر تشریف لے گئے جہاں دوسرے فوجی اور سول افسروں کے علاوہ خان عبدالقیوم خان صاحب وزیراعظم سرحد اور خان محمد عباس صاحب وزیر مال صوبہ سرحد بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد یہاں بھی علمی گفتگو کے دوران مختلف سوالات کئے گئے۔ ۳۳
پشاور میں مجلس علم و عرفان
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود پبلک جلسوں اور پرائیویٹ تقاریب میں شمولیت کے علاوہ قیاں پشاور کے دوران مختلف نمازوں کے بعد مجلس علم و عرفان میں بھی رونق افروز ہوتے اور ملک کے پیش آمدہ اہم علمی مسائل میں رہنمائی فرماتے رہے۔ ان مبارک ایام میں بہت سی حق و صداقت سے لبریز باتیں حضور کی زبان مبارک سے حاضرین نے سنیں اور اپنے ایمانوں کو زندہ اور روحوں کو تازہ کیا۔ ان روح پر ورمجالس کی مختصر رپورٹیں جناب عبدالحمید صاحب آصف نے مرتب کی تھیں جو انہیں دنوں الفضل میں محفوظ ہوگئیں۔۳۴ اس مجلس علم و عرفان کے دو ایک اہم ارشاد بطور نمونہ ذیل میں ملا خطہ ہوں۔
تبلیغ اسلام کی اہمیت۔ >تمام انبیاء اور ان کی جماعتیں ایک سے حالات میں سے گزرتی ہیں۔ دنیا ان کو پاگل کہتی ہے۔ کام کے لحاظ سے بھی اور باتوں کے لحاظ سے بھی۔ مومن پاگل نہیں ہوتا لیکن دنیا ہمیشہ اسے پاگل کہتی آئی ہے۔ انبیاء کی جماعتوں کے اندر ایک جنون ہوتا ہے اور اس جنون کے طفیل وہ دنیا پہ چھا جاتی ہیں۔ دنیا کہتی ہے ہم تمہاری باتیں نہیں سنتے مگر وہ پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ صداقت کو قبول کروانا اور دلوں میں ایمان پیدا کرنا ایک بہت بڑی قربانی چاہتا ہے جو بغیر جنون کے نہیں ہوسکتی۔ اس لئے تم اپنے اندر ایک مجنونانہ کیفیت پیدا کرو اور یہ یاد رکھو کہ بغیر تبلیغ کے اسلام کامیاب نہیں ہوسکتا۔ تم اس حربہ کو استعمال کرکے کامیاب ہوسکتے ہو جو اس زمانے کے مامور کو خدا کی طرف سے دیاگیا ہے اور وہ تبلیغ ہے۔ اس وقت دنیا کے فلاسفروں کی باتیں اسلام کو ترقی نہیں دلا سکتیں۔ زمین اور آسمان اپنی جگہ سے ٹل سکتے ہیں مگر یہ بات نہیں ٹل سکتی کہ اس زمانہ کے مامور کے بغیر مسلمان دنیا میں ترقی کرسکیں۔ اور جو شخص اس بات پر ایمان کو اس کے مطابق عمل نہیں کرتا اور اپنا بھی دشمن ہے اور اپنے بال بچوں کا بھی دشمن ہے۔<
مسلم خواتین اور فنون حرب۔ >عورتوں کو فنون حرب سے واقف کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر عورت اسی وقت جنگ میں آسکتی ہے جب مرد لڑتے ہوئے ختم ہوجائیں اس وقت عورت کو میدان میں نکل کر بہادری کے جوہر دکھانے چاہئیں۔ اور پھر مصیبت پڑنے پر عصمت کی حفاظت بھی وہ عورت اچھی طرح کرسکتی ہے جو فنون حرب سے واقف ہوگی۔<۳۵
قیام پشاور کے آخری دن کی غیر معمولی مصروفیات
حضور کے قیام پشاور کا آخری دن )۹۔ شہادت/اپریل کا دن( غیرمعمولی مصروفیات میں گزرا۔ جماعت سرحد کے عہدہ داروں کی حضور کے ارشاد کے مطابق ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں حضور نے عمومی رپورٹ لینے کے بعد ارشاد فرمایا کہ میں کئی سال سے جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا رہا ہوں کہ عہدہ داران اپنے نائب پیدا کریں اور ان پر کام کی ذمہ داری ڈالیں۔ میں نے ناظروں کے نائب مقرر کئے اور ان پر کام کی ذمہ داری ڈالی۔ نیز کہا کہ وہ میرے سامنے اپنے کام کی رپورٹ پیش کیا کریں چناچہ اس طریق سے کام پہلے سے بہت اچھا ہورہا ہے۔ حضور نے مثال کے طور پر نائب ناظر بیت المال کے کام کو پیش کیا۔ حضور نے فرمایا کہ جتنا کام قادیان کے فسادات میں رکا پڑا تھا۔ وہ انہوں نے دو ماہ لگا تار محنت کرکے مکمل کردیا۔ بجٹ تیار کیا اور آمدنی پر کنٹرول کیا۔ نوجوانوں میں کام کا زیادہ جوش ہوتا ہے انہیں آگے نے دینا چاہئے اور ان پر ذمہ داری ڈالنی چاہئے۔
حضور نے فرمایا کہ تبلیغ کے لئے الگ الگ حلقے مقرر کئے جائیں۔ مثلاً ایک ایسی انجمن ہو جو علماء کے طبقہ کو تبلیغ کرے۔ ایک ایسی انجمن ہو جو کالج کے طلباء کو تبلیغ کرے۔ ایک ایسی انجمن ہو جو وکلاء اور بیرسٹروں کو تبلیغ کرے۔ اس طرح ہر طبقہ کے لوگوں کو تبلیغ ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد دیہاتوں میں تبلیغ کرنے کے متعلق حضور نے فرمایا کہ دیہاتوں کے جو احمدی نوجوان لکھ پڑھ سکتے ہیں وہ اپنی زندگیاں وقف کریں ہم ان کو تعلیم دیں گے اور وہ اپنے علاقہ میں تبلیغ کریں گے۔ حضور کی یہ مجلس ایک بجے ختم ہوئی۔ بعدازاں حضور نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کی جماعت نے ایسے مواقع بہم پہنچائے کہ مجھے اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا موقعہ ملا۔ دو لیکچر ہوئے جن میں علمی طبقہ کو اور عوام کو میں مخاطب کرسکا۔ اسی طرح یہاں کے دوستوں نے دعوتیں کیں اور ان دعوتوں میں فوجی اور سویلین آفیسر` بیرسٹر اور وکلاء تھے اور انہوں نے مجھ سے سوالات کئے میں نے ان کے جوابات دیئے۔ اسی طرح یہاں نمازوں میں احمدی دوست آتے رہے اور ان کو مجھ سے ملنے کا موقعہ ملتا رہا۔ اسی طرح پشاور کے علمی طبقہ اور عوام اور احمدیوں کے سامنے میں اچھی طرح اپنے خیالات پیش کرسکا۔ اسی طرح غیراحمدی دوست مجھے ملنے آتے رہے۔ آپس میں ملتے رہنے سے ایک دوسرے کے متعلق صحیح واقفیت ہوجاتی ہے اور ناواجب اختلاف مٹ جاتا ہے۔ حضور نے اس طرح بھی جماعت صوبہ سرحد کو متوجہ کیا کہ آئندہ صوبہ سرحد کو اہمیت ہاصل ہونے والی ہے اس لئے پشاور میں اگر کوئی بنا بنایا مکان مل جائے تو وہ خرید لیا جائے یا زمین خرید کر پشاور کے مرکز کو مضبوط کیا جائے اور تبلیغ کرکے اس علاقہ میں جماعت کو بڑھایا جائے مگر کئی سالوں سے اس جماعت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ مسلمان کو دینوی اسباب سے ترقی نہیں مل سکتی اس کو صرف اور صرف قرآن کریم کے طفیل ترقی ملے گی اس لئے قرآن پڑھو دوسروں کو پڑھائو۔ خدا تعالیٰ پر توکل کرو وہ تمہیں خود علم سکھائے گا۔
اس کے بعد حضور نے اپنی زندگی کے بعض واقعات بیان فرمائے کہ کس طرح حضور بچپن سے بیمار چلے آرہے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآنی علوم عطا کئے ۔ پھر حضور نے فرمایا کہ میں بڑی مدت سے یہ دعا مانگا کرتا تھا کہ اے اللہ تعالیٰ کوئی ایسا علاقہ دے جہاں ہم قرآنی تعلیم کے مطابق عمل کرسکیں اور جہاں اسلامی تہذیب کو رائج کرسکیں۔ خدا تعالیٰ نے میری ان دعائوں کے نتیجہ میں پاکستان کا علاقہ میں ہمیں عطا کردیا۔ اب ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ یہ عزم` وہ یہ عہد` وہ یہ ارادہ کرے کہ وہ خود مرجائے گا لیکن رسول کریم~صل۱~ کے نام کو` آپﷺ~ کی تعلیم کو زندہ کرکے چھوڑے گا۔ اب ہماری زندگیاں ہمارے لئے نہ ہوں صرف اور صرف اسلام کے قیام اور اس کی اشاعت کے لئے ہوں۔ جمعہ کی نماز کے بعد حضور نے عورتوں میں تقریر فرمائی۔
عصر کی نماز کے بعد حضور خان عبدالحمید خاں صاحب آف زیدہ کی دعوت پر پروین ہوٹل میں تشریف لے گئے۔ بعد نماز مغرب ہوائی جہازوں کے محکمہ میں ملازم دو بنگالی احمدی نوجوانوں کو نیز دیگر مختلف دوستوں کو شرف ملاقات بخشا۔
احمدی دوستوں نے حضور کی خدمت میں نوٹ بکیں پیش کیں کہ حضور کوئی نصیحت لکھ دیں اس پر حضور نے ایک نوٹ بک پر لکھا >اتقوااللہ< دو پر لکھا >اللہ تعالیٰ پر توکل کرو< ایک پر لکھا >سنجیدگی اختیار کرو< ایک پر >کلمہ طیبہ< لکھا اور دستخط کردیئے۔۳۶`۳۷
پشاور سے چارسدہ تک
حضور ۱۰۔ ماہ شہادت/اپریل کو بذریعہ موٹر پشاور سے چارسدہ۳۸ تشریف لے آئے۔ دانشمند خاں صاحب آف موضع بانڈا محب تحصیل نوشہرہ )والد ماجد جناب بشیراحمد خاں صاحب رفیق امام مسجد لنڈن( تحریر فرماتے ہیں کہ۔
>حضور خاں صاحب محمد اکرم خاں درانی کی درخواست پر چار سدہ کے لئے روانہ ہوئے راستہ میں وہ آشرم حضور کو دکھایا گیا جو خاں عبدالغفار خاں نے دریائے ناکھاں کے کنارے پر بنوایا تھا۔ چار سدہ میں خاں صاحب مرحوم کے مکان پر حضور فروکش ہوئے۔ مجھ کو یاد ہے کہ حضور کی ملاقات کے لئے ملک عادل شاہ صاحب باوجود سخت بیماری کے چار شدہ تشریف لے آئے تھے۔ ظہر کی نماز حضور نے اس مسجد میں ادا فرمائی جس میں بقول خاں صاحب حضرت سیدامیر صاحب رحمتہ اللہ علیہ مجدد وقت ساکن کوٹھہ نے نماز پڑھائی تھی۔<
چارسدہ سے اوتمان زئی اور خان برادران سے ملاقات
دوسرے دن حضور خاں صاحب محمد اکرم صاحب درانی اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے ہمراہ خان برادران سے ملاقات کے لئے اور تمان زئی تشریف لے گئے۔ حضرت مصلح موعود نے اس سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>۱۹۴۸ء میں جب میں پشاور گیا تو ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر خان صاحب اور عبدالغفار خان صاحب سے بھی ملنے گیا۔ جہاں تک ظاہری اخلاق کا سوال ہے انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا مثلاً دونوں بھائیوں میں ان دنوں کسی وجہ سے شکر رنجی تھی اس لئے وہ آپس میں ملتے نہیں تھے۔ ہماری ملاقات کی یہ تجویز ہوئی کہ وہ ڈاکٹر خاں صاحب کے گھر پر ہو۔ درد صاحب میرے ساتھ تھے میں نے انہیں کہا کہ وہ خان عبدالغفار خاں صاحب سے معذرت کریں اور کہیں کہ میں ڈاکٹر خاں صاحب کے ہاں جائوں گا شاید آپ ان کے مکان پر نہ آسکیں۔ انہوں نے کہلا بھیجا آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان کی خاطر میں وہیں آجائوں گا۔ چنانچہ وہ وہیں آگئے اور ایک گھنٹہ تک ہماری آپس میں گفتگو ہوتی رہی۔ میں نے خان عبدالغفار خاں صاحب سے سوال کیا کہ اگر پاکستان میں کوئی گڑبڑ ہوئی اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کی فوجیں پاکستان میں آگئیں تو کیا یہاں کے مسلمانوں کی حالت ویسی ہی نہیں ہوجائے گی جیسی مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی ہوئی تھی؟ اس پر انہوں نے بے ساختہ جواب دیا گیا کہ اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے مسلمانوں کی حالت مشرقی پنجاب کے مسلمانوں جیسی نہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے اس کا وجود ضروری تھا یا نہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اگر کچھ ہوا تو اس کا اثر لازماً مسلمانوں پر پڑے گا۔ اگر پاکستان خطرے میں پڑ جائے تو یہ یقینی بات ہے کہ پاکستان میں اسلام محفوظ نہیں رہ سکتا۔ ہندوئوں میں پہلے بھی بڑا تعصب تھا اور ہم نے اس اختلاف کی وجہ سے یہ برداشت نہ کیا کہ ان کے ساتھ مل کر رہیں اور ہم سب سے مل کر کوشش کی کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک ملے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش کو پورا کردیا اور ہمیں پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ ملک عطا کیا۔ مسلمانوں کی اس جدوجہد کو دیکھ کر ہندوئوں کے دلوں میں خیال پیدا ہوگیا کہ مسلمانوں نے ہمیں سارے ہندوستان پر حکومت کرنے سے محروم کردیا ہے اور انہوں نے سارے ملک میں مسلمانوں کی سیاست اور خود مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا۔ پہلے ان کی زہنیت اتنی زیادہ مسموم نہیں تھی اور ان میں سے بعض کے دل میں مسلمانوں کے لئے روا داری کا جذبہ ایک حد تک پایا جاتا تھا لیکن مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کی وجہ سے ان کی ذہنیت اب بالکل بدل گئی ہے اور مسلمان انہیں سانپ اور بچھو کی طرح نظر آنے لگے گئے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان میں گڑ بڑ واقع ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان کی فوجیں ملک میں داخل ہوئیں تو وہ اس ذہنیت سے نہیں آئیں گی جو ان کی تقسیم ملک سے پہلے تھی۔ اس وقت تعصب اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا اب ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پاکستان حاصل کرکے مسلمانوں نے اپنا ایک جائز حق لیا ہے کوئی جرم نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم کیا سمجھتے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ جس سے ہمارا معاملہ ہے وہ کیا سمجھتا ہے؟<۳۹
‏]ybod [tagجناب ماسٹر نورالحق صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمدیہ چارسدہ کے بیان کے مطابق حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ۱۹۴۸ء میں پشاور کی طرف سے )اندازاً( بوقت دس بجے چارسدہ تشریف لائے تھے اور فقیر محمد خاں صاحب ایگزیکٹو انجنیئر کے مکان میں چند گھنٹے قیام فرمایا تھا۔ اس دوران حضور خان برادرز سے ملنے کے لئے اتمان زئی تشریف لے گئے تھے۔ حضور تقریباً دو گھنٹے کے بعد واپس اتمان زئی سے تشریف لائے اور چارسدہ میں غیر احمدیوں کی مسجدیں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔ اردگرد کے معززین نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ ایک دوست کی زبانی روایت ہے کہ حضور سے کسی نے پوچھا کہ خان برادرز نے حضور کو کیا کہا تو حضور نے فرمایا کہ >خان برادرز تباہ ہوگئے۔< اس کے بعد حضور بذریعہ موٹر مردان تشریف لے گئے۔
مردان سے راولپنڈی تک
حضرت مصلح موعود مردان میں ایک سب قیام فرما ہونے کے بعد اگلے روز ۱۱۔ اپریل کو رسالپور سے ہوتے ہوئے نوشہرہ میں رونق افروز ہوئے اور ایک اہم خطاب کے بعد پانچ بجے کی گاڑی کے ذریعہ راولپنڈی تشریف لے آئے۔ جناب آدم خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ مردان کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعود کے بمعہ قافلہ اور خدام از پشاور و ضلع مردان از طرف پشاور براستہ چار سدہ مردان تشریف لائے۔ جلسہ تقریباً عصر کے بعد شروع ہوا۔ )صاحبزادہ عبدالحمید صاحب کی یاد داشت کے مطابق( مضمون کا عنوان >پاکستان اور اس کا دفاع< تھا۔
جہاں تک مجھے ذاتی طور پر یاد ہے حضور نے پاکستان کے بارڈر کی پوزیشن ہاتھ اور چھڑی کے ذریعہ جغرافیائی طور پر واضح فرمائی۔ مکرم نصراللہ جان صاحب بیرسٹرایٹ لاء نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ مرزا صاحب صرف ایک مذہبی آدمی ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ آں مکرم ایک جرنیل بھی ہیں )یا اسی قسم کے تعریفی الفاظ استعمال کئے( ان ریمارکس سے سامعین کی تعداد تین چار سو کے لگ بھگ تھی۔ جلسہ کے بعد حضور نے نماز مغرب پڑھائی تھی۔
دوسرے دن صبح حضور مسجد احمدیہ بکٹ گنج تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد حضور بمعہ اپنے قافلہ تخت بہائی شوگر ملز دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔
بعدازاں براستہ رسالپور نوشہرہ تشریف لائے۔ رسالپور میں چوہدری ظفرصاحب )جو اس وقت ایرفورس میں شاید پائلٹ آفیسر تھے( کے ہاں کھانا تناول فرمایا اور ایک مختصر تقریر بھی فرمائی۔ رسالپور کے ساتھ >پیر مبارک< نامی جگہ کو دیکھا۔ حضور دیکھنا یہ چاہتے تھے کہ نئے مرکز کے لئے خواب میں دکھایا جانے والا مقام تو نہیں لیکن اس کا نقشہ خواب سے مختلف پاکر اسے چھوڑدیا گیا۔
نوشہرہ میں ایک غریب لیکن نہایت مخلص دوست نے چائے پیش کرنے کی درخواست کی جو منظور کی گئی۔ یہاں پر بھی حضور نے تقریر فرمائی جو >انا اعطیناک الکوثر< کی قرآنی آیت پر تھی۔ یہ تقریر مرحوم مرزا غلام حیدر صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ نوشہرہ کی زیر صدارت ہوئی تھی۔
قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر صوبہ سرحد اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب )ٹوپی( کو بھی حضور کی ہمر کاپی کا شرف حاصل ہوا۔ )ملحض بیان(
راولپنڈی کے جلسہ عام میں حضرت مصلح موعود کا اثر انگیز خطاب اور اس کا پریس میں چرچا
۱۲۔ ماہ شہادت/اپریل کو حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے نشاط سینما ہال راولپنڈی میں ایک نہایت اثر انگیز لیکچر دیا۔ اخبار انقلاب )لاہور(نے اس کامیاب لیکچر کی
حسب ذیل رپورٹ شائع کی۔
>سیکورٹی کونسل کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہوگا۔۔ راولپنڈی )نامہ نگار خصوصی کے قلم سے( ۱۵۔ اپریل جماعت احمدیہ قادیان کے امام جناب مرزا بشیرالدین محمود احمد نے آج یہاں نشاط سینما کے لئے بنائی ہوئی بلڈنگ میں تعلیم یافتہ طبقہ کے ایک بڑے اجتماع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہوگا۔ ان کی تقریر کا موضوع >موجودہ نازک وقت میں مسلمانوں کا فرض< تھا۔ انہوں نے موجودہ حالات پر مفقل روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ اس وقت جنگ کی سی حالت میں ہیں لہذا انہیں زمانہ امن کی تحریکات مزدور تحریک وغیرہ کھڑی کرکے یا ان میں حصہ لے کر اپنی نوزائیدہ مملکت کے مستقبل کو کمزور نہیں کرنا چاہئے انہوں نے حکومت کے ذمہ دار ارکان کو بھی نصیحت کی کہ وہ بدلے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے طور طریقوں کو بدلیں اور ایسا رویہ اختیار کریں جو عوام کے لئے مثال ہو اور جس سے عوام یہ سمجھنے لگیں کہ ان سے قربانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کی زندگیوں پر بھی اپنی حکومت بن جانے کا اثر ہوا ہے اور وہ ان کے افسر نہیں بلکہ بہی خواہ اور بھائی ہیں۔
کشمیر کے مسئلے کا تذکرہ کرتے ہوئے مرزا بشیرالدین صاحب نے بتایا کہ سیکیورٹی کونسل کا فیصلہ پاکستان کے خلاف ہوگا۔ اپنے اس خیال کی تشریخ کرتے ہوئے انہوں نے کہا سیکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بحث کے پہلے دور میں امریکہ نے اس خیال سے پاکستان کی ہمدردی کرکے اس نے اپنا مقصد حاصل کرلیا لیکن اس کے بعد بین الاقوامی سیاست کا رخ بدل گیا۔ عرب مجاہدین نے تقسیم فلسطین کو ناقابل عمل بنادیا اور روس اور امریکہ کی آویزش کا خدشہ روز بروز زیادہ ہوتا چلا گیا۔ اس وقت امریکہ اور برطانیہ نے مسٹر آئینگر کی معرفت ہندوستان سے کچھ ساز باز کی اور یہ حقیقت ہے کہ مسٹر آئینگر پاکستان کے متعلق بات چیت کرنے کے بعد امریکہ سے واپس نہیں آئے تھے بلکہ وہ امریکہ اور برطانیہ کی پیش کردہ شرائط پر گفتگو کرنے آئے تھے۔ یہ شرائط اس مطلب کی تھیں کہ اگر روس اور امریکہ میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان اینگو امریکن بلاک کو ان کی مطلوبہ رعایت دینے پر رضامند ہوگا۔
ہندوستان کی طرف سے اس بات چیت کا جواب امریکہ اور برطانیہ کی خواہشات کے مطابق دیا گیا۔ چنانچہ مسٹر آئینگر کے امریکہ واپس پہنچتے ہی سیکیورٹی کونسل کی فضا پاکستان کے خلاف اور ہندوستان کے حق میں ہوگئی۔
افغانستان کی سیاست۔ مرزا بشیرالدین محمود صاحب نے سیکیورٹی کونسل میں پاکستان کے وزیرخارجہ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا >سرظفر اللہ خاں میرے عزیز بھی ہیں اور مرید بھی ہیں۔ وہ ایک قابل آدمی ہیں لیکن اگر دس ظفراللہ خاں ہوں تو بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا اور سکیورٹی کونسل کا فیصلہ بین الاقوامی حالات کے مطابق ہوگا جو بظاہر پاکستان کے خلاف معلوم ہوتے ہیں >مرزا صاحب نے انکشاف کیا کہ میں ابھی ابھی صوبہ سرحد کے دورہ سے واپس آیا ہوں مجھے اس دورہ میں نہایت ہی معتبر ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور روس اپنی اپنی طرف سے افغانستان کو ساتھ ملانے کی انتہائی کوشش کررہے ہیں۔ افغانستان کو پٹرول کی ضرورت ہے اور وہ اون باہر بھیجتا ہے۔ روس نے افغانستان کی ضرورت کا پٹرول مہیا کرنے اور تمام اون خریدنے کا یقین دلایا ہے لیکن اس کے مقابلہ پر امریکہ نے روس کی نسبت چالیس فیصدی کم قیمت پر پٹرول مہیا کرنے اور ۲۰ فیصدی زیادہ قیمت پر اون خریدنے کی پیشکش کی ہے۔ اب پھر روس کی باری ہے لیکن افغانستان نے محض اس خیال کی بناء پر کہ امریکہ اور برطانیہ ہندوستان کے حامی ہیں کشمیر کے بارے میں پاکستان کے خلاف روش اختیار کررکھی ہے۔ چنانچہ جو افغانی جہاد کشمیر میں حصہ لینے آئے تھے ان کو حکومت افغانستان نے معتوب گردانا ہے بہرحال اگر افغانستان اینگو امریکن بلاک میں شامل ہوجائے اور ہندوستان بھی اسی بلاک میں ہو تو پاکستان کے لئے ایک عظیم الشان الجھن پیدا ہوجائے گی۔
مسلمانوں کا فرض۔ مرزا بشیرالدین صاحب نے اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے کہا >حالات کچھ بھی ہوں پاکستان کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کریں بالکل اسی طرح جس طرح زندہ قوموں کے افراد کرتے ہیں ہمیں نہ تو معمولی ۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔ بڑی کامیابیوں پر خوش ہوکر بے فکر ہو جانا چاہئے اور نہ ہی چھوٹی بڑی ناکامیوں پر دل چھوڑ دینا چاہئے۔ جو فطرات ہمارے سامنے ہیں ان میں بانی اسلام~صل۱~ کی تعلیم کے مطابق مسلمانوں کے لئے صرف دو ہی مقام ہیں۔ فتح یا شہادت اور مسلمانوں کو انہی دونوں میں سے ایک کے لئے تیار رہنا چاہئے<
مرزا صاحب نے اختتام تقریر پر مسلمانوں کو آزاد کشمیر اور قبائلی پٹھانوں کی عملی امداد کی طرف بھی توجہ دلائی جو اس وقت بالواسطہ پاکستان کی عظیم الشان خدمت انجام دے رہے ہیں۔
جلسے کی صدارت ڈاکٹر تاثیر صاحب نے کی۔ جلسہ کے اختتام پر جلسہ گاہ کے باہر کچھ لوگوں نے قادیانیوں کے خلاف نعرے لگائے اور بدامنی پیدا کرنی چاہی۔ پولیس نے معمولی سالاٹھی چارج کرکے لوگوں کو منتشر کردیا۔<۴۰`۴۱
اخبار >انقلاب< )لاہور( کی اس مفصل خبر کے مقابل لاہور کے دوسرے بعض اخبارات نے اصل تقریر کی رپورٹنگ کرنے کے بجائے جلسہ میں گڑ بڑ اور پولیس کی لاٹھی چارج کے واقعہ پر اکتفاء کیا۔ چنانچہ مشہور اخبار >نوائے وقت< )لاہور( نے
>راولپنڈی میں احمدیوں کے جلسہ میں گڑبڑ<
>پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑی<
‏body2] ga[tکے دوہرے عنوان سے لکھا۔
>راولپنڈی ۱۴۔ اپریل کل مقامی پولیس نے نشاط سینما تھیٹر کے نزدیک ایک ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے معمولی لاٹھی چارج کیا کیونکہ یہ ہجوم ایک ایسے جلسے کو ناکام بنانا چاہتا تھا جس میں احمدیوں کے قائد مرزا بشیرالدین محمود نے تقریر کرنا تھا۔ لاٹھی چارج سے قبل ہجوم کے لیڈروں نے احمدیوں کے خلاف تقریریں کرکے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو پبلک جلسے کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ پولیس کے لاٹھی چارج سے چند اشخاص کو معمولی ضربات آئیں۔<۴۲
اسی طرح لاہور کے ایک دوسرے روزنامہ >غازی< نے
>احمدیوں کی وجہ سے لاٹھی بازی
راولپنڈی کے مسلمانوں پر جبر<
کے عنوان سے حسب ذیل اشتعال انگیز خبر شائع کی۔
>راولپنڈی ۱۵۔ اپریل کل نشاط تھیٹر زمیں )مرزا بشیرالدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ( تقریر کررہے تھے کہ باہر مخالفین کے ایک ہجوم نے طوفان برپا کردیا۔ پولیس کو ہجوم پر لاٹھی چارج کرنا پڑی جس میں چند افراد زخمی ہوئے۔ مخالف لیڈروں نے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو عام جلسے منعقد کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کی قیادت مولانا مولا بخش صاحب امام جامعہ پنڈی نے کی۔<۴۳
الفضل کے نامہ نگار خصوصی کی رپورٹ
یہاں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی ایمان افروز تقریر میں جو پاکستان اور مسلمانان عالم کی ترقی و بہبود پر مبنی مسائل سے متعلق تھی کسی قسم کی شورش انگیزی کا جواز ہی کیا ہوسکتا تھا؟ اس اہم سوال کا جواب الفضل کے نامہ نگار خصوصی کی درج زیل رپورٹ سے بخوبی مل سکتا ہے۔ لکھا ہے۔
راولپنڈی میں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کا لیکچر نشاط سینما میں ہوا تو اس موقع پر جن لوگوں نے شور کیا تھا اور نعرے لگائے تھے ان کے متعلق میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ معلوم کرنا چاہئے کہ آخر یہ کس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں مری روڈ پر جماعت اسلامی ۔۔۔۔ کا دفتر ہے ان کے متعلق بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اس پارٹی کے ارکان بھی اس مظاہرہ میں شامل تھے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ یہ بات کہاں تک ٹھیک ہے خاکسار ان کے دفتر گیا مگر دفتر بند تھا۔ اس دفتر کے پاس ایک دکاندار ہے میں اور ایک اور ہمراہی وہاں بیٹھ گئے۔ باتوں باتوں میں دکاندار سے کہا کہ سنا ہے کل مرزائیوں کا جلسہ ہوا ہے وہ کہنے لگا اجی جلسہ تو ہوا ہے مگر ہم نے بھی خوب خبرلی۔ اس نے بیان کیا کہ کل پانچ بجے مجھے اطلاع ہوئی کہ جلسہ ہورہا ہے۔ میں دکان بند کرکے اپنے والد صاحب )جو مدرس ہیں( کے پاس پہنچا اور ان سے جاکر کہا کہ اس طرح جلسہ ہورہا ہے اس کے خلاف ہمیں بھی سینما کے سامنے جلسہ کرنا چاہئے۔ وہ تیار ہوگئے۔ مجلس احراء والے بھی اس جلسہ کے خلاف کارروائی کرنے کی تیاریوں میں تھے ان کا سیکرٹری بھی ہمارے ساتھ ہولیا اور ہم تینوں جامع مسجد میں خطیب صاحب کے پاس پہنچے۔ ان کو بھی اپنے ساتھ متفق کر کرلیا اور شام کی نماز کے بعد جامع مسجد میں دو تقریریں ہوئی جن میں مرزائیوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا گیا بہت سے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ ہم ایک جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے سینما کی طرف چلے۔ راستہ میں کچھ پٹھان ملے ان کو بھی ہم نے اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ اس طرح لوگوں کو ساتھ ملاتے ہوئے ہم سینما کے سامنے پہنچ گئے۔ سکیم یہ تھی کہ سڑک پر مرزائیوں کے خلاف تقریریں کی جائیں اور یہ شور مچایا جائے کہ پبلک مرزا صاحب کے ساتھ نہیں ہے۔ علماء جو ساتھ تھے وہ سڑک سے ذرا دور ہوکر کھڑے ہوگئے تاکہ ان کا علم نہ ہوسکے۔ کالج کے لڑکوں کو آگے کرکے ان سے خوب نعرے لگوائے گئے اور گندی سے گندی گالیاں جس قدر ہم دے سکتے تھے` دیں۔ مرزا صاحب تقریر کرکے دوسری طرف سے کار میں بیٹھ کر چلے گئے ان کے مرید کار پر لیٹے ہوئے تھے کہ اگر حملہ ہو تو ہم پر ہو۔ یہ بہت بڑا قربانی کا جذبہ ہے جو مرزا صاحب کے مریدوں میں پیدا ہوچکا ہے۔
میں نے سینما کے سامنے جو دکاندار ہیں ان سے دریافت کیا اور بہت سے لوگوں سے بھی دریافت کیا کہ یہ جو مسلمانوں نے سینما کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور نعرے لگائے ہیں ان کے متعلق ان کی کیا رائے ہے۔ سب نے یہی کہا کہ انہوں نے برا کام کیا ہے یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں۔ مرزا صاحب ہی تو آج کل کام کررہے ہیں اور پھر یہی ہیں جو قادیان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔< ۴۴
راولپنڈی سے واپسی
جلسہ راولپنڈی میں شرکت کے بعد حضرت مصلح موعود واپس لاہور تشریف لے آئے۔۴۵
سفر کوئٹہ
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود استحکام پاکستان اور اشاعت حق کے سلسلہ میں لاہور سے کراچی اور کراچی سے پشاور تک جن دینی وملی سرگرمیوں کا آغاز فرما چکے تھے ان کو حضور کے سفر کوئٹہ نے صوبہ بلوچستا تک پھیلا دیا۔ یہ سفر اس سلسلہ کا آخری اور طوی سفر تھا۔ چناچہ حضور۴۶ ۹ ماہ احسان/جون کو لاہور سے روانہ ہوئے اور قریباً تین ماہ کے بعد ۷ ماہ تبوک/ستمبر کو واپس تشریف لائے۔۴۷
حضرت مصلح موعود کیلئے رہائش گاہ کا انتظام اور مخلصین کوئٹہ کے اخلاص و ایمان کا روح پرور نظارہ
حضور نے سال ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آغاز میں ہی یہ ارشاد فرما دیا تھا کہ کوئٹہ میں ہماری رہائش کے لئے کوئی موزوں کوٹھی تلاش کی جائے۔ جماعت احمدیہ کوئٹہ نے کوٹھی کی
تلاش ک بہت کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی آخر ایک ایسی کوٹھی ملی جو مکانیت کے اعتبار سے ناکافی اور چاردیواری کے بغیر تھی۔ کوٹھی کا اندرونی حصہ بھی ناگفتہ بہ حالت میں تھا۔ فرش جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا اور بجلی کا انتظام سخت ناقص!! جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے تھے لیکن جماعت احمدیہ کوئٹہ کے مخلصین نے فیصلہ کیا کہ ہم دن رات کام کرکے اس کوٹھی کو ہر لحاظ سے درست کرکے چھوڑیں گے اور اسے حضور کی رہائش کے قابل بنادیں گے چنانچہ انہوں نے نہایت مستعدی سے کوٹھی کے گرد بھی قریباً چھ فٹ اور سات فٹ اونچی دیوار بنوائی اور کوٹھی کے اندر بھی قریباً دو سو فٹ لمبی کچی دیوار تعمیر کرائی۔ کوٹھی کی صفائی کر کے پانی اور بجلی کا انتظام بالکل درست کردیا۔ تین نئے کشادہ کمرے تعمیر کئے۔ اس تمام کام میں جماعت کے دوستوں نے خود حصہ لیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے غلاظت کے ڈھیر صاف کئے۔ اپنے ہاتھوں سے گارا بنایا اور گارے کی ٹوکریاں اٹھا ٹھا کر دیواروں کی لپائی کی۔ علاوہ ازیں تمام نئے تعمیر شدہ کمروں` دفتر کے خیموں اور نماز کے شامیانے میں بجلی کے ماہر دوستوں نے اپنے ہاتھ سے بجلی کی فٹنگ کی۔
جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام افراد نے امیر جماعت سے لے کر ایک چھوٹے سے چھوٹے فرد تک اس کام میں نہایت سرگرمی` جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لیا اور مہینوں اپنے ہاتھوں سے خاکروبوں مزدوروں اور معماروں کا کام کرکے اس کوٹھی کو جو لٹن روڈ پر واقع تھی اس قابل بنادیا کہ حضور اپنے اہل بیت اور خدام کے ساتھ اس میں فروکش ہوسکیں۔۴۸`۴۹
جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے اخلاص و محبت کا یہ ایک ایسا شاندار مظاہرہ تھا کہ اس پر خود حضرت مصلح موعود نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>اس دفعہ میں نے یہاں کے دوستو کو لکھا کہ آیا کوئٹہ میں رہائش کا بندوبست ہو جائے گا تو انہوں نے مجھے اطلاع دی کہ انتظام ہوجائے گا۔ پہلے انتظام ناقص تھا دوست کچھ اور سمجھتے تھے مگر جب وہ سمجھ گئے تو انہوں نے جگہ کا بندوبست کردیا اور نہایت قربانی کے ساتھ اس عمارت کی چار دیواری بھی بنادی۔ گویا ایک نئی بلڈنگ تیار کرکے رکھ دی۔ اس میں انہوں نے ایک نہایت عمدہ قربانی کا اظہار کیا ہے۔<۵۰4] ¶[rtf
حضور ۹۔ احسان/جون بروز بدھ لاہور سے پاکستان میل میں عازم کوئٹہ ہوئے۔ ۵۱ اسٹیشن پر حضور کو الوداع کہنے کے لئے جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے معززین موجود تھے۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دیگر افراد کے علاوہ حضرت نواب محمد دین صاحب` چوہدری اسد اللہ خاں صاحب` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے اور شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور بھی موجود تھے۔
میاں غلام محمد صاحب اختر ڈویژنل پرسنل آفیسر ریلوے لاہور ہمرکاب ہوئے اور ملتان چھائونی تک حضور کے ساتھ رہے اور سٹیشن پر حضور اور حضور کے اہل بیت کی سہولت اور آرام کا خیال رکھتے رہے۔
حضور معہ اہل بیت ساڑھے نوبجے صبح بذریعہ کار رتن باغ سے لاہور ریلوے اسٹیشن پر تشریف لائے اور ان تمام دوستوں کو حضور نے شرف مصافحہ عطا فرمایا جو حضور کی مشایعت کے لئے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے۔ گاڑی دس بجے صبح لاہور سے روانہ ہوئی راستہ میں لاہور سے روہٹری تک مندرجہ ذیل احمدی جماعتوں نے اپنی سابقہ روایات کے مطابق نہایت جوش و خروش سے اپنے مقدس آقا کا استقبال کیا۔ رائے ونڈ` پتوکی` اوکاڑہ` منٹگمری` میاں چنوں` خانیوال` ملتان چھائونی` لودھراں بہاولپور` بہاولپور سٹیشن سے رات کا سفر شروع ہوگیا جو روہٹری تک جاری رہا۔ روہٹری صبح چار بجے کے قریب گاڑی پہنچی۔ یہاں سے کوئٹہ کے لئے گاڑی تبدیل کرنا پڑتی تھی مگر حضور اور اہل بیت کے لئے چونکہ سیکنڈ کلاس کے کمپارٹمنٹ ریزرو تھے اس لئے وہ کمپارٹمنٹ پاکستان میل سے کاٹ کر کوئٹہ میل کے ساتھ لگادیئے گئے۔ روہٹری سے گاڑی چھ بجکر پچیس منٹ پر روانہ ہوئی اور بارہ بجکر پندرہ منٹ پر سبی اسٹیشن پر پہنچی۔ مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ڈی۔ ایم۔ او معہ اپنے بچوں کے حضور کے استقبال اور صبح کے ناشتہ کے انتظام کے لئے کوئٹہ سے سبی تشریف لے گئے تھے تاہم جناب ڈاکٹر صاحب نے حضور اور حضور کے اہل بیت اور خدام کے لئے ناشتہ کیا۔ سبی اسٹیش کے بعد ساڑھے تین بجے مچ اسٹیشن پر گاڑی پہنچی۔ اس اسٹیشن پر مہتہ عبدالقادر صاحب قادیانی` مہتہ عبدالخالق صاحب )چیف جیالوجیکل انجنیئر گورنمنٹ قلات`( ملک کرم الٰہی صاحب ایڈووکیٹ جماعت کوئٹہ کی طرف سے اور میرآزاد خاں صاحب اپنے بھائی سردار گوہر خاں صاح ساتک زئی سردار علاقہ کی طرف سے استقبال کے لئے حاضر تھے۔ ان کے ہمراہ ساتک زئی قبیلہ کے بعض اور افراد بھی تھے۔
ملک کرم الٰہی صاحب کھانے کے انتظام اور دیگر امور کی انجام دہی کے لئے ایک رات پہلے ہی کوئٹہ سے مچ پہنچ گئے تھے۔ حضور` حضور کے اہل بیت اور خدام کو مہتہ عبدالقادر صاحب` مہتہ عبدالخالق صاحب اور ملک کرم الٰہی صاحب ایڈووکیٹ کی طرف سے کھانا پیش کیاگیا۔ حضرت امیرالمومنین اور دیگر خدام کو ڈرائنگ روم میں اور حضور کے اہل بیت اور خادمات کو ان کے کمپارٹمنٹ میں کھانا پہنچایا گیا۔ اسی طرح پھلوں سے تواضع کی گئی۔ کھانے کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا۔ میرآزاد خاں صاحب نے بھی حضور کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کیا اور کافی دیر تک مختلف امور پر حضور سے گفتگو کرتے رہے۔ اس موقع پر سٹارنیوز ایجنسی کا نمائندہ بھی انٹرویو کے لئے مچ اسٹیشن پر موجود تھا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے نمائندہ سٹار نیوز اینجسی سے فرمایا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہوں گے میں نماز پڑھ کر اگلے اسٹیشن پر دوسرے کمرہ میں آجائوں گا وہاں آپ مجھ سے جو چاہیں دریافت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ حضور کولپور اسٹیشن پر اپنے ڈبہ سے اتر کر دوسرے ڈبہ میں آگئے اور سٹارنیو ایجنسی کے نمائندہ سے سپیزنڈ ریلوے اسٹیشن تک مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے۔ سپزنڈ ریلوے اسٹیشن پر کوئٹہ کے چند احمدی بچے حضور کے استقبال کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ اسی طرح بعض اور دوست بھی موجود تھے۔ حضور نے بچوں کو بھی ملاقات کا موقع دیا اور ان مشتاقان زیارت کو بھی جو سپیزنڈ ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے مصافحہ کا شرف عطا فرمایا۔
کوئٹہ میں آمد
سات بجے شام قریباً تینتیس گھنٹہ کے سفر کے بعد حضرت امیرالمومنین کوئٹہ وارد ہوئے۔ سٹیشن پر مقامی جماعت اور معززین شہر کا ایک جم غفیر حضور کے استقبال کے لئے موجود تھا۔ بہت سے غیراحمدی معززین بھی تشریف لائے ہوئے تھے اور باوجود اس کے کہ گاڑی چار گھنٹہ لیٹ پہنچی وہ اسٹیشن پر ہی حضور کی تشریف آوری کا انتظام کرتے رہے۔
جماعت احمدیہ کوئٹہ کے تمام افراد اپنے امیر کے حکم کے ماتحت مختلف صفوں میں کھڑے تھے۔ سب سے پہلے میاں بشیراحمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ حضور سے ملے اور پھر شہر کے معززین سے انہوں نے حضور کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد حضور نے سب دوستوں سے مصافحہ فرمایا۔ اسٹیشن زائرین سے بھرا ہوا تھا اور پولیس کے آفیسر بھی خاض طور پر مصروف انتظام تھے۔ مکرم شیرعلی صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس ریلوے اس تمام انتظام کے انچارج تھے جنہوں نے نہایت سرگرمی کے ساتھ اپنے فرائص کو اداکیا۔
مقامی جماعت نے اسٹیشن پر حضور اور حضور کے اہل بیت کے لئے کافی تعداد میں کاروں کا انتظام کیا ہوا تھا۔۵۲ حضور مصافحہ کے بعد کار میں سوار ہوکر اپنی قیام گاہ بنام >یارک ہائوس< کی طرف تشریف لے گئے۔ اس موقع پر حضرت ام المومنین اور اپنے اہل بیت کو کوٹھی تک پہنچانے کا کام حضور نے مہتہ عبدالقادر صاحب قادیانی کے سپرد فرمایا جنہوں نے والہانہ جوش کے ساتھ پر فرض ادا کیا۔ اسی طرح دیگر افراد جماعت نے بھی کمال دلچسپی` خلوص اور نظم واطاعت کی روح سے سرشار ہوکر مختلف انتظامات پایہ تکمیل تک پہنچادیئے۔۵۳
جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے مہمان نوازی
یہاں پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ کوئٹہ کے افراد نے تین دن حضور اور حضور کے اہل بیت اور خدام کی مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس بارہ میں جماعت کا حسن انتظام ہر لحاظ سے قابل تعریف تھا۔ کھاے کا انتظام کوئٹہ کی جماعت نے مہتہ عبدالقادر صاحب قادیانی کے سپرد کیا ہوا تھا جنہوں نے اپنے ساتھ مختلف سرگرم والنیٹرز شامل کرکے اس خدمت کو احسن طریق سے سرانجام دیا۔ کھانے کے علاوہ پھلوں اور مٹھائی سے بھی مختلف اوقات میں جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے تواضع کی گئی۔ اگر کوئی دوست بیمار ہوتا تو اس کے لئے خاص طور پر الگ پرہیزی کھانا تیار کیا جاتا۔ غرض تین دن جماعت احمدیہ کوئٹہ کے ہر فرد نے حضرت امیرالمومنین` خاندان مسیح موعود کی خواتین مبارکہ اور خدام وخادمات کی جو خدمت کی وہ اس روح عمل کا ایک زندہ ثبوت ہے جو جماعت احمدیہ کوئٹہ کے افراد میں پائی جاتی ہے۔۵۴
جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے مہمان نوازی
یہاں پہنچنے کے بعد جماعت احمدیہ کوئٹہ کے افراد نے تین دن حضور اور حضور کے اہل بیت اور خدام کی مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس بارہ میں جماعت کا حسن انتظام ہر لحاظ سے قابل تعریف تھا۔ کھاے کا انتظام کوئٹہ کی جماعت نے مہتہ عبدالقادر صاحب قادیانی کے سپرد کیا ہوا تھا جنہوں نے اپنے ساتھ مختلف سرگرم والنیٹرز شامل کرکے اس خدمت کو احسن طریق سے سرانجام دیا۔ کھانے کے علاوہ پھلوں اور مٹھائی سے بھی مختلف اوقات میں جماعت احمدیہ کوئٹہ کی طرف سے تواضع کی گئی۔ اگر کوئی دوست بیمار ہوتا تو اس کے لئے خاص طور پر الگ پرہیزی کھانا تیار کیا جاتا۔ غرض تین دن جماعت احمدیہ کوئٹہ کے ہر فرد نے حضرت امیرالمومنین` خاندان مسیح موعود کی خواتین مبارکہ اور خدام وخادمات کی جو خدمت کی وہ اس روح عمل کا ایک زندہ ثبوت ہے جو جماعت احمدیہ کوئٹہ کے افراد میں پائی جاتی ہے۔۵۴
لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کی ممبرات نے بھی اسی سرگرمی اور اخلاص کے ساتھ خاندان مسیح موعود کی خواتین مبارکہ کی خدمت میں حصہ لیا جس جوش اور اخلاص کے ساتھ خدام اور انصار باہر حصہ لیتے رہے ان تین دنوں میں اندرون خانہ کے تمام انتظامات کے لئے مختلف خواتین کی ڈیوٹیاں مقرر تھیں چنانچہ ممبرات بڑی سرگرمی سے اپنے فرائض کو ادا کرتی اور صبح چار بجے سے لے کر رات کے ایک ایک بجے تک مہمان نوازی کے فرائض سرانجام دیتی رہیں۔ ۵۵
جماعت کوئٹہ کے عشاق احمدیت میں سے ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب۵۶ ایک نہایت ممتاز فرد تھے جنہوں نے ۲۸۔۱۳۲۷ہش/۴۹۔۱۹۴۸ء میں جبکہ حضور کوئٹہ میں فروکش تھے نہ صرف حضور` حضور کے اہل بیت اور دیگر خدام کی مہمان نوازی کا تین روز تک اہتمام کیا بلکہ ایک رقم خطیر حضور کی خدمت میں اخراجات کوئٹہ کے سلسلہ میں بھجوائی جسے حضور نے ازراہ شفقت قبول فرمالیا۔۵۷ ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں حضور کا اور حضور کے اہل بیت کا طبی معائنہ بھی کیا۔ علاوہ ازیں دوائوں کے علاوہ بکثرت پھل بھی حقیر نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کئے۔۵۸ جس کا ذکر حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ ۹۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء میں مثالی رنگ میں کرتے ہوئے فرمایا۔
‏tav.11.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
>میں نے دیکھا ہے کہ ہم جب باہر جاتے ہیں تو کئی اپنی محبت کی وجہ سے بعض اخراجات ہم پر کرتے ہیں۔ مثلاً میں دو سال سے کوئٹہ جاتا رہا ہوں وہاں ہمارے ہی ضلع کے ایک دوست ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب ہیں۔ میں نے دونوں سال تجربہ کیا ہے کہ وہ جب کوئی چیز گھر لے جاتے تھے تو اس کی ایک ٹوکری ہمیں بھی بھیج دیتے تھے۔ مثلاً انگور نکلنے شروع ہوئے اور انہوں نے بازار سے گھر کے لئے کچھ انگور خریدے تو ایک ٹوکری زائد خرید کر وہ ہمارے لئے بھی بھیج دیں گے۔ یا خربوزے نکلے اور انہوں نے اپنے استعمال کے لئے کچھ خربوزے خریدے ہیں تو کچھ خربوزے وہ ہمیں بھی بھیج دیں گے۔ وہ چیزیں اس طرح متواتر آتی تھیں کہ ہم سمجھتے تھے کہ وہ اپنے گھر لے جارہے تھے کہ ہماری محبت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ بھیج دیا )اللہ تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے یہ خطبہ میں نے دسمبر کے شروع میں دیا لیکن چھپنے سے رہ گیا۔ آج میں اس پر نظرثانی کے کرنے لگا ہوں جبکہ ابھی ابھی عزیزم ڈاکٹر غفورالحق خاں کو دفنا کر لوٹا ہوں۔ میں اسے اتفاق نہیں کہہ سکتا یہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے جس نے آج سے مجھے اسی خطبہ پر نظرثانی کا موقعہ دیا۔ عزیز زندہ ہوتا تو اسے پڑھ کر کتنا خوش ہوتا مگر اب اس کے عزیز اسے پڑھ کر خوش ہوں گے کہ ان کے عزیز کو خدا تعالیٰ نے یہ رتبہ بخشا کہ اس کا ذکر اس محبت کے ساتھ ایک قائم رہنے والے نشان میں شامل کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ عزیز پر اپنے بہت فضل نازل فرمائے۔ میں جب عزیز کا جنازہ پڑھنے لگا تو اس میں بھی میں نے یہ دعا کی کہ اے اللہ یہ کوئی اچھی چیز خود نہ کھاتا تھا جک تک کہ ہمیں نہ کھلا لیتا تھا اب تو بھی اسے اپنی جنت کی اچھی اچھی چیزیں ہماری طرف سے کھلاتا کہ ہماری خدمت کا بدلہ اسے ملے۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ عزیز کوئٹہ سے آتے ہوئے دو بکس پھلوں کے میرے لئے اب بھی لایا تھا وہ اس کی لاش کے ساتھ لاہور سے لائے گئے اور آج صبح اس کے بھائی نے اندر بھجوائے۔ )رحم اللہ المحب المخلص وجعل مثواہ فی المخلصین من عبادہ<(۵۹
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کا مسلمانان بلوچستان سے پہلا بصیرت افروز خطاب
۱۴۔ ماہ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ساڑھے پانچ بجے شام جماعت احمدیہ کوئٹہ نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے اعزاز میں >یارک ہائوس< کے وسیع احاطہ میں ایک
پر تکلف دعوت چائے دی جس میں ایرانی قونصل` ریاست قلات کے وزیر اور بعض دیگر افسران` قبائلی لیڈر` حکومت کے ذمہ دار افسران جن میں سول اور ملٹری دونوں کے آفیسرز شامل تھے` مسلم لیگ کے عہدیدار` رئوسا وکلا` ڈاکٹر اور نمائندگان پریس ڈیڑھ سو کی تعداد میں شامل ہوئے۔ عبدالرشیدخان صاحب ریونیوو جوڈیشنل کمشنر بلوچستان` سرفلپ ایڈورڈ پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ` مسٹر مائل سشن جج` خان صاحب مرزا بشیراحمد صاحب سنیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کوئٹہ` مسٹر بلانگ سپرنٹنڈنٹ پولیس` مسٹر بیک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس` خان بہادر ملک بشیراحمد صاحب انڈرسیکرٹری` اے جی جی` خان بہادر مولوی منیراحمد صاحب وزیر قلات` سراسد اللہ خاں صاحب` نواب رائسانی` راجہ زربخت خان صاحب ڈائریکٹر آف ایگریکلچر بلوچستان` خان صاحب آغا سرور شاہ صاحب کمشنر نو آبادی` راجہ احمد خاں صاحب ڈویلپمنٹ آفیسر` نواب کرم خاں صاحب کانسی` نواب محمد خاں صاحب جوگے زئی` خان بہادر ارباب محمد عرفان صاحب` سردار بہادر میردودا خاں صاحب تمندار مری` خاں صاحب سردار گوہر خاں صاحب ساتک زئی` خان بہادر سردار سمندر خاں صاحب یاروزئی` ملک جان محمد صاحب` میرقادر بخش صاحب وائس پریذیڈنٹ پراونشل مسلم لیگ` سیٹھ فدا علی صاحب پریذیڈنٹ کوئٹہ میونسپل کمیٹی۔ میجر ڈاکٹر نواب علی صاحب قریشی سی ایم او` شیخ محمد عارف صاحب ایڈووکیٹ اور مرزا محمد احمد صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل بی خاص طور پر قابل ذکر تھے۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی تشریف آوری پر سب سے پہلے چائے نوشی ہوئی۔ چائے سے فارغ ہونے کے بعد بعض غیر احمدی معززین نے حضور سے استدعا کی کہ حضور اپنے قیمتی خیالات سے ہمیں مستفیض فرمائیں۔ اس پر حضور نے تشہدوتعوذ کے بعد فرمایا۔
>بعض احباب ے یہ خواہش ظاہر فرمائی ہے کہ میں اس موقع پر کچھ باتیں بیان کروں گو انہوں نے بتایا نہیں کہ کیا باتیں ہوں۔ انہوں نے مجھ پر چھوڑدیا ہے کہ جو باتیں میرے نزدیک مسلمانوں کے لئے مفید ہوں میں انہیں بیان کردوں۔ میں سمجھتا ہوں سب سے پہلی چیز جو مسلمانوں کے لئے یہاں بھی اور دنیا کے ہر گوشہ اور ہر ملک میں نہایت ضروری ہے اور جس کے بغیر ہماری ساری کوششیں اور دعوے اور ادعا باطل ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارا مذہب اس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ وہ ایک زندہ مذہب ہے جو قیامت تک قائم رہے گا۔ دنیا کے باقی مذاہب بھی بے شک اپنے سچے ہونے کے مدعی ہیں لیکن اسلام اور قرآن ایک ایسے مذہب کو پیش کرتا ہے جس کی تائید میں ہمیشہ خدا تعالیٰ اپنے نشانات اور قدرتوں کا اظہار کرتا ہے۔ پس ایک زندہ مذہب کا پیرو ہونے کے لحاظ سے ہمارے اپنے اندر بھی زندگی ہونی چاہئے۔ آخر خدا تعالیٰ اپنی قدرتیں رسول کریم~صل۱~ اور آپﷺ~ کے تابعین کے ذریعہ سے دنیا کو دیکھاتا رہا ہے یا نہیں؟ وہ ہمیشہ اپنی تائیدات ایسے رنگ میں دکھاتا رہا ہے کہ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ کیا کوئی ایسا سلسلہ بھی اس دنیا میں موجود تھے جس کی تائید کے سامان صرف مادی اسباب سے وابستہ نہیں بلکہ مادیات سے بالا ایک اور ہستی ان کی تائید کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کردیا کرتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰے واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ ہمارا حزب ہمیشہ غالب رہے گا۔
حزب الٰہی کے غلبہ کے اگر یہی معنے ہوں کہ ان کے پاس توپیں زیادہ ہوں گی تو وہ جیت جائیں گے آدمی زیادہ ہوں گے تو وہ جیت جائیں گے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں رہتی ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ہمارا حزب ہمیشہ غالب رہے گا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ خواہ ان کے پاس سامان کم ہوں گے تب بھی وہ ہماری تائید سے جیت جائیں گے۔ جیسے رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بدر اور احد کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ مسلمانوں کی تائید کے لئے نازل کئے` کفار کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور مسلمانوں کے ہاتھ ایسے مضبوط کردیئے کہ وہ زبردست طاقت اور زیادہ تعداد رکھنے والے دشمن پر غالب آگئے لیکن خدا تعالیٰ کے نشانات کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اس قابل ہوں کہ خدا ہماری تائید میں نشانات ظاہر کرے۔ پس سب سے پہلی چیز جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہر مسلمان کے اندر پائی جانی چاہئے یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں اپنی نگاہ آج سے تیرہ سو سال پیچھے لے جانی چاہئے۔ اگر ہم اپنے گردو پیش کو دیکھ کر اور یہ اندازہ لگاکر کہ دنیا کی باقی قومیں کس طرح ترقی کررہی ہیں خود بھی انہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تو ہمیں اپنے مقصد میں ہرگز کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے وہ وعدے کئے ہیں جو دوسری قوموں سے نہیں کئے۔ اور جب مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کے ایسے وعدے ہیں جو دوسری قوموں سے نہیں تو لازماً ہمیں ایسے حالات پیدا کرنے پڑیں گے جن میں دوسری قومیں ہم سے مشترک نہ رہیں۔ اور اس کی یہی صورت ہے کہ ہمارے آقا اور سردار حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ جو تعلیم لائے تھے اس پر ہم عمل کرنے کی کوشش کریں۔ جس رنگ میں وہ ہمیں رنگین کرنا چاہتے تھے وہ رنگ ہم اپے اندر پیدا کریں اور جو باتیں اسلام کے خلاف ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مغرب کا اچھا شاگرد بنانے کی کوشس کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا یہ وعدہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ مغرب کے اچھے شاگردوں کی مدد کرے گا قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ اگر تم چاہتے ہو کر خدا تم سے محبت کرے تو تم محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نقش قدم پر چلو۔ جب چلو گے تو یحببکم اللہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا۔ پس الٰہی تائید اور نصرت اسی صورت میں آسکتی ہے جب مسلمان محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کی بعض چیزیں ایسی ہیں جو موجودہ زمانہ کے لوگوں کو پسند نہیں۔ لیکن ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کے خوش یا ناخوش ہونے کا سوال ہے۔ لازماً اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو خواہ لوگ ہم سے ناراض ہوں خواہ وہ ہمیں اپنے نقطہ نگاہ سے بدتہذیب قرار دیں ہمارا فرض یہی ہوگا کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تعلیم پر عمل کریں اور اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا صحیح نمونہ بنائیں۔<
سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا۔
>آج کل عام طور پر لوگوں میں یہ چرچا پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہونا چاہئے مگر میری سمجھ میں یہ مسئلہ کبھی نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی آئین میرے لئے ہے یا نہیں؟ جب اسلامی آئین ہر مسلمان فرد کے لئے ہے تو مسلمان افراد اسلامی آئین پر خود عمل کیوں نہیں کرتے؟ کیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ نماز نہ پڑھو یاکیا پاکستان میں کوئی ایسا قانون ہے کہ اور اسلامی احکام پر عمل نہ کرو۔ جب نہیں تو مسلمان اگر سچے دل سے اسلامی آئین کے نفاذ کے خواہش مند ہیں تو وہ نمازیں کیوں نہیں پڑھتے وہ اسلامی احکام پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایسے قانون نہیں بنائے جن کی وجہ سے ہر شخص کو نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاسکے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ایسا قانون پاکستان نے نہیں بنایا تو کیا پاکستان کا کوئی قانون شراب پینے پر مجبور کرتا ہے یا ناچنے گانے پر مجبور کرتا ہے۔ یا کوئی قانون یہ کہتا ہے کہ تم نماز نہ پڑھو اگر پڑھو گے تو چھ ماہ قید کی سزا دے دی جائے گی۔ جب پاکستان میں اس قسم کا بھی کوئی قانون نہیں تو اگر ہم واقعہ میں مسلمان ہیں تو ہمیں محمد رسول اللہ~صل۱~ کے بنائے ہوئے قانون پر خود بخور عمل شروع کردینا چاہئے۔ کیا محمد رسول اللہ~صل۱~ کے مقرر کردہ قانون سے پاکستان کا قانون زیادہ موثر ہوگا۔ اگر محمد رسول اللہ~صل۱~ کے قانون پر عمل کرتے ہوئے آج سارے مسلمان نمازیں پڑھنے لگ جائیں۔ ساری ویران مساجد آباد ہوجائیں تو کونسی گورنمنٹ انہیں اس سے روک سکتی ہے؟ پس بجائے اس کے کہ لوگ یہ مطالبہ کریں کہ پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہونا چاہئے ان کو اسلامی آئین خود اپنے نفوس میں جاری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میرا یقین ہے کہ برسراقتدار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب مسلمان آئین اسلام کا مطالبہ کرتے ہیں تو آئین اسلام کے نفاذ کا مطالبہ محض وزارتوں کی تبدیلی کے لئے ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وزارتوں کے ہم حقدار ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے بہتر طریق لوگوں میں کسی وزارت کے خلاف جوش پھیلانے کا یہی ہے کہ شور مچادیا جائے کہ وزراء آئین اسلام جاری نہیں کرتے ورنہ وہ خود بھی وہی کچھ کریں جو آج کل کیا کررہا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جو حکومت کے اختیار میں ہیں ہمارے اختیار میں نہیں مگر اس بارہ میں بھی حکومت کی طرف سے کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھایا جاتا کہ وزراء اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا مطالبہ کرنے والے خود سنجیدہ نہیں۔ اگر سنجیدہ ہوتے تو اپنے گھروں میں اسلامی آئین پر کیوں عمل نہ کرتے؟ غرض ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں اور قرآن کریم کے ہر حکم پر عمل کریں۔ رسول کریم~صل۱~ نے مردو عورت کے اختلاط کو منع کیا ہے مگر سینما جب تک مرد اور عورت اکٹھے نہ ہوں لیکن اگر سینما کے خلاف ہی آواز اٹھائی جائے تو آئین اسلام کے نفاذ کا شور مچانے والے سب سے پہلے اس کی مخالفت پر اتر آئیں۔ پس ضروری ہے کہ ہم پہلے افراد کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کریں۔ کچی اینٹوں سے جو عمارت تعمیر کی جائے وہ کبھی پکی نہیں ہو سکتی۔ وہ عمارت ٹکڑے ٹکڑے ہوگی تب بھی کچی ہوگی مکمل ہوگی تب بھی کچی ہوگی اسی طرح جب تک افراد سچے مسلمان نہیں بن جاتے کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ کچی اینٹوں کی عمارت پکی عمارت نہیں کہلا سکتی جیسی اینٹ ہوگی ویسی ہی عمارت ہوگی۔<
اس کے بعد حضور نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت بیان فرمائی اور بتایا کہ ہر مسلمان کو اس بارہ میں اپنے فرائض سمجھنے چاہئیں اور جس حد تک ہوسکے مجاہدین کشمیر کی مدد کرنی چاہئے۔
آخر میں حضور نے فرمایا۔
>آج مسلمانوں پر جو نازک دور آیا ہوا ہے اس میں ان کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ آپس کے اختلافات کو بھول کر متحد ہوجائیں۔ اس وقت پاکستان ایسے حالات میں سے گزررہا ہے کہ ہم کو اپنے تمام اختلافات کو بھلا کر دشمن پر یہ واضح کردینا چاہئے کہ اگر پاکستان کی طرف اس نے نظر اٹھائی تو ہمارا ہر مرد` ہر عورت` ہر بچہ اور ہر بوڑھا اپنے آپ کو قربان کردے گا مگر وہ اس آزادی کو کھولنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوگا۔ اگر دنیا پر ہم اپنے اس عزم کو ثابت کردیں تو میرے نزدیک نوئے فیصدی اس بات کا امکان ہے کہ دشمن پاکستان پر حملہ کرنے کی اگر خواہش بھی رکھتا ہے تو نہیں کرے گا۔ مسلمانوں میں اور کئی کمزوریاں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ مسلمان ابھی جان دینے سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا بعض دوسری قومیں ڈرتی ہیں۔ اور یہ سیدھی بات ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوں کی قوم مرنے کے لئے تیار ہوجائے تو اس قوم کو کوئی مار نہیں سکتا۔ اگر مسلمان بحیثیت قوم یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم مرجائیں گے تو یقیناً انہیں مارنے کی کوئی قوم طاقت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر ساری قوم مرنے کے لئے تیار نہیں ہوگی تو وہ ضرور مریں گے۔ جب سکھ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو ماررہے تھے تو میں مسلمانوں سے بار بار کہتا تھا کہ یہاں سے مت بھاگو۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ ظالم سے ظالم قوم بھی کبھی اپنے مظالم میں انتہاء تک نہیں پہنچتی ضرور اس کا قدم رک جاتا ہے مگر میری بات کسی نے نہ سنی۔ اب بھی میں کہتا ہوں کہ اگر چار پانچ کروڑ مسلمان مرنے کے لئے تیار ہوجائے تو دشمن ہتھیار پھینک دے گا اور اسے اپنے بدارادوں کو ترک کرنا پڑے گا۔ اگر ہم واقعہ میں آزادی کی قدروقیمت کو سمجھتے ہیں تو آزادی کی چھوٹی سے چھوٹی قیمت جان کی قربانی ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جان دنیا سب سے بڑی قربانی ہے جان دنیا سب سے بڑی نہیں بلکہ سب سے چھوٹی قربانی ہے۔ اگر مسلمان جان دینے کے لئے تیار ہوجائیں تو میں یقین رکھتا ہوں۔ اور میرا یقین ایک طرف تاریخ پر مبنی ہے جس کا میں نے کافی مطالعہ کیا ہوا ہے اور دوسری طرف قرآن پر مبنی ہے جو میرا خاص مضمون ہے اور اس لحاظ سے اس میں ۱۰۰۰/۱ غلطی کا بھی امکان نہیں کہ اگر مسلمان واقعہ میں مرنے کے لئے تیار ہوجائیں تو میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان ایک دائمی حکومت بن جائے گا مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے افراد اپنی اولادوں کے لئے ایک لمبا اور شاندار مستقبل قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ بھاگے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ اب ان کے لئے دو ہی صورتیں ہیں یا تو دشمن سے لڑکر عزت کی موت مریں یا کراچی کے سمندر میں غرق ہوکر ذلت اور *** کی موت مریں۔ دنیا میں کون انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے کسی کو پتہ ہے کہ اس کی کتنی زندگی ہے۔ جب شام کو ایک شخص ہیضہ سے مرسکتا ہے` جب ہمارے باپ دادا مرتے چلے آئے اور جب ہم نے بھی ایک دن مرنا ہے تو اگر ہم عزت کی موت مرنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بہادری سے اپنی جان دینے کے لئے تیار رہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے اور اگر اس ارادہ اور نیت سے ہم اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے کہ ہندوستان میں یہ آخری جگہ ہے جہاں محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا قائم ہے اسے ہم سرنگوں نہیں ہونے دیں گے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہمارا خدا یہ بے غیرتی دکھائے کہ وہ ہمیں تباہ کردے اور مسلمانوں کو دشمن کے ہاتھوں بالکل مٹنے دے۔<۶۰
حضور کی یہ ایمان افروز تقریر قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہی۔ یہ تمام تقریر جو نہایت اہم نکات اور بیش قیمت نصائح پر مشتمل تھی تمام معززین نے انتہائی دلچسپی` پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ سنی اور وہ حضور کے قیمتی خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور تقریر کے بعد سب معزز مہمانوں نے حضور سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور حضور بھی ان سے ازراہ شفقت دیر تک گفتگو فرماتے رہے۔
بلوچستان پریس میں ذکر
بلوچستان پریس نے حضور انور کے اس پر اثر خطاب میں بہت دلچسپی لی اور نمایاں صورت میں اس کی خبر شائع کی۔ چنانچہ کوئٹہ کے اخبار >میزان< نے ۱۴۔ جون ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں لکھا۔
>کوئٹہ ۱۴۔ جون آج شام کے اڑھائی بجے احمدیہ جماعت کے امام مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے کوئٹہ کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کی طرف سے دعوت عصرانہ کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے تین اہم نکات بیان کئے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام کو دل میں جگہ دو اور دل سے مسلمان بنو اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی اتباع کیجئے۔ آپ نے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی کی آیت پر شریفہ پیش کی۔ آپ نے کہا جو لوگ حکومت پاکستان سے آئین اسلامی کا مطالبہ کررہے ہیں وہ دراصل وزارت میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے نماز` روزہ` حج` زکٰوہ سے کیا منع کیا ہے اور کب شراب خوری` چوری اور بدکاری کی تعلیم دی ہے؟
آپ نے دوسرا اہم نکتہ محاذ کشمیر کو مضبوط تر بنانے سے متعلق پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ اگر کشمیر نہیں تو پاکستان نہیں۔ یہاں سے دلی خلوص اور اخوت کے جذبہ سے کشمیر کی آزاد فوجوں کی امداد کرنا بہت ضروری ہے اس کام کو بہت وسیع پیمانہ پر کیا جائے۔ ہر مسلمان ممکن طریق سے زیادہ امداد دے۔
تیسرا نکتہ آپ نے یہ بیان کیا کہ جو قوم مرنے سے نہیں ڈرتی وہ کبھی مرا نہیں کرتی ذلیل زندگی سے عزت کی موت ہزار درجہ بہتر ہے۔ آج پاکستان کے ہر مسلمان کو یہ تہیہ کر لینا چاہئے کہ شاندار عزت سے آزاد زندگی بسر کریں۔ آپ نے باہمی اختلافات کو ہر مرحلہ پر ختم کرنے کی نصیحت کی اور بہت چیدہ مثالیں دے کر واضح کیا۔ دعوت چائے میں سول حکام اعلیٰ` بلوچستان بھر کے چوٹی کے نواب` سردار` ملک` معتبرین اور اخبار نویس شامل تھے۔
پنجاب پریس میں خبر
پنجاب کے اخبارات میں سے >انقلاب< نے حسب ذیل الفاظ میں اس تقریر کا ملخص دیا۔
>نفاذ شریعت پر زور نہ دو<
اچھے مسلمان بنو مرزا محمود کی تقریر
کوئٹہ ۔۔۔ سٹار ۔۔۔ ۱۷۔ جون۔ کوئٹہ میں ایک جلسہ میں جس میں ایرانی قونصل ایم کاظمی` نواب محمد علی خاں جو گازئی ممبر پاکستان دستور ساز اسمبلی اور بلوچستان کے ریونیو کمشنر مسٹر اے۔ آر۔ خاں بھی موجود تھے احمدیہ فرقہ کے لیڈر مرزا بشیرالدین محمود احمد نے پاکستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں فوری طور پر شریعت کے نفاذ کے لئے تحریک نہ کرنے کی ہدایت کی۔ مرزا بشیرالدین نے کہا >اگر وہ اس کے بجائے اچھے مسلمان بننے کی کوشش کریں تو بہتر ہوگا اور ہمارے مذہب کا مقصد پورا ہوگا۔ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر غیر دوستانہ ہاتھوں میں پڑگیا تو پاکستان کے خود مختار آزادانہ وجود کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا۔
آخر میں انہوں نے بلوچستان کے باشندوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ کشمیری بھائیوں کے سلسلہ میں اپنا فرض ادا کریں۔ کشمیر کی مدد کرنے کا مطلب خود اپنی مدد کرنا ہے اور وہ ایسا کرکے آنے والی نسلوں کو غلامانہ زندگی کی *** سے بچالیں گے۔<۶۲
>پاکستان کا مستقبل< کے موضوع پر ایمان افروز تقریر
حضرت سیدنا المصلح الموعود نے یہاں دوسرا پبلک لیکچر ۴۔ وفا/جولائی کو شہر کے ٹائون ہال میں دیا جس کے پہلے حصہ میں حضور نے نہایت وضاحت سے بتایا کہ پاکستان ایک اینٹ ہے اس اسلامی عمارت کی جسے ہم نے دنیا میں قائم کرنا ہے۔ اور آخری حصہ میں مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی قومی اور انفرادی زندگی میں صرف اسلام کو اپنا دستور العمل بنائیں۔ چنانچہ حضور نے سلسلہ تقریر شروع کرتے ہوئے فرمایا سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی چیز کا حصول ایک علیحدہ امر ہے اور اس چیز کے حاصل کے ہوجانے کے بعد اسے قائم رکھنا بالکل علیحدہ بات ہے۔ ایسے واقعات تو دنیا میں کثرت کے ساتھ مل جائیں گے کہ کسی شخص کو کوئی چیز آپ ہی آپ مل گئی ہو مگر اس مر کی کوئی ایک مثال بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی چیز آپ ہی آپ قائم رہی ہو۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی پر مہربان ہوکر اسے مکان دیدے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کہیں سے روپوئوں کی تھیلی مل جائے یا اسے نوٹوں کا بنڈل کسی جگہ سے مل جائے۔ مگر یہ مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آئے گی کہ کوئی شخص اپنے مکان کی مرمت کا خیال تک نہ کرے اور اس کی صفاء کی طرف توجہ نہ کرے اور اتفاقی طور پر وہ مکان آپ ہی آپ صحیح اور درست حالت میں چلتا چلا جائے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو اتفاقی طور پر روپوئوں کی کوئی تھیلی مل جائے مگر یہ ممکن نہیں کہ اتفاقی طور پر وہ آپ ہی آپ خرچ ہوتی رہے۔ اسی طرح زمین آپ ہی آپ مل سکتی ہے۔ جائیداد آپ ہی آپ مل سکتی ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ زمین اور جائیداد بغیر ہماری توجہ کے آپ ہی آپ قائم رہے۔ یہی حال پاکستان کا ہے۔ پاکستان کا حصول اور پاکستان کے قیام کا سول دونو علیحدہ علیحدہ امر ہیں۔ میں سمجھتا ہوں وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کے حصول کے لئے قربانیاں کی تھیں وہ بھی یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ پاکستان اتنی جلدی اور ایسی صورت میں مل جائے گا۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ ایک گروہ نے اس غرض کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کی ہیں اور بہت بڑی مشکلات کا اسے سامنا کرنا پڑا ہے مگر ہم اس امر سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ جس رنگ میں پاکستان ملا ہے اس میں صرف انسانی کوششوں کا دخل نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جس نے ان کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا۔
اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیسا ہو؟ اگر کسی کو کوئی اچھی عمارت مل جائے اور وہ اسے اپنی عدم توجہ سے بگاڑ دے تو دنیا اسے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی بلکہ اگر اس عمارت کو وہ اسی حالت میں رہنے دے جس حالت میں وہ عمارت اسے مل تھی تب بھی وہ تعریف کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ تعریف کے قابل وہ تب سمجھا جاتا ہے جب وہ اسے پہلے سے بہت اچھی حالت میں چھوڑ جائے۔ پس ہمیں اس سوال پر غور کرتے ہوئے کہ پاکستان کا مستقبل کس طرح اچھا بنایا جاسکتا ہے یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اصل مقابلہ اسی وقت شروع ہوتا ہے۔ جب کوئی چیز حاصل ہوتی ہے۔ ¶اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں یہ سکیم بنائے کہ میں اس اس طرح تجارت کروں گا اور میرے پاس لاکھوں روپیہ جمع ہوجائے گا تو محض شیخ چلی جیسے خیالات پیدا ہونے کی وجہ سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کردیں گے لیکن اگر وہ اپنی سکیموں میں کامیاب ہوجائے تو اس کے بعد بے شک اسے خطرہ پیدا ہوگا کہ کہیں ڈاکو میرے گھر کو نہ لوٹ لیں۔ پاکستان کا بھی جب تک قیام نہیں ہوا تھا اس کی مخالفت کا صحیح طور پر جذبہ پاکستان کے مخالفوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ جس طرح کسی شخص کے گھر پر ڈاکہ ڈالنے کا خیال لوگوں کو نہیں آسکتا جس ے ابھی تک اپنی کسی سکیم کو چلایا ہی نہ ہو۔ جب تک پاکستان قائم نہیں ہوا تھا دشمن سمجھتا تھا کہ پاکستان کا خیال مجنونوں کی ایک بڑ ہے۔ اور گو ایک حصہ مخالفت بھی کرتا تھا۔ مگر بعض لوگ اس وجہ سے مخالفت نہیں کرتے تھے لیکن جب پاکستان وجود میں آگیا تو جو اس کے مخالف تھے وہ پاکستان کے قیام میں اپنی سکیموں کی تباہی دیکھ رہے تھے ان کی مخالفت کا جذبہ بھڑک اٹھا اور انہوں نے سمجھا کہ اب ہمیں اس کو مٹانے کو پوری کوشش کرنی چاہئے۔
لیکن جہاں ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کسی چیز کے حصول کے بعد مخالفت بڑھ جاتی ہے وہاں دوسری طرف ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ جب کوئی چیز مل جاتی ہے تو بسااوقات اس چیز کو حاصل کرنے والے کے دل سے اس کی عظمت مٹ جاتی ہے اور وہ اس چیز کو کھو بیٹھتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے سر توڑ کوششیں کیں مگر جب مقصد حاصل ہوگیا تو مطمئن ہوکر بیٹھ گئے اور اس طرح وہ چیز جس کے حصول کے لئے انہوں نے سالہا سال قربانیاں کی تھیں اسے اپنی غفلت سے ضائع کر بیٹھے۔
آج سے تیس سال پہلے جب بلقان کی ریاستوں اور ٹرکی کی آپس میں جنگ ہوئی تو بلقانی ریاستیں جیت گئیں اور ٹرکی شکست کھاگیا۔ مگر جب اسے شکست ہوگئی تو بلقانی ریاستوں میں مال بانٹنے پر آپس میں لڑائی شروع ہوگئی اور وہی لوگ جو پہلے متحدہ ہوکر ٹرکی کے مقابلہ میں صف آراء تھے آپس میں لڑنے لگ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں کئی علاقے ٹرکی کو واپس کرنے پڑے۔ غرض دنیا میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں کہ جب تک جنگ جاری رہی لوگ قربانی کرتے رہے مگر جب کامیابی ہوگئی۔ تو انہوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا اور وہ اتحاد و یکجہتی سے رہنے کی بجائے متفرق ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ جو چیز آچکی تھی وہ بھی ان کے ہاتھوں سے جاتی رہی۔
اصل بات یہ ہے کہ جب تک خطرہ سامنے ہوتا ہے لوگوں کے دلوں میں بہت جوش ہوتا ہے لیکن جب خطرہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو وہ مطمئن ہوجاتے ہیں حالانکہ خطرہ بدستور موجود ہوتا ہے۔ بیمار کی حالت جب تک خراب ہوتی ہے تیماردار بھی اور ڈاکٹر بھی بڑی توجہ سے علاج کرتے رہتے ہیں لیکن بسااوقات جب بیمار کی طبیعت سنبھالا لیتی ہے تو ڈاکٹر بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اسے آرام آرہا ہے اور تیماردار بھی اس خیال سے کہ اب تو اسے افاقہ ہے ادھر ادھر چلے جاتے ہیں۔ یا تھکے ہوئے ہوں تو لیٹ جاتے ہیں مگر اس دوران میں مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو خطرات ان کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں اورہ وہ سستی اور غفلت کا شکار ہوجاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن ہوشیار ہوکر فائدہ اٹھالیتا ہے۔
پاکستان کی حالت بھی اس وقت ایسی ہی ہے۔ پاکستان نام ہے اس ملک کے ایک ٹکڑے کا جسے پہلے ہندوستان کہا جاتا تھا۔۔۔ جس ملک کا یہ ٹکڑا ہے وہ ملک زندہ ہے۔ اگر سارے ملک کا نام پاکستان ہوتا تو خطرہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگر اب تین چوتھائی سے زیادہ حصہ زندہ موجود ہے اور ۴/۱ کو کاٹ کر الگ کردیا گیا ہے۔ پس پاکستان کے قیام سے خطرات دور نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ہمارا ہمسایہ سمجھتا ہے کہ اسے پاکستان کے قیام سے سخت نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلہ میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے تھے انہوں نے مسلمانوں میں جذبہ انتقام اتنا شدید طور پر پیدا کردیا ہے کہ اب مسلمانوں کی طاقت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ درحقیقت دنیا میں دو ہی چیزیں طاقت اور قوت کو بڑھاتی ہیں۔ جذبہ محبت یا جذبہ انتقام۔ مائیں جذبہ محبت کی وجہ سے بعض دفعہ ایسے ایسے کا کرجاتی ہیں جو عام حالات میں بالکل ناممکن نظر آتے ہیں۔ اس طرح جب کسی کو شدید صدمہ پہنچتا ہے تب بھی اس کے انتقام کا جذبہ تیز ہوجاتا ہے اسی وجہ سے محبت اور انتقام کے جذبہ کو جنون کہتے ہیں کیونکہ جنون کی حالت میں مجنوں کی طاقتیں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں جب بدر کی جنگ ہوئی تو مسلمانوں کی طرف سے صرف تین سو تیرہ آدمی اس جنگ میں شریک تھے اور وہ بھی بالکل بے سرو سامان اور ناتجربہ کار۔ لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور وہ سارے کا سارا تجربہ کار آدمیوں پر مشتمل تھا۔ ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ ابوجہل نے ایک عرب سردار کو بھجوایا اور اسے کہا کہ تم یہ اندازہ کرکے آئو کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟ وہ واپس گیا تو اس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سوا اور تین سو پچیس کے قریب ہے۔ ابوجہل اس پر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا ہم نے تو میدان مار لیا اس نے کہا اے میری قوم بے شک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو کیونکہ اے میری قوم میں نے اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں یعنی میں نے جس شخص کو بھی دیکھا اس کا چہرہ بتارہا تھا کہ آج میں نے مرجانا ہے یا ماردینا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی جذبہ ان کے دلوں میں نہیں پایا جاتا۔ گویا اس جذبہ انتقام نے مسلمانوں کو ایسی طاقت دے دی کہ ایک شدید ترین دشمن اسلام نے بھی ان کے چہروں سے پڑھ لیا کہ اب وہ اس میدان سے واپس نہیں لوٹیں گے سوائے اس کے کہ وہ کامیابی حاصل کرلیں یا اسی جگہ لڑتے ہوئے جان دے دیں۔ جب یہ جذبات کسی قوم میں پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ اسے عام سطح سے بہت اونچا کردیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کچھ اور باتیں بھی ہیں جن کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ انتقام کا جذبہ صرف نقصان پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ احساس نقصان پر مبنی ہوتا ہے۔
ایک شخص کے اگر دس روپے کوئی شخص چرا کر لے جائے اور اسے محسوس بھی نہ ہو تو اس کے اندر کوئی جذبہ انتقام پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن دوسرے شخص کا اگر صرف ایک روپیہ کوئی شخص چرا لیتا ہے اور اسے اس کی چوری کا احساس ہوتا ہے تو اس کے اندر یقیناً جذبہ انتقام پیدا ہوجائے گا۔ پس جذبات حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ احساس حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ اگر ہم کو شدید سے شدید نقصان بھی پہنچا ہے لیکن ہمیں اس نقصان کا احساس نہیں تو محض نقصان اس بات کی دلیل نہیں ہوگا کہ ہمارے اندر جذبہ انتقام پیدا ہوگیا ہے۔ یہی حال محبت کا ہے وہ بھی احساس پر مبنی ہوتی ہے۔ ایک جشی کو اپنا کالا کلوٹا بچہ ہی خوبصورت نظر آتا ہے حالانکہ دوسرے کی نگاہ میں وہ بدصورت ہوتا ہے۔ غرض انتقام کا جذبہ یا محبت کا جذبہ دونوں احساس پر مبنی ہوتے ہیں۔ جتنے احساسات تیز ہوں اتنا ہی جذبہ بڑھا ہوا ہوتا ہے اور جتنے احساسات کم ہوں اتنا ہی اس جذبہ کا فقدان ہوتا ہے۔ پس ہمیں صرف اپنے نقصان کا ہی نہیں بلکہ احساس نقصان کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ اسی طرح ہمیں دوسرے فریق کے نقصان اور اس کے احساس نقصان کا بھی جائز لینا پڑے گا۔ اگر اس کے بغیر ہم کوئی فیصلہ کرلیتے ہیں تو درحقیقت وہ صحیح فیصلہ نہیں کہلا سکتا دوسری چیز جو پاکستان کے مستقبل کے متعلق ہمیں ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل محض اسلام کو اپنی عملی زندگی میں داخل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس بناء پر کیا تھا کہ ہماری تہذیب الگ ہے اور ہندو تہذیب الگ۔ جب مسلمانوں نے یہ مطالبہ کیا اس وقت پنڈت جواہرلال صاحب نہرو نے ایک مضمون لکھا تھا کہ بتائو تمہاری کونسی تہذیب ہے جو ہندوستانی تہذیب سے الگ ہے؟ ہم اس وقت کہہ سکتے تھے کہ یہ چیز عمل سے تعلق رکھتی ہے عمل کا موقع آئے گا تو ہم تمہیں بتائیں گے کہ ہماری تہذیب کونسی ہے مگر اب جبکہ ہمیں اس تہذیب کو قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے پنڈت نہرو اور ان کے ساتھ اگر ہم سے یہ سوال کریں کہ وہ کونسی تہذیب ہے جس کے لئے تم نے پاکستان مانگا تھا تو یقیناً وہ اپنے اس مطالبہ میں حق بجانب ہوں گے یہ ظاہر ہے کہ جس تہذیب کے بچانے کا ہم دعویٰ کررہے تھے وہ ایرانی نہیں تھی نہ وہ پٹھانی` بلوچی` سندھی` پنجابی یا بنگالی تہذیب تھی کیونکہ نہ ہم سارے ایرانی تھے نہ ہم سارے پٹھان تھے نہ ہم سارے بلوچی تھے نہ ہم سارے سندھی تھے نہ ہم سارے پنجابی تھے اور نہ ہم سارے بنگالی تھے پھر وہ کیا چیز تھی جس کے لئے ہم سب لڑرہے تھے؟ یقیناً اسلام ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہم سب میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور اسلامی تہذیب ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے قیام کا ہم میں سے ہر شخص خواہش مند تھا۔ اسی تہذیب کے قیام کے لئے ہم نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا اب جبکہ علیحدگی ہوچکی ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے وہ غرض پوری کرلی ہے جس کے لئے ہم نے علیحدہ طلب کی تھی؟ اگر ہم نے اس غرض کو پورا نہیں کیا تو دنیا ہمیں کہے گی کہ تم نے غلط دعویٰ کیا تھا درحقیقت تم الگ ذاتی حکومت چاہتے تھے مگر ناواقف لوگوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے تم نے اسلامی تہذیب کے نام سے شورمچادیا۔ مختصر لفظوں میں میں یوں سمجھتا ہوں کہ ہماری لڑائی اس لئے نہیں تھی کہ ہم اپنے لئے گھر مانگتے تھے بلکہ ہماری لڑائی اس لئے تھی کہ اس ملک میں ہمارے آقا اور سردار حضرت محمد رسول اللہ~صل۱~ کا گھر نہیں تھا ہم ایک زمین چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہ~صل۱~ کی زمین کہا جاسکے۔ ہم ایک ملک چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہ~صل۱~ کا ملک کہا جاسکے۔ ہم ایک حکومت چاہتے تھے جسے محمد رسول اللہﷺ~ کی حکومت کہا جاسکے۔
اور یہی اصل محرک پاکستان کے مطالبہ کا تھا۔ پس انفرادی اور قومی زندگی میں اسلام کو داخل کرنا ہمارا سب سے پہلا اور اہم فرض ہے ۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو یقیناً ہم اپنے دعویٰ میں سچے نہیں سمجھے جاسکتے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بات بھی کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کو قائم کرنا ہے اور ساری دنیا میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کا جھنڈا بلند کرنا ہے۔ پس پاکستان اس منزل کے حصول کے لئے یقیناً ایک قدم تو ہے مگر بہرحال وہ ایک اینٹ ہے اس عمارت کی جو ہم نے ساری دنیا میں قائم کرنی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عظیم الشان مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جس قدر بھی قربانیاں کرسکیں ان سے کبھی دریغ نہ کریں۔<۶۳
اوڑک کا تفریحی سفر
ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب نے ماہ وفا/جولائی کے ابتداء میں حضرت امیر المومنین المصلح الموعود کی خدمت میں اوڑک تشریف لے جانے کی استدعا کی۔ اوڑک کوئٹہ سے چودہ میل کے فاصلہ پر ایک خوشگوار پہاڑی مقام ہے جہاں ایک چشمہ واقع ہے۔ چشمہ کے نیچے واٹر ورکس ہے اور اسی واٹر ورکس سے کوئٹہ کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حضور نے ان کی درخواست منظور فرمالی اور ۶۔ جولائی کو اپنے اہل بیت اور خدام کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس موقع پر پانچ کاروں اور دو بسوں کا انتظام کیا ہوا تھا۔
حضور ۱۰ بجے صبح روانہ ہوکر پہلے ہنالیک دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہ کوئٹہ سے قریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ حضور اس مقام کے نظارہ سے بہت محفوظ ہوئے۔
ہنالیک پر قریباً نصف گھنٹہ قیام فرمانے کے بعد حضور معہ قافلہ اوڑک پہنچے۔ اوڑک میں ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی خان ضیاء الحق صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر افراد انتظامی امور میں حصہ لینے اور حضور کی پیشوائی کے لئے پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔ حضور کے اہل بیت کے لئے نزدیک ہی سرکاری بنگلہ میں خاطر خواہ انتظام تھا۔ کھانا تیار ہونے تک حضور مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے۔ نماز ظہر پڑھانے کے بعد حضور نے خدام کے ہمراہ کھانا تناول فرمایا۔ بعد میں بعض احمدی نوجوانوں نے نشانہ بازی کی مشق کی اور حضور کے علاوہ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے نے بھی اس میں حصہ لیا۔
ازاں بعد حضور نے عصر کی نماز پڑھائی اور پھر معہ اہل بیت و خدام واٹرورکس دیکھنے تشریف لے گئے اور قریباً ساڑھے چھ بجے شام واپس کوئٹہ تشریف لے آئے۔۶۴
حضرت امیرالمومنین کے پرشوکت خطبات جمعہ وعید` حقیقت افروز تربیتی تقریریں ومجالس علم وعرفان اور روح پرور درس القرآن
حضرت امیرالمومنین خلفیہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی کوئٹہ میں تشریف آوری سے بلوچستان کی دینی و مذہبی تاریخ میں ایک نئے بات کا اضافہ ہوا جس سے صوبہ بلوچستان کے لئے عموماً اور
کوئٹہ کی جماعت کے لئے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوارو برکات کا ایک عظیم الشان دروازہ کھل گیا اور سنگلاخ اور پتھریلی زمین میں علوم ظاہری وباطنی کے شاہسوار کی بدولت حق و حکمت کے روحانی چشمے جاری ہوگئے۔
حضرت مصلح موعود نے مقامی جماعت کو اپنے کلمات طیبات سے مستفید فرمانے کے لئے نہ صرف احمدی دوستوں کو بکثرت انفرادی ملاقاتوں کے مواقع عطا فرمائے اور شرف بار یابی بخشا بلکہ اجتماعی طور پر مندرجہ ذیل چار ذرائع بھی اختیار کئے۔ ۱۔ خطبات جمعہ اور عید ۲۔ تربیتی اجلاسوں میں تقاریر ۳۔ مجالس علم و عرفان کا انعقاد ۴۔ درس القرآن۔
خطاب جمعہ-: سیدنا حضرت مصلح موعود نے کوئٹہ میں متعدد خطبات ارشاد فرمایا۔ ان خطبات میں جو اپنے اندر روح القدس کی تائید کا ایک خاص رنگ لئے ہوئے تھے حضور پر نور نے متعدد تربیتی و تنظیمی مسائل بیان فرمائے اور بے شمار نکات معرفت پر روشنی ڈالی۔ بطور نمونہ اس دور کے بعض خطبات کے چند اقتباسات درج کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
۱۔ >ہماری جماعت کا سب سے پہلا فرض اپنے نفس کی اصلاح ہے اور نفس کی اصلاح کے بعد خدمت خلق ہے جس میں سے مقدم چیز تبلیغ ہے۔ بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ ایک طرف تو ہم یہ دعویٰ کریں کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہوگی اور دوسری طرف دنیا کو فتح کرنے کا جو ایک ہی ذریعہ ہے یعنی اسلام اور احمدیت کی تبلیغ اس کی طرف توجہ نہ کریں۔ دنیا کی فتح کے یہ معنے تو نہیں کہ دس بیس آدمی ڈنڈے لے کر کھڑے ہوجائیں گے اور دو ارب کی دنیا پر حکومت شروع کردیں گے دنیا کی فتح کے معنے ہیں کہ دنیا کی دو ارب آبادی میں سے کم از کم سوا ارب احمدی ہو جائیں اور یا پھر ان لوگوں کو اگر ہم تبلیغ نہیں کرتے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ احمدیوں کو اتنی طاقت حاصل ہوجائے گی اور ساتھ ہی وہ اتنے ظالم بن جائیں گے کہ وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کو تلف کرکے ان پر جابرانہ اور ظالمانہ حکومت کرنی شروع کردیں گے۔ یا ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو مار ڈالے اور صرف احمدی ہی دنیا میں باقی رہ جائیں۔ آخر ہم اگر تبلیغ سے کام نہیں لیتے اور ساتھ ہی یہ امید رکھتے ہیں کہ دنیا پر غالب آجائیں گے تو سوائے ان دو باتوں کے ہم دنیا پر غالب آنے کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم ایٹم بم کی ایجاد کرلیں اور لوگوں کو ایسا ڈرائیں کہ ہمارے چند لاکھ آدمیوں کے سامنے سب لوگ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجائیں اور جو حکم ہم انہیں دیں وہ مان لیں۔ گویا دوسرے لوگ وحشی اور جانور بن جائیں گے اور ان کی انسانی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور ہم ان پر ایسے چھا جائیں گے جیسے ٹڈی دل کھیتوں پر چھا جاتا ہے۔ کیا یہ وہی دنیا ہے جس کا قرآن مجید اپنے مومن بندوں سے وعدہ کرتا ہے۔ اور کیا یہی وہ دنیا ہے جس میں خدا کی بادشاہت ہوگی۔ غرض جب ¶ہم کہتے ہیں کہ احمدیت دنیا پر غالب آجائے گی تو یقیناً اس کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ ہمیں ایسی طاقت حاصل ہوجائے گی کہ سب لوگ چوہڑوں اور چماروں کی طرح ہمارے ڈنڈے کے ڈر سے ہمارے سامنے ہاتھ جوڑتے پھریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم یقیناً ظالمانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے` ہم یقیناً جابرانہ حکومت کو قائم کرنے والے ہوں گے۔ ایسی حکومت نمرود اور شداد کی حکومت کو بھی مات کرنے والی ہوگی مگر خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کو اس غرض کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا کرتا۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کوئی ایسی بیماری پڑ جائے جس سے سارے غیر احمدی مرجائیں اور اسی طرح سارے ہندو` سکھ اور غیرمذاہب والے مرجائیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم تو بلوچستان کو بھی آزاد نہیں کرسکتے جس کی آبادی بہت ہی کم ہے۔ ہمارے احمدی دو تین لاکھ میں مگر بلوچستان کی آبادی دس بارہ لاکھ کے قریب ہے۔ اگر سارے قومیں مرجائیں اور احمدی ہی زندہ رہ جائیں تو یہ بلوچستان بھی ویران نظر آنے لگے جائے گا۔ اگر ہم کہیں کہ چلو باقی بلوچستان چھوڑ دو ہم صرف پاکستانی بلوچستان کو آباد کرلیں گے تو پاکستانی بلوچستا کی آبادی بھی چار لاکھ ہے۔ اس میں بھی صرف دو تین لاکھ احمدی آباد ہوں گے باقی سارا بلوچستا خالی پڑا ہوگا۔ اسی طرح سب کا سب چین` جاپان` انڈونیشیا` انگلستان` فرانس` امریکہ اور دوسرے ممالک بالکل ویران اور اجاڑ ہوں گے۔ شیر اور چیتے ہر جگہ پھر رہے ہوں گے اور ہم دنیا کے ایک گوشہ میں بیٹھے اس بات پر خوش ہوں گے کہ ہم نے ساری دنیا فتح کرلی ہے مگر کیا یہ مقصد کوئی اعلیٰ درجہ کا مقصد ہے؟ پھر کیا چیز رہ جاتی ہے جس سے ہم دنیا کو فتح کرسکتے ہیں۔ وہ یہ چیز ہے کہ تم لوگوں کو احمدی بنائو اور احمدیت کی تبلیغ اپنے پورے زور کے ساتھ کرو۔ یہی ایک معقول چیز ہے جو ¶روحانی بھی ہے اور جسمانی فائدہ بھی اس سے حاصل ہوتا ہے اور جس سے دنیا کو حقیقی معنوں میں سکھ اور آرام میسر آسکتا ہے۔<۶۵
)خطبہ جمعہ فرمودہ ۸۔ وفا/جولائی(
)۲( >ہمارے ایک نئے احمدی دوست ہیں۔ بلوچستان میں ملازم ہیں ویسے یوپی کے رہنے والے ہیں وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ وہ کونسے طریقے ہیں جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہوسکتی ہے؟ میں نے سمجھ لیا کہ ان میں اس چیز کا احساس پایا جاتا ہے اور میں نے ان کو کئی ایک طریقے بتائے جن کو اختیار کرنے سے بلوچستان میں تبلیغ کامیاب ہوسکتی ہے۔ قادیان کے اردگرد کی جماعتوں کو میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور پھر تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت کی تعداد دس بارہ ہزار سے ترقی کرکے ساٹھ ستر ہزار ہوگئی تھی۔ پس اگر اس طرف ذرا بھی توجہ کی جاتی تو یہ مشکل کام نہ تھا۔ جو طریقہ یہاں کی جماعت کے دوستوں نے اختیار کیا ہوا یا عام طور پر احمدی جماعتیں اختیار کرتی ہیں وہ غلط ہے۔ دوستوں کو اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ تم اپنے دوستوں سے صاف صاف کہہ دو کہ یا تو تم غلطی پر ہو یا میں غلی پر ہوں۔ اگر تم مجھے غلطی پر سمجھتے ہو تو دوستی کا حق یہ ہے کہ تم مجھے سمجھائو تا میں صحیح راستہ پر آجائوں۔ اور اگر میں حق پر ہوں تو تمہیں بھی میرے ساتھ ہو جانا چاہئے۔ اور اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہوسکتی کہ انہیں اس طرف توجہ نہ دلائی جاسکتے۔<
)خطبہ فرمودہ ۱۶۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء یارک ہائوس کوئٹہ(۶۶
)۳( >اس وقت خواہ ہم کتنے ہی کمزور ہوں ہم نے وقت آنے پر قادیان ضرور واپس لینا ہے۔ یا تو حکومت محبت اور پیار سے ہمارا قادیان ہمارے حوالے کردے گی۔ جیسے ہم نے بار بار اس سے کہا ہے کہ اس علاقہ میں رہنے والے احمدی تمہاری حکومت کے مطیع اور فرمانبردار بن کررہیں گے لیکن اگر اس نے ایسا نہ کیا تو ہماری جماعت پر فرض ہے خواہ وہ امریکہ میں بستی ہو یا انگلستان میں` جرمنی میں سوئٹزرلینڈ میں` افریقہ میں یا انڈونیشیا میں` پاکستان میں یا عرب میں )سوائے ان لوگوں کے جو ہندوستان یونین کے باشندے ہیں کہ ان پر ہندوستان یونین کی فرمانبرداری فرض ہے( کہ وہ ہر جائز اور ممکن ذریعہ سے قادیان واپس لینے کی کوشش کرے۔ اگر وہ صلح سے نہ ملے تو جب اسے طاقت ملے طاقت کے زور سے اس مقام کو حاصل کرے۔ جو شخص صلح کے ہاتھ کو رد کرتا ہے وہ خود تلوار کا راستہ کھولتا ہے اور سب الزام اس پر ہے۔<
)خطبہ فرمودہ ۳۰۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء مسجد احمدی کوئٹہ(۶۷
)۴( >اس وقت دنیا میں ہزاروں قصبات اور شہر ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجدیں ویران پڑی ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ بنانے والوں نے تو انہیں اس لئے بنایا تھا کہ ان میں خدا تعالیٰ کا ذکر کیا جائے لیکن اب وہ ویران اور غیر آباد پڑی ہیں۔ اب جب تک یہ تمام مسجدیں پھر اسلام کی عظمت کا ایک زندہ نشان نہ بن جائیں` جب تک قرآن کی حکومت پھر دنیا میں قائم نہ ہوجائے اس وقت تک اگر کوئی شخص صرف ظاہری عید پر ہی خوش ہوجاتا ہے اور نئے کپڑے پہن کر سمجھ لیتا ہے کہ اس نے عید منالی ہے تو وہ بے غیرت ہے۔ بے شک ہمارا خدا نے ہمیں ظاہری طور پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے اور اس لئے ہم خوشی مناتے ہیں لیکن ہمیں حقیقی خوشی اسی وقت حاصل ہوگی جب دنیا میں ہر جگہ اسلام پھیل جائے گا` جب مساجد ذکر الٰہی کرنے والوں سے بھرجائیں گی اور جب محمد رسول اللہ~صل۱~ اور قرآن کی حکومت دنیا کے چپہ چپہ پر قائم ہوجائے گی۔
پس ہماری جماعت کے ہر فرد کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے ہمارے اندرونی زخم کبھی مند مل نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اگر زخم کبھی مندمل ہونے لگیں تو چاہئے کہ ہم اپنی انگلیوں سے ان زخموں کو پھر ہرا کرلیں کیونکہ ہماری سب سے بڑی عید اسی وقت ہوگی جب اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا اور دنیا کے کونہ کونہ سے اللہ اکبر کی آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں گی۔<
‏l] )[tagخطبہ عیدالفطر فرمودہ ۷۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء یارک ہائوس(۶۸
)۵( >یاد رکھنا چاہئے کہ ہم مال کے ذریعہ دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے۔ امریکہ کا ایک مالدار ہماری جماعت کی تمام جائدادیں خرید سکتا ہے اور پھر بھی اس کے خزانے میں روپیہ رہتا ہے۔ امریکہ کے بعض مالداروں کے پاس ہماری ساری جماعت سے زیادہ روپیہ ہے۔ بعض کے پاس تو بیس بیس ارب روپیہ ہے اور اتنا روپیہ ہماری ساری جماعت کے پاس بھی نہیں۔ ان میں ایسے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کے پاس اربوں روپیہ ہے۔ وہ لوگ ڈالروں میں اس کا ذکر کرتے ہیں کہ فلاں کے پاس ہزار ملین ہیں فلاں کے پاس دو ہزار فلاں کے پاس تین چار یا پانچ ہزار ملین ڈالر ہے اور یہ تین ارب روپیہ سے لے کر پندرہ ارب روپیہ تک ہوجاتا ہے ایسی قوم کا مقابلہ تم دولت سے کس طرح کرسکتے ہو؟
پھر ہمارے پاس دنیاوی طاقت بھی نہیں پیشوں کو لے لو` تجارت کو لے لو` تعلیم کو لے لو` صنعت و حرفت کو لے لو` کسی چیز میں بھی تو ہم غالب نہیں آسکتے۔ پس اگر تم دنیوی لحاظ سے دیکھیں تو سیدھی بات ہے کہ ہم دوسری قوموں پر غالب نہیں آسکتے۔ پس اگر ہم غالب آسکتے ہیں تو محض اس طرح سے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرکے اپنے آپ کو پاگل بنادیں۔ اگر ہم اپنے آپکو پاگل بنادیں تو ایک سال میں ہم وہ کام کرلیں جس سے دنیا کی کایا ہی پلٹ جائے۔ میں نے جماعت کو کئی بار توجہ دلائی ہے کہ ہر احمدی سال میں کم از کم ایک احمدی بنائے اور میں نے حساب لگا کو بھی بتایا تھا کہ اس طرح ہم دس پندرہ سال میں کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے۔ اگر ہر احمدی سال میں ایک ایک احمدی بنائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم اس وقت ہندوستان میں تین لاکھ ہیں ایک سال کے بعد ہم چھ لاکھ ہوجائیں گے` دو سال کے بعد ۱۲ لاکھ ہوجائیں گے` تین سال کے بعد ۲۴ لاکھ ہوجائیں گے` چار سال کے بعد ۴۸ لاکھ ہوجائیں گے` ۵ سال کے بعد ۹۶ لاکھ ہوجائیں گے` ۸ سال کے بعد سات کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہوجائیں گے` ۹ سال کے بعد ۱۵ کروڑ ۳۶ لاکھ ہوجائیں گے` ۱۰ سال کے بعد ۰ ۳ کروڑ ۷۲ لاکھ ہوجائیں گے۔ تو دیکھو اگر ہر ایک احمدی سال میں ایک ایک احمدی بنائے تو دس سال میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہوجاتا ہے۔<
)خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۷۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(۶۹
تربیتی اجلاس کو خطابbody]-: [tag حضرت امیرالمومنین نے قیام کوئٹہ کے دوران جماعتی تنظیموں کے بعض تربتی اجلاسوں میں بھی شرکت فرمائی اور نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا۔ مثلاً ۷۔ ظہور/اگست کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک فروٹ پارٹی میں ایک نہایت بصیرت افروز تقریر کی۔ حضور نے اپنے اس پر اثر خطاب کے آخر میں فرمایا۔
>جب اسلام پھر غالب آئے گا تو ہر انسان اس میں فخر محسوس کرے گا کہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی` ہمیں اپنے نفسوں کو مارنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں ابھاریں گے` جب تک دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہ کریں گے` جب تک ہم ملامت کی تلوار کے نیچے اور ہنسی اور مذاق کی تلوار کے نیچے اپنے سر دھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے` جب تک ہم سیاسی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپنے سردھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے` جب تک ہم مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے سردھرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتے اس وقت تک ہمیں اس عظیم الشان مقصد کے پورا ہونے کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔
دنیا میں ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس نے میٹھی میٹھی باتوں سے دنیا کو فتح کرلیا ہو۔ قومیں ہمیشہ تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں۔ انہیں دوسرے لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے ہی پڑتے ہیں۔ پس اپنے آپ کو اس کا اہل بنائو۔ جب تک آپ خدا اور اس کے رسولﷺ~ کے دیوانے نہیں بن جاتے جب تک موجودہ فیشن اور علوم کی رو کو اور رسم و رواج کو کچلنے کے لے تیار نہیں ہوجاتے` جب تک تم اسلامی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیرمسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔<۷۰
مجالس علم وعرفان-: حضور کی مجالس علم و عرفان کے انعقاد کا سلسلہ کوئٹہ میں بھی برابر جاری رہا ان مجالس میں حضور نے علاوہ دوسرے اہم امور کے بعض فقہی مسائل )مثلاً ترتیب نماز وغیرہ( کے معاملہ میں بھی راہ نمائی فرمائی۔۷۱
درس القرآن-: جماعت کوئٹہ کو ان بابرکت اور فیوض آسمانی سے معمور ایام میں حضرت مصلح موعود کے درس قرآن کی بیش بہا نعمت بھی میسر آئی۔ چنانچہ اخبارالفضل کے نامہ نگار کی ایک مطبوعہ رپورٹ ملاخطہ ہو۔
>حضور نے ازراہ نوازش اور احباب کے فائدہ کے لئے قرآن کریم کا درس جاری رکھا ہے اور عید کے بعد بھی ہر روز عصر کے بعد ایک گھنٹہ درس ہوتا ہے۔ حضور اقدس آجکل سورۃ کوثر کی تفسیر بیان فرما رہے ہیں جس میں حضور آنحضرت~صل۱~ کو انتہائی درجہ کی ترقی عطا فرمائی یعنی کوثر عطا فرمایا۔ درس کے دوران میں بھی مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لوگ آتے ہیں اور حضور کے درس کو سن کر ان غلط افواہوں کی تردید کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں جو مولویوں نے ان کے کانوں میں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جو جماعت احمدیہ کوئٹہ پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔<۷۲
ایک اور رپورٹ میں لکھا ہے۔
>کوئٹہ ۴۸۔۸۔۵ آج درس القرآن شروع ہونے سے قبل ایک عیسائی دوست نے بیعت کی۔ اس کے بعد حضور نے سورۃ کوثر کا درس دیا اور اس میں نہایت ہی لطیف انداز میں اسلامی عبادت نماز کو دیگر مذاہب کی عبادتوں پر افضل اور برتر ثابت کیا۔ فرمایا۔ مذہب اسلام تمام اقوم عالم کے لئے ہے اسی طرح اس کی عبادت نماز بھی۔ اس لئے نماز میں تمام حرکات ایسی رکھی گئی ہیں جو کسی نہ کسی قوم میں تعظیم کی علامت ہیں۔ مثلاً بعض اقوام میں جھکنا` بعض میں سیدھے کھڑے ہونا` بعض میں ہاتھ باندھنا` بعض میں سجدہ کرنا تعظیم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے ہر قوم کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے نماز میں تمام تعظیمی حرکات کو اکٹھا کردیاگیا تاکہ ہر قوم کے افراد کو یہ عبادت بجالانے میں آسانی رہے۔<۷۳
علمائے کوئٹہ کی مخالفت اور سعید الفطرت لوگوں کا احمدیت کی طرف رجوع
الفضل کے نامہ نگار خصوصی کا بیان ہے >۱۰ جون ۱۹۴۸ء کو حضور کوئٹہ میں وارد ہوئے۔ دن گزرتے گئے لیکن کوئٹہ کی پبلک میں
احمدیت کے متعلق کوئی حرکت نہ تھی۔ حضور نے یہاں دو تقاریر پاکستان کے مستقبل کے متعلق کیں۔ گو پبلک نے انہیں بے حد پسند کیا لیکن بعض اخباروں نے اس اچھے اثر کو جو پبلک نے قبول کیا تھا زائل کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا اثر اتنا نہ ہوا تھا کہ پبلک میں ایک تہلکہ مچ جاتا حضور نے ایک خطبہ جمعہ میں اس کا اظہار فرمایا کہ خدا تعالیٰ کسی حکمت کے ماتحت مجھے یہاں لے آیا ہے۔ شاید اس لئے کہ بلوچستان کا چھوٹا صوبہ ہے اور اس میں احمدیت جلدی پھیل جائے۔ اور دوستوں کو فریضہ تبلیغ کی طرف متوجہ فرمایا۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے مقدس مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی کی بات کو پورا کرنے کے آثار ظاہر کرنے شروع فرمادیئے۔
مولویوں نے ایک اشتہار لکھا >فتنہ قادیان سے بچو< اس کا عنوان تھا۔ اس میں انہوں نے کفر کا فتویٰ لگایا اور شہر کے مختلف مقامات پر انہیں چسپاں کیا۔ پبلک جگہوں پر مولویوں نے تقاریر کیں اور پبلک کو غلط پراپیگنڈا کرکے جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکایا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پبلک کو مشتعل کرکے جماعت احمدیہ کو کوئٹہ سے ختم کردیں گے۔ لیکن انہیں یہ امر بھول گیا کہ انبیاء کی جماعتیں ترقی ہی ایسی مخالف فضامیں پاتی ہیں۔ مخالفین اعلیٰ کھاد کا کام کرتی ہیں اور جماعت کی مضبوطی کا باعث بنتی ہیں۔ مولویوں نے خطبہ جمعہ بھی احمدیت کی مخالفت کرنے کے لئے وقف کردیا اور گالیاں دینا اور شیوہ بنالیا۔ اس اشتعال کو دیکھ کر سعید روحوں میں تحقیق اور جستجو کی خواہش پیدا ہوئی انہوں نے تحقیق حق کرنے کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ ہماری پاس آئیں اور خدا کے مصلح موعود کے چہرہ مقدس کو دیکھیں اور اصل حقیقت سے آگاہی حاصل کریں۔ مخالف طبقہ نے اس خیال سے آنا شروع کیا کہ وہ اس سلسلہ کو نیست ونابود کرنے کا طریقہ تلاش کریں۔
چنانچہ عید کے بعد لوگوں کے گروہ در گروہ آنے شروع ہوئے۔ بوڑھے` بچے اور جوان اور ہر قسم کے طبقہ کے لوگوں نے حضور کی قیام گاہ پر آنا شروع کردیا۔ اس وقت سے عجیب ایمان افروز ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ ٹولیاں آتی ہیں جاتی ہیں` آکر تبادلہ خیالات کرتی ہں اور اصل حقیقت کو معلوم کرکے اس سے استفادہ کرتی ہیں۔ حضور پر نور سے ملاقات کرکے ان کے مشتعل جذبات نہ صرف زائل ہوجاتے بلکہ ان کے دل اس بات پر مجبور ہوجاتے کہ وہ خدا کے پا مصلح موعود کو خدا رسیدہ ہستی یقین کریں۔ چنانچہ حق کے پیاسوں کے لئے یہ ایک نادر موقع تھا اور اکثر اس سے فائدہ اٹھاتے بھی تھے۔ جس روز سے شورش پیدا ہوئی اسی دن سے سعید الفطرت لوگوں کا حق کی طرف رجوع ہونا شروع ہوا۔ چنانچہ مورخہ ۴۸۔۸۔۱۴ کو چار اشخاص بیعت میں داخل ہوئے۔ ایک شخص صبح آیا ملاقات کی اور بیعت بھی ساتھ ہی کرلی۔ ایک شخص نے ظہر کی نماز کے بعد اور دو افراد نے درس قرآن کریم کے بعد دستی بیعت کی۔<۷۴
ڈاکٹر میجر محموداحمد صاحب کی المناک شہادت
۱۹۔ ظہور/اگست کا واقعہ ہے کہ ۲۔۱۔۱۱ بجے شب حضرت مصلح موعود کی قیام گاہ واقع لٹن روڈ کے قریب بعض شورش پسندوں نے احمدیت کی مخالفت میں ایک جلسہ منعقد کیا جس میں انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں۔ جلسہ کے دوران ایک مخلص اور ہونہار احمدی نوجوان ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کا وہاں سے اچانک گزر ہوا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مشتعل ہجوم ایک احمدی کو خواہ مخواہ پیٹ رہا ہے۔ میجر صاحب نے اپنی موٹر روک لی اور اس شورو شر کی وجہ دریافت فرمائی۔ اس پر بعض غنڈوں نے آپ پر پتھر برسانے شروع کردیئے اور موٹر پر بھی خشت باری کی اور تقاقب کرتے ہوئے قریب کی جگہ میں ہی آپ کو چھرا گھونپ کر شہید کردیا۔۷۵
ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی اس المناک شہادت نے ایک نوجوان کے اندر ایمانی حرارت پیدا کرکے اسے مجبور کیا کہ وہ احمدیت میں داخل ہوجائے۔ چنانچہ وہ شہادت کے معاً بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور کے دست مبارک پر بیعت کرلی۔ نماز ظہر کے بعد ایک اور دوست نے بھی حضور کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح دو افراد سلسلہ میں شامل ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب شہید کی نعش مبارک غسل دینے کے بعد چھ بجے کے قریب ان کے مکان سے یارک ہائوس لائی گئی۔ تقریباً تمام احمدی دوست اس جنازہ کے ساتھ شامل تھے اور ان کے پیچھے پولیس کی لاری تھی۔ حضور نے نماز عصر کے بعد شہید کا چہرہ دیکھا اور نماز جنازہ پڑہائی ۲۔۱۔۶ بجے کے قریب دوستوں نے نعش مبارک کو اٹھایا اور قبرستان کی طرف روانہ ہوئے۔ حضور پر نور بھی ساتھ تشریف لے گئے۔
تمام احمدی دوست اپنے بھائی کی جدائی پر افسردہ اور آخری خدمت کرنے کے لئے بیتاب تھے۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بھائی کی نعش کو کندھا دے۔ اور وہ اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے دکھائی دے رہا تھا۔ قبرستان یارک ہائوس سے کوئی اڑھائی تین میل کے فاصلہ پر تھا اور وہاں پہنچنے تک کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ نعش کو جب صندوق میں جو قبر میں رکھا جاچکا تھا اتارا جارہا تھا تو حضور نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر کسی نعش کو معین عرصہ کے لئے دفن کیا جائے تو اس عرصہ کے اندر ہی نکالی جاسکتی ہے۔ فرمایا یہ ایک وہم ہے زمین کے سپرد ایک امانت کی جاسکتی ہے جس وقت چاہے واپس لی جاسکتی ہے۔ اس طرح میت کو بغیر کسی عرصہ کے تعین کے امانتاً دفن کردیا گیا۔ دفن کرنے کے بعد تمام دوست کھڑے تھے اور گورکن قبر کی مٹی کو ٹھیک کررہا تھا تو اس وقت حضور نے فرمایا کہ دفنانے کے بعد جو دعا پڑھی جاتی ہے اس سے عام لوگ ناواقف ہوتے ہیں ان کی واقفیت کے لئے بتانا چاہتا ہوں کہ وہ مختصر دعا یہ ہوتی ہے کہ اے خدا ہم جو آخری خدمت اس بھائی کی کرسکتے تھے وہ ہم نے کردی ہے۔ جب اس کے پاس فرشتے سوال و جواب کرنے کے لئے آئیں تو ان کے سوال و جواب کو اپنے فضل سے آسان کر دیجئو۔ جب قبر ٹھیک ہوگئی تو حضور نے دعا فرمائی۔۷۶
بلوچستان اور پنجاب کے مشہور اخبارات کی طرف سے پر زور مذمت
میجر محمود کے درد ناک سانحہ شہادت پر بلوچستان اور پنجاب کے فرض شناس اخبارات نے خصوصی شندرے لکھے جن میں اس فعل
کی سخت مذمت کی اور مسلمانان پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اسلامی روا داری کا ثبوت دیں اور قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدد کا طریق اختیار کرنے کو ہمیشہ کے لئے ترک کردیں نیز حکومت سے پر زور مطالبہ کیا کہ وہ قاتل کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ چنانچہ >جدید نظام< نے واقعہ شہادت سے متاثر ہوکر مندرجہ ذیل اداریہ سپرد قلم کیا۔
>مملکت خداداد پاکستان مسلمان کو کن دشواریوں کے بعد حاصل ہوئی۔ گزشتہ آٹھ سالہ دور میں مسلمانوں کو اپنے اس مطالبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کن کن دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑا۔ غیروں کے علاوہ اپنوں کی بیجا مخالفت کا اس طرح مقابلہ کرنا پڑا کہ انگریز اور ہندو کی ملی بھگت کا بھانڈا کس طرح چورا ہے میں پھوڑدیا؟ کن کن مصائب کو برداشت کرکے مخالفین کا منہ بند کیاگیا؟ کیا کیا سختیاں جھیلیں۔ کتنا سرمایہ مسلمانوں کے مائوف دماغوں پر صیقل کرنے کے لئے صرف ہوا۔ مسلمانوں کو حکمرانی کے تخیل سے دوبارہ روشناس کرانے کے لئے کتنی محنت کرنی پڑی؟ یہ تمام حقائق ایسے ہیں کہ سیاسی دنیا کا بچہ بچہ ان حالات سے واقف ہے اور اب ان واقعات` ان مصائب` ان تکالیف` اپنوں کی دانشمندی` بیگانوں کو پرزور مخالفت وغیرہ وغیرہ کی تفصیلات کو دہرانا تضیع اوقات سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ مختصر یہ کہ خدانے ان تمام تکالیف` صبر آزما انتظار` ان تھک مساعی کا نتیجہ اس شکل میں ظاہر کیا کہ آج ہم فخر کے ساتھ آزاد سلطنت کے آزاد شہری کہلا سکتے ہیں۔ خدائے عزوجل کا یہ انعام مسلمانوں کے لئے ایک رحمت کا پیغام ہے۔ سالہا سال تک خواب غفلت میں رہنے کے بعد مسلمانوں نے تھوڑی سی ہمت اور محنت سے کام لیا۔ قلیل عرصہ کے لئے ضبط و نظم کے بھولے ہوئے سبق کو اپنایا۔ مختصر سے عرصہ کے بنیان مرصوص بنے۔ چند سالوں کے لئے امیر اور اطاعت امیر کو پورے طور پر نہ سہی ادھورے طور پر تو سمجھا تو خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اس کی محنتوں کو ضائع نہ ہونے دیا اور اس کے اس عمل کا صلہ اس صورت میں دیا کہ اسے ایک بار پھر حکمرانی کا موقع عطا فرمایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان کی سابقہ کاوشوں` اس کے گزشتہ ضبط و نظم کا صلہ اس سے زیادہ مل بھی نہ سکتا تھا لیکن اب اس کے سامنے ایک منزل ہے۔ خدا نے اسے ایک بار موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ جہاں گیری جہاں بانی کی روایات کو زندہ کرے` اپنے پیہم عمل سے وقت کے قیصرو کسریٰ کی اکڑی ہوئی گردنیں خم کرسکے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ہوسکتا ہے جبکہ مسلمانان پاکستان زیادہ سے زیادہ ضبط و نظم` زیادہ سے زیادہ اخوت ومساوات سے کام لیں۔ مسلمانوں کو ان تمام امور کا اب عملی تجربہ ہوچکا ہے۔ سالہا سال کی غلامی کے بعد ان کی زنگ آلود ذہنیت میں جو چمک پیدا ہوئی ہے وہ اس عمل کا نتیجہ ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ آٹھ سال میں کیا گیا اور اب ضرورت ہے کہ ہم اس چمک میں اتنی تیزی پیدا کریں کہ غیروں کی نگاہیں چکا چوند ہوکر رہ جائیں اس لئے پھر یہی کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ ہمیت پہلے سے زیادہ بلند حوصلگی اور ایثارو قربانی کا حامل بننا پڑے گا۔ دیو بندی اور بریلوی کے قصے ختم کرنے ہوں گے۔ احمدی اور غیر احمدی کا امتیاز مٹانا ہوگا۔ حنفی اور شافعی کے جھگڑوں کو خیرباد کہنا ہوگا` احرار اور خاکسار کی بحثیں ختم کرنی ہوں گی یہی ایک صورت ہے جسے اپنا کر ہم خالد و ظارق کی روایات کو زندہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ابھی تک ہم اس مقام پر نہیں پہنچ سکے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک نوجوان ڈاکٹر کو چند جنونیوں نے قتل کردیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ دو پارٹیوں کو جھگڑے سے منع کرنے کے لئے چلتا چلتا رک گیا یا یہ کہ وہ احمدی خیالات رکھتا تھا۔ ہمیں احمدیوں کی وکالت منظور نہیں لیکن غیر مسلموں کے مظالم احمدی` غیر احمدی` شافعی` حنبلی` خاکسار میں تمیز روا نہیں رکھتے۔ بہار کے قتل عام میں ایسے صدہا مسلمانوں کو شہید کیاگیا جو سالہا سال تک کانگرس کو وفادار رہنے کے سرٹیفکیٹ دکھاتے رہے۔ حال ہی میں حکومت مشرقی پنجاب نے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی` شیخ حسام الدین اور سکندر مرزا جیسے ملت فروش اور کٹر کانگرسی مسلمانوں کی جان کی حفاظت کا ذمہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ مشرقی پنجاب میں کسی مسلمان کا خاکسار یا کانگرسی یا حمدی ہونا اس کی جان کو نہ بچا سکا۔ غنڈوں کا خنجر سب کے گلے پر یکساں روانی دکھاتا رہا۔ جائدادیں لٹیں تو سب کی عصمتیں لٹیں تو سب کی۔ تو پھر کیا یہ سانحہ عظیمہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لے کافی نہیں؟ عبرت حاصل کرنے کا اس سے بڑھ کر موقع کونسا آسکتا ہے؟ اس لئے ہم مسلمانان پاکستان سے درد مندانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ باہمی اختلافات کو فی الفور ختم کرکے ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کریں جس کے ساتھ ٹکرانے والی طاغوتی طاقت پاش پاش ہوجائے گی۔<۷۷
اخبار >احسان< )لاہور( نے حسب ذیل ادارتی نوٹ شائع کیا۔
>قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیجئے-: مرزائی فرقے کے متعلق ہمارے جو خیالات ہیں وہ قارئین کرام پر واضح ہیں لیکن ہمیں یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ پچھلے دنوں کوئٹہ میں مرزائیوں کے ایک جلسے کے خلاف مظاہرے کرتے ہوئے بعض لوگوں نے حد سے بڑھے ہوئے اشتعال کا ثبوت دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک معزز مرزائی ڈاکٹر میجر محمود کو نہایت بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ اگر اختلافات رائے کا مطلب یہی لیا جانے لگے کہ ہر شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر جو چاہے کر گزرے تو اس کے نتائج مرزائیوں کے لئے نہیں عام مسلمانوں کے لئے )بھی( نہایت بھیانک ہوں گے اس لئے ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے وہ اس قسم کی ذہنیت کے خلاف شدید احتجاج کرے اور اس فتنے کو پھیلنے سے روکے۔ مرزائی مسلمان ہوں یا نہ ہوں بہرحال وہ پاکستان کے شہری ہیں اور ایک شہری کی حیثیت سے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے۔<۷۸ ]ybod [tag
اخبار >انقلاب< )لاہور( نے >ڈاکٹر میجر محمود کا قتل< کے عنوان سے مندرجہ ذیل ادارتی نوٹ لکھا۔
>۲۰۔ اگست کا ذکر ہے کوئٹہ میں لٹن روڈ کے قریب عوام نے احمدیت کی مخالفت میں ایک جلسہ منعقد کیا اور جوش و خروش کے عالم میں چند احمدیوں کو زدو کوب کرنے لگے۔ اس وقت ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمدی وہاں سے گزرے تو یہ منظر دیکھ کر انہوں نے اپی موٹر کار روک لی اور اس شورو شر کی وجہ دریافت کی۔ اس پر حاضرین جلسہ نے ان کی موٹر پر پتھر برسائے اور میجر صاحب کا تعاقب کر کے ان کے چھرا گھونپ دیا جس سے ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ واقعہ صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران میں قائداعظم کی حقیقت بینی اور روشن خیالی کی وجہ سے فرقہ پرستانہ رجحانات کا قلع قمع ہوگیا تھا چنانچہ حکومت پاکستان میں شیعہ` سنی` احمدی ہر فرقے کے بزرگ شامل ہیں اور کبھی عامتہ المسلمین کی طرف سے ان کے عقائد کا سوال نہیں اٹھایا گیا پھر خدا جانے بعض لوگ فرقہ پرستی کے جنون میں کیوں اس قدر سرشار ہوگئے کہ انہوں نے کوئٹہ میں غنڈا پن اختیار کرکے پاکستان کے ایک قابل اور نیک ڈاکٹر کو محض اس لئے ہلاک کردیا کہ وہ احمدی تھا۔ ہماری حکومتیں اپنے سیاسی مخالفوں کی داروگیر میں بے حد مصروف ہیں۔ اس قسم کے خطرناک رحجانات کو نہایت سختی سے دبانے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ میجر محمود احمد کے قاتلوں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
میجر صاحب مرحوم خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر اور پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے بھتیجے تھے ہمیں تمام افراد خاندان سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے۔<۷۹
اسی اخبار نے کئی ہفتہ بعد دوبارہ اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے لکھا۔
>آج سے کئی ہفتے پیشتر کوئٹہ میں ایک نہایت قابل` ہردلعزیز اور جوان ڈاکٹر محمود احمد کو بعض غنڈوں نے فرقہ پرستی کے ایک ہنگامہ میں قتل کردیا۔ حالانکہ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو لڑنے بھڑنے سے روک رہا تھا۔ کوئٹہ میں اور پنجاب کے اکثر مقامات پر بھی ڈاکٹر محمود کے اس خون ناحق پر بے حد رنج و تاسف کا اظہار کیاگیا۔ لیکن بے انتہاء تعجب کا مقام ہے کہ اب تک کوئٹہ پولیس نے اس سلسلہ میں کوئی گرفتاری تک نہیں کی حالانکہ یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں تھا کہ کون کون لوگ مرحوم پر قاتلانہ حملہ میں شریک تھے اور تھوڑی تھوڑی سی تفتیش قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کافی تھی۔ حکام بلوچستان کو اس معاملہ میں خاص توجہ سے کام لینا چاہئے ورنہ ایسے قاتلوں کو حوصلہ افزائی ہوگی اور قانون وانتظام کا وقار خاک میں مل جائے گا۔ کیا ہم امید رکھیں کہ پولیس جلد از جلد اپنا فرض ادا کرے گی۔<۸۰
‏tav.11.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں تذکرہ
فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کے فاضل ججان جسٹس محمد منیر اور ایم۔ آر۔ کیانی نے اپنی رپورٹ میں اس حادثہ دل گداز کا ذکر خاص طور پر کیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
>میجر محمود کا قتل-: مرزا بشیرالدین محمود احمد ۱۹۴۸ء کے موسم گرما میں بمقام کوئٹہ مقیم تھے۔ ان کی موجودگی میں ایک نوجوان افسر میجر محمود جو احمدی تھا نہایت وحشیانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔ ریلوے کے مسلم ملازمین کی ایسوسی ایشن نے ایک جلسہ عام کا اعلان کیا تھا۸۱ جو ۱۱۔ اگست ۱۹۴۸ء کو منعقد ہوا۔ اس جلسے میں بعض مولویوں نے تقریریں کیں اور ہر شخص نے اپنی تقریر کے لئے ایک ہی موضوع یعنی >ختم نبوت< اختیار کیا۔ ان تقریروں کے دوران میں قادیانیوں کے کفر اور اس کے نتائج کی طرف بار بار اشارے کئے گئے۔ ابھی یہ جلسہ منعقد ہورہا تھا کہ میجر محمود ایک مریض کو دیکھنے کے بعد واپس آتے ہوئے جلسہ گاہ کے پاس گزرے۔ اتفاق سے ان کی موٹر کار جلسہ گاہ کے قریب ٹھہرگئی اور اس کو دوبارہ چلانے کی ہر کوشش ناکام ہوگئی۔ عین اس موقع پر ایک ہجوم موٹر کار کی طرف بڑھا اور اس نے میجر محمود کو گھسیٹ کر نیچے اتارلیا۔ میجر محمود نے بھاگنی کی کوشش کی لیکن ان کا تعاقب کیاگیا اور آخر پتھر اور چھرے مار مار کر ان کو ہلاک کردیا گیا۔ ان کی پوری انتڑیاں پیٹ سے باہر نکل آئی تھیں۔ ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر کند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے چھبیس زخم تھے۔ اور موت ایک تو صدمے سے اور دوسرے داخل جریان خون سے واقع ہوئی جو بائیں پھیپھڑے بائیں گردے اور جگر کے دائیں کناروں کے زخموں سے جاری ہوا تھا۔ کوئی شخص بھی >اسلامی شجاعت< کے اس کارنامنے کی نیک نامی لینے پر آمادہ نہ ہوا اور بے شمار عینی شاہدوں میں ایک بھی ایسا نہ نکلا جو ان >غازیوں< کی نشان دہی کرسکتا یا کرنے کا خواہش مند ہوتا جن سے یہ >بہادرانہ< فعل صادر ہوا تھا۔ لہذا اصل مجرم شناخت نہ کئے جاسکے اور مقدمہ بے سراغ ہی داخل دفتر کردیا گیا<-۸۲
حضرت مصلح موعود کا ردعمل
حضرت مصلح موعود پر اس واقعہ کا جو فوری رد عمل ہوا وہ حضور نے ۲۱۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے خطبہ جمعہ میں بایں الفاظ بیان فرمایا۔
>میجر محمود صاحب کی شہادت کے واقعہ کا رد عمل لوگوں کے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق ہوا ہوگا۔ بعض کا برا اور غیراسلامی رد عمل ہوگا اور بعض کے نزدیک اس کا ردعمل اچھا ہوا ہوگا۔ یہ حملہ جو میجر محمود پر کیا گیا ہے تو اتفاقی حادثہ` درحقیقت یہ حملہ احمدیت پر کیا گیا ہے۔ میجر محمود تو وہاں اتفاقاً چلے گئے اگر کوئی اور احمدی ہوتا تو اس کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آتا کیونکہ میجر محمود پر کسی ذاتی عناد کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے تبلیغ کی طرف توجہ نہیں دی۔ انہوں نے اپنے عقائد کو لوگوں پر واضح نہیں کیا اگر انہوں نے بتایا ہوتا کہ جماعت احمدیہ کے یہ عقائد ہیں تو ان سے یہ حرکت سرزد نہ ہوتی۔ انہوں نے اگر شہید کیا ہے تو اس عقیدہ کے ماتحت کیا ہے کہ ان کا یہ فعل انہیں خدا تعالٰی کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوگا۔ اس واقعہ سے ہمارے اندر جو رد عمل ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم پہلے سے بھی زیادہ انہماک اور تندہی سے تبلیغ کی طرف متوجہ ہوں۔
مامورین کی جماعتوں پر ظلم ہوتے ہیں اور وہ ظلموں کے نیچے ہی بڑھتی اور پھولتی ہیں۔ دشمنوں میں بھی شریف الطبع انسان ہوتے ہیں ان کے اندر ظلموں کو دیکھ کر دلیری پیدا ہوجاتی ہے اور سلسلہ میں داخل ہوجاتے ہیں چنانچہ میجر محمود کی شہادت کے بعد ایک دوست آئے ان کے دل میں احمدیت کی سچائی گھر کر گئی ہوئی تھی لیکن ایمانی جرات پیدا نہ ہوئی تھی۔ اس واقعہ نے ان کے اندر جرات پیدا کردی اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ میجر محمود احمد صاحب شہید کی خالی جگہ اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے میں احمدیت میں داخل ہوتا ہوں` احمدیت میں داخل ہوگئے۔ آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ میں بھی حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ ظلموں سے متاثر ہوکر ایمان کی روشنی سے منور ہوئے تھے۔ تو اس قسم کے ظلم و تشدد کے واقعات جماعت کی ترقی کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ پر صرف کرنا چاہئے تا صحیح عقائد ان پر واضح ہو جائیں اور احمدیت کی سچائی کھل جائے۔<۸۳
حضرت مصلح موعود کے قلبی تاثرات اور پرجلال پیشگوئی
حضرت مصلح موعود نے سفر کوئٹہ کے آخری خطبہ جمعہ میں )جو حضور نے ۳۔ ماہ تبوک/ستمبر کو یارک ہائوس میں ارشاد فرمایا( میجر محمود کے واقعہ شہادت پر دوبارہ اپنے قبلی تاثرات کا اظہار فرمایا اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ پر جلال پیشگوئی فرمائی کہ خدا کی بادشاہت کے دن قریب ہیں اور وہ زمانہ جلد آرہا ہے جبکہ دنیا کے سب ملکوں پر اسلام و احمدیت کا جھنڈا پوری شان و شوکت کے ساتھ لہرائے گا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>میرے یہاں آنے پر مخالفت شروع ہوگئی۔ ہمارے خلاف باتیں کی جانے لگیں۔ جماعت احمدیہ پر اتہام لگانے شروع کردیئے ئے اور مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم قرآن کو منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا جتنے منہ تھے اتنی باتیں شروع ہوگئیں۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ ایسی باتیں کرکے ہمارا ہی شکار ہورہے ہیں۔ درحقیقت مخالفت کے ذریعہ ہی لوگوں میں خدائی سلسلہ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اگر ہم یہاں آتے اور ہماری مخالفت نہ ہوتی کوئی ہماری طرف توجہ نہ کرتا بلکہ کسی کو ہمارے یہاں آنے کا پتہ بھی نہ لگ سکتا۔ اگر ہمارے آدمی دوسروں کے پاس جاتے تو وہ کہہ دیتے۔ اپنے منہ میاں مٹھو۔ لوگ کہتے کوئی ہوگا جو یہاں آگیا ہے لیکن مولویوں نے ہمارے خلاف تقریریں شروع کردیں اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی بڑی چیز ہے معمولی چیز نہیں تبھی تو یہ لوگ اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ بلی کے آنے پر تو شور نہیں مچایا جاتا شیر کے آنے پر شور مچایا جاتا ہے` اس طرح یہ لوگ خود ہی ہمارے شکار ہونے لگے۔ جب میں نے دیکھا کہ احمدیت کے لئے یہاں رستہ کھل گیا ہے تو میں نے درس دینا شروع کردیا تا احمدیت اور اسلام کی عظمت ظاہر ہو۔ میرے اندر ایک بے کلی سی تھی جس کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ جو تفسیر میں نے لکھوانی ہے اس کا درس یہاں دے دوں۔ لکھنے والے لکھتے جائیں گے اور سننے والے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ چونکہ لوگوں میں پہلے ہی رغبت پیدا ہوچکی تھی اس لئے لوگوں نے یہاں آنا شروع کردیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مہینہ کے آخر تک پانچ چھ سو آدمیوں نے ہماری خیالات سنے اور پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کسی نے ہماری تائید میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کسی نے ہماری مخالفت میں۔ اور پھر خدا تعالیٰ نے ایک اور ذریعہ بنادیا کہ لوگوں نے جوش میں آکر ایک احمدی نوجوان کو شہید کردیا۔ میں نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہم ہی کامیاب ہوں گے اور فتح ہماری ہی ہوگی۔ زمیں میں جب کوئی بیچ ڈالا جاتا ہے تو اس سے وہی چیز اگتی ہے جس کا وہ بیج ہوتا ہے۔ جب زمین میں ہم گندم کا بیج ڈالتے ہیں تو اس سے گندم پیدا ہوتی ہے اور جب اسان کا بیج ڈالتے ہیں تو اس سے انسان پیدا ہوتے ہیں ۔۔۔۔ پس یہاں کے لوگوں نے ایک احمدی کو شہید کرکے بلوچستان میں احمدیت کا بیج بودیا ہے اب اس کا مٹانا ان کے اختیار میں نہیں رہا دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔ یہ بیج بڑھے گا اور ترقی کرے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ ایک تن آور درخت بن جائے گا ۔۔۔۔۔ خدا کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا کس کے اختیار میں ہے خدا تعالیٰ کی تدبیریں جداگانہ ہوتی ہیں وہ اپنے کاموں میں نرالا ہے` وہ اپنی حکمتوں میں عجیب ہے اس کے کنہہ کو پہنچنا انسانی عقل کے اختیار میں نہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے میرے اس سفر کو جس کی غرض یہاں رمضان کا گزارنا تھا اگرچہ یہاں کوئی زیادہ سردی نہیں اگر ہم نری چلے جاتے تو شاید اس سے بہتر رہتا` ایک دینی سفر بنادیا اور اس کو ایک خاص اہمیت بخش دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے دن اب قریب ہی میں خدا تعالیٰ کی انگلی کو اٹھا ہوا دیکھتا ہوں` میں اس کے اشارے کو نمایاں ہوتا ہوا پاتا ہوں` میں خدا تعالیٰ کے منشاء کو اس کے فضل سے پڑھ رہا ہوں اور سن رہا ہوں ۔۔۔۔ ہمیں سارے ملک ہی ملنے والے ہیں۔ دنیا ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھتی ہے مگر دنیا نے خدا تعالیٰ کے ماموروں اور ان کی جماعتوں کو کب عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے وہ ہمیشہ ہی انہیں حقیر اور ذلیل سمجھتی ہے مگر وہ جسے حقیر سمجھ کر معماروں نے پھینک دیا تھا خدا کا منشاء یہ ہے کہ وہی کونے کا پتھر ہو اور اس عمارت کے لئے سہارے اور روشنی کا موجب ہو۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے اور اب بھی یہی ہوگا۔<۸۴
حضرت مصلح موعود کے مبارک کلمات ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب کی معروضات کے سلسلہ میں
قیام کوئٹہ کے دوران ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب نے حضور کی خدمت میں اپنے اور اپنے خاندان کی طرف سے مہمان نوازی قبول کرنے کی عرضداشت پیش کی اور متعدد تحریری
درخوسستیں کیں۔ جن کے جواب میں حضور نے انہین درج ذیل مبارک کلمات سے نوازا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم
سیدنا مطاعنا ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گذارش ہے کہ اس عاجز کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ حضور کوئٹہ تشریف لائیں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس عاجز کو خدمت کی توفیق دے جس کے واسطے درخواست دعا ہے۔
نیز عرض ہے کہ ہمارے خاندان کی بڑی خواہش ہے کہ حضور ازراہ عنایت ہماری طرف سے کوئٹہ میں قیام کے تمام عرصہ کے لئے مہمان نوازی قبول فرمائیں اور حضور اور حضور کے تمام خاندان کے لئے اس عاجز کو اشیاء خوردنی سپلائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ والسلام حضور کا ادنیٰ ترین غلام
عاجز غفورالحق خاں عفی نہ ایم۔بی۔بی۔ایس کوئٹہ ۴۸۔۶۔۱۱
عزیزم ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ` جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ تحفہ قبول کرنے کو رسول کریم نے سفتہ انبیاء قرار دیا ہے مگر غیر معین بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں۔ یوں آپ کوئی جنس بہ طور تحفہ بھجوائیں تو اسے لینے میں ہمیں عذر نہ ہوگا مگر غیر معینی عرصہ کے لئے یہ مان لینا کہ کہ آپ جنس بھجوایا کریں اس میں تحفہ کی شکل سوال کی بدل جاتی ہے۔ اس طرح ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ جلدی چلو ان کو تکلیف ہورہی ہوگی۔ پس آپ جب اور جس قدر چاہیں کوئی جنس یا اجناس تحفہ کے طور پر خوشی سے بھجواسکتے ہیں اس سے آپ کی اور ہماری دونوں کی بشاشت قائم رہے گی مگر آپ کی پیش کردہ صورت میں ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ ہم بوجھ بن رہے ہیں۔
والسلام خاکسار
مرزا محمد احمد
)جواب( عزیزم ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ` جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ تحفہ قبول کرنے کو رسول کریم نے سفتہ انبیاء قرار دیا ہے مگر غیر معین بوجھ ڈالنا ٹھیک نہیں۔ یوں آپ کوئی جنس بہ طور تحفہ بھجوائیں تو اسے لینے میں ہمیں عذر نہ ہوگا مگر غیر معینی عرصہ کے لئے یہ مان لینا کہ کہ آپ جنس بھجوایا کریں اس میں تحفہ کی شکل سوال کی بدل جاتی ہے۔ اس طرح ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ جلدی چلو ان کو تکلیف ہورہی ہوگی۔ پس آپ جب اور جس قدر چاہیں کوئی جنس یا اجناس تحفہ کے طور پر خوشی سے بھجواسکتے ہیں اس سے آپ کی اور ہماری دونوں کی بشاشت قائم رہے گی مگر آپ کی پیش کردہ صورت میں ہمارے دل پر بوجھ رہے گا کہ ہم بوجھ بن رہے ہیں۔ والسلام خاکسار مرزا محمد احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا و مطاعنا ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضور کا ارشاد بابت میری درخواست مہمان نوازی موصول ہونے پر ازحد شرمسار ہوں کہ حضور کو اس سے سوال کا رنگ پیدا ہونے کا احتمال ہوا جس کے واسطے معافی کا خواستگار ہوں۔
چونکہ حضور نے اس عاجز کی مہمان نوازی کو غیرمعین عرصہ کے لئے قبول فرمانا پسند نہیں فرمایا اس لئے عاجز کی درخواست ہے کہ دو ماہ کے لئے حضور اس عاجز کی مہمان نوازی قبول فرمائیں اور اس عاجز کو کل صبح سے اشیاء خوردنی سپلائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین غلام
عاجز غفورالحق خاں عفی عنہ ۴۸۔۶۔۱۲
عزیزم مکرم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری سمجھ میں ابھی بات نہیں آئی کہ یہ کس طرح ہوگا۔ سردست آپ تین دن اسی طرح کرلیں میری سمجھ میں بھی آجائے اور آپ کی خواہش مہمان نوازی کی بھی پوری ہوجائے۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد
)جواب( عزیزم مکرم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری سمجھ میں ابھی بات نہیں آئی کہ یہ کس طرح ہوگا۔ سردست آپ تین دن اسی طرح کرلیں میری سمجھ میں بھی آجائے اور آپ کی خواہش مہمان نوازی کی بھی پوری ہوجائے۔ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا و مطاعنا ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضور نے ازراہ نوازش اور شفقت اس عاجز کی دلداری کی خاطر تین دن کی مہمان نوازی قبول فرمالی۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنیا والاخرہ۔
چونکہ حضور نے فرمایا تھا کہ سردست تین دن کے لئے اس عاجز کی خواہش مہمان نوازی پوری ہوجائے۔ اب جس طرح حضور پسند فرمائیں یعنی اگر حضور اس انتظام کو جاری رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ورنہ جو صورت حضور نے پہلے مناسب خیال فرمائی تھی اس پر عمل پیرا ہوجائوں۔ والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین غلام
عاجز غفورالحق خاں عفی عنہ` ۴۸۔۶۔۱۵
عزیزم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری غرض تو یہ تھی کہ یوں ہی آپ پر اس وجہ سے بوجھ نہ ہوکر ہم مہمان ہیں۔ گھر میں انتظام ہو تو کارکن خود ڈرتے ہیں کہ زائد خرچ نہ ہو۔ مہمان نوازی میں اوپر اوپر زیادہ خرچ کروا دیتے ہیں اور روپیہ کے ضیاع کا موجب ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو موجودہ صورت پر اصرار ہو تو پھر یہ چاہئے کہ کارکن سے منشی محمود احمد جو چیزیں منگوائیں وہ کاپی پر لکھیں تاہم کو معلوم ہوسکے کہ بلاوجہ خرچ تو نہیں کرتے ورنہ طبیعت پر ہمارے بوجھ رہے گا۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد
)جواب( عزیزم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میری غرض تو یہ تھی کہ یوں ہی آپ پر اس وجہ سے بوجھ نہ ہوکر ہم مہمان ہیں۔ گھر میں انتظام ہو تو کارکن خود ڈرتے ہیں کہ زائد خرچ نہ ہو۔ مہمان نوازی میں اوپر اوپر زیادہ خرچ کروا دیتے ہیں اور روپیہ کے ضیاع کا موجب ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو موجودہ صورت پر اصرار ہو تو پھر یہ چاہئے کہ کارکن سے منشی محمود احمد جو چیزیں منگوائیں وہ کاپی پر لکھیں تاہم کو معلوم ہوسکے کہ بلاوجہ خرچ تو نہیں کرتے ورنہ طبیعت پر ہمارے بوجھ رہے گا۔
والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
سیدنا و مطاعنا ایدکم اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اس عاجز کی درخواست مہمان نوازی پر حضور نے جس قدر تالیف قلب کی خاطر اپنی طبیعت پر بوجھ ڈالا ہے اس کے واسطے ازحد ممنون ہوں۔
آئندہ کے لئے میں اصرار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس طرح حضور کی طبیعت پر بوجھ رہے گا۔ اب جو اجناس بقایا ہیں وہ بطور تحفہ قبول فرمانے کے لئے عرض ہے اور ساتھ کی ناچیز رقم )۰/۸۰۰ روپے( بھی۔ والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین غلام
عاجز غفورالحق خاں عفی عنہ ۴۸۔۶۔۱۲
)جواب( عزیزم سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
رقم اور اجناس کا شکریہ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ یہ بوجھ کا احساس بھی صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہے ورنہ آپ میرے بچوں کی طرح ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب امور میں حکمتیں رکھی ہیں اور رسول کریم~صل۱~ کا اسوہ بڑی بھاری حکمتیں رکھتا ہے اور اسی میں ہم سب کا نفع ہے۔ والسلام خاکسار مرزا محمد احمد
بخدمت حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضور کی خدمت میں یہ حقیر رقم /-/-۸۰۰ روپیہ پیش کرتا ہوں حضور قبول فرماویں اور میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے دعا فرماویں۔ رمضان شریف کا مبارک مہینہ ہے۔ والسلام حضور کا ادنیٰ خادم غفورالحق خاں ۱۹۴۸۔۸۔۱
عزیزم ڈاکٹر غفورالحق صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آٹھ سو روپے مل گئے جزاکم الل¶ہ احنس الجزاء۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سب خاندان پر رحم فرمائے اور اپنے فضل سے اپنی رضاء کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد
)جواب( عزیزم ڈاکٹر غفورالحق صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آٹھ سو روپے مل گئے جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سب خاندان پر رحم فرمائے اور اپنے فضل سے اپنی رضاء کی راہوں پر چلنے کی توفیق بخشے۔
والسلام خاکسار
مرزا محمود احمد
کوئٹہ سے مراجعت
حضرت مصلح موعود کوئٹہ میں قریباً تین ماہ تک رونق افروز رہنے اور بلوچستان کو اپنے فیض روحانی سے متمتع کرنے کے بعد ۷۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو صبح ساڑھے سات بجے بذریعہ کراچی میں واپس لاہور تشریف لے آئے۔
فصل سوم
سیدنا حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب ہندوپریس کا گمراہ کن پروپیگنڈا قادیان کے بارے میں جماعتی عہد حضرت مصلح موعود کا ضروری پیغام پنجاب یونیورسٹی کی اردو کانفرنس کے نام نصاب کمیٹی حکومت پنجاب کو مخلصانہ مشورہ
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے ملک گیر اور مبارک سفروں کا یکجائی تذکرہ کرتے ہوئے ہم ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک جاپہنچے تھے` اب ہم دوبارہ اس سال کے ابتدائی دور کی طرف پلٹتے ہیں۔
سیدنا حضرت مصلح موعود کا اہم مکتوب چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کے نام
ماہ جنوری ۱۹۴۸ء کے تیسرے ہفتہ میں اقوام متحدہ کا اجلاس مسئلہ کشمیر پر بحث کے لئے منعقد ہونے والا تھا اور چوہدری محمد ظفراللہ
خاں صاحب )وزیرخارجہ( پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے بحث میں حصہ لینے کے لئے نیویارک تشریف لے جارہے تھے۔ اس موقعہ پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے اس دیرنیہ تعلق الفت و محبت اور گہری دلچسپی و وابستگی کے باعث جو آپ کو ہمیشہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ رہی چوہدری صاحب موصوف کو نہایت قیمتی نکات پر مشتمل ایک اہم مکتوب بذریعہ ہوائی ڈاک بھجوایا جس کا متن یہ تھا۔
>عزیزم چوہدری ظفراللہ خاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
ایک سوال بالکل فیصلہ کن ہے۔ اگر ریاست کے مسلمان جو اسی فیصدی ہیں ہندوستان یونین سے ملنا چاہتے ہیں اور آزاد ک جدوجہد میں حصہ لینے والوں کو ظالم اور ڈاکو سمجھتے ہیں تو پھر چاہئے تھا کہ آزاد کردہ علاقہ سے بھاگ کر وہ جموں کی طرف جاتے لیکن وہ لوگ بھاگ کر پاکستان آئے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد آدمی پاکستان میں ہے جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ اکثریت حملہ آوروں کو ریڈرز۸۵ نہیں بلکہ لبریٹرز ۸۶ سمجھتی ہے۔ اگر یہ درست نہیں تو یونین گورنمنٹ بتلائے کہ صوبہ جموں اور میرپور کا بھاگا ہوا کتنا مسلمان جموں میں پناہ گزین ہے۔ اس کے مقابل پر پاکستان حکومت ثابت کرے گی کہ جموں اور اس کے علاقہ کے مسلمان بھاگ کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ کیا کوئی بھاگ کر ڈاکوئوں کے پاس بھی جاتا ہے۔
۲۔ جموں راجہ کا صدر مقام ہے اور ابھی تک راجہ کے قبضہ میں ہے۔ یونین بتائے کہ جموں کے مسلمان اب کہاں ہیں؟ اگر وہ پاکستان میں آچکے ہیں تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ریاست میں محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ جموں کے شہر کی مسلمان آبادی ۸۰% یا ماری جاچکی ہے یا بھاگ کر پاکستان آچکی ہے۔ وہ کن >ریڈرز< سے ڈر کر جموں سے نکلی ہے اور کیوں ہندوستان یونین میں نہیں گئی بلکہ پاکستان آگئی ہے؟
اگر ان دو صاف اور واضح اصول پر ہی مجلس اقوام تحقیق کروائے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ ریاست میں ریڈرز نہیں بلکہ لبریٹرز لڑرہے ہیں اور ریاست کے مسلمان باشندے آزادی چاہتے ہیں ہندوستان سے الحاق نہیں چاہتے۔
۳۔ ریاست میں قانون ہے کہ جو ہندو مسلمان ہوجائے وہ جائداد سے محروم کردیا جائے اور اسے لاوارث قرار دیا جائے۔ کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس ظالمانہ اور یک طرفہ قانون کے بعد بھی ہندوستان یونین سے ملنا چاہے گا؟
۴۔ ریاست کا قانون ہے کہ ڈوگرے اور سکھ اور دوسرے ہندو قانون اسلحہ سے آزاد ہیں اور مسلمان اس قانون کے پابند ہیں اور پھر انہیں لائسنس دیا بھی نہیں جاتا۔ یہ قانون چند سال سے بنایا گیا ہے اور اسی کی مدد سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں سوائے چندوظیفہ خواروں کے کوئی مسلمان ہندوستان یونین میں شمولیت کا خواہش مند ہوگا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قاون ریاست کا ہے کیونکہ ہندوئوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں کے ایجی ٹیشن۸۷ میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ دوسرے یہی قانون اب عملاً ہندوستان میں برتا جارہا ہے اور مسلمانوں سے ہتھیار چھینے جارہے ہیں۔ خود مسٹر گاندھی نے تقریر میں کہا کہ مسلمانوں کو چاقو تک حکومت کے سپرد کردینے چاہئیں >تاکہ اکثریت کے دل میں ان کے متعلق اطمینان پیدا ہو اور اس کا خوف دور ہو۔< یہ مضحکہ خیز فقرہ اس شخص کا ہے جو عدل و انصاف کا مدعی ہے اور یہ بہادری کا سرٹیفکیٹ ہے جو وہ قوم کو دے رہا ہے جو مسلمانوں سے تعداد میں اس وقت دس گنی ہوچکی ہے۔
۵۔ مسلمان گوشت خور ہے اور گائے بھی کھاتا ہے لیکن کشمیر میں گائے کی قربانی پر دس سال قید کی سزا مقررہے اور جب ۳۱ء/۳۲ء میں کشمیر میں ایجی ٹیشن ہوا اور مسلمانوں نے اس قانون کے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا اور حکومت ہند نے بھی اس قانون کی منسوخی یا اس کے نرم کرنے کا مشورہ دیا تو مہاراجہ کشمیر نے ABDICATE ہوجانے کی دھمکی دی اور یہ قانون اب تک موجود ہے اور اب انڈین یونین کے صوبے بھی گائے کشی کے خلاف قانون بناتے جارہے ہیں۔ یہ امور اگر اچھی طرح بیان کئے جائیں تو یقیناً اس سوال کو حل کرنے کا موجب ہوسکتے ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ جونا گڑھ` مادھوپور کی طرح اس سارے سوال کو خراب کردے گا اور بائونڈری کمشن کی طرح اس ساری کوشش کو بے نتیجہ بنادے گا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
یاد رکھیں کہ کشمیر گیا تو پاکستان گیا۔ اس مسئلہ کو بہرحال عمدگی سے طے کرانا چاہئے اور کشمیر کے چھوڑنے پر کسی طرح رضامندی ظاہر نہیں کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے۔
والسلام
خاکسار )دستخط( مرزا محمود احمد
از لاہور۔ ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۸ء۸۸
ہندوپریس کا جماعت احمدیہ کے خلاف گمراہ کن اور زہریلا پروپیگنڈا
متعصب ہندو پریس جو جماعت احمدیہ کے خلاف ہمیشہ ہی مسلم مفادات کے تحفظ کی پاداش میں برسرپیکار رہا۔ قادیان کے بیرونی محلوں
سے احمدی آبادی کے مستقل انخلاء اور مرکزی محلہ میں حلقہ درویشاں کے قیام پر ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق دوبارہ زہر اگلنے لگا۔
چنانچہ اخبار >پرتاپ< )نئی دہلی( نے ۸۔ جنوری ۱۹۴۸ء کو اپنے اندرونی بغض وعناد کا اظہار کرتے ہوئے بعنوان >یہ پاکستان ہے< لکھا۔
>قادیان ضلع گورداسپور میں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جسے مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ کی بدولت خاص اہمیت مل گئی ہے۔ یہ احمدیوں کا گڑھ ہے ۔۔۔ احمدی بھاری تعداد میں وہاں آباد ہوتے گئے اس لئے اس کی آبادی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ۱۵۔ اگست سے پہلے احمدیوں نے پوری کوشش کی کہ گورداسپور کا ضلع پاکستان میں آجائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمان انہیں کافر سمجھتے ہیں انہوں نے پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی۔ لیکن ۱۵۔ اگست سے پہلے ہی اس جماعت کے موجودہ خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود احمد لاہور چلے گئے اور ان دنوں دیوان بہادر کرشن کشور کی کوٹھی اور رتن باغ پر قابض ہیں۔ اپنی جائداد کی حفاظت کے لئے وہ تین سو پچاس کے قریب احمدی قادیان چھوڑ آئے ہیں۔ انہوں نے مشرقی پنجاب کی گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ اتنے احمدیوں کو قادیاں رہنے کی اجازت دی جائے اور اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی کہ ہر تیسرے مہینے یہ ساڑھے تین سووالنیٹرز بدل دیئے جایا کریں۔ اس نے ان کی یہ بات نہ مانی لیکن ان ساڑھے تین سو احمدیوں کو جو قادیان میں رہ کر پاکستان کے پانچویں کالم کا کام دیتے ہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں۔
قادیان سے ایک سجن لکھتے ہیں >یہاں لگ بھگ تین سو پچاس قادیانی رہتے ہیں جن میں ورتمان خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود کے دو پتر ظفراحمد بیرسٹر اور خلیل احمد بھی ہیں۔ انہوں نے ۲۶` ۲۷` ۲۸ دسمبر کو اپنا وارشک اتسو منایا جس میں ورتمان خلیفہ کا ایک پتر بھی سنایا گیا۔ خلیفہ نے اپنے پتر میں اپنے پیروئوں کو یہ تسلی دی تھی کہ وہ اپنے دوسرے پیروئوں سمیت جلد قادیان واپس آئیں گے۔ یہاں موجود قادیانیوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتہ میں ہمارا کنوائے آنے والا ہے جس میں کچھ قادیانی آئیں گے اور وہ یہاں سے قادیانیوں کو بے بھی جائیں گے۔ جو ساڑھے تین سو کے قریب قادیانی یہاں ہیں انہوں نے اتنی جگہ جگہ رکھی ہے کہ اس میں ساڑھے تین ہزار منش آسانی سے سما سکتے ہی۔ ان کے کالج وغیرہ کی عمارتیں بھی اس وقت تک خالی پڑی ہیں۔ اگر انہیں اپنے خلیفہ کے پاس پاکستان بھیج دیا جائے تو دس ہزار اشخاص کے لئے جگہ نکل سکتی ہے۔ کیا آپ مشرقی پنجاب گورنمنٹ کو خبردار کر دیں گے۔
سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے جاگتے کو کون جگائے۔ ہماری سرکار مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر یہاں لارہی ہے اہیں پاکستان کو کیا بھیجے گی۔ خلیفہ قادیان نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں مشرقی پنجاب جائیں اور وہاں آباد ہوجائیں۔
اس سلسلہ میں یہ خبر بھی پڑھ لیجئے۔ ۳۰ دسمبر کو قادیان میں پانچ دو نالی بندوقیں` ۳۴۰ بم` تین امریکن بم اور بہت سابارہ برآمد ہوا ہے )کرشن(۔<
>پرتاپ< نے اس اشتعال انگیز مضمون کے چند ماہ بعد )عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بحث غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی ہوچکی تھی اور ہندوستان نواز حلقے پاکستان کے خلاف ایک نئی اور سراسر مضر اور ناقابل قبول قرار دار پیش کرنے والے تھے( اپنی ۱۹۔ مارچ ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں یہ منقریانہ خبر شائع کی کہ امام جماعت احمدیہ قادیان اور سکھ لیڈروں کے درمیان قادیان اور ننکانہ صاحب کے متعلق ایک سمجھوتہ کی بات چیت ہورہی ہے جس کی رو سے قادیان کا علاقہ احمدیوں سے دوبارہ آباد کردیا جائے گا اور ننکانہ صاحب کا علاقہ سکھوں سے دوبارہ آباد کیا جائے گا اور یہ کہ قادیان اور ننکانہ صاحب تک کے لئے ہر دو طرف کا راستہ معین کرکے حکومت پاکستان اور حکومت ہند کے مشترکہ انتظام میں رکھا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
چیف سیکرٹری جماعت احمدیہ نے اس بے بنیاد خبر کی تردید میں فوراً یہ بیان جاری کیا کہ۔
>یہ خبر بالکل بے بنیار اور گمراہ کن ہے۔ جماعت احمدیہ اور سکھ لیڈروں کے درمیا اس قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ اس قسم کے باہمی سمجھوتہ کی کوئی تجویز کی گئی ہے۔ قادیان کے تحفظ کے متعلق جماعت احمدیہ نے جو کچھ کہنا تھا وہ ایک میمورنڈم کی صورت میں مرتب کرنے مرکزی حکومت پاکستان شعبہ پناہ گزیناں کے سامنے پیش کردیا گیا ہے اس میمورنڈم میں ننکانہ صاحب کا کوئی ذکر نہیں اور نہ جماعت احمدیہ نے اس بارہ میں سکھ لیڈروں کے ساتھ براہ راست کوئی بات کی ہے افسوس ہے کہ اخبار پرتاپ نے اس من گھڑت خبر کے شائع کرنے میں صداقت سے کام نہیں لیا اور ایک فتنہ کا بیج بونے کی کوشش کی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی بعض پبلک تقریروں میں بھی کئی دفعہ حکومت کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات مثلاً سرہند اور اجمیر اور قادیان وغیرہ کے بارہ میں ہر دو حکومتوں کے درمیان کوئی باعزت سمجھوتہ ہونا ضروری ہے۔< ۸۹
>پرتاپ< جیسے اسلام دشمن اخبار کا مقصد اس سراسر غلط اور جھوٹی خبر کے ذریعہ سے مسلمانان پاکستان میں قلبی انتشار پیدا کرکے ان کی یک جہتی اور اتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور مسئلہ کشمیر کی سرد جنگ کو جیتنا تھا۔ جماعت احمدیہ کے مرکز نے اس خطرناک چال کو بروقت بھانپ کر اصل حقیقت سے پردہ اٹھادیا مگر اس کے باوجود بعض پاکستانی اخبارات نے پاکستان اور احمدیوں کو زک پہنچانے کے لئے ہندو پریس کی خبر اچھالنا شروع کردی۔
اس افسوسناک حرکت پر اخبار >سفینہ< لاہور نے حسب ذیل اداریہ سپرد قلم کیا۔
>کشمیر کے متعلق یو۔ این۔ او میں جو نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اس پر ہر مسلمان کو تشویش ہے اور ہماری رائے میں یہ سب کچھ اس لئے نہیں ہوا کہ اس بارے میں پاکستان یا پاکستان کے نمائندوں کا موقف بدل گیا ہے بلکہ یہ سب کچھ ہندوستان کے سیاسی چال بازوں نے صورت حال کو نھانپ کر اور مختلف ذرائع سے کام لے کر کیا ہے لیکن مسلمانان پاکستا کی بدقسمتی ملا خطہ ہو کہ سلامتی کونسل میں کشمیر کے قبضہ کو یہاں ننکانہ اور قادیان کے تبادلے کے قبضہ سے ملادیا گیا ہے اور محض اس لئے ملادیا گیا ہے کہ ایک چالاک ہندو اخبار نویس نے موقع کی نزاکت کو دیکھ کر ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں میں ضرور انتشار خیال پیدا ہوجائے گا اور یہاں وہی ہوا۔
چوہدری محمد ظفراللہ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ پاکستان کے کسی معاملے کو قادیان کے کسی معاملے سے ملا سکتے ہیں ہماری ناقص رائے میں ایک بہت بڑی جسارت ہے اس لئے کہ جب بائونڈری کمیشن کے سامنے قادیان والوں نے اپنا نقطئہ نگاہ پیش کیا اور کمیشن کے ایک ممبر نے چوہدری محمد ظفراللہ سے پوچھا کہ آپ ان کی تائید کرتے ہیں تو انہوں نے جھٹ جواب دیا کہ صاحب میں تو پاکستان کا کیس پیش کررہا ہوں مجھ سے پاکستان کی نسبت پوچھئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ محمد ظفراللہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں۔ >پرتاپ< نے قادیان اور ننکانہ کا ذکر اس انداز سے کیا ہے کہ چوہدری صاحب واپس آکر اس فیصلے کو تصدیق کریں گے۔ اور اس شرارت سے اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں ذہنی طور پر انتشار پیدا کیا جائے اور اندرونی طور پر جو کچھ یک جہتی اور ہم آہنگی کشمیر کے معاملے میں مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اسے ان پرانے مباحث کی نذر کرادیا جائے جس کے متعلق مسلم لیگ نے انسانی اجتماعیات کی تاریخ میں بے مثال فتح حاصل کی تھی اور جو مباحث مسلمانوں کی خوش قسمتی سے کچھ دن ہوئے بالکل ختم ہوئے تھے۔
یاد رکھئے کہ یہ وقت ہم آہنگی` ہم قدمی اور ہم دوستی کا ہے` کسی بیرونی اطلاع کی بناء پر جس کی تصدیق نہ ہوسکے یا کسی ایسے افواہ آمیز بیان پر جو شرارتاً دیا گیا ہو آپس میں الجھ پڑنا مناسب نہیں۔ دشمن کی چال یہی ہے آپ اس چال میں آئے تو نقصان آپ کا ہوگا۔ ننکانہ اور قادیان کا تبادلہ کوئی طاقت بھی اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک آپ نہ چاہیں۔ یہ دونوں مقامات کسی ایسے شخص کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں جو آپ کی مرضی کے خلاف دوسری کے حوالے کردے` یہ تو قوموں اور ملکوں کی زندگی کی عزت آبرو کا مسئلہ ہے اسے کوئی فرد واحد خواہ کتنا ہی بڑا ہو طے نہیں کرسکتا اسے قومیں ہی طے کرسکتی ہیں۔ ننکانہ ایک قوم کا مذہبی مقام ہے اور مذہبی مقامات کے احترام کو مسلمان قوم اچھی طرح جانتی ہے اس کے لئے سکھوں کو قادیان والوں سے نہیں پاکستان والوں سے بات کرنی ہے۔ اور آج کوئی قادیانی ایسا نہیں ہے جو ننکانہ کی قیمت پر قادیان اس لئے حاصل کرنا چاہے کہ ان کا ایک بھائی پاکستان کی وزارت خارجہ کے عہد پر ہے۔ مسلمانوں کو اس وقت تک خاموش رہنے کی ضرورت ہے جب تک اس امر کی تصدیق ہ ہولے۔ >پرتاپ< ایسا راوی نہیں ہے جس کی بات صحیح ہو۔<۹۰
قادیان سے متعلق ایک نہایت اہم جماعتی عہدنامہ
۲۶۔ ۲۷ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کی مجلس مشاورت کے دوران حضرت مصلح موعود نے نمائندگان جماعت سے حسب ذیل عہد لیا۔۹۱
>میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے قادیان کو احمدیہ جماعت کا مرکز مقرر فرمایا ہے میں اس کے اس حکم کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش اور جدوجہد کرتا رہوں گا اور اس مقصد کو کبھی بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گا۔ اور میں اپنے نفس کو اور اپنے بیوی بچوں کو اور اگر خدا کی مشیت میں ہو تو اولاد کی اولاد کو ہمیشہ اس بات کے لئے تیار کرتا ہوں گا کہ وہ قادیان کے حصول کے لئے ہر چھوٹی اور بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں۔ اے خدا مجھے اس عہد پر قائم رہنے اور اس کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اللہم آمین۔<۹۲
حضرت مصلح موعود کا پیغام پنجاب یونیورسٹی کی اردو کانفرنس کے نام
۲۶۔ مارچ ۱۹۴۸ء کو پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس کے افتتاحیہ اجلاس میں حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا بشیرالدین محمد احمد
)المصلح الموعود( کا مندرجہ ذیل پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔
>میرے نزدیک اردو کی صحیح خدمت یہی ہے کہ جس طرح وہ طبعی طور پر پہلے بڑھی تھی اسے طبعی طور پر اب بھی بڑھنے دیا جائے۔ میرا یہ خیال ہے اور مجھے خوشی ہوگی۔ اگر میرا یہ خیال غلط ہوکر اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ سے زیادہ داخل کرنے کی کوشش مسلمانوں کی طرف سے پہلے شروع ہوئی ہے اور ہندوئوں میں بعد میں رد عمل پیدا ہوا۔ نسیم لکھنوی تک کی مسلمانی اور ہندوانی اردو ایک نظر آتی ہے۔
اسی طرح سرشار کی نثر مسلمانوں کی نثر سے مختلف نہیں۔ اگر ہم نے اپنے چار کروڑ مسلمانوں سے تعلق رکھنا ہے جو ہندوستان میں بستے ہیں تو ہمیں پاکستان میں اردو کی رو کو اسی طبعی رنگ میں چلنے دینا چاہئے جس رنگ پر آج سے سو پچاس سال پہلے وہ چل رہی تھی۔
دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اردو کانفرنس دہلی اور اس کے نواحی علاقہ کے اجڑے ہوئے لوگوں کے لئے یہ تحریک بھی جاری کرے کہ انہیں ایک خاص علاقے میں بسادیا جائے تاکہ اردو زبا کے ساتھ پرانی ہندوستانی اصلی تہذیب بھی اپا علیحدہ جلوہ دکھاتی رہے تو اس سے اردو کی بھی خدمت ہوگی اور ہماری ایک پرانی یادگار بھی تازہ رہ سکے گی۔ تھل پراجیکٹ میں اس کے لئے کافی گنجائش ہے۔
تیسرے میرے نزدیک اردو کی یہ بہترین خدمت ہوگی کہ اگر ہم اس کے لئے پاکستان کی زبان بنائے جانے کا معالبہ کریں۔ پاکستان کی زبان بننے کے بعد صوبوں کی زبان وہ آپ ہی آپ بن جائے گی ہمیں ابھی صوبجات کے متعلق کوئی بحث ہیں چھیڑنی چاہئے وہ خود اپنی ضرورتوں کے مطابق اپنے لئے سکیمیں بنالیں گے۔ اور جب پاکستانی ذہنیت قائم ہوجائے گی اور جب پاکستانی وطنیت ایک جسم اختیار کرلے گی تو صوبجات خود بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے۔ اردو یقیناً پاکستان ہی کی نہیں ہندوستان کی زبا بھی بننے والی ہے مگر ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے اور اس خالص تہذیبی اور علمی سوال کو سیاسی سوال نہیں بنادینا چاہئے۔<۹۳
جماعت احمدیہ کی طرف سے نصاب کمیٹی حکومت مغربی پنجاب کو مخلصانہ مشورہ
حکومت مغربی پنجاب نے مڈل تک کے نظام تعلیم کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی اور اس معاملہ میں جماعت احمدیہ سے بھی
مشورہ طلب کیا جس پر صدر انجمن احمدیہ نے مندرجہ ذیل آٹھ ممبروں پر مشتمل ایک تعلیمی کمیٹی بنائی۔
قمرالانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب )صدر`( ابوالفتح مولوی محمد عبدالقادر صاحب ایم۔ اے ریٹائرڈ پروفیسر کلکتہ یونیورسٹی )سیکرٹری`( حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب` ناظر صاحب تعلیم و تربیت مولوی عبدالرحیم صاحب درد` مولوی ابوالعطاء صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب۔
اس کمیٹی نے حکومت مغربی پنجاب کو جو مشورہ دیا وہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے۔
)>تمہیدی نوٹ( اصل مشورہ پیش کرنے سے قبل میں یہ امر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہماری کمیٹی اپنے مشورہ کو صرف اصول حد تک محدود رکھے گی اور نصاب کی تفصیلات میں جانے یا کتب تجویز کرنے کے متعلق کوئی مشورہ پیش نہیں کیا جائے گا۔ اور دراصل اس معاملہ میں زیادہ اہم سوال اصول ہی کا ہے اور تفصیلات کو بغیر کسی خطرہ کے زیادہ عملی تجربہ رکھنے والے واقف کاروں پر چھوڑا جاسکتا ہے۔ بہرحال جو اصولی مشورہ ہماری کمیٹی امور مستفسرہ کے متعلق دینا چاہتی ہے وہ ذیل کے چند مختصر فقرات میں درج کیاجاتا ہے۔
جہاں تک تعلیم کی غرض و غایت کا سوال ہے ہو محض تعلیم کے لفظ سے پوری طرح ظاہر نہیں کی جا سکتی کیونکہ تعلیم کے لغوی معنے صرف علم دینے کے ہیں مگر اصطلاحی طور پر تعلیم کا مفہوم اس لغوی مفہوم کی نسبت بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ گہرا ہے۔ دراصل اگر تعلیم کے صحیح مفہوم کو مختصر لفظوں میں ہی ادا کرنا ہو تو صرف لفظ تعلیم کی بجائے تین الفاظ کا مجموعہ زیادہ مناسب ہوگا اور یہ تین الفاظ تعلیم و تنویر و تربیت ہیں۔ تعلیم کی غرض و غایت ہرگز پوری نہیں ہوسکتی جب تک یہ معین علم سکھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کے دماغوں میں روشنی پیدا کرنے اور پھر اس کے معلومات کے مطابق عملی مشق کرانے کا انتظام نہ ہو۔ بچوں کے دماغوں میں محض خشک معلومات کا ذخیرہ ٹھونس دینا چنداں نفع مند نہیں ہوتا جب تک کہ ان کے دماغوں کی کھڑکیاں کھول کر علم کے میدان کے ساتھ بنیادی لگائو نہ پیدا کیا جائے۔ اور پھر عملی مشق کے ذریعہ بچوں کی قوت عملیہ کو ایک خاص ڈھانچے میں نہ ڈال دیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ تعلیم کا جو وسیع مفہوم اوپر بیان کیا گیا ہے وہ کبھی حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہر قوم اپنی قومی اور ملکی ضروریات کے پیش نظر اپنے بچوں کی تعلیم کا پروگرام مرتب نہ کرے۔ انگریز نے اپنے زمانہ میں جو غرض و غایت تعلیم کی سمجھی اور جو مقاصد اپنے مصالح کے ماتحت ضروری خیال کئے ان کے پیش نظر نصاب بنایا اور درسگاہیں جاری کیں مگر انگریز کے چلے جانے اور آزادی کے حصول اور پاکستان کے قیام کے بعد انگریز کی طے کی ہوئی پالیسی اور انگریز کا جاری کیا ہوا نصاب ہماری ضرورتوں کو ہرگز پورا نہیں کرسکتا بلکہ یقیناً وہ بعض پہلوئوں سے ہمارے مقاصد کے خلاف اور متضاد واقع ہوا ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ کلی طور پر بدل دینے کے قابل ہے۔ لاریب اس میں کئی باتیں مفید بھی ہیں جو بڑے لمبے تجربے کے بعد حاصل کی گئی ہیں۔ پس دانش مندانہ پالیسی یہ ہوگی کہ تدریج اور آہنگی کے ساتھ قدم اٹھایا جائے اور سابقہ نصاب کے غیر مفید حصہ کو ترک کرکے ایسے مفید اضافوں کے ساتھ جو ہمارے موجودہ قومی مصالح کے لئے ضروری ہیں نیا نصاب مرتب کیا جائے۔ ہماری کمیٹی نمبر اول پر یہ تجویز پیش کرنا چاہتی ہے کہ جدید نصاب میں دینیات اور اخلاقیات کے مضمون لازماً شامل ہونا چاہئیں کیوکہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بچپن میں ہی ایمان واخلاق کا بیج بودیا جائے تاکہ قوم کے نونہال بڑے ہوکر اپنے اخلاق اور دین کی بنیاد اسلام کی دی ہوئی تعلیم پر قائم کرسکیں۔ لیکن ہماری کمیٹی اس مشکل کی طرف سے آنکھیں بند ہیں کرسکتی کہ پاکستان میں مختلف اسلامی فرقوں کے لوگ پائے جاتے ہیں اور صحیح طور پر یا غلط طور پر ہرفرقہ کی طرف سے مطالبہ ہوگا کہ اس فرقہ کی مخصوص تشریح کے مطابق اسلامی تعلیم دی جائے اور اس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ دینیات کا نصاب خود ایک جھگڑے کی بنیاد بن جائے۔ پس جہاں ہم دینیات کی تعلیم کو ضروری خیال کرتے ہیں وہاں ہمارا یہ بھی مشورہ ہے کہ اس قسم کے اختلاف کے سیدباب کے لئے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے فی الحال پرائمری اور مڈل میں دینی تعلیم ایک ایسی اقل اصولی تعلیم تک محدود ہونی چاہئے جس میں اختلافات کا کم سے کم امکان ہو۔ اور کمیٹی ہذا تجویز کرتی ہے کہ اقل نصاب پرائمری اور مڈل میں بصورت ذیل ہونا چاہئے۔
الف۔
قرآن شریف ناطرہ بغیر ترجمہ کے۔
ب۔
قرآن شریف کی بعض چھوٹی سورتوں اور بعض قرآنی دعائوں کا حفظ کرنا۔
ج۔
پنج ارکان اسلام یعنی کلمہ طیبہ۔ نماز۔ روزہ۔ حج۔ زکوۃ کے ایسے بنیادی مسائل جن میں کسی اختلافی مسائل کا دخل نہ ہو۔
د۔
آنحضرت~صل۱~ کے مختصر سوانح۔ اسلامی اخلاق پر ایک مختصر رسالہ جو تصنیف کرایا جاسکتا ہے جس میں راست گفتاری` دیانت` لین دین کی صفائی` عہد کی پابندی` فرض منصبی کی ادائیگی` محنت` قربانی` عدل و انصاف` خالق کی محبت` مخلوق کی ہمدردی وغیرہ بنیادی اخلاق کے متعلق سہل اور موثر طریق میں تعلیم دی گئی ہو۔
)نوٹ( نصاب دین کے تعلق میں ہماری کمیٹی یہ تجویز بھی پیش کرتی ہے کہ کسی سرکاری سکول میں کسی اقلیت کے طلبہ کی تعداد معقول ہو اور اس طرح اقلیت کی طرف سے یہ مطالبہ ہوکر اس کے لئے اس کے مذہب کی تعلیم کا نصاب مقرر کیا جائے تو اس کا انتظام بھی ہونا چاہئے مگر یہ نصاب صیغہ تعلیم کا منظور شدہ ہونا چاہئے جو عمومی رنگ کا ہو جس میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے کہ دوسرے مذب پر حملے یا مناظرانہ مسائل نصاب میں داخل نہ ہوجائیں۔ ہماری کمیٹی بڑی سختی کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ زمانے میں سب سے بڑا فتنہ تاریخ کے نصاب نے پیدا کیا ہے جس میں جھوٹی باتوں کو داخل کرکے اور بعض سچی باتوں کو غلط رنگ دے کر اور بہت سی سچی باتوں کو حذف کرکے بھاری فتنہ پیدا کیا گیا ہے۔ کمیٹی ہذا سفارش کرتی ہے کہ تاریخ کے نصاب کو فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔ حسب ضرورت نئی کتب لکھائی جائیں جن میں اس قسم کے شرانگیز عنصر کو بالکل خارج کردیا جائے اور صحیح اور مستند واقعات اچھے رنگ میں درج کئے جائیں اور تاریخ کے کورس میں ذیل کے حصے شامل کئے جائیں یعنی تاریخ ہندوستان جس میں اسلامی زمانہ پر زیادہ زور ہو۔ تاریخ اسلام جس میں آنحضرت~صل۱~ کے سوانح حیات مسلسل اور مربوط صورت میں درج ہوں اور دیگر اسلامی تاریخ کے صرف خاص خاص واقعات ہوں اور اس کے علاوہ تاریخ عالم پر ایک سرسری نظر ہو۔
کمیٹی ہذا یہ بھی سفارش کرتی ہے کہ تاریخ` جغرافیہ کے مضمون کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاکر ایک مضمون کی صورت میں رکھنے کی کوئی خاص وجہ نہیں اور نہ ان میں کوئی ایسا غیر منفک واسطہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان دو مستقل مضمونوں کو لازماً اس لڑی میں پروکر رکھنا ضروری ہو انہیں علیحدہ علیحدہ کردینا ہماری کمیٹی کی رائے میں زیادہ مفید ہوگا۔ ہماری کمیٹی اس بات کی پرزور موید ہے کہ ذریعہ تعلیم بلا توقف اردو قرار دینا چاہئے۔ اردو کا نصاب بھی کافی اصلاح چاہتا ہے۔ اس میں دیگر مفید مواد کے علاوہ اسلامی تاریخ کے خاص خاص واقعات اور مشاہیر اسلام کے خاص خاص حالات کا عنصر کافی شامل ہونا چاہئے مگر ضروری ہے کہ اردو میں تکلف کے طریق پر اور غیر طبعی رنگ میں عربی اور فارسی کے الفاظ نہ ٹھونسے جائیں بلکہ اسے ایک زندہ چیز کی طرح طعبی رنگ میں ترقی کرنے کا موقع دیا جائے اور ابتدائی جماعتوں میں تو لازماً زبان بہت سادہ اور سلیس ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ اردو کورس میں سادہ اور موثر قومی اور اخلاقی نظمیں بھی شامل کی جائیں۔ ہماری کمیٹی یہ بھی سفارش کرتی ہے چونکہ عربی مسلمانوں کی مذہبی زبان ہے` قرآن شریف اور حدیث کو سمجھنے کے لئے عربی کا علم ضروری ہے اور اردو کی تکمیل کے لئے بھی عربی کافی اثر رکھتی ہے اس لئے مڈل کی پہلی جماعت سے عربی کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ ہماری کمیٹی پرائمری یا مڈل کی جماعتوں میں فارسی کے نصاب کے داخل کرنے کی تائید میں نہیں ہے کیونکہ اول تو فارسی کو ہمارے ملک یا ہمارے مذہب کے ساتھ اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جتنا کہ اردو یا عربی کو ہے` دوسرے بچوں کے دماغوں پر زیادہ زبانوں کا بوجھ ڈالنا کسی طرح مفید نتائج پید اکرنے والا نہیں سمجھا جاسکتا۔
۱۰۔ ہماری کمیٹی اس بات کی سفارش کرتی ہے کہ انگریزی زبان کی تعلیم کو پرائمری اور مڈل کے نصاب سے کلی طور پر خارج کردیا جائے۔ انگریز کے چلے جانے سے ہمارے لئے اس زبان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ ایک غیر ملکی زبان کے بوجھ سے اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کو مشوش کیا جائے۔
۱۱۔ جغرافیہ ایک ضروری علم ہے اور لازمی ہونا چاہئے۔ اس کا پولیٹیکل اور طبعی حصہ ہر دو نہایت ضروری اور مفید ہے۔
۱۲۔ ریاضی ایک نہایت ضروری علم ہے اور خود قرآن شریف نے اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے پس اس پر زیادہ زور ہونا چاہئے۔ یہ علم نہ صرف اپنی ذات میں مفید ہے بلکہ بچوں میں محنت اور استغراق اور صحیح الخیالی کا ملکہ پیدا کرنے میں بھاری اثر رکھتا ہے۔
۱۳۔ سائنس کے ساتھ بچپن سے ہی قومی بچوں کا لگائو پیدا کرنا ضروری ہے اور ہماری کمیٹی اس بات کی پرزور تائید کرتی ہے کہ شروع سے ہی اسباق الاشیاء وغیرہ کی صورت میں سائنس کی تعلیم کو داخل نصاب کرنا چاہئے۔ علم طبیعات اور علم کیمیا کے ضروری مسائل سادہ اور دلچسپ رنگ میں اسباق الاشیاء کی صورت میں نصاب کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح ایسی نئی ایجادات جن کے ساتھ آج کل کے زمانہ میں ہر شہری کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ مثلاً تار` ٹیلیفون` وائرلیس` ہوائی جہاز اور پھر موٹر` ریل` دخانی جہاز اور جنگی اسلحہ کے متعلق سادہ ابتدائی معلومات داخل نصاب کئے جاسکتے ہیں۔
۱۴۔ کمیٹی ہذا اس بات کی موید ہے کہ بچوں میں ملک کی بنیادی صنعتوں کے ساتھ ابتداء سے ہی لگائو پیدا کرانے کی ضرورت ہے اور ہمارے خیال میں شروع میں اس کے لئے تین شعبوں کا انتخاب ضروری ہوگا یعنی )۱( زراعت )۲( تجارت )۳( دستکاری۔ ان تینوں کے متعلق ابتدائی عملی اور علمی معلومات کا مہیا کرنا ضروری ہے۔ زراعت کی تعلیم کے لئے سکولوں میں ترقی یافتہ اصولوں اور عملی کام کی ٹریننگ کا انتظام ہونا چاہئے۔ تجارت میں درآمد و برآمد کے موٹے اصول اور چیزوں کے خریدنے اور فروخت کرنے کے طریق بتائے جائیں اور دست کاری میں بعض عام صنعتوں کی ابتدائی تعلیم شامل کی جاسکتی ہے۔
۱۵۔ ورزش کا سوال بھی نہایت اہم ہے اور قوم کی جسمانی ترقی اور صحتوں کی درستی پر بھاری اثر رکھتا ہے۔ پس سکولوں میں اس کی طرف بھی واجبی توجہ ہونی چاہئے۔ کھیلیں ایسی رکھی جائیں جو چار اغراض کو پورا کرنے والی ہوں )۱( جسم اور اعصاب کی طاقت کو بڑھانے والی ہوں )۲( جسم میں پھرتی پیدا کرنے والی ہوں )۳( عقل کو تیز کرنے والی ہوں )۴( اور باہم تعاون کی روح کو ترقی دینے والی ہوں۔
نیز کمیٹی ہذا کی رائے میں بچوں کو تین فنون کا سکھانا ضروری ہے جس کا سکول کی طرف سے انتظام ہونا چاہئے۔ الف۔ تیرنا ب۔ سواری سائیکل کی یا گھوڑے کی یا اگر ممکن ہو تو موٹر کی بھی۔ ج۔ بندوق چلانا جس کے لئے ابتداء ہوائی بندوق اور بعد میں ۲۲ بور کی رائفل۔ کلبیں جاری کی جاسکتی ہیں تاکہ ابتداء سے ہی بچوں میں فنون سپہ گری کا ملکہ اور شوق پیدا ہو۔
۱۶۔ بالاخر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم نے نصاب کے متعلق جو سفارشات کی ہیں ان میں اپنی تجاویز کو صرف پرائمری اور مڈل کی تعلیم تک محدود رکھا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم نے کسی مضمون کے مڈل میں رکھے جانے کی سفارش کی ہے تو وہ ہائی کلاسز میں بھی نہیں رکھا جائے گا۔ ہائی کلاسز کے نصاب کا معاملہ ہمارے مشورہ کے دائرہ سے خارج ہے اس لئے اس کے متعلق ہماری موجودہ تجاویز سے کوئی مثبت یا منفی استدلال کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ وہ حصہ اپنی ذات میں علیحدہ طور پر زیر غور آکر طے ہونا چاہئے۔
خدا کرے کہ اس اہم سوال کے متعلق حکومت کا متعلقہ شعبہ ایسے فیصلہ کی طرف راہنمائی حاصل کرے جو ملک اور قوم کے لئے بہترین نتائج پیدا کرنے والا ہو۔ آمین۔
خاکسار مرزا بشیراحمد رتن باغ لاہور
صدر کمیٹی برائے مشورہ نصاب مڈل ۲۔ مئی ۱۹۴۸ء<۹۴
فصل چہارم
فتنہ صیہونیت کے خلاف زبردست اسلامی تحریک اور استعماری طاقتوں کی سازش قائداعظم محمد علی جناح کی وفات پر حضرت امیرالمومنین کا بیان پر معارف مضمون >احمدیت کا پیغا< اس کی مقبولیت اور غیرملکی زبانوں میں تراجم مینار ڈہال میں حضرت امیرالمومنین کا اہم لیکچر
فتنہ صیہونیت کے خلاف زبردست اسلامی تحریک
دنیا کی تمام بڑی بڑی اسلام دشمن طاقتیں ایک لمبے عرصہ سے فلسطین میں یہودیوں کو وسیع پیمانے پر آباد کرتے آرہی تھیں۔ اس خوفناک سازش کا نتیجہ بالاخر ۱۶۔ مئی ۱۹۴۸ء کو ظاہر ہوگیا جبکہ برطانیہ کی عمل داری اور انتداب کے خاتمہ پر امریکہ` برطانیہ اور روس کی پشت پناہی میں ایک نام نہاد صیہونی حکومت قائم ہوگی اور دنیائے اسلام کے سینہ میں گویا ایک زہر آلود خنجر پیوست کردیا گیا۔
اس نہایت نازک وقت میں جبکہ ملت اسلامیہ زندگی اور موت کی کشمکش سے دو چار تھی۔ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے ایک بار پھر پوری قوت سے جھنجوڑا۔ انہیں مغربی طاقتوں اور صہیونی حکومت کے در پردہ تباہ کن عزائم سے قبل از وقت آگاہ فرمایا اور اس فتنہ عظمیٰ کے منظم مقابلہ کے لئے نہایت مفید تجاویز پر مشتمل ایک قابل عمل دفاعی منصوبہ پیش کیا۔
چنانچہ حضور نے خاص اس مقصد کے لئے >الکفرملہ واحدہ< کے نام سے ایک حقیقت افروز مضمون سپرد قلم فرمایا جس میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے فوراً ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور اس کے خلاف سردھڑ کی بازی لگادینے کی زبردست تحریک فرمائی۔ ذیل میں >الکفرملہ واحدہ< کا مکمل متن بجنسہ نقل کیاجاتا ہے۔
اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
الکفرملہ واحدہ
وہ دن جس کی خبر قرآن کریم اور احادیث میں سینکڑوں سال پہلے سے دی گئی تھی۔ وہ دن سج کی خبر تورات اور انجیل میں بھی دی گئی تھی۔ وہ دن جو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ اور اندیش ناک بتایا جاتا تھا معلوم ہوتا ہے کہ آن پہنچا ہے۔ فلسطین میں یہودیوں کو پھر بسایا جارہا ہے۔ امریکہ اور روس جو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر آمادہ ہورہے ہیں اس مسئلہ میں ایک بستر کے دو ساتھی نظر آتے ہیں۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ میں بھی یہ دونوں متحد تھے۔ دونوں ہی انڈین یونین کی تائید میں تھے اور اب دونوں ہی فلسطین کے مسئلہ میں یہودیوں کی تائید میں ہیں۔ آخر یہ اتحاد کیوں ہے؟ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کے خلاف اکٹھے کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس کے کئی جواب ہوسکتے ہیں مگر شاید ایک جواب جو ہمارے لئے خوشکن بھی ہے زیادہ صحیح ہو۔ یعنی دونوں ہی اسلام کی ترقی میں اپنے ارادوں کی پامالی دیکھتے ہوں۔ جس طرح شیر کی آمد کی بوپا کر کتے اکٹھے ہوجاتے ہیں شائد اسی طرح یہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ دونوں ہی اپنی دور بین نگاہوں سے اسلام کی ترقی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔ شاید اسلام کا شیر جو ابھی ہمیں بھی سوتا نظر آتا ہے۔ بیداری کی طرف مائل ہے۔ شاید اس کے جسم پر ایک خفیف سی کپکپی وار ہورہی ہے جو ابھی دوستوں کو تو نظر نہیں آتی مگر دشمن اس کو دیکھ چکا ہے۔ اگر یہ ہے تو حال کا خطرہ مستقبل کی ترقی پر دلالت کررہا ہے مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی عظیم الشان ذمہ داریاں بھی ان کے سامنے پیش کررہا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے شروع ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ کشمیر اور فلسطین ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور یہ عجیب تر بات ہے کہ اسی قوم کا ایک حصہ مسلمان ہوکر آج کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں مسلمانوں کی ساتھ زندگی اور موت کی جنگ مین ٹکرے رہا ہے۔ آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کررہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے قربانیاں پیش کررہی ہے۔ کشمیر کی جنگ میں بھی کا شر یعنی کشمیری کا نام سننے میں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ میں بھی کا شہر شہر کا ذکر بار بار آرہا ہے۔ اسی کا شر کے نام پر کشمیر کا نام کا شر رکھا گیا تھا جو اب بگڑ کر کشمیر ہوگیا ہے یا یہ کاشر ہے یعنی سیریا کی طرح۔
حال ہی میں کشمیر میں ایک آزادی کا دن منایا گیا ہے جن میں ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیری دل سے ہندوستان کے ساتھ ہیں۔ اس مظاہرہ میں روس کے نمائندہ نے خصوصیت کے ساتھ حصہ لیا اور دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ کشمیر کے معاملہ میں روس ہندوستان کے ساتھ ہے۔ کیوں ہے؟ یہ تو مستقبل ثابت کرے گا۔ ہے! اسے روس کے نمائندے نے ثابت کردیا ہے۔ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لئے نہایت اہم ہے لیکن فلسطین ہمارے آقا اور مولیٰ کی آخری آرام گاہ کے قریب ہے جن کی زندگی میں بھی یہودی ہر قسم کے نیک سلوک کے باوجود بڑی بے شرمی اور بے حیائی سے ان کی ہر قسم کی مخالفتیں کرتے رہے تھے۔ اکثر جنگیں یہود کے اکسانے پر ہوئی تھیں۔ کسریٰ کو رسول کریم~صل۱~ کے قتل کروانے پر انہوں نے ہی اکسایا تھا۔ خدا نے ان کا مونہہ کالا کیا مگر انہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار کردیا۔ غزوہ احزاب کی لیڈری یہود ہی کے ہاتھ میں تھی۔ سارا عرب اس سے پہلے کبھی اکٹھانہ ہوا تھا۔ مکہ والوں میں ایسی قوت انتظام تھی ہی نہیں یہ مدینہ سے جلاوطن شدہ یہودی قبائل ہی کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے سارے عرب کو اکٹھا کرکے مدینہ کے سامنے لاڈالا۔ خدا نے ان کا بھی مونہہ کالا کیا۔ مگر یہود نے اپنی طرف سے کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ رسول کریم~صل۱~ کے اصل دشمن مکہ والے تھے مگر مکہ والوں نے کبھی دھوکہ سے آپﷺ~ کی جان لینے کی کوشش نہیں کی۔ آپﷺ~ جب طائف گئے اور ملک کے قانون کے مطابق مکہ کے شہری حقوق سے آپﷺ~ دستبردار ہوگئے مگر پھر آپ کو لوٹ کر مکہ میں آنا پڑا تو اس وقت مکہ کا ایک شدید ترین دشمن آپﷺ~ کی امداد کے لئے آگے آیا ور مکہ میں اس نے اعلان کردیا کہ میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کو شہریت کے حقوق دیتا ہوں اپنے پانچوں بیٹوں سمیت آپ کے ساتھ ساتھ مکہ میں داخل ہوا اور اپنے بیٹوں سے کہا کہ محمدﷺ~ ہمارا دشمن ہی سہی پر آج عرب کی شرافت کا تقاضہ ہے کہ جب وہ ہماری امداد سے شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے تو ہم اس کے اس مطالبہ کو پورا کریں ورنہ ہماری عزت باقی نہیں رہے گی۔ اور اس نے اپنے ¶بیٹوں سے کہا کہ اگر کوئی دشمن آپﷺ~ پر حملہ کرنا چاہئے تو تم میں سے ہر ایک کو اس سے پہلے مرنا چاہئے کہ وہ آپﷺ~ تک پہنچ سکے۔ یہ تھا عرب کا شریف دشمن۔ اس کے مقابلہ میں بدبخت یہودی جس کو قرآن کریم مسلمان کا سب سے بڑا دشمن قراردیتا ہے اس نے رسول کریم~صل۱~ کو اپنے گھر پر بلایا اور صلح کے دھوکہ میں چکی کا پاٹ کوٹھے پر پھینک کر آپﷺ~ کو مارنا چاہا خدا تعالیٰ نے آپﷺ~ کو اس کے منصوبہ کی خبردی اور آپﷺ~ سلامت وہاں سے نکل آئے۔ یہودی قوم کی ایک عورت نے آپ~صل۱~ کی دعوت کی اور زہر ملا ہوا کھانا آپﷺ~ کو کھلایا آپﷺ~ کو خدا تعالیٰ نے اس موقع پر بھی بچالیا مگر یہودی قوم نے اپنا اندرونہ ظاہر کردیا۔ یہی دشمن ایک مقتدر حکومت کی صورت میں مدینہ کے پاس سراٹھانا چاہتا ہے شاید اس نیت سے کہ اپنے قدم مضبوط کرلینے کے بعد وہ مدینہ کی طرف بڑھے۔ جو مسلمان یہ خیال کرتا ہے کہ اس بات کے امکانات بہت کمزور ہیں اس کا دماغ خود کمزور ہے۔ عرب اس حقیقت کو سمجھتا ہے عرب جانتا ہے کہ اب یہودی عرب میں سے عربوں کو نکالنے کی فکر میں ہیں اس لئے وہ اپنے جھگڑے اور اختلاف کو بھول کر متحدہ طور پر یہودیوں کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوگیا ہے مگر کیا عربوں میں یہ طاقت ہے؟ کیا یہ معاملہ صرف عرب سے تعلق رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہ عربوں میں اس مقابلہ کی طاقت ہے اور نہ یہ معاملہ صرف عربوں سے تعلق رکھتا ہے۔ سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے۔ سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے۔ سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ~صل۱~ کی عزت کا ہے۔ دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پڑا اکٹھا ہوگیا ہے۔ کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا۔ امریکہ کا روپیہ اور روس کے منصوبے اور ہتھکنڈے دونوں ہی غریب عربوں کے مقابل پر جمع ہیں۔ جن طاقتوں کا مقابلہ جرمنی نہی کرسکا عرب قبائل کیا کرسکتے ہی۔ ہمارے لئے یہ سوچنے کا موقع آگیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئے یا اکٹھے ہوکر فتح کے لئے کافی جدوجہد کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں وہ وقت آگیا ہے جب مسلمانوں کو یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ یا تو وہ ایک آخری جدوجہد میں فنا ہوجائیں گے یا کلی طور پر اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کردیں گے۔ مصر` شام اور عراق کا ہوائی بیڑا سو ہوائی جہازوں سے زیادہ نہیں لیکن یہودی اس سے دس گناہ بیڑہ نہایت آسانی سے جمع کرسکتے ہیں اور شاید روس تو ان کو اپنا بیڑہ نذر کے طور پر پیش بھی کردے۔
میں نے متواتر اور بار بار مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ روس مسلمانوں کا شدید دشمن ہے لیکن مسلمانوں نے سمجھا نہیں جو بھی اٹھتا ہے وہ نہایت محبت بھری نگاہوں سے روس کی طرف دیکھنے لگ جاتا ہے اور روس کو اپنی امیدوں کی آماجگاہ بنالیتا ہے حالانکہ حق یہی ہے کہ سب سے بڑا دشمن مسلمانوں کا روس ہے۔ امریکہ یہودیوں کے ووٹ کی بناء پر یہودیوں کی مدد کررہا ہے اور روس عرب ملکوں میں اپنا اڈہ جمانے کے لئے یہودیوں کی مدد کررہا ہے۔ رویہ ایک ہے مگر بواعث مختلف ہیں اور یقیناً روس کے عمل کا محرک امریکہ کے عمل کے محرک سے زیادہ خطرناک ہے لیکن چونکہ عمل دونوں کا ایک ہے اس لئے بہرحال عالم اسلامی کو روس اور امریکہ دونوں کا مقابلہ کرنا ہوگا عقل اور تدبیر سے` اتحاد اور یک جہتی سے۔ میں سمجھتا ہوں مسلمان اب بھی دنیا میں اتنی تعداد میں موجود ہیں کہ اگر وہ مرنے پر آئیں تو انہیں کوئی مار نہیں سکے گا لیکن میری یہ امیدیں کہا تک پوری ہوسکتی ہیں اللہ ہی اس کو بہتر جانتا ہے۔ کشمیر کی لڑائی کو آٹھ مہینے ہوچکے ہیں لیکن اب تک مسلمانوں نے اس پہلو کے کانٹے کے متعلق بھی عقل مندی اور ہوشیاری کا ثبوت نہیں دیا۔ فلسطین کا خطرہ تو دور کا خطرہ ہے خواہ زیادہ اہم ہے وہ انہیں بیدار کرنے میں کہاں کامیاب ہوگا۔ آج ریزولیوشنوں سے کام نہیں ہوسکتا` آج قربانیوں سے کام ہوگا۔ اگر پاکستا کے مسلمان واقعہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی حکومت کو توجہ دلائیں کہ ہماری جائیدادوں کا کم سے کم ایک فیصدی حصہ اس وقت لے لے۔ ایک فیصدی حصہ سے بھی پاکستان کم سے کم ایک ارب روپیہ اس غرض کے لئے جمع کرسکتا ہے اور ایک ارب روپیہ سے اسلام کی موجودہ مشکلات کا بہت کچھ حل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی قربای کو دیکھ کر باقی اسلام ممالک بھی قربانی کریں گے اور یقیناً پانچ چھ ارب روپیہ جمع ہوسکے گا جس سے فلسطین کے لئے باوجود یورپین ممالک کی مخالفت کے آلات جمع کئے جاسکتے ہیں۔ ایک روپیہ کی جگہ پر دو دو روپیہ کی جگہ پر تین تین روپیہ کی جگہ پر چار اور چار روپیہ کی جگہ پر پانچ خرچ کرنے سے کہیں نہ کہیں سے چیزیں مل جائیں گی۔ یورپین لوگوں کی دیانتداری کی قیمت ضرور ہے خواہ وہ قیمت گراں ہی کیوں نہ ہو انہیں خریدا ضرور جاسکتا ہے خواہ بڑھیا بولی پر مگر بولی دینے کے لئے جیب بھی بھری ہوئی ہونی چاہئے۔ پس میں مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس نازک وقت کو سمجھیں اور یاد رکھیں کہ آج رسول کریم~صل۱~ کا یہ فرمان کہ الکفوملہ واحدہ لفظ بلفظ پورا ہورہا ہے۔ یہودی اور عیسائی اور دہریہ مل کر اسلام کی شوکت کو مٹانے کے لئے کھڑے ہوگئے ہیں۔ فرداً فرداً یوروپین اقوام مسلمانوں پر حملہ کرتی تھیں مگر اب مجموعی صورت میں ساری طاقتیں مل کر حملہ آور ہوئی ہیں آئو ہم بھی سب مل کر ان کا مقابلہ کریں کیونکہ اس معاملہ میں ہم میں کوئی اختلاف نہیں۔ دوسرے اختلافوں کو ان امور میں سامنے لانا جن میں کہ اختلاف نہیں نہایت ہی بیوقوفی اور جہالت کی بات ہے۔ قرآن کریم تو یہود سے فرماتا ہے۔
قل یا اھل الکتاب تعانوا الی کلمہ سواء بینا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ۔ )آل عمران ۱۵ع۷(
اتنے اخلافات کے ہوتے ہوئے قرآن کریم یہود کو دعوت اتحاد دیتا ہے۔ کیا اس موقع پر جبکہ اسلام کی جڑوں پر تبر رکھ دیا گیا ہے۔ جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ حقیقی طور پر خطرے میں ہیں وقت نہیں آیا کہ آج پاکستانی` افغانی` ایرانی` ملائی` انڈونیشین` افریقن` بربر اور ترکی یہ سب کے سب اکٹھے ہوجائیں اور عربوں کے ساتھ مل کر اس حملہ کا مقابلہ کریں جو مسلمانوں کی قوت کو توڑنے اور اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے دشمن نے کیا ہے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم اور حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ایک دفعہ پھر فلسطین میں آباد ہوں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے آباد ہوں گے۔ فلسطین پر ہمیشہ کی حکومت تو عباداللہ الصالحون مقرر کی گئی ہے۔ پس اگر ہم نقوی سے کام لیں تو اللہ تعالٰی کی پہلی پیشگوئی اس رنگ میں پوری ہوسکتی ہے کہ یہود نے آزاد حکومت کا وہاں اعلان کردیا ہے لیکن اگر ہم نے نقوی سے کام نہ لیا تو پھر وہ پیشگوئی لمبے وقت تک پوری ہوتی چلی جائے گی اور اسلام کے لئے ایک نہایت خطرناک دھکا ثابت ہوگی۔ پس ہمیں چاہئے اپنے عمل سے` اپنی قربانیوں سے` اپنے اتحاد سے` اپنی دعائوں سے` اپی گریہ وزاری سے اس پیشگوئی کا عرصہ تنگ سے تنگ کر دیں اور فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کردیں اور میں سمجھتا ہوں اگر ہم ایسا کردیں تو اسلام کے خلاف جو رو چل رہی ہے وہ الٹ پڑے گی۔ عیسائیت کمزوری وانحطاط کی طرف مائل ہوجائے گی اور مسلمان پھر ایک دفعہ بلندی اور رفعت کی طرف قدم اٹھانے لگ جائیں گے۔ شاید قربانی مسلمانوں کے دل کو بھی صاف کردے اور ان کے دل بھی دین کی طرف مائل ہوجائیں۔ پھر دنیا کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہوجائے۔ پھر خدا اور اس کے رسولﷺ~ اور ان کے دین کی عزت اور احترام پر وہ آمادہ ہوجائیں اور ان کی بے دینی دین سے اور ان کی بے ایمانی ایمان سے اور ان کی سستی چستی سے اور ان کی بدعملی سعی پیہم سے بدل جائے۔ خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ<۹۵
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے اس انقلاب انگیز مضمون نے شام` لبنان` اردن اور دوسرے عرب ممالک میں زبردست تہلکہ مچادیا۔ شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلادعربیہ نے اس مضمون کی نہایت وسیع پیمانے پر اشاعت کی اور شام و لبنان کی تین سو مشہور اور ممتاز شخصیتوں کو )جن میں بیشتر وزراء` پارلیمنٹ کے ممبر` کالجوں کے پروفیسر` مختلف وکلا` بیرسٹر اور سیاسی اور مذہبی لیڈر تھے( خاص طور پر بذریعہ ڈاک بھجوایا اور مجموعی طور پر ہر جگہ اس مضمون کا نہایت ہی اچھا اثر ہوا۔۹۶
یہی نہیں شام ریڈیو نے خاص اہتمام سے اس کا خلاصہ نشر کرکے اسے دنیائے عرب کے کونہ کونہ تک پہنچادیا۔ اخبار >الیوم< >الف باء الکفاح< >الفیحاء< >الاخبار< >القبس< >النصر< >الیقظتہ< >صورت الاحرار< >النھضتہ< اور >الاردن< وغیرہ چوٹی کے عربی اخبارات نے جلی قلم سے اس کے اقتباسات شائع کئے اور متفقہ طور پر حضور کی پیش فرمودہ تجویز کو نہایت درجہ مستحسن قرار دیا اور اعتراف کیا کہ مسئلہ فلسطین کے حق میں یہ نہایت کارگرر پروپیگنڈا اور پر اثر آواز ہے جو پاکستان سے امام جماعت احمدیہ کی زبان سے بلند ہوئی ہے۔
‏tav.11.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
چنانچہ اخبار >النھضہ< نے )مورخہ ۱۲۔ جولائی ۱۹۴۸ء( زیر عنوان >مطبوعات< لکھا۔
اھدانا السید مرزا محمود احمد کراستہ صغیرہ تحتوی علی الخطاب الذی القاہ فی )لاھور( باکستان یدعوا فیھا المسلمین الی الاتحاد والعمل الحاسم لانقاذ فلسطین من الصھاینتہ المجرمین کما انہ یھیب بابناء الباکستان البررہ ان یباد روا الی مساعدہ عرب فلسطین بالمال و یذکرھم بالرسول الکریم )ص( مستشھدا بایات شریفہ یحض فیھا المسلمین ان یقضوا صفا واحدا امام سیل الصھیونیہ المجرمہ التی تویدھا کل من امریکاو روسیا الشیوعیہ لمصالح وغایات فی نفسھما ویدعوھم ان لایتوا نوا و ان یضعوا نصب اعینھم ما یملیہ علیھم الواجب من الجھاد فی سبیل الاسلام والمسلمین۔
وھی خطبہ جیدہ ودعایہ حسنہ لفلسطین والمسلمی۔ ندعو اللہ ان یحقق امالنا وامانیہ العذب فی سبیل دیننا القویم واللہ من وداء القصد۔<
)ترجمہ( ہمیں ایک ٹریکٹ موصول ہوا ہے جو السید مرزا محمود صاحب کے ایک خطبہ پر مشتمل ہے جو انہوں نے لاہور )پاکستان( میں دیا ہے۔ اس خطبہ میں خطیب نے تمام مسلمانوں کو دعوت اتحاد دی ہے اور صیہونی مجرموں کے چنگل سے فلسطین کو نجات دلانے کے لئے ٹھوس اور موثر اقدام کی طرف توجہ دلائی ہے نیز اہل پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی عربوں کو فوری اعانت کریں اور مسلمانوں کو رسول کریم~صل۱~ کی یاد دلاتے اور آیات قرآنی سے استشہاد کرتے ہوئے ترغیب دی ہے کہ وہ مجرم صیہونیوں کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے صف بستہ ہوجائیں جن کی پشت پناہی امریکہ اور اشتراکہ روس اپنی مصالح اور خاص اغراض کے ماتحت کررہے ہیں اور مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ ضعف واضمحلال کا اظہار نہ کریں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے جہاد کے سلسلہ میں عائد شدہ ذمہ داری اپنے سامنے رکھیں۔
یہ ایک نہایت عمدہ خطبہ اور فلسطین اور مسلمانوں کے حق میں نہایت اچھا پروپیگنڈا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہماری ان نیک آرزوئوں اور عمدہ خواہشات کو جو ہمارے دین قویم کے لئے ہمارے دلوں میں موجزن ہیں متحقق فرمائے۔ آمین۔
اخبار >الف باء< )ومشق( نے حسب ذیل نوٹ سپرد اشاعت کیا۔
>فلسطین و کشمیر یقطنھما بنوااسرائیل<
>وصلت الینا نسخہ من خطبہ القاھا فی لاہور >باکستان< السید مرزا محمود احمد امام الجماعہ القاد یانیہ بمناسبہ تشکیل دولہ صیھونیہ مزیفہ فی فلسطین۔ قال فیھا۔
>ومن الغریب ان قضیہ کشمیر و قضیہ فلسطین عرضتا للبحث والتنقیب فی زمن واحد۔ ومن العجیب ایضا ان کشمیر و فلسطین یقطنھما قوم واحد اعنی بنی اسرائیل ومن العجب العجاب ان جزء امن ھذا القوم الذی کان قد اسلم یجذب الیوم عواطف المسلمین ومواساتھم فی قضیہ کشمیر وشطر اخرمنہ القاطن بفلسطین یقاتل المسلمین مقاتلہ المستمیت والنصف منھم یقدم الضحایا لاحیاء المسلمین والنصف الاخریبذل مجھوداتہ لاماتتھم۔
ولقد نسمح فی الانباء الواردہ من الجھہ الحربیہ بکشمیر ذکر >کاشر< )اسم یطلق علی کل کشمیری( وکذلک یاتی ذکر بلدہ >کاشر< فی المنشورات الحربیہ الفلسطینیہ غیر مرہ وعلی ھذا لاسم کان سمی کشمیر >کاشر< ثم تبدل بمرور الزمان بکشمیر` او ان نقول ان کشمیر کان فی الاصل >کاشر< ای مثل سیریا )الشام(
والخطبہ مطبوعہ فی مطبعہ الفیض ببغداد۔ وقدحمل فیھا الخطیب علی امریگاوروسیا وحدھما لمنا صرتھما الصھیونیہ۔
فلسطین اور کشمیر میں بنواسرائیل آباد ہیں
)ترجمہ( ہمیں جناب مرزا محمود احمد امام جماعت قادیانیہ کے خطاب کا نسخہ موصول ہوا ہے جو کہ انہوں نے فلسطین میں نام نہاد صیہونی حکومت کے قیام کے سلسلہ میں دیا ہے آپ اس خطبہ میں فرماتے ہیں >یہ عجیب بات ہے کہ ایک ہی وقت میں فلسطین اور کشمیر کے جھگڑے شروع ہیں۔ یہ عجیب بات ہے۔ کہ کشمیر اور فلسطی ایک ہی قوم سے آباد ہیں اور یہ عجیب تربات ہے کہ اس قوم کا ایک حصہ مسلمان ہوکر آج کشمیر میں مسلمانوں کی ہمدردی کھینچ رہا ہے اور دوسرا حصہ فلسطین میں ملسمانوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ میں ٹکرلے رہا ہے۔ آدھی قوم اسلام کے لئے قربانیاں پیش کررہی ہے اور آدھی قوم اسلام کو مٹانے کے لئے قربانیاں پیش کررہی ہے۔ کشمیر کی جنگ میں کاشر یعنی کشمیر کا نام سننے میں آتا ہے اور فلسطین کی جنگ میں بھی کاشر شہر کا ذکر بار بار آرہا ہے۔ اس کاشر کے نام پر کشمیر کا نام کاشر رکھا گیا تھا جو اب بگڑ کر کشمیر ہوگیا ہے یا یہ کہ یہ کاشیر ہے یعنی سیریا )شام( کی طرح۔<
یہ لیکچر بغداد کے مطبعتہ الفیض میں طبع ہوا ہے اور اس میں )فاضل( لیکچرار نے صیہونیت کی پشت پناہی کے باعث امریکہ اور روس دونوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ )الف باء دمشق(
اخبار >صوت الاحرار< نے اس انقلاب انگیز مضمون پر حسب ذیل پر حسب ذیل تبصرہ شائع کیا۔
الکفرملہ واحدہ
>بھذالعنوان القی السید مرزا محمود احمد امام الجماعہ الاحمدیہ القادیانیہ فی لاہور )باکستان( خطبہ مطولہ حمل فیھا بشدہ وعنف علی الصھیویہ الاثمہ المجرمہ۔ ولم یخف استغرابہ العمیق من اجتماع المتناقضات واتحاد الاعداء فی سبیل انگار عروبہ فلسطین والاعتراف بکیان الیھود الموھوم ویتابع حملتہ الشدیدہ ضد السیاسہ الاستعماریہ التی تنشددوما وابدا الاستغلال والظلم ثم یقادن موقف ھولاء المعتدین من قضیہ فلسطین بموقنھم من قضیہ کشمیر۔ ویخلص الی القول ان لاسبیل الی الاستقلال والخلاص من کل نیراجنبی بغیر الاتحاد والتالف۔<
)ترجمہ( )الکفرملہ واحدہ<
مندرجہ بالا عنوان پر السید مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے لاہور )پاکستان( میں ایک طویل لیکچر دیا ہے اس لیکچر میں آپ نے پوری قوم سے ظالم صیہونیت پر حملہ کیا ہے اور متناقضات اور دشمنوں کے اتحاد واجتماع سے اپنے گہرے تعجب کو پوشیدہ نہیں رہنے یا مبادافلسطینی عربوں کے مطالبہ کا انکار اور یہودنا مسعود کے موہوم حقوق کا اعتراف کیا جائے آپ اس استعماری سیاست کے خلاف نبردآزما ہیں جو ہمیشہ ظلم اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا اظہار کرتی ہے پھر آپ نے ان ظالموں کے موقف کا باہمی مقابلہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر سے کیا ہے اس لیکچر کا خلاصہ یہ ہے کہ سامراجی استعمار سے آزادی اور نجات اتحاد اور تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔
اخبار الشوریٰ )بغداد( نے اپنے ۱۸۔ جون ۱۹۴۸ء کے پرچہ میں ایک عربی نوٹ لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔
>حضرت مرزا محمود احمد صاحب کا ایک خطبہ۔< ہمیں ایک ٹریکٹ ملا ہے جو بغداد میں چھپا ہے جس میں حضرت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان کے ایک پرجوش خطبہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے نام نہاد اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے اعلان کے بعد لاہور )پاکستان( میں پڑھا اس خطبہ کا عنوان ہے۔ >الکفرملہ واحدہ۔< جن اصحاب نے یہ مفید ٹریکٹ شائع کیا ہے ہم ان کی اسلامی غیرت اور اسلامی مساعی پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔
‏]sub [tagاستعماری طاقتوں کی سازش اور اس کا انکشاف
روس اور امریکہ کی استعماری طاقتوں کو مسلمانوں کے اتحاد کی یہ موثر ترین تحریک بھلاکب گوارا ہوسکتی تھی؟ اس لئے جرنہی ان کے کانوں میں یہ آواز پہنچی انہوں نے خود مسلمانوں ہی کے ایک طبقہ کو آلہ کار بناکر جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کی مہم شروع کرادی۔ اس گہری سازش کا سنسنی خیز انکشاف بغداد کے مقتدر جریدہ >الانباء< کے ایک فاضل اور کہنہ مشق ادیب اور نامہ نگار >الاستاد علی الخیاط آفندی نے چھ سال بعد کیا۔ چنانچہ انہوں نے بغداد کے مشہور اخبار >الانباء )مورخہ ۲۱ ستمبر ۱۹۵۴ء( میں مندرجہ ذیل مقالہ سپرد اشاعت کیا۔
اصابع الاستعمار التی تلعب وراء القادیانیہ فی کل مکان
>قامت بعض الصحف فی الاونہ الاخیرہ بتوجیہ النقدضدجماعہ القادیانیہ بصورہ مستمرہ وبشکل یثیرالاھتمام فما ھی القادیانیہ وماھو الدافع لانقادھا بھذہ الصورہ علی صفحات الصحف؟
ھناک مشکلہ معقدہ بین القادیانیین وخصومھم نظراللتھم انتی تکال الیھم حقا اوباطلا فالقادیانیو یطلقون علی انفسھم )الجماعہ الاحمدیہ( ویدعون انھم من اتباع میرزا غلام احمدالذی کان یسکن فی قریہ قادیان فی الھند والذی ارسلہ اللہ لتوثیق عری الدین ویعتبرونہ المھدی الموعود المسیعح المعھود الذی تنبات الکتب الدینیہ بمجیہ فی اخر الزمان وھم متمسکون بتعالیم الاسلام ومتعصبون للدیانہ الاسلامیہ ویعتنقون المذھب الحنفی۔۔۔
واما خصومھم فیطلقون علیھم لقب )القادیانیہ( ویعتبرونھم مرتدین عن الدیانہ الاسلامیہ رغم تظاھرھم بالتمسک بالدین الاسلامی ورغم ادائھم الفرائض الدینیہ حسب الشریعہ الاسلامیہ۔
والاحمدیہ اوالقادیانیہ کما یسمیھا خصومھا لیست ولیدہ الیوم بل مضی علی تاسیسھا سبعون سنہ فی قریہ قادیان بالھند واتبعھا بعض الذی کانو یعتبرونھا الطریقہ الحقہ حسب اعتقادھم۔ وسواء اکانت ھذہ الطریقہ حقہ اوباطلہ وسواء اکانت ھذہ الفئہ مسلمہ او خارجہ علی الاسلام فلیس ھناک یبرر للصحف انتقادھا بھذا الشکل و فی مثل ھذا الوقت الذی یحتاج فیہ المسلمون الی الاتحاد وجمع الصفوف لمواجھہ الاخطار المحیطہ بھم من کل جانب۔
وقد یستغرب القراء اذا عرفوا ان لیس فی العراق من اتباع ھذہ الجماعہ سوی ثمانی عشرعائلہ فقط تسکن تسع منھا فی بغداد واربع فی البصرہ واربع فی الحبانیہ وعائلہ واحدہ فی خانقین وان جمیع ھولاء جائوا من الھند الی العراق بقصد التجارہ وقد تجنس بعضھم بالجنسیہ العراقیہ کمابقی البعض الاخرعلی جنسیتم الھندیہ التی استبدلو ھا بالباکستانیہ بعدتقسیم الھند۔
وبالرغم من مرور عشرات السنین علی بقاء ھولاہ فی العراق فانھم لم یدخلو اشخصا واحدا من العراقیین فی زمرتھم ولیس لھم ای معبدخاص او اجتماعات مذھبیہ خاصہ ویقتصرنشاطھم علی توزیع بعض الصحب والکراسات التی تجث عن رقی الاسلام او الدفاع عن عروبہ فلسطی اوکیان بعض الدول الاسلامیہ والان یتسائل القاری اذاکان الامر کذلک فما ھوسبب ھذہ الحملہ وھذا الانتقاد علی صفحات الجرائد؟
لیس ھناک سوی سبب واحد وھو اصبع الاستعمار الذی یلعب دوراھا مافی ھذہ القضیہ لبث الشقاق والتفرقہ بین المسلمین الذین لازالوا بانتظار الیوم الموعود الذی یقومون فیہ بجولتھم الثانیہ لتطھیر البلاد المقدسہ من ارجاس الصھیونیہ واعادہ فلسطین الی اصحابھا الشرعیین۔ ان الاستعمار یخشی ان یتحقق جلم العرب ھذا وتزول دولہ اسرائیل التی تحمل الکثیر من المشاق فی سبیل تکوینھا فیعمدالی اثارہ الشقاق بین طوائف المسلمین باثارہ النعرات لتقوم بعض العناصر بتکفیرفئہ الاحمدیہ والشھیربھم حتی یودی ذلک الی الشقاق بین الباکستان و بین بعض الدول العربیہ التی تقوم صحفھا بتکفیر ظفراللہ خان وزیر خارجیہ باکستان الذی یتبع الطریقہ الاحمدیہ۔
ولعل کثیرا من القراء یذکرون محاولہ بعض العناصر فی باکستان قبل مدہ تاسیس )الاسلام مستان( ای جامعہ الدول السلامیہ و ذلک بجمع کافہ الدول الاسلامیہ منظمہ واحدہ لتسییرسیاستھا الخارجہ والمحافظہ علی کیانھا واستقلالھا الا ان ھذہ المحاولہ بائت بالفشل بعدان وقف بعض العناصر منھا موقفا معارضا وکان من جملہ الاسباب التی ادت الی فشل ھذا المشروع ھو سلاح التکفیر الذی ناولہ الاستعمارلید بعض المتطرفین لیشھروہ فی وجوہ الذین تبنوا المشروع المذکور لانھم قادیانیون ومارقون عن الاسلام۔
وقدیظن بعض القراء ان ما اذکرہ من تدخل الاستعمار فی ھذہ القضیہ لیس الا ولیدالحدس والظ الا انی اوکدللقراء بانی مطلع کل الاطلاع علی تدخل الاستعمار فی ھذہ القضیہ اذا انہ حاول ان یستغلنی فیھا بالذت عام ۱۹۴۸ اثناء حرب فلسطین۔
کنت حینئذ احرر احدی الصحف الفکاھیہ وکانت من الصحف الانتقادیہ المعروفہ فی عھدھا وقد ارسل الی موظف مسئول فی احدی الھیات الدبلوماسیہ الاجنبیہ فی بغداد یدعونی لمقابلتہ وبعدتقدیم المجاملہ وکیل المدیح علی الاسلوب الذی اتبعہ فی النقدر جانی ان انتقدالجماعہ القادیانیہ علی صفحات الجریدہ المذکورہ بالذع طریقہ ممکنہ لانھا جماعہ مارقہ عن الدین فاجبتہ فی بادی الامر بانی لا اعلم شیئا عن ھذہ الجماعہ و عن معتقداتھاو لذلک لایمکننی ان انتقدھا فزودنی ببعض اللکتب التی تبحث فی معتقدات القادیانیہ کما انہ زودنی ببعض المقالات عسی ان تنفعنی بعض عباراتھا فی کتابہ مقالاتی الموعودہ۔ واستطعت ان اطلع علی بعض عقائد الجماعہ من مطالعہ الکتب التی زودنی بھا المسئول المذکوروالتی لم اجدفیھا شیئا یدل علی تکفیرھم حسب اعتقادی وبعدعدہ مقابلات طلبت منہ ان یعذرنی عن تلک المھمہ نظر الاعتقادی بان ذلک یسبب الشقاق بین الطوائف الاسلامیہ فی مثل ذلک الوقت بالذات فاجات قائلا: الا ان ھولاء لیسو بمسلمین وقد کفرھم علماء جمیع الطوائف الاسلامیہ فی الھندفقلت لہ ان اقوال علماء الھندلیست اقوی حجہ من الایہ القرانیہ التی تصرح با لا تقرلوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا فما کان منہ الا ان قال غضبا وھل اثرت فیک دعایہ القوم فخرجت عن الاسلام واصبحت قادیانیا واخذت تدافع عنھم فقلت متھکما علی یقین یا ھذا بانی لا استطیع ان ادعی بانی مسلم بکل مافی ھذہ الکلمہ من معنی بالرغم من قضای عشرات السنیین بین المسلمین فھل تکفی مطالعہ بضعہ کتب للقادیانیہ ان تجعلنی قادیانیا؟
وقد اطلعت خلال ترددی علی ھذہ الھیئہ بانی لست الوحید المکلف بھذہ المھمہ بل ھناک اناس اخرون یشارکوننی التکلیف کما انی لم اکن الشخص الوحید الذی رفض بل رفضہ غیری ایضا۔
کان ذلک عام ۱۹۴۸ فی الوقت الذی اقتطع فیہ جزء من الاراضی المقدسہ وقدم لقمہ سائغہ للصھیونیین وانی اظن ان اقدام الھیئہ المذکورہ علی مثل ھذا العمل کان رد فعل للکراستین اللتین نشرتھما الجماعہ الاحمدیہ فی ذلک العام بمناسبہ تقسیم فلسطین وکانت احداھما بعنوان >ھیئہ الامم المشحدہ وقرار تقسیم فلسطین التی کانت تبحث فی المومرات التی دبرت فی الخفاء بین المستعمرین والصھیونیین لتسلیم الموانی الفلسطینیہ الی الصھیونین وکانت الثانیہ بعنوان )الکفرملہ واحدہ( وکانت تحت المسلمین علی توحید الصفوف وجمع المال لمحاربہ الصھیونیین وتطھیرالبلاد المقدسہ من ارجاسھم۔
ھذا مااطلعت علیہ بنفسی فی ذلک الحین وانی واثق کل الوثوق بان الاحمدیین ما داموا یبذلون الجھود لجمع کلمہ المسلمین و توحید صفوفھم ویبحثون عن اسباب تتیح للمسلمین القضاء علی دولہ اسرائیل اللقیطہ ضیعہ المستعمرین فان الاستعمار لن یتوان عن تحریک بعض الجھات للتشھیربھم بقصد تشتیت الکلمہ۔<۹۷
)ترجمہ( غیرملکی طاقتیں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی آگ بھڑکا رہی ہیں۔
>گزشتہ دنوں بعض اخبارات نے قادیانی جماعت کے خلاف پے در پے ایسی صورت میں نکتہ چینی کی ہے کہ جس کی طرف انسان کو توجہ کرنی پڑتی ہے۔ قادیانیت کیا ہے؟ اور اخبارات میں اس کے متعلق اس طرح نکتہ چینی کرنے کی کیا وجہ ہے؟
قادیانیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ایک مشکل درپیش ہے۔ قطع نظر اس امر کے کہ وہ اتہامات جو قادیانیوں پر لگائے گئے ہیں وہ درست ہیں یا غلط ہیں قادیانی لوگ اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کہتے ہیں اور وہ میرزا غلام احمد صاحب کے پیرو ہونے کے مدعی ہیں جو ہندوستان میں قادیان کی بستی میں رہتے تھے اور جنہیں ان کے دعووں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ دین اسلام کو مستحکم کریں۔ قادیانی انہیں وہی مہدی موعود اور مسیح معہود سمجھتے ہیں جن کے آخری زمانہ میں آنے کے متعلق مختلف مذہبی کتابوں میں پیشگوئی پائی جاتی ہے۔ قادیانی اسلامی احکام پر عمل پیرا ہیں اور اسلام کے لئے غیرت رکھتے ہیں اور وہ حنفی مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔
احمدیوں کے مخالف اہیں قادیانی کے لفظ سے پکارتے ہیں اور ان کے ظاہری طور پر اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے اور شریعت کے مطابق دینی فرائض کے ادا کرنے کے باوجود انہیں مرتد قرار دیتے ہیں۔
احمدیت یا قادیانیت کوئی آج نئی پیدا نہیں ہوئی بلکہ قریباً ستر سال پہلے ہندوستان کے شہر قادیان میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور جو لوگ اس طریقہ کو درست سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے عقیدہ کے مطابق اس کی پیروی کی۔ ہمارے نزدیک خواہ یہ طریقہ درست ہو یا باطل ہو` خواہ یہ لوگ مسلمان ہوں یا اسلام سے خارج ہوں بہرحال اخبارات کے لئے کوئی معقول وجہ اس امر کی نہیں ہے کہ وہ اس نازک وقت میں جبکہ مسلمانوں کو چاروں طرف سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے اس طرز پر قادیانیت کو اپنی تنقید کا ہدف بنائیں۔
شاید قارئین کو تعجب ہوگا جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ سارے عراق میں اس جماعت کے صرف ۱۸ خاندان بستے ہیں۔ ۹ خاندان بغداد میں` چار بصرہ میں` چارحبانیہ میں اور ایک خاندان خانقین ہیں۔ اور یہ سب لوگ ہندوستان سے عراق میں تجارت کی نیت سے آئے تھے۔ بعض نے ان میں سے عراق قومیت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرلئے ہیں اور بعض اپنی ہندوستانی قومیت پر قائم رہے جسے انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستانی قومیت میں تبدیل کرلیا۔
عراق میں اتنے عرصہ سے رہنے کے باوجود انہوں نے کسی عراق شخص کو اپنی جماعت میں داخل نہیں کیا۔ ان کا کوئی اپنا معبد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے کوئی خاص مذہبی اجتماعات ہیں۔ ان کی ساری جدوجہد بعض اخبارات اور ایسے ٹریکٹ تقسیم کرنے میں منحصر ہے جن میں اسلام کے غلبہ کے متعلق دلائل دیئے گئے ہیں یا فلسطین اور بعض اسلامی حکومتوں کے دفاع پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس جگہ پر پڑھنے والے کے دل میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب واقعہ یہ ہے تو اخبارات میں قادیانیوں پر اس طرح نکتہ چینی کرنے اور اس حملے کی کیا وجہ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اس کا صرف ایک سبب ہے اور وہ یہ کہ استعماری طاقتیں مسلمانوں میں تفرقہ اور شقاق پیدا کرنے کے لئے خاص کوشش کررہی ہیں اور وہ انہیں اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتی ہیں کیونکہ مسلمان ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ وہ یوم موعود کب آتا ہے کہ جب وہ دوبارہ بلاد مقدسہ کو یہودیت کی *** سے پاک کرنے کے لئے متحدہ قدم اٹھائیں گے اور فلسطین اس کے جائز اور شرعی حقداروں کو مل سکے گا۔ استعماری طاقتیں ڈرتی ہیں کہ کہیں عربوں کا یہ خواب پورا نہ ہوجائے اور اسرائیلی سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے جس کے قائم کرنے کے لئے انہوں نے بڑی بڑی مشکلات برداشت کی ہی اس لئے یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کا منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں یہاں تک کہ اس طریق سے حکومت پاکستان اور بعض ان عرب حکومتوں میں بھی اختلاف پیدا ہوجائے جن کے اخبارات پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خاں احمدی کو کافر قرار دیتے ہیں۔
غالباً بہت سے پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی بعض جماعتوں نے اس امر کی کوشش کی تھی کہ مسلمان حکومتوں کا ایک اسلامی بلاک قائم کیا جائے تاکہ ان کی ہستی اور ان کی آزادی قائم رہے اور ان کی بیرونی سیاست ایک نہج پر چلے مگر یہ کوششیں بعض دوسری مسلمان جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکیں۔ اس تجویز کی ناکامی کے اسباب میں درحقیقت بڑا سبب وہ مسئلہ تکفیر ہے جو بعض انتہاء پسند مولویوں کے ہاتھ میں استعماری طاقتوں نے دیا تھا تاکہ وہ اس تجویز کے محرکین کو قادیانی اور اسلام سے خارج کہہ کر اس کو ناکام بنانے کی کوشش کریں۔
شاید کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہوکر میرا اس معاملے میں استعماری طاقتوں کو دخل انداز قرار دینا صرف ظن اور گمان ہے مگر میں قارئین کرام کو پورے یقین کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ درحقیقت یہ سب کارروائی استعماری طاقتیں کروارہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں ۱۹۴۸ء میں استعماری طاقتوں نے خود مجھ کو اس معاملے میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی۔
ان دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی کا انداز تھا۔ چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیرملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی اور میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ اپنے اکبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزاد طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے۔ میں نے جواب میں عرض کیا کہ مجھے تو اس جماعت اور اس کے عقائد کا کچھ پتہ نہیں میں ان پر کس طرح نکتہ چینی کرسکتا ہوں؟ اس نمائندہ نے مجھے بعض ایسی کتابیں دیں جن میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی تھی اور اس نے مجھے بعض مضامین بھی دیئے تا وہ مجھے اپنے مقالات کے لکھنے میں فائدہ دیں۔ چنانچہ ان کتابوں کے مطالعہ سے مجھے اس جماعت کے بعض عقائد کا علم ہوا۔ لیکن میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہ دیکھی جس سے میرے عقیدہ کے مطابق انہیں کافر قرار دیا جاسکے۔ اس استعماری نمائندہ سے چند ملاقاتوں کے بعد میں نے اس کام کے کرنے سے معذرت پیش کردی اور کہا کہ میرے عقیدہ کے مطابق یہ طریق اس وقت اسلامی فرقوں میں اختلاف وانشقاق بڑھانے والا ہے۔ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ قادیانی تو مسلمان ہی نہیں اور ہندوستان کے تمام فرقوں کے علماء انہیں کافر قرار دے چکے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ ہندوستانی علماء کے اقوال قرآن مجید کی اس آیت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا کہ جو شخص تمہیں السلام علیکم کہے اس کو کافر مت کہو۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ شخص غضب ناک ہوگیا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی پراپیگنڈے نے تمہارے دل پر بھی اثر کردیا ہے اور تو قادیانی بن گیا ہے اور اسلام سے خارج ہوگیا ہے اسی لئے تو ان کی طرف سے جواب دے رہا ہے۔ میں نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ جناب یقین جانیں کہ میں اتنے لمبے عرصہ سے مسلمان کہلانے اور مسلماوں میں رہنے کے باوجود یہ دعویٰ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ میں صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو دنیا قادیانیت کے متعلق چند کتب کا مطالعہ مجھے قادیانی بنا سکتا ہے؟
میں جن دنوں اس سفارت خانہ میں جایا کرتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ میں اکیلا ہی اس کام کے لئے مقرر نہیں کیا جارہا بلکہ کچھ اور لوگوں کو بھی اس میں شریک کیا جارہا ہے۔ پھر مجھے یہ بھی پتہ لگا کہ اس کام کے کرنے سے صرف میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کردیا تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ۱۹۴۸ء میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپرد کردیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطت قائم ہوئی تھی۔ اور میرا خیال ہے مذکورہ بالا سفارت خانہ کا یہ اقدام درحقیقت ان دو ٹریکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع کئے تھے۔ ایک ٹریکٹ کا عنوان >ھئیہ الامم المتحدہ وقرار تقسیم فلسطین< تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشیوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کے یہودیوں کے کو سپرد کردینے کا منصوبہ بنایاگیا تھا۔ دوسرا ٹریکٹ >الکفرملہ واحد< کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی اور صیہونیوں کے مقابلہ اور ارض مقدسہ کو ان سے پاک کرنے کے لئے اموال جمع کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔
یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دونوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعتون میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور جب تک وہ ان ذرائع کو اختیار کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مدد مل سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگ اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہوسکے۔
>آپ کی تلاش ہے<
جناب الٰہی کی طرف سے حضرت مصلح موعود کے کندھوں پر اصلاح و تربیت کی جو بھاری ذمہ داری عائد تھی حضور اس کی بجا آوری کے لئے نئے سے نئے طریق اختیار فرماتے رہتے تھے۔ اس ضمن میں آپ نے ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آخری ہفتہ میں آپ کی تلاش ہے< کے پرکشش عنوان سے فرزندان احمدیت کے نام حسب ذیل پیغام شائع فرمایا جو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تنظیمی` اخلاقی اور روحانی تعلیمات کا نہایت لطیف خلاصہ اور نچوڑ تھا۔
۱۔
کیا آپ محنت کرنا چاہتے ہیں؟ اتنی محنت کہ تیرہ ودہ گھنٹے دن میں کام کرسکیں۔
۲۔
کیا آپ سچ بولنا جانتے ہیں؟ اتنا کہ کسی صورت میں آپ جھوٹ نہ بول سکیں؟ آپ کے سامنے آپ کا گہرا دوست اور عزیز بھی جھوٹ نہ بول سکے؟ آپ کے سامنے کوئی اپنے جھوٹ کا بہادرانہ قصہ سنائے تو آپ اس پر اظہار نفرف کئے بغیر نہ رہ سکیں۔
۳۔
کیا آپ جھوٹی عزت کے جذبات سے پاک ہیں؟ گلیوں میں جھاڑو دے سکتے ہیں؟ بوجھ اٹھاکر گلیوں میں پھرسکتے ہی۔ بلند آواز سے ہر قسم کے اعلان بازاروں میں کرسکتے ہیں۔ سارا سارا دن پھر سکتے ہیں اور ساری ساری رات جاگ سکتے ہیں؟
۴۔
کیا آپ اعتکاف کرسکتے ہیں؟ جس کے معنے ہوتے ہیں )الف( ایک جگہ دنوں بیٹھ رہنا )ب( گھنٹوں بیٹھے وظیفہ کرتے رہنا )ج( گھنٹوں اور دنوں کسی انسان سے بات نہ کرنا۔
۵۔
کیا آپ سفر کرسکتے ہیں؟ اکیلے اپنا بوجھ اٹھاکر۔ بغیر اس کے کہ آپ کی جیب میں کوئی پیسہ ہو۔ دشمنوں اور مخالفوں میں` ناواقفوں اور ناشنائوں میں؟ دنوں` ہفتوں اور مہینوں۔
۶۔
کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ بعض آدمی ہر شکست سے بالا ہوتا ہے؟ وہ شکست کا نام سننا پسند نہیں کرتا۔ وہ پہاڑوں کو کاٹنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ دریائوں کو کھینچ لانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس قربانی کے لئے تیار ہوسکتے ہیں۔
۷۔
کیا آپ میں ہمت ہے کہ سب دنیا کہے نہیں اور آپ کہیں ہاں؟ آپ کے چاروں طرف لوگ ہسنیں اور آپ اپنی سنجیدگی قائم رکھیں۔ لوگ آپ کے پیچھے دوڑیں اور کہیں کہ ٹھہر تو جا ہم تجھے ماریں گے اور آپ کا قدم بجائے دوڑنے کے ٹھہرجائے اور آپ اس کی طرف سرجھکا کر کہیں لومارلو۔ آپ کسی کی نہ مانیں کیونکہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں مگر آپ سب سے منوالیں کیونکہ آپ سچے ہیں۔
۸۔
آپ یہ نہ کہتے ہوں کہ میں نے محنت کی مگر خدا تعالیٰ نے مجھے ناکام کردیا۔ بلکہ ہر ناکامی کو آپ اپنا قصور سمجھتے ہوں۔ آپ یقین رکھتے ہوں کہ جو محنت کرتا ہے کامیاب ہوتا ہے اور جو کامیاب نہیں ہوتا اس نے محنت ہرگز نہیں کی۔
اگر آپ ایسے ہیں تو آپ اچھا مبلغ اور اچھا تاجر ہونے کی قالبیت رکھتے ہیں۔ مگر آپ ہیں کہاں` خدا کے ایک بندہ کو آپ کی دیر سے تلاش ہے۔ اے احمدی نوجوان ڈھونڈھ اس شخص کو اپنے صوبہ میں` اپنے شہر میں` اپنے محلہ میں` اپنے گھر میں` اپنے دل میں کہ اسلام کا درخت مرجھا رہا ہے اسی کے خون سے وہ دوبارہ سرسبز ہوگا۔ مرزا محمود احمد۔<۹۸
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح~رح~ کی وفات اور سقوط حیدرآباد کے مصائب اور حضرت مصلع موعود
ستمبر ۱۹۴۸ء میں قائداعظم محمدعلی جناح کی وفات اور حیدرآباد )دکن( کی شکست کے پے در پے صدموں نے مسلمانان پاکستان میں ایک زلزلہ سا برپاکردیا۔ اس نازک موقع پر
حضرت مصلح موعود کو عالم رویا میں بتایا گیا کہ یہ تازہ مصائب پاکستان کی قوت و طاقت میں کمزوری کی بجائے اضافہ کا موجب بن جائیں گے۔
اللہ جل شانہ` وعزاسمہ` سے یہ بشارت ملے پر حضور نے ۲۱۔ ظہور ۱۳۲۷ہش/ ۱۹۴۸ء کے الفضل میں ایک مفصل مضمون تحریر فرمایا جس میں پہلے تو اپنی خواب بیان فرمائی ازاں بعد لکھا۔
>میں اس رئویا کی بناء پر سمجھتا ہوں کہ گو یہ دونوں واقعات مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان صدمات کو چھوٹا کردے گا اور مسلمانوں کو ان کے بداثر سے محفوظ رکھے گا۔ اگر مسلمان خدا تعالیٰ پر توکل کا اظہار کریں اور کسی لیڈر کی وفات کا جو سچا رد عمل ہوتا ہے وہ اپنے اندر پیدا کریں۔ یعنی اس کی نیک خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً مسٹر جناح کی وفات مسلمانوں کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب ہوگی۔
بانی سلسلہ احمدیہ جب فوت ہوئے ہیں اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی۔ ان کی وفات اسی لاہور میں ہوئی تھی اور ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شہر کے بہت سے اوباشوں نے اس گھر کے سامنے شور وغوغا شروع کردیا تھا جس میں ان کی لاش پڑی تھی اور ناقابل برداشت گالیاں دیتے تھی اور ناپسندیدہ نعرے لگاتے تھے مجھے اس وقت کچھ احمدی بھی اکھڑے اکھڑے نظر آتے تھے تب میں بانی سلسلہ احمدیہ کے سرہانہ جاکر کھڑا ہوگیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرکے یہ عرص کی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہوجائے تو میں اس مشن کو پھیلانے کے لئے جس کے لئے خدا نے انہیں مبعوث کیا تھا کوشش کروں گا اور اس کام کو پورا کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے میرے عہد میں ایسی برکت دی کہ احمدیت کے مخالف خواہ ہمارے عقیدوں کے متعلق کچھ کہیں یہ تو ان میں سے کوئی ایک فرد بھی نہیں کہہ سکتا کہ بانی سلسلہ احدیہ کی وفات پر جو طاقت جماعت کو حاصل تھی اتنی طاقت آج جماعت کو حاصل نہیں۔ ہر شخص اقرار کرے گا کہ اس سے درجنوں گنے زیادہ طاقت اس وقت جماعت کو حاصل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگر وہ مسلمان جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اور ان کی کام کی قدر کو پہچانتے تھے سچے دل سے یہ عہد کرلیں کہ جو منزل پاکستان کی انہوں نے تجویز کی تھی وہ اس سے بھی آگے ایسے لیجانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تندہی سے اس کو نبھانے کی کوشش بھی کریں تو یقیناً پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہوجائے گا۔
حیدرآباد کے معاملہ کے متعلق بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان حوصلہ سے کام لیں تو حیدرآباد کا مسئلہ کوئی ناقابل تلافی مصیبت نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ حیدرآباد اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہئے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہئے میں تو شروع دن سے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں۔ اور میرے نزدیک اگر حیدرآباد اور کشمیر کے مسئلے کو اکٹھا رکھ کر حل کیا جاتا تو شاید الجھنیں پیدا ہی نہ ہوتیں لیکن بعض دفعہ لیڈر عوام الناس کے جذبات سے اتنے مرعوب ہوتے ہی کہ وہ وقت پر صحیح رستہ اختیار کرہی نہیں سکتے۔ حیدرآباد کی پرانی تاریخ بتارہی ہے کہ حیدرآباد کے نظام کبھی بھی لڑائی میں اچھے ثابت نہیں ہوئے۔
چونکہ میرے پردادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب اور عہدہ ملا تھا اس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے۔ ۱۷۰۷ء میں ہی ان کو خطاب ملا اور ۱۷۰۷ء۹۹ میں ہی میرے پردادا مرزا فیض محمد خاں صاحب کو خطاب ملا تھا۔ ان کو نظام الملک اور میرے پردادا کو عضدالدولہ۔ اس وقت میرے پاس کاغذات نہیں ہیں جہاں تک عہدے کا سوال ہے غالباً نظام الملک کو پہلے پاچ ہزاری کا عہد ملا تھا لیکن مرزا فیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کو عہدہ ملا تھا۔ اس وقت نظام الملک باوجود دکن میں شورش کے دلی میں بیٹھے رہے اور تب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے۔ سلطان حیدرالدین کی جنگوں میں حیدرآباد نے کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھایا تھا۔ مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اس کا رویہ اچھا نہ تھا۔ انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمنے میں بھی حیدرآباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا مگر جہاں بہادری کے معاملہ میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ وہاں عام دور اندیشی وانصاف اور علم پروری میں یقیناً یہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتا رہا اور اسی وجہ سے کسی اور ریاست کے باشندوں میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایا میں نظام کی پائی جاتی ہے۔ انصاف کے معاملہ میں میرا اثر یہی رہا ہے کہ حیدرآباد کا انصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ اچھا تھا۔ ہندو مسلمانوں کا سوال کبھی نظاموں نے اٹھنے نہیں دیا اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول رہے۔ لیکن جہاں یہ صحیح ہے کہ حیدرآباد کا نظام خاندان کبھی بھی جنگی خاندان ثابت نہیں ہوا وہاں یہ بھی درست ہے کہ حیدرآباد کی رعایا بھی جنگی رعایا نہیں۔ کوئی نئی روح ان کو جنگی بناسکتی تھی مگر نواب بہادریا جنگ کی وفات کے بعد وہ نئی روح حیدرآباد میں نہیں رہی۔ سیدقاسم رضوی کے جاننے والے جانتے ہیں کہ بہادریا جنگ والی روح ان میں نہیں۔ بہادریا جنگ علاوہ اعلیٰ درجہ کے مقرر ہونے کے عملی آدمی بھی تھے۔ قاسم رضوی صاحب مقرر ضرور ہیں مگر اعلیٰ درجہ کے عملی آدمی نہیں ہیں۔ شہزادہ برار کے اندر بھی کوئی ایسی روح نہیں۔ شہزادہ برار نے آج سے اکیس سال پہلے بعض مہاسبھائی ذہنیت کے لوگوں سے ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس میں یہ اقرار کیا تھا کہ جب میں برسر حکومت آئوں گا میں فلاں فلاں رعائتیں ہندوقوم کو دوں گا۔ یہ معاہدہ ان کے ایک مخلص مصاحب کے علم میں آگیا اور اس نے ان کے کاغذات میں سے معاہدہ نکال کر مجھے پہنچادیا اس وقت معلوم ہوا کہ شہزادہ برار کو جیب خرچ نہیں ملتا اور بعض ہندوئوں نے انہیں روپیہ دینا شروع کردیا تھا جس کی بناء پر انہوں نے یہ معاہدہ کیا تھا۔ میں نے اس معاہدہ کی اطلاع گورنمنٹ آف انڈیا کودی اور اس کو توجہ دلائی کہ اتنی بڑی سلطنت کے ولی عہد کو جیب خرچ نہ ملتا نہایت خطرناک بات ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے حکماً شہزادے کا جیب خرچ مقرر کرادیا تھا جو غالباً دس ہزاریا بیس ہزار روپیہ ماہوار تھا ایسے انسان سے کس طرح امید کی جاسکتی تھی کہ وہ اس نازک وقت میں اپنی جان کو خطرہ ڈال کر قوم کی راہنمائی کرے گا۔ پس حیدرآباد کا واقعہ گو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ہے لیکن جو کچھ اس وقت ہوا ہے تاریخی واقعات کی ایک لمبی زنجیر کو آخری کڑی ہے۔ بے شک آج مسلمان اس بات کا خیال کرکے بہت ہی شرم محسوس کرتے ہی کہ تین دن پہلے مسلمانوں کے لیڈر حیدرآباد سے یہ براڈ کاسٹ کررہے تھے کہ ہم دلی کے لال قلعہ کی طرف آرہے ہیں اور تین دن کے اندر اندر انہوں نے ہتھیار بھی ڈال دیئے اور ان ساری امیدوں کو چھوڑدیا جو ربع صدی سے اپنے دلوں میں لئے بیٹھے تھے۔ مگر میں سمجھتا ہوں یہ ابتلاء بھی اگر پاکستان کے مسلمانوں کے عزم کو اور بلند کرنے کا موجب ہوجائے تو بلاء زحمت نہیں بلکہ بلا رحمت ہوگا۔
خدا تعالیٰ عام دنیاوی دروازے بند کرکے مسلمانوں کو بلارہا ہے کہ میری طرف آئو۔ خدا کی رحمت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے کاش مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی آواز پر لبیک کہیں۔ اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہوسکتا۔ خدا کے فرشتے جو میں اس کو اونچا رکھیں گے۔ ہمیں تو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ خدا کے فرشتوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی اس جھنڈے کو سہارا دے رہے ہوں۔ اے خدایا تو مسلمانوں کی آنکھیں کھول کر وہ اپنے فرض کو پہچانیں` تیری آواز کوسنیں اور اسلام پھر سے معزز اور موثر ہوجائے۔<۱۰۰
حضرت مصلح موعود کے قلم سے رسالہ >احمدیت کا پیغام< کی تصنیف واشاعت` اسکیمقبولیت اور غیرملکی زبانوں میں تراجم
۳۰۔۳۱ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ مقرر تھا۔
بابو قاسم الدین صاحب ان دونوں جماعت ہائے احمدیہ سیالکوٹ کے امیر تھے۔ آپ رتن باغ میں حضرت مصلع موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضور ہمارے جلسہ کے موقع پر جماعت کے نام کوئی پیغام مرحمت فرمائیں۔ ۱۰۱ اس پر حضور نے ایک نہایت بصیرت افروز مضمون رقم فرمایا جو نظارت دعوت و تبلیغ نے جلسہ سے قبل چھپوادیا جس میں سے چار ہزار کی تعداد میں جماعت سیالکوٹ نے پانچ سو روپیہ نقد قیمت ادا کرکے خرید لیا۔۱۰۲
سیدنا حضرت مصلح موعود کا یہ خاص پیغام حضور کے نمائندہ خصوصی سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب )ناظر امورعامہ( نے جلسہ کے آخری اجلاس میں )جبکہ حاضری معول سے زیادہ تھی( پڑھ کر سنایا۔ جلسہ میں معزز غیراحمدی اصحباب خاص طور پر مدعو تھے شاہ صاحب نے یہ پیغام چار بج کر ۱۰ منٹ پر پڑھنا۔ شروع کیا اور پانچ بج کر چالیس منٹ پر ختم کیا۔ اس ڈیڑھ گھنٹہ میں جو سکون اور خاموشی جلسہ گاہ پر طاری تھی۔ وہ اپنی نظیر آپ تھی۔۱۰۳ پیغام کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور اس کی چار ہزار کاپیاں حاضرین میں تقسیم کی گئیں۔۱۰۴
رسالہ >احمدیت کا پیغام< ایک تبلیغی شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ابتک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہی اور بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوچکا ہے۔۱۰۵ اردو کے علاوہ سندھی`۱۰۶ پشتو` ۱۰۷ بنگالی` ۱۰۸ فارسی` ۱۰۹ انگریزی۱۱۰ اور عربی تراجم بھی چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں۔
حضرت امیرالمومنین کا بصیرت افروز لیکچر مینارڈہال لاء کالج لاہور میں
۱۲۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود نے ساڑھے چھ بجے شب لاہور لاء کالج کے مینارڈ ہال میں >موجودہ حالات میں عالم
اسلام کی حیثیت اور اس کا مستقبل< کے موضوع پر ایک بصیرت افروز لیکچر دیا۔ اس لیکچر کا اہتمام وانصرام احمدیہ انٹر کالجیئیت ایسوسی ایشن نے کیا اور صدارت کے فرائض آنریبل جسٹس ایس اے رحمن صاحب نے انجام دیئے۔ ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جس میں ہر طبقہ کے معزز اور تعلیم یافتہ اصحاب شامل تھے۔ حضور کی تقریر اول سے آخر تک نہایت دلچسپی` اطمینان اور سکون کے ساتھ سنی گئی۔
تلاوت قرآن کریم کے بعد )جو مکرم ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے کی( حضور نے تقریر شروع فرمائی۔ تقریر کے پہلے حصے میں حضور نے ان دو سوالوں پر روشنی ڈالی )۱( دنیا میں عالم اسلام کو کیوں الگ حیثیت حاصل ہے؟ )۲( موجودہ سیاسی حالات کیا ہیں اور وہ عالم اسلام پر کس طرح اثر انداز ہورہے ہیں؟ اس ضمن میں حضور نے بتایا کہ اسلام کی بعض خصوصیات کی وجہ سے جب بھی یورپین ممالک کے سامنے کسی اسلامی ملک کا سوال آتا ہے تو وہ اس سوال کو علاوہ سیاسی اور مقامی رنگ دینے کے اسے مذہبی اور بین الاقوامی سوال بھی بنالیتے ہیں اور اس طرح گویا وہ خود عالم اسلام کی ایک الگ حیثیت قرار دے لیتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس وقت اسلامی ممالک پر جس رنگ میں اثر انداز ہورہی ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ان وجوہ پر بھی روشنی ڈالی جن کی بناء پر یہ طاقتیں عالم اسلام کو کمزور کرنے کی خواہاں ہیں۔
عالم اسلام کے مستقبل پر تبصرہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔ میرے نزدیک عالم اسلام کا مستقبل بالکل محفوظ ہے بشرطیکہ قرآن کریم نے ہمارے لئے کامیابی کے جو ذرائع مقرر فرمائے ہی ہم ان پر عمل کریں۔ حضور نے ان ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے متعدد اہم تجاویز پیش فرمائی جن میں سے بعض یہ ہیں )۱( جب اسلامی ممالک سے معاملہ پڑنے پر یورپ خود ان کی ایک جداگانہ حیثیت قرار دے دیتا ہے تو کیوں نہ اسلامی ممالک سچ مچ آپس میں اس قسم کا اتحاد پیدا کرکے صحیح معنوں میں ایک عالم اسلام قائم کرلیں جس کا ہر ایک رکن اپنے ملک کی قومیت کے علاوہ اپنے آپ کو ایک بڑی قومیت یعنی عالم اسلامی کارکن قرار دے۔
)۲( اسلامی ممالک کو باہمی رقابتیں دور کرکے ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔
)۳( اسلامی ممالک کے باشندوں کو ایک دوسرے کے ملک میں بکثرت آنا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کو سوسائٹیاں قائم کرکے اجتماعی طور پر کوشش کرنی چاہئے۔
)۴( اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے بکثرت تجارتی تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔
)۵( جن علاقوں کے مسلمان نسبتاً زیادہ پسماندہ ہیں مثلاً مغربی اور مشرقی افریقہ وغیرہ ہمیں امدادی انجمنیں قائم کرکے ان کی مدد کرنی چاہئے۔
)۶( قرآن کریم نے اسلام کی ترقی کا سب سے بڑا گر تبلیغ اسلام بیان فرمایا ہے ہمیں اس کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
آخر میں صدر محترم نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا میں احمدیہ انٹر کالیجیئیٹ ایسوسی ایشن کا شکر گزار ہوں کہ جس نے اس فاضلانہ تقریر کے سننے کا ہمیں موقع بہم پہنچایا۔ جناب مرزا صاحب نے تھوڑے سے وقت میں بہت وسیع مضمون بیان فرمایا اور اس کے کئی پہلوئو پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے جو تعمیری تجاویز بیان فرمائی ہیں وہ نہایت ہی قابل قدر ہیں ہمیں ان پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔۱۱۱
فصل پنجم
حضرت مصلح موعود کے مقدس ہاتھوں سے اشاعت اسلام کے نئے مرکز توحید ربوہ کا روح پرور افتتاح
مرکز پاکستان کی مجوزہ اراضی کا تاریخی پس منظر
جماعت احمدیہ کی طرف سے مرکز پاکستان کے لئے تحصیل چنیوٹ کے چک ڈھگیاں کی ۱۰۳۴ ایکڑ اراضی کے حصوں کا واقعہ پچھلی جلد میں گزر چکا ہے۔ حال کی ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک کے نامور عرب جرنیل حضرت محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان کی فتح کے بعد اپنے لشکر جرار سمیت دریائے چناب کو عبور کیا اور کشمیر کی طرف پیش قدمی کی تھی اس موقع پر عرب فوج اور چنیوٹ کے ہندو راجہ کی خون ریز جنگ ہوئی اور چنیوٹ کو فتح کرتے ہوئے تقریباً سو مجاہدوں نے جام شہادت نوش کیا چنانچہ آج تک اس سرزمین میں شہیدوں کا قبرستان موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید خاں ایم۔ اے پی۔ایچ۔ڈی رائل پاکستان نیوی اپنی کتاب >محمدبن قاسم پاکستان میں< کے صفحہ ۲۱`۲۲ پر لکھتے ہیں۔
>عرب فوج کا کشمیر جانے کا راستہ ملتان سے تلنبہ پھر شورکوٹ جو ضلع جھنگ میں آباد ہے پھر کوٹ کمالیہ کی طرف تھا جو ضلع لائلپور کا ایک مشہور قصبہ ہے۔ اس کے بعد مشہور جگہ جو عرب فوج کے راستہ میں پڑی وہ چندرود ہے جو ہر عرب نقشہ میں درج ہے جو میرے خیال میں چنیوٹ کا مشہور شہر ہے یہ ضلع جھنگ کی ایک تحصیل ہے اس کی وجہ یہ ہے چندرود ہر عرب نقشہ میں دریائے سندھ رود کے بائین کنارے پر درج ہے اور سندھ رود دریائے چناب کا دوسرا نام ہے۔
چندرود یا چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے ایک بہت ہی قدیم شہر ہے اور جس وقت عرب فوج نے اس شہر پر حملہ کیا تو ایک ہندوراجہ یہاں حکمران تھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سکندراعظم نے سانگلا پر حملہ کیا تو وہاں ایک جنگلی گروہ کی فوج سے اس کا مقابلہ ہوا اور سانگلا کا راجہ شکست کھا کر بھاگا جب ہیون سانگ سانگلا پہنچا تو سانگلا بالکل تباہ ہوچکا تھا۔ ۶۳۰ء میں ہیون سانگ نے دیکھا کہ شہر کی دیواریں خستہ حالت میں تھیں مگر ان کے نشانات باقی تھے جن سے اس نے اندازہ لگایا کہ شہر ۲/۱/۳ میل کے رقبہ میں آباد تھا۔<
>عربوں کے لئے اس واسطے سانگلا جانے کا کوئی امکان نہ تھا کیونکہ سکندراعظم نے مدت ہوئی اسے ختم کردیا تھا۔ اس شہر کی شہرت چندرود نے چھین لی تھی جسے آج کل چنیوٹ کہتے ہیں اور یہ جگہ سانگلا سے ۳۰ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ عرب فوج کے تقریباً سو سپاہی چنیوٹ کو فتح کرنے میں کام آئے۔ ان شہیدوں کا قبرستان اب تک چنیوٹ کے باہر موجود ہے۔ چندرود دیا چنیوٹ ریاست عیفان کا دارالخلافہ تھا جس کے متعلق بلاذری نے اپنی کتاب فتوح البلدان میں نہایت دلچسپ کہانی لکھی ہے۔ اس شہر چنیوٹ کے قریب سندھ سے کشمیر جانے والے مسافر دریائے چناب کو عبور کرتے تھے کیونکہ چنیوٹ سے کشمیر جانے کے لئے راسہ بالکل سیدھا تھا جو پنج مہات یا جہلم میں سے گزرتا تھا اس لئے عرب جرنیل محمد بن قاسم چنیوٹ سے جہلم اور پھر کشمیر گیا۔<
حضرت مصلع موعود کی فوری ہدایات مرکز پاکستان کی اراضی سے متعلق
۱۱۔ جون ۱۹۴۸ء )مطابق ۱۱۔ احسان ۱۳۲۷ہش( کو حکومت مغربی پنجاب نے جماعت احمدیہ کے نئے مرکز پاکستان کیلئے منظوری دے دی
‏]2ydob [tagجس کی اطلاع ملتے ہی حضرت مصلح موعود نے کوئٹہ سے فوری طور پر حسب ذیل تفصیلی ہدایات جاری فرمائیں۔
>فوراً ایک کمیٹی اس لئے بنادی جائے کہ۔
۱۔
جگہ کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے کہ مرکزی دفتر کہاں بنائے جائے گے۔ مقبرہ کہاں ہوگا )مقبرے دو ہونے چاہئیں عام اور مقبرہ بہشتی( مسجد` کالج` سکول` مدرسہ احمدیہ` کالج احمدیہ` ہسپتال` زنانہ سکول` ریسرچ انستی ٹیوٹ وغیرہ سردست ایک سو سے ڈیڑھ سو ایکڑ تک قصبہ کے لئے ریزور کی جائے مگر نقشہ اس طرح ہوکر آئندہ وسعت سے جگہ خراب نہ ہو۔
۲۔
پانی کے انتظام کے لئے فوراً سروے کرکے اور نیچی طرف ایک ٹیوب ویل کا کام فوراً شروع کروا دیا جائے۔
۳۔
مٹی کے تیل کا کوٹہ فوراً منظور کروایا جائے۔
۴۔
غلہ پانچ چھ ہزار من فوراً سال کی ضرورتوں کے لئے خرید لیا جائے اس کے لئے انجمن رقم فوراً منظور کردے۔ سوا سومن ہمارے لئے خرید لیا جائے میں قیمت دوں گا۔
۵۔
بھینسیں دو میرے لئے خرید کر احمد نگر میں رکھ دی جائیں اور سلسلہ کے لئے بھی تا فوراً دودھ کی کمی نہ ہو۔
۶۔
پانی کا انتظام ہوجائے تو فوراً چاروں طرف درخت لگانے کا پروگرام بنایا جائے بطور باڑ کے۔
۷۔
تحقیق کی جائے کہ کس کس قسم کے پھل دار درخت یا دوسرے درخت اس علاقہ میں لگ سکتے ہیں۔
۸۔
سب سے پہلے مسجد کی بنیاد رکھی جائے مگر فیصلہ کیا جائے کہ کس ترتیب سے باقی مکانات بنانے چاہئیں۔
۹۔
شہربنانے کے لئے فوراً کچھ آبادی کی ضرورت ہے غور کیا جائے کہ فوراً یہ آبادی کس طرح کی جائے؟
۱۰۔
بجلی پیدا کرنے کے لئے انجمن کی خط و کتابت کی جائے۔
۱۱۔
نقشہ آئندہ قصبہ کا جو میاں عبدالرشید صاحب نے تیار کیا تھا میں نے میاں بشیراحمد صاحب کو بھجوایا تھا اب اس کے ٹکڑے الگ الگ حصوں کے بڑے سکیل پر بنوا لینے چاہئیں تاتمام تفصیلات پر غور ہوسکے۔
۱۲۔
زمین کی قیمت داخل ہونے اور قبضہ لینے کے ساتھ ہی یہ اعلان کردیا جائے )مگر اس سے پہلے ہرگز کوئی اعلان نہ ہو(
)الف( چھ ماہ کے اندر اندر جو لوگ قادیان کے سابق احمدی باشندے یا ایسے غیراحمد باشندے تھے جو ہم سے تعلق رکھتے تھے اور خواہ مخواہ ہماری مخالفت نہ کرتے تھے مکان بنانے کا ارادہ کریں گے ان کو دس مرلہ زمین مکان بنانے کے لئے مفت دی جائے گی درخواستیں فوراً آنی شروع ہوجانی چاہئیں مگر یہ شرط ہوگی کہ آبادی کی شرائط کی پابندی کا وعدہ کریں۔ ۲۔ چھ ماہ کے اندر مکان بنانا شروع کردیں اور مکان شروع ہونے سے تین ماہ کے اندر مکان مکمل کرلیں۔ ۳۔ نقشہ مقررہ کی پیروری کی۔ ۴۔ کوئی دکان کی عمارت پرائیویٹ نہ ہوگی دکان کی عمارتیں کلی طور پر سلسلہ کی ملکیت ہوں گی اور کرایہ پر دی جائیں گی۔ کسی کو گھر پر تجارت کرنے یا مکان کے کسی حصہ کو دکان کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
)ب( اس کے علاوہ جو لوگ زمین خریدنا چاہیں ان کو ایک ماہ تک پچاس روپے کنال کے حساب سے زمین ملے گی مگر شرط یہ ہوگی کہ زمی کا قبضہ مکان بناتے ہوئے ملے گا کوئی ٹکڑا معین پہلے سے نہ کیا جائے گا اس سے آبادی مسلسل نہیں رہتی جو پہلے مکان بنائے گا اسے پہلے زمین مل جائے گی اور بعد میں مکان بنانے والے کو اس جگہ زمین ملے گی جہاں زمین خالی ہوگی۔
)ج( ایک ماہ کے اندر جن کی قیمت وصول نہ ہوگی ان کے لئے دوسری قیمت کا اعلان کیا جائے گا۔
‏]ydob [tagنوٹ-: میرے لئے سو کنال زمین وقف کردی جائے میں پانچ ہزار کا چیک بھجوایا ہوں۔ زمین کی قیمت ۳/۲ صدر انجمن احمدیہ ادا کرے اور ۳/۱ ۱۱۲ تحریک۔ اس نسبت سے علاقہ کی دونوں انجمنیں مالک ہوں گی۔<۱۱۳`۱۱۴
تعمیر کمیٹی کی تشکیل
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے فرمان مبارک )شق نمبر۱( کی تعمیل میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے اپے ہنگامی اجلاس منعقد ۱۹۰۔ ماہ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں مندرجہ ذیل دس ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی تجویز کی۔۱۱۵
۱۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب )صدر(
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلامیہ کالج
۳۔
حضرت نواب محمد الدین صاحب
۴۔
ناظر اعلیٰ )حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب(
۵۔
وکیل الدیوان )مولوی عبدالرحمن صاحب انور(
۶۔
ناظر امور عامہ )صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب(
۷۔
‏ind] ga[t ڈاکٹر عبدالاحد صاحب )ڈائریکٹر فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور(
۸۔
سید محمود اللہ شاہ صاحب )ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ(
۹۔
ناظم جائداد )چوہدری صلاح الدین صاحب(
۱۰۔
ناظر بیت المال )چوہدری عبدالباری صاحب(
انجمن نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ یہ کمیٹی فوری اجلاس منعقد کرکے صدر انجمن احمدیہ میں رپورٹ پیش کرے۔ غلہ کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت نواب محمد دین صاحب چھ ہزار من کا پرمٹ حاصل کریں۔
۲۶۔ تبوک/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو صدر انجمن احمدیہ نے تعمیراتی کام کے پیش نظر حضرت مصلح موعود کے خدمت میں سفارش کی کہ تعمیر کمیٹی کے لئے درج ذیل ممبروں۱۱۶ کا تقرر منظور فرمایا جائے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب )صدر( صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب )سیکرٹری( نواب محمد عبداللہ خاں صاحب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ شیخ بشیراحمد صاحب صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب۔ مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس۔
صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اس سفارش میں یہ بھی عرض کیا گیا کہ >حضرت میاں صاحب کا صدر ہونا اس لئے ضروری ہے کہ ان کو تعمیری کام کا ایک لمبا اور وسیع تجربہ ہے اور وہ اس کام کی ہرشق سے واقف ہیں۔ حضرت میاں صاحب کا صدر ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ عملاً اب بھی انہی کا مشورہ اس کام میں لیا جاتا ہے۔ اگر وہ خود براہ راست ہر مرحلہ پر نگرانی فرمائیں گے تو وقت بھی بچ جائے گا اور کام بھی اچھا اور جلدی ہوجائے گا۔<
حضور نے تحریر فرمایا۔ >ریزولیوشن منظور ہے سوائے تعمیر کے سوال کے۔ اس وقت تعمیر کا کوئی سوال نہیں صرف سامان جمع کرنے کا سوال ہے اور اس کا فیصلہ میری موجودگی میں ہونا ہے اس وقت سروے کا سوال ہے اور معلومات جمع کرنا۔<
چنیوٹ اور احمدنگر میں مرکزی ماحول کے استحکام کیلئے اہم ذیلی انتظامات
ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۸ء سے یعنی اس وقت سے جبکہ نئے مرکز کی مجوزہ اراضی کے حصول کی جدوجہد کا آغاز ہوا
چنیوٹ اور احمدنگر کویکایک خاص اہمیت حاصل ہوگی۔ وجہ یہ کہ مرکزی ماحول کی مستحکم کرنے کے لئے ان مقامات پر حضرت مصلح موعود کی خصوصی ہدایات کے مطابق نہایت اہم ذہلی انتظامات بروئے کار لائے گئے چنانچہ یہاں نہ صرف مہاجر احمدیوں کے بسانے کی انتہائی کوشش کی گئی بلکہ شروع میں تعلیم الاسلام ہائی سکول` مدرسہ احمدیہ جامعہ اپنے عبوری دور میں یہاں قائم ہوئے ازاں بعد ۲۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا کہ قادیان کی لائبریری کی کتابیں فی الفور چنیوٹ میں منتقل کردی جائیں۔ اس سلسلہ میں حضور نے ناظر اعلٰے کو حسب ذیل ہدایات فرمائیں۔
>دو چار روز کے اندر ایسا انتظام کیا جائے کہ چنیوٹ میں چند مکانات لے کر ہماری لائبریریاں جو یہاں ہیں وہاں بھجوائی جائیں۔ فوراً ایک دو دن کے اندر لاریوں کا انتظام کرکے کتب بھجوائی جائیں۔ لائبریرین وہاں چلے جائیں تین چار معتبر آدمی مقرر کردیئے جائیں جو اپنے سامنے ان کو ہوا لگوائیں اور فہرستیں تیار کریں۔ ہر فہرست پر دو آدمیوں کے دستخط ہوں گے کہ کوئی بدیانتی نہ کرسکے۔
ابھی فوراً لائبریریوں کو چیک کروایا جائے اور جو کتب اور اخبارات کے فائل کم ہوں ان کے متعلق قادیان لکھا جائے کہ آئندہ کنوائے میں انہیں نے بھجوانے کی کوشش کریں۔
آپ کے پاس دس ہزار کی رقم بجٹ میں سامان خریدنے کے لئے منظور ہے آپ اس میں سے فوراً کتب کے لئے ٹرنک اور پیٹیاں بنوائیں اور ان کے قفل بھی۔ کم از کم بیس پیٹیاں اونچائی ۳ x طول ۳ x عرض ۲ کی ہوں اور پھر کتب پر مہریں لگائی جائیں۔ ٹرنکوں پرچٹوں کی بجائے لائبریریوں کے نام سفید وغیرہ سے لکھے جائیں۔
دو پرائیویٹ لاریاں خریدلی جائیں۔
ہمارا روپیہ لاہور میں نہیں رہنا چاہئے۔ جتنا زائد روپیہ ہو وہ کراچی کے بنک میں ہوا اور یہاں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ کافی ہے۔
اصول یہ ہو کہ اگر EMERGENCY ہو تو اس وقت شیخوپورہ تک پہلا چکر ہو بلکہ شاہدرہ بھی محفوظ ہے اور اس کے بعد وہاں سے سامان آگے جاتا رہے۔ اصل تو دریا سے پار کرنا ہے۔
کوئی آدمی دوڑایا جائے جو وہاں جاکر مکان لے آئے۔ نواب محمد دین صاحب سے بھی چٹھی لکھوائی جائے کہ ہماری لائبریریوں کی کتب سڑ رہی ہیں اس لئے ہمیں فی الحال مکان دیئے جائیں تا کتب تو محفوظ رہ سکیں۔<
حضور کے اس فرمان مبارک کی تعمیل میں وسط/احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں کتابوں کو ٹرنکوں میں بھرکر بذریعہ ٹرک چنیوٹ پہنچایا گیا جہاں حکیم غلام حسین صاحب لائبریرین نے مخلوط اور بے ترتیب و بے ربط کتابیں مضمون وارکیں اور قادیان سے آمدہ رجسٹر سے مقابلہ کرکے ایک نئی فہرست مرتب کی اور اسے استفادہ کے قابل بنادیا۔۱۱۷
لائبریری کھل جانے کے چند ہفتے بعد حضور انور کی ہدایت پر ماہ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو دفتر محاسب کی ایک شاخ بھی چنیوٹ میں قائم کردی گئی۔۱۱۸ ۲۷۔ ماہ تبوک/ستمبر کو حضور نے حکم دیا کہ دفتر محاسب کو مکمل طور پر چنیوٹ میں منتقل کردیا جائے لاہور میں اب صرف دفتر کا ایک ذمہ دار کلرک اور ایک سیف رکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب )ناظراعلیٰ( نے ۲۷ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو محاسب صاحب صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے نام پر مکتوب لکھا۔
>السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔` حضور نے آج کی مجلس میں ارشاد فرمایا ہے کہ دفتر محاسب کو فوری طور پر چنیوٹ میں منتقل کردیا جائے وہاں ایک سکول کا کمرہ ان کے پاس موجود ہے اس میں فی الحال گزارہ کریں اگر وہ کفائت نہ کرے تو سید محمود اللہ شاہ صاحب سے امداد حاصل کریں۔ منگل` بدھ اور جمعرات میں روز اخبار میں چوکٹھہ میں موٹے الفاظ میں یہ اعلان ہونا چاہئے کہ آئندہ تمام رقوم چنیوٹ میں بھجوائی جائیں۔ جمعہ سے یہاں ادائیگیاں بند کردی جائیں۔ جمعہ` ہفتہ` اتوار دفتر کا پیکنگ ہو اور تنخواہوں کی ادائیگی یکم اکتوبر سے پہلے کردی جائے۔ فی الحال بیوی بچوں کو ساتھ نہ لے جایا جائے۔ چنیوٹ جاکر گنجائش اور مکانات کی پڑتال کرنے کے بعد جو کارکن عیال لے جانا چاہے لے جا سکتا ہے اخراجات انجمن دے گی۔ لاہور میں صرف دفتر محاسب کا ایک ذمہ دار کلرک اور ایک سیف رہنا چاہئے جو کہ چندوں کی وصولی کا کام کرے اور حسب ہدایت نظارت علیا پیشگی رقوم ادا کرے۔ اندراحبات کی تکمیل تمام و کمال چنیوٹ میں ہوا کرے گی۔ سامان دفتر بھی جو خرید شدہ ہے آپ اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں بہتر ہو کہ ایک مال گاڑی کا انتظام کرالیا جائے تاکہ سب سامان جاسکے لیکن مشورہ سے اندازہ کرلیں کہ ریل کی بجائے اگر ٹرک میں باسانی اور بکفائت سامان جاسکے تو ٹرک میں لے جایا جائے۔ محمد عبداللہ ناظر اعلیٰ ۱۹۴۸ء۔۹۔۲۷
جماعت کو مرکز پاکستان کی نسبت پہلی اطلاع اور بعض فیصلوں کا اعلان
صدر انجمن احمدیہ اور تعمیر کمیٹی حضرت امیرالمومنین کے ارشادات کی تعمیل میں سرگرم عمل ہوچکی تھی کہ اسی ثناء میں حضور کوئٹہ سے
بنفس نفیس لاہور تشریف لے آئے اور قدم قدم پر اسے اپنے سفید مشوروں سے نوازنے اور ہر ضروری معاملہ میں براہ راست راہنمائی فرمانے لگے۔
اس طرح تعمیر کمیٹی کی جدوجہد میں اپنی توجہ سے ایک نئی حرکت پیدا کرنے کے بعد حضور نے ۱۰۔ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے خطبہ جمعہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مرکز پاکستان کے لئے خریداراضی کی پہلی بار مفصل اطلاع دی اور اس کے ضروری مراحل پر روشنی ڈالنے کے بعد بعض گزشتہ تلخ تجربوں کے مدنظر اس نئی اراضی پر مکانات بنانے کے متعلق مندرجہ ذیل فیصلوں کا اعلان فرمایا۔
۱۔
مکانوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہنے دیا جائے گا۔ قادیان میں لوگوں نے زمین خرید کر اسے خالی ہی پڑا رہنے دیا اور مکانات وغیرہ نہیں بنائے تھے۔ جس کی وجہ سے ہم پوری طرح حفاظت کا بندوبست نہ کرسکے۔ ہمیں جو نقصان پہنچا اس کی تمام ذمہ داری انہیں لوگوں پر تھی یہ نقصان ان جگہوں کے پر ہوجانے کی صورت میں نہیں ہوسکتا تھا ہم نے آبادی کے اردگر دیواریں بنانے کی کوشش کی مگر گورنمنٹ نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا اور کہا کہ تم سڑکوں کو روکتے ہو۔ چونکہ اس کی مرضی تھی کہ مسلمان یہاں سے نکل جائیں اس نے چاہا کہ کسی قسم کی کوئی حفاظتی تدبیر نہ کی جائے۔ اس تلخ تجربے کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا ہے کہ کوئی بھی زمین خریدے اور مکان بنائے۔ مکانوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں ہوگا اور جو مقررہ مدت میں مکان نہیں بناسکے گا اس کی زمین کسی اور کو دے دی جائے گی جو جلدی مکان بناسکے۔ اس طرح بستی قلعہ کی صورت میں بدلتی جائے گی۔ ہاں جس طرح کی زمین ہوگی اسے دوسری جگہ پر زمین دے دی جائے گی۔
۲۔
زمین فروخت نہیں کی جائے گی بلکہ ٹھیکہ پر دی جائے گی اور اس کی اصل مالک صدر انجمن احمدیہ پاکستان ہی رہے گی۔
۳۔
اس وقت زمین سو روپے فی کنال کے حساب سے دی جائے گی۔ پچاس روپے بطور ہدیہ مالکانہ اور پچاس روپے شہر کی ضروریات کے لئے۔
۴۔
زمین نوے سال کے لئے ٹھیکہ پر دی جائے گی لیکن شرح کرایہ تیس سال کے بعد بدلتی رہے گی جو کبھی پچاس فیصدی سے زیادہ نہ ہوگی۔
۵۔
زمین پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے ہر خریدار سے ایک چھوٹی سی رقم بطور کرایہ وصول کی جائے گی۔ مثلاً ایک روپیہ فی کنال سالانہ اور دس مرالہ پر آٹھ آنے سالانہ اور یہ کرایہ تین پیسے فی مرلہ ماہوار بنتا ہے۔ یہ گورنمنٹ کی نقل کی گئی ہے گورنمنٹ بھی پہاڑوں پر زمین ٹھیکے پر ہی دیتی ہے۔ میں نے بھی ڈلہوزی ٹھیکہ پر زمین ہی لے کر کوٹھیاں بنائی تھیں۔
۶۔
کسی واحد شخص کو دکان بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی دکانیں کلی طور پر سلسلہ کی ملکیت ہوں گی ٹھیکہ پرلی ہوئی زمین میں صرف رہائشی مکان بنانے کی اجازت ہوگی کیونکہ بہت سی آوارگی دکانوں کے ذریعہ ہی پھیلتی ہے۔ قادیان میں ہم دیکھتے تھے کہ آوارہ مزاج لوگ عموماً دکانوں پر بیٹھا کرتے تھے اور جب دکانداروں کو ان کے منع کرنے کے لئے کہا جاتا تھا تو وہ مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی بکری زیادہ ہوتی تھی بہرحال اس نئے قصبہ میں دکانیں کسی شخص واحد کی ملکیت نہیں ہوں گی۔
۷۔
الفضل میں اعلان شائع ہونے کی تاریخ سے لے کر ایک مہینہ تک ہدیہ مالکانہ ایک سو روپیہ فی کنال لیا جائے گا اس کے بعد ہر سال یہ رقم بڑھتی جائے گی۔ یہ میعاد پندرہ اکتوبر کو ختم ہوجائے گی۔
اس وقت تین سو تیس کنال اراضی کی درخواست آچکی ہے روشنی` پانی` سڑکوں اور دیگر انتظامات کے لئے پانچ لاکھ کے اخراجات کا اندازہ ہے۔ سکولوں کالجوں پر بھی پانچ لاکھ کا اندازہ ہے۔ تو دس لاکھ کے قریب مزید خرچ ہوگا اور وہاں بسنے والوں نے ہی ان سے فائدہ حاصل کرنا ہے اس لئے یہ اخراجات زمین کی قیمت سے ہی نکالے جائیں گے۔ صرف چار پانچ سو ایکڑ زمین شہر میں لگے سکے گی باقی زمین ایسی نہیں کہ اس پر مکان بن سکیں۔ پس اس زمین میں سے یہ اخراجات نکالے جانے ضروری ہیں۔
۸۔
دکانوں کے عام اجازت نہ ہوگی بلکہ ضرورت کے مطابق نائیوں` دھوبیوں` موچیوں وغیرہ کی دکانیں ہوگی اور گنجائش کے مطابق دکانیں کھولنے دی جائیں گی۔
۹۔
بڑے کارخانے کھولنے کی کسی شخص واحد کو اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ جو بھی کارخانے کھولے جائیں گے ان میں سب شہریوں کا حصہ ہوگا۔
۱۰۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچھ زمین ان لوگوں کو دی جائے گی جو غرباء تھے اور قادیان میں ان کے مکانات تھے۔ یہ جگہ مفت دی جائے گی۔
۱۱۔
دکانات بنانے میں ایسا کان جس میں فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو باہمی تعاون سے کیا جائے گا اور اپنے ہاتھوں سے کیا جائے گا۔
۱۲۔
جو قواعد اس بارہ میں حکومت یا سلسلہ کی طرف سے جاری ہوں ان کی پابندی زمین لینے والوں کے لئے ضروری ہوگی۔<
آخر میں فرمایا-:
>پس ایسے دوست جو اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اس لئے مرکز میں مکانات بنانا چاہتے ہیں انہی چاہئے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر سو روپیہ فی کنال کے حساب سے ہدیہ مالکانہ پچاس روپے اور ابتدائی انتظامات کے لئے پچاس روپے قیمت خزانہ میں جمع کرادیں تا پہلے گروپ میں وہ شامل کر لے جائیں۔
احمدیت نے بہرحال بڑھنا ہے یہاں کی زمینوں کا بھی وہی حال ہوگا جو قادیان کی زمینوں کا ہوا یہ جگہ پاکستان کا مرکز رہے گی اور قریب کے مرکزوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے پس جو شخص زمین لینا چاہئے انہیں جلدی کرنی چاہئے۔<۱۱۹`۱۲۰
مرکز پاکستان میں جگہ حاصل کرنے کیلئے مخلصین جماعت کی طرف سے مثالی جوش وخروش
اس خطبہ کے بعد مخلصین جماعت نے نئے مرکز میں جگہ پانے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جس جوش وخروش کا ثبوت دیا وہ اپنی
مثال آپ تھا حضرت مصلح موعود نے جب تک اراضی مرکز کے لئے یہ اعلان عام نہیں فرمایا تھا تین سو کنال زمین فروخت ہوچکی تھی۔ اس کے بعد جونہی احمدیوں تک اپنے محبوب آقا کی آواز پہنچی وہ دیوانہ وار لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور ۱۵۔ اخاء/اکتوبر کی آخری مقررہ تاریخ تک پانچ سو کنال کی بجائے ایک ہزار کنال کی قیمت داخل خزانہ کرادی۔ مطالبات کی اس غیرمعمولی کثرت پر کمیٹی آبادی کو حضرت مصلح موعود کی منظوری سے اعلان کرنا پڑا کہ ۱۰۰ روپے کنال کے مجوزہ نرخ پر پانچ سو کنال کی بجائے آٹھ سو کنال تک زمین تقسیم کی جائے گی نیز فیصلہ کیا کہ مزید تین سو کنال بھی دی جائے مگر اس کی قیمت پہلے نرخ کے مقابل دگنی ہوگی اور جن دوستوں کی رقوم اراضی آٹھ سو کنال کے پورا ہوجانے کے بعد پہنچی ہیں وہ دگنی قیمت پر زمین لینے کے مجاز ہیں اور ایسے خریداروں کا حق پندرہ دن تک دوسرے درخواست کنندوں سے مقدم قرار دیا گیا۔۱۲۱ اس اعلان پر دو ہفتے بھی گزرنے نہیں پائے تھے کہ اسسٹنٹ سیکرٹری کمیٹی آبادی )قریشی عبدالرشید صاحب( نے بذریعہ الفضل اعلان کیا کہ دگنے نرخ پر تین سو کنال فروخت کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا وہ تین صد کنال ختم ہوچکے ہیں اس لئے احباب مزید کوئی رقم اس نرخ پر زمین خریدنے کے لئے ارسال نہ کریں۔ علاوہ ازیں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی صاحب کو چار کنال سے زائد زمین نہ دی جائے سوائے اس کے کہ بچوں کی علیحدہ رہائش کے لئے درکار ہو۔۱۲۲
سابقون کی فہرست کی اشاعت
ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آخر تک ۵۳۹ سابقون نے وادی غیرذی زرع میں رہائش کے لئے اپنی رقوم پیش کیں جن کی فہرست الفضل کی دو اشاعتوں )۲۶۔ اخاء و ۲۔ نبوت ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء( میں بطور ضمیمہ شائع کردی گئی۔ اس فہرست میں پہلا نام حضرت مصلح موعود کا اور دوسرا حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا تھا اور بقیہ ناموں میں سلسلہ احمدیہ کے مندرجہ ذیل ممتاز بزرگ صحابہ بھی شامل فہرست تھے۔
حضرت مولوی فضل الدین صاحب )نمبر۵( حضرت ڈاکٹر سیدغلام غوث صاحب )نمبر۱۵(
حضرت مفتی محمد صادق صاحب )نمبر۲۱( حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب )نمبر۲۵(
حضرت چوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب )نمبر۲۵( حضرت مولوی محمدالدین صاحب )نمبر۸۸(
حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری )نمبر۱۰۹( حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب )۱۶۸(
حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی )نمبر۲۱۴( حضرت منشی محبوب عالم صاحب نیلہ گنبد )نمبر۲۱۶(
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب ورد )نمبر ۳۷۳( حضرت ماسٹر مولا بخش صاحب )نمبر۳۸۲(
حضرت سیدولی اللہ شاہ صاحب )نمبر۴۳۵( حضرت سیدمحمود اللہ شاہ صاحب )نمبر۴۴۳(
حضرت سید نصرت جہاں بیگم ام المومنین )نمبر۴۵۵( حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب )نمبر۴۹۱(
خدا کے موعود خلیفہ کی آواز پر لیبک کہنے والے ان مخلصین کا تعلق مشرقی پنجاب خصوصاً قادیان سے آنے والے مہاجرین اور پاکستان میں پہلے سے مقیم احمدیوں کے ہرطبقہ سے تھا۔ درویشان قادیان اور کلکتہ کے بعض احمدیوں نے بھی قیمت ادا کردی تھی اس لئے ان کا نام بھی فہرست میں موجود تھا۔
‏tav.11.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
بستی کی آبادی میں قانونی پیچیدگی اور اسکے ازالہ کیلئے خصوصی ارشاد مبارک
حکومت مغربی پنجاب نے چک ڈھگیاں کی اراضی کی منظوری دیتے ہوئے علاوہ دوسری شرائط کے ایک خطرناک پابندی یہ لگادی تھی
کہ زمین پر قبضہ کے اٹھارہ ماہ بعد بستی کے کل مکان بن جانے چاہئیں۔ یہ شرط چونکہ صدرانجمن احمدیہ پاکستان جیسے مہاجر اور نئے قائم شدہ ادارہ کے لئے ناقابل عمل اور مالی اخراجات کے لحاظ سے ناقابل برداشت تھی اس لئے حضرت مصلح موعود نے جہاں نئے مرکز کی آبادی سے متعلق بلاتا خیر دوسرے ضروری انتظامات کی طرف تعمیر کمیٹی کو توجہ دلائی وہاں ۱۵ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو یہ بھی ارشاد فرمایا کہ۔
>میرا خیال ہے کہ ایک وفد گورنر کے ملے کہ ہم ریفیوجی ہیں ہم پر گائوں بنانے میں پابندیا کیوں لگائی جا رہی ہیں؟ دنیا میں آخر اور بھی گائوں بن رہے ہیں ہمارے پاس اتنا روپیہ کہاں کہ ہم ان پابندیوں کو پورا کرسکیں یا گورنمنٹ اپنے پاس سے بیس تیس لاکھ روپیہ بلا سود اس مقصد کے لئے ہمیں قرض دیدے یا پھر جب قصبہ بنے تو پھر پلیننگ کیا جائے ہمیں فی الحال چھپر وغیرہ بنانے کی اجازت دی جائے جس میں ہم راستوں وغیرہ کی پلیننگ کا خیال رکھیں گے بعد میں آہستہ آہستہ کھلے مکان پلیننگ کے مطابق بنالیں گے۔
ایک وفد رضا کے پاس جائے رضا فنانس کمشنر کے سیکرٹری ہیں۔ یہ وفد اس لئے جائے کہ معاہدہ کی دفعہ نمبر۴ (K) میں یہ شرط ہے کہ اٹھارہ ماہ کے اندر مکان بن جائے۔ یہ شرط افراد کے لئے ہے شہر تو گورنمنٹ بھی پندرہ بیس سال کے بعد بناتی ہے لہذا اس شق کو یا تو بدل دیا جائے یا منسوخ کیا جائے۔ دوسری بات ان سے یہ کی جائے کہ اگر ہم وہاں رہیں گے تبھی شہر بنے گا لہذا فی الحال ہمیں وہاں رہنے کے لئے عارضی جھونپڑیاں بنانے کی اجازت دی جائے بغیر اس کے تو وہاں رہنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہوسکتی۔
تیسری بات یہ کی جائے کہ نقشہ ساتھ لے جایا جائے کہ اس سارے پر شہر نہیں بن سکے گا بلکہ بعض حصوں کو باغات` زراعت اور کھیلوں وغیرہ کے لئے رکھا جائے گا نیز یہ کہ عمارت سے زیادہ پائیدار چیز کو تو شرط کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے زراعت اور باغات وغیرہ تو عمارت کے مقابلہ میں عارضی ہیں پہلے معاملہ کی درخواست کی جائے اور دوسرے کے متعلق ڈسکس (Discuss) کیا جائے۔
)میاں علام محمد ناقل( اختر صاحب کی معرفت ریلوے اسٹیشن اور ڈاک خانہ کے لئے فوراً درخواست کرنی چاہئے۔ اس میں یہ ہوکر ہم سارا نقصان برداشت کرلیں گے اس کی ضمانت ہم دیں گے۔<۱۲۳
افتتاح مرکز کے ابتدائی انتظامات
اگلے روز )۱۶۔ تبوک/ستمبر کو( حضور نے صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ذمہ دار کارکنوں کی مشترکہ مجلس میں افتتاح مرکز کے لئے ۲۰۔ تبوک/ستمبر کا دن مقرر فرمایا اور اس کے ابتدائی انتظامات کے لئے نہایت اہم ہدایات دیں جن کا خلاصہ یہ تھا کہ۔
۱۔
کراچی سے جنریٹر لایا جائے۔
۲۔
ایک شخص چنیوٹ جائے اور وہاں دیکھے ہٹس ۱۲۴ (Huts) بن سکتے ہیں۔ سرکنڈا` بانس` چٹائیاں` اینٹیں مل سکتی ہیں؟ کس قیمت پر ملیں گی۔ ڈھلوائی کتنی ہوگی اور باقی چیزیں کہاں ملیں گی؟
۳۔
‏]dni [tag عمارتی بانس کے لئے لاہور` سانگلہ اور سرگودہا سے دریافت کیا جائے۔۱۲۵
۴۔
چنیوٹ میں مکانوں کے لئے کوشش کی جائے۔
۵۔
دھوبی` نائی` کمہار` ترکھان کے متعلق روزانہ اشتہار ہونا چاہئے۔
۶۔
مستر عبداللطیف صاحب کو ملتا سے کراچی بھجوایا جائے۔
۷۔
محاسب کی آدھی برانچ )لاہور سے چنیوٹ( عزیز احمد لے جائیں۔
۸۔
معلوم کیا جائے سیمنٹ کس ریٹ پر مل سکتا ہے؟ بانس کتنا مہیا ہوسکتا ہے؟
۹۔
پچیس خیمے اور پچیس چھولداریاں لی جائیں۔
۱۰۔
پھوس کے کچھ مکاں بنائے جائیں۔
۱۱۔
ڈاک خانہ کی فوری کوشش کی جائے۔
۱۲۔
پانچ بکرے خریدے جائیں۔<
مرکز پاکستان کا نام ربوہ رکھاگیا
اس مجلس میں نئے مرکز کے نام کا مسئلہ بھی زیرغور آیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب` مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کی طرف سے ماوی` ذکری` دارلہجرت` مدینتہ المسیح اور ربوہ وغیرہ نام پیش ہوئے۔ )قریشی عبدالرشید صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری تعمیر کمیٹی کی چشم دید روایت کے مطابق )ربوہ نام مولانا جلال الدین صاحب شمس نے تجویز کیا جسے حضرت مصلح موعود نے بھی منظور فرمالیا۔ یہ نام جو لغوی`۱۲۶ مادی` معنوی اور روحانی ہر اعتبار سے نہایت موزوں اور لطیف تھا۔ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی مناسبت سے رکھاگیا جس میں حضرت مسیح کی اپنی والدہ سمیت ہجرت کا واقعہ )بطور پیشگوئی( لکھا ہے۔
وجعلنا ابن مریم وامہ ایہ واوینھما الی ربوہ]4 [stf۱۲۷ ذات قرارومعین۔
)مومنون ۳ع۳(
)اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو ایک نشان بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی(
افتتاح ربوہ کے انتظامات کیلئے ذمہ دار اصحاب کا تقرر
حضرت امیرالمومنین کی ہدایات کو فی الفور عمل جامہ پہنانے کے لئے ممبران صدر انجمن احمدیہ اور وکلاء تحریک جدید کا ایک مشترکہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں افتتاح ربوہ کے سلسلہ میں بعض ضروری انتظامات مختلف ذمہ دار اصحاب کے سپرد کئے گئے۔ مثلاً خیموں اور چھولداریوں کو کرایہ پر لینے کا کام چوہدری انتظام چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے اور مولوی محمد صدیق صاحب کے ذمہ ہوا۔ ٹرکوں کی فراہمی کا انتظام مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب )ناظر آبادی( اور خواجہ عبدالکریم صاحب کو سونپا گیا اور صدرانجمن احدیہ اور تحریک جدید کے عملہ میں سے فوری طور پر ربوہ بھجوائے جانے والے )ایک تہائی( کارکنوں کی فہرست تیار کرنے پر مولوی عبدالرحمن صاحب انور )وکیل الدیوان( اور قاضی عبدالرحمن صاحب مقرر کئے گئے اور جملہ دفاتر انجمن و تحریک کو اطلاع دی گئی کہ کل جمعہ کی تعطیل نہ ہوگی اور دفاتر صبح ۸ بجے سے دس بجے شب تک کھلے رہیں گے چنانچہ اس روز سب مرکزی دفاتر صبح سے رات تک ان افتتاح انتظامات کی تیاری میں مصروف رہے۔
لاہور سے ربوہ کے لئے پہلے قافلہ کی روانگی
۱۹۔ ماہ تبوک/ستمبر کو لاہور۔ سے ربوہ میں خیموں اور چھولداریوں کو نصب کرانے اور دیگر ضروری انتظامات کرنے اور بعدازاں اس وادی و غیرذی زرع میں مقیم رہنے کے لئے دو قافلے روانہ کئے گئے۔
‏body] g[taپہلا قافلہ جو چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے )نائب ناظر تعلیم و تربیت( اور مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی کے علاوہ ایک مددگار کارکن` ایک ڈرائیور اور دو مزدوروں پر مشتمل تھا لاہور سے قریباً ایک بجے روانہ ہوا اور سات بجے شام کے قریب ربوہ کی مقدس سرزمین میں پہنچا۔۱۲۸
چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے امیر قافلہ تھے جن کو ربوہ کا منتظم اعلیٰ بھی مقرر کیا گیا تھا۔۱۲۹
جناب چوہدری عبدالسلام صاحب اختر کا بیان ہے کہ-:
>شام کے سات بجے کے قریب ٹرک جس میں چھولداریاں` خیمہ جات اور سائبان وغیرہ لدے ہوئے تھے اس سرزمین میں پہنچ گیا جسے اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں اسلام کی حیات ثانیہ کا مرکز تجویز فرمایا ہے۔ اس ٹرک میں ڈرائیور اور دو مزدوروں کے علاوہ میں اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل تھے۔ چناب کے پل کے نگران سپاہی اور کچھ راہگیر جو شام کے بعد اس سڑک سے خال خال ہی گزرتے ہیں حیران ہو کر ہمیں دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ یہاں کیا کررہے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نہایت ہی اطمینان اور سکون کے ساتھ ٹرک میں سے اپنا اتارنے میں مصروف تھے۔ جب تمام سامان اتارا جا چکا تو ڈرائیور اور مزدوروں کو رخصت کیا گیا اس وقت میلوں تک علاقہ بالکل ویران اور سنسان حالت میں ہمارے سامنے تھا۔ دائیں طرف بڑی سڑک تھی جس پر شب کو ٹریفک دفعت¶ہ بند ہوجاتا ہے اور بائیں طرف ریلوے لائن تھی جو پہاڑوں کے بیچ میں سے چکر کاٹتی ہوئی ایک طرف چنیوٹ اور دوسری طرف سرگودھا کو چلی جاتی ہے مگر رات کو یہاں سے کوئی گاڑی نہیں گزرتی دن میں ہی صرف ایک گاڑی آتی ہے اور ایک جاتی ہے رات کے نو بج چکے تھے۔ میں نے سامان خاص اس جگہ اتارا تھا جو میرے آقا سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تجویز فرمائی تھی۔ اگلے دن حضور معہ خدام کے خود تشریف لانے والے تھے اس لئے ہم نے سائبان اور خیمے حضور کی آمد سے پہلے نصب کرنے تھے مگر اس جنگل میں پہلی رات کا تصور کچھ خوف اور کچھ لذت کی سی کیفیت پیدا کررہا تھا۔ خوف تو اس بات کا تھا کہ یہاں کے اکثر دیہاتی لوگوں کے متعلق سنا تھا کہ وہ جانوروں سے کم نہیں اور پھر اس علاقے میں سانپ` بچھو` ریچھ اور بعض اوقات بھیڑیا بھی پایا جاتا ہے۔ غرض کہ عجیب قسم کے خیالات آرہے تھے۔ مگر اس سے بہت زیادہ شیریں وہ کیفیت تھی جو اس خیال سے پیدا ہورہی تھی کہ یہی وادی غیرذی زرع ایک دن ہجوم خلائق کا مرکز بننے والی ہے چنانچہ ہم دونوں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کررہے تھے کہ اس نے محض اپنے خاص فضل سے ہمیں سب سے پہلے آبادکاروں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
رات بڑھتی جارہی تھی اور ہمارے دلوں کا تموج بھی بڑھ رہا تھا۔ چنیوٹ سے آتی دفعہ مکرم محترم سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کو یہ پیغام دے کر آئے تھے کہ وہ تین چار لڑکے اور ایک لالٹین دے کر جلدی بھیج دیں مگر دس بجے تک اس سنسان اور بے آب وگیاہ وادی میں ہم دونون کے سوا اور کوئی انسان نظر نہ آتا تھا۔ خاموشی اور ایک سنسان خاموشی سے کچھ تنگ آکر اور کچھ گھبرا کر میری ساتھی نے فرمائش کی اختر بھائی کچھ سنائو چنانچہ میں نے پہلی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کچھ اشعار اور پھر کچھ اپنے اشعار جو میں نے ٹرک میں بیٹھ کر راستے میں لکھے تھے باواز بلند سنائے آواز پہاڑوں سے ٹکرا کر گونج سی پیدا کررہی تھی اور میں یہ تصور کررہا تھا کہ جب ہمارا سالانہ جلسہ یہاں ہوگا تو اسی طرح ہمارے بزرگوں کی تقریریں اور ہمارے موذنوں کی تکبیریں ان پہاڑوں میں گونج پیدا کریں گی۔ اور پھر اسی طرح ان تقریریں اور تکبیروں سے ایک دنیا میں گونج پیدا ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی دل پر ایک بے خودی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور ہم دیر تک خاموش رہے۔
میں نے عمر کے اعتبار سے قادیان کا ابتدائی زمانہ نہیں دیکھا یعنی وہ زمانہ جب کہ قادیان میں ابھی محلے نہیں بنے تھے۔ لیکن میں حیران ہورہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تاریخ کو ایک نئے دور میں سے گزار کر گزشتہ دور کا اعادہ کررہا ہے۔ چنانچہ میں نے کہا دیکھیں مولوی صاحب قادیان کے ابتدائی دور کا ایک پہلو ہمارے سامنے ہے۔ چاند ہنس رہا ہے اور ستارے مسکرا کر ہمیں دیکھ رہے ہیں دفعت¶ہ دور سے ہمیں ایک ہلکی روشنی دکھائی دی۔ ہمارے سکول کے تین بچے ایک لالٹین ہاتھ میں لئے ہماری طرف قدم بڑھاتے چلے آرہے تھے۔ تین بچے دو بنگاال کے رہنے والے اور ایک سیلون کا رہنے والا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور رات کے دس بجے ایک سنسان وادی میں اپنے آقا کے خدام سے ملنے چلے آرہے تھے۔
جب روشنی آئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس زمین پر سب سے پہلا خیمہ بغیر مزدوروں کی مدد کے اپنے ہاتھ سے لگایا جائے چنانچہ میں نے اور مولوی محمد صدیق صاحب ے ایک چھولداری کو درست کیا اور بغیر کسی کی مدد کے اس میدان کے وسط میں یہ چھولداری اپنے ہاتھ سے لگائی۔
اس کے بعد ہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں اداکیں اور کچھ دیر بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ یہ خیمہ ربوہ کی سرزمین پر پہلا خیمہ تھا جس کے نصب کئے جانے کی سعادت قادیان کے دو رہنے والوں کو حاصل ہوئی۔
تقریباً نصف شب گزرنے پر احمد نگر سے مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کی طرف سے کچھ چپاتیاں اور کچھ دال آئی جس کے متعلق معلوم ہوتا تھا کہ یہ بہرحال نہایت عجلت میں تیار کی گئی ہے۔ اس وقت اس دال روٹی نے جو لطف دیا وہ زندگی کے قیمتی اور پر لطف لمحات میں بھی کم محسوس ہوا ہے۔
چونکہ صبح حضور کی تشریف آوری تھی اس لئے سائبانوں اور خیمہ جات کو درست کیا گیا اور انہی کے ڈھیر پر ہم دراز ہوگئے۔ تمام رات بلا کھٹکے اور نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ ہم سوئے۔ مجھے تو کچھ ہوش نہیں رہا البتہ مکرم مولوی صاحب نے فرمایا کہ دور سے کچھ گیدڑوں اور بھیڑیوں کی آوازیں آتی تھیں بس لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے بہرحال ہمیں ہر قسم کی اذیت سے محفوظ رکھا۔<۱۳۰
لاہور سے ربوہ کیلئے دوسرے قافلہ کی روانگی
۱۹۔ تبوک/ستمبر کو لاہور سے ربوہ کے لئے دوسرا قافلہ اپنے امیر چوہدری ظہور احممد صاحب۱۳۱ کی قیات میں ۵ بجے شام روانہ ہوا رات گیارہ بجے کے قریب چنیوٹ پہنچا اور رات سڑک پر گزارنے کے بعد دوسرے دن ساڑھے آٹھ بجے وارد ربوہ ہوا۔ یہ قافلہ صدرانجمن احدیہ اور تحریک جدید کے مندرجہ ذیل چونتیس )۳۴( کارکنوں پر مشتمل تھا۔
صدرانجمن احمدیہ پاکستان
نظارت علیا
محمد سعید اللہ منہاس صاحب۔ میاں نور احمد صاحب
تعلیم و تربیت
چوہدری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے مولوی بابر علی صاحب۔
"
مددگار کارکن منظور احمد صاحب
امور عامہ
مولوی جلال الدین صاحب
بہشتی مقبرہ
منشی خلیل احمد صاحب۔ غلام حیدر صاحب
بیت المال
چوہدری ظہوراحمد صاحب )امیرقافلہ( منشی مبارک احمد صاحب انور۔ قریشی عطاء اللہ صاحب۔ منشی دائود احمد صاحب۔ بشیر احمد صاحب۔ میاں غلام محمد صاحب )دفتری(۔ حبیب الرحمن صاحب نسیم۔
نظامت جائیداد
میاں فرزند علی صاحب
دفتر آڈیٹر
راجہ بشیر احمد صاحب۔ سید انوارحسین صاحب
نظامت ضیافت
چوہدری حبیب اللہ صاحب سیال۔ مولوی بدر سلطان صاحب۔ اکرم شاہ صاحب۔ سردار صاحب نانبائی۔ سردار صاحب مددگار۔ قاری محمد امین صاحب انچارج ضیافت۔
قضاء
مولوی تاج دین صاحب فاضل۔ نور محمد صاحب )مددگار کارکن(
تحریک جدید
وکالت دیوان
بشیرالدین صاحب۔ غلام حیدر صاحب۔ عبدالعزیز صاحب
صنعت
صوفی محمد رفیق صاحب
مال
شیخ عطاء اللہ صاحب۔ چوہدری عبدالرحیم صاحب )ہیڈکلرک(
تعلیم
مولوی خورشید احمد صاحب شاد۔ مولوی بشیرالدین صاحب۔
چوہدری ظہور احمد صاحب اس سفر کی مختصر رو داد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>دعائوں کے بعد ہم ۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۸ء کو پانچ بجے شام کرائون بس کی ایک گاڑی پر روانہ ہوئے شیخوپورہ کی سڑک برسات کی وجہ سے خراب ہوچکی تھی اس لئے لائل پور کے راستہ سے ہم رات گیارہ بجے چنیوٹ پہنچے۔ رات سڑک پر گزاری اور صبح ایک چھکڑے پر سامان لاد کر کچھ پیدل اور کچھ ایک ٹانگہ میں بیٹھ کر ساڑھے آٹھ بجے اس خطہ زمین پر پہنچے جسے بہت جلد بڑا اعزاز حاصل ہونے والا تھا۔<۱۳۲
ان قافلوں کے علاوہ اگلے روز ۲۰۔ تبوک/ستمبر کو مولوی عبدالرحمن صاحب انور بھی )وکیل الدیوان( تحریک جدید کا ریکارڈ لے کر اس بے آب وگیاہ میدان میں پہنچ گئے۔۱۳۳
وسیع شامیانے اور خیموں کی تنصیب
۱۹۔ ۲۰۔ تبوک/ستمبر کو لاہور سے آنے والے مرکزی کارکنوں نے مل کر اس مقام پر ایک وسیع و عریض شامیانہ نصب کردیا جو افتتاح کے لئے مخصوص کیا گیا تھا اور جہاں حضور نے نماز پڑھانا تھی۔ علاوہ ازیں چھ رہائشی خیمے بھی لگادیئے گئے۔
حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری اور نماز ظہر کی ادائیگی
طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت مصلح موعود بذریعہ موٹر لاہور سے صبح نو بجکر بیس منٹ پر روانہ ہوکر ایک بج کر بیس منٹ پر ربوہ کی سرزمین میں رونق افروز ہوئے۔۱۳۴ حضور کے ہمراہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور بعض دوسرے بزرگان سلسلہ بھی تھے۔ ۱۳۵
حضرت مصلح موعود نے اس یادگار سفر کے لئے لائل پور کا رستہ اختیار فرمایا کیونکہ شیخوپورہ کا کچھ حصہ زیرآب تھا۔ حضور کی آمد سے قبل چنیوٹ` احمد نگر اور لالیاں کے علاوہ سرگودھا` لاہور` قصور` سیالکوٹ` لائل پور` گجرات` گوجرانوالہ` جہلم اور بعض دوسرے اضلاع کے احمدی دوست بھی اس بابرکت تقریب میں شمولیت کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ نماز ظہر۱۳۶ قریباً ڈیڑھ بجے شروع ہوئی جس میں تقریباً اڑھائی سو احباب شریک تھے۔ یہ پہلی باجماعت نماز تھی جو حضور کی اقتداء میں اس سرزمین پر پڑھی گئی۔ اس کے بعد موجود اصحاب کی فہرست تیار کی گئی۔۱۳۷
حضرت مصلح موعود کا بصیرت افروز خطاب
نماز ظہر سے فراغت کے بعد ربوہ کی افتتاح تقریب کا دوسرا اہم پروگرام حضرت مصلح موعود کے خطاب سے شروع ہوا حضور نے تشہدو تعوذ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
>میں اس موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں جو مکہ مکرمہ کو بساتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں قرآن کریم سے پڑھوں گا مگر تلاوت قرآن کریم کے طور پر نہیں بلکہ دعا کے طور پر ان الفاظ کو دہرائوں گا۔ اور چونکہ یہ دعائیں ہم سب مل کر کریں گے اس لئے میں ان الفاظ میں کسی قدر تبدیل کردوں گا۔ مثلاً وہ دعائیں جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے مانگی تھیں وہ تثنیہ کے صیغہ میں آتی ہیں کیونکہ اس وقت صرف حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسعمیلؑ ہی دعا کررہے تھے مگر ہم یہاں بہت سے ہیں اس لئے میں تثنیہ کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کروں گا۔ بہرحال وہ دعائیں میں اب پڑھوں گا دوست میرے ساتھ ا دعائوں کو پڑھتے جائیں۔
اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں دعائیں مانگیں۔ یہ امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ ہر دعا حضور نے تین دفعہ دہرائی۔
ربنااجعل ھذا بلدا امنا وارزق اھلہ من الثمرات )۳ بار(
اے ہمارے رب تو اس جگہ کو ایک امن ولا شہر بنادے۔ اور جو اس میں رہنے والے ہوں ان کو اپنے پاس سے پاکیزہ رزق عطا فرما۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم )۳ بار(
اے ہمارے رب ہم اس جگہ پر اس لے بسنا چاہتے ہیں کہ ہم مل کر تیرے دین کی خدمت کریں۔ اے ہمارے رب تو ہماری اس قربانی اور اس ارادے کو قبول فرما۔ اے ہمارے رب تو بہت ہی دعائیں سننے والا اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔
ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امہ مسلمہ لک۔ وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔ )۳ بار(
اے ہمارے رب تو ہم سب کو اپنا فرمانبردار اور سچا مسلمان بنادے۔ اور ہماری اولادوں کو بھی نہ صرف مسلمان بنا بلکہ ایک مضبوط اور امت مسلمہ بنادے جو اس دنیا میں تیرے دین کی غلام کہلاتی رہے۔ اے ہمارے رب جو ہمارے کرنے کے کام ہیں وہ ہم کو خود بتلاتا رہا۔ اور جو ہم سے غلطیاں ہوجائیں ان سے عفو کرتارہا۔ تو بہت ہی فضل کرنے والا اور مہربان ہے۔
ربنا وابعث فیھم رجالا منھم یتلون علیھم ایاتک ویعلمونھم الکتاب والحکمہ ویزکونھم انک انت العزیز الحکیم۔ )۳ بار(
اے ہمارے رب تو ان میں ایسے آدمی پیدا کرتے رہو جو تیری آیتیں ان کو پڑھ پڑھ کر سناتے رہیں اور جو ان کو تیری کتاب سکھائیں اور تیرے پاک کلام کے اغراض و مقاصد بتاتے رہیں اور ان کے نفوس میں پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے رہیں۔ تو ہی غالب حکمت والا خدا ہے۔
ان دعائوں کو پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا-:
>یہ وہ دعائوں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرما کر ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقویٰ کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی۔ مکہ مکرمہ مکہ مکرمہ ہی ہے اور ابراہیم ابراہیم ہی ہے مگر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس بات کا خیال کرکے کہ مجھے وہ درجہ حاصل نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھا یا میری جگہ کو وہ درجہ حاصل نہیں جو مکہ مکرمہ کو حاصل تھا اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے بھیک مانگنے سے دریغ کرے۔ جب خدا کسی عظیم الشان نعمت کا دروازہ کھولتا ہے تو اس کی رحمت اور بخشش جوش میں آرہی ہوتی ہے اور دانا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنا برتن بھی آگے کردے کیونکہ پھر اس کا برتن خالی نہیں رہتا۔ فقیروں کو دیکھ لو جب لوگ شادی کررہے ہوتے ہی تو اس وقت ان پر اخراجات کا بوجھ اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ نہیں کہتے کہ ہم کیوں سوال کریں اس وقت تو خود ان پر شادی کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہوا ہے بلکہ جب کسی گھر میں شادی ہورہی ہوتی ہے وہ بھی اپنا برتن لے کر پہنچ جاتے ہیں اور گھر والا اور دنوں کی نسبت ان کے برتن میں زیادہ ڈالتا ہے کیونکہ اس وقت اس کی اپنی طبیعت خرچ کرنے پر آئی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی بزرگ کی نقل کرتا ہے تو چاہے وہ اس کے درجہ تک نہ پہنچا ہوا ہو جب بھی وہ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے زیادہ بخشش کا سلوک کرتا ہے۔ ماں باپ اپنے بچہ سے اس وقت زیادہ پیار کرتے ہیں جب وہ چھوٹا ہوتا ہے۔ اور جب وہ کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو گر جاتا ہے۔ لیکن ایک بالغ بچہ جب چل پھررہا ہوتا ہے تو ماں باپ کے دل میں محبت کا وہ جوش پیدا نہیں ہوتا جو ایک چھوٹے بچے کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ پس کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ خانہ کعبہ کے ذریعہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دین کی ایک آخری بنیاد قائم کی گئی تھی اس سے ہمارے گھروں کو کیا واسطہ ہے؟ اسی کا واسطہ دے کر مانگنا ہی تو خدا تعالیٰ کی رحمت کو بڑھاتا ہے اور انہی کی نقل کرنا ہی تو اصل چیز ہے۔
جو شخص کمزور ہے اور کمزور ہوکر چاہتا ہے کہ میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی طرح چلوں اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کو دیکھ کر ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھو میرا یہ کمزور بندہ کتنا اچھا ہے اس میں ہمت اور طاقت نہیں مگر پھر بھی یہ میری طرف سے بھیجے ہوئے ایک نمونہ اور مثال کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے سو ہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اور اس بستی کی یاد کے طور پر جس جگہ خدا کے ایک نبی محمد رسول اللہ~صل۱~ کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جو اسی طرح ایک وادی غیرذی زرع میں بسایا جارہا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ان لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیشگوئیوں کے حامل تھے اللہ تعالٰے ہم پر بھی اپنا فضل نازل کرے اور ہمیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں۔ آخرنیت تو ہماری بھی وہی ہے جو ان کی تھی۔ ہمارے ہاتھ میں وہ طاقت نہیں جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ہاتھ میں تھی اور ہمارے دل میں وہ قوت نہیں جو محمد رسول اللہ~صل۱~ نے کیا تو خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہوگا۔ وہ یہ نہی کہے گا کہ کون ہیں جو محمد~صل۱~ کی نقل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ کہے گا دیکھو میرے یہ کمزور بندے اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے آگے آگئے ہیں جس بوجھ کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہیں۔ دنیا اس وقت محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تعلیم کو بھول گئی ہے۔ بلکہ اور لوگوں کا تو کیا ذکر ہے خود مسلمان آپ کی تعلیم کو بھول چکے ہیں۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول اللہ~صل۱~ ہے جو بھی اٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مورخ کیا وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا کا سب سے برا محسن انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے` اور دنیا کا سب سے زیادہ مضرز انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے` اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں۔ اس میں ہماری جانیں` ہماری بیویوں کی جانیں` ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار پشتیں بھی اگر قربان ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کا موجب ہوگا۔
ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالٰے کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس وادی غیرذی زرع میں بسارہے ہیں۔ ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور ناطاقت ہی سہی مگمر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اٹھا کر منزل مقصود پر لے جاتی ہے اسی طرح گو ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادہ اور عزم میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوا۔ دنیا ہم کو ہزاروں جگہ پھینکتی چلی جائے۔ وہ فٹ بال کی طرح ہمی لڑھکاتی چلی جائے ہم کوئی ہ کوئی جگہ ایسی ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہوکر ہم پھر دوبارہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت دنیا میں قائم کردیں اور بغیر ہمارے یہ حکومت دنیا میں قائم ہی نہیں ہوسکتی کیوکہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حقیقی محبت سے لوگوں کو دلی خالی ہوچکے ہیں اور قرآن کریم کی حقیقی تفسیر سے وہ ناواقف پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی محبت پائی جاتی ہے۔ لاکھوں غیراحمدی ایسے ہے جو محمد رسول اللہ~صل۱~ سے نہیں بلکہ آپﷺ~ کی ایک نئی بنائی ہوئی شکل سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے بعض احمدی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ محمد رسول اللہ~صل۱~ سے محبت کرتے ہیں تو ہمارا یہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ ان کے دلوں میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حقیقی محبت نہیں۔ حالانکہ ہم جو کچھ کہتے ہے وہ یہ ہے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں مگر محمد رسول اللہ~صل۱~ سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی ایک غلط تصویر سے۔ اسی طرح ہم مانتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ اس غلط تاویل کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہی جو ان کے دلوں میں راسخ ہوچکی ہے۔ اس لئے جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آجاتی۔ اسلام غلبہ نہیں پاسکتا۔ اور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ میں حیران ہوں مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ باوجود الفت رسولﷺ~ کے وہ دنیا میں کیوں ذلیل ہورہے ہیں۔ سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اور احمدی پانچ لاکھ مگر چار پانچ لاکھ احمدی جتنی اسلام کی خدمت کررہا ہے` جس قدر اسلام کی تبلیغ کررہا ہے اور جس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کررہا ہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کررہا۔ اس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کا مقابلہ کررہے ہی اور مقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ ان کا مقابلہ موثر ہے۔ پندرہ بیس سال ہوئے لکھنو میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی کانفرنس ہوئی جس میں یورپ سے بھی عیسائی پادری شامل ہوئے اس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ شمالی ہندوستان میں اب کوئی اچھا شریف اور تعلیم یافتہ آدمی عیسائی نہیں ہوتا۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ تمام پادری جو اس فن کے ماہر تھے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ کیا ہے اس وقت سے عیسائیت کی ترقی رک گئی ہے۔
انہوں نے عیسائیت کی اس قدر مخالفت کی ہے کہ جہاں جہاں ان کا لٹریچر پھیل جاتا ہے عیسائیت ترقی نہیں کرسکتی پھر افریقہ کے متعلق ایک بڑی بھاری کمیٹی مقرر کی گئی تھی جسے چرچ آف انگلینڈ نے مقرر کیا تھا جس کی سالانہ آمد ہمارے بہت سے صوبوں سے بھی زیادہ ہے۔ جو چالیس پچاس کروڑ روپیہ سالانہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس کمیٹی کی طرف سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں چھتیس جگہ یہ ذکر آتا تھا کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی محض احمدیت کی وجہ سے رکی ہے۔ ابھی بارہ مہینے ہوئے ایک پادری جسے افریقہ کے دورہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس نے افریقہ کے دورہ کے بعد یہ رپورٹ کی کہ افریقہ میں عیسائیت کیوں بیکار جدوجہد کررہی ہے۔ اس نے کئی جگہوں کے نام لئے اور کہا کہ وہاں عیسائیت کی تبلیغ اب افریقن لوگو میں اچھا اثر نہیں کرسکتی ہاں اسلام کی تبلیغ ان میں اچھا اثر پیدا کررہی ہے۔ اس نے کہا جب سے افریقہ میں احمد آگئے ہیں عیسائیت ان کے مقابلہ میں سکست کھاتی جارہی ہے۔ چنانچہ عیسائیوں کا فلاں سکول جو بڑا بھاری سکول تھا اب ٹوٹنے لگا ہے اور لوگ اس میں اپنے لڑکوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھجواتے۔ پھر اس نے کہا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ ہم اپنے روپیہ اور اپنی طاقتوں کا اس ملک میں ضیاع کرنے کی بجائے اس میدان کو احمدیوں کے لئے چھوڑدیں کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان بنالیں۔ یہ دشمنوں کا قرارہے جو انہوں نے ہماری تبلیغی جدوجہد کے متعلق کیا ۔۔۔۔ یہ طاقت ہم میں کہاں سے آئی ہے؟ اور یہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کردی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر دوبارہ اسلام کو دنیا میں غالب کردیں۔ پس مسلمان احمدیت کا جتنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیدا کرتے ہیں اور جتنی جلدی وہ احمدیت میں شامل ہوجائیں گے اتنی جلدی ہی اسلام دنیا میں غالب آجائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دنیوی ہیں صرف ایک تحریک مسلمانوں کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے۔ پاکستان خواہ کتنا بھی مضبوط ہوجائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ کیا حجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یا حجازی کہلائیں حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں۔ پھر لبنانی اور حجازی اور عراقی اور شامی پاکستانی کہلانا کب برداشت کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ فوراً تو اتحاد کرسکتے ہیں مگر وہ ایک پارٹی اور ایک جماعت نہیں کہلاسکتے۔ صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہوسکتے ہیں عراقی بھی اس میں شامل ہوکر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں۔ عربی بھی اس میں شامل ہوکر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں۔ حجازی بھی اس میں شامل ہوکر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں اور عملاً ایسا ہورہا ہے۔ وہ عربی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس کا مرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی ماتحتی قبول کرتے ہیں مگر یہ ماتحتی احمدیت میں شامل ہوکرہی کی جاسکتی ہے اس کے بغیر نہیں ۔ چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتا ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جس میں محمد رسول اللہ~صل۱~ پیدا ہوئے میرا مقابلہ کوئی اور شخص کہاں کرسکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہوکر برعظیم ہندو پاکستان کا بھی ادب و احترام کرتا ہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتا ہے۔ غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام پھر متحد ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ دوسری دنیا پر کامیابی اور فتح حاصل ہوسکتی ہے اور وہ احمدیت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ہر جگہ ذلیل ہورہے ہیں اور ہر جگہ تباہی اور بربادی کا شکار ہورہے ہیں۔ اس سے زیادہ تباہی اور کیا ہوگی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتیں اب تک سکھوں اور ہندوئوں کے قبضہ میں ہیں کیا یہ معمولی ذلت ہے کہ پانچ چھ لاکھ مسلمان دنوں میں مارا گیا۔ اور پھر فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ مسلمانوں کو نظر نہیں آرہا۔ ابھی حیدرآباد میں جو کچھ ہوا ہے اس سے کس طرح مسلمانوں کو صدمہ ہوا ہے اور وہ اپنے دلوں میں کیسی ذلت اور شرمندگی محسوس کررہے ہیں مگر یہ ساری مصیبتیں اور بلائیں ایک لمبی زنجیر کی مختلف کڑیوں کے سوا اور ہیں کیا؟
آخر محمد رسول اللہ~صل۱~ سے اللہ تعالیٰ کو جو محبت ہے اس کے ظاہر ہونے کا وقت کب آئے گا اور کوسا وہ دن ہوگا جب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکے گی۔ اور مسلمانوں کو اس تنزل اور ادبار سے نجات دلائے گی۔ خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی دنیا میں بھڑکتی ہے یا نہیں` اور اگر بھڑکتی ہے تو مسلمانوں کو سوچنا چاہئے کہ اس کی غیرت کے بھڑکنے کا کونسا ذریعہ ہوا کرتا ہے۔ اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ پہلے اپنا مامور دنیا میں بھیجتا ہے اور پھر اس مامور کے ذریعہ ہی اس کی غیرت بھڑکا کرتی ہے۔ اس کے سوا خدا تعالیٰ نے کبھی کوئی طریق اختیار نہیں کیا اور یہی ایک طریق ہے جس پر چل کر وہ اب بھی خدا تعالیٰ کی غیرت کا نمونہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بات مسلمانوں کے سامنے پیش کرو اور انہیں سمجھائو کہ تمہارا فائدہ` اسلام کا فائدہ اور پھر ساری دنیا کا فائدہ اسی میں ہے کہ تم جلد سے جلد احمدیت میں شامل ہوجائو۔ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے رکتے ہیں۔ ہماری تو ساری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہر موقع پر مسلمانوں کی خدمت کی ہے گو اس کے بعد ہمیشہ ان کی طرف سے مخالفت ہی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمارا کیا نقصان ہوا۔ ابھی کوئٹہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں لوگوں کو ہمارے خلاف اکسایا گیا۔ ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد رات کے وقت کسی مریض کو دیکھ کر کار میں واپس آرہے تھے کہ وہ تقریر کی آواز سن کر وہاں ٹھہر گئے۔ انہوں نے اپنی موٹر باہر کھڑی کی اور خود تھوڑی دیر کے لئے اندر چلے گئے۔ بعض غیر احمدیوں نے انہیں دیکھ کر دوسروں کو اکسادیا اور انہوں نے ان پر پتھرائو شروع کردیا وہ پتھرائو کی بوچھاڑ سے بچنے کے لئے ایک طرف اندھیرے میں چلے گئے اس پر کسی شخص نے وہیں اندھیرے میں خنجرمار انہیں شہید کردیا اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بعد میرے پاس ایک وفد آیا جس میں بلوچستان مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی شامل تھے اور پٹھانوں کی قوم کے ایک سردار بھی شامل تھے ان سب نے آکر کہا کہ ڈاکٹر میجر محمود کے قتل کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں صرف پنجابیوں کا قصور ہے ہمارا کوئی قصور نہیں آپ ہم پر گلا نہ کریں۔ پنجابی مولویوں نے یہاں آکر مخالفانہ تقریریں کیں جس سے لوگ مشتعل ہوگئے۔ پھر اس سردار نے جو اپنی قوم کے رئیس اور میونسپل کمیٹی کے ممبر بھی تھے کہا کہ میں نے پنجابیوں کو بلوایا اور ان سے کہا کہ تم جو احمدیت کے خلاف شورش کررہے ہو تو یہ بتائو کہ قادیان پنجاب میں ہے یا بلوچستان میں۔ انہوں نے کہا پنجاب میں۔ میں نے کہا جب قادیان پنجاب میں تھا اور تم کو ایک لمبا عرصہ احمدیوں کی مخالفت کے لئے مل چکا ہے تو جب تم وہاں ان لوگوں کو تباہ نہیں کرسکے تو یہاں کیا مقابلہ کرو گے۔ اگر تم میں ہمت اور طاقت تھی تو تم نے ان لوگوں کو یہاں آنے ہی کیوں دیاوہیں کیوں نہ مار ڈالا۔ پھر میں نے پوچھا کہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے؟
انہوں نے کہا کہ اب دو کروڑ ہے پہلے تین کروڑ ہوا کرتی تھی۔ میں نے کہا بلوچستان کی کتنی آبادی ہے۔ انہوں نے کہا ۱۲ لاکھ۔ میں نے کہا تم دو تین کروڑ ہوکر ان لوگوں کو مار نہیں سکتے تو ہم بارہ لاکھ کو کیوں ذلیل کرتے ہو اور کیوں ہمیں ان کی مخالفت کے لئے اکساتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے اپنا سارا زور ہماری مخالفت میں لگالیا اور ابھی اور لگائے گی لیکن یہ ایک چابت شدہ حقیقت ہے کہ احمدیت دنیا میں غالب آکررہے گی کیونکہ احمدیت کے بغیر محمد رسول اللہ~صل۱~ غالب نہیں آسکتے۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی یہ بات جانتا ہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمد رسول اللہ~صل۱~ غالب نہی آسکتے۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی یہ بات جانتا ہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی زندگی وابستہ ہے اس لئے خدا بھی دشمن کے ہاتھوں سے نہیں مرنے دے گا اور وہ میرے بچائو کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ساتھ اسلام کی ترقی کو وابستہ کردیا ہے جو شخص احمدیت پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ اسلام پر ہاتھ اٹھاتا ہے` جو شخص احمدیت کو برباد کرنا چاہتا ہے وہ اسلام کو برباد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور ہم کمزوروں اور ناتوانوں کے ساتھ اسلام کی آئندہ ترقی کو وابستہ کردیا ہے تو ہم اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیں۔ اسی لئے باوجود اس کے کہ شہروں میں ہمیں مکان مل سکتے تھے مگر ہم نے نہیں لئے کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری پیدا کرتے رہیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان میں تنظیم پیدا کریں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھیں اور یہ چیز بڑے شہروں میں حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہا جماعت بکھری ہوئی ہوتی ہے۔ پس باوجود اس کے کہ ہمیں شہروں میں جگہیں مل سکتی تھیں ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور اس وادی غیرذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کا جھنڈا اس مقام پر بلند رکھیں گے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشس کریں گے اور جب خدا ہمارا قادیان ہمیں واپس دے دے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لئے رہ جائے گا یہ مقام اجڑے گا نہیں۔ کیونکہ جہاں خدا کا نام ایک دفعہ لے لیا جائے۔ وہ مقام برباد نہیں ہوا کرتا۔ پھر یہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کا مرکز بن جائے گا اور ساری دنیا کا مرکز پھر قادیان بن جائے گا جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے۔ پس ہم یہاں آئے ہی اس لئے کہ خدا کا نام اونچا کریں ہم اس لئے نہیں آئے کہ اپنے نام کو بلند کریں ہمارا نام شہرو میں زیادہ اونچا ہوسکتا تھا۔
اور ہم اگر اپنے نام کو بلند کرنے کی خواہش رکھتے تو اس کے لئے بڑے شہر زیادہ موزوں تھے بلکہ خود ان شہروں کے رہنے والوں نے بھی خواہش کی تھی کہ وہی جماعت کے لئے زمینیں خرید لی جائیں۔ چنانچہ لاہور` کوئٹہ اور کراچی میں چوٹی کے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آتے اور خواہش کرتے تھیکہ انہی کے شہر میں ہم رہائش اختیار کریں۔ کراچی میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی اور کوئٹہ میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی۔ غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ظاہری عزت شہروں میں زیادہ ملتی تھی مگر ہمارا کام اپنے لئے ظاہری عزت حاصل کرنا نہیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس جگہ کی تلاش کریں جہاں اسلام کی عزت کا بیج بوسکیں اور ہم نے اسی نیت اور ارادہ سے اس وادی غیرذی زرع کو چنا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو یہاں کوئی فصلیں نہیں` کہیں سبزی` کا نشان نہیں گویا چن کر ہم نے وہ مقام لیا ہے جو قطعی طور پر آبادی اور زراعت کے ناقابل سمجھا جاتا تھا تاکہ کوئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ پاکستان نے احمدیوں پر احسان کیا ہے مگر کہنے والوں نے پھر بھی کہہ دیا کہ کروڑوں کڑور کی جائداد پاکستان نے احمدیوں کو دے دی ہے۔ یہ زمین ہم نے دس روپیہ ایکڑ پر خریدی ہے اور یہ زمین ایسی ہے جو بالکل بنجر اور غیرآباد ہے اور صدیو سے بنجر اور غیرآباد چلی آتی ہے۔ یہاں کوئی کھیتی نہیں ہوسکتی` کوئی سبزہ دکھائی نہیں دیتا` کوئی نہر اس زمین کو نہیں لگتی۔ اس کے مقابلہ میں میں نے خود مظفر گڑھ میں نہر والی زمین آٹھ روپیہ ایکڑ پر خریدی تھی بلکہ اسی مظفر گڑھ میں ایک لاکھ ایکڑ زمین میاں شاہ نواز صاحب ے آٹھ آنے پر ایکڑ پر خریدی تھی جس سے بعد میں انہوں نے بہت نفع کمایا۔ یہ زمین ہم نے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لئے خریدی ہے کہ میری رئویا اس زمین کے متعلق تھی۔ یہ رئویا دسمبر ۱۹۴۱ء میں میں نے دیکھی تھی اور ۲۱۔ ۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہوچکی ہے۔ اب تک دس ہزار آدمی یہ رئویا پڑھ چکے ہیں اور گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی یہ رئویا موجود ہے۔ میں نے اس رئویا میں دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں مگر مقابلہ کے بعد دشمن غالب آگیا اور ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جاکر اپنی حفاظت کا سامان کریں۔
اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا میں ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایک پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اور ساتھ اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دیتا ہے وہ مقام سب سے بہتر رہے گا۔ میں ابھی متردد ہی تھا کہ اس جگہ رہائش اختیار کی جائے یا نہ کی جائے کہ ایک شخص نے کہا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے۔ اس نے سمجھا کہ کہیں میں رہائش سے اس لئے انکار نہ کردوں گا کہ یہاں مسجد نہیں۔ چنانچہ میں نے کہا اچھا مجھے مسجد دکھائو اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی` چٹائیا اور دریاں وغیرہ بھی بچھی ہوئی تھیں اور امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بچھا ہوا تھا۔ اس پر میں خوش ہوا اور میں نے کہا لو الل¶ہ تعالیٰ نے ہمیں مسجد بھی دے دی ہے >)میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے آئے ہیں اور تنظیم کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے۔(<۱۳۸ اب ہم اسی جگہ رہیں گے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں اور وہ کہتے ہی کہ بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے اور جالندھر کا خاص طور پر نام لیا کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے۔ پھر انہوں نے کہا ہم نیلے گنبد میں داخل ہونے لگے تھے مگر ہمیں وہاں بھی داخل ہیں ہونے دیا۔ اس وقت تک تو ہم صرف لاہور کا ہی نیلا گنبد سمجھتے تھے مگر بعد میں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ نیلے گنبد سے مراد آسمان تھا اور مطلب یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے بھی مسلمانوں کو امن نہیں ملے گا۔ چنانچہ لوگ جب اپنے مکانوں اور شہروں سے نکل کر ریفیوجی کیمپوں میں جمع ہوتے تھے تو وہاں بھی سکھ ان پر حملہ کردیتے تھے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالتے تھے۔ اس رئویا کے مطابق یہ جگہ مرکز کے لئے تجویز کی گئی ہے۔ جب میں قادیان سے آیا تو اس وقت یہاں اتفاقاً چوہدری عزیز احمد صاحب احمدی سب۱۳۹ جج لگے ہوئے تھے۔ میں شیخوپورہ کے متعلق مشورہ کررہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اخبار میں آپ کی ایک اس رنگ کی خواب پڑھی ہے میں سمجھتا ہوں کہ چنیوٹ ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا ٹکڑا زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ میں یہاں آیا اور میں نے کہا ٹھیک ہے خواب میں جو میں نے مقام دیکھا تھا اس کے اردگرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ میں نے اس میدان میں گھاس دیکھا تھا مگر یہ چٹیل میدان ہے۔ اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلا ہے ممکن ہے ہمارے ¶آنے کے بعد اللہ تعالیٰ یہاں گھاس بھی پیدا کردے اور اس رقبہ کو سبزہ دار بنادے۔ بہرحال اس رئویا کے مطابق ہم نے اس جگہ کو چنا ہے اور یہ رئویا وہ ہے جس کے ذریعہ چھ سال پہلے اللہ تعالیٰ نے ہمیں آئندہ آنے والے واقعات سے خبردے دی تھی۔ دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس کی طاقت میں یہ بات ہو کہ وہ چھ سال پہلے آئندہ آنے والے واقعات بیان کردے۔
انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں بھلا قادیان پر حملہ کا سوال ہی کہا پیدا ہوتا تھا۔ پھر قادیان کو چھوڑنا کس کے خیال میں آسکتا تھا۔ کون خیال کرسکتا تھا کہ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اتنی بڑی کہ وہ اپنے شہروں اور گھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے ڈالیں گے نو وہاں بھی وہ دشمن کے حملہ سے محفوظ نہیں ہوں گے۔ مگر یہ تمام واقعات رونما ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس رئویا کے مطابق ہمیں ایک نیا مرکز بھی دے دیا۔ یہاں جس قسم کی مخالفت تھی اس کے لحاظ سے اس مرکز کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ مخالفین کے اخباروں نے پیچھے شور مچایا اور ہمارے سودا پہلے طے ہوچکا تھا۔ پھر اس قدر جھوٹ سے کام لیا گیا کہ اس زمین کے متعلق انہوں نے لکھا کہ حکومت کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ مل رہا تھا اور کئی مسلمان انجمنیں اسے یہ روپیہ پیش کررہی تھیں مگر حکومت نے یہ ٹکڑہ برائے نام قیمت پر احمدیوں کو دے دیا۔ گویا ان کے حساب سے پندرہ لاکھ روپیہ اس ٹکڑے کا حکومت کا مل رہا تھا مگر حکومت نے اس کی پروا نہ کی۔ جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے فوراً اعلان کرادیا کہ پاکستان کا اتنا نقصان ہم برداشت نہیں کرسکتے اگر اتنا روپیہ دے کر کوئی شخص یہ زمین خرید سکتا ہے تو وہ اب بھی ہم سے یہ زمین اتنی قیمت پر لے لے تو یہ سارے کا سار روپیہ حکومت پاکستاان کو دے دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ تو کجا پندرہ روپیہ فی ایکڑ بھی کوئی شخص دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ گورنمنٹ نے خود اپے گزٹ میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرایا مگر اسے پانچ روپے فی ایکڑ کی بھی کسی نے پیشکش نہ کی۔ غرض اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہم قادیان سے باہر آئے ہیں اور اسی کے منشاء کے ماتحت ہم یہاں ایک نیا مرکز بسانا چاہتے ہیں۔ ہر چیز میں روکیں حائل ہوسکتی ہیں اس لحاظ سے ممکن ہے ہمارے اس ارادہ میں بھی کوئی روک حائل ہو جائے لیکن ہمارا ارادہ اور ہماری نیت یہی ہے کہ ہم پھر ایک مرکز بناکر اسلام کے غلبہ اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دین کی اشاعت کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کام میں ہمارا حامی و مددگار ہو۔ ہم نے اس وادی غیر ذی زرع کو جس میں فصل اور سبزیاں نہیں ہوتیں۔ اس لئے چنا ہے کہ ہم یہاں بسیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کریں۔ مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری فصلیں اور سبزیاں اور ثمرات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ پس اول تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو صاف کرے اور ہمارے ارادوں کو پاک کرے۔ اور پھر ہم اسی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ کے ظل کے طور پر اور مکہ مکرمہ کے موعود کے طفیل ہم کو بھی اس وادی میں ہر قسم کے ثمرات پہنچا دے گا۔ ہماری روزیاں کسی بندے کے سپرد نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنے پاس سے ہم کو کھلائے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ یہاں کے رہنے والوں میں دین کا اتنا جوش پیدا کردے دین کی اتنی محبت پیدا کردے` محمد رسول اللہ~صل۱~ کا اتنا عشق پیدا کردے کہ وہ پاگلوں کی طرح دنیا میں نکل جائیں اور اس وقت تک گھر نہ لوٹیں جب تک دنیا کے کونے کونے میں محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت قائم نہ کردیں۔ بے شک دنیا کہے گی کہ یہ لوگ پاگل ہیں مگر ایک دن آئے گا اور یقیناً آئے گا۔ یہ آسمان ٹل سکتا ہے یہ زمین ٹل سکتی ہے مگر یہ وعدہ نہیں ٹل سکتا کہ خدا ہمارے ہاتھ سے محمد رسول اللہ~صل۱~ کی حکومت دنیا میں قائم کردے گا اور وہ لوگ جو آج ہمیں پاگل کہتے ہیں شرمندہ ہوکر کہیں گے اس چیز نے تو ہوکر ہی رہنا تھا آثار ہی ایسے نظر آرہے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ چیز ضرور وقوع میں آکررہے گی جیسے محمد رسول اللہ~صل۱~ کو سب لوگ پاگل کہتے ہیں مگر اب عیسائی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کو فتح ہوتی اور باقی مذاہب شکست کھا جاتے۔ جس طرح پہلے عقل مند کہلانے والے لوگ پاگل ثابت ہوئے اسی طرح اب بھی عقل مند کہلانے والے لوگ ہی پاگل ثابت ہوں گے اور دنیا پر اسلام غالب آکررہے گا۔ آئو اب ہم ہاتھ اٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمیں اس مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے۔<۱۴۰
اجتماعی دعا
‏]txte [tagاس نہایت درجہ موثر اور درد سے بھری ہوئی تقریر کے بعد سیدنا حضرت المصلح الموعود نے حاضرین کے ساتھ مل کر لمبی دعا کی۔ چونکہ درویشان قادیان کو فون اور تار کے ذریعہ نماز اور دعا کے وقت کی قبل از وقت اطلاع کردی گئی تھی اس لئے وہ بھی اپنی جگہ انتظام کرکے دعا میں شریک ہوگئے۔
خوشی اور غم سے مخلوط جذبات کا ہجوم
یہ موقعہ )جیسا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب نے >مرکز پاکستان کا افتتاح<۱۴۱ کے زیرعنوان اپنے ایک مضمون میں بھی لکھا( >سلسلہ کی تاریخ میں ایک خاص یادگاری موقعہ تھا جس میں دو قسم کے بظاہر متضاد لیکن حقیقتاً ایک ہی منبع سے تعلق رکھنے والے جذبات کا ہجوم تھا۔ ایک طرف نئے مرکز کے قیام کی خوشی تھی کہ خدا ہمیں اس کے ذریعہ سے پھر مرکزنیت کا ماحول عطا کرے گا اور ہم ایک جگہ اکٹھے ہوکر اپنی تنظیم کے ماحول میں زندگی گزار سکیں گے اور دوسری طرف اس وقت قادیان کی یاد بھی اپے تلخ تری احساسات کے ساتھ دلوں میں جوش ماررہی تھی اور نئے مرکز کی خوشی کے ساتھ ساتھ ہر زبان اس ذکر کے ساتھ تازہ اور ہر آنکھ اس دعا کے ساتھ پرنم تھی کہ خدا ہمیں جلد تر اپنے دائمی اور عالمگیر مرکز میں واپس لے جائے۔<۱۴۲
پانچ بکروں کی قربانی
دعا کے بعد حضور نے فرمایا >کہ اب اس رقبہ کے چاروں کونوں میں قربانیاں کی جائیں گی اور ایک قربانی اس رقبہ کے وسط میں کی جائے گی۔ یہ قربانیاں اس علامت کے طور پر ہوں گی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہوگئے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول فرما کر بکرے کی قربانی کا حکم دیا تھا اسی طرح ہم بھی اس زمین کے چاروں گوشوں پر اور ایک اس زمین کے سنٹر میں اس نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ اس راہ میں قربان ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔<۱۴۳
اس کے بعد حضرت مصلح موعود اس رقبہ کے وسط میں تشریف لے گئے اور مسنون دعائوں کے ساتھ ایک بکرا اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ بعد چاروں کونوں پر قربانیاں کی گئیں جو مندرجہ ذیل اصحاب نے کیں۔
۱۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ۲۔ حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالوی ۳۔ چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال تحریک جدید ۴۔ مولوی محمد صدیق صاحب مولوی فاضل۔
نئے مرکز کا پہلا پھل
قربانیوں کے بعد ایک ترک نوجوان محمد افضل صاحب نے حضرت امیرالمومنین کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی اور یہ خوش قسمت نوجوان نئے مرکز کا پہلا پھل قرار دیاگیا۔
ربوہ اور اسکی وجہ تسمیہ کی نسبت حضرت مصلح موعود کااعلان
حضرت امیر المومنین المصلح الموعود نے اس موقع پر یہ بھی اعلان فرمایا کہ نئے مرکز کا نام ربوہ (RABWAH) تجویز کیا گیا ہے جس کے معنے بلند مقام یا پہاڑی مقام کے ہیں یہ نام اس نیک فال کے طور پر تجویز کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مرکز کو حق و صداقت اور روحانیت کی بلندیوں تک پہنچنے کا ذریعہ بنائے اور وہ خدائی نور کا ایک ایسا بلند مینار ثابت ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنے خدا کی طرف راہ پائیں۔ اس کے علاوہ ظاہری لحاظ سے بھی یہ جگہ ایک ربوہ کا حکم رکھتی ہے کیونکہ وہ اردگرد کے علاقہ سے اونچی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بعض چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں بھی ہیں۔ گویا ایک پہلو میں جناب کا دریا ہے جو پانی یعنی ذریعہ حیات کا منظر پیش کرتا ہے اور دوسرے پہلو میں بعض پہاڑیاں ہیں جو بلندی کی علامت کی علمبردار ہیں۔۱۴۴
نماز عصر
قربانی اور بیعت کے بعد حضور نے تھوڑے سے وقفہ سے اسی مقام پر جہاں شامیانے کے نیچے نماز ظہر ادا کی گئی تھی عصر کی نماز بھی پڑھائی جس میں علاوہ چھ سو مردوں کے بعض مستورات بھی پردہ کے پیچھے نماز میں شریک ہوئیں۔
حضرت مصلح موعود کی واپسی
نماز عصر کے بعد حضرت مصلح موعود نے چنیوٹی احمدیوں کے زیر انتظام دعوت طعام میں شرکت فرمائی اور پھر چار بج کر چالیس منٹ پر واپس لاہور کی طرف روزانہ ہوگئے۔۱۴۵ اس طرح نئے مرکز احمدیت کی افتتاحی تقریب جو خدا کی رحمتوں اور برکتوں کا ایک عظیم نشان تھی بخیر و خوبی اختتام کو پہنچی۔ فالحمدللہ علی احسانہ۔
افتتاح ربوہ کی تقریب میں شامل اصحاب
مندرجہ ذیل فہرست جو صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے قدیم ریکارڈ سے حاصل کی گئی ہے مولاناابوالعطاء صاحب فاضل کی نگرانی میں تیار ہوئی تھی اور مولانا صاحب موصوف نے ۶ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو اسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی خدمت میں ارسال کیا اور اس کے شروع میں لکھا >حضرت میاں صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`۔ جہاں تک نام دستیاب ہوسکے ہیں ان کی فہرست مرتب کرکے بھجوا رہا ہوں۔ مختلف اصحاب نے نام جلدی میں لکھے تھے اس لئے چند نام ایسے رہ گئے ہیں جن کا پتہ نہیں لگ سکا بہرحال فہرست ارسال ہے۔ کل نام ۶۱۶ ہیں۔ خاکسار خادم ابوالعطاء ۴۸۔۱۱۔۶<
۱۔ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی
۱۶۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور
ایدہ اللہ تعالیٰ نصرہ العزیز۔
۱۷۔ عبدالحمید صاحب احمد نگر
۲۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب ایم۔ اے
۱۸۔ چوہدری غلام رسول صاحب بی ٹی ہائی سکول
۳۔ جناب سیدولی اللہ شاہ صاحب
۱۹۔ عبدالرشید طالب علم ہائی سکول
۴۔ جناب مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے
۲۰۔ طیب احمد ہائی سکول
۵۔ شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماع احمدیہ لاہور
۲۱۔ مطیع اللہ صاحب احمدنگر
۶۔ جناب مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے
۲۲۔ دائود احمد ہائی سکول
۷۔ چوہدری برکت علی خاں صاحب وکیل المال
۲۳۔ حکیم محمد عبداللہ صاحب احمدنگر
۸۔ جناب عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے
۲۴۔ مستر ناظردین صاحب احمد نگر
۹۔ سیٹھ اسماعیل موسیٰ صاحب کراچی
۲۵۔ مستر عبدالرحیم صاحب
۱۰۔ میاں عبدالمنان صاحب عمر
۲۶۔ چوہدری علی شیرصاحب
‏]coll1 [tag۱۱۔ چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ
۲۷۔ سمیع اللہ صاحب
۱۲۔ ملک عبدالرحمن صاحب قصور
۲۸۔ اکرم شاہ صاحب ولد علی شاہ صاحب
۱۳۔ ماسٹر نورالٰہی صاحب
۲۹۔ غلام محمد صاحب چک نمبر۱۰۵
۱۴۔ مبارک احمد طالب علم
۳۰۔ میاں رحیم بخش صاحب احمدنگر
۱۵۔ مولوی محمد تقی صاحب سنوری
۳۱۔ حمیداللہ ولد حکیم محمدعبداللہ صاحب
۳۲۔ بشیراحمد ولد علی شیرصاحب احمدنگر
۵۷۔ انواراحمد ہائی سکول
۳۳۔ عبدالستار صاحب دکاندار
۵۸۔ محمود احمد
۳۴۔ علی محمد صاحب
۵۹۔ عبدالشکور
۳۵۔ عبدالعلیم ومحمد حسین بچگان
۶۰۔ مصلح الدین
۳۶۔ محمد اسمعیل صاحب باروچی چنیوٹ
۶۱۔ عطاء الرحمن صاحب بنگالی چنیوٹ
۳۷۔ علام حیدر صاحب
۶۲۔ حبیب الرحمن صاحب دفتربیت المال
۳۸۔ چوہدری محمد شریف صاحب
۶۳۔ محمد زاہد بنگالی ہائی سکول
۳۹۔ عبدالرحمن صاحب شاکر کلرک ہائی سکول
۶۴۔ محمد منیر
۴۰۔ خلیل احمدصاحب ولد ناظردین صاحب احمدنگر
۶۵۔ ریاض احمد
۴۱۔ سلیم احمد صاحب شاکر
۶۶۔ مجیداللہ
۴۲۔ سعید احمد ولد امیرالدین صاحب
۶۷۔ رشید احمد
۴۳۔ اقبال احمدولد سیٹھ محمدصدیق صاحب چنیوٹ
۶۸۔ دائود احمد
۴۴۔ بابوفضل الدین صاحب اور رسیر
۶۹۔ بشیراحمد
۴۵۔ مستری دین محمد صاحب احمدنگر
۷۰۔ حمیدالدین اختر
۴۶۔ عبدالعزیز صاحب
۷۱۔ شہباز احمد
۴۷۔ محمد عبداللہ )بچہ(
۷۲۔ محمد انور احمد
۴۸۔ بشیراحمد صاحب
۷۳۔ شریف احمد
۴۹۔ عبدالمجید طالب علم
۷۴۔ مولوی محمد شہزادہ خان صاحب احمدنگر
۵۰۔ مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ
۷۵۔ فضل الٰہی صاحب اشرف ہائی سکول
۵۱۔ منیراحمد صاحب ہائی سکول
۷۶۔ محمدالدین صاحب حجام چنیوٹ
۵۲۔ بشیراحمد صاحب چنیوٹ
۷۷۔ حکیم کریم اللہ صاحب احمدنگر
۵۳۔ شیرمحمد صاحب چک نمبر۳۸
۷۸۔ چوہدری محمد علی صاحب چک نمبر۳۷
۵۴۔ ناظرعلی صاحب شیخپور گجرات
۷۹۔ چوہدری جلال الدین صاحب
۵۵۔ چوہدری ابراہیم صاحب آف چکی احمدنگر
۸۰۔ میاں احمددین صاحب چوکیدار احمدنگر
۵۶۔ محمد ابراہیم صاحب دفتر محاسب
۸۱۔ ماسٹرسعداللہ خاں صاحب ہائی سکول
۸۲۔ ماسٹر عبدالکریم صاحب ٹیلر
۱۰۷۔ باباکرالدین صاحب صحابی چک نمبر۳۳
۸۳۔ منظوراحمد صاحب ہائی سکول
۱۰۸۔ مولاداد صاحب
۸۴۔ جمیل الرحمن صاحب
۱۰۹۔ نبی بخش صاحب
۸۵۔ میاں امیرالدین صاحب لگیری ضلع جالندھر
۱۱۰۔ نصیراحمد صاحب
۸۶۔ بشارت احمدصاحب ہائی سکول
۱۱۱۔ صاحبزادہ مرزا حمیداحمد صاحب
۸۷۔ چوہدری حسن محمدصاحب عارف وکیل التجارۃ
۱۱۲۔ مستر عبدالحکیم صاحب لاہور
۸۸۔ لطیف احمدصاحب ہائی سکول
۱۱۳۔ چوہدری عبدالحمید خان صاحب
۸۹۔ میاں محمد صادق صاحب چنیوٹ
ایگزیکٹو انجنیئر
۹۰۔ غلام فرید صاحب
۱۱۴۔ مجیب الرحمن صاحب بنگالی چنیوٹ
۹۱۔ چوہدری شیرمحمد صاحب احمدنگر
۱۱۵۔ مشتاق احمدصاحب ہائی سکول
۹۲۔ میاں علم الدین صاحب
۱۱۶۔ عبدالکریم اسمعیل
۹۳۔ ماسٹرمحمد ابراہیم صاحب ہائی سکول
۱۱۷۔ مولوی عبدالمنان قادرآبادی احمدنگر
۹۴۔ مستری نورالٰہی صاحب احمدنگر
۱۱۸۔ گلزار احمد صاحب ہائی سکول
۹۵۔ مستری محمد صدیق صاحب لالیاں
۱۱۹۔ محمد اکبرخان
۹۶۔ میاں محمد رمضان صاحب چنیوٹ
۱۲۰۔ ڈاکٹر راجہ بشارت احمد صاحب
۹۷۔ شیرمحمد صاحب چک لوہٹ احمدنگر
مع ہمشیرہ` بیوی بچہ لالیاں
۹۸۔ نمبردار محمد ابراہیم صاحب احمدنگر
۱۲۱۔ ڈاکٹرفضل حق صاحب معہ بیوی بچہ
۹۹۔ محمدظفرمحمود پسرصوفی محمدابراہیم صاحب ہائی سکول
۱۲۲۔ محموداحمد پسرمحمد حسین صاحب ٹیچر چنیوٹ
‏]1llco [tag۱۰۰۔ مبارک مصلح الدین پسرصوفی غلام محمد صاحب
۱۲۳۔ عبدالقادر
۱۰۱۔ میاں عبدالکریم صاحب چنیوٹ
۱۲۴۔ مستر سلطان محمدصاحب لالیاں
۱۰۲۔ مستری علم الدین صاحب
۱۲۵۔ آفتاب احمدصاحب
۱۰۳۔ سردار مصباح الدین صاحب مع اہلیہ صاحبہ
۱۲۶۔ غلام احمد مع بیوی
۱۰۴۔ شیخ محمد یوسف صاحب
۱۲۷۔ شیخ محمدیار صاحب سیکرٹری مال
۱۰۵۔ محمدسلیم صاحب
۱۲۸۔ شیخ سراج دین صاحب
۱۰۶۔ نثاراحمدصاحب
۱۲۹۔ شیخ غلام محمد صاحب
۱۳۰۔ شیخ اللہ بخش صاحب لالیاں
۱۵۴۔ چوہدری بشیراحمد صاحب ولد چوہدری
۱۳۱۔ حکیم غلام حسین صاحب
نورمحمد صاحب چک نمبر۳۸ جنوبی
۱۳۲۔ ممتاز احمد صاحب
۱۵۵۔ چوہدری محمداسحق صاحب چک نمبر۳۸ جنوبی سرگودھا
۱۳۳۔ والدہ سیف الحق صاحب
۱۵۶۔ محمد ابراہیم صاحب
۱۳۴۔ والدہ محمد سلطان صاحب
۱۵۷۔ مبارک احمد صاحب
۱۳۵۔ والدہ ڈاکٹر بشارت احمدصاحب
۱۵۸۔ شیرمحمد صاحب
۱۳۶۔ ہمشیرہ مستری سلطا محمدصاحب
۱۵۹۔ عبدالحق صاحب
۱۳۷۔ عبدالعزیز صاحب
۱۶۰۔ محمد صدیق صاحب
۱۳۸۔ سلطان علی صاحب چنیوٹ
۱۶۱۔ محمد حسین صاحب
۱۳۹۔ خادم حسین صاحب
۱۶۲۔ عبدالقدیر صاحب
۱۴۰۔ عبدالغنی صاحب
۱۶۳۔ محمد گلشیرصاحب
۱۴۱۔ عبدالسلام احمدنگر
۱۶۴۔ رحمت اللہ صاحب
۱۴۲۔ سرداراں بی بی صاحبہ
۱۶۵۔ عنایت اللہ صاحب
۱۴۳۔ بشیراحمد صاحب
۱۶۶۔ ولی محمد صاحب
۱۴۴۔ کریم بخش صاحب
۱۶۷۔ عبدالغفور صاحب
۱۴۵۔ محمد اسمعیل صاحب
۱۶۸۔ عبداللطیف ولد نوراحمد صاحب
۱۴۶۔ عبدالستار صاحب
۱۶۹۔ عبدالغفور
۱۴۷۔ غلام محمد صاحب
۱۷۰۔ محمد حسین صاحب
۱۴۸۔ منشی نیازاللہ صاحب شاہجہانپوری
۱۷۱۔ نیک محمد صاحب
۱۴۹۔ نثاراحمد واقف بنگوی
۱۷۲۔ ملک احمد خاں صاحب
۱۵۰۔ عبدالوہاب احمدنگر
۱۷۳۔ محمد شفیع صاحب
۱۵۱۔ حکیم محمدالدین ولد سلطان احمد صاحب
۱۷۴۔ نورمحمد صاحب ولد شیرمحمد صاحب
گوجرانوالہ حال چنیوٹ
۱۷۵۔ محمدعمر سہگل چنیوٹ
۱۵۲۔ نورالدین
۱۷۶۔ محمدشفیق ولد محمد عمرصاحب سہگل
۱۵۳۔ ارشاداحمد ولد نورالدین
۱۷۷۔ محمد سلیم
۱۷۸۔ محمد شفیق ولد میاں بشیرصاحب سہگل
۲۰۲۔ چوہدری غلام احمد صاحب ضلع گجرات
۱۷۹۔ محمدعالم صاحب ولد شاہ محمدصاحب چک نمبر۳۳ سرگودہا
حال سلانوالی سرگودہا
۱۸۰۔ محمد شفیع صاحب
۲۰۳۔ محمد عالم صاحب سرگودہا
۱۸۱۔ راجہ محمد عبداللہ صاحب
۲۰۴۔ غلام احمد صاحب ولد مولوی رحمت علی صاحب
۱۸۲۔ راجب لطف اللہ صاحب
۲۰۵۔ رشید احمد
۱۸۳۔ چوہدری بشیراصغرصاحب
۲۰۶۔ محمود احمد
۱۸۴۔ ڈاکٹر بھائی محموداحمد صاحب
‏]2coll [tag۲۰۷ چوہدری غلام احمد ولد غلام حیدرصاحب
۱۸۵۔ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب
نمبردار چک نمبر۴۳ جنوبی
۱۸۶۔ ودوداحمد صاحب ولد بھائی محموداحمد صاحب
۲۰۸۔ ڈاکٹر حاجی جنوداللہ صاحب ترکستانی سرگودہا
۱۸۷۔ شیخ محمد اقبال احمد صاحب پراچہ
۲۰۹۔ محمدعبداللہ صاحب بوتالوی
۱۸۸۔ شیخ عبدالرزاق صاحب پراچہ
۲۱۰۔ مرزاعبدالحق صاحب وکیل امیرجماعت احمدیہ
۱۸۹۔ شیخ عبدالرشید صاحب پراچہ
۲۱۱۔ مرزا منوراحمد صاحب ولد مرزا عبدالحق صاحب وکیل
۱۹۰۔ چوہدری مبارک احمد صاحب
۲۱۲۔ علی گوہر صاحب لاہور ہریکے ٹرانسپورٹ لاہور
۱۹۱۔ شیخ فضل کریم صاحب
۲۱۳۔ عبدالکریم ولد نظام الدین صاحب
۱۹۲۔ شیخ محمد رفیع صاحب
۲۱۴۔ خدابخش صاحب کوٹ محمدیار
۱۹۳۔ مولوی عبدالغفورصاحب مبلغ
۲۱۵۔ رشید ولد عبدالعزیز صاحب
۱۹۴۔ بشارت احمد ولد
۲۱۶۔ شمس الدین احمد نگر
۱۹۵۔ سعادت احمد ولد
۲۱۷۔ قریشی عبدالرشید صاحب نائب وکیل المال
۱۹۶۔ بشیراحمد صاحب کاٹھگرھی
۲۱۸۔ عبدالرحمن ولد نورمحمد صاحب چک نمبر۳۶۶ ملتان
۱۹۷۔ ملک غلام نبی صاحب چک ۹۸
۲۱۹۔ محمد عبداللہ ولد احمددین صاحب چک نمبر۳۷
۱۹۸۔ چوہدری فتح خاں صاحب نمبردار
۲۲۰۔ عزیزالدین ولد محمدبخش صاحب احمد نگر
چک نمبر۷۸ جنوبی سرگودہا
۲۲۱۔ فیض محمد ولد شہزادہ
۱۹۹۔ میاں رشید محمد صاحب کوٹ مومن
۲۲۲۔ بشیراصغر چک نمبر۳۳
۲۲۰۔ محمد اکرم صاحب سرگودہا
۲۲۳۔ عبدالرحمن ولد محمد اسمعیل صاحب احمد نگر
۲۰۱۔ محمد عامل صاحب
۲۲۴۔ چوہدری عزیز احمد صاحب نائب محاسب
‏tav.11.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی بنیاد
۲۲۵۔ عبدالغفور ولد سبحان احمدنگر
۲۴۹۔ محمودہ نبت عبدالرحمن صاحب شاکر چنیوٹ
۲۲۶۔ محمد لطیف اللہ خان چک نمبر۳۷
۲۵۰۔ زبیدہ اہلیہ محمدحنیف صاحب احمدنگر
۲۲۷۔ محمد دائود ولد محمد یعقوب چنیوٹ
۲۵۱۔ سائرہ بی بی ناصردین
۲۲۸۔ عبدالرئووف
۲۵۲۔ ناصرہ بی بی بنت چراغ دین
۲۲۹۔ مستری فضل حق صاحب قادیان
۲۵۳۔ صالحہ بی بی بنت ناصر دین
۲۳۰۔ عبدالغنی صاحب
۲۵۴- عزیزہ بی بی بنت چراغ دین
۲۳۱- برکت علی ولد فتہ دین
۲۵۵- صادقہ بی بی ناصردین
۲۳۲- عطاء محمد ولد عبدالکریم احمدنگر
۲۵۶۔ مبارکہ بیگم
۲۳۳۔ غلام دین ولد وزیرا
۲۵۷۔ مشیت خاتون اہلیہ مولوی
۲۳۴۔ محمد ابراہیم ولد عطاء محمد
غلام احمد صاحب بدوملہوی
۲۳۵۔ رفیق احمد ولد نور محمد
۲۵۸۔ زینت بنت رحمت اللہ
۲۳۶۔ مبارک احمد ولد عنایت اللہ
۲۵۹۔ فضل بی بی اہلیہ شیخ اللہ بخش صاحب لالیاں
۲۳۷۔ عبدالحمیدصاحب اختر ولد عبدالعزیز صاحب سیالکوٹ
۲۶۰۔ زوجہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب
۲۳۸۔ محمد ابراہیم ولد ماسٹر حمیدالدین صاحب مرجوم چنیوٹ
۲۶۱۔ والدہ
۲۳۹۔ عبدالغفار ولد سردار علی احمدنگر
۲۶۲۔ سکینہ بیگم زوجہ ڈاکٹر فضل حق صاحب
۲۴۰۔ حامد نور ولد گل نور پٹھان
۲۶۳۔ شریفہ بی بی زوجہ سراج دین صاحب
۲۴۱۔ نور احمد ولد نبی بخش صاحب لاہور
۲۶۴۔ مشیت خاتون
۲۴۲۔ ثناء اللہ خان ولد ماسٹر سعداللہ صاحب جھنگ
۲۶۵۔ معراج بی بی زوجہ غلام محمد
۲۴۳۔ محمد علی والد راجہ چنیوٹ
۲۶۶۔ امتہ الشریف زوجہ بدرالدین
۲۴۴۔ لطیف احمد ولد محمد مغل کوٹ محمدیار چنیوٹ
۲۶۷۔ رحمت بی بی اہلیہ ماسٹر نورالٰہی صاحب
۲۴۵۔ نذیر احمد سعداللہ
ہائی سکول چنیوٹ
۲۴۶۔ شریف احمد ولد حمیداللہ قادیان
۲۶۸۔ منیرہ منورہ بنت
۲۴۷۔ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ ایل۔ اے
۲۶۹۔ مریم صدیقہ
۲۴۸۔ چوہدری عبدالرحمن صاحب ہائی سکول
۲۷۰۔ والدہ شیراحمد درویش قادیان لاہور
بمعہ اہلیہ وبچگان
۲۷۱۔ سلطان بی بی اہلیہ خیردین احمدنگر
۲۷۲۔ حاکم بی بی اہلیہ رحمت علی احمدنگر
۲۹۷۔ راشدہ بیگم بنت ملک سلطان محمد کوٹ فتح خاں
۲۷۳۔ آمنہ بی بی اہلیہ مولوی صدردین صاحب مبلغ
۲۹۸۔ رضیہ بیگم اہلیہ محمد منیرصاحب چنیوٹ
۲۷۴۔ حمیدہ بی بی اہلیہ مولوی فیروز دین
۲۹۹۔ رحیم بی بی اہلیہ شیخ فضل حسین
۲۷۵۔ رشیدہ بی بی اہلیہ نورالحق
۳۰۰۔ دولت بی بی زوجہ حبیب احمد خان
۲۷۶۔ حسین بی بی اہلیہ محمد حسین
۳۰۱۔ خورشید بیگم اہلیہ حبیب احمد خان
۲۷۷۔ ناصرہ بی بی اہلیہ عبدالسبحان چنیوٹ
‏]2llco [tag۳۰۲۔ رضیہ بیگم زوجہ محمددین واقف زندگی
۲۷۸۔ اہلیہ سردار مصباح الدین صاحب
۳۰۳۔ زینب اہلیہ عبدالرحمن
۲۷۹۔ صالحہ مبارکہ بنت
۳۰۴۔ بخت بھری زوجہ چوہدری سلطان احمد لالیاں
۲۸۰۔ بی بی خاوند سارو احمدنگر
۳۰۵۔ فاطمہ بیگم بنت
۲۸۱۔ فاطمہ بی بی بنت سارو
۳۰۶۔ مخدوم عثمان علی صاحب سرگودہا
۲۸۲۔ دواں اہلیہ ممو گوندل
۳۰۷۔ خورشید احمد واقف زندگی
۲۸۳۔ سردار بی بی بنت شیرمحمد
۳۰۸۔ چوہدری محفوظ الرحمن صاحب واقف زندگی
۲۸۴۔ صغریٰ بی بی بنت غلام دین
۳۰۹۔ منیراحمد صاحب چنیوٹ
۲۸۵۔ خدیجہ بیگم اہلیہ سیٹھ اللہ جوایا صاحب چنیوٹ
۳۱۰۔ دین محمد
۲۸۶۔ صغریٰ بی بی بنت
۳۱۱۔ ابراہیم ڈاور
۲۸۷۔ صفیہ بی بی
۳۱۲۔ محمد اسلم احمدنگر
۲۸۸۔ صادقہ بیگم بنت مولوی صدرالدین صاحب احمدنگر
۳۱۳۔ خلیل احمد
۲۸۹۔ حمیدہ بشارت بنت محمد حنیف صاحب چنیوٹ
۳۱۴۔ اظہراحمد چنیوٹ
۲۹۰۔ امتہ الشکور بنت سیٹھ اللہ جوایا صاحب
۳۱۵۔ غلام محمد صاحب
۲۹۱۔ عبدالمالک ولد
۳۱۶۔ حمیداحمد صاحب
۲۹۲۔ محمد الدین ولد شارو احمدنگر
۳۱۷۔ نور محمد ولد گلاب
۲۹۳۔ رشیدہ بی بی بنت مستری غلام محمد چنیوٹ
۳۱۸۔ ظفراحمد ولد محمد ابراہیم سیالکوٹ
۲۹۴۔ عزیزہ اہلیہ ٹھیکدار محمدیعقوب صاحب
۳۱۹۔ چراغ الدین احمدنگر
۲۹۵۔ آمنہ بیگم اہلیہ چوہدری عبداللہ خاں صاحب
۳۲۰۔ قاری محمدامین صاحب دفتر ضیافت
۲۹۶۔ منیرہ بیگم بنت چوہدری فتح محمد صاحب سیال
۳۲۱۔ محمد شفیع صاحب احمدنگر
۳۲۲۔ مرزا عبدالسلام احمدنگر
۳۴۷۔ عبدالحمید ولد ٹھیکدار عبدالرحمن صاحب چنیوٹ
۳۲۳۔ محمد علی
۳۴۸۔ محمدکریم نثار ولد محمد یامین صاحب تاجر کتب
۳۲۴۔ فیروزالدین
۳۴۹۔ عبدالرشید ولد سردار نذرحسین
۳۲۵۔ خان محمد ولد علی محمد ڈاور
‏coll2] g[ta۳۵۰۔ مرزا عبدالشکور ولد مرزا عبدالحمید بیت المال
۳۲۶۔ محمد اسلام
۳۵۱۔ ناصر احمد ولد ناظردین احمدنگر
۳۲۷۔ محمد اسمعیل
۳۵۲۔ میاں محمد یوسف صاحب پرائیوٹ سیکرٹری
۳۲۸۔ محمد احمد ہائی سکول چنیوٹ
۳۵۳۔ محمد اسلم ولد محمد الدین بورڈنگ تحریک
۳۲۹۔ محمد احمد صاحب حیدرآبادی کالج
۳۵۴۔ بشیراحمد ولد ڈاکٹر احمددین صاحب
۳۳۰۔ محمود احمد صاحب ہائی سکول
۳۵۵۔ علم الدین ولد اللہ بخش احمدنگر
۳۳۱۔ مصلح الدین بنگالی کالج
۳۵۶۔ حفیظ الدین احمد ولد عزیزالدین احمد چنیوٹ
۳۳۲۔ نثار احمد سیلونی ہائی سکول
۳۵۷۔ وزیرعلی ولد صوبے خاں احمدنگر
۳۳۳۔ خواجہ عبدالکریم صاحب وکیل التجارت
۳۵۸۔ حاجی تاج محمد ولد میاں عبدالرحیم صاحب
۳۳۴۔ ماسٹر عبدالرحمن خاں صاحب بنگالی احمدنگر
۳۵۹۔ خادم حسین اور بڈھا خاں
۳۳۵۔ علم الدین چنیوٹ
۳۶۰۔ ولی محمد ولد کرم دین بورڈنگ چنیوٹ
‏coll1] gat[۳۳۶۔ محمد صادق
۳۶۱۔ ولایت حسین ولد سردار خان چنیوٹ
۳۳۷۔ خلیل احمدصاحب اختر دفتر بہشتی مقبرہ
۳۶۲۔ شریف احمد ولد بشیراحمد ملتان
۳۳۸۔ عبدالغفور احمدنگر
۳۶۳۔ رشید احمد ولد نظام دین چنیوٹ ہائی سکول
۳۳۹۔ رحمت اللہ
۳۶۴۔ مولوی ضل الرحمن صاحب مبلغ چنیوٹ
۳۴۰۔ محمدحسین صاحب چک نمبر۳۸ جنوبی سرگودہا
۳۶۵۔ منیراحمد وینس ولد مولوی غلام رسول صاحب
۳۴۱۔ حنیف احمد ولد برکت علی چنیوٹ
۳۶۶۔ شیخ محمد حسین صاحب پنشز
۳۴۲۔ افضل احمد ولد قادر علی تعلیم الاسلام ہائی سکول
۳۶۷۔ محمد اسمعیل صاحب معتبر
۳۴۳۔ محمد شریف ولد دلاور علی
۳۶۸۔ شیخ نذیر حیسن منگو
۳۴۴۔ عنایت محمد فتح محمد احمدنگر
۳۶۹۔ محمد حیات صاحب تاثیر
۳۴۵۔ اسمعیل ولد رحیم بخش
۳۷۰۔ شیخ مقبول احمد )غیراحمد( چنیوٹ
۳۴۶۔ مبارک احمد ولد فضل حق مبلغ دیہاتی
۳۷۱۔ محمد افضل ترکی) (
۳۷۲۔ فیروز محی الدین صاحب جامعہ احمدیہ احمدنگر
۳۹۶۔ عبدالقادر ولد سردار مصباح الدین چنیوٹ
۳۷۳۔ امیرخاں صاحب
۳۹۷۔ بشیرالدین
۳۷۴۔ مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل انچارج محکمہ زودنویسی
۳۹۸۔ ظفراقبال
۳۷۵۔ مولوی سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ
۳۹۹۔ منظور الٰہی ولد حکیم فضل الٰہی
۳۷۶۔ مولوی محمد صدیق صاحب فاضل واقف زندگی
۴۰۰۔ عثمان علی ولد بشیراحمد سرگودہا
۳۷۷۔ چوہدری ظہوراحمد صاحب معاون ناظربیت المال
۴۰۱۔ چوہدری غلام رسول ولد شاہ محمد چک نمبر۴۳ جنوبی
۳۷۸۔ چوہدری سلطان احمد صاحب بسراواقف زندگی
۴۰۲۔ عنایت اللہ ولد نوراحمد احمدنگر
۳۷۹۔ چوہدری محمد یوسف صاحب احمدنگر
۴۰۳۔ عبدالرحمن ولد محمد شہزادہ
۳۸۰۔ عبدالمنان ولد جناب مولوی عبدالغنی صاحب
۴۰۴۔ محمد سلیمان ولد شاوی
ناظر تبلیغ۔
۴۰۵۔ نصراللہ خاں ولد ثناء اللہ چک نمبر۴۳
۳۸۱۔ شیخ عزیز احمد ابن شیخ فضل احمد صاحب
۴۰۶۔ نوراحمد ولد ہوشناک احمدنگر
۳۸۲۔ صوفی غلام محمد صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول
۴۰۷۔ عمردین ولد کوزا
۳۸۳۔ حافظ عبدالسمیع امروہی ولد الٰہی بخش صاحب
۴۰۸۔ محمد علم دین ولد محمد یار چک نمبر۵۲
۳۸۴۔ محمد ابراہیم ناصر ولد مولوی فخرالدین صاحب
۴۰۹۔ برکت اللہ ولد علی احمد احمدنگر
۳۸۵۔ مظہراحمد ولد شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹ
۴۱۰۔ محمد شفیع ولد عبدالغفور
۳۸۶۔ مبارک احمد ولد شیخ فضل احمد صاحب
۴۱۱۔ مبارک احمد ولد نوراحمد
۳۸۷۔ مسعود احمد ولد ڈاکٹر محمد اسمعیل چنیوٹ
۴۱۲۔ کپتان عبدالرحما مغل ولد میاں عبدالعزیز پر مغل مرحوم
۳۸۸۔ محمد حسین ولد محمد عیسیٰ احمدنگر
۴۱۳۔ محمد عبدالمنان ولد میاں محمد عبدالرحمن صاحب اظہر
۳۸۹۔ عبدالحفیظ ولد عبدالحی چنیوٹ
۴۱۴۔ پروفیسر سلطان محمود شاہد ولد سید سردار احمد شاہ
۳۹۰۔ بشیراحمد زاہد ولد محمد ابراہیم احمدنگر
۴۱۵۔ حوالدار میجر عبدالغنی ولد محمد ہاشم آف گجرات
۳۹۱۔ محمد برہان ولد محمد عثمان بورڈنگ تحریک
۴۱۶۔ ناصردین ولد چراغ دین احمدنگر
۳۹۲۔ ضیاء الحق ولد شیراحمد
۴۱۷۔ مالی لوہار ولد رحیم بخش ننگل باغباناں
۳۹۳۔ نور محمد ولد عبدالکریم احمدنگر
۴۱۸۔ حشمت اللہ ولد قدرت اللہ احمدنگر
۳۹۴۔ منشی عبدالخالق صاحب
۴۱۹۔ حبیب اللہ
۳۹۵۔ عبدالسبحان ولد سردار مصباح الدین چنیوٹ
۴۲۰۔ شریف احمد ولد نتھا
۴۲۱۔ حمیداللہ ولد محمد عبداللہ تعلیم الاسلام سکول
۴۴۶۔ خادم حسین صاحب
۴۲۲۔ حسین بخش ولد فضل دین چک نمبر۴۳
۴۴۷۔ عبداللطیف صاحب
۴۲۳۔ غلام احمد نمبردار ولد چوہدری غلام حیدر
۴۴۸۔ جلال دین صاحب دفتر امور عامہ
۴۲۴۔ چوہدری فیض احمد ولدنظام الدین
۴۴۹۔ خیرالدین صاحب
۴۲۵۔ صوفی محمد رفیق صاحب واقف زندگی
۴۵۰۔ عبدالشکور صاحب
۴۲۶۔ عبدالحق صاحب چک نمبر۳۸
‏]2coll [tag۴۵۱۔ شیرمحمد صاحب
۴۲۷۔ عبدالحق صاحب چک نمبر۳۱
۴۵۲۔ محمد صدیق صاحب
۴۲۸۔ گل شیراحمد صاحب
۴۵۳۔ عبدالرحیم سیلونی طالب علم
۴۲۹۔ محمد دین صاحب
۴۵۴۔ طالب حسین صاحب
۴۳۰۔ سعیدالدین صاحب
۴۵۵۔ عبدالغفور صاحب
۴۳۱۔ محمد رمضان صاحب
۴۵۶۔ عبداللطیف صاحب
۴۳۲۔ فضل دین صاحب
۴۵۷۔ محمد ابراہیم صاحب
۴۳۳۔ ممتاز احمد صاحب
۴۵۸۔ محمد شفیع صاحب
۴۳۴۔ چوہدری بہائوالحق صاحب واقف زندگی
۴۵۹۔ محمد صدیق صاحب
۴۳۵۔ ضیاء الحق صاحب
۴۶۰۔ مسعود احمد صاحب
۴۳۶۔ نورالدین امجد صاحب طالب علم
۴۶۱۔ غلام حسین صاحب
۴۳۷۔ عبدالرحیم صاحب
۴۶۲۔ بشیرالدین احمد صاحب
۴۳۸۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نورہسپتال
۴۶۳۔ رشید احمد صاحب
۴۳۹۔ مبارک احمد صاحب
۴۶۴۔ مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی جامعہ احمدیہ][۴۴۰۔ محمد شفیع صاحب
۴۶۵۔ حافظ شفیق احمد صاحب
۴۴۱۔ برکت اللہ صاحب احمدنگر
۴۶۶۔ مرزا محمد اشرف صاحب
۴۴۲۔ عبدالعزیز صاحب معمار چنیوٹ
۴۶۷۔ لیق احمد صاحب
۴۴۳۔ محمد یعقوب صاحب
۴۶۸۔ بدرسلطان اختر واقف زندگی
۴۴۴۔ حبیب دین صاحب
۴۶۹۔ بشیراحمد صاحب
۴۴۵۔ عبدالکریم صاحب
۴۷۰۔ محمود احمد صاحب
۴۷۱۔ محمود انور صاحب
۴۹۶۔ فتح محمد ولد رحمت اللہ صاحب احمدنگر
۴۷۲۔ ناصراحمد صاحب واقف زندگی
۴۹۷۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز
۴۷۳۔ محمد اختر صاحب
۴۹۸۔ محمود احمد ولد حافظ محمد الدین صاحب مرحوم
۴۷۴۔ محمد شریف صاحب خالد
۴۹۹۔ رمضان احمد ولد محمد صادق نمبر۲۷۶
۴۷۵۔ بشارت احمد صاحب
۵۰۰۔ عبدالعزیز خان صاحب کاٹھگڑھی ولد خواجہ خاں
۴۷۶۔ عنایت اللہ صاحب
۵۰۱۔ فضل کریم ولد شیخ فتح محمد چنیوٹ
۴۷۷۔ عنایت اللہ صاحب
۵۰۲۔ غلام محمد ولد فتح دین
۴۷۸۔ مقصود احمد صاحب
۵۰۳۔ سعاد احمد ولد چوہدری برکت علی صاحب
۴۷۹۔ مبشراحمد صاحب
وکیل المال۔
۴۸۰۔ محمد رشیدصاحب
۵۰۴۔ محمد بوٹا ولد نورالدین صاحب چنیوٹ
۴۸۱۔ سعیداحمد صاحب
۵۰۵۔ غلام احمد ولد فتح دین
۴۸۲۔ غلام احمد صاحب
۵۰۶۔ عبدالوہاب ولد عبدالرحمن
۴۸۳۔ نیک احمد صاحب
۵۰۷۔ صلاح الدین ولد محمد ابراہیم
۴۸۴۔ صوفی محمد ابراہیم صاحب
۵۰۸۔ برکات الٰہی ولد نور الٰہی صاحب
۴۸۵۔ سیدمحمود اللہ شاہ صاحب
۵۰۹۔ عبداللطیف ولد ڈاکٹر غلام علی صاحب
۴۸۶۔ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب
۵۱۰۔ فضل الٰہی صاحب ولد عطاء الٰہی صاحب
۴۸۷۔ مرزا عنایت اللہ صاحب
۵۱۱۔ قطبہ وجیوا احمدنگر
۴۸۸۔ محمد اسمعیل صاحب
۵۱۲۔ حمید احمد ولد بشیراحمد
۴۸۹۔ محمد شفیع ولد سینا احمدنگر
‏coll2] [tag۵۱۳۔ عبدالخالق ولد محمد حسین احمدنگر
۴۹۰۔ مبارک احمد ولد عطاء الٰہی چک نمبر۳۸ سرگودہا
۵۱۴۔ عبدالرشید ولد عبدالرحمن چنیوٹ
۴۹۱۔ عطاء الکریم ولد مولوی ابوالطعاء صاحب احمدنگر
۵۱۵۔ رشید احمد ولد رحیم بخش احمدنگر
۴۹۲۔ اصغر علی ولد میاں خاں
۵۱۶۔ بدرالدین ولد عمردین ہرسیاں
۴۹۳۔ عبدالکریم ولد شیخ ناصر احمد
۵۱۷۔ مولوی تاج الدین صاحب ولد علی گوہر قاضی سلسلہ
۴۹۴۔ مقبول احمد ولد الف دین صاحب
۵۱۸۔ ملک عبدالرحمن ولد ملک غلام محمد قصور
۴۹۵۔ ظہور احمد ولد رحمت اللہ صاحب
۵۱۹۔ امیرخاں ولد فیروز خاں
۵۲۰۔ برکت علی ولد فتح دین
۵۴۴۔ محمد ظہور احمدنگر
۵۲۱۔ خیرالدین ولد بوٹا احمدنگر
۵۴۵۔ عبداللطیف ناصر
۵۲۲۔ عبداللطیف ولد محمد یوسف
۵۴۶۔ منوراحمد کلوکہار جہلم
۵۲۳۔ غلام صفدر ولد محمد خاں چک نمبر۹۸
۵۴۷۔ کیپٹن عبدالحمید فرقان فورس
۵۲۴۔ خان میرصاحب ولد علی گل صاحب
۵۴۸۔ محمود احمد چک نمبر۳۵ جنوبی
۵۲۵۔ محمد امیرولد محمد علی
۵۴۹۔ منیر احمد ولد نوراحمد کھیوالائل پور
۵۲۶۔ عزیز دین ولد نورمحمد احمدنگر
۵۵۰۔ محمد نذیر سرگودہا
۵۲۷۔ شریف احمد ونحقہ
۵۵۱۔ مبارک احمد ہائی سکول
۵۲۸۔ بشارت احمد ولد مولوی فضل دین
۵۵۲۔ عبدالغفور
۵۲۹۔ سلطان احمد ولد نوراحمد صاحب
۵۵۳۔ خلیق الرحمن
۵۳۰۔ مولوی عطاء الرحمن طاہر مولوی فاضل
۵۵۴۔ لطیف احمد
ولد مولوی ابوالعطاء صاحب احمدنگر
۵۵۵۔ عبدالغنی
۵۳۱۔ ایف دین ولد رحیم بخش
۵۵۶۔ نعیم احمد
۵۳۲۔ عبدالرحمن ولد نور محمد صاحب
۵۵۷۔ عبداللطیف خان
۵۳۳۔ نذیراحمد بالا کوٹی ہائی سکول
۵۵۸۔ عبدالرشید
۵۳۴۔ شیخ سراج دین لالیاں
۵۵۹۔ حمیدالدین احمد
۵۳۵۔ عبداللطیف مولوی فاضل
۵۶۰۔ آفتاب احمد
۵۳۶۔ میرمحمد ابراہیم ظفر واقف زندگی
۵۶۱۔ حمیدالدین
۵۳۷۔ عبدالمنان شاد ہائی سکول
۵۶۲۔ عبدالسلام
۵۳۸۔ سیدعبدالجلیل چنیوٹ
۵۶۳۔ فقیرمحمد احمدنگر
۵۳۹۔ محمد غوث انیس
۵۶۴۔ لطف الرحمن ہائی سکول
۵۴۰۔ نعیم احمد شاہ نہم ہائی سکول
۵۶۵۔ محمد شفیق سہگل
۵۴۱۔ اقبال احمد
۵۶۶۔ عبدالحمید صاحب
۵۴۲۔ سیدبشیراحمد صاحب چنیوٹ
۵۶۷۔ محمد امین احمدنگر
‏]1lcol [tag۵۴۳۔ مبشراحمد
۵۶۸۔ محمد ابراہیم ہائی سکول
۵۶۹۔ محمد شفیق ہائی سکول
۵۹۴۔ محمد لیف چنیوٹ
۵۷۰۔ عبدالعزیزولد چوہدری عبدالرحمن صاحب
۵۹۵۔ محمد جمیل
۵۷۱۔ انعام الحق ولد ڈاکٹر فضل حق ہائی سکول
۵۹۶۔ محمد شفیق
۵۷۲۔ رفیق احمد ولد محمد عبداللہ
۵۹۷۔ عبدالحمید اختر ہائی سکول
۵۷۳۔ عبدالمجید ولد مولوی غلام رسول ٹھیکیدار
۵۹۸۔ عبدالشکور ابن مومن جی چنیوٹ
‏]1llco [tag۵۷۴۔ مبارک احمد ولد محمد شریف
۵۹۹۔ محمد سلیم سہگل احمدیہ سکول
۵۷۵۔ حافظ عزیز احمد ولد شیخ محمد حسین چنیوٹ
۶۰۰۔ ناصر مبارک
۵۷۶۔ دلدار احمد ولد ماسٹر محمدحیات صاحب سرگودہا
۶۰۱۔ حمیداحمد دہم ہائی سکول
۵۷۷۔ فاروق احمد ولد غلام محمد
۶۰۲۔ احمدعلی خاں پٹواری چنیوٹ
۵۷۸۔ ریاض احمد ولد ڈاکٹر محمد طفیل
۶۰۳۔ محمداعظم ولد محمدرمضان
۵۷۹۔ محمدرشید ولد مستری محمد یعقوب
‏]2lloc [tag۶۰۴۔ غلام مرتضیٰ ہائی سکول
۵۸۰۔ عبدالغفار ولد شادی خاں
۶۰۵۔ ماسٹرعبدالکریم ولد میاں خیرالدین
۵۸۱۔ مبارک احمد ولد مولوی صالح محمد خان
۶۰۶۔ مشتاق احمد شیخوپورہ
۵۸۲۔ محمد شفیع ولد چوہدری وزیر خان
۶۰۷۔ مقبول احمد ولد رحیم بخش
۵۸۳۔ اللہ بخش زراعت ماسٹر
۶۰۸۔ عبداللطیف ولد نیک محمد خاں
۵۸۴۔ عبدالحکیم مدرسہ احمدیہ
۶۰۹۔ مزمل احمد ولد ڈاکٹر فضل غفور جالندھر
۵۸۵۔ منصوراحمد ابن بی ٹی صاحب
۶۱۰۔ عبدالعزیز ولد چوہدری احمددین چک نمبر۹۹
۵۸۶۔ منیراحمد ولد ڈاکٹر شاہنواز ہائی سکول
۶۱۱۔ محموداحمد ولد عبدالستار دوالمیال
۵۸۷۔ عبدالرحمن
۶۱۲۔ منوراحمد ولد عبداللطیف سمہ سٹہ
۵۸۸۔ ماسٹر عبدالقدیر صاحب
۶۱۳۔ نثاراحمد ولد محمدسعید چنیوٹ
۵۸۹۔ عبداللطیف فٹر
۶۱۴۔ رب نواز ہائی سکول
۵۹۰۔ غلام احمد مدرسہ احمدیہ
۶۱۵۔ نواب دین ولد عبدالل¶ہ چنیوٹ
۵۹۱۔ نجم الدین ہائی سکول
۶۱۶۔ چوہدری برکت علی صاحب وکیل المال
۵۹۲۔ سکندرعلی
۶۱۷۔ محموداحمد صاحب بی۔ اے قائد مجلس خدام الاحمدیہ لاہور
۵۹۳۔ محمد علی دیہاتی مبلغ
۶۱۸۔ شیخ محمد اسلم صاحب برادر شیخ بشیراحمد صاحب امیرجماعت لاہور
۶۱۹۔ مولوی خورشید احمد صاحب شاد واقف زندگی
حواشی
۱۔
الفضل ۴ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔۴
۲۔
اخبار روزنامہ زمیندار ۲۱ جنوری ۱۹۴۸ء
۳۔
روزنامہ آغاز لاہور ۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء
۴۔
‏ 1948 12, February Sunday Time Pakistan The
۵۔
تحدیث نعمت صفحہ ۵۴۲ تا ۵۶۴
۶۔
اس سلسلہ کی پہلی کامیاب تقریر سیالکوٹ میں ہوئی
۷۔
لیکچر جہلم کا ذکر حضور کے ایک خطبہ کراچی میں ملتا ہے۔ فرمایا۔
>میں نے گزشتہ ایام میں جہلم میں ایک تقریر کی جس میں مسلمانوں کو نصیحت کی کہ انہوں نے جو پاکستان مانگا تھا تو اس لئے مانگا تھا کہ وہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کو آزادانہ طور پر قائم کرسکیں۔ اب جبکہ پاکستان قائم ہوچکا ہے کم از کم پانچ وقت کی نماز ہی مسلمان مسجد میں آکر ادا کرنا شروع کردیں۔ اگر وہ پانچوں وقت نماز بھی نہی پڑھتے تو پاکستان مانگ کر انہوں نے کیالیا۔ اس پر ایک شخص نے پریذیڈنٹ کو رقعہ لکھا کہ میں والنیٹرز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بعد میں مجھے موقعہ دیا جائے۔ چنانچہ بعد میں اسے بولنے کا موقعہ دیا گیا۔ اتفاق سے پریذیڈنٹ ایک ایسے دوست تھے جو احمدیت کے مخالف رہے ہیں۔ وہ شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا۔ مرزا صاحب نے باتیں تو بڑی اچھی کہی ہیں لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اگر نماز کا انہیں اتنا ہی احساس ہے تو اب ہماری نماز ہونے والی ہے مرزا صاحب چلیں اور ہمارے پیچھے نماز پڑھ کر دکھادیں غرض ایک لمبی تقریر اس نے صرف اسی بات پر کی۔ اس وقت میرے دل میں بدظنی پید اہوئی کہ شاید پریذیڈنٹ کی مرضی اور ایماء سے یہ تقریر ہورہی ہے۔ بعد میں پریذیڈنٹ صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مجھے تو رقعہ میں یہ دکھایا گیا تھا کہ میں والنیٹرز کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر تقریر کسی اور بات پر شروع کر دی گئی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تقریر کرنے والے صاحب کا منشاء کیا ہے۔ امام جماعت احمدیہ نے اپنی تقریر میں یہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھنی چاہئے۔ نماز محمد رسول اللہ~صل۱~ کا حکم ہے اور مسجدیں بھی ہماری اپنی ہیں۔ انہوں نے صرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپے رسولﷺ~ کی بات مانو اور مسجدوں میں نمازیں پڑھا کرو۔ مگر یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب ان کے پیچھے نماز پڑھیں۔ اگر تو انہوں نے یہ کہا ہوتا کہ مسلمانوں کو میرے پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی کوئی بات تھی وہ کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پیچھے پڑھیں۔ یا اگر کہتے کہ مسلمانوں کو احمدیوں کو پیچھے نمازیں پڑھنی چاہئیں تب بھی یہ بات ان کے منہ پر سج سکتی تھی کہ اگر ہمیں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ بھی ہمارے پیچھے پڑھیں لیکن انہوں نے تو ہمارے آقاﷺ~ کی ایک بات ہمی یاد دلائی ہے۔ کیا ہمارا یہ کام ہے کہ ہم اپنے آقاﷺ~ کی بات پر عمل کریں یا یہ کام ہے کہ ہم کہیں جب تک تم ہمارے پیچھی نماز نہ پڑھو ہم اپنے آقاﷺ~ کے حکم پر بھی عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ غرض انہوں نے اسے خوب رگیدا اور لتاڑا۔< )الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۶(
۸۔
عصرانہ میں جرمن نومسلم مسٹر عبدالشکور کنزے نے بھی تقریر کی۔ حضور نے اپنی تقریر میں ان کی اخلاص کی تعریف بھی فرمائی مگر افسوس وہ اپنی ثامت اعمال سے اخلاص و ایمان پر قائم نہ رہ سکے اور لاخر جماعت سے بالکل کٹ گئے۔
۹۔
)غیرمطبوعہ(رجسٹر خطبات محمود غیرمطبوعہ جلد نہم ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ
۱۰۔
رجسٹر خطبات غیرمطبوعہ جلد نہم )ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ(
۱۱۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۱۲۔
اس سفر میں حضرت ام المومنین کے علاوہ حضرت سیدہ ام ناصر حرم اول` حضرت سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ حرم رابع سیدہ امتہ العزیز صاحبہ` سیدہ امتہ النصیرصاحبہ` سیدہامتہ الرشیدصاحبہ`سیدہ امتہ الحکیم صاحبہ` سیدہ امتہ الباسط صاحبہ` سیدہ امتہ الجمیل صاحبہ` سیدہ امتہ المجیدبیگم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزارفیق احمد صاحب اہلیت میں سے حضورکے ہمرکابتھے۔ اسی طرح حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاح )طبی مشیر( خاں صاحب میاں محمد یوسف صاحب )پرائیویٹ سیکرٹری( مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر )انچارج شعبہ زود نویسی( اور شیخ نورالحق صاحب )انچارج ایم سنڈیکیٹ واحمدیہ سنڈیکیٹ( کو بھی شریک سفر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔
۱۳۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴`۵
۱۴۔
الفضل ۱۸۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۱۵۔
الفضل ۳۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳`۴
۱۶۔
الفضل ۳۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۱۷۔
الفضل ۳۰۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
‏h1] ga[t ۱۸۔
الفضل ۱۹۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔۴
۱۹۔
الفضل یکم شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴ کالم نمبر۳
۲۰۔
قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۴۹ تا ۵۶ )الناشر مہتم نشرہ اشاعت لاہور(
۲۱۔
الفضل ۲۲۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۲۲۔
یہاں حضور نے بطور مثال دو چشم دید واقعات سنائے جو منالی اور کلو میں پیش آئے تھے )مولف(
۲۳۔
الفضل ۱۴۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۳`۴
۲۴۔
الفضل ۱۴۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵`۶
۲۵۔
الفضل ۸۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۲۶۔
ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۲۷۔
الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۱۔۸
۲۸۔
>الجمیعت< سرحد پشاور ۷۔ اپریل ۱۹۴۸ء
۲۹۔
الفضل ۷۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۱۔۸ یہ خبر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کی ۸۔ اپریل ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں بھی شائع ہوئی۔
۳۰۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ریکارڈ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء سے ماخوذ
۳۱۔
کانگریس کے دور وزارت میں اسمبلی کے سپیکر
۳۲۔
دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ریکارڈ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء سی ملخصاً
۳۳۔
اس گفتگو کا خلاصہ الفضل ۱۳۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں چھپ چکا ہے۔
۳۴۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/اپریل )تبلیغ اور پردہ کے بارے مین ۱۶۔ شہادت/اپریل` ۲۲۔ شہادت/اپریل` ۵۔ ہجرت/مئی )اسلامی قانون کے متعلق اہم سوالات کے جواب( ۲۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء )اسلامی حکومت کے پاکستان میں قیام سے متعلق(
۳۵۔
‏]h2 [tag الفضل ۱۵۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۳۶۔
الفضل ۱۹۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۳۷۔
مکرم جناب دانشمندخاں صاحب )آف موضع بانڈا محب تحصیل نوشہرہ ضلع پشاور( کا بیان ہے کہ >حضورؓ پشاور صدر میں شیخ مظفرالدین احمد صاحب کی کوٹھی میں مقیم تھے۔ حضور نے حکم دیا تھا کہ جن کے پاس اسلحہ کا لائسنس ہو وہ پنے اسلحہ کے ساتھ آئیں چنانچہ میں بھی اپنی شاٹ گن کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور علاقہ خلیل اور مہمند ضلع پشاور اور چارسدہ کے دوست بھی اپنے اپنے اسلحہ کے ساتھ پہنچ گئے<۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۸۔
سفرچارسدہ سے متعلق جناب ماسٹر نورالحق صاحب امیر جماعت چارسدہ کا بیان ضمیمہ میں درج ہے۔
۳۹۔
الفضل ۲۶۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۸۴ء صفحہ۳ کالم نمبر۲
۴۰۔
انقلاب ۱۷۔ اپریل ۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۴۱۔
میاں محمد یوسف صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نے ۱۳۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ایک مکتوب میں حسب ذیل اطلاع لاہور بھیجی۔
>لیکچر راولپنڈی۔ کل شام ساڑھے سات بجے حضور انور کا لیکچر نشاط سینما ہال ¶میں ہوا۔ ہال سامعین سے بھر ہوا تھا اور لوگ آس پاس کی دیوارو کے ساتھ بڑی تعداد میں کھڑے تھے۔ گیلری بھی مستورات سے پر تھی۔ اندر لوگوں کی تعداد ۱۵۰۰ کے الگ بھگ تھی۔ تقریر پونے آٹھ بجے سے سے سوا نو بجے تک جاری رہی۔ حاضرین ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھے رہے۔ معززین شہر کافی تعداد میں موجود تھے۔ سشن جج صاحب نے کہا کہ کوئی لمحہ بھی ایسا تقریر کے دوران میں نہیں آیا جس میں توجہ کسی اور طرف گئی ہو۔
ہال کے باہر سڑک پر چند شریروں نے شوروغوغا شروع کردیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی پٹھان کو کسی نے گمراہ کرکے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ گولی چلائے۔ اس کی اطلاع ہمارے ایک انسپکٹر پولیس باجوہ صاحب کو ملی وہ اس وقت ہال کے باہر آئے اور انہوں نے موقعہ پر پہنچ کر پٹھان سے بات چیت کی لیکن اس کے ساتھ تین مولوی بھی تھے باجوہ صاحب ان تینوں مولویوں کو الگ لے گئے مگر وہ پٹھان بھی ساتھ ہی آگیا` وہ مولوی ۔۔ باجوہ صاحب کی بات سننے کو بھی تیار نہ تھے اور لوگوں کو اکسارہے تھے۔ تقریر کیوں کرائی جارہی ہے۔ کوئی اس تقریر کو نہ سنے۔ باجوہ صاحب نے سٹی انسپکٹر صاحب کو اطلاع دی اور اس دوران میں پولیس بھی اور منگوائی گئی۔ ان شوریدہ سر لوگوں کی تعداد ۲۵`۳۰ ہوگئی۔ سفید وردی والی پولیس کی لوگ بھی کافی تعداد میں ان کے ہجوم میں شامل تھے تا ان کو شرارت سے باز رکھیں۔ جو لوگ باہر تقریر سن رہے تھے وہ انہیں کوستے تھے کہ ایسی اعلیٰ تقریر سننے نہیں دیتے۔ راولپنڈی کے ایک مشہور ایڈووکیٹ نے کہا سمجھ نہیں آتا ایسی اعلیٰ تقریر پر بھی کسی کو کوئی اعتراض ہوسکتا ہے ۔۔۔ ہال کے اندر سکون ہی سکون تھا۔
آج حضور کا لنچ کرنل عطاء اللہ خان صاحب کے ہاں تھا۔ آزاد کشمیر کے وزراء بھی مدعو تھے۔ کل سردار ابراہیم بھی ملنے کو تشریف لائیں گے۔ اس وقت ¶قریباً پونے ساتھ بجے شام ہے بریگیڈیر شیرخاں صاحب ملاقات فرما رہے ہیں۔ انشاء اللہ پرسوں لاہور کے لئے روانگی ہوگی۔< )ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ(
۴۲۔
>نوائے وقت< ۱۶۔ اپریل ۱۹۴۸ء
۴۳۔
اخبار >غازی< ۱۸۔ اپریل ۱۹۴۸ء
۴۴۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۴۵۔
حضرت مصلح موعود نے شروع ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں گجرات میں بھی قیام فرمایا تھا۔ سفر پشاور کی واپسی پر یاقبل ازیں سفر جہلم کے دوران؟ یہ بات زیر تحقیق ہے۔
۴۶۔
الفضل ۲۵۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۴۷۔
الفضل ۸۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱
۴۸۔
الفضل ۲۵۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہس/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۴۹۔
اس خدمت میں میاں بشیراحمد صاحب ٹیکسٹائل آفیسر امیرجماعت احمدیہ کوئٹہ کے علاوہ حضرت شیخ کریم بخش صاحب تاجر` مرزا محمد صادق صاحب قربان حسین شاہ صاحب انسپکٹر پولیس` غلام دین صاحب` ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ڈی ایم او` قاضی شریف الدین صاحب )ہوشیارپوری( اور ناظر حسین صاحب نے خاص طور پر حصہ لیا۔ )الفضل ۲۵۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳(
۵۰۔
الفضل ۲۳۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۵۱۔
اس سفر میں حضرت ام المومنین حضور کے چاروں حرم` حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` سیدہ آصفہ مسعودہ صاحبہ بنت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ` بیگم صاحبہ حضرت میرمحمد اسمعیل صاحب` اور حضور کے بچوں میں سے سیدہ امتہ النصیرصاحبہ` سیدہ امتہ الجمیل صاحبہ` سیدہ امتہ المتین صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب حضور کے ساتھ تھے۔ خدام کا قافلہ اس کے علاوہ تھا۔ اہل بیت خدام اور خادمات سب کو شامل کرکے یہ قافلہ سینتالیس افراد تک جا پہنچا۔
۵۲۔
یہ انتظام ملک کرم الٰہی صاحب ایڈووکیٹ کے سپرد تھا۔
۵۳۔
الفضل ۲۵۔ احسان ۱۳۲۷ہش صفحہ ۳`۴
۵۴۔
الفضل ۲۵۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۵۵۔
ایضاً
۵۶۔
صحابی حضرت مسیح موعود حضرت حاجی نور محمد صاحب شہید رفیق اللہ چک کے فرزند!! آپ نے میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے پاس کیا اور ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی ڈگری لاہور میڈیکل کالج سے حاصل کی۔ بعدازاں پہلے منٹگمری )ساہیوال( میں پریکٹس شروع کی پھر اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر میجر سراج الحق خاں صاحب )ملٹری ہسپتال کوئٹہ( کی تحریک پر ۱۹۳۵ء میں کوئٹہ تشریف لے گئے اور بہت جلد بلوچستان کے چوٹی کے ڈاکٹروں میں شمار ہونے لگے۔ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی خدمت میں کوئٹہ آنے کی استدعا اول آپ ہی کی طرف سے کی گئی تھی اور آپ اس امر کے لئے بھی کلیت¶ہ تیار تھے کہ اگر کوئٹہ میں حضور کے لئے کوئی موزوں کوٹھی دستیاب نہ ہوئی تو وہ اور ان بھائی اپنے مکانات حضور کی رہائش کے لئے خالی کردیں گے اسی دوران میں انہوں نے حضور کے لئے دو کوٹھیوں کا انتظام بھی کرلیا مگر جماعت کوئٹہ نے دوسری کوٹھی کو انتخاب کیا جو بہت ہی مبارک ثابت ہوا مگر اس کوٹھی کو زیر استعمال لانے کے لئے اس کے اردگرد ایک احاطہ کی تعمیر ضروری تھی علاوہ ازیں حضور کی تشریف آوری کے نتیجہ میں مقامی جماعت پر بعض غیرمعمولی اور ہنگامی اخراجات کا بار پڑنا ایک لازمی امر تھا۔ اسی طرح مہمان نوازی اور دیگر کئی قسم کی ضروریات تین ہزار روپیہ کا فوری تقاضا کرتے تھے جو ڈاکٹر صاحب نے ہینڈلوم فیکٹری کی طرف سے )جس کے آپ پریذیڈنٹ تھے( فوراً پیش کردیئے۔ )الفضل ۲۲۔ ظہور ۱۳۲۷ہش صفحہ ۴( ڈاکٹر صاحب موصوف ۹۔ ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء کو قریباً ۴۵ سال کی عمر میں اپنے آسمانی آقا کے پاس حاضر ہوگئے۔
حضرت مصلع موعود نے آپ کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور تدفین میں بھی شرکت فرمائی۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے آپ کی وفات پر اپنے قلم سے ایک نوٹ میں آپ کے اخلاص وفدائیت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا >بہت ملنسار` مہمان نواز` خدمت گزار اور دوستوں کے لئے دلی خوشی سے قربانی کرنے والے نوجوان تھے۔< )الفضل ۱۱۔ تبلیغ/فروری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۲( آپ کے برادر اکبر ضیاء الحق خاں صاحب سابق آرڈنینس آفیسر نے الفضل ۶۔ صلح/جنوری ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے صفحہ ۶ پر آپ کی مختصر سوانح شائع کردی تھی۔
۵۷۔
اس تعلق میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک کے خطوط کے چربے ضمیمہ میں ملا خطہ ہوں جن سے ایک سچے خادم کے عاشقانہ رنگ اور ایک محبوب آقا کے مشفقانہ تعلق پر خوب روشنی پڑتی ہے۔
۵۸۔
الفضل ۲۲۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۵۹۔
الفضل ۲۶ تبلیغ/فروری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء صفحہ ۴
۶۰۔
الفضل ۲۶۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔۴
۶۱۔
اس اخبار کا تراشہ خلافت لائبریری کے کٹنگ رجسٹر میں موجود ہے۔
۶۲۔
انقلاب )لاہور( ۱۹۔ جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۶۳۔
)ملخص( الفضل ۲۳۔ امان/مارچ ۱۳۳۵ہش/۱۹۵۶ء صفحہ ۴۔۶
۶۴۔
الفضل ۲۲۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔ اس تفریحی سفر کے جملہ انتظامات ڈاکٹر غفورالحق خاں صاحب اور ان کے خاندان کی طرف سے کئے گئے تھے۔
۶۵۔
الفضل ۷۔ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴`۵
۶۶۔
‏h2] ga[t الفضل ۴۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۶۷۔
الفضل ۲۵۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۸
۶۸۔
الفضل ۱۵۔ امان/مارچ ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء صفحہ ۳`۴
۶۹۔
الفضل ۱۸۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۷۰۔
الفضل ۲۵۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۷۱۔
الفضل ۲۷۔ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۷۲۔
الفضل ۲۱۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۷۳۔
الفضل ۱۳۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۷ کالم نمبر۱
۷۴۔
الفضل ۲۱۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش۔۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۷۵۔
ڈاکٹر میجر محمود شہید امرتسر کی مشہور احمد قاضی فیملی کے چشم وچراغ` قاضی محمد شریف صاحب ریٹائرڈ انجنیئر لائل پور کے صاحبزادے اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے )کینٹب( سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کے بھتیجے تھے آپ بہت متدین نوجوان تھے زمانہ درویشی کے ابتدائی ایام نہایت وفا شعاری سے قادیان میں گزارے اور گرانقدر طبی خدمات بجالاتے رہے۔ نور اللہ مرقدہ۔
۷۶۔
الفضل ۲۸۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴ کالم نمبر۱
۷۷۔
الفضل ۳۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۷۸۔
اخبار >احسان< بحوالہ الفضل ۴۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۷۹۔
انقلاب ۲۹۔ اگست ۱۹۴۸ء
۸۰۔
انقلاب ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۸ء بحوالہ الفضل ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۸ء
۸۱۔
اصل واقعہ ۱۱ کی بجائے ۱۹۔ اگست کا ہے )مولف(
۸۲۔
ترجمہ رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء صفحہ ۱۳ صفحہ ۱۴
۸۳۔
الفضل ۲۸۔ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحح ۴ کالم نمبر۱
۸۴۔
الفضل ۲۳۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۸۵۔
‏ RAIDERS
۸۶۔
‏ LIBERATORS
۸۷۔
‏ AGITATION
۸۸۔
اصل خط دفتر خدمت درویشان ربوہ میں محفوظ ہے۔ اس دفتر کے ریکارڈ سے بھی منکشف ہوتا ہے کہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے ابتدائی ایام میں جبکہ مسئلہ کشمیر جنرل اسمبلی میں زیربحث تھا چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کو بذریعہ ڈاک نیویارک نہایت باقاعدگی سے ضروری مواد بھجوایا کرتے تھے چنانچہ آپ نے ۱۷۔ ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے ایک مکتوب میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا >میں مکرم چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کو قریباً روزانہ ایک دو خط حوالہ جات وغیرہ کے متعلق لکھتا رہتا ہوں۔ دو کتابیں میں بھی بھجوائی ہیں اور دو عدد فوٹو سیٹ بھی۔ کل سرایلبن بینرجی کا اصل حوالہ بھجوایا تھا اور آج مزید چودہ عدد حوالے ہوائی ڈاک کے ذریعہ بھجوارہا ہوں۔ یہ حوالے عزیز میاں ناصر احمد صاحب کے سٹاف نے نکالے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض حوالے بہت مفید ہیں< )خط کے آخر میں مندرجہ حوالہ جات کے ماخذ بھی درج کئے گئے ہیں(
۸۹۔
الفضل ۲۳۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۸
۹۰۔
سفینہ ۲۳۔ مارچ ۱۹۴۸ء
۹۱۔
مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے انہیں دنوں یہ عہدنامہ موٹے حروف اور بڑے سائز کے پوسٹر کی صورت میں چھپوادیا تھا جس کو احمدی جماعتیں ایک عرصہ تک نہایت جوش و خروش سے مسجدوں` پبلک جگہوں اور گھروں میں خاض التزام سے دیواروں پر آویزاں رکھتی رہیں۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
الفضل ۲۵۔ مئی/ہجرت ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم نمبر۲
‏]1h [tag ۹۳۔
الفضل ۲۷۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱`۸
۹۴۔
الفضل ۱۵۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴۔۵
۹۵۔
الفضل ۲۱۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳`۴
۹۶۔
الفضل ۱۷۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲ کالم نمبر۱
۹۷۔
الانباء )بغداد( نمبر۲۶ مورخہ ۲۱۔ ستمبر ۱۹۵۴ء بحوالہ >الفرقان< ربوہ فتح/دسمبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء صفحہ ۱۔۷ ضمیمہ
۹۸۔
الفضل ۲۲۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۹۹۔
اس سلسلہ میں محمد فرخ غازی شاہنشاہ ہند کے منشور کا متن سیرت المہدی حصہ سوم نمبر۱۴۸ میں شائع شدہ ہے جو ۱۷۱۶ء کا ہے مرزا فیض محمد حضرت مسیح موعود کے یہ دادا کے والد تھے )مولف(
۱۰۰۔
الفضل ۲۱۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲۔۳
۱۰۱۔
مکتوب بابو قاسم الدین صاحب مورخہ ۲۶۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء بنام >مولف تاریخ احمدیت<۔ مکرم بابو صاحب کا بیان ہے کہ >میری درخواست پرازراہ شفقت حضرت خلیفہ المسیع الثانی رضی اللہ عنہ نے< لوائے احمدیت< بھی میری ذمہ داری پر جماعت احمدیہ شہر سیالکوٹ کو دیئے جانے کی منظوری عطا فرمائی چنانچہ >لوائے احمدیت< اس تقریب پر لہرایا گیا۔<
۱۰۲۔
الفضل ۱۳۔ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۱۰۳۔
یہ مکمل پیغام الفضل )۶ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء( کے ایک ہی ایشوع میں شائع کردیا گیا تھا۔
۱۰۴۔
اخبار >انقلاب< لاہور ے >جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا سالانہ جلسہ< کے زیرعنوان اس جلسہ کی حسب ذیل خبرشائع کی۔
>سیالکوٹ )اپنے نامہ نگار سے( یکم نومبر سیالکوٹ شہر کی جماعت احمدیہ کا سالانہ اجلاس کا ۳۱۔ اکتوبر کو ساڑھے پانچ بجے کے قریب ختم ہوا۔ اس کے پانچ اجلاس منعقد ہوئے جن میں سے ایک کی صدارت پاکستانی فوجوں کے کمانڈر بریگیڈیر لطیف نے کی۔ بریگیڈیر لطیف نے اپنی صدارتی تقریر میں پاکستانی عوام کو ہر خطرے ) کے لئے ( حقیقت¶ہ طیار رہنے اور کمر ہمت کس لینے کی تلقین کی۔ جلسے میں اور مضامین کے علاوہ اسلامی حکومت کے فرائض پاکستا کے استحکام و ترقی کے وسائل` انصار و مہاجرین کے باہمی تعلقات` فریضہ جہاد اور صحابہ کرامؓ کے جنگی کارناموں کے موضوع پر بھی تقریریں ہوئیں۔ سب سے آخری اجلاس میں امام جماعت احمدیہ کا ایک پیغام پڑھ کر سنایا گیا جو بعد میں پمفلٹ کی صورت میں چھپا ہوا تقسیم بھی کیا گیا۔ اس جلسے میں مسجد میں لنڈن کے امام مسجد جے۔ ڈی شمس نے تقریریں کیں۔< )انقلاب ۳ نومبر ۱۹۴۸ء(
۱۰۵۔
جماعتی اداروں )نشرواشاعت صدرانجمن احمدیہ ربوہ اور وقف جدید ربوہ وغیرہ( کے علاوہ میاں فاروق احمد صاحب نے پام ویو نمبر۵ ڈیوس روڈ لاہور سے اس کا ایک نہایت دیدہ زیب ایڈیشن ماہ فتح/دسمبر ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء میں شائع کیا۔
۱۰۶۔
سندھی کا پہلا ایڈیشن ڈاکٹر احمد دین صاحب امیرجماعت احمدیہ حیدرآباد ڈویژن نے اور دوسرا صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشا وقف جدید ربوہ نے دسمبر ۱۹۶۳ء میں چھپوایا۔
۱۰۷۔
مترجم محمد اقبال صاحب ایم۔ اے ناشر ناظم ارشاد وقف جدید ربوہ۔
۱۰۸۔
پہلا بنگالی ایڈیشن ۱۹۴۹ء میں چھپا جس کے مترجم مولوی عبدالحفیظ صاحب )ڈھاکہ( تھے۔
۱۰۹۔
شیخ عبدالواحد صاحب مبلغ ایران نے ترجمہ کیا جس کو پہلے حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب سکندر آباد دکن نے پھر وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ نے ستمبر ۱۹۶۱ء میں شائع کیا۔
۱۱۰۔
)ناشریں( مہتم صاحب نشرواشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ دی اورنیٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ۔ وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ۔
۱۱۱۔
الفضل ۱۴۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۱۱۲۔
جناب مولوی عبدالرحمن صاحب انور کا بیان ہے کہ >حضور نے مجھے فرمایا کہ ربوہ کی ۱۰۳۴ ایکڑ زمین کی کل قیمت کا اندازہ رجسٹری کے اخراجات شامل کرکے ۱۲ ہزار بنتا ہے اگر تحریک جدید ۴ ہزار روپے دیدے تو ربوہ کی ملکیت میں اس کا ۳/۱ حصہ ہوجائے گا جس پر تحریک جدید نے اس سلسلہ میں چار ہزار روپے ادا کردیئے۔
۱۱۳۔
ریکارڈ دفتر نظارت علیا صدرانجمن احمدیہ پاکستان
۱۱۴۔
اس مکتوب پر ۱۲ جون ۱۹۴۸ء کی مہرثبت ہے۔
۱۱۵۔
ملاخطہ ہو صدرانجمن احمدیہ پاکستان کا ریزولیوشن نمبر۱۲۴ مورخہ ۱۹۔ احسان ۱۳۲۷ہش
۱۱۶۔
تعمیر کمیٹی کے ان ممبروں میں بعد کو حسب ضرورت وقتاً فوقتاً ردوبدل ہوتا رہا چنانچہ ۲۶۔ ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود نے اس کمیٹی میں حضرت نواب محمد دین صاحب اور خورشید احمد صاحب O)۔D۔(S کا بھی اضافہ فرمایا نیز حکم دیا کہ سیکرٹری بجائے مرزا مبارک احمد صاحب کے خورشید احمد صاحب اور اسسٹنٹ سیکرٹری قریشی عبدالرشید صاحب نائب وکیل المال ہوں گے۔ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے بھی ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کے بعد حسن محمد خاں صاحب عارف )نائب وکیل التبشیر( اور سید زمان شاہ صاحب آف جہلم بھی ایک عرصہ تک اسسٹنٹ سیکرٹری کمیٹی کے فرائض بجالاتے رہے۔ یہ کمیٹی براہ راست حضرت خلیفہ المسیح الثالی المصلح الموعود کی زیرنگرانی وزیر ہدایت کام کرتی تھی۔
‏]1h [tag ۱۱۷۔
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۲۔۱۳۲۶ہش/۴۸۔۱۹۴۷ء صفحہ ۴۵۔۴۶
۱۱۸۔
اس تعلق میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۴۔ ظہور ۱۳۲۷ہش کو محاسب صاحب صدرانجمن احمدیہ کو لکھا۔ >آپ کل اپنے یکارڈ اور عملہ کے ساتھ چنیوٹ روانہ ہوجائیں نائب محاسب چوہدری عزیز احمد صاحب کی حسب منشاء وہاں دفتر کے لئے تین کمروں کا انتظام کردیا گیا ہے اور اس کے علاوہ رہائش کے واسطے پر انتظام کیا گیا ہے کہ )۱( آپ سید محمود اللہ شاہ صاحب کے مکان میں رہیں گے )۲( شیخ فضل احمد صاح اور قریشی محمد ¶عبداللہ صاحب کے لئے فیملی کوارٹر مہیا کئے گئے ہیں )۳( باقی کلرک ایک جگہ رہیں گے۔<
۱۱۹۔
الفضل ۲۸۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵۔۶
۱۲۰۔
حضور انور کا متذکرۃ الصدر خطبہ ۲۸۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے الفضل میں شائع ہوا مگر سیکرٹری تعمیر کمیٹی کی طرف سے اس کی روشنی میں تیسرے روز ہی ایک مفصل اعلان چھپ گیا جس میں حضور کی بیان فرمودہ سترہ شرائط کی تفصیل درج تھی )الفضل ۱۲۔ تبوک ۱۳۲۷ہش(
۱۲۱۔
الفضل ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
‏]h1 [tag ۱۲۲۔
الفضل ۳۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۱۲۳۔
منقول از رجسٹر کارروائی مجلس ناظران ووکلاء ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۱۲۴۔
جھونپڑے
۱۲۵۔
اس غرض کے لئے افتتاح مرکز سے قبل جمعدار فضل الدین صاحب اوورسیر کو لائل پور اور سرگودہا بھجوایا گیا تا چھپربناکر عارضی رہائش گاہوں کا انتظام کیا جاسکے۔
۱۲۶۔
عربی لغت میں ربوہ کے متعدد معنے مذکورہ ہیں مثلاً ٹیلہ` پہاڑی` بلندزمین` عمدہ چیز` ریاضی دانوں کے پاس دس لاکھ کی تعداد بھی ربوہ کہلاتی ہے رباالفرس ربوا کا مطلب ہے گھوڑا بھاگنے سے سانس چڑھنا۔ رباالولد ربوا وربوا بچہ کا بڑھنا` تعلیم پانا` پھیلنا اور نشوونما پانا۔ رباالمال کا مفہوم ہے دولت کا بڑھنا` لمبا ہونا۔ ربوہ ایک بڑی جماعت کو بھی کہتے ہیں جو قریباً دس ہزار پر مشتمل ہو۔ یہ لفظ بے شمار تعداد کے لئے بھی مستعمل ہے۔ )المعجم الاعظم از محمد حسن الاعظمی زیرلفظ >ربوہ(<
۱۲۷۔
احادیث میں کئی مقامات پر ربوہ کا لفظ اسعمال ہوا ہے۔ مثلاً ترندی جلد ۲ کتاب التفسیر میں ہے >الفردوس ربوہ الجنہ واوسطھا وافضلھا< فردوس بہشت کا اعلیٰ اور بلند مقام ہے اور عین وسط میں بھی ہے۔ )ترجمہ از مولوی وحیدالزمان صاحب کتاب >لغات الحدیث(<
۱۲۸۔
اس پہلے قافلہ کی روانگی کے معاً بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس )ناظراعلیٰ( نے حضرت مصلح موعود نے حضور لکھا۔ >اختر صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب ۲۲ خیمے مختلف سائز کے اور ۴ چھولداریاں اور آٹھ شامیانے ٹرک پر لے کر چلے گئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ بڑا سیف ربوہ لے جایا جائے وہ بغیر ٹرک کے نہیں جاسکتا اس کی صورت یہی ہے کہ ٹرک کرایہ پر لیا جائے اور اس کے ساتھ لنگر خانہ کا بھی کچھ سامان بھیج دیا جائے۔<
حضور نے فرمایا۔ >درست ہے۔ میں نے اس سے کب منع کیا ہے کہ ٹرک نہ لے جایا جائے۔<
۱۲۹۔
ملاخطہ ہو سرکلر مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اعلیٰ مورخہ ۱۹۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۱۳۰۔
الفضل ۲۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۱۳۱۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اعلیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو لکھا کہ >انجمن کے کارکن جو آج جارہے ہیں آپ ان کے امیر قافلہ ہوں گے۔ ۳۴ کارکن انجمن اپنے ساتھ لاری میں لے جائیں اور ان کے کرایہ کے لئے مبلغ ایک سو بیس روپے نائب وکیل المال سے لے لیں۔
ربوہ میں پہنچ کر پہلے خیمے شامیانے وغیرہ لگوائے جائیں۔ دوسرا خط اختر صاحب )مراد عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے۔ ناقل( کو دے دیں انہیں ربوہ میں منتظم اعلیٰ مقرر کیا گیا ہے وہ اپنے ساتھ جو منتظمین مناسب سمجھیں رکھ لیں۔ خاکسار جلال الدین شمس ناظر اعلیٰ ۴۸۔۹۔۱۹<
۱۳۲۔
بدر )قادیان( ۲۱۔ احسان/جون ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۱
۱۳۳۔
یہاں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ حضرت مصلح موعود نے دفتر تحریک جدید کو لاہور سے ربوہ منتقل کرنے پر تین ہزار پچاس روپے کا بجٹ بتفصیل ذیل منظور فرمایا تھا۔
۱۔۳ عدد نلکے سیکنڈہینڈ مع لگوائی ۳۷۵ روپے ۲۔ روشنی )تیل مٹی و خرید لالٹین ۲۵ عدد( برائے عرصہ چار ماہ ۴۰۰ روپے ۳۔ پلیٹیں برائے بیت الخلاء ۵ عدد و انتظام پردہ ۱۲۵ روپے ۴۔ اخراجات برائے ترسیل ریکارڈ دفاتر وکارکنان بمع اہل وعیال ۱۵۰ کس ۱۰۰۰ روپے ۵۔ خیمہ جات وچھولیداریوں کا کرایہ ۱۱۵۰ روپے۔
حضرت مصلح موعود کے فیصلہ کے مطابق چونکہ اراضی ربوہ کے تہائی حصہ کی مالک تحریک جدید قرار دی گئی تھی اس لئے ان دنوں ربوہ کی آبادی سے متعلق جو بھی اخراجات ہوئے وہ اگرچہ صدر انجمن احمدیہ کی امانت مرکز پاکستان )ب( سے کئے گئے مگر کل اخراجات کا تہائی خرچ تحریک جدید نے ادا کیا۔
۱۳۴۔
مولانا قریشی محمد نذیر صاحب فاضل )محلہ دارالرحمت قادیان( نے ۱۳۲۱ہش۱۹۴۲ء کے آخری ہفتہ میں پیر کے رات خواب دیکھا کہ >میں مع چند اور احباب مدینہ منورہ کے ثنیتہ الوداع پر کھڑا ہوں اور تفہیم یہ ہے کہ آنحضرت~صل۱~ معہ وفد کے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے تشریف لارہے ہیں۔ وہ جگہ ایک ہموار سا ٹیلہ تھا۔ سامنے کچھ مستورات اور لڑکیاں اوڑھنیاں اوڑھے اور پردہ کئے کھڑی ہیں۔ برقع نہیں صرف اوڑھنیاں ہیں۔
اتنے میں یکدم مکہ کی جانب سے ایک غبار جس میں گرد نہیں بلکہ روشنی اور نور کا غبار معلوم ہوتا ہے نمودار ہوا اور تیز ہوتے ہوئے اس نے اس ٹیلہ پر ایک جسم کی شکل اختیار کرلی مگر ابھی چہرہ نہیں بنا۔ میں نے پکارا کہ آنحضرت~صل۱~ تشریف لے آئے اور بلند آواز سے درود شریف پڑھنا شروع کیا ساتھ ہی میرے ساتھیوں نے پڑھنا شروع کردیا ادھر سے ان عورتوں کے گروہ نے بھی نہایت عمدگی کے ساتھ
طلع البدر علینا
طمن ثنیات الوداع
طوجب الشکرعلینا
طمادعا للہ داع
کہنا شروع کیا۔ وہ نور کا مجسمہ ایک شکل بن گیا جب شکل صاف ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ حضرت مصلح موعود ہیں دائیں جانب جھڑی ٹیک کر بایاں پائوں ذرا آگے کرکے کھڑے ہیں سر پر سفید عمامہ ہے اور قدرے سفر کے آثار ہیں۔< )الفضل ۱۸۔ امان/مارچ ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء صفحہ ۳ کالم نمبر۴( سبحان اللہ!! حضرت مصلح موعود کے ایک خادم کو اللہ تعالیٰ نے حضور کے سفر افتتاح ربوہ کا نظارہ چار برس قبل دکھادیا۔ محترم قریشی صاحب افتتاح ربوہ کے بعد تیرہ سال تک زندہ رہے اور ۲۔ ماہ صلح/جنوری ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو )ربوہ کی ابتدائی ترقیات بچشم خود دیکھنے کے بعد( وفات پائی۔
۱۳۵۔
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی طبع مبارک ان دنوں سخت علیل تھی اس لئے موقعہ افتتاح پر تشریف نہ لے جاسکے چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اعلیٰ نے آپ کی خدمت میں یہ اطلاع دی کہ کل حضرت صاحب نئے مرکز میں دعا کرنے کے لئے تشریف لے جائیں گے امید ہے کہ آپ بھی جاسکیں گے آپ کی کار بھی ساتھ لے جانے کی ضرورت ہے امید ہے کہ آپ اس کے لئے اجازت فرمادیں گے۔<
اس پر آپ نے اپے قلم سے تحریر فرمایا۔ >السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ` میرے لئے تو غسل خانہ تک جانا مشکل ہورہا ہے افسوس ہے کہ اس تاریخی موقعہ کی برکتوں سے محروم رہوں گا نیز شرمندہ ہوں کہ کار بھی خراب ہے۔ )دستخط( ناصر احمد<
۱۳۶۔
‏h2] ga[t حضور نے اس موقعہ پر جس جگہ ظہر و عصر کی نمازیں پڑھائی تھیں وہ موجودہ فضل عمر ہسپتال کے قطعہ میں ہے اور اب اس پر ایک نہایت خوبصورت مسجد تعمیر ہوچکی ہے جو یادگاری مسجد کہلاتی ہے۔ صیوفی خدابخش صاحب عبدزیردی )سابق درویش قادیان( کے دل میں یہاں ایک مستقل چبوترہ بنائے جانے کا خیال آیا۔ قریشی عبدالرشید صاحب اسسٹنٹ سیکرٹری آبادی نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا کہ حضور اجازت دیں تو اس جگہ قبلہ رخ کرکے ایک چبوترہ بنوادیا جائے جو ہسپتال کے عملہ کے لئے جائے نماز کا کام دے۔ حضور نے اس درخواست پر تحریر فرمایا کہ >اچھی بات ہے< چنانچہ ۲۳۔ تبلیغ/فروری ۱۳۳۲ہش/۱۹۵۳ء کو محتروم صوفی صاحب کی معیت میں ملک رسول بخش صاحب اوورسیر نے اس تاریخی مقام کی پیمائش کی معلوم ہوا اس کا رقبہ ۳۰ x ۳۰ فٹ ہے۔
۱۳۷۔
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی تیار شدہ یہ فہرست جو ۶۱۸ افراد پر مشتمل تھی ضمیمہ سے منسلک ہے۔
۱۳۸۔
یہ فقرہ جو نئے مرکز کی غرض وغایت واضح کرتا ہے حضرت مصلح موعود کی اصل خواب مطبوعہ الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۴۱ء میں درج ہے )ناقل(
۱۳۹۔
اب آپ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈووکیٹ ہیں۔
۱۴۰۔
الفضل جلسہ سالانہ نمبر فتح/دسمبر ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء صفحہ ۵۔۹
۱۴۱۔
یہ قیمتی مضمون جو اس موقعہ کی تفصیلات کا بنیادی ماخذ ہے الفضل )۲۲۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں شائع شدہ ہے۔
۱۴۲۔
نماز عصر سے قبل تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس موقعہ پر ایک موٹر لاری` پانچ کاریں اور چوبیس تانگے اور تیس سائیکل موجود تھے )الفضل ۲۲۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۱۴۳۔
الفضل جلسہ سالانہ نمبر دسمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۹
۱۴۴۔
الفضل ۲۲۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۱۴۵۔
ایضاً
‏tav.11.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
تیسرا باب
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
فصل اول
اردن مشن کی بنیاد
خلیج فارس سے مراکش تک پھیلی ہوئی عرب دنیا میں شرق اردن (JORDAN) ایک نہایت مشہور مملکت ہے۔ اردن کا علاقہ آنحضرت~صل۱~ کے ممتاز صحابی اور آپﷺ~ کے خلیفہ ثانی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے نامور فوجی جرنیل حضرت شرجلیل بن حسنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۱ نے ذوالقعدہ جنوری ۱۳ھ/۶۳۵ء میں فتح کیا۲ اور صدیوں تک دمشق` حمص اور فلسطین کی طرح شام کی اسلامی عملداری میں شامل رہا۔ مگر پہلی جنگ عظیم )جولائی ۱۹۱۴ء نومبر ۱۹۱۸ء( کے بعد اسے برطانیہ کے زیر حمایت ایک مستقل ریاست تسلیم کرلیاگیا۔ یہ ریاست دوسری جنگ عظیم )ستمبر ۱۹۳۹ء اگست ۱۹۴۴ء( کے خاتمہ پر برطانوی انتداب سے آزاد اور خود مختار ہوگئی اور عبداللہ بن المشریف حسین الہاشمی اس کے پہلے ائینی بادشاہ قرار پائے۔
شاہ عبداللہ دالی اردن کے بادشاہت کے تیسرے سال مولوی رشید احمد صاحب چغتائی واقف زندگی ۳۔ ماہ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حیفا سے شرق الادرن کی درالسلطنت عمان پہنچے اور ایک نئی احمدیہ مشن کی بنیاد ڈالی- یہ مشن ۷۔ ماہ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۹ء تک جاری رہا- اس کے بعد آپ شام و لبنان میں تشریف لے گئے اور دین برحق کی منادی کرنے لگے۔
حضرت مصلح موعود کی ہدایات
سیدنا حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو قادیان سے رخصت کرتے وقت حسب ذیل ہدایات ان کی نوٹ بک میں تحریر فرمائی تھیں۔
رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پرہیز کرلو تبلیغی ہدایات بہت دی جاچکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں۔ کسی نے کہا ہے >ایاز قدر خود بشناس< اس مقولہ کو یاد رکھو ہم غریب لوگ ہیں۔ ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بیکار ہو جائی گی باقی فتح دعائو اور نماز اور روزہ سے آئے گی۔ تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دعا اور روزہ پر زور دو۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
>رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو جن سے تعلق نہ ہو۔ قرآن کریم فرماتا ہے لغو باتوں سے پرہیز کرلو تبلیغی ہدایات بہت دی جاچکی ہیں ان کو یاد کریں اور ان پر عمل کریں۔ کسی نے کہا ہے >ایاز قدر خود بشناس< اس مقولہ کو یاد رکھو ہم غریب لوگ ہیں۔ ہم نے اپنے ذرائع سے کام لے کر دنیا فتح کرنی ہے یہ سبق بھولا تو تبلیغ یونہی بیکار ہو جائی گی باقی فتح دعائو اور نماز اور روزہ سے آئے گی۔ تبلیغ سے زیادہ عبادت اور دعا اور روزہ پر زور دو۔ خاکسار مرزا محمود احمد )۱۹۴۶ء۔۱۰۔۲۳<(
پھر ۳ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۸ء کو مولوی صاحب کا ایک خط ملاخطہ کرکے ارشاد فرمایا۔
>اب وقت کام کا ہے۔ تبلیغ پر زور دے کر ایک موت وارد کریں تا احمدیت دوبارہ زندہ ہو اور مالی اور روحانی قربانی کی جماعت کو نصیحت کریں۔ اب ہر ہر ملک کو ایسا منظم ہونا چاہئے کہ ضرورت پڑنے پر وہیں تبلیغ اور سلسلہ کو بوجھ اٹھا سکے۔ پہلے بہت سستی ہوچکی۔ اب ایک معجزانہ تغیر ہمارے مبلغوں اور جماعت میں پیدا ہونا چاہئے۔<
اردن مشن کی ابتداء نہایت پریشان کن ماحول اور حوصلہ شکن حالات میں ہوئی۔ قضیہ فلسطین کے باعث ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی تھی اور دوسرے کثیرالتعداد مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی طرح حیفا کے متعدد احمدی گھرانوں کو بھی ہجرت کرکے شام و لبنان میں پناہ گزین ہونا پڑا تھا۔ خود مولوی رشید احمد صاحب چغتائی جو حیفا ہی سے اردن میں تشریف لائے تھے محض اجنبی اور غریب الدیار تھے۔
مولوی صاحب موصوف نے اپنی تبلیغی` عملی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز ایک ہوٹل سے کیا جہاں آپ صرف چند ہفتے مقیم رہے مگر پھر جلد ہی اخراجات میں تنگی کی وجہ سے اپے ایک عرب دوست السید عبدالکریم المعایطہ ابن الحاج محمد ھلال المعایطہ کے ساتھ ایک کمرہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ چند ماہ بعد جب فلسطین کے ایک مخلص عرب احمدی پناہ گزین السید طہ القزق عمان میں آگئے تو مولوی صاحب ان کے پاس ایک مختصر کمرہ میں منتقل ہوگئے۔ یہ کمرہ کرایہ پر لیا گیا تھا اور شارع المحطہ )ریلوے روڈ( پر واقع تھا۔
‏]bus [tagاردنی پریس میں احمدی مبلغ اورجماعت احمدیہ کا ذکر
مکرم مولوی صاحب نے عمان میں قیام پذیر ہونے کے چند روز بعد نہ صرف انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانا شروع کردیا بلکہ اردن کے صحافیوں سے خصوصی رابطہ قائم کرکے پبلک کو احمدیت اور اس کی اسلامی خدمات سے روشناس کرانے کے بہترین مواقع پیدا کرلئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہایت مختصر وقت کے اندر پورے اردن پریس میں احمدی مبلغ اور احمدیت کے تذکرے ہونے لگے۔ چنانچہ >الاردن< >الجزیرہ< >النسر< >وکالتہ الانباء العربیہ< اور >الدفاع< جیسے مقتدر اور بااثر اخباروں نے تعارفی نوٹ شائع کئے یہاں بطور نمونہ صرف دو اقتباس مع ترجمہ درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔
>الاردن< نے حسب ذیل نوٹ درج اشاعت کیا۔
>زارنانی ادارہ ھذہ الجریدہ المبشر الاسلامی الاستاد رشید احمد چعتائی الاحمدی الھندی فانسنابہ بعض الوقت وبالنظر لما یربط الدول العربیہ بدولہ الباکستان الجدیدہ من روابط دینیہ واجتماعیہ سالنا حضرتہ اسئلہ کثیرہ تتعلق بالھند وبمسلمیھا وھندوکیھا۔
والاستاذینتمی الی الجمماعہ الاحمدیہ التی تبشربالدین الاسلامی والمنتشرہ فی اقطارالعالم زھوشاب فی نحوالثلاثین ربیعا اوقف حیاتہ فی خدمہ دین الاسلام ونشرہ۔
وعلمنا انہ زارعددامن الشخصیات الدینیہ والحکومیہ وسیتشرف بمقابلہ جلالہ الملک المعظم وحدثنا عن تعلق مسلم الھند بالعرب ومجتھم لال البیت۔
وقد قال ان مسلمی الھند یعتقدون انھم مدینون دینا عظیما للعرب الذین نشروابینھم لواء الاسلام فاھتدوا بھدیہ وہ انھم لوفقدوا اعزمالدیھم فی سبیل نصرہ العرب لما وفوا جزما من فضلھم ھذا علیھم ثم قال ردا علی سوالنا ان مسلمی الھند متعلقون بال البیت ومحبون لھم اعظم الحب۔
وقد اطلعنا الاستاد علی النشرات الدینیہ التی تصدر فی جمیع بلدان العالم النشرالدین الاسلامی من قبل الجماعات الاحمدیہ ثم قال ان الجماعہ فی انحاء العالم تنشرالد عایہ القریہ لفلسطین العربیہ و مقدصاتھا الدینیہ ویقاو مون الدعایہ الصھیونیہ۔
وکتب امام الجماعہ )حضرہ میرزا بشیرالدین محمود احمد( موخدا رسالہ فی موضوع فلسطین نشرت باللغہ الاردیہ وترجمت الی جمیع اللغات دفاعا عن فلسطین العربیہ<۴
مبلغ اسلام مولوی رشید احمد صاحب چغتائی الاحمدی المہندی ہمارے دفتر میں بغرض ملاقات تشریف لائے۔ ہم نے آپ سے ان دینی اور اجتماعی روابط و تعلقات کی بناء پر جو پاکستان کی نئی مملکت کو عرب حکومتوں سے وابستہ کرتے ہیں۔۵ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کی نسبت متعدد سوالات کئے۔
جناب مولوی صاحب جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرتی اور اکناف عالم تک پھیلی ہوئی ہے۔ مولوی صاحب قریباً تیس سال جوان ہیں۔ آپ نے خدمت دین اور اشاعت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ ملک کے بہت سے مذہبی رہنمائوں اور اعلٰے سرکاری افسروں سے مل چکے ہی اور عنقریب جلالہ الملک شاہ معظم کی ملاقات سے بھی مثرف ہونے والی ہیں۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کے عرب سے تعلق اور اہل بیت نبوی سے عقیدت و محبت کا بھی تذکرہ کیا۔
انہوں نے فرمایا کہ مسلمانان برصغیر کا اعتقاد ہے کہ وہ عربوں کے بیحد مقروض ہیں جنہوں نے ان کے یہاں پرچم اسلام لہرایا اور جن کی راہ نمائی سے وہ ہدایت یافتہ ہوئے۔ سو اگر وہ عربوں کی اعانت و تائید میں اپنی عزیز ترین متاع بھی خرچ کردیں تب بھی وہ ان کی مہربانی کاصلہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید فرمایا۔ کہ برصغیر کے مسلمان اہل بیت نبوی~صل۱~ سے گہری محبت والفت رکھتے ہیں۔
مولوی صاحب نے وہ مذہبی لٹریچر بھی دکھایا جو احمدی جماعتوں کی طرف سے دنیا بھر میں دین اسلام کی اشاعت کے لئے شائع ہوتا ہے۔ پھر بتایا کہ جماعت احمدیہ فلسطین عربیہ اور اس کے مقدس مقامات کی حفاظت و تائید اور صہیونی پراپیگنڈا کے قلع قمع کے لئے سرگرم عمل ہے۔ چنانچہ حال ہی میں خود حضرت امام جماعت احمدیہ )حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد( نے مسئلہ فلسطین کے موضوع پر اردو میں ایک مضمون سپرد قلم فرمایا جو فلسطینی عربوں کے دفاع کی غرض سے دیگر زبانوں میں بھی شائع کیا جاچکا ہے۔
۲۔
ممتاز جریدہ >النسر< نے لکھا۔
>قدم العاصمہ المبشر الاسلامی الھندی میرزا رشید احمد چغتائی الاحمدی لیقوم بجولہ فی ربوع الاردن وھو م الجملعہ الاحمدیہ احدی طوائف الاسلام و مرکزھا فی الھند۔ وامامھا الحالی حضرہ میرزا بشیرالدین محمود احمد وھذہ الجماعہ تعمل علی الدعوہ الی الاسلام والتبشیربالدین الحنیف۔ وینتشراعضاء ھاو مبشروھا فی جمیع انحاء العالم وقددخل فی الاسلام الوف من الناس بفضل جھود افراد ھذہ الجماعہ۔ کما اسست عددا کبیرا من المساجد والجوامع والمراکز التبشیریہ فی اکثرا رجاء العالم ومنھا فی انجلترا وامریکا و افریقیا وجزرالھند والصین والیابان والبانیا و فرنسا وایطالیا وسویسرا۔ وقد ترجمت الجماعہ القران الکریم الی عشرلغات اجنبیہ۔
ویبلغ عدد الاحمدیین فی العالم عدہ ملایین وتعتقد جماعہ الاحمدیین بان موسسھا الاول حضرہ میرزا احمد )علیہ السلام( المولود سنہ ۱۸۳۵ء والمتوفی سنہ ۱۹۰۸ء ھوالمھدی المنتظر والمسیح الموعود والمجدد للقرن الرابع عشرھجری۔ وقد جاد لیقیم الشریعہ المحمدیہ ویحی الدین ویخدم الاسلام حتی تکون الغلیہ لہ۔ وقد الف وکتب ۸۰ کتابا علھا فی تائید الاسلام والدفاع عنہ۔ وبعضھا باللغہ العربیہ الفصحی۔ وقد اطلعنا المبشر الضیف علی فشرات مختلفہ تصدرھا الجماعیہ الاحمدیہ فی الھند وخارجھا- کما اخبرنا ان افراد ھذہ الجماعہ قاموابدعایہ واسعہ لقضیہ فلسطین فی مختلف مرکزھا وخاصہ فی الھند۔ حیث اصدر میرزا بشیرالدین رسالہ بالغہ الاردیہ یشرح فیھا قصیہ فلسطین< ۶
)ترجمہ( ان دنوں برصغیر سے میرزا رشید احمد چعتائی الاحمدی مملکت شرق الاردن کے دورہ کی غرض سے دارالسلطنت عمان میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اسلامی فرقوں میں سے ایک فرقہ ہی جس کا مرکز ہندوستان میں ہے اور جس کے موجودہ امام حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد ہیں۔ یہ جماعت اعلائے کلمہ السلام میں مصروف ہے اور اس کے افراد اور مبشرین اکناف علام تک پھیلے ہوئے ہی اس جماعت کی شاندار مساعی کے نتیجہ میں جہاں ہزاروں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں وہاں دنیا کے اکثر حصوں میں مسجدیں` مدرسے اور تبلیغی مشن قائم ہوچکے ہیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ انگلستان` امریکہ` افریقہ` چاوا` سماٹر وغیرہ جزائر ہند چین` جاپان` فرانس` اٹلی` سوئٹزرلینڈ وغیرہ۔ یہ جماعت دس غیرملکی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم بھی کرچکی ہے۔
دنیا بھر میں احمدیوں کی تعداد چند ملین ہے۔ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت میرزا احمد)علیہ السلام( )جن کی ولادت ۱۸۳۵ء میں اور وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی` مہدی منتظر` میسح موعود اور چودھویں صدی کے مجدد ہیں اور آپ کی آمد شریعت محمدیہ کے قیام` احیائی دین اور خدمت اسلام کے لئے ہوئی تھی تاکہ اسے غلبہ نصیب ہو۔ آپ نے اسی کے قریب کتابیں تالیف فرمائیں جو سب اسلام کے دفاع اور تائید میں تھیں اور جن میں سے بعض فصیح عربی زبان میں ہیں۔ ہمیں مولوی صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے برصغیر اور بیرونی ممالک میں شائع ہونے والا لٹریچر بھی دکھایا۔ نیز اس جدوجہد سے بھی مطلع کیا جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مختلف مشنوں نے کی ہے۔ بالخصوص برصغیر میں خود حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد )امام جماعت احمدیہ( نے قصیہ فلسطین پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک خاص مضمون شائع فرمایا۔
اردن کی اہم شخصیتوں تک پیغام احمدیت
قیام اردن کی دوران مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مجاھد بلاد عربیہ نے اردن کی بہت سی ممتاز شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں اور ان تک احمدیت کی آواز پہنچائی۔ مثلاً
۱۔
السید عبدالرحمن الخلیفہ رئیس الدیوان الملکی )پرائیویٹ سیکرٹری شاہ اردن(
۲۔
صاحب السعادہ سعید پاشا مفتی )وزیرداخلہ اردن(
۳۔
السیدمحمد امین الشنقیطی )وزیرتعلیم وقاضی قضاہ(
۴۔
فوزی پاشا ملقی )وزیرخارجہ اردن(
۵۔
عبدالل¶ہ النجار )اردن میں لبنانی وزیرمفوض(
۶۔
شیخ عبدالعزیز )اردن میں سعودی وزیر مفوص(
۷۔
عبداللہ بک تل )لیفٹیننٹ جنرل۔ فلسطینی محاذ کے نامور جرنیل و بیت المقدس کے فوجی گورنر(
۸۔
بہجت بک تلحونی رئیس محکمہ ہدایت اربد۔ )جو چار دفعہ اردن کے وزیراعظم بنائے گئے(
۹۔
ھزاع المجالی رئیس بلدیہ العاصحہ ومدیرالتشریفات الملکیہ )آپ بھی بعد میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچے( علاوہ ازیں مکرم مولوی صاحب موصوف کو اسمبلی کے ممبروں` مختلف مدراس کے ہیڈ ماسٹروں اور سماجی لیڈروں سے بھی ملنے کا موقعہ ملا۔
جناب بہجت تلحونی سے اردن میں مبشراحمدیت کی پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے جماعت احمدیہ کی غلبہ اسلام کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو بہت سراہا اور اپنے قلم سے حسب ذیل نوٹ لکھا۔
انہ لمما یثلج الصدر ویحیی القلب ان نری بین ظھرانیناد فی معظم انحلہ العالم مبشرین عالمین مسلمین امثال الاستاد السید رشید احمد جغتائی الھندی البکستانی یعلمون امور الشرع الاسلامی و یسعون لتعلیمھا لرفع رایہ الاسلام فبارک اللہ فیھم واکثر من امثالھم ونفع البشرمن علمھم والسلام علی من اتبع الھدی-
۵/۷/۴۸
بھجت
رئیس محکمہ بدایہ اربد
وزارہ العدلیہ الملکتہ الازدنیہ الھاشمیہ
)ترجمہ( یقیناً یہ امر سینہ میں ٹھنڈک پیدا کرتا اور دل کو شگفتگی` تازگی اور زندگی بخشنا ہے کہ ہم اپنے درمیان اور دنیا کے بیشتر علاقوں اور طرقوں میں مولوی رشید احمد صاحب چعتائی پاکستانی کی مانند تبلیغ کرنے والے مسلم علماء دیکھ رہے ہیں جو شریعت اسلامیہ کی مسائل سکھلانے اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو پیش کرنے میں کوشاں ہیں تاعلم اسلام کو دنیا میں سربلند کرسکیں۔ اللہ تعالٰے ان میں برکت ڈالے۔ ایسے مبلغین بکثرت دنیا میں پھیلا دے اور بنی نوع انسان کو ان کے علم سے فائدہ پہنچائے اور ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر خدا کی سلامتی ہو۔
۵۔ جولائی ۱۹۴۸ء
بہجت
رئیس محکمہ ہدایہ اربد
وزارہ العدلیہ الملکتہ الاردنیہ الہاشمیہ
عیسائیوں کے ایک خصوصی اجتماع میں تقریر
مکرم مولوی رشید احمد صاحب چعتائی نے مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کے گرجوں اور ان کی دیگر مجالس میں بھی راہ درسم پیدا کرکے ہر ممکن طریق سے انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے متعارف کروایا۔
چنانچہ اس ضمن میں ایک موقعہ پر دارالحکومت عمان میں اعلیٰ درجہ کے مشہور کلب >نادی عمان< CLUB) (AMMAN میں عیسائیوں کے ایک خصوصی اور اہم اجتماع میں محترم مولوی صاحب موصوف کو بھی خطاب کرنے کی دعوت دی گئی جسے آپ نے قبول کیا اور اس میں تقریر فرمائی۔ اس اجتماع میں بڑے بڑے عیسائی پادریوں کے علاوہ حکومت اردن کے متعدد وزراء اور بلاد عربیہ و دیگر ممالک کے سفراء پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور زیریں کے کئی ایک ممبران و دیگر روسا` سکولوں و کالجوں کے اساتذہ اور وکلاء مدیران جرائد وغیرہ غرض ہر مذہب وطبقہ کی چیدہ شخصیات موجود تھیں۔
اس جلسہ کی مفصل دو داد اخبار >الاردن< کے ایک خاص نمبر ۷ میں شائع کی گئی۔ جس میں کیتھولک فرقہ کے فلاڈلفیا اور سارے شرق اردن کے بشپ اور پادریوں وغیرہ مسلم وغیرہ مسلم جملہ مقررین کے شائع شدہ اسماء میں محترم مولوی صاحب موصوف کا نام بھی درج تھا۔
حضرت مصلح موعود کا پیغام دالی اردن شاہ عبداللہ ابن الحسین کے نام
‏0] f[rtاردن مشن کا ایک نہایت اہم واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دالی اردن شاہ عبداللہ ابن الحسین کے نام پیغام اور ان سے
ملاقات ہے۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کو اردن میں آنے سے پہلے قیام فلسطین کے دوران )مورخہ ۲۲۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/ ۱۹۴۷ء( شاہ اردن سے مصافحہ کرنی کا موقعہ میسر آیا۔ جس کی اطلاع مولوی صاحب موصوف نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھی بھجوائی۔ نیز لکھا کہ امید ہے کہ میرا یہ مصافحہ مجھے اردن میں پہنچنے اور ان سے دوبارہ ملاقات کا ذریعہ ثابت ہوگا۔۸
حضرت مصلح موعود کے حضور ۵۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو یہ رپورٹ پیش ہوئی تو حضور نے ارشاد فرمایا۔
>اگر ملک عبداللہ سے ملیں تو انہیں میرا سلام کہیں اور کہیں کہ میں ان کے والد مرحوم ۹ سے ۱۹۱۲ء میں مکہ مکرمہ میں حج کے موقعہ پر مل چکا ہوں۔ لمبی گفتگو ایک گھنٹہ تک ہوئی تھی۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ کوئی تیس سال کی عمر تھی۔ اسی طرح میرے برادر نسبتی۱۰ ان کے بھائی امیر فیصل کے دوست تھے۔ شام میں ان کے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ بعد میں ان کی بادشاہی کے زمانہ میں عراق میں ان سے ملے اور انہوں نے ان کی دعوت بھی کی۔
شاہ اردن سے احمدی مبلغ کی ملاقات
جناب مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ پیغام پہنچانے کے لئے ۱۱ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو شاہ اردن سے ان کے شاہی محل )قصر رضدان( میں ملاقات کی۔
بادشاہ معظم آپ کے داخل ہونے پر کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اھلا و سھلا و مرحبا کے الفاظ سے خوش آمدید کیا اور مصافحہ کیا جس کے بعد آپ نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے گزشتہ عیدالاضحیہ سی دو یوم قبل )۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو( بادشاہ معظم سے بیت المقدس میں حرم شریف مسجداقصیٰ میں مصافحہ کیا جس کے بعد مولوی صاحب کے دل میں ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار بھی انہوں نے بذریعہ خط حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں کیا- جس پر حضور نے بادشاہ معظم تک اردو میں اپنا ایک پیغام بھجوایا۔ مبلغ احمدیت نے ان تعارفی الفاظ کے بعد شاہ اردن کی خدمت میں حضور کے پیغام کا عربی ترجمہ پیش کیا۔
شام اردن حضور کے پیغام سے بہت متاثر ہوئے اور آپ نے اس کے جواب میں حسب ذیل الفاظ لکھوائے اور اس پر سرخ روشنائی سے دستخط ثبت فرمادیئے۔
لحضرہ امام الجماعہ الاحمدیہ میرزا بشیرالدین محمود احمد!
قدقرء علی صدیقنا رشید احمد الاحمدی رسالتکم واقرانی سلامکم فی مطلع الجمل اللطیفہ المتعلقہ بی وبوالدی المرحرم و باخی رحمہ اللہ فشکرتکم علی تلک الذکری واثنیت علیکم ثناء المسلم للمسلم` جزیتم خیراء بورک فیکم وانا نامل ان نراکم یوماما ان شاء اللہ فی احسن حالہ المسلمین اجمعین۔ وای حنا ساعمل علی مساعدہ کل اخ میں الھند الباکستان اذا احتاج الی تلک المساعدہ والسلام علیکم ورحمہ اللہ۔
)ترجمہ( بحضور حضرت امام جماعت احمدیہ میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب!
آپ کا پیغام ابھی ہمارے دوست رشید احمد صاحب احمدی نے مجھے پڑھ کر سنایا ہے اور آپ کا سلام بھی مجھے پہنچایا ہے جو آپ کے خوبصورت اور پاکیزہ جملوں کے شروع میں ہے اور جو مجھ سے اور میرے والد مرحوم اور میرے بھائی سے متعلق ہیں۔ میں اس یاد فرمائی پر آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کی بہت تعریف کرتا ہوں جیسا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تعریف کرتا ہے۔ بارگاہ الٰہی سے آپ کو جزائے خیر عطا کی جائے اور آپ کی برکت حاصل ہو۔ ہمیں امید ہے کہ ہم آپ کو کسی وقت تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم الشان حالت پر پہنچا ہوا دیکھیں گے اور میں یہاں اپنے ہر پاکستانی بھائی کی جب بھی ضرورت پڑے مدد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ والسلام علیکم ورحمتہ اللہ
شاہ معظم نے یہ عقید تمندانہ جواب لکھوانے کے بعد مولوی رشیداحمد صاحب چغتائی کی ذاتی نوٹ بک پر اپنے قلم سے حسب ذیل عبارت تحریر فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
احمدہ واصلی علے نبیہ الکریم والہ وصحبہ اجمعین
انی اثبت بھذا الدفترالمبارک للمبشرالاسلامی السیدرشیداحمد جغتائی الاحمدی شھادہ ان لا الہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ واحییہ وجمع المسلمین بتحیہ السلام
عبداللہ
۳ رجب الغراء ۱۳۶۲ھ عمان شرق الاردن
)مھر( الدیوان الھاشمی
)ترجمہ( اللہ کے نام کے ساتھ جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں اس عبارت کو شروع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں اور اس کے نبی کریم اور آپﷺ~ کے آل واصحاب سب پر درود بھیجتا ہوں۔
میں احمدی مبلغ اسلام مولوی رشیداحمد صاحب چغتائی کی اس بابرکت کاپی میں کلمہ شہادت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ تحریر کرتا ہوں اور میں مولوی صاحب کو اور تمام مسلمانوں کو السلام علیکم کا تحفہ دیتا ہوں۔ والسلام
)شاہی دستخط( عبداللہ
۳ رجب ۱۳۶۷ ہجری۔ عمان شرق الاردن
)مہر( الدیوان الہاشمی
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی نے دوران ملاقات تحریک جدید کے ۱۹۳۹ء میں مطبوعہ البم (ALBUM) سے حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی کی شبیہ مبارک آپ کے سامنے رکھی۔ فوٹو دیکھتے ہی شاہ اردن کی زبان سے بیساختہ یہ الفاظ نکلے >مااحلی ھذہ الصورہ<! کتنی ہی پیاری یہ تصویر ہے! مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو بھی دکھایا جسے آپ نے گہری نظر سے دیکھا۔
بعدازاں مکرم مولوی صاحب نے شاہ معظم کی خدمت میں حضرت مصلح موعود نے مضمون >تقسیم فلسطین اور اقوام متحدہ<۱۱ کا عربی ٹریکٹ پیش کیا جسے شاہ نے بخوشی قبول فرمایا اور پورے ٹریکٹ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے جب اس میں جنرل سمطس کا نام دیکھا تو فرمایا >دشمن فلسطین پھر فرمایا کہ< میں اسے غور سے پڑھوں گا اور انشاء اللہ فائدہ اٹھائوں گا<
آخر میں بادشاہ نے مملکت اردن اور پاکستان کے اسلامی روابط و تعلقات اور اتحاد و اتفاق پر گفتگو فرمائی۔ شاہی محل قصر رغدان میں ملک معظم سے یہ ملاقات بیس منٹ تک جاری رہی۔۱۲
اس ملاقات کی خبر عمان کے اخبار >الاردن< نے اپنی ۲۱ رجب ۱۳۶۷ھ مطابق ۲۹۔ مئی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں دی۔۱۳
اردن کے سب سے پہلے احمدی
سلطنت اردن کے قدیم اور تاریخی شہرالکرک کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اردن میں سب سے پہلے وہاں احمدیت کا بیج بویا گیا اور مشہور قبیلہ المعایطہ کے سردار کے بڑے لڑکے السیدعبداللہ الحاج محمدالمعایطہ اور ان کے بعض افراد خاندان داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔
اردن مشن کی اسلامی خدمات زائرین کی نظر میں
اردن مشن اگرچہ صرف سوا سال تک قائم رہ سکا تاہم اللہ تعالٰے کے فضل وکرم سے اس نہایت قلیل عرصہ میں اس کو خاضی اہمیت حاصل ہوگئی اور اس کی اسلامی خدمات ملک کے اونچے اور علمی طبقے میں بڑی قدر اور احترام کی نظر سے دیکھی جانے لگیں۔
اس حقیقت کا اندازہ ان تاثرات سے بخوبی ہوسکتا ہے جو اردن مشن کی اسلامی خدمات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور مشن میں آنے والے زائرین نے خود قلمبند کئے اور جو ریکارڈ میں اب تک محفوظ ہیں۔ جن شخصیات کے تاثرات ہمیں اس ریکارڈ میں ملتے ہیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
السید محمد نزال العرموطی درمیمس )یوان قاضی القضاہ و رئیس ندوہ عربیہ عمان( السید سلیمان حدیدی )مالک ومدیر مجلہ >الیقظہ(< محمد تیسیرظبیان )ہیڈماسٹر مدرسہ علوم اسلامیہ مالک و مدیر اخبار >الجزئرہ(< انیس خلیل نصر )مدیر >الاردن(< السید صحبی القطب )مالک و مدیر جریدہ< >النسر(< الشیخ عبداللہ الرباح )شرعی وکلی( الاستاذ خیری المحماد )اسسٹنٹ ڈائریکٹر وکالتہ الانباء العربیہ۔ عرب نیوز ایجنسی( السید جودت الخطیب )آفیسر محکمہ پاسپورٹ اردن( السید عمرخلیل المعانی )ایڈووکیٹ عمان( السید واصف فخرالدین )استاذ اسلامیہ کالج عمان(
بعض اہم تاثرات کا عربی متن مع اردو ترجمہ کے ذیل میں سپرد قلم کیا جاتا ہے۔
۱۔
صاحب المعالی فوزی باشاملقی وزیر خارجیتہ المملکتہ الاردنیتہ الھاشمیہ-:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سرنی واللہ لقاء المسلم الغیور رشید احمد جغتائی الاحمدی و اکبرت فیہ رغبہ صادقہ فی تحقیق مبادی رفیعہ یعتقد انھاخیر مایقدم للناس فی مشارق الارض رمغاربھا وان الاخلاص للعقیدہ لاتی تعمرفوادہ بعث بہ الی الاقطار المختلفہ بعیدا عن اھلہ و وطنہ فی سبیل الدعوہ التی تعتبرالعالم کلہ وطنا راجدا والعالمین جمیعا۔ اھلالہ وسکانا حفظہ اللہ وابقاہ
۳۱/۷/۱۹۴۸ فوزی ملقی
ہزایکسی لنسی فوزی پاشا ملقی وزیر خارجہ مملکت اردنیہ ہاشمیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بحدالملک غیور مسلمان عالم مکرم مولوی رشید احمد صاحب چعتائی سے ملاقات کرکے مجھے غلیت درجہ مسرت حاصل ہوئی ہے میں ان کی اس سچی تڑپ سے بھی بہت متاثر ہوا ہوں جو وہ اپنے دل ان بہترین اور عظیم الشان اصولوں اور تعلیم کو لوگوں میں قائم اور راسخ کرنے کے واسطے موجود پاتے ہیں اور جس کے بارہ میں آپ کا اعتقاد ہے کہ یہی وہ بہترین چیز ہے جسے دنیا کے مشاق و مغارب میں ہر جگہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔ وہ عقیدہ کہ جس سے ان کا دل معمور ہے اور وہ پیغام جو تمام دنیا جہاں کے جملہ ممالک کو گویا ایک ہی وطن تصور کرتا ہے اس سے والہانہ اخلاص ہی نے آپ کو اپنے وطن اور اہل وعیال سے دور مختلف ممالک میں پہنچادیا ہے۔ آپ کے خیر مقدم اور بہتر قیام کی نیک خواہش کے ساتھ ہی میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور آپ کو لمبی عمر بخشے۔ آمین۔
۳۱۔ جولائی ۱۹۴۸ء
فوزی ملقی
وزیرخارجہ مملکتہ اردنیہ الشمیہ
۲۔
صاحب المعالی سعید باشا المفتی
وزیرالداخلیتہ للمملکتہ الاردنیتہ الھاشمیتہ
بارک اللہ بالسید رشید احمد الجغتائی وبامثالہ الذین یعملون لخیر الاسلام والدین الحنیف۔ لھم بذلک اجرھم فی الدنیا وفی الاخرہ۔
۱۴/۳/۱۹۴۹ء
عمان سعید المفتی
وزیرالداخلیتہ للملکتہ الاردنیہ الھاشمیتہ
ہزایکسی لنسی سعید پاشا المفتی
وزیر داخلہ شرق الاردن
>اللہ تعالٰے اپنے برکات وافضال محترم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی اور آپ جیسے مبلغین اسلام پر نازل فرمائے کہ جو دین حنیف اسلام کی بھلائی اور بہترین کے واسطے سرگرم عمل ہیں۔ یقیناً دنیا و آخرت میں انہیں اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔
عمان سعید المفتی
۱۴۔ فروری ۱۹۴۹ء وزیرداخلہ مملکت اردنیہ
ہاشمیہ
۳۔
صاحب السعادۃ عبداللہ النجار۔ القائم باعمال المفوضیتہ اللبنانیتہ بعمان
>الناس اعداء ماجھلوا۔ لذلک نرجوا ایفھم العالم ولا سیما الغربی منہ حقیتہ الاسلام۔ فیقوی التاخی بین الاقوام علی ید المبشرین المخلصین امثال المبشر الاسلامی السید رشیداحمد جعتائی الاحمدی الذی تفضل بزیارتی وحدثنی بلسان عربی مبین۔
۱۹۴۸۔۱۷۔۷
عبداللہ النجار
القائم باعمال المفوصیہ الجمھوریہ اللبنانیہ
بعمان
عمان میں جمہوریہ لبنانیہ کے سفیر ہزایکسی لنسی عبداللہ النجار
لوگ لاعملی اور ناواقفیت کے باعث ایک دوسرے سے دشمنی رکھتے ہیں۔ سو ہماری تمنا ہے کہ مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی ۔۔۔۔ جنہوں نے مجھے ملاقات کا شرف بخشا اور فصیح و بلیغ عربی زبان میں مجھ سے گفتگو کی ۔۔۔۔۔ نیز آپ جیسے مخلص مبلغین کرام کے ہاتھوں تمام جہاں بالخصوص مغربی دنیا حقیقت اسلام کو سمجھ لے جس کے نتیجہ میں قوموں کے درمیان محبت و اخوت کو تقویت حاصل ہو۔
عبداللہ النجار
قائم باعمال المفروضیہ )سفارت خانہ لبنانیہ(
۱۷/۱۹۴۸۷ عمان
۴۔
مفتی الدیار الاردنیہ
فضیلہ الشیخ الاستاذ محمد فال البیضادی الشنقیطی
>شام الحظ ان یصادفع بلقاء الاستاد السید رشید احمد جغتائی الاحمدی المبشربالدین الاسلامی فی البدان الاجنبیہ فوجدتہ مثالا للکمال واللطف والادب الاسلامی وابی الا ان اثبت لتواضعہ الرغبہ فی ان ادون فی دفترہ ھذا المبارک اسمی فھا انا اسجلہ شاکرالہ جھدہ فی نشر الاسلام سائلالہ التوفیق من اللہ تعالی والعون علی مھمتہ۔
عمان
۷ رجب ۱۳۶۷ ۔ ۱۵/۵/۱۹۴۸ء
مفتی الدیار الاردنیہ
محمد فال البیضادی الشنقیطی
مفتی اعظم مملکت اردنیہ ہاشمیہ حضرت فضیلت ماب شیخ محمد فال بیضادی شنقیطی
میری خوش نصیبی نے مجھے غیر ممالک میں فریضہ تبلیغ بجالانے والے مبلغ اسلام مکرم مولوی رشید احمد صاحب چغتائی احمدی سے ملاقات کی سعادت بخشی۔ میں ے آپ کو کمال` لطف اور ادب اسلامی میں مثالی شخصیت پایا ہے۔ آپ کی خواہش کے مطابق میں آپ کے اس رجسٹر میں اپنا نام درج کرتے ہوئے اشاعت اسلام کے لئے آپ کی مساعی کو قدر و شکریہ کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰے آپ کی جدوجہد میں آپ کا معین و مددگار ہو اور بہتر طور پر اس خدمت کو سرانجام دیتے رہنے کی توفیق بخشتا رہے۔ آمین۔
مفتی اردن
محمد فال بیضادی شنقیطی
عمان ۷ رجب ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء
حضرت مصلح موعود کے دست مبارک سے لکھے ہوئے ایک مکتوب کا چربہ
مندرجہ ذیل مکتوب حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۹ہش )۱۹۵۰ء( میں مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مبلغ بلاد عربیہ مقیم لبنان کے نام تحریر فرمایا تھا۔
فصل دوم
افتتاح ربوہ کے بعد نئی بستی کی آبادی
اور تعمیر کے ابتدائی انتظامات
خلیفہ الرسول حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اگر عراق میں کوفہ` بصرہ` موصل اور مصر میں نسطاط جیسے بڑے شہر بسائے تو سیدنا حضرت فضل عمر نے اپنے عہد خلاف میں سندھ میں مختلف گائوں آباد کرنے کے علاوہ اپنے دست مبارک سے ۲۰ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو جماعت احمدیہ کے نئے عالمی مرکز۔۔۔ ربوہ ۔۔۔۔ کی بنیاد رکھی اور حواوث کی آندھیوں اور مخالفت کے طوفانوں میں سے گزرتے ہوئے اپنی نیم شبی دعائوں حیرت انگیز ذہانت` بے مثال مدبرانہ قابلیت` صلاحیت اور انتہا درجہ کی مشقت وجانفشانی سے ایک لق ودق صحرا کو ایک بارونق شہر میں بدل ڈالا جس سے دنیا کی مذہبی تاریخ میں ایک نئے باب کا کا اضافہ ہوا۔
مرکز ربوہ کا قیام حضرت مصلح موعود کا ایک نہایت شاندار` عدیم النظیر اور زندہ و تابندہ کارنامہ ہے` جو رہتی دنیا تک مشہور عالم رہے گا۔ لہذا ضروری ہے کہ واقعات میں اس کا سلسلہ وار تذکرہ کیا جائے تا اس کی تدریجی ترقی کے مختلف مراحل وارداد پر مفصل روشنی پڑسکے۔
اس فصل میں ان ابتدائی انتظامات کا بیان مقصود ہے جو بستی کی بنیاد سے لے کر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آخر تک اس کی آبادی اور عارضی اور کچے مکانات کی تعمیر کے لئے عمل میں لائے گئے۔
ربوہ میں مرکزی دفاتر کا اجراء
‏]txte [tagربوہ کی افتتاحی تقریب کا ذکر پچھلی جلد میں آچکا ہے۔ افتتاح ربوہ کے بعد چودھری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے منتظم اعلیٰ نے بابو فضلدین صاحب اوورسیر اور دیگر احباب کے مشورہ سے اس مقدس مقام کو جہاں حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے پہلی نماز ادا فرمائی تھی مرکز قرار دے کر اس کے چاروں طرف خیمے اور چھولداریاں نصب کرا دیں ۱۴ جن میں صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور تحریک جدید دونوں اداروں کے دفاتر نئے مرکز میں کھل گئے اور بیرونی دنیا سے اس کا سلسلہ مراسلت بھی چنیوٹ کے پتہ پر جاری کردیا گیا۔
۲۷ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود کی طرف سے دفتر بیت المال کو بھی ربوہ بھجواے کی ہدایت دے دی گئی نیز یہ کہ آئندہ خط و کتابت ربوہ کے پتہ پر ہو۔ دفتر بیت المال کی نقل مکانی کے جلد بعد دفتر محاسب بھی قائم ہوگیا۔ بلکہ دفتر حفاظت مرکز کے سوا اکثر مرکزی دفاتر نے ربوہ میں کام کرنا شروع کردیا۔
خیموں کی ازسرنو تنصیب
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی ہدایت پر ۲۶ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ربوہ کے خیمے دوبارہ نصب کئے گئے۔ اس نئی ترتیب کے مطابق خیموں کا نقشہ یہ تھا۔
ربوہ کے خیمہ نشینوں کے لیل ونہار اور ان کی مشکلات پر ایک نظر
سلسلہ کے وہ ایثار پیشہ اور مخلص خدام جو مرکز احمدیت کی ابتدائی داغ بیل اور آبادی کیلئے اس وادی غیرذی نوع میں دھونی رما کے
بیٹھ گئے تھے کئی ماہ تک مشکلات کے ہجوم میں گھرے رہے۔ ذیل میں ہم اس دور کے دو خطوط کا ملخص درج کرتے ہیں جس سے ان کی مشکلات کا کسی قدر اندازہ ہوسکتا ہے۔
۱۔
چودھری عبدالسلام صاحب اختر نے ۲۱۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو جناب ناظراعلیٰ صاحب کی خدمت میں لکھا اس وقت سب سے بڑی دقت پانی کی ہے۔ نلکہ یہاں سے تقریباً پون میل کے فاصلہ پر ہے اور پانی دھوپ میں لانے کے لئے سخت پریشانی ہوتی ہے۔ ربوہ کی ڈاک پوسٹ ماسٹر چنیوٹ کی معرفت آنی چاہئے۔ الفضل چنیوٹ ایجنسی کے ذریعہ بھیجا جائے۔ طبی انتظام کے لئے یہاں ایک کمپائونڈر کی اور روشنی کے لئے کم از کم دس عدد لالٹینوں کی ضرورت ہے۔ )ملخص(۱۵
۲۔
چودھری عبدلباری صاحب نائب ناظر بیت المال نے ۲۵۔ تبوک/ستمبر کو ناظراعلیٰ صاحب کے نام ایک چھٹی میں لکھا کہ یہاں حالت یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسرا بیمار پڑرہا ہے۔ کوئی طبی امداد میں نہیں۔ یہاں کل نفری ۲۵ سے زائد نہیں۔ لیکن اس میں سے بھی بھی پانچ چھ بیمار ہیں۔ ہمارے اور اوورسیر بھی بیمار ہوگئے ہیں۔ ان کا علاج کرنے والا کوئی نہیں۔ سروے کا کام ہو تورہا ہے۔ لیکن ذرا سست ہی ہے۔ کل شام سے تیز ہوا چل رہی ہے۔ شاید ابھی دس دن اور لگیں کہ کام ختم ہو۔ چودھری سلطان احمد صاحب بسرا نے چار صد بوری گندم خریدلی ہے۔ ربوہ میں جگہ نہیں اس لئے مجبوراً احمدنگر رکھی جائے گی۔ کل یہاں پر شدید آندھی آئی جس نے نہ خیمے چھوڑے اور نہ باقی چیزیں )ملخصاً(۱۶
تعمیر مرکز کیلئے حضرت مصلح موعود والہانہ شوق
حضرت مصلح موعود کی ابتداء ہی سے زبردست خواہش اور بے پناہ تڑپ تھی کہ نئے مرکز کی عارضی تعمیرات کا سلسلہ جلد شروع ہو اور آپ اس میں فی الفور منتقل ہوکر اس کی مستقل آبادی کا بندوبست اپنی نگرانی میں انجام دیں۔ چونکہ احمدیت کی مخالف جماعتیں قیام مرکز کے منصوبہ کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی تھیں اور در پردہ سازشوں کا گویا جال بچھا ہوا تھا اس لئے افتتاح ربوہ کے بعد حضور کا یہ والہانہ شوق فکر مندی` بیقراری اور تشویش میں بدل گیا اور آپ آٹھوں پہر اس کے لئے بے چین رہنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں حضور کی صدارت میں رتن باغ کے اندر صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے افسروں کی مشاورتی مجلس میں جو معاملات زیر غور آتے تھے ان میں تعمیر ربوہ کے مسئلہ کو مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی اور حضرت امیرالمومنین کی خصوصی توجہ اور انہماک کا تو یہ عالم تھا کہ حضور انور اس بارے میں اس طرح جزئیات وتفصیلات تک میں رہنمائی فرماتے کہ اہل مجلس دنگ رہ جاتے۔
مثلاً افتتاح ربوہ کے تیسرے روز ۲۲۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضور نے جو مفصل ہدایات دیں ان کا ملخص مشاورتی مجلس کے ریکارڈ میں حسب ذیل الفاظ میں درج ہے۔
>اختر صاحب۱۷ سے مل کر ۱۴` ۱۶` ۱۸` ۲۰` ۲۲ اور ۲۴ کی جس قدر ریلیں۱۸ مل سکیں لینے کی کوشش کی جائے اور اختر صاحب کو کہا جائے کہ جلد کوشش کریں۔<
فی الحال ایک کمرہ ۱۲ x ۱۴ x ۱۳ کے چھ صد مکانات بنوالئے جائیں جن میں سے دو صد ادنیٰ قسم کے )کچے( اور چار صد اعلیٰ )پکے( مکانات بنوالئے جائیں۔ ان کا موٹا اندازہ یہ ہوگا۔
ادنیٰ مکانات:
لکڑی کے گولے
۲۵۰۰
کھڑکیوں وغیرہ کے لئے
۸۰۰۰
اعلیٰ مکانات:
گیلی دوہزار دیار یاکیل
۴۰۰۰۰
بالے اٹھارہ ہزار
۲۷۰۰۰
ریل آٹھ صد ۱۴ فٹ
۱۲۰۰۰
دروازوں وغیرہ کی بنوائی
۲۳۰۰۰

پیچ قبضے وغیرہ
۸۰۰۰
روغن
۳۲۰۰
چنائی چھ صد مکانات
۲۸۰۰۰
دیواریں وغیرہ
۲۵۰۰۰
متفرق
۹۰۰۰
ٹوٹل
۱۸۵۷۰۰ روپے
ان سب کاموں کے لئے آدمی مقرر کردیں جو ان کا انتظام کریں اور اپنا اسٹیمیٹ بنائیں۔ ہر کمرہ میں ایک دروازہ` دو کھڑکیاں اور دو الماریاں اور تین روشندان ہوں گے۔ سب سے پہلے کچھ ماڈل مکانات بنائے جائیں۔ نیز انجمن` ناظروں اور نائب ناظروں کے لئے بھی مکانات بنوائے اور ان کے نقشے تیار کئے جائیں۔ ان کا کرایہ ان سے لیا جائے گا۔
سیمنٹ کی تین ہزار بوریاں خرید لی جائیں جو چنیوٹ میں رکھی جائیں۔ کچی اینٹوں کی تیاری فوراً شروع کی جائے اور پکی کے لئے پانچ لاکھ کا بھٹہ تیار کیا جائے۔
جامع مسجد کے لئے کم از کم ۷۰ کنال زمین رکھی جائے۔
قادیان خط لکھ کر مسجد مبارک و مسجد اقصیٰ کی پیمائش منگوائی جائے۔
زمین کے لئے روزانہ اخبار میں چوکھٹوں کی صورت میں اعلان ہو اور لوگوں کو (LEASE) کے متعلق دوسرے شہروں لندن` امریکہ` افریقہ وغیرہ کی مثالیں دے کر توجہ دلائی جائے کہ آجکل یہی دستور ہے اور یہی فائدہ مند صورت ہے۔
سروے جو ہو اس کے متعلق ہدایت ہو کہ ہر سو فٹ پر دیکھا جائے کہ ریلوے لائن اور سڑک کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔<
>مکان کا نقشہ فوراً تجویز ہونا چاہئے۔ ہمیں ایسا نقشہ چاہئے جس کا ایک پارٹ بنے اور اس کی آگے تکمیل ہو۔ پھر ہم نے اس میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ کس طرح خرچ کم کیا جائے۔
پرائمری سکول فوراً ہمارے جاتے ہی شروع ہوجائے جس دن جائیں اسی دن سکول شروع ہو جائے۔ لکڑی` ریل تو فوراً جمع ہونی چاہئے۔ اگر یہ جمع ہوجائیں تو کام شروع ہوسکتا ہے۔ فوراً نام وار فہرست بناکر مجھے دیں کہ فلاں عملے کے لئے کتنے مکان چاہئیں۔<
>یہ بھی دیکھا جائے کہ کچے مکان وہاں رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر رہ سکتے ہوں تو کچے مکان بنائے جائیں کیونکہ پانچ سات مکانات کا بناکر توڑنا مشکل نہیں اس حالت سے جو اب ہے<
>وکیل المال کے دونوں افسروں میں سے ایک وہاں فوراً جائے تاکہ روپیہ وصول ہوسکے۔ وہاں ڈاک خانہ والوں کو لکھنا چاہئے جس میں عزیز احمد کو اتھارٹی ہو۔
فوراً ایک افسر اور کلرک تحریک وکیل المال وہاں جائے جب تک ذمہ دار افسر نہیں جائیں گے` کام نہی ہوگا۔ شہروں اور قوموں کی آبادی بغی تکلیف کے نہیں ہوتی۔<۱۹
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کا مکتوب حضرت مصلح موعود کی خدمت میں
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے ۳۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ربوہ سے انتظامات سے متعلق
حسب ذیل مکتوب لکھا۔
>قیام مرکز ربوہ کے کام کر سرسری نظر سے دیکھنے پر مجھے احساس ہوا ہے کہ یہ کام کسی اچھی تنظیم کے ماتحت نہیں چل رہا اور تقسیم کار بھی درست نہیں ہے۔ کام کے ایک حصہ کے متعلق جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس کا کام صرف اتنا تجویز کیا گیا ہے کہ وہ ضروری اطلاعات مہیا کرے۔ درخواست ہائے خریداراضی کا کام بھی امورعامہ سے تولے لیا گیا ہے مگر ابھی تک کسی اور کے سپرد نہیں ہوا۔ میرے خیال میں بہتر ہوگا کہ قیام مرکز کے تعلق میں مختلف قسم کے کاموں کی تعین کرکے پھر انہیں مختلف ذمہ دار افسروں کے سپرد کردیا جائے اور بعض افسروں کے ساتھ مشورہ کے لئے کمیٹیاں بھی مقرر کردی جائیں۔ موجودہ صورت میں غلط فہمی پید ہورہی ہے جس کے نتیجہ میں کام کا بھی نقصان ہورہا ہے۔ جو کام میرے ذہن میں آئے ہیں ان کا نقشہ ذیل میں درج کرکے ارسال خدمت کررہا ہوں۔ اگر حضور اسے منظور فرمائیں تو پھر ان کاموں کے متعلق ہدایت فرمادیں کہ کس کس کے سپرد ہوں۔
۱۔
فروخت و تقسیم قطعات۔
۲۔
مفت تقسیم ہونے والے قطعات کی تقسیم
۳۔
نقشہ آبادی کی تیاری اور اس کے متعلق حکومت سے منظوری حاصل کرنا۔
۴۔
آبادی میں مجموعی ڈرینیچ کا انتظام
۵۔
جماعتی عمارتوں )مساجد` مہمان خانہ` دفاتر وغیرہ( کا نقشہ تجویز کرنا اور ان عمارتوں کی تیاری
۶۔
پرائیویت عمارتوں کے نقشہ کی منظوری
۷۔
دکانوں اور کارخانوں کے لئے قطعات تجویز کرنا۔
۸۔
عمارتی سامانوں کے متعلق ضروری اطلاعات مہیا کرنا اور بعد منظوری بعض چیزوں کا مشترکہ انتظام کرنا۔
۹۔
ربوہ کی لئے اسٹیشن اور ڈاکخانہ اور تارگھر اور ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ کا حکومت کے ذریعہ انتظام کروانا۔
۱۰۔
آبادی کے لئے بجلی و پانی کا مجموعی انتظام تجویز کرنا۔
۱۱۔
جماعتی ضروریات کے لئے اجناس خور` نوش و ایندھن و تیل وغیرہ کی فراہمی
۱۲۔
صدرانجمن و تحریک جدید کے دفتروں و اداروں کے منتقل کرنے کا انتظام
۱۳۔
قیمت قطعات اراضی کی وصولی
۱۴۔
نئی آبادی میں اجناس اور لیبر کے ریٹوں کو کنٹرول میں دیکھنے کا انتطام
۱۵۔
پہرے اور حفاظت کا انتظام
اگر حضور ان کے متعلق فرمادیں تو انشاء اللہ کام میں سہولت رہے گی اور اس میں حرج نہیں کہ ایک ایک آدمی کے سپرد ایک سے زیادہ شعبے ہوں اور پھر ان سب افسروں کی ایک مشترکہ کمیٹی ہو جو حضور کی ہدایت کے ماتحت کام کرے۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیراحمد
۱۹۴۸ء۔۱۰۔۳
حضرت مصلح موعود کی طرف سے راہ نما اصولوں کی تعین
اس مکتوب پر حضرت سیدنا المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے ۴ اور ۶۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو شہر آبادی کے لئے نہایت اہم راہنما اصولوں تجویز فرمائے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
۱۔
فروخت کا سوال نہیں جو کمیٹی بنائی گئی ہے تقسیم قطعات کے متعلق ان اصولوں کے مطابق فیصلہ کرے گی جو شائع ہوچکے ہیں یا آئندہ بنائے جائیں گے۔ اس کا انچارج اوورسیر ہوگا۔ اس کے متعلق یہ ہونا چاہئے۔ )ا( جس ترتیب سے روپیہ آتا ہے اسی کے مطابق قطعات دیئے جائیں۔ جو روپیہ پہلے دیتا ہے اس کا پہلے حق ہے۔
)ب( دوسرا گر قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص جنت میں اعلیٰ مقام قرب کا حاصل کرتا ہے تو اس کے قریبی رشتہ دار بھی انعام کے طور پر قریب رکھے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہاں بھی جو شخص پہلے روپیہ دے تو اس کے قریبی رشتہ داروں کو اس کے قریب رکھنے کی رعایت دی جاسکے گی۔ بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی کا حق نہ مارا جائے اور سلسلہ کا نقصان نہ ہو۔
)ج( انجمن اور تحریک کی عمارتوں کو قمدم رکھا جاوے۔
)د( جس شخص کو زمین ملے اس کے کاروبار کے لئے بھی قریب کی زمین رکھی جاوے۔ مثلاً دکان کا قریب بنانا۔ اس بات کی اہمیت رکھی جائے گی۔ اس دلیل کو یہ نسبت دوسری بات کے زیادہ مانا جائے گا بشرطیکہ وہ دوکان اپنی ذات میں مضر نہ ہو۔ جس چیز میں ہماری پالیسی اس کے خلاف ہوگی اس میں اس کا یہ حق نہ ہوگا یا کیریکٹر کے لحاظ سے۔ اسی طرح کوئی دوسرا کام جو معیشت سے تعلق رکھتا ہو مثلاً دفتر` کارخانہ` اس صورت میں اس کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا لیکن سلسلہ کی ضرورت مقدم ہوگی۔
۲۔
مفت تقسیم کے لئے بھی کچھ اصول پہلے مقرر کئے جائیں۔ مثلاً
)۱( غرباء اور جن کے ذاتی مکان قادیان میں تھے۔
)ب( مختلف پیشہ وروں کو مدنظر رکھا جائے۔ ۲۰ زمین میں سمجھی جائے گی لیکن مقدم رکھیں گے مکان والے کو کیونکہ زمین والا اس پلاٹ کے بغیر کہیں رہ رہا ہے۔
)ج( غریب جو قادیان میں رہتا تھا۔
)د( جس کا مکان یا پلاٹ قادیان میں تھا۔
)ہ( محلہ مسجد مبارک کے ہمارے قبضہ میں ہونے سے یہ نہیں سمجھا جائے گا اس حلقہ میں کسی کے مکان یا پلاٹ کا ہونا اس کے حق کو باطل کردے گا۔
)و( پلاٹ اگر کم ہوجائیں تو مکان والے کو مقدم رکھا جائے گا بشرطیکہ پیشہ وروں کی تقسیم کے لحاظ سے خالی زمین والے کو اہمیت حاصل نہ ہو۔
)ز( پیشے یہ ہوسکتے ہی۔ نائی` دھوبی` درزی` لیبرر` سقہ` موچی` ترکھان` لوہار` معمار` قلعی گر` سنار` رنگریز` پینجا` جولاہا` تیلی
۳۔
نقشہ جات کی تیاری کا کام اوورسیر کا ہے۔ حکومت سے متعلقہ سارے کام نواب محمد دین صاحب کریں گے۔ اس وقت نقشہ کا کام عبدالباری کے سپرد ہے` اسی کو رکھئے۔
۴۔
اوورسیئر۔ اس کی منظوری گورنمنٹ نے دینی ہے۔
۵۔
جہاں تک نقشہ کی تیاری کا سوال ہے یہ اوورسیئر کا کام ہے۔ باقی اس کی منظوری کمیٹی دے گی۔
ا۔ ایک کمیٹی بنائی جائے جو تمام عمارتی اور تعمیری کاموں کی سروے رپورٹ۔ اسٹیمیٹ اور بجٹ اوورسیئر سے لے کر فیصلہ کرے گی۔
ب۔ وہ کمیٹی اپنی ساری رپورٹ مکمل کرکے میرے پاس آخری منظوری کے لئے بھیجے گی کیونکہ روپیہ تو میرے ہاتھ میں ہے۔
۶۔
پرائیویٹ مکانوں کے نقشہ جات کی منظوری بھی وہی کمیٹی دے جو انجمن کے نقشے منظور کرے گی۔ ہر نقشہ اوورسیئر کے پاس جائے اور وہ کمیٹی میں بھجوائے۔
اس کے لئے بھی کچھ اصول ہوں۔ مثلاً گورنمنٹ میں یہ اصول ہے کہ اونچائی اتنی ہو۔ اور منفد ۲۱ کا ٹوٹل کمرے کے ٹوٹل سے کیا نسبت رکھتا ہو۔ مثلاً اس کی شرمایہ ہوتی ہے کہ منفد کا ٹوتل کمرے کے ٹوٹل کا ۲/۱ ہو۔
دو منزلہ مکان کے متعلق کچھ اصول ہوں۔ اس کی کھڑکیوں کے متعلق )یہ( ہو کہ دوسرے کی طرف کھڑکی نہ ہو۔ مشترکہ دیواروں کے متعلق کہ اگر کوئی شخص کسی کو دیوار کے استعمال کی اجازت دیتا ہے تو پھر اس کی مرمت کا حق بھی اسے حاصل ہوگا۔
صحن وغیرہ اور پانی کے نکاس کے متعلق حدبندی کردی جائے۔
نالیاں نقشہ میں ضرور دکھائی جائیں۔ جو نالیاں اور پرنالے نقشہ میں نہ دکھائے جائیں وہ بند کرنے پڑیں گے۔
پرنالہ کی قسم ہونی چاہئے اور اس کے متعلق اصول ہوکر جس کے گھر کا پرنالہ ہو اسی کے اس کی آواز سنی چاہئے` دوسرے کو نہیں یا یہ کہ جس حد تک ہمسایہ اجازت دے دے۔
اس کمیٹی کا فرض یہ ہوگا کہ نگرانی کرے کہ اس قسم کی کوئی حرکت نہ ہو جس سے ہمسایہ کو نقصان پہنچے۔ ان قواعد کو چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کیا جائے بلکہ امتحان لیا جائے تاکہ اجازت لینے والا پھنس نہ جائے اصل غرض ان قواعد کی یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی کے محتاج نہ ہوں۔
۷۔
یہ کمیٹی بھی الگ ہونی چاہئے۔ اس میں امور عامہ` ناظر تعلیم و تربیت` ہرمحلہ کا پریذیڈنٹ اور وکیل الصنعت ہو۔
دوکانات کی تجویز بھی اہم سوال ہے۔ اس کے متعلق ایک باڈی بن جائے کہ کس قسم کی کتنی دوکانیں ہوں۔ بازار کی پوزیشن کے متعلق بھی غور ہو کہ کس جگہ بنایا جائے۔ )ایک سیدھا بازار بنانا ہے یا کئی شاخوں میں۔ کس کس قسم کی دوکانیں ہوں۔
منڈیوں کے متعلق` غلہ منڈی` سبز منڈی` ایندھن کی منڈی` گوشت کی منڈی۔
۸۔
میرے خیال میں ہر چیز ایک حد تک مشترکہ ہونی چاہئے۔ اگر گاہک آئے تو اس کو دے دیں ورنہ اپنی ضرورت پر استعمال کریں۔ لیکن دروازے اور کھڑکی کا ماڈل بنوا لیا جائے تا اس کے مطابق سب چیزی آجائیں۔ مثلاً دروازہ ۴/۳/۶ x ۴ کھڑکی ۴ x۳
اوورسیئر کے ساتھ ایک ڈرافسمین بھی رکھا جائے۔ اس کے متعلق اخبار میں اشتہار دیا جائے۔ تنخواہ کے متعلق کنجوسی نہ کی جائے۔ گورنمنٹ کا قانون ہے کہ جسے عارضی طور پر لیا جائے اس کو اصل ریٹ پر ۲۵% زیادہ دیتے ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو آپ اس سے بھی زیادہ دے سکتے ہیں۔
ربوہ میں ایک آدمی نہ ہو۔ اگر آپ لوگوں کو یہاں بیٹھنا پسند ہے تو وہاں ایک شیڈوانجمن بنائی جائے بہرحال جب تک انجمن نہیں جاتی وہاں کوئی کام نہیں ہوگا۔
میرے خیال میں یہ بوجھ سلسلہ اٹھائے کہ سامان لانے کے لئے لاری یا ابتداء میں ایک سائیکل والی گاڑی رکھ لی جائے اور ایک آدمی مقرر کرلیا جائے جو ہر گھر سے روزانہ پوچھ کر سودا لایا کرے۔
ایک ٹریکٹر فوراً لیا جائے۔ اس کا ابھی آرڈر دیا جائے۔ MODEL D۔4 لیا جائے۔ شیخ نورالحق کے ذریعہ منگوالیا جائے۔ یہ ابھی وہاں چلا جائے اور کام شروع ہوجائے۔
دو چار کشتیوں کا بھی انتظام ہونا چاہئے تاکہ اگر پل پر ملٹری قبضہ کرے تو ہم انہیں استعمال کرسکیں۔ اردگرد سے پٹھانوں کو جمع کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر کیا جائے جو ان سے کچی دیواروں کے تیار کرنے کے لئے معاہدہ کرے۔
کسی مقامی آدمی کو مقرر کرکے سینگا منگوایا جائے جو پانی کی تلاش کرے۔
)مورخہ ۶ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷/۱۹۴۸ء(
۹۔
امورعامہ کے ساتھ۲۲ اس کا تعلق ہے۔
۱۰۔
پانی` بجلی کے لئے اعجاز نصراللہ کو مقرر کیا جائے۔ یہ مجھ سے مشورہ لیں۔
۱۱۔
اجناس خورونوش کے مہیا کرنے کے لئے خواجہ محمد امین کو بلالیا جائے اور ان کا افسر میاں عبداللہ خاں صاحب کو مقرر کیا جائے۔
۱۲۔
دفاتر تحریک و صدرانجمن کے منتقل کرنے کا کام ناظراعلیٰ کے سپرد کیا جائے۔
۱۳۔
روپیہ کی وصولی محاسب یا بیت المال کے سپرد ہوگی۔
۱۴۔
لیبر کا کنٹرول اسی کا ہوگا جو انجنیئر مقرر ہوگا اور اجناس کا کنٹرول اسی کے پاس ہوگا جو اجناس کا افسر مقرر ہوگا۔
۱۵۔
پہرہ وغیرہ کے انتظام کے لئے وہاں ایک ٹائون پریذیڈنٹ کے طور پر مقرر کرو۔ وہی سب کام کرے گا۔ عبدالسلام اختر کو مقرر کرو اور سب کو آرڈر کر دو کہ کام میں ان کی مدد کریں۔ ان کو بھی لکھا جائے کہ دوسرے کاموں میں ہرج نہ ہو۔
چھ پہریدار رکھ لئے جائیں۔ جو ریفیوجیز میں سے آسانی سے مل سکتے ہیں۔ پھیرو چیچی کے حشمت علی کا لڑکا آیا تھا اس کو رکھ لیا جائے۔
ہرکام کے لئے نگرانوں کا تقرر
حضرت مصلح موعود کی مندرجہ بالا اصولی ہدایات کی روشنی میں صدرانجمن احمدیہ نے کارکردگی کی رفتار تیز کرے کے لئے حسب ذیل نگران مقرر کردیئے۔
کام
نگران
۱۔ فروخت و تقسیم قطعات
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب و حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب
۲۔ مفت تقسیم ہونے والے قطعات کی تقسیم
" " " "
۳۔ نقشہ آبادی کی تیاری اور اس کے متعلق حکومت سے منظوری حاصل کرنا
چودھری عبدالباری صاحب
۴۔ آبادی میں مجموعی ڈرینیج۲۳ کا انتظام
" " " "
۵۔ جماعتی عمارتوں )مساجد` مہمانخانہ` دفاتر وغیرہ( کا نقشہ تجویز کرنا اور ان عمارتوں کی تیاری
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب
۶۔ پرائیویٹ عمارتوں کے نقشہ کی منظوری
نظارت امور عامہ
۷۔ دوکانوں اور کارخانوں کے لئے قطعات تجویز کرنا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحب
۸۔ عمارتی سامان کے متعلق ضروری اطلاعات مہیا کرنا اور بعد منظوری بعض چیزوں کا مشترکہ انتظام کرنا۔
خواجہ عبدالکریم صاحب وکیل التجارت و حسن محمد خاں صاحب عارف نائب
۹۔ ربوہ کے لئے اسٹیشن اور ڈاک خانہ اور تار گھر اور ٹیلیفون ایکسچینج وغیرہ کا حکومت کے ذریعہ انتظام کروانا۔
میاں غلام محمد صاحب اختر۔ و محمود احمد صاحب قائدا لاہور( نائب
‏]1coll [tag۱۰۔ آبادی کے لئے بجلی و پانی کا مجموعی انتظام تجویز کرنا
ڈاکٹر عبدالاحد صاحب
۱۱۔ جماعتی صروریات کے لئے اجناس خوردنوش و ایندھن و تیل کی فراہمی
سیدمحمود اللہ صاحب و سیدعبدالجلیل شاہ صاحب نائب
۱۲۔ صدرانجمن و تحریک جدید کے دفتروں اور اداروں کے منتقل کرنی کا انتظام
ناطر اعلٰے۔ وکیل الدیوان
۱۳۔ قیمت قطعات اراضی کی وصول
نائب وکیل المال۔ قریشی عبدالرشید صاحب
۱۴۔ نئی آبادی میں اجناس اور لیبر کے ریٹون کو کنٹرول میں رکھنے کا انتظام
ناظر صاحب امور عامہ
۱۵۔ پہرے اور حفاظت کا انتظام
امور عامہ۲۴
سرزمین ربوہ کاسروے` نقشہ کی تیاری اورمنظوری میں شدید مشکلات
سرزمین ربوہ کا سروے ایک نہایت کٹھن مرحلہ تھا۔ جس کے شروع کرنے کی اولین سعادت حضرت سیدنا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی جمعدار فضل الدی صاحب کمبوہ کو حاصل ہوئی۔ لیکن افسوس ابھی وہ تھوڑا سا کام ہی کرپائے تھے کہ درد گردہ میں مبتلا ہوگئے۔ ازاں بعد ایک اور صاحب نے یہ خدمت اپنے ذمہ لی مگر وہ حاضر نہ ہوئے جس پر چودھری شریف احمد صاحب )وڑائچ(۲۵ اوورسیئر سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے چوہدری محمد مختار صاحب اوورسیئر کو بھی اپنے ساتھ ربوہ جانے پر آمادہ کرلیا۔ لیکن چودھری شریف احمد صاحب رستہ میں ہی بیمار ہوکر لائل پور سے واپس لاہور چلے گئے اور محمد مختار صاحب ربوہ پہنچ کر شدید انفلوئنزا کا شکار ہوگئے۔ بایں ہمہ انہوں نے کمال مستقل مزاجی` تندہی اور جانفشانی سے سروے جاری رکھا اور دن رات ایک کرکے چند روز کے اندر اندر سروے کا ایک حصہ یعنی لیول۲۶ مکمل کرلیا جس کا ذکر ۲۹۔ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کی ایک رپورٹ میں بایں الفاظ ملتا ہے۔
>محمد مختار صاحب جب سے آئے ہیں سخت زکام اور نزلہ میں گرفتار ہیں لیکن اس کے باوجود صبح سورج نکلتے ہی کام شروع کرتے رہے ہیں اور شام اس وقت تک کام کرتے رہے ہیں جب تک نظر کام کرسکتی تھی۔ کھانا بھی وہاں ہی کھاتے جہاں کا کرتے تھے۔ خیموں میں دوپہر کو بالکل نہ آتے تھے۔ انہوں نے شدید محنت کرکے نصف کام کل تک کرلیا ہے۔ ان کے ساتھ مزدور بھی تھک کر چور ہوجاتے ہیں۔<
جناب محمد مختار صاحب نہایت سرگرمی سے مصروف عمل تھے کہ قصور سے عبدالقادر صاحب اوورسیئر محکمہ کنٹور سروے۲۷ کے لئے ربوہ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاس ان کے اپنا موٹر سائیکل بھی تھا اور ضروری آلات بھی۔ جناب محمد مختار صاحب کی طرح عبدالقادر صاحب نے ۹ روز تک نہایت عرقریزی سے اس قومی فرض کو بجاآوری کی اور آخر اپنے دوسرے رفقاء کار سیف اللہ صاحب اوورسیئر )لائلپور( اور سردار بشیراحمد صاحب مونگ رسول کے تعاون سے ۱۰/۹ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کی درمیانی شب کو گیس کی روشنی میں ایک بجے کے قریب کنٹور سروے مکمل کرلیا۔ یہ کام ہوچکا تو تعمیر کمیٹی کے سکرٹری ملک محمد خورشید صاحب نے LayOut ۲۸ شروع کردیا جو ۳۰ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا۔ جس کے بعد جناب قاضی محمد رفیق صاحب کنسلٹنگ آرکیٹکٹر نے LayOut کا خاکہ کھینچنے اور ربوہ کا مستقل نقشہ بنانے کا اہم اور نازک کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ ۲۹ اور سردار بشیراحمد صاحب )مونگ رسول( اور چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر واقف زندگی اور ایک اور دوست کے تعاون سے ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۸ء کے پہلے ہفتہ تک آبادی ربوہ کا نقشہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کی کاپیاں چودھری عبدالرحیم صاحب ہیڈ ڈرافسمین لاہور نے کروائیں اور ان پر چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر نے رنگ بھرے۔ بعدازاں جھنگ میں رجسٹری کئے گئے۔ یہ نقشہ جلد ہی صوبائی ٹائون پلینر کو بغرض منظوری بھجوادیا گیا۔
اس عہد پر ان دنوں پارسی حبیب جے۔ اے سوم جی نامی متعین تھے۔ جنہوں نے محض روپوں کے لالچ میں بے شمار حیلوں بہانوں سے نقشہ کی منظوری کا معاملہ کئی ماہ تک کھٹائی میں ڈال دیا۔ اور اخر مجرمانہ حد تک تغافل برتنے اور انتہائی پس دپیش کے بعد بڑی مشکل سے یکم فروری ۱۹۴۹ء کو دستخط تو کردیئے ۳۰ لیکن ساتھ ہی ازراہ شرارت ایک ایسی ٹائون پلیننگ سکیم رکھ دی جس میں جماعت کی دینی اور مرکزی ضروریات کو نہایت بے دردی سے پامال کرکے رکھ دیا اور اس کے مقابل ان امور کو جو سرے سے احمدیت کی بنیادی تعلیمات کے منافی تھے یا جن کو نسبتی طور پر ایک محدود رنگ کی اہمیت حاصل تھی ان کو بلاوجہ غیرمعمولی وسعت وحیثیت دے دی گئی اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ربوہ کی زمین کا کثیر حصہ آبادی کے لئے استعمال نہ کیا جاسکے۔ چنانچہ ایسی طرز پر نقشہ تیار ہوا کہ ربوہ کے مجموعی رقبہ کا صرف ۰۳` ۲۷ فی صد رہائشی پلاٹوں کے لئے مخصوص کیا گیا۔۳۱ جہاں شرقاً غرباً تین چار میل تک کے اس وسیع و عریض علاقہ میں صرف تین مسجدیں منظور کی گئیں وہاں سنیما گھر کی تعمیر کے لئے فراخدلی سے وسیع قطعہ تجویز کیاگیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی زمین کے بیجا مصرف اور کھلم کھلا ضیاع کا کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کیا گیا مثلاً
۱۔
شفاخانہ حیوانات کے لئے ۶۰ کنال کا وسیع رقبہ تجویز کیاگیا جو ملک میں اس وقت شاید ہی کسی بڑے سے بڑے زراعتی اور مرکزی مقام کے وٹرنری ہسپتال کو میسر ہو۔
۲۔
صیغہ تعنیم کے لئے بلاوجہ ۵۸ کنال کا احاطہ رکھ دیا گیا۔
۳۔
پولیس لائنز اور سرکٹ ہائوس کے نام پر ربوہ کے نقشہ میں بالترتیب ۷۷ اور ۲۱ کنال زمین مخصوص کردی گئی۔ نیز پولیس اسٹیشن )تھانہ( کے لئے ۱۲ کنال کا مزید رقبہ دیاگیا۔
۴۔
ڈاک خانہ` تمام گھر اور ٹائون کمیٹی کے دفاتر کے لئے ۶۸ کنال جگہ رکھی گئی جس کی کوئی تک نہ تھی۔
۵۔
ربوہ کی مجوزہ آبادی کے مشرقی جانب ۳۲۵ کنال رقبہ زراعتی اغراض کی خاطر مخصوص کردیا گیا۔ حالانکہ اول تو یہ سارا قطعہ ہی مسلم طور پر ناقابل زراعت اور عام سطح سے بہت اونچا تھا۔ دوم اسے زرعتی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا قطعی طور پر ناممکن تھا۔
۶۔
۳۲۳ کنال بڑے بڑے کارخانوں کے لئے مختص کردیئے گئے۔ حالانکہ غریب مہاجرو کی اس بستی میں جو خالص اسلامی ماحول کی ترویج واشاعت کے لئے قائم کی جارہی تھی کسی بھاری انڈسٹری کا قیام خارج ازامکان تھا۔
۷۔
ربوہ کے تین پرائمری سکولوں کے لئے ۱۰۲ کنال کے احاطے تجویز کئے گئے جو ضرورت سے کہیں زیادہ تھے۔
اس پریشان کن ٹائون پلیننگ سکیم کے بعد گورنمنٹ انڈسٹریز اینڈ میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو جو شیڈول بھجوایا گیا وہ بھی اپنے اندر متعدد نقائص اور خامیاں رکھتا تھا۔
صدرانجمن احمدیہ پاکستان نے حضرت المصلح الموعود رضی اللہ تعالٰے عنہ کی ہدایت پر نوٹیفائیڈ ایریا کمیٹی کے توسط سے جناب ڈپٹی کمشنر صاحب جھنگ کی خدمت میں پلیننگ سکیم میں ترمیم کے لئے اور گورنمنٹ پنجاب کے متعلقہ محکمہ کو شیڈول کی ترمیم کے لئے الگ الگ درخواستیں ارسال کیں جن میں نہایت تفصیل کے ساتھ پیدا شدہ جملہ خرابیوں کا نہایت معقول و مدلل رنگ میں جائزہ لیا اور ان کے ازالہ کے لئے ٹائون پلیننگ کے مستند لٹریچر کی روشنی میں اپنے مطالبات پیش کئے۔
صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی گذارشات ایک نظرمیں`
صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے بعدازاں اپنے موقف کی تائید میں جو گذارشات حکومت کی اعلیٰ اور ذمہ دار حکام کے سامنے رکھی گئیں ان کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے تا آئندہ آنے والے لوگوں کو علم ہوکر ربوہ بساتے وقت جماعت احمدیہ کو کیسی کیسی مشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔
>صدرانجمن احمدیہ درخواست کرتی ہے کہ
جو جگہ ربوہ کالونی میں مکانوں کے لئے ٹائون پلینر صاحب نے تجویز کی ہے وہ پچاس فیصدی کے قریب ہے حالانکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ آبادی کے لئے ساٹھ فیصدی کے قریب زمین چھوڑی جاتی ہے۔ پھر جو پچاس فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑی گئی ہے اس میں سے بھی نصف سے کچھ زیادہ رقبہ پبلک انسٹی چپوشنز کے لئے چھوڑا گیا ہے اور آبادی کے لئے کل رقبہ ۴/۱ سے بھی کچھ کم رہ جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں ایک ہزار کنال زمین اور دی جائے تاکہ گورنمنٹ کے تجویز کردہ اصول کے مطابق ساٹھ فیصدی رقبہ ہمیں عمارت کے لئے اور مل جائے۔ علاوہ اس قانون کے ہمیں عملاً بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ قادیان کی آبادی بیس ہزار کے قریب تھی کم سے کم دس ہزار آدمی بسانے کے لئے تو یہاں جگہ ہونی چاہئے۔ چنانچہ مقررہ جگہ ختم ہوچکی ہے اور درخواستیں اور آرہی ہیں۔ اس لئے اب اس کا علاج یہی ہے کہ اوپن سپیسز SPACES OPEN ]ybod [tag کھلی جگہیں( جو قاعدہ مقررہ سے بہت زیادہ ہیں ان میں سے کچھ اور علاقہ ہمیں آبادی کے لئے دیا جائے اور اس نئے علاقہ کے لئے انہوں نے کچھ تجاویز پیش کی ہیں جن کو میونسپل کمیٹی نے جس میں ڈی سی اور تحصیل دار ممبر ہیں منظور کیا ہے۔ اس کے بعد مسٹر ۔۔۔۔۔ نے اپنے ڈی۔ سی ہونے کی حیثیت میں اس کی تائید میں نوٹ لکھا ہے کہ میں ے خود ربوہ کو دیکھا ہے۔ میرے نزدیک یہ درخواست انجمن کی معقول ہے اور اسے منظور کرنا چاہئے۔
ٹائون پلینر صاحب کو جب یہ درخواست برائے رپورٹ گئی تو انہوں نے اس پر یہ نوٹ لکھا کہ
۱۔
انجمن سے تجویز کو پہلے خود منظور کرچکی ہے۔
۲۔
انجمن احمدیہ زمین بڑی قیمت پر فروخت کررہی ہے۔
۳۔
انجمن نے کوئی فہرست نہیں دی کہ کس قدر درخواستیں آچکی ہیں اور کتنی زمین کی ضرورت ہے۔
۴۔
پلینر کی سکیم میں ۲۳۳۲ مکانوں کی گنجائش ہے اور اس میں پانچ کس فی مکان کے حساب سے دس ہزار سے زائد آدمی بس سکتے ہیں۔
۵۔
میں نے سکیم میں اوپن سپیس کے طور پر ۶% جگہ چھوڑی ہے۔ حالانکہ میونسپل لاز کے رو سے ۱۰% چھوڑنی چاہئے۔ اس لئے اس زمین کو چھوٹا ہیں کرنا چاہئے۔
۶۔
وہ رقبہ جو انجمن مانگتی ہے اس میں سے ایک حصہ جو گرین پیچڈ ہے` نشیب ہے۔ اس پر آبادی مناسب نہیں۔
۷۔
شمال مشرقی رقبہ بھی ویسا ہی ہے۔
۸۔
پبلک بلڈنگز کے لئے جو رقبہ چھوڑا گیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسے اور کم نہیں کیا جاسکتا۔ ان دعاوی اور ان کے خلاف دعاوی کی تفصیل میں پڑنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے۔ کہ موجودہ تسلیم شدہ طریق ٹائون پلین میں آبادی کے رقبہ کے متعلق کیا ہے۔ کیونکہ سب مسئلہ کا محور یہی سوال ہے۔ انجمن کہتی ہے کہ اس میں قانون کے مطابق رقبہ آبادی کے لئے نہیں چھوڑا گیا۔ اور ٹائون پلینر صاحب کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔
ٹائون پلیننگ کے متعلق رائج الوقت کوڈ (CODE) وہ میمورنڈم ہے جسے مسٹر یو۔ المر۔ کوٹس COATES) AYLMER۔(U پراونشل ٹائون پلینر گورنمنٹ پنجاب نے تیار کیا ہے۔ اور گورنمنٹ پنجاب نے اسے ۱۹۴۵ء میں گورنمنٹ پریس سے شائع کیا ہے۔ اس اشاعت کے صفحہ ۱۶ پر لکھا ہے۔
‏tav.11.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
‏ to begun have schemmes planning town 1938 <Since be now would area same the and Lahore in follows:eek:perate as somewhat develpoed
‏ open and percent 30 about up use would Roads (a)۔percent 10 about spaces
‏ into divided be would acres 6 remaining The >(b)۔overall erca per houses 17 or plots 170 about
یعنی لاہور میں ۱۹۳۸ء سے ٹائون پلیننگ کے منصوبوں کی ابتداء ہوچکی ہے اور اب ان علاقوں کی آبادی یوں شروع ہوگی۔
)ا( شاہراہوں کے لئے ۳۰ فیصد اور سیر گاہوں کے لئے ۱۰ فیصد علاقہ استعمال ہوگا۔
)ب( بقیہ ۶ ایکڑ علاقہ قریباً ۱۷۰ پلاٹوں کے لئے یا ۱۷ مکانات فی ایکڑ تعمیر کئے جائیں گے۔
اس عبادت سے ظاہر ہے کہ ٹائون پلیننگ کے رائج الوقت قانون کے مطابق کسی ٹکڑہ زمین سے چالیس فیصدی سڑکوں اور اوپن سپیسز کے لئے لیا جاسکتا ہے اور باقی ساٹھ فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑنی چاہئے۔
انجمن کا دعویٰ ہے کہ اسے ۶/۱ حصہ آبادی کے لئے ملا ہے اور اگر پبلک بلڈنگز کو شامل کیا جائے تو وہ ۲/۱ کے قریب ہوتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ٹائون پلینر صاحب کے بیان کے رو سے اوپن سپیسز کے لئے صرف ۶% زمین چھوڑی گئی ہے تو پھر باقی زمین کہاں گئی؟ ٹائون پلینر صاحب اس سے انکار نہیں کرتے کہ جو رقبہ انجمن پرائیویٹ یا پبلک بلڈنگز کے لئے تجویز کیا گیا بتاتی ہے وہ غلط ہے بلکہ تسلیم کرتے ہیں کہ ۲۳۰۰ مکان ایک ہزار چونتیس ایکڑ میں تجویز کئے گئے ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ بالا مسٹرکورٹس کی ٹائون پلیننگ سکیم سے اوپر نقل کیا گیا ہے۔ ٹائون پلیننگ سکیم میں چھ ایکڑ ہر دس ایکڑ سے آبادی کے لئے لئے جاتے ہیں۔ پس دو ہزار تین سو کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ کیوں ان کو ساٹھ فیصدی زمین نہیں دی گئی جبکہ موجودہ رول ٹائون پلیننگ کے متعلق یہی ہے۔
اس جگہ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ ٹائون پلیننگ میمورنڈم مرتبہ کورٹس اور منظور کردہ گورنمنٹ میں اوپن سپیسز کے بارہ میں لکھا ہے۔
‏Spaces Open (iii) 17 Para 9, Page
‏ 1650 about are there example an as erohaL <Taking are acres 1,000 about which of space open of acres University the as such use private for saide set ground, College Chiefs the Course, Race the grounds,۔courses golf two and House Government
4۔2 about is Lahore in space open of proportion The is this of most but population thousand per acres as such recreation passive for either aside set is or Bagh Hazuri and Bagh Gol ۔gardens >Lawrence۔privately used
یعنی لاہور کی مثال لی جائے تو یہاں پر ساڑھے سولہ سو ایکڑ سیر گاہوں کے لئے رکھے گئے ہیں جن میں ایک ہزار ایکڑ تو پرائیویٹ استعمال کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں۔ جن میں یونیورسٹی گراونڈ` ریس کورس` چیفس کالج گرائونڈ` گورنمنٹ ہائوس اور دوگالف کورس شامل ہیں سیرگاہوں کا تناسب ۴۔۲ ایکڑ فی ہزار کی آبادی میں رکھا گیا ہے۔ لیکن ان اکثر حصہ خاموش تفریح گاہوں کے لئے مخصوص کیا گیا ہے مثلاً لارنس گارڈن` گول باغ اور حضوری باغ یا ایسی جگہیں جو پرائیویٹ طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے علاقے جن میں مکانیت کم ہو اور کھلی جگہ زیادہ ہو` وہ بھی اوپن سپیسز میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح تمام ریلوے لائنز اور عیدگاہ کے لئے جو سینکڑوں کنال رقبہ چھوڑگیا ہے اور جسے انجمن نے اوپن سپیسز میں شامل نہیں کیا اوپن سپیس بن جائے گا۔ اور اس سے بھی زیادہ علاقہ اوپن سپیسز میں چھٹا ہوا سمجھا جائے گا جتنا کہ انجمن نے درخواست میں لکھا ہے۔
اوپر کے حوالہ جات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال انجمن کا معقول ہے کہ ان کو اتنی جگہ آبادی کے لئے نہیں دی گئی جتنی کہ قانون کی رو سے دی جانی چاہئے۔ اس کے مقابل پر ٹائون پلینر صاحب کا یہ جواب ہے کہ میں نے نقشہ ان کو دکھایا تھا اور انہوں نے اسے منظور کرلیا تھا۔ اس جواب کے متعلق دو باتیں قابل غور ہی۔ ۱۔ کیا کسی شخص کا کسی امر کو منظور کرلینا اسے اس کے قانونی حق سے محروم کردیتا ہے؟ ۲۔ ٹائون پلینر صاح کے اپنے بیان کے مطابق انجمن نے لے آئوٹ کے بعد نقشہ منظور نہیں کیا بلکہ نقشہ لاہور میں ٹائون پلینر صاحب نے انجمن کے نمائندوں کو دکھایا اور انہوں نے منظور کیا۔ نقشہ کے دیکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر کوئی ایسی عبارت نہیں لکھی ہوئی کہ کتنے فیصدی زمین آبادی کے لئے چھوڑی گئی ہے۔ ان حالات میں انجمن کہہ سکتی ہے کہ ان کو لے آئوٹ سے پہلے اصل حقیقت معلوم نہ ہوسکی تھی۔ جب لے آئوٹ ہوئی تو انہیں معلوم ہوا کہ جو حق ازروئے قانون انہیں ملنا تھا وہ ان کو نہیں ملا۔ اس لئے ان کی رضا مندی قانونی حیثیت نہیں رکتھی۔ یہ امر بھی مدنظر رکھنے کے قابل ہے کہ ضلع کے افسر صاحب نے جگہ کو دیکھ کر اور سرکاری ضروریات کو دیکھ کر انجمن کے دعویٰ کی تصدیق کی ہے اور کمشنر صاحب ڈویژن نے اس سے اتفاق کیا ہے۔
اور یہ امر بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں کہ ہسپتال` پولیس لائنز` سرکٹ ہائوس` میونسپل آفس ایسی عمارتیں ہیں کہ ان کے بنانے کے لئے انجمن کو تو مجبور نہیں کیا جاسکتا` حکومت کو ہی بنانی ہوں گی۔ کیا اتنے بڑے بڑے رقبوں پر ایسے چھوٹے سے قصبہ میں حکومت اتنا روپیہ خرچ کرے گی؟ خصوصاً جبکہ اسے زمین کی قیمت بھی خود دینی ہوگی کیونکہ پنجاب میونسپل ایکٹ ۱۹۱۱ء کی دفعہ ۱۹۹۲ء کے رو سے دس فیصدی زمین کے رقبہ سے زائد زمین حکومت مفت نہیں لے سکتی بلکہ اس کی اسے قیمت دینی پڑتی ہے۔ یہ خرچ عمارتوں کے علاوہ ہوگا اور جبکہ ضلع کا افسر نہ اتنی زمین کی ضرورت بتاتا ہے نہ ان میں سے بعض اداروں کی ضرورت بتاتا ہے تو پھر ان ٹکڑوں کو آباد کون کرے گا؟ انجمن کو تو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سرکٹ ہائوس اور پولیس لائن بنوا کردے۔ ہسپتال کے بنانے کا گو انجمن نے ارادہ ظاہر کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اہم انہیں مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے ذرائع سے زیادہ خرچ کرکے اس سے زیادہ زمین میں ہسپتال بنائیں جتنی جگہ میں وہ خود ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا توفیق رکھتے ہیں۔ ان حالات میں اگر یہ علاقے آباد نہ ہوئے تو گردوغبار کے پھیلانے اور غلاظت کے جمع ہونے کا موجب ہوں گے یا ایک چھوٹی سی میونسپل کمیٹی پر ناقابل برداشت بار ثابت ہوں گے اور پھر حکومت ہی کو مدد کرنی پڑے گی۔
ٹائون پلینر صاحب نے ایک بات یہ لکھی ہے کہ انجمن بڑی قیمت پر زمین فروخت کررہی ہے۔ جہان تک حکومت کا سوال ہے وہ اس زمین کو فروخت کرچکی ہے۔ اور اگر وہاں بسنے والے پبلک اداروں کی تعمیر کے لئے )جیسا کہ نقشہ سے ظاہر ہے یہاں تین کالج` تین سکول` ایک سائنس ریسرچ` انسٹی چیوٹ` ہسپتال اور انجمن کے دفاتر بننے کی تجویز ہے( زمین کی قیمت کے نام سے مالی بوجھ اٹھانا چاہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ کیونکہ انجمن ایک خیراتی ادارہ ہے شخصی تجارتی ادارہ نہیں ہے۔
ٹائون پلینر نے لکھا ہے کہ جنوب مشرق کا جو حصہ انجمن نے مانگا ہے اور جسے نقشہ پر گرین ظاہر کیا گیا ہے وہ نشیب میں ہے اس لئے وہاں عمارتیں نہیں بننی چاہئیں۔ نقشہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین کے فروخت ہونے سے پہلے صرف دو مکان فروخت شدہ زمین میں تھے۔ اور وہ اس ٹکڑہ میں تھے جسے گرین بظاہر کیا گیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا نشیب نہیں جس میں پانی کھڑا ہوتا ہو ورنہ یہ نہ ہوتا کہ سارے رقبہ کو چھوڑ کر مکان بنانے والے صرف نشیب کا انتخاب کرتے۔ دوسرے نقشہ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ جسے ٹائون پلینر صاحب نے نے ہیوی انڈسٹری کے لئے منتخب کیا ہے جس کے لئے بہت اونچی زمین کی ضرورت ہوتی ہے اس رقبہ کی نسبت بہت نیچی ہے۔ چنانچہ نقشہ میں دیئے ہوئے کنٹور کے مطابق سائوتھ ایسٹ کی مطلوبہ زمین کا لیول ۵۹۳ سے ۵۹۷ ہے اور سائوتھ ویسٹ کا جو علاقہ ٹائون پلینر صاحب نے ہیوی انڈسٹری کے لئے رکھا ہے اس کا کنٹور ۵۸۹ سے ۵۹۲ تک ہے۔ گویا رقبہ مطلوبہ کا لیول اس رقبہ سے جسے آباد کرے کا ٹائو پلینر نے خود نقشہ بنایا ہے چار فٹ اونچا ہے۔
لیکن یہ سوال مقامی نہیں بلکہ آئندہ جو قصبے تھل پراجیکٹ یا دوسری جگہوں میں بنیں گے` سب پر اس کا اثر پڑے گا اور یہ مثال بن جائے گی۔
)ملخص ختم(
قانونی جدوجہد میں کامیابی
صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی رقبہ آبادی میں اضافہ کی یہ قانونی چارہ جوئی اور جدوجہد بہت حد تک کامیاب ہوئی جو محض خدا کے فضل و کرم اور حضرت مصلح موعود کی دعائوں کا نتیجہ تھا ورنہ باہمی خط و کتابت اور افہام و تفہم کے درمیان ٹائون پلینر کی تجویز کے ماتحت یہ سوال بھی اٹھا دیا گیا کہ حکومت پاکستان زمین ہی ضبط کرلے۔
پانی کی فراہمی کا مسئلہ
‏]ttex [tagربوہ کی آبادی کے اعتبار سے پانی کی دستیابی کا مسئلہ نقشہ کی تیاری سے بھی زیادہ اہم تھا۔ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو ابتدا ہی سے اس طرف خاص توجہ تھی۔ حضور کا منشاء مبارک یہ تھا کہ پانی کے انتظام کا جائزہ لے کر ربوہ کے بالائی طرف ٹیوب ویل نصب کیا جائے اور اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کراچی سے ایک جنریٹر۳۲ بھی منگوایا گیا مگر بعض وجوہ سے یہ سکیم برسوں تک معرض التواء میں پڑی رہی۔
ربوہ میں بورنگ کا پہلا تجربہ پہاڑی کے دامن میں کیا گیا جہاں خیمے نصب تھے۔ یہ تجربہ قادیان کے مہاجر قریشی فضل حق صاحب اور ان کے ساتھیوں )غلام نبی صاحب و قریشی محمد اکمل صاحب( نے کیا۔ جو اس وادی غیرذی زرع میں نلکے لگانے کا عزم کرکے شروع ہی سے یہاں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ یہ اصحاب کئی دنوں تک کھدائی کرتے رہے مگر ۷۵ فٹ کی گہرائی میں بھی پانی کا کوئی نام و نشان نہ ملی سکا۔ مجبوراً انہوں نے ایک دوسرے مقام پر کھدائی شروع کردی کہ اسی دوران ۴۰ فٹ کی گہرائی پر پہنچ کر بورنگ ٹیوب ہی پھنس گئی جس کو باہر نکالنے کے لئے ایک اور گڑھا کھودا جانے لگا۔ خدا کی قدرت! عین اس وقت حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود۳۳ کا ربوہ میں درود مسعود ہوا۔ جونہی حضور کے قدم مبارک اس مقدس زمین پر پڑے پھنسی ہوئی نالیو میں یکایک جنش ہوئی اور آن کی میں ایک غیبی طاقت نے ان کا سرا پانی سطح تک پہنچادیا۔ یہ ۱۱ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے۔
جناب چودھری عبدالسلام صاحب اختر ایم۔ اے نے انہی دنوں الفضل میں اس ایمانی افروز واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
نماز کے بعد حضور مسجد میں ہی بیٹھ گئے اور مکرم قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی سے مکانات کی تعمیر کے بارہ میں گفتگو فرماتے رہے۔ ابھی حضور قاضی صاحب سے گفتگو فرما ہی رہے تھے۔ کہ مستری فضل حق صاحب جو گذشتہ بارہ دنوں سے نلکہ لگانے پر مقرر تھے اور شب و روز مٹی کی کھدائی میں مصروف تھے بھاگے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ حضور کے یہاں تشریف لانے پر زمین سے پانی آگیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمیں گذشتہ کئی روز سے پانی کی شدید تکلیف تھی۔ ایک جگہ ۷۵ فٹ تک مٹی کی کھدائی کی گئی مگر پانی نہیں آیا تھا۔ مستری صاحبان نے تنگ آکر دوسری جگہ کھدائی شروع کردی تھی۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ دوسری جگہ بھی تقریباً ۴۰ فٹ جاکر نلکہ کی ٹیوب بری طرح مٹی میں پھنس گئی اور حالت یہ ہوگئی کہ نہ تو وہ ٹیوب مٹی کے اندر جاتی تھی اور نہ ہی باسانی باہر آسکتی تھی۔ چنانچہ مستری صاحبان نے صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ ٹیوب کو کیا ہوگیا ہے ایک تیسرا گڑھا کھودنا شروع کردیا تھا۔ لیکن جس وقت حضور کے قدم اس زمین پر داخل ہوئے۔ مستری فضل حق صاحب کا بیان ہے کہ یوں معلو ہوتا تھا کہ جیسے نلکہ کی نال کو کوئی قوت خودبخور پانی کے قریب لے جارہی ہے۔ چنانچہ حاضرین نے مستری صاحب کے یہ کلمات سنے کہ حضور پانی آگیا۔ تو بے اختیار الحمداللہ زبان پر جاری ہوگیا۔ حضور اس کے بعد دیر تک مستری صاحب سے گفتگو فرماتے رہے اور ہررنگ میں ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔<۳۴
اس موقعہ پر جو پانی حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کیا گیا وہ سخت بدبودار اور کڑوا تھا جس کی رنگت زردی مائل اور کسٹرائیل سے ملتی جلتی تھی۔ حضرت مصلح موعود نے پانی کی تلاش میں مزید ہدایات دیں جن کی تعمیل میں قریشی صاحب اور ان کے جواں ہمت ساتھیوں نے اپنی جدوجہد تیز سے تیز تر کردی۔ اسی دوڑ دھوپ میں ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کا دوسرا مہیہ آپہنچا مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ آخر بڑی محنت و مشقت کے بعد موجودہ جامعہ نصرت کے پلاٹ میں پہلا ٹیسٹ بور کیا گیا۔ ۲۰۰ فٹ تک کھدائی کی گئی اور ۸۰ فٹ اور ۱۱۷ فٹ کی گہرائی سے برآمد شدہ پانی کی دو بوتلیں ۲۱ ماہ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو کیمیائی تجزبہ کے لئے لائلپور بھجھوادی گئیں۔ بورنگ سپیشلسٹ نے ۲۱ ماہ تبلیغ/فروری کو یہ رائے دی۔
‏ AND IRRIGATION FOR UNFIT IS WATER ><THE۔PURPOSES DOMESTIC
یہ پانی زراعت اور گھریلو استعمال کے قابل نہیں ہے۔
چنانچہ رحمت علی صاحب LYAALPUR) OPERATOR BORING SUPERVISOR (WILL نے ۲۶۔ فروری ۱۹۴۹ء کو تجزبہ کے نتیجہ کی نقل بھجواتے ہوئے لکھا۔
مکرمی صدر صاحب انجمن احمدیہ ربوہ۔ تسلیم
ربوہ ٹرائل بور کے پانی کے ہر دو نمونہ جات کے نتیجے ارسال ہیں۔ ہر دو نمونہ جات کا پانی قابل استعمال زراعت اور پینے کے نہیں ہے۔ چونکہ اتنی لمبی تہوں کے باعث جو کہ مٹی کی گئی ہیں آگے ۷" پائپ سے مزید بورنگ کرنا مفید نہیں ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اس بور کو بند کرکے پائپ نکلوا دیویں اور موضع کھچیاں۳۵4] f[rt کی سرحد کے قریب ایک دوسرا ٹرائل بور کراکے دیکھ لیں۔<
اس نتیجہ کے موصول ہونے پر جناب چودھری عبدالسلام صاحب اختر نے یکم امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بذریعہ تار اطلاع دی جس پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے لکھا۔
‏ RABWAR IN RIVER NEAR BORING ><START۔PART SOUTHEAN LAND
>آدمی یہ ہدایت لے کر جائے۔ عبداللطیف صاحب سمجھ کرجائیں اور وہاں یہ کام خود شروع کروائیں۔<
حضور اقدس کے اس ارشاد کی تعمیل میں چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر ے دیرائے چناب کے قریب بورنگ کرایا۔ یہ بورنگ محمد ابراہیم صاحب ویل سپروائزر کے ذریعہ ہوا۔ ۱۲۔ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو چنیوٹ خزانہ میں ایک سو اٹھائیس روپے چودہ آنہ چھ پائی بورنگ فیس جمع ہوئی۔ ۱۷۔ امان/مارچ تک ۹۰ فٹ گہرائی تک ریت جس میں کنکر پتھر کی آمیزش تھی۔ اس بورنگ سے جو پانی معمولی ریت اور ۱۰۰ سے ۱۸۰ فٹ تک ریت جس میں کنکر پتھر کی آمیزش تھی۔ اس بورنگ سے جو پانی حاصل ہوا لائلپور زرعی کالج میں برائے ٹیسٹ بھیجا گیا تو رپورٹ ملی کہ یہ پانی زرعی استعمال کے لئے مفید ہے لہذا بعد میں جب پلاٹ بندی ہوئی تو اس جگہ کو ٹیوب ویل کے لئے محفوظ کرلیا گیا۔ اگرچہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اسی جگہ واٹر سپلائی سکیم کے تحت ٹیوب ویل کی تنصیب عمل میں آئی مگر جہاں تک اندرون شہر کو عمدہ پانی ملنے کا معاملہ تھا وہ جوں کا توں ہی رہا۔
محکمہ کی ہدایت پر جامعہ نصرت کے احاطہ والا بورنگ بند کرکے محلہ دار البرکات کے جنوب مشرقی کو نہ کے قریب کھدائی کا آغاز کیا گیا لیکن اس جگہ بورنگ کے پائپ پھنس گئے جو اکھیڑ لئے گئے اور اس کی بجائے اسٹیشن کے قریب لائن کے دونوں طرف کھدائی کی جانے لگی۔ چند دنو کی کوشش سے ربوہ اسٹیش کی جنوبی سمت میں ایک جگہ نسبتاً میٹھا پانی نکل آیا اور ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کے پہلے سالاہ جلسہ کی تقریب پو تو نلکے لگادیئے گئے۔ چھ سات ماہ کی لگاتار اور تھکادینے والی محنت و مشقت کا نتیجہ بس یہ چند نلکے ہی تھے جن سے اکثر کھاری یا نیم کھاری پانی کے تھے اور جو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد نصب کئے جاسکے تھے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی خاص عنایت ہوئی کہ اس جلسہ پر حکومت کے محکمہ حفظان صحت نے پانی بہم پہنچانے کے لئے ٹینکروں کا انتظام کردیا وگرنہ پانی کی کمیابی مصیبت عظمیٰ بن جاتی۔
ان سراسر مخالف اور بے حد مایوس کن حالات میں جبکہ ظاہری اور مادی سامان بالکل ناکام ثابت ہوگئے حضرت رب العزت کی طرف سے اپنے مقدس خلیفہ سیدنا محمود المصلح الموعود کو یہ بشارت دی گئی کہ اللہ تعالٰے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کردے گا کہ ربوہ میں پانی کی کثرت ہوجائے۔ یہ عظیم الشان آسمانی خوشخبری ۲۱۔ شہادت/اپریل ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو ایک الہامی شعر کے ذریعہ دی گئی جس کی تفصیل پر حضور نے روشنی ڈالتے ہوئے اگلے ہی روز خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ۔
>جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے )یعنی ۲۱۔ اپریل ۱۹۴۹ء بروز جمعرات( مجھے ایک الہام ہوا ۔۔۔۔۔۔ مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہوگئی اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خدا تعالٰے کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھ رہا ہوں۔ ~}~
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پائوں کے نیچے سے میرے پانی بہادیا
میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں >جاتے ہوئے< سے کیا مراد ہے۔ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہوسکا لیکن جس طرح حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پائوں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا۔ اسی طرح اللہ تعالٰے کوئی ایسی صورت پیدا کردے گا کہ جس سے ہمیں پانی بافراط میسر آنے لگے گا۔ اگر کوئی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب وگیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے۔ پھر اس وادی کو بے آب وگیاہ کہنے کے کیا معنی؟ اب ایک وقت تو پانی کے بغیر گزرگیا اور باوجود کوشش کے ہمیں پانی نہ مل سکا۔ آئندہ خدا تعالٰے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کردے گا جس سے ہمیں پانی مل جائے۔ اس لئے فرمایا کہ ~}~
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پائوں کے نیچے سے میرے پانی بہادیا
>پائوں کے نیچے< سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے۔ جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پائوں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا۔ اسی طرح یہاں خدا تعالٰے میری دعائوں کی وجہ سے پانی بہا دے گا۔ یہ ایک محاورہ ہے جو محنت کرنے اور دعا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے اپنا پورا زور لگایا تاہمیں پانی مل سکے لیکن ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے۔ اب خدا تعالیٰ نے میرے منہ سے یہ کہلوادیا۔ کہ پانی صرف تیری دعائوں کی وجہ سے نکلے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ پانی کب نکلے گا اور کس طرح نکلے گا۔ لیکن بہرحال یہ الہامی شعر تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالٰے کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرور پیدا کردے گا جس کی وجہ سے وہاں پانی کی کثرت ہوجائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
اس شعر میں >حضور< اور >جناب< دو لفظ اکٹھے کئے گئے ہیں جو عام طور پر اکٹھے استعمال نہیں ہوتے۔ لیکن چونکہ یہاں ادب کا پہلو مراد ہے اس لئے >آپ< کے لفظ کی بجائے یہاں حضور اور جناب کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ بہانے سے مطلب یہ ہے کہ پانی وافر ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ الہام کس رنگ میں پورا ہوگا۔ ممکن ہے ہمیں کوئی اور اگر مل جائے۳۶ جہاں پانی ہو اور اس وقت تک ہمیں اس کا علم نہ ہو۔ بہرحال یہ نہایت ہی خوشکن الہام ہے اور یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی تائید کرتا ہے جو یہ ہے کہ یخرج ھمہ رغمہ دوحہ اسمعیل )تذکرہ صفحہ ۵۳۹( یعنی خدا تعالٰے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غم اور فکر اور دعائوں کی وجہ سے ایک اسماعیلی درخت پیدا کرے گا۔ وہ درحتہ اسمعیل میں ہی ہوں اور اس سے بھی ہجرت کی خبر نکلتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ خدا تعالٰے تیری اولاد میں سے ایک ایسا شخص پیدا کرے گا جو ایک بے آب وگیاہ وادی میں آبادی کے سامان پیدا کریگا۔ پہلے تو ہم اس کی قیاسی تشریح کرتے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ عملی طور پر اس کی تشریح کردی اور مجھے اسماعیل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پائوں کے نیچے سے میرے پانی بہادیا
یعنی جہاں میرا پائوں پڑا خدا تعالیٰ نے وہاں پانی بہادیا۔<۳۷
اس حیرت انگیز پیشگوئی کے بعد ربوہ کی بے آب وگیاہ زمین میں ایک نمایاں تغیر محسوس کیا جانے لگا۔ چنانچہ جہاں کھاری پانی کے مزہ اور رنگت میں تبدیلی ہونے لگی وہاں ریلوے لائن کے دونوں طرف میٹھا پانی دستیاب ہوگیا۔ حتیٰ کہ الہام خداوندی کے ظاہری الفاظ کے عین مطابق حضرت مصلح موعود کے اپنے قطعہ زمین سے گویا میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا جس پر ربوہ کا پہلا ٹیوب ویل نصب ہوا۔ اور پھر آہستہ آہستہ پانی کی وہ بہتات ہوئی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی دعائوں کے طفیل ہر طرف سچ مچ پانی بہہ نکلا۔
ربوہ میں ظلی صدرانجمن احمدیہ و تحریک جدید کا قیام
حضرت مصلح موعود نے ۱۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ربوہ میں مشترکہ طور پر کام چلانے کے لئے عارضی طور پر صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ممبروں پر مشتمل ایک ظلی انجمن قائم فرمائی جس کا صدر چودھری عبدالسلام صاحب اختر کو اور سیکرٹری مولوی عبدالرحمن صاحب انور کو مقرر فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ روزانہ اجلاس ہوا کرے اور روزانہ اس کے فیصلہ جات کی تعمیل ہوا کرے نیز سب کام مشورہ سے ہوں اور ان کی روزانہ رپورٹ حضور کی خدمت میں بھجوائی جائے۔
یہ انجمن ربوہ سے متعلق حضرت مصلح موعود کی جاری فرمودہ ہدایات وارشادات کی تعمیل کے لئے معرض وجود میں لائی گئی تھی اور اس نے حتی المقدور اپنایہ فرض نہایت عمدگی سے نباہنے کی کوشش کی۔
عارضی تعمیرات کے لئے ضروری سامان کی فراہمی
حضرت مصلح موعود اپنے نور فراست اور دوبین نگاہ سے ابتداء ہی میں اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ ربوہ کی مستقل آبادی سے پیشتر اس جگہ عارضی رہائش گاہوں یا جھونپڑو کا بندوبست بہت ضروری ہے ظاہر ہے کہ یہ مقصد سرکنڈا` عمارتی سامان اور کچی اینٹوں کی تیاری کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔
ربوہ کے تیرہ چودہ میل کے فاصلہ پر باہیوال کے علاقہ میں سرکنڈوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا جو خرید لیا گیا۔ جس کی عمومی نگرای چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر واقف زندگی کے سپرد ہوئی اور ساہیوال سے ربوہ تک کی ڈھلائی سے منتظم بدر سلطان صاحب اختر واقف زندگی بنائے گئے۔
عمارتی سامان سے متعلق حضور کا فرمان مبارک یہ تھا کہ سامان ارزاں اور اتنی کثیرتعداد میں خرید کیا جائے کہ نہ صرف مرکزی ضروریات پوری ہوجائیں بلکہ ربوہ کے دوسرے احمدی بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ایک عمومی ہدایت یہ بھی تھی کہ کہ دروازو اور کھڑکیوں کا ایک ایسا معین ماڈل بنالیا جائے جو ہر رہائش گاہ کے لئے سود مند ثابت ہوسکے۔ حضور نے عمارتوں کی تعمیر کے لئے لکڑی کے چھوٹے ٹکڑو کی خرید کا بھی حکم دیا۔
حضرت امیرالمومنین کی ان اصولی ہدایات کی روشنی میں وزیرآباد` نوشہرہ` جہلم اور پشاور وغیرہ میں عمارتی ساما کی جستجو کی جارہی تھی کہ ڈی۔ بی ہائی سکول بھاگٹانوالہ )ضلع سرگودھا( کے ایک مخلص احمدی ماسٹر جناب ممتاز صحرائی صاحب کا ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کا ایک خط حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پہنچا کہ یہاں ایک ہوائی اڈے کا سامان قابل فروخت بہت بڑی تعداد میں پڑا ہے اور خان میاں خاں رئیس سرگودھا کی تحویل میں ہے۔ اس اطلاع پر چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیر کو بھجوایا گیا جنہوں نے آکر یہ خوشکن رپورٹ دی کہ سامان واقعی کافی مقدار می ہے اور اچھی حالت میں ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا >یہ سامان تو نعمت غیر مترقیہ ہے۔ فوراً آدمی جاکر سب سامان خریدلے۔ یہ مل جائے تو عمارت کا خرچ ۴/۱ کم ہوجائے گا۔ فوراً آدمی جائے تاخیر نہ ہو۔<
قدیم اور مستند ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اندازاً ساڑھے چار ہزار بلی اور ساڑھے چار سو کے قریب دروازے اور کھڑکیاں بھاگٹانوالہ سے خریدی گئیں جن پر صرف بیس ہزار روپے صرف ہوئے اس عمارتی سامان سے نہ صرف عارضی تعمیرات کا مشکل مسئلہ حل کرنے میں بھاری مدد دی بلکہ بعد کو جب وقتی رہائش گاہیں گرادی گئیں تو سامان اچھے داموں پر فروخت ہوگیا یا صدر انجمن اور تحریک جدید میں تقسیم ہوکر بہترین جماعتی مصرف میں آیا۔ چنانچہ حضور کے حکم سے غرباء کے لئے جو مکانات بنائے گئے ان میں بھی یہ سامان استعمال کیا گیا۔ جب عارضی کوارٹروں کے گرانے کا مرحلہ آیا تو حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے یہ ہدایت تحریر فرمائی کہ
>یہ کام سکرٹری صاحب تعمیر کی نگرانی میں ہو کسی اور کا دخل نہ ہو کیونکہ جو مال لگا ہے وہ ان کا ہے۔ ان کو موقعہ ملنا چاہئے کہ سب کام سنبھال لیا ہے۔ میں ان کا سرٹیفکیٹ لوں گا۔ دو دفعہ پہلی دفعہ کہ میرے سپرد یہ کام ہوا اور سب چیز موجود ہے۔ دوسری دفعہ کہ میں نے یہ کام کیا ہے اور سب مل لیا ہے کچی اینٹ بھی بچائیں۔ کوشش کی جائے۔<۳۸
اس کے بعد جب سکرٹری صاحب تعمیر )عطا محمد صاحب( نے حضور کی خدمت میں مطلوبہ تصدیقات پیش کرکے سامان کی فروخت کے لئے اجازت چاہی تو حضور نے انہیں حکم دیا کہ >فروخت کے قواعد پہلے منطور کرائیں<
چنانچہ ان احکام کی تعمیل کی گئی اور اس طرح خلیفئہ وقت کی بروقت اقدام اور رہنمائی کی بدولت قومی سرمایہ محفظ ہوگیا۔
جہاں تک خام اینٹوں کا تعلق تھا حضرت مصلح موعود نے ۲۹۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو اپنے دستخط سے یہ ہدایت جاری فرمائی کہ
>ظلی صدرانجمن و تحریک جدید کا فرض قرار دیاجاتا ہے کہ وہ یہ انتظام کرے کہ روزانہ پچیس ہزار کچی اینٹیں تیار ہوں اور جو سرکنڈا خریدا گیا ہے اسے کٹوا کر منگوایا جائے اور جو اخراجات ان کاموں کے لئے مطلوب ہوں اور ان کا اسٹیمیٹ پیش کرکے منظوری حاصل کی جائے۔<
اس ارشاد پر اگرچہ خشت خام تیار کی جانے لگی مگر پانی کی کمی اور مزدوروں کی قلت کے باعث رفتار بے حد سست رہی پیش آمدہ مشکلات کی بناء پر حضور سے درخواست کی گئی کہ چنیوٹ کی ایک ٹھیکیدار سے تیار شدہ کچی اینٹیں خرید لی جائیں۔ مگر حضور نے نہایت سختی سے یہ تجویز رد کردی اور فرمایا کہ ہرگز نہیں جس نے ایسا کیا اسے جماعت سے فارغ کردیا جائے گا۔ میں کوئی عذر نہیں سنوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح بھی ہو روزانہ پچیس ہزار اینٹ تیار ہونی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ جب اپنے برگزیدہ بندوں کے دل میں کوئی تحریک القاء فرماتا ہے تو خارج میں اس کے مطابق تغیرات اور مادی سامان بھی پیدا کردیتا ہے۔ چنانچہ راجہ محمد نواز صاحب سابق نگران تعمیر کا بیان ہے کہ ایک موقع پر جب حضور نے انہیں حکیم دیا کہ روزانہ پچاس ہزار کچی اینٹیں تیار ہونی چاہئیں تو خدا تعالیٰ کی فضل و کرم سے اتنی تعداد تیار ہونے لگی۔
ربوہ میں پہلی عارضی عمارت کی بنیاد
‏]txet [tagالمختصر جب کچی اینٹوں کی ایک معقول تعداد تیار ہوگئی تو ۷۔ ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو خیموں کی مشرقی جانب وسطی پہاڑی کے دامن میں پہلی عارضی عمارت کی تعبیر کا آغاز ہوا۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب چنیوٹ سے تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے اس کی بنیاد رکھی۔ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ربوہ میں موجود صحابہ نے بھی ایک ایک اینٹ نصب کی۔ یہ پہلی عمارت سات کمروں پر مشتمل تھی۔ یہ عمارت شروع میں چند ماہ تک دفتری گودام کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ چنانچہ ایک کمرہ بابو نور احمد صاحب چغتائی۳۹ کی زیرنگرانی سیمنٹ کے لئے مخصوص تھا۔ ایک میں دفتر جائداد کا لاہور سے خرید شدہ فرنیچر رکھا گیا۔ اور ایک میں انچارج صاحب لنگر خانہ نے گندم کا سٹاک رکھوایا۔ ایک کمرہ میں لائبریری کی کتب تھیں جن کا انتظام ان دنوں مولوی عبدالرحمن صاحب انور وکیل الدیوان تحریک جدید کے سپرد تھا۔
یہ چاروں کمرے ۲۰ x ۳۰ فٹ کے تھے۔ بقیہ تین میں سے دو کمرے دس دس فٹ مربع میں تھے اور ایک کمرہ ۲۰ x ۱۰ کا تھا۔
ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کے پہلے جلسہ ربوہ میں اس پہلی عارضی عمارت میں لنگر خانہ قائم کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد جب دوسرے عارضی لنگر خانے تیار ہوگئے تو یہ عمارت پرائیویٹ رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہونے لگی جو اب تک موجود ہے۔
حضرت مصلح موعود کی طرف سے نئے مرکز کی آبادی اور تعمیر میں شرکت کے خواہشمند اہل حرفہ کو تیار رہنے کا حکم
افتتاح ربوہ سے قبل اور بعد جماعت احمدیہ کے مرکزی آرگن >الفضل< میں پے در پے اعلانات ۴۰ کئے گئے کہ جو معمار` بڑھئی` مستری` حلوائی` دودھ فروش` نانبائی` حجام`
دھوبی` مزدور یا دوسرے اہل حرفہ جو شہری ضروریات کے کسی کام کا تجویز رکھتے ہوں اور نئے مرکز میں کام کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہوں وہ اپنی درخواستیں بھجوادیں۔
ان علامات پر سینکڑوں دوستون نے مخلصانہ لبیک کہا جس پر حضرت مصلح موعود نے جلسہ لاہور ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے موقعہ پر اظہار خوشنودی کیا اور انہیں ربوہ کے لئی تیار رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا۔
>ہماری تحریک پر بڑھئی` معماروں اور دیگر کاریگروں نے کئی سو کی تعداد میں مرکز میں کام کرنے کی درخواستیں دی ہیں۔ میں ان سب کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب وہ پابہ رکاب رہیں۔ جس وقت بھی انہیں اطلاع دی جائے انہیں فوراً ربوہ پہنچ کر کام شروع کردینا چاہئے۔ یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک ایک گھڑی کی تعویق بھی ہمارے لئے مضر ہے۔<۴۱
فصل سوم
ربوہ میں حضرت مصلح موعود کی پریس کانفرنس اور اخبارات میں چرچا
ربوہ کی بے آب وگیاہ زمین جسے جماعت احمدیہ کے اوالوالعزم امام اور قائد سیدنا حضرت مصلح موعود ایک شاندار اسلامی شہر میں بدلنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے` اگرچہ ابھی تک خیموں کے ایک مختصر سے کیمپ کا منظر پیش کررہی تھی مگر خالص الٰہی تصرف کے باعث عام لوگوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنتی جارہی تھی اور ضرورت تھی کہ پبلک کو اس بستی کے وسیع جماعتی منصوبہ سے متعارف کرایا جائے تا حکومت اور پاکستان کے عوام کو بھی باہمی تعاون سے نئی بستیاں آباد کرنے کا شوق وولولہ پیدا ہو اور ملک ایک نئی روح` نئے عزم اور نئے جوش کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے لگے۔
حضرت مصلح موعود نے اس عظیم دینی` قومی اور ملی مقصد کے پیش نظر ۷۔ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ربوہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ اس کانفرس میں لاہور کے تمام مشہور و ممتاز اور کثیرالاشاعت اردو و انگریزی اخبارات کے مدیر اور نامہ نگار شامل ہوئے اور نہایت گہرا اثر لے کر گئے۔
>الفضل< کے وقائع نگار خصوصی جناب ثاقب زیروی کی مطبوعہ رپورٹ کے مطابق حضرت امیرالمومنین سلسلہ احمدیہ کے بعض ممتاز اصحاب اور لاہور کے مدیروں اور چیف رپورٹروں کی معیت میں ۷۔ ماہ نبوت/نومبر کو رتن باغ لاہور سے پونے نو بجے صبح موٹر کار میں روانہ ہوئے اور قریباً بارہ بجے ربوہ میں رونق افروز ہوئے۔
حضور کے ہمراہ مندرجہ ذیل بزرگ اور احباب سلسلہ تھے۔ حضرت مرزا بشیراحمد صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج` شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور` چودھری اسداللہ خاں صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور` نواب محمد الدین صاحب ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر` حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب اور چودھری اعجاز نصراللہ خاں صاحب جریدہ نگاروں کا قافلہ مندرجہ ذیل شخصیتوں پر مشتمل تھا۔
‏]qi [tagکرنل فیض احمد صاحب فیض )چیف ایڈیٹر پاکستان ٹائمز( میاں محمد شفیع )چیف رپورٹر پاکستان ٹائمز( مسٹر جمیل الزمان )چیف رپورٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ( مولانا عبدالمجید سالک )مدیر اعلٰے روزنامہ انقلاب( سردار فضلی )چیف رپورٹر روزنامہ احسان( میاں صالح محمد صدیق )چیف نیوز ایڈیٹر روزنامہ مغربی پاکستان( مولانا باری علیگ )برٹش انفارمیشن سروس( مسٹر عثمان صدیقی )مینجر اینڈ چیف رپورٹر سٹار نیوز ایجنسی( پروفیسر محمد سرور )مدیر ہفتہ وار آفاق( جناب محمد صدیق ثاقب زیروی )نامہ نگار خصوصی الفضل(
معزز مہمانوں کے لئے نصب شدہ خیموں میں سے ایک خیمہ کے اندر کھانے کا انتطام تھا جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے سپرد تھا اور جنہوں نے اس فریضہ کو اس احسن طریق سے سرانجام دیا کہ جریدہ نگاروں نے ربوہ سے رخصت ہوتے وقت ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
کھانے کے بعد حضور نے پریس کے نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس زمین کو حکومت بالکل ناقابل کاشت قرار دے چکی ہے۔ گرمی کے متعلق ریسرچ والوں کو کہنا یہی ہے کہ یہاں گرمی بہت زیادہ پڑے گی۔ لیکن ہم اس جنگل کو منگل بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ ایک عرصے کی کوشش کے بعد پانی نکلا ہے لیکن وہ نمکین زیادہ ہے لہذا ابھی مزید کوشش کی جائے گی۔ حضور نے >ربوہ< پر آباد کئے جانے والے شہر کا نقشہ سامنے رکھ کر بتایا کہ اس کی تعمیر امریکی طرز پر ہوگی جس میں ہسپتال کالج` سکول` ویٹرنری ہسپتال` ریلوے اسٹیشن` ڈاک خانہ` واٹرورکس اور بجلی گھر کے علاوہ صنعتی اداروں کے لئے بھی ایک طرف جگہ چھوڑی گئی ہے۔
حضور نے بتایا کہ ہم فی الحال پختہ بنیادوں پر کچی دیواریں ہی کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کم از کم خرچ کا اندازہ ۱۳ لاکھ روپیہ ہے۔ اس کے بعد جب ہمیں اللہ تعالٰے پختہ مکانات تعمیر کرنے کا موقعہ دے گا تو مزید ۱۷۔ ۱۸ لاکھ روپیہ خرچ ہوگا۔ گویا تمہیں لاکھ کے قریب رقم تو اس پر سلسلہ ہی کو خرچ کرنی پڑے گی۔ دوسرے لوگ جو اپنے مکانوں پر خرچ کریں گے وہ اس کے علاوہ ہوگا۔ اس سے آپ لوگ اندازہ کرسکتے ہیں۔
کہ ہمیں یہ زمین کتنی مہنگی پڑے گی اور اس پر سلسلے کو کس قدر محنت اور مشقت کرنی پڑے گی۔
حضور نے اس کے علاوہ حدود اربعہ اور مغربی پنجاب کی ہندوستانی سے لگنے والی سرحدوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ یہ جگہ صوبے کے عین وسط میں پڑتی ہے اور اگر اسی کے محل وقوع میں خالی قطعات ارض پر حکومت جدید نمونے کے صنعتی شہرآباد کرائے تو یہ شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کا کام دے سکیں گے۔
حضور کے خطاب کے بعد چند ضروری کاموں کی وجہ سے پاکستان ٹائمز کے مدیر اعلیٰ کرنل فیض احمد صاحب` مسٹر عثمان صدیقی` بشیراحمد صاحب اور عبدالرحیم صاحب پراچہ واپس تشریف لے آئے۔ حضور ان مہمانوں کو سڑک چھوڑنے کے لئے پیدل تشریف لے گئے۔
جناب فیض صاحب کے روانہ ہونے کے بعد اخبار نویسوں کا یہ مجمع بیٹھنے کے لئے مخصوص خیمے میں آگیا جہاں مدیر اعلٰے روزنامہ انقلاب جناب سالک نے اپنے کلام بلاغت نظام سے محظوظ فرمایا۔
یہ شعر و شاعری کا زور ابھی شروع تھا کہ نماز سے فراغت کے بعد حضور کا پیغامبر یہ پیغام لئے ہوئے پہنچا کر آئو اور ذرا ربوہ سے آگے پندرہ سولہ میل چل پھر آئیں۔ چنانچہ یہ سارے کا سارا قافلہ کاروں پر سوار ہوکر کئی ہزار ایکڑ بنجر زمین کے ایک میدان میں آگیا جس کے شمال میں بہت اونچی پہاڑیوں کا ایک لمبا سلسلہ تھا۔ ٹکڑے کی اہمیت کی وضاحت کے بعد پہاڑیوں کی بلندی پر بنے ہوئے چند مکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر ہندو یوگہیوں کی ایک بستی تھی اور یہ بستی پورے ہندوستان کے سارے یوگہیوں کا مرکز تصور ہوتی تھی۔ اسے پنجابی میں بھگت بالناتھ کاٹلہ یا ٹیلہ بھی کہا جاتا ہے۔
واپسی پر حضرت سیدمحموداللہ شاہ صاحب اور ان کے رفقاء کار )مولوی عبدالرحمن صاحب انور اور چودھری عبدالسلام صاحب اختر( نے مہمانوں کو چائے پلائی اور چائے کے بعد قریباً پانچ بجے انتہائی خوشگوار ماحول میں جریدہ نگاروں کا یہ قافلہ حضور کے ہمراہ واپس لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ راستے میں اگر سست روی کی وجہ سے کوئی کار قافلے سے دور رہ جاتی تو حضور انور اپنی کار روک لیتے جب تک ساتھ نہ آملتی۔ المختصر یہ قافلہ حضرت مصلح موعود کی قیادت میں ٹھیک سوا آٹھ بجے شب واپس رتن باغ لاہور پہنچ گیا۔ ۴۲
اخبارات میں تفصیلی خبر اور جماعت احمدیہ کو خراج تحسین
حضرت امیرالمومنین سیدنا وامامنا و مرشدنا المصلح الموعود کا خطاب اتنا اثر انگیز اور پرجذب تھا کہ صحافیوں نے جلی اور شہ سرخیوں سے اس کی مفصل خبر شائع کی اور جماعت احمدیہ اور اس کے امام ہمام کو اس عزم و ہمت پر خراج تحسین ادا کیا۔
۱۔
اخبار >احسان نے لکھا۔<
مغربی پنجاب میں امریکی طرز پر ایک نئے شہرکا کام شروع ہوگیا
یہ شہرپچیس لاکھ کے مصرف سے ایک سال میں مکمل ہوجائے گا
لاہور۔ ۸ نومبر۔ جماعت احمدیہ کے امیر مرزا بشیرالدین محمود احمد کی دعوت پر مقامی اخبار نویسوں کی ایک پارٹی جماعت احمدیہ پاکستان کے نئے مرکز ربوہ کے دیکھنے گئی جو لاہور سے کوئی ایک سو میل اور چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے غربی کنارے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں ایک بے آب وگیاہ غیرمزرعہ اور ناقابل آبادی قطعہ زمین پر آباد کیا جارہا ہے۔ زمین کا یہ ٹکڑا جو ایک ہزار چونتیس ایکڑ پر مشتمل ہے اور جسے حکومت سے خرید لیا گیا ہے ان دنوں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ یہاں ربوہ نام سے امریکی طرز پر ایک جدید ترین شہر زیر تعمیر ہے جس کی لاگت کا ابتدائی اندازہ کوئی پچیس لاکھ روپے کے قریب لگایا گیا ہے جائے وقوع کے لحاظ سے ربوہ لائل پور اور سرگودھا کے عین وسط میں واقع ہے۔ اس کے تین طرف تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں قدرتی ڈیفنس کے طور پر کھڑی ہیں لیکن جنوب مغربی سمت سے یہ کھلا پڑا ہے اور اس کا سلسلہ دور تک مزروعہ زمین سے ملتا چلاگیا ہے۔ ریلوے لائن اور پختہ سڑک اس قطعہ زمین کے پاس سے گزرتی ہیں۔ لیکن زمین میں مادہ شور ہونے کی وجہ سے کئی کئی میل تک آبادی کا کہیں نام ونشان نہیں۔
صبح نو بجے روانہ ہوکر اخبار نویسوں کا قافلہ کوئی تین گھنٹے میں ربوہ پہنچ گیا۔ جہاں سینکڑوں رضاکار خیمے وغیرہ نصب کرنے میں مصروف تھے۔ اخبار نویسوں کے علاوہ اس قافلہ میں مرزا بشیرالدین محمود احمد` صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاح` مرزا بشیراحمد` نواب محمدالدین` چودھری اسداللہ خاں` شیخ بشیراحمد` مسٹر عبدالرحیم درد اور چودھری نصراللہ خاں شامل تھے۔
ربوہ میں پہنچنے پر مرزا بشیرالدین محمود احمد نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ انہوں نے نئے شہر کی تعمیر کا نقشہ امریکی طرز پر بنوایا ہے اور یہ شہر کی پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا شہر ہوگا۔ اس میں سکول` کالج` ہسپتال` واٹرورکس اور بجلی گھر` غرضکہ ایک جدید طرز کے شہر کے تمام لوازمات مہیا کئے جائیں گے۔ ریلوے سٹیشن اور ڈاکخانہ` تار گھر کھولنے کے لئے حکومت سے اجازت حاصل کرلی گئی ہے اور بہت جلد ان کی تعمیر کا کام شروع ہوجائے گا۔
مرزا صاحب نے بتایا کہ وہ خشک اور بنجر پہاڑیوں کو سیرگاہوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ ان پہاڑیو پر مختلف قسم کے پھول اور سبزی وغیرہ اگانے سے ایک تو موسم گرما میں اس نئے شہر کے لوگ گرمی کے شدت سے محفوظ رہ سکیں اور دوسرے ان پہاڑیوں پر سیروتفریح کا لطف بھی اٹھایا جاسکے۔ آپ نے اخباری نمائندوں کے سامنے ربوہ نام کی تاریخی اہمیت و مذہبی حیثیت کو اپنے الہامات اور دریاء کی روشنی میں واضح کیا اور امید ظاہر کی کہ وہ ایک سال کے اندر اندر نئے شہر کی تعمیر کے کام کو مکمل کرلیں گے۔
مرزا صاحب نے بتایا کہ نہ صرف مغربی پنجاب بلکہ مغربی پاکستان میں اس قسم کے کئی بنجر اور غیرآباد علاقے بے مصرف پڑے ہیں۔ اگر مشرقی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں مثلاً جالندھر امرتسر اور لدھیانہ کے مسلمان اپنی سابقہ جماعت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی صنعتوں کو کو آپریٹو رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ربوہ کی قسم کے نئے قصبوں کی بنائیں ویسے بھی کئی دفاعی ضرورتیں اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارے صنعتی علاقے سرحد سے کالی دور ہوں اور ان کی ڈیفنس کا کوئی قدرتی انتظام ہو۔ صرف اسی صورت میں ہم اطمینان سے بیٹھ کر اپنی صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک کے معیار پر لاسکتے ہیں۔
آپ نے بتایا کہ یہاں ربوہ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر کوئی سترہ اٹھارہ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے دامن میں تین چار )ہزار( ایکڑ پر مشتمل ایک سرکاری قطعہ زمین پڑا ہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ اگر لدھیانہ یا امرت سر کے کاریگر اس قطعہ زمین کو حاصل کرکے یہاں ایک صنعتی شہرآباد کرنا چاہیں تو حکومت سے بھی مدد کی امید کی جاسکتی ہے۔
اخبار نویسوں کے اشتیاق پر مرزا صاحب ے اس قطعہ زمین کے دورہ کا بھی پروگرام بنایا چنانچہ تیسرے پہر پورے قافلے نے اس سرکاری اراصی کو بھی دیکھا۔ یہ اراصی ایک ایسی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے جسے بعض روایتوں کی بناء پر گروبالناتھ کا ٹیلہ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رانجہانے اس ٹیلہ پر گوردبالناتھ سے یوگ لیا تھا اور کان چھدوا کر مندریں ڈالی تھیں۔ کوئی سات سو برس سے یہ ٹلہ ہندو جوگیوں کے قبضہ میں تھا۔ لیکن گذشتہ فسادات کے موقعہ پر یہ جوگی ہندوستان چلے گئے تھے۔ آج کل یہ ٹلہ جس پر تقسیم سے پہلے اچھی خاصی آبادی تھی ویران پڑا ہے۔ اس قطعہ زمین میں کبھی کبھی پولیس والے چاند ماری کے لئے آجاتے ہیں۔ ورنہ یہ زمین بالکل بیکار پڑی رہتی ہے۔
مرزا صاحب نے کہا کہ اگر حکومت اس رقبہ میں ایک صنعتی شہر تعمیر کرانے کا پروگرام بنالے تو اس قسم کے دوسرے مقامات پر بھی نئے نئے شہر بننے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
ٹلہ بالناتھ سے واپسی پر اخبار نویسوں کی طرف سے مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ربوہ کیے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور یہ قافلہ مرزا بشیرالدین محمود احمد کے ہمراہ رات کے وقت واپس لاہور پہنچ گیا۔<
۲۔
روزنامہ >مغربی پاکستان< نے حسب ذیل الفاظ میں خبرشائع کی۔
>چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلہ پر احمدیوں نے ایک شہر بنانے کا کام شروع کردیا شہر جدید طرز اور امریکی نوعیت کا ہوگا
ابتدائی سکیم کی تیاریاں
لاہور۔ ۷ نومبر۔ آج مرزا بشیرالدین محمود احمد امیر جماعت احمدیہ کی دعوت پر لاہور کے تمام اخبارات کی ایک پارٹی نے ربوہ کا دورہ کیا جو چنیوٹ سے چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جب پریس پارٹی ربوہ پہنچی تو وہاں پر سرکردہ اصحاب نے اخبارات کے نمائندوں کا خیرمقدم کیا۔ ربوہ کا وہ علاقہ دکھایا جہاں جدید طرز کا ایک چھوٹا سا شہر آباد کیا جائے گا۔ یہ جگہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کے دامن میں ایک خوشنما قطعہ اراضی ہے۔
مرزا بشیرالدین محمود احمد نے اخبارات کے نمائندوں کو بتایا کہ جماعت احمدیہ نے حکومت مغربی پنجاب سے ایک ہزار سے کچھ زیادہ ایکڑ زمین خریدی ہے جہاں امریکی طرز پر ایک چھوٹا سا شہر تعمیر کیا جائے گا۔ ہسپتال` کالج` سکول` وٹرنری ہسپتال` ریلوے اسٹیشن` ڈاک خانہ` واٹرورکس اور بجلی گھر لگانے کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔ ماہرین تعمیرات نے شہر کی تعمیر کا ابتدائی نقشہ امریکی طرز پر تیار کرلیا ہے جو عنقریب ٹائون پلینر کی منظوری کے لئے ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس شہر کی ضروری عمارتوں کی تعمیر پر تقریباً تیرہ لاکھ روپیہ صرف ہوگا جو جماعت برداشت کرے گی۔
مرزا صاحب نے مزید بتایا کہ وہ شہر کو اس قدر دلفریب اور جدید نوعیت کا بنانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک نمونہ ہو اور حکومت بھی اس قسم کے شہر ان علاقوں میں تعمیر کرے جو فضول پڑے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو ایک بہترین خطہ اراضی بنایا جائے اور یہ اسی طرح ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت ان علاقوں میں جدید طرز کے گائوں اور شہر بنانے کا کام شروع کردے تو تھوڑے ہی عرصے میں تمام پاکستان جنت نظیر بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ربوہ میں کارخانے بھی لگائے جائیں گے جو ضروریات زندگی تیار کریں گے۔ اس مقصد کے لئے ایک حصہ وقف کردیا گیا ہے۔ آپ نے توقع ظاہر کی کہ جونہی حکومت نے شہر کی تعمیر کی اجازت دے دی تو بیک وقت کام شروع کردیا جائے گا۔ اور ایک سال کے اندر اندر شہر کو مکمل کردیا جائے گا۔ ربوہ کا دورہ کرنے کے بعد اخبار نویسوں کو ٹیلہ بالناتھ کا دورہ کرایا گیا جہاں سات ہزار ایکڑ زمین بیکار پڑی ہے۔ آپ نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ اگر حکومت اس زمین پر ایک شہر تعمیر کرنے کا پروگرام بنائے تو ایک بہترین شہر اس علاقہ میں تعمیر ہوسکتا ہے۔
۳۔
>سول اینڈ ملٹری گزٹ< کے نامہ نگار خصوصی نے لکھا۔
احمدیوں کا نیا مرکز ربوہ
لاہور کے اخبار نویسوں کی ایک پارٹی نے گذشتہ اتوار کو ربوہ کے مقام پر ایک نہایت خوشگوار ٹرپ کی۔ ربوہ شیخوپورہ اور سرگودھا کے درمیان کی سڑک پر چنیوٹ سے تقریباً دس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس جگہ جماعت احمدیہ نے اپنے مرکزی دفاتر قائم کرنے کے لئے ایک ہزار چونتیس ایکڑ زمین خریدی ہے۔ جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ سردست نئی بستی کے قیام پر تیرہ لاکھ روپیہ کے خرچہ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ہم یہاں پر ایک ایسا معیاری قصبہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ہسپتال` تعلیمی ادارے اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے علاوہ مقامی باشندوں کے لئے ہر ممکن سہولتیں مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
دریائے چناب سے واٹر پمپ کے ذریعہ سے قصبہ کے لئے مہیا کیا جائے گا۔ اخبار نویسو کی پارٹی نے ربوہ سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور موزوں قطعہ زمین بھی دیکھا جہاں ایک صنعتی بستی قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ قطعہ سرگودھا کی نہری نوآبادی سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے۔<
۴۔
>سٹار< کے چیف رپورٹر نے لکھا۔
امام جماعت احمدیہ ربوہ کو پاکستان میں نمونہ کا شہر بنانا چاہتے ہیں
لاہور سے سومیل دور ۔۔۔۔۔۔۔۔ احمدیوں کا نیا مرکز
لاہور ۸ نومبر۔ لاہور سے سو میل دور احمدی ایک شہر بنام ربوہ تعمیر کررہے ہیں جو جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کا مرکز ہوگا۔ شہر کے نام ربوہ کو جس کے معنے ایک پہاڑی ٹیلے کے ہیں۔ مذہبی اہمیت کو بھی حاصل ہے۔ احمدیوں کے مصروف عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر جان نہیں دی بلکہ ابھی ان پر غشی اور بے ہوشی کی سی حالت طاری تھی کہ ان کے حواری انہیں صلیب سے اتار کر کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے جہاں انہوں نے ایک پہاڑی ٹیلے پر پناہ لی۔ احمدی قادیان سے اپنی حالیہ ہجرت کو بھی اسی ہجرت کے مشابہ جان کو کہتے ہیں کہ انہوں نے قادیان سے نکالے جانے کے بعد اس بے آب وگیاہ غیر مرزعہ کوہستانی علاقہ میں پناہ لی ہے جس کا نام ربوہ تجویز کیا گیا ہے۔
یہ شہر جس کی تعمیر کے متعلق جماعت احمدیہ نہایت بلند اور حوصلہ افزاء عزائم رکھتی ہے بارہ سو ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہوگا اور اس کی تعمیر پر اوسط اندازے کے مطابق کم از کم پچاس لاکھ روپیہ خرچ آئے گا۔ ربوہ میں دو کالج ہوں گے۔ ایک لڑکیوں کا ایک لڑکوں کا۔ اس کے علاوہ کئی اور سکول` ایک بڑا ہسپتال` شفاخانہ حیوانات` ڈاک خانہ اور تار گھر ارو ریلوے سٹیشن ہوگا۔ بجلی مہیا کرنے کے انتظامات بھی کئے جارہے ہیں بلکہ ایک جنریٹر تو پہنچ بھی چکا ہے اور ابھی دو اور جنریٹر جلد لائے جائیں گے۔
جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے اخبار نویسوں کی ایک پارٹی کو )جو ربوہ دیکھنے کے لئے گئی تھی( بتایا کہ وہ اسے پاکستان میں ایک نمونے کا شہر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو امریکی طرز پر تعمیر کیا جائے گا۔ اس شہر میں صنعتی اداروں کے لئے بھی جگہ رکھی جائے گی جو شہری آبادی سے ذرا ہٹ کر ہوگی۔ توقع ہے کہ شہر کی تعمیر ایک سال کے اندر اندر ختم ہوجائے گی اور جماعت احمدیہ کا آئندہ سالانہ جلسہ جو اگلے دسمبر میں ہونے والا ہے` بھی ربوہ ہی میں منعقد کیا جائے گا۔<
۵۔
>پاکستان ٹائمز< کے نامہ نگار خصوصی نے حسب ذیل خبردی۔
پاکستانی احمدیوں کا نیا مرکز
>دریائے چناب کے دائیں کنارے چنیوٹ کے قرب میں ایک نئے مثالی شہر کی بنیاد رکھتے ہیں نہایت دور اندیشی اور صحیح تخیل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس شہر کی آبادکاری کے لئے بارہ سو )۱۰۳۴۔ ایکڑ مترجم( ایکڑ اراضی کا ایک قطعہ منتخب کیا گیا ہے اور اس کا نام ربوہ تجویز ہوا ہے۔ پکی شاہراہ سے چند قدموں کے فاصلہ پر اتفاقاً گزرنے والوں کے لئے یہ ایک خوبصورت مقام ہوگا۔ جہاں مہاجر احمدیہ خلافت کا مرکز بنایا جائے گا۔ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد نے جو اخبار نویسوں کے ہمراہ یہاں تشریف لائے تھے` بیان کیا کہ ایک رئویا جو انہوں نے کچھ دن ہوئے دیکھی تھی اور قرآ کریم کی ایک آیت نے ان کو اس اراضی کے انتخاب میں جسے حکومت نے ناقابل زراعت اور بنجر قرار دے دیا تھا مدد دی ہے۔
انجمن کے دفاتر` ہسپتال` سکول` کالج اور سڑکیں تیار کرنے میں ساڑھے تیرہ لاکھ روپیہ کے ابتدائی خرچ کا تخمینہ کیا گیا ہے جونہی صوبائی مجوز تعمیرات تعمیری نقشہ جات کو منظور کرے گا` تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔ اخبار نویسوں کے اس مقام سے پندرہ میل کے فاصلہ پر ایک اور سات ہزار ایکڑ کا قطعہ اراضی بھی دکھایا گیا جو ایک صنعتی شہر کی آبادی کے لئے نہایت موزوں ہے۔<۴۳
۶۔
>امروز< نے >قادیان کی بجائے ربوہ< کے عنوان سے یہ شدزہ لکھا۔
>قادیانی جماعت نے چنیوٹ کے قریب ایک بستی بسائی ہے جس کا نام ربوہ رکھا گیا ہے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس بستی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ربوہ کے معنی مقام خداوندی کے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ ربوہ عربی میں ٹیلے کو کہتے ہیں۔ قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد تھے جو قادیان کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ۱۹۰۸ء میں انتقال کیا۔ ان کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین تھے جنہوں نے ۱۹۱۴ء میں انتقال کیا۔ قادیانی جماعت کے موجودہ امام مرزا بشیرالدین محمود احمد مرزا غلام احمد صاحب کے بیٹے ہیں دوسرے خلیفہ ہیں۔ حکیم صاحب کے انتقال پر قادیانی جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی تھی۔ ایک جماعت نے مرزا بشیرالدین محمود احمد کے ہاتھ پر بیعت کی۔ دوسری نے جس کے سرگردہ مولوی محمد علی تھے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیا۔ اور لاہور کو اپنا مرکز بنایا۔ اس جماعت کے امیر مولوی محمد علی ہیں۔ دونوں جماعتوں میں عقائد کے لحاظ سے بھی اختلافات ہیں۔ مثلاً اول الذکر جماعت مرزا صاحب کو نبی کہتی ہے۔ ثانی الذکر کا خیال ہے کہ وہ مسیح موعود اور مجدد تو تھے لیکن نبی نہیں تھے۔ اس کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا۔
قادیانی جماعت کے نزدیک قادیان کو بڑا تقدس حاصل ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ربوہ کو بھی وہ تقدس حاصل ہوگا یا نہیں؟<
۷۔
>ڈان< نے لکھا۔
دریائے چناب کے کنارے احمدیہ جماعت کی نئی بستی
>لاہور ۹ نومبر۔ دریائے چناب کے دائیں کنارے پر متصل چنیوٹ ایک نیا شہر جس کا نام ربوہ رکھا گیا ہے۔ احمدیہ جماعت کے مہاجرین کی آبادی کے لئے جماعت احمدیہ تعمیر کررہی ہے۔ اس شہر کے آغاز میں دو ہزار مکانات بنائے جائیں گے۔
صدر انجمن احمدیہ کو انجمن کے دفاتر` سکول` ہسپتال` کالج` سڑکیں وغیرہ بنانے کے لئے فی الحال ساڑھے تیرہ لاکھ روپے کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا۔
جونہی محکمہ مجوز تعمیرات سے تعمیری نقشہ منظور ہوکر وصول ہوجائے گا تعمیر کا کام شروع ہوجائے گا نقشہ منظوری کے لئے پیش کردیا گیا۔<
۸۔
مولانا وقار انبالوی نے >سفینہ< )۱۳۔ نومبر ۱۹۴۸ء( میں لکھا۔
ربوہ حکومت اور عوام کیلئے ایک قابل تقلید مثال ہے
گذشتہ اتوار کو امیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بستی ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا۔ اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں۔ ایک مہاجر کی حیثیت سے ہمارے لئے ربوہ ایک سبق ہے۔ ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اجڑے اور یہاں بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر رکھا۔ یہ لوگ مسلمان تھے۔ رب العالمین کے پرستار اور رحمتہ للعلمین کے نام لیوا` مساوات و اخوت کے علمبردار۔ لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کرسکی۔ اس کے برعکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم` ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان آباد کرنے کی ابتداء کردی ہے۔ مہاجرین میں وہ لوگ بھی آئے جن میں خدا کے فضل سے ایک ایک آدمی ایسی بستیاں بسا سکتا ہے لیکن ان کا روپیہ ان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکا۔ ربوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محل نظر ہے۔ وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی صنعتی بستیاں اس نمونہ پر بسا سکتی ہے۔ اس طرح ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کوئی دعوے کئے بغیر کچھ کردکھاتے ہیں۔<۴۴
فصل چہارم
کوائف قادیان
درویشوں کا سوشل بائیکاٹ
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو آغاز دوریشان قادیان کے لئے صبرو رضاء کے ایک نہایت کٹھن امتحان سے ہوا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آخری بڑے کنوائے کے بعد ایک دن اچانک بعض ٹرک درویشوں کے پاس آن پہنچے۔ یہ ٹرک جو پاکستان سے گورداسپور میں پناہ گزین پہنچانے کے لئے آئے تھے اور بلاوجہ واپسی پر قادیان کی مسلم آبادی کے انخلاء کے لئے بھجوادیئے گئے` درویشوں نے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ یہ سارے ٹرک نہیں۔ ہم ان پر نہیں جائیں گے اور نہ ہم میں سے اب کوئی پاکستان جانے والا ہے۔
اس واقعہ سے مقامی افسروں اور باشندوں دونوں کو یقین ہوگیا کہ احمدی فی الحقیقت مستقل طور پر قادیان میں بودو باش رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات خاص طور پر ان مقامی باشندوں کو بہت شاق گزری جو ۱۹۴۸ء کی غارت گری میں نمایاں طور پر شامل اور احمدیوں کی کوٹھیوں اور جائیدادوں پر قابض ہوچکے تھے اور دل سے چاہتے تھے کہ درویشوں کو کسی نہ کسی طرح تنگ کرکے قادیان سے نکال دیا جائے۔
قادیان کے ایک متعصب ہندو دکاندار )امرناتھ( کے ساتھ جماعت کے تعلقات عرصہ سے کشیدہ تھے اور بیوپار کے سلسلہ میں اس پر بعض جماعتی پابندیاں عائد تھیں۔ اس ہندو دکاندار نے احمدیوں سے انتقام اور ان کے خلاف محاذ آرائی کا یہ موقعہ غنیمت جانا اور اس پرای کشمکش کو بائیکاٹ کا نام دے کر پہلے سردار محکم سنگھ ایڈووکیٹ مجسٹریٹ قادیان کو اشتعال دلایا۔ پھر یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو قادیان کے سب دکانداروں سے دستخط کرائے کہ وہ درویشوں کا مکمل سماجی بائیکاٹ کریں گے۔ اگلے روز یہ مشورہ کردیاگیا کہ ننکانہ صاحب میں مقیم سارے سکھ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ اس جھوٹی اور بالکل بے بنیاد افواہ نے شہر بھر میں ایک آگ سی لگادی اور غیظ و غضب کا ایک طوفان عظیم امڈ آیا۔ درویشوں کو قادیان سے نکال باہر کرنے کی در پر وہ سازشیں زور پکڑ گئیں۔
قبل ازیں فتنہ پر داز عناصر نے قادیان کے مجسٹریٹ اور ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کو میموریل بھی بھیجے کہ درویشوں کے گھروں سے ناجائز اسلحہ برآمد ہورہا ہے لہذا ہمیں ان سے شدید خطرہ ہے۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ وہ اس من گھڑت۴۵ بات کے ذریعہ سے پبلک میں نفرت و حقارت کی چنگاری ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو انہوں نے سوشل بائیکاٹ کا بھی اعلان کردیا۔
اس بائیکاٹ کو موثر اور کامیاب بنانے کے لئے ۷۔ جنوری ۱۹۴۸ء کو گوردوارہ میں جلسہ ہوا۔ جس کے بعد بائیکاٹ شدت اختیار کرگیا۔ دودھ بند کرنے کے لئے احمدیہ بازار اور بیرونی راستوں میں پکٹنگ لگادی گئی۔ احمدی شفاخانہ سے غیرمسلم مریض اٹھا لئے گئے۔ جن شریف اور معزز ہندو یا سکھ دوستوں نے ذاتی تعلقات کی بناء پر یا کسی اور وجہ سے احمدیوں کو سودا دیا ان کو بے عزت کیا گیا۔ بعض کا منہ کالا کیاگیا اور بعض کو جوتے بھی لگائے گئے۔
اس سختی کا ردعمل یہ ہوا کہ لوگوں میں آخر بائیکاٹ کے خلاف نفرت کا جزبہ پیدا ہوگیا۔ چنانچہ ۲۳۔ جنوری ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے۔ سیٹھ پیارے لال صاحب کے لڑکے کش لال صاحب نے کسی احمدی کو شلغم لاکر دیئے جس پر دو سکھوں نے اس کو تھپڑمارے جس کی وجہ سے قریب کے دوسرے ہندو دکاندار برہم ہوگئے۔ چنانچہ بعض ہندو کانداروں نے علانیہ کہا کہ ہم سودا دیں گے اور ہم اس فیصلہ کی پابندی نہیں کرتے۔ اور یہ کہ جماعت احمدیہ قادیان میں ۱۵ ہزار کے قریب تھی اور ہر طرح کی طاقت اور عزت کی مالک تھی لیکن ان کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں دی گئی لیکن یہ لوگ ابھی قادیان میں پوری طرح آباد بھی نہیں ہوئے اور سر پر سوار ہوا شروع ہوگئے ہیں۔ ازاں بعد اسی دن سکونت رائے` ہربنس لال )ولد بشن داس`( سادھورام اور سائیں دکاندار مولوی برکات احمد صاحب کے پاس آئے اور کشن لال کے واقعہ کا ذکر کیا۔ نیز کہا کہ وہ اس مقاطعہ کی خلاف ورزی کریں گے اور جماعت کو سودا دیں گے اور اس بارہ میں باقاعدہ فیصلہ کرکے اس کو منسوخ کرانے کے کوشش کریں گے۔ چنانچہ ۲۵۔ جنوری کی شام کو پنڈت دولت رام صاحب کی صدارت میں ایک میٹنگ کی گئی جس میں مقامی اور بیرونی لوگ شامل ہوئے۔ اس میٹنگ میں مقاطعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور ۲۶۔ جنوری ۱۹۴۸ء سے اس پر عملدرآمد بھی شروع ہوگیا۔
احمدیہ شفاخانہ کا قیام
۱۳۲۶ہش/۱۹۴۸ء میں نورہسپتال قادیان جماعت کے قبضہ سے نکل گیا۔ مکان اور فرسٹ ایڈ تک کا سامان بھی نہ رہا تھا۔ اس بے سروسامانی کے عالم میں میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب۴۶ چھ سامان اور ادویات فراہم کرکے درویشوں کی طبی خدمات بجالاتے رہے۔
شروع ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں میجر صاحب پاکستان تشریف لے آئے اور یہ اہم فریضہ کیپٹن ڈاکٹر بشیراحمد صاحب کے سپرد ہوا جسے آپ خدمت خلق کی بہترین روح کے ساتھ قریباً ساڑھے سات برس تک نبھاتے رہے۔ ۴۷
ابتداء میں درویشوں کا طبی مرکز ڈاکٹر احسان علی صاحب والی دکان میں قائم کیاگیا۔ ان دنوں درویشوں کی نقل و حرکت صرف احمدیہ محلہ تک محدود تھی اور غیر مسلم بھی خال خال ہی احمدی علاقہ میں قدم رکھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب موصوف کو احمدیہ شفاخانہ کا چارچ سنبھالے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ بائیکاٹ کا المناک سانحہ پیش آگیا۔ بائیکاٹ کے ایام میں آپ ایک مرتبہ چند دوستوں کے ہمراہ بہشتی مقبرہ دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں موضع ننگل کی ایک بڑھیا آئی اور کہا کہ تم لوگ نیک ہو۔ اس مقدس ہزار پر کھڑے ہو۔ میرا داماد سخت بیمار سے اس کی شفا کے لئے دعا کرو۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں نے کہا۔ مائی! ہم دعا بھی کریں گے لیکن تم اپنے داماد کو ہمارے ڈاکٹر کو دکھا کر دوا وغیرہ بھی دو۔ پکٹنگ کی مشکلات کے پیش نظر دوسرے دن اپنے داماد کو چارپائی پر اٹھا کر بہشتی مقبرہ کے گیٹ تک لے آئی۔ ڈاکٹر صاحب نے وہاں جاکر مریض کو دیکھا اور ایک درویش کے ذریعہ دوا بھجوادی۔ دو تین روز بعد مریض کو افاقہ ہوگیا اور بڑھیا پکٹنگ والوں کی پروانہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی دکان پر آگئی اور دو تین روز بعد اس کا داماد دو تین اور مریضوں کو ساتھ لے کر آگیا اور چند ہی روز بعد آس پاس کے مہاجر بھی آنا شروع اور بائیکاٹ عملاً بالکل بیکار ہوکر رہ گیا۔ اور مریضوں کی آمد کے ساتھ ساتھ بعض غیرمسلم دودھ` سبزی` و دیگر ضروریات زندگی بیچنے کے لئے آنا بھی شروع ہوگئے۔
ڈاکٹر احسان علی صاحب کے دکان فسادات کے بعد بالکل خالی تھی۔ اس میں صرف ایک میز ور دو خالی الماریاں اور چند شیشیاں پڑی تھیں جن میں بعض میں بچی ہوئی ادویات تھیں۔ دو پراے اور زنگ آلود چاقو اور دو ایک قینچی کے علاوہ کوئی دوسرا سامان نہ تھا۔ فرنیچر وغیرہ کا انتظام تو سٹور سے کرلیا گیا۔ ادویات اور دیگر سامان مہیا کرنا ناممکن نظرآرہا تھا۔ دارالمسیح اور قرب وجوار کے مکانات میں سے جہاں سے بھی کوئی بوتل شیشی وغیرہ مہیا ہوسکی شفاخانہ میں جمع کرلی گئی۔ ان میں سے بعض کارآمد ادویات بھی مہیا ہوگئیں۔ اس اثناء میں گورنمنٹ کی طرف سے قریباً مبلغ یکصد روپیہ کی مالیت کی چند ادویات ریفیوجی فنڈ سے درویشوں کو دی گئیں۔ اس عطیہ کو شکریہ کے ساتھ قبول کیاگیا۔
غیرمسلم مریضوں کی حاضری روز بروز زیادہ ہوتی گئی اور تمام دوائیں ختم ہوگئیں۔ اس موقعہ پر ایک معزز سکھ دوست کے ذریعہ مبلغ ۸۰ روپیہ کی ادویات امرتسر سے منگوائی گئیں۔ شہادت/اپریل` ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک مریضوں کی تعداد ۹۰ سے ۱۰۰ تک روزانہ پہنچ گئی۔ شفاخانہ کے ذرائع آمد مسدود` اور فنڈ محدود تھا۔ اس لئے فکر پیدا ہوئی کہ اتنے مریضوں کے اخراجات کیسے پورے ہوسکیں گے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے انجمن سے اس بات کو اجازت لی کہ غیرمسلم ذی استطاعت مریضوں سے علاج کے معاوضہ میں آنہ دو آنہ وصول کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں سو ڈیڑھ سو روپیہ جمع ہوگیا جہاں سے مزید ادویہ اور سامان خریدا گیا اور اس طرح عوام کے علاج میں سہولت پیدا ہوگئی۔
ڈاکٹر صاحب اور دوسرے درویش اپنے علاقہ سے باہر نہ جاسکتے تھے۔ جوں جوں مریض زیادہ آتے گئے۔ ان میں سے بعض کو دیکھنے کے لئے ان کے گھروں میں جانا پڑتا اور اس کے لئے خاص اہتمام کرنا پڑتا پہلے تو آپ چند درویشوں کی معیت میں جایا کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ خطرہ دور ہوتا گیا اور پھر ڈاکٹر صاحب نے اکیلے ہی جانا شروع کردیا۔ اس طرح قریبی گائوں میں جانے کے لئے بغیرٹانگہ اور تین چار ہمراہیوں کے جانا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ یہ خطرہ بھی پھر رفتہ رفتہ دور ہوگیا اور آپ انتہا ہی سب طرف مریض دیکھنے نکل کھڑے ہوتے۔ اور کچھ عرصہ بعد تو خدا کے فضل سے ہر جگہ دن ہو یا رات جانے میں کوئی رکاوٹ نہ رہ گئی۔
ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے بعد شفاخانہ کی ساتھ والی دکان شامل کرکے اس کی توسیع عمل میں آئی۔ لیکن چند روز بعد جب یہ جگہ بھی ناکافی ثابت ہوئی تو حضرت ڈاکٹر میجر محمد اسمعیل صاحب والا مکا خالی کروا لیا گیا۔ اس کی نچلی منزل میں دفتر کنسلٹیشن` ڈریسنگ` ڈسپنسنگ` اوپریشن روم کے لئے علیحدہ علیحدہ کمرے بنالئے گئے۔ بالائی منزل میں دو کمروں کو درویشوں کے لئے بطور بنالیا گیا اور باقی حصہ میں دو ڈسپنسر اور ایک مددگار کارکن کی رہائش کا انتظام کردیا گیا۔
شفاخانہ میں جو آمد متمول مریضوں سے ہوتی اس سے شفاخاہ کے لئے سامان و ادویات خریدکرلی جاتیں اور خدا کے فضل سے ایک سال کے عرصہ میں عام استعمال کی ادویات و سامان شفاخانہ میں فراہم ہو گیا اور سوائے ابتدائی ۸۰ روپیہ کے شفاخانہ کو نہ مزید کسی سے امداد کی ضرورت پڑی نہ صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ پر کوئی بوجھ ڈالا گیا۔ جوں جو اردگرد کے علاقہ میں شفاخانہ کی شہر پھیلتی گئی مریض بھی بکثرت آنے لگے۔ بعض غیرمسلم دور دور سے محض اس غرض سے آتے تھے کہ قادیان میں مسلمانوں کو دیکھ آئیں گے اور دوا وغیرہ بھی لیتے آئیں گے۔ اور پھر تو خدا کے فضل سے آہستہ آہستہ ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ تمام ضلع گورداسپور کی مختلف جگہوں بلکہ ضلع امرتسر ہی سے نہیں شہر امرتسر سے بھی مریض آنے لگے۔
پہلے سال شفاخانہ نے کوئی غیرمسلم انڈور میں نہیں رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے۔ لیکن دوسرے سال شفاخانہ کے سامنے والا مکان )جس میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے( خالی کرالیا گیا۔
سال ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں آئوٹ ڈور مریضوں کی کل تعداد ۳۱۲۴۶ تھی جو سال ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء میں ۴۵۳۴۹ تک پہنچ گئی۔ اس سال انڈور میں ۲۳۱ مریض تھے جن میں کثیر تعداد غیرمسلموں کی تھی۔ سال ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء میں ۴۱۷۹۰ مریضوں کا علاج آئوٹ ڈور اور ۲۰۰ مریضوں کا علاج انڈور کیا گیا۔ ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء کے اخاء/اکتوبر تک کل تعداد آئوٹ ڈور کے مریضوں کی ۲۸۶۰۱ اور انڈور کی ۲۰۰ تھی۔
احمدیہ شفاخاہ کے قیام کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس دو صاحب بطور ڈسپنسر کام کرتے تھے۔ دو تین ماہ بعد ایک صاحب پاکستان چلے گئے۔ چونکہ کام زیادہ تھا اس لئے دو درویش احباب کو ڈسپنسنگ کی ٹریننگ کے لئے شفاخانہ میں رکھ لیاگیا۔ ان میں سے ایک محمد احمد صاحب مالا باری اور دوسرے مبارک علی صاحب واقف زندگی تھے۔ مبارک علی صاحب تھوڑے ہی عرصہ می پوری ٹریننگ حاصل کرکے تسلی بخش کام کرنے لگے اور قریباً دس ماہ کام کرنے کے بعد مولوی فاضل کلاس میں داخل ہوکر یہ کام چھوڑدیا۔ ان کی جگہ ایک اور درویش مکرم ملک بشیراحمد صاحب ناصر کو کام پر لگایا جو بہت جلد کام سیکھ کر شفاخانہ کے لئے مفید وجود ثابت ہوئے۔ مکرم غلام ربانی صاحب` مکرم ملک بشیراحمد صاحب اور مکرم محمداحمد صاحب مالا باری کو بطور ڈسپنسر کام کرنے کا موقعہ ملا۔ کیونکہ قادیان میں کوئی لیبارٹری نہ تھی اور پیشاب` پاخانہ` خون بلغم وغیرہ ٹسٹ کروانے کے لئے مریض کو امرتسر بھجوانا پڑتا تھا اس لئے ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء میں مستورات کی مخصوص امراض کے علاج کے لئے ایک نرس کی خدمات بھی حاصل کرلی گئیں۔۴۸
الحمدلل¶ہ یہ شفاخانہ جس کی بنیاد میجر ڈاکٹر محمود )مرحوم( کے ہاتھوں پڑی اور جس کو ترقی دینے میں کیپٹن بشیراحمد صاحب نے ساڑھے سات سال محنت شاقہ سے کام لیا تھا اب تک نہایت کامیابی سے چل رہا ہے اور خدمت خلق میں مصروف عمل ہے۔
‏tav.11.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
درویشان قادیان کے لیل ونہار
ان دنوں دیار حبیب میں رہنے والے درویشوں کے شب وروز کس طرح ایک پاک اور روحانی ماحول میں بسر ہورہے تھے۔ اس کا نقشہ ناظربیت المال جناب عبدالحمید صاحب عاجز نے درج ذیل الفاظ میں کھینچا۔
>دارالامان میں ٹھہرنے والے درویشوں کی کل تعداد ۳۱۳ ہے جو قادیان کے مقامی احباب` بیرونی خدام اور کارکنان صدرانجمن احمدیہ پر مشتمل ہے۔ مقامی امیر مکرم جناب مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل )ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ( ہیں۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا ظفراحمد صاحب بارایٹ لاء اور صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب یہاں مقیم ہیں۔ جملہ درویشان پرانے قادیان کے ایک محدود حلقہ میں آباد ہیں جو مسجد مبارک` دارالمسیح` مسجداقصیٰ اور علاقہ بہشتی مقبرہ پر مشتمل ہے۔ اس مقدس مقامات میں ٹھہرنے کا مقصد شعائر اللہ کو آباد رکھنا اور ان میں دعا اور عبادت سے روحانی فیض حاصل کرنا ہے۔
اختر صبح کی نمود سے کچھ وقت پہلے قریباً ساڑھے تین پونے چار بجے شب ایک بزرگ درویش )میاں مولا بخش صاحب باورچی لنگرخانہ( کی رقت بھری آواز اس محدود حلقہ میں سنائی دیتی ہے` پرسوز اور پر درد لہجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز کے اشعار کانوں سے اتر کر دل و دماغ کی خوابیدہ حسوں کو بیدار کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاخطہ ہوں۔
یاالٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اس شکستہ نائو کے بندوں کی سن لے اب پکار
رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزہ
نظرانداز کوئی حصہ احکام نہ ہو
خدمت دین کو ایک فضل الٰہی جانو
اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو
چنانچہ اس پیغام بیداری سے درویش اٹھتے ہیں )اگرچہ متعدد درویش کافی عرصہ پہلے سے ہی عبادت و دعا میں مشغول ہوتے ہیں( اور باوضو ہوکر اپنے اپنے حلقہ کی مساجد میں باجماعت نماز تہجدادا کرتے ہیں۔ مسجد مبارک میں مکرم مولوی شریف احمد صاحب اینی مولوی فاضل` مسجداقصیٰ میں جناب مولوی غلام احمد صاحب ارشد مولوی فاضل اور مسجد محلہ ناصر آباد میں جاب خواجہ محمد اسمعیل صاحب امانت کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
قریباً پونے چھ بجے میاں سراج الدین صاحب مسجداقصیٰ کے پرانے خادم اور موذن منارۃ المسیح سے اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے ہیں جو قادیان کے سکوت کو توڑتی ہوئی فضائوں میں ایک خاص دل کشی پیدا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اسی وقت مسجد مبارک اور مسجد ناصر آباد کے بھی اذان کی آواز سنائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔ چھ بجے فجر کی نماز کے بعد تینوں مساجد میں سلسلہ کی کتب کا درس دیا جاتا ہے جو احباب بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ نماز درس سے فارغ ہوکر درویش انفرادی طور پر تلاوت قرآن مجید کرتے اور بہشتی مقبرہ میں دعا کے لئے تشریف لے جاتے ہیں۔ ہر جمعہ کے روز فجر کی نماز کے بعد بہشتی مقبرہ میں اجتماعی طور پر دعا کی جاتی ہے۔ صبح آٹھ بجے احباب لنگر خانہ سے کھانا حاصل کرتے ہیں۔ یہ کھانا نہایت سادہ دال روٹی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دو دفعہ گوشت اور سبزی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوکر ساڑھے آٹھ بجے صبح روزانہ وقار عمل کا پروگرام شروع ہوتا ہے۔ یہ پروگرام محض رسمی یا تفریحی کام نہیں ہے بلکہ ایک تعمیری اور تاریخی پروگرام ہے جس میں تمام درویشوں کی حاضری ضروری ہوتی ہے۔ درویشوں کی لگاتار کوششوں اور مسلسل محنتوں سے ایسے کام سرانجام دیئے جارہے ہی جو اپنی اہمیت کے لحاظ سے ایک لمبے عرصے تک تاریخی یادگار رہیں گے۔ اور آنے والی نسلیں ان کے کاموں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھیں گی اور ان کے لئے درد دل سے دعائیں کریں گی۔ بہشتی مقبرہ کے اردگرد قریباً پانچ فٹ چوڑی دیوار بنائی جارہی ہے۔ اس کا نصف سے زائد حصہ مکمل ہوچکا ہے۔ بہشتی مقبرہ میں چار پختہ کوارٹرز )دو منزل( تیار کئے گئے جن میں دھوپ بارش اور رات کے وقت درویش آرام کرسکتے ہیں۔
ان کوارٹروں کی تعمیر اگر عام حالات میں کی جاتی تو زمین کی قیمت کے علاوہ اس کام پر سات آٹھ ہزار روپیہ خرچ ہوتا اور شاید کافی عرصہ اس رقم کی بجٹ میں منظوری حاصل کرنے کے لئے گزر جاتا مگر آفرین ہے ان درویشوں پر جنہوں نے تمام کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دے کر بغیر کوئی رقم خرچ کئے اس شاندار خدمت کو بجالانے کی سعادت حاصل کی۔
بہشتی مقبرہ` مساجد اور گلی کوچوں کی صفائی کا کام اور لنگرخانہ کے لئے لکڑی وغیرہ کا انتظام بھی وقار عمل کا ایک حصہ ہے۔ علاوہ ازیں بہشتی مقبرہ کے اردگرد باغ سے ملحقہ زمین میں ہل چلا کر سبزیاں وغیرہ کاشت کرنے کا کام بھی وقار عمل میں شامل ہے۔ وقار عمل کا کام خوش اسلوبی اور احسن طریق سے سرانجام دینے کے لئے ہم اپنے فاضل بھائی مولوی عبدالرحیم صاحب اور ان کے رفقاء کے خاص طور پر ممنون ہیں۔
ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو وقار عمل سے فراغت ہوتی اور آدھ گھنٹہ آرام کے بعد نماز ادا کرنے کے بعد قرآن مجید کا درس دیا جاتا ہے اور بعض ناخواندہ درویشوں کو نماز کا ترجمہ بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسی طرح باقی نمازیں عصر` مغرب و عشاء اپنے اپنے وقتوں پر باجماعت ادا کی جاتی ہیں اور فارغ ¶اوقات سلسلہ کی کتب کے مطالعہ اور دعائوں میں صرف کئے جاتے ہیں۔ ہفتہ میں دو دن )سوموار اور جمعرات( تمام درویسش روزہ رکھتے ہیں اور وقت کا بیشتر حصہ نوافل اور دعائوں میں گزارتے ہیں۔ بعض ایسے درویش بھی ہیں جو کئی روز تک متواتر روزے رکھتے ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز کی خاص دعائوں اور توجہ کے اثر سے تمام درویشوں میں عبادت اور دعائوں کے لئے ایک خاص شغف پیدا ہوچکا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عبادت اور ذکر الٰہی کا رنگ محض وقتی اور ہنگامی جوش پر مبنی نہیں بلکہ اپنے اندر عمل کی استواری اور قوت ارادی کی پختگی کے اجزاء لئے ہوئے ہیں۔ جملہ درویش حضور کی نصیحتوں کے مطابق مکی اور مسیح ناصری والی زندگی کا نمونہ دکھانے میں کوشاں ہیں اور ظلم برداشت کرکے ظلم کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مختصر عرصہ میں اکٹھارہنے کی وجہ سے درویشوں میں جذبہ اخوت و مودت بہت بڑھ گیا ہے۔ باہمی ربط اور دوستانہ تعلقات کا اثر اس قدر وسیع ہے کہ اگر ایک دوست کا باہر سے خط موصول ہوتا ہے تو دوسرے درویش بھائی اس درست کے عزیز و اقارب کی خیر و عافیت کے متعلق بڑے شوق سے استفسار کرتے ہیں۔ جو احباب قادیان میں دعا کے لئے تحریر فرماتے ہیں۔ ان کے متعلق مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض درویشوں کے عزیز واقارب کی وفات پر یہاں نماز جنازہ غائب ادا کی جاتی ہے۔ گزشتہ ایام میں درویشوں کے باہمی تعاو سے حقہ نوشی کے خلاف مہم جاری کی گئی تھی جو بہت حد تک کامیاب رہی اور کئی درویش جو عرصہ سے حقہ نوشی کی مرض میں مبتلا تھے اس مرض سے نجات پاگئے۔ اسی طرح ہمارے مکرم دوست ملک صلاح الدی صلحب ایم۔اے نے وصیت کی تحریک کو جاری کیا جس کے نتیجہ میں کئی ایک درویشوں نے وصیتیں کرائیں۔ تحریک جدید کے وعدوں میں درویشوں نے جس اخلاص اور قربانی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ قادیان میں کوئی ایسا درویش نہیں رہا جس نے تحریک جدید کے چودھویں سال میں حصہ نہ لیا ہو۔ اس امر پر حضور نے بھی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے۔
چند ایک علم درست درویشوں نے سلسلہ کی کتب کے وسیع مطالعہ اور تقریر وتحریر میں مشق پیدا کرنے کے لئے ایک ادبی مجلس بنام >مجلس درویشاں< قائم کی ہے۔ جس کا اجلاس ہفتہ میں دو دفعہ منعقد ہوتا ہے اور پروگرام کے مطابق ممبران مذہبی مضامین پر تقریروں کی مشق کرتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے دارالامان کے درویش ایک محدود حلقے میں مقید ہیں۔ بازاروں میں آمدورفت بھی خالی از خطرہ نہیں۔ چونکہ ہر وقت حالات مخدوش ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے جن کے متعلق لوکل افسران بھی وقتاً فوقتاً ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ اشد مجبوری کے وقت نظارت امور عامہ کی تحریری اجازت سے تین چار درویش اکٹھے بازار جاتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرکے جلد واپس آجاتے ہیں۔ خدام میں سے بعض ایسے درویش بھی ہیں جن کی رخصتیں ختم ہوچکی ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جن کے کاروبار تباہ ہورہے ہیں اور بعض کے خانگی حالات ان کے قریبی رشتہ داروں کی وفات اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر اگرچہ ظاہری طور پر تسلی بخش نہیں ہیں مگر یہاں ان کو ایک قسم کا اطمینان قلب حاصل ہے جو اور کہیں میسر نہیں ہوسکتا اور وہ خندہ پیشانی سے ہر مشکل اور تکلیف پر صبرو استقلال کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح بعض مقامی درویشوں کے اہل وعیال اور عزیز رشتہ داروں کی طرف سے بھی کئی افسوسناک اور پریشان کن خبریں موصول ہوئی ہیں مگر مبارک اور خوش بخت ہیں وہ درویش جو اپنی زندگی کے اصل مقصد پر نگاہ رکھتے ہیں اور دنیوی آرام و آسائش کو نظرانداز کرتے ہوئے دیار محبوب میں آزمائش وامتحان کی پرکیف گھڑیاں گزار رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو ذہنی پریشانیوں کی جگہ تکسی واطمینان اور حرص و آرزو کے بدلے صبر وقناعت کی لا انتہا دولت حاصل ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جس کو اس ابتلاء کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص انعامات کے لئے چنا اور انہیں در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی توفیق بخشی۔ جملہ درویشوں کے قلوب اس یقین سے پر ہیں کہ جس طرح اللہ تعالٰے کی قدیم سنت کے مطابق موجودہ ابتلاء کا دور رونما ہوا ہے اسی طرح اس ابتلاء کے ساتھ وابستہ ترقیوں اور کامیابیوں کی راہیں بھی عنقریب کھلنے والی ہیں۔4]< fts[۴۹
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی درویشانہ زندگی کا آغاز
اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ ۵۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے فرزند صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی درویشانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ آپ اس روز ۲/۱ بجے شام پاکستان سے چودہ اصحاب کے ساتھ قادیان پہنچے۔۵۰
مساجد قادیان کی حفاظت کے لئے ناقابل فراموش مساعی
قادیا کے بیرونی محلہ جات کی وہ مسجدیں جو آنحضرت~صل۱~ کے سچے عاشقوں اور مخلص فدائیوں کی سجدہ گاہ تھیں اور ہمیشہ ہی ان کے نالہ ہائے شب سے معمور اور ان کے آنسوئوں سے تربتر رہتی تھیں ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کے دوران چشم زدن میں خالی ہوگئیں۔
قادیان میں احمدی مسلمانوں کی انیس اور دوسرے مسلمانوں کی چار مسجدیں تھیں۔ علاوہ ازیں پرای عیدگاہ اور سات قبرستان تھے۔ ان سب کی دیکھ بھال اور تحفظ کو درویشوں نے ابتدائی دور ہی سے اپنی زندگی کے بنیادی مقاصد میں شامل کرلیا۔ اس ضمن میں ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں مولوی برکات احمد صاحب بی۔ اے` ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے` فضل الٰہی خاں صاحب اور پندرہ بیس درویش پہلی بار قادیان کی بیرونی مساجد کی حالت دیکھنے اور صفائی کرنے کے لئے گئے۔ چنانچہ انہوں نے مسجد دارالفضل صاف کی اور اس کا غسل خانہ اینٹوں سے بندکردیا۔ مسجدنور کی چند گنگریاں تازہ ہی شکستہ ہوئی تھیں۔ مسجد دارالیسر کی دیوار اپلوں سے اٹی ہوئی تھی جو درویشوں نے صاف کردی۔ پھر انہوں نے مسجد دارالرحمت کی صفائی کی اور مسجد دارالفضل کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی بندکردی۔
دوسری بار ۵۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت قادیان` ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے` خان فضل الٰہی خاں صاحب` مرزا محمد حیات صاحب نگران مقامی درویشا قادیان اور بعض درویشوں پر مشتمل ایک وفد نے مقامی تھانیدار صاحب سے مسجد دارالفتوح تک جانے اور اس کا جائزہ لینے کی منظوری لی اور اگلے روز ۲۱۔۲۲ درویش سپاہیوں کی معیت میں کدالیں` بیلچے` جھاڑو` بالٹیاں اور کڑاہیاں لئے وہاں پہنچے۔ اور ساڑھے آٹھ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک مسجد کو غلاظت سے صاف کرتے رہے اور اس کی کھڑکیاں اور دروازے اینٹ گارے سے بند کردیئے۔ واپسی پر احرار کی مسجد شیخاں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ مسجد کے مینار منہدم ہوگئے تھے اور چھت کی دو کڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ درویشوں نے مسجد میں جھاڑو دیا اور چند دن بعد چھت بھی مرمت کردی۔
۱۸۔ ماہ شہادت/اپریل کی صبح کو مولوی برکات احمد صاحب` ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے` فضل الٰہی خاں صاحب` مرزا محمد حیات صاحب اور ضیاء الدین صاحب قادیان کی تمام بیرونی مساجد` پرانی عیدگاہ اور اس سے متصل قبرستان کی طرف گئے۔ عیدگاہ والے قدیم قبرستان کے کتبے توڑ پھوڑ دیئے گئے تھے۔ مسجد دارالیسر کا اکثر حصہ گرچکا تھا۔ دیواریں اپلوں سے ڈھکی ہوئی تھیں اور اندر گدھوں کے کیلے گاڑے ہوئے تھے۔ مسجد دارالرحمت میں ہر طرف کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا۔ برآمدے کا ایک مسقف حصہ ادھیڑا ہوا تھا۔ مینار چھت پر گرا ہوا تھا اور اندرونی عمارت سے الماریوں کے تختے غائب تھے۔ مسجد نور کی عام حالت نسبتاً بہتر تھی۔ مسجد احمد آباد کے اندر جلاہوں کی کھڈیاں بنی ہوئی تھیں۔ مسجد دارالسعتہ پناہ گزینوں نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا اور صحن میں تانا بنا ہوا تھا۔ مسجد دارالفضل میں ہر طرف گندگی ہی گندگی ہی دکھائی دیتی تھی۔ اس مسجد کی الماریاں کے شیلف بھی نکال لئے گئے تھے۔ مسجد دارالبرکات غربی بھی پناہ گزینوں کی رہائش گاہ بنی ہوئی تھی۔ صحن میں گدھا بندھا تھا اور باہر اپلوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ مسجد دارلانوار کا نلکہ غائب تھا۔ مسجد میں چولھے بنے ہوئے تھے اور الماریاں شیلف سے خالی تھیں۔ مسجد قادر آباد کے احاطہ کی اینٹوں کا کوئی نام و نشان تک نظر یہ آتا تھا۔ الغرض مسجد نور کے سوا تمام مساجد کا حال سخت ابتر اور تکلیف دہ تھا۔۵۱
درویشوں کا تیسرا وفد ۲۲۔ شہادت/اپریل کو لالہ ہری رام صاحب ممبر میونسپلٹی قادیان اور ایک کنٹیبل کے سمیت مسجد دارالبرکات غربی` مسجد دارالسعتہ اور مسجد احمد آباد میں گیا اور اس نے غیر مسلم پناہ گزینوں کو مسجدوں کی عزت و حرمت بحال کرنے اور مسجدوں سے منتقل ہونے کی پر زور تحریک کی جس کا خاطر خواہ اثر ہوا۔
درویشان قادیان جہاں مساجد کا دورہ کرتے تھے وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور اور مقامی مجسٹریٹ کو صورت حال سے برابر آگاہ رکھتے اور ان سے فوری توجہ کرنے کی درخواست کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور نے ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آخری ہفتہ میں مجسٹریٹ صاحب کو حکمم دے دیا۔ کہ مسجدیں شرنارتھیوں سے فوراً خالی کرالی جائیں اور آئندہ بھی ان میں کسی کا آباد نہ کیا جائے۔
قادیان کے پہلے درویش کا وصال
۲۶۔ ۲۷ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حافظ نورالٰہی صاحب متوطن کوٹ مومن ضلع سرگودھا امیر جماعت احمدیہ بہاولنگر جو ۵۔۶ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو پاکستان سے قادیان پہنچے تھے اور نہایت فرشتہ سیرت` دعاگو` شب بیدار` اور احمدیت کے سچے شیدائی انتقال فرماگئے۔ حضرت حافظ صاحب وہ پہلے خوش نصیب بزرگ ہیں جن کا زمانہ درویشی میں وصال ہوا اور مسیح محمدی کے قدموں کی خاک بنے اور یہ وہ مخلصانہ تڑپ تھی جو انہیں کشاں کشاں اس مقدس بستی میں لے آئی تھی۔۵۲
بہشتی مقبرہ سے ملحق باغ کا مقدمہ
بہشتی مقبرہ سے متصل باغ کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی بہت سی یادگاری وابستہ ہیں۔ یہی وہ باغ ہے جس میں حضرت امام مہدی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۴۔ اپریل ۱۹۰۵ء سے لے کر ۲۔ جولائی ۱۹۰۵ء تک اپنے اہلیت اور خدام سمیت رہائش پذیر رہے۔ اسی کے اندر وہ شہ نشین ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھا کرتے تھے۔ ۲۷۔ مئی ۱۹۰۸ء کو اسی باغ میں خلافت کی پہلی بیعت ہوئی اور حضرت اقدس کا جنازہ پڑھا گیا۔ اس باغ میں جماعت کی عیدیں پڑھی جاتی رہیں اور فوت ہونے والے اکثر احباب جماعت کے جنازے بھی اس میں ہوتے رہے۔ الغرض قادیان کے مقدس مقامات میں اس باغ کو ایک گونہ امتیازی حیثیت حاصل ہے۔
۴۔ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے کہ بعض مقامی حکام کی انگیخت پر ایک شخص وریام سنگھ اس باغ میں پایا گیا جس نے بتایا کہ یہ باغ کلاسوالہ کے ایک سکھ کی ملکیت ہے جس نے مجھے اپنا نگران بناکر بھجوایا ہے۔ باغ کے محافظ درویشوں نے اسے اصل حقیقت بتاکر واپس کردیا۔ گر وہ اسی دن ظہر کے وقت دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ مالک نے مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک اسے تحریراً یا جبراً نہیں روکا جاتا اسے باغ کے اندر ہی رہنا چاہئے۔ چونکہ اس بارہ میں کوئی تحریر دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اس لئے باہمی کشمکش تک نوبت جاپہنچی اور تحصیلدار صاحب اور نائب تحصیلدار نے باغ دیکھنے کے بعد رپورٹ کردی کہ یہ باغ اور بہشتی مقبرہ دو جدا جدا چیزیں ہیں اور ان کے مالکانہ حقوق بھی الگ الگ لوگوں کو حاصل ہیں۔ مقامی حکام نے اس رپورٹ کی توثیق و تصدیق کے لئے پٹواریوں سے نقشہ جات بنوائے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ واقعی بہشتی مقبرہ اور باغ کے مالک دو مختلف وجود ہیں اور یہ کہ باغ کے حقیقی مالک ہندوستان سے پاکستان جاچکے ہیں لہذا اسے شرنارتھیوں کے نام الاٹ ہونا چاہئے۔
یہ سب کارروائی چونکہ صریحاً غیرقانونی` ناجائز اور خلاف حقیقت تھی اس لئے جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے احتجاج کیا گیا اور ذمہ دار افسران کے سامنے باغ کی مذہبی حیثیت روز روشن کی طرح واضح کی گئی۔ جس پر ڈپٹی کمشنر صاحب نے عارضی طور پر باغ کی الاٹمنٹ کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا اور بالاخر ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء میں مشرقی پنجاب کی صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بڑا باغ اور مقبرہ بدستور جماعت احمدیہ کے قبضہ درست نہ سمجھا۔ یہی فیصلہ بہشتی مقبرہ سے ملحق ایک کھیت کی نسبت کیا گیا جو اس کی توسیع کے پیش نظر مولوی محمد علی صاحب۵۳ سیالکوٹی )پنجابی شاعر( سے لیا گیا تھا۔ لیکن ہندوستان کی احمدی جماعتو کے مسلسل احتجاج اور پیہم درخواستوں کے نتیجہ میں ۵۔ صلح/جنوری ۱۳۳۲ہش/۱۹۵۳ء کو موخر الذکر فیصلہ بھی منسوخ کردیا گیا۔
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے آخر میں بھارت سرکار نے فیصلہ کیا کہ قادیان ریفیوجی ٹائون ہے۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں قادیان کی اراضی اور دوسری جائدادیں باضابطہ طور پر غیرمسلم پناہ گزینوں کو الاٹ کردی گئیں۔ حالانکہ اس سے قبل قادیان کی جائدادوں پر محض عارضی قبضہ دیاگیا تھا۔ جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان نے قرارداریں پاس کیں کہ صدرانجمن احمدیہ قادیان کی قادیان کی جائدادیں اس کو واپس دلائی جائیں۔ یہ معاملہ بہت طول کھینچ گیا اور اور سالہا سال تک کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ بالاخر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء میں بھارتی حکومت نے تسلیم کرلیا کہ صدر انجمن احمدیہ قادیان تارکین وطن میں شامل نہیں۔ اس لئے وہ اپنی جائداد پر قبضہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔
اغوا شدہ مسلم خواتین کی بازیابی کیلئے عظیم الشان جدوجہد
درویشوں کو اس ابتدائی پر آشوب دور میں جن شاندار اسلامی خدمات انجام دینے کی توفیق رب کریم و جلیل کی طرف سے ملی ان میں مسلمان مغویہ خواتین
کی بازیابی اور محصور مسلمانوں کی حفاظت کا کارنامہ نہایت درجہ لائق تحسین ہے جس کی عظمت و اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں درویشاں قادیان کی زندگی عملاً قید سے بہتر نہیں تھی کیونکہ وہ ایک مختصر سے حلقہ میں محدود محصور تھے اور انہیں اس حلقہ سے تھوڑا بہت ادھر ادھر جانے کے لئے بھی پولیس یا ملٹری کی امداد کی ضرورت ہوتی تھی۔ ایک بھاری وقت یہ تھی کہ بھارتی حکومت نے ضلع گورداسپور کو ممنوعہ علاقہ قرار دے رکھا تھا اس لئے پاکستان کی ملٹری یا پولیس بین المملکتی معاہدہ کے باوجود اغوا شدہ مسلم خواتین کو برآمد کرنے کے لئے نہیں آسکتی تھی۔ لیکن چونکہ قادیان کے مینار سے پانچوں وقت اذان کی آواز بلند ہوتی جو دور دور تک سنائی دیتی تھی اس لئے متعدد مسلمان عورتیں اذان سننے کے بعد موقع پاتے ہی مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے اس واحد مرکز میں پہنچ جاتی تھیں۔ بعض کو شریف عیسائی اور بعض کو شریف مزاج سکھ چھوڑ جاتے تھے۔ بعض عورتیں اردگرد کے دیہات پر حملہ کے دوران قادیان آکر ٹھہر گئی تھیں۔ یا انہوں نے غیر مسلموں سے قادیان کی اسلامی بستی کا ذکر سنا تو چپکے سے یہاں بھاگ آئیں۔ ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء سے ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک ایسی عورتیں )بشمول خوف یا جبر کے باعث اسلام سے ارتداد اختیار کرنے والوں کے( قریباً اسی کی تعداد میں درویشوں کے حلقہ میں پہنچیں۔ ان عورتوں میں ماحول قادیان کے علاوہ ہوشیار پور` امرتسر` فیروزپور اور ریاست جموں کی بھی تھیں جن کی رہائش اور خوراک کا خاص اہتمام کیا گیا اور ان کو ٹرکوں پر سوار کرکے بحفاظت پاکستان پہنچا دیاگیا۔
مغویہ عورتوں کی قادیان میں آمد یا قادیا سے روانگی پر قادیان کے مرکزی کارکنوں کی طرف سے تار اور فون کے ذریعہ سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب کی خدمت میں باقاعدہ اطلاع دی جاتی۔ اور حضرت میاں صاحب ایسی خواتین کو ان کے ورثاء تک پہنچانے کے لئے اخبارات میں اطلاع شائع کراتے۵۴ اور ان کے ورثاء کی تلاش میں ہر ممکن ذرائع بروئے کار لاتے۔
جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے درویش قادیان )مولف >اصحاب احمد(< کا ایک اہم مکتوب اخبار >انقلاب< لاہور مورخہ ۱۹ مئی ۱۹۴۸ء میں >اغوا شدہ مستورات کی برآمدگی کے لئے قادیان کی مساعی< کے عنوان سے شائع ہوا جس سے اس سلسلہ میں درویشان قادیان کی اجتماعی کوششوں کا صحیح نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ملک صاحب نے تحریر فرمایا کہ
>ناظرین کرام! امروزہ صحبت میں اغوا شدہ مستورات اور سکھ بنے ہوئے مسلمانوں کے متعلق قادیان میں مقیم احمدیوں کی مساعی کا ذکر کرتا ہوں۔ ہم بہت محنت سے دریافت کرتے رہتے ہی کہ اغوا شدہ عورتوں کے نام کیا کیا ہیں۔ وہ کس کس گائوں میں کس کے پاس رہتی ہیں۔ اپنی اور ان کی بے بسی کی وجہ سے ہمارے دل پر جو کچھ گزرتی ہے اس کا اندازہ آپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خاطر ہم ہروقت کڑھتے ہیں۔ کبھی ڈپٹی کمشنر کو فون کرتے ہیں` کبھی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاع دیتے ہیں` کبھی مقامی تھانیدار اور مقامی مجسٹریٹ کو خبر پہنچاتے ہیں۔ کبھی کانگرس کے عہدہ داروں یا ضلع کے پبلسٹی آفیسر سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی طرح میجر جنرل عبدالرحمن ڈپٹی ہائی کمشنر کو بھی فہرست بھجواتے ہیں غرضکہ ان کی خاطر ہم ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں اور ان کی برآمدگی کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی عورت خاکروبوں کی مدد سے یا ہماری اذان سن کر یا غیر مسلموں کی باتوں سے معلوم کرکے قادیان میں مسلمان رہتے ہیں ہمارے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ہمارے دل بلیوں اچھلتے ہیں اور ہم خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے ہوئے ایک دوسرے کو خوشخبری سناتے ہیں۔ ایسی عورتوں کے قیام کے لئے ایک کھلا چوبارہ مقرر ہے جس پر ایک معمر بزرگ بابا بھاگ کا ہر وقت پہرہ دیتا ہے۔ وہ ان کی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ وہاں کسی اور مرد کو جانے کی اجازت نہیں۔ بابا مذکور جس خدمت گزاری سے کام کرتے ہیں وہ اس امر سے ظاہر ہے کہ ایک شخص نے پاکستان سے لکھا ہے کہ اس کی ہمشیرہ بابا بھاگ کی مخلصانہ خدمات کو یاد کرتی ہے تو رو دیتی ہے۔ ہمارے موجودہ امیر مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ سابق جنرل پریذیڈنٹ قادیان ہیڈ ماسٹر ذاتی طور پر بھی ان کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ انہیں کپڑے اور جوتیاں بنوادیتے ہیں اور ان کے لاہور پہنچنے سے پہلے پہلے ان کے اقارب کا جو پاکستان میں ہوتے ہیں پتہ حاصل کرلیتے ہیں اور انہیں اطلاع بھجوادیتے ہیں۔ چنانچہ جب عورتیں لاہور پہنچتی ہیں تو ان کے اقارب انہیں جلدی آکر لے جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں اردگر کے دیہات میں بکثرت ایسے مسلمان خاندان موجود ہیں جو سکھ بنے ہوئے ہیں لیکن پاکستان جانے کے خواشمند ہیں۔ ہم انہیں اپنے پاس آنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ تسلی دیتے ہیں اور آجانے پر ان کا روپیہ لے کر صدرانجمن احمدیہ قادیان کے خزانہ میں جمع کر لیتے ہیں تاکہ راستہ میں ضائع نہ ہو۔ یہ روپیہ انہیں لاہور پہنچ کر وہاں کی صدرانجمن احمدیہ کے خزانہ سے مل جاتا ہے۔ قادیان پہنچ جانے پر ان کے قیام و طعام کا انتظام کرتے ¶ہیں اور نگرانی رکھتے ہیں کہ غیر مسلم انہیں علیحدگی میں نہ ملیں مبادا وہ اپنی سادہ لوحی سے دھوکہ میں آکر پھر واپس چلے جائیں۔ ان اغوا شدہ عورتوں اور سکھ بنے ہوئے مسلمانوں سے ہماری ذرا بھی سابقہ معرفت نہیں ہوتی لیکن ہم محض جذبہ اخوت اسلامی سے سرشار ہوکر خدا تعالٰے کی خاطر ان کی خدمت بجالاتے ہیں اس سلسلہ میں میں دو ضروری باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ اگر کسی مسلمان عورت کے متعلق آپ کو علم ہو کہ مشرقی پنجاب میں ہے تو مہربانی کرکے اس کے جملہ کوائف سے ہمیں مطلع فرمائیں۔ ہم حتی الامکان برآمدگی کے لئے پوری پوری کوشش کریں گے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں جو غیر مسلم اغوا شدہ عورتیں موجود ہیں ان کی برآمدگی کے لئے بھی ہر ایک شخص کو سرتوڑ کوشش کرنی چاہئے کہ اول تو مذہباً یہ فعل اغوا انتہائی طور پر ناجائز ہے۔ دوم ان کے برآمد کرنے کا اثر یقینی طور پر مشرقی پنجاب میں بہت ہی اچھا پڑتا ہے۔ کون مسلمان پسند کرتا ہے کہ اس کی مسلمان نہیں بدستور اغواشدہ رہ کر غیروں کے گھروں میں پڑی رہیں۔<۵۵
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک درویشان قادیان کی سرفروشاہ جدوجہد کے نتیجہ میں ۱۳۴ مرد وزن پاکستان پہنچ چکے تھے جن میں سے ۷۷ مسلمان عورتیں تھیں اور ۵۷ مسلمان مرد تھے۔۵۶ درویشوں کی یہ بے لوث اور پاک اور مخلصانہ کوششیں جاری تھیں کہ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں بٹالہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس قادیان آئے اور سب احمدی آبادی کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں جمع کرکے ان کے نام اور پتہ جات وغیرہ نوٹ کئے اور یہ معلوم کیا کہ ان میں سے قادیان اور اس کے گردونواح کے رہنے والے کتنے ہیں۔ نیز حکیم دیا کہ قادیان میں چونکہ کوئی منظور شدہ کیمپ نہیں ہے اس لئے آپ لوگوں کو اردگرد سے نکل کر آئے ہوئے مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنے پاس نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ ۵۷
۳۵ عشاق احمدیت کی دیارحبیب میں تشریف آوری
حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں تحریک فرمائی تھی کہ عشاق احمدیت قادیان کی جگہوں کو آبار کرنے کے لئے اپنے تئیں پیش کریں۔ حضور کی اس آواز پر لبیک کہنے والوں کا ایک خوش نصیب قافلہ شروع ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں صبح ۸ بجے لاہور سے روانہ ہوا۔ حضرت سیدنا امیرالمومنین المصلح الموعود نے افراد قافلہ کو شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دعا کے ساتھ الوداع کہا۔ ۵۸ اس قافلہ میں بارہ صحابہ بھی تھے جن میں حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب )امیرقافلہ( اور حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی جیسے قدیم اور ممتاز صحابہ بھی شامل تھے۔ یہ قافلہ ٹرکوں کے ذریعہ قادیان پہنچا۔ ملٹری چوکی کے سکھ افسروں نے قریباً پون گھنٹہ میں آنے والوں کی اسم وار فہرست تیار کی جس کے بعد یہ قافلہ مجسٹریٹ صاحب` ملٹری پولیس کی کافی تعداد` چند سائیکل سواروں اور دو ایک شہسواروں کے جھرمٹ میں دارالشکر سے ہوتے اور فروٹ فارم` اسٹیشن` کوٹھی حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال سے گزرتے ہوئے دارالانوار کی بڑی سڑک سے داخل شہر ہوا اور مولوی عبدالمغنی خاں صاحب اور نیک محمد خاں صاحب غزنوی کے مکان کے پاس جاکر رکا۔۵۹
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے اس قافلہ کی آمد کے موقعہ پر ۵۔ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ کے نام ایک خصوصی مکتوب لکھا جس میں نصیحت فرمائی کہ۔
>جملہ درویشوں کو میری طرف سے بعد سلام یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ ان بزرگوں کی آمد کو ایک خدائی نعمت سمجھتے ہوئے ان کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور ان کے علم و عمل کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ صحابہ کا مقدس گروہ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ باوجود اس کے ہم انہیں اپے آپ کو ان کی صحبت سے محروم کرتے ہوئے آپ کے پاس بھجوائے جارہے ہیں۔ پس اس نعمت کی قدر کریں اور دعائوں اور نوافل پر پہلے سے بھی زیادہ زور دیں اور باہم اتحاد اور تعاون اور بزرگوں کے ادب کا وہ نمونہ قائم کریں جو اسلام آپ سے چاہتا ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا پیارا مرکز ہمیں کب واپس ملے گا۔ مگر جب تک ہمیں وہ واپس نہیں ملتا اور بزرگوں کا وجود اور ان کے ساتھ آپ جیسے مخلص اور جانثار درویشوں کا وجود اس شمع کا حکم رکھتا ہے جو ایک وسیع اور تاریک میدان میں اکیلی اور تن تنہا روشن ہوکر دیکھنے والوں کے لئے نور ہدایت کا کام دیتی ہے۔ اگر آپ خلوص نیت اور سچی محبت اور پاک جذبہ خدمت کے ساتھ قادیان میں ٹھہریں گے اور اپنی آپ کو احمدیت کا اعلیٰ نمونہ بنائیں گے تو نہ صرف خدا کے حضور میں آپ کی خدمت خاص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائی گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے اس نمونہ کو فخر کی نظر سے دیکھیں گی۔<۶۰
فہرست
یہ قافلہ مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھا- گول دائرے کا نشان بچہ بتاتا ہے کہ درویش کچھ عرصے کے بعد واپس پاکستان تشریف لے آئے۔ ص سے مراد صحابی
۱۔
حضرت میاں محمددین صاحب واصلباقی )ص ولدیت انور دین صاحب سکونت کھاریاں کیفیت یکم نومبر ۱۶۵۱(
۲۔
حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی )ص( )چندا سنگھ قادیان وفات ماہ اکتوبر ۱۹۶۴ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ(
۳۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی )ص( )مہتہ گوراں دتا مل قادیان وفات ۶/۵ جنوری ۱۹۶۰ء خانیوال۔ مدفون بہشتی مقبرہ قادیان(
۴۔
حضرت بابا شیرمحمد صاحب )ص( )دتے خان صاحب قادیان وفات ۱۷ اگست ۱۹۴۹ء(
۵۔
چودھری سلطان احمد صاحب ؟
۶۔
میاں خیردین صاحب )کرم دین صاحب قادیان وفات ۲۳۔ جون ۱۹۶۹ء(
۷۔
حسن دین صاحب )فضل دین صاحب قادیان وفات ۴۔ جون ۱۹۷۵ء(
۸۔
چوہدری فیض احمد صاحب ) حافظ غلام غوث صاحب قادیان وفات ۲۸۔ اگست ۱۹۷۸ء(
۹۔
مرزا محمد احمد بیگ صاحب )مرزا محمد کریم بیگ صاحب قادیان(
۱۰۔
بابا نور احمد صاحب باورچی )عمردین صاحب قادیان وفات ۳۱۔ جولائی ۱۹۷۳ء(
۱۱۔
صدیق احمد صاحب پسرنور محمدصاحب دکاندار ؟
۱۲۔
محمد ابراہیم صاحب ٹیلر ؟
۱۳۔
نور محمد صاحب دکاندار ولد اللہ دتہ صاحب ؟ وفات ۲۵۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء(
۱۴۔
ڈاکٹر عطردین صاحب )میاں بھولا صاحب قادیان وفات ۱۴ دسمبر ۱۹۷۴ء(
۱۵۔
حافظ عبدالعزیز صاحب ننگلی )محمد بخش صاحب ننگل باغباناں قادیان وفات ۲۰ فروری ۱۹۷۳ء(
۱۶۔
حضرت حاجی محمد دین صاحب تہالوی )ص( )نوراحمدصاحب تہالوی تہال ضلع گجرات وفات ۹ جون ۱۹۶۵ء( مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ
۱۷۔
حضرت حافظ صدرالدین صاحب )ص( )محمد دین صاحب قادر آباد سیالکوٹ وفات ۳ اپریل ۱۹۵۸ء(
۱۸۔
بابا جان محمد صاحب )شاہ محمد صاحب گٹھالیاں ضلع سیالکوٹ وفات ۲۲۔ جنوری ۱۹۶۵ء(
۱۹۔
‏ind] ga[t حاجی فضل محمد صاحب )موج دین صاحب کپورتھلہ وفات ۲۶۔ نومبر ۱۹۶۶ء(
۲۰۔
چوہدری محمد عبداللہ صاحب )ولد علی گوہر صاحب برادر مولوی تاج الدین صاحب فاضل` لائل پور وفات ۲۶ اگست ۱۹۵۲ء(
۲۱۔
چودھری شکرالدین صاحب )نواب دین صاحب بن باجوہ ضلع سیالکوٹ(
۲۲۔
مولوی غلام محمد صاحب ؟
۲۳۔
بابا عطا محمد صاحب )جمیعت صاحب نوہٹ ضلع لدھیانہ چک ۲۹۵ لائل پور ۶ نومبر ۱۹۶۲ء(
۲۴۔
بابا فضل احمد صاحب )میرداد صاحب گٹھالیاں ضلع سیالکوٹ وفات ۱۷۔ نومبر ۱۹۶۹ء(
۲۵۔
شیخ محمد یعقوب صاحب )حاجی تاج محمود صاحب چنیوٹ ضلع جھنگ وفات ۱۳ جولائی ۱۹۴۰ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ(
۲۶۔
شیخ غلام جیلانی صاحب )سمندر دین صاحب کپورتھلوی لائل پور وفات ۱۶ مئی ۱۹۶۵ء(
۲۷۔
چوہدری صدرالدین صاحب گجراتی ؟
۲۸۔
بابا اللہ دتہ صاحب دو المیال )شاہباز صاحب جہلمی دوالمیال ضلع جہلم وفات ۱۰ جنوری ۱۹۵۰ء(
۲۹۔
بابا کرم الٰہی صاحب )عیداصاحب بھڈیار ضلع شیخوپور ۲۵ ستمبر ۱۹۵۹ء(
۳۰۔
خواجہ ضیاء الحق صاحب )عبدالحق صاحب گوجر ضلع سیالکوٹ(
۳۱۔
عبداللہ خاں صاحب )فتح محمد صاحب بھڑناں ضلع سیالکوٹ(
۳۲۔
حضرت بھائی الدین صاحب )ص( )میاں احمد دین صاحب شاہدرہ لاہور وفات ۲۸۔ دسمبر ۱۹۸۲ء(
۳۳۔
سیدمحمد شریف صاحب )سیدحسین شاہ صاحب گلی حام الدین صاحب سیالکوٹ وفات ۶ اکتوبر ۱۹۷۷ء(
۳۴۔
پی۔ محمد کٹی )موجودہ نام محمد احمد نسیم( )حس کٹی صاحب کنانور مالابار وفات ۲۱ جولائی ۱۹۷۵ء(۶۱
اس قافلہ کے علاوہ ۱۹۴۸ء میں مندرجہ ذیل اصحاب بھی درویشو کے مبارک گروہ میں شامل ہوگئے )گول دائرہ کا نشان واپس پاکستان ہے( اور )ص( سے مراد یہ ہے کہ یہ درویش بزرگ صحابی تھے۔
۱۔
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب قادیان )آپ کا ذکر آچکا ہے(
۲۔
مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل خلیفہ مسیح الثانی المصلح الموعود قادیان وفات ۵ نومبر ۱۹۸۷ء
۳۔
منظور احمد صاحب یعقوب علی صاحب گھنو کے ضلع سیالکوٹ
۴۔
افتخار احمد صاحب اشرف ماسٹر علی جاب اظہر قادیان
۵۔
بابا اللہ صاحب ماہیا صاحب پلاں والا ریاست جموں
۶۔
فتح محمد صاحب محمد عبداللہ صاحب قادیان
۷۔
مستری محمد اسماعیل صاحب نظام دین صاحب راج گڑھ لاہور
۸۔
چوہدری عبدالقدیر صاحب چوہدری سردار خان صاحب موہنکی ضلع گوجرانوالہ وفات ۱۳ اپریل ۱۹۸۷ء(
۹۔
چوہدری حسن دین صاحب فضل دین صاحب قادیان وفات ۴ جون ۱۹۷۵ء
۱۰۔
محمد ابراہیم صاحب غالب دلاور علی صاحب بہار قادیان وفات یکم اکتوبر ۱۹۸۳ء
۱۱۔
نورمحمد صاحب پونچھی قصل احمد صاحب پونچھی قادیان
۱۲۔
محمد احمد صاحب نسیم کمپونڈر آئی حسن کٹی صاحب مالا باری کینانور مالا بار وفات ۲۱۔ جولائی ۱۹۷۵ء
۱۳۔
حافظ نورالٰہی صاحب۶۲ حافظ محمد عارف صاحب کوٹ مومن وفات ۲۶ اپریل ۱۹۴۸ء
۱۴۔
عبدالاحد خان صاحب کاہلی ؟ وفات ۳/۲ اگست ۱۰۶۸ء
۱۵۔
بابا محمددین صاحب بھولا صاحب بدو کے ضلع گوجرانوالہ قادیان وفات جولائی ۱۹۶۸ء
۱۶۔
حاجی ممتاز علی خان صاحب )ص( حضرت خان صاحب ذوالفقارعلی صاحب گوہر قادیان وفات ۱۹ جولائی ۱۹۵۴ء
۱۷۔
بابا غلام محمد صاحب فوج دار صاحب مانگا ضلع سیالکوٹ وفات
۱۸۔
کیپٹن ڈاکٹر بشیراحمد صاحب ایم ایس سی چوہدری مہر دین صاحب سیالکوٹی دسوہہ لائل پور تاریخ واپسی ۷ جولائی ۱۹۵۱ء
۱۹۔
بشارت احمد صاحب خوشی محمد صاحب دربارن قادیان تاریخ وفات ۱۱ نومبر ۱۹۵۷ء
۲۰۔
مسٹر محمد یٰسین صاحب علم دین صاحب کوئٹہ
۲۱۔
صوفی خدابخش صاحب گوہر خان صاحب زیرہ ضلع فیروز پور حال ربوہ
۲۲۔
میرمحمد اکبر صاحب میرمحمد بخش صاحب گوجرانوالہ
۲۳۔
عبدالکریم صاحب حجام اللہ دتہ صاحب ترگڑز ضلع گوجرانوالہ
۲۴۔
مولوی عبدالوہاب صاحب عمرصاحب حضرت مولوی نورالدین خلیفہ المسیح الاولی قادیان جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں )وفات یافتہ(
۲۵۔
مستری جان محمد صاحب حسن بخش صاحب قادیان
۲۶۔
محمد تمیم صاحب محمد الدین صاحب سیلونی
۲۷۔
ملک محمد عبداللہ صاحب ملک عبدالرحمن خاں صاحب ککے زئی نوشہرہ سیالکوٹ
۲۸۔
ملک محمد یوسف صاحب ملک علی محمد صاحب رتوچھ ضلع جہلم
۲۹۔
دوست محمد صاحب پیرن خاں ڈیرہ غازی خان
درویشوں کی مشکلات
اس دور میں درویشوں کو پریشان کرنے اور حکام کو ان کے خلاف اکسانے کے لئے کیا کیا حربے استعمال کئے جارہے تھے ان کا کسی قدر اندازہ اخبار >انقلاب< )۷ ستمبر ۱۹۴۸ء کے مندرجہ ذیل نوٹ سے لگ سکتا ہے۔
>قادیان میں تین سو تیرہ احمدی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اذانیں دیتے ہیں` نمازیں پڑھتی ہیں اور اپنے مذہبی مقامات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کو احمدی اصطلاح میں درویش کہتے ہیں۔ ان درویشوں میں سے ایک صاحب حال ہی میں واپس آئے ہیں جنہوں نے قادیان کے سکھوں کے متعلق بعض نہایت دلچسپ باتیں سنائیں۔ مثلاً پچھلے دنوں سردار ایشرسنگھ جھیل )وزیر مشرقی پنجاب( قادیان آئے۔ انہوں نے سکھوں اور ہندوئوں کے اجتماع میں تقریر کی۔ اس موقعہ پر ایک سکھ مقرر نے کہا کہ سردار! وہ جو ہندوستان میں ساڑھے چار کروڑ مسلمان رہتے ہیں ان کا ہم بندوبست کریں گے آپ فکر نہ کیجئے۔ آپ مہربانی کرکے ان تین سو تیرہ سے ہمیں نجات دلا دیجئے۔ یہ بات اتنی مہل اور مضحکہ خیز تھی کہ سردار ایشر سنگھ بھی ہنسے بغیرنہ رہ سکے۔
ایک احمدی کے نام تیس روپے کا منی آرڈر آیا جو اس نے وصول کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کیا دیکھتا ہے کہ پوسٹ مین بھاگا ہوا آرہا ہے۔ اس نے آتے ہی کہا کہ آپ کو پوسٹماسٹر صاحب بلاتے ہیں۔ یہ صاحب ڈاک خانے پہنچے تو پوسٹ ماسٹر صاحب نے کہا کہ ایک بڑی غلطی ہوگئی ہے وہ منی آرڈر کی رقم آپ واپس کردیجئے۔ احمدی نے پوچھا وہ کیوں؟ کہنا مگر یہ منی آرڈر بغیر سنسر تقسیم ہوگیا ہے۔ اب اسے سنسر کرانے کے لئے دہلی بھیجنا ہے۔ عرض کیا گیا کہ منی آرڈر کا سنسر کیا معنی! اور پھر کوپن پر کچھ لکھا ہوا بھی نہیں جس کو سنسر کرانا ضروری ہو۔ آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن پوسٹ ماسٹر صاحب نہ مانے اور انہوں نے رقم واپس لے کر منی آرڈر سنسر کرانے کے لئے دہلی بھیج دیا۔
ایک سکھ ڈی۔ ایس۔ پی نے ایک احمدی کو یونہی سڑک پر گرفتار کرکے ہندو اے- ڈی۔ ایم کی عدالت میں پیش کردیا اور شکایت کی کہ اس نے کرفیو کی خلاف ورزی کی ہے۔ اے ڈی ایم نے کہا کہ اس وقت قادیان میں کوئی کرفیو نہیں پھر خلاف ورزی کس چیز کی ہوئی۔ سکھ ڈی ایس پی نے کہا۔ نہیں صاحب کرفیو موجود ہے۔ اے ڈی ایم نے کہا آخر کرفیو آرڈر تو میں ہی صادر کرتا ہوں۔ میں نے کوئی حکم نہیں دیا اور اس وقت اس علاقے کے کسی حصے میں کرفیو نہیں ہے۔ سکھ ڈی ایس پی ۔۔۔۔۔۔ ایک سکھ دوسرے پولیس ۔۔۔۔۔۔ غصے میں آگئے اور ہندو اے ڈی` ایم سے کہنے لگے۔ اچھا آپ سمجھتے ہیں کہ کرفیو نہیں ہے بہتر ہے ذرا خود باہر نکل کر دیکھئے۔ کرفیو ہے یا نہیں- اے ڈی ایم اس گستاخانہ دھمکی پر دم بخود رہ گئے۔ لیک کیا کرتے۔ آجکل ہندو افسروں کو ہر جگہ سکھوں سے دینا پڑتا ہے۔
قادیان کے بہشتی مقبرے کے گرد احمدیوں نے ایک دیوار تعمیر کی جس میں جھلملیاں لگائی گئی ہیں۔ جنہیں پنجابی میں جھرنا کہتے ہیں۔ سکھوں نے بالائی حکام کے پاس شکایت کردی۔ کر مرزائیوں نے توپوں اور بندوقوں کے لئے مورچے بنائے ہیں۔ فوجی افسر موقع کا معائنہ کرنے آئے تو بہت ناراض ہوئے کہ تم خواہ مخواہ ہمارا وقت ضائع کرتے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی مورچے ہیں۔ کیا ان میں کوئی بندوق یا توپ لگائی جاسکتی ہے۔ پھر احمدیوں نے اپنے گھروں کی عمارتوں پر تو مورچے نہ لگائے قبروں پر مورچوں کی کیا ضرورت تھی۔ شکایت کرنے والے سکھ خفیف ہوئے۔
ایک اور عجیب و غریب شکایت کی گئی ہے کہ صاحب یہ احمدی صرف تین سو تیرہ نہیں ہیں بلکہ ہزاروں ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہ سب اپنے تہہ خانوں میں چھپے رہتے ہیں اور صرف تین سو تیرہ باہر نکلتے ہیں۔ پھر وہ غائب ہوجاتے ہیں اور تین سو تیرہ کی نئی کھیپ تہ خانوں سے نکل آتی ہے۔ مطلب غالباً یہ ہے کہ حکام ان احمدیوں کو تلاشیوں اور گرفتاریوں سے پریشان کریں۔<
دفتر زائرین کا قیام
چونکہ روزانہ بہت سے معزز غیرمسلم اصحاب قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آتے تھے اس لئے ماہ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں زائرین کو مساجد` منارۃ المسیح اور دوسرے مقامات دکھانے اور مناسب طریق سے پیغام اسلام پہنچانے کے لئے ایک خاص دفتر قائم کردیا گیا۔ یہ دفتر اس رستہ میں بنایا گیا جو قصر خلافت کے ساتھ ساتھ تحریک جدید کی عمارت سے دارالمسیح کی طرف جاتا ہے۔ مکرم سید محمد شریف صاحب` حضرت حاجی محمد دین صاحب آف تہال اور مکرم مولوی الہ دین صاحب کو یہ نئی ذمہ داری سونپی گئی اور یہ تینوں بزرگ بہت اخلاص` محبت اور استقلال کے ساتھ یہ خدمت بجالانے لگے۔

فصل پنجم
سالانہ جلسہ قادیان ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
عہد درویشی کے دوسرے سالانہ جلسہ کا انعقاد ۲۶۔ ۲۷۔ ۲۸ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو قادیان کی پرانی زنانہ جلسہ گاہ میں ہوا۔ اس جلسہ میں قادیان کے درویشوں اور غیر مسلموں کی علاوہ دہلی` میرٹھ` مظفرنگر` شاہجہان پور` ساندھن )آگرہ`( علی گڑھ` امروہہ` مالابار` بریلی` کلکتہ` بمبئی` مونگھیر` پٹنہ` مظفرپور` رانچی اور بھوپال کے۶۳ ۶۶ احباب نے بھی شرکت فرمائی۔ یہ دوست اپنی اپنی جماعتوں کے نمائندے تھے جو پہلے ۲۴۔ دسمبر/فتح کو دہلی میں جمع ہوئے۔ پھر دہلی کے احمد مبلغ مولانا بشراحمد صاحب فاضل کی امارت میں پولیس اسکورٹ کے ساتھ قادیان پہنچے۔ ۶۴ اور ۲۹ فتح/دسمبر کو واپس روانہ ہوگئے۔ ۶۵ صاحبزادہ مرزا مظفراحمد صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ بھی ۲۷ دسمبر ۱۹۴۸ء کو اس مبارک اجتماع میں شامل ہوئے۔ سیالکوٹ کے پناہ گزین آپ کی ملاقات سے بہت خوش ہوئے۔
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کا روح پرور پیغام اور ہندوستان کی احمدی جماعتوں کی تنظیم نوکا خاص ارشاد
اس مقدس تقریب پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ایک نہایت روح پرور پیغام ارسال فرمایا جس نے ہندوستان کے احمدیوں میں عموماً اور درویشا قادیان میں خصوصاً زندگی کی
نئی روح پھونک دی۔ اس پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
نیا ماحول اور نئی ذمہ داریاں
برادران جماعت احمدیہ قادیان و ہندوستان یونین!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں آپ لوگوں کو سالانہ جلسہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت قائم رکھنے کی توفیق پانے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ سناگیا ہے کہ ہندوستان یونین نے سو کی قریب ہندوستانی احمدیوں کو جلسہ میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے گو یہ اجازت بہت بعد میں ملی ہے اور شاید اس سے جماعت کی لوگ فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ لیکن اگر بعض افراد کو اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق ملی ہو تو میں انہیں بھی اس اہم موقعہ پر حصہ لینے پر مبارک باد دیتا ہوں۔
برادران! جماعتیں بڑے صدمات میں سے گزرے بغیر کبھی بڑی نہیں ہوتیں۔ قربانی کے مراقع کا میسر آنا اور پھر قربانی کرنے کی قابلیت ظاہر کردینا` یہی افراد کو جماعتوں میں تبدیل کردیتا ہے اور اس سے جماعتیں بڑی جماعت بنتی ہیں۔ ہماری قربانیاں اس وقت تک بالکل اور قسم کی تھیں اور ان کو دیکھتے ہوئے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بننے کے مکانات موجود ہیں۔ مگر اب جو قادیان کا حادثہ پیش آیا ہے وہ اس قسم کے واقعات میں سے ہے جو قوموں کو بڑا بنایا کرتے ہیں۔ اگر اس وقت ہماری جماعت نے اپنے فرائض کو سمجھا` اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا تو بڑائی اور عظمت اور خدائی برکات یقیناً اس کے شامل حال ہوں گی اور وہ اس کام کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی جو خدا تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے۔
میں قادیان کے رہنے والے احمدیوں کو اس امر کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شوروشر کا زمانہ جس نے عمل کے مواقع کو بالکل باطل کردیا تھا اب ختم ہورہا ہے۔ آہستہ آہستہ امن فساد کی جگہ لے رہا ہے۔ بہت سی جگہوں کے راستے کھل گئے ہیں اور باقی کے متعلق امید ہے کہ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے۔ مگر جس رنگ میں کام چل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کا ایک مرکز پر جمع ہوجانا ابھی کچھ وقت چاہتا ہے۔ وہ وقت لمبا ہو یا چھوٹا لیکن بہرحال جب تک وہ وقت نہ آئے جس حد تک موجودہ تعطل کو دور کیا جاسکے اس کا دور کیا جانا ضروری ہے۔ گزشتہ سال جو تعطل واقع ہوا وہ معافی کے قابل تھا کیونکہ تمام علاقے آپس میں کٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے تک خبر پہنچانا ناممکن تھا۔ لیکن اب وہ حالت نہیں رہی۔ اب کسی نہ کسی ذریعہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق قائم رکھا جاسکتا ہے اور تبلیغ اور اشاعت کے کام کو بھی ہاتھوں میں لیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ ایام میں جو تباہی آئی اس موقعہ پر قادیان کے اکثر احباب نے نہایت عمدہ نمونہ دکھایا اور قابل تعریف قربانی پیش کی۔ جس پر میں ہی نہیں ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگ بھی قادیا کے لوگوں کی قربانی کی تعریف کررہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے لوگ اب قادیان کو صرف ایک مذہبی مرکز کے طور پر نہیں دیکھ رہے بلکہ قربانی کرنے والے ایثار کرنے والے اور اس دکھ بھری دنیا کو اس کے دکھوں سے نجات دینے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو مرکز سمجھ رہے ہیں۔ اس نقطئہ نگاہ سے قادیان اب صرف احمدیوں کا مرکز نہیں رہا بلکہ وہ مختلف مفید عام کاموں کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہوگیا ہے۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک مجلس میں شامل ہونے کا مجھے موقعہ ملا۔ میرے پاس امریکن قونصل جنرل کی بیوی تشریف رکھتی تھیں۔ مجلس سے اٹھتے وقت میں نے ان سے کہا کہ اپنے خاوند سے مجھے انٹروڈیوس کرا دیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کو مجھ سے ملوایا۔ ملنے کے بعد سب سے پہلے فقرہ جو امریکن قونصل جنرل نے کہا وہ یہ تھا کہ مجھے قادیان دیکھنے کی بہت خواہش ہے افسوس ہے کہ اس وقت تک میں اس خواہش کو پورا نہیں کرسکا۔ میں نے کہا ہمیں بھی بہت خواہش ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہم بھی اس خواہش کو پورا نہیں کرسکتے۔ اسے سن کر نہایت افسوس سے امریکن قونصل جنرل نے کہا۔ ہاں ہمیں بھی اس بات کا بہت افسوس ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے گو احمدیہ جماعت کی اکثریت قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے اور اب صرف چند سو احمدی قادیان میں رہ گئے ہیں لیکن قادیان پہلے سے بھی زیادہ دنیا کی توجہ کا مرکز ہوگیا ہے اور اس کی وجہ وہی قربانی اور شاندار نمونہ ہے جو قادیان کے احمدیوں سے پیش کیا۔ اور آپ لوگ اس قربانی کی مثال کو زندہ رکھنے والے ہیں اور اس وجہ سے اس معاملہ میں سب سے زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن صرف کسی چیز کو زندہ رکھنا کافی نہیں ہوا کرتا۔ اس چیز کو زیادہ سے زیادہ پھیلانا اصل کام ہوتا ہے۔ اگر محمد~صل۱~ اس نور آسمانی کو اپنے دل میں زندہ رکھنے جو آسمان سے اس وقت نازل ہوا تھا تو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوتا۔ لیکن اتنا بڑا کام نہیں جو اس صورت میں ہوا کہ آپﷺ~ نے اس نور کو اپنے دل ہی میں زندہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں لاکھوں اور انسانوں کو بھی اس نور سے منور کردیا۔ صحابہ کرامؓ نے اس نور کو اپنی زندگیوں میں زندہ رکھ کر ایک بہت بڑا نمونہ دکھایا۔ لیکن ان کا یہ نمونہ اس سے بھی زیادہ شاندار تھا کہ انہوں نے نور محمدی کا ایک حصہ اپنے سینوں سے نکال کر لاکھوں اور کروڑوں دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی بھردیا۔ پس اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوتا ہے اور نیا دور شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پہلے دور کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیا جاتا ہے تاکہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہوشیار کرتا رہے اور تباہی سے بچائے۔ لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اور جو باری باری ساری دنیا کو روشن کردیتا ہے۔
بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی۔ تین سو آدمی یقیناً تین سے زیادہ ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی۔ گیارہ سو اور تین کی نسبت ۳۶۶/۱ کی ہوتی ہے۔ اگر اس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے تو موجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے ۳۶/۱ ہوتی ہے۔ گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کام شروع کیا اس سے آپ کی طاقت قادیان سے باہر کوئی احمدیہ جماعت نہیں تھی لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمدیہ جماعتیں قائم ہیں۔ ان جماعتوں کو بیدار کرنا` منظم کرنا` ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادہ کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلادیں۔ یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ قادیان احمدیوں کا مرکز ہے۔ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ مرکز کو مرکز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مرکز چند مجاوروں کے جمع ہوکر بیٹھ جانے کا نام نہیں۔ مرکز ایک بے انتہاء جذبہ کا نام ہے جو اپنے ماحول پرچھا جانے کا ارادہ کرکے کھڑا ہو۔ مرکز کا نام قرآن کریم میں ماں رکھا ہے اور ماں وہی ہوتی ہے جو اپنا خون پلا کر بچوں کو پلاتی` بڑا کرتی اور جوان کرتی ہے۔ پس قادیان مرکز اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی چھاتیوں کا دودھ تمام طالبان صداقت کو پیش کرے` ان کو پالے اور ان کی پرورش کرے اور ان کو پروان چڑھائے۔ پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اور ہندوستان کی باقی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کری۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کریں۔ وہ تمام اغراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدرانجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کرکے ان کو منظم کریں اور پھیلنے پھولنے میں مدد دیں۔ اس کام کے متعلق میں چند تجاویز آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اول۔ ہندوستان یونین کی تمام احمدیہ جماعتوں کی لسٹیں جمع کریں۔ )جو لسٹیں وہا موجود نہ ہوں وہ لسٹیں پاکستان کے مرکز سے منگوالیں(
)۲( پریس کو دوبارہ جاری کرے کی کوشش کریں۔ جب تک قادیان کا پریس واگزار نہیں ہوتا اس وقت تک ضروری اشتہارات لکھ کر دہلی بھجوادیا کریں اور وہاں سے چھپوا کردیں میں منگوالیا کریں اور پھر ڈاک کے ذریعہ تمام ہندوستانی جماعتوں میں تقسیم کردیا کریں۔
)۳( چونکہ گزشتہ صدمہ سے بعض جماعتوں میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مبلغ مقرر کریں تاکہ وہ پھر پھر کے جماعتوں کی دوبارہ تنظیم کریں۔ اس وقت مبلغ صرف دہلی` بمبئی` حیدرآباد دکن` بہار` اڑیسہ` اور کلکلتہ میں ہیں۔ جونہی آپ کام کرنے کے قابل ہوجائیں اور اپنے انتظامات کو مکمل کرلیں دہلی کے مبلغ کی طرح باقی مبلغوں کو بھی راہ راست قادیان کے ماتحت کردیا جائے گا۔ مگر اب بھی حقیقتاً وہ آپ ہی کے ماتحت ہیں اور آپ کو ان سے کام لینا چاہئے۔
)۴( اس وقت قادیا میں قریباً دو درن دیہاتی مبلغ ہیں۔ ان لوگوں کو کوشش کرکے دہلی پہنچایا جائے اور وہاں سے آگے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہیں پھیلادیا جائے۔ یہ لوگ وہاں جاکر نہ صرف موجودہ جماعتوں کی تنظیم کریں بلکہ جماعت کو وسیع کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ آپ لوگ انڈین یونین میں ہیں اور وفادار شہریوں کی حیثیت میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت آپ میں اور دوسرے کام کرنے والے مسلمانوں میں کوئی فرق کرے۔ ان جانے والوں کے بدلے میں ہندوستان کی جماعتوں میں تحریک کرکے نئے واقفین بلوا کے قادیان میں رکھے جائیں جو قادیان میں آکر تعلیم حاصل کریں اور پھر بیرونی جماعتوں میں پھیلا دیئے جائیں۔ سردست اگر جلسہ میں کچھ احمدی باہر سے آکر شامل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ پانچ دیہاتی مبلغ بھجوا دیئے جائیں جو مولوی بشیراحمد صاحب دہلوی کی نگرانی میں یو۔ پی کے مختلف علاقوں میں کام کریں۔ ۶۶ یو۔ پی کی جماعتوں میں سے لکھنو` شہجہانپور` اور بریلی` آگرہ کی اچھی جماعتیں تھیں لیکن اب دیر سے ان کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہیں۔ اگر یہ لوگ وہاں جاکر کام کریں تو نہ صرف وہ جماعتی جلد منظم ہوجائی گی بلکہ نئے سرے سے پھولنے اور پھلنے لگ جائیں گی۔ ان جانے والے مبلغین کو سمجھا دیا جائے اگر بعض جماعتیں گزشتہ صدمات کی برداشت نہ کرکے بالکل مردہ ہوچکی ہوں تب بھی گھبرائیں نہیں۔ ایک دو تین جتنے احمدی مل سکیں ان کو جمع کرکے نئے سرے سے کام شروع کردیں۔ پھر وہ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ ابھی چند دن بھی نہیں گزرے ہوں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط جماعتیں وہاں قائم ہوجائیں گی بلکہ اردگرد کے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ جائے گی۔ یہ یاد رہے کہ سب کے سب مبلغوں کو اکٹھا نہ بھجوایا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے قائم مقاموں کے آنے میں دقت پیدا ہو اور قادیان کی احمدی آبادی کم ہوجائے۔ اس خطرہ کو آپ کبھی نہ بھولیں۔ اور ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ ہمیشہ پہلے باہر سے آنے والوں کو اندار لایا کریں اور پھر بعض دوسروں کو باہر جانے کی اجازت دیا کریں سوائے ان پانچ کے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔
)۵( چونکہ اب ملک میں ہندی کا زور ہوگا اس لئے آپ لوگ بھی دیوگا گرمی رسم الخط کے سیکھنے کی کوشش کریں اور ہندی زبان میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دیں۔
)۶( جب تک باہر سے واقفین کے آنے کی پوری آزادی نہ ہو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ طالب علموں کو مولوی بشیراحمد صاحب اپنے ساتھ رکھ کر دہلی میں پڑھائی اور کچھ طالب علموں کو ساتھ رکھ کر مولوی محمد سلیم صاحب کلکتہ میں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کو ساتھ رکھ کر مولوی عبدالمالک صاحب حیدرآباد میں پڑھائیں اور پھر ان کو اردگرد کے علاقوں میں پھیلاتے چلے جائیں لیکن یہ مدنظر رکھا جائے کہ ہندوستان کے چندوں سے ہندوستان کا خرچ چل سکے اور قادیان کی آبادی کا خرچ بھی وہیں سے نکل سکے۔
)۷( قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزادی کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے چلے جائیں تاکہ قادیان میں پھر زائرین آنے لگ جائیں۔ اور قادیان کی نہر ایک کھڑے پانی کے جوہڑ کی سی شکل اختیار نہ کرلے۔
)۸( آبادی کی زندگی کے لئے عورتوں اور بچوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ کوگ متواتر حکومت کے ساتھ خط و کتابت کریں اور کوشش کریں کہ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ قادیا کے ساکنان کے بیوی بچے وہاں حفاظت کے ساتھ رہ سکیں۔
)۹( جونہی قادیان میں کچھ ایسے نوجوان آجائیں جن کا تعلیم پانے کا زمانہ ہو تو فوراً ایک سکول کی بنیاد رکھ دی جائے جس کے متعلق کوشش ہوکہ وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جائے۔
)۱۰( ہندوستان یونین کی صدرانجمن احمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی ہندوستان نہیں چھوڑا۔ اسی طرح وہاں کی تحریک جدید انجمن بھی وہیں ہے۔ یہ انجمنیں قادیان کی جائداد کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ آپ کو بڑے زور سے اس امر کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ افراد کی جائداد کا بے سک جھگڑا ہو لیکن صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید جو کہ ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کیوں حکومت ان کے سپرد ان کی جائداد نہ کرے۔ کالج` سکول` ہسپتال` ریتی چھلہ` زنانہ سکول` دارالانوار کا گیسٹ ہائوس` خدام الاحمدیہ کے دفاتر` تحریک جدید کی زمینیں` ان کے مالک قادیان میں بیٹھے ہیں۔ آپ لوگ اس کے متعلق دعویٰ کریں اور ان لفظوں میں کریں کہ جبکہ ان جگہوں کے مالک صدرانجمن احمدیہ` تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ قادیا میں موجود ہیں اور جبکہ ان جگہوں سے فائدہ اٹھانے والے احمدی ہندوستا یونین میں موجود ہیں تو کس قانون کے ماتحت ان چیزوں پر قبضہ کیاگیا ہے۔ یہ چیزیں ہمارے سپرد ہونی چاہئیں اور ہمیں ان کے استعمال کا موقع دینا چاہئے۔۶۷ عقل کے ساتھ اور ادب کے ساتھ اگر ان مطالبات کو حکام کے سامنے بار بار رکھا جائے اور ان پر یہ روشن کیا جائے کہ ہندوستان یونین کے احمدی ہندوستان یونین کے وفادار ہیں جس طرح پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں پھر ان سے باغیوں کا سا سلوک کیوں کیاجاتا ہے تو یقیناً حکومت ایک دن اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگی۔
)۱۱( جب تک پریس نہیں ملتا اس وقت تک جماعتوں کے نام چٹھی لکھ کر ہر پندرھویں روز بھجوانا شروع کریں جس میں جماعتوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر عہدہ داران جگہ کی موڑ گئے ہیں تو نئے عہدہ دار مقرر کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر عہدہ دار عہدوں پر موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے تو ان کو کام کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر بالکل بیدار نہیں ہوتے تو ان کو بدلنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالٰے فرماتا ہے۔ فذکر ان نفعت الذکری۔ اگر آپ پیچھے پڑجائیں گے تو یقیناً ایمان کی چنگاری پھر سلگ اٹھیگی سونے الے پھر بیدار ہوجائیں گے بلکہ مردے بھی زندہ ہوجائیں گے اور پھر تروتازگی اور نشوونما کے آثار ظاہر ہونے لگ جائیں گے۔ آپ تین سو سے زیادہ آدمی وہاں ہیں۔ اگر ان میں سے سو آدمی کا خط پڑھے جانے کے قابل ہو اور ہر چٹھی تین تین سو کی تعداد میں باہر بھیجی جائے تو ہر لکھے پڑھے آدمی کو پندرہ دن میں صرف تین چٹھیوں کو نقل کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ ان چٹھیوں میں ایمان کو ابھارے یا زندگی کو قائم رکھنے` ہمت سے کام لینے اور خدا تعالیٰ کے ان بے انتہا فضلوں میں حصہ لینے کی دعوت ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے وعدہ جگایا جائے بلکہ تبلیغ کرکے اپے آپ کو وسیع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اس وقت مسلمان بے کسی کی حالت میں پڑا ہے۔ اس وقت وہ سچائی پر غور کرنے کے لئے تیار ہے۔ وہ اس ہاتھ کے لئے ترس رہا ہے جو اس کو پکڑ کر نجات کی طرف لے جائے۔ اگر آج آپ لوگ صحیح طور پر جماعتوں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ کریں تو ہندوستان میں احمدیت کے پھیلنے کا بے نظیر موقع ہے۔ سردست مولوی بشیراحمد صاحب یو۔ پی کی جماعتوں کو منظم کریں اور یو۔ پی کے تمام چندے سوائے تحریک جدید کے چندہ کے جو غیر ممالک کی تبلیغ پر خرچ ہوتا ہے قادیان بھجوائیں آپ لوگ باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعہ سے ہمیں بتاتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت منظم ہوگئی ہے اور ان کا چندہ قادیان میں آنے لگ گیا ہے تا ایسا نہ ہوکہ دو عملی کی وجہ سے کوئی جماعت بالکل تباہ ہوجائے۔ جب آپ یو۔ پی کی جماعتوں کو منظم کرلیں گے تو ہم دوسرے صوبوں کو باری باری آپ کے سپرد کرتے چلے جائیں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب خاموشی سے جھنڈے کو پکڑ کر کھڑے رہنے کا وقت گزر چکا۔ وہ کام آپ نے شاندار طور پر کیا جس کے لئے دنیا بھر کے احمدی آپ لوگوں کے ممنون ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کی ممنون رہیں گی۔ مگر انسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے۔ ہر روز اس کے حالات متغیر ہوتے ہیں اور ہر روز کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اس کام کرنا پڑتا ہے کل کی روٹی آج کام نہیں آسکتی۔ پس وہ عظیم الشان خدمت جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کی توفیق بخشی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ آپ اب اگلا قدم اٹھائیں اور قادیا کے خاموش مرکز کو ایک زندہ مرکز میں تبدیل کردیں۔ ہندوستان یونین کی آبادی ۲۸۔ ۲۹ کروڑ کے قریب ہے۔ اس کی اصلاح اور اس کی نجات کوئی معمولی کام نہیں` کسی زمانہ میں ساری دنیا کی آبادی اتنی ہی تھی۔ پس آج سے سینکڑوں سال پہلے ساری دنیا کی اصلاح کا کام جتنا اہم تھا ہی آج ہندوستان کی اصلاح کا کام اہم ہے۔ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے قادیان کی چھوٹی سی بستی کو بڑھا کر ایک سعی و عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنانے کی توفیق بخشی وہ بھی انسان تھے اور آپ بھی انسان ہیں آپ اپنے آپ کو افراد کی حقیقت میں دیکھنا چھوڑدیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان ابراہیم کان امہ )النحل ۱۶ع( ابراہیمؑ ایک امت تھا۔ جو لوگ خدا تعالٰے پر نظر رکھتے ہوئے اس کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو امت سمجھتا ہے اور ان میں سے بعض شخص تو اپنے آپ کو دنیا سمجھتے ہیں۔ آپ لوگ بھی اور وہ دوسرے دوست بھی جو باہر سے اس وقت قادیان میں تشریف لاسکے ہوں وہ بھی آج سے اپنا نقطہ نگاہ بدل دیں۔ آج سے ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو امت سمجھنے لگ جائے۔ وہ یہ سمجھ لے کہ جس طرح آم کی گٹھلی میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہوجاتا ہے` جس طرح بڑکے چھوٹے سے بیج میں سے سینکڑوں آدمیوں کو سایہ دینے والا بڑ پیدا ہوجاتا ہے` اسی طرح وہ امت بن کررہے گا۔ وہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی نسلیں پھیلادے گا۔ وہ خاموش قربانی کی جگہ اب اصلاح کے لئے اپنی قربانی کو پیش کرے گا۔ ہندوستان اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے اندر پھر سے انسانیت کو قائم کیا جائے۔ پھر سے صلح اور آشتی کو قائم کیا جائے پھر سے خدا تعالٰے کی محبت سے اس کے دل میں پیدا کی جائے اور یہ کام سوائے آپ لوگوں کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ عزم صمیم کے ساتھ اٹھیں۔ طوفان کا ساجوش لے کر اٹھیں اور ہندوستان پرچھا جائیں جس کا نتیجہ ضرور یہ نکلے گا کہ وہ لوگ جو آج احمدیت کو بغض اور کینہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دشمن کی حیثیت میں دیکھتے ہیں وہ اور ان کی نسلیں آپ لوگوں کے لئے برکتیں مانگیں گی اور دعائیں دیں گی کہ آپ لوگ اس بدقسمت ملک کو امن دینے والے اور صلح اور آشتی کی طرف لانے والے ثابت ہوئے۔ احمدیت ایک نور ہے۔ احمدیت صلح کا پیغام ہے۔ احمدیت امن کی آواز ہے۔ تم اس نور سے دنیا کو منور کرو۔ تم اس پیغام کی طرف لوگوں کو بلائو۔ تم اس آواز کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند کردو۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔
خاکسار مرزا محموداحمد
۴۸۔۱۲۔۶۸۲۰`۶۹
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحب کا پیغام
احباب جلسہ کے نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب نے درج ذیل پیغام دیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلٰے عبدہ المسیح الموعود
ھوالناصر
اے احباب قادیان! خدا آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو بہترین فضلوں کا وارث بنائے۔ آمین ثم آمین۔
میں آپ کی خدمت میں جلسہ سالانہ ۱۹۴۸ء کے مبارک اور تاریخی موقعہ پر اپنی طرف سے اور پاکستان کے جملہ احمدیوں کی طرف سے السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ کا تحیہ پیش کرتا ہوں۔
گذشتہ انقلابی فسادت کے بعد قادیان میں جماعت احمدیہ کا یہ دوسرا سالانہ جلسہ ہے اور طبعاً اس جلسہ کا خیال جو دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کی مقدس یادگار ہے۔ ہمارے دلوں میں کئی قسم کے جذبات پیدا کررہا ہے۔ مگر ہم خدا کے فضل سے مومن ہی اور ہر مومن کا یہ کام ہے کہ وہ جذبات کے ہیجان کو غم واندوہ اور مایوسی کے راستہ کی طرف ڈالنے کی بجائے بیش از بیش قوت عمل میں منتقل کرنے کی کوشش کرے۔ اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خواہ قادیان کی یاد کتنی ہی شدید ہو اور اس کی کشش کیسی ہی زبردست سمجھی جائے` بہرحال جماعت کا سب سے مقدم کام اس غرض وغایت کو پورا کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعثت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور میں اس موقعہ پر آپ لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جہاں قادیان سے باہر آئے ہوئے احمدیوں کا یہ کام ہے کہ وہ فریضئہ تبلیغ کے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خدمت مرکز کے کام میں بھی کوشاں رہیں وہا اہل قادیان کا یہ فرض ہے کہ وہ قادیان میں بظاہر قاعدبن کر بیھٹے ہوئے بھی اس مجاہدانہ مقصد کی طرف سے غافل نہ ہوں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام مبعوث کئے گئے تھے۔ گویا جماعت کے دونوں حصوں کو دونوں قسم کے فرائض کی طرف بہ یک وقت توجہ رکھنی چاہئے۔ گو زیادہ اہم مقصد بہرحال زیادہ توجہ کا حقدار ہے۔ آپ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ قادیا میں محصور ہوکر بیٹھے ہوئے آپ فریضئہ تبلیغ کس طرح ادا کرسکتے ہیں کیونکہ خدا نے مومن کے لئے ہرحال میں کسی نہ کسی جہت سے ہر عمل صالح کا رستہ کھول رکھا ہے اور یقیناً اگر آپ چاہیں اور میں جانتا ہو کہ آپ ضرور چاہتے ہیں` موجودہ وقت میں بھی ذیل کے تین طریق پر اپنے فریضے سے عہدہ برآہو سکتے ہیں۔
‏tav.11.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
)اول( ان شریف مزاج اور سنجیدہ غیرمسلموں کو تبلیغ کرکے جو آپ کے اردگرد رہتے ہیں یا آپ سے ملنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ اور آپ یقین رکھیں کہ مظلوم اور بے بس انسان کی تبلیغ میں ہمیشہ زیادہ اثر ہوا کرتا ہے۔
)دوم( دینی اور اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ نمونہ قائم کرکے` کیونکہ اچھا نمونہ ایسی چیز ہے جو دشمنوں تک کا دل موہ لیتا ہے اور بسا اوقات سیاسی لحاظ سے غالب انسان اخلاقی اور دینی لحاظ سے مغلوب ہوجایا کرتا ہے۔
)سوم( جماعت کی ترقی اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے خدا کے حضور دعائیں کرکے` کیونکہ جب مومن ظاہری اسباب کے لحاظ سے بے دست دپا ہوجاتا ہے تو خدا کا یہ ازلی قانون ہے کہ ایسے حالات میں اس کی دعا کی تاثیر ہمیشہ بڑھ جایا کرتی ہے۔
پس یہ تین ایسے آسان اور موثر طریق ہیں جنہیں اختیار کرکے آپ قادیان کی موجودہ محصوریت کی زندگی میں بھی فریضہ تبلیغ ادا کرسکتے ہیں اور اپنی اہم ¶ذمہ داری سے عہدہ برآمد ہوسکتے ہیں۔
آپ کو یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جہاں ایک حد تک جسم اور روح ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ایک کی طاقت دوسرے کی طاقت کا ذریعہ بنتی ہے وہاں یہ بھی خدا کا اٹل قانون ہے کہ ایک خاص حد کے بعد ان دونوں کے رستے جدا جدا ہوجاتے ہیں یعنی اس خاص حد کے بعد جسم کی طاقت روح کی کمزوری اور جسم کی کمزوری روح کی طاقت کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ اسی لئے باوجود اس کے کہ اسلام نے رہبانیت یعنی تاریک اللہ نیا ہونے کو ناجائز قرار دیا ہے وہاں اس نے بعض موقعوں پر ایک جزوی قسم کی رہبانیت کی اجازت بھی دی ہے بلکہ صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ اسے پسند کیا اور اس کی تحریک فرمائی ہے۔ چنانچہ رمضان کے مہینے میں اعتکاف کا عثرہ اسی قسم کی جزوی رہبانیت کا منظر پیش کرتا ہے کہ جب انسان گویا دنیا کے تمام تعلقات سے کٹ کر خالصت¶ہ روحانی فضاء میں اپنا وقت گزارتا ہے اور ان ایام میں اس بات کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ اپنے جسم کو بھول کر روح کو روشن کرنے میں منہمک رہے۔ اور ایک طرح سے اس قسم کی کیفیت حج میں بھی پائی جاتی ہے۔ جس میں انسا گویا اپنے مادی تعلقات کو کاٹ کر صرف خدا کے لئے یہ ایام گزارتا ہے اور اس قسم کا ماحول یقیناً روح کی ترقی اور اس کی بلندی اور اس کے جلا کا موجب ہوتا ہے۔ یہی کیفیت آپ کے لئے قادیان کی موجودہ زندگی نے پیدا کردی ہے کیونکہ آج کل وہاں آپ اپنے بیوی بچوں سے جدا` اپنے کاروبار سے کٹے ہوئے` اپنے ہر قسم کے دنیوی تعلقات سے دور پھینکے ہوئے زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ یہ زندگی یقیناً اپنے بعض پہلوئوں کے لحاظ سے جسم کے لئے تکلیف دہ ہوگی۔ مگر آپ کو مبارک ہو کہ یہی زندگی آپ کی روحوں کے لئے ایک ایسے خوشگوار مرغزار کا حکم رکھتی ہے جہاں مومن کی روح گویا خوشی کے ساتھ کلیلیں بھرتی ہوئی فرشتوں کی رفاقت اور خدا کے سایہ میں اپنا وقت گزارتی ہے۔ آنحضرت~صل۱~ نے غارحرا میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ہوشیار پور کے ایک دور افتادہ کھنڈا مکان میں خود موقعہ تلاش کرکے خلوت کی جگہ ڈھونڈی اور آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں مفلوتیں دنیا میں کس عظیم الشان روحانی انتشد کا موجب بن گئیں۔ پس میرے دوستو! آپ کے لئے جو موقعہ خود خدا نے ایک قسم کی وقتی اور جزوی رہبانیت کا پیدا کردیا ہے اسے غنیمت سمجھو اور اپنی دعائوں اور نوافل اور جہاد نفس اور پاک نمونہ سے ان بھاری تغیرات کو قریب تر لے آئو جو آسمان پر تو مقدر ہیں مگر ابھی تک زمین پر ظاہر نہیں ہوئے۔
گزشتہ سال کے غیر معمولی حادثات اور قیامت خیزانقلابات میں بھی ہمارے لئے اللہ تعالٰے کی خاص رحمت کا یہ ممتاز پہلو موجود ہے کہ باوجود اس کے کہ جماعت کے بیشتر حصہ کو قادیان سے نکلنا پڑا قادیان کے وہ خاص مقدس مقامات جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے براہ راست برکت حاصل کی یعنی مسجد مبارک` مسجد اقصیٰ` مینارۃ المسیح` بیت الدعا` دارالمسیح` مقبرہ بہشتی وغیرہ وہ سب ابھی تک خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے قبضے میں ہی اور آپ لوگوں کو ان کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے اور اس طرح جماعت کو یہ موقعہ میسر آگیا ہے کہ اس کا ایک حصہ باہر آکر تبلیغ کی جدوجہد میں مصروف ہے اور دوسرا حصہ مرکز میں بیٹھ کر مقدس مقامات کی خدمت بجالا رہا ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو مشرقی پنجاب کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں ہوئی۔ مگر اس خصوصیت کی قدر کی دوبالا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حصہ اپنے خدمت کے مخصوص پہلو کے ساتھ ساتھ جہاں تک اس کے لئے ممکن ہو دوسرے پہلو کو بھی مدنظر رکھے۔ یہ مت خیال کرو کہ ان فرائض کی ادائیگی میں حکومت کی طرف سے کوئی روک ہوسکتی ہے۔ دنیا کی کوئی متمدن حکومت فریضئہ تبلیغ کی پر امن ادائیگی اور مقدس مقامات کی خدمت میں روک نہیں ہوسکتی۔ یہ وہ بنیادی حقوق انسانی ہیں جسے حکومت ہند نے بھی اپنے بار بار کے اعلانوں میں صراحت کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ لیکن بہرحال قرآن شریف کے اس سنہری اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ادع الی اسبیل ربک بالحکمہ والموعظہ الحسنہ وجادلھم بالتی ھی احسن یعنی اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ انداز نصیحت کے طریق پر دعوت دو اور بحث اور مجادلہ کی صورت میں کبھی پسندیدہ اسلوب کو نہ چھوڑو کیونکہ اس طرح تم فریق ثانی کے دل کی کھڑکیوں کو زیادہ آسانی کے ساتھ کھول سکو گے۔ خدا کے فضل سے اب آہستہ آہستہ نارمل حالات پیدا ہورہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ حالات کے اس تغیر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ذمہ داریو کو ادا کرنے کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں جو خدا ے ہم پر عائد کی ہیں۔ باقی اگر کوئی فرد اب بھی آپ لوگوں کے ساتھ جا ہلانہ انداز میں پیش آتا ہے تو اس کے لئے اسلام کی صاف صاف تعلیم موجود ہے کہ اذا خاطبھم الجاھلون قالواسلاما۔
احمدیت کی تحریک خدا کے فضل سے ایک عالمگیر تحریک ہے جو اپنے منبع و ماخذ کی طرح تمام قیودزمانی و مکانی سے آزاد ہے کیونکہ احمدیت کی غرض و غایت اسلام کی تجدید اور دلائل وبراہین کی مدد سے اسلام کی اشاعت ہے اور اسلام وہ مذہب ہے جو قیامت تک کے لئے اسود واحمر کی ہدایت کے واسطے قائم کیا گیا ہے۔ پس اسلام کی طرح احمدیت کے لئے صرف پاکستان اور ہندوستان کا سوال نہیں ہے بلکہ ہر ملک اس کا گھر اور ہر خطہ ارض اس کا آشیانہ ہے اور یقیناً جماعت احمدیہ کے افراد جہاں بھی ہوں گے اپنے ملکی قانون کے پابند اور پر امن شہری بن کررہیں گے۔ مگر ذمہ داریاں ہمیشہ دوہری ہوا کرتی ہیں یعنی جہاں ملک اپنے شہریوں پر کچھ پابندیاں لگاتا ہے وہاں وہ لازماً اپنے اوپر بھی ان کے بعض حقوق تسلیم کرتا ہے۔ پس اپنی حکومت کے حقوق اسے دو اور ضرور دو۔ مگر دوسری طرف اپنے حقوق بھی اس سے لو اور ضرور لو اور چونکہ ہمارے حقوق دراصل سب خدا کے حقوق ہیں اس لئے ہم مسیح ناصری کے مشہور الفاظ میں کہہ سکتے ہیں >جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو< کہ یہی دین و دنیا میں حقیقی امن کا راستہ ہے۔
میں اس موقعہ پر اس بات کے اظہار سے بھی رک نہیں سکتا کہ قریب¶ آٹھ نو ماہ سے جہاں تک قادیان کا تعلق ہے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہر قسم کے کانوائے کا سلسلہ رکا ہوا ہے اس لئے قادیان کی موجودہ آبادی کا وہ حصہ جو دراصل پاکستان کا شہری ہے یعنی وہ اپنے مقدس مرکز کی زیارت اور اپنے مقدس مقامات کی خدمت کے لئے قادیان گیا اور پھر حالات کی مجبوری کی وجہ سے ابھی تک واپس نہیں آسکا` وہ خدمت مرکز کی روحانی خوشی کے ساتھ ساتھ طبعاً بعض جسمانی تکالیف اور پریشانیوں کا بھی شکار ہورہا ہے۔ ہم حکومت کے متعلقہ حکام کے ذریعہ اس بات کو مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ ایسے دوستوں کو واپس آنے کا موقعہ مل جئے اور ان کی جگہ وہ دوست قادیان چلے جائیں جو قادیان کے باشندے ہیں اور اپنے مرکز میں واپس جاکر خدمت دین کا موقعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ انتہائی کوشش کے باوجود ابھی تک اس معاملہ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اس بات کے تو کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان دوستوں اور ن کے عزیزوں کے ساتھ ہمیں دلی ہمدردی ہے مگر میں یہ بات تو ضرور کہوں گا کہ جب تک ہمیں اس معاملہ میں کامیابی نہیں ہوتی ایسے دوست قادیان کے قیام کو ایک نعمت خیال کرتے ہوئے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ انہیں وہ موقعہ حاصل ہے جو احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہنے والا ہے اور انشاء اللہ ان کی آئندہ نسلیں ان کی اس وقت کی خدمت کا قیامت تک فخر کے ساتھ ذکر کیا کریں گی اور بہرحال یہ ایک عارضی جدائی ہے۔ وجف القلم بماھوکائن` اور پھر مومن کی روح تو جسم کی جدائی میں بھی قرب کا لطف حاصل کرلیا کرتی ہے۔ یہ الفاظ میں نے صرف احتیاط کے طریق پر ہررنگ کی طبیعت کو مدنظر رکھ کر لکھے ہیں ورنہ حق یہ ہے کہ قادیان کے دوستوں کی طرف سے جس قسم کی لل¶ہمیت اور فدائیت اور رضاء و محبت اور صبرو سکون کے خطوط مجھے ہر روز پہنچتے رہتے ہیں وہ میرے لئے باعث خوشی ہی نہیں بلکہ حقیقتاً باعث فخر ہیں۔
بھائیو! آپ میں سے بعض میرے عزیز ہیں بعض دوست ہیں اور بعض بزرگ بھی ہیں۔ ہاں وہی بزرگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں حضور کی صحبت سے فیض پایا اور پھر اب تک اسی مئے عشق سے بیش از بیش سرشار چلے آتے ہیں۔ خدا آپ کی صحتوں اور عمروں میں برکت عطا کرے اور جس طرح اس نے آپ کی روحوں کو بلند کیا ہے اسی طرح وہ آپ کی زندگیوں کو بھی لمبا فرمائے تاکہ یہ ظاہر کے ٹوٹے ہوئے۔ پیوند پھر اس دنیا میں مل جائیں جس طرح کہ وہ عام ارواح میں اب بھی ملے ہوئے ہیں۔ مگر غیب کا علم صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس بات کو جانتا ہے کہ اس دنیا میں کس کی ملاقات مقدر ہے اور کس کی نہیں۔ پس اے ہمارے پاکستانی بھائی آپ سب کو خدا کے سپرد کرتے ہیں وہی خدا کے جس کی رحمت اور شفقت کے پروں کے نیچے ہم سب کا مشترک بسیرا ہے۔ واخرد عوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔
والسلام
خاکسار مرزا بشیراحمد آف قادیان
حال رتن باغ لاہور
۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء۷۰
حضرت ام المومنین کا پیغام
حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا نے اس موقعہ پر حسب ذیل پیغام بھجوایا۔
>السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ<
مجھے آپ کی طرف سے درخواست پہنچی ہے کہ میں قادیان کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ کو کوئی پیغام بھیجوں۔ سو میرا پیغام یہی ہے کہ میں آپ سب کو اپنی دعائوں میں یاد رکھتی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ آپ بھی مجھے اپنی دعائوں میں یاد رکھتے ہوں گے کہ ایک دوسرے کے متعلق مومنوں کا سب سے مقدم فرض مقرر کیا گیا ہے۔ آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ گزشتہ فسادات اور غیرمعمولی حالات کے باوجود آپ کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں ٹھہرنے اور وہاں کے مقدس مقامات کو آباد رکھنے اور خدمت بجالانے کی توفیق دے رکھی ہے۔ میں یقین رکھتی ہوں کہ آپ لوگوں کی یہ خدمت خدا کے حضور مقبول ہوگی اور احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے خاص یادگار رہے گی۔
میں ۱۸۸۴ء میں بیاہی جاکر قادیان میں آئی۔ اور پھر خدا کی مشیت کے ماتحت مجھے ۱۹۴۷ء میں قادیان سے باہر آنا پڑا۔ اب میری عمر اسی سال سے اوپر ہے اور میں نہیں کہہ سکتی کہ خدائی تقدیر میں آئندہ کیا مقدر ہے۔ مگر بہرحال میں اپنے خدا کی ہر تقدیر پر راضی ہوں اور یقین رکھتی ہوں کہ خواہ درمیانی امتحان کوئی صورت اختیار کرے قادیان انشاء اللہ جماعت کو ضرور واپس ملے گا مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو موجودہ امتحان کو صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ برداشت کرکے اعلیٰ نمونہ قائم کریں گے۔
چند دن سے قادیان مجھے خاص طور پر زیادہ یاد آرہا ہے۔ شاید اس میں جلسہ سالانہ کی آمد آمد کی یاد کا پر تو ہویا آپ لوگوں کی اس دلی خواہش کا مخفی اثر ہوکر میں آاپ کے لئے اس موقعہ پر کوئی پیغام لکھ کر بھجوائوں۔
میری سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ جماعت ایمان اور اخلاص اور قربانی اور عمل صالح میں ترقی کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش اور دعا کے مطابق میری جسمانی اور روحانی اولاد کا بھی اس ترقی میں وافر حصہ ہو۔
آپ لوگ اس وقت ایسے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں جو خالصتاً روحانی ماحول کا رنگ رکھتا ہے۔ آپ کو یہ ایام خصوصیت کے ساتھ دعائوں اور نوافل میں گزارنے چاہئیں اور عمل صالح اور باہم اخوت واتحاد اور سلسلہ کے لئے قربانی کا وہ نمونہ قائم کرنا چاہئے جو صحابہ کی یاد کو زندہ کرنے والا ہو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ آمین!
)دستخط( ام محمود
رتن باغ لاہور۔ ۱۸ دسمبر ۱۹۴۸ء۷۱
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا پرسوز اور دردانگیز کلام
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود` حضرت ام المومنین اور حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کے ایمان پرور پیغامات کے علاوہ اس جلسہ میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک پرسوز اور تڑپا دینے والی نظم بھی )جو خاص اس تقریب کے لئے درویشاں قادیان کو مخاطب کرکے کہی گئی تھی( پڑھی گئی جس کے سنتے ہی آنسوئوں کی گویا جھڑیاں لگ گئیں۔ ہر آنکھ اشکبار ہوگئی اور ہر دل درد اور رقت سے بھرگیا۔ یہاں تک کہ غیرمسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نظم یہ تھی۔
خوشا نصیب!! کہ تم قادیاں میں رہتے ہو
دیار مہدی آخر زماں میں رہتے ہو
قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں >حرم<
تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتے ہو
خدا نے بخشی ہے >الدار کی نگہبانی
اسی کے حفظ اسی کی اماں میں رہتے ہو
فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر
ہم اس سے دور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو
‏]1pt [tagفضا ہے جس کی معطر نفوس عیسیٰ سے
اسی مقام فلک آستاں میں رہتے ہو
نہ کیوں دلوں کو سکون و سرور ہو حاصل
کہ قرب خطہ رشک جناں میں رہتے ہو
تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و ما
جوار مرقد شاہ زماں میں رہتے ہو
شبیں جہاں کی >شب قدر< اور دن عیدیں
جو ہم سے چھوٹ گیا اس جہاں میں رہتے ہو
کچھ ایسے گل ہیں جو پژمردہ میں جدا ہوکر
انہیں بھی یاد رکھو گلستاں میں رہتے ہو
تمہارے دم سے ہمارے گھروں کی آبادی
‏]2pt [tagتمہاری قید پہ صدقے ہزار آزادی
>بلبل ہوں صحن باغ سے دور اور شکستہ پر
پروانہ ہوں چراغ سے دور اس شکستہ پر<۷۲
مقررین جلسہ
اس بابرکت جلسہ پر مندرجہ ذیل عنوانات پر تقریریں ہوئیں۔ خصوصیات اسلام )مولوی محمد حفیظ صاحب فاضل`( تاریخ قادیان )مضمون مولوی برکات احمد صاحب جو میر رفیع احمد صاحب نے پڑھا`( احمدیت )حضرت حکیم خلیل احمد صاحب امیر جماعت مونگھیر( اسلام کا اقتصادی نظام )شیخ عبدالحمید صاحب عاجز( حکومت و رعایا کے باہمی تعلقات )مولوی عبدالقادر صاحب( حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں )مولوی شریف احمد صاحب امینی( موعود اقوام عالم )مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی( آنحضرت~صل۱~ کے اخلاق فاضلہ )مولوی بشیراحمد صاحب مبلغ دھلی( قومی اتحاد )حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری( آنحضرت~صل۱~ کے متعلق غیرمسلموں کو آراء )مولوی شریف احمد صاحب امینی( ذکر حبیب )حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی( ہستی باری تعالٰے )خواجہ محمد اسمعیل صاحب( مسئلہ جہاد )مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی( بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کا غیر مسلموں سے سلوک )ملک صلاح الدی صاحب ایم۔ اے(
ا تقاریر کے علاوہ امیر مقامی حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ` حکیم فضل الرحمن صاحب مجاہد افریقہ اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مجاہد امریکہ نے بھی حاضرین سے مختصر خطاب فرمایا۔ ۲۷ دسمبر کو پاکستا سے دو موٹرکاروں پر مشتمل ایک مختصر قافلہ قادیا پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا جو جلسہ میں شرکت درویشوں سے مصافحہ اور بہشتی مقبرہ میں لمبی دعا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد اسی روز واپس چلا آیا۔ اس قافلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا ظفراحمد صاحب` میاں مسعود احمد صاحب اور نذیر احمد صاحب ڈرائیور حضرت مصلح موعود کے علاوہ حکیم فضل الرحمن صاحب اور صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مبلغ امریکہ بھی تھے۔ واپسی پر یہ قافلہ مسجد اقصیٰ اور دارالمسیح کے کنوئیں کا پانی اور لنگرخانہ مسیح موعود کی پچھتر روٹیاں بطور تبرک ساتھ لے گیا۔ جس کی تقسیم کا ذکر حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے اپنے ایک خط میں بایں الفاظ فرمایا۔
>جو پانی اور نان وہ قادیان سے لائے تھے وہ سب عزیزوں اور دوستو میں تقسیم کردیئے گئے اور بہت سے لوگوں نے اس تبرک سے حصہ پایا۔ میں نے دیکھا کہ جب مولوی فضل دین صاحب )وکیل ناقل( لنگر خانہ کے نان کا ٹکڑا منہ میں ڈال رہے تھے تو ان پر اس شدت کے ساتھ رقت طاری ہوئی کہ انہیں سنبھالنا مشکل ہوگیا۔<
لوائے احمدیت کا لہرایا جانا
آخری دن یعنی ۲۸ فتح/دسمبر کے پہلے اجلاس میں حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ امیر مقامی نے لوائے احمدیت لہرایا۔ اس دوران میں احباب جماعت ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم کی ابراہیمی دعا پڑھ رہے تھے کہ ایک درویش نے تین بار نعرہ تکبیر بلند کیا اور فضا اللہ اکبر کی پر شوکت آوازوں سے گونج اٹھی۔ جھنڈا لہرانے کے بعد حضرت امیر مقامی نے تجدید عہد کے لئے حاضرین سے وہ الفاظ دہرائے جو حضرت مصلح موعود نے جلسہ جوبلی ۱۹۳۹ء کے موقعہ پر لوائے احمدیت لہراتے وقت کہلوائے تھے۔
جلسہ میں لائوڈسپیکر کا عمدہ انتظام اور خوشکن حاضری
جلسہ میں لائوڈ سپیکر کا عمدہ انتظام تھا۔ مقامی مجسٹریٹ )سردار مولک سنگھ صاحب` ڈی ایس پی صاحب` انسپکٹر پولیس صاحب اور متعدد سب انسپکٹر شریک جلسہ رہے اور جملہ تقاریر نہایت توجہ اور دلجمعی اور دلچسپی سے سنیں۔ ۲۷ فتح/دسمبر کے پہلے وقت کی کارروائی میں حاضری ساڑھے آٹھ سو کے قریب تھی جو دوسرے وقت میں چودہ سو تک پہنچ گئی جس میں ساڑھے تین سو تو احمدی تھے اور باقی سب غیر مسلم تھے جن کی تعداد ان جلسوں کی عام حاضری سے بھی بہت زیادہ تھی جو خود ہندوئوں اور سکھوں کے جلسوں میں شرکت کرتی رہی۔ اس طرح خدا کے فضل و کرم سے اسلام واحمدیت کی تبلیغ کا ایک ایسا نادر موقعہ میسر آیا جو ان دنوں مشرقی پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں بھی کسی دوسری مسلم جماعت کو حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ اور جو درویشوں کے خلاف شروع سال کی تحریک مقاطعہ کا خدا تعالٰے کی طرف سے شاندار عملی جواب اور آسمانی نصرتوں کا چمکتا ہوا نشان تھا۔ فالحمدلل¶ہ علی ذالک
جلسہ سالانہ قادیا ۱۹۴۸ء میں شامل ہونے والے بھارتی احمدیوں کی فہرست
اس مبارک جلسہ سالانہ میں ۶۶ بھارتی احمدیوں پر مشتمل وفد نے شرکت کی جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔
مولانا بشیراحمد صاحب انچارج احمدیہ مشن وامیر جماعت احمدیہ دہلی امیر
۲۔
مکرم سید برکات احمد صاحب انفارمیشن آفیسر دہلی نائب امیر
۳۔
شیخ محمد لطیف صاحب دہلی
۴۔
غلام نبی صاحب ناسک )غیراحمد دوست(
۵۔
شیخ محمد عمر صاحب سرسلپوری
۶۔
نبی حسن صاحب احمدیہ فرنیچر سٹور
۷۔
چوہدری محمد ایوب صاحب
۸۔
ظہورالدین صاحب
۹۔
حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیر بہار
۱۰۔
حضرت سید وزارت حسین صاحب )صحابی اورین
۱۱۔
مکرم پروفیسر اختر احمد صاحب نیوی پٹنہ
۱۲۔
ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب مظفرپور
۱۳۔
شمیم احمد صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل کالج پٹنہ
۱۴۔
سید غلام مصطفیٰ صاحب مظفرپور
۱۵۔
دوست محمد صاحب
۱۶۔
مولوی محمد عقیل صاحب کھلی
۱۷۔
مولوی سمیع اللہ صاحب رانچی
۱۸۔
محمد مظہر صاحب پال
۱۹۔
مکرم دوست محمدصاحب شمس نائب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ مغربی بنگال
۲۰۔
بابو محمد رفیق صاحب
۲۱۔
ظفر احمد صاحب بانی
۲۲۔
نصیراحمد صاحب بانی
۲۳۔
محمد اسحق صاحب
۲۴۔
محمد رفیق صاحب وہرہ
۲۵۔
رشید احمد صاحب محمود
۲۶۔
ظفراحمد صاحب ودہارن
۲۷۔
ڈاکٹر اصغرحسین صاحب
۲۸۔
مقصود احمد صاحب بہاری
۲۹۔
رضوان الدین صاحب
۳۰۔
سیف الدین صاحب پسرمنشی محمد شمس الدیم صاحب
‏]ni [tag۳۱۔
بدیع الزمان صاحب
۳۲۔
سید بدرالدین صاحب سونگرموی
۳۳۔
مولوی عبداللطیف صاحب ہوئدہ
۳۴۔
محمود احمد صاحب )تپسیا ربرورکس(
۳۵۔
منیراحمد صاحب ) " (
۳۶۔
مولوی امیر علی صاحب ہوڑہ )غیرمبائع دوست(
۳۷۔
مولوی فضل کریم صاحب
۳۸۔
محمود احمد صاحب مالا باری
۳۹۔
حکیم محمد الدین صاحب انچارج احمدیہ مشن بمبئی۔ بمبئی
‏in] ga[t۴۰۔
کے۔ عبداللہ صاحب
۴۱۔
سی کے۔ عبداللہ صاحب
۴۲۔
سی عنایت اللہ صاحب
۴۳۔
پی عبدالحمید صاحب
۴۴۔
مکرم محمد اسماعیل صاحب طالب علم مالا بار )غیراحمدی دوست(
۴۵۔
حاجی بقاء اللہ صاحب شوز مرچندے بھوپال
۴۶۔
محمد یونس صاحب ٹیلر ماسٹر میرٹھ یوپی
۴۷۔
احسان الحق صاحب ٹیلرماسٹر
۴۸۔
حافظ رحمت الٰہی صاحب مظفرنگر
۴۹۔
مستری بشیراحمد صاحب بھگرہ ضلع مظفرنگر
۵۰۔
الطاف حسین خانصاحب اروے پور کٹیا ضلع شاہجہانپور
۵۱۔
امام علی صاحب
۵۲۔
حافظ سخاوت علی صاحب شاہجہانپور
۵۳۔
بہادر خاں صاحب سیکرٹری مال ساند ہن ضلع آگرہ
۵۴۔
ہمزہ بن عبدالقادر صاحب اسٹوڈنٹ علی گڑھ یونیورسٹی
۵۵۔
محمد شہاب صاحب بہاری
۵۶۔
ضمیراحمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ امروہہ
۵۷۔
مظہرالاسلام صاحب پسرمکرم منشی حمیداحمد صاحب امروہہ
۵۸۔
عبدالحمید صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ
۵۹۔
عبدالغفور صاحب
۶۰۔
سلیم احمد صاحب
۶۱۔
ارشاد احمد صاحب درننھے میاں صاحب
۶۲۔
رحیم اللہ صاحب
۶۳۔
محمد اسحق صاحب
۶۴۔
قریشی محمد یونس صاحب بریلی
۶۵۔
عبدالحی صاحب امروہہ۷۳
اخبار سٹیٹس مین میں قافلہ کی خبر
اخبار سٹیٹسمن (STATESMAN) دہلی نے اپنی ۲۷۔ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۸ء میں بھارتی احمدیوں کے وفد کی حسب ذیل خبریں شائع کیں۔ ۲۸ دسمبر کی خبر منارۃ المسیح قادیان کی جاذب نظر فوٹو سے مزین تھی۔
‏QADIAN TO WAY ON AHMADIYAS
‏CORRESPONDENT OUR FROM
۔Ahmed Bashir Maulvi by Led ۔ 26 ۔Dec AMRITSAR, Ahmadiya 66 Ahmadiya Anjuman Delhi the of President here arrived Inidia of parts various from Muslims rGurdaspu In ۔Qadiann to way their on morning this۔today starting annuajalsa the attend to district
‏ provincial Ahmed, Khalil Hakim includes party The ۔Ahmed Barakat Syed ۔Bihar ۔Ahmadiyas of Amri ۔India of Government ۔Officer Information Shamas, Mohd Dost ۔Mr Patna, of Saeedakhtar ۔Prof representatives and ۔Calcutta of merchant leading a۔provinces other and Bhopal Bombay, from
‏ party the station, raliway the at interview an In of Government the to gratitude expressed leader ۔ecalp holy their to visit the arranging for India ۔DSP Singh, Puran Sardar under escort police The during facilities all them given had Police, Railway۔journey the
‏ railway Amritsar the at stoppage hour۔five a After۔Batala the by Qadian for left party the station,۔m۔a 11 at Mail Qadian
‏ class third separate a in Delhi left had party The۔Amritsar to train daily the by coach
‏ Ahmadiyas by joined was party the Saharanpur, At offered they leaving Before ۔India of parts all from۔com gnoam will good of restoration for prayers۔India in munities
‏APPRECIATED FACILITIES PILGRIMAGE
‏ Qadian to pilgrims Ahmadi of Delhi in meeting a At expressing passed was resolution a Punjab) (East military and facilities travel the for thanks their Punjab East and Indian the by provided protectionn۷۴۔API ۔۔ ۔pilgrimage their for Governments
‏BEGINS QADIAN JALSAAT AHMADIYA
‏CORRESPONDENT OUR eng]FROM [tag Delha, from Ahmadiyas 66 of party A ۔۔ ۔26 Dec QADIAN, headed and India, of parts other and ۔P۔U the Bihar, and section, Delhi the of head Ahmed, Bashir Maulvi by today, ۔m۔p 55۔1 at here arrived Ahmed Balrat ۔Mr Singh, Puran Sardar under police railway by escorted۔DSP
‏ and Delhi, from provided was accommodation Special at Amritsar Reaching ۔them accompanied escort armed Qadian the to attached was bogey their today, ۔m۔a 4۔train
‏ received was party the destination, their gnireach On Resident the and leaders, Ahmadiya local 20 about Sardarby Singh, Amolak ۔Mr Magistrate,
‏ Dutt, Sitaram ۔Mr and Gurdaspur, SSP, Sing, Amolak۔pilgrims the see to gathered had muslims۔non Many ۔DSP
‏ to procession in taken were they embraces, hearty After۔route the lined Muslims۔Non ۔residence of place their
‏ explaining Bashiruddin Maulvi party the of leader The has it said minar, Qadian the of significance the been having same foundationn its 1919, i completed a of tnemlifulf in century nineteenth the in laid born be would Messiah the that prophecy Quranic۔minar a such near
‏ for light۔beacon spiritual a as it described He۔darkness the in funbring humanity
‏ no plays <logic added, he >۔sentiment of matters <In very its and hallowed, is Qadian of brack Every ۔part and years, two aften it Visiting ۔sanctified is dust are we happenings, tragic years last of shadow the in brotherhood universal i believe Ahmadiyas ۔moved deeply to grateful are We ۔snoigilre all of greatness the and ۔Qadian visit to us permitting for Government Indian the to us beckons and faith, our of symbol a is minaret >This۔pray
‏ECHO MERE
‏ about by attended Ahmadiyas, of jalsa annual 58th The local 313 pilgrims, visiting including people 800 was spectators, Sikh and Hindu rest the and Ahmadiyas Which ۔years previous of conferences the of echo mere a۔people 50,000 by attended were
‏ inaugurated was It ۔building enclosed huge a in Held after Who head, local the Rehman, Abdur Maulvi by from message a read verses Quranic of recitation Faith, the of head present Ahmed, Mohd Bashir Mirza۔Pakistan in now is who
‏ Muslims (Ahmadiay secritices the praised message The۷۵۔Qadian in
‏SPEECRES CONCILIATORY
‏ continuing for directions contained also message The finally and activities, missionary and educational law-abiding and peace-loving remain to them advised۔Government the of scitizen
‏ by one made, were speeches conciliatory other Two Jehad, of significance the on Ibrahim Mohd Maulvi attitude the on Salahuddin Malik by other the and۷۶۔communities other towards Ahmadiyas of
حواشی
۱۔
بالکل اوائل میں اسلام لائے۔ مہاجرین جشہ کے پاک گروہ میں شامل تھے` کئی غزوات میں حصہ لیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کی جنگی مہمات میں بھجوایا جہاں آپ نے ۰۱۸ھ میں عمو اس مقام پر بعمر ۶۷ سال وفات پائی )طبقات ابن سعد جلد ۴ صفحہ ۹۴ مطبوعہ لیڈن ۱۳۲۲ھ(
۲۔
تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۴۳۵ مطبوعہ دارالمعارف وفتوح البدان صفحہ ۱۲۲ مطبوعہ ۱۹۳۲ء
۳۔
ولادت ۱۸۸۲ء وفات ۱۹۵۱ء
۴۔
جریدۃ >الاردن< عمان نمبر ۱۲۰۲ جلد ۲۹) ۱۷ جمادی الاول ۱۳۶۷ھ مطابق ۲ اپریل ۱۹۴۸ء
۵۔
متن میں الھند کا لفظ ہے جو برصغیر پاک وہند کے لئے استعمال ہوا ہے۔
۶۔
جریدۃ >النسر< عمان ۴ جمادی الثانی ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۳ اپریل ۱۹۴۸ء نمبر ۴۷ جلد اول
۷۔
اخبار >الاردن< )عمان شرق اردن خاص نمبر مجریہ ۲۷ شعبان ۱۳۶۸ھ مطابق ۲۴ جو ۱۹۴۹ء
۸۔
اصل تحریر کا یہ مفہوم ہے جو خود مولوی صاحب کے ذریعہ سے زبانی معلوم ہوا۔ )مولف(
۹۔
یعنی شریف مکہ۔ ان سے ملاقات کا ذکر تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۵۵ میں آچکا ہے۔
۱۰۔
حضرت سید زی العابدین ولی اللہ صاحب مراد ہیں جو ان دنوں جھوٹے الزام کے نیچے ہندوستانی حکومت کی قید میں تھے۔
‏h1] gat[ ۱۱۔
مطبوعہ الفضل ۱۱ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء یہ مضمون چودھری محمد شریف صاحب فاضل انچارچ احمدیہ مشن بلاد عربیہ نے انہیں دنوں ترجمہ کرکے عربی ممالک میں بکثرت شائع کیا تھا۔
۱۲۔
ملخصاً از الفضل یکم تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ۲
۱۳۔
مولوی صاحب موصوف کو اس کے بعد بھی شاہ معظم سے اسی سال دو بار ملاقات کا موقعہ ملا۔ یہ ملاقاتیں حضرت مصلح موعود کے مسئلہ فلسطین سے متعلق مطبوعہ عربی ٹریکٹ پیش کرنے کی غرض سے تھیں۔
۱۴۔
۲۸ ماہ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک صدرانجمن احمدیہ کے ۲۵ خیمے اور ۲۵ چھولداریاں نصب کی جاچکی تھیں جن میں سے چار قیمتاً خریدی گئی تھیں۔ بقیہ کی تفصیل یہ ہے۔ ۲۵ خیمے کارخانہ رلدو محمددین صاحب لاہور سے چالیس روپے ماہوار کرایہ پر` ۱۶ چھولداریاں ۲۲ روپے ماہوار کرایہ پر اور ۵ چھولداریاں ۱۰ روپے ماہوار کرایہ پر شیخ علی احمد اینڈ سنز لاہور سے دو ماہ کے لئے حاصل کی گئی تھیں۔ ان خیموں اور چھولداریوں کی میعاد ۱۸ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء تک ختم ہوتی تھی جس سے چاروں قبل حضور نے )۱۴ ماہ نبوت/نومبر کو( ارشاد فرمایا کہ سوائی دفتر کے خیموں کے باقی خیموں کا کرایہ لیا جائے۔ دو ماہ کے بعد جتنے دن زائد لگیں گے ان کا کرایہ خیمح میں رہنے والوں سے لیا جائے گا۔ نیز فرمایا کہ انہیں پہلے اس لئے بھیجا گیا تھا کہ وہ چھپرو وغیرہ بنالیں اور ان میں رہیں۔
۱۵۔
فائل انتظام آبادی و فراہمی سامان
۱۶۔
اصل چٹھی >شعبہ تاریخ احمدیت< ربوہ میں محفوظ ہے۔
۱۷۔
میاں غلام محمد صاحب اختر مراد ہیں جو ان دنوں ریلوے کے اعلیٰ افسر تھے۔
۱۸۔
یعنی لوہے کے گارڈر
‏]1h [tag ۱۹۔
رجسٹر مشاورتی مجلس )رتن باغ لاہور(
۲۰۔
نقل مطابق اصل
۲۱۔
روشندان )فرہنگ عامرہ(
۲۲۔
یعنی حضرت مرزا بشیراحمد صاحب کی تجویز نمبر۹ کا جو گورنمنٹ سے اسٹیشن اور ڈاک خانہ وغیرہ کا انتظام کرانے کے بارہ میں تھی۔
۲۳۔
‏ DRAINAGE )پانی کا نکاس(
۲۴۔
ریکارڈ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری
۲۵۔
چودھری شاہ محمدصاحب کاتب کے چھوٹے بھائی
۲۶۔
سطح زمین کی ہمواری
۲۷۔
کنئور سروے فن انجنیئری میں زمین کے ایسے جائزہ کو کہتے ہیں جو سطح سمندر سے اونچائی کی لائنیں ظاہر کرے۔
۲۸۔
سڑکوں اور پلاٹوں کے لئے تجویز
۲۹۔
آپ امرتسر کی مشہور قاضی فمیلی کے چشم و چراغ ہیں۔ ربوہ کی اکثر ابتدائی اور مرکزی عمارتوں کے نقشے آپ ہی نے تیار کئے ہیں۔
۳۰۔
یہ صاحب بعد میں بغرض علاج امریکہ چلے گئے اور وہیں فوت ہوگئے۔
۳۱۔
ٹائون پلینر کے تیار شدہ نقشہ پر ایک نظر
کل رقبہ ۱۰۳۴ ایکڑ = ۸۲۷۲ کنال
رہائشی پلاٹ تعداد رقبہ کنالوں میں
چار کنال ۴۳ ۱۷۲
دو کنال ۳۱۲ ۶۲۴
ایک کنال ۹۳۲ ۹۳۲
دس مرلہ ۱۰۱۶ ۵۰۸
۲۳۰۳ ۲۲۳۶ تناسب فیصدکل رقبہ ۰۳ء ۲۷%
کل رقبہ بڑے پلاٹ )جس میں زراعتی رقبہ` قبرستا` جلسہ گاہ شامل نہیں ۲۲۰۰ کنال = = = ۶ء۲۶% تمام کھلی جگہیں یعنی ]7 SPACES[p OPEN
شہر میں پختہ سڑک اور ریلوے لائن کے ساتھ اور بیرونی حد کے ساتھ
زراعتی رقبہ` قبرستان و جلسہ گاہ ۲۶۵۹ کنال = = = ۱۴ء ۲۲%
شہر کی بقیہ سڑکوں کے لئے ۱۱۱۷ کنال = = = ۲۳ء ۱۴%
)از عبداللطیف صاحب اوورسیئر(
۳۲۔
یہ جنریٹر تقسیم ہند سے قبل ایک بیرونی ملک سے درآمد کیا گیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد کراچی ہی میں تھا۔
۳۳۔
حضور کے ہمراہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور مولانا عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے بھی تھے۔
۳۴۔
الفضل ۱۵۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴ کالم ۱`۲
۳۵۔
ربوہ سے متصل اس کے جنوب مشرق میں ایک گائوں
۳۶۔
نقل مطابق اصل
۳۷۔
الفضل ۱۸ ظہور/اگست ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۳۸۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ ہدایت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے مکتوب )مورخہ ۳۰ اخاء/اکتوبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء( پر رقم فرمائی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ تحریک جدید کے سینئر کوارٹر بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے عارضی تعمیرات کا ایک حصہ گرانا پڑے گا۔ صاحبزادہ صاحب ان دنوں تعمیرات تحریک جدید کے انچارج کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۳۹۔
والد ماجد مولوی رشیداحمد صاحب چغتائی مجاھد بلادعربیہ )وفات ۳۱ ظہور/اگست ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴(
۴۰۔
ملاخطہ ہو الفضل ۱۰۔۱۱۔۲۱ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۴۱۔
الفضل ۲۸ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۴۲۔
روزنامہ >الفضل< لاہور ۹ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۴۳۔
پاکستان ٹائمز ۹ نومبر ۱۹۴۸ء بحوالہ الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۴۸ء
۴۴۔
بحوالہ الفضل ۹ تا ۱۳ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۴۵۔
اس مفروضہ خمرکی بازگست ۸ ستمبر ۱۹۴۸ء کو پھر سنی گئی جبکہ دہلی کے اخبار >پرتاپ< نے امرتسر کے نامہ نگار کے حوالہ سے یہ خبر وضع کی کہ قادیان میں مقبرے کے پاس ایک اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے جس میں سے بہت سا ناجائز سامان برآمد ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں بارہ مسلمان گرفتار کئے گئے ہیں اس کے بعد اخبار >جے ہند< جالندھر نے اپنی ۱۳ ستمبر کی اشاعت میں مزید لکھا کہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے پاس جو اسلحہ ساز فیکٹری پکڑی گئی ہے اس میں مزید آٹھ مسلمان پکڑ لئے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ خبرین بالکل غلط تھیں جن کا مقصد ملکی فضا اور مقامی حالات کو معلوم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
۴۶۔
شہید احمدیت کوئٹہ
۴۷۔
آپ ۷ وفا/جولائی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو پاکستان منتقل ہوئے جیسا کہ ملک صلاح الدین صاحب ایم- اے نے >مکتوب اصحاب احمد< جلد دوم صفحہ ۱۱۴ کے حاشیہ میں لکھا ہے۔ >قادیان اور اس کے ماحول میں غیر مسلموں کے اندر روا داری کی فضا قائم کرنے میں آپ کا بھاری عمل دخل تھا۔ آپ کی شفقت و مروت کا یہ اثر ہے کہ دور و نزدیک کے ہندوسکھ آج تک ان کو یاد کرتے اور ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں۔<
۴۸۔
رسالہ >درویش< قادیان فتح/دسمبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء و صلح/جنوری ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۶۸۔۷۱` الفضل ۳۰ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵` الفضل ۱۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۴۹۔
الفضل لاہور ۲۶ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۵۰۔
ریکارڈ قادیان ۴۸۔۱۹۴۷ء مرتبہ مرزا محمد حیات صاحب سابق درویش قادیان )غیرمطبوعہ(
۵۱۔
ریکارڈ ۲۷-۱۳۲۶ہش/۴۷-۱۹۴۷ء مرتبہ مرزا حیات محمد صاحب نگران درویشان قادیان مقامی )حال سیالکوٹ(
۵۲۔
حضرت حافظ صاحب کے والد کا نام حافظ محمد عارف تھا۔ ۰۵۔۱۹۰۵ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت مصلح موعود کی تقریر >حضرت مسیح موعود کے کارنامے< اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب >براہین احمدیہ< سے متاثر ہوئے اور انشراح صدر کے لئے چھ ماہ مصروف دعا رہے اور آخر ۱۹ ذی قعد ۱۳۵۱ھ )مطابق ۲۴ فروری ۱۹۳۵ء( کی شب کو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نورانی وجود کی زیارت ہوئی اور آپ مئی ۱۹۳۶ء میں داخل احمدیت ہوگئے۔ )تفصیلی حالات کے لئے ملا خطہ ہو الفضل ۲۸ شہادت/اپریل` ۸ ہجرت/مئی` ۱۹۔۲۳ ہجرت/مئی` ۱۹ احسان/جون ۱۴۲۷ہش/۱۹۴۸ء آخرالذکر شمارہ میں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کے قلم سے آپ کے سوانح اور سیرت و شمائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
۵۳۔
یہ وہی بزرگ ہیں جن کی تبلیغی پنجابی نظمیں سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۴ نومبر ۱۹۰۲ء کو دربار شام میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا- >یہ عمدہ کام ہے اور اس زمانہ کا یہی جہاد ہے۔ جو لوگ پنجابی سمجھتے ہیں آپ ان کے لئے مفید کام کرتے ہیں< )ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۲۰۵۔۲۰۶(
۵۴۔
بطور مثال آپ کا ایک اعلان ملاخطہ ہو۔
>علاقہ قادیان کی اغوا شدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں۔ ان کے ورثاء لاہور پہنچکر سرکاری کیمپ میں پتہ لیں۔ قادیان سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ اردگرد کے علاقہ کی بعض مسلمان عورتیں جن میں سے بعض جموں سے بھی آئی ہوئی تھیں قریباً چودہ پندرہ کی تعداد میں بحال ہوکر قادیان میں جمع ہوگئی تھیں ان عورتوں کو گورداسپور کی پولیس قادیان سے گورداسپور لے گئی ہے تاکہ وہاں سے اپنے انتظام میں لاہور پہنچادے۔ ان عورتوں میں مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ جموں والی اور مسماۃ شریفہ بی بی ننگل والی بھی شامل تھیں۔ ان کے ورثاء کو چاہئے کہ لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں پتہ لے لیں تاکہ دیر ہوجانے کی وجہ سے مصیبت زدہ عورتوں کو مزید تکلیف کا سامنانہ ہو۔ افسوس ہے پوری تفصیل فون پر معلوم نہیں کی جاسکی< )الفضل ۳۰ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳ کالم ۳(
۵۵۔
لاہور کی احراری آرگن ۔۔۔ >آزاد< نے اپی ۲۶ مئی ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں یہ مضمون درج کرکے درویشان قادیان کی مساعی پر شامل الفاظ میں تبصرہ کیا جو تاریخ احمدیت >جلد ۱۱ صفحہ ۳۹۳ ۔۔ ۳۹۵ میں آچکا ہے۔
۵۶۔
الفضل ۵ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۵۷۔
الفضل لاہور ۷ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۵۸۔
الفضل ۱۲ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱
۵۹۔
الفضل ۱۸ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۶۰۔
الفصل ۱۸ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۶۱۔
یہ فہرست ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کی ایک غیرمطبوعہ تحریر سے ماخوذ ہے۔ الفضل میں افراد قافلہ کی تعداد ۳۵ لکھی ہے۔ معلوم نہیں ۳۵ ویں بزرگ کون تھے۔
قافلہ میں شامل ۱۲ صحابہ میں سے ۷ کی تعیین ہوسکی ہے۔ سوالیہ نشان کے معنے یہ ہیں کہ ان اصحاب کے کوائف کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکے۔
۶۲۔
قادیان دارالامان میں آمد کی تاریخ ۶ جنوری ۱۹۴۸ء خالو مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج زود نویسی )تفصیلی حالات کے لئے ملاخطہ ہو الفضل ۸۔۹ مئی ۱۹۴۸(
۶۳۔
مکمل فہرست ضمیمہ میں درج ہے۔ ان زائرین میں سے ایک معزز غیر مبائع اور پانچ غیر از جماعت دوست بھی تھے۔ جلسہ میں ان احمدیوں کی شرکت حضرت مصلح موعود کی تحریک پر ہوئی۔ حضور نے فرمایا >دسمبر میں جلسہ ہو۔ ہندوستان کے احمدی اگر خیریت سے پہنچ سکیں تو بلوائے جائیں۔ )مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب مورخہ ۲۱ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء۔ مکتوب اصحاب احمد طبع اول اگست ۱۹۵۳ء جلد اول صفحہ ۸۲ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے(
۶۴۔
الفضل ۲۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵ و ۲۷۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۳
۶۵۔
مولانا بشیراحمد صاحب مبلغ جماعت احمدیہ دہلی نے جلسہ سے واپسی پر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مفصل روداد سفر ارسال کی تھی جو الفضل کی یکم تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کی اشاعت میں چھپی ہوئی ہے۔ دہلی کے اخبار >سٹیٹسمین< نے اپنی ۲۷۔ ۲۸ دسمبر کی اشاعتوں میں اس جلسہ کی خبر شائع کی۔
۶۶۔
حضور پر نور کے اس ارشاد کے مطابق دہلی سے آنے والے قافلہ کے ساتھ قادیان سی پانچ مبلغین روانہ کردیئے گئے اور مولوی بشیراحمد صاحب کی نگرانی میں سب سے اول یوپی کی تنظیم نو کا کام شروع ہو۔
۶۷۔
اس حکم کی تعمیل میں ۲۶ فتح/دسمبر کے اجلاس دوم میں ¶جماعت ہائے احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اتفاق رائے کے ساتھ ایک ریزولیوشن بھی پاس کیا گیا۔
۶۸۔
>مکتوبات اصحاب احمد علیہ السلام جلد اول< مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان )بھارت( صفحہ ۴۷ تا ۵۵ طبع اول مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء
۶۹۔
۲۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو قصر خلافت کی بالائی منزل کے وسطی کمرہ میں صدرانجمن احمدیہ قادیان کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں حضرت مصلح موعود کے اس انقلاب انگیز پیغام کی روشنی میں مناسب تجاویز زیر غور لائی گئیں اور نئی تقاضوں کے مدنظر صروری مشورے کئے گئے )مکتوب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مولف >اصحاب احمد< مورخہ ۶ اپریل ۱۹۷۳ء بنام مولف(
۷۰۔
>مکتوبات اصحاب احمدیہ علیہ السلام جلد اول< مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان )بھارت( بار اول مطبوعہ اگست ۱۹۵۲ء صفحہ ۸۳ تا ۸۸
۷۱۔
رسالہ >درویشان قادیان< شائع کردہ بزم درویشا قادیان دسمبر ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۷ و بقیہ صفحہ ۱۰
۷۲۔
الفضل ۵ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۷۳۔
مرتبہ: مولانا بشیراحمد صاحب فاضل مبلغ دہلی
۷۴۔
>سٹیٹمین< ۲۷ دسمبر ۱۹۴۸ء
۷۵۔
اگلے فقرے پڑھے نہیں جاسکے اس لئے حذف کردئے گئے ہیں۔
۷۶۔
سٹیٹمین ۴۸ دسمبر ۱۹۴۸ء
فصل اول
جلسہ سالانہ لاہور ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں
حضرت مصلح موعود کی ایمان افروز تقریریں
اور
جلسہ ربوہ کے متعلق اطلاع عام
سال گذشتہ کی روایات کے عین مطابق ۲۵۔ ۲۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو بھی جماعت احمدیہ لاہور کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس سے حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے دو بار خطاب فرمایا۔
افتتاحی تقریر
حضور نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ ہمارا مقصد غلبہ اسلام کی عمارت تک پہنچنا ہے۔ یہ مقصد عملی نمونہ کے دروازہ سے گزر کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فرمایا۔
>دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے اور جتنے کام کرنے والے ہوتے ہیں ان کے سامنے بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ نہ ہی صحیح راستہ پر چلے بغیر کوئی قوم منزل پر پہنچ سکتی ہے اور نہ مقصد کے بغیر کوئی قوم یک جہتی سے کام کرسکتی ہے۔ اس امر کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے۔ واتوا البیوت من ابوابھا۔۱ ہر گھر جس میں تم داخل ہونا چاہتے ہو اس کے دروازے میں داخل ہوکر جائو یعنی ہر وہ کام جسے تم اختیار کرنا چاہتے ہو اس کے حصول کا جو طریق ہے وہ اختیار کرو۔
صحیح طریق اختیار کرنے کے بعد قوم کے پیش نظر کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی قوم کا کوئی مقصد نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس طرح دروازے میں داخل ہوئے بغیر گھر میں داخل ہونا مشکل ہے اسی طرح اپنے مقصد کے مقرر کئے بغیر کامیابی محال ہے۔ لکل فجھہ ھو مولیھا۲ کہ ہر ذی عقل شخص کا کوئی مقصد ہوتا ہے جسے سامنے رکھ کر وہ چلتا ہے۔ اسی طرح ہر قوم کا جو کسی قانون یا تنظیم کے تحت اپنے آپ کو چلاتی ہے` کوئی مقصد ہونا چاہئے۔ اگر بغیر مقصد کے کچھ لوگ کسی جگہ اکٹھے ہوجائیں تو ان میں نہ قربانی کی روح پیدا ہوتی ہے نہ ہی ہمت اور جوش پیدا ہوسکتا ہے نہ وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسا اعلیٰ پروگرام جس پر عمل کرکے دنیا میں ممتاز جگہ حاصل کرسکیں پیش کرسکتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو یہ دونوں زریں اصول کبھی نہیں بھولنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد تو اللہ تعالٰے نے قرآن کریم میں بیان فرمادیا ہے کہ اسلام کو دنیا میں غالب کرنا۔ پس ہمارا مقصد ہمارے سامنے ہے۔ اسے حاصل کرنا ہمارا کام ہے۔ ایسا غلبہ جو دلائل اور تعلیم کے لحاظ سے ہم دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے اور اعلیٰ تعلیم جس کی وجہ سے تمام مذہبی کتب سے! فضل ہے اس میں موجود ہے۔ اور ہر شخص جو غور کرے اس کو دیکھ سکتا ہے لیکن جب تک ان دلائل کو عملی طور پر پیش نہ کیا جائے محض دلائل سے کوئی شخص قائل نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کا عام طریق ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل سے عاجز آجاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ بتائو تم نے اس تعلیم پر عمل کرکے کونسا تغیر اپنے اندر پیدا کرلیا ہے۔ کونسا اعلیٰ مقام حاصل کرلیا ہے۔ کونسی فضیلت حاصل کرلی ہے۔ چنانچہ آج دشمن اسی طریق سے اسلام پر طعنہ زن ہورہا ہے۔ جب ہم اس کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے بتائو اسلامی ممالک نے کونسی رواداری کی مثال پیش کی ہے اور کونسے فتنے فساد انہوں نے رفع کئے ہیں۔ کونسا تغیر انہوں نے پیدا کیا ہے اور اگر انہوں نے اسلامی تعلیم پر عمل کرکے کچھ نہیں کیا تو اس تعلیم کو تم ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو۔
جب اس کے ماننے والے اسے رد کرچکے ہیں تو نہ ماننے والے کیونکر قبول کریں۔ یہ ایسا زبردست اعتراض ہے کہ اس کے سامنے ہمارے لئے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم کے ساتھ عمل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی اسلام کی علمی و عملی برتری کا اقرار کرنے لگے جب تک ہم عملی نمونہ پیش نہ کریں ہم غلبہ نہیں پاسکتے۔
پس یہ وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم اپنے مقصد کو پالیتے ہیں اور اسلام کے غلبہ کی عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مقصد کا تعلق ہے وہ واضح ہے کہ قرآن کریم میں ہمارا فریضہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے میں کوشاں رہنا بیان فرمایا ہے لیکن جہاں تک عمل کا سوال ہے اس میں ہم تہیدست ہیں۔<
فرمایا-:
باتیں سننا بھی ضروری ہے اور اچھی باتیں سننی چاہئیں لیکن اب عمل کا زمانہ ہے۔ باتیں کم سنو اور عمل زیادہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔<۳
اختتامی خطاب
حضرت امیرالمومنین نے اپنے اختتامی خطاب میں مرکز ربوہ کے پہلے جلسہ میں بکثرت آنے کی تحریک کرنے اور مرکزی چندوں اور جانی قربانیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ پوری قوت اور شوکت کے ساتھ خوشخبری سنائی کہ یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اسلام اب آگے ہی کی طرف قدم بڑھائے گا۔ اب اسلام ہی کے غالب ہونے کی باری ہے اور کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہوچکی ہے۔ حضور کی اس تقریر کا ملخص درج ذیل کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے یہ ہماری لاہور کی جماعت کا جلسہ ہے۔ یہ ہمارا مرکزی سالانہ جلسہ نہیں ہے- مرکزی سالانہ جلسہ ہم نے اس سال اپنے نئے مرکز ربوہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن چونکہ نئے مرکز میں جلسہ کرنے کی راہ میں ابھی بہت سی مشکلات حائل ہیں۔ اس لئے ہم نے غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس دفعہ بجائے کرسمس کے ایسٹر )اپریل ۱۹۴۹ء( کی تعطیلات میں جلسہ منعقد کریں۔ اگر اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے عمارتوں کی کوئی صورت پیدا کردی تو انشاء اللہ بہتر انتظامات ہوجائیں گے۔ ورنہ موسم اس وقت تک اس حد تک بدل چکا ہوگا کہ اگر رہائش کے لئے مکان میسر نہ بھی ہوں تو کھلے میدان میں سویا جاسکے گا اور دن کو شامیانوں کے نیچے تقریریں ہوسکیں گی۔ پس چونکہ ہمیں ایسٹر کی تعطیلات میں جلسہ کرنا آسان نظر آیا اس لئے ہم نے اس دفعہ دسمبر میں اپنا مرکزی جلسہ ملتوی کردیا ہے۔
لاہور کی جماعت نے اس التواء سے فائدہ اٹھا کر اپنا جلسہ کرلیا ہے۔ اس سے لاہور کی جماعت نے بھی ثواب حاصل کرلیا ہے اور بیرونی جماعتوں کو بھی کسی حد تک جمع ہوکر جماعتی مشکلات کو سمجھنے اور میرے خیالات سننے کا موقع مل گیا ہے۔
ہمارا آئندہ جلسہ سالانہ انشاء اللہ نئے مرکز میں ہوگا اور وہ اس جگہ کا پہلا جلسہ ہوگا۔ بیرونجات سے آئے ہوئے دوستوں کے ذریعہ سے اور اس لحاظ سے بھی کہ میری آواز اخبار کے ذریعہ سے باہر پہنچ جائے گی` میں ساری جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں آنے کی کوشش کرے۔ وہ جلسہ چونکہ نئے مرکز میں پہلا جلسہ ہوگا اس لئے خاص طور پر وہ دعائوں کا جلسہ ہوگا تاکہ اللہ تعالٰے ہمارے نئے مرکز کو ہمارے لئے اور اسلام کی عظمت اور بڑائی کو ظاہر کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ بابرکت کرے۔ پس ابھی سے تمام دوستوں کو تیاری شروع کردینی چاہئے۔
لیکن غلہ سے متعلق حکومت کی طرف سے عائد شدہ پابندیو اور غیر معمولی گرانی کی وجہ سے ہمارے لئے ربوہ میں وسیع پیمانے پر مہمان نوازی کرنا مشکل ہوگا۔ اس لئے میں زمیندار دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جب ہو جلسے پر آئیں تو ان میں سے ہر فرد اپنے ساتھ کم از کم تین سیر گندم یا آٹا ضرور لیتا آئے۔ اس تین سیر میں سے ڈیڑھ دو سیر تو خود اس کی اپنی خوراک کے لئے ہوگا اور باقی ڈیڑھ سیر اس کے دیگر غریب دوستوں یا اس کے ان شہری بھائیوں کے لئے ہوگا جو راشن وغیرہ کی پابندی کی وجہ سے غلہ نہیں لاسکیں گے اگر اس طریق پر عمل کیا گیا تو امید ہے کہ اتنی گندم مہیا ہوجائے گی جو تمام مہمانوں کے لئے کافی ہو۔
گذشتہ دو سال سے عورتیں جلسہ میں شامل نہیں ہوسکیں حالانکہ قادیان میں جلسے کے موقع پر اگر مرد تیس ہزار ہوتے تھے تو عورتیں بھی پندرہ ہزار کے قریب ضرور ہوتی تھیں۔ ربوہ کے اس پہلے جلسے میں عورتوں اور بچوں کو بھی شامل ہونے کی اجازت ہوگی۔ اگر تمعیر کا سلسلہ نہ بھی شروع ہوا تو عورتوں کے لئے قنانوں کا انتظام کردیا جائے گا اور مرد کھلے میدان میں رہ سکیں گے۔ یہ ایک نہایت ہی خوشکن نظارہ ہوگا فطرتی سادگی کا۔ یہ نظارہ مکہ میں حج کے موقعہ پر ہر سال ہی نظر آتا ہے جبکہ لوگ مکانات کی قلت کی وجہ سے سڑکوں اور میدانوں میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ درحقیقت ابتدائی سادگی جو فطرت میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے وہی دنیا میں حقیقی امن قائم کرسکتی ہے۔ جب تک انسان ان چیزوں پر اکتفا نہیں کرتے جو خدا نے دی ہیں اس وقت تک دنیا سے فتنہ وفساد کبھی مٹ نہیں سکتے۔
میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ دوست اپنی اپنی جگہ دالیں جمع کریں جو جلسے کے موقعہ پر کام آسکیں۔ لیکن چندہ جلسہ سالانہ پر اس کا اثر نہیں پڑنا ¶چاہئے۔ اگر دوست ماش` چنا` مونگ اور مسور ثابت ابھی سے جمع کرنا شروع کردیں تو یہ چیزیں کافی کام آسکتی ہیں۔
میں ایک اور ضروری تحریک بھی احباب کو کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک ربوہ کے گردونواح میں چیزیں کافی سستی ہیں۔ لیکن جونہی قصبہ آباد ہوگیا چیزیں گراں ہونے کا احتمال ہے۔ شروع میں وہاں پر روپے کا چار اور پانچ سیر کے درمیان دودھ مل جاتا تھا۔ اب جب ہمارے کچھ دفاتر چلے گئے ہیں دودھ روپے کا تین سیر ہوگیا ہے۔
جن علاقوں میں بھینسیں پالنے کا شوق ہے اور لوگ بھینسیں صدقہ کے طور پر دے سکتے ہیں انہیں بھینسیں ہدیت¶ہ سلسلہ کو پیش کرنی چاہئیں تاکہ مرکز کے قائم ہونے سے قبل وہاں پر اتنی بھینسیں موجود ہوں کہ ہم اس علاقہ سے دودھ نہ خریدیں اور قیمتیں بلاوجہ گراں نہ ہوں۔
ہماری تحریک پر بڑھئی` معماروں اور دیگر کاریگروں نے کئی سو کی تعداد میں مرکز میں کام کرنے کی درخواستیں دی ہیں۔ میں ان سب کو اطلاع دے دیتا ہوں کہ وہ پابہ رکاب رہیں۔ جس وقت بھی انہیں اطلاع دی جائے انہیں فوراً ربوہ پہنچ کر کام شروع کردینا چاہئے یاد رکھو ہمارا ایک ایک دن بہت قیمتی ہے اور مرکز کے قیام میں ایک دن کی تعویق بھی ہمارے لئے مضر ہے۔
ربوہ کی زمین کی قیمتوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا۔
اس سلسلہ میں بعض لوگوں کو غلی فہمی ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین کی فروخت کو جو پہلا اعلان کیاگیا تھا اس میں دو شرطیں رکھی گئی تھیں )۱( ایک سو روپیہ کنال کے حساب سے آٹھ سو کنال فروخت کی جائے گی۔
)۲( ۱۵ اکتوبر تک ایک سو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین دی جائے گی۔ گویا اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ )ا( اگر ۱۵ اکتوبر سے قبل ہی آٹھ سو کنال فروخت ہوگئی تو پھر مقررہ شرح پر فروخت بند کردی جائے گی۔ )ب( اگر آٹھ سو کنال زمین فروخت نہ ہوئی لیکن ۱۵ اکتوبر کی تاریخ آگئی تو اس صورت میں بھی مقررہ قیمت پر زمین کی فروخت بند ہوجائے گی۔
اس اعلان کے مطابق چونکہ ۶۔۷ اکتوبر کو ہی آٹھ سو کنال فروخت ہوگئے تھے۔ اس لئے گو ۱۵ اکتوبر کی تاریخ ابھی انہیں آئی تھی لیکن فروخت بندکردی گئی تھی۔
فرمایا-: حقیقت یہ ہے کہ اگر خرچ کا قلیل سے قلیل بھی اندازہ لگایا جائے تو کوئی قصبہ پچیس تیس لاکھ روپے خرچ کئے بغیر نہیں بن سکتا۔ یہ رقم ان چیزوں پر خرچ ہوتی ہے` جو قصبہ کے سارے باشندوں کے کام آتی ہیں جیسے مثلاً سکول کالج وغیرہ۔ اگر کچی عمارتوں کا اندازہ بھی لگایا جائے تو تیرہ لاکھ روپے سے کم نہ ہوگا۔ اب صاف بات ہے کہ یہ رقم دو ہی طریق سے لی جاسکتی ہے )۱( خریداروں سے زیادہ قیمت وصول کرکے )۲( ساری جماعت سے چندہ لے کر۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی طور پر ہم ساری جماعت سے یہ رقم نہیں لے سکتے۔ کیونکہ یہ رقم جن چیزوں پر خرچ ہوتی ہے ان سے زیادہ تر مقامی لوگوں نے فائدہ اٹھانا ہے۔ اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے ان سے زیادہ تر مقامی لوگوں نے فائدہ اٹھانا ہے۔ اب ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہی ہم نے اختیار کی ہے۔ وہ یہ کہ زمین کی قیمت زیادہ وصول کی جائے۔ میں دوستوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد زمین اپنے لئے مخصوص کرالیں۔
اس کے بعد حضور نے نئے مرکز کے قیام کے سلسلے میں بعض منافقین کی طرف سے پھیلائے ہوئے اس شبہ کا ذکر کیا کہ نئے مرکز کا قیام بتاتا ہے کہ گویا ہمیں قادیان واپس ملنے میں شبہ ہے۔ حضور نے فرمایا۔
۱۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سلسلہ کا مستقل مرکز قادیان قرار دے دیا تو پھر کسی رحمدی کہلانے والے دل میں شبہ کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔
۲۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر ہزاروں پیشگوئیاں پوری ہوئیں تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ قادیان کے مرکز رہنے کی پیشگوئی نعوذ باللہ پوری نہ ہوگی۔
۳۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں صراحتاً قادیان سے نکلنے کی پیشگوئی موجود ہے۔
۴۔ خود مجھے اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت گذشتہ سال کے واقعات کی تفصیلاً اطلاع دی جو ۴۲ء میں شائع بھی ہوچکی ہے اور وہ لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ اس اطلاع میں نئے مرکز کے قیام اور قادیان کی واپسی کی خبر بھی موجود ہے۔ جب خدا انذار والے پہلو پورے کئے تو ہم کس طرح گمان کر سکتے ہیں کہ وہ تبشیر کے پہلو پورے نہ کرے گا۔
اس موقعہ پر کسی صاحب نے رقعہ کے ذریعہ دریافت کیا کہ کیا حضور کو پاکستان کے متعلق بھی کوئی اطلاح خدا تعالٰے کی طرف سے ملی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
اسلام کی ترقی خدائی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے۔ یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اسلام اب آگے ہی کی طرف قدم بڑھائے گا۔ اب اسلام ہی کے غالب ہونے کی باری ہے۔ اب کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہوچکی ہے۔
قادیان کی تقدیس اسلام کی اشاعت اور اسلامی تعلم کے قیام کا مرکز ہونے کی وجہ سے تھی۔ اگر یہ چیز اب قادیان کی بجائے کسی اور مقام سے شروع ہوجائے گی تو وہ مقام بھی بابرکت ہوجائے گا۔ اسی طرح جس طرح ہجرت نبوی کے بعد گو مکہ بھی بابرکت رہا مگر خدا نے مدینہ کو بھی برکت دے دی جس طرح گو اصل مسجد خانہ کعبہ ہے مگر مسلمان ہر جگہ اس کی نقل میں مسجد بناتے ہیں اور وہ مسجد بابرکت ہوجاتی ہے۔ اسی طرح گو ہمارا اصل مرکز قادیان ہے لیکن اس کی نقل میں جو بھی مرکز بنیں گے یقیناً وہ بھی بابرکت ہوجائیں گے۔ جس خدا نے مکے اور مدینے کو برکت دی میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس کے خزانے میں ابھی اور بھی بہت سی برکتیں ہیں۔ تم صرف نیک نیتی سے دین کی خدمت کرنے کا تہیہ کرلو پھر جس جگہ مرکز بنائو گے وہ مقدس ہو جائے گی۔
حضور نے چند کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
جب سے مرکزی دفاتر کا اکثر حصہ ربوہ چلا گیا ہے یک دم چندوں میں کمی آگئی ہے۔ چنانچہ پچھلے تین ماہ ایک لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ میں جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اپنے چندے ربوہ میں بھیج دیں۔ اگر یہ کمی جاری رہی تو لازمی طور پر دین کے موجودہ کاموں کو صدمہ پہنچے گا۔
آخر میں حضور نے فرمایا۔
انگریزوں کے چلے جانے سے اور پاکستان کے قیام سے لازمی طور پر ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ہمیں بدلے ہوئے حالات کو اور وقت کی نزاکت کو محسوس کرنا چاہئے۔ ہماری جماعت کو بالخصوص اپنا نظریہ بدل لینا چاہئے۔ اب صرف چندوں سے` نماز روزہ حج اور زکٰوۃ سے ہم اپنا فرض ادا نہیں کرسکتے۔ ہمیں اسلام کی حفاظت اور بقا کے لئے جاتی قربانی کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہئے۔ جس طرح مالی قربانی کے میدان میں ہم نے عدیم النظیر مثال دنیا میں قائم کی ہے۔ اسی طرح جانی قربانی کے میدان میں بھی تمہارا امام تم سے ایسا نمونہ طلب کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہ ہو۔ مومن بہار ہوتا ہے۔ اگر ہماری جماعت مومن ہے تو پھر اسے بہادر بھی بننا چاہئے اور صرف بہادر ہی ہماری جماعت میں رہنے کا حقدار ہے۔۴
جلسہ کے دوسرے مقررین
حضرت مصلح موعود کے ان اثر انگیز خطابات کے علاوہ مولانا عبدالغفور صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری` چودھری اسداللہ صاحب` قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور` مولانا جلال الدین صاحب شمس` حضرت مفتی محمد صادق صاحب` حضرت سیدزین العابدین ولی اللہ صاحب اور بعض دیگر مقررین کی مختلف اہم موضوعات پر تقریریں ہوئیں۔۵
جلسہ کے پہلے روز مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کے ذاتی نمائندے الشیخ عبداللہ غوثیہ اور السید سلیم الحسنی اور السید عبدالحمید بک )افغانستان فلسطینی سفیر( بھی تشریف لائے۔ الشیخ عبداللہ غوثیہ نے مسئلہ فلسطین اور اتحاد اسلامی کے موضوع پر عربی میں ایک موثر تقریر فرمائی جس کا اردو ترجمہ حضرت سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے سنایا۔۶
فصل دوم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں مندرجہ ذیل جلیل القدر صحابہ نے وفات پائی
۱۔
حضرت حافظ سید عزیز اللہ شاہ صاحب والد ماجد حضرت سیدہ مہرآپا صاحبہ حرم رالع سیدنا المصلح الموعود )وفات ۱۲ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بوقت ایک ایک بجے شب(
تہجد گزار` بہت گریہ دبکا سے مولا کو یاد کرنے والے` خاموش طبع` خلوت پسند` رقیق القلب` مہما نواز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء اور خاندان سے غایت درجہ محبت و عقیدت رکھنے والے بزرگ تھے۔ حضرت مصلح موعود سے بہت قریبی رشتہ تھا مگر اداب و احترام کے باعث حضور کے سامنے کبھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے تھے۔۷
۲۔
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیربانی مغربی افریقہ مشن )وفات ۷ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بمقام گوجرانوالہ(
آپ کے مجاہدانہ کارناموں کا تذکرہ >تاریخ احمدیت< کے متعدد مقامات پر آچکا ہے جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔۸
۳۔
حضرت مرزا قدرت اللہ صاحب متوطن کوچہ چابک سواراں لاہور )ولادت: ۲۳ اکتوبر ۱۸۸۰ء بیعت وزیارت: ۱۹۰۲ء` وفات ۲۰ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بمقما لاہور(
پنجابی کے مشہور شاعر بابا ہدایت اللہ صاحب کے فرزند ارجمند تھے` نہایت نیک` خیرخواہ` مہمان نواز` اور غیور اور جوشیلے احمدی تھے۔ بچپن ہی سے آپ کو رویاء صادقہ ہوتی تھیں۔۹
۴۔
حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب متوطن بدوملھی ضلع سیالکوٹ )بیعت : ۱۸۹۲ء غالباً` وفات ۲۵ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بار زیارت ۱۸۸۴ء میں حضور کے قیام لدھیانہ کے دوران کی۔ جلسہ سالانہ ۱۸۹۲ء کی فہرست اور ۳۱۳ اصحاب کبار میں آپ کا نام درج ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام اپنے اہلیت کے لئے دوا اور عرق تیار کرنے کا ارشاد آپ کو بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضور نے سفر نصیبین کے سہ رکنی وفد میں آپ کو بھی شامل فرمایا۔ حضور کی بعض علمی تحقیقات کے سلسلہ میں بعض حوالہ جات پیش کرنے کا موقعہ ملا۔۱۰
۵۔
حضرت شیخ نصیرالدین صاحب )وطن مالوف قصبہ مکندپور ضلع جالندھر` وفات اخاء/نبوت مطابق اکتوبر نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بمقام راولپڈی(۱۱
۶۔
حضرت حافظ عبدالعلی صاحب برادر اکبر حضرت مولوی شیرعلی صاحب متوطن اور حمہ ضلع سرگودھا۔ )ولادت ۱۲۹۰ھ/۴۔۱۸۷۳ء` بیعت و زیارت: ۱۸۹۳ء برموقعہ مباحثہ آتھم` وفات: ۱۸ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء( مقدمہ مارئن کلارک کے دوران بٹالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ خطبہ الہامیہ کی تقریب میں بھی موجود تھے۔ کئی بار حضور علیہ السلام کے ساتھ کھانا تناول کرنے کا موقعہ ملا۔۱۲
۷۔
حضرت شیخ نورالدین صاحب تاجر دارالفتوح قادیان )وطن مالوف رندھاوا ضلع گورداسپور` زیارت و بیعت ۱۸۹۹ء` وفات ۱۹ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بمقام منٹگمری )ساہیوال(
کم گو` حلیم الطبع اور متدین بزرگ تھے۔۱۳
۸۔
حضرت بابو احمداللہ صاحب )وفات ۱۷ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء(
۱۸۹۰ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے۔ دو بار انگلستان گئے۔ جہاں کئی افراد کو مسلمان بنانے کی توفیق ملی۔ شروع شروع میں آپ ہی جماعت احمدیہ نوشہرہ چھائونی کے پریذیڈنٹ اور سکرٹری مال تھے اور آپ ہی کے مکان پر نمازیں ادا کی جاتی تھیں۔ ۱۹۳۴ء میں قادیان میں رہائش پذیر ہوگئے۔ فسادات ۱۹۴۸ء میں ہجرت کرکے سیالکوٹ آگئے اور وہیں داعی اجل کو لبیک کہا۔۱۴
۹۔
قاضی عزیزالدین صاحب متوطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور۔ )وفات ۸ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء( ممتاز اور متمول زمیندار ہونے کے باوجود نہایت سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ تبلیغ کا شوق تھا۔ غریب پروری اور مہمان نوازی میں نمونہ تھے۔۱۵
‏tav.11.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
دو ممتاز تابعین کی وفات
مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ اس سال سلسلہ احمدیہ کے مخلص و ممتاز تابعین میں سے حضرت پیر اکبرعلی صاحب وکیل امیر جماعت احمدیہ فیروزپور اور ڈاکٹر بشیرمحمود صاحب آف پونچھ ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیکل سروسز آزاد کشمیر گورنمنٹ مولائے حقیقی سے جاملے۔
۱۔
حضرت پیر اکبرعلی صاحب وفات: ۲۵ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء۔ حضرت مصلح موعود نے ۲۸ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو لاہور میں آپ کا جنازہ غائب پڑھایا۔ اور خطبہ ثانیہ میں فرمایا >پیراکبرعلی صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری مجلس شوریٰ کی مالی سب کمیٹی میں بڑی اور وہاں کی جماعت کے امیر تھے )الفضل ۵ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۳( ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے >تابعین اصحاب احمد< جلد ۶ میں آپ کے حالات زندگی شائع کردیئے ہیں۔ جن سے آپ کے شمائل اور زریں خدمات سلسلہ پر روشنی پڑتی ہے۔
اخبار >انقلاب< )۲۹ مئی ۱۹۴۸ء( نے آپ کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا۔
پیراکبر علی کا انتقال
فیروزپور کے مشہور ایڈووکیٹ اور سابق ایم ایل اسے پیراکبرعلی صاحب ۲۵ مئی رات کے بارہ بجے راولپنڈی میں رہگرائے عالم جاودانی ہوگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ پیر صاحب مرحوم نہایت کامیاب وکیل اور صاحب اثرورسوخ تھے۔ سالہا سال تک آپ پنجاب کی مجلس قانون ساز کے ممبررہے اور مخلص آدمی تھے۔ گذشتہ فسادات میں آپ کو فیروز پور چھوڑ کر مغربی پنجاب آنا پڑا۔ آپ فالج میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ہمیں پیر صاحب کے متعلقین سے اس حادثہ جانکاہ میں دلی ہمدردی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندوں کو صبرجمیل عطا فرمائے )انقلاب ۲۹ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۸(
۲۔
ڈاکٹر بشیرمحمود صاحب` اخبار >انقلاب< میں آپ کی وفات کی خبر مندرجہ ذیل الفاظ میں چھپی۔
>ڈاکٹر بشیرمحمود کی شہادت پر آزاد کشمیر حکومت کا اعلان
راولپنڈی کشمیر بیورو ۱۴ جون
آزاد کشمیر گورنمنٹ کا ایک پریس نوٹ مظہر ہے کہ محترم ڈاکٹر بشیرمحمود صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر میڈیکل سروسز آزاد کشمیر گورنمنٹ گزشتہ دنوں شہید ہوگئے ہیں۔ آپ آزاد کشمیر گورنمنٹ کے بہتری مخلص کارکن تھے۔ اور تحریک کے شروع میں سے ہی پوری محنت سے کام کررہے تھے۔
آپ پہلے پونچھ میں پرائیوٹ پریکٹس کرتے تھے۔ گزشتہ سال کے شروع سے سرینگر چلے گئے۔ موجودہ تحریک حریت کے آڑگنائزڈ کرنے مین آپ نے بہت بڑا کام کیا اور خاص خدمات سرانجام دیں۔ تحریک شروع ہونے پر آپ احباب کے مشورے پر کشمیر سے باہر نکل آئے۔ آنے کے بعد آپ کی کئی ہزار کے ادویات اور دیگر سامان ڈوگرہ حکومت نے ضبط کرلیا۔
باہر آکر آپ نے آزاد افواج اور میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کی تنظیم میں سرگرم حصہ لیا۔ ہر چھوٹا بڑا آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ آزاد گورنمنٹ اور ریاستی عوام نے آپ کی جوانا مرگ کو بہت محسوس کیا ہے۔ آپ مریضوں سے بہت اچھی طرح سے پیش آتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا بھی رکھی تھی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰے مرحوم کی اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔< )انقلاب ۱۶ جون ۱۹۴۸ء صفحہ ۷(
تحریر فرماتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں تحریک آزادی کشمیر کے محرکین میں شامل تھے۔ حالات کا پہلے سے علم تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سرینگر چھوڑ کر مظفرآباد پہنچے )یہاں ۴ اکتوبر کو خواجہ گلگار صاحب نے حکومت آزاد کشمیر کی بنیاد رکھی( تو آپ کو آزاد کشمیر کا ڈائریکٹر آف ہیلتھ سروس بنایا گیا۔ اس کے بعد آپ ادویات کا سٹاک لینے سری نگر گئے۔ جہاں بم سازی کیس میں اپ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے اور تمام سٹور اور املاک ضبط ہوگئیں۔ پھر آپ وہاں سے نکل کر تراڈ خیل پہنچے۔ جہاں سردار محمد ابراہیم کی صدارت میں ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں نئے سرے سے تشکیل شدہ حکومت میں آپ کو چیف ڈائریکٹر آف ہیلتھ سروس مقرر کیا گیا۔ آپ محاذ جنگ میں اگلی صفوں میں موجود رہتے۔ گولیوں کی بارش توپو کا خوف ہوائی جہاز کے حملے` فاقے` بے سروسامانی ادویات کی کمی۔ غرضیکہ کوئی مشکل بھی آپ کے حوصلہ کو پست نہ کرسکی۔ آپ اس عہدہ کی تنخواہ نہ لیتے کہ مزہ تو خدمت میں ہے۔ عہدہ کو سنبھالتے ہی آپ نے تراڈ کھل کر مرکز بناکر تمام آزاد کشمیر کے محاذوں میں ہسپتال` ڈسپنسریوں اور متحرک میڈیکل کیمپوں کا سلسلہ قائم کردیا۔ مجاہدین کو سامان رسد کی ضرورت تھی۔ آپ سامان رسد لدوا کر کئی بار محاذوں تک پہنچانے کے لئے میل ہامیل پیدل سفر کرکے جاتے۔ ہمیشہ محاذ جنگ کی اگلی صفوں میں بے خوف و خطر جا کودتے۔ خدمت خلق میں روحانی سرور محسوس کرتے تھے۔ عوام میں جہاد کی تڑپ پیدا کرنے کے لئے تقریر و تحریر دونوں سے کام لیتے۔ ان ایام میں آزاد کشمیر ریڈیو سے اپ کی تقاریر نشر ہوتی تھیں۔ جو غازیوں کی ہمت بڑھاتی تھیں۔ خان لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان محاز جنگ کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تو آپ نے محاذوں پر آپ کی راہنمائی کی۔ مجاہدین آزادی کو محاذوں پر ادویات پہنچانے کی غرض سے آپ کا پروگرام بذریعہ طیارہ گلگت ایجنسی کی طرف دورہ کرنے کا تھا اور اس سے پہلے محاذ پر جانے کا ارادہ تھا۔ اس لئے ادویات اور دیگر سامان کے معائنہ کے لئے ادویات کے گودام میں گئے۔ جہاں سپرٹ بیرل کو موم پگھلا کر ٹھیک کرنے لگے۔ اس اثناء میں اچانک آگ لگ گئی اور ڈرم پھٹ کر ان کے اوپر گرا اس سے ان کا سارا جسم بری طرح جل گیا۔ آپ اکیلے اسی حالت میں آگ بجھاتے رہے۔ باہر نکلے تو حالت ناگفتہ بہ تھی۔ کار میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں تین دن کے بعد ۹ جون ۱۹۴۸ء کو ۳۲ سال کی عمر میں جاں بحق ہوگئے۔ آپ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ ادویات کے گودام کی ایک انسانی جان سے زیادہ قیمت تھی۔ اگر گودام جل جاتا تو تحریک آزادی کشمیر کو بہت ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا۔ حکومت آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدر سردار محمد ابراہیم خاں نے اس موقعہ پر آنسو بہاتے ہوئے کہا۔ میرا ایک بازو ٹوٹ گیا ہے۔ حکومت آزاد کشمیر نے ان قربانیوں کے پیش نظر آپ کو غازی >کشمیر< کا اعزازی خطاب دیا۔ جب آپ محاذ کشمیر پر خدمات انجام دے رہے تھے اس وقت قادیان کی حفاظت کی بھی ضرورت تھی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حفاظت مرکز کے لئے رضا کاروں کا مطالبہ فرمایا تھا۔ شہید مرحوم نے لکھا کہ اگر ضرورت ہو تو مجھے حفاظت مرکز کا موقعہ دیا جائے۔ حضور نے جواباً تحریر فرمایا کہ محاذ کشمیر کا کام بھی حفاظت مرکز قادیان ہی کا کام ہے۔ چنانچہ حضور کی ہدایت کے مطابق آپ محاذ کشمیر پر ہی بدستور کام کرتے رہے۔ مرحوم کا ایک لڑکا نصیرمحمود وانی آپ کی یادگار ہے۔۱۶
فصل سوم
۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعود میں خوشی کی تقاریب
اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک خاندان میں خوشی کی متعدد تقاریب کا انعقا ہوا۔
۱۔
۱۸۔۱۹ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب )ابن حضرت مصلح موعود( کی شادی عمل میں آئی۔۱۷
۲۔
۲۴ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو صاحبزادی سیدہ امتہ الباسط صاحبہ )دختر حضرت مصلح موعود( کے رخصتانہ کی تقریب سعید منعقد ہوئی۔ آپ کا نکاح میردائود احمد صاحب سے ہوا تھا۔۱۸
۳۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے سیکنڈ ڈویژن میں ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔۱۹
امیرجماعت احمدیہ صوبہ سرحد کاتاربھارتی حکومت کے نام
امیر جماعت احمدیہ سرحد حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی ضلع مردان نے بھارتی حکومت کے نام ایک تار دیا جس کی خبر >انقلاب< لاہور نے درج ذیل لفظوں میں شائع کی۔
فوجی قوت سے قادیان کو ہندوئوں اور سکھوں کے حوالے کردینے کا اقدام ہندوستانی لیڈروں کو سرحدی جماعت احمدیہ کا انتباہ
پشاور۔ ۲۱ جنوری صوبہ سرحد کی جماعت احمدیہ کے امیر نے مندرجہ ذیل تار پنڈت نہرو` مسٹر پٹیل` ڈاکٹر گوپی چند بھارگو وزیراعظم پنجاب مشرقی کو بھیجا ہے اور اس کی نقلیں اخبارات کو بھی بھجوائی ہیں۔
صوبہ سرحد کے احمدی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ احمدیوں کو ان کے مذہبی مستقرقادیان سے جبراً نکال دیا جائے اور ہندوستانی فوجوں کے استعمال سے احمدیوں کو وہاں سے نکال کر ہندوئوں اور سکھوں کو اس بستی کا قبضہ دلایا جائے۔ ہم انسانیت اور انصاف کے نام پر ہندوستانی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ قادیان اور ماحولھا کوفی الفور فرقہ احمدیہ کے حوالے کردیا جائے۔ اگر ہماری یہ استدعا منظوری کا شرف حاصل کرنے سے قاصر رہی تو واضح رہے کہ ہم اپنا سب کچھ قربان کردینے کا تہیہ کرچکے ہیں اور جب تک تمام غلط کاریوں کی تصحیح نہ ہوجائے` ہماری قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔< ۲۰
مشرقی پنجاب کے احمدی قیدیوں کی رہائی
فسادات ۱۹۴۷ء میں مندرجہ ذیل مخلص احمدی قادیان اور اس کے ماحول سے گرفتار کئے گئے تھے۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت چودھری فتح محمد سیمال ایم۔ اے )ممبر پنجاب اسمبلی`( میجر چودھری شریف احمد صاحب باجوہ بی۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی` مکرم مولوی احمد خاں صاحب نسیم )سابق مبلغ اسلام برما`( مکرم چودھری عبدالعزیز صاحب )محتسب امور عامہ`( مکرم چودھری علی اکبر صاحب )رئیس ماڑی بچیاں( مکرم چودھری محمد عبداللہ صاحب کوٹلہ صوبا سنگھ` ڈاکٹر سلطان علی صاحب آف ماڑی بچیاں ۔ وغیرہ
ان احباب کو گورداسپور اور جالندھر جیل میں قیدوبند کے انسانیت سوز مظالم بردداشت کرنے پڑے۔ افسران جیل کا ارادہ انہیں مراد دینے کا تھا اور اس غرض کے لئے سکھ بھی مقرر کئے جاچکے تھے مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک طرف حضرت امیرالمومنین مصلح موعود کو خواب میں دکھایا گیا کہ >سیدولی اللہ شاہ صاحب آئے ہیں اور میرے پاس آکر ساتھ بیٹھ گئے ہیں<۲۱ دوسری طرف خود حضرت سیدزین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور دوسرے اصحاب کو عالم رویاء میں رہائی کی بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ ان مبشر خوابوں کے عین مطابق یہ حضرت بین الملکیتی معاہدہ کی بناء پر ۸ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو جالندھر جیل سے لاہور کی سنٹرل جیل میں منتقل کئے گئے۔۲۲ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال لاہور پہنچتے ہی اور دوسرے حضرات ۱۰ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ضمانت پر رہا کر دیئے گئے۔
احمدی اسیران کال کوٹھریوں اور آہنی سلاخوں میں بھی پوری جرات اور مومنانہ شان سے تبلیغ حق میں برابر مصروف رہے اور ۵۴ نفوس۲۳ کو حلقہ بگوش احمدیت کرنے کا موجب بنے جس میں سے ۳۶ نئے احمدی بھائیوں کی رہائی ۱۰ شہادت/اپریل ہی کو عمل میں آگئی۔۲۴ احمدی قیدیوں کے اعزاز میں نہ صرف پاکستان میں پر مسرت تقاریب منعقد کی گئیں۲۵ بلکہ ۲۳ ماہ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو قادیان کے درویشوں نے بھی بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔۲۶
چودھری محمد ظفراللہ خان وزیرخارجہ کی مسئلہ فلسطین سے متعلق خدمات کا ذکر پاکستانی پریس میں
چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے اس زمانہ میں مسلمانان فلسطین کی حمایت میں جو عظیم الشان کارنامے انجام دیئے ان کی دھوم سارے عالم اسلام میں مچی ہوئی تھی۔ اس تعلق
میں پاکستانی پریس کی چند خبریں بطور نمونہ ملاخطہ ہوں۔
۱۔
>سر ظفراللہ کی روانگی نے عربوں کو ایک قابل قدر بیش قیمت امداد سے محروم کردیا۔
لندن )۹ مئی( اسٹار کا خصوصی نامہ نگار مقیم لیک سیکسیس رقم طراز ہے کہ سرظفراللہ خاں کی روانگی نے عرب وفود کو ایک بیش قیمت امداد سے محروم کردیا ہے جو کہ وہ ان سے فلسطین کے مسئلہ پر اب تک حاصل کررہے تھے۔
جس عزت کی نگاہ سے پاکستان کے وزیرخارجہ کو عرب وفود یہاں دیکھتے تھے اس کا مظاہرہ یہاں اس طرح ہوا کہ تمام کے تمام عرب وفود سرظفراللہ خاں کو الوادع کہنے کے لئے گارڈیا کے ہوائی مستقر پر پہنچے۔ یہ محض تواضع نہیں تھی بلکہ اپنے اپنے محسن کے لئے ہدیہ شکرانہ تھا۔ عرب آپ کی امداد سے محروم ہوجائیں گی لیکن وہ ان نازک دنوں میں آپ کی امداد کی بہت ہی شکر گزار ہیں۔ اب وہ اس موجودہ اجلاس کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں کیونکہ انتداب کا خاتمہ ہونے والا ہے۔<۲۷
۲۔
>لندن یکم جون )اسٹار( لبنانی سفیر ڈاکٹر وکٹرخوری نے لیک سیکس سے واپسی پر مجلس اقوام میں عرب مقاصد سے پاکستان کی ہم آہنگی پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اور کہا۔ چودھری طفراللہ خاں ایک بیش قیمت اور قابل ساتھی ہیں۔<۲۸
۴۔
>پیرس )سٹارنیوز ایجنسی( ۲۰ ستمبر
پاکستان کی وزیرخارجہ چودھری سرمحمد ظفراللہ خاں کا نام یہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے لئے بہت زور دار طریقے سے لیا جارہا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں اس قدر شہرت حاصل کی ہے کہ ان کا درجہ دنیا کے بہترین پارلیمنٹری سیاست دانوں میں قائم ہوگیا ہے۔ لیگ آف نیشن میں ان کے تجربے کا بھی بہت سے لوگوں کو احساس ہے۔
ان کے سب سے زیادہ حامی عرب اقوام کے وفود ہیں۔ وہ ان کے لئے اپنے تمام ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیگر ممالک کے ووٹ بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ خاص طور پر لاطنی امریکہ کے ممالک کے ووٹ حاصل کئے جائیں گے۔<۲۹
حضرت مصلح موعود کا اہم پیغام فلسطینی احمدیوں کا نام
حضرت مصلح موعود نے ۱۵ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو رتن باغ کے مشاورتی اجلاس میں ارشاد فرمایا کہ
>شام والوں کو لکھا جائے کہ کسی نہ کسی طرح کبابیروابوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کیا بیرکی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں۔<۳۰
‏sub] ga[tمجالس خدام الاحمدیہ پاکستان کی رتن باغ میں اہم شوریٰ
۱۳ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو رتن باغ لاہور میں مجالس کی بیداری اور تنظیم نو سے متعلق متعدد بنیادی مسائل پر غوروفکر کے لئے ایک اہم شوریٰ کا انعقاد ہوا۔ اس موقعہ پر جہاد کشمیر کے لئے احمدی رضا کاروں کی بھاری تعداد مہیا کرنے کا معاملہ خاص طور پر زیر غور آیا۔ شوریٰ کی صدارت صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے فرمائی۔
ذیل میں اجلاس کی وہ رپورٹ درج کی جاتی ہے جو اگلے روز معتمد مجلس نے ۱۴ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کی-
>حضور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مجالس خدام الاحمدیہ اور نوجوانوں کی تنظیم کے لئی مجالس خدام الاحمدیہ کی مجلس شوریٰ مورخہ ۱۳ احسان ۱۳۲۷ہش کو رکھی تھی اور جس جگہ ابھی تک باقاعدہ مجلس قائم نہیں ہوئی تھی وہاں کے پریذیڈنٹ صاحبان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ ایک مستعد نوجوان نمائندہ بھجوائیں۔
اس تجویز کے ماتحت تمام مجالس اور تمام جماعتوں کو خطوط کے ذریعہ اطلاع دی گئی۔ پھر اس کے بعد یاد دہانی کرائی گئی۔ کل مورخہ ۱۳ احسان کو پروگرام کے مطابق یہ شوریٰ منعقد ہوئی۔ جس میں شامل ہونے والے نمائندگان کی تعداد ایک سو نوے تھی۔ اس میں مرکزی عہدیدار اور مجلس خدام الاحمدیہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
سب سے پہلے صبح سات بجے نمائندگان کو فوجی پریڈ دکھائی گئی۔ اس دوران میں ہوائی حملہ کرنے` اس سے محفوظ رہنے` دستوں کی آپس میں جھڑپ وغیرہ کا عملی مظاہرہ کیاگیا۔
آٹھ بجے کوٹھی رتن باغ کے ہال میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمد صاحب صدر مجلس` شوریٰ کی کارروائی شروع ہوئی۔ تلاوت کے بعد خدام نے اپنا عہد دہرایا اور اس کے ساتھ ہی صدر محترم نے قادیان کی واپسی کے حصول کے لئے حضور کا تجویز فرمودہ عہد جو گزشتہ مشاورت پر حضور نے نمائندگان سے لیا تھا` دہرایا۔ یہ عہد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے بڑے سائز پر پہلے سے چھپوا کر رکھا تھا جو اس وقت نمائندگان میں تقسیم کیاگیا۔
اس کے بعد صدر محترم نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس شوریٰ کے انعقاد کی غرض بیان فرمائی اور فرقان فوج کے اجراء کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ ایک ہزار نوجوان ہم نے ۲۱ جون تک مہیا کرنا ہے۔ چنانچہ صدر محترم نے ضلعوار نمائندگان سے والنیٹرز بھیجنے کے وعدے لئے۔
مکرمی ملک عبدالرحمن صاحب خادم پلیڈر گجرات نے بھی اس کی ضرورت کو تفصیل سے بیان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کو جہاد کرنا پڑے گا بلکہ بعض الہامات میں تو جہاد کے الفاظ موجود ہیں۔
ملک صاحب کی تقریر کے بعد صدر محترم نے رضا کار مہیا کرنے کے لئے ضلعوار قائدین کا تقریر فرمایا اور ان سے وعدے لئے کہ وہ ۲۱ جون ۱۹۴۸ء تک اپنے رضا کار رتن باغ میں پہنچا دیں گے۔ اس وقت جو وعدے موصول ہوئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
‏]ni [tagضلع سیالکوٹ
۲۵۰
صوبہ سرحد
۴۰
ضلع جہلم
۵۰
ضلع گوجرانوالہ
۶۰
ضلع لائل پور
۱۵۰
ضلع راولپنڈی
۱۰۰
ضلع شیخوپورہ
۶۵
ضلع لاہور
۵۰
ضلع گجرات
۱۰۰
ضلع سرگودھا
۱۰۰
میزان
۹۶۵
صوبہ سندھ` بلوچستان` ضلع منٹگمری` ضلع جھنگ کی طرف سے ابھی تک تحریری وعدہ نہیں آیا۔ ان سب کو خطوط لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل امور فرقان فوج کے سلسلہ میں منظور ہوئے۔
۱۔
ہر مجلس اپنے خدام کا ۲۔۱۔۱۲ فیصدی حصہ ہر سہ ماہی پر بھجوائے۔
۲۔
یہ خدام کم از کم تین ماہ کی تربیت کے لئے آئیں گے سوائے اس کے کہ مرکز بعض دوستوں کی مجبوری کو دیکھ کر اس سے کم عرصہ کی اجازت دے دے۔
۳۔
تمام مجلس پندرہ دن کے اندر اندر احزاب کی فہرستیں بھجوائیں۔
۴۔
عرصہ تربیت میں تربیت خدام وقارعمل سے مستثنیٰ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عہدو دعا کے بعد پونے دو بجے بعد دوپہر یہ اجلاس ختم ہوا۔<
چودھری عبدالسلام صاحب کی شاندار کامیابی
اس سال ضلع جھنگ کے مخلص احمدی نوجوان چودھری عبدالسلام صاحب نے ریاضی کے امتحان میں کیمبرج یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ برصغیر پاک و ہند میں بہت ہی کم لوگوں کو اس سے قبل یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ۳۱
مجاہد امریکہ مرزا منوراحمد صاحب کا وصال
حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب` حضرت مولوی عبیداللہ صاحب` مولوی رفیق احمد صاحب اور مولوی محمد دین صاحب قبل ازیں میدان تبلیغ میں جام موت نوش کرکے درجہ شہادت حاصل کرچکے تھے۔ اس سال منھم من قضی نحبہ کے اس پاک گروہ میں مجاہد امریکہ مرزا منوراحمد صاحب بھی شامل ہوگئے۔ اور اپنی زندگی کی قربانی اور اپنے عمل سے سلسلہ کی سچائی نمایاں کردی اور ہمیشہ کے لئے مشعل راہ بن گئے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی تربتوں پر اپنے فضلوں کی بارشیں نازل فرمائے۔ آمین۔
مرزا منوراحمد صاحب مرحوم ماہ ظہور/اگست ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء کے آخر میں امریکہ تشریف لے گئے تھے شکاگو میں کوئی ایک مہینہ قیام کے بعد آپ پٹس برگ کے حلقہ میں متعین کئے گئے۔ ابتداء میں یہ حلقہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر بالٹی مور سے لے کرڈیٹن تک پھیلا ہوا تھا جس میں کلیولینڈ اور مینگس ٹائون بھی شامل تھے ان سب احمدی جماعتوں کے دلوں میں آپ نے اپنی خلقی` سادگی اور محبت کی بناہ پر ایک خاص مقام پیدا کرلیا تھا۔ دو سال کے مختصر سے عرصہ کے اندر اندر آپ نے اپنی شب و روز والہانہ جدوجہد سے پٹس برگ کے احمدیوں میں زبردست حرکت پیدا کردی اور یہ حلقہ امریکہ مشن میں ایک ممتاز حیثیت اختیار کرگیا تھا حتی کہ شکاگو کی مقامی جماعت نے بھی آپ کو اپنے یہاں تقریر کی دعوت دی کہ ان میں وہ روح پیدا کریں جو انہوں نے پٹس برگ کی جماعت میں پیدا کردی ہے۔
مرزا منور احمد صاحب نہایت وجیہہ صورت` بلند قامت اور اعلیٰ درجہ کے صحتمند نوجوان تھے۔ مگر آپ کی دیوانہ وار کوششیں صحت پر تشویشناک حد تک اثر انداز ہوئیں اور آپ ٹیومر کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے جس کا اپریشن ۱۴ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ایک مقامی ہسپتال میں کیا گیا۔ چونکہ جسم پہلے ہی نڈھال ہوچکا تھا اور ٹیومر کا زہر انٹریوں میں پوری طرح سرایت کرچکا تھا اس لئے اپریشن کے بعد کمزوری انتہاء تک پہنچ گئی اور دوسرے ہی روز دین مصطفٰے کے اس انتھک بہادر اور جانباز سپاہی کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے مرحوم کی وفات پر اپنے ایک مفصل مضمون میں آپ کی نسبت تحریر فرمیا کہ۔
>عزیز مرزا منوراحمد مرحوم کو میں بچپن سے جانتا تھا۔ اس لئے بھی کہ وہ ہمارے قریبی عزیزوں میں سے تھے یعنی ہماری ممانی صاحبہ۳۲ کے بھائی اور ہماری ایک بھاوجہ صاحبہ۳۳ کے ماموں تھے اور اس لئے بھی کہ مرحوم کا بچپن سے میرے ساتھ خاص تعلق تھا۔ پس میں یہ بات بغیر کسی مبالغہ کے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم ایک بہت مخلص اور نیک اور ہونہار اور محبت کرنے والا اور جذبہ خدمت و قربانیس ے معمور نوجوان تھا۔ دن ہو یا رات` دھوپ ہو یا بارش` جب بھی انہیں کوئی ڈیوٹی سپرد کی جاتی تھی وہ کمال مستعدی اور اخلاص کے ساتھ اس ڈیوٹی کو سرانجام دینے کے لئے لبیک لبیک کہتے ہوئے آگے آجاتے تھے اور پھر اپنے مفوضہ کام کو اس درجہ توجہ اور سمجھ کے ساتھ سرانجام دیتے تھے کہ دل خوش ہوجاتا تھا اور زبان سے بے اختیار دعا نکلتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی نیکی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زندگی وقف کرنے اور پھر بلادامریکہ میں وطن سے بارہ ہزار میل دور جاکر فریضہ تبلیغ بجا لانے کی سعاد عطا کی۔ موت تو ہر انسان کے لئے مقدر ہے مگر مبارک ہے وہ نوجوا جسے یہ سعادت کی زندگی عطا ہوئی اور مبارک ہیں وہ والدین۳۴ جنہیں خدا نے ایسا نیک اور خادم دین بچہ عطا کیا۔<۳۵
خود حضرت سیدنا المصلح الموعود نے ۲۴ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
>مرزا منور احمد صاحب جو امریکہ کے مبلغ تھے میری ایک بیوی ام متین کے ماموں` میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کے سالے اور نہایت مخلص نوجوان تھے۔ ان کے معدہ میں رسولی ہوئی اور وہ فوت ہوگئے۔ ویسے تو ہر ایک کو موت آتی ہے لیکن اس طرح کی موت گو ایک طرف قوم کے لئے فخر کا موجب ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس کا افسوس بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو پندرہ بیس سال میں تیار کیا جائے اور وہ جوانی کی حالت میں فوت ہوجائے۔
مرزا منور احمد صاحب کا کام نہایت اعلیٰ درجہ کا کام تھا اور امریکہ کی جماعتوں میں اہی کی جماعت کو ان سے زیادہ محبت تھی۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ کی جماعتوں کی جو کانفرنس۳۶ ہوئی ہے اس میں بھی یہ تسلیم کیا گیا کہ وہ علاقہ جس میں مرزا منور احمد صاحب مبلغ تھے دوسرے علاقہ کی جماعتوں سے دینی کاموں میں بڑھ گیا ہے۔ پھر ان لوگوں نے اپنی محبت کا بھی ثبوت دیا۔ جب ڈاکٹروں نے جسم میں خون داخل کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے علاقہ کے نومسلموں میں سے عورتوں اور مردوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا خون پیش کردیا اور چونکہ ان کی ٹائپ کا خون نہیں ملتا تھا اس لئے جس نومسلم کو یہ معلوم ہوجاتا کہ میرا خون مرزا منور احمد کے خون کے مشابہ ہے تو وہ بے انتہا خوش ہوتا اور فخر کرتا کہ میرا خون ان کے خون سے ملتا ہے۔ جب مرحوم کے جسم میں خون کے داخل کرنے کی زیادہ ضرورت پیش آگئی اور ان کے خون کی ٹائپ کا اور خون نہ ملا تو ڈاکٹروں نے کہا آپ لوگ اپنا خون دے دیں ہم اپنے پاس سے ان کے ٹائپ کا خون استعمال کریں گے اور آپ کا خون آیندہ کے لئے رکھ لیں گے۔ اس پر ان سب نے اپنا خون پیش کردیا۔ یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کی جماعت اخلاص میں ترقی کررہی ہے اور یہ مرحوم کے نیک نمونہ کا زبردست ثبوت ہے۔<۳۷
سربایا میں پاکستان لیگ کا قیام
۱۹۴۸ء میں پاکستان کا خیرسگالی مشن انڈونیشیا آیا اور ملک کے ہر بڑے شہر میں پاکستان لیگ قائم ہوئی۔ سربایا )مشرقی جاوا( میں احمدی ڈاکٹر محمد عبدالغفور صاحب کو )جو دوسال سے مسلم ایسوسی ایشن کی صدارت کے بھی فرائض بجا لارہے تھے( لیگ کا بھی صدر مقرر کیا گیا ۱۹۵۱ء میں انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانہ کھل گیا اور اس کے پہلے سفیر جناب عمرحیات ملک صاحب مقرر ہوئے اور پاکستان لیگ سربایا سفارت خانہ پاکستان کے زیر سایہ نہایت کامیابی اور خوبی کے ساتھ چلتی رہی اور اسلام اور پاکستان کی شاندار خدمات میں سرگرم عمل رہی جس پر حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب )وزیرخارجہ پاکستان( ملک عمرحیات صاحب )سفیر پاکستان( اور عبدالرحمن خاں صاحب )سفیر پاکستان( نے ڈاکٹر صاحب کو خوشنودی کے خطوط تحریر فرمائے جن کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔۳۸
‏PAKISTAN OF EMBASSY
‏DJAKARTA
‏15,1951 September
‏Ghafoor,AJ/8/51 Abdul ۔Mr dear My
‏ on and letter your receive to delighted was I expressed sentiment kind the for you to obliged and yur that know to gratifying is It ۔therein do to prepared are Surabaya in colleagues your and prestige the maintain to possible everything۔Islam dna Pakistan of honour
‏ you thank to opportunity this taking am I ۔2 visit my make to did you all for sincerely most that say not need I ۔success a such Surabaya to know to happy a and visit my enjoyed thoroughly I accept Kindly ۔thereof results benofical the of other your to same the convoy and thanks my۔tirelessly and keenly so worked who colleagues
‏regards, Kindest With
‏sincerely Yours
‏Malik) ۔H۔(C
‏Ghafoor, Abdul ۔M ۔Mr
‏,ytinummco Pakistan of Head
‏29, Baliwerti
۔Surabaya
‏AFFAIRS FOREIGN OF MINISTRY
&
‏RRELATIONS COMMONWEALTH
‏KARACHI
‏Road, Cliften 5,
۔1954 4, February
‏Sir, Dear
‏ very your for thanks sincere my accept Please appreciate I which January 23rd of letter kind۔much very
‏ the in efforts your of learn to glad very am I your for pray I ۔Pakistan and Islam of service۔success
‏wish, good every With
‏eng2] gsincerely,[ta Yours
,۔Head Ghafoor, Abdul ۔Mohd
3048, ۔S ۔Telp 29, Baliwerti
۔Indoesia
‏PAKISTAN OF EMBASSY
‏INDONESIA DJAKARTA
۔1959 February
‏Ghafoor, Abdul ۔Mr dear My
‏ after INDONESIA leaving be will I that How to like would I office of tour my finishing assistance and cooperation the all for you thak to time from you from received Embassy this you work good the much very appreciate I ۔emit noticed also I ۔PAKISTAN for doing been have are you relations good the pleasure with are who Indonesians the with maintaining ۔work good this continue Please ۔brothers our۔future happy very all you wish I
‏ and courtesy same the show will you hope I have you which successor my to consideration in stay my durin me to extended kindly so۔country this
‏sincerely Yours
‏KHAN) RAHMAN (ABDUR
‏Ambassador
‏Ghafoor, Abdul ۔Mr
‏29, Baliwerti nalaDj
۔SURABAYA
انڈونیشیا کے دو مخلص احمدیوں کا انتقال
اس سال محمد یوسف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پاڈانگ اور امیر کوئما جیسے سلسلہ احمدیہ کے فدائی اور شیدائی داغ مفارقت دے گئے۔ امیر کوئما عابد زائد بزرگ تھے جو میدان کے ابتدائی مشہور مباحثات )منعقد ۱۹۳۴ء( کے بعد مولوی ابوبکر صاحب سماٹری اور مولوی محمد صادق کی تبلیغ سے اپنے پیر طرف طریقت صوفی شیخ کامن سمیت احمدیت میں داخل ہوئے اور احمدیت کی خاطر ہمیشہ نہایت بشاشت سے مصیبتیں برداشت کرتے رہے۔ ایک دفعہ تین مخالفوں نے آپ پر ڈنڈے سے حملہ کر دیا۔ انہوں نے کمال بہادری سے تینوں کا ایسا کامیاب مقابلہ کیا کہ صبح ان میں سے دو کے منہ چوٹوں کی وجہ سے سوج گئے تھے اور شکلیں بھیانک سی بنی ہوئی تھیں۔ مولوی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ >امیر کوئما لڑائی کے بعد کہہ رہے تھے کہ مومن بہادر ہوتا ہے اور خدا اس کا مددگار ہوتا ہے۔ ان کا چہرہ نہایت روشن تھا اور بہادر اور شجاعت کی وجہ سے وہ بڑے ہشاس بشاش نظر آتے تھے اور انہیں نہ پہلے کبھی خوف لاحق ہوا اور نہ اس واقعہ کے بعد ہی میں نے خوف وہراس کے آثار ان میں دیکھئے۔<
امیر کوئما صاحب کو یہ فخر بھی حاصل تھا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہ کے قلمی جہاد میں نمایاں حصہ لیا۔ چنانچہ وہ بعض اوقات ساری ساری رات مکرم مولوی محمد صادق صاحب کی تصانیف پر نظرثانی کرنے اور اسے ٹائپ کرنے میں منہمک رہتے تھے اور مسلسل اور لگاتار محنت کے باروجود تکان کا حرف تک زبان پر نہیں لاتے تھے۔
جنگ عظیم کے دوران جبکہ جاپانی حکومت انڈونیشیا پر قابض تھی مولوی محمد صادق صاحب نے جاپانی حکومت کو اسلام و احمدیت کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے ایک مفصل تبلیغی خط لکھا تھا۔ اس مضمون پر مولوی صاحب اور امیر کوئما نے ایک ساتھ دستخط کئے اور مضمون مغربی سماٹرا کے گورنر کی خدمت میں خود جاکر پیش کیا۔۳۹
دمشق کے ایک مخلص احمدی کا انتقال
السید مصطفٰے نویلاتی جو جماعت احمدیہ دمشق کے ایک نہایت مخلص دوست تھے اور حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس مجاہد بلادعربیہ کے ذریعہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے تھے۔ ۱۰۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو رحلت فرما گئے۔۴۰
احمدنگر میں سیدنا حضرت امیرالمومنین کی تشریف آوری
۲۹ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو حضرت مصلح موعود بذریعہ موٹر ربوہ سے احمدنگر تشریف لائے۔ حضور کے ہمراہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے نسبتی بھائی الاستاذ احمد آفندی فالق الدمشقی` مولانا عبدالرحیم صاحب رود اور ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی تھے۔
حضور نے یہاں پہنچتے ہی سب سے پہلے جامعہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء و اساتذہ سے ایک ایمان افروز خطاب فرمایا اور انہیں بتایا کہ >تم لوگ ہراول دستہ کے طور پر آئے ہو اور تم لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہیں۔ حضرت اسمعیلؑ کی اس اولاد کی طرح ہو جنہوں نے وادی غیرذی زرع میں بستی کو آباد کیا تھا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ تعلیم الاسلام کالج کو تو لاہور میں جگہ مل گئی اور ہائی سکول کو چنیوٹ میں مکان مل گیا۔ لیکن مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کو یہاں احمدنگر میں جگہ ملی جو ربوہ کا ہی حصہ ہے بلکہ یہ خدائی منشاء کے ماتحت ہے۔
حضور نے اپنے قلم سے جامعہ احمدیہ کے رجسٹر پر مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔ >میں وہی کہتا ہوں جو رسول کریم~صل۱~ نے جنگ احد کے موقعہ پر فرمایا اللہ اعلیٰ واجل<
ازاں بعد حضور نے احمدنگر کی زیر تعمیر احمدیہ مسجد میں مغرب کی نماز پڑھا کر اس کا گویا افتتاح کرادیا۔۴۱ اس مسجد کا سنگ بنیاد دو ماہ قبل مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ و پریذیڈنٹ احمدنگر نے ۱۷ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء بروز جمعہ المبارک رکھا تھا۔ یہ احمدنگر کی پہلی احمدیہ مسجد ہے مشرقی پنجاب کے پناہ گزین احمدیوں کے ہاتھوں تعمیر ہوئی۔۴۲
بیرونی مشنوں کی سرگرمیاں
‏0] [ff
فلسطین مشن-:
یہ سال احمدیہ مشن فلسطین کی تاریخ میں انتہائی پرفتن اور پر ابتلاء تھا۔ ارض مقدس میں بڑی بڑی طاقتوں کی سازش نے مسلمانان فلسطین کے سینے میں اسرائیلی حکومت کا خنجر گھونپ دیا اور اس علاقہ میں مشرقی پنجاب جیسے حالات پیدا ہوگئے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ فلسطین کی توفیق بخشی کہ اس نے نہایت جانبازی اور سرفروشی کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کا جھنڈا اس علاقہ میں بلند رکھا اور اس کے مرکز حیفہ کی مسجد میں پنجوقتہ اذانوں کی گونج سنائی دیتی رہیں۔ چنانچہ مولوی محمد شریف صاحب انچارج مشن نے مشن کی ۴۹۔۱۹۴۷ء کی رپورٹ میں لکھا۔
>مارچ ۱۹۴۸ء سے ستمبر ۱۹۴۸ء تک یہاں قیامت برپا رہیں۔ آج یہاں کے دس لاکھ مسلمان عربوں میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ مسلمان عرب جلاوطن اور بے خانماں ہوکر پڑوس ممالک میں پناہ گزین و خیمہ زن ہیں اور عیسائی دنیا کی خیرات اور اسلامی ممالک کے صدقات پر بساوقات کررہے ہیں۔
جولائی سے نومبر تک یہودیوں نے جلیل و نقب میں بالائی ہدایتوں کے مطابق جنگ جاری رکھی۔ اور اس وقت عربی ممالک کی فوجین اپنے اپنے ممالک میں بس چکی ہیں اور سابقہ فلسطین کا ۳/۲ سے زیادہ حصہ یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔
یورپین نما دلائل سے یہاں اسرائیل کی مردم شماری یہودیوں نے ماہ جون ۱۹۴۸ء میں پہلی دفعہ کی۔ اس وقت ملک اسرائیل میں پچیس ہزار کے قریب غیر یہودی تھے۔ جن میں سے دس ہزار کے قریب عرب تھے اور باقی دیگر اجنبی تھے اور یہ اس علاقہ کا حال ہے جہاں نومبر ۱۹۴۸ء میں ساڑھے چار لاکھ عرب رہتے تھے۔
گذشتہ حکومت نے مارچ ۱۹۴۸ء میں یہاں سلسلہ آمدورفت ورسل ورسائل بندکردیا تھا۔ ریلیں بند کردی تھیں اور سب لوگوں کو )سوائے یہودیوں کے کیونکہ ان کی حکومت کے اندر حکومت بن چکی تھی( اپنے اپنے علاقوں اور گھروں میں محصور کردیا تھا۔ ۱۵ مئی سے جب یہودیوں نے حکومت اسرائیل قائم کرنا شروع کردی۔ غیریہودیوں کو جن کا نام موجود ایام میں B کلاس ہے` جنگ کے عذر سے اپنے اپنے جائے رہائش میں بند رکھا اور اب تک پابندی باقی ہے اور B کلاس پر ملٹری رول نافذ ہے۔ اپنے جائے رہائش سے دوسری جگہ جانے کے لئے ملٹری پرمٹ لینے کا حکم ہے۔ پرمٹ دو باتوں کے لئے بعد تحقیقات ملتا ہے۔ کوئی دوسری جگہ ملازمت یا مزدوری کرتا ہو یا قریب ترین خونی رشتہ دار کی ملاقات کے لئے۔
۲۳ اپریل ۱۹۴۸ء کو یہودیوں نے حیفہ فتح کرلیا- ۲۴ اور ۲۵ کو ملحقات حیفہ پر قبضہ کرلیا۔ اس سلسلہ میں ۲۵ تاریخ کو مائونٹ کرمل پر واقعہ عرب آبادی کبابیر کی باری آگئی صبح ہوتے ہی چاروں اطراف سے مسلح فوجوں نے محاصرہ کرلیا اور ہمارے سامنے دو شرطیں پیش ہوئیں۔ ہجرت کرنا چاہیں تو ہتھیار وغیرہ دے کر ہجرت کرجائیں۔ یہاں رہنا چاہیں` تو ہتھیار وغیرہ اور جس قدر سپاہی آپ کے پاس مقیم ہوں وہ ہمارے سپرد کردیں۔ ہم نے ارشاد نبوی من قتل دون مالہ و عرضہ فھوشھید پر عمل کرنے کا عزم کر رکھا تھا۔ سپاہی کوئی ہمارے ہا آیا نہ تھا۔ مغرب تک گوشہ گوشہ کی تلاش و تفتیش کرکے CLEAR ALL دیئے گئے۔
۱۵ اگست ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۴۹ء تک سارے اصلی اسرائیل میں صرف ہماری مسجد سیدنا محمود سے ہی پانچ وقت اذان بلند ہوتی رہی۔ باقی سب مساجد مہجور ہوگئیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے شہر گر گئے اور آبادیاں ویران ہوگئیں۔ ان ایام میں جبکہ ہمارے چاروں طرف گولیاں برستی تھیں اور ہر رات یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ صبح ہم پر طلوع ہوگی یا نہیں` دعوت احمدیت کا کام باوجود محصور ہونے کے جاری رکھا۔
اگرچہ بیرونی دنیا کے ساتھ مارچ ۱۹۴۸ء سے فروری ۱۹۴۹ء تک سلسلہ عام ڈاک منقطع رہا تاہم رسالہ >البشری< باقاعدہ جاری رکھا گیا۔ جن ایام میں سلسلہ ڈاک منقطع تھا۔ بیرونی ممالک کو جس قدر رسالہ بھیجا جاتا تھا وہ محفوظ رکھا جاتا تھا اور مقامی طور پر جس قدر تقسیم کیا جاسکتا تھا` تقسیم کیا جاتا رہا۔
فروری ۱۹۴۹ء میں بہت سے ملکوں کے ساتھ سلسلہ عام ڈاک رواں ہوا۔ مگر تا حال سوائے عدن کے اس ملک کے جملہ اسلامی ممالک سے تعلقات کے منقطع ہونے کے باعچ رسالہ بھیجا نہ جاسکا۔
رسالہ کے ہر نمبر کے مسودہ طبع کرنے سے پہلے ملٹری سنسر کو برائے حصول اجازت طباعت بھیجنا پڑتا ہے اور بعد طباعت بھی اس کی دو کاپیاں ارسال کرنی پڑتی ہیں اور یہی حکم دیگر مطبوعات کا ہے۔
بوقت تحریر ہذا مشرقی افریقہ` جشہ` عدن` مغربی افریقہ` ارجنٹائن اور برازیل کو بھیجا جاتارہا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جس قدر عربی اخبارات ورسائل اس ملک میں شائع ہوتے تھے اب ان میں سے صرف ہمارا رسالہ ہی ہے جو جاری ہے۔ اگرچہ پہلے بھی سارے فلسطین میں سے کوئی بھی اسلامی دینی رسالہ شائع نہیں ہوتا تھا مگر اب تو ہر قسم کے رسائل و اخبارات و کتب پر بھی قیامت برپا ہوچکی ہے۔
اس سلسلہ میں رسالہ البشریٰ کے علاوہ مندرجہ ذیل رسائل واشتہارات بھی شائع کئے گئے۔
۱۔ ھیئہ الامم المتحدہ )قرار تقسیم فلسطین( ایک ہزار شائع کیا۔ یہ اشتہار حضرت اقدس کے مضمون فلسطین کا فیصلہ کا ترجمہ ہے۔ سلسلہ ڈاک کے بند ہونے سے چند روز پیشتر بلاد عربیہ کی احمدی جماعتوں کے علاوہ سب عربی اخبارات کے ایڈیٹروں کو ارسال کردیا گیا۔ فلسطین کے روزنامہ >فلسطین< نے اس پر عمدہ نوٹ لکھا۔ دیگر قریبی اسلامی ممالک سے تو کوئی اطلاع نہ مل سکی۔ سوڈان سے ایک خط کسی کا موصول ہوگیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہاں کے دو اخباروں نے اسے من و ع شائع کیا اور اچھے ریمارکس دیئے۔
۲۔ رسالہ کشف الغطاء عن وجہ شریعہ البھاء۔ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ حجم ۲۴ صفحات۔ بہائیت کی مختصر تاریخ درج کرنے کے بعد بالمقال دو کالموں میں اسلام کی تعلیم قرآن مجید سے اور بہائیت کی تعلیم کتاب اقدس سے درج کی گئی۔ اس رسالہ کے شروع میں حضرت اقدس کا چیلنج بنام زعیم بہائیت بھی درج کیا گیا۔ کہ دعا کے ذریعہ دونوں مذہبوں اسلام اور بہائیت کی حقانیت کسی آسمانی نشان سے ثابت کریں۔ اور یہ رسالہ بذریعہ رجسٹری دو مرتبہ زعیم بھائیت مسٹر شوقی کو ارسال کیا گیا۔
اس رسالہ کی اشاعت پر ۹ ماہ گزرنے پر اور زعیم بہائیت کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر ایک اور اشتہار چار اتمام الحجہ علی زعیم البھائیت شائع کیا گیا۔ مگر دوبار چیلنج کے باوجود وہ خاموش رہے۔ الاستاذ السید نورالدین سابق انسپکٹر مدارس جلیل ہمارے دارالتبلیغ میں آئے اور ہمارے رسالہ کشف الغطاء اور چیلنج کی تعریف کی۔ انہوں نے پوچھا` کوئی جواب آیا۔ میں نے کہا۔ نہیں۔ کہنے لگے۔ جزاک اللہ خیرا انی اعرفہ انہ جاھل لن یتکلم ابدا۔
جنگ عظمیٰ ثانیہ کے شروع میں حضور نے اس منشاء کا اظہار فرمایا کہ حملمتہ البشریٰ کی اشاعت کی جائے چنانچہ اس کے شائع کرنے کی توفیق ملی۔
زائرین مشن کی تعداد تقریباً تین سو ہے جو سب کے سب الا ماشاء اللہ یہودی تھے۔ یہودیوں کے ساتھ عام طور پر مثیل موسیٰ کی پیشگوئی زیربحث رکھی جاتی رہی مگر یہودی آجکل اپنی عارضی فتح کے نشہ میں سرشار ہیں اور ان کی طبائع بھی سیاسیات کی طرف مائل ہیں۔
جائے رہائش میں محصور ہونے اور سارے ملک میں قیامت برپا ہونے کے ایام میں کسی بیعت کی امید رکھنا بہت بڑی امید ہے۔ مگر تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ۹ اشخاص کو حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی توفیق بخشی۔
تحریک جدید کے چودھویں سال میں شامل ہونے کے لئے بھی احباب حیفا کی دعوت دی گئی۔ ابھی جماعت حیفا شہر کے سب احباب کی فہرست بھی مکمل نہ ہوسکی تھی کہ حیفا میں عربوں کو شکست ہوگئی اور ہمارے احمدی احباب حیفا سے ہجرت کرگئے۔ بہت لمبے عرصہ کے بعد معلوم ہوا کہ سب احباب سوائے ایک احمدی دوست السید محمد سعید کے جو راستہ میں فوت ہوئے` بخیریت دوسرے ملکوں میں پہنچ گئے۔ اس لئے جماعت کبابیر ہی جو حیفا شہر کا ہی ایک حصہ اور جبل کرمل پر واقع ہے` اس میں شریک ہوسکی اور چودھویں سال کے حساب میں ان کی طرف سے 96/14/ L وصول ہوئے۔
اواخر ۱۹۴۸ء میں قادیان کی حفاظت کے لئے بھی یہاں میں نے جماعت کو دعوت دی تھی جس پر جماعت کبابیر کی طرف سے ۱۵۹ پونڈ ۱۰ شلنگ جمع ہوئے۔< ۴۳
مجاہد اردن کا دورہ شام و لبنان
ماہ ظہور` تبوک و اخاء ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں مجاہد شرق الاردن مولوی رشیداحمد صاحب چغتائی نے شام و لبنان کا ایک کامیاب تبلیغی دورہ کیا۔ جس میں انہوں نے فلسطین کے احمدی پناہ گزینوں کو تلاش کرکے ان کو منظم کرنے کی کوشش کی اور علاوہ تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کے ان ممالک کی بعض اہم اور ممتاز شخصیتوں سے ملاقات بھی کی۔ مثلاً السید شکری بک قومی )صدر جمہوریہ شام`( الشیخ عبدالقادر المغربی )رکن مجمع العلمی العربی` الاستاذ خلیل مردم بے رئیس المجمع( خلیل مردم بے سابق وزیراعظم شام` مسٹر جبریل مر )وزیرداخلہ و قائم مقام وزیراعظم جمہوریہ لبنان۔ شام و لبنان کے پریس اور ریڈیو نے اس دورہ میں خاصی دلچسپی لی۔۴۴ عمان کے اخبار >وکالہ الانباء العربیہ< نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں آپ کی ارد میں واپسی کی خبر شائع کی۔
سیرالیون مشن-:
ماسٹر محمد ابراہیم صاحب مجاہد اٹلی حضرت مصلح موعود کے حکم سے ۳۔ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو فری ٹائون میں وارد ہوئے۔۴۵ اور نہ صرف احمدیہ سکول کی نگرانی` اساتذہ کی راہ نمائی` مشن کی خط و کتابت اور ریکارڈ کی درستی وغیرہ میں مبلغ انچارج کا ہاتھ بٹانا شروع کیا بلکہ لٹریچر اور ملاقاتوں کے ذریعہ تبلیغ کو وسیع سے وسیع تر کرنے لگے۔ جس پر حضرت مصلح موعود نے ۲۲ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کی مشاورتی مجلس میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ >محمد ابراہیم صاحب نے پراپیگنڈا کا صحیح طریق اختیار کیا ہے۔<۴۶
ماہ امان/مارچ میں امیر صاحب سیرالیون اور خلیل صاحب نے بو سے یتامہ اور لاگو مقامات کا دورہ کیا۔ لاگو میں ۴۰ نفوس کی نئی جماعت قائم ہوئی۔
افریقہ کے مغربی ساحل پر گیمبیا کی ریاست ہے جو سیرالیون سے قریباً چار سو میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس سال ماہ امان/مارچ میں مجاہدین سیرالیون نے گیمبیا کے بعض دوستوں سے خط و کتابت جاری کی۔ لٹریچر بھجوایا اور اس کے مقامی اخبارات میں تبلیغی مضامین شائع کرائے۔ اس طرح اس ریاست میں احمدیہ مشن سیرالیون کے ذریعہ پہلی بار حق و صداقت کی آواز پہنچی۔ ۴۷
نائیجیریا مشن-:
نائیجیریا مشن کے دو ایمان افروز واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۔ وسط ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں ایک عرب نے جو >اہل مدینہ< کے نام سے موسوم تھا لیگوس میں احمدیت کے خلاف زہر اگلا اور مبلغ انچارج نائیجیریا مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی کو لکھا اگر تم کسی اسلامی ملک میں ہوتے تو تمہارا سر قلم کردیا جاتا۔ جناب سیفی صاحب نے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی خدمت میں اس کی اطلاع دی تو حضور نے تحریر فرمایا کہ
اب >۴۸ اس بات پر زور دیں کہ عرب ممالک کی کوشش تو سر ظفراللہ احمدی کو خاص طور پر اپنا نمائندہ مقرر کرنے کی ہے اور ابن سعود کے صاحبزادے ان کو دعوتیں دیتے ہیں۔ شام کی حکومت ان کو سب سے بڑا تمغہ دیتی ہے اور اب بھی ان کو خاص طور پر شام بلوایا گیا ہے اور تم کہتے ہو` اسلامی حکومت ہوتی تو تم کو مارا جاتا۔ لیکن فرض کرو کہ مارا جاتا تو کیا مکہ میں صحابہ کو مارا نہیں جاتا تھا۔ مارا جانا تو اس امر کی علامت ہے کہ دلائل ختم ہو چکے اب ڈنڈے کے زور سے صدقت کا مقابلہ کیا جائے گا۔ مگر اس طرح صداقت نہیں دبا کرتی۔<
>اہل مدینہ< نے جناب نسیم سیفی صاحب کو عربی میں مناظرہ کا چیلنج دیا تھا جو جناب نسیم سیفی صاحب نے منظور بھی کرلیا تھا مگر وہ صاحب پہلو تہی کرتے رہے اور مباحثہ کئے بغیر واپس چل دیئے۔
۲۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ اجے بوڈے کے ایک شخص نے مہدی و مسیح موعود ہونے کا اشتہار دیا اور جناب نسیم سیفی صاحب کو ان کے ایک تبلیغی خط کے جواب میں مناظرہ کی دعوت دی۔ ابھی یہ خط آیا ہی تھا کہ اس شخص پر مقامی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور جرم ثابت ہوجانے پر حفظ امن کی ضمانت طلب کرلی گئی۔۴۹
مشرقی افریقہ مشن-:
اس سال ماہ شہادت/اپریل کے آخر میں مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر اور )مقامی افریقی مبلغ( معلم فضل احمد صاحب کے ذریعہ ایسمبوبے (ASEMBOBAY) میں ۵۴ نفوس پر مشتمل نئی جماعت کا قیام ہوا۔۵۰
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ کی دیرنیہ خواہش تھی کہ ایک لاکھ سواحیلی ٹریکٹ احمدیت و اسلام کی حقانیت اور ابطال عیسائیت پر شائع کرکے مشرقی افریقہ کے کونہ کونہ میں پھیلا دیئے جائیں۔ چنانچہ اس سال یہ خواہش پوری ہوئی اور ماہ نبوت/نومبر میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اور معلم عمری عبیدی صاحب نے دس ٹریکٹ چھپنے کے لئے پریس میں بھجوادیئے۔۵۱
امریکن احمدیوں کی پہلی سالانہ کانفرنس
‏]ttex [tagامریکن احمدی جماعتوں کی پہلی سالانہ کانفرنس ۵ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو بمقام ڈیٹن منعقد ہوئی جس میں شکاگو` پٹس برگ` انڈیانا پولسن` کلیولینڈ` نیگس ٹائون` ڈکائن` ہوم سٹیڈ` نیویارک اور کنسس سٹی کے احباب نے شرکت کی۔۵۲
مجاہدین احمدیت کی آمد اور روانگی
۱۔ مبلغ اسلام صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی امریکہ میں برسوں تک اعلائے کلمتہ الحق کرنے کے بعد ۲۸ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو واپس تشریف لائے۔۵۳
‏]ydob [tag۲۔ مولوی عبدالقادر صاحب ضیغم ۴ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء کو ارجنٹائن مین تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے لئے لاہور سے روانہ ہو۔۵۴
نئی مطبوعات
اس سال مندرجہ ذیل کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے جن سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں قیمتی اضافہ ہوا۔
۱۔
تفسیرکبیر سورہ فاتحہ و سورہ بقرہ ابتدائی ۹ رکوع )حضرت مصلح موعود(
۲۔
>قیام پاکستان اور ہماری ذمہ داریاں< )حضرت مصلح موعود(
۳۔
‏]dni [tag >آخر ہم کیا چاہتے ہیں< )حضرت مصلح موعود(
۴۔
>الکفرملتہ واحدہ< )حضرت مصلح موعود(
۵۔
دیباچہ تفسیرالقرآن )اردو ایڈیشن( )حضرت مصلح موعود(
۶۔
احمدیت کا پیغام )حضرت مصلح موعود(
۷۔
>مظالم قادیان کا خونی روزنامچہ< )حضرت مرزا بشیراحمد صاحب(
۸۔
‏ DIARY QADIAN )حضرت مرزا بشیراحمد صاحب
۹۔
استحکام پاکستان )حضرت مرزا بشیراحمد صاحب(
۱۰۔
اسماء القرآن فی القرآن )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
۱۱۔
قرآنی دعائوں کے اسرار )حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی(
۱۲۔
تبلیغی خط )مولانا جلال الدین صاحب شمس(
فصل چہارم
جرمن مشن کا احیاء
خلافت ثانیہ کا چھتیسوان سال ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء
جرمن مشن جو پہلی بار مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے ذریعہ سے دسمبر ۱۹۲۳ء میں قائم ہوا تھا اور مئی ۱۹۲۴ء سے بند تھا۔ ۵۵ ۲۰ ماہ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو چوہدری عبداللطیف صاحب بی۔ اے واقف زندگی کے ہاتھوں جاری ہوگیا۔ ۵۶
ابتدائی تبلیغی سرگرمیاں
چوہدری صاحب نے ہمبرگ میں اپنا تبلیغی مرکز قائم کیا۔ شروع میں آپ کچھ عرصہ جرمن زبان سیکھتے اور اس دوران میں انگریزی سے کام چلاتے رہے۔ ۲۴ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو آپ نی وسط شہر کی ایک سرکاری عمارت (DEBNICKE) کے وسیع ہال میں پہلا تبلیغی اجلاس میں منعقد کیا- ۵۷ علاوہ ازیں یونیورسل اور ہمبرگ سٹڈی کلب کے زیراہتمام آپ کے لیکچر بھی ہوئے۔۵۸ چوہدری صاحب نے تقریر کے بعد تحریر کی طرف توجہ دی۔ زیورک سے حضرت المصلح الموعود کی تالیف MOHANMAD PROFHET OF TEACHING AND LIFE THE کا جرمن ترجمہ شائع کیا۔۵۹ یہ سلسلہ احمدیہ کی پہلی کتاب تھی جو مشن کے اس دور میں شائع ہوئی۔
جرمنی میں تحریک احمدیت کی داغ بیل
سوئٹزرلینڈ مشن کی مساعی سے بعض جرمن قبل ازیں قبول اسلام کرچکے تھے جن میں سے عبدالکریم ڈنکر نے نمایاں اخلاص کا ثبوت دیا اور وہ مبلغ جرمنی کے دست و بازو بن گئے۔ ۱۸ اخاء/اکتوبر کو مسٹر DUNGER HANS ۶۰ اور ۲۵ نبوت/نومبر کو مسٹر NOWK۔E حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جن کا اسلامی نام بالترتیب عبدالمحید اور عبدالرحیم رکھا گیا۔۶۱ اس طرح پہلے سال ہی ایک مختصر سی جماعت کی داغ بیل پڑگئی۔
مبلغ اسلام کی رہائشی مشکلات
چوہدری صاحب ابتداء میں ایک نومسلم مسٹر کہونے (KUHNE) کے یہاں رہتے تھے۔ مگر اس شخص نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے ملک میں آپ کا رہنا دو بھر کردیا۔ جرمنی جنگ عظیم میں شکست کے بعد ان دنوں غیرمعمولی حالات سے دو چار تھا اور کسی مکان کے میسر آنے کی بظاہر کوئی توقع نہ تھی مگر خدا تعالیٰ نے ایسی تائید و نصرت فرمائی کہ خود جرمنی حکومت نے مبلغ اسلام کے ہمبرگ میں رہائشی حقوق تسلیم کرلئے اور ان کے لئے رہائشی مکان کا بندوبست بھی کردیا۔۶۲
نیورمبرگ میں جماعت کا قیام
اب تک صرف ہمبرگ میں احمدیہ جماعت تھی لیکن ماہ تبلیغ ۱۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء میں اس کا حلقہ نیورمبرگ تک ممتد ہوگیا۔ جہاں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے تین نفوس پر مشتمل ایک نئی جماعت قائم ہوگئی۔۶۳ بعدازاں جناب عمر ہوفر (HOFFER) جرمن نو مسلم دوست وہاں پر آنریری مبلغ متعین ہوئے جو ۱۹۶۸ء تک کمال اخلاص سے یہ خدمات بجالاتے رہے۔
جرمن مستشرق ڈاکٹر ٹلٹاک کے بعض سوالات اور حضرت مصلح موعود کے ایمان افروز جوابات
جرمنی کے ایک مستشرق ڈاکٹر کرٹ ٹلٹاک TILTACK) CURT ۔(DR تحریک احمدیت کے بارہ میں ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ مبلغ جرمنی نے انہیں >احمدیت یعنی حقیقی اسلام<
مطالعہ کے لئے دی جس کی مدد سے انہوں نے خاصہ مواد جمع کرلیا۔ مزید راہنمائی اور وضاحت کے لئے انہوں نے یکم دسمبر ۱۹۵۲ء کو بذریعہ مکتوب یہ چار سوالات حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوائے۔
۱۔ کیوں احمدیہ جماعت حقیقی اسلام ہے؟
۲۔ احمدی لوگ ابراہیمؑ` موسیٰ~ع۱`~ بدھؑ` زرتشتؑ اور مسیحؑ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
۳۔ مذاہب کے لئے احمدیت کیا اہمیت رکھتی ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے وہ نبی نوع انسان کو کیا فائدہ بخشتی ہے؟
۴۔ احمدیت کی تاریخ` تنظیم` اشاعت اور اس کے معتقدوں کی تعداد کیا ہے؟
حضرت مصلح موعود نے ان سوالات کے جواب میں ایک حقیقت افروز مکتوب تحریر فرمایا جس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ` ونصلی علٰے رسول الکریم
مکرمی: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ کا خط مورخہ یکم دسمبر ۵۲ھء ملا۔ آپ کے دریافت کردہ سوالات کے جواب مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا سوال۔ کیوں احمدیہ جماعت حقیقی اسلام ہے؟
جواب۔ احمدیت جماعت کی نسبت جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حقیقی اسلام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اس امر کا مدعی ہے کہ اس کی تعلیم آخری تعلیم ہے۔ جو حصہ اجتہاد کے لئے چھوڑا گیا ہے اس میں ماہرین اسلام کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور جمہور اسلام کو بھی اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن وہ اجتہاد ایسے لوگوں پر نہ حجت ہے اور نہ ان کو پابند کرسکتا ہے جو اس اجتہاد سے متفق نہیں۔ ہر شخص کے سامنے ایسا مسئلہ آجائے گا اگر اس کی عقل تسلیم نہیں کرے گی تو نہیں مانے گا۔ لیکن کچھ حصہ شریعت اسلام کا ایسا ہے جو بطور نص کے آیا ہے یعنی قرآن کریم یا رسول کریم~صل۱~ کی حدیثوں میں اس کو واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق ترجمہ یا تشریح کا تو سوال پیدا ہوسکتا ہے اجتہاد کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسی تعلیم اسلامی نقطہ نگاہ سے غیر متبدل ہے جو ایسی تعلیم کو نہیں مانتا اسے یہ تو حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ قرآن کا ترجمہ غلط کردیا گیا ہے جسے وہ لغت اور صرف ونحو کے قواعد سے ثابت کرسکتا ہے۔ لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ کہے کہ گو مفہوم لفظوں سے یہی نکلتا ہے مگر میں زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس میں فلاں فلاں تبدیلی پسند کرتا ہوں۔
اس تشریح سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کی اس تعلیم کے بموجب اب کوئی نیا مذہب نہیں آسکتا۔ کیونکہ جیسا کہ بتایا گیا ہے اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس کی تعلیم دائمی ہے۔ پس اگر کوئی فرقہ نیا پیدا ہوتا ہے جو پرانے فرقوں سے اختلاف رکھتا ہے اور اس کا اختلاف بہت نمایاں نظر آتا ہے تو پرانے عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان لوگوں نے اسلام سے باہر کوئی نیا مزہب نکالا ہے۔ اسی طرح غیرمسلم لوگوں کو بھی یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہ کوئی نیا مذہب ہے۔ پس اس شبہ کو دور کرنے کے لئے یہ لکھا جاتا ہے` کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ یعنی احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے بلکہ جہاں وہ دوسرے فرقوں سے اختلاف کرتی ہے وہاں وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ یہ اختلاف اسلام سے نہیں ہے بلکہ موجود فرقوں سے ہے۔ اسلام کی صحیح تشریح وہی ہے جو کہ احمدیت پیش کرتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اس کا دعویٰ کہاں تک سچ ہے سو اس سوال کا فیصلہ اسی طرح کیا جائے گا جس طرح ہر سچائی کا کیا جاتا ہے۔ یعنی ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے عقل دی ہے وہ اپنی عقل سے احمدیت کے دلائل کا موزانہ کرے گا اور پھر فیصلہ کرے گا۔ اگر احمدیت جو قرآن کی تشریح پیش کرتی ہے وہ قرآن کریم کی دوسری آیتوں کے مطابق ہے اور لغت عربی اور عربی گرامر دونوں اس کی تصدیق کرتی ہیں یا اسے جائز قرار دیتی ہیں اور عقل بھی اور ضمیر انسانی بھی انہی معنوں کی تصدیق کرتی ہے تو ماننا پڑے گا کہ احمدیت والی تشریح ہی درست ہے دوسری تشریح غلط ہے۔ اور چونکہ وہ تشریح ہے کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے اس لئے اگر وہ تشریح درست ہے تو پھر احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور جو لوگ اس کے خلاف عقیدہ بیان کرتے ہیں وہ درحقیقت اسلام سے دور جاپڑے ہیں اور اپنے خیالات کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہیں۔
دوسرا سوال۔ احمدی لوگ ابراہیمؑ` موسیٰؑ` بدھؑ` زرتشتؑ اور مسیحؑ کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
جواب۔ یہ سوال جو آپ نے کیا ہے یہ بھی اوپر والے سوال کا ایک حصہ ہے۔ اس سوال کے متعلق احمدیت جو تعلیم دیتی ہے وہ اس وقت کے مسلمانوں کے لئے عجوبہ ہے اور وہ اس تعلیم کی وجہ سے بھی احمدیوں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ بتایا جائے گا یہ ان کی غلطی ہے۔ درحقیقت ان کا اپنا عقیدہ اسلام سے خارج ہے۔ جہاں تک ابراہیمؑ موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کا سوال ہے ان کے متعلق سب مسلمان متفق ہیں کیونکہ ان تینوں نبیوں کا نام قرآن کریم میں آیا ہے اور ان کی نبوت کا اقرار کیاگیا ہے۔ حضرت میسحؑ کے متعلق احمدیت کو غیراحمدی مسلمانوں سے اتنا اختلاف ہے کہ احمدی عقیدہ کے مطابق قرآن کریم سے ثابت ہے کہ حضرت عیسٰے علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں )سورہ مائدہ آیت ۱۱۷ و آل عمران آیت ۵۵ و نساء آیت ۱۵۸( لیکن غیراحمدیوں کے نزدیک حضرت مسیحؑ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک زندہ ہیں۔ یہ عقیدہ عیسائیوں والا عقیدہ نہیں کیونکہ عیسائیوں کے نزدیک مسیحؑ صلیب پر چڑھائے گئے اور اس پر فوت ہوگئے اور پھر زندہ کئے گئے۔ مسلمان اس کو نہیں مانتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب مسیح کو صلیب پر چڑھانے کے لئے یہودی اور گورنمنٹ کی پولیس پکڑنے کے لئے گئی تو خدا تعالیٰ نے ان کو آسمان پر اٹھالیا اور یہودا اسکر یوطی کو یا کسی اور یہودی کو )اس میں ان کے اندر اختلافات ہے( مسیحؑ کی شکل دے دی گئی اور پولیس اور یہودیوں نے اس شخص کو مسیح سمجھ کر صلیب پر لٹکادیا اور وہ اس پر مرگیا۔ احمدیہ عقیدہ یہ ہے کہ مسیحؑ صلیب پر لٹکایا گیا لیکن قرآن کریم کے رو سے وہ صلیب پرمرا نہیں اور انجیل کے رو سے وہ صلیب پر سے زندہ اتار لیا گیا جیسا کہ صلیبی واقعات سے اور نیزہ مارنے کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کیونکہ نیزہ مارنے پر سیال خون نکلا ہے۔ مردے میں سے خون نہیں نکلا۔ گو انجیل نے اس کو خون اور پانی کے لفظ سے بیان کیا ہے مگر خون اور پانی الگ الگ تو نکلا نہیں کرتے۔ در حقیقت سیال خون کو ہی خون اور پانی کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے اور یہ ہمیشہ زندوں میں سے نکلا کرتا ہے۔ اسی طرح خود مسیحؑ نے اپنے متلعق جو پیشگوئیاں کی ہیں ان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہی صلیب سے اتارا گیا اور زندہ ہی قبر میں رکھا گیا۔ کیونکہ اس نے اپنے صلیب کے واقعہ کو یونسؑ نبی کے مچھلی کے پیٹ میں جانے والے واقعہ کے مشابہہ قراردیا ہے۔ اور یونسؑ نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ ہی گیا تھا اور زندہ ہی نکلا تھا۔ پس اس پیشگوئی کے مطابق میسحؑ بھی زندہ ہی قبر میں داخل ہوا اور زندہ ہی نکلا۔ اسی طرح صاف لکھا ہے کہ مسیحؑ نے تھوما کو کہا کہ میرے زخموں میں انگلیاں ڈال۔ مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق مسیح کا جسم تو انسان کا جسم تھا وہ آسمان پر نہیں گیا نہ وہ آسمان سے آیا تھا اور صلیب جسم کو دی گئی تھی نہ کہ روح کو۔ پس زخموں کا موجود ہونا اور تھوما سے اس میں انگلیاں ڈلوانا بتاتا ہے کہ مسیح اسی حیثیت سے دنیا میں موجود تھا جس حیثیت سے وہ صلیب سے پہلے تھا۔ صرف صلیب سے رخم اس پر آگئے تھے۔ اسی طرح لکھا ہے کہ مسیحؑ کہتا ہے کہ میں نبی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے آیا ہوں۔ لیکن صلیب سے زندہ اتارا گیا اور پھر گمشدہ بھیڑوں تک جانے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا۔ پس یقیناً وہ صلیب سے زندہ اتارا گیا اور پھر گمشدہ بھیڑوں کی طرف یعنی ایران` افغانستان اور کشمیر کی طرف گیا جیسا کہ تاریخ سے ثابت بھی ہے۔ اس کے متعلق آپ بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب >مسیح ہندوستان میں< پڑھیں یا سلسلہ کے مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس کی کتاب >￿DIE JESUS DID <WHERE دیکھیں۔
بدھ اور زرتشت کے متعلق دوسرے مسلمانوں کا خیال یہی ہے کہ وہ جھوٹے تھے مگر احمدیت کہتی ہے کہ وہ بھی سچے نبی تھے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰے صاف فرماتا ہے وان من امہ الاخلا فیھا نذیر )سورہ فاطر آیت ۲۴( کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں جس میں نبی نہ آئے ہوں۔ یہی عقیدہ عقل کے مطابق ہے اور جب قرآن مانتا ہے کہ کئی قوموں کے نبیوں کا اس نے ذکر نہیں کیا لیکن آئے وہ ضرور ہیں۔ اور جب ہمیں نظرآتا ہے کہ مختلف ملکوں میں ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے اور باوجود اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کے اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ نہیں کیا اور بڑی بڑی جماعتی ان کے ذریعہ قائم ہوئی ہیں حالانکہ بائیبل اور قرآن کے رو سے جھوٹے نبی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ تباہ کئے جاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہ لوگ نبی تھے۔
غیر احمدی کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے نام نہیں لیا۔ ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے قرآن نے نام نہیں لیا اور نہ وہ دنیا کے سارے نبیوں کا نام لے سکتا تھا۔ وہ کوئیSTATISTICS کی کتاب نہیں ہے۔ لیکن جب وہ کہتا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے تو جو لوگ ان قوموں میں ایسے پائے جاتے ہیں جن پر نبیوں کے حالات صادق آتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کی نبوت کا اقرار نہ کریں۔
تیسرا سوال۔ آپ کا یہ ہے کہ مذاہب کے لئے احمدیت کیا اہمیت رکھتی ہے اور سوسل لحاظ سے پولیٹیکل لحاظ سے وہ نبی نوع انسا کو کیا فائدہ بخشتی ہے؟
اس سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے وہ TRUE اسلام ہے اس لئے سوشل اور پولیٹیکل WELFARE کے لحاظ سے جو اسلام دنیا کو فائدہ بخش سکتا ہے وہی فائدہ احمدیت دنیا کو بخشتی ہے۔ PRACTICALLY یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام کی تعلیم ان دونوں امور کے لئے ایک LETTER DEAD کے طور پر ہوچکی تھی۔ مسلمان ایک لمبے عرصہ کی کامیابیوں کے بعد مختلف قسم کی خرابیوں میں مبتلا ہوگئے تھے اور چونکہ وہ مذہبی آدمی تھے ان کی کانشنس ان کو ملزم کرتی رہتی تھی اور کانشنس کے الزام کو انسان زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے ان کے لئے دو ہی رستے کھلے رہ گئے تھے۔ یاتو وہ اپنی بداعمالیوں کو چھوڑ کر صحیح اسلامی تعلیم کی طرف واپس آجاتے تب ان کی کانشنس ان کو الزام دنیا چھوڑ دیتی مگر وہ اتنے سست ہوچکے تھے اور صحیح عمل سے اتنے دور ہوچکے تھے کہ وہ اس بات کو ناممکن پاتے تھے۔ دوسرا رستہ ان کے لئے یہ کھلا تھا کہ وہ مذہب کی تشریح ایسے رنگ میں کردیں کہ وہ ان کی بداعمالیوں کو جائز قرار دے دے اور ان کی موجودہ حالت کو عین مذہبی حالت بنادے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر بھی وہ ضمیر کی ملامت سے بچ جاتے تھے۔ یہ رستہ زیادہ آسان تھا انہوں نے اس رستہ کو قبول کرلیا۔ احمدیت نے آکر پھر صحیح اسلامی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کردی اور ضمیر کو ان قیدوں سے آزاد کردیا جو کہ گزشتہ صدیوں میں اس کے اوپر لگادی گئی تھیں۔ اب وہ پھر زندہ ہوگی اور ادھر اسلام کی تعلیم زندہ ہوگی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ضمیر اور عمل کی وہ جدوجہد جو قوموں کو ہمیشہ راہ راست پر قائم رکھتی ہے احمدیت کی وجہ سے پھر جاری ہوجائے گی اور چونکہ اسلامی تعلیم سوشل اور پولیٹیکل RACE HUMAN THE OF WELFARE کے لحاظ سے نہایت اعلٰے درجہ کی ہے لازماً ایک احمدی اس کی قل کرنے پر مجبور ہوگا اور اسے دیکھ کر دوسرے مسلمانوں کا بھی ایک حصہ۔ پس دنیا میں وہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم پھر قائم ہوجائے گی جس کو اسلام دنیا کے فائدہ کے لئے لایا تھا۔ مثلاً موٹی مثال یہ لیجئے کہ احمدیت کے نزدیک قرآن تعلیم یہ ہے کہ کسی کو کسی عقیدہ کے ماننے پر مجبور نہ کیا جائے اور ہر انسان کو کوئی بات اپے ماں باپ سے سن کر نہیں ماننی چاہئے بلکہ دلیل کے ذریعہ ماننی چاہئے۔ جب مسلمانوں کی فوت عملی مرگئی اور تبلیغ کی مشکلات برداشت کرنے کی طاقت ان میں نہ رہی تو انہوں نے اس اسلامی تعلیم کو بدل کر یہ تعلیم بنائی کہ غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنانا جائز ہے اور اگر کوئی مسلمان اپنا عقیدہ چھوڑ دے تو اس کو قتل کردینا ضروری ہے۔ اس طرح انہوں نے سمجھا کہ ایک طرف تو اسلام بالکل محفوظ ہوگیا اب اس میں سے کوئی شخص باہر نہیں جائے گا۔ دوسری طرف بغیر تبلیع کی مشکلات برداشت کرنے کے ہم کبھی کبھار غیر مسلموں کو مسلمان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اس سے ایک طرف تو مسلمانوں کا مذہب عقل اور محبت کا مذہب نہ رہا بلکہ ڈر اور بیوقوفی کا مذہب ہوگیا۔ دوسری طرف غیر قوموں اور مسلمان کے تعلقات بگڑ گئے۔ اب احمدیت نے اس تعلیم کو درست کیا ہے۔ جب غیر قوموں کو معلوم ہوگا کہ اسلام تبلیغ اور دلائل کے ذریعہ سے سچائی کو پیش کرتا ہے اور تمام اقوام کو اپنا بھائی قرار دیتا ہے تو یقیناً پولیٹیکل تعلقات اور سوشل تعلقات اچھے ہوجائیں گے اور تلوار سے مسلمان بنانے کی بجائے مسلمان تبلیغی جدوجہد کرے گا اور اس میں قربانی اور ایثار اور صبر کا مادہ پیدا ہوگا اور ہر مسلمان جب یہ سمجھے گا کہ میں آزادی سے اپنے متعلق فیصلہ کرسکتا ہوں تو جہاں وہ غیر مذاہب سے متعلق تحقیقات کرے گا وہاں وہ اپنے مذہب کے متعلق بھی تحقیقات کرے گا اور آئندہ وہ ورثہ کا مسلمان بھی ہوگا بلکہ ایک محقق کی حیثیت پیدا کر لے گا اور نہ صرف اس کا اپنا مذہب مضبوط ہوگا بلکہ وہ انسانی سوسائٹی کا نہایت مفید اور کارآمد وجود ہوجائے گا۔
میں اس مضمون کے متعلق زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتا اس لئے کہ میں بتایا چکا ہوں کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ اس بارہ میں جو اسلام کی تعلیم ہے وہی احمدیت کی تعلیم ہے ۔ اگر آپ نے میری کتاب >احمدیت< دیکھی ہے تو آپ ان دونوں امور کے متعلق جو اسلام کی تعلیم اس میں لکھی ہے اسے دیکھ لیں۔ گو مختصر ہے مگر بہرحال ان دونوں مضامین پردہ روشنی ڈالتی ہے اور جو روشنی وہ ڈالتی ہے وہی فائدہ احمدیت پولیٹیکل اور سوشل لحاظ سے دنیا کو پہنچائے گی۔
چوتھے سوال کا جواب آپ کو بعد میں بھجوایا جائے گا۔۶۴
چونکہ یہ پہلا خط ہے جو آپ کی طرف سے ہمیں موصول ہوا اس لئے ہم پوری طرح یہ نہیں سمجھ سکتے کہ حقیقتاً آپ کے سوالات کی بیک گرائونڈ کیا ہے۔ اس لئے اس خط کو پڑھنے کے بعد آپ دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کریں اور جو کچھ آپ کے دل میں سوالات پیدا ہوں وہ ہمیں تفصیل سے لکھیں۔ ہم آپ کے ہر سوال کا خوشی سے جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔<
‏tav.11.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
ہمبرگ میں احمدیہ یورپین مشنزکی چوتھی کانفرنس
جرمنی میں تحریک احمدیت کا ایک انقلابی قدم جس نے اس ملک کو اسلام کی زندہ اور زبردست طاقت کا پہلا احساس دلایا اور ایک نمایاں حرکت پیدا کردی` ہمبرگ میں احمدی یورپین مشنوں کی چوتھی کانفرنس کا انعقاد ہے جو ۱۸ تا ۲۰ ماہ نبوت/نومبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء میں ہوئی اور جس میں انگلستان` سوئٹزرلینڈ` ہالینڈ اور سپین کے احمدی مجاہدین نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کا پریس میں بہت چرچا ہوا۔ اخباروں نے اس کے فوٹو دیئے` خبریں شائع کیں اور ادارتی نوٹ بھی لکھے۔ سب سے دلچسپ اور فکر انگیز تبصرہ جرمنی کے ایک عیسائی اخبار کا تھا جس نے لکھا کہ۔
عیسائی مشن اور چرچ کے لئے ایک اہم سوال
یہ سوال عیسائی دنیا کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ اسلام نہ صرف اپنی اشاعت کے اولین دور میں عظیم روحانی اہمیت رکھتا تھا بلہ اس زمانہ میں اپنے تبلیغی مشنوں کے ذریعہ یورپ میں بہت اہمیت اختیار کررہا ہے۔ انہی دنوں اسلامی مشنوں کے انچارج ہمبرگ میں جمع ہوئے تھے تاکہ وہ اسلام کو کامیاب طور پر یورپ میں پھیلانے کے ذرائع پر غور کرسکیں۔ جرمنی` انگلینڈ` ہالینڈ` سوئٹزرلینڈ اور سپین میں اسلام کی تبلیغ آئندہ تقاریر اور لٹریچر کے ذریعہ زیادہ زور شور سے کی جائے گی۔ جرمنی میں اسلام کی کامیابی کا میدان زیادہ وسیع ہے۔ چند سال کے اندر اندر ہمبرگ میں مسجد بھی تعمیر کی جائے گی۔ ان واقعات سے ہمیں آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ ویسے اس بارہ میں احتجاج بلند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسلام گذشتہ تیرہ صدیوں میں اتحاد باہمی اور موثر اشاعت کے ذریعہ اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت ثابت کرچکا ہے۔ ان حالات میں عیسائی دنیا کو ایک بہت بڑا اور مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے۔<۶۵
حضرت مصلح موعود کا جرمنی میں ورود حضور کا ایمان افروز خطاب اور دوسری اہم دینی مصروفیات
جرمن مشن کی تاریخ میں وسط ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کا دور ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ کیونکہ اس میں حضرت مصلح موعود نے سفر جرمنی اختیار فرمایا۔
اور ۲۵ تا ۲۹ ماہ احسان/جون تک اس ملک میں رونق افروز رہے۔
دوران قیام ۲۶ ماہ احسان کو ڈاکٹر ٹلٹاک حضور کے دست مبارک پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوئے جن کا اسلامی نام حضور نے زبیر تجویز فرمایا۔ بعدازاں ہمبرگ کے ایک نامور جرمن مستشرق ڈاکٹر ABEL ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ حضور ان سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے۔
اسی روز حضور کے اعزاز میں ساڑھے سات بجے شام جماعت احمدیہ ہمبرگ نے ایک استقبالیہ تقریب کا انتظام کیا جس میں احمدیوں کے علاوہ دیگر معززین اور نمائندگان پریس نے بھی شرکت کی۔ عبدالکریم صاحب ڈنکر نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے کھڑے ہوکر ایک خاص ولولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک تقریر انگریزی میں فرمائی۔ جس میں پہلے تو احمدی احباب کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد ربوہ مرکز احمدیت کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں۔ اور پھر فرمایا کہ جرمن قوم کا کیریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلد تعمیر کرلیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اسی روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی۔ حضور نے فرمایا کہ میں اس نبی ~)صل۱(~ کا پیروکار ہوں جس نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہ وتیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا۔ کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کس طرح معاف کردیا۔ حضور نے فرمایا کہ اسلام اس رواداری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسلام قومیت اور رنگ و نسل کی تمیز سے بالا ہے اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لئے زریں اصول پیش کرتا ہے۔ حضور کی اس محبت بھری تقریر کا جرمن ترجمہ مبلغ جرمنی نے بعد میں کیا۔ حاضرین نے خدا کے فضل سے حضور کی تقریر کو بہت پسند کیا۔ ہمبرگ کے ایک روزنامہ ANZEIGER HAMBURGER نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۸ جون میں حضور کی اس تقریر اور ہمبرگ گورنمنٹ کی طرف سے خوش آمدید کا ذکر ایک فوٹو کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میں کیا۔
امیرالمومنین ٹائون ہال میں
احمدیہ جماعت کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو کل ٹائون ہال میں FLSENNE VON MINISTER نے خوش آمدید کہا۔ ۶۶ سال کی عمر کے امیرالمومنین نے کل جماعت کی طرف سے دی گئی دعوت چائے کے موقعہ پر بیان کیا کہ ربوہ کی تعمیر کس طرح ۱۹۵۰ء میں مخالف حالات میں ہوئی۔ ایک بے آب وگیاہ گائوں کس طرح ایک بڑا شہر بنا جس میں اب مختلف تعلیمی ادارے اور ایک مشنری کالج تعمیر ہوچکے ہیں۔ اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے اور عالمگیر اطاعت کو قائم کرنے کے اصول پیش کرتا ہے۔ اس لئے اسلام ہی آپ کے لئے مناسب حال مذہب ہے اور خاص طور پر جرمنی کے لئے عالمگیر مذہب ہونے کی بنا پر اسلام کا مستقبل جرمنی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی روح جرمنی میں زندہ ہے۔ احمدیہ جماعت کا جرمنی میں مرکز ہمبرگ ہے اور اس کے تبلیغی مشن مختلف ممالک میں موجود ہیں۔<
علاوہ ازیں نہ صرف ہمبرگ بلکہ جرمنی کے بیسیوں اخبارات میں حضور کی آمد کی خبر حضور کے فوٹو کے ساتھ شائع ہوئی۔
ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر اور افتتاح
حضرت مصلح موعود نے قیام ہمبرگ کے دوران ۲۶ احسان/جون ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء کو جرمنی میں جلد مسجد تعمیر کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔۶۶ سو اللہ تعالیٰ نے حضور کی یہ مبارک خواہش دو سال کے اندر اندر پوری کردی۔ چنانچہ ۲۲ تبلیغ/فروری ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء کو ہمبرگ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔۶۷ اور ۲۲ احسان/جون ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء کو چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر اس کا افتتاح فرمایا۔
افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن عظیم سے ہوا جو حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ ہالینڈ نے کی۔ پھر چودھری عبداللطیف صاحب انچارج مشن نے مختصر تقریر میں مسجد کی غرض وغایت پر روشنی ڈالی۔ ازاں بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جو حضرت امیرالمومنین کے نمائندہ کی حیثیت میں تشریف لے گئے تھے` حضور پر نور کا مندرجہ ذیل پیغام انگریزی میں پڑھ کر سنایا۔
>برادران اہل جرمنی!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ`
میں ہمبرگ کی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھجوارہا ہوں۔ افتتاح کی تقریب تو انشاء اللہ عزیزم چوہدری محمد ظفراللہ صاحب اداد کرینگے مگر مرزا مبارک احمد میرے نمائندے کے طور پر اس میں شامل ہوں گے۔ میرا ارادہ ہے اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض اور شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے امید ہے کہ مرزا مبارک احمدی مولوی عبداللطیف صاحب سے مل کر ضروری سکیمیں اس کے لئے بناکر لائیں گے تاکہ جلدی مساجد بنائی جاسکیں۔
خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے۔ فی الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نومسلم زندگی وقف کرکے امریکہ میں تبلیغ اسلام کررہا ہے مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نومسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو۔ اللہم آمین۔
خاکسار
مرزا محموداحمد خلیفہ المسیح الثانی<۶۸
اس روح پرور پیغام کا چوہدری عبداللطیف صاحب نے ترجمہ کیا۔ جس کے بعد صاحبزادہ صاحب نے ایک اثر انگیز تقریر کی جس کا جرمن زبا میں ترجمہ بھی چوہدری عبداللطیف صاحب نے کیا۔۶۹
آخر میں چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے ایک پر معزز اور ایمان افروز تقریر فرمائی۷۰ جس کا جرمن ترجمہ محترم عبدالکریم صاحب ڈنکر نے کیا۔ تقریر کا ترجمہ ہونے کے بعد آپ نے اجتماع دعا کرائی اور مسجد کے دروازہ پر تشریف لے جاکر دروازہ کھولا۔
آخر میں چوہدری عبداللطیف صاحب نے ظہر و عصر کی نمازیں جمع کرا کر پڑھائیں اور اس طرح یہ مبارک اہم اور تاریخی اجتماع اختتام پذیر ہوا۔
اس اجتماع میں شمولیت کے لئے یورپ کے مبلغین میں سے مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب ہالینڈ سے` مکرم شیخ ناصر احمد صاحب سوئٹزرلینڈ سے` مکرم مولود احمد صاحب انگلینڈ سے اور مکرم سید کمال یوسف صاحب سویڈن سے تشریف لائے۔ اعلیٰ لوکل حکام` ہندوستان لبنان اور ہالینڈ کے کونسل جنرل اور دیگر معززین شہر` پریس اور ٹیلی ویژن کے نمائندے سے شریک ہوئے۔ ۷۱
ہمبرگ مسجد اور مسیحی پریس
ہمبرگ مسجد کی تعمیر سے جہاں تبلیغ اسلام کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوگیا وہاں جرمن مسیحی پریس میں تشویش واضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ بعض اخبارات کی آراء ملاخطہ ہوں۔
۱۔
اخبار ZEITUNG> <LANDES نے اپنے ۱۱ جون ۱۹۵۸ء کے شمارہ میں >ہمبرگ کی مسجد ایک خطرے کا الارم< کی سرخی دے کرلکھا کہ اب اسلام میں نئی زندگی پیدا ہورہی ہے۔ اور اس مذہب کے پیروئوں نے ہمبرگ میں اپنی پہلی مسجد بھی تعمیر کرلی ہے۔۷۲
۲۔
اخبار <WURZBURG> نے لکھا۔
>ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر عیسائی دنیا کی سستی اور اپنے مذہب سے بے رخی اور بے دلی پر دلالت کرتی ہے نہ کہ روا داری پر۔<
۳۔
ایک مذہبی اخبار CHURCH> <THE نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا۔
>عیسائیت اور اسلام کے درمیان WAR HOLY کا مرکز ہمبرگ بن چکا ہے۔ یہ اب ہم پر مخصر ہے کہ ہم کس طرح مسجد کی تعمیر کے ساتھ وابستہ خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں۔
جماعت احمدیہ کا جرمنی کے لئے مبلغ مسٹر عبداللطیف ۱۹۴۹ء میں ہمبرگ آیا اور ۱۹۵۷ء میں مسجد کی تعمیر اس کی آٹھ سالہ کامیاب جدوجہد پر دلالت کرتی ہے۔<
۴۔
‏ BILEFELD کے ایک اخبار کے ایک نامہ نگا نے >مساجد ہمارے ملک میں< کے عنوان کے ماتحت لکھا۔
>میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جبکہ مجھے اپنے ہمبرگ کے قیام کے دوران بتایا گیا کہ ہمبرگ میں ایک مسجد تعمیر ہوچکی ہے۔ مزید تحقیق کرنے پر مجھے اس بات کا علم حاصل کرکے اور بھی حیرانی ہوئی کہ جماعت احمدیہ ہمبرگ کی مسجد کے علاوہ جرمنی کے دیگر اہم مقامات پر بھی باری باری مساجد کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔<۷۳
جرمن ترجمہ قران کی اشاعت
شروع ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء میں احمدیہ مسلم مشن سوئٹزرلینڈ نے جرمن ترجمہ قرآن چھپوایا تو سوئٹزرلینڈ کے علاوہ جرمنی میں بھی اس کی اشاعت کی گئی۔ اس ترجمہ نے اس ملک کے علمی طبقہ پر گہرا اثر ڈالا۔ جرمن پریس میں بھی اس ترجمہ کی بڑی شہرت ہوئی اور جرمن رسائل وجرائد ے اس پر عمدہ ریویو کئے۔ اس ترجمہ کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
جرمن مس میں فریضہ تبلیغ بجالانیوالے مجاہدین احمدیت
جرمن مشن میں اب تک جن مجاہدین اسلام کو تبلیغ اسلام کا فریضہ بجالانے کا موقع ملا ہے ان کے نام یہ ہیں۔
۱۔
مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب۔ )۲۰۔ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ہش تا ۲۴۔ ظہور /اگست ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء` ۱۴۔ تبوک/ستمبر ۱۳۳۰ہش/۱۹۵۱ء تا ۱۴۔ فتح/دسمبر ۳۳۱ہش/۱۹۵۲ء` ۲۵۔ صلح/جنوری ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ تا آخر ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء۔
۲۔
الحاج مرزا لطف الرحمن صاحب )۴ شہادت/اپریل ۱۳۳۸ہش/۱۹۵۹ء تا ۲۔ فتح/دسمبر ۱۳۳۹ہش/۱۹۶۰ء اس تاریخ کو جرمنی سے ٹوگولینڈ مغربی افریقہ میں تشریف لے گئے(
۳۔
مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی )۲۔ امان/مارچ ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء تا ۲۳ ہجرت/مئی ۱۳۳۳ہش/۱۹۶۴ء` ۲۷ ۔ صلح/جنوری ۱۳۵۷ہش/۱۹۶۸ء تا ۲۱۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۵۱ہش/۱۹۷۱ء(
۴۔
مکرم مولوی محمود احمد صاحب چیمہ )۲۱۔ وفا/جولائی ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء تا ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء(
۵۔
مکرم مولی فضل الٰہی صاحب انوری )۷۔ احسان/جون ۱۳۴۳ہش/۱۹۶۴ء تا ۲۸۔ فتح/دسمبر ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء` ۱۹۔ اخاء/اکتوبر ۱۳۵۱ہش/۱۹۷۲ء کو دوبارہ ربوہ سے عازم جرمی ہوئے اور اس وقت مشن انچارج کی حیثیت سے مصروف عمل ہیں۔
۶۔
مکرم مولوی بشیراحمد صاحب شمس )۱۲ تبوک/ستمبر ۱۳۴۵ہش/۱۹۶۶ء تا ۴۔ فتح/دسمبر ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء(
۷۔
مکرم قاضی نعیم الدین احمد صاحب )۱۹۔ وفا/جولائی ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء سے جرمنی میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کررہے ہیں(
مسجد فرانکفورٹ کی تعمیروافتتاح
مسجد ہمبرگ کے افتتاح پر ابھی دو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ ے جرمن مشن کو دوسری مسجد تعمیر کرنے کی توفیق دے دی۔۷۴ جس کے لئے مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب ہالینڈ سے تشریف لائے۔ علاوہ ازیں یورپ کے مبلغین میں سے مکرم حافط قدرت اللہ صاحب` مکرم شیخ ناصر احمد صاحب` مکرم عبدالحکیم صاحب اکمل` الحاج مرزا لطیف الرحمن صاحب ` مکرم عبدالشکور صاحب کنزے` مکرم خان بشیراحمد صاحب رفیق اور مکرم کمال یوسف صاحب بھی شامل ہوئے۔
افتتاح کی کارروائی تین بجے بعد دوپہر مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب کی زیرصدارت شروع ہوئی۔ تلاوت قرآن کریم حافظ قدرت اللہ صاحب نے کی۔ مبلغ جرمنی نے اپنی تقریر کے ذریعہ حاضرین کو خوش آمدید کہا اور اس مبارک کام میں حصہ لینے والے احباب کا شکریہ ادا کیا۔ فرانکفورٹ کے چیف میئر کی ذاتی نمائندہ ALBRECHT) ۔(MR نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ مسجد امن اور رواداری کے اصولوں کو بروائے کار لانے میں ممدو معاون ثابت ہوگی۔ آخر میں مکرم چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب نائب صدر عالمی عدالت انصاف نے اسلام کے عالمگیر پیغام پر نہایت ایمان افروز اور دلچسپ پیرایہ میں صدارتی تقریر انگریزی زبان میں فرمائی جس کا جرمن ترجمہ ایک جرمن نومسلم عبدالشکور کنزے نے کیا۔
اس کے بعد مکرم چوہدری صاحب نے دعا کروائی اور مسجد کا دروازہ کھول کر پہلے رسم افتتاح ادا فرمائی پھر ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ یوم افتتاح کے موقع پر بوقت دو بجے مبلغ جرمنی کا انٹرویو ریکارڈ ہوا۔ انٹرویو سے قبل مبلغ جرمنی کی خواہش کے مطابق اذان بھی ریکارڈ کی گئی جو حافظ قدرت اللہ صاحب نے خوش الحانی سے دی۔ یہ انٹرویو اسی روز پونے سات بجے ایک اہم پروگرام کے آخر میں نشر ہوا۔ اور اس طرح فرانکفورٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ اذان کے الفاظ فضا میں گونجتے ہوئے سنائی دئے۔ اس انٹرویو کے دوران مبلغ جرمنی نے مسجد کی اہمیت کو بیان کیا اور اسلام کے بارہ میں بعض غلط فہمیوں کو دور کیا۔ انٹرویو کے دوران جماعت کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں بعض امور مختصر طور پر بیان کئے۔ علاوہ ازیں سوس (SWISS) ٹیلی ویژن نے بھی افتتاہ کی تقریب کے بعض ضروری حصے دکھائے۔
جرمنی کے تقریب¶ا چالیس اخبارات نے مسجد اور افتتاح کی کارروائی کے بعض مناظر کے مختلف فوٹو بھی شائع کئے۔ نیز جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی پر عمدہ رگ میں تبصرہ کیا۔ مثلاً اخبار MORGEN MANNHEIN نے ۱۵ ستمبر ۱۹۵۹ء کو >اسلام یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے< کی سرخی کے ساتھ مسجد کی افتتاحی تقریب کا فوٹو دیا اور لکھا۔
>محمدﷺ~ کے پیرو اس سے قبل تلواروں اور نیزوں کی مدد سے جنوبی فرانس تک آئے۔ موجودہ زمانہ میں یہ کام روحانی ہتھیاروں سے ہورہا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک کے لوگ یورپ آتے ہیں جو ساتھ ساتھ اسلام پھیلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف تبلیغی فرقے جن میں سے ایک فرقہ نے جو خاص طور پر مرزا غلام احمد )صاحب( قادیانی کا ہے اور ۱۸۹۰ء میں پنجاب میں قائم ہوا مختلف جگہوں پر مساجد بنائی ہیں۔۷۵
رسالہ >اسلام< کا اجراء
جرمن زبان میں ماہنامہ ISLAM> <DER کا اجراء اگرچہ ۱۹۴۸ء میں سوئٹزرلینڈ مشن سے ہوا تھا مگر ۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء میں اس رسالہ کی اشاعت کا کام بھی جرمن مشن کے سپرد ہوا۔ اور یہ ہمبرگ سے چھپنے لگا۔ ۱۹۷۰ء میں جب جرمن مشنوں کا مرکز ہمبرگ سے فرانکفورٹ میں منتقل ہوگیا تو رسالہ >اسلام< کی اشاعت بھی فرانکفورٹ سے ہونے لگی۔ یہ رسالہ خدا تعالیٰ کے فضل سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہا ہے اور یورپ کے جرمن زبان بولنے والے علاقوں یعنی سوئٹزرلینڈ` آسٹریا اور جرمنی میں واحد اسلامی رسالہ ہے جو ان ممالک میں ربع صدی سے اسلام کی روحانی` علمی` تاریخی` معاشی اور ثقافتی نظام کی ترجمانی کے فرائض بجالارہا ہے۔ جرمنی میں اس رسالہ کی ادارت کی فرائض چوہدری عبداللطیف صاحب ادا کرتے رہے اور ۱۹۷۰ء میں جناب مسعود احمد صاحب جہلمی مدیر اول اور جناب ڈاکٹر محمد عبدالہادی کیوسی صاحب مدیر معاون کے طور پر مقرر ہوئے۔ بعدازاں ادارہ تحریر میں مبلغ سوئٹزرلینڈ جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بھی شامل کردیئے گئے۔
اکتوبر ۱۹۷۲ء میں جناب مسعود احمد صاحب جہلمی کی پاکستان واپسی یر جناب مولوی فضل الٰہی صاحب انوری بحیثیت مبلغ انچارج رسالہ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔
یہ رسالہ اپنی طباعت اور مضامین ہر دو لحاط سے معیاری ہے۔ جرمن بولنے والے ممالک کی مشہور لائیبریوں اور یونیورسٹیوں اور مستشرقین کو بھجوایا جاتا ہے۔ اسی طرح یورپ کے ممالک ہالینڈ اور ڈنمارک وغیرہ میں بھی کثیر تعداد میں جاتا ہے۔ علاوہ ازیں تمام بیرونی مرکزی مشنوں میں بھی بھجوایا جاتا ہے۔
جرمنی کے علمی حلقوں میں یہ رسالہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جرمنی کی ایڈمنسٹریٹو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پروفیسر ڈالٹرکلز RKULZ)۔D۔(PROF نے اپنے ایک خط میں رسالہ کے معیار کی تعریف کی اور لکھا کہ وہ ہر ماہ اس کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔ اسی طرح فرانکفورٹ کے میئر FAY۔W۔DR جب اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے ایڈیٹر رسالہ کو کہا کہ یہ رسالہ جو بطور میئر کے انہیں دفتر میں بھجوایا جاتا تھا اب ان کے ذاتی پتہ پر ارسال کیا جائے۔
جرمنی کے مشہور ترین اخبار ALLCEMEINE FRANKFURTER کے ایڈیٹر VOCKE HARALD ۔MR نے رسالہ کے بھجوائے جانے کی خواہش کی اور مبلغ جرمنی کو بتایا کہ وہ رسالہ کا دلچپسی سے مطالعہ کرتے ہیں۔
حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جرمنی میں
۱۳۴۱ہش/۱۹۶۲ء میں مغربی جرمنی کو یہ فخر حاصل ہوا کہ حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے )جو مسجد زیورک و سوئٹزرلینڈ کے سنگ بنیاد کے سلسلہ میں تشریف لے جارہی تھیں( ۱۹ تا ۲۲۔ ظہور ہمبرگ دارالتبلیغ میں قیام فرمارہیں۔ جرمن پریس نے آپ کی آمد کی خبر نمایاں طور پر شائع کی اور اسلام میں عورتوں کے بلند مقام پر بھی روشنی ڈالی۔۷۶
ہمبرگ مشن کی عمارت میں توسیع
ہمبرگ مشن کی عمارت میں توسیع کا سنگ بنیاد ۱۹۶۴ء کی عبدالاضحیہ کے موقعہ پر رکھاگیا۔ جرمنی کے مشہور اخبار DIEWELT نے ہر دو تقاریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا۔
>صرف یہ ایک واحد جماعت ہے جو دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔<۷۷
حضرت سیدنا خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا مغربی جرمنی کی طرف پہلا سفر
جرمنی میں اسلام کے روحانی انقلاب کی بنیادی رکھی جاچکی تھی۔ اس بنیاد کو پہلے سے زیادہ مضبوط مستحکم اور وسیع کرنے کے لئے مہدی
مسعود کے نافلہ موعود سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز اپنے مشہور عالم دورہ یورپ )۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء( کے دوران مغربی جرمنی میں بھی تشریف لے گئے۔۷۸ حضرت امیرالمومنین ۸ سے ۱۰۔ وفا/جولائی تک فرانکفورٹ میں رونق افروز رہے۔ ۹۔ وفا/جولائی کو جماعت احمدیہ جرمنی کی طرف سے حضور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمنی کے احمدی مخلصین کے علاوہ شہر کے دوسرے معززین مثلاً پادری` وکلاء` اور پروفیسر بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج مبلغ نے سپاسنامہ پڑھا جس کے جواب میں حضور نے ایک پر اثر انگریزی خطاب فرمایا۔ جس میں جرمنوں کو یہ پر شوکت پیغام دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تائید اور نصرت کے لئے اپنے ایک موعود بندے کو اس زمانہ کا مصلح اور مسیح موعود اور مہدی بناکر بھیجا ہے جس نے دنیا کو چیلنج دیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفٰے~صل۱~ کے فرزند جلیل ہونے کی حیثیت میں کثرت سے میرے ہاتھ پر نشان ظاہر کئے ہیں۔ اگر عیسائیوں میں سے کوئی یہ ثابت کرکے دکھائے کہ مسیحؑ کے معجزات کیفیت اور کمیت میں میرے معجزات سے بڑھ رہیں تو میں اسے ایک زرکثیرانعام دینے کے لئے تیار ہوں۔
اس تعلق میں حضور نے فرمایا۔ اس مسیح موعود کے تیسرے خلیفہ کی حیثیت میں وہی چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں تو ہمیں خوشی ہوگی کیونکہ اس طرح پر دنیا سلام اور بانی جماعت احمدیہ کی سچائی پر روشن نشان دیکھ لے گی۔ ۷۹
آخر میں حضور نے فرمایا۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام کا خدا ایک زندہ خدا ہے اور محمد رسول اللہ~صل۱~ ایک زندہ نبی اور مسیح موعود آپ کے فرزند جلیل ہیں۔ حضور کے اس خطاب کا ترجمہ محمود اسمعیل زوش نے کیا۔
فرانکفورٹ میں حضور پر نور کا قیام مشن ہائوس میں تھا۔ اس موقع پر علاوہ جرمن نو مسلموں کے بہت سے دوسرے احمدی بھی اپنے آقا کی زیارت کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ دوران قیام مسٹر والٹرہلز نے دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ علاوہ ازیں اطالوی مستشرق ڈاکٹر کیوسی بھی بغرض ملاقات حاضر ہوئے۔
حضور نے فرانکفورٹ میں جرمن قوم کے متعلق اپنا ایک پرانا مبشر جواب سنایا کہ ایک جگہ ہے وہاں ہٹلر بھی موجود ہے اور وہ حضور سے کہتا ہے کہ آئیں میں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھائوں۔ چنانچہ وہ حضور کو ایک کمرہ میں لے گیا جہاں مختلف اشیاء پڑی ہیں۔ کمرہ کے وسط میں ایک پان کی سکل کا پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے۔ اس پتھر پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے۔ حضور نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ اوپر سے پتھر دل یعنی دین سے بیگانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔۸۰
حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے فرانکفورٹ کے بعد ۱۶ تا ۱۹۔ وفا/جولائی ہمبرگ میں بھی رونق افروز رہے۔ ریڈیو` ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ ملک بھر میں حضور کی آمد کا غیر معمولی چرچا ہوا اور لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اندازاً ساٹھ ستر لاکھ نفوس کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ تعارف کا موقعہ ملا جو خالص خدائی تصرف تھا۔۸۱
ہمبرگ میں بھی حضور کے اعزاز میں شاندار استقبالیہ تقاریب منعقد کی گئیں جس میں معززین شہر کے علاوہ نمائندگان حکومت بھی شامل ہوئے۔ اٹلانٹک ہوٹل میں وسیع پیمانے پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد بھی حمل میں آیا جس میں ملکی اخبارات کے نمائندوں کے علاوہ خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے مختلف ریڈیو سیٹشنوں اور مقالہ نگار )فیچر رائٹر( ۳۵ کی تعداد میں شامل ہوئے۔ حضرت امیرالمومنین نے اس کانفرنس میں باقاعدہ اخباری بیان جاری کرنے کی بجائے سوال و جواب کے طریق کو ترجیح دی۔ اس موقع پر نامہ نگاروں اور نمائندوں نے نہایت کثرت سے سوالات دریافت کئے جن کے جوابات حضور ے روح القدوس کی تائید سے نہایت درجہ بشاشت اور بے تکلفی سے ایسے پرزور اور مدلل رنگ میں دیئے۔۸۲ کہ سب پر اسلامی دلائل کی معقولیت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اس کانفرس نے نہ صرف ہمبرگ کے عوامی حلقوں میں ہی زبردست تہلکہ مچادیا۔ بلکہ اخبارات نے بھی حضور کے سفر ہمبرگ اور پریس کانفرنس کی خبریں نمایاں طور پر شائع کیں۔۸۳
کتابوں کی عالمی نمائش میں مشن کی نمائندگی
۱۹۶۷ء میں کتابوں کی مشہور عالمی نمائش کے موقعہ پر اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ ربوہ کی نمائندگی میں فرانکفورٹ مشن نے ایک سٹال لگایا اور اس کے جملہ انتظامات مولوی فضل الٰہی صاحب انوری مبلغ اسلام نے سرانجام دیئے۔ ۱۹۶۸ء سے پاکستان بھی اس نمائش میں حصہ لے رہا ہے اور ۱۹۶۹ء سے ہمارے جرمن نومسلم احمدی دوست ہدایت اللہ صاحب ہیوبش مستقل طور پر نمائش کے تمام ایام میں پاکستانی سٹال کی امداد کررہے ہیں۔
صدرجمہوریہ سینگال کو اسلامی لٹریچر کی پیشکش
اس عالمی نمائش کے موقعہ پر ایک خاص تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں انعام امن PRIZE) (PEACE دیا جاتا ہے۔ ۱۹۶۸ء میں یہ انعام جمہوریہ سینگال کے صدر جناب سینگور کو دیاگیا۔ مبلغ جرمنی نے صدر موصوف کو فرانسیسی زبان میں شائع شدہ اسلامی کتب کا ایک سیٹ پیش کیا۔
ایک مشہور مسیحی مناد کو قبولیت دعا میں مقابلہ کرنے کی دعوت اور اس کا واضح انکار
۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء کا ایک نہایت اہم واقعہ جس سے جرمنی میں اسلام کو نمایاں روحانی فتح نصیب ہوئی۔ انچارج احمدیہ مسلم مشن
فرانکفورٹ کی طرف سے دنیائے عیسائیت کے مشہور مسیحی مناد ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سیموئل ڈاکٹریان کو قبولیت دعا میں مقابلہ کرنے کی دعوت اور ان کا واضح انکار ہے۔
ڈاکٹر سیموئل ماہ جون ۱۹۶۸ء کے دوران فرانکفورٹ میں تشریف لائے تو فری کرسچن چرچ نے ایک بااثر مقامی اخبار میں ڈاکٹر سیموئل کی تصویر کے ساتھ بڑے طمطراق سے اعلان شائع کیا کہ آپ فرانکفورٹ شہر میں ہر شام مسلسل پندرہ روز تک لیکچردیں گے۔ نیز لکھا کہ زمانہ حاضر کے عظیم مسیحی مناد ڈاکٹر سیموئل خداوند یسوع کے عظیم تصرف کے ساتھ انجیل کی منادی کرتے ہیں اور ان کی تقاریر سے مشرقی وسطی` افریقہ` یورپ اور امریکہ میں زبردست بیداری کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔
مبلغ اسلام مسعود احمد صاحب جہلمی نے ۱۷ جون کو ڈاکٹر صاحب کا لیکچر سنا جس میں انہوں نے مسیح کے خون` دنیا کی نجات اور الوہیت مسیح وغیرہ مسائل بیان کئے اور بڑی پرجوش انداز میں اپنے مشن اور اپنے دوروں کی کامیابی کا ذکر کیا۔ مبلغ اسلام مسعود احمد صاحب جہلمی نے اگلے روز اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے بذریعہ خط پادری صاحب کو دعوت دی کہ وہ حق و باطل کا فیصلہ کرنے کے لئے مرد میدان بنیں اور دوستانہ فضا میں تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ قبولیت دعا کا ان سے روحانی مقابلہ بھی کرلیں۔ جناب مسعود احمد صاحب جہلمی نے اس دعوت مقابلہ کے سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے لکھا جس پر حضور نے تحریر فرمایا۔
>آپ کا خط مورخہ ۴۷/۶/۱۹ہش مع نقل چٹھی بنام ڈاکٹر سیموئیل صاحب ملا۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
اگر اس نے دعوت مقابلہ کو قبول کیا تو شکست کھائے گا۔ انشاء اللہ۔ آپ جرات سے مقابلہ کریں۔ اگر ضرورت محسوس کریں تو زیورک سے چوہدری مشتاق احمد صاحب کو بھی بلالیں۔ اللہ تعالٰے آپ کی تائیدو نصرت فرمائے۔ آمین<
اس خط پر دستخط فرماتے ہوئی حضور نے اپنے قلم مبارک سے مزید لکھا۔ >انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا<
ڈاکٹر سیموئیل کی طرف سے ہفتہ بھر جواب کا انتظار کیاگیا۔ لیکن جواب نہ آنا تھا نہ ہی آیا۔ انتظار کا وقت ختم ہونے پر خط کا جرمن ترجمہ خاص تعداد میں شائع کردیاگیا اور اس پر نمایا حروف میں لکھاگیا۔
>ڈاکٹر سیموئیل کے نام ایک خط جس کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے<
اور پروگرام یہ بنایا گیا کہ پندرہ روزہ تقاریر کے آخری دو ایام مورخہ ۲۹۔ ۳۰ جون یعنی ہفتہ اور اتوار کے روز جبکہ حاضرین کی تعداد بھی نسبتاً زیادہ ہوتی تھی یہ خط خیمئہ تقریر کے باہر تقسیم کیاجائے۔ چنانچہ مورخہ ۲۹ جون کو جناب مسعود احمد صاحب امام مسجد فرانکفورٹ اور احمدی احباب وقت مقررہ سے نصف گھنٹہ قبل ہی خیمئہ تقریر کے باہر کچھ فاصلے پر کھڑے ہوگئے اور مطبوعہ خط کی تقسیم شروع کردی جس سے ہر طرف ایک زبردست ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ خیال تھا کہ اپنی تقریر میں پادری صاحب اس دعوت کا ذکر کریں گے لیکن باوجود اس کے کہ سامعین میں سے تقریباً ہر شخص کے ہاتھ میں خط تھا پادری صاحب نے قطعاً خط کا ذکر نہ کیا۔ البتہ ان کی تقریر میں وہ پہلا ساجوش وخروش نہ تھا۔ تقریر کا اکثر حصہ اسلامی ممالک کے متعلق من گھڑت قصے سناکر ختم کردیا۔
اگلے روز ۵ بجے شام پادری صاحب کی خیمہ کے اندر تقریر تھی۔ احمدی احباب دوبارہ خیمہ کے قریب جاکھڑے ہوئے کہ اسی اثناء میں ڈاکٹر سیموئیل کی موٹر کار کچھ فاصلہ پر آکر رکی۔ مبلغ احمدیت مسعود احمد صاحب جہلمی آگے بڑھے اور ڈاکٹر صاحب سے خط کے جواب کی بابت دریافت کیا۔ وہ چلتے چلتے کہنے لگے >میری تقریر سنیں< انہوں نے کہا۔ جناب تقریریں تو ہم نے اپ کی پہلے بھی سنی ہیں ان میں تو آپ نے ہمارے خط کا ذکر تک نہیں کیا۔ اتنے میں دو خیمہ کے اندر داخل ہوگئے۔ مبلغ جرمنی نے سوچا کہ اب مزید بات چیت مناسب نہیں۔ لیکن ایک عرب احمدی دوست ابراہیم عودہ تقریر کے بعد ڈاکٹر صاحب کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے مصروفیت کا عذر پیش کرکے ٹیلیفون پر وقت مقرر کرنے کو کہا۔ لیکن السید عودہ کے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ابھی میں نے بعض لوگوں کو دعا کے لئے بلایا ہے۔ دعا سے فراغت کے بعد آپ مل لیں۔ کوئی پون گھنٹہ تک دعا جاری رہی۔ اس کے بعد ملحقہ چھوٹے خیمہ میں ڈاکٹر صاحب برادرم عودہ کے پاس بیٹھ گئے۔ عودہ نے انہیں نہایت موثر رنگ میں تحریک کی کہ یہ فیصلہ کی بڑی آسان راہ ہے۔ آپ یہ دعوت مقابلہ قبول فرمالیں مگر ڈاکٹر صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ
جس دن سے مجھے یہ خط ملا ہے میں اس دن سے مقابلہ کی اجازت کے لئے خداوند یسوع مسیح سے دعا کررہاہوں لیکن ہر روز جواب آتا ہے >نہیں<۔ اب کل ہی جب انہوں نے یہ خط تقسیم کیا تو میں نے پھر دعا کی لیکن جواب ملا >نہیں تم اپنا کام کرتے جائو ان کی طرف مت دھیان دو۔<
اس پر عودہ صاحب نے کہا تو پھر آپ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ کو اس امر کا قطعاً یقین نہیں کہ خدا آپ کی دعائیں سنے گا۔
اس پر ڈاکٹر صاحب نے کرسی سے اٹھتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا دیکھیں۔ آپ نے دس منٹ کا مطالبہ کیا تھا اور اب نصف گھنٹہ ہونے کو ہے اور مجھے اوپر بھی مصروفیات ہیں۔ اس طرح یہ بلند و بانگ دعا دی کرنے والے >عظیم مسیحی مناد< اسلام اور محمد عربی~صل۱~ کے خادموں اور غلاموں کے مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کرسکے اور اپنے عمل سے صداقت اسلام پر مہر تصدیق ثبت کردی۔۸۵
قیام مشن فرانکفورٹ کی دس سالہ تقریب
تعمیر مسجد نور فرانکفورٹ اور قیام مشن پر خدا تعالیٰ کے فضل سے دس سال کا کامیاب عرصہ گزرنے پر ۱۸ شہادت/اپریل ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء کو فرانکفورٹ میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس بابرکت تقریب کے روح رواں مکرم چودھری ظفراللہ خاں صاحب تھے۔ آپ تین روز تک مشن ہائوس میں قیام فرمارہے۔ اپنے عرصہ قیام کے دوران اپ فرانکفورٹ میوزیم کے وسیع ہال سنکن برگ میں >عصرحاضر کا مذہب< TODAY) (RELIGION کے عنوان پر معرکتہ الاراء لیکچر دیا۔ اس کے علاوہ فرانکفورٹ میں بین الاقوامی شہرت کے کیتھولک دینی ادارہ فلاسفیکل تھیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ سینٹ جارج میں >مسیح کے آمدثانی< کے موضوع پر مدلل اور دلولہ انگیز تقریر فرمائی۔ بعدازاں فرانکفورٹ کے مشہور ٹائون ہال میں چودھری صاحب موصوف کے اعزاز میں میئر صاحب فرانکفورٹ کی طرف سے استقبالیہ دعوت دی گئی۔
‏body] [tagاس پروگرام کا اہم ترین حصہ مسجد نور میں استقبالیہ تقریب تھی جس میں ہالینڈ` سپین` سویڈن اور برطانیہ کے سفارتی نمائندوں نے شرکت کی۔ فرانکفورٹ کے میئر ڈاکٹر فائی کے علاوہ بلدیہ کے بعض اہم افسران` سیاسی پارٹی CDU کے سربراہ` MOOC VON۔H۔`DR مقامی مجسٹریٹ VOLDE۔`DR لیبر آفس کے سربراہ SCHMIDT۔`DR ریلوے کے پریذیڈنٹ WENDLER۔DR اور جرمنی کے بین الاقوامی شہرت کے ممتاز قانون دان JANIKE۔DR۔PROF نمائندہ بشپ اہم کیتھولک پادری BAUM۔DR وغیرہ اسماء قابل ذکر ہیں۔
مبلغ اسلام جناب مسعود احمد صاحب جہلمی نے حاضرین کو خوش آمدید کہا۔ نومسلم احمدی دوست محمود اسمعیل زوش نے دس سالہ مساعی کا جائزہ لیتے ہوئے احمدیت کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ فرانکفورٹ کے میئر نے تقریر کرتے ہوئے مشرق و مغرب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے بارے میں مشن کی مساعی کو سراہا۔ اور آئندہ ہر رنگ میں تعاون کا یقین دلایا۔ جناب چودھری صاحب موصوف نے سامعین کو اپنے مخصوص انداز میں مذہب کی طرف توجہ کرنے کی تلقین کی۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے اس تقریب کی خبریں نشرکیں۔ فرانکفورٹ کے تینوں اہم اخبارات نے شاندار تبصرے لکھے۔ فرانکفورٹ سے شائع ہونے والے جرمنی کے اہم ترین اخبار ALLCEMEINE FRANKFURTER کی اشاعت مورخہ ۲۱۔ اپریل ۱۹۶۹ء کے لمبے مضمون میں سے ایک اقتباس درج ذیل ہیں۔
>جماعت احمدیہ اسلام کی ایک تبلیغی جماعت ہے جو تجدید و احیائے اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائی و غیر عیسائی اقوام اور اسلام کے مابین صلح و روا داری کے اصولوں کے تحت بہتر فضا اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی علمبردار ہے۔
جرمنی میں ہمبرگ کے بعد فرانکفورٹ جماعت احمدیہ کا دوسرا مشن ہے۔ اسلام کے متعلق بے شمار تقاریر اور مذاکرات کے ذریعہ زبردست بیداری کے پیدا ہونے سے اس مشن کے کام کی غمازی ہوتی ہے۔ سکولوں` مذہبی اداروں اور دیگر سوسائٹیوں کی طرف سے بڑی کثرت کے ساتھ اس مشن کو اسلام کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے دعوت نامے ملتے ہیں۔ یونیورسٹی اور میونسپل لائبریریوں کو یہاں سے کتب مہیا کی گئی ہیں۔
ترجمہ و تصنیف کے دیگر کاموں کے علاوہ جو اس مشن سے وابستہ ہیں اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو اس کے گہرے اشتراک عمل سے معرض وجود میں آیا ہے اس کے علاوہ مسجد نور فرانکفورٹ میں اسلامی ممالک سے آنے والے زائرین` طلباء` تاجروں اور سیاحوں وغیرہ کے لئے روحانی مرکز ہی نہیں بلکہ اس اجنبی ملک میں ان کے لئے وطن کی فضا مہیا کرتی ہے۔<۸۶
اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت ومقبولیت
وسط ۱۳۴۸ہش/ ۱۹۶۹ء میں مشہور اطالوی مستشرق` آٹھ زبانوں کے فاضل اور جرمنی میں انشورنس کی بین الاقوامی کمپنی ۔۔۔ جنرل انشورنس ۔۔۔۔۔ کے
جنرل مینجر پروفیسر ڈاکٹر اطالو کیوسی ایک لمبی تحقیق اور دعائوں اور استخارہ کے بعد جماعت احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ سیدنا حضرت خلیفہ المیسح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسلامی نام محمد عبدالہادی تجویز فرمایا۔۸۷`۸۸
پروفیسر ڈاکٹر اطالو کیوسی تقریباً پانچ چھ سال سے احمدیہ مشن جرمنی کے ساتھ گہرا رابطہ رکھتے تھے اور اسلام اور قرآن مجید کا مطالعہ کررہے تھے۔ ابتدائی دو سال آپ نے عربی زبان سیکھنے اور اسلام کے بارے میں اپنی معلومات وسیع کرنے میں صرف کئے اور اس سلسلہ میں مکرم مولوی فضل الٰہی صاحب انوری مبلغ فرانکفورٹ نے آپ کی ہر ممکن امداد اور رہنمائی کی۔ عربی کا ضروری علم سیکھنے اور اسلامی تعلیمات سے اچھی طرح متعارف ہونے کے بعد آپ نے ضرف ایک سال کے اندر بین الاقوامی زبان۸۹ اسپرانٹو (ESPERANTO) میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل کرلیا۔ اس دوران میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے کی دعائیں اور توجہات آپ کے شامل حال رہیں۔ اسپرانٹو ترجمہ قرآن کا دیباچہ چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب نے تحریر فرمایا۔ قاہرہ کے ڈاکٹر ناسف اسحاق نے )جو اسپرانٹو کے عالم اور اسپرانٹو عربی لغت کے مصنف ہیں( ترجمہ کی صحت کا جائزہ لیا اور اسپرانٹو کی عالمی تنظیم کے صدر پروفیسر ڈاکٹر لیپنے (LAPENNA) نے اس پر ادبی نقطہ نگاہ سے نظرثانی کی اور اسپرانٹو لٹریچر شائع کرنے والے کوپن ہیگن کے ایک پبلشر TORBEN KEHLET نے غیر معمولی دلچسپی اور محبت کے ساتھ اس ترجمہ کی اشاعت کا اہتمام کیا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے وکالت تبشیر تحریک جدید ایک خطیررقم بطور عطیہ مذکورہ اشاعتی ادارہ کو دی جس کے باعث اصل لاگت سے بھی کم قیمت بطور ہدیہ مقرر کی گئی اور اسپرانٹو زبان میں شائع ہونے والے رسائل میں اس ترجمہ کا خوب چرچا ہوا۔ اور ترجمہ کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک گیا اور دوسرا ایڈیشن شائع ہوکر قریب الاختتام ہے۔ اس ترجمہ کی اشاعت سے اسپرانٹو زبان جاننے والوں کا رجحان اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے۔۹۰
وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر کو جرمن ترجمہ قرآن کی پیشکش
۵ ظہور/ اگست ۱۳۴۸ہش/ ۱۹۶۹ء کو جرمن مشن کی طرف سے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر ڈاکٹر گسٹف ہیئنے من )NNAMENIHE GUSTAF ۔(DR کو جرمن ترجمہ القرآن کا آسمانی تحفہ دیا گیا۔ یہ پیشکش ایک احمدی وفد نے کی جس کی قیادت مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج مشن نے کی۔۹۱
حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا سفر مغربی جرمنی
۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء میں حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے مغربی افریقہ کے سفر کے دوران زیورک
سے بذریعہ گاڑی ۹ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء کو دوبارہ فرانکفورٹ تشریف لے گئے اور ۱۱ شہادت/اپریل کو بذریعہ ہوائی جہاز لیگوس )نائیجیریا( کے لئے روانہ ہوئے۔ حضور کے پروگرام میں فرانکفورٹ شامل نہ تھا۔ لیکن زیورک جاکر اچانک پروگرام میں تبدیلی ہوگئی اور فرانکفورٹ جانے کا بھی پروگرام بن گیا جرمن احمدی غیر متوقع طور پر اپنے پیارے امام کو اپنے درمیان پاکر فرط عقیدت سے آبدیدہ ہوگئے۔ حضور نے فرانکفورٹ میں مجلس علم و عرفان میں اپنے خدام کو قیمتی ہدایات دینے کے علاوہ ایک بصیرت افروز خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمایا۔۹۲ حضور کے اس مختصر قیام نے جماعت جرمنی کو ایک زندہ ایمان اور تازہ ولولہ بخشا۔ نماز جمعہ ایک زیر تبلیغی جرمن نوجوان بھی شامل ہوئے جن کو حضور کی روحانی توجہ نے اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ بیعت کرکے اسلام جیسی نعمت سے مشرف ہوئے اور ہدایت اللہ کا نام پایا۔۹۳
جرمن مشن کا مرکز فرانکفورٹ میں
اب تک احمدیہ مشن کا مرکز ہمبرگ تھا جو جرمنی کے انتہائی شمال میں واقع ہے لیکن ماہ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء سے یہ ہمبرگ سے فرانکفورٹ میں منتقل کردیا گیا۔ یہ تبدیلی حضرت فاتح الدین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ورود فرانکفورٹ سے صرف ایک روز قبل عمل میں آئی۔ چونکہ فرانکفورٹ جرمنی بلکہ یورپ کے وسط میں واقع ہے اس لئے یہاں مرکز کے قیام سے تبلیغ اسلام کے میدان میں وسعت پیدا ہوچکی ہے۔
جرمن مشن کی اسلامی مطبوعات
دارالتبلیغ جرمن کے قیام کو قریباً ربع صدی ہورہی ہے۔ اس عرصہ میں مشن نے نہایت شاندار لٹریچر پیدا کیا ہے جس تفصیل یہ ہے۔
۱۔ قرآن مجید )عربی جرمن(
‏Arabisch-Deutech Quran Heilige Der ۔1
‏]2eng Christentum[tag Order Islam ۔2
۲۔ اسلام یا عیسائیت )اقتباس ازدیباچہ تفسیرالقرآن مصنفہ حضرت مصلح موعود
‏Islam des Bedeutung gescllschaftlicbe Die ۔3
۳۔ اسلامی تعلیمات کی معاشرتی اہمیت )ازمحترم چودھری ظفراللہ خاں صاحب
‏Beaichungen undinternationale Islam Der ۔4
۴۔ اسلام اور بین الاقوامی تعلقات )ازچوہدری محمدظفراللہ خاں صاحب
‏glaube! Islam den a Warumich ۔5
۵۔ میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں )نشری تقریر حضرت مصلح الموعود(
۶۔ میرا مذہب )از چوہدری محمد ظفراللہ خاں صاحب(
‏Glaube Mein ۔6
‏ fur Islam des Bedcutung geschichtliche Die ۔kultur7 abendlandirs die
۷۔ مغربی تمدن میں اسلام کی تاریخی اہمیت )مصنفہ ڈاکٹر ٹلٹاک(
۸۔ مسیح ان کی زندگی۔ مشن اور وفات
‏Tod Auftrag, Leben, ۔Jesus ۔8
‏ islamiche der der Aufbau wirtschaftliche Die ۔9gnudrosGesellschaft
۹۔ اسلام کا اقتصادی نظام )ازحضرت مصلح الموعود
‏Mensch ideale Der Muhammad ۔10
۱۰۔ محمد انسان کامل )ترجمہ مضمون حضرت میرمحمد اسمعیل صاحب(
۱۱۔ مسیح کشمیر میں )ازحضرت محمد ظفراللہ خاں صاحب(
‏Kashmir in Jesus ۔11
۱۲۔ ہماری تعلیم )اقتباس ازکشتی نوح(
‏Lehre Unsere ۔12
‏ des Botschaft welt die an Warnung Eine ۔sugloish13 Friedens
۱۳۔ دنیا کو ایک انتباہ اور امن کا پیغام )ازحضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰے بنصرہ العزیز(
‏Gott Eine den an Glaube als Islam Der ۔14
۱۴۔ اسلام بحیثیت دین توحید )ازچودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ مبلغ سوئٹزرلینڈ(
‏Allahs Gnade Die ۔15
۱۵۔ اللہ کی رحمت اسلامی عقائدو تعلیمات کا تعارف )از مسعود احمد صاحب جہلمی مبلغ جرمنی(
‏Mekka i Haus Das ۔16
۱۶۔ مکہ کا گھر تفصیلات مناسک حج۔ )ازجناب ڈاکٹر محمد عبدالہادی کیوسی
مشن کی سنہری خدمات دوسری کی نظرمیں
یہ مشن یورپ اور بالخصوص مغربی جرمنی میں اشاعت اسلام کا بھاری مرکز بن چکا ہے اور ہمبرگ اور فرانکفورٹ میں جہاں مساجد تعمیر ہوچکی ہیں انوار قرآنی کی تجلیات کا دائرہ روز بروز وسیع ہورہا ہے۔ اس تعلق میں بطور ثبوت صرف چار آراء درج ذیل کی جاتی ہیں۔
۱۔
سویڈن کے ایک مشہور علمی رسالہ <TIDENSTECKEN> نے ۱۹۵۸ء کے SPRING EDITION میں ایک مفصل مضمون شائع کیا۔ یہ طویل مضمون اس انٹرویو کی رپورٹ پر مشتمل تھا جو اس کے ایڈیٹر نے ہمبرگ میں چوہدری عبداللطیف صاحب سابق مبلغ جرمنی سے لیا تھا۔ اس مضمون میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی اور ان کے اثرات پر مفصل روشنی ڈالنے اور عیسائیت کی تباہی اور اسلام کے غالب آنے کے متعلق ان پیشگوئیوں کا باتفصیل ذکر کرنے کے بعد جو بانی سلسلہ احمدیہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی ہیں` عیسائی دنیا کو بایں الفاظ خبردار کیاگیا کہ
>اسلام میں رونما ہونے والے اس مسیح موعود کا وجود` اس کی قائم کردہ جماعت اور اس کے تبلیغی مشن یہ سب چیزیں ہمارے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں اس امر پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ ہم عیسائیوں میں وہی جذبہ وہی سچائی وہی روح القدس موجود ہے جو ہمارے مسیح کی ابتدائی جماعت میں کار فرما تھا۔ اگر نہیں تو پھر ہم نے عیسائیت کے مقصد اور اس کی غرض و خایت کو فراموش کردیا ہے۔ بیشک ہمارے گرجے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں اور ہماری جماعتیں اور تنظیمیں جگہ جگہ موجود ہیں لیکن سچائی کی روح کے بغیر ہمارا مذہب` ہمارے عقائد اور ہماری تنظیمیں سراسر غیرمفید اور بیسود ہیں اور ایک بڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ہر چند کہ اس اسلامی جماعت کے مشن عیسائیت کے لئے خطرناک نہیں کہلا سکتے لیکن ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ جماعت ایشیا` امریکہ` یورپ اور افریقہ میں جارحانہ طور پر عیسائیت پر حملہ آور ہے۔ اس کے پیش کردہ دلائل ٹھوس مضبوط اور قوی ہیں۔ ان حالات میں جب ہم ان نتائج پر غور کرتے ہیں جو اس تبلیغ جدوجہد کے نکل سکتے ہیں تو ہم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ کیا ہم عیسائیوں میں وہ روحانی طاقت موجود ہے جس سے ہم اس جارحانہ تحریک کا مقابلہ کرسکیں۔ کیا ہم عیسائیوں پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ ہم اسلام کے اس چیلنج کا اپنے صحیح عقائد دعا اور روح القدس کی برکت سے جواب دینے کے قابل ہوسکیں۔<۹۴
۲۔
پاکستان کے روزنامہ >نوائے وقت< لاہور مورخہ ۱۸ دسمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت خاص )علمی ادبی ایڈیشن( میں >جرمنی میں مسلمانوں کی سرگرمیاں< کے زیرعنوان ایک نوٹ شائع ہوا۔ اس نوٹ کا متعلقہ حصہ مندرجہ ذیل ہے۔
>مغربی جرمنی کے ایک کثیرالاشاعت پرچے میں محمدامین عبداللہ کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ بون کے لاٹ پادری کے اخبار میں کچھ عرصہ پیشتر بتایا گیا تھا کہ آٹھ سو جرمن مسلمان ہوگئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں جرمنوں کے مسلمان ہونے سے یہ خیال پیدا ہوا کہ آیا جرمنی میں آباد مسلمانوں کی کوئی منظم تحریک موجود ہے۔ اس سوال کا جواب مغربی جرمنی کی حکومت کے بلیٹن میں یوں دیا گیا ہے۔<
>مغربی جرمنی میں اسلام کی تین طریقے سے نمائندگی ہوتی ہے۔ پہلا یہ کہ مغربی جرمنی میں مسلم ممالک کے سفارت خانوں کے مسلمان ملازم جرمنی میں موجود ہیں۔ ان میں مسلم ممالک کے طالب علم اور تاجر بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کا یہ گروپ سب سے بڑا ہے۔ اگرچہ ہمبرگ اور آئش میں مسلمانوں نے ایک ایک مسجد تمعیر کرلی ہے۔ مگر سفارتی نمائندوں` طالب علموں اور تاجروں کو کسی منظم اسلامی تحریک کا حصہ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جو باہمی اجلاس ہوتے رہنے ہیں ان کا مقصد اسلام کی تبلیغ کرتا نہیں ہے مگر مذہبی` ثقافتی اور قومی روایات کو برقرار رکھنا ہے۔ دوسرا گروپ مہاجرین کا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی میں آباد ہوگئے ہیں۔ اور اب بظاہر مغربی جرمنی ہی ان کا وطن ہے۔ ان مسلمانوں کا ثقافتی مرکز میونخ ہے۔ میونخ میں مسجد کی تعمیر کے لئے وفاقتی حکومت اور باویریہ کی حکومت ان مسلمانوں کی امداد کررہی ہے۔ ان دونوں گروپوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ وہ یہ کہ پہلے گروپ کے مسلمان تو کچھ عرصہ کے لئے یہاں آتے ہیں۔ انہیں اپنی واپسی کا یقین ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرے گروپ کے مسلمان اگرچہ اتنی دیر سے یہاں آباد ہیں مگر وہ اب بھی سوچتے رہتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنے اپنے وطن کو واپس لوٹ جائیں گے۔ تیسرا گروپ جو اسلام کی تبلیغ کے لئے یہاں آیا ہے اس گروپ کا تعلق احمدیہ جماعت سے ہے۔ اور یہ گروپ گذشتہ دس سال سے مغربی جرمنی میں سرگرم کار ہے۔<
۳۔
‏ind] ga[t حکومت جرمنی کی طرف سے شائع ہونے والے ایک ہفتہ وار عربی خبرنامہ >السرسالہ< نے ۴ فروری ۱۹۶۶ء کو لکھا۔
>اس ضمن میں یہاں ایک اہم اور تعجب خیز حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جرمنی اور باقی مغربی یورپ کے ممالک میں دعوت اسلام اور دیگر اسلامی کام صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی مساعی کے مرہون منت ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کی دعوت تبلیغ کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جماعت احمدیہ ہی وہ پہلی تنظیم ہے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد قرآن کریم کا جرمن ترجمہ اصل عربی متن کے ساتھ شائع کیا ہے۔<۹۵
۴۔
۱۹۷۰ء میں مغربی پاکستان کے تمام اہم اخبارات نے جرمنی کی مساجد پر ایک مضمون شائع کیا۔ جس میں مقالہ نگار نے فرانکفورٹ اور ہمبرگ کی احمدیہ مساجد کا باتصویر تذکرہ کرتے ہوئے لکھا۔
>قدرتی طور پر مشورے اور امداد کا ہر متلاشی مسلمان سب سے پہلے اپنی قدیم ترین مسجد کا رخ کرتا ہے۔ ان کے امام بھی مقتدیوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہر وقت کوشا رہتے ہیں بہت سی مشکلات کی وجہ سے صرف یہ ہوتی ہے کہ نووارد مسلمان جرمن زبان سے ناواقف ہوتا ہے یہ مشکل امام مسجد کی مدد سے حل ہوجاتی ہے۔ مثلاً فرانکفورٹ کی نور مسجد کے امام مسعود احمد پانچ زبانیں جانتے ہیں اور وہ فرانکفورٹ کے قرب وجوار میں بسنے والے مسلمانوں سے ان کی علاقائی زبانوں میں بات چیت کرلیتے ہیں۔ ہر ہفتے فرانکفورٹ اور اس کے قرب وجوار کی بستیوں سے مسلمانوں کی ایک بڑا تعداد ان کی چھوٹی سی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے پہنچتی ہے بہت سے مسلمانوں کے لئے کواہ وہ مراقش کے ہوں یا انڈونیشیا کے` مشرقی افریقہ کے ہوں یا مغربی افریقہ کے` مسعود احمد مشفق والد` ہمدرد` بہی خواہ` ترجمان اور پیرو مرشد سبھی کچھ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرانکفورٹ کی نور مسجد کے اس نوعمر امام کو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ جرمن لوگوں میں اسلامی ثقافت و نظریات سے دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے صدر ڈاکٹر ہائنے من سے ان کی ملاقات نے بھی مسعود احمد صاحب کے ان خیالات کو تقویت پہنچائی ہو۔<۹۶
فصل پنجم
پاکستان کے ممتاز صحابی
مجاہدین فرقان بٹالین کے دمدموں میں
۲۷ فروری ۱۹۴۹ء کو پاکستان کے چار ممتاز صحافیوں نے فرقان بٹالین کے کفن برووش مجاہدین کے دمدموں کا دورہ کیا اور ان کی جانثاری` حب الوطنی` جواں ہستی` شجاعت و بسالت اور جرت آفرینی کو دیکھ کر از حد متاثر ہوئے۔ جناب ثاقب زیروی صاحب کے قلم سے صحافیوں کی اس یادگار سفر کی ایمان افروز روداد درج ذیل کی جاتی ہے۔
فرماتے ہیں۔ >قسمت سے ہمیں گزشتہ اتوار کو وہ جوان اور امنگوں بھرا ماحول دیکھنے کا موقعہ میسر آگیا۔ جہاں قوم کے سجیلے جوان اور وطن کی حفاظت کے لئے ہتھیلیوں پر سررکھے ہوئے چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ جمے بیٹھے ہیں۔ شجاعت اور مردانگی کے ان پتلوں کو دیکھتے ہی دل نے باواز بلند کہا۔ انسان اور حیوان میں یہی ایک جذبہ تو امتیاز پیدا کرتا ہے۔ ایک حیوان کی محبت اپنے نفس تک حد اپنے بچوں تک محدود رہتی ہے۔ لیکن ایک متمدان انسان کی محبت اپنے سے بڑھ کر اپنی قوم اور وطن تک سے ہوتی ہے وہ جس طرح دکھ درد کے وقت اپن لئے ہر قربان کر گزرتا ہے۔ یقیناً اس طرح جب اس کی قوم یا وطن پر کوئی مصیبت آتی ہے۔ تو اپنی تمام آسائشوں اور راحتوں کو وطن کی آواز پر لبیک کہتا ہوا مصائب کے سامنے سنہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ القصہ ہم نے دیھکنے والی آنکھوں سے ان شیروں کو دیکھ لیا۔ جن کے دم قدم سے غریبوں کو استبدادی طاقتوں سے چھڑی را ملا۔ اور مصائب سے نہ بات لی۔ مسلسل تکالیف اور مظالم کے روندے ہوئے ہزاروں بلکہ لاکھوں مجبور مقہور انسان پورے ایک سال کی ٹھوکریں کھانے کے بعد پھر اپنے آبائی گھروندوں کی سمت لوٹے۔ اور اب خدا کے فضل اور ان مجاہیت کی حفاظت کی ضمانت پر کشمیر کے اس خطے میں کھتیاں پھر بوئی جارہی ہیں۔ ہل چل رہے ہیں۔ جو لہو میں آگ جلیی ہے۔ اور بچے پھر پورے ایک سال بعد دامن کوہ میں مسرت و انبساط کے طرارے بھرنے لگے ہیں۔
اخبار نویسوں کا یہ مختصر سا قافلہ جس میں خاکسار ثاقب زیروی( کے علاوہ میاں محمد شفیع )چیف رپورٹر پاکستان ٹائمز( سردار فضلی )چیف رپورٹر احسان( اور پروفیسر سرور )مدیر آفاق( شامل تھے۔ اتوار کی صبح کو ہندوستانی اور ڈوگرہ فوجوں کے ہاتھوں بری طرح سمارشدہ بھمبیر سے ہوتا ہوا جیپ کاروں کی سخت جانی اور تیز رفتاری کے طفیل پہاڑی بلندیوں کوٹا پتا پھاندتا نوشہرہ کے جنوب میں >کمبر< کے اس مشہور قلعے کے قریب میں جانکلا۔ جس کی پیشانی پر احمد شاہ ابدالی کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اور جس کی مستحکم دیواروں سے ٹکرا کر دشمن کی دور مار توپوں کے گولوں کو بیسیوں نہیں سینکڑوں دفعہ مونہہ کی کھانی پڑی ہے۔ اور پھر اس کے قریب وجوار ہی میں ایک جگہ سکائی لائن پر مجاہدین کے دمدموں میں کھڑے ہوکر دشمن کیے مورچوں کا جائزہ لیتے وقت مجاہدین کے کمانڈر نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں کہا۔
>ہم سے سچ پوچھتیے ہیں آپ تو سچ مچ یہ >تار کے< کا وقت نہ تھا۔ دشمن اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کے بعد حوصلہ ہار چکا تھا۔ اور ہم نے اکا دکا جارحانہ حملے شروع کردیئے تھے۔ اب آئندہ دس پندرہ دن کے اندر اندر دشمن کے قدم اکھاڑ دینا ہمارے لئے مشکل نہ تھا۔ پھر خدا کیے فضل سیے نوشہرے تک کا محاذ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن صاحب ہم تو حکم کے بندے ہیں۔ ہمارے اپنے ارادے اور عزائم کیا معنی؟ لیکن ہماری اتنی خواہش ضرور ہے کہ اگر کا کار پردازان ملت نے >التوانئے جنگ< کے سمجھوتے پر صاد کردیا ہے۔ تو اب دشمن کہ درپردہ سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ مبادا ہماری غلط مروت اور وعدہ ایفائی ہماری لٹیا ہی ڈبو کر رکھ دے۔
اور پھر اس نے ایک ہاتھ میں دوربین سنبھال دوسرے ہاتھ سے ہمیں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ دیکھئے یہ سامنے کی پہاڑی پر دور جیپوں اور ٹرکوں کی آمدورفت کا سلسلہ کس تیز رفتاری سے جاری ہے۔ سڑکیں بن رہی ہیں۔ تازہ دم فوجیں اتر رہی ہیں اور جونہی ہم میں سے ایک ایک نے دوربین کی وساطت سے اس صرف ڈیڑھ میل دور پہاڑی پر نطر دوڑائی تو ہماری آنکھوں نے کمانڈر کے ہر لفظ پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔۔۔ اور یہ دور بین اور دورشناسی کا معاملہ ابھی جاری تھا۔ کہ یکدم ایک ایسے بھیانک دھماکے سے فضا میں ارتعاش پیدا ہوا۔ جیسے ہمارے بالکل پاس ہی کہیں ۳۵ پونڈ کا کوئی گولہ آکر پھٹا ہو۔ ہم ذرا پریشان ہوئے تو امیر مجاہدین نے بتایا یہ کوئی توپ کا گولہ نہیں پلکہ ڈینامیٹ کے پھٹنے کی آواز ہے۔ دشمن اس کی امداد سی پہاڑ کاٹ کاٹ کر سڑک تیار کررہا ہے۔ اور پھر جب تک ہم وہاں رہے ۔ تیس تیس چالیس چالیس منٹ کے وقفوں کے بعد اس طرح کے ارتعاش انگیز دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
مجاہدین کی اس بٹالین میں ہرقسم کے جاں نثار دیکھنے میں آئے۔ بڑی عمر کے آزمودہ کار اور پختہ کار سپاہی بھی۔ کالجوں کی مشرتوں سے معمور پلے ہوئے ماحول کے جوان بھی۔ اور وہ خوردسالہ نوجوان بھی جو زندگی کی کشمکش سے ابھی پوری طرح دو چار بھی نہیں ہونے پائے تھے۔ ان میں سے استفسار پر معلوم ہوا کوئی کالج کی خوش آئند فضا پر میدان جنگ کو ترجیح دیتا ہوا چلا آیا تھا کوئی اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اور کسی کی شادی پورے ایک سال سے محض دولہا کی غیر حاضری کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ اور انہی میں سے ایک ۱۳۔ ۱۴ سالہ دلیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بٹالین کے کمانڈر نے ہمیں بتایا۔ یہ جس کا ہاتھ مشکل >ٹرگر< تک پہنچتا ہے۔ پوری دو ماہ تک بصد اصرار دشمن کی پہاڑی کے اردگرد پٹرول کے لئے جاتا رہا ہے۔ اور دوسری طرف دشمن کی جواں ہمتی کا یہ عالم ہے کہ اس کے سپاہیوں نے پٹرول پر آنا تو ایک طرف کبھی پہاڑی کے اس طرف جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔
سب سے زیادہ دلچسپ اور جرات آفرین بات یہ تھی کہ کوئی مجاہد ہماری زبان سے اسلحہ گولہ بارود یا خوراک کے متعلق کوئی سوال سن سکتا تھا۔ جب بھی کبھی ہم ایچ پیچ ڈال کر سوال کرتے۔ تو ہر ایک یہی جواب دیتا۔ خوراک اگر نہ بھی ملے تو کیا ہے۔ یہ پتے یہ گھاس اور پھل کیا کم نعمتیں ہیں۔ آخر ہماے آبائواجداد نے انہی نعمتوں کے بل پر ساری دنیا پر قبضہ کیا تھا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہیں فتح کے لئے صرف گولہ بارود کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے دل چاہئے >گولوں سیے کھیل جانے والا دل۔ توپوں سے ٹکرا جانے ولا دل۔
اور اس سے کہیں زیادہ ایمان افروز تھے وہ لمحات جب ہم مجاہدین کی اس ساری کی ساری بٹالین کیے ہمراہ پہاڑی کے دامن میں ان جوانوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے آئے جو مادر وطن کے لئے داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ ہر مجاہد کی آنکھ بہ رہی تھی۔ اور بعض کی تو رقت کی وجہ سے ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ مجھے یوں محسوس ہوا۔ جیسے شہدا کے یہ زندہ نقوش زبان ہال سے پکار پکار کر دوسرے مجاہدین سے کہہ رہے ہوں ۔۔۔۔ دیکھو
>۔۔۔۔۔۔ ہم نے مرکز بھی اس سرزمین کو نہیں چھوڑا۔ تم جیتے جی دشمن کے قدم اس خطبہ پاک پر نہ آنے دینا۔ ورنہ ہماری لاشوں کی بے حرمتی ہوگی۔ تمہارے شہییدوں ک بے حرمتی اور تم جانتے ہو جو قوم شہیدوں کی لاش کی بے حرمتی برداشت کرلیتی ہے اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔۔۔۔۔
اس مختصر سے قیام کے دوران میں جہاں مجاہد نے اپنی مردانہ شجاعت قومی حمیت اور وطن محبت ک عظیم نقوش ہمارے دلوں پر بٹھاتے اور ساتھ کے ساتھ ہمیں جنگی کرتبوں سے بھی روشناس کرایا اور مسلمان ک روایتی مہمانداری کے معاملے میں حدگئی۔
واپسی پر جب ہمیں اچانک جیپ کار کے الٹنے حادثہ پیش آیا )جس کا ذکر ہم پہلے انہی کالموں کرچکے ہیں( تو ان لوگوں نے اپنی محبت اور ہمدری کے پھول ہم پر اس فراخدی سے نچھاور کئے ہمارے دل تڑپ اٹھے۔ اللہ کا یہ بھی ایک فضل ہوا کہ یہ حادثہ ہمیں عین اس مقام پر پیش آیا جہاں سے >سفرمنیاں< کا کیمپ قریب تھا وہ ایک جانگزا حادثے کے دیکھتے ہی لپکے اور ہمیں ہاتھوں پر اٹھا کر کواٹر میں لے گئے۔ ہمیں جھاڑا پونچھا زخموں ٹنکچر لگایا۔ پٹیاں باندھیں اور جوں جوں فرط سے ہماری نگاہیں جھکتی گئیں ان کی محبت اور بڑھتی ہی گئی۔ واقعی ~}~
‏]teop [tagسفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
اور اس سفر مں یہ امرکس قدر خوشکن تھا جاتے وقت اور واپسی پر جہاں کہیں بھی علاقے کے عوام نے ہمارے قافلے کو جاتے دیکھا انہوں نے پاکستان زندہ باد کے نعروں میں استقبال کیا۔
فصل ششم
مسقط مشن کی بنیاد
عمان جزیرہ عرب کی ایک مسلم ریاست ہے جو قطر اور حصر موت کے درمیان عرب کے مشرقی پر واقع ہے۔ مسقط اس ریاست کا دارالسلطنت اور خلیج فارس کی بڑ اہم بندرگاہ ہے۔ یہاں انہوں کی تعلیمی اور مذہبی حالت بہت ناگفتہ بہ ہے اور ان پر ایک جمود طاری ہے مگر عیسائیوں نے جگہ جگہ ہسپتال کھول رکھے ہیں جہاں وہ کھلے بندوں صلیبی مذہب کا پرچار کرتے ہیں اور سینکڑوں مسلمانوں کو حلقہ بگوش عیسائیت کرچکے ہیں۔
اگرچہ احمدیہ مسلم مشن عدن ۱۳۲۵ہش/۱۹۴۶ء سے عرب کے مغربی ساحل کو عیسائیوں کی یلغار سے بچانے کے لئے ٹھوس خدمات بجالارہا تھا مگر مشرقی ساحل میں ان کی سرگرمیوں کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں تھا۔ اور عربوں کی نئی نسل صلیبی مذہب سے متاثر ہورہی تھی۔ اور مشکل یہ تھی کہ ان علاقوں میں داخلہ پر سخت پابندیاں تھیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک احمدی دوست محمد یوسف صاحب بی۔ ایس سی جو ان دنوں مسقط حکومت کے فوڈ آفیسر تھے لاہور آئے تو حضرت مصلح موعود کے حکم سے مولوی روشن الدین صاحب فاضل واقف زندگی کو ان کے ساتھ روانہ کردیا۔ اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ وہ ریاست میں ذریعہ معاش تلاش کریں۔ انہیں اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف ۲ تبلیغ/فروری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء کو مسقط العرب میں پہنچے اور یوں نہایت بے بضاعتی کے عالم میں مسقط مشن کی بنیاد پڑی۔ آپ کے تشریف لے جانے سے قبل مسقط میں تین احمدی تھے۔
مسٹر محمد یوسف بی ایس سی نے ابتدائی خرچ کے طور پر کچھ رقم مولوی صاحب کو پیش کی اور کہا کہ کچھ اور رقم مرکز سے لے کر تجارتی کاروبار شروع کرنا چاہئے نیز حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں بھی لکھ دیا کہ اگر کچھ روپیہ مرکز سے بھی ہمیں مل جائے تو مولوی صاحب کو تجارت پر لگادیں مگر حضور نے ارشاد فرمایا کہ تجارت میں کام زیادہ کرنا پڑتا ہے اور تبلیغ کے لئے وقت نہیں ہوتا ان کو ملازمت کروائیں۔ چنانچہ کچھ جدوجہد کے بعد مولوی صاحب کو ملازمت مل گئی لیکن تبلیغ حق کی پاداش میں فارغ کردیئے گئے۔ اور یہ صورت کئی بار پیش آئی اور تعصب کی وجہ سے کئی رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگر آپ صبرواستقامت کے ساتھ دین کی خدمت میں مصروف رہے۔ ملازمت کے دوران جب آپ کو معقول مشاہرہ مل جاتا تو آپ مرکز کو اطلاع دے دیتے کہ میں گھر والوں کو یہاں سے خرچ روانہ کردوں گا۔ مگر جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے تو مرکز خود ان کے بال بچوں کی مالی ذمہ داریاں سنبھال لیتا اور یہ صورت آپ کے پورے عرصہ قیام عمان تک قائم رہی۔
مسقط میں ایک لمبے عرصے تک تربیتی و تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد آپ ۱۵ تبلیغ/فروری ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء کو دوبئی منتقل ہوگئے اور جماعتی تربیت کے ساتھ ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہے اور بالاخر ۹ ظہور/اگست ۱۳۴۰ہش/۱۹۶۱ء کو واپس مرکز احمدیت ربوہ میں تشریف لے آئے۔
‏tav.11.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۱۱
شرق اردن مشن کی بنیاد سے لیکر مسقط مشن کی بنیاد تک
حواشی
۱۔
البقرہ رکوع ۲۴ آیت ۱۹۰
۲۔
البقرہ رکوع ۱۸ آیت ۱۴۹
۳۔
الفضل ۲۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱۔۲
۴۔
الفضل لاہور ۲۸ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔۴
۵۔
‏h2] [tag تفصیل الفضل ۲۶`۲۸ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں درج ہے
۶۔
الفضل لاہور ۲۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱و۸
۷۔
الفضل ۱۳ وفا` ۱۶ وفا` ۲۳ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء و الفضل ۷ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء
۸۔
بطور مثال ملاخطہ ہو۔ جلد سوم زیر عنوان >۱۹۰۱ء کے بعض ممتاز صحاب< حضرت مولانا نیر کے ایمان افروز خودنوشت حالات و روایات رجسٹر >روایات صحابہ< جلد ۱۱ صفحہ ۲۴۹` ۳۰۱`` ۳۱۲ و جلد ۱۲ صفحہ ۱۲ میں محفوظ ہیں۔ علاوہ ازیں الفضل کے مندرجہ ذیل پرچوں میں بھی آپ کے شمائل و اخلاق اور خدمات کا ذکر ملتا ہے۔ ۱۹ ۔ ۲۳ ۔ ۲۵ تبوک/ستمبر و ۲۳ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء۔ ۲۶ شہادت/اپریل` ۲۴ ہجرت/مئی ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء۔ نیز >تاریخ احمدیت لاہور< مولفہ شیخ عبدالقادر صاحبؓ نومسلم مربی سلسلہ احمدیہ( صفحہ ۵۴۲
۹۔
رجسٹر >روایات صحابہ< جلد ۴ صفحہ ۱۴۴ و جلد ۱۲ صفحہ ۲۶۵۔۲۹۱` >تاریخ احمدیت لاہور< )مولفہ جناب مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ نومسلم مربی سلسلہ احمدیہ`( الفضل ۲۶ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۶
۱۰۔
خودنوشت حالات کے لئے ملاخطہ ہو رجسٹر >روایات صحابہ< نمبر ۵ صفحہ ۸۳` الفضل ۹ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۳
۱۱۔
میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ نے الفضل ۱۹ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں آپ کے حالات شائع کرادیئے تھے۔
۱۲۔
رجسٹر >روایات صحابہ< جلد ۳ صفحہ ۱۴۴۔۱۴۷` جلد ۷ صفحہ ۲۱۷` جلد ۱۱ صفحہ ۳۴۷
۱۳۔
رجسٹر >روایات صحابہ< جلد ۱۲ صفحہ ۹ تا ۱۲ )خودنوشت روایات`( الفضل ۲۴ نبوت/نومبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۱۴۔
الفضل ۱۴ فتح/دسمبر۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ و ۴ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۶` >تاریخ احمدیہ سرحد< صفحہ ۲۶۵۔۲۶۸ )از حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ۱۹۵۹ء قاضی خلیل ہوتی ضلع مردان(
۱۵۔
الفضل ۱۲ امان/مارچ ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۶
۱۶۔
)تاریخ احمدیت جموں و کشمیر( صفحہ ۲۵۲۔۲۵۳( مطبوعہ ضیاء اللہ سمیع پریس ربوہ ۱۹۷۳ء ایضاً رسالہ حکایت لاہور دسمبر ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۹۰
۱۷۔
الفضل ۲۱ صلح/جنوری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۱۸۔
الفضل ۲۶۔۲۸ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳
۱۹۔
الفضل ۳۰ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۲۰۔
>انقلاب< ۱۸ جنوری ۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۲۱۔
الفضل ۷ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۸ء
۲۲۔
قیدیوں کی سپیشل ٹرین لاہور چھائونی اسٹیشن پر پہنچی تو حضرت مرزا بشیراحمد صاحب` حضرت نواب محمد دین صاحب` شیخ بشیراحمد صاحب ایڈووکیٹ امیرجماعت احمدیہ لاہور` چودھری اسداللہ خاں صاحب بارایٹ اور دوسرے احمدیوں نے پرجوش استقبال کیا )الفضل ۱۰ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۹۲
۲۳۔
الفضل ۱۳ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۴
۲۴۔
الفضل ۱۳ شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۲
۲۵۔
الفضل لاہور ۱۳ شہادت` ۲۲ شہادت` یکم ہجرت ۱۳۵۱
۲۶۔
قدیم ریکارڈ ۲۷۔۱۳۲۶ہش/۴۸۔۱۹۴۷ء مرتبہ مرزامحمدحیات صاحب
۲۷۔
نوائے وقت لاہور ۱۱ مئی ۱۹۴۸ء صفحہ ۱
۲۸۔
>انقلاب< لاہور ۱۳ جولائی ۱۹۴۹ء صفحہ ۴
۲۹۔
>انقلاب< لاہور ۲۲ ستمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۳
۳۰۔
رجسٹر کارروائی مشاورتی اجلاس رتن باغ لاہور )غیرمطبوعہ(
۳۱۔
الفضل ۱۷ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۸
۳۲۔
یعنی بیگم صاحبہ حضرت میرمحمد اسمعیل صاحب رضی اللہ تعالٰے عنہ
۳۳۔
حضرت سیدہ مریم صدیقہ ام متین )حرم ثالث حضرت سیدنا المصلح الموعود( مراد ہیں۔
۳۴۔
مرحوم مرزا محمد شفیع صاحب کے صاحبزادے تھے۔
۳۵۔
الفضل لاہور ۱۹ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۳ کالم ۲-۳ نیز الفضل ۲۶ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۳۶۔
اس کانفرنس کا ذکر اس باب کی فصل ششم میں آرہا ہے )مولف(
۳۷۔
الفضل ۶ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶ کالم ۲۔۴
۳۸۔
ڈاکٹر صاحب ۱۹ سال تک پاکستان لیگ کے صدر رہے نیز لیگ اور مسلم ایسوسی ایشن کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً جماعت احمدیہ سربایا کے مندرجہ ذیل عہدوں پر بھی فائز رہے۔ نائب امیر۔ سیکرٹری مال۔ سیکرٹری تعلیم و تربیت۔ سیکرٹری امور عامہ۔ سیکرٹری وصیت۔ زعیم انصار اللہ )مراسلہ ڈاکٹر محمد عبدالغفور صاحب ۲۱ ستمبر۱۹۸۳ء بنام مولف(
۳۹۔
الفضل ۳۱ ہجرت/مئی` ۳ احسان/جون` ۴ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۴۰۔
شیخ نور احمد صاحب منیر اور حضرت شمس صاحب نے انکی وفات پر مضمون لکھے جو الفضل ۲۷ نبوت/نومبراور ۷ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں شائع ہوئے۔
۴۱۔
الفضل ۲۵ فتح/دسمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۴۲۔
الفضل ۵ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۴۳۔
الفضل ۱۲ صلح/جنوری ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء
۴۴۔
سفر کی تفصیلات کے لئے ملاخطہ ہو الفضل ۲۔۱۲ امان/مارچ ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
‏h1] [tag ۴۵۔
الفضل ۲۳ ماہ ہجرت/مئی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵-۶ کالم ۱
۴۶۔
رجسٹر کارروائی مشاورتی اجلاس )رتن باغ(
۴۷۔
الفضل ۲۹ احسان/جون ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵ کالم ۱
۴۸۔
نقل مطابق اصل۔ >آپ< ہوگا )مولف(
۴۹۔
الفضل ۲۷ ظہور/اگست ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۵
۵۰۔
الفضل ۱۵ وفا/جولائی ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۶
۵۱۔
الفضل ۵ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۵
۵۲۔
تفصیلی روداد کے لئے ملاخطہ ہو الفضل ۲۴۔۲۵ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء
۵۳۔
الفضل ۲۹ تبلیغ/فروری ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱ کالم ۲و۳
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۵۴۔
الفضل ۵ تبوک/ستمبر ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء صفحہ ۱
۵۵۔
جرمن مشن کے دور اول کی تفصیل پر >تاریخ احمدیت< جلد پنجم ۳۸۶۔۳۸۷ پر روشنی ڈالی جاچکی ہے۔
۵۶۔
الفضل ۲۱ صلح/جنوری ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۱
۵۷۔
الفضل ۲۶ احسان/جون ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۲ کالم ۱
۵۸۔
الفضل ۲۴ تبوک/ستمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴ کالم ۱
۵۹۔
الفضل ۲۵ ظہور/اگست ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۴
۶۰۔
۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء میں وفات پائی
۶۱۔
الفضل ۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ۳` الفضل۱۷ فتح/دسمبر۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء
۶۲۔
الفضل ۶ فتح/دسمبر ۱۳۲۸ہش/۱۹۴۹ء صفحہ ۳
۶۳۔
الفضل ۱۷ ہجرت/مئی ۱۳۲۶ہش/۱۹۵۲ء صفحہ ۵
۶۴۔
چوتھا سوال یہ تھا کہ احمدیہ جماعت کی تاریخ` نظام` تبلیغ اور تعداد کی وضاحت فرمائیں۔
۶۵۔
الفضل ۸ صلح/جنوری ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۱
۶۶۔
الفضل ۱۵ وفا/جولائی ۱۳۳۴ہش/۱۹۵۵ء صفحہ ۳
۶۷۔
الفضل ۲۷ تبلیغ/فروری ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۱
۶۸۔
الفضل ۲۶ احسان/جون ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۱
۶۹۔
یہ تقریر الفضل ۲۷ شہادت/اپریل ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء میں شائع ہوچکی ہے۔
۷۰۔
یہ تقریر الفضل ۲۸ اخاء/جولائی ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء میں شائع ہوچکی ہے۔
۷۱۔
الفضل ۴ وفاء/جولائی ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء صفحہ ۳۔۴
۷۲۔
رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ ۵۸
۷۳۔
الفضل ۱۵ تبوک/ستمبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۴
۷۴۔
الفضل ۱۴ تبوک/ستمبر ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۳
۷۵۔
رسالہ >تحریک جدید< ماہ صلح/جنوری ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء۔ مزید تبصروں کے لئے ملاخطہ ہو الفضل ۱۰ نبوت/نومبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۳
۷۶۔
الفضل ۱۷ صلح/جنوری ۱۳۴۲ہش/۱۹۶۳ء صفحہ ۳
۷۷۔
ملخصاً از رپورٹ مبلغ مرسلہ مورخہ ۲۰ اپریل ۱۹۶۴ء
۷۸۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ زمانہ طالبعلمی میں بھی جرمنی تشریف لائے تھے مگر زمانہ خلافت کا یہ پہلا سفر تھا۔
۷۹۔
الفضل ۱۰ ظہور/اگست ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۴
۸۰۔
الفضل ۱۰ ظہور/اگست ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۳۔۴
۸۱۔
الفضل ۲۷ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۱
۸۲۔
الفضل ۲۸ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۱
۸۳۔
الفضل ۳۰ وفا/جولائی ۱۳۴۶ہش/۱۹۶۷ء صفحہ ۴
۸۴۔
ڈاکٹر سیموئل بیروف کے بائبل لینڈ مشن کے انچارج اور مسیحی دنیا کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ آپ آرمینیا کے عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر ابتدائی تعلیم یروشلم میں پائی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان آخری ایام میں یسوع مسیح کی آمدثانی سے قبل آسمانی باپ نے انہیں روح القدس کی زبردست روحانی قوت کے ساتھ تمام دنیا اور خصوصاً مشرق وسطی کے ممالک کو بیدار کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اپنی کتاب سموئیل ڈاکٹریان کی کہانی DOCTORIAN) SAMUEL OF STORY (THE میں اپنی زندگی کے مختصر حالات بیان کرتے ہوئے >خداوند یسوع مسیح< سے اپنی ملاقاتوں اور روح القدس کی زبردست طاقت سے معمور ہونے کا جابجا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب میں برازیل کے ایک میڈیکل ڈاکٹر کی شہادت بھی درج ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جس کی زندگی کے حالات خالی از دلچسپی ہوں لیکن سیموئیل ڈاکٹریان کی زندگی نہ صرف دلچسپ بلکہ خدائی روح اور اس کے تصرف کا عظیم مظہر ہے-
پادری ڈیوڈگارڈنر نے کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر سیموئیل کے دورہ لندن )۱۹۶۳ء( کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔ برطانیہ کے کئی عیسائی جو سالہا سال سے عیسائیت کی تجدید کے لئے دعائیں کررہے تھے انہیں اپنی دعائیں خدا کے شکر میں وقف کردینی چاہئیں کیونکہ تجدید کا آغاز یقیناً ہوچکا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں روح القدس کی عظیم تحریک کے آثار نمایاں ہیں۔
۸۵۔
الفضل ۱۷۔۱۸ تبوک/ستمبر ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء صفحہ ۳۔۴
۸۶۔
الفضل ۱۳۔۱۴ احسان/جون ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء
۸۷۔
الفضل ۴ تبوک/ستمبر ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۴
۸۸۔
ڈاکٹر محمد عبدالہادی صاحب کیوسی احمدی ہونے کے بعد رسالہ ISLAM> <DER کے مدیر بنے۔ ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء میں پہلے آپ نے قادیان کی زیارت کی۔ پھر جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت کا شرف حاصل کیا۔ پھر حرمین الشریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے اور واپسی پر اپنے روحانی تاثرات اور قلبی وار دات و مشاہدات رسالہ مذکور میں شائع کئے جو بہت روح پرور تھے۔ ان مضامین کا ترجمہ مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی مبلغ جرمنی نے الفضل ۷ صلح/جنوری و ۲۹ ہجرت/مئی و ۱۳ احسان/جون ۱۳۵۰ہش/۱۹۷۱ء میں بھی شائع کرایا۔ ان مضامین کے شروع میں مکرم عبدالہادی صاحب کیوسی کے متعلق ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے۔
۱۹۷۲ء میں آپ کو حج بیت اللہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ واپس آکر آپ نے حج بیت اللہ کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے جو ڈائری کی صورت میں ہے اور بطور رہنمائے حج جرمن زبان میں نہایت مستند اور واحد کتاب ہے جس میں بیت اللہ شریف اور دوسرے مقامات مقدسہ کے متعلق نہایت فاصلانہ اور مستند معلومات ہیں۔ اس کے علاوہ اسپرانٹوزبان میں ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک گراں قدر تصنیف بعنوان >ہادی برحق ~صل۱~ کے پہلو میں< ڈنمارک کے مطبع میں زیر طبع ہے۔ اس کتاب کا نصف حصہ آنحضرت~صل۱~ کی مقدس سوانح پر مشتمل ہے اور بقیہ نصف حصہ میں ایک سو احادیث رسولﷺ~ کا ترجمہ اور تشریح مع عربی متن کے ہے۔ اسپرانٹوزبان کے ایک مشہور رسالہ h2](BIBLICALREVIEW) g[ta میں اسلام کے متعلق اکثر ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔
۱۹۷۰ء سے آپ اسپرانٹو کی مرکزی اکیڈمی کے ممبر منتخب ہوگئے ہیں۔ آپ کو اسپرانٹو جاننے والے حلقوں میں خدا تعالیٰ نے تبلیغ کی بڑی موثر توفیق بخشی ہے۔ ۱۹۶۸ء سے آپ کو ہر سال اسپرانٹو کی عالمی کانگرس میں اسلام پر تقریر کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ۱۹۷۰ء سے آپ کو بحیثیت نمائندہ اسلام شمولیت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ۱۹۷۰ء میں آسٹریا کے دارالحکومت دی آنا میں اور ۱۹۷۱ء میں لنڈن میں آپ نے کانگرس کے اجتماعات میں اسلام کی حقانیت پر پرمغز مقالے پڑھے۔ ۱۹۷۲ء میں کانگرس کے اجلاس امریکہ میں تقریر کے علاوہ ایک یونیورسٹی میں آپ کو اسلام پر تقاریر کی دعوت ملی جس میں آپ کا مقالہ اسپرانٹو اکیڈمی کے سیکرٹری صاحب نے پڑھ کر سنایا۔
۸۹۔
یہ زبان جسے پروفیسر ڈاکٹر زامن ہوف ZAMENHOF)۔L۔L ۔(DR نے بین الاقوامی رابطہ کی غرض سے ۱۸۸۷ء میں رائج کی تھی اب یورپین اور دوسرے متعدد ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ دنیا کی اہم مذہبی علمی اور سیاسی کتابوں کے تراجم اس زبان میں ہوچکے ہیں مگر اس میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت پہلی مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر اطالو کیوسی ہی کو حاصل ہوئی ہے۔
۹۰۔
الفضل ۳۰ وفا/جولائی ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۸
۹۱۔
الفضل ۲۱ ظہور/اگست ۱۳۴۸ہش/۱۹۶۹ء صفحہ ۴
۹۲۔
الفضل ۲۲ شہادت/اپریل ۱۳۴۹ہش/۱۹۷۰ء صفحہ ۲۔۳
۹۳۔
نومسلم احمدی مکرم ہدایت اللہ صاحب جن کا جرمن نام HUBSCH)۔C۔(P ہیوبش ہے قبول اسلام سے قبل بائیں بازو کے طلباء کے ایک لیڈر اور ہپی موومنٹ کے ایک گروپ کے بانی تھے۔ آپ کا شمار جرمنی کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الخاص فضل کے تحت انہیں اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور حضور کے ۱۹۷۰ء میں فرانکفورٹ میں ورود مسعود سے کچھ ہی عرصہ قبل انہوں نے مسجد میں آنا شروع کیا تھا۔ حضور کی دعا اور روحانی توجہ کے طفیل اور روحانیت میں جس تیزی سے بے مثال ترقی کی ہے وہ بہتوں کے لئے قابل ستائش ہے۔ ہر روز مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا ان کی روحانی غذا ہے۔ اپنی علمی اور قلمی اور شعری تمام قوتوں کو انہوں نے اسلام کے لئے ہمہ تن وقف کررکھا ہے- اپنے خرچ پر اسلام کے متعلق ایک سہ ماہی رسالہ شائع کرکے ہپی تحریک سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی شاعری جو اس سے قبل پراگندہ خیالی کی آئنہ دار تھی اب اسلام اور ہادی برحق~صل۱~ کی مدح کے لئے وقف ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کی فرمائش پر اپنی زندگی کے حالاتپر مشتمل مقالہ انہوں نے سپرد قلم کیا جس میں ہپی ازم سے اسلام کی طرف آنے کی روداد درج تھی۔ یہی مضمون میونخ کے ریڈیو نے بھی نشر کیا۔ اور پھر ایک ناشر نے اسے شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ قبول اسلام کے بعد آپ نے اپنی تمام آمد کا ۳/۱ حصہ چندہ کے طور پر مشن کو ادا کردیا۔
۹۴۔
‏]h2 [tag الفضل ۶ شہادت/اپریل ۱۳۳۷ہش/۱۹۵۸ء صفحہ ۱
۹۵۔
رسالہ >تحریک جدید< ربوہ بابت ماہ صلح/جنوری ۱۳۴۷ہش/۱۹۶۸ء صفحہ ۵۸۔۵۹
۹۶۔
>نوائے وقت< لاہور ۲۹ جنوری ۱۹۷۰ء صفحہ ۱۰
۹۷۔
محمد عبدالحق صاحب احمدی پنشر پروپرائٹر حق کیفی بینک روڈ مردان کا بیان ہے کہ >میرا تبادلہ اگست ۱۹۳۴ء کو پشاور سے مسقط ہوا تھا۔ بیت الفلح ایک مقام ہے جو مسقط سے کچھ فاصلہ پر ہے اور یہاں سلطان مسقط کی انفنٹری ہے۔ میرا دفتر بھی وہیں تھا۔ میں سب سے پہلا احمدی تھا جو وہاں گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ سے سلطان کی فوج کے دو افراد احمدی ہوئے۔ )۱( میاں فتح محمد صاحب جو اس وقت سلطان کی فوج کے آمرر تھے اور جو سیالکوٹ میں جہاں تک مجھ کو یاد پڑتا ہے اوچی ٹبی کے رہنے والے تھے پہلے احمدی ہوئے تھے اور ان کے ذریعہ ان کی اہلیہ صاحبہ بھی سیالکوٹ میں احمدی ہوئی تھیں- یہ صاحب اب فوت ہوچکے ہیں۔ )۲( جناب محمد اعظم صاحب جو ان دنوں سلطان کی فوج کے ہیڈکوارٹر میں ہیڈکلرک تھے ۔۔۔۔۔ مسقط سے ۳۶۔۱۹۳۵ء میں میرا تبادلہ شارجاہ` مسقط اور کویت کے درمیان ایک قصبہ میں ہوا۔ ان دنوں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری حیفا میں تھے۔ آپ سے رسالہ البشریٰ منگوا کر یہاں لوگوں کودیا کرتا تھا۔ شارجہ میں ایک صاحب غلام احمد صاحب احمدی رہتے تھے۔ یہ صاحب سونی پت کے باشندہ تھے اور پہلی جنگ عظیم میں شیراز سے ہوتے ہوئے وہیں آباد ہوگئے تھے اور وہیں شادی بھی کی تھی۔ مگر افسوس ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ حکیم صاحب کے نام پر مشہور تھے اور حکمت کا کام کرتے تھے۔ ایک بار رسالہ البشریٰ کی تقسیم کی رپورٹ شیخ آف شارجاہ کو پہنچی تو انہوں نے دھمکی دی کہ میں یہ سلسلہ تبلیغ بند کردوں ورنہ مجھے کو وہاں سے تبدیل کردیا جائے گا۔ میں نے یہ رپورٹ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھی بھجوادی تھی< )چٹھی مرقومہ ۲۳ تبلیغ/فروری ۱۳۳۶ہش/۱۹۵۷ء مشمولہ فائل مسقط مشن تحریک جدید(
 
Top